Maktubat-e-Ahmad Volume 2

Maktubat-e-Ahmad Volume 2

مکتوبات احمد (جلد دوم)

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف احباب کو جو خطوط تحریر فرمائے ان کو افادہ عام کے لئے بعد میں کتابی شکل دی گئی ۔ ان مکتوبات میں جو بظاہر متفرق موضوعات پر مختلف احباب کو لکھے گئے یا ان کے خط کے جواب میں بھیجے گئے، ان میں قارئین کے لئے بہت زیادہ علمی و روحانی تسکین کے سامان موجودہیں۔ موجودہ کمپیوٹرائزڈایڈیشن میں مکتوب الیہ کے اعتبار سے مکتوبات کی جلدیں مرتب کی گئی ہیں جن سے مطالعہ میں سہولت ہوجاتی ہے۔ نیزان مکتوبات سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی معاصرہندوو آریہ پنڈتوں،عیسائی پادریوں اور مناظروں، مختلف مسالک کے مسلمان علماء، عشق و وارفتگی سے پُر اپنے معزز اصحاب  اور متفرق احباب سے اعلیٰ برتاؤ اور آپ کی سادگی، روزمرہ زندگی،توکل علیٰ اللہ، بیماری و شدید مالی مشکلات پر صبراور اخلاق حسنہ کی گہرائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت جلالہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی مسیح کی طرز پر کمال مسکینی اور فروتنی اور غربت اور تذلّل اور تواضع سے اصلاح خلق کیلئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اِسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں ) دکھاوے.خاکسار ۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء غلام احمد نوٹ: یہ پہلا خط ہے جو حضرت حکیم الامت کے نام مجھے ملا ہے.قیاس چاہتا ہے کہ اِس سے پہلے بھی چند خطوط ہوں.اس خط کا بھی اصل مسودہ نہیں ملا.بلکہ حضرت حکیم الامت کی نوٹ بک سے لیا گیا تھا اور ۳۱؍ اگست ۱۹۰۷ء کے الحکم میں میں نے اِسے شائع کر دیا تھا.اس خط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسیح ناصری کے قدم پر مبعوث اور مامور ہونے کا دعویٰ مارچ ۱۸۸۵ء میںکر دیاتھا لیکن آپ نے بیعت کا اعلان اُس وقت تک نہیں کیا جب تک صریح فرمانِ ربّانی نازل نہیں ہو گیا.(عرفانی)

Page 17

مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مکرم و مخدوم حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.حال صدمہ وفات دو لخت جگر آںمخدوم وعلالت طبیعت پسر سوم سُن کر موجب حزن و اندوہ ہوا.اللہ تعالیٰ جلّشانہٗ آپ کو صدمہ گزشتہ کی نسبت صبر عطا فرماوے اور آپ کے قرۃ العین فرزند سوم کو جلد تر شفا بخشے.انشاء اللہ القدیر یہ عاجز آپ کے فرزند کی شفا کیلئے دعا کرے گا.اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے فضل و کرم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنی جمیع شرائط کی جامع ہو.یہ امر کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اسی کی مرضات حاصل کرنے کیلئے اگر آپ خفیہ طور سے اپنے فرزند دلبند کی شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کر رکھیں تو عجیب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کے اس صدق دلی کو قبول فرما کر ورطۂ غموم سے آپ کو مخلصی عطا فرماوے.وہ اپنے مخلص بندوں پر ان کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے.اس کو نذروں کی کچھ حاجت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا ایسی راہ سے متحقق ہوتا ہے.استغفار اور تضرع اور توبہ بہت ہی عمدہ چیز ہے اور بغیر اس کے سب نذریں ہیچ اور بے سُود ہیں اپنے مولیٰ پر قوی امید رکھو اور اس کی ذات بابرکات کو سب سے زیادہ پیارا بناؤ کہ وہ اپنے قوی الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اپنے سچے رجوع دلانے والوں کو ورطۂ غموم میں نہیں چھوڑتا.رات کے آخری پہر میں اُٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجالاؤ اور دردمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو.اے میرے محسن اور میرے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُرمعصیت اور پُرغفلت ہوں.تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سو اَب بھی مجھ نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں.آمین ثم آمین

Page 18

مگر مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے فی الحقیقت دل کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقرار اور اپنے مولیٰ کے انعام اکرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں جوش دلی چاہئے اور رقت اور گریہ بھی.یہ دعامعمولات اس عاجز سے ہے اور درحقیقت اسی عاجز کے مطابق حال ہے.٭ والسلام ۲۰؍ اگست ۱۸۸۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ نمبر۱: اس مکتوب پر حضرت حکیم الامت کا نوٹ ہے.یہ لڑکا اس وقت اس مرض سے بچ گیا تھا.پھر دوبارہ سُعال وام الصبّیان میں انتقال کرگیا.اِنَّا بِفِرَاقِہٖ لَمَحْزُوْنَ وَ اَدْعُواللّٰہَ بَدْلَہٗ نورالدین.۲؍اسوج ۱۹۴۳ بکرمی نوٹ نمبر۲: اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا مرقوم ہے جو آپ کے معمولات سے تھی اور نیز آپ نے قبول ہونے والی دعا کا راز بتایا ہے.اس دعا کو پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اندرون خانہ لائف پر ایک قسم کی روشنی پڑتی ہے اور یہ ان ایام کی بات ہے کہ آپ دنیا میں شہرت یافتہ نہ تھے.آپ کا کوئی دعویٰ نہ تھا.کسی سے بیعت بھی نہ لیتے تھے بلکہ ایک گوشہ گزین کی طرح زندگی بسر کرتے تھے.خدا تعالیٰ پر کس قدر یقین اور قبولیت دعا پر کس قدر بھروسہ تھا.اور آپ کے اعمال شب کی حقیقت بھی عیاں ہے نیز حضرت حکیم الامت کا نوٹ بتاتا ہے کہ وہ بچہ اس وقت بچ گیا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھا.خدا تعالیٰ نے اس وقت تقدیر کو ٹال دیا.یہ لڑکا فضل الٰہی نام حضرت حکیم الامت کی پہلی بیوی میں سے تھا.(عرفانی)

Page 19

مکتوب نمبر ۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ کے مخلصانہ کلمات سے بے شک خوشبو بلکہ جوش راست گفتاری محسوس ہوتا ہے.جزاکم اللّٰہ خیرًا آمین ثم آمین! آپ کی دختر صالحہ کے لئے بھی دعا کی گئی ہے.قرآن شریف کا حفظ کرنا یہ آپ کی ہی برکات کا ثمرہ ہے.ہمارے ملک کی مستورات میں یہ فعل شاید کرامت میں تصور کیا جاوے.کیا خوش نصیب والدین ہیں اور نیز وہ لوگ جو تعلق جدید پیدا کریں گے جن کو اس صاحبِ شرف سے علاقہ ہے.والسلام علٰی من اتبع الہدٰی خاکسار ۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی و مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت ایک اشتہار دربارہ ازالہ اوہام مخالفین آپ کی خدمت میں مرسل ہے.چونکہ آپ تشبّہ فاروقی کے مدعی ہیں اور یہ عاجز بھی بغائت درجہ آپ پر حسن ظن رکھتا ہے اور اپنا مخلص اور دوست جانتا ہے.اس لئے آپ کی طرف تعلق خاطر رہتا ہے.جو عنایات خداوندکریم جلّشانہٗ کی اس عاجز کے شاملِ حال ہیں ان کے بارے میں ہمیشہ یہی دل چاہتا ہے جو اپنے دوستوں سے کچھ اس میں سے بیان کرتا رہوں اور بحکم (الضّحٰی: ۱۲) تحدیثِ نعمت کا ثواب حاصل کروں.سو آج آپ سے بھی جو میرے مخلص دوست ہیں ایک واقعہ پیشگوئی کا بیان کرتا ہوں.شاید چار ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین، کامل الظاہر والباطن تم کو عطا کیا جاوے گا.اس کا نام بشیر ہوگا.سو اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا

Page 20

کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا.اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہو رہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا اور جناب الٰہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمہیں عطا ہوگی، وہ صاحبِ اولاد ہوگی.اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب یہ الہام ہوا تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے تین ان میں سے تو آم کے پھل تھے.مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا.وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا.اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں.مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے، وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مراد اولاد ہے اور جبکہ ایک طرف پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی ہے اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دئے گئے جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے.سو یہی سمجھا جاتا ہے.واللّٰہ اعلم بالصواب ان دنوں میں اتفاقاً نئی شادی کیلئے دو شخصوں نے تحریک کی تھی.مگر جب ان کی نسبت استخارہ کیا گیا تو ایک عورت کی نسبت جواب ملا کہ اس کی قسمت میں ذلّت و محتاجگی و بے عزتی ہے اور اس لائق نہیں کہ تمہاری اہلیہ ہو.اور دوسری کی نسبت اشارہ ہوا کہ اس کی شکل اچھی نہیں.گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحب صورت و صاحب سیرت لڑکا جس کی بشارت دی گئی ہے.وہ برعایت مناسبت ظاہری اہلیہ جمیلہ و پارساطبع سے پیدا ہو سکتا ہے.واللّٰہ اعلم بالصواب اب مخالفین آنکھوں کے اندھے اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں اب کی دفعہ لڑکا پیدا نہیں ہوا؟ ان کے ابطال میں ایک دوست نے اشتہارات شائع کئے ہیں.مگر میری دانست میں اس لڑکے کے تولّد سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسری شادی ہو جاوے کیونکہ اس تیسری شادی میں اولاد ہونے کے اشارات پائے جاتے ہیں.غالباً اس تیسری شادی کا وقت نزدیک ہے.اب دیکھیں کہ کس جگہ ارادہ ازلی نے اس کا ظہور مقدر کر رکھا ہے.الہامات اس بارہ میں کثرت سے ہو رہے ہیں اور ربّانی ارادہ میں کچھ جوش سا پایا جاتا ہے.وَاللّٰہُ یَفْعَلُ مَایَشَآئُ وَھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.اپنی خیرو عافیت سے اطلاع بخشیں٭.والسلام از قادیان ۸؍ جون ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 21

نوٹ: یہ خط نہایت اہم ہے اور بعض عظیم الشان پیشگوئیاں اس کے اندر موجود ہیں.سب سے اوّل یہ کہ خدا تعالیٰ آپ کو چار بیٹے دے گا اور ایک ان میں عظیم الشان ہوگا.اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی الہام الٰہی سے نہیں بلکہ خود حضرت کا یہ خیال تھا کہ شاید وہ موعود لڑکا تیسری بیوی سے ہو جس کو واقعات نے بتایا کہ وہ دراصل اسی پہلی اہلیہ سے، جس کو خدا تعالیٰ نے اُمّ المؤمنین ہونے کا شرف اور عزت بخشی، پیدا ہونے والا تھا.جہاں تک واقعات نے ثابت کیا ہے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کا نہ تھا.اس سے مراد دراصل یہ تھی کہ ایک لڑکا تو پیدا ہوگا مگر وہ فوت ہو جائے گا جیسا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّ شَافِعًا ۱؎ سبز رنگ کا پھل آپ کو دکھایا گیا تھا.اس سے سبز اشتہار کی حقیقت بھی ظاہر ہوگئی ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے اسے سبز رنگ پر کیوں شائع کیا تھا.پھر ایک اور امر نہایت صفائی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام فی الحقیقت خدا کی جانب سے مامور ہو کر آئے تھے اور آپ کے الہامات خدا کا کلام ہی تھے.آپ کو ان پر کامل یقین تھا اور یہ بھی کہ انبیاء جس طرح الہامات اور پیشگوئیوں کی تعبیر اور تعین میں قبل از وقت خطاء اجتہادی کر جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے.آپ کو فرزند موعود کے متعلق اوائل میں یہ اجتہادی غلطی لگ رہی تھی کہ وہ شاید تیسرے نکاح سے پیدا ہوگا.مگر واقعات نے بتایا کہ ایسا نہیں مقدر تھا.اور اس التباس کو دور کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو ہی منسوخ کر دیا اور قضائے معلّق کو بھی مبرم بنا دیا.پھر اس خط کی بنا پر اور واقعات کی تائید سے حضرت اُمّ المومنین کا مقام شرف ظاہر ہوتا ہے.غرض یہ مکتوب گونا گوں امور مہمہ پر مشتمل ہے اور ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے والا ہے.(عرفانی)

Page 22

مکتوب نمبر ۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز نے جو آپ کی طرف لکھا تھا وہ صرف دوستانہ طور پر بعض اَسرارِالہامیہ پر مطلع کرنے کی غرض سے لکھا گیا تھا کیونکہ اس عاجز کی یہ عادت ہے کہ اپنے احباب کو ان کی قوتِ ایمانی بڑھانے کی غرض سے کچھ کچھ امورغیبیہ بتلا دیتا ہے اور اصل حال اس عاجز کا یہ ہے کہ جب سے اس تیسرے نکاح کیلئے اشارہ غیبی ہوا ہے تب سے خود طبیعت متفکر و متردّد ہے اور حکمِ الٰہی سے گریز کی جگہ نہیں.مگر بالطبع کارہ ہے اور ہر چند اوّل اوّل یہ چاہا کہ یہ امر غیبی موقوف رہے لیکن متواتر الہامات و کشوف اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ یہ تقدیر مبرم ہے.بہرحال عاجز نے یہ عہد کر لیا ہے کہ کیسا ہی موقعہ پیش آوے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے صریح حکم سے اس کے لئے مجبور نہ کیا جاؤں تب تک کنارہ کش رہوں.کیونکہ تعدّدِ ازدواج کے بوجھ اور مکروہات از حد زیادہ ہیں اور اس میں خرابیاں بہت ہیں اور وہی لوگ ان خرابیوں سے بچے رہتے ہیں جن کو اللہ جلّشانہٗ اپنے ارادہ خاص سے اور اپنی کسی خاص مصلحت سے اور اپنے خاص اعلام و الہام سے اس بار گراں کے اُٹھانے کیلئے مامور کرتا ہے.تب اس میں بجائے مکروہات کے سراسر برکات ہوتے ہیں.آپ کے نوکری چھوڑنے سے بظاہر دل کو رنج ہے مگر آپ نے کوئی مصلحت سوچ لی ہوگی.والسلام باقی خیریت ہے٭.والسلام ۲۰؍ جون ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک تیسرے نکاح کے متعلق بعض بشارات ملی تھیں.یعنی ان سے پایا جاتا تھا کہ ایک تیسرا نکاح ہوگا.چنانچہ اس کے متعلق ایک تحریک بھی ہوئی.وہ نکاح کی تحریک اور پیشگوئی دراصل ایک نشان تھا جو ایسے خاندان کیلئے مخصوص تھا جو آپ کے ساتھ تعلقات

Page 23

قرابت بھی رکھتے تھے.مگر خدا تعالیٰ سے دورہی نہ تھے، گو نہ منکر تھے.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ان پر اتمام حجت کیا.حضرت حکیم الامت کو آپ نے بشارات سے اطلاع دی.جہاں تک میرا علم ہے.حضرت حکیم الامت اس امر پر آمادہ تھے کہ اپنی لڑکی حضرت کو دے دیں بشرطیکہ وہ قابل نکاح ہوتی.حضرت اقدس نے اس خط کے ذریعہ تصریح فرمائی کہ آپ اپنے احباب کو قبل ازوقت بعض الہامات سے اطلاع کیوں دیتے ہیں اور وہ ایک ہی غرض ہے کہ ان کی ایمانی قوت ترقی کرے.دوسرے اِس خط سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذاتی طور پر تیسرے نکاح کو پسند نہ کرتے تھے بلکہ کارہِ ہونا صاف لکھا ہے اور یہ بھی کہ آپ نے عہد کر لیا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ صریح حکم مجبور نہ کیا جاؤں، نکاح نہیں کروں گا.اس سے ان لوگوں کے تمام اعتراضات دور ہو جاتے ہیں.جو نعوذ باللہ آپ پر نفس پرستی کا اسی طرح الزام لگاتے ہیں جس طرح آریہ اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگاتے ہیں.(عرفانی) ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.یہ بات عین منشاء اس عاجز کے مطابق ہوئی کہ آپ کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا.انشاء اللہ کسی موقعہ پر ترقی بھی ہو جائے گی.امید ہے کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں٭.والسلام خاکسار ۷؍ جولائی ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 24

مکتوب نمبر ۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.استماع واقعہ وفات فرزند دلبندآں مخدوم سے حزن و اندوہ ہوا.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.خداوندکریم بہت جلد آپ کو نعم البدل عطا کرے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے.انسان کے لئے اس کے گوشۂ جگر کا صدمہ بڑا بھارا زخم ہے.اس لئے اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے.اللہ جلّشانہٗ آپ کو جلد تر خوش کرے.آمین ثم آمین سرمہ چشم آریہ میری بار بار کی علالت کے توقف سے چھپا اور اب پانچویں دن تک اس کی جلدیں یہاں پہنچ جاویں گی.تب بلاتوقف آپ کی خدمت میں ایک جلد بھیجی جائے گی.چونکہ اس کے بعد رسالہ سراج منیر چھپنے والا ہے اور جو اس کے لئے روپیہ جمع تھا وہ سب اس میں خرچ ہو گیا ہے اس لئے آںمخدوم بھی اپنے گردونواح میں دلی توجہ سے کوشش کریں کہ دست بدست اس کے خریدار پیدا ہو جائیں.اس پر پانچ سو روپیہ کا کاغذ قرضہ لے کر لگایا گیا ہے.منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ شملہ نے یہ پانچ سو روپیہ قرضہ دیا.چار سو روپیہ اور تھا جو اسی پر خرچ ہوا.یہ موقعہ نہایت محنت اور کوشش کرنے کا ہے تا سراج منیر کے طبع میں توقف نہ ہو.اس رسالہ سرمہ چشم کی قیمت ایک روپے بارہ آنے ہے.اگر آپ کی محنت سے سَو رسالہ بھی فروخت ہو جاوے تب بھی ایک حق نصرت آپ کے لئے ثابت ہو جائے گا.ومن ینصر اللّٰہ ینصرہ.اللہ جلّشانہٗ آپ پر رحمت کی بارش کرے اور اپنی خاص توفیق سے ایسے کام کرائے جن سے وہ راضی ہو جاوے.ولاتوفیق الا باللّٰہ.والسلام ۲۰؍ ستمبر۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 25

مکتوب نمبر ۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج ایک نوٹ پچاس روپیہ کا آںمخدوم کی جانب سے میاں کریم بخش صاحب نے سیالکوٹ سے بھیجا ہے.جزاکم اللّٰہ خیرًا.چونکہ رسالہ سراج منیر کے چھپنے میں اب کچھ زیادہ دیر نہیں معلوم ہوتی اور اس کے سرمایہ کے لئے روپیہ کی بہت ضرورت ہوگی.اس لئے اگر آںمخدوم بقیہ قیمت پچاس نسخہ یعنی ستاسی روپے آٹھ آنے بھی جلد تر بھیج دیں تو سرمایہ کتاب کی طبع کیلئے عین وقت میں کام آ جاسکے.میں نے مبلغ پانسو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ سے قرض لیا تھا اور تین سَو روپیہ اور میرے پاس تھا وہ سب اس رسالہ پر خرچ آ گیا.ماسوا اس کے ایک سَو یہ رسالہ مفت ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں کو تقسیم کیا گیا.اگرچہ ایک روپیہ بارہ آنے اس کی قیمت مقرر ہوئی مگر اس کے مصارف زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ قیمت کم درجہ کی رہی.اکثر قریب کل کے مسلمانوں کا خیال دین کی طرف سے بکلّی اُٹھ گیا ہے.ہمدردی، غمخواری، نیک ظنی یہ سب عمدہ صفتیں روز بروز رُوبہ کمی ہیں.واللّٰہ خیروابقٰی آپ کی ملاقات خدا جانے کب ہوگی.ہر ایک بات اُس قادر مطلق کے ارادہ پر موقف ہے.والسلام از صدر انبالہ خاکسار ۴؍ نومبر ۱۸۸۶ء غلام احمد نوٹ: اس مکتوب میں جس رسالہ کی قیمت کیلئے حضرت حکیم الامت کو یاددہانی کرائی گئی ہے وہ سرمہ چشم آریہ ہے اور اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ اس کتاب کی سَو جلدیں اس وقت تک آپ مفت تقسیم کر چکے تھے.(عرفانی)

Page 26

مکتوب نمبر ۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اللہ جلشانہٗ آپ کو دنیا و دین میں آرام دلی بخشے کہ ہر ایک بخشش وبخشایش اُسی کے فضل پر موقوف ہے.نظر بر فضل ایک لذت بخش امر ہے..۱؎ رسالہ مؤلفہ آںمخدوم جو امرتسر بھیجا گیا ہے، کچھ ظاہر نہیں ہوا کہ اس کا کیا بندوبست ہوا.آج کل دیانت کم ہے اور لاف و گزاف زبانی ہرگز لائق اعتماد نہیں.کسی کو بجز تحریری شرائط کے رسالہ نہیں دینا چاہئے تا پیچھے سے کوئی خراب نتیجہ نہ نکلے.یہ امور مفصلہ ذیل ضرور صاحبِ مطبع سے طے کر لینے چاہئیں اور اقرار نامہ لے لینا چاہئے.اوّل: فلاں نمونہ کے مطابق کام چھپائی صاف اور عمدہ ہوگا.دوم: اگر ایسا صاف نہ ہوا تو استحقاق چار آنے فی داب میں رہے گا.سوم: اتنے ماہ میں کام ختم نہ ہوا تو ہرجہ دینا ہوگا.چہارم: کل کتابوں کے حوالے کرنے کے بعد اور اُن کی پڑتال صحت کے بعد روپیہ اُجرت کا دیا جائے گا.پنجم: کاغذ کی عمدگی کا ذمہ دار خود مطبع والا ہوگا.دوا جس میں مروارید داخل ہیں جو کسی قدر آپ دے گئے تھے اس کے استعمال سے بفضلہ تعالیٰ مجھ کو بہت فائدہ ہوا.قوتِ باہ کو ایک عجیب فائدہ یہ دوا پہنچاتی ہے اور مقوی معدہ ہے اور کاہلی اور سُستی کو دور کرتی ہے اور کئی عوارض کو نافع ہے.آپ ضرور اس کو استعمال کر کے مجھ کو اطلاع دیں.مجھ کو تو یہ بہت ہی موافق آگئی.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک خاکسار ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۶ء غلام احمد

Page 27

مکتوب نمبر ۱۰ بِ سْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.مجھے نہایت تعجب ہے کہ دَوا معلومہ سے آں مخدوم سے کچھ فائدہ محسوس نہ ہوا.شاید کہ یہ وہی قول درست ہو کہ ادویہ کو ابدان سے مناسبت ہے.بعض ادویہ بعض ابدان کے مناسب حال ہوتی ہیں اور بعض دیگر کے نہیں.مجھے یہ دوا بہت ہی فائدہ مند معلوم ہوئی ہے کہ چند امراض کاہلی و سستی و رطوبات معدہ اس سے دور ہوگئے ہیں.ایک مرض مجھے نہایت خوفناک تھی کہ صحبت کے وقت لیٹنے کی حالت میں نعوظ بکلّی جاتا رہتا تھا.شاید قلت حرارت غریزی اس کا موجب تھی.وہ عارضہ بالکل جاتا رہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوا حرارت غریزی کو بھی مفید ہے اور منی کو بھی غلیظ کرتی ہے.غرض میں نے تو اس میں آثار نمایاں پائے ہیں.واللّٰہ اعلم و عِلْمُہ اَحکم.اگر دوا موجود ہو اور آپ دودھ اور ملائی کے ساتھ کچھ زیادہ قدر شربت کر کے استعمال کریں.تو میں خواہشمند ہوں کہ آپ کے بدن میں ان فوائد کی بشارت سنوں.کبھی کبھی دوا کی چھپی چھپی تاثیر بھی ہوتی ہے کہ جو ہفتہ عشرہ کے بعد محسوس ہوتی ہے چونکہ دوا ختم ہو چکی ہے اور میں نے زیادہ زیادہ کھا لی ہے اس لئے ارادہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو دوبارہ تیار کی جائے.لیکن چونکہ گھر میں ایام امید ہونے کا کچھ گمان ہے جس کا میں نے ذکر بھی کیا تھا.ابھی تک وہ گمان پختہ ہوتا جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس کو راست کرے.اس جہت سے جلد تیار کرنے کی چنداں ضرورت میں نہیں دیکھتا.مگر میں شکرگزار ہوں کہ خدا تعالیٰ نے دوا کا بہانہ کر کے بعض خطرناک عوارض سے مجھ کو مخلصی عطا کی.فالحمدللہ علی احسانہ.مجھے اس بات کے سننے سے افسوس ہوا کہ رسالہ امرتسر سے واپس منگوایا گیا.فیروز پور کو وہ خاص ترجیح کونسی تھی؟ بلکہ میری دانست میں حال کے زمانہ میں دنیوی واقف کاروں سے کوئی معاملہ نہیں ڈالنا چاہئے کہ وہ عہد شکنی میں بڑے دلیر ہوتے ہیں.عمدہ اور سیدھا طریق یہ ہے کہ قانونی طور پر کارروائی کی جائے.اللہ جلّشانہٗ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جب کوئی دادستد تم کرو تو اس معاملے کے بارے میں تحریر ہونی چاہئے.مطبع ایسا ہونا چاہئے جن کے پریس میں استاد

Page 28

ہوں اور عمدہ اور اوّل درجہ کی سیاہی استعمال کی جاتی ہو اور سب شرائط اسٹامپ کے کاغذ پر لکھے جاویں.جہاں تک ممکن ہو.مطبع والوں کو اوّل روپیہ نہ دیا جاوے اور کاغذ اُن کی ذمہ داری سے خریدا جاوے مگر اپنا کاغذ اور کاتب بھی اپنا ہو.میری دانست میں امام الدین کاتب بہتر ہے.کاپی خود غور سے ملاحظہ کرنی چاہئے.امرتسر میں ایک ہندو کا مطبع بھی ہے اور وہ مالدار ہیں اور امید ہے کہ یہ شرائط وہ منظور کر لیں گے اور بغیر صفائی شرائط اور تحریری اقرار نامہ لکھانے کے کسی مطبع کو ہرگز کام نہیں دینا چاہئے.کہ آج کل دیانت اور ایفاء عہد مفقود کی طرح ہو رہی ہے.اگر میں امرتسر میں آؤں اور ایک دن کیلئے آپ بھی آجاویں تو اسی جگہ کوشش کی جاوے.مگر آپ نے آج کل کے مسلمانوں پر اعتماد کرکے کچا کام ہرگز نہ کرنا، بلکہ ہر ایک بات میں مجھ سے مشورہ لے لیں، رسالوں کی چھپائی میں تین چار سَو روپیہ کا خرچ ہے.نہ ایسی کفایت شعاری کرنی چاہئے کہ رسائل مثل ردّی کے چھپیں اور نہ ایسا اسراف کہ جس میں بیہودہ خرچ ہو.کاپیوں کا ملاحظہ دوسروں کے سپرد ہرگز نہ کریں.آپ محنت اُٹھا لیں.خرید کاغذ میںبھی کوئی اپنا دانا آدمی ساتھ چاہئے اور کاغذ کا حساب رکھنا چاہئے.آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے.اللہ جلّشانہٗ جلد کوئی تقریب پیدا کر دے.از قادیان والسلام ۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ھ خاکسار ۱۹؍ جنوری ۱۸۸۷ء غلام احمد

Page 29

مکتوب نمبر ۱۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کی یہی رائے ہے کہ آپ نوکری نہ چھوڑیں.اگر اِس سے بھی کم تنخواہ ہو جو آپ کو دیتے ہیں تب بھی اس کو قبول کریں اور ہر ایک کے ساتھ اخلاق اور بُردباری سے معاملہ کریں.مومن پر یہی لازم ہے کہ بغیر مشورہ کے کوئی امر عجلت سے نہ کر بیٹھے.سو میں آپ کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ آپ علیحدگی ہرگز اختیار نہ کریں.مجھے اس بات سے افسوس ہوا کہ آپ نے استعفیٰ کیوں دیا حالانکہ آپ نے لکھا تھا کہ میرا اس علیحدگی میں دخل نہیں.اب بہرحال جہاں تک ممکن ہے.ایسے ارادہ کیلئے کوشش کریں کہ آپ اپنی نوکری پر قائم رہیں.والسلام نعم المولٰی ونعم الوکیل خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے مگر ظن غالب یہی ہے کہ یہ ۱۸۸۷ء کا ہی ہے.(عرفانی)

Page 30

مکتوب نمبر۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واللّٰہ معکم اینما کنتم صفحہ۹۹ سرمہ چشم آریہ میں سہو کاتب سے غلطی ہوگئی ہے یعنی تیرہ سطر کے اخیر میں بجائے ’’کو‘‘ کے ’’سے‘‘ لکھا گیا ہے اور چودہویں سطر کی ابتداء میں بجائے ’’سے‘‘ کے ’’کو‘‘ درج ہو گیا ہے.اور سترہ سطر کے اخیر میں لفظ ’’اس کا‘‘ رہ گیا ہے یعنی بجائے اس عبارت کے کہ ضرور یہ مطلقہ ؔسے، یہ چاہئے تھا، ضروریہ مطلقہؔ اس سے غرض یہ تین لفظ کی غلطی کوؔ، سےؔ اور اسؔ، کے موجب اختلال عبارت ہے.جیسا کہ قرینہ سے خود سمجھا جاتا ہے اور ایسی غلطیاں اتفاقاً کہیں نہ کہیں رہ جاتی ہیں.بشریت ہے شاید کاپی نویس سے یا دوسرے کاتب سے ایسی غلطی وقوع میں آئی.لیکن یہ عاجز آں مخدوم کے کارڈ کی عبارت سے پڑھ کر اور بھی حیران ہوا ہے.آں مخدوم لکھتے ہیں کہ حضرت نے (یعنی اس عاجز نے) قضیہ ضروریہ مُطلقہ سے قضیہ دائمہ مطلقہ کو اخص مُطلق قرار دیا گیا ہے.یہ عبارت سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ قضیہ ضروریہ مطلقہ کو دائمہ مطلقہ سے اخص سمجھنا سچ اور صحیح ہے، جو سہو کاتب سے بالعکس لکھا گیا.چنانچہ منطقیین کا یہی قول ہے.والنسبۃ بین الدائمۃ والضروریۃ ان الضروریۃ اخص من (الدائمۃ) مطلقا لان مفہوم الضروریۃ امتناع انفکاک النسبۃ عن الموضوع ومفھوم الدوام شمول النسبۃ فی جمیع اللازمۃ والاوقات مع جواز امکان انفکاکھا اصل کارڈ مرسل ہے اگر اس میں کچھ سہو تو اطلاع بخشیں کیونکہ مجھ کو بوجہ استغراق جانب ثانی ان علوم میں تو غل نہیں رہا.علاج کسل مرض کسل اور حزن اگر عوارض اور اسباب جسمانی میں سے ہو، تو آپ تدبیر اورعلاج اس کا مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور اگر اسباب روحانی سے ہے تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں.جو اللہ جلّشانہٗ نے فرمایا ہے.

Page 31

...۱؎ سو خدا تعالیٰ کو اپنا متولّی اور متکفّل سمجھنا اور پھر لازمی امتحانوں اور آزمائشوں سے متزلزل نہ ہونا اور مستقیم الاحوال رہنا بھی خوف اور حزن کا علاج ہے.حکم جاناں چو نیست زخم مدوز جاں اگر بسوزدت گو بسوز والسلام خاکسار غلام احمد آپ کی ملاقات کا از بس شوق ہے.اگر وطن جانے کا اتفاق پیش آ جاوے تو ضرور مجھ کو مل کر جاویں.نوٹ:اس خط پر بھی کوئی تاریخ درج نہیں ہے مگر سرمہ چشم آریہ کی بعض اغلاط کی اصلاح کے متعلق ذکر بتاتا ہے کہ یہ خط سرمہ چشم آریہ کی اشاعت کے بعد کا ہے اور یقینا ۱۸۸۷ء کا ہے.اس خط کے مطالعہ سے بعض خاص باتوں پر روشنی پڑتی ہے.اوّل :حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت میں کامل درجہ کی انکساری اور صاف باطنی ہے.دوم: حضرت حکیم الامۃ کی طبیعت میں کمال درجہ کا ادب حضرت کیلئے ہے.انہوں نے جو کارڈ ایک علمی امر کی دریافت کے متعلق لکھا ہے اسے واپس منگوا لیا کہ مبادا وہ ادب کے خلاف نہ ہو اور معترضانہ رنگ اس میں نہ پایا جاوے.اور ایسی یادگار ایک قبیح یادگار ہوگی.سوم: یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت اپنی تمام تر توجہ الی اللہ رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دُکھ اور تکلیف کو پوری لذت اور ذوق سے برداشت کرنے کی اہلیت حاصل کر چکے تھے اور اسی لئے ہر قسم کے حزن اور کسل کے مقام سے نکل کر آپ جنت میں تھے.(عرفانی)

Page 32

مکتوب نمبر۱۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِی مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب.سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کے استفسار کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ اصل علاج حزن کا ترقی معرفت……… اللہ جلّشانہٗ کا یہی قانون قدرت ہے کہ عسر یسر دونو متبادل وارد ہوتے رہتے ہیں.سو یسر تو خود موافق خواہش نفس انسانی ہے لیکن عسر بھی بحالت موافقت باللہ و انشراح قلب و رضا بقضا و محبت ذاتیہ مولیٰ برنگ یسر ہی دکھائی دیتا ہے اور ایلام بصورت انعام نظر آتا ہے.پانی در زنجیر پیش دوستان کی کیفیت سروری وہ شخص بآسانی سمجھتا ہے جو کسی ایک آدھ جرعہ محبت سے کسی قدر مستی حاصل کرتا ہے.غرض ہمیشہ خوش رہنے کے لئے اختیار نامرادی جیسی کوئی چیز نہیں.جب انسان ایک ذات کامل کو اختیار کر کے اپنے دل میں ترک مرادات کا اصول قائم کر لیتا ہے تو عجیب راحتیں پاتا ہے.بشرطیکہ اس اصول کے اختیار کرنے میں خود ناقص نہ ہو.سو یہی حقیقت ۱؎ کی ہے.استقامت یہی ہے کہ کسی ظاہری یا باطنی جنبش دہندہ سے اپنی موافقت بالمولیٰ میں ذرا جنبش نہ آوے.خدا تعالیٰ ہم کو اور آپ کو یہ استقامت نصیب کرے.آمین ثم آمین ۱۳؍ فروری ۱۸۸۷ء ٭

Page 33

مکتوب نمبر۱۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا اور میں نے کئی بار توجہ سے اس کو مطالعہ کیا اور ہر ایک دفعہ مطالعہ کے بعد آپ کے لئے دعا بھی کی کہ اللہ جلّشانہٗ ایسی قدرت ربوبیت سے جس سے اس نے خلقِ عالَم کو حیران کر رکھا ہے آپ کو حزن اور خوف اور اندوہ سے مخلصی عطا فرماوے اور اپنی رحمتِ خاصہ سے دنیا و دین میں کامیاب کرے.آمین افسوس کہ مجھے آپ کے حزن و اندوہ کی تفاصیل پر اطلاع نہیں ملی اور نہ شدتِ مرض سے مطلع ہوں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے.اگر مناسب تصور فرما دیں تو کسی قدر اس عاجز کو اپنے ہموم و غموم کا ہمراز کر دیں.نوکری قبول کرنے میں آں مخدوم نے بہت ہی مناسب کیا.اللہ تعالیٰ اسی قدر میں برکت بخشے.آج مجھے فجر کے وقت یوں القا ہوا.یعنی بطور الہام، عبدالباسط ۱؎.معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے.آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا.شاید آپ کی طرف اشارہ ہو.واللہ اعلم.میں آپ کا دلی غمخوار ہوں اور دل سے آپ سے محبت ہے.ولکل امر مستقر.والسلام خاکسار ۱۳؍ فروری ۱۸۸۷ء غلام احمد از قادیان نوٹ: نمبر۱ و ۲ کے مقام سے خط پھٹا ہوا ہے.حضرت حکیم الامۃ نے بار ہا فرمایا کہ میرا الہامی نام عبدالباسطہے.مگر انہوں نے کبھی یہ تشریح نہ کی تھی کہ کس کو الہام ہوا.اس خط سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام آپ کا نام عبدالباسط بتایا گیا تھا.(عرفانی)

Page 34

مکتوب نمبر۱۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ از طرف عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم و مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ عنایت نامہ پہنچا اور کئی بار میں نے اس کو غور سے پڑھا.جب میں آپ کی ان تکلیفوں کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ان کریمانہ قدرتوں کو، جن کو میں نے بذاتِ خود آزمایا ہے اور جو میرے پر وارد ہو چکی ہیں تو مجھے بالکل اضطراب نہیں ہوتا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خداوندکریم قادر مطلق ہے اور بڑے بڑے مصائب شدائد سے مخلصی بخشتا ہے اور جس کی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہے ضرور اُس پر مصائب نازل کرتا ہے تا اُسے معلوم ہو جاوے کہ کیونکر وہ نومیدی سے امید پیدا کر سکتا ہے.غرض فی الحقیقت وہ نہایت ہی قادر و کریم و رحیم ہے.البتہ صبر چاہیے کہ ہر ایک چیز اپنے وقت سے وابستہ ہے.جس قدر ضعف دماغ کے عارضے میں یہ عاجز مبتلا ہے مجھے یقین نہیں کہ آپ کو ایسا ہی عارضہ ہو.جب میں نے نئی شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یہی یقین رہا کہ میں نامرد ہوں.آخر میں نے صبرکیا اور دعا کرتا رہا تو اللہ جلّشانہٗ نے اس دعا کو قبول فرمایا.اور ضعف قلب تو اب بھی مجھے اس قدر ہے کہ میں بیان ہی نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ سے زیادہ تر کامل معالج اور کوئی بھی نہیں.ہماری سعادت اسی میں ہے کہ ہم بالکل اپنے تئیں نکمے اور بے ہُنر سمجھیں اور ہر طرف سے قطع امید کرکے ایک ہی آستانہ کے منتظر رہیں.سو اگر آپ مجھے بشرط صبر و شکیب کہنے کی اجازت دیں تو میں اسی کامل معالج سے آپ کے علاج کی درخواست کرتا رہوں گا.بشرطیکہ آپ عجلت نہ کریں.طلبگار باید صبور و حمول.اب مجھے کسی تدبیر ظاہری پر اعتقاد نہیں رہا.میں جانتا ہوں کہ تدبیر صائب بھی تب ہی سوجھتی ہے کہ جب خود قادر مطلق بند سے رہا کرنا چاہتا ہے.مگر میں اس بات سے بہت ہی خوش ہوں اس طرح کہ جس طرح کوئی نہایت راحت بخش نشاط میں ہوتا ہے کہ ہم ایسا قادرو کریم اپنا مولا رکھتے ہیں کہ جو قدرت بھی رکھتا ہے اور رحم بھی.آج میں نے چار کتابیں سیالکوٹ میں رجسٹری کرا کر بھیج دی ہیں.اطلاعاً لکھا گیا ہے.والسلام ٭ ۲۲؍ فروری ۱۸۸۷ء خاکسار.غلام احمد از قادیان

Page 35

مکتوب نمبر۱۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجزبباعث شدت درد سر جو کئی دن سے لاحق رہی اور آج کچھ تخفیف ہے مگر ضعف بہت، تحریر جواب سے قاصر رہا ہے.حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا آپ پر بہت ہی فضل و کرم ہے جس کا غور سے مطالعہ کرنے کے بعد آپ اس کا شکر ادا نہیں کر سکیں گے.رہی جزئیات فکرو تردّد.سو وہ بھی کسی بڑی مصلحت کیلئے جس کی حقیقت تک انسان کو رسائی نہیں ایک وقت مقررہ تک لگائے گئے ہیں اور وقت مقررہ کے آنے سے دور بھی ہو جائیں گے..۱؎ اس احقر ناچیز کی دعا بھی انشاء اللہ منقطع نہیں ہوگی جب تک کشود کار پیدا نہ ہو.وَلَمْ اَکُنْ بِدُعَائِہٖ شَقِیًّا.اور دینی امور میں اگرکچھ قبض ہو یا اعمال صالحہ سے بے رغبتی ہو تو پھر بھی مقام شکر ہے کہ اس نقصان حالت کیلئے دل جلتا ہے اور کباب ہوتا ہے.یہ بھی تو ایک بڑی نیکی ہے کہ نیکی کے حصول کیلئے دل غمگین رہے.ہم لوگ بکلّی اپنے اختیار میں نہیں.علّت العلل ہمارے سر پر جو مدبّر و حکیم ہے بمقتضائے مصلحت و حکمت جو چاہتا ہے ہم سے معاملہ کرتا ہے.فرض کیا اگر وہ ہمیں دوزخ میں ڈالے تو وہ دوزخ ہمیں بہشت سے اچھا ہے.ہم کیسے ہی نالائق ہوں مگر پھر اس کے ہیں.گر نہ باشد بدوست راہ بُردن شرط عشق است در طلب مردن والسلام خاکسار ۲؍ مارچ ۱۸۸۷ء غلام احمد از قادیان

Page 36

مکتوب نمبر ۱۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دنیا جائے تردّد و حزن و مصیبت و غم ہے.نہ ایک کے لئے بلکہ سب کے لئے جس کی ابتداء میں طفلی و بیچارگی اور آخر میں پیرانہ سالی و شیخوخیت (اگر عمر طبعی تک نہ پہنچی) اور سب سے آخر موت (بانگ برآید فلاں نماند) اس میں پوری پوری خوشی و راحت کا طلب کرنا غلطی ہے.رابعہ بصری رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ میں نے اپنے لئے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اصل حصہ دنیا میں میرے لئے غم و مصیبت ہے اور اگر کبھی خوشی پہنچ جاوے تو یہ ایک زائد امر ہے جس کو میں اپنا حق نہیں سمجھتی.سو مومن کو مردِ میدان بن کر اس دارِفانی سے تلخیاں ترشیاں سب اُٹھانی چاہئیں.ہمارا وجود انبیاء اور اماموں سے کچھ انوکھا نہیں بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ لذت و اُنس و شوق و راحت، طلبِ الٰہی میں تب ہی محسوس ہوتی ہے کہ جب حضرت ایوب کی طرح مصیبتوں پر صابر ہو کر یہ کہیں کہ میں ’’ننگا آیا اور ننگا ہی جاؤں گا‘‘.مفلس شدیم و دست از ہر مایہ فشاندیم دُزدِ خبیث شیطاں از مفلساں چہ خواہد فَفِرُّوا اِلَی اللّٰہِ کُوْنُوْا لَہٗ مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی ٭ خاکسار غلام احمد نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں.میں اسے ۱۸۸۷ء کا سمجھتا ہوں.(عرفانی)

Page 37

مکتوب نمبر ۱۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کارڈ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کو جلد تر شفا بخشے.مجھ کو آپ کی بار بار علالت سے دل کو صدمہ پہنچتا ہے اور بمقتضائے بشریت قلق و کرب شامل ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ بہت جلد وہ دن لائے کہ آپ کی کلّی صحت کی میں بشارت سنوں.اب موسم ربیع ہے.یقین ہے کہ آپ نے کسی قدر مناسب حال تنقیہ بدن کیا ہوگا اور اگر نہیں کیا اور کوئی عارضہ بدنی مانع نہ ہو تو اس طرف غور کریں کہ آیا کوئی مناسب ہے یا نہیں.اگر مناسب ہو تو پھر توقف نہ کریں.کسی قدر شیر خشت وغیرہ سے تلئین طبع ہو جائے تو شاید مناسب ہو.کبھی کبھی دیکھا گیا ہے کہ انواع درد سر کیلئے ایارج فیقرا بہت مفید ہوتا ہے اور اس عاجز نے اپنے درد سر کیلئے کہ جو دَوری طور پر تخمیناً تیس سال سے شامل حال ہے، استعمال کیا ہے اور مفید پایا ہے.ایک اور متوحش خبر سنی گئی ہے کہ گیاراں سَو روپیہ کا اور نقصان آپ کا ہو گیا.چنانچہ ایک خط میں جو ارسال خدمت ہے یہ حال لکھا ہے. ۱؎ مصیبت پہنچنے والی تو ضرور پہنچ جاتی ہے مگر کسی قدر رعایت انتظامِ ظاہر مسنون ہے.جس نے دیا اُس نے لیا.لیکن آئندہ بے احتیاطی کے طریقوںسے مجتنب رہنا ضروری ہے لَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ.۲؎ پرسوں میری طرف سے آپ کے نام گھوڑے کی سفارش کیلئے ایک خط روانہ ہوا تھا.وہ خط میرے اقارب میں سے مرزا امام الدین، میرے چچا زاد بھائی نے بالحاح مجھ سے لکھوایا تھا.ہر چند میں جانتا تھا کہ اس کا لکھنا غیر موزوں وغیر محل ہے مگر چونکہ مرزا امام الدین صاحب دراصل میرے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان کی ایمانی حالت خدا تعالیٰ درست کر دے اور خیالات فاسدہ سے چھڑا دے.اس لئے اُن کی دلجوئی کی غرض سے لکھا گیا ہے.لودہانہ کا معاملہ اب بالکل پختہ ہے.آپ کے ارادہ کا توقف ہے.خیریت مزاج سے جلد اطلاع بخشیں.والسلام خاکسار ۵؍ مارچ ۱۸۸۷ء غلام احمد از قادیان

Page 38

مکتوب نمبر ۱۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعدالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج عنایت نامہ موصول ہوکر موجب خوشی ہوا.میں نے آپ کے اس خط کو بھی اپنی یادداشت میں رکھ لیا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلّشانہٗ ابوابِ خیر و خوبی دَارین آپ پر منکشف کرے.یہ سچ ہے کہ آپ کے لئے میری دعا محدود نہیں اور نہ بے جوش ہے مگر ترتب آثار وقت پر موقوف ہے.کارشادی کیلئے استخارہ مسنونہ عمل میں لاویں پھر اگر انشراح صدر سے میل خاطر جلدی کی طرف ہو تو جلدی سے اس کارخیر کو سرانجام دیویں ورنہ بعد فراغت سفر پونچھ.پانچ نسخہ شحنہ حق اور ایک حصہ رگوید آج رجسٹری کرا کر معرفت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ارسال خدمت کیا گیا.یہ وید بطور مستعار ارسال خدمت ہے.اس سے جس قدر مطلب نکلتا ہو ایک یا دو ماہ میں نکال کر پھر بذریعہ رجسٹری واپس فرما دیں کہ مجھ کو اکثر اس کی ضرورت پڑتی ہے.والسلام ٭ خاکسار ۱۴؍ اپریل ۱۸۸۷ء غلام احمد از قادیان

Page 39

مکتوب نمبر ۲۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.عنایت نامہ پہنچ کر باعث ممنونی ہوا مجھ کو آں مخدوم کے ہر ایک خط کے پہنچنے سے خوشی پہنچتی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں خالص دوستوں کاوجود کبریت اَحمر سے عزیز تر ہے اور آپ کا دین کیلئے جذبہ اور ولولہ اور عالی ہمتی ایک فضل الٰہی ہے جس کو میں عظیم الشان فضل سمجھتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہٗ آپ سے اپنے دین میں پہلے درجہ کی خدمتیں لیوے.حکیم فضل دین صاحب بھی بہت ہی عمدہ آدمی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے.اگر ملاقات ہو تو آپ سلام مسنون پہنچا دیں.خاکسار ۲۵؍ اپریل ۱۸۸۷ء غلام احمد

Page 40

مکتوب نمبر ۲۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی و مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج آپ کا عنایت نامہ پہنچ کرمضمون مندرجہ معلوم ہوا.مجھ کو بندوبست مطبع و دیگر مصارف کے بارے میں بہت کچھ فکر اور خیال تھا جو آپ کے اس مبشر خط سے سب رفع دفع ہوا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی واذہب عنکم الحزن و رضی عنکم و أَرْضٰی.آمین چند روز ہوئے میں نے اس قرضہ کے تردّد میں خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں.مگر ہاتھ نہیں پہنچتا.اتنے میں ایک بندہ خدا آیا اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر اوپر کو چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے.آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طو رپر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوا، آپ ہی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کیلئے دعا کی.ایسا ہی برقت قلب خط کے پڑھنے سے آپ کیلئے منہ سے دلی دعا نکل گئی.فَمُسْتَجَابٌ اِنْشَائَ اللّٰہُ تعالٰی اگر یہ ممکن ہو میری تحریر پہنچنے پر ماہ بماہ تین سَو تک آپ بھیج سکیں یہاں تک کہ چودہ سَو پورا ہو جاوے تو یہ نہایت عمدہ بات ہے.مگر اوّل دفعہ میں پانسو روپیہ بھیجنا ضروری ہے تاضروری انتظام کیا جاوے.میرا ارادہ ہے کہ یہ کام ماہ رمضان میں جاری ہو جاوے.ایک شخص منشی رستم علی نام نے تین سَو روپیہ ڈیڑھ سال کی میعاد پر قرضہ دینا کیا ہے اور بابو الٰہی بخش صاحب بھی کچھ دینا چاہتے ہیں.سو جس قدر روپیہ دوسروں کی طرف سے بطور قرضہ آئے گا اُسی قدر آپ کو کم دینا ہوگا.مگر اصل مدار اس قرضہ کا آپ کے نام پر رہا.میں نے آپ کا خط بابو الٰہی بخش صاحب کے پاس لاہور میں بھیج دیا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کے انشراحِ صدر اور علّوِہمت اور خلوص اور صدق سے میرے دوسرے دوست مطلع ہوں.

Page 41

کل ایک خط بابو الٰہی بخش صاحب کا کسی شخص کی سفارش کے بارہ میں آیا ہے.سو وہ خط ارسال خدمت ہے.آپ بپابندی مصلحت جیسا کہ مناسب ہو، ہمدردی کام میں لاویں.اگر آپ کے اشارہ سے کسی مسلمان کی خیر اور بہتری متصوّر ہو اور خود وہ اشارہ خیر محض ہو.فتنہ سے خالی ہو تو بلاشبہ موجبِ ثواب ہے کہ خَیْرُالنَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار ۲؍ مئی ۱۸۸۷ء غلام احمد از قادیان میری لڑکی دو ماہ سے بعارضہ تپ و اسہال و ورم وغیرہ عوارض و شدت عطش مبتلا ہے.تین سَو کے قریب دست آ چکے ہیں اور تین مسہل بھی دئے گئے اور جونکیں لگائی گئیں.چونکہ تپ محرقہ تھا زبان سیاہ ہوگئی تھی.اس لئے ایک نسخہ شیخ کے موافق چھ سات دفعہ کافور بھی سکنجبین اور شیرہ خیارَین کے ساتھ دیا گیا اور شربت بنفشہ و نیلو فرو دیگر برودات بہت دئے گئے.اب تپ تیز تو نہیں اور ورم میں بھی تخفیف ہے لیکن پھر بھی کسی قدر تپ اور پیاس باقی ہے.بدن بہت دبلا ہو رہا ہے میرا ارادہ ہے کہ سفوف ست گلو شربت دینار کے ہمراہ دوں مگر ست گلو عمدہ نہیں ملتی اور نہ ریوند چینی خالص ملتی ہے.لڑکی کی عمر ایک برس اور دو ماہ کی ہے.اس عمر میں اس غضب کی حرارت پیدا ہوگئی کہ دس بوتلیں بید مشک کی اور قریب بوتل کے سکنجبین اور لعاب اسبغول اور شیرہ خیارین اور چھ سات دفعہ کافور دیا گیا.مگر ابھی حرارت باقی ہے.دو بوتل شربت بنفشہ اور نیلوفر بھی پلایا.ورم میں اب خفت ہے.معلوم ہوتا ہے کہ وہ عارضی تھی.مگر اب علامات حرارت غالب ہیں.اگر تازہ ست گلو اور ایک تولہ ریوند چینی دستیاب ہوسکے تو ضرور ارسال فرما دیں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 42

مکتوب نمبر ۲۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے.میں پروردگار جلّشانہٗ کا شکر ادا نہیں کر سکتا جس نے ایسے صادق اور کامل الوداد دوست میرے لئے میسر کئے.فالحمدللّٰہ علی احسانہ.پانچ رسالہ شحنہ حق خدمت شریف میں روانہ کئے گئے ہیں.کتنی مجبوریوںکے پیش آنے کی وجہ سے میرا ارادہ ہے کہ اپنا مطبع تیار کر کے سراج منیر وغیرہ کتب اس میں چھپواؤں.سو اگر خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے سرمایہ میسر کر دیا تو جلد پریس وغیرہ کاسامان ضروری خرید کر کتابوں کا چھپوانا شروع کیا جائے.اس طرف اب بشدت گرمی پڑتی ہے.امید ہے کشمیر میں خوب بہار ہوگی.کشمیر کا تحفہ کشمیر کے بعض عمدہ میوے ہیں جیسے گوشہ بگو کی لوگ بہت تعریف کرتے ہیں مگر وہ میوہ ذخیرہ خور نہیں ہیں.امید رکھتا ہوں کہ جلد جلد حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور خوشی خورمی سے لاوے اور آپ کے ساتھ رہے.آمین.والسلام خاکسار ۱۱؍ مئی ۱۸۸۷ء غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 43

مکتوب نمبر ۲۳ نوٹ از مرتب: یہ خط حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے نام ہے جو ان ایام میں کریم بخش کہلاتے تھے اس لئے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام ان کے والدین نے کریم بخش ہی رکھا تھا.میں نے آپ کے والد ماجد چوہدری محمد سلطان صاحب کو دیکھا کہ وہ ہمیشہ کریم بخش ہی کہا کرتے تھے.حضرت حکیم الامت کے مکتوبات کے ضمن میں اس مکتوب کو میں نے اس لئے درج کر دیا ہے کہ یہ خط حضرت حکیم الامت ہی کے متعلق ہے.اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مخدوم الملۃ مولانا عبدالکریم رضی اللہ عنہ کے تعلقات اور مراسلات کا سلسلہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام سے آپ کے دعویٰ اور بیعت سے پہلے کا ہے اور یہ سلسلہ دراصل براہین احمدیہ کے اعلان اور اشاعت کے بعد قائم ہوا تھا.پھراس خط سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ان ایام میں حضرت مولوی صاحب (حکیم الامت) پر کوئی ابتلا تھا جیسا کہ حضرت حکیم الامت کی عام عادت تھی.انہوں نے خود حضرت اقدس کو اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا بلکہ خود حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے اس تعلق اور محبت کی بنا پر جو انہیں حضرت حکیم الامت سے تھا، براہِ راست حضرت اقدس کو اطلاع دی ہے جس پر حضرت نے یہ تسلی نامہ مولوی عبدالکریم صاحب کو لکھا اور انہوں نے حضرت حکیم الامت کو دکھایا اور حضرت حکیم الامت نے اسے اپنے خطوط میں منسلک کر لیا.(عرفانی) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مکرمی اخویم میاں کریم بخش صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ جو محبت اور اخلاص سے بھرا ہوا تھا پہنچا.جس قدر آپ نے خلوص اور محبت سے خط لکھا ہے میں اس کا شکر گزار ہوں.خداوندکریم آپ کو اس کا اجر بخشے.بیشک اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب نہایت قابل تعریف اخلاق سے متخلّق ہیں اور مجھ کو ان کے ہر ایک خط کے دیکھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بفضلہ تعالیٰ ان نادر الوجود مَردوں میں سے ہیں کہ جو دنیا میں

Page 44

بہت ہی کم ہیں.صفت جوانمردی اور یک رنگی اور خلوص اور وفا اور روبحق ہونے کے اور بایں ہمہ انشراح صدر اور غربت اور فروتنی اور تواضع ایسی ان میں پائی جاتی ہے کہ جس پر درحقیقت ہر ایک مومن کو رشک کرنا چاہئے.۱؎ میں خوب جانتا ہوں اور مجھے بہت کامل تجربہ ہے کہ اللہ جلّشانہٗ پر کوئی شخص اپنی صفائی میں سبقت نہیں لے جا سکتا اور وہ محسنین کا ہرگز اجر ضائع نہیں کرتا.ہاں یہ بات ہے کہ درمیانی زمانوںمیں ابتلا کے طور پر کشف خیر میں کچھ توقف ہوتی ہے مگر آخر رحمت الٰہی دستگیری کرتی ہے اور مومن کو چشم گریاں کے ساتھ اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ربّانی نیکی اور رحمت اور مروت اس کی نیکی سے بڑھ کر ہے.سو میں دلی اطمینان سے مولوی حکیم نورالدین صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ ہر ایک بات میں امید وار رحمت الٰہی رہیں.خدا تعالیٰ اُن کو ضائع نہیں کرے گا.وہ جس کے ہاتھ میںسب قدرتیں ہیں نہایت ہی غفورٌ رَّحیم ہے.وفادار بندے آخر اس سے اپنی مرادیں پاتے ہیں.اس کا قدیم سے اپنے خالص بندوں کیلئے یہی قانونِ قدرت ہے کہ درمیان میں کچھ کچھ تکلیف اور خوف اور حزن اُٹھا کر انجام کار فائز المرام ہوتے ہیں.والسلام ۱۴؍ مئی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 45

مکتوب نمبر۲۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی ومکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.عنایت نامہ موصول ہو کر موجب خوشی و شکر و ممنونی ہوا.پادری صاحب کی نکتہ چینی کے جواب میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے نہایت ہی خوب ہے.جزاکم اللّٰہُ خیراً جزاکم اللّٰہ خیرًا.دین اسلام منجانب اللہ ہے.یہی ایک حکیمانہ مذہب ہے جو حکمت کے قواعد پر مبنی ہے.اس دین میں یہ بات نہیں کہ ہمیشہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دیا کریں.بلکہ جو مناسب وقت (ہو) اس کے کرنے کی تاکید ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. ۱؎ یہ نہیں فرمایا جَادِلْھُمْ بِالْحِلْمِ.اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ ٹھا کرد اس کیلئے دعا کروں گا اور مصارف مطبع کیلئے چند اور دوستوں کو بھی لکھا ہوا ہے ان کے جواب آنے پر اطلاع دوں گا.٭ والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں.مگر اس پر یکم جون کی ڈاکخانہ کی مہر ہے اور قادیان کی مہر ۳۱؍مئی ۱۸۸۷ء کی ہے.یہ ایک پوسٹ کارڈ ہے.(عرفانی)

Page 46

مکتوب نمبر ۲۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی و مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی و اطمینان ہوا.جزاکم اللہ خیراً.اس عاجر نے بموجب تحریرثانی، جو مولوی کریم بخش صاحب کے خط کے لفافہ پر تھی، بلاتوقف کتابیں بھیج دیں تھیں لیکن رجسٹری نہیں کرائی گئی تھی.اگر اب تک نہ پہنچی ہوں تو مکرر بھیج دی جائیں.میں نے مطبع کے بندوبست کیلئے بہت سی فکر کے بعد یہ قرین مصلحت سمجھا کہ بعض دوستوں سے بطور قرضہ کچھ لیا جائے.جس میں سے کچھ پریس اور پتھروں کی قیمت پر خرچ آوے اور کسی قدر کاغذ خریدا جائے اور کچھ اُجرت وغیرہ کیلئے جمع رکھا جائے.تو ایسے بااخلاق آدمیوں کے انتخاب کیلئے جب فہرست خریداران پر نظر ڈالی گئی تو ہزار آدمی میں سے صرف چھ آدمی پر نظر پڑی جن میں سے بعض قوی الاخلاق ہیں اور بعض کا حال کماحقہٗ معلوم نہیں.ناچار دردِ دل سے یہ دعا کرنی پڑی.رَبِّ اعْطِنِیْ مِنْ لَّدُنْکَ اَنْصَارًا فِیْ دِیْـنِکَ وَاذْہَبْ عَنِّیْ حُزْنِی وَاصْلِحْ لِیْ شَانِیْ کُلِّہٖ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اَنْتَ.امید ہے کہ قرین بَاجابت ہو.اب میں آپ کی خدمت میں مفصل ظاہر کرتا ہوں کہ میرا ارادہ تھا کہ چودہ آدمی منتخب کر کے سَو سَو روپیہ بطور قرضہ بوعدہ میعاد ایک سال بعد طبع سراج منیر اُن سے لیا جاوے.یعنی ابتدا میعاد کی اس تاریخ سے ہو جب چھپ چکے.کیونکہ طبع سراج منیر کیلئے چودہ سَو روپیہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اگر یہ صورت انجام پذیر ہو سکے.تو کسی ذی مقدرت دوست پر بوجھ نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ فہرست خریداران کے دیکھنے سے صرف چھ آدمی ایسے خیال میں آئے جو اس کام کے لئے انشراح دل سے متوجہ ہو سکتے ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ یہ کام بہرحال رمضان شریف میں شروع ہو جائے اور میں یہ روپیہ لینا صرف قرضہ کے طور پر چاہتا ہوں کہ دوستوں پر تھوڑا تھوڑا بار ہو جو سَو روپیہ سے زیادہ نہ ہو.سو اگر ایسا ہو سکے کہ بعض بااخلاص آدمی جو آپ کی نظر میں ہوں اس قرضہ کے دینے میں شریک ہو جائیں تو بہت آسانی کی بات ہے ورنہ مالک

Page 47

کافی ہے.جواب سے جلد مطلع فرماویں کیونکہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ رسالہ قرآنی طاقتوں کا جلوہ جون کے ماہ میں شائع ہوگا.سو میں چاہتا ہوں کہ اپنے ہی مطبع میں وہ رسالہ چھپنا شروع ہو جائے.مجھے اس قرضہ کے بارہ میں کوئی اضطراب نہیں.میں اپنے دل میں نہایت خوشی اور اطمینان اور سرور پاتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میری دعائیں کرنے سے پہلے ہی مستجاب ہیں.خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور یہ عاجز اس ہندو لڑکے کے لئے انشاء اللہ القدیر دعاکرے گا.نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر خطوط کے سلسلہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ۱۸۸۷ء کا خط ہے.(عرفانی)

Page 48

مکتوب نمبر ۲۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سَو روپیہ پہنچ گیا.چونکہ موسم برسات ہے اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑا رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرماویں تو انشاء اللہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے.آج کی تاریخ جو ۱۸ شوال ہے اس جگہ خوب بارش ہوگئی اور اب ہو رہی ہے.کل یہ حال تھا کہ گویا لوگ بوجہ شدت حرارت اور گذر جانے ایک حصہ برسات کے نومید ہوچکے تھے.سبحان اللہ! کیا شان اُس قادر مطلق کی ہے کہ نومیدی کے بعد اُمید پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے جو عارف ہیں.اگرچہ مصائب و شدائد کے صدمات کی کوفتوں سے غارت بھی ہوجائیں تب بھی ان پر یاس کی دل آزار حالت طاری نہیںہوتی کیونکہ وہ پکے یقین سے سمجھتے ہیں کہ وہ مولا کریم مجیب الدعوات ہے اور قادر مطلق.اور درحقیقت انسان کو (اسی وقت تسلی نصیب ہوتی ہے کہ جو قوی یقین رکھتا ہے کہ وہ رحمن ہے اور قادر مطلق ہے۱؎) اور اپنے خدا کو کریم اور رحیم جانتا ہے.اے خدائے برتر و بزرگ! ہم سب کو قوی یقین بخش.جس سے ہم ہر دم اور ہر لحظہ سرور میں رہیں.آمین ثم آمین گجرات سے دس روپے اور پہنچ گئے.اب معلوم ہوا کہ صاحب مرسل کا نام عطا محمد ہے اور وہ ضلع گجرات میں مختار ہیں.اب انشاء اللہ ساٹھ روپے کی رسید ان کی خدمت میں بھی بھیجی جاوے گی.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار ۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء غلام احمد از قادیان

Page 49

مکتوب نمبر ۲۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج نصف قطعہ نوٹ پانسو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا.اب آں مخدوم کی طرف سے پانسو ساٹھ روپے پہنچ گئے اس ضرورت کے وقت جس قدر آپ کی طرف سے غمخواری ظہور میں آئی ہے اس سے جس قدر مجھے آرام پہنچا ہے اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.اللہ جلشانہٗ دنیا و آخرت میں آپ کو تازہ تازہ خوشیاں پہنچاوے اور اپنی خاص رحمتوں کی بارش کرے.میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھرام نام ایک شخص نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہین احمدیہ رکھا ہے.یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں.مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے.کتاب میں دو رنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں.جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں.وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے.غرض اس شخص نے خواندہ ہندوؤں کی منت سماجت کر کے اور بہت سی کتابوں کا اس نے خیانت آمیز حوالہ لکھ کر یہ کتاب تالیف کی ہے.اس کتاب کی تالیف سے ہندوؤں میں بہت جوش ہو رہا ہے.یقین ہے کہ کشمیر میں بھی یہ کتاب پہنچی ہوگی.کیونکہ میں نے سنا ہے کہ لالہ لچھمن داس صاحب ملازم ریاست کشمیر نے تین سَو روپیہ اس کتاب کے چھپنے کیلئے دیا ہے.شاید یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ہو لیکن اس پُر افتراء کتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراج منیر سے، جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کی رو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کیلئے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی

Page 50

مستعد کیا ہے.کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے موصوف نظر نہیں آتا.اس لئے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں.ان سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیاد داشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرماویں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا، میں فرصت پا کر اس کا جواب لکھوں گا.غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدوجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خداداد طاقتوں کی رُو سے بھی نصرت کریں.آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں.میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے.بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا مددگار ہو.آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں.والسلام ۲۶؍ جولائی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 51

مکتوب نمبر ۲۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اللہ جلّشانہٗ آپ کو جمیع مطالب پر کامیاب کرے.آمین ثم آمین! کتاب لیکھرام پشاوری ارسال خدمت کی گئی ہے.امید کہ غایت درجہ کی توجہ سے اس کا قلع قمع فرمائیں گے تا مخالف بدطینت کی جلد تر رسوائی ظاہر ہو.اس طرف بکثرت بارش ہوئی ہے اور کوئی دن خالی جاتا ہے جو بارش نہیں ہوتی.پانی چاروں طرف سمندر کی طرح کھڑا ہے اس لئے ابھی کاغذ نہیں منگوایا گیا.دس پندرہ دن تک جب یہ دن کثرت بارش کے گزر جائیں گے تب انشاء اللہ القدیر، کاغذ منگوا کر کام شروع کیا جائے گا.ناطہ کی نسبت جو آں مخدوم نے مجھ سے استفسار کیا ہے میرا دل ہرگز فتویٰ نہیں دیتا کہ ایسے شخص کی لڑکی سے نکاح کیا جاوے.ہر چند میں نے اس بارہ میں توجہ کی ہے مگر میرا دل یہی فتویٰ دیتا ہے کہ اس سے کنارہ کشی ہو.اللہ جلّشانہٗ ہر ایک چیز پر قادر ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے .۱؎ برہمن کا لڑکا جس کا آپ نے کئی خطوط میں ذکر کیا ہے اس کے لئے بھی انشاء اللہ القدیر، میں دعا کروں گا.اگر کچھ حصہ سعادت اس کے شامل حال ہے تو آخر وہ رجوع کرے گا اور اگر اس گروہ میں سے نہیں تو پھر کچھ چارہ نہیں.امید کہ آں مخدوم لیکھرام کی طرف بہت جلد توجہ فرمائیں گے.اوّل تمام اعتراضات اس کے علیحدہ پرچہ پر انتخاب کئے جاویں اور پھر مختصر و معقول و دندان شکن جواب دیا جاوے.اللہ جلّشانہٗ آپ پر ہمیشہ سایہ لطف و رحمت و نصرت رکھے اور آپ کا مؤید و ناصر ہو.آمین والسلام.خاکسار ۵؍ اگست ۱۸۸۷ء غلام احمد از قادیان

Page 52

نوٹ: یہ ہندو لڑکاجس کا ذکر حضرت کے خطوط میں آتا ہے.شیخ محمد عبداللہ صاحب وکیل علی گڑھ ہے.حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں وہ رہتے تھے اور کشمیر سٹیٹ کے بعض بڑے بڑے ہندو عہدہ دار اس کی مخالفت میں منصوبے کر رہے تھے کہ مولوی صاحب کے پاس سے اس لڑکے کو نکالا جاوے.مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے.ایک موقعہ اس لڑکے کے مسلمان ہونے کے بعد اس پر ارتداد کا بھی آیا اور قریب تھا کہ وہ مرتد ہو جاوے.مگر خدا تعالیٰ نے اسے بچایا اور اب وہ علی گڑھ کے ایک کامیاب وکیل اور تحریک علی گڑھ کے پُر جوش مؤید ہیں اور کارکنوں میں سے ہیں.خصوصیت سے تعلیم نسواں کے متعلق انہوں نے نہایت قابلِ قدر کام کیا ہے.( عرفانی) خ خ خ مکتوب نمبر ۲۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدتِ مدید ہوگئی کہ آں مخدوم کے حالات خیریت آیات سے بے خبر ہوں.اللہ جلّشانہٗ آپ کو بہت خوش رکھے.اس طرف بشدت بارش ہوئی یہاں تک کہ بڑے بڑے معمر بیان کرتے ہیں کہ ایسی برسات ہم نے اپنی مدت عمر میں نہیں دیکھی.اسی وجہ سے ابھی کام طبع کتاب کا شروع نہیں ہوسکا.کیونکہ ایک تو کاغذ منگوانے میں بڑی دِقّت ہے اور دوسرے ہر روزہ بارش میں عمدہ چھپائی میں بہت کچھ حرج ہوگا.سو یقین ہے کہ بیس بائیس روز کے بعد جب بارش کچھ تھمتی ہے، دہلی سے کاغذ منگوایا جاوے گا.تب بفضلہ تعالیٰ کتاب کا چھپنا شروع ہوگا.اب میں ایک کام کیلئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص نہایت درجہ مخلص ہے جس کا دل خلوص سے بھرا ہوا ہے.اس کا نام فتح خاں ہے.فتح خاں، بوجہ ان انقلابات کے جو مصلحت ایزدی نے ہر ایک فرد بشر کیلئے اس کے حسبِ حالت مقرر کئے ہیں، بہت سے قرضہ کی زیر باریوں میں مبتلا ہے اور بایں ہمہ اس کا دل کچھ

Page 53

ایسے طور پر واقعہ ہے کہ ہم و غم دنیا کی نسبت ہم و غم دین کا اس پر بہت غالب ہے مگر میں جو اس کے اندرونی تردّدات پر واقف ہوں اس لئے مجھے اس کی حالت پر بہت رحم آتا ہے اور اس کا چھوٹا بھائی عبداللہ خان نام بھی نیک بخت آور جوان بیس بائیس سالہ مستعد آدمی ہے.چونکہ فتح خاں پر دین کی ہمدردی اور غمخواری کا اس قدر غلبہ ہو رہا ہے کہ وہ دنیوی معاشات کو بہ سختی و جدوجہد طلب کرنے کے قابل نہیں لیکن بھائی اس کا اس قابل ہے.سو میں چاہتا ہوں کہ آں مخدوم کی سعی اور کوشش اور سفارش سے جموں میں کسی جگہ دس بارہ روپیہ کی نوکری عبداللہ خاں کو مل جاوے.مجھے اس شخص کیلئے دردِ دل سے خیال ہے.سو آپ محض لِلّٰہ ایک دو جگہ سفارش کریں.عبداللہ خاں بہت مضبوط آدمی ہے کسی امیر کی اَردَل میں کام دے سکتا ہے اور پولیس میں عمدہ خدمت دینے کے لائق ہے.کسی قدر فارسی بھی پڑھا ہوا ہے.امید کہ آں مخدوم نہایت تفتیش فرما کر جواب سے ممنون فرمائیں گے اور اپنی خیرو عافیت سے جلد تر مطلع فرما دیں.باقی بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے.والسلام ۱۷؍ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ: فتح خاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس خادم تھا اور قریباً چار پانچ سال تک یہاں رہا ہے.وہ رسولپور متصل ٹانڈہ کا رہنے والا تھا.قوم کا افغان تھا.حضرت اقدس کی خدمت میں محض اخلاص و ارادت سے رہتا تھا.اس کا بھائی عبداللہ خاں بھی یہاں ڈیڑھ سال تک رہا تھا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سفارش فرمائی ہے.اگرچہ وہ محض اخلاص سے رہتا تھا اور اس کی کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی.مگر مرزا محمد اسماعیل بیگ کو حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ اس کے کپڑے وغیرہ بنوا دو اور کچھ نقدی بھی وقتاً فوقتاً دے دیا کرتے تھے چونکہ نقدی اور حساب کتاب مرزا صاحب کے پاس رہتا تھا اس لئے ان کو ہی یہ حکم دیا جاتا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خادموں کی ضروریات کا کس قدر احساس رکھا کرتے تھے.اور یہ خط اور بھی اس پر روشنی ڈالتا ہے کہ آپ نے حضرت حکیم الامت کو سفارش فرمائی.(عرفانی)

Page 54

مکتوب نمبر ۳۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میں بہت شرمسار ہوں کہ صرف ایک خیال سے آں مخدوم کی خدمت میں اپنا نیاز نامہ ارسال نہیں کر سکا اور وہ یہ ہے کہ مجھے خیال رہا کہ جب تک آں مخدوم جموں میں نہ پہنچ جاویں اور جموں سے خط نہ آ جائے تب تک کوئی پتہ و نشان پختہ نہیں ہے جس کے حوالہ سے خط پہنچ سکے.اگر یہ میری غلطی تھی تو امید ہے کہ معاف فرمائیں گے.بقیہ نصف قطعہ نوٹ دو سَو چالیس روپے بھی پہنچ گئے تھے.اب آں مخدوم کی طرف سے کل آٹھ سَو روپیہ قرضہ مجھ کو پہنچ گیا ہے اور میں نہایت ممنون (ہوں) کہ آنمکرم بَرَوِشِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سچے دل سے اور پورے جوش سے نصرت اسلام میں مشغول ہیں کہ آپ نے میرے تغافل ارسال خط کی وجہ سے اپنی روا رکھی.یہ کیوں کر ہو سکے کہ آپ کے اخلاص و محبت پر میں سوء ظن کروں.سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس زمانہ میں یہ خلوص و محبت و صدق قدم براہِ دین کسی دوسرے میں نہیںپایا.اور آپ کی عالی ہمتی کو دیکھ کر خداوند کریم جلّشانہٗ کے آگے خود منفعل ہوں.خداوند کریم عظیم الشان رحمتوں کی بارش سے آپ کے پودۂ آمال دنیا و آخرت کو بار آور کرے.جس قدر میری طبیعت آپ کی لِلّٰہی خدمات سے شکرگزار ہے.مجھے کہاں طاقت ہے کہ میں اس کو بیان کر سکوں.امید تھی کہ بعد واپسی سفر کشمیر آپ کی ملاقات میسر ہو.نہ معلوم پھر خلاف امید کیوں ظہور میں آیا.میں بہت مشتاق ہوں، اگر وقت نکل سکے تو ملاقات سے ضرور مسرور فرمائیں.میں بباعث تعلقات مطبع جن سے شاید چھ ماہ تک مخلصی ہوگی، اس جگہ سے علیحدہ نہیں ہو سکتا.ورنہ میری خواہش تھی کہ اب کی دفعہ خود جا کر آپ سے ملاقات کروں اور اگر آپ کو جلد ترفرصت نہ ہووے اور مجھے چند روز کی کسی وقت فرصت نکل آوے تو کیا

Page 55

عجب ہے کہ اب بھی میں ایسا ہی کروں.آپ کو میںیگانہ دوست سمجھتا ہوں اور آپ کے لئے میرے دل و جان سے دعائیں نکلتی ہیں.والسلام ۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان خ خ خ مکتوب نمبر ۳۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج نصف قطعات نوٹدو سَو چالیس روپے مرسلہ آں مخدوم پہنچ گئے.امید کہ باقی قطعات بھی بذریعہ رجسٹری ارسال فرماویں میں نے السلام علیکم آں مخدوم بشیر احمد کو پہنچا دیا.پہلے تو مجھے یہی خیال ہو رہا تھا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِصَبِیًّا لیکن تعمیل ارشاد آں مخدوم کی گئی.اُس وقت طبیعت اس کی اچھی تھی.بار بار تبسم کر رہا تھا.چنانچہ السلام علیکم کے بعد بھی یہی اتفاق ہوا کہ دو تین مرتبہ اس نے تبسم کیا اور انگشت شہادت منہ پر رکھ لی.اگر کشمیر میں یعنی سری نگر میں یہ خط مل جائے تو بیشک ایک مہر کھدوا کر لے آویں.چاندی کی ایک سُبک جیسی انگشتری ہو جس پر یہ نام لکھا ہو کہ بشیرؔ.امید کہ اب ملاقات میسر آئے گی لیکن قبل از ملاقات ایک ہفتہ مجھ کو اطلاع بخشیں کہ بابومحمد صاحب کی طرف سے بہت تاکید ہے کہ اگر آپ آویں تو مجھ کو بھی اطلاع دی جاوے.امید کہ آں مخدوم نے کتاب لیکھرام کی طرف توجہ فرمائی ہوگی.اس کی بیخ کنی نہایت ضروری ہے لیکن حتی الوسع یہ مدنظر رہے کہ عام خیال کے آدمی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور واضح اور سریع الفہم خیالوں میں بیان ہو.

Page 56

میں نے آگے بھی ایک خط میں اطلاع دی تھی کہ ایک صاحب فتح خاں نامی میرے پاس رہتے ہیں اور میری خدمت میں ملازموں کی طرح مشغول ہیں.نیک بخت اور دیندار آدمی ہے.ان کا چھوٹا بھائی عبداللہ خاں نام بیکار ہے.قرضداری بہت ہے.وہ بھی مضبوط معمر بست سالہ اور خوب ہوشیار اور کارکن آدمی اور سپاہیانہ کاموں کیلئے بہت مناسبت رکھتا ہے.مجھے فتح خاں کے حال پر بہت رحم آتا ہے.میرا ارادہ ہے کہ یہ چھوٹا بھائی اس کا عبداللہ کسی سات آٹھ روپے تنخواہ پر نوکر ہو جائے، قرضہ کی بلا سے کچھ تخفیف ہو.اگر آں مخدوم کوشش فرماویں تو یقین ہے کہ کسی امیر معزز عہدہ دار کی اردل میں یا ایسی ہی کسی اور جگہ نوکر ہو جاوے.مگر تنخواہ سات آٹھ روپے سے کم نہ ہو.فارسی بھی پڑھا ہوا ہے.اچھا بدن کا مضبوط ہے.والسلام خاکسار ۲۰؍ دسمبر ۱۸۸۷ء غلام احمد مکرر یہ کہ مجھے یاد آیا ہے کہ یہ دو سَوچالیس روپے ایک حساب سے پورا تین سَو ہو گیا ہے کیونکہ پہلے علاوہ پانسو روپیہ کے ساٹھ روپے آپ کے زیادہ آگئے ہیں.پس ساٹھ روپیہ ملانے سے پورا تین سَو ہو گیا اور کل روپیہ جو آج تک آپ کی طرف سے آیا.آٹھ سَو روپیہ ہوا.کشمیر کا تحفہ زیرہ عمدہ اور دو تولہ زعفران اگر ملے تو ضرور آں مخدوم لے آویں.زیرہ کی اس جگہ نہایت ضرورت رہتی ہے.والسلام خاکسار غلام احمد

Page 57

مکتوب نمبر ۳۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دو روز سے میں نے شخص معلوم کیلئے توجہ کرنا شروع کیا تھا.مگر افسوس کہ اس عرصہ میں میرے گھر کے لوگ یکدفعہ سخت علیل ہوگئے.یعنی تیز تپ ہو گیا جس کی وجہ سے مجھے ان کی طرف توجہ کرنی پڑی.کل ارادہ ہے کہ ان کو مسہل دوں.بعد ان کی صحت کے پھر توجہ میں مصروف ہوں گا.اب مجھے محض آپ کے لئے اس طرف بشدت خیال ہے.اگرچہ مجھے صحت کامل نہیں تا ہم افاقہ میں آپ نے جو فتح محمد کے ہاتھ دوا بھیجی تھی وہی کھاتا رہا ہوں.معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم، کہ اس دوا نے کچھ فائدہ پہنچایا ہے.پیراں دتا کے ہاتھ کوئی دوا نہیں پہنچی اور پیراں دتا کہتا ہے کہ مجھے مولوی صاحب نے کوئی دوا نہیں دی.یعنی اس عاجز کیلئے آپ نے جو کچھ لکھا تھا کہ پیراں دتا کے ہاتھ دوا بھیجی ہے، شاید یہ غلطی سے لکھا گیا ہو.میر عباس علی شاہ صاحب قادیان میں آپ کی دوا کے منتظر ہیں.براہ مہربانی ضرور توجہ فرما کر دوا بھیج دیں.آپ کو یہ عاجز دعا میں یاد رکھتا ہے اور امید وارِ اثر ہے گو کسی قدر دیر کے بعد ہو.انسان کے دل پر آزمائش کے طور پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں آخر خدا تعالیٰ سعید روح کی کمزوری کو دور کر دیتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرما دیتا ہے.پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں.تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں، اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے بعد کسل نہیں، اور ایسی تقویٰ دی جاتی ہے جس کے بعد معصیت نہیں.اور ربّ کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے جس کے بعد سُخط نہیں.مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے.اوّل اوّل انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گرتا ہے.مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقت بالا کھینچ لیتی ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی نُثَبِّتُہُمْ عَلی التَّقْوٰی

Page 58

وَالْاِیْمَانِ وَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَ الْمَحَبَّۃِ وَالْعِرْفَانِ وَسَنُیَسِّرَ ھُمْ لِفِعْلِ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکِ الْعِصْیَانِ.کتاب خطبات احمدیہ پیراں دتا کے ہاتھ پہنچ گئی.بعض ادویہ بھی.مگر اس عاجز کیلئے کوئی دوا نہیں پہنچی.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں.قیاس چاہتا ہے کہ ۱۸۸۷ء کا خط ہے.(عرفانی)

Page 59

مکتوب نمبر ۳۳ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عین حالت انتظار میں عنایت نامہ پہنچا.اللہ تعالیٰ بہت جلد آپ کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے.اگرچہ ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے مگر خاص طو ر پر آپ کی صحت کیلئے میں نے آج سے دعا کرنا شروع کر دیا ہے.مجھے آپ کے اخلاقِ فاضلہ کہ گویا اس زمانہ کی حالت موجودہ پر نظر کر کے خارقِ عادت ہیں، نہایت اطمینان قلبی سے یقین دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا اور آپ کو اپنی رحمت خاصہ سے حظّ وافر بخشے گا.آپ کو خدا نے ذوی الایدی والابصار کا مرتبہ عطا کیا ہے.اب لوازم اس مرتبہ کے بھی وہی دے گا.آپ کی ملاقات کو دل چاہتا ہے اور بعض احباب بھی آپ کی ملاقات کے بہت شائق ہیں جیسے بابو محمد صاحب کلرک دفتر انبالہ چھاؤنی اور بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ.سو بابو محمد صاحب سے اقرار ہو چکا ہے کہ جس وقت آپ تشریف لانا چاہیں تو دس پندرہ روز پہلے اُنہیں اطلاع دی جائے گی.تب وہ رخصت لے کر عین موقعہ پر آ جائیں گے اور بابو الٰہی بخش صاحب کو بھی اطلاع دے دیں گے.اس لئے مکلف ہوں کہ آں مخدوم عزم بالجزم کر کے بیس روز پہلے مجھے اطلاع دیں اور کم سے کم تین روز یا چار روز تک قادیان میں رہنے کا بندوبست کر کے مفصل اطلاع بخشیں کہ کس تاریخ تک پہنچ سکتے ہیں تا اسی تاریخ کے لحاظ سے وہ لوگ بھی آ جاویں.مجھے یہ بات سن کر نہایت خوشی ہوئی کہ تکذیب براہین کا ردّ آپ نے تیار کر لیا ہے.الحمدللّٰہ والمنۃ اس ردّ کے شائع ہونے کیلئے عام طور پر مسلمانوں کا جوش پایا جاتا ہے.شاید ڈیڑھ سَو کے قریب ایسے خط آئے ہونگے جنہوں نے اس کتاب کے خریدنے کا شوق ظاہر کیا ہے.میں نے ابھی کام ہر دو رسالہ کا شروع نہیں کیا اب شاید بیس بائیس روز تک شروع کیا جائے.عوام کو اس تاخیر سے جس قدر غصہ و بدظنی عائدِ حال ہوئی ہے میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ

Page 60

سب دور کر دے گا.اصل بات یہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ راضی ہو تو انجام کار خلقت بصد ندامت خود راضی ہو جاتی ہے.اس خط کو رجسٹری کرا کر اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ آپ مکرّر اپنی صحت و عافیت سے بہت جلد اطلاع بخشیں اور نیز اپنی تشریف آوری کے بارہ میں جس وقت چاہیں اطلاع دے دیں، مگر پندرہ یا بیس روز پہلے اطلاع ہو.والسلام ۴؍ جنوری ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 61

مکتوب نمبر ۳۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج رجسٹری شدہ خط کے روانہ کرنے کے بعد اخویم حکیم فضل دین صاحب کا خط جو بلف خط ہذا روانہ کیا جاتا ہے، آپ کی علالت طبع کے بارے میں پہنچا.اس خط کو دیکھ کر نہایت تردّد ہوا.اس لئے میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ کی عیادت کیلئے آؤں اور میں خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو من کُل الوجوہ تندرست دیکھوں..۱؎ سو ہفتہ کے دن یعنی ساتویں تاریخ جنوری ۱۸۸۸ء میں روانہ ہونے کا ارادہ ہے.آگے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.سو اگر ہفتہ کے دن روانہ ہوئے تو انشاء اللہ اتوار کے دن کسی وقت پہنچ جائیں گے.اطلاع دہی کیلئے لکھا گیا ہے.والسلام خاکسار پنجم جنوری ۱۸۸۸ء روز پنجشنبہ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 62

مکتوب نمبر ۳۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہر دو عنایت نامے پہنچ گئے.خدائے قادر ذوالجلال آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے ارادات خیر میں مدد دیوے.اس عاجز نے آں مخدوم کے نکاح ثانی کی تجویز کیلئے کئی جگہ خط روانہ کئے تھے.ایک جگہ سے جو جواب آیا ہے وہ کسی قدر حسبِ مراد معلوم ہوتا ہے یعنی میر عباس علی شاہ صاحب کا خط جو روانہ خدمت کرتا ہوں.اس خط میں ایک شرط عجیب ہے کہ حنفی ہوں، غیر مقلد نہ ہوں.چونکہ میرصاحب بھی حنفی اور میرے مخلص دوست منشی احمد جان صاحب (خدا تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے) جن کی بابرکت لڑکی سے یہ تجویز درپیش ہے.پکے حنفی تھے اور ان کے مرید جو اس علاقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں سب حنفی ہیں.اس لئے حنفیت کی قید بھی لگا دی گئی.یوں تو حَنِیْفًا مُسْلِمًا میں سب مسلمان داخل ہیں لیکن اس قید کا جواب بھی معقولیت سے دیا جائے تو بہتر ہے.اب میں تھوڑا سا حال منشی احمد جان صاحب کا سناتا ہوں.منشی صاحب مرحوم اصل میں متوطن دہلی کے تھے.شاید ایام مفسدہ ۱۸۵۷ء میں لودہانہ آ کر آباد ہوئے.کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی.نہایت بزرگوار، خوبصورت، خوب سیرت، صاف باطن، متقی، باخدا اور متوکل آدمی تھے.مجھ سے اس قدر دوستی اور محبت کرتے تھے کہ اکثران کے مریدوں نے اشارتاً اور صراحتاً بھی سمجھایا کہ آپ کی اس میں کسر شان ہے.مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیا کہ مجھے کسی شان سے غرض نہیں اور نہ مجھے مریدوں سے کچھ غرض ہے.اس پر بعض نالائق خلیفے ان کے منحرف بھی ہوگئے مگر انہوں نے جس اخلاص اور محبت پر قدم مارا تھا اخیر تک نبھاہا اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کی.جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزق خداداد سے مجھے بھیجتے رہے اور میرے نام کی اشاعت کیلئے بدل و جان ساعی رہے اور پھر حج کی تیاری کی اور جیسا کہ

Page 63

انہوں نے اپنے ذمہ مقدر کر رکھا تھا، جاتے وقت بھی پچیس روپے بھیجے اور ایک بڑا لمبا اور دردناک خط لکھا جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا اور حج سے آتے وقت راہ میں ہی بیمار ہوگئے اور گھر آتے ہی فوت ہوگئے.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اس میں کچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت و خوش تقریری و وجاہت کے جو خدا دادا نہیں حاصل تھی.مومن صادق اور صالح آدمی تھے جو دنیا میں کم پائے جاتے ہیں.چونکہ وہ عالی خیال اور صوفی تھے اس لئے ان میں تعصب نہیں تھا.میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خیال انہیں محبت و اخلاص سے نہیں روکتا تھا.غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کا یہ ہے اور لڑکی کا بھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے جو اپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کر آئے ہیں.اب دو باتیں تدبیر طلب ہیں.اوّل یہ کہ انکی حنفیّت کے سوال کا کیا جواب دیا جائے.دوسرے اگر اسی ربط پر رضا مندی فریقین کی ہو جائے تو لڑکی کے ظاہری حلیہ سے بھی کسی طور سے اطلاع ہو جانی چاہئے.بہتر تو بچشم خود دیکھ لینا ہوتا ہے مگر آج کل کی پردہ داری میں یہ بڑی قباحت ہے کہ وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتے.مجھ سے میر عباس علی صاحب نے اپنے سوالات مستفسرہ خط کا بہت جلد جواب طلب کیا ہے.اس لئے مکلّف ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو جلد تر جواب ارسال فرماویں.ابھی میں نے تصریح سے آپ کا نام ان پر ظاہر نہیں کیا.جواب آنے پر ظاہر کروں گا.ہندو پسر کے بارہ میں مجھے خیال ہے.ابھی میں نے توجہ نہیں کی کیونکہ جس روز سے میں آیا ہوں میری طبیعت درست نہیں ہے.علالت طبع کچھ نہ کچھ ساتھ چلی آتی ہے اور کثرت مشغولی علاوہ.لیکن اگر میں نے کسی وقت توجہ کی اور آپ کی رائے کے موافق یا مخالف کچھ ظاہر ہوا جس کی مجھے ہنوز کچھ خبر نہیں.تو بہرحال آپ پر اس کے موافق عمل کرنا واجب ہوگا.ایک میرے دوست سامانہ علاقہ پیٹالہ میں ہیں.جن کا نام مرزا محمد یوسف بیگ ہے انہوںنے کئی دفعہ ایک معجون بنا کر بھیجی ہے جس میں کچلہ مدبّر داخل ہوتا ہے.وہ معجون میرے تجربہ میں آیا ہے کہ اعصاب کیلئے نہایت مفید ہے اور امراض رعشہ اور فالج اور تقویت دماغ اور قوتِ باہ کیلئے اور نیز

Page 64

تقویت معدہ کیلئے فائدہ مند ہے.مدت سے میرے استعمال میں ہے اگر آپ اس کو استعمال کرنا قرینِ مصلحت سمجھیں تو میں کسی قدر جو میرے پاس ہے بھیج دوں.چھ سَو روپے کیلئے جو آں مخدوم نے لکھا ہے اس کی ضرورت تو بہرحال درپیش ہے مگر بالفعل اپنے پاس ہی بطور امانت رکھیں اور مناسب ہے کہ وہ آپ کے مصارف سے الگ پڑا رہے تا جس وقت مجھے ضرورت پڑے، بلاتوقف آپ بھیج سکیں.مگر ابھی نہ بھیجیں جس وقت مطالبہ کیلئے میرا خط پہنچے اس وقت ارسال فرماویں.لیکھرام کی کتاب کے متعلق اگر جلد مسودہ تیار ہو جاوے تو بہتر ہے.لوگ بہت منتظر ہیں اور اگر آپ کی کتاب جو دہلی میں چھپتی ہے تمام و کمال چھپ چکی ہو تو ایک جِلد اس کی بھی عنایت فرماویں.منشور محمدی میں جو آں مخدوم نے مضمون چھپوایا ہے وہ سب پرچے پہنچ گئے وہ مضمون نہایت ہی عمدہ ہے.جزاکم اللہ خیراً.خاکسار ۲۳؍ جنوری ۱۸۸۸ء غلام احمد از قادیان

Page 65

مکتوب نمبر۳۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.بجنسہٖٖ میر صاحب کی خدمت میں ارسال کیا گیا.پہلے سے میں نے بھی ایسا ہی لکھا تھا جیسا آپ نے تحریر فرمایا ہے مگر میں مکرر لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ ضرور ایک امینہ و صادقہ عورت بھیج کر سب حال براہ راست دریافت کر لیں کیونکہ یہ ساری عمر کا معاملہ ہے اس میں اگر درپردہ کوئی خرابی نکل آوے تو پھر لاعلاج امر ہے.میر عباس علی شاہ صاحب اگرچہ نہایت مخلص اور صادق آدمی ہیں مگر میر صاحب کی طبیعت میں نہایت سادگی ہے.میرے نزدیک ازبس مناسب و ضروری ہے کہ شکل و صورت وغیرہ کے بارہ میں قابل اطمینان آپ کو حال معلوم ہو جائے.اس میں ہرگز تساہل نہ کریں کہ یہ معاملہ نازک ہے.اگر بیوی مرغوب طبع ہو تو وہ بلاشبہ اسی جہان میں ایک بہشت ہے اور تقویٰ اللہ پر کامل معین.اگرخدانخواستہ مکروہ الشکل نکل آوے تو وہ اسی جگہ میں ایک دوزخ ہے.مناسب ہے کہ ایک عاقلہ و امینہ عورت اپنی طرف سے روانہ کریں تب ساری کیفیت کھل جاوے گی.اس میں ہرگز سستی نہ کریں.نکاح کرنے میں جو غلطی لگ جائے اس جیسی دل کو دکھ دینے والی دنیا میں اور کوئی غلطی نہیں.آئندہ آپ خوب سمجھتے ہیں.اور ہندو لڑکے کے لئے انشاء اللہ اس امر کے فیصلہ کے بعد توجہ کروں گا.خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں.مگر اس کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے یہ خط یا تو اواخر جنوری ۱۸۸۸ء کا ہے.یا اوائل فروری ۱۸۸۸ء کا ہے.(عرفانی)

Page 66

مکتوب نمبر۳۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی اخویم مجذوب الحق و مورَد احسانات الٰہیہ سلّمہ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جب سے یہ خاکسار آپ کی ملاقات کر کے آیا ہے تب سے مجھے آپ کے ہموم و غموم کی نسبت دن رات خیال لگا ہوا ہے اور میرا دل بڑے یقین سے یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اگر نکاح ثانی کا دلخواہ انتظام ہو جاوے تو یہ امر موجب برکات کثیرہ ہوگا اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سے تمام کسل و حزن بھی دور ہوگا اور اللہ جلشانہٗ اپنے فضل و کرم سے اولاد صالح صاحبِ عمر و برکت بھی عطا کرے گا.لیکن اہلیہ ایسی چاہئے جس سے موافقت تامّہ کا پہلے سے یقین ہو جائے.نہایت نیک قسمت اور سعید وہ آدمی ہے کہ جس کو اہلیہ صالحہ محبوبہ میسر آ جائے کہ اس سے تقویٰ طہارت کا استحکام ہوتا ہے اور ایک بزرگ حصہ دین اور دیانت کا مفت میں مل جاتا ہے.اسی وجہ سے تقریباً تمام نبیوں اور رسولوں کی توجہ اسی بات کی طرف لگی رہی ہے کہ انہیں جمیلہ، حسینہ، صالحہ بیوی میسر آوے جس سے گویا انہیں ایک قسم کا عشق ہو.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا ایک مشہور واقعہ ہے اور لکھا ہے کہ اسلام میں پہلے وہی محبت ظہور میں آئی.سو میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اللہ جلشانہٗ آپ کو یہ نعمت عطا کرے.میرے نزدیک یہ نعمت اکثر نعمتوں کی اصل الاصول ہے اور چونکہ مومن اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا طالب و جویاں بلکہ عاشق و حریص ہوتا ہے اس لئے میری رائے میں مومن کیلئے یہ تلاش واجبات میں سے ہے.اور میری رائے میں وہ گھر بہشت کی طرح پاک اور برکتوں کا بھرا ہوا ہے جس میں مرد اور عورت میں محبت و اخلاص و موافقت ہو.اب قصہ کوتاہ یہ کہ اس نعمت کیلئے جلد جلد فکر کرنا چاہئے اور جو آپ نے زبانی فرمایا تھا کہ اپنی برادری میں ایک جگہ زیر نظر ہے، اس کی آپ اچھی طرح تحقیق و تفتیش کریں اور بچشم خود دیکھ لیں اور پھر مجھ کو اطلاع دیں.اور اگر وہ صورت قابل پسند نہ نکلے تا ہم اطلاع بخشیں کہ تا جابجا اپنے دوستوں کی معرفت تلاش کی جاوے.دوسرے ایک یہ امر بھی قابل انتظام ہے کہ آپ کے اخراجات ایسے حد سے بڑھے ہوئے ہیں کہ جن کے سبب سے ہمیشہ آپ کو

Page 67

تہی دست رہنا پڑتا ہے.یہاں تک کہ میں نے مولوی کریم بخش صاحب کی زبانی سنا ہے کہ جو آٹھ سَو روپیہ مجھ کو آپ نے بھیجا تھا وہ بھی قرضہ لے کر ہی بھیجا تھا.(سو ا من)۱؎ سے لَاتَبْسُطْ کُلَّ الْبَسَطِ کی طرف خیال رکھنا چاہئے اور اپنے نفس سے ایک مستحکم عہد کر لیں کہ تیسرا یا چوتھا حصہ تنخواہ میں سے خرچ کریں اور باقی کسی دوکان وغیرہ میں جمع کرا دیں.امید کہ ان امور سے آپ مجھ کو اطلاع دیں گے.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار ۲۲؍ فروری ۱۸۸۸ء غلام احمد از قادیان

Page 68

مکتوب نمبر ۳۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا.ابھی وہ خط میں نے نہیں کھولا تھا کہ بابو الٰہی بخش صاحب کے کارڈ کے پڑھنے سے کہ جو ساتھ ہی اسی ڈاک میں آیا تھا.نہایت تشویش ہوئی کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ آپ لاہور میں علاج کروانے کیلئے تشریف لے گئے تھے اور ڈاکٹروں نے کہا کہ کم از کم پندرہ دن تک سب ڈاکٹر مل کر معائنہ کریں تو حقیقت مرض معلوم ہو.مگر آپ کے خط کے پڑھنے سے کسی قدر رفع اضطراب ہوا مگر تا ہم تردّد باقی ہے کہ مرض تو بکلّی رفع ہو گئی تھی صرف ضعف باقی تھا.پھر کس لئے ڈاکٹروں کی طرف التجا کی گئی.شاید بعض ضعف وغیرہ کے لحاظ سے بطور دور اندیشی مناسب سمجھا گیا ہو.میری دانست میں جہاںتک ممکن ہے آپ زیادہ ہم و غم سے پرہیز کریں کہ اس سے ضعف بڑھتا ہے اور نہایت سرور بخشنے والی یہ آیت مبارکہ ہے .۱؎ میرے نزدیک یہ امر نہایت ضروری ہے کہ آپ نکاح ثانی کے امر کو سرسری نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ اس کو کسل و حزن کے دور کرنے کے لئے ضروری خیال کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے امید ہے کہ آپ کو نکاح ثانی سے اولاد صالح بخشے.میرا اس طرف زیادہ خیال نہیں ہے کہ کوئی اہلیہ پڑھی ہوئی ملے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر مرد ہو یا عورت مگر پاکیزہ ذہن اور فطرت سے عمدہ استعداد رکھتا ہو تو اُمیّت اس کے لئے کوئی بڑا سدِّراہ نہیں ہے.جلدی صحبت سے ضروریات دین و دنیا سے خبردار ہو سکتا ہے.ضروری یہ امر ہے کہ عفیفہ ہو اور حسن ظاہری بھی رکھتی ہو، تا اس سے موافقت و محبت پیدا ہو جاوے.آپ اس محل زیر نظر میں اس شرط کی اچھی طرح تفتیش کرلیں.اگر حسب دلخواہ نکل آوے تو الحمدللہ.ورنہ دوسرے مواضع میں تمام تر جدوجہد سے تلاش کرنا شروع کیا جائے.بندہ کی طرف سے صرف کوشش ہے اور مطلوب کو میسر کر دینا قادر مطلق کا کام ہے.بہرحال اس عالَمِ اسباب میں جدوجہد پر نیک ثمرات مل جاتے ہیں.میں نے اب تک کسی دوست کی طرف اس تلاش کیلئے

Page 69

نہیں لکھا کیونکہ ابھی تک آپ کی طرف سے قطعی اور یک طرفہ رائے مجھ کو نہیں ملی اس لئے مکلّف ہوں کہ درمیانی خیالات کا جلد تصفیہ کر کے اگر جدید تلاش کی ضرورت پیش آوے تو مجھے اطلاع بخشیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا آپ اپنے مصارف کی نسبت ہوشیار ہو جائیں کہ انہیں اموال سے قوام معیشت ہے اور دینی ضروریات کے وقت بھی موجب ثواب عظیم ہو جاتے ہیں سو جیسا کہ آپ نے عہد کر لیا ہے کسی حالت میں ثلث سے زیادہ خرچ نہ کریں.انگریزی خوانوں کی نسبت جو آپ نے لکھا ہے، یہ نہایت عمدہ صلاح ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی اس نیت عالیہ میں برکت ڈالے.نبیوں کے پاس دو ہتھیار تھے جن کے ذریعہ سے وہ فتح یاب ہوئے.ایک ظاہری طور پر قول موجّہ جو ہر یک مخالف کو ملزم و ساکت کرتا تھا.دوسری باطنی توجہ جو نورانی اثر دلوں پر ڈالتی تھی.اوائل میں جو نبیوں کے وعظوں میں کم اثر ہوا بلکہ طرح طرح کے دُکھ اُٹھانے پڑے اور طرح طرح کی نالائق تہمتیں ان کی شان میں کی گئیں تو اس کا یہ باعث ہے کہ اوّل اوّل میں ان کی ہمت قول موجّہ کے پھیلانے اور مخالفوں کے ساکت کرنے میں مصروف رہی.پھر جب اس طریق پر کوئی فائدہ مترتب نہ ہوا اور دل ٹوٹ گیا.بقول حضرت سعدیؒ بہ ہمت نمایند مردی رجال عقدِ ہمت اور توجہ سے کام لیا گیا.یہ عقد ہمت اور توجہ شمشیر تیز سے زیادہ تر اثر رکھتی ہے.میری رائے میں نبیوں کی تمام کامیابی کا بڑا بھارا موجب یہی توجہ باطنی تھی اور نیز یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حکم خواتیم پر ہے.خدا تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ ۱؎ سنت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ صادق لوگ اپنے انجام سے شناخت کئے جاتے ہیں.یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ جس کام کو میں نے اُٹھایا ہے ابھی وہ لوگوں پر بہت مشتبہ ہے اور شاید اس بات میں کچھ مبالغہ نہ ہو کہ ہنوز ایسی حالت ہے کہ بجائے فائدہ کے آثار و علامات نقصان کے نظر آتے ہیں.یعنی بجائے ہدایت کے ضلالت و بدظنی پھیل گئی ہے.مگر جب میں ایک طرف آیات قرآنی پڑھتا ہوں کہ کیونکر اوائل میں نبیوں پر ایسے سخت زلازل آئے کہ مدتوں تک کوئی صورت کامیابی کی دکھلائی نہ دی اور پھر انجام کار نسیم نصرت الٰہی کا چلنا شروع ہوا اور دوسری طرف مواعید صادقہ حضرت احدیت سے بشارتیں

Page 70

پاتا ہوں تو میرا غم و درد بالکل دور ہو جاتا ہے اور اس بات پر تازہ ایمان آتا ہے. ۱؎ میرا یقین ہے کہ زمانہ حال کے ابخرہ ردیہ و مواد فاسدہ کا استیصال صرف خشک اور ظاہری دلائل سے ممکن نہیں.تاریکی ہمیشہ نور سے دور ہوتی رہتی ہے اور اب بھی ایمانی انوار اس تاریکی کو دور کریں گے.ایسے معرکہ میں وہ لوگ کام نہیں کر سکتے کہ لیکچر یا تقریر کرنے میں نہایت فصیح ہوں اور ایمانی وفاداریوں اور صدقوں کی بُوتک نہ پہنچی ہو.ہاں اگر فضل و احسان الٰہی سے کسی انگریزی خوان میں یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں تو پھر وہ نورٌ علی نور ہوگا اور اگر ایسے انگریزی خوان ہمیں میسرنہ آ جائیں تو پھر بھی ہم ہرگز نااُمید نہیں.اور کیوں نااُمید ہوں.ہمارے پاس مواعید صادقہ حضرت اصدق الصادقین کا ایک ذخیرہ ہے اور ہماری تسلی کیلئے یہ آیات قرآن کریم کافی ہیں جن کو ہم پڑھتے ہیں.ٌ۲؎.اب ہمیں انصاف کرناچاہئے کہ ابھی تک ہم نے کیا دُکھ اُٹھایا اور کون سے زلازل ہم پر آئے، کس قدر صبر کرتے کرتے زمانہ گزرا.یہ تو سوء ادب ہے کہ ہم روز اوّل سے اپنے خداوند کریم پر افسوس کریں کہ اس نے ہماری محنت کا کوئی نتیجہ نہیں دیا.ہمیں مستقل رہنا چاہئے.بلاشبہ نتائج خیر ظہور میں آویں گے.۳؎ اس لڑکے کا حال آپ نے خوب یاد دلایا.میں بالکل بھول گیا تھا.حافظہ ناقص و ہجومِ کار اَز ہر طرف.انشاء اللہ اب اس خیال میں لگوں گا اور اگر اس کے لئے وقت ملا تو توجہ کروں گا.خواہ جلدی یا کسی قدر دیر سے، کیونکہ امر اختیاری نہیں.وَمَاتنزّل الامر بامر ربّک ٭ والسلام ۲۹؍ فروری۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 71

مکتوب نمبر۳۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس خط کی تحریر سے مطلب آپ کو ایک تکلیف دینا ہے اور وہ یہ ہے کہ مرزا امام دین صاحب جو میرے چچا زاد بھائی ہیں ایک بیش قیمت گھوڑا ان کے پاس ہے جو خوش رفتار اور راجوں رئیسوں کی سواری کے لائق ہے.اب وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں چونکہ ایسے گراں قیمت گھوڑوں کو عام لوگ خرید نہیں سکتے اور رئیس خود ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں لہٰذا مُکلّف ہوں کہ آپ براہ مہربانی رئیس جموں یا اس کے کسی بھائی کے پاس تذکرہ کر کے جدوجہد کریں کہ تا مناسب قیمت سے وہ گھوڑا خرید لیں.اگر خریدنے کا ارادہ ان کی طرف سے پختہ ہو جائے تو گھوڑا آپ کی خدمت میں بھیجا جاوے.ضرور کوشش بلیغ کے بعد اطلاع بخشیں.والسلام ۳؍ مارچ ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ: باوجودیکہ میرزا امام الدین صاحب سخت معاند و مخالف تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی سپارش کرنے میں مضائقہ نہیں فرمایا اور یہ مودّت فی القربیٰ کا ایک ثبوت ہے.اور دشمنوں پر کرم و رحم کا ایک نمایاں نمونہ.(عرفانی)

Page 72

مکتوب نمبر۴۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا بجنسہٖ کچھ مناسب کلمات ساتھ لکھ کر پیر صاحب کی خدمت میں بھیج دیا گیا.صاحبزادہ افتخار احمد صاحب جن کی ہمشیرہ سے تجویز نسبت ہے.نہایت سعادتمند اور اہل دل آدمی ہیں.ان کو آپ کی ذات سے کوئی پرخاش نہیں.صرف آج کل کے شور و غوغا کے لحاظ سے انہوں نے تحریر کیا تھا.امید کہ حکیم فضل دین کے پہنچنے پر بلاتامل بات پختہ ہو جائے گی.اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے.رسالہ سراج منیر اور اشعۃ القرآن کی تکمیل میں چند طرح کی مشکلات درپیش تھیں.اب بفضلہ تعالیٰ وہ سب طے ہوگئی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جاوے.صرف ترتیب ظاہری عبارت کی کسی قدر باقی ہے.سو یہ کام فقط دس پندرہ روز کا ہے.اگر صحت اور فرصت رہی تو یکم رمضان میں یہ کام طبع کا بفضلہ تعالیٰ شروع ہو جائے گا.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.بشیر احمد خیر و عافیت سے ہے.والسلام ۱۶؍ اپریل ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 73

مکتوب نمبر۴۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْم مخدومی حضرت مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بٹالہ میں عنایت نامہ آں مخدوم مجھ کو ملا.اللہ جلشانہٗ آپ کو سلامت رکھے اور بخیرو عافیت واپس لاوے.آپ کی طرف بہت خیال رہتا ہے.میاں محمد عمر کے معاملہ میں بہت تردّد دامنگیر ہے.خدا تعالیٰ احسن تدبیر سے اس امر مکروہ کو درمیان سے اُٹھاوے.بشیر احمد کی طبیعت اب کسی قدر روبصحت ہے مگر میرا ارادہ یہی ہے کہ اخیر رمضان تک اسی جگہ بٹالہ میں رہوں کہ دوا وغیرہ کے ملنے کی اس جگہ آسانی ہے اور کسی قدر ڈاکٹر کا علاج بھی شروع ہے.معلوم نہیں کہ حکیم فضل دین صاحب کب بارادہ لودہانہ تشریف لاویں گے.بہرحال اب مناسب ہے کہ بعد رمضان شریف لاویں.آپ براہ مہربانی جلد جلد اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں یہ عاجز بمقام بٹالہ نبی بخش ذیلدار کے مکان پر اُترا ہوا ہے.والسلام از بٹالہ خاکسار ۲۸؍ مئی ۱۸۸۸ء غلام احمد مکتوب نمبر۴۲ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اگرچہ آنمکرم کی طبیعت میں عجزونیاز اور انکسار کامل طور پر ہے اور یہی ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن بحکم آیۃ کریمہ  ۱؎ نعماء الٰہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے.اللہ جلّشانہٗ نے آپ کو علم دین بخشا ہے.عقل سلیم عطا کی ہے.انشراح صدر جو ایک خاص نعمت ہے

Page 74

عطا فرمایا ہے، اپنی طرف توجہ دی ہے.یہ تمام نعمتیں شکر کے لائق ہیں.عنایت نامہ پہنچا.معلوم نہیں.کب تک آپ جموں میں تشریف لانے والے ہیں.اللہ جلّشانہٗ آپ کو بخیرو عافیت اپنے سایہ ٔرحمت میں رکھے اور سفر اور حضر میں اس کا فضل و احسان آپ کے شاملِ حال رہے.اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے.٭ والسلام ۲۲؍ جون ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۴۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمدللّٰہ والمنۃکہ کل کے خط سے بخیر و عافیت آپ کی واپس تشریف آوری کی خوشخبری معلوم ہوئی.بشیر احمد عرصہ تین ماہ تک برابر بیمار رہا.تین چار دفعہ ایسی حالت نازک تک پہنچ گیا ہے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ شاید دو چار دم باقی ہیں.مگر عجیب قدرت قادر ہے کہ ان سخت خطرناک حالتوں تک پہنچا کر پھر ان سے رہائی بخشتا رہا ہے.اب بھی کسی قدر علالت باقی ہے.مگر بفضلہ تعالیٰ آثار خطرناک نہیں ہیں.بے شک ایسے اوقات بڑے ابتلا کے وقت ہوتے ہیں اور ایسے وقتوں کی دعا بھی عجیب قسم کی دعاہوتی ہے.سو الحمد للّٰہ والمنۃ کہ آپ ایسے وقتوں میں یاد آ جاتے ہیں.٭٭ والسلام از قادیان خاکسار ۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء غلام احمد

Page 75

مکتوب نمبر۴۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک خط روانہ خدمت کر چکا ہوں اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ بشیر احمد میرا لڑکا جس کی عمر قریب برس کے ہو چلی ہے.نہایت ہی لاغر اندام ہو رہا ہے.پہلے سخت تپ محرقہ کی قسم چڑھا تھا.اس سے خدا تعالیٰ نے شفا بخشی پھر بعد کسی قدر خفت تپ کے یہ حالت ہوگئی کہ لڑکا اس قدر لاغر ہو گیا ہے کہ استخوان ہی استخوان رہ گیا ہے.سقوط قوت اس قدر ہے کہ ہاتھ پیر بیکار کی طرح معلوم ہوتے ہیں یا تو وہ جسیم اور قوی ہیکل معلوم ہوتا تھا اور یا اب ایک تنکے کی طرح ہے.پیاس بشدت ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ حرارت کا اندر موجود ہے.آپ براہِ مہربانی غور کر کے کوئی ایسی تجویز لکھ بھیجیں جس سے اگر خدا چاہے بدن میں قوت ہو اور بدن تازہ ہو.اس قدر لاغری اور سقوط قوت ہو گیا ہے کہ وجود میں کچھ باقی نہیں رہا.آواز بھی نہایت ضعیف ہو گئی ہے.یہ بھی واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ دانت بھی اس کے نکل رہے ہیں.چار دانت نکل چکے تھے کہ یہ بیماری شیر کی طرح حملہ آور ہوئی.اب بباعث غایت درجہ ضعف قوت اور لاغری اور خشکی بدن کے دانت نکلنے موقوف ہوگئے ہیں اور یہ حالت ہے جو میں نے بیان کی ہے.براہِ مہربانی بہت جلد جواب سے مسرور فرماویں.والسلام ۱۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 76

مکتوب نمبر۴۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد بکلّی تندرست ہے.میں نے صرف اس حالت میں تشریف آوری کیلئے تکلیف دینا چاہا تھا کہ جب وہ سخت بیمار تھا لیکن اب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے کامل تندرستی بخش دی ہے، سو اب کچھ تردّد نہ کریں.انشاء اللہ القدیر کسی اور وقت ملاقات ہو جائے گی اور حکیم فضل دین صاحب کو تاکیداً تحریر فرما ویں کہ اب وہ بلاتوقف لودہانہ جانے کیلئے تشریف لے آویں کہ اب زیادہ تاخیر کرنا اچھا نہیں.فضل احمد نے جو آں مخدوم کو اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے روپیہ دیا تھا.اب اس جگہ اس کے رشتہ داروں کی ایسی حالت ہے کہ ناگفتہ بہ.ان لوگوں کا مفصل حال انشاء اللہ کسی اور موقعہ پر گزارش خدمت کروں گا.وہ نہ صرف مجھ سے ہی عداوت رکھتے ہیں بلکہ علانیہ اللہ اور رسول سے برگشتہ ہیں.اس لئے روپیہ پہنچانے کے لئے آپ کا یا میرا واسطہ بننا ہرگز مناسب نہیں.بلکہ کسی وقت فضل احمد ملے تو اس کا روپیہ اس کے حوالہ کریں کہ وہ اپنے طور پر جس طرح چاہے پہنچاوے.غرض آپ اس روپیہ کو اپنی معرفت ہرگز نہ پہنچاویں.کسی وقت جب ملے تو وہ روپیہ اس کے حوالہ کر دیں اور عذر ظاہر کر دیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۸؍ اگست ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان ضلع گورداسپور

Page 77

مکتوب نمبر۴۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آنمکرم کا ایک خط جو بابو محمد بخش صاحب کے نام آپ نے بھیجا تھا انہوں نے بجنسہٖ وہ خط میرے پاس بھیج دیا ہے.اس لئے آپ کی خدمت میں ظاہر کرتا ہوں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کی نصرت کے لئے محبت اور ہمدردی کا آپ کو جوش بخشا ہے وہ تو ایک ایسا امر ہے جس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَعْطَانِی مُخْلِصًا کَمِثْلِکُمْ مَحِبًّا کَمِثْلِکُمْ نَاصِرًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمِثْلِکُمْ وَھٰذَا کُلُّہٗ فَضْلُ اللّٰہِ.لیکن بابو محمد بخش کی نسبت جو کچھ آپ نے سنا ہے یہ خبر کسی نے غلط دی ہے.بابو محمد بخش بھی مخلص آدمی ہے اور اس عاجز سے ارادت اور محبت رکھتا ہے اور وہ بہت عمدہ آدمی ہے.اس کے مال سے ہمیشہ آج تک مجھ کو مدد پہنچتی رہی ہے.مجھ کو آپ یہ بھی لکھیں کہ لودہیانہ کے معاملہ میں کس مصلحت سے توقف کی گئی ہے.میرے نزدیک بہتر تھاکہ یہ معاملہ جلد پختہ کیا جاتا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان

Page 78

مکتوب نمبر۴۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرا لڑکا بشیر احمد تئیس روز بیمار رہ کر آج بقضائے ربّ انتقال کر گیا.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.اس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہونگی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوںگے، اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا.وَاِنَّا رَاضُونَ بِرَضَائِہٖ وَصَابِرُوْنَ عَلٰی بَــلَا ئِہٖ یَرْضَی عَنَّا ھُوَ مَوْلَانَا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَھُوَ اَرْحَََمُ الرََّاحِمِیْنَ.۴ ؍نومبر ۱۸۸۸ء والسلام خاکسار نوٹ: یہ مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رضا بالقضاء کا کامل اظہار ہے.آپ کو اس ابتلاء شدید میں اگر غم ہے تو صرف یہ کہ مخالفین اپنی مخالفت میں خدا سے دور جا پڑیں گے اور بعض موافقین کو شبہات پیدا ہوں گے مگر آپ ہرحال میں خدا کی رضا کے طالب ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس فعل کو بھی کمال رحم کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے ہر بلاء پر صبر کرنے کے لئے بانشراح صدر تیار ہیں.اس کے بعد حضرت نے ایک مبسوط خط مولوی صاحب کو وفات بشیر پر لکھا تھا جس کا وہی مضمون تھا جو حقانی تقریر میں شائع ہوا اس لئے اس خط کو چھوڑ دیا ہے.

Page 79

ایک گشتی مکتوب یہ ایک مکتوب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بظاہر حضرت حکیم الامۃ مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے نام بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا مگر اس مکتوب کی متعدد نقول میاں شمس الدین ساکن قادیان (جو حضرت اقدس کے استا د اوّل میاںفضل الٰہی کے بیٹے تھے.ابتداً اور عموماً حضرت اقدس کے مسوّدات کو خوشخط صاف کیا کرتے تھے) نے کی تھیں اور حضر ت اقدس نے ایک نقل لودہانہ کپور تھلہ کے احباب اور بعض اخص احباب کو روانہ فرمائی تھی.اس مکتوب میںحضرت نے بعض احباب کے اخلاص خاص کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ’’ یہ بشیر درحقیقت ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا اور اس کی موت ان سچے مومنوں کے گناہوں کا کفّارہ ہے جن کو اس کے مرنے پر للہ غم ہوا.یہاں تک کہ بعض نے کہا کہ اگر ہماری ساری اولاد مر جاتی اور بشیر جیتا رہتا تو ہمیں کچھ رنج نہ تھا.‘‘ یہ بزرگ جس نے اس اخلاص کا اظہار کیا وہ حضرت منشی محمد خان صاحب افسر بگھی خانہ کپور تھلہ رضی اللہ عنہ تھے.نوّراللہ مرقدہ.حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ ہمیشہ حضرت منشی محمد خان صاحب کے اس اخلاص پر رشک فرمایا کرتے تھے اور بارہا فرمایا کہ بشیر اوّل کی وفات پر جوشخص ہم سب سے آگے نکل گیا وہ محمد خان تھا رضی اللہ عنہ.حقیقت میں یہ بڑا فضل اور بڑاکرم ربّ کریم کا ان پر تھا اور اس اخلاص و عقیدت کا ایک بیّن ثبوت دنیا نے دیکھ لیا کہ ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوبشارت دی کہ اولاد سے نیک سلوک کیا جا ئے گا چنانچہ سب کے سب معززو خوشحال ہوئے اور اپنے اپنے رنگ میںاخلاص کا بہترین نمونہ ہیں.اب میںاس مکتوب کو درج کر دیتا ہوں.غور سے پڑھو اور مصلح موعود (جس کو خدا نے اب ظاہر کردیاہے) کے مقام اور شان کو سمجھو.(عرفانی کبیر)

Page 80

مکتوب نمبر ۴۸ ژ ایک عام مکتوب از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مخدوم و مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ کالفظ لفظ قوت ایمانی پر شاہد ناطق ہے.عادۃ اللہ قدیم سے جاری ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بغیر آزمائش کے نہیں چھوڑتا اور ایسے ایمان کوقبول نہیں کرتا جو آزمائش سے پہلے انسان رکھتا ہے.اگر بشیر احمد کی وفات میں ایک عظیم الشان حکمت نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ ایسا رحیم وکریم تھا کہ اگر بشیر عظم رمیم بھی ہوتا تب بھی اس کو زندہ کردیتا.مگر اللہ جل شانہ نے یہی چاہا تا اس کے وہ سب کام پورے ہوں جن کااس نے ارادہ کیاہے.بشیر احمد کی وفات کاحادثہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو ایک صاف باطن اور دانا انسان کے ٹھوکر کھانے کا باعث ہو سکے.جب بشیر پیدا ہوا تو اس کی پیدائش کے بعد صدہا خطوط پنجاب اور ہندوستان سے اس مضمون کے پہنچے کہ آیا یہ لڑکا وہی ہے جس کے ہاتھ پر لوگ ہدایت پائیں گے.تو سب کو یہی جواب دیا گیا کہ اس بارہ میں صفائی سے اب تک کوئی الہام نہیں ہوا.ہاں گمان غالب ہے کہ یہی ہو کیونکہ اس کی ذاتی بزرگی الہامات میں بیان کی گئی ہے.ایسے جوابات کی یہ وجہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے اس پسر متوفی کے استعدادی کمالات اس عاجز پر کھول دیئے تھے اور اس بناء پر قیاسی طور پرگمان کیا گیا تھا کہ غالباً یہی مصلح موعود ہے.کیونکہ اس کی ذاتی استعداد اور مقدّس اور مطہر ہونے کی حالت جو اس کی پیدائش کے بعد الہامات میں بیان کی گئی، وہ مصلح موعود کے برابربلکہ اس سے کہیں بڑھ کر تھی.مگر پیدائش کے بعد کوئی ایسا الہام نہیں ہوا کہ یہی مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے اوراسی تصفیہ اور تفتیش کی غرض سے سراج منیر کے چھاپنے میں توقف در توقف ہوتی گئی.الہامات جو اس پسر متوفی کی نسبت اس کی پیدائش کے بعد ہوئے ان سے خود مترشح ہوتا تھا کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلائے عظیم کا موجب ہو گا.جیسا کہ یہ الہام ہوا.اِنَّآ اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا

Page 81

وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا.کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ ۱؎ پس اس الہام میں صاف فرما دیا کہ وہ اَبر رحمت ہے مگر اس میں سخت تاریکی ہے.اس تاریکی سے وہی آزمائش کی تاریکی مراد ہے جو لوگوںکو اس کی موت سے پیش آئی اور ایسے سخت ابتلاء میں پڑ گئے جو ظلمات کی طرح تھا.یہ سچ ہے اور بالکل سچ کہ یہ عاجز اجتہادی غلطی سے اس خیال میں پڑ گیا تھا کہ غالباً یہ لڑکا مصلح موعود ہو گا جس کی صفائی باطنی اور روشنی استعداد اور تطہر اور پاکیزگی کی اس قدر تعریف کی گئی ہے مگر اجتہادی غلطی کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ نفس الہام پر کوئی دھبہ لگا سکے.ایسی غلطیاںاپنے مکاشفات کے سمجھنے میں بعض نبیو ں سے بھی ہوتی رہی ہیں.بایں ہمہ جب لوگ پوچھتے رہے کہ کیا یہ لڑکا مصلح موعود ہے تو ان کو یہی جواب دیاگیا کہ ہنوزیہ امر قیاسی ہے.چونکہ خداوند تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو ابتلائے عظیم میں ڈالے اور سچوں اور کچوں میں فرق کر کے دکھلا دے.اسی وجہ سے یہ عاجز کہ ایک ضعیف بشر ہے اس ارادہ کا مغلوب ہو گیا اور یوں ہوا کہ اس لڑکے کی پیدائش کے بعد اس کی طہارت باطنی اور صفائی استعد اد کی تعریفیں الہام میں بیان کی گئیں اور پاک اور نُوْرُ اللّٰہِ اور یَدُ اللّٰہِ اور مقدس اور بشیر اور خدا باماست اس کانا م رکھا گیا.سو ان الہامات نے یہ خیال پید اکر دیا کہ غالباً یہ وہی مصلح موعود ہوگا مگر پیچھے سے کھل گیا کہ مصلح موعود نہ تھا.مگر مصلح موعود کابشیر تھا اور روشن فطرتی اور کمالات استعدادیہ میں بہت بڑھا ہوا تھا اور وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں شریک ہوئے بطور فرط کے ہوگا.پس یہ نہیں کہ وہ بے فائدہ آیا بلکہ خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا کہ اس کی موت جو عظیم الشان ابتلاء کاایک بھاری حملہ تھا.وہ ان کو جو اس حملہ کی برداشت کر گئے عنقریب ایک تازہ زندگی بخشے گی اور اپنی حالت میں وہ ترقی کرجائیں گے.یہ بشیر درحقیقت ایک شفیع کی طرح پیدا ہوااور اس کی موت ان سچے مومنوں کے گناہوں کا کفّارہ ہے جن کو اس کے مرنے پر محض للہ غم ہوا.یہاں تک کہ بعض نے کہا کہ اگر ہماری ساری اولاد مر جاتی اور بشیر جیتا رہتا تو ہمیںکچھ بھی غم نہ تھا.پس کیا ایسے لوگوں کا کفارہ نہ ہوگا؟ کیا ایسوں کے لئے وہ پاک معصوم شفیع نہیں ٹھہرے گا؟ ضرور ٹھہرے گا.اور اس کی موت نے ایسے مومنوں کو زندگی بخشی ہے.غرض وہ مومنوںاور ثابت قدموں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں محض للہ شریک ہوئے ایک ربّانی مبشر تھا.اللہ جل شانہ کے انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے کئی طریقے ہیں.

Page 82

سو بشیر کی موت مومنوں کو برکت دینے کے لئے ان طریقوں میں سے ایک عمدہ طریقہ ہے.گو کوئی شخص اس عاجز پر اعتقاد رکھے یا نہ رکھے اور اس ضعیف کو ملہم سمجھے یا نہ سمجھے مگر بشیر کی موت سے اگر محض للہ اس کو غم پہنچا ہے تو بلاشبہ بشیر اس کے لئے فرط اور شفیع ہوگا.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء کو اشتہار میں کہ جو بظاہر ایک لڑکے کی بابت پیشگوئی سمجھی گئی تھی.وہ درحقیقت دو لڑکوں کی بابت پیشگوئی تھی.یعنی اشتہار مذکور کی پہلی یہ عبارت (کہ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کانام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے.وہ رجس سے (یعنی گناہ سے )پاک ہے.وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے) یہ تمام عبارت اسی پسر متوفی کے حق میں ہے.اور مہمان کا وہ لفظ جو اس کے حق میں استعمال کیا گیا ہے یہ اس کی چند روزہ زندگی کی طر ف اشارہ ہے کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجاوے.اور بعد کاوہ فقرہ مصلح موعود کی طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اس کی تعریف ہے.چنانچہ آپ کو اور اجمالاً سب کو معلوم ہے کہ بشیر کی موت سے پہلے ۱۰ ؍جولائی۱۸۸۸ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی شائع ہو چکی ہے کہ ایک اور لڑکا پید اہونے والا ہے جو اولوالعزم ہو گا اور ۸؍ اپریل ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں وہ فقرہ الہامی کہ ’’انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں‘‘.اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بشیر کی موت سے پہلے جب آپ قادیان میں ملاقات کے لئے تشریف لائے تو زبانی بھی اس آنے والے لڑکے کے بارہ میں آپ کو الہام سنا دیا گیاتھا.یعنی یہ کہ ایک اولوالعزم پیدا ہوگا.یَخْلُقُ مَایَشَآئُ.وہ حسن اور احسان میں تیر انظیر ہوگا.سو اس الہام الٰہی نے پہلے سے ظاہر کردیا کہ لڑکا ایک نہیں بلکہ دو ہیں.ہاں کسی مدت تک یہی اجتہادی غلطی رہی کہ لڑکا ایک ہی سمجھا گیا.۲۰ ؍ فروری ۱۸۸۶ء (کی) پیشگوئی جو لڑکے کی بابت تھی.وہ درحقیقت دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی.جوغلطی سے ایک سمجھی گئی اور پھر بعد میں بشیر کی موت سے پہلے خود الہام نے اس غلطی کو رفع کر دیا.اگر الہام اس غلطی کو بشیر کی موت سے پہلے رفع نہ کرتا تو ایک غبی کو شبہات پیدا ہونے ممکن تھے مگر اب کوئی گنجائش شبہ کی نہیں.حضرت مسیح نے اجتہادی طور پر بعض اپنی پیشگوئیوںکو ایسے طور سے سمجھ لیا تھاکہ اس طور سے وقوع میں نہیں آئیں اور حضرات حواریان بھی جو عیسائیوں کے نزدیک نبی کہلاتے ہیں، کئی دفعہ پیشگوئیوں کے سمجھنے میںغلطی

Page 83

کرتے رہے حالانکہ ان غلطیوں سے ان کی شان میں کچھ فرق نہیں آتا.اجتہادی غلطی جیسے کبھی علماء ظاہر کو پیش آجاتی ہے.ایسے ہی علماء باطن کو بھی پیش آجاتی ہے اور پاک دل آدمی ان امور سے ذرا بھی متغیر نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کوایسی حالت میںکب چھوڑتا ہے اور اپنے انوار کو صرف اسی حد تک کب ختم کردیتا ہے بلکہ بعض وقت کی یہ اجتہادی غلطی خلق اللہ کے لئے موجب نفع عظیم کے ہوتی ہے اور جب فرستادۂ الٰہی کی سچائی کی کرنیں چاروں طرف سے کھلنی شروع ہوتی ہیں تب سالک کے لئے یہ اجتہادی غلطی ایک دقیق معرفت کا نکتہ معلو م ہوتا ہے.جس شخص کو خدا تعالیٰ سے کچھ غرض نہیں اور معرفت الٰہی سے کچھ واسطہ نہیں اور اس کا دین محض ہنسی اور ٹھٹھا ہے اور اس کا مَبْلَغِ علم صرف موٹی باتوں اور سطحی خیالات تک محدود ہے.ایسے شخص کی نکتہ چینی اور اعتراضات کیا حقیقت رکھتے ہیں؟ وہ حباب کی طرح جلد گم ہوجاتے ہیں اور نور حقانیت اور برہان صداقت جب پورا پورا پر تووہ د کھلاتے ہیں تو ایسے ظلماتی اعتراضات کہ ایک غبی اور مُردہ دل کے منہ سے نکلتے ہیں، ساتھ ہی ایسے معدوم ہوجاتے ہیںکہ گویا کبھی ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے.محجوب لوگ جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیںکرسکتے ویسے ہی اس کے خالص بندوں کی شناخت کرنے سے قاصر ہیںاور ایسوں کو اپنے ایمان اور اپنی معرفت کو پورا کرنے کی پرواہ بھی نہیںہوتی.وہ کبھی آنکھ اٹھا کرنہیں دیکھتے کہ ہم دنیا میںکیوںآئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے جس کو ہمیںحاصل کرنا چاہئے.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر مذہب کے پابند رہتے ہیں اور صرف رسمی جوش سے قوم کے حامی یا مذہب کے ریفارمر بن بیٹھے ہیں.وہ کبھی اس طرف خیال بھی نہیںکرتے کہ سچا یقین حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے اور کبھی اپنی حالت کو نہیں ٹٹولتے کہ وہ کیسی سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور تعجب یہ ہے کہ وہ آپ تو حق کے بھوکے اور پیاسے نہیں ہوتے.بایں ہمہ یہ مرض ایسی طبیعت ثانی کا حکم ان میںپیدا کر لیتی ہے کہ وہ اس مرض کو صحت سمجھتے ہیں اور ایسا اس کی تائید میںزور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہوتو برگزیدوں کو بھی اپنی اس حالت کی طرف کھنیچ لائیں.سو ایسوں کے اعتراضات کچھ چیز نہیںہوتے.ہمارے نزدیک اگر وہ مسلمان بھی کہلاویں بلکہ مولوی اور عالم کے نام سے بھی موسوم کئے جائیں تب بھی ان کاایمان ایک ایسی حقیر چیز ہے جس سے ہر ایک طالب عالی ہمت بالطبع متنفر ہو گا.ہم ایسے لوگوں سے جھگڑنانہیں چاہتے اور ان کا اور اپنا تصفیہ فیصلہ کے دن پر چھوڑتے ہیں

Page 84

اور  ۱؎ کہہ کر ان کو رخصت کرتے ہیں.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ سچا رجوع اور سچا یقین بجز سچی معرفت کے، کہ جو آسمان سے نازل ہوتی ہے، بالکل غیر ممکن ہے اور یہ کام مجرد عقلی دلائل سے ہرگز نہیں ہوسکے گا.وہ اتم اور اکمل مرتبہ معرفت جو مدارِ نجات ہے فقط عقلی دلائل سے ہر گز نہیں ہوسکتا بلکہ فقط عقلی طور پر اپنے خصم کو ساکت کرنا ایک ناقص اور ناتمام فتح ہے.ہمیشہ حقیقی فائدہ خلق اللہ کے ایمان کو اکابر کی برکات روحانیہ سے ہوتا رہا ہے.اور اگر کبھی ان کی کوئی پیشگوئی کسی کے ٹھوکر کھا نے کا موجب ہوئی بھی، تو دراصل خود اسی کا قصور تھا جس نے بوجہ قلت معرفت عادات الٰہیہ ٹھوکر کھائی.یہ بات ہر ایک وسیع المعلومات شخص پر ظاہر ہے کہ اپنے مکاشفات کے متعلق اکثر نبیوں سے بھی اجتہادی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان کے شاگردوں سے بھی.جیسا کہ حضرت ابوبکر نے بضع کے لفظ کو جو آیت  ۲؎ میں داخل ہے.تین برس میں محدود سمجھ لیا تھا اور یہ غلطی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو متنبہ کیا اور اسرائیلی نبیوں کی اجتہادی غلطیاں ۳؎ تو خود ظاہر ہیں جن سے عیسائی بھی انکار نہیں کر سکتے.پس کیا بمجرد ظہور کسی اجتہادی غلطی کے ان پاک نبیوں کے وفادار اور روشن ضمیر پیرو انہیں یہ صلاح دے سکتے تھے کہ آپ اپنے وعظ اور پند کو صرف عقلی طریق تک محدود رکھیں اور دعوٰے نبوت اور پیشگوئیوں کے بیان کرنے سے دستکش ہو جائیںکہ یہ حق کے طالبوں کیلئے فائد ہ مند چیز ۱؎ الکافرون: ۷ ۲؎ الروم: ۴،۵ ۳؎ بنی اسرائیل کے چارسَو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی، اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی، دیکھو سلاطین اوّل باب ۲۲ آیت ۱۹.مگر اس عاجز کی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں، الہام نے پیش از وقوع لڑکا پیدا ہونا ظاہر کیا کہ جو انسان کے اختیار سے باہر تھا.سو لڑکا پیدا ہو گیا اور الہام نے اس لڑکے کی ذاتی فضیلتیں تو بیان کیں مگر کہیں نہیں بتلایا کہ وہ ضرور بڑی عمر پائے گا بلکہ یہ بھی بتلایا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت ہونگے.دیکھو اشتہار ۲۰فروری ۱۸۸۶ء.ہاں الہام نے پیش از وفات بشیر یہ بھی کھول دیا کہ ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود ہے.دیکھو اشتہار ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ء.سو اگر ابتداء میں دو لڑکوں کو ایک لڑکا سمجھا گیا تو حقیقت میں یہ کچھ غلطی نہیں کیونکہ اس غلطی کو پہلے لڑکے کی موجودگی میں ہی الہام نے رفع کر دیا.منہ

Page 85

نہیں.ان بزرگوں نے ہر گز ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بمقابل ان روحانی برکات کے کہ جو خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں سے صادر ہوتی ہیں.ایک آدھ اجتہادی غلطی کوئی چیز نہیں.میں قطعاً و یقینا کہتا ہوں اور علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ مجرد عقلی دلائل کا ذخیرہ اس شیریں اوراطمینان بخش معرفت تک نہیں پہنچا سکتا جس سے انسان بکلّی خدا تعالیٰ کی طرف منجذب ہو جاتا ہے.بلکہ اس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے فقط آیات آسمانی و مکالمات ربّانی ذریعہ ہیں.اس ذریعہ کو وہی مجنون الرحمٰن ڈھونڈتا ہے جو اپنے اندر سچی آگ تلاش کی پاتا ہے اور اپنے تئیں رسمی ایمان پر اکتفاکر کے دھوکہ دینا نہیں چاہتا.فقط رسمی ایمان پر خوش ہونا ان لوگوں کا طریق ہے جن کے دل محبت دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور جو کبھی دن کو یا رات کو اور چلتے یا پلنگ پر لیٹے ہوئے اپنے ایمان کی آزمائش نہیں کر سکتے کہ کس قدر اس میں قوت ہے اور زبان کی چالاکی اور شعلہ منطق نے کہاں تک ان کے دلوں کومنور کرکے سیدھی راہ پر لگادیا ہے اور کس درجہ تک جامِ یقین پلاکر محبت مولیٰ بخش دی ہے؟ شاید بعض لوگ میری تقریر مندرجہ بالا کو پڑھ کر جو میں نے صفائی استعداد اور عالی فطرتی پسرِ متوفی کی بابت لکھا ہے اس حیرت میں پڑیں گے کہ جو بچہ صغر سنی میں مر جاوے اس کے علّوِ ا ستعداد کے کیا معنی ہیں؟ سو میں ان کی تسکین کے لئے کہتا ہوں کہ کمال استعداد ی اور پاک جوہر ی کے لئے زیادہ عمر پانا کچھ ضروری نہیں.اور یہ بات عندا لعقل بد یہی ہے کہ بچوں کی استعدادات میں ضرور باہم تفاوت ہوتا ہے.گو بعض ان میں سے مریں یا زندہ رہیں.وہ اندرونی قوتیں اور طاقتیں جو انسان اس مسافر خانہ میں ساتھ لاتا ہے وہ سب بچوں میں کبھی برابر نہیں ہوتیں.ایک بچہ دیوانہ سا اور غبی معلوم ہوتا ہے اور منہ سے رال ٹپکتی ہے اور ایک ہوشیار دکھائی دیتا ہے.بعض بچے جو کسی قدر عمر پاتے ہیں اور مکتب میں پڑھتے ہیں.نہایت ذہین اور فہیم معلوم ہوتے ہیں مگر عمر وفا نہیں کرتی اور صغر سنی میں مر جاتے ہیں.پس تفاوت استعدادات میں کس کو انکار ہوسکتا ہے.اور جس حالت میں صد ہا بچے فہیم اور ذہین اور ہوشیار مرتے نظر آتے ہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ کمالات استعداد یہ کے لئے عمر طبعی تک پہنچنا ایک ضروری امر ہے.سیّد نا ومولانا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابراہیم اپنے لخت جگر کی نسبت بیان کرنا کہ اگر وہ جیتا رہتا تو صدیق یا نبی ہوتا، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے.سو اسی طرح خدائے عزوجل نے مجھ پر کھول دیاہے کہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے کمالات استعداد یہ میں اعلیٰ درجہ

Page 86

کا تھا اور اس کے استعدادی کمالات دوسرے عالم میں نشوونما پائیں گے.قصیر العمر ہونا اس کے علوِّجوہر کے لئے مضر نہیں بلکہ اس کا پاک آنا اور پاک جانا اور گناہ سے بکلی معصوم رہنا اس کے شرف پر ایک بدیہی دلیل ہے.اور جیسا کہ الہام نے بتلایا تھا کہ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اور وہ گناہ سے پاک ہے.ایسا ہی وہ مہمان کی طرح چند روز رہ کر پاکی اور معصومیت کی حالت میںاٹھایا گیا اور موت کے وقت بطور خارق عادت اس کاچہرہ چمکا اور اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سو گیا.یہی اس کی موت تھی جو معمولی موتوں سے دُور اور نہایت پاک و صاف تھی.اس جگہ یہ بھی تحریر کے لائق ہے کہ اس کی موت سے پہلے اللہ جل شانہ نے اس عاجز کو پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کرچکا ہے اور اب فوت ہو جائے گا.اسی وجہ سے اس کی موت نے اس عاجز کی قوتِ ایمانی کو بہت ترقی دی اور آگے قدم بڑھایا.اس موت کی تقریب پر بعض مسلمانوں کی نسبت یہ الہام ہوا.اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ.قَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُیُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْتَکُوْنَ مِنَ الْھَا لِکِیْنَ.شَاھَتِ الْوُجُوْہُ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ.اِنَّ الصَّابِرِیْنَ یُوَفّٰی اَجْرُھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ.۱؎ اب خدا تعالیٰ نے ان آیات میں صاف بتلا دیا کہ بشیر کی موت لوگوں کی آزمائش کے لئے ایک ضروری امر تھا.جو کچے تھے وہ مصلح موعود کے ملنے سے ناا مید ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ تو اسی طرح اس یوسف کی باتیں ہی کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب مرگ ہو جائے گا یا مر جائے گا.سو خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ ایسوں سے اپنا منہ پھیرلے جب تک وہ وقت پہنچ جائے.اور بشیر کی موت پر جو ثابت قدم رہے ان کے لئے بے اندازہ اجر کا وعدہ ہوا.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور کوتاہ بینوں کی نظر میں حیرت ناک.کوتہ بین لوگ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ جس حالت میں اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں یہ پیشگوئی شائع کی گئی تھی کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت ہوں گے، تو کیا یہ ضرور نہ تھا کہ وہ پیشگوئی پوری ہوتی.فی الحقیقت بشیر کی خورد سالی کی موت نے ایک پیشگوئی کو پورا کیا جو اس کی موت سے تین سال پہلے کی گئی تھی.سو دانا کے لئے زیادہ معرفت کا محل ہے نہ انکار اور حیرت کا.

Page 87

اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے پسر متوفی کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے.ان میں سے ایک بشیر اور ایک عنموائیل اور ایک خدا با ماست ورحمت حق اور ایک ید اللّٰہ بجلال وجمال ہے اورا س کی تعریف میں ایک یہ الہام ہوا.جَآئَ کَ النُّوْرُ وَھُوَ اَفْضَلُ مِنْکَ ۱؎ یعنی کمالات استعدادیہ میں وہ تجھ سے افضل ہے اور چونکہ اس پسر متوفی کو اس آنے والے فرزند سے تعلقات شدید تھے اور اس کے وجود کے لئے یہ بطور ارہاص تھا.اس لئے الہامی عبارت میں جو ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں درج تھی.ان دونوں کے ذکر کو ایسا مخلوط کیا گیا کہ گویا ایک ہی ذکر ہے.ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیر رکھا ہے.چنانچہ فرمایا کہ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا.یہ وہی بشیر ہے جس کا دوسر انام محمود ہے جس کی نسبت فرمایا.وہ اولو العزم ہوگا اور حسن اور احسان میں تیر انظیر ہوگا.یَخْلُقُ مَایَشَآئُ یہی حقیقت حال ہے جو میں نے آپ کے لئے لکھی.۲؎ الراقم ۴ دسمبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان ضلع گورداسپور ٭ مُلک پنجاب.۲۹ ربیع الاوّل ۱۳۰۶ھ نوٹ: اس خط کی نقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ اور کپور تھلہ کے بعض احباب اور بعض اخص صحابہ کو بھجوائی تھیں.اور محترم عرفانی صاحب نے خط مکتوبات جلد پنجم حصہ پنجم میں شامل فرمایا تھا.(ناشر)

Page 88

مکتوب نمبر۴۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا.جو کچھ پرچہ تکمیل تبلیغ میں تاریخ لکھی گئی ہے وہ فقط انتظامی امر ہے تا ایسی تقریب میں اگر ممکن ہو تو بعض اخوان مومنین کا بعض سے تعارف ہو جاوے کوئی ضروری امر نہیں ہے.آپ کے لئے اجازت ہے کہ جب فرصت ہو اور کسی طرح کا ہرج نہ ہو تو اس رسم کے پورا کرنے کیلئے تشریف لے آویں بلکہ تقریب شادی پر جو آپ تشریف لاویں گے وہ نہایت عمدہ موقع ہے اور شرائط پر پابند ہونا باعتبار استطاعت ہے.۱؎.میرے دوسرے خط کے جواب سے جلد مطلع فرماویں تا لدھیانہ میں اطلاع دی جاوے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ بماہ مارچ کشمیرکی طرف روانہ ہوں.پس اگر یہی ضرورت ہو تو بماہ فروری کاروبار شادی بخیرو عافیت اہتمام پذیر ہونا چاہئے.منشی عبدالحق صاحب و بابو الٰہی بخش صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے.منشی عبدالحق صاحب نے تقریر کی تھی کہ ردّ تکذیب کو عام پسند بنانے کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ دیباچہ کتاب میں کھول کر لکھا جائے کہ ہمارا ایمان تو خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر ایسا قوی اور وسیع ہے کہ جس طرح اہل سنت و الجماعت تسلیم کرتے ہیں مگر بعض نادر طور کے جواب صرف مخاطبین کی تنگ دلی اور قلت معرفت کے لحاظ سے ان کے مذاق کے موافق لکھے گئے ہیں تا انہیں معلوم ہو کہ قرآن شریف پر اعتراض کرنے سے کسی معقولی اور منقولی کو مجال نہیں.اس عاجز کی دانست میں بھی ایسا لکھنا نہایت ضروری ہے تا عوام الناس فتنہ سے بچ جائیں.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۲۰؍ فروری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 89

مکتوب نمبر۵۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر بہت خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کی نئی بیوی میں اتحاد اور محبت زیادہ سے زیادہ کرے اور اولاد صالح بخشے.آمین ثم آمین اگر پرانے گھر والوں نے کچھ نامناسب الفاظ منہ سے نکالے ہیں تو آپ صبر کریں.پہلی بیویاں ایسے معاملات میں بباعث ضعف فطرت بدظنی کو انتہا تک پہنچا کر اپنی زندگی اور راحت کا خاتمہ کر لیتی ہیں.واحدہ لاشریک ہونا خدا کی تعریف ہے.مگر عورتیں بھی شریک ہرگز پسند نہیں کرتی ہیں.ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میرے ہمسایہ میں ایک شخص اپنی بیوی سے بہت کچھ سختی کیا کرتا تھا اور ایک مرتبہ اس نے دوسری بیوی کرنے کا ارادہ کیا تب اس بیوی کو نہایت رنج پہنچا اور اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں نے تیرے سارے دکھ سہے مگر یہ دکھ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا کہ تو میرا خاوند ہو کر اب دوسری کو میرے ساتھ شریک کرے.وہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس کلمہ نے میرے دل پر نہایت دردناک اثر پہنچایا.میں نے چاہا کہ اس کلمہ کے مشابہ قرآن شریف میں پاؤں، سو یہ آیت مجھے ملی. ۱؎ یہ مسئلہ بظاہر بڑانازک ہے، دیکھا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کی غیرت نہیں چاہتی کہ اس کی عورت اس میں اور اس کے غیر میں شریک ہو.اسی طرح عورت کی غیرت بھی نہیں چاہتی کہ اس کا مرد اس میں اور اس کے غیر میں بٹ جاوے.مگر میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں نقص نہیں ہے اور نہ وہ خواص فطرت کے برخلاف ہے.اس میںپوری تحقیق یہی ہے کہ مرد کی غیرت ایک حقیقی و کامل غیرت ہے جس کا انفکاک واقعی لاعلاج ہے.مگر عورت کی غیرت کامل نہیں بالکل مشتبہ اور زوال پذیر ہے.اس میں وہ نکتہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا نہایت معرفت بخش نکتہ ہے کیونکہ جب حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست نکاح

Page 90

پر عذر کیا کہ آپ کی بہت بیویاں ہیں اور آئندہ بھی خیال ہے اور میں ایک عورت غیرت مند ہوں جو دوسری بیوی کو دیکھ نہیں سکتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیرے لئے دعا کروں گا کہ تا خدا تعالیٰ تیری یہ غیرت دور کر دے اور صبر بخشے.سو آپ بھی دعا میں مشغول رہیں.نئی بیوی کی دلجوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے.مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اوّل درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں اور اللہ جلّشانہٗ سے چاہیں کہ اپنے فضل و کرم سے ان سے آپ کی صافی محبت و تعشق پیدا کر دے کہ یہ سب امور اللہ جلّشانہٗ کے اختیار میں ہیں.اب اس کے نکاح سے گویا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے اور چونکہ انسان ہمیشہ کے لئے دنیا میں نہیں آیا.اس لئے نسلی برکتوں کے ظہور کے لئے اب اسی پیوند پر امیدیں ہیں.خدا تعالیٰ آپ کے لئے یہ بہت مبارک کرے.میں نے اس محلہ میں خاص صاحب اسرار و واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ، عفیفہ و جامع فضائل محمودہ ہے.اس کی تربیت تعلیم کے لئے بھی توجہ رکھیں اور آپ پڑھایا کریں کہ اس کی استعدادیں نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جلّشانہٗ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ یہ جوڑ بہم پہنچایا.ورنہ اس قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے.خط سے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ ۲۰؍مارچ ۱۸۸۹ء تک رخصت ملے گی یا نہیں.اگر بجائے بیس کے بائیس مارچ کو آپ تشریف لاویں یعنی یوم یکشنبہ میں اس جگہ ٹھہریں تو بابو محمد صاحب بھی آپ سے ملاقات کریں گے.یہ عاجز ارادہ رکھتا ہے کہ ۱۵؍ مارچ ۱۸۸۹ء کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے اور ۱۹؍ مارچ ۱۸۸۹ء یا ۲۰؍ مارچ کو بہرحال انشاء اللہ واپس آ جاؤں گا.والسلام.صاحبزادہ افتخار احمد اور ان کے سب متعلقین بخیر و عافیت ہیں.کل سات روپیہ اور کچھ پارچہ میرے لئے دیئے تھے جو ان کے اصرار سے لئے گئے.٭ خاکسار غلام احمد نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں.مگرمضمون خط سے مارچ ۱۸۸۹ء کے پہلے ہفتہ کا معلوم ہوتا ہے.(عرفانی)

Page 91

مکتوب نمبر۵۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.موجب خوشی و خرمی ہوا.خدا تعالیٰ آپ کو بہت جلد لاوے اور خیر و عافیت سے پہنچا دے.آمین ثم آمین.اس عاجز کے گھر کے لوگوں کی طرف سے یہ درخواست بصد آرزو ہے کہ جس وقت آپ کے گھر کے لوگ لودہیانہ سے آپ کے ساتھ آویں تو دو تین روز تک اس جگہ قادیان میں ان کے پاس ٹھہر کر جاویں.اس عاجز کی دانست میںکچھ مضائقہ نہیں بلکہ انشاء اللہ موجب خیرو بہتری ہے.صاحبزادہ افتخار احمد صاحب اور ان کے تمام اَعزہ و متعلقین کے دل پر تقلید حنفی کا بڑا رعب طاری ہے اور مدت دراز کی عادت جو طبیعت ثانی کا حکم پیدا کر لیتی ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تدریجاً دور ہو سکتی ہے.یکدفعہ تبدیلی گویا انقلاب ماہیت میں داخل ہے.اس موقعہ میں تمام تر حکمت، عملی حلم و رفق و درگذر و زیادت محبت و مودّت و غائبانہ دعا میں ہے.فَقُلْ لَّہٗ قَوْلاً لَّـیِّنًا لَّـعَلَّہٗ یَتَذَکَرُ اَوْ یَخْشٰی.میرے نزدیک یہ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ اوّل آپ جموں میں پہنچنے کے بعد براہِ راست لدھیانہ میں تشریف لے جائیں.پھر اپنے گھر کے لوگوں کو ساتھ لے کر دو تین روز کے لئے قادیان میں ٹھہر جائیں.میرے گھر کے لوگوں کے خیالات موحدین کے ہیں.اوّل تو خیالات میں خشک موحدین کی طرح حد سے زیادہ غلو تھا مگر اب میں نے کوشش کی ہے کہ اس ناجائز غلو کو کچھ گھٹا دیا جائے.چنانچہ میرے خیال میں وہ کسی قدر گھٹ بھی گیا ہے.میرے گھر کے لوگوں نے ذکر کیا تھا کہ انہوں نے یعنی آپ کے گھر کے لوگوں نے لودھیانہ میں کسی تقریب سے یہ ذکر کیا تھا کہ اب تک تو مولوی صاحب کا حنفیوں کا طریق معلوم ہوتا ہے.مگر میں ڈرتی ہوں کہ کہیں وہابی نہ ہوں اور اب تک تو میں نے وہابیوں کی بات ان میں کوئی دیکھی نہیں.انہوں نے اس کے جواب میں مناسب نہ سمجھا کہ اپنی کچھ رائے ظاہر کریں… چونکہ

Page 92

عورتوں کی باتیں عورتوں کے دلوں پربڑا اثر ڈالتی ہیں اس لئے آپ کے گھر کے لوگوں کی بشیر کی والدہ سے ملاقات منتج حسنات ہوسکتی ہے.واللّٰہ اعلم و علمہ احکم.والسلام ۶؍ جون ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۵۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.موجب تسلّی ہوا.چند روز سے آنمکرم کی بہت انتظار تھی اور تشویش تھی کہ کیا باعث ہوا.اب معلوم نہیں کہ آپ کو کب فراغت ہوگی.آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے.خدا تعالیٰ بخیروعافیت آپ کو جلد ملاوے.انجمن حمایت اسلام کی طرف سے تین سوال جو کسی عیسائی نے کئے تھے.اس عاجز کے پاس بھی آئے.اس غرض سے تا ان کا جواب لکھا جاوے.شاید جو آپ کی خدمت میں بھیجے تھے وہی سوال ہیں یا اور ہیں.ہر چند مجھے فرصت نہ تھی اور طبیعت بھی اچھی نہ تھی.مگر پھر بھی کسی قدر فرصت نکال کر دو سوال کا جواب میں نے لکھ دیا تھا اور زیادہ تر رجوع طبیعت کا اس وجہ سے بھی نہیں ہوتا کہ یہ انجمن اپنی مرضی پر چلتی ہے جو اپنے پسند ہو.وہ کام کر لیتے ہیں.نہیں تو نہیں.پہلے اشتہار بیعت شائع کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا انہوں نے چھاپا نہیں.اب میرا ارادہ نہیں تھا کہ ان سوالات کا جواب لکھ کر انجمن کو بھیجوں.یہ نامہ نگاروں کا کام ہے کہ اپنا وقت ضائع کر کے پھر چھپنا نہ چھپنا مضمون کا دوسرے کی مرضی پر چھوڑ دیں.جب مضمون ردّی کی طرح پھینکا گیا تو اپنا وقت گو ایک گھنٹہ ہی ہو، ضائع گیا.لیکن میں نے محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوش سے دوسوالوں کا جواب لکھ دیا.تیسرے کے لئے ابھی فرصت نہیں مگر مجھے امید نہیں کہ وہ چھاپیں کیونکہ خود پسندی اس انجمن کی عادت ہے.مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انہیں سوالات شکؔ

Page 93

وغیرہ کا جواب لکھا ہے یا وہ اور سوال تھے.والسلام ۲۹؍ جون ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۵۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.بلاشبہ کلام الٰہی سے محبت رکھنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیّبات سے عشق پیدا ہونا ، اہل اللہ کے ساتھ حب صافی کا تعلق حاصل ہونا یہ ایک ایسی بزرگ نعمت ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص اور مخلص بندوں سے ملتی ہے اور دراصل بڑی بڑی ترقیات کی یہی بنیاد ہے.اور یہی ایک تخم ہے جس سے بڑا ایک درخت یقین اور معرفت اور قوتِ ایمانی کا پیدا ہوتا ہے اور محبت ذاتیہ اللہ جلّشانہٗ کا پھل اس کو لگتا ہے.فالحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ.کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت جو رأس الخیرات ہے، عطا فرمائی ہے پھر بعد اس کے جو کسل اور قصور بجا آوری اعمالِ حسنہ میں ہووہ بھی انشاء اللہ القدیر ان حسناتِ عظیمہ کے جذبہ سے دور ہو جائے گا. ۱؎ آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے.جیسے آپ کے اخلاص نے بطور خارق عادت اس زمانہ کے ترقی کی ہے.ویسا ہی یہ جوش حب لِلّٰہِ کا آپ کے لئے اور آپ کے ساتھ بڑھتا گیا اور چونکہ خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اس درجہ اخلاص میں آپ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی شریک ہو.اس لئے اکثر لوگوں کے دلوں پر جو دعویٰ تعلق رکھتے ہیں خدا تعالیٰ نے فیض وارد کئے اور آپ کے دل کو کھول دیا.ھذا فضل اللّٰہ و نعمتہ یعطی من یشاء و یھدی من یشاء ویضل من یشاء.حامد علی سخت بیمار ہوگیا تھا.خدا تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندگی بخشی ہے.جس وقت آپ تشریف لاویں اگر

Page 94

حکیم فضل دین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب بھی ساتھ تشریف لے آویں تو بہت خوب ہوگا.آں مخدوم اپنی طرف سے ان دونوں صاحبوں کو اطلاع دیں کیونکہ گاہ گاہ ملاقات کا ہونا ضروری ہے.زندگی بے اعتبار ہے.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۹؍ جولائی ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 95

مکتوب نمبر۵۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی احبّ الاخوان ای مولوی حکیم نورالدین صاحب، کان اللہ معکم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آنمکرم کی طرف سے دیر کر کے پرسوں تار پہنچی.خط کوئی نہیں پہنچا.یہ عاجز ایک روز سخت بیمار ہو گیا.مگر اللہ جلشانہٗ کے فضل و رحم سے اب مجھے صحت ہے.مجھے اپنی ذاتی ضرورت کیلئے ایک سَو روپیہ کی حاجت ہے.اگر حرج نہ ہو اور بآسانی میسر آ سکے تو ارسال فرما ویں.مولوی خدا بخش صاحب کے خط آتے ہیں کہ قرضہ کے طور پر ہی کچھ مل جاوے.معلوم نہیں آپ کی ملاقات کب تک ہو سکتی ہے.اکثر لوگوں کو پراگندہ اور سرد مہر دیکھتا ہوں.ایک آپ ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے ذوق محبت بخشا ہے.فالحمدللّٰہ علی ذالک میں نے پہلے آپ سے نو سَو روپیہ لیا تھا.اب اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ ہو جائے گا.چار سَو روپیہ آپ سے پھر دوسرے وقت میں انشاء اللہ القدیر لوں گا.دوستوں اور مخلصوں کو تکلیف دینا میرا کام نہیں.بالخصوص آپ جیسے دوست مخلص یک رنگ کو.سو جیسا کہ مسنون ہے.یہ ہزار روپیہ اور جو باقی لوں بطور قرضہ کے ہے اور یقین رکھتا ہوں کہ بہت آسانی سے ادا ہو جائے گا.۱؎ کی رو سے آنمکرم کو ثواب حاصل ہوگا.دماغ اس عاجز کا بباعث سخت بیماری بہت کمزور ہو گیا ہے.شاید بیس روز تک قوت ہو.اس لئے ابھی کسی محنت کے لائق نہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۰؍ نومبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 96

مکتوب نمبر۵۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل عنایت نامہ پہنچا.مبلغ سَو روپیہ پہلے اس سے پہنچ گیا تھا.جزاکم اللہ خیراً.اس عاجز کا دماغ نہایت ضعیف ہو گیا ہے.کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا.ایک خط کا لکھنا مشکل ہے.اللہ جلّشانہٗ غیب سے قوت عطا فرماوے.مولوی محمد حسین بہت دور جا پڑے ہیں.جو شخص اس دنیا سے دل نہ لگاوے اور اپنی حالت پر نظر کرے اور اپنے قصوروں کا تدارک چاہے خدا تعالیٰ اس کو بصیرت بخش دیتا ہے.ورنہ ۱؎ کا مصداق ہو جاتا ہے.مولوی محمد حسین ایک مقام اور ایک رائے پر ٹھہر گئے ہیں اور وہ مقام اور وہ رائے انہیں پسند آ گیا ہے.لیکن میں سچ کہتا ہوں اگر اُسی پر ان کی موت ہو تو انہیں اس طبقہ میں جاناپڑے گا جس میں محجوبین جایا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ صدق اور صادقین کی طلب ان میں پیدا کرے اور زنگ موجودہ سے انہیں نجات دے.ورنہ ان کی خطرناک حالت ہے.منقولی طور پر معلومات کی وسعت یا معقولی طور پر کچھ قیل و قال کا مادہ ایک ملحد میں بھی پیدا ہو سکتا ہے، جائے فخر نہیں.اور نہ اس سے وہ قدوس خوش ہو سکتا ہے جس کی دلوں پر نظر ہے.سچائی اور راستبازی اور انقطاع الی اللہ میں انسان کی نجات ہے.ورنہ علم بھی ہو تو کیا فائدہ؟ چارپائے بُرَد کتابے چند.محمدحسین کی حالت نہایت نازک ہے اور انہیں اس کی خبر نہیں.٭والسلام علی من اتبع الہدٰی.خاکسار غلام احمد ۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء از قادیان

Page 97

مکتوب نمبر۵۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنائت نامہ پہنچا.موجب ممنونی ہوا.نہایت خوشی کی بات ہے اگر اخویم مکرم عبدالواحد صاحب معہ سب عزیزوں کے تشریف لاویں.اگر دو تین روز پہلے اطلاع دی جاوے تو کوئی آدمی واقف بٹالہ کے سٹیشن پر بھیج دیا جائے.میرے گھر کے لوگ تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آپ ضرور صغریٰ کو ساتھ بھیج دیں.اس صورت میں ان کے لئے تبدیلی آب و ہوا بھی ہو جائے گی.انہوں نے بہت مرتبہ کہا ہے اور تاکید سے کہا ہے.اس لئے تکلیف دیتا ہوں.اگر مناسب سمجھیں تو منظور محمد کو ساتھ بھیج دیں.اس تقریب سے وہ بھی ساتھ آ جائے گی اور جو دوا آپ نے ان کیلئے ارسال فرمائی ہے.اس کے کھانے کی ترکیب کوئی نہیں لکھی.مفصل اطلاع بخشیں.اور یہ دوا کشتہ کی قسم ہے یا کوئی اور دوا ہے.اور ان ایام میں اس کو کھا سکتے ہیں یا نہیں.قبض از حد ہے کوئی قابض یا حار دوا موافق نہیں ہوتی.نرم اور معقول درجہ کی دوا جو قابض نہ ہو، موافق آتی ہے.اخویم مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت کا بہت خیال ہے اب کی دفعہ آپ نے ان کی نسبت کچھ نہیں لکھا.خدا تعالیٰ ان کو شفا بخشے.اگر جموں میں ہوں تو میری طرف سے السلام علیکم.دعا کی جاتی ہے خدا تعالیٰ قبول فرماوے.خاکسار غلام احمد نوٹ: اس خط پر تاریخ موجود نہیں.مگر مولوی غلام علی صاحب کی علالت کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط ۱۸۸۹ء کا ہے.(عرفانی)

Page 98

مکتوب نمبر۵۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میر عباس علی نہایت اخلاص مند آدمی ہیں.آپ براہِ مہربانی توجہ کر کے کشتہ مرجان، موتی یا جو کچھ مناسب ہو ان کی مرض نفث الدم کے لئے ضرور ارسال فرما دیں اور میں آج لکھتا ہوں کہ تا وہ تبدیلی ہوا کی غرض سے ہفتہ عشرہ تک میرے پاس آ جائیں.میری طبیعت آپ کے بعد پھر بیمار ہوگئی.ابھی ریزش کا نہایت زور ہے.دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے.آپ کے دوست ٹھاکر رام کے لئے ایک دن بھی توجہ کرنے کیلئے مجھے نہیںملا.صحت کا منتظر ہوں.اگر وہ اخلاص مند ہے تو اس کے اخلاص کی برکت سے وقت صفا مل جائے گا اور صحت بھی.میرے دماغ کے لئے اگر کچھ آپ کے خیال میں احسن تدبیر آوے تو ارقام فرماویں.سب کام پڑے ہوئے ہیں..۱؎ والسلام یکم جنوری ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 99

مکتوب نمبر۵۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت مولوی نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.طبیعت اس عاجز کی بفضلہ تعالیٰ اب کسی قدر صحت پر ہے.گھر میں بھی طبیعت اصلاح پر آ گئی ہے.محمود کو بخار آتا ہے.میرا ارادہ تھا کہ اسی حالت میں آپ کے دوست کیلئے چند روزبجدّوجہد جیسا کہ شرط ہے، توجہ کروں مگر افسوس کہ بباعث آمد قاضی غلام مرتضیٰ کے میں مجبور ہو گیا.وہ برابر دس روز تک اس جگہ رہیں گے.چونکہ بہت حرج اُٹھا کر آئے ہیں اور دور سے خرچ کثیر کر کے آئے ہیں اس لئے بالکل نامناسب ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ ہو.پھر ان کے ساتھ ہی سیّد امیر علی شاہ صاحب لاہور سے آنے والے ہیں وہ برابر پندرہ روز تک رہیں گے.ان کے جانے کے بعد انشاء اللہ القدیر، توجہ کامل کروں گا.صرف ایک اندیشہ ہے کہ لدھیانہ میں ایک شخص نے محض نادانی سے ایک خون کے مقدمہ میں میری شہادت لکھا دی ہے کہ جو کمیشن کے سامنے ادا کی جائے گی.شاید دو چار روز اس جگہ بھی لگ جاویں.آپ کے دوست نے اگر بے صبری نہ کی جیسی کہ آج کل لوگوں کی عادت ہے تو محض للہ ان کے لئے توجہ کروں گا.مشکل یہ ہے کہ انسان دنیا میں منعم ہو کر بہت نازک مزاج ہو جاتا ہے.پھر ادنیٰ ادنیٰ انتظار میں نازک مزاجی دکھاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر احسان رکھنے لگتا ہے اور حسن ظن سے انتظار کرنے والے نیک حالت میں ہیں وَقَلِیْلٌ مِّنْھُمْ.اس خط سے میری اصل غرض یہ ہے کہ میر عباس علی صاحب بیس دن سے آنمکرم کی دوا کی انتظار کر رہے ہیں.کل سے بخار آتا ہے.نہایت شکستہ خاطر ہیں.کل رقعہ لکھ کر مجھے دیا تھا کہ دوا تو آتی نہیں، مجھے اجازت دیجئے تا میں لودہانہ میں چلا جاؤں.مگر پھرمیں نے دو چار دن کیلئے ٹھہرا لیا ہے.آپ براہِ مہربانی ضرور بمجرد پہنچنے اس خط کے کوئی عمدہ دوا نفث الدم کی ارسال فرماویں اور اس شخص پر میرے عذرات معقولی طور پر منکشف کر دیں.والسلام ۲۵؍ جنوری ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد

Page 100

مکتوب نمبر۵۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کے گھر کے آدمیوںکو شفاء کُلّی عنایت فرماوے.بہت تردّد و تفکر پیدا ہوا..۱؎ مولوی غلام علی صاحب کی نسبت بھی دل غم اور تردّد سے بھرا ہوا ہے.سب کے لئے دعا کرتا ہوں.میں نے سنا ہے کہ انگلستان میں ایک انگریز ڈاکٹر نے مسلولوں کے لئے اشتہار دیا ہے اور کوئی نسخہ جو اس مرض کیلئے مفید ہو تجربہ میں آ گیا ہے.معلوم نہیں کہ یہ خبر کہاں تک صحیح ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے پختہ ارادہ مخالفانہ تحریر کا کر لیا ہے اور اس عاجز کے ہونے کی نسبت زبانی طور پر اشاعت کر رہے ہیں.مرزا خدا بخش صاحب جو محمد علی خان صاحب کے ساتھ آئے ہیں، ذکر کرتے ہیں کہ میں نے بھی ان کی زبانی کا لفظ سنا ہے.کل بمشورہ مرزا خدا بخش و محمد علی خان صاحب ان کی طرف خط لکھا گیا ہے کہ پہلے ملاقات کرکے اپنے شکوک پیش کرو.معلوم نہیں کیا جواب لکھیں.میں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اگر آپ نہ آسکیں تو میں خود آ سکتا ہوں.مگر ان کے اس فقرہ سے سب کو تعجب آیا کہ میں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اُترنا ثابت کر دوںگا.غرض ان کی طبیعت عجیب جوش میں ہے اور ایک قسم کا ابتلاء ہے جو انہیں پیش آ گیا ہے.غزنوی صاحبوں کا جوش اس قدر ہے کہ ناگفتہ بہ.ایک صاحب محی الدین نام لکھوکے میں ہیں، انہوں نے اس بارے میں اپنے الہامات لکھے ہیں اور ۲؎ کا نمونہ دکھایا ہے.درحقیقت ان الہامیوں نے اپنی پردہ دری کی ہے اور ان کی یعنی محی الدین اور عبدالحق کے الہامات کا یہی خلاصہ ہے کہ یہ شخص ہے، جہنمی ہے اور میں نے سنا ہے کہ ان لوگوں نے کچھ دبی زبان سے کافر کہنا شروع کر دیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ایک بڑے امر کو ظاہر کرنا چاہتا ہے.ایک شخص محمد علی نام شاید گوجرانوالہ کا رہنے والا ہے.مولوی تو

Page 101

نہیں مگر خوش الحان واعظ ہے.اس نے سنا ہے کہ بٹالہ میں بڑی بدزبانی شروع کی ہے.مولوی محمد حسین بدزبانی نہیں کرتے مگر کہے جاتے ہیں اور تعجب یہ کہ بعض لوگ کافر کہتے ہیں.وہ اپنے خط میں السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ بھی لکھ دیتے ہیں حالانکہ کفار کو ایسے لفظ لکھنے نہیں چاہئے.سنا گیا ہے کہ مولوی محمود علی شاہ صاحب جو محمد علی کی طرح واعظ ہیں.لودہانہ میں پانچ سال کی قید ہوگئے ہیں.یہ عاجز ہفتہ عشرہ تک لودہانہ میں جانے والا ہے.والسلام ۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد نوٹ: اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دعویٰ کی ابتدا میں مخالفت کی آگ کس طرح پھیلنی شروع ہوئی ہے اور حضرت کو اتمام حجت کا کس قدر جوش اور خیال تھا کہ خود مولوی محمد حسین صاحب کے گھر جانے کو تیار تھے اور اس کے شکوک اور اعتراضات کے رفع کرنے کیلئے آمادہ.غزنویوں، لکھوکے والوں کی مخالفت نے آپ کو کسی تعجب میں نہیں ڈالا بلکہ آپ نے اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی امر عظیم کا پیش خیمہ سمجھا ہے اور یہی یقین آپ کو تھا.چنانچہ اس کے بعد تائیداتِ سماوی اور ربّانی نصرت کے جو نظارے نظر آتے ہیں وہ ایک مومن کے ایمان کو بڑھانے والے ہیں اور حضرت حجۃ اللہ کی صداقت پر آسمانی اور ربّانی شہادت ہیں.ان الہامیوں کی ناکامی اور ان کے شیطانی وساوس کو خدا تعالیٰ نے پاش پاش کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جواشاعت اسلام اور عزت حضرت خیرالانام کیلئے اپنے دل میں جاںنثاری کا جوش رکھتی ہے.ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.(عرفانی)

Page 102

مکتوب نمبر۶۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جس بیمار کے لئے آنمکرم کو تکلیف دینی چاہی تھی وہ بقضائے الٰہی کل ۱۲؍ ربیع الاوّل روز دوشنبہ کو گزر گئیں.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.میر عباس علی صاحب جو ایک پُرانے مخلص ہیں.نہایت التجا اور تاکید سے لکھتے ہیں کہ میرا لڑکا مڈل تک پڑھا ہوا ہے.انگریزی میں گزارہ کے موافق تحریر کر سکتا ہے.حساب وغیرہ جانتا ہے.منشی محمد سراج الدین صاحب جو افسر ڈاکخانہ جات ریاست جموں ہیں، آپ کی سفارش سے توجہ فرما کر اس کو اپنے سلسلہ میں کہیں نوکر رکھ لیں.اس لئے آپ کی خدمت میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ خاص اپنی طرف سے اور نیز اس عاجز کی طرف سے سفارش تحریر فرما ویں.اور جس وقت وہ بلاویں اس لڑکے کو روانہ کر دیا جاوے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۸؍ اکتوبر ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۶۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مولوی خدا بخش حامل ہذا جو مجھ سے تعلق بیعت رکھتے ہیں.بہت نیک سرشت اور صاف باطن اور محب صادق ہیں.مجھے ان کی تکالیف معلوم ہوگئی ہیں وہ شاید تیس آدمیوں سے زیادہ کے قرضدار ہیں اور نہایت تلخی میں ان کا زمانہ گزرتا ہے.وطن میں جانا ان کا ترک ہو گیا ہے اور میں نے دریافت کیا ہے کہ یہ سب تکالیف محض دینی ہمدردی کی وجہ سے جس میں آج تک وہ مشغول ہیں ان کو

Page 103

پہنچ رہی ہیں اور کوئی ان کے حال کا پرساں نہیں.لہٰذا آں مخدوم کو محض اس وجہ سے کہ آپ ہمدرد خلائق ہیں اور لِلّٰہی امور میں پورا جوش رکھتے ہیں، تکلیف دیتا ہوں کہ اس بے چارہ بے سروسامان کے لئے کچھ بندوبست فرمائیے.اگر چندہ ہو تو میں بھی اس میں شامل ہونے کو تیار ہوں بلکہ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ کی تحریک اور انتظام سے اور آپ کی پوری اور کامل توجہ سے چندہ کے لئے احسن تدبیر کی جاوے اور میں اسی خط میں اپنے تمام مخلصوں کی خدمت میں محض للہ اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب حتی الوسع اپنے اس چندہ میں شریک ہو.سب کے ایک ایک لقمہ دینے سے ایک کی غذا نکل آئے گی اور کسی کو تکلیف نہ ہوگی.میں نے سنا ہے کہ فری میسن کا گروہ اپنے ہم تعلقوں کے ساتھ قرضہ وغیرہ کے امور میں بہت ہمدردی کرتا ہے.پس کیا مسلمانوں کا یہ پاک گروہ فری میسن کے پُر بدعت اور ملحد گروہ سے ہمدردی میں کم ہونا چاہئے؟ والسلام ۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ: مولوی خدا بخش صاحب جالندھری نہایت مخلص آدمی تھے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہادت ہے.انہوں نے ۱۸۸۹ء میں ہی بیعت کی تھی اور کبھی کوئی ابتلا ان پر نہیں آیا.وہ اشاعت اسلام کے لئے بڑا جوش رکھتے تھے.ہمارے مکرم اور مخلص بھائی سردار مہر سنگھ حال ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے، ان کی ابتدائی تربیت اسلام مولوی صاحب ہی کے ہاتھوں ہوئی ہے.وہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کسی غیر مسلم کو داخل اسلام کریں اور اس کیلئے وہ کسی قسم کی محنت، تکلیف اور خرچ سے کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے.اسی قسم کی دینی خدمات کی وجہ سے وہ زیر بار ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس ہمدردی کا اظہار اور عملی اعانت کا ثبوت اس خط میں دیا ہے وہ ظاہر ہے.مولوی صاحب کا قد میانہ تھا اور رنگ سیاہ تھا.بہت سادہ زندگی تھی.عمر ۶۰ سال کے قریب تھی.(عرفانی)

Page 104

مکتوب نمبر۶۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دس روپے پہنچ گئے ہیں.چونکہ کتاب فتح اسلام کسی قدر بڑھائی گئی ہے اور مطبع امرتسر میں چھپ رہی ہے اس لئے جب تک کل چھپ نہ جائے روانہ نہیں ہو سکتی.امید کہ بیس روز تک چھپ کر آجائے گی.دوسری ضروری طور پر یہ تکلیف دیتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کا لڑکا جو میرے عزیزوں میں سے ہے.جن کی نسبت وہ الہامی پیشگوئی کا قصہ آپ کو معلوم ہے.کچھ عرصہ سے بمرض بحت ؔالصوت مریض ہے.حنجرہ پر کچھ ایسا مادہ پڑا ہے کہ آواز پورے طور پر نہیں نکلتی یعنی آوازبیٹھ گئی ہے.میں نے موافق قاعدہ علاج کیا تھا، اب تک کچھ فائدہ نہیں ہوا.اس کی والدہ کو آپ پر بہت اعتماد ہے اور آپ کے دست شفا پر اسے یقین ہے.اس نے بصد منت و الحاح کہلا بھیجا تھا کہ مولوی صاحب کی طرف لکھو کہ وہ کوئی عمدہ دوائی تیار کر کے بھیج دیں بلکہ پہلے یہ چاہا تھا کہ اس لڑکے کو جس کا نام محمدبیگ ہے، آپ کی خدمت میں بھیج دیں.مگر میں نے مناسب سمجھا کہ بالفعل بذریعہ خط آپ کو تکلیف دی جائے.حلق میں سے پانی بہت آتا ہے.صبح کے وقت ریزش پختہ نکلتی ہے.کھانسی بھی ہے.معلوم ہوتا ہے دماغ سے نوازل گرتے ہیں.آپ ضرور کوئی عمدہ نسخہ ارسال فرماویں.اس بیچارے کے اچھے ہو جانے سے ان کو آپ کا بہت احسان مند ہونا پڑے گا اور پہلے بھی آپ کے بہت معتقد ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے علاج سے لڑکا اچھا ہو جائے گا.آپ خاص طور پر مہربانی فرماویں.والسلام ۲۰؍ دسمبر ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 105

مکتوب نمبر۶۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر بباعث شدت علالت طبع اخویم مولوی غلام علی صاحب بہت تردّد ہوا اور خط کے پڑھنے کے بعد جناب الٰہی میں بہت دعاکی گئی اور پھر رات کو بھی دعا کی گئی اور اسی طرح میں انشاء اللہ القدیر، بہت جدوجہد سے دعا کروں گا.آپ بھی ان کے حق میں دعا کریں اور ان کو مطمئن کریں کہ گو کیسے عوارض شدیدہ ہوں، خدا تعالیٰ کے فضل کی راہیں ہمیشہ کھلی ہیں اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہئے.ہاں اس وقت اضطراب میں توبہ و استغفار کی بہت ضرورت ہے.یہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص کسی بلا کے نزول کے وقت میں کسی ایسے عیب اور گناہ کو توبہ نصوح کے طور پر ترک کر دیتا ہے جس کا ایسی جلدی سے ترک کرنا ہرگز اس کے ارادہ میں نہ تھا تو یہ عمل اس کے لئے ایک کفّارہ عظیم ہو جاتا ہے اور اس کے سینہ کے کھلنے کے ساتھ ہی اس بلا کی تاریکی کھل جاتی ہے اور روشنی امید کی پیدا ہو جاتی ہے.سو مولوی صاحب کو آپ بخوبی سمجھا دیں کہ دلی استغفار سے خدا تعالیٰ سے زیادہ ربط پیدا کر لیں.اور مجھے جس قدر ان کے لئے تردّد اور غم ہے خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور میں انشاء اللہ بہت دعا کروں گا.خدا تعالیٰ ان پر فضل وارد کرے اور جلد تر صحت کامل بخش کر اس خوشخبری کو اس عاجز تک پہنچاوے.ٌ ۱؎ یہ عاجز بباعث دورہ مرض و علالت طبع کل لاہور نہیں جا سکا، بالفعل میاں جان محمد کو بھیج دیا ہے کہ سلطان احمد کو اسی جگہ لے آوے.اس عاجز کی طبیعت سفر کے لائق نہیں.مرض دورانِ سر اور دل کے ڈوبنے کی یکدفعہ طاری حال ہو جاتی ہے.پھر موت نصب العین معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت تو وہ ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی معلوم ہوتی ہے.جو کچھ آں مخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیلِ مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟ درحقیقت اس عاجز کو مثیلِ مسیح بننے کی کچھ حاجت

Page 106

نہیں.یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر لیوے لیکن ہم ابتلا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء ہی رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے. ۱؎ معلوم نہیں کہ آنمکرم نے ابھی تک وہ خطوط جن کا وعدہ آپ نے فرمایا تھا، روانہ کئے ہیں یا نہیں.رسالہ ازالہ اوہام میں یہ بحث اس قدر مبسوط ہے کہ شاید دوسرے کسی رسالہ میں نہ ہو.اگر آپ کی طرف سے کوئی خاص تحریر آپ کی اس وقت پہنچی تو میں مناسب سمجھتا ہوں.اس کو رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دوں.مضمون اگر اُردو عبارت میں ہو تو بہتر ہے تا عام لوگ اس کو پڑھ لیں.آئندہ جیسا کہ آپ مناسب سمجھیں وہی بہتر ہے.والسلام ۲۴؍ جنوری ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ: اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود کے دعویٰ کے متعلق جس امر پر روشنی پڑتی ہے وہ عجیب ہے.آپ کو حضرت حکیم الامت نے دمشقی حدیث الگ رکھ کر مثیلِ مسیح کے دعویٰ کے متعلق لکھا ہے مگر حضرت نے صاف فرمایا کہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بندہ بن جاؤں.اس حصہ کو پڑھو تو کھل جاتا ہے کہ آپ بالطبع پبلک میں آنے سے کَارِہ ہیں اور آپ صرف خدا تعالیٰ کے عشق و محبت میں سرشار ہیں.مگر خدا تعالیٰ آپ کو باہر نکال رہا ہے اور مامور کر کے دعوت پر مجبور کرتا ہے.حضرت اس کے لئے تیار کئے جاتے ہیں.حضرت مولوی صاحب گویا ابتلا سے ڈرتے ہیں گو صاف الفاظ میں اس کا اظہار نہیں مگر حضرت حجۃ اللہ ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے.(عرفانی)

Page 107

مکتوب نمبر۶۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ ہمدست مفتی محمد صادق صاحب پہنچا.آنمکرم کے للّٰہی اخلاص کو دیکھ کر دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھ کو بھی ان حسنات کی توفیق بخشے.بے شک آپ کی ہمت اور آپ کا عہد ایثار ایک رشک دلانے والی چیز ہے.خدا تعالیٰ آپ کو دائمی سرور اور خوشحالی عطا کرے اور بہتوں کو آپ کے نمونہ پر چلاوے.مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت کا مجھے کچھ حال معلوم نہیں.مگر بے اختیار دل ان کی علالت کی وجہ سے غمگین ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ ان کی اس سخت بیماری کا خاتمہ رو بصحت کرے. ۱؎ محمدبیگ کی طبیعت شاید ابھی بدستور ہے.وہ لکھتا ہے کہ مولوی صاحب تو کسی طور سے مجھ سے فرق نہیں کرتے مگر لنگر خانہ میں بعض وقت بھوک کے وقت مجھ کو روٹی نہیں ملتی شاید کثرت آدمیوں کی وجہ سے دیر سے روٹی ملتی ہے.چونکہ وہ لڑکا ہے، ایسی عمر میں اکثر لوگوں کو کھانے پینے میں ہی خیال رہتا ہے اس لئے مکلّف ہوں کہ چند روز کے قیام میں خاص طور پر اس کی خبر رکھیں اور اگر اس کا جموں میں ٹھہرنا چنداں ضروری نہ ہو تو پھر تسلی اور مدارات کے ساتھ دوا دے کر اس کو اس طرف رخصت کر دیں.اس کی نوکری اس حالت میں ہو سکتی ہے کہ حالت صحت اس کام کے لائق ہو.آئندہ آپ جیسا مناسب سمجھیں عمل میں لاویں.میں نے سنا ہے کہ میرے رسالہ کے دیکھنے سے مولوی عبدالجبار بہت براَفروختہ ہوئے.خدا تعالیٰ ان کو حقیقت کی طرف رہبری کرے.زیادہ خیریت.والسلام ۳۱؍ جنوری ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد

Page 108

مکتوب نمبر۶۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا.خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور اپنے دین کے لشکر کا مقدمۃ الجیش بناوے.حالت صحت اس عاجز کی بدستور ہے کبھی غلبہ دورانِ سر اس قد رہو جاتا ہے کہ مرض کی جنبش شدید کا اندیشہ ہوتا ہے اور کبھی یہ دوران کم ہوتا ہے لیکن کوئی وقت دورانِ سر سے خالی نہیں گزرتا.مدت ہوئی نماز تکلیف سے بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے بعض اوقات درمیان میں توڑنی پڑتی ہے.اکثر بیٹھے بیٹھے رینگن ہو جاتی ہے اور زمین پر قدم اچھی طرح نہیں جمتا.قریب چھ سات ماہ یا زیادہ عرصہ گزر گیا ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی اور نہ بیٹھ کر اس وضع پر پڑھی جاتی ہے جو مسنون ہے اور قرأت میں شائد  ۱؎ بمشکل پڑھ سکوں، کیونکہ ساتھ ہی توجہ کرنے سے تحریک بخارات کی ہوتی ہے.دوستوں کی غائبانہ دعا مستجاب ہوا کرتی ہے.آنمکرم اس عاجز کے حق میں دعا کریں.شیخ شہاب الدین بہت مسکین آدمی ہے.اس کی ملازمت کے لئے ضرور فکر فرماویں.باپ بڈھا آپ کمزور.گھر میں کھانے کے لئے نہیں.اگر آپ ایما فرماویں تو میں آپ کی خدمت میں بھیج دوں.والسلام ۵؍ فروری ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 109

مکتوب نمبر۶۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج ایک اشتہار از طرف میاں عبدالحق صاحب غزنوی جو جماعت مولوی عبدالجبار صاحب میں سے ہے، پہنچا جس میں وہ اپنے الہام ظاہر کرتے ہیں کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز جہنمی ہے. ۱؎ اور دوزخ میں ڈال دیا جائے گا.اس گناہ سے کہ مثیل مسیح ہونے کا کیوں دعویٰ کیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس اشتہار کے بہت سے پرچے انہوں نے امرتسر میں تقسیم کئے ہیں.امید کہ کوئی پرچہ آپ کی خدمت میں پہنچا ہوگا.درحقیقت یہ اشتہار مولوی عبدالجبار صاحب کی طرف سے معلوم ہوتے ہیں جو شاگرد کی طرف سے مشہور کئے گئے ہیں.اس میں مباہلہ کی بھی وہ درخواست کرتے ہیں اور اگرچہ اس میں تحقیر اور استہزاء کے طور پر کئی لفظ بھرے ہوئے ہیں مگر میں نے ان سے قطع نظر کرکے اصلی سوال کا جواب دے دیا ہے.مولوی محمد حسین کا بھی خط آیا تھا کہ میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں.مجھے لکھو کہ ایسا دعویٰ کیا ہے یا نہیں کہ میں مسیح موعود ہوں.حقیقت میں یہی دعویٰ ہے.اس لئے ہاں کے ساتھ جواب دیا گیا.مجھے آپ کے اوراق کا انتظار ہے اور رسالہ ازالہ اوہام کے ختم ہونے کے لئے بھی انتظار باقی ہے.آپ ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے جواب دیں.میری طبیعت اکثر علیل رہتی ہے.دورانِ سر بہت رہتا ہے.کبھی کبھی دورہ دردِ سر ہو جاتا ہے.اس لئے کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا.خدا جانے ان رسالوں کا کام کیونکر ہو گیا.ورنہ میری حالت اس لائق نہیں.شہاب الدین انتظار میں بیٹھا ہے، اگر اشارہ ہو تو بھیج دوں.آپ کا پرانا نیاز مند فتح محمد مدت سے امیدوار ہے اس کی طرف بھی توجہ فرماویں.محمد بیگ کے مرض کی کیا صورت ہے.مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت اب کیسی ہے.

Page 110

ایک دن بعض شریر لوگوں نے سخت غم میں مجھے ڈال دیا کہ مولوی غلام علی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے پھر فتح محمد کے خط آنے پر تسلی ہوئی.والسلام ۹؍ فروری ۱۸۹۱ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۶۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آں مخدوم کے دو ورقہ کے انتظار ہے تا رسالہ ازالہ اوہام کا خاتمہ طبع ہو کر شائع کیا جائے.امرتسر کے غزنوی مولوی صاحبوں نے، سنا گیا ہے کہ بہت شور کیا ہے.یہ بھی خبر سنی ہے کہ مولوی عبدالرحمن لکھوکے والے مولوی محمد صاحب کے جو صاحبزادہ ہیں انہوں نے کچھ اپنے الہامات لکھ کر بجواب خط اخویم عبدالواحد صاحب جموں روانہ کئے ہیں.حامد علی ان الہامات کو سن آیا ہے.مگر وہ اس کو یاد نہیں رہے.ایسے الفاظ ان میں ہیں کہ ضلّوا واضلّوا.اگر عبدالواحد صاحب نے آں مخدوم کو ان سے اطلاع دی ہو تو مطلع فرماویں.چند روز سے نواب محمد علی خاں صاحب رئیس کوٹلہ قادیان میں آئے ہوئے ہیں.جوان صالح الخیال مستقل آدمی ہے.انٹرس تک تحصیل انگریزی بھی ہے.میرے رسالوں کو دیکھنے سے کچھ شک و شبہ نہیں کیا بلکہ قوت ایمانی میں ترقی کی.حالانکہ وہ دراصل شیعہ مذہب ہیں مگر شیعوں کے تمام فضول اور ناجائز اقوال سے دست بردار ہوگئے ہیں.صحابہ کی نسبت اعتقاد نیک رکھتے ہیں.شاید دو روز تک اور اسی جگہ ٹھہریں.مرزا خدا بخش صاحب ان کے ساتھ ہیں.الحمدللہ اس شخص کو خوب مستقل پایا اور دلیر طبع آدمی ہے.شہاب الدین کی نسبت کیا تجویز ہے؟ یہ عاجز دس روز تک لودہانہ جانے والا ہے.میرے ساتھ بعض تعلق رکھنے والے رسالوں کو پڑھ کر بڑی استقامت ظاہر کر رہے ہیں.اس وقت مجھے یہ تمام لوگ اس الہام کا مصداق ٹھہراتے ہیں جو صد ہا مرتبہ ہوچکا ہے یعنی یہ کہ

Page 111

.۱؎ ابھی سے عقلی طور سے فوقیت ظاہر ہے کہ جب وہ مخالفوں کے روبرو تقریر کرتے ہیں تو انہیں لاجواب ہونا پڑتا ہے.والسلام ۱۲؍ فروری ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۶۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز لودہانہ کی طرف جانے کو تیار ہے.ہر روز آنمکرم کے مضمون کی انتظار رہتی تھی.کل مولوی محمد حسین صاحب کا خط آیا ہے اور آپ کی نسبت لکھا تھا کہ وہ ناراض ہوگئے ہیں یعنی اس عاجز کی وجہ سے.آج میں نے انہیں لکھا ہے کہ آپ اوّل ملاقات کریں اور رسالوں کو دیکھیں.ہر دو۲رسالے میں نے اپنی طرف سے ان کے پاس بھیج دیئے ہیں اور شاید وہ ملاقات کریں.نواب محمدعلی خاں صاحب اب تک قادیان میں ہیں.آپ کا بہت ذکر خیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے مولوی صاحب کی کتاب تصدیق دیکھنے سے بہت فائدہ ہوا اور بعض ایسے عقدہ حل ہوگئے جن کی نسبت ہمیشہ مجھے دغدغہ رہتا تھا.وہ از بس آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں.میں نے انہیں کہا ہے کہ اب تو وقت تنگ ہے.یقین ہے کہ لودہانہ میں یہ صورت نکل آئے گی.یہ شخص جوان صالح ہے.حالات بہت عمدہ معلوم ہوتے ہیں.پابند نماز اور نیک چلن ہے اور نیز معقول پسند.والسلام ۱۴؍ فروری ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 112

مکتوب نمبر۶۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل آپ کی خدمت میں مولوی عبدالجبار صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے خط روانہ کر چکا ہوں اور مجھے اس بات سے بہت خوشی ہے جس کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا کہ مولیٰ کریم اور میرا آقا و محسن عز ّاسمہ جلّشانہٗ مجھے فتح و نصرت کی بشارت دیتا ہے اور ان لوگوں کے فیصلہ کیلئے مجھے ایک راہ بتاتا ہے جنہوں نے الہامات کا ادّعا کر کے ا س عاجز کو  ملحد اور جہنمی قرار دیا ہے اور جرأت کر کے اس مضمون کو شائع بھی کر دیا.اور جو ان باتوں سے اپنے بھائی مسلمان کو آزار پہنچاتا ہے ا وراس کی تذلیل ہوتی ہے اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی اور طریق تقویٰ کی رعایت نہیں رکھی.اس لئے یہ امر خدا تعالیٰ کی جناب میں کچھ سہل و آسان نہیں بلکہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا گیا تھا.سو مجھے خدا تعالیٰ کی نصرت کی خوشبو آرہی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ مجھے ایک ایسی راہ کی رہبری کرتا ہے جس سے جھوٹوں کا جھوٹ کھل جائے.اگر یہ الزام صرف میری ذات تک محدود ہوتا تو دوسرا امر تھا لیکن اس کا بداثر ہزاروں لوگوں پر ہوتا ہے.جہنمی اور کے لفظ میں سب قسم کے عیب بھرے ہوئے ہیں.سو میں انشاء اللہ القدیر ان امور کے پورے طور پر کھلنے کے بعد جن کی مجھے بشارت دی گئی ہے اور پھر ان کے چھپوانے کے بعد ان لوگوں سے رجسٹر شدہ خطوط کے ذریعہ سے درخواست کروں گا اور انشاء اللہ القدیر وہ ایسا امر ہو گا جو کاذب کی پردہ دری کردے گا..۱؎ ٭ والسلام خاکسار ۱۶؍ فروری ۱۸۹۱ء مرزا غلام احمد

Page 113

مکتوب نمبر۷۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ محبی مخدومی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج مولوی محمد حسین صاحب نے صاف طور پر مخالفانہ خط بھیج دیاہے جو آپ کی خدمت میں روانہ کرتاہوں.الحمدللّٰہ والمنّۃ کہ ہر ایک قسم کے علماء و امراء عقلاء میں سے خدا تعالیٰ نے آپ کو چن لیا.وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ.اس عاجز نے آپ کا مضمون غور سے پڑھا.بہت عمدہ ہے.انشاء اللہ القدیر وہ تمام مضمون میں اسی رسالہ میں چھاپ دوں گا.خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.ہماری مدد کرے گا.ایک عجیب بات یہ ہے کہ کل پرانے کاغذات میں سے اتفاقاً ایک پرچہ نکلا ہے جس کے سر پر ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء لکھا ہوا تھا.اس میں یادداشت کے طور پر ایک خواب اس عاجز نے لکھی ہوئی ہے جس کا یہ مضمون تھا کہ مولوی محمد حسین نے ایک مخالفانہ مضمون چھپوایا ہے اور اس عاجز کی نسبت اس کی سرخی یہ رکھی ہے کہ ’’کمینہ‘‘ معلوم نہیں اس سے کیا مراد ہے.میں نے وہ مضمون دیکھ کر انہیں کہا کہ میں نے آپ کو منع کیا تھا.آپ نے اس مضمون کو کیوں چھپوایا.میرے نزدیک وہ نالائق جوش دکھلائیں گے.انہیں بہت کچھ اپنی علمیت پر ناز ہے مگر میں آپ کے لئے دعا کروں گا اور آپ کو اس کے ردّ کیلئے تکلیف دوں گا.خدا تعالیٰ بلاشبہ آپ کی مدد کرے گا.باقی سب خیریت ہے.خاکسار ۱۹؍ فروری ۱۸۹۱ء غلام احمد عفی عنہ نوٹ: یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مسیحیت کے آغاز میں لکھا ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی نے مخالفت کا کھلا کھلا الٹی میٹم دیا اور آپ نے اس کی اطلاع حضرت حکیم الامت کو دی اور ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا بصیرت افروز یقین دلایا اور اپنی ایک پُرانی رؤیا کا حوالہ دیا ہے.اس وقت چونکہ آپ کے مکاشفات

Page 114

اور ملہمات چھپا نہ کرتے تھے مگر یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے ۱۸۸۸ء میں جو مولوی محمد حسین کی ارادت اور عقیدت کا عہد تھا اور وہ براہین احمدیہ پر نہایت اعلیٰ ریویو شائع کر چکا تھا.اس وقت خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ یہ شخص مخالفت کرے گا اور نہایت گندی مخالفت کرے گا.اس خواب سے آپ نے خود مولوی محمد حسین صاحب کو بھی اطلاع دی تھی.چنانچہ آپ کے مکتوبات بنام مولوی محمد حسین جو میں نے چھاپے ہیں اس میں صفحہ۴پر بھی یہ چھاپا گیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کاایک عظیم الشان نشان ہے.جس میں مولوی محمد حسین کی مخالفت اور اس کی مخالفت کا نہایت ذلیل پہلو بھی دکھا دیا گیا تھا.ایک اور امر بھی اس مکتوب سے مکشوف ہوتا ہے کہ یہ خدا کے برگزیدہ بندے اپنی ذات اور ہستی کو درمیان میں نہیں رکھتے اور اپنی کسی طاقت اور علم پر اعتماد نہیں رکھتے بلکہ خدا تعالیٰ ہی کی تائید اور نصرت پر انہیں ایمان ہوتا ہے.اگرچہ حضرت حکیم الامت کو لکھا کہ مولوی محمد حسین کے ردّ کے لئے آپ کو تکلیف دوں گا مگر کبھی ایک دن اور ایک لحظہ بھی آپ پر نہ آیا کہ آپ نے ان کو تکلیف دی ہو بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ پر وہ حقائق اور معارف کھول دیئے کہ بڑے بڑے علوم کے مدعی حیران و پریشان رہ گئے.(عرفانی)

Page 115

مکتوب نمبر۷۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک خط مولوی محمد حسین صاحب کا محض آپ کی اطلاع کیلئے ارسال خدمت کرتا ہوں.الحمدللہ، مولوی صاحب کی نسبت اس عاجز کی فراست صحیح نکلی.یہ عاجز پختہ ارادہ رکھتا ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ۲؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو یہاں سے روانہ ہو کر ۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو لودہانہ میں پہنچ جائے.اخویم حکیم فضل دین صاحب کی تحریر سے معلوم ہوا کہ آنمکرم غالباً لاہور میں تشریف لائیں گے.آنمکرم اطلاع دے دیں کہ مولوی عبدالکریم صاحب خط کو چھپوا دیں اور کچھ آپ بھی لکھ دیں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں مگر ظاہر ہے کہ یہ اواخر فروری ۱۸۹۱ء کا مکتوب ہے.(عرفانی) ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۷۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج ایک خط حافظ محمد یوسف صاحب کا پہنچا، ارسال خدمت ہے.اس عاجز کی رائے میں لاہور کے جلسہ میں جانے میں کچھ حرج نہیں بلکہ اس کے غیر مضر ہونے کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے لیکن یہ عاجز پیر کے دن ۹؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو معہ اپنے عیال کے لودہانہ کی طرف جائے گا اور چونکہ سردی اور دوسرے تیسرے روز بارش بھی ہو جاتی ہے اور اس عاجز کی مرض اعصابی ہے.سرد ہوا اور بارش سے بہت ضرر پہنچتا ہے اس وجہ سے یہ عاجز کسی صورت سے اس قدر تکلیف اُٹھا نہیں سکتا کہ اس

Page 116

حالت میں لدھیانہ پہنچ کر پھر جلدی لاہور میں آوے.طبیعت بیمار ہے، لاچار ہوں.اس لئے مناسب ہے کہ اپریل کے مہینہ میں کوئی تاریخ مقرر کی جاوے اور اشتہارات شائع کئے جائیں اور بعض صلحا اور جملہ علماء و فقراء اس میں جمع کئے جاویں.یہ عاجز بھی آپ کی رفاقت میں حاضر ہو سکتا ہے.امید کہ اپریل کے مہینہ میں موسم اچھا نکل آئے گا.سردی سے آرام ہوگا اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو بہ نسبت حال کے طبیعت بھی اس عاجز کی اچھی ہوگی.آنمکرم کی طرف اگر خط آیا ہو تو یہی جواب لکھ دیں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ یہ بھی ارادہ ہے کہ اشتہارات اور خط میں میاں عبدالحق صاحب و مولوی عبدالرحمن صاحب کے ساتھ بھی فیصلہ ہو جاوے اور مباہلہ بھی ہو جاوے تا دوسری مرتبہ نہ آنا پڑے.٭…٭…٭ مکتوب نمبر۷۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر موجب مسرت و فرحت ہوا.اگرچہ اس عاجز کی طبیعت صحت پر نہیں اور اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جاؤں لیکن اگر آنمکرم مصلحت دیکھتے ہیں تو میں لاہور میں حاضر ہو سکتا ہوں.میرے خیال میں کوئی عمدہ نتیجہ ایسے مجمع کا نظر نہیں آتا.اَنَا عَلٰی عِلْمٍ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ وَھُمْ عَلٰی رَایٍ مِنْ اَنْفُسِھِم.ہاں یہ ممکن ہے کہ ان کے خیالات پیش کردہ معلوم کر کے ان کے رفع دفع کیلئے کچھ اور بھی ازالہ اوہام میں لکھا جائے مگر یہ بھی غیر ضروری معلوم ہوتا ہے.یہ عاجزازالہ اوہام میں بہت

Page 117

کچھ لکھ چکا ہے بہرحال اگر آں مخدوم مصلحت وقت سمجھیں تو میں حاضر ہو سکتا ہوں بشرطیکہ طبیعت اس دن علیل نہ ہو.میاں عبدالحق صاحب نے جو پنجاب اور ہندوستان میں بسعی مولوی عبدالجبار صاحب شائع کئے ہیں جن میں مباہلہ کی درخواست ہے.ان اشتہارات سے لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑا ہے.سو میں چاہتا ہوں کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی فیصلہ ہو جائے اور ان کے الہامات کا فیصلہ خدا تعالیٰ آپ کر دے گا.اس جلسہ کی بناء سید فتح علی شاہ صاحب کی طرف سے ہے اور وہ بہرحال ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۱ء کوحج کے لئے روانہ ہو جائیں گے اور گیاراں مارچ تک ہم کسی صورت میں پہنچ نہیں سکتے.اگر یہ فتح علی شاہ صاحب دس دن اور ٹھہر جائیں تو اکیس مارچ ۱۸۹۱ء تک یہ عاجز بآسانی امرتسر میں آ سکتا ہے.آئندہ جیسی مرضی ہو.آں مخدوم کی ملاقات کا بہت شوق ہے.اگر فرصت ہو اور ملاقات اسی جگہ ہو جائے تو نہایت خوشی کا موجب ہوگا.فضل الرحمن کی نسبت اس عاجز کوپہلے سے ظن نیک ہے.ایک دفعہ اس کی نسبت سَیُھْدٰی۱؎ کا الہام ہو چکا ہے.بعد استخارہ مسنونہ اگر اسی تجویز کو پختہ کر دیں تو میں بالطبع پسند کرتا ہوں.قرابت اور خویش بھی ہے، جوان ہے.مولوی عبدالرحمن صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے معاملہ میں مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا.یہ عاجز ایک بندہ ہے.فیصلہ الٰہی کی انتظار کر رہا ہوں.خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں.بڑی خوشی ہوگی اگر آں مخدوم لودہانہ میں تشریف لاویں پھر ضروری امور میں مشورہ کیا جائے گا.۹؍ مارچ ۱۸۹۱ء نوٹ: اس مکتوب میں جن سید فتح علی شاہ صاحب کا ذکر ہے وہ لاہور کے باشندے اور محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے.خان بہادر بھی تھے.خاکسار عرفانی ذاتی طور پر انہیں جانتا ہے.اس لئے کہ جب وہ محکمہ نہر میں داخل ہوا ہے تو شاہ صاحب اس کے افسر تھے مگر

Page 118

مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں بہت حسن ظن تھا اور محبت رکھتے تھے.یہ دراصل ایک مجمع احباب تھا.مرزا امان اللہ صاحب، منشی امیرالدین، منشی عبدالحق، بابو الٰہی بخش، حافظ محمد یوسف، منشی محمد یعقوب صاحب وغیرہم.یہ سب کے سب اہلحدیث تھے اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ انہیں قبل از دعویٰ مسیحیت ارادت تھی.آپ کی خدمات دین کے بَدِل معترف اور ان میں مالی نصرت اور اشاعت میں حصہ لیتے تھے.دعویٰ مسیحیت پر بھی ان کے حسن ظن میں فرق نہیں آیا.لاہور میں مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی اس بااثر جماعت کے جاتے رہنے کا صدمہ تھا.اس لئے ان لوگوں نے چاہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے حضرت حکیم الامت کی گفتگو ہو جائے.یہ واقعات انشاء اللہ القدیر میں سوانح حضرت میں لکھوں گا.اس جلسہ احباب میں شمولیت کے لئے حضرت حکیم الامت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو ان ایام میں لودہانہ مقیم تھے، لکھا تھا مولوی صاحب لاہور گفتگو کر کے لودہانہ چلے گئے تھے اور ان احباب کی اجازت سے گئے تھے مگر مولوی محمد حسین نے فرار کا تار دے دیا.غرض یہ بہت بڑے معرکہ کا مجمع تھا.مفتی فضل الرحمن صاحب کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحب نے مشورہ پوچھا تھا اور یہ تحریک دراصل ۱۸۸۸ء سے ہوئی تھی اور مفتی صاحب کو لے کر حکیم فضل دین صاحب یہاں قادیان آئے تھے اور ایک اور امیدوار خادم حسین نام کو بھی لائے تھے.حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے مفتی فضل الرحمن صاحب کے متعلق مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی تائید فرمائی.حضرت اپنی زندگی کی آخری ساعت تک مفتی صاحب سے بہت خوش رہے اور وہ آخری ایام میں آپ کے ساتھ لاہور میں موجود تھے.ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ (عرفانی)

Page 119

مکتوب نمبر۷۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ مخالف الرائے لوگوں نے علانیہ اور بالجہر اس عاجز کی اہانت اور تحقیر اور تکفیر کی غرض سے جابجا خطوط بھیجے اور اشتہارات جاری کئے اور خلاف واقع باتیں ہر ایک مجلس میں سنائیں اور مشہور کیں اس لئے اس فتنہ کے تدارک کے لئے کوئی گم اور مخفی جلسہ علماء کا ہرگز مفید نہیں ہو سکتا.بلکہ جیسا کہ یہ بات عوام تک پہنچائی گئی ہے اور ہر ایک قوم میں علانیہ طور پر بے جا الزاموں کے ساتھ شہرت دی گئی ہے.اسی طرح سے یہ ایک کھلا کھلا جلسہ چاہئے جس میں ہر ایک گروہ کے آدمی موجود ہوں اور بمقام امرتسر ہو جہاں سے یہ فتنہ اُٹھا ہے.لہٰذا اس عاجز نے اس جلسہ کے لئے ۲۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء مقرر کر دی ہے.جلسہ امرتسر میں ہوگا اور پہلے سے عام طور پر اشتہارات جاری کر دیئے جائیں گے.اس جلسہ پر آپ کا آنا ضروری ہے اگر اب آپ تشریف نہ لاویں تو اتنا حرج نہیں.مگر ۲۳؍مارچ ۱۸۹۱ء کو بمقام امرتسر آپ کا آنا ضروری ہوگا.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 120

مکتوب نمبر۷۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مہربانی نامہ آنمکرم پہنچ کر بمژدہ افاقہ از مرض بہت خوشی ہوئی.الحمدللہ علی ذالک.خدا تعالیٰ آپ کو پوری صحت بخشے.آپ ایک حقانی جماعت کے لئے مخلصانہ جوش اور ہمت اور استقامت میں ایک ایسا نمونہ ہیں جس کی دوسروں کو پیروی کرنی چاہئے.۱؎ فَاَرْجُو اَنْ یَّتَمَتَّعَ اللّٰہُ الْمُسْلِمِیْنَ بِطُوْلِ حَیَاتِکُمْ.مولوی محمد احسن کی جس قدر تحریریں بھوپال سے پہنچی ہیں ان میں اخلاص پایا جاتا ہے اور وہ مدت سے اس سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں.آنمکرم بے شک مفصل خط ان کی طرف لکھیں.آنمکرم کی نوکری ہمارے ہی کام آتی ہے.ظاہر اس کا دنیا اور باطن سراسر دین ہے.اگرچہ بظاہر صورت تفرقہ میں ہے.مگر انشاء اللہ القدیر اس میں جمعیت کا ثواب ہے اور انشاء اللہ القدیر ذریعہ بہت سی برکات اور خوشنودی مولیٰ کا ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے جو حکیم و علیم ہے.بعض مصالح کی رُو سے اس مقام میں آپ کو متعین فرمایا ہے.پس قیام فی ما اقام اللہ ضروری ہے.اس راہ سے آپ کو فیض رحمانی پہنچیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ جس وقت خدا تعالیٰ پورے طور پر آرام و صحت عطا فرماوے، اگر رخصت مل سکے تو تشریف لاویں.محمد بیگ لڑکا جو آپ کے پاس ہے آنمکرم کو معلوم ہوگا کہ اس کا والد مرزا احمد بیگ بوجہ اپنی بے سمجھی اور حجاب کے اس عاجز سے سخت عداوت اور کینہ رکھتا ہے اور ایسا ہی اس کی والدہ بھی.چونکہ خدا تعالیٰ نے بوجہ اپنے بعض مصالح کے اس لڑکے کی ہمشیرہ کی نسبت وہ الہام ظاہر فرمایا تھا کہ جو بذریعہ اشتہارات شائع ہو چکا ہے.اس وجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں حد سے زیادہ جوش مخالفت ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ وہ امر جس کی نسبت مجھے اس شخص کی ہمشیرہ کی نسبت اطلاع دی گئی ہے کیونکر

Page 121

اور کس راہ سے وقوع میں آئے گا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نرمی کارگر نہیں ہوگی..۱؎ لیکن تا ہم کچھ مضائقہ نہیں کہ ان لوگوں کی سختی کے عوض میں نرمی اختیار کر کے ۲؎ کا ثواب حاصل کیا جائے.اس لڑکے محمد بیگ کے کتنے خط اس مضمون کے پہنچے کہ مولوی صاحب پولیس کے محکمہ میں مجھ کو نوکر کرا دیں.آپ براہ مہربانی اس کو بلا کر نرمی سے سمجھا ویں کہ تیری نسبت انہوں نے بہت کچھ سفارش لکھی ہے اور تیرے لئے جہاں تک گنجائش اور مناسب وقت کچھ فرق نہ ہوگا.غرض آنمکرم میری طرف سے اس کے ذہن نشین کر دیں کہ وہ تیری نسبت بہت تاکید کرتے ہیں.اگر محمد بیگ آپ کے ساتھ آنا چاہے تو ساتھ لے آویں.اخویم منشی مولوی عبدالکریم صاحب کی بہت انتظار ہے دیکھیں کب تشریف لاتے ہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۱؍ مارچ ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج

Page 122

مکتوب نمبر۷۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ منشی جلال الدین نام بعہدہ میر منشی ملازم ہیں اور مجھ سے خاص طور پر محبت اور اخلاص رکھتے ہیں اور درحقیقت ان احباب میں سے ہیں جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے للّہی محبت اس عاجز کی نسبت بٹھا دی ہے.انہوں نے میرے سے بڑی امید سے یہ درخواست کی ہے کہ آپ کی سعی اور کوشش سے ان کا صاحبزادہ کہ لائق اور مستعد اور نجیب طبع ہے.کسی عمدہ نوکری پر ملازم ہو جائے لہٰذا مکلّف ہوں کہ اگر آپ خاص توجہ کی گنجائش رکھتے ہوں تو وہ اس غرض کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں.امید کہ آپ براہ راست منشی صاحب موصوف کے پاس اس کا جواب بھیجیں گے اور پتہ یہ ہے.چھاؤنی ملتان رجمنٹ نمبر۱۲ منشی جلال الدین صاحب قریشی شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم لڑکا ایک ہفتہ سے میرے پاس ٹھہرا ہوا ہے اس کی طرف سے یہ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر دوچار روز تک آپ نے لودہانہ میں تشریف لانا ہو تو وہ اسی جگہ ٹھہرے ورنہ جموں میں آجاوے.مولوی محمد احسن صاحب کا خط بھوپال سے آیا ہوا ہے.معہ خط مولوی محمد حسین صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہے.یہ مولوی محمداحسن مستعد آدمی معلوم ہوتے ہیں اور اخلاص ان کے ہر ایک خط سے ظاہر ہو رہا ہے.والسلام ۲۴؍ مارچ ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 123

مکتوب نمبر۷۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.محبت نامہ جو آں مخدوم کے مرتبہ یقین اور اخلاص اور شجاعت اور لِلّٰہی زندگی پر ایک محکم دلیل اور حجت قویّہ تھا پہنچ کر باعث انشراح خاطر و سرور و ذوق ہوا.بلاشبہ اس درجہ کی قوت و استقامت و جوش و ایثار جان و مال للہ اس چشمہ صافیہ کمال ایمانی سے نکلتا ہے جس میں چمکتا ہوا یقین اس امر کا پورے زور کے ساتھ موجود ہوتا ہے کہ خدا ہے اور وہ صادقوں کے ساتھ ہے.اس عاجز نے ارادہ کیا تھا کہ بلاتوقف جناب الٰہی میں اس بارہ میں توجہ کروں.لیکن دورہ مرض اور ضعف دماغ اور ایک امر پیش آمدہ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہے.اور امید رکھتا ہوں کہ جس وقت خدا تعالیٰ چاہے مجھے اس توجہ کے لئے توفیق بخشی جائے گی.اوّل حضرت احدیت جلّشانہٗ سے اجازت لینے کے لئے توجہ کی جائے گی.پھر بعد اس کے بعد تعیین شرائط فریقین امر خارقِ عادت کے لئے توجہ ہوگی.یہ بات مسلم اور واضح رہے کہ راستباز انسان کیلئے ایسے امور کی غرض سے کسی قدر مجاہدہ ضروری ہے.الکرامات ثمرۃ المجاہدات، علالت طبع بہت حرج انداز ہے.اگریہ مقابلہ صحت اور طاقت دماغی کے ایام میں ہوتا تو یقین تھا کہ تھوڑے دن کافی ہوتے.مگر اب طبیعت تحمل شدائد مجاہدات نہیں رکھتی اور ادنیٰ درجہ کی محنت اور خوض اور توجہ سے جلد بگڑ جاتی ہے.اگر ڈاکٹر صاحب کو طلب حق ہوگی تو وہ تین باتیں بآسانی قبول کریں گے.(۱) اوّل یہ کہ میعاد توجہ یعنی وہ میعاد جس کے اندر کوئی امر خارقِ عادت ظاہر ہونے والا پیش از وقوع بتلایا جاوے.اس کے موافق ہو.جو خدا تعالیٰ ظاہر کرے.(۲) دوم جو امر ظاہر کیا جائے یعنی منجانب اللہ بتلایا جاوے اس کی اس میعاد کی انتظار کریں جو منجانب اللہ مقرر ہو.ہاں میعاد ایسی چاہئے جو معاشرت کے عام معاملات میں قبول کے لائق سمجھی گئی ہو اور عام طور پر لوگ اپنے کاموں میں ایسی میعادوں کے انتظار کے عادی ہوں اور اپنے مالی معاملات کو ان میعادوں پر چھوڑتے ہوں یا اپنے دوسرے کاروبار ان میعادوں کے

Page 124

لحاظ سے کرتے ہوں اس سے زیادہ نہ ہو.(۳) امر خارقِ عادت پر کوئی ناجائز اور بے سود شرطیں نہ لگائی جائیں بلکہ خارقِ عادت صرف اسی طور سے سمجھا جائے جو انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہوں.مگر یہ سب اس وقت سے ہوگا کہ جب پہلے اجازت الٰہی اس بارے میں ہو جاوے.آپ کی ملاقات کے لئے دل بہت جوش رکھتا ہے اور آپ نے فرمایا تھاکہ ہم آنے کے لئے تیار ہیں اگر آپ تشریف لاویں تو یہ سب باتیں زبانی مفصل طور پر بیان کی جائیں گی.عبدالرحمن لڑکا بھی آپ کے انتظار میں مدت سے بیٹھا ہے.مولوی عبدالکریم صاحب منتظر ہیں آپ ضرور مطلع فرماویں کہ آپ کب تک تشریف لاویں گے.والسلام ۳۱؍ مارچ ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد نوٹ: جموں میں ایک ڈاکٹر جگن ناتھ تھے انہوں نے حضرت حکیم الامت کے ذریعہ حضرت اقدس سے نشان دیکھنا چاہا تھا مگر پھر وہ مقابلہ کے لئے قائم نہ رہا.(عرفانی) ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۷۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر موجب تسلی ہوا.مولوی محمد حسین صاحب زبان درازی میں بہت ترقی کر گئے ہیں.اللہ جلشانہٗ ان کے فاسد ارادوں سے خلق اللہ کو بچاوے.یہ عاجز اس وقت بباعث شدت ضرورت خرچ اور ایک طرف تقاضا مطبع اور کاپی نویسوں کے حیران ہے.آخر سوچا کہ آنمکرم کو تکلیف دوں.آنمکرم نے تجویز چندہ ماہواری کو اس عاجز پر ڈالا تھا اور اب تک بباعث شرم خودتجویزی کے کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن اب مجھے خیال آیا کہ باوجود آنمکرم کے اخلاص اور محبت کے جو

Page 125

خدا تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمائی ہے کوئی وجہ نہیں کہ زیادہ تامل کیا جاوے.اس لئے میری دانست میں بشرطیکہ آپ پر بار نہ ہو اور آسانی سے ایفا ہو سکے اور کچھ ہرج نہ ہو بیس روپیہ ماہواری آپ سے چندہ لیا جائے.سو میں چاہتا ہوں کہ آنمکرم سَو روپیہ کا بہرطرح بندوبست کر کے پانچ ماہ کا چندہ مجھے بھیج دیں.یکم مارچ ۱۸۹۱ء سے یہ چندہ آپ کے ذمہ ہوا.اور جولائی کے اخیر تک اس پیشگی چندہ کا روپیہ ختم ہو جائے گا اور پھر ماہواری چندہ ارسال فرمایا کریں.محض شدید ضرورت کی وجہ سے مکلّف ہوں.ڈاکٹر صاحب کا خط پہنچا.ڈاکٹر صاحب ایسے امور کے دکھلانے کیلئے مجھے مجبور کرتے ہیں جو میرا نور قلب شہادت نہیں دیتا کہ میں ان کے لئے جناب الٰہی میں دعا کروں.گو یہ عاجز خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محدود جانتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ ہر ایک قدرتی کام وابستہ باوقات ہے اور جب کسی امر کے ہو جانے کا وقت آتا ہے تو اس امر کے لئے دل میں جوش پیدا ہوجاتا ہے اور امید بڑھ جاتی ہے اور اب ایسی باتوں کی طرف جو ڈاکٹر صاحب کا منشاء ہے کہ کوئی مردہ زندہ ہو جائے یا کوئی مادر زاد اندھا اچھا ہو جائے پیدا نہیں ہوتا.ہاں اس بات کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے کہ کوئی امر انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو.خواہ مردہ زندہ ہو اور خواہ زندہ مر جائے.یہی بات پہلے بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں لکھی تھی کہ آپ صرف یہی شرط رکھیں کہ ایسا امر ظاہر ہو کہ جو انسانی طاقتوں سے برتر ہو.اور کچھ شک نہیں کہ جو امر انسانی طاقتوں سے برتر ہو وہی خارقِ عادت ہے.مگر ڈاکٹر صاحب نے خواہ نخواہ مردہ وغیرہ کی شرطیں لگا دی ہیں.اعجازی امور اگر ایسے کھلے کھلے اور اپنے اختیار میں ہوتے تو ہم ایک دن میں گویا تمام دنیا سے منوا سکتے ہیں لیکن اعجاز میں ایک ایسا امر مخفی ہوتا ہے کہ سچا طالب حق سمجھ جاتا ہے کہ یہ امر منجانب اللہ ہے اور منکر کو عذرات رکیکہ کرنے کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا میں خدا تعالیٰ ایمان بالغیب کی حد کو توڑنا نہیں چاہتا.جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مُردے زندہ کئے اور وہ مُردے دوزخ یا بہشت سے نکل کر کل اپنا حال سناتے ہیں اور اپنے بیٹوں اور پوتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم تو عذاب و ثواب کا کچھ دیکھ آئے ہیں، ہماری گواہی مان لو کہ یہ خیالات لغو ہیں.بیشک خوارق ظہور میں آتے ہوںگے.مگر اس طرح نہیں کہ دنیا قیامت کا نمونہ بن جائے.یہی وجہ ہے کہ بعض

Page 126

حضرت عیسیٰ سے منکر رہے کہ اور معجزہ مانگتے رہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی ان کو جواب نہ دیا کہ ابھی توکل میں نے تمہارا باپ زندہ کر کے دکھلایا تھا اور وہ گواہی دے چکا ہے کہ میں بباعث نہ ماننے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوزخ میںپڑا.اگر یہ طریق معجز نمائی کا ہوتا تو پھر دنیا دنیا نہ رہتی اور ایمان ایمان نہ رہتا اور ماننے اور ایمان لانے سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوتا.پس جب تک ڈاکٹر صاحب اصول ایمان کے مطابق درخواست نہ کریں.میری نظر میں ایک قسم سے وہ دفع وقت کرتے ہیں.والسلام ۱۲؍ اپریل ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج مکتوب نمبر۷۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز شاید کل یا پرسوں تک لاہور جائے پھر آپ کی خدمت میں جلد اطلاع دوں گا.محمد بیگ کی نسبت آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ ایک خاص طور پر مہربانی سے بھری توجہ اس کی نسبت فرماویں کہ تا وہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد صحت یاب ہو جائے اور اس کو آپ تسلّی دیں کہ پورے طور پر صحت یاب ہونے کے بعد اس کی نوکری کا بھی بندوبست کیا جائے گا.غرض اس پر مہربانی کی نظر فرماویں اور ہر طرح سے اس کی نیکی کا خیال رکھیں.والسلام ۲۲؍ جون ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 127

مکتوب نمبر۸۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.علالت طبع کے معلوم کرنے سے طبیعت بہت متردّد اور متفکر ہوئی اور غایت درجہ کا قلق اور اضطراب ہے.امید کہ بہت جلد مفصل حالات خیریت آیات سے مطلع و مطمئن فرماویں.خدا تعالیٰ آنمکرم کو صحت اور عافیت کامل سے رکھ کر آپ کے ہاتھ سے سالہائے دراز تک خدمت دین لیتا رہے اور ایک عالَم کو آپ سے متمتع اور مستفیض فرما دیں.حالات مزاج سامی سے ضرور جلد اطلاع بخشیں اور مجھے مفصل معلوم نہیں ہوا کہ کس قسم کی بیماری تھی.خدا تعالیٰ جلد اس سے شفا بخشے.اس جگہ کا حال یہ ہے کہ لوگوں کے زور دینے سے مولوی محمد حسین صاحب بحث کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں اور ۲۰؍ جولائی سے ہر روز تحریری بحث ہو رہی ہے.ابھی تمہیدی مقدمات میں بحث چلی آتی ہے.فریقین کی تحریریں پانچ جزو تک پہنچ چکی ہیں.ان کی طرف سے سوال یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت کو واجب العمل سمجھتے ہو یا نہیں؟ اس طرف سے جو واقعی اور تحقیقی جواب ہے، دیا گیا ہے لیکن اس بحث کو انہوں نے بہت طول دے دیا ہے اور اس طرف سے بھی مناسب سمجھا گیا ہے کہ جہاں تک طول دیتے جائیں اس کا شافی وکافی جواب دیا جاوے.خدا جانے یہ بحث کب اور کس وقت ختم ہو.اب مجھے زیادہ تر خیال آپ کی طبیعت کی طرف ہے اور کسی بات کے لکھنے کی طرف دل توجہ نہیں کرتا.امید کہ جہاں تک جلد ممکن ہو حالت مزاج سے مسرور الوقت فرماویں.باقی سب خیریت ہے.ازالہ اوہام ابھی طبع ہو کر نہیں آیا.والسلام ۲۲؍ جولائی ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از لودہانہ محلہ اقبال گنج

Page 128

مکتوب نمبر۸۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پارسل مرسلہ آنمکرم جس میں مشک اور… تھا پہنچاتھا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.کل مولوی محمد حسین کی بحث کا خاتمہ ہو گیا.آخر حق بات کے سننے سے مولوی محمد حسین کی قوتِ سبعیہ بڑے زور سے ظہور میں آئی.اگر یہ عاجز اپنی جماعت کے ساتھ جلد تر اس جگہ سے باہر نہ آتا تو احتمال فساد تھا.درحقیقت ان کو اشتعال کا سبب یہ ہوا کہ وہ اعتراضات کردہ سے ساکت اور لاجواب ہوگئے اور بحالت لاجواب ہونے کے بجز قوت غضبی سے کام لینے کے اور کیا ان کے ہاتھ میں تھا.مولوی عبدالکریم صاحب و مولوی غلام قادر صاحب نے فریقین کے پرچے لے لئے ہیں.آج دونو صاحب اس جگہ ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جلد ہم جناب کو مولوی صاحب کی خدمت میں بھیجیں گے.آپ کی علالتِ طبع کی نسبت بہت متردّد و غم تھا.آج آپ کے خط کے آنے سے کسی قدر طمانیت ہوئی.خدا تعالیٰ جلد تر آپ کو پوری صحت عطا فرماوے.والسلام ۳۱؍ جولائی ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از لودہیانہ اقبال گنج

Page 129

مکتوب نمبر۸۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْم مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی نورالدین صاحب سلَّمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَ نَظَرَ اللّٰہُ بِنَظَرِ الرَّحْمَۃِ وَالرِّضْوَانِ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ مشتمل بر تلطّفات محبت نامہ پہنچ کر باعث انشراح و سرور و ممنونی ہوا.آپ کی ملاقات کو دل بہت چاہتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کو خیر و خوشی کے ساتھ جلد ملاوے.تعلقات دنیا میں حاسدوں کا ہونا ایک طبعی امر ہے.وَلِکُلِّ مُقَبّلٍ حَاسِدٌ.حفاظت و حمایت الٰہی آپ کے لازم حال رہے.بیشک ایسے تعلقات بہت خطرناک ہیں اور ان میں بجز خاص رحمت الٰہی کے انجامِ خیر کے ساتھ عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے.ہمیشہ تضرع اور استغفار حضرت ربّ کریم کی جناب میں لازمِ حال ہی رکھیں.رفق اور نرمی اور اخلاق میں تو پہلے ہی سے آنمکرم سبقت لے گئے ہیں.لیکن امید رکھتا ہوں کہ حاسدوں اور دشمنوں سے بھی یہی طریق جاری رہے اور حتی الوسع ریاست کے کاموں میں بہت دخل دینے سے پرہیز رہے کہ سلامت برکنار است کا مقولہ قابل توجہ ہے.ازالہ اوہام اب تک چھپ کر نہیں آیا.شاید دس پندرہ روز تک آ جاوے گا.اس کے نکلنے کے بعد آں مکرم کو تکلیف دوں گا کہ اس کا لب لباب نکال کر تشریحات اور ایزادات مناسبہ کے ساتھ آں مکرم کی طرف سے بھی کوئی رسالہ شائع ہو جاوے.مولوی محمد حسین صاحب سے جس قدر بحث ہوئی اس عاجز کی دانست میں وہ مصلحت سے خالی نہیں تھی اور امید رکھتا ہوں کہ فریقین کے بیانات شائع ہونے کے بعد انشاء اللہ اس کا بہت نیک اثر دلوں پر پڑے گا.یہ بھی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ سید محمد عسکری خان صاحب کی نسبت ابھی کچھ تذکرہ ہوا یا نہیں اور سب خیریت ہے.٭ والسلام ۱۶؍ اگست ۱۸۹۱ء خاکسار.غلام احمد از لدہیانہ اقبال گنج

Page 130

مکتوب نمبر۸۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس جگہ تا تحریر ہذا بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے.خدا تعالیٰ آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھ کر اپنی رحمت خاص کا مورَد کرے.رسالہ ازالہ اوہام کے اصل مضامین تو طبع ہوچکے ہیں.مولوی محمد حسین کے اشتہار کی نسبت جو ایک مضمون چھپنے کیلئے دیا گیا ہے وہ شاید چند روز تک چھپ کر رسالہ ازالہ اوہام کے ساتھ ہی شائع ہو.لاہور کے بعض معزز ارکان نے چوداں خط علماء کی طرف لکھے ہیں کہ تا وہ آ کر حضرت مسیح کی وفات و حیات کی نسبت مباحثہ کریں.دیکھیں کیا جواب آتے ہیں.اس عاجز کی مرضی ہے کہ رسالہ ازالہ اوہام کے نکلنے کے بعد کل متفرق فوائد اور نکات اس کے ایک جگہ جمع کریں اور پھر ان کے ساتھ ان سوالات کا جواب شامل کر کے جو مخالفین نے اپنی تالیف میں لکھے ہوں کہ رسالہ احسن ترتیب کے شائع کر دیں.معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کی طرف سے شائد وَاللّٰہُ اَعْلَمُ، صد ہا رسالے شائع ہوں گے اور چار تو شائع ہو چکے ہیں.جن کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی بات اُن میں نہیں جس کا جواب رسالہ ازالہ اوہام میں نہ دیا گیا ہو.والسلام ۳۰؍ اگست ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج مکتوب نمبر۸۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِمخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ اس جگہ کے علماء نے حد سے زیادہ شور و غوغا کیا ہے اور تمام دہلی میں ایک طوفان کی صورت

Page 131

پیدا کر دی ہے.لہٰذا مولوی نذیر حسین صاحب سے درخواست کی گئی.ایک جلسہ عام کر کے ۱۸؍اکتوبر۱۸۹۱ء روز اتوار کو اس عاجز سے بحث کر لیں.ابھی تک ان کی طرف سے جواب نہیں آیا لیکن بہرحال بحث ہوگی اور اگر بالکل گریز کر جائیں گے تو پھر اپنے طور پر لوگوں کو جمع کر کے مفصل تقریر سنائی جائے گی.لہٰذا مکلّف ہوں کہ آنمکرم جس طرح ممکن ہو ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء سے پہلے تشریف لاویں.۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو اتوار کا دن ہوگا اور سب ملازم غیر ملازم فرصت کامل رکھتے ہوںگے.لہٰذا یہی تاریخ بحث کے لئے مقرر کی گئی.آنمکرم جس طرح ممکن ہو دس روز کی رخصت حاصل کر کے تشریف لاویں.تین روز تو آمد ورفت میں خرچ ہو جائیں گے اور سات روز اس جگہ تشریف رکھیں اور مبلغ بیس روپیہ مرسلہ آنمکرم آج پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.اگر حکیم فضل دین صاحب اور کوئی دوسرے دوست بھی اپنی خوشی سے تشریف لا سکتے ہوں تو بہتر ہے کیونکہ اس وقت میں جس قدر ہماری جماعت موجود ہو اسی قدر خوب ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از دہلی بازار بلی ماراں.کوٹھی نواب لوہارو مکرر یہ کہ اوّل تو امید ہے کہ فریق مخالف بحث کریں گے اور اگر انہوں نے عمداً گریز کی تو ہماری طرف سے ایک وسیع مکان میں بطور وعظ مفصل بیان ہوگا.اوّل انشاء اللہ القدیر میں بیان کروں گا.بعد ازاں آنمکرم بیان کریں.پھر ہر ایک صاحب جو چاہے بیان کرے.والسلام خاکسار.غؔ

Page 132

مکتوب نمبر۸۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر علالت طبع آنمکرم سے بہت متردّد ہوا.رات کو آپ کی صحت کیلئے بہت دعا کی گئی.امید کہ خداوندکریم اپنے فضل و کرم سے صحت بخشے.اخویم مولوی عبدالکریم کی تحریر آپ کی بیماری میں زیادہ دل کو صدمہ پہنچاتی ہے.اگر کل آنمکرم کا دستخطی خط نہ آیا ہوتا تو معلوم نہیں مولوی عبدالکریم صاحب کی تحریرسے کس قدر قلق و اضطراب دل پر ہوتا.خدا تعالیٰ بہت جلد آپ کو شفا بخشے.تمام غم راحت سے مبدّل ہو جائیں گے.اللہ جلّشانہٗ جانبین میں خیرو عافیت رکھے اور آپ کی عمر میں صحت اورعافیت اور دین و دنیا کی سعادت کے ساتھ برکت سے بھری ہوئی درازی بخشے.آمین ثم آمین.۱؎ میاں عبدالحق اور مولوی عبدالرحمن صاحب کی تحریروں کا آپ ذرا فکر نہ کریں.یہ ایک ابتلاء ہے خدا تعالیٰ آپ اُس کو اُٹھا دے گا.غور کا مقام ہے کہ جس وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوتِ حقّہ کی تبلیغ کر رہے تھے اور کلام ربّانی نازل ہو رہا تھا اس وقت مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی نے کیا کیا فتنے برپا کر دیئے تھے.ایک طرف قرآن کریم کی یہ سورتیں نازل ہوئیں.۲؎ اور اس کے مقابلہ پر مسیلمہ نے اپنی وحی یہ سنائی.اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِالْحُبْلٰی اَخْرَجَ مِنْھَا.ظاہر ہے کہ ایسے کذّاب کے کھڑے ہونے سے کیا کیا فتنے ہوئے ہوںگے اور جس وقت سادہ لوح لوگ ایک طرف وحی قرآنی سنتے ہوںگے اور ایک طرف مسیلمہ کی شیطانی تکیں ان کے کانوں تک پہنچتی ہوںگی تو کیا کیا ابتلا انہیں پیش آتے ہوںگے.ایسا ہی ابنِ صیاد نے بہت فتنہ ڈالا تھا اور یہ تمام لوگ ہزار ہا لوگوں کی ہلاکت کا موجب ہوئے تھے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے حق کی روشنی ظاہر کر دی اور مومنین پر سکینت اور اطمینان نازل کی.

Page 133

سو اس کے حکم کا منتظر رہنا چاہئے اور صبر کے ساتھ راہ دیکھنا چاہئے.ٌ.۱؎ جب آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے اور ایک وادی کو پُر کرتی ہے اور زور سے چلنا چاہتی ہے تو یہ قانون قدرت ہے کہ اس پر ایک قسم کی جھاگ آ جاتی ہے وہ جھاگ بظاہر ایک غلبہ اور فوقیت رکھتی ہے کہ پانی اس کے نیچے اور وہ اوپر ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات اس قدر بڑھتی ہے کہ پانی کے اوپر کی سطح کو ڈھانک لیتی ہے لیکن بہت جلد نابود کی جاتی ہے اور پانی جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی چیز ہے باقی رہ جاتی ہے.عبدالرحمن نومسلم لڑکا اسی جگہ پر ہے اور شاید ضعف کی حالت میں ابھی سفر کرنا آنمکرم کا مناسب نہ ہو.اگر ایما فرماویں تو نامبردہ کو آپ کی طرف روانہ کیا جائے.نوٹ: عبدالرحمن نو مسلم وہی لڑکا ہے جو آج شیخ عبدالرحمن ماسٹر بی.اے مصنف کتب متعددہ ہے.(عرفانی) ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۸۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ معلوم نہیں کہ اب آنمکرم کی طبیعت کیسی ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جلد تر شفا بخشے.اس عاجز کو آنمکرم نے قادیان کی سڑک پر لیکھرام کے اشعار دیئے تھے.ان کی طرف خیال کرنا ایسا فراموش ہو گیا کہ کبھی یاد نہ آیا.آنمکرم نے ایک دو مرتبہ لکھا بھی مگر پھر بھی بھول گیا.اب انشاء اللہ القدیر بقیہ مضمون کو جلد ختم کر کے اس طرف متوجہ ہوں گا.بباعث علالت طبع دورہ مرض حافظہ میں بہت قصور ہو گیا ہے.دو تین روز سے اس قدر دورہ مرض ہوا کہ ضعف بہت ہوگیا اور کوئی کام نہیں ہو سکتا.مطبع سے بار بار مطالبہ ہے کہ بقیہ مضمون بھیجنا چاہئے مگر طاقت نہیں کہ کچھ لکھ سکوں.فضل احمد کا خط نہایت اور غایت درجہ کی التجا سے آیا تھا کہ مولوی صاحب کی خدمت میں

Page 134

سفارش کریں کہ کوئی نوکری میرے گزارہ کے موافق کرا دیں.بیس روپے میں اپنے عیال کا گزارہ نہیں کرسکتا.سو اگرچہ مصلحت وقت کا حال آنمکرم کو بہتر معلوم ہوگا لیکن اگر کچھ ہرج نہ ہو اور مصلحت کے برخلاف نہ ہو اور کچھ جائے اعتراض نہ ہو اور آنمکرم کچھ اس کی معاش کیلئے اس سے بہتر تجویز کر سکیں تو کر دیں.اگرچہ ابھی تک اس کا چال چلن کا حال قابلِ اعتراض ہے مگر شاید آئندہ درست ہو جاوے.ابرار و اخیار جو متخلق باخلاق اللہ ہوتے ہیں کبھی مطابق آیت کریمہ  ۱؎ پرعمل کر لیتے ہیں.اس آیت کریمہ کے مفہوم پر نظر غور ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دو لڑکوں کے لئے حضرت خضر نے تکلیف اُٹھائی.اصل میں وہ اچھے چال چلن کے ہونے والے نہیں تھے بلکہ غالباً وہ بدچلن اور خراب حالت رکھنے والے علمِ الٰہی میں تھے.لہٰذا خدا تعالیٰ نے بباعث اپنی ستاری کی صفت کے ان کے چال چلن کو پوشیدہ رکھ کر ان کے باپ کی صلاحیت ظاہر کر دی اور ان کی حالت کو جو اصل میں اچھی نہیں تھی کھول کر نہ سنایا.اور ایک خویش کی وجہ سے دو بیگانوں پر رحم کر دیا.امید کہ اپنی روانگی سے پہلے اس عاجز کو ضرور مطلع فرماویں گے.اس قدر میں نے لکھا تھا کہ پھر نہایت عاجزی سے فضل احمد کا خط آیا ہے کہ خدمت میں مولوی صاحب کے میری نسبت ضرور لکھیں.آنمکرم اس کو بلا کر اطلاع دے دیں کہ تیری نسبت وہاں سے سفارش لکھی ہے.اگر مناسب سمجھیں تو کسی کو اس کی نسبت سفارش کر دیں کہ وہ سخت حیران ہے.اس کی ایک بیوی تو میرے پاس اس جگہ ہے اور ایک قادیان میں ہے.٭ خاکسار غلا م احمد عفی عنہ لودہیانہ محلہ اقبال گنج نوٹ: اس خط پر تاریخ نہیں مگر لدہیانہ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا ہے.(عرفانی)

Page 135

مکتوب نمبر۸۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ تنتیس روپیہ معرفت مولوی محمد حسین صاحب مجھ کو پہنچ گئے.یہ آپ کا کمال اخلاص اور غایت درجہ کی محبت ہے کہ باوجود نہ ہونے روپیہ کے وقت پر آپ نے قرض لے کر روپیہ بھیجا اور مجھے خارجاً معلوم ہوا ہے کہ پہلے بھی آپ نے ایک دو مرتبہ ایسا ہی کیا تھا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ کَمَاعَلِمْتُمْ.آپ نے لکھا تھا کہ رفاقت اور دوستی میں مجھے نسبت فاروقی ہے مگر میرے خیال میں آپ کو نسبت صدیقی ہے کیونکہ انشراح صدر سے ایثار مال اور رفاقت فرمانے تک مستعد ہونا یہ ہمت صدیقی تھی اور میں جس نیت سے آپ کو تکلیف دیتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج نوٹ: اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر لودہیانہ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا ہے.(عرفانی)

Page 136

مکتوب نمبر۸۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی و مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ مع پارسل ادویہ پہنچا.جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء امید کہ انشاء اللہ القدیر دوائی مجوزہ آن مکرم شروع کروں گا.ہنوز میری حالت شدت خارش کی بدستور ہے جو زخم ہو جاتا ہے وہ مشکل سے بھرتا ہے.درد شدید اور جریان اور سوزش اور جلن ایسی مدام حال رہتی ہے کہ مجھ سے کوئی کام نہیں ہو سکتا.اللہ جلّشانہٗ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں.میرا ارادہ تھا کہ امرتسر، کپور تھلہ، سیالکوٹ ایک مرتبہ دیکھ آؤں لیکن اس مرض کے سبب سے میری حالت سفر کے لائق ہرگز نہیں.شیخ بٹالوی اپنے فتنہ انگیزی میں اب تک سست اور کاہل نہیں ہوئے اور اپنے تمام جذبات نفسانی اسی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو ان مولویوں کے ذریعہ تحریک منظور ہے اور چاہتا ہے کہ جلدی اپنے کام کو دنیا میں پھیلاوے کیونکہ بغیر اطلاع یابی کے کوئی شخص طلب کے لئے قدم نہیں اُٹھا سکتا… کا جموں تشریف لانا معلوم ہوا اگرچہ اس دارالابتلاء میں خدا تعالیٰ نے اولاد کو بھی فتنہ میں ہی داخل رکھا ہے جیسا کہ اموال کو لیکن اگر کوئی شخص صحت نیت کی بناء پر محض اس غرض سے اور سراسر اس وجہ سے فکر سے طالب اولاد ہو کہ تا اس کے بعد اس کی ذریّت میں سے کوئی خادم دین پیدا ہوجس کے وجود سے اس کے باپ کو بھی دوبارہ ثواب آخرت کا حصہ ملے تو خاص اس نیت اور اس جوش سے اولاد کا خواہشمند ہونا نہ صرف جائز بلکہ اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہے جیسا کہ اس خواہش کی تحریک اس آیت کریمہ میں بھی پائی جاتی ہے اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے  ۱؎ لیکن سچ سچ اور واقعی اور حقیقی طور پر بھی جوش پیدا ہونا اور اس جذبے کی بنا پر اولاد کا خواہشمند ہونا ان ابرار و اخبار و اتقیا کا کام ہے جو اپنے اعمال خیر کے آثار باقیہ دنیا میں چھوڑ جانا چاہتی ہیں.جہاں تک تجربہ کیا گیا ہے بیشک ایک خادم دین ہیں خدا تعالیٰ ان کو اس نیت اور اس جوش میں پورے طور پر مکمل کر کے ان کی مرادات ان کو عطا فرماوے.اور یہ عاجز بھی بجوش دل

Page 137

اپنے لئے اور نیز آں مکرم کے لئے دعا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری نسل اور ذرّیت میں سے بھی اپنے دین کے خادم اور اپنی راہ کے سچے جانثار پیدا کرے.یہ دعا اس عاجز کی اپنے لئے اور آپ کے لئے اور… کے لئے اور ہر ایک دوست کے لئے ہے لیکن ابنائے روزگار کی رسم و عادت کے طور پر خواہشمند اولاد ہونا اور یہ خیال رکھنا کہ ہماری موت فوت کے بعد ہمارے زخارف دنیا کی ہماری اولاد وارث بنے اور سرکار ہماری جائداد پر قابض نہ ہونے پائے بلکہ ہمارے بیٹے ہمارے ترکہ پر قبضہ کریں اور شریکوں سے لڑتے جھگڑتے رہیں اور ہمارے مرنے کے بعد دنیا میں ہماری یادگار رہ جاوے.یہ خیال سراسر شرک ہے اور فساد اور سخت معصیت سے بھرا ہوا ہے.اور میں جانتا ہوں کہ جب تک یہ خیال دل میں سے دور نہ ہولے کوئی شخص سچا موحد اور سچا مسلمان نہیں ہو سکتا.ہمیں ہر روز خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانا چاہیے اور جن امور کو وہ فتنہ قرار دیوے بغیر تحقیق صحت نیت کے ان کو اپنی درخواست سے اپنے پر بلا نازل کرنا نہیں چاہیے.جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاتا ہے وہ اس کے اندرونی پاک جوشوں اور مطہر جذبات کو خوب جانتا ہے بلکہ درحقیقت پاک دل انسان کے اندرونی جوش اسی کی طرف سے ہوتے ہیں اور پھر وہ خود انہیں پورا بھی کر دیتا ہے جس وقت وہ دیکھتا ہے کہ ایک الٰہی حالت کا آدمی اس کے دین کی خدمت کے لئے اپنا کوئی وارث چاہتا ہے تو اللہ جلّشانہٗ اس کو ضرور کوئی وارث عنایت کرتا ہے.اس کی دعائیں پہلے ہی سے قبول شدہ کے حکم میں ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس حالت سے اور اس کے نتائج سے تمتع کا مل عطا فرماوے اور کسی جگہ مکان بنانے کی نسبت یہ عاجز ارادہ الٰہی کی طرف دیکھ رہا ہے اس لئے ابھی کوئی بات منہ پر نہیں لاسکتا لیکن اس عاجز کی دلی منشاء ہے.آں مکرم کا اس بات میں تردّد ہے کہ یہ عاجز اور آںمکرم بقیہ زندگی ایک جگہ بسر کریں.سو یہ عاجز دعا میں مشغول ہے امید کہ اللہ جلّشانہٗ کوئی ایسی راہ پیدا کر دے گا جو کہ خیر و برکت سے معمور ہوگی.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۲۷؍ نومبر ۱۸۹۱ء راقم خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 138

مکتوب نمبر۸۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں آپ کو اطلاع دیتاہوں کہ سردار ویٹ خان خلف الرشید مسٹر جان ویٹ کہ ایک جوان تربیت یافتہ قوم انگریز دانشمند مدبّر آدمی انگریزی میں صاحب علم آدمی ہیں اور کرنول احاطہ مدراس میں بعہدہ منصفی مقرر ہیں.آج بڑی خوشی اور ارادت اور صدق دل سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگئے.ایک باہمت آدمی اور پرہیز گار طبع اور محب اسلام ہیں.انگریزی میں حدیث اور قرآن شریف کو دیکھا ہوا ہے.چونکہ رخصت کم تھی اس لئے آج واپس چلے گئے پھر ارادہ رکھتے ہیں کہ تین ماہ کی رخصت لے کر اسی جگہ رہیں اور اپنی بیوی کو ساتھ لے آویں.وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہر ایک ملک میں واعظ بھیجنے چاہئیںاور کہتے ہیں کہ ایک مدراس میں واعظ بھیجا جاوے اس کی تنخواہ کے لئے میں ثواب حاصل کروں گا.غرض زندہ دل آدمی معلوم ہوتا ہے.تمام اعتقاد سن کر اٰمَنَّا اٰمَنَّا کہا.کوئی روک پیدا نہیں ہوئی اور کہا کہ جو لوگ مسلمان اور مولوی کہلا کر آپ کے مخالف ہیں وہ آپ کے مخالف نہیں بلکہ اسلام کے مخالف ہیں.اسلام کی سچائی کی خوشبو اس راہ میں آتی ہے.الغرض وہ محققانہ طبیعت رکھتے ہیں اور علوم جدیدہ میں مہارت رکھتے ہیں.زیادہ تر خوشی یہ ہے کہ پابند نماز خوب ہے.بڑے التزام سے نماز پڑھتا ہے.جاتے وقت امام مسجد حافظ کو دو روپیہ دیئے اور اس عاجز کے ملازموں کو پوشیدہ طور پر چند روپیہ دینے چاہے مگر میرے اشارہ سے انہوں نے انکار کیا.ایک مضبوط جوان دوہرا بدن کا مشابہ بدن قاضی خواجہ علی کے اور اس سے کچھ زیادہ.خدا تعالیٰ اس کو استقامت بخشے.کرنولؔ احاطہ مدراس میں منصف ہے.آنمکرم بھی

Page 139

اس سے خط وکتابت کریں.ان کے پتہ کا ٹکٹ بھیجتا ہوں.مگر ٹکٹ میں بلورؔ لکھا ہے.وہاں سے بدلی ہوگئی ہوگی.والسلام ۱۳؍ جنوری ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از قادیان یہ وعدہ کر کے گئے ہیں کہ ازالہ اوہام کے بعض مقامات انگریزی میں ترجمہ کر کے بھیج دوں گا.ان کو چھپوا کر شائع کر دینا اور ازالہ اوہام کی دو جلد لے گئے ہیں.قیمت دینے پر اصرار کرتے تھے مگر نہیں لی گئی.

Page 140

مکتوب نمبر۹۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل مفصل حال اپنی علالت طبع کا لکھ چکا ہوں.رات قریباً اٹھارہ دفعہ بول کی حاجت ہوئی اور تمام رات بے چینی اور بیداری میں گذری.چار بجے کے قریب کچھ نیند آئی.امید کہ توجہ فرما کر کوئی تجویز کر کے بھیج دیں گے کہ ضعف بہت ہوتا جاتا ہے.شاید ضعف قلب کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت سے پیشاب آتا ہے اور پیشاب سے ضعف ہو جاتا ہے.امید کہ خداوند کریم اپنے فضل سے شفا بخشے گا.اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سخت عارضہ ہوتا ہے تو خداوند کریم اپنی طرف سے شفا بخشتا ہے.اسی طرح ایک دفعہ زحیر اور اسہال خونی کی سخت بیماری ہوئی.یہاں تک کہ بظاہر زندگی سے یاس کلّی ہوگئی اور ایک شخص جو میرے ساتھ ہی بیمار ہوا تھا وہ فوت ہو گیا.لیکن اس نازک حالت میں خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک عجیب طور سے شفا بخشی اور یہ الہام ہوا.وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِشِفَآئٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ۱؎ ایسا ہی اس دوسری بیماری میں بھی جب حال قریب موت ہوا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا.الابراء.۲؎ سو یقین رکھتا ہوں کہ خداوند کریم اس بیماری سے نجات بخشے گا.فضل احمد نے جموں سے بڑا شکریہ کا خط لکھا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے بڑی جدوجہد اور توجہ سے میرا معالجہ کیا اور نیز درخواست کرتا ہے کہ مولوی صاحب کٹھوعہ میں میری تعیناتی کرا دیں.اس کو لکھا گیا تھا کہ دوچار روز کے لئے مل جائے.معلوم نہیں وہ کیوں نہیں آیا اور صاحبزادہ افتخار احمد صاحب کی والدہ نہایت الحاح سے عرض کرتی ہیں کہ افتخار احمد کی ہمشیرہ چند روز کیلئے ہم کو مل جاویں اور نیز سیالکوٹ سے مختار بھی مل جاوے اور پھر اکٹھی چلی جاویں.پس اگر خود آنمکرم کو فرصت ہو تو

Page 141

نہایت خوشی کی بات ہے کہ مدت کے بعد آنمکرم کی ملاقات سے فرحت حاصل ہو اور ان کا مطلب بھی پورا ہو جائے اور ہمارا بھی.والسلام ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از لدھیانہ مکتوب نمبر۹۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ شیخ محمد عرب کا خط آیا تھا.آپ کی خدمت میں ارسال ہے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حسبِ استطاعت و کمی بیشی وقت جو مل سکے ان کو دے دیں اور اگر کچھ کم ہو تو ملاطفت سے استمالت طبع فرماویں اور اس عاجز کی طبیعت آج بہت علیل ہو رہی ہے.ہاتھ پاؤں بھاری اور زبان بھی بھاری ہو رہی ہے.مرض کے غلبہ سے نہایت لاچاری ہے.مجھ کو ایک مرتبہ آنمکرم نے کسی قدر مشک دیا تھا وہ نہایت خالص تھا اور مجھ کو بہت فائدہ اس سے ہوا تھا.اب میں نے کچھ عرصہ ہوا لاہور سے مشک منگوائی تھی اور استعمال بھی کی مگر بہت کم فائدہ ہوا.بازاری چیزیں مغشوش ہوتی ہیں.خاص کر مشک.یہ تو مغشوش ہونے سے خالی نہیں ہوتی.چونکہ میری طبیعت گری جاتی ہے اور ایک سخت کام کی محنت سر پر ہے اس لئے تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خاص توجہ اس طرف فرماویں اور مشک کو ضرور دستیاب کریں بشرطیکہ وہ بازاری نہ ہو کیونکہ بازاری کا تو چند دفعہ تجربہ ہوچکا ہے.اگرچہ مشک دو ماشہ یا تین ماشہ ہو.وہ بالفعل کفایت کرے گا.مگر عمدہ ہو.اگر اصلی نافہ جو مصنوعی نہ ہو، مل جائے تو نہایت خوب ہے مگر جلد ہو.کتاب چھپ رہی ہے شائد تین جز کے قریب چھپ گئی ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار ۲۴؍ اگست ۱۸۹۲ء غلام احمد از قادیان

Page 142

مکتوب نمبر۹۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں آنمکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے پڑھنے سے ایک حیرت دل پر طاری ہوئی.مگر ساتھ ہی دل پھر کھل گیا.یہ خداوند حکیم و کریم کی طرف سے ایک ابتلا ہے.انشاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں.اللہ جلّشانہٗ کی پیار کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم پیار کی ہے کہ اپنے بندے پر کوئی ابتلا نازل کرے.مجھے تین چار روز ہوئے کہ ایک متوحش خواب آئی تھی جس کی یہ تعبیر تھی کہ ہمارے ایک دوست پر دشمن نے حملہ کیا ہے اور کچھ ضرر پہنچاتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کا بھی کام تمام ہو گیا.میں نے رات کو جس قدر آنمکرم کے لئے دعا کی اور جس حالتِ پُرسوز میں دعا کی.اس کو خداوند کریم خوب جانتا ہے اور ابھی اس پر بفضلہ تعالیٰ بس نہیں کرتا اور چاہتا ہوں …… کہ خداوندکریم سے کوئی بات دل کو خوش کرنے والی سنوں.اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند روز تک اطلاع دوں گا اور انشاء اللہ القدیر، آپ کے لئے دعا کروں گا جو کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک یگانہ رفیق کے لئے کی جاتی ہے.ہمیں جو ہمارے بادشاہ، ہمارا حاکم، ذوی الاقتدار، زندہ حی و قیوم موجود ہے جس کے آستانہ پر ہم گرے ہوئے ہیں جس قدر اس کی مہربانیوں، اس کے فضلوں، اس کی عجیب قدرتوں، اس کی عنایات خاصہ پر بھروسہ ہے اس کا بیان کرنا غیر ممکن ہے.دعا کی حالت میں یہ الفاظ منجانب اللہ زبان پر جاری ہوئے.لَوٰی عَلَیْہِ (اَوْ) لَاوَلِیَّ عَلَیْہِ ۱؎ اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا اور اسی کی طرف سے تھا.آج رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ لڑکے کہتے ہیں کہ عید کل تو نہیں پر پرسوں ہوگی.معلوم نہیں کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے.۲؎ مجھے معلوم نہیں کہ ایسا پُر اشتعال حکم کس اشتعال کی وجہ سے دیا گیا ہے.کیا بدقسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم، نیک بخت اور سچے خیرخواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کہ کیاہونے والا ہے.

Page 143

حالات سے مجھے بہت جلد مفصّل اطلاع بخشیں اور یہ عاجز انشاء اللہ القدیر، ثمرات بیّنہ دعا سے اطلاع دے گا.بِفَضْلِہٖ وَمِنَّتِہٖ تَعَالٰی.مجھے فصیح کی نسبت حالات سن کر نہایت افسوس ہوا.اپنے محسن کا دل سخت الفاظ سے شکستہ کرنا اس سے زیادہ اور کیا نااہلی ہے.خدا تعالیٰ ان کو نادم کرے اور ہدایت بخشے.خاکسار ۲۶؍ اگست ۱۸۹۲ء غلام احمد عفی عنہ از قادیان مکتوب نمبر۹۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لڑکوں کی تلاش میں والدین کو بڑی دقتیں واقع ہوتی ہیں.لائق لڑکا ملتا نہیں.اور آپ کو معلوم ہے کہ سردار فضل حق صاحب بہت نیک چلن آدمی ہیں اور صاحب جائداد و زمین ہیں اور والد صاحب ان کے گیارہ سوروپیہ سالانہ جاگیر رکھتے ہیں اور سردار فضل حق صاحب کی لائل پور میں بھی زمین ہے اور جمعیت معاش بہرصورت عمدہ رکھتے ہیں اور جوان اور خوش شکل آدمی اور لائق ہیں.ایسا لائق ساتھ پھر میسر نہ ہو.والسلام خاکسار مرزا غلام حمد عفی عنہ ٭ مکتوب نمبر۹۴ یہ خبر اطمینان سے پڑھی جاوے گی کہ ترجمہ قرآن کی طرف جس کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس ہو رہی ہے اور جس کے لئے ناچیز اکمل کئی دفعہ کئی رنگ میں اخبار میں اور پرائیویٹ طور سے کوشش کر چکا ہے اور کررہا تھا، علامہ نورالدین نے غیر معمولی توجہ فرمائی ہے.کیونکہ میرے آقا(مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے بھی مفصلہ ذیل خط آپ کی طرف لکھا ہے.(ایڈیٹر) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.چونکہ عمر اور زندگی کا اعتبار نہیں اور درحقیقت یہ ضرورت ہے اگر آپ سے انجام پذیر ہو تو بہت ثواب کا کام ہے بلکہ میرے نزدیک ایسی خدمت سے عمر بھی بڑھتی ہے.جب حدیث کے خادموں کی طول عمر کی نسبت بہت کچھ ثابت ہوتا ہے تو پھر قرآن شریف کے خادم کے بارے میں قوی یقین ہے کہ خدا اُس کی عمر میں برکت دے گا.والسلام.مرزا غلام احمد خ

Page 144

Page 145

Page 146

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ عرض حال میں اپنی زندگی کایہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروںکو، جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیںیانایاب ہو چکی ہیں اورلوگوںکو خبر بھی نہیں ، جمع کروںاور جمع کر کے شائع کرتا رہوں.اس سلسلہ میں اب تک بہت کچھ شائع ہو چکاہے اورابھی بہت کچھ باقی ہے.میںخد اکا بہت شکر کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد( جو حضرت کے ان مکتوبات پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے)کا چوتھا نمبر شائع کر رہا ہوں.یہ مکاتیب نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے نام ہیں.اور ممکن ہے کہ آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں.مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے شائع کردئیے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا.وباللہ التوفیق.مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے.جو اِن بیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں.بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا.جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے.تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں.والسلام یکم فروری ۱۹۲۳ء خاکسار عرفانی کنج عافیت قادیان دارالامان

Page 147

Page 148

حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ تعارفی نوٹ ذیل کے خطوط حضرت نواب محمدعلی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ رئیس مالیر کوٹلہ کے نام ہیں.آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالۂِ اوہام میں آٹھویں نمبر پر کیا ہے اور تفصیل سے حالات درج کر کے آپ کے اخلاص کی تعریف کی ہے.آپ کی بیعت ۱۹؍ نومبر ۱۸۹۰ء کی ہے.آپ ان خوش قسمت صحابہ کرام میں سے ہیں کہ جن کا نام ۳۱۳ صحابہ میں نہ صرف ایک بار آئینہ کمالاتِ اسلام میں آیا بلکہ دوسری بار ضمیمہ انجامِ آتھم میں بھی درج ہوا.آپ کی اہلیہ محترمہ امۃ الحمید بیگم صاحبہ کو حضورؑ نے اپنی بیٹی بنایا تھا.ان کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے آپ کا عقد کر کے آپ کو اپنی فرزندی میں لیا.بعد میں آپ کے صاحبزادہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری صاحبزادی حضرت امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سے عقد ہونے پر حضورؑ کی فرزندی میں آ گئے.اس طرح یہ خاندان حضرت عثمانؓ ذوالنورین کا مماثل ہو گیا.نواب صاحب کی اولاد میں سے کئی صاحبزادیاں حضور کے خاندان میںبیاہی جا کر ’’خواتین مبارکہ‘‘ میں شمار ہو چکی ہیں اور آپ کی اولاد میں سے کئی صاحبزادگان کی حضورؑ کے خاندان میںشادیاں ہوئی ہیں.آپ کی ایک صاحبزادی حضورؑ کے مبشر بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے عقد میں آئیں.نواب صاحب دسمبر ۱۹۰۱ء میںہجرت کر کے قادیان چلے آئے او رعرصہ دراز تک سلسلہ کی مختلف رنگ میںقابلِ قدر خدمات سرانجام دیں.آپ کو حضورؑ نے تحریر فرمایا کہ:.’’میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں‘‘.نیز یہ بھی تحریر فرمایا کہ ’’میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور

Page 149

دعا کرتاہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دارالسلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے‘‘.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ’’حجۃ اللہ‘‘ کے لقب سے نوازا.آپ ۱۰؍ فروری ۱۹۴۵ء کو فوت ہوئے اور اب بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں.آپ کے نام حضورؑ کے باسٹھ خطوط حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مکتوباتِ احمدیہ جلدپنجم نمبر چہارم میں اور ایک جلد پنجم نمبر پنجم میں شائع فرمائے تھے اور ان سے آگے جو اڑتیس خطوط شامل کئے گئے ہیں وہ محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان نے اصحاب احمد جلد ہفتم میں درج فرمائے تھے.اصل خطوط حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ تھے اور انہوں نے محترم ملک صلاح الدین صاحب کو اشاعت کے لئے دئے تھے.

Page 150

Page 151

Page 152

Page 153

Page 154

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکتوبات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ مکتوب نمبر۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از طرف عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایّد باخویم محمد علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاخط پہنچا.اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا کیونکہ آپ کاپہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پُر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو.سو جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ نے اس عاجز پر القا کیا، تحریر میں آیا اورفی الحقیقت جذبات نفسانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبانِ الٰہی ہو جائے اور بصدق و ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے جس کی روح کو روشنی بخشی گئی ہے تا اس کے چشمہ صافیہ سے اس فردماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر وتازہ درخت کی ایک شاخ ہوکر اس کے موافق پھل لاوے.غرض آپ نے اپنے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی.سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا تھا جس کو سعید آدمی بصد شکر قبول کرے گا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کا وقت نہیں آیا.معلوم نہیں کہ ابھی کیا کیا دیکھنا ہے اور کیا کیا ابتلا درپیش ہے.اوریہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے میں بیعت نہیں کرسکتا.سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ اماموں پر ختم ہو چکی ہے اور اب خدا تعالیٰ کی یہ نعمت آگے نہیں ہے بلکہ پیچھے رہ گئی ہے

Page 155

کیسا لغو اور حقانیت سے دُور ہے اگر خدائے کریم و رحیم کو بھی منظو ر تھا کہ ولایت اور امامت بارہ شخصوں پر محدود ہو کر آئندہ قرب الٰہی کے دروازوں پر مہر لگ جائے تو پھر اس سے تمام تعلیم اسلام عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے جس میں کسی نوع کی برکت کا نام و نشان نہیں.اور اگر یہی سچ ہے کہ خد اتعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آئندہ بکلّی وہ راہیں بند ہیں تو خدائے تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہو گا.گویا وہ جیتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مغز اور بات نہیں.اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر کیوں پنج وقت نماز میںیہ دعا پڑھتے ہیں. ۱؎ کیونکہ اس دعا کے تو یہی معنی ہیںکہ اے خدائے قادر! ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو ُتونے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا.پس یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا.اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار و امصار میں بھیجا ہے.اگر یہ برکت نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت ہی کیا ہے یہ تو سچ ہے کہ اکثر امام کامل اور بزرگ اور سیّد القوم تھے.مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں.خدائے تعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی.اس دن قیامت آجائے گی.خدا تعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدایت بخشے.پرانا عقیدہ ایسا مؤ ثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل ماناجاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بجز فضل خداوندتعالیٰ نجات نہیں پاسکتا.ایک آدمی آپ لوگوں میں اس مدّعا کے ثابت کرنے کے لیے موجود ہے.کیا آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے کہ اس کی آزمائش کرے.

Page 156

کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے.امید کہ خدائے تعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے.صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور قیمت بطور پیشگی لی جاتی ہے اور بعد تکمیل طبع باقی حصّے انہیں کو ملیں گے جو اوّل خریدار ہوچکے ہیں.قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ تک حسبِ مقدرت ہے.یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم.مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت لِلّٰہِ ملتی ہے.آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جائے.والسلام احقر عباد اللہ غلام احمد ۷؍اگست ۱۸۸۹ء ازلودہانہ محلہ اقبال گنج مکان شہزادہ حیدر

Page 157

مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت عزیزی اخویم خان صاحب محمد علی خان صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچ کر بموجب مسرت و انشراح خاطر ہوا.اگرچہ طبیعت اس عاجز کی کسی قدر علیل تھی اور نیز ضعف بہت تھا مگر میں نے نہ چاہا کہ آپ کو بہت انتظار میں رکھوں اس لئے بلحاظ اختصار آپ کے سوالات کا جواب دیتا ہوں.(۱) جو شخص اس عاجز سے بیعت کرے اس کو قال اللہ اور قال الرسول کا پابند ہونا ضروری ہے.یہ ضروری نہیں کہ وہ حنفی ہو یا شافعی وغیرہ وغیرہ.مگر یہ نہایت ضروری ہے کہ اللہ جلّشانہٗ کے کلام عزیز پر ایمان لاوے اور جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرے اور آثار صحیحہ نبویہ کا اتباع کرے.(۲)بیعت کرنے والے کے لئے ان عقائد کا ہونا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسول برحق اور قرآن شریف منجانب اللہ کتاب اور جامع الکتب ہے کوئی نئی شریعت اب نہیں آسکتی اورنہ کوئی نیا رسول آسکتا ہے مگر ولایت اور امامت اور خلافت کی ہمیشہ قیامت تک راہیں کھلی ہیں اور جس قدر مہدی دنیا میں آئے یا آگے آئیں گے ان کاشمار خاص اللہ جلّشانہٗ کو معلوم ہے وحی رسالت ختم ہوگئی مگر ولایت و امامت و خلافت حقّہ کبھی ختم نہیں ہو گی.یہ سلسلہ ائمہ راشدین اور خلفاء ربّانیین کا کبھی بند نہیں ہو گا.کسی کو گزشتہ لوگوں میں سے بجز رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع فضائل و کمالات میںبے مثل نہیں کہہ سکتے اور ممکن نہیں کہ کسی کمال یا کسی نوع کی خدمت گزاری میں آئندہ اس سے بہتر پید اہو.ہاں!جزئی فضیلت کے لحاظ سے بعض لوگ بے مثل ٹھہر سکتے ہیں جیسے صحابہ اور اہلِ بیت کی یہ فضیلت جو انہوں نے زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہائی کے وقت میں ایسی وفاداری دکھلائی کہ اپنے خونوں کوپانی کی طرح بہا دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھا اوراس چہرہ سے عاشقانہ طور پر زندگی بسر کی اور اسلام پر پہلے پہل مخالفوں کے حملے ہوئے تو اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر ان کو روکا اوراسلام کو زمین پر جمایا اور اسلامی ہدایتوں کو زمین پر پھیلایا اور کفر کے زور کو مٹایا اور قرآن شریف کو دیانت اور امانت سے جمع کر کے

Page 158

تمام ملکوں میں رواج دیا اور اسلام کی صداقت پر اپنے خون سے مُہریں کر کے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے.بلاشبہ ان کی اس فضیلت کو بعد میں آنے والے نہیں پا سکتے وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ مگر اس کے سوا ہر ایک کمال کے حاصل کرنے کے لئے در و دروازے کھلے ہیں خدا تعالیٰ کے مقبول اور نہایت اعلیٰ درجہ کے پیارے بندے اور امام الوقت اور خلیفۃ اللہ فی الارض اب بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پہلے ہوئے تھے اور اب بھی خد اتعالیٰ کے انعام و اکرام کی وہ راہیں کھلی ہیں جو پہلے کھلی تھیں.کمالاتِ نبوت و رسالت بھی ظلّی طور پرحاصل ہو سکتے ہیں جس قدر سالک کی استعداد ہو گی ضرور پَر َتو نور کا پڑے گا زندہ اسلام اسی عقیدہ کا نام ہے مگر جو لوگ امامت و خلافت و صدیقیت کو پہلے اماموں پر ختم کر چکے ہیں ان کے ہاتھ میں اب مُردہ اسلام ہے یا یوں کہو کہ اسلام کی بے جان تصویر ان کے ہاتھ میں ہے یاد رکھنا چاہئے کہ جو مذہب آئندہ کمالات کے دروازے بند کرتا ہے.وہ مذہب انسانی ترقی کا دشمن ہے.قرآن شریف کی رو سے انسان کی بھاری دعا یہی ہے کہ وہ روحانی ترقیات کا خواہاں ہو غور سے پڑھنا چاہئے ا س آیت کو .دوسرے یہ عقیدہ بھی ضروری ہے کہ مجرّد کسی قسم کے رشتہ سے خواہ کسی رسول سے رشتہ ہو، کوئی فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ فقط رشتہ کی فضیلت پر ناز کرنا نامَردوں کا کام ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ذوالقُربٰیمیں سے ہر ایک شخص جو قابل تعریف ہے وہ رشتہ کے لحاظ سے ہر گز نہیں وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی .۱؎ تیسرے یہ عقیدہ بھی ضروری ہے کہ قرآن شریف اب تک ہر ایک قسم کے تصرّف سے بکلّی محفوظ ہے اور کوئی ایسا قرآن نہیں جو کوئی شخص اس کو غار میں لے کر اب تک چھپا بیٹھا ہے یہ ان لوگوں کا بہتان ہے جن کو خدا تعالیٰ کا خوف نہیں.چوتھے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ.سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے.

Page 159

بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ ہم قرآن شریف سے اسی قدر محبت اور عشق پیدا کریں گے جس قدر ہمیں ان تینوں بزرگواروں کے امین ہونے پر ایمان ہو گا اگر ہم ایک ذرا بھی کمالات ایمانیہ میں ان کو کم سمجھیں گے تو وہی کمی قرآن شریف کی عظمت کے بارے میں ہمارے دلوں میں پید اہو جائے گی.یہی وجہ ہے کہ جس پیار اور محبت سے سنت جماعت قرآن شریف کو دیکھتے ہیں اور اس کو بصد محبت حفظ کر لیتے ہیں یہ بات شیعہ لوگوں میں ہر گز نہیں پائی جاتی.مثلاً مجھے تخمیناً معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک پنجاب میں ایک لاکھ سے زیادہ سنت جماعت میں سے قرآن شریف کاحافظ ہو گا مگر کیاکوئی اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ اسی ملک میں شیعہ لوگوں میں سے دس پندرہ بھی حافظ ہیں؟ بلکہ میرے خیال میں ایک حافظ بھی بمشکل ہے اس کا کیا سبب ہے؟ وہی ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم.پس اس سے معلوم ہوا کہ ان بزرگواروں کو بنظرِ تخفیف دیکھنے میں سرا سر ایمان کا گھاٹا ہے.والعاقل تکفیہ الاشارۃ.پانچویں بیعت کے لئے یہ ضروری عقیدہ ہے کہ شرک سے بکلّی پرہیز کرے اگر یہ تمام عقائد کسی شیعہ میں پائے جاویں تو بلاشبہ اس کی حالت عمدہ ہے اور وہ اس لائق ہے کہ بیعت میں داخل ہو.(۳)بیعت کے مقاصد میں سے ایک بھاری مقصد یہ ہے کہ انسان راہ راست پر آوے اور خدا تعالیٰ کے غضب سے ڈر کر ہر ایک طریق نا انصافی کو چھوڑ دیوے جو شخص عمداًنا انصافی پر جما رہنا چاہتا ہے وہ دراصل حقیقت بیعت سے غافل ہے ہم اس مسافر خانہ میں تھوڑے عرصہ کے لئے آئے ہیں اور اس غرض سے بھیجے گئے ہیں کہ اپنے اخلاق اور عقائد اور اعمال کو درست کر کے اور حسب مرضیاتِ الٰہی اپنے نفس کو بنا کر اس مولیٰ کریم کی رضا مندی حاصل کریں.سو ہر ایک بات میں یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کیا ہمارے قول اور فعل ظلم و زیادتی سے خالی ہیں؟ یاہم انصاف کا خون کر رہے ہیں جن بزرگ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضعف و نا توانی اور تنہائی اورغربت کے ایام میں آں جناب کی رفاقت اختیار کی.ا س رفاقت اور اس ایمان کے پاس کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائیں، اپنی ریاستوں ملکیتوں سے بے دخل کئے گئے وطن سے نکالے گئے اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے صد ہا مرتبہ اپنے تئیں معرضِ ہلاکت میں ڈالا.ان کی شان کو جیسا کہ چاہئے، نہ سمجھنا سخت درجہ کی ناانصافی ہے درحقیقت اگر ہم انصاف سے دیکھیں اور عدالت کی نگاہ سے نظر کریں تو ہمیں اقرار

Page 160

کرناپڑے گا کہ وہ لوگ اعلیٰ درجہ کے مقدس ہیں.ہر ایک شخص کی فضیلت باعتبار اس کے حسنِ خدمات اور ذاتی لیاقتوں کے ہوا کرتی ہے.سو جیسے صحابہ کرام کی فضیلت اس قاعدہ مستمرہ کی رو سے بپایۂ ثبوت پہنچ گئی ہے کسی اور دوسرے کی فضیلت ہر گز ثابت نہیں ہو سکتی.مثلاً امام حسین رضی اللہ عنہ نے جو بھاری نیکی کا کام دنیا میں آکر کیا وہ صرف اس قدر ہے کہ ایک نابکار دنیا دار کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت نہ کی اور اسی کشاکش کی وجہ سے شہید ہو گئے.مگر یہ ایک شخصی ابتلا ہے جو انہیں پیش آگیااگر اس کو حضرت صدیق اکبر کی ان جانفشانیوں کے ساتھ جانچا جاوے جو انہوں نے تمام عمر محض اعلائِ کلمۂِ اسلام کے لئے اکمل اور اتم طور پر پوری کی تھیں، تو کیا ایک شخصی ابتلا کو اس سے کچھ نسبت ہو سکتی ہے؟ اللہ جلّشانہٗ کا کسی سے رشتہ نہیں ہے.جو شخص اعلیٰ درجہ کا وفادار ہے اور خدمت گزار ہے وہی اس کا مقرب ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا زندہ نہیں رہا.البتہ نواسے زندہ رہے ہیں.جیسی حضرت فاطمہ کی اولاد یا دوسری بیبیوںکی اولاد.سو خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے مدارج ان کے اعمال کے موافق ہیں.خواہ نخواہ کا درجہ کسی کو دیا نہیں جاتا.جو شخص محض خدا تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اس کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے دیکھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اس نے کیا کیا عمدہ کام کیا ہے ناحق فضیلت اس کو نہ دیوے کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ محض رشتہ سے کیوں کر فضیلت پید اہو جاتی ہے خاص کر کے ذرا سے رشتہ سے جو نواسہ ہوتا ہے.کنعان حضرت نوحؑ کا بیٹا تھا اور آذر حضرت ابراہیم ؑ کا باپ.پس کیا یہ رشتہ انہیں کچھ کا م آیا؟ پس یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اہلِ بیت ہونا اپنے نفس میں کچھ بھی چیز نہیں ہے.بے شک امام حسن و حسین ان لوگوں میں سے ہیں.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ان کی راستبازی کی وجہ سے کامل کیا ہے نہ اس کی وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں کیوں کہ نواسے تو اوربھی تھے نواسہ ہونا خدا تعالیٰ کے نزدیک یا خلقت کے نزدیک کیا حقیقت رکھتا ہے؟ لیکن بلاشبہ کمالات صدیقی وفا روقی کے مقابل پر حسینی کمالات متنزّلہیں ان بزرگواروں نے اسلام پر بڑا احسان کیا اور اسلام کی شوکت کو دنیا میں قائم کیا اور وہ جانفشانی کے کام کئے جو نبی اور رسول کرتے ہیں.جو شخص ان کے احسانات کا منکر ہووے وہ خدا تعالیٰ کا کافرِ نعمت ہے.اگر ہم ذبح بھی کئے جاویں تو ہرگز راستی کو چھوڑ نہیں سکتے.عوام کا قاعدہ ہے کہ وہ کورانہ تقلید پر چلتے ہیں یہ سراسر غلط ہے.تمام صحابہ کرام کے مناقب سے کتابیں بھری پڑی ہیں اور قرآن کریم شاہد

Page 161

ہے.صدیق اکبر اور عمر فاروق کے حق میں اس قدر پُر تعریف کلمات نبوی پائے جاتے ہیں کہ گویا ان دونوں بزرگواروں کو نبی قرار دیا گیا ہے.مگر ہماری نظر میں مجرد مناقب کوئی چیز نہیں صرف طرح طرح کے پیرایوں میں سچے مومنوں کی تعریفیں کی ہیں اور اس بات کا فیصلہ کہ ان میں سے زیادہ بزرگ کون ہے؟ اور ان بزرگوں کی خدمات سے کرنا چاہئے کہ اسی کی طرف اللہ جلّشانہٗ ہدایت فرماتا ہے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ بیعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ہر ایک قولی و فعلی و اعتقادی نا انصافی سے بکلّی دست بردار ہو جاوے کیونکہ بیعت راہ راست حاصل کرنے کے لئے ہے.اگر بہرحال اسی راہ پر قائم رہتا ہے کہ جو تقلیدی طور پر اختیار کیا گیا ہے تو پھر بیعت سے حاصل ہی کیا ہے ؎ ہر کجا شمع ہدایت یا فتی پروانہ باش گر خرد مندی پے راہ ہدا دیوانہ باش (۴) اگر چہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا اور دست بستہ کھڑا ہونا قانون فطرت کی رو سے بھی بندگی کے لئے مناسب ہی معلوم ہوتا ہے.لیکن اگر ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے ہیں تو نماز ہو جاتی ہے.مالکی بھی شیعوں کی طرح ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں.مسنون وہی طریق ہے جو اوپر بیان ہوا اس قدر اختلاف بیعت کا کچھ ہارج نہیں اگر چہ احادیثِ صحیحہ میں اس کانام و نشان بھی نہیں.(۵) یہ ہمیشہ سے قاعدہ رہا ہے کہ نشانوں کے چاہنے والے دو ہی قسم کے آدمی ہوتے ہیں یا غایت درجہ کے دوست یا غایت درجہ کے دشمن یعنی جب کوئی انسان مقبول خدا تعالیٰ سے غایت درجہ کی دوستی و محبت اختیار کرے یہاں تک کہ اس کی راہ میں قربان ہو جائے اور اس کی خاکپا ہو جائے تو وہ اپنے حوادث اور مصائب کے وقت یا تکمیل مدارج ایمان کے لئے رحمت کے نشان پاتا ہے اور اس کی برکت اور صحبت سے جذبات نفسانی کم ہوتے جاتے ہیں اور ذوق اور محبت بڑھتی جاتی ہے اور دنیا کی محبت کم اور ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نشانوں کے ذریعہ سے اس پر ظاہر کرتا جاتا ہے کہ یہ شخص محبوبان اور مقبولانِ الٰہی میں سے ہے اور عادت اللہ قدیم سے ایسی ہی جاری ہے کہ جب اس درجہ پر کسی کی ارادت پہنچ جائے تو اس کا ایمان کامل کرنے کے لئے کئی قسم کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پیشتر آزمائش صدق کے اور محققین حقیقت پر نظر

Page 162

ڈالتے ہیں.عوام جلدی سے کسی کو کافر اور کسی کو بے دین کہہ دیتے ہیں اور محققین اس کی ذرا پرواہ نہیں کرتے.اگر ہم صدیقی اور فاروقی خدمات کو جو اپنی زندگی میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کیں لکھیں تو بلاشبہ وہ ایک دفتر میں بھی ختم نہیں ہو سکتیں.لیکن اگر ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمات کو لکھنا چاہیں تو کیا ان دو تین فقروں کے سوا کہ وہ انکار بیعت کی وجہ سے کربلا کے میدان میں روکے گئے اور شہید کئے گئے.کچھ اور بھی لکھ سکتے ہیں؟ بیشک یہ کام ایسا عمدہ ہوا کہ ایک فاسق دنیا دار کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت نہیں کی.مگر اعتراض تو یہ ہے کہ وہ اپنے باپ بزرگوار کے قدم پر کیوں نہ چلے.باپ نے تو بقول شیعوں کے تین فاسق آدمیوں کے ہاتھ پر جو بزعم ان کے مرتد سے بدتر تھے اور بقول ان کے صرف معمولی بادشاہوں میں سے تھے، بیعت کر لی اور بیٹے نے تو اپنے باپ کے طریق سے اعراض کر کے ایک فاسق کی بیعت بھی نہیں کی اور انکار ہی میں جان دی.بہرحال یہ اتفاقی حادثہ تھا جو امام صاحب کو پیش آ گیا اور بڑا بھاری ذخیرہ ان کے درجہ کا صرف یہی ایک حادثہ ہے جس کو محض غلو اور نا انصافی کی راہ سے آسمان تک کھینچا جاتا ہے اور وہ بزرگوار صحابہ جو رسولوں کی طرح دنیا میں کام کر گئے اور ہر میدان میں جان فدا کرنے کے لئے حاضر ہوئے ان سے بقول آپ کے لاپرواہی تو آپ کا طریق ہے.یہ فیصلہ توآسانی سے ہو سکتا ہے چونکہ دنیا دارالعمل ہے اور میدانِ حشر میں مراتب بلحاظ اعمال ملیں گے.پس جس کے دل میں امام حسن و حسین کی وہ عظمت ہے کہ اب وہ دوسرے صحابہ سے لاپرواہ ہے اس کو چاہئے کہ ان کی خدمات شائستہ دین کی راہیں پیش کرے اگر ان کی خدمات کا پلّہ بھاری ہے تو بلاشبہ وہ دوسرے صحابہ سے افضل ٹھہریںگے ورنہ ہم اس بات کے توقائل نہیں ہو سکتے کہ خواہ نخواہ کسی کو افضل ٹھہرایا جاوے.اوریہ خیال کرنا کہ ان کی فضیلت یہی کافی ہے کہ وہ نواسے تھے یہ خیال کوئی عقلمند نہیں کر سکتا.کیونکہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ نواسہ ہونا کچھ بھی چیز نہیں ایک ذرا سا رشتہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی لڑکیاں تھیں اور نواسے بھی کئی تھے کس کس کی ہم پرستش کریں یہ آیت کریمہ ہمارے لئے کافی ہے ۱؎ مجھ پر اللہ جلّشانہٗ نے کھول دیا ہے کہ اس زمانہ کا اتّقا صدیق اکبر ہے بعض لوگوں کو یہ بھی دھوکہ لگا ہو ا ہے کہ وہ مناقب کسی بزرگ کے پیش کر دیا کرتے ہیں یعنی

Page 163

کہتے ہیں کہ مثلاً حضرت علی ؓ کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے اور امام حسین کے حق میں یہ فرمایا ہے مگر یہ خیال کہ کیونکر اعلیٰ درجہ کی ارادت و محبت کسی کی نسبت پیدا کی جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت طبعی اور حقیقی طور پر جو اعلیٰ درجہ کی ارادت اور فرمانبرداری بغیر پوری آزمائش کے نہیںہو سکتی مگر طالب حق اللہ جلّشانہٗ کی توفیق سے کسی قدر قرائن سے بہ تکلف ارادت مندوں کا پیراہن پہن لیتا ہے پھر عنایتِ الٰہی سے بمشاہدہ برکات حق وہ تکلّف طبیعت میں داخل ہو جاتا ہے.صحابہ اور اہلِ بیت بھی آہستہ آہستہ مراتب عرفان کو پہنچے ہیں مگر روزِ ازل سے انہوں نے وہ خدمات اپنے ذمہ لیں جو بجز کامل ارادت کے ظہور میں نہیں آسکتیں اور پھر غایت درجہ کی دشمنی پر اور جو مرد مقبول کی کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دشمن نادان ایک ولی اللہ سے عداوت شروع کرتا ہے اور ہر وقت قول یا فعل سے اس کے درپے آزار رہتا ہے تو آخر ایک دن غیرتِ الٰہی جوش مارتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَادٰی اَوْلِیَائی فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ اس لئے یہ اصول نہایت صحیح ہے کہ جس کو کرامات کے دیکھنے کا شوق ہو وہ یا تو غایت درجہ کا دوست ہو جائے یا غایت درجہ کا دشمن.کرامات بازیچہء ِ اطفال نہیں ہے کہ خواہ نخواہ کھیل کی طرح دکھلائی جائیں.اللہ جلّشانہٗ اور اس کے وفادار بندے غیر اللہ سے لا پرواہ ہیں اور خواہ نخواہ بازیگروں کی طرح کرشمہ نمائی ان کی عادت نہیں اگرچہ اولیاء اللہ پر کرامات الٰہی بارش کی طرح برستی ہیں لیکن غیر جب تک کہ پورا دوست یا پورا دشمن نہ ہو ان انوار کے مشاہدہ سے بے نصیب رہتا ہے اس عاجز نے جو سولہ ہزار اشتہارات کرامت نمائی کے لئے شائع کیا تھا اور شرط کی تھی کہ اگر کوئی مخالف منکر کرامات ہو تو ایک برس تک ہمارے دروازہ پر آکر بیٹھے.اس کا ہر جہ دیا جائے گا اس اشتہار سے اللہ جلّشانہٗ کی غرض یہی تھی کہ اس پابندی سے وہی شخص آکر ایک سال تک بیٹھے گا جو تمہارا دشمن ہو گا.(۶) اس میں شک نہیں ہے اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ یہ عاجز نبیوں کی طرح اصلاح خلق اللہ کے لئے مامور ہوکر آیا ہے اور دل میں بہت خواہش ہے کہ وہ کراماتِ الٰہی جو یہ عاجز دیکھ رہا ہے لوگ بھی دیکھیں لیکن خدا تعالیٰ اپنے قانون قدیم سے تجاوز نہیں کرتا دوست کامل بننا چاہئے یا دشمن کامل.تا آسمانی نشان ظاہر ہوں ہاں ایک طریق ہے اوراس کو آپ ہی بجا لا سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آپ کا اب تک عقیدہ یہ ہے کہ بارہ اماموں کو جس قدر فضیلت ہے وہ اصحاب کبار کو حاصل نہیں.

Page 164

غایت درجہ اصحاب کبار بادشاہوں کی طرح ہیں اور اس عاجز کا عقیدہ ہے کہ اصحاب کبار کے درجہ کے مقابل بارہ امام کچھ بھی چیز نہیں بلکہ اصحاب کبار کی محبت ان کا فخر اور ان کے ترقی ایمان کا موجب ہے قرآن شریف میں بجز ابوبکر صدیق ؓ خاص طور پر کسی اہلِ بیت کا ذکر نہیں اور یہ بھی میرا عقیدہ ہے کہ صحابہ کے بعد جس قدر اہل بیت میں امام ہوئے ہیں وہ اپنے کمالات میں بے مثل نہیں بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ ہوتے ہیں یہ میرے لئے شکر کا مقام ہے اور اس بات کا کہنا اپنے محل پر ہے کہ ان اماموں کے درجہ کے موافق ایک میں بھی ہوں اور اس سے زیادہ بھی مجھ پر انعاماتِ الٰہی ہیں جس کو آپ سمجھ نہیں سکتے اور نہ اس زمانہ کی خلقت سمجھ سکتی ہے.اب اگر میں اس دعوٰے میں راستی پر نہیں ہوں تو میری طرف سے عام منادی ہے کہ شیعوں کے بزرگ لوگ میرے اشتہار کے موافق مباہلہ اور مقابلہ کے لئے آویں.بیشک اگر وہ آویں تو اللہ جلّشانہٗ ان کی پردہ دری کرے گا اور اپنے بندہ کی تائید میں وہ انوار دکھلائے گا جو ہمیشہ اپنے خادم بندوں کے لئے دکھلاتا رہا ہے اس طریق سے آپ کرامات کو مشاہدہ کر سکتے ہیں اور آپ مقدرت رکھتے ہیں کہ کسی شیعہ کے مجتہد کو دو چار ہزار روپیہ دے کر میرے دروازہ پر بٹھا دیں اورمقابلہ کراویں.تاسیہ روی شو دہر کہ درو غش باشد (۷) موافق شرائط مطبوعہ کے تحریری بیعت بھی ہو سکتی ہے اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے وقتِ صفا میسر آیا تو انشاء اللہ آپ سب صاحبان کے لئے دعا کروں گا.(والسلام علی من اتبع الہدیٰ) ٭ خاکسار مرزا غلام احمد

Page 165

مکتوب نمبر ۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت اخویم عزیزی خان صاحب محمد علی خاں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ متضمن بہ دخول درسلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا.دعا ثبات و استقامت درحق آں عزیز کی گئی.ثبتکم علی التقوٰی والا یمان وفتح لکم ابواب الخلوص والمحبّۃ والعرفان امین ثم امین.اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے.جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں.اپنے ربّ کریم سے مناجاتِ خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں.جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہوجانا نہایت یقینی ہے اس کو فراموش مت کرو اور ہروقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو.کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور وہ گھڑی کس وقت آجائے گی.سو اپنے وقتوں کی محافظت کرو اور اس سے ڈرتے رہو.جس کے تصرّف میں سب کچھ ہے.جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے.اس کو امن دیا جائے گا.مگر جو شخص بَلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہورہا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے دکھوںمیں ڈالا جائے گا.جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے.وہ اس کے حکموں کی عزت کرتاہے.پس اس کو عزت دی جائے گی.مگر جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا.دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے.بے وقوف ہے وہ شخص جو اس سے دل لگا وے، اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے.سو ہو شیار ہو جائو تا غیب سے قوت پائو.دعا بہت کرتے رہو اورعاجزی کو اپنی خصلت بنائو.جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں.اس میں ہرگز زندگی کی روح نہیں جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جائو اوراپنی ہی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے،

Page 166

خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو.کہ اے ربُّ العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا.تونہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا، جن سے تو راضی ہو جاوے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت کے نہیں دی جائے گی.لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو.کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا فعلاً نصیحت للخلق ہے.آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ دین پہنچتا ہے ا ور رغبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے.خدائے تعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں.والسلام ٭ خاکسار مرزا غلام احمد نوٹ:.اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں.لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی.مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے.جب وہ شکوک رفع ہوئے تو انہوں نے تأمّل نہیں کیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں نواب صاحب کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے.اس میں لکھا ہے کہ ’’ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا.لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مؤیّد نہیں ہیں.بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ

Page 167

اقرار تھا نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں.یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے.تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط وکتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہانہ ملنے گیا تواس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو باخدابزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلّی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسر شان نہ کرے، سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے.تب میں نے آپ سے بیعت کر لی.اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے توبہ کی ہے.مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرزِ معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مجدّد اوردنیا کے لئے رحمت ہیں‘‘.جیساکہ پہلے خط سے ظاہر ہے حضرت اقدس اگست ۱۸۹۰ء میں لودھیانہ ہی تھے.اس لئے کہ وہ خط لودھیانہ سے ہی حضرت نے لکھا ہے.پس ۱۸۹۰ء کی آخری سہ ماہی میں غالباً نواب صاحب کے شکوک وغیرہ صاف ہو گئے اور آپ نے سلسلہ بیعت میں شمولیت اختیار کی.اگر میں صحیح تاریخ بیعت بھی معلوم کر سکا تو وہ کسی دوسری جگہ درج کردی جائے گی.وباللہ التوفیق.عرفانی.

Page 168

مکتوب نمبر۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاعنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا.الحمد للّٰہ والمنۃ کہ خدائے تعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی.اللہ جلّشانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اورمقاصد دلی میںبرکت اور کامیابی بخشے.اگرچہ حسبِ تحریر مرزا خدابخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچیدگی ہے مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہو اکہ آپ میرے پاس موجود ہیں اورایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی ا ورجیسے اقبال اورعزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ اُبھارتا ہے.ویسی ہی صورت پیدا ہوئی.میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیا ہے.مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلّشانہٗ کی طرف سے آپ کے لئے مقررہے.اگر اس کا زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا مگر آج خوش ہوں.کیونکہ آپ کے مآل کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی.واللّٰہ اعلم بالصواب.میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے درست کرنے کے لئے میں نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے.متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے.مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آں محب بوجہ ضعف و نقاہت ایسے متبرک جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتے.اس حالت میں مناسب ہے کہ آں محب اگر حرج کار نہ ہو تو مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کر دیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد ازقادیان

Page 169

مکتوب نمبر۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلّمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ عین انتظار میں مجھ کو ملا.جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا.میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطۂ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں.لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے.اب میں آپ پر واضح کرتا ہوں کہ میں نے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا.ا گر امر متنازعہ فیہ میں قرآن اورحدیث کی رو سے مباہلہ جائز ہو تو میں سب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں.لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیںجب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کے اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے.کسی کی طرف سے عمداً افتراء یہ دروغ بافی نہیں کیونکہ اگر مجرد ایسے اختلافات میں جو قطع نظر مصیب یا مُخطیہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق قدم پر مبنی ہیں.مباہلہ جائز ہوتا اور خدا تعالیٰ ہر یک جزئی اختلاف کی وجہ سے مُخطیپر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام اسلام کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا.کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر عذاب نازل ہو.اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر ہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہلِ حدیث.اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کے جزئی اختلافات کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخدا تعالیٰ اس پر، جو حق پر نہیں، عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں.اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا

Page 170

استیصال تجویز کرنا پڑتا ہے.وہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے، کیوں کر جائز ہو گا؟ پھر میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلافات کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا کہ  ۱؎ یعنی اے خداہماری خطا معاف کر اور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما.بلکہ مصیب اور مُخطیکا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہریک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ہر گز ایسا نہیں.اگر اس اُمت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان کا تمام جزئیات مختلفہ میں مباہلہ کرایا جائے تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے.کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی فرقہ کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا.وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں.اب میں یہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے.سو واضح رہے کہ صرف دو صورت میں مباہلہ جائز ہے.(۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعوٰی رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے.(۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے.مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے.کیونکہ میں نے بچشم خود اس کو زنا کرتے دیکھا ہے.یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خوار ہے کیونکہ میں نے بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے.سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلّت پہنچانا چاہتا ہے.جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے.سو مولوی اسمٰعیل صاحب

Page 171

نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی.لیکن اگر بنا صرف اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے تو یہ کوئی تہمت نہیں.بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے.غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے.جو اپنے قول کی قطع اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں.پس ما نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مُخطیبھی.اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلّی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کی اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے.بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے.اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے.وہ مشورہ نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا صرف اتمام حجت کی وجہ سے طلب کیا گیاہے.سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کردیں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے.یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا وہ مباہلہ کس بنا پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے، صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو.مباہل کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خدا تعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے.تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے.پھر یہ بھی بات ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلّغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے.یعنی جو شخص خدائے تعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے.اسے لازم ہے کہ اوّل دلائل بیّنہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوٰے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے.پھر اگر اس کے بیانات کو سن کراشخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ تو مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے.یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا، پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مباہلہ کی درخواست کی تو وہ اس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی.مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا.صرف یہ چاہتا ہے

Page 172

کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی حاضرہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں.پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اور صاف صاف بیان سے اپنا حق پر ہونا ظاہر کرے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اُٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا.مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک اور شبہ کو راہ نہیں بلکہ رؤیت کی طرح قطعی ہے.ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میںنے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزّہ ہے کہ جیسے رؤیت.تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو.مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے تا حجت پوری ہو جائے.کبھی سنا نہیں گیاکہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ پہلے ہی شروع ہو گیا.غرض اس عاجز کومباہلہ سے ہرگز انکار نہیں.مگر اسی طریق سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو پسند کیا ہے.مباہلہ کی بناء یقین پر ہوتی ہے نہ اجتہادی خطا و صواب پر جب مباہلہ سے غرض تائید دین ہے تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے.یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالہ اوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا.مگر شرط یہ ہے کہ ابھی آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں.اس کامضمون اب تک امانت رہے.اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یک جائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے.تا خدانخواستہ قبل ازوقت طبیعت سیر نہ ہو جائے.مگر آپ کے اصرار سے آپ کے لئے طلب کروں گا.چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اور حفاظت میں یہ کاغذات ہیں.اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا.اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے.آپ کے لئے ملاقات کرنا ضروری ہے.ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرنا چاہئے.والسلام ٭ خاکسار غلام احمد نوٹ:.اس خط پر تاریخ نہیں ہے.لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے.اس سے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے.نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے متعلق تحریک کی تھی جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی

Page 173

تھی.اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا.ا س مکتوب سے آپ کی سیرۃ پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعا وی پر بھی.جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو صاف فرماتے ہیں کہ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لاوے.اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاج نبوت پر پیش کیا ہے.دوسرے آپ استکشافِ حق کے لئے کسی سوال اور جرح کوبُرا نہیں مناتے.بلکہ سائل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے.اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں.(عرفانی)

Page 174

مکتوب نمبر۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خان سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ دو سَو اکیاسی روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے.جزاکم اللہ خیراً.جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت درپیش تھی.موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداوند کریم و قادر اس خدمت للّٰہی کا آپ کو بہت اجردے گا..۱؎ آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا وقت ملا.یقین کہ خدا تعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا.میں آپ کوخبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے.گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کرسکتا.تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے.جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی.واللّٰہ اعلم بالصواب.خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں.اُس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں کہ جووفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں.جو شخص عہد وفا کو نہیںتوڑتا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اورحسن ظن کو نہیں چھوڑتا، اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خدا تعالیٰ بڑے بڑے محالات کوممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میں بڑا ہی قدر ہے، کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور شتاب باز اور بے وفانہیں ہیں.یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اورارادہ ہے کہ تین چار ہفتہ تک

Page 175

لاہور رہے.اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پید اہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی.والسلام ۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء راقم خاکسار غلام احمد از قادیان مشفقی اخویم مرزا خدابخش صاحب کو السلام علیکم

Page 176

مکتوب نمبر۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کل عنایت نامہ پہنچ کر اس کے پڑھنے سے جس قدر دل کو صدمہ پہنچا اللہ تعالیٰ جانتاہے لیکن پھرخدا تعالیٰ کی یہ آیت یاد آئی کہ .۱؎ یعنی خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو کہ نومید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہیں.میںجانتا ہوں کہ یہ دن تمام دنیا کے لئے ابتلا کے ہیں.آسمان پر بارش کا نشان نہیں اس لئے زمینداروں کی حالت زوال کے قریب ہو رہی ہے اور ایک ایسے رئیس جن کی تمام جمعیت زمینداری آمدنی پر موقوف ہے وہ بھی سخت خطرہ میں ہیں لیکن پھر بھی یہ فقرہ بہت مضبوط ہے.خدا داری چہ غم داری ہمت مردانہ رکھنا چاہئے.بڑے بڑے بادشاہ ہیں جو اسلامی بادشاہ ہوئے ہیں، کبھی سخت سرگردانی میں پڑے اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے دوسری حالت پہلی حالت سے اچھی ہوگئی.میں آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر اس قدر دُعا کرنا چاہتا ہوں جب تک صریح اور صاف لفظوں میں خوشخبری پاؤں.آپ تسلی رکھیں اور میرے نزدیک آپ کو قادیان میں آنے سے کوئی بھی روک نہیں.ہرگز مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کمشنر صاحب کو پوچھیں اور اُن سے اجازت چاہیں.اس میں خود شک پیدا ہوتا ہے.بعض حکاّم شکی مزاج ہوتے ہیں پوچھنے سے خواہ مخواہ شک میں پڑتے ہیں.جہاں تک مجھے علم ہے حکام کوہماری…۲؎ کوئی خطرناک بدظنی نہیں ہے.ہماری جماعت کے ملازمین کو برابر ترقیاں مل رہی ہیں.ان کی کارروائیوںپر حکّام خوشی ظاہر کرتے ہیں.سو یہ ایک وہم ہوگا اگر ایسا خیال کیا جائے کہ حکاّم بدظن ہیں.اس لئے بلا تأمّل تشریف لے آویں میرے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں.ہم سچے دل سے گورنمنٹ کے خیر خواہ ہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار.مرزا غلام احمد عفی عنہٗ ۱۲؍ فروری ۱۸۹۲ء

Page 177

مکتوب نمبر۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی وعزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گزر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا.چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام بغایت درجہ کمی فرصت تھی.کیونکہ ہر روز مضمون تیار کر کے دیاجاتا ہے.اس لئے میں جواب لکھنے سے معذور رہا اور آپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا.آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ ایک خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیت پر مبنی ہے اس لئے بعض امور سے آپ کو آگا ہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے اُس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے.لہٰذا چند سطور آپ کی آگاہی کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں.یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعودہونے کادعویٰ بامر اللہ تعالیٰ کیا ہے.تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوتِ فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذبذب اور کشمکش میں پڑ گئے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ قیل و قال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا مباہلہ کے لیے اب طیار ہونا چاہیے اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہئے.(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جلّشانہٗ نے اجازت دے دی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پید ا ہوئی.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اوّل حال میں صرف اس لئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر بھی ان کا وہ جوش نہ تھا جو بعد ا س کے ہوا.لیکن اب تالیف آئینہ کمالاتِ اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں.اس لئے مجھے حکم ہو اہے کہ میں مباہلہ کی درخواست کو

Page 178

کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کروں.سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے کے ساتھ ہی شائع ہوگی.اوّل دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا اور مسلمان پر لعنت بھیجنا جائز نہیں.مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اصرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اورحکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو توکفر اُلٹ کر اُسی پر پڑتا ہے جو کافر ٹھہراتا ہے.اسی بنا پر مجھے یہ حکم ہو ا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور ابناء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کر.(۲) نشان کے بارے میں جو آپ نے لکھا ہے، یہ بھی درست ہے.درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں.اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں اوراپنے اندر قوتِ فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل وقال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے.اس تقریر کو پہچان لیتے ہیں.اور باطل جو تکلف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا.ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جاوے اور نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوبوں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اورنہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب کیا.۱؎ کوئی ثابت نہیںکرسکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نورِ قلب رکھتے تھے.انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیاتھا کہ یہ جھوٹوں کامنہ نہیں ہے.اس لئے خدائے تعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے.انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے.دوسری قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ اور کرامت طلب کرتے ہیں.ان کے حالات خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کے ساتھ بیان نہیں کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے  ۲؎ یعنی یہ لوگ

Page 179

سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے.ان کو کہہ دے کہ نشان تو خدا تعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیںگے تو کبھی ایمان نہیں لائیںگے.پھر فرماتا ہے ۱؎ یعنی جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سُود ہو گا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لایا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا.پھر فرماتا ہے  ۲؎ …الخ یعنی کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اوریہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ سو ان کو کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں.نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا.مگر جو خدا چاہے.ہر یک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جوٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے..۳؎ یعنی اگر تیرے پر (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے.سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلاجا اور ان کے لئے کوئی نشان لے آ.اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جونشان مانگتے ہیں ہدایت دے دیتا.پس ُتو جاہلوں میں سے مت ہو.اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے.بلکہ قسمیں بھی کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے مگر اللہ جلّشانہ‘ کی نظر میں وہ موردِ غضب تھے اور ان کے سوا لات بیہودہ تھے.بلکہ اللہ جلّشانہٗ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخص نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں.جیسا کہ ابھی آیت ۴؎ تحریر ہوچکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے.۵؎ یعنی پہلی اُمتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو

Page 180

دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہ لائے.کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے.اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے.یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی، جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے، با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کہ نشان کو طلب کرنے والے مورد غضبِ الٰہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاوے اس کا ایمان منظور نہیں.اس پردو اعتراض وارد ہوتے ہیں اوّل یہ کہ نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں.جو شخص اپنے اطمینان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں؟ بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مردودِ الٰہی کومقبولِ الٰہی خیال نہ کر لیوے.اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے.اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو اس کو قرائن مرجّحہ کے لحاظ سے قبول کیا جائے.یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قرائن موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں.یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارے میں اللہ جلّشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا.یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خدا تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجوہ ہم پر مکشوف نہیں ہوتیںمثلاً انسان خد ا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں.فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے لیکن وہ بھی نہیں دیکھے.بہشت اور دوزخ پر ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں، محض حُسنِ ظنّ سے مان لیتا ہے اس لئے خدائے تعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے.ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوزخ اور ملائک ایک مخلوق خدائے تعالیٰ کی ہے، ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے.جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بدیہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں.مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ آفتاب کے وجود پر ایمان لائے اور زمین پر ایمان

Page 181

لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی اور خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی، تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ جب ہم مثلاً ملائک کے وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خدائے تعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہر تے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ہم ان تمام حیوانات پر ایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملائک اور دوسری سب چیزیں برابر خدائے تعالیٰ کی مخلوق ہیں.پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملائک پردۂ غیب میں ہیں اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہو گا یعنی اگر اس وقت کوئی شخص خدا تعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اور اس کے ملائک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کرکے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہو گا.کیوں منظور نہ ہو گا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردۂ ِغیب درمیان نہ ہو گا تا اس سے ماننے والے کاصدق ثابت ہو.اب پھر ذرا غور کر کے اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے؟ امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کرکے اس بات کوجلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنی بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے، مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سوچ کر اور قرائن مرجحہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ بکلّی کھل جائے، قبول کرلیا جائے.یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور نبیوں اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں.مگر سعید آدمی جو خدائے تعالیٰ کے پیارے ہیں ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں اور جولوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں وہ لوگ خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اوربے قدر ہیں.بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جولوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کوقبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے.کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذّاب اور جھوٹا ہے کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا.اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان

Page 182

دکھلانے میں عمداً تاخیر اور توقّف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ انکار میں ترقی کرتے کرتے اپنی راؤں۱؎ کو پختہ کر لیتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذّاب ہے، مفتری ہے، مکار ہے، دروغگو ہے، جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے.پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے.تب اس وقت عنایتِ الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اورصداقت ظاہر کرنے کے لئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے.سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف وہ لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں جو پہلے مان چکے تھے اور انصار حق میں داخل ہو گئے تھے.یا وہ جنہوں نے اپنی زبانوں اور اپنی قلموں اور اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیاتھا.لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ رائوں کو ظاہر کر چکے تھے.وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رئوس الاشہاد شائع کرچکے.اشتہار دے چکے.مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے اس لئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کے لئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے.کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اورہزاروں لوگوں پر ان کی حماقت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعوٰی کرتے تھے کہ یہ شخص ضرور کاذب ہے، ضرور کاذب ہے، اور قسمیں کھاتے اور اور اپنی عقل اور علمیّت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں.اورمیں پہلے اس سے بیان کرچکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قرائن صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں.جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے ۲؎ یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردۂِ غیب ہے.جیساکہ صحابہ کرام نے ہمارے سیّد و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اورگو بعد اس کے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے.لیکن صحابہ کرا م ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں

Page 183

ہوئے.اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے پر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے اور خدائے تعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہو سکتے.کیونکہ جن جن لوگوں نے نشان مانگا خدائے تعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی کی حالت میں ہی مرے.غرض خدائے تعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا.انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا.میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر یک شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے اوراگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو.اس کا جواب وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکثر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو.اور حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قرائن جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں اورتصدیق کاپلّہ تکذیب کے پلّہ سے بھاری ہو.مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوںنے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا اورجب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے؟ توبیان کیاکہ میرے پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا امین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ کو استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں.ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر یک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقویٰ کے اعلیٰ مراتب پر ہیں.اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری تعلیموں سے صاف تراور پاک تر اور سراسر نور ہے اور تمام اخلاقِ حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور لِلّٰہی جوش ان میں اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان

Page 184

کے چہرہ پر برس رہی ہے.پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہو ں نے قبول کر لیا کہ وہ درحقیقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات ظاہر نہیںہوئے.بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے.لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے.یہ زمانہ ابتلاکا ہوتاہے اور اس میں کوئی کھلا کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا.پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کااپنی نظر دقیق سے ایمان لے آتا ہے اورعوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں تو ان پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے نشان ظاہر ہوتے ہیں.مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیںجو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں.کیونکہ ہر روزہ تکذیب سے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ رائوں کو وہ بدل نہیں سکتے.آخر اسی کفر اور انکار میں واصلِ جہنم ہوتے ہیں.مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ آجاوے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے.اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے تو پھر اس کا مان لینا ایمان میں داخل نہیں.مثلاً اب جو دن کا وقت ہے.اگر میں یہ کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے، رات نہیں ہے تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہو گی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے.سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے.کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیاسے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہو اتھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے اورچاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا.وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان.پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوائل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر

Page 185

ہوئے تب انہوں نے کہا کہ اب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے.غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے.جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جہنم ہو چکے ہیں.خدائے تعالیٰ اپنی سنت کو نہیں بدلتا.وہ جیسا کہ اس نے فرما دیا ہے ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرائن مرجّحہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام، صادق کی راستبازی، صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے.مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے.ماسوا اس کے جو شخص ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے.اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں.لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے.وہی اسلام ہے جو پہلے تھا.و ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں.و ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب کریم ہے جو پہلے تھی.اصل دین میں سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو.مسیح موعود کادعویٰ اس حالت میں گراں اورقابلِ احتیاط ہوتا کہ جب کہ اس دعوٰی کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی.اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں.صرف مابہ النزاع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کچھ عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کچھمخالفانہ اثر ہے.تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے.ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خدا تعالیٰ نے بھیجا.جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثابت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ اور رسول کی محبت کی طرف رجوع دلاوے.کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟

Page 186

مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ مخالفانہ اثر پہنچتا تو بے شک ایک ہولناک بات تھی.لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے.کون سے احکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں اورقرآن کریم ان معنوں کی صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیثِ صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتی ہیں.پھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوغا ہے؟ ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیں؟کیونکہ کسی مدعی کی صداقت ماننے کے لئے قرائن تو چاہیے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکر اورفریب اوربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے.اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ ذیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قرائن کے ہیں.(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر یک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اور اس کی کمزوریوں کو دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آوے گا.اس پیشگوئی کے رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتا اور موجودہ خرابیوں کی اصلاح کے لئے پیش قدمی دکھلاتا.سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا.اس سے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودہویں صدی کا مجدّد مسیح موعود ہو گا.اوراحادیثِ صحیحہ نبویّہ پکار پکار کرکہتی ہیں کہ تیرہویںصدی کے بعد ظہور مسیح ہے.پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت عین اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے.میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جاوے کہ چودہویں صدی کے سر پر مسیح موعود پید انہیں ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطاجاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں.(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدّد

Page 187

ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبردی ہے اور ملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں وہ بالکل خاموش ہیں اور کسی شخص کو پیش نہیں کر سکتے جس نے ایسا دعویٰ کیا ہو.اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدّد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے.صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رُتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمکلا م ہو.اس کا نام منجانب اللہ خوا ہ مثیل مسیح ہو اور خوا ہ مثیلِ موسیٰ ہو، یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں.مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں.اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللّہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے.پھر جس شخص کو مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگئی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا تواللہ جلّشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے.یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں.اسلام میں موسیٰ.عیسیٰ.داؤد.سلیمان.یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں.اس تفاول کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے تو اس میں کیا استبعادہے؟ اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدّد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالفِ قرآن ہے.دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کیلئے جو بغیر تائید الٰہی دور نہیں ہوسکتی، عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے.اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے.حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو اُن پر اس زمانہ میں کئے گئے، اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی.اور خدا تعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو.سو خدائے تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا.یہ ایک سِرّاسرارِ الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اس کی اصل تعلیموں اور ہدایتوں کو بدلا کر بیہودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف

Page 188

منسوب کی جاتی ہیں.اور ناحق کا جھوٹ افتراء کر کے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فسادوں اور تہمتوں کے دُور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے.تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو.اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا.اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ باللہ، مکّار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر تولّد تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی.پس جبکہ مسیح علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اوربموجب توریت کی اس آیت کے جو کتاب استثناء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے، نعوذ باللہ، حضرت مسیح علیہ السلام کو لعنتی قرار دیا اور مفتری اور کاذب اورناپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کوخدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہیں کی ہے.تب بہ اعلامِ الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خدا تعالیٰ سے اپنا قائم مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح کا دامن پاک ثابت کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں.یہی وجہ ہے کہ خود مسیح نے یوحنّا کی انجیل کے ۱۶ باب آیت: ۷ تا ۱۶ میں کہا ہے کہ ’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا.اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا.گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے.راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا.مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی

Page 189

برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.وہ میرا جلال ظاہر کرے گا.اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کرکے تمہیں خبریں دے گا.جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے.اس لئے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا‘‘.(لوقا :باب ۱۳ ،آیت: ۳۵) ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا.اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گا.اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ آنے والا مسیح کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کی رو سے وہ مسیح ہو گا.جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے.بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں.کیونکہ وہ وجودِ پاک جامع کمالاتِ متفرقہ ہے.پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اورآدم بھی اورابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جلّشانہٗ اشارہ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی اے رسول اللہ! تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے جو ہر یک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیںاور درحقیقت محمد کانام صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیںکہ بغایت تعریف کیا گیا.اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالاتِ متفرقہ اورصفاتِ خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں.چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے، اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے.اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری مسیح سے بشدت مناسبت ہے اور اس کے

Page 190

وجود سے میرا وجود ملا ہو اہے.پس اس حدیث میں حضرت مسیح کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا.سو ایسا ہی ہو اکہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا جو یہود اورنصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں اور مسیح کی روح کو خوشی پہنچائی.یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سیّد ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا.فالحمدللہ.پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصارٰی میں دجّالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی اور جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعوٰی بھی کرے گا اور خدائی کا بھی.ایسا ہی انہوں نے کیا.نبوت کا دعوٰی اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئے، وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ ترمیم کی جو ایک نبی کا کام تھا.جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی.سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعوٰی ہے.اور خدائی کا دعوٰی اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ دانوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شاہد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم ہی مینہہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں.اور ان کاعقیدہ ہے کہ خدا کی تقدیر کچھ چیز نہیں بلکہ ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر یک چیز کے طبعی اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی حد انتہا کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا.اب علل طبعیہ کا سلسلہ جب بکلّی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخودد ُور ہو جائیں گے.پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے؟ اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مُردے بھی زندہ ہوجائیں.اور امریکہ میں ایک گروہ عیسائی فلاسفروں کا انہی باتوں کا تجربہ کر رہا ہے.اور مینہہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہو گیا اور ان کا منشاء ہے کہ

Page 191

بجائے اس کے کہ لوگ مینہہ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کریں یا استسقاء کی نماز پڑھیں، گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہہ برسا یا جائے.اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کے لئے کوئی کل پیدا ہو.اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پیدا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی.اور ایک مرد کا نطفہ لے کر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑھا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں.اب دیکھنا چاہئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے؟ اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اوّل نبوت کا دعوٰی کرے گا پھر خدائی کا.اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعوٰی کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونکہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا، اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوتی ہے.اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا وے جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بناوے جو اس کو نبی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے.اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی اُمت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے؟ کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ تُو بڑا مفتری ہے.پہلے تو خدائے تعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کا کلام ہم کو سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدابنتا ہے.پھر جب اوّل دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے.جس نے پہلے خدائے تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذّاب کو کون قبول کر سکتا ہے؟ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں، بالکل فاسد ہیں، صحیح معنی یہی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد دخل در امورِ نبوت اورخدائی کے دعویٰ سے مراد دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں.ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور اس پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویا وہ خدائی کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا ہے.غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے

Page 192

کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے.تقریر سے، تحریر سے، مال سے، عورتوں سے، گانے سے، بجانے سے، تماشے دکھلانے سے، ڈاکٹر کہلانے سے، غرض ہریک پہلو سے، ہریک طریق سے، ہر یک پیرایہ سے، ہریک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے.پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خدا تعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو اُن کی روحانیت کا نمونہ تھا.وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا.کیونکہ حقیقتِ عیسویہ کا اس میں حلول تھا.یعنی حقیقتِ عیسویہ اس سے متحد ہو گئی تھی اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا.پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال.اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھااس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق عزّاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہ چاہی اور چاہا کہ حقیقتِ عیسویہ اس شبیہ میں رکھی جائے.تا اس شبیہ کا نزول ہو.پس ایسا ہی ہو گیا.اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا.یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا.کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی.اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا.یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانہ کے گزرنے کے بعد کہ خیر اورصلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا.پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش شروع ہو جائے گی اور مخلوق کو خدابنانے کی جہالت بڑے زور سے پھیلے گی اوریہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے.تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی.تب ایک قہری شبیہ میں اس کا

Page 193

نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہو گا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی.اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی اُمت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو.اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندرونی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اورحقیقتِ محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے مہدی پید اہو گا اوراس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خُلق میرا ہی خلق ہوگا.اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ اسی نزولِ روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزولِ کسی خاص فرد میں محدود نہیں.صدہا ایسے لوگ گزرے ہیں جن میں حقیقتِ محمدیہ متحقق تھی اور عنداللہ ظلّی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا.لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمتِ مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی اُمت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحاء اور اتقیاء اس اُمت میں موجود ہیں کہ جو قحبہ دنیا کی طرف پشت دے کر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح کی روح میں عیسائیوں کے دل آزار و عظوں اور نفرتی کاموں اور مشرکانہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خدائے تعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پید اکردیا.اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح کو بھی اپنی اُمت کے لئے نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تونابود ہو گئی.اور اب صفحہ دنیا میں ذرّیت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی  ۱؎ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میںچالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجّالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے.بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں.بعض گویّئے بن کر گیت گاتے ہیں.بعض شاعر بن کر تثلیث کے متعلق غزلیں سناتے ہیں.بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں.بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں

Page 194

میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلا م کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں.بعض تھئیڑ کے پیرایہ میں اسلام کی بُری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے.اور بعض ایک فوج بناکر اور مکتی فوج اس کانام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کار روائیوں نے بھی، جو اُن کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی، کروڑ ہا بند گانِ خدا کو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے.اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہ کے نزول کے لئے جو اس کی حقیقت سے متحد ہو، تقاضا کرتی.سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کے لئے یہ ایک بڑی علامت ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں.اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مردِ خدا سے متحد ہو جاتی ہے جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں.وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں.(۳) تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے.یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال بتصریح بتلا دیا ہے جیسا کہ ’’نشان آسمانی‘‘ میں لکھ چکا ہوں.(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہ ہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہبِ غیر کی طرف روانہ کئے بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہا ہوگا جس کی طرف خط رجسٹری کرکے نہ بھیجا ہو.مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا.اب جو ہماری قوم کے مُلّا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں.درحقیقت یہ ان کی در وغگوئی اور نجاست خواری ہے.مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالفِ دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا.پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اور میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے کسی پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے.کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے، اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ وار ہیں پھر خدا تعالیٰ خود فیصلہ

Page 195

کردے گا.میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس قدر دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور وراثت میرے قبضہ میں آئی ہے بحالت در وغگو نکلنے کے وہ سب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا.ا گر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا.یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اورتہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلّشانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے تیار ہوں اوراشتہار دینے کے لئے مستعد.بلکہ میں نے تو بارہ ہزار اشتہار شائع کر دیا ہے.بلکہ میں بُلاتا بُلاتا تھک گیا.کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آیا.میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوں.اور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرف یک طرفہ کوئی امرخارق عادت دیکھنے کو تیار ہوں.اور اگر امر خارقِ عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کروںگا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے.کوئی مسلمانوں میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بے دین کہتے ہیں اور دجّال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس کا امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں.(۵) پانچویں علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں.ان کے ملہموں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی میں اورآسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رَد سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے.اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہوتو کفر کے فتوے دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الٰہی مجھ کو ہو گیاہے، پہلے لکھ دیں اورشائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارقِ عادت امر دیکھیں تو بِلا چون و چرا دعویٰ کو منظور کر لیں.میں اس کام کے لئے بھی حاضرہوں اورمیرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف ائمۃُ الکفر سے کروں.انہیں سے مباہلہ کروں اور انہیں سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر رُعب ہیں اور وہ اپنے ظلم اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں.وہ ہر گز مباہلہ بھی نہیں کریں گے مگر میری طرف سے عنقریب کتاب دافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے.

Page 196

رہے احادُالنَّاس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کافتویٰ ہے.ان کے لئے مجھے یہ حکم ہے کہ اگر وہ خارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں.خدا تعالیٰ غنی، بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلّل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا.لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیاپر پوری کردے گا اور کچھ زیادہ دیر نہیں ہو گی کہ وہ اپنے نشان دکھاوے گا.لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے.وہ خدائے تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اوروہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں.نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا.الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا.سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا.وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ :.’’دنیا میں ایک نذیر آیا، پر دنیا نے ا س کو قبول نہ کیا.لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا.‘‘ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں، ان کیلئے ذلّت اور خواری مقدر ہے.انہوںنے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افترا ہوتا تو کب کا ضائع ہوجاتا.کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں.وہ بے وقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرأت کسی کذّاب میں ہو سکتی ہے.وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو.اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے.یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رو سیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے.کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کردیا ہے کہ گویا اس نے ہزارہا نشان دیکھ لئے ہیں.سو یہی میری جماعت ہے، اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غمخوار ہوئے اور ناشنا سا ہو کر پھر آشنائوں کا سا ادب بجا لائے خدا تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو.اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور

Page 197

حضرت عزت میں اس کی عزت کیا.مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے.میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اوراپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حَکَم￿ بناتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اوراطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جِلد سے باہر آگیا ہے.مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے.جو اُن راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چُھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا اورجو اللہ جلّشانہٗ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا.اس کی خوشبو ان کو آگئی.انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ و جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے.باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لیوے.مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں.ایک ہی ہے جو دیتا ہے.وہ جس کو عزیز رکھتا ہے ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے.انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں.اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں.اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارے میںمَیں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خدا تعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آئندہ ان کا دروازہ بند نہیں.ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دُور ہے.خدا تعالیٰ غنی، بے نیاز ہے.جب مکّہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خدا تعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے.کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پُر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا.انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے.ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں.وہ پودے باغ میں لگاتا ہے جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دُور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خدا تعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے.اس کا باعث بجز اس کے اور

Page 198

کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے.انسان خدا تعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندہ کے پیچھے ہوچلوں گا.بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح نشان کو سمجھتا ہے.حواریوں نے حضرت مسیح ؑسے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اُترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں.پس اللہ جلّشانہٗ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ ؑکو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا.لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہیں کیا ہو گا.تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے، نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے.اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تمہید ہے.وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دُنیا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے اورخدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق اد اکرے.لیکن چونکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمانبرداری کر نہیں سکتا اس لئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے.کیونکہ نشان کے بعد خدائے تعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر پھر بھی کامل اطاعت کے بجالانے میں کچھ کسر رکھے تو غضبِ الٰہی اُس پر مستولی ہو جاتا ہے اور اس کو نابود کر دیتاہے.تیسرا سوال آپ کا استخارہ کے لئے ہے جو درحقیقت استخبارہ ہے.پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں.میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذباتِ محبت اور جذباتِ عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں.مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اورغصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے.تب وہ شخص جو اس کا دشمن ہے.اس کو خواب میں کتّے یاسؤر کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ شائد درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتّا یا سؤر ہی ہے.لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب

Page 199

میں نظر آوے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے.اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ،ایک غلطی ہے.بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا.سو میرا مطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذباتِ نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یا فتہ اور سراسر رُوبحق دل سے محض اظہارِ حق کی غرض سے استخارہ کرے.میں یہ عہد نہیں کر سکتاکہ ہر ایک شخص کو ہر یک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی.لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک رُوبحق ہو کر بشرائط مندرجہ ’’نشان آسمانی‘‘ استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعاکروں گا.کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے رُوبرو ہو.تا میری توجہ زیادہ ہو.آپ پر کچھ بھی مشکل نہیں.لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر.کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکمِ ربّانی.سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کردیتی ہے وہ دل پر ایک نُور کااثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کُھب جاتی ہے اوردل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہوجاتی ہے.میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے رُوبرواور میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کام میں مشغول ہوں تو میں آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رُشد اور سعادت میں ترقی دے.اب میں نے آپ کا وقت بہت لے لیا ختم کرتا ہوں.والسلام علٰی من اتبع الہدٰی.آپ کا مکرّر خط پڑھ کر ایک بات کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور وہ یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر یک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو.عزیز من! یہ بات خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبہ سے معطّل کر دیوے.اللہ جلّشانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے. ٌ۱؎ یعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب

Page 200

وہ کوئی تمنّا کرے.یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے.یعنی جب کوئی رسول یاکوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے.تب وحی متلو جو شوکت اور ہیبت اور روشنی تام رکھتی ہے اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفّا کرکے دکھلا دیتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہیںدرحقیقت وہ تمام وحی ہوتی ہیں.جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے.۱؎ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلّی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلوّ میں داخل ہوتے ہیں.کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شاملِ حال رہتی ہے اور ہر یک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے.لہٰذا ہر یک بات نبی کی جو نبی کی توجہ تام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے.وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے.تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں.جن کو غیر متلو وحی کہتے ہیں.اب اللہ جلّشانہٗ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنیٰ درجہ کی وحی میں جو حدیث کہلاتی ہے.بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا.وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک آ لہ کی طرح ہوتا ہے.پس چونکہ ہر یک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے، وحی ہے.اس لئے جب اس کے اجتہاد میں غلطی ہو گئی تو وحی کی غلطی کہلائے گی نہ اجتہاد کی غلطی.اب خدائے تعالیٰ اسی کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہاد بھی کہتے ہیں مسِّ شیطانی سے مخلوط ہوجاتی ہے.اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب نبی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے.تب ایسا ہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے.تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الٰہی اور وحی متلوّ اور مہیمن ہے نبی کو اس غلطی پر متنبّہ کر دیتی ہے اور وحی متلوّشیطان کے دخل سے بکلّی منزّہ ہوتی ہے

Page 201

کیونکہ وہ ایک سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قولِ ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعاعیں شیطان کو جلاتی ہیں.اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتااور نیز ملائک کی کامل محافظت اس کے ارد گرد ہوتی ہے.لیکن وحی غیر متلوّ جس میںنبی کا اجتہاد بھی داخل ہے، یہ قوت نہیں رکھتی.اس لئے تمنّا کے وقت جو کبھی شاذ و نادر اجتہاد کے سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے.شیطان نبی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے پھر وحی متلوّ اس دخل کو اُٹھادیتی ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے جو بعد میں رفع کی گئی.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ نبی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی جو وحی غیر متلوّہے، شیطان کا دخل بموجب قرآن کریم کی تصریح کے ہوسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانونِ قدرت کی تبدیلی کی درخواست کرے.ماسوا اس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے.یہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کیلئے ضرور ہے کہ بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کیلئے راستباز ہو.اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو راست گوئی اور راست روی اور راست مَنشی کا پورا پورا پابند کرلے گا تواس کی خوابیں سچی ہوں گی.اللہ جلّشانہ‘ فرماتا ہے۱؎ یعنی جو شخص باطل خیالات اور باطل نیات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے وہ شیطان کے بند سے رہائی پا جائے گا اور آخرت میں عقو بات اُخروی سے رُستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آسکے گا.ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہےٌ۲؎ یعنی اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے ان پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا.سوجب تک انسان تمام کجیوں اورنالائق خیالات اور بیہودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانۂِ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہوجائے تب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے.اورجب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کرسکتا ہوں کہ کسی

Page 202

سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے؟ جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں، خود شیطان اس سے دور رہے گا.اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلّی امن نہیں تو ہم کیونکر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں.کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم رحمانی سمجھیں اور در اصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو؟ توا س وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے.جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور جو چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبُو فی الفور آجاتی ہے.سچی خوابیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں.جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتی ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھنس جاتی ہے.اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے کسی مجلسی کو بطور گواہ ٹھہرانے کے وہی خواب یا اس کے کوئی ہمشکل دکھلا دیتا ہے.تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے.سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کوکہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے، لکھ کر دکھلا وے اور آپ بھی لکھ کر دکھلاویں.تب امید ہے کہ سچی خواب آئے گی تو ا س کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اورایسا اشتراک ہو گا کہ آپ تعجب کریں گے.افسوس! کہ اگر میرے رُوبرو آپ ایساارادہ کرسکتے تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ اعجوبہ قدرت ظاہر ہوتا.میری حالت ایک عجیب حالت ہے.بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں.صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے.اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے.میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہو گا.مگر آسمان پر کچھ تیاری ہورہی ہے تا خدائے تعالیٰ بدظنّوں کو

Page 203

ملزم اور رُسوا کرے.کوئی دن یا رات کم گزرتی ہے جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا.یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا.یَجِیْٓئُ الْحَقُّ وَیُکْشَفُ الصِّدْقُ وَیَخْسَرُ الْخَاسِرُوْنَ.یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَأَتّٰی.اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۱؎ یعنی حق ظاہر ہو گا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اُٹھایا، وہ ذلت اوررُسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا.تیرا رب جو چاہتا ہے کرتا ہے.مگر میں نہیں جانتا یہ کب ہوگا.اور جو شخص جلدی کرتا ہے خدائے تعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں.وہ غنی ہے، دوسرے کا محتاج نہیں.اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اورہر یک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے اگر پہلے سے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا؟ خدا تعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزت ظاہر کرنے کے لئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خدائے تعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا اُن کی فراست اور دُوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کو کلام نہ ہو.حضرت مسیح علیہ السلام سے بہتّر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلایا.ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے.مکرّر میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے.اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا.اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے مگر ابھی خدا تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانے چاہتا ہے.ایک وہ گروہ جو نیک ظنّی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں.دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دُور پڑتے جاتے ہیں.اور میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرّد قیل وقال

Page 204

سے فیصلہ نہیں ہو سکتا.میں آپ کو ازراہ تودّد و مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں.یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بَری کر سکتی ہے.واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں.کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتاکہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے.بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اُڑا دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کے رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا.جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں.پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میرایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیثِ نبویّہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میرے مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں، نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے بلکہ یہ خیال محال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوصِ بیّنہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہریک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے.تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں.قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے.معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوتے ہیں بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں.یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدّعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر اوراولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں.مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے.میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلایا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر اور وقت کو کھوتے ہیںکہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیامیں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دُور جا پڑے ہیںاور کیسے چاروں طرف کے فسادوں اورخرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے.میں نے ا س کتاب میں ثابت کر دیا ہے کہ مسیح موعود کا

Page 205

قرآن کریم میں ذکر ہے اور دجال کا بھی.لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرمایا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہو گاکہ جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیلِ مسیح لیا جاوے جو اِسی اُمت میں پید اہو اور نیز دجال سے مراد ایک گروہ لیا جائے اوردجال خود گروہ کو کہتے ہیں.بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذلت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اورحدیث کو یک طرف چھوڑ دیا ہے.وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں.مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے.میں نہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا.مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے.ملاقات نہایت ضروری ہے.میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہوسکے.۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں ضرور تشریف لاویں.انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا.اورجو لِلّٰہِ سفر کیا جاتا ہے وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے.اب دعا ختم کر تاہوں.اَیَّدَکُمُ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَرَحِمَکُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.والسلام ٭ خاکسار غلام احمد از قادیان دہم ؍ دسمبر ۱۸۹۲ء ضلع گورداسپور نوٹ:.اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں.یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے اس کی بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں.گو آپ ہی مخاطب ہیں.

Page 206

مکتوب نمبر۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عزیزی محبی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کے دو عنایت نامے پہنچے.یہ عاجز بباعث شدت کم فرصتی و علالت طبع جواب نہیں لکھ سکا اور نیز یہ بھی انتظار رہی کہ کوئی بشارت کھلے کھلے طور پر پا لینے سے خط لکھوں چنانچہ اب تک آپ کے لئے جہاں تک انسانی کوشش سے ہو سکتا ہے توجہ کی گئی اور بہت سا حصہ وقت کا اسی کام کے لئے لگایا سو ان درمیانی امور کے بارے میں اخویم مرزا خدا بخش صاحب اطلاع دیتے رہے ہوں گے اور آخر بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہوا وہ یہ تھا اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ.قُلْ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ ۱؎ یعنی اللہ جلّشانہٗ ہر یک چیز پر قادر ہے کوئی بات اس کے آگے اَن ہونی نہیں.انہیں کہہ دو… جائیں اور یہ الہام ابھی ہوا ہے.اس الہام میں جو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادۂِ الٰہی آپ کی خیر اور بہتری کے لئے مقدر ہے لیکن وہ اس بات سے وابستہ ہے کہ آپ اسلامی صلاحیت اور التزامِ صوم و صلوٰۃ و تقویٰ و طہارت میں ترقی کریں.بلکہ ان شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امر مخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کے لئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں.مجھے تو اس بات کے معلوم کرنے سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں آپ کی کامیابیوں کے لئے کچھ نیم رضا سمجھی جاتی ہے اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہو گیاہے کہ اس قسم کے الہامات اس شخص کے حق میں ہوتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ ارادۂ خیر فرماتا ہے.اس عالَمِ سِفلی میں اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی کسی معزز عہدہ کا خواہاں ہو…… وقت اس کو اس طور سے تسلی دے کہ تم امتحان دو، ہم تمہارا کام کر دیں گے.سو خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کے دوسرے اقارب میں ایک صریح امتیاز دیکھنا چاہتا ہے اور چونکہ آپ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ نیک کاموں کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اس لئے یہی امید کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مولیٰ کریم کو خوش کریں گے.میں نے مرزا خدا بخش صاحب کو رمضان کے دنوں تک اس لئے ٹھہرا لیا ہے کہ تا پھر بھی ان مبارک دنوں میں وقتاً فوقتاً آپ کیلئے

Page 207

دعائیں کی جائیں.مجھے ایسا الہام کسی امر کی نسبت ہو تو میں ہمیشہ سمجھتا ہوں کہ وہ ہونے والا ہے.اللہ جلّشانہٗ طاقت سے زیادہ کسی پر بار نہیں ڈالتا بلکہ رحم کے طور پر تخفیف کرتا ہے اور ہنوز انسان پورے طور پر اپنے تئیں درست نہیں کرتا کہ اس کی رحمت سبقت کر جاتی ہے.گویا نیک بندوںکے لئے یہ بھی ایک امتحان ہوتا ہے.چونکہ اللہ جل شانہ بے نیاز ہے، نہ کسی کی اس کو حاجت ہے اور نہ کسی کی بہتری کی اس کو ضرورت ہے.اس لئے جب…… فرماتا ہے کہ کسی بندہ پر فیضانِ نعمت کرے تو ایسے وسائل پیدا کردیتا ہے جس کی رُو سے اس نعمت کے پانے کے لئے اس بندہ میں استحقاق پیدا ہو جائے.تب وہ بندہ خدا تعالیٰ کی نظر میںجوہر قابل ٹھہر کر مورد رحم بننے کیلئے لیاقت پیدا کر لیتا ہے.سو اس خیال سے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کیونکر باوجود اپنی کمزوریوں کے ایسے اعلیٰ درجہ کے اعمالِ صالحہ بجا لا سکتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کو راضی کر سکیں اورہرگزخیال نہیں کرنا چاہئے کہ ایسی شرط تعلیق بالمحال ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جن کیلئے خیر کا ارادہ فرماتا ہے آپ توفیق دے دیتا ہے.مثل مشہور ہے.ہمتِ مرداں مددِ خدا.سو نیک کاموں کیلئے بدل وجان جہاں تک طاقت ہے متوجہ ہوناچاہئے.خدا تعالیٰ کو ہر ایک چیز اور ہر ایک حال اور ہر یک شخص پر مقدم رکھ کر نماز باجماعت پڑھنی چاہئے کہ قرآن کریم میںبھی جماعت کی تاکید ہے.اگر بانفراد نماز پڑھنا کافی ہوتا تو اللہ جلّشانہٗ یہ دعا نہ سکھلاتا کہ  ۱؎ بلکہ یہ سکھاتا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ۲؎ … مَعَ الرَّاکِعِیْنَ اور ۳؎ ان تمام آیات میں جماعت…… سو اللہ جلّشانہٗ کے احکام میں کسی سے شرم نہیںکرنا چاہئے.تقویٰ کے یہ معنی ہیں کہ اس …… قائم ہو جائے کہ پھر اس کے مقابل پر کوئی ناموس یا ہتک یاعار یا خوفِ خلق یا کسی کے لعن و طعن کی کچھ حقیقت نہ رکھے.ایمان تقویٰ کے ساتھ زندہ ہوتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری چیز کو یا کسی دوسرے خیال کو کچھ حقیقت سمجھتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے وہ تقویٰ کے شعار سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے.ہمارے لئے کامل خدا بس ہے.والسلام ۲۵؍ مارچ ۱۸۹۳ء مرزا غلام احمد

Page 208

نوٹ از مرتب: مجھے اس کی نقل دیکھنے کا موقعہ ملا ہے جس پر مرقوم ہے کہ اصل مکتوب جس جس جگہ دریدہ ہے وہاں نقطے ڈال دئے گئے ہیں.اس الہام کوخاکسار ہی کو پہلی بار شائع کرنے کی توفیق ملی ہے اس سے قبل لٹریچر میں موجود نہ تھا فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.الہام کے بعد جو حصہ مکتوب کا دریدہ ہے وہ الہام کے ترجمہ کا ہی حصہ معلوم ہوتا ہے.٭٭٭ مکتوب نمبر۱۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاعنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا.آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے.لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب اورتردّد اور شک اور سُوئِ ظن سے بھرا ہوا تھا.ایسے ابتلا کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں.تعجب میں ہوں کہ کس قدر سوز یقین کا خدائے تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اوربعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے بیعت کی، اس نیت سے کہ تا ہمیں زیادہ ثواب ہو(ان دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چودہری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے.عرفانی) بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے اگرچہ آپ کے ان الفاظ سے بہت ہی رنج ہوا جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی.لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جلّشانہٗ کا تصرّف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جلّشانہٗ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے.نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں.کتنے مہینوں سے ایک جماعت میر ے پا س رہتی ہے.جو کبھی پچاس، کبھی ساٹھ اور کبھی سَو سے بھی زیادہ ہوتے ہیںا ورمعارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں.اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں.اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھتا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں،ایسا نہیں.بلکہ

Page 209

درحقیقت یہ فتح عظیم ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے.اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندرونی حالت ظاہر ہو یا اس پر عذاب نازل ہووے.میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جاوے کہ اللہ جلّشانہٗ کی طرف سے یہ خبر ملی ہے کہ ُتو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے.اور اگر وہ اس کا قائل ہوجائے تو ہمارا مدّعا حاصل، ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلاتوقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھاجاوے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا.اور اگروہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد (تک عرفانی) ہلاک نہ ہو تو ہم ہرطرح سے کاذب ہیں.اور اگر وہ قسم نہ کھاوے تو وہ کاذب ہے.آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کاذب یقین کر لیاہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ بھی حرج نہیں.لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجودیکہ دو کلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے.اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے؟ اب وقت نزدیک ہے.اشتہار آئے چاہتے ہیں.میں ہزار روپیہ کے لئے متردّد تھاکہ کس سے مانگو.ایسا دیندار کون ہے جو بلاتوقف بھیج دے گا؟ آخر میں نے ایک شخص کی طر ف لکھا ہے اگر اس نے دے دیا تو بہتر ہے ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائیداد بیچ کر خود اس کے آگے جاکر رکھوں گا تا کامل فیصلہ ہو جائے اور جھوٹوںکا منہ سیاہ ہو جائے.اور خدائے تعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پرایک ابتلا آنے والا ہے.تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اورکون کچا ہے اور اللہ جلّشانہٗ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے.ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو مجھے تنہائی میں لذّت ہے.بے شک فتح ہو گی، اگر ہزار ابتلا درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی.اب ابتلائوں کی نظیر آپ مانگتے ہیں.ان کی نظیریں بہت ہیں.آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا.تو ستّر آدمی مرتد ہو گئے.حدیبیہ کے قصہ میں تفسیر ابنِ کثیر میں لکھا ہے کہ کئی سچے آدمی مرتد ہو گئے، وجہ یہ تھی کہ اس پیشگوئی کی کفارِ مکہ کو خبر ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ چھ ہزار سے کم نہیں تھے.یہ امر کس قدر معرکہ کا امر تھا مگر خدائے تعالیٰ نے صادقوں کو بچایا.مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے

Page 210

اس خط سے اس قدر افسوس ہو ا کہ اندازہ سے زیادہ ہے.یہ کلمہ آپ کا کہ مجھے ہلاک کیا ،کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا.ہمارا تو مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں.یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خدا تعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں.آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں.میں نے اس فتح کے بارے میں لاہور پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے.جس کانام انوارالاسلام ہے.وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا.آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا.ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کاخط پہنچا.مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کو پڑھ کر رونا آتا تھا.ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اِس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اُس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ:.اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور لفافہ بھی محفوظ نہیں.تاہم خط کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے.حضرت نواب صاحب نے جس جرأت اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے.اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرأت کا پتہ لگتا ہے.انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا.جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا.خدائے تعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے وہ قابل رشک ہے.خدا تعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوئی.یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں.بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرأت کی کمی کی وجہ سے اُگل نہیں سکتے.مگر نواب صاحب کو خدا تعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرأت عطا کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر کسی

Page 211

شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے اگر اسے اندرہی رہنے دیا جائے تو بہت بُرا اثر پیدا کر تا ہے.غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا.ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں بہت بڑے مقام پر تھے.اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ.(عرفانی) مکتوب نمبر۱۱ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آں محب کا محبت نامہ پہنچا.جو کچھ آپ نے اپنی محبت اور اخلاص کے جوش سے لکھا ہے درحقیقت مجھ کو یہی امید تھی اور میرے ظاہری الفاظ صرف اس غرض سے تھے کہ تا میں لوگوں پر یہ ثبوت پیش کروں کہ آں محب اپنے دِلی خلوص کی وجہ سے نہایت استقامت پر ہیں.سو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ میں نے آپ کو ایسا ہی پایا.میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دُعا کرتا ہوں کہ اس جہاں کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دارالسلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے اور جو ابتلا پیش آیا تھا وہ حقیقت میں بشری طاقتوں کو، اگر وہ سمجھنے سے قاصر ہوں، معذور رکھتاہے.حدیبیہ کے قصہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ صحابہ کو ایسا ابتلا پیش آیا کہ کادوا ان یھلکوا یعنی قریب تھا کہ اُس ابتلا سے ہلاک ہو جائیں.یہی ’’ہلاک‘‘ کا لفظ جو حدیث میں آیا ہے آپ نے استعمال کیا تھا.گویا اس بے قراری کے وقت میں حدیث کے تلفظ سے توارد ہو گیا ہے.بشری کمزوری ہے جو عمر فاروقؓ جیسے قوی الایمان کو بھی حدیبیہ کے ابتلا میں پیش آ گئی تھی.یہاں تک کہ اُنہوں نے کہا کہ عملت لذالک اَعْمَالًا یعنی یہ کلمہ شک کا جو میرے منہ سے نکلا تو میں نے اس قصور کا تدارک صدقہ خیرات اور عبادت اور دیگر اعمالِ صالحہ سے کیا.مولوی محمداحسن صاحب ایک جامع رسالہ بنانے کی فکر میں ہیں شاید جلد شائع ہو اور مولوی صاحب یعنی مولوی حکیم نوردین صاحب آپ سے ناراض نہیں ہیں آپ سے محبت رکھتے ہیں.شاید مولوی صاحب کو

Page 212

بشریت سے یہ افسوس ہوا ہوگا کہ آپ اوّ؍ل درجہ کے اور خاص جماعت میں سے تھے.آپ کے نزدیک یہ خیال تک آنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ ہماری غائبانہ نگاہ۱؎ میں آپ اوّل درجہ کے محبوں اور مخلصوں میں سے ہیں.جن کی روز بروز ترقیات کی امید ہے.اور مولوی صاحب اپنے گھر کی بیماریوں کی وجہ سے بڑے ابتلا میں رہے ہیں اور ان کے گھر کے لوگ مرمر کے بچے ہیں اس لئے وہ زیادہ خط و کتابت نہیں کر سکے اور اب وہ شاید بیس روز سے سندھ کے ملک میں ہیں اور پھر غالباً بہاولپور میں جائیں گے اور اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب شاید ہفتہ عشرہ تک یہاں پر تشریف رکھتے ہیں اور اس عاجز کا نیک ظن اور دِلی محبت آپ سے وہی ہے جو تھی اور امید رکھتا ہوں کہ دن بدن ترقی ہو.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مؤلف: آتھم کے متعلق پیشگوئی کی میعاد ۴؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کو ختم ہوئی.اس پیشگوئی پر حضرت نوابؓ صاحب کو ابتلا آیا اور حضور کی خدمت میں ۷؍ ستمبر کو ایک خط لکھا جس کا جواب حضورؑ نے جو تحریر فرمایا.حضرت عرفانی صاحب کے شائع کردہ مکتوباتِ احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں ساتویں نمبر پر ہے جس کے جواب میں نواب صاحب نے جو کچھ لکھا.پھر اس کے جواب میں حضورؑ نے مکتوب ہذا تحریر فرمایا مکتوب نمبر۷ میں ایک ہزاری انعام والے اشتہار کے چھپ جانے کا ذکر ہے اور ابھی انوارالاسلام کی صرف تصنیف ہوئی تھی طباعت نہ ہوئی تھی اور اشتہار دو ہزاری بھی ابھی معرضِ وجود میں نہ آیا تھا.سو مکتوب زیر بحث بھی اشتہار ایک ہزاری کے شائع ہونے کی تاریخ (۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) اور اشتہار انعام دو ہزار کی تاریخ (۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) کے مابین عرصہ کا ہے.(ملک صلاح الدین )

Page 213

مکتوب نمبر۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عزیزی محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کا محبت نامہ پہنچا.اس وقت صرف ایک ’’اشتہار دو ہزار روپیہ‘‘ جو شائع کیاگیاہے آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور دوسرے امور میںپھر کبھی انشاء اللہ القدیر مفصل خط لکھوں گا.حاجی سیٹھ عبدالرحمن نے تار کے ذریعہ سے مجھ کو خبر دی کہ میں مخالف کی درخواست پر ایک ہزار روپیہ بلاتوقف دے دوں گا اور امید ہے کہ وہ دو ہزار روپیہ بھی قبول کر لیں گے.ورنہ یقین ہے کہ ایک ہزار روپیہ مولوی حکیم نورالدین صاحب دے دیں گے چنانچہ اس بارے میں مولوی صاحب کا خط بھی آ گیا ہے.غرض بہرحال دو ہزار روپیہ کا ایسا بندوبست ہو گیا ہے کہ بمجرد درخواست آتھم صاحب بلاتوقف دیاجائے گا.چونکہ پیشگوئی کے دو پہلو تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے میرے پر اپنے صریح الہام سے ظاہر کر دیا ہے کہ آتھم نے خوف کے ایام میں اسلام کی طرف رجوع کیا.ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اب وہ اپنے رجوع پر قائم نہیں.کیونکہ دونوں فریق کی کتابوں سے یہ ثابت ہے کہ عادۃُ اللہ اسی طرح پر واقع ہے کہ جب کوئی خوف کے وقت میں اپنے دل میں حق کو قبول کر لے یا حق کے رُعب سے خوفناک ہو جائے تو اُس سے عذاب ٹل جاتا ہے گو وہ فرعون کی طرح خوف دور ہونے کے بعد پھر سرکشی ظاہر کرے.غرض خوف کے دنوں میں حق کی طرف رجوع کرنا مانع نزولِ عذاب ہے خدا تعالیٰ کئی جگہ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں قوم کا عذاب جو مقرر ہو چکا تھا ان کے خائف اور رجوع بحق ہونے کی وجہ سے ٹال دیا حالانکہ ہم جانتے تھے کہ پھر وہ امن پا کر کفر اور سرکشی کی طرف عود کریں گے.پھر جب کہ یہ امر ایک مسلم فریقین اور قطع نظر تسلیم فریقین کے شرط میں داخل ہے تو ایک منصف کے نزدیک اس کا تصفیہ ہونا چاہئے اور جب کہ صورت تصفیہ بجز آتھم صاحب کی قسم اور آسمانی فیصلہ کے اور کوئی نہیں تو اس طریق سے گریز کرنا حق سے گریز ہے.والسلام خاکسار ۲۲؍ اگست ۱۸۹۴ء غلام احمد عفی عنہ

Page 214

نوٹ از مرتب: دو ہزار انعام والے اشتہار کی تاریخ ۲۰؍ ستمبر ۹۴ تھی بلکہ آتھم والی پیشگوئی کی میعاد ہی ۴؍ ستمبر کو ختم ہوتی تھی اس لئے یہ مکتوب ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کا ہے گو سہواً اس پر ۲۲؍ اگست کی تاریخ درج ہوئی ہے.٭٭٭ مکتوب نمبر۱۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے.مجھے یاد نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیاہے اور قرضہ کاایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے.میرا حافظہ اچھا نہیں.یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے.عمر کا کچھ اعتبار نہیں.آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے.تاحتی الوسع اس کافکر رکھ کر توفیق بار ی تعالیٰ میعاد کے اندر اندر اد اہو سکے.اور اگر ایک دفعہ نہ ہوسکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں.امید کہ جلد اس سے مطلع فرماویں تا میں اس فکر میں لگ جائوں.کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلائوں میں سے ایک سخت بلاہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے.دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا.بیس روپیہ ماہوار ان کو اسی سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دینا مقرر کیا تھا.چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کودیا.امید کہ اس کا ثواب بہرحال آپ کو ہوگا.لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا.اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رُکتا ہے مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں.اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کردیں.حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں.

Page 215

وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دُور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو ا س جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستقیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں.ہماری جماعت اگرچہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے.لیکن العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خداترس اور عارف حقائق پاتا ہوں.اورنیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف لاتا ہے.فالحمدللّٰہ علٰی ذالک.خاکسار ۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء مرزا غلام احمد از قادیان

Page 216

مکتوب نمبر۱۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مولوی صاحب کو کل ایک دورہ مرض پھر ہوا.بہت دیر تک رہا.مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی مگر بہت ضعف ہے.ا للہ تعالیٰ شفا بخشے.اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق اَلْسِنَہ کے لئے بہت جوش سے کام کر رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پرایک نئی دلیل ہے جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی.اس مختصر خط میں مَیں آپ کو سمجھا نہیںسکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے.اگر آپ ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدابخش صاحب کوشریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہو گا.آئندہ جیسا کہ آپ کی مرضی ہو.دنیا کے کام نہ تو کبھی کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا.دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیامیں آئے اور کیوں جائیں گے؟ کون سمجھاوے جبکہ خدا تعالیٰ نے نہ سمجھایا ہو.دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں.مگر مومن وہ ہے جودرحقیقت دین کو مقدم سمجھے اورجس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کے کام یا سببوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے.ایسا ہی دین کی غمخواری میں مشغول رہے.دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکا ہے.موت کاذرا اعتبار نہیں.موت ہریک آئے سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے.دوستوں کو دوستوں سے جد اکرتی اور لڑکوں کو باپوں سے، اور باپوں کو لڑکوں سے علیٰحدہ کر دیتی ہے.مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا.خدا تعالیٰ اس شخص کی عمر کو بڑھا دیتا ہے جو سچ مچ اپنی زندگی کاطریق بدل کر خدا تعالیٰ کا ہی ہو جاتا ہے.ورنہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے ا گر تم اس کی بندگی اور عبادت نہ کرو.سو جاگنا چاہئے اور ہوشیار ہونا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہئے کہ یہ گھر سخت بے بنیاد ہے.میں نے اس لئے لکھا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ

Page 217

آپ ان دنوں میں دنیوی ہمّ و غم میں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلّہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے.میں نہیں جانتا کہ یہ تحریریں آپ کے دل پر کیا اثر کریں یا کچھ بھی اثر نہ کریں.کیونکہ بقول آپ کے وہ اعتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھا.میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی بھی ہلاک ہو.بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خدا تعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے.کاش اگر ملاقات کی ہی سرگرمی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی کی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا.مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ گئی کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا.اگر کوئی لاہور وغیرہ میں کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کاکام آپ کو اس شمولیت سے نہیں روکے گا.خدا تعالیٰ قوت بخشے.بیچارہ نورالدین جو دنیاکو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے، بے شک قابلِ نمونہ ہے.بہتیری تحریکیں ہوئیںکہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں.دنیاوی فائدہ طبابت کی رو سے بہت ہوگا.مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں فرمائی.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ انہوں نے سچی توبہ کر کے دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہے.خد اتعالیٰ ان کو شفاء بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں آمین.کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خدابخش صاحب کو ایک ماہ کے لئے بھیج دیں.والسلام ٭ ۲۸؍ اپریل ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد ۱ز قادیان نوٹ:.آتھم کی پیشگوئی پر حضرت نواب صاحب کو ابتلا آیا تھا اور انہیں کچھ شکوک پید ا ہوئے تھے.مگر وہ بھی اخلاص اور نیک نیتی پر مبنی تھے.وہ ایک امر جوان کی سمجھ میں نہ آوے ماننا نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے حضرت اقدس کو ایسے خطوط لکھے ہیں جن سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ گویا کوئی تعلق سلسلہ سے باقی نہ رہے گا.مگر خدا تعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا اپنی معرفت بخشی اور ایمان میں قوت عطا فرمائی.(عرفانی)

Page 218

مکتوب نمبر۱۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عزیزی محبی اخویم خان صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا.کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیاتھا اور اب بھی طبیعت ضعیف ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جاودانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا.کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے.مجھے آپ کی طرف دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بحشپم خود دیکھوں.مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پیداہوا تو آپ کے لئے سلسلہ توجہ کاشروع کروں گا.اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شاملِ حال کرے.آمین.والسلام ۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء روز پنجشنبہ غلام احمد عفی عنہ

Page 219

مکتوب نمبر۱۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ مبلغدو سَو پچاس روپیہ مرسلہ آں محب عین وقت ضرورت مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.باقی بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے.ان دنوں میں جو شغل ہے اُن امور میں سے ایک یہ ہے کہ یہ عاجز یورپ اور جاپان کے لئے ایک تالیف کر رہا ہے جس میں علاوہ اسلامی تعلیم کے قرآنی تعلیم اور انجیلی تعلیم کا مقابلہ کر کے دکھلایا جائے گا اور نیز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اَخلاق اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اخلاق کا مقابلہ ہوگا.دوسرے یہ امر ہے کہ منن الرحمن کسی قدر چھپ کر رہ گیا ہے.اس کی تکمیل کے لئے بھی فکر کیا جاتا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سب مقاصد انجام پذیر ہو جائیں گے کہ ہر ایک قدرت اُسی کو ہے.والسلام ۱۷؍ مارچ ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 220

مکتوب نمبر۱۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں آں محب کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں.ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہے.آئندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متنبہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا یہی کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرماوے.میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں حباب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اور میرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے سچے ایمان کے جوش دکھاویں.مجھے خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا.پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی گواہی ادا کر سکوں.اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خد اکا خوف بہت دل میں بڑھا لیا جائے.تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اورتا وہ گناہ بخشے.آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زنانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے.اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کامکان بدستور گھر سے شامل رہے.چنانچہ حکمت الٰہی سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا.اب حال یہ ہے کہ مردانہ مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے.اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جاوے تو شاید ہے کہ آٹھ سو روپیہ تک بن سکے.کیو نکہ اس جگہ اینٹ پردوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سور وپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہوسکے.بہرحال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بیکار ہے.جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے.کیونکہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہورہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ

Page 221

اشتہارات شائع کر رہے ہیں.اس لئے میں نے کنویں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے.تاجلد پردہ ہو جائے.ا گر اس قدر پکا مکان بن جاوے جو پہلے کچا تھا توشاید آئندہ کسی سال اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے.افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے.لہٰذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہو گی.خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں.اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا.یقین کہ مولوی صاحب کاعلیحدہ خط آپ کو پہنچے گا.والسلام ۶؍ اپریل ۱۸۹۶ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آخر مولوی صاحب کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آ نہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.اس کی والدہ مصیبت کی حالت میں ہے.اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے.والسلام ۱۷؍ اپریل ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ: یہ لڑکی حضرت حکیم الامۃ کی چھوٹی لڑکی ایک سال کی تھی اور اس کی وفات کے متعلق حضرت حکیم الامۃ کو خدا تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا.یوں تو حضرت حکیم الامۃ خدائے تعالیٰ کی مقادیر سے پہلے ہی مسالمت تامہ رکھتے تھے.مگر خدائے تعالیٰ نے جب قبل از وقت ان کو بتا دیا تھا تو انہیں نہ صرف ایک راحت بخش یقین اور معرفت پیدا ہوئی.بلکہ خدائے تعالیٰ کے اس انعام اور فضل پر اُنہوں نے شکریہ کا اظہار کیا تھا.ان ایام میں نواب صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا.اسی وجہ سے آپ نہیں جا سکے تھے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے.(عرفانی)

Page 222

مکتوب نمبر۱۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ دو سو روپیہ کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے.عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیاہے کہ نو سو روپیہ تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے، ختم ہو گی.کل صحیح طورپر اس تخمینہ کو جانچا گیا ہے.اب تک تین سو پچاس روپیہ تک لکڑی اور اینٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے.معماران کی مزدوری تین سو پچاس سے الگ ہے.اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کردیا جاوے.کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی.یہ اخراجات گویا ہر روز پیش آتے ہیں.ان کے لئے اوّل سرمایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں.شاید اللہ جلّشانہٗ اس کا کوئی بندوبست کر دیوے.بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محب بجائے پانچ سَو روپیہ کے سات سو روپیہ کی امداد فرما ویں.دو سو روپیہ کی جو کمی ہے وہ کنویں کے چندہ میں سے پوری کر دی جاوے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جاوے گا.پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو.اور دو سو روپیہ کنویں کے اس طرح پر نو سو روپیہ تک پہلی منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی.اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوا دیں.نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے مگر اوپر کی منزل اگر ہوجائے تو عمدہ ہے.مکان مردانہ بن جائے گا جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نوسو یا ہزار روپیہ ہو گا.میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں.خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو.سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا.والسلام ۴؍ مئی ۱۸۹۷ء خاکسار غلام احمد

Page 223

نوٹ:.جب یہ مکان بن رہا تھا تو خاکسار عرفانی ان ایام میں یہاں تھا.گرمی کا موسم تھا.گول کمرے میں دوپہر کا کھانا حضرت کھایا کرتے تھے اور دستر خوان پر گڑنبہ ضرور آیا کرتا تھا.حضرت ان ایام میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ذاتی طورپر ہمیں کسی مکان کی ضرورت نہیں.مہمانوں کو جب تکلیف ہوتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے.یہ لوگ خدا کے لئے آتے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ان کے آرام کا فکر کریں.خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا.آخر وہ تمام مکانات بنوا دئیے اور وسع مکانک۱؎ کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہی ہو تی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جد اہوتی ہے.مبارک وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے.ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا.جزاہم اللّٰہ احسن الجزاء.(عرفانی)

Page 224

مکتوب نمبر۲۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بقیہ دو قطعہ نوٹ سَو سَو روپیہ آج کی ڈاک میں مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا پہلے اس سے بذریعہ ایک خط کے آپ کی خدمت میں اطلاع دی گئی تھی کہ علاوہ حساب اس جگہ کے جو چند ہفتوں کا بابت قیمت اینٹ و اُجرت معماران واجب الادا ہے.مبلغ اسّی روپیہ اور بابت لکڑی کے ہمارے ذمہ نکل آئے ہیں اگر بالفعل ایک سَو روپیہ اور پہنچ جائے تو چند ہفتہ تک پھر اس کشاکش سے مخلصی رہے.یہ عمارت کا کام ہے ایسی ہی تکالیف ساتھ رکھتا ہے.میرا دل پہلے سے رُکتا تھا کہ اِس کو شروع کروں مگر قضاء و قدر سے شروع ہو گیا.اللہ تعالیٰ اب اس کو انجام دیوے.دوسری منزل جو اصل مقصود تھی وہ بالفعل بباعث عدم سرمایہ ملتوی رہے گی.آئندہ اللہ تعالیٰ جو چاہے ہوگا.کل۱؎ آں محب کا خدمت گار پہنچا.سفیر نے خود آرزو کی تھی کہ میں کوٹلہ مالیر دیکھوں.مجھے اس کی حقیقت پر اطلاع نہیں کہ وہ کیوں پھرتا ہے اور اس شہر بشہر کے دورہ سے اُس کی غرض کیا ہے اور میں اُس کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کر سکتا.آپ پر لازم ہے کہ آپ قواعدِ ریاست سے اِدھر اُدھر نہ ہوں اور سرکاری ہدایات کے پابند رہیں.شاید اگر مسافروں کی طرح آ جائے تو قومیت کے لحاظ سے معمولی خاطر داری میں مضائقہ نہیں مگر جو ریاست کی طرف سے اعزاز ہوتا ہے وہ کسی صورت میں بغیر اجازت گورنمنٹ نہیں چاہئے تا خواہ نخواہ اعتراض نہ ہو اور کوئی امتحان پیش نہ آوے بلکہ قوانین کی رعایت سے معمولی اخلاق کا برتاؤ کچھ مضائقہ نہیں.کریماں مسافر بجاں بردر اند کہ نام نکو شاں بعالم برند

Page 225

میں اس شخص کے اصل حالات سے واقف نہیں کہ کس طبیعت اور چال چلن کا آدمی ہے.ظاہراً یک دنیا دار پولیٹکل مَین ہے.روحانیت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّواب.والسلام ۱۱؍ مئی ۱۸۹۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مرتب: تاریخ یکم مئی ہے یا ۱۱؍ مئی.حضورؑ بعض جگہ تاریخ کے ساتھ خط بشکل ؍ خط ڈالتے ہیں بعض جگہ نہیں.اگر یہ خط سمجھا جائے تو یکم مئی ہے ورنہ ۱۱؍ مئی، ۵؍نومبر۹۸ء کے مکتوب میں یہ خط حضور نے نہیں کھینچا مگر مارچ ۱۸۹۶ء کے مکتوب کی تاریخ کے ساتھ کھینچا ہے.اس مکتوب سے یہ تو ظاہر ہے کہ حسین کامی سفیر ترکی کے قادیان آنے کے بعد کاہے.اس کی آمد کی معین تاریخ معلوم ہونے سے اس مکتوب کی تاریخ کی صحت کا علم ہو سکتا ہے.حضور کے ایک اشتہار سے صرف اس قدر علم ہو سکا ہے کہ اس نے قادیان سے واپسی کے بعد شیعہ اخبار ناظم الہند لاہور بابت ۱۵؍ مئی ۱۸۹۷ء میں حضورؑ کی نسبت نامناسب باتیں شائع کی تھیں.مزید معلوم ہوا کہ یہ ۱۱؍مئی ہے کیونکہ مئی میں حسین کامی لاہور آئے اور کئی روز کے بعد قادیان آئے.

Page 226

مکتوب نمبر۲۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب کے پانچ لڑکے ہو کر فوت ہوگئے ہیں اب کوئی لڑکا نہیں.اب دوسری بیوی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے.اس صورت میں مَیں نے خود اس بات پر زور دیاکہ مولوی صاحب تیسری شادی کر لیں.چنانچہ برادری میں بھی تلاش درپیش ہے مگر میاں نور محمد کھیرو والے کے خط سے معلوم ہوا کہ ان کی ایک ناکدخدا لڑکی ہے اور وہ بھی قریشی ہیں اور مولوی صاحب بھی قریشی ہیں اس لئے کچھ مضائقہ معلوم نہیں ہوتا کہ اگر وہ لڑکی عقل اور شکل اور دوسرے لوازم زنانہ میں اچھی ہو تو وہیں مولوی صاحب کے لئے انتظام ہو جائے.پس اس غرض سے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے کہ آپ کوئی خاص عورت بھیج کر اُس لڑکی کے تمام حالات دریافت کرا ویں اور پھر مطلع فرماویں اور اگر وہ تجویز نہ ہو اور کوٹلہ میں آپ کی نظر میں کسی شریف کے گھر میں یہ تعلق پیدا ہو سکے تو یہ بھی خوشی کی بات ہے کیونکہ اس صورت میں مولوی صاحب موصوف کو کوٹلہ سے ایک خاص تعلق ہو جاوے گا.مگر یہ کام جلدی کا ہے اس میں اب توقف مناسب نہیں.آپ بہت جلد اس کام میں پوری توجہ کے ساتھ کارروائی فرماویں.والسلام ۶؍ جون ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مرتب: مکتوب دو صفحات کا ہے.اس سے قبل اسی مضمون کا خط حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی نے حضورؑ کے ارشاد سے تحریر کیا.معلوم ہوتا ہے اُنہوں نے حضورؑ کی خدمت میں ملاحظہ کے لئے پیش کیا ہوگا.تب حضورؑ نے تاکید کی خاطر تفصیلاً مکتوب ہذا حکیم صاحب کے خط کی پشت پر نیز اگلے صفحہ پر تحریر فرمایا.

Page 227

مکتوب نمبر۲۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا.اس کو پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے.مجھے اوّل سے معلوم ہے کہ نور محمد کی لڑکی کی شکل اچھی نہیں ا ور نہ ان لوگوں کی معاشرت اچھی ہے.اگر سادات میں سے کوئی لڑکی ہوجو شکل اور عقل میں اچھی ہو تو اس سے کوئی امر بہتر نہیں.اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر کسی دوسری شریف قوم میں سے ہو.مگر سب سے اوّل اس کے لئے کوشش چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو جلد ہونا چاہئے.ا گر ایسا ظہور میں آگیا تو مولوی صاحب کے تعلقات کوٹلہ سے پختہ ہوجائیںگے اور اکثر وہاں رہنے کا بھی اتفاق ہو گا.یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور چند ہفتہ میں یہ مبارک کام ظہور میں آئیں تو کیا تعجب ہے کہ یہ عاجز بھی اس کارخیر میں مولوی صاحب کے ساتھ کوٹلہ میں آوے.سب امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.امیدکہ پوری طرح آں محب کوشش فرماویں.کیونکہ یہ کام ہونا نہایت مبارک امرہے.خدا تعالیٰ پوری کر دیوے.آمین ثم آمین.اس عاجز نے دوسو روپیہ آں محب سے طلب کیا ہے.اینٹوں کی قیمت اور معماروں کی اجرت میں.برسات اب سر پر ہے.اگر اس وقت تکلیف فرما کر ارسال فرماویں تواس غم سے کہ ناگہانی طور پر میرے سر پر آگیا ہے مجھے نجات ہو گی.مجھے ایسی عمارات سے طبعاً کراہت اور سخت کراہت ہے.اگر آپ کی نیت درمیان نہ ہوتی تو میں کجا اور ایسے بیہودہ کام کجا.آپ کی نیت نے یہ کام شروع کرایا.مگر افسوس اس وقت تک یہ بیکار ہے جب تک کہ اوپر کی عمارت نہ ہو.عمارت کے وقت تو یہ شعر نصب العین رہتا ہے.عمارت در سرائے دیگر انداز کہ دنیا را اساسے نیست محکم ۱۸۹۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 228

مکتوب نمبر۲۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ عنایت نامہ مع روبکار پہنچا.میرے نزدیک چونکہ آپ کے تعلقات ریاست (سے٭) ہیں.پس کئی مصالح کی وجہ سے ایسے موقعہ پر آپ کا وہاں ہونا ضروری ہے لہٰذا اس جگہ آنا مناسب نہیں.چراغوں کا مساجد اور اپنے گھروں اور کوچوں اور نشست گاہوں میں روشن کرنا اور خیرات کرنا اور جلسہ میں شامل ہو کر شکر اور دعا کرنا یہ سب امور ایک محسن گورنمنٹ کے لئے جائز ہیں.مگر میں چونکہ اس جگہ اپنی جماعت کی طرف سے اِس نئی جماعت کے حالات کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنے کیلئے اس موقعہ پر کوشش کرنا چاہتا ہوں اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ ایک نقل اُس جگہ کی اپنی کارروائی کی ضرور میرے پاس بھیج دیں تا اس جگہ سے جو تحریر بھیجی جائے گی موقعہ مناسب پر اُس کا تذکرہ ہو سکے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار ۱۶؍ جون ۱۸۹۷ء مرزا غلام احمد نوٹ از مرتب: مکتوب ہذا ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے تعلق میں ہے.نواب صاحبؓ کی تحریر کوٹلہ مالیر میں اس ساٹھ سالہ جوبلی کے (جون ۱۸۹۷ء میں) منائے جانے کے متعلق حضورؑ نے اشتہار جلسۂِ احباب میں شائع فرما دی تھی.

Page 229

مکتوب نمبر۲۴ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ پہلے آں محب کی خدمت میں دو سَو روپیہ کے لئے بغرض بیباقی حساب معماران و مزدوران اور اینٹ وغیرہ کی نسبت لکھا گیا تھا.ایک وہ روپیہ نہیں دیا اور رقم کی اشد ضرورت ہے اس لئے مکلّف ہوں کہ براہِ مہربانی دو سَو روپیہ ارسال فرما دیں تا دیا جائے.معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر خرچ کے بعد بھی کسی قدر حصہ نیچے کے مکان کی عمارت سے ناتمام رہ جائے گا مگر امر مجبوری ہے پھر جس وقت صورت گنجائش ہوگی کام شروع کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ کے ہر ایک امر اختیار میں ہے.اخویم مکرمی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے لئے مجھے ابھی تک آں محب کی طرف سے کچھ تحریر نہیں آئی.میں نے سُنا ہے کہ مولوی صاحب کی نسبت اُنہیں کی برادری میں سے ایک پیغام اور آیا ہے اور ایک جگہ اور ہے.سو آپ کو یہ بھی تکلیف دی جاتی ہے کہ اگر وہ مقام جو آپ نے سوچا ہے قابلِ اطمینان نہ ہو یا قابلِ تعریف نہ ہو یا اُس کا ہونا مشکل ہو تو آپ جلد اس سے مطلع فرما دیں تا دوسرے مقامات میں سلسلہ جنبانی کی جائے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۵؍ جون ۱۸۹۷ء خاکسار غلام احمد

Page 230

مکتوب نمبر۲۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ اس سے پہلے دو خط آں محب کی خدمت میں بہ طلب مبلغ دو سَو روپیہ بجہت ضرورت مصارف عمارت لکھے گئے تھے اور انتظار تھی کہ روپیہ دوچار روز تک آ جائے گا لیکن ۱؎ … ادائے قیمت اینٹ اور مزدوری معماروں، نجاروں، مزدوروں کیلئے اشد ضرورت پیش آ گئی ہے.اس وقت چونکہ کوئی صورت روپیہ کی نہیں ہو سکتی اس لئے مکلّف ہوں کہ آں محب کی بہت مہربانی ہوگی کہ اس خط کے دیکھنے کے ساتھ ہی مبلغ دو سَو روپیہ جہاں تک جلد ممکن ہو ارسال فرماویں تا اس تنگی اور تقاضا سے نجات ہو.آئندہ عمارت بند کر دی جائے گی.آپ کا خط متعلق جلسہ جوبلی چھپ گیا ہے.باقی خیریت ہے.والسلام ۷؍ جولائی ۱۸۹۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 231

مکتوب نمبر۲۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ الحمدللہ، جو آپ نے ایک تجویز میموریل انگریزی کے بارے میں ارقام فرمائی تھی وہ انجام کو پہنچ گئی.اخویم مرزا خدا بخش صاحب لاہور میں باراں دن رہ کر ایک میموریل انگریزی میں باراں۱؎ صفحہ کا چھپوا لائے ہیں جو بفضلہ تعالیٰ نہایت مؤثر اور عمدہ معلوم ہوتا ہے اور ایک اُردو میں چھپ گیا ہے.اب انگریزی میموریل تقسیم ہو رہا ہے اور ارادہ کیا گیا ہے کہ پنجاب کے تمام حُکّام انگریز کو بھیجا جائے.میری طبیعت چند روز سے بعارضہ زکام و نزلہ و کھانسی بہت بیمار ہے.خواجہ کمال الدین صاحب اپنے کام پر چلے گئے ہیں.میں آپ سے یہ اجازت مانگتا ہوں کہ آپ براہِ مہربانی کم سے کم ایک ماہ تک بعض متفرق کاموں کے لئے جو قادیان میں ہیں مرزا خدا بخش صاحب کو اجازت دیں تا وہ پہلے میموریل کو تقسیم کریں اور پھر بعد اس کے بقیہ کام منن الرحمن کی طرف متوجہ ہوں.اگرچہ یہ کام اس قدر قلیل عرصہ میںہونا ممکن نہیں لیکن جس قدر ہو جائے غنیمت ہے.مگر یہ ضروری امر ہوگا کہ آں محب (کو٭)……… اگر مرزا صاحب کو کہیں بھیجنا منظور ہو یا کوئی اور ضروری کام نکلے تو بلاتوقف آپ کی خدمت میں پہنچ جائیں گے.میری طبیعت آپ کی سعادت اور رُشد پر بہت خوش ہے اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی تمام جماعت کے بھائیوں میں سے ایک اعلیٰ نمونہ ٹھہریں گے.اس وقت میں بباعث علالت و پریشانی طبع زیادہ نہیںلکھ سکتا.والسلام خاکسار ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۸ء (ب) مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 232

مکتوب نمبر۲۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کرسکتے.ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں.پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے.کہتے ہیں اس کو بیماری سل ہو گئی ہے.علامات سخت خطرناک ہیں.نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیںہوئی.ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں اور جو د وآدمی نکالے گئے تھے.یعنی غلام محی الدین اور غلام محمد.وہ کسی کی نمامی کی وجہ سے نہیں نکالے گئے بلکہ خود مجھ کو کئی قرائن سے معلوم ہوگیا تھاکہ ان کاقادیان میں رہنا خطرناک ہے اور مجھے سرکاری مخبر نے خبر دے دی تھی اور نہایت بد اور گندے حالات بیان کئے اور وہ مستعد ہو ا کہ میں ضلع میں رپورٹ کرتا ہوں.کیونکہ اس کے یہ کام سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں.تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا.لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے.بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا.چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے رہتے ہیں.اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ نوٹ:.ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے.مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے.اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ

Page 233

راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اور خاکی شاہ اس کا عرف تھا.وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا.قادیان میں آیا اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا.یہاں بھی جاری رکھنا چاہا.مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا.اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کا ذکر ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا.دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے اسے بھی اس وقت اس بہشت سے نکالا.لیکن چونکہ اس میں اخلاص اور سلسلہ کے لئے سچی محبت تھی.خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا.وہ اور اس کاسارا خاندان خد اکے فضل اوررحم سے نہایت مخلص ہے.خاکی شاہ نے جیسا کہ خود حضرت نے لکھ دیا ہے، یہاں سے نکل کر اپنی بدباطنی کا عملی اظہار کر دیا.آخر وہ خائب خاسر رہ کر مر گیا.اب اس کامعاملہ خدائے تعالیٰ سے ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر۲۸ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کچھ مضائقہ نہیں آں محب مالیر کوٹلہ سے مضمون مکمل کرنے کے بعد ارسال فرماویں.اگر دو ہفتہ تک تاخیر ہو جائے تو کیا حرج ہے اور علیحدہ پرچہ میں نے دیکھ لیا ہے نہایت عمدہ ہے.بہتر ہے کہ اس کو اس مضمون کے ساتھ شامل کر دیا جائے کل مع الخیر علی الصباح تشریف لے جاویں.اللہ تعالیٰ خیرو عافیت سے پہنچائے.آمین.والسلام خاکسار ۴؍ جولائی ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مرتب: خاکسار کو یہ اصل مکتوب نہیں ملا.ایک نقل سے نقل کیا ہے.

Page 234

مکتوب نمبر۲۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ معہ مبلغ دو سو روپیہ مجھ کو ملا.اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے.آمین ثم آمین.خط میں سو روپیہ لکھا ہو اتھا اور حامل خط نے دو سو روپیہ دیا.اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا.میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسیٰ روانہ کرتاہوں اور جس طورسے یہ دوائی استعمال ہو گی.آج اس کااشتہار چھاپنے کی تجویز ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا.بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں.کیونکہ آئندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے.جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا.وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے.میرے نزدیک ان دنوں میں دنیا کے غموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں.د ن بہت سخت ہیں جہاں تک ممکن ہوآپ اپنے بھائیوں کو بھی نصیحت کریں اور اگر وہ باز نہ آویں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں.وہ انشاء اللہ سینک دینے اور دوسری تدبیروں سے، جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے، اچھی ہو جائیں گی.ان دنوں التزام نماز ضروری ہے مجھے تو یہ معلوم ہو ا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں.اب بہرحال متنبہ ہونا چاہئے.عمر کا کچھ بھی اعتبار نہیں.میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خد اتعالیٰ قبول فرمائے گا.مجھے اس بات کا خیال ہے کہ اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے.حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں.مگر سب بات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 235

مکتوب نمبر۳۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.آپ کی شفاء کے لیے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرماوے.آمین ثم آمین.معلوم ہوتا ہے کہ چیچک خاص طور کے دانے ہوں گے جن میں تیزی نہیں ہوتی.یہ خدا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سمّ سے بچایا ہے اور چیچک ہو یا خسرہ ہو دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں.یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتا ہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے.امید ہے کہ آں محب ۵؍اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کو ادائے شہادت کے لیے روانہ قادیان فرمائیں گے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۶؍ جولائی ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 236

مکتوب نمبر۳۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو بکلّی صحت عطافرماوے.چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے.ا س لئے درحقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں.میں اس سے خوش ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں آپ تشریف لاویں.افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا.اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا.آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام خاکسار ۴؍ ستمبر ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ

Page 237

مکتوبنمبر۳۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.الحمدللّٰہ والمنتہ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل و کرم سے شفابخشی.میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسّی برس سے زیادہ کی عمر کاتھا.چیچک نکلی وہ جانبر نہیں ہو سکا.ہمارے ہمسایوں میں دوجوان عورتیں اس مرض سے راہی ملک بقاہوئیں.آپ کو اطلاع نہیں دی گئی.یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطرناک تھی.بالخصوص ا ب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے.اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنجگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی.اصل باعث عاقبت خدا کا فضل ہے جو بموجب وعدہ اللہ سے بہت سی امیدیں اس کے فضل کے لئے ہو جاتی ہیں.مجھے کثرت مخلصین کی وجہ سے اکثر زمانہ غم میں ہی گزرتا ہے.ایک طرف فراغت پاتا ہوں.دوسری طرف سے پریشانی لاحق حال ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی بہت سی عنایات کی ضرورت ہے.جس کو میں مشاہدہ بھی کرتا ہوں.اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کاغلبہ پنجاب میں معلوم ہو اتھا.جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ توبہ کریں گے.اورنیک چلن ہو جائیںگے.تو خد اتعالیٰ اس گھر کو بچا لے گا.لیکن نیک ہونے کاکام بڑا مشکل ہے اگرچہ بدچلن بدمعاش اور طرح طرح کے جرائم ملک میں پھیلے ہوئے ہیں.اگر پنجاب میں وبائے طاعون یا ہیضہ پھوٹا تو بڑی مصیبت ہوگی.بہت سے گھروں میں ماتم ہو جائیں گے.بہت سے گھر ویران ہو جائیںگے.مرزا خدابخش صاحب پہنچ گئے.ان کے گھر میں بیماری ہے.تپ روز چڑھتا ہے اور جگر اور معدہ ضعیف معلوم ہوتا ہے.مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہیں دنوں سے بیمار ہے جب کہ آپ نے بلایا تھا.اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں.حواس میں بھی فرق آگیا ہے اورمولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوجاتے ہیں.بعض دفعہ خطرناک بیماری ہوتی ہے.میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طو ر پر ایک قبرستان بنایا جائے جس

Page 238

طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا.بقول شیخ سعدیؒ.کہ بداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے.جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیاہے.اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جاوے.امید کہ خدا تعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا اوراس کے اردگرد ایک دیوار چاہئے.والسلام ۶؍اگست ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۳۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کی نئی شادی کے مبارک ہونے کے لئے میںنے بہت دُعا کی ہے.اللہ تعالیٰ قبول فرماوے.عارضہ جذام جو اُن کے والد صاحب کو تھا یہ عارضہ درحقیقت سخت ہوتا ہے اور سخت اندیشہ کی جگہ.اس لئے برعایت ظاہر یہ بھی مناسب ہے کہ خون کی اصلاح کے لئے ہمیشہ توجہ رہے.اِنْشَائَ اللّٰہ تَعَالٰی میں ایک دوا تجویز کروں گا اس دوا کوہمیشہ استعمال کریں.عمر تک استعمال ہو اِنْشَائَ اللّٰہ اس سے بہت فائدہ ہوگا اور تیز چیزیں اور تیز مصالح قرنفل وغیرہ اور کثرت شیرینی سے ہمیشہ پرہیز رکھیں اور آپ بھی ہمیشہ دعا کرتے رہیں.میں آج بیمار ہوں زیادہ نہیں لکھ سکتا.مرزا خدابخش صاحب کا لڑکا ابھی تک خطرناک حالت میں ہے.ظاہراً زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا ہے، جان کندن کی سی حالت ہے.خدا تعالیٰ رحم فرماوے.میرے ہاتھ میں چوٹ آگئی ہے اور تپ بھی ہے.والسلام خاکسار ۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد

Page 239

نوٹ: اس تہنیتی مکتوب کی تاریخ ۵؍ نومبر ۹۸ء میں سہو ہے.اہلیہ اوّل کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحبؓ نے مرحومہ کی بہن سے شادی کی تھی.مرحومہ ابھی زندہ تھیں کہ ۸؍نومبر ۱۸۹۸ء کو حضو رؑنے ان سے حسن سلوک کی نواب صاحب کو تلقین فرمائی (مکتوب مندرجہ الحکم جلد۷ نمبر۳۲) اور مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں مندرجہ مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحومہ کے بطن سے ایک بچہ کے تولّد پر حضورؑ نے ۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو مبارکباد کا خط تحریر فرمایا.(۱۹) گو ۸؍نومبر ۱۸۹۸ء کو مرحومہ کی وفات پر بھی حضورؑ کا خط لکھنا درج ہے.(۲۵) لیکن یہ تاریخ درست درج نہیں ہوئی دراصل ۱۸؍نومبر ۱۸۹۸ء ہے.۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو حضورؑ نے نواب صاحب کو جلد تر شادی کرنے کی تاکید فرمائی.(مکتوب نمبر۲۴) اس لئے یہ زیر بحث تہنیتی مکتوب ۲۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء کا ہی ہو سکتا ہے.(مرتب) مکتوب نمبر۳۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج صدمۂ عظیم کی تار مجھ کو ملی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرماوے اور اس کے عوض کوئی آپ کو بھاری خوشی بخشے.میں اس درد کو محسوس کرتاہوں جو ا س ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہو گا اور میں دعا کرتا ہوں کہ آئندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلاسے آپ کو بچائے اورپردۂِ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے.میرا اس وقت آپ کے درد سے دل درد ناک ہے اور سینہ غم سے بھرا ہے.خیال آتا ہے کہ دنیا کیسی بے بنیاد ہے.ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہو اہو،ویران بیابان دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اس کی اولاد کو عمر اور اقبال اور سعادت بخشے.لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یاد رکھیں.میری یہ بڑی خواہش رہی کہ آپ ان کو قادیان میں لاتے اور اس خواہش سے مدّعا یہ تھا کہ وہ بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر اس گروہ میں

Page 240

شریک ہو جاتے کہ جو خدا تعالیٰ تیار کررہا ہے.مگر افسوس کہ آپ کی بعض مجبوریوں سے یہ خواہش ظہور میں نہ آئی.اس کا مجھے بہت افسوس ہے.میں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھاتھا.ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کرسکتا.مجھے اندیشہ تھا آخر اس کایہ پہلو ظاہر ہوا.یہ تقدیر مبرم تھی جو ظہور میں آئی.معلوم ہوتا ہے علاج میں بھی غلطی ہوئی.یہ رحم کی بیماری تھی اوربباعث کم دنوں میں پیدا ہونے کے زہریلا مواد رحم میں ہو گا.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو علاج یہ تھاکہ ایسے وقت پچکاری کے ساتھ رحم کی راہ سے آہستہ آہستہ یہ زہر نکالا جاتا اورتین چار دفعہ روز پچکاری ہوتی اور کیسٹرائل سے خفیف سی تلین طبع بھی ہوتی.اور عنبر اور مشک وغیرہ سے ہر وقت دل کو قوت دی جاتی.اوراگر خونِ نفاس بند تھا تو کسی قدر رواں کیا جاتا اور اگر بہت آتا تھاتو کم کیا جاتا.اور نربسی اورہینگ وغیرہ سے تشنج اور غشی سے بچایا جاتا.لیکن جب کہ خدا تعالیٰ کاحکم تھا تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا.پہلی دو تاریں ایسے وقت میں پہنچیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار تھے اور اب بھی بیمارہیں.تیسرا مہینہ ہے.دست اور مروڑ ہیں.کمزور ہو گئے ہیں.بعض وقت ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ غشی پڑ گئی اورحاملہ کی غشی گویاموت ہے.دعا کرتا ہوں.مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقعہ بھی نہ ملا.تاریں بہت بے وقت پہنچیں.ا ب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ پہلے ہی بہت نحیف ہیں.میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں.اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استقامت دکھلائیں.ہم سب لوگ ایک دن نوبت بہ نوبت قبر میں جانے والے ہیں.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کودل پر غالب ہونے نہ دیں.میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا.مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطرناک حالت ہو جاتی ہے.مولوی صاحب کے گھر میں بھی حمل ہے.شاید چھٹا ساتواں مہینہ ہے.وہ بھی آئے دن بیمار رہتے ہیں.آج مرزا خدا بخش صاحب بھی لاہور سے قادیان آئے.شاید اس خط سے پہلے آپ کے پاس پہنچیں.والسلام ۸؍ نومبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 241

مکتوب نمبر۳۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آں محب کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے.آپ کے لئے دعا کرنا تو میںنے ایک لازمی امر ٹھہرا یا ہوا ہے.لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں اس کااثر ظاہر نہیں ہوتا.دعائوں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں.ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر ظاہر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں.آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئی ہیں.جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے.اور جب جلد کوئی مراد مل جاتی ہے تو کمی عمر کااندیشہ ہے.میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ ایک مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں.لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو.کیو نکہ طول عمر اور اعمال صالحہ بڑی نعمت ہے.اور آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں مجھے رنج پید ا ہوتا ہے.سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے.میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ۱؎ یعنی تم میں سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو.عورتوں کی طبیعت میں خدا تعالیٰ نے ا س قدر کجی رکھی ہے کہ کچھ تعجب نہیں کہ بعض وقت خدا اور رسول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی بُرا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں.سو ایسی حالت میں بھی کبھی ایک مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں مشغول رہیں.لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں ا ور مروّت اور جوانمردی سے پیش آویں اور اُن کو سمجھاتے رہیں کہ مسلمان کے لئے آخرت کا فکر ضروری ہے تا خدا تعالیٰ مصیبتوں سے بچاوے وہ ہیبت ناک چیز جو

Page 242

خاوند اور بیوی اور بچوں اور دوستو ں میں جدائی ڈالتی ہے جس کا دوسرے لفظوں میں نام موت ہے دعا کرنا چاہیئے کہ وہ بے وقت نہ آوے اور تباہی نہ ڈالے اور دل نرم رکھنا چاہیئے اور ان کو سمجھا دیں کہ نماز کی پابندی کریں نماز جنابِ الٰہی میں عرض معروض کا موقعہ دیتی ہے اپنی زبان میں دنیا اور آخرت کے لئے دعائیں کریں بدتقدیروں سے ڈرتے رہیں.خدا تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے جوامن کے وقت میں ڈرتے رہیں اور نیز آپ ان کے واسطے نماز میں دعائیں کریں یہ نازیبا بات ہے کہ ادنیٰ لغزش دیکھ کر دل میں قطع تعلق کریں بلکہ وفاداری سے اصلاح کے لئے کوشش کریں اور سچی ہمدردی سے کام لیں.اور آپ نے جو پانچ ہزار روپیہ لکھا ہے میرے نزدیک آپ کا دوسروں کے شامل ہونا عمدہ طریق نہیں بلکہ مناسب یہ ہے کہ آپ علٰیحدہ طور پر اشتہار دیں کہ چونکہ مسلمانوں میں تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اور اس طرح قوم میں ضعف پیدا ہوتا جاتا ہے اس لئے میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی جو بانی مبانی اس تفرقہ کے ہیں شخص مدعی سے مباہلہ کر لیں الہام کا مدعی جبکہ ایک سال کی مہلت الہام کی بنا پر پیش کرتا ہے تو وہی مہلت قبول کر لیں اگر اس مدت میں شخص مدعی ہلاک ہو گیا یا کسی اور ذلیل عذاب میں مبتلا ہو گیا تو خود جماعت اُس کی بے اعتقاد ہو کر متفرق ہو جائے گی اور اس طرح پر قوم میں سے فتنہ اٹھ جائے گا او ر اس صو رت میں محض نیک نیتی اور ہمدردی قوم کی وجہ سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ مبلغ پانچ ہزار روپیہ مولوی محمد حسین صاحب کو بطور نذر کے دیں گے اور ان کے لئے دو خوشیاں ہوں گی کہ دشمن مارا اور روپیہ ملا لیکن اگر اس سال کے عرصہ میں جو مباہلہ کے دن سے شمار کیا جائے گا کوئی بَلا مولوی صاحب پر نازل ہوئی تو پھر سمجھنا چاہیئے کہ مولوی صاحب اس جنگ و جدل میں حق پر نہیں ہیں تو اس صو رت میں قوم کو شخص مدعی کی طرف بصدق دل رجوع کرنا چاہیئے یہ فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ممکن نہیں کہ بغیر ارادہ الٰہی کے کوئی شخص یونہی مارا جاوے.غرض یہ اشتہار آپ کی طرف سے ہونا چاہیئے اُمید کہ بڑا مؤثر ہوگا اگر آپ اشارہ فرما دیں تو اسی جگہ چھاپ دیا جائے جلد مطلع فرمایا جاوے.اور سرس یعنی سلطان الاشجار کے عرق نکالنے کے لئے پتّے اور بیخ کافی نہیں پھول کی ضرورت ہے.والسلام ٭ خاکسار ۸؍نومبر ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد از قادیان

Page 243

مکتوب نمبر۳۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خدائے تعالیٰ فرزند نوزاد کومبارک اور عمر دراز کرے.آمین ثم آمین.میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پید اہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسٹرائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں.حافظ حقیقی خود حفاظت فرماوے اور آپ کے لئیمبارک کرے.آمین ثم آمین.دعا میں آپ کیلئے مشغول ہوں.اللہ تعالیٰ قبول فرماوے.والسلام ۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 244

مکتوب نمبر۳۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل سے میرے گھر میں بیماری کی شدت بہت ہو گئی ہے اورمرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں بھی تپ تیز چڑھتا ہے.ا سی طرح تمام گھر کے لوگ یہاں تک کہ گھر کے بچے بھی بیمار ہیں.اگر مرزاخدابخش صاحب آجائیں تو اپنے گھر کی خبر لیں.اس قدر بیماری ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حال کا پرساں نہیں ہو سکتا.حالات تشویش ناک ہیں.خدا تعالیٰ فضل کرے.امید ہے کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں.والسلام (۲۱؍نومبر ۱۸۹۸ء) خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 245

مکتوب نمبر۳۸ ملفوف یہ خط مرزا خدا بخش صاحب کے نام ہے.چونکہ نواب صاحب ہی کے خط میں دوسرے ورق پر لکھ دیا گیاہے.اس لئے میں نے بھی اسی سلسلہ میں اسے درج کردیا ہے.(عرفانی) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم مرزا خدابخش صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل میرے گھر میں والدہ محمود کو تپ اورگھبراہٹ اور بدحواسی کی سخت تکلیف ہوئی اورساتھ ہی عوارض اسقاط حمل کے ظاہر ہوئے.معلوم ہوتا تھا کہ گویا چند منٹوں کے بعد خاتمہ زندگی ہے.ا ب اس وقت کسی قدر تخفیف ہے.مگر چونکہ تپ نوبتی ہے.ا س لئے کل کا اندیشہ ہے اور آپ کے گھر میں سخت تپ چڑھتا ہے.ا ندیشہ زیادہ ہے اگر رخصت لے کر آجائیںتو بہتر ہے.آج کل کے تپ اندیشناک ہیں.اطلاعاً لکھا گیا ہے اور آتے وقت ایک روپیہ کے انار بیدانہ لے آویں اور کچھ نہ لاویں کہ تمام بچے بیمار ہیں.والسلام ۲۲؍ نومبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 246

مکتوب نمبر۳۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا.اس جگہ موسمی بخار سے گھر میں اور بچوں کو بیماری ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مرزا خدابخش صاحب کی بیوی بھی تپ … اب طاعون بھی ہمارے ملک سے نزدیک آگئی ہے.خدا تعالیٰ کارحم درکار ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ازقادیان

Page 247

مکتوب نمبر۴۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعون کا مادہ نکلتا ہے اور انشاء اللہ تین سال امن کے ساتھ گزرتے ہیں.کیونکہ طبی تحقیق سے خسرہ اور چیچک کا مادہ اور طاعون کا مادہ ایک ہی ہے.آپ تین تین چار چار رتی جدوار رگڑ کر کھاتے رہیںکہ اس مادہ اور طاعون کے مادہ کایہ تریاق ہے.میں ہر وقت نماز میں اورخارج نماز کے آپ کے لئے دعاکرتا ہوں.خط پہنچنے پر تردّد ہوا.اس لئے جلدی سے مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں.اللہ تعالیٰ جلد شفاء بخشے.آمین ثم آمین.اور میرے پر عدالت ضلع گورداسپور کی طرف سے تحصیل میں ایک مقدمہ انکم ٹیکس ہے جس میں مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چھ سات اور آدمی اور نیز مرزا خدا بخش صاحب میری طرف سے گواہ ہیں.امید کہ تاریخ سے تین چار روز پہلے ہی مرزا صاحب کو روانہ قادیان فرماویں اور حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں.خد ا تعالیٰ حافظ ہو.(نوٹ:.اس خط پر حضرت اپنا نام بھول گئے ہیںاور تاریخ بھی درج نہیں ہوئی) (عرفانی)

Page 248

مکتوب نمبر۴۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ معہ دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا.جس میں صحت کی نسبت لکھا ہوا تھا، پہنچا.بعد پڑھنے کے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بَلا سے محفوظ رکھے.آمین ثم آمین.ہمدست مرزا خدابخش صاحب مبلغ تین سو روپیہ کے تین نوٹ بھی پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.ا ن کے لڑکے کا حال ابھی قابلِ اطمینان نہیں ہے.گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے مگر اعتبار کے لائق نہیں.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ

Page 249

مکتوب نمبر۴۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.ا گرچہ آں محب کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ اور دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں.لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے.بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں.یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں.غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے.صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفایت قادیان میں تیار ہو.اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے.اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے.دنیا گذشتنی و گذاشتنی ہے.وقت آخر کسی کو معلوم نہیں.اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے.دانشمند کے لئے فجر سے شام تک زندگی کی امید نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا.ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ہی ایسے پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے.مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی.ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا.وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا.میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شاید آئندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں.مگر یہی وقت ہے اور پھر شاید وقت ہاتھ سے جاتارہے.سو آں محب بھی ا س بات کو مکتوب نمبر۴۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.ا گرچہ آں محب کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ اور دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں.لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے.بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں.یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں.غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے.صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفایت قادیان میں تیار ہو.اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے.اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے.دنیا گذشتنی و گذاشتنی ہے.وقت آخر کسی کو معلوم نہیں.اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے.دانشمند کے لئے فجر سے شام تک زندگی کی امید نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا.ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ہی ایسے پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے.مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی.ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا.وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا.میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شاید آئندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں.مگر یہی وقت ہے اور پھر شاید وقت ہاتھ سے جاتارہے.سو آں محب بھی ا س بات کو مکتوب نمبر۴۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.ا گرچہ آں محب کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ اور دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں.لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے.بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں.یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں.غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے.صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفایت قادیان میں تیار ہو.اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے.اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے.دنیا گذشتنی و گذاشتنی ہے.وقت آخر کسی کو معلوم نہیں.اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے.دانشمند کے لئے فجر سے شام تک زندگی کی امید نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا.ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ہی ایسے پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے.مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی.ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا.وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا.میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شاید آئندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں.مگر یہی وقت ہے اور پھر شاید وقت ہاتھ سے جاتارہے.سو آں محب بھی ا س بات کو سوچ لیں.اور عید کی تقریب پر اکثر

Page 250

احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اسی دن پر موقوف رکھے گئے ہیں.سو اگر آں محب آنہ سکیں جیسا کہ ظاہر ی علامات ہیں تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خد ابخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں میں شامل ہو جائیں.باقی سب خیریت ہے.مرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں سب خیریت ہے.والسلام (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹ء) راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 251

مکتوب نمبر۴۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت حفظ ماتقدم کے طور پر امراض خون کیلئے گولیاں بھیجتا ہوں.جن سے انشاء اللہ القدیر مادہ جذام کا استیصال ہوتاہے.شرط یہ ہے کہ ایک گولی جو بقدر تین فلفل کے ہو.ہمراہ آبِ زلال مہندی کھائی جائے.ا س طرح پر کہ ایک ماشہ برگ حنا یعنی مہندی رات کو بھگویا جاوے اور پانی صرف تین چار گھونٹ ہو صبح اس پانی کو صاف کر کے ہمراہ اس گولی کے پی لیں.شرینی نہیں ملانی چاہئے.پھیکا پانی ہو، پانی تلخ ہوگا.مگر ضروری شرط ہے کہ پھیکا پیا جاوے.یہ رعایت رکھنی چاہئے کہ ایک ماشہ سے زیادہ نہ ہو.جب برداشت ہو جائے تو دو ماشہ تک کرسکتے ہیں.ہر ایک میٹھی چیز سے حتی الوسع پرہیز رہے.کبھی کبھی کھالیں اور مہینہ میں سے ہمیشہ دس دن دوا کھا لیا کریں.بیس دن چھوڑ دیا کریں.یہ دوا انشاء اللہ نہایت عمدہ ہے.ایسے امراض میں حفظ ماتقدم کے طور پر ہمیشہ دوا کو استعمال کرنا ضروری ہے.یعنی مہینہ میں دس دن.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ:.اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور یہ خط بذریعہ ڈاک نہیں بھیجا گیا.بلکہ جیسا کہ اس خط پر ایک نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے.ہمدست میاں کریم بخش بھیجا گیا.مگر دوسرے خط سے جو اس دوائی کے متعلق ہے کہ جون ۱۸۹۹ء کا ہے.(عرفانی)

Page 252

مکتوب نمبر۴۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں بباعث علالت طبع چند روز جواب لکھنے سے معذور رہا.میری کچھ ایسی حالت ہے کہ ایک دفعہ ہاتھ پیر سرد ہو کر اور نبض ضعیف ہو کرغشی کے قریب قریب حالت ہو جاتی ہے اور دورانِ خون یک دفعہ ٹھہرجاتا ہے.جس میں اگر خدا تعالیٰ کافضل نہ ہوتو موت کا اندیشہ ہوتا ہے.تھوڑے دنوں میں یہ حالت دو دفعہ ہو چکی ہے.آج رات پھر اس کاسخت دورہ ہوا.ا س حالت میں صرف عنبر یا مشک فائدہ کرتا ہے.رات دس خوراک کے قریب مشک کھایا پھر بھی دیر تک مرض کا جوش رہا.میں خیال کرتا ہوں کہ صرف خدا تعالیٰ کے بھروسہ پر زندگی ہے.ورنہ دل جو رئیس بدن ہے، بہت ضعیف ہو گیا ہے.آپ نے دوا کے بارے میں جو دریافت کیاتھا.ایام امید میں دوا ہرگز نہیں کھانی چاہئے اور نہ ہمیشہ کھانی چاہئے.کبھی ایک ہفتہ کھاکر چھوڑ دیں اور ایک دو ہفتہ چھوڑ کر پھرکھانا شروع کریں.مگر ایام حمل میں قطعاً ممنوع یعنی ہر گز نہیں کھانی چاہئے.جب تک بچہ پیدا ہوکر دو مہینہ نہ گزر جائیں.اگر سرعت تنفس باختلاج قلب ہو تو تدبیر غذا کافی ہے.یعنی دودھ، مکھن، چوزہ کا پلائو استعمال کریں.بہت شیرینی سے پرہیز کریں.شیرہ بادام مقشر الائچی سفید ڈال کر پیویں.موسم سرما میں اسکاٹس ایمیلشن استعمال کریں.یعنی مچھلی کا تیل جوسفید اور جما ہوا شہد کی طرح یا دہی کی طرح ہوتا ہے.بدن کو فربہ کرتاہے.دل کا مقوی ہے.پھیپھڑہ کوبہت فائدہ کرتا ہے.چہرہ پر تازگی اور رونق اور سرخی آتی ہے.لاہور سے مل سکتا ہے.مگر میری دانست میں ان دنوں میں استعمال کرنا جائز نہیں.کسی قدر حرارت کرتا ہے.ان دنوں میں سادہ مقوی غذائیں مکھن.گھی.دودھ اور مرغن پلائو استعمال کرنا کافی ہے اور کبھی کبھی شیرہ بادام استعمال کرنا.وہ دوا یعنی گولیاں وہ ہمیشہ کے استعمال کے لئے نہیں ہے.ایک گولی خوراک کافی ہے.ا گر مہندی کاپانی بھی نہ پی سکیں تو یونہی کھا لیں.مگر

Page 253

یاد رہے کہ مہندی بھی ایک زہر کی قسم ہے.اگر پانی پیا جائے تو صرف احتیاط سے ایک ماشہ برگ مہندی بھگوئیں وزن کر کے بھگوئیں.ہر گز اس سے زیادہ نہ ہو.کیوں کہ زیادہ سخت تکلیف دہ ہے.اس پانی کے ساتھ گولی کھائیں اوراگر پانی مہندی کا پیا نہ جائے تو عرق گائوزبان کے ساتھ کھائیں.ہمیشہ کثرت شیرینی سے پرہیز رکھنا ضروری ہے.زیادہ خیریت ہے.اس وقت بھی میری طبیعت بحال نہ تھی.لیکن بہرحال یہ خط میں نے لکھ دیا.والسلام ۲۰؍ جون ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 254

مکتوب نمبر۴۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے منظور ہے کہ مرزا خد ا بخش صاحب کی روانگی ۱۰؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک ملتوی رکھی جاوے اور آپ کی قادیان میں تشریف آوری کے لئے میں پسند نہیں کرتا کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء کے پہلے آپ تشریف لاویں.کیونکہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء سے پہلے سخت گرمی اورپریشانی اور بیماریوں کے دن ہیں.ریل کی سواری بھی ان دنوں میں ایک عذاب کی صورت معلوم ہوتی ہے اورمعدہ ضعیف اور وبائی ہوا حرکت میں ہوتی ہے.لیکن ۲۲؍ستمبر کے بعد موسم میں ایک صریح انقلاب ہو جاتا ہے اوررات کے وقت اندر سوسکتے ہیںاور اطمینان کے ساتھ حالت رہتی ہے.ا س موسم میں ارادہ کو۲۲؍ستمبر پر مصمّم فرماویں اوراس سے پہلے موسم کچا اور سفر کرنا خطرناک ہے.یہی صلاح بہتر ہے.کوئی ایسی تجویز ہو.آپ کیلئے اس جگہ کوئی سامان تیار ہو جائے.خدا تعالیٰ ہر ایک شے پر قادر ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ اس خط پر کوئی تاریخ تو درج نہیں.مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جولائی کے آخر یا اگست ۱۸۹۹ء کے شروع کا ہے.حضرت اقدس نے جو خواہش نواب صاحب کے لئے مکان کی فرمائی تھی.خدا تعالیٰ نے وہ بھی پوری کر دی.(عرفانی)

Page 255

مکتوب نمبر۴۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.حال یہ ہے اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کوجو الہام ہو اہے اکثر دفعہ ان میں رسول یا نبی کا لفظ آگیاہے.جیسا کہ یہ الہام ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ ۱؎ اورجیساکہ یہ الہام جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۲؎ اور جیسا کہ یہ الہام ’’دنیا میں ایک نبی آیا مگر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا‘‘.۳؎ نوٹ:.ایک قرأت اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا اور یہی قرأت براہین میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرأت درج نہیں کی گئی.منہ ایسے ہی بہت سے الہام ہیں.جن میںاس عاجز کی نسبت نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے.لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے جو ایسا سمجھتا ہے جو اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت مراد ہے.جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے.بلکہ رسول کے لفظ سے تو صرف اس قدر مرا د ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا اور نبی کے لفظ سے صرف اس قدر مراد ہے کہ خد ا سے علم پاکر پیشگوئی کرنے والا یا معارف پوشیدہ بتانے والا.سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں، اسلام میں فتنہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت بد نکلتا ہے.اس لئے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہئیں اور دلی ایمان سے سمجھنا چاہئے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۴؎ اور اس آیت کاانکار کرنا یا استخفاف کی نظر سے اس کودیکھنا درحقیقت اسلام سے علیٰحدہ ہونا ہے.جو شخص انکار میں حد سے گزر جاتا ہے، جس طرح کہ وہ ایک خطرناک حالت میں ہے ایسا ہی وہ بھی خطرناک حالت میں ہیجو شیعوں کی طرح اعتقاد میں حد سے گزر جاتا ہے.

Page 256

جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا ہے اور ہم محض دین اسلام کے خادم بن کر دنیا میں آئے اوردنیا میں بھیجے گئے نہ اس لئے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین بناویں.ہمیشہ شیاطین کی راہ زنی سے اپنے تئیں بچانا چاہئے اوراسلام سے سچی محبت رکھنی چاہئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پھیلانا چاہئے.ہم خادم دین اسلام ہیں اور یہی ہمارے آنے کی علّتِ غائی ہے اور نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ہیں.رسالت لغتِ عرب میں بھیجے جانے کو کہتے ہیںاور نبوت یہ ہے کہ خد اسے علم پا کر پوشیدہ باتوں یا پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا.سو اس حد تک مفہوم کو ذہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنی کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے.مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں.یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں.یا نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں.اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ ا س جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں.کیو نکہ ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمار ا کوئی رسول بجز محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے.سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہئے اور یا د رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہو نے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے، وہ ہم پر افتراء کرتا ہے.ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اورقرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے.سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے ورنہ خد اتعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دِہ ہو گا.اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابلِ مواخذہ ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷؍ اگست ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد ازقادیان نوٹ:.اس مکتوب میں حضور نے اپنے دعوئے نبوت و رسالت کی حقیقت کو خوب

Page 257

کھول کر بیان کر دیا ہے.آپ نے اپنے اس دعویٰ سے کبھی انکار نہیں کیا.البتہ اس کا وہ مفہوم اور منطوق بھی کبھی قرار نہیں دیا جو آپ کے معاندین ومنکرین نے آپ کی طرف منسوب کیا.(عرفانی) مکتوب نمبر۴۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کسی قدر تریاق جدید کی گولیاں ہمدست مرزا خدا بخش صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہیں اور کسی قدر اس وقت دے دوں گا.جب آپ قادیان آئیںگے یہ دوا تریاق الٰہی سے فوائد میں بہت بڑھ کر ہے.اس میں بڑی بڑی قابل قدر دوائیں پڑی ہیں.جیسے مشک.عنبر.نربسی.مروارید.سونے کاکشتہ.فولاد.یا قوت احمر.کونین.فاسفورس.کہربا.مرجان.صندل.کیوڑہ.زعفران.یہ تمام دوائیں قریب سو کے ہیں اور بہت سا فاسفورس اس میں داخل کیا گیا ہے.یہ دوا علاج طاعون کے علاوہ مقوی دماغ.مقوی جگر.مقوی معدہ.مقوی باہ اور مراق کو فائدہ کرنے والی.مصفّٰی خون ہے.مجھ کو اس کے تیار کرنے میں اوّل تأمّل تھا کہ بہت سے روپیہ پر اس کاتیا ر کرنا موقوف تھا.لیکن چونکہ حفظ صحت کے لئے یہ دوا مفید ہے.اس لئے اس قدر خرچ گوارا کیا گیا.چالیس تولہ سے کچھ زیادہ اس میں یا قوت احمر ہے.ا گر خریدا جاتا تو شاید کئی سو روپیہ سے آتا.بہرحال یہ دوا خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو گئی ہے گو بہت ہی تھوڑی ہے.لیکن اس قدر بھی محض خدا تعالیٰ کی عنایت سے تیار ہوئی.خوراک اس کی اوّل استعمال میں دو۲ رتی سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے.تاگرمی نہ کرے.نہایت درجہ مقوی اعصاب ہے اور خارش اور ثبورات اور جذام اور ذیابیطس اور انواع و اقسام کے زہر ناک امراض کے لئے مفید ہے اور قوت باہ میں اس کو ایک عجیب اثر ہے.سرخ گولیاں میں نے نہیں بھیجیں.کیونکہ صرف بواسیر اور جذام کے لئے ہیں اور ذیابیطس کو بھی مفید ہے.ا گر ضرورت ہو گی تو وہ بھی بھیج دوں گا، موجود ہیں.مرزا خد ابخش کونصیبین میں بھیجنے کی پختہ تجویز ہے.خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے کئی موقعے

Page 258

ہوتے ہیں.جو ہروقت ہاتھ نہیں آتے.کیا تعجب کہ خدا تعالیٰ آپ کی اس خدمت سے آپ پر راضی ہو جاوے اور دین اور دنیا میں آپ پر برکات نازل کرے کہ آپ چند ماہ اپنے ملازم خاص کو خدا تعالیٰ کاملازم ٹھہرا کر اور بد ستور تمام بوجھ اس کی تنخواہ اورسفر خرچ کا اپنے ذمہ پر رکھ کر اس کو روانہ نصیبین وغیرہ ممالک بلا د شام کریں.میرے نزدیک یہ موقعہ ثواب کا آپ کے لئے وہ ہو گا کہ شائد پھر عمر بھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آوے.مگر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جانے سے پہلے دس بیس دن میرے پاس رہیں تا وقتاً فوقتاً ضروری یاد داشتیں لکھ لیں.کیونکہ جس جگہ جائیں گے وہاں ڈاک نہیں پہنچ سکتی.جو کچھ سمجھایا جائے گا پہلے ہی سمجھایا جائے گا.اور میرے لئے یہ مشکل ہے کہ سب کچھ مجھے ہی سمجھانا ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت کے آدمی اپنے دماغ سے کم پید اکرتے ہیں.سو ضروری ہے کہ دو تین ہفتہ میرے پاس رہیں اور میں ہر ایک مناسب امر جیسا کہ مجھے یا د آتا جائے ان کی یادداشت میں لکھا دوں.جس وقت آپ مناسب سمجھیں ان کو اس طرف روانہ فرماویں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک آپ قادیان میں ضرور تشریف لاویں گے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۹؍ اگست ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 259

مکتوب نمبر۴۸ ملفوف اللہ محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پانچ سو روپیہ کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی پچہترروپے پہنچ گئے.جزاکم اللہ خیرا لجزاء.دو آدمی جو نصیبین میں بر فاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیںگے.ان کے لئے پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہو گی.لہذا تحریر آں محب اطلاع دی گئی ہے کہ پانچ سو روپیہ ان کی روانگی کے لئے چاہئے.مجھے یقین ہے کہ نومبر ۱۸۹۹ء تک آں محب تشریف لائیں گے.باقی سب خیریت ہے.والسلام ۹؍ نومبر ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان نوٹ:.اس خط میں نواب صاحب کے آنے کی جو تاریخ لکھی ہے.وہ صاف پڑھی نہیں گئی.غالباً آخر نومبر کی کوئی تاریخ ہو گی.نصیبین کا مشن بعد میں بعض مشکلات کی وجہ سے بھیجا نہ جاسکا.گو اس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا.اس خط پر جیسا کہ حضرت کا عام معمول تھا.بسم اللہ الرحمن الرحیم.نحمدہ ونصلی نہیں لکھا.مگر وہ نشان جس کے گرد میں نے حلقہ دے دیا ہے.جو’’اللہ‘‘ پڑھا جاتا ہے.درج ہے.بہرحال آپ نے بسم اللہ ہی سے اس کو شروع فرمایا ہے.(عرفانی)

Page 260

مکتوب نمبر۴۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ ہمدست مولوی محمد اکرم صاحب مجھ کو ملا اور اوّل سے آخر تک پڑھا گیا.دل کو اس سے بہت درد پہنچا کہ ایک پہلو سے تکالیف اور ہموم و غموم جمع ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے مخلصی عطا فرماوے.مجھ کو (جہاں تک انسان کو خیال ہو سکتا ہے) یہ خیال جوش مار رہا ہے کہ آپ کے لئے ایسی دعا کروں جس کے آثار ظاہر ہوں.لیکن میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور حیران ہو ں کہ باوجودیکہ میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں.پھر بھی ابھی تک مجھ کو ایسی دعا کا پورا موقعہ نہیں مل سکا.دعا تو بہت کی گئی اور کرتا ہوں.مگر ایک قسم دعا کی ہوتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں.غالباً کسی وقت کسی قدر ظہور میں آئی ہو گی اور اس کااثر یہ ہو اہو گا کہ پوشیدہ آفات کو خدا تعالیٰ نے ٹال دیا.لیکن میری دانست میں ابھی تک اکمل اور اتم طور پر ظہور میں نہیں آئی.مرزا خدا بخش صاحب کا اس جگہ ہونا بھی بہت یا ددہانی کا موجب ہے.میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت کوئی ایسی گھڑی آجائے گی کہ یہ مدّعا کامل طور پر ظہور میں آجائے گا.اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور کامل طور پر قوت ایمان عطا فرماوے اور ہر طرح سے امن میں رکھے.تب اس کے باقی ہموم وغموم کچھ چیز نہیں.میر ادل بہت چاہتا ہے کہ آپ دو تین ماہ تک میرے پاس رہیں.نہ معلوم کہ یہ موقعہ کب ہاتھ آئے گا اورمدرسہ کے بارے میں انشاء اللہ استخارہ کروں گا.ا گر کچھ معلوم ہوا تو اطلاع دوں گا.باقی ہر طرح خیریت ہے.والسلام ۲۹؍ جنوری ۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 261

مکتوب نمبر۵۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاتحفہ پارچات نفیس و عمدہ جو آپ نے نہایت درجہ کی محبت اور اخلاص سے عطا فرمائے تھے، مجھ کو مل گئے ہیں.اس کا شکریہ اد اکرتا ہوں.ہر ایک پارچہ کو دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ آں محب نے بڑی محبت اور اخلاص سے ان کوتیار کرایا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اپنے بے انتہا اور نہ معلوم کرم اور فضل آپ پر کرے اور لباس التقویٰ سے کامل طور سے اولیاء اور صلحاء کے رنگ سے مشرّف فرماوے.ایک بڑی خواہش ہے کہ آپ فرصت پا کر تشریف لاویں کیونکہ اب تک یک سُوئی اور مخالطت کی صحبت کا آپ کو اتفاق نہیں ہوا اورجو کچھ آن محب نے صاحب کمشنر کی زبانی سنا تھا، اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں ہے.ہمارا عقیدہ اور خیال انگریزی سلطنت کی نسبت بخیر اور نیک ہے.اس لئے آخر انگریزوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ تہمتیں ہیں.کوئی تردّد کی جگہ نہیں اور علالت طبیعت کے بارے میں جو آپ نے لکھا تھا، خدا تعالیٰ کافضل درکار ہے.سب خیر ہے.میں بہت دعا کرتا ہوں.بہتر ہے کہ اکثر مچھلی کے تیل کا استعمال شروع رکھیں اورجو تریاق الٰہی میں نے بھیجا تھا.ان میں سے یعنی دونوں قسموں میں سے کھایا کریں، بہت مفید ہے.اور یہ جو آپ نے اپنے گھر کی نسبت لکھا تھا کہ مجھ کوکچھ بہت خوش نہیں رکھتیں.اس میں میری طرف سے یہی نصیحت ہے کہ آپ اپنے گھر کے لوگوں سے بہت احسان اور خلق اور مدارت سے پیش آیا کریں اور غائبانہ دعا کریں.حدیث شریف میں ہے کہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ.۱؎ انشاء اللہ بہت خوبیاں پید اہوجائیںگی.دنیا ناپائیدار ہے.ہر ایک جگہ اپنی مروّت اور جوانمردی کانمونہ دکھلانا چاہئے اورعورتیں کمزور ہیں.وہ اس نمونہ کی بہت محتاج ہیں.حدیث سے

Page 262

ثابت ہے کہ مرد خلیق پرخدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے.میں بہ سبب ایام صیام اور عید کے خط نہیں لکھ سکا.آج خط لکھا ہے.باقی خیریت ہے.والسلام ۷؍ اگست ۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ایک ضروری نوٹ از خاکسار ایڈیٹر مکتوبات کا یہ حصہ جو میں یہاں دے رہا ہوں.یہ مکرمی خان صاحب میاں عبدالرحمن خاں صاحب خلف الرشید حضرت نواب صاحب قبلہ کے ذریعہ مجھے میسر آیا.مجھے افسوس ہے کہ ان خطوط کے لفافہ نہیں رکھے گئے.ورنہ ہر خط (جس پر تاریخ درج نہیں تھی) تاریخ کا بآسانی پتہ لگ سکتاتھا.اب بھی واقعات کے تاریخی سلسلہ سے ان کی تاریخ کاپتہ لگانا مشکل نہیں.مگر میں دارالامان قادیان سے دور ساحل بمبئی پر انہیں ترتیب دے رہاہوں.جہاں اس قسم کا سامان مجھے میسر نہیں ہے.اس لئے ہر خط پر نوٹ دینے کی بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک نوٹ ان خطوط سے پہلے دے دوں تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو.اگر کسی خط پر مزید کسی صراحت کی ضرورت ہوئی ہے تو وہاں بھی میں نے نوٹ دے دیا ہے.(عرفانی)

Page 263

مکتوب نمبر۵۱ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ اس سے پہلے جواب آں محب بھیجا گیا ہے.جواب کا منتظر ہوں کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے.مجھے آپ کے لئے ایک خاص توجہ خدا نے پیدا کر دی ہے.میں دُعا میں مشغول ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو تمام تردّدات سے محفوظ رکھ کر کامیاب فرماوے.آمین.اخویم مکرم مولوی سید محمد احسن صاحب قادیان میں تشریف رکھتے ہیں اور اپنے وطن سے بغیر بندوبست مصارف عیال کے ضرورتاً امرتسر میں آگئے تھے اور پھر قادیان آئے.ان کی تمام عیالداری کے مصارف محض آپ کے اُس وظیفہ سے چل رہے ہیں جو آپ نے تجویز فرما رکھا ہے.اگرچہ ایسے امور کو لکھتے لکھتے جب آپ کی وہ مالی مشکلات یاد آجاتی ہیں جن کے سخت حملہ نے آپ پر غلبہ کیا ہوا ہے تو گو کیسی ہی ضرورت اور ثواب کاموقعہ ہو پھر بھی قلم یکدفعہ اضطراب میں پڑ جاتی ہے لیکن بایں ہمہ جب میں دیکھتا ہوں کہ میں آپ کے لئے حضرتِ احدیّت میں ایک توجہ کے ساتھ مصروف ہوں اور میں ہرگز امید نہیں رکھتا کہ یہ دعائیں خالی جائیںگی تب میں ان چھوٹے چھوٹے امور کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس قسم کے خیال قبولیتِ دعا کے لئے راہ کو صاف کرنے والے ہیں.یہ تجربہ شدہ نسخہ ہے کہ مشکلات کے وقت حتی الوسع اُن درماندوں کی مدد کرنا جو مشکلات میں گرفتار ہیں دعاؤں کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے.مولوی سید محمد احسن صاحب گذشتہ عمر تو اپنے محنت بازو سے بسر کرتے رہے.اب کوئی بھی صورتِ معاش نہیں.درحقیقت عیالداری بھی ایک مصیبت ہے.میں ان تردّدات میں خود صاحبِ تجربہ ہوں.میں دیکھتا ہوں کہ ہر یک مشکل کے وقت جب کہ مہینہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر نئے سرے ایک مہینے کے لئیدو سَو روپیہ کے آرد خشکہ اور دوسرے اخراجات کا فکر ہوتا ہے جو معمولی طور پر ایک ہزار روپیہ کے قریب قریب ماہوار ہوتے رہتے ہیں تو کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ کیسے آرام میں وہ لوگ ہیں جو اس فکرو غم سے آزاد ہیں.اور پھر استغفار کرتا ہوںاور یقینا جانتا ہوں کہ جو کچھ مالکِ حقیقی نے تجویز فرمایا ہے عین صواب ہے.سو درحقیقت خانہ داری کے تفکّرات جان کو لیتے ہیں.لہٰذا مکلّف ہوں

Page 264

کہ آپ پھر یہ ثواب حاصل کریں کہ جو کچھ وظیفہ آپ نے مولوی صاحب موصوف کا مقرر فرما رکھا ہے اس میں سے مبلغ بیس روپیہ ان کے نام قادیان میں بھیج دیں اور باقی اُن کے صاحبزادہ کے نام جس کا نام سید محمد اسماعیل ہے بمقام امروہہ شاہ علی سرائے روانہ فرما دیں.خدا تعالیٰ جزائے خیر دے گا اور میرے نام جو آں محب نے روپیہ بھیجا تھا وہ پہنچ گیا تھا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.والسلام ۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۵۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دس روز کے قریب ہو گیا کہ آپ کودیکھا نہیں.غائبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا کرتا ہوں.مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آکر سنّت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں.آج سرگردانی سے بھی فراغت ہوئی ہے اورلڑکی کو بھی بفضلہ تعالیٰ آرام ہے.والسلام ۶؍ اگست ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 265

مکتوب نمبر۵۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ مضمون پڑھ کر کہ عزیزی عبدالرحمن خاں کو پھر بخار ہو گیاہے، نہایت قلق ہوا.خدا تعالیٰ شفاء بخشے.اب میں حیران ہوں کہ اس وقت جلد آنے کی نسبت کیا رائے دوں.پھر دعا کرنا شروع کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ شفاء بخشے.اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے.ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اورصرف چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کب تک یہ ابتلا دور ہو.لوگ سخت ہراساں ہو رہے ہیں زندگی کا اعتبار اٹھ گیا ہے.ہر طرف چیخوں اور نعروں کی آواز آتی ر ہتی ہے، قیامت برپا ہے.اب میں کیا کہوں اور کیا رائے دوں.سخت حیران ہوں کہ کیا کروں.اگر خدائے تعالیٰ کے فضل سے بخار اتر گیا ہے اور ڈاکٹر مشورہ دے دے کہ اس قدر سفر میں کوئی حرج نہیں تو بہت احتیاط اور آرام کے لحاظ سے عبدالرحمن کو لے آویں.مگر بٹالہ سے ڈولی کا انتظام ضرور چاہئے.اس جگہ نہ ماجیور ڈولی بردار ملتا ہے نہ ڈولی کا بندوبست ہو سکتا ہے.بٹالہ سے کرنا چاہئے.آپ کے گھر میں ہر طرح خیریت ہے.ام حبیبہ مرزا خدا بخش کی بیوی برابر آپ کے گھر میں سوتی ہے اوربچے چھوڑ کر چلی جاتی ہے.وہ اکثر روتے چیختے رہتے ہیں.کوئی عورت نہیں جوا ن کی حفاظت کرے اس لئے یہ تجویز خیال میں آتی ہے کہ اگر ممکن ہوتو چند روز مرزا خدا بخش آکر اپنے بچوں کو سنبھالیں.وہ بالکل ویرانہ حالت میں ہیں.باقی سب طرح خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکرر یہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ یا بیس روپیہ کو آتا ہے، ساتھ لے آویں.اس کی قیمت اس جگہ دی جاوے گی اور علاوہ اس کے آپ بھی اپنے گھر کے لئے فینائل بھیج دیں اورڈس انفیکٹکے لئے رس کپور اس قدر بھیج دیں جو چند کمروں کے لئے کافی ہو.

Page 266

مکتوب نمبر۵۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ میں نے آپ کے اس خط پڑھنے کے وقت یہ محسوس کیا ہے کہ جس قدر امراض اور اعراض لاحق ہوگئے ہیں اکثر ان کی کثرت ہموم و غموم کا نتیجہ ہے.عجیب دردناک آپ کا یہ خط ہے کہ جس سے دل پر لرزہ پڑتا ہے لیکن جب میں خدا تعالیٰ کے کاموں پر نظر کرتا ہوں تو اُس کی قدرتوں پر نظر کر کے دل امید سے بھر جاتاہے.میں آپ کے لئے دعا تو کرتا رہا ہوں لیکن دعا کی حقیقت پر نظر کر کے جو اپنے اختیار میں نہیں ہے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک میں نے دعا نہیں کی ہے.سو میں نے اس خلوت کے لئے ایک مسجد البیت بنائی ہے میں امید رکھتا ہوں کہ اس مسجد البیت میں مجھے اُس خاص حالت کا موقعہ مل جائے گا کیونکہ میرا یہ مکان کھلا مکان ہے جس میں ہر طرف سے بچے عورتیں آتی رہتی ہیں اور خلوت میسر نہیں آتی.سو اب میں آپ کے لئے انشاء اللہ خاص طور پر دُعا کروں گا.آپ غموں کے سلسلہ کو حوالہ خدا کریں.مجھے بھی امراض دامن گیر ہیں.تین اوپر کے حصہ میں اور دو۲ نیچے کے حصہ میں.مگر میں امید کی قوت سے جیتا ہوں.اگر امید نہ ہو تو ہم ایک دم میں مر جائیں.سو آپ تسلی رکھیں.جس طرح کوئی اپنے عزیز بچوں کے لئے دعا کرتا ہے ایسا ہی آپ کے لئے کروں گا.خدا تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اورغموم ہموم کے گرداب سے نجات بخشے.آمین.کبھی کبھی چند قدم ہوا خوری بھی کر لیا کریں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ (ب) نوٹ از مرتب: البدر بابت ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء میں (صفحہ۷۲ پر) مرقوم ہے کہ ’’بعد نماز جمعہ مورخہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس ؑنے تجویز فرمایا کہ چونکہ بیت الفکر میں اکثر مستورات

Page 267

وغیرہ اور بچے بھی آ جاتے ہیں اور دعا کا موقعہ کم ملتا ہے اس لئے ایک ایسا حجرہ اس کے ساتھ تعمیر کیا جاوے جس میں صرف ایک آدمی کے نشست کی گنجائش ہو اور چارپائی بھی نہ بچھ سکے تا کہ اس میں کوئی اور نہ آ سکے اس طرح سے مجھے دعا کیلئے عمدہ وقت اور موقعہ مل سکے گا.چنانچہ اس وقت مغربی جانب جو دریچہ ہے اس کے ساتھ حجرے کیلئے عمارت شروع ہوگئی ہے‘‘.البدر بابت ۳؍ اپریل ۱۹۰۳ء میں (صفحہ۸۸ پر) مرقوم ہے کہ ’’۲۰ مارچ کے البدر میں جس حجرہ دعائیہ کی ہم نے خبر دی ہے اس کا نام حضرت احمد مرسل یزدانی نے مسجد البیت و بیت الدعا تجویز فرمایا ہے‘‘.دارالمسیح کے ایک چوبارہ کانام بیت العافیۃ ہے جو اس کے برآمدہ کی پیشانی پر مرقوم ہے.اس برآمدہ کی مغربی دیوار کے اندرونی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے یہ الفاظ سیاہی سے مرقوم ہیں ’’مسجد البیت‘‘ ۴؍ جون ۱۹۰۷ء مطابق ۲۲؍ ربیع الثانی‘…‘ اس وقت سن ہجری ۱۳۲۵ تھا وہی مرقوم ہوگا لیکن اب پڑھا نہیں جا سکتا.نیز ربیع الثانی کی تاریخ ۲۲ اور ۲۳ دونوں پڑھی جا سکتی ہیں.جنتری کی رُو سے ۲۲ چاہئے.اس سوال کا کہ دونوں میں سے کونسی مسجد البیت اس مکتوب میں مراد ہے.یہ جواب ہے کہ خاکسار مرتب کے نزدیک وہ مسجد البیت مراد ہے جسے بیت الدعا بھی کہتے ہیں.گو الحکم نے اپنے پرچہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۳ء میں جہاں اس کی تکمیل کا ذکر کیا ہے اسے صرف بیت الدعا لکھا ہے.غالباً اس کا یہ نام مسجد البیت نام پر غالب آکر زیادہ متعارف و شائع ہو گیا ہو.چنانچہ سوائے البدر کے مذکورہ بالا حوالہ کے اس کا نام مسجد البیت سلسلہ کے لٹریچر میں کہیں مذکور نہیں اور نہ ہی ان صحابہ کرام کو اس کا علم ہے جن کو دارالمسیح میں حضورؑ کے عصرِ سعادت میں قیام رکھنے کا موقعہ ملا نہ ہی حضور کے خاندان میں اس نام کا علم ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپریل ۱۹۵۰ء میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو اور مارچ ۱۹۵۰ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم نے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کو خطوط لکھے ان میں بھی بیت الدّعا کانام ہی آتا ہے.(ضمیمہ اصحابِ احمد جلد اوّل صفحہ۲۲ و مکتوبات اصحابِ احمد جلد اوّل صفحہ۵۷) بیت الدعا بھی مسجد البیت ہے کیونکہ حضورؑ نے اسے اسی نام سے اس مکتوب میں پکارا ہے.

Page 268

حدیث شریف میں جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا ۱؎ آتا ہے گویا کہ ہر جگہ نماز پڑھی جا سکتی ہے خواہ بغیر جماعت کے ہو اور ایک مکفوف العین صحابیؓ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کی کہ حضورؑ میرے گھر کے کسی حصہ میں دعا فرمائیں تا میں اس جگہ کو مسجد بنا لوں.سو اسی کو مسجد البیت کہتے ہیں.بیت الدعا خلوت میںدعائیں کرنے کے لئے بنائی گئی اس لئے اسے کھلا اور وسیع نہیں بنایا گیا ورنہ اگر وہ بھی باجماعت نماز اداکرنے کیلئے استعمال میں لانی ہوتی تو کھلی بنائی جاتی.لیکن بیت العافیۃ والی مسجد البیت کی غرض ہی یہ تھی کہ جب حضورؑ علالت کے باعث مسجد میں نہ جا سکیں تو وہاں مستورات اور بچوں کو ساتھ شامل کر کے با جماعت نماز ادا کر لیا کریں اس لئے اس کے واسطے کھلی نہ کہ تنگ جگہ تجویز کی گئی اور وہ کھلی جگہ یعنی برآمدہ ہے جو سارا یکساں کھلا ہے اور وہاں دعاؤں کے لئے خلوت اور یکسوئی کا کوئی موقعہ نہیں.سو یہ اندرونی شہادت بہت وزنی ہے.حضورؑ نے اپنے مکتوب میں مسجد البیت کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ اس میں خلوت میسر آئے گی ورنہ باقی کا مکان کھلا ہے جس میں ہر طرف سے بچے اور عورتیں آتی رہتی ہیں اورخلوت میسر نہیں آتی اور یہ بات صرف بیت الدُّعا پر ہی صادق آتی ہے.پس یہ مکتوب ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۳ء کے قریب کا ہے.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ساری تفصیل بالا کا راقم نے ذکر کیا ہے.آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں.

Page 269

مکتوب نمبر۵۵ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آج بوقت چار بجے صبح کو میں نے ایک خواب دیکھا.میں حیرت میں ہوں کہ اُس کی کیا تعبیر ہے میں نے آپ کی بیگم صاحبہ عزیزہ سعیدہ امۃ الحمید بیگم کو خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک اولیاء اللہ خدا سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں دس روپیہ سفید اور صاف ہیں.یہ میرے دل میں گزرا ہے کہ دس روپیہ ہیں.میں نے صرف دور سے دیکھے ہیں تب انہوں نے وہ دس روپیہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پھینکے ہیں اور ان روپوں میں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں.جیسا کہ چاند کی شعاعیں ہوتی ہیں وہ نہایت تیز اور چمک دار کرنیں ہیں جو تاریکی کو روشن کر دیتی ہیں اور میں اُس وقت تعجب میں ہوں کہ روپیہ میں سے کس وجہ سے اس قدر نورانی کرنیں نکلتی ہیں اورخیال گزرتا ہے کہ ان نورانی کرنوں کا اصل موجب خود وہی ہیں.اس حیرت سے آنکھ کھل گئی.گھڑی بگڑی ہوئی تھی ٹھیک اندازہ نہیں ہو سکتا مگر غالباً چار بج گئے تھے اور پھر جلد نماز کا وقت ہو گیا.تعجب میں ہوں کہ اس کی تعبیر کیا ہے.شاید اس کی یہ تعبیر ہے کہ اُن کے لئے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی نہایت نیک حالت درپیش ہے.اسلام میں عورتوں میں سے بھی صالح اور ولی ہوتی رہی ہیں جیسا کہ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا.اور یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ زمانہ کے رنگ بدلنے سے آپ کو کوئی بڑا مرتبہ مل جائے اور آپ کی یہ بیگم صاحبہ اس مرتبہ میں شریک ہوں.آئندہ خدا تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مؤلف: حضرت نواب صاحب نے اس مکتوب کو پڑھ کر ذیل کا عریضہ لکھا اس کے جواب میں جو مکتوب ( مکتوب نمبر۵۶) حضورؑ نے تحریر فرمایا اس سے ان خطوط کی تاریخ کا اندازہ ہوتا ہے.

Page 270

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم سیدی و مولائی طبیب روحانی سلّمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ رات حضور کا والا نامہ پہنچا.خداوند تعالیٰ سے امید کہ حضور کی فیض صحبت اور دعاؤں سے ہم میں خاص تبدیلی پیدا ہوگی.خدا کرے کہ ہم حضور کے قدموں میں نیکی اور عمدگی سے بسر کریں اور ترقیات روحانی ہم کو حاصل ہوں.راقم محمد علی خاں ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۵۶ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ مجھے تو رات کے خواب سے کہ ایک قسم کا کشف تھا نہایت خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے.کل سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی دعا کے ساتھ اُن کو بھی شریک کر دوں.شاید خدا تعالیٰ نے یہ نمونہ اس لئے دکھایا ہے کہ میں ایک مستعد نفس کیلئے نماز میں دُعا کرتا رہا ہوں.اصل میں دنیا اندھی ہے.کسی شخص کی باطنی حالت کو معلوم نہیں کر سکتی بلکہ دنیا تو دنیا خود انسان جب تک وہ دن نہ آوے، اپنی حالت سے بے خبر رہتا ہے.ایک شہزادہ کا حال لکھا ہے کہ شراب پیتا اور سارنگی بجایا کرتا تھا.اتنے میں ایک بزرگ با خدا اس کوچہ میں سے گذرے اور قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی ۱؎ یعنی کیا اب تک وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل خدا کے لئے فروتنی کریں اور اُس سے ڈریں.پس جب آیت اُس شہزادہ نے سنی فی الفور سارنگی کو توڑ دیا اور خدا کے خوف سے رونا شروع کیا اور کہا کہ وقتم رسید وقتم رسید.اور کہتے ہیں کہ وہ آخر کار بڑے اولیاء سے ہو گیا.سو یہ کشف کچھ ایسی ہی خوشخبری سنا رہا ہے.اس لئے کل میں نے ارادہ کیا کہ ہماری دو لڑکیاں ہیں مبارکہ اور امۃ النصیر.پس امۃ الحمید بیگم کو بھی اپنی لڑکی بنا لیں اور اس کے لئے نماز میں بہت دعائیں کریں تا ایک آسمانی رُوح خدا اُس میں

Page 271

پھونک دے.وہ لڑکیاں تو ہماری کمسن ہیں شاید ہم ان کو بڑی ہوتی دیکھیں یا عمر وفا نہ کرے.مگر یہ لڑکی جوان ہے ممکن ہے کہ ہم باطنی توجہ سے اس کی ترقی بچشم خود دیکھ لیں.پس جب کہ ہم ان کو لڑکی بناتے ہیں تو پھر آپ کو چاہئے کہ……… ہماری لڑکی (کے٭) ساتھ زیادہ ہمدردی اور محبت اور وسیع اخلاق سے پیش آویں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مؤلف: مکتوب ہذا و مکتوب ۵۴ کی تعیین تاریخ اس امر سے ہوتی ہے کہ صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ کی ولادت ۲۸؍ جنوری۱۹۰۳ء اور وفات چند ماہ بعد کی ہے مکتوب سابق میں چاربجے کے بعد جلد صبح کی نماز کا وقت ہو جانے کا ذکر ہے.یہ وقت اپریل مئی میں ہوتا ہے مکتوب ۵۴ کے آخر پر حضورؑ نے تاریخ درج فرمائی ہے جو اب پوری طرح پڑھی نہیں جاتی کچھ ۱؍ مئی ۱۹۰۳ء پڑھا جاتا ہے.

Page 272

مکتوب نمبر۵۷ ۲۸ مئی ۱۹۰۳ء کو تعلیم الاسلام کالج کی افتتاحی کارروائی کے اختتام پر حضرت نواب صاحبؓ نے حضور کی خدمت میں ذیل کا عریضہ تحریر کیا.(مرتب) سیّدی و مولائی طبیب روحانی سلّمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت نصیب اعداء علیل ہے اس لئے حضور تشریف نہیں لا سکتے.گو کہ اس سے ایک گونہ افسوس ہوا مگر وہ کلمات جو مولانا موصوف نے نیابتاً فرمائے، ان سے رُوح تازہ ہوگئی اور خداوند تعالیٰ کے فضل اور حضورؑ کی دعاؤں کے بھروسہ پر کارروائی شروع کی گئی.جلسہ نہایت کامیابی سے تمام ہوا اور کالج کی رسم افتتاح ہوگئی.اطلاعاً گذارش ہے خداوند تعالیٰ حضورؑ کو صحت عطا فرمائے.حضورؑ نے …… دعا فرمائی ہوگی.اب بھی استدعائے دعا ہے.راقم محمد علی خاں جواباً حضورؑ نے تحریر فرمایا:.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ رات سے مجھ کو دل کے مقام پر درد ہوتی تھی اس لئے حاضر نہیں ہو سکا لیکن میں نے اُسی حالت میں بیت الدُّعا میں نماز میں اس کالج کے لئے بہت دعا کی.غالباً آپ کا وہ وقت اور میری دعاؤں کا وقت ایک ہی ہوگا.خدا تعالیٰ قبول فرماوے.آمین ثم آمین.والسلام ٭ خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 273

مکتوب نمبر۵۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت تار کے نہ پہنچنے سے بہت تفکر اور تردّد ہوا.خد اتعالیٰ خاص فضل کر کے شفاء بخشے.اس جگہ دور بیٹھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حالت کیا ہے.اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبدالرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آجاویں.تو روبرو دیکھنے سے دعا کے لئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ شفاء بخشے اوروہ آپ کے دل کا درد دُور کرے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۲۵؍ مارچ ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 274

مکتوب نمبر۵۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا.اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جُود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیروعافیت ہے.بڑی غوثاں کو تپ ہو گیا تھا.ا س کوگھر سے نکال دیا ہے.لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے.احتیاطاً نکال دیا ہے اورماسٹر محمد دین کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی.اس کوبھی باہر نکال دیا ہے.غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے، بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے.میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گائوں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں جو پہلے بیمار یا کمزور تھے.اسی خیال نے مجھے اس بات کے لکھنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ د وہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اس وقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے.اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کمی نظر نہیں آتی.آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے.لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں.اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے قادیان آجاویں.میں تو دن رات دعا کررہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اورخطرناک آثار ظاہر ہو گئے.اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفیکٹ کے لئے کچھ رس کپور اور کسی قدر فینائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آویں تو بہتر ہو گا.والسلام ۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 275

مکتوب نمبر۶۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ مجھ کو ملا.الحمد للّٰہ والمنۃ کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے عزیزی عبدالرحمن خان کو صحت بخشی.گویا نئے سرے زندگی ہوئی ہے.اب میرے نزدیک تو یہی بہتر ہے کہ جس طرح ہو سکے قادیان میں آجائیں.لیکن ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے.کیونکہ مجھے دور بیٹھے معلوم نہیں کہ حالات کیا ہیں اورصحت کس قدر ہے؟ بظاہر اس سفر میں چنداں تکلیف نہیں کیونکہ بٹالہ تک تو ریل کا سفر ہے اور پھر بٹالہ سے قادیان تک ڈولی ہو سکتی ہے اور گو ڈولی میں بھی کسی قدر حرکت ہوتی ہے.لیکن اگر آہستہ آہستہ یہ سفر کیا جائے تو بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا اور قادیان کی آب وہوا بہ نسبت لاہور کے عمدہ ہے.آپ ضرور ڈاکٹر سے مشورہ لے لیں اور پھر ان کے مشورہ کے مطابق بلاتوقف قادیان میں چلے آویں.باقی اس جگہ زور طاعون کا بہت ہو ر ہا ہے.کل آٹھ آدمی مرے تھے.اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم کرے.آمین.والسلام ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 276

مکتوب نمبر۶۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمدللّٰہ والمنۃ عزیز عبدالرحمن خاں صاحب کی طبیعت اب روبہ صحت ہے.الحمدللہ ثم الحمد للہ.اب میرے نزدیک (واللہ اعلم) مناسب یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر مشورہ دیں تو عبدالرحمن کو قادیان میں لے آویں.اس میں آب وہوا کی تبدیلی بھی ہو جائے گی.ریل میں تو کچھ سفر کی تکلیف نہیں.بٹالہ سے ڈولی کی سواری ہو سکتی ہے.بظاہر بات تو یہ عمدہ ہے، تفرقہ دور ہو جائے گا.اس جگہ قادیان میں آج کل طاعون کا بہت زور ہے.ارد گرد کے دیہات تو قریباً ہلاک ہو چکے ہیں.باقی اس جگہ سب خیریت ہے.و السلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 277

مکتوب نمبر۶۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاخط آج کی ڈاک میں پہنچا.پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا.اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ توکلاً علی اللہ اس ظاہرکو چھوڑ دیں.قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے.ابھی اس وقت جو لکھ رہاہوں ایک ہندو بیجناتھ نام جس کاگھرگویا ہم سے دیوار بہ دیوار ہے.چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا.بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوںکہ آپ بخیروعافیت تشریف لے آویں.شب بیداری اور دلی توجہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل ودماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے.بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا.یہی حقیقت دعا ہے.کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے.یہی الٰہی قانون ہے.سو میں اگرچہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعائوں سے فضلِ الٰہی کو طلب کیا جائے.خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے.سو آپ بلاتوقف تشریف لے آویں.اب میرے کسی اورخط کی انتظار نہ کریں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 278

مکتوب نمبر۶۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عزیزہ سعیدہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے آپ کاخط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں، غور سے معلوم کر لئے ہیں.انشاء اللہ صحت ہو جائے گی.میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دُعا بھی کرتا ہوں.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دے گا.یہ تجویز جو شروع ہے.آپ کم سے کم چالیس روز تک اس کو انجام دیں اور دوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں.وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دو رکرتی ہے اورآنکھوں کوبھی مفید ہے.مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں.جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی.ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور نیز مصالحہ.مرچیں اورلونگ اور لہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے یہ آنکھوں کے لئے بھی مضر ہیں.آپ کے لئے یہ غذا چاہئے.انڈا.دودھ.پلائو گوشت ڈال کر.گوشت جس میں کچھ سبزی ہو.ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پرہیز چاہئے.بہت میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے.ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے.کچھ حرکت چاہئے.عمدہ ہوا ربیع کی لینی چاہئے.غم نہیں کرنا چاہئے.اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 279

مکتوب نمبر۶۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خط میں نے پڑھا.اصل بات یہ ہے کہ اس بات کے معلوم ہونے سے کہ جس قدر بوجہ ہمسائیگی ہمدردی ضروری ہے، وہ آپ سے ظہور میں نہیں آئی.یعنی والدہ محمود جو قریباً دس ماہ تک تکالیف حمل میں مبتلا رہیں اور جان کے خطرہ سے اللہ تعالیٰ نے بچایا.اس حالت میں اخلاق کا تقاضا یہ تھا کہ آپ سب سے زیادہ ایسے موقعہ پر آمدور فت سے ہمدردی ظاہر کرتے اور اگر وہ موقعہ ہاتھ سے گیا تھا.تو عقیقہ کے موقعہ پر برادرانہ تعلق کے طور پر آناضروری تھا.بلکہ اس موقعہ پر کم تعلق والی عورتیں بھی مبارک باد کے لئے آئیں.مگر آپ کی طرف سے ایسادروازہ بند رہا کہ گویا سخت ناراض ہیں.اس سے سمجھا گیا کہ جب کہ اس درجہ تک آپ ناراض ہیں.تو پھر دروازہ کا کھلا رہنا نا مناسب ہے.ایسے دروازے محض آمدورفت کے لئے ہوتے ہیں اورجب آمدورفت نہیں تو ایسا دروازہ ایسی ٹہنی کی طرح ہے.جس کو کبھی کوئی پھل نہ لگتا ہو.اس لئے اس دروازہ کو بند کر دیا گیا.لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت بیمار تھے.اس وجہ سے آنے سے معذوری ہوئی.اس عذر کے معلوم ہونے کے بعد میں نے وہ دروازہ کھلا دیا ہے اوردرحقیقت ایسی بیماری جس سے زندگی سے بھی بیزاری ہے خدا تعالیٰ شفاء بخشے.میں نے والدہ محمود کو بھی سمجھا دیا ہے کہ ایسی سخت بیماری کی حالت میں کیونکر آسکتے تھے.امید ہے کہ جس طرح نواب صاحب سچی ہمدردی رکھتے ہیں.آپ بھی اس میں ترقی کریں.خدا تعالیٰ ہرایک آفت اور بیماری سے بچاوے.آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 280

مکتوب نمبر۶۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عنایت علی صاحب کو اس نوکری کی پرواہ نہیں ہے.ورنہ باوجود اس قدر بار بارلکھنے کے کیا باعث کہ جواب تک نہ دیا.اس صورت میں آپ کو اختیار ہے جس کو چاہیں مقرر کر دیں.اور یہ بھی آپ کی مہربانی تھی ورنہ نوکروں کے معاملہ میں بار بار کہنے کی کیا ضرورت تھی.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۶۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جب کہ وہ خود استعفاء بھیجتا ہے تو آپ حق ترحم ادا کرچکے.اس صورت میں اس کی جگہ بھیج سکتے ہیں.آپ پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ نے موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ انتظام کیا ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 281

مکتوب نمبر۶۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کے خط کے جواب میں لکھتا ہوں کہ میں صرف چند روز کیلئے اہل و عیال کو ساتھ لے جاتا ہوں کیونکہ میں بیمار رہتا ہوں اور گھر میں بھی سلسلہ بیماری جاری ہے.بچے بھی بیمار ہو جاتے ہیں.بار بار مجھے خط پہنچتے ہیں.حیران ہو جاتا ہوں اور محض اس امید پر کہ آپ یہاں تشریف رکھیں گے اور مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب یہاں ہیں.میں نے یہ ارادہ کیا ہے اور یقین ہے اِنْ شَآئَ اللّٰہُجلدی یہ فیصلہ ہو جائے گا.اس لئے میرے نزدیک آپ کا اس جگہ ٹھہرنا مناسب ہے.آپ کے یہاں رہنے سے مکان میں برکت ہے.امید ہے کہ آپ پسند نہیں فرمائیں گے کہ مکان ویران ہو جائے اور آنے والے مہمان خیال کریں گے کہ گویا سب لوگ اُجڑ گئے ہیں اور شماتتِ اعداء ہوگی.ماسوا اس کے آپ اگر گورداسپور جائیں تو دو تین میل کے فاصلہ پر مجھ سے دُور رہیں گے.ملاقات بھی تکلیف اُٹھانے کے بعد ہوگی پھر علاوہ اس کے خواہ نخواہ چھ سات (صد ۱؎)روپیہ کرایوں وغیرہ میں آپ کا خرچ آ جائے گا.پہلے ہی مصارف کا نتیجہ ظاہر ہے.اب اس قدر بوجھ اپنے سر پر ڈالنا مناسب نہیں ہے.میرے خیال میں یہ سفر صرف چند روز کا ہے.اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰی.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مؤلف: یہ مکتوب۶؍ جولائی تا ۱۳؍ اگست ۱۹۰۴ء کے درمیانی عرصہ کا ہے.تفصیل اصحابِ احمد جلد دوم حاشیہ صفحہ۴۸۱.۴۸۲ پر مرقوم ہے.

Page 282

مکتوب نمبر۶۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میں برابر آپ کی ہر ایک کامیابی کیلئے نماز میں دُعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ (کو٭) مشکلات سے نجات بخشے.آمین.گھر میں میری طرف سے اور والدہ محمود احمد کی طرف سے السلام علیکم کہہ دیں.میں اُن کی شفا کے لئے بھی دعا کرتا رہتا ہوں.خدا تعالیٰ شفا بخشے.آمین دوسرے ضروری امر یہ ہے کہ ایک شہادت واقعہ کے لئے آپ کو گورداسپور میں تکلیف دینے کیلئے ضرورت پڑی ہے باوجود یکہ مجھ کو علم ہے کہ آپ کا لاہور سے ایسے موقعہ پر نکلنا بہت مشکل ہے مگر تا ہم یہ ضرورت اشد ضرورت ہے.بجز اس شہادت کے معاملہ خطرناک ہے.شاید تار کے ذریعہ سے آپ کو خواجہ صاحب اطلاع دیں.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار ۹؍ ستمبر ۱۹۰۴ء (ب) مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 283

مکتوب نمبر۶۹ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.حال معلوم ہوا مجھ کو پہلے ان مجبوریوں کا مفصل حال معلوم نہ تھا اب معلوم ہوا.اس لئے میں اپنے خیال کو ترک کرتا ہوں.خدا تعالیٰ جلد تر شفا بخشے آمین.میں نے ان دنوں میں آپ کے لئے بہت بہت دعا کی ہے اور دعا کرنے کا ایسا موقعہ ملا کہ کم ایسا ملتا ہے.الحمدللہ.امیدکہ جلد یا کسی دیر سے ان دعاؤں کا ضرور اثر ظاہر ہوجائے گا.دوسرے آپ کو یہ تکلیف دیتا ہوں.میں بروز پنجشنبہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء سیالکوٹ کی طرف مع اہل و عیال جاؤں گا اور شاید ایک ہفتہ تک وہاں رہوں اور شاید دو روز کیلئے کڑیانوالہ ضلع گوجرانوالہ میں جاؤں اور میرے ساتھ اہل و عیال اور چھوٹے بچے ہیں.آپ براہِ مہربانی ہفتہ عشرہ کے لئے مرزا خدا بخش صاحب کو میرے اس سفر میں ہمراہ کر دیں تا ایک حصہ حفاظت اور کام کا ان کے سپرد کیا جائے.امید ہے کہ دس دن تک بہرحال یہ سفر طے ہو جائے گا.اگر وہ قادیان آ جائیں اور ساتھ جائیں تو بہتر ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 284

مکتوب نمبر۷۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میںاس کام میں بالکل دخل نہیں دیتا.آپ کا کلّی اختیار ہے.اس وقت مجھے وہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی ہے.اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ۱؎.اور سرمایہ لنگر خانہ کا یہ حال ہے کہ گھر میں دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ کچھ روپیہ نہیں دیا.مگر ساتھ ہی ساتھ اس کاخرچ متفرق ہوتا رہا.میرے پاس اس وقت شائد پانچ سوروپیہ کے قریب ہوگا جو لنگر خانہ کے لئے جمع تھے.باقی سب خرچ ہوچکا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ابتلا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ روپیہ بہت جمع ہوتا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں رہتا.اگر کوئی ان اخراجات کا ذمہ وار ہو جو ہر ایک پہلو سے ہورہے ہیں تو وہ اس روپیہ کو اپنے پاس رکھے تو مجھے اس رنج و بلا سے سبکدوشی ہو.خواہ مخواہ تفرقہ طبیعت ہر وقت لگا رہتا ہے اور موجب آزار ٹھہرتا ہے.

Page 285

کتوب نمبر۷۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ آپ کوان مشکلات سے نجات دے.علاوہ اور باتوں کے میں خیال کرتا ہوں کہ جس حالت میں شدت گرمی کا موسم ہے اور بباعث قلّت برسات یہ موسم اپنی طبعی حالت پر نہیں اور آپ کی طبیعت پر سلسلہ اعراض اور امراض کا چلا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ درحقیقت بہت کمزور ا ور نحیف ہو رہے ہیںا ور جگر بھی کمزور ہے.عمدہ خون بکثرت پیدا نہیں ہوتا.تو ایسی صورت میں آپ کاشدائد سفر تحمل کرنا میری سمجھ میں نہیں آتا.کیوں اور کیا وجہ کہ آپ کے چھوٹے بھائی سردار ذوالفقار علی خاں صاحب جو صحیح اور تندرست ہیں.ان تکالیف کاتحمل نہ کریں.اگر موسم سرما ہوتا تو کچھ مضائقہ بھی نہ تھا.مگر یہ موسم آپ کے مزاج کے نہایت ناموافق ہے.جو مشکلات پیش آئی ہیں وہ بے صبری اور بے جا شتاب کاری سے دور نہیں ہو سکتیں.صبر اور متانت اور آہستگی اور ہوش مندی سے ان کا علاج طلب کرنا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ آپ اس خطرناک موسم میں سفر کریں اور خدانخواستہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر موجب شماتتِ اعداء ہوں.پہلے سفر میں کیسی کیسی حیرانی پیش آئی تھی اور لڑکے کے بیمار ہونے سے کس قدر مصائب کا سامنا پیش آگیا تھا.کیا یہ ضروری ہے کہ کمشنر کے پاس آپ ہی جائیں اور دوسری کوئی تدبیر نہیں.غرض میری بھی یہی رائے ہے کہ یہ کاروبار آپ پر ہی موقوف ہے تو اگست اور ستمبر تک التوا کیا جائے اور اگر ابھی ضروری ہے تو آپ کے بھائی یہ کام کریں.ڈرتا ہوں کہ آپ بیمار نہ ہوجائیں.خط واپس ہے.اس وقت مجھے بہت سردرد ہے.زیادہ نہیں لکھ سکتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ‘

Page 286

اصل خط٭ نواب صاحب ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ التجا ہے کہ بعد ملاحظہ کل عریضہ حکم مناسب سے مطلع فرمایا جاوے.سیدی و مولائی طبیب روحانی سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھ کو جب کسی ملازم کو موقوف کرنا پڑتا ہے تو مجھ کو بڑی شش و پنج ہو تی ہے اور دل بہت کڑھتا ہے.اس وقت بھی مجھ کو دو ملازموں کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے.ایک قدرت اللہ خاںصاحب اور دوسرے عنایت علی صاحب.یہ دونوں صاحب احمدی بھی ہیں.اس سے اور بھی طبیعت میں پیچ وتاب ہے.میراجی نہیںچاہتا کہ کوئی لائق آدمی ہو اور اس کو بلاقصور موقوف کر دوں.اب دقت یہ پیش آئی ہے کہ سید عنایت علی کوئی پانچ سال سے میرے ہاں ملازم ہیں.مگر کام کی حالت ان کی اچھی نہیں.اب تک جس کام پر ان کو میں نے لگایا ہے.اس کی سمجھ اب تک ان کو نہیں آئی اور انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی اور میرے جیسے محدود آمدنی کے لئے ایسے ملازم کی ضرورت ہے کہ جو کئی کئی کام کرسکے.وہ اپنا مفوضہ کام پوری طرح نہیں چلا سکتے.ہاں اس میں شک نہیں کہ نیک اور دیانت دار ہیں مگر کام کے لحاظ سے بالکل ندارد ہیں اور اس پانچ سال کے تجربہ نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ میں ان کو علیحدہ کر دوں.یہ میری سال گزشتہ سے منشاء تھی.مگر صرف اس سبب سے کہ وہ نیک ہیں،دیانت دار ہیںا وراحمدی ہیں میں رکا تھا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ جوفائدہ ان کی دیانت سے ہے اس سے زیادہ نقصان ان کی عدم واقفیت کام سے ہوتا ہے.پس اب میں نہایت ہی مترددہوںکہ ان کو موقوف کردوں کہ نہیں.کاش وہ میرا کام چلا سکتے تو بہت اچھا ہوتا.ایک وقت ہے کہ میںنے ان سے مختلف صیغوں میں کام لیا.مگر وہ ہر جگہ ناقابل ہی ثابت ہوئے.٭ یہ خط نواب صاحب کا ہے جس کے جواب میں مکتوب نمبر ۷۲ لکھا گیا ہے.(عرفانی)

Page 287

مکتوب نمبر۷۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.میں نے آپ کے تمام خطوط مرسلہ پڑھ لئے.میرے نزدیک اب کفایت شعاری کے اصول کی رعایت رکھنا ضروریات سے ہے.اس لئے اب جواب کافی ہے.یعنی نسبت میر عنایت علی کہ چونکہ وقت پر وہ حاضر نہیں ہوسکے اس لئے بالفعل گنجائش نہیں اور آئندہ اگر گنجائش ہوئی تو اطلاع دے سکتے ہیں اور مرزا خدا بخش صاحب کے خواہرزادے چونکہ بباعث کمی استعداد تعلیم پانے کے لائق نہیں.ان کو بہ توقف رخصت کرنا بہتر ہے.ناحق کی زیر باری کی کیا ضرورت ہے اور افسوس کہ جس قدر آپ نے اپنے کاروبار میں تخفیف کی ہے.ابھی وہ قابل تعریف نہیں.شاید کسی وقت پھر نظر ثانی کریں تو اور تخفیف کی صورتیں پیدا ہو جائیں.اور دعا تو کی جاتی ہے.مگر وقت پر ظہور اثر موقوف ہوتا ہے.خد اتعالیٰ تکالیف سے آپ کو نجات بخشے.آمین.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 288

نواب صاحب کاخط ملفوف سیّدی مولائی مکرمی معظمی طبیب روحانی سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم.جو رنج اور قلق اس واقعہ سے جو ہماری بد قسمتی اور بے سمجھی سے پیش آیا ہے.یعنی میرے گھر سے حضور کی علالت کے موقعہ پر حاضر نہیں ہوئے.اب اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں ہم کو اپنے قصور کا اعتراف ہے.ہم اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے حاضر ہوئے ہیں.اب تک جو معافی قصور کے لئے درخواست کرنے میں دیر ہوئی.وہ میرے گھر کے لوگوں کو بہ سبب ایسے واقعات کے کبھی پیش نہ آنے کی وجہ سے اور زیادہ حجاب واقع ہو گیا اور ان کو شرم ہر ایک سے آنے لگی.میں اب تک خاموش رہا کہ جب تک اس جھوٹی شرم سے خودہی باز نہ آئیں گے.جب تک میں خاموش رہوں.تاکہ دل سے ان کو یہ اثر محسوس ہو اور خود دل سے معافی چاہیں.چنانچہ انہوں نے ایک پرچہ اپنے حال کا لفافہ میں رکھ بھیجا ہے تاکہ حضور کی خدمت میں پیش کروں.پس اب عرض ہے.بقول برما منگر بر کرم خویش نگر از خورد ان خطا واز بزرگان عطا.آپ میری بیوی کا یہ قصور معاف فرما دیں.(راقم محمدعلی خاں)

Page 289

مکتوب نمبر ۷۳ (حضرت اقدس کا جواب) محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جو کچھ میں نے رنج ظاہر کیا تھا.وہ درحقیقت ایسا ہی تھا جیسا کہ باپوں کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے.چونکہ میں تربیت کے لئے مامور ہوں.سو میری فطرت میں داخل کیا گیا ہے کہ میں ایک معلّم ناصح اورشفیق مربی کی طرح اصلاح کی غرض سے کبھی رنج بھی ظاہر کر وں اور خطا کو معاف نہ کرنا خود عیب میں داخل ہے.اس لئے میں پورے دل کی صفائی سے اس خطا کومعاف کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو اپنے فضل سے سچی پاکیزگی اور سچی دینداری سے پورے طور پر متمتع فرمائے.آمین ثم آمین اور اپنی محبت اور اپنے دین کی التفات عطا فرمائے.آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام ا حمد عفی عنہ

Page 290

مکتوب نمبر۷۴ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بحمداللّٰہ اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو تمام غموم ہموم سے نجات بخشے.آمین.میری طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے.صرف کثرتِ پیشاب اور دورانِ سر کی شکایت ہے اور بعض اوقات ضعفِ قلب ایسا ہو جاتا ہے کہ ہاتھ پیر سرد ہو کر ایسے ہو جاتے ہیں کہ گویا ان میں ایک قطرہ خون نہیں اور زندگی خطرناک معلوم ہوتی ہے.پھر کثرت سے دبانے سے وہ حالت جاتی رہتی ہے.میں تو جانتا ہوں کہ ضرورتھا کہ ایسا ہوتا تا وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی کہ جو دو۲ زرد چادروں کی نسبت بیان فرمائی گئی ہے.دشمن ہر طرف جوش و خروش میں ہے.خدا تعالیٰ دوستوں کو وہ اعتقاد بخشے کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو عطا کیا گیا تھا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے جن کے دل صاف ہیں اور روح پاک ہیں اور ایمانی ترقی کی استعداد رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ضرور اُن کو ایمانی ترقی بخشے گا.اور جو لوگ نفسانی اغراض اور دنیا پرستی سے سخت ملوث اور دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں میں ہمیشہ ان کی حالت سے ڈرتا ہوں کہ ٹھوکر نہ کھاویں اور ایمان اور سعادت سے خارج نہ ہو جاویں لیکن میں اس بات کے لکھنے سے بہت ہی خوش ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے آپ میں ہر یک موقعہ پر دلی ہمدردی اور اخلاص کانمونہ پایا.پس یہ نشان اس بات کا ہے کہ گو آپ کو دنیا کے تردّد کی وجہ سے ہزار ہا غم ہوں لیکن بہرحال آپ دین سے محبت رکھتے ہیں.یہی ایک ایسی چیز ہے جس سے آخر کار ہر یک غم سے رہائی دی جاتی ہے.میں،جہاں تک مجھ سے ممکن ہے آپ کے لئے دعا میںمشغول ہے.۱؎ اور میرا ایمان ہے کہ یہ دعائیںخالی نہیں جائیں گی.آخر ایک معجزہ کے طور پر ظہور میں آئیں گی اور میں انشاء اللہ دعا کرنے میں سست نہیں ہونگا.جب تک اس قسم کا معجزہ نہ دیکھ لوں.پس آپ کو اپنے دل پر غم غالب نہیں کرنا چاہئے.ہونے ہوتا رہے۲؎ جیسا کہ

Page 291

سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ مصیبت اور ابتلا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.’’ہر حملہ کہ داری نکنی نامردی‘‘.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ صبر کے ساتھ آخری دن کا انتظار کریں گے تو انجام کار میری دعاؤں کا نمایاں اثر ضرور دیکھ لیں گے.باقی سب خیریت ہے.میری طرف سے اور والدہ محمود کی طرف سے اپنے گھر میں السلام علیکم کہہ دیں اور بچوں کو پیار.راقم خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ مکرر یہ کہ اپیل خدا تعالیٰ کے فضل سے منظور ہو گیا ہے اور سات سَو روپیہ جیسا کہ دستور ہے اِنْ شَآئَ اللّٰہُ واپس مل جائے گا اس لئے میں نے کہہ دیا ہے کہ جب وہ روپیہ ملے تو وہ آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے کیونکہ مشکلات کے وقت میں آپ کو ہر طرح سے روپیہ کی ضرورت ہے.والسلام غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مؤلف: اپیل بمقدمہ کرم الدین کا فیصلہ ۷؍ جنوری ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا تھا اس لئے اس کے جلدبعد کا یہ مکتوب ہے.

Page 292

مکتوب نمبر۷۵ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میں دعا میں مصروف ہوں خدا تعالیٰ جلد تر آپ کے لئے کوئی راہ کھولے.دنیا کی مشکلات بھی خدا تعالیٰ کے امتحان ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو اس امتحان سے نجات دے.آمین.میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور نیز تجربہ بھی کہ آخر دعائیں قبول ہو کر کوئی مخلصی کی راہ پیدا کی جاتی ہے اور کثرت دعاؤں کے ساتھ آسمان پر ایک خلق جدید اسباب کا ہوتا ہے یعنی بحکمِ ربی نئے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ سچ ہے کہ  ۱؎ جو انقلاب تدبیر سے نہیں ہو سکتا وہ دعا سے ہوتا ہے.بایں ہمہ دعا کے ثمرات دیکھنے کیلئے صبر درکار ہے جیسا کہ حضرت یعقوبؑ کی دعاؤں کا اخیر نتیجہ یہ ہوا کہ باراں برس کے (بعد٭) یوسف زندہ نکل آیا.ایمان میں ایک عجیب برکت ہے جس سے مردہ کام زندہ ہو جاتے ہیں.سو آپ نہایت مردانہ استقامت سے کشائش وقت کا انتظار کریں.اللہ تعالیٰ کریم و رحیم ہے اور میری طرف سے اور والدہ محمود کی طرف سے گھر میں السلام علیکم ضرور کہہ دیں.والسلام ۱۲؍جنوری ۱۹۰۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 293

مکتوب نمبر۷۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے.آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے.نمونیا پلیگ ہے.آخری دم معلوم ہوتا ہے.ہر طرف آہ وزاری ہے.خدا تعالیٰ فضل کرے.ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ آپ اخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں.دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے.خدا تعالیٰ رحم فرماوے.باقی خدا تعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 294

مکتوب نمبر۷۷ ملفوف ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی، حاضر ہو گئے ہیں.چونکہ وہ میرے استاد زادہ ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگوار ان کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے.ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں.میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرماویں.کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابلِ اعتراض نہیں.ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ( میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرتِ ابرار میں سے ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٌ۱؎ یعنی عفو اور درگذر کی عادت ڈالو.کیا تم نہیں چاہتے کہ خدابھی تمہاری تقصیریں معاف کرے اورخداتو غفور رحیم ہے.پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے.اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگذر کے لائق ہے.اسلام میں یہ اخلاق ہرگز نہیں سکھلائے گئے.ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خداہمیں اپنی پناہ میں رکھے.ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے.پس ایسانہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ نہ ہو.ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا.جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے.اس کو کسی نے خواب میںدیکھا کہ خدا تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اورفرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تُو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں.سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے درگذر کرو، تا آپ کو خدا تعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے.اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں.دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں.جن کی نسبت ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش

Page 295

ہوں گے یا بدمعاش.یہ سچ ہے کہ آپ تمام اختیارات رکھتے ہیں.مگر یہ محض بطور نصیحتاً للہ لکھا گیا ہے.اختیارات سے کام چلانا نازک امرہے.اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کوسچے دل سے اپنے ساتھ رکھا.تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہوجائے نہ صرف ایک کی گردن پر.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 296

مکتوب نمبر۷۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایسے وقت آپ کاعنایت نامہ مجھ کو ملا.کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزدی.حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں.امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با ٓسانی سواری کے لائق ہو جائیںگے.لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبدالرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہوجائیں.تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کاانتظام کیا جائے.کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں ہیں.میں خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے دعا کرتا رہوں گا.دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق.ماسوا اس کے پنج وقت نماز میں انشاء اللہ دُعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہر روز مجھے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ اگرچہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے.مگر حق بات یہ ہے.کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طبیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے.ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے تو ایک مردہ کی طرح انسان اس سے زندہ ہوسکتا ہے.خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے وہ نہایت عمدہ چیز ہے.یہی کیمیا ہے اگر اپنی تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہوجائے.خدا تعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفا اوراجتبا کے درجہ تک پہنچتے ہیں.اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہوجائیں.مشیتِ الٰہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے.جس کا پہنچانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے.یہ کبریتِ احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 297

مکتوب نمبر۷۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ مجھ کو ملا.جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلّی اتفاق ہے.میںنے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اورآپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں.آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کر دیں.ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اوروہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکاّم کو آپ کا ملنا ضروری ہے.کیو نکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکاّم کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکاّم کو نہیں ملتا اورمخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں.پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکاّم کو معلوم ہے کہ آپ اس فرقہ میں شامل ہیں.اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکاّم کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے.گو یہ غلطی ہو گی اور کسی وقت رفع ہو سکتی ہے.مگر تا تریاق ازعراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود.باقی سب طرح سے خیریت ہے.میں انشاء اللہ القدیر بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 298

مکتوب نمبر۸۰ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عزیزی محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت آپ کا پریشانی سے بھرا ہوا خط پڑھ کر میرے دل کو اس قدر قلق اور اضطراب کا صدمہ پہنچا جو میں بیان نہیں کر سکتا.مجھے بباعث لحوقِ امراض و صدمات ضعف قلب ہے.کسی مخلص دوست کے غم سے بھری ہوئی بات کو سن کر اس قدر متاثر ہو جاتا ہوں کہ گویا وہ غم میرے پر ہی وارد ہو گیا.مجھے آپ کی غمخواری کیلئے بے اختیار ایک کشش اور کرب دل میں پیدا ہو گیا ہے.انشاء اللہ القدیر میں پوری توجہ سے آپ کیلئے دعا کروں گا.مگر اے عزیز! آپ کو یاد رہے.ہمارا آقا و مولیٰ ۱؎ نہایت درجہ کا مہربان اور رحیم و کریم ہے کہ اپنے گنہ گار بندوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور آخر وہی ہے جو اُن کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور اُن کی بیقراری کی دعاؤں کو سنتا ہے.کبھی کبھی وہ اپنے بندہ کی آزمائش بھی کرتا ہے لیکن آخر کار رحم کی چادر سے ڈھانک لیتا ہے.اُس پر جہاں تک ممکن ہو توکّل رکھو اور اپنے کام اُس کو سونپ دو.اُس سے اپنی بہبودی چاہو مگر دل میں اُس کی قضاء وقدر سے راضی رہو.چاہئے کہ کوئی چیز اُس کی رضا سے مقدم نہ ہو.میں آپ کیلئے بہت دعا کرتا ہوں اور کروں گا اور اگرکچھ معلوم ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا.آپ درویشانہ سیرت سے ہر یک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم سے کم اکتالیس دفعہ درود شریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر یک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یہ دعا پڑھیں یاحی یا قیوم برحمتک استغیث.۲؎ پھر نماز پوری کر کے سلام پھیر دیں اور اپنے لئے دعا کریں.اور مرزاخدا بخش کو کہہ چھوڑیں کہ جلد جلد مجھے اطلاع دیویں.دہلی میں آ کر میری طبیعت بہت علیل ہوگئی ہے.اس وقت خارش کی پھنسیاں ایسی ہیں جیسے شاخ کو پھل لگا ہوا ہوتا ہے.اسی وجہ سے بخار بھی رہا.ریزش بھی

Page 299

بشدت ہو گئی.طبیعت ضعیف اور کمزور ہے لیکن میں نے نہایت قلق کی وجہ سے نہ چاہا کہ آپ کے خط کو تاخیر میں ڈالوں.خدا تعالیٰ آپ کے غم و درد دُور کرے اور اپنی مرضات کی توفیق بخشے.آمین ثم آمین.والسلام ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء خاکسار غلام احمد از دہلی کوٹھی نواب لوہارو غلام احمد۱؎

Page 300

مکتوب نمبر۸۱ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.چونکہ آپ کے تردّدات اور غم اور ہم انتہا تک پہنچ گیا ہے اس لئے بموجب مثل مشہور کہ ہر کمالے را ز والے.امید کی جاتی ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی اللہ تعالیٰ پیدا کر دے گا اور اگر وہ دعا جو گویا موت کا حکم رکھتی ہے اپنے اختیار میں ہوتی تو میں اپنے پر آپ کی راحت کے لئے سخت تکالیف اُٹھا لیتا.لیکن افسوس کہ جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے ایسی دُعا خدا تعالیٰ نے کسی کے ہاتھ میں (نہیں٭) رکھی.بلکہ جب کہ وقت آ جاتا ہے تو آسمان سے وہ حالت دل پر اُترتی ہے.میں کوشش میں ہوں اور دعا میں ہوں کہ وہ حالت آپ کے لئے پیدا ہو اور امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت وہ حالت پیدا ہو جائے گی اور میں نے آپ کی سبکدوشی کیلئے کئی دعائیں کی ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ خالی نہ جائیں گی.جس قدر آپ کے لئے حصہ تکالیف اور تلخیوں کا مقدر ہے اُس کا چکھنا ضروری ہے.بعد اس کے یکدفعہ آپ دیکھیں گے کہ نہ وہ مشکلات ہیں اور نہ وہ دل کی حالت ہے.اعمال صالحہ جو شرط دخول جنت ہیں دو قسم کے ہیں.اوّل وہ تکلیفاتِ شرعیہ جو شریعتِ نبویہ میں بیان فرمائی گئی ہیں اور اگر کوئی ان کے ادا کرنے میں قاصر رہے یا بعض احکام کی بجا آوری میں قصور ہو جائے اور وہ نجات پانے کے پورے نمبر نہ لے سکے تو عنایتِ الٰہیہ نے ایک دوسری قسم بطور تتمہ اور تکملہ شریعت کے اُس کے لئے مقرر کر دی ہے اور وہ یہ کہ اُس پر کسی قدر مصائب ڈالی جاتی ہیں اور اُس کو مشکلات میں پھنسایا جاتا ہے اور جس قدر کامیابی کے دروازے اُس کی نگہ میں ہیں سب کے سب بند کر دئے جاتے ہیں.تب وہ تڑپتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری وقت ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ اور مکروہات بھی اور کئی جسمانی عوارض بھی اُس کی جان کو تحلیل کرتے ہیں.تب خدا کے کرم اور فضل اور عنایت کا وقت آ جاتا ہے اور درد انگیز دعائیں اُس قفل کے لئے بطور کنجی کے ہو جاتی ہیں.معرفت زیادہ کرنے اور نجات دینے کیلئے

Page 301

یہ خدائی کام ہیں.مدت ہوئی ایک شخص کے لئے مجھے انہی صفاتِ الٰہیہ کے متعلق یہ الہام ہوا تھا.قادر ہے وہ بار گاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے دن اہل مصائب کو بڑے بڑے اَجر ملیں گے تو جن لوگوں نے دنیا میں کوئی مصیبت نہیں دیکھی وہ کہیں گے کہ کاش ہمارا تمام جسم دنیا میں قینچیوں سے کاٹا جاتا تا آج ہمیں بھی اَجر ملتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مرتب: جیسا کہ دیگر متعدد خطوط سے ظاہر ہے ریاستی حقوق کے بارہ میںابتلا اواخر ۱۹۰۴ء میں شروع ہوا.۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء کو اس بارہ میں حضور کو الہام ہوا.’’اے سیف! اپنا رُخ اس طرف پھیر لے‘‘ اور ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کے حضرت نواب صاحب کے مرقومہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ چند دن قبل اس بارہ میں اُن کو اور ان کے بھائیوں کو کامیابی ہوئی تھی.حضور کے مکتوب ہذا کی اندرونی شہادت واضح ہے کہ اس کی تحریر تک ۱۳؍ نومبر ۰۶ء والا الہام نہ ہوا تھا ورنہ دیگر نصائح کے ساتھ حضورؑ تسلی کی خاطر اس امر کا اشارۃً ہی ذکر فرما دیتے بلکہ اس الہام کے ہو جانے کے بعد طبعاً حضرت نواب صاحبؓ کا کرب و قلق کم ہو جاتا.سو جب ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء کی تاریخ ہی ابھی نہیں آئی تھی تو دو دن بعد (۱۵؍ نومبر) کے الہام ’’قادر ہے وہ بارگاہ……الخ‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ظاہر ہے کہ ۱۵؍ نومبر ۱۹۰۶ء والا الہام یہاں مراد نہیں.اس پر مزید اندرونی شہادات بھی ہیں ایک تو یہ کہ ’’قادر ہے‘‘ والے الہام کے متعلق حضور تحریر فرماتے ہیں کہ ’’مدت قبل کا ہے‘‘ جو یہاں صادق نہیں آتی.دوسرے اسے ایک معین شخص کے لئے قرار دیتے ہیں جب کہ اس اور دیگر الہامات کے ساتھ مرقوم ہے ’’اصل میں یہ ہرسہ الہام پیشگوئیاں ہیں خواہ ایک شخص کیلئے ہوں اور خواہ تین جُدا شخصوں کے حق میں ہوں‘‘.(بدر جلد۲ صفحہ۴۷ والحکم جلد۱۰ صفحہ۳۹) تیسرے ۱۵؍نومبر ۱۹۰۶ء والے الہام کی عبارت یہ ہے:.

Page 302

’’قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے‘‘ اور مکتوب زیر بحث میں ’’جو‘‘ کا لفظ موجود نہیں.ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں الہاموں میں سے مدت قبل یعنی ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کا الہام مراد ہے جو معیّن طور پر حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے لئے ہوا تھا اور اس میں ’’جو‘‘ کا لفظ بھی موجود نہیں.سو یہ مکتوب زیر بحث اواخر ۱۹۰۴ء سے ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء تک کے عرصہ کا ہے.میرا اندازہ ہے کہ اس عرصہ کے آخری حصہ کا ہے جب کہ ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ اور لیفٹیننٹگورنر پنجاب کی طرف سے مایوسی ہوئی اور معاملہ وائسرائے تک پہنچایا گیا.چنانچہ وہاں کامیابی ہوئی.اس معاملہ کے متعلق مکتوب ۹۴ کتاب ہذا ہے.

Page 303

مکتوب نمبر۸۲ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمدللّٰہ تا دم تحریر خط ملا ہر طرح سے خیریت ہے.خدا تعالیٰ آپ کو معہ اہل و عیال سلامت قادیان میں لاوے.آمین آج میں میاں الٰہی بخش صاحب کو خود ملا تھا.وہ بہت مضطرب تھے کہ کسی طرح مجھ کو کوٹلہ میں پہنچایا جاوے اور کہتے تھے کہ کوٹلہ میں میری پنشن مقرر ہے.جولائی سے واجب الوصول ہوئی.میں نے ان کے بیش اصرار پرتجویز کی تھی کہ ان کو ڈولی میں سوار کر کے اور ساتھ ایک آدمی کر کے پہنچایا جاوے.مگر پھر معلوم ہوا کہ ایسا سخت بیمار جس کی زندگی کا اعتبار نہیں وہ بموجب قانون ریل والوں کے ریل پر سوار نہیں ہو سکتا.اس لئے اسی وقت میں نے ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب کو ان کی طرف بھیجا ہے تا ملائمت سے ان کو سمجھا دیں کہ ایسی بے اعتبار حالت میں ریل پر وہ سوار نہیں ہو سکتے اور بالفعل میں نے دو روپیہ ان کو بھیج دیئے ہیں کہ اپنی ضروریات کے لئے خرچ کریں اور اگر میرے روبرو واقعہ وفات کا ان کو پیش آ گیا تو میں انشاء اللہ القدیر اسی قبرستان میں ان کو دفن کراؤں گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے بہتر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ضروری کام کے انجام کے بعد زیادہ دیر تک لاہور میں نہ ٹھہریں اور میری طرف سے اور میرے گھر کے لوگوں کی طرف سے آپ کے گھر میں السلام علیکم کہہ دیں.والسلام ۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مرتب: میاں الٰہی بخش صاحب خلیفہ کہلاتے تھے.نعلبند تھے.فوج میں ملازم رہ چکے تھے.حضرت نواب صاحب سے بطور اعانت ماہوار وظیفہ پاتے تھے.وطن مالیر کوٹلہ بعمر اسّی سال ۹؍اپریل ۱۹۰۶ء کو قادیان میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے اور ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب موصوف ۹؍ جون ۱۹۲۱ء کو.ڈاکٹر صاحب سکنہ گوریانی تحصیل جھجھر ضلع رہتک کا نام ۳۱۳ صحابہ مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم میں ۶۸ نمبر پر ہے.

Page 304

مکتوب نمبر۸۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاخط مجھ کو ملا جو بہت غمناک دل کے ساتھ پڑھا گیا کل مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام مندرجہ ذیل الفاظ میںیا کسی قدر تغیر لفظ سے ہوا تھا کہ کئی آفتیں اور مصیبتیں ہم پر نازل ہوگئی ہیں.مَیں تمام دن اس الہام کے بعد غمگین رہا کہ یہ کیا بھید ہے.آج خط پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ آپ کا پیغام خدا تعالیٰ نے پہنچایا تھا.میں اس میں خاص توجہ سے دعا کروں گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ یہ بلا ٹال دے گا.وہی احکم الحاکمین ہے اور ہر یک امر اس کے اختیار میں ہے آپ اس میں بے صبری نہ کریں اور نہایت نرمی سے کام لیں.اصل حکم خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.یہ دنیا ایک عجیب مقام ہے کہ ایک دن ایک شخص ایک کے ہاتھ سے روتا ہے اور دوسرے دن وہی ظالم مصیبت میں گرفتار ہو کر رونا شروع کر دیتا ہے.پس آپ بار بار یہ عذر پیش نہ کریں کہ جاگیر سے دست بردار ہوتے ہیں بلکہ سب کچھ قبول کر لیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ہے.ہاں قادیان میں رہنے کے بارے میں نرمی سے عذر کرنا چاہئے اور ہو سکتا ہے کہ آپ عذر کر دیں کہ مالیرکوٹلہ میں میری حالت صحت اچھی نہیں رہتی کیونکہ صحت جیسا کہ صحت جسمانی ہے روحانی بھی ہے اور روحانی صحت کے خیال سے کسی طرح آپ کے لئے کوٹلہ کی سکونت مفید نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر تنگ کریں تو سکونت کو اس شرط سے قبول کریں کہ اس وقت تک رہوں گا جب تک اس جگہ کا قیام میری صحت کے مخالف نہ ہو.یہ تو تمام ظاہری باتیں ہیں مگر میں امید رکھتا ہوں کہ میری دعا پر ضرور خدا تعالیٰ کوئی راہ آپ کے لئے نکال دے گا.بالفعل آپ کو قضا و قدر الٰہی پر سرتسلیم خم کرنا چاہئے اور یہ نہ سمجھیں کہ انسان کی طرف سے یہ ایک ابتلا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک ابتلا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ۱؎ اور میں آپ کو جھوٹی تسلی نہیں دیتا بلکہ میں آج ہی بہت توجہ سے آپ کے لئے دعا

Page 305

کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ آخر دعاؤں کے بعد کوئی راہ آپ کے لئے نکل آئے گی.بالفعل نرمی اور صبر اور رضا بقضا سے کام لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے  ۱؎ اور یہ بات ضروری ہے کہ آپ دوسرے بھائیوں کے جوشوں کی پیروی نہ کریں کیونکہ کہ ان کی زندگی غافلانہ ہے اور وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ابتلا آیا کرتے ہیں.جب دیکھیں کہ ہر ایک راہ بند ہے اور سیدھی بات بھی الٹی ہوئی جاتی ہے.تب لازم ہے کہ فی الفور عبودیت کا جامہ پہن لیں اور سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی آزمائش ہے.عزت خدا کے ہاتھ میں ہے میں دنیا داری طریقوں کی عزت کو پسند نہیں کرتا.میں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں دیکھتا کہ نذریں دی جائیں اور رعایا کہلایا جائے.دنیا کی ہستی حباب کی طرح ہے.معلوم نہیں کہ کل کون زندہ ہوگا اور کون قبر میں جائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب واقعہ حدیبیہ کے وقت کفار مکّہ سے صلح کرنے لگے تو صلح نامہ کے سر پر لکھا ھذا من محمد رسول اللّٰہکفار مکّہ نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ کاٹ دو.اگر ہم آپ کو رسول جانتے تو اتنے جھگڑے کیوں ہوتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو فرمایا کہ ’’اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ دو‘‘ حضرت علی نے عرض کیا کہ میں تو ہرگز نہیں کاٹوں گا.تب آپ نے اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا.پھر وہی لوگ تھے جو فتح مکّہ کے بعد ایمان لائے.ہر یک بات وقت پر موقوف ہے.(ب) نوٹ از مرتب: اس مکتوب کے پہلے صفحہ پر حضور کی ایک مہر بھی ثبت ہے جو مجھ سے پڑھی نہیں گئی.بدر جلد ۲ نمبر۲۲ و الحکم جلد۱۰ نمبر۱۹ میں مرقوم ہے.’’(۲) آفتوں اور مصیبتوں کے دن ہیں‘‘ ایک دوست کا ذکر تھا جس پر بہت سے دنیاوی مشکلات گر رہے ہیں.فرمایا ’’یہ الہام اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے‘‘ اور اس الہام کی تاریخ ۲۷؍ مئی ۱۹۰۶ء درج ہے.گویا کہ یہ مکتوب ۲۸؍ مئی ۱۹۰۶ء کا ہے.

Page 306

مکتوب نمبر۸۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.مضمون سے آگاہی ہوئی.اب یقینا معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلا ہے بلکہ ایک سخت ابتلا ہے.میں اسی فکر میں تھا کہ خدا تعالیٰ دعا کرنے کیلئے پوری توجہ بخشے اور خدا کا استغناء ذاتی بھی پیش نظر تھا کہ اتنے میں نظام الدین مستری کا قصہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا.معاً دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ خدا کے فضل اور کرم سے کیا تعجب ہے کہ اگر نظام الدین کی کارروائی کے موافق آپ کی طرف سے مع اپنے بھائیوں کے کارروائی ہو تو خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جو نظام الدین کے ساتھ کیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نظام الدین نام سیالکوٹ میں ایک مستری ہے.چند روز ہوئے اس کا ایک خط میرے نام آیا.افسوس ہے کہ وہ خط شاید چاک کیا گیا.اس کا مضمون یہ تھا کہ میں ایک فوجداری جرم میں گرفتار ہوگیا ہوں اور کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی.اس بیقراری میں مَیں نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس خوفناک مقدمہ سے رہا کر دے تو میں مبلغ پچاس۵۰ روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بلاتوقف ادا کروں گا.اتفاق ایسا ہوا کہ جب اس کا خط پہنچا تو مجھے خود روپیہ کی ضرورت تھی.تب میں نے دعا کی کہ اے خدائے قادر و کریم! اگر تو اس شخص کو اس مقدمہ سے رہائی بخشے تو تین طور کا فضل تیرا ہوگا.اوّل یہ کہ یہ مضطر آدمی اس بَلا سے رہائی پا جائے گا.دوم مجھے جو اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے میرا مطلب کسی قدر پورا ہو گا.سوم تیرا ایک نشان ظاہر ہو جائے گا.دعا کرنے سے چند روز بعد نظام الدین کا خط آیا جو آپ کے ملاحظہ کیلئے بھیجتا ہوں اور دوسرے روز پچاس روپے آ گئے.پس میرے دل میں خیال گزرا کہ ان دنوں میں دینی ضروریات کے لئے بہت کچھ تفکرات مجھے پیش ہیں.مہمانوں کے اُترنے کیلئے عمارت نامکمل ہے.مرزا خدا بخش کی چار سَو روپیہ کی خریدی ہوئی زمین ہے وہ توسیع مکان کے لئے مل سکتی ہے.اگر اس قدر روپیہ دیا جائے.پھر کم سے کم دو ہزار روپیہ اور چاہئے تا اس پر عمارت بنائی جائے اور تکمیل مینار کا فکر بھی ہر وقت دل کو لگا ہوا ہے.مگر وہ ہزار ہا روپیہ کا کام ہے.

Page 307

جس طرح خدا چاہے گا اس کو انجام دے گا.بالفعل بموجب وحی الٰہی وَسِّعْ مَکَانَکَ کے مہمانوں کے پورے آرام کے لئے ان اخراجات کی ضرورت ہے.پس میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اگر ایک بلا سے رہا ہونے کے لئے آپ معہ اپنے بھائیوں کے دوسری بلا کو منظور کر لیں یعنی یہ نذر کر لیں کہ اگر ہمیں اس بلا سے غیبی مدد سے رہائی ہوئی تو ہم اس قدر روپیہ محض للہ ان دینی ضروریات کیلئے، جس طرح ہم سے ہو سکے، بلا توقف ادا کر دیں گے.تو میں اسی طرح دعا کروں گاجس طرح میں نے نظام الدین مستری کیلئے دعا کی تھی.خدا تعالیٰ نکتہ نواز ہے.کچھ تعجب نہیں کہ آپ کے اس صدق کو دیکھ کر آپ کی مشکل کشائی فرماوے.میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ ضرور یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ بے نیاز ہے مگر مجھے اپنے ربّ کریم کی سابق عنایتوں پر نظر کر کے یقین کُلّی ہے کہ کم سے کم وہ مجھے آئندہ کے حالات سے اطلاع دے دے گا اور چونکہ اس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں پچاس یا ساٹھ نشان اوردکھلاؤں گا اس لئے تعجب نہیں کہ آپ کی اس بیقراری کے وقت یہ بھی ایک نشان ظاہر ہو جائے.لیکن قبل اس کے کہ خدا تعالیٰ مشکل کشائی فرما دے.ہماری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور ایک پیسہ کا بھی مطالبہ نہیں.ہاں اگر دعا سنی جائے اور آپ کا کام ہو جائے.تب فی الفور آپ کو نذر مقررہ بلاتاخیر ایک ساعت ادا کرنا ہوگا اور دو نفل پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ عہد کرنا ہوگا اور بعد پختگی عہد بلاتوقف مجھے اطلاع دینا ہوگا.مجھے یاد ہے کہ جب نظام الدین کے لئے میں نے دعا کی تب خواب میں دیکھا کہ ایک چڑا اُڑتا ہوا میرے ہاتھ میں آ گیا اور اس نے اپنے تئیں میرے حوالہ کر دیا اور میں نے کہا کہ یہ ہمارا آسمانی رزق ہے جیسا کہ بنی اسرائیل پر آسمان سے رزق اُترا کرتا تھا.یہ بات خدا نے میرے دل میں ڈالی ہے.دل تومانتا ہے کہ کچھ ہونہار بات ہے.واللّٰہ اعلم.والسلام ۵؍ جون ۱۹۰۶ء (ب) خاکسار مرزا غلام احمد

Page 308

مکتوب نمبر۸۵ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزم اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مرسلہ پہنچا.اس کے رقعہ کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن میں جانتا ہوں کہ جس طرح انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک فیصلہ کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر اس درد سے نجات پاتا ہے کہ جو تنازع کی حالت میںہوتی ہے اسی طرح انسان کا نفس خدا تعالیٰ نے ایسا بھی بنایا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر کئی مقدمات برپا رکھتا ہے اور ان مقدمات سے نفس انسانی بے آرام رہتا ہے لیکن جب انسان کسی امر کے متعلق ایک فیصلہ کرلیتا ہے تب اس فیصلہ کے بعد ایک آرام کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.آپ کی رائے میں صرف یہ کسر باقی ہے کہ ہمیں زندگی کا اعتبار نہیں جیساکہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا ہے ایسا ہی آپ بھی زندگی پر بھروسہ نہیں کر سکتے اور اس بارے میں یہ شعر شیخ سعدی کا بہت موزوں ہے.مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار مباش ایمن از بازی روز گار پس اگر ہمیں موت آ گئی تو ہم اس رشتہ کی خوشی سے محروم گئے اور نیز اس دعا سے محروم رہے کہ جو ہماری زندگی کی حالت میں اس رشتہ کے مبارک ہونے کیلئے کر سکتے تھے.کیونکہ وہ دعا اس وقت سے مخصوص ہے جب نکاح ہو جاتا ہے.علاوہ اس کے ہر یک کو اپنی عمر پر اعتماد کرنا بڑی غلطی ہے.آج سے چھ ماہ پہلے آپ کے گھر کے لوگ صحت کے ساتھ زندہ موجود تھے.کون خیال کر سکتا تھا کہ وہ اس عید کو بھی نہ دیکھ سکیں گے اسی طرح ہم میں سے کس کی زندگی کا اعتبار ہے؟ اگر موت کے بعد اس وعدہ کی تکمیل ہو تو گویا میری اس بات کو یاد کر کے خوشی کے دن میں رونا ہوگا مگر میں آپ کی رائے میں کچھ دخل نہیں دیتا صرف عمر کی بے ثباتی پر خیال کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں کیونکہ بقول شخصے اے ز فرصت بے خبر در ہرچہ باشی زود باش وقتِ فرصت کو ہاتھ سے دینا بسا اوقات کسی دوسرے وقت میں موجب حسرت ہو جاتا ہے.میری دانست میں تو اس میں کچھ حرج نہیں اور سراسر مبارک ہے کہ رمضان کی ۲۷؍ تاریخ کو بظن غالب لیلۃ القدر کی رات اور دن ہے مسنون طور پر نکاح ہو جائے اور اس میں کیا حرج ہے

Page 309

Page 310

مکتوب نمبر۸۶ ملفوف ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاعنایت نامہ پہنچا.خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دورانِ سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا.ضعف بہت ہو رہاہے.یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں.آپ کے خط میں جس قدر تردّدات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا.میںنے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنج وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اورمیںبہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بیکار نہیں جائیںگی.ابتلائوں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا.اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلا ضرور آتے ہیں اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلائوں سے خالی ہو.ابتلائوں سے آخر خد اتعالیٰ کا پتہ لگ جاتاہے.حوادث دَہر کاتجربہ ہو جاتاہے اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے.اگر انسان کوخدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدابلائوں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے.میرے خیال میں اگرچہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب و حوادث و مشکلات ہے، بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے.یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مر جاتا تو بہتر تھا.مگر درحقیقت وہی زندگی قدرتاً ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا اور کامل ایمان حاصل ہوتا ہے.ایمان ایوبؑ نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مر گئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جائوں گا.پس اگر دیکھیں تو یہ مال اورمتاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے.اگر انسان ابتلا کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے.تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے.خدا تعالیٰ درحقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کرلیتا ہے اورسیلاب ہموم وغموم سے رہائی بخشتا ہے.پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے.وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم وغموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا.آپ جب تک مناسب سمجھیں لاہور میں رہیں.

Page 311

خدا تعالیٰ جلد ان مشکلات سے رہائی بخشے.آمین.اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے.مگر حکاّم نے مستغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے.یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے.کیونکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے.اس میں وہ بہت خوش ہو گا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا.ہر طرف دشمنوں کا زور ہے.خون کے پیاسے ہیں.مگر وہی ہو گا جو خواستہ ایزدی ہے.والسلام ۲۰؍ دسمبر ۱۹۰۶ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مرتب:.مکتوب کی تاریخ درست نہیں کیونکہ بمقدمہ اپیل بمقدمہ کرم دین کا فیصلہ ۷؍جنوری ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا تھا.صحیح تاریخ ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۴ء معلوم ہوتی ہے.

Page 312

مکتوب نمبر۸۷ دستی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمارتھی.تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتارہا.چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا.اللہ تعالیٰ آپ کو شفا بخشے.میں دعا میں مشغول ہوں اور بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ:.یہ مکتوب حضرت نواب صاحب قبلہ کے ایک خط کے جواب میں ہے جوحسب ذیل ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سیّدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم مجھ کو اس دفعہ نزلہ کچھ عجیب طرح کا ہوا ہے.بالکل بخار کی سی کیفیت رہتی ہے.پہلے زکام ہوا.اس میں سوزش تو کسی قدر کم تھی مگر ضعف اس میں بھی تھا.سر میں غبار.اس سے ذرا افاقہ ہوا،میں نے سمجھا کہ اب آرام ہو گیا.مگر اسی روز کھانسی ہوگئی.اب سینہ میں جس طرح چُھری سے کھرچتے ہیں اس طرح خراش ہو رہی ہے اورسر میں، بدن میں کسل.کمر میں درد ہو گیا.چونکہ قبض بھی رہتی ہے.اس لئے سرمیں غبار رہتا ہے.کل ذرا طبیعت بحال ہوئی تھی مگر آج کچھ باقی.استدعائے دعا.(راقم محمد علی خاں)

Page 313

مکتوب نمبر۸۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم نواب صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تمام خط میںنے پڑھا.اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ اس بنا پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ ماہوار کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی.اب ہماری تباہی کے دن ہیں اس لئے ہم کیا کریں.یہ کہہ کر وہ روپڑی.میں یہ توجانتا تھا کہ اس تنزّل تبدیلی کے کوئی اسباب ہوںگے اور کوئی ان کا قصور ہو گا.مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیںگے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی.گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں.مگر بڑے لوگوں کے بڑے حوصلے ہوتے ہیں.بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیںرکھتا کہ کسی غریب نادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے.اس لئے میں نے آپ کو ان کی دلی رنجش کے بُرے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا.ورنہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گار اپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اوریوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں.اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر میںرکھ لیا.تاکوئی امر ایسانہ ہو کہ جو میری دعائوں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے.اِرْحَمُوْا فِیْ الْاَرْضِ تُرْحَمُوْا فِیْ السَّمَآئِ زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو.مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم رکھنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 314

مکتوب نمبر۸۹ دستی ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے.چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ دو حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے.اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے.تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو.یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا.جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ دینے والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلا پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں.اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے.کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے.پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے ہو گا.میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے.کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے.اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا.یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے.غلام احمد عفی عنہ

Page 315

مکتوب نمبر۹۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا.آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے.باہر نہیں جا سکتا.ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں.ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہوجائے خدا تعالیٰ فضل کرے.مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں.گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابلِ قدر ہے.اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے، اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں.جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہہ کر آپ کو ان پر ناراض کیا ہے.گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں.مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید.میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا.اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو.رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے.یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا.یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے.انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا.ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں.میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے.کام کرنے والے مل جاتے ہیں.مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے.وہ نہیں ملتا.ایسے انسانوں کے لئے

Page 316

شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں.اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے.یہ میری رائے ہے جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد مکرر یاد دِلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے.مکتوب نمبر۹۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عزیزہ امۃ الحمید بیگم زاد عمرہا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مجھ کو ملا.میں نے اوّل سے آخر تک اس کوپڑھ لیا ہے.یاد رہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا.ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو.ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی نہ ر ہے جو خدائے تعالیٰ کے سامنے گناہ ہو یا جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدر کسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر

Page 317

مکتوب نمبر۹۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سیدی و مولائی طبیب روحانی سلّمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم مقبرہ بہشتی میں قبروں کی بُری حالت ہے ایک تو قبروں میں نالیوں کی وجہ سے سیلاب ویسے ہی رہتا ہے اور یہ نالیاں درختوں کے لئے ضروری ہیں پھر اس پر یہ زیادہ ہے.پانی جو آیا کرتا ہے اس کی سطح سے یہ قبریں کوئی دو فٹ نیچی ہیں.اب معمولی آب پاشی ہے اور ان بارشوں سے اکثر قبریں دَب جاتی ہیں.پہلے صاحب نور اور غوثاں کی قبریں دَب گئی تھیں ان کو میں (نے) درست کرا دیا تھا.اب پھر یہ قبریں دَب گئی ہیں اور یہ پانی صاف نظر آتا ہے کہ نالیوں کے ذریعہ گیا ہے.پس اس کے متعلق کوئی ایسی تجویز تو میر صاحب فرمائیں گے کہ جس سے روز کے قبروں (کے) دبنے کا اندیشہ جاتا رہے مگر میرا مطلب اس وقت اس عریضہ سے یہ ہے کہ ابھی تو معمولی بارش سے یہ قبریں دبی ہیں پھر معلوم نہیںکوئی رو آ گیا تو کیاحالت ہوگی.اس لئے نہایت ادب سے عرض ہے کہ اگر حضور حکم دیں تو میں اپنے گھر کے لوگوں کی قبر کو پختہ کر دوں اور ایک (دو)دوسری قبریں بھی یا (جیسا) حضور حکم دیں ویسا کیا جائے.(راقم محمد علی خاں) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میرے نزدیک اندیشہ کی وجہ سے کہ تا سیلاب کے صدمہ کی وجہ سے نقصان (نہ ہو) پختہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں معلوم ہوتا کیونکہ انما الاعمال بالنیات۱؎.باقی رہے مخالف لوگوں کے اعتراضات تو وہ تو کسی طرح کم نہیں ہو سکتے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ (ب) نوٹ از مرتب: (۱) دونوں مکتوبات میں خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.(۲) دونوں مکتوبات کی تاریخ کی تعیین ذیل کے امور سے ہوتی ہے.(الف) تاریخ وفات غوثاںؓ ۲۳؍ستمبر۱۹۰۶ء ، صاحب نور صاحب ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء اور

Page 318

اہلیہ صاحبہؓ حضرت نواب صاحب ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء ہے.(ب) موسم برسات یہاں جون سے ستمبر تک ہوتا ہے.اور مکتوب میں معمولی بارش ہونے کا ذکر ہے اور ۱۹۰۶ء میں ان مرحومین کی وفات سے پہلے یہ موسم گزر چکا تھا اور ۱۹۰۸ء میں حضور نے ۲۷؍ اپریل کو سفر لاہور اور وہاں اگلے ماہ سفر آخرت اختیار کیا.گویا کہ اس سال میں موسم برسات شروع بھی نہیں ہوا تھا.(ج) ایک دفعہ پہلے یہ قبریں بارش سے دَب چکی تھیںاور درست کرائی گئیں تھیں اور اب موسم برسات کی ابتداء تھی ان تمام امور سے معلوم ہوتا ہے کہ موسم برسات ۱۹۰۷ء یا برسات دسمبر ۱۹۰۷ء یا اوائل ۱۹۰۸ء کا یہ مکتوب ہے.موسم سرما میں دسمبر یا جنوری میں بھی بارش ہوتی ہے.قابل ترجیح یہ امر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی بار نئی نئی قبریں دسمبر ۱۹۰۶ء یا جنوری ۱۹۰۷ء میں بارش سے دَب گئی ہوں گی اور دوبارہ موسم برسات ۱۹۰۷ء کی ابتداء میں دَب گئیں.واللّٰہ اعلم

Page 319

مکتوب نمبر۹۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم آج سیر میں تذکرہ تھا کہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت پھر علیل ہے اور ان کی غذا کا انتظام درست نہیں ہے چونکہ مجھ کو حضرت مولانا نے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھایا ہے اور اس طرح مجھ کو ان کی شاگردی کا (گو میں بدنام کنندہ نکونامے چند کے طور سے شاگرد ہوں) فخر حاصل ہے.اس لئے میرے دل میں یہ خواہش رہتی ہے کہ حضرت مولانا کی کچھ خدمت کر سکوں.کبھی کبھی میں (نے٭)ان کی غذا کا التزام کیا ہے مگر حضرت مولانا کی غیور طبیعت برداشت نہیں کرتی اور وہ روک دیتے ہیں اس لئے اَ لْاَمْرُفَوْقَ الْاَدَبِکے لحاظ سے پھر جرأت نہیں پڑتی.اب اگر حضور حکم فرماویں تو اس طرح مجھ کو خدمت کا ثواب اور حضرت مولانا کے غذا کا انتظام ہو جاتا ہے اور حضرت مولانا حضور کے حکم کی وجہ سے انکار بھی نہ کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ لنگر میں بہ سبب کثرت کار پوری طرح سے التزام مشکل ہے میرے باورچی کو چونکہ اتنا کام نہیں اس لئے خدا کے فضل اور حضور کی دعا سے امید کی جاتی ہے کہ التزام ٹھیک رہے گا.بس اگر میری یہ عرض قبول ہو جائے تو میرے لئے سعادتِ دارین کا موجب ہو.دوم میں نے اپنے بھائی کو حضور کے حکم کے بموجب خط لکھا ہے حضور ملاحظہ فرما لیں اگر یہ درست ہو تو بھیج دوں.راقم محمد علی خاں حضور نے جواباً تحریر فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.حضرت مولوی صاحب کی نسبت مجھے کچھ عذر نہیں واقعی لنگر خانہ کے لوگ ایک طرف تاکید کی جائے دوسری طرف پھر غافل ہو جاتے ہیں.کثرت آمد مہمانوں کی

Page 320

طرف سے بعض اوقات دیوانے کی طرح ہو جاتے ہیں.اگر آپ سے عمدہ طور سے انتظام ہو سکے تو میں خوش ہوں اور موجب ثواب.خط آپ نے بہت عمدہ لکھا ہے مگر ساتھ لکھتے وقت ترتیب اوراق کا لحاظ نہیں رہا.خط… پڑہتے جب دوسرے صفحہ میں مَیں پہنچا تو وہ عبارت پہلے صفحہ سے ملتی نہیں تھی اس کو درست کر دیا جائے.والسلام مرزا غلام احمد نوٹ از مرتب: یہ مکتوب آخر ۱۹۰۶ء یا ابتدا ۱۹۰۷ء کا ہے.تفصیل کیلئے دیکھئے اصحابِ احمد جلد دوم صفحہ۴۸۶.

Page 321

مکتوب نمبر۹۴ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عجیب اتفاق ہوا کہ آپ نے ہزار روپیہ کانوٹ بند خط کے اندر بھیجا اور میاں صفدر نے شادی خاں کی والدہ کے حوالہ کیا جس کو دادی کہتے ہیں.وہ بیچاری نہایت سادہ لوح ہے.وہ میری چارپائی پر وہ لفافہ چھوڑ گئی.میں باہر سیر کرنے کو گیا تھا اور وہ بھول گئی.اب اس وقت اس نے یاد دلایا کہ نواب صاحب کا ایک خط آیا تھا میں نے پلنگ پر رکھا تھا پہلے تو وہ خط تلاش کرنے سے نہ ملا.میں نے دل میں خیال کیا کہ کل زبانی دریافت کر لیں گے پھر اتفاقاً بستر کو اُٹھانے سے وہ خط مل گیا اور کھولا تو اس میں ہزار روپیہ کا نوٹ تھا.یہ بے احتیاطی اتفاقی ہوگئی گویا ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا تھا.مگر الحمدللہ مل گیا.وہ عورت بیچاری نہایت سادہ اور نیم دیوانہ ہے.وہ بے احتیاطی سے پھینک گئی.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.آپ نے اپنی نذر کو پورا کیا.آمین.والسلام مرزا غلام احمد حضور چشمہ معرفت میں تحریر فرماتے ہیں کہ نواب صاحبؓ نے بعد کامیابی بلا توقف تین ہزار روپیہ لنگر خانہ کے لئے ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا جو پورا کر دیا.(صفحہ ۳۲۳،۳۲۴) چنانچہ مکتوب ہذا میں اس نذر کے پورا کرنے کا ذکر ہے اور نواب صاحب کے ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ چند روز قبل بذریعہ تار کامیابی کی اطلاع آئی تھی اس لئے مکتوب حضور اس تاریخ کے قریب کا ہے.تفصیل کیلئے اصحاب احمد جلد دوم حاشیہ صفحہ۵۹۶ دیکھئے.

Page 322

مکتوب نمبر۹۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم بھائی خاں صاحب محمد احسن علی خاں صاحب نے مجھ کو ایک خط لکھا تھا اور ایک خط حضور کی خدمت میں بھی بھیجا تھا جو کل یہاں پہنچے.میں (نے٭) اس خط کا جواب لکھا ہے اور برائے ملاحظہ حضور پیش ہے.اگر حضور اس کو ملاحظہ (کر کے ٭) تصحیح سے سرفراز فرمائیںتو عین سعادت ہے.راقم محمد علی خاں جواباً حضور نے رقم فرمایا: محبی عزیزی اخویم نواب صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ میں نے اوّل سے آخر تک حرفاً حرفاً پڑھ لیاہے یہ خط نہایت عمدہ اور مؤثر معلوم ہوتاہے.ایسا ہی لکھنا چاہئے تھا.جزاکم اللہ خیراً.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد

Page 323

حضرت نواب صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیماری سے صحت یابی کی خوشی میں آپ سے دعوت کا اہتمام کرنے کی اجازت چاہی.ژ حضور نے جواباً تحریر فرمایا: مکتوب نمبر۹۶ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا تعالیٰ کا درحقیقت ہزار ہاگونہ شکر ہے کہ موت جیسی حالت سے واپس لا کر صحت بخشی.اب آپ کو اختیار ہے کہ کسی دن خواہ جمعہ کوعام دعوت سے اس شکریہ کا ثواب حاصل کریں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 324

مکتوب ہذا منجانب نواب صاحب بنام حضرت اقدس ہے.ژ بسم اللہ الرحمن الرحیم سیدی ومولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ- السلام علیکم.میں نے چونکہ آج غسل کیا ہے.اور سردی کی برداشت بہ سبب اس کے کہ ابھی نزلہ وغیرہ سے فارغ ہوا ہوں نہیں ہے.اس لئے سیر سے آج معافی چاہتا ہوں.دوم.چونکہ میری ابتلائیں آج کل بہت بڑھی ہوئی ہیں اور خصوصاً مالی مشکلات اس لئے اس انتظام کے لئے ضروری طور پر مجھ کو کوٹلہ جانے کی سخت ضرورت ہے.میں اب تک جا بھی آیا ہوتا مگر بخار ہو جانے کی وجہ سے رک گیا.اب چونکہ اچھا ہوں اور فصل کا موقعہ ہے وہاں میری سخت ضرورت ہے اس لئے چاہتا ہوں کہ اگر حضور اجازت فرمائیں توکل کوٹلہ چلا جائوں اور ۲۶ یا ۲۷ تک واپس آجائوں گویا اس طرح زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگے گا.سوم.چونکہ بعض اسباب ایسے پیش آگئے کہ بعض ملازم میرے ساتھ جائیں گے.یہاں ملازموں کی کمی ہو گی اس لئے عرض ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے اگر حضور نور محمد کو اجازت فرما دیں تو وہ میرے بچوں کے پاس ایک ہفتہ رہے.چہارم.رتھ کی بھی اجازت چاہتا ہوں.پنجم.حضور جانتے ہیں کہ سخت ابتلا کی وجہ سے میں ایسے نازک وقت میں جاتا ہوں ورنہ ایسے موقعہ میں کہ جلسہ سر پر ہے.اور سردی سخت ہے مجھ کو جانا پڑا ہے بس استدعاء دعا ہے کہ میرے بچوں اور متعلقین کو حسنات دین دنیا حاصل ہوں اور ہر طرح صحت رہے اور ہر طرح خیر رہے اور جس کام کے لئے میں جاتا ہوں وہ بخیر وخوبی ہو جائے.راقم محمدعلی خان

Page 325

حضور نے جواباً تحریر فرمایا: مکتوب نمبر۹۷ ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.آپ کو اجازت ہے آپ چلے جائیں.نور محمد بے شک اس وقت تک رہے صرف اس قدر کام کر دیاکرے کہ پانچ چار روٹیوں کے لئے جو پھلکے پکاتا ہے وہیں آٹا لے جائے اور پکا کر بھیج دے اور لال ٹینوں میں تیل ڈال دیا کرے اور رتھ تو آپ کا مال ہے جب چاہیں لے جائیں اور میں اب ایک مدت سے ہر یک نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور کل میں نے سنا ہے کہ میری لڑکی مبارکہ کے (لئے٭) آپ کی طرف سے پیغام آیا تھا.اس میں ابھی دو مشکلات ہیں.(۱) ایک یہ کہ ابھی وہ صرف گیارہ سال عمر پورے کر چکی ہے اور پیدائش میں…۱؎ بہت ضعیف البنیان اور کمزور ہے.کھانسی ریزش تو ساتھ لگی ہوئی ہے جب تک کہ پندرہ سال کی نہ ہو جائے کسی صورت میں شادی کے لائق نہیں اگر پہلے ہو تو اس کی عمر کا خاتمہ ہو جائے گا.(۲) دوسرے نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دل کو غمناک کرتا رہتا ہے ایک پیشگوئی ہے جو چند دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکی ہے میں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا.اس پیشگوئی کے ایک حصہ کا حادثہ ہم میں اور آپ میں مشترک ہے.بہت دعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے اور دوسرے حصہ کا حادثہ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص سے متعلق ہے.یہ بھی الہام کسی حصہ کی نسبت ہے کہ ۲۷؍ تاریخ کو وہ واقعہ ہوگا.نہیں معلوم کس مہینہ کی تاریخ اور کونسا سن ہے.اخبار میں میں نے چھپوا دیا ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ شاید ایک مہینہ کے قریب ہوگیا کہ میں نے ایک الہام اخبار میں صرف اشارہ کے طور پر چھپوایا تھا جس کی یہ عبارت تھی کہ ایک نہایت چھپی ہوئی خبر پیش کرتا ہوں.دراصل وہ خبر انہی حوادث کے متعلق ہے.یہ بھی دیکھا کہ گھر میں ہمارے ایک بکرا ذبح کیا ہوا کھال اُتاری ہوئی ایک جگہ لٹک رہا ہے.پھر دیکھا کہ ایک ران لٹک رہی ہے.یہ سب بعض موتوں کی طرف اشارات ہیں.میں دعا کر رہا ہوں.والسلام مرزا غلام احمد

Page 326

نوٹ: اس خط کا جواب میں نے یہ دیا تھاکہ جو کچھ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے درست اور قبول و منظور اور انتظار ممکن.(محمد علی خاں) نوٹ از مرتب: (۱) رؤیا کہ ’’ایک ران لٹک رہی ہے‘‘.غیر مطبوعہ ہے اور خاکسار کو پہلی بار صرف اس کی اشاعت کی سعادت حاصل ہوئی.فالحمدللہ علی ذالک.(۲) ۱۹۰۷ء کا رؤیا بدر و الحکم میں اس قدر شائع ہوا ’’ایک گو سفند مسلوخ دیکھا‘‘ لیکن مکتوب ہذا میں زیادہ تفصیل ہے (۳) الہام و رؤیا اس مکتوب میں ۱۹۰۷ء کے درج ہیں.نواب صاحب کے خط سے جلسہ سالانہ کا قرب اور ۲۷؍ سے ایک ہفتہ قبل ان کے اجازت طلب کرنے کا علم ہوتا ہے.گویا کہ یہ مکتوب ۲۰ دسمبر ۱۹۰۷ء کا ہے یہ خیال نہ کیا جائے کہ مسلوخ گو سپند والی رؤیا صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات (۱۶؍ ستمبر۱۹۰۷ء) سے پوری ہوگئی جیسا کہ الحکم بابت ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ب کالم ۲ اور بابت ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۶ کالم ۲ اور بدر بابت ۱۹؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ۵ کالم ۳ میں لکھا گیا ہے (اور یہ بھی درج ہے کہ یہ رؤیا حضرت نے تین اشخاص کو سنائی تھی جن میں سے ایک حضرت نواب صاحب تھے) کیوں کہ صاحبزادہ صاحب کی وفات کے بعد حضور مکتوب ہذا میں اس رؤیا کا ذکر فرماتے ہیں کہ گویا کہ ابھی پوری نہیں ہوئی اور اس رؤیا کے متعلق اس امر کا علم صرف نواب صاحب اور حضور کے ان مکتوبات سے ہوتا ہے.نیز تذکرہ میں اس رؤیا کی تاریخ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء سے قبل لکھی گئی ہے.حوالہ جات مذکورہ سے ظاہر ہے کہ یہ ۳۱؍ اکتوبر نہیں بلکہ اس کی تاریخ ڈیڑھ ماہ قبل درج ہونی چاہئے.یعنی ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء سے قبل.

Page 327

مکتوب نمبر۹۸ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.میری لخت جگر مبارکہ بیگم کی نسبت جو آپ کی طرف سے تحریک ہوئی تھی میں بہت دنوں تک اس معاملہ میں سوچتا رہا.آج جو کچھ خدا نے میرے دل میں ڈالا ہے اس شرط کے ساتھ اس رشتے میں مجھے عذر نہیں ہوگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میںتأمّل نہیں ہوگا.اور وہ یہ ہے کہ مہر میں آپ کی دو سال کی آمدن جاگیر مقرر کی جائے یعنی پچاس ہزار روپیہ اور اس اقرار کے بارے میں ایک دستاویز شرعی تحریری آپ کی طرف سے حاصل ہو.میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نہایت درجہ اخلاص میںگداز شدہ ہیں اور آپ نے ہر ایک پہلو سے ثبوت دے دیا ہے کہ آپ کو جانفشانی تک دریغ نہیں مگر جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے وہ اوّل تو آپ کی خداداد حیثیت سے بڑھ کر نہیں اور پھر آپ کی ذات کے متعلق نعوذ باللہ اس میں کوئی بدگمانی نہیں.محض خدا نے میرے دل میں ایسا ہی ڈال دیا ہے اور ظاہری طور پر اس کے لئے ایک صحیح بنا بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ موت حیات کا اعتبار نہیں اور آپ کے خاندان کے عمل درآمد کے رو سے عورتیں اپنے شرعی حقوق سے محروم ہوتی ہیں.اوراگر بعد میں کچھ گزارہ تجویز کیا جائے تو وہ مشکوک اور (نہ٭) اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور خدا آپ کی اولاد کی عمر دراز کرے.وہ بعد بلوغ اپنے اپنے خیالات اور اغراض کے پابند ہونگے اور حق مہر کا فیصلہ ایک قطعی امر ہے اور ایک قطعی حق ہے جو خدا نے ٹھہرا دیا ہے اور عورتیں جو بے دست و پا ہیں اس حق کے سہارے سے ظلم سے محفوظ رہتی ہیں.آپ کی زندگی میں اس مہرکا مطالبہ نہیں لیکن خدانخواستہ اگر لڑکی کی عمر ہو اور آپ کی عمر وفا نہ کرے تو اس کی تسلی اور اطمینان کیلئے اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ طریق اور اس قدر مہر کافی ہوگا تا کہ دوسروںکے لئے صورتِ رُعب قائم رہے.یہ وہ امر ہے جس کو سوچنے کے لئے میں آپ کو اجازت نہیں دیتا.ایک قطعی فیصلہ ہے اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اگر ان دونوں باتوں کی آج آپ تکمیل کر دیںتو گو لڑکی ایک سال کے بعد

Page 328

رخصت ہومگر پیر کے دن نکاح ہو جائے یہ ایک قطعی فیصلہ ہے جو میری طرف سے ہے.اس میں کسی طرح کمی بیشی نہیں ہوگی اس وجہ سے میں نے اس خیال سے اور اسی انتظار سے عزیزی سید محمد اسماعیل کو پیر کے دن تک ٹھہرا لیا ہے اگر آپ کی طرف سے اس شرط کی نامنظوری ہوگئی تو پھر وہ کل ہی اپنی نوکری پر چلا جائے گا.والسلام راقم ۱۲؍ فروری ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ: اس خط کا جواب زبانی پیر منظور محمد صاحب حامل خط ہذا کو یہ دے دیا تھا کہ مجھ کو بلاعذر سب کچھ منظور ہے.(محمد علی خاں) نوٹ: مکتوب میں حضور کے برادر نسبتی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ مراد ہیں.

Page 329

یہ مکتوب منجانب نواب صاحب بنام حضرت اقدس ہے ژ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم سیدی ومولای طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم.پیرمنظور محمد صاحب تشریف لائے اور فرمایا کہ حضورؑ نے دریافت فرمایا ہے کہ زینب کے رختصانہ کے متعلق اتنی ہی بات ہے جتنی پہلے طے ہو چکی ہے یا کیا.اس سوال سے مجھ کو تین خیال گزرے )۱( یہ کہ حضورؑ اس قرار داد سے قبل رخصتانہ چاہتے ہیں )۲( یہ کہ حضورؑ نے مزید تاکید کے لئے ان کو بھیجا ہے اس وقت پر رخصتانہ ہو جائے )۳( یہ کہ حضورؑ کچھ اور مہلت عطا فرمانا چاہتے ہیں.میں نے پیرجی سے دریافت بھی کیا کہ اس کا کیا منشا ہے تو انہوں نے سوائے اس کے کوئی روشنی نہ ڈالی کہ شاید حضورؑ جلدی رختصانہ چاہتے ہیں چونکہ کوئی صاف بات پیر جی نے نہیں کہی.اس لئے میں نے عرض کیا کہ میں خود حضورؑ کی خدمت )میں( تحریراً عرض کروں گا.میں برابر سوچتا رہا.مگر کوئی صاف بات میری سمجھ میں نہیں آئی.پس یہ تین باتیں جو میری سمجھ میں آئی ہیں ان کی بابت عرض ہے مگر پیشتر اس کے کہ کچھ عرض کروں اصولاً یہ عرض ہے کہ اول تو نکاح کے بعد لڑکی پر میکے والوں کا کوئی زور ہوتا ہی نہیں.سسرال والے جب چاہیں لے جا سکتے ہیں میکے والوں کو اس امانت کے ادا کرنے میں عذر ہو ہی نہیں سکتا.پس جب عام قاعدہ یہ ہے تو پھر حضورؑ کے معاملہ میں تو یہ حالت ہے جب سے بیعت کی ہے معہ جان، مال، عزت اپنے آپ کو بیچ چکا ہوں.حضورؑ پر سب کچھ قربان ہے اور ہرج ہو یا نہ ہو.نفع ہو یا نقصان ہر حالت میں حضورؑ کے حکم کی فرماں برداری فرض ہے بلکہ اس میں دل میں بھی کچھ ہرج رکھنا گناہ.تو پھر ایسی حالت میں کیا عرض کر سکتا ہوں.میں نے جو کچھ عرض کرنا ہو گا وہ بھی حضورؑ ہی کو سوچنا ہے اور جو نہیں عرض کرنا وہ بھی حضورؑ ہی کے سپرد.میری اپنی رائے کسی بھی معاملہ میں اپنی نہیں.میں تو حضورؑ کے حکم پر ہی چلنا چاہتا ہوں پس جب ہر معاملہ میں یہ حال ہے تو پھراس معاملہ میں بھی حضورؑ ہی جو حکم صادر فرمائیں گے وہی صائب ہو گا.مگر چونکہ حضورؑ نے دریافت فرمایا ہے اس لئے الامر فوق الادب عرض ہے )۱(اول معاملہ میں کہ اگر حضور

Page 330

ؑ رخصتانہ قبل چاہتے ہیں تو عرض ہے کہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ حضورؑ کو ہر وقت اختیار ہے کہ جب چاہیں رخصتانہ کرا لیں اگر حضورؑ فرمائیں تو ان ہی کپڑوں میں رخصت کر دوں.مگر اگر حضورؑ کا خیال ہو )کہ جس طرح حضورؑ نے اس دفعہ میرے حاضر ہونے پر فرمایا تھا کہ ہمارا منشا اس سے یہ ہے کہ آپ کو اطلاع دیدیں کہ آپ رخصتانہ کی تیاری کر لیں ہم مکان بنوائیں گے اور اس میں پانچ چھ ماہ گزر جائیں گے( کہ میں نے تیاری کر لی ہو گی.سو اس میں عرض ہے کہ میں اب تک کوئی تیاری نہیں کر سکا.پس یہ حضورؑ کا رحم اور عنایت ہو گی پہلے کی طرح مجھے مہلت ہو.حضورؑ میری ابتلائوں سے واقف ہیں اگر مجھ کو اس وقت جلدی کا خیال ہوتا تو میں جس طرح ہوتا خواہ کتنی تکلیف ہوتی تو بھی تیاری کرتا.کیونکہ حضورؑ کے حکم میں تکلیف عین راحت ہے مگر پھر بھی مجھ کو اس وقت پر حضور کے حکم کی تعمیل کرنی ہے خواہ کچھ ہو.)۲( رہی دوسری بات کہ حضورؑ نے بطور یاد دہانی اور تاکید یہ فرمایا تاکہ اس وقت رخصت ہو جائے تو عرض ہے کہ حضورؑ کا اس وقت کا حکم سو تاکید کی ایک تاکید تھا.میں اسی دن سے دن رات اسی فکر میں ہوں )۳( رہا تیسرا امر کہ حضورؑ اپنے رحم اور فضل سے مجھ کو اس معاملہ میں اور مہلت عنایت فرمانا چاہتے ہیں اور ان ابتلائوں کے زمانہ میں کچھ سہولت محض اس ہمدردی کی وجہ سے جو حضورؑ کو مجھ سے ہے دینا چاہتے ہیں تو نہایت عجز اور ابتہال سے عرض ہے کہ اگر ایسا ہو تو حضورؑ کی نہایت ہی بندہ نوازی ہو کیونکہ اس طرح سب معاملہ سہولت سے طے ہو اور مجھ کو دقت پیش نہ آئے.زینب کی صحت بھی چھ ماہ سے بہت خراب ہو رہی ہے.اس میں بھی کچھ خداوند تعالیٰ عافیت کی صورت نکال دے اور میں بھی انتظام کافی کر سکوں.بہر حال یہ عرض سب محض تعمیل حکم ہے ورنہ میری پہلی عرض ہے کہ سپردم بتو مایہ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را اور میری ابتلائوں اور تکالیف کا بھی حضور کو ہی خیال ہے.راقم محمد علی خاں

Page 331

اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حسب ذیل مکتوب ارسال فرمایا.مکتوب نمبر۹۹ ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ تجویز آپ کی خدمت میں اس لئے پیش کی گئی تھی کہ فی التاخیر آفات کا مقولہ یاد آتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ میں نے بعض خوابیں دیکھی ہیں اور بعض الہام ہوئے ہیں جن کا میں نے مختصر طور پر آپ کی خدمت میں کچھ حال بیان کیا تھا.اگر میرے پاس زینب ہو تو دعا کا موقعہ ملتا رہے گا.میں دیکھتا ہوں کہ لڑکا بھی جوان ہے.ابھی مجھے نیا مکان بنانے کی گنجائش نہیں اسی مکان میں میں نے تجویز کر دی ہے لیکن چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر لڑکیاں والد کے گھر سے سرسری طور پر رخصت ہوں تو ان کی دل شکنی ہوتی ہے اس لئے میں اس وقت تک جو آپ مناسب سمجھیں اور رخصت کیلئے تیاری کر سکیں مہلت دیتا ہوں مگر آپ اس مدت سے مجھے اطلاع دے دیں.میرے نزدیک دنیا کے امور اور ان کی الجھنیں چلی جاتی ہیں.لڑکیوں کی رخصت کو ان سے وابستہ کرنا مناسب نہیں.والسلام مرزا غلام احمد

Page 332

مذکورہ بالا کے جواب میں نواب صاحب نے تحریر فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سیّدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم.میری اپنی رائے تو یہی تھی کہ حضور ہی کوئی مہلت معقول عطا فرما دیتے مگر جب حضور (نے٭) مجھ پر چھوڑا تو یہ امر زیادہ ذمہ داری کا ہو گیا.اس لئے جہاں حضور نے یہ عنایت فرمائی ہے اتنی مہربانی اور ہو کہ میں ایک ماہ کے اندر سوچ کر عرض کر دوں کہ میں کب تک رخصتانہ کا انتظام کر سکتا ہوں.اس کی صرف یہ ضرورت ہے کہ میں انتظام میں لگا ہوں.پس اس عرصہ میں مجھ کو اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰیٹھیک معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر عرصہ میں انتظام مکمل ہو جائے گا.حضور بھی دُعا فرمائیں کہ میں اس میں کامیاب ہوں.میں آج کل ہر طرح کے ابتلاؤں (کے٭) نرغے میں ہوں.راقم محمد علی خان مکرر: اس عرصہ بعد مجھ کو جتنی مہلت کی ضرورت ہوگی عرض کر کے تاریخ مقرر کردوں گا.باقی اختیار اللہ تعالیٰ کے ہیں وہی سامان کرنے والا ہے حضور کی دُعا کے ہم سب ہر وقت محتاج ہیں.محمد علی خان اس پر حضور نے تحریر فرمایا: مکتوب نمبر۱۰۰ ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مجھے منظور ہے امید کہ آپ ایک ماہ کے بعد مطلع فرمائیں گے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 333

Page 334

Page 335

Page 336

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عرضِ حال الحمدللّٰہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین.والصلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ محمد الْاُمّیّین وخاتم النّبیین وآلہ واصحابہ الطیبین وعلی خلفائہِ الراشدین المھدیّین.امابعد! خاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرت قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فضل ہی سے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میں قوت بخشی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قلمی خدمت کے لئے اسے ایک جوش عطا فرمایا تب ہی سے اسے یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات.مکتوبات اور ہر ایسی تحریروں کو جمع کروں جو حضور کے قلم سے کسی وقت نکلی ہوں اور وہ کسی منتشر حالت میں ہوں یا اندیشہ ہو کہ وہ نایاب نہ ہو جائیں.محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے یہ موقع دیا کہ وہ الحکم کے ذریعہ آپ کے ملفوظات اور الہامات اور مکتوبات وغیرہ کو ایک حد تک جمع کر سکا.الحکم کے ذریعہ اس سلسلہ میں فضل ربی سے بہت بڑا کام ہوا.پرانی تحریروں کے جمع کرنے میں بھی ایک حد تک کامیابی ہوئی ہے.پرانی تحریروں کے سلسلہ ہی میں مکتوبات کا سلسلہ شامل کر دیا گیا تھا.خد اکا شکر ہے کہ مکتوبات کے سلسلہ میں پانچویں جلد کا پہلا حصہ شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں.اس پانچویں جلد کے کئی حصے ہوں گے کیونکہ اس جلد میں وہ مکتوبات آئیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخلص خدام کو لکھے تھے.پہلی جلد مکتوبات کی جب شائع کی گئی تھی.اس وقت میرا خیال تھا کہ دوسری جلد میں حضرت مولانا نورالدین صاحب کے نام کے مکتوبات درج کروں لیکن بعد میں میرا خیال ہوا کہ مخالفین اسلام کے نام کے مکتوبات کی جلدوں کو پہلے چھاپ دوں.اور مخلص خدام کے مکتوبات کا سلسلہ بعد میں رکھوں.چنانچہ آریوں.ہندوئوں.برہموئوں

Page 337

کے نام کے مکتوبات دوسری جلد میں اور عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام کے مکتوبات تیسری جلد میں شائع ہوچکے ہیں.چوتھی جلد میں سلسلہ عالیہ کے تلخ ترین دشمن مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام کے مکتوبات ہیں.یہ مکتوبات جمع ہو چکے ہیں اور جلد تر شائع ہو جائیں گے.انشاء اللہ العزیز.پانچویں جلد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلصین کی جلد ہے اس کے متعدد حصے ہوں گے.چنانچہ یہ پہلا حصہ ہے.حصہ دوم میں حضرت چودھری رستم علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات ہیں.میں یہ بھی کوشش کر رہا ہوں کہ آئندہ جو مکتوبات طبع ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ہی خط کے عکس میں شائع ہوں مگر یہ بہت محنت اور کوشش اور صرف کا کام ہے.احباب نے میری حوصلہ افزائی کی اور اس کام میں میری مالی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں کہ میں اس میں کامیاب ہو جائوں کیونکہ اصل مکتوبات میرے پاس موجود ہیں.اللہ تعالیٰ ہی کی اوّل اور آخر حمد ہے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ادنیٰ خدمت گزار خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹرالحکم تراب منزل قادیان دارالامان الحکم آفس ۱۰؍ دسمبر ۱۹۱۸ء

Page 338

Page 339

Page 340

Page 341

Page 342

Page 343

Page 344

Page 345

Page 346

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکتوب نمبر ۱ مکرمی اخویم حاجی سیٹھ اللہ رکھاعبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی تاریخ میں مبلغ سو روپیہ مجھ کو پہنچے.جزاکم اللہ خیراً، کوئی خط ساتھ نہیں آیا.اس لئے بدستخط خود رسید سے اطلاع دیتا ہوں.امید کہ ہمیشہ خیر خیریت سے مطلع اور مسرور الوقت فرماتے رہیں.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.مخالفوں کا اس طرف بہت غلبہ ہے.ایام ابتلا معلوم ہوتے ہیں خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو ثابت قدم رکھے.والسلام ۲۲؍ اگست ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۲ مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب.السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ.آنمکرم کی طرف (سے) ایک دفعہ سو روپیہ اور ایک دفعہ تار کے ذریعہ ڈیڑھ سو روپیہ مجھ کو کل پہنچا.اللہ جلّشانہٗ بعوض ان دینی خدمات کے دنیا و آخرت میں آپ کو اجر بخشے.اور آپ کے ساتھ مجھ کویہ روپیہ بہت ہے اس قدر کہ وقت پر کام دیا.ایسا اتفاق ہوا کہ عبداللہ آتھم عیسائی اور اس کا باقی گروہ جن کی نسبت پیشگوئی تھی کہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں ا ن کو ہر ایک طرح کا عذاب اور ذلّت پہنچے گی ان کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی مگر بعض شریر قبول نہیں کرتے.عبداللہ آتھم کی نسبت یہ الہام تھا کہ اگر وہ پندرہ مہینے تک حق کی طرف رجوع نہ کرے تو مر جائے گا.چنانچہ وہ پندرہ ماہ تک مارے خوف جان بلب رہا اور شہر بہ شہر موت سے ڈرتا پھرا اور اس کے دماغ میں

Page 347

کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اس نے پوشیدہ طور پر حق کی طرف رجوع کیا لہذا اس شرط کے موافق موت سے بچ گیا.گو ہاویہ کامزہ دیکھ لیا.اس لئے میں نے عیسائیوں پر حجت ثابت کرنے کے لئے پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور اسی بارے میں ایک رسالہ انوارالاسلام چھاپا.اس پر آپ ہی کا روپیہ آمدہ خرچ ہوا.یہ اشتہار اور رسائل عنقریب آپ کی خدمت میں مرسل ہوں گے.ان کاخلاصہ مضمون یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی پیشگوئی کو پورا کیا اور عیسائیوں کے بحث کرنے والے گروہ کو طرح طرح کے عذاب اور دکھوں میں مبتلا کیا اور عبداللہ آتھم نے پوشیدہ طور پر حقانیت اسلام کو قبول کر لیا اور اگر عبداللہ آتھم انکار کریں کہ میں نے قبول نہیں کیا تو وہ ہم سے بلاتوقف ہزار روپیہ لے اور قسم کھا جائے اور اگر وہ قسم کھا کر ایک سال تک بچ گیا تو روپیہ اس کاہوا اور نیز ہم اقرار کردیں گے کہ ہمارا الہام غلط ہے.اس غرض سے یہ پانچ ہزار اشتہار چھپوایا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھ پر اچھی طرح کھول دیا ہے کہ اس کی رہائی محض اسلام کی طرف جھکنے سے ہوئی ہے لیکن اگر وہ ہزار روپیہ طلب کرے تو پہلے سے اس کافکر ہو رہنا ضروری ہے.سو اگرچہ میں آپ کی متواتر خدمات کی وجہ سے کوئی تکلیف آپ کو دینا نہیں چاہتا مگر پھر خیال آتا ہے کہ ایسے کاموں میں اگر دوستوں کو نہ کہا جائے تو اور کس کو کہا جائے.میں خواہش رکھتا ہوں کہ چند دوست مل کر یہ ہزار روپیہ مجھ کو بطور قرضہ کے دے دیں.مگر ابھی میرے پاس بھیجا نہ جائے.اگر اس عیسائی نے مقابلہ کے لئے دم مارا اور روپیہ طلب کیا تو اس وقت بذریعہ تار بھیج دیں.یہ روپیہ محض میرے ذمہ ہو گا.اور خدا کے متواتر الہامات سے آفتاب کی طرح میرے پر روشن ہے کہ ہم فتح پائیں گے.لیکن ایک معاملہ کی بات کو طے کرنے کے لئے لکھتا ہوں کہ اگر محال کے طور پر جو بالکل محال ہے کافر بے دین فتح یاب ہوا تو یہ قرضہ بلا تامّل ادا کر دوں گا.ورنہ وہ ہزار روپیہ جو بطور امانت اس کے پاس ہو گا، واپس کر دیا جائے گا.مجھ کو اس کاکمال تردّد ہے خدا تعالیٰ بہم پہنچا وے اور امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہر طرح پر بہم پہنچا وے گا.وہ قادر مطلق ہے مگر اس وقت بھیجا جائے کہ جب میں طلب کروں اور لکھوں کہ اب بھیجا جائے ابھی اشتہار چھپ رہے ہیں.بلکہ جس وقت اشتہار رجسٹری کرا کر اس کے پاس پہنچایاجائے گا اور وہ روپیہ مانگے گا اس وقت درکار ہے.اوّل تو مجھے امید نہیں کہ وہ طلب کرے

Page 348

کیونکہ وہ جھوٹا ہے اوردرحقیقت جیسا کہ الہام کامنشاء ہے اس نے اسلام کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر طلب کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ذلیل ہوکر مرے گا اور ہزار روپیہ ضامنوں کے پاس باضابطہ تمسک لے کر رکھوایا جائے گا.امید کہ جواب سے مطلع فرماویں گے.باقی خیریت ہے.والسلام اور واضح کہ عبداللہ آتھم کے باقی گروہ کو جو فریق مباحثہ تھے ہر ایک طرح کا عذاب پہنچ گیا بلکہ موتیں بھی وارد ہوئیں جس کی نقل اشتہار میں درج ہے.فقط ۸؍ ستمبر ۱۸۹۴ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۳ مشفق مکرمی ہمارے بہادر پہلوان حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.تار پہنچا.حال یہ ہے کہ دروغ گو حق پوش عیسائی نے قسم کھانے سے انکار کیا.اس وقت دوسرا اشتہار لکھا جا رہا ہے جس میں بجائے ایک ہزار دو ہزار روپیہ انعام رکھ دیا گیا ہے.امید نہیں اور ہر گز امید نہیں کہ اب بھی کھا وے لیکن یہ تمام ثواب آپ کے حصہ میں ہے.آپ اب بجائے ایک ہزار کے دو ہزار کی تیاری رکھیں.میں چاہتا ہو ں کہ پانچ ہزار تک یکے بعد دیگرے اشتہار دئیے جائیں اور میں چاہتا ہوں کہ یہ پانچ ہزار روپیہ کا ثواب آپ کو ملے.ہر گز امید نہیں کہ یہ پلید گروہ عیسائیوں کا مقابلہ پر آوے کیونکہ جھوٹے ہیں مگر خدا جانے اس تقریب سے کیا کیا ثواب آپ کو ملیں گے.ایسی صورت ہو کہ جب ہم آپ سے بذریعہ تار دو ہزار روپیہ طلب کریں تو بلاتوقف پہنچ جائے اور اگر دوہزار پر بھی یہ پلید گروہ خاموش رہے تو میں تین ہزار روپیہ کا اشتہار دوں گا تو بروقت طلب تین ہزار روپیہ پہنچنا چاہئے مگر ہمیں ہر گز امید نہیں کہ وہ نصرانی قسم کھاوے کیونکہ جھوٹا ہے.ان کی

Page 349

روسیاہی اور ان لوگوں کی روسیا ہی مطلوب ہے جو مسلمان کہلا کر ان کے رفیق بن بیٹھے ہیں.شاید ایک ہفتہ تک دوہزار روپیہ کا اشتہار آپ کے پاس پہنچے گا اور غالباً یہ اشتہار دس ہزار تک چھپے گا.والسلام خاکسار غلام احمد (اس خط پہ تاریخ نہیں مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے ستمبر ۱۸۹۴ء کا ہے.ایڈیٹر) ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۴ مکرمی مخلص و محب یک رنگ حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.آنمکرم کے ایک سو روپیہ مرسلہ بذریعہ تارکل کی ڈاک میں مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ ان خدمات کا بدلہ جو آپ للّٰہ کر رہے ہیں، دین ودنیا میں آپ کو عطافرماوے اورہر ایک قسم کی بلا اور آفت سے محفوظ رکھے.آمین ثم آمین.آپ کا روپیہ جس قدر دینی کاموں اور اغراض میں ہمیں کام آرہا ہے.اس سے اطمینان دل کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ جلشانہٗ نے ثواب کبریٰ پہنچانے کا آپ کے لئے ارادہ فرمایا ہے.دنیا کی حقیقت خدا تعالیٰ کے نزدیک اس قدر ہیچ ہے کہ پَرپشہ کے برابر بھی نہیں اس لئے فاسق، فاجر اور بڑے بڑے کافر بھی اس میں شریک ہیں بلکہ دنیا میں زیادہ عروج انہیں کا نظر آتا ہے.پس نیک بخت مسلمان کے لئے جو سچا مسلمان ہے فکر آخرت مقدم ہے.دنیا میں ہم درختوں کے پتے کھا کر بھی گزارہ کر سکتے ہیں، فاقوں سے بھی بسر کرسکتے ہیں.لیکن آخرت کی ذلّت اور آخری محتاجگی ایک ابدی موت ہے.سومیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلّشانہٗ دنیا کی آفات سے محفوظ رکھ کر عاقبت کے مراتب نصیب کرے اور اپنی محبت عطا فرماوے.آمین.مجھے آپ سے دلی محبت ہے

Page 350

اورآپ کے لئے غائبانہ دعا کرتا رہتا ہوں اور آپ کے بھائی صالح محمد اور علی محمد اور یونس کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلّشانہٗ دنیا کی بلائوں سے بچاوے اور دین کی لغزشوں سے محفوظ رکھے.آپ کا پہلا روپیہ بھی پہنچ گیا.والسلام ۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد ٭ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۵ محب یک رنگ مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب اللہ رکھا.سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں بذریعہ تار مبلغ پانچ سَو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گیا.خدا تعالیٰ آپ کو ان لِلّہی خدمات کا دونوں جہان میں وہ اجر بخشے جواپنے مخلص اور وفادار بندوں کا بخشتا ہے.آمین ثم آمین.یہ بات فی الواقعہ سچ ہے کہ مجھ کو آپ کے روپیہ سے اس قدر دینی کام میں مدد پہنچ رہی ہے کہ اس کی نظیر میرے پاس بہت ہی کم ہے.میں اللہ تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ان خدمات کا وہ بہ رحمت پاداش بخشے کہ تمام حاجات دارین پر محیط ہو اور اپنی محبت میں ترقیات عطا فرماوے.محض اللہ تعالیٰ کے لئے اس پُر آشوب زمانہ میں جو دل سخت ہو رہے ہیں آگے سے، آگے بڑھانا کچھ تھوڑی بات نہیں ہے.انشاء اللہ القدیر.آپ ایک بڑے ثواب کا حصہ پانے والے ہیں کچھ تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مجھ کو خواب آیا تھا کہ ایک جگہ میں بیٹھا ہوں یک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ غیب سے کسی قدر روپیہ میرے سامنے موجود ہو گیا ہے.میں حیران ہوا کہ کہاں سے آیا.آخر میری یہ رائے ٹھہر ی کہ خدا تعالیٰ کے فرشتہ نے ہماری حاجات کے لئے یہاں رکھ دیا ہے.پھر ساتھ الہام ہوا کہ اِنِّیْ مُرْسِلٌ اِلَیْکُمْ ھَدِیَّۃً.۱؎ کہ میں تمہاری طرف ہدیہ بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی میرے دل میں پڑا کہ اس کی یہی تعبیر ہے کہ ہمارے مخلص دوست حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب اس فرشتہ کے رنگ میں

Page 351

متمثّلکئے گئے ہوں گے اور غالباً وہ روپیہ بھیجیں گے.اور میں نے اس خواب کو عربی زبان میں اپنی کتاب میں لکھ لیا.چنانچہ کل اس کی تصدیق ہو گئی.الحمدللہ ! یہ قبولیت کی نشانی ہے کہ مولیٰ کریم نے خواب اور الہام سے تصدیق فرمائی.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور فضل سے مکروہات سے بچاوے اور آپ کے ساتھ ہو.میں عنقریب ایک کتاب منن الرحمٰن نام شائع کرنے والا ہوں.شاید کل اس کے کاغذ کے لئے لاہور میں آدمی بھیج دوں.اس میں یہ بیان ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر کیا کیا فضل کئے اور قرآن کریم کی بعض آیتوں کی تفصیل ہو گی.غالباً عربی زبان میں معہ ترجمہ ہو گی.باقی خیریت ہے.والسلام.از طرف محبی اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب السلام علیکم معلوم کریں.خاکسار ۱۷؍ مارچ ۱۸۹۵ء مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۶ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ نقد مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا خدا تعالیٰ متواتر خدمات کے عوض میں آپ کو متواتر اپنے فضل اور جزا سے خوش کرے آمین ثم آمین.کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے، ابھی میں نہیں کہہ سکتا کہ کب ختم ہو.شاید اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دو ہفتہ تک ختم ہو جائے.یہ آپ کے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ مشکلات میں آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے اس ملک میں سخت قحط ہو گیا ہے.اور اب تک بارش نہیں ہوئی اور اب کی دفعہ ابتلا کا سخت اندیشہ ہے کیونکہ ہمارے سلسلہ کے اخراجات کا یہ حال ہے کہ علاوہ اورخرچوں کے دوسو روپیہ ماہوار کا آٹا ہی آتا ہے.اب میں خیال کرتا ہوں اور پانچ سو روپیہ کا آئے گا اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک چلے گااور دوسرے اخراجات بھی مہمان داری کے ہوتے ہیں وہ بھی اس کے قریب قریب ہیں.چنانچہ ایندھن یعنی جلانے کی لکڑی وغیرہ غلہ کی طرح کمیاب ہو گئی ہیں اور ایسی کمیاب ہے کہ شاید اب کی دفعہ ڈیڑھ سو یا دو سو روپیہ ماہوار اسی کا خرچ ہو.میں ڈرتا ہوں کہ وہی وقت نہ آ گیا ہو جو کہ احادیث میں پایا

Page 352

جاتا ہے کہ ایک دفعہ مسیح موعود اور اس کی جماعت پر قحط کا سخت اثر ہوگا سو حیرت ہے کہ کیا کیا جائے.اگر دعا کے لئے وقت ملے تو دعا کروں ابھی تک ہماری جماعت میں سے اہل استطاعت میں سے ایک آپ ہیں جو حتی الوسع اپنی خدمات میں تعہد رکھتے ہیں اور دوسرے لوگ یا تو نادار ہیںیا سچا ایمان ان کے دلوںمیں داخل نہیں ہوا لیکن ہمارے مرنے کے بعد بہت سے لوگ پیدا ہو جائیں گے کہ کہیں گے کہ اگر وہ وقت پاتے تو تمام مال اور جان سے قربان ہو جاتے مگر وہ بھی اس بیان میں جھوٹے ہوں گے.کیونکہ اگر وہ بھی اس زمانے کو پاتے تو وہ بھی ایسے ہی ہو جاتے.اللہ تعالیٰ ان میں سچا ایمان بخشے.خدا کے مامور جو آسمان سے آتے ہیں وہ اپنی جماعت کے ساتھ خرید اور فروخت کا سا معاملہ رکھتے ہیں.لوگوں سے ان کا چند روزہ مال لیتے ہیں اور جاو دانی مال کا ان کو وارث بناتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ مشکلات کے وقت میں ایک اشتہار شائع کروں تا ہر ایک صادق کو ثواب کاموقع ملے اور اس میں کھلے کھلے طور پر آپ کا ذکر بھی کر دوں کیونکہ اب سخت ضرورت کا سامنا ہے اور ہمارے سیّد و مولیٰ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ضرورتوں کے وقت جب ایسا کرتے تھے تو صحابہ دل وجان سے اس راہ میں قربان تھے، جو کچھ گھروں میں ہوتا تھا تمام آگے رکھ دیتے تھے.غرض اسی طرح کااشتہار ہو گا.والسلام ٭ ۲۶؍ ستمبر ۱۸۹۵ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 353

مکتوب نمبر۷ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل بذریعہ تار مبلغ یک صدروپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گئے.جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء و احسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.یہ ایک الطاف رحمانیہ ہے اور قبولیت خدمت کی نشانی ہے کہ آپ کی خدمات مالی سے اکثر پیش از وقت مجھ کو خبر دی جاتی ہے.اس لئے ایسا ہی اتفاق ہوا اور دوسروں کے لئے بہت ہی کم ایسا معاملہ وقوع میں آیا ہے.واللہ اعلم.یہ عاجز ان دنوں بیمار رہا ہے اور اب بھی اکثر درد سر دورانِ سر کی بیماری لاحق ہے مگر الحمد للہ کہ ہزاروں خطرناک بیماریوں سے امن ہے.میری متواتر علالت طبع کے باعث سے رسائل اربعہ کے طبع میں توقف ہوا اب میں خیال کرتا ہوں کہ شاید یہ کام آخر نومبر ۱۸۹۶ء تک کامل ہو جائے.آئندہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے بخدمت محبی اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب بعد سلام علیکم.میری دانست میں سفر جاپان مناسب نہیں.والسلام ۶؍ جون ۱۸۹۶ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 354

مکتوب نمبر ۸ مخدومی مخلصی محبی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.تین روز ہوئے کہ آپ کا لِلّہی عطیہ یعنی مبلغ سَو روپیہ بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.جس قدر آپ اس محبت کے جوش سے جوبندگان خدا کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہوتے ہیں، خدمت مالی کر رہے ہیں اس کے عوض میں ہماری یہی دعا ہے کہ خد اکریم ور حیم آپ کو دنیا و آخرت میں لازوالی رحمتوں سے مالا مال کرے اور ہر ایک امتحان اور ابتلا سے بچاوے.آمین ثم آمین.اس وقت انہیں رسائل کی تالیف میں مشغول ہوں.جن کاآنمکرم سے تذکرہ ہوا تھا.چونکہ بعض امور میں یہودیوں کی شہادتیں درکار تھیں اس لئے میرے وقت کا بہت حرج ہوا.اب صرف اُن امور مُستفسرہ سے ایک امر باقی ہے جس کی نسبت محبی منشی زین الدین محمد ابراہیم نے وعدہ کیا ہے کہ جلد میں اس کا جواب بھیج دوں گا اس کے بعد میری کارروائی جلد جلد انشاء اللہ خاتمہ کو پہنچے گی.خدا تعالیٰ ان پادریوں کے گروہ کوتباہ کرے.انہوں نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے آمین.امید کہ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں.والسلام ۱۹؍ اگست ۱۸۹۶ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 355

مکتوب نمبر۹ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سَو روپیہ آنمکرم مجھ کو ملا اور حال خیروعافیت معلوم ہوا.خدا تعالیٰ آپ کو ان مخلصانہ خدمات کا ثواب دارَین میں بخشے اور نیز آپ کے اموال میں برکت عطا کرے.٭…٭…٭ مکتوب نمبر۱۰ مخدومی مکرمی حبی فی اللہ حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آن محب مجھ کو پہنچا.اس کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ اس روپیہ کے پہنچنے سے تخمیناً سات گھنٹہ پہلے مجھ کو خدائے عزوجل نے اس کی اطلاع دی.سو آپ کی اس خدمت کے لئے یہ اجر کافی ہے کہ خدا تعالیٰ آپ سے راضی ہے.ا س کی رضا کے بعد اگر تمام جہاں ریزہ ریزہ ہو جائے تو کچھ پرواہ نہیں.یہ کشف اور الہام آپ ہی کے بارہ میں مجھ کو دو دفعہ ہوا ہے.فالحمدللہ الحمدللہ.اس وقت میں تین رسالے اتمام حجت کے لئے تالیف کر رہا ہوں اور جو دوسرے رسالہ عیسائی مذہب پر لکھ رہا ہوں.ان میں یہ ایک توقف ہے کہ چند یہودیوں اور ……کی کتابیں میرے پاس انگریزی میں پہنچی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ان کا ترجمہ کراکر کچھ ان کے مقاصد جو کار آمد ہوں ان رسائل میں درج کر دوں اور یہ رسالہ جو اب چھپ رہا ہے.غالباً وہ تین ہفتہ تک آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے گا.والسلام ۲؍ اکتوبر ۱۸۹۶ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 356

مکتوب نمبر۱۱ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں بباعث علالت طبع تین روز جواب دینے سے قاصر رہا.آپ کی تشریف آوری کے ارادہ سے نہایت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ خیر اور فضل اور عافیت سے پہنچاوے.امید کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے، اس طرف کا قصد فرماویں.بغیر استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں.ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں.پہلی رکعت میں سورۃ پڑھیں.یعنی الحمدتمام پڑھنے کے بعد ملالیں.جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی ملا لیں اور پھر التحیات میں آخر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الٰہی! میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل اور خیر اور قدرت ہے، اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو عواقب الامور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں.سو یا الٰہی! اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لئے مبارک ہے، میری دنیا کیلئے، میرے دین کیلئے اور میرے انجام امر کیلئے اور اس میں کوئی شر نہیں.تو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا.اور اگر تُو جانتا ہے کہ یہ سفر میرا میری دنیا یا میرے دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ دہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے.اور اس سے مجھ کو پھیر دے آمین.یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے.تین دن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا بار بار کرنے سے اخلاص میسر آوے.آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپرواہ ہیں.حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے.سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگرچہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جاوے.سفروں میں ہزاروں بلائوں کا احتمال ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولّی اور متکفّل ہو جاتا ہے اوراس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک اپنی منزل تک نہ پہنچے.اگرچہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے.لیکن اگر

Page 357

یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کا ہر جگہ حافظ ہو لیکن ہماری طرف سے شرط یہ ہے کہ ایام سابق کی طرح آپ صرف دس پندرہ دن نہ رہیں، چالیس دن سے کسی طرح کم نہ رہیں.ہر ایک جدائی کے بعد معلوم نہیں کہ پھر ملنا ہے یا نہیں.کیونکہ یہ دنیا سخت بے ثبات اور ناپائیدار ہے.شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا اس میں کیا عمدہ سبق ہے.بلبلے زار زار می نالید بر فراق بہار و وقت خزاں گفتمش صبر کن کہ باز آید آن زمان شگوفہ و ریحان گفت ترسم بقا وفا نکند ورنہ ہر سال گل دہد بستان ٭والسلام ۱۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء خاکسار مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۱۲ مخدومی مکرمی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.کل تار کے ذریعہ سے مبلغ سو روپیہ مجھ کو آپ کی طرف سے پہنچ گیا.اللہ جلّشانہ آنمکرم کو ان لِلّٰہی خدمات کا دونوںجہاں میں اجر بخشے اور آپ کو محبت میں اپنی ترقیات عطا فرماوے اور آپ کے ساتھ ہو.میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اپنی کسی کتاب میں محض بھائیوں کی دعا کے لئے آنمکرم کی دینی خدمات کا کچھ حال لکھوں.کیونکہ اس میں دوسروں کو نمونہ ہاتھ آتا ہے اور محبانِ اسلام غائبانہ دعا سے یاد کرتے ہیں اور آئندہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور نیز چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ چند اور دوستوں کا بھی ذکر کروں.کیونکہ اللہ جلّشانہ قرآن شریف میں ترغیب دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جیسا کہ تم بعض اپنے نیک اعمال کو پوشیدہ کرتے ہو ایسا ہی بعض

Page 358

اوقات ان کو لوگوں پر ظاہر کرو تا لوگ تمہارے نمونہ پر چلیں.کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ نمونہ دیکھ کر اس میں قوت پیدا ہوتی ہے.سو امید رکھتا ہوں کہ اگر آئندہ کسی رسالہ میں جلد یا دیر سے ایسا لکھوں تو آپ اس سے موافقت ظاہر کریں.ہمارے کام محض اللہ جلّشانہ کے لئے ہیں اور کسی کی نسبت وہ حالات اور واقعات جو لکھے جائیں حاشا وکلّا اس کی خوشامد کے لئے ہرگز نہیں اور نہ اس کے خوش کرنے کے لئے، کہ یہ سخت معصیت ہے.بلکہ نمونہ دکھلانے کے لئے صحت نیت سے محض لِلّٰہِ ہو گا وَاِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ اور عنقریب بعض کاغذ دستخط کے لئے آنمکرم کی خدمت میں بھیجے جائیں گے امید کہ آنمکرم بہت کوشش کر کے ان کی تعمیل کر دیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۱۳ محبی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.آج کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا خط ملا.آپ کی بہو کی علالت طبع کا حال معلوم کر کے نہایت تردّد ہو ا.اسی وقت دعا کی گئی.اللہ جلشانہٗ آپ پر رحم فرماوے اور صدمات سے محفوظ رکھے.میں انشاء اللہ القدیر بہت دعا کروں گا.دنیا جائے ابتلا اور جائے امتحان ہے.یہ مرض درحقیقت بہت خطرناک اور نازک ہے اور رِئیہ زیادہ آفت کا تحمل نہیں رکھتا اور گل جاتا ہے اور رِئیہ کی آفت کے ساتھ جو لازمی تپ ہو وہ دق کہلاتی ہے.اللہ جلّشانہٗ اس بلا سے بچاوے اور اس آفت سے محفوظ رکھے.کہتے ہیں کہ مچھلی کاتیل اس کے (لئے) مفید ہوتا ہے اور بکری کے پایہ کی یخنی بھی مفیدہے.بر عایت ظاہر اسباب کسی حاذق ڈاکٹر سے علاج کرانا چاہئے اور یہ عاجز دعا کرتا رہے گا.اللہ جلّشانہٗ شفا بخشے.آمین ثم آمین.

Page 359

مکتوب نمبر۱۴ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.آج کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ آنمکرم مجھ کو ملا.جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.الحمد للّٰہ والمنۃ.آپ میں صحابہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اخلاص اور صدق کا رنگ پایا جاتاہے.خدا تعالیٰ آپ کا نگہبان ہو.اور تمام مکروہات سے آپ کو محفوظ رکھے.آمین.اس ملک میں اگرچہ غربا اور مساکین کثرت سے ہماری جماعت میں داخل ہو رہے ہیں مگر ابھی تک متعصب مولوی اسی اپنے بخل پر قائم ہیں اور ہر ایک طرح سے منہ کھول کر لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکنا چاہتے ہیں.مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ چند روز ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام مجھے ہو ا ہے.انی مع الافواج اٰتیک بغتۃً ۱؎ ترجمہ یعنی میں فوجوں کے ساتھ ناگاہ ترے پاس آنے والا ہوں.یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے اور ظاہر بھی ہے کہ بجز آسمانی نشانوں کے دنیا حق کی طرف جھکتی نظر نہیں آتی.تعصب بہت بڑھ گیا ہے.بخدمت عزیزی سیٹھ صالح محمد صاحب اور محبی مشفقی مرزا خدا بخش صاحب اگر وہاں ہوں.السلام علیکم.والسلام ۳؍جنوری ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 360

مکتوب نمبر ۱۵ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھصاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘.بذریعہ تار مرسلہ آنمکرم بخیرو عافیت پہنچا معلوم ہوا.الحمدللّٰہ علی ذالک امید کہ حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں.اس جگہ بفضلہ ربی خیریت ہے.اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب و مولوی سلطان محمود صاحب و دیگر احباب السلام علیکم.خاکسار ۲؍فروری ۱۸۹۷ء مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۱۶ مخدومی مکرمی اخویم سرا پا محبت و اخلاص حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت ۲۴؍ مارچ ۹۷ء میں مبلغ سوروپیہ بذریعہ تار مرسلہ آن مخدوم مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ آپ کو اس لِلّٰہی ہمدردی اور خدمت کے اپنے پاس سے اپنے لطف و احسان سے جزا بخشے اور اس دارالفتن میں تمام مکروہات سے بچاوے.آمین ثم آمین.امید ہے کہ لیکھرام پشاوری کے متعلق دونوں قسم کے دو ورقہ اور ورقہ اشتہار پہنچ گئے ہوں گے اور دو رسالہ لکھے جا رہے ہیں.جس وقت تیار ہوں گے انشاء اللہ خدمت میں بھیج دئے جائیں گے.تمام احباب کی خدمت میں السلام علیکم.خاکسار ۲۵؍ مارچ ۱۸۹۷ء مرزا غلام احمد

Page 361

مکتوب نمبر ۱۷ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘.کل کی ڈاک میں ایک نہایت عمدہ ریشمی تھان اطلس مرسلہ آنمکرم بذریعہ پارسل ڈاک مجھ کو ملا.خد ا تعالیٰ متواتر اور متوالی خدمات کادونوں جہان میں آپ کو ثواب بخشے اور آپ پر راضی ہو اور اس بے ثبات دنیا کی مکروہات سے امن میں رکھے.آمین ثم آمین.یہ عاجز بفضلہ تعالیٰ بخیروعافیت ہے اور تمام احباب اور اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب بخیرو عافیت ہیں.اس جگہ کے احباب کی خدمت میں السلام علیکم.خاکسار ۲۱؍ رمضان المبارک ۱۳۱۲ھ مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۱۸ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سَو روپیہ مرسلہ آں مکرم مجھ کو پہنچا جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء و احسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.اس جگہ ہندوئوں کے ہر روزہ مقابلہ سے نہایت کم فرصتی رہتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی فضل وکرم سے کوئی نشان دکھانے والا ہے.امید کہ آنمکرم اپنی خیر و عافیت اور تمام عزیزوں کی خیروعافیت سے مطمئن فرماتے رہیں.بخدمت محبی سیٹھ صالح محمد صاحب السلام علیکم.جو آپ نے کپڑے اور کڑے لڑکی کے لئے بھیجے تھے وہ سب پہنچ گئے ہیں.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 362

مکتوب نمبر ۱۹ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘.آنمکرم کاخط پہنچا.میں آپ کے لئے بہت دعا کروں گا.آپ خداوند کریم پر بہت توکّل اور بھروسہ رکھیں آں مکرم آپ سچے دل سے ہمارے اس سلسلہ کے خادم ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا.ہم نے دینی مصلحت اور شکر الٰہی کے طورپر ایک کتاب تحفہ قیصریہ نام بطور ہدیہ قیصرہ ہندکی خدمت میں بھیجنے کے لئے تجویز کی تھی.آج ایک خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس ارادہ میں کامیاب نہ ہو.ایک الہام میں ہماری جماعت کے ایک ابتلا کی طرف بھی اشارہ ہے مگر انجام سب خیروعافیت ہے.خدا تعالیٰ نہایت توجہ سے اس سلسلہ کی مدد کرنا چاہتا ہے یہ الہام کہ انی مع الافواج اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ۱؎ صاف دلالت کر رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی اور نشان ظہور میں آنے والا ہے.باقی خیریت ہے.بخدمت محبی سیٹھ صالح محمد صاحب السلام علیکم.اور اگر محبی مرزاخدا بخش صاحب ہوں تو ان کی خدمت میں بھی السلام علیکم.خاکسار ۹؍ جون ۱۸۹۷ء مرزا غلام احمد

Page 363

مکتوب نمبر ۲۰ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘.مجھے بذریعہ اس خبر کے پہنچنے سے کہ آں مکرم کے گھر کے لوگوں نے یکدفعہ انتقال کیا، اس قدر حزن و غم ہوا کہ تحریر سے باہر ہے.اللہ جلّشانہٗ آپ کو صبر بخشے.علاوہ مفارقت کے خانہ داری امور کی ابتری ایک مصیبت ہے مگر چونکہ اللہ جلّشانہٗ کا یہ فعل ہے اس لئے استقلال کے ساتھ صبر کرنا چاہئے اور شریعت اسلام میں اور احادیث رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی تاکید پائی جاتی ہے کہ دوسری شادی کریں.میرے نزدیک یہ بہت مناسب ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے.میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور میں چند روز سے بعارضہ درد پہلو اور تپ اور کھانسی بیمار ہوں اور آپ کی نہایت محبت اس خط کے لکھنے کا موجب ہوئی ورنہ میں اپنے ہاتھ سے بباعث ضعف کے خط نہیں لکھ سکتا.اسی وقت مبلغ یک صد روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچا جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.زیادہ خیریت ہے.والسلام یکم جولائی ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 364

مکتوب نمبر ۲۱ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.کل محبت نامہ آنمکرم مجھ کو ملا.یہ عاجز کئی دن تک درد گردہ اور کھانسی شدیدمیں مبتلا رہا.اب بفضلہ تعالیٰ تخفیف ہے.انشاء اللہ آرام کُلّی ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے.آپ کے قادیان آنے کے ارادہ سے بہت خوشی ہوئی.اللہ جلشانہٗ آپ کے درخت کارخانہ مقصد کو کامیابی کے ساتھ پورا کرے پھر آپ ستمبر ۱۸۹۷ء کے آخری ہفتہ میں اس طرف کا قصد کریں.کیونکہ اوائل ستمبر میں گرمی بہت ہوتی ہے اور یہ مہینہ عمدہ حالت پر نہیں ہوتا.اسی مہینہ میں اس ملک میں موسمی اور وبائی بیماریاں ہوتی ہیں مگر اس کے ختم ہونے پر سردی شروع ہو جاتی ہے اور اکتوبر کا مہینہ گویا سردی کاپیغام رسان ہوتا ہے.اس لئے اس ملک کی طرف جو سفر کیا جائے وہ ستمبر کے آخر یا اکتوبر کی پہلی تاریخ بہت مناسب ہے تا گھبراہٹ اور گرمی کے دن نکل جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ اور آپ کے صدق اور اخلاص اور محبت کا آپ کو اجر بخشے.باقی خیریت ہے.بخدمت جمیع اعزّہ جو حاضر الوقت ہوں.السلام علیکم.خاکسار مورخہ ۷؍ جولائی ۹۷ ۱۸ء مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 365

مکتوب نمبر ۲۲ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا.سبحان اللہ! کس قدر لِلّٰہی ہمدردی آپ کے دل وجان میں ڈال دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ایسی تمام خدمات کا جن کو وہ دیکھ رہا ہے وہ اجر بخشے جو اس کی رحمت اور کراُمت کے مناسب ہے.آمین.بباعث رمضان ابھی کوئی کتاب چھپی نہیں.انشاء اللہ بعد رمضان کام طبع بعض رسائل شروع ہو گا.اس وقت میں جوقریب غروب ہے طبیعت نہایت کمزور ہو جاتی ہے، زیادہ نہیں لکھ سکتا.تمام احباب کی خدمت میں السلام علیکم.خاکسار ۲۶؍ جولائی ۱۸۹۷ء مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭٭٭ مکتوب نمبر۲۳ محبی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ یک صد مرسلہ آنمکرم مجھ کو عین ضرورت کے وقت میں ملا.اللہ اللہ حصہ ثواب آخرت آپ کے لئے بہت بڑا مقدر ہے.کبھی کسی نے کسی منجانب اللہ کی اس اخلاص سے خدمت نہیں کی جس کو خدا تعالیٰ نے ضائع کیا ہو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور رحمت اور اس کے لطف و احسان کا ایک مقدمہ ہے کہ دلی صدق اور صفا اور اخلاص سے آپ خدمت میں مشغول ہیں. ۱؎ بخدمت جمیع احباب السلام علیکم.چونکہ اس جگہ وہ مسجدجس

Page 366

میں پانچ وقت نماز پڑھی جاتی ہے، بہت تنگ ہے اور کثرت نمازیوں کی ہوتی ہے اس لئے نہایت ضرورت کی وجہ کے باعث یہ تجویز کی گئی ہے کہ اپنے احباب کے چندہ سے یہ مسجد توسیع کی جائے.شاید اشتہارآج چھپ گئے ہوں گے.آن مکرم کی خدمت میں بھی پہنچیں گے.مدراس میں جس قدر دوست اور مخلص ہوں اگر وہ اس مسجد کی توسیع کے لئے کچھ مدد فرمائیں تو بہت ثواب ہو گا.یہ ایک خاص فضیلت کی مسجد ہے جس کا براہین احمدیہ میں ذکر ہے.تو کلاًعلی اللہ پرسوں تک عمارت شروع کرا دی جاوے گی بالفعل قرضہ کے طور پر اینٹوں وغیرہ کا بندوبست کیا گیا ہے.پھر جیسا جیسا چندہ آوے گا قرضہ والوں کو دیا جاوے گا.والسلام ۳۱؍ جولائی ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۲۴ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ عاجز اب تک آنکھوں کے آشوب سے بیمار رہا اس لئے واقعہ وفات فرزند مرحوم اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب پر عزا پُرسی نہ کر سکا اور نہ آپ کی طرف کوئی خط لکھ سکا.اب کچھ کچھ آرام ہے.مگر ابھی تک آنکھ کمزور ہے.ہمیں وفات فرزند دلبند سیٹھ صالح محمد صاحب کا سخت رنج ہے.اللہ تعالیٰ ان کو صبر عطا فرماوے چندہ مسجد دو سو روپیہ بہ تفصیل ذیل پہنچا.آپ کی طرف سے پچاس روپیہ، اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب پچیس روپے، اخویم حاجی مہدی بغدادی صاحب پچیس روپے، اخویم دال جی لال جی صاحب پچاس روپے، اخویم اسحاق اسمعیل صاحب سیٹھ پچیس روپے، اخویم سیٹھ عبدالرحیم احمد صاحب پچیس روپے اوردوسری مد میں آپ کی طرف سے سَوروپیہ

Page 367

پہنچا.اللہ تعالیٰ تمام احباب کو ان کی خدمات کا اجر بخشے آمین ثم آمین.امید کہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے اور قبل روانگی مجھے اطلاع بخشیں کہ فلاں تاریخ تک اس طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک غم سے نجات بخشے اور کامیابی عطا فرماوے اور بلائوں سے محفوظ رکھے بفضلہ وکرمہٖ.آمین ثم آمین.خاکسار ۹؍ اکتوبر ۱۸۹۷ء مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۲۵ محبی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ بذریعہ تار مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور مکروہات دنیا و آخرت سے بچاوے اور اپنی محبت سے بہرہ و افرہ بخشے آمین ثم آمین.اس جگہ چند کتابیں بڑی سرگرمی سے چھپ رہی ہیں.امید کہ دو تین ہفتہ تک بعض کتابیں چھپ جائیں گی.تب آنمکرم کی خدمت میں بھی مرسل ہوں گی.باقی بفضلہ تعالیٰ ہر طرح خیریت ہے تمام احباب اور دوستوں کو السلام علیکم.خاکسار ۲۱؍ اکتوبر ۱۸۹۷ء مرز اغلام احمد از قادیان

Page 368

مکتوب نمبر ۲۶ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں آپ کا عنایت نامہ ملا.نہایت تشویش ہوئی.اللہ تعالیٰ رحم کرے.کل میں ایک مقدمہ کی گواہی پر جو کسی شریر نے ناحق لکھا دی ہے اور سمن جاری کرا دیا ہے، ملتان جائوں گا شاید کہ ۳۰؍ اکتوبر ۹۷ء تک واپس آئوں.میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ چالیس روز تک قبلہ وحید سے آپ کے لئے دعا کروں.ابھی سے میں نے شروع کر دی ہے.انشاء اللہ سفر سے واپس آکر برابر چالیس روز تک دعا کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حالت پر رحم فرماوے.آپ حمایت سلسلہ میں ایسے سرگرم ہیں کہ دل وجان سے آپ کے لئے دعا نکلتی ہے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے آپ تسلی رکھیں کہ بہت ہی توجہ سے آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے.والسلام ۲۸؍ اکتوبر ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 369

مکتوب نمبر ۲۷ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کاعنایت نامہ پہنچا.میں نہایت توجہ سے آپ کے لئے مصروفِ دعا ہوں اور ہمارا خداوندکریم بے حد و شمار غفور رحیم ہے.اس پر اور اس کے فضل پر پورا بھروسہ رکھنا چاہئے.میں اس دعا کو چھوڑنا نہیں چاہتا جب تک اس کے آثار ظاہر ہوں.اس کے کاموں سے کیوں ڈرنا چاہئے جو معدوم کر کے پھر موجود کر سکتا ہے.آپ تمام شجاعت اوربہادری سے اور اولو االعزمی سے خدا تعالیٰ کے فضل کے امیدوار رہیں.جو لوگ صبر سے اس کے فضل کے منتظر رہتے ہیں وہی لوگ اس دنیا میں اوّل درجہ کے خوش قسمت ہیں.آپ کی ملاقات کیلئے بہت اشتیاق ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ بے صبری اور گھبراہٹ سے آپ آویں اور مجھ کو ہر وقت اپنے حال پر متوجہ سمجھیں.خدا تعالیٰ آپ کے خوشی کے ایام جلد لاوے.آمین ثم آمین.والسلام ۹؍ نومبر ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۲۸ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز دعا میں بد ستور مشغول اور انشاء اللہ القدیر اسی طرح مشغول رہے گا.جب تک آثار خیرو برکت ظاہر نہ ہوں.دیر آید درست آید.میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت اکیس مرتبہ کم سے کم استغفار اور سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کرلیا کریں اور اب سے مجھے یہ بھی خیال آیا ہے کہ آپ اگر اس تردّد کے وقت میں قادیان تشریف لاویں تو غالباً دعا کی قبولیت کے لئے یہ تکلیف کشی اور بھی زیادہ موثر ہو گی سو اگر موانع اور حارج پیش نہ

Page 370

ہوں تو بعد استخارہ مسنون ان دنوں میں جو سفر کے بہت مناسب حال ہیں، تشریف لاویں.لیکن اگر راہ میں بوجہ بیماری طاعون کے تکلیف قرنطینہ در پیش ہو اور کچھ تکلیف دہ روکیں ہوں جس کی مجھے اطلاع نہیں ہے تو اس امر کو خوب دریافت کر لیں.غرض تشریف لانے کے یہی دن ہیں.شاید آپ کا یہ کام ہی جناب الٰہی میں قابل رحم تصور ہو مگر میں بار بار آپ کو وصیتاً بھی کہتا ہوں کہ یہ تکالیف خدا تعالیٰ کے نزدیک کچھ چیز نہیں ہیں، صرف ثواب اور اجر دینے کیلئے خدا تعالیٰ امتحان میں ڈالتا ہے اس لئے آپ بہت استقلال اور مردانہ شجاعت اور بہادری سے بڑ ے قوی صبر سے ساتھ روز کشایش کے منتظر رہیں کہ جب وہ وقت آئے گاتو ایک دم میں فضل الٰہی شامل حال ہو جائے گا.آپ کیلئے اس خلوص اور توجہ کے ساتھ دعا کر رہا ہوں کہ جس سے بڑھ کر متصوّر نہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۳؍ نومبر ۱۸۹۷ء خاکسار مرز اغلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۲۹ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آج کئی دن کے بعد آنمکرم کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.میں اوّل بمقام ملتان ایک گواہی کے لئے گیا تھا.پھر وہاں سے آکر دومرتبہ سخت بیمار ہوگیا.ایک دفعہ شدت بیماری سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آخری د م ہے.ان حالات میں بھی میں آپ کے لئے دعا کرتا رہا.اب میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے جیسا کہ میں نے وعدہ کیا ہے آپ کے لئے بہت دعا کروں جب تک اس دعا کا وقت پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ قبولیت سے بشارت بخشے.سو آپ مطمئن رہیں وہ خدا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ نہایت کریم اور رحیم ہے اور آخر اپنے ضعیف بندوں پر رحم فرماتا ہے.ابتلائوں کا آنا ضروری ہے مومن کو چاہئے کہ ایک بہادر کی طرح ان کو قبول کرے.خدا تعالیٰ مومن کو تباہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ ابتلائوں کو اس لئے نازل کرتاہے کہ اس کے گناہ بخشے اور اس کامرتبہ زیادہ کرے.میں آپ کے لئے بہت جدوجہد سے دعا کروں گا اور خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری دعا کو

Page 371

ضائع نہ کرے گا اور یہ خط رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہفتہ عشرہ میں آپ ضرور میری طرف خط مفصل لکھ دیا کریں.والسلام ۱۶؍ نومبر ۱۸۹۷ء خاکسار مرز اغلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۳۰ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج آں مکرم کا دوسرا عنایت نامہ پہنچا.آپ کے اضطراب پر دل نہایت درد مند ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ایسا کرے کہ مجھے جلد تر خوشخبری کا خط پہنچے.میں سرگرمی سے دعا میں مشغول ہوں اور میری وہ مثال ہے کہ جیسے کوئی نہایت احتیاط سے کسی نشانہ پر تیر ماررہا ہے کہ امید ہے کہ جلد یا کچھ دیر سے تیربہدف ہو.میں خیال کرتا ہوں کہ میں آپ سے زیادہ اس غم میں آپ کا شریک ہوں.آپ خدائے کریم و رحیم پر پورا پور ابھروسہ رکھیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ ایک دن خدا تعالیٰ ہماری دعا سن لے گا..۱؎ امید کہ حالات سے جلد جلد مطلع فرماتے رہیں اور میری نصیحت یہی ہے کہ آپ نہ گھبرائیں اور نہ مضطر ہوں اور رحیم وکریم پر پورا یقین رکھیں کہ اس کی ذات عجیب در عجیب قدرتیں رکھتی ہے جن کو صبر کرنے والے آخرکار دیکھ لیتے ہیں اور بے صبر شامت بے صبری سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ ان کا ایمان بھی معرضِ خطر میں ہی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو آمین ثم آمین.میرے نزدیک بہتر خیال ہے کہ ان دنوں میں آپ استغفار اور درود شریف کا التزام بہت رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تر کامیاب کرے.آمین ثم آمین.والسلام ۲۶؍ نومبر ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 372

مکتوب نمبر ۳۱ مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز نہایت جوش سے آپ کیلئے دعا کر رہا ہے اور امیدوار ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد یا دیر سے دعا کو قبول فرماوے.خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کہ اسے فضل کرتے دیر نہیں لگتی اور میں برابر توجہ سے دعا کرتا ہوں اور کرو ں گا جب تک آثار ظاہر ہوں.آپ کی ملاقات کو تو دل بہت چاہتا ہے مگر میں مناسب نہیں دیکھتا کہ ایسی صورت میں آپ سفر کریں کہ کوئی حرج ہو یا حرج ہونا ممکن ہو، ہاں اگر بغیر حرج کے ملاقات ہو سکتی ہے تو قصدفرماویں.اللہ تعالیٰ آپ کا نگہبان ہو.اگر سفر کا قصد ہو تو روانگی سے پہلے اطلاع بھی بخشیں.والسلام ۷؍ دسمبر ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 373

مکتوب نمبر ۳۲ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.کل کی تاریخ مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم ڈاک کی معرفت مجھ کو ملا.جزاکم اللّٰہ خیرًا.اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک متردّد سے نجات بخشے.بہو کی بیماری بھی بہت تردّد کی جگہ ہے.اللہ جلّشانہٗ ان کو شفا عطا فرماوے آمین ثم آمین.یہ عاجز قریباً دس روز سے بیمار ہے، نزلہ اور کھانسی اور زکام کا اس قدر غلبہ ہے کہ طبیعت پریشان ہے اور رات کو نیند نہیں آتی گو میں اب بھی آپ کے تردّدات اور بیماری بہو کے لئے دعا کرتا ہوں مگر جس وقت اللہ جلّشانہٗ نے مجھے شفا بخشی تب نہایت توجہ سے دعا کروں گا.اس وقت صحت کی حالت ایسی خراب ہے کہ بعض وقت زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ پر ہر طرح سے بھروسہ ہے.وہ قادر اور کریم اور رحیم ہے.میں نے جو دعا اور طاعون کے بارے میں ایک رسالہ شروع کیا تھا اسی بیماری کی وجہ سے اس میں توقف ہوگیا.کیونکہ نہایت ضعف اور سیلان دماغ کی وجہ سے میں تحریر سے عاجز ہوں.امید کہ حالات خیریت آیات سے مجھے مطلع فرماتے رہیں.میں اس وقت زیادہ طاقت نہیں رکھتا.گلا بھی پکا ہوا اور گلٹیاں سی معلوم ہوتیں ہیں.والسلام ۱۰؍مارچ ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 374

مکتوب نمبر۳۳ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا.آپ کی خدمت میں ایک خط پہلے لکھ چکاہوں امید کہ پہنچ گیا ہو گا.میری طبیعت ابھی علیل ہے کھانسی اور زکام کا بہت زور ہے مگر آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.امید کہ انشاء اللہ القدیر کسی وقت وہ دعا میسر آجائے گی.جس سے پورے طور پر کامیابی حاصل ہو.بوجہ ضعف و علالت ابھی میں بہت توجہ سے قاصر ہوں.میں نے جو اپنی نسبت بعض خوابیں اور الہامات دیکھے ہیں.میں ان سے حیران ہوں.دو مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا مجھے مرض طاعون ہو گئی ہے اور ورم طاعون نمودار ہے.اب آج بھی یہی خواب آئی ہے.اسی کے قریب قریب ایک الہام بھی ہے جو کسی رنج اور بلا پر دلالت کرتا ہے اور ّمعبرین نے طاعون سے مراد کبھی تو طاعون اور کبھی خارش اور حکاّم کی طرف سے کوئی عذاب و تکالیف اور کبھی کوئی اور فتنہ رنج دہ مراد لیا ہے، معلوم نہیں کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہے.اورطاعون اب ہمارے گائوں سے صرف سات کوس کے فاصلہ پر ہے.اللہ تعالیٰ اپنی بلائوں کا محافظ ہو.میں اپنے بدن میں اس قدر ضعف محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر خط بھی مشکل سے لکھا گیا ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۵؍ مارچ ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 375

مکتوب نمبر۳۴ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کی طبیعت ہنوز کسی قدر علیل ہے کھانسی اور زکام کا عارضہ ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے شفا بخشے گا.میں یقین رکھتا ہوں کہ جس وقت مجھے وہ دعا آئی جو اپنی قبولیت ساتھ رکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب غم آپ کے دور کر دے گا.آپ کے خیال میں یہ سب کام مشکل ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے آگے آسان ہیں.آپ اطمینان رکھیں اور ہر گز بے قرار نہ ہوں.میں یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ آپ کو تجربہ کے بعد کہ خدا تعالیٰ ایسا قادر ہے پھر آئندہ ایسی بیقراری کبھی محسوس نہ ہو گی.میں بیمار ہوں اس لئے میں نہیں چاہتا کہ آپ کو یہ موقعہ پیش آوے مگر بہر حال دعا میں مصروف ہوں.٭ والسلام ۲۸؍ مارچ ۱۸۹۸ء خاکسار مرز ا غلام احمد

Page 376

Page 377

مکتوب نمبر ۳۶ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میری طبیعت بفضلہ تعالیٰ بہ نسبت سابق اب بہتر ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.میں اکثر اوقات بلکہ کل نمازوں میں آپ کے رفع ہجوم غموم اور حاجت براری کے لئے دعا کرتا ہوں اور ا مید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آپ کو گردابِ غموم سے بچا دے گا اور میں جانتا ہوں کہ جس قدر گھبراہٹ کو کم کیا گیا ہے وہ بھی دعائوں کااثر ہے.امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع اور مسرورالوقت فرماتے رہیں.باقی سب خیریت ہے.بخدمت اخویم صاحبزادہ احمد عبدالرحمن صاحب اور اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب اوراخویم مولوی سلطان محمود صاحب کو السلام علیکم.راقم خاکسار ۹؍ اپریل ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 378

مکتوب نمبر۳۷ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج کی ڈاک میں یک صد روپیہ مرسلہ آنمکرم ملا.جزاکم اللّٰہُ خیر الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی آمین ثم آمین.عجیب اتفاق ہے عین ضرورتوں کے وقت آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے یہی دلیل اس بات پر ہے کہ اللہ جلشانہ ہر گز آپ کو ضائع نہیں کرے گا.حسن من نصراللّٰہ نصرۃ.میری طبیعت بہ نسبت سابق اب بہت اچھی ہے.غالباً کسی نماز میں بھی آپ دعا سے فراموش نہیں رہتے.آپ کے لئے دلی توجہ سے اور خلو ص سے بہت دعا ہو چکی ہے.مجھے یقین ہے کہ یہ دعائیں ضرور اپنا اثر دکھائیں گی بلکہ جس قدر گھبراہٹ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کوئی صورت تخفیف کی نکالتارہا ہے، درحقیقت یہ دعائوں کا اثر ہے.وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.امید کہ اپنے حالات سے مجھے جلد جلد خبر دیتے رہیں جب تک قبولیتِ دعا کے پورے طور پر آثار ظاہر ہوں.باقی خیریت ہے.والسلام ۱۵؍ اپریل ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۳۸ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.خیرو عافیت اورآثار خدا تعالیٰ کے فضل کا حال سن کر بہت خوشی ہوئی.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.اللہ جلّشانہٗ بہت غفور رحیم ہے.میں بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہوں.اس طرف طاعون کا بہت زور ہے.سنا ہے ایک دو مشتبہ وارداتیں امرتسر میں بھی ہوئی ہیں.چند روز ہوئے ہیں میرے بدن پر بھی ایک گلٹی نکلی تھی.پہلے کچھ خوفناک آثار معلوم ہوئے مگر پھر خدا تعالیٰ کے

Page 379

فضل سے اس کا زور جاتا رہا.یہ ایک جدا ہاتھ میں غدود پھول گئے تھے اور یہ طاعون جوڑوں میں ہوتی ہے.پس گوش یاکنج ران یا زیر بغل یا کوئی جوڑ کی جگہ جیسا کہ ہاتھ کے جوڑ یا پیروں کے.تپ ساتھ ہوتا ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ ہر ایک طرح ہمارے تمام احباب کو اس بلا سے بچاوے.والسلام ۲۵؍ اپریل ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۳۹ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل حالات مژدہ آپ کے خط سے معلوم ہو گئے.اب پھر میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے دعا میں توجہ بڑھا دوں گا اور کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ میری دعا کو آپ کے حق میں قبول فرمائے.آپ جلد جلد مجھے اطلاع بھیجتے رہیں اور بہتر ہے کہ ہر روز مجھے اطلاع دیں.زیادہ کیا لکھوں آپ کے تردّد سے بہت تشویش میں طبیعت ہے خدا تعالیٰ اس تشویش کو دور فرماوے.آمین.والسلام ۳؍ مئی ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 380

مکتوب نمبر ۴۰ مکرمیمخدومی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گیا.جزاکم اللّٰہ خیراً مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے بعض اوقات میں آپ کے لئے دعا کرنے کا بہت عمدہ اتفاق ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.امید کہ حالات موجودہ سے اطلاع بخشیں اور جلد جلد خط بھیجتے رہیں.یہ آپ کے ذمہ ہے زیادہ خیریت ہے.والسلام ۸؍ مئی ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۴۱ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ خیریت شمامہ پہنچا، بدریافت فضل الٰہی اور خیرو عافیت بدر گاہ باری تعالیٰ شکر کیا گیا.میں بمع اپنے دوستوں کے اور اہل وعیال کے خیروعافیت سے ہوں.اس طرف طاعون چمکتی جاتی ہے.اب اسّی کے قریب گائوں جن میں زور و شور ہو رہا ہے.قادیان میں یہ حال ہے کہ لڑکوں اور جوانوں اور بڈھوں کو بھی خفیف ساتپ چڑھتا ہے.دوسرے دن کانوں کے نیچے یا بغل کے نیچے یا بُن ران میں گلٹی نکل آتی ہے.ایک گلٹی مجھے بھی نکلی اور پہلے بھی ایک نکلی تھی اور میرے لڑکے بشیر احمد کو بھی ایک دن تپ چڑھ کر پھر کانوں کے مقابل گال کی طرف گلٹی نکل آئی.مولوی صاحب حکیم نورالدین صاحب کے داماد کو بغل کے نیچے گلٹی نکلی.میر ناصر نواب صاحب کے لڑکے اسحاق کو کنج ران میں تپ کے بعد گلٹی نکل آئی.مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تپ اس قدر خفیف کہ کام والے لوگ اس میں کام کرتے ہیں، نہ بے قراری، نہ سردرد، نہ کوئی گھبراہٹ، بعینہٖ وہی حالت جو صحت کی ہوتی ہے موجود رہتی ہے لڑکے بے تکلف ہنستے پھرتے ہیں اور گلٹی تیسرے چوتھے روز

Page 381

خودبخود تحلیل ہو کر کم ہو جاتی ہے.کسی کو ایک ذرہ خیال نہیں ہوتا کہ کب ہوئی اور کب گئی.بلکہ اس کو مرض ہی نہیں سمجھتے.تمام لوگ خوب راضی اور خوشی اوراپنے کاموں میں مشغول ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اِردگرد سخت خوفناک موتیں ہو رہی ہیں.سُنا ہے کہ کلکتہ میں بھی طاعون پھوٹی ہے.شاید یکم مئی ۹۸ء کو چوبیس وارداتیں ہوئیں.امید کہ آپ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.میں نے عید کے دن طاعون کے بارے میں ایک جلسہ کیا تھا وہ اشتہار چھپ رہا ہے جب چھپ چکے گا ارسال کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ.والسلام ۱۵؍ مئی ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۴۲ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کی تکالیف دور فرماوے.اگر تفکرات ہوں تو مجھے ہر روز خط لکھتے رہیں تا توجہ سرگرمی سے رہے.اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے کریم ہے، بڑی بڑی امیدیں اس کی ذات پرہیں امید قوی ہے کہ وہ فضل کرے گا اور کوئی راہ نکال دے گا.میں یقینا سمجھتا ہوں اور اس پر ایمان رکھتا ہوں جو کچھ سخت ترددات کے وقت میں خدا تعالیٰ غم کو کم کرتا رہا ہے وہ اسی کا فضل ہے اور اسی کی استجابت دعا کا اثر ہے.امید رکھتا ہوں کہ آپ ہر روزہ کارڈ سے مجھ کو اطلاع بخشتے رہیں گے.والسلام.عزیزی سیٹھ احمد عبدالرحمن صاحب کی اہلیہ کے لئے بھی دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہر ایک ابتلا سے بچاوے.آمین.خاکسار ۱۶؍ مئی ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 382

Page 383

مکتوب نمبر ۴۵ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں اس قدر آپ کے لئے دعا میں لگا ہوا ہوں جس کی تفصیل آپ کے پاس کرنا ضروری نہیں خدا وند علیم بہتر جانتا ہے.میں آپ کے تار کامنتظر نہیں.زیادہ مجھے اس بات کا انتظار ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت کی تار پہنچے.یہ حالتیں عسرویسر کی دنیا میں ہوتی رہتی ہیں مگر بڑی بھاری دولت یہ ہے کہ ایسی تقریبوں سے انسان کو خدا تعالیٰ پر زیادہ یقین پیدا ہو جائے جبکہ میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.جس کو میں جانتا ہوں کہ وہ حضرت عزت جلّشانہٗ میں قدر رکھتی ہے تو پھر آپ کو زیادہ تر قلق اورکرب میں نہیں رہنا چاہئے.دنیا کے محجوب لوگ جن کو خدا تعالیٰ سے بلاواسطہ اور بواسطہ کچھ تعلق نہیں ہوتا ہے اگر غموں کے صدمہ سے مر بھی جائیں تو کچھ تعجب نہیں.مگر جس کو یہ تقریب پیش آئے جو آپ کو میسر آئی ہے اس کو غم کرنا اس تقریب کی ناقدر شناسی ہے.دنیا تماشا گاہ ہے کبھی انسان عروج میں گویا افلاک تک پہنچتا ہے اور کبھی خاک میں.مگر جولوگ خد اکی طرف اور خدا کے بندوں کی طرف جھکتے ہیں وہ ضائع نہیں کئے جاتے .۱؎ میں ہر ایک رات پیام بشارت کا منتظر ہوں اور میں خدا وند کریم کو جس قدر فی الواقع رحیم کریم دیکھتا ہوں میرے پاس الفاظ نہیں کہ اُن کو بیان کرسکوں٭ والسلام یکم جولائی ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 384

مکتوب نمبر۴۶ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں یہ خط ا س غرض سے رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں کہ میں آپ کے تردّدات اور تفکّرات اورحالت اضطرا ب سے غافل نہیں ہوں ہر روز رُو بآسمان ہوں کہ کب خدا تعالیٰ کے فضل سے مشکل کشائی ہوتی ہے اورمیر ایقین اورمیرا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت رحیم اور کریم ہے وہ ضرور دعا سنے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ زیادہ فکر کرنے سے اس قدر ثواب کو کم نہ کریں جو اس غم کی حالت میں آپ کو ملے گا.میں عین دعا کے ساتھ اس خط کو روانہ کرتا ہوں اور خدا کے فضل ……… پر نظر ہے.والسلام ۱۵؍ جولائی ۱۸۹۸ء خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان

Page 385

مکتوب نمبر ۴۷ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ نقد مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا.خدا تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیربخشے کہ باوجود اس قدر انواع اقسام تردّدات کے اس ہموم و غموم کے وقت میں آپ لِلّٰہِ خدمت میں سرگرمی سے مصروف ہیں لیکن باوجود اس علم کے کہ یہ کام اخلاص کا جوش آپ سے کراتا ہے پھر بھی خوشی سے ظاہر کرتا ہوں کہ جب تک یہ ہموم دور نہ ہوں اس وقت تک تکلیف نہ فرمائیں.میں ہرگز دعامیں قاصر نہیں ہوں گااور میں دعا کو نہیں چھوڑوں گا جب تک صریح آثار نہ دیکھوں اور میں دعا میں مشغول ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل کا ہروقت، ہر لحظہ منتظر ہوں.والسلام.خاکسار ۱۷؍جولائی ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۴۸ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ پہنچا.عاجز آپ کیلئے نماز میں اور خارج کے دعا میں مشغول ہے.جس ذوالجلال خدا کی جنا ب میں دعا کی جاتی ہے وہ قدرت اور رحمت دونوں صفات اپنی ذات میں رکھتا ہے صرف ایک امر کی دیر ہے.عقل مند کسی کی آزمائش کے بعد پھر اس میں شک نہیں کرسکتا.میں نے بے شمار مرتبہ اس غفوررحیم کی رحمتوں کو آزمایا اور دیکھا ہے.آپ کو وہ الہام یاد ہوگا.قادر ہے وہ بادشاہ ٹوٹا کام بناوے.۱؎ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ نہایت یقین سے آپ اس ذات پاک ربّ جلیل پر یقین رکھیں.مجھے جس قدر اپنی دعاؤں کے قبول ہونے پر وثوق ہے یہ ایک ایسا راز ہے کہ

Page 386

میرے خدا کے سوا کسی کو واقعی اور پورا علم اس کا نہیں ہے.فالحمدللّٰہ.والسلام ۲۶؍جولائی۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمداز قادیان ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۴۹ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ پہنچا.اللہ جلّشانہٗ آپ کی نیّات خیر سے صد ہا حصہ زیادہ آپ سے معاملہ کرے آمین.میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ قبولیت کی بشارت سنوں.مجھے اس قدر خدا تعالیٰ کے لطف اور احسان پر امید ہے کہ ان کا اظہار مشکل ہے اور بغیر کسی فخر کے مجھے یقین ہے کہ میری دعا معمولی نہیں.ہر آن کاریکہ گردد از دعائے محو جانانے نہ شمشیرے کند آن کار و نے بادے نہ بارانے عجب دارد اثر دستے کہ دستِ عاشقی باشد بگرداند جہانے را ز بہر کار گریانے اگر جنبد لب مَردے زبہر آنکہ سرگردان خدا از آسمان پیدا کند ہر نوع سامانے ز کارِ اوفتادہ را ہرکار می آرد خدا زین رہ ہمین باشد دلیلِ آنکہ ہست از خلق پنہانے

Page 387

مگر باید کہ باشد طالبِ او صابر و صادق نہ بیند روز نومیدی وفا دار از دل و جانے خاکسار ٭ ۵؍اگست ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد از قادیان ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۵۰ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم پہنچا جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء.اب دعائیں جناب حضرت عزّت میں آپ کے لئے کما ل کو پہنچ گئیں.ہر گز امید نہیں کہ خدا تعالیٰ ان دعائوں کو ضائع کرے.امیدکہ آپ اپنی رؤیا سے بھی، اگر ہو، تو مطلع کریں.مجھ کو یاد ہے کہ جب میں نے قادیان میں آپ کو کہا تھا تو ایک مبشر رؤیا آپ کو ہوئی تھی اورمیں منتظر بشارت الہام کا ہوں.جس وقت الہامی بشارت ہوئی تو بذریعہ خط یا بذریعہ تار اطلاع دوں گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.خدا تعالیٰ آپ کومعہ عزیزوں کے آفات سے محفوظ رکھے آمین.خاکسار ۲۲؍ اگست ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 388

Page 389

مکتوب نمبر ۵۲ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سَو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا.جزا کم اللّٰہ خیرالجزاء.آپ کا عنایت نامہ بھی مجھ کو ملا.میں اس بات پر یقین کامل رکھتا ہوںکہ جس قدر میں نے آپ کے حق میں دعا کی ہے اور کر رہا ہوں گو بظاہر ابھی کچھ بھی آثار ظاہر نہ ہوں تب بھی پوشیدہ طور پر آپ کے لئے بہتری کی تجویز ہے بلکہ شاید آپ کی بہتری کی غرض سے بعض اور ہم پیشوں کی بہتری بھی ہو جائے اور میں ابھی تک دعا میں سست نہیں ہوا.شاید آپ جس وقت سوتے ہوں اس وقت میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوتا ہوں.آپ کی یہ نہایت خوشی قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو نہایت نیک اور پختہ اعتقاد بخشا ہے.پس یہی ایک چیز ہے جس سے فتح یابی کی امید ہو سکتی ہے کیونکہ جس قدر اعتقاد ہوتا ہے اسی قدر دعا میں تحریک بھی ہوتی ہے.سو یہ ایک پاک دانائی ہے جو ہر ایک کو میسر نہیں آتی جو آپ کے دل میں ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ جلد تر آپ کو اپنے مقاصد میں کامیاب فرماوے آمین.اور ان دنوں میں یہ دعا بھی کرتا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ مدراس کو ہیضہ سے نجات بخشے اور طاعون سے محفوظ رکھے اور دونوں بلائوں کو آپ سے اورآپ کے عزیزوں سے دور رکھے.امید کہ حالات خیریت آیات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں.والسلام ۲؍ ستمبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 390

مکتوب نمبر ۵۳ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے لکھا ہے آپ کے صدق و اخلاص پر قوی نشانی ہے میں نے جو خط لکھا تھا اس کے لکھنے کے لئے یہ تحریک پید اہوئی تھی جو چند ہفتہ ہوئے ہیں مجھے الہام ہوا تھا.غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَہٗ دَفَعَ اِلَیہِ مِنْ مَّالِہٖ دَفْعَۃً.۱؎ اس میں تفہیم یہ ہوئی تھی کہ کوئی شخص کسی مطلب کے حصول پر بہت سا حصہ اپنے مال میں سے بطور نذر بھجوائے گا.میں نے ا س الہام کو اپنی کتاب میں لکھ لیا تھا.بلکہ اپنے گھر کے قریب دیوار پر مسجد کی نہایت خوشخط یہ الہام لکھ کر چسپاں کر دیا.اس الہام میں نہ کسی مدت کا ذکر ہے کہ کب ہوگا اور نہ کسی انسان کا ذکر ہے کہ کس شخص کو ایسے کامیابی ہو گی یاایسی مسرت ظہور میں آئے گی.لیکن چونکہ میر ادل آنمکرم کی کامیابی کی طرف لگا ہوا ہے اس لئے طبیعت نے یہی چاہا کہ کسی وقت اس کے مصداق آپ ہی ہوں اور خدا تعالیٰ ایسا کرے.کیا اللہ جلّشانہٗ کے نزدیک لاکھ دو لاکھ روپیہ کچھ بڑی بات ہے.دعائوں میں اثر ہوتے ہیں مگر صبر سے ان کا ظہور ضرور ہوتا ہے.میرے نزدیک نہایت ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جو ہمیشہ اپنے تئیں دعا کے سلسلہ کے نزدیک رکھتا ہے اگر تمام جہان اس قول کے برخلاف ہو جائے تب بھی وہ سب غلطی پر ہیں.دعا سے بڑے بڑے انقلاب پید اہو جاتے ہیں.دعا زمین سے لے کر آسمان تک اپنا اثر رکھتی ہے.عجیب کرشمے دکھاتی ہے.ہاں پورے طور پر اس زندہ دعا کا ظہور میں آجانا اور ہو جانا، یہی خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.میں آپ کے شدت اخلاص کی وجہ سے اس میں لگا ہوا ہوں کہ اعلیٰ درجہ کی زندہ دعا آپ کے حق میں ہو جاوے.اور جس طرح شکاری ایک جگہ سے دام اٹھاتا ہے اور دوسری جگہ بچھاتا ہے تا کسی طرح شکار مارنے میں کامیاب ہو جائے.اس طرح میں ہر طرح سے دعا میں روحانی حیلوں کو استعمال میں لاتا ہوں.اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ القدیر والموفق، میں اسبات کو اسی قادر کے فضل وکرم اور توفیق سے دکھلائوں گا کہ زندہ دعا اس کو کہتے ہیں.ہمارا خدا بڑی قدرتوں

Page 391

Page 392

مکتوب نمبر۵۵ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.پہلے خط کے روانہ کرنے کے بعد آج مبلغ سو روپیہ مرسلہ آنمکرم بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا.میں آپ کے اس صدق و اخلاص سے نہایت امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا.مجھے آپ کے روپیہ سے اپنے کاروبار میں اس قدر مدد ملتی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء یہی عملی حالت ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر بہت ہی امید دلاتی ہے.چونکہ مجھے اپنے سلسلہ طبع تک میں ایسی حاجتیں پیش آتی رہتی ہیں اور مجھے اس سے زیادہ دنیا میں کوئی غم نہیںکہ جو میں بوجہ نہ میسر آنے مالی سر مایہ کے طبع کتب دینیہ سے مجبور رہ جائوں.اس لئے میں ایک یہی حکمت عملی آپ کے متعلق دیکھتا ہوں کہ آپ دل میں ایک نذر مقرر کر چھوڑیں کہ اگر ایک عمدہ کامیابی امور تجارت میں آپ کو میسر آوے تو آپ یکمشت نذرا س کارخانہ کے لئے ارسال فرماویں.کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے اس صدق اور اخلاص پر نظر کر کے وہ کامیابی آپ کے نصیب کرے کہ جو فوق العادت ہو اور اس ذریعہ سے اس اپنے سلسلہ کو بھی کافی مدد پہنچ جاوے کیونکہ اب یہ سلسلہ مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اور شاید یہ کام طبع کتب کا آگے کو بند ہو جائے.آپ کی طرف سے جو مدد آتی ہے وہ لنگر خانہ میں خرچ ہو جاتی ہے اور مجھے جس قدر آپ کے کاروبار کے لئے توجہ ہے، یہ ایک دلی خواہش ہے جوخدا تعالیٰ نے مجھ میں پید ا کی ہے اور یہ یقین جانتا ہوں کہ یہ خالی نہیں جائے گا.کیا تعجب کہ اس نیت کے پختہ کرنے پر خدا تعالیٰ فوق العادت کے طور پر آپ سے کوئی رحمت کا معاملہ کرے.میں تو جانتا ہوںآپ نہایت خوش نصیب ہیں، آپ کی دنیا بھی اچھی ہے اور آخرت بھی.کیونکہ آپ اس طرف دل سے اور پورے اعتقاد سے جھک گئے ہیں.سو اگر تمام دنیا کا کاروبار تباہی میں آجائے تب بھی میں یقین نہیں کرتا کہ آپ ضائع کئے جائیں.والسلام ۲۱؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 393

Page 394

مکتوب نمبر ۵۷ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ پہنچا.حالات تردّدو اضطراب معلوم کر کے جس قدر دل کو درد پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے مگر ساتھ ہی وہ امیدیں جو خد اتعالیٰ کے فضل پر ہیں وہ نومیدی کو نزدیک نہیں آنے دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ وہ دن دکھلائے کہ آپ کی قلم سے نکلی ہو ئی یہ عبارت پڑھوں کہ حسب المراد خد اتعالیٰ نے فضل کر دیا.اس کے آگے کچھ بھی دور نہیں.ہر ایک رات اس امید کے ساتھ پلنگ پر لیٹتا ہوں کہ کوئی خوشخبری حضرت عزّت جلّشانہٗ سے آپ کی نسبت پائوں.اگر ایسی خوشخبری مجھ کو ملی تو مجھ کو وہ خوشی ہو گی جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ آپ کا معہ تمام عزیزوں کے ہر اک ارضی سماوی بلاسے بچاوے اوراپنے سایۂ رحمت سے محفوظ رکھے.ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام ۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 395

مکتوب نمبر۵۸ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آپ کاعنایت نامہ معہ مبلغ ایک سو روپیہ آج مجھ کو ملا.جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء.آمین.جس قدر یہ عاجز آپ کو تسلی اور اطمینان کے الفاظ لکھتا ہے یہ لغو اور بیہودہ نہیں ہے.بلکہ بوجہ آپ کے نہایت درجہ کے اخلاص کے اس درجہ پر آپ کے لئے دُعا ظہور میں آتی ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ دعائیں خالی نہیں جائیں گی.جو لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لائے ہیں اور اس کو قادر اور کریم اور رحیم سمجھتے ہیں ان کے لئے دعائوں سے زیادہ کوئی امر موجب تسلی نہیں ہوسکتا.میں اپنے دل سے یہ گواہی پاتا ہوں کہ جیسا کہ ایک شخص اپنے جوش اخلاص اور محبت اور ہمدردی سے کسی کے لئے دعا کرسکتا ہے وہ دعا میں آپ کے لئے کرتا ہوں اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعائوں کو ضائع نہیں کرے گا.وہ خد ا وند رحیم وکریم ذوالحیاء الکرم ہے.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع اورمسرورالوقت فرماتے رہیں باقی خیریت ہے.والسلام مبلغ ایک سو روپیہ سیٹھ دال جی صاحب کی طرف سے بھی پہنچ گیا تھا.میری طرف سے دعا اور شکر اُن کوپہنچا دینا.خاکسار ۲۲؍ نومبر ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد

Page 396

Page 397

مکتوب نمبر ۶۰ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.دو عنایت نامے یکے بعد از دیگرے پہنچے.آپ کی تشویشات کو اللہ تعالیٰ دور فرماوے اور اس طرف یہ حال ہے کہ جیسے ایک گدا کچھ سوال کر کے اسی دروازہ پر جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جب تک کہ اندر سے اس کو کچھ دیا نہ جائے.یہی حال ہمارا آپ کے لئے ہے.آپ اگر بیقرار ہوں یا نہ ہوں، ہماری طرف سے سلسلہ دعا کا جاری ہے اور جناب الٰہی کے آستانہ سے امید کی جاتی ہے کہ رات کو یا دن کو یہ بشارت ہم کو ملے.زمین و آسمان پید ا کرنے والے کے آگے یہ آرزوئیں کیا چیز ہیں.اس کی ایک نظر فضل سے ہزاروں پیچیدہ کام سہل ہو جاتے ہیں.اس طرف اب بظاہر طاعون سے امن ہے.پھر بعد میں کوئی واردات نہیں ہوئی زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۲؍ دسمبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرز اغلام احمد عفی عنہ

Page 398

مکتوب نمبر ۶۱ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آپ کاانتظار ہے اور اب تک ہے نہ معلوم کیا باعث ہوا کہ آپ تشریف نہ لائے.دعا انتہا تک پہنچ گئی ہے.آج صبح کے وقت مجھ کو یہ الہام ہوا.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے۱؎ امید ہے کہ اپنے حالات خیریت سے اطلاع دیں گے.والسلام ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۶۲ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ آنمکرم اور نیز مبلغ ایک سو روپیہ مجھ کو پہنچا جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء.میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں.آپ کا ہر ایک خط جس میں تفرقہ خاطر اورخوف و خطر کا ذکر ہوتا ہے.پہلی دفعہ تو میرے پر ایک دردناک اثر ہوتا ہے مگر پھر بعد اس کے جب اللہ جلّشانہٗ کی طاقت اور قدرت اور اس کے وہ الطاف کریمانہ جو میرے پر ہیں، بلا توقف یاد آ جاتے ہیں تو وہ غم دور ہوکرنہایت یقینی امیدیں دل میں پیدا ہو جاتی ہیں.آپ کے لئے میرے دل میں عجب جوش تضرّع اور دعا ہے.اگر عمیق مصالح جس کاعلم بشر کو نہیں ملتا، توقف کونہ چاہتیں تو خدا تعالیٰ کے فضل وکر م

Page 399

سے امید تھی کہ اس قدر توقف ظہور میں نہ آتا.بہرحال میں آپ کی بلائوں کے دفع کے لئے ایسا کھڑا ہوں جیسا کو ئی شخص لڑائی میں کھڑا ہوتا ہے.خدا داد قوت استقلال اور ثابت قدمی اور صدق و یقین (کے) ہتھیاروں سے اور عقد ہمت کی پیش قدمی سے اس میدا ن میں خدا تعالیٰ سے کامیابی چاہتا ہوں.وہ رحیم وکریم دعائوں کو سننے والا مہربان خدا ہے اس کے فضل سے ہر ایک رحمت کی امید ہے.آپ کے ملنے کااشتیاق ہے.قرنطینہ کی تکلیفات راہ میں نہ ہوں جن کی برداشت مشکل ہوتی ہے تو آپ ہر ایک وقت آسکتے ہیں.مجھے دلی خواہش ہے کہ آپ تشریف لاویں.مگر یہ دریافت کر لینا چاہئے کہ قرنطینہ کی ایذا رسانی روکیں تو درمیان نہیں ہیں؟ اسی وجہ سے میں نے تار نہیں دیا کہ یہ امور صرف خط کے ذریعہ سے مفصل طور پر پیش ہو سکتے ہیں.امید کہ جس وقت تشریف لاویں تو مجھے تار دیں کہ فلاں وقت روانہ ہوئے.میں پہلے اس کے اطلاع دے چکا ہوں کہ میرے پر ایک فوجداری مقدمہ سرکار کی طرف سے دائر ہو گیا ہے.جس کا اصل محرک محمد حسین بٹالوی ہے.یہ مقدمہ بظاہر سخت خطرناک ہے کیونکہ پولیس کے معزز ملازم اس مقدمہ کے پیروکار ہیں جو مقدمہ کے بنانے کی سعی کر رہے ہیں اور محمد حسین بٹالوی بھی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح جھوٹے گواہ پیش کر کے مجھے زیر مواخذہ کرا دے چونکہ ان مخالفوں کی جماعت بڑی ہے، لاکھوں ہیں.اس لئے محمد حسین کے لئے چندے جمع ہو رہے ہیں.تا بیرسٹر اور کئی انگریز وکیل کر کے جعلی الزاموں کو میری نسبت ثابت کرا دے.ہماری جماعت غریبوں کی جماعت ہے لاہور، امرتسر ،سیالکوٹ ،راولپنڈی، پنجاب کے شہروں میں محمد حسین بٹالوی کے لئے ایک رقم کثیر جمع ہوتی جاتی ہے.غالباً دلّی میں بھی نذیر حسین کی معرفت یہ چندہ ہو گا.ہم اپنا کام خدا تعالیٰ کو سونپتے ہیں میں نے اوّل خیا ل کیا تھا کہ شاید آنمکرم کی تحریک سے مدراس میں کسی قدر چندہ ہو مگر پھر مجھے خیال آتا ہے کہ ہر ایک انسان اس ہمدردی کے لائق نہیں.جب تک انسان سلسلہ میں داخل ہو کر جاں نثار مرید نہ ہو.تب تک ایسے واقعات روح پر قوی اثر نہیں کرتے.دلوں کا خدا مالک ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے باوجود اس تفرقہ کے اور ایسی حالت کے جو قریب قریب تباہی کے ہے آپ کو وہ اخلاص بخشا ہے کہ جو وفادار جان نثار

Page 400

Page 401

Page 402

مکتوب نمبر۶۶ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں باوجود علالت طبع کے اور باوجود ایسی حالتوں کے کہ میں نے خیال کیا کہ شاید زندگی میں سے چند دم باقی ہیں، آپ کو دعا کرنے میں فراموش نہیں کیا بلکہ انہیں حالات میں نہایت درد دل سے دعا کی ہے اور اب تک میرے جوش میں کمی نہیں ہے.میں نہیں جانتا کہ اس خط کے پہنچنے تک کتنی دفعہ مجھ کودعا کا موقع ملے گا.میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ یہ دعائیں میری قبول نہ ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہو سکتا ہے آپ اس گھڑی کے یقین دل سے منتظر رہیں جبکہ دعائوں کی قبولیت ظاہر ہو.ایک بڑے یقین کے ساتھ انتظار کرنا بڑا اثر رکھتا ہے.میں آپ کو نہیں بتلا سکتا کہ میں آپ کے لئے کس توجہ سے دعا کرتا ہوں.یہ حالت خد ا تعالیٰ کو خوب معلوم ہے.ان دنوں میں میری طبیعت بہت بیمار ہو گئی تھی ایک دفعہ مرض کا خطرناک حملہ بھی ہوا تھا.مگر شکرباری ہے کہ اس وقت میں بھی میں نے بہت دعا کی ہے اوراب تک طبیعت بہت کمزور ہے اس لئے کتاب کی تالیف میں بھی حرج ہے.ایک نہایت ضروری امر کے لئے آپ کولکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ مدراس میں ایک میلہ یوز آسف کا سال بسال ہوا کرتا ہے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ میلہ کرتے ہیں وہ یوز آسف کس کو کہتے ہیں اور کس مرتبہ کا انسان اس کو سمجھتے ہیں اور نیز ان کاکیا اعتقاد ہے کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور کس قوم میں سے تھا.اور کیا مذہب رکھتا تھا اور نیز یہ کہ کیا اس جگہ کوئی یوزآسف کا کوئی مقام موجود ہے اور کیا ان لوگوں کے پاس …کوئی ایسی تحریریں ہیں جن سے یوز آسف کے سوانح معلوم ہو سکیں اور ایسا ہی دوسرے حالات جہاں تک ممکن ہوسکے دریافت کر کے جلد تر مجھ کو اس سے اطلاع بخشیں کیونکہ اس وقت کہ جواب آوے یہ کتاب معرضِ التوا میں رہے گی.اور میں نے باوجود ضعف طبیعت کے نہایت ضروری سمجھ کر یہ خط لکھا ہے.اللہ تعالیٰ خیروعافیت سے اس خط کو پہنچاوے.باقی خیریت ہے.والسلام ٭ ۱۱؍ جون ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 403

مکتوب نمبر۶۷ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا اب بفضلہ تعالیٰ میری طبیعت ٹھہر گئی ہے، دورہ مرض سے امن ہے.حقیقت میں یہ عمر جب انسان ساٹھ پینسٹھ سال کا ہو جاتا ہے، مرنے کے لئے ایک بہانہ چاہتی ہے جیساکہ ایک بوسیدہ دیوار.یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے کہ اس قدر سخت حملوں سے وہ بچا لیتا ہے.کل کی تاریخ عنبر بھی پہنچ گیا.میری طرف سے آپ اس مہربان دوست کی خدمت میں شکریہ ادا کر دیں جنہوں نے میری بیماری کا حال سن کر اپنی عنایت اور ہمدردی محض للہ ظاہر کی.خدا تعالیٰ ان کو اس خدمت کا اجر بخشے اور ساتھ ہی آپ کو.آمین ثم آمین.میرے گھر میں جو ایام امید تھے.۱۴؍ جون کو اوّل دردِ زِہ کے وقت ہولناک حالت پید ا ہو گئی یعنی تمام بدن سرد ہو گیا اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے.اس وقت میںنے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دنیا کو الوداع کہتی ہے.بچوں کی سخت درد ناک حالت تھی اور دوسری گھر میں رہنے والی عورتیں اور ان کی والدہ تمام مُردہ کی طرح اور نیم جان تھیں.کیونکہ ردّی علامتیں یک دفعہ پیدا ہو گئیں تھیں.اس حالت میں ان کاآخری دم خیال کر کے اور پھر خدا کی قدرت کو بھی مظہر العجائب یقین کر کے ان کی صحت کے لئے میں نے دعا کی.یک دفعہ حالت بدل گئی اور الہام ہوا تحویل الموت ۱؎ یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا اور دوسرے وقت پر ڈال دیا اور بدن پھر گرم ہو گیا اور حواس قائم ہو گئے اور لڑکا پید اہوا جس کانام مبارک احمد رکھا گیا.اس تنگی اور گھبراہٹ کی حالت میں میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے لئے بھی ساتھ ہی دعا کروں.چنانچہ کئی دفعہ دعا کی گئی.زیادہ خیریت ہے.والسلام جون ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان اس وقت میں خط لکھ چکا تھا کہ پھر سخت کمر میں درد اور تپ میرے گھر میں ہو گیا ہے سخت بیتاب ہو گئی ہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرماوے.٭

Page 404

مکتوب نمبر۶۸ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ ایک سَو روپیہ مرسلہ بذریعہ ڈاک مجھ کو پہنچ گیا.جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء آمین ثم آمین.میرے گھر میں پید ائش لڑکے کے وقت بہت طبیعت بگڑ گئی تھی.الحمدللہ اب ہر طرح سے خیریت ہے.عجیب بات ہے کہ قریباً چودہ برس کا عرصہ گزرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میری اس بیوی کو چوتھا لڑکا پید اہوا ہے اور تین پہلے موجود ہیں اوریہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز دوشنبہ یعنی پیرہو اہے.اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا اور خواب میں دیکھا تھا کہ اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے.اب جبکہ یہ لڑکا یعنی مبارک احمد پید اہوا تو وہ خواب بھول گیا اورعقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا کی قدرت کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کاسامان نہ ہو سکا اورہر طرف سے حارج پیش آئے.ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گزر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پید اہو گا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا.تب وہ اضطراب ایک خوشی سے مبدل ہو گیا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیا اور ہم سب زور لگا رہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو.مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اورعقیقہ پیر کو ہوا.یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ یہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا.انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چار لڑکے پیدا ہوسکیں، زندہ بھی رہیں.یہ خد اکے کام ہیں مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے پھر آنکھ بند کرلیتی ہے.میں نے دو روز ہوئے کہ یا کم و بیش، آپ کو خواب میں دیکھا تھا.مگر مجھے اس کا سِرّ نامعلوم رہا اس لئے صرف بار بار دعا کی گئی.زیادہ خیریت ہے.والسلام.آنمکرم کی مشک مرسلہ بھی مجھ کو پہنچ گئی.خدا تعالیٰ آپ کو ان متواتر خدمات کا بہت بہت اجربخشے اور بہت سی برکتیں آپ پر نازل کرے.عنبر سفید درحقیقت بہت ہی نافع معلوم ہوا.تھوڑی خوراک سے دل کو قوت دیتا ہے اور دورانِ خون تیز کر دیتا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ایسی

Page 405

بیماری دامن گیر ہے کہ ان چیزوں کی حاجت پڑتی ہے.مجھے دراصل دو۲ دائمی بیماریاں ہیں.ایک یہ دل کی بیماری اور ایک کثرت بول.یہ اس لئے ہو ا کہ تا وہ حدیث پوری ہو کہ وہ مسیح موعود دو زرد چادروں کے (ساتھ) ناز ل ہو گا.اہل تعبیر لکھتے ہیں کہ دوزرد چادروں سے مراد دو بیماریاں ہیں.یہ بشریت کے لوازم ہیں.خاکسار ٭ ۲۷؍ جون ۱۸۹۹ء مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۶۹ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.الحمدللہ والمنت کہ اب میرے گھر میں ہر طرح سے خیریت ہے.آپ کے حالات کی طرف نظر لگی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعائوں کا نیک نتیجہ ہم کو دکھاوے.آمین ثم آمین.دعا کا سلسلہ جناب باری میں جاری ہے اور وہ رحیم و کریم ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۸؍ جولائی ۱۸۹۹ء خاکسار ٭٭ مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 406

مکتوب نمبر۷۰ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ہمیشہ نماز اور خارج کے وقت آپ کی مہمات اور بہبودی دنیاوآخرت کے لئے دعا کرتا ہوں اورامید وار ہوں کہ قبول حضرت عزت ہو.کل سے میری طبیعت علیل ہو گئی ہے.کل شام کے وقت مسجد میں اپنے تمام دوستوں کے رُوبرو، جو حاضر تھے، سخت درجہ کا عارضہ لاحق حال ہوا اور یک دفعہ تمام بدن سرد اور نبض کمزور اور طبیعت میں سخت گھبراہٹ شروع ہوگئی اورایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا زندگی میں ایک دو دم باقی ہیں.بہت نازک حالت ہو کر پھر صحت کی طرف عود ہوا.مگر اب تک کُلّی اطمینان نہیں.کچھ کچھ آثار عود مرض کے ہیں.اللہ تعالیٰ فضل و رحم فرماوے.ایسے وقتوں میں مجھے ہمیشہ مشک کام آتی ہے اس وقت مشک جو بمبئی سے آپ نے منگوا کر بھیجی تھی، گھر سے منگوائی گئی تھی لیکن طبیعت کی سخت سر گردانی اور دل کے اضطراب کی وجہ سے وہ مشک کھولنے کے وقت زمین پر متفرق ہو کر گر گئی اور گرمی کے سبب سے، خشک تھی اورہو اچل رہی تھی، ضائع ہو گئی اس لئے مجھے دوبارہ آپ کو تکلیف دینی پڑی.یہ مشک بہت عمدہ تھی اس دوکان سے ایک تولہ مشک لے کر جہاں تک ممکن ہو جلد ارسال فرماویں کہ دورہ مرض کا سخت اندیشہ ہے اور خد اتعالیٰ کے فضل پر بھروسہ ہے.آپ نے یہ مشک بمبئی سے منگوائی تھی.باقی خیریت ہے.اس وقت بھی طبیعت صحت پر نہیں.رجسٹری کرا کر یہ خط بھیجتا ہوں.میں انشاء اللہ القدیر آپ کے صاحبزادہ سیٹھ احمدصاحب کے لئے اور ان کی دنیا و عاقبت کی کامیابی کے لئے بہت دعاکروں گا میری طرف سے سلام عَلَیْکَ ان کو پہنچے.والسلام ٭ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 407

مکتوب نمبر۷۱ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج آپ کی تار کے ذریعہ سے یک دفعہ ایک غم کی خبر یعنی واقعہ وفات عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کا سن کر دل کو بہت غم اور صدمہ پہنچا .دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کا یہ نمونہ ہے کہ ابھی تھوڑے دن گزرے ہیں کہ عزیز موصوف کی اس شادی کا اہتمام ہو اتھا اورآج وہ مرحومہ قبر میں ہے جس قدر اس ناگہانی واقعہ سے آپ کو اور سب عزیزوں کو صدمہ پہنچا ہو گا اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور نعم البدل عطا فرماوے اور عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی عمر لمبی کرے آمین ثم آمین.اس خبر کے پہنچنے پر ظہر کی نماز میں جنازہ پڑھا گیا اور نماز میں مرحومہ کی مغفرت کے لئے بہت ہی دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے غم اور صدمہ کے عوض میں بہت سی خوشی پہنچاوے آمین.باقی تادم تحریر خیریت ہے.والسلام ۱۳؍ اگست ۱۸۹۹ء خاکسار میرزا غلام احمد

Page 408

مکتوب نمبر ۷۲ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ عین انتظاری میں پہنچا.مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ اس مبارک کام کے لئے آپ کی سلسلہ جنبانی کامیابی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی.مجھے آپ کے اس کام کی خبر تو نہ تھی مگر میں نے آپ کے اس سفر کے لئے بہت ہی دعا کی کہ جو جو مطالب اس سفر میں مدنظر ہیں خد اتعالیٰ ان کو انجام دے.مجھے امید ہے کہ وہ دعائیں قبول ہو گئی ہوں گی.امید کہ عقد نکاح کے بعد ضرور مسرورالوقت فرماویں.میرے نزدیک یہ کام نہ صرف مناسب بلکہ بہت ضروری تھا.اللہ تعالیٰ اُس میں برکت ڈالے اور بہت سی برکات کا موجب کرے.آمین ثم آمین.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.والسلام ٭ ۲۰؍ اگست ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 409

مکتوب نمبر۷۳ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آں مکرم اس سو روپیہ کے بعد جو پہلے آںمکرم بھیج چکے تھے مجھ کو پہنچا.اللہ جلّشانہٗ بہت بہت جزائے خیر دنیا و آخرت میں آپ کو دے اوراپنے فضل وکرم سے بلائوں سے بچاوے آمین ثم آمین.اب جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا تھا.آپ کی تشریف آوری کی انتظار ہے اللہ تعالیٰ تمام تر خیریت و عافیت کے ساتھ آپ کو لاوے.آمین ثم آمین.مُنجّمین اخباروں کے ذریعہ بہت شور مچا رہے ہیں کہ۱۳؍ نومبر ۱۸۹۹ء تک دنیا کا خاتمہ ہے یعنی اگر ستارہ کی زمین کے ساتھ ٹکر ہوگئی.لیکن مجھے اب تک کچھ معلوم نہیں ہوا.خد اتعالیٰ لوگوں کوتوبہ کی توفیق دے.موسم کے حالات ردّی ہیں.پنجاب میں بارش نہیں ہوئی.خریف اور ربیع دونوں سے زمینداروں کو نااُمیدی ہو گئی.کلکتہ میں طاعون شروع ہوگیا.اخبار میں لکھا ہے کہ جناب نواب وائسرائے بہادر نے طاعون کا ٹیکا لگوایا ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ٭ ۲۵؍ اگست ۱۸۹۹ء خاکسار مرز اغلام احمد

Page 410

مکتوب نمبر۷۴ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.مجھے سخت افسوس ہے جس کو میں بھول نہیں سکتا کہ مجھ کو قبل اس حادثہ وفات کے وقت اس کامل دعا کا موقعہ نہیں ملا جو اکثر کرشمۂ قدرت دکھلاتی ہے.میں دعا تو کرتا رہا مگر وہ اضطراب جو سینہ میں ایک جلن پید اکرتا ہے اور دل کو بے چین کرتا ہے وہ ا س لئے کامل طور پر پیدا نہ ہوا کہ آپ کے عنایت نامجات میں جو حال میں آئے تھے یہ فقرہ بھی درج ہوتا رہا کہ اب کسی قدر آرام ہے اور آخری خط آپ کا جو نہایت اضطراب سے بھرا ہوا تھا اس تار کے بعد آیا جس میں وفات کی خبر تھی.اس خانہ ویرانی سے جو دوبارہ وقوع میں آگئی رنج اور غم تو بہت ہے.اور نہ معلوم آپ پر کیا کیا قلق اور رنج گزرا ہو گا لیکن خد ا وند کریم و رحیم کی اس میں کوئی بڑی حکمت ہو گی.یہ بیماری طبیبوں کے نزدیک متعدی بھی ہوتی ہے اور اس گھر میں جو ایسی بیماری ہو سب کوخطرہ ہوتا ہے اور خاوند کے لئے سب سے زیادہ.سو شاید ایک یہ بھی حکمت ہو خدا وند تعالیٰ عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی عمر دراز کرے اور اس کے عوض میں بہتر صورت عطا فرمائے.یہ ضروری ہے کہ آپ اس غم کو حد سے زیادہ اپنے دل پر نہ ڈالیں کہ ہر ایک مصیبت کا اجر ہے اور مناسب ہے کہ اب کی دفعہ ایسے خاندان سے رشتہ نہ کریں جن میں یہ بیماری ہے اور نیز جو آپ نے اپنے لئے تحریک کی تھی اس تحریک سے بھی سُست نہ ہوں.خد اتعالیٰ پر توکّل کر کے ہر ایک کام درست ہو جاتا ہے.باقی سب خیریت ہے.کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے انشاء اللہ القدیر دو تین ہفتہ تک چھپ جائے گی باقی خیریت ہے.والسلام ٭ ۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۹ء خاکسار میرزا غلام احمد

Page 411

مکتوب نمبر۷۵ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں بباعث قدیمی بیماری کے جو آج کل ستمبر کے مہینہ میں اکثر مجھے ہوتی ہے بیمار رہا اور اب تک میری طبیعت صاف نہیں ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یکم اکتوبر یعنی موسم کی تبدیلی کے وقت طبیعت صاف ہو گی اورمیںنے آنمکرم کے اس مقدمہ کے لئے بھی دعا کرنی شروع کر دی ہے اور عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کے لئے بھی دعا کرتا ہوں.امید کہ طبیعت درست ہونے پر بہت توجہ سے دعا کروں گا.میری طبیعت کچھ ایسی ضعیف اورکمزور ہو رہی ہے کہ بسا اوقات میں خیال کرتا ہوں کہ گویا چند دم ہی میری عمر میں سے باقی ہیں مگر بایں ہمہ آپ کے لئے میں دعا کرنے کو کبھی نہیں بھولتا.میں انشاء اللہ اگر خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے زندگی ہوئی تو آپ کے ہر ایک مقصد کے لئے دعا کروں گا اور مجھے امید یہی ہے کہ اگر مجھے دعا کرنے کے لئے وقت دیا گیا تو وہ دعا قبول ہو گی.میں بباعث علالت طبع کے اس وقت زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لئے اسی قدر پر چھوڑتا ہوں.والسلام ٭ خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 412

مکتوب نمبر ۷۶ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.پرسوں کی ڈاک میں کل اورایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ جزائے خیر بخشے.آمین ثم آمین.مجھے پھر معلوم نہیں ہوا کہ وہ کار خیر انجام پذیر ہو گیا ہے یا ابھی کوئی تاریخ مقرر ہے.امید ہے کہ اُ س سے ضرور مطلع فرماویں گے.باقی ا س جگہ ہر طرح خیریت ہے.کتاب تریاق القلوب ابھی چھپ رہی ہے اور رسالہ ’’مسیح ہند میں‘‘ بھی چھپ رہا ہے اور رسالہ ستارہ قیصریہ چھپ چکا ہے.امید کہ آںمکرم کی خدمت میں پہنچ گیا ہو گا.۲۷؍ اگست ۱۸۹۹ء کو مجھ کو اپنی نسبت یہ الہام ہوا.خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھا وے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے.آسمان سے کئی تخت اُترے مگر سب سے اونچا تیر ا تخت بچھایا گیا.دشمنو ںسے ملاقات کرتے وقت ملائکہ نے تیری مدد کی.۱؎ خاکسار ٭ میرزا غلام احمد

Page 413

مکتوب نمبر ۷۷ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ نقد مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا.خدا تعالیٰ متواتر خدمات کے عوض میں آپ کو متواتر اپنے فضل اور جزا سے خوش کرے، آمین ثم آمین.کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے ابھی میں نہیں کہہ سکتا کہ کب ختم ہو شاید اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دو ہفتہ تک ختم ہو جائے یہ آپ کے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ مشکلات کے وقت میں آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے.اس ملک میںسخت قحط ہو گیا ہے اور اب تک بارش نہیں ہوئی.اب کی دفعہ ابتلا کاسخت اندیشہ ہے کیونکہ ہمارے سلسلہ کے اخراجات کا یہ حال ہے کہ علاوہ اور خرچوں کے دو سو روپیہ ماہوار کا آٹا ہی آتا تھا.اب میں خیا ل کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ کا آئے گا اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک چلے گا اور دوسرے اخراجات بھی اور مہمان داری کے ہوتے ہیں.وہ بھی اس کے قریب قریب ہیں.چنانچہ ایندھن یعنی جلانے کی لکڑی وغیرہ غلہ کی طرح کمیاب ہو گئی ہے اورایسی کمیاب ہے کہ شاید اب کی دفعہ ڈیڑھ سو یا دو سو روپیہ ماہوار اسی کا خرچ ہو.میں ڈرتا ہوںکہ وہی وقت نہ آگیا ہو جو کہ احادیث میں پایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ مسیح موعو داوراس کی جماعت پر قحط کا سخت اثر ہو گا.سو حیرت ہے کہ کیا کہا جائے.اگر دعا کے لئے وقت ملے تو دعا کروں.ابھی تک ہماری جماعت میں سے اہلِ استطاعت میں سے ایک آپ ہیں جو حتی الوسع اپنی خدمات میں تعہد رکھتے ہیں اور دوسرے لوگ یا تونادار ہیں یا سچا ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا.لیکن ہمارے مرنے کے بعد بہت سے لوگ پید ا ہو جائیں گے کہ کہیں گے اگر وہ وقت پاتے تو تمام مال اور جان سے قربان ہو جاتے.مگر وہ بھی اس بیان میں جھوٹے ہوں گے کیونکہ اگر وہ بھی اس زمانہ کو پاتے تو وہ بھی ایسے ہی ہو جاتے.اللہ تعالیٰ دلوں میں سچا ایمان بخشے.خدا کے مامور جو آسمان سے آتے ہیں وہ اپنی جماعت کے ساتھ خریداور فروخت کا سامعاملہ رکھتے ہیں.لوگوں سے ان کاچند روزہ مال لیتے ہیں اور جاودانی مال کا ان کو وارث بناتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ان مشکلات کے وقت میں ایک اشتہار شائع کروں تا ہریک صادق کو ثواب کا موقع ملے اوراس میں کھلے کھلے طور پر آپ کا ذکر بھی کر دو ںکیونکہ اب سخت ضرورت کا سامنا

Page 414

ہے.اور ہمارے سیدو مولیٰ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ضرورتوں کے وقت جب ایسا کرتے تھے تو صحابہ دل و جان سے اس راہ میں قربان تھے.جو کچھ گھروں میں ہوتا تھا تمام آگے رکھ دیتے تھے.غرض اسی طرح کا اشتہار ہو گا.والسلام ۲۶؍ ستمبر ۱۸۹۹ء خاکسار میرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۷۸ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ سور وپیہ مرسلہ آنمکرم پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزا بخشے اور آفات دینی اور دنیوی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین.کشمیر سے خلیفہ نور دین صاحب تحقیقات کر کے آگئے ہیں.پانسوچھپن آدمی کی گواہی سے ثابت ہوا کہ وہ قبر جس کا ذکر رسالہ میں کیا گیا ہے مختلف نامو ں سے مشہور ہے بعض یوز آسف نبی کی قبر کہتے اور بعض شہزادہ نبی کی قبر اور بعض عیسیٰ صاحب کی قبر اور اب عنقریب تین آدمی سفر خرچ کے انتظام کے بعد نصیبین کی طرف روانہ ہوں گے اور اس سے پہلے جلسہ ہو گا جس کی تاریخ ۱۲؍ نومبر ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے.اس جلسہ سے چند روز بعد یہ تینوں روانہ ہو جائیں گے.باقی خیریت ہے.والسلام ٭ ۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان

Page 415

مکتوب نمبر ۷۹ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.اس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ عنقریب تشریف لانا چاہتے ہیں.اس مسرت کااندازہ نہیں ہو سکتا.اس ناپائیدار دنیا میں بڑا ہی خدا تعالیٰ کافضل سمجھنا چاہئے کہ جدائی کے بعد پھر ملاقات ہو.میں دن رات کوشش کر رہا ہوں کہ جلد تر کتاب تریاق القلوب کو ختم کروں.شاید ایک ماہ تک ختم ہو جائے.اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء آپ کی خدمت میں پہنچ گیا ہو گا.جس میں ضمیمہ جلسۃالوداع بھی ہے.خدا تعالیٰ اپنا فضل شامل حال رکھے اور جلد تر خیرو عافیت سے آپ کو ملادے.نہایت خوشی بلکہ بے اندازہ خوشی ہوئی کہ آپ کے تشریف لانے کی بشارت سنی.جزاکم اللّٰہ خیراً.والسلام ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر ۸۰ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا آپ بکلّی مطمئن رہیں.آپ کے لئے اس قدر دعا کی گئی ہے کہ جو دنیا میں ایک بڑے خوش نصیب کے لئے ہو سکتی ہے.خدا وند عزّوجل غفور رحیم ہے.اس کی درگاہ سے بڑی امیدیں ہیں لیکن ضرور ہے کہ درمیان میں کچھ تشویش لاحق حال ہو.جب تک خدا تعالیٰ کا وہ مقرر کردہ دن آجاوے اس لئے بڑے استقلال اور قوت اورمردانگی سے ایسی تشویش کامقابلہ کرنا چاہئے.انسان دنیا طلبی کی حالت میں ضرور ہے کہ دل کا کمزور ہوتا ہے اور حقیقت میں جس قدر خدا تعالیٰ پر ایمان کمزور ہوتا ہے اسی قدر دل کو مصائب پیش آمدہ کے صدمہ پہنچتا ہے اور اسی قدر نا امیدی طاری ہوتی ہے.سو ایسا نہیں کرنا چاہئے.آپ کے لئے خدا تعالیٰ نے مبشر الہام صادر فرمایا

Page 416

ہے اور خدا کاکلام غلط نہیں جاتا.میرا یہ حا ل ہے کہ اگر دنیا کے تمام بادشاہ متفق ہو کر ایک وعدہ کریں تو میں اس وعدہ کو پھر یقینی نہیں سمجھتا کیونکہ ممکن ہے کہ قبل ایفائے وعدہ کے وہ لوگ مر جائیں اور اس کے ایفا پر قادر نہ ہوسکیں.وہ مجبور ہیں مگر خدا تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے.مجھے معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس راہ سے اورکس طور سے ان غموم سے آپ کو نجات دے گا اورنہ ابھی تک یہ معلوم ہے کہ وہ وقت کب ہے لیکن کسی قدر مدت کی بات ہے.خداوند قادر کی طرف سے یہ وعدہ ہے.وَالْکَرِیْمُ اِذَا وَعَدَ وَفَا اس لئے آپ جوانمردی سے اس ذوالجلال کے وعدے کے منتظر رہیں اور کسی کی بے التفاتی پر کچھ بھی پرواہ نہ کریں جس طرح بارش نا معلوم آتی ہے.نہیں معلوم ہو تا کہ کب بادل ہو گا اورکب مینہ برسے گا.اسی طرح خدا کافضل بھی چور کی طرح آتا ہے.پورے استقلال اوراستقامت سے منتظر رہنا چاہئے بلکہ بہت خوش رہنا چاہئے کہ خدا کاوعدہ ہے نہ انسان کا.اگرآپ دیکھیں کہ میں آگ میں پڑ گیا ہوں یا پڑتا ہوں تب بھی آپ خوش رہیں کیونکہ جس نے یہ آگ پید اکی ہے و ہ ایک دم میں اس کوبجھا سکتا ہے.دنیا میں میں اس بات کو خوب سمجھتا ہوں کہ کیونکر وہ ہمار اخد اہر ایک چیز پر قادر ہے اس لئے میں آگ میں بھی پڑکر ا س کو بہشت تصور کرتا ہوں.تمام دکھ اس بات سے ہوتے ہیں جب انسان نہیں جانتا کہ یہ تکلیفیں کیوں آتی ہیں؟ اورکیونکر دور ہو سکتی ہیں؟ مگرجب خد اتعالیٰ کی آوازیں خبر دیتی ہیں کہ یہ تکلیفیں اس کی طرف سے ہیں اور اس کے ارادے کے ساتھ معاً نیست و نابود ہو جاتی ہیں تو کیوں غم کیا جائے.باقی خیریت ہے.اس وقت قادیان کے چاروں طرف طاعون ہے قریبا ًدو کوس کے فاصلہ پر اورقادیان اس وقت ایک کشتی کی طرح ہے جس کے اِردگرد سخت طوفان ہے اور وہ دریا میں چل رہی ہو.ہر ایک ہفتہ میں شاید بیس ہزار کے قریب آدمی مر جاتا ہے خدا نے ان شکوک کو دور کر دیا کہ اس وقت عام طاعون پھیلے گی.٭ والسلام ۳؍ اپریل ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 417

مکتوب نمبر۸۱ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مدت ہوئی آنمکرم کا کوئی خط میرے پاس نہیں پہنچا.نہایت تردّد اورتفکر ہے.خدا تعالیٰ آفات سے محفوظ رکھے.اس طرف طاعون کا ا س قدر زور ہے کہ نمونہ قیامت ہے.گرمی کے ایام میں بھی زور چلا جاتا ہے.میں آپ کے لئے برابر دعا کر رہا ہوں.خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آخرکار یہ پریشانی دور کرے گا.مناسب ہے کہ آپ ارسال خطوط میں سستی نہ کریں کہ اس سے تفکر پید اہوتا ہے.خدا حافظ ہو چند روز سے میری طبیعت بعارضہ زحیر علیل ہے.انشاء اللہ القدیر شفا ہوجائے گی.والسلام ٭ ۲۰؍ مئی ۱۹۰۲ء خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۸۲ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کاعنایت نامہ پہنچا.میں کئی ہفتہ سے بیمار ہوں.ابھی پوری صحت نہیں اس لئے اپنے ہاتھ سے جواب نہیں لکھ سکا.آپ کی ملاقات کابڑا اشتیاق تھا مگر ہر ایک امر اپنے وقت پر موقوف ہے.خدا تعالیٰ آپ کو تمام تفکرات سے رہائی بخشے.آمین.دعا برابر نماز میں کی جاتی ہے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ٭٭ خاکسار میرزا غلام احمد

Page 418

مکتوب نمبر ۸۳ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.موجودہ حالات سے آپ دلگیر نہ ہوں اور نہ کسی گھبراہٹ کو اپنے دل تک آنے دیں.میں اپنی دعائوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہر گز خطا نہیں جائیں گی.اگر ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو میں اس کو ممکن مانتا ہوں مگر وہ دعائیں جو آپ کے لئے کی گئی ہیں وہ ٹلنے والی نہیں.ہاں میرے خدائے کریم وقدیر کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے ارادوں کو جو دعائوں کی قبولیت کے بعد ظاہر کرنا چاہتا ہے اکثر دیر اور آہستگی سے ظاہر کرتا ہے تا جو بدبخت اور شتاب کار ہیں وہ بھاگ جائیں اورا س خاص طور کے فیض کا انہیں کو حصہ ملے جو خد اتعالیٰ عزّوجل کے دفتر میں سعید لکھے گئے ہیں.اس لئے میں آپ کو کہتا ہوں کہ صبر سے انتظار کریں ایسا نہ ہو کہ آپ تھک جائیں اور وہ جو آپ کے لئے تخم بویا گیا ہے وہ سب برباد ہو جائے.دنیا جلد تر آسمانی سلسلہ سے منہ پھیر لیتی ہے کیونکہ وہ نہیں جانتی کہ ایک خد اہے جوایک خا ک کی مٹھی کو سرسبز کر سکتا ہے.اگر خدائے عزّوجل کا آپ کے حق میں کوئی نیک ارادہ نہ ہوتا تو مجھے آپ کے لئے اس قدر جوش نہ بخشتا.یہ مت خیا ل کرو کہ بربادی درپیش ہے یا بکلّی ہو چکی ہے بلکہ اس خدا پر ایمان لائو جو ایک مُردہ نطفہ سے انسان کو پیدا کر دیتا ہے.اوریہ باتیں محض قیاسی نہیں بلکہ ہم اس خد اکی قدرتوں اور معجزوں کے نمونے دیکھ چکے ہیں جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے.اورانسان میں خامی اوربیدلی صرف اسی وقت تک رہتی ہے جب تک اس قادر کریم کا کوئی نمونہ نہیں دیکھا ہے لیکن نمونہ دیکھنے کے بعد وہ قادر خدا اس شے سے زیادہ پیارا ہو جاتا ہے جس کو طلب کیا گیا تھا.اس وقت یہ خدا کو تمام چیزوں پر مقدم رکھ لیتا ہے اورپھر عمر بھر دوسری چیز کے ہونے یا نہ ہونے پر کبھی غم کرتا ہی نہیں کیونکہ اب وہ اپنے خد اکو ایک خزانہ جانتا ہے جن میں تمام جواہرات ہیں.اسی کے موافق مثنوی رومی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک عاشق تھا جو اپنے عشق میں نہایت بیتاب تھا.آخر ایک باخدا آیا اور اس نے اس کومراد تک پہنچایا اور خدا کی طرف آنکھیں کھول دیں تب وہ اپنے اس جھوٹے معشوق سے برگشتہ ہو گیا اوراس مرد خدا کا دامن پکڑ لیا اور یہ کہا

Page 419

گفت معشوقم تو بودستی نہ آن لیک کار از کارخیزد در جہان سو خلاصہ تمام نصیحتوں کایہی ہے کہ آپ وہ قوت ایمانی دکھلاویں کہ اگر اس قدر انقلاب اور انصاب مصائب ہو کہ سر رکھنے کی جگہ باقی نہ رہے تب بھی افسردہ نہ ہوں.زکارِ بستہ میندیش و دل شکستہ مدار کہ آبِ چشمہ حیواں درونِ تاریکی ست ٭ والسلام ۲۲؍ مئی ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۸۴ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس جگہ سب خیریت ہے.دعا کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے اورخدا تعالیٰ کے فضل پر امیدیں ہیں چو از راہ حکمت بہ بندد درے کشاید بفضل و کرم دیگرے کل کا نظارہ دیکھ کر میں خوش ہوا.میرے مکان میں چار بلیاں رہتی ہیں، ایک والدہ ہے اور تین اس کی بیٹیاں وہ بھی جوان اورمضبوط ہیں.کل کی دوپہر کے وقت میں میں اکیلا ادھرکے دالان میں بیٹھا تھا کہ میرے دروازے کے آگے ایک چڑیا آکر بیٹھ گئی، فی الفور بڑی بلّی نے حملہ کیا اورا س چڑیا کا سر منہ میں پکڑ لیا.پھر دوسر ی بلی آئی اس نے وہ چڑیا پہلی بلّی سے لے کر اپنے قبضہ میں کر لی اور اس کاسر منہ میں پکڑ لیا اور زمین پر ایسا رگڑا کہ میں وہ حالت مارے رحم کے دیکھ نہ سکا اور دوسری طرف

Page 420

میںنے منہ کرلیا ا ور پھر جو میں نے دیکھا تو تیسری بلی نے ا س چڑیا کا سر اپنے منہ میں لیا اور اس وقت مجھے خیال آیا کہ غالباً سر کھایا گیا.اتنے میںچوتھی بلی نے اس چڑیا کو لیا اور زمین میں اسے رگڑا تب میںنے یقین کیا کہ چڑیا مر چکی اورسر کھا لیا گیا اور رگڑنے میں کئی دفعہ چڑیا زمین پر گر پڑی پھر ایک بلی نے چاہا کہ اس چڑیا کے گوشت میں کچھ حصہ لے.اس نے اس چڑیا کو کھانے کے لئے اپنی طرف کھینچا شاید اس غرض سے کہ نصف پہلی بلی کے منہ میں رہے اورنصف آپ کھائے لیکن کسی سبب سے وہ چڑیا دونوں کے منہ سے نکل کر زمین پر جاپڑی اورگرتے ہی ُ پھر کر کے اڑ گئی.چاروں بلیاں پیچھے دوڑیں مگر پھر کیا ہو سکتا تھا وہ کسی درخت پر جا بیٹھی اور بلیاں خائب وخا سر واپس آئیں.اس واقعہ کو دیکھ کر میرے دل کو بہت جوش آیا کہ ا س طرح خد اتعالیٰ دشمنوں کے ہاتھ سے چُھڑاتا ہے.تب میںنے یہ خیال کر کے کہ یہ وقت بہت مقبول ہے، آپ کے لئے بہت دیر تک دعا کی کہ اے خدائے قادر! جس طرح تونے اس عاجز چڑیا کو چار خونی دشمنوں سے چُھڑایا اسی طرح اپنے عاجز بندہ عبدالرحمن کی جان بھی چُھڑا.آمین.امید رکھتا ہوں کہ وہ دعا بھی خالی نہیں جائے گی.والسلام ۳۰؍ جون ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 421

مکتوب نمبر۸۵ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.یہ سچ ہے کہ بناہو ا کام بگڑنے سے اور وسائل معاش کے کم یا معدوم ہونے کی حالت میںبے شک انسان کو صدمہ پہنچتا ہے مگر وہ جو بگاڑتا ہے وہی بنانے پر بھی قادر ہے.پس دنیا میں شکستہ دلوں کے اورتباہ شدہ لوگوں کے خوش ہونے کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس خدائے ذوالجلال کو ایمانی یقین کے ساتھ یاد کریں کہ جیسا کہ وہ ایک دم میں تخت پر سے خاکِ مذلّت میں ڈالتا ہے، ایسا ہی وہ خاک پر سے ایک لحظہ میں پھر تخت پر بٹھاتا ہے.اس جگہ یہ کہنا کفر ہے کہ کیونکر اورکس طرح؟ اورایسے اوہام کا جواب یہی ہے کہ جس طرح ایک قطرہ نطفہ سے انسان کو پیدا کیا..۱؎ نابینائی اورشک اور بدظنی کی وجہ سے تمام دکھ پیدا ہوتے ہیں ورنہ وہ ہمارا خدا عجیب قادر بادشاہ ہے، جو چاہے کرے کوئی بات اس کے آگے اَن ہونی نہیں اگر یقین کی لذت پیدا ہوجائے تو شاید انسان دنیا طلبی کے ارادوں کو خود ترک کردے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں کہ اس بات کو آزما لیا جائے کہ درحقیقت خدا موجود ہے اور درحقیقت وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.وہ کریم و رحیم ہے ان لوگوںکو ضائع نہیں کرتا جو اس کے آستانہ پر گرتے ہیں.والسلام ٭ ۷؍جولائی ۱۹۰۲ء خاکسار میرزا غلام احمد

Page 422

مکتوب نمبر ۸۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.یہ بھی خدا تعالیٰ کی آپ پر ایک رحمت ہے کہ آپ نے میری اس نصیحت میں غفلت نہیں کی کہ خط برابر بھیجا جاوے اورمیں جس قدر خد اتعالیٰ کے عجیب اورخارقِ عادت فضلوں پر یقین رکھتا ہوں، کاش اگر کوئی ایسا طریق ہو تاکہ میں آپ کے د ل میں بھی ڈال سکتا.خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت اورقدرت کا تجربہ اگر ہو تو وہ اس حالت میں بھی انسان کوناامید نہیں کر سکتا کہ جب انسان پابہ زنجیر زندان میں ہو.دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ا ور اسباب سے سب امیدیں ہماری ٹوٹ چکی ہیں لیکن جب تک ہم قبر میں داخل ہو جائیں یہ امید ہماری ٹوٹنے کے قابل نہیں ہے کہ ہمارا خدا وہ خداہے جو ہر ایک بات پر قادر ہے.انسان کی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ دو چار تجربہ سے خواص اشیاء پر یقین کر لیتا ہے مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ پانی ہمیشہ پیاس کو بجھاتا ہے اور روٹی ایک بھوکے انسان کوسیر کرتی ہے، کسڑآئل دست لاتا ہے، سِمُّ الفار پوری خوراک پر ہلاک کردیتا ہے.تو پھر خد اتعالیٰ کے فضل اور رحم پر کیوں یقین نہ کریں جس کو ہم اپنی زندگی میں صدہا مرتبہ آزما چکے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ گھبراہٹ ضعف ایمان کے باعث ہوتی ہے.اگر کسی کو یہ یقین ہوکہ میرا ایک خدا ہے جو مجھے ہر گز ضائع نہیں کرے گا تو ممکن ہی نہیں کہ وہ غمگین ہو اور کیونکر غمگین ہو سکے.انسان تو آدمی سے بھی تسلی پاکر غمگین نہیں ہوتا.مثلاً اگر کسی کو لاکھ دو لاکھ روپیہ کی ضرورت پیش آجائے اوراس کے پاس ایک پیسہ نہیں اوروہ فکر ادائیگی میں مر رہا ہے اور کوئی رفیق نہیں تو غم سے ہلاک ہو جائے گا.جس طرح سر سیّداحمد خان ایک لاکھ روپیہ کے غم سے دنیا سے کوچ کرگئے.لیکن اگر ایسے مضطرب آدمی کو کوئی دوست مل جائے جو ذات کاچوہڑا یعنی بھنگی ہے یا چمار ہے اور وہ بہت دولت مند ہو اور وہ اس کو تسلی د ے کہ تو غم نہ کر کچھ دیرکے بعد یہ تمام روپیہ تیرا ادا کردوںگا اوراس کو یقین آجائے کہ اب بلاشبہ اپنے وعدہ پر یہ شخص تمام روپیہ ادا کردے گا تو قبل پہنچنے روپیہ کے جس قدر اس کو کشاکش ہو رہی ہے وہ اس کی نظر میں ایک معمولی ہو جائے گا اور چہرہ پر افسردگی نہیں رہے

Page 423

گی.ایسا ہی وہ شخص جو یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کرے گا وہ بلاشبہ ضائع نہیںہو گا.غم تب آتا ہے جب ایمان جاتا ہے.ایک تو بشریت کاغم ہے اس میں تو ایک حد تک انسان معذور ہوتا ہے جب کہ کسی کی موت پر غم آتا ہے اس میں تو انبیاء بھی شریک ہوتے ہیں جب کہ حضرت یعقوبؑ، یوسف ؑ کی جدائی میں چالیس برس تک روتے رہے.وہ بشریت کا غم تھا.مگر ایک ضعف ایمان کا غم ہوتا ہے جیسا کہ کوئی نادان یہ غم کرے کہ اب میر اکیا حال ہو گا،کیونکر مجھے روٹی اور کپڑا ملے گا.عیال کا کیا حال ہو گا.اس غم سے اگر انسان توبہ نہ کرے تو کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اپنے رازق کا منکر ہے.دعا کا سلسلہ خوب سرگرمی سے جاری ہے.ہر ایک ساعت خد اتعالیٰ کے فضل کی امید ہے.والسلام ٭ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء خاکسار میرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۸۷ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ور حمتہ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.مجھ کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ برخلاف طبیعت کچے دنیا داروں کے جو ایک رنگ میں دہریہ ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو استقامت بخشی.یہ بڑی نعمت ہے بشرطیکہ دوسرے لوازم اطاعت بھی ساتھ ہوں.مجھے بہت کم اتفاق ہو ا ہو گا کہ آپ کے امر میں میں نے کبھی قسم کھائی ہو لیکن میں اس خدا ئے حیّ و قیوم کی قسم کھاتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں نے اس قدر آپ کے لئے دعائیں کی ہیں کہ اگر وہ ایک درخت خشک کے لئے کی جائیں تووہ بھی سبز ہو جائے اور ابھی میں تھکا نہیں، جب تک وہ فرشتہ ظاہر نہ ہو کہ جو قضاو قدر کے امر کو ظاہر ہوتا ہوا دکھلائی دیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ عادت ہے کہ جب دعا انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو آخر

Page 424

ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ سے اس روک کو توڑتا ہے تب بعدا س کے بلاتوقف رحمتِ الٰہی ظاہر ہوجاتی بلکہ قبل اس کے جو صبح ہو آثار رحمت نمودار ہونے لگتے ہیں.سو میں اسی غرض سے دعا میں مشغول ہوں.آپ پر بھی لازم ہے کہ آپ دعاؤں پر دل سے ایمان لا کر ایسے خوش رہیں جیسا کہ ایک شراب پینے والا عین نشہ کی حالت میں خوش ہوتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر.اور جو دہریہ کے رنگ کے لوگ ہیں ان کی باتوں کے سننے سے پرہیز کریں کیونکہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہیں مومن پر ضرور ابتلا آتا ہے اور کھبی کبھی ابتلا لمبا بھی ہوجاتا ہے مگر آخر کار رحمت الٰہی کی صبح نکلتی ہے اور تمام غم کی تاریکی کو دور کردیتی ہے لیکن جب فاسق یا کافر پر ابتلا آتا ہے تو وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کو خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں، صرف اسباب پر بھروسہ ہوتا ہے جب اسباب نابود ہو گئے تب وہ بھی نابود ہونے کو تیار ہوجاتا ہے.سو آپ کے لئے جو تخم ریزی ہے یہ ایسی نہیں کہ خالی جائے صرف صبر درکار ہے.اور سوئِ ظن زہر قاتل ہے.اگر زمین مدراس کی آپ کو تکلیف دہ معلوم ہوئی آپ مع جمیع قبایل قادیان میں آجائیں.غرض اب آپ سے صبر اور استقامت کا مطالبہ ہے.جب پھر آپ کیلئے دن پھریں گے تو آپ ان دنوں کو یاد رکھیں گے اور ضرور دل میں حسرت کریں گے کہ کاش میں نے جس قدر مصیبت پیش آمدہ پر صبر کیا اس سے زیادہ کرتا تب آپ کی معرفت بڑھ جائے گی اور جس طرح دنیا دار کی جان صرف جمعیت ہوتی ہے یہ بات نہیں رہے گی بلکہ آپ کے اندر ایک نئی روح آجائے گی کیونکہ میری دعاؤں کے لئے یہ بھی ایک چیز ہے.زیادہ خیریت.والسلام ٭ ۱۶؍اگست ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد

Page 425

مکتوب نمبر ۸۸ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.غم و اندوہ کی کثرت اور بارگران قرضہ اگرچہ (لفظ پڑھے نہیں جا سکے) ایسی حالت میں جبکہ انسان اپنی کمزوری اوربے سامانی اورعدم موجودگی اسباب کا مطالعہ کر رہا ہو، بہت آزاردہ چیز ہے لیکن پھر اگر دوسرے پہلو میں کہ ’’خدا داری چہ غم داری‘‘ سوچا جائے تو ایسے غم گو بہت مجبوریوں کے ساتھ لاحق ہوں تاہم ایک غفلت کا شعبہ ثابت ہوں گے یعنی قادر حقیقی کی عجائب در عجائب قدرتوں پر ایمان نہیں ہوتا، جو ہونا چاہئے.یہ خیال درحقیقت ایک تسلی اورشکر اور ہزار ہا امیدوں کے سلسلہ کا موجب ہے کہ ہمارا خد اقادر خدا ہے اور مجیب الدعوات ہے.ا س کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.یہ ایسی باتیں نہیں ہیں کہ محض طفل تسلی کے طور پر دل خوش کن باتیں ہوں بلکہ اگر دنیا میں نجات کے لئے یہ راہ کشادہ نہ ہوتی تو بیکسی کی زندگی سے مرنا بہتر تھا.یہ سچا نسخہ کیمیا کا ہے جو ہمار اایک خدا ہے جو تمام باتوں پر قادر ہے.خد اتعالیٰ آپ کو اس قادر خد اکے دونوں قسموں کے فیضوں سے پورے طور پر متمتع فرماوے.آمین.باقی سب طرح خیریت ہے.خدا آپ کا حافظ ہو.زیادہ خیریت.والسلام ۳۱؍ اگست ۱۹۰۲ء خاکسا ر مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 426

مکتوب نمبر۸۹ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.جناب الٰہی میں آپ کے لئے سلسلہ دعا کا شروع ہے.وَمَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْمِ یُفْتَحْ.چند روز ہوئے کہ مدراس سے ایک شیشی خورد مشک کی آئی.وہ پرچہ جس پر فریسندہ کا نام تھا ڈاکخانہ سے گم ہو گیا.وہ زبانی شکی طور پر کہتے ہیں کہ شاید یہ مدراس سے آئی.اس سے پہلے ایک عجیب واقعہ گزرا کہ ایک شخص نے مجھ کو پوچھا کہ جو انبیاء علیہم السلام بعض کھانے کی چیزوں کو برکت دیا کرتے تھے اور کھانا ختم نہیں ہوتا تھا وہ برکت کیا چیز تھی؟ میں نے جواب دیا کہ جس چیز پر ایک مقبول آدمی دعا کرے اس کاسلسلہ لمبا کیا جاتا ہے.جلدی ختم نہیں ہوتا خواہ کسی طرح لمبا کیا جائے.اتفاقاً اس وقت میرے پا س ایک شیشی مشک کی تھی.جو اس میں بہت تھوڑی سی مشک تھی میں نے کہا کہ دیکھو ہم ا س کوبرکت دیتے ہیں تا یہ مشک آج یا کل ختم نہ ہو جائے تب میں نے اس پر دعائے برکت پھونک دی اور اسی روز تیسرے پہر یہ مشک آگئی جو کہتے ہیں غالباً مدراس سے آئی.جنہوں نے یہ معاملہ دیکھا ان کے ایمان میں ترقی کاموجب ہوا.مجھے آپ اطلاع دیں کہ کس تاریخ تک آپ کا ارادہ ہے کہ آپ قادیان میں تشریف لاویں.دس روز پہلے اطلاع دیں.والسلام ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۲ء خاکسار میرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 427

مکتوب نمبر ۹۰ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.الحمدللہ کہ آثار بہبودی ظاہر ہونے لگے.سلسلہ دعا کا برابر جاری ہے.سیٹھ دال جی صاحب نے جو مشک بھیجی ہے.خدا ان کو جزائے خیر دے.اصل بات یہ ہے کہ عمدہ مشک ملتی ہی نہیں.کبھی کبھی ہاتھ آتی ہے.سو یہ مشک بھی درمیانی درجہ کی ہے بہرحال خدا تعالیٰ اس خدمت کانیک پاداش ان کو عطا کرے آمین.میں آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا کہ معلوم ہوا کہ وہ مدراس میں نہیں ہیں.آپ میری طرف سے السلام علیکم کہہ دیں.والسلام ۲۸؍ ستمبر ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۹۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج عنایت نامہ جس میں کچھ پریشانی حال اور ایک خواب درج تھی، پہنچا.خواب گویا اس پریشانی کا جواب تھا.تعجب کہ اس قدر عمدہ خوابیں آپ کو ہوتی ہیں اورپھر بھی تفکّرات دامن گیر ہوتے ہیں.یہ خواب آپ کے لئے بڑی ایک بشارت ہے کہ خدا تعالیٰ پھر آپ کو عزت اور مرتبت کی سواری پر بٹھانے والا ہے اورازروئے تعبیر کے جو اَب مال ہے جو دشمن کے دست برد سے بچایا جائے یا کوئی خزانہ جو مل جائے یا وفادار عورت.اور میرے گھر میں سے جو آپ کو جواب دیا تھا تو اس کی تعبیر دو ہوسکتی ہے.ایک یہ کہ ان کانام نصرت جہاں بیگم اوریہ خدا کی نصرت کی طرف اشارہ ہے

Page 428

اور دوسرے یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ میری دعائیں آپ کو نصرت کا کام دیں گی.ایسا ہی آپ کو میرناصر نواب صاحب نظر آئے اس میں بھی نصرت کا لفظ ہے اور میرا بیٹا بھی آپ کو نظر آنا بشارت ہے کیونکہ دعا بجائے بیٹے کے ہوتی ہے گویا وہ دعا اوّل ایک ہندو کے پاس محبوس تھی یعنی اس کے ظہور کا وقت نہیں آیا تھا اور اب وقت قریب ہے.غرض ہر ایک جز اس خواب کی بہت مبارک ہے.آپ کو چاہئے کہ مردِ میدان اور پہلوان بن کر اب چند روز کی ابتلائوں کو برداشت کر لیں.انشاء اللہ آسمان پرسے آپ کے لئے کوئی راہ نکل آئے گی اور حلوا پہنچ گیا ہے خد اتعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیردے کہ مدراس کارزق قادیان پہنچا دیا.حلوا بظاہر بباعث شدت موسم گرما خراب ہو گیا اوراس پر وہ زنگ جیسا شیرینی پر چڑھ جاتا ہے ایسا چڑھ گیا تھاکہ شیرینی پھینکنے کے لائق معلوم ہوتی ہے.بعض نے کہا اب قابل استعمال نہیں لیکن ایک خادمہ نے کہا کہ میں اس کو نئے سرے سے بنا دیتی ہوں.پھر خبر نہیں کہ اس نے کیا کیا، ایسی عمدہ شیرینی بطور قرص بنا لائی کہ نہایت لذیذتھی.اسی وقت تمام اہل وعیال میں تقسیم کی گئی.چونکہ بھیجنے والوں نے محبت اور ارادت سے بھیجی تھی اس لئے خدا نے شیرینی کو بگڑنے اور بیکار ہونے سے محفوظ رکھا.خدا اُن کو جزائے خیر بخشے اورآپ کو جزائے خیر بخشے آمین.باقی سب طرح خیریت ہے.طاعون کا اس علاقہ میں پھر زور ہوتاجاتا ہے.کوہ کسولی پر طاعون زور سے شروع ہوگئی.بعض سرکاری خبروں سے معلوم ہوا کہ احاطہ بمبئی میں ہماری جماعت دس ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہے اور پنجاب میں اُونچاس ہزار ہماری جماعت ہے.ابھی سرکاری کاغذات ہم کو نہیں ملے.کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی نقل مل جائے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد

Page 429

Page 430

Page 431

خداآپ کواستقامت بخشے اورآپ کے دل میں صبر ڈالے.صبروہ کیمیا ہے جس کاسونا کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا.خدا ابتلا کے طور پر آگ میں ڈالتا ہے مگر صابر اور وفادار کو پھر محبت سے پکڑ لیتا ہے اور دوسری حالت ا س کی پہلی سے اچھی ہوتی ہے.والسلام ٭ خاکسار ۶.دسمبر ۱۹۰۲ء میرزا غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۹۴ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.بدریافت خیرو عافیت خوشی ہوئی.الحمدللہ اس جگہ بھی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.میں ا س وقت تک معہ اپنی تمام جماعت کے باغ میں ہوں.اگرچہ اب قادیان میں طاعون نہیں ہے لیکن میں اس خیال سے کہ جو زلزلہ کی نسبت مجھے اطلاع دی گئی ہے اس کی نسبت میں توجہ کر رہا ہوں اگر معلوم ہو کہ وہ واقعہ جلد تر آنے والا ہے تو اس واقعہ کے ظہور کے بعد قادیان میں جائوں.اگر معلوم ہو کہ وہ واقعہ کچھ دیر کے بعد آنے والا ہے تو پھر قادیان میں چلے جائیں.بہرحال دس یا پندرہ جون تک انشاء اللہ میں اسی جگہ باغ میں ہوں.آپ تشریف لے آویں اِنْ شَائَ اللّٰہ تَعَالٰی اس جگہ کوئی تکلیف نہ ہوگی اور آنے سے پہلے مجھے اطلاع دیں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ٭٭ ۱۲؍ مئی ۱۹۰۵ء خاکسار میرزا غلام احمد

Page 432

مکتوب نمبر ۹۵ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کاعنایت نامہ پہنچا.جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں آپ کے لئے بہت دعا کی جاتی ہے اوریقین رکھتا ہو ںکہ خدا تعالیٰ آپ کو ضائع ہونے سے بچا لے گاکہ وہ کریم ورحیم ہے.آپ کا اپنی جماعت کے ساتھ اختلاط اورمصالحت یہ آپ کی رائے پر موقوف ہے.اگر ایسی مصالحت میں کوئی امر معصیت اورگناہ کا درمیان نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الصُّلْحُ خَیْرٌ ورنہ اس وقت تک صبر کرنا چاہئے جب تک خد اتعالیٰ خود آسمان سے کوئی صورت بہبودی پید ا کردے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.انسان اپنی کمزوری اور بے صبری سے آنے والی رحمت سے منہ پھیر لیتا ہے ورنہ خد اتعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں.وہ ضرور وقت پر اپنی تمام باتیں پوری کر دیتا ہے، قادر ہے اورکریم ہے.صبر سے ایک حدتک تلخی اٹھانا موجب برکات ہے.مگر یہ کام بڑے خوش قسمت انسانوں کا ہے جن کوخد اتعالیٰ پر بہت بھروسہ ہوتا ہے.جو کبھی تھکتے نہیں.آخر خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے ۱؎ یعنی ہم نے نبیوں کو وعدہ مدد اور فتح کا دیا، پھر مدت تک اس وعدہ کو التوا میں ڈال دیا یہاں تک کہ مومنوں نے خیال کیا کہ خد انے جھوٹ بولا اور جھوٹا وعدہ دیا اوراس کے کچھ آثار بھی ظاہر نہ ہوئے مگر آخر وقت پر وہ وعدہ پور اہوا.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر یہ خوف کا مقام ہے کہ کچی طبیعت والوں پر یہ حالت بھی آجاتی ہے کہ وہ تھک کر خد اکے وعدہ کو بدظنی سے دیکھنے لگتے ہیں اور جھوٹ خیال کرتے ہیں.نہایت خوش قسمت وہ شخص ہیں جن میں تھکنے کا مادہ نہیں، گویا ان میں پیغمبروں کی روح ہے.حضرت یعقوب علیہ السلام کو قسم دے کر گواہوں کے ساتھ یہ یقین دلایا گیا تھا کہ یوسف ؑ کو بھیڑیا کھا گیا مگر خداکے وعدے میں وہ شک نہ لائے اورچوبیس برس کے قریب مدت گزر گئی، خداکے وعدے نے کچھ بھی ظہور نہ کیا یہاں تک کہ گھر کے لوگ بھی حضرت یعقوبؑ کو دیوانہ کہنے لگے.لیکن آخرکار وہ سچا نکلا.غرض سب کچھ انسان کر سکتا ہے لیکن صادق مومنوں کی طرح صبر کرنا

Page 433

Page 434

آپ بیتی حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدارسی حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات کے بعد میں اس مضمون کودرج کردینا ضروری سمجھتا ہوں جو سیٹھ صاحب نے حضرت حجتہ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد عالی کے ماتحت لکھا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اسے الحکم میں چھاپ دوں چنانچہ وہ الحکم میں چھپ گیا تھا.حضرت سیٹھ صاحب کی اس یادگار کے ساتھ اس کا اندراج بہت ضروری ہے.(عرفانی) حضور اقد س امام ہمام علیہ السلام ! اس ناچیز … کی ابتدائی عمر ہی سے قسم قسم کے لوگوں سے ملاقات رہی ہے.مگر جس گروہ کے ساتھ جب ملاقات ہوتی ابتداً تو ایک دلی جوش سے ہوا کرتی تھی اور اس ناچیز کو بڑی محبت اس سے رہا کرتی.لیکن جب کبھی کسی قسم کی کوئی منافقانہ حرکت ایسے ملاقاتی سے مشاہدہ میں آتی تو میرا دل رنج و غم سے بھر جاتا اور سخت صدمہ پہنچتا.میری صحبت اور ملاقات زیادہ تر اور خصوصیت کے ساتھ علماء اور صلحاء سے رہتی اور بجائے خود میں تقویٰ اورطہارت کوبھی فی الجملہ پسند کرتا تھا.چنانچہ میری ابتدائی عمر کی ایک کیفیت یہ ہے کہ ایک بزرگ غالباً وہ خراسانی تھے.بنگلور کے قریب ایک مقام میں جس کو لاگر کہتے ہیں سکونت رکھتے تھے اور ان کا نام ودو د میاں تھا.چونکہ خراسانی گھوڑوں کے سوداگر وہاں قیام کرتے تھے اور سرکاری گھوڑوں کی خریداری بھی وہاں ہی ہوا کرتی تھی اس لئے ان کاقیام اسی جگہ رہتا تھا ا ور کبھی کبھی بنگلور بھی آجایا کرتے تھے.ایک نوجوان خوش رُو اور دوسرے تقویٰ اورپرہیز گاری میں بھی کامل تھے اور اس وقت ان کاسن بھی کوئی پچاس کے قریب ہو گا مگر قرأت بہت ہی اچھی پڑھتے تھے اوربڑے ہی خوش الحان تھے.جب کبھی ان کاآنا بنگلور میں ہوتا تھا تو جامع مسجد میںآکر فروکش ہوا کرتے تھے اوراس ناچیز کے وقت کا ایک حصہ اسی مسجد میں گزرتا تھا.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی ودود میاں صاحب نے نماز عشاء پڑھوائی اور یہ گویا ان کی

Page 435

قرأت اورخوش الحانی پر مطلع ہونے کا پہلا اتفاق ہوا.جوں جوں نماز پڑھتا تھا اور ساتھ ساتھ طبیعت کوان کی طرف میلان ہوتا گیا اور پھرتو میرے وقت کا کچھ کچھ حصہ ان کی صحبت میں بھی گزرتا رہا.چونکہ وہ بزرگ، نہایت درجہ کے متقی، پارسا ، تہجد گزار اور منکسر المزاج تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں ایک لذت بھی محسوس ہوتی تھی بایں سبب ان پر میرا حسن ظن بڑھتا گیا اور اکثر وہ ہمارے ہاں بھی مہمان رہتے جب تک ان کاقیام ہوتا.چونکہ اس ناچیز کے والدین، خدا ان کو مغفرت کرے، ا س بات کو نہایت عزیز رکھتے تھے تو میرے لئے یہ بات بہت آسان ہوجاتی تھی کہ جب کبھی کوئی اور عالم یاکوئی اور اعلیٰ درجہ کے آدمی وہاں آجاتے تو ہرگز ہمارے مہمان ہوئے بغیر رخصت نہ ہوتے تھے.اوریہ اس زمانہ کا ذکر ہے کہ اس ناچیز کو کاروبار دنیا سے کچھ معلوم نہ تھا.مسجد اورمدرسہ اور کبھی کبھی اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل تماشہ سیر کرنے میں بھی وقت گزرتا تھا.غرض جیسا کہ والدین کی عادت ہوا کرتی تھی بڑے دنوں یعنی مشہو رتہواروں میں لڑکوں کو کچھ دے دیا کرتے ہیں جیسا کہ عیدین وغیرہ کو اورایسا ہی بعض دوسرے موقعوں پر اور ہمارے ہاں عموماً یہ بھی عادت ہے کہ دوسرے رشتہ دار بھی ایسے موقعوں پر کچھ نہ کچھ نقدی بطور عیدی دے دیا کرتے ہیں تو اس ناچیز کے پاس ایسی تقریبوں کے جمع کئے ہوئے کوئی دس بارہ روپے تھے اور اس کو بڑی احتیاط سے اپنے پاس رکھتا تھا یعنی کسی کو اس کی خبر نہ تھی.میں خاص اپنے صندوق میں رکھا کرتا تھا.غرض ایک وقت مولوی صاحب مذکور حسب عادت تشریف لائے اور میں ان کو کھانا کھلانے کے واسطے مکان پر لے گیا.چونکہ وہ کوئی وقت کھانے کا نہ تھا تاہم میری والدہ نے جھٹ پٹ تھوڑی روٹی اور سالن تیار کرلیا اور بہت جلد مولوی صاحب کے روبروپیش کر دیا.معلوم ہوتا ہے اس وقت ان کواشتہا بھی زیادہ تھی یعنی کھانا کھانے کے بعد.دعائے خیر معمول سے زیادہ ان سے صادر ہوئی اور ان کی حالت ظاہری سے کچھ ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ ان کو کچھ اوربھی احتیاج ہے اورمیں نے وہ مبلغ جو اس عمرتک جمع کیا ہوا تھا تمام وکمال مولوی صاحب کے نذر کر دیا اور شاید آج تک اس کی کسی کو خبر نہیں ہے اورمجھے یہ واقعہ اب تک اچھی طرح سے یاد ہے.اس کے بعد مولوی صاحب بہت ہی محبت اور شفقت فرماتے رہے اور چونکہ ایک صوفی منش بھی تھے کچھ کچھ ذکر اور اَوْرَاد مجھے سکھلانے لگے اور میں بھی ان کی ہدایت بموجب کرتا رہا.چنانچہ ان

Page 436

کی لکھوائی ہوئی اَدعیہ میں سے ایک ابھی تک میرا دستور العمل ہے لیکن بعد اس کے بہت جلد میری شادی ہوئی.میری عمر کا شاید چودہواں سال ہو گا جومیری یہ تقریب ہوئی.اورمیری حالت اس وقت تک یہ تھی کہ میں اس کی غرض وغیرہ سے بالکل نا آشنا تھا.یعنی کچھ بھی خبر نہ تھی کہ شادی سے غرض کیا ہوتی ہے.غرض بعد شادی کے بھی مجھے زیادہ اُنس مسجد اور اچھے لوگوںکی صحبت سے رہی.اگرچہ ایک حد تک دوکانداری بعد شادی کے ضروری امر ہوگیا مگر میں اس کے واسطے کچھ پرواہ نہیں کرتا تھا.میری بیوی اس وقت کبھی میرے پاس رہتی تھی کبھی میکے میں گزارتی تھی.اکثر عادت ایسی تھی کہ ایک ہفتہ یہاں اور ایک ہفتہ وہاں ان کاگزرتا تھا.مگر میری یہ حالت رہتی تھی کہ جب وہ میکے میں ہوتی تھیں تو میں بڑا خوش رہتا تھا.چونکہ کمرہ خالی ہوتا اور میں مصلّے ہی پر صبح کرتا تھا اس لئے مجھے اس تنہائی میں ایک خاص لطف معلوم ہوتا تھا.میرے سسرال کو چند روز کے لئے سفر درپیش آیا اور انہوں نے میری بی بی کو ساتھ لے جانا چاہا اور میرے والدین سے اس امر کی درخواست کی اوران کو یہ بات ناپسند تھی مگر میری یہ خواہش تھی کہ اگر یہ اجازت دے دیں تو مجھے ایک عرصہ تک تنہائی میسر رہے گی.غرض ایسا ہی ہوا اور مجھے تنہائی میسر ہو گئی اور میں اس تنہائی میں اپنے شغل میں لگا رہتا تھا اور کچھ کچھ باطنی صفائی بھی مجھے محسوس ہوتی تھی اور اچھے اچھے خواب بھی آتے تھے.دیوان حافظ وغیرہ ایسی کتابوں کے ساتھ مجھے خاص رغبت رہتی تھی اور میں وہ دن بڑی خوشی اور ذوق کے ساتھ گزارتا تھا.غرض جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں یعنی دو تین سال میرے اسی طرح گزرے اور اس کے بعد میرے چھوٹے بھائی زکریا مرحوم کی شادی ٹھہری اور میرے والد اس سے بہت محبت کیا کرتے تھے اور اس کو بہت ہی چاہتے تھے کیونکہ جیسے وہ کمال درجہ کے شکیل تھے ویسے ہی ذکی الطبع بھی تھے.پس ان کی شادی اس وقت کے رسم ورواج کے موافق بڑی دھوم دھام سے ہوئی.جب اس شادی سے فراغت پا چکے تو انہوں نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا اوراس اثنا میں ہماری دوکان مدراس میں الگ شروع ہو گئی جو اس سے پیشتر چند شرکاؤں میں چلتی تھی.اب سب شرکاء نے اپنی اپنی جدا جدا دوکانیں کھول کر مشترکہ دوکان کو بند کر دیا.اس مشترکہ دوکان میں چار شریک تھے جن کی اب چار دوکانیں ہوگئیں.والد مرحوم نے مجھ کواور زکریا مرحوم کو یہا ںچھوڑا اور باقی سب کو ہمراہ لے کر بیت اللہ شریف کو راہی ہوگئے اور یہاں دو بھائی ہم اورہمارے دو چچا زاد بھائی تھے جو بڑی عمر کے

Page 437

تھے اور معاملہ فہم تھے مگر ہم دونوں بھائی کم سن اور نو آموز.غرض والد صاحب کے تشریف فرما ہونے کے بعد چھوٹا بھائی زکریا مدراس کواپنی خاص دوکان پر روانہ ہو گیا.چونکہ وہ میرے سے زیادہ معاملہ فہم اورطبیعت کا ہر ایک طرح سے تیز تھا اس لئے میرے بڑے بھائی نے ان کووہاں روانہ کر دیا اور میرے دوسرے چچا زاد بھائی کو الگ دوکان پر بٹھایا اوراپنے تئیں مجھے بڑی دوکان کے لئے تجویز فرمایا.اور بعد اس کے خود بھی جلد کسی کام کے پیش آ جانے سے مدراس روانہ ہوگئے اور میں اکیلا یہاں دوکان پر رہ گیا اور اس وقت تک میں گویا ایک آزاد زندگی بسر کرتا تھا اور اب پابند ہوگیا اس لئے اب کچھ کچھ بوجھ معاملہ کا اور خانہ داری کا محسوس ہونے لگا.چونکہ ابتدا سے ہمارے چچا زاد بھائیوں کا کھانا پینا الگ ہی تھا صرف معاملہ شرکت کا تھا.غرض ہر ایک قسم کی آزمائش ہونے لگی اور بہت جلد طبیعت آئندہ کے لئے ہوشیا ر ہو چلی.تجارت پیشہ میں بھی ایک شمار ہونے لگا اور کچھ عزت اور وقار کی نظر سے ابنائے جنس میں دیکھا جانے لگا اور بمصداق ع تکیہ برجائے بزرگان نتواں زد بگزاف مگر اسباب بزرگی ہمہ آمادہ کنی ہر ایک موقعہ اور محل کا فہم گویا خدا سے ہی ملنے لگ گیا اورکوئی ایک برس کے بعد مدراس جانے کی نوبت پیش آگئی.والد مرحوم کابعد حج شاید دوسرے یا تیسرے دن مکہ معظمہ میں انتقال ہو گیا اور بڑا سخت صدمہ اس حادثہ سے دل کو پہنچا جس کو یہ عاجز اب تک نہیں بھولا.غرض اس حادثہ جانکاہ کے بعد میرا بھائی بنگلور آ گیا اور مجھے وہاں جانا پڑا.بعد پہنچنے کے میرے چچا زاد بڑے بھائی جو وہاں موجود تھے صرف دو یا تین دن رہے اور بنگلور کو روانہ ہو گئے.ان کی اس حرکت سے سخت حیرانی ہوگئی یعنی ایک تو میں بالکل نیا اورپھر ہر ایک طرح سے نوآموز.دفتر وغیرہ لکھنے کی بالکل تمیز نہ تھی اور نہ کسی اہل معاملہ سے شناسائی کروائی اورنہ کچھ زبان سے کہا اور کیا تو یہ کیا کہ چلنے پر آمادہ ہو گئے اور یہاں مجھے گویا قیامت کا سامنا ہوگیا.ہزاروں کالین دین اور کچھ بھی خبر ندارد.مگر کیا ہو سکتا تھا بجز اس کے کہ قہر درویش برجان درویش.کبھی تو گھبرا کر رو پڑتا تھا اور کبھی دفتروں کو پاس رکھ کر ساری ساری رات غور کیا کرتا تھا.اس وقت ایک مدراسی مسلمان ہمارے کام میں تھے جن کو کام و کاج کا کچھ تجربہ تھا ان سے مجھے مدد ملتی رہی.غرض یہ کہ ان سب باتوں پرمیں بہت جلد حاوی ہو گیا اورپھر معاملہ کے

Page 438

متعلق بھی شوق ہو چلا.یا امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام! میرا اس قدر طوالت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کرنے سے مدعا یہ ہے کہ یہ گویا میری ابتدائی عمر کا ایک ثلث ہے جس کو آج بھی میں یاد کرتا ہوں تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں.وہ کیا ہی مبارک حصہ زندگی کا تھا جس میں ہر ایک قسم کی خیروخوبی جمع تھی.تجارت ایک محدود دائرہ کے اندر چلتی تھی.اکثر اسباب بمبئی سے آیا کرتا تھا بمبئی سے بنگلور شاید اڑھائی اور تین مہینے کے اندر اسباب پہنچتا تھا اور جب پہنچتا تھا تو ایک دم ہی تیس چالیس گاڑیوں میں کئی تاجروں کامال آجاتا تھا گویا ایک قافلہ کی حیثیت ہوتی تھی اورپھر اس اسباب کے آنے سے جو رونق بازار کی ہوتی تھی اس کانقشہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے غرض بیس سے لے کر چالیس فیصدی کے قریب نفع پر وہاں کے چھوٹے چھوٹے بیوپاری مال خرید لیتے تھے اور چار سے چھ قسط میں روپیہ ادا کرنے کی شرط ہوتی تھی اور اس طرح پر سال میں بیس ہزار کے قریب قریب ہماری تجارت چلتی تھی.اور سال میں آٹھ مہینے راستہ کھلا رہتا تھا اورچار مہینے بند.یعنی موسم کے مخالف ہونے کی وجہ سے جہاز رانی موقوف رہتی تھی.یہ گویا معاش کا ذریعہ اوراس وقت کی تجارت کی حالت تھی.اب رہا دوسرا پہلو یعنی خانہ داری کا سو ملاحظہ فرمایئے کہ ہمارے والد اور چچا نے زندگی تک رفاقت کی.رہائش اورتجارت میں اس وقت شاید پچیس کے قریب آدمی ہمارے کنبے میں ہوں گے جو ایک ہی مکان میں رہتے تھے.کوئی تین روپیہ کرایہ ماہوارکا مکان تھا جس میں اچھی طرح سے اوقات بسری ہوتی تھی.میرے چچا شاید تیس روپیہ اور میرے والد پندرہ روپیہ ماہوار خرچ کے لئے اُٹھایا کرتے تھے.ہر ایک چیز ارزاں تھی.گھی کی شاید دو سوا دو روپیہ فی من قیمت تھی اور عمدہ سے عمدہ چاول کی قیمت پونے دو سے دو روپیہ تک فی بستہ تھی.علی ہذا القیاس ہر ایک خوردنی چیز کا یہ حال تھا اوراس زمانہ میں جو لذیذ اور لطیف غذائوں کا استعمال ہوا کرتا تھا آج اس کانام ونشان بھی نظر نہیں آتا.ہمدردی اپنے اور بیگانے سے ایسی تھی کہ شادی اور غمی دونوں پہلوئوں کااثر صاحب خانہ کے برابر دوسروں پر ہوتا تھا.خیراتی کاموں کی نگرانی صدق اور اخلاص اورمحبت سے ہوا کرتی تھی.بدستور فقراء اور علماء میں سیر چشمی نظر آتی تھی اورطالب ضرور ایک حد تک مستفیض ہوجاتے تھے.ادنیٰ درجہ کاآدمی یعنی ایک دو روپیہ کامعاش رکھنے والا بھی خورم و خنداں نظر آتا تھا.مروّتؔ.محبتؔ.صدقؔ.

Page 439

اخلاصؔ.حیاؔ.شرمؔ.حفظؔ مراتب.ہمدرؔدی ہر ایک قسم کے لوگوں میں پائی جاتی تھی.گویاآسمان سے خیروبرکت کی بارش برس رہی تھی علی العموم جمعیتِ خاطر کے آثار نظر آتے تھے اور ابھی تک گویا وہ منظر آنکھوں کے سامنے ہے.اس کے بعد عمر کادوسرا ثلث ہے جس کی نسبت جی نہیں چاہتا کہ کچھ لکھوں صرف اس قدر اشارہ کافی سمجھتا ہوں کہ بتدریج اس ابتدائی حصہ کی خوبیاں جن کومیں نمونے کے طور پر لکھ آیا ہوں رُوبہ کمی ہوتی گئیں اور آخر حصہ میں وہ سب کی سب کافو رہو گئیں اور ان کی جگہ ناگفتہ بہ باتوں کامجموعہ اپنے اندر جمع ہو گیا اور صحبت اور مجلس بھی ویسی ہی رہتی تھی.غرض جب تیسرے حصہ کا آغاز ہونے لگا.شاید عمر بھی چالیس سے متجاوز ہو گئی توکچھ کچھ آنکھ کھلنے لگی گو کسی قدر حالات وہی دوسرے حصہ کے باقی اور قائم رہ گئے صرف اتنا فرق پیدا ہوا کہ اپنی حالت کو غور سے دیکھنے لگ گیا اور اچھے اور بُر ے میں تمیز ہونے لگ گئی.والدین وغیرہ تو گویا سر پر سے اُٹھ گئے تھے.اب نوبت اپنے ہمنشینوں کی آئی جو کسی قدر معمر تھے وہ بھی باری باری اٹھنے لگے اور عبرت ناک حالات بھی پیش ہونے لگے.کچھ تو اپنی نالائق زندگی کا غم اور کچھ تغیرات زمانہ کارنگ دل کو پکڑتا گیا مروّت محبت اپنے بیگانے سے اُٹھنے لگی، دوست دشمن سے بدتر نظر آنے لگے، گھر کی بات بگڑنے لگی.ہم آٹھ بھائی تھے چھ حقیقی اور دو چچا زاد اورپھر سب باعیال و اطفال بلکہ بھتیجے تک صاحب عیال و اطفال، سب مل ملا کرکوئی پچاس آدمی کا مجموعہ تھا مگرسب کے سب مل کر اچھی طرح سے گزارتے تھے.کوئی کسی کا بار خاطر نہ تھا اور کسی کو کسی کے لئے خرچ کرنا گراں نہیں گزرتا تھا.چچازاد گویا حقیقی بھائیوں سے زیادہ عزیز تھے مگر اب اس میں بھی فرق آنے لگا اور ایک دوسرے کے درپے ہو گیا.اتفاق کی صورت میں فرق آتا گیا گو چندے بات سنبھلی رہی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ اس عاجز کا رعب سب گھروالوں پر تھا، کسی کو کسی قسم کی سبقت کی جرأت نہ ہو سکتی تھی.مگر چونکہ صورت اتفاق میں فرق آگیا تھا اس لئے زندگی بے لطف سی ہو گئی اورپھرعلیٰحدہ ہونے کی نوبت آپہنچی اور سب کے سب یکے بعد دیگرے الگ ہو گئے.صرف ایک میرا بھائی زکریا میرے ساتھ رہا.اور کارخانہ بھی ہمارے ہی سر پڑا.کوئی دس برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ میں قسم قسم کے ابتلائوں میں پڑا اور کوئی پہلو زمانہ کا ایسا نہ رہا جس سے مجھ کوسابقہ نہ پڑا ہو.اور ہر ایک پہلو پر تغیرات کلّی کا اثر محسوس ہونے لگا اور ساتھ اس کے میری زبان پر ا س کاشکوہ اور گلہ بھی رہا

Page 440

یہاں تک کہ میں نے اپنے بعض دوستوں کو بعض کامو ںسے روکا جو بظاہر اس وقت ان کے لئے مفید تھے مگر درحقیقت میری نظر میں جو اس حالت سے گزر کر خوفناک اور مضر ہو گئے تھے.غرض انہوںنے میری بات نہ سنی اور خرابیو ںمیں مبتلا ہو گئے اور اکثر اب تک میں ایسا ہی دیکھتا آیا ہوں یعنی جس پہلو کو کچھ مدت پہلے جیسا میںنے تصور کیا تھا آخر وقت پر وہ ویسا ہی ثابت ہوا.اوراس سے یہ امر میری طبیعت میں پید اہوگیا کہ ایک چھوٹی سی بات پر بھی زیادہ غور کرتا اورایک ادنیٰ کام کو بھی بے سوچے کرنا میری طبیعت کے خلاف ہو گیا اورہر ایک پہلو سے زمانہ کو نازک سمجھنے لگ گیا.اسی عرصہ میں کچھ خسارہ بھی اُٹھایا اور کچھ لوگوں کے حالات کا تجربہ بھی ہو گیا.غرض یہ کہ جیسا کہ میں نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ ابتدائی عمر کے حصہ کو خیرو خوبی کا مجموعہ بتایا ہے اس سے دہ چند زیادہ شرو فساد کا مجموعہ اپنی عمر کے اس آخری حصہ کے زمانہ کو میں نے پایا اور اگر اس کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو شاید میرے ذاتی تجارب کی ایک بڑی کتاب بن جاوے.اور میں نے ہر ایک پہلو کو نہ فقط اپنے ہی تجربے اورمشاہدہ پر چھوڑا.بلکہ ہر ایک پہلو کے پختہ کار لوگوں کی شہادت بھی میں نے لی اور ہمیشہ ایک خوفناک حالت زمانہ میں زندگی بسر کرتا رہا اور خاص کر تجارت کی حالت گذشتہ دس سال سے ایسی نازک ہوتی چلی آئی ہے کہ ہمیشہ زوال عزت و ناموس عزت کا دھڑکا دل کو لگا رہا اور شاید ۱۸۹۱ء اور ۱۸۹۲ء میں دولاکھ روپے کا خسارہ مجھے ایک ایکسچینج میں بھگتنا پڑا.مگر خد اتعالیٰ نے مجھے ٹھوکر سے بچا لیا الحمد للّٰہ علی ذٰلک.غرض اس کے بعد میں ہمیشہ تفکرات کے دریا میں ڈوبا رہا اورزندگی گویا تلخ معلوم ہوتی تھی.ایک طرف تو معاملہ کی کچھ ایسی حالت دوسری طرف کچھ اپنی سیہ کاریاں اور تیسرا یہ کہ جس پہلو کو ایک راحت کا موجب سمجھ کر اختیار کیا جاتا تو وہاں سے بجز نفاق اور بداندیشی کے کچھ نظر نہ آیا.وہ راحت جس کو حاصل کرنامقصود کرتا وہ تو رہی ایک طرف، باقی رنج پہلے سے دِہ چند ہو گیا.غرض میں سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ ایسی حالت دیکھ کر میں موت کو زندگی پر ترجیح دیتا تھا اور کسی کسی وقت میں اپنی سیہ کاریوں کے تصور میں رو پڑتا تھا اور اپنے آپ کو بد ترین مخلوق سمجھتا تھا اورباقی میری طبیعت میں غیر کا لحاظ ابتدائے عمر سے چلاآیا ہے وہ اخیر تک رہا، کسی کو بھی کسی قسم کا آزار پہنچانا میں خطرناک، برا سمجھتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے اکثر اس امر کی توفیق طلب کرتا رہتا تھا کہ وہ مجھے کسی کے آزار کا موجب

Page 441

نہ بناوے.غرض اسی حالت میں میرے بھائی حاجی ایوب فوت ہو گئے جن کا مجھے بہت رنج ہوا اور عبرت بھی ہوئی.ان کے بعد میرا چھوٹا بھائی زکریا بیمار ہوا.دو بڑے بھائی تو گویا الگ ہو چکے تھے.مگر زکریا میرے ساتھ تھے.بمبئی میں ان کی عزت ہر ایک طرح سے اچھی تھی.تجارتی کاروبار میں مالی تائید ان سے ہی ملتی تھی.اب ان کا بیمار ہونا دو طرح کے رنج کا باعث ہو گیا جس کے سبب سے بڑی پریشانی رہا کرتی تھی اور یہ قریب قریب وہی زمانہ ہے جس میں میں نے دو لاکھ روپے کے خسارہ کا ذکر کیا ہے.غرض جب ان کی علالت زیادہ ہو گئی تو میں نے بنگلور میں ایک مکان خریدا اورتبدیل آب وہوا کے لئے ان کو یہاں لے آیا.ہر ہفتہ میں دو دن میں ان کے پا س رہتا اورباقی دن مدراس میں.دوسرے افکار کا بوجھ جو اس وقت میرے سر تھا ا س کا ذکر میں کچھ نہیں کرتا.بس اتنا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ میں کہہ دوں ع دل من داند و من دانم و داند دل من غرض ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں جمعہ کی شام کو مدراس سے چل کر ہفتہ کی صبح کو بنگلور پہنچا اوربھائی کے پا س بیٹھا ہوا تھا.ایک منشی صاحب بھی اس وقت پا س بیٹھے تھے.اِدھر اُدھر کی بات چیت ہورہی تھی اورموجودہ زمانہ کی حالت زار کا ذکر ہو رہا تھا.اوراسی اثنا میں میرا چھوٹا بھائی محمدصالح جو ایک روز پہلے سے بنگلور آیا ہوا تھا، وہاں آگیا اورایک کتاب بھی ساتھ لایا اور وہ یوں کہنے لگا کہ یہ کتاب مجھے سیالکوٹ ( پنجاب) سے منشی غلام قادر فصیح نے بھیجی ہے اور قابل پڑھنے اورسننے کے ہے.یہ کہہ کر انہوں نے اس کو پڑھنا شروع کیا.اوروہ کتاب حضور اقدس کی پہلی کتاب دعویٔ مسیحیت اور مہدویت کے بعد کی تھی.جس کامبارک نام فتح اسلام ہے.غرض ا س کتاب کے کوئی دو ورق پڑھنے کے بعد میرے دل پر کس قسم کا اثر ہو ا،میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.مگر میرے بیمار بھائی زکریا مرحوم نے اسی وقت ایک جوش کے ساتھ بآواز بلند کہہ دیا کہ خدا کی قسم! یہ بے شک وہی ہیں اور ان کا کلام اس کی پوری پوری شہادت دے رہا ہے.غرض ان کے ا س کہنے پر میں اوروہ منشی صاحب بھی میرے ساتھ ہم آواز ہو گئے کہ بے شک یہ کلام کوئی نرالا اثر دل پر کررہا ہے اورپھر دیر تک اس کو سنتے رہے یہاں تک کہ اوّل سے آخرتک ا س کو پورا سن لیا اورمجھے حضور کی طرف پورا پورا یقین ہو گیا.مگر

Page 442

مسیحیت کے دعویٰ پر کچھ تعجب سا رہا اوراس کے ساتھ یہ خیال بھی رہا کہ مسیح کے لئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے اور پھر اپنے وقت پر وہاں سے زندہ نزول فرماویں گے.اور کسی طرح کا اس میں اختلاف نہیں.غرض اس وقت یہ فیصلہ کیاکہ خواہ کچھ ہی ہو مگر کتابیں تو سب منگوا کر دیکھنی چاہئیں اور اس طرف مرحوم بھائی کا بار بار یہ کہنا کہ یہ بے شک اپنے قول میں صادق ہیں اوربہت جلد لوگو ں پر یہ امر کھل جاوے گا.حالانکہ ان کی بہت ہی کم استعداد تھی مگر جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے، بڑے ہی ذکی الطبع تھے اور ان کی طبیعت ملانو ںاورپیرزادوں سے ہمیشہ متنفر رہا کرتی تھی یہاں تک کہ اگر کبھی مجھے کسی سے ملتے ہوئے دیکھ لیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے کہ آپ کو ان مکاروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہے.ان کی صحبت میں کبھی خیر نہیں.لیکن حضور اقدس کی کتاب کو سنتے ہی ان کا یقینا قبول کر لینا ان کی کمال فراست کی پوری دلیل تھی.غرض میں دوسرے دن مدراس کو روانہ ہوا.اور یہاں پہنچ کر سب کتابو ںکے لئے خط لکھوایا اورجس کسی سے ملاقات ہوتی ان سے یہ تذکرہ کرتا اورپھر ساتھ ہی موجودہ وقت کی ہر قسم کی برائیوں کی طرف ان کی توجہ دلاتا اوراس وقت تک میری نظر صرف مسلمانوں ہی تک محدود تھی.یعنی ہر طبقہ کے مسلمانوں کی ہی حالت پر میری نظر تھی جس کے مشاہدہ سے ہمیشہ دل کو درد پہنچتا تھا.جب کبھی کوئی عام مفید کام کے لئے جلسہ ہو جاتا تو پھر جو چند حضرات موجود ہوجاتے تھے ان کی صورت اورسیرت، طرز گفتگواور پھر ایک دوسرے کو باہم دیکھا جاتا.ا س کی بابت ذکر کروں تو شاید طول ہوتا ہے مگر مختصر الفاظ اس کے یہ ہیں کہ پوری پوری یہودیت ثابت ہو جاتی تھی.یعنی جس غرض کے لئے جلسہ کیا وہ تو نا تمام، اور تمام ہو بھی کس طرح.جب ایک دوسرے کی رائے کے تابع ہونے کو ایک سُبکی اور ذلت کا موجب سمجھا جاتا ہو.آخری جو کچھ کہ اس جلسہ سے نتیجہ حاصل ہوتا وہ یہی کہ دو چار صاحبوں میںتو ضرور ہمیشہ کے لئے نفاق پڑ جاتا اورباقی بھی ایک دوسرے پر ضرور کچھ نہ کچھ الزام لگائے بغیر خالی نہ رہتے.غرض جو صاحب یا صاحبان اس جلسہ کے بانی ہوتے ان کو بجز خفت کے کچھ حاصل نہ ہوتا اورپھر ہمیشہ کے لئے شاید دل میں عہد کرلیں کہ آئندہ کبھی ایسی بے جا حرکت نہ کریں گے.غرض یہ اس قسم کی مجلسیں تھیں جن میں ہر قسم کے اور طائفہ کے لوگ جمع ہو جاتے تھے.عالم، مولوی، خاندانی بیوپاری ،نوکری پیشہ، زمیندار وغیرہ وغیرہ گویا سب قسم کے لوگوں کا مجموعہ ہوتا

Page 443

تھا اورہر ایک قسم کی طبیعتوں کا اوراخلاق کا خوب پتہ مل جاتا تھا.یہ تو عام مفید کاموں کے جلسہ کا حال ہوا.اب خاص خاص قسم کے لوگو ںکے جلسے اور تقریبات کا حال، جس کا مجھے تجربہ ہو اہے، لکھنے بیٹھوں تو بہت طو ل ہوتا ہے اس لئے صرف ہمارے تجارت پیشہ لوگوں کا ہی مختصر حال لکھتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ سے یہ آرزو رہی کہ زیادہ نہیں صرف دو مسلمان تاجروں کے کسی تجارت کے کام میں اتفاق اور یک دلی سے کام کرتے دیکھوں جس سے وہ نتیجہ جو اتفاق کے لئے لازمی ہے ان کو حاصل ہو ا ہو لیکن یہ میری آرزو نا تمام ہی رہی.یوں تو بہتوں کو اتفاق کرتے دیکھا مگر انجام اس کا ایک تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بدنظر آیا.کہیں تو کورٹ کچہری میں خراب ہوتے دیکھا اورکہیں ہمیشہ کے لئے عداوت اورکہیں ہمیشہ کے لئے آپس میں کمپٹیشن پڑ گیا اوردونوں کو خرا ب کر دیا.غرض اس طرح کے بہت تجربے اور مشاہدے کے بعد میرا یہ دستور ہو گیا تھا کہ جہاں کہیں کسی امر کے متعلق بھی ہو، مسلمانوں کی مجلس ہوتی تو پہلے اس مجلس میں یہ دعوٰے سے میں کہہ دیتا تھا کہ مجھے ایک مدت دراز سے یہ آرزو ہے کہ مسلمان اپنی مجلس میں کامیاب ہوتے ہوئے دیکھوں مگر میری یہ آرزو پوری نہ ہوئی اورمیری یہ عادت مدراس تک ہی محدود نہ تھی، جہاں کہیں جانے کا اتفاق ہوتا تھا.یعنی بمبئی.بنگلور.مدراس.نیلگری.تو موقعہ پر ضرور یہ میں کہہ دیتا تھا اورپھر مخاطب بھی (قائل) ہوجاتے تھے.غرض مسلمانوں کے حالات اورعادات پر ہمیشہ رنج ہوتا ہی رہتا تھا.یورپ کے تو اتحاد اور اتفاق کا کہنا ہی کیا ہے.اکثر کام ان کے اتفاق اور شرکت اوریک دلی کی بدولت ترقی کے انتہائی نقطہ تک پہنچے ہوئے ہیں مگر اس صورت میں بھی مسلمانوں کے سوائے دوسری قوموں میں پھر بھی کچھ نظر میں آجاتا ہے.چوہڑے چمار بھی اپنی بساط کے موافق کبھی نہ کبھی کسی کام میں متفق ہو جاتے ہیں مگر مسلمانوں میں اس کے برخلاف، کیا عام کاموں میں اور کیا خاص میں، پھر وہ دینی ہو یا دنیوی اور کسی ملک میںبھی یعنی عرب، عجم، ہند اور سند، دکھن اور کوکن جہاں تک مجھے علم ہے، ایک نمونہ بھی نظر نہیں آتا.غرض ہر ایک موقعہ پر مسلمان بہت ہی کم نظر آتے ہیں اوراگر کسی جگہ اتفاق سے کوئی مسلمان سرکاری کام وکاج میں کوئی اعلیٰ مرتبہ پر آجاتا ہے تو گویا اس کے لئے یہ مثال موزوں ہو جاتی ہے کہ مورہماں بہ کہ نباشد پرش.الا ماشا ء اللّٰہ.غرض یہ میرے خیالات اور مشاہدے مجھے پریشان ہی نہیں بلکہ استعجاب میں بھی ڈال دیتے تھے کہ یااللہ! اسلام تو تیرا ہے مگر مسلمانوں کی حالت ایسی زار

Page 444

اور قابل عبرت کیوں ہو گئی ہے؟ کوئی ایک پہلوان کا یعنی کیا عبادات اور کیا معاملات سیدھا اورحق پر نظر نہیں آتا اور حالت ایسی ہو گئی ہے بجز تیرے فضل کے یعنی مردے از غیب بروں آیدو کارے بکندکے اورکوئی رستگاری کی صورت نظر نہیں آتی.غرض اسی حالت میں حضور کی کتاب فتح اسلام کو میں نے سنا اوراندر کا اندر ہی میںباغ باغ ہو گیا کہ آخر خدا نے ایک کو کھڑا ہی کر دیا اورپھر اسی کو جس کا زمانۂ رسول کے بعد وقتاً فوقتاً انتظار ہوتا رہا اور کئی جھوٹے مدعی بھی اس نام کے زمانۂ قرب زمانۂ رسول سے ہوتے آئے مگر اب تو گویا عین وقت پر اور وہ بھی اشد ضرور ت کے وقت ہی آواز آئی ہے.سو یا اللہ! تُو اس آواز کو سچی اور مسلمانوں کے لئے مبارک ثابت فرما آمین.یہ میری اندرونی حالت تھی اور میرے مرحوم بھائی نے تو گویا بآوازِ بلند شہادت بھی دے دی اور الحمدللہ والمنتہ کہ خدا تعالیٰ نے ویسا ہی ثابت کردکھایا اور باغِ اسلام میں دوبارہ گئی ہوئی بہار اور رونق آتی چلی ہے.غرض اس موقع کے بعد کتابیں بھی آگئیں اور ان کے پڑھنے سے کچھ کچھ فہم بھی پڑتا گیا اور مدراس میں چرچا بھی ہوتا چلا.جو یک بیک ایک اخبار آزاد نام جو لکھنوسے شائع ہوتا تھا.اس میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ میرزا قادیانی… اپنے دعوٰئے مسیحیت سے دست بردار ہوگئے اس لئے اب پھر ان کی عزت وہی قائم رہ گئی جو اس دعویٰ کے قبل تھی.یہ مضمون تھا عبارت میں کچھ فرق ہو گا مگر اس کے پڑھنے سے میرے پر جو صدمہ گزرا اوررنج ہوااس کو خد اہی جانتا ہے اورابھی تک میں اس کو بھولا نہیں.غرض اس کے بعد میں نے جب حضور کی کتابیں ایک طرف ڈال دیں اور ایسی چالوں سے اَور اُداسی میرے پر چھا گئی کہ کچھ نہیں لکھ سکتا.باوجود اس کے بھی ہونے سے صدہا لوگوں کو میں نے گویا یہ خوشخبری پہنچائی تھی اوراب گویا اس کے خلاف اخباروں میں شائع ہو گیا ہے.غرض اس مضمون کے دیکھنے کے بعد دوسرے یا تیسرے دن بمبئی سے میرے بھا ئی کا تار آیا اور میں روانہ ہو گیا اور وہاں اپنے ایک دوست سے افسوس ناک دل سے میں نے یہ تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو اپنے دعویٰ پر قائم ہیں چنانچہ ان کے ایک خاص مرید یہاں آئے ہوئے ہیں اوران کی زبانی مجھے یہ سب کچھ معلوم ہوا ہے.اب اس موقع پر مجھے جو خوشی ہوئی گویااس رنج سے دِہ چند زیادہ تھی اوروہ مرید گویا ہمارے شیخ رحمت اللہ صاحب تھے جن سے دوسرے روز میری ملاقات ہو گئی اورمفصل حالات بھی معلوم ہوئے اور کتاب آئینہ کمالات اسلام کی خبر پا کے انہیں کو میں نے جلدوی پی مدراس

Page 445

کے پتہ پر روانہ کرنے کے لئے فرمائش دی اور میں مدراس واپس گیا.اس وقت یہ کتابیں پہنچ گئی تھیں.غرض پھر اسی طرح سے میں اس کا چرچا کرتا رہا اور سلطان محمود صاحب اور ان کے برادر زادے اپنی جگہ پر باہم اس بارے میں بحث کرتے تھے اور آخر وفاتِ عیسیٰ پر دونوں کا اتفاق ہوگیا اور سلطان محمود صاحب نے مجھے خط لکھا اورحضور کی کتابوں کی خواہش ظاہرکی.اس خط کی طرز تحریر سے یہ پتہ لگ گیا کہ حضور کی جانب ان کاحسن ظن ہے.غرض میرے پاس جو کتابیں موجود تھیں وہ تو بھیج دیں اور آئینہ کمالاتِ اسلام ایک مولوی کو دی تھی ان سے لینے کو لکھ دیا اور پھر میں نے ملاقات کی اور میرے سے زیادہ ان کامیلان حضور کی طرف پایا.اور اس وقت تک وفات عیسیٰ پر مجھے کامل یقین نہ ہو اتھا مگر ان کے دوستوں مولویوں سے.غرض ان کا حضور کی طرف رجوع کرنا بڑی تقویت کا باعث ہو گیا اور ایک قلیل عرصہ میں ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی ہے اورشہر میں زور شور کے ساتھ اس کی شہرت ہونے لگی.یہ وہ وقت تھا کہ ان مولویوں اور ملانوں کی اچھی طرح سے قلعی کھلنے لگی اور ان کی اندرونی حالت کا پورا اظہار ہونے لگا جس کی وجہ سے حضور کی طرف کمال درجہ کا یقین بڑھتا گیا یہا ںتک کہ حضور کی خدمت میں خط لکھا گیا اورجس قدر لوگ اس وقت تک اس سلسلہ میں شریک ہوئے تھے ان سب کے دستخط لئے گئے.بعد اس کے جو کچھ ان ملانوں کا حال دیکھا وہ احادیث کے موافق تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں پہلے سے بطور پیشگوئی بتا رکھی تھیں.عوام میں ایک خطرناک جوش ان کے دجل اورکذب سے پھیل گیا اور اب یہاں کے مسلمانوں کے اسلام کا حال ایک نئے رنگ میں ظاہر ہونے لگا.جس سے ضرورتِ امام پر میرا یقین بڑھتا گیا اور حضور کی زیارت کا شوق دن بدن بڑھنے لگا اور اس فکر میں ہوا کہ کوئی اچھا رفیق مل جائے تو روانہ ہو آئوں.وہاں کے ایک مولوی جن سے زیادہ تعلق تھا اورجو بظاہر منافقانہ طریق پر ملتے جلتے بھی تھے مگر باطن میں پورا دشمن تھا جس سے میں اب تک ناواقف تھا.ان کو ساتھ لانے کی صلاح ہوئی.وہ ترملکھڑی کی جامع میں رہتے تھے جہاں میں گاڑی پر سوا رہو کر گیا اور حاجی بادشاہ صاحب کے مکان پر جو وہ بھی اندرونی احاطہ مسجد ہی میں واقعہ ہے ملاقات ہو گئی اورمذکور بادشاہ صاحب وہاں کے ایک مشہور اور نامی تاجر ہیں.ان مولوی صاحب نے ہماری مخالفت اختیار کرنے کے بعد وہا ںاپنے قدم جمانے شروع کردئیے.یہ بادشاہ صاحب بھی اگرچہ سخت مخالف تھے لیکن

Page 446

چونکہ قدیم سے ان کے بزرگوں کے ساتھ میرا کمال درجہ کا ارتباط تھا.اس لئے بظاہر ان سے وہی سلوک قائم تھا اور اب تک بھی باقی ہے.غرض وہاں ان مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ سب سے بہتر یہی بات ہے کہ تم میرا ساتھ دو اور میں آپ کے ہرقسم کے اخراجات کا کفیل اور ذمہ دار ہوں.جوکچھ امتحان کرنا ہے وہاں جاکر کیا جاوے.اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں روبرو جاکر جو چاہیں پوچھ سکتے ہیں.اس سے خلق خدا کو بھی فائدہ پہنچے گا.کیونکہ آجکل جو طوفان بے تمیزی پھیل رہا ہے.اسی سے خلق اللہ کو نجات ہوگی اور میں نے آپ کو اس لئے تجویز کیا ہے کہ بظاہر آپ کے مزاج میں حق پسندی ہے اور تمہارے طالب علمی کے زمانہ سے میرا یہ حسن ظن ہے.پس آپ تیار ہوجائیں.جمعہ کے دن یہاں سے روانہ ہوجائیں گے مگر ان کو یہ کب منظور تھا.ان کو مخالفت میں اس وقت صریح فائدہ نظر آرہا تھا.غرض انہوں نے انکار کردیا اور میں واپس چلاآیااور اسی خیال میں تھا کہ مولوی حسن علی صاحب مرحوم یاد آگئے اور وہ ان دنوں مدراس آنے والے بھی تھے کیونکہ انجمن کی طرف سے سالانہ جلسہ کی دعوت ان کو ہوئی تھی اور اس انجمن کے دراصل بانی وہی تھے.لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ بھاگلپور سے مولوی صاحب نکل چکے تھے اور یہاں دو مہینے کے لئے جلسہ ملتوی ہوگیا.اس لئے مجھے یہ موقع خوب ہاتھ آیا اور فی الفور میں نے بمبئی کی اپنی دوکان پر تار دی کہ مولوی صاحب کو ٹھہراؤ اور میں آتا ہوں.یہ تار دے کے میں بنگلور گیا اور رات کو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میں ارادہ کر چکا ہوں اب تُو عالم الغیب اور بہتر جانتا ہے.میرے لئے جو بہتر ہے وہ مہیا کر.صبح کو میں حسبِ معمول ناشتہ کرکے گھر سے باہر چبوترہ پر آکر بیٹھا کہ اسی وقت ڈاک والا آگیا اور اس نے ایک چھٹی اور اس کے ساتھ ایک رسالہ الحق دیا.میں نے اس رسالہ کو کھولا تو میری نظر سب سے پہلے اس ہیڈنگ پر پڑی جو ایک ’’بھاری بشارت ‘‘ سے موسوم تھا اور مضمون اس کا جھنڈے والے پیر صاحب کا واقعہ اور خلیفہ عبداللطیف اور عبداللہ عرب کا حضور اقدس میں حاضر ہونے کا تھا.غرض اس کے بعد میرا عزم مصمم ہوگیا اور اسی روز شام کو مدراس اور دوسرے روز مدراس سے بمبئی روانہ ہوگیا اور مولوی حسن علی صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی اور چلنے کی بابت گفتگو ہوئی.مولوی صاحب مرحوم نے ،حق مغفرت کرے، جو اب میں یہ فرمایا کہ میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تو تیار ہوں مگر ایک شرط سے.میں نے کہا وہ شرط فرمائیے.انہوں نے کہا کہ اس سفر میں جب تک

Page 447

آپ کا اور ہمارا ساتھ ہے آپ نماز کی پابندی ملحوظ خاطر رکھیں.بس یہی پہلی شرط ہے جس کو میں نے شکرئیے کے ساتھ قبول کیا.دوسرے روز علی گڑھ روانہ ہوگئے اور وہاں کے حالات پر غور کیا گیا تو یہ ایک دوسری دلیل ضرورت امام کے لئے ہاتھ آگئی یعنی دو نمونے دیکھے.ایک تو اسٹریچی ہال جس میں یورپین انداز وضع کا نقشہ تھا جو زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ جو یہاں داخل ہوگا وہ ضرور ایک نہ ایک دن یورپین انداز کا جنٹلمین ہوجائے گا اور دوسرا نمونہ مسجد کا دیکھا جس کی ظاہری صورت یہ تھی کہ ایک دو پھٹے پُرانے بوریئے اور دو چار ٹوٹے پھوٹے لوٹے.گویا زبان حال (سے) اس کا یہ مضمون ادا ہورہا تھا کہ جو میری طرف رکوع و سجود کے لئے مائل ہوگا اس کی بساط پھٹے بورئیے اور پھوٹے ہوئے لوٹے کے سوا آگے وہی یعنی اللہ اللہ خیر صلّا.غرض یہ دونوں نظارے بھی ایک عبرت لینے کے باعث میرے لئے ہوئے.پھر وہاں سے سیدھا قادیان شریف کا ارادہ ہوا.ہمارے مولوی صاحب نے بہت کچھ فال قرآن میں دیکھے اور استخارے بھی کئے.غرض ہر ایک پہلو پر بھی ان کو جواب ملا کہ چلے چلئیے.غرض روانہ تو ہوگئے مگر مولوی صاحب کا شروع سے اخیر تک یہی بیان رہا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں مگر ان کا یہ دعویٰ ان کی ظاہری وجاہت سے بہت کچھ بڑھا ہوا ہے.میں اس کے جواب میں کہتا تھا کہ اب جو کچھ ہے وہاں پہنچ کر ہی ہوگا.جب امرتسر پہنچے تو وہاں مولوی محمد حسین صاحب کا کوئی چیلا ہم کو مل گیا اوراس نے مولوی صاحب کو بہت کچھ روکا اور بابو محکم الدین صاحب کی کوٹھی تک ہمار اپیچھا نہ چھوڑا اور بلائے بد کی طرح لگا رہا اور وہاں پہنچ کر بھی مولوی صاحب تو ان کونرم نرم جواب دیتے رہے اور وہ زیادہ گستاخ ہوتا چلا.یہاں تک کہ آخر مولوی صاحب نے میرے پر حوالہ دے کر اپنی جان چھڑائی.جب وہ میری طرف ہوا تو میری دو ہی جھڑکیوں سے گھبرا گیا اور پھر بیٹھ نہ سکا یعنی دفعہ ہو گیا.غرض شب ہم نے وہاں گزاری اورصبح کو بٹالہ کی راہ لی اور جب وہا ںپہنچے تو وہاں بھی ایک سدِراہ ہو امگر زیادہ جرأت نہ کر سکا اور ہم وہاں سے یکوں میں بیٹھ کر روانہ ہوئے اور جوں جوں دارالامان سے نزدیک ہوتے گئے ویسے ہی دل پرایک نیک اثر ہوتا گیا.یہاں تک کہ دارالامان کا نظارہ نظر آنے لگا اور جامع مسجد مجھے تو ایک بقعۂ نور نظر آتی تھی.اس سال بارش کثرت سے ہوئی تھی اس لئے پہنچنے میں دیر ہوئی.جب یہاں پہنچے تو میری اپنی یہ

Page 448

حالت تھی کہ ذوق اورمحبت سے بھر گیا تھا اورعجیب و غریب لذت اپنے اندر محسوس کر رہا تھا.غرض ہم قادیان پہنچے اور مولانا مولوی نورالدین صاحب کے مدرسہ اور مطب کے پاس یکے کھڑے ہوگئے اورہم دونوں اُتر پڑے غروب آفتاب کا وقت تھا.مولوی حسن علی صاحب نے مولوی نورالدین صاحب سے مجھے تعارف کرایا اورمیں ان سے مصافحہ کرکے پاس بیٹھ گیا.اتنے میں کسی نے آکر خبر دی کہ وہ نیا مکان جو تیار ہوا ہے اس میں ان مسافروں کااسباب بھیج دو.مولوی حسن علی صاحب اسباب کے ہمراہ اس مکان کوتشریف لے گئے اورمیں نماز عصر پڑھ کر مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے آکر خبر دی کہ حضرت اس نئے مکان میں آکر تشریف فرما ہوئے ہیں.تو میں یہاں سے اُٹھا اور جلد اس مکان میں داخل ہوا اور میری نظر حضور کے چہرہ مبارک پر پڑی.میں حلفاًگزارش کرتا ہوں کہ حضو رکا سراپا اس وقت ایک نور مجسم مجھے نظر آیا ا ور میں آنکھ بند کر کے حضور کی دست بوسی کرنے لگا اورجوش محبت کے ساتھ میری آنکھوںسے آنسو نکل پڑے.اورحضور اس کے بعد کمال مہربانی اور شفقت سے احوال پُرسی فرماتے رہے اورمیرا حال یہ تھا کہ اندر ہی اندر مولو ی حسن علی صاحب کو ملامت کرتا تھا کہ انہو ںنے حضور کی ظاہری وجاہت کیا بتلائی تھی اور یہاں کیا کچھ نظر آرہا ہے اور منتظر تھا کہ حضور یہا ںسے تشریف لے جائیں تو ان کی خبر پورے طور سے لوں.یہ میر اخیال ہو چکا اور حضور اقدس و اشرف بھی اسی وقت اندر تشریف لے گئے اورجونہی میں مولوی حسن علی صاحب کی طرف متوجہ ہوا.انہوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اورفرمایا کہ خدا کی قسم یہ وہ مرزا نہیں جن کو کچھ برس پہلے میں نے دیکھا تھا یہ تو کوئی اورہی وجو د نظر آرہا ہے.غرض کہ ظاہری وجاہت میں بھی حضور کی بہت کچھ ترقی انہوں نے بیان فرمائی اور اسی وقت کہہ دیا کہ بے شک اب یہ وہی نظر آرہے ہیں جس کا ان کو دعویٰ ہے اور مجھے کہا کہ بے شک تم بیعت کر لو.چونکہ میں نے اپنی بھی ان سے غرض بتائی تھی کہ فقط اس لئے آپ کو ساتھ لیتا ہوں کہ موقع پر آپ مجھے نیک اور میرے مناسب مشورہ دیں.پس اسی طرح انہوں نے مجھے فی الفور کہہ دیا اور میری اندرونی حالت یہ تھی کہ اگر ایک نہیں ہزار دفعہ بھی اس کے خلاف اگر وہ مشورہ دیتے تو میں حلقہ بگوش ہوئے بغیر اس مبارک آستانہ سے جدا نہ ہوتا.مگر الحمدللہ کہ فی الفور مولوی صاحب نے مجھے میری دلی آرزو کے مطابق کہہ دیا.لیکن ان کا خاص ارادہ بالکل اس امر پر نہ تھا.ان کے لئے سب ہمارے مدراسی بھائیو ں کی یہ

Page 449

رائے تھی.اگر مولوی صاحب کی مرضی بھی آجائے پھر بھی مصلحت کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں.چونکہ اس وقت کی مخالفت بڑی سخت تھی اورمولوی صاحب سے ابھی وہاں بہت کچھ ہونا باقی تھا.اس لئے میں خود اس وقت اس امر کے مخالف تھا مگر مولوی صاحب پہلے ہی نظارہ میں زخمی ہو گئے تھے اس لئے وہ بجائے خو دبڑی تشویش میں پڑ گئے اوراستخاروں پر استخارہ کرنے لگے اور یہی فرماتے تھے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ میں کیا کرو ںتو اس کے جواب میں میں ان کو وہی کہتا تھا جو تمام احباب کی رائے تھی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے مگر وہ ان کے خلاف مرضی ہوتی تھی اورپھر استخاروں کی طرف جھک جاتے تھے اورمجھے بھی روک رکھا تھا.غرض چار شنبہ کے دن بعد نماز صبح اپنی عادت کے موافق چادر اوڑھ کر سو گئے اورچند منٹوں کے بعد جیسا کہ ان کی عادت تھی اُٹھے اورفرمایا کہ مجھے یہی جواب ملا ہے کہ مولوی نورا لدین صاحب کے مشورہ پر عمل کرو.غرض اسی وقت حضرت مولانا مولوی صاحب کو تشریف آوری کے لئے پیغام بھیجا اور حضرت کے اظہار کے بعد میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ تو شاید بیعت کر چکے.جواباً میں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب نے مجھے روک رکھا ہے اس کو سن کر مولانا نے فرمایا.کاش! تم نے معاً کر لی ہوتی تو اب تک اس کا کچھ نہ کچھ اثر بھی محسوس کر لیتے اورپھر مولو ی صاحب سے کہا کہ پوچھتے کیا ہو؟ درچہ باشی زود باش.غرض مولوی صاحب کے مشورہ کے بعد یہیصلاح ٹھہری کہ کل شب جمعہ ہے اورہم دونوں بیعت ہو جائیں گے اورجمعہ پڑھ کرشنبہ کو روانہ ہو جائیں گے کیونکہ حضور نے وہی دن روانگی کا مقرر فرمایا تھا.اس کے بعد مولوی حسن علی صاحب کا یہ حال تھا کہ بار بار فرماتے تھے کہ شب جمعہ تو کل ہے.اس سے ان کامطلب یہ تھا کہ ابھی اس میں دیر ہے اوریہاں اتنی دیر کرنے کی برداشت نہیں ہے.غرض اسی روز شام کو یہ عاجز اورمولوی صاحب بیعت سے مشرف ہو گئے.الحمدللّٰہ علی ذٰلک.اس کے بعد کوئی دو دن ہی ٹھہرنا ہوا اور حضور سے جدا ہوگئے.پھرتے پھراتے کوئی ایک مہینے کے بعد مدراس پہنچے اور وہاں حضرت مولوی سلطان محمود صاحب نے بڑا ہی اہتمام فرمایا تھا.اسٹیشن سے سیدھا میلاپور لے گئے اور پُر تکلف دعوت دی اور ساتھ ہی اس ناچیز کو ایک ایڈریس بھی دیا.صدہا مخالف بھی اس وقت جمع تھے.میں نے اس ایڈریس کے جواب میں کچھ نہ کہا.صرف اتنا ہی کہا

Page 450

کہ مولوی حسن علی صاحب تشریف لاویں گے اور مجھ سے بدرجہا افضل بھی ہیں جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا اور پایا اس کو وہ خوب ادا کریں گے اور بعد جلسہ برخاست ہوگیا.اس کے بعد مخالفت کی آگ بہت تیز ہوگئی.یہاں اب اسی سے غرض نہیں مگر یہ ظاہر کرنا ضروری تھا کہ قبل از بیعت میری حالت کیا ہوئی اور ضرورت امام کس حد تک محسوس ہونے لگی اور پھر حضرت امام کی صداقت پر زمینی اور آسمانی نشان کیاکیا ظاہر ہوئے جن پر توجہ نہ کرنے سے کیا نتائج پیدا ہورہے ہیں.غرض ان باتوں کا مختصر طور پر ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.سب سے اوّل اس امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلی ہوئی اس کو مختصر الفاظ میں لکھ دینا کافی ہے.ابتدائی عمر کے زمانہ کے بعد زمانہ اوسط اور اس کے بعد لگا تار (تا) زمانہ بیعت جو کچھ اپنی عملی حالت میں نے بتائی ہے اس کا ازالہ ہوتا چلا اور کوئی بیس اور پچیس برس کی ناگفتنی علّتیں اور عادتیں جو اپنے اندر تھیں اور جن کی بابت کبھی کبھی خیال کرکے میں رو دیا کرتا تھا کہ اے ربّ! ان برائیوں سے نجات کس طرح ہوگی، اور مجھے یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا اور فی الحقیقت اگر میں ہزار کوشش کرکے بھی جان چھڑاتاتو پھر یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا کہ میری صحت وغیرہ میں کچھ فتور پیدا نہ ہوتا.مگر حلفاً لکھتا ہوں کہ بعد بیعت وہ سب باتیں یکے بعد دیگرے ایسی دور ہوگئیں جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے اور مجھے تکلیف بھی محسوس نہیں ہوئی اور صحت کا یہ حال ہوگیا کہ گویا ان ارتکابوں کے وقت میں بیمار تھا اور ان کے ترک کے بعد تندرست ہوگیا اور یہ صرف حضرت حجت اللہ امام ھمام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انفاس طیّبات کے طفیل نصیب ہوا اور اب اپنے اندر وہ باتیں دیکھتا ہوں کہ بے اختیا ر ہوکر ربّ کریم و رحیم کا شکر کرتا ہوں اور ابتدائی زمانہ کو بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتا ہوں.فالحمد للّٰہ علی ذٰلک.اگر چہ میں اب تک اپنے آپ کو گندہ بشر سمجھتا ہوں اور اپنے اندر بہت سے عیوب محسوس کرتا ہوں مگر اس مولا کریم کی جناب میں قوی امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے حبیب کی جوتیوں کے صدقے میری مغفرت کردے گا.اب دوسری بات یہ کہ ضرورت امام کس حدتک محسوس ہونے لگی.سو اس کے بارے میں صرف اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ اگرچہ اس کا وجودِ باجود کوئی بیس برس سے قائم ہے، وہ نہ ہوتا گویا دنیا غارت ہی ہوجاتی.اور میرا کامل یقین یہ ہے کہ اسی کے مبارک وجود کے طفیل جو سراسر رحمتِ الٰہی کا مظہر

Page 451

ہے، یہ دنیا قائم ہے اور بہت کچھ برکات اور فیوض آئندہ اس کے وجود باجودسے اس کو نصیب ہونے والے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب وہ تمام باتیں عام طور پر ظاہر ہوجائیں گی.اگر چہ خاص طور پر اس کا مشاہدہ کرنے والے مشاہدہ بھی کرچکے ہیں.والحمد للّٰہ علی ذٰلک.اب تیسری بات یہ ہے کہ اس عالی جناب امام کی صداقت پرزمینی اور آسمانی نشان کیا کیا ظاہر ہوئے؟ سو اس کاجوا ب یہی ہے کہ اکثر وہ سب ظاہر ہوگئے جن کاحدیثوں میں ذکر ہوا ہے اور اکثر اکابرانِ دین کا بھی اسی چودہویں صدی پر اس کے ظہور فرمانے کا زمانہ کشفاً اور الہاماًظاہر ہو گیا ہے اور وہ اپنی اپنی تصنیفات میں اس کا ذکر بھی کر چکے ہیں اوران سب باتوں کے مفصل مذکور کے لئے ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں بھری پڑی تھیں.خدا تعالیٰ دنیا کو ان کتابوں کے دیکھنے کی توفیق نصیب کرے تو پھر کسی قسم کا شک باقی نہ رہے گا.اب رہی چوتھی بات کہ امام وقت کی طرف رجوع نہ کرنے کا باعث کس قسم کے آثار وقوع پذیر ہوتے ہیں تو جواب میں یہ گزارش کافی ہو گی کہ عیاںرا چہ بیان.آج کامل تین سال ہوئے جو قہر الٰہی کے آثار کل دنیا میں آشکار ہو گئے ہیں مگر خاص کرکے ہند کا حال تو پوچھو ہی نہیں.ابتدا تو طاعون سے ہوئی ہے مگر بعد اس کے قہر الٰہی کے نمونے جو وقتاً فوقتاً مخالف مغضوب قوموں کے لئے ہوئے جن کا ذکر خود اللہ جلّشانہ کی کتاب پاک میں موجود ہے، ظاہر ہو گئے ہیں.اورپھر یہ نہیں کہ ایک وقت دیکھو طاعون کاحملہ باری باری سے کس طرح ہوتا ہے اور پھر یہ گو ہنوز روزِ اوّل ہے اوربعد اس کے قحط کو دیکھو پچھلے سال اس قدر شدت نہ تھی جتنی اس سال میں ہے.اخبا ربینوںپر مخفی نہیں.اس کے بعد زلزلہ آیا.پہلی مرتبہ تو چند ایک پُر خطر منظر پر تھا.جو خیر گزری اوربنگالہ ضلع رین کلکتہ سے لے کے دارجلنگ پر ایک وقت شدت سے ہواا و رکچھ خفیف سا نقصان بھی ہوا.مگر جانوں کی خیرگزری اور بعد اس کے خفیف طور پر مختلف مقاموں پر کچھ کچھ حرکتیں اس کی ہوتی آئیں.مگر پچھلی دفعہ جو ا س کا حادثہ ہو اجس کو ابھی چند مہینے گزرے، کس قیامت کا ہوا.کتنی جانیںتلف ہوئیں اور کتنے مقامات زمین کے اندر دھنس گئے.علی ہذا القیاس.سیلاب کی بابت دیکھئے پہلے تو جب یہ چٹگام اوراس کے اطراف میں آیا تو کچھ کم نقصان ہوا مگر بار ثانی جوپٹنہ ضلع بھاگلپور اس کی نوبت پہنچی تو کیا کچھ خرابی نہ ہوئی.صدہا گائوں غرقاب ہو گئے اور بے حساب بندگان خدا اور چارپائے ہلاک ہو گئے جس کا صحیح

Page 452

اندازہ اب تک نہیں ہوا اور کوئی شہر پر پانچ میل کے اندر پانی دس سے بارہ فیٹ چڑھ آیا تھا.غر ض اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیا کچھ نہ ہو اہو گا.آتشزدگی کا حال تو کچھ پوچھو ہی نہیں.کوئی ہفتہ شاید خالی نہیں جاتا اورجان ومال کی خرابی نہیں ہوتی اور یہ مسلسل تین سال سے میں تجربہ کر رہا ہوں.اب اخیر سال جو اکثر لوگوں میں یہ بھی مشہور تھا کہ قیامت آجائے گی اور پھر ان میں بعض قوموں کا تو یہ حال تھا کہ اس امر کو بالکل یقینی سمجھے ہوئے تھے جس سے ایک عجیب طرح کا خوف ان پر مستولی تھا جس کا میں نے خود نظارہ کیا ہے لیکن علی العموم یہ خوف تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو کے رہے گا.اِلاَّمَاشَاء اللّٰہ.غرض اس ایک بات کو بھی ذرا عمیق نظر سے دیکھو تو یہ کتنا بڑا نمونہ قہر الٰہی کا ثابت ہوتا ہے.غرض آخرالامراسی تاریخ کے قریب قریب بعض مقاموں پر ایسا ہو اکا سخت طوفان آیا کہ مکانوں کے اڑ جانے کا خوف ہو گیا اور اکثر مکانوں کی چھت اُڑ بھی گئی.یہ واقعہ مدراس کے قریب ناگبشن میں ہوا جو ایک بڑا بندر ہے اور سب اخباروں میں اس کا ذکر ہوا تھا.اور بعض لوگوں کی زبانی میںنے یہ بھی سنا جو وہاں سے آئے تھے کہ جب یہ حادثہ شروع ہوا اور شدت ہوتی چلی تو ہم کویہ یقین ہوتاگیا کہ بے شک قیامت ہی کے آثار ہیں اور حضرت اسرافیل علیہ السلام کی صور ہے، کسی کو باہر نکلنے کی طاقت نہ تھی اورصدہا بلکہ ہزار ہا بڑے بڑے تناور درخت بیخ و بُن سے اُکھڑ کر گر گئے اور پختہ مکانات اورچھتیں گر گئے اورہم کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس قیامت خیز حادثہ سے ضرور ہم ہلاک ہو جاویں گے اور فی الحقیقت اور کچھ تھوڑے سے وقت اگر یہ حادثہ اسی طرح قائم رہتا تو سارا ناگبشن نابود ہو جاتا.مگر اللہ کافضل کہ جلد وہ رفع ہو گیا اور ہم نے گویہ نئی زندگی پائی.غرض یہ تو ان واقعات کا ذکر ہے جو اضطراری صورت رکھتے ہیں یعنی انسانی دخل کسی طرح کا ان میں نہیں اور اگر ان امور کی طرف خیال کرتے ہیں جن میں فی الجملہ انسانی دخل ہوتا ہے اورجن کو اختیاری کے نام سے موسوم کرسکتے ہیںتو ان کی حالت زیادہ وحشت خیز نظر آتی ہے بالخصوص تجارتی امور کو دیکھئے.اس کو بتلانے کے آگے ہی یہ امر ظاہر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس برٹش حکومت میں ا س کی ترقی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے اور اگر سچ پوچھو تو برٹش حکومت کی ترقی کایہی زبردست اصول ہے اورگو یہ زمینی استحکام بھی ہے مگر اس کی حالت اس قدر ابتر ہو گئی ہے اورہوتی جاتی ہے جس کو مفصل بتلانے کے بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے اس لئے مختصر کیفیت یہ ہے کہ بہت سے بیچارے تو گو کہ مقابلہ سے دست بردار ہو بیٹھے ہیں

Page 453

اور گو یہ وقت کاانتظار کر رہے ہیں ا ور بہت سے ناتجربہ کاری کے باعث خراب ہو گئے اور جو کچھ حصہ کام کر رہا ہے اس کی یہ حالت ہے کہ گویا ’’اگر مانَم شبے مانم شبِ دیگر نمی مانم‘‘.ایسی خوفناک تجارت کی حالت ہے.یہ تو میں نے ایک بات بتلائی جس کا بہت بڑا اثر ہے لیکن ساتھ اس کے اگر زراعت اور مزار عین کو دیکھتے ہیں تو تاجروں سے بھی بدتران کو پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومتوں اور سلطنتوں کے حالات پر غور کرتے ہیں تو سب سے زیادہ پریشان اورافکاروںکے سمندر عمیق غرق بھنور نظر آتے ہیں.غرض علی العموم زمانہ کی حالت بدلی ہوئی نظر آتی ہے اور کیا چھوٹا اور کیا بڑا اپنی اپنی حد پر متفکر اور پریشان ہی نظر آتا ہے گو یا جمعیت اور طمانیت مفقود ہو گئی ہے اور ساتھ ہی اس کے گویا مروّت، محبت، وفا.یہ باتیں بھی اُٹھ گئیں ہیں.جب وہ نہیں تو یہ کہاں.غرض وہ مولیٰ کریم اپنا فضل فرماوے اوراپنے بندوں کو نیک توفیق دے کہ تا وقتوں کو پہچانیں اورسلامتی کی راہ جس کو صراط مستقیم کہتے ہیں اورجس کے دکھلانے کیلئے حضرت امام آخرالزمان، جن کامبارک لقب مسیح و مہدی علیہ السلام ہے، موجود ہو گئے ہیں اوربڑے درد دل سے منادی کررہے ہیں.ان کی پیروی نصیب کرے.آمین.۸؍رمضان المبارک ۱۳۱۸ھ خاکسار ٭ عبدالرحمن

Page 454

Page 455

Page 456

عرض حال خدا کاشکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات کی پانچویں جلد کا تیسرا نمبر شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں.یہ مکتوبات چوہدری رستم علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے ہیں.مجھے اس مجموعہ مکاتیب کے متعلق کچھ کہنا نہیں.مخدومی ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے الفضل میں جو کچھ لکھا ہے.میں اسے کافی سمجھتا ہوں.البتہ مجھے مخدومی اخوند محمد افضل خاں صاحب پنشنر سب انسپکٹر کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ وہ نہایت جوش اور اخلاص سے سیرۃ مسیح موعود کی اشاعت و تحریک کے کام میں لگے ہوئے ہیں.اگر چند احباب ان کے نقش قدم پر چل کر اس کی اشاعت کی کوشش کریںاور ایک ہزار خریدار پورے ہو جائیں.تو میں ہر مہینے ایک نمبر شائع کر سکوں.مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسو س ہے.ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے جو اِن بیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں.بہر حال اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے.کرتا رہوں گا.جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے.تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں.والسلام خاکسار عرفانی کنج عافیت قادیان دارالامان ۱۸؍ فروری ۱۹۲۹ء ۷؍رمضان ۴۷ھ

Page 457

Page 458

Page 459

Page 460

Page 461

Page 462

Page 463

Page 464

Page 465

Page 466

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کے نام نوٹ: چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہین احمدیہ کی خریداری کے سلسلہ میں ہوا اوریہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات اورمراسلات کا سلسلہ مضبوط اوروسیع ہوتا گیا.۱۸۸۴ء میں چوہدری صاحب خاص شہر جالندھر میںمحرر پیشی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو لفافہ اس طرح پر لکھا کرتے تھے.بمقام جالندھر خاص.محکمہ پولیس بخدمت مشفقی مکرمی منشی رستم علی صاحب محرر پیشی محکمہ پولیس کے پہنچے.اس وقت آپ کا عہدہ سارجنٹ تھا.آئندہ جب تک چوہدری صاحب کا ایڈریس تبدیل نہ ہو گا یا لفافہ کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی ایڈریس درج نہ ہو گا.ہرمکتوب کے ساتھ خط یا پوسٹ کارڈ کی تصریح کی جاوے گی.(عرفانی)

Page 467

Page 468

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مکتوب نمبر ۱ پوسٹ کارڈ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون.آپ کاعنایت نامہ پہنچا.انشاء اللہ العزیز یہ عاجز آپ کے لئے دُعا کرے گا.آپ برعایت اسباب کہ طریقہ مسنون ہے.طبیب حاذق کی طرف رجوع کریں اورطبیب کے مشورہ سے ماء الجبن یا جو کچھ مناسب ہو اپنی اصلاح مزاج کے لئے عمل میں لاویں.اور آپ کی ہر ایک غرض کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا.کبھی کبھی آپ ہفتہ عشرہ کے بعد بذریعہ کارڈ یاد دلاتے رہیں اور صبر جو شعار مومن ہے، اختیار کر رکھیں.والسلام ۵؍مئی ۱۸۸۴ء خاکسار غلام احمد ازقادیان

Page 469

مکتوب نمبر ۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.انشاء اللہ آپ کے حسن خاتمہ اور صلاحیت دین کیلئے یہ عاجز دعا کرے گاا ور سب طرح سے خیریت ہے.حصہ پنجم بعد فراہمی سرمایہ چھپنا شروع ہوگا.والسلام ۱۸؍ جون ۱۸۸۴ء خاکسار غلام احمد.قادیان مکتوب نمبر ۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون.آپ کا دوسرا خط بھی پہنچا.یہ عاجز چھ روز سے بیمار ہے اور ضعف دماغ اور جگر اوردیگر عوارض لاحقہ سے منحنی ہو رہا ہے ورنہ آپ کے عزیز کے لئے کوشش اور مجاہدہ سے خاص طور پر دعا کی جائے.انشاء اللہ بعد افاقہ توجہ تام سے دعا کرے گا اور مسنون طور پر آپ بھی دعا سے غافل نہیں رہئے گا.بالفعل ارادہ ہے کہ چند مہینے تک کسی پہاڑ میں جاکر یہ مہینہ گرمی کا بسر کرے، آئندہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.خدا تعالیٰ آپ کو غم اور فکر سے نجات بخشے.والسلام ۱۷؍ اگست ۱۸۸۴ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 470

مکتوب نمبر ۴ پوسٹ کارڈ از طرف خاکسار غلام احمد.باخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ بعد سلام مسنون.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے.اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے.آپ کے لئے دعا کی ہے.خد اتعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے.بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں.اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا وِرد مقرر رکھیں توبہتر ہے اور بعد نماز صبح اگر ممکن ہو تو، تین سو مرتبہ استغفارکا وِرد رکھیں.والسلام ۱۸؍ ستمبر ۱۸۸۴ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵ پوسٹ کارڈ از عاجز غلام احمد باخویم منشی رستم علی صاحب.بعد سلام مسنون.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.چونکہ طبیعت اس عاجز کی کچھ عرصہ سے علیل ہے اس لئے پہلے خط کا جواب نہیں لکھا گیا.حسین علی خاں صاحب کے لئے اس عاجز نے دُعا کی ہے اورانشاء اللہ العزیز پھر بھی دعا کرے گا.اطلاعا ًلکھا گیا.والسلام ۷؍ جنوری ۱۸۸۵ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 471

Page 472

Page 473

Page 474

مکتوب نمبر ۱۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں اور دلی محبت و اخلاص سے پڑھیں.اگر گیارہ سَو دفعہ روز وِرد مقرر کریں یا سات سَو دفعہ وِرد مقرر کریں تو بہتر ہے.اللھم صَلِّ علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلَّیت علٰی ابراہیم و علٰی آل ابراہیم انک حمید مجید.اللھم بَارِکْ علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکتَ علٰی ابراہیم وعلٰی آلِ ابراہیم انک حمید مجید.یہی درود شریف پڑھیں.اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جاوے تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے اور تنویر باطن اوراستقامت دین کے لئے بہت مؤثر ہے.اور بعد نما زصبح کم سے کم سو مرتبہ استغفار دلی تضرع سے پڑھنا چاہئے.والسلام.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.میر صاحب نے دعا کے لئے بہت تاکید کی تھی، سو کی گئی ہے.والسلام خاکسار ۲؍ اگست ۱۸۸۵ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے بدست میاں امام الدین صاحب پہنچ گئے.جس قدر آپ نے اور چوہدری محمد بخش صاحب نے کو شش کی ہے.خدا وند کریم جلّشانہٗ آپ کو اجر عظیم بخشے اور دنیا

Page 475

اور آخرت میں کامیاب کرے.اس جگہ تادم تحریر ہر طرح سے خیریت ہے.والسلام ۲۲؍ اگست ۱۸۸۵ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۱۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.سلام علیک.عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کو مکروہات زمانہ سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر کرے.یہ عاجز آپ کے لئے اورچوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا میں مشغول ہے.خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام.اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.خاکسار ۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۵ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں انشاء اللہ القدیر دعا کروںگا.اللہ تعالیٰ بھائی مسلمانوں پر فضل و رحم کرے اور ان کی خطیئات کو معاف فرماوے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 476

مکتوب نمبر ۱۶ پوسٹ کارڈ مکرمی.سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.سب احباب کے لئے دعا کی گئی اور حوالہ بخدا کیا گیا.والسلام ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۷ پوسٹ کارڈ مکرمی اخویم.سلام علیک.پیر کے روز یہ عاجز امرتسر سے قریب دوپہر کے روانہ ہو کر لودھیانہ کی طرف جاوے گا.اگر اسٹیشن جالندھر پر آپ کی ملاقات ممکن ہو تو عین مراد ہے.والسلام ۲۲؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۸ ملفوف خط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از طرف عائذباللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مکرم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مولوی عبدالرحمن صاحب کے لئے دعا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ان کو با مراد کرے.آمین ثم آمین.اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مستقیم پر استقامت بخشے.یہ عاجز دعا میں جمیع مومنین بالخصوص اپنے خاص احباب کو یاد کر لیتا ہے اور فی الحقیقت بڑا مقصود اعظم خوشنودی حضرت مولیٰ کریم ہے جس کے حصول

Page 477

سے مراداتِ دارَین حاصل ہو جاتے ہیں.سو مومن کی یہی علامت ہے کہ وہ کاہل نہ ہو جائے.اور اگر ہمیشہ نہ ہو سکے تو کبھی کبھی برخلاف مرادات نفس کر گزرے تا مخالفت حظوظِ نفس گزشتہ گناہوں کا کفّارہ ہو جائے کہ خد اوند کریم نکتہ نواز ہے اور ایک نیک خیال کا اجر بھی ضائع نہیں کرتا.اخویم مکرم میر عباس علی شاہ صاحب کی خدمت میں ایک خط لودیانہ بھیجا گیا ہے.رسالہ اگر براہین احمدیہ کی تقطیع پر ہو گا.تو اس کے چھپنے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا.کیونکہ اس تقطیع کے زیادہ صفحات پتھر پر نہیں چھپ سکتے، اسی طرح واقف لوگ کہتے ہیں.انشاء اللہ، موقع پر آپ کو، اگر خد اتعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.یکم دسمبر ۱۸۸۵ء غلام احمد نوٹ.اس مکتوب میں جس رسالہ کا ذکر ہے وہ سراج منیر ہے چودہر ی رستم علی صاحب نے جیسا کہ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے، عرض کیا تھاکہ یہ رسالہ بھی براہین کی تقطیع پر طبع ہو اور انہوں نے اس میں ثواب کے لئے شریک اعانت ہونے کے لئے عرض کیا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استغنا اور توکل علی اللہ ملاحظہ ہو.آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی.اس سے آپ کے اخلاص اور صاف دلی پر بھی پوری روشنی پڑتی ہے اگر محض روپیہ جمع کرنا مقصود ہوتا تو لکھ دیتے کہ روپیہ بھیج دو.مگر آپ نے اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا.(عرفانی) مکتوب نمبر ۱۹ ملفوف خط از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مکرم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنائت نامہ پہنچا.آپ کی رؤیا میں کسی قدروحشت ناک خبر ہے مگر انجام بخیر ہے.ایسی خوابیں بسا اوقات بے اصل نکلتی ہیں اور حدیث شریف میں ہے کہ جو خواب دل کو خوش کرے وہ رحمن کی طرف سے اور جو دل کو غمگین کرے وہ شیطان کی طرف سے ہے.اور دوسری خواب کے سب اجزاء

Page 478

اچھے ہیں.اب تک اس عاجز کو امید نہیں کہ جالندھر میں پہنچ سکے.اگر ایام تعطیل میں تشریف لاویں تو بہتر ہے مگر اوّل مجھ کو اطلاع دیں.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.خاکسار ۱۴؍دسمبر ۱۸۸۵ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۲۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.نماز مقتدی بغیر سورہ فاتحہ بھی ہوجاتی ہے.مگر افضلیت پڑھنے میں ہے.اگر کوئی امام جلد خواں ہو تو ایک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرأت امام نہ ہو اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہوجائے گی.مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی.۲۰؍دسمبر ۱۸۸۵ء.مکتوب نمبر۲۱ پوسٹ کارڈ علما ء یا فقرا کا خواب میں کسی دوست کے گھر جانا موجب برکات ہوتا ہے اور ایسی جگہ پر رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے… کبھی خواب اپنی ظاہری صورت پر بھی واقع ہوجاتی ہے.مگر ایسا کم اتفاق ہوتا ہے.۵؍جنوری ۱۸۸۶ء.

Page 479

Page 480

مکتوب نمبر ۲۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.اس وقت روانگی براہ راست ہوشیار پور تجویز ہو کر کل انشاء اللہ یہ عاجز روانہ ہو جاوے گا.آپ بھی دعا کرتے رہیں.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے.واپسی کے وقت اگر کوئی مانع پیش نہ آیا تو جالندھر کی راہ سے آسکتے ہیں.خاکسار ۱۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۵ خط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ عاجز بروز جمعہ بخیرو عافیت ہوشیار پور پہنچ گیا ہے اور طویلہ شیخ مہر علی صاحب میں فرو کش ہے آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ خد اوند کریم جلّشانہٗ یہ سفر مبارک کرے.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب بعد سلام، مضمون واحد ہے.والسلام ۲۶؍جنوری ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 481

مکتوب نمبر ۲۶ خط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ عاجز ہوشیار پور بخیریت پہنچ گیا ہے.یاد نہیں رہا، پہلے بھی اس جگہ آکر آپ کو اطلاع دی یا نہیں.اس لئے مکر ّر آپ کی خدمت میں لکھا گیا.آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جلدتر اس کام کو انجام تک پہنچاوے اور یہ عاجز شیخ مہر علی صاحب رئیس کے مکان پر اترا ہے اور اس پتہ سے خط پہنچ سکتا ہے.چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے.باقی خیریت ہے.والسلام ۲۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۷ خط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.یہ خبر غلط ہے کہ یہ عاجز جالندھر آنے کاارادہ رکھتا ہے.ابھی تک مجھ کو کچھ خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جائوں.یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں.اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ ھُوَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ.شائد منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ کچھ انگور اور کچھ پھلی کیلا اگر دستیاب ہو گیا لا ہور سے اس عاجز کیلئے آپ کے نام ریل میں بھیجیں.سو اگر آیا تو کسی یکّہ بان کے ہاتھ پہنچاویں.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.والسلام خاکسار ۱۱؍ فروری ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ

Page 482

مکتوب نمبر ۲۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کچھ چیزیں منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ لاہور آپ کے نام اور چوہدری محمد بخش صاحب کے نام بلٹی کراکر جالندھر میں بھیجیں گے.آپ براہ مہربانی وہ چیزیں کسی یکہ بان کے ہاتھ یا جیسی صورت ہو، ہوشیارپور میں اس عاجز کے نام بھیج دیں اوراگر آپ دورہ میں ہوں تو چوہدری محمد بخش صاحب کو اطلاع دے دیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام.چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون.خاکسار ۱۳؍ فروری ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.اب کوئی پہلا اشتہار موجود نہیں اس لئے بھیجنے سے مجبوری ہے.اور یہ عاجز آپ کیلئے اکثر دعا کرتا ہے جس کے آثار کی بفضلہ تعالیٰ دین و دنیا میں امید ہے.مضمون محمد رمضان کا پنجابی اخبار میں اس عاجز نے دیکھ لیا ہے کہ ’’ناچار فریاد خیز دا ز درد‘‘ کا مصداق ہے.والسلام ۳؍مارچ ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 483

مکتوب نمبر ۳۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ.اب یہ عاجز قادیان کی طرف جانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ منگل کو روانہ ہو گا.آپ میرصاحب کو تاکید کردیں کہ دو جلدیںچہارم حصہ براہین احمدیہ اگر سفید کاغذ پر ہوں تو بہتر ورنہ حنائی کاغذ پر ہی سوموار تک روانہ فرما دیں یعنی اس جگہ پہنچ جاویں.والسلام ۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ اور شائد اگر صلاح ہوئی تو جالندھر کی راہ سے جاویں.مگر جلدی ہے، توقف نہیں ہو گا.خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۳۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز عرصہ قریب ایک ہفتہ سے قادیان آگیا ہے.چند روز بباعث علالت طبع تحریر جواب سے قاصر رہا ہے.اب اہتمام رسالہ کی وجہ سے اشد کم فرصتی ہے.میری دانست میں آپ کا رسالہ کے لئے روپیہ بھیجنا اُس وقت مناسب ہے جب رسالہ تیار ہو جاوے کیونکہ بغیر تیاری اس کاتخمینہ معلوم نہیں ہو سکتا اور انشاء اللہ اب عنقریب چھپنا شروع ہو گا اور میںآپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم جلّشانہٗ آپ کو تردّدات پیش آمدہ سے مخلصی عطا فرماوے.آمین ثم آمین.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 484

نوٹ.یہ رسالہ جس کااس مکتوب میںذکر ہے سرمہ چشم آریہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور تشریف لے گئے تھے.وہاں لالہ مرلی دھر سے مباحثہ ہو گیا.اس مباحثہ کو ترتیب دے کر حضرت نے شائع کرنے کاارادہ فرمایا تو چوہدری رستم علی صاحب نے اس کی طبع و اشاعت کے لئے مدد دینے کی درخواست کی تھی.اس مکتوب سے جہاں حضرت چوہدری صاحب کے اخلاص پر روشنی پڑتی ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے ایک پہلو کا بھی خوب اظہار ہوتا ہے اگر آپ کو صرف روپیہ لینا مقصود ہوتا تو فوراً لکھ دیتے کہ بھیج دو مگر آپ نے یہ پسند نہیں کیا جب تک رسالہ کاتخمینہ وغیرہ نہ ہو جاوے.ابتدائً حضرت اقدس کا خیال تھا کہ یہ رسالہ چھوٹا سا ہو گا مگر بعد میں جب وہ مطبع میں گیا تو ایک ضخیم کتاب بن گیا.(عرفانی) مکتوب نمبر ۳۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خط پہنچ گیا.میں آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان دعائوںکے اثر خواہ جلدی، خواہ دیر سے ظاہر ہوں.خواب کے اوّل اجزا تو کچھ متو ّحش ہیں مگر آخری اجزاایسے عمدہ ہیں جن سے سب تو حش دور ہو گیا ہے.خواب میں پارچات کو صاف کرنا استقامت اور نجات ازہمّ و غم اور توبہ خالص پر دلالت کرتا ہے.غرض انجام اس کابہت اچھا ہے.فالحمد لِلّٰہِ.رسالہ کے چھپنے میں اب یہ توقف ہے کہ مالک مطبع اُجرت ۳۱۸ روپے مانگتا ہے مگر لاہور سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اجرت صرف ۲۶۷ روپیہ ہے.سو امید ہے کہ دو چار روز تک بات قائم ہو کر مطبع اس جگہ آجائے گا یا کوئی اور مطبع لانا پڑے گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۵؍ اپریل ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے.

Page 485

مکتوب نمبر ۳۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.عنایت نامہ پہنچا.کام رسالہ کا تین چار روز تک شروع ہونے والا ہے.اسی باعث سے اس عاجز کواس قدر کم فرصتی ہے کہ بیان سے باہر ہے.حافظ نور محمد کے فرزند کیلئے بعد پڑھنے خط کے دعا کی گئی.اللہ جلّشانہٗ رحم فرمائے.آمین.اس وقت بباعث درد سرو علالت طبع طبیعت قائم نہیں.اس لئے اسی پر کفایت کی گئی.آپ دعا کرتے رہیں.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.والسلام ۱۱؍ اپریل ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۳۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم انشاء اللہ آپ کی بیماری کے لئے دعا کرنا شروع کروں گا.آپ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں.مگر مضطرب اور بے صبر نہیں ہونا چاہئے.بِا ِذ￿نِ الٰہی کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.یہ بیماری کئی لوگوںکو ہو تی ہے اور اچھے ہو جاتے ہیں.اگر حکیم حاذق کی صلاح سے ماء الجُبن شروع کریں اورسر پر بعض مرطب چیزیں ناک میں ڈالنے والی استعمال ہوں تو انشاء اللہ تعالیٰ قوی فائدہ کی امید ہے.والسلام ۱۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 486

مکتوب نمبر ۳۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آپ کاعنایت نامہ پہنچا.آپ کے لئے کئی دفعہ دعا کی ہے اور کی جائے گی.کس بات کااندیشہ ہے؟ خداوندکریم جلّشانہٗ قادر مطلق ہے.ابتلاء اور غم اور ّہم سے ثواب حاصل ہوتا ہے.سو ذرّہ اندیشہ نہ کریں.میں آپ کے لئے بہت دعا کروں گا.اگر مزاج میں یُبسہو تو تازہ دودھ بکری کا علی الصباح ضرور پی لیاکریںاگر موافق آجاوے تو بہت عمدہ ہے اور کسی نوع کافکر نہ کریں.اب رسالہ کاکام عنقریب شروع ہو گا.والسلام ۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.مکتوب نمبر ۳۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.رسالہ سرمہ چشم آریہ صرف ہزار کاپی چھپے گا.انشاء اللہ القدیر جو شخص ایک دفعہ اس کو دیکھ لے گا، ہر کوئی حسب نیت و مذاقِ دینی اس کو ضرور خریدے گا.اور یہ کام بہت تھوڑا ہے، اب جلد ختم ہونے والا ہے اوررسالہ سرمہ چشم آریہ تو چار ماہ تک ختم ہو گا.اسی رسالہ میں انشاء اللہ القدیر اس کااشتہار دیاجائے گا.چوہدری محمد بخش صاحب کوسلام مسنون.والسلام خاکسار ۱۰؍ جون ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ

Page 487

مکتوب نمبر ۳۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.میر صاحب کی روانگی کے دوسرے روز کا تب آگیا ہے اور رسالہ سرمہ چشم آریہ جو صرف پندرہ یا بیس دن کا کام ہے چھپنا شروع ہوا ہے.کیونکہ رسالہ سراج منیر چار ماہ میں چھپے گا اور یہ صرف چند روز کا کام ہے.اس لئے اوّل اس سے فراغت کر لینا مناسب سمجھا گیا ہے.روز کے روز کاپیاں روانہ ہوتی جاتی ہیں اور کام بفضلہ تعالیٰ ہو رہا ہے.آپ کویہ عاجز دعا میں فراموش نہیں کرتا.بہرحال فضلِ الٰہی کی امیدہے.والسلام.چوہدری صاحب کو سلام مسنون پہنچے.نوٹ.اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر قادیان کی مہر ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء اور جالندھر کی ۱۷؍ جون ۱۸۸۶ء کی ہے.اس لئے ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء تاریخ روانگی ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۳۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.انشاء اللہ القدیر، اگر زندگی رہی تو رسالہ سرمہ چشم آریہ رمضان مبارک کے اخیر تک چھپ جائے گا.صرف درمیانی حرج یہ واقع ہو گیا ہے کہ شدت سے بارشیں ہو رہی ہیں.چھپے ہوئے ورقے دیر کے بعد خشک ہوتے ہیں.بہرحال ا مید کی جاتی ہے کہ رمضان کے گزرنے کے بعد جلد تر شائع ہو گا.اس وقت ڈیڑھ سو جلد آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا.دعا آپ کے لئے کی جاتی ہے.مگر یہ دشمن نفس جنگجو ہے اس کی بدیوں کے مقابلہ پر نیکیوں کے ساتھ حملہ کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ

Page 488

فرماتا ہے کہ نیکیوں کی برکت سے بدیوں پر آخر انسان غالب آجاتا ہے.خاکسار ۲۵؍ جون ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ از قادیان مکتوب نمبر ۳۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.استغفار کو بہت لازم پکڑنا چاہئے.جب بندہ عاجزی سے اپنے مولیٰ کریم سے معافی اور مغفرت چاہتا ہے تو آخر اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کے دل کو گناہ کی طرف سے نفرت دی جاتی ہے.استغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان رو کر اور تضرع سے اللہ جلّشانہٗ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے.سو استغفار کا کم سے کم یہ اثر ہوتا ہے کہ غضبِ الٰہی سے بچ جاتا ہے اور آخری اثر استغفار کا یہ ہے کہ گناہوں سے بچایا جاتا ہے.یہ عاجز بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہے مگر ترتیب اثر کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے.اس میں حکمتِ الٰہی ہے.استغفار ہر گز نہ چھوڑنا چاہئے.یہ بہت مبارک طریق ہے.رسالہ جب تیار ہو گا تو اطلاع دی جائے گی.والسلام.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے.خاکسار ۳؍ جولائی ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ

Page 489

مکتوب نمبر ۴۰ پوسٹ کارڈ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم مکرمی.السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ.پہلے اس جگہ امرتسر سے کتابوں کا آنا ضروری ہے تا میں ان کی غلطی وغیرہ کو دیکھ لوں.کیونکہ اکثر ترتیب میں جز ملانے کے وقت کمی و بیشی اوراق کی ہو جایا کرتی ہے.سو اس جگہ سے ایک سو تیس کتابیں آپ کی خدمت میں بھیجی جائیں گی.جز بندی ہو رہی ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ ۲۵؍ ستمبر تک آپ کے پاس کتابیں پہنچ جائیں گی.زیادہ خیریت ہے.والسلام.از طرف اخویم میر صاحب میر عباس علی صاحب سلام مسنون پہنچے.خاکسار ۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ نوٹ.اس خط کی مہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس اس وقت صدر انبالہ میں تھے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۴۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ.بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ صدر انبالہ میں مجھ کو ملا.میں اس جگہ جب تک اللہ جلّشانہٗ چاہے، متوقف ہوں.میرا پتہ یہ ہے.صدر انبالہ.حاطہ ناگ پھنی.محلہ گھوسیاں بنگلہ محمد لطیف.رسالہ سراج منیر اب انشاء اللہ القدیر، بعد رسالہ سرمہ چشم آریہ طبع ہو گا.مگر چونکہ اسی کی فروخت کے سرمایہ سے طبع رسالہ سراج منیر کی تجویز ہے..۱؎ اس لئے

Page 490

جس قدر جلد اس رسالہ کی فروخت ہو گی اسی قدر جلد تر رسالہ سراج منیر طبع ہو گا.آٹھ سَو روپیہ جمع تھا.وہ سب رسالہ سرمہ چشم آریہ پر خرچ ہو گیا.اس رسالہ میں کچھ تو بوجہ علالت طبع اس عاجز اور کچھ دیگر موانع سے مطبع وغیرہ سے توقف ہوئی.اب یہ رسالہ سرمہ چشم آریہ، امید قوی ہے کہ پندرہ روز تک من کل الوجوہ تیارہوکر میرے پاس پہنچ جائے گا.چونکہ یہ رسالہ ضخامت میں بہت بڑا ہو گیا ہے اورخرچ بھی اس پر بہت ہوا ہے اور ابھی دو سو روپیہ دینا ہے اس لئے قیمت اس کی ایک روپے بارہ آنے مقرر ہوئی ہے جس زمانہ میں یونہی تخمینہ سے ۴؍ قیمت مقرر کی گئی تھی اس زمانہ میں آپ نے ڈیڑھ سو رسالہ کا فروخت کرنا اپنے ذمہ لیا تھا.پس اس حساب سے سنتیس روپے آٹھ آنے کا رسالہ آپ کے ذمہ فروخت کرانا ہے.لیکن اس سے قطع نظر کر کے اگر آپ محض للہ پوری پوری کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو، رقم کثیر جمع کرنے میں سعی مبذول فرماویں تو نہایت ثواب کی بات ہے.منجملہ اس کے پانسو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ شملہ کا ہے جو بطور قرضہ طبع رسالہ کے لئے لیا گیا.اور تین سَو روپیہ چندہ کاہے.اس میں بہت کوشش کرنی چاہئے تا سراج منیر کے طبع میں توقف نہ ہو.امید ہے کہ یہ کوشش موجب خوشنودی رحمن ہو.آپ کے رفیق ہندو کو اس رسالہ کا پڑھنا مفید ہے اگر وہ غور سے پڑھے اور نجابتِ طبع رکھتا ہو.اورسعادت ازلی مقدر ہو تو ہدایت پانے کے لئے کافی ہے.انشاء اللہ القدیر دعا بھی کروں گا.کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں.میراحافظہ بہت خراب ہے.اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں.یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے.حافظہ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا.وللّٰہ فی کل فعل حکمۃ.والسلام خاکسار غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پھنی

Page 491

مکتوب نمبر ۴۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.پختہ ارادہ ہے کہ اخیر نومبر تک یہ عاجز قادیان کی طرف روانہ ہوگا.ابھی کوئی دن مقرر نہیں کہ کب تک یہاں سے روانہ ہونا پڑے.اگر موقع نکلا تو انشاء اللہ القدیر اطلاع دی جائے گی.اللہ جلّشانہٗ اس اخلاص اور خدمت کا آپ کو بہت اجر بخشے.شیخ مہر علی شاہ کی نسبت ضرور قادیان میں ۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی.چنانچہ انہی دنوں میں ان کواطلاع بھی دی گئی تھی.خواب یہ تھی کہ ان کے فرشِ نشست کوآگ لگ گئی اور ایک بڑا تہلکہ برپا ہوا اور ایک پُرہول شعلہ آگ کا اُٹھا.اورکوئی نہیں تھا جو اس کوبجھاتا.آخر میں میںنے بار بار پانی ڈال کر اس کو بجھا دیا.پھر آگ نظر نہیںآئی مگر دھواں رہ گیا.مجھے معلوم نہیں کہ کس قدر اُس آگ نے جلا دیا.مگر ایسا ہی دل میں گزرا کہ کچھ تھوڑا نقصان ہوا.یہ خواب تھی.یہ خط شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد ان کے گھر سے ان کے بیٹے کوملا.پھر بعد اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشت ناک اور کسی قدر اچھا تھا.میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی جس کی نسبت دعویٰ سے بیان کیا جاوے واللّٰہ اعلم بالصواب.شیخ صاحب فی الحقیقت سپرد سیشن ہو گئے.اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.میں ان کی نسبت بہت دعا کرتا ہوں اور ان کے عزیزوںکو بھی کئی تسلی کے خط لکھے ہیں.اگر کوئی امرصفائی سے منکشف ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا.آپ بھی دعا کریں.والسلام چوہدری محمد بخش صاحب و مولوی امام الدین صاحب و عطاء اللہ خاں صاحب کو سلام مسنون.اگر ملاقات ہو تو پہنچا دیں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ صدر انبالہ

Page 492

مکتوب نمبر ۴۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم سلّمہ.بعد سلام مسنون.عنایت نامہ پہنچا.آپ کو ہر طرح اختیار ہے جس کو چاہیں مفت دے دیں اور اگر ممکن ہو تو پانچ جلد عمدہ خوبصورت اسی نمونہ کی جو میں نے دکھلایا تھا تیار کرا کر ساتھ لے آویں یا بھیج دیں.زیادہ خیریت ہے.چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون.خاکسار ۷؍ اکتوبر ۱۸۸۶ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۴۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.یہ عاجز قادیان پہنچ گیا ہے اور یہ بات اطلاعاً لکھنا مناسب ہے کہ آں مکرم اس روپے سے جوبابت قیمت کتاب جمع ہو گا.ایک سَو پچاس روپے نقد بخدمت بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ لاہور پہنچا دیں.وہ سرمایہ رسالہ کے لئے جمع کر لیں گے.پتہ یہ ہے.بمقام لاہور.انار کلی.پبلک ورکس.بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ.اور باقی روپیہ براہ مہربانی اس جگہ پہنچا دیں اور سب طرح سے خیریت ہے.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.راقم خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ.یہ خط غالباً ۲۵؍ نومبر کے بعد کا ہے.عرفانی.

Page 493

مکتوب نمبر ۴۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنائت نامہ پہنچا یہ عاجز ۲۵؍نومبر ۱۸۸۶ء سے قادیان پہنچ گیا ہے.آپ برائے مہربانی اس روپیہ میں سے ایک سَو پچاس روپے بابو الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور پہنچا دیں کہ وہ رسالہ کے لئے بابو صاحب کے پاس جمع ہوگا اور باقی روپیہ اس جگہ ارسال فرما دیں اور ہمیشہ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے.والسلام خاکسار یکم دسمبر ۱۸۸۶ء غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر ۴۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ پہنچا.شیخ مہر علی صاحب کی نسبت میں نے بہت دعائیں کی ہیں اور بہر حال کلّی طور پر امید رحمتِ الٰہی ہے.اور بہت چاہا کہ صفائی سے ان کی نسبت منکشف ہو مگر کچھ مکروہات اور کچھ آثار خیر نظر آئے.اگر اس کی تعبیر اسی قدر ہو کہ مکروہات اور شدائد جس قدر بھگت چکے ہوں ان کی طرف اشارہ ہو.انجام بخیر کی بہت کچھ امید ہے.اور دعائیں بھی ازحدہوچکی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے.آمین ثم آمین.اور جوآپ نے نیت کی ہے کہ اگر ضرورت ہوتو چار ماہ کے لئے بطور قرضہ سَو یا دو سَو روپیہ دیا جائے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیت کا اجر بخشے.اگر کسی وقت ایسی ضرورت پیش آئے گی تو آپ کو اطلاع دوںگااور خود اس عاجز کا ارادہ ہے کہ جو امور ہندوؤں کے ویدسے بطور مقابلہ طلب کئے گئے ہیں.وہ بطور حق براہین ہیں.ابلاغ پائیں.اور اللہ جلّشانہٗ توفیق عمر بخشے

Page 494

کہ تاہم ان سب امور کو انجام دے سکیں.بخدمت چودھری محمد بخش صاحب وجمیع احباب کو سلام مسنون پہنچے اورجس وقت آپ قادیان میں تشریف لاویں ایک شیشی چٹنی سرکہ کی ضرور ساتھ لاویں.نوٹ:یہ مکتوب حضرت کے اپنے قلم سے لکھا ہوا ہے مگر آپ حسبِ معمول اس پر اپنا نام نہیں لکھ سکے.تاریخ بھی درج نہیں سلسلہ خطوط سے دسمبر ۱۸۸۶ء کا پایا جاتا ہے.عرفانی مکتوب نمبر۴۷ ملفوف و مختوم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کل عنایت نامہ آپ کاپہنچا.مگر کارڈ کوئی نہیں پہنچا.شیخ مہر علی صاحب کے واسطے جس قدر اس عاجز سے ہو سکا، دعا کی گئی اور حوالہ بخدا وند کریم و رحیم کیا گیا.اور اس جگہ سب طرح خیریت ہے.رسالہ سراج منیر کے طبع میں صرف بعض امور کی نسبت دریافت کرنا موجب توقف ہو رہا ہے.جب وہ امور بھی طے ہو جاتے ہیں تو پھر انشاء اللہ القدیر رسالہ کا طبع ہونا شروع ہو جائے گا اور شائد امرتسر میں کسی قدر توقف کرنا ضروری ہو گا.اب آپ کی تشریف آوری کی ۲۶؍ دسمبر تک امید لگی ہوئی ہے اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے.والسلام ۱۵؍ دسمبر ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ.یہ پہلا خط ہے جس پر حضرت اقدس نے تین مہریں لگائی ہیں ایک اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ۱؎ کی ہے اور دوسری غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ اُذْکُرُ رَحْمَتِی وَ قُدْرَتِیْ۲؎ کی ہے اور یہ مہریں آپ نے شروع خط میں لگائی ہیں.( عرفانی)

Page 495

مکتوب نمبر ۴۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آج آپ کا کارڈ مجھ کو ملا.میں نے سنا ہے کہ مولوی صاحب نے کچھ ریویو رسالہ سرمہ چشم آریہ پر لکھا ہے، ابھی میرے پاس پہنچا نہیں.سنا جاتا ہے کہ ابھی وہ رسالہ چھپنا ہے.جب میرے پاس پہنچے شائد پندرہ روز تک پہنچے توا نشاء اللہ آپ کی مکرر یاددہانی سے بھیج دوں گا.چودھری صاحب کو سلام مسنون پہنچے.والسلام ۲۰؍دسمبر ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 496

Page 497

مکتوب نمبر ۵۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ازار بند اور قند جو پہلے آنمکرم نے بھیجے تھے.سب پہنچ گئے ہیں.امید ہے کہ آج یا کل شیر مال بھی پہنچ جاوے گی.جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء.رسالہ سراج منیر کا مضمون تو اب تیار ہے.مگر اس کے طبع کیلئے تجویز کر رہا ہوں.کیونکہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کا چودہ سو روپیہ لاگت ہے.اگر کوئی مطبع کسی قدر پیچھے یعنی تین ماہ بعد لینا منظور کرے تو بآسانی کام چل جائے.اور اشتہار میرے پاس پہنچ گیا ہے.فتح محمد خاں صاحب کی غلطی سے کچھ کا کچھ لکھ دیا.اب آپ بھی وصولی روپیہ قیمت سرمہ چشم آریہ کابہت جلد بندوبست کریں.اور پندرہ روپیہ کی مجھے اور ضرورت ہے وہ میرے پاس بھیج دیں.باقی روپیہ منشی الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور روانہ فرما دیںاور جو آپ نے دو سَو روپیہ بطور قرضہ کے دینا تجویز کیا ہے وہ بھی ان کے پاس محفوظ رکھیں کہ اب روپیہ کی ضرورت بہت پڑے گی.قیمت رسالہ میں آج تک آپ سے پچہتر روپے پہنچ گئے ہیں اور پندرہ روپیہ آنے سے پورے نوّے روپیہ ہو جائیںگے.شیخ مہر علی صاحب کے لئے بہت دعا کی گئی ہے.واللّٰہ غفور رحیم.سند ر داس کے لئے تو ہم نے آپ کے کہنے سے بہت دعا کی تھی مگر چونکہ ہندو آخر ہندو ہے اس لئے وفاداری سے شکر گزار ہونا مشکل ہے.آج کل ہندوئوں کے جو مادے ظاہر ہو رہے ہیں.اس سے عقل حیران ہے.ہندوئوں میں وہ لوگ کم ہیں جو نیک اصل ہوں.ایک خطا.دوئم خطا.سوئم مادربخطا.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب السلام علیکم.خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 498

مکتوب نمبر ۵۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.انشاء اللہ القدیر شیخ میر محمد صاحب کے واسطے دعا کروں گا.آپ بالفعل پچیس روپیہ بذریعہ منی آرڈر اس جگہ کی ضرورتوں کے لئے ارسال فرما ویں اورباقی روپیہ کی وصولی کا جہاں تک ممکن ہو جلد بندوبست کریں تا وہ روپیہ سراج منیر کے کسی کام آوے اور قند جیساکہ آپ نے ہوشیار پور بھیجا تھا اور دو روپیہ کے شیر مال تازہ تیا رکروا کے ٹوکری میں بند کر کے بذریعہ ریل بھیج دیں اوراوّل اس کی بلٹی بھیج دیں اور شیخ صاحب مہر علی صاحب کی صورت مقدمہ سے اطلاع بخشیں.سندر داس کی کامیابی سے خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ اس کو سچی ہدایت بھی بخشے کہ بجز قوم میں سے باہر آنے کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی.وَاللّٰہُ یَھْدِیْ اِلَیْہِ مَن یَّشَآئُ.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.دو سو روپیہ جو قرضہ لیا جائے گا.آپ اپنے طور پر تیار رکھیں کہ جب نزدیک یادیر سے اس کی ضرورت ہوئی تو بھیجنے میں توقف نہ ہووے.

Page 499

مکتوب نمبر ۵۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.شیخ مہر علی صاحب کے لئے میں نے اس قدر دعا کی ہے کہ جس کا شمار اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے.اللہ جلّشانہٗ اس کی جان بخشی کرے کہ وہ کریم و رحیم ہے.رونے والوں کو ایک دم ہنسا سکتا ہے.سندر داس کے لئے بھی دعا کی ہے.مگر اسے کیوں ایسا مضطر ہوناچاہئے.وہ تو ابھی لڑکا ہے اور ابھی بہت سا وسیع میدان درپیش ہے.مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے کس قدر روپیہ لاہور میں بھیجا ہے.اگر کچھ بقیہ آپ کے پاس ہو تو مجھے بعض ضروریات کے لئے منگوانا ضروری ہے.اس سے جلد تر اطلاع بخشیں اورنیز معلوم ہوتا ہے کہ قرضہ کی بھی ضرورت پڑے گی.سو اگر آپ دو سَو روپیہ تک قرضہ کا انتظام کر دیں تو اس قسم کا ثواب بھی آپ کو حاصل ہو گا.باقی خیریت ہے.مقدمہ شیخ مہر علی صاحب سے اطلاع بخشیں.والسلام مکتوب نمبر۵۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی محبی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ معہ قصیدہ متبرکہ موصول ہوکر بہت خوشی ہوئی.جزاکم اللہ خیرا لجزاء.اگر چند بوتل سوڈا واٹر مل سکیں تووہ بھی بھیج دینا.یہ قصیدہ انشاء اللہ درج کتاب کرا دوں گا.والسلام خاکسار غلام احمد از لودھیانہ

Page 500

مکتوب نمبر ۵۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.کل ایک پُرزور خط حاجی ولی اللہ صاحب کی طرف روانہ کیا گیا ہے.جس میں ان کو واپسی قیمت کی طرف رغبت دی گئی ہے اور جواب طلب کیا گیا ہے.جواب آنے پر اطلاع دوں گا.مضمون جو آپ لے گئے تھے ضرور چھپوا دیں.سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۱؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ھ خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.مجھے ابھی پختہ معلوم نہیں کہ کب تک امرتسر جائوں، شاید بیس روز تک جانا ہو.بہرحال اس وقت انشاء اللہ خبر دے دوں گا.شیخ صاحب کیلئے اس قدر دعا کی گئی ہے بہرحال رحم اللہ جلّشانہٗ کی امید ہے .۱؎ آپ استغفار کو لازم پکڑیں.اس میں کفّارہ و ثواب ہے اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَـہٗ.۲؎ سندر داس کے لئے بھی دعا کی ہے.وَاللّٰہُ یَفْعَلُ مَایَشَآئُ.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان نوٹ: خط پر تاریخ نہیں.مگر مہر ۲ ؍ جنوری ۱۸۸۷ء درج ہے.(عرفانی)

Page 501

مکتوب نمبر ۵۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی سلّمہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.جیساکہ آپ کو دلی جوش شیخ صاحب کے حق میں ہے ایسا ہی مجھ کو ہے اور میں نے اس قدر دلی جوش سے دعا ان کے حق میں کی ہے.جس کا کچھ اندازہ نہیں رہا.اب ہم اس قدر دعائوں کے بعد شیخ صاحب کو اسی ذات کریم و رحیم کے سپرد کرتے ہیں جواپنے عاجز اور گنہگار بندوں کی تقصیرات بخشتا ہے اور عین موت کے قریب دیکھ کر بچا لیتا ہے.ٌ۱؎ حالات سے اطلاع بخشتے رہیں.والسلام ۱۱؍ فروری ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ قادیان

Page 502

مکتوب نمبر ۵۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘.اشتہار پہنچا اور پچیس روپیہ بھی پہنچ گئے.انشاء اللہ القدیر اشتہار دینے والے شرمندہ اور رُسوا ہونگے.آج کل ہندوؤں کو اپنے قومی تعصب میں بہت کچھ اشتعال ہورہا ہے مگر دروغ کو فروغ تا کجا؟ خودنابود ہوجائیں گے.شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی تاریخ پہلے آپ نے ۲۲؍فروری لکھی تھی.اور اب آپ نے ۲۲ مارچ ۸۷ء لکھی ہے.کیا پیشی سے پہلے تاریخ منسوخ ہوگئی یا تاریخ سے پہلے مقدمہ پیش ہوگیا.اس سے ضرور اطلاع بخشیں.چودھری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے.خاکسار ۲۲؍فروری ۱۸۸۷ء غلام احمدعفی عنہ ازقادیان مکتوب نمبر ۵۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی سلّمہٗ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج مبلغ پندرہ روپے بابت قیمت کتاب سرمہ چشم آریہ پہنچ گئے.رسیداً اطلاع خدمت ہے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.میں دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ آپ کا تردّد دُور فرماوے.والسلام ۸؍ مارچ ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 503

مکتوب نمبر۵۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کے دوست کے لئے کئی دفعہ دعا کی گئی.اگر کچھ مادہ سعادت مخفی ہے تو کسی وقت اثر کرے گی.ورنہ تہیدست ازل کا کیا علاج.آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو غیروں کی طرف التفات کرنے سے مستغنی کرے.ٌ.۱؎ رسالہ سراج منیر کاسب اسباب تیار ہے صرف یہ خیال ہے کہ اوّل خریداروں کی مجرد درخواستیں دو ہزار تک پہنچ جائیں، پھر چھپنا شروع ہو.کیونکہ یہ کام بڑا ہے جس میں دو ہزار روپیہ کے قریب خرچ ہو گا.آپ بھی اطلاع بخشیں کہ ایسے سچے شائق آپ کو کس قدر مل سکتے ہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۱؍ مارچ ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۶۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کو بباعث ضروری کام رسالہ ’’ردّ ایک یا وہ گو‘‘ کے ایک ہفتہ کے لئے جانا پڑا ہے.اس لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر فرصت ہو تو امرتسر میں آپ کی ملاقات ہو جاوے.والسلام ۱۳؍ مارچ ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 504

مکتوب نمبر ۶۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.مجھے کچھ بھی معلوم نہیں کہ کہاں اتروں گا.انشاء اللہ وہاں جاکر اطلاع دوں گا.اگرچہ میرا پتہ:.ہال بازار.مطبع ریاض ہند میں جاکر شیخ نور احمد سے جو مالک مطبع ہیں.بخوبی مل سکتاہے.مگر پھر بھی انشاء اللہ امرتسر میں جاکر آپ کو اطلاع دوں گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ.اس خط پر تاریخ درج نہیں.مگر مہر ۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کی ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۶۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ عاجز امرتسر پہنچ گیا ہے.شاید پیر منگل تک اس جگہ رہوں مگر بروز اتوار صرف ایک دن کے لئے لاہور جانے کاارادہ ہے.اگر آپ تشریف لاویںتو میں کٹرہ مہاں سنگھ میں برمکان منشی محمد عمر صاحب داروغہ سابق اُترا ہوں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۳۰؍ مارچ ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از امرتسر کٹرہ مہاں سنگھ

Page 505

مکتوب نمبر ۶۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.میں امرتسر سے قادیان آگیا ہوں.آپ دوام استغفار سے غافل نہ رہیں کہ دنیا نہایت خطرناک آزمائش گاہ ہے.شاید کتاب شحنہ حق آپ کے پاس پہنچی ہے یا نہیں.یہ بھی معلوم نہیںکہ پہلی کتابوں کی بقیہ قیمت وصول ہوئی یا نہیں.اب وہ تمام قیمت جلد وصول ہوجائے تو بہتر ہے کہ وقت نزدیک ہے.اطلاع بخشیں میر صاحب جالندھر میں ہیںیا تشریف لے گئے ہیں.امرتسر میں آپ کی بہت انتظار ہوتی رہی مگر مرضی الٰہی نہ تھی.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۸؍اپریل ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۶۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.چونکہ میں نے رسالہ شحنہ حق کی اُجرت وغیرہ ادا کرنا ہے اور اس جگہ روپیہ وغیرہ نہیں ہے.اس لئے مکلف ہوں کہ آپ مجھ کو بیس روپیہ بھیج دیں اور حساب یادداشت میں لکھتے رہیں یعنی جس قدر آپ نے متفرق بھیجا ہے،ا س کو آپ اپنی یادداشت میں تحریر فرماتے جاویں.اور اب وصولی روپیہ اور تصفیہ بقایا کی طرف توجہ فرماویں کہ اب روپیہ کی بہت ضرورت پڑے گی.بڑا بھاری کام سرپر آگیا ہے.آپ کی ملاقات اگر کبھی ہوتو بہتر ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ: تاریخ درج نہیں.ڈاک خانہ کی مہر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۸۸۷ء ہے.عرفانی

Page 506

Page 507

Page 508

کے لئے تجویز کرکے مجھ کو اطلاع دیں تو میں جانتا ہوں کہ اس میں آپ کو بہت ثواب ہوگا.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو چھ ماہ کے اندر ہی یہ قرضہ ادا کرا دے لیکن چھ ماہ کے بعد بہرحال بلاتوقف آپ کو دیا جائے گا.اور باقی آٹھ نو سو روپیہ کسی اور جگہ سے قرضہ لیا جائے گااس کا جواب آپ بہت جلد بھیج دیں.کچھ تعجب نہیں کہ آپ کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ نے یہ خیر مقدر کی ہو.اگر میں سمجھتا کہ آپ اِدھر اُدھر سے لے کر کچھ اور زیادہ بندوبست کرسکتے ہیں تو میں آٹھ سَو روپیہ کے لئے آپ کو لکھتا مگر مجھے خیال ہے کہ گو آپ اپنے نفس سے اللہ رسول کی راہ میں فدا ہیں.مگر آجکل دوسرے مسلمان ایسے ضعیف ہورہے ہیں کہ اگر ان کے پاس قرضہ کا بھی نام لیا جاوے تو ساتھ ہی ان کی طبع میں قبض شروع ہوجاتا ہے.جو اب سے جلد تر اطلاع بخشیں.شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی نسبت اگر کچھ پتہ ہو تو ضرور اطلاع بخشیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۱؍مئی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۷ء میں ارادہ فرمایا کہ قادیان میں ایک مطبع جاری ہو مگر مشیت ایزدی نے اس وقت اس کے لئے سامان پیدا نہ ہونے دیئے.اس کے بعد مختلف اوقات میں قادیان میں پریس منگوایا گیا مگر وہ کام کرکے واپس چلاجاتا رہا.آخر بالا ستقلال خدا تعالیٰ نے یہاں مطبع کا سامان مہیا کردیا.خاکسار عرفانی نے مشین پریس قائم کیا جواب ضیاء الاسلام پریس میں کام کرتا ہے.حضرت کے ہرارادہ کی خدا تعالیٰ نے تکمیل کردی.گو لوکان بعد حین ہوئی مگر پریس آپ کی زندگی میں ہی اور اخبارات ورسائل بھی آپ کی زندگی میں جاری ہوگئے.یہ منشاء الٰہی تھا اور پورا ہو کر رہا.اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چودھری صاحب کے خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا ہونے کا اظہار فرمایا ہے جو حضرت چودھری صاحب رضی اللہ عنہ کے کمال اخلاص اور اس کے نتیجہ میں کامل فلاح پانے کا ثبوت ہے.(عرفانی)

Page 509

مکتوب نمبر ۶۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آج آپ کا عنایت نامہ پہنچا.مولوی غلام محی الدین کے لئے میں نے کئی دفعہ دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو تردّدات سے مخلصی بخشے.اب مجھ کو نہایت جلدی اس بات کی ہے کہ جس طرح ہوسکے اپنے کام کو شروع کروں.کئی دوستوں کو جن پر کسی قدر امید پڑتی ہے قرضہ کے لئے لکھ دیا ہے اور سب کو لکھا گیا ہے کہ بعد طبع سراج منیر ایک برس کے وعدہ پر قرض دیں.آپ کی مانند چارپانچ آدمی ہیں اورچودہ سَو روپیہ کے قرضہ کا بندوبست کرنا ہے.آپ مجھ کو بہت جلد اطلاع دیں کہ آپ ٹھیک اس وعدہ پر کس قدر قرضہ کابندوبست کرسکتے ہیں تا میں روپیہ منگوانے کے لئے کوئی تجویز کروں.اور پھر لاہور میں خرید مطبع کے لئے آدمی بھیجا جاوے.اب یہ کام جلدی کا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جاوے.جس قدر بقیہ کتب ہو وے وہ بھی آپ وصول کر کے جلد تر بھیج دیں.والسلام ۲۹؍ شعبان خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ: اس خط میں جن مولوی غلام محی الدین صاحب کا ذکر ہے وہ مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.خاکسار عرفانی کے بھی استاد تھے.عرفانی نے براہین احمدیہ ۱۸۸۷ء میں انہیں صاحب کے پاس دیکھی تھی اور ’’جمال وحسن قرآن نو رِ جانِ ہر مسلمان ہے‘‘ والی نظم کو اس میں سے نقل کیا تھا.سلسلہ احمدیہ میں جیساکہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام رکھایا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میرے تعلقات کی ابتداء اسی ۱۸۸۷ء سے ہوتی ہے اور چوہدری رستم علی صاحب مرحوم ہی اس کے موجب ہیں.یہ کتاب چوہدری صاحب ہی کی تھی.مولوی غلام محی الدین صاحب کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ابتداً ارادت و عقیدت تھی مگر افسوس ہے کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو سکے.(عرفانی)

Page 510

مکتوب نمبر ۶۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.شیخ مہر علی صاحب کی نسبت اب تک کوئی خبر نہیں آئی کہ بریت پاکر بخیرو عافیت گھر پہنچ گئے.اگر آپ کو خبر ملی ہو تو برائے مہربانی اطلاع بخشیں.قرضہ کی بابت تجربہ کار لوگوں سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے اس تجویز کی تجسس کی لیکن یہ کہا کہ جس حالت میں انہیں کتابوں کی فروخت سے قرضہ اُتارا جائے گا.تو اس صورت میں کم سے کم ادائے قرضہ کی میعاد ایک سال چاہئے.کیونکہ سراج منیر پانچ مہینہ سے کم میں نہیں چھپے گا.اس لئے میں نے توکلاً علی اللہ بعض دوستوں کو لکھا ہے اورمیرا ارادہ ہے کہ اگر قرضہ کا بندوبست حسب د لخواہ ہو جاوے تو بہت جلد اس کام کو شروع کروں.آپ کو میں نے چھ ماہ کے وعدہ کے لئے لکھا تھا.مگر درحقیقت وعدہ ایک سال بہت خوب ہے.اگر آپ متحمل ہوسکیں توا س ثواب کے لینے میں عین جدوجہد کریں.میرا ارادہ ہے کہ رمضان شریف میں یہ کام شروع ہو جائے.آئندہ جو ارادہ الٰہی ہو.مجھے اس وقت زبانی یاد نہیں کہ آپ نے کتابوں کی قیمت میں کیا کچھ ارسال فرمایا تھا اور کیاباقی ہے.بہرحال جوکچھ باقی ہے اب اس موقعہ میں جہاں تک جلدی ممکن ہو بھیجنا چاہئے اور نیز اس قرضہ کی بابت جو اس میعاد کے لئے ہو جیسی مرضی ہو اطلاع دینی چاہئے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 511

مکتوب نمبر ۷۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.جو کچھ آپ نے ایک سال کے وعدہ پر تین سو روپیہ دینا کیا ہے.اس سے بہت خوشی ہوئی.لیکن اس بات کوبھی اپنے لئے گوارا کر لیں کہ یہ وعدہ اس تاریخ سے ہو کہ جب سراج منیر چھپ کر تیار ہو جائے.کیونکہ سراج منیر کی چھپائی کا کام پانچ یا چھ ماہ تک ختم ہو گا.چونکہ یہ روپیہ سراج منیر ہی کی فروخت سے نکالا جائے گا اس لئے صرف چھ ماہ ایک خطرناک عہد ہے.ایسا ہونا چاہئے کہ ایک سال پر چھ ماہ اور زائد کئے جائیں.بقیہ فروخت کتب کا جو روپیہ ہے اگر وہ آپ بہت جلد ساتھ لاویں تو آپ کی ملاقات بھی ہو جائے اور روپیہ بھی آ جائے.آپ امرتسر میں نہیں آسکے.اگر اس جگہ ملاقات ہو جائے بہت خوشی کی بات ہے.اگر آپ آویںتو دو روپیہ کی شکر جو عمدہ ہو اور نیز ایک بوتل چٹنی کی اور دو شیر مال میرے حساب میں خرید کر ساتھ لاویں ا ور اگر جلدتر آنا ممکن نہ ہو توبقیہ روپیہ فروخت کتب کا بذریعہ منی آرڈر بھیج دیں.لیکن جلد آنا چاہئے کیونکہ مجھے اس وقت روپیہ کی بہت ضرورت ہے اور نیز میرا ارادہ ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو پختہ ارادہ ہے کہ اسی ماہ رمضان میں جوبہت مبارک ہے، یہ کام شروع کیا جائے.سو اگر آپ تشریف لاویں تو بعض امور کا مشورہ آپ سے لیا جائے.اگر ممکن ہو تو مکرمی اخویم میر عباس علی صاحب بھی ساتھ آجائیں توبہتر ہو.میر صاحب سے استصواب کر لیں.یہ کام بہت عظیم الشان ہے.دوستوں کامشورہ اس میں بہتر ہے اور بعض مشورہ طلب امور بھی ہیں.آپ پہلے اپنے آنے کی پختہ گنجائش نکال کر پھر میر صاحب کولکھیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد

Page 512

مکتوب نمبر۷۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ نے جو مخنثوں کا گھر آباد دیکھا جو زیوروں سے آراستہ ہیں اس سے مراد دنیا دار ہیں جو دنیا کی آرائشوں میں مشغول ہیں اور جو دیکھا کہ ایک دوست کی تلاش میں دوڑ رہے ہیں اور پرواز بھی کر رہے ہیں اور پھر ملاقات ہو گئی.یہ کسی کامیابی کی طرف اشارہ ہے اور دوست کے جگر سے دوست کا مال مراد ہے جوانسان کو بالطبع عزیز ہوتا ہے اور دشمن کے جگر کا کاٹنا اس پر تباہی ڈالنا ہے.تلوار ہاتھ میں ہونا فتح و نصرت کی نشانی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے وہ کام جو اَب درپیش ہیں، آپ کو دکھا دیا ہے.اس کام میں چند دوستوں کو قرضہ کے لئے تکلیف دی گئی ہے تا دشمنوں کی بیخ کنی کی جائے.سو خواب نہایت عمدہ ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ فرصت نکال کر ملاقات کریں.ایک اور تکلیف دیتا ہوں اگر ممکن ہو تو اس کے لئے سعی کریں.آج کل ماہ رمضان میں بباعث مہمانداری و مصارف خانگی میں روغن زرد یعنی گھی کی بہت ضرورت در پیش ہے اور اتفاق ایسا ہوا کہ گھی جو جمع تھا سب خرچ ہو گیا اور اردگرد تمام تلاش کیا گیا، اچھا گھی ملتا نہیں.آخر چھ سات دن کے بعد ہمارا معتبر میاں فتح خاں واپس آیا.اگر پانچ روپیہ کا گھی عمدہ کسی گائوں سے مل سکے تو میرے حساب میں ضرور خرید کر ضرور ساتھ لاویں اور وہ دوسری چیزیں بھی جو میں نے پہلے لکھی تھیں.بخدمت چوہدری صاحب سلام مسنون.خاکسار ۳۰؍ مئی ۱۸۸۷ء غلام احمداز قادیان

Page 513

مکتوب نمبر ۷۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.بعد سلام علیکم.اس وقت میں انبالہ چھائونی کی طرف روانہ ہوتا ہوں.کیونکہ میر ناصر نواب صاحب لکھتے ہیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں.زندگی سے ناامیدی ہے.ان کی لڑکی کی اپنی والدہ سے ایسے وقت میں ملاقات ہوجانی چاہئے.سو میں آج لے کر اسی وقت روانہ ہوتا ہوں.والسلام ۱۹؍ جون ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمداز قادیان

Page 514

مکتوب نمبر ۷۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم.آج ایک ٹوکرہ آموں کاپہنچ گیا.جزاکم اللّٰہ خیرًا.بوجہ شدت حرارت موسم آم جو ٹوکرے کے اندر دبے ہوئے تھے بگڑ گئے.اس لئے آموں کی کیفیت سے کچھ اطلاع نہیں ہوئی.اگر ٹوکرے میں درخت سے تازہ توڑا کر کسی قدر کچے رکھے جاتے تو غالباً امید تھی کہ نہ بگڑتے.دوسری مرتبہ یہ ضرور احتیاط رکھیں.میںنے جو آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں.دل میں خیال آیا کہ ان کو کیا کھلائیں.آم توخراب ہو گئے ہیں.تب اور آم غیب سے موجود ہو گئے.واللہ اعلم اس کی کیا تعبیر ہے.مولوی حکیم نورالدین صاحب کا آدھا نوٹ پانچ سو روپیہ کا پہنچ گیا اور ساتھ ہی روپیہ نقد پہنچے اور آدھا ٹکڑا نوٹ کا امید کہ دس روز تک پہنچ جائے گا.سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا.بخدمت چوہدری صاحب محمد بخش السلام علیکم.الراقم خاکسار ۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء غلام احمد ا ز قادیان

Page 515

مکتوب نمبر ۷۴ پوسٹ کارڈ مکرمی اخویم.بعد السلام علیکم.آم پہنچ گئے تھے.اگر دوسری دفعہ ارادہ ارسال ہو تو دو امر کا لحاظ رکھیں.ایک تو آم کسی قدر کچے ہوں دوسرے ایسے ہوں جن میں صوف نہ ہو اور جن کا شیرہ پتلا ہو.میںنے سندر داس کی شفا اور نیز ہدایت کے لئے دعا کی ہے.اطلاعاً لکھا گیا.والسلام ۱۶؍ جولائی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 516

مکتوب نمبر ۷۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.بعد السلام علیکم.آج اِکاسی آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.یہ آم بہت عمدہ تھے.ان میں سے صرف ایک بگڑا.باقی سب عمدہ پہنچ گئے.دو آدمیوں کے پاس کے لئے ضرور آپ دوبارہ تحریک کریں اور جلداطلاع بخشیں کہ اب وقت نزدیک ہے.شاید آج دوسرا قطعہ پانچ سو روپیہ کا بقایا آجائے.باقی سب خیریت ہے.والسلام ۱۹؍ جولائی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان عاجز عبداللہ سنّوری کا سلام علیک.نوٹ: منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس کارڈ پر سلام علیک لکھا ہے.(عرفانی)

Page 517

مکتوب نمبر ۷۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آم پہنچ گئے.آپ نے خالصاً للّٰہ بہت خدمت کی ہے اور دلی محبت اور اخلاص سے آپ خدمت میں لگے ہو ئے ہیں.اللہ جلّشانہٗ آپ کوبہت اجر بخشے.پاس کا جواب آنے سے مجھ کو آپ اطلاع بخشیں.میاں نور احمد خود بخود دہلی چلے گئے.مگر پاس د و آدمیوں کے لئے ہونا چاہئے.نصف ٹکڑا نوٹ ابھی نہیں آیا.فتح خاں و حامد علی کا سلام علیکم.والسلام ۲۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ: اس کارڈ پر فتح محمد و حامد علی کا سلام علیکم بھی درج ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۷۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج سولہویں ذیقعد ۱۳۰۴ء ھ بفضلہ تعالیٰ و کرمہ اس عاجز کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے.۲۲ ذیقعد مطابق ۱۳؍ اگست روز عقیقہ ہے.اگر کچھ موجب تکلیف وحرج نہ ہوتو آپ بھی تشریف لا کر ممنون احسان فرماویں.فقط.والسلام ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور اور چوہدری محمد بخش صاحب کوبھی اطلاع کر دیں.سب کوسلام.

Page 518

نوٹ: اس مکتوب میں بشیر اوّل (اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا) کی پیدائش کی آپ نے بشارت دی ہے.چونکہ ایک مولود کے متعلق خد اتعالیٰ کی ایک عظیم الشان بشارت برنگ پیشگوئی دی تھی.بشیراوّل کے پیدا ہونے پر حضرت اقدس کا خیال اسی طرف گیا کہ شاید یہی وہ مولود موعود ہو.اس کے عقیقہ پر آپ نے بہت سے دوستوں کو دعوت دی تھی اوریہ عقیقہ خدا تعالیٰ کے نشان کے پورا ہونے پر اظہار مسرت و شکر گزاری کا ایک بہترین نمونہ تھا.اس کے متعلق تفصیل آپ کے سوانح حیات میں ہو گی.انشاء اللہ العزیز.(عرفانی) مکتوب نمبر ۷۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل میاں نور احمد نے صاف جواب بھیجا ہے کہ مجھے قادیان میں مطبع لے کر آنا منظور نہیں اور نہ میں دہلی جاتا ہوں اور نہ شرح مجوزہ سابقہ پر مجھے کتاب چھاپنا منظور ہے اس لئے بالفعل تجویز پاس کی غیر ضروری ہے.لوگ ہر ایک بات میں اپنی دنیا کا پورا پورا فائدہ دیکھ لیتے ہیں بلکہ جائز فائدہ سے علاوہ چاہتے ہیں.دیانت دار انسان کا ذکر کیا، ایسا بد دیانت بھی کم ملتا ہے جو کسی قدر بد دیانتی ڈر کر کرتا ہے.اب جب تک کسی مطبع والے سے تجویز پختہ نہ ہوجاوے خود بخود کاغذ خریدنا عبث ہے.میاں عبداللہ سنوری تو بیمار ہو کر چلا گیا.میاں فتح خان کا بھائی بھی بیمار ہے اور اس جگہ بیماری بھی بکثرت ہو رہی ہے.ہفتہ عشرہ میں جب موسم کچھ صحت پر آتا ہے تو لاہور یا امرتسر جا کر کسی مطبع والے سے بندوبست کیاجائے گا.پھر آپ کو اطلاع دی جائے گی.ایک ضروری بات کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ میرے پاس ایک آدمی حافظ عبدالرحمن نام موجود ہے.وہ نوجوان اور قد کاپورا اور قابل ملازمت پولیس ہے بلکہ ایک دفعہ پولیس میں نوکری بھی کر چکا ہے اور اس کاباپ بھی سارجنٹ درجہ اوّل تھا جو پنشن یاب ہو گیا ہے.اس کامنشا ہے جوپولیس میں کسی جگہ نوکر ہو جاؤں.اگر بالفعل آپ کی کوشش سے کنسٹبل بھی ہو جائے تو از بس غنیمت ہے.ایک سند ترک ملازمت بھی بطور صفائی اس کے پاس ہے.عمر تخمیناً بائیس سال کی

Page 519

ہے.اگر آپ کی کوشش سے وہ نوکر ہو سکتا ہے تو مجھے اطلاع بخشیں کہ اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر دوں اور جلد اطلاع دیں.والسلام ۹؍ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۷۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعدا لسلام علیکم.دو شطرنجی کلاں اگردو روز کے لئے بطور مستعار مل سکیں توضرور بندوبست کر کے ساتھ لاویں اور پھر ساتھ ہی لے جاویں اورجمعہ تک یعنی جمعہ کی شام تک ضرور تشریف لے آویں.والسلام ۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۸۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں ایک آپ کو نہایت ضروری تکلیف دیتا ہوں.امید ہے کہ آپ کی جدوجہد سے یہ کام بھی انجام پذیر ہو جاوے اور وہ یہ ہے کہ دو روز کے لئے ایک سائبان درکار ہے جوبڑا سائبان ہو،خیمہ کی طرح جس کے اندر آرام پاسکیں.اگر سائبان نہ ہو تو خیمہ ہی ہو.ضرور کسی رئیس سے لے کر ساتھ لاویں.نہایت ضروری ہے.کیونکہ مکان کی تنگی ہے.بہت توجہ کر کے کوشش کریں.خاکسار خاکسار ۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء غلام احمد

Page 520

مکتوب نمبر ۸۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.اس وقت ایک نہایت ضرورت خیمہ سائبان کی پیش آئی ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ مہمان عقیقہ کے روز اس قدر آئیں گے کہ مکان میں گنجائش نہیں ہوگی.یہ آپ کے لئے ثواب حاصل کرنے کا نہایت عمدہ موقعہ ہے.اس لئے مکلف ہوں کہ ایک سائبان معہ قنات کسی رئیس سے بطور مستعار دو روز کے لئے لے کر جیسے سردار سوچیت سنگھ ہیں، ضرور ساتھ لاویں.بہر طرح جدوجہد کر کے ساتھ لاویں.نہایت تاکید ہے.والسلام ۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکرر یہ کہ ایک سائبان فراخ معہ قنات کے جو اردگرد اس کے لگائی جاوے تلاش کر کے ہمراہ لاویں.

Page 521

مکتوب نمبر۸۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.مگر پان نہیں پہنچے.حتی المقد ور آپ ایسا بندوبست کریں کہ پان دوسرے چوتھے روز بآسانی پہنچ جایا کریں اور اب جہاں تک ممکن ہو پان جلدی پہنچاویں اور دوبارہ آپ کو تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ بڑی جدوجہد سے ڈیڑھ من خام روغن زرد عمدہ جمعہ تک پہنچاویں اور تیس روپیہ نقد ارسال فرماویں اور شاید قریباً یہ پنتالیس یا چالیس روپیہ ہوں گے آپ اس میں جہاں تک ہو سکے بڑی کوشش کریں اور عقیقہ کی ضیافت کے لئے تین بوتل عمدہ چٹنی کی اور بیس ثار آلو پختہ اور چار ثار اربی پختہ اور کسی قدر میتھی و پالک وغیرہ ترکاری اگر مل سکے ضرور ارسال فرماویں.یہ بڑا بھارا اہتمام عقیقہ کا میں نے آپ کے ذمہ ڈال دیا ہے.بہتر ہے کہ آپ تین روز کی رخصت لے کر معہ ان سب چیزوں کے جمعہ کی شام تک قادیان میں پہنچ جائیں کیونکہ ہفتہ کے دن عقیقہ ہے.اگر چوہدری محمدبخش صاحب کو بھی ساتھ لاویں تو بہت خوشی کی بات ہے.مگر آپ تو بہرصورت آویں.اور اوّل تو چار روز کی ورنہ تین دن کی ضرور رخصت لے آویں.میں نے سندرداس کیلئے بہت دفعہ دعا کی ہے اور نیز جہاں تک مجھے وقت ملا.مولوی مراد علی صاحب کے لئے بھی.اگر مولوی مراد علی صاحب بھی اس تقریب پر تشریف لاویں توعین خوشی ہے.والسلام خاکسار غلام احمدعفی عنہ

Page 522

نوٹ: اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر سلسلہ بتاتا ہے کہ اگست ۱۸۸۷ء کاخط ہے مولوی مراد علی صاحب جالندھری مشہور آدمی تھے.(عرفانی) خ خ خ مکتوب نمبر۸۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس سے پہلے روغن زرد کے لئے آپ کی خدمت میں لکھا گیا تھا.اسی وجہ سے اس جگہ کچھ بندوبست نہیں کیا گیا.لیکن دل میں اندیشہ ہے کہ شاید وہ خط نہ پہنچا ہو.کیونکہ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی کہ خریدا گیایا نہیں.اور وقت ضرورت روغن کابہت ہی قریب آگیا ہے اور روغن کم سے کم ڈیڑھ من خام چاہئے اوراگر دو من خام ہو تو بہتر ہے.کیونکہ خرچ بہت ہو گا.چونکہ یہ کام تمام آپ کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے اس لئے آپ ہی کو اس کافکر واجب ہے.اگر خدانخواستہ وہ خط نہ پہنچا ہو تو اس جگہ ایسی جلدی سے بندوبست ہونا محال وغیر ممکن ہے.اس صورت میں لازم ہے کہ آپ دو من خام روغن امرتسر سے خرید کر کے ساتھ لاویں.خواہ کیسا ہی آپ کا حرج ہو، اس میں تساہل نہ فرماویں.اور مناسب ہے کہ چوہدری محمدبخش صاحب بھی ساتھ آویں اور دوسرے جس قدر آپ کے احباب ہوں یا ایسے صاحب ہوں جو بخوشی خاطر اس موقعہ پر آ سکتے ہوں، ان کو بھی ساتھ لے آویں اورسب باتیںآپ کو معلوم ہیں، اعادہ کی حاجت نہیں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 523

مکتوب نمبر ۸۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہلے اس سے روغن زرد کے لئے لکھا گیا تھا کہ ایک من خام ارسال فرماویں.سو اس کی انتظار ہے کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے.دوسری یہ تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خادم کی ضرورت ہے.قادیان کے لوگوں کا حال دگر گوں ہے.ہمارا یہ منشاء ہے کہ کوئی باہر سے خادم آوے جو طفل نوزاد کی خدمت میں مشغول رہے.آپ ا س میں نہایت درجہ سعی فرماویں کہ کوئی نیک طبیعت اور دیندار خادم کہ جو کسی قدر جوان ہو مل جائے اور جواب سے مطلع فرماویں.خاکسار ۲۱؍ اگست ۱۸۸۷ء غلام احمد مکتوب نمبر ۸۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کل آپ کا خط پہنچا.آپ کے لئے بہت دعا کی گئی ہے.جس بات میں فی الحقیقت بہتری ہوگی وہی بات اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اختیار کرے گا.انسان نہیں سمجھ سکتا کہ میری بہتری کس بات میں ہے.یہ اَ سرار فقط خدا تعالیٰ کو معلوم ہیں.سو قوی یقین سے اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے.روغن زرد اب تک نہیں پہنچا.اس جگہ بالکل نہیں ملتا.اگر آپ ایک من روغن خام تلاش کر کے بھیج دیں توا س وقت نہایت ضرورت ہے اور نیز جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں، کوئی خادم ضرور تلاش کریں اورپھر تحریر فرمانے پر روانہ کر دیں.والسلامخاکسار ۲۲؍ اگست ۱۸۸۷ء غلام احمد

Page 524

مکتوب نمبر ۸۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ بباعث کثرت آمد مہمانان روغن زرد کی اشد ضرورت ہے اوراس جگہ ملتا نہیں اور میاں عبداللہ سنّوری نے لکھا ہے کہ میں بعد گزرنے عید کے آئوں گا.معلوم نہیں کہ وہ کب آویں گے.اس لئے تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ تین چار روز تک ہی سعی اور کوشش فرما کر روغن زرد ارسال فرما دیں.اگر ایک من خام جلدی روانہ نہ ہوسکے تو دس پندرہ سیر ہی روانہ فرماویں کہ شاید ایک ہفتہ کے لئے کافی ہو جاوے.مگر پھر باقی قدر مطلوب کو بھی متعاقب اس کے جلد روانہ کر دیں.نہایت تاکید ہے.یہ ایک ضروری امر تھا لکھا گیا.والسلام ۲۴؍ اگست ۱۸۸۷ ء خاکسار غلام احمداز قادیان

Page 525

مکتوب نمبر ۸۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم.میں آپ کیلئے بہت دعا کرتا ہوں اورامید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم آپ کے لئے وہی صورت مہیا کرے گا جو بہتر ہے.جناب الٰہی پر پورا پورا حسن ظن اور توکل رکھیں.روغن زرد جو تازہ اور عمدہ ہو کسی انتظام سے جلد تر روانہ فرماویں اور ساتھ اگر ممکن ہو دو آنے(۲؍)کے پان بھی بھیج دیں.والسلام ۲۵؍ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۸۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.امید کہ روغن کے لئے آپ نے بہت تلاش کی ہوگی.اس جگہ پان کی بھی اشد ضرورت ہے.اگر کسی طرح بآسانی پہنچ سکیں تو یہ ثواب بھی آپ کو حاصل ہو جائے.معلوم نہیں خادمہ ملی یا نہیں.اس سے بھی اطلاع بخشیں اور نیز نئے انتظام یا پہلی صورت کے قائم رہنے سے مطلع فرما ویں.والسلام ۳۰؍ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد

Page 526

Page 527

جاتا ہے.سو یہی وجہ توقف خرید کاغذ ہے.جب کچھ تخفیف بارش ہولے تب خرید کاغذ کے لئے کوئی اپنا معتبر بھیجا جائے.کاپی روانہ کردی گئی ہے.والسلام ۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۹۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ.خادمہ کے لئے جو کچھ فتح خان صاحب نے شرطیں لکھی ہیں ان کی تو کچھ ضرورت نہیں.صرف نیک بخت اور ہوشیار اور بچہ کے رکھنے کے لائق ہو.یہ بات ضرور ہے کہ تنخواہ بہت رعایت سے ہو.گھر میں تین عورتیں خدمت کرنے والی تو اسی جگہ موجود ہیں.جن میں سے کسی کو تنخواہ نہیں دی جاتی.اگر یہ عورت تنخواہ دار آئی اور تنخواہ بھی دوروپے تو ان کو بھی خراب کرے گی.تو اس کانتیجہ اچھا نہ ہو گا.اس ایام قحط میں صرف روٹی ،کپڑا ایک شریف عورت کے لئے از بس غنیمت ہے.جو تین روپے ماہواری بیٹھ جاتا ہے.سو اگر ایسی عورت مل سکے تو اس کو روانہ فرماویں.بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون.دعا کی گئی.۶؍ستمبر ۱۸۸۷ء مکتوب نمبر ۹۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حسب تحریر آپ کی آپ کے دوست کے لئے بھی دعا کی گئی.بشیر کے لئے خادمہ کی از بس ضرورت ہے.خد اتعالیٰ کرے کہ آپ کو کوئی نیک طینت خادمہ مل جاوے.زیادہ تنخواہ کی تواب

Page 528

بالکل گنجائش نہیں ہے.اگر کوئی ایسی خادمہ مل سکے کہ روٹی کپڑا پر کفایت کرے جیسا کہ اس جگہ کی عورتیں کر لیتی ہیں اور پھر شریفہ بھی ہو تو ایسی کی تلاش کرنی چاہئے اور چونکہ نہایت ضرورت ہے، آپ جلدی اطلاع بخشیں.والسلام ۷؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۹۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میاں عبداللہ سنوری ابھی آنے والے نہیں ہیں.اگر آپ ایک مرتبہ کوشش کر کے بقیہ روغن زرد جو ایک من خام سے باقی رہ گیا ہے معہ کسی قدر پان کے بہت جلد ارسال فرماویں تو میرے لئے موجب آرام ہو گا کیونکہ اس جگہ روغن نہیںملتا اور مہمانوں کی آمد بہت ہے.اور سندر داس کو ایک ماہ یا دو تین ہفتہ کے لئے اپنے پاس طلب کر لیں پھر اگر مجھے بھی آپ کے ہمراہ ملے تو اچھا ہے.دُعا اس کے لئے کرتا ہوں.والسلام ۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 529

مکتوب نمبر ۹۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاخط پہنچا.سندر داس صاحب کی صحت کے لئے دعا کی گئی اور کئی دفعہ توجہ دلی سے دعا کی گئی.میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ تا ایام صحت اس کو رڑ کی سے منگوا لو اور اگر ممکن ہو تو مجھ سے ملاقات کرائو کہ جس شخص کو ایک مرتبہ دیکھ لیا ہو اس کی نسبت دعا بہت اثر رکھتی ہے.ایک مرتبہ اپنے ساتھ اس کو لے آنا اور وہاں سے ضرور طلب کر لو اور بقیہ روغن زرد معہ کسی قدر پان کے بہت جلد بھیج دیں.کیونکہ عبداللہ کے آنے میں ابھی دیر معلوم ہوتی ہے.خادمہ کی تلاش ضرور چاہئے.والسلام ۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام ا حمد

Page 530

مکتوب نمبر ۹۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکمکے بعد روغن زرد کی اشد ضرورت ہے.قادیان کے اِردگرد دس دس کوس تک سخت تلاش کی گئی.ایک چار آنے(۴؍) کا روغن بھی نہیں ملتا.کہتے ہیں کہ ہندوئوں کے سرادہ ہیں، بناچاری.آپ کو دوبارہ تکلیف دی جاتی ہے کہ برائے مہربانی جلد تر ارسال فرماویں.مہمانوں کی آمدو رفت ہے.ہمراہ پان بھی اگر آسکیں وہ بھی ارسال فرما ویں.والسلام ۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۹۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم پان تو پہنچ گئے مگر روغن زرد اب تک نہیں پہنچا.اس کا کیا باعث ہے؟ امید کہ جلدی روانہ فرماویں.آج ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء تک نہیں پہنچا شاید کل تک پہنچ جائے تو کچھ تعجب نہیں.بہرحال اطلاعاً لکھا گیا.والسلام ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد

Page 531

مکتوب نمبر ۹۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ روغن زرد اب تک نہیں پہنچا براہ مہربانی جلد تر ارسال فرماویں اور اب ایک خادمہ محنت کش ہوشیار، دانا، دیانت دار کی اشد ضرورت ہے اور اس کا کام یہی ہو گا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی خدمت میں مشغول رہے.چنانچہ مفصل خط بخدمت میر صاحب تحریر ہو چکا ہے.آپ براہ مہربانی ایک خاص توجہ اور محنت اور کوشش سے ایسی خادمہ تلاش کر کے روانہ فرماویں.تنخواہ جو کچھ آپ مقرر کریں گے دی جائے گی.والسلام ۲۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۹۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ نہایت ضرورت خادمہ امینہ اور دانا اورمحنت کش کی پیش آگئی ہے اس لئے مکرر مکلف ہوں کہ آپ جہاں تک ممکن ہو خادمہ کو بہت جلد روانہ فرماویں اور روغن زرد اب تک نہیں پہنچا.ہمدست خادمہ ایک آنہ کے پان بھی روانہ فرماویں.والسلام ۲۲؍ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد

Page 532

مکتوب نمبر ۹۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم.روغن زرد اب تک نہیں پہنچا.پان تو پہنچ گئے ہیں.روغن جلد ارسال فرماویں.کیا کیا جائے اس جگہ روغن زرد ملتا ہی نہیں.اس لئے تکلیف دی تھی اور خادمہ کی نسبت آپ جہاں تک ممکن ہے.پوری پوری کوشش فرماویں.والسلام ۲۳؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد ا ز قادیان مکتوب نمبر۱۰۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم ابھی ایک خط روانہ خدمت ہو چکا ہے.اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ میری لڑکی بباعث بیماری نہایت نقیہ اور ضعیف ہورہی ہے، کچھ کھاتی نہیں ، انگریزی بسکٹ جو کہ نرم اور ایک بکس میں بند ہوتے ہیں.جن کی قیمت فی بکس ایک روپیہ دو آنے ہوتی ہے، وہ اس کو موافق ہیں.اب براہ مہربانی ایسے بسکٹ شہر میں ایک روپیہ دو آنے کو خرید کر ایک بکس ہمراہ خادمہ یا جس طرح پہنچ سکے جلد ارسال فرماویں.والسلام ۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد

Page 533

مکتوب نمبر ۱۰۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ چونکہ بلاخادمہ نہایت تکلیف ہے.برائے مہربانی جس طرح ہو سکے خادمہ کو روانہ فرماویں.سارا پتہ سمجھا دیں.دو آنے کے پان ساتھ لیتی آوے مگر اس کے پہنچنے میں اب توقف نہ ہو.میاں عبداللہ سنوری معلوم نہیں کب آئیںگے، ان کاانتظار کرنا عبث ہے.روغن زرد اب تک نہیں پہنچا.معلوم ہوتا ہے کسی جگہ رہ گیا ہے.یہ روغن محض قرضہ کے طور پر آپ سے منگوایا ہے.محض اس ضرورت سے کہ اس جگہ پیدا نہیں ہوتا تھا.آپ روغن وغیرہ کا حساب لکھ کر بھیج دیں تامیں آپ کی خدمت میں قیمت روانہ کر دوں.مجھے پان کی بابت بھی نہایت دقت و تکلیف رہتی ہے.اگر آپ انتظام کر سکیں تو میں پان کے لئے بھی کسی قدر اکٹھی قیمت بھیج دوں.امرتسر آنے جانے میں دس گیارہ آنہ خرچ ہوتے ہیں اور بٹالہ میں پان نہیں ملتا.اب برسات گزر گئی اور کاغذ خریدنے کے لئے عبداللہ و نور احمد کو بھیجا جاوے گا.کیا اب دو آدمی کے پاس کا بندوبست ہو سکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو کوشش کریں ورنہ کرایہ دے کر روانہ کیا جاوے گا زیادہ خیریت.والسلام.تنخواہ دو روپیہ ماہواری خادمہ کی منظور ہے.مگر محنت کشی اور دیانتداری شرط ہے.کئی عورتیںاس جگہ دن رات بلا تنخواہ کام کرتی ہیںمگر چونکہ نہ محنت کش ہیں نہ دیانتدار.اس لئے ان کاہونا نہ ہونا برابر ہے.کام نہایت محنت اور جان کا ہی اور ہوشیاری کا ہے.آپ اس خادمہ کو بخوبی سمجھا دیں تا پیچھے سے کوئی مخفی بات ظہور میں نہ آوے.والسلام ۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد یہ بات مکرر لکھنے کے لائق ہے کہ خادمہ نہایت درجہ کی دیانتدار اور شریف اور نیک نیت اور نیک بخت اورمتقی چاہئے.کیونکہ لڑکا اس کے سپرد کیا جاوے گا اور اس جگہ تمام مخالف ہندو اور اکثر مسلمان بھی

Page 534

مسلمان بھی لڑکے کی موت چاہتے ہیں اور علانیہ کہتے ہیں کہ لڑکا مر جائے تو پھر یہ جھوٹے ہو جائیںگے.جابجا یہی ذکر سنتا ہوں کہ اس جگہ کے تمام ہندو اور اکثر مسلمان شریر طبع بلکہ قریب کل کے مسلمان لڑکے کی موت چاہتے ہیں اور جابجا علانیہ باتیں کرتے ہیں.تعجب نہیں کہ زہر دینے کی تجویز میں ہوں.اس لئے لڑکے کی خادمہ جس قدر نیک بخت اور خدا ترس ہو، چاہئے.آپ سمجھ سکتے ہیں.زیادہ کیا لکھا جاوے.والسلام مکتوب نمبر ۱۰۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دو آنے کے پان پہنچ گئے.مگر روغن زرد آٹھ ثار خام جو آپ نے لکھا تھا وہ نہیں پہنچا.پہلی دفعہ بھی اکیس ثار خام روغن گم ہو گیا.اب بھی گم ہوا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.اب آئندہ روغن بھیجنا بالکل فضول ہے.معلوم نہیں کہ یہ انتیس ثارروغن کس نے راہ میں لے لیا.اب آئندہ ارسال نہ فرماویں.دو چار روز تک دو آدمی خریداری کاغذ کے لئے انشاء اللہ دہلی میں جائیںگے.اگر ممکن ہو تو بندوبست پاس کر رکھیں.والسلام ۴؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۱۰۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میاں نور احمد کے دہلی میں جانے کے آثارکچھ معلوم نہیں ہوتے.بہرحال میں ۱۸؍ تاریخ یا ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء کو میاں فتح خاں کو امرتسر میں بھیجوں گا.اگر میاں نور احمد نے امرتسر جانا قبول کر

Page 535

لیا تو دونوں مل کر دہلی جائیںگے اور اگر قبول نہ کیا تو پھر نا چاری کی بات ہے.اطلاعاً لکھا گیا ہے.والسلام ۱۶؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان اور یہ بھی تحریر فرماویں کہ آپ کا اس طرف آنے کا کب تک ارادہ ہے.اگر سندر داس آگیا ہو تو ایک دن کے لئے اس کو ساتھ لے آویں.ضرور اطلاع بخشیں.مکتوب نمبر ۱۰۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.انسان کے اختیار میں کچھ نہیں جو کچھ خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے.مصمّم ارادہ تھا کہ ۱۹؍اکتوبر ۱۸۸۷ء کو روانگی دہلی کے لئے امرتسر آدمی پہنچ جائے.اوّل میاں نور احمد کی حالت کچھ بدل گئی.میاں عبداللہ سنوری بیمار ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے.میاں فتح خاں کچھ نیم علیل سا ہوگیا اور ان کا بھائی بعارضہ تپ بیمار ہوگیا وہ اس کو چھوڑ کر کسی طرح جانہیں سکتا.اس لئے مجبوراً لکھا جاتا ہے کہ آپ لکھ دیں کہ دس روز کے بعد جانے کی تجویز کی جائے گی اور اوّل اطلاع کریں گے.والسلام ۱۸؍اکتوبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد

Page 536

مکتوب نمبر ۱۰۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم روغن زرد جو کہ آٹھ ثار خام تھا وہ اب تک نہیں پہنچا اور دوسری مرتبہ کا شاید تیس ثار تھا.وہ پہنچ گیا ہے.اگر آپ کوشش کریں تو پہنچ جائے.بے فائدہ نہ جائے.اگر ممکن ہو تو دو آنے کے پان بھی بھیج دیں.اب امید رکھتا ہوں کہ کام جلدی شروع ہوگا.مفصل کیفیت پیچھے سے لکھوں گا.عبدالرحمن کو میں نے کہہ دیا ہے شاید ہفتہ عشرہ تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا.والسلام ۲۶؍اکتوبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر۱۰۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۵؍ ثار خام گھی پہنچ گیا آپ جو محض لِلّٰہِ تکالیف خدمت اُٹھا رہے ہیں.خدا وندکریم جلّشانہٗ اس کو باعث اپنی خوشنودی کا کرے.جیسے لوگ آج کل اپنی بد خیالی و بدظنی میں ترقی کر رہے ہیں.آپ خدمت و خلوص میں ترقی کرتے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ ایسے قحط الرجال کے وقت میں ان مخلصانہ خدمتوں کا دوہرا ثواب آپ کو بخشے.لودھیانہ کے خط سے معلوم ہو ا ہے کہ اخویم میر عباس علی صاحب کی طبیعت کچھ علیل ہے.خدا تعالیٰ جلد تر ان کو شفا بخشے.والسلام ۲۸؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد

Page 537

مکتوب نمبر ۱۰۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہلا گھی صرف اکیس سیر پہنچا تھا.جیسا آپ نے لکھا ہے.میں نے غلطی سے تیس ثار وزن لکھ دیا تھا.اطلاعاً لکھا گیا اور سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۳۰؍اکتوبر۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۱۰۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.حال یہ ہے کہ اس عرصہ میں کئی عورتیں بچہ کی خدمت کے لئے رکھی گئی ہیں.مگر سب ناکارہ نکلی ہیں.یہ کام شب خیزی اور ہمدردی اور دانائی کا ہے.لڑکا چند روز سے بیمار ہے.ظن ہے کہ پسلی کا درد نہ ہو.علاج کیا جاتا ہے.واللہ شافی.مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی کمزورعورت اس خدمت شب خیزی کو اٹھا سکے.چند روز سے فقط مجھے تین تین پہر رات تک اور کبھی ساری رات لڑکے کے لئے جاگنا ہوتا ہے.ہر گز امید نہیں ہو سکتی کہ کوئی عورت ایسی محنت سے کام کر سکے.اس سے دریافت کر لیں کہ کیا ایسا محنت کا کام کر سکتی ہے.خاکسار ۶؍ نومبر ۱۸۸۷ء غلام احمد

Page 538

مکتوب نمبر ۱۰۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خادمہ پہنچ گئی.اب تک کسی کام میں مصروف نہیں ہوئی.سست اور کاہل الوجود بہت ہے.اس کے آنے سے تکلیف اسی طرح باقی ہے.جوپہلے تھی.لیکن آزمائش کے طور پر ایک دو ماہ کے لئے اس کو رکھ لیا گیا ہے کہ دور سے آئی ہے.اس وقت ضروری کام کے لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اب ایک مہتمم مطبع بٹالہ سے باہم اقرار کاغذ اسٹامپ پر ہو کر ہر دو رسالہ کے چھاپنے کے لئے تجویز کی گئی ہے اور سنا جاتا ہے کہ دہلی میں بہ نسبت لاہور کاغذ ارزاں ملتا ہے.اس لئے امید رکھتا ہوں کہ آپ اگر ممکن ہو بہت جلد بندوبست دو آدمی کے پاس کاکر کے مجھ کو اطلاع بخشیں.تامیں میاں فتح خاں اور ایک اور آدمی کو دہلی کی طرف روانہ کروں اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں بلاتوقف اپنے دونوں آدمی امرتسر میں بھیج دوں اور پتہ ان کا یہ ہو گا کہ وہ کٹڑہ مہیاں سنگھ میں مکان مولوی حکیم محمد شریف صاحب پر ٹھہریں گے.بہرحال آپ کا جواب بواپسی ڈاک آنا چاہئے کہ اب بعد معاہدہ تحریری زیادہ توقف نہیں ہو سکتی.اگر دو آدمی کا پاس مل جانا ممکن ہو تو بہتر ہے کہ اس سے کفایت رہے گی اور اگر ناممکن ہو،تا ہم اطلاع بخشیں.جواب بہت جلد آنا چاہئے.خاکسار ۱۵؍ نومبر ۱۸۸۷ء غلام احمداز قادیان نوٹ: بٹالہ میں شعلہ طور نامی ایک مطبع تھا.اس کی طرف یہ اشارہ ہے.(عرفانی)

Page 539

مکتوب نمبر ۱۱۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم.بباعث علالت طبع اور موسمی بخار آنے کے میں آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا.آپ کو اللہ جلّشانہٗ جزاء خیر بخشے.آپ نے بہت سعی کی ہے.اب میرا تپ ٹوٹ گیا ہے، کچھ شکایت باقی ہے.میاں فتح خاں کے آتے وقت اگر کچھ بندوبست ہو سکے تو کچھ رعایت ہو جائے گی.آئندہ جو مرضی مولا.اور سب خیریت ہے.والسلام ۲۹؍ نومبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمداز قادیان مکتوب نمبر ۱۱۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی یاد دہانی پر برابر سندر داس کے لئے دعا کی جاتی ہے.ترتب اثر جلّ شانہٗ کے اختیار میں ہے.میاں فتح خاں کو اطلاع دے دی ہے.اب تک کچھ حال معلوم نہیں.شاید آپ کو کوئی خط آیا ہو.اور سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ از قادیان ضلع گورداسپورہ

Page 540

مکتوب نمبر ۱۱۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.سندرداس کی علالت طبع کی طرف مجھے بہت خیال ہے.اللہ تعالیٰ اس کوتندرستی بخشے.اگر قضاء مبرم نہیں ہے تو مخلصانہ دعا کا اثر ظہور پذیر ہو گا.آپ کی ملاقات کو بھی بہت دیر ہو گئی ہے.کسی فرصت کے وقت آپ کی ملاقات بھی ہو توبہتر ہے اوراللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اسی کو ہر ایک بات میں مقدم سمجھیں.والسلام ۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمداز قادیان معلوم نہیں کہ میاں فتح خاں کے آنے کے لئے آپ نے کوئی بندوبست کیا یا نہیں.وہ آج ۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء کو روانہ ہوں گے.والسلام مکتوب نمبر ۱۱۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرا لڑکا بشیر احمد سخت بیمار ہے.کھانسی و تپ وغیرہ خطرناک عوارض ہیں.آپ جس طرح ہوسکیدو آنے کے پان بہت جلد بھیج دیویں کہ کھانسی کے لئے ایک دوا اس میں دی جاتی ہے.والسلام ۱۶؍ دسمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمدا زقادیان

Page 541

مکتوب نمبر ۱۱۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز دعا کرتاہے کہ آپ کی ترقی اسی ضلع میں ہو.آئندہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں مصالح ہیں.میرا لڑکا شدت سے بیمار تھا بلکہ بظاہر علامات بہت ردی تھیں.امید زندگی کی نہیں تھی.اب بفضلہ تعالیٰ وہ سیلاب بیماری کا رُو بہ کمی ہے.لڑکے نے آنکھیں کھول لی ہیں اور دودھ پیتا ہے.ہنوز عوارض باقی ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دفع ہو جائیںگے.دو آنے کے پان ضرور بھیج دیں.والسلام خاکسار ۱۸؍ دسمبر۱۸۸۷ء غلام احمداز قادیان مکتوب نمبر ۱۱۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جہاں تک ممکن ہو آپ اس طرف ہو کر جائیں.۲۶؍دسمبر کو آپ کی انتظار رہے گی.پان مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے.سو یہ پہنچانے والوں کی غفلت یا خیانت ہے.آپ ایک آنے کے پان ضرور لیتے آویں.لڑکا اب اچھا ہے.کسی قدر کھانسی باقی ہے ایک نہایت ضروری کام ہے جس سے دنیا و آخرت میں برکات کی امید کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بشیر احمد کے لئے ایک ایسی دودھ پلانے والی عورت کی ضرورت ہے جس کو بچہ ہونے پر برس سے زیادہ نہ گزرا ہو اور خوب طاقتور عورت ہو اور بچہ مر جانے کی اس کو بیماری بھی نہ ہو.اور اس کے بچہ تازہ اور فربہ ہوتے ہوں.دبلے و خشک نہ رہتے ہوں.ایسی عورت تلاش کر کے آپ بھیج دیں یاساتھ لاویں.تنخواہ جو مقرر ہو دی جائے گی.اگر کوئی ایسی بیوہ عورت ہو تو نہایت عمدہ ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۱؍ دسمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمداز قادیان

Page 542

مکتوب نمبر ۱۱۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.موجب خوشی ہوا.کئی دفعہ سندر داس کیلئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماوے.مناسب ہے کہ آپ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہو.بشیر احمد بفضلہ تعالیٰ اب اچھا ہے.والسلام ۲؍ جنوری ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ا ز قادیان مکتوب نمبر ۱۱۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.ادراک خیروعافیت سے خوشی و تسلی ہوئی.امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.اب سردی نکلنے والی ہے اور اب آپ کے لئے موسم بہت اچھا نکل آئے گا.سندر داس کی طبیعت کا حال پھر آپ نے کچھ نہیں لکھا.صرف اتنا معلو م ہو اتھا کہ اب بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے.اس کی طبیعت کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں.اس وقت کاغذی اخروٹ یعنی جوز کی ایک دوا بنانے کیلئے ضرورت ہے اور بقدر باراں اثار خام اخروٹ چاہئے.مگر کاغذی چاہئے.اس لئے تکلیف دیتا ہوں کہ اگر کاغذی اخروٹ اس جگہ سے مل سکیں اور یہ بندوبست بھی ہو سکے کہ پٹھان کوٹ سے بلٹی کرا کر اسٹیشن بٹالہ پر پہنچ سکیں تو ضرور ارسال فرماویں.یہ سب کچھ بے تکلف آپ کی طرف جو لکھا جاتا ہے، محض آپ کے اخلاص و محبت کے لحاظ سے ہے جو آپ محض للہ رکھتے ہیں.

Page 543

ہیں.کیونکہ آپ نے محض للہ اخلاص کو غایت درجہ پر بڑھا دیا ہے.خدمت للہ میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا.اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے اور دین میں استقامت و تقویٰ و دنیا میںعزت و حرمت عطا کرے.آمین.مکرر یاد رہے کہ یوں ہی بلا محصول ہر گز بھیجنا نہیں چاہئے.بلکہ بلٹی بیرنگ کرا کر مُلَف خط علیٰحدہ میرے پاس بھیج دیں اور بٹالہ کے اسٹیشن کے نام بلٹی ہو تا اسی جگہ سے لیا جاوے.والسلام ۲۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان یہ یاد رہے کہ اخروٹ کاغذی ہوں.جن کا بآسانی مغز نکل آتا ہے.نوٹ: مکتوب نمبر ۱۱۲ میں چوہدری رستم علی صاحب کی ترقی کا ذکر آیا ہے.ان کی ترقی کا سوال در پیش تھا.خد اکے فضل وکرم سے وہ سارجنٹی سے ڈپٹی انسپکٹری پر ترقی پا کر دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں تعینات ہوئے تھے.اس وقت ہیڈ کانسٹیبل سارجنٹ اور سب انسپکٹری ڈپٹی انسپکٹری کہلاتی تھی.بہرحال چوہدری صاحب ڈپٹی انسپکٹر یا سب انسپکٹر ہوکر دھرم سالہ چلے گئے.اس وقت حضرت اقدس لفافہ انہیں اس طرح پر لکھتے تھے.ضلع کانگڑہ.بمقام دھرم سال.خدمت میں مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر ( جو سرشتہ دار پیشی ہیںیا لین پولیس میں)پہنچے.(عرفانی)

Page 544

مکتوب نمبر ۱۱۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج چائے مرسلہ آنجناب پہنچ گئی ہے.جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے.رسالہ اشعۃ القرآن کا انگریزی میں ترجمہ ہو رہا ہے.دونوں رسالہ ایک ہی جگہ اکھٹے کر دئیے گئے ہیں.ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷؍ فروری ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر ۱۱۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اس قحط الرجال اور قساوت قلبی کے زمانہ میں کہ جو ہر ایک فرد بشر پر ہوائے زہر ناک غفلت و سنگدلی کی طاری ہو رہی ہے.اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہ ایسے زمانہ میں خلوص دینی کے لئے زندہ دلی ازبس قابل شکر ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاوے اوران کو دنیا اوردین میں زیادہ سے زیادہ برکت دے.آمین ثم آمین.بلٹی جو آپ بھیجنا چاہتے ہیں.وہ میری دانست میں لفافہ میں ڈال کر اس جگہ قادیان میں بھیج دی جاوے.تو بلاتوقف کوئی شخص یہاں سے جا کر لے آوے گا.کیونکہ آخر اس جگہ سے کوئی آدمی بھیجنا ضروری ہوگا.ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے.اگر چاہیں محرر تھانہ کے نام بلٹی بھیج دیں.مگر اس صورت میں بہت دیر کے بعد اسباب ملتا ہے.بلکہ چوکیداروں وغیرہ کی

Page 545

شرارت سے اکثر نقصان ہو جاتا ہے.جس حالت میںبلٹی بھیجنا ہے تو قادیان ہی میں کیوں نہ بھیجی جاوے اور بشیر بفضل خدا وند قدیر خیرو عافیت سے ہیں اور رسالہ سراج منیر یقین ہے کہ جلد چھپنا شروع ہو گا.والسلام ۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۱۲۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ ۱۳؍۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء کی گزشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہمّ و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی.میں نہایت وحشت و تردّد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا.چنانچہ کل سندر داس کی وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا..۱؎ معلوم ہوتا ہے.یہ وہی غم تھا.جس کی طرف اشارہ تھا.خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے.ترا با کہ رُو در آشنائے است قرار کارت آخر بر جدائی ست ز فرقت بر دلے باری نباشد کہ با میرندہ اش کاری نباشد مجھے کبھی ایسا موقعہ چند مخلصانہ نصائح کا آپ کے لئے نہیں ملا جیسا آج ہے.جاننا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی.ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں.

Page 546

اللہ جلّشانہٗ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے..۱؎ یعنی جو مومن ہیں وہ خد اسے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے.محبت ایک خاص حق اللہ جلّشانہٗ کا ہے.جو شخص اس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہو گا.تمام برکتیں جو مردانِ خدا کو ملتی ہیں، تمام قبولیتیں جو ان کو حاصل ہوتی ہیں.کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روزہ سے ملتی ہیں؟ ہرگز نہیں.بلکہ وہ توحید فی المحبت سے ملتی ہیں.اسی کے ہوجاتے ہیں، اسی کے ہو رہتے ہیں، اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں.میں خوب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یکدفعہ وہ ایسے شخص سے جد اکیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے.لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میںہے کہ کیا ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور ہونا چاہئے؟ ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے ِللّٰہی محبت باہر ہے خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست، کوئی ہو ایک قسم کاکفر اور کبیرہ گناہ ہے.جس سے اگر شفقت ور حمت الٰہی تدارک نہ کرے توسلبِ ایمان کاخطرہ ہے.سو آپ یہ اللہ جلّشانہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنی محبت کی طرف آپ کو بلایا..۲؎ اورنیز ایک جگہ فرماتا ہے جلّشانہٗ وعزّاسمہ .۳؎ یعنی کوئی مصیبت بغیر اذن اور ارادہ الٰہی کے نہیں پہنچتی اور جو شخص ایمان پر قائم ہو.خدا اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے.یعنی صبر بخشتا ہے اور اس مصیبت میں جو مصلحت اور حکمت تھی.وہ اسے سمجھادیتا ہے اور خد اکو ہر ایک چیز معلوم ہے.میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا اور اب بھی کئی دفعہ کی ہے.چاہئے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں.یَا اَحَبَّ مِنْ کُلِّ مَحْبُوْبٍ اِغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَ اَدْخِلْنِیْ فِی عِبَادِکَ الْمُخْلَصِیْنَ.آمین.٭ والسلام ۱۵؍ فروری ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 547

نوٹ: مکرمی چوہدری رستم علی صاحب کو سندر داس نامی ایک شخص سے محبت تھی اور وہ اسے عزیز سمجھتے تھے.اس کا ذکر مختلف مکتوبات میں آیا ہے.پھر محبت میں چوہدری صاحب کو غلو تھا اور یہ بھی ایک کمال تھا کہ وہ اسے محسوس کرتے تھے اور حضرت اقدس کو بارہا لکھتے رہتے تھے.آخر وہ بیمار ہوا اورمر گیا.اس پر یہ مکتوب حضرت نے تعزیت کا لکھا.(عرفانی) مکتوب نمبر ۱۲۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کے ساتھ ربط ملاقات پیدا کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو بدلا جائے.تا عاقبت درست ہو.سندر داس کی وفات کے زیادہ غم سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ کا ہر ایک کام انسان کی بھلائی کے لئے ہے.گو انسان اس کوسمجھے یا نہ سمجھے.جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد بیعت ایمان لینا شروع کیا تو اس بیعت میں یہ داخل تھا کہ اپنا حقیقی دوست خد اتعالیٰ کو ٹھہرایا جائے اور اس کے ضمن میں اس کے نبی اور درجہ بدرجہ تمام صلحاء کو اور بغیر علّت دینی کے کسی کو دوست نہ سمجھا جائے.یہی اسلام ہے جس سے آج کل کے لوگ بے خبر ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..۱؎ یعنی ایمانداروں کا کامل دوست خدا ہی ہوتا ہے وبس.جس حالت میں انسان پر خد اتعالیٰ کے سوا اور کسی کا حق نہیں تو اس لئے خالص دوستی محض خدا تعالیٰ کا حق ہے.صوفیاء کو اس میں اختلاف ہے کہ جو مثلاً غیر سے اپنی محبت کو عشق تک پہنچاتا ہے اس کی نسبت کیا حکم ہے؟ اکثر یہی کہتے ہیں کہ اس کی حالت حکم کفر کا رکھتی ہے.گو احکام کفر کے اس پر صادر نہیں ہو سکتے.کیونکہ بباعث بے اختیاری مرفوع القلم ہے.تاہم اس کی حالت کافر کی صورت میں ہے کیونکہ عشق اور محبت کا حق اللہ جل شانہ کا ہے اور وہ بد دیانتی کی راہ سے خد اتعالیٰ کا حق دوسرے کو دیتا ہے اور یہ ایک ایسی صورت ہے.جس میں دین و دنیا دونوں کے وبال کا خطرہ

Page 548

ہے.راستبازوں نے اپنے پیارے بیٹوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا.اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں دیں.تا توحید کی حقیقت انہیں حاصل ہو.سو میں آپ کو خالصاً للہ نصیحت دیتا ہوں کہ آپ اس حزن و غم سے دستکش ہو جائیں اور اپنے محبوب حقیقی کی طرف رجوع کریں.تا وہ آپ کو برکت بخشے اور آفات سے محفوظ رکھے.٭ والسلام یکم مارچ ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمدا ز قادیان مکتوب نمبر۱۲۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.موجب خوشی ہوا.اللہ جلّشانہٗ آپ کو اس اخلاص اور محبت کا اجر بخشے اور آپ سے راضی ہو اور راضی کرے.آمین ثم آمین.حال یہ ہے کہ یہ عاجز خود آرزو خواہاں ہے کہ ماہ رمضان آپ کے پا س بسر کرے.لیکن نہایت دقت در پیش ہے کہ آج کل میرے دو نو بچے ایسے ضعیف اور کمزور ہو رہے ہیں کہ ہفتہ میں ایک دو دفعہ بیمار ہوجاتے ہیں اور میرے گھر کے لوگ اس جگہ کچھ قرابت نہیں رکھتے اور ہمارے کنبہ والوں سے کوئی ان کا غمخوار اور انیس نہیں ہے.اس لئے اکیلا سفر کرنا نہایت دشوار ہے.میںنے تجویز کی تھی کہ ان کوانبالہ چھائونی میں ان کے والدین کے پاس چھوڑ آئوں.مگر ان کے والدین نے اس بات کو چند وجوہ کے سبب سے تاخیر میں ڈال دیا.اب مجھے ایک طرف یہ شوق بھی نہایت درجہ ہے کہ ایک دو ماہ تک ایام گرمی میں آپ کے پاس رہوں اور اسی جگہ رمضان کے دن بسر کروں اور ایک طرف یہ موانع در پیش ہیں اور معہ عیال پہاڑ کا سفر کرنا مشکل اور صرفِ کثیر پر موقوف ہے.مستورات کا پہاڑ پر بغیر ڈولی کے جانا مشکل اور ان کے ہمراہی

Page 549

کی ضرورت جسے اپنے لئے ایک ڈولی چاہئے اور چھ سات خادم اور خادمہ کے ساتھ ساتھ پہنچ جانے کے لئے بھی کچھ بندوبست چاہیے.سو اس سفر کے آمدو رفت میں صرف کرایہ کا خرچ شاید کم سے کم سَوروپیہ ہو گا اور اس موقعہ ضرورت روپیہ میں اس قدر خرچ کر دینا قابل تامل ہے.البتہ کوشش اور خیال میں ہوں کہ اگر موانع رفع ہو جائیںتو بلاتوقف آپ کے پاس پہنچ جائوں اور میںنے ان موانع کے رفع کرنے کے لئے حال میں بہت کوشش کی.مگر ابھی تک کچھ کارگر نہیں ہوئی.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ: اس خط پر تاریخ درج نہیں.(عرفانی) مکتوب نمبر ۱۲۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا.مفصل خط علیحدہ لکھا گیا ہے.میں آپ کے لئے انشاء اللہ بہت دعا کرتا رہوں گا اور یقین رکھتا ہوںکہ اثر ہو.اگر براہین احمدیہ کا کوئی شائق خریدار ہے تو آپ کو اختیار ہے کہ قیمت لے کر دے دیں مگر ارسال قیمت کا محصول ان کے ذمہ رہے.اخروٹ اب تک نہیں پہنچے.شاید دوچار دن تک پہنچ جائیں اور اگر کوئی سبیل پہنچانے کا ہوا ہو تو کسی قدر چاء بیشک بھیج دیں کہ مہمانوں کی خدمت میں کام آجائے گا.بشیر احمد اچھا ہے.والسلام ۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان

Page 550

مکتوب نمبر ۱۲۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے اس خط پہنچنے کے دو دن پہلے اخروٹ پہنچ گئے.جزاکم اللّٰہ خیراً.میرا نہایت پکا ارادہ تھا کہ ماہ رمضان میں آپ کی ہمسائیگی میں بسر کروں.چنانچہ اپنے گھر کے لوگوں کو انبالہ چھائونی میں پہنچانے کی تجویز کردی تھی.لیکن بحکمت و مصلحت الٰہی چند موانع کی وجہ سے وہ تجویز ملتوی رہی.اگر اب بھی رمضان کے آنے تک وہ تجویز قائم ہو گئی تو عین مراد ہے کہ ماہ مبارک رمضان اس جگہ بسر کیا جائے.گھر کے لوگوں کے ساتھ وہاں جانا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے.سراج منیر کی طبع میں حکمت الٰہی سے توقف در توقف ہوتے گئے.اب کوشش کر رہا ہوں کہ جلد انتظام طبع ہو جائے.آئندہ ہر ایک بات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جو آپ نے ۱؎ کے معنے پوچھے ہیں.سو واضح رہے کہ اَوْ کا لفظ جیساکلام عرب میں شک کے لئے آتا ہے.ایسا ہی واو کے معنے میں بھی آتاہے اوریہ محاورہ شائع متعارف ہے.سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ ایک لاکھ اور کچھ زیادہ تھے.رہا یہ اعتراض کہ اس سے زیادہ کی تصریح کیوںنہیں کی.اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک بات کی تصریح اللہ جلّشانہٗ پر واجب نہیں.چاہے کسی چیز کو مجمل بیان کرے اور چاہے مفصل.پائوں کے مسح کی بابت یہ تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں.یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رو سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پائوں کو دھوتے تھے.اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا معتبر سمجھے گئے.مطلع اور مغرب الشمس کا ذکر ایک استعارہ اور مجاز کے طور پر ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر.ایسے استعارات جابجا کلام الٰہی میں بھرے ہوئے ہیں اور اشارہ بھی ہمیشہ مجاز اور استعارہ کا استعمال کرتا ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے چاولوں کی ایک رکابی کھائی.تو کیا اس نے رکابی کو توڑ کر کھا لیا.پس ایسا اعتراض کوئی دانا نہیں کرسکتا اور اگر کوئی مخالف کرے تو

Page 551

Page 552

مکتوب نمبر ۱۲۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا.رسالہ جو انگریزی میں ترجمہ کیا جائے گا اور سراج منیر ان دونوں رسالوں کی نسبت میری تجویز ہے کہ ایک ہی جگہ کردی جائیں کیونکہ ان کے باہم تعلقات ایسے ضروری ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ کردینے میں اثر مطلوب بہت کم ہو جاتا ہے.جس قدر توقفات ظہور میں آئے وہ سب حکمت الٰہی اور مصلحت ربّانی تھے.اب امید کی جاتی ہے کہ منتظرین کی خواہش بہت جلد پوری ہوجائے.ہمیشہ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.کہ گو مجھے خط لکھنے کا کم اتفاق ہو مگر آپ کی طرف خیال رہتا ہے.والسلام ۱۶؍اپریل ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۱۲۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بشیر احمد سخت بیمار ہوگیا تھا.اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے.شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسرہو.بالفعل نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازہ پر ہے، فروکش ہوں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۸؍شعبان خاکسار ۱۱؍مئی ۱۸۸۸ء غلام احمد از قادیان

Page 553

کتوب نمبر ۱۲۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چند روز کی دیر کے بعد آپ کے خطوط مرسلہ معہ قصیدہ بٹالہ میں قادیان سے واپس منگوا کر ملے.قصیدہ بہت عمدہ ہے.خاص کر بعض شعر بہت ہی اچھے ہیں.جزاکم اللّٰہ خیراً.میں اس جگہ بشیراحمد کے علاج کروانے کے لئے ٹھہرا ہوا ہوں.معلوم ہوتا ہے کہ تمام رمضان اس جگہ ٹھہرنا ہوگا.قصیدہ متعاقب روانہ خدمت کردوں گا.بشیر احمد کو اب کسی قدر بفضلہ آرام ہے.والسلام ۱۲؍ مئی ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۱۲۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز اب تک بٹالہ میں ہے.کسی قدر بشیر احمد کی طبیعت روبا صلاح ہے.انشاء اللہ القدیر صحت ہو جائے گی.پانچ چار روز تک قادیان جانے کا ارادہ ہے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۳؍ جون ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمداز بٹالہ

Page 554

مکتوب نمبر ۱۳۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.السلام علیکم.آج ایک خط جس کو آپ نے رحمت علی کے ہاتھ بھیجا تھا کسی حجام کے ہاتھ قادیان سے مجھ کو ملا.خط میں جوآپ نے چاول روانہ کرنے کاحال لکھا ہے.سو واضح رہے کہ آج تاریخ ۴؍ جون تک چاول نہیں پہنچے.نہ تھانہ میں آئے اور میں اب تک بٹالہ میں ہوں.شاید ۲۵؍ رمضان تک قادیان جائوں گا.بشیر احمد کی طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے اور سب خیریت ہے.والسلام ۴؍ جون ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۱۳۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز اخیررمضان تک اس جگہ بٹالہ میں ہے.غالباً عید پڑھنے کے بعد قادیان میں جائوں گا.چاول مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے.معلوم نہیں آپ نے کس کے ہاتھ بھیجے تھے اور چونکہ اس جگہ خرچ کی ضرورت ہے.اگر خریدار براہین احمدیہ سے دس روپے وصول ہو گئے ہوں تو وہ بھی اسی جگہ ارسال فرماویں.والسلام ۵؍ جون ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد

Page 555

مکتوب نمبر ۱۳۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.قادیان میں آکر بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا اور کئی بیماریاں لاحق ہو گئیں.منجملہ ان کے ایک تپ محرقہ کی قسم اور زحیر یعنی مروڑ اور اسی اثنا میں ہیضہ بھی ہو گیا.حالت نہایت خطرناک ہو گئی.اب کچھ تخفیف ہے.اسی وجہ سے کوئی کام طبع رسالہ وغیرہ کا نہیں ہو سکا.مولوی قدرت اللہ صاحب کو السلام علیکم پہنچے.والسلام ۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۱۳۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.چونکہ بشیر احمد کی طبیعت سخت بیمار رہی ہے.بلکہ نہایت نازک حالت ہو گئی تھی.اس لئے جواب نہیں لکھ سکا.اب کچھ آرام ہے.میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا.مولوی نورالدین صاحب کی کتاب کا مجھ کو کچھ پتہ نہیں اور نہ میرے پا س اب تک آئی ہے.جس وقت کوئی نسخہ ملے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ خدمت میں بھیج دوں گا.والسلام ۲۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمداز قادیان

Page 556

مکتوب نمبر ۱۳۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی.اخویم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.بشیراحمد کی طبیعت سخت بیمارہے.اس غلبہ بیماری میں تین چار دفعہ ایسی حالت گزر چکی ہے کہ گویا ایک دو دَم باقی معلوم ہوتے تھے.اب بھی شدت امراض موجود ہے.اس لئے دن رات اسی کی طرف مصروفیت رہتی ہے.امید کہ بعد افاقہ طبیعت بشیراحمدآپ کے نسخہ کے لئے توجہ کروں گا.والسلام ۲؍ اگست ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۱۳۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بشیر احمد اب تک مروڑوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور چونکہ نہایت لاغر اور دُبلا اور تکلیف میں ہے.اس لئے ضروری کاموں کاحرج بھی کر کے اسی کی طرف مصروفیت ہے.چند مرتبہ اس عرصہ میں اس کی حالت نہایت نازک ہو گئی اور آخری دم سمجھا جاتا تھا.انشاء اللہ اس کی صحت کے بعد بہت غور سے آپ کے لئے تجویز کروں گا.آپ مطمئن رہیں.والسلام ۸؍ اگست ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد بقلم خود

Page 557

مکتوب نمبر ۱۳۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.مچھلی کا تیل وہی ہے جس کاآپ ذکر کرتے ہیں.استعمال کے لئے دودھ کی کچھ ضرورت نہیں.صرف ایک چاء کا چمچہیعنی چھوٹا چمچہ پی لیا کریں اور پھر ہضم کے لحاظ سے زیادہ کرتے جائیں.کدو سے مراد میری کدو کا پھل ہے.جس کو گھیا کدو بھی کہتے ہیں.اگر وہ نہ ملے تو پھر مغز کدو ہی ہمراہ بنفشہ کے پانی میں ڈال دیا جاوے.جب پانی گرم ہو جائے اور خوب جوش آجائے.تب اس سے غسل کر لیں اور زیادہ گرم ہو تو اور پانی ملا لیں.امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ طبی تدبیر بہت مفید ہو گی اور آپ کا بدن خوب تازہ ہو جائے گا.لیکن اگر اس کے ساتھ صبح کے وقت آدھ ثار خام بکری کا دودھ تازہ پی لیا کریں تو انشاء اللہ بہت مفید ہو گا.خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۱۳۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.انشاء اللہ القدیر اشتہار تلاش کرکے دستیاب ہونے پر روانہ کر وں گا.میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ آپ بقدر ضرورت انگریزی پڑھ لیں.سب بولیاں خدا کی طرف سے ہیں.بولی سیکھنے میںکچھ حرج نہیں.صرف صحت نیت درکار ہے اور سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۳۰؍ اگست ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان

Page 558

مکتوب نمبر ۱۳۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز ایک ہفتہ سے موسمی بخار سے علیل ہے.بباعث ضعف و تکلیف مرض کوئی کام نہیں ہو سکتا.صندوقچہ خطوط سے بھرا ہوا ہے.اگر تیل مچھلی اب استعمال کرنے میں کچھ حرارت معلوم ہوتی ہے تو ایک ماہ کے بعد استعمال کریں.انشاء اللہ ان سب ادویہ کے استعمال سے بدن بہت تازہ ہو جائے گا.آپ کی استقامت کے لئے دعا کرتا ہوں.امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت منظور ہو جائے.اشتہارات ارسال خدمت ہیں.ہر ایک شہر میں جو آپ کا کوئی دیندار دوست ہو اس کو بھیج دیں.والسلام ۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 559

مکتوب نمبر ۱۳۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.پہلے اس عاجز کی طبیعت چند روز بعارضہ تپ بیمار رہی تھی.اب بفضلہ تعالیٰ بالکل صحت ہے اور سب طرح سے خیریت ہے.امید کہ اپنی خیروعافیت سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں.تلی کے واسطے مولیوں کا اچار اور انجیر کا اچار جو سرکہ میں ڈالا جائے.نہایت مفید ہے.ان دونوں چیزوں کو جوش دے کر سرکہ میں ڈال دیں اور پھر کبھی روٹی کے ہمراہ یا یوں ہی کھا لیا کریں اور سکنجبین صادق الحموضتیعنی جو خوب ترش ہو بہت مفید ہے.والسلام ۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمداز قادیان مکتوب نمبر ۱۴۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے مستقل کورٹ انسپکٹر ہونے سے بہت خوشی ہوئی.اللہ جلّشانہٗ مبارک کرے.اشتہارات آپ کی خدمت میں بھیجے گئے تھے.ان کی اب تک رسید نہیں آئی.معلوم نہیں کہ آپ اب کی دفعہ کون سے اشتہارات مانگتے ہیں.مفصل تحریر فرماویں تا بھیجے جاویں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 560

مکتوب نمبر ۱۴۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد کی طبیعت صحت پر آگئی ہے اور آپ کے لئے بہت غور اور فکر کیا.سو اس موسم کے موافق جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ایما سے میرے دل میں گزرا ہے وہ یہ ہے کہ آپ زردی بیضہ نیم برشت استعمال کریں.یعنی خوب پانی گرم کر کے ایسا کہ ابلنا شروع ہو جائے.انڈے اس میں ڈال دئیے جائیں اور انڈے ڈال کر ڈیڑھ سو کی گنتی پوری کی جائے.جب شمار ڈیڑھ سو تک پہنچ جائے تو بلاتوقف انڈے پانی سے نکال لئے جائیں.ایک ہفتہ تک تین انڈے صبح اور تین شام خوراک رکھیں.جب معلوم ہو کہ انڈا موافق آگیا ہے تو پھر تین کی جگہ چار کر دئیے جائیں.دوسرے یہ کہ گرم پانی کر کے اور اگر مل سکے تو اس میں تین چار ماشہ بنفشہ اور پانچ چار تولہ کدو ڈال کر گرم کریں اور اس میں غسل کریں صبح اور شام، تیسرے روغن ماہی، جو امرتسر اور لاہور میں مل سکتا ہے، بدن کو فربہ کرتا ہے.مگر ابھی وہ شائد گرمی کرے گا.سردی کے موسم میں ضرور استعمال کریں اورنیز سردی کے موسم میں آپ کے لئے کوئی ماء اللحم تجویز کر دیا جائے گا.حالات خیریت سے اطلاع بخشیں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ انڈے میں سے صرف زردی کھانی چاہئے.سفیدی نہیں کھانی چاہیے.نوٹ: اس خط پر تاریخ درج نہیں ہے.مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستمبر ۱۸۸۸ء کا خط ہے.(عرفانی)

Page 561

مکتوب نمبر ۱۴۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.سردی میں انڈہ بہت کم خراب ہوتا ہے.اگر آپ بیس دن توقف کر کے انڈہ منگوا لیں اور تازہ ہوں تو وہ بیس روز تک اچھے رہسکتے ہیں.انڈہ اگر اُبالا جائے یہاں تک کہ اندر سے زردی و سفیدی دونوں سخت ہو جائیں تو کچھ زیادہ رہ سکتا ہے.مگر وہ پھر آپ کے کھانے کے لائق نہیں رہے گا.آپ کے لئے تو نیم برشت بہتر ہے.جو درحقیقت کچے کی طرح ہوتا ہے.بہتر ہے کہ پچاس تک تازہ انڈہ منگوا کر استعمال کریں.جب وہ ختم ہو جاویںاور منگوا لیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۱۴۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.انشاء اللہ القدیر آج سے آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا.مگر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے.یہ بات نہایت صحیح ہے کہ بندہ جب کسی قدر غافل ہو جاتا ہے اور بیباکی سے کوئی کام کرتا ہے.یاکسی معصیت میں گرفتار ہوتا ہے تو رحمت کے طور پر تنبیہ الٰہی اس پر نازل ہوتی ہے.پھر وہ جب سچے دل سے تو بہ کرلیتا ہے تو کبھی وہ تنبیہ ساتھ ہی دور کی جاتی ہے.اور کبھی اس کو کامل متنبہ کرنے کے لئے کچھ دیر وہ تنبیہ بنی رہتی ہے.سو خطرات فاسدہ یا اعمال نامرضیہ سے بصدق دل توبہ کرنا اعادہ رحمتِ الٰہی کے لئے بہت ضروری امر ہے.والحمد للہ والمنت کہ خود آپ کے دل کو اس طرف

Page 562

رجوع ہو گیا.خدا تعالیٰ اس رجوع کو ثابت رکھے.خد اتعالیٰ سے بہرحال ڈرتے رہنا اور اس کے غضب کے اشتعال سے پرہیز کرنا بڑی عقلمندی ہے.دنیا گذشتنی وگذاشتنی اور جذباتِ نفسانی بدنام کنندہ چیزیں ہیں اور انسان کی تمام سعادت مندی اور ڈرنا اور آخرت کی سلامتی خوفِ الٰہی اور اطاعت احکامِ الٰہی میں ہے.خدا تعالیٰ حاضر و ناظر ہے اور اس کی آنکھیں دقیق ہیں و باریک رس ہیں.وہ اسی پر راضی ہوتا ہے.جو اس سے خائف و ہراساں رہے اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جو بیباکی کا کام ہو.اللہ جلّشانہٗ آپ کو سچی اطاعت کی توفیق بخشے.مناسب ہے کہ اگر ابتلا کے طور پر کوئی دوسری صورت پیش بھی آجاوے تو بہت بے قرار نہ ہوں.اللہ جلّشانہٗ تغیر حالات پر قادر ہے اور دعا بدستور آپ کے لئے کی جائے گی.میری دانست میں اس موقعہ پر استعلام امور غیبیہ کی کچھ ضرورت نہیں.اس کی جگہ تضرع اور استغفار چاہئے.والسلام ۱۰؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۱۴۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ آج میرا لڑکا بشیر احمد انیس روز بیمار رہ کر بقضائے الٰہی دنیائے فانی سے قضا کر گیا.والسلام ۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 563

مکتوب نمبر ۱۴۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خط پہنچا.اللہ جلّشانہٗ پر مضبوط بھروسہ رکھو.وہ رحیم و کریم ہے.یہ عاجز انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے برابر دعا کرتا رہے گا.یاد دہانی کی ضرورت نہیں.لیکن اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی اپنے خیالات سے مطلع فرمایا کریں.دعا کے لئے یاد دہانی کی ضرورت نہیں.محض تسلی خاطر کے لئے ضرورت ہے.والسلام ۲۳؍ نومبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمداز قادیان مکتوب نمبر ۱۴۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.جو آپ نے لکھا ہے.بات تو بظاہر بہت عمدہ ہے.اگر حقیقت میں آپ کے لئے یہ بہتر ہے تو اللہ جلّشانہٗ آپ کے لئے میسر کرے.امید کہ آپ تعطیلوں میں ضرور تشریف لاویں گے.میں انشاء اللہ القدیر دعا کرتا رہوں گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۸؍ دسمبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 564

مکتوب نمبر ۱۴۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کارڈ پہنچا.انشاء اللہ القدیر دعا کرتا رہوںگا.اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھیں.وہ بڑا رحیم و کریم ہے.اس کے رحم و کرم کا کچھ انتہا نہیں.استغفار لازم حال رکھیں.شرائط بیعت پھر کسی وقت روانہ کروں گا اور سب طرح سے بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے.والسلام ۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمداز قادیان مکتوب نمبر ۱۴۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج تاکیدی خط آپ کے لئے مولوی حکیم نورالدین صاحب کی خدمت میں لکھا گیا ہے.خدا تعالیٰ آپ کے تردّدات دور کرے.آمین.امید کہ سبز اشتہار بعد میں نکال کر اگر ملے تو خدمت میں مرسل کروں گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 565

مکتوب نمبر ۱۵۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۵ جمادی الاوّل کو میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو ا.جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین محمود رکھا گیا.والسلام ۱۵؍ جنوری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمداز قادیان مکتوب نمبر ۱۵۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اشتہارات آج روانہ کئے گئے ہیں.جس شخص کی اشتہار سے تسلی نہیں ہوئی آپ اس کے لئے کیوں مضطرب ہوں تعجب ہے.ہر ایک شخص اپنے مادہ کے موافق جوہر دکھلاتا ہے.اس شخص کو اگر کچھ بصیرت ایمانی ہوتی تو وہ شک میںنہ ہوتا اور جب کہ بصیرت نہیں تو اس کو چھوڑنا چاہئے.کتاب واپس لے لو.روپیہ واپس کر و.باقی سب خیریت ہے.آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے.تسلی رکھو.والسلام ۳؍ فروری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 566

Page 567

مکتوب نمبر ۱۵۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آ پ کے لئے دعا میں مشغول ہوں.دعا سے بہتر اور کوئی چیز نہیں.میری طبیعت آج بباعث غلبہ زکام بہت علیل ہے.زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں.اگر صحت ہو گئی تو گھر کے لوگوں کو پہنچانے کے لیے میر ا ارادہ ہے کہ دس یا گیارہ فروری ۱۸۸۹ء تک لودھیانہ میںجائوں.شاید ایک ماہ تک لودھیانہ میں ٹھہرنا ہو گا.پھر انشاء اللہ وہاں سے خط لکھوں گا.باقی خیریت ہے.خواب اس عاجز کو یاد نہیں رہا.ہر چند خیال کیا.کچھ خیال میں نہیں آتا.والسلام ۷؍ فروری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمدازقادیان مکتوب نمبر ۱۵۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خوشی ہوئی.میں لڑکے کے واسطے دعا کروں گا اور ۱۸؍ اپریل ۱۸۸۹ء کو قادیان روانہ ہوںگا.انشاء اللہ.والسلام ۱۵؍ اپریل ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ از لودھیانہ از عبداللہ سنوری السلام علیکم پذیر.حافظ حامد علی صاحب کی طرف سے سلام علیک.

Page 568

مکتوب نمبر ۱۵۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.موجب خوشی ہوا.یہ عاجز بباعث کثرت خطوط اور کسی قدر علالت طبع کے اس قدر حیران ہے کہ حدسے زیادہ.انشاء اللہ القدیر بعد رمضان شریف آپ کی خدمت میں اشتہار بھیجا جائے گا.ہمیشہ خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں.آپ کا تھانہ بڑ سر میںبھی حسب مرا دتبدیل ہونا موجب خوشی ہے.اللہ تعالیٰ یہ تھانہ آپ کے لئے مبارک کرے.والسلام ۶؍ مئی ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۱۵۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نا مہ پہنچا.تمام مضمون اوّل سے آخر تک پڑھا.مضمون بہت عمدہ ہے.کچھ ضرورت اصلاح یا کم و بیش کی نہیں.مگر مجھے معلوم نہیںہو اکہ قوم آوان اولاد حضرت علی کیونکر ہیں، آیا سیّد ہیں یا کسی اور بیوی سے؟ اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور آوان کی وجہ تسمیہ کیا ہے.دوسرے آپ فرماتے ہیں کہ سو کاپی چھپوائی جائے.مگر معلوم ہوا کہ خواہ سوچھپوائیں یا کم یا زیادہ سات سو کاپی کی اجرت لیں گے.یہی چھاپے والوں کے ہاں دستور ہے.میری رائے میں اس مضمون کے چھپوانے میں دس روپیہ سے کم خرچ نہیں آئیںگے.اگر کم ہوتو شاید آٹھ روپیہ تک ہو گا.جیسامنشا ہو اطلاع بخشیں.والسلام ۱۶؍ مئی ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد

Page 569

مکتوب نمبر ۱۵۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کارڈ پہنچا.جہاں تک مجھے معلوم ہے.غلام احمد نام کوئی شخص امرتسر میں مالک مطبع نہیں ہے.شاید کوئی نیا آگیا ہو.ہاں شیخ نور احمد صاحب نام ایک صاحب مالک مطبع ہیں.مجھے آپ مفصل لکھیں کہ غلام احمد مالک مطبع امرتسر میں کون ہے.کس پتہ سے اس کوخط بھیجا جائے اور یہ بھی لکھیں کہ کیا اس نے قبول کر لیا ہے کہ تین روپیہ لوں گا.کیا اسی میں کاغذ اور کاپی نویس کی اجرت داخل ہے.مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی.والسلام ۸؍ جون ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۱۵۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.پہلے بھی بذریعہ ایک خط کے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ میری نظر میں غلام احمد نام کوئی صاحب مطبع نہیں ہے اورنہ آپ نے کچھ پتہ لکھا کہ اس شخص کا مطبع کس کٹڑہ میں ہے.جب تک پتہ نہ ہو.مضمون ارسال نہیں ہو سکتا.براہ مہربانی بہت جلد پتہ بھیج دیں.اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی تشریف آوری کی آج کل امید لگی ہوئی ہے.جس وقت تشریف لائے.خط دے دوں گا.آپ کی تبدیلی اگر نزدیک ہو جائے تو بظاہر تو اچھا معلوم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ حافظ ہے.والسلام خاکسار ۱۳؍ جون ۱۸۸۹ء غلام احمداز قادیان

Page 570

مکتوب نمبر ۱۵۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج اس عاجز نے جناب الٰہی میں آپ کے لئے اس طور سے دعا کی ہے کہ یاالٰہی! اگر جالندھر کی تبدیلی موجب بہتری ہے اور موجب خیر اورفضل کا ہو تو اپنے لطف و کرم سے دعا قبول فرماکر اپنے بندہ رستم علی کو اس جگہ پہنچا دے اور اگر اس میں مصلحت نہ ہو تو مشکلات سے نکال کر ایسی جگہ مرحمت فرما جو موجب برکت و خوشی دنیا و دین ہو.کہ تو ہر چیز پر قادر ہے.والسلام ۱۶؍ جون ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۱۵۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ اس قسم کی طرح طرح کی مجبوریاں پیش آرہی ہیں.کہ میں آپ کے عزیز کی تقریب شادی پر حاضر نہیں ہو سکتا اور مولوی صاحب غالباً کل یا پرسوں تک بحصول رخصت جموں سے لودھیانہ کی طرف تشریف لاویںگے اور قادیان میں آئیں گے.مگر میرے خیال میں ایسا ہے کہ وہ ۲۷؍ جون سے پہلے ہی تشریف لے جائیںگے.پس مشکل ہے کہ وہ بھی اس تقریب پر حاضر ہو سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کی ہمت میں برکت بخشے اورکامیاب کرے.آمین ثم آمین.خاکسار ۲۱؍ جون ۱۸۸۹ء غلام احمد عفی عنہ

Page 571

مکتوب نمبر ۱۶۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خد اتعالیٰ آپ کو اپنی خاص محبت عطا فرماوے.جب خالص محبت کسی دل میں آجاتی ہے تو یاد الٰہی کے لئے قوت اور شوق پید اہو جاتا ہے.جب تک وہ محبت نہیں کسل شامل حال ہے.مولوی نورالدین صاحب بصحت تام جموںمیں پہنچ گئے ہیں.تولیہ راہ میں مل گیا تھا.میرے پاس موجود پڑا ہے.ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرمایا کریں.آپ کو محبت اور اخلاص جو اس عاجز کے ساتھ ہے.یقین کہ وہ کشاں کشاں آپ کو اعلیٰ مقصد تک لے آئے گی.والسلام ۲۵؍ اگست ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۶۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خدائے عزّوکوخواب میں دیکھنا بہرحال بہتر ہے.خدا تعالیٰ مبارک کرے.انشاء اللہ القدیر آپ کیلئے دعا کرتا رہوں گا.آپ بھی دعا اور استغفار میںمشغول رہیں.خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے.آپ ایک محب خالص ہیں اور ایسے محب کہ ایسے تھوڑے ہیں پھر کیونکر آپ بھول سکتے ہیں.خد اتعالیٰ خود ایسے محبوں کو بنظر محبت دیکھتا ہے.آپ کا تولیہ استعمال کیا جائے گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲؍ ستمبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمداز قادیان

Page 572

مکتوب نمبر ۱۶۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایارج فیقرہ کی گولیاں رات کے پچھلے وقت یعنی پہر رات باقی رہے استعمال کرنی چاہئیں ایک درم سے د ودرم تک اور معجون بعد تنقیہ کھانی چاہیے اور نسوار بھی بعد تنقیہ.اور آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے.اگر اس میں بہتری ہو گی تو اللہ جلّشانہٗ بہتر کر دے گا.والسلام ۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۶۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک ضروری خط آپ کے کام کے متعلق چند روز سے بھیجا تھا.اب تک آپ نے جواب نہیں بھیجا.طبیعت نہایت مشوش ہے.وقت گزرتا جاتا ہے.جلد جواب ارسال فرماویں اور پیراں دتا میرا ملازم غریب ہونے کی حالت میں عمر بسر کرتا ہے.آپ براہ مہربانی اس ملک میں ضرور اس کے لئے کوئی زوجہ صالحہ تلاش کریں.آپ کی ادنیٰ کوشش سے اس کا کام ہو جائے گا.والسلام یکم اکتوبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ

Page 573

مکتوب نمبر ۱۶۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت اخویم محب صادق منشی رستم علی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ خط آپ کو میں لودھیانہ سے لکھتا ہوں.میری روانگی کے وقت آپ کا خط معہ مبلغ دس روپیہ قادیان میں مجھ کو ملا تھا.مگر افسوس کہ میں اس دن ایک تشویش کی حالت میں لدھیانہ کی طرف تیار تھا.اس لئے آپ کی فرمائش پر عمل کرنے سے مجبور رہا.اسی دن لدھیانہ سے خط پہنچا تھا کہ میرناصرنواب صاحب کے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں اورانہوں نے میرے گھر کے لوگوں کو بلایا تھا کہ خط دیکھتے ہی چلے آئو.وقت بہت تنگ تھااس وجہ سے بندوبست جلد بھیجنے کا نہ کر سکا اور افسوس رہا.اب شاید ایک ہفتہ تک لودھیانہ میں ہوں.شیخ غلام غوث صاحب نے پیغام بھیجا تھا کہ میں نے کرسٹی صاحب کو آپ کی نسبت کہلایا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ جس شخص کے ساتھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اس کی تبدیلی ہوچکی ہے.اب پھر اگر کوئی شخص تبدیلی کی درخواست کرے گا تو ہم ضرور رستم علی صاحب کو بلا لیں گے.غرض غلام غوث کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نے پختہ وعدہ کر لیا ہے.باقی خیریت ہے.جس وقت میں قادیان میں آئوں اس وقت آپ کسی پہنچانے والے کا بندوبست کر کے مجھ کو اطلاع دیں.میں حلوہ تیار کرا کر بھیج دوں گا.ہمیشہ حالات خیریت سے مجھ کو اطلاع دیتے رہیں.والسلام ۲۷؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 574

مکتوب نمبر ۱۶۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جس روز آپ کا خط اور دس روپیہ کا منی آرڈر پہنچا تھا.اسی روز عاجز بباعث ایک عزیز کے سخت بیمار ہونے کے لدھیانہ آگیا ہے.اس مجبوری سے آپ کی فرمائش کی تعمیل نہ ہو سکی نہایت ندامت ہے.آپ کے اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ خد اوند کریم نے آپ کے دل میں طہارتِ باطنی کے لئے خالص جوش بخشا ہے.اللہ تعالیٰ اس جوش میںترقی بخشے.آمین.والسلام خاکسار ۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۱۶۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ معہ چند اشعار جو بہت عمدہ اور دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے تھے پہنچا.افسوس کہ میرے تین خطوں سے ایک خط بھی آپ کے پاس نہیں پہنچا.نہایت حیرت ہے.جس روز قادیان میں انڈوں کے لئے آپ کا خط پہنچا تھا.اسی دن لودھیانہ سے خط پہنچا کہ والدہ اُم بشیر سخت بیمار ہیں.بمجرد دیکھنے کے چلے آئو.لہذا بلاتوقف روانہ لودھیانہ ہونا پڑا.اس وجہ سے انتظام انڈوں یا ان کے حلوہ کا نہ ہو سکا.اب میں۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء کو قادیان کی طرف تیار ہوں.آئندہ جو خط آپ لکھیں.قادیان آنا چاہیے.پیراں دتا کی نسبت بہت فکر رکھیں.والسلام خاکسار یکم نومبر ۱۸۸۹ء غلام احمد عفی عنہ

Page 575

مکتوب نمبر ۱۶۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز ابھی تک لدھیانہ میں ہے.میرے ملازم پیراں دتہ کی نسبت تو آپ کو زبانی بھی کہا تھا اور اب بھی بطور یاد دہانی لکھتا ہوں کہ اس کے نکاح کی نسبت آپ ضرور فکر کریں.قوم گوجر میں بہت لڑکیاں مل سکتی ہیں.کوئی ایسی لڑکی نو عمر تلاش فرماویں کہ نوعمر پندرہ سولہ برس کی اور نیک چلن اور محنتی ہو.انشاء اللہ القدیر آپ کو ثواب ہو گا.ضرور تلاش فرماویں.شاید میں ۴؍ نومبر ۸۹ء تک اس جگہ ہوں.والسلام ۲؍ نومبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ

Page 576

مکتوب نمبر ۱۶۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ معرفت اخویم میر عباس علی شاہ صاحب مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت عطا کرے.آپ کے اشعار آپ کے صدق طلب پر گواہ ہیں.جزاکم اللّٰہ.میں انشاء اللہ القدیر دہم نومبر ۸۹ء کو قادیان کی طرف جانے کے لئے ارادہ رکھتا ہوں.آئندہ ہرچہ مرضی مولیٰ.پیراں دتا میرے ملازم کے امر نکاح کو خوب یادرکھیں.آپ کی ادنیٰ کوشش سے اس غریب کا کام ہوجائے گااور آپ اگر ادنیٰ توجہ کریں گے تو ضرور انشاء اللہ کوئی صورت نیک نکل آوے گی.مگر چاہیے عورت جوان باکرہ بیس بائیس سال سے زیادہ نہ ہواور بیوہ نہ ہوکہ اس میں فتنہ پیدا ہوتا ہے.دلی توجہ سے تلاش فرماویں.والسلام ۹؍نومبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ شیخ حامد علی کا سلام علیکم.پیراں دتا کا سلام علیکم

Page 577

مکتوب نمبر ۱۶۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.کل لودھیانہ سے قادیان میں آکر آپ کا دوسرا خط ملا.اشعار آبدار جو آپ نے دلی درد اورجوش سے لکھے تھے، پڑھ کر آپ کیلئے دعا خیر کی گئی.ترتب اثر وقت پر موقوف ہے کیونکہ اللہ جلّشانہ‘ نے ہر ایک بات کو اوقات سے وابستہ رکھا ہے.آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور مناسب ہے کہ آپ گنجائش کے وقت میں ضرور ملاقات کریں کہ اس میں انشاء اللہ القدیر فوائد بے شمار ہیں.پیراں دتہ کے لئے ضرور خیال رکھیں.والسلام ۱۳؍ نومبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۷۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مشفقی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.عنایت نامہ پہنچا.آپ کے اشعار نہایت پاکیزہ اور عمدہ دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.باایں ہمہ متانت ایسی ہے کہ گویا ایک اہل زبان شاعر کی.یہ امر خداداد ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت بخشے.دنیا فانی اور محبت دنیا ہمہ فانی.جس طرح آسمان پر ستارے نظر آتے ہیں کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں.خدا تعالیٰ کے حکم سے ٹھہرے ہوئے ہیں اور حکم کی پابندی سے بے ستون کھڑے ہیں گرتے نہیں اسی طرح مومن بھی حکم کا پابند ہے.خد اتعالیٰ کی فرمانبرداری پر کھڑا رہتا ہے گرتا نہیں.مومن کا دُنیا اور نفس کو چھوڑنا ایک خارق عادت امر ہے.وہ تبدیلی جو خدا تعالیٰ اس

Page 578

میں پیداکرتا ہے وہ مومن کوقوت دیتی ہے.ورنہ ہر ایک شخص فانی لذت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے.مومن پر شیطان غالب نہیں آتا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بیعت الموت کر چکا ہے.شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیعت الموت کرے.جیسے کہ آپ کے اشعار میں رقّت ہے.خدا تعالیٰ آپ کے دل میں ایسی ہی سچی رقت پید اکرے.ایک شخص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شاعر تھا اور ایمان نہیں لایا تھا.ایک نفس پرست آدمی تھا.لیکن شعر اس کے موحدانہ اور عارفانہ تھے.ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شعر سنے ،نہایت پاکیزہ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا.اٰمَنَ شِعْرُہٗ وَکَفَرَ نَفْسُہٗ.یعنی شعر اس کا ایمان لایا اور نفس اس کاکافر ہوا.خدا تعالیٰ آپ کے شعر اور آپ کے دل کو ایک ہی نور سے منور کرے.مناسب ہے کہ یہ اشعار آپ جمع کرتے جائیں کیونکہ لطیف ہیں اور لائق جمع ہیں.مجھے بباعث کثرتِ کار فراغت نہیں ورنہ میں جمع کرتا جاتا.تین روز سے لودھیانہ سے قادیان آگیا ہوں.مولوی نور دین صاحب کا کچھ پتہ نہیں.ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.دعا میں بہت مشغول رہیں کہ تمام امن و آرام خدا تعالیٰ کی یاد میں ہے.٭ والسلام ۱۳؍ نومبر ۹ ۱۸۸ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 579

مکتوب نمبر ۱۷۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ کے اشعار پڑھنے سے ہمیشہ دعا کی جاتی ہے کہ خدا وندکریم آپ کو حظِّ وافر اپنی محبت کا بخشے.میں ان دنوں سخت بیمار رہا ہوں.نہایت کمزور ہو گیا.اس لئے طاقت زیادہ تحریر کی نہیں.امید کہ بعد صحت انشاء اللہ مفصل خط لکھوں گا.میر صاحب کسی قدر بیمار رہے ہیں اور اب بھی پورے تندرست نہیں.اسی وجہ سے میر صاحب کا کوئی خط نہیں آیا ہوگا.آپ تلاش رکھیں.اگر شہد عمدہ مل سکے تو ضرور ساتھ لیتے آویں.آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے.اگر رخصت ملے تو ضرور تشریف لے آویں.والسلام ۲۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ پیراں دتا کی نسبت خیال رہے.

Page 580

مکتوب نمبر ۱۷۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ درحقیقت بباعث بیماری مجھ سے تحریر جوابات میں کوتاہی ہوئی اوراب بھی پوری تندرستی نہیں ہوئی.اسی وجہ سے زیادہ لکھنے سے سخت مجبور ہوں.اگر چند سطریں بھی لکھوں تو سر گھوم جاتا ہے.ضعف بہت ہے.باقی خیریت ہے.والسلام ۲۸؍ نومبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپورہ مکتوب نمبر ۱۷۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا اور نہایت خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ آپ کو مکروہات سے بچاوے.انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بجدوجہد دعا کروں گا.اپنے حالات سے مجھے مطلع فرماتے رہیں اور استغفار میں بہت مشغول رہیں کہ اس میں دفع بَلا ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمداز قادیان

Page 581

مکتوب نمبر ۱۷۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا.مگر اس طرح پر کہ جو کچھ آپ کی دنیا اوردین کے لئے فی الحقیقت بہتر ہے وہ بات آپ کو میسر آوے.کیونکہ خبر نہیں کہ خیر کس کام میں ہے.ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام ۱۸؍ دسمبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۱۷۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آپ کی انتظار تھی.خدا جانے کیا سبب ہوا کہ آپ تشریف نہیں لائے.چھ سات روز سے اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب تشریف رکھتے ہیں.شاید چھ سات روز تک اور بھی رہیں.اگر آپ ان دنوں میں آجائیں تو مولوی صاحب کی ملاقات بھی ہوجائے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۹؍دسمبر ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 582

مکتوب نمبر ۱۷۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے.اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.پیراں دتا بغایت درجہ آپ کے وعدہ کا منتظر ہے اور کسی غریب کا کام کردینا نہایت ثواب ہے.آپ خاص توجہ فرما کر اس کے لئے کوشش فرماویں.آپ کے لئے برابر دعا بحضرت باری عزّاسمہ کی جاتی ہے.امید کہ وقت پر ترتب اثر بھی ہوگا.والسلام ۳؍جنوری ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر ۱۷۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.مدت مدید کے بعد آپ کا خط پہنچا.اس قدر خطوط کے ارسال میں توقف کرنا مناسب نہیں.ہمیشہ استغفار میں مشغول رہیںکہ عمر کا ذرہ اعتبار نہیںاور جلد جلد اپنے حالات خیریت سے مطلع کرتے رہیں تا دعا کی جاوے.اور میں قریباً بیس روز سے لودھیانہ میں ہوں.شاید ۶؍ مارچ ۱۸۹۰ء تک جاؤں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۴؍فروری ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد از لودھیانہ

Page 583

مکتوب نمبر ۱۷۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز عرصہ دس روز سے سخت بیمار رہا.بظاہر امید زندگی منقطع تھی.اب بھی کسی قدر بیماری باقی ہے.نہایت درجہ کا ضعف ہے.طاقت تحریر نہیں.صرف اطلاع کی غرض سے لکھتا ہوں.ورنہ حالت ایسی نہیں کہ لکھ سکوں.والسلام ۷؍اپریل ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۱۷۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میں بمقام لاہور بغرض علاج کرانے کے آیا ہوں.علاج ڈاکٹری شروع ہے.لیکن ابھی پوری پوری صحت نہیں ہوئی.انشاء اللہ کامل صحت ہوجائے گی اور میں دو تین روز تک واپس قادیان چلا جائوں گا.آپ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہا کریں.والسلامـ ۳؍ مئی ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد.از لاہور مکان مرزا سلطان احمدنائب تحصیلدار لاہور نوٹ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں جب لاہور جاتے تو مرزا سلطان احمد صاحب

Page 584

(جو آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں) کے مکان پر ٹھہرا کرتے تھے اور اس وقت ڈاکٹر محمد حسین صاحب مرحوم سے علاج کرایا کرتے تھے.(یہ ڈاکٹر صاحب مسٹر احمد حسین مشہور ناولسٹ کے والد ماجد تھے اور بھاٹی دروازہ کے اندر رہا کرتے تھے) یہ مکتوب حضرت کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں اور اس پر ازعاجز حامد علی السلام علیکم بھی تحریر ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۱۸۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.الحمدللّٰہ والمنۃ کہ بیماری لاحقہ سے اب بہت کچھ آرام ہے اور جس قدر باقی ہے، امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد شفا ہو جائے گی.ضعف بہت ہو گیا ہے.اس لئے اپنے ہاتھ سے خط لکھنا دشوار.ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام ۳۱؍ مئی ۱۸۹۰ء خاکسار مرزا غلام احمداز قادیان

Page 585

مکتوب نمبر ۱۸۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں.اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو اس غم کو غلط کریں.خد ا تعالیٰ نعم البدل اجر عطا کردے گا.وہ ہر چیزپر قادر ہے.خدا تعالیٰ کے خزانوںمیں بیٹوں کی کمی نہیں.غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے.میری نصیحت محض لِلّٰہِ ہے جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے.اگر آپ کو اولاد اور لڑکوں کی خواہش ہے تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں.علاوہ اس کے شریعت اسلام کی رُو سے دوسری شادی بھی سنّت ہے.میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ ایک دوسری شادی بھی کر لیں.جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاندان سے ہو.اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا.انسان کی تقویٰ تعدّدِ ازدواج کو چاہتی ہے.اچھی بیوی جو نیک اور موافق اور خوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے.قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے.اس کی تلاش ضرور ضرور رکھیں.آپ ابھی نوجوان ہیں.خد اتعالیٰ اولاد بہت دے دے گا.اس کے فضل پر قوی امید رکھیں.والسلام ۶؍ جون ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد

Page 586

مکتوب نمبر ۱۸۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے تسلی رکھیں.میری طبیعت بباعث ایک مرض دوری کے اکثر بیمار رہتی ہے اور ضعف بہت ہو گیا ہے.امید کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور آپ اندیشہ مند نہ ہوں اور توبہ و استغفار میں مشغول رہیں.زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا جب تک آسمان پر نہ ہو.خدا تعالیٰ پر قوی بھروسہ رکھیں.میرا ارادہ ہے کہ تبدیلی ہواکے لئے ۳؍ جولائی ۱۸۹۰ء تک لودھیانہ میں جائوں.اگر آپ کی ملاقات ہو تو بہت بہتر ہے.اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے.محبت اور یقین سے اس پر اُمید رکھو.۲۵؍جون ۱۸۹۰ء والسلام مکتوب نمبر ۱۸۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے لئے جو اللہ جلّشانہٗ نے بہتر سمجھا ہے وہی ہو گا اور امید رکھتا ہوں کہ دعا کا اثر آپ کے حق میں خیرو برکت ہو گا..۱؎ غالباً ۷؍ جولائی۱۸۹۰ء کو لودھیانہ کی طرف روانہ ہوں گا.اقبال گنج کے محلہ میں میر ناصر نواب کا مکان ہے.وہاں سے میرا پتہ معلوم ہو گا.اضطراب نہ کریں، تسلی رکھیں.والسلام یکم جولائی ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد

Page 587

مکتوب نمبر ۱۸۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز عرصہ زیادہ دو ہفتہ سے لودھیانہ میں ہے اور بار ہا بخلوص قلب آپ کے لئے دعا کی گئی ہے.امید ہے کہ خدا تعالیٰ بہرحال آپ کیلئے بہتر کرے.اسی کی طرف رجوع رکھو اور بے قرار مت ہو.وہ کریم ورحیم ہے اورمیں لودھیانہ میں محلہ اقبال گنج میں برمکان شاہزادہ حیدر اُترا ہوا ہوں.والسلام ۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۸۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مدت کے بعد آیا.برابر آپ کے لئے بتوجہ دعا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے.تسلی رکھو اور اپنے حالات سے بلا تاخیر اطلاع فرماتے رہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام یکم اگست ۱۸۹۰ء از لودھیانہ محلہ اقبال گنج مکان شاہزادہ حیدر نوٹ: اس کے بعد چوہدری صاحب کی تبدیلی محکمہ ریلوے پولیس میں ہوگئی.چوہدری صاحب اس کے متعلق حضرت اقدس کو لکھتے رہتے تھے اور آپ ہر خط میں ان کو تسلی اور اطمینان دلاتے تھے.آخر خد اتعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا اور

Page 588

چوہدری صاحب کو حسب مراد کامیابی ہوگئی.حقیقت میں یہی وہ نشانات اورخوارق تھے.جن کو دیکھ کر سابقون الاولون کی جماعت نے ایمانی ترقی حاصل کی تھی اور کوئی چیز حضرت کی راہ میں ان کے لئے روک نہ تھی.وہ سب کچھ قربان کر کے یہی آرزو رکھتے تھے کہ اور موقعہ ملے.اس لئے کہ بشاشت ایمانی ان میں داخل ہو چکی تھی اور خد اتعالیٰ کی آیات کو کھلا کھلا انہوں نے دیکھ لیا تھا.افسوس ہے کہ اگست سے دسمبر ۱۸۹۰ء بلکہ مارچ ۱۸۹۱ء تک کے خطوط نہیں مل سکے.میں تلاش میں ہوں.اگر مل گئے تو بطور ضمیمہ شائع ہوں گے.انشاء اللہ العزیز (عرفانی) مکتوب نمبر ۱۸۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ براہ مہربانی جالندھر چھائونی سے انگریزی نورَہ جو سوداگروں کی دوکان میں بکتا ہے لے کر ضرور ارسال فرماویں.صرف چار آنے کا کافی ہو گا.والسلام ۱۳؍ اپریل ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 589

مکتوب نمبر ۱۸۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی کہ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے.قادیان میں اس خبر کی کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی.یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا.لہذا مکلف ہوں کہ دوبارہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرماویں کہ نکاح اب تک ہو ایا نہیں اور اگر نہیں ہو اتو کیا وجہ ہے؟ مگر بہت جلد جواب ارسال فرماویں اور نیز سلطان احمد کے معاملہ میں ارقام فرماویں کہ اس نے کیا جواب دیا ہے؟ والسلام ۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 590

مکتوب نمبر ۱۸۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج یہ عاجز بخیروعافیت دہلی میں پہنچ گیاہے.ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ القدیر ایک ماہ تک اسی جگہ رہوں.کوٹھی نواب لوہارو جو بلی ماراں والے بازار میں ہے رہنے کے لئے لے لی ہے.آپ ضرور آتی دفعہ ملیں اور میں نہایت تاکید سے آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ شیخ عبدالحق کرانچی والے کی نوکری کی نسبت ضرور کوشش فرماویں کہ وہ میرے بہت مخلص ہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ دہلی.بازار بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو مکتوب نمبر ۱۸۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس عاجز کی تیاری کی ابھی کوئی پختہ خبر نہیں.ابھی بحث کے لئے تیاری ہو رہی ہے.شاید مولوی حکیم نور دین صاحب اور ایک جماعت ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء تک میرے پاس پہنچ جاوے.میں جانے کے وقت آپ کو اطلاع دوں گا.والسلام خاکسار غلام احمد از دہلی نوٹ: یہ مباحثہ دہلی کے ایام کی خط وکتابت ہے.جب کہ سید نذیر حسین صاحب محدّث دہلوی کو حضرت اقدس کی طرف سے دعوت دی گئی تھی.(عرفانی)

Page 591

مکتوب نمبر ۱۹۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کارڈ پہنچا.تھان گبرون حامد علی کو پہنچ گیا اور آپ کا چوغہ بنات میاں حافظ معین الدین کو دیا گیا جس کو دینے کے لئے آپ نے کہا تھا.اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ توجہ سے سلطان احمد سے فیصلہ کرلیں.تا اس کے موافق عملدر آمد ہوجاوے کیونکہ میرا قیام قادیان میں زیادہ تر التزام سے اسی غرض سے ہے کہ تا یہ انتظام ہوجاوے.زیادہ خیریت ہے والسلام ۱۸؍دسمبر ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ: چودھری رستم علی اس وقت لاہور متعین تھے اور مرزا سلطان احمد صاحب سے بعض امور متعلقہ اراضیات و باغ کا تصفیہ حضرت چاہتے تھے (عرفانی)

Page 592

مکتوب نمبر ۱۹۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی.اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں علماء مکذبین کے فیصلہ کے لئے ایک جلسہ ہوگا.انشاء اللہ القدیر.کثیر احباب اس جلسہ میں حاضر ہونگے.لہٰذا مکلف ہوں کہ آپ بھی براہِ عنایت ضرور تشریف لاویں.آتے ہوئے چار آنے کے پان ضرور لیتے آویں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ : اس خط پر از بندہ محمد اسماعیل السلام علیکم بھی درج ہے.یہ مرزا محمد اسماعیل کی طرف سے ہے.اس پر کوئی تاریخ درج نہیں.مہر سے معلوم ہوتا ہے.۲۲؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو ڈاک میں ڈالا گیا اور لاہور کی مہر ۲۳؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے.یہ سب سے پہلے جلسہ کی اطلاع ہے اور اب جیسا کہ حضرت اقدس نے اس جلسہ کے اعلان میں ظاہر فرمایا تھا.وہی جلسہ برابر انہی تاریخوں پر ہوتا چلا آرہا ہے.گویا اب تک ۳۷ سالانہ جلسہ ہوچکے ہیں.سلسلہ کی ابتدائی تاریخ اور حضرت اقدس کی اس وقت کی مصروفیت کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ آپ ہی سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے.(عرفانی)

Page 593

مکتوب نمبر ۱۹۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ضرور دو بڑی شطرنجی اور ایک قالین ساتھ لاویں.۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۱ء تک ضرور آجاویں.والسلام ۲۳؍دسمبر ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۱۹۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہٗ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خواب نہایت عجیب ہے.دیکھ کر بہت خوشی ہوئی.نتیجہ امتحان سے اطلاع بخشیں اور براہ مہربانی میر ناصر نواب صاحب کا اسباب پٹیالہ پہنچا دیں.وہ بہت تاکید کرتے ہیں.پتہ یہ ہے.دفتر نہر میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس.راقم خاکسار ۹؍جنوری ۱۸۹۲ء غلام احمد ازقادیان

Page 594

مکتوب نمبر ۱۹۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ابھی اس وقت آ پ کے لئے تضرع اور ابتہال سے دعا کی گئی.بفضلہ تعالیٰ ضائع نہ جائے گی اور اس کا اثر ہو گا.آپ صبر سے منتظر رہیں.ہرگز ہر گز بے صبری نہ کریں.اپنے کام کو پوری توجہ اور ہوشیاری سے کریں.والسلام ۲۶؍ جنوری ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۱۹۵ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی محبی اخویم سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز قادیان میں آگیا ہے اور ایک رسالہ دافع الشبہات تالیف کرنے کی فکر میں ہے.براہ مہربانی وہ کتاب جو آپ نے مولوی غلام حسین صاحب سے لی ہے یعنی تاویل الاحادیث شاہ ولی اللہ صاحب ضرور مجھ کو بھیج دیں.ہرگز توقف نہ فرماویں کہ اس کا دیکھنا ضروری ہے.والسلام ۱۹؍مئی ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ:.اس خط میں بھی از جانب محمد اسماعیل اور محمد سعید السلام علیکم درج ہے.سیّد محمد سعید دہلوی حضرت میر صاحب قبلہ رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے.وہ یہاں قادیان آئے اور حضرت نے انہیں مہتمم کتب خانہ بنادیا تھا.پھر ان کی شامتِ اعمال انہیں یہاں سے لے گئی اور گمنامی میں رخصت ہوئے.(عرفانی)

Page 595

مکتوب نمبر ۱۹۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مکرمی اخویم منشی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.آپ رخصت لیں.تو ضرور مجھ کو بھی ملیں.کیونکہ آپ کی ملاقات کو ایک مدت ہوگئی ہے.عرب صاحب کے لئے بہت خیال ہے اور نواب محمد علی خان صاحب کو اشارہ کے طور پر اور نیز تصریح سے میں نے کہا بھی تھا.اس سے زیادہ اور کیا کہا جاوے.حیدر آباد سے کوئی خط نہیں آیا.معلوم نہیں وہ لوگ کس حال میں ہیں.آج کل ایسی ہوا چل رہی ہے کہ ہر ایک نئے روز کا خطرہ ہوتا ہے کہ دلوں پر کیا اثر ڈالے.جسمانی وبا بھی ہیں اور روحانی بھی.والسلام ۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ:.حامد علی السلام علیکم و سیّد محمد سعید السلام علیکم درج ہے.(عرفانی)

Page 596

مکتوب نمبر ۱۹۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی محبی منشی رستم علی صاحب سلّمہ ربّہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.محبت نامہ پہنچا.آپ کی دلی ہمدردی اور محبت اور اخلاص فی الواقعہ ایسا ہی ہے کہ کسی قسم کا فرق باقی نہیں رکھا.جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی.رسالہ آسمانی نشان کے شروع ہونے میں یہ دیر ہے کہ میاں نور احمد مہتمم مطبع کی لڑکی جوان فوت ہوگئی ہے.اس غم کے سبب سے چند روز اس کو توقف ہوگئی.اب وہ قادیان آکر اوّل قرار داد اجرت باہم کرکے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سے اجازت لیں گے کہ قادیان میں مطبع لاویں.بعد ازاں مطبع لے آویں گے.شاید اس عرصہ میں ہفتہ عشرہ اور دیر لگ جاوے.اسماعیل کو سمجھا دیا گیا.اس کا بھائی لاہور کسی جگہ نوکر ہے.وہ کہتا ہے.دوتین روز میں وہاں سے الگ ہوکر امرتسر پہنچ جائے گا.آپ کی دس تاریخ جولائی تک انتظار رہے گی.کتابیں ابھی امرتسر سے آئی نہیں.امید کہ چھ سات روز تک آجائیں گی اور شاید آپ کے پہنچنے تک آجائیں.والسلام ۶؍جولائی ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد ازقادیان

Page 597

مکتوب نمبر ۱۹۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کے چندہ دس روپے ماہوار کی حضرت مولوی محمد احسن صاحب کو اطلاع دی گئی.خدا تعالیٰ آپ کو اجر بخشے اور کتاب رسالہ نشانِ آسمانی کسی قدر امرتسر میں باقی ہے.جس وقت کتابیں آتی ہیں روانہ کروں گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷؍ جولائی ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۱۹۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ بیس روپے مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گئے.جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء.رسالہ عربی سیالکوٹ میں چھپ رہا ہے.شاید بیس روز تک تیار ہو جائے.اس رسالہ کی تالیف کے دو مقصد ہیں.اوّل یہ کہ عربوں کے معلومات وسیع کئے جاویں اور اپنے حقائق و معارف کی ان کو اطلاع دی جائے.دوسرے یہ کہ میاں محمدحسین اور ان کے ساتھ دوسرے علماء جو اپنی عربی دانی اورعلم دین پر ناز کرتے ہیں.ان کا یہ کبر توڑا جائے.چنانچہ اس رسالہ کے ساتھ اسی غرض سے ہزار روپیہ کاا شتہار بھی شامل ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۶؍ جولائی ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 598

مکتوب نمبر ۲۰۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.عزیزی غلام مصطفی کے لئے دعا کی گئی.خدا تعالیٰ اس کو کامیاب کرے.آمین.انشاء اللہ القدیر پھر بھی دعا کروں گا.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں گے.نیا رسالہ ابھی طبع ہوکر نہیں آیا.باقی سب خیریت ہے.والسلام ۲۰؍جولائی ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۲۰۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کاعنایت نامہ پہنچا.آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اس عاجز سے محض للہ دلی تعلق اور محبت ہے اور یہ عاجز آپ کے ہر ایک تردّد کے ساتھ متردّد اور ہر ایک غم کے ساتھ غمگین ہوتا ہے.پھر کیونکر آپ کی دعا میں غفلت ہو.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور آپ کے مدّعا کے موافق کام کر دیوے.آمین ثم آمین.انشاء اللہ القدیر توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا.بلکہ شروع کر دی ہے.باقی خیریت ہے.والسلام ۲۵؍ جولائی ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 599

مکتوب نمبر ۲۰۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کی تبدیلی سے خوشی ہوئی، مبارکباد.اور آپ نے جو مبلغ بیس روپیہ عربی رسالہ کے لئے کہا تھا.اس وقت عربی رسالہ دو چھپ رہے ہیں.ایک کا نام تحفۃ بغداد اور دوسرے کا نام کرامات الصادقین ہے.آپ اسی وقت میں اگر گنجائش ہو مبلغ بیس روپیہ سیالکوٹ میں بھیج دیں تو بہتر ہو.والسلام ۲۷؍ اگست ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ:اس وقت چوہدری رستم علی صاحب تھانہ ولٹوہا ضلع لاہور میں ڈپٹی انسپکٹر تھے.(عرفانی)

Page 600

مکتوب نمبر ۲۰۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ تفکر سے آپ کو نجات بخشے.آپ کی انتظار بہت لگی ہوئی ہے.کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام پانچ جزو تک چھپ چکی ہے.اگر آپ دوماہ کا چندہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب کو بلاتوقف بھوپال بھیج دیں تو موجب ثواب ہو گا.پتہ بھوپال.دارالریاست محلہ چوبدار پورہ.آپ کے اس تفکر کے لئے بھی دعا کی گئی ہے.مولوی عبدالکریم صاحب اور عرب صاحب آپ کے انتظار میں قادیان میں ہیں.راقم ۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپورہ

Page 601

مکتوب نمبر ۲۰۴ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کے برادر زادہ کی خبر وفات سن کر بہت رنج واندوہ ہوا.اللہ تعالیٰ اس کے تمام عزیزوں کو صبر عطا فرماوے اور اس مرحوم کو غریق رحمت کرے.اب تاریخ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء بہت نزدیک آگئی ہے.آپ کا شامل ہونا بہت ضروری ہے.ماسوا اس کے انتظام دو تین شطرنجی اور قالین کا اگر ہو سکے تو ضرور کر لیں.یہ تو پہلے آجانی چاہئیں.اگر آپ دو روز پہلے ہی تشریف لاویںتو مناسب ہے.والسلام ۱۶؍ دسمبر ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور پنجاب

Page 602

مکتوب نمبر ۲۰۵ ملفوف افسوس ہے کہ یہ خط پھٹ چکا ہے.اس میں سے صرف مندرجہ ذیل حصہ باقی ہے.(عرفانی) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کامحبت نامہ پہنچا.آپ کی بار بار کی تکلیفات کی ……… معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی جلسہ کے لئے ضروری سامان وغیرہ لانے کے متعلق تاکیدی خط تھا اور اس میںحضرت نے عذر کیا ہے کہ آپ کو بار بار ضروریات سلسلہ کے متعلق تکلیف دی جاتی ہے.اس سے حضرت اقدس کی پاکیزہ سیرۃ کے بہت سے پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ بالطبع اپنے احباب کو کسی قسم کی تکلیف دینا نہ چاہتے تھے اور اگر خدا تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ مخلوق کی روحانی ترقی اور اخلاقی اصلاح کا یہ ذریعہ قرار نہ دیا ہوتا تو آپ کو بالطبع اس سے نفرت تھی.لیکن سنت اللہ یہی ہے اور اسی طرح منازل سلوک طے ہو سکتے تھے.چوہدری صاحب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بے تکلفی سے انہیں نوازتے تھے اور یہ سعادت قابل رشک ہے.ابتداً ہر قسم کے جلسوں کی ابتدائی ضروریات کا انصرام چوہدری صاحب ہی کے میں آیا تھا اور وہ خود بھی ہر موقع کی تلاش میں رہتے تھے.رضی اللہ عنہ.(عرفانی)

Page 603

مکتوب نمبر ۲۰۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.آپ مطمئن رہیں.آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر یہ عاجز بہت دعا کرے گا.اللہ جلّشانہٗ پہلے اس سے ہر ایک دعا آپ کے لئے قبول فرماتا رہا ہے.امید کہ اب بھی قبول فرمائے گا مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ جلد یا کسی قدر دیر سے.اس کے ہر ایک کام میں خیر اور خوبی ہے.اپنے حالات سے مجھ کو بدستور مطلع فرماتے رہیں.والسلام خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ:.تاریخ مٹ گئی ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۲۰۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.تعجب کہ کس قدر آپ کے پاس کسی نے جھوٹ بولا اور دوسرا تعجب کہ آپ کو بھی حقیقت واقعہ سے اطلاع نہیں ہوئی.بات یہ ہے کہ جب یہ عاجز امرتسر گیا اور جاتے ہی عاجز نے ایک خط رجسٹری کرا کر عبدالحق کو مباہلہ کے لئے بھیجا کہ تم اس وقت مجھ سے مباہلہ کر لو.لیکن اس نے بدست منشی محمد یعقوب صاحب ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ اس وقت تم عیسائیوں سے مباحثہ کرتے ہو.اس وقت میں مباہلہ مناسب نہیں دیکھتا.جس وقت لاہور میں مولوی غلام دستگیر سے بحث ہو گی.اس وقت مباہلہ کروں گا.لیکن اس کے جواب میں لکھا گیا کہ جو شخص ہم میں سے مباہلہ

Page 604

سے اعراض کرے اور تاریخ مقررہ پر مقام مباہلہ میں حاضر نہ آوے.اس پر خد اتعالیٰ کی لعنت ہو.چنانچہ وہ اس سخت خط کو دیکھ کر بہر حال مباہلہ کے لئے تیار ہو گیا اور ایسا ہی ایک محمد حسین بٹالوی کو بھی لکھا گیا تھا.مگر تاریخ مقررہ پر عبدالحق مباہلہ پر آگیا اور امرتسر میں جو بیرون دروازہ رام باغ عیدگاہ متصل مسجد ہے.اس میں مباہلہ ہوا اور کئی سو آدمی جمع ہوئے.یہاں تک کہ بعض انگریز پادری بھی آئے اور ہماری جماعت کے احباب شاید چالیس کے قریب تھے اور عبدالحق بھی آیا اور بہت سی بددعائیں دیں.لیکن محمد حسین بٹالوی چارو ناچار مباہلہ کے میدان میں آیا.مگر مباہلہ نہیں کیا اور سب لوگ معلوم کر گئے کہ وہ گریز کر گیا.یہ سچی حقیقت ہے.جس کا شاید د س ہزار کے قریب باشندہ امرتسر گواہ ہو گا.اب جب تک پہلے مباہلہ کا فیصلہ نہ ہو دوسرا مباہلہ کیونکر ہو.علاوہ اس کے اسی مباہلہ کی تاریخ پر میاں محی الدین لکھو کے والے اور ایسا ہی مولوی محمد جبارکو (عبدالجبار مراد ہے.عرفانی) کو رجسٹری کرا کر خط بھیجا گیا کہ اس تاریخ پر تم بھی آکر مباہلہ کر لو.اگر تاریخ مقررہ پر نہ آئے تو پھر کاذب ٹھہرو گے.مگر بحالیکہ ان کی رسیدیں بھی آگئیں اور کافی مہلت بھی دی گئی.لیکن وہ نہ آئے.رسیدیں موجود ہیں.ایسا ہی لودھیانہ میں بھی رجسٹری شدہ خط بھیجے گئے تھے اور دہلی اور پٹیالہ میں بھی.غلام احمد عفی عنہ ۱۹؍ اگست ۱۸۹۳ء

Page 605

مکتوب نمبر ۲۰۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.اس جگہ سے آپ کے خط کے جواب میں حتی الوسع توقف نہیں ہوتا.شاید کسی وجہ سے خط نہ پہنچ سکا ہو.دو رسالہ عربی چھپ رہے ہیں اور ایک رسالہ نہایت عمدہ اُردو میں چھپا ہے.شاید یہ کام ایک ماہ تک ختم ہو.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں گے.والسلام ۲۵؍ ستمبر ۱۸۹۳ء خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ:.اس وقت چوہدری صاحب کورٹ انسپکٹر تبدیل ہوکر منٹگمری تبدیل ہو چکے تھے اور محکمہ ریلوے سے دوسری طرف منتقل ہو گئے تھے.اب لفافہ پر حضرت اقدس لکھتے تھے.بمقام منٹگمری.کچہری صدر.بخدمت مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر پولیس.(عرفانی)

Page 606

مکتوب نمبر ۲۰۹ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ دس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً.کتابیں ابھی چھپ رہی ہیں.جس وقت آئیں گی.آپ کی خدمت میں ارسال ہوں گی.باقی خیریت ہے.امید کہ اپنے حالات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں.والسلام نوٹ: اس خط پر آپ نے دستخط نہیں کئے اور تاریخ بھی درج نہیں فرمائی.قادیان کی مہر ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۳ء کی ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۲۱۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ پچیس روپیہ مرسلہ آنمکرم پہنچ گئے.جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء.رسالہ حمامۃ البشریٰ جو مکہ معظمہ میں بھیجا جاوے گا اور تفسیر سورۃ فاتحہ چھپ رہے ہیں.اب کچھ چھپنا باقی ہے.والسلام ۱۱؍ نومبر ۱۸۹۳ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 607

مکتوب نمبر ۲۱۱ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میری طبیعت چند روز سے بعارضہ تپ بیمار ہے اور درد سر اور ضعف بہت ہے.اس لئے میں زیادہ نہیں لکھ سکتا.آپ کے دریافت طلب امور کا جواب لکھ سکتا ہوں اور کسی اور وقت پر چھوڑتا ہوں.والسلام ۱۷؍ نومبر ۱۸۹۳ء خاکسار غلام احمداز قادیان مکتوب نمبر ۲۱۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں اس وقت فیروز پور چھاؤنی میں ہوں.اتوار کو واپس قادیان جاؤں گا.آپ اپنے حالات خیریت سے بو اپسی ڈاک مجھ کو اطلاع دیں.خدا تعالیٰ آپ کو کلّی صحت بخشے.آمین ثم آمین.۲۸؍ نومبر ۱۸۹۳ء خاکسار غلام احمد از فیروز پور چھاؤنی نوٹ: اس کارڈ پر مندرجہ ذیل السلام علیکم بھی لکھے ہوئے ہیں.از عاجز سید محمد سعید السلام علیکم و نیز غلام محمد کاتب.حامد علی السلام علیکم.‘‘(عرفانی)

Page 608

مکتوب نمبر ۲۱۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں کل ایک ماہ کے قریب سفر پر رہ کر آیاہوں.امید کہ اپنی طبیعت کے حالات سے اطلاع بخشیں.والسلام ۱۵؍دسمبر ۱۸۹۳ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۲۱۴ پوسٹ کارڈ السلام علیکم.اوّل بشیرو محمود کی والدہ بغرض ملاقات اپنے والد ماجد کے فیروز پور گئے.پھر سنا کہ بشیر بہت بیمار ہوگیا.اس لئے ہم فیروز پور گئے اور وہاں پچیس روز کے قریب رہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رضا مندی اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں خورم و خورسند رکھے.والسلام ۱۶؍دسمبر ۱۸۹۳ء خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور نوٹ:.یہ خط حضرت اقدس کے ارشاد سے حضرت حکیم الامتہ نے لکھا ہے اور حضرت کے دستخط بھی خود انہوں نے ہی کئے ہیں.اس وقت گویا حضرت حکیم الامتہ رضی اللہ عنہ حضرت کی ڈاک بھی لکھا کرتے تھے اور یہ پہلا خط ہے.جس پر میرزا کا لفظ بھی لکھا گیا ہے.(عرفانی)

Page 609

مکتوب نمبر ۲۱۵ پوسٹ کارڈ بس مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ نے جو کوٹ کپڑا بنوانے کے لئے لکھا تھا.میرے خیال میں سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ ایک لحاف مہمانوں کی نیت سے بنوادیں کہ مہمانوں کے لئے اکثر لحافوں کی ضرورت ہوتی ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ:.اس خط پر تاریخ نہیں.مگر قادیان کی مہر ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۳ء کی ہے.دوسری بات اس خط پر یہ ہے کہ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پورا نہیں لکھا بلکہ صرف ’’بس‘‘ لکھ دیا ہے.تیسری بات یہ خط آپ کے ایثار اور اکرامِ ضیف کے حسنات کو آپ کی سیرت میں دکھاتا ہے.چودھری رستم علی صاحب آپ کے لئے ایک کوٹ تیار کرانا چاہتے ہیں مگر آپ اپنے نفس اور آرام کو ترک کرکے انہیں مہمانوں کے لئے ایک لحاف بنوا دینے کا مشورہ دے رہے ہیں.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی تربیت کس طرح فرماتے تھے اور منازل سلوک کس طرح طے کرا رہے تھے.چودھری صاحب کے اخلاص و محبت کا توکیا کہناہے.(عرفانی)

Page 610

مکتوب نمبر ۲۱۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.محبت نامہ پہنچا.امید کہ انشاء اللہ القدیر آپ کی معافی سواری کے لئے دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس تکلیف سے بھی نجات بخشے.مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوںکہ جو مبلغ بیس روپے آپ نے بھیجے ہیں.کیا یہ عرب صاحب کے چندہ میں ہیں.یا میرے کاروبار کے لئے.کیونکہ میں نے سنا تھا کہ آپ نے بیس روپیہ چندہ کے لئے تجویز کئے ہیں.اس سے اطلاع بخشیں.والسلام ۱۰؍مارچ ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۲۱۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.محبت نامہ پہنچا.میں انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے رمضان میں دعا کرتا رہوں گا.آپ کی تو ہر مراد اللہ تعالیٰ پوری کردیتا ہے، آپ کیوں مضطرب ہوتے ہیں؟ رسالہ نورالحق بڑی شان کا رسالہ ہوگیا ہے اور پانچ ہزار روپیہ اس کے ساتھ اشتہار دیا گیا ہے اور ہزار لعنت بھی.والسلام ۲۰؍ مارچ ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 611

مکتوب نمبر ۲۱۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.محبت نامہ پہنچا.یہ عاجز بباعث کثرت کار بیشک سخت معذور ہے.اب چند روز تک بالکل فرصت ہونے والی ہے.کتابیں چھپ گئیں ہیں.اب جز بندی باقی ہے.امید کہ ہفتہ عشرہ تک جزبندی ہوکر میرے پاس پہنچ جائیں گی.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۶؍جون ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۱۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.جزاکم اللہ خیراً.صاحبزادہ صاحب کتابیں روانہ کریں گے.بہت کم فرصتی میں یہ چند سطریں لکھی گئی ہیں.باقی خیریت ہے.والسلام ۶؍جولائی ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد

Page 612

مکتوب نمبر ۲۲۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس جگہ بباعث نہ پیدا ہونے روغن کے نہایت تکلیف ہورہی ہے.چربی دار اور خراب روغن ملتے ہیں.آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ایک من پختہ روغن بذریعہ ریل بھیج دیں.باقی ابھی تک کوئی تازہ خبر نہیں.والسلام خاکسار ۲؍اگست ۱۸۹۴ء غلام احمد از قادیان یہ روغن آپ کے چندہ میں جو آپ آئندہ دیں گے.محسوب ہوجائے گا.مکتوب نمبر ۲۲۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ معہ کارڈ پہنچا.اب تو صرف چند روز پیشگوئی میں رہ گئے ہیں.دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بند وں کو امتحان سے بچاوے.شخص معلوم فیروز پور میں ہے اور تندرست اور فربہ ہے.خدا تعالیٰ اپنے ضعیف بند وں کو ابتلا سے بچاوے.آمین ثم آمین.باقی خیریت ہے.مولوی صاحب کو بھی لکھیں کہ اس دعا میں شریک رہیں.والسلام ۲۲؍اگست ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ:.یہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ہے.حضرت اقدس کا ایمان خدا تعالیٰ کی بے نیازی اور استغنا ذاتی پر قابلِ رشک ہے.آپ کو مخلوق کے ابتلا کا خیال ہے.(عرفانی)

Page 613

مکتوب نمبر ۲۲۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آتھم کی نسبت جو فیصلہ الٰہی ہے.حقیقت میں فتح اسلام ہے.جب اشتہار پہنچے گاتو آپ معلوم کریں گے کہ کیا حقیقت ہے.مگر آپ کی استقامت اور استقلالی پر نہایت خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ بہت بہت جزائے خیر بخشے.انشاء اللہ تجدید بیعت کا آپ کو دوہرا ثواب ہوگا اور خدا تعالیٰ گناہ بخشے گا اور آپ پر خاص فضل کرے گا.والسلام خاکسار ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۲۲۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خط آپ کا جو بنام صاحبزادہ سراج الحق صاحب تھا، پہنچا.جس کے دیکھنے پر بہت ہی تعجب ہوتا ہے کہ آپ ایسی خوشی کے موقع پر کیوں اس قدر اظہار اور ملال اور حزن کررہے ہیں اور نہ یہ افسوس صرف مجھ کو ہے بلکہ جس قدر ہماری جماعت کے احباب اس جگہ موجود ہیںوہ سب افسوس کرتے ہیں.اگر آپ کو حقیقت حال معلوم ہوتو آپ کا ایسا غم خوشی کے ساتھ تبدیل ہوجائے.آپ ضرور دوچار روز کے لئے رخصت ملنے پر تشریف لاویں.باقی خیریت ہے.والسلام ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد

Page 614

نوٹ:.یہ مکتوب حضرت نے مخدومی حضرت سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے اشتہار بہ عنوان ’’این مددہاست دراسلام چو خورشید عیاں.کہ بہر دور مسیحا نفسے مے آید.‘‘ پر ہی لکھ دیا ہے.یہ اشتہار حضرت شاہ صاحب نے سعد اللہ لودھانوی کے جواب میں شائع کیا تھا (عرفانی) مکتوب نمبر ۲۲۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا محبت نامہ پہنچا.آتھم کی نسبت جو خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا.اس کی آپ کو کچھ بھی خبر نہیں.میں نے پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے.تین چار دن تک آپ کی خدمت میں پہنچے گا.اس وقت بجائے غم کے آپ کے دل میں خوشی پیدا ہوجائے گی کہ اسلام کی فتح ہوئی.والسلام ۸؍ستمبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد میاں نور احمد صاحب کو السلام علیکم

Page 615

مکتوب نمبر ۲۲۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.آپ کے تردد کا حال معلوم ہوا.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی طرف سے اطمینان بخشے.آمین.رسالہ انوار الاسلام تین دن تک یا چار دن تک چھپ کر آجائے گا.امید کہ وہ آپ کے اطمینان کا موجب ہو.تاہم بہترہے کہ آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر ضرور ہمارے پاس آجائیں.میں بباعث کثرت مہمانان پہلے اس سے خط نہیں لکھ سکا.بخدمت اخویم میاں نور احمد صاحب السلام علیکم.باقی خیریت ہے.والسلام ۲۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۲۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ پچیس روپے مرسلہ آں محب مجھ کو ملے.جزاکم اللہ خیراً.امید کہ’’ اشتہار چارہزار روپیہ‘‘ پہنچ گیا ہوگا.میری صلاح ہے کہ کل اشتہار دونوں پیشگوئیوں کے متعلق رسالہ انوارالاسلام کے ساتھ شامل کرکے اپنے مخلص دوستوں کے نام بھیجے جاویں اور وہ ایک جلد میں ان کو مجلد کرالیں.والسلام ۲؍نومبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد

Page 616

محبی اخویم میاں نور احمد صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آپ کا پہلا خط مجھے معلوم نہیں کہ کب پہنچا.شاید سہو سے نظر انداز ہوگیا.اگر کوئی خاص مطلب ہے تو اس سے اطلاع بخشیں تااس کا جواب لکھا جاوے.اس وقت وقت تنگ ہے.اس لئے زیادہ نہیں لکھا گیا.والسلام ۲؍نومبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۲۲۷ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا.بہت خوب ہے کہ آپ انوارالا سلام معہ جملہ اشتہارات کے مجلد کرالیں.اگر ایسا ہی ہر ایک صاحب کریں تو بہت ہی بہتر ہوگا.امید کہ انوار الاسلام آپ کی خدمت میں پہنچ گئی ہوگی.باقی خیریت ہے.خاکسار نوٹ:.اس مکتوب پر خاکسار لکھ کر آگے اپنا نام حضرت نہیں لکھ سکے.اورنہ تاریخ درج کی ہے.مگر مہر سے معلوم ہوتا ہے.کہ ۸؍نومبر ۱۸۹۴ء کو قادیان سے پوسٹ کیا گیا ہے.(عرفانی)

Page 617

مکتوب نمبر ۲۲۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کے مقاصد کو پورا کرے.ا گر طبیعت ایسی ہی علیل رہتی ہے توکچھ مضائقہ نہیں کہ آپ اپنے آرام کے لئے کوشش کریں جو منافی احکام شرع نہ ہو.مگر اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھیں.اگر معمولی طورپر سرٹیفکیٹ مل جائے تو بہتر ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۲؍نومبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد ازقادیان مکتوب نمبر ۲۲۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی مرادات میں کامیاب کرے.آمین ثم آمین.نہایت خوشی ہوگی اگر آپ کورٹ انسپکٹری پر گورداسپور تشریف لے آویں.جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۳ء نزدیک آگیا.امید رکھتا ہوں کہ آپ ضرور اس موقع پرخد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے تشریف لاویں گے.اس جلسہ احباب میں آپ کا آنا نہایت ضروری ہے ابھی سے اس کابندوبست کر رکھیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۳؍ دسمبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 618

مکتوب نمبر ۲۳۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ بیس روپے مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گئے.جزاکم اللہ خیراً.چونکہ اب عنقریب تعطیلیں آنے والی ہیں.مجھ کو معلوم نہیں کہ آپ کو فرصت ملے گی یا نہیں.بہت خوشی ہو گی اگر آپ کو تعطیلوں میں اس جگہ آنے کاموقع ملے.خدا تعالیٰ آپ کو تردّدات سے نجات بخشے اور اپنی محبت میںترقی عطا فرماوے.آمین.والسلام ۷؍ دسمبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر ۲۳۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.حضرت مولوی نورالدین صاحب معہ چند دیگر مہمانان تشریف لے آئے ہیں.امید کہ آپ بھی ضرور جلد تشریف لے آویں اور آتے وقت کسی سے بطور عاریۃً دو قالین اور دو شطرنجی لے آویں کہ نہایت ضرورت ہے اور چار آنے کے پان لے آویں.قالین اور شطرنجی والے سے کہہ دیں کہ صرف تین چار روز تک ان چیزوں کی ضرورت ہو گی اور پھر ساتھ واپس لے آویں گے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد ا ز قادیان ضلع گورداسپور

Page 619

مکتوب نمبر ۲۳۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کامحبت نامہ پہنچا.میری دانست میں بغیر متواتر نماز استخارہ کے تبدیلی کے لئے پوری کوشش نہیں کرنی چاہئے.میں سنتا ہوں کہ گورداسپورہ میں کام بہت ہے اور طرح طرح کے پیچیدہ مقدمات ہوتے ہیں.اس صورت میں تعجب نہیں کہ کوئی دقت پیش آوے.خدا تعالیٰ ہر ایک آفت سے محفوظ رکھے.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں.والسلام ۶؍ جنوری ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۳۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ مہمانوں کی آمدورفت زیادہ ہے اور اس وقت روغن زرد کااس جگہ اس قدر قحط ہے کہ بازار میں کہیں روغن، نہ اچھا نہ بُرا، دستیاب نہیں ہوا اور آج لاچار سرسوں کاتیل ہنڈیا میں ڈال دیا گیا.آپ ہمیشہ بیس روپیہ ماہوار چندہ ارسال کرتے ہیں.بہتر ہو گا کہ آپ اس ماہ کی بابت بیس روپیہ کا عمدہ روغن زرد خرید کر کے ارسال فرما دیں.مگر ریل میں روانہ کر کے بلٹی اس کی بھیج دیں تاجلدی پہنچ جاوے اور تبدیلی کے بارہ میں اوّل استخارہ کرنا چاہئے.گورداسپور میں اکثر حاسد اور شریر طبع لوگ ہیں.۹؍ جنوری ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد

Page 620

مکتوب نمبر ۲۳۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کامحبت نامہ پہنچا.میری دانست میں بغیر متواتر نماز استخارہ کے تبدیلی کے لئے پوری کوشش نہیں کرنی چاہئے.میں سنتا ہوں کہ گورداسپورہ میں کام بہت ہے اور طرح طرح کے پیچیدہ مقدمات ہوتے ہیں.اس صورت میں تعجب نہیں کہ کوئی دقت پیش آوے.خدا تعالیٰ ہر ایک آفت سے محفوظ رکھے.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں.والسلام ۶؍ جنوری ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۳۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ مہمانوں کی آمدورفت زیادہ ہے اور اس وقت روغن زرد کااس جگہ اس قدر قحط ہے کہ بازار میں کہیں روغن، نہ اچھا نہ بُرا، دستیاب نہیں ہوا اور آج لاچار سرسوں کاتیل ہنڈیا میں ڈال دیا گیا.آپ ہمیشہ بیس روپیہ ماہوار چندہ ارسال کرتے ہیں.بہتر ہو گا کہ آپ اس ماہ کی بابت بیس روپیہ کا عمدہ روغن زرد خرید کر کے ارسال فرما دیں.مگر ریل میں روانہ کر کے بلٹی اس کی بھیج دیں تاجلدی پہنچ جاوے اور تبدیلی کے بارہ میں اوّل استخارہ کرنا چاہئے.گورداسپور میں اکثر حاسد اور شریر طبع لوگ ہیں.۹؍ جنوری ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد

Page 621

نوٹ:.تبدیلی کے متعلق چوہدری رستم علی صاحب اپنے اخلاص اور محبت کے اقتضا سے چاہتے تھے کہ گورداسپور آجاویں اور حضرت اقدس بھی قرب کو پسند فرماتے تھے.مگر لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کو مدنظر رکھ کر آپ جلد بازی کا مشورہ نہیں دیتے تھے.بلکہ ہر ایک کام کے لئے استخارہ کی ہدایت دیتے ہیں.اس سے آپ کا توکّل علی اللہ ظاہر ہے اور آپ کبھی پسند نہ کرتے کہ کوئی کام اپنی ذاتی خواہش اور خیال سے کریں.بلکہ ہر امر کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اسی کے سپرد کرنا اَنسب قرار دیتے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۲۳۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل روغن کے لئے آدمی بھیج دیا گیاہے.شاید آج یاکل آجاوے.جزاک اللہ خیراً.رات تہجد میں آپ کے لئے دعا کی تھی اور کوئی خواب بھی دیکھی تھی.جو یاد نہیں رہی.خد اتعالیٰ جو کچھ کرے گا بہتر کرے گا.انشاء اللہ پھر بھی توجہ سے دعا کروںگا.آپ سلسلہ ظاہر کے محرک رہیں.والسلام ۲؍ فروری ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 622

مکتوب نمبر ۲۳۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا محبت نامہ پہنچا اور روغن زرد اس سے پہلے پہنچ گیا تھا.جزاکم اللہ خیراً.آپ کے لئے جنابِ الٰہی میں کئی دفعہ اخلاص اور توجہ سے دعا کی گئی.اب انشاء اللہ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہتر جانتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ہمّ وغم کودور کرے.آمین.۱۶؍ فروری ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر ۲۳۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کامحبت نامہ پہنچا.میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے کہ اگر گورداسپور کی تبدیلی آپ کے لئے بہتر ہو اور اس میں کوئی شر نہ ہو توخد اتعالیٰ میسر کرے.یقین ہے کہ خدا تعالیٰ جو آپ کے لئے بہتر ہے وہی کرے گا اور منشی امام الدین منصف کو میرے نزدیک کچھ ذرہ علم نہیں.سمجھ پر شیطانی پردہ ہے.اس کے ساتھ بحث وقت ضائع کرنا ہے.لیکن بہر حال اگر آپ اس کی تحریریں بھیج دیں.تو شایدکسی موقعہ پر ان کا ردّ کیا جائے گا.مگر وہ اپنی سخت نا سمجھی سے ناپاک غلطیوں میں گرفتار ہے.والسلام ۷؍ مارچ ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد نوٹ:.جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں.چوہدری صاحب گورداسپورہ کی تبدیلی کے لئے کوشاں تھے اور حضرت اقدس ان کے لئے یہ دعا فرماتے تھے کہ جو اُن کے

Page 623

مکتوب نمبر ۲۳۸ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے.دوسرے رسالہ نور القرآن کی تیاری ہے اور منن الرحمن چھپ رہی ہے.آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ہے.ضرور دو چارروز کی تعطیل پر ملاقات کے لئے تشریف لاویں.والسلام ۱۷؍ اگست ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۲۳۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.چونکہ اخراجات پریس وغیرہ اس قدر ہیں کہ جس قدر معمولی آمدنی ہوتی ہے.اس کے لئے کافی نہیں.اس لئے بعض دوستوں کو تکلیف دینا اس کارروائی کے لئے ضروری سمجھا گیا.آنمکرم اس کارخانہ کیلئے بیس روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں.سو اگر بندوبست ہو سکے اور فوق الطاقت تکلیف نہ ہو.تو اڑھائی مہینہ کا چندہ ۵۰ روپیہ بھیج دیں.جب تک یہ اڑھائی مہینہ گزر جائیں.یہ چندہ محسوب ہوتا رہے گا.اس طور سے ایسے ضروری وقت میں مدد پہنچ جائے گی.ورنہ پریسوں کے توقف میں خدا جانے کس وقت کتابیں نکلیں کیونکہ تاخیر میں بہرحال آفات ہیں.رسالہ نور القرآن نمبر ۲ چھپ رہا ہے اور ست بچن اور آریہ دھرم بعض بیرونی شہادتوں کے انتظار میں معرضِ تعویق میں ہے.والسلام ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 624

مکتوب نمبر ۲۴۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے معہ ۵ شیشی عطر کے مجھ کو پہنچ گئے.جزاکم اللّٰہ خیراً.باقی سب طرح سے خیریت ہے.تینوں رسالے چھپ رہے ہیں.آپ کا ڈاک کا خط مجھ کو پہنچ گیا تھا.والسلام خاکسار ۵؍ نومبر ۱۸۹۵ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۴۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے اور وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں.بلکہ بعض وحیوںمیں صرف نبی کے دل میں معانی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں اور تمام پہلی وحییں اسی طور کی ہوئی ہیں.مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ پہلی وحیوں کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے.مگر قرآن شریف معانی اور الفاظ دونوں کی رُو سے معجزہ ہے اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دونوں کی رُو سے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا.تفصیل اس کی انشاء اللہ القدیر بروقت ملاقات سمجھا دوں گا.نقل خط امام الدین بھیج دیں.وہ نیم مرتد کی طرح ہے.خاکسار غلام احمد نوٹ:.اس خط پر تاریخ درج نہیں اور افسوس ہے کہ لفافہ محفوظ نہیں.مگر سلسلہ مکتوبات ظاہر کرتا ہے کہ یہ نومبر ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے.(عرفانی)

Page 625

مکتوب نمبر ۲۴۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.افسوس کہ مجھ کو سوائے دو متواتر خط کے اور کوئی خط نہیں پہنچا.چونکہ دنیا سخت ناپائدار اور اس چند روزہ زندگی پر کچھ بھی بھروسہ نہیں.مناسب کہ آپ التزام توبہ اور استغفار میں بہت مشغول رہیں اور تدبّر سے تلاوت قرآن کریم کریں اور نماز تہجد کی عادت ڈالیں.اللہ تعالیٰ آپ کو قوت بخشے.آمین.اشتہار چار ہزار چھپ گیا ہے.امید کہ آپ کو پہنچ گیاہوگا.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ میاں نور احمد صاحب کوالسلام علیکم.

Page 626

مکتوب نمبر ۲۴۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ضروری کام یہ ہے کہ جو (باوا) نانک (صاحب) نے کمالیہ ضلع ملتان میں چلّہ کھینچا تھا.اس کے بارے میں منشی داراب صاحب سے دریافت ہو کہ کس بزرگ کے مزار پر چلّہ کھینچا تھا اور وہ مزار کمالیہ گائوں کے اندر ہے یا باہر ہے اور اس بزرگ کا نام کیا ہے اور کس سلسلہ میں وہ بزرگ داخل تھے اور کتنے برس ان کو فوت ہوئے گزر گئے.دوسرے یہ کہ کمالیہ میں کوئی مقام چلّہ نانک کا بنا ہوا موجود ہے یا نہیں؟ اور اس مقام کا نقشہ کیا ہے اور اس مقام کے پا س کوئی مسجد بھی ہے یا نہیں.اور وہ مقام روبقبلہ ہے یا نہیں؟ تیسرے یہ کہ اگر منشی داراب صاحب کو کسی قسم کے (باوا) نانک( صاحب) کے سفر یاد ہوں.جو گرنتھ میں موجود ہوں.جو ہمارے مفید ہوں اور ان کا حوالہ یا دہو تو وہ بھی لکھ دیں.چوتھے یہ کہ کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ (باوا)نانک( صاحب ) کسی مسلمان بزرگ کا مرید ہوا تھا.اور آپ کی خدمت میں ایک نوٹس بھیجا جا تا ہے.اس کے متعلق جہاں تک ممکن ہو دستخط کرا کر بھیج دیں اور ایسے دستخط بھی بھیج دیں اور جو گورنمنٹ کی طرف درخواست جائے گی.اس پر دستخط کرائے جاویں.پیچھے سے نقل درخواست اور نقشہ گواہوں کے لئے بھیج دوں گا.والسلام خاکسار غلام احمد ازقادیان نوٹ:.اس خط پر بھی تاریخ درج نہیں اور لفافہ محفوظ نہیں یہ ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے.جب کہ ست بچن زیر تالیف تھا.(عرفانی)

Page 627

مکتوب نمبر ۲۴۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.رسالہ عربی طبع ہور ہا ہے اور جو آپ نے اس کی مدد کے لئے ارادہ فرمایا ہے.خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے.لیکن چونکہ مطبع کے لئے اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے.یعنی کاغذ وغیرہ کے لئے سو بہتر ہے کہ وہ بیس روپیہ جو آپ نے وعدہ فرمایا ہے وہ مطبع سیالکوٹ میں یعنی پنجاب پریس سیالکوٹ میں بنام منشی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع ارسال فرما دیں.تا اس کام میں لگ جاوے.کتابیں تو اکثر مفت تقسیم ہوں گی.مگر خرچ کی اب ضرورت ہے اور روپیہ میرے پاس نہیں بھیجنا چاہئے.فصیح صاحب کے پاس جانا چاہئے اور اس میں لکھ دیں.میرے نزدیک اس قدر لمبی رخصت ابھی لینی قابل مشورہ ہے.نوٹ:.یہ مکتوب اسی قدر ہے.حضرت اقدس اپنا نام تاریخ وغیرہ کچھ نہیں لکھ سکے.یہ کمال استغراق کا نتیجہ ہے.(عرفانی)

Page 628

مکتوب نمبر ۲۴۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کامحبت نامہ پہنچا.امید کہ میرا کارڈ بھی پہنچا ہو گا.تینوں رسالے سیالکوٹ میں چھپ رہے ہیں.درمیان میں بباعث بیماری پریس مین کے توقف ہو گئی ہے.لیکن اب برابر کام ہوتا ہے.امید کہ انشاء اللہ القدیر جلدچھپ جائیں گے.شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات نے ان رسائل کی امداد کے لئے ایک سو روپیہ سیالکوٹ میں بھیج دیا ہے.وہ بمبئی گئے ہیں.وہیں انشاء اللہ دربارہ تقسیم کے بلاد عرب میں بندوبست کریں گے.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر ۲۴۶ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.انشاء اللہ میں آپ کے صبر کے لئے کئی دفعہ دعاکروں گا.خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس لڑکے کو جس کا آپ ذکر کرتے ہیں.کسی تعطیل میں اپنے ساتھ لے آویں.والسلام ۵؍ فروری ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 629

مکتوب نمبر ۲۴۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کوبار بار تکلیف دیتے شرم آتی ہے.تمام جماعت میں ایک آپ ہی ہیں جو اپنی محنت اور کوشش کی تنخواہ کا ایک ربع ہمارے سلسلہ کی امداد میں خرچ کرتے ہیں.آپ کو اس صدق و ثبات کا خد اتعالیٰ بدلہ دیوے.آمین.اس وقت ایک شدید ضرورت کے لئے چند دوستوں کولکھا گیا ہے اور اسی ضرورت کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اگر آپ مبلغ بیس روپیہ بطور پیشگی اپنے چندہ میں سے بھیج دیں.تو پھر جب تک کل حساب پیشگی چندہ طے نہ ہولے آئندہ کچھ نہ بھیجیں.یہ روپیہ جہاں تک ممکن ہو، روانہ فرماویں.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً.والسلام یکم مئی ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد آپ نے پہلے چالیس روپے پیشگی چندہ روانہ کیا تھا اور اب بیس روپیہ آپ سے طلب کیا گیا ہے.پس جب تک یہ ساٹھ روپیہ چندہ کے ایام ختم نہیں ہوں گے.تب تک آپ سے طلب نہ کیا جائے گا.والسلام

Page 630

مکتوب نمبر ۲۴۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت میں نے تاکیداً میاں منظور محمد صاحب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نقل اس خط کی جو امیر کابل کی طرف لکھا گیا ہے.آپ کی طرف بھیج دیں.امیدکہ کل یا پرسوں تک وہ نقل آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی.باقی خیریت ہے.والسلام ۱۱؍ جون ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ اور میں انشاء اللہ القدیر اب دلی توجہ سے آپ کی اولاد کے لئے دعا کروں گا، تسلی رکھیں.میں ارادہ رکھتا ہوں.اگر خد اتعالیٰ چاہے اور کثرت مصارف نہ ہو.مع عیال کے دو تین ماہ تک ڈلہوزی میں چلا جائوں.کیا آپ کا کوئی ایسا شخص وہاں دوست ہے جو اس کی معرفت مکان کا بندوبست ہوسکے.معہ عیال کس سواری پر جا سکتے ہیں اور کرایہ کیاخرچ آئے گا.تحریر فرما ویں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 631

مکتوب نمبر ۲۴۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خط پہنچا.پڑھ کرچاک کر دیا گیا.ڈلہوزی جانے کی تجویز ہنوز ملتوی ہے.کیونکہ میرا چھوٹا لڑکا زحیر کی بیماری سے سخت بیمار ہو گیا.کئی دن تو خطرناک حالت میںر ہا.اب ذرا سا افاقہ معلوم ہوتا ہے مگر ہنوز قابلِ اعتبار نہیں.اس حالت میںکسی طرح یہ سفر نہیں ہوسکتا.اگر خدا چاہتا تو یہ عوارض اور موانع پیش نہ آتے.ا ن میں کچھ حکمت ہو گی.والسلام ۲۴؍ جون ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 632

مکتوب نمبر ۲۵۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاعنایت نامہ پہنچا.مولوی صاحب کوٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں.نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے.مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یادو ماہ تک رہیں یا کچھ زیادہ رہیں.حامد علی نے پختہ عزم کر لیا ہے.اب وہ شاید باز نہیں آئے گا.جب تک اخیر نہ دیکھ لے.دراصل دنیا طلبی ایک بلا ہے.وہ کہتا ہے کہ میں اپنے غم کو موت کے برابر دیکھ رہا ہوں.کاش یہ غم لوگوں کو ایمان کا ہو.والسلام خاکسار غلام احمد نوٹ:.اس خط پرکوئی تاریخ نہیں.مگر قادیان کی مہر ۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی ہے.چوہدری صاحب ان ایام میں گورداسپور میں تھے.حافظ حامد علی مرحوم نے اس وقت افریقہ جانے کا ارادہ کیا تھا.وہ اپنی بعض خانگی ضرورتوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے.حضرت اقدس کا یہ منشا نہ تھا.لیکن حافظ صاحب کا اصرار دیکھ کر آپ نے اجازت دے دی تھی گو بالطبع آپ کو پسند نہ تھا.نتیجہ یہی ہوا کہ حافظ صاحب وہاں سے ناکام واپس آئے اور پھر کہیں جانے کانام نہ لیا.(عرفانی)

Page 633

مکتوب نمبر ۲۵۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.صاحبزادہ ظہور الحسن از شرارت ہائے برادرعم زادہ خود ظہور الحسین نابینا بسیار مظلوم است.مناسب کہ حتی الوسع برحال اوشان نظر ہمدردی کردہ درمواسات او شان دریغ نفرمایند.کہ ایں ہمدردی از قبیل اعانت مظلوماں است.ومبلغ چہل روپیہ رسیدو انجام آتھم فرستادہ مے شود.٭ والسلام خاکسار غلام احمد ٭(ترجمہ از مرتب) صاحبزادہ ظہور الحسن اپنے چچا زاد بھائی ظہور الحسین نابینا کی شرارتوں کی وجہ سے بہت مظلوم ہے.مناسب ہے کہ حتی الوسع اس پر ہمدردی کی نظر رکھی جائے کہ ان کی دلداری میں کوئی دریغ نہ فرمائی کہ یہ ہمدردی مظلوموں کی مدد کے مترادف ہے.چالیس روپے پہنچ گئے ہیں اور کتاب انجام آتھم بھیج دی جائے گی.

Page 634

مکتوب نمبر ۲۵۲ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اب عورت کی بالفعل ضرورت نہیں اور میاں غلام محی الدین ٭کے لئے جنابِ الٰہی میں دعا کی گئی تھی.خد اتعالیٰ اس کو اس سخت مشکل سے مخلصی عنایت فرماوے.آمین ثم آمین.اور آتھم کی نسبت اب جلد اشتہار نکلنے والا ہے.نکلنے کے بعد ارسال خدمت ہو گا.والسلام ۸؍ اگست ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭ یہ میاں غلام محی الدین صاحب محکمہ ریلوے میں ملازم تھے.اور بالآخر مخلص احمدی تھے رضی اللہ عنہ.(عرفانی) مکتوب نمبر ۲۵۳ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.بابو غلام محی الدین کے لئے دعا کی گئی.اگر یاد دلاتے رہیں گے تو کئی مرتبہ دُعا کی جائے گی اور برص کا نسخہ مجھ کو زبانی یاد نہیں اور نہ کوئی نسخہ مجرب ہے.یوں تو قرابا دین میں بہت سے نسخے لکھے ہوئے ہیں مگر میرا تجربہ نہیں.اگر کوئی عمدہ نسخہ ملاتو انشاء اللہ لکھ کر بھیج دوں گا.والسلام ۳؍ ستمبر ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد

Page 635

مکتوب نمبر ۲۵۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میری طبیعت علیل رہی ہے اور اب بھی علیل ہے.اس لئے زیادہ تحریر کی طاقت نہیں رہی.میں نے اس مہمان خانہ کے لئے ضرورت اشد کی وجہ سے ایک کنواں لگوانا شروع کیا تھا.چند دوستوں کو چندہ کے لئے تکلیف بھی دی گئی.مگر وہ چندہ ناکافی رہا.ا ب کنوئیں کا کام شروع ہے.مگر روپیہ کی صورت ندارد.چاہتا ہوں اگر آپ دوماہ کا چندہ چالیس روپیہ بھیج دیں.توشاید اس سے کچھ مدد مل سکے.ابھی کام بہت ہے.بلکہ عمارت بھی شروع نہیں ہوئی.بوجہ ضعف کے زیادہ لکھ نہیں سکتا.والسلام ۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۲۵۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کی خدمات متواترہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے.اس وقت بباعث قحط اور کثرت مہمانوں کے ضرورتیں ہیں.اخراجات کا کچھ ٹھکانہ نہیں.اب آٹے کی قیمت کے لئے ضرورت ہے.اس لئے مکلف ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پھر آپ مبلغ چالیس روپیہ بطور پیشگی بھیج دیں کہ بہت ضرورت در پیش ہے اور مجھ کو اطلاع دیں کہ یہ روپیہ کس میعاد تک آپ

Page 636

کے وعدہ چندہ کا متکفّل رہے گا تااس وقت تک آئندہ تکلیف دینے سے خاموشی رہے.یہ امر ضرور تحریر فرماویں کہ یہ روپیہ فلاں انگریزی مہینہ تک بطور پیشگی پہنچ گیا ہے.باقی سب خیریت ہے.امید کہ دسمبر کی تعطیلات میں آپ تشریف لاویں گے.والسلام ۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ یہ خط آپ کی خدمت میں ضرورت کے وقت لکھا گیا ہے.ورنہ بے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا اور نیز اس حالت میں کہ اس وقت آپ کو گنجائش نہیں.والسلام مکتوب نمبر ۲۵۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مکرمی اخویم منشی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اب تو آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی.باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ اگر اپنے چندہ کو دو ماہہ بھیج دیںیعنی چالیس روپیہ تو اس وقت خرچ کی ضرورت پر کام آوے.والسلام ۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد جس وقت تک آپ کا یہ روپیہ ہو گا.اس سے اطلاع بخشیں.

Page 637

مکتوب نمبر ۲۵۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کاعنایت نامہ پہنچا.بباعث عذر مرض کچھ مضائقہ نہیں کہ آپ روزہ رمضان نہ رکھیں.کسی اور وقت پر ڈال دیں.کتابوں کی روانگی کے لئے کہہ دیا ہے.میں بھی بدستور بیمار چلا جاتا ہوں.ہر ایک امر خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.والسلام فروری ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ:.یہ پہلا خط ہے جس پر آپ نے مرزا کا لفظ اپنے نام کے ساتھ تحریر فر مایا ہے.(خاکسار.عرفانی)

Page 638

مکتوب نمبر ۲۵۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.نقل حکم نوٹس اور اظہار نورالدین عیسائی پہنچ گیا.مگر چٹھی انگریزی ہے اور نیز روبکار فارسی جس کی رُو سے بریت ہوئی وہ کاغذات نہیں پہنچے.امید آتے وقت ضرورساتھ لے آویں اور ضرور آجائیں.اُجرت کا حال معلوم نہیں ہوا.آپ جس وقت آویں گے.آپ کے ہاتھ تمام اُجرت بھیجی جاوے گی.والسلام ۲۷؍ اگست ۱۸۹۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ اور جو صاحب آنا چاہتے ہیں.ابھی تک ان کے لئے کوئی مکان مجھ کو نہیں ملا.بہتر ہے کہ جس وقت مکان ملے اس وقت آویں.خاکسار مرزا غلام احمد ازقادیان

Page 639

مکتوب نمبر ۲۵۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف آہنی ڈبیا میں بھیج دی گئی ہے.جو آپ نے بھیجی تھی.تعجب ہے کہ اب تک آپ کو نہیں پہنچی.جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی.اس کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی ہے.باقی خیریت ہے.۱۲؍ ستمبر ۱۸۹۷ء خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ اشتہار جب چھپے گا.بھیج دیا جاوے گا.دینا نگر میں ایک قسم کا سفید اور شفاف شہد آیا کرتا ہے.آپ تلاش کرا کر ایک بوتل سفید اور تازہ شہد کی ضرور ارسال فرماویں.غلام احمد

Page 640

مکتوب نمبر ۲۶۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج آنمکرم کا کارڈ پہنچا.مجھے تعجب ہے کہ بیس روپیہ کی رسید کے بارے میں مَیں نے ایک کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھاتھا.معلوم ہو تا ہے کہ یا تو وہ کارڈ اسی سے گم ہو گیا جس کو ڈاک میں ڈالنے کے لئے دیا گیا تھا اور یا ڈاک میں گم ہو گیا.خدا تعالیٰ نے دعا کا کچھ تو اثر ظاہر کیا کہ اس انگریز نے آپ کے گھوڑے کے بارے میں کچھ سوال نہیں کیا اورپھر اس کے فضل پر امید رکھنی چاہئے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۲؍ مئی ۱۸۹۸ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۲۶۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور بعد پہنچنے خط کے جناب الٰہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی اور انشاء اللہ رات کو دُعا کروںگا.معلوم نہیں کہ سرکاری انتظام کے موافق اب آپ کتنے روز اور گورداسپور میں ٹھہریں گے.باقی تا دم حال بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے.والسلام ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ:.تاریخ ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء درج ہے.جو غالباً ۱۸۹۹ء ہے.(عرفانی)

Page 641

مکتوب نمبر ۲۶۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں بہت ضروری سمجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے.مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے.کوئی مقدمہ اس کی طرف سے یا اس پر نہیں ہوا.مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے.اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہئے اور پھر جہاں تک ممکن ہو وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے.محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوا دیا ہے کہ یہ اور ان کی تمام جماعت بدچلن ہیں.اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں.پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں.اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں.اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں.خراب اور خطرناک آدمی ہیں.مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے.کوئی بُری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی.ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے.وہ ابھی باقی ہے.شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا اوریقینا اس کے بعد ایک یا دو۲ پیشیاں ہوںگی.تب مقدمہ فیصلہ پائے گا.میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں.آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابومحمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے.جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جاوے گا.سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو.وہ بھی شریک ہوجائیں.لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی لِلّٰہی مدد سے ثواب آخرت حاصل مکتوب نمبر ۲۶۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں بہت ضروری سمجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے.مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے.کوئی مقدمہ اس کی طرف سے یا اس پر نہیں ہوا.مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے.اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہئے اور پھر جہاں تک ممکن ہو وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے.محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوا دیا ہے کہ یہ اور ان کی تمام جماعت بدچلن ہیں.اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں.پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں.اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں.اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں.خراب اور خطرناک آدمی ہیں.مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے.کوئی بُری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی.ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے.وہ ابھی باقی ہے.شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا اوریقینا اس کے بعد ایک یا دو۲ پیشیاں ہوںگی.تب مقدمہ فیصلہ پائے گا.میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں.آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابومحمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے.جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جاوے گا.سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو.وہ بھی شریک ہوجائیں.لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی لِلّٰہی مدد سے ثواب آخرت حاصل کریں اور

Page 642

اخویم سید عبدالہادی صاحب کو بھی اس سے اطلاع دے دیں.اب کی دفعہ مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت حملہ ہے اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت پر دیندار اور مخلص دوستوں کو مالی مدد سے جلد اپنا صدق دکھلانا چاہئے.آپ کی طرف سے اسّی روپیہ عین وقت پر پہنچ گئے.وہ آپ کے چندہ میں داخل ہیں.اب انبالہ میں بابو محمد صاحب اورسید عبدالہادی باقی ہیں.اگر ملاقات ہو تو بجنسہٖ یہ خط ان کے پاس بھیج دیں اور تاکید کر دیں کہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے ہر ایک مالی امداد پہنچنی چاہئے تاکہ وکیلوں کو دینے کے لئے کام آوے.چند پیشیاں محض شیخ رحمت اللہ صاحب کے مال سے ہوئی ہیں.معلوم ہوتا ہے.انہوںنے تین وکیلوںکے مقرر کرنے میںایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ کردیاہے.جواب تک پیشیوں میں دیتے رہے ہیں.، خدا تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے.اب کی پیشی میں چار ہزار روپیہ ضمانت کے لئے لائے تھے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مجھے فرصت نہیں ہوئی کہ بابو صاحب کی طرف علیحدہ خط لکھوں.یہ آپ کے ذمہ ہو گا کہ دونوں صاحبوں کو پیغام پہنچا دیں اورخط دکھلا دیں.

Page 643

مکتوب نمبر ۲۶۳ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج کی ڈاک میں غلام محی الدین صاحب نے آپ کی طرف سے مبلغ پچاس روپیہ اور بھیجے ہیں.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَا لْجَزَائِ.ابھی وہ دس روپیہ نہیں آئے.اس نازک وقت میں آپ کی طرف سے مجھے وہ مدد پہنچی ہے کہ میں بجز دعا کے اور کچھ بیان نہیں کرسکتا.مجھے بباعث شدت رمد اور درد چشم اور پانی جاری ہونے کے طاقت نہ تھی کہ کاغذ کی طرف نظر بھی کر سکوں.مگر بہر صورت اپنے پر جبر کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں.کل کا اندیشہ ہے.خاص کر کچہری کے دن کا کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کا درد اور بند رہنے سے بچاوے.نہایت خوف ہے.والسلام ۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ اس سے پہلے آج ہی ایک خط صبح روانہ کر چکا ہوں.مکتوب نمبر ۲۶۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل کی ڈاک میں مبلغ ننانوے روپیہ مرسلہ آپ کے بذریعہ منی آرڈر پہنچے تھے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَا لْجَزَائِ.آپ ہر ایک موقعہ پر اپنی مخلصانہ خدمات کا رضا مندی اللہ جلّشانہٗ کے لئے ثبوت دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے.آمین.کل میں مقدمہ پر جائوں گا.میری آنکھ اس وقت اس قدر دکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرماوے.

Page 644

اسی درد ناک حالت میں مَیں نے یہ خط لکھا ہے.تا آپ کو اطلاع دے دوں.بباعث شدت درد آنکھ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں.والسلام ۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۶۵ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.آپ کو خبر پہنچ گئی ہو گی کہ پہلی سب کارروائی کا لعدم ہو چکی ہے اور ا ب نئے سرے نوٹس جاری ہو گا.تاریخ مقدمہ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ دفتر انگریزی کے کلارک پیشگوئی بابت آتھم اور پیشگوئی بابت لیکھرام اور پیشگوئی حال کا ترجمہ کر کے پیش کریں.معلوم ہوتا ہے کہ نیت بخیر نہیں ہے.محمد حسین کو غالباًبری کر دیا ہے اور اس گروہ کے لوگ یہی مشہور کرتے ہیں اور اس کی نسبت نوٹس بھیجنے کی کچھ بھی تیاری نہیں.وہ لوگ بہت خوش ہیں.اس حاکم نے ایک ٹیڑھی لکیر اختیار کی ہے کہ قانون سے اس کا کچھ تعلق نہیں.محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بڑی شوخی اور بد زبانی سے ظاہر کر رہا ہے اور علانیہ ہر ایک کے پاس کہتا ہے کہ میں ضمانت کرائوں گا.سزا دلائوں گا اور ظاہراً یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے.کیونکہ یہ مجسٹریٹ اس کی بڑی عزت کرتا ہے اور بڑ ا کچھ اعتبار ہے.ہر ایک دفعہ میں دیکھتا رہا ہوں کہ میری نسبت اس کی نیت نیک نہیں ہے.لیمار چنڈ بھی بگڑ ا ہوا ہے.جمعہ کی رات میںنے خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص کی درخواست پر میںنے دُعا کر کے ایک پتھر یا لکڑی کی ایک بھینس بنا دی ہے.اس بھینس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۱؎.ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق یہ خواب ہے کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے.جس کاارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا.

Page 645

اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پید اہو جائیں.جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں.مجھے یاد ہے کہ جب میںنے بھینس بنائی ہے تو اس نشان کے ظاہر ہونے سے کہ خد اتعالیٰ نے ایک لکڑی یا ایک پتھر کوایک مفید حیوان بنا دیا جو دودھ دیتا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور یکدفعہ سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں،رَبِّی الا علٰی رَبِّی الاعلٰی.اور سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے.اس کی تائید میںکئی الہامات ہوئے ہیںایک یہ الہام ہے:.اِنَّا تَجَالَدْنَا فَانْقَطَعَ الْعَدُوُّ وَاَسْبَابُہٗ.۱؎ یعنی ہم نے دشمن کے ساتھ تلوار سے لڑائی کی.پس دشمن ٹکرے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.آئندہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اس خواب اور الہام کا مصداق کونسا امر ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ محمد بخش کے کہاں گھر ہیں؟ اور ذات کا کون ہے.مجھے سرسری طور پر معلوم ہو اہے کہ ذات کا ہے اور گوجرانوالہ میں اس کے گھر ہیں اور معلوم ہو اہے کہ نظام الدین اس کے ایک شادی پر گوجرانوالہ میں گیا تھا اور تنبول دیا تھا.اگر اس کا کچھ پتہ آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع فرماویں.والسلام ۵؍ فروری ۱۸۹۹ ء قادیان خاکسار غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۲۶۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.کل میں پٹھان کوٹ سے واپس آگیا.۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء میرے بیان کے لئے اور فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی ہے.حالات بظاہر ابتر اور خراب معلوم ہوتے ہیں.محمد حسین اور محمد بخش کے اظہارات تعلیم سے کامل کئے گئے ہیں.مجھ پر محمد حسین نے بغاوت سرکار انگریزی اور قتل لیکھرام کا اپنے بیان میں الزام لگایا ہے.محمد بخش نے لکھوایا ہے.ان کی حالت بہت خطرناک ہے.سرحدی

Page 646

لوگ آتے ہیں، اب بھی ہیں.اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے.دشمنوں نے افتراء میں کچھ فرق نہیں کیا.میں نے آتے وقت حکیم فضل الدین صاحب کو ایک درخواست لکھ دی تھی اور مبلغ باون روپیہ چار گواہوں کے طلب کرانے کے لئے دے دیئے تھے مگر نہایت خراب حالت ہے.کچھ امید نہیں کہ طلب کئے جاویں.منجملہ ان گواہوں کے ایک رانا جلال الدین خاں ہیں.دوسرے شیخ ملک یار اور تیسرے منشی غلام حیدر تحصیلدار.چوتھے محمد علی شاہ صاحب ساکن قادیان.لوگ کہتے ہیں کہ رانا جلال الدین خان صاحب اگر طلب بھی ہوئے تو محمد بخش اور دوسرے لوگ کوشش کریں گے کہ اس کا اظہار اپنی مرضی کے موافق دلادیں.ہرچہ مرضی مولیٰ ہماں اولیٰ اوّل تو مجھے امید نہیں کہ طلب کئے جاویں.مجسٹریٹ خواہ نخواہ درپے توہین اور سخت بدظن معلوم ہوتا ہے.میرے وکیلوں نے یہ حالات دریافت کرکے یہی چاہا تھا کہ چیف کورٹ میں مثل کو منتقل کرا دیں.لیکن یہ بات بھی نہیں ہوسکی.اگر آپ کو رانا جلال الدین خاں کی نسبت کچھ مشورہ دینا ہوتو اطلاع بخشیں.حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو مجسٹریٹ گواہ بلانے منظور نہیں کرے گا.چنانچہ وہ پہلے بھی ایما کرچکا ہے اور کرے بھی تو غالباً بند سوال بھیجے گا.رانا جلال الدین خان کا مقام گوجرانوالہ لکھایا گیا ہے.شاید وہیں ہیں یا اور جگہ ہیں.والسلام ۱۶؍ فروری ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 647

مکتوب نمبر ۲۶۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میری گواہی کے لئے رانا جلال الدین خان صاحب عدالت میں طلب کئے گئے ہیںاور ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء تاریخ پیشی مقرر ہے اور چونکہ محمد حسین نے صاف طور پر لکھوادیا ہے کہ ظن غالب ہے کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں.اس لئے لیکھرام کی مسل بھی طلب ہوئی ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ:.اس خط پر تاریخ کوئی نہیں.مگر تسلسل خط وکتابت سے واضح ہے کہ یہ ۱۶؍فروری ۱۸۹۹ء کے بعد کا ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۲۶۸ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ پیش ہوکر بغیر لینے گواہوں کے مجھے بری کیا گیا.استغاثہ کی طرف سے گواہی گذر چکی تھی.اور فریقین کے لئے دو نوٹس لکھے گئے اور ان پر دستخط کرائے گئے.جن کا یہ مضمون تھا کہ نہ کسی کی موت کی پیشگوئی کریں گے اور نہ دجّال، کذّاب، کافر کہیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور نہ بٹالہ کو طاء کے ساتھ اور گالیاں نہیں دیں گے اور ہدایت کی گئی کہ یہ نوٹس عدالت کی طرف سے نہیں ہے اور نہ اس کو مجسٹریٹ کا حکم سمجھنا چاہیے.صرف خدا کے سامنے اپنا اپنا اقرار سمجھو.قانون کو اس سے کچھ تعلق نہیں.ہمارا کچھ دخل نہیں.مجھے کہا گیا کہ آپ کو ان کی

Page 648

گندی گالیوں سے تکلیف پہنچی ہے.آپ اختیار رکھتے ہیں کہ بذریعہ عدالت اپنا انصاف لیں اور مثل خارج ہوکر داخل دفتر کی گئی.والسلام ۷؍فروری ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ:.میرا خیال ہے کہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۹ء ہے.جلدی سے ۷؍فروری ۱۸۹۹ء لکھا گیا ہے.(عرفانی) مکتوب نمبر ۲۶۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بلٹی آم پہنچ کر آج دونوں چیزیں آم اور بسکٹ میرے پاس پہنچے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.افسوس کہ آم کل کے کل گندے اور خراب نکلے.اسی خیال سے میںنے رجسٹری شدہ خط آپ کی خدمت میں بھیجا تھا.تا ناحق آپ کانقصان نہ ہو.معلوم ہوتا ہے کہ یہ آم اس خط کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے.افسوس کہ اس قدر خرچ آپ کی طرف سے ہوا.خیر اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِالنِّیَاتِ.۱؎ کل میرے نام ایک پروانہ تحصیل سے آیا تھا.اس میں لکھا تھا کہ پتہ بتائو کہ عبدالواحد اور عبدالغفور اور عبدالجبار کہاں ہیں.خد اجانے اس میں کیا بھید ہے.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ

Page 649

مکتوب نمبر ۲۷۰ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آم مرسلہ آنمکرم پہنچے.جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء.اگر ممکن ہو سکے تو اسی قدر اور آم بھیج دینا.کیونکہ مہمان عزیز بہت ہیں.بہت شرمندگی ہوتی ہے.اگر کوئی چیز آوے اور بعض محروم رہیں.افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی.خیر دوسرے موقعہ پر سہی.مسمی عبدالحمید گرفتار ہو کر گورداسپور میں آگیاہے.کہتے ہیں کہ پھر مقدمہ بنایا جاوے گا.خدا تعالیٰ ہر ایک بہتان سے بچاوے.مسل سے کسی قدر صفائی سے ظاہر ہے کہ پہلا اظہار عبدالحمید کا جھوٹا تھا.جو پادریوں کی تحریک سے لکھا گیا ہے.مگر پھر تفتیش ہو گی کہ کون سا اظہار جھوٹا ہے.شاید اب پادریوں کو پھر کسی جعلسازی کاموقعہ ملے اور پھر اس کو طمع دے کر یہ بیان لکھو ادیں کہ پہلا اظہار ہی سچا ہے اور دوسرا جھوٹا.کچھ معلوم نہیں کہ ایسا صاف مقدمہ فیصل شدہ پھر کیوں دائر کیا گیاہے.سزا اگر عبدالحمید کو دینا ہے توپہلا حاکم دے سکتا تھا اورسزا دینے کے لئے بہت سی تحقیقات کی ضرورت نہیں.عبدالحمید خود اقرار لکھاتا ہے.یعنی کپتان ڈگلس صاحب کے روبرو کا پہلا اظہار میرا جھوٹا ہے.والسلام ۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 650

مکتوب نمبر ۲۷۱ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.پہلا خط میں نے آم پہنچنے سے پہلے لکھا تھا.اب اس وقت جووقت عصر ہے.آم آئے اور کھولے گئے تو سب کے سب گندے اور سڑے ہوئے نکلے اور جو چند بصورت بیداغ معلوم ہوئے ان کا مزہ بھی تلخ رسوت کی طرح ہو گیا تھا.غرض سب پھینک دینے کے لائق ہیں.مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس قدر تکلیف اٹھائی اور خرچ کیااور ضائع ہوا.مگر پھر بھی ضائع نہیں ہوا.کیونکہ آپ کو بہرحال ثواب ہو گیا.اب یہ خط اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ خرچ سے بچے رہیں.اگر آپ کا دوبارہ بھیجنے کا ارادہ ہو تو سرولی کا آم جو سبز اور نیم خام اور سخت ہو بھیجیں.یہ آم ہر گز نہ بھیجیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام یکم جولائی ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط اس غرض سے رجسٹری کر اکر بھیجا گیاہے کہ تا تسلی ہو کہ پہنچ گیا ہے.ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے ہی آم بھیج دیںاورناحق اسراف ہو.بجز اس قسم کے جس کو سرولی کہتے ہیں اور کوئی قسم روانہ نہ فرماویں اوروہ بھی اس شرط سے کہ آم سبز اور نیم خام ہوں.تا کسی طرح ایسی شدت گرمی میں پہنچ سکیں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ

Page 651

مکتوب نمبر ۲۷۲ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.امید کہ اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء جس کے ساتھ جلسۃ الوداع کا بھی ایک پرچہ ہے.آپ کے پاس پہنچ گیا ہو گا.اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی نسبت جو گورداسپور میں تحریک کی گئی تھی.اس کو حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور درحقیقت اس طرح پر مولوی صاحب کا بڑ ا حرج ہوگیاہے.کہ اگر آخر کار لوگ کسی رشتہ سے انکار کریں توکتنے اورعمدہ رشتے اسی انتظار میں ان کے ہاتھ سے چلے گئے.یہ ایسا طریق ہے کہ خواہ مخواہ ایک شخص پر ظلم ہو جا تاہے.جب اسی انتظار میں دوسرے لوگ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے.چنانچہ بعض ہاتھ سے چلے گئے ہیں.تو کس قدر یہ امر باعث تکلیف ہے.لڑکی والے بعض اوقات دس روز بھی توقف ڈالنا نہیں چاہتے.بلکہ توقف سے وہ لاپروائی سمجھتے ہیں.اس لئے ناحق نقصان ہوجاتا ہے.مناسب ہے کہ آپ رجسٹری کراکر ایک مفصل خط ان کو لکھ دیںکہ وہ ایک شریف اورمہذب ہیں.آپ کے لئے انہوں نے دوسرے کئی رشتوں کو ہاتھ سے دیا ہے.اس لئے مناسب ہے کہ ا ب آپ اپنے جواب باصواب سے جلد ان کو مسرورالوقت کریں اور پھر اگر وہ کسی ملازمت کے شغل میں لگ گئے تو فرصت نہیں ہو گی.یہی دن ہیں کہ جن میں وہ اپنی شادی کرنا چاہتے ہیں.اگر کسی پہلی شادی کا ذکر درمیان میں آوے تو آپ کہہ دیں کہ پہلی شادی تھی.وہ رشتہ طلاق کے حکم میں ہے.اس سے وہ کچھ تعلق نہیں رکھنا چاہتے اور شاید طلاق بھی دے دیا ہے.غرض اس کا جواب آپ دوسری طرف سے بہت جلد لے کر جہاں تک جلد ممکن ہوسکے بھیج دیں.میں ڈرتا ہوںکہ یہ توقف ان کی اس طرف کے لئے بہت حرج کا باعث نہ ہو جاوے.زیادہ خیریت ہے.والسلام

Page 652

Page 653

Page 654

ج (مکتوب حضرت اقدس) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جلدی سے بہت ضروری سمجھ کر آپ کے خط کی پشت پر ہی میں یہ خط لکھتا ہوں کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کاگورداسپور کا معاملہ بہت حرج پہنچا چکا ہے.کچھ روپیہ دے کر اور یکہ کرا کر ایک عورت اور ایک مرد حجام کو گورداسپورہ میں بھیجا تھااور پھر انتظار میں اسقدر توقف کیا.آخر ان لوگوں نے اوّل آپ ہی کہا اور پھر آپ ہی جواب دے دیا.اب اپنے سر دفتر صاحب کی نسبت جو آپ تحریر فرماتے ہیں.اس کی نسبت اگر میں ایک کچی بات میں کوئی عورت اور مرد یہاں سے بھیجوں تو مناسب نہیں ہے.اول آپ براہ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو لڑکیوں کی شکل اور حلیہ وغیرہ سے مجھے اطلاع دیںاور پھر میں کوئی خادمہ مزید تفتیش کے لئے بھیج دوں گا میں اس وقت اس لئے یہ خط اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں.کہ آپ بلا توقف کوئی عورت بھیج کر شکل اور خلق اور تعلیم سے مجھ کو اطلاع دے دیں اور پھر بعد میں اگر ایسی کوئی عورت آپ کے پاس بھیجی جاسکے اور نیز اس کے پختہ ارادہ سے بھی اطلاع بخشیں.والسلام ۲۴؍اکتوبر۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان

Page 655

مکتوب نمبر ۲۷۴ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.چونکہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سر دفتر صاحب جن کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست ہے کچھ متلون مزاج اور تیز مزاج ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر پہلے ان سے کھلے کھلے طور پر تذکرہ کرلیں.کہ چھوٹی لڑکی سے ناطہ ہوگااورنیز یہ کہ شریعت کی پابندی سے نکاح ہوگا.کوئی اسراف کا نام نہیں ہوگا.شریفانہ رسموں میںسے جو کپڑے زیور کی ان کے خاندان میں رسم ہو.اس سے وہ خود اطلاع دے دیں.تا وہ تیار کیا جاوے اور ان سے پختہ اقرار لے لیں کہ وہ اس پر قائم رہیں اور نیز یہ قابل گذارش ہے کہ اگر میں اس جگہ سے کوئی عورت بھیجوں تو وہ حجام عورت ہوگی اور وہ اکیلی نہیں آسکتی.کیونکہ جوان عورت ہوگی.اس کے ساتھ اس کا خاوند جاوے گا اور اس اُجرت میں سات معہ آٹھ روپیہ اس کو دینے پڑیں گے اور دو۲ آدمیوں کے آنے جانے کا دوروپیہ یکہ کا کرایہ ہوگا.اور چھ سات روپیہ ریل کا کرایہ دوآدمیوں کی آمدو رفت کا ہوگا.غرض اس طرح ہمیں قریباً بیس روپے خرچ کرنے پڑیں گے.لیکن اگر آپ انبالہ سے کسی عورت کو میری طرف سے تین چار روپیہ دے دیں تاوہ لڑکی کو دیکھ کر دیانت سے بیان کردے.تو خرچ کی کفایت رہے گی.ہم تو اس قدر خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ گورداسپورہ کے معاملہ کی طرح سب کچھ خرچ ہو کر پھر ان کی طرف سے جواب ہوجاوے.آپ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ کوئی حجام عورت جو دیانت دار معلوم ہو.اسے کچھ دے کر بھیج دیں.وہ کل حلیہ بیان کردے کہ آنکھیں کیسی ہیں.ناک کیسا ہے.گردن کیسی ہے.یعنی لمبی ہے یا کوتہ.اور بدن کیساہے.فربہ یا لاغر.منہ کتابی چہرہ ہے.یا گول.سرچھوٹا ہے یا بڑا.قد لمبا ہے یا کوتہ.آنکھیں کپری ہیں یا سیاہ.رنگ گورہ ہے یا گندمی یا سیاہ.منہ پر داغ چیچک ہیں یا نہیں یا صاف.غرض تمام مراتب جن کے لئے یہاں سے کسی عورت کو بھیجنا تھا بیان کردے اور دیانت سے بیان کرے اس سے ہمیں فائدہ ہوگا چونکہ اس کا مجھے زیادہ فکر ہے.میری طرف سے یہ خرچ دیا جاوے.میں تو اب

Page 656

Page 657

بذریعہ ریل بھیج دیں اور ریل کے کرایہ کو دیکھ لیں کہ زیادہ نہ ہو.کیونکہ ایک مرتبہ دہلی سے ایک پالکی منگوائی گئی تھی اور غلطی سے خیال نہ کیا گیا.آخر ریل والوںنے پچاس روپیہ اس کا کرایہ لیا.باقی سب خیریت ہے.طاعون سے اس طرف شور قیامت بپا ہے.دن کو آدمی اچھا ہوتا ہے اور رات کو موت کی خبر آتی ہے.والسلام ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۲۷۶ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.چونکہ اس جگہ بُنائی کا کام مشکل ہے.ہر طرف طاعون کی بیماری ہے.کوئی آدمی ہاتھ نہیں آئے گا.اس لئے بہتر ہے کہ اگرچہ سات روپیہ تک کرایہ کی زیادتی ہو.تو کچھ مضائقہ نہیں.وہیں سے تیار ہوکر آنی چاہئیں.لیکن اگر کرایہ زیادہ مثلاً بیس پچیس روپیہ ہو تو پھر صرف سامان پلنگوں کا بھیج دیا جاوے.ایک پلنگ نواڑکا ہو اوردو عمدہ باریک سن کی سوتری کے.غرض اس جگہ پلنگوں کے بننے کی بڑی دقت پیش آئے گی.ایک طرف زراعت کاٹنے کے دن ہیں اور ایک طرف طاعون سے قیامت بر پا ہے.لوگوں کو مُردے دفن کرنے کے لئے آدمی نہیں ملتے.عجیب حیرانی میں لوگ گرفتار ہیں.جہاں تک جلد ممکن ہو جلد تر روانہ فرماویں.والسلام ۶؍ مئی ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 658

مکتوب نمبر۲۷۷ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.حال یہ ہے کہ اب کی دفعہ میں نے پچاس روپیہ کا مشک منگوایا تھا.اتفاقاً وہ سب کا سب ردّی اور مغشوش نکلا.اس قدر روپیہ ضائع ہو گیا.اس لئے میں نے آپ کی تحریر کے موافق مبلغ بارہ روپیہ قیمت چھ ماشہ مشک مولوی صاحب کے حوالہ کردی ہے.اگر یہ قیمت کم ہوگی.باقی دے دوں گا اور عنبر بھی.مدت ہوئی کہ میں نے افریقہ سے منگوایا تھا.وہ وقتاً فوقتاً خرچ ہوگیا.میں نے اس قدر استعمال سے ایک ذرہ بھی اس کا فائدہ نہ دیکھا.وہ اس ملک میں فی تولہ ایک سو روپیہ کی قیمت سے آتا ہے اور پھر بھی اچھا نہیں ملے گا.ولایت میں عنبر کو محض ایک ردّی چیز سمجھتے ہیں اورصرف خوشبوئوں میں استعمال کرتے ہیں.میرے تجربہ میں ہے کہ اس میں کوئی مفید خوبی نہیں.اگر آپ نے دوا میںعنبر ڈالناہو.تو بواپسی ڈاک مجھے اطلاع دیں.تو عنبر ہی کے خرید کے لئے مبلغ پچاس روپیہ مولوی صاحب کے حوالہ کئے جائیںگے.مگر جواب بواپسی ڈاک بھیج دیں.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ

Page 659

مکتوب نمبر ۲۷۸ ملفوف ایک غیر معمولی خط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی چودھری صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.آپ کا نوازش نامہ پہنچا.حضرت اقدس کی خدمت میں سنایا.فرمایا:.لکھ دو خط بھی نصف ملاقات ہوتی ہے اگر وہ خط لکھ دیا کریںاور دعا کے لئے یاد دلا دیا کریںتومیں دعا کرتا رہوں گا.بہت پرانے مخلص ہیں.فرمایا ان پر کچھ قرضہ کا بوجھ بھی ہے، جب تک اس سے فراغت نہیں ہوتی ملازمت کرتے رہیں بعد میں پنشن لے لیویں.آج پھر فرمایا کہ رات کو پھر وہی الہام پھر ہوا.قرب اجلک المقدر ولا نبقی لک من المخزیات ذکرًا.قل میعاد ربک ولا نبقی لک من المخزیات شیئا.۱؎ فرمایا:.ان فقرات کے ساتھ لگانے سے صاف منشاء الٰہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغام رحلت دیا جاوے گا تو دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ابھی ہمارے فلاں فلاں مقاصد باقی ہیں اس کے لئے فرمایا کہ ہم سب کی تکمیل کریںگے.فرمایا:.لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ سب امور کی تکمیل مامور ہی کر جائے.وہ بڑی بڑی امیدیں باندھ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ مامور اپنی زندگی میں ہی کر کے اُٹھا ہے.صحابہ میں بھی ایسا خیال پید اہو گیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کا وقت نہیں آیا.کیونکہ دعویٰ تو تھا کہ کل دنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب کا بھی بہت سا حصہ یونہی پڑا تھا.مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ آہستہ کر تا رہتا ہے.تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت دین کا ثواب ملتا رہے.اسی ذکرمیں فرمایا کہ ہماری جماعت میں سے اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں چنانچہ

Page 660

مولوی عبدالکریم صاحب جوا یک عجیب مخلص انسان تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں سے فوت ہو گئے.مگر افسوس ہے کہ جو مرتے ہیں ان کاجانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا.پھر فرمایا :.مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج ہی پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی.اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب ہی بننے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.ہم تو چاہتے تھے کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں.چنانچہ پھر بہت سے احباب کو بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ مدرسہ میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور مولوی پیدا ہوں جو آئندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جوگزرتے چلے جاتے ہیں.کیسا افسوس کا مقام ہے کہ آریہ سماج میں وہ لوگ پیدا ہوںجو ایک باطل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر ہماری قوم سچے خدا کو پاکر پھر دنیا کی طرف جھک رہی ہے اوردین کے لئے زندگی وقف کرنا محال ہو رہا ہے.فرمایا: سب سوچو کہ اس مدرسہ کو ایسے رنگ میں رکھا جاوے کہ یہاں سے قرآن دان واعظ مولوی لوگ پیدا ہوں جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں.والسلام ۶؍ ستمبر ۱۹۰۵ء خاکسارمحمد علی یہ مکتوب اگرچہ براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ مکرمی مولوی محمد علی صاحب ( جوخلافت ثانیہ کے ساتھ ہی قادیان سے انکار خلافت کر کے خروج کر چکے ہیں اور لاہور جا بسے ہیں.عرفانی) نے حضرت اقدس کے حکم سے لکھا ہے.خطوط کی سال وار ترتیب کے لحاظ سے بھی یہ خط یہاں نہیں آنا چاہئے تھا مگر ا س کے لئے میں دوسری جگہ بھی نہیں نکال سکا.یہ خط بہت سے ضروری اور اہم مضامین پر مشتمل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پاک خواہشوں اور مقاصد کامظہر ہے.تاریخ سلسلہ میں یہ ایک مفید اور دلچسپ ورق ہے.مناسب موقعہ پر میں اس سے ضروری امور پر روشنی ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہوں.وباللہ التوفیق.آ مین.

Page 661

ایک امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ اس مکتوب میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم و ارشاد سے لکھا ہوا ہے خدا کے مامور کے جانشینوں کا ذکر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مولوی صاحب کے ہاتھ سے ان پر اتمام حجت کرا دیا ہے.ہر ایک شخص اپنی انفرادی حیثیت میں جانشین نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ موعود و منصوص کے ساتھ تعلق رکھ کر اور اس میں ہو کر کل جماعت ایک وجود بن جاتی ہے.غرض یہ خط بہت دلچسپ اور قابل غور ہے.حضرت چوہدری رستم علی صاحب (کے) اخلاص اور فنافی السلسلہ کا اظہار یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر ایک خط سے ہوتا ہے مگر اس میں بھی اس کی تائید ہے.چوہدری صاحب سلسلہ کی ضروریات ہی کے لئے آخری وقت جبکہ وہ ملازمت کا زمانہ ختم کر رہے تھے، مقروض تھے اور حضرت نے ان کو کچھ عرصہ اورملازمت کرنے کا ارشاد فرمایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ فارغ ہوئے تو خدا کے فضل اور رحم سے ہر قسم کی زیر باری سے سبکدوش ہو چکے تھے.اس کے بعد انہوں نے قادیان میں آکر سلسلہ کی عملی خدمت شروع کی اور وہ سلسلہ میں سب سے پہلے بزرگ تھے جنہوں نے پنشن لے کر سلسلہ کا کام مفت کیا حتی کہ کھانا لینا بھی پسند نہ کیا.خدا تعالیٰ یہ روح دوسرے بزرگوں میں بھی پیدا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والی ایک جماعت ہو تاکہ سلسلہ کے مرکزی اخراجات میں ایسے کارکنوں کے وجود سے بہت کمی ہو سکے جومفت کام کریں.(عرفانی)

Page 662

مکتوبات کے متعلق مرتب کا نوٹ جس قدر مجھے مکتوبات مل سکتے تھے.وہ میں نے جمع کر دیئے ہیں والحمدللّٰہ علی ذالک.ایک مکتوب کو میںنے عمداً ترک کیا ہے اور حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات میں بھی اسے چھوڑا ہے اوریہ وہ مکتوب ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا.وہ خط دراصل حضرت حکیم الامۃ کے نام تھا.مگر اس کی نقول آپ نے متعدد احباب کے نام بھجوائی تھیں.میں اس مکتوب کو متفرق خطوط کی جلد میں انشاء اللہ العزیز شائع کروں گا اور اس میں ان دوستوں کے اسماء گرامی بھی لکھ دوںگا.(انشاء اللہ ) جن کی خدمت میں ان کی نقول بھیجی گئی تھیں.۱؎ میں ان تمام احباب کو جنہیں حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے تعلق رہا ہے.توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے معین و مددگار ہوں اور اگر کسی کے پاس چوہدری صاحب کا کوئی خط یا نظم ہویا کوئی واقعہ ان کے سوانح حیات سے متعلق انہیں معلوم ہوتو وہ لکھ کر مجھے ضرور بھیج دیں.یہ کام قلمی اور مالی تعاون کا ہے اورمیں اپنے دوستوں سے بجا توقع رکھتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں نام نیک رفتگان ضائع مکن تا بماند نام نیکت برقرار میرے لئے دعا بھی کریں کہ میںاس کام کو سرانجام دے سکوں.وباللہ التوفیق.(عرفانی) ۱؎.یہ مکتوب حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب ؓ کے نام مکتوبات میں شامل کر دیا گیا ہے.

Page 662