Maktubat-e-Ahmad Volume 1

Maktubat-e-Ahmad Volume 1

مکتوبات احمد (جلد اوّل)

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف احباب کو جو خطوط تحریر فرمائے ان کو افادہ عام کے لئے بعد میں کتابی شکل دی گئی ۔ ان مکتوبات میں جو بظاہر متفرق موضوعات پر مختلف احباب کو لکھے گئے یا ان کے خط کے جواب میں بھیجے گئے، ان میں قارئین کے لئے بہت زیادہ علمی و روحانی تسکین کے سامان موجودہیں۔ موجودہ کمپیوٹرائزڈایڈیشن میں مکتوب الیہ کے اعتبار سے مکتوبات کی جلدیں مرتب کی گئی ہیں جن سے مطالعہ میں سہولت ہوجاتی ہے۔ نیزان مکتوبات سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی معاصرہندوو آریہ پنڈتوں،عیسائی پادریوں اور مناظروں، مختلف مسالک کے مسلمان علماء، عشق و وارفتگی سے پُر اپنے معزز اصحاب  اور متفرق احباب سے اعلیٰ برتاؤ اور آپ کی سادگی، روزمرہ زندگی،توکل علیٰ اللہ، بیماری و شدید مالی مشکلات پر صبراور اخلاق حسنہ کی گہرائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

Page 18

Page 19

Page 20

Page 21

Page 22

Page 23

Page 24

مکتوب نمبر ۱ سوامی دیانند سرستی کے نام اعلان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مضمون ابطال تناسخ پر بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ لکھ کر رسالہ ہندو باندھو، لاہور میں چھپوایا تھا.سوامی دیانند صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مباحثہ کی دعوت دی اور تین آریوں کی معرفت پیغام بھی بھیجا.حضرت مسیح موعود نے پسند نہ کیا کہ یہ کارروائی مخفی رہے.اس لئے سوامی جی کی دعوت مباحثہ کا جواب بذریعہ ایک چھپے ہوئے اعلان کے جو بمنزلہ کھلی چٹھی تھا، دے دیا.اس کو میں یہاں درج کرتا ہوں اور اس لحاظ سے کہ ناظرین پورا لطف اُٹھا سکیں اس سے پہلے وہ مضمون درج کر دیا جاتا ہے تا کہ جہاں ایک طرف ریکارڈ مکمل ہو جاوے وہاں ناظرین کو اصل کیفیت کے سمجھنے میں سہولت ہو.اس اعلان کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام کو اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے ایک خاص جوش بخشا گیا تھا اور آپ کسی ایسے موقعہ کو ہاتھ سے نہیں دیتے تھے.یہ اعلان ۱۸۷۸ء کا ہے گویا آج سے قریباً ۳۵ سال پہلے کی بات ہے جب کہ نہ کوئی دعویٰ تھا، نہ جماعت تھی.ہاں خدا تعالیٰ کی تائید آپ کے ساتھ تھی اور وہ ابتدائی وقت تھا جب کہ خدا تعالیٰ کا کلام آپ پر نازل ہو رہا تھا.بہرحال وہ مضمون اعلان حسبِ ذیل ہے.(ایڈیٹر)

Page 25

ابطال تناسخ ومقابلہ وید و فرقان اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ وید و فرقان مع اشتہار پانسو روپیہ جو پہلے بھی بہ مباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا.ناظرین انصاف آئین کی خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ باعث مشتہر کرنے اس اعلان کا یہ ہے کہ عرصہ چند روز کا ہوا ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج امرتسر قادیان میں تشریف لائے اور مستدعی بحث کے ہوئے.چنانچہ حسب خواہش ان کے دربارہ تناسخ اور مقابلہ وید و قرآن کے گفتگو کرنا قرار پایا.برطبق اس کے ہم نے ایک مضمون جو اس اعلان کے بعد میں تحریر ہوگا ابطالِ تناسخ میں اس التزام سے مرتب کیا کہ تمام دلائل اس کے قرآن مجید سے لئے گئے اور کوئی بھی ایسی دلیل نہ لکھی کہ جس کا ماخذ اور منشاء قرآن مجید نہ ہو.اور پھر مضمون جلسہ عام میں پنڈت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تا کہ پنڈت صاحب بھی حسب قاعدہ ملتزمہ ہمارے کے اثباتِ تناسخ میں وید کی شرتیاں پیش کریں اور اس طور سے مسئلہ تناسخ کا فیصلہ پا جائے اور وید اور قرآن کی حقیقت بھی ظاہر ہو جائے کہ ان میں سے کون غالب اور کون مغلوب ہے.اس پر پنڈت صاحب نے بعد سماعت تمام مضمون کے دلائل وید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کیا اور صرف دو شرتیاں رگوید سے پیش کیں کہ جن میں اُن کے زُعم میں تناسخ کا ذکر تھا اور اپنی طاقت سے بھی کوئی دلیل پیش کردہ ہماری کو ردّ نہ کر سکے.حالانکہ اُن پر واجب تھا کہ بمقابلہ دلائل فرقانی کے اپنے وید کا بھی کچھ فلسفہ ہم کو دکھلاتے.اور اس دعوے کو جو پنڈت دیانند صاحب مدت دراز سے کر رہے ہیں کہ وید سرچشمہ تمام علوم فنون کا ہے، ثابت کرتے.لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بول سکے اور دم بخود رہ گئے او رعاجز اور لاچار ہو کر اپنے گاؤں کی طرف سدھار گئے.گاؤں میں جا کر پھر ایک مضمون بھیجا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ابھی بحث کرنے کا شوق باقی ہے اور مسئلہ تناسخ میں مقابلہ وید اور قرآن کا بذریعہ کسی اخبار چاہتے ہیں.سو بہت خوب! ہم پہلے ہی تیار ہیں.مضمون ابطالِ تناسخ جس کو ہم جلسہ عام میں گوش گزار پنڈت صاحب موصوف کر چکے ہیں وہ تمام مضمون دلائل و براہین قرآن مجید سے لکھا گیا

Page 26

ہے اور جا بجا آیات فرقانی کا حوالہ ہے.پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ مضمون اپنا دلائل بید سے بمقابلہ مضمون ہمارے کے مرتب کیا ہو.پرچہ سفیر ہند یا برادر ہند یا آریا درپن میں طبع کراویں.پھر آپ ہی دانا لوگ دیکھ لیں گے اور بہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت وید اور قرآن میں دو شریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اور برہمو سماج سے جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہیں، مقرر کئے جاویں.سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں اور دوسرے جناب پنڈت شیونرائن صاحب جو برہمو سماج میں اہل علم اور صاحب نظر دقیق ہیں.فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ میں حَکَم بننے کے لئے بہت اَوْلیٰ اور اَنْسَبْ ہیں.اس طور سے بحث کرنے میں حقیقت میں چار فائدے ہیں اوّل یہ کہ بحث تناسخ کی تحقیق تمام فیصلہ پا جائے گی.دوم اس موازنہ اور مقابلہ سے امتحان وید اور قرآن کا بخوبی ہو جائے گا اور بعد مقابلہ کے جو فرق اہل انصاف کی نظر میں ظاہر ہوگا وہی فرق قول فیصل متصور ہوگا.سوم یہ فائدہ کہ اس التزام سے ناواقف لوگوں کو عقائد مندرجہ وید اور قرآن سے بکلی اطلاع ہو جائے گی.چہارم یہ فائدہ کہ یہ بحث تناسخ کی کسی ایک شخص کی رائے خیال نہیں کی جائے گی بلکہ محول بہ کتاب ہو کر اور معتاد طریق سے انجام پکڑ کر قابل تشکیک اور تزئیف نہیں رہے گی اور اس بحث میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تحریر جواب کے تن تنہا محنت اُٹھائیں بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ صاحبان مندرجہ عنوان مضمون ابطال تناسخ جو ذیل میں تحریر ہوگا، کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب ہوں اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود اس قدر تاکید مزید کے اس طرف متوجہ نہیں ہونگے اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متدعویہ وید سے پیش کریں گے یا در صورت عاری ہونے وید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لئے ان پر ڈگری ہو جائے گی.اور نیز دعویٰ وید کا کہ گویا وہ تمام علوم فنون پر متضمن ہے، محض بے دلیل اور باطل ٹھہرے گا.اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گزارش ہے کہ میں نے جو قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ء میں ایک اشتہار تعدادی پانسو روپیہ بابطال مسئلہ تناسخ دیا تھا وہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہٖ متعلق ہے.اگر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب ہمارے تمام دلائل کو نمبروار جواب دلائل مندرجہ وید سے دے کر اپنی عقل سے توڑیں گے تو بلاشبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے اور بالخصوص

Page 27

بخدمت پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اُس استعداد علمی کو روبروئے فضلائِ نامدارِ ملّت مسیحی و برہمو سماج کے دکھلاویں اور جو جو کمالات اُن کی ذات سامی میں پوشیدہ ہیں منصہ ظہور میں لاویں.ور نہ عوام کالانعام کے سامنے دَم زنی کرنا صرف لاف گزاف ہے.اس سے زیادہ نہیں.اب میں ذیل میں مضمون موعودہ لکھتا ہوں.مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ فلسفہ وید و قرآن جس کے طلب جواب میں صاحبان فضلاء آریہ سماج یعنی پنڈت کھڑک سنگھ صاحب، سوامی پنڈت دیانند صاحب، جناب باوا نرائن سنگھ صاحب، جناب منشی کنہیا لال صاحب، جناب منشی بختاورسنگھ صاحب ایڈیٹر آریہ درپن، جناب بابو ساردا پرشاد صاحب، جناب منشی شرم پت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان، جناب منشی اندر من صاحب مخاطب ہیں بوعدہ انعام پانسو روپیہ.آریہ صاحبان کا پہلا اصول جو مدار تناسخ ہے یہ ہے کہ دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں اور سب ارواح مثل پرمیشور کے قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی پرمیشور ہیں.میں کہتا ہوں کہ یہ اصول غلط ہے اور اس پر تناسخ کی ٹپڑی جمانا بنیاد فاسد پر فاسد ہے.قرآن مجید کہ جس پر تمام تحقیق اسلام کی مبنی ہے اور جس کے دلائل کو پیش کرنا بغرض مطالبہ دلائل وید اور مقابلہ باہمی فلسفہ مندرجہ وید اور قرآن ہم وعدہ کر چکے ہیں، ضرورت خالقیت باری تعالیٰ کو دلائل قطعیہ سے ثابت کرتا ہے.چنانچہ وہ دلائل بہ تفصیل ذیل ہیں.دلیل اوّل جو برہان لمی ہے.یعنی علّت سے معلول کی طرف دلیل گئی ہے.دیکھو سورہ رعد الجزو۱۳.۱؎ یعنی خدا ہر ایک چیز کا خالق ہے کیونکہ وہ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے اور واحد بھی ایسا کہ قہار ہے یعنی سب چیزوں کو اپنے ماتحت رکھتا ہے اور ان پر غالب ہے.یہ دلیل بذریعہ شکل اوّل کے جو بدیہی الانتاج ہے اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ صغریٰ اس کا یہ ہے جو خدا واحد اور قہار ہے اور کبریٰ یہ کہ ہر ایک جو واحد اور قہار ہو وہ تمام موجودات ماسوائے اپنے کا، خالق ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ جو خدا تمام مخلوقات کا خالق ہے.اثبات قضیہ اُولیٰ یعنی صغریٰ کا اس طور سے ہے کہ واحد اور قہار ہونا خدا تعالیٰ کا اصول مسئلہ

Page 28

فریق ثانی بلکہ دنیا کا اصول ہے اور اثبات قضیہ ثانیہ یعنی مفہوم کبریٰ کا اس طرح پر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ باوصف واحد اور قہار ہونے کے وجود ماسوائے اپنے کا خالق نہ ہو بلکہ وجود تمام موجودات کا مثل اس کے قدیم سے چلا آتا ہو تو اس صورت میں وہ واحد اور قہار بھی نہیں ہو سکتا.واحد اس باعث سے نہیں ہو سکتا کہ وحدانیت کے معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ شرکت غیر سے بکلّی پاک ہو اور جب خدا تعالیٰ خالق ارواح نہ ہو تو اس سے دو طور کا شرک لازم آیا.اوّل یہ کہ سب ارواح غیر مخلوق ہوکر مثل اس کے قدیم الوجود ہوگئے.دوم یہ کہ ان کے لئے بھی مثل پروردگار کے ہستی حقیقی ماننی پڑے.جو مستفاض عن الغیر نہیں.پس اسی کا نام شرکت بالغیر ہے اور شرک بالغیر ذاتِ باری کا بہ بداہت عقل باطل ہے.کیونکہ اس سے شریک الباری پیدا ہوتا ہے اور شریک الباری ممتنع اور محال ہے.پس جو امر مستلزم محال ہو وہ بھی محال ہے اور قہار اِس باعث سے نہیں ہو سکتا کہ صفت قہاری کے یہ معنی ہیں کہ دوسروں کو اپنے ماتحت میں کر لینا اور اُن پر قابض اور متصرف ہو جانا.سو غیر مخلوق اور روحوں کو خدا اپنے ماتحت نہیں کر سکتا کیونکہ جو چیزیں اپنی ذات میں قدیم اور غیر مصنوع ہیں وہ بالضرورت اپنی ذات میں واجب الوجود ہیں.اس لئے کہ اپنے تحقیق وجود میں دوسری کسی علّت کے محتاج نہیں اور اسی کا نام واجب ہے جس کو فارسی میں خدا یعنی خود آئندہ کہتے ہیں.پس جب ارواح مثل ذات باری تعالیٰ کے خدا اور واجب الوجود ٹھہرے تو اُن کا باری تعالیٰ کے ماتحت رہنا عندالعقل محال اور ممتنع ہوا کیونکہ ایک واجب الوجود دوسرے واجب الوجود کے ماتحت نہیں ہو سکتا.اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے.لیکن حال واقعہ جو مسلم فریقین ہے، یہ ہے کہ سب ارواح خدا تعالیٰ کے ماتحت ہیں، کوئی اُس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں.پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ سب حادث اور مخلوق ہیں کوئی ان میں سے خدا اور واجب الوجود نہیں اور یہی مطلب تھا.دلیل دوم جو اِنّیہے.یعنی معلول سے علّت کی طرف دلیل لی گئی ہے دیکھو سورۃ الفرقان جزو۱۸.یعنی اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں، وہ سب کا خالق ہے اور اُس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی.بلکہ اُسی اندازہ میں

Page 29

Page 30

یعنی کیا یہ لوگ جو خالقیت خدا تعالیٰ سے منکر ہیں بغیر پیدا کرنے کسی خالق کے یوں ہی پیدا ہوگئے یا اپنے وجود کو آپ ہی پیدا کر لیا.یاخود علّت العلل ہیں جنہوں نے زمین و آسمان پیدا کیا یا ان کے پاس غیر متناہی خزانے علم اور عقل کے ہیں جن سے اُنہوں نے ان سے معلوم کیا کہ ہم قدیم الوجود ہیں یا وہ آزاد ہیں اور کسی کے قبضہ قدرت میں مقہور نہیں ہیں.یہ گمان ہو کہ جبکہ ان پر کوئی غالب اور قہار ہی نہیں تو وہ اُن کا خالق کیسے ہو.اس آیت شریف میں یہ استدلال لطیف ہے کہ ہر پنج شقوق قدامت ارواح کہ اس طرزمدلل سے بیان فرمایا ہے کہ ہر ایک شق کے بیان سے ابطال اُس شق کا فی الفور سمجھا جاتا ہے اور تفصیل اشارات لطیفہ کی یوں ہے کہ شق اوّل یعنی ایک شے معدوم کا بغیر فعل کسی فاعل کے خود بخود پیدا ہو جانا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے ترجیح بلا مرجَّح لازم آتی ہے کیونکہ عدم سے وجود کا لباس پہننا ایک مؤثر مرجَّحکو چاہتا ہے جو جانب وجود کو جانب عد م پر ترجیح دے لیکن اس جگہ کوئی مؤثر مرجَّح موجود نہیں اور بغیر وجود مرجَّح کے خود بخود ترجیح پیدا ہو جانا محال ہے.اور شق دوم یعنی اپنے وجود کا آپ ہی خالق ہونا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے تقدم شے کا اپنے نفس پر لازم آتا ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر ایک شے کے وجود کی علّتِ موجبہ اُس شے کا نفس ہے تو بالضرورت یہ اقرار اس اقرار کو مستلزم ہوگا کہ وہ سب اشیاء اپنے وجود سے پہلے موجود تھیں اور وجود سے پہلے موجود ہونا محال ہے.اور شق سوم یعنی ہر ایک شے کا مثل ذات باری کیعِلَّتُ العلل اور صانع عالم ہونا تعددّ خداؤں کو مستلزم ہے اور تعدد خداؤں کا بالاتفاق محال ہے اور نیز اس سے دَور یا تسلسل لازم آتا ہے اور وہ بھی محال ہے.اور شق چہارم یعنی محیط ہونا نفس انسان کا علوم غیر متناہی پر اس دلیل سے محال ہے کہ نفسِ انسانی باعتبار تعین تشخیص خارجی کے متناہی ہے اور متناہی میں غیر متناہی سما نہیں سکتا.اس سے تحدید غیرمحدود کی لازم آتی ہے.

Page 31

اور شق پنجم یعنی خود مختار ہونا اور کسی کے حکم کے ماتحت ہونا ممتنع الوجود ہے.کیونکہ نفسِ انسان کا بضرورت استکمالِ ذات اپنی کے ایک مُکَمِّلکا محتاج ہے اور محتاج کا خود مختار ہونا محال ہے.اس سے اجتماعِ نقیضین لازم آتا ہے.پس جبکہ بغیر ذریعہ خالق کے موجود ہونا موجودات کا بہرصورت ممتنع اور محال ہوا تو بالضرور یہی ماننا پڑا کہ تمام اشیاء موجودہ محدودہ کاایک خالق ہے جو ذات باری تعالیٰ ہے.اور شکل اس قیاس کی جو ترتیب مقدمات صغریٰ کبریٰ سے باقاعدہ منطقیہ مرتب ہوتی ہے اس طرح پرہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قضیہ فی نفسہٖ صادق ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی.کیونکہ اگر صادق نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض صادق ہوگی کہ ہر ایک شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے وجود پکڑ سکتی ہے اور یہ دوسرا قضیہ ہماری تحقیقات مندرجہ بالا میں ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ وجود تمام اشیائِ ممکنہ کا بغیر ذریعہ واجب الوجود کے محالاتِ خمسہ کو مستلزم ہے.پس اگر یہ قضیہ صحیح نہیں ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی تو یہ قضیہ صحیح ہوگا کہ وجود تمام اشیاء کو محالاتِ خمسہ لازم ہیں لیکن وجود اشیاء کا باوصف لزوم محالاتِ خمسہ کے ایک امر محال ہے.پس نتیجہ نکلا کہ کسی شے کا بغیر واجب الوجود کے موجود ہونا امرِ محال ہے.اور یہی مطلوب تھا.دلیل چہارم قرآن مجید میں بذریعہ مادۂ قیاس اقترانی قائم کی گئی ہے.جاننا چاہئے کہ قیاس حجت کی تین قسموں میں سے پہلی قسم ہے.اور قیاس اقترانی وہ قیاس ہے کہ جس میں عین نتیجہ کا یا نقیض اس کی بالفعل مذکور نہ ہو بلکہ بالقوہ پائی جائے اور اقترانی اس جہت سے کہتے ہیں کہ حدود اس کے یعنی اَصغر اور اَوسط اور اَکبر مقترن ہوتی ہیں اور بالعموم قیاس حجت کے تمام اقسام سے اعلیٰ اور افضل ہے کیونکہ اس میں کلی کے حال سے جزئیات کے حال پر دلیل پکڑی جاتی ہے کہ جو بباعث استیفائِ تام کے مفید یقین کامل کے ہے.پس وہ قیاس کہ جس کی اتنی تعریف ہے اس آیت شریفہ میں درج ہے اور ثبوت خالقیت باری تعالیٰ میں گواہی دے رہا ہے.دیکھو سورۃ الحشر جزو ۲۸..۱؎ وہ اللہ خالق ہے یعنی پیدا کنندہ ہے، وہ باری ہے یعنی روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے، وہ مصوّر ہے یعنی صورت جسمیہ اور

Page 32

صورت نوعیہ عطا کرنے والا ہے کیونکہ اس کے لئے تمام اسماء حسنہ ثابت ہیں.یعنی جمیع صفاتِ کاملہ جو باعتبار کمال قدرت کے عقل تجویز کر سکتی ہے اُس کی ذات میں جمع ہیں.لہٰذا نیست سے ہست کرنے پر بھی وہ قادر ہے.کیونکہ نیست سے ہست کرنا قدرتی کمالات سے ایک اعلیٰ کمال ہے اور ترتیب مقدمات اس قیاس کی بصورت شکل اوّل کے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ پیدا کرنا اور محض اپنی قدرت سے وجود بخشنا ایک کمال ہے اور سب کمالات ذاتِ کامل واجب الوجود کو حاصل ہیں.پس نتیجہ یہ ہوا کہ نیست سے ہست کرنے کاکمال بھی ذات باری کو حاصل ہے.ثبوت مفہوم صغریٰ کا یعنی اس بات کا کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنا ایک کمال ہے اس طرح پر ہوتا ہے کہ نقیض اس کی یعنی یہ امر کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنے میں عاجز ہونا جب تک باہر سے کوئی مادہ آ کر معاون و مددگار نہ ہو ایک بھاری نقصان ہے.کیونکہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ مادہ موجودہ سب جا بجا خرچ ہوگیا تو ساتھ ہی یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ اب خدا پیدا کرنے سے قطعاً عاجز ہے حالانکہ ایسا نقص اُس ذات غیر محدود اور قادر مطلق پر عائد کرنا گویا اس کی الوہیت سے انکار کرنا ہے.سوائے اس کے علم الہٰیات میں یہ مسئلہ بدلائل ثابت ہوچکا ہے کہ مستجمع الکمالات ہونا واجب الوجود کا تحقّقِ الوہیت کے لئے شرط ہے.یعنی یہ لازم ہے کہ کوئی مرتبہ کمال کا مراتب ممکن التصور سے جو ذہن اور خیال میں گذر سکتا ہے اس ذات کامل سے فوت نہ ہو.پس بلاشبہ عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ کمال الوہیت باری تعالیٰ کا یہی ہے کہ سب موجودات کا سلسلہ اسی کی قدرت تک منتہی ہو نہ یہ کہ صفت قدامت اور ہستی حقیقی کے بہت سے شریکوں میں بٹی ہوئی ہو.اور قطع نظر ان سب دلائل اور براہین کے ہر ایک سلیم الطبع سمجھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کام بہ نسبت ادنیٰ کام کے زیادہ تر کمال پر دلالت کرتا ہے.پس جس صورت میں تالیف اجزاء عالم کمال الٰہی میں داخل ہے تو پھر پیدا کرناعالم کا بغیر احتیاج اسباب کے جو کروڑ ہا درجہ زیادہ تر قدرت پر دلالت کرتا ہے کس قدر اعلیٰ کمال ہوگا.پس صغریٰ اس شکل کا بوجہ کامل ثابت ہوا.اور ثبوت کبریٰ کا یعنی اس قضیہ کا کہ ہر ایک کمال ذات باری کو حاصل ہے اس طرح پر ہے کہ اگر بعض کمالات ذات باری کو حاصل نہیں تو اس صورت میں یہ سوال ہوگا کہ محرومی ان کمالات سے بخوشی خاطر ہے یا بہ مجبوری ہے.اگر کہو کہ بخوشی خاطر ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی خوشی سے

Page 33

سے اپنے کمال میں نقص روا نہیں رکھتا.اور نیز جب کہ یہ صفت قدیم سے خدا کی ذات سے قطعاً مفقود ہے تو خوشی خاطر کہاں رہی؟ اور اگر کہو کہ مجبوری سے، تو وجود کسی اور قاسر کا ماننا پڑا کہ جس نے خدا کو مجبور کیا اور نفاذ اختیارات خدائی سے اس کو روکا.یا یہ فرض کرنا پڑا کہ وہ قاسر اس کا اپناہی ضعف اور ناتوانی ہے، کوئی خارجی قاسر نہیں.بہرحال وہ مجبور ٹھہرا.تو اس صورت میں وہ خدائی کے لائق نہ رہا.پس بالضرورت اس سے ثابت ہوا کہ خداوند تعالیٰ داغ مجبوری سے کہ بطلان الوہیت کو مستلزم ہے پاک اور منزہ ہے اور صفت کاملہ خالقیت اور عدم سے پیدا کرنے کی اس کو حاصل ہے اور یہی مطلب تھا.دلیل پنجم فرقان مجید میں خالقیت باری تعالیٰ پر بمادہ قیاس استثنائی قائم کی گئی ہے اور قیاس استثنائی اس قیاس کو کہتے ہیں کہ جس میں عین نتیجہ یا نقیض اس کی بالفعل موجود ہو اور دو مقدموں سے مرکب ہو یعنی ایک شرطیہ اور دوسرے وضعیّہ سے.چنانچہ آیت شریف جو اس قیاس پر متضمن ہے یہ ہے دیکھو سورۃالزُّمرجزو۲۳.ْ۱؎ یعنی وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین اندھیرے پردوں میں پیدا کرتا ہے اس حکمت کاملہ سے کہ ایک پیدائش اور قسم کی اور ایک xxx اور قسم کی بناتا ہے.یعنی ہر عضو کو صورت مختلف اور خاصیتیں اور طاقتیں الگ الگ بخشتا ہے یہاں تک کہ قالب بیجان میں جان ڈال دیتا ہے نہ اس کو اندھیرا کام کرنے سے روکتا ہے اور نہ مختلف قسموں اور خاصیتوں کے اعضا بنانا اُس پر مشکل ہوتا ہے اور نہ سلسلہ پیدائش کے ہمیشہ جاری رکھنے میں اس کو کچھ دقت اور حرج واقعہ ہوتا ہے.وہی جو ہمیشہ اس سلسلہ قدرت کو برپا اور قائم رکھتا ہے وہی تمہارا ربّ ہے.یعنی اسی قدرتِ تامہ سے اس کی ربوبیت تامہ جو عدم سے وجود اور وجود سے کمال وجود بخشنے کو کہتے ہیں ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اگر وہ ربّ الاشیاء نہ ہوتا اور اپنی ذات میں ربوبیتِ تامّہ نہ رکھتا اور صرف مثل ایک بڑھئی یا کاریگر کے اِدھر اُدھر سے لے کر گزارہ کرتا تو اس کو قدرت تام ہرگز حاصل نہ ہوتی اور ہمیشہ اور ہر وقت کامیاب نہ ہو سکتا.بلکہ کبھی نہ کبھی ضرور ٹوٹ آ جاتی اور پیدا کرنے سے عاجز رہ جاتا.خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ جس شخص کا فعل ربوبیتِ تامّہ سے نہ ہو یعنی از خود پیدا کنندہ نہ

Page 34

ہو، اس کو قدرتِ تامّہ کبھی حاصل نہیں ہو سکتی.لیکن خدا کو قدرتِ تامّہ حاصل ہے کیونکہ قسم قسم کی پیدائش بنانا اور ایک بعد دوسرے کے بلاتخالف ظہور میں لانا اور کام کو ہمیشہ برابر چلانا قدرتِ تامّہ کی کامل نشانی ہے.پس اس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ کو ربوبیتِ تامّہ حاصل ہے اور درحقیقت وہ ربّ الاشیاء ہے نہ صرف بڑھئی اور معمار اشیاء کا، ورنہ ممکن نہ تھا کہ کارخانہ دنیا کا ہمیشہ بلاحرج چلتا رہتا بلکہ دنیا اور اس کے کارخانہ کا کبھی کا خاتمہ ہو جاتا کیونکہ جس کا فعل اختیارِ تام سے نہیں وہ ہمیشہ اور ہروقت اور ہر تعداد پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا.اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں درج ہے بقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے کہ جس شخص کا فعل کسی وجود کے پیدا کرنے میں بطور قدرتِ تامّہ ضروری ہو اس کے لئے صفت ربوبیت تامّہ کی یعنی عدم سے ہست کرنا بھی ضروری ہے لیکن خدا کا فعل مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہے.پس نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے لئے صفت ربوبیت تامّہ کی بھی ضروری ہے.ثبوت صغریٰ کا یعنی اس بات کا کہ جس صانع کے لئے قدرت تامہ ضروری ہے اس کے لئے صفت ربوبیت تامّہ کی بھی ضروری ہے اس طرح پر کہ عقل اس بات کی ضرورت کو واجب ٹھہراتی ہے کہ جب کوئی ایسا صانع کہ جس کی نسبت ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ اس کو اپنی کسی صنعت کے بنانے میں حرج واقعہ نہیں ہوتا کسی چیز کا بنانا شروع کرے تو سب اسباب تکمیل صنعت کے اُس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور ہر وقت اور ہر تعداد تک میسر کرنا ان چیزوں کا جو وجود مصنوع کے لئے ضروری ہیں اس کے اختیار میں ہونا چاہئے.اور ایسا اختیار تام بجز اس صورت کے اور کسی صورت میں مکمل نہیں کہ صانع اس مصنوع کا اس کے اجزا پیدا کرنے پر قادر ہو کیونکہ ہر وقت اور ہر تعداد تک اُن چیزوں کا میسر ہوجانا کہ جن کا موجود کرنا صانع کے اختیار تام میں نہیں عندالعقل ممکن التخلّف ہے اور عدمِ تخلّف پر کوئی برہان فلسفی قائم نہیں ہوتی.اور اگر ہوسکتی ہے تو کوئی صاحب پیش کرے.وجہ اس کی ظاہر ہے کہ مفہوم اس عبارت کا کہ فلاں امر کا کرنا زید کے اختیار تام میں نہیں، اس عبارت کے مفہوم سے مساوی ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کام زید سے نہ ہو سکے.پس ثابت ہوا کہ صانع تام کا بجز اس کے ہرگز کام نہیں چل سکتا کہ جب تک اس کی قدرت بھی تام نہ ہو.اسی واسطے کوئی مخلوق اہلِ حرفہ میں سے اپنے حرفہ میں صانع تام ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ ُکل اہلِ صنائع کا دستور ہے کہ

Page 35

جب کوئی بار بار اُن کی دوکان پر جا کر ان کو دق کرے کہ فلاں چیز ابھی مجھے بنا دو تو آخر اُس کے تقاضے سے تنگ آ کر اکثر بول اُٹھتے ہیں کہ میاں میں کچھ خدا نہیں ہوں کہ صرف حکم سے کام کر دوں.فلاں فلاں چیز ملے گی تو پھر بنا دوں گا.غرض سب جانتے ہیں کہ صانع تام کے لئے قدرت تام اور ربوبیت شرط ہے.یہ بات نہیں کہ جب تک زید نہ مرے بکر کے گھر لڑکا پیدا نہ ہو.یا جب تک خالد فوت نہ ہو ولید کے قالب میں جو ابھی پیٹ میں ہے جان نہ پڑ سکے.پس بالضرورت صغریٰ ثابت ہوا‘‘.اور کبریٰ شکل کا یعنی یہ کہ خدا مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرتِ تامّہ کے ضروری ہے.خود ثبوت صغریٰ سے ثابت ہوتا ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ میں قدرتِ ضروریہ تامّہ نہ ہو تو پھر قدرت اس کی بعض اتفاقی امور کے حصول پر موقوف ہوگی اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اتفاقی امور وقت پر خدا تعالیٰ کو میسر نہ ہو سکیں کیونکہ وہ اتفاقی ہیں ضروری نہیں.حالانکہ تعلق پکڑنا روح کا جنین کے جسم سے بر وقت تیاری جسم اس کے لازم ملزوم ہے.پس ثابت ہوا کہ فعل خدا تعالیٰ کا بطور قدرتِ تامّہ کے ضروری ہے اور نیز اس دلیل سے ضرورت قدرتِ تامہ کی خدا تعالیٰ کے لئے واجب ٹھہرتی ہے کہ بموجب اصول متقررہ فلسفہ کے ہم کو اختیار ہے کہ یہ فرض کریں کہ مثلاً ایک مدت تک تمام ارواح موجودہ ابدان متناسبہ اپنے سے متعلق رہیں.پس جب ہم نے یہ امر فرض کیا تو یہ فرض ہمارا اس دوسرے فرض کو بھی مستلزم ہوگا کہ اب تا انقضائے اس مدت کے ان جنینوں میں جو رِحموں میں تیار ہوئے ہیں کوئی روح داخل نہیں ہوگا.حالانکہ جنینوں کا بغیر تعلق روح کے معطل پڑے رہنا بہ بداہت عقل باطل ہے.پس جو امر مستلزم باطل ہے وہ بھی باطل.پس ثبوت متقدمین سے یہ نتیجہ ثابت ہو گیا کہ خدائے تعالیٰ کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی ضروری ہے اور یہی مطلب تھا.دلیل ششم قرآن مجید میں بمادہ قیاس مرکب قائم کی گئی اور قیاس مرکب کی یہ تعریف ہے کہ ایسے مقدمات سے مؤلف ہو کر اُن سے ایسا نتیجہ نکلے کہ اگرچہ وہ نتیجہ خود بذاتہٖ مطلب کو ثابت نہ کرتا ہو لیکن مطلب بذریعہ اس کے اس طور سے ثابت ہو کہ اُسی نتیجہ کو کسی اور مقدمہ کے ساتھ ملا کر ایک دوسرا قیاس بنایا جائے.پھر خواہ نتیجہ مطلوب اسی قیاس دوم کے ذریعہ سے نکل آوے یا اور کسی قدر اسی طور سے قیاسات بنا کر مطلوب حاصل ہو.دونوں صورتوں میں اس قیاس کو قیاس مرکب کہتے ہیں

Page 36

اور آیت شریف جو اس قیاس پر متضمن ہے، یہ ہے دیکھو سورۃ البقرۃ الجزو۳..۱؎ یعنی خدا اپنی ذات میں سب مخلوقات کے معبود ہونے کا ہمیشہ حق رکھتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں.اس دلیل روشن سے کہ وہ زندہ ازلی ابدی ہے اور سب چیزوں کا وہی قیوم ہے یعنی قیام اور بقا ہر چیز کا اسی کے بقا اور قیام سے ہے اور وہی ہر چیز کو ہر دم تھامے ہوئے ہے، نہ اس پر اونگ طاری ہوتی ہے، نہ نیند اُسے پکڑتی ہے.یعنی حفاظت مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا.پس جب کہ ہر ایک چیز کی قائمی اسی سے ہے.پس ثابت ہے کہ ہر ایک مخلوقات آسمانوں کا اور مخلوقات زمین کا وہی خالق ہے اور وہی مالک.اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں وارد ہے بقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے (جز اوّل قیاس مرکب کی) (صغریٰ) خدا کو بلا شرکتہ الغیر تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے (کبریٰ) اور جس کو تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہوتا ہے (نتیجہ) خدا زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے.(جز ثانی قیاس مرکب کی کہ جس میں نتیجہ قیاس اوّل کا صغریٰ قیاس کا بنایا گیا ہے (صغریٰ) (خداوند ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے) (کبریٰ) اور جو زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہو وہ تمام اشیاء کا خالق ہوتا ہے) (نتیجہ)(خدا تمام چیزوں کا خالق ہے) صغریٰ جزو اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ خدا کا بلاشرکت غیرے تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے باقرار فریق ثانی ثابت ہے.پس حاجت اقامت دلیل کی نہیں اور کبریٰ جز اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام اشیاء کا قیوم ہوتا ہے.اس طرح پر ثابت ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ ازلی ابدی زندہ نہیں ہے تو یہ فرض کرنا پڑا کہ کسی وقت پیدا ہو یا آئندہ کسی وقت باقی نہیں رہے گا.دونوں صورتوں میں ازلی ابدی معبود ہونا اس کا باطل ہوتا ہے کیونکہ جب اس کا وجود ہی نہ رہا تو پھر عبادت اس کی نہیں ہو سکتی کیونکہ عبادت معدوم کی صحیح نہیں ہے اور جب وہ بوجہ معدوم ہونے کے معبود ازلی ابدی نہ رہا تو اس سے یہ قضیہ کاذب ہوا کہ خدا کو معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے.حالانکہ ابھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ قضیہ صادق ہے.پس ماننا پڑا کہ جس کو

Page 37

تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی ہوتا ہے.اسی طرح اگر خدا تمام چیزوں کا قیوم نہیں ہے یعنی حیات اور بقا دوسروں کی اس کی حیات اور بقا پر موقوف نہیں تو اس صورت میں وجود اس کا بقاء مخلوقات کے واسطے کچھ شرط نہ ہوگا.بلکہ تاثیر اس کی بطور مؤثر بالقسر ہوگی.نہ بطور علّت حقیقۃ حافظ الاشیاء کے کیونکہ مؤثر بالقسر اسے کہتے ہیں کہ جس کا وجود اور بقاء اس کے متاثر کے بقاء کے واسطے شرط نہ ہو جیسے زید نے مثلاً ایک پتھر چلایا اور اُسی وقت پتھر چلاتے ہی مر گیا تو بیشک اسی پتھر کو جو ابھی اس کے ہاتھ سے چھٹا ہے بعد موت زید کے بھی حرکت رہے گی.پس اسی طرح اگر بقول آریہ سماج والوں کے خدا تعالیٰ کومحض مؤثر بالقسر قرار دیا جائے تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ اگر پرمیشور کی موت بھی فرض کریں تو بھی ارواح اور ذرات کا کچھ بھی حرج نہ ہو.کیونکہ بقول پنڈت دیانند صاحب کے کہ جس کو اُنہوں نے ستیارتھ پرکاش میں درج فرما کر توحید کا ستیاناس کیا ہے اور نیز بقول پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے تقلید پنڈت دیانند صاحب کی اختیار کی ہے.وید میں یہ لکھا ہے کہ سب ارواح اپنی بقا اور حیات میں بالکل پرمیشور سے بے غرض ہیں اور جیسے بڑھئی کو چوکی سے اور کمہار کو گھڑے سے نسبت ہوتی ہے وہی پرمیشور کو مخلوقات سے نسبت ہے.یعنی صرف جوڑنے جاڑنے سے ٹنڈا پرمیشر گریکا چلاتا ہے اور قیوم چیزوں کا نہیں ہے.لیکن ہر ایک دانا جانتا ہے کہ ایسا ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ پرمیشور کا وجود بھی مثل کمہاروں اور نجاروں کے وجود کے بقائِ اشیاء کے لئے کچھ شرط نہ ہو بلکہ جیسے بعد موت کمہاروں اور بڑھئیوں کے گھڑے اور چوکیاں اسی طرح سے بنے رہتے ہیں اسی طرح بصورت فوت ہونے پرمیشور کے بھی اشیاء موجودہ میں کچھ بھی خلل واقع نہ ہو سکے.پس ثابت ہوا کہ یہ خیال پنڈت صاحب کا جو پرمیشور کو صانع ہونے میں کمہار اور بڑھئی سے مشابہت ہے قیاس مع الفارق ہے.کاش اگر وہ خدا کو قیوم اشیاء کا مانتے اور نجاروں سا نہ جانتے تو ان کو یہ تو کہنا نہ پڑتا کہ پرمیشور کی موت فرض کرنے سے روحوں کا کچھ بھی نقصان نہیں.لیکن شاید وید میں بھی لکھا ہوگا ورنہ میں کیونکر کہوں کہ پنڈت صاحب کو قیومت پروردگار جو اَجلٰی بدیہیات ہے، (پر) کچھ شک ہے اور اگر پنڈت صاحب پرمیشور کو قیوم سب چیزوں کا مانتے ہیں تو پھر اس کو کمہاروں اور معماروں سے نسبت دینا کس قسم کی بدّیا ہے اور وید میں اس پر دلیل کیا لکھی ہے.دیکھو فرقان مجید میں

Page 38

قیومی پروردگار کی کئی مقام میں ثابت کی ہے جیسا کہ مکرر اس دوسری آیت میں بھی فرمایا ہے.سورۃ النور ۱؎ یعنی خدا آسمان و زمین کا نور ہے.اسی سے طبقہ سفلی اور علوی میں حیات اور بقا کی روشنی ہے.پس اس ہماری تحقیق سے جز اوّل قیاس مرکب کی ثابت ہوئی اور صغریٰ جز ثانی قیاس مرکب کا وہی ہے جو جز اوّل قیاس مرکب کا نتیجہ ہے اور جز اوّل قیاس مرکب کی ابھی ثابت ہوچکی ہے.پس نتیجہ بھی ثابت ہو گیا اور کبریٰ جزو ثانی کا جو زندہ ازلی ابدی اور قیوم سب چیزوں کا ہو وہ خالق ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ قیوم اُسے کہتے ہیں کہ جس کا بقا اور حیات دوسری چیزوں کے بقا اور حیات اور اُن کے کل مایحتاج کے حصول کا شرط ہو اور شرط کے یہ معنی ہیں کہ اگر اُس کا عدم فرض کیا جائے تو ساتھ ہی مشروط کا عدم فرض کرنا پڑے.جیسے کہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو.پس یہ قول کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو بعینہٖ اس قول کے مساوی ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہوتا تو کسی چیز کا وجود نہ ہوتا.پس اس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ کا وجود دوسری چیزوں کے وجود کا علّت ہے اور خالقیت کے بجز اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ وجود خالق کا وجود مخلوق کے لئے علّت ہو.پس ثابت ہو گیا کہ خدا خالق ہے اور یہی مطلب تھا.٭ الراقم مرزا غلام احمد.رئیس قادیان

Page 39

مکتوب نمبر ۲ سوامی دیانند صاحب کے نام کھلا خط بصورت اعلان سوامی دیانند صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے، جو ہم نے روحوں کا بے اَنت ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلہ دنیا کا ثابت کیا ہے، معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگر ارواح حقیقت میں بے انت نہیں لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں تو پھر بوقت ضرورت مکتی خانہ سے باہر نکالے جاتے ہیں.اب سوامی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہئے.چنانچہ اس بارے میں سوامی صاحب کا خط بھی آیا.اس خط میں بحث کا شوق ظاہرکرتے ہیں اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بحث بالمواجہ ہم کو بسرو چشم منظور ہے.کاش سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں.مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام اور ثالث بالخیر اور انعقاد جلسہ کی تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے مشتہر کر دیں لیکن اس جلسہ میں شرط یہ ہے کہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ کہ تین صاحب ان میں سے ممبران برہم سماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہونگے قرار پاوے گا.اوّل تقریر کرنے کا ہمارا حق ہوگا کیونکہ ہم معترض ہیں.پھر پنڈت صاحب برعایت شرائط جو چاہیں گے جواب دیں گے.پھر ان کا جواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہوگا اور بحث ختم ہو جائے گی.ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے.ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایسی بحث اور اعتراضوں کا جواب نہیں دیتے جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے.اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو پس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے موافقین کے آنسو پونچھتے ہیں اور مکت پایوں کی واپسی میں جو مفاسد ہیں مضمون مشتملہ متعلقہ اِس اعلان میں درج ہیں.ناظرین پڑھیں اور انصاف فرمائیں.

Page 40

مکتوب نمبر ۳ دیوسماج کے بانی مبانی پنڈت شِونرائن صاحب سیتانند اَگنی ہوتری سے خط و کتابت الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردّد اور ّتفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو، محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بِلا ّتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اُٹھاتی ہے.غرض یہ ایک منجانب اللہ اعلام لذیذ ہے کہ جس کو نفث فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں.دلیل ّلمی نمبر اوّل.الہام کی ضرورت کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں.یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے، وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگار میں چھوڑ گئے.پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقّہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے.کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا کہ جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو.پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاس کا کہ جنہوں نے صرف قانون قدرت میں فکر اور غور کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالَم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو، خود عادتاً غیر ممکن ہے.

Page 41

اب بعد اس کے جس امر میں آپ بحث کر سکتے ہیں اور جس بحث کا آپ کو حق پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ہمارے اس استقرا کے کوئی نظیر دے کر ہمارے اس استقرا کو توڑ دیں یعنی ازروئے وضع مستقیم مناظرہ کے جواب آپ کا صرف اس امر میں محصور ہے کہ اگر آپ کی نظر میں ہمارا استقرا غیر صحیح ہے تو آپ بغرض ابطال ہمارے اس استقرا کے کوئی ایسا فرد کامل ارباب نظر اور فکر اور حدس میں سے پیش کریں کہ جس کی تمام راؤں اور فیصلوں اور ججمنٹوں۱؎ میں کوئی نقص نکالنا ہرگز ممکن نہ ہو اور زبان اور قلم اُس کی سہو و خطا سے بالکل معصوم ہو.تا ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ درحقیقت ایسا ہی معصوم ہے یا کیا حال ہے؟ اگر معصوم نکلے گا تو بیشک آپ سچے اور ہم جھوٹے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت سے واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکر آفات شک و شُبہ سے نجات پائیں.لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقّہ کے جاننے اور اَخلاقِ صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہبی رکھیں تا کہ نفوسِ بشریہ، کہ سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں.راقم آپ کا نیاز مند ۲۱؍ مئی ۱۸۷۹ء غلام احمد عفی عنہ جواب از پنڈت شِونرائن مکرمی جناب مرزا صاحب! عنایت نامہ آپ کا بمع مضمون پہنچا.آپ نے الہام کی تعریف اور اس کی ضرورت کے بارے میں جو کچھ لکھاہے، افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کر سکتا ہوں.میرے اتفاق نہ کرنے کی جو جو وجوہات ہیں اُنہیں ذیل میں رقم کرتا ہوں.

Page 42

اوّل: آپ کی اس دلیل میں (جس کو آپ لمی قرار دیتے ہیں) علاوہ اس خیال کے کہ وہ الہام کے لئے جس کو آپ معلول تصور کرتے ہیں علّت ہوسکتی ہے یا نہیں، ایک صریحاً غلطی ایسی پائی جاتی ہے کہ وہ واقعات کے خلاف ہے.مثلاً آپ ارقام فرماتے ہیں کہ ’’کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں اور یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرے کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صد ہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگار چھوڑ گئے‘‘.اس سے کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ انسان نے اپنی تحقیقات میں ہزاروں برس سے جو کچھ آج تک مغز زنی کی ہے اور ہاتھ پیر مارے ہیں، اُس میں بجز باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتوں کے کوئی صحیح خیال اور کوئی راست اور حق امر باقی نہیں چھوڑا گیا ہے؟ یا اب جو محقق نیچر کی تحقیقات میں مصروف ہیں وہ صرف ’’نادانی کے ذخیرہ کو زیادہ کرتے ہیں اور حق امر پر پہنچنے سے قطعی مجبور ہیں؟ اگر آپ ان سوالوں کا جواب نفی میں نہ دیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ سینکڑوں علوم اور اُن کے متعلق ہزاروں باتوں کی راست اور صحیح معلومات سے دنیا کی ہر ایک قوم کم و بیش مستفید ہو رہی ہے، صریحاً انکار کرتے ہیں.مگر میں یقین کرتا ہوں کہ شاید آپ کا یہ مطلب نہ ہوگا اور اس بیان سے غالباً آپ کی یہ مراد ہوگی کہ انسان سے اپنی تحقیقات اور معلومات میں سہو اور خطا کا ہونا ممکن ہے.مگر یہ نہیں کہ نیچر نے انسان کو فی ذاتہٖ ایسا بنایا ہے کہ جس سے وہ کوئی معلومات صحت کے ساتھ حاصل ہی نہیں کر سکتا ہے.کیونکہ ایسے اشخاص آپ نے خود دیکھے اور سنے ہونگے اور نیز تاریخ میں ایسے لوگوں کا ذکر پڑھا ہوگا کہ جو اپنی ’’تمام نظر اور فکر میں‘‘ اگرچہ آپ کے نزدیک سہو اور خطا سے معصوم نہ ہوں مگر بہت سی باتوں میں اُن کی معلومات قطعی راست اور درست ثابت ہوئی ہے اور صدہا امور کی تحقیقات جو پچھلے اور حال کے زمانہ میں وقوع میں آئی ہے اس میں غلطی کا نکلنا قطعی غیر ممکن ہے اور اس بیان کی تصدیق آپ علوم طبعی ریاضی اور اخلاقی وغیرہ کے متعلق صدہا معلومات میں بخوبی کر سکتے ہیں.کُل معلومات جو انسان آج تک حاصل کر چکا ہے اور نیز آئندہ حاصل کرے گا، اس کے حصول کا کُل سامان ہر فرد بشر میں نیچر نے مہیا کر دیا ہے.اب اس سامان کو انسان فرداً فرداً اور نیز بہ ہئیت مجموعی جس قدر اپنی محنت اور جانفشانی سے روز بروز زیادہ سے زیادہ نفیس اور طاقتور بنانے کے ساتھ ترقی کی

Page 43

صورت میں لاتا جاتا ہے اور جس قدر اس کے مناسب استعمال کی تمیز پیدا کرتا جاتا ہے اسی قدر وہ نیچرکی تحقیقات میں زیادہ سے زیادہ تر صحت کے ساتھ اپنی معلومات کے حصول میں کامیاب ہوتا جاتا ہے.اس مختصر بیان سے میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس بات کے تسلیم کرنے سے انکار نہ کریں گے کہ انسان سے اپنی تحقیقات میں اگرچہ غلطی کرناممکنات سے ہے.مگر یہ نہیں کہ ہر ایک معلومات میں اس کے غلطی موجود ہے بلکہ بہت کچھ معلومات اس کی صحیح ہیں اور ظاہر ہے کہ جن معلومات میں اس کی غلطی موجود نہیں ہے وہ جس قاعدہ یا طریق کے برتاؤ کے ساتھ ظہور میں آئی ہے وہ بھی غلطی سے ّمبرا تھا.کیونکہ غلط قاعدہ کے عملدرآمد سے کبھی کوئی صحیح نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ہے.پس جو معلومات اس کی صحیح ہے اس میں اسے حقیقت کے حصول کے لئے جو سامان نیچر نے اُسے عطا کیا تھا اس کا صحیح اور مناسب استعمال ظہور میں آیا مگر جہاں اس نے اپنی معلومات میں غلطی کھائی ہے وہاں اس کی مناسب نگہداشت نہیں ہوئی.گویا ایک شخص جس کے پاس دُور بین موجود ہے اور اُس کی نلی بھی وہ کھولنا جانتا ہے مگر ٹھیک فوکس نہ پیدا کرنے کے باعث جس طرح مقابل کی شَے کو یا تو دیکھنے سے محروم رہتا ہے یا بشرط دیکھنے کے صاف اور اصل حالت میں نہیں دیکھ سکتا ہے.ایک شخص اسی طرح اپنی تحقیقات میں حسبِ مذکورہ بالا نیچری سامان کی دُوربین کھولتے وقت مناسب درجہ کے فوکس میں قائم کرنے سے رہ جاتا ہے تو وہ یا تو حقیقت کی تصویر کے دیکھنے سے ہی محروم ہو جاتا ہے یا وہ تصویر جیسی ہے ویسی نہیں دیکھ٭ سکتا مگر جو شخص برخلاف اس شخص کے صحیح فوکس کے پیدا کرنے کے قابل ہوتا ہے وہ پہلے شخص کی غلطی کو دریافت کر لیتا ہے اور حق الامر کو پہنچ جاتا ہے.اب اس بیان سے (کہ جو نہایت سیدھا اور صاف ہے) یہ بخوبی ثابت ہے کہ اوّل تو انسان بعض صورتوں میں اپنے نیچری سامان کے مناسب استعمال کے ساتھ پہلے ہی حق امر کو دریافت کرلیتا دنیا میں جیسے ہاتھ پیر اور صحت بدنی رکھتے ہوئے بھی ہزاروں اور لاکھوں اشخاص بِلامشقت سستی اور کاہلی کے ساتھ ہی شکم پُری کرنے کو مستعد رہتے ہیں ویسے ہی معلومات کے متعلق بھی لاکھوں اور کروڑوں اشخاص باوجود تحقیقات کیلئے نیچری سامان سے مشرف ہونے کے پھر اپنے دماغ کو پریشان کرنا نہیں چاہتے ہیں اور جن باتوں کی اصلیت کو اپنے تھوڑے سے فکر سے بھی معلوم کر سکتے ہیں ان کے لئے بھی خود تکلیف اُٹھانا نہیں چاہتے ہیں اور محض اندھوں کی طرح ایک ہی تقلید کے ساتھ مطلب برآری کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج تک ایک کی غلطی لاکھوں کروڑوں روحوں پر مؤثر دیکھی جاتی ہے.

Page 44

ہے.دوم بشرط مناسب استعمال میں نہ لانے یا نہ لا سکنے کی اگر غلطی کھاتاہے تو کوئی دوسرا جسے اس کے ٹھیک استعمال کا موقع مل جاتا ہے وہ اس غلطی کو رفع کر دیتا ہے چنانچہ انسانی معلومات کی کل تاریخ اس قسم کے دلچسپ سلسلہ سے پُر ہے اور اس سلسلہ میں جو ہزاروں برس کاتجربہ ظاہر کرتا ہے کسی محقق کے لئے اس نتیجہ پر پہنچنا بہت دشوار نہیں رہتا ہے کہ انسان فی ذاتہٖ تمام ضروری اعضاء جسمانی اور قواعد دماغی و اخلاقی سے مشرف ہو کر اس دنیا میں (جو اس کے تمام نیچر کے حسب حال اور باہمی ربط و علاقہ کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے) آپ اپنا راستہ ڈھونڈھے اور خو داپنی جسمانی روحانی بھلائی اور بہتری کے وسائل کا علم حاصل کرے اور فائدہ اُٹھائے.پس اس قانون قدرت کو پس انداز کر کے یا حکیم حقیقی کی دانائی کے خلاف اگر ہم ایک فرضی دلیل قائم کریں کہ چونکہ انسان کو اپنے چاروں طرف دیکھنا ضروریات سے ہے اور دیکھنے کیلئے جو دو آنکھیں اس کے چہرے پر قائم کی گئی ہیں.وہ جس وقت سامنے کی اشیاء کے دیکھنے میں مصروف ہوتی ہیں اُس وقت پیچھے سے اُس کے اگر اُس کی ہلاکت کا سامان کیا گیا ہوتو وہ بشرط آگے کی دو ہی آنکھوں کے ہونے کے ضرور ہے کہ پیچھے کے حال کے دیکھنے سے محروم رہے.پس ممکن نہ تھا کہ خدا جو رحیم اور کریم اور حکیم ہے وہ اسے سر کے پیچھے کی طرف بھی دو آنکھیں ایسی عطا نہ کرتا کہ جس سے وہ مذکورۂ بالا خطرہ سے نجات پانے کی تدبیر کر سکتا.پس جبکہ سر کے پیچھے کی طرف دو آنکھوںکے ہونے کی ضرورت ہے لہٰذا لازم ہوا کہ خدا اپنے بندوں کی مزید حفاظت کی غرض سے ایسی آنکھیں عطا کرے یا اسی قسم کی ایک اور دلیل ہم یہ قائم کریں کہ چونکہ انسان کی عقل خطا کرتی ہے اور اسے یہ علم بھی آج تک حاصل نہیں ہے کہ بمبئی سے جس جہاز پر وہ ولایت کو روانہ ہوتا ہے اس کی روانگی کی تاریخ سے ہفتہ یا ڈیڑھ ہفتہ بعد جو خطرناک طوفان سمندر میں آنے والا ہے اور جس میں اس کا جہاز غرق ہونے کو ہے اسے پہلے سے جان سکے.پس جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے اپنے تئیں طوفان کے مہلک اور خوفناک اثر سے محفوظ کر سکتا ہے اور وہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے نج کے پیغام کے فوراً اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر اپنی جان کو ہلاکت کے طوفان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.پس مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً وہ ہم کو

Page 45

طوفان کے آنے کی اس قدر عرصہ پہلے سے خبر دیتا رہے کہ جس سے ہمیں اپنے اور اپنے جہاز کے بچانے کا موقع مل سکے.اب ظاہر ہے کہ جو لوگ حقیقت کے سمجھنے کا کافی ملکہ رکھتے ہیں اور منطق کے اصول کا بخوبی علم رکھتے ہیں وہ ہماری ان دونوں دلیلوں کو قطعی لنگڑی اور بے بنیاد خیال کریں گے کیوں؟ اس لئے کہ اوّل دونوں دلیلوں میں ’’ضرورت‘‘ کا جو کچھ قیاس قائم کیا گیا ہے جسے ہم نے اپنے نتیجہ کی علّت قرار دیا ہے وہ محض ہمارا ایک وہمی اور فرضی قیاس ہے، قوانین نیچر سے اُس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ ہم اُلٹا قوانین نیچر کو پس انداز کر کے خدا کی خود دانائی پر حاشیہ چڑھاتے ہیں.دوم چونکہ ہماری علّت فرضی ہوتی ہے پس اس سے جو نتیجہ ہم قائم کرتے ہیں وہ بھی فرضی ہوتا ہے اور واقعات نیچری خود اُس کی تردید کرتے ہیں.چنانچہ جیسی پہلی مثال کے متعلق ہمارا نتیجہ واقعات کے خلاف ہے اور درحقیقت انسان کے سر کے پیچھے دو آنکھیں اور زائد قائم نہیں کی گئیں ہیں.دوسری مثال میں بھی ویسے ہی باوجود اس کے کہ سینکڑوں جہاز آج تک سمندر میں غرق ہو چکے ہیں اور ہزاروں اور لاکھوں جانیں اُن کے ساتھ ضائع ہو چکی ہیں مگر آج تک خدا نے کسی جہاز والے کے پاس کوئی نج کا پیغام اس قسم کا نہیں بھیجا جس کا دوسری مثال میں ذکر ہوا ہے.پس دونوں صورتوں میں ہماری ’’ضرورت‘‘ کا قیاس خدا کی دانائی یا قوانین قدرت کے موافق نہ تھا اس لئے اس کا نتیجہ بھی خدا کی حکمت کے خلاف ہونے کے باعث نیچر کے واقعات سے تصدیق نہ پا سکا اور محض فرضی ثابت ہوا.اب صاف ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے الہام کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ بجنسہٖ ہماری دونوں دلیلوں کے متشابہ ہے.کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی٭ سے بچ سکتے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو اور خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کس طرح آفات شک و شبہ سے نجات پائیں.لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضائے حکمت اور رحمت اوربندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقّہ کے جاننے اور اخلاقِ صحیحہ کے ٭ کل حالتوں میں انسان ’’اپنے علم اور واقفیت‘‘ میں غلطی نہیں کرتا.ایڈیٹر برادر ہند

Page 46

معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پاویں‘‘.پس جس صورت میں آپ کی اس دلیل میں بھی ’’ضرورت‘‘ کا قیاس مثل ہماری دونوں دلیلوں کے ہے اور قوانین نیچر اس کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ایسا قیاس بجز فرضی اور وہمی ہونے کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا.کیونکہ ہم خود تو بات بات میں ایسی سینکڑوں ضرورتیں قائم کر سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خدا کی حکمت بھی ہماری فرضی ضرورتوں کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ محققوں کے نزدیک وہی ضرورت ’’ضرورت‘‘ ہو سکتی ہے جس کو نیچر یا خدا کی حکمت نے قائم کیا ہو.جیسے ہماری بھوک کے دفعیہ کیلئے غذا اور سانس لینے کیلئے ہوا کی ضرورت ہماری فرضی نہیں بلکہ نیچری ہے اور اسی لئے اُس کا ذخیرہ بھی انسان کی زندگی کیلئے اُس نے فراہم کر دیا ہے.مگر جو ضرورت کہ نیچر کے نزدیک قابل تسلیم نہیں ہے اور اُسے خود ہم اپنے وہم سے قائم کرتے ہیں.وہ ایک طرف جس طور پر محض فرضی ہوتی ہے دوسری طرف اُسی طور پر اُسے علت ٹھہرا کر جو نتیجہ قائم کرتے ہیں وہ بھی فرضی ہونے کے باعث واقعات کے ساتھ مطابق نہیں ہوتا ہے اور یہ صورت ہم نے اپنی مثالوں میں بخوبی ظاہر کر دی ہے.دوم اس بات کی نسبت کہ آپ نے الہام کی تعریف میں جوکچھ عبارت رقم کی ہے اُس کا آپ کی دلیل سے کہاں تک ربط ہے.اسی قدر لکھنا کافی ہے کہ جس حالت میں آپ نے اپنے الہام کی کل بنیاد جس ’’ضرورت‘‘ پر قائم کی ہے درحقیقت وہ ضرورت جبکہ خود بے بنیاد ہے یعنی نیچر کے نزدیک وہ ضرورت قابل تسلیم نہیں ہے تو پھر اگر یہ بھی مانا جاوے کہ جو عمارت آپ نے کسی اپنی بنیاد پر کھڑی کی ہے وہ اچھے مصالحہ کے ساتھ بھی تعمیر کی ہے تا ہم وہ بے بنیاد ہونے کے باعث بجزوہم کے اور کہیں نہیں ٹھہر سکتی اور جیسے اس کی بنیاد فرضی ہے ویسے ہی وہ بھی آخر کار فرضی رہتی ہے.الہام کے اس غلط عقیدہ کے باعث دنیا میں لوگوں کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اور جس قدر خرابیاں برپا ہوئی ہیں اور انسانی ترقی کو جس قدر روک پہنچی ہے اس کے ذکر کرنے کو اگرچہ میرا دل چاہتا ہے مگر چونکہ امر متناقضہ سے اُس کا اس وقت کچھ علاقہ نہیں ہے لہٰذا اس کابیان یہاں پر ملتوی رکھتا ہوں.آپ کا نیاز مند لاہور.۳؍ جون ۱۸۷۹ء شیونرائن.اگنی ہوتری

Page 47

مکتوب نمبر۴ مکرمی جناب پنڈت صاحب آپ کا عنایت نامہ عین انتظار کے وقت میں پہنچا.کمال افسوس سے لکھتا ہوں جو آپ کوتکلیف بھی ہوئی اور مجھ کوجواب بھی صحیح صحیح نہ ملا.میرے سوال کا تو یہ ماحصل تھا کہ جبکہ ہماری نجات (کہ جس کے وسائل کا تلاش کرنا آپ کے نزدیک بھی ضروری ہے) عقائد حقّہ اور اخلاق صحیحہ اور اعمال حسنہ کے دریافت کرنے پر موقوف ہے کہ جن میں امور باطلہ کی ہرگز آمیزش نہ ہو تو اس صورت میں ہم بجز اس کے کہ ہمارے علوم دینیہ اور معارف شرعیہ ایسے طریق محفوظ سے لئے گئے ہوں جو دخلِ مفاسد اور منکرات سے بکلّی معصوم ہو اور کسی طریق سے نجات نہیں پا سکتے.اس کے جواب میں اگر آپ وضع استقامت پر چلتے اور دابِ مناظرہ کو مرعی رکھتے تو از روئے حصر عقلی کے جواب آپ کا (در حالت انکار) صرف تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں محصور ہوتا.اوّل یہ کہ آپ سرے سے نجات کا ہی انکار کرتے اور اس کے وسائل کو مفقود الوجود اور ممتنع الحصول ٹھہراتے اور اس کی ضرورت کو چار آنکھوں کی ضرورت کی طرح صرف ایک طمع خام سمجھتے.دوم یہ کہ نجات کے قائل ہوتے لیکن اُس کے حصول کے لئے عقائد اور اعمال کا ہر ایک کذب اور فساد سے پاک ہونا ضروری نہ جانتے بلکہ محض باطل یاامور مخلوطہ حق اور باطل کو بھی موجب نجات کا قرار دیتے.سوم یہ کہ حصول نجات کو صرف حق محض سے ہی (جو امتزاجِ باطل سے بکلّی منزہ ہو) مشروط رکھتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ طریقہ مجوزہ عقل کا حق محض ہی ہے اور اس صورت میں لازم تھا کہ بغرض اثبات اپنے اس دعویٰ کے ہمارے قیاس استقرائی کو (جو حجت کی اقسام ثلاثہ میں سے تیسری قسم ہے جس کو مضمون سابق میں پیش کر چکے ہیں) کوئی نظیر معصوم عن الخطاء ہونے کسی عاقل کے پیش کر کے اور اس کے علوم نظریہ عقلیہ میں سے کوئی تصنیف دکھلا کر توڑ دیتے.پھر اگر حقیقت میں ہمارا قیاس استقرائی ٹوٹ جاتا اور ہم اُس تصنیف کی کوئی غلطی نکالنے سے عاجز رہ جاتے تو آپ کی ہم پر خاصی ڈگری ہو جاتی.مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہ کیا.ہزاروں مصنفوں کا ذکر تو کیا مگر نام ایک کابھی نہ لیا

Page 48

اور نہ اس کی کسی عقلی نظیری تصنیف کا کچھ حوالہ دیا.اب اس تکلیف دہی سے میری غرض یہ ہے کہ اگر الہام کی حقیت میں جناب کو ہنوز کچھ تامّل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث کے شقوق ثلاثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے.کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا یہی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کوتوڑیں اور جیسا میں عرض کر چکا ہوں اس حیلہ انگیزی کے لئے آپ کے پاس صرف تین ہی طریق ہیں جن میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے میں آپ قانونًا مجاز ہیں اور یہ بات خاطر مبارک پر واضح رہے کہ ہم کو اس بحث سے صرف اظہار حق منظور ہے.تعصب اور نفسانیت جو سفہا کا طریقہ ہے ہرگز مرکوزِ خاطر نہیں.میں دلی محبت سے دوستانہ یہ بحث آپ سے کرتا ہوں اور دوستانہ راست طبعی کے جواب کا منتظر ہوں.راقم.آپ کا نیاز مند ۵؍جون ۱۸۷۹ء غلام احمد عفی عنہ ٭…٭…٭ مکرمی جناب مرزا صاحب آپ کا عنایت نامہ مرقومہ پانچویں ماہ حال مجھے ملا.نہایت افسوس ہے کہ میں نے آپ کے الہام کے بارے میں جو کچھ بطور جواب لکھا تھا اس سے آپ تشفی حاصل نہ کر سکے.میرا افسوس اور بھی زیادہ بڑھتا جاتا ہے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے میرے جواب کے عدم تسلیم کی نسبت کوئی صاف اور معقول وجہ بھی تحریر نہیں فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کے پڑھنے اور سمجھنے میں غور اور فکر کو دخل نہیں دیا.پھر آپ کے اس عنایت نامہ میں ایک اور لطف یہ موجود ہے کہ آپ ایک جگہ پر قائم رہتے معلوم نہیں ہوتے.پہلے آپ نے الہام کی ضرورت اس دلیل کے ساتھ قائم کی کہ چونکہ انسان کی عقل حقیت کے معلوم کرنے میں عاجز ہے اور وہ اپنی تحقیقات میں خطا کرتی ہے پس ضرور ہے کہ انسان خدا کی طرف سے الہام پاوے.میں نے جب آپ کی اس ضرورت کو فرضی ثابت کر دیا اور

Page 49

کھلا دیا کہ خدا کی حکمت اس ضرورت کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو آپ نے پہلے مقام کو چھوڑ کر اب دوسری طرف کا راستہ لیا اور بجائے ہماری تحریر کے تسلیم کرنے یا بشرط اعتراض کسی معقول حجت کے پیش کرنے کے اب اُس سلسلہ کو نجات کے مسئلہ کے ساتھ آ لپیٹا.یعنی اصل بحث کو جو الہام کی اصلیت پر تھی اُسے چھوڑ کر نجات کے مسئلہ کو لے بیٹھے اور اب اس نئے قضیہ کے ساتھ ایک نئی بحث کے اصولوں کو قائم کرنے لگے.پھر اس پر ایک طُرفہ یہ کہ آپ اخیر خط میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر الہام کی حقیت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث شقوق ثلاثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو اب از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا بھی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کو توڑدیں‘‘.گویا یک نہ شُد دو شُد.آپ نے ضرورت الہام پر جو حجت قائم کی تھی وہ تو جناب من! میں ایک دفعہ توڑ چکا اور اُس فرضی ضرورت پر جو عمارت الہام کی آپ نے قائم کی تھی اسے بے بنیاد ٹھہرا چکا مگر افسوس ہے ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث اُس کی تصویر ہنوز آپ کی نظروں میں سمائی ہوئی ہے اور وہ عادت باوجود اس کے کہ آپ کو ’’اس بحث سے صرف اظہار حق منظور ہے‘‘ مگر پھر آپ کو حقیقت کے پاس پہنچنے میں سَد راہ ہے.تحقیق حق اُس وقت تک اپنا قدم نہیں جما سکتی ہے جب تک کہ ایک خیال جو عادت میں داخل ہو گیا ہے اُس کو ایک دوسر ی عادت کے ساتھ جدا کرنے کی مشق حاصل نہ کی جائے.کسی عیسائی کا ایک چھوٹا سا لڑکا بھی گنگا کے پانی کو صرف دریا کا پانی سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ گناہ سے نجات وغیرہ کا خیال اس سے متعلق نہیں کرتا.مگرایک پُرانے خیال کے معتقد بڈھے ہندو کے نزدیک اس پانی میںایک غوطہ مارنے سے انسان کے کُل گناہ دفع ہو جاتے ہیں.ایک عیسائی کے نزدیک خدا کی تثلیث برحق ہے مگر ایک مسلمان یا براہمو کے نزدیک وہ بالکل لغو ہے.اگر کسی ایسے ہندو یا عیسائی سے بحث کر کے اس کے خیال کی لغویت کو ظاہر بھی کر دو( کہ جس کا ظاہر کرنا کچھ مشکل بات نہیں) مگر وہ اس کی لغویت کو تسلیم نہیں کرتا ہے.حتیّٰ کہ جب جواب سے عاجز آتا ہے تو یہ کہہ کر ’’کہ گو میں ٹھیک جواب نہیں دے سکتا ہوں مگر میں اُس کا قائل ہوں اور دل سے اُسے ٹھیک جانتا ہوں‘‘.یہ دل کی گواہی اس کی وہی عادت ہے کہ جوحکماء کے نزدیک طبیعت ثانی

Page 50

کے نام سے موسوم ہوتی ہے.پس جس الہام کے آپ قائل ہیں اُس کی بھی وہی کیفیت ہے.آپ کے نزدیک ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث وہ خیال ایسا پختہ اور صحیح ہو گیا ہے کہ آپ اس کے مخالف ہماری مضبوط سے مضبوط دلیل بھی قابل اطمینان نہیں پاتے ہیں.اور جب ایک طرف سے اپنی دلیل کو کمزور دیکھتے ہیں تو دوسری طر ف بدل کر چل دیتے ہیں.اس طور پر فیصلہ ہونا محال ہے.آج تک کسی سے ہوا بھی نہیںاور نہ آئندہ ہونے کی اُمید ہے.آپ مجھ سے اُن مصنفوں کے نام طلب کرتے ہیں جن کی تصنیف یا تحقیقات میں غلطی نہیں ہے.حالانکہ جن علوم کا میں نے ذکر کیاتھا اُس کے جاننے والوں کے نزدیک اِن کی تصنیف کی کیفیت پوشیدہ نہیں ہے.کیا آپ نے علم ریاضی کی تصنیفات خود ملاحظہ نہیں کی ہیں؟ کیا علم طبیعات کی کتب آپ کی نظر سے نہیں گزری ہیں؟ بیشک جدید تصنیفات جو انگریزی سے فارسی یا عربی میں ترجمہ نہیں ہوئیں شاید اُن کی کیفیت آپ سے پوشیدہ ہو مگر بعض یونانیوں کی تصنیف مثل اقلیدس کے علم ہندسہ وغیرہ سے غالباً آپ واقفیت رکھتے ہونگے اور ظاہر ہے کہ علم ہندسہ کے راست اور صحیح ہونے میں آج تک دنیا میں کسی عالم کو خواہ (وہ الہام کا مقر ہو یا منکر خدا پرست ہو یا دہریہ) کلام نہیں ہے.اگر آپ کی رائے میں وہ درست نہ ہو تو آپ براہ مہربانی مجھ کو اس کی غلطیوں سے مطلع فرمائیں.پھر آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کے مضمون کے جواب دینے میں داب مناظرہ کو مرعی نہیں رکھا.اس کے جواب میں میں صرف اس قدر عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس وقت میری اور آپ کی کل تحریریں رسالہ برادر ہند میں مشتہر کی جاویں گی.اُس وقت انصاف پسند ناظرین خود ہی تصفیہ کر لیں گے.آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے یا غیر صحیح.اگر آپ لکھیں تو اگلے مہینہ کے رسالہ سے اس بحث کو مشتہر کرنا شروع کر دوں.آپ کا نیاز مند لاہور ۱۲؍ جون ۱۸۷۹ء شیونارائن.اگنی ہو تری

Page 51

مکتوب نمبر ۵ مکرمی جناب پنڈت صاحب آپ کا مہربانی نامہ عین اُس وقت میں پہنچا کہ جب میںبعض ضروری مقدمات کے لئے امرتسر کی طرف جانے کو تھا.چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں اس لئے آپ کا جواب واپس آ کر لکھوں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ تین روز بغایت درجہ چار روز کے بعد واپس آ جاؤں گا اور پھر آتے ہی جواب لکھ کر خدمت گرامی میں ارسال کروں گا.آپ فرماتے ہیں کہ یہ مضامین برادرہند میں درج ہونگے.مگر میری صلاح یہ ہے کہ ان مضامین کے ساتھ دو ثالثوں کی رائے بھی ہو تب اندراج پاویں.مگر اب مشکل یہ کہ ثالث کہاں سے لاویں ،ناچار یہی تجویز خوب ہے کہ آپ ایک فاضل نامی گرامی صاحب تالیف و تصنیف کا براہم سماج کے فضلاء میں سے منتخب کر کے اطلاع دیں جو ایک خدا ترس اور فروتن اور محقق اور بے نفس اور بے تعصب ہو اور ایک انگریز ،کہ جس کی قوم کی زیرکی بلکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں، انتخاب فرما کر اس سے بھی اطلاع بخشیں تو اغلب ہے کہ میں ان دونوں کو منظور کروں گا اور میں نے بطور سرسری سنا ہے کہ آپ کے برہمو سماج میں ایک صاحب کیشب چندر نام لئیق اور دانا آدمی ہیں.اگر یہی سچ ہے تو وہی منظور ہیں.اُن کے ساتھ ایک انگریز کر دیجئے.مگر منصفوں کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ صرف اتناہی لکھیں کہ ہماری رائے میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل کو اپنے بیان سے توڑنا یا بحال رکھنا ہوگا.دوسرے یہ مناسب ہے کہ اس مضمون کو رسالہ میں متفرق طور پر درج نہ کیا جائے کہ اس میں منصف کو دوسرے نمبروں کا مدت دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے.بلکہ مناسب ہے کہ یہ سارا مضمون ایک ہی دفعہ ’’برادر ہند‘‘ میں درج ہو یعنی تین تحریریں ہماری طرف سے اور تین ہی آپ کی طرف سے ہوں اور اُن پر دونوں منصفوں کی مفصل رائے درج ہو اور اگر آپ کی نظر میں اب کی دفعہ منصفوں کی رائے درج کرنا کچھ دقت ہو تو پھر اس صورت میں یہ بہتر ہے کہ جب میں بفضلہ تعالیٰ امرتسر سے واپس آ کر تحریر ثالث آپ کے پاس بھیج دوں تو آپ بھی اُس پر کچھ مختصر تحریر کر کے تینوں تحریریں یکدفعہ چھاپ دیں اور ان تحریروںکے اخیر میں یہ بھی لکھا جائے کہ فلاں فلاں منصف صاحب اس پر

Page 52

اپنا اپنا موجہ رائے تحریر فرمائیں اور پھر دو جلدیں اس رسالہ کی منصفوں کی خدمت میں مفت بھیجی جائیں.آیندہ جیسے آپ کی مرضی ہو اس سے اطلاع بخشیں اور جلد اطلاع بخشیں اور میں نے چلتے چلتے جلدی سے یہ خط لکھ ڈالا ہے.کمی بیشی الفاظ سے معاف فرمائیں.٭ راقم آپ کا نیاز مند ۱۷؍ جون ۱۸۷۹ء غلام احمد عفی عنہ نوٹ: ابھی تک مجھے پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری کے متعلق اسی قدر خطوط ملے ہیں.اس آخری خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی مفصل خط لکھا ہے.اگر اس کتاب کے طبع ہوجانے تک مجھے وہ خط بھی میسر آ گیا تو انشاء اللہ العزیز اسی کتاب میں درج ہو جائے گا.وباللہ التوفیق.خاکسار یعقوب علی تراب.احمدی

Page 53

مکتوب نمبر۶ باوا نرائن سنگھ کی شرائط مطلوبہ پرچہ سفیر ہند ۲۳؍ فروری کا ایفاء اور نیز چند امور واجب العرض بتفصیل ذیل (۱) اوّل ذکر کرنا اس بات کا قرین مصلحت ہے کہ اشتہار مندرجہ ذیل میں جو حسب درخواست ہمارے معزز دوست باوا نرائن سنگھ صاحب وکیل کے لکھا جاتا ہے لفظ جرمانہ کا جو بجائے لفظ انعام کے ثبت ہوا ہے محض بغرض رضا جوئی باوا صاحب موصوف کے درج کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر رہے کہ ایسا اندراج مطابق منشاء اصول قوانین مجریہ سرکار کے ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ زر موعودہ کسی مجرمانہ فعل کا تاوان نہیں تا اس کا نام جرمانہ رکھا جائے بلکہ یہ وہ حق ہے جو خود مشتہر نے بطیب نفس و رضائے خاطر بلااِکراہ غیرے کسی مجیب مُصیب کو بپاداش اُس کے جواب باصواب کے دینا مقرر کیا ہے.اس صورت میں کچھ پوشیدہ نہیں کہ یہ رقم درحقیقت بصلہ اثبات ایک امر غیر مثبت کے ہے جس کو ہم انعام سے تعبیر کر سکتے ہیں، جرمانہ نہیں ہے اور نہ از روئے حکم کسی قانون گورنمنٹ برطانیہ کے کوئی سوال نیک نیتی سے کرنا یا کسی امر میں بصدق نیت کچھ رائے دینا داخل جرم ہے تا اس نکتہ چینی کی کچھ بنیاد ہوسکے.غرض اس موقعہ پر ثبت لفظ جرمانہ کا بالکل غیر معقول اور مہمل اور بے محل ہے لیکن چونکہ باوا صاحب ممدوح پرچہ مقدم الذکر میں بزمرہ دیگر شرائط کے یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ بجائے لفظ انعام کے لفظ جرمانہ کا لکھا جاوے تب ہم جواب دیں گے.سو خیر میں وہی لکھ دیتا ہوں.کاش باوا صاحب کسی طرح جواب اُس سوال اشتہاری کا دیں.ہر چند میں جانتا ہوں جو باوا صاحب اس جرح قانونی میں بھی غلطی پر ہیں اور کوئی ایسا ایکٹ میری نظر سے نہیں گزرا جو نیک نیتی کے سوال کو جرم میں داخل کرے.(۲) شرط دوئم باوا صاحب کی اس طرح پوری کر دی گئی ہے جو ایک خط بقلم خود تحریر کر کے

Page 54

باقرار مضمون مشتہرہ کے خدمت مبارک باوا صاحب میں ارسال کیا گیا ہے.باوا صاحب خوب جانتے ہیں جو اوّل تو خود اشتہار کسی مشتہر کا جو باضابطہ کسی اخبار میں شائع کیا جاوے قانوناً تاثیر ایک اقرار نامہ کی رکھتا ہے بلکہ وہ بلحاظ تعدد نقول کے گویا صد ہا تمسک ہیں.علاوہ ازاں چٹھیات خانگی بھی جو کسی معاملہ متنازعہ فیہ میں عدالت میں پیش کئے جاویں ایک قومی دستاویز ہیں اور قوت اقرار نامہ قانونی کے رکھتے ہیں.سو چٹھی خاص بھی بھیجی گئی.ماسوائے اس کے جب کہ اس معاملہ میں اشتہارات زبانی ثالثوں کے بھی موجود ہوگی تو پھر باوجود اس قدر انواع و اقسام کے ثبوتوں کے حاجت کسی عہد نامہ خاص کی کیا رہی.لیکن چونکہ مجھ کو اِتمامِ حجت مطلوب ہے اس لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اس ثبوت پر کفایت نہ کر کے پھر باوا صاحب اقرار نامہ اشٹام کا مطالبہ کریں گے تو فوراً اقرار نامہ مطلوبہ اُن کا معرفت مطبع سفیر ہند کے یا جیسا مناسب ہو، خدمت میں اُن کی بھیجا جاوے گا.لیکن باوا صاحب پر لازم ہوگا کہ درصورت مغلوب رہنے کے قیمت اشٹام کی واپس کریں.(۳) شرط سوم میںباوا صاحب روپیہ وصول ہونے کا اطمینان چاہتے ہیں.سو واضح ہو اگر باوا صاحب کا اس فکر سے دل دھڑکتا ہے کہ اگر روپیہ وقت پر ادا نہ ہو تو کس جائداد سے وصول ہوگا تو اس میں یہ عرض ہے کہ اگر باوا صاحب کو ہماری املاک موجودہ کا حال معلوم نہیں تو صاحب موصوف کو ایسے قلیل معاملہ میں زیادہ آگاہ کرنا ضروری نہیں صرف اس قدر نشاندہی کافی ہے کہ درصورت تردد کے ایک معتبر اپنا صرف بٹالہ میں بھیج دیں اور ہمارے مکانات اور اراضی جو قصبہ مذکورہ میں قیمتی چھ سات ہزار روپیہ کے موجود اور واقعہ ہیں اُن کی قیمت تخمینی دریافت کر کے اپنے مضطرب دل کی تسلی کر لیں اور نیز یہ بھی واضح ہو جو بمجرد جواب دینے کے مطالبہ روپیہ کا نہیں ہو سکتا جیسا کہ باوا صاحب کی تحریر سے مفہوم ہوتا ہے بلکہ مطالبہ کا وہ وقت ہوگا کہ جب کل آرائے تحریری ثالثان اہل انصاف کے، جن کے اسماء مبارکہ تنقیح شرط چہارم میں ابھی درج کروں گا، سفیرہند میں بشرائط مشروطہ پرچہ ہذا کے طبع ہو کر شائع ہو جائیں گی.(۴) شرط چہارم میں باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کو منصفان تنقید جواب قرار دیا ہے مولوی سید احمد خان صاحب، منشی کنہیا لال صاحب، منشی اندر من صاحب.مجھ کو منصفان مجوزہ باوا صاحب میں کسی نہج کا عذر نہیں بلکہ میں اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو انہوں نے تجویز تقرر ثالثان

Page 55

میں مولوی سید احمد خان صاحب کا نام بھی جو ہم سے اخوت اسلام رکھتے ہیں درج کر دیا.اس لئے میں بھی اپنے منصفان مقبولہ میں ایک فاضل آریہ صاحب کو جن کی فضیلت میں باوا صاحب کو بھی کلام نہیں باعتماد طبیعت صالحانہ اور رائے منصفانہ اُن کی کے داخل کرتا ہوں جن کے نام نامی یہ ہیں سوامی پنڈت دیانند سرستی، حکیم محمد شریف صاحب امرتسری، مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب لاہوری لیکن اتنی عرض اور ہے کہ علاوہ ان صاحبوں کے کہ فریقین کے ہم مذہب ہیں دو صاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے قرار پانے چاہئیں.سو میری دانست میں پادری رجب علی صاحب اور بابو رلارام صاحب جو علما وہ فضیلت علمی اور طبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں، بشرطیکہ صاحبین موصوفین براہ مہربانی اس شوریٰ میں داخل ہونا منظور کر لیں.اور آپ کو بھی اس میں کچھ کلام نہ ہو بہتر اور اَنْسب ہیں.ورنہ بالآخر اس طرح تجویز ہوگی کہ ایک صاحب مسیحی مذہب کو آپ قبول کر کے اطلاع دے دیں اور ایک کے اسم مبارک سے میں مطلع کروں گا.اور تصفیہ اس طرح پر ہوگا کہ بعد طبع ہونے جواب آپ کے اُن سب صاحبوں کو جو حسب مرضی فریقین ثالث قرار پائے ہیں، بذریعہ خانگی خطوط کے اطلاع دی جائے گی لیکن ہر ایک فریق ہم دونوں میں سے ذمہ دار ہوگا کہ اپنے منصفین مجوزہ کو آپ اطلاع دے.تب صاحبان منصفین اوّل ہمارے سوال نمبر۱ کو دیکھیں گے اور بعد اُس کے تبصرہ مشمولہ شرائط ہذا کو جس میں آپ کے جواب الجواب کا، جو ۱۸؍ فروری آفتاب پنجاب میں طبع ہوا تھا، ازالہ ہے بغور ملاحظہ فرمائیں گے.پھر آپ کا جواب بتدبر تمام پڑھ کر جانچیں گے کہ آیا اس جواب سے وجوہات ہمارے ردّ ہوگئے یا نہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ آپ نے باثبات دونو امر مندرجہ اشتہار کے کیا کیا وجوہات پیش کئے ہیں لیکن یہ امر کسی منصف کے اختیار میں نہ ہوگا کہ صرف اس قدر رائے ظاہر کرے کہ ہماری دانست میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ اگر کوئی ایسی رائے ظاہر کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ گویا اُس نے کوئی رائے ظاہر نہیں کیا.غرض کوئی رائے شہادت میں نہیں لیا جائے گا جب تک اس صورت سے تحریر نہ ہو کہ اصل وجوہات متخاصمین کو پورا پورا بیان کر کے بتقریر مدلّل ظاہر کرے کہ کس طور سے یہ وجوہات ٹوٹ گئیں یا بحال رہیں اور علاوہ اس کے یہ سب منصفانہ آراء سے سفیر ہند میں درج ہونگے.نہ کسی اور پرچہ میں.بلکہ صاحبان منصفین اپنی اپنی تحریر کو براہ راست مطبع ممدوح الذکر میں ارسال فرمائیں گے با

Page 56

باستثناء بابو رلارام صاحب کے کہ اگر وہ اس شوریٰ تنقید جواب میں داخل ہوئے تو اُن کو اپنی رائے اپنے پرچہ میں طبع کرنا اختیار ہوگا اور جب کہ یہ سب آرائے بقید شرائط متذکرہ بالا کے طبع ہو جائیں گی تو اُس وقت کثرت رائے پر فیصلہ ہوگا اور اگر ایک نمبر بھی زیادہ ہو تو باوا صاحب کوڈگری ملے گی ورنہ آں حضرت مغلوب رہیں گے.اشتہار مبلغ پانسو روپیہ میں راقم، اُس سوال کا جو آریہ سماج کی نسبت پرچہ ۹؍ فروری اور بعد اُس کے سفیر ہند میں بدفعات درج ہو چکا ہے، اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر باوا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب منجملہ آریہ سماج کے جو اُن سے متفق الرائے ہوں ہماری اُن وجوہات کا جواب جو سوال مذکورہ میں درج ہے اور نیز اُن دلائل کی تردید جو تبصرہ مشمولہ اشتہار ہذا میں مبیں ہے پورا پورا ادا کر کے بدلائل حقہ یقینیہ یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے اَنت ہیں اور پرمیشور کو اُن کی تعداد معلوم نہیں تو میں پانسو نقد اُس کو بطور جرمانہ کے دوں گا اور درصورت نہ ادا ہونے روپیہ کے مجیب مثبت کو اختیار ہوگا کہ امداد عدالت سے وصول کرے.تنقید جواب کی اُس طرح عمل میں آوے گی جیسے تنقیح شرائط میں اوپر لکھا گیا ہے اور نیز جواب باوا صاحب کا بعد طبع اور شائع ہونے تبصرہ ہماری کے مطبوع ہوگا.المشتہر مرزا غلام احمد رئیس قادیان

Page 57

مکتوب نمبر۷ جواب الجواب باوا نرائن سنگھ صاحب سیکرٹری آریہ سماج امرتسر مطبوعہ پرچہ آفتاب ۱۸؍ فروری (از حضرت مرزا غلام احمد رئیس قادیان) اوّل باوا صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خداروحوں کا خالق ہے اوران کو پیدا کر سکتا ہے.اس کے جواب الجواب میں قبل شروع کرنے مطلب کے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ از روئے قاعدہ فن مناظرہ کے آپ کا ہرگز یہ منصب نہیں ہو سکتا کہ آپ روحوں کے مخلوق ہونے کا ہم سے ثبوت مانگیں بلکہ یہ حق ہم کو پہنچتا ہے کہ ہم آپ سے روحوں کے بِلا پیدائش ہونے کی سند طلب کریں کیونکہ آپ اسی پرچہ مذکور العنوان میں خود اپنی زبان مبارک سے اقرار کر چکے ہیں کہ پرمیشور قادر ہے اور تمام سلسلہ عالم کا وہی منتظم ہے.اب ظاہر ہے کہ ثبوت دینا اس امرِجدید کا آپ کے ذمہ ہے کہ پرمیشور اوّل قادر ہو کر پھر غیر قادر کس طرح بن گیا، ہمارے ذمہ ہرگز نہیں کہ ہم ثبوت کرتے پھریں کہ پرمیشور جو قدیم سے قادر ہے وہ اب بھی قادر ہے.سو حضرت یہ آپ کو چاہئے تھا کہ ہم کو اس بات کا ثبوت کامل دیتے کہ پرمیشور باوصف قادر ہونے کے پھر روحوں کے پیدا کرنے سے کیوں عاجز رہے گا.ہم پر یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ پرمیشور (جو قادر تسلیم ہو چکا ہے) روحوں کے پیدا کرنے کی کس قدر قدرت رکھتا ہے.کیونکہ خدا کے قادر ہونے کو تو ہم اور آپ دونوں مانتے ہیں.پس اس وقت تک تو ہم میں اور آپ میں کچھ تنازعہ نہ تھا.پھر تنازعہ تو آپ نے پیدا کیا جو روحوں کے پیدا کرنے سے اس قادر پرمیشور کو عاجز سمجھا.اس صورت میں آپ خود منصف ہوں اور بتلائیں کہ بار ثبوت کس کے ذمہ ہے؟ اور اگر ہم بطریق تنزُّل یہ بھی تسلیم کر لیں کہ اگرچہ دعویٰ آپ نے کیا مگر ثبوت اس کا ہمارے ذمہ ہے، پس آپ کو مژدہ ہو کہ ہم نے سفیر ہند ۲۱؍ فروری میں خدا کے خالق ہونے کا ثبوت کامل

Page 58

دے دیا ہے.جب آپ بنظر انصاف پرچہ مذکور کو ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ کی تسلی کامل ہو جائے گی اور خود ظاہر ہے کہ خدا تو وہی ہونا چاہئے جو موجد مخلوقات ہو نہ یہ کہ زور آور سلاطین کی طرح صرف غیروں پر قابض ہو کر خدائی کرے.اور اگر آپ کے دل میں یہ شک گزرتا ہے کہ پرمیشور جو اپنی نظیر نہیں پیدا کر سکتا شاید اُسی طرح ارواح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہ ہوگا.پس اس کا جواب بھی پرچہ مذکور ۹؍ فروری میں پختہ دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا ایسے افعال ہرگز نہیں کرتا جن سے اُس کی صفات قدیم کا زوال لازم آوے، جیسے وہ اپنا شریک نہیں پیدا کر سکتا.اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر سکتا کیونکہ اگر ایسا کرے تو اُس کی صفات قدیمہ جو وحدت ذاتی اور حیات ابدی ہے زائل ہو جائیں گی.پس وہ قدوس خدا کوئی کام برخلاف اپنی صفاتِ ازلیّہ کے ہرگز نہیں کرتا.باقی سب افعال پر قادر ہے.پس آپ نے جو روحوں کی پیدائش کو شریک الباری کی پیدائش پر قیاس کیا تو خطا کی.میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ آپ کا قیاس مع الفارق ہے.ہاں اگر یہ ثابت کر دیتے کہ پیدا کرنا ارواح کا بھی مثل پیدا کرنے نظیر اپنی کے خدا کی کسی صفت عظمت اور جلال کے برخلاف ہے تو دعویٰ آپ کا بلاشبہ ثابت ہو جاتا.پس آپ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ یہ ظاہر کرنا چاہئے کہ خدا نے روح کہاں سے پیدا کئے.اس تقریر سے صاف پایا جاتا ہے آپ کو خدا کے قدرتی کاموں سے مطلق انکار ہے اور اس کو مثل آدم زاد کے محتاج باَسباب سمجھتے ہیں.اور اگر آپ کا اس تقریر سے یہ مطلب ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح پرمیشور روحوں کو پیدا کر لیتا ہے تو اس وہم کے دفع میں پہلے ہی لکھا گیا تھا کہ پرمیشور کی قدرتِ کاملہ میں ہرگز یہ شرط نہیں کہ ضرور انسان کی سمجھ میں آ جایا کرے.دنیا میں اس قسم کے ہزار ہا نمونہ موجود ہیں کہ قدرتِ مُدرِکہ انسان کی ان کی کنہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی اور علاوہ اس کے ایک امر کا عقل میں نہ آنا اور چیز ہے اور اس کا محال ثابت ہونا اور چیز.عدمِ ثبوت اس بات کا کہ خدا نے کس طرح روحوں کو بنالیا اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا سے روح نہیں بن سکتے تھے کیونکہ عدمِ علم سے عدمِ شے لازم نہیں آتا.کیا ممکن نہیں جو ایک کام خدا کی قدرت کے تحت داخل تو ہو لیکن عقل ناقص ہماری اس کے اَسرار تک نہ پہنچ سکے؟ بلکہ قدرت تو حقیقت میں اسی بات کا نام ہے جو داغِ احتیاجِ اسباب سے منزہ اور پاک اور اِدراکِ انسانی سے برتر ہو.اوّل خدا کو قادر کہنا اور پھر یہ زبان پر لانا

Page 59

کہ اس کی قدرت اسباب مادی سے تجاوز نہیں کرتی، حقیقت میں اپنی بات کو آپ ردّ کرنا ہے کیونکہ اگر وہ فی حدِّ ذاتہٖ قادر ہے تو پھر کسی سہارے اور آسرے کا محتاج ہونا کیا معنی رکھتا ہے.کیا آپ کی پستکوں میں قادر اور سرب شکتی مان اسی کو کہتے ہیں جو بغیر توسل اسباب کے کارخانہ قدرت اس کی کا بند رہے.اور نراہ اس کے حکم سے کچھ بھی نہ ہو سکے.شاید آپ کے ہاں لکھا ہوگا.مگر ہم لوگ تو ایسے کمزور کو خدا نہیں جانتے ہمارا تو وہ قادر خدا ہے کہ جس کی یہ صفت ہے کہ جو چاہا سو ہو گیا اور جو چاہے گا سوہوگا.پھر باوا صاحب اپنے جواب میں مجھ کو فرماتے ہیں کہ جس طرح تم نے یہ مان لیا کہ خدا دوسرا خدا نہیں بنا سکتا اسی طرح یہ بھی ماننا چاہئے کہ خدا روح پیدا نہیں کر سکتا.اس فہم اور ایسے سوال سے اگر میں تعجب نہ کروں تو کیا کروں؟ صاحبِ من! میں تو اس وہم کا کئی دفعہ آپ کو جواب دے چکا.اب میں بار بار کہاں تک لکھوں.میں حیران ہوں کہ آپ کو یہ بیّن فرق کیوں سمجھ میں نہیں آتا اور کیوں دل پر سے یہ حجاب نہیں اُٹھتا کہ جو روحوں کے پیدا کرنے کو دوسرے خدا کی پیدائش پر قیاس کرنا خیال فاسد ہے.کیونکہ دوسرا خدا بنانے میں وہ صفت ازلی پرمیشور کی جو واحد لاشریک ہونا ہے نابود ہو جائے گی.لیکن پیدائش ارواح میں کسی صفت واجب الوجود کا ازالہ نہیں بلکہ ناپید کرنے میں ازالہ ہے کیونکہ اس سے صفت قدرت کی، جو پرمیشور میں بالاتفاق تسلیم ہو چکی ہے، زاویہ اختفا میں رہے گی اور بپایۂ ثبوت نہیں پہنچے گی.اس لئے کہ جب پرمیشور نے خود ایجاد اپنے سے بِلاتوسل اسباب کے کوئی چیز محض قدرت کاملہ اپنی سے پیدا ہی نہیں کی تو ہم کو کہاں سے معلوم ہو کہ اس میں ذاتی قدرت بھی ہے.اگر یہ کہو کہ اس میں کچھ ذاتی قدرت نہیں تو اس اعتقاد سے وہ پَراَدھیں یعنی محتاج بالغیر ٹھہرے گا اور یہ بہ بداہت عقل باطل ہے.غرض پرمیشور کا خالق ارواح ہونا تو ایسا ضروری امر ہے جو بغیر تجویز مخلوقیت ارواح کے سب کارخانہ خدائی کا بگڑ جاتا ہے لیکن دوسرا خدا پیدا کرنا صفت وحدت ذاتی کے برخلاف ہے، پھر کس طرح پرمیشور ایسے امر کی طرف متوجہ ہو کہ جس سے اس کی صفت قدیمہ کا بطلان لازم آوے اور نیز اس صورت میں جو روح غیر مخلوق اور بے اَنت مانے جائیں، کل ارواح صفت انادی اور غیر محدود ہونے میں خدا سے شریک ہو جائیں گی اور علاوہ اس کے پرمیشور بھی، اپنی صفت قدیم سے جو پیدا کرنا بِلا اسباب ہے، محروم رہے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ پر

Page 60

پرمیشور کو صرف روحوں پر جمعداری ہی جمعداری ہے اور ان کا خالق اور واجب الوجود نہیں.پھر بعد اس کے باوا صاحب اسی اپنے جواب میں روحوں کے انتہا ہونے کا جھگڑا لے بیٹھے ہیں جس کو ہم پہلے اس سے ۹ ؍اور ۱۶؍ فروری سفیر ہند میں چودہ (۱۴) دلائل پختہ سے ردّ کر چکے ہیں لیکن باوا صاحب اب تک انکار کئے جاتے ہیں.پس ان پر واضح رہے کہ یوں تو انکار کرنا اور نہ ماننا سہل بات ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ جس بات پر چاہے رہے.پر ہم تو تب جانتے کہ آپ کسی دلیل ہماری کو ردّ کر کے دکھلاتے.اور بے اَنت ہونے کی وجوہات پیش کرتے.آپ کو سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں ارواح بعض جگہ نہیں پائے جاتے تو بے اَنت کس طرح ہوگئے؟ کیا بے انت کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ جب ایک جگہ تشریف لے گئے تو دوسری جگہ خالی رہ گئی.اگر پرمیشربھی اسی طرح کا بے اَنت ہے تو کارخانہ خدائی کا معرض خطر میں ہے.افسوس کہ آپ نے ہمارے اُن پختہ دلائل کو کچھ نہ سوچا اور کچھ غور نہ کیا اور یونہی جواب لکھنے کو بیٹھ گئے حالانکہ آپ کی منصفانہ طبیعت پر یہ فرض تھا کہ اپنے جواب میں اس امر کا التزام کرتے کہ ہر ایک دلیل ہماری تحریر کر کے اس کے محاذات میں اپنی دلیل لکھتے، پر کہاں سے لکھتے؟ اور تعجب تو یہ ہے کہ اسی جواب میں آپ کا یہ اقرار بھی درج ہے کہ ضرور سب ارواح ابتدا سر شٹی میں زمین پرجنم لیتے ہیں اور مدت سوا چار ارب سلسلہ دنیا کابنا رہتا ہے اس سے زیادہ نہیں.اب اے میرے پیارو اور دوستو! اپنے دل میں آپ ہی سوچو.اپنے قول میں خود ہی غور کرو کہ جو پیدائش ایک مقرری وقت سے شروع ہوئی اور ایک محدود مقام میں اُن سب نے جنم لیا اور ایک محدود مدت تک اُن کے توالد و تناسل کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو ایسی پیدائش کس طرح بے انت ہوسکتی ہے.آپ نے پڑھا ہوگا کہ بموجب اصول موضوعہ فلسفہ کے یہ قاعدہ مقرر ہے کہ جو چند محدود چیزوں میں ایک محدود عرصہ تک کچھ زیادتی ہوتی رہی تو بعد زیادتی کے بھی وہ چیزیں محدود رہیں گی.اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر متعدد جانور ایک متعدد عرصہ تک بچہ دیتے رہیں تو اُن کی اولاد بموجب اصول مذکور کے ایک مقدار متعدد سے زیادہ نہ ہوگی اور خود ازروئے حساب کے ہر ایک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ جس قدر پیدائش سوا چار ارب میں ہوتی ہے اگر بجائے اُس مدت کے ساڑھے آٹھ ارب فرض کریں تو شک نہیں کہ اس صورت مؤخر الذکر میں پہلی صورت سے پیدائش دوچند ہوگی.حالانکہ یہ بات اَجلی بدیہات ہے کہ بے انت کبھی قابل تضعیف نہیں ہو سکتا.اگر ارواح بے اَنت ثابت ہوتے تو ایسی مدت معدود میں کیوں محصور ہو جاتے کہ جن کے

Page 61

اضعاف کو عقل تجویز کر سکتی ہے اور نہ کوئی دانا محدود زمانی اور مکانی کو بے اَنت کہے گا.باوا صاحب برائے مہربانی ہم کو بتلا دیں کہ اگر سوا چار ارب کی پیدائش کا نام بے اَنت ہے تو ساڑھے آٹھ ارب کی پیدائش کا نام کیا رکھنا چاہئے.غرض یہ قول صریح باطل ہے کہ ارواح موجودہ محدود زمانی اور مکانی ہو کر پھر بھی بے انت ہیں کیونکہ مدت معین کا توالد و تناسل تعداد معینہ سے کبھی زیادہ نہیں.اور اگر یہ قول ہے کہ سب ارواح بدفعہ واحد زمین پر جنم لیتے ہیں.سو بطلان اس کا ظاہر ہے کیونکہ زمین محدود ہے اور ارواح بقول آپ کے غیر محدود پھر غیر محدود.کس طرح محدود میں سما سکے.اور اگر یہ کہو کہ بعض حیوانات باوصف مکتی نہ پانے کے نئی دنیا میں نہیں آتے.سو یہ آپ کے اصول کے برخلاف ہے کیونکہ جبکہ پیشتر عرض کیا گیا ہے آپ کا یہ اصول ہے کہ ہر نئی دنیا میں تمام وہ ارواح جو سرشٹی گزشتہ میں مکتی پانے سے رہ گئے تھے اپنے کرموں کا پھل بھوگنے کے واسطے جنم لیتے ہیں، کوئی جیو جنم لینے سے باہر نہیں رہ جاتا.اب قطع نظر ان دلائل سے اگر اسی ایک دلیل پر، جو محدود فی الزماں والمکان ہونے کے ہے، غور کیا جائے تو صاف ثابت ہے کہ آپ کو ارواح کے متعدد ماننے سے کوئی گریز گاہ نہیں اور بجز تسلیم کے کچھ بن نہیںپڑتا بالخصوص اگر اُن سب دلائل کو جو سوال نمبر۱ میں درج ہوچکے ہیں ان دلائل کے ساتھ جو اس تبصرہ میں اندراج پائیں ملا کر پڑھا جائے تو کون منصف ہے جو اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ ایسے روشن ثبوت سے انکار کرنا آفتاب پر خاک ڈالنا ہے.پھرافسوس کہ باوا صاحب اب تک یہی تصور کئے بیٹھے ہیں کہ اَرواح بے اَنت ہیں اور مکتی پانے سے کبھی ختم نہیں ہونگے.اور حقیقت حال جو تھا سو معلوم ہوا کہ کُل ارواح پانچ ارب کے اندر اندر ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور نیز ہر پرلے کے وقت پر اُن سب کا خاتمہ ہو جاتا ہے.اگر بے اَنت ہوتے تو اُن دونوں حالتوں مقدم الذکر میں کیوں ختم ہونا اُن کا رکن اصول آریہ سماج کا ٹھہرتا.عجب حیرانی کا مقام ہے کہ باوا صاحب خود اپنے ہی اصول سے انحراف کر رہے ہیں.اتنا خیال نہیں فرماتے کہ جو اشیاء ایک حالت میں قابل اختتام ہیں وہ دوسری حالت میں بھی یہی قابلیت رکھتے ہیں.یہ نہیں سمجھتے کہ مظروف اپنے ظرف سے کبھی زیادہ نہیں ہوتا.پس جبکہ کُل ارواح ظروفِ مکانی اور زمانی میں داخل ہو کر اندازہ اپنا ہر نئی دنیا میں معلوم کرا جاتے ہیں اور پیمانہ زمان مکان سے ہمیشہ ماپے جاتے ہیں تو پھر تعجب کہ باوا صاحب کو ہنوز اَرواح کے محدود ہونے میں کیوں شک باقی ہے.میں باوا صاحب سے

Page 62

سوال کرتا ہوں کہ جیسے بقول آپ کے یہ سب ارواح جو آپ کے تصور میں بے انت ہیں سب کے سب دنیا کی طرف حرکت کرتے ہیں.اگر اسی طرح اپنے بھائیوں مکتی یافتوں کی طرف حرکت کریں تو اس میں استبعادِ عقلی ہے اور کونسی حجب منطقی اس حرکت سے ان کو روکتی ہے اور کس برہانِ لِمّی یا اِنّیسے لازم آتا ہے کہ دنیا کی طرف انتقال اُن سب کا ہر سرشٹی کے دورہ میں جائز بلکہ واجب ہے.لیکن کوچ اُن سب کا مکتی یافتوں کے کوچہ کی طرف ممتنع اور محال ہے.مجھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس عالم دنیا کی طرف کونسی پختہ سڑک ہے کہ سب ارواح اس پر بآسانی آتے جاتے ہیں، ایک بھی باہر نہیں رہ جاتی.اور اُن مکتی یافتوں کے راستہ میں کونسا پتھر پڑا ہوا ہے کہ اس طرف اُن سب کا جانا ہی محال ہے.کیا وہ خدا جو سب ارواح کو موت اور جنم دے سکتا ہے، سب کو مکتی نہیں دے سکتا؟ جب ایک طور پر سب ارواح کی حالت متغیر ہو سکتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ دوسرے طور سے وہ حالت قابل تغیر نہیں؟ اور نیز کیا یہ بات ممکن نہیں جو خدا اُن سب ارواح کا یہ نام رکھ دے کہ مکتی یاب ہیں، جیسا اب تک یہ نام رکھا ہوا ہے کہ مکتی یاب نہیں.کیونکہ جن چیزوں کی طرف نسبت سلبی جائز ہو سکتی ہے بیشک اُن چیزوں کی طرف نسبت ایجابی بھی جائز ہے.اور نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ قضیہ کہ، سب ارواح موجودہ نجات پا سکتے ہیں، اس حیثیت سے زیر بحث نہیں کہ محمول اس قضیہ کا جو نجات عام ہے مثل کسی جزئی حقیقی کے قابل تنقیح ہے بلکہ اس جگہ مبحوث عنہ امر کلی ہے.یعنی ہم کلی طور پر بحث کرتے ہیں کہ ارواح موجودہ نے جو ابھی مکتی نہیں پائی، آیا بموجب اصول آریہ سماج کے اس امر کی قابلیت رکھتے ہیں یا نہیں کہ کسی طور کا عارضہ عام خواہ مکتی ہو یا کچھ اور ہو، اُن سب پر طاری ہو جائے.سو آریہ صاحبوں کے ہم ممنون منت ہیں جو اُنہوں نے آپ ہی اقرار کر دیا کہ یہ عارضہ عام بعض صورتوں میں سب ارواح پر واقع ہے، جیسے موت اور جنم کی حالت سب ارواح موجودہ پر عارض ہو جاتی ہے.اب باوا صاحب خود ہی انصاف فرماویں کہ جس حالت میں دو مادوں میں اس عارضہ عام کے خود ہی قائل ہوگئے تو پھر اس تیسرے مادے میں جو سب کا مکتی پانا ہے انکار کرنا کیا وجہ ہے؟ پھر باوا صاحب یہ فرماتے ہیں کہ علاوہ زمین کے سورج اور چاند اور سب ستاروں میں بھی بکثرت جانور آباد ہیں اور اس سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس ثابت ہو گیا کہ بے اَنت ہیں.پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ اوّل تو یہ خیال بعض حکماء کا ہے جس کو یورپ کے حکیموں نے اخذ کیا ہے اور ہماری

Page 63

گفتگو آریہ سماج کے اصول پر ہے.سوا اس کے اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ آریہ سماج کا بھی یہی اصول ہے تو پھر بھی کیا فائدہ کہ اس سے بھی آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوتا.اس سے تو صرف اتنا نکلتا ہے کہ مخلوقات خدا تعالیٰ کی بکثرت ہے.ارواح کے بے انت ہونے سے اس دلیل کو کیا علاقہ ہے.پر شاید باوا صاحب کے ذہن میں مثل محاورہ عام لوگوں کے یہ سمایا ہوا ہوگا کہ بے انت اُسی چیز کو کہتے ہیں جو بکثرت ہو.باوا صاحب کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں یہ سب اجسام ارضی اور اجرامِ سماوی بموجب تحقیق فن ہئیت اور علم جغرافیہ کے معدود اور محدود ہیں.تو پھر جو چیزیں ان میں داخل ہیں کس طرح غیر محدود ہو سکتی ہیں اور جس صورت میں تمام اجرام و اجسام زمین و آسمان کے خدا نے گنے ہوئے ہیں تو پھر جو کچھ ان میں آباد ہے وہ اس کی گنتی سے کب باہر رہ سکتا ہے؟ سو ایسے دلائل سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا.کام تو تب بنے کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ارواح موجودہ تمام حدود و قیود وظروف مکانی و زمانی اور فضائے عالَم سے بالاتر ہیں.کیونکہ خدا بھی انہیںمعنوں پر بے اَنت کہلاتا ہے.اگر ارواح بے اَنت ہیں تو وہی علامات ارواح میں ثابت کرنی چاہئیں.اس لئے کہ بے اَنت ایک لفظ ہے کہ جس میں بقول آپ کے ارواح اور باری تعالیٰ مشارکت رکھتے ہیں اور اس کا حدتام بھی ایک ہے.یہ بات نہیں کہ جب لفظ بے اَنت کا خدا کی طرف نسبت کیا جائے تو اس کے معنی اور ہیں اور جب ارواح کی طرف منسوب کریں تو اور معنی.پھر بعد اس کے باوا صاحب فرماتے ہیں کہ کسی نے آج تک روحوں کی تعداد نہیں کی.اس لئے لاتعداد ہیں.اس پر ایک قاعدہ حساب کا بھی جو مَانَحْنُ فِیْہِ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا، پیش کرتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لاتعداد کی کمی نہیں ہو سکتی.پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ ہم تخمینی اندازہ ارواح کا بموجب اصول آپ کے بیان کر چکے ہیں اور اُن کا ظروف مکانی اور زمانی میں محدود ہونا بھی بموجب انہی اصول کے ذکر ہوچکا ہے اور آپ اب تک وہ حساب ہمارے روبرو پیش کرتے ہیں جو غیر معلوم اور نامفہوم چیزوں سے متعلق ہے.اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خزانچی کو اپنی جمع تحویل شدہ کا کل میزان روپیہ آنہ پائی کا معلوم ہوتا ہے.اسی طرح اگر انسان کو کُل تعداد ارواح کا معلوم ہو تو تب قابل کمی ہونگے، ورنہ نہیں.سو یہ بھی آپ کی غلطی ہے.کیونکہ ہر عاقل جانتا ہے کہ جس چیز کا اندازہ تخمینی کسی پیمانہ کے ذریعہ سے ہوچکا تو پھر ضرور عقل یہی تجویز

Page 64

کرے گی کہ جب اُس اندازہ معلومہ سے نکالا جاوے تو بقدر تعداد خارج شدہ کے اصلی اندازہ میں کمی ہو جائے گی.بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب مکتی شدہ سے ایک فوج کثیر مکتی شدہ ارواح میں داخل ہو جائے تو نہ وہ کچھ کم ہوں اور نہ یہ کچھ زیادہ ہوں.حالانکہ وہ دونوں محدود ہیں اور ظروف مکانی اور زمانی میں محصور.اور جو یہ باوا صاحب فرماتے ہیں کہ تعداد روحوں کی ہم کو بھی معلوم ہونی چاہئے تب قاعدہ جمع تفریق کا اُن پر صادق آوے گا.یہ قول باوا صاحب کابھی قابل ملاحظہ ناظرین ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جمع بھی خدا نے کی اور تفریق بھی وہی کرتا ہے اور اُس کو ارواح موجودہ کے تمام افراد معلوم ہیں اور فرد فرد اس کے زیر نظر ہے.اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک روح نکل کر مکتی یابوں میں ہو جاوے گی تو پرمیشور کو معلوم ہے کہ یہ فرد اس جماعت میں سے کم ہو گیا اور اُس جماعت میں بباعث داخل ہونے اس کے ایک فرد کی زیادتی ہوئی.یہ کیا بات ہے کہ اس داخل خارج سے وہی پہلی صورت بنی رہی.نہ مکتی یاب کچھ زیادہ ہوں اور نہ وہ ارواح کہ جن سے کچھ روح نکل گئی بقدر نکلنے کے کم ہو جائیں.او رنیز ہم کو بھی کوئی برہان منطقی مانع اس بات کے نہیں کہ ہم اس امر متیقن متحقق طور پر رائے نہ لگا سکیں کہ جن چیزوں کا اندازہ بذریعہ ظرف مکانی اور زمانی کے ہم کو معلوم ہو چکا ہے وہ دخول و خروج سے قابل زیادت اور کمی ہیں.مثلاً ایک ذخیرہ کسی قدر غلہ کا کسی کوٹھے میں بھرا ہوا ہے اور لوگ اس سے نکال کر لے جاتے ہیں سو گو ہم کو اُس ذخیرہ کا وزن معلوم نہیں لیکن ہم بہ نظر محدود ہونے اس کے کے رائے دے سکتے ہیں کہ جیسا نکالا جائے گا کم ہوتا جائے گا.اور یہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ خدا کا علم غیر محدود ہے اور روح بھی غیر محدود ہیں اسی واسطے خدا کو روحوں کی تعداد معلوم نہیں یہ آپ کی تقریر بے موقع ہے.جنابِ من! یہ کون کہتا ہے کہ جو خدا کا علم غیر محدود نہیں.کلام و نزاع تو اس میں ہے کہ معلومات خارجیہ اس کے جو تعینات وجود یہ سے مقید ہیں اور زمانہ واحد میں پائے جاتے ہیں اور ظروف زمانی و مکانی میں محصور اور محدود ہیں، آیا تعداد اُن اشیاء موجودہ محدودہ معینہ کا اس کو معلوم ہے یا نہیں؟ آپ اُن اشیاء موجودہ محدودہ کو غیر موجود اور غیرمحدود ثابت کریں تو تب کام بنتا ہے.ورنہ علم الٰہی کہ موجود اور غیر موجود دونوں پر محیط ہے اس کے غیر متناہی ہونے سے کوئی چیز جو تعینات خارجیہ میں مفید ہو غیر متناہی نہیں بن سکتی.اور آپ نے

Page 65

خدا کے علم کو خوب غیر محدود بنایا کہ جس سے روحوں کا احاطہ بھی نہ ہو سکا اور شمار بھی نہ معلوم ہوا، باوصفیکہ سب موجود تھے کوئی معدوم نہ تھا.کیا خوب بات ہے کہ آسمان اور زمین نے تو روحوں کو اپنے پیٹ میں ڈال کر بزبان حال اُن کی تعداد بتلائی پھر خدا کو کچھ بھی تعداد معلوم نہ ہوئی.یہ عجیب خدا ہے اور اس کا علم عجیب تر.بھلا میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ خدا کو جو ارواح موجودہ کا علم ہے یہ اُس کے علوم غیر متناہیہ کا جز ہے یا کُل ہے.اگر کُل ہے (تو) اس سے لازم آتا ہے کہ خدا کوسِوا روحوں کے اور کسی چیز کی خبر نہ ہو اور اس سے بڑھ کر اس کا کوئی عالم نہ ہو اور اگر جز ہے تو محدود ہو گیا.کیونکہ جز کُل سے ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے.پس اس سے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ارواح محدود ہیں اور خود یہی حق الامر تھا.جس شخص کو خدا نے معرفت کی روشنی بخشی ہو وہ خوب جانتا ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم کے دریائے زمین سے علم ارواح موجودہ کا اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتا کہ جیسے سوئی کو سمندر میں ڈبو کر اس میں کچھ تری باقی رہ جاتی ہے.پھر باوا صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’یہ اعتراض کرنا بے جا ہے کہ بے انت اور اَنادی ہونا خدا کی صفت ہے اور اگر روح بھی بے انت اور انادی ہوں تو خدا کے برابر ہو جائیں گے.کیونکہ کسی جزوی مشارکت سے مساوات لازم نہیں آتی.جیسے آدمی بھی آنکھ سے دیکھتا ہے اور حیوان بھی.پر دونوں مساوی نہیں ہو سکتے‘‘.یہ دلیل باوا صاحب کی تغلیط اور تسقیط ہے.ورنہ کون عاقل اس بات کو نہیں جانتا کہ جو صفات ذات الٰہی میں پائی جاتی ہیں وہ سب اس ذات بے مثل کے خصائص ہیں.کوئی چیز ان میں شریک سہیم ذات باری کے نہیں ہو سکتی.کیونکہ اگر ہو سکتی ہے تو پھر سب صفات اس کی میں شراکت غیر کی جائز ہوگی اور جب سب صفات میں شراکت جائز ہوئی تو ایک اور خدا پیدا ہو گیا.بھلا اس بات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے کہ جو خدا کی صفات قدیمہ میں سے جو اَنادی اور بے اَنت ہونے کی صفت ہے وہ تو اس کے غیر میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن دوسری صفات اس کی اس سے مخصوص ہیں.ذرا آپ خیال کر کے سوچیں کہ کیا خدا کی تمام صفات یکساں ہیں یا متقارب ہیں؟ پس ظاہر ہے کہ اگر ایک صفت میں صفات مخصوصہ اس کی سے اشتراک بالغیر جائز نہ ہوگا اور اگر نہیں تو سب نہیں.اور یہ جو آپ نے نظیر دی جو حیوانات مثل انسان کے آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن اس رویت سے انسان نہیں ہو سکتا،

Page 66

ہو سکتا،نہ اس کے مساوی، یہ نظیر آپ کی بے محل ہے.اگر آپ ذرا بھی غور کرتے تو ایسی نظیر کبھی نہ دیتے.حضرت سلامت! یہ کون کہتا ہے کہ ممکنات کو عوارض خارجیہ میں باہم مشارکت اور مجانست نہیں.امر متنازعہ فیہ تو یہ ہے کہ خصائص الٰہیہ میں کسی غیر اللہ کو بھی اشتراک ہے؟ یا صفات اُس کے اس کی ذات سے مخصوص ہیں؟ آپ مدعی اس امر متنازعہ کے ہیں اور نظیر ممکنات کی پیش کرتے ہیں جو خارج از بحث ہے، آپ امر متنازعہ کی کوئی نظیر دیں تب حجت تمام ہو ورنہ ممکنات کے تشارک تجانس سے یہ حجت تمام نہیں ہوتی.نہ ذات باری کے خصائص کو ممکنات کے عوارض پر قیاس کرنا طریق دانشوری ہے.علاوہ اس کے جو ممکنات میں بھی خصائص ہیں وہ بھی اُن کے ذوات سے مخصوص ہیں جیسا کہ انسان کی حدِّتام یہ ہے جو حیوان ناطق ہے اور ناطق ہونا انسان کے خصائص ذاتی میں سے اور اس کا فصل اور ممیز عن الغیر ہے یہ فصل اس کا نہیں کہ ضرور بینا بھی ہو اور آنکھ سے بھی دیکھتا ہو.کیونکہ اگر انسان اندھا بھی ہو جائے تب بھی انسان ہے.بلکہ انسان کے خصائص ذاتیہ سے وہ امر ہے جو بعد مفارقت روح کے بدن سے اس کے نفس میں بنا رہتا ہے.ہاں یہ بات سچ ہے جو ممکنات میں اس وجہ سے جو وہ سب ترکیب عنصری میں متحد ہیں بعض حالات خارج از حقیقت تامہ ہیں، ایک دوسرے کی مشارکت بھی ہوتے ہیں جیسے انسان اور گھوڑا اور درخت کہ جوہرؔ اور صاحب ابعادِ ثلاثہؔ اور قوت نامیہؔ ہونے میں یہ تینوں شریک ہیں.اور حساس اور متحرک بالارادہ ہونے میں انسان اور گھوڑا مشارکت رکھتے ہیں.لیکن ماہیت تامہ ہر ایک کی جدا جدا ہے.غرض یہ صفت عارضی ممکنات کی حقیقت تامہ پر زائد ہے جس میں کبھی تشارک اور کبھی تغائر ان کا ہو جاتا ہے اور باوصف مختلف الحقائق اور متغائر الماہیت ہونے کے کبھی کبھی بعض مشارکات میں ایک جنس کے تحت میں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ کسی ایک حقیقت کے لئے ایک اجناس ہوتے ہیں.اور یہ بھی کچھ سمجھا کہ کیوں ایسا ہوتا ہے؟ یہ اس واسطے ہوتا ہے کہ ترکیب مادی ان کی اصل حقیقت اُن کے پر زائد ہے اور سب کی ترکیب مادی کا ایک ہی استقس یعنی اصل ہے.اب آپ پر ظاہر ہوگا کہ یہ تشارک ممکنات کا خصائص ذاتیہ میں تشارک نہیں بلکہ عوارض خارجیہ میں اشتراک ہے.باطنی آنکھ انسان کی جس کو بصیرت قلبی (این لائن منٹ۱؎) کہتے ہیں دوسرے حیوانات میں ہرگز نہیں پائی جاتی.۱؎ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.غالباً صحیح لفظ این لائٹ منٹ (Enlightment) ہے.

Page 67

اخیر میں باوا صاحب اپنے خاتمہ جواب میں یہ بات کہہ کر خاموش ہوگئے ہیں کہ سب دلائل معترض کے توہمّات ہیں.قابل تردید نہیں.اس کلمہ سے زیرک اور ظریف آدمیوں نے فی الفور معلوم کر لیا ہوگا کہ باوا صاحب کو یہ لفظ کیوں کہنا پڑا.بات یہ ہوئی اوّل تو ہمارے معزز دوست جناب باوا صاحب جواب دینے کی طرف دوڑے اور جہاں تک ہو سکا ہاتھ پاؤں مارے اور کودے اُچھلے لیکن جب اخیر کچھ پیش نہ گئی اور عقدہ لاینحل معلوم ہوا تو آخر ہانپ کر بیٹھ گئے اور یہ کہہ دیا کہ کیا تردید کرنا ہے یہ تو توہمّات ہیں.لیکن ہر عاقل جانتا ہے کہ جن دلائل کی مقدمات یقینیہ پر بنیاد ہے وہ کیوں توہمّات ہوگئے.اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور آئندہ بلا ضرورت نہیں لکھیں گے.٭ راقم مرزا غلام احمد.رئیس قادیان الحکم ۱۷ ؍ جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ ۱،۲

Page 68

مکتوب نمبر ۸ بجانب پنڈت دیانند سرستی (بانی آریہ سماج) من آنچہ شرط بلاغ است باتو میگویم تو خواہ از سخنم پندگیر و خواہ ملال واضح ہو کہ ان دنوں میں اس عاجز نے حق کی تائید کے لئے اور دینِ اسلام کی حقّانیت ثابت کرنے کی غرض سے ایک نہایت بڑی کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ ہے.چنانچہ اُس میں سے تین چھپ کر مشتہر ہو چکے ہیں اور  چہارم عنقریب چھپنے والا ہے.سوم میںاس بات کا کافی ثبوت موجود ہے کہ سچا دین جس کے قبول کرنے پر نجات موقوف ہے دینِ اسلام ہے کیونکہ سچائی کے معلوم کرنے کے لئے دو ہی طریق ہیں.ایک یہ کہ عقلی دلائل سے کسی دین کے عقائد صاف اور پاک ثابت ہوں.دوسرے یہ کہ جو دین اختیارکرنے کی علّتِ غائی ہے یعنی نجات.اس کے علامات اور انوار اس دین کی متابعت سے ظاہر ہو جائیں.کیونکہ جو کتاب دعویٰ کرتی ہے کہ میں اندرونی بیماریوں اور تاریکیوں سے لوگوں کو شفا دیتی ہوں بجز میرے دوسری کتاب نہیں دیتی تو ایسی کتاب کے لئے ضرور ہے کہ اپنا ثبوت دے.پس انہیں دونوں طریقوں کی نسبت ثابت کر کے دکھلایا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں.اسلام وہ پاک مذہب ہے کہ جس کی بنیاد ایسے عقائد صحیحہ پر ہے کہ جس میں سراسر جلال الٰہی ظاہر ہوتا ہے.قرآن شریف ہر ایک جزو کمال خدا کیلئے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک نقص و زوال سے اس کو پاک ٹھہراتا ہے.اس کی نسبت قرآن شریف کی یہ تعلیم ہے کہ وہ بیچون و بیچگون ہے اور ہرایک شبیہ و مانند سے ّمنزہ ہے اور ہر ایک شکل اور مثال سے ّمبرا ہے.وہ مبداء ہے عام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور خالق ہے تمام کائنات کا اور پاک ہے ہر ایک کمزوری اور ناقدرتی اور نقصان سے اور واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور الوہیت میں اور معبودیت میں، نہیں مشابہ اُس سے کوئی چیز اور نہیں جائز ہے کسی چیز سے اُس کا اتحاد اور حلول.مگر افسوس کہ آپ کا اعتقاد سراسر اس کے برخلاف ہے اور ایسی روشنی چھوڑ کر تاریکی ظلمت

Page 69

میں خوش ہو رہے ہیں.اب چونکہ میں نے اس روشنی کو آپ جیسے لوگوں کی سمجھ کے موافق نہایت صاف اور سلیس اُردو میں کھول کر دکھلایا ہے اور اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ لوگ سخت ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں.یہاں تک کہ جس کے سہارے پر تمام دنیا جیتی ہے اُس کی نسبت آپ کا یہ خیال ہے کہ وہ تمام فیضوں کا مبدأ نہیں اور تمام اَرواح یعنی جیو اور اُن کی روحانی قوتیں اور استعدادیں اور ایسا ہی تمام اجسام صغار یعنی پر کرتی خود بخود انادی طور پر قدیم سے چلے آتے ہیں اور تمام ہُنر یعنی گُن جو اُن میں ہیں وہ خود بخود ہیں.اور اس فیصلہ کو صرف عقلی طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اسلام کے پاک گروہ میں وہ آسمانی نشان بھی ثابت کئے ہیں کہ جو خدا کی برگزیدہ قوم میں ہونے چاہئیں اور ان نشانوں کے گواہ صرف مسلمان لوگ ہی نہیں بلکہ کئی آریہ سماج والے بھی گواہ ہیں اور بفضل خداوندکریم دن بدن لوگوں پر کھلتا جاتا ہے کہ برکت اور روشنی اور صداقت صرف قرآن شریف میں ہے اور دوسری کتابیں ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں.لہٰذا یہ خط آپ کے پاس رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں.اگر آپ کتاب براہین احمدیہ کے مطالعہ کے لئے مستعد ہوں تو میں وہ کتاب مفت ِبلا قیمت آپ کو بھیج دوں گا.آپ اس کوغور سے پڑھیں.اگر اس کے دلائل کو لاجواب پاویں تو حق کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں کہ دنیا روزے چند.آخر کار باخداوند.میں ابھی اس کتاب کو بھیج سکتا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے خیالات میں محو ہو رہے ہیں اور دوسرے شخص کی تحقیقاتوں سے فائدہ اُٹھانا ایک عار سمجھتے ہیں.سو میں آپ کو دوستی اور خیر خواہی کی راہ سے لکھتاہوں کہ آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں.آپ ضرور ہی میری کتاب کو منگا کر دیکھیں.اُمید ہے کہ اگر حق ُجوئی کی راہ سے دیکھیں گے تو اس کتاب کے پڑھنے سے بہت سے حجاب اور پردے آپ کے دور ہو جائیں گے اور اگر آپ اُردو عبارت پڑھ نہ سکیں تا ہم کسی لکھے پڑھے آدمی کے ذریعہ سے سمجھ سکتے ہیں.آپ اپنے جواب سے مجھ کو اطلاع دیں اور جس طور سے آپ ّتسلی چاہیں خداوند قادر ہے.صرف سچی طلب اور انصاف اور حق جوئی درکار ہے.جواب سے جلد تر اطلاع بخشیں کہ میں منتظر ہوں اور اگر آپ خاموش رہیں تو پھر اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کو صداقت اور روشنی اور راستی سے کچھ غرض نہیں.٭ ۲۰؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ

Page 70

مکتوب نمبر ۹ خط جو مختلف مذاہب کے لیڈروں کے نام بھیجا گیا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بعد ما وَجب گزارش ضروری یہ ہے کہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر مطلق شانہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے.اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے جس کے ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکے ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے……………… لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمامِ حجت یہ خط (جس کی دو سَو چالیس کاپی چھپوائی گئی ہیں، معہ اشتہار انگریزی جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہیں) شائع کیا جاوے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامت سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاویں.یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبان کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتے ہیں اور پھر وجود خوارق اور کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں.یہ تجویز اپنی فکر اور اجتہاد سے نہیں قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع نہ کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب ہو جاویں گے.بناء علیہ پر یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں (اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدر ہیں) ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کے کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حسبۃ اللہاس خط کے مضمون کی طرف سے توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے.ا

Page 71

اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اور اس کارروائی کے (کہ آپ کو خط رجسٹری شدہ ملا اور پھر آپ نے اُس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب براہین احمدیہ میں پوری تفصیل سے بحث کی جاوے گی اور اصل مدعا خط جس کے ابلاغ کیلئے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے.اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے.اس دین کی حقانیت اور قرآن شریف کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشگوئیوں) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے.آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کو بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط و نیت سے (جو طالب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اِسی جگہ قادیان میں مشرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرّف ہو جاویں گے.اس شرط و نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے.اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلّف کا امکان نہیں.اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال تک رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سَو روپیہ ماہوارہ کے حساب سے آپ کو حرجانہ یا جرمانہ دیا جاوے گا.اس دو سَو روپیہ ماہوارہ کو آپ اپنی شایانِ شان نہ سمجھیں یا تو اپنی حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے.طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی نہیں.اگر آپ بذاتِ خود تشریف نہ لاسکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہارِ اسلام یا (تصدیق خوارق) میں توقف نہ فرماویں.آپ اپنی شرط اظہارِ اسلام (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی

Page 72

شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کومتعدد انگریزی اُردو اخباروں میں شائع کیا جاوے گا، ہم سے اپنی شرط دو سَو روپیہ ماہوار حرجانہ یا جو آپ پسند کریں اور ہم اُس کی ادائی کی طاقت بھی رکھیں.عدالت میں رجسٹری کرائیں بالآخر یہ عاجز حضرت خداوندکریم شانہٗ کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر اُن کی اشاعت کیلئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے، ہم کو جگہ دی.اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے.والسلام علی من اتبع الہدٰی.فقط راقم خاکسار غلام احمد قادیانی ۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ

Page 73

مکتوب نمبر ۱۰ اکبر آباد آریہ سماج کے ایک ممبر رام چرن نامی کے نام (ایک سوال کا جواب جو بذریعہ اخبار عام مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۸۸۵ء میں دیا گیا.ایڈیٹر) آج ایک سوال از طرف رام چرن نامی جو آریہ سماج اکبر آباد کے ممبروں میں سے ہے میری نظر سے گزرا.سو اگر چہ لغو اور بے حقیقت سوالات کی طرف متوجہ ہونا ناحق اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے لیکن ایک دوست کے الحاح اور اصرار سے لکھتا ہوں.سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کرکے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا؟ کیا اُس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں؟ ایسا سوال اُن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معارف میں نظر نہیں کی یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز نکتہ چینیوں کے اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی.اب واضح ہو کہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصولِ اسلام سے بکلّی بیگانہ اور معارفِ ربّانی سے سراسر اجنبی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کو بہکانے اور ورغلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے.حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقّہ اہل اسلام جس کو حضرت خداوند کریم شانہٗ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کے مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اُس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر ہر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں.ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتے ہیں.دوسرے داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے.لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا ہے کہ اُس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں.سو خدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عنایت کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت کے قبول کرنے کے

Page 74

لئے مستعد پیدا کیا.اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے تا انسان اُس کی رغبت دہی سے احتراز کر کے اُس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا، کہ ایسے دو۲ داعی یعنی داعی خیر و داعی شر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں، بہت صاف اور روشن ہے کیونکہ خود انسان بدیہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے.کبھی اُس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آ جاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اُٹھتے ہیں اور کبھی اُس کی حالت ایسی پُرظلمت اور مکدّر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بدخیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے.سو یہی دونوں داعی ہیں جن کو ملائک اور شیاطین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حکمائے فلسفہ نے انہیں دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسرے طور پر بیان کیا ہے.یعنی اُن کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں.ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے.دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے.قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود یہ پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں.جس سے میرا خدا راضی ہو.اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے.غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلاسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر دو وجود قرار دیتے ہیں اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں.جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں خواہ وہ محرک خارجی طور پر کوئی وجود رکھتے ہوں یا قوتوں کے نام سے اُن کو موسوم کیا جاوے یہ ایک ایسا اجماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پراتفاق رکھتے ہیں اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا.وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بہ کمال صفائی کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے اپنی توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور کیونکر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں.سو یہ ایک ایسی روشنی اور کھلی کھلی صداقت ہے جو ذوالعقول اس سے منکر نہیں ہو سکتے.ہاں جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے اپنے

Page 75

اپنے نفس کے حالات کی طرف توجہ نہیں کی ان کے دلوں میں اگر ایسے ایسے پوچ وساوس اُٹھیں تو کچھ بعید نہیں ہے.کیونکہ وہ لوگ بباعث نہایت درجہ کی غفلت اور کور باطنی کے قانون قدرت الٰہی سے بکلّی بے خبر اور انسانی خواص اور کیفیات سے سراسر ناواقف ہیں اور اُن کے اس جہل مرکب کا بھی یہی علاج ہے کہ وہ ہمارے اس بیان کو غور سے پڑھیں تا کہ اُن کو کچھ ندامت حاصل ہو کہ کس قدر تعصب نے اُن کو مجبور کر رکھا ہے کہ باوجود انسان کہلانے کے جو انسانیت کی عقل ہے اس سے بالکل خالی اور تہی دست ہیں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی صداقتوں سے انکار کر رہے ہیں جن کو ایک دس برس کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے.پھر بھی سائل اپنے سوال کے اخیر میں یہ شُبہ پیش کرتا ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو تسلی دی تھی کہ شیطان تجھ کو بہکا نہیں سکے گا لیکن اُسی قرآن میں لکھا ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا.یہ وسوسہ قلبی بھی سراسر قلّتِ فہم اور کور باطنی کی وجہ سے سائل کے دل میں پیدا ہوا.کیونکہ قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ شیطان آدم کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا قصد نہیں کرے گا یا آدم اس کے بہکانے میں کبھی نہیں آئے گا.ہاں قرآن شریف میں ایسی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے بہکانے سے ایسے وبال میں نہیں پڑتے جس سے اِن کا انجام بدہو بلکہ حضرت خداوندکریم شانہٗ جلد تر اُن کا تدارک فرماتا ہے اور اپنے ظل حفاظت میں لے لیتا ہے.سو ایسا ہی آدم کے حق میں اُس نے کہا کہ آدم صفی اللہ خلیفۃ اللہ ہے، اس کاانجام ہرگز بد نہیں ہوگا اور خدا کے محبوب بندوں میں رہے گا.چنانچہ یہ امر ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے آخر میں بھی آدم کوایسا ہی چن لیا جیسا کہ پہلے برگزیدہ تھا.غرض یہ اعتراض معترض بھی سراسر تعصب اور جہالت پر مبنی ہے نہ عقلمندی اور انصاف پر.۱۰؍ مئی ۱۸۸۵ء والسلام علی من اتبع الہدٰی.فقط

Page 76

مکتوب نمبر ۱۱ خط بنا م اِندر من مراد آبادی اندر من مراد آبادی نے دعوت یکسالہ کیلئے چوبیس سَو روپیہ مانگا تھا جو مسلمانوں کے ایک معزز ڈیپوٹیشن کے ہاتھ بھیجا گیا اور یہ خط ساتھ لکھا گیا مگر اندرمن کہیں بھاگ گیا.آخر یہ خط شائع کیا گیا.(ایڈیٹر) نقل اشتہار منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیرمذاہب کے استاد و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور زر موجود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کردو.وغیرہ وغیرہ.اس کے جواب میں خاکسار نے رقیمہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جماعت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا.جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا.وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا.اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں.باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا.یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا.لہٰذا یہ قرار پایا کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اُس کی ایک کاپی منشی صاحب کے نام حسب نشان مکان موجود بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے.وہ یہ ہے.مشفقی اِندر من صاحب! آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے.جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے.میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرا دے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو.آپ اُس کے جواب میں

Page 77

اوّل تو مجھے اپنے پاس (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے.اس پر طرفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا.اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے.بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا.لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں.اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کا آپ کو مشاہدہ نہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا.اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر اصرار ہو تو مجھ کو اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے.مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امرزائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں اس امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط ایسی لوں جس کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے.(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے.(۲) اگر آپ مشاہدہ آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو.(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی و مر ّبی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں.وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں.پھر اس پر اپنے دستخط کریں.(ب) درصورت تخلّف وعدہ جانب ثانی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کے اور آپ کے دوستوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادائی کریں تا کہ وہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائیدِ اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے ہیں صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلاء اور بہت

Page 78

ہیں جو ایسے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں.میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں.یہ مباحثہ کی صورتعمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے.بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ.٭ ۳۰ ؍ مئی ۱۸۸۵ء

Page 79

مکتوب نمبر ۱۲ پنڈت کھڑک سنگھ کے نام پنڈت کھڑک سنگھ ایک آریہ تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ۱۸۷۸ء میں قادیان میںگفتگو کرنے آیا اور بعض مذہبی مسائل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو بھی کی اور لاجواب ہو گیا.پھر جب وہ قادیان سے گیا تو آریہ مذہب سے بیزار ہوچکا تھا چنانچہ بالآخر وہ آریہ تو نہ رہا اور عیسائی ہو گیا اور آریہ مذہب کی تردید کا جو طریق حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے سیکھا تھا اسی طریق پر عیسائی ہو کر آریوں کے خلاف کئی رسالے لکھ ڈالے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر اتمام حجت کی غرض سے قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کے ثبوت میں مندرجہ ذیل سوال لکھ کر بھیجا تھا.مگر آخری وقت تک پنڈت کھڑک سنگھ اس کا جواب نہ دے سکا اور اس سوال کو ہی ہضم کر گیا.یہ مضمون تقریباً آج سے چونتیس برس پیشتر کا لکھا ہوا ہے.(یعقوب علی عفی اللہ عنہ) قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کی بڑی بھاری نشانی یہ ہے کہ اُس کی ہدایت سب ہدایتوں سے کامل تر ہے اور اس دنیا کی حالت موجودہ میں جو خرابیاں پڑی ہوئی ہیں، قرآن مجید سب کی اصلاح کرنے والا ہے.دوسری نشانی یہ ہے کہ قرآن مجید اَور کتابوں کی طرح مثل کتھا کے نہیں ہے بلکہ مدلّل طور پر ہر ایک امر پر دلیل قائم کرتا ہے.اس دوسری نشانی پر… بنام کھڑک سنگھ وغیرہ ہم نے پانسو روپیہ کا اشتہار بھی دیا تا کوئی پنڈت وید میں یہ صفت ثابت کر کے دکھلا دے کہ وید نے کن دلائل سے اپنے عقائد کو ثابت کیا ہے.مگر آج تک کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ دم بھی مار سکے.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ وید میں نہ انجیل میں نہ توریت میں ہرگز طاقت نہیں کہ کسی فرقہ مخالف کا ردّ مثلاً دہریہ کا ردّ یا طبیعہ کا ردّ یا ملحدوں کا ردّ یا منکرِ الہام کا ردّ یا منکرِ نبوت کا ردّ یا بت پرست کا ردّ یا منکر نجات کا ردّ یا منکر عذاب کا ردّ یا منکر وحدانیت باری کا ردّ یا کسی اور منکر کا ردّ دلائل قطعیہ سے کر کے دکھا دے.یہ سب کتابیں تو مثل مُردہ کے پڑی ہیں کہ جس میں جان نہ ہو.کھڑک سنگھ جو لڑکوں کو بہکاتا ہے کہ وید میں سب کچھ لکھا ہے جو وہ سچا ہے تو ہم اُس کو پانسو روپیہ دینا کرتے ہیں ہم سے ٹونبو لکھا لے.کسی فرقہ کے ردّ

Page 80

میں جو وید میں درج ہوں، دو تین جز بمقابلہ فرقان مجید لکھ کر دکھا دے.یا خدا کی خالقیت سے عاجز ہونے پر یا نجات ابدی دینے سے عاجز ہونے پر.بمقابلہ ہمارے دلائل کے وید سے دلائل نکال کر لکھے اور پانسو روپیہ فی الفور ہم سے لے لے.اور وہ جو کہتا ہے کہ فرقان مجید توریت و انجیل سے نکالا گیا ہے تو اُس کو چاہئے کہ اگر وید سے کام نہیں بنتا تو توریت و انجیل سے مدد لے اور اگر توریت یا انجیل وہ دلائل جو فرقان مجید پیش کرتا ہے پیش کر دیں گے تو ہم تب بھی کھڑک سنگھ کو پانسو روپیہ نقد دیں گے ایک ٹونبو تعدادی پانسوروپیہ بھی لکھ کر ہم بھیج دیتے ہیں.لیکن اگر اس کے جواب میں خاموش رہے اور کچھ غیرت اور شرم اُس کو نہ آوے تو معلوم کرنا چاہئے کہ بڑا بے حیا اور بے شرم ہے کہ ایسی پاک اور مقدس کتاب کی ہتک کرتا ہے کہ جس کی ثانی حکمت اور فلسفہ میں اور کوئی کتاب نہیں.تین ماہ سے بنام اُس کے بوعدہ انعام پانسو روپیہ ہمارا مضمون چھپ رہا ہے.اُس نے آج تک کون سے دلائل وید کے پیش کرے.شرم چہ کتی است کہ پیش مرداں بیاید.اور پہلی نشانی جو ہم نے عنوان اس مضمون میں لکھی ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ فرقان مجید اپنے احکام میں سب کتابوں سے کامل تر ہے اور ہماری موجودہ حالت کے عین مطابق ہے اور جس قدر فرقان مجید میں احکام ہدایت حسب حالت موجودہ دنیا کے مندرج ہیں کسی اور کتاب میں ہرگز نہیں.اگر کھڑک سنگھ وید، توریت، انجیل میں یہ سب احکام نکال دیں تو اس پر بھی ہم پانسو روپیہ دینے کی شرط کرتے ہیں.اگر کچھ شرم ہوگی تو ضرور بمقابلہ اُس کے وید سے بحوالہ پتہ و نشان لکھے گا.ورنہ خود یہ لڑکے جن کو یہ بہکا رہا ہے سمجھ جائیں گے کہ یہ جھوٹا ہے.کون منصف اس عذر کو سن سکتا ہے کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ تمہارا وید محض ناقص ہے.تم یہ احکام وید سے نکال دو اگر ناقص نہیں.تم یہ جواب دیتے ہو’’ ہمیں فرصت نہیں.وید یہاں موجود نہیں.‘‘ بھلا یہ کیا جواب ہے؟ اس جواب سے تو تم جھوٹے ٹھہرتے ہو.جس حالت میں ہم پانسو روپیہ نقد دینا کرتے ہیں ٹونبو لکھ دیتے ہیں، رجسٹری کرا دیتے ہیں تو پھر تمہارا وید بھی اگر کچھ چیز ہے تو کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے.دس بیس دن کی مہلت لے لو.دیانند کو اپنا مددگار بنا لو.ہم کو وہ احکام نکال دو جو ہم نیچے فرقان مجید سے نکال کر لکھیں گے یا یہ اقرار کرو کہ یہ احکام ہمارے نزدیک ناجائز ہیں.تب پھر اُن کے ناجائز ہونے کا نمبر وار وید سے حوالہ دو.غرض تم ہمارے ہاتھ سے کہاں بھاگ سکتے ہو اور یہ جو تم محض شرارت سے بارادہ توہین حضرت خاتم الانبیاء کی نسبت بدزبانی کرتے ہو، یہ محض تمہاری بداصلی ہے.اپنے پرچہ میں بھی تم نے ایسی ایسی اہانت

Page 81

سب پیغمبروں کی نسبت لکھی ہے.ہم کو خدا نے یہ شرف بخشا ہے کہ ہم سب پیغمبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور جیسا کہ خدا نے ہم کو فرمایا ہے، نجات سب مخلوقات کی اسلام میں سمجھتے ہیں.تم کو اگر حضرت خاتم الانبیاء پر کچھ اعتراض ہے تو زبان تہذیب سے وہ اعتراض جو سب سے بھاری ہو تحریر کر کے پیش کرو.ہم تمسک لکھ دیتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض تمہارا صحیح ہوا تو ہزار روپیہ ہم تم کو دے دیں گے اور تم ایک ٹونبو لکھ دو کہ اگر وہ اعتراض جھوٹا نکلا تو سَوروپیہ بطور حرجانہ تم ہم کو دو گے.اور اب اگرہماری یہ تحریر سن کر چپ ہو جاؤ اور اس شرط پر بحث شروع نہ کرو تو ہر ایک منصف سمجھ جائے گا کہ وہ سب توہین تم نے بے ایمانی سے کی ہے.اکثر لوگوں کا اکثر قاعدہ ہے کہ آفتاب پر تھوکتے ہو اور بجھا ہوا چراغ لئے بیٹھے ہو، دنیا کو بڑی چیز سمجھ رکھا ہے کہ موت سے ڈرتے نہیں.ورنہ ایسے آفتاب کی توہین کرنا جو نور دنیا کا ہے نری بے ایمانی ہے.جھوٹے آدمی کی یہ نشانی ہے کہ جاہلوں کے روبرو تو بہت لاف و گزاف مارتے ہیں مگر جب کوئی دامن پکڑ کر پوچھے کہ ذرا ثبوت تو دے کر جاؤ، حیران ہو جاتے ہیں…… اب ہم نیچے وہ احکام فرقان مجید لکھتے ہیں کہ جن میں ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ وید میں یہ تمام احکام ضروریہ ہر گز موجود نہیں اس لئے وید ناقص تعلیم ہے اور تم کہتے ہو کہ ہیں اور ہم کہتے ہیں ہرگز نہیں اور لعنت اُس شخص پر کہ جھوٹا ہے.اوّل خدا کی نسبت جو احکام فرقان مجید کے ہیں.خلاصہ آیات کا نیچے لکھتا ہوں.(۱) تم خدا کو اپنے جسموں اور روحوں کا ربّ سمجھو.جس نے تمہارے جسموں کو بنایا اور جس نے تمہاری روحوں کو بنایا.وہی تم سب کا خالق ہے.اُس میں کوئی چیز موجود نہیں ہوتی.(۲) آسمان اور زمین اور سورج اور چاند اور جتنی نعمتیں زمین آسمان میں نظر آتی ہیں یہ کسی عمل کنندہ کے عمل کی پاداش نہیں.محض خدا کی رحمت ہے.کسی کو یہ دعویٰ نہیں پہنچتا کہ میری نیکیوں کے عوض میں خدا نے سورج بنایا یا زمین بچھائی یا پانی پیدا کیا.(۳) تُو سورج کی پرستش نہ کر، تُو چاند کی پرستش نہ کر، تُو آگ کی پرستش مت کر، تُو پتھر کی پرستش مت کر، تُو مشتری ستارہ کی مت پوجا کر، تُو کسی آدم زاد یا کسی اور جسمانی چیز کو خدا مت سمجھ کہ یہ سب چیزیں تیرے ہی نفع کے واسطے ہم نے پیدا کی ہیں.(۴) بجز خدا کے کسی چیز کی بطور حقیقی تعریف مت کر کہ سب تعریفیں اُسی کی طرف راجع ہیں بجز اس

Page 82

کے کسی کو اُس کا وسیلہ مت سمجھ کہ وہ تجھ سے تیری رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ترہے.(۵) تُو اس کو ایک سمجھ کہ جس کا کوئی ثانی نہیں.تُو اس کو قادر سمجھ جو کسی فعل قابل تعریف سے عاجز نہیں.تُو اُس کو رحیم اور فیاض سمجھ کہ جس کے رحم اور فیض پر کسی عامل کے عمل کو سبقت نہیں.دوئم حالت موجودہ دنیا کی.مطابق گناہوں کے نسبت.(۱) تُو سچ بول اور سچی گواہی دے اگرچہ اپنے حقیقی بھائی پر ہو یا باپ پر ہو یا ماں پر یا کسی اور پیارے پر ہو اور حقانی طرف سے الگ مت ہو.(۲) تُو خون مت کر کیونکہ جس نے ایک بے گناہ کو مار ڈالا وہ ایسا ہے کہ جس نے سارے جہان کو قتل کر دیا.(۳) تُو اولاد کشی اور دختر ُکشی مت کر، تُو اپنے نفس کو آپ قتل مت کر، تُو کسی کافر و ظالم کا مددگار مت ہو، تُو زنا مت کر.(۴) تُو کوئی ایسا فعل مت کر جو دوسرے کا ناحق باعثِ آزار ہو.(۵) تُو قمار بازی نہ کر، تُو شراب مت پی، تُو سُود مت لے اور جو اپنے لئے اچھا سمجھتا ہے وہی دوسرے کیلئے کر.(۶) تُو نامحرم پر ہرگز آنکھ مت ڈال، نہ شہوت سے، نہ خالی نظر سے کہ یہ تیرے لئے ٹھوکر کھانے کی جگہ ہے.(۷) تم اپنی عورتوں کو میلوں اور محفلوں میں مت بھیجو اور اُن کو ایسے کاموں سے بچاؤ کہ جہاں وہ ننگی نظر آویں.تم اپنی عورتوں کو زیور چھنکاتی ہوئی خوش اور پسند لباس کوچوں اور بازاروں اور میلوں کی سیر سے منع کرو اور اُن کو نامحرموں کی نظر بازی سے بچاتے رہو.تم اپنی عورتوںکو تعلیم دو اور دین اور عقل اور خدا ترسی میں اُن کو پختہ کرو اور اپنے لڑکوں کو علم پڑھاؤ.(۸) تُو جب حاکم ہو کر کوئی مقدمہ کرے تو عدالت سے کر اور رشوت مت لے اور جب تُو گواہ ہو کر پیش ہو تو سچی سچی گواہی دیدے اور جب تیرے نام حاکم کی طرف سے بغرض ادا کسی گواہی کے حکم طلبی کا صادر ہو تو خبردار حاضر ہونے سے انکار مت کیجیئواور عدول حکمی مت کریو.(۹) تُو خیانت مت کر، تُو کم وزنی مت کر اور پورا پورا تول، تُو جنس ناقص کو عمدہ کی جگہ مت بیچ، تُو

Page 83

جعلی دستاویز مت بنا اور اپنی تحریر میں جعلسازی نہ کر، تُو کسی پر تہمت مت لگا اور کسی کو الزام مت دے کہ جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں.(۱۰) تُو چغلی نہ کر، تُو گلہ نہ کر، تُو نمامی مت کر اور جو تیرے دل میں نہیں وہ زبان پر مت لا.(۱۱) تیرے پر تیرے ماں باپ کا حق ہے جنہوں نے تجھے پرورش کیا.بھائی کا حق ، محسن کا حق ہے، سچے دوست کا حق ہے، ہمسایہ کا حق ہے، ہم وطنوں کا حق ہے، تمام دنیا کا حق ہے.سب سے رتبہ برتبہ ہمدردی سے پیش آ.(۱۲) شرکاء کے ساتھ بدمعاملگی مت کر، یتیموں اور ناقابلوں کے مال کو خوردبرد مت کر.(۱۳) اسقاطِ حمل مت کر، تمام قسموں زنا سے پرہیز کر، کسی عورت کی عزت میں خلل ڈالنے کیلئے اُس پر کوئی بہتان مت لگا.(۱۴) رُوبخدا ہو اور رُوبدنیا نہ ہو کہ دنیا ایک گذر جانے والی چیز ہے اور وہ جہاں ابدی جہان ہے بغیر ثبوتِ کامل کے کسی پر نالائق تہمت مت لگا کہ دلوں اور کانوں اور آنکھوں سے قیامت کے دن مواخذہ ہوگا.(۱۵) کسی سے جبراً کوئی چیز مت چھین اور فرض کو عین وقت پر ادا کر اور اگر تیرا قرضدار نادار ہے تو اُس کو قرض بخش دے اور اگر اتنی طاقت نہیں تو قسطوں سے وصول کر لیکن تب بھی اُس کی وسعت وقت دیکھ لے.(۱۶) کسی کے مال میں لاپروائی سے نقصان مت پہنچا اور نیک کاموں میں مدد دے.(۱۷) اپنے ہمسفر کی خدمت کر اور اپنے مہمان سے تواضع سے پیش آ.سوال کرنے والے کو خالی مت پھیر اور ہر ایک جاندار بھوکے پیاسے پر رحم کر.(۱۸) لوگوں کی راز جوئی مت کر اور کسی کے گھر میں بغیر اُس کی اجازت کے اندر مت جا اور کسی شخص کو دھوکہ دینے کی نیت سے کوئی کام مت کر، دغا اور فریب اور نفاق سے دور رہ اور ہر ایک شخص سے صفا دلی سے معاملہ کر اور یتیموں اور ہمسایوں اور غریبوں خواہ رشتہ دار ہوں خواہ غیر تعلق والے ہوں اور ساتھ والے مسافروں اور راہ گیروں اور غلاموں پر مہربانی کرو.خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ

Page 84

پنڈت لیکھرام صاحب آریہ مسافر کشتہ اعجاز مسیحائی کے نام پنڈت لیکھرام صاحب آریہ مسافر کا نام مشہور ہے.یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی قضا و قدر کے متعلق نشان مانگا تھا اور آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندہ کو اطلاع دی اور ایک پیشگوئی اس کے متعلق شائع کی گئی کہ چھ سال کے اندر وہ ایک خارقِ عادت عذاب سے ہلاک ہوگا.عذاب کی نوعیت بھی اشتہار مذکور میں ظاہر کی گئی تھی جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے.اَلا اے دشمنِ نادان و بے راہ بترس از تیغِ براّنِ محمد فرمودہ الٰہی موافق ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.اس پیشگوئی کی تفصیل اور تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں درج ہے یہاں مجھے اس کی مزید تصریح کی ضرورت نہیں.صرف اس مقصد کے لئے یہ نوٹ لکھ دیا ہے کہ تا کہ پڑھنے والوں کو ایک سرسری علم پنڈت لیکھرام صاحب کشتہ اعجاز مسیحائی کے متعلق ہو جاوے.وہ اشتہار جو حضرت مسیح موعود نے مختلف لیڈران مذاہب کے نام بغرض مقابلہ روحانی دیا تھا جس کے لئے پنڈت اِندرمن مراد آبادی نے آمادگی ظاہر کی تھی اور بالآخر جب روپیہ اس کے پاس بھیجا گیا تو وہ لاہور سے بھاگ گئے.اسی اشتہار کے سلسلہ میں پنڈت لیکھرام صاحب نے بھی نشان بینی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور خط و کتابت شروع کی چنانچہ اس سلسلہ میں جو خطوط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام صاحب کو لکھے وہ انشاء اللہ العزیز ذیل میں درج ہونگے.یہ ظاہر کر دینا بھی ضروری ہے کہ ان خطوط کے اندراج میں کسی خاص ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا گیا.بلکہ صرف جمع کر دینا زیر نظر ہے.(یعقوب علی عفی اللہ عنہ)

Page 85

مکتوب نمبر۱۳ بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم مشفق پنڈت لیکھرام صاحب.بعد ماوجب.آپ کا خط مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مجھ کو ملا آپ نے بجائے اس کے کہ میرے جواب پر انصاف اور صدق دلی سے غور کرتے ایسے الفاظ دُور از تہذیب و ادب اپنے خط میں لکھے ہیں جو میں خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی مہذب آدمی کسی سے خط و کتابت کر کے ایسے الفاظ لکھنا روا رکھے.پھر آپ نے اپنے اسی خط میں ہنسی اور تمسخرکی راہ سے دین اسلام کی نسبت توہین اور ہتک کے کلمات تحریر کئے ہیں اور بغیر سوچنے سمجھنے کے ہجو ملیح کی طرح مکروہ اور نفرتی باتوں کو پیش کیا ہے.اگرچہ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کس قدر طالبِ حق ہیں لیکن پھر بھی میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کی سخت اور بدبودار باتوں پر صبر کرکے دوبارہ آپ کو اپنے منشاء سے مطلع کروں.کیونکہ یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید آپ نے میرے پہلے خط کو غور سے نہیں پڑھا اور اشتعال طبع مانع تفکر و تدبّر ہو گیا.سو اب میں پھر اپنے اُسی جواب کو دوہرا کر تحریر کرتا ہوں.صاحب من! میں نے جو پہلے خط میں لکھا تھا اس کا خلاصہ مطلب یہی ہے جو اَب میں گزارش کرتا ہوں.یعنی ان دنوں میں اتمامِ حجت کی غرض سے میںنے یہ مناسب سمجھا کہ سات سَو خط چھپوا کر اُن مخالفین مذہب کی طرف روانہ کروں جو اپنی اپنی قوم کے سرگروہ اور میر مجلس ہیں اور یہ قرار پایا کہ چونکہ ہر ایک قوم میں اوسط اور ادنیٰ درجہ کے آدمی ہزار ہا بلکہ لکھوکھہا ہوا کرتے ہیں اس لئے یہی مناسب ہے کہ یہ خطوط مطبوعہ ان چیدہ چیدہ اور اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی طرف روانہ کئے جائیں کہ جو خواص اور قلیل الوجود آدمی ہیں.پھر ساتھ ہی یہ بھی سوچا گیا کہ ایسے لوگ اگر قادیان میں ایک برس تک ٹھہرنے کے لئے بلائے جائیں تو ان کی دنیوی عزت اور آمدنی کے لحاظ سے دو سَو روپیہ ماہواری ان کے لئے شرط مقرر کرنا مناسب ہوگا.کیونکہ یہ خیال کیا گیا کہ وہ لوگ جس قدر اپنے اپنے مکانات میں بذریعہ نوکری یا تجارت وغیرہ وجوہ معاش حاصل کرتے ہیں.وہ غالباً اسی اندازہ کے قریب قریب ہوگا.غرض جو دو سَو روپیہ کی رقم مقرر کی گئی وہ محض بنظر اندازہ وجوہِ معاش اُن اعلیٰ درجہ کے سرگروہوں کے مقرر ہوئی تا وہ لوگ یہ عذر پیش نہ کریں کہ قادیان میں ٹھہرنے سے ہمارا

Page 86

دوسَو روپیہ ماہواری کا ہرج متصور ہے اور اسی غرض سے خطوط مطبوعہ میں یہ بھی اندراج پایا کہ اگر دوسَو روپیہ ماہواری کسی صاحب کی حیثیت دنیوی سے کم ہو.تو جہاں تک ممکن ہو ان کو دو سَو روپیہ ماہوار سے کچھ زیادہ دیا جائے گا.اب آپ جو تحریر فرماتے ہیں کہ وہ دو سَو روپیہ کہ جو اعلیٰ درجہ کے لوگوں کیلئے بہ لحاظ حیثیت دنیوی اُن کے مطبوعہخطوط میں اندراج پایا ہے اُسی قدر روپیہ ملنے کی شرط سے میں قادیان میں آتا ہوں.سو آپ خود انصاف فرما لیویں کہ آپ کیونکر اس قدر روپیہ پانے کی شرط کر سکتے ہیں.ہاں اگر آپ کسی جگہ دو سَو روپیہ ماہواری پاتے ہیں تو پھر اس صورت میں مجھے کسی طور سے عذر نہیں ہے.آپ مجھ پر یہ ثابت کر دیں کہ میں اسی حیثیت کا آدمی ہوں.اگر ایسا ثابت نہ کر سکیں تو پھر آپ کے لئے یہ منظور کرتا ہوں کہ جس قدر آپ نوکری کی حالت میں تنخواہ پاتے رہے ہیں وہی تنخواہ حسبِ شرائط متذکرہ خطوط مطبوعہ آپ کو دوں گا.لیکن آپ خود انصاف کر لیویں کہ جو تنخواہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے اُن کی ماہواری آمدنی کے لحاظ سے اور اُن کے ہرجہ کثیرہ کے خیال سے خطوط مطبوعہ میں لکھی گئی ہے وہ کیونکر اُن لوگوں کو دی جاوے جو اس درجہ کے آدمی نہیں ہیں.اور اگر ہر ایک ادنیٰ اعلیٰ کے لئے دو سَو روپیہ ماہواری دینا تجویز کروں تو اس قدر روپیہ کہاں سے لاؤں.آپ تحکم کی راہ سے کلام نہ کریں اور جو میں نے خطوط کے چھاپنے کے وقت انتظام کیا ہے اُس کو خوب سوچ لیں.اور میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ آپ دو تین روز کے لئے قادیان میں آجائیں اور بالمواجہ گفتگو کر کے اس بات کا تصفیہ کریں.مجھے یہ بھی منظور ہے کہ دو تین شریف اور معزز آریہ جیسے منشی جیون داس لاہور میں ہیں وہ مجھ سے ملاقات کر کے جو اس بارہ میں تصفیہ کریں وہی قرار پا جائے.میں ناحق کی ضد کرنا نہیں چاہتا نہ کوئی حیلہ بہانہ کرنا چاہتا ہوں.آپ غور سے میرے خط کو پڑھیں اور یہ جو آپ نے اپنے خط کے اخیر پر لکھ دیاہے کہ قادیان کے آریہ لوگوں سے آپ کی کراماتی مایہ کی قلعی کھل چکی ہے.یہ الفاظ بھی منصفین کے سامنے پیش کرنے کے لائق ہیں.جس حالت میں قادیان کے بعض آریہ جو میرے پاس آمدو رفت رکھتے ہیں اب تک زندہ موجود ہیں اور اس عاجز کے نشانوں اور خوارق کے قائل اور مقر ہیں تو پھر نہ معلوم کہ آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ وہ لوگ منکر ہیں.اگر آپ راستی کے طالب تھے تو مناسب تھا کہ آپ قادیان میں آ کر میرے روبرو اور میرے مواجہ میں اُن لوگوں سے دریافت کرتے تا جو امر حق ہے آپ پر واضح ہو جاتا

Page 87

.مگر یہ بات کس قدر دیانت اور انصاف سے بعید ہے کہ آپ دور بیٹھے قادیان کے آریوں پر ایسی تہمت لگارہے ہیں.ذرا آپ سوچیں کہ جس حالت میں میں نے اُنہیں آریوں کا نام حصہ سوم و چہارم میں لکھ کر اُن کا شاہد خوارق ہونا حصص مذکورہ میں درج کر کے لاکھوں آدمیوں میں اس واقعہ کی اشاعت کی ہے تو پھر اگر یہ باتیں دروغ بے فروغ ہوں تو کیونکر وہ لوگ اب تک خاموش رہتے بلکہ ضرور تھا کہ اس صریح جھوٹ کے ردّ کرنے کے لئے کئی اخباروں میں اصل کیفیت چھپواتے اور مجھ کو ایک دنیا میں رسوا اور شرمندہ کرتے.سو منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ لوگ باوجود شدت مخالفت اور عناد کے اسی وجہ سے خاموش اور لاجواب رہے کہ جو جو میں نے شہادتیں اُن کی نسبت لکھیں وہ حق محض تھا.اور آپ پر لازم ہے کہ آپ اس ظن فاسد سے مخلصی حاصل کرنے کے لئے قادیان آ کر اس بات کی تصدیق کر جائیں.تا سیہ رو شود کہ دروغش باشد جواب سے جلد تر مطلع کریں.والدعاء راقم مرزا غلام احمد از قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۸۸۵ء

Page 88

مکتوب نمبر۱۴ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم از عائذ باللہ الصمد غلام احمد بطرف پنڈت لیکھرام صاحب.بعد ماوجب.آپ کا خط ملا.آپ لکھتے ہیں کہ خط مطبوعہ مطبع مرتضائی لاہور مطالعہ سے گزرا.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک یہ خط آپ نے مطالعہ نہیں کیا کیونکہ تحریر آپ کی شرائط مندرجہ خط مذکورہ بالا سے بکلّی برعکس ہے.اوّل اس عاجز نے اپنے خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ٹھہرائے ہیں کہ جو اپنی قوم میں معزز علماء اور مشہور اور مقتداء ہیں جن کاہدایت پاناایک گروہ کثیر پر مؤثر ہو سکتا ہے.مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں.اور اگر میں نے اس رائے پر غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتداء و پیشوائے قوم ہیں تو بہت خوب، میں زیادہ تر آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا.صرف اتنا کریں کہ پانچ آریہ سماج میں (۱)آریہ سماج قادیان (۲) آریہ سماج لاہور (۳) آریہ سماج پشاور (۴) آریہ سماج امرتسر (۵)آریہ سماج لدھیانہ میں جس قدر ممبر ہیں سب کی طرف سے ایک اقرار نامہ حلفاً اس مضمون کا پیش کریں کہ جو پنڈت لیکھرام صاحب ہم سب لوگوں کے مقتداء اور پیشوا ہیں.اگر اس مقابلہ میں مغلوب ہو جاویں گے اور کوئی نشانِ آسمانی دیکھ لیں گے تو ہم سب لوگ بلاتوقف شرفِ اسلام سے مشرف ہو جائیں گے.پس اگر آپ مقتدائے قوم ہیں تو ایسا اقرار نامہ پیش کرنا آپ پر کچھ مشکل نہ ہوگا بلکہ تمام لوگ آپ کا نام سنتے ہی اقرار نامہ پر دستخط کر دیں گے کیونکہ آپ پیشوائے قوم جو ہوئے.لیکن اگر آپ اپنا مقتدائے قوم ہونا ثابت نہ کر سکیں اور ایسا اقرار نامہ مرتب کر کے دو ہفتہ تک میرے پاس نہ بھیج دیںتو آپ ایک شخص عوامُ النَّاس سے سمجھے جائیں گے جو قابلِ خطاب نہیں.یہ بات آپ پر واضح رہے کہ اس معاملہ میں خط مطبوعہ میں شرط یہی درج ہے کہ مقتدائے قوم ہو (دیکھو سطر دہم خط مطبوعہ) اب مقتداء ہونا بجز مقتدیوں کے اقرار کے کیونکر ثابت ہو.اور یہ بات کہ ہم نے اپنے خط میں یہ شرائط لازمی کیوں رکھی کہ شخص ممتحن مقتدائے قوم ہو، عوامُ النَّاس سے نہ ہو، اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ عوامُ النَّاس میں سے کسی کو مغلوب اور قائل کرنا دوسروں پر مؤثر نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے شخص کے تجربہ کے خواص لوگ سادہ لوحی اور عدم بصیرتی پر حمل کرتے ہیں اور بجائے اس کے کہ کوئی

Page 89

گروہ اس کا اتباع کر کے راہ راست پر آئے، حق کی ہدایت یابی کو کسی غرض نفسانی پر مبنی سمجھ لیتے ہیں.ماسوا اُس کے ان خطوط مطبوعہ کے بھیجنے سے میری غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک قوم پرحجت پوری ہوکر حصہ پنجم میں اس اتمامِ حجت کا حال درج کیا جاوے لیکن ایک عامی آدمی کے قائل اور مسلمان ہو جانے سے قوم پر کیونکر حجت پوری ہو جائے گی.عامی کا عدم و وجود قوم کے نزدیک برابر ہے.کیا اس جگہ کے بعض آریہ سماج کے ممبروں کی شہادت سے جنہوں نے بچشم خود بعض نشانوں کو دیکھا ہے، آپ لوگ مسلمان ہو سکتے ہیں؟ تو پھر کیونکر امید رکھیں کہ آپ کی شہادت قوم پر مؤثر ہوگی.حالانکہ آپ قادیان کے بعض آریوں سے جنہوں نے بعض نشانوں کو مشاہدہ کیا ہے حیثیت اور عزت اور لیاقت میں زیادہ نہیں ہیں.بہرحال ہم کو اس خط مطبوعہ پر عمل کرنا لازم ہے جس کو آپ بنظر سرسری دیکھ چکے ہیں.اگر قوم کے مقتدا مخاطب ہونے کے لئے مخصوص نہ ہوں تو یہ سلسلہ قیامت تک ختم نہ ہوگا.مناسب ہے کہ آپ بہت جلد اس کا جواب لکھیں کیونکہ اگر آپ مقتداء قوم کے قرار پا گئے تو دوسرے مراتب اس کے بعد طے ہونگے اور جو مبلغ دو سَو روپیہ ماہواری کے حساب سے دو ہزار چار سَو روپیہ سال بصورت مغلوبیت دینا تجویز کیا ہے، یہ بھی اسی لحاظ سے یعنی مقتدائے قوم کی وجہ سے قرار پایا ہے.پھر خواہ وہ مقتدا تمام روپیہ آپ رکھے یا قوم جو اقرار نامہ پر دستخط کرے گی اپنے اپنے حصہ ٹھہرا لیں.اب خلاصۂ کلام آپ یہ یاد رکھیں کہ ہم نے تین ماہ تک حصہ پنجم کا چھپنا ملتوی کر کے ہر ایک قوم کے سرگروہ کو خطوط مطبوعہ بصیغہ رجسٹری بھیجے ہیں.کیونکہ قوم کے سرگروہ کُل قوم کا حکم رکھتے ہیں.عوامُ النَّاس سے ہم کو کچھ سروکار نہیں اور نہ اس طور سے بحث کا سلسلہ کبھی ختم ہو سکتا ہے.جو شخص ہمارے مقابل پر آناچاہے ( آپ ہوں یا کوئی اور ) اوّل اُس کو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ درحقیقت وہ مقتدائے قوم ہے اور اس کی قوم کے لوگ اس بات پر مستعد ہیں کہ اس کے قائل اور اقراری ہو جانے سے بِلا حجت و حیلہ دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے.سو مناسب ہے کہ آپ سعی و کوشش کرکے پانچوں آریہ سماج کے جس قدر ممبر ہوں اُن سے حلفاً اقرار نامہ لے لیں اور نام بنام اُن سے دستخط کرائیں اور اس اقرار نامہ پر دس یا بیس متفقہ مسلمانوں اور بعض پادریوں کے دستخط بھی ہوں تاکہ وہ اقرار نامہ معہ آپ کے اقرار نامہ اور ہمارے اقرار کے چند اخباروں میں چھپوایا جاوے.لیکن جب تک آپ اس طور سے اپنا سرگروہ ہونا ثابت نہ کریں تب تک آپ عوامُ النَّاس میں سے محسوب ہونگے

Page 90

.ہمارے خط کو غور سے دیکھو اور اس کے منشاء کے موافق قدم رکھو.ان خطوط سے اصل مطلب تو ہمارا یہی تھا کہ قوموں کے سرگروہوں کو قائل یا لاجواب کر کے کُل قوموںپر (ہندو ہوں یا عیسائی) اتمامِ حجت کیا جائے.پس جو لوگ سرگروہ ہی نہیں ان کے لاجواب یا قائل کرنے سے ہمارا مطلب کیونکر پورا ہوگا اور حصہ پنجم کے چھپنے کی کب نوبت آئے گی؟ اور اگر خدا توفیق دیوے تو اپنے آریہ بھائیوں کی شہادت کو ہی کافی سمجھو.کیونکہ وہ بھی آخر تمہارے ہی بھائی ہیں.والدعاء ٭ خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق یکم رجب ۱۳۰۲ھ

Page 91

مکتوب نمبر ۱۵ مشفقی پنڈت لیکھرام صاحب! بعد ماوجب.اگرچہ اس خاکسار نے آپ کے اُن خطوط کے جواب میں جن میں آپ نے قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی درخواست کی تھی یہ لکھا تھا کہ چوبیس سَو روپیہ لینے کی شرط پر آپ کا ایسی درخواست کرنا آپ کی عزت اور حیثیت عرفی کے برخلاف ہے لیکن چونکہ آپ اب تک اسی بات پر اصرار کئے جاتے ہیں کہ میں آریہ سماج کے گروہ میں ایک بڑا عزت دار آدمی ہوں اور بزرگوار اور عالی مرتبت ہونے کی وجہ سے تمام آریہ سماجوں میں مشہور و معروف ہوں بلکہ میں نے سنا ہے کہ آپ نے اپنے اسی دعویٰ کو بعض اخباروں میں چھپوا کر جا بجا مجھے بدنام کرنا چاہا ہے اور یہ لکھا ہے کہ جس حالت میں میں ایسا عزت دار آدمی ہوں اور پھر طالب حق.تو پھر کیوں مجھے آسمانی نشان کے دکھلانے اور اسلام کی حقیت مشاہدہ کرانے سے محروم رکھا جاتا ہے اور کیوں چوبیس سَو روپیہ دینے کی شرط پر مجھ کو قادیان میں ایک سال تک ٹھہرا کر آسمانی نشانوں کے آزمانے کیلئے اجازت نہیں دی جاتی؟ سو آپ پر واضح ہو کہ ہم نے جو آج تک آپ کی درخواست منظور کرنے میں توقف کیا تو اس کی یہی وجہ تھی کہ ہم اپنے خط مطبوع میں یہ شرـط درج کر چکے ہیں کہ ہمارا مقابلہ عوام الناس سے نہیں ہے بلکہ ہر قوم کے چیدہ اور منتخب اور صاحب عزت لوگوں سے ہے.اور ہر چند ہم نے کوشش کی مگر ہم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ آپ اُن معزز اور ذی مرتبت لوگوں میں سے ہیں جو بوجہ حیثیت عرفی اپنی کے دو سَو روپیہ ماہواری خرچہ پانے کے مستحق ہیں مگر چونکہ آپ کا اصرار اپنے اس دعویٰ پر غایت درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ فی الحقیقت میں ایسا ہی عزت دار ہوں اور پشاور سے بمبئی تک جس قدر آریہ سماج ہیں وہ سب مجھ کو معزز اور قوم میں سے ایک بزرگ اور سرگروہ سمجھتے ہیں.اس لئے آپ کی طرف لکھا جاتا ہے کہ اگر آپ سچ مچ ایسے ہی عزت دار ہیں تو ہم آپ کی درخواست منظور کرلیتے ہیں اور جہاں چاہو چوبیس سَو روپیہ جمع کرانے کو تیاراور مستعد ہیں.لیکن جیسا کہ آپ شرائط مندرجہ خطوط مطبوعہ سے تجاوز کر کے اپنی پوری پوری تسلّی کرنے کے لئے مجھ سے چوبیس سَوروپیہ نقد کسی دوکان یا بنک سرکار میں جمع کرانا چاہتے ہیں تو اس صورت میں مجھے بھی حق پہنچتا ہے کہ میں بھی آپ کے اس اقرار کو جو بعد دیکھنے کسی آسمانی نشان کے بلاتوقف قادیان میں ہی

Page 92

مسلمان ہو جاؤں گا.آپ ہی کے اعتبار پر نہ چھوڑوں بلکہ جیسے آپ روپیہ وصول کرنے کے باب میں اپنی پوری پوری تسلی کریں گے ایسا ہی میں بھی آپ کے مسلمان ہونے کے لئے کوئی اور تدبیر کر لوں جس سے مجھے بھی پورا پورا یقین اور کامل تسلی ہو جائے کہ آپ بھی درحالت انکار اسلام اپنی عہدشکنی کے ضرر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے.سو عدالت کی بات جس میں میں اور آپ برابر ہیں یہ ہے کہ ایک طرف یہ خاکسار چوبیس سَو روپیہ حسب نشاندہی آپ کے کسی جگہ جمع کرا دے اور ایک طرف آپ بھی اسی قدر روپیہ حسب نشاندہی اس عاجز کے بوجہ تاوان انکار اسلام کسی مہاجن کی دوکان پر رکھوا دیں تا جس کو خدا تعالیٰ فتح بخشے اُس کیلئے یہ روپیہ فتح کی ایک یادگار رہے.یہ تجویز کسی فریق پر ظلم نہیں بلکہ فریقین کیلئے موجب تسلّی و سراسر انصاف ہے کیونکہ جیسے آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ آپ بصورت مغلوب ہونے اس عاجز کے چوبیس سَو روپیہ جبراً وصول نہیں کر سکتے.علی ہذا القیاس! مجھے بھی یہ فکر ہے کہ میں بھی بعد مغلوب ہونے آپ کے آپ کو جبراً مسلمان نہیں کر سکتا.سو یہ انتظام حقیقت میں نہایت عمدہ اور مستحسن ہے کہ ایک طرف آپ وصولی روپیہ کے لئے اپنی تسلی کر لیں اور ایک طرف میں بھی ایسا بندوبست کر لوں کہ درحالت عدم قبول اسلام آپ بھی شکست کے اثر سے خالی نہ جانے پاویں.اور اگر آپ اسلام کے قبول کرنے میں صادق النیت ہیں تو آپ کو روپیہ جمع کرنے میں کچھ نقصان اور اندیشہ نہیں کیونکہ جب آپ بصورت مغلوب ہونے کے مسلمان ہو جائیں گے تو ہم کو آپ کے روپیہ سے کچھ سروکار نہیں ہوگا بلکہ یہ روپیہ تو صرف اُس حالت میں بطور تاوان آپ سے لیا جائے گا کہ جب آپ عہد شکنی کر کے اسلام کے قبول کرنے سے گریز یا روپوشی اختیار کریں گے.سو یہ روپیہ بطور ضمانت آپ کی طرف سے جمع ہوگا اور صرف عہد شکنی کی صورت میں ضبط ہوگا نہ اور کسی حالت میں.رہا یہ امر کہ آپ اس قدر روپیہ کہاں سے لائیں گے تو اس کا فیصلہ تو آپ ہی کے اقرار سے ہو گیا.جب کہ آپ نے اقرار کر لیا کہ میں بڑا عزت دار آدمی اور قوم میں مشہور و معروف ہوں.کیونکہ جس حالت میں آپ اتنے بڑے عزت دار ہیں تو اوّل یہ روپیہ آپ کے آگے کچھ چیز ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ آپ کے دولت خانہ میں جمع ہوگا اور اگر کسی اتفاق سے آپ پر افلاس طاری ہے تو قوم کے لوگ ایسے معزز اور سرگروہ سے امداد وغیرہ کے بارے میں کب دریغ کریں گے بلکہ وہ تو سنتے ہی ہزار ہا روپیہ آپ کے قدموں پر رکھ دیں گے اور صرف آپ کی ایک

Page 93

زبان کے اشارہ سے روپیوں کا ڈھیر جمع ہو جائے گا.خدانخواستہ ایسا کیوں ہونے لگا کہ آریہ سماج کے دولتمند اور ذی مقتدرت لوگ آپ کو چند روز کے لئے بطور امانت روپیہ دینے سے انکار کریں اور آپ کی دیانتداری اور امانت گزاری میں اُن کو کلام ہو.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ادنیٰ ادنیٰ آدمی جیسے چوہڑے چمار یا سانسی اپنی قوم میں کچھ ذرا سا اعتبار رکھتے ہیں، وہ بھی اپنی برادری میں اس قدر مسلّم العزت ہوتے ہیں کہ قوم کے ذی مقدرت لوگ کسی مشکل کے وقت صدہا روپیہ سے بطور قرضہ وغیرہ اُن کی امداد کرتے ہیں اور آپ تو بقول آپ کے بڑے ذی عزت آدمی ہیں جن کی عزت سارے آریہ سماجوں میں تسلیم و قبول کی گئی ہے.ماسوا اس کے یہ روپیہ صرف کچھ مدت کیلئے امانت کے طور پر آپ کے ہاتھ میں دیں گے یہ نہیں کہ وہ روپیہ آپ کی مِلک کر دیں گے.قصہ کوتاہ یہ کہ آج ہم یہ خط رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجتے ہیں اور اگر بیس دن تک آپ نے ہمارا جواب نہ بھیجا اور قادیان میں آ کر ایک سال تک ٹھہرنے کیلئے بات نہ ٹھہرالی اور ان شرائط کو جو عین انصاف اور حق پسندی پر مبنی ہیں قبول نہ کیا تو پھر بعد گزرنے بیس روز کے یہ حال کنارہ کشی آپ کا چند اخباروں میں شائع کرا کر لوگوں پر ثابت کیا جائے گا کہ آپ کا ایک سال تک قادیان میں ٹھہرنے کے لئے مجھ سے دریافت کرنا سراسر لاف و گزاف پر مبنی تھا.نہ آپ کی نیت صاف و درست تھی نہ آپ کی ایسی حیثیت و عزت تھی جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا.اب ہم اس خط کو ختم کرتے ہیں اور مدت مقررہ تک ہر روز آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے.٭ والسلام علی من اتبع الہدیٰ خاکسار.غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۸۸۵ء٭ روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مؤرخہ ۲؍ فروری ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 94

مکتوب نمبر ۱۶ بنام پنڈت لیکھرام آریہ مسافر اصل خط نہیں ملا.صرف اس خط کے اقتباس لیکھرام کی تکذیب سے لئے ہیں.اس لئے ان کو ہی مفصل درج کر دیا جاتا ہے.بہرحال اس اقتباس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا لکھا ہوگا.(ایڈیٹر) پہلے اشتہار میں چوبیس سَو(۲۴۰۰) دینے کا وعدہ ضرور ہوا ہے مگر پیشگی جمع کر دینے کی شرط نہیں کی تھی.چونکہ آپ نے میرے وعدہ کو معتبر نہ سمجھا اور یہ زائد شرط لگائی کہ زرِ معہودہ کسی بنک سرکاری میں جمع کر دیا جائے.اس صورت میں میرے لئے بر خلاف اس اشتہار کے استحقاق پیدا ہو گیا کہ چوبیس سَو روپیہ بالمقابل پیشگی امانت رکھاؤں.اخیر پر آپ اس قسم کے نشانوں کو قبول کرتے ہیں کہ ستاروں، آفتاب و ماہتاب کے تغیر و تبدل وغیرہ پر مشتمل ہوں.پنڈت صاحب! ہمارا یہ کام ہرگز نہیں کہ ہم جس طور سے کوئی شخص زمین و آسمان میں انقلاب پیدا کرنا چاہے اس طور سے انقلاب کر کے دکھا دیں.ہم صرف بندہ مامور ہیں.ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور پر کا نشان ظاہر کرے گا.ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ نشان اس شے کا نام ہے کہ انسانی طاقت سے بالاتر ہو.ہمارا دعویٰ صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالیٰ صرف ایسا نشان دکھائے گا جس کے مقابلہ سے انسانی طاقتیں عاجز ہوں.لفظ نشان کو اپنی اصطلاح میں معجزہ قرار دے کر یہ تعریف لکھتے ہو کہ اس کے مقابلہ سے انسانی طاقتیں عاجز ہوں تو واقعی یہ معنی معجزہ کے درست ہیں کہ مشاہدین فوراً عاجز ہو کر مشاہدہ کرانے والے پر ایمان لاویں اور دور تک مؤثر ہووے.غرضیکہ اظہر من الشمس ہونا چاہئے.خاکسار ۳۱؍ جولائی ۱۸۸۵ء مرزا غلام احمد از قادیان

Page 95

خ مکتوب نمبر۱۷ پنڈت لیکھرام نے لکھا ہے کہ میرے آخری خط کا جواب عرصہ تین ماہ تک نہ آیا تو پھر میں نے ایک پوسٹ کارڈ بطور یاددہانی کے ارسال کیا.اس کے جواب میں مرزا جی کا کارڈ آیا کہ ’’قادیان کوئی دُور تو نہیں ہے.آن کر کے ملاقات کر جاؤ.امید کہ یہاں پر باہمی ملنے سے شرائط طے ہو جائیں گی‘‘.(کلیات صفحہ۴۱۳)٭ خ مکتوب نمبر۱۸ لیکھرام کا خط مرزا صاحب.کندن کوہ (اس کے آگے ایک شکستہ لفظ ہے جو پڑھا نہیں جاتا ہے) افسوس کہ آپ نے قرآنی اسپ خود کو اسپ اور اوروں کے اسپ کو خچر قرار دیتے ہیں.میں نے ویدک اعتراض کا عقل سے جواب دیا اور آپ نے قرآنی اعتراض کا نقل سے.مگر وہ عقل سے بسا بعید ہے.اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی تو کام بہت ہے اچھاآسمانی نشان تو دکھا دیں.اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو ربّ العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو.(لیکھرام) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے جواب جناب پنڈت صاحب! آپ کا خط میں نے پڑھا.آپ یقینا سمجھیں کہ ہم کو نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے.مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے بیجا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں.آپ کی زبان بدزبانی سے رُکتی نہیں.آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو ربُّ العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں.یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں گویا آپ اُس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بے باکوں کو تنبیہہ کر سکتا ہے.باقی رہا یہ اشارہ کہ خدا عرش پر ہے اور روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مؤرخہ ۲؍ فروری ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 96

مکر کرتا ہے یہ خود آپ کی ناسمجھی ہے.مکر لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں جس کا اطلاق خدا پر ناجائز نہیں اور عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لیے آتا ہے کیونکہ وہ سب اونچوں سے زیادہ اونچا اور جلال رکھتا ہے.یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے.خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اُس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں.پھر جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے تو عرش کا اعتراض کرنا کس قدر ظلم ہے.آپ عربی سے بے بہرہ ہیں آپ کو مکر کے معنی بھی معلوم نہیں.مکر کے مفہوم میں کوئی ایساناجائز امر نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.شریروں کو سزا دینے کے لیے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے.لغت دیکھو پھر اعتراض کرو میں اگر بقول آپ کے وید سے اُمّی ہوں تو کیا حرج ہے کیونکہ میں آپ کے مسلم اصول کو ہاتھ میں لے کر بحث کرتا ہوں.مگر آپ تو اسلام کے اصول سے باہر ہو جاتے ہیں.صاف افترا کرتے ہیں چاہیے تھا کہ عرش پر خدا کا ہونا جس طور سے مانا گیا ہے اوّل مجھ سے دریافت کرتے پھر اگر گنجائش ہوتی تو اعتراض کرتے.اور ایسا ہی مکر کے معنی اوّل پوچھتے پھر اعتراض کرتے اور نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلاوے.والسلام علی من اتبع الہدٰی.٭ خاکسار مرزا غلام احمد

Page 97

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ خ مکتوب نمبر۱۹ نامہ مرزا غلام احمد صاحب بجواب خط ساہوکار ان قادیان عنایت فرمائی من پنڈت نہال چند صاحب و پنڈت پھارامل صاحب و لچھمی رام صاحب و لالہ بشن داس صاحب و منشی تاراچند صاحب و دیگر صاحبان ارسال کنندگان درخواست مشاہدہ خوارق.بعد ماوجب!آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوںکے دیکھنے کیلئے درخواست کی ہے ،مجھ کو ملا.چونکہ یہ خط سراسر انصاف و حق جوئی پر مبنی ہے اور ایک جماعت طالب حق نے جو عشرہ کاملہ ہے اس کو لکھا ہے اس لیے بہ تمام تر شکرگزاری اس کے مضمون کو قبول منظورکرتا ہوں.اور آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے کہ جو اپنے خط میں آپ لوگ کرچکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جلّشانہٗ کی تائید و نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسا نشان آپ کو دکھلایا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو.یہ عاجز آپ صاحبوں کے پُر انصاف خط پڑھنے سے بہت خوش ہوا.اور اس سے بھی زیادہ تر اس روز خوش ہوگا کہ جب آپ بعد دیکھنے کسی نشان کے اپنے وعدے کے ایفاء کیلئے جس کو آپ صاحبوں نے اپنے حلفوں اور قسموں سے کھول دیاہے.اپنی شہادت رؤیت کا بیان چند اخباروں میں مشتہر کرکے متعصب مخالفوں کو ملز م و لاجواب کرتے رہیں گے اور اس جگہ یہ بھی بخوشی دل آپ صاحبوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ایک سال تک کوئی نشان نہ دیکھیں یاکسی نشان کو جھوٹا پاویں تو بے شک اس کو مشتہر کردیں اور اخباروں میں چھپوا دیں.یہ امر کسی نوع سے موجب ناراضگی نہ ہوگااور نہ آپ کے دوستانہ تعلقات میں کچھ فرق

Page 98

آئے گا بلکہ یہ وہ بات ہے جس میں خدا بھی راضی اور ہم بھی اور ہر ایک منصف بھی.اور چونکہ آپ لوگ شرط کے طور پر کچھ روپیہ نہیں مانگتے.صرف دلی سچائی سے نشانوں کا دیکھنا چاہتے ہیں.اس لیے اس طرف سے بھی قبول اسلام کے لیے شرط کے طور پر آپ سے کچھ گرفت نہیں بلکہ یہ بات بقول آپ لوگوں کے توفیق ایزدی پر چھوڑی گئی ہے اور اخیر پر دلی جوش سے یہ دعا ہے کہ خداوندقادر وکریم بعد دکھلانے کسی نشان کے آپ لوگوں کو غیب سے قوت ہدایت پانے کی بخشے.تا آپ لوگ مائدہ رحمت الٰہی پر حاضر ہوکر پھر محروم نہ رہیں.اے قادر مطلق کریم و رحیم ہم میں او ران میںسچا فیصلہ کر اور تو ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اور کوئی نہیں کہ بجز تیرے فیصلہ کرسکے.آمین ثم آمین.وَاٰخِرُ  اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.٭ خاکسار احقر عباد اللہ غلام احمد عفی اللہ عنہ شہادت گواہان حاضر الوقت ہم لوگ جن کے نام نیچے درج ہیں ا س معاہدۂ فریقین کے گواہ ہیں.ہمارے رو برو ساہوکاران قادیان نے جن کے نام اوپر درج ہیں اپنے خط کے مضمون کو حلفاً تصدیق کیا اور اسی طرح مرزا غلام احمد صاحب نے بھی.گواہ شد گواہ شد گواہ شد میر عباس علی لودھیانوی فقیر عبد اللہ سنوری شہاب الدین تھہ غلام نبی والا (مطبوعہ ریاض ہند امرتسر)

Page 99

مکتوب نمبر ۲۰ ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کے نام ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں سے آسمانی نشان دکھلانے کے متعلق جو خط و کتابت بتوسل حضرت مولوی نور الدین صاحبسلّمہُ اللہ تعالیٰ ہوئی تھی اُس کے متعلق کسی انٹروڈکٹری ۱؎ نوٹ کی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس خط سے پہلے، جس کا یہاں درج کرنا مقصود ہے، ایک تمہیدی نوٹ لکھ دیا ہے میں اسے ہی درج کر دیتا ہوں.(یعقوب علی) ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت.میرے مخلص دوست اور لِلّٰہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب فانی فی ابتغائِ مرضات ربّانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت نامہ مورخہ ۷؍ جنوری ۱۸۹۲ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے٭ جس کی عبارت کسی قدر نیچے لکھی اوروہ یہ ہے.خاکسار نابکار نورالدین.بحضور خدام والا مقام حضرت مسیح الزمان سلمہ الرحمن السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد ٭ حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرے لکھتا ہوں.غور سے پڑھنا چاہئے.نہ معلوم کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدرو صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں.’’عالی جناب مرزا جی! مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو.اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہو سکے تیار ہوں.اگر آپ کے مشن کوانسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار (مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے‘‘.تَمَّ کلامہ.جزاہ اللّٰہ حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ اُن کی روح بول رہی ہے.درحقیقت ہم اُسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اُس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہو جائیں.ہماری جان اُس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا ۲؎ سر کہ نہ در پائے عزیزش رود بار گراں است کشیدن بدوش.منہ

Page 100

ہے.غریب نوازا! پریروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی.اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفان بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں.ازالہ اوہام میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے.اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہاہے.سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے.سرخی سے اس پر قلم پھیر دو.میں نے ہرگز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی.ُمردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا.یعنی بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو.اب ناظرین پر واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کوتخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر ان کی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے.خدا تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو تو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے.کسی نشان کے آزمانے کے لئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اُس کی نظیر نہ پیدا کر سکیں.اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا.اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرما کر اپنی اُس پہلی قید کو اُٹھا لیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں.کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو.لہٰذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوتِ حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ آپ بلاتخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں تو اخبارات ۱؎ مندرجہ حاشیہ میں حلفاً یہ اقرار اپنی طرف سے شائع کر دیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اس وقت حلفاً یہ اقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائیدمیں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آ جاؤں اور انسانی طاقتوں میں اُس کا کوئی نمونہ اُنہیں تمام لوازم کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہوجاؤں گا.اس اشاعت اور اس اقرار کی اس لئے ضرورت ہے کہ خدائے قیوم و قدوس بازی اور ۱؎ پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور ناظم الہند لاہور اور اخبار عام لاہور.اور نور افشاں لودیانہ.

Page 101

کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پورے انکسار و ہدایت یابی کی غرض سے اُس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے، سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کے لئے قائم رہے گی.طالبِ حق کے لئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں.اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں.ہماں بہ کہ جاں در رہِ او فشانم جہاں را چہ نقصاں اگر من نہ مانم والسلام علی من اتبع الھدٰی المعلن والمشتھر ٭ خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ یاز دھم جنوری ۱۸۹۲ء

Page 102

خ مکتوب نمبر ۲۱ لاتکتموا الشھادۃ و من یکتمھا فانہ اثم قلبہ واللہ بما تعملون علیم.تم گواہی کو مت چھپائو اور جواسے چھپاتا ہے اسکا دل بدکار ہے اللہ تعالیٰ اعمال کو خوب جانتا.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم صاحب من! میں اس چٹھی کے ہمراہ آپ کی خدمت میں ایک رسالہ بھیجتا ہوں جس کا نام استفتاء ہے اس رسالہ کے لکھنے کی ضرورت یہ ہوئی ہے کہ آریہ قوم نے حد سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہے.کہ لیکھرام اس شخص یعنی اس راقم کی سازش سے قتل ہوا ہے اور میری دانست میں وہ کسی قدر معذور بھی ہیں کیونکہ وہ الہامی پیشگوئیوں کی فوق العادت طریق سے بالکل بے خبر ہیں.وجہ یہ کہ ان کے عقیدہ کی رو سے ہزار ہا برس سے الہام الٰہی پر مہر لگ چکی ہے اور خدا کا کلام آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے.اس لئے وہ کسی طرح سمجھ نہیں سکتے کہ خدا کی طرف سے ایسی پیشگوئیاں بھی ہو سکتی ہیں.بہرحال ہمارے ہاتھ میں جو اپنی بریت کے وجوہ ہیں.ان کا بیان کر دینا نہ صرف لیکھرام کے حامیوں کے شبہات کو مٹانا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے معلومات کو بھی وسیع کرنا ہے جو اس زمانہ میں کسی الہامی پیشگوئی کے نفس مفہوم پر بھی اعتراض رکھتے ہیں اور غیب کی باتوں کو قبل از وقت بیان کرنا قانون قدرت کے خلاف خیال کر رہے ہیں.غالباً یہ رسالہ ان لوگوں کے لئے بھی دلچسپ اور موجب زیادت علم ہوگا جو دلی شوق کے ساتھ اس بات کی تفتیش میں ہیں کہ کیا خدا حقیقت میں موجود ہے.اور کیا وہ قبل از وقت کسی پر غیب کی باتیں ظاہر کر سکتا ہے.اسی غرض سے اس رسالہ میں تمام ایسے وجوہ بیان کئے گئے ہیں کہ جو بخوبی ثابت کرتے ہیں کہ وہ پیشگوئی جو لیکھرام کے بارے میں کی گئی تھی.وہ واقعی طور پر خدا کی طرف سے تھی.اور کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ وہ انسان کا منصوبہ ہو.یا انسان اس پر قادر ہو سکے.اور اس بات کو ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ اس پیشگوئی کی درخواست لیکھرام نے آپ ہی کی تھی.اور اس کو اسلام اور آریہ مذہب کے امتحان صدق وکذب کا معیار قرار

Page 103

دیا تھا.اور پھر بعد اس کے فریقین کی باہمی رضامندی سے دونوں فریق نے بڑے زور سے اس پیشگوئی کو شائع کیا تھا.اور جس طرح پہلوانوں کی کشتی ہوتی ہے.اسی طرح دونوں گروہ کا اس پیشگوئی پر خیال لگا ہوا تھا.آخر بڑی صفائی سے یہ پوری ہوئی.اس پیشگوئی میں یہ بات نہایت عجیب ہے.جس کو میں نے زبردست دلائل کے ساتھ اس رسالہ میں بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئی مارچ ۱۸۹۷ء کے مہینہ سے جس میں لیکھرام قتل ہوا ہے.۱۷ برس پہلے ہماری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں بڑی صفائی سے ذکر کی گئی ہے اور براہین کی تالیف کا وہ زمانہ تھا کہ شاید اس وقت لیکھرام ۱۲.۱۳ برس کا ہوگا.یہی وہ بات ہے جس کو خوب غور سے سوچنا چاہئے.اور یہی وہ امر ہے جس سے معرفت کی ترقی ہوگی.اور خدا کے فعل اور انسان کے فعل میں کھلا کھلا فرق دکھائی دے گا.اور دل میں سکینت اور اطمینان پیدا ہو جائیں گے.اور غالباً اس جگہ اس بات کا بیان کرنا بھی مفید ہوگا.کہ ابھی میں نے اپنے ایک دوسرے رسالہ میں جس کا نام سراج منیر ہے.اپنی بریت اور سچائی ثابت کرنے کے لئے ایک اور سلسلہ گواہ کی طرح پیش کیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں جو لیکھرام کے مرنے سے پہلے پوری ہو چکی تھیں.رسالہ مذکور میں جمع کر کے لکھ دی ہیں.اور نہایت لطیف طور پر ان کا نظام دکھلایا ہے.ان پیشگوئیوں کے بعض ایسے آریہ بھی گواہ ہیں جن کے بارہ میں یہ پیشگوئیاں کی گئی تھیں.سو میرے نزدیک بہتر ہوگا کہ جو صاحب اپنی رائے لکھنے کے وقت سراج منیر کا دیکھنا مناسب سمجھیں وہ مجھ سے طلب کریں.میں وہ رسالہ ان کی خدمت میں روانہ کر دوں گا اور یہ بات بھی بیان کر دینے کے قابل ہے کہ جیسا کہ آریوں کو اس پیشگوئی کے بارے میں ناحق کے شبہات ہیں.جن کی وجہ بجز اسکے کچھ نہیں کہ پیشگوئی کی عظمت نے ان کو حیرت میں ڈال دیا ہے.ایسا ہی ہمارے مخالف مولوی بھی جو روحانیت سے بے بہرہ ہیں.اسی گرداب میں پڑے ہوئے ہیں سو ان کیلئے بھی یہ رسالہ مفید ہوگا.بشرطیکہ وہ غور سے پڑھیں.اور یہ رسالہ اس چٹھی کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے کہ آپ رسالہ کے وجوہات پیش کردہ پر غور کر کے اپنے دلی انصاف کے تقاضا سے وہ فتویٰ لکھیں جس کا لکھنا وجوہات معروضہ کی رو سے واجب ہو.یعنی یہ کہ لیکھرام کے مرنے کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی.کیا وہ فی الواقعہ پوری ہوگئی یا نہیں اور کیا وہ اس اعلیٰ درجہ فوق العادت پر ہے یا نہیں جس کی نسبت وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ وہ انسانی

Page 104

منصوبہ ہے اور نہ اتفاق امر ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا وہ خاص فعل ہے جس کو الہامی پیشگوئی کہنا چاہئے.والسلام علیٰ من اتبع الہدٰی.راقم غلام احمد قادیانی ۸.ذوالحجہ ۱۳۱۴ھ مکرّر آنکہ جو صاحب بغرض تصدیق نشان لیکھرام والی پیشگوئی کے اپنی گواہی نقشہ منسلکہ پر کرنا نہ چاہیں انہیں لازم ہوگا کہ یہ رسالہ استفتاء معہ اس چٹھی کے واپس کری ٭ (استفتاء.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۰۷،۱۰۸)

Page 105

لالہ بھیم سین صاحب کے نام خط حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم مکتب ایک لالہ بھیم سین صاحب تھے اور زمانہ قیام سیالکوٹ میں حضرت اقدس کی ان کے ساتھ بڑی راہ و رسم تھی.لالہ بھیم سین صاحب کی بابت اس خط کے شائع کرتے وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑی محبت تھی اور خط وکتابت بھی رہتی تھی.جن ایام میں گورداسپور میں مقدمات کا سلسلہ شروع تھا تو لالہ بھیم سین صاحب نے اپنے بیٹے کی خدمات بھی پیش کی تھیں جو بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے آچکے تھے.حضرت مسیح موعود نے شکریہ کے ساتھ ان کی خدمات کو کسی دوسرے وقت پر عندالضرورت ملتوی کر دیا تھا.غرض حضرت صاحب کو لالہ بھیم سین صاحب سے محبت اور لالہ بھیم سین کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے اخلاص تھا.۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود نے لالہ بھیم سین کو ایک خط لکھا تھا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.میں لالہ بھیم سین صاحب کے فرزندِ ارجمند سے خط کتابت کر کے حضرت اقدس کی بعض اور تحریریں بھی جو میسر آ سکیں حاصل کرنی چاہتا ہوں مگر سردست یہ ایک خط یہاں درج کر دیا جاتا ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے.خاکسار یعقوب علی عفی اللہ عنہ

Page 106

مکتوب نمبر۲۲ آپ نے اپنے خط میں کچھ مذہبی رنگ میں بھی نصائح تحریر فرمائی تھیں.مجھ کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو اس عظیم الشان پہلو سے بھی دلچسپی ہے.درحقیقت چونکہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ہم سب لوگ اصلی گھر کی طرف واپس کئے جائیںگے.اس لئے ہر ایک کا فرض ہونا چاہئے کہ دین اور مذہب کے عقائد کے معاملہ میں پورے غور سے سوچے پھر جس طریق کو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے موافق پاوے اُسی کے اختیار کرنے میں کسی ذلّت اور بدنامی سے نہ ڈرے اور نہ اہل و عیال اور خوشیوں اور فرزندوں کی پروا رکھے.ہمیشہ صادقوں نے ایسا ہی کیا ہے.سچائی کے اختیار کرنے میں اُنہوں نے بڑے بڑے دُکھ اُٹھائے.یہ تو ظاہر ہے کہ خواہ عقائد ہوںیا اعمال، دو حال سے خالی نہیں.یا سچے ہوتے ہیں یاجھوٹے.پھر جھوٹے کو اختیار کرنا دھرم نہیں ہے.مثلاً وید کی طرف یہ ہدایت منسوب کی جاتی ہے کہ اگر کسی عورت کے چند سال تک بیٹا نہ ہو، بیٹیاں ہی ہوں تو اس کا خاوند اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کرا سکتاہے.اور ایسا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک ایک بیگانہ مرد کے نُطفہ سے گیارہ فرزند نرینہ پیدا ہو جائیں.اور شاکت مت میں جو وید کی طرف ہی اپنے تئیں منسوب کرتے ہیں یہ ہدایت ہے کہ اُن کے خاص مذہبی میلوں میں ماں اور بہن سے بھی جماع درست ہے اور ایک شخص دوسرے کی عورت سے زنا کر سکتا ہے.اسی طرح دنیا میں ہزار ہا ایسے مذہب ہیں کہ اگر ان کا ذکر کیا جاوے تو آپ انگشت بدنداں رہیں گے.پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان صلح کاری اختیار کرکے اُن لوگوں کی ہاں سے ہاں ملاوے.ایسا ہی عقائد کا حال ہے.بعض لوگ دریاؤں کی پوجا کرتے ہیں، بعض لوگ آگ کی، بعض سورج کی، بعض چاند کی، بعض درختوں کی، بعض سانپوں اور بلیوں کی.اور بعض انسانوں کو درحقیقت خدا سمجھتے ہیں.تو کیا ممکن ہے کہ ان سب کو راستباز سمجھا جاوے؟ جو لوگ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اُن کا فرض ہوتا ہے کہ سچائی کو زمین پر پھیلا ویں اور جھوٹ کی بیخ کنی کریں.وہ سچائی کے دوست اور جھوٹ کے دشمن ہوتے ہیں.مثلاً اگر کسی راستباز کو چند ڈاکو یا چور یہ ترغیب دیں کہ بذریعہ ڈاکو یا کیسہ بری یا نقب زنی کے کوئی مال حاصل کرنا چاہئے تو

Page 107

کیا جائز ہوگا کہ وہ راستباز اُن کیساتھ ہو کر ایسے جرائم کا ارتکاب کرے؟ پس مذہب کس چیز کا نام ہے.اسی بات کا نام تو مذہب ہے کہ جو عقائد یا اعمال بُرے اور گندے اور ناپاک ہوں اُن سے پرہیز کیا جاوے اور ایسی کتابیں جو ناپاک عقائد یا اعمال سکھلاتی ہیں اُن کو اپنا پیشوا اور رہبر نہ بنایا جاوے.میں اس بات کو کسی طرح سمجھ نہیں سکتا کہ ہر ایک مذہب سے صلح رکھی جاوے اور اُن کی ہاں میں ہاں ملائی جاوے.کیونکہ اگر ایسا کیا جاوے تو دنیا میں کوئی بدی بدی نہیں رہے گی اور ہر قسم کے بدعقائد اور بداعمال ان نیکیوں میں داخل ہو جائیںگے.حالانکہ جو شخص ایک نظر دنیا کے مذاہب پر ڈالے تو اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا شناسی ہی کے بارے میں کئی عقائد ہیں.بعض ناستک مت یعنی دہریہ ہیں.وہ خدا کے قائل نہیں ہیں اور بعض انسانوں یا حیوانوں یا اجرام سماوی یا عناصر کو خدا بناتے ہیں.خاص آریہ سماجی جو اپنے تئیں ویدوں کے وارث ٹھہراتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا نے ایک ذرّہ بھی پیدا نہ کیا اور نہ ارواح پیدا کئے بلکہ یہ تمام چیزیں اور ان کی تمام قوتیں خود بخود ہیں.پرمیشور کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں.مگر مجھے ان باتوں کے بیان کرنے سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک راستباز کے لئے ممکن نہیں کہ ان تمام متناقض امور کو مان لے اور اُن پر ایمان لے آوے.جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید اور قدرت کاملہ پر داغ لگایا ہے یا بدکاری کو جائز رکھا ہے میں اس جگہ اُن کی نسبت اور اُن کی کتاب کی نسبت کچھ نہیں کہتا.صرف آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ انسان کے لئے ممکن نہیں کہ ناپاک کو بھی ایسا ہی تسلیم کرے جیسا کہ پاک کو کرتا ہے.یہ سچ ہے کہ پاک ہونے سے خدا ملتا ہے.لیکن ایسے طریقوں سے جو ناپاک عقائد اور ناپاک اعمال پر مشتمل ہیں کیونکر خدا مل سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بہشتی زندگی تک پہنچاتا ہے لیکن جو شخص راجہ رام چندر یا راجہ کرشن یا حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتا ہے یا خدائے قیوم کو ایسا عاجز اور ناقص خیال کرتا ہے کہ ایک ذرّہ یا ایک روح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں، وہ کیونکر اس پاک ذوالجلال کی حقیقی محبت سے حصہ لے سکتا ہے.حقیقی اور سچے خدا کو اُس کی پاک اور کامل صفات کے ساتھ جاننا اور اُس کی پاک راہوں کے مطابق چلنا ہی حقیقی نجات ہے اور اُس حقیقی نجات کے مخالف جو طریق ہیں.وہ سب گمراہی کے طریق ہیں پھر کیونکر ان طریقوں میں پھنسے رہنے سے انسان حقیقی نجات پاسکتا ہے.

Page 108

دنیا میں اکثر یہ واقعہ مشہور ہے کہ ہر ایک شخص اُن خیالات پر بہت بھروسہ رکھتا ہے جن خیالات میں اُن نے پرورش پائی ہے یا جن کو سننے کا اُس کو بہت موقعہ ملا ہے.چنانچہ ایک عیسائی بے تکلّف کہہ دیتا ہے کہ عیسیٰ ہی خدا ہے اور ایک ہندو اس بات کے بیان کرنے سے کچھ شرم نہیں کرتا کہ رام چندراور کرشن درحقیقت خدا ہیں یا دریائے گنگ اپنے پرستاروں کو مرادیں دیتا ہے یا اُن کا ایک ایسا خدا ہے جس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا، صرف موجودہ اجسام یا اراوح کو جو کسی اتفاق سے خودبخود قدیم سے چلے آتے ہیں جوڑنا اس کا کام ہے.لیکن یہ تمام بھروسے بے اصل ہیں.ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں.زندہ خدا کو خوش کرنا نجات کے طالب کا اصول ہونا چاہئے.دنیا رسوم و عادات کی قید میں ہے.ہر ایک شخص جو کسی مذہب میں پیدا ہوتا ہے اکثر بہرحال اُسی کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ طریق صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ بات ہے کہ جس مذہب کی رو سے زندہ خدا کا پتہ مل سکے اور بڑے بڑے نشانوں اور معجزات سے ثابت ہو کہ وہی خدا ہے، اس مذہب کو اختیار کرنا چاہئے.کیونکہ اگر درحقیقت خدا موجود ہے اور اُس کی ذات کی قسم کہ درحقیقت وہ موجود ہے تو یہ اس کا کام ہے کہ وہ بندوں پر اپنے تئیں ظاہر کرے اورانسان جو محض اپنی اٹکلوں سے خیال کرتا ہے کہ اس جہان کا ایک خدا ہے اور وہ اٹکلیں سچی تسلّی دینے کیلئے کافی نہیں اور جیسا کہ ایک محجوب اُن روپوں پر بھروسہ کرتا ہے جو اُس کے صندوق میں بند ہیں اور اُس زمین پر جو اُس کے قبضہ میں ہے اور اُن باغات پر جو ہمیشہ صدہا روپیہ کی آمدنی نکالتے ہیں اور اُن لائق بیٹوں پر جو بڑے بڑے عہدوں پر سرفراز ہیں اور ماہ بماہ اپنے باپ کو ہزار ہا روپیہ سے مدد کرتے ہیں وہ محجوب ایسا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہرگز نہیں کر سکتا.اس کا کیا سبب ہے.یہی سبب ہے کہ اُس پر حقیقی ایمان نہیں.ایسا ہی ایک غافل جیسا کہ طاعون سے ڈرتا ہے اور اُس گاؤں میں داخل نہیں ہوتا جو طاعون سے ہلاک ہو رہا ہے اور جیسا کہ وہ سانپ سے ڈرتا ہے اور اُس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس میں سانپ ہو یا سانپ ہونے کا گمان ہو اور جیسا کہ وہ شیر سے ڈرتا ہے اور اُس بَن میں داخل نہیں ہوتا جس میں شیر ہو.ایسا ہی وہ خدا سے نہیں ڈرتا اور دلیری سے گناہ کرتا ہے.اس کا سبب یہی ہے کہ اگرچہ وہ زبان سے کہتا ہے مگر دراصل خدا تعالیٰ سے غافل اور بہت دور ہے.خدا تعالیٰ پر ایمان لانا کوئی امر سہل نہیں ہے.بلکہ جب تک خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشان ظاہر نہ ہوں اُس وقت تک انسان سمجھ بھی نہیں سکتا کہ خدا بھی ہے.گو

Page 109

تمام دنیا اپنی زبان سے کہتی ہے کہ ہم خدا پر ایمان لائے مگر اُن کے اعمال گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لائے.سچا ایمان تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے.مثلاً جب انسان باربار کے تجربہ سے معلوم کر لیتا ہے کہ ّسم الفار ایک زہر ہے جو نہایت قلیل مقدار اُس کی قاتل ہے تو وہ ّسم الفار کھانے سے پرہیز کرتا ہے.تب اُس وقت کہہ سکتے ہیں کہ وہ ّسم الفار کے قاتل ہونے پر ایمان لایا.سو جو شخص کسی پہلو سے گناہ میں گرفتار ہے وہ ہنوز خدا پر ایمان ہرگز نہیں لایا اور نہ اس کو شناخت کیا.دنیا بہت سی فضولیوں سے بھری ہوئی ہے اور لوگ ایک جھوٹی منطق پر راضی ہو رہے ہیں.مذہب وہی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھلاتا ہے اور خدا سے ایسا قریب کر دیتا ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھتا ہے.اور جب انسان یقین سے بھر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ سے اس کا خاص تعلق ہو جاتا ہے.وہ گناہ سے اور ہر ایک ناپاکی سے خلاصی پاتا ہے اور اس کا سہارا صرف خدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے خاص نشانوں سے اور اپنی خاص تجلی سے اور اپنے خاص کلام سے اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں موجود ہوں تب اس روز سے وہ جانتا ہے کہ خدا ہے اور اسی روز سے وہ پاک کیا جاتا ہے اور اندرونی آلائشیں دور کی جاتی ہیں.یہی معرفت ہے جو بہشت کی کنجی ہے.مگر یہ بغیر اسلام کے اور کسی کو بھی میسر نہیں آتی.یہی خدا تعالیٰ کا ابتداء سے وعدہ ہے جو وہ اُنہی پر ظاہر ہوتا ہے جو اُس کے پاک کلام کی پیروی کرتے ہیں.تجربہ سے زیادہ کوئی گواہ نہیں.پس جبکہ تجربہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اپنے تئیں بجز اسلام کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور کسی سے ہمکلام نہیں ہوتا اور کسی کی اپنے زبردست معجزات سے مدد نہیں کرتا تو ہم کیونکر مان لیں کہ دوسرے مذہب میں ایسا ہو سکتاہے.ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا، قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے.قرآن شریف خدا کا کلام نہیں ہے.میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور کئی اور ناپاک تعلیمیں ہیں.مگر میں قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اور ناپاک تعلیم ہے اور اُس کی پیروی سے زندہ خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور معجزات ظاہر ہوتے ہیں.پس بہت سہل طریق یہ ہے کہ تم وید والے خدا سے میری نسبت کوئی پیشگوئی کرو اور میں قرآن شریف والے خدا سے وحی پا کر پیشگوئی

Page 110

کروں گا.پس اُس نے میری نسبت یہ پیشگوئی کی کہ یہ شخص تین برس تک ہیضہ کی بیماری سے مر جائے گا.اور میرے خدا نے یہ ظاہر کیا کہ چھ برس تک لیکھرام بذریعہ قتل نابود ہو جائے گا کیونکہ وہ خدا کے پاک نبی کی بے ادبی میں حد سے گزر گیا.اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس کے مرنے کے تھوڑی مدت کے بعد پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی.تمام پیشگوئی میں نے اپنی کتابوں میں بار بار شائع کر دی اور یہ بھی شائع کر دیا کہ وید درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اَب آریہ سماج والوں کو چاہئے کہ لیکھرام کی نسبت اپنے پرمیشور سے بہت دعا کریں تا وہ اُس کو بچا لے کیونکہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کا پرمیشور اِن کو بچا نہیں سکے گا اور ایسا ہی لیکھرام نے بھی میری نسبت اپنی کتاب میں شائع کر دیا کہ یہ شخص تین برس میں ہیضہ کی بیماری سے فوت ہو جائے گا.آخر لیکھرام اپنے قتل ہونے پر گواہی دے گیا کہ وید خدا کی طرف سے نہیں ہے.اسی طرح نہ ایک نشان بلکہ ہزار ہا نشان ظاہر ہوئے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہیں.جن سے روز روشن کی طرح کھل گیا کہ دین اسلام ہی دنیا میں سچا مذہب ہے اور سب انسانوںکے اختراع ہیں اور یا کسی وقت سچے تھے اور بعد میں وہ کتابیں بگڑ گئیں.اے عزیز! ہم آپ کی باتوں کو کہ جو کوئی روشن دلیل ساتھ نہیں رکھتیں کیونکر مان لیں.آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف دعویٰ ہے جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں.دنیا میں ایک ادنیٰ مقدمہ بھی جب کسی عدالت میں پیش ہوتا ہے تو ثبوت کے سوائے کسی حاکم کے نزدیک قابل سماعت نہیں ہوتا اور ایسا مدعی ڈگری حاصل نہیں کر سکتا تو پھر نہ معلوم آپ ان خیالات پر کیونکر بھروسہ رکھتے ہیں جو بے ثبوت ہیں.خدا ایک ہے اور اس کی مرضی ایک ہے پھر وہ کیونکر متناقض امور کا مصداق ہو سکتا ہے اور کیونکر ہم ان سب باتوں کو سچی مان سکتے ہیں کہ عیسیٰ خدا ہے اور رام چندر خدا ہے اور کرشن خدا ہے اور یا کہ خدا ایسا عاجز ہے کہ ایک ذرّہ بھی اُس نے پیدا نہیں کیا.وہ مذہب قبولیت کے لائق ہے جو ثبوت کا روشن چراغ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ اسلام ہے.اگر آپ یہ کہیں کہ جو زبردست نشان اور معجزات اسلام میں ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب میں بھی ہوتے ہیں تو ہم آپ کی اس بات کو بشوق سنیں گے.بشرطیکہ آپ اس بات کا ثبوت دیں.مگر یاد رکھیں کہ یہ آپ کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ اس زمانہ میں کوئی ایسا زندہ شخص بھی دکھلا سکیں کہ وہ برکات اور آسمانی نشان جو مجھے ملے ہیں ان میں وہ مقابلہ کر کے دکھلاوے.

Page 111

اب میں آپ کے بعض خیالات کی غلطی کو رفع کرتا ہوں.قول آں عزیز.خدا نے کافر اور مومن کو اس دنیا میں یکساں حصہ بخشا ہے.اقول.چونکہ خدا نے ہر ایک کو اپنی طرف بلایا ہے اس لئے سب کو ایسی قوتیں بخشی ہیں کہ اگر وہ ان قوتوں کو ٹھیک طور پر استعمال کریں تو منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں.مگر تجربہ سے ثابت ہے کہ بجز اس کے کوئی اسلام پر قدم مارے ہر ایک شخص ان قوتوں کو بے اعتدالی سے استعمال میں لاتا ہے اور منزلِ مقصود تک نہیں پہنچتا.قول آں عزیز.بہت مشکل ہے کہ تمام لوگ ایک ہی مذہب پر چلیں.اقول.سچے طالب کے لئے ہر ایک مشکل سہل کی جاتی ہے.قول آں عزیز.اگرچہ ریل پر چلنے والے بہت آرام پاتے ہیں لیکن اگر کوئی پیادہ پا سفر اختیار کرے تو ریل والے اس کو کافر نہیں کہتے.اقول.یہ قول دینی معاملہ پر چسپاں نہیں ہے اور قیاس مع الفارق ہے.خدا کے ملنے کی ایک خاص راہ ہے یعنی معجزات اور نشانوں سے یقین حاصل ہونا.اسی پر تزکیہ نفس موقوف ہے اور یقین کے اسباب بجز اسلام کے کسی مذہب میں نہیں.قول آں عزیز.خدا بے انت ہے.سو ہم بے انت کو اُسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب پابندیٔ شرع سے باہر ہو جائیں.اقول.شرع عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں راہ.یعنی خدا کے پانے کی راہ.پس آپ کے کلام کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب ہم خدا کے پانے کی راہ چھوڑ دیں تب ہمیں خدا ملے گا.اب آپ خود سوچ لیں کہ یہ کیسا مقولہ ہے.قول آں عزیز.ذات پات نہ پوچھے کو.ہَر کو بھجے سو ہَرکا ہو.اقول.یہ سچ بات ہے.اس سے اسلام بحث نہیں کرتا کہ کس قوم اور کس ذات کا آدمی ہے.جو شخص راہِ راست طلب کرے گا خواہ وہ کسی قوم کا ہو خدا اُسے ملے گا.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواہ کسی مذہب کا پابند ہو خدا کو مل سکتا ہے.کیونکہ جب تک پاک مذہب اختیار نہیں کرے گا تب تک خدا ہرگز نہیں پائے گا.مذہب اَور چیز ہے اَور قوم اور چیز.

Page 112

قول آں عزیز.یہی وجہ ہے کہ پیروانِ وید نے کسی شخص کی پیروی نجات کیلئے محصور نہیں رکھی.اقول.جس شخص کے نزدیک وید کے مؤلّف کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں وہ وید کا مکذّب ہے.آپ خود بتلائیں کہ اگر مثلاً ایک شخص وید کے اصولوں اور تعلیموں کو نہیں مانتا.نہ نیوگ کو مانتا ہے نہ اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اولاد کی خواہش کے لئے اپنی زندگی میں اپنی جورو کو ہمبستر کراوے اور یا وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ پرمیشور نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور تمام روحیں اپنے اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہیں اور یا وہ اگنی، وایو، سورج وغیرہ کی پرستش کو نہیں مانتا.غرض وہ بہرطرح وید کو ردّی کی طرح خیال کرتا ہے.یہاں تک کہ جس پرمیشور کو وید نے پیش کیا ہے اُس کو پرمیشور ہی نہیں جانتا تو کیاایسے آدمی کیلئے نجات ہے یا نہیں؟ اگر نجات ہے تو آپ وید سے ایسی ُشرتی پیش کریں جو ان معنوں پر مشتمل ہو اور اگر نجات نہیں تو پھر آپ کا یہ قول صحیح نہ ہوا.کیونکہ ہم لوگ بھی تو صرف اس قدر کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن شریف کی تعلیموں کو نہیں مانتا اُس کو ہرگز نجات نہیں اور اس جہان میں وہ اندھے کی طرح بسر کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. ۱؎.یعنی قرآن نے جو دین اسلام پیش کیا ہے.جو شخص قرآنی تعلیم کو قبول نہیں کرے گا وہ مقبول خدا ہرگز نہ ہوگا اور مرنے کے بعد وہ زیاں کاروں میں ہوگا.یہ کہنا کہ کسی شخص کی پیروی وید کی رُو سے درست نہیں، یہ غلط ہے.جب اُس کی کتاب کی پیروی کی تو خود اُس کی پیروی ہوگئی.اگر ہندوصاحبان وید کی پیروی نہیں کرتے تو پھر وید کو پیش کیوں کرتے ہیں؟ قول آں عزیز.ہر ملّت اور ہر مذہب میں صاحبِ کمال گزرے ہیں.اقول.زمانہ موجودہ میں بطور ثبوت کے کسی صاحبِ کمال کو پیش کرنا چاہئے.کیا آپ کے نزدیک پنڈت لیکھرام صاحبِ کمال تھا یا نہیں؟ جس کو آج تک آریہ سماجی لوگ روتے ہیں.میںنے آں محب کی دلجوئی کے لئے باوجود کم فرصتی کے یہ چند سطریں لکھی ہیں.امید کہ اس پر غور فرمائیں گے.خاکسار ۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء غلام احمد.قادیان ۱؎ اٰلِ عمران: ۸۶

Page 113

مینیجر گروکل گوجرانوالہ کے نام فروری ۱۹۰۷ء کو گوجرانوالہ گروکل کے مینیجر کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں متواتر خطوط وہاں کی مذہبی کانفرنس میں شمولیت کیلئے آئے.یہ کانفرنس آریوں کی طرف سے قرار پائی تھی.اس کانفرنس میں مختلف مذاہب کے لیڈروں کو مدعو کیا گیا تھا اور ہر ایک کے لئے نصف گھنٹہ مقرر کیا تھا کہ وہ تقریر کریں.نصف گھنٹہ میں مذہب جیسی چیز کا فیصلہ آریوں کے نزدیک آسان ہو تو یہ امر دیگر ہے لیکن جو شخص مذہب کی حقیقت اور صداقت کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہو اس کے لئے یہ ہنسی کی بات ہے.بہرحال وہاں کے مینیجر صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں متواتر خطوط لکھے اور وقت کی توسیع کے لئے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ آپ جلسہ مذاہب میں ضرور تشریف لاویں.سب کے واسطے نصف گھنٹہ مقرر کیا ہے اور ایک عالم کے واسطے یہ وقت کافی ہے.اس خط کا جواب حضرت اقدس نے مفتی صاحب (برادرم محمد صادق) کو زبانی فرما دیا کہ یہ لکھ دو.چنانچہ مفتی صاحب نے وہ خط لکھ دیا.چونکہ یہ حضرت اقدس ہی کی طرف سے ہے اور حضرت ہی کے کلمات ہیں اس لئے اس کو درج کیا جاتا ہے.(ایڈیٹر)

Page 114

مکتوب نمبر ۲۳ جناب مینیجر صاحب گروکل گوجرانوالہ تسلیم آپ کا دوسرا خط حضرت کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے ظاہر کیا ہے کہ آپ نصف گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے اور کہ ایک عالم کے واسطے بہ سبب اس کے علم کے اتنا وقت کافی ہے.بجواب گزارش ہے کہ حضرت فرماتے ہیں: کہ اہم مذہبی امور پر گفتگو کرنے کے واسطے اتنا تھوڑا وقت کسی صورت میں کافی نہیں ہو سکتا.اس واسطے ہم ایسی مجلس میں شریک نہیں ہو سکتے.اگر آپ کم از کم تین گھنٹہ وقت ہمارے مضمون کے واسطے رکھتے تو ممکن تھا کہ ہم خود جاتے یا اپنا کوئی فاضل دوست اپنا مضمون دے کر بھیج دیتے.ہم کسی طرح سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ایسے مضامین عالیہ میں صرف آدھ گھنٹے کی تقریر کافی ہے.ہم رسوم کے پابند نہیں بلکہ ہم پابند احقاقِ حق ہیں.باقی آپ کا یہ فرمانا کہ بڑے عالم کے واسطے نصف گھنٹہ ہی کافی ہے.مجھے تعجب ہے کہ یہ بات آپ کیونکر درست قرار دیتے ہیں جب کہ آپ کے وید مقدس لکھنے والوں نے اپنی باتوں کو ختم نہ کیا جب تک کہ وہ ایک گدھے کے بوجھ کے برابر ہوگئے تو پھر آپ ہم سے یہ امید کیونکر رکھتے ہیں.ایک نکتۂ معرفت کاقبل از تکمیل گلا گھوٹنادرحقیقت سچائی کا خون کرنا ہے جس کو کوئی راستباز پسند نہ کرے گا.اگر علم و فضل کا معیار حد درجہ کے اختصار اور تھوڑے وقت میں ہوتا، تو چاہئے کہ وید صرف چند سطروں میں ختم ہو جاتا.مجھے افسوس ہے کہ اس تھوڑے وقت نے مجھے اس اشتراک سے محروم رکھا.کیا خدا تعالیٰ کی ذات صفات کی نسبت کچھ بیان کرنا اور پھر روح اور مادہ میں جو کچھ فلاسفی مخفی ہے اس کو کھولنا آدھ گھنٹہ کا کام ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ یہ لفظ ہی سوئِ ادب میں داخل ہے.جن لوگوں کو محض شراکت کا فخر حاصل کرنا مقصود ہے وہ جو چاہیں کریں مگر ایک محقق ناتمام تقریر پر خوش نہیں ہو سکتا.سچائی کو ناتمام چھوڑنا ایسا ہے جیسا کہ بچہ اپنے پورے دنوں سے پہلے پیٹ سے ساقط ہو جائے.آئندہ آپ کا اختیار ہے.خادم مسیح موعود ؑ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۷ء محمد صادق عفی اللہ عنہ

Page 115

Page 116

پادریوں کے نام خطوط چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی دادہ اند مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند سابقہ جلد سوم مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ ۹۷ تا ۲۹۱

Page 117

Page 118

Page 119

Page 120

پادری سوفٹ صاحب کے نام [یہ ایک پُرانا خط ہے جو پادری سوفٹ صاحب کے نام لکھا گیا تھا.یہ پادری صاحب گوجرانوالہ میں رہتے تھے.انہیں عام پادریوں کی نسبت عیسوی تھیالوجی کا بڑا دعویٰ تھا.افسوس اس خط کے نقل کرنے والے نے بھی تاریخ و سنہ کے لکھنے سے جو سخت ضروری بات تھی تأمل کیا.بہرحال یہ ۱۸۸۴ء سے کم عرصہ کا یہ خط نہیں.اس سے بڑا بھاری فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت امام الزمان اپنے دعاوی کے صادقانہ لہجے میں برابر مستقیم اور غیر متبدل چلے آتے ہیں اور یہ افتراء و اختلاق کے ردّ کی بڑی بھاری دلیل ہے.والحمدللّٰہ علٰی ذٰلک.(ایڈیٹر)] حیات احمد جلددوم نمبر سوم صفحہ۱۳۵ میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مزید تحریر فرماتے ہیں.دعوت یکسالہ اور عیسائی میں نے اعلان دعوت نشان نمائی یکسالہ کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ عیسائیوں میں کوئی فوری تحریک اس کے مقابلہ میں آنے کی نہیں ہوئی مگر جب اِندرمن وغیرہ کے متعلق اعلانات شائع ہوئے تو ایک دیسی عیسائی مسٹر سوفٹ نے اس مقابلہ میں حضرت کو ایک خط لکھا اور آمادگی کا اظہار ایسے رنگ میں کیا جس کا لازمی نتیجہ فرار تھا.اس خصوص میں پادری سوفٹ کو جو جوابی خط حضرت نے لکھا تھا میں نے اسے مکتوباتِ احمدیہ کی تیسری جلد میں شائع کر دیا تھا چونکہ خط پر کوئی تاریخ نہ تھی میرا خیال اس وقت یہ تھا کہ غالباً ۱۸۸۴ء میں لکھا گیا لیکن چونکہ حضرت کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی دعوت یکسالہ کے متعلق ہے اس لئے یہ مکتوب ۱۸۸۵ء کی آخری ششماہی کا ہی ہو سکتا ہے.پادری سوفٹ کون تھا یہ شخص دراصل ایک دیسی عیسائی تھا اور اس کا نام رام چند تھا (ماسٹر رام چنداور تھا) یہ گوالیار اسٹیٹ کا باشندہ تھا.عیسائی ہو کر اس نے اپنا نام تبدیل کر کے سوفٹ رکھ لیا تا کہ اس طرح وہ اپنی عیسائیت یا پہلی زندگی کو مخفی رکھ سکے یہ شخص بعد میں سہارن پور وغیرہ کے مدرسہ الٰہیات میں تعلیم پا کر

Page 121

گوجرانوالہ میں متعین ہوا.اور اسے اپنے علم الٰہیات پر بڑا ناز تھا اس نے اسی سستی شہرت کے لئے حضرت اقدس کو اس دعوت کے قبول کرنے کے لئے مشروط خط لکھا.حضرت اقدس کا جواب اور سوفٹ کی خاموشی اور اس کا جواب حضرت اقدس نے جو دیا میں ذیل میں درج کر دیتا ہوں.اس جواب کے بعد پادری صاحب خاموش ہو گئے اور اس طرح عیسائی قوم پر بھی اِتمامِ حجت ہوگئی.مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ بعد ماوجب.آپ کا عنایت نامہ جس پر کوئی تاریخ درج نہیں، بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا.آپ نے پہلے تو بے تعلق اپنے خط میں قصہ چھیڑ دیا ہے کہ حقیقت میں خدائے قادر مطلق خالق و مالک ارض و سما مسیح ہے اور وہی نجات دہندہ ہے لیکن میں سوچ میں ہوں کہ آپ صاحبوں کی طبیعت کیونکر گوارا کرلیتی ہے کہ ایک آدم زاد، خاکی نہاد، عاجز بندہ کی نسبت آپ لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ وہی ہمارا پیدا کنندہ اور ربُّ العٰلمین ہے یہ خیال آپ کا حضرت مسیح کی نسبت ایسا ہی ہے جیسے ہندو لوگ راجہ رام چندر کی نسبت رکھتے ہیں.صرف اتنا فرق ہے کہ ہندو لوگ کشلیا کے بیٹے کو اپنا پرمیشر بنا رہے ہیں اور آپ حضرت مریم صدیقہ کے صاحبزادہ کو.نہ ہندوؤں نے کبھی یہ ثابت کر دکھایا کہ زمین و آسمان میں سے کوئی ٹکڑا کسی مخلوق کا رام چندر یا کرشن نے پیدا کیا ہے اور نہ آج تک آپ لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت کچھ ایسا ثبوت دیا.افسوس کہ جو قوتیںعقل اور ادراک اور فہم و قیاس کی آپ صاحبوں کی فطرت کو عطا کی گئیں تھیں آپ لوگوں نے ایک ذرا ان کا قدر نہیں کیا اور علوم طبعی اور فلسفی کو پڑھ پڑھا کر ڈبودیا اور عقلی علوم کی روشنی آپ لوگوں کے دل پر ایک ذرہ نہ پڑی.سادگی اور ناسمجھی کے زمانہ میں جو کچھ گھڑا گیا انہیں باتوں کو آپ لوگوں نے اب تک اپنا دستور العمل بنا رکھاہے.کاش! اس زمانہ میں دو چار دن کیلئے حضرت مسیح اور راجہ رام چندر اور کرشن وبدھ وغیرہ کہ جن کو مخلوق پرستوں

Page 122

نے خدا بنایا ہوا ہے پھر دنیا میں اپنا درشن کرا جاتے.تا خود ان لوگوں کا انصاف دلی ان کو ملزم کرتا کہ کیا ان آدم زادوں کو خدا خدا کر کے پکارنا چاہئے؟ اور تعجب تو یہ ہے کہ باوجود ان تمام رُسوائیوں کے جو آپ لوگوں کے عقائد میں پائی جاتی ہیں پھر آپ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے عقائد عقل کے موافق ہیں.میں حیران ہوں کہ جن لوگوں کے یہ عقائد ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا قدیمی اور غیرمتغیر جلال چھوڑ کر ایک عورت کے پیٹ میں حلول کیا اور ناپاک راہ سے تولد پایا اور دکھ اور تکلیف اُٹھاتا رہا اور مصلوب ہو کر مر گیا اور پھر یہ کہ وہ تین بھی ہے اور ایک بھی.اور انسان کامل بھی ہے اور خدائے کامل بھی.وہ ایسے عقائد کو کیونکر عقل کے مطابق کر سکتے ہیں اور ایسی نئی فلسفی ۱؎ کونسی ہے.جس کے ذریعے سے یہ لغویات معقول ٹھہر سکتی ہیں.پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آپ لوگ معقول طور پر اپنے خوش عقیدہ کی سچائی ثابت نہیں کر سکتے تو پھر لاچار ہو کر نقل کی طرف بھاگتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں ہم نے پہلی کتابوں میں یعنی بائیبل میں دیکھی ہیں.اسی وجہ سے ہم ان کو مانتے ہیں.لیکن یہ جواب بھی سراسر پوچ اور بے معنی ہے کیونکہ ان کتابوں میں ہرگز یہ بات درج نہیں ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے یا خود ربُّ العٰلمین ہیں اور دوسرے لوگ خدا کے بندے ہیں بلکہ بائیبل پر غور کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا کر کے کسی کو پکارنا یہ ان کتابوں کا عام محاورہ ہے بلکہ بعض جگہ خدا کی بیٹیاں بھی لکھی ہیں اور ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ تم سب خدا ہو.تو پھر اس حالت میں حضرت مسیح کی کیا خصوصیت رہی؟ ماسوا اس کے ہر ایک عاقل جانتا ہے کہ منقولات اور اخبار میں صدق اور کذب اور تغیر اور تبدل کا احتمال ہے.خصوصاً جو جو صدمات عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں کو پہنچے ہیں اور جن جن خیانتوں اور تحریفوں کاانہوں نے آپ اقرار کر لیاہے.ان وجوہ سے یہ احتمال زیادہ تر قوی ہوتا جاتا ہے.اور یہ بھی آپ کو سوچنا چاہئے کہ اگر ہر ایک تحریر بغیر ثبوت باضابطہ کے قابل اعتبار ٹھہر سکتی ہے تو پھر آپ لوگ ان قصوں کو کیوں معتبر نہیں سمجھتے کہ جو ہندوؤں کے پستکوں میں رام چندر اور کرشن اور برہما اور بشن وغیرہ کے معجزات کی نسبت اور ان کے بڑے بڑے کاموں کے بارہ میں اب تک لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں.جیسے مہادیو کی لٹوں سے گنگا کا نکلنا اور مہادیو کا پہاڑ کو اُٹھالینا اور ایسا ہی ارجن کے بھائی راجہ بھیم کے مقابل پر مہادیو کا کشتی کیلئے آنا.۱؎ یہاں مراد فلاسفی ہے.ناشر

Page 123

جس کی پرانوں میںیہ کتھا لکھی ہے کہ مہادیو جی پلہنسی کا روپ دھار کر راجہ بھیم کے سامنے آ کھڑے ہوئے.بھیم نے چاہا کہ ان سے لڑے.مہادیو جی بھاگ نکلے.بھیم نے ان کا پیچھا کیا تب وہ زمین میں گھس گئے.بھیم نے یہ دیکھ کربڑے زور سے ان کی پونچھ پکڑ لی اور کہا کہ اب میں نہ جانے دوں گا.سو پونچھ اور پچھلا دھڑ تو بھیم ۱؎ کے ہاتھ میں رہ گیا اور منہ نیپال کے پہاڑ میں جا نکلا.اسی وجہ سے منہ کی پوجا نیپال میں ہوتی ہے اور پونچھ اور پچھلے دھڑ کی کدار ناتھ میں.اب دیکھئے کہ جو کچھ آپ نے عقیدہبنا رکھا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کی روح حضرت مریم کے رِحم میں گھس گئی اور گھسنے کے بعد اُس نے ایک نیا روپ دھار لیا.جس سے وہ کامل خدا بھی بنے رہے اور کامل انسان بھی ہوگئے.کیا یہ قصہ بھیم اور مہادیو کے قصہ سے کچھ کم ہے.پھر آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کو مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نجات حاصل ہوگئی ہے.مگر میں آپ لوگوں میں نجات کی کوئی علامت نہیں دیکھتا.اور اگر میں غلطی پر ہوں تو آپ مجھ کو بتلائیں کہ وہ کون سے انوار و برکات اور قبولیتِ الٰہی کے نشان آپ لوگوں میں پائے جاتے ہیں جن سے دوسرے لوگ محروم رہے ہوئے ہیں.میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ایمانداروں اور بے ایمانوں اور ناجیوں اور غیر ناجیوں میں ضرور مابہ الامتیاز ہونا چاہئے.مگر پادری صاحب! آپ ناراض نہ ہوںوہ علامات جو ایمانداروں میں ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں.جن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی دو تین جگہ انجیل میں لکھا ہے وہ آپ لوگوں میں مجھ کو نظر نہیں آتیں.بلکہ وہ نشان سچے مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور انہیں میں ہمیشہ پائے گئے ہیں اور انہیں نشانوں کے ظاہر کرنے کیلئے اس عاجز نے آپ صاحبوں کی خدمت میں رجسٹری کرا کر خط لکھے اور بیس ہزار اشتہار تقسیم کیا اور کوئی دقیقہ ابلاغ اور اتمامِ حجت کا باقی نہ رکھا.تا خدا کرے کہ آپ لوگوں کو حق دیکھنے کیلئے شوق پیدا ہو اور جو مقبول اور مَردُود میں فرق ہونا چاہئے وہ آپ بچشم خود دیکھ لیں اور اچھے درختوں کے اچھے پھل اور اچھے پھول بذات خود ملاحظہ کر لیں.مگر افسوس کہ میری اس قدر سعی اور کوشش سے اب تک آپ لوگوں میں سے کوئی صاحب میدان میں نہیں آئے.اب آپ نے یہ خط لکھا ہے مگر دیکھئے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے.آپ نے اپنے خط میںتین شرطیں لکھی ہیں.پہلے آپ یہ لکھتے ہیں کہ چھ سَو روپیہ یعنی ۱؎ راجہ یدھشتر کا چھوٹا بھائی.شیو جی (اُردو ہندی لغت)

Page 124

تین ماہ کی تنخواہ بطور پیشگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں بھیجا جاوے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام اس عاجز کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی دقت پیش آوے تو فوراً آپ گوجرانوالہ میں واپس آ جاویں گے اور جو روپیہ آپ کو مل چکا ہو اس کو واپس لینے کا استحقاق اس عاجز کو نہیں رہے گا.یہ پہلی شرط ہے جو آپ نے تحریر فرمائی ہے لیکن گزارش خدمت کیا جاتا ہے کہ روپیہ کسی حالت میں قبل از انفصال اس امر کے جس کے لئے بحالت مغلوب ہونے کے روپیہ دینے کا اقرار ہے، آپ کو نہیں مل سکتا.ہاں البتہ یہ روپیہ آپ کی تسلّی اور اطمینان قلبی کیلئے کسی بنک سرکاری میں جمع ہو سکتا ہے یا کسی مہاجن کے پاس رکھا جا سکتا ہے.غرض جس طرح چاہیں روپیہ کی بابت ہم آپ کی تسلّی کرا سکتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے اور یہ بات سچ اور قریب انصاف بھی ہے کہ جب تک فریقین میں جو امر متنازعہ فیہ ہے وہ تصفیہ نہ پا جائے تب تک روپیہ کسی ثالث کے ہاتھ میں رہنا چاہئے.امید ہے کہ آپ جو طالب حق ہیں اس بات کو سمجھ جائیںگے اور اس کے برخلاف اصرار نہیں کریں گے.اور جو اسی شرط کے دوسرے حصہ میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ اگر مکان وغیرہ کے بارے میں کسی نوع کی ہم کو دقت پہنچی تو ہم فوراً گوجرانوالہ میں آویں گے اور جو روپیہ جمع کرایا گیا ہے وہ ہمارا ہو جائے گا.یہ شرط آپ کی بھی ایسی وسیع التاویل ہے کہ ایک بہانہ جُو آدمی کو اس سے بہت کچھ گنجائش مل سکتی ہے کیونکہ مکان بلکہ ہر یک چیز میں نکتہ چینی کرنا بہت آسان ہے.آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس جگہ کی آب وہوا ہم کو مخالف ہے، ہم بیمار ہوگئے، مکان میں بہت گرمی ہے، فلاں چیز ہم کو وقت پر نہیں ملتی، فلاں فلاں ضروری چیزوں سے مکان خالی ہے وغیرہ وغیرہ.اب ایسی ایسی نکتہ چینیوں کا کہاں تک تدارک کیا جائے گا.سو اس بات کا انتظام اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ آپ ایک دو دن کیلئے خود قادیان میں آکر مکان کو دیکھ بھال لیں اور اپنی ضروریات کا بالمواجہ تذکرہ اور تصفیہ کر لیں تا جہاں تک مجھ سے بن پڑے آپ کی خواہشوں کے پورا کرنے کیلئے کوشش کروں اور پھر بعد میں نکتہ چینی کی گنجائش نہ رہے.ماسوا اس کے یہ عاجز تو اس بات کا ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ کسی کو اپنے مکان میں فروکش کر کے جو کچھ نفسِ امّارہ اُس کا اسباب عیش و تنعُّم مانگتا جائے وہ سب اس کے لئے مہیا کرتا جاؤں گا بلکہ اس خاکسار کا یہ عہد و اقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئیں ان کو اپنے مکانات میں سے اچھا مکان اور اپنی خوراک کے موافق خوراک دی جائے گی اور جس طرح

Page 125

ایک عزیز اور پیارے مہمان کی حتیّٰ الوسع دلجوئی و خدمت و تواضع کرنی چاہئے، اسی طرح ان کی بھی کی جائے گی.اپنی طاقت اور استطاعت کے موافق برتاؤ اور معاملہ ہو گا اوراپنے نفس سے زیادہ تراَکل و شرب میں ان کی رعایت رکھی جائے گی.ہاں اگر کوئی اس قسم کی تکلیف ہو جس کو اس گاؤں میں ہم لوگ خود اُٹھاتے ہیں اور اس کا دفع اور ازالہ ہماری طاقت اور استطاعت سے باہر ہے.اس میں ہمارے مہمان ہماری حالت کے شریک رہیں گے اور اس بات کو آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر ہر ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ جس حالت میں ہم نے دو سَو روپیہ ماہواری دینا قبول کیا اور اس کیلئے ہر طرح تسلی بھی کر دی تو ہم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا.کہ جو کسی کا پورا پورا حرجہ دینے کے لئے ہمارے سر پر تھا.رہا تجویز مکان و دیگر لوازم مہمانداری سو یہ زوائد ہیں جن کو ہم نے حسنِ اَخلاق کے طور پر اپنے ذمہ آپ لے لیا ہے.ورنہ ہر ایک باانصاف آدمی جانتا ہے کہ جس شخص کو پورا پورا حرجہ اس کی حیثیت کے موافق بلکہ اس سے بڑھ کر دیا جائے تو پھر اور کوئی مطالبہ اس کا بے جا ہے.اس کو تو خود مناسب ہے کہ اگر زیادہ تر آرام پسند اور آسائش دوست ہے تو اپنی آسائش کے لئے آپ بندوبست کرلے.جیسا اس حالت میں بندوبست کرتا کہ جب وہ دو سَو روپیہ نقد کسی اور جگہ سے بطور نوکری پاتا.غرض جس قدر علاوہ ادائے حرجہ کے ہم سے کسی کی خدمت ہو جاوے.اس میں تو ہمارا ممنون ہونا چاہئے کہ ہم نے علاوہ اصل شرط کے بطور مہمانوں کے اس کو رکھا.نہ کہ الٹی نکتہ چینی کی جائے.کیونکہ یہ تو تہذیب اور اخلاق اور انصاف سے بہت بعید ہے اور اس مقام میں مجھ کو ایک سخت تعجب یہ ہے کہ اگر ایسی شرائط جو آپ نے پیش کیں کوئی اور شخص کسی فرقہ مخالف کا پیش کرتا تو کچھ بعید نہ تھا.مگر آپ لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کے خادم اور تابع کہلاتے ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا دَم مارتے ہیں.سو یہ کیسی بھول کی بات ہے کہ آپ حضرت مسیح کی سیرت کو چھوڑے جاتے ہیں.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح ایک مسکین اور درویش طبع آدمی تھے جنہوں نے اپنی تمام زندگی میں کوئی اپنا گھر نہ بنایا اور کسی نوع کا اسباب عیش و عشرت اپنے لئے مہیا نہ کیا.تو پھر آپ فرماویں کہ آپ کو ان کی پیروی کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جب تک آپ کی زندگی مسیح کی زندگی کا نمونہ نہ بنے تب تک آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح کے سچے پیرو ہیں.سو اب آپ غور کر لیں کہ یہ کس قدر نازیبا بات ہے کہ جو آپ پہلے ہی اپنی عیش و عشرت کے لئے مجھ سے شرطیں کر رہے ہیں

Page 126

آپ پر واضح ہو کہ یہ عاجز مسیح کی زندگی کے نمونہ پر چلتا ہے.کسی باغ میں کوئی امیرانہ کوٹھی نہیں رکھتا اور اس عاجز کا گھر اس قسم کی عیش و نشاط کا گھر نہیں ہو سکتا جس کی طرف دنیا پرستوں کی طبیعتیں راغب اور مائل ہیں.ہاں اپنی حیثیت اور طاقت کے موافق مہمانوں کیلئے خالصًا لِلّٰہ مکانات بنا رکھے ہیں اور جہاں تک بس چل سکتا ہے.ان کی خدمت کے لئے آمادہ وحاضر ہوں.سو اگر آپ ایسے مکانات میں گزارہ کرنا چاہیں تو بہتر ہے کہ اوّل آ کر اُن کو دیکھ لیں.لیکن اگر آپ تنعّم پسند لوگوں کی طرح مجھ سے یہ درخواست کریں کہ میرے لئے ایک ایسا شیش محل چاہئے جو ہر ایک طرح کی فرش فروش سے آراستہ ہو.جا بجا تصویریں لگی ہوئی اور مکان سجا ہوا اور بوتلوں میں مست اور متوالا کرنے والی چیز بھری ہوئی رکھی ہوںاور اِردگرد مکان کے ایک خوشنما باغ اور چاروں طرف اس کے نہریں جاری ہوں اور دس بیس خدمت گذار غلاموں کی طرح حاضر ہوں تو ایسا مکان پیش کرنے سے مجبور و معذور ہوں بلکہ ایک سادہ مکان جو ان تکلّفات سے خالی لیکن معمولی طور پر گزارہ کرنے کا مکان ہو، موجود اور حاضر ہے اور مکرر کہتا ہوں کہ آپ کو پُرتکلف مکانات اور دوسرے لوازم سے گریز کرنا چاہئے تا آپ میں مسیح کی زندگی کی علامات ظاہر ہو جائیں.اور میں ہرگز خیال نہیں کرتا کہ یہ مکان آپ کو کچھ تکلیف دِہ ہوگا.بلکہ مجھے کامل تسلی ہے کہ ایک شکرگزار آدمی ایسے مکان میں رہ کر کوئی کلمہ شکوہ شکایت کا منہ پر نہیں لائے گا.کیونکہ مکان وسیع موجود ہے اور گذارہ کرنے کے لئے سب کچھ مل سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر آپ بعدملاحظہ مکان چند معمولی اور جائز باتوں میں جو ہماری طاقت میں ہوں فرمائش کریں تو وہ بھی بفضلہ تعالیٰ میسر آ سکتی ہیں مگر بہرحال پہلے آپ کا تشریف لانا ازبس ضروری ہے.پھر آپ دوسری شرط میں یہ لکھتے ہیں کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا چاہئے، جیسے کتاب اقلیدس میں ثبوت درج ہیں، جس سے ہمارے دل قائل ہو جائیں.اس میں اوّل اس عاجز کی اس بات کو یاد رکھیں کہ ہم لوگ معجزہ کا لفظ صرف اُسی محل میں بولا کرتے ہیں جب کوئی خارقِ عادت کسی نبی یا رسول کی طرف منسوب ہو لیکن یہ عاجز ۱؎ نہ نبی ہے اور نہ رسول ہے، صرف اپنے نبی معصوم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ادنیٰ خادم اور پیرو ہے اور اسی رسول مقبول کی برکت و متابعت سے ۱؎ یہ آپ کی سچائی کی دلیل ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس روز نبوت کو نہیں کھولا آپ نے بھی دعویٰ نہ کیا.(ایڈیٹر)

Page 127

یہ انوار و برکات ظاہر ہو رہے ہیں.سو اس جگہ کر امت کا لفظ موزوں ہے نہ معجزہ کا اور ایسا ہی ہم لوگوں کی بول و چال میں آتا ہے.اور جو آپ اقلیدس کی طرح ثبوت مانگتے ہیں.اس میں یہ عرض ہے کہ جس قدر بفضلہ تعالیٰ روشن نشان آپ کو دکھلائے جائیں گے بمقابلہ اُن کے ثبوت اقلیدس کا جو اکثر دوائر موہومہ پر مبنی ہے ناکارہ اور ہیچ ہے.اقلیدس کے ثبوتوں میں کئی محل گرفت کی جگہ ہیں اور ان ثبوتوں کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوئی کہے.کہ اگر اوّل آپ بلادلیل کسی ایک چارپایہ کی نسبت یہ مان لیجئے کہ یہ چارپایہ نجاست کھا لیتا ہے اور مَیں مَیں کرتا ہے اور بدن پر اس کے اُون ہے تو ہم ثابت کر دیں گے کہ وہ بھیڑ کا بچہ ہے.ایسا اسی اقلیدس کے بیانات میں اکثر جگہ تناقض ہے.جیسے اوّل وہ آپ ہی لکھتا ہے کہ نقطہ وہ شئے ہے جس کی کوئی جز نہ ہو یعنی بالکل قابل انقسام نہ ہو.پھر دوسری جگہ آپ ہی تجویز کرتا ہے کہ ہر یک خط کے دو ایسے ٹکڑے ہو سکتے ہیں کہ وہ دونوں اپنی اپنی مقدار میں برابر ہوں.اب فرض کرو کہ ایک خط مستقیم ایسا ہے جو نو نقطوں سے مرکب ہے اور بموجب دعویٰ اقلیدس کے ہم چاہتے ہیں جو اس کے دو ٹکڑے مساوی کریں تو اس صورت میں یا تو یہ امر خلاف قرار داد پیش آئے گا کہ ایک نقطہ کے دو ٹکڑے ہوجائیں اور یا یہ دعویٰ اقلیدس کا کہ ہر ایک خطمستقیم دو ٹکڑے مساوی ہو سکتا ہے، غلط ٹھہرے گا.غرض اقلیدس میں بہت سی وہمی اور بے ثبوت باتیں بھری ہوئی ہیں.جن کو جاننے والے خوب جانتے ہیں.مگر آسمانی نشان تو وہ چیز ہے کہ وہ خود منکر کی ذات پر ہی وارد ہو کر حق الیقین تک اس کو پہنچا سکتا ہے اور انسان کو بجز اس کے ماننے کے کچھ بَن نہیں پڑتا.سو آپ تسلی رکھیں کہ اقلیدس کے ناچیز خیالات کو اُن عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں.’’چہ نسبت خاک را با عالم پاک‘‘ اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی حصر رہے گا بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحقیقت یہ خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں.تب تک آپ غالب اور یہ عاجز مغلوب سمجھا جائے گا.لیکن درصورت مل جانے ایسی گواہیوں کے جو اُن خوارق اور پیشگوئیوں کو انسانی طاقت سے بالا تر قرار دیتی ہوں، تو آپ مغلوب اور میں بفضلہ تعالیٰ غالب ہوں گا اور اُسی وقت آپ پر لازم ہوگا کہ اسی جگہ قادیان میں بشرفِ اسلام مشرف ہو جائیں.پھر آپ اپنے خط

Page 128

کے اخیر پر یہ لکھتے ہیں کہ اگر شرائط مذکورہ بالا کو قبول نہیں فرماؤ گے.تو آپ کا حال اور یہ شرائط چند اخبار ہند میں شائع کی جائیں گی.سو مشفق من! جو کچھ حق حق تھا آپ کی خدمت میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ عاجز آپ کے حالات شائع کرنے کرانے سے ہرگز نہیں ڈرتا.بلکہ خدا جانے آپ کب اور کس وقت اپنی طرف سے اخباروں میں یہ مضمون درج کرائیں گے مگر یہ خاکسار تو آج ہی کی تاریخ میں ایک نقل اس خط کی بعض اخباروں میں درج کرنے کیلئے روانہ کرتا ہے اور آپ کو یہ خوشخبری پہلے سے سنا دیتا ہے تا آپ کی تکلیف کشی کی حاجت نہ رہے اور مِن بعد جو کچھ آپ کی طرف سے ظہور میں آئے گا وہ بھی بیس روز تک انتظار کر کے چند اخباروں میں چھپوا دیا جائے گا.اور اگر آپ کچھ غیرت کو کام میں لاکر قادیان میں آگئے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ خداوند کریم کس کے ساتھ ہے اور کس کی حمایت اور نصرت کرتا ہے.اور پھر اس وقت آپ پر یہ بھی کھل جائے گا کہ کیا سچا اور حقیقی خدا جو خالق و مالک ارض و سما ہے وہ حقیقت میں ابن مریم ہے یا وہ خدا ازلی و ابدی و غیر متغیر و قدوس، جس پر ہم لوگ ایمان لائے ہیں.سو میںاُسی خدائے کامل اور صادق کی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور تشریف لائیں ضرور آئیں.اگر وہ قسم آپ کے دل پر مؤثر نہیں تو پھر اتمامِ الزام کی نیت سے آپ کو حضرت مسیح کی قسم ہے کہ آپ آنے میں ذرا توقف نہ کریں تا حق و باطل میں جو فرق ہے وہ آپ پر کھل جائے اور جو صادقوں اور کاذبوں میں مابہ الامتیاز ہے وہ آپ پر روشن ہو جائے.والسلام علی من اتبع الہدٰی.بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ باکہ باختۂ عشق در شب دیجور من ایستادہ ام اینک توہم بیابشتاب کہ تا سیاہ شود روئے کاذب مغرور الراقم خاکسار آپ کا خیرخواہ مرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور٭ ٭ الحکم ۲۴؍ جون ۱۹۰۱ء صفحہ۳ تا۶

Page 129

مکتوب نمبر۲ ایک عیسائی کے چند سوالوں کا جواب انجمن حمایت اسلام لاہور کے ذریعہ ایک عیسائی نے کچھ سوال اسلام پر کئے تھے انجمن نے ان سوالات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح مدّظلہ العالیٰ کے پاس بھیج دیا اور آقا و غلام نے ان سوالات کے جواب لکھ کر انجمن کو بھیج دیئے تھے.چونکہ وہ ایک عیسائی کے خط کا جواب بذریعہ ایک کھلے خط کے تھا اس لئے انہیں درج کر دیا جاتا ہے.وباللّٰہ التوفیق (ایڈیٹر) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ  ۱؎ چند روز ہوئے کہ ایک عیسائی صاحب مسمی عبداللہ جیمز نے چند سوال اسلام کی نسبت بطلب جواب انجمن میں ارسال فرمائے تھے چنانچہ اُن کے جواب اس انجمن کے تین معزز و مقتدر معاونین نے تحریر فرمائے ہیں جو بعد مشکوری تمام بصورت رسالہ ہذا شائع کئے جاتے ہیں.خ سوال نمبر۱: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی نبوت اور قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے پر ّمتشکی ہونا جیسا سورہ بقر اور سورہ انعام میں درج ہے ۲؎ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں یقین جانتے تھے کہ وہ پیغمبر خدا نہیں اگر وہ پیغمبر خدا ہوتے یا انہوں نے کبھی بھی کوئی معجزہ کیا ہوتا یا معراج ہوا ہوتا یا جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید لائے ہوتے تو وہ کبھی اپنی نبوت پر ّمتشکی نہ ہوتے اُس سے انکار قرآن مجید پر اور اپنی نبوت پر ّمتشکی ہونا صاف صاف ثابت ہوتا ہے اور نہ وہ رسول اللہ ہیں.پہلے سوال کا جواب: معترض نے پہلے اپنے دعوٰی کی تائید میں سورہ بقر میں سے ایک آیت پیش کی ہے جس کے پورے پورے لفظ یہ ہیں.

Page 130

اسآیت کا سیاق سباق یعنی اگلی پچھلی آیتوں کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ نبوت اور قرآن شریف کا کوئی ذکر نہیں.صرف اس بات کا بیان ہے کہ اب بیت المقدس کی طرف نہیں بلکہ بیت کعبہ کی طرف منہ پھیر کر نماز پڑھنی چاہیے.سو اللہ جلّشانہ اس آیت میں فرماتا ہے کہ یہ ہی حق بات ہے یعنی خانہ کعبہ کی طرف ہی نماز پڑھنا حق ہے جو ابتدا سے مقرر ہو چکا ہے اور پہلی کتابوں میں بطور پیشگوئی اس کا بیان بھی ہے سو تو (اے پڑھنے والے اس کتاب کے) اس بارے میں شک کرنے والوں سے مت ہو.٭ پھر اس آیت کے آگے بھی اسی مضمون کے متعلق آیتیں ہیں چنانچہ فرماتا ہے  ۱؎ یعنی ہر ایک طرف سے جو تو نکلے تو خانہ کعبہ کی ہی طرف نماز پڑھ.یہی تیرے ربّ کی طرف سے حق ہے.غرض صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام آیات خانہ کعبہ کے بارے میں ہیں نہ کسی اور تذکرہ کے متعلق اور چونکہ یہ حکم جو خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کے لئے صادر ہوا ایک عام حکم ہے جس میں سب مسلمان داخل ہیں لہٰذا بوجہ عموم منشاء حکم بعض وسوسے والی طبیعتوں کا وسوسہ دور کرنے کے لئے ان آیات میں اُن کو تسلی دی گئی کہ اس بات سے متردد نہ ہوں کہ پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے پڑھتے اب اُس کی طرف سے ہٹ کر خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنا کیوں شروع کر دیا.سو فرمایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ وہی مقرر شدہ بات ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے پہلے نبیوں کے ذریعے سے پہلے ہی سے بتلا رکھا تھا اس میں شک مت کرو.دوسری آیت میں جو معترض نے بتائید دعویٰ خود تحریر کی ہے وہ سورہ انعام کی ایک آیت ہے جو معہ اپنی آیات متعلقہ کے اس طرح پر ہے ۲؎ یعنی کیا بجز خدا کے میں کوئی اور حَکَم طلب کروں اور وہ وہی ہے جس نے مفصل کتاب تم پر اُتاری اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب یعنی قرآن دیا ہے مراد یہ ہے کہ جن کو ہم نے علمِ قرآن سمجھایا ہے وہ ٭ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلی کتابوں میں اور نیز انجیل میں بھی تحویل کعبہ کے بارے میں بطور پیشگوئی اشارات ہو چکے ہیں.دیکھو یوحنا ۴.۲۲تا۲۴ یسوع نے اسے کہا کہ اے عورت میری بات کو یقین رکھ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ اِس پہاڑ پر اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کروگے.۱؎ البقرۃ: ۱۵۰ ۲؎ الانعام: ۱۱۵

Page 131

خوب جانتے ہیں کہ وہ منجانب اللہ ہے سواے پڑھنے والے! تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو.اب اِن آیات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اس آیت کے جو َّ ہے ایسے لوگ ہیں جو ہنوز یقین اور ایمان اور علم سے کم حصہ رکھتے ہیں بلکہ اوپر کی آیتوں سے یہ بھی کھلتا ہے کہ اِس جگہ یہ حکم َّ کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شروع کی آیت میں جس سے یہ آیت تعلق رکھتی ہے آنحضرت ﷺکا ہی قول ہے یعنی یہ کہسو اِن تمام آیات کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ میں بجز خدا تعالیٰ کے کوئی اور حَکَم جو مجھ میں اور تم میں فیصلہ کرے مقرر نہیں کر سکتا وہ وہی ہے جس نے تم پر مفصل کتاب نازل کی سو جن کو اس کتاب کا علم دیا گیا ہے وہ اس کا منجانب اللہ ہونا خوب جانتے ہیں سو تو (اے بے خبر آدمی) شک کرنے والوں میں سے مت ہو.اب تحقیق سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شک نہیں کرتے بلکہ شک کرنے والوں کو بحوالہ شواہد و دلائل منع فرماتے ہیں.پس باوجود ایسے کھلے کھلے بیان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شک فی الرسالت کو منسوب کر نا بے خبری و بے علمی یا محض تعصب نہیں تو کیا ہے.پھر اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ اگر شک کرنے سے بعض ایسے نَومسلم یا متردّد منع کئے گئے تھے جو ضعیف الایمان تھے تو اُن کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ تم شک مت کرو نہ یہ کہ تو شک مت کر کیونکہ ضعیف الایمان آدمی صرف ایک ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی ہوتے ہیں بجائے جمع کے واحد مخاطب کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وحدت سے وحدت جنسی مراد ہے جو جماعت کا حکم رکھتی ہے اگر تم اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو پڑھو تو یہ عام محاورہ اُس میں پاؤ گے کہ وہ اکثر مقامات میں جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے مثلاً نمونہ کے طور پر اِن آیات کو دیکھو.. َ O۱؎ ۱؎ بنی اسرآء یل: ۲۳ تا ۲۵

Page 132

یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا مت ٹھہرا اگر تو نے ایسا کیا تو مذموم اور مخذول ہو کر بیٹھے گا.اور تیرے خدا نے یہی چاہا ہے کہ تم اسی کی بندگی کرو.اُس کے سوا کوئی اور دوسرا تمہارا معبود نہ ہو اور ماں باپ سے احسان کر اگر وہ دونو یا ایک اُن میں سے تیرے سامنے بڑی عمر تک پہنچ جائیں تو تُو اُن کو اُف نہ کر اور نہ اُن کو جھڑک بلکہ اُن سے ایسی باتیں کر کہ جن میں اُن کی بزرگی اور عظمت پائی جائے اور تذلل اور رحمت سے ان کے سامنے اپنا بازو جھکا اور دُعا کر کہ اے میرے رَبّ! تو ان پر رحم کر جیسا اُنہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی.اب دیکھو کہ ان آیات میں یہ ہدایت ظاہر ہے کہ یہ واحد کا خطاب جماعت اُمت کی طرف ہے جن کو بعض دفعہ انہیں آیتوں میں تم کر کے بھی پکارا گیا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات میں مخاطب نہیں کیونکہ ان آیتوں میں والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی نسبت بِرّو احسان کا حکم ہے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین تو صغیر سنی کے زمانے میں بلکہ جناب ممدوح کی شیر خوارگی کے وقت میں ہی فوت ہوچکے تھے.سو اس جگہ سے اور نیز ایسے اور مقامات سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کو واحد کے طور پر مخاطب کر کے پکارنا یہ قرآن شریف کا ایک عام محاورہ ہے کہ جو ابتدا سے آخر تک جا بجا ثابت ہوتا چلا جاتا ہے.یہی محاورہ توریت کے احکام میں بھی پایا جاتا ہے کہ واحد مخاطب کے لفظ سے حکم صادر کیا جاتا ہے اور مراد بنی اسرائیل کی جماعت ہوتی ہے جیسا کہ خروج باب ۳۳ ، ۳۴ میں بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا ہے.(۱۱) آج کے دن میں جو حکم تجھے کرتا ہوں تو اُسے یاد رکھیو.(۱۲) ہوشیار رہ تا نہ ہووے کہ اُس زمین کے باشندوں کے ساتھ جس میں تو جاتا ہے کچھ عہد باندھے.(۱۷) تو اپنے لئے ڈہائے ہوئے معبودوں کو مت بنائیو.اب ان آیات کا سیاق سباق دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ اگرچہ ان آیات میں حضرت موسیٰ مخاطب کئے گئے تھے مگر دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اِن احکام کا نشانہ نہیں بنایا گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ کنعان میں گئے اور نہ بت پرستی جیسا بُرا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے مردِ خدا بت شکن سے ہو سکتا تھا جس سے ان کو منع کیا جاتا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام وہ مقربُ اللہ ہے جس کی شان میں اسی باب میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو میری نظر میں منظور ہے اور میں تجھ کو بنام پہچانتا ہوں

Page 133

دیکھو خروج آیت (۱۷) سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہی طرز قرآن شریف کی ہے.توریت اور قرآن شریف میں اکثر احکام اسی شکل سے واقعہ ہیں کہ گویا مخاطب اُن کے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر دراصل وہ خطاب قوم اور اُمت کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے لیکن جس کو ان کتابوں کی طرز تحریر معلوم نہیں وہ اپنی بے خبری سے یہی خیال کر لیتا ہے کہ گویا وہ خطاب و عتاب نبی منزل علیہ کو ہو رہا ہے مگر غور اور قرائن پر نظر ڈالنے سے اُس پر کھل جاتا ہے کہ یہ سراسر غلطی ہے.پھر یہ اعتراض اُن آیات پر نظر ڈالنے سے بھی بکلّی مستاصل ہوتا ہے جن میں اللہ جلشانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یقین کامل کی تعریف کی ہے جیسا کہ وہ ایک جگہ فرماتا ہے ۱؎ یعنی کہ مجھے اپنی رسالت پر کھلی کھلی دلیل اپنے ربّ کی طرف سے ملی ہے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے۲؎ یعنی کہ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بصیرت کاملہ کے ساتھ بُلاتا ہوں اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے۳؎ یعنی خدا نے تجھ پر کتاب اُتاری اور حکمت یعنی دلائل حقیت کتاب و حقیت رسالہ تجھ پر ظاہر کئے اور تجھے وہ علوم سکھائے جنہیں تو خود بخود جان نہیں سکتا تھا اور تجھ پر اُس کا ایک عظیم فضل ہے.پھر سورہ نجم میں فرماتا ہے.۴؎ -۵؎ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے جو اپنی صداقت کے آسمانی نشان دیکھے تو اُس کی کچھ تکذیب نہ کی یعنی شک نہیں کیا اور آنکھ چپ ور است کی طرف نہیں پھیری اور نہ حد سے آگے بڑھی یعنی حق پر ٹھہر گئی اور اِس نے اپنے خدا کے وہ نشان دیکھے جو نہایت بزرگ تھے.اب اے ناظرین! ذرا انصافاً دیکھو.اے حق پسندو! ذرا منصفانہ نگہ سے غور کرو کہ خدائے تعالیٰ کیسے صاف صاف طور پر بشارت دیتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بصیرتِ کاملہ کے ساتھ اپنی نبوت پر یقین تھا اور عظیم الشان نشان ان کو دکھلائے گئے تھے.اب خلاصہ جواب یہ ہے کہ تمام قرآن شریف میں ایک نقطہ یا ایک شعشہ اس بات پر دلالت ۱؎ الانعام: ۵۸ ۲؎ یوسف: ۱۰۹ ۳؎ النّسآء: ۱۱۴ ۴؎ النجم: ۱۲ ۵؎ النجم: ۱۸،۱۹

Page 134

کرنے والا نہیں پاؤ گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت یا قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کی نسبت کچھ شک تھا بلکہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ جس قدریقین کامل و بصیرت کامل و معرفت اکمل کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات بابرکات کی نسبت دعویٰ کیا ہے اور پھر اُس کا ثبوت دیا ہے ایسا کامل ثبوت کسی دوسری موجودہ کتاب میں ہرگز نہیں پایا جاتا.فَھَلْ مَنْ یَسْمَعُ فَیُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَکُوْنُ مِنَ المُسْلِمِیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ.واضح رہے کہ انجیلوں میں حضرت مسیح کے بعض اقوال ایسے بیان کئے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دنوں میں اپنی نبوت اور اپنے مویّد من اللہ ہونے کی نسبت کچھ شبہات میں پڑ گئے تھے جیسا کہ یہ کلمہ کہ گویا آخری دم کا کلمہ تھا یعنی ایلی ایلی لماسبقتنی ۱؎جس کے معنی یہ ہیں کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.عین دنیا سے رخصت ہونے کے وقت میں کہ جو اہل اللہ کے یقین اور ایمان کے انوار ظاہر ہونے کا وقت ہوتا ہے آنجناب کے منہ سے نکل گیا.پھر آپ کا یہ بھی طریق تھا کہ دشمنوں کے بد ارادہ کا احساس کر کے اُس جگہ سے بھاگ جایا کرتے تھے حالانکہ خدا تعالیٰ سے محفوظ رہنے کا وعدہ پا چکے تھے.ان دونوں امور سے شک اور تحیر ظاہر ہے.پھر آپ کا تمام رات رو رو کر ایسے امر کے لئے جس کا انجامِ بد آپ کو پہلے سے معلوم تھا بجز اس کے کیا معنی رکھتا ہے کہ ہر ایک بات میں آپ کو شک ہی شک تھا.یہ باتیں صرف عیسائیوں کے اس اعتراض اُٹھانے کی غرض سے لکھی گئی ہیں ورنہ ان سوالات کا جواب ہم تو اَحسن طریق سے دیکھتے ہیں اور اپنے پیارے مسیح کے سر سے جو بشری ناتوانیوں اور ضعفوں سے مستثنیٰ نہیں تھے ان تمام الزامات کو صرف ایک نفی الوہیت و ابنیت سے ایک طرفۃ العین میں اُٹھا سکتے ہیں مگر ہمارے عیسائی بھائیوں کو بہت دقت پیش آئے گی.٭ سوال نمبر۲: اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرہوتے تو اس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم یعنی مجھ کو معلوم نہیں اور اصحابِ کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے یا غرق ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نوکروڑ حصہ بڑاہے وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے؟ ٭ یہ شبہات چاروں انجیلوں سے پیدا ہوتے ہیں.خاص کر انجیل متی تو اوّل درجہ کی شبہ اندازی میں ہے متی بات ۲۷ آیت ۴۶

Page 135

دوسرے سوال کا جواب: پوشیدہ نہ رہے کہ ان دونوں آیتوں سے معترض کا مدعا جو استدلال برنفی معجزات ہے، ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ برخلاف اس کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ایسے معجزات ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں کہ جو ایک صادق و کامل نبی سے ہونے چاہئیں.چنانچہ تصریح اس کی نیچے کے بیانات سے بخوبی ہو جائے گی.پہلی آیت جس کا ترجمہ معترض نے اپنے دعویٰ کی تائید کیلئے عبارات متعلقہ سے کاٹ کر پیش کر دیا ہے مع اس ساتھ کی دوسری آیتوں کے جن سے مطلب ُکھلتا ہے، یہ ہے..o۱؎ …o۲؎ یعنی کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں کہ وہ نشانیاں (جو تم مانگتے ہو یعنی عذاب کی نشانیاں)وہ تو خدا ئے تعالیٰ کے پاس اور خاص اس کے اختیار میں ہیں اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں.یعنی میرا کام فقط یہ ہے کہ عذاب کے دن سے ڈراؤں نہ یہ کہ اپنی طرف سے عذاب نازل کروں اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں کیلئے (جو اپنے پر کوئی عذاب کی نشانی وارد کرانی چاہتے ہیں) یہ رحمت کی نشانی کافی نہیں جو ہم نے تجھ پر (اے رسول اُمّی) وہ کتاب (جو جامع کمالات ہے) نازل کی جو اُن پر پڑھی جاتی ہے یعنی قرآن شریف جو ایک رحمت کا نشان ہے.جس سے درحقیقت وہی مطلب نکلتا ہے جو کفّار عذاب کے نشانوں سے پورا کرنا چاہتے ہیں.کیونکہ کفّار مکہ اس غرض سے عذاب کا نشان مانگتے تھے کہ تا وہ ان پر وارد ہو کر انہیں حق الیقین تک پہنچاوے.صرف دیکھنے کی چیزنہ رہے کیونکہ مجرد رویت کے نشانوں میں ان کو دھوکے کا احتمال تھا اور چشم بندی وغیرہ کا خیال.سو اس وہم اور اضطراب کے دور کرنے کے لئے فرمایا کہ ایسا ہی نشان چاہتے ہو جو تمہارے وجودوں پر وارد ہو جائے تو پھر عذاب کے نشان کی کیا حاجت ہے؟ کیا اس مدّعا کے حاصل کرنے کے لئے رحمت کا نشان کافی نہیں؟ یعنی قرآن شریف جو تمہاری آنکھوں کو اپنی پُر نور اور تیز شعاعوں سے خیرہ ۱؎ العنکبوت: ۵۱،۵۲ ۲؎ العنکبوت: ۵۴

Page 136

کر رہا ہے اور اپنی ذاتی خوبیاں اور اپنے حقائق اور معارف اور اپنے فوق العادت خواص اس قدر دکھلا رہا ہے جس کے مقابلہ و معارضہ سے تم عاجز رہ گئے ہو.اور تم پر اور تمہاری قوم پر ایک خارقِ عادت اثر ڈال رہا ہے٭ اور دلوں پر وارد ہو کر عجیب در عجیب تبدیلیاں دکھلا رہا ہے.مدت ہائے دراز کے مردے اس سے زندہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور مادر زاد اندھے جو بے شمار پشتوں سے اندھے ہی چلے آتے تھے، آنکھیں کھول رہے ہیں اور کفر اور الحاد کی طرح طرح کی بیماریاں اس سے اچھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور تعصب کے سخت جذامی اس سے صاف ہوتے جاتے ہیں.اس سے نور ملتا ہے اور ظلمت دُور ہوتی ہے اور وصل الٰہی میسر آتا ہے اور اس کی علامات پیدا ہوتی ہیں.سو ٭ یہ تمام خارقِ عادت خاصیتیں قرآن شریف کی، جن کی رو سے وہ معجزہ کہلاتا ہے ان مفصلہ ذیل سورتوں میں بہ تفصیل ذیل کہتے ہیں.سورۃ البقرۃ، سورۃ اٰل عمران، سورۃ النساء، سورۃ المائدۃ، سورۃ الانعام، سورۃ الاعراف، سورۃ الانفال، سورۃ التوبۃ، سورۃ یونس، سورۃ ھود، سورۃ الرعد، سورۃ ابراہیم، سورۃ الحجر، سورۃ الواقعۃ، سورۃ النمل، سورۃ الحج، سورۃ البیّنۃ، سورۃ المجادلۃ چنانچہ بطور نمونہ چند آیات یہ ہیں فرماتا ہے عزّو جلّ.یھدی بہ اللّٰہ من اتّبع رضوانہ سبل السلام ویخرجھم من الظلمت الی النور.شفائٌ لما فی الصدور.انزل من السماء ماء فاحیابہ الارض بعد موتہا.انزل من السماء مائً فسالت اودیۃ بقدرھا.انزل من السماء مائً فتصبح الارض مُخْضَرَّۃً.تقشعرمنہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الٰی ذکر اللّٰہ الابذکر اللّٰہ تطمئن القلوب.اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایَّدَھُمْ بروح منہ.قل نزلہ روح القدس من ربک بِالْحَقِّ لیثبت الذین اٰمنوا وھدًی وبشری للمسلمین.انا نحن نزلنا الذِّکْرَ وَانالہٗ لحفظون.فیھا کتب قیّمۃ.قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لایاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعضٍ ظھیرًاo یعنی قرآن کے ذریعہ سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت ملتی ہے اور لوگ ظلمت سے نور کی طرف نکالے جاتے ہیں.وہ ہر ایک اندرونی بیماری کو اچھا کرتاہے.خدا نے ایک ایسا پانی اُتارا ہے جس سے مردہ زمین زندہ ہو رہی ہے.ایسا پانی اُتارا جس سے ہر ایک وادی بقدر اپنی وسعت کے بہہ نکلا ہے.ایسا پانی اُتارا جس سے گلی سڑی ہوئی زمین سرسبز ہوگئی.اس سے خدا خوف بندوں کی جلدیں کانپتی ہیں.پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل ذکر الٰہی کیلئے نرم ہو جاتے ہیں.یاد رکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں.جو لوگ قرآن کے تابع ہو جائیں اُن کے دلوں میں ایمان لکھا جاتا ہے اور روح القدس انہیں ملتا ہے.روح القدس نے ہی قرآن کو اُتارا تا قرآن ایمانداروں کے دلوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کیلئے ہدایت اور بشارت کا نشان ہو.ہم نے ہی قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی حالت اصلی پر رہے گا اور الٰہی حفاظت کا اس پر سایہ ہوگا.پھر فرمایا کہ قرآن میں تمام معارف و حقائق و صداقتیں ہیں جو حقّانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.اور اس کی مثل بنانے پر کوئی انسان و ّجن قادر نہیں اگرچہ اس کام کیلئے باہم ممدومعاون ہو جائیں.

Page 137

تم کیوں اس رحمت کے نشان کو چھوڑ کر جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے عذاب اور موت کا نشان مانگتے ہو؟ پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ قوم تو جلدی سے عذاب ہی مانگتی ہے.رحمت کے نشانوں سے فائدہ اُٹھانا نہیں چاہتی.اُن کو کہہ دے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عذاب کی نشانیاں وابستہ باوقات ہوتی ہیں تو یہ عذابی نشانیاں بھی کب کی نازل ہوگئی ہوتیں.اور عذاب ضرور آئے گا اور ایسے وقت میں آئے گا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی.اب انصاف سے دیکھو! کہ اس آیت میں کہاں معجزات کا انکار پایا جاتا ہے.یہ آیتیں تو بآوازبلند پکار رہی ہیں کہ کفّار نے ہلاکت اور عذاب کا نشان مانگا تھا.سو اوّل انہیں کہا گیاکہ دیکھو تم میں زندگی بخش نشان موجود ہے یعنی قرآن جو تم پر وارد ہو کر تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ کی حیات بخشتا ہے مگر جب عذاب کا نشان تم پر وارد ہوا تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا.پس کیوں تم ناحق اپنا مرنا ہی چاہتے ہو اور اگر تم عذاب ہی مانگتے ہو تو یاد رکھو کہ وہ بھی جلد آئے گا.پس اللہ شانہٗ نے ان آیات میں عذاب کے نشان کا وعدہ دیا ہے اور قرآن شریف میں جو رحمت کے نشان ہیں اور دلوں پر وارد ہو کر اپنا خارق عادت اثر ان پر ظاہر کرتے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی.پر معترض کا یہ گمان کہ اس آیت میں لا نافیہ جنس معجزات کی نفی پر دلالت کرتا ہے.جس سے کل معجزات کی نفی لازم آتی ہے.محض صَرف ونحو سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ نفی کا اثر اُسی حد تک محدود ہوتا ہے جو متکلّم کے ارادہ میں متعین ہوتی ہے.خواہ وہ ارادہ تصریحاً بیان کیا گیا ہو یا اشارۃً.مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام و نشان باقی نہیں رہا، تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے یہ سمجھنا کہ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ کل کوہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی اور سب جگہ سخت اور تیز دھوپ پڑنے لگی اور اس کی دلیل یہ پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیا ہے وہ نفی جنس کا لا ہے.جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہئے، درست نہیں.مکہ کے مغلوب بت پرست جنہوں نے آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آنجناب کے معجزات کو معجزہ کر کے مان لیا اور جو کفر کے زمانہ میں بھی صرف خشک منکر نہیں تھے بلکہ روم اور ایران میں بھی جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متعجبانہ خیال سے ساحر مشہور کرتے تھے اور گوبے جا پیرایوں میں ہی سہی، مگر نشانوں کا اقرار کر لیا

Page 138

کرتے تھے.جن کے اقرار قرآن شریف میں موجود ہیں.وہ اپنے ضعیف اور کمزور کلام میں جو انوار ساطعہ نبوت محمدیہ کے نیچے دبے ہوئے تھے.کیوں لا نافیہ استعمال کرنے لگے.اگر ان کو ایسا ہی لمبا چوڑا انکار ہوتا تو وہ بالآخر نہایت درجہ کے یقین سے جو انہوں نے اپنے خونوں کے بہانے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے سے ثابت کر دیا تھا مشرف بالاسلام کیوں ہو جاتے؟ اور کفر کے ایام میں جو اُن کے بار بار کلمات قرآن شریف میں درج ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ اپنی کوتہ بینی کے دھوکہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ساحر رکھتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پکا جادو ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ٌ۲؎ یعنی انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک شخص اُن کی طرف بھیجاگیا اور بے ایمانوں نے کہا کہ یہ تو جادو گر کذّاب ہے.اب ظاہر ہے کہ جبکہ وہ نشانوں کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر کہتے تھے اور پھر اس کے بعد انہیں نشانوں کو معجزہ کر کے مان بھی لیا اور جزیرہ کا جزیرہ مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک معجزات کا ہمیشہ کیلئے سچے دل سے گواہ بن گیا تو پھر ایسے لوگوں سے کیونکر ممکن ہے کہ وہ عام طور پر نشانوں سے صاف منکر ہو جاتے اور انکار معجزات میں ایسا لا نافیہ استعمال کرتے جو اُن کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی مستمررائے سے بعید تھا بلکہ قرائن سے آفتاب کی طرح ظاہر ہے کہ جس جس جگہ پر قرآن شریف میں کفّار کی طرف سے یہ اعتراض لکھا گیا ہے کہ کیوں اس پیغمبر پر کوئی نشانی نہیں اُتری؟ ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جو نشانیاں ہم مانگتے ہیں.اُن میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی.٭ اب قصہ کوتاہ یہ کہ آپ نے آیت متذکرہ بالا کے لا نافیہ کو قرائن کی حد سے زیادہ کھینچ دیا ہے ۱؎ القمر: ۳ ۲ ؎ صٓ: ۵ ٭ واضح ہو کہ قرآن شریف میں نشان مانگنے کے سوالات کفّار کی طرف سے ایک دو جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات میں یہی سوال کیا گیا ہے اور اب سب مقامات کو بنظر یکجائی دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کفّارِ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے.(۱) وہ نشان جو عذاب کی صورت میں فقط اپنے اقتراح سے کفّارِ مکہ نے طلب کئے تھے.

Page 139

ایسا لا نافیہ عربوں کے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا.ان کے دل تو اسلام کی ّحقیت سے بھرے ہوئے تھے.تب ہی تو سب کے سب، بجز معدودے چند کہ جو اس عذاب کو پہنچ گئے تھے جس کا اُن کو (بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) (۲) دوسرے وہ نشان جو عذاب کی صورت میں یا مقدمہ عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر وارد کئے گئے تھے.(۳) تیسرے وہ نشان جن سے پردہ غیبی بکلّی اُٹھ جائے، جس کا اُٹھ جانا ایمان بالغیب کے بکلّی برخلاف ہے.سو عذاب کے نشان ظاہر ہونے کے لئے جو سوال کئے گئے ہیں ان کا جواب تو قرآن شریف میں بھی دیا گیا ہے کہ تم منتظر رہو، عذاب نازل ہوگا.ہاں ایسی صورت کا عذاب نازل کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی پہلے تکذیب ہوچکی ہے.تا ہم عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے جو آخر غزوات کے ذریعہ سے پورا ہو گیا.لیکن تیسری قسم کا نشان دکھلانے سے بکلّی انکار کیا گیا ہے اور خود ظاہر ہے کہ ایسے سوال کا جواب انکار ہی تھا، نہ اور کچھ.کیونکہ کفّار کہتے تھے کہ تب ہم ایمان لاویں گے کہ جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک نرد بان رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نرد بان کے ذریعہ سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک کتاب نہ لادے جس کو ہم پڑھ لیں اور پڑھیں بھی اپنے ہاتھ میں لے کر.یا تو ایسا کر کہ مکہ کی زمین میں جو ہمیشہ پانی کی تکلیف رہتی ہے.شام اور عراق کے ملک کی طرح نہریں جاری ہو جاویں اور جس قدر ابتداء دنیا سے آج تک ہمارے بزرگ مر چکے ہیں، سب زندہ ہو کر آ جائیں اور اس میں قصی بن کلاب بھی ہو کیونکہ وہ بڈھا ہمیشہ سچ بولتا تھا.اس سے ہم پوچھیں گے کہ تیرا دعویٰ حق ہے یا باطل؟ یہ سخت سخت خود تراشیدہ نشان تھے جو وہ مانگتے تھے اور پھر بھی نہ صاف طور پر بلکہ شرط پر شرط لگانے سے جس کا ذکر جا بجا قرآن شریف میں آیا ہے.پس سوچنے والے کیلئے عرب کے شریروں کی ایسی درخواستیں ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ظاہرہ و آیات بینہ و رسولانہ ہئیت پر صاف صاف اور کھلی کھلی دلیل ہے.خدا جانے ان دل کے اندھوں کو ہمارے مولیٰ و آقا محمد مصطفی ﷺکے انوار صداقت نے کس درجہ تک عاجز و تنگ کر رکھا تھا اور کیا کچھ آسمانی تائیدات و برکات کی بارشیں ہو رہی تھیں کہ جن سے خیرہ ہو کر اور جن کی ہیبت سے منہ پھیر کر سراسرٹالنے اور بھاگنے کی غرض سے ایسی دور از صواب درخواستیں پیش کرتے تھے.ظاہر ہے کہ اس قسم کے معجزات کا دکھلانا ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہے.یوں تو اللہ جلّشانہٗ قادر ہے کہ زمین سے آسمان تک زینہ رکھ دیوے.جس کو سب لوگ دیکھ لیویں اور دو چار ہزار کیا دو کروڑ آدمیوں کو زندہ کر کے ان کے منہ سے اُن کی اولاد کے سامنے صدق نبوت کی گواہی دلا دیوے.یہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے مگر ذرا سوچ کر دیکھو کہ اس انکشاف تام سے ایمان بالغیب جو مدار ثواب اور اجر ہے، دور ہو جاتا ہے اور دنیا نمونہ محشر ہو جاتی ہے.پس جس طرح قیامت کے میدان میں جو انکشافِ تام کا وقت ہوگا.ایمان کام نہیں آتا.اِسی طرح اس انکشافِ تام سے بھی ایمان لانا کچھ مفید نہیں بلکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ جب کچھ اِخفاء بھی باقی رہے جب سارے پردے کھل گئے تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا.اسی وجہ سے سارے نبی ایمان بالغیب کی رعایت سے معجزے دکھلاتے رہے ہیں.کبھی کسی نبی نے ایسا نہیں کیا کہ ایک شہر کا شہر زندہ کر کے ان سے اپنی نبوت کی گواہی دلاوے یا آسمان تک نرد بان رکھ کر اور سب کے روبرو چڑھ کر تمام دنیا کو تماشا دکھلاوے.

Page 140

وعدہ دیا گیا تھا، بالآخر مشرف بالاسلام ہوگئے تھے اور یاد رہے کہ ایسا لا نافیہ حضرت مسیح کے کلام میںبھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے.فریسیوں نے مسیح سے نشانات طلب کئے.اُس نے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں میں تم سے سچ کہتا ہوں اِس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہیں دیا جائے گا.دیکھو مرقس ۸ باب۱۱ اب دیکھو کیسا حضرت مسیح نے صفائی سے انکار کر دیا ہے.اگر غور فرمائیں تو آپ کا اعتراض اس اعتراض کے آگے کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ آپ نے فقط کفار کا انکار پیش کیا اور وہ بھی نہ عام انکار بلکہ خاص نشانات کے بارے میں اور ظاہر ہے کہ دشمن کا انکار بکلّی قابل اطمینان نہیں ہوتا کیونکہ دشمن خلافِ واقعہ بھی کہہ جاتا ہے مگر حضرت مسیح تو آپ اپنے منہ سے معجزات کے دکھلانے سے انکار کر رہے ہیں اور نفی صدور معجزات کو زمانہ کے ساتھ متعلق کر دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو کوئی نشان دیانہ جائے گا.پس اس سے بڑھ کر انکار معجزات کے بارے میں اور کون سا بیان واضح ہو سکتا ہے اور اس لا نافیہ سے بڑھ کر پھر اور کونسا لا نافیہ ہوگا.پھر دوسری آیت کا ترجمہ پیش کیا گیاہے.اس میں بھی سیاق و سباق کی آیتوں سے بالکل الگ کر کے اس پر اعتراض وارد کر دیا ہے مگر اصل آیت اور اس کے متعلقات پر نظر ڈالنے سے ہر ایک منصف بصیر سمجھ سکتا ہے کہ آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جو انکار معجزات پر دلالت کرتا ہو بلکہ تمام الفاظ صاف بتلا رہے ہیں کہ ضرور معجزات ظہور میں آئے.چنانچہ وہ آیت معہ اس کی دیگر آیات متعلقہ کے یہ ہے.o o۱؎ فرماتا ہے عزوجل کہ یوں تو قیامت سے پہلے ہر ایک بستی کو ہم نے ہی ہلاک کرنا ہے یا عذاب شدید نازل کرنا ہے یہی کتاب میں مندرج ہوچکا ہے.مگر اس وقت ہم بعض ان گذشتہ قہری نشانوں کے (جو عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر نازل ہو چکے ہیں) اس لئے نہیں بھیجتے جو پہلی اُمت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں.چنانچہ ہم ۱؎ بنی اسرآء یل: ۵۹،۶۰

Page 141

نے ثمود کو بطور نشان کے جو مقدمہ عذاب کا تھا.ناقہ دیا جو حق نما نشان تھا.جس پر انہوں نے ظلم کیا.یعنی وہی ناقہ جس کی بسیار خوری اور بسیار نوشی کی وجہ سے شہر حجر کے باشندوں کے لئے جو قوم ثمود میں تھے.پانی تالاب وغیرہ کا پینے کے لئے باقی رہا تھا اور نہ اُن کے مویشی کیلئے کوئی چراگاہ رہی تھی اور ایک سخت تکلیف اور رنج اور بلا میں گرفتار ہوگئی تھی.اور قہری نشانوں کے نازل کرنے سے ہماری غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے ڈریں.یعنی قہری نشان تو صرف تخویف کیلئے دکھلائے جاتے ہیں.پس ایسے قہری نشانوں کے طلب کرنے سے کیا فائدہ جو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر انہیں جھٹلا دیا اور اُن کے دیکھنے سے کچھ بھی خائف و ہراساں نہ ہوئے.اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں.(۲) نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کرسکتے ہیں.تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اورنافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کیلئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدا تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کیلئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار ہیں.اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے اُن مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینہ پر دستِ شفقت و تسلّی رکھنا مقصود ہوتا ہے.سو مومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے.تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتًا انسان میں ہے، جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے.مومن ببرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن ان کے نزول سے یقین اور معرفت اور قوتِ ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ آلاء و نعمائِ الٰہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ و جلیّہ و خفیہ حضرت باری عزّاسمہٗ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں.محبت وعشق میں بھی

Page 142

دن بدن بڑھتا جاتا ہے.سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصود تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفتِ کاملہ اور محبتِ ذاتیہ کے اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہی المقامات ہے.اور قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے یہاں تک کہ اس نے اُن نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے .۱؎ یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے.جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں ناپیداکنار ترقیاں کرتے جائیں گے.یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پا لینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہیٰ مقام تک پہنچا دیتا ہے).اب جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں، جو معترض نے بصورت اعتراض پیش کی ہے، صرف تخویف کے نشانوں کا ذکر کیا ہے.جیسا کہ آیت ۲؎سے ظاہر ہو رہا ہے.کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف ہی کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی.تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں.جیسا کہ ابھی بیان ہوچکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں.یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے.انہیں دو قسموں کو قرآن شریف اور بائیبل بھی جا بجا ظاہر کر رہی ہے.پس جب کہ نشان دو قسم کے ہوئے تو آیت ممدوحہ بالا میں جو لفظ آیات ہے (جس کے معنی وہ نشانات) بہرحال اسی تاویل پر بصحت منطبق ہوگا کہ نشانوں سے قہری نشان مراد ہیں کیونکہ اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام نشانات جو تحت قدرتِ الٰہی داخل ہیں.تخویف کی قسم میں ہی محصور ہیں.حالانکہ فقط تخویف کی قسم میں ہی سارے نشانوں کا حصر سمجھنا سراسر خلاف واقعہ ہے کہ جو نہ کتاب اللہ کی رو سے اور نہ عقل کی رو سے اور نہ کسی پاک دل کے کانشنس کی رو سے درست ہو سکتا ہے.۱؎ یونس: ۶۵ ۲؎ بنی اسرآء یل: ۶۰

Page 143

اب چونکہ اس بات کا صاف فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کی دو قسموں میں سے صرف تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسرا امر تنقیح طلب باقی رہا کہ کیا اس آیت کے (جو مامنعناالخ ہے) یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا یا یہ سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کے نشانوں میں سے وہ نشان ظاہر نہیں کئے گئے جو پہلی اُمتوں کو دکھلائے گئے تھے؟ اور یا یہ تیسرے معنی قابل اعتبار ہیں کہ دونوں قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہے ہیں.بجز اُن خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر جھٹلا دیا تھا اور ان کو معجزہ نہیں سمجھا تھا.سو واضح ہو کہ آیات متنازعہ فیہا پر نظر ڈالنے سے بہ تمام تر صفائی کھل جاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے معنی کسی طرح درست نہیں.کیونکہ آیت ممدوحہ بالا کے یہ سمجھ لینا کہ تمام انواع و اقسام کے وہ تخویفی نشان جو ہم بھیج سکتے ہیں اور تمام وہ وراء الوراء تعذیبی نشان جن کے بھیجنے پر غیر محدود طور پر ہم قادر ہیں اس لئے ہم نے نہیں بھیجے کہ پہلی اُمتیں اس کی تکذیب کر چکی ہیں.یہ معنے سراسر باطل ہیں.کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلی اُمتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے وجہ یہ کہ تکذیب کیلئے یہ ضرور ہے کہ جس چیز کی تکذیب کی جائے.اوّل اس کا مشاہدہ بھی ہو جائے.جس نشان کو ابھی دیکھا ہی نہیں اس کی تکذیب کیسی؟ حالانکہ نادیدہ نشانوں میں سے ایسے اعلیٰ درجہ کے نشان بھی تحت قدرت باری تعالیٰ ہیں جس کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گردنیں اُن کی طرف جھک جائیں.کیونکہ خدا تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشان ہائے قدرت باری تعالیٰ غیر محدود اور غیر متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہوگئی.وقت محدود میں تو وہی چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہوگی.بہرحال اس آیت کے یہی معنی صحیح ہوں گے کہ جو بعض نشانات پہلے کفّار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے.ان کا دوبارہ بھیجنا عبث سمجھا گیا.جیسا کہ قرینہ بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ ثمود کا خدا تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گذشتہ اور ردّ کردہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے اور یہی تیسرے معنی ہیں جو صحیح اور درست ہیں.

Page 144

پھر اس جگہ ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے اُن پر ظاہر ہوگا کہ آیت  ۱؎ الخ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ نفی معجزات کیونکہ الٓاٰیٰت کے لفظ پر جو الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دو صورتوں سے خالی نہیں.یا کل کے معنے دے گا یا خاص کے.اگر کل کے معنے دے گا تو یہ معنے کئے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر اگلوں کا ان کو جھٹلانا.اور اگر خاص کے معنی دے گا تو یہ معنی ہونگے کہ ہمیں ان خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا.مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا.بہرحال ان دونوں صورتوں میں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اگر یہ معنے ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب اُممِ گذشتہ نہیں بھیجیں.تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہوتا ہے.جیسے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے اور اگر یہ معنے لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ بعض خاص چیزیں میں نے زید کو نہیں دیں تو اس سے صاف پایا جائے گا کہ بعض دیگر ضرور دی ہیں.بہرحال جو شخص اوّل اس آیت کے سیاق و سباق کی آیتوں کو دیکھے کہ کیسی وہ دونوں طرف کے عذاب کے نشانوں کا قصہ بتلا رہی ہیں اور پھر ایک دوسری نظر اُٹھاوے اور خیال کرے کہ کیا یہ معنے صحیح اور قرین قیاس ہیں؟ کہ خدا تعالیٰ کے تمام نشانوں اور عجائب کاموں کی جو اس کی بے انتہا قدرت سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے اور غیر محدود ہیں پہلے لوگ اپنے محدود زمانہ میں تکذیب کرچکے ہوں.اور پھر ایک تیسری نظر منصفانہ سے کام لے کر سوچے کہ کیا اس جگہ تخویف کے نشانوں کا ایک خاص بیان ہے یا تبشیر اور رحمت کے نشانوں کا بھی کچھ ذکر ہے اور پھر ذرا چوتھی نگاہ الٓایات کے الف لام پر بھی ڈال دیوے کہ وہ کن معنوں کا افادہ کر رہا ہے تو اس چار طور کی نظر کے بعد، بجز اس کے کہ کوئی تعصب کے باعث حق پسندی سے بہت دور جا پڑا ہو، ہر ایک شخص اپنے اندر سے نہ ایک شہادت بلکہ ہزاروں شہادتیں پائے گا کہ اس جگہ نفی کا حرف صرف نشانوں کی ایک قسم خاص کی نفی کیلئے آیا ہے جس کا دوسری اقسام پر کچھ اثر نہیں بلکہ اس سے ان کا متحقق الوجود ہونا ثابت ہو رہا ہے اور ان آیات میں نہایت صفائی سے اللہ جلّشانہٗ ۱؎ بنی اسرآء یل: ۶۰

Page 145

بتلا رہا ہے کہ اس وقت تخویفی نشان جن کی یہ لوگ درخواست کرتے ہیں صرف اس وجہ سے نہیں بھیجے گئے کہ پہلی آیتیں ان کی تکذیب کر چکی ہیں.سو جونشان پہلے ردّ کئے گئے اب بار بار انہیں کو نازل کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور غیر محدود قدرتوں والے کی شان سے بعید.پس ان آیات میں یہ صاف اشارہ ہے کہ عذاب کے نشان ضرورنازل ہوں گے مگر اور رنگوں میں.یہ کیا ضرورت ہے کہ وہی نشان حضرت موسیٰ ؑ کے یا وہی نشان حضرت نوحؑ اور قوم لوط ؑ اور عاد ؑ اور ثمود کے ظاہر کئے جائیں.چنانچہ ان آیات کی تفصیل دوسری آیات میں زیادہ تر کی گئی ہے جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے.۱؎ .۲؎ ۳؎ ۴؎ ۵؎ ۶؎ ۷؎ َ۸؎  ۹؎ .۱۰؎ ۱۱؎ یعنی یہ لوگ تمام نشانوں کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے.پھر جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے لڑتے ہیں اور جب کوئی نشان پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کبھی نہیں مانیں گے جب تک ہمیں خود ہی وہ باتیں حاصل نہ ہوں جو رسولوںکو ملتی ہیں.کہہ میں کامل ثبوت لے کر اپنے ربّ کی طرف سے آیا ہوں اور تم اس ثبوت کو دیکھتے ہو اور پھر تکذیب کر رہے ہو.جس چیز کو تم جلدی سے مانگتے ہو (یعنی عذاب) وہ تو میرے اختیار میں نہیں.حکم اخیر صادر کرنا تو خدا ہی کا منصب ہے، وہی حق کو کھول ۱؎ الانعام:۲۶ ۲؎ الانعام: ۱۲۵ ۳؎ الانعام: ۵۸ ۴؎ الانعام: ۱۰۵ ۵؎ العنکبوت: ۵۴ ۶؎ الانعام: ۶۶ ۷؎ النّمل:۹۴ ۸؎ سبا: ۳۱ ۹؎ یونس: ۵۴ ۱۰؎ حٰمٓ السجدۃ: ۵۴ ۱۱؎ الانبیآء: ۳۸

Page 146

دے گا اور وہی خیر الفاصلین ہے جو ایک دن میرا اور تمہارا فیصلہ کر دے گا.خدا نے میری رسالت پر روشن نشان تمہیں دیئے ہیں.سو جو ان کو شناخت کرے اُس نے اپنے ہی نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اس کا وبال بھی اسی پر ہے.میں تو تم پر نگہبان نہیں.اور تجھ سے عذاب کیلئے جلدی کرتے ہیں.کہہ وہی پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب تم پر بھیجے اور چاہے تو تمہیں دو فریق بنا کرایک فریق کی لڑائی کا دوسرے کو مزا چکھا دے اور یہ کہ سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں.وہ تمہیں ایسے نشان دکھائے گا جنہیں تم شناخت کر لو گے اور کہہ تمہارے لئے ٹھیک ٹھیک ایک برس کی میعاد ہے٭ نہ اس سے تم تاخیر کر سکو گے نہ تقدیم.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ بات ہے.کہہ ہاں مجھے قسم ہے اپنے ربّ کی کہ یہ سچ ہے اور تم خدا تعالیٰ کو اس کے وعدوں سے روک نہیں سکتے.ہم عنقریب ان کواپنے نشان دکھلائیں گے.ان کے ملک کے اردگرد میں اور خود اُن میں بھی یہاں تک کہ اُن پر کھل جائے گا کہ یہ نبی سچا ہے.انسان کی فطرت میں جلدی ہے.میں عنقریب تمہیں اپنے نشان دکھلاؤں گا.سو تم مجھ سے تو جلدی مت کرو.اب دیکھو کہ ان آیات میں نشان مطلوبہ کے دکھلانے کے بارے میں کیسے صاف اور پختہ وعدے دیئے گئے ہیں.یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کھلے کھلے نشانات دکھلائے جائیں گے کہ تم ان کو شناخت کر لو گے اور اگر کوئی کہے کہ یہ تو ہم نے مانا کہ عذاب کے نشانوں کے بارے میں جابجا قرآن شریف میں وعدے دیئے گئے ہیں کہ وہ ضرور کسی دن دکھلائے جائیں گے اور یہ بھی ہم نے تسلیم کیا کہ وہ سب وعدے اس زمانہ میںپورے بھی ہوگئے کہ جب کہ خدا تعالیٰ نے اپنی خداوندی قدرت دکھلا کر مسلمانوں کی کمزوری اور ناتوانی کو دور کر دیا اور معدودے چند سے ہزار ہا تک ان کی نوبت پہنچا دی اور ان کے ذریعہ سے ان تمام کفّار کو تہ تیغ کیا جو مکہ میں اپنی سرکشی اور جو رو جفا کے زمانہ میں نہایت تکبر سے عذاب کا نشان مانگا کرتے تھے.لیکن اس بات کا ثبوت قرآن شریف سے کہاں ملتا ہے کہ بجز اُن نشانوں کے اور بھی نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے تھے.سو واضح ہو کہ نشانوں کے دکھلانے کا ذکر قرآن شریف میں جا بجا آیا ہے.بعض جگہ اپنے پہلے نشانوں کا ٭ یوم سے مراد اس جگہ برس ہے.چنانچہ بائیبل میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے سو پورے برس کے بعد بدر کی لڑائی کا عذاب مکہ والوں پر نازل ہوا.جو پہلی لڑائی تھی.

Page 147

حوالہ بھی دیا ہے دیکھو آیت  ۱؎ بعض جگہ کفّار کی ناانصافی کا ذکر کر کے ان کا اس طور کا اقرار درج کیا ہے کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ جادو ہے.دیکھو آیت ۲؎ بعض جگہ جو نشانوں کے دیکھنے کا صاف اقرار منکرین نے کر دیا ہے وہ شہادتیں ان کی پیش کی ہیں.جیسا کہ فرماتا ہے.۳؎ یعنی انہوں نے رسول کے حق ہونے پر گواہی دی اور کھلے کھلے نشان ان کو پہنچ گئے.اور بعض جگہ بعض معجزات کو بتصریح بیان کر دیا ہے جیسے معجزہ شق القمر جو ایک عظیم الشان معجزہ اور خدائی قدرت کا ایک کامل نمونہ ہے، جس کی تصریح ہم نے کتاب سرمہ چشم آریہ میں بخوبی کر دی ہے.جو شخص مفصل دیکھنا چاہے اس میں دیکھ سکتا ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خود تراشیدہ نشان مانگا کرتے تھے اکثر وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانوں کے آخر کار گواہ بھی بن گئے تھے کیونکہ آخر وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مشرف باسلام ہو کر دین اسلام کو مشارق و مغارب میں پھیلایا اور نیز معجزات اور پیشگوئیوں کے بارے میں کتب حدیث میں اپنی رویت کی شہادتیں قلمبند کرائیں.پس اس زمانہ میں ایک عجیب طرز ہے کہ ان بزرگان دین کے اس زمانہ جاہلیت کے انکاروں کو بار بار پیش کرتے ہیں جن سے بالآخر خود وہ دست کش اور تائب ہوگئے تھے لیکن اُن کی اُن شہادتوں کو نہیں مانتے جو راہ راست پر آنے کے بعد انہوں نے پیش کی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں.صرف معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیش گوئیاں تو شاید دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں.ماسوائے اس کے بعض معجزات و پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے جو اس زمانہ میں ہیں، مشہود و محسوس کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا چنانچہ وہ یہ ہیں.(۱) عذابی نشان کا معجزہ جو اس وقت کے کفّار کو دکھلایا گیا تھا، یہ ہمارے لئے بھی فی الحقیقت ایسا ہی نشان ہے جس کو چشم دید کہنا چاہئے.وجہ یہ کہ یہ نہایت یقینی مقدمات کا ایک ضروری نتیجہ ہے جس سے کوئی موافق اور مخالف کسی صورت سے انکار نہیں کر سکتا.اوّل یہ مقدمہ جو بطور بنیاد معجزہ کے ۱؎ الانعام: ۱۱۱ ۲؎ القمر: ۳ ۳؎ اٰلِ عمران: ۸۷

Page 148

ہے نہایت بدیہی اور مسلّم الثبوت ہے کہ یہ عذابی نشان اس وقت مانگا گیا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چند رفیق آنجناب کے مکہ میں دعوت حق کی وجہ سے خود صدہا تکالیف اور دردوں اور دکھوں میں مبتلا تھے اور وہ ایام دین اسلام کے لئے ایسے ضعف اور کمزوری کے دن تھے کہ خود کفّارِ مکہ ہنسی اور ٹھٹھے کی راہ سے مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو اس قدر عذاب اور مصیبت اور دکھ اور درد ہمارے ہاتھ سے کیوں تمہیں پہنچ رہا ہے اور وہ خدا جس پر تم بھروسہ کرتے ہو وہ کیوں تمہاری مدد نہیں کرتا اور کیوں تم ایک قدر قلیل جماعت ہو جو عنقریب نابود ہونے والی ہے اور اگر تم سچے ہو تو کیوں ہم پر عذاب نازل نہیں ہوتا؟ ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کفّار کو قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ایسے زمانہ تنگی و تکالیف میں کہا گیا وہ دوسرا مقدمہ اس پیشگوئی کی عظمت شان سمجھنے کیلئے ہے کیونکہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ پر ایسا نازک زمانہ تھا کہ ہر وقت اپنی جان کا اندیشہ تھا اور چاروں طرف ناکامی منہ دکھلا رہی تھی.سو ایسے زمانہ میں کفّار کو اُن سے عذابی نشان مانگنے کے وقت صاف صاف طور پر یہ کہا گیا تھا کہ عنقریب تمہیں اسلام کی فتح مندی اور تمہارے سزایاب ہونے کا نشان دکھلایا جائے گا اور اسلام جو اب ایک تخم کی طرح نظر آتا ہے کسی دن ایک بزرگ درخت کی مانند اپنے تئیں ظاہر کرے گا اور وہ جو عذاب کا نشان مانگتے ہیں وہ تلوار کی دھار سے قتل کئے جائیں گے اور تمام جزیرہ عرب کفر اور کافروں سے صاف کیا جائے گا.اور تمام عرب کی حکومت مومنوں کے ہاتھ میں آ جائے گی اور خدا تعالیٰ دین اسلام کو عرب کے ملک میں ایسے طور سے جمادے گا کہ پھر بت پرستی کبھی پیدا نہیں ہوگی اور حالت موجودہ جو خوف کی حالت ہے، بکلّی امن کے ساتھ بدل جائے گی اور اسلام قوت پکڑے گا اور غالب ہوتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ دوسرے ملکوں پر اپنی نصرت اور فتح کا سایہ ڈالے گا اور دور دور تک اس کی فتوحات پھیل جائیں گی اور ایک بڑی بادشاہت قائم ہو جائے گی جس کا اخیر دنیا تک زوال نہیں ہوگا.اب جو شخص پہلے ان دونوں مقدمات پر نظر ڈال کر معلوم کر لیوے کہ وہ زمانہ جس میں یہ پیشگوئی کی گئی، اسلام کے لئے کیسی تنگی اور ناکامی اور مصیبت کا زمانہ تھا اور جو پیشگوئی کی گئی وہ کس قدر حالت موجودہ سے مخالف اور خیال اور قیاس سے نہایت بعید بلکہ صریح محالات عادیہ سے نظر آتی تھی.پھر بعد اس کے اسلام کی تاریخ پر جو دشمنوں اور دوستوں کے ہاتھ میں موجود ہے.ایک

Page 149

منصفانہ نظر ڈالے کہ کیسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور کس قدر دلوں پر ہیبت ناک اثر اس کا پڑا اور کیسے مشارق اور مغارب میں تمام تر قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا ظہور ہوا.تو اس پیشگوئی کو یقینی اور قطعی طور پر چشم دید معجزہ قرار دے گا جس میں اس کو ایک ذرہ بھی شک و شبہ نہ ہوگا.پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کاجو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ببرکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں.جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرفِ صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباعِ قرآن شریف کس رنگ میں آ گئے اور کیسے اخلاق میں، عقائد میں، چلن میں، گفتار میں، رفتار میں ،کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیّب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور روشنی اور چمک بخش دی تھی.اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارقِ عادت تصرّف تھا جو خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ان کو مُردہ پایا اور زندہ کیا اور جہنم کے گڑھے میں گرتے دیکھا تو اُس ہولناک حالت سے چھڑایا.بیمار پایا اور اُنہیں اچھا کیا.اندھیرے میں پایا انہیں روشنی بخشی اور خدا تعالیٰ نے اس اعجاز کے دکھلانے کے لئے قرآن شریف میں ایک طرف عرب کے لوگوں کی وہ خراب حالتیں لکھی ہیں جو اسلام سے پہلے وہ رکھتے تھے اور دوسری طرف ان کے وہ پاک حالات بیان فرمائے ہیں جو اسلام لانے کے بعد ان میں پیدا ہوگئے تھے کہ تا جو شخص ان پہلے حالات کو دیکھے جو کفر کے زمانہ میں تھے اور پھر مقابل اس کے وہ حالت پڑھے جو اسلام لانے کے بعد ظہور پذیر ہوگئی.تو ان دونوں طور کے سوانح پر مطلع ہونے سے بہ یقین کامل سمجھ لیوے گا کہ یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے.پھر تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروںکے سامنے موجود ہے اس کے حقائق و معارف و نکات و لطائف ہیں جو اس کی بلیغ و فصیح عبارات میں بھرے ہوئے ہیں.اس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شدّومد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تمام جن و انس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو اُن کے لئے ممکن نہیں.یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ

Page 150

تیرہ سَو برس سے زیادہ گزر رہا ہے باوجود یکہ قرآن شریف کی منادی دنیا کے ہر ایک نواح میں ہو رہی ہے اور بڑے زور سے ھَلْ مِنْ مَعَارِضٍکا نقارہ بجایا جاتا ہے مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی.پس اس سے اس بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ و معارضہ سے عاجز ہیں بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوں میں سے صرف ایک خوبی کو پیش کر کے اس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البُنیان سے یہ بھی ناممکن ہے کہ اس کے ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے.مثلاً قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ تمام معارف دینیہ پر مشتمل ہے اور کوئی دینی سچائی جو حق اور حکمت سے تعلق رکھتی ہے، ایسی نہیں جو قرآن شریف میں پائی نہ جاتی ہو.مگر ایسا شخص کون ہے کہ کوئی دوسری کتاب ایسی دکھلائے جس میں یہ صفت موجود ہو.اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہو کہ قرآن شریف جامع تمام حقائق دینیہ ہے تو ایسا مشکک خواہ عیسائی ہو، خواہ آریہ اور خواہ برہمو ہو، خواہ دہریہ اپنی طرز اور طور پر امتحان کر کے اپنی تسلی کرا سکتا ہے اورہم تسلی کر دینے کے ذمہ دار ہیں.بشرطیکہ کوئی طالبِ حق ہماری طرف رجوع کرے.بائیبل میں جس قدر پاک صداقتیں ہیں یا حکماء کی کتابوں میں جس قدر حق اور حکمت کی باتیںہیں جن پر ہماری نظر پڑی ہے یا ہندوؤں کے وید وغیرہ میں جو اتفاقاً بعض سچائیاں درج ہوگئی ہیں یا باقی رہ گئی ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے یا صوفیوں کی صدہاکتابوں میں جو حکمت و معرفت کے نکتے ہیں، جن پر ہمیں اطلاع ہوئی ہے اُن سب کو ہم قرآن شریف میں پاتے ہیں اور اس کامل استقراء سے جو تیس۳۰ برس کے عرصہ میں نہایت عمیق اور محیط نظر کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہے، نہایت قطع اور یقین سے ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ کوئی روحانی صداقت جو تکمیل نفس اور دماغی اور دلی قویٰ کی تربیت کے لئے اثر رکھتی ہے ایسی نہیں جو قرآن شریف میں درج نہ ہو اور یہ صرف ہمارا ہی تجربہ نہیں بلکہ یہی قرآن شریف کا دعویٰ بھی ہے جس کی آزمائش نہ فقط میںنے کی بلکہ ہزار ہا علماء ابتداء سے کرتے آئے اور اس کی سچائی کی گواہی دیتے آئے ہیں.پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلی آتی ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الٰہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالماتِ الٰہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ

Page 151

جواب دیتا ہے اور بعض اسرارِ غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے.یہ بھی ایسا نشان ہے کہ جو قیامت تک اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود اور متحقق الوجود ہے.مسلمانوں میں سے اب بھی ایسے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو اللہ جلّشانہٗ اپنی تائیداتِ خاصہ سے مؤیَّد فرما کر الہاماتِ صحیحہ و صادقہ و مبشرات و مکاشفاتِ غیبیہ سے سرفراز فرماتا ہے.اب اے حق کے طالبو اور سچے نشانوں کے بھوکو اور پیاسو! انصاف سے دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں اور کیسے ہر زمانہ کیلئے مشہود و محسوس کا حکم رکھتے ہیں.پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں، صرف قصے ہیں.خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے.بالخصوص حضرت مسیح کے معجزات جو انجیلوں میں لکھے ہیں باوجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جو اُن میں پائے جاتے ہیں.ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بکلّی صاف و پاک کر کے دکھلانا بہت مشکل ہے.اور اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ جو کچھ اناجیل مروجہ میں حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ لولے اور لنگڑے اور مفلوج اور اندھے وغیرہ بیمار ان کے چھونے سے اچھے ہو جاتے تھے، یہ تمام بیان بلامبالغہ ہے اور ظاہر پر ہی محمول ہے کوئی اور معنی اس کے نہیں.تب بھی حضرت مسیح کی ان باتوں سے کوئی بڑی خوبی ثابت نہیں ہوتی.اوّل تو انہیں دنوں میں ایک تالاب بھی ایسا تھا کہ اس میں ایک وقت صاف میں غوطہ مارنے سے ایسی سب مرضیں فی الفوردور ہو جاتی تھیں.جیسا کہ خود انجیل میں مذکور ہے.پھر ماسوائے اس کے زمانہ دراز کی تحقیقاتوں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ملکہ سلبِ امراض منجملہ علوم کے ایک علم ہے جس کے اب بھی بہت لوگ ّمشاق پائے جاتے ہیں.جس میں شدت توجہ اور دماغی طاقتوں کے خرچ کرنے اور جذبِ خیال کا اثر ڈالنے کی مشق درکار ہے.سو اس علم کو نبوت سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ مردِ صالح ہو نا بھی اس کے لئے ضروری نہیں اور قدیم سے یہ علم رائج ہوتا چلا آیا ہے.مسلمانوں میں بعض اکابر جیسے محی الدین عربی صاحب فصوص اور بعض نقشبندیوں کے اکابر اس کام میں مشاق

Page 152

گزرے ہیں.ایسے کہ ان کے وقت میں ان کی نظیر پائی نہیں گئی بلکہ بعض کی نسبت ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی کامل توجہ سے باذنہٖ تعالیٰ تازہ مُردوں سے باتیں کر کے دکھلا دیتے تھے٭ اور دو دو تین تین سَو بیماروں کو اپنے دائیں بائیں بٹھلا کر ایک ہی نظر سے تندرست کر دیتے تھے اور بعض جو مشق میں کچھ کمزورتھے وہ ہاتھ لگا کر یا کپڑے کو چُھو کر شفا بخشتے تھے.اس مشق میں عامل عمل کے وقت کچھ ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا اس کے اندر سے بیمار پر اثر ڈالنے کے وقت ایک قوت نکلتی ہے اور بسا اوقات بیمار کو بھی یہ مشہود ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے ایک زہر یلا مادہ حرکت کر کے سفلی اعضاء کی طرف اُترتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ بکلّی منعدم ہو جاتا ہے.اس علم میں اسلام میں بہت سی تالیفیں موجود ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ ہندوؤں میں بھی اس کی کتابیں ہونگی.حال میں جو انگریزوں نے فن مسمریزم نکالا ہے حقیقت میں وہ بھی اسی علم کی ایک شاخ ہے.انجیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو بھی کسی قدر اس علم میں مشق تھی مگر کامل نہیں تھے.اس وقت کے لوگ سادہ اور اس علم سے بے خبر تھے.اسی وجہ سے اس زمانہ میں یہ عمل اپنی حد سے زیادہ قابل تعریف سمجھا گیا تھا.مگر پیچھے سے جوں جوں اس علم کی حقیقت کھلتی گئی لوگ اپنے عَلُوِّ اعتقاد سے تنزّلکرتے گئے.یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی مشقوں سے بیماروں کو چنگا کرنایامجنونوں کو شفا بخشنا کچھ بھی کمال کی بات نہیں بلکہ اس میں ایماندار ہونا بھی ضرور نہیں.چہ جائیکہ نبوت یا ولایت پر یہ دلیل ہو سکے.ان کا یہ بھی قول ہے کہ عمل سلب امراض بدنیہ کی کامل مشق اور اُسی شغل میں دن رات اپنے تئیں ڈالے رکھنا روحانی ترقی کیلئے سخت مضر ہے اور ایسے شخص کے ہاتھ سے روحانی تربیت کا کام بہت ہی کم ہوتا ہے اور قوتِ منوّرہ اُس کے قلب کی بغایت درجہ گھٹ جاتی ہے.خیال ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اپنی روحانی تربیت میں بہت کمزور نکلے جیسا کہ پادری ٹیلر صاحب جو باعتبار عہدہ و نیز بوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتے ہیں.وہ نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ مسیح کی روحانی تربیت بہت ضعیف اور کمزور ثابت ہوتی ہے اور اُن کے صحبت یافتہ لوگ جو حواریوں کے نام سے موسوم تھے اپنے روحانی تربیت یافتہ ہونے میں اور انسانی قوتوں کی ٭ تازہ مردوں کا عمل توجہ سے چند منٹ یا چند گھنٹوں کیلئے زندہ ہو جانا قانون قدرت کے منافی نہیں.جس حالت میں ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ بعض جاندار مرنے کے بعد کسی دوا سے زندہ ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کا زندہ ہونا کیا مشکل اور کیوں دُور از قیاس ہے.

Page 153

پوری تکمیل سے کوئی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھلا نہ سکے (کاش حضرت مسیح نے اپنے ظاہری شغل سلبِ امراض کی طرف کم توجہ کی ہوتی اور وہی توجہ اپنے حواریوں کی باطنی کمزوریوں اور بیماریوں پر ڈالتے، خاص کر یہودا اسکریوطی پر) اس جگہ صاحب موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہؓ کے مقابلہ پر حواریوں کی روحانی تربیت یابی اور دینی استقامت کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری روحانی طور پر تربیت پذیر ہونے میں نہایت ہی کچے اور پیچھے رہے ہوئے تھے اور ان کے دماغی اور دلی قویٰ کو حضرت مسیح کی صحبت نے کوئی ایسی توسیع نہیں بخشی تھی جو صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابل پر کچھ قابل تعریف ہو سکے.بلکہ حواریوں کے قدم قدم میں بزدلی، سُست اعتقادی، تنگدلی و دنیا طلبی، بیوفائی ثابت ہوتی تھی.مگر صحابہؓ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ صدقِ وفا ظہور میں آیا جس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے پیروؤں میں ملنا مشکل ہے.سو یہ اس روحانی تربیت کا جو کامل طور پر ہوئی تھی اثر تھا جس نے اُن کو بکلّی مبدّل کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیا تھا.اسی طرح سے بہت سے دانشمند انگریزوں نے حال میں ایسی کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں اُنہوں نے اقرار کر لیا ہے کہ اگر ہم نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حالت رجوع الی اللہ و توکّل، استقامت ذاتی و تعلیم کامل و مطہر و القائے تاثیر و اصلاح خلق کثیر از مفسدین و تائیدات ظاہری و باطنی قادر مطلق کو ان معجزات سے الگ کر کے بھی دیکھیں جو بمدمنقول ان کی نسبت بیان کی جاتی ہیں.تب بھی ہمارا انصاف اس اقرار کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ یہ تمام امور جو اُن سے ظہور میں آئے.یہ بھی بلاشبہ فوق العادت اور بشری طاقتوں سے بالاتر ہیں اور نبوت صحیحہ صادقہ کی شناخت کرنے کیلئے قوی اور کافی نشان ہیں.کوئی انسان جب تک اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نہ ہو کبھی ان سب باتوں میں کامل اور کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ایسی غیبی تائیدیں اُس کے شامل ہوتی ہیں.

Page 154

تیسرے سوال کا جواب سوال: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی کوئی معجزہ نہ ملا.جیسا کہ سورۃ عنکبوت میں درج ہے (ترجمہ عربی کا) اور کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں یعنی کوئی ایک بھی (کیونکہ لا نافیہ اس آیت میں جو کہ جنسی ہے کل جنس کی نفی کرتا ہے) اس کے ربّ سے.اور سورۂ بنی اسرائیل میں بھی، اور ہم نے موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا.اس سے صاف صاف ظاہر ہے کہ خدا نے کوئی معجزہ نہیں دیا.حقیقت میں اگر کوئی ایک معجزہ ملتا تو وہ نبوت اور قرآن پر متشکی نہ ہوتے؟ فَاَمَّا الْجَوَاب: جن خیالات کو عیسائی صاحب نے اپنی عبارت میں بصورت اعتراض پیش کیا ہے وہ درحقیقت اعتراض نہیں ہیں بلکہ وہ تین غلط فہمیاں ہیں جو بوجہ قلّتِ تد ّبر اُن کے دل میں پیدا ہوگئی ہیں.ذیل میں ہم ان غلط فہمیوں کو دُور کرتے ہیں.پہلی غلط فہمی کی نسبت جواب یہ ہے کہ نبی برحق کی یہ نشانی ہرگز نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرح ہر ایک مخفی بات کا بالاستقلال اس کو علم بھی ہو بلکہ اپنے ذاتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدا تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے.قدیم سے اہل حق حضرت واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت وجوبِ ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناعِ ذاتی اور امکان بالواجب عزاسمہٗ کا عقیدہ ہے.یعنی یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کی ہَوِیّتِ حقّہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو.مگر ممکنات کی جو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقۃ ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرت باری عزاِسمہٗ جائز نہیں.اور جیسا ذات کی رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کی رو سے بھی ممتنع ہے.پس ممکنات کیلئے نظراً علٰی ذاتہم عالم الغیب ہونا ممتنعات میں سے ہے.خواہ نبی ہوں محدّث یا ولی ہوں، ہاں الہام الٰہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا، یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصہ ملتا رہا ہے جس کو ہم تابعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں نہ کسی اور میں.عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے مخصوص بندوں کو اپنے بعض اَسرارِ خاصہ پر مطلع کر دیتا ہے اور اوقاتِ مقررہ اور مقدرہ میں رشحِ فیضِ غیب ان پر ہوتا ہے بلکہ کامل مقرب اللہ اُسی سے آزمائے جاتے ہیں اور

Page 155

شناخت کئے جاتے ہیں کہ بعض اوقات آیندہ کی پوشیدہ باتیں یا کچھ چھپے اَسرار اُنہیں بتلائے جاتے ہیں.مگر یہ نہیں کہ ان کے اختیار اور ارادہ اقتدار سے بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور اختیار اور اقتدار سے یہ سب نعمتیں انہیں ملتی ہیں.وہ جو اس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی میں کھوئے جاتے ہیں.اس خیرمحض کی ان سے کچھ ایسی ہی عادت ہے کہ اکثر ان کی سنتا اور اپنا گزشتہ فعل یا آئندہ کا منشاء بسا اوقات ان پر ظاہر کر دیتا ہے.مگر بغیر اعلامِ الٰہی انہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا.وہ اگرچہ خدا تعالیٰ کے مقرب تو ہوتے ہیں مگر خدا تو نہیں ہوتے.سمجھائے سمجھتے ہیں، بتلائے جانتے ہیں، دکھلائے دیکھتے ہیں بولائے بولتے ہیں اور اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہوتے.جب طاقت عظمیٰ انہیں اپنے الہام کی تحریک سے بلاتی ہے تو وہ بولتے ہیں اورجب دکھلاتی ہے تو دیکھتے ہیں اور جب سناتی ہے تو سنتے ہیں اور جب تک خدا تعالیٰ ان پر کوئی پوشیدہ بات ظاہر نہیں کرتا تب تک انہیں اس بات کی کچھ بھی خبر نہیں ہوتی.تمام نبیوں کے حالات زندگی (لائف) میں اس کی شہادت پائی جاتی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف ہی دیکھو کہ وہ کیونکر اپنی لاعلمی کا آپ اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں، نہ بیٹا، کوئی نہیں جانتا.۱؎ اور پھر وہ فرماتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ نہیں کرتا (یعنی کچھ نہیں کر سکتا) مگر جو میرے باپ نے سکھلایا وہ باتیں کہتا ہوں.کسی کو راستبازوں کے مرتبہ تک پہنچانا میرے اختیار میں نہیں.مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.۲؎ غرض کسی نبی نے بااقتدار یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.دیکھو اس عاجز بندہ کی طرف جس کو مسیح کر کے پکارا جاتا ہے اور جسے نادان مخلوق پرستوں نے خدا سمجھ رکھا ہے کہ کیسے اس نے ہرمقام میں اپنے قول اور فعل سے ظاہر کر دیا کہ میں ایک ضعیف اور کمزور اور ناتواں بندہ ہوں اور مجھ میں ذاتی طور پر کوئی بھی خوبی نہیں اور آخری اقرار جس پر ان کا خاتمہ ہوا کیسا پیارے لفظوں میں ہے.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ یعنی (مسیح اپنی گرفتاری کی خبر پا کر) گھبرانے اور بہت دلگیر ہونے لگا اور ان سے (یعنی اپنے حواریوں سے) کہا کہ میر ی جان کا غم موت کا سا ہے اور وہ تھوڑا آگے ۱؎ مرقس باب ۱۳.آیت ۳۲ ۲؎ مرقس باب ۱۰ آیت ۸

Page 156

جاکر زمین پر گر پڑا (یعنی سجدہ کیا) اور دعا مانگی کہ اگر ہوسکے تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور کہا کہ اے ابّا! اے باپ! سب کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے.اس پیالہ کو مجھ سے ٹال دے.یعنی تو قادرِ مطلق ہے اور میں ضعیف اور عاجز بندہ ہوں.تیرے ٹالنے سے یہ بلا ٹل سکتی ہے اور آخر اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ۱؎کہہ کر جان دی.جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا!! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا‘‘ اب دیکھئے کہ اگرچہ دعا تو قبول نہ ہوئی کیونکہ تقدیر مبرم تھی.ایک مسکین مخلوق کی خالق کے قطعی ارادہ کے آگے کیا پیش جاتی تھی.مگر حضرت مسیح نے اپنی عاجزی اور بندگی کے اقرار کو نہایت تک پہنچا دیا.اس امید سے کہ شاید قبول ہو جائے.اگر انہیں پہلے سے علم ہوتا کہ دعا ردّ کی جائے گی.ہرگز قبول نہیں ہوگی تو وہ ساری رات برابر فجر تک اپنے بچاؤ کے لئے کیوں دعا کرتے رہتے اور کیوں اپنے تئیں اور اپنے حواریوں کو بھی تقید سے اس لا حاصل مشقت میں ڈالتے.سو بقول معترض صاحب ان کے دل میں یہی تھا کہ انجام خدا کو معلوم ہے.مجھے معلوم نہیں.پھر ایسا ہی حضرت مسیح کی بعض پیشگوئیوں کا صحیح نہ نکلنا دراصل اسی وجہ سے تھا کہ بباعث عدم علم براسرارِ مخفیہ اجتہادی طور پر تشریح کرنے میں اُن سے غلطی ہو جاتی تھی.جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب نئی خلقت میں ابن آدم اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تم بھی (اے میرے بارہ حواریو) بارہ تختوں پر بیٹھو گے.دیکھو باب ۲۰.آیت ۲۸.متی‘‘.لیکن اسی انجیل سے ظاہر ہے کہ یہودا اسکریوطی اس تخت سے بے نصیب رہ گیا.اس کے کانوں نے تخت نشینی کی خبر سن لی مگر تخت پر بیٹھنا اُسے نصیب نہ ہوا.اب راستی اور سچائی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اس شخص کے مرتد اور بد عاقبت ہونے کا پہلے سے علم ہوتا تو کیوں اس کو تخت نشینی کی جھوٹی خبر سناتے.ایسا ہی ایک مرتبہ آپ ایک انجیر کا درخت دور سے دیکھ کر انجیر کھانے کی نیت سے اس کی طرف گئے مگر جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک بھی انجیر نہیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور غصہ کی حالت میں اس انجیر کو بدعا دی جس کا کوئی بد اثر انجیر پر ظاہر نہ ہوا.اگر آپ کو کچھ غیب کا علم ہوتا تو بے ثمر درخت کی طرف اس کا پھل کھانے کے ارادہ سے کیوں جاتے؟ ایسا ہی ایک مرتبہ آپ کے دامن کو ایک عورت نے چھوا تھا تو آپ چاروں طرف پوچھنے لگے ۱؎ متی باب ۲۷ آیت ۴۶

Page 157

کہ کس نے میرا دامن چھوا ہے؟ اگر کچھ علم غیب سے حصہ ہوتا تو دامن چھونے والے کا پتہ معلوم کرنا تو کچھ بڑی بات نہ تھی.ایک اور مرتبہ آ پ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ اس زمانہ کے لوگ گزر نہ جائیں گے جب تک یہ سب کچھ (یعنی مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا اور ستاروں کا گرنا وغیرہ) واقع نہ ہووے.لیکن ظاہر ہے کہ نہ اس زمانہ میں کوئی ستارہ آسمان کا زمین پر گرا اور نہ حضرت مسیح عدالت کیلئے دنیا میں آئے اور وہ صدی تو کیااس پر اٹھارہ صدیاں اور بھی گزر گئیں اور انیسویں گزرنے کو عنقریب ہے.سو حضرت مسیح کے علم غیب سے بے بہرہ ہونے کے لئے یہی چند شہادتیں کافی ہیں جو کسی اور کتاب سے نہیں بلکہ چاروں انجیلوں سے دیکھ کر ہم نے لکھی ہیں.دوسرے اسرائیلی نبیوں کا بھی یہی حال ہے.حضرت یعقوب نبی ہی تھے مگر انہیں کچھ خبر نہ ہوئی کہ اُسی گاؤں کے بیابان میں میرے بیٹے پر کیا گزر رہا ہے.حضرت دانیال اس مدت تک، کہ خدا نے بخت نصر کے رؤیا کی ان پر تعبیر کھول دی، کچھ بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ خواب کیا ہے اور اس کی تعبیر کیا ہے؟ پس اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ نبی کا یہ کہنا کہ یہ بات خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں، بالکل سچ اور اپنے محل پر چسپاں اور سراسر اس نبی کا شرف اور اس کی عبودیت کا فخر ہے بلکہ ان باتوں سے اپنے آقائے کریم کے آگے اس کی شان بڑھتی ہے نہ یہ کہ اس کے منصب نبوت میں کچھ فتور لازم آتا ہے.ہاں اگر یہ تحقیق منظور ہو کہ خدا تعالیٰ کے اعلام سے جو اسرار غیب حاصل ہوتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہوئے ہیں تو میں ایک بڑا ثبوت اس بات کا پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ جس قدر توریت و انجیل اور تمام بائیبل میں نبیوں کی پیشگوئیاں لکھی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں کَمًا وَ کیفًا ہزار حصہ سے بھی ان سے زیادہ ہیں جن کی تفصیل احادیث نبویہ کی رو سے جو بڑی تحقیق سے قلم بند کی گئی ہیں، معلوم ہوتی ہے اور اجمالی طور پر مگر کافی اور اطمینان بخش اور نہایت مؤثر بیان قرآن شریف میں موجود ہے.پھر دیگر اہل مذاہب کی طرح مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف قصہ ہی نہیں بلکہ وہ تو ہر صدی میں غیر قوموں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ سب برکات اسلام میں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں.بھائیو! آؤ.اوّل آزماؤ پھر قبول کرو.مگر اُن آوازوں کو کوئی نہیں سنتا.حجت الٰہی ان پر پوری ہے کہ ہم بلاتے ہیں وہ نہیں آتے اور ہم دکھاتے ہیں وہ نہیں دیکھتے.انہوں نے آنکھوں اور کانوں کو بکلّی ہم سے پھیر لیا تا نہ ہو کہ وہ

Page 158

سنیں اور دیکھیں اور ہدایت پاویں.دوسری غلط فہمی جو معترض نے پیش کی ہے یعنی یہ کہ اصحاب کہف کی تعداد کی بابت قرآن شریف میں غلط بیان ہے.یہ نرا دعویٰ ہے.معترض نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ وہ بیان کیوں غلط ہے اور اس کے مقابل پر صحیح کونسا بیان ہے اور اس کی صحت پر کون سے دلائل ہیں تا اس کے دلائل پر غور کی جائے اور جواب شافی دیا جائے.اگر معترض کو فرقانی بیان پر کچھ کلام تھا تو اس کی وجوہات پیش کرنی چاہئیں تھیں.بغیر پیش کرنے وجوہات کے یونہی غلط ٹھہرانا متلاشی حق کا کام نہیں ہے.تیسری غلط فہمی معترض کے دل میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ (جس کی سیر و سیاحت کا ذکر قرآن شریف میں ہے) سیر کرتا کرتا کسی ایسے مقام تک پہنچا جہاں اُسے سورج دلدل میں چھپتا نظر آیا.اب عیسائی صاحب مجاز سے حقیقت کی طرف رُخ کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج اتنا بڑا ہو کر ایک چھوٹے سے دلدل میں کیونکر چھپ گیا.یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ انجیل میں مسیح کو خدا کا برّہ لکھا ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے.بّرہ تو وہ ہو سکتا ہے جس کے سر پر سینگ اور بدن پر پشم وغیرہ بھی ہو اور چارپایوں کی طرح سرنگون چلتا اور وہ چیزیں کھاتا ہو جو برّے کھایا کرتے ہیں؟ اے صاحب! آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ قرآن شریف نے واقعی طور پر سورج کے دلدل میں چھپنے کا دعوٰی کیا ہے.قرآن شریف تو فقط بمنصب نقل خیال اس قدر فرماتا ہے کہ اس شخص کو اس کی نگاہ میں سورج دلدل میں چھپتا ہوا معلوم ہوا.سو یہ تو ایک شخص کی رؤیت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچا جس جگہ سورج کسی پہاڑ یا آبادی یا درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا نظر نہیں آتا تھا جیسا کہ عام دستور ہے.بلکہ دلدل میں چھپتا ہوا معلوم دیتا تھا.مطلب یہ کہ اُس جگہ کوئی آبادی یا درخت یا پہاڑ نزدیک نہ تھے بلکہ جہاں تک نظر وفا کرے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا نشان نظر نہیں آتا تھا.فقط ایک دلدل تھا جس میں سورج چھپتا دکھائی دیتا تھا.ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے؟ فقط ایک شخص کی دُوردراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا.سو اس جگہ ہیئت کے مسائل لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے؟ مثلاً

Page 159

اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے تو اس سے یہ جھگڑا لے بیٹھیں کہ کیا ستارے نقطوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کھول کر پیش کریں تو بلاشبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکلّم کی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہان بولتا ہے بات کر رہا ہے.اے وہ لوگو! جو عشائے ربّانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو.کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کی خبر نہیں.سب جانتے ہیں کہ ہر ایک ملک کی عام بول چال میں مجازات اور استعارات کے استعمال کانہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے عوامُ النَّاس نے اپنی روز مرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہیں.فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر محل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوامُ النَّاس کی طرف ہے.پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے.حقائق و دقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑنا اور مجازات اور استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہونا ایسے شخص کے لئے ہرگز روا نہیں جو عوامُ النَّاس سے مذاق پر بات کرنا اس کا فرضِ منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو.لہٰذا یہ مسلّم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جائز ہو.کیا کوئی کلامِ الٰہی دنیا میں ایسا بھی آیا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہم خود ہر روزہ بول چال میں صدہا مجازات و استعارات بول جاتے ہیں اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا.مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہلال بال سا باریک ہے اور ستارے نقطے سے ہیں یا چاند بادل کے اندر چھپ گیا اور سورج ابھی تک جو پہر دن چڑھا ہے نیزہ بھر اوپر آیا ہے یا ہم نے ایک رکابی پلاؤ کی کھا ئی یا ایک پیالہ شربت کا پی لیا.تو ان سب باتوں سے کسی کے دل میں یہ دھڑکا شروع نہیں ہوتا کہ ہلال کیونکر بال سا باریک ہو سکتا ہے اور ستارے کس وجہ سے بقدر نقطوں کے ہو سکتے ہیں یا چاند بادل کے اندر کیونکر سما سکتا ہے اور کیا سورج نے باوجود اپنی اس تیز حرکت کے جس سے وہ ہزارہا کوس ایک دن میں طے کر لیتا ہے.ایک پہر میں فقط بقدر نیزہ کے اتنی مسافت طے کرے ہے اور نہ رکابی پلاؤ کی کھانے یا پیالہ شربت کا پینے سے یہ کوئی خیال کر سکتا ہے کہ رکابی اور

Page 160

پیالہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہوگا.بلکہ یہ سمجھیں گے کہ جو ان کے اندر چاول اور پانی ہے وہی کھایا پیا ہوگا.نہایت صاف بات پر اعتراض کرنا کوئی دانا مخالف بھی پسند نہیں کرتا.انصاف پسند عیسائیوں سے ہم نے خود سنا ہے کہ ایسے ایسے اعتراض ہم میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر یا سخت درجہ کے متعصّب ہیں.بھلا یہ کیا حق روی ہے کہ اگر کلامِ الٰہی میں مجاز یااستعارہ کی صورت پر کچھ وارد ہو تو اس بیان کو حقیقت پر حمل کر کے مورد اعتراض بنایا جائے.اس صورت میں کوئی الہامی کتاب بھی اعتراض سے نہیں بچ سکتی.جہاز میں بیٹھنے والے اور اگنبوٹ پر سوار ہونے والے ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ سورج پانی میں سے ہی نکلتا ہے اور پانی میں ہی غروب ہوتا ہے اور صدہا مرتبہ آپس میں جیسا دیکھتے ہیں، بولتے بھی ہیں کہ وہ نکلا اور وہ غروب ہوا.اب ظاہر ہے کہ اس بول چال کے وقت میں علم ہیئت کے دفتر اُن کے آگے کھولنا اور نظامِ شمسی کا مسئلہ لے بیٹھنا گویا یہ جواب سننا ہے کہ اے پاگل! کیا یہ علم تجھے ہی معلوم ہے.ہمیں معلوم نہیں.عیسائی صاحب نے قرآن شریف پر تو اعتراض کیا.مگر انجیل کے وہ مقامات جن پر حقًّا و حقیقتاً اعتراض ہوتا ہے بھولے رہے.مثلاً بطور نمونہ دیکھو کہ انجیل متی و مرقس میں لکھا ہے کہ مسیح کو اس وقت آسمان سے خلق اللہ کی عدالت کے لئے اُترتا دیکھو گے جب سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے.اب ہیئت کاعلم ہی یہ اشکال پیش کرتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ تمام ستارے زمین پر گریں اور سب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین کے کسی گوشہ میں جاپڑیں اور بنی آدم کو ان کے گرنے سے کچھ بھی حرج اور تکلیف نہ پہنچے اور سب زندہ اور سلامت رہ جائیں.حالانکہ ایک ستارہ کا گرنا بھی سُکَّانُ الْاَرْضِ کی تباہی کیلئے کافی ہے.پھر یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ جب ستارے زمین پر گر کر زمین والوں کو صفحہ ہستی سے بے نشان و نابود کریں گے تو مسیح کا یہ قول کہ تم مجھے بادلوں میں آسمان سے اُترتا دیکھو گے کیونکر درست ہوگا؟ جب لوگ ہزاروں ستاروں کے نیچے دبے ہوئے مرے پڑے ہوں گے تو مسیح کا اُترنا کون دیکھے گا؟ اور زمین جو ستاروں کی کشش سے ثابت و برقرار ہے کیونکر اپنی حالت صحیحہ پر قائم اور ثابت رہے گی اور مسیح کن برگزیدوں کو (جیسا کہ انجیل میں ہے) دُور دُور سیبلائے گا اورکن کو سرزنش اور تنبیہ کرے گا کیونکہ ستاروں کاگرنا تو ببداہت مستلزم عام فنا اور عام موت بلکہ تختۂ زمین کے انقلاب کا موجب ہوگا.اب دیکھئے

Page 161

کہ یہ سب بیانات علم ہیئت کے برخلاف ہیں یا نہیں؟ ایسا ہی ایک اور اعتراض علم ہیئت کے رو سے انجیل پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل متی میں دیکھو وہ ستارہ جو انہوں نے (یعنی مجوسیوں نے) پورب میں دیکھاتھا ان کے آگے آگے چل رہا اور اس جگہ کے اوپر جہاں وہ لڑکا تھا جا کر ٹھہرا.(باب ۲.آیت ۹ متی) اب عیسائی صاحبان براہ مہربانی بتلا ویں کہ علم ہیئت کی رو سے اس عجیب ستارہ کا کیا نام ہے جو مجوسیوں کے ہم قدم اور ان کے ساتھ ساتھ چلا تھا اور یہ کس قسم کی حرکت اور کن قواعد کی رو سے مسلّم الثبوت ہے؟ مجھے معلوم نہیں کہ انجیل متی ایسے ستارہ کے بارے میں ہیئت والوں سے کیونکر پیچھا چھڑا سکتی ہے.بعض صاحب تنگ آ کر یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول نہیں متی کا قول ہے.متی کے قول کو ہم الہامی نہیں جانتے.یہ خوب جواب ہے جس سے انجیل کے الہامی ہونے کی بخوبی قلعی کھل گئی اور میں بطور تنزّل کہتا ہوں کہ گو یہ مسیح کا قول نہیں متی یا کسی اور کا قول ہے مگر مسیح کا قول بھی تو (جس کو الہامی مانا گیا ہے اور جس پر ابھی ہماری طرف سے اعتراض ہوچکا ہے) اُسی کا ہم رنگ اور ہم شکل ہے ذرا اُسی کو اصولِ ہیئت سے مطابق کر کے دکھلائے اور نیز یہ بھی یاد رہے کہ یہ قول الہامی نہیں بلکہ انسان کی طرف سے انجیل میں ملایا گیا ہے تو پھر آپ لوگ ان انجیلوں کو جو آپ کے ہاتھ میں ہیں.تمام بیانات کے اعتبار سے الہامی کیوں کہتے ہو؟ صاف طور پر کیوں مشتہر نہیں کر دیتے کہ بجز چند ان باتوں کے جو حضرت مسیح کے منہ سے نکلی ہیں.باقی جو کچھ اناجیل میں لکھا ہے وہ مؤلفین نے صرف اپنے خیال اور اپنی عقل اور فہم کے مطابق لکھا ہے، جو غلطیوں سے مبرا متصوّر نہیں ہو سکتا.جیسا کہ پادری صاحبوں کی عام تحریروں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ رائے عام طور پر مشتہر بھی کی گئی ہے.یعنی بالاتفاق انجیلوں کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ تاریخی طور پر معجزات وغیرہ کا ذکر ان میں پایا جاتا ہے وہ کوئی الہامی امر نہیں بلکہ انجیل نویسوں نے اپنے قیاس یا سماعت وغیرہ وسائل خارجیہ سے لکھ دیا ہے.غرض پادری صاحبوں نے اس اقرار سے ان بہت سے حملوں سے جو انجیلوں پر ہوتے ہیں اپنا پیچھا چھڑانا چاہا ہے اور ہر ایک انجیل میں تقریباً دس۱۰ حصے انسان کا کلام اور ایک حصہ خدائے تعالیٰ کا کلام مان لیا ہے اور ان اقرارات کی وجہ سے جو جو نقصان انہیں اُٹھانے پڑے.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عیسوی معجزات ان کے ہاتھ سے گئے اور ان کا

Page 162

کوئی شافی کافی ثبوت ان کے پاس نہ رہا کیونکہ ہر چند انجیل نویسوں نے تاریخی طور پر فقط اپنی طرف سے مسیح کے معجزات انجیلوں میں لکھے ہیں مگر مسیح کا اپنا خالص بیان جو الہامی کہلاتا ہے حواریوں کے بیان سے صریح مبائن و مخالف معلوم ہوتا ہے بلکہ اُسی کی ضد اور نقیض ہے.وجہ یہ کہ مسیح نے اپنے بیان میں جس کو الہامی کہا جاتا ہے جا بجا معجزات کے دکھلانے سے انکار ہی کیا ہے اور معجزات کے مانگنے والوں کو صاف جواب دے دیا ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ دکھلایا نہیں جائے گا.چنانچہ ہیرو دیس نے بھی مسیح سے معجزہ مانگا تو اُس نے نہ دکھلایا اور بہت سے لوگوں نے اس کے نشان دیکھنے چاہے اور اور نشانوں کے بارے میں اس سے سوال بھی کیا مگر وہ صاف منکر ہو گیا اور کوئی نشان دکھلا نہ سکا بلکہ اس نے تمام رات جاگ کر خدا تعالیٰ سے یہ نشان مانگا کہ وہ یہودیوں کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو یہ نشان بھی اس کو نہ ملا اور دعا ردّ کی گئی.پھر مصلوب ہونے کے بعد یہودیوں نے سچے دل سے کہا کہ اگر وہ اب صلیب پر سے زندہ ہو کر اُتر آوے تو ہم سب کے سب اس پر ایمان لائیں گے مگر وہ اُتر بھی نہ سکا.پس ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک انجیلوں میں الہامی فقرات ہیں وہ مسیح کو صاحبِ معجزات ہونے سے صاف جواب دے رہے ہیں اور اگر کوئی ایسا فقرہ ہے بھی کہ جس میں مسیح کے صاحبِ معجزات ہونے کے بارے میں کچھ خیال کر سکیں تو حقیقت میں وہ فقرہ ذوالوجوہ ہے جس کے اور اور معنی بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ اس کو ظاہر پر ہی محمول کیا جائے یا خواہ نخواہ کھینچ تان کر ان معجزات کا ہی مصداق ٹھہرایا جائے جن کا انجیل نویسوں نے اپنی طرف سے ذکر کیا ہے اورکوئی فقرہ خاص حضرت مسیح کی زبان سے نکلا ہوا ایسا نہیں کہ جو وقوع اور ثبوت معجزات پر صاف طور پر دلالت کرتا ہو بلکہ مسیح کے خاص اور پُرزور کلمات کی اسی امر پر دلالت پائی جاتی ہے کہ اُن سے ایک بھی معجزہ ظہور میں نہیں آیا٭ تعجب کہ عیسائی لوگ کیوں ان باتوں پر اعتماد و اعتبار نہیں کرتے جو مسیح کا خاص بیان اور الہامی کہلاتی ہیں اور خاص مسیح کے منہ سے نکلی ہیں؟ اور باتوں پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے اور کیوں ان کے قدر سے زیادہ ان پر زور دیا جاتا ہے جو عیسائیوں کے اپنے اقرار کے موافق ٭ (قرآن شریف میں فقط اس مسیح کے معجزات کی تصدیق ہے جس نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ مسیح کئی ہوئے ہیں اور ہوں گے اور پھر قرآنی تصدیق ذوالوجوہ ہے جو انجیل نویسوں کے بیان کی ہرگز مصداق نہیں)

Page 163

الہامی نہیں ہیں بلکہ تاریخی طور پر انجیلوں میں داخل ہیں اور الہام کے سلسلہ سے بکلّی خارج ہیں اور الہامی عبارات سے بکلّی ان کا تناقض پایا جاتا ہے پس جب الہامی اور غیر الہامی عبارات میں تناقض ہو تو اس کے دور کرنے کیلئے بجز اس کے اور کیا تدبیر ہے کہ جو عبارتیں الہامی نہیں ہیں وہ ناقابلِ اعتبار سمجھی جائیں اور صرف انجیل نویسوں کے مبالغات یقین نہ کئے جائیں؟ چنانچہ جا بجا ان کا مبالغہ کرنا ظاہر بھی ہے جیسا کہ یوحنا کی انجیل کی آخری آیت جس پر وہ مقدس انجیل ختم کی گئی ہے یہ ہے ’’پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جُدا جُدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں دنیا میں سما نہیں سکتیں‘‘.دیکھو کس قدر مبالغہ ہے زمین و آسمان کے عجائبات تو دنیا میں سما گئے مگر مسیح کی تین یا اڑھائی برس کی سوانح دنیا میں سما نہیں سکتی.ایسے مبالغہ کرنے والے لوگوں کی روایت پر کیونکر اعتبار کر لیا جاوے.ہندوؤں نے بھی اپنے اوتاروں کی نسبت ایسی ہی کتابیں تالیف کی تھیں اور اسی طرح خوب جوڑ جوڑ سے ملا کر جھوٹ کا پل باندھا تھا.سو اس قوم پر بھی اس افترا کا نہایت قوی اثر پڑا اور اِس سرے سے ملک کے اُس سرے تک رام رام اور کرشن کرشن دلوں میں رچ گیا.بات یہ ہے کہ مرتب کردہ کتابیں جن میں بہت سا افتراء بھرا ہوا ہو اُن قبروں کی طرح ہوتے ہیں جو باہر سے خوب سفید کی جائیں اور چمکائی جائیں پر اندر کچھ نہ ہو.اندر کا حال ان بے خبر لوگوں کو کیا معلوم ہو سکتا ہے جو صدہا برسوں کے بعد پیدا ہوئے اور بنی بنائی کتابیں ایسی متبرک اور بے لوث ظاہر کر کے ان کو دی گئیں کہ گویا وہ اسی صورت اور وضع کے ساتھ آسمان سے اُتری ہیں.سو وہ کیا جانتے ہیں کہ دراصل یہ مجموعہ کس طرح تیار کیا گیاہے؟ دنیا میں ایسی تیز نگاہیں جو پردوں کو چیرتی ہوئی اندر گھس جائیں اور اصل حقیقت پراطلاع پا لیں اور چور کو پکڑ لیں، بہت کم ہیں اور افتراء کے جادو سے متاثر ہونے والی روحیں اس قدر ہیں جن کا اندازہ کرنا مشکل ہے اسی وجہ سے ایک عالم تباہ ہو گیا اور ہوتا جاتا ہے.نادانوں نے ثبوت یا عدم ثبوت کے ضروری مسئلہ پر کچھ بھی غور نہیں کی اور انسانی منصوبوں اور بندشوں کا جو ایک مستمرہ طریقہ اور نیچرلی امر ہے جو نوع انسان میں قدیم سے چلا آتا ہے اس سے چوکس رہنا نہیں چاہا اور یونہی شیطانی دام کو اپنے پر لے لیا.مکاروں نے اس شریر کیمیا گر کی طرح جو ایک سادہ لوح سے ہزار روپیہ نقد لے کر دس بیس لاکھ کا سونا بنا دینے کا وعدہ کرتا ہے.سچا اور پاک

Page 164

ایمان نادانوں کا کھویا اور ایک جھوٹی راستبازی اور جھوٹی برکتوں کا وعدہ دیا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہیں اور نہ کچھ ثبوت.آخر شرارتوں میں، مکروں میں، دنیا پرستیوں میں، نفسِ امّارہ کی پیروی میں اپنے سے بدتر ان کو کر دیا.بالآخر یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اعجازات اور پیشگوئیوں کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وقوع میں آئیں قرآن شریف کی ایک ذرہ شہادت، انجیلوں کے ایک تودہ عظیم سے جو مسیح کے اعجاز وغیرہ کے بارے میں ہو، ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے.کیوں بڑھ کر ہے اسی وجہ سے کہ خود باقرار تمام محقق پادریوں کے انجیلوں کا بیان خود حواریوں کا اپنا ہی کلام ہے اور پھر اپنا چشم دید بھی نہیں اور نہ کوئی سلسلہ راویوں کا پیش کیا ہے اور نہ کہیں ذاتی مشاہدہ کا دعویٰ کیا لیکن قرآن شریف میں اعجازات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خاص خدائے صادق و قدوس کی پاک شہادت ہے.اگر وہ صرف ایک ہی آیت ہوتی تب بھی کافی ہوتی.مگر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِکہ ان شہادتوں سے سارا قرآن شریف بھرا ہوا ہے.اب موازنہ کرنا چاہئے کہ کجا خدا تعالیٰ کی پاک شہادت جس میں کذب ممکن نہیں اور کجا نا دیدہ جھوٹ اور مبالغہ آمیز شہادتیں.بہ نزدیک دانائے بیدار دل جَوے سیم بہتر ز صد تودہ گِل افترائی باتوں پر کیوں تعجب کرنا چاہئے.ایسا بہت کچھ ہوا ہے اور ہوتا ہے.عیسائیوں کو آپ اقرار ہے کہ ہم میں سے بہت لوگ ابتدائی زمانوں میں اپنی طرف سے کتابیں بنا کر اور بہت کچھ کمالات اپنے بزرگوں کے ان میں لکھ کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف اُن کو منسوب کرتے رہے ہیں اور دعویٰ کر دیا جاتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتابیں ہیں.٭ پس جب کہ قدیم عادت عیسائیوں اور یہودیوں کی یہی جعلسازی چلی آئی ہے تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ متی وغیرہ انجیلوں کو اس ٭ جو کچھ انجیلوں میں ناجائز اور بے ثبوت مبالغہ معجزات حضرت مسیح کی نسبت یا ان کی ناواجب تعریفوں کے بارے میں پایا جاتا ہے.اس کی تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کب اور کس وقت یہ باتیں انجیلوں میں ملائی گئی ہیں.اگرچہ عیسائیوں کو اقرار ہے کہ خود انجیل نویسوں نے یہ باتیں اپنی طرف سے ملا دی ہیں مگر اس عاجز کی دانست میں یہ حاشئے آہستہ آہستہ چڑھے ہیں.اور جعلساز مکار پیچھے سے بہت کچھ موقع پاتے رہے ہیں.ہاں مستقل طور پر کئی جعلی کتابیں جو الہامی ہونے کے نام سے مشہور ہوگئیں حضرات مسیحیوں اور یہودیوں نے اوائل دنوں میں ہی تالیف کر کے شائع کر دی تھیں.چنانچہ اسی جعلسازی کی برکت سے بجائے ایک انجیل کے بہت سی انجیلیں شائع ہو گئیں.عیسائیوں کا خود یہ بیان ہے کہ مسیح کے بعد جعلی انجیلیں کئی تالیف

Page 165

عادت سے کیوں باہر رکھا جائے؟ حالانکہ اس ساہوکار کی طرح جس کا روزنامچہ اور بہی کھاتہ بوجہ صریح تناقض اور مشکوکیت کے پوشیدہ حال کو ظاہر کر رہا ہو.ہر چہار انجیلوں سے وہ کارستانی ظاہر ہو رہی ہے جس کو انہوں نے چھپانا چاہا تھا.اسی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں غور کرنے والوں کی طبیعتوں میں ایک طوفان شکوک پیدا ہو گیا ہے اور جس ناقص اور متغیر اور مجسم خدا کی طرف انجیل رہنمائی کر رہی ہے اس کے قبول کرنے سے وہ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں.چنانچہ میرے ایک دوست فاضل انگریز نے امریکہ سے بذریعہ اپنی کئی چٹھیوں کے مجھے خبر دی ہے کہ ان ملکوں میں دانشمندوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ عیسائی مذہب کو نقص سے خالی سمجھتا ہو اور اسلام کے قبول کرنے کے لئے مستعد نہ ہو.اور گو عیسائیوں نے قرآن شریف کے ترجمے محرف اور بدنما کر کے یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں شائع کئے ہیں مگر ان کے اندر جو نور چھپا ہوا ہے وہ پاکیزہ دلوں پر اپنا کام کر رہا ہے.غرض امریکہ اور یورپ آج کل ایک جوش کی حالت میں ہے اور انجیل کے عقیدوں (بقیہ حاشیہ از گزشتہ صفحہ) ہوئیں.جیسا کہ منجملہ اُن کے ایک انجیل برنباس بھی ہے.یہ تو عیسائیوں کا بیان ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ چونکہ اُن انجیلوں اور اناجیل اربعہ مروجہ میں بہت کچھ تناقض ہے.یہاں تک کہ برنباس کی انجیل مسیح کے مصلوب ہونے سے بھی منکر اور مسئلہ تثلیث کے بھی مخالف اور مسیح کی الوہیت اور ابنیت کو بھی نہیں مانتی اور نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی صریح لفظوں میں بشارت دیتی ہے.تو اب عیسائیوں کے اس دعوٰی بے دلیل کو کیونکر مان لیا جائے کہ جن انجیلوں کو اُنہوں نے رواج دیا ہے.وہ تو سچی ہیں اور جو اُن کے مخالف ہیں وہ سب جھوٹی ہیں.ماسوا اس کے جب کہ عیسائیوں میں جعل کی اس قدر گرم بازاری رہی ہے کہ بعض کامل اُستادوں نے پوری پوری انجیلیں بھی اپنی طرف سے بنا کر عام طور پر قوم میں اُنہیں شائع کر دیا اور ایک ذرہ پروں پر پانی پڑنے نہ دیا.تو کسی کتاب کا محرف مبدل کرنا اُن کے آگے کیا حقیقت تھا.پھر جب کہ یہ بھی تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مسیح کے زمانہ میں یہ انجیلیں قلمبند نہیں ہوئیں بلکہ ساٹھ یا ستر برس مسیح کے فوت ہونے کے بعد یا کچھ کم و بیش یا اختلاف روایت اناجیل اربعہ کا مجموعہ دنیا میں پیدا ہوا تو اُس سے ان انجیلوں کی نسبت اور بھی شک پیدا ہوتا ہے.کیونکہ اس بات کا ثبوت دینا مشکل ہے کہ اس عرصہ تک حواری زندہ رہے ہوں یا اُن کی قوتیں قائم رہی ہوں.اب ہم سب قصوں کو مختصر کر کے ناظرین کو یہ باور دلاتے ہیں کہ اس بات کا عیسائیوں نے ہرگز صفائی سے ثبوت نہیں دیا کہ بارہ انجیلیں جعلی اور چار جن کو رواج دے رہے ہیں جعل اور تحریف سے مبرا ہیں بلکہ وہ ان چاروں کی نسبت بھی خود اقرار کرتے ہیں کہ وہ خالص خدا تعالیٰ کا کلام نہیں اور اگر وہ ایسا اقرار بھی نہ کرتے تب بھی انجیلوں کے مغشوش ہونے میں کچھ شک نہیں تھا کیونکہ اس بات کا بارِ ثبوت اُن کے ذمہ ہے.جس سے آج تک وہ سبکدوش نہیں ہو سکے کہ کیوں دوسری انجیلیں جعلی اور یہ جعلی نہیں.

Page 166

نے جو برخلاف حقیقت ہیں، بڑی گھبراہٹ میں انہیں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ مسیح یا عیسیٰ نام (کا) خارج میں کوئی شخص کبھی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے آفتاب مراد ہے اور بارہ حواریوں سے بارہ برج مراد ہیں.اور پھر اس مذہب عیسائی کی حقیقت زیادہ تر اس بات سے کھلتی ہے کہ جن نشانیوں کو حضرت مسیح ایمان داروں کے لئے قرار دے گئے تھے اُن میں سے ایک بھی ان لوگوں میں نہیں پائی جاتی.حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ اگر تم میری پیروی کرو گے تو ہر ایک طرح کی برکت اور قبولیت میں میرا ہی روپ بن جاؤ گے اور معجزات اور قبولیت کے نشان تم کو دیئے جائیں گے اور تمہارے مومن ہونے کی یہی علامت ہوگی کہ تم طرح طرح کے نشان دکھلا سکو گے اور جو چاہو گے تمہارے لئے وہی ہوگا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہیں ہوگی.لیکن عیسائیوں کے ہاتھ میں ان برکتوں میں سے کچھ بھی نہیں.وہ اس خدا سے ناآشنا محض ہیں جو اپنے مخصوص بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں آمنے سامنے شفقت اور رحمت کا جواب دیتا ہے اور عجیب عجیب کام ان کے لئے کر دکھاتا ہے لیکن سچے مسلمان جو اُن راستبازوں کے قائم مقام اور وارث ہیں جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں وہ اُس خدا کو پہچانتے اور اس کی رحمت کے نشانوں کو دیکھتے ہیں اور اپنے مخالفوں کے سامنے آفتاب کی طرح جو ظلمت کے مقابل ہو مابہ الامتیاز رکھتے ہیں.ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اس دعویٰ کو بلا دلیل نہیں سمجھناچاہئے.سچے اور جھوٹے مذہب میں ایک آسمان پر فرق ہے اور ایک زمین پر.زمین کے فرق سے مراد وہ فرق ہے جو انسان کی عقل اور انسان کا کانشنس اور قانونِ قدرت اس عالَم کا اس کی تشریح کرتا ہے.سو عیسائی مذہب اور اسلام کو جب اس محک کی رو سے جانچا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اسلام وہ فطرتی مذہب ہے جس کے اصولوں میں کوئی تصنع اور تکلّف نہیں اور جس کے احکام کوئی مستحدث اور بناوٹی امر نہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جو زبردستی منوانی پڑے اور جیسا کہ خدا ئے تعالیٰ نے جا بجا آپ فرمایا ہے.قرآن شریف صحیفۂ فطرت کے تمام علوم اور اس کی صداقتوں کو یاد دلاتا ہے اور اس کے اسرارِ غامضہ کو کھولتا ہے اور کوئی نئے امور برخلاف اس کے پیش نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اُسی کے معارف دقیقہ ظاہر کرتا ہے.برخلاف اس کے عیسائیوں کی تعلیم جس کا انجیل پر حوالہ دیا جاتا ہے ایک نیا خدا پیش کر رہی ہے جس کی خود کشی پر دنیا کے گناہ اور عذاب سے نجات موقوف اور اس کے دُکھ اُٹھانے پر خلقت کا آرام موقوف اور اس کے بے عزت اور ذلیل

Page 167

ہونے پر خلقت کی عزت موقوف خیال کی گئی ہے.پھر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسا عجیب خدا ہے کہ ایک حصہ اس کی عمر کا تو منزہ عن الجسم و عن عیوب الجسم میں گزرا ہے اور دوسرا حصہ عمر کا (کسی نامعلوم بدبختی کی وجہ سے) ہمیشہ کے تجسم اور تحیّز کی قید میں اسیر ہو گیا اور گوشت پوست استخوان وغیرہ سب کے سب اس کی روح کے لئے لازمی ہوگئے اور اس تجسم کی وجہ سے، کہ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا، انواع اقسام کے اس کو دکھ اُٹھانے پڑے.آخر دکھوں کے غلبہ سے مر گیا اور پھر زندہ ہوا اور اُسی جسم نے پھر آ کر اس کو پکڑ لیا اور ابدی طور پر اُسے پکڑے رہے گا.کبھی مخلصی نہیں ہوگی.اب دیکھو کہ کیا کوئی فطرت صحیحہ اس اعتقاد کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا کوئی پاک کانشنس اس کی شہادت دے سکتا ہے؟ کیا قانون قدرت کا ایک جزو بھی خدائے بے عیب و بے نقص وغیر متغیر کیلئے یہ حوادث و آفات روا رکھ سکتا ہے کہ اس کو ہمیشہ ہر ایک عالَم کے پیدا کرنے اور پھر اس کو نجات دینے کیلئے ایک مرتبہ مرنا درکار ہے اور بجز خود کشی اپنے کسی افاضۂ خیر کی صفت کو ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ کسی قسم کا اپنی مخلوقات کو دنیا یا آخرت میں آرام پہنچا سکتا ہے.ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ کو اپنی رحمت بندوں پر نازل کرنے کیلئے خود کشی کی ضرورت ہے تو اُس سے لازم آتا ہے کہ ہمیشہ اس کو حادثہ موت کا پیش آتا رہے اور پہلے بھی بے شمار موتوں کا مزہ چکھ چکا ہو اور نیز لازم آتا ہے کہ ہندوؤں کے پرمیشر کی طرح معطل الصفات ہو.اب خود ہی سوچو کہ کیا ایسا عاجز اور درماندہ خدا ہو سکتا ہے کہ جو بغیر خودکشی کے اپنی مخلوقات کو کبھی اور کسی زمانہ میں کوئی بھلائی پہنچا نہیں سکتا.کیا یہ حالت ضعف اور ناتوانی کی خدائے قادر مطلق کے لائق ہے؟ پھر عیسائیوں کے خدا کی موت کا نتیجہ دیکھئے تو کچھ بھی نہیں.ان کے خدا کی جان گئی مگر شیطان کے وجود اور اس کے کارخانہ کا ایک بال بھی بیکا نہ ہوا.وہی شیطان اور وہی اس کے چیلے جو پہلے تھے اب بھی ہیں.چوری، ڈکیتی، زنا، قتل، دروغ گوئی، شراب خواری،٭ قماربازی، دنیا پرستی، بے ایمانی، کفر شرک، دہریہ پن اور دوسرے صدہا طرح کے جرائم جو قبل از ٭ تازہ اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ تیرہ کروڑ ساٹھ ہزار پاؤنڈ ہر سال سلطنت برطانیہ میں شراب کشی اور شراب نوشی میں خرچ ہوتا ہے (اور ایک نامہ نگار ایم اے کی تحریر ہے) کہ شراب کی بدولت لندن میں صدہا خودکشی کی وارداتیں ہو جاتی ہیں اور خاص لندن میں شاید منجملہ تیس لاکھ آبادی کے دس ہزار آدمی مے نوش نہ ہوں گے، ورنہ سب مرد اور عورت خوشی اور آزادی سے شراب پیتے اور پلاتے ہیں.اہل لندن کا کوئی ایسا جلسہ اور سوسائٹی اور محفل نہیں ہے کہ جس میں سب سے پہلے برانڈی اور شیری اور لال شراب کا انتظام نہ کیا جاتا ہو.ہر ایک جلسہ کا جزوِ اعظم شراب کو قرار دیا جاتا ہے اور طرفہ برآں یہ

Page 168

مصلوبیت مسیح تھے اب بھی اُسی زور و شور میں ہیں بلکہ کچھ چڑھ، بڑھ کر.مثلاً دیکھئے کہ اس زمانہ (بقیہ حاشیہ از گزشتہ صفحہ) کہ لندن کے بڑے بڑے کشیش اور پادری صاحبان بھی باوجود دیندار کہلانے کے مئے نوشی میں اوّل درجہ ہوتے ہیں.جتنے جلسوں میں مجھ کو بطفیل مسٹر نکلیٹ صاحب شامل ہونے کا اتفاق ہوا ہے ان سب میں ضرور دو چار نوجوان پادری اور ریورنڈ بھی شامل ہوتے دیکھے.لندن میں شراب نوشی کو کسی بُری مد میں شامل نہیں سمجھا گیا اور یہاں تک شراب نوشی کی علانیہ گرم بازاری ہے کہ میں نے بچشم خود ہنگام سیر لندن اکثر انگریزوں کو بازار میں پھرتے دیکھا کہ متوالے ہو رہے ہیں اور ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے.علیٰ ہذا القیاس.لندن میں عورتیں دیکھی جاتی تھیں کہ ہاتھ میں بوتل بیئر پکڑی لڑکھڑاتی چلی جاتی ہیں.بیسیوں لوگ شراب سے مدہوش اور متوالے، اچھے بھلے، بھلے مانس مہذب بازاروں کی نالیوں میں گرے ہوئے دیکھے.شراب نوشی کے طفیل اور برکت سے لندن میں اس قدر خود کشی کی وارداتیں واقعہ ہوتی رہتی ہیں کہ ہر ایک سال اُن کا ایک مہلک وبا پڑتا ہے (یکم فروری ۱۸۸۳ء.رہبر ہند لاہور) اسی طرح ایک صاحب نے لندن کی عام زناکاری اور قریب ستر ستر ہزار کے ہر سال ولدالزنا پیدا ہونا ذکر کر کے وہ باتیںان لوگوں کی بے حیائی کی لکھی ہیں کہ جن کی تفصیل سے قلم رُکتی ہے.بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپ کے اوّل درجہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کے اگر دس حصے کئے جائیں تو بلاشبہ نوحصے ان میں سے دہریہ ہوں گے جو مذہب کی پابندی اور خدائے تعالیٰ کے اقرار اور جزاسزا کے اعتقاد سے فارغ ہو بیٹھے ہیں اور یہ مرض دہریّت کا دن بدن یورپ میں بڑھتا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دولت برطانیہ کی کشادہ دلی نے اس کی ترقی سے کچھ بھی کراہت نہیں کی.یہاں تک کہ بعض پکے دہریہ پارلیمنٹ کی کرسی پر بھی بیٹھ گئے اور کچھ پرواہ نہیں کی گئی.نامحرم لوگوں کا نوجوان عورتوں کا بوسہ لینا صرف جائز ہی نہیں بلکہ یورپ کی نئی تہذیب میں ایک مستحسن امر قرار دیا گیا ہے.کوئی دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا کہ انگلستان میں کوئی ایسی عورت بھی ہے کہ جس کا عین جوانی کے دنوں میں کسی نامحرم جوان نے بوسہ نہ لیا ہو.دنیا پرستی اس قدر ہے کہ آروپ الیگزنڈر صاحب اپنی ایک چٹھی میں (جو میرے نام بھیجی ہے) لکھتے ہیں کہ تمام مہذب اور تعلیم یافتہ جو اس ملک میں پائے جاتے ہیں.ان میں سے ایک بھی میری نظر میں ایسا نہیں جس کی نگاہ آخرت کی طرف لگی ہوئی ہو بلکہ تمام لوگ سر سے پیر تک دنیا پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں.اب ان تمام بیانات سے ظاہر ہے کہ مسیح کے قربان ہونے کی وہ تاثیریں جو پادری لوگ ہندوستان میں آ کر سادہ لوحوں کو سناتے ہیں، سراسر پادری صاحبوں کا افتراء ہے.اور اصل حقیقت یہی ہے کہ کفّارہ کے مسئلہ کو قبول کر کے جس طرح عیسائیوں کی طبیعتوں نے پلٹا کھایا ہے وہ یہی ہے کہ شراب خواری بکثرت پھیل گئی.زنا کاری اور بدنظری شیر مادر سمجھی گئی.قمار بازی کی از حد ترقی ہوگئی.خدا تعالیٰ کی عبادت سچے دل سے کرنا اور بکلّی روبحق ہو جانا یہ سب باتیں موقوف ہوگئیں.ہاں انتظامی تہذیب یورپ میں بے شک پائی جاتی ہے.یعنی باہم رضامندی کے برخلاف جو گناہ ہیں جیسے سرقہ اور قتل اور زنا بالجبر وغیرہ جن کے ارتکاب سے شاہی قوانین نے بوجہ مصالح ملکی روک دیا ہے ان کا انسداد بے شک ہے مگر ایسے گناہوں کے انسداد کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح کے کفّارہ کا اثر ہوا ہے بلکہ رعب قوانین اور سوسائٹی کے دباؤ نے یہ اثر ڈالا ہوا ہے کہ اگر یہ موانع درمیان نہ ہوں تو حضرات مسیحیاں سب کچھ کر گزریں اور پھر یہ جرائم بھی تو اور ملکوں کی طرح یورپ میں بھی ہوتے ہی رہتے ہیں.انسداد کُلّی تو نہیں.منہ

Page 169

میںکہ جب ابھی مسیحیوں کا خدا زندہ تھا عیسائیوں کی حالت اچھی تھی جبھی کہ اس خدا پر موت آئی جس کو کفّارہ کہا جاتا ہے.تبھی سے عجیب طور پر شیطان اس قوم پر سوار ہو گیا اور گناہ اور نافرمانی اور نفس پرستی کے ہزار ہا دروازے کھل گئے.چنانچہ عیسائی لوگ خود اس بات کے قائل ہیں اور پادری فنڈر صاحب مصنف میزان الحق فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کی کثرت گناہ اور اُن کی اندرونی بدچلنی اور فسق و فجور کے پھیلنے کی وجہ سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغرض سزا دہی اور تنبیہہ عیسائیوں کے بھیجے گئے تھے.پس ان تقریروں سے ظاہر ہے کہ زیادہ تر گناہ اور معصیت کا طوفان مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد ہی عیسائیوں میں اُٹھا ہے.اس سے ثابت ہے کہ مسیح کا مرنا اس غرض سے نہیں تھا کہ گناہ کی تیزی اس کی موت سے کچھ روبہ کمی ہو جائے گی.مثلاً اس کے مرنے سے پہلے اگر لوگ بہت شراب پیتے تھے یا اگر بکثرت زنا کرتے تھے یا اگر پکے دُنیا دار تھے تو مسیح کے مرنے کے بعد یہ ہرایک قسم کے گناہ دور ہو جائیں گے کیونکہ یہ بات مستغنی عن الثبوت ہے کہ جس قدر اب شراب خوری و دنیا پرستی و زنا کاری خاص کر یورپ کے ملکوں میں ترقی پر ہے کوئی دانا ہرگز خیال نہیں کر سکتا کہ مسیح کی موت سے پہلے یہی طوفان فسق و فجور کا برپا ہو رہا تھا بلکہ اس کا ہزارم حصہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا اور انجیلوں پر غور کر کے بکمال صفائی کھل جاتا ہے کہ مسیح کو ہرگز منظور نہ تھا کہ یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑا جائے اور مارا جائے اور صلیب پر کھینچا جائے کیونکہ اگر یہی منظور ہوتا تو ساری رات اس بلا کے دفعہ کرنے کیلئے کیوں روتا رہتا اور رو رو کر کیوں یہ دعا کرتا کہ اے ابّا! اے باپ!! تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے.یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے.بلکہ سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی کے ناگہانی طور پر پکڑا گیا اور اس نے مرتے وقت تک رو رو کر یہی دعا کی ہے کہ اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح زندہ رہنا اور کچھ اور دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا تھا اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے لیکن ِبلا مرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آ گیا تھا اور نیز یہ بھی غور کرنے کی جگہ ہے کہ قوم کے لئے اس طریق پر مرنے سے جیسا کہ عیسائیوں نے تجویز کیا ہے.مسیح کو کیا حاصل تھا اور قوم کو اُس سے کیا فائدہ؟ اگر وہ زندہ رہتا تو اپنی قوم میں بڑی بڑی اصلاحیں کرتا.بڑے بڑے عیب اُن سے دور کر کے دکھاتا.مگر

Page 170

اس کی موت نے کیا کر کے دکھایا بجز اس کے کہ اس کے بے وقت مرنے سے صدہا فتنے پیدا ہوئے اور ایسی خرابیاں ظہور میں آئیں جن کی وجہ سے ایک عالَم ہلاک ہو گیا.یہ سچ ہے کہ جوانمرد لوگ قوم کی بھلائی کیلئے اپنی جان بھی فدا کر دیتے ہیں یا قوم کے بچاؤ کے لئے جان کو معرضِ ہلاکت میں ڈالتے ہیں مگر نہ ایسے لغو اور بیہودہ طور پر جو مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے بلکہ جو شخص دانشمندانہ طور سے قوم کے لئے جان دیتا ہے یا جان کو معرضِ ہلاکت میں ڈالتا ہے وہ تو معقول اور پسندیدہ اور کارآمد اور صریح مفید طریقوں میں سے کوئی سے ایسا اعلیٰ اور بدیہی اَنْفَع طریقہ فدا ہونے کا اختیار کرتا ہے جس طریقے کے استعمال سے گو اس کو تکلیف پہنچ جائے یا جان ہی جائے مگر اُس کی قوم بعض بلاؤں سے واقعی طور پر بچ جائے.یہ تو نہیں کہ پھانسی لے کر یا زہر کھا کر یا کسی کوئیں میں گرنے سے خودکشی کا مرتکب ہو، اور پھر یہ خیال کرے کہ میری خود کشی قوم کے لئے بہبودی کا موجب ہوگی.ایسی حرکت تو دیوانوں کا کام ہے نہ عقلمندوں دینداروں کا، بلکہ یہ موت موتِ حرام ہے اور بجز سخت جاہل اور سادہ لوح کے کوئی اس کا ارادہ نہیں کرتا.میں سچ کہتا ہوں کہ کامل اور اوالوالعزم آدمی کا مرنا بجز اُس حالت خاص کے کہ بہتوں کے بچاؤ کے لئے کسی معقول اور معروف طریق پر مرنا ہی پڑے، قوم کیلئے اچھا نہیں بلکہ بڑی مصیبت اور ماتم کی جگہ ہے اور ایسا شخص جس کی ذات سے خلق اللہ کو طرح طرح کا فائدہ پہنچ رہا ہے اگر خودکشی کا ارادہ کرے تو وہ خدائے تعالیٰ کا سخت گنہگار ہے اور اس کا گناہ دوسرے ایسے مجرموں کی نسبت زیادہ ہے.پس ہر ایک کامل کے لئے لازم ہے کہ اپنے لئے جناب باری تعالیٰ سے درازیئِ عمر مانگے تا وہ خلق اللہ کے لئے ان سارے کاموں کو بخوبی انجام دے سکے جن کے لئے اُس کے دل میں جوش ڈالا گیا ہے.ہاں! شریر آدمی کا مرنا اس کے لئے اور نیز خلق اللہ کے لئے بہتر ہے تا شرارتوں کا ذخیرہ زیادہ نہ ہوتا جائے اور خلق اللہ اس کے ہر روز کے فتنہ سے تباہ نہ ہو جائے.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ تمام پیغمبروں میں سے قوم کے بچاؤ کے لئے اور الٰہی جلال کے اظہار کی غرض سے معقول طریقوں کے ساتھ اور ضروری حالتوں کے وقت میں کس پیغمبر نے زیادہ تر اپنے تئیں معرضِ ہلاکت میں ڈالا اور قوم پر اپنے تئیں فدا کرنا چاہا، آیا مسیح یا کسی اور نبی یا ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کا جواب جس جوش اور روشن دلائل اور آیات ّبینات اور تاریخی ثبوت سے میرے سینہ میں بھرا ہوا ہے، میں افسوس کے ساتھ اس جگہ اس کا لکھنا چھوڑ دیتا

Page 171

ہوں کہ وہ بہت طویل ہے.یہ تھوڑا سا مضمون اس کی برداشت نہیں کر سکتا.انشاء اللہ القدیر، اگر عمر نے وفا کی تو آئندہ ایک رسالہ مستقلہ اس بارے میں لکھوں گا لیکن بطور مختصر اس جگہ بشارت دیتا ہوں کہ وہ فرد کامل جو قوم پر اور تمام بنی نوع پر اپنے نفس کو فدا کرنے والا ہے وہ ہمارے نبی کریم ہیں یعنی سیّدنا و مولٰینا و وحیدنا و فرید نا احمد مجتبیٰ محمد مصطفی الرسول النبی الامی العربی القرشی صلی اللّٰہ علیہ وسلم.اس جگہ میں نے سچے اور جھوٹے مذہب کی تفریق کیلئے وہ فرق جو زمین پر موجود ہے یعنی جو باتیں عقل اور کانشنس کے ذریعہ سے فیصلہ ہو سکتی ہیں، کسی قدر لکھ دیا ہے لیکن جو فرق آسمان کے ذریعہ سے کھلتا ہے وہ بھی ایسا ضروری ہے کہ بجز اس کے حق اور باطل میں امتیاز بیّن نہیں ہو سکتا اور وہ یہ ہے کہ سچے مذہب کے پیرو کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ایک خاص تعلقات ہو جاتے ہیں اور وہ کامل پیرو اپنے نبی متبوع کا مظہر اور اس کے حالات روحانیہ اور برکات باطنیہ کا ایک نمونہ ہو جاتا ہے اور جس طرح بیٹے کے وجود درمیانی کی وجہ سے پوتا بھی بیٹا ہی کہلاتا ہے اسی طرح جو شخص زیر سایہ متابعت نبی پرورش یافتہ ہے اس کے ساتھ بھی وہی لطف اور احسان ہوتا ہے جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے اور جیسے نبی کو نشان دکھائے جاتے ہیں ایسا ہی اس کی خاص طور پر معرفت بڑھانے کیلئے اس کو بھی نشان ملتے ہیں.سو ایسے لوگ اس دین کی سچائی کے لئے جس کی تائید کے لئے وہ ظہور فرماتے ہیں، زندہ نشان ہوتے ہیں.خدائے تعالیٰ آسمان سے ان کی تائید کرتا ہے اور بکثرت ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور قبولیت کی اطلاع بخشتا ہے.ان پر مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں مگر اس لئے نازل نہیں ہوتیں کہ اُنہیں ہلاک کریں بلکہ اس لئے کہ تا آخر ان کی خاص تائید سے قدرت کے نشان ظاہر کئے جائیں.وہ بے عزتی کے بعد پھر عزت پا لیتے ہیں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں تا خدا تعالیٰ کے خاص کام ان میں ظاہر ہوں.اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دعا کا قبول ہونا دو طور سے ہوتا ہے.ایک بطور ابتلاء اور ایک بطور اصطفاء.بطور ابتلاء تو کبھی کبھی گنہگاروں اور نافرمانوں بلکہ کافروں کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے.مگر ایسا قبول ہونا.حقیقی قبولیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ از قبیل استدراج و امتحان ہوتا ہے لیکن جو بطور اصطفاء دعا قبول ہوتی ہے اس میں یہ شرط ہے کہ دعا کرنے والا خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ

Page 172

بندوں میں سے ہو اور چاروں طرف سے برگزیدگی کے انوار و آثار اس میں ظاہر ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ حقیقی قبولیت کے طور پر نافرمانوں کی دعا ہرگز نہیں سنتا بلکہ انہیں کی سنتا ہے کہ جو اس کی نظرمیں راستباز اور اس کے حکم پر چلنے والے ہوں.سو ابتلاء اور اصطفاء کی قبولیت ادعیہ میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ جو ابتلاء کے طور پر دعا قبول ہوتی ہے اس میں متقی اور خدا دوست ہونا شرط نہیں اور نہ اس میں یہ ضرورت ہے کہ خدائے تعالیٰ دعا کو قبول کر کے بذریعہ اپنے مکالمہ خاص کے اس کی قبولیت سے اطلاع بھی دیوے اور نہ وہ دعائیں ایسی اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہیں جن کا قبول ہونا ایک امر عجیب اور خارقِ عادت متصوّر ہو سکے لیکن جو دعائیں اصطفاء کی وجہ سے قبول ہوتی ہیں ان میں یہ نشان نمایاں ہوتے ہیں.(۱) اوّل یہ کہ دعا کرنے والا ایک متقی اور راست باز اور کامل فرد ہوتا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ بذریعہ مکالماتِ الٰہیہ اُس دعا کی قبولیت سے اس کو اطلاع دی جاتی ہے.(۳) تیسرے یہ کہ اکثر وہ دعائیں جو قبول کی جاتی ہیں نہایت اعلیٰ درجہ کی اور پیچیدہ کاموں کے متعلق ہوتی ہیں، جن کی قبولیت سے کھل جاتا ہے کہ یہ انسان کا کام اور تدبیر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص نمونہ قدرت ہے جو خاص بندوں پر ظاہر ہوتا ہے.(۴) چوتھے یہ کہ ابتلائی دعائیں تو کبھی کبھی شاذو نادر کے طور پر قبول ہوتی ہیں لیکن اصطفائی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں.بسا اوقات صاحب اصطفائی دعا کا ایسی بڑی بڑی مشکلات میں پھنس جاتا ہے کہ اگر اور شخص ان میں مبتلاہو جاتا تو بجز خودکشی کے اور کوئی حیلہ اپنی جان بچانے کیلئے ہرگز اُسے نظر نہ آتا.چنانچہ ایسا ہوتا بھی ہے کہ جب کبھی دنیا پرست لوگ جو خدا تعالیٰ سے مہجور و دُور ہیں بعض بڑی بڑی ہموم و غموم و اَمراض و اَسقام و بلیّاتِ لاینحل میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو آخر وہ بباعث ضعف ایمان خدائے تعالیٰ سے ناامید ہو کر کسی قسم کا زہر کھا لیتے ہیں یا کنوئیں میں گرتے ہیں یا بندوق وغیرہ سے خود کشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے نازک وقتوں میں صاحب اصطفاء کا بوجہ اپنی قوتِ ایمانی اور تعلقِ خاص کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہایت عجیب در عجیب مدد دیا جاتا ہے اور عنایتِ الٰہی ایک عجیب طور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے یہاں تک کہ ایک محرم راز کا دل بے اختیار بول اُٹھتا ہے کہ یہ شخص مؤیَّد الٰہی ہے.(۵) پانچویں یہ کہ صاحب اصطفائی دعا کا مَورَد عنایاتِ الٰہیہ کا ہوتا ہے اور خدائے تعالیٰ اس کے تمام کاموں میں اس کا متو ّلی ہو جاتا ہے اور عشق الٰہی کا نور اور مقبولانہ کبریائی کی مستی اور روحانی

Page 173

لذت یابی اور تنعم کے آثار اس کے چہرہ میں نمایاں ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے.۱؎ ooo۲؎ o o۳؎ o۴؎ اب جاننا چاہئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقّہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طو رپر نشان بیان کر چکا ہوں.یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا.اور سچے متبع ۱؎ المطففین: ۲۵ ۲؎ یونس: ۶۳ تا ۶۵ ۳؎ حٰمٓ السجدۃ: ۳۱ تا ۳۲ ۴؎ البقرۃ: ۱۸۷ ترجمہ: خبردار ہو یعنی یقینا سمجھ کہ جو لوگ اللہ جلشانہٗ کے دوست ہیں یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگی.کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ انہیں ہوتا ہے، کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں.دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں یعنی خلافِ ایمان و خلاف فرمانبرداری جو باتیں ہیں اُن سے بہت دُور رہتے ہیں.تیسری اُن کی یہ نشانی ہے کہ انہیں (بذریعہ مکالمہ الٰہیہ و رویائے صالحہ) بشارتیں ملتی رہتی ہیں، اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی.خدا ئے تعالیٰ کاان کی نسبت یہ عہد ہے جو ٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا درجہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے.یعنی مکالمہ الٰہیہ اورر ویائے صالحہ سے خدا تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانونِ قدرت اللہ جلّشانہٗ کا ہے) کہ جو لوگ اربابِ متفرقہ سے منہ پھیر کر اللہ جلّشانہٗ کو اپنا ربّ سمجھ لیں اور کہیں کہ ہمارا تو ایک اللہ ہی ربّ ہے (یعنی اور کسی کی ربوبیت پر ہماری نظر نہیں) اور پھر آزمائشوں کے وقت میں مستقیم رہیں (کیسے ہی زلزلے آویں، آندھیاں چلیں، تاریکیاں پھیلیں ان میں ذرا تزلزل اور تغیر اور اضطراب پیدا نہ ہو.پوری پوری استقامت پر رہیں) تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں (یعنی الہام اور رؤیائے صالحہ کے ذریعہ سے انہیں بشارتیں ملتی ہیں) کہ دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے دوست اور متولّی اور متکفّل ہیں اور آخرت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے وہ سب تمہیں ملے گا.یعنی اگر دنیا میں کچھ مکروہات بھی پیش آویں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں کیونکہ

Page 174

کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا.ایک نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صالح کے مقابل پر، جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو، کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معارضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا یا جس قدر اسرارِ غیبیہ تجھ پر کھلیں گے یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی یا جس طور سے تیری عزت اور شرف کے اظہار بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ: آخرت میں تمام غم دور ہو جائیں گے اور سب مرادیں حاصل ہوں گی.اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جو کچھ انسان کا نفس چاہے اس کو ملے.میں کہتا ہوں کہ یہ ہونا نہایت ضروری ہے اور اسی بات کا نام نجات ہے ورنہ اگر انسان نجات پا کر بعض چیزوں کو چاہتا رہا اور ان کے غم میں کباب ہوتا اور جلتا رہا مگر وہ چیزیں اس کو نہ ملیں تو پھر نجات کاہے کی ہوئی.ایک قسم کا عذاب تو ساتھ ہی رہا.لہٰذا ضرور ہے کہ جنت یا بہشت یا مکتی خانہ یا سُرگ جو نام اس مقام کا رکھا جائے جو انتہا سعادت پانے کا گھر ہے وہ ایسا گھر چاہئے کہ انسان کو من کل الوجوہ اس میں مصفّا خوشی حاصل ہو اور کوئی ظاہری یا باطنی رنج کی بات درمیان نہ ہو اور کسی ناکامی کی سوزش دل پر غالب نہ ہو.ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہشت میں نالائق و نامناسب باتیں نہیں ہوں گی مگر مقدس دلوں میں اُن کی خواہش بھی پیدا نہ ہوگی بلکہ ان مقدس اور مطہر دلوں میں جو شیطانی خیالات سے پاک کئے گئے ہیں، انسان کی پاک فطرت اور خالق کی پاک مرضی کے موافق پاک خواہشیں پیدا ہوں گی تا انسان اپنی ظاہری اور باطنی اور بدنی اور روحانی سعادت کو پورے پورے طور پر پا لیوے اور اپنے جمیع قویٰ کے کامل ظہور سے کامل انسان کہلاوے کیونکہ بہشت میں داخل کرنا انسانی نقش کے مٹا دینے کی غرض سے نہیں جیسا کہ ہمارے مخالف عیسائی و آریہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ تا انسانی فطرت کے نقوش ظاہراً و باطناً بطور کامل چمکیں اور سب بے اعتدالیاں دور ہو کر ٹھیک ٹھیک وہ امور جلوہ نما ہو جائیں جو انسان کے لئے بلحاظ ظاہری و باطنی خلقت اس کی کے ضروری ہیں.اور پھر فرمایا کہ جب میرے مخصوص بندے (جو برگزیدہ ہیں) میرے بارہ میں سوال کریں اور پوچھیں کہ کہاں ہے؟ تو انہیں معلوم ہو کہ میں بہت ہی قریب ہوں.اپنے مخلص بندوں کی دعا سنتا ہوں جب ہی کہ کوئی مخلص بندہ دعا کرتا ہے (خواہ دل سے یا زبان سے) سن لیتا ہوں (پس اس سے قرب ظاہر ہے) مگر چاہئے کہ وہ ایسی اپنی حالت بنائی رکھیں جس سے میں ان کی دعا سُن لیا کروں.یعنی انسان اپنا حجاب آپ ہو جاتا ہے.جب پاک حالت کو چھوڑ کر دور جا پڑتا ہے تب خدائے تعالیٰ بھی اُس سے دور ہو جاتا ہے اور چاہیے کہ ایمان اپنا مجھ پر ثابت رکھیں (کیونکہ قوتِ ایمانی کی برکت سے دُعا جلد قبول ہوتی ہے) اگر وہ ایسا کریں تو رُشد حاصل کر لیں گے یعنی ہمیشہ خدائے عزوجل اُن کے ساتھ ہوگا.اور کبھی عنایت و رہنمائی الٰہی اُن سے الگ نہیں ہوگی.سو استجابِ دعاء بھی اولیاء اللہ کے لئے ایک بھاری نشان ہے.فتدبر.منہ

Page 175

کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیش گوئی تجھے وعدہ دیا جائے گا یا اگر تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو اُن سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آئیگا اور جو کچھ تودکھائے گا، وہ میں بھی دکھلاؤں گا.تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ اُن کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذّاب ہیں.انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوست دار ہے.جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں.وَھَذَا اٰخِرُ کَلَا مِنَا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ اَوَّلاً وَّ اٰخِراً وَّ ظَاہِراً وَّ بَاطِناً.ھُوَمَوْلٰینَا نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل.٭

Page 176

وہ خط جو ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب نے محمد بخش پانڈہ کو لکھا بخدمت شریف میاں محمد بخش و جملہ شرکاء اہل اسلام جنڈیالہ.جناب من.بعد سلام کے واضح رائے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحیوں اور اہلِ اسلام کے درمیان دینی چرچے بہت ہوتے ہیں اور چند صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال وجواب کرتے اور کرنا چاہتے ہیں اور نیز اسی طرح سے مسیحیوں نے بھی دین محمدی کے حق میں کئی ایک تحقیقاتیں کر لی ہیں اور مبالغہ از حد ہو چلا ہے.لہٰذا راقم رقیمہ ہذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام مع علماء و دیگر بزرگان دین کے جن پر کہ ان کی تسلی ہو، موجود ہوں اور اسی طرح سے مسیحیوں کی طرف بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں تا کہ جو باہمی تنازعہ ان دنوں میں ہو رہے ہیں، خوب فیصل کئے جاویں اور نیکی اور بدی اور حق اور خلاف ثابت ہوویں.لہٰذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحبِ ہمت گنے جاتے ہیں.ہم آپ کی خدمت میں از طرف مسیحیان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خود یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلی ہو، اُسے طلب کریں اور ہم بھی وقت معین پر محفل شریف میں کسی اپنے بزرگ کو پیش کریں گے کہ جلسہ اور فیصلہ اموراتِ مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جاوے اور خداوند صراطِ مستقیم سب کو حاصل کرے.ہم کسی ضد اور فساد یا مخالفت کی رو سے اس جلسہ کے درپے نہیں ہیں مگر فقط اس بنا سے کہ جو باتیں راست، برحق اور پسندیدہ ہیں سب صاحبان پر خوب ظاہر ہوں.دیگر التماس یہ ہے کہ اگر صاحبان اہل اسلام ایسے مباحثہ میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آیندہ کو اپنے اسپ کلام کو میدان گفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقت منادی یا دیگر موقعوں پر حجت بے بنیاد و لاحاصل سے باز آ کر خاموشی اختیار کریں.از راہ مہربانی اس خط کا جواب جلدی عنایت فرماویں تا کہ اگر آپ ہماری دعوت کو قبول کریں تو جلسہ کا اور ان مضامین کا جن کی بابت مباحثہ ہونا ہے، معقول انتظام کیا جائے.فقط.زیادہ سلام الراقم مسیحیان جنڈیالہ.مارٹن کلارک امرتسر (دستخط انگریزی میں ہیں)

Page 177

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَنَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم حضرت جناب فیض مآب مجدد الوقت فاضل اجل حامی دین رسول حضرت غلام احمد صاحب از طرف محمد بخش.السلام علیکم.گزارش یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے قصبہ جنڈیالہ کے عیسائیوں نے بہت شور و شر مچایا ہوا ہے.بلکہ آج بتاریخ ۱۱؍ اپریل ۱۸۹۳ء عیسائیان جنڈیالہ نے معرفت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب امرتسر بنام فدوی بذریعہ رجسٹری ایک خط ارسال کیا ہے.جس کی نقل خط ہذا کی دوسری طرف واسطے ملاحظہ کے پیش خدمت ہے.عیسائیوں نے بڑے زور و شور سے لکھا ہے کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء و دیگر بزرگانِ دین کو موجود کر کے ایک جلسہ کریں اور دینِ حق کی تحقیقات کی جائے.ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموشی اختیار کریں.اِس لئے خدمت بابرکت میں عرض ہے کہ چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ اکثر کمزور اور مسکین ہیں.اِس لئے خدمت شریف عالی میں ملتمس ہوں کہ آنجناب لِلّٰہ اہل اسلام جنڈیالہ کو امداد فرماؤ.ورنہ اہل اسلام پر دھبہ آ جائے گا و نیز عیسائیوں کے خط کو ملاحظہ فرما کر یہ تحریر فرماویں کہ اُن کو جواب خط کا کیا لکھا جاوے.جیسا آنجناب ارشاد فرماویں.ویسا عمل کیا جاوے.فقط جواب طلب ضروری راقم محمد بخش پاندہا مکتب دیسی قصبہ جنڈیالہ ضلع و تحصیل امرتسر ۱۱؍ اپریل ۱۸۹۳ء

Page 178

امرتسر میڈیکل مشن (۱۸؍ اپریل ۱۸۸۳ء) جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیان سلامت تسلیم.عنایت نامہ آں صاحب کا وارد ہوا.بعد مطالعہ طبیعت شاد ہوئی، خاص اس بات سے کہ جنڈیالہ کے اہل اسلام کو آپ جیسے لائق و فائق ملے.لیکن چونکہ ہمارا دعویٰ نہ آپ سے، پر جنڈیالہ کے محمدیوں سے ہے.ہم آپ کی دعوت قبول کرنے میں قاصر ہیں.ان کی طرف ہم نے خط لکھا ہوا ہے اور تاحال جواب کے منتظر ہیں.اگر ان کی مدد آپ کو قبول ہے تو مناسب و باقاعدہ طریقہ تو یہ ہے کہ آپ خود انہیں خطوط لکھیں.جو آپ کے ارادے مہربانی کے ہیں.اُن پر ظاہر کریں.اگر وہ آپ کو تسلیم کرکے اس جنگ مقدس کیلئے اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمارا کچھ عذر نہیں بلکہ عین خوشی ہے.چونکہ آپ روشن ضمیر و صاحب کار آزمودہ ہیں.یہ آپ سے مخفی نہ ہوگا کہ اس خاص بحث کیلئے آپ کو قبول کرنا یا نہ کرنا ہمارا اختیار نہیں بلکہ جنڈیالہ کے اہل اسلام کا.لہٰذا آپ انہیں سے فیصلہ کر لیں.بعد ازاں ہم بھی حاضر ہیں آپ کے اور ان کے فیصلہ کرنے ہی کی دیر ہے.زیادہ سلام (راقم ڈاکٹر مارٹن کلارک امرتسر)

Page 179

ترجمہ خلاصہ چٹھی ڈاکٹر کلارک صاحب امرتسر ۲۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء بخدمت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان.جنابِ َمن! مولوی عبدالکریم صاحب معہ معزز سفارت یہاں پہنچے اور مجھے آپ کا دستی خط دیا.جناب نے جو مسلمانوں کی طرف سے مجھے مقابلہ کیلئے دعوت کی ہے اس کو میں بخوشی قبول کرتا ہوں.آپ کی سفارت نے آپ کی طرف سے مباحثہ اور شرائط ضروریہ کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ جناب کو بھی وہ انتظام اور شرائط منظور ہوں گے.اس لئے مہربانی کر کے اپنی فرصت میں اطلاع بخشیں کہ آپ ان شرائط کو قبول کرتے ہیں یا نہیں؟ آپ کا تابعدار ایچ مارٹن کلارک ایم.ڈی.سی.ایم.اڈنبرا.ایم.آر.اے.ایس.سی

Page 180

مکتوب نمبر۳ مسٹر عبداللہ آتھم کے نام ایک مکتوب جس میں اس کے خط کا جواب دیا گیا ہے آج اس اشتہار کے لکھنے سے ابھی میں فارغ ہوا تھا کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کا خط بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا.یہ خط اس خط کا جواب ہے جو میں نے مباحثہ مذکورہ بالا کے متعلق صاحب موصوف اور نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی طرف لکھا تھا.سو اب اس کا بھی جواب ذیل میں بطور قولہ اور اقول کے لکھتا ہوں.قولہ: ہم اس امر کے قائل نہیں ہیں کہ تعلیمات قدیم کے لئے معجزہ جدید کی کچھ بھی ضرورت ہے اس لئے ہم معجزہ کیلئے نہ کچھ حاجت اور نہ استطاعت اپنے اندر دیکھتے ہیں.اقول: صاحب من! میں نے معجزہ کا لفظ اپنے خط میں استعمال نہیں کیا.بیشک معجزہ دکھلانا نبی اور مُرسَل مِنَ اللہ کا کام ہے نہ ہر یک انسان کا.لیکن اس بات کو تو آپ مانتے اور جانتے ہیں کہ ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور ایمانداری کے پھلوں کا ذکر جیسا کہ قرآن کریم میں ہے انجیل شریف میں بھی ہے.مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے.اس لئے طول کلام کی ضرورت نہیں.مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایمانداری کے پھل دکھلانے کی بھی آپ کو استطاعت نہیں؟ قولہ: بہرکیف اگر جناب کسی معجزہ کے دکھلانے پر آمادہ ہیں تو ہم اس کے دیکھنے سے آنکھیں بند نہ کریں گے اور جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے.اقول: بیشک یہ آپ کا مقولہ انصاف پر مبنی ہے اور کسی کے منہ سے یہ کامل طور پر نکل نہیں سکتا جب تک اس کو انصاف کا خیال نہ ہو.لیکن اس جگہ یہ آپ کا فقرہ کہ ’’جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی

Page 181

ہم آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اُس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے‘‘ تشریح طلب ہے.یہ عاجز تو محض اس غرض کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا وے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ ہے.وبس.اب کیا آپ اس بات پر طیار اور مستعد ہیں کہ نشان دیکھنے کے بعد اس مذہب کو قبول کر لیں گے؟ آپ کا فقرہ مذکورہ بالا مجھے امید دلاتا ہے کہ آپ اس سے انکار نہ کریں گے.پس اگر آپ مستعد ہیں تو چند سطریںتین اخباروں یعنی نور افشاں اور منشور محمدی اور کسی آریہ کے اخبار میں چھپوا دیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس مباحثہ کے بعد، جس کی تاریخ ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء قرار پائی ہے، مرزا غلام احمد کی خدا تعالیٰ مدد کرے اور کوئی ایسا نشان اس کی تائید میں خدا تعالیٰ ظاہر فرماوے کہ جو اس نے قبل ازوقت بتلا دیا ہو اور جیسا کہ اُس نے بتلایا ہو وہ پورا بھی ہو جاوے تو ہم اس نشان کے دیکھنے کے بعدبلاتوقف مسلمان ہو جائیں گے اور ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس نشان کو بغیر کسی قسم کی بیہودہ نکتہ چینی کے قبول کر لیں گے اور کسی حالت میں وہ نشان نامعتبر اور قابل اعتراض نہیں سمجھا جائے گا، بغیر اس صورت کے کہ ایسا ہی نشان اسی برس کے اندر ہم بھی دکھلا دیں.مثلاًاگر نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ہو کہ فلاں وقت کسی خاص فرد پر یا ایک گروہ پر فلاں حادثہ وارد ہوگا اور وہ پیشگوئی اس میعاد میں پوری ہو جائے تو بغیر اس کے کہ اس کی نظیر اپنی طرف سے پیش کریں بہرحال قبول کرنی پڑے گی اور اگر ہم نشان دیکھنے کے بعد دین اسلام اختیار نہ کریں اور نہ اس کے مقابل پر اسی برس کے اندر اس کی مانند کوئی خارقِ عادت نشان دکھلا سکیں تو عہد شکنی کے تاوان میں نصف جائیداد اپنی امداد اسلام کیلئے اس کے حوالہ کریں گے.اور اگر ہم اس دوسری شق پر بھی عمل نہ کریں اور عہد کو توڑ دیں اور اس عہد شکنی کے بعد کوئی قہری نشان ہماری نسبت مرزا غلام احمد شائع کرنا چاہے تو ہماری طرف سے مجاز ہوگا کہ عام طور پر اخباروں کے ذریعہ سے یا اپنے رسائل مطبوعہ میں اس کو شائع کرے.فقط یہ تحریر آپ کی طرف سے بقید نام و مذہب و ولدیت و سکونت ہو اور فریقین کے پچاس پچاس معزز اور معتبر گواہوں کی شہادت اُس پرثبت ہو.تب تین اخباروں میں اس کو آپ شائع کرا دیں جب کہ آپ کا منشاء اظہار حق ہے اور یہ معیار آپ کے اور ہمارے مذہب کے موافق

Page 182

ہے تو اب برائے خدا اِس کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں.اب بہرحال وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالیٰ سچے مذہب کے انوار اور برکات ظاہر کرے اور دنیا کو ایک ہی مذہب پر کر دیوے.سو اگر آپ دل کو قوی کر کے سب سے پہلے اس راہ میں قدم ماریں اور پھر اپنے عہد کو بھی صدق اور جوانمردی کے ساتھ پورا کریں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہریںگے اور آپ کی راستبازی کا یہ ہمیشہ کیلئے ایک نشان رہے گا.اور اگر آپ یہ فرماویں کہ ہم تو یہ سب باتیں کر گزریں گے اور کسی نشان کے دیکھنے کے بعد دین اسلام قبول کر لیں گے یا دوسری شرائط متذکرہ بالا بجا لائیں گے اور یہ عہد پہلے ہی سے تین اخباروں میں چھپوا بھی دیں گے.لیکن اگر تم ہی جھوٹے نکلے اور کوئی نشان دکھا نہ سکے تو تمہیں کیا سزاہوگی؟ تو میں اس کے جواب میں حسب منشاء توریت سزائے موت اپنے لئے قبول کرتا ہوں اور اگر یہ خلاف قانون ہو تو کُل جائیداد اپنی آپ کو دوں گا.جس طرح چاہیں پہلے مجھ سے تسلی کر لیں.قولہ: لیکن یہ جناب کو یاد رہے کہ معجزہ ہم اسی کو جانیں گے جو ساتھ تحدی مدعی معجزہ کے بہ ظہور آوے اور کہ مصدق کسی امر ممکن کا ہو.اقول: اس سے مجھے اتفاق ہے.اور تحدی اسی بات کا نام ہے کہ مثلاً ایک شخص منجانب اللہ ہونے کا دعوٰی کر کے اپنے دعوٰی کی تصدیق کیلئے کوئی ایسی پیشگوئی کرے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہو اور پیشگوئی سچی نکلے تو وہ حسب منشاء توریت استثنا ۱۸.۱۸ سچا ٹھہرے گا.ہاں یہ سچ ہے کہ ایسا نشان کسی امر ممکن کا مصدق ہونا چاہئے ورنہ یہ تو جائز نہیں کہ کوئی انسان مثلاً یہ کہے کہ میں خدا ہوں اور اپنی خدائی کے ثبوت میں کوئی پیشگوئی کرے اور وہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو پھر وہ خدا مانا جاوے.لیکن میں اس جگہ آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب اس عاجز نے ملہم اور مامور من اللہ ہونے کا دعوٰی کیا تھا تو ۱۸۸۸ء میں مرزا امام الدین نے جس کو آپ خوب جانتے ہیں.چشمۂِ نور امرتسر میں میرے مقابل پر اشتہار چھپوا کر مجھ سے نشان طلب کیا تھا.تب بطور نشان نمائی ایک پیشگوئی کی گئی تھی جو نور افشاں ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوگئی تھی جس کا مفصل ذکر اس اخبار میں اور نیز میری کتاب آئینہ کمالات کے صفحہ ۲۷۹،۲۸۰ میں موجود ہے اور وہ پیشگوئی ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو اپنی

Page 183

میعاد کے اندر پوری ہوگئی.سو اب بطور آزمائش آپ کے انصاف کے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ نشان ہے یا نہیں؟ اور اگر نشان نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اور اگر نشان ہے اور آپ نے اس کو دیکھ بھی لیا اور نہ صرف نور افشاں ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء میں بلکہ میرے اشتہار مجریہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں بقیدِ میعاد یہ شائع بھی ہو چکا ہے.تو آپ کا اس وقت فرض عین ہے یا نہیں کہ اس نشان سے بھی فائدہ اُٹھاویں اور اپنی غلطی کی اصلاح کریں اور براہ مہربانی مجھ کو اطلاع دیں کہ کیا اصلاح کی اور کس قدر عیسائی اصول سے آپ دستبردار ہوگئے؟ کیونکہ یہ نشان تو کچھ پرانا نہیں، ابھی کل کی بات ہے کہ نورافشاں اور میرے اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوا تھا اور آپ کی یہ تمام شرائط کے موافق ہے.میرے نزدیک آپ کے انصاف کا یہ ایک معیار ہے.اگر آپ نے اس نشان کو مان لیا اور حسبِ اقرار اپنے اپنی غلطی کی بھی اصلاح کی، تو مجھے پختہ یقین ہوگا کہ اب آئندہ بھی آپ اپنی بڑی اصلاح کیلئے مستعد ہیں.اس نشان کا اس قدر تو آپ پر اثر ضرور ہونا چاہئے کہ کم سے کم آپ یہ اقرار اپنا شائع کر دیں کہ اگرچہ ابھی قطعی طور پر نہیں مگر ظن غالب کے طور پر دین اسلام ہی مجھے سچا معلوم ہوتا ہے.کیونکہ تحدی کے طور پر اُس کی تائید کے بارہ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ پوری ہوگئی.آپ جانتے ہیں کہ امام الدین دین اسلام سے منکر اور ایک دہریہ آدمی ہے اور اس نے اشتہار کے ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور اس عاجز کے ملہم ہونے کے بارے میں ایک نشان طلب کیا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے نزدیک کی راہ سے اُسی کے عزیزوں پر ڈال کر اس پر اتمام حجت کی.آپ اِس نشان کے ردّیا قبول کے بارے میں ضرور جواب دیں، ورنہ ہمارا یہ ایک پہلا قرضہ ہے جو آپ کے ذمے رہے گا.قولہ: مباہلات بھی از قسم معجزات ہی ہیں مگر ہم بروئے تعلیم انجیل کسی کے لئے لعنت نہیں مانگ سکتے.جناب صاحب اختیار ہیں جو چاہیں مانگیں اور انتظار جواب ایک سال تک کریں.اقول: صاحب من! مباہلہ میں دوسرے پر لعنت ڈالنا ضروری نہیں بلکہ اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ مثلاً ایک عیسائی کہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ درحقیقت حضرت مسیح خدا ہیں اور قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اگر میں اس بیان میں کاذب ہوں تو خدا تعالیٰ میرے پر لعنت کرے.سو یہ صورت مباہلہ انجیل کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے.آپ غور

Page 184

ماسوائے اس کے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر آپ نشان نمائی کے مقابلہ سے عاجز ہیں تو پھر یکطرفہ اس عاجز کی طرف سے سہی، مجھ کو بسروچشم منظور ہے، آپ اقرار نامہ حسب نمونہ مرقومہ بالا شائع کریں اور جس وقت آپ فرماویں میں بلاتوقف امرتسر حاضر ہو جاؤں گا.یہ تو مجھ کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ عیسائی مذہب اسی دن سے تاریکی میں پڑا ہوا ہے جب سے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کی جگہ دی گئی اور جب کہ حضرات عیسائیوں نے ایک سچے اور کامل اور مقدس نبی افضل الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا.اس لئے میں یقینا جانتا ہوں کہ حضرات عیسائی صاحبوں میں سے یہ طاقت کسی میں بھی نہیں کہ اسلام کے زندہ نوروں کا مقابلہ کر سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ وہ نجات اور حیاتِ ابدی جس کا ذکر عیسائی صاحبوں کی زبان پر ہے، وہ اہل اسلام کے کامل افراد میں سورج کی طرح چمک رہی ہے.اسلام میں یہ ایک زبردست خاصیت ہے کہ وہ ظلمت سے نکال کر اپنے نور میں داخل کرتا ہے.جس نور کی برکت سے مومن میں کھلے کھلے آثار قبولیت پیدا ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا شرفِ مکالمہ میسر آ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی محبت کی نشانیاں اس میں ظاہر کر دیتا ہے میں زور سے اور دعوٰی سے کہتا ہوں کہ ایمانی زندگی صرف کامل مسلمان کو ہی ملتی ہے اور یہی اسلام کی سچائی کی نشانی ہے.اب آپ کے خط کا ضروری جواب ہو چکا اور یہ اشتہار ایک رسالہ کی صورت پر مرتب کر کے آپ کی خدمت میں اور نیز ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری روانہ کرتا ہوں.اب میری طرف سے حجت پوری ہوچکی.آئندہ آپ کو اختیار ہے.والسلام علی من اتبع الھدی.٭ راقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٭ حجۃ الاسلام ،روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۵۲ تا ۵۷

Page 185

مکتوب نمبر۴ نقل خط جو مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے مسیحیان جنڈیالہ کی طرف ۱۳؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو رجسٹری کر کے بھیجا گیا! بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بخدمت مسیحیان جنڈیالہ! بعد ماوَجب.آج میں نے آپ صاحبوں کی وہ تحریر جو آپ نے میاں محمد بخش صاحب کو بھیجی تھی، اوّل سے آخر تک پڑھی.جو کچھ آپ صاحبوں نے سوچا ہے مجھے اتفاق رائے ہے بلکہ درحقیقت میں اس مضمون کے پڑھنے سے ایسا خوش ہوا کہ میں اس مختصر خط میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا.یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ یہ روز کے جھگڑے اچھے نہیں اور ان سے دن بدن عداوتیں بڑھتی ہیں اور فریقین کی عافیت اور آسودگی میں خلل پڑتا ہے اور یہ بات تو ایک معمولی سی ہے.اس سے بڑھ کر نہایت ضروری اور قابل ذکر یہ بات ہے کہ جس حالت میں دونوں فریق مرنے والے اور دنیا کو چھوڑنے والے ہیں تو پھر اگر باقاعدہ بحث کر کے اظہارِ حق نہ کریں تو اپنے نفسوں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں.اب میں دیکھتا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوندکریم اور رحیم نے اس عاجز کو انہیں کاموں کیلئے بھیجا ہے تو ایک سخت گناہ ہوگا کہ ایسے موقع پر خاموش رہوں.اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں.یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اپنا اپنا مذہب بہت سے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے ملا ہے اور یہ بھی فریقین کو اقرار ہے کہ زندہ مذہب وہی ہو سکتا ہے کہ جن دلائل پر ان کی صحت کی بنیاد ہے وہ دلائل بطور قصہ کے نہ ہوں بلکہ دلائل ہی کے رنگ میں اب بھی موجود اور نمایاں ہوں.مثلاً اگر کسی کتاب میں بیان کیا گیا ہو کہ فلاں نبی نے بطور معجزہ ایسے ایسے بیماروں کو اچھا کیا تھا تو یہ اور اس قسم کے اور امور اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک قطعی اور یقینی دلیل نہیں ٹھہر سکتی بلکہ ایک خبر ہے جو منکر کی نظر میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال

Page 186

رکھتی ہے.بلکہ منکر ایسی خبروں کو صرف ایک قصہ سمجھے گا.اسی وجہ سے یورپ کے فلاسفر مسیح کے معجزات سے جو انجیل میں مندرج ہیں کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے بلکہ اس پر قہقہہ مار کر ہنستے ہیں.پس جب کہ یہ بات ہے تو یہ نہایت آسان مناظرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل اسلام کا کوئی فرد، اس تعلیم اور علامات کے موافق جو کامل مسلمان ہونے کے لئے قرآن میں موجود ہیں، اپنے نفس کو ثابت کرے اور اگر نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ مسلمان.اور ایسا ہی عیسائی صاحبوں میں سے ایک فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو انجیل شریف میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کر کے دکھلائے اور اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ عیسائی.جس حالت میں دونوں فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ جس نور کو ان کے انبیاء لائے تھے وہ نور فقط لازمی نہ تھا بلکہ متعدی تھا تو پھر جس مذہب میں یہ نور متعدی ثابت ہوگا اسی کی نسبت عقل تجویز کرے گی کہ یہی مذہب زندہ اور سچا ہے.کیونکہ اگر ہم ایک مذہب کے ذریعہ سے وہ زندگی اور پاک نور معہ اس کی تمام علامتوں کے حاصل نہیں کر سکتے جو اس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے تو ایسا مذہب بجز لاف و گزاف کے زیادہ نہیں.اگر ہم فرض کر لیں کہ کوئی نبی پاک تھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی پاک نہیں کر سکتا، اور صاحب خوارق تھا مگر کسی کو صاحب خوارق نہیں بنا سکتا، اور الہام یافتہ تھا مگر ہم میں سے کسی کو ملہم نہیں بنا سکتا تو ایسے نبی سے ہمیں کیا فائدہ؟ مگر الحمدللہ والمنتہ کہ ہمارا سیّد و رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں تھا.اس نے ایک جہان کو وہ نور حسب مراتب استعداد بخشا کہ جو اس کو ملا تھا اور اپنے نورانی نشانوں سے وہ شناخت کیا گیا.وہ ہمیشہ کے لئے نور تھا جو بھیجا گیا اور اس سے پہلے کوئی ہمیشہ کے لئے نور نہیں آیا.اگر وہ نہ آتا اور نہ اس نے بتلایا ہوتا تو حضرت مسیح کے نبی ہونے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی کیونکہ اس کا مذہب مر گیا اور اس کا نور بے نشان ہو گیا اور کوئی وارث نہ رہا جو اس کو کچھ نور دیا گیا ہو.اب دنیا میں زندہ مذہب صرف اسلام ہے اور اس عاجز نے ذاتی تجارب سے دیکھ لیا اور پرکھ لیا کہ دونوں قسم کے نور اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت موجود تھے اور ہم ان کے دکھلانے کے لئے ذمہ دار ہیں.اگر کسی کو مقابلہ کی طاقت ہے تو ہم سے خط و کتابت کرے.والسلام علی من اتبع الہدی.بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ اس عاجز کے مقابلہ پر جو صاحب کھڑے ہوں وہ کوئی بزرگ نامی

Page 187

اور معزز انگریز پادری صاحبوں میں سے ہونے چاہئیں.کیونکہ جو بات اس مقابلہ اور مباحثہ سے مقصود ہے اور جس کا اثر عوام پر ڈالنا مدِّنظر ہے وہ اسی امر پر موقوف ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوم کے خواص میں سے ہوں.ہاں بطور تنزّل اور اتمامِ حجت مجھے یہ بھی منظور ہے کہ اس مقابلہ کیلئے پادری عمادالدین صاحب یا پادری ٹھاکر داس صاحب یا مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوں اور پھر اُن کے اسماء کسی اخبار کے ذریعہ شائع کر کے ایک پرچہ اس عاجز کی طرف بھی بھیجا جائے اور اس کے بھیجنے کے بعد یہ عاجز بھی اپنے مقابلہ کا اشتہار دے دے گا اور ایک پرچہ صاحب مقابلہ کی طرف بھیج دے گا.مگر واضح رہے کہ یوں تو ایک مدت دراز سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا جھگڑا چلا آتا ہے اور تب سے مباحثات ہوئے اور فریقین کی طرف سے بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور درحقیقت علمائے اسلام نے تمام تر صفائی سے ثابت کر دیا کہ جو کچھ قرآن کریم پر اعتراض کئے گئے ہیں وہ دوسرے رنگ میں توریت پر اعتراض ہیں اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نکتہ چینی ہوئی وہ دوسرے پیرایہ میں تمام انبیاء کی شان میں نکتہ چینی ہے.جس سے حضرت مسیح بھی باہر نہیں بلکہ ایسی نکتہ چینوں کی بنا پر خدا تعالیٰ بھی مَوردِ اعتراض ٹھہرتا ہے.سو یہ بحث زندہ مذہب یا مردہ مذہب کی تنقیح کے بارہ میں ہوگی اور دیکھا جاوے گا کہ جن روحانی علامات کا مذہب اور کتاب نے دعویٰ کیا ہے، وہ اب بھی اس میں پائی جاتی ہیں کہ نہیں؟ اور مناسب ہوگا کہ مقامِ بحث لاہور یا امرتسر مقرر ہو اور فریقین کے علماء کے مجمع میں یہ بحث ہو.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

Page 188

مکتوب نمبر۵ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے نام بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفق مہربان پادری صاحب بعد ما وجب.یہ وقت کیا مبارک ہے کہ میں آپ کی اس مقدس جنگ کیلئے تیار ہو کر جس کا آپ نے اپنے خط میں ذکر فرمایا ہے.اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس پاک جنگ کیلئے آپ مجھے مقابلہ پر منظور فرماویں گے.جب آپ کا پہلا خط جو جنڈیالہ کے بعض مسلمانوں کے نام مجھ کو ملا اور میں نے یہ عبارتیں پڑھیں کہ کوئی ہے کہ ہمارا مقابلہ کرے! تو میری روح اسی وقت بول اُٹھی کہ ہاں میں ہوں جس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے گا اور سچائی کو ظاہر کرے گا.وہ حق جو مجھ کو ملا ہے اور وہ آفتاب جس نے ہم میں طلوع کیا ہے وہ اب پوشیدہ رہنانہیں چاہتا.میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ زور دار شعاعوں کے ساتھ نکلے گا اور دلوں پر اپنا ہاتھ ڈالے گا اور اپنی طرف کھینچ لائے گا.لیکن اس کے نکلنے کیلئے کوئی تقریب چاہیے تھی سو آپ صاحبوں کا مسلمانوںکو مقابلہ کیلئے بلانا نہایت مبارک اور نیک تقریب ہے.مجھے امید نہیں کہ آپ اس بات پر ضد کریں کہ ہمیں تو جنڈیالہ کے مسلمانوں سے کام ہے، نہ کسی اَور سے.آپ جانتے ہیں کہ جنڈیالہ میں کوئی مشہور اور نامی فاضل نہیں اور یہ آپ کی شان سے بعید ہوگا کہ آپ عوام سے اُلجھتے پھریں.اور اس عاجز کا حال آپ پر مخفی نہیں کہ آپ صاحبوںکے مقابلہ کیلئے دس۱۰ برس کا پیاسا ہے اور کئی ہزار خط اُردو و انگریزی اسی پیاس کے جوش سے آپ جیسے معزز پادری صاحبان کی خدمت میں روانہ کر چکا ہوں اور پھر جب کچھ جواب نہ آیا تو آخر ناامید ہو کر بیٹھ گیا.چنانچہ بطور نمونہ اُن خطوں میں سے کچھ روانہ بھی کرتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی اس توجہ کا اوّل مستحق میں ہی ہوں.اور سوائے اس کے اگر میں کاذب ہوں تو ہر ایک سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں.میں پورے دس۱۰ سال سے میدان میں کھڑا ہوں.جنڈیالہ میں میری دانست میں ایک بھی نہیں جو میدان کا سپاہی تصور کیا جاوے.اس لئے باَدب مُکلّف ہوں کہ اگر یہ امر مطلوب ہے کہ روز

Page 189

کے قصے طے ہو جائیں اور جس مذہب کے ساتھ خدا ہے اور جو لوگ سچے خدا پر ایمان لارہے ہیں ان کے کچھ امتیازی انوار ظاہر ہوں تو اس عاجز سے مقابلہ کیا جائے.آپ لوگوں کا یہ ایک بڑا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام درحقیقت خدا تھے اور وہی خالق ارض و سما تھے.اور ہمارا یہ بیان ہے کہ وہ سچے نبی ضرور تھے، رسول تھے، خدا تعالیٰ کے پیارے تھے مگر خدا نہیں تھے.سو اِنہیں امور کے حقیقی فیصلہ کیلئے یہ مقابلہ ہوگا.مجھ کو خدا تعالیٰ نے براہ راست اطلاع دی ہے کہ جس تعلیم کو قرآن لایا ہے وہی سچائی کی راہ ہے.اسی پاک توحید کو ہر یک نبی نے اپنی اُمت تک پہنچایا ہے مگر رفتہ رفتہ لوگ بگڑ گئے اور خدا تعالیٰ کی جگہ انسانوں کو دے دی.غرض یہی امر ہے جس پر بحث ہوگی اور میںیقین رکھتا ہوں کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی غیرت اپنا کام دکھلائے گی اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس مقابلہ سے ایک دنیا کیلئے مفید اور اثر انداز نتیجے نکلیں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ اب کل دنیا یا ایک بڑا بھاری حصہ اُس کا ایک ہی مذہب قبول کرلے جو سچا اور زندہ مذہب ہو اور جس کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی مہربانی کا بادل ہو.چاہیے کہ یہ بحث صرف زمین تک محدود نہ رہے بلکہ آسمان بھی اس کے ساتھ شامل ہو.اور مقابلہ صرف اس بات میں ہو کہ روحانی زندگی اور آسمانی قبولیت اور روشن ضمیری کس مذہب میں ہے.اور میں اور میرا مقابل اپنی اپنی کتاب کی تاثیریں اپنے اپنے نفس میں ثابت کریں.ہاں! اگر یہ چاہیں کہ معقولی طور پر بھی ان دونوں عقیدوں کا بعد اس کے تصفیہ ہو جائے تو یہ بھی بہتر ہے مگر اس سے پہلے روحانی اور آسمانی آزمائش ضرور چاہئے.والسلام علی من اتبع الہدٰی.خاکسار غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور ۲۳؍ اپریل ۱۸۹۳ء

Page 190

شرائط انتظام مباحثہ قرار یافتہ مابین عیسائیاں و مسلمانان (ترجمہ از انگریزی) (۱) یہ مباحثہ امرتسر میں ہوگا.(۲) ہر ایک جانب میں صرف پچاس اشخاص حاضر ہونگے.پچاس ٹکٹ مرزا غلام احمد صاحب عیسائیوں کو دیں گے اور پچاس ٹکٹ ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب مرزا صاحب کو مسلمانوں کیلئے دیں گے.عیسائیوں کے ٹکٹ مسلمان جمع کریں گے اور مسلمانوں کے عیسائی.(۳) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسلمانوں کی طرف سے اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خاں صاحب عیسائیوں کی طرف سے مقابلہ میں آئیں گے.(۴) سوائے ان صاحبوں کے اور کسی صاحب کو بولنے کی اجازت نہ ہوگی.ہاں یہ صاحب تین شخصوں کو بطور معاون منتخب کر سکتے ہیں مگر ان کو بولنے کا اختیار نہ ہوگا.(۵) مخالف جانب صحیح صحیح نوٹ بغرض اشاعت لیتے رہیں گے.(۶) کوئی صاحب کسی جانب سے ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ بول سکیں گے.(۷) انتظامی معاملات میں صدر انجمن کا فیصلہ ناطق مانا جائے گا.(۸) دو صدر انجمن ہوں گے.یعنی ایک ایک ہر طرف سے، جو اس وقت مقرر کئے جائیں گے.(۹) جائے مباحثہ کا تقرر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کے اختیار میں ہوگا.(۱۰) وقت مباحثہ ۶ بجے صبح سے ۱۱ بجے صبح تک ہوگا.(۱۱) کل وقت مباحثہ دو زمانوں پر تقسیم ہوگا.چھ دن یعنی روز پیر مئی ۲۲ سے ۲۷ مئی تک ہوگا.اس وقت میں مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنا یہ دعویٰ پیش کریں کہ ہر ایک مذہب کی صداقت زندہ نشانات سے ثابت کرنی چاہیے جیسے کہ انہوں نے اپنی چٹھی ۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء موسومہ ڈاکٹر کلارک صاحب میں ظاہر کیا ہے.(۱۲) پھر دوسرا سوال اُٹھایا جائے گا.پہلے مسئلہ الوہیت مسیح پراور پھر مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ کوئی اور سوال جو چاہیں پیش کریں مگر چھ دن کے اندر اندر.

Page 191

(۱۳) دوسرا زمانہ بھی چھ دن کاہوگا یعنی مئی ۲۹ سے جون ۳ تک (اگر اس قدر ضرورت ہوئی) اس زمانہ میں مسٹر عبداللہ آتھم خان صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنے سوالات بہ تفصیل ذیل پیش کریں.(الف) رحم بلا مبادلہ (ب) جبر اور قدر (ج) ایمان بالجبر (د) قرآن کے خدائی کلام ہونے کا ثبوت (س) اس بات کا ثبوت کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) رسول اللہ ہیں.وہ اور سوال بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ چھ دن سے زیادہ نہ ہو جائے.(۱۴) ٹکٹ ۱۵ مئی تک جاری ہو جانے چاہئیں.وہ ٹکٹ مفصلہ ذیل نمونہ کے ہوں گے.(۱۵)عیسائیوں اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خان صاحب کی طرف سے یہ قواعد واجب الاطاعت اور یہ صحیح تحریر مانی گئی.بطور شہادت میں (جن کے دستخط نیچے درج ہیں) مسٹر عبداللہ آتھم خان صاحب کی طرف سے دستخط کرتا ہوں اور مذکورہ بالا شرائط میں سے کسی شرط کا توڑنا فریق توڑنے والے کی طرف سے ایک اقرار گریز خیال کیا جائے گا.(۱۶) تقریروں پر صاحبانِ صدر اور تقریر کنندگان اپنے اپنے دستخط اُن کی صحت کے ثبوت میں ثبت کریں گے.دستخط ہنری کلارک ایم.ڈی وغیرہ امرتسر.۲۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء (نمونہ ٹکٹ) (نمونہ ٹکٹ) مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ آتھم خان صاحب امرتسری اور مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ آتھم خان مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صاحب امرتسری اور ٹکٹ داخلہ عیسائیوں کیلئے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ٹکٹ داخلہ فریق مسلمانوں کیلئے داخل کرو … … کو داخل کرو… ………کو نمبر نمبر دستخط مرزا صاحب دستخط ڈاکٹر کلارک صاحب امرتسر ۱۸۹۳ء ؍۴؍۲۴

Page 192

مکتوب نمبر۶ رجسٹرڈ خط جو ۲۵؍ اپریل کو پادری صاحب کے ۲۴؍ اپریل کے خط کے جواب میں بھیجا گیا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفق مہربان پادری صاحب سلامت.بعد مَاوَجب.میں نے آپ کی چٹھی کو اوّل سے آخر تک سُنا.میں اُن تمام شرائط کو منظور کرتا ہوں جن پر آپ کے اور میرے دوستوں کے دستخط ہو چکے ہیں لیکن سب سے پہلے یہ بات تصفیہ پا جانی چاہئے کہ اس مباحثہ اور مقابلہ سے علّتِ غائی کیا ہے؟ کیا یہ انہیں معمولی مباحثات کی طرح ایک مباحثہ ہوگا جو سالہائے دراز سے عیسائیوں اور مسلمانوں میں پنجاب اور ہندوستان میں ہو رہے ہیں؟ جن کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمان تو اپنے خیال میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے عیسائیوں کو ہر ایک بات میں شکست دی ہے اور عیسائی اپنے گھر میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ مسلمان لاجواب ہوگئے ہیں.اگر اسی قدر ہے تو یہ بالکل بے فائدہ اور تحصیل حاصل ہے اور بجز اس بات کے اس کا آخری نتیجہ کچھ نظر نہیں آتا کہ چند روز بحث مباحثہ کا شور و غوغا ہو کر پھر ہر یک فضول گو کو اپنی ہی طرف کا غلبہ ثابت کرنے کیلئے باتیں بنانے کا موقعہ ملتا رہے.مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ حق کھل جائے اور ایک دنیا کو سچائی نظر آ جائے.اگر فی الحقیقت حضرت مسیح علیہ السلام خدا ہی ہیں اور وہی ربّ العالمین اور خالق السموات والارض ہے تو بیشک ہم لوگ کافر کیا اَکفر ہیں اور بیشک اس صورت میں دین اسلام حق پر نہیں ہے.لیکن اگر حضرت مسیح علیہ السلام صرف ایک بندہ، خدا تعالیٰ کا نبی اور مخلوقیت کی تمام کمزوریاں اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر یہ عیسائی صاحبوں کا ظلم عظیم اور کفر کبیر ہے کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بنا رہے ہیں اور اس حالت میں قرآن کے کلام اللہ ہونے میںاِس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ دلیل نہیں کہ اُس نے نابود شدہ توحید کو پھر قائم کیا اور جو اصلاح ایک سچی کتاب کو کرنی چاہئے تھی وہ کر دکھائی

Page 193

اور ایسے وقت میں آیا جس وقت میں اس کے آنے کی ضرورت تھی.یوں تو یہ مسئلہ بہت ہی صاف تھا کہ خدا کیا ہے اور اس کی صفات کیسی ہونی چاہئیں مگر چونکہ اب عیسائی صاحبوں کو یہ مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا اور معقولی اور منقولی بحثوں نے اس ملک ہندوستان میں کچھ ایسا ان کو فائدہ نہیں بخشا، اس لئے ضرور ہوا کہ اب طرز بحث بدل لی جائے.سو میری دانست میں اس سے اَنسب طریق اور کوئی نہیں کہ ایک روحانی مقابلہ مباہلہ کے طور پر کیا جائے اور وہ یہ کہ اوّل اسی طرح ہر چھ دن تک مباحثہ ہو، جس مباحثہ کو میرے دوست قبول کر چکے ہیں اور پھر ساتویں دن مباہلہ ہو اور فریقین مباہلہ میں یہ دعا کریں.مثلاً فریق عیسائی یہ کہے کہ وہ عیسیٰ مسیح ناصری جس پر میں ایمان لاتا ہوں، وہی خدا ہے اور قرآن انسان کا افترا ہے، خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل ہو جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے اور ایسا ہی یہ عاجز دعا کرے گا کہ اے کامل اور بزرگ خدا! میں جانتا ہوں کہ درحقیقت عیسیٰ مسیح ناصری تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے.خدا ہرگز نہیں اور قرآن کریم تیری پاک کتاب اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرا پیارا اور برگزیدہ رسول ہے، اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل کر جس سے میری رُسوائی ظاہرہو جائے اور اے خدا! میری رسوائی کیلئے یہ بات کافی ہوگی کہ ایک برس کے اندر تیری طرف سے میری تائید میں کوئی ایسا نشان ظاہر نہ ہو جس کے مقابلہ سے تمام مخالف عاجز رہیں.اور واجب ہوگا کہ فریقین کے دستخط سے یہ تحریر چند اخبارات میں شائع ہو جائے کہ جو شخص ایک سال کے اندر مورد غضب الٰہی ثابت ہو جائے اور یا یہ کہ ایک فریق کی تائید میں کچھ ایسے نشان آسمانی ظاہر ہوں کہ دوسرے فریق کی تائید میں ظاہر و ثابت نہ ہو سکیں تو ایسی صورت میں فریق مغلوب یا توفریق غالب کا مذہب اختیار کرے اور یا اپنی کل جائیداد کا نصف حصہ اس مذہب کی تائید کیلئے فریق غالب کو دے دے جس کی سچائی ثابت ہو.٭ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٭ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۶۹ ،۷۰)

Page 194

مکتوب نمبر۷ (پادری جوالا سنگھ کے نام) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفقی پادری جوالا سنگھ صاحب بعد ما وجب! چند روز ہوئے کہ آپ کا ایک طول طویل خط پہنچا مگر میں بباعث اپنے ضروری کاموں کے جواب نہ لکھ سکا.مجھے افسوس ہے کہ آپ نے کس قدر جلدی اپنے پہلے خط کے مضمون کے مخالف یہ خط لکھ دیا.آپ کا خط موجود ہے جس میں آپ نے دعوٰی کیا تھا کہ جو نشان چاہو، میں دکھلا سکتا ہوں اور خداوند مسیح میری آواز سنتا ہے.اسی بنا پر میں نے جواب لکھا تھاکہ مجھے ضرور نہیں کہ میں اپنی طرف سے درخواست کروں کہ ایسا نشان دکھلاؤ بلکہ واجب ہے کہ ان نشانوں کے موافق دکھلاؤ جو خود آپ کے خداوند نے آپ کی ایمان داری کی نشانیاں قرار دی ہیں.اور اگر ایسا نشان دکھلا نہ سکو تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی.یا تو یہ کہ آپ ایمان دار نہیں اور یا یہ کہ جس نے ایسی نشانیاں قرار دی ہیں وہ کذّاب اور دروغ گو ہے جو جھوٹے وعدوں کی بنا پر اپنے مذہب کو چلانا چاہتا ہے.اب میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے میرے اس سوال کا کیا جواب دیا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آپ نے اپنے خط میں ایسا ہی لکھا ہے کہ میں جو نشان چاہو دکھلا سکتا ہوں اور خداوند مسیح میری آواز سنتا ہے.اور اگر یہ سچ ہے تو اب آپ کو اس خداوند مسیح کی نسبت اتنی جلدی کیوں شک پڑ گیا اور آپ کا اپنے دوسرے خط میں یہ جواب لکھنا کہ پہلے آپ نشان دکھلاؤ.پھر اس قسم کا نشان مَیں دکھلاؤں گا.یہ صریح وعدہ شکنی ہے.دعوٰی کر کے پھر اس دعوٰی سے منہ پھیر لینا، کیا یہ حق کے طالبوں کی نشانی ہے؟ جو شخص کسی نشان دکھلانے کیلئے توفیق دیا گیا ہے وہ پہلے بھی دکھلا سکتا ہے اور بعد بھی.اچھا ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ نشان دیکھنے کے بعد ہی نشان دکھلا دیں لیکن آپ صاف طور پر

Page 195

اپنا اقرار تحریری لکھ بھیجیں کہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد یا تو میں اس کے مقابل یہ نشان دکھلاؤں گا اور یا بلاتوقف مسلمان ہو جاؤں گا اور اگر ایسا نہ کروں تو خدا تعالیٰ کی لعنت میرے پر ہو.پھر اس تحریر کے بعد ہم آپ کی پہلی تحریر کا آپ سے مؤاخذہ کریں گے.اور یہ آپ کا لکھنا کہ ہم کسی کوٹھڑی میں بیٹھ جائیں اور اس میں نشان دکھلاویں گے، یہ قرآن کریم کی تعلیم نہیں اور انجیل میں بھی پائی نہیں جاتی.شاید کوٹھڑیوں کا پُرانا خیال ہندوؤں کی تعلیم سے آپ کے دل میں باقی رہا ہو.ہم لوگ اپنے ربّ کریم کی تعلیم سے قدم باہر نہیں رکھ سکتے.ہمیں یہ حکم ہے کہ میدانوں میں آؤ اور میدانوںمیں اپنے دشمنوں کو ملزم کرو.سو ہم اپنے روشن چراغ کو کسی کوٹھڑی کے اندر چھپا نہیں سکتے بلکہ میدان کی اس اونچی جگہ پر رکھیں گے جس سے دور دور تک روشنی جائے.اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ ان خطوط کی دوسرے کو خبر نہ ہو.میں نہیں سمجھتا کہ یہ قول کس تعلیم کی بنا پر ہے؟ ہم کسی کام میں مخلوق سے نہیں ڈرتے.اگر یہ ثابت ہو کہ درحقیقت ابن مریم خدا ہے تو سب سے پہلے ہم اس پر ایمان لاویں اور کسی بے عزتی اور مرنے سے نہ ڈریں.لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ عاجز انسان ہے اور ہم میں سے ایک ہے جو کسی کی آواز نہیں سن سکتا.اور پھر آپ اگر طالب حق ہیں تو اس بحث کو کیوں چھپاتے ہیں.کیا یہ اندیشہ ہے کہ اگر پادریوں کو خبر ہوگئی تو آپ نوکری سے برخاست کئے جائیں گے یا کوئی وظیفہ بند کیا جائے گا؟ چھپ چھپ کر بحث کرنا ایمان داروں کا کام نہیں.اور پھر آپ کا یہ فرمانا کہ قرآن مسیح کے معجزات کا مصدق ہے، کس قدر آپ کی بے خبری ثابت کرتا ہے.قرآن تو یہ کہتا ہے کہ مسیح ایک عاجز بندہ تھا، کبھی اُس نے خدائی کا دعوٰی نہ کیا اور اگر خدائی کا دعوٰی کرتا تو میں اُسے جہنم میں ڈالتا اور پھر قرآن کہتا ہے کہ مسیح کو جو کچھ بزرگی ملی وہ بوجہ تابعداری حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملی کیونکہ مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی خبر دی گئی اور مسیح آنجناب پر ایمان لایا اور بوجہ اس ایمان کے مسیح نے نجات پائی.پس قرآن کے رو سے مسیح کے مُنجّی پاک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور پھر قرآن نے ایسے مسیح کی تصدیق کہاں کی جو اپنے تئیں خدا ٹھہراتا ہے؟ بلکہ اس مسیح کی تصدیق کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور ایک عاجز بندہ کہوایا (کہ) یہ سچ ہے کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم سے ،جو خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا ہے، بعض معجزات بھی صادر ہوئے ہیں.مگر کیا

Page 196

اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ مسیح کی وہی تعلیم تھی جس پر آپ لوگ اصرار کر رہے ہیں اور کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ جس ایمان کی طرف مسیح نے آپ کو بلایا تھا وہ ایمان آپ کو حاصل ہے؟ اے عزیز! ہر گز ثابت نہیں ہوگا.ہرگز ثابت نہیں ہوگا.جب تک مسیح کے قول کے موافق آپ میں ایمانداروںکی نشانیاں پائی نہ جائیں.اور اگر آپ قرآن کریم کی اس تصدیق سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں کہ اس نے مسیح کو صاحب معجزہ قرار دیا ہے اور اس کی تصدیق سے مسلمانوں پر اپنی حجت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اوّل لازم ہے کہ مسیح کی شرط کے موافق اپنے تئیں ایمان دار ثابت کریں.مسیح تو ایک طور پر آپ لوگوں کو بے ایمان کہہ چکاہے.گویا کہہ چکا ہے کہ ان لوگوں سے دور رہو، کہ یہ مجھ میں سے نہیں ہیں.تو اس صورت میں آپ کو مسیح سے تعلق کیا اور مسیح کو آپ سے کیا.اور آپ کو مسلمانوں سے بحث کرنے کا حق نہیں پہنچتا جب تک کہ انجیل کے رو سے اپنے تئیں سچا مسیحی ثابت نہ کریں.مجھے یاد ہے تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ پادری ڈاکٹر وائٹ بریخٹ صاحب جو مشن بٹالہ میں متعین ہیں ملاقات کیلئے معہ ایک دیسی عیسائی کے میرے مکان پر آئے.تو میں نے کہا کہ پادری صاحب! سچ کہیں کہ اس وقت کے عیسائی انجیل کی علامات کی رو سے سچے عیسائی کہلا سکتے ہیں؟ تو پادری صاحب کے منہ سے صاف یہی نکل گیا کہ نہیں! پادری صاحب بٹالہ میں زندہ موجود ہیں.دریافت کر لیں کہ آیا یہ میرا بیان صحیح ہے یا نہیں؟ پھر اگر قرآن نے مسیح کی تصدیق کی تو آپ لوگوں کو اس تصدیق سے کیا فائدہ؟ جب تک انجیل کی علامات کے رو سے اپنے تئیں ایمان دار ثابت نہ کریں.اور یاد رکھیں کہ یہ ہرگز ممکن نہیں.تمام باتیں آپ کی دروغ اور لاف ہے.انسان کا پرستار آسمان سے مدد نہیں پاسکتا.جواب سے جلدی مسرور فرماویں اور بعض الفاظ اگر تلخ ہوں تو معاف فرماویں کیونکہ راست گوئی کو تلخی لازم پڑی ہوئی ہے.خاکسار غلام احمد ۳۱؍ جون ۱۸۹۳ء از قادیان٭ ٭ الحکم ۳۰ ؍ جون ۱۹۰۱ء صفحہ۳،۴

Page 197

پادری فتح مسیح کے نام تعارف: پادری فتح مسیح فتح گڑھ چوڑیاں کے مشن میں ملازم تھے.پادری وائٹ بریخٹ جو بٹالہ کے انچارج مشنری تھے اس کے بڑے حامی تھے.یہ شخص چونکہ اسلام سے مرتد ہوا تھا.اس لئے نہایت سخت زبان ہو گیا تھا.اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ارتداد انسان کے ارتداد کو پست کر دیتا ہے اور یہ ایک قسم کی لعنت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں ایک مرتبہ اس نے لفافہ میں بند مضمون کے بتانے کا اعلان کیا.لیکن جب حضورؑ نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تو بٹالہ کے مقام پر اسے دُم دبا کر بھاگنا پڑا.اور بٹالہ کے مشنری نے بھی اس کی اس قسم کی لاف و گزاف کو پسند نہ کیا.ان امور کی تفصیلات انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانحِ حیات (حیات احمد) میں آ رہی ہیں.پھر یہ وہی پادری فتح مسیح ہے جس کے ایک خط کے جواب میں حضور نے رسالہ نورالقرآن شائع کیا تھا.یہ مکتوب جو میں آج شائع کر رہا ہوں اسی پادری فتح مسیح کے نام ہے.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک انعامی اشتہار ایک ہزار روپیہ کے سلسلہ میں فتح مسیح نے اس مقابلہ میں آنے کے لئے حضرت کو لکھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مکتوب کے بعد اس پر گویا موت طاری ہوگئی اور مقابلہ کی ہمت نہ پڑی.اور اس طرح پر وہ دعویٰ پھر ایک بار صحیح ثابت ہوا.چہ ہیبت ہا بدادند ایں جواں را کہ ناید کس بہ میدانِ محمدؐ اس قدر بیان سے قارئین کرام کو فتح مسیح کی حقیقت معلوم ہو جائے گی.اور مکتوب حضرت جن حقائق پر مشتمل ہے ان کا لطف دوبالا ہو جائے گا.(عرفانی)

Page 198

Page 199

.عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے.لیکن یاد رہے کہ درحقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اوّل نمبر پر ہیں.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کاایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہاگالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آ کر دیکھ لیوے اور یاد رہے کہ آیندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کر رہے ہیں کہ کس طرح سبّ و شتم سے باز ہی نہیں آتے ہم سنتے سنتے تھک گئے اگر کوئی کسی کے باپ کو گالی دے تو کیا اس مظلوم کا حق نہیں ہے کہ اس کے باپ کو بھی گالی دے اور ہم نے تو جو کچھ کہا واقعی کہا.وانما الاعمال بالنیات.۱؎ خاکسار ۲۰؍ دسمبر ۱۸۹۵ء غلام احمد٭

Page 200

Page 201

کی بڑی مہربانی ہوئی کہ آپ ہی محرک ہوگئے.امید ہے کہ دوسرے پادری صاحبان آپ پر بہت ہی خوش ہوں گے.اور کچھ تعجب نہیں کہ ہمارا رسالہ نکلنے کے بعد آپ کی کچھ ترقی بھی ہو جاوے.پادری صاحب! ہمیں آپ کی حالت پر رونا آتا ہے کہ آپ زبان عربی سے تو بے نصیب تھے ہی مگر وہ علوم جو دینیات سے کچھ تعلق رکھتے ہیں جیسے طبعی اور طبابت ،ان سے بھی آپ بے بہرہ ہی ثابت ہوئے.آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے.اوّل تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواتر سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے.صرف ایک راوی سے منقول ہے.عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کی کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے.جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے.پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نو برس ہی تھے لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا.مگر احمق کا کوئی علاج نہیں.ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھاویں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نوبرس تک بھی لڑکیاں بالغ ہو سکتی ہیں.بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہو سکتی ہے.اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھ آٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے.مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اوّل درجہ کے احمق بھی ہیں.آپ کو اب تک اتنی خبر بھی نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق انکی رسم اور سوسائٹی کی عام وضع کی بنا پر تیار ہوتے ہیں.اُن میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی.اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں.یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گزار ہیں اور اس کے خیرخواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے.مگر تا ہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں.بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے.گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے.اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے.انگلستان میں

Page 202

لڑکیوں کی بلوغ کا زمانہ اٹھارہ برس قرار دیا گیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں.آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحی من السماء سمجھتے ہیں کہ اُن میں امکان غلطی نہیں.تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کاتھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے.غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں.اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں.پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو اُن کا ذکر کرنا یا توحمق کی وجہ سے ہے یا تعصّب کے سبب سے.مگر آپ معذور ہیں.اگر گورنمنٹ کو اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور نو برس کی عمر کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے صرف گورنمنٹ کے قانون کا ذکر کیا.اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا.ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہئے تھی.پادری صاحب یہی تو دجل ہے کہ الہامی کتب کے مسائل میں آپ نے گورنمنٹ کے قانون کو پیش کر دیا.اگر آپ کے نزدیک گورنمنٹ کے قانون کی تمام باتیں خطا سے خالی ہیں اور الہامی کتابوں کی طرح، بلکہ ان سے افضل ہیں.تو میں آپ سے پوچھتا ہوںکہ جن نبیوں نے خلاف قانون انگریزی کئی لاکھ شیر خوار بچے قتل کئے اگر وہ اس وقت ہوتے تو گورنمنٹ اُن سے کیا معاملہ کرتی.اگر وہ لوگ گورنمنٹ کے سامنے چالان ہو کر آتے جنہوں نے بیگانے کھیتوں کے خوشے توڑ کر کھا لئے تھے تو گورنمنٹ ان کو اور ان کے اجازت دینے والے کو کیا کیا سزا دیتی؟ پھر میں پوچھتا ہوں کہ وہ شخص جو انجیر کا پھل کھانے دوڑا تھا اور انجیل سے ثابت ہے کہ وہ انجیر کا درخت اس کی ملکیت نہ تھا بلکہ غیر کی مِلک تھا، اگر وہ شخص گورنمنٹ کے سامنے یہ حرکت کرتا تو گورنمنٹ اس کو کیا سزا دیتی؟انجیل سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے سؤر جوبیگانہ مال تھے اور جن کی تعداد بقول پادری کلارک دو ہزار تھی.مسیح نے تلف کئے.اب آپ ہی بتلائیں کہ تعزیرات کی رو سے اس کی سزا کیا ہے؟ بالفعل اسی قدر لکھنا کافی ہے جواب ضرور لکھیں تا اور بہت سے سوال کئے جائیں.

Page 203

پادری صاحب! آپ کا یہ خیال کہ نو برس کی لڑکی سے جماع کرنا زنا کے حکم میں ہے، سراسر غلط ہے.آپ کی ایمانداری یہ تھی کہ آپ انجیل سے اس کو ثابت کرتے.انجیل نے آپ کو دھکے دیئے اور وہاں ہاتھ نہ پڑا تو گورنمنٹ کے پیروں میں آ پڑے یا درکھیں کہ یہ گالیاں محض شیطانی تعصب سے ہیں.جناب مقدس نبوی کی نسبت فسق و فجور کی تہمت لگانا، یہ افترا شیطانوں کا کام ہے.ان دو مقدس نبیوں پر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام پر بعض بدذات اور خبیث لوگوں نے سخت افترا کئے ہیں.چنانچہ ان پلیدوں نے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ پہلے نبی کو زانی قرار دیا جیسا کہ آپ نے اور دوسرے کو ولد زنا کہا جیسا کہ پلید طبع یہودیوں نے.آپ کو چاہیے کہ ایسے اعتراضوں سے پرہیز کریں.اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کیلئے مستعد ہوگئے تھے، سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا.پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب میری حالت قابلِ رغبت نہیں رہی، ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بباعث طبعی کراہت کے جو نشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے.اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میرا حشر ہو چنانچہ نیل الاوطار کے صفحہ ۱۴۰ میں یہ حدیث ہے.ولقد قالت سودۃبنت زمعۃ حین أسنّت وخافت أن یفار قھا رسولُ اللّٰہﷺ: یارسولَ اللّٰہ وھبت یومی لعائشۃ فقبّل ذلک منھا ورواہ أیضاً ابن سعد و سعید بن منصور والترمذی وعبدالرزاق قال الحافظ فی الفتح فتواردت ھٰذہ الروایات علی انھا خشیت الطلاق فوھبت.٭ ٭ نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار.جلد۶ صفحہ۲۴۶

Page 204

یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شاید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جاؤں گی تو اُس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی.آپ نے اس کی یہ درخواست قبول فرمالی.ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبدالرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہوا تھا.اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کرکے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے تَوارُد اور تظاہر کو نظر انداز کرکے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پا کر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے.کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں.اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہو سکے تو ایسی حالت میں اگر اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کارروائی کرے تو عندالعقل کچھ جائے اعتراض نہیں.پادری صاحب! آپ کا یہ سوال کہ اگر آج ایسا شخص (جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے) گورنمنٹ انگریزی کے زمانہ میں ہوتا تو گورنمنٹ اس سے کیا کرتی؟آپ کو واضح ہو کہ اگر وہ سیّد الکونین اس گورنمنٹ کے زمانہ میں ہوتے تو یہ سعادت مند گورنمنٹ اُن کی کفش برداری اپنا فخر سمجھتی جیسا کہ قیصر روم صرف تصویر دیکھ کر اُٹھ کھڑاہوا تھا.آپ کی یہ نالیاقتی اور ناسعادتی ہے کہ اس گورنمنٹ پر ایسی بدظنی رکھتے ہیں کہ گویا وہ خدا کے مقدسوں کی دشمن ہے یہ گورنمنٹ اس زمانہ میں ادنیٰ ادنیٰ امیر مسلمانوں کی عزت کرتی ہے.دیکھو نصراللہ خان جو اُس جناب کے غلاموں جیسا بھی درجہ نہیں رکھتا.ہماری قیصر ہند دام اقبالہا نے کیسی اُس کی عزت کی ہے.پھر وہ عالی جناب مقدس ذات جو اس دنیا میں بھی وہ مرتبہ رکھتا تھا کہ بادشاہ اس کے قدموں پر گرتے تھے.اگر وہ اس وقت میں ہوتا تو بے شک یہ گورنمنٹ اس کی جناب سے خادمانہ اور متواضعانہ طور پر پیش آتی.الٰہی گورنمنٹ کے آگے انسانی گورنمنٹوں کو بجز عجز و نیاز کے کچھ بن نہیں پڑتا.کیا آپ کو خبر نہیں کہ

Page 205

قیصر روم جو آنجناب کے وقت میں عیسائی بادشاہ اور اس گورنمنٹ سے اقبال میں کچھ کم نہ تھا.وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے یہ سعادت حاصل ہوسکتی کہ میں اس عظیم الشان نبی کی صحبت میں رہ سکتا تو میں آپ کے پاؤں دھویا کرتا.سوجو قیصر روم نے کہا یقینا یہ سعادت مند گورنمنٹ بھی وہی بات کہتی بلکہ اس سے بڑھ کر کہتی.اگر حضرت مسیح کی نسبت اس وقت کے کسی چھوٹے سے جاگیر دار نے بھی یہ کلمہ کہا ہو جو قیصر روم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا جو آج تک نہایت صحیح تاریخ اور احادیث صحیحہ میں لکھا ہوا موجود ہے تو ہم آپ کو ابھی ہزار روپیہ نقد بطور انعام دیں گے.اگر آپ ثابت کر سکیں.اور اگر آپ اس کا ثبوت نہ دے سکیں تو اس ذلیل زندگی سے آپ کے لئے مرنا بہتر ہے کیونکہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قیصر روم اس گورنمنٹ عالیہ کا ہم مرتبہ تھا بلکہ تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس کی طاقت کے برابر اور کوئی طاقت دنیا میں موجود نہ تھی.ہماری گورنمنٹ تو اس درجہ تک نہیں پہنچی.پھر جب کہ قیصر باوجود اس شہنشاہی کے آہ کھینچ کر یہ بات کہتا ہے کہ اگر میں اس عالی جناب کی خدمت میں پہنچ سکتا تو آنجناب مقدس کے پاؤں دھویا کرتا تو کیا یہ گورنمنٹ اُس سے کم حصہ لیتی؟ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ضرور یہ گورنمنٹ بھی ایسے شہنشاہ کے پاؤں میں گرنا اپنا فخر سمجھتی کیونکہ یہ گورنمنٹ اس آسمانی بادشاہ سے منکر نہیں جس کی طاقتوں کے آگے انسان ایک مرے ہوئے کیڑے کے برابر نہیں اور ہم نے ایک معتبر ذریعے سے سنا ہے کہ ہماری قیصرہ ہند ادام اللہ اقبالہا درحقیقت اسلام سے محبت رکھتی ہے اور اس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم ہے.چنانچہ ایک ذی علم مسلمان سے وہ اُردو بھی پڑھتی ہے.اُن کی ایسی تعریفوں کو سن کر میں نے اسلام کی طرف ایک خاص دعوت سے حضرت ملکہ معظمہ کو مخاطب کیا تھا.پس یہ نہایت غلطی ہے کہ آپ لوگ اس مراتب شناس گورنمنٹ کو بھی ایک سفلہ اور کمینہ پادری کی طرح خیال کرتے ہیں.جن کو خدا ملک اور دولت دیتا ہے اُن کوزیر کی اور عقل بھی دیتا ہے.ہاں اگر یہ سوال پیش ہو کہ اگر کوئی ایسا شخص اس گورنمنٹ کے ملک میں یہ غوغا مچاتا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں تو گورنمنٹ اس کا تدارک کیا کرتی؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ مہربان گورنمنٹ اُس کو کسی ڈاکٹر کے سپرد کرتی تا اس کے دماغ کی اصلاح ہو یا اس بڑے گھر میں محفوظ رکھتی جس میں بمقام لاہور اس قسم کے بہت لوگ جمع ہیں.

Page 206

جب ہم حضرت مسیح اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات میں بھی مقابلہ کرتے ہیں کہ موجودہ گورنمنٹوںنے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور کس قدر اُن کے ربّانی رعب یا الٰہی تائید نے اثر دکھایا تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح میں بمقابلہ جناب مقدس نبوی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے خدائی تو کیا نبوت کی شان بھی پائی نہیں جاتی.جناب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جب بادشاہوں کے نام فرمان جاری ہوئے تو قیصر روم نے آہ کھینچ کر کہا کہ میں تو عیسائیوں کے پنجہ میں مبتلا ہوں.کاش اگر مجھے اس جگہ سے نکلنے کی گنجائش ہوتی تو میں اپنا فخر سمجھتا کہ خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور غلاموں کی طرح جناب مقدس کے پاؤں دھویا کروں.مگر ایک خبیث اور پلید دل بادشاہ کسریٰ ایران کے فرمانروا نے غصہ میں آ کر آپؐ کے پکڑنے کیلئے سپاہی بھیج دیئے.وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا کہ ہمیں گرفتاری کاحکم ہے.آپؐ نے اس بیہودہ بات سے اعراض کر کے فرمایا تم اسلام قبول کرو.اس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربّانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے.آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے تو ہم جواب ہی لے جائیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا.صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب نے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند، خداوند کہتے ہو وہ خداوند نہیں ہے، خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا.میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلّط کر دیا.سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے.یہ بڑا معجزہ تھا.اس کو دیکھ کر اس ملک کے ہزار ہا لوگ ایمان لائے.کیونکہ اُسی رات درحقیقت خسروپرویز یعنی کسریٰ مارا گیا تھا.اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بیان انجیلوں کی بے سروپا اور بے اصل باتوں کی طرح نہیں بلکہ احادیث صحیحہ اور تاریخی ثبوت اور مخالفوں کے اقرار سے ثابت ہے.چنانچہ ڈیونپورٹ۱؎ صاحب نے بھی اس قصہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے لیکن اس وقت کے بادشاہوں کے سامنے حضرت مسیح کی جو عزت تھی وہ آپ پر پوشیدہ نہیں.وہ اوراق شاید اب تک انجیل میں موجود ہوں گے جن میں لکھا ہے کہ ہیرودیس نے حضرت مسیح کو مجرموں کی طرح پلاطوس کی ۱؎ JOHN DEVENPORT

Page 207

طرف چالان کیا اور وہ ایک مدت تک شاہی حوالات میں رہے.کچھ بھی خدائی پیش نہیں گئی اور کسی بادشاہ نے یہ نہ کہا کہ میرا فخر ہوگا اگر میں اس کی خدمت میں رہوں اور اس کے پاؤں دھویا کروں.بلکہ پلاطوس نے یہودیوں کے حوالے کر دیا.کیا یہی خدائی تھی؟ عجیب مقابلہ ہے.دو شخصوں کو ایک ہی قسم کے واقعات پیش آئے اور دونوں نتیجہ میں ایک دوسرے سے بالکل ممتاز ثابت ہوتے ہیں.ایک شخص کے گرفتار کرنے کو ایک متکبر جبار کا شیطان کے وسوسہ سے برانگیختہ ہونا اور خود آخر لعنت الٰہی میں گرفتار ہو کر اپنے بیٹے کے ہاتھ سے بڑی ذلّت کے ساتھ قتل کیا جانا اور ایک دوسرا انسان ہے جسے قطع نظر اپنے اصلی دعوؤں کے غلوکرنے والوں نے آسمان پر چڑھا رکھا ہے.سچ مچ گرفتار ہو جانا،چالان کیا جانا اور عجیب ہئیت کے ساتھ ظالم پولیس کی حوالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل کیا جانا… افسوس یہ عقل کی ترقی کا زمانہ اور ایسے بیہودہ عقائد.شرم! شرم! شرم!!! اگر یہ کہو کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ قیصر روم نے یہ تمنا کی کہ اگر میںجناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں ایک ادنیٰ خادم بن کر پاؤں دھویا کرتا.اس کے جواب میں آپ کے لئے اصح الکتب بعدہ کتاب اللّٰہ صحیح بخاریکی عبارت لکھتا ہوں.ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور وہ یہ ہے:.وَقَدْ کُنْتُ اَعْلَمُ اَنَّہٗ خَارِجٌ لَمْ اَکُنْ اَظُنُّ اَنَّہٗ مِنْکُمْ فَلَوْ اَنِّیْ اَعْلَمُ اَنِّیْ اَخْلُصُ اِلَیْہِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَائَ ہٗ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَہٗ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَیْہِ ۱؎ یعنی یہ تو مجھے معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان آنے والا ہے مگر مجھ کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے ہے (اے اہل عرب) پیدا ہوگا.پس اگر میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں بہت ہی کوشش کرتا کہ اس کا دیدار مجھے نصیب ہو اور اگر میں اس کی خدمت میں ہوتا تو میں اس کے پاؤں دھویا کرتا.اب اگر کچھ غیرت اور شرم ہے تو مسیح کیلئے.یہ تعظیم کسی بادشاہ کی طرف سے جو اس کے زمانہ میں تھا، پیش کرو اور نقد ہزار روپیہ ہم سے لو اور کچھ ضرورت نہیں کہ انجیل ہی سے، بلکہ پیش کرو اگرچہ کوئی نجاست میں پڑا ہوا ورق ہی پیش کر دو.اور اگر کوئی بادشاہ یا امیر نہیں تو کوئی چھوٹا سا نواب ہی پیش ۱؎ بخاری کتاب بدء الوحی

Page 208

کر دو.اور یاد رکھو کہ ہرگز ہرگز پیش نہ کر سکو گے.پس یہ عذاب بھی جہنم کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہ آپ ہی بات کو اُٹھا کر پھر آپ ہی ملزم ہوگئے.شاباش! شاباش! شاباش !خوب پادری ہو.مسیح کا چال چلن کیا تھا.ایک کھاؤ پیو، شرابی، نہ زاہد، نہ عابد، نہ حق کا پرستار، متکبر، خودبین، خدائی کا دعویٰ کرنے والا.مگر اس سے پہلے اور بھی کئی خدائی کا دعویٰ کرنے والے گزر چکے ہیں.ایک مصر میں ہی موجود تھا.دعوؤں کو الگ کر کے کوئی اخلاقی حالت جو فی الحقیقت ثابت ہو ذرا پیش تو کرو تا حقیقت معلوم ہو.کسی کی محض باتیں اس کے اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتیں.آپ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ مرتد جو خود خونی اور اپنے کام سے سزا کے لائق ٹھہر چکے تھے بے رحمی سے قتل کئے گئے مگر آپ کو یاد نہ رہا کہ اسرائیلی نبیوں نے تو شیرخوار بچے بھی قتل کئے، ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں تک نوبت پہنچی.کیا ان کی نبوت سے منکر ہو یا وہ خدا کا حکم نہیں تھا یا موسیٰ کے وقت خدا اور تھا اور جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کوئی اور خدا تھا.اے ظالم پادری! کچھ شرم کر آخر مرنا ہے.مسیح بے چارہ تمہاری جگہ جواب دہ نہیں ہو سکتا.اپنے کاموں سے تمہی پکڑے جاؤ گے، اس سے کوئی پُرسش نہ ہوگی.اے نادان! ُتو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں تجھے نظر نہیں آتا.تیری آنکھیں کیا ہوئیں جو ُتو اپنی آنکھوں کو دیکھ نہیں سکتا.زینب کے نکاح کا قصّہ جوآپ نے زنا کے الزام سے ناحق پیش کردیا.بجز اس کے کیا کہیں کہ.ع بد گہر از خطا خطا نہ کند اے نالائق! متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کرنا زنا نہیں.صرف منہ کی بات سے نہ کوئی بیٹا بن سکتا ہے اور نہ کوئی باپ بن سکتا ہے اور نہ ماں بن سکتی ہے.مثلاً اگر کوئی عیسائی غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو ماں کہہ دے تو کیا وہ اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق واقع ہو جائے گی؟ بلکہ وہ بدستور اسی ماں سے مجامعت کرتا رہے گا پس جس شخص نے یہ کہا کہ طلاق بغیر زنا کے نہیں ہو سکتی(ہے).اس نے خود قبول کر لیا کہ صرف اپنے منہ سے کسی کو ماں یا باپ یا بیٹا کہہ دینا کچھ چیز نہیں ورنہ وہ ضرور کہہ دیتا کہ ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے.مگر شاید کہ مسیح کو وہ عقل نہ تھی جو فتح مسیح کو ہے.اب تم پر فرض ہے کہ

Page 209

اس بات کا ثبوت انجیل میں سے دو کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے.یا یہ کہ اپنے مسیح کی تعلیم کو ناقص مان لو یا یہ ثبوت دو کہ بائیبل کی رو سے متبنّٰی فی الحقیقت بیٹا ہو جاتا اور بیٹے کی طرح وارث ہو جاتا ہے اور اگر کچھ ثبوت نہ دے سکو تو بجز اس کے اور کیا کہیں لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.مسیح بھی تم پر لعنت کرتا ہے کیونکہ مسیح نے انجیل میں کسی جگہ نہیں کہا کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ تینوں امرہم شکل ہیں.اگر صرف منہ کے کہنے سے ماں نہیں بن سکتی تو پھر بیٹا بھی نہیں بن سکتا اور نہ باپ بن سکتا ہے.اب اگر کچھ حیا ہو تو مسیح کی گواہی قبول کر لو یا اس کا کچھ جواب دو اور یاد رکھو کہ ہرگز نہیں دے سکو گے.اگرچہ فکر کرتے کرتے مرہی جاؤ.۱؎ کیونکہ تم کاذب ہو اور مسیح تم سے بیزار ہے اور آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودنے کے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں.اوّل آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اے نادان! قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں.ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا.اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے.اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی قضا کے معنی بھی معلوم نہیں.جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا.وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کرسکے.باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں.اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو.اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے.مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار (نمازیں) جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی.اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذراآپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں.چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء.ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اورصرف ۱؎ اس کا جواب نہ ہو سکا اور فتح مسیح مر گیا (عرفانی)

Page 210

یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی.آپ عربی علم سے محض بے نصیب اور سخت جاہل ہیں.ذرا قادیان کی طرف آؤ اور ہمیں ملو تو پھر آپ کے آگے کتابیں رکھی جائیں گی تاجھوٹے مفتری کو کچھ سزا تو ہو.ندامت کی سزا ہی سہی اگرچہ ایسے لوگ شرمندہ بھی نہیں ہوا کرتے.مال مسروقہ کو آپ کے مسیح کے رو برو بزرگ حواریوں کاکھانا یعنی بیگانے کھیتوں کی بالیاں توڑنا.کیایہ درست تھا؟ اگر کسی جنگ میں کفّارکے بلوے اور خطرناک حالت کے وقت نماز عصر تنگ وقت پر پڑھی گئی تو اس میں صرف یہ بات تھی کہ دو عبادتوں کے جمع ہونے کے وقت اس عبادت کو مقدم سمجھا گیا.جس میں کفّار کے خطرناک حملہ کی روک اور اپنے حقوق نفس اور قوم اور ملک کی جائز اور بجا محافظت تھی اور یہ تمام کارروائی اس شخص کی تھی جو شریعت لایا اور یہ بالکل قرآن کریم کے منشاء کے مطابق تھی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے .۱؎ یعنی نبی کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے.نبی کا زمانہ نزول شریعت کا زمانہ ہوتا ہے اور شریعت وہی ٹھہر جاتی ہے جو نبی عمل کرتا ہے.ورنہ جو جو کارروائیاں مسیح نے توریت کے برخلاف کی ہیں.یہاں تک کہ سبت کی بھی پرواہ نہ رکھی اور کھانے پر ہاتھ نہ دھوئے.وہ سب مسیح کو مجرم ٹھہراتے ہیں.ذرا توریت سے ان سب کا ثبوت تو دو.مسیح پطرس کو شیطان کہہ چکا تھا.پھر اپنی بات کیوں بھول گیا اور شیطان کو حواریوں میں کیوں داخل رکھا؟ اور پھر آپ کا اعتراض ہے کہ بہت سی عورتوں اور لونڈیوں کو رکھنا یہ فسق و فجور ہے.اے نادان! حضرت داؤد علیہ السلام نبی کی بیبیاں تجھ کو یاد نہیں، جس کی تعریف کتاب مقدس میں ہے.کیا وہ اخیر عمر تک حرام کاری کرتا رہا.کیا اسی حرامکاری کی یہ پاک ذرّیت ہے جس پر تمہیں بھروسہ ہے.جس خدا نے اوریا کی بیوی کے بارہ میں داؤد پر عتاب کیا کیا؟ وہ داؤد کے اس جرم سے غافل رہا؟ جو مرتے دم تک اس سے سرزد ہوتا رہا بلکہ خدا نے اس کی چھاتی گرم کرنے کو ایک اور لڑکی بھی اُسے دی.اور آپ کے خدا کی شہادت موجود ہے کہ داؤد اوریا کے قصہ کے سوا اپنے کاموں میں راستباز ہے.کیا ۱؎ النجم: ۴،۵

Page 211

کوئی عقلمند قبول کر سکتا ہے کہ اگر کثرت ازدواج خدا کی نظر میں بُری تھی تو خدا اسرائیلی نبیوں کو جو کثرتِ ازدواج میں سب سے بڑھ کر نمونہ ہیں، ایک مرتبہ بھی اس فعل پر سرزنش نہ کرتا.پس یہ سخت بے ایمانی ہے کہ جو بات خدا کے پہلے نبیوں میں موجود ہے اور خدا نے اُسے قابل اعتراض نہیں ٹھہرایا.اب شرارت اور خباثت سے جناب مقدس نبوی کی نسبت قابل اعتراض ٹھہرائی جاوے.افسوس یہ لوگ ایسے بے شرم ہیں کہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ایک سے اوپر بیوی کرنا زنا کاری ہے تو حضرت مسیح جو داؤد کی اولاد کہلاتے ہیں اُن کی پاک ولادت کی نسبت سخت شُبہ پیدا ہوگا اور کون ثابت کر سکے گا کہ اِن کی بڑی نانی حضرت داؤد کی پہلی ہی بیوی تھی.پھر آپ حضرت عائشہ صدیقہؓ کانام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا.اب اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں.اے نادان! جو حلال اور جائز نکاح ہیں ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں.یہ اعتراض کیسا ہے.کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولّیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے.ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.جیسے بہرہ اور گونگاہونا کسی خوبی میں داخل نہیں.ہاں! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حُسنِ معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے.اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اُٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخر ناگفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی.اے نادان! فطرت انسانی اوراس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حُسنِ معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے.اسلام کے بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اُسے برتا اور اپنی جماعت کو نمونہ دیا.مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی.مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے.اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا، ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میں ّکتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آ کر آہ و فغاں کرنا اور برسوں

Page 212

دَیُّوثیوں اور سیاہ روئیوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودۂ طلاق پاس کرانا، یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ کیا اس مقدس مطہر، مزکی، نبی اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں، یہ نتیجہ ہے اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفّن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص، نالائق کتاب، پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے؟اب دو زانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزاء کی تصویر کھینچ کر غور کرو.ہاں! مسیح کی دادیوں اور نانیوں کی نسبت جو اعتراض ہے، اس کا جواب بھی کبھی آپ نے سوچا ہوگا.ہم تو سوچ کر تھک گئے.اب تک کوئی عمدہ جواب خیال میں نہیں آیا.کیا ہی خوب خدا ہے جس کی دادیاں اور نانیاں اس کمال کی ہیں.آپ یاد رکھیں کہ ہم بقول آپ کے مرد میدان بن کر ہی رسالہ لکھیں گے! اور آپ کو دکھائیں گے کہ وساوس کی بیخ کنی اسے کہتے ہیں.اس جاہل گمراہ کو شکست دینا کونسی بڑی بات ہے جو انسان کو خدا بناتا ہے.مگر آپ از راہِ مہربانی ان چند باتوں کا جو میں نے دریافت کی ہیں، ضرور جواب لکھیں اور ان الفاظ سے ناراض نہ ہوں جو لکھے گئے ہیں کیونکہ الفاظ محل پر چسپاں ہیں اور آپ کی شان کے شایان ہیں.جس حالت میں آپ نے باوجود بے علمی اور جہالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سیّد المطّہرین ہیں، زنا کی تہمت لگائی جو اس پلید اور جھوٹ افتراء کا یہی جواب تھا جو آپ کو دیا گیا.ہم نے بہتیرا چاہا کہ آپ لوگ بھلے مانس بن جاویں اور گالیاں نہ دیا کریں مگر آپ لوگ نہیں مانتے.آپ ناحق اہل اسلام کا دل دکھاتے ہیں.آپ نہیں جانتے کہ ہمارے نزدیک وہ نادان ہر ایک زنا کار سے بدتر ہے جو انسان کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعویٰ کرے.اگر آپ لوگ مسیح کے خیر خواہ ہوتے تو ہم سے جناب مقدس نبوی کے ذکر میں باَدب پیش آتے.ایک صحیح حدیث میں ہے کہ تم اپنے باپ کو گالی مت دو.لوگوں نے عرض کی کہ کوئی باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! جب تُو کسی کے باپ کو بھی گالی دے گا تو وہ ضرور تیرے باپ کو بھی گالی دے گا.تب وہ گالی اس نے نہیں دی بلکہ تُو نے دی ہے.اسی طرح آپ لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے بودے جھوٹے خدا کی بھی اچھی طرح بھگت سنواری جائے.اب ہم یہ خط بطور نوٹس کے آپ کو بھیجتے ہیں کہ اگر پھر ایسے ناپاک لفظ آپ نے استعمال کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ناپاک تہمت لگائی تو ہم بھی آپ کے فرضی اورجعلی خدا کی

Page 213

وہ خبر لیں گے جس سے اس کی تمام خدائی ذلّت کی نجاست میں گرے گی.اے نالائق! کیا تو اپنے خط میں سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو زنا کی تہمت لگاتا ہے اور فاسق فاجر قرار دیتا ہے اور ہمارا دل دکھاتا ہے.ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے مگر آئندہ کیلئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آ جاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے اور حضرت مسیح کو بھی گالیاں مت دو.یقینا جو کچھ تم جناب مقدس نبوی کی نسبت بُرا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا.مگر ہم اس سچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں.جس نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا.فقط٭

Page 214

خمکتوب نمبر۱۰ بقیہ اعتراضات پادری فتح مسیح صاحب جس کو اُنہوں نے دوسرے خط میں ظاہر کیا ایک یہ اعتراض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے اور اپنے دین کو چھپا لینے کے واسطے قرآن میں صاف حکم دے دیا ہے مگر انجیل نے ایمان کو پوشیدہ رکھنے کی اجازت نہیں دی اما الجواب.پس واضح ہو کہ جس قدر راستی کے التزام کیلئے قرآن شریف میں تاکید ہے.میں ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عشر عشیر بھی تاکید ہو.بیس برس کے قریب عرصہ ہو گیا کہ میں نے اسی بارہ میں ایک اشتہار دیا تھا اور قرآنی آیات لکھ کر اور عیسائیوں وغیرہ کو ایک رقم کثیر بطور انعام دینا کر کے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ جسے ان آیات میں راست گوئی کی تاکید ہے.اگر کوئی عیسائی اس زور و شور کی تاکید انجیل میں سے نکال کر دکھلاوے تو اس قدر انعام اس کو دیا جائے گا.مگر پادری صاحبان اب تک ایسے چپ رہے کہ گویا ان میں جان نہیں.اب مدت کے بعد فتح مسیح صاحب کفن میں سے بولے شاید بوجہ امتداد زمانہ ہمارا وہ اشتہار ان کو یاد نہیں رہا.پادری صاحب آپ خس و خاشاک کو سونا بنانا چاہتے ہیں.اور سونے کی کان سے منہ مروڑ کر اِدھر اُدھر بھاگتے ہیں.اگر یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے.قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بُت پرستی کے برابر ٹھیرایا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۱؎ یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے.۲؎ یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ۱؎ الحج: ۳۱ ۲؎ النساء: ۱۳۶

Page 215

ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ اور تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اُٹھاویں.اب اے ناخدا ترس ذرا انجیل کو کھول اور ہمیں بتلا کہ راست گوئی کے لئے ایسی تاکید انجیل میں کہاں ہے.اور اگر ایسی تاکید ہوتی تو پطرس اوّل درجہ کا حواری کیوں جھوٹ بولتا اور کیوں جھوٹی قَسم کھا کر اور حضرت مسیح پر لعنت بھیج کر صاف منکر ہو جاتا کہ میں اس کو نہیں جانتا.آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم محض راست گوئی کی وجہ سے شہید ہوتے رہے اور الٰہی گواہی کو انہوں نے ہرگز مخفی نہ رکھا گو ان کے خون سے زمین سرخ ہوگئی مگر انجیل سے ثابت ہے کہ خودآپ کے یسوع صاحب ہی اس شہادت٭ کو مخفی رکھتے ہیں.جس کا ظاہر کرنا ان پر واجب تھا اور وہ ایمان بھی دکھلا نہ سکے.جو مکہ میں مصائب کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے دکھلایا تھا.امید کہ آپ اس سے منکر نہیں ہوں گے اور اگر خیانت کے طور پر منکر بھی ہوگئے تو وہ تمام مقام ہم دکھلا دیں گے.بالفعل صرف نمونہ کے طور پر ثبوت میں لکھا گیا.اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے.مگر یہ آپ کو اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی لگی ہے اور اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں.بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ اِنْ قُتِلْتَ وَاُحْرِقْتَ یعنی سچ کو مت چھوڑ اگرچہ تو قتل کیا جائے اور جلایا جائے.پھر جس حالت میں قرآنکہتا ہے کہ تم انصاف اور سچ مت چھوڑو.اگرچہ تمہاری جانیں بھی اس سے ضائع ہوں اور حدیث کہتی ہے کہ اگرچہ تم جلائے جائو اور قتل کئے جائو.مگر سچ ہی بولو.تو پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہوگی.کیونکہ ہم لوگ اسی حدیث کو قبول کرتے ہیں.جو احادیثِ صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو.ہاں بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.اور اسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے.کیونکہ وہ اس قطعی فیصلہ سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے.مگر توریہ جو درحقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہی اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا ٭ دیکھو متی ۱۶ باب آیت ۲۰

Page 216

جواز حدیث سے پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں.جو توریہ سے بھی پرہیز کریں.اور توریہ اسلامی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے ایک بات کو چھپانے کیلئے یا کسی اور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقلمند تو اس بات کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے اور اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے جو متکلم کا مقصود نہیں.اور غور کرنے کے بعد معلوم ہوکہ جو کچھ متکلم نے کہا ہے.وہ جھوٹ نہیں بلکہ حق محض ہے.اور کچھ بھی کذب کی اس میں آمیزش نہ ہو.اور نہ دل نے ایک ذرہ بھی کذب کی طرف میل کیا ہو.جیسا کہ بعض احادیث میں دو مسلمانوں میں صلح کرانے کیلئے یا اپنی بیوی کو کسی فتنہ اور خانگی ناراضگی اور جھگڑے سے بچانے کیلئے یا جنگ میں اپنے مصالح دشمن سے مخفی رکھنے کی غرض سے اور دشمن کو اور طرف جھکا دینے کی نیت سے توریہ کا جواز پایا جاتا ہے.مگر باوصف اس کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے برخلاف ہے.اور بہرحال کھلی کھلی سچائی بہتر ہے.اگرچہ اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے.مگر افسوس کہ یہ توریہ آپ کے یسوع صاحب کے کلام میں بہت ہی پایا جاتا ہے.تمام انجیلیں اس سے بھری پڑی ہیں.اس لئے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ اگر توریہ کذب ہے تو یسوع سے زیادہ دنیا میں کوئی بھی کذّاب نہیں گذرا.یسوع صاحب کا یہ قول کہ میں خدا کی ہیکل کو ڈھا سکتا ہوں.اور میں تین دن میں اسے بنا سکتا ہوں.یہی وہ قول ہے جس کو توریہ کہتے ہیں.اور ایسا ہی وہ قول کہ ایک گھر کا مالک تھا.جس نے انگورستان لگایا.یہ سب توریہ کی قسمیں ہیں اور یسوع صاحب کے کلام میں اس کے بہت سے نمونے ہیں.کیونکہ وہ ہمیشہ چبا چبا کر باتیں کرتا تھا.اور اس کی باتوں میں دورنگی پائی جاتی تھی.اور ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس توریہ کو آپ کا یسوع شیر مادر کی طرح تمام عمر استعمال کرتا رہا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو.مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ آپ کے یسوع صاحب اس قدر التزام سچائی کانہ کر سکے.جو شخص خدائی کا دعویٰ کرے وہ تو شیر ببر کی طرح دنیا میں آنا چاہئے تھا نہ کہ ساری عمر توریہ

Page 217

اختیار کرکے اور تمام باتیں کذب کے ہمرنگ کہہ کر یہ ثابت کر دیوے کہ وہ ان افراد کاملہ میں سے نہیں ہے جو مرنے سے لاپرواہ ہوکر دشمنوں کے مقابل پر اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں اور کسی مقام میں بزدلی نہیں دکھلاتے.مجھے تو ان باتوں کو یاد کرکے رونا آتا ہے کہ اگر کوئی ایسے ضعیف القلب یسوع کی اُس ضعف حالت اور توریہ پر جو ایک قسم کا کذب ہے اعتراض کرے تو ہم کیا جواب دیں.جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم جنگ اُحد ۱؎ میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے.میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں.میں نبی اللہ ہوں.میں ابن عبد المطلب ہوں.اور پھر دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ آپ کا یسوع کانپ کانپ کر اپنے شاگردوں کو یہ خلاف واقعہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں.حالانکہ اس کلمہ سے کوئی اس کو قتل نہیں کرتا.تو میں دریائے حسرت میں غرق ہو جاتا ہوں کہ یا الٰہی یہ شخض بھی نبی ہی کہلاتا ہے.جس کی شجاعت کا خدا کی راہ میں یہ حال ہے.الغرض فتح مسیح نے اپنی جہالت کا خوب پردہ کھولا بلکہ اپنے یسوع صاحب پر بھی وار کیا کہ بعض ان احادیث کو پیش کر دیا جن میں توریہ کے جواز کا ذکر ہے.اگر کسی حدیث میں توریہ کو بطور تسامح کذب کے لفظ سے بیان بھی کیا گیا ہو تو یہ سخت جہالت ہے.کہ کوئی شخص اس کو حقیقی کذب پر محمول کرے.جبکہ قرآن اور احادیث صحیحہ بالاتفاق کذبِ حقیقی کو سخت حرام اور پلید ٹھہراتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی حدیثیں توریہ کے مسئلہ کو کھول کر بیان کر رہی ہیں.تو پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ کسی حدیث میں بجائے توریہ کے کذب کا لفظ آگیا ہو تو نعوذ باللّٰہ اس سے مراد حقیقی کذب کیونکر ہوسکتا ہے.بلکہ اس کے قائل کے نہایت باریک تقویٰ کا یہ نشان ہوگا کہ جس نے توریہ کو کذب کی صورت سمجھ کر بطور تسامح کذب کا لفظ استعمال کیا ہو.ہمیں قرآن اور احادیث صحیحہ کی پیروی کرنا ضروری ہے.اگر کوئی امر اس کے مخالف ہوگا تو ہم اس کے وہ معنے ہرگز قبول نہیں کریں گے جو مخالف ہوں.احادیث پر نظر ڈالنے کے وقت یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ ایسی حدیثوں پر بھروسہ نہ کریں جو اُن احادیث سے مناقض اور مخالف ہوں.جن کی صحت اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکی ہو.اور نہ ایسی حدیثوں پر جو قرآن کی نصوص صریحہ بینہ محکمہ سے صریح مخالف اور مغائر اور مبائن واقع ہوں.پھر ایک ایسا مسئلہ جو ۱؎ سہو ہے یہ واقعہ غزوہ حنین کا ہے.شمس

Page 218

قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس پر اتفاق کر لیا ہے اور کتب دین میں صراحت سے اس کا ذکر ہے.اس کے مخالف کسی بے ہودہ قول یا کسی مغشوش اور غیر ثابت حدیث یا مشتبہ اثر سے تمسک کر کے اعتراض کرنا یہ خیانت اور شرارت کا کام ہے.درحقیقت عیسائیوں کو ایسی شرارتوں نے ہی ہلاک کیا ہے.ان لوگوں کو خود بخود حدیث دیکھنے کا مادہ نہیں.غایت کار مشکٰوۃ کا کوئی ترجمہ دیکھ کر جس بات پر اپنے فہم ناقص سے عیب لگا سکتے ہیں وہی بات لے لیتے ہیں.حالانکہ کتب احادیث میں رطب ویا بس سب کچھ ہوتا ہے اور عامل بالحدیث کو تنقید کی ضرورت پڑتی ہے.اور یہ ایک نہایت نازک کام ہے کہ ہریک قسم کی احادیث میں سے احادیث صحیحہ تلاش کریں اور پھر اس کے صحیح معنی معلوم کریں.اور پھر اس کے لئے صحیح محل تلاش کریں.قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے.اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں.اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں.اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو.بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو.اور ان کو اپنا یاردوست مت بنائو.اور خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو.اور ایک جگہ فرماتا ہے.کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو، ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو.اب بتلائو یہ تعلیمیں انجیل میں کہاں ہیں.اگر ایسی تعلیمیں ہوتیں تو عیسائیوں میں اپریل فول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں.دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے.یہ عیسائی تہذیب اور انجیلی تعلیم ہے.معلوم ہوتا ہے.کہ عیسائی لوگ جھوٹ سے بہت ہی پیار کرتے ہیں.چنانچہ عملی حالت اس پر شاہد ہے.مثلاً قرآن تو تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ہی ہے.مگر سنا گیا ہے کہ انجیلیں ساٹھ سے بھی کچھ زیادہ ہیں.شاباش اے پادریان! جھوٹ کی مشق بھی اسے کہتے ہیں.شاید آپ نے اپنے ایک مقدس بزرگ کا قول سنا ہے.کہ جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کی بات ہے.خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی.فرمایا ہے۱؎ یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ ۱؎ المائدہ: ۹

Page 219

اسی میں ہے.اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں.اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں.جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتائو کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے.مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی.مگر آپ تو تعصّب کے گڑھے میں گرے ہیں.ان پاک باتوں کو کیونکر سمجھیں.انجیل میں اگرچہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو.مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے.مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے.اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں.اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں.مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں.ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردہ میں دھوکا دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے.مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست ہیں نہیں لکھواتا.اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہوا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا.بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا.کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگذر نہیں کرے گا.وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے.مگر آپ کے خدا کو یہ تعلیم یاد نہ رہی.کہ ظالم دشمنوں کے ساتھ عدل کرنے پر ایسا زور دیتا جو قرآن نے دیا اور دشمن کے ساتھ سچا معاملہ کرنے کے لئے اور سچائی کو لازم پکڑنے کے لئے وہ تاکید کرتا جو قرآن نے تاکید کی.اور تقویٰ کی باریک راہیں سکھاتا.مگر افسوس کہ جو بات سکھلائی دھوکے کی سکھلائی اور پرہیز گاری کی سیدھی راہ پر قائم نہ کر سکا.یہ آپ کے فرضی یسوع کی نسبت ہم کہتے ہیں.جس کے چند پریشان ورق آپ کے ہاتھ میں ہیں اور جو خدائی کا دعویٰ کرتا کرتا آخر مصلوب ہوگیا اور ساری رات رو رو کر دعا کی کہ کسی طرح بچ جائوں مگر بچ نہ سکا.ہمارے سیّد و مولیٰ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آپ دنیا سے جانے کے لئے دعا کی اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی مگر آپ کے خدا صاحب نے دنیا کی چند روزہ زندگی سے ایسا پیار کیا کہ ساری رات زندہ رہنے کے لئے دعائیں کرتا رہا بلکہ سُولی پر بھی رضا اور تسلیم کا کلمہ منہ سے نہ نکلا.

Page 220

اور اگر نکلا تو یہ نکلا کہ اِیْلِی اِیْلِی لِمَا سَبَقْتَنِیْ ۱؎ اے میرے خدا !اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا.اور خدا نے کچھ جواب نہ دیا کہ اس نے ترک کر دیا.مگر بات تو ظاہر ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا.تکبر کیا ترک کیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے آخر وقت میں مخیر کیا کہ اگر چاہو تو دنیا میں رہو اور اگر چاہو تو میری طرف آئو.آپ نے عرض کیا کہ اے میرے ربّ! اب میں یہی چاہتا ہوں کہ تیری طرف آئوں اور آخری کلمہ آپ کا جس پر آپ کی جان مطہّر رخصت ہوگئی.یہی تھا کہ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی یعنی اب میں اس جگہ رہنا نہیں چاہتا.میں اپنے خدا کے پاس جانا چاہتا ہوں.اب دونوں کلموں کو وزن کرو.آپ کے خدا صاحب نے نہ فقط ساری رات زندہ رہنے کے لئے دعا کی بلکہ صلیب پر بھی ّچلا ّچلا کر روئے کہ مجھے موت سے بچالے.مگر کون سنتا تھا.لیکن ہمارے مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے لئے ہرگز دعا نہیں کی.اللہ تعالیٰ نے آپ مختار کیا کہ اگر زندگی کی خواہش ہے تو یہی ہوگا.مگر آپ نے فرمایا کہ اب میں اس دنیا میں رہنا نہیں چاہتا.کیا یہ خدا ہے جس پر بھروسہ ہے.ڈوب جائو!!! اور آپ کا یہ زُعم کہ قرآن اپنے دین کو چھپا لینے کے لئے حکم دیتا ہے.محض بہتان اور افتراء ہے.جس کی کچھ بھی اصلیت نہیں.قرآن تو ان پر لعنت بھیجتا ہے٭ جو دین کی گواہی کو عمداً چھپاتے ہیں.اور ان پر لعنت بھیجتا ہے جو جھوٹ بولتے ہیں.شاید آپ نے قرآن کی اس آیت سے بوجہ نافہمی کے دھوکا کھایا ہوگا.جو سورۃ النحل میں مذکور ہے.اور وہ یہ ہے ۲؎ یعنی کافر عذاب میں ڈالے جائیں گے.مگر ایسا شخص جس پر زبردستی کی جائے.یعنی ایمانی شعار کے ادا کرنے سے کسی فوق الطاقت عذاب کی وجہ سے روکا جائے اور دل اس کا ایمان سے تسکین یافتہ ہے.وہ عند اللہ معذور ہے.مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم کسی مسلمان کو سخت درد ناک اور فوق الطاقت زخموں سے مجروح کرے اور وہ اس عذاب شدید میں کوئی ایسے کلمات کہہ دے کہ اس کافر کی نظر میں کفر کے کلمات ہوں مگر وہ خود کفر کے کلمات کی نیت نہ کرے ٭ نوٹ: لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ (اٰل عمران: ۶۲) قرآن شریف میں ہے یا انجیل میں؟ جواب تو دو.منہ ۱؎ متی باب ۲۷ آیت ۴۶ ۲؎ النحل: ۱۰۷

Page 221

بلکہ دل اس کا ایمان سے لبالب ہو.اور صرف یہ نیت ہو کہ وہ اس ناقابل برداشت سختی کی وجہ سے اپنے دین کو چھپاتا ہے مگر نہ عمداً.بلکہ اس وقت جبکہ فوق الطاقت عذاب پہنچنے سے بے حواس اور دیوانہ سا ہوجائے تو خدا اس کی توبہ کے وقت اس کے گناہ کو اس کی شرائط کی پابندی سے جو نیچے کی آیت میں مذکور ہیں معاف کر دے گا.کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے.اور وہ شرائط یہ ہیں. ٌ ۱؎ یعنی ایسے لوگ جو فوق الطاقت دکھ کی حالت میں اپنے اسلام کا اخفا کریں.ان کا اس شرط سے گناہ بخشا جائے گا کہ دکھ اٹھانے کے بعد پھر ہجرت کریں.یعنی ایسی عادت سے یا ایسے ملک سے نکل جائیں جہاں دین پر زبردستی ہوتی ہے.پھر خدا کی راہ میں بہت ہی کوشش کریں اور تکلیفوں پر صبر کریں.ان سب باتوں کے بعد خدا ان کا گناہ بخش دے گا.کیونکہ وہ غفور رحیم ہے.اب ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی فوق الطاقت دکھ کے وقت بھی جو دشمنوں سے اس کو پہنچے.دین اسلام کی گواہی کو پوشیدہ کرے وہ بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار ہے.مگر خدمات شائستہ دکھلانے کے بعد اور ایسی عادت یا ایسا ملک چھوڑ دینے کے بعد جس میں زبردستی کی جاتی ہے اور صبر اور استقامت کے بعد اس کا گناہ معاف کیا جائے گا اور خدا اس کو ضائع نہیں کرے گا.کیونکہ وہ رحمن و رحیم ہے.غرض خدا تعالیٰ نے اس اخفا کو محل مدح میں نہیں رکھا بلکہ ایک گناہ قرار دیا ہے.اور اس گناہ کا کفارہ پچھلی آیت میں بتلا دیا ہے.اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں.جابجا ان مومنوں کی تعریف کی ہے جو دین کی گواہی کو نہیں چھپاتے.اگرچہ جان جائے.ہاں ایسے شخص کو بھی ردّ کرنا نہیں چاہا جو اپنی ضعف استعداد اور فوق الطاقت عذاب کی وجہ سے ّ َمعذب ہونے کی حالت میں دین کی گواہی کو پوشیدہ رکھے.بلکہ اس کو اس شرط سے قبول کر لیا ہے کہ آئندہ ایسی عادت سے یا ایسے ملک سے جس میں زبردستی ہوتی ہے.علیحدہ ہو جائے.اور اپنے صدق اور ثبات اور مجاہدات سے اپنے ربّ کو راضی کرے.تب یہ گناہ دین کے اخفا کا معاف کیا جائے گا.کیونکہ وہ خدا جس نے عاجز بندوں کو پیدا کیا ہے.نہایت کریم و رحیم خدا ہے.وہ کسی کو تھوڑے کئے اپنی جناب سے ردّ نہیں کرتا.یہ تو تعلیم ۱؎ النحل: ۱۱۱

Page 222

قرآنی ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات رحمت اور مغفرت کے بالکل مطابق ہے.لیکن آپ کے اقرار سے یہ معلوم ہوا کہ یہ تعلیم انجیل کی نہیں ہے.اور انجیل کی رو سے یہ فتویٰ ہے کہ اگر کوئی عیسائی کسی فوق الطاقت دکھ کے وقت عیسائی دین کی گواہی سے زبان سے انکار کرے تو وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہوگیا.اور اب انجیل اس کو اپنی جماعت میں جگہ نہیں دے گی.اور اس کے لئے کوئی توبہ نہیں.شاباش! شاباش! آج تم نے اپنے ہاتھ سے مہر لگا دی کہ یہ انجیل جو تمہارے ہاتھ میں ہے ایک جھوٹی انجیل ہے.خیر اب ہمارے وار سے بھی خالی نہ جائو.اور جو نیچے لکھتا ہوں.اس کا جواب دو.ورنہ اگر کچھ حیا ہے تو عیسائی مذہب سے توبہ کرو.اعتراض یہ ہے کہ جس حالت میں بقول آپ کے وہ تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتی.کہ جو ایمان کے چھپانے والے کو اس کی توبہ اور اعمالِ صالحہ اور صبر اور ثبات کے بعد معافی کا وعدہ دے اور رحمت الٰہی سے ردّ نہ کرے.تو پھر انجیل کی تعلیم کس قدر سچائی سے دور ہوگی.جس نے پطرس کو باوجود اس کی نہایت مکروہ بداعمالی اور دروغ گوئی اور سخت انکار اور جھوٹی َقسم اور مسیح پر لعنت بھیجنے اور ایمان کو پوشیدہ کرنے کے پھر قبول کر لیا.٭آپ کا اعتراض تو صرف اتنا تھا کہ قرآن نے ایسے لوگوں کو بھی اسلام سے ردّ نہیں کیا جو کسی خوف سے اسلام کا زبان سے انکار کر دیں مگر انجیل نے تو اس بارے میں حد کر دی کہ ایسے شخص کو بھی پھر قبول کر لیا.جس نے نہ صرف ایمان کو پوشیدہ کیا بلکہ صاف انکار کیا اور اپنے جھوٹ کو سچ ظاہر کرنے کے لئے قسم کھائی.بلکہ یسوع صاحب پر لعنت بھی بھیجی.اور اگر کہو کہ انجیل کی تعلیم نے اس کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اب تک مردود اور ایمان سے خارج ہے تو اس عقیدہ کا اشتہار دے دو.اب کہو قرآن پر اعتراض کرنے سے کچھ سزا پائی یا نہیں؟ آپ اپنے خط میں لکھتے ہیں.کہ کسی امر کا جواب دینا اور بات ہے مگر معقول طور پر جواب دینا اور بات ہے.اب بتائو معقولی طور پر یہ جواب ہیں یا نہیں اور ابھی وقت آیا یا نہیں کہ ہم لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین کہہ دیں؟ آپ نے یہ بھی خط میں لکھا ہے کہ محمدی لوگ جواب تو دیتے ہیں مگر وہ عقل کے سامنے جواب ٭ نوٹ: گواہی کا چھپانا اور دل میں رکھنا تو درکنار عیسائی تو انجیل کے مرتدوں کو بھی ایمان لانے پر پھر واپس لے لیتے ہیں.منہ

Page 223

نہیں سمجھے جاتے.اب ہمارے یہ تمام جواب آپ کے سامنے ہیں اس کو چند منصفوں کو دکھلائو کہ کیا یہ عقل کے سامنے جواب ہیں یا نہیں؟ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ جو انجیل پر اعتراض ہم نے کئے ہیں.آپ ان کا کچھ جواب دے سکیں گے؟ ہرگز ممکن نہیں.وہ دن آپ پر کبھی نہیں آئے گا کہ ان اعتراضات کے جواب سے سبکدوش ہوسکیں.پھر آپ کا ایک یہ وسوسہ ہے کہ کامل گناہ کا بیان انجیل میں ہی ہے.لیکن اگر آپ غور کریں.تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انجیل تقویٰ کی راہوں کو کامل طور پر بیان نہیں کر سکی.اور نہ انجیل نے ایسا دعویٰ کیا.مگر قرآن شریف نے تو اپنے نزول کی علّت غائی ہی یہ قرار دی ہے کہ تقویٰ کی راہوں کو سکھائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  .۱؎ یعنی یہ کتاب اس غرض سے اتری ہے کہ تا جو لوگ گناہ سے پرہیز کرتے ہیں.ان کو باریک سے باریک گناہوں پر بھی اطلاع دی جائے.تاوہ ان بُرے کاموں سے بھی پرہیز کریں جو ہریک آنکھ کو نظر نہیں آتے.بلکہ فقط معرفت کی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں.اور موٹی نگاہیں ان کے دیکھنے سے خطا کر جاتی ہیں.مثلاً آپ کے یسوع صاحب کا قول متی نے یہ لکھا ہے کہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر نگاہ کرے.وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا.لیکن قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ نہ تو شہوت سے اور نہ بغیر شہوت کے بیگانہ عورت کے منہ پر ہرگز نظر نہ ڈال.اور ان کی باتیں مت سُن.اور ان کی آواز مت سُن.اور ان کے حسن کے قصے مت سُن.کہ ان امور سے پرہیز کرنا تجھے ٹھوکر کھانے سے بچائے گا.جیسا کہ اللہ شانہٗ فرماتا ہے.۲؎ یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم کو دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند رکھیں.اور اپنے کانوں اور ستر گاہوں کی حفاظت کریں.یعنی کان کو بھی ان کی نرم باتوں اور ان کی خوبصورتی کے ّقصوں سے بچاویں کہ یہ سب طریق ٹھوکر کھانے کے ہیں.اب اگر بے ایمانی کے زہر دل میں نہیں تو ایسی تعلیم سے یسوع کی تعلیم کا مقابلہ کرو.اور پھر نتائج پر بھی نظر ڈالو.یسوع کی تعلیم نے عام آزادی کی اجازت دے کر اور تمام ضروری شرائط کو نظر انداز کر کے تمام یورپ کو ہلاک کر دیا.یہاں تک کہ ان سب میں خنزیروں اور ّکتوں کی طرح فسق و فجور پھیلا.۱؎ البقرۃ: ۳ ۲؎ النُّور: ۳۱

Page 224

اور بے حیائی اس حد تک پہنچ گئی کہ شیرینیوں اور ولایت کی مٹھائیوں پر بھی یہ لفظ لکھے جاتے ہیں کہ اے میری پیاری! ذرا مجھے بوسہ دے.یہ تمام گناہ کس کی گردن پر ہے.بے شک اس یسوع کی گردن پر جس نے ایسی تعلیم دی کہ ایک جوان مرد یا عورت دوسرے پر نظر ڈالے مگر زنا کا قصد نہ کرے.اے نادان! کیا زنا کا قصد اختیار میں ہے.جو شخص آزادی سے نامحرم عورتوں کو دیکھتا رہے گا آخر ایک دن بدنیتی سے بھی دیکھے گا.کیونکہ نفس کے جذبات ہریک طبیعت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.اور تجربہ بلند آواز سے بلکہ چیخیں مار کر ہمیں بتلا رہا ہے کہ بیگانہ عورتوں کو دیکھنے میں ہرگز انجام بخیر نہیں ہوتا.یورپ جو زنا کاری سے بھر گیا.اس کا کیا سبب ہے.یہی تو ہے کہ نامحرم عورتوں کو بے تکلف دیکھنا عادت ہوگیا.اوّل تو نظر کی بدکاریاں ہوئیں اور پھر معانقہ بھی ایک معمولی امر ہوگیا پھر اس سے ترقی ہوکر بوسہ لینے کی بھی عادت پڑی یہاں تک کہ استاد جوان لڑکیوں کو اپنے گھروں میں لے جاکر یورپ میں بوسہ بازی کرتے ہیں اور کوئی منع نہیں کرتا.شیرینیوں پر فسق و فجور کی باتیں لکھی جاتی ہیں.تصویروں میں نہایت درجہ کی بدکاری کا نقشہ دکھایا جاتا ہے.عورتیں خود چھپواتی ہیں کہ میں ایسی خوبصورت ہوں اور میری ناک ایسی اور آنکھ ایسی ہے.اور ان کے عاشقوں کے ناول لکھے جاتے ہیں اور بدکاری کا ایسا دریا بہ رہا ہے کہ نہ تو کانوں کو بچا سکتے ہیں نہ آنکھوں کو نہ ہاتھوںکو.نہ منہ کو.یہ یسوع صاحب کی تعلیم ہے.کاش! ایسا شخص دنیا میں نہ آیا ہوتا.تا یہ بدکاریاں ظہور میں نہ آتیں.اس شخص نے پارسائی اور تقویٰ کا خون کردیا اور اور الحاد اور اباحت کو تمام ملک میں پھیلا دیا.کوئی عبادت نہیں، کوئی مجاہدہ نہیں بجز کھانے پینے اور بدنظریوں کے اور کوئی بھی فکر نہیں.پھر زہر پر زہر یہ کہ ایک جھوٹے کفارہ کی امید دے کر گناہوں پر دلیر کر دیا.کون عقلمند اس بات کو باور کرے گا کہ زید کو مسہل دیا جائے اور بکر کے زہریلے مواد اس سے نکل جائیں.بدی حقیقی طور پر تبھی دور ہوتی ہے کہ جب نیکی اس کی جگہ لے لے.یہی قرآنی تعلیم ہے کسی کی خودکشی سے دوسرے کو کیا فائدہ.کس قدر یہ نادانی کا خیال اور قانون قدیم کے مخالف ہے.جو آپ کے یسوع صاحب سے ظہور میں آیا.کیا اس کے روٹی کھانے سے حواریوں کا پیٹ بھر جاتا تھا.پھر کیونکر اس کی خودکشی دوسرے کو مفید ہوسکتی ہے.انجیل کی ساری تعلیم ایسی گندی اور ناقص ہے کہ حرف حرف پر سخت اعتراض ہے.اور اس کے مؤلّف کو خبر ہی نہیں کہ تقویٰ کس کو کہتے ہیں.اور گناہ کے باریک مراتب

Page 225

کیا ہیں.بے چارہ بچوں کی طرح باتیں کرتا ہے.افسوس کہ اس وقت ہمیں فرصت نہیں کہ ان تمام یسوع کی باتوں کی قلعی کھولیں.انشاء اللہ تعالیٰ دوسرے وقت میں دکھائیں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ شخص بالکل تقویٰ کے طریق سے ناواقف ہے.اور اس کی تعلیم انسانی درخت کے کسی شعبہ کی بھی آب پاشی نہیں کرسکتی.جانتا ہی نہیں کہ انسان کن کن قوتوں کے ساتھ اس مسافر خانہ میں بھیجا گیا ہے.اور اسے خبر ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ مقصود نہیں کہ ان تمام قوتوں کو زائل کر دیوے.بلکہ یہ مطلب ہے کہ ان کو خط اعتدال پر چلاوے.پس ایسی ناقص تعلیم کو قرآن شریف کے سامنے پیش کرنا سخت ہٹ دھرمی اور نابینائی اور بے شرمی ہے.اور آپ کا یہ کہنا کہ حضرت مقدس نبوی کی تعلیم یہ ہے کہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہنے سے گناہ دور ہو جاتے ہیں.یہ بالکل سچ ہے اور یہی واقعی حقیقت ہے کہ جو محض خدا کو واحد لاشریک جانتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی قادر یکتا نے بھیجا ہے تو بے شک اگر اس کلمہ پر اس کا خاتمہ ہو تو نجات پا جائے گا.آسمانوں کے نیچے کسی کی خودکشی سے نجات نہیں.ہرگز نہیں.اور اس سے زیادہ کون پاگل ہوگا کہ ایسا خیال بھی کرے.مگر خدا کو واحد لا شریک سمجھنا اور ایسا مہربان خیال کرنا کہ اس نے نہایت رحم کرکے دنیا کو ضلالت سے چھڑانے کے لئے اپنا رسول بھیجا جس کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.یہ ایک ایسا اعتقاد ہے کہ اس پر یقین کرنے سے روح کی تاریکی دور ہوتی ہے اور نفسانیت دور ہوکر اس کی جگہ توحید لے لیتی ہے.آخر توحید کا زبردست جوش تمام دل پر محیط ہوکر اسی جہان میں بہشتی زندگی شروع ہوجاتی ہے.جیسا تم دیکھتے ہوکہ نور کے آنے سے ظلمت قائم نہیں رہ سکتی.ایسا ہی جب لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کا نورانی پَر تَو دل پر پڑتا ہے تو نفسانی ظلمت کے جذبات کا لمعدوم ہو جاتے ہیں.گناہ کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ سرکشی کی ملونی سے نفسانی جذبات کا شور و غوغا ہو.جس کی متابعت کی حالت میں ایک شخص کا نام گناہ گار رکھا جاتا ہے اور لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کے معنی جو لغت عرب کے مواردِ استعمال سے معلوم ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ لَامَطْلُوْبَ لِیْ وَلَا مَحْبُوْبَ لِیْ وَلَا مَعْبُوْدَ لِیْ وَلَا مُطَاعَ لِیْ اِلاَّ اللّٰہُ یعنی بجز اللہ کے اور کوئی میرا مطلوب نہیں.اور محبوب نہیں اور معبود نہیں اور مطاع نہیں.اب ظاہر ہے کہ یہ معنی گناہ کی حقیقت اور گناہ کے اصل منبع سے بالکل مخالف پڑے ہیں.پس جو شخص ان معنی کو خلوصِ دل

Page 226

کے ساتھ اپنی جان میں جگہ دے گا تو بالضرورت مفہوم مخالف اس کے دل سے نکل جائے گا.کیونکہ ضدین ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں.پس جب نفسانی جذبات نکل گئے تو یہی وہ حالت ہے.جس کو سچی پاکیزگی اور حقیقی راست بازی کہتے ہیں اور خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان لانا جو دوسرے جز کلمہ کا مفہوم ہے.اس کی ضرورت یہ ہے کہ تا خدا کے کلام پر بھی ایمان حاصل ہو جائے.کیونکہ جو شخص یہ اقرار کرتا ہے میں خدا کا فرمانبردار بننا چاہتا ہوں.اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فرمانوں پر ایمان بھی لاوے.اور فرمان پر ایمان لانا بجز اُس کے ممکن نہیں کہ اس پر ایمان لاوے جس کے ذریعہ سے دنیا میں فرمان آیا.پس یہ حقیقت کلمہ کی ہے.اور آپ کے یسوع صاحب نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہی مدار نجات ٹھیرایا ہے.کہ خدا پر اور اس کے بھیجے ہوئے یسوع پر ایمان لایا جائے.مگر چونکہ آپ لوگ اندھے ہیں.اس لئے جوشِ تعصّب سے انجیل کی باتیں بھی آپ کو نظر نہیں آتیں.اور آپ کا یہ کہنا کہ وضو کرنے سے گناہ کیونکر دور ہوسکتے ہیں.اے نادان! الٰہی نوشتوں پر کیوں غور نہیں کرتا.کیا انسان ہونے کے بعد پھر حیوان بن گیا.وضو کرنا تو صرف ہاتھ پیر اور منہ دھونا ہے.اگر شریعت کا یہی مطلب ہوتا کہ ہاتھ پیر دھونے سے گناہ دور ہوجاتے ہیں.تو یہ پاک شریعت ان تمام پلید قوموں کو جو اسلام سے سرکش ہیں.ہاتھ منہ دھونے کے وقت گناہ سے پاک جانتی کیونکہ وضو سے گناہ دور ہو جاتے ہیں.مگر شارع علیہ السلام کا یہ مطلب نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں جاتے.اور ان کے بجا لانے سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں.اگر میں اس وقت الزامی جواب دوں تو کئی جز لکھ کر منکر کا منہ کالا کروں.مگر وقت تنگ ہے.اور ابھی چند سوال باقی ہیں.ذرا میری اس تحریر پر کچھ لکھو.پھر تمہاری ہی کتابوں سے تمہیں عمدہ انعام دیا جائے گا.تسلّی رکھو.آپ جھوٹ سے کیونکر متنفر ہوگئے.کیا انجیل کا جھوٹ یاد نہ رہا.کیا یہ سچ ہے کہ یسوع صاحب کو سر دھرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی تھی.کیا یہ واقعی امر ہے کہ اگر یسوع کے تمام کام لکھے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سما نہ سکتیں.اب کہو کہ دروغ گوئی میں انجیل کو کمال ہے یا کچھ کسر رہ گئی.یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں گناہ کو ہلکا نہیں سمجھا گیا.بلکہ بار بار بتلایا گیا ہے کہ کسی کو بجز اس کے نجات نہیں کہ گناہ سے سچی نفرت پیدا کرے مگر انجیل نے سچی نفرت کی تعلیم نہیں

Page 227

دی.انجیل نے ہرگز اس بات پر زور نہیں دیا کہ گناہ ہلاک کرنے والا زہر ہے.اس کے عوض اپنے اندر کوئی تریاق پیدا کرو.بلکہ اس محرف انجیل نے نیکیوں کا عوض یسوع کی خود کشی کو کافی سمجھ لیا ہے.مگر یہ کیسی بے ہودہ اور بھول کی بات ہے کہ حقیقی نیکی کے حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں بلکہ انجیل کی یہی تعلیم ہے کہ عیسائی بنو اور جو چاہو کرو.کفارہ ناقص ذریعہ نہیں ہے تاکسی عمل کی حاجت ہو.اب دیکھو اس سے زیادہ بدی پھیلنے کا ذریعہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے.قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنے تئیں پاک نہ کرو.اس پاک گھر میں داخل نہ ہوگے.اور انجیل کہتی ہے کہ ہریک بدکاری کر تیرے لئے یسوع کی خودکشی کافی ہے.اب کس نے گناہ کو ہلکا سمجھا؟ قرآن نے یا انجیل نے؟ قرآن کا خدا ہرگز کسی کو نیک نہیں ٹھیراتا جب تک بدی کی جگہ نیکی نہ آجائے مگر انجیل نے اندھیر مچا دیا ہے.کفّارہ سے تمام نیکی اور راستبازی کے حکموں کو ہلکا اور ہیچ کر دیا.اور اب عیسائی کے لئے ان کی ضرورت نہیں.حیف صد حیف.افسوس صد افسوس.دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ بہشت کی تعلیم محض نفسانی ہے جس سے ایک خدا رسیدہ شخص کو کچھ تسلی نہیں ہوسکتی.اما الجواب.پس واضح ہو کہ یہ بات نہایت بدیہی اور عند العقل مسلّم اور قرینِ انصاف ہے کہ جیسا کہ انسان دنیا میں ارتکاب جرائم یا کسب خیرات اور اعمالِ صالحہ کے وقت صرف روح سے ہی کوئی کام نہیں کرتا بلکہ روح اور جسم دونوں سے کرتا ہے.ایسا ہی جزا اور سزا کا اثر بھی دونوں پر ہی ہونا چاہئے.یعنی جان اور جسم دونوں کو اپنی اپنی حالت کے مناسب پاداش اُخروی سے حصہ ملنا چاہئے.لیکن عیسائی صاحبوں پر سخت تعجب ہے کہ سزا کی حالت میں تو اس اصول کو انہوں نے قبول کر لیا ہے.اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے بدکاریاں اور بے ایمانیاں کرکے خدا کو ناراض کیا ان کو جو سزا دی جائے گی وہ صرف روح تک محدود نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا.اور گندھک کی آگ سے جسم جلائے جائیں گے اور وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا.اور وہ پیاس سے جلیں گے اور ان کو پانی نہیں ملے گا.اور جب حضرات عیسائیوں سے پوچھا جائے کہ جسم کیوں آگ میں جلایا جائے گا.تو اس کا جواب دیتے ہیں کہ بھائی روح اور جسم دونوں مزدور کی طرح دنیا میں کام کرتے تھے.پس جبکہ دونوں نے اپنے آقا کے کام میں مل کر خیانت کی.تو وہ دونوں سزا کے لائق ٹھہرے.پس اے اندھو اور خدا کے نوشتوں پر غور کرنے میں غافلو! تمہیں تمہاری ہی بات سے

Page 228

ملزم کرتا ہوں کہ وہ خدا جس کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے.جب اس نے سزا دینے کے وقت جسم کو خالی نہ چھوڑا تو کیا ضرور نہ تھا کہ وہ جزا کے وقت بھی اس اصول کو یاد رکھتا.کیا لائق ہے کہ ہم اس رحیم خدا پر یہ بدگمانی کریں کہ وہ سزا دینے کے وقت تو ایسا غضب ناک ہوگا کہ ہمارے جسموں کو بھی جلتے ہوئے تنور میں ڈالے گا.لیکن جزا دینے کے وقت اس کا رحم اس درجہ پر نہیں ہوگا.جس درجہ پر سزا کی حالت میں اس کا غضب ہوگا.اگر جسم کو سزا سے الگ رکھتا تو بے شک جزا سے بھی اس کو الگ رکھتا.مگر جبکہ اس نے سزا کے وقت جسم کو گناہ کا شریک سمجھ کر جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا.تو اے اندھو! اور کوتاہ اندیشو! کیا وہ ایمان اور عمل صالح کی شراکت کے وقت جسم کو جزا سے حصہ نہیں دے گا؟ کیا جب مُردے جی اٹھیں گے تو بہشتیوں کو عبث طور پر ہی جسم ملے گا؟ اور یہ بھی بدیہی بات ہے کہ جب جسم اپنے تمام قویٰ کے ساتھ روح سے پیوند کیا جائے گا تو وہ جسمانی قویٰ یا راحت میں ہوں گے یا رنج میں.کیونکہ دونوں حالتوں کا مرتفع ہونا محال ہے.پس اس صورت میں ماننا پڑا کہ جیسا جسم سزا کی حالت میں دکھ اٹھائے گا.ویسا ہی وہ جزا کی حالت میں ایک قسم کی راحت سے بھی ضرور متمتع ہوگا.اور اسی راحت کی قرآن کریم میں تفصیل ہے.ہاں خدا تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ بہشت کی نعمتیں فوق الفہم ہیں.تمہیں ان کا حقیقی علم نہیں دیا گیا اور تم وہ نعمتیں پائو گے جواَب تم سے پوشیدہ ہیں.جو نہ دنیا میں کسی نے دیکھیں اور نہ سنیں اور نہ دلوں میں گذریں.وہ تمام مخفی امور اسی وقت سمجھ میں آئیں گے.جب وارد ہوں گے.جو کچھ قرآن اور حدیث میں وعدے ہیں وہ سب مثال کے طور پر بیان کیا ہے اور ساتھ اس کے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ امور مخفی ہیں.جن کی کسی کو اطلاع نہیں.پس اگر وہ لذّات اسی قدر ہوتیں جیسے اس دنیا میں شربت یا شراب پینے کی لذت یا عورت کے جماع کی لذت ہوتی ہے.تو خدا تعالیٰ یہ نہ کہتا کہ وہ ایسے امور ہیں کہ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے.اور نہ کسی کان نے سنے.اور نہ وہ کبھی کسی کے دل میں گذرے.پس ہم مسلمان لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ بہشت جو جسم اور روح کے لئے دارالجزاء ہے.وہ ایک ادھورا اور ناقص دارالجزاء نہیں بلکہ اس میں جسم اور جان دونوں کو اپنی اپنی حالت کے موافق جزا ملے گی.جیسا کہ جہنم میں اپنی اپنی حالت کے موافق دونوں کو سزا دی جائے گی.اور اس کی اصل تفصیلات ہم خدا کے حوالے کرتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ جزا سزا جسمانی روحانی دونوں طور پر

Page 229

ہوں گی.اور یہی وہ عقیدہ ہے جو عقل اور انصاف کے موافق ہے.اور یہ نہایت شرارت اور خباثت اور حرام زدگی ہے کہ قرآن پر یہ طعن وارد کیا جائے کہ وہ صرف جسمانی بہشت کا وعدہ کرتا ہے.قرآن تو صاف کہتا ہے کہ ہریک جو بہشت میں داخل ہوگا وہ جسمانی روحانی دونوں قسم کی جزا پائے گا.اور جیسا کہ نعمت جسمانی اس کو ملے گی.ایسا ہی وہ دیدار الٰہی سے لذت اٹھائے گا.اور یہی اعلیٰ لذت بہشت میں ہے.معارف کی لذت بھی ہوگی اور طرح طرح کے انوار کی لذّت بھی ہوگی.اور عبادت کی لذت بھی ہوگی.مگر اس کے ساتھ جسم بھی اپنی سعادتِ تامہ کو پہنچے گا.ہم دعوٰے سے کہتے ہیں کہ جس قدر قرآن نے بہشتیوں کی روحانی جزا کی کیفیت لکھی ہے انجیل میں ہرگز نہیں.جس شخص کو شک ہو.ہمارے مقابل پر آئے اور ہم سے سُنے اور انجیل کی تعلیم سناوے.اگر وہ غالب ہوا اور اس نے ثابت کیا کہ انجیل میں بہشتیوں کی روحانی جزا قرآن سے بڑھ کر لکھی ہے تو ہم حلفاًکہتے ہیں کہ اُسی وقت ہزار روپیہ نقد اس کو دیا جائے گا.جس جگہ چاہے باضابطہ تحریر دے کر جمع کرا لے.اے اندھو! قرآن کے مقابل پر انجیل کچھ بھی چیز نہیں.کیوں تمہاری شامت آئی ہے.گھروں میں آرام کر کے بیٹھو.اب تمہاری رُسوائی کا وقت آگیا ہے.کیا تم میں کسی کو حوصلہ ہے.کہ آرام سے آدمی بن کر مجھ سے آکر بحث کرلے کہ بہشت کے بارے میں روحانی جزا کا بیان انجیل میں زیادہ ہے یا قرآن میں.اور اگر انجیل میں زیادہ نکلا تو مجھ سے نقد ہزار روپیہ لے لے.جہاں چاہے جمع کرا لے.مجھے امید نہیں کہ کوئی میرے سامنے آوے.اللہ اللہ! کیسی یہ قوم ظالم اور دغا باز ہے.جنہوں نے دنیا کی زندگی کے لئے آخرت کو بھلا دیا ہے.مگر ذرہ موت کا پیالہ پی لیں.پھر دیکھیں گے کہ کہاں ہے یسوع اور اس کا کفارہ.ہائے افسوس ان لوگوں نے ایک عاجز انسان اور عاجزہ کے بیٹے کو خدا بنا دیا.اور خدائے قدوس پر تمام نالایق باتیں روا رکھیں.دنیا میں ایک ہی آیا.جو سچی اور کامل توحید کو لایا.اس سے انہوں نے دشمنی کی.اور یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کہ انجیل میں جسمانی جزا کی طرف کوئی اشارہ نہیں.دیکھو متی کیسی تفصیل سے یسوع کا قول جسمانی جزا کے بارے میں بیان کرتا ہے اور وہ یہ ہے:.اور جس نے گھر یا بھائی یا بہن یا باپ یا جورو یا بال بچوں یا زمین کو میرے نام پر چھوڑا سو گنا پاوے گا.( ۱۹ باب آیت ۲۹) دیکھو یہ کیسا صریح حکم ہے اس میں تو یہ بھی بشارت ہے کہ اگر عیسائی عورت یسوع کے لئے خاوند

Page 230

چھوڑے تو قیامت کو اسے سو خاوند ملیں گے.اور اگر جسمانی نعمتوں کا وعدہ کرنا خدا تعالیٰ کی شان کے مخالف ہوتا تو توریت خروج ۳ باب ۸ آیت.استثناء ۶ باب ۳ آیت، ۷ باب ۱۳ آیت، ۸ باب ۱۷ آیت اور قاضی ۹ باب ۱۲ آیت اور استثناء ۳۲باب ۱۴.آیت استثناء ۱۶ باب ۲۰ آیت اور احبار ۲۶ باب ۱۳ آیت.احبار ۲۵ باب۱۸ تا ۲۳آیت.ایوب ۲۰ باب ۱۵تا۱۷ آیت میں ہرگز جسمانی نعمتوں کے وعدے نہ دیئے جاتے.کیا یسوع نے یہ نہیں کہا کہ میں بہشت میں شیرۂ انگور پیوں گا.عجیب یسوع ہے.جو مسلمانوں کی بہشت میں داخل ہونے کی تمنا رکھتا ہے.جس میں جسمانی نعمتیں بھی ہیں.اور پھر عجیب تر یہ کہ جسمانی نعمتوں پر ہی گرا.دیدار الٰہی کا ذکر نہیں کیا.لعاذر سے پانی مانگنا بھی ذرہ یاد کرو.جس بہشت میں پانی نہیں.اس میں پانی کا ذکر مصداق اس مثل کا ہے کہ دروغ گو را حافظہ نباشد.یہ سچ ہے کہ بہشت میں رہنے والے فرشتوں کی طرح ہو جائیں گے مگر یہ کہاں ثابت ہے کہ تبدیل خواص کر کے فی الحقیقت فرشتے ہی ہو جائیں گے٭اور انسانی خواص چھوڑ دیں گے.ہاں یہ درست ہے کہ بہشت میں دنیا کی طرح نکاح نہیں ہوتے.مگر بہشتی طور پر جسمانی لذات تو ہوں گے.جیسے یسوع کو بھی انکار نہیں تھا.شیرۂ انگور پینے کی امید کرتا گذر گیا.توریت سے ثابت ہے کہ جسمانی جزا بھی خدا کی عادت ہے.تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ وہ غیر متبدل خدا قیامت کو بھی اپنی عادتیں بدل ڈالے.تیسرا اعتراض آپ کا یہ ہے کہ اسلامی تعلیم میں ہے کہ جب تک کوئی کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو جائے.تب تک ایسے شخص سے مواخذہ نہ ہوگا اور محض دلی خیالوں پر خدا پرسش نہیں کرے گا.مگر انجیل میں اس کے خلاف ہے.یعنی دلی خیالات پر بھی عذاب ہوگا.اما الجواب.پس واضح ہوکہ اگر انجیل میں ایسا ہی لکھا ہے.تو ایسی انجیل ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور حق بات یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائی ہے.کہ انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گناہ گار نہیں کرتے.بلکہ عند اللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین ہی قسم ہیں (۱) اوّل یہ کہ زبان پر ناپاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں، جاری ہوں (۲) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کی حرکات صادر ہوں ٭ نوٹ: درحقیقت فرشتے بن جانا اور بات ہے مگر پاکیزگی میں ان سے مشابہت پیدا کرنا یہ اور بات ہے.منہ

Page 231

(۳)تیسرے یہ کہ دل نافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعل بَد ضرور کروں گا.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۱؎ یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مواخذہ ہوگا.مگر مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہوگا کہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں.خدائے رحیم ہمیں ان خیالات پر نہیں پکڑتا.جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں.ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں.بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے.جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے.۲؎ یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پُرس کی جائے گی.اب دیکھو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کان اور آنکھوں کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا.مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا٭ہے.صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں، گناہ میں داخل نہیں.ہاں اس وقت داخل ہو جائیں گے.جب ان پر عزیمت کرے.اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے.ایسا ہی اللہ شانہٗ اندرونی گناہوں کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتا ہے.۳؎ یعنی خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر دیئے.اب میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ عمدہ تعلیم بھی انجیل میں موجود نہیں کہ تمام عضووں کے گناہ کا ذکر کیا ہو اور عزیمت اور خطرات میں فرق کیا ہو اور ممکن نہ تھا کہ انجیل میں یہ تعلیم ہوسکتی.کیونکہ یہ تعلیم نہایت لطیف اور حکیمانہ اصولوں پر مبنی ہے.اور انجیل تو ایک موٹے خیالات کا مجموعہ ہے جس سے اب ہر یک محقق نفرت کرتا جاتا ہے.ہاں آپ کے یسوع صاحب نے ۱؎ البقرۃ: ۲۲۶ ۲؎ بنی اسرآء یل: ۳۷ ٭ نوٹ: ثواب اس وقت حاصل کرتے ہیں.جب ہم دلی خیالات کا جو معصیت کی رغبت دیتے ہیں.اعمالِ صالح کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور ان خیالات کے برعکس عمل میں لاتے ہیں.منہ ۳؎ الاعراف: ۳۴

Page 232

پردہ پوشی کے لئے یہ خوب تدبیر کی.کہ لوگوں کو باتوں باتوں میں سمجھا دیا کہ میری تعلیم کچھ اچھی نہیں.آیندہ اس پر مضحکہ ہوگا بہتر ہے کہ تم ایک اور آنے والے کا انتظار کرو.جس کی تعلیم معارف کے تمام مراتب کو پورا کرے گی.مگر شاباش اے پادری صاحبان! آپ نے اس وصیت پر خوب ہی عمل کیا.جس تعلیم کو خود آپ کے یسوع صاحب بھی قابل اعتراض ٹھہراتے ہیں.اور ایک آئندہ آنے والے نبی مقدس کی خوشخبری دیتے ہیں.اسی ادھوری تعلیم پر آپ گرے جاتے ہیں.بھلا بتلائو تو سہی کہ آپ کے یسوع کی تعلیم خود اس کے اقرار سے ناقص ٹھہری یا ابھی کچھ کسر رہ گئی.پھر جبکہ یسوع خود معترف ہے کہ میری تعلیم ادھوری اور نکمّی ہے.تو پھر اپنے گرو کی پیشگوئی کو ذہن میں رکھ کر اسلامی تعلیم کی خوبیاں ہم سے سنو اور اپنے یسوع کو جھوٹا مت ٹھہرائو.کیونکہ جب تک ایسا نبی دنیا میں ظہور نہ کرے جس کی تعلیم انجیل کی تعلیم سے اکمل اور اعلیٰ ہو.تب تک یسوع کی پیشگوئی باطل کے رنگ میں ہے.مگر وہ مقدس نبی تو آچکا اور تم نے اس کو شناخت نہیں کیا.ہماری تحریروں پر غور کرو.تاتمہیں معلوم ہوکہ وہ کامل تعلیم جس کی مسیح کو انتظار تھی.قرآن ہے.اور اگر یہ پیشگوئی نہ ہوتی.تب بھی قرآن کا کامل اور انجیل کا ناقص ہونا خدا کی حجت کو پوری کرتا تھا.سو جہنم کی آگ سے ڈرو اور اس آنے والے نبی کو مان لو.جس کی نسبت مسیح نے بشارت دی.اور اس کی کامل تعلیم کی تعریف کی.مگر پھر بھی آپ کے یسوع کا اس میں کچھ احسان نہیں کیونکہ خود زور آور نے کمزور کو گرا دیا.اب صرف سمجھ کا گھاٹا ہے.ورنہ اب انجیل کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں.چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اسلامی تعلیم میں غیر مذہب والوں سے محبت کرنا کسی جگہ حکم نہیں آیا بلکہ حکم ہے کہ بجز مسلمان کے کسی سے محبت نہ کرو.اما الجواب: پس واضح ہو کہ یہ تمام ناقص اور ادھوری انجیل کی نحوستیں ہیں کہ عیسائی لوگ حق اور حقیقت سے دور جا پڑے.ورنہ اگر ایک گہری نظر سے دیکھا جائے کہ محبت کیا چیز ہے اور کس کس محل پر اس کو استعمال کرنا چاہئے.اور بغض کیا چیز ہے اور کن کن مقامات میں برتنا چاہئے.تو فرقان کریم کا سچا فلسفہ نہ صرف سمجھ میں ہی آتا ہے.بلکہ روح کو اس سے معارفِ حقّہ کی ایک کامل روشنی ملتی ہے.اب جاننا چاہئے کہ محبت کوئی تصنع اور ّتکلف کا کام نہیں.بلکہ انسانی قویٰ میں سے یہ بھی ایک

Page 233

قوت ہے.اور اس کی حقیقت یہ ہے.کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھنچے جانا.اور جیسا کہ ہریک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں.یہی محبت کا حال ہے.کہ اس کے جوہر بھی اُس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۱؎ یعنی انہوں نے گو سالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گو سالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا.درحقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے.تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے.اُسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے.یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے.یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے.وہ ظلّی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اُس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے پس جبکہ محبت کی حقیقت یہ ہے.تو پھر کیونکر ایک سچی کتاب جو منجانب اللہ ہے.اجازت دے سکتی ہے.کہ تم شیطان سے وہ محبت کرو جو خدا سے کرنی چاہئے اور شیطان کے جانشینوں سے وہ پیار کرو جو رحمن کے جانشینوں سے کرنا چاہئے.افسوس کہ پہلے تو انجیل کے باطل ہونے پر ہمارے پاس یہی ایک دلیل تھی کہ وہ ایک عاجز مشتِ خاک کو خدا بناتی ہے.اب یہ دوسرے دلائل بھی پیدا ہوگئے کہ اس کی دوسری تعلیمیں بھی گندی ہیں.کیا یہ پاک تعلیم ہوسکتی ہے کہ شیطان سے ایسی ہی محبت کرو.جیسی کہ خدا سے.اور اگر یہ عذر کیا جائے کہ یسوع کے منہ سے سہواً یہ باتیں نکل گئیں کیونکہ وہ الٓہیات کے فلسفہ سے ناواقف تھا تو یہ عذر نکما اور فضول ہوگا کیونکہ اگر وہ ایسا ہی ناواقف تھا تو کیوں اس نے قوم کے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا.کیا وہ بچہ تھا.اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو تا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے.سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے.اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے.اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کھا جاتا ہے کہ وہ اس ۱؎ البقرۃ: ۹۴

Page 234

میں ہوکر اور اس کے رنگ میں رنگین ہوکر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے.محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پُر ہوجانا ہے.چنانچہ عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پُر ہوگیا تو کہتے ہیں شربت الابل حتی تحبّبت اور حَبّ جو دانہ کو کہتے ہیں وہ بھی اسی سے نکلا ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا اور اسی بناء پر اِحْبَاب سونے کو بھی کہتے ہیں کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھودے گا گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ اس کو باقی نہیں رہے گی پھر جبکہ محبت کی حقیقت یہ ہے تو ایسی انجیل جس کی یہ تعلیم ہے کہ شیطان سے بھی محبت کرو اور شیطانی گروہ سے بھی پیار کرو.دوسرے لفظوں میں اُس کا ماحصل یہی نکلا کہ ان کی بدکاری میں تم بھی شریک ہو جائو.خوب تعلیم ہے.ایسی تعلیم کیونکر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے؟ بلکہ وہ تو انسان کو شیطان بنانا چاہتی ہے خدا انجیل کی اس تعلیم سے ہر ایک کو بچاوے.اگر یہ سوال ہو کہ جس حالت میں شیطان اور شیطانی رنگ و روپ والوں سے محبت کرنا حرام ہے.تو کس قسم کا ان سے برتنا چاہئے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف یہ ہدایت کرتا ہے کہ اُن پر کمال درجہ کی شفقت چاہیے جیسا کہ ایک رحیم دل آدمی جذامیوں اور اندھوں اور لولوں اور لنگڑوں وغیرہ دکھ والوں پر شفقت کرتا ہے اور شفقت اور محبت میں یہ فرق ہے کہ محب اپنے محبوب کے تمام قول اور فعل کو بنظرِ استحسان دیکھتا ہے اور رغبت رکھتا ہے کہ ایسے حالات اس میں بھی پیدا ہوجائیں.مگر مشفق شخص مشفق علیہ کے حالات بنظرِ خوف و عبرت دیکھتا ہے اور اندیشہ کرتا ہے کہ شاید وہ شخص اس تباہ حال میں ہلاک نہ ہو جائے.اور حقیقی مشفق کی یہ علامت ہے کہ وہ شخص مشفق علیہ سے ہمیشہ نرمی سے پیش نہیں آتا بلکہ اس کی نسبت محل اور موقعہ کے مناسبِ حال کارروائی کرتا ہے اور کبھی نرمی اور کبھی درشتی سے پیش آتا ہے.بعض وقت اس کو شربت پلاتا ہے اور بعض اوقات ایک حاذق ڈاکٹر کی طرح اس کا ہاتھ یا پیر کاٹنے میں اس کی زندگی دیکھتا ہے اور بعض اوقات اس کے کسی عضو کو چیرتا ہے اور بعض اوقات مرہم لگاتا ہے.اگر تم ایک دن ایک بڑے

Page 235

شفاخانہ میں جہاں صدہا بیمار اور ہریک قسم کے مریض آتے ہوں بیٹھ کر ایک حاذق تجربہ کار ڈاکٹر کی کارروائیوں کو مشاہدہ کرو تو امید ہے کہ مشفق کے معنی تمہاری سمجھ میں آجائیں گے.سو تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ یعنی اے کافرو! یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلائوں سے نجات پا جائو.پھر فرماتا ہے۲؎ یعنی کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو اُن کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے اور پھر ایک مقام میں فرماتا ہے ۳؎ یعنی مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو.اس جگہ بھی مراد مرحمت سے شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہوتاہے.قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحا کے اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے جیسا کہ فرماتا ہے۴؎ اور فرماتا ہے:۵؎ اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے.۶؎ یعنی یہود اور نصاریٰ سے محبت مت کرو اور ہر ایک شخص جو صالح نہیں اس سے محبت مت کرو.ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھوکا کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں.لیکن نہیں سوچتے کہ ہریک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اُسی صورت میں بجا لانا متصوّر ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے.نہایت سخت جاہل وہ شخص ہوگا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو.ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اسی کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈال لیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی ۱؎ التوبۃ: ۱۲۸ ۲؎ الشعراء: ۴ ۳؎ البلد: ۱۸ ۴؎ البقرۃ: ۱۶۶ ۵؎ المائدۃ: ۵۲ ۶؎ اٰل عمران: ۱۱۹

Page 236

نسبت ہرگز ممکن نہیں.ہاں مومن کافر پر شفقت کرے گا اور تمام دقائق ہمدردی بجا لائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملّت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو.بھوکوں کو کھلائو.غلاموں کو آزاد کرو.قرض داروں کے قرض دو اور زیر باروں کے بار اٹھائو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو.اور فرماتا ہے۱؎یعنی خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ کہ احسان کرو.جیسے بچہ سے اُس کی والدہ.یا کوئی اور شخص محض قرابت کے جوش سے کسی کی ہمدردی کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے ۲؎ یعنی نصاریٰ وغیرہ سے جو خدا نے محبت کرنے سے ممانعت فرمائی تو اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ نیکی اور احسان اور ہمدردی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے.نہیں بلکہ جن لوگوں نے تمہارے قتل کرنے کیلئے لڑائیاں نہیں کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نہیں نکالا وہ اگرچہ عیسائی ہوں یا یہودی ہوں.بے شک ان پر احسان کرو ان سے ہمدردی کرو.انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے ۳؎ یعنی خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا جب تک باہم مل کر تمہیں نکال نہ دیا.سو ان کی دوستی حرام ہے کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں.اس جگہ یاد رکھنے کے لائق ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تَوَلِّی٭ عربی زبان میں دوستی کو کہتے ہیں.جس کا دوسرا نام مودّت ہے اور اصل حقیقت دوستی اور مودّت کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے.سو مومن نصاریٰ اور یہود اور ہنود سے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی کرسکتا ہے احسان کرسکتا ہے مگر ان سے محبت نہیں ۱؎ النحل: ۹۱ ۲؎ الممتحنہ: ۹ ۳؎ الممتحنہ: ۱۰ ٭ تَوَلِّی کی تا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تَوَلِّی میں ایک ّتکلف ہے.جو مغائرت پر دلالت کرتا ہے مگر محبت میں ایک ذرّہ مغائرت باقی نہیں رہتی.منہ

Page 237

کرسکتا.یہ ایک باریک فرق ہے اس کو خوب یاد رکھو.پھر آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا غرض محبت نہیں کرتے.ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں کی وجہ سے محبت کے لائق ہے.اما الجواب.پس واضح ہو کہ یہ اعتراض درحقیقت انجیل پر وارد ہوتا ہے نہ قرآن پر کیونکہ انجیل میں یہ تعلیم ہرگز موجود نہیں کہ خدا سے محبت ذاتی رکھنی چاہئے اور محبت ذاتی سے اس کی عبادت کرنی چاہئے مگر قرآن تو اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے.قرآن نے صاف فرما دیاہے  ٭ َ۲؎ یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ اور مومنوں کی یہی شان ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت رکھتے ہیں یعنی ایسی محبت نہ وہ اپنے باپ سے کریں اور نہ اپنی ماں سے اور نہ اپنے دوسرے پیاروں سے اور نہ اپنی جان سے.اور پھر فرمایا: ۳؎ یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور پھر فرمایا۴؎ یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے.حق العباد کا پہلو تو ہم ذکر کر چکے ہیں اور حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے.اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہوتو نہ صرف رعایت حق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر.کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے.جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ٭ انجیل کی رو سے ہر ایک فاسق فاجر خدا کا بیٹا ہے.بلکہ آپ ہی خدا ہے.سوانجیل اس وجہ سے کسی کو خدا کا بیٹا قرار نہیں دیتی کہ وہ خدا سے کامل محبت رکھتا ہے بلکہ بائبل کی رو سے زانی لوگ بھی خدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں.منہ ۱؎ البقرۃ: ۲۰۱ ۲؎ البقرۃ: ۱۶۶ ۳؎ الحجرات: ۸ ۴؎ النحل: ۹۱

Page 238

ہے.اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے درحقیقت تین قسم پر منقسم ہیں.اوّل وہ لوگ جو بباعث محجوبیت اور رؤیت اسباب کے احسان الٰہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو محسن کی عنایاتِ عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کرلیتے ہیں اور احسانِ الٰہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک باریک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے کیونکہ اسباب پرستی کا گردوغبار مسبّب حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے.اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی.جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کرسکتے.سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے.خود بھی اس کی طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے جس سے محسن کی شکل نظر کے سامنے آجاتی ہے بلکہ ان کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے.وجہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلّف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا کا حق خالقیت اور رزّاقیت ہمارے سر پر واجب ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کی وسعتِ فہم سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا.اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں، یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں اور آیتمیں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں.انسان کی نظر رؤیت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آجاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا.یہ تمام باتیں ہیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے.تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گردوغبار نہیں.خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے.اور یہ رؤیت اس قسم کی صاف

Page 239

اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقینا اس کو حاضر خیال کرکے اس کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں احسان ہے.اور صحیح بخاری اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں.اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام ہے.٭ اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احساناتِ الٰہی کو بلا شرکت اسباب دیکھتا رہے اور اس کو حاضر اور بلاواسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصوّر اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جنابِ الٰہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہوگئے.پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصوّر سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے.جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے.پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر سچے عشاق کی طرح لذّت بھی اُٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی معدوم ہوکر ذاتی محبت اس کی اندر پیدا ہوجاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ سے تعبیر کیا ہے.اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے..۱؎ غرض آیت ۲؎ کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراضِ نفسانی جَل جاتے ہیں اور ٭ مرتبہ ایتایِٔ ذیِ القُربٰی متواتر احسانات کے ملاحظہ سے پیدا ہوتا ہے.اور اس مرتبہ میں کامل طور پر عابد کے دل میں محبت ذات باری تعالیٰ کی پیدا ہو جاتی ہے اور اغراضِ نفسانیہ کارائحہ اور بقیہ بالکل دور ہو جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ محبتِ ذاتی کا اصل اور منبع دو ہی چیزیں ہیں (۱) اوّل کثرت سے مطالعہ کسی کے حسن کا اور اس کے نقوش اور خال و خط اور شمائل کو ہر وقت ذہن میں رکھنا اور بار بار اس کا تصوّر کرنا.(۲)دوسرے کثرت سے تصور کسی کے متواتر احسانات کا کرنا اس کے انواع و اقسام کی مروّتوں اور احسانوں کو ذہن میں لاتے رہنا اور ان احسانوں کی عظمت اپنے دل میں بٹھانا.(منہ) ۱؎ البقرۃ: ۲۰۱ ۲؎ النحل: ۹

Page 240

دل میں محبت ذات باری تعالیٰ کی پیدا ہو جاتی ہے اور اغراضِ نفسانیہ کارائحہ اور بقیہ بالکل دور ہو جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ محبتِ ذاتی کا اصل اور منبع دو ہی چیزیں ہیں (۱) اوّل کثرت سے مطالعہ کسی کے حسن کا اور اس کے نقوش اور خال و خط اور شمائل کو ہر وقت ذہن میں رکھنا اور بار بار اس کا تصوّر کرنا.(۲)دوسرے کثرت سے تصور کسی کے متواتر احسانات کا کرنا اس کے انواع و اقسام کی مروّتوں اور احسانوں کو ذہن میں لاتے رہنا اور ان احسانوں کی عظمت اپنے دل میں بٹھانا.(منہ) ۱؎ البقرۃ: ۲۰۱ ۲؎ النحل: ۹ سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے  ۱؎ یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضائِ الٰہی کے عوض میں بیچ٭ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے.اور پھر فرمایاٌ ۲؎ یعنے وہ لوگ نجات یافتہ ہیں.جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں.سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں.اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم کرتے ہیں.یعنی ان کا مدّعا خدا اور خدا کی محبت ہوجاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرمایا . ۳؎ یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکرگذاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے.ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے.اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادتِ الٰہی اور اعمالِ صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبتِ الٰہی اور رضائِ الٰہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے.مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمدہ تعلیم جو نہایت صفائی سے بیان کی گئی ہے انجیل میں بھی موجود ہے.ہم ہریک کو یقین دلاتے ہیں کہ اس صفائی اور تفصیل سے انجیل نے ہرگز بیان نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تاانسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے.کیونکہ اسلام تمام اغراض کے چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے.دنیا میں بجز اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں.جس کے یہ مقاصد ہوں.۱؎ البقرۃ: ۲۰۸ ۲؎ البقرۃ: ۱۱۳ ۳؎ الدھر: ۹،۱۰ ٭ نفس کے بیچنے میں یہ بات داخل ہے کہ انسان اپنی زندگی اور اپنے آرام کو جلالِ الٰہی کے ظاہر کرنے اور دین کی خدمت میں وقف کر دیوے.منہ

Page 241

بے شک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت کے جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دیئے ہیں.مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے خواہش مند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبتِ ذاتی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کریں.لیکن انجیل میں تو صاف شہادتیں موجود ہیں کہ آپ کے یسوع صاحب کے حواری لالچی اور کم عقل تھے.پس جیسے ان کی عقلیں اور ہمتیں تھیں ایسی ہی ان کو ہدایت بھی ملی.اور ایسا ہی یسوع بھی ان کو مل گیا.جس نے اپنی خودکشی کا دھوکا دے کر سادہ لوحوں کو عبادت کرنے سے روک دیا.اگر کہو کہ انجیل نے یہ سکھلا کر کہ خدا کو باپ کہو محبتِ ذاتی کی طرف اشارہ کیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا خیال سراسر غلط ہے کیونکہ انجیلوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے خدا کے بیٹے کا لفظ دو طور سے استعمال کیا ہے.(۱) اوّل تو یہ کہ مسیح کے وقت میں یہ قدیم رسم تھی.کہ جو شخص رحم اور نیکی کے کام کرتا.اور لوگوں سے مروّت اور احسان سے پیش آتا تو وہ واشگاف کہتا.کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.اور اس لفظ سے اس کی یہ نیت ہوتی تھی کہ جیسے خدا نیکوں اور بدوں دونوں پر رحم کرتا ہے.اور اس کے آفتاب اور ماہتاب اور بارش سے تمام بُرے بھلے فائدہ اٹھاتے ہیں.ایسا ہی عام طور پر نیکی کرنا میری عادت ہے.لیکن فرق اس قدر ہے کہ خدا تو ان کاموں میں بڑا ہے.اور میں چھوٹا ہوں.سو انجیل نے بھی اس لحاظ سے خدا کو باپ ٹھہرایا کہ وہ بڑا ہے اور دوسروں کو بیٹا ٹھہرایا یہ نیت کرکے کہ وہ چھوٹے ہیں.مگر اصل امر میں خدا سے مساوی کیا یعنی کمیت میں کمی بیشی کو مان لیا مگر کیفیت میں باپ بیٹا ایک رہے.اور یہ ایک مخفی شرک تھا.اس لئے کامل کتاب یعنی قرآن شریف نے اس طرح کی بول چال کو جائز نہیں رکھا.یہودیوں میں جو ناقص حالت میں تھے جائز تھا اور انہیں کی تقلید سے یسوع نے اپنی باتوں میں بیان کردیا.چنانچہ انجیل کے اکثر مقامات میں اسی قسم کے اشارے پائے جاتے ہیں کہ خدا کی طرح رحم کرو.خدا کی طرح دشمنوں سے بھی ایسی ہی بھلائی کرو جیسا کہ دوستوں سے تب تم خدا کے فرزند کہلائو گے کیونکہ اس کے کام سے تمہارا کام مشابہ ہوگا.صرف اتنا فرق رہا کہ وہ بڑا بمنزلہ باپ خدا اور تم چھوٹے بمنزلہ بیٹے کے ٹھہرے.سو یہ تعلیم درحقیقت یہودیوں کی کتابوں سے لی گئی تھی اس لئے یہودیوں کا اب تک یہ اعتراض ہے کہ یہ چوری اور سرقہ ہے.بائبل سے چرا کر یہ باتیں انجیل میں لکھ دیں.بہرحال یہ تعلیم ایک تو ناقص ہے اور

Page 242

دوسرے اس طرح کا بیٹا محبت ذاتی سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.(۲) دوسری قسم کے بیٹے کا انجیل میں ایک بے ہودہ بیان ہے جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۴ میں ہے.یعنی اس ورس میں بیٹا تو ایک طرف ہریک کو خواہ کیسا ہی بدمعاش ہو خدا بنادیا ہے.اور دلیل یہ پیش کی ہے.کہ نوشتوں کا باطل ہونا ممکن نہیں.غرض انجیل نے شخصی تقلید سے اپنی قوم کا ایک مشہور لفظ لے لیا.علاوہ اس کے یہ بات خود غلط ہے کہ خدا کو باپ قرار دیا جاوے اور اس سے زیادہ تر نادان اور بے ادب کون ہوگا کہ باپ کا لفظ خدا تعالیٰ پر اطلاق کرے.چنانچہ ہم اس بحث کو بفضلہ تعالیٰ کتاب منن الرحمن میں بتفصیل بیان کرچکے ہیں.اس سے آپ پر ثابت ہوگا کہ خدا تعالیٰ پر باپ کا لفظ اطلاق کرنا نہایت گندہ اور ناپاک طریق ہے.اسی وجہ سے قرآن کریم نے سمجھانے کے لئے یہ تو کہا کہ خدا تعالیٰ کو ایسی محبت سے یاد کرو جیسا کہ باپوں کو یاد کرتے ہو.مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کو باپ سمجھ لو.اور انجیل میں ایک اور نقص یہ ہے کہ اس نے یہ تعلیم کسی جگہ نہیں دی کہ عبادت کرنے کے وقت اعلیٰ طریق عبادت یہی ہے کہ اغراض نفسانیہ کو درمیان سے اٹھا دیا جاوے بلکہ اگر کچھ سکھلایا تو صرف روٹی مانگنے کے لئے دعا سکھلائی قرآن شریف نے تو ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ   ۱؎ یعنی ہمیں اس راہ پر قائم کر جو نبیوں اور صدیقوں کی اور عاشقانِ الٰہی کی راہ ہے.مگر انجیل یہ سکھلاتی ہے کہ ہماری روزینہ کی روٹی آج ہمیں بخش.ہم نے تمام انجیل پڑھ کر دیکھی اس میں اعلیٰ تعلیم کا نام و نشان نہیں ہے.اعتراض پنجم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صاحب کی ایک غیر عورت پر نظر پڑی.تو آپ نے گھر میں آکر اپنی بیوی سودہؓ سے خلوت کی.پس جو شخص غیر عورت کو دیکھ کر اپنے نفس پر غالب نہیں آسکتا.جب تک اپنی عورت سے خلوت نہ کرے اور اپنے نفس کی حرص کو پورا نہ کرے تو وہ فرد اکمل کیونکر ہوسکتا ہے؟ اقول میں کہتا ہوں کہ جس حدیث کے معترض نے اُلٹے معنے سمجھ لئے ہیں وہ صحیح مسلم میں ہے.اور اس کے الفاظ یہ ہیں.عَنْ جَابِرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاَی اِمْرَاَۃً فَاَتٰی ۱؎ الفاتحہ: ۶.۷

Page 243

اِمْرُأَتَہٗ زَیْنَبَ وَھِیَ تَمْعَسُ مَنِیَّۃً لَھَا فَقَضٰی حَاجَتَہٗ.اس حدیث میں سودہؓ کا کہیں ذکر نہیں اور معنے حدیث کے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا.پھر اپنی بیوی زینبؓ کے پاس آئے اور وہ چمڑہ کو مالش کر رہی تھی.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حاجت پوری کی.اب دیکھو کہ حدیث میں اس بات کا نام و نشان نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کا حسن و جمال پسند آیا.بلکہ یہ بھی ذکر نہیں کہ وہ عورت جوان تھی یا بڈھی تھی.اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے آکر صحبت کی.الفاظ حدیث صرف اس قدر ہیں کہ اس سے اپنی حاجت کو پورا کیا اور لفظ قَضٰی حَاجَتَہٗ لغت عرب میں مباشرت سے خاص نہیں ہے.قضائِ حاجت پاخانہ پھرنے کو بھی کہتے ہیں اور کئی اور معنوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے.یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے صحبت کی تھی.ایک عام لفظ کسی خاص معنی میں محدود کرنا صریح شرارت ہے.علاوہ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات مروی نہیں کہ میں نے ایک عورت کو دیکھ کر اپنی بیوی سے صحبت کی.اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ مسلم میں جابر سے ایک حدیث ہے.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کی نظر میں خوبصورت معلوم ہو.تو بہتر ہے کہ فی الفور گھر میں آکر اپنی عورت سے صحبت کر لے تاکہ کوئی خطرہ بھی دل میں گذرنے نہ پائے اور بطور حفظِ ماتقدم علاج ہو جائے.پس ممکن ہے کہ کسی صحابی نے اس حدیث کے سننے کے بعد دیکھا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی راہ میں کوئی جوان عورت سامنے آگئی اور پھر اس کو یہ بھی اطلاع ہوگئی ہو کہ اس وقت کے قریب ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً اپنی بیوی سے صحبت کی تو اس نے اس اتفاقی امر پر اپنے اجتہاد سے اپنے گمان میں ایسا ہی سمجھ لیا ہو کہ اس حدیث کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عمل کیا.پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ وہ قول صحابی کا صحیح تھا تو اس سے کوئی بد نتیجہ نکالنا کسی بد اور خبیث آدمی کا کام ہے.بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اس بات پر بہت حریص ہوتے ہیں کہ ہریک نیکی اور تقویٰ کے کام کو عملی نمونہ کے پیرایہ میں لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیں.پس بسا اوقات وہ تنزّل کے طور پر کوئی ایسا نیکی اور تقویٰ کا کام بھی کرتے ہیں جس میں محض عملی نمونہ دکھانا منظور ہوتا

Page 244

ہے اور ان کے نفس کو اس کی کچھ بھی حاجت نہیں ہوتی جیسا کہ ہم قانون قدرت کے آئینہ میں یہ بات حیوانات میں بھی پاتے ہیں.مثلاً ایک مرغی صرف مصنوعی طور پر اپنی منقار دانہ پر اس غرض سے مارتی ہے کہ اپنے بچوں کو سکھا دے کہ اس طرح دانہ زمین پر سے اٹھانا چاہئے.سو عملی نمونہ دکھانا کامل معلّم کے لئے ضروری ہوتا ہے اور ہریک فعل معلّم کا اس کے دل کی حالت کا معیار نہیں ہوتا ماسوا اس کے ایک خوبصورت کو، اگر اتفاقاً اس پر نظر پڑ جائے، خوبصورت سمجھنا نفس الامر میں کوئی بات عیب کی نہیں.ہاں بدخطرات کامل تقدس کے برخلاف ہیں لیکن جو شخص بدخطرات سے پہلے حفظِ ماتقدم کے طور پر تقویٰ کی دقیق راہوں پر قدم مارے تاخطرات سے دور رہے.تو کیا ایسا عمل کمال کے منافی ہوگا.یہ تعلیم قرآن شریف کی نہایت اعلیٰ ہے کہ  ۱؎ یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق راہیں اختیار کرے.اسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے.پس بلاشبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل ازخطرات خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطور حفظِ ماتقدم کی جائے.اور اگر یہ دعویٰ ہو کہ کاملین بہرحال خطرات سے محفوظ رہتے ہیں.ان کو تدبیر کی حاجت نہیں تو یہ دعویٰ سراسر حماقت اور قصور معرفت کی وجہ سے ہوگا.کیونکہ انبیاء علیہم السلام کسی معصیت اور نافرمانی پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی دلی عزیمت نہیں کرسکتے.اور ایسا کرنا ان کے لئے کبائر ذنوب کی طرح ہے لیکن انسانی قویٰ اپنے خواص اس میں بھی دکھلا سکتے ہیں.گو وہ بدخطرات پر قائم ہونے سے بکلّی محفوظ رکھے گئے ہیں.مثلاً اگر ایک نبی بشدت بھوکا ہو اور راہ میں وہ بعض درخت پھلوں سے لدے ہوئے پائے تو یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بغیر اجازت مالک پھلوں کی طرف ہاتھ لمبا نہیں کرے گا اور نہ دل میں اُن پھلوں کے توڑنے کے لئے عزیمت کرے گا لیکن یہ خیال اس کو آسکتا ہے کہ اگر یہ پھل میری مِلک میں سے ہوتے تو میں ان کو کھا سکتا.اور یہ خیال کمال کے منافی نہیں.آپ کو یاد ہوگا کہ آپ کے خدا صاحب تھوڑی سی بھوک کے عذاب پر صبر نہ کر کے کیونکر انجیر کے درخت کی طرف دوڑے گئے.کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ درخت ان کا یا ان کے والد صاحب کی مِلک میں سے تھا؟ پس جو شخص بیگانہ درخت کو دیکھ کر اپنے نفس پر غالب نہ آسکا اور پیٹ کو بھینٹ ۱؎ الحجرات: ۱۴

Page 245

چڑھانے کے لئے اس کی طرف دوڑا گیا.وہ خدا تو کیا بلکہ بقول آپ کے فرد اکمل بھی نہیں.الغرض کسی کے دل میں یہ خیال گذرنا کہ یہ چیز خوبصورت ہے.یہ ایک علیحدہ امر ہے جس کو خدا نے آنکھیں دی ہیں جیسے وہ کانٹے اور پھول میں فرق کرسکتا ہے.ایسا ہی وہ خوبصورت اور بدصورت میں فرق کرسکتا ہے.آپ کے خدا صاحب کو شاید یہ قوت ممیزہ فطرت سے نہیں ملی ہوگی مگر پیٹ کی شہوت کے لئے تو انجیر کے درخت کی طرف دوڑے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ کس کا انجیر ہے.تعجب کہ ایک شرابی اور کھائو پیو کو شہوت پرست نہ کہا جائے اور وہ پاک ذات جس کی زندگی اور جس کا ہریک فعل خدا کے لئے تھا.اس کا نام اس زمانہ کے پلید طبع شہوت پرست رکھیں.عجب تاریکی کا زمانہ ہے.یہ اسلام کی اعلیٰ تعلیم کا ایک نمونہ ہے کہ ہرگز قصداً کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھو کہ یہ بدنظری کا پیش خیمہ ہے.اور اگر اتفاقاً کسی خوبصورت عورت پر نظر پڑے اور وہ خوبصورت معلوم ہو تو اپنی عورت سے صحبت کر کے اس خیال کو ٹال دو.خوب یاد رکھو کہ یہ تعلیم اور یہ حکم حفظِ ماتقدم کے طور پر ہے جو شخص مثلاً ہیضہ کے دنوں میں ہیضہ سے بچنے کے لئے حفظِ ماتقدم کے طور پر کوئی دوا استعمال کرتا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کو ہیضہ ہوگیا ہے یا ہیضہ کے آثار اس میں ظاہر ہوگئے ہیں.بلکہ یہ بات اس کی دانشمندی میں محسوب ہوگی اور سمجھا جائے گا کہ وہ اس بیماری سے طبعاً نفرت رکھتا ہے اور اس سے دُور رہنا چاہتا ہے.اس بات میں آپ کے ساتھ کوئی بھی اتفاق نہیں کرے گا کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا کمال کے برخلاف ہے.اگر انبیاء علیہم السلام تقویٰ کا نمونہ نہ دکھلاویں تو اور کون دکھلاوے.جو خدا ترسی میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے وہی سب سے بڑھ کر تقویٰ بھی اختیار کرتا ہے.وہ بدی سے اپنے تئیں دُور رکھتا ہے وہ ان راہوں کو چھوڑ دیتا ہے.جس میں بدی کا احتمال ہوتا ہے.مگر آپ کے یسوع صاحب کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کب تک ان کے حال پر روویں.کیا یہ مناسب تھا کہ وہ ایک زانیہ عورت کو یہ موقعہ دیتا کہ وہ عین جوانی اور حُسن کی حالت میں ننگے سر اس سے مل کر بیٹھتی اور نہایت ناز اور نخرہ سے اس کے پائوں پر اپنے بال َملتی اور حرام کاری کے عطر سے اس کے سر پر مالش کرتی.اگر یسوع کا دل بدخیالات سے پاک ہوتا تو وہ ایک کسبی عورت کو نزدیک آنے سے ضرور منع کرتا.مگر ایسے لوگ جن کو حرام کار عورتوں کے چُھونے سے مزہ آتا ہے.وہ ایسے نفسانی موقعہ پر کسی ناصح کی نصیحت بھی نہیں سُنا کرتے.دیکھو یسوع

Page 246

کو ایک غیرت مند بزرگ نے نصیحت کے ارادہ سے روکنا چاہا کہ ایسی حرکت کرنا مناسب نہیں.مگر یسوع نے اس کے چہرہ کی ترش روئی سے سمجھ لیا کہ میری اس حرکت سے یہ شخص بیزار ہے تو رندوں کی طرح اعتراض کو باتوں میں ٹال دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ کنجری بڑی اخلاص مند ہے.ایسا اخلاص تو تجھ میں بھی نہیں پایا گیا.سبحان اللہ! یہ کیا عمدہ جواب ہے.یسوع صاحب ایک زنا کار عورت کی تعریف کر رہے ہیں کہ بڑی نیک بخت ہے.دعویٰ خدائی کا اور کام ایسے.بھلا جو شخص ہر وقت شراب سے سرمست رہتا ہے اور کنجریوں سے میل جول رکھتا ہے اور کھانے میں بھی ایسا اوّل نمبر کا جو لوگوں میں یہ اس کا نام ہی پڑ گیا ہے کہ یہ کھائو پیو ہے.اس سے کس تقویٰ اور نیک بختی کی امید ہوسکتی ہے.ہمارے سیّد و مولیٰ افضل الانبیاء خیر الاصفیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقویٰ دیکھئے کہ وہ ان عورتوں کے ہاتھ سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے تھے جو پاک دامن اور نیک بخت ہوتی تھیں اور بیعت کرنے کے لئے آتی تھیں بلکہ دور بٹھا کر صرف زبانی تلقین توبہ کرتے تھے مگر کون عقلمند اور پرہیز گار ایسے شخص کو پاک باطن سمجھے گا جو جوان عورتوں کے چُھونے سے پرہیز نہیں کرتا.ایک کنجری خوبصورت ایسی قریب بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے.کبھی ہاتھ لمبا کر کے سر پر عطر مل رہی ہے کبھی پیروں کو پکڑتی ہے اور کبھی اپنے خوشنما اور سیاہ بالوں کو پیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں تماشہ کررہی ہے.یسوع صاحب اس حالت میں وجد میں بیٹھے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تو اس کو جھڑک دیتے ہیں اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر ّمجرد اور ایک خوبصورت کسبی عورت سامنے پڑی ہے.جسم کے ساتھ جسم لگا رہی ہے.کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چُھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی.افسوس کہ یسوع کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کر لیتا.کم بخت زانیہ کے چُھونے سے اور ناز و ادا کرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور شہوت کے جوش نے پورے طور پر کام کیا ہوگا.اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرام کار عورت! مجھ سے دُور رہ.اور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف میں سے تھی اور زنا کاری میں سارے شہر میں مشہور تھی.اعتراض ہفتم متعہ کا جائز کرنا اور پھر ناجائز کرنا.

Page 247

اما الجواب.نادان عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا.بلکہ جہاں تک ممکن تھا اس کو دنیا میں سے گھٹایا.اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں متعہ کی رسم تھی یعنی یہ کہ ایک وقت خاص تک نکاح کرنا پھر طلاق دے دینا اور اس رسم کے پھیلانے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی سبب تھا کہ جو لوگ لشکروں میں منسلک ہوکر دوسرے ملکوں میں جاتے تھے یا بطریق تجارت ایک مدت تک دوسرے ملک میں رہتے تھے.ان کو مؤقت نکاح یعنی متعہ کی ضرورت پڑتی تھی اور کبھی یہ بھی باعث ہوتا کہ غیرملک کی عورتیں پہلے سے بتلا دیتی تھیں کہ وہ ساتھ جانے پر راضی نہیں اس لئے اسی نیت سے نکاح ہوتا تھا کہ فلاں تاریخ طلاق دی جائے گی.پس یہ سچ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ اس قدیم رسم پر بعض مسلمانوں نے بھی عمل کیا.٭ مگر وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی.معمولی طور پر اس پر عمل ہوگیا لیکن متعہ میں بجز اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ایک تاریخ مقررہ تک نکاح ہوتا ہے اور وحی الٰہی نے آخر اس کو حرام کر دیا.چنانچہ ہم رسالہ آریہ دھرم میں اس کی تفصیل لکھ چکے ہیں.مگر تعجب کہ عیسائی لوگ کیوں متعہ کا ذکر کرتے ہیں جو صرف ایک نکاحِ مؤ ّقت ہے.اپنے یسوع کے چال چلن کو کیوں نہیں دیکھتے.کہ وہ ایسی جوان عورتوں پر نظر ڈالتا ہے جن پر نظر ڈالنا اس کو درست نہ تھا.کیا جائز تھا کہ ایک کسبی کے ساتھ وہ ہم نشین ہوتا.کاش اگر متعہ کا ہی پابند ہوتا تو ان حرکات سے بچ جاتا.کیا یسوع کی بزرگ دادیوں نانیوں نے متعہ کیا تھا یا صریح صریح زنا کاری تھی.ہم عیسائی صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ جس مذہب میں نہ متعہ یعنی نکاحِ مؤ ّقت درست ہے اور نہ ازدواج ثانی جائز.اس مذہب کے لشکری لوگ جو بباعث رعایت حفظ قوت کے راہبانہ زندگی بھی بسر نہیں کرسکتے بلکہ شہوت کی جنبش دینے والی شرابیں پیتے ہیں.وہ عمدہ سے عمدہ خوراکیں کھاتے ہیں.تا سپاہیانہ کاموں کے بجا لانے میں چست و چالاک رہیں جیسے گوروں کی پلٹنیں وہ کیونکر بدکاریوں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہیں اور ان کی حفظِ ّعفت کے لئے انجیل میں کیا قانون ہے اور اگر کوئی قانون تھا اور انجیل میں ایسے مجردوں کا کچھ علاج لکھا تھا تو پھر کیوں سرکار انگریزی نے ایکٹ چھائونی ہائے نمبر ۱۳، ۱۸۸۹ء جاری کرکے یہ انتظام کیا کہ گورہ سپاہی فاحشہ عورتوں کے ساتھ خراب ہوا کریں یہاں تک کہ سر جارج رائٹ کمانڈر انچیف ٭ یہ عمل سخت اضطرار کے وقت تھا جیسے بھوک سے مرنے والا مُردہ کھا لے.

Page 248

افواجِ ہند نے ماتحت حکام کو ترغیب دی کہ ایسی خوبصورت اور جوان عورتیں گوروں کی زنا کاری کے لئے بہم پہنچائی جائیں.یہ ظاہر ہے کہ اگر ایسی ضرورتوں کے وقت جنہوں نے حکاّم کو ان قابل شرم تجویزوں کے لئے مجبور کیا.انجیلوں میں کوئی تدبیر ہوتی تو وہ حلال طریق کو چھوڑ کر ناپاک طریقوں کو اپنے بہادر سپاہیوں میں رواج نہ دیتے.اسلام میں کثرتِ ازدواج کی برکتوں نے ہریک زمانہ میں سلاطین کو ان ناپاک تدبیروں سے بچا لیا.اسلامی سپاہی نکاح سے اپنے تئیں حرام کاری سے بچا لیتے ہیں.اگر پادری صاحبان کوئی مخفی تدابیر انجیل کی حرام کاری سے بچانے کی یاد رکھتے ہیں تو اس طریق سے گورنمنٹ کو روک دیں کیونکہ اخبار ٹائمز نے اب پھر زور شور سے اس قانون کو دوبارہ جاری کرنے کے لئے سلسلہ جنبانی کی ہے.یہ سب باتیں اس بات پر گواہ ہیں کہ انجیل کی تعلیم ناقص ہے اور اس میں تمدن کے ہریک پہلو کا لحاظ نہیں کیا گیا.باقی آئندہ.انشاء اللہ.٭ الراقم: میرزا غلام احمد قادیانی

Page 249

مکتوب نمبر۱۱ مشفقی پادری فتح مسیح صاحب! بعد ماوجب مدت کے بعد آپ کا عنایت نامہ پہنچا.اگر آپ نے ہزار روپیہ پانے کی کوئی نظیر پیدا کر لی ہے تو بہت خوب ہے لیکن بہتر ہے کہ آپ ایسے عمدہ اور اعلیٰ کتابوں کے حوالہ سے کوئی اشتہار میرے نام شائع کر دیں.اور یہی مضمون جو خط میں آپ نے لکھا ہے اس میں لکھ دیں اور اگر اشتہار نہیں تو نور افشاں میں چھپوا دیں.آپ جانتے ہیں کہ میں نے کوئی قلمی تحریر آپ کی طرف نہیں بھیجی بلکہ ہزار روپیہ کا اشتہار چھپوا کر بھیجا ہے.تو اس صورت میں طریق مقابلہ یہی ہے کہ جیسا کہ میں نے ایک دعویٰ کو چھاپ کر پبلک کے سامنے رکھ دیا ہے اور ہر ایک کو نظر اور غور کرنے کا موقع دیا ہے.آپ بھی ویساہی کریں اور وہ عمدہ کتابیں جو آپ کی دانست میں اعتماد کے لائق ہیں اور اہل الرائے نے ان پر کوئی جرح نہیں کیا اور نہ ان مفتریات میں سے ٹھہرایا ہے.ان کا وہ مقام شائع کر دیں.آپ کی اس میںبڑی نیک نامی ہوگی کیونکہ جب کہ میں اس وسوسہ کے استیصال کیلئے جواب الجواب چھپوا دوں گا اور پبلک کی نظر میں وہ نکما ثابت ہوگا تو گویا پبلک آپ کو ہزار روپیہ پانے کی ڈگری دے دے گی.اس صورت میں ہر ایک کی نظر میں آپ ہزار روپیہ پانے کے مستحق ٹھہر جاویں گے اور مجھ کو دینا پڑے گا اورنیز اس صورت میں یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کی اس معرکہ کی فتح کے بعد کچھ ترقی بھی ضرور ہوگی کیونکہ جب کہ آپ یسوع صاحب کی عزت ثابت کریں گے تو ضرور لوگ آپ کی عزت کریں گے.میری نظر میں تو سوائے حوالات میں رہنے اور چوتڑوں پر کوڑے کھانے کے انجیل سے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا.اگر اسی کا نام عزت ہے تو بے شک اُس وقت کے مخالف مذہب والیانِ ملک نے مسیح کی بڑی عزت کی.خیر اوّل اس خط کو جو میری طرف بھیجا ہے، چھپوا دیں اور جلد چھپوا دیں اور ایک کاپی میرے نام بھیج دیں.پھر آپ دیکھ لیں گے کہ میں کیسی ان اسناد کی وقعت اور یسوع مسیح کی عزت ثابت کرتا ہوں.اور آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ نور القرآن میں مجھ کو گالیاں دی ہیں.آپ یاد رکھیں کہ گالیاں دینا اور توہین کرنا اور افتراء کرنا وہ سب اس زمانہ کے پادری صاحبوں کے حصہ میں آ گیا ہے.کون سی گالی ہے جو آپ

Page 250

لوگوں نے ہمارے سیّدو مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی.کونسی توہین ہے جو اس جناب کی آپ لوگوں نے نہیں کی.نہ ایک نہ دو بلکہ ہزاروں کتابیں آپ لوگوں کے ہاتھ سے ایسی نکلی ہیں جو گالیوں سے بھری ہوئی ہیں.اگر وہی الفاظ آپ صاحبوں کے باپ یا ماں یا یسوع کی نسبت استعمال کئے جائیں تو کیا آپ برداشت کر سکتے ہیں؟ ہمارے دلوں کو آپ لوگوں نے ایسا دُکھایا جس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی.یہ مُردہ پرستی کی شامت ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں سے راستبازی کا نور بالکل جاتا رہا.ہر ایک سوال شرارت کے ساتھ ملا کر بیان کیا جاتا ہے ہر ایک اعتراض میں افتراء کی ملونی سے رنگ دیا جاتا ہے.ہر ایک بات ٹھٹھے اور ہنسی سے مخلوط ہوتی ہے.کیا یہ نیک انسانوں کا کام ہے؟ پھر جس حالت میں آپ اُس عالی جناب کی عزت نہیں کرتے جس کو زمین و آسمان کے خالق نے عزت دے رکھی ہے اور جس کے آستانہ پر پچانوے کروڑ آدمی سر جھکاتے ہیں (نئی تحقیقات سے مسلمانوں کی تعداد ۹۵ کروڑ تمام روئے زمین پر ثابت ہوئی ہے) پھر آپ ہم سے کس عزت کو چاہتے ہیں؟ ہم نے بہتیرا چاہا کہ آپ لوگ تہذیب سے پیش آویں تا ہم بھی تہذیب سے پیش آویں مگر آپ لوگ ایسا کرنا نہیں چاہتے.کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جن اعتراضات کو آپ تہذیب اور نرمی سے پیش کر سکتے ہیں ان کو آپ توہین اور تحقیر سے پیش کرتے ہیں.مثلاً زینب کے قصہ میں جو متبنّٰی کی بیوی کو نکاح میں لانا آپ لوگوں کی نظر میں محل اعتراض ہے اور اس اعتراض کو دل دکھانے کیلئے توہین اور تحقیر کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں.اگر آپ کے دل میں طلبِ حق اور زبان میں تہذیب ہو تو اس طور سے اعتراض پیش کریں کہ ہماری توریت اور انجیل کی رو سے متبنّٰی کی بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے اور توریت انجیل کی رو سے جس مرد کو بیٹا کہا جاوے یا عورت کو بیٹی کہا جائے تو اس مرد کی بیوی حرام ہو جاتی ہے اور ایسی عورت کو نکاح میں لانا حرام ہو جاتا ہے.یا اگر نکاح میں ہوتو اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور نیز فلاں فلاں عقلی دلیل سے ثابت ہے کہ متبنّٰی اصل بیٹے کی مانند ہو جاتا ہے مگر اسلام نے متبنّٰی کی بیوی سے بعد طلاق نکاح جائز رکھا ہے.تو ایسے اعتراض سے کوئی مسلمان ناراض نہ ہو یا مثلاً کثرتِ ازدواج پر آپ اعتراض کریں اور نرمی سے توریت اور انجیل کی آیات ثبوت میں لکھیں کہ صریح ان کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک سے زیادہ بیوی کرنا حرام ہے اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ زنا کرتا ہے.اور معقول طور سے بھی دوسری بیوی کی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوئی تو اس اعتراض

Page 251

پر کون ناراض ہو سکتاہے.اگر خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ اخلاق نصیب کرے تو ہم بچوں کی طرح آپ لوگوں کو شفقت اور رحمت سے تعلیم دے سکتے ہیں اور محبت اور خُلق سے ہر ایک بات میں آپ کی تسلی کر سکتے ہیں.مگر آپ تو درندوں کی طرح ہم پر گرتے ہیں.پھر آخر ہم نہ جوش غصہ سے بلکہ تادیب کیلئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں.ہاں اگر آپ حقیقی خلق برتنے اور درندگی کے چھوڑنے کیلئے تیار ہیں تو ہم بھی محبت اور خلق اور عزت کرنے کیلئے تیار ہیں.ورنہ آپ کی مرضی.یقینا ایک وہ زمانہ تھا جو بقول آپ کے یسوع مصلوب ہوا اور اب وہ گھڑی بہت نزدیک ہے جو تثلیث مصلوب ہو جاوے گی اور توریت کے مفہوم کے موافق لکڑی پر لٹکائی جاوے گی.والسلام علی من اتبع الہدیٰ.(از قادیان ضلع گورداسپور.یکم فروری ۱۸۹۶ء) نور القرآن کا جواب جلد شائع کر یں.ان ہی اعتراض کیلئے رجسٹری شدہ خط بھیجتا ہوں.٭ (غلام احمد) پر کون ناراض ہو سکتاہے.اگر خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ اخلاق نصیب کرے تو ہم بچوں کی طرح آپ لوگوں کو شفقت اور رحمت سے تعلیم دے سکتے ہیں اور محبت اور خُلق سے ہر ایک بات میں آپ کی تسلی کر سکتے ہیں.مگر آپ تو درندوں کی طرح ہم پر گرتے ہیں.پھر آخر ہم نہ جوش غصہ سے بلکہ تادیب کیلئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں.ہاں اگر آپ حقیقی خلق برتنے اور درندگی کے چھوڑنے کیلئے تیار ہیں تو ہم بھی محبت اور خلق اور عزت کرنے کیلئے تیار ہیں.ورنہ آپ کی مرضی.یقینا ایک وہ زمانہ تھا جو بقول آپ کے یسوع مصلوب ہوا اور اب وہ گھڑی بہت نزدیک ہے جو تثلیث مصلوب ہو جاوے گی اور توریت کے مفہوم کے موافق لکڑی پر لٹکائی جاوے گی.والسلام علی من اتبع الہدیٰ.(از قادیان ضلع گورداسپور.یکم فروری ۱۸۹۶ء) نور القرآن کا جواب جلد شائع کر یں.ان ہی اعتراض کیلئے رجسٹری شدہ خط بھیجتا ہوں.٭ (غلام احمد)

Page 252

ایک یادداشت پادری لیفرائے کے لیکچر اور مفتی محمد صادق صاحب کی طرف سے اس کے لیکچر کے بارہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی ایک یادداشت قادیان بعد از ظہر ۲۴ مئی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا مفصل خط ملا.امیر علی شاہ کے پاس کی خبر نے مجھے، حضرت کو اور اپنی جماعت کو از بس خوش کیا.خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا بھائیوں کے اتفاق اور اس کے لوازم کی خبر نے بہت خوش کیا.اللہ تعالیٰ استقامت بخشے.ظہر کے بعد مفتی محمد صادق صاحب لاہور سے آئے ہیں اور عصر کی نماز پڑھ کر واپس چلے جائیں گے.بشپ صاحب کی تقریر اور اپنی تقریر سب سنائی اور سنایا کہ عام مسلمانوں پر بہت اثر پڑا کہ مرزائی جیت گئے.اُس نے قرآن کریم سے یہ ثابت کرنا چاہا جیسا کہ عام عیسائی ثابت کیا کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ (ذنب) کا اعتراف کرتے ہیں اور استغفار پڑھتے رہتے تھے.اس سے ثابت ہوا کہ وہ گنہگار تھے.مفتی صاحب نے ذنب، جرم اور خطا اور عصیان اور اثم کا فلسفہ بیان کیا اور استغفار کی حقیقت بیان کی.بشپ تو حیران رہ گیا کیونکہ ان کافروں نے یہ باتیں نہ سنی ہوئی تھیں اور نہ پڑھی ہوئی تھیں.غرض ان کا جواب نہ دے سکا.اس جمعہ میں انہوں نے زندہ رسول پر لیکچر دینے کا اشتہار دیا ہے حضرت نے ابھی قلم پکڑ لیا ہے اور زندہ رسول پر اشتہار دینے کی تیاری کر دی ہے اورحکم دیا ہے کہ رات رات یہ اشتہار چھپ جائے اور جمعہ کو عصر کے وقت تقسیم ہو جائے.عین اسی وقت جب کہ پادری کا لیکچر ختم ہو شہر میں عام جوش پھیلا ہوا ہے.چنیاں والی مسجد میں اس نئے اشتہار بشپ پر جب کہ مفتی صاحب وہاں سے گذر رہے تھے حاضرین مسجد کو بابا چٹو نے کہا اب اگر اور مسلمان بولے تو ہار کھائیں گے اور مرزائی بولے تو فتح پائیں گے اور معزز مسلمانوں نے بھی صلاح کی ہے کہ جو کچھ ہو اب تو اسلام اور عیسویت کی جنگ

Page 253

ہے.مرزائی بولیں تو فتح ہو سکتی ہے ورنہ صاف شکست اور ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہتک ہے کہ ان کو مردہ ثابت کریں گے.غرض آج بڑا لطف آیا اور نئے سرے حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کے وجود کی ضرورت اور صداقت ثابت ہوئی.افسوس یہ لوگ اپنے منہ سے صاف اقرار کر رہے ہیں کہ بجز اس حربہ کو جو ہمارے سلسلہ نے نکالا ہے عیسویت ہلاک نہیں ہو سکتی اور پھر بھی انکار کئے جا رہے ہیں.حضرت اقدس آج کچھ علیل تھے مگر غیرت دینی سے قلم پکڑ لی ہے.ایدہ اللہ بنصرہٖ (عبدالکریم از قادیان ۲۴ مئی) ٭ الحکم ۱۴فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۷

Page 254

مکتوب نمبر۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم بشپ صاحب لاہور سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست میں نے سنا ہے کہ بشپ صاحب لاہور نے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھلا دیں.میرے نزدیک بشپ صاحب موصوف کا یہ بہت عمدہ ارادہ ہے کہ وہ اس بات کا تصفیہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں بزرگ نبیوں میں سے ایسا نبی کون ہے جس کی زندگی پاک اور مقدس ہو.لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے ان کی کیا غرض ہے کہ کسی نبی کا معصوم ہونا ثابت کیا جائے.یعنی پبلک کو یہ دکھلایا جائے کہ اس نبی سے اپنی عمر میں کوئی گناہ صادر نہیں ہوا.میرے نزدیک یہ ایسا طریق بحث ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ تمام قوموں کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ فلاں قول اور فعل گناہ میں داخل ہے اور فلاں گفتار اور کردار گناہ میں داخل نہیں ہے.مثلاً بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی توڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نو مرید مع بزرگان دین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہو سکتی.ایسا ہی بعض کے نزدیک اجنبی عورت کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنا بھی زنا ہے مگر بعض کا یہ مذہب ہے کہ ایک خاوند والی عورت بیگانہ مرد سے بیشک اس صورت میں ہمبستر ہو جائے جب کہ کسی وجہ سے اولاد ہونے سے نومیدی ہو اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا موجب ہے اور اختیار ہے کہ دس یا گیارہ بچوں کے پیدا ہونے تک ایسی عورت بیگانہ مرد سے بدکاری میں مشغول رہے.ایسا ہی ایک کے نزدیک جوں یا پسو مارنا بھی حرام ہے اور دوسرا تمام جانوروں کو سبز ترکاریوں کی طرح سمجھتا ہے.اور ایک کے مذہب میں سُؤر کا چھونا بھی انسان کو ناپاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں تمام سفید و سیاہ سُؤربہت عمدہ غذا ہیں.اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو کُلّی اتفاق نہیں ہے.عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعویٰ کر کے پھر بھی اوّل درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر

Page 255

کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور کو خدا کے برابر ٹھہرا دے.غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہر گز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے.ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اورعرفانی اور افاضۂ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے.یعنی یہ دکھلایا جاوے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں.کیونکہ جب ہم کلام کلّی کے طور پر تمام طریق فضیلت کو مدنظر رکھ کر ایک نبی کے وجوہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہوگا کہ اُسی تقریب پر ہم اُس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہارت اور معصومیت کی وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں اور شاخوں پر مشتمل ہے اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہوگی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جاویں کہ ان دونوں نبیوں میں سے درحقیقت افضل اور اعلیٰ شان کس نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پرہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہوگا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گے جو صرف معصومیت کی بحث میں پڑتی ہیں.بلکہ ہر ایک مذاق کے انسان کے لئے اس مقابلہ اور موازنہ کے وقت ضرور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے؟ پس اگر ہماری بحثیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہئے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوںاور یہودیوں کے عقیدہ کی رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا یا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گنہگار بلکہ کافر ہے، تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی؟ اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اُسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہئے تھا.کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کادعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے، ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے.اور آریہ صاحبوں

Page 256

کے نزدیک ہر ایک ذرّہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جاننا اور اپنی پیاری بیوی کو باوجود اپنی موجودگی کے کسی دوسرے سے ہم بستر کرا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں.اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رام چندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پرمشیر ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں.اور ایک گبر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں.اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کی چوری کر لینا اور ان کو نقصان پہنچا دینا کچھ گناہ کی بات نہیں.اور بجز مسلمانوں کے سب کے نزدیک سُود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ جج ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے؟ اس لئے حق کے طالب کیلئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لئے یہی طریق کھلا ہے جو میں نے بیان کیا ہے اور اگر ہم فرض بھی کر لیں تو تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تا ہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا، خون نہیں کرتا، جھوٹی گواہی نہیں دیتا.ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے.مثلاً اگر کوئی کسی کو اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجودیکہ میں نے کئی دفعہ یہ موقع پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگا دوں اور تیرے شیرخوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر بھی میں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچے کا گلا گھونٹا.تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے نزدیک یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق اور فضائل کو پیش کرنے والا بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا.ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوںکے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقع ملا تھا کہ میںتمہارے سر یا گردن یا ناک پر استرہ مار دیتا مگر میں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا.تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھہر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں، بلکہ وہ ایک طور کے جرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانشمند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کے لائق ہے.غرض یہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احسان نہیں ہے کہ کسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اُسے روکتا تھا.مثلاً اگر کوئی شریر نقب

Page 257

لگانے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رُک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانون سزا بھی تو اُسے ڈرا رہا تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں نقب زنی کے وقت یا کسی کے گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی بے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھوٹنے کے وقت پکڑا گیا تو پھر گورنمنٹ پوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی.غرض اگر یہی حقیقی نیکی اور انسان کا اعلیٰ جوہر ہے تو پھر تمام جرائم پیشہ ایسے لوگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا.لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کیلئے ہمیں بھی وجوہ پیش کرنے چاہئیں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی، چوری نہیں کی، کسی بیگانہ عورت پر حملہ نہیں کیا، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا.حاشاوکلا، یہ کمینہ باتیں ہرگز کمال کی وجوہ نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے.مثلاً اگر میں یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے، فلاں ڈاکہ میں شریک نہیں ہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہلا کرلے گئے تھے، اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا.تو ایسے بیان میں مَیں زید کی ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے، گو اس وقت شریک نہیں ہے.پس خدا کے نبیوں کی تعریف اسی حد تک ختم کر دینا بلاشبہ ان کی ایک سخت مذمت ہے اور اسی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوں کی طرح ناجائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیں بچایا، ان کے مرتبہ عالیہ کی بڑی ہتک ہے.اوّل تو بدی سے باز رہنا جس کومعصومیت کہا جاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے.دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگائیں یادھاڑا ماریں یا خون کریں یا شیر خوار بچوں کا گلا گھونٹیں یا بیچاری کمزور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں.پس ہم کہاں تک اس ترکِ شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنے محسن ٹھہراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوائے اس کے ترکِ شر کے لئے، جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں، بہت سی وجوہ ہیں.ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو اکیلا اُٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کوچے میں گھس جائے اور عین موقع پر نقب لگا دے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان

Page 258

کربھاگ جائے.اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کے جرأت پیدا ہی نہیں ہوسکتی.ایسا ہی زناکاری بھی قوت مردمی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے.بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا.وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں.تلوار چلانے کیلئے بھی بازو چاہئے اور کچھ اٹکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی.بعض ایک چڑیا کو بھی نہیں مار سکتے اور ڈاکہ مارنا بھی ہر ایک بزدل کا کام نہیں.اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ مثلاً ایک شخص جو ایک پُر ثمر باغ کے پاس پاس جا رہا تھا.اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیں توڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا.کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں توڑا کہ دن کا وقت تھا.پچاس محافظ باغ میںموجود تھے.اگر توڑتا تو پکڑا جاتا، مار کھاتا، بے عزت ہوتا.اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا، سخت مکروہ اور ترکِ اَدب ہے.ہاں ہزاروں صفاتِ فاضلہ کے ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضائقہ نہیں.مگر صرف اتنی ہی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دوچار آنہ کے طمع کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بدی کا مرتکب نہیں ہوا، یہ بلاشبہ ہجو ہے.یہ ان لوگوں کے خیال ہیں جنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی اور حقیقی کمال میں کبھی غور نہیں کیا.جس شخص کا نام ہم انسان کامل رکھتے ہیں.ہمیں نہیں چاہئے کہ محض ترکِ شر کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگر کچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہوگا کہ ایسا انسان بدمعاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے، معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے.کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے، محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں.ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتا ہے کہ آگے سے خاموش گزر جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا اور کبھی بھیڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گزر جاتا ہے.ہزاروں بچے ایسی حالت میں مر جاتے ہیں اور کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا.بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسبِ خیر کا پہلو دیکھنا چاہئے یعنی یہ کہ کیاکیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل اور دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفاتِ فاضلہ اس کے اندر موجود ہیں.سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہئے.مثلاً سخاوت، فتوت، مواسات، حقیقی حلم،

Page 259

جس کے لئے قدرت سخت گوئی شرط ہے.حقیقی عفو، جس کے لئے قدرت انتقام شرط ہے.حقیقی شجاعت، جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے.حقیقی عدل، جس کے لئے قدرت ظلم شرط ہے.حقیقی رحم، جس کے لئے قدرت سزا شرط ہے اور اعلیٰ درجہ کی زیرکی اور اعلیٰ درجہ کا حافظہ اور اعلیٰ درجہ کی فیض رسانی اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور اعلیٰ درجہ کا احسان جن کے لئے نمونے اور نظیریں شرط ہیں.پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ اور موازنہ ہونا چاہئے نہ صرف ترکِ شر میں، جس کا بشپ صاحب معصومیت نام رکھتے ہیں.کیونکہ نبیوں کی نسبت یہ خیال کرنا بھی گناہ ہے کہ انہوں نے چوری ڈاکہ وغیرہ کا موقع پا کر اپنے تئیں بچایا یا یہ جرائم ان پر ثابت نہ ہو سکے بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ ’’مجھے نیک مت کہہ‘‘ یہ ایک ایسی وصیت تھی جس پر پادری صاحبوں کو عمل کرنا چاہئے تھا.اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے درحقیقت شائق ہیں تواس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ ہم مسلمانوں سے اس طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے کمالاتِ ایمانی واخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کی رو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے.اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقررہ کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا، ورنہ یہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کا یہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہوگی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے.٭ راقم خاکسار ۲۵؍ مئی ۱۹۰۰ء مرزا غلام احمد از قادیان ۱؎ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ۳۷۹ تا ۳۸۳)

Page 260

مکتوب نمبر۱۳ یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا تھا اور ایک مجلس کی طرف سے بھیجا گیا تھا آخر میں جو اسماء کی فہرست ہے وہ میں نے چھوڑ دی ہے.(ایڈیٹر) جناب فضیلت مآب مکرم رائٹ ریورنڈ جارج لیفرائے ڈی ڈی بشپ صاحب لاہور بعد آداب نیاز مندانہ بکمال ادب خدمت عالی میں یہ گزارش ہے کہ چونکہ یہ مختصر زندگی دنیا کی بہت جلد اپنے دورہ کو پورا کر رہی ہے اور عنقریب وہ زمانہ آتا ہے کہ ہمارے وجود کا نام و نشان بھی نہ ہوگا.اس لئے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ غم دامنگیر ہے کہ کسی طرح راست روی اور سچی خوشحالی کے ساتھ یہ سفر انجام پذیر ہو اور اس مذہب پر خاتمہ ہو جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے.اور اگر ہم حق پر نہیں ہیںتو ہمارے دل اس سچائی کے قبول کرنے کے لئے تیار رہیں جو روشن دلیلوں کے ساتھ پیش کی جائے.اور اگر کوئی بزرگ مردِ میدان بن کر عیسائی مذہب کی حقانیت ہم پر ثابت کرے، تو اس احسان سے بڑھ کر ہمارے نزدیک کوئی احسان نہیں ہوگا.اس تحقیق کے لئے ہمارا دل درد مند ہے اور ہم دلی شوق سے چاہتے ہیں کہ اسلام اور عیسائی مذہب کا ایک مقابلہ ہو کر ہم اس رسول صادق کے آستانہ پر اپنا سر رکھیں جو پاکیزگی اور خوبی اور الٰہی طاقت اور اخلاقی کمالات میں تمام نوعِ انسان سے سبقت لے جانے والا ثابت ہو جائے.اور اس دن سے جو آپ نے بمقام لاہور اس مضمون پر تقریر کی کہ نبیئِ معصوم اور زندہ رسول کون ہے؟ ہمارے دل بول اُٹھے کہ اس ملک میں آپ ہی ایک ہیں جو عیسائی مذہب میں جلیل القدر فاضل ہیں.تب سے ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اس کام کے لئے عیسائی صاحبوں میں سے بہتر اور کوئی نہیں ملے گا کیونکہ آپ کی

Page 261

معلومات بہت وسیع معلوم ہوتی ہیں اور آپ عربی اور فارسی اور اُردو میں عمدہ دخل رکھتے ہیں.آپ کے اخلاق بھی بہت پسندیدہ اور بزرگانہ ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے اہلِ علم کی طرف سے جو ہم نے نظر کی تو ہماری رائے میں اس کام کے لئے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے برابر اور کوئی نہیں جو مسیح موعود ہونے کا نہ صرف دعویٰ کرتے ہیں بلکہ بہت سے قطعی دلائل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کے دنیا میں آنے کا انجیل اور قرآن میں وعدہ ہے، جس کو دنیا کے مختلف حصوں میں تقریباً تیس ہزار لوگوںنے تسلیم کر لیا ہے.غرض اس وقت پنجاب اور ہندوستان کے تمام فاضل اور اہل علم عیسائیوں میں سے آپ کا وجود از بس غنیمت ہے اور مسلمانوں میں سے مرزا صاحب موصوف ہیں جو خدا کے انتخاب کردہ اور ممسوح ہیں.ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسا عمدہ موقع ہمیں پیش آ گیا ہے کہ ایک طرف تو آپ موجود ہیں اور دوسری طرف وہ جو خدا کا مسیح کہلاتا ہے.اسی بنا پر ہم لوگوں کی طرف سے جن کے نام نیچے لکھے ہیں، یہ درخواست ہے کہ چند مختلف فیہ مسائل میں آپ اور جناب مسیح موعود موصوف باہم مباحثہ کریں اور حضرت مسیح موعود اس بات کو قبول فرماتے ہیں کہ پانچ مسائل میں باہم تحریری بحث ہو جائے.اور وہ یہ ہے:.(۱) ان دونوں نبیوں یعنی حضرت مسیح علیہ السلام اور جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کس نبی کی نسبت اس کی کتاب کی رو سے نیز دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ وہ کامل طور پر معصوم ہے.(۲) دونوں بزرگوار نبیوں علیہما السلام میں سے کون سا وہ نبی ہے جس کو اس کی کتاب وغیرہ دلائل کی رو سے زندہ رسول کہہ سکتے ہیں جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے.(۳) ان دونوں بزرگوار علیہما السلام سے کونسا وہ نبی ہے جس کو اس کی آسمانی کتاب وغیرہ دلائل کی رو سے شفیع کہہ سکتے ہیں.(۴) ان دونوں مذہبوں عیسائیت اور اسلام میں سے کونسا وہ مذہب ہے جس کو ہم زندہ مذہب کہہ سکتے ہیں.(۵) ان دونوں تعلیموں، انجیلی تعلیم اور قرآنی تعلیم میں سے کونسی وہ تعلیم ہے جس کو ہم اعلیٰ اور سچی تعلیم کہہ سکتے ہیں اور تعلیم میں توحید اور تثلیث کی بحث بھی داخل ہے.

Page 262

یہ پانچ سوال ہیں جن میں بحث ہوگی.اس بحث کے لئے شرائط مندرجہ ذیل کی پابندی ضروری ہوگی.۱.شرط اوّل یہ کہ ہر ایک امر کی بحث کے متعلق جو مندرجہ بالا پانچ نمبروں میں لکھے گئے ہیں.ایک ایک دن خرچ ہوگا یعنی یہ کہ کل بحث پانچ دن میں ختم ہوگی.۲.شرط دوم یہ ہے کہ ہر ایک فریق کو اپنے اپنے بیان کے لئے پورے تین تین گھنٹے موقع دیا جائے گا اور اس طرح پر ہر ایک دن کا جلسہ چھ بجے صبح سے ۱۲ بجے تک پورا ہو جائے گا.۳.شرط سوم یہ ہے کہ ہر ایک فریق محض اپنے نبی یا کتاب کی نسبت ثبوت دے گا.دوسرے فریق کے نبی یا کتاب کی نسبت حملہ کرنے کا مجاز نہیں ہوگا کیونکہ ایسا حملہ محض فضول اور بسا اوقات دل شکنی کا موجب ہوتا ہے اور مقابلہ کرنے کے وقت پبلک کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کس کا ثبوت قوی اور کس کا ثبوت ضعیف اور کمزور ہے.ہاں ہر ایک فریق کو اختیار ہوگا کہ جس جس موقع پر حملہ کا احتمال ہے ان احتمالی سوالات کا اپنے بیان میں آپ جواب دے دے.۴.بحث تحریری ہوگی.مگر تحریر کا یہ طریق ہوگا کہ ہر ایک فریق کے ساتھ ایک کاتب ہوگا.وہ بولتا جائے گا اور کاتب لکھتا جائے گا اور ہر ایک کے پاس ایک ایسا شخص بھی ہوگا کہ مضمون ختم ہونے کے بعد حاضرین کو سنا دیا کرے گا اور سنانے کے بعد ایک نقل اس کی بعد دستخط فریقِ مخالف کو دی جائے گی.۵.یہ بحث بمقام لاہور ہوگی اور آپ کے اختیار میں رہے گا کہ جہاں چاہیں اس بحث کے لئے مجلس منعقد فرما لیں اور جیسا چاہیں مناسب انتظام کر لیں.۶.جب اس بحث کے دن ختم ہو جائیں گے تو دونوں فریق میں سے ایک فریق یا دونوں اس مضمون کو بصورت رسالہ چھاپ کر شائع کر دیں گے اور کسی کو اختیار نہیں ہوگا کہ اپنی طرف سے بعد میں کچھ ملاوے.یہ شرائط ہیں جو ہم نے حضرت مرزا صاحب مسیح موعود سے منظور کرا لئے ہیں اور چونکہ یہ شرائط بہت صاف اور سراسر انصاف پر مبنی ہیں لہٰذا امید ہے کہ جناب بھی ان کو منظور فرما کر مطلع فرمائیں گے کہ ایسی بحث کیلئے کب اور کس مہینے میں آپ تیار ہیں.ہم درخواست کنندوں کی طرف سے نہایت

Page 263

التجا اور ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ جناب ضرور اس طریق بحث کو منظور فرمائیں اور ہم حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی عزت کا واسطہ جناب کی خدمت میں ڈال کر یہ عاجزانہ سوال کرتے ہیں کہ جناب اس پیارے مقبول نبی کے نام پر ہماری یہ درخواست منظور فرما کر بذریعہ اشتہار مطبوعہ منظوری سے مطلع فرمائیں.اس درخواست میں کوئی فوق الطاقت یا بیہودہ امر نہیں اور طریق بحث سراسر مہذبانہ اور سراپا نیک نیتی اور طلب حق پر مبنی ہے اور باایں ہمہ جب کہ جناب جیسے ایک بزرگ صاحب مرتبہ کو حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کی قسم دی گئی ہے تو اس لئے ہم سائلوں کو بکلّی یقین ہے کہ جناب اس عاجزانہ درخواست کو گو کیسی ہی کم فرصتی ہو بہرحال بغیر کسی تنسیخ یا ترمیم کے حضرت مسیح کے نام کی عزت کے لئے ضرور منظور فرمائیں گے.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ایسی منصفانہ درخواست ہم لوگوں سے حضرت مسیح کی عزت کا واسطہ درمیان لا کر کی جائے تو ہم سخت گناہ اور سُوئِ ادب سمجھیں گے کہ اس درخواست کو منظور نہ کریں تو پھر آپ کو تو حضرت مسیح علیہ السلام کی محبت کا بہت دعویٰ ہے جس کے امتحان کا ہم غریبوں کو یہ پہلا موقع ہے.زیادہ کیا تکلیف دیں.صرف جواب کے منتظر ہیں اور جواب بنام مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل.ایل.بی وکیل بمقام قادیان ضلع گورداسپور آنا چاہئے کیونکہ وہی اس مجلس کے سیکرٹری ہیں اور درخواست کرنے والوں کے نام یہ ہیں.

Page 264

لیفرائے کا فرار اس چیلنج کے جواب میں بشپ صاحب نے مندرجہ ذیل خط لکھا.ہارونگٹن شملہ ۱۲؍ جون ۱۹۰۰ء جناب من! مجھے ایک چھپی ہوئی چٹھی جس پر آپ کے اور کئی اور معزز اشخاص کے دستخط تھے ملی ہے جس میں مجھ سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ساتھ اسلام اور عیسویت کے بعض اصولوں پر ایک کھلے مباحثہ کے لئے میں کوئی وقت اور جگہ مقرر کروں.میں افسوس کرتا ہوں کہ میں آپ کی اس تجویز کو قبول نہیں کر سکتا اور اس کے بڑے بڑے وجوہات یہ ہیں.۱.جس قسم کے دوستانہ تعلقات کی آپ کے مجوزہ مباحثہ میں ضرورت ہوگی اس قسم کے تعلقات کے ساتھ میں مرزا غلام احمد صاحب کو ملنے سے انکار کرتا ہوں.مرزا صاحب نے اپنے آپ کو مسیح کہنے کی جرأت کرنے میں بغیر ایک ذرّہ استحقاق کے ایسا نام اختیار کیا ہے جس سے ہم عیسائی پکارے جاتے ہیں اور جس کو ہم نہایت درجہ کی عزت اور ادب سے دیکھتے ہیں اور اس طرح پر انہوں نے سخت ہتک اور بے عزتی اس کی کی ہے جس کو میں اپنا خداوند اور مالک سمجھ کر پرستش کرتا ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ میں مرزا صاحب کو دوستانہ تعلقات کے ساتھ مل سکوں.۲.آپ اپنی چٹھی میں اشارہ کرتے ہیں کہ تمام بحثوں میں میری یہ خواہش رہی ہے کہ ان کو نرمی کے ساتھ کیا جائے اور ان لوگوں کے خیالات کو جن کے ساتھ عقائد میں اختلاف کرنے پر میں مجبور ہوں ادب کی نگاہ سے دیکھا جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قاعدہ پر عمل کرنا اور کوئی ایسے لفظ نہ کہنا جو جائز طور پر ان لوگوں کے خیالات کو دکھ پہنچانے والے ہوں جو مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں.یہی ہمیشہ سے میری سچی خواہش رہی ہے لیکن جب میں ان تحریروں کو جو مرزا صاحب نے وقتاً فوقتاً عیسائی مذہب پر لکھی ہیں پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کس قدر سختی اور بدزبانی کے ساتھ وہ ان واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت ان چار انجیلوں میں مرقوم ہیں جن کو ہم عیسائی خداوند تعالیٰ کے پاک کلام کا حصہ

Page 265

سمجھتے اور اس کی تعظیم کرتے ہیں تو میں صرف یہ نتیجہ نکال سکتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے مخالف کے ساتھ مباحثہ میں اس نرمی اور ادب کے معیار کو مدنظر نہیں رکھتے جو ہمیشہ سے میرا مقصد رہا ہے اس لئے اس دلیل پر بھی میں مرزا صاحب کو برابری کے تعلقات کے ساتھ نہیں مل سکتا.۳.جیسا کہ آپ مجھے یقین دلاتے ہیں مرزا صاحب کے بہت سارے پیرو ہوں گے مگر اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ ان کے مسیح ہونے کے دعویٰ کو اس صوبہ کے بکثرت مسلمان ردّ کرتے اور اس کی تحقیر کرتے اور اس پر استہزا کرتے ہیں اس لئے جس حالت میں کہ میں خواہ ذاتی طو رپر کیسا ہی ناقابل ہوں ایک حد تک عیسائی قوم کا وکیل ہوں اس عہدہ کے سبب سے جو مجھے حاصل ہے مرزا صاحب کسی طرح پر بھی مسلمانوں کے وکیل نہیں ہو سکتے تو پھر کس طرح میں مباحثہ میں ان کو اپنے برابر سمجھ سکتا ہوں.۴.یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب سے میں اس ضلع کا بشپ ہوا ہوں میرا پہلا اور زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ عیسائی کلیسیا کی حاجتوں کی طرف توجہ کروں اور پوری کوشش کروں کہ اس کو مضبوط کیا جائے اور خدا تعالیٰ پر سچے ایمان اور زندگی کی پاکی میں اس کو اندر سے بنایا جائے اور اس لئے ایک معمولی واعظ کا کام (یعنی ایسے شخص کا جو اپنے وقت وعظ کرنے میں اور ان لوگوں کو جو اَب عیسائی مذہب سے باہر ہیں عیسائی مذہب پر ایمان لانے کے لئے ترغیب دینے میں صرف کرتا ہے) میرے وقت اور خیالات میں صرف ایک چھوٹے درجہ کا کام ہے اس میں شک نہیں کہ یہ ایک ایسا کام ہے جس سے مجھے بہت تعلق ہے اور جس میں میں خوشی کے ساتھ شامل ہوتا ہوں لیکن جب خدا نے ایک اور طرح پر اپنی خدمت کرنے کو مجھے بُلا لیا ہے تو مجھے اس کی آواز کی پیروی کرنی چاہیے اس لئے میں اپنے اصل کام میں سے اس قدر حصہ وقت کا نہیں دے سکتا جس کی آپ کے مجوزہ مباحثہ کے لئے ضرورت ہوگی.۵.بالآخر میں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے مذہبی مباحثہ سے جو نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ان کو میں اور آپ ایک بڑے فرق کی نگاہ سے دیکھتے ہیں آپ تو اپنی چٹھی میں یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ اس تحقیقات کے نتیجہ پر ہم اس مقدس نبی کے آگے سرجھکا دیں جو دل کی پاکیزگی فضیلت قوت قدسی اور اخلاقی راستبازی میں سب دنیا سے بڑھ کر ہے دوسرے الفاظ

Page 266

میں آپ اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ محض عقلی دلائل کے ذریعہ سے سچے مذہب کا راستہ اور ایک مذہب کی دوسرے مذہب پر فضیلت معلوم ہو سکتی ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ خیال اصولاً غلط ہے اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی تعلیم کے خلاف ہے اور اس ملک کے اکثر لوگوں کے دلوں میں اس خیال کے غلبہ نے سخت نقصان پہنچایا ہے.اس لئے میں اپنے کسی فعل سے اس کو ٹھیک ماننا یا اس کی تائید کرنی نہیں چاہتا ہم یقین رکھتے ہیں کہ مذہب صرف عقل سے ہی مدد نہیں مانگتا بلکہ انسان کے سارے قویٰ سے یعنی اس کی مرضی سے اس کے احساسات سے اس کی اخلاقی خواہشات سے اس کی ایمانی حیثیت سے یا مختصر الفاظ میں اس کے دل اور دماغ سے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی تعلیم میں خدا اور اس کے سچے مذہب کا علم اس قدر عقلی قویٰ کی تیزی سے متعلق نہیں جیسا کہ دل کی پاکیزگی اور زندگی کے افعال میں اس کی سچی فرمانبرداری کے ساتھ ہے جیسا کہ ایک موقع پر مسیح کہتا ہے ’’مبارک ہیں وے جو دل کے پاک ہیں کیونکہ وے خدا کو دیکھیں گے‘‘ متی ۵:۸ اور پھر ایک اور موقع پر جو میرے خیال میں اس امر پر بڑی روشنی ڈالتا ہے وہ کہتا ہے ’’اگر کوئی آدمی اس کی مرضی کرنا چاہتا ہے (یعنی خدا کی مرضی) تو وہ تعلیم کو جان لے گا کہ آیا یہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے باتیں کرتا ہوں‘‘.یوحنا ۷:۱۷.میرا اپنا پکّا ایمان ہے کہ کسی آدمی کو سچے خدا کا زندہ علم حاصل نہیں ہو سکتا مگر اس کی روح القدس کی مدد سے اور یہ کہ ایسی مدد جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں توبہ کرنے والوں اور دل کے پاکوں اور فروتنوں اور راستبازوں کو دی جاتی ہے نہ ان لوگوں کو جن کے عقلی قویٰ تیز ہوں اور جو مذہبی مباحثہ میں پورے اُتر سکیں یہ بالکل سچ ہے کہ میں اس بات کو بہت پسند کرتا ہوں کہ دونوں مذہبوں یعنی عیسائیت اور اسلام کے پیرو ایک دوسرے کو جانیں اور ایک دوسرے کے عقائد کو اس سے بہتر سمجھیں جیسا کہ گذشتہ میں حالت رہی ہے یہی وجہ ہے کہ کیوں میں خوش ہوتا ہوں کہ ایک طرف تو آپ کے مذہب کی ان تحریروں کو مطالعہ کروں جو مجھے اس کے سچے مضامین اور تعلیموں سے اچھی طرح سے آگاہ کر سکیں اور دوسری طرف ایسے لیکچر دوں جیسے کہ ابھی میں نے لاہور میں دیے جن کے ذریعہ سے حاضرین کو ایسے سوال کرنے کا موقع دیا جائے جن سے وہ مذہب کے اصولوں کو بہ نسبت سابق اچھی طرح سے اور زیادہ صفائی کے

Page 267

ساتھ سمجھ سکیں مگر یہ میں خیال کرتا ہوں آپ دیکھ لیں گے ایسی بات نہیں ہے جیسا کہ ایک ایسے مباحثہ میں شامل ہونا جس کا مسلم نتیجہ یہ ہو کہ جو لوگ اس مباحثہ میں شریک ہوں وہ اس مذہب کو اختیار کر لیں جس کے خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ اس وقت قطعی طور پر ثابت ہو جائے میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ کسی وقت بھی کسی مباحثہ میں اس شرط پر شامل ہو سکوں اگرچہ یہ چٹھی چھپی ہوئی نہیں مگر آپ کو پورا اختیار ہے کہ اس کو چھاپ لیں یا ایسی طرح پر استعمال کریں جیسا کہ آپ پسندیدہ سمجھیں.میں خیال کرتا ہوں کہ میرا معاملہ مسلمان شرفا کے ساتھ ہے اور اس لئے اگر یہ چٹھی چھاپی جائے گی تو ساری کی ساری اور بغیر کسی تبدیلی کے چھاپی جائے گی.(آپ کا تابعدار دستخط جی.اے.لاہور) اس کے جواب میں مسلمانوں کی کمیٹی نے مفصلہ ذیل چٹھی بشپ کو لکھی کہ وہ اپنے فیصلہ پر زیادہ غور کرے.یہ چٹھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی لکھوائی تھی.قادیان مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۰ء جناب من! آپ کا جواب جس میں آپ نے مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کے ساتھ ایک پسندیدہ مباحثہ میں شامل ہونے سے انکار کیا کمیٹی کو سنایا گیا جنہوں نے اس پر بہت اظہار افسوس کیا.جو انکار کے دلائل آپ پیش کرتے ہیں وہ صرف بعض غلط فہمیوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہیں اور مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ ان کی مفصل تردید ایک رسالہ کی صورت میں لکھوں جو عنقریب شائع کیا جائے گا اگر آپ کی طرف سے اس درخواست کا جواب ایسا ہی مایوسی دینے والا ہوا جیسا کہ پہلی چٹھی کا مگر اس رسالہ کو چھپوانے سے پہلے یہ مناسب خیال کیا گیا ہے کہ آپ کو ایسے مباحثہ کی ضرورت کی طرف مزید توجہ دلائی جائے جس کے کثرت سے مسلمان خواہاں ہیں کیا مسلمان اور کیا عیسائی دونوں قومیں مباحثہ کی تجویز کی منظوری کو دیکھنا چاہتی تھیں اور بہت سے اینگلوانڈین اخبارات نے صرف اس میں دلچسپی ہی ظاہر نہیں کی بلکہ صاف صاف اپنی رائے بھی ظاہر کی کہ یہ مباحثہ کی تجویز خواہ کسی پہلو سے اس پر نظر کی جائے یعنی مجوز مباحثین کی بڑی شہرت علمی فضیلت اور وسیع اثر کے لحاظ سے چیلنج دینے والی کمیٹی کی عمومیت کے لحاظ سے مباحثہ میں جو سوال پیش ہونے والے تھے ان کے لحاظ سے شرائط مباحثہ کے اعلیٰ درجہ کے منصفانہ ہونے کے لحاظ سے اور اس مفید نتیجہ کے لحاظ سے جس کی امید

Page 268

کی جاتی تھی غرض کہ ہر ایک طرح سے اس قابل تھی کہ آپ بلاتغیر شرائط اس کو منظور کرتے جن مسلمانوں نے آپ کو خطاب کیا تھا وہ ملک کے مختلف حصوں سے تھے اور ذی ثروت اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم رکھنے والے تھے جن کی درخواست پر آپ کو بہت توجہ کرنی چاہیے تھی تجویز کرنے میں خلوص دل اور نیک نیتی سے یہ مقصد مدنظر رکھا گیا تھا کہ عام لوگوں کو اس شک سے باہر نکالا جائے جس میں وہ سچے مذہب کے متعلق پڑے ہوئے ہیں مباحثہ کی شرائط ایسی منصفانہ تھیں جیسے کہ خواہش کی جا سکتی ہے کیونکہ مخالفانہ حملوں کی اس میں اجازت نہ تھی آپ کا ایک عرصہئِ دراز کے لئے اس ملک میں بطور مشنری کے کام کرنا مشرقی لوگوں کے طریقوں مذہبوں اور زبانوں کے ساتھ واقفیت رکھنا.لاہور میں جو آپ نے لیکچر دئے تھے ان میں اپنے دلائل کی تردید کو جو مسلمانوں کی طرف سے ہوئی تھی حوصلہ کے ساتھ سننا اور ان تمام واقعات کو آپ کے موجودہ بلند مرتبہ سے اور بھی وقعت مل جانا ان تمام باتوں نے مسلمانوں کو یقین دلا دیا تھا کہ مباحثہ کے میدان میں عیسائیت کی طرف سے آپ بہترین وکیل ہو سکتے ہیں اور پھر آپ کی طرف سے اس ابتدائی کارروائی کا ہونا جس میں آپ نے مسلمانوں کو اپنے پیغمبر کی عصمت اور زندگی بمقابلہ یسوع مسیح کے ثابت کرنے کو بُلایا جو ایک ایسا مباحثہ تھا جس میں مسلمانوں کی طرف سے نہ تو اچھی طرح سے تیاری ہو سکتی تھی اور نہ ان کو کافی وقت مل سکتا تھا اور نہ اپنا اچھا وکیل پیش کر سکتے تھے یہ اور بھی مسلمانوں کی ترغیب کا باعث ہوا کہ آپ کو ایک ایسے مباحثہ کی طرف بُلایا جائے جس میں دونوں مذہبوں کی اور ان کے بانیوں کی فضیلتوں کا زیادہ مناسب طور پر اور زیادہ انصاف سے امتحان ہو سکے یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام کے جس وکیل کو آپ کے مقابل پر انہوں نے پیش کیا تھا وہ کوئی عام ملّاؤں یا واعظوں میں سے نہ تھا کیونکہ ان کی طرف سے ایسا معمولی حریف پیش کرنا گویا آپ کی قابلیت کی تحقیر کرنا ہوتا بلکہ جیسا آپ کی حیثیت اور قابلیت اعلیٰ درجہ کی تھی ویسا ہی آپ کے بالمقابل جو حریف پیش کیا گیا وہ بھی ایک اعلیٰ درجہ کی شہرت اور حیثیت والا آدمی تھا جس پر اس وقت اس کے مسیح موعود کے دعویٰ کرنے کے سبب سے تمام ہندوستان کی نظر تھی اور جس کے فرقہ نے باوجود اندرونی اور بیرونی سخت درجہ کی مخالفت کے ایک حیرت انگیز ترقی کر دکھائی تھی جب دنیا کے دو سب سے بڑے مذہبوں کے دو ایسے مشہور وکیل موجود ہوں تو مناسب نہیں کہ عوام کو ان سوالوں کے متعلق تاریکی میں چھوڑا جائے جو ہر ایک

Page 269

زمانہ میں بڑے بڑے آدمیوں کے مدنظر رہے ہیں اگرچہ آپ عیسائی کلیسیا کی اندر سے مرمت کو اپنا اصل فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے آپ انکار نہ کر سکیں گے کہ ہر ایک نیک عیسائی کا اصلی فرض ان لوگوں کو زندگی اور روشنی کی طرف لانے کا ہونا چاہیے جو اس کی رائے میں موت اور تاریکی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں اور جو اس لئے ان لوگوں کی نسبت جو بپتسمہ لے چکے ہیں سخت بڑی خطرناک حالت میں ہیں بپتسمہ والے تو آپ کے نزدیک دوزخ سے بچ گئے مگر بے بپتسمہ کو عیسائی عقیدہ کے رو سے ہمیشہ کے لئے دوزخ اور سزا میں ڈالا جائے گا اب میں آپ کے کانشنس کو اپیل کرتا ہوں کہ ان دونوں کاموں میں سے آپ کے نزدیک کونسا زیادہ ضروری ہے آیا ان لوگوں کی حاجتوں کی طرف توجہ کرنا جو خطروں سے نکل چکے ہیں یا ان لوگوں کا ہاتھ پکڑنا جو موت اور تاریکی کے گڑھے میں گر رہے ہیں کیا آپ مباحثہ کی تجویز کو اس دلیل پر رد کر سکتے ہیں کہ آپ اپنی ساری زندگی میں سے ایسے نیک کام کے لئے پانچ دن بھی علیحدہ نہیں کر سکتے.پھر آپ مرزا غلام احمد صاحب کو اس وجہ پر دوستانہ تعلقات کے ساتھ ملنے سے انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا نام اختیار کیاہے جس کی عیسائی لوگ اپنا خداوند اور مالک سمجھ کر عزت اور عبادت کرتے ہیں اگر امر واقع یہ بھی ہوتا جیسا آپ نے خیال کیا ہے تو دشمنی اور دوستانہ تعلقات کے قطع کے لئے یہ کوئی دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ آپ کی مقدس بائیبل تو یہ سکھاتی ہے کہ دشمنوں سے بھی پیار کرو.اپنے مذہبی مخالف کے ساتھ اس قسم کا سلوک کسی مذہب کے پیروؤں کی طرف سے بھی نہیں ہونا چاہیے.چہ جائیکہ عیسائی مذہب کے پیروؤں کی طرف سے ہو اور پھر ان میں سے مخصوصاً کلیسیا کے ایک ایسے بڑے بزرگ کی طرف سے جس کا فرض صرف یہی نہیں کہ وہ خود ہی متی باب۵ آیت ۴۴ پر عمل کرے بلکہ یہ بھی کہ وہ یہ تعلیم دوسرے عیسائیوں کو سکھائے بلکہ غیر عیسائیوں کو بھی اس کا وعظ کرے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مرزا صاحب یہ نہیں کہتے کہ وہ سچ مچ یسوع مسیح ہیں بلکہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ بروزی طور پر اس نبی کے رنگ میں آئے ہیں اور جس طرح پر اس نے تعلیم دی تھی اس طرح پر تعلیم دیتے ہیں جیسا کہ اس سے پہلے بھی یوحنا الیاس کے رنگ میں بروزی طور پر آچکا ہے علاوہ ازیں مسلمان حضرت عیسیٰ کو ایک سچا اور بزرگ نبی سمجھتے ہیں اور مرزا صاحب جو اپنے زمانہ میں اوّل المسلمین ہیں ان سب سے بڑھ کر ان کو ایسا سمجھتے ہیں حالانکہ کروڑہا دوسرے لوگ جن کا مذہب

Page 270

نہ عیسویت اور نہ اسلام ہے اس کو نبی بھی نہیں سمجھتے اور اس طرح پر اس کے مرتبہ کی بڑی حقارت کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایسے لوگوں سے کثرت سے ملتے بھی ہوں گے مگر میں یہ خیال نہیں کرتا کہ آپ نے ان کی نسبت کبھی ایسا بغض اور عداوت کا خیال ظاہر کیا ہو جیسا کہ آپ نے اپنی چٹھی میں جو میرے نام تھی مرزا صاحب کی نسبت ظاہر کیا ہے لیکن اس جگہ میں آپ کو ایک اور بڑے ضروری امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جب اس بات کا ذکر مرزا صاحب کے سامنے ہوا اور ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا جس طرح پر بشپ صاحب آپ سے دوستانہ تعلقات کے ساتھ ملنے سے انکار کرتے ہیں آپ بھی بشپ صاحب کی نسبت ایسا ہی خیال رکھتے ہیں تو انہوں نے مفصلہ ذیل جواب دیا:.’’میں دنیا میں کسی کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا میں آدمیوں کے ساتھ بغض نہیں رکھتا بلکہ ان جھوٹے عقیدوں کے ساتھ جو وہ رکھتے ہیں انسانوں کے متعلق میرے خیالات پرلے درجہ کی ہمدردی اور نیک نیتی کے ہیں تو پھر کس طرح میں ایسے شخص کو اپنا دشمن سمجھ سکتا ہوں جو اپنے ہم مذہبوں میں معزز مانا گیا ہے اور علاوہ ازیں اپنے عہدہ اور تعلیم کے لحاظ سے قابلِ عزت ہے میں اس سے محبت رکھتا ہوں اگرچہ میں اس کے اصولوں کو پسند نہیں کرتا مگر میری نفرت ان عقائد کے ساتھ صرف اسی قدر ہے جہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی صفات انسانوں کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور انسانی نقص اور کمزوریاں ربّ العالمین کی طرف منسوب کی جاتی ہیں میں بشپ صاحب کو دوستانہ تعلقات کے ساتھ ملنے سے نفرت نہیں رکھتا کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی فریق دوسرے سے کوئی فائدہ حاصل کرے کیونکہ ضروری ہے کہ نیک نیتی کا بیج پھل دے مصلح یا واعظ ہونے کی حیثیت میں جو انسان کو فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں ان سب سے بڑھ کر ضروری امر یہ ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں وہ ان کے ساتھ بڑی خوشی سے ملے.حق بات یہ ہے کہ میں نہ صرف اپنی مجددیت کے کام کو ہی چھوڑنے والا ہوں گا بلکہ اخلاقی قوانین کو بھی سخت صدمہ پہنچانے والا تصور کیا جاؤں گا اگر میں ان لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لوں جن کے ساتھ اس وجہ سے کہ وہ بدقسمتی سے غلطیوں میں پڑ گئے ہیں مجھے ہمدردی اور رحم سے کام لینا چاہیے اگر میں اس کے برعکس کروں تو میں ایک بڑے کثیر گروہ کو ان مقدس اور اعلیٰ درجہ کی سچائیوں سے محروم رکھنے والا ٹھہروں گا جو میرا فرض ہے کہ سب کو

Page 271

بتاؤں کوئی شخص کسی ایسے آدمی کے ساتھ نیکی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہو مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر مجھے کہیں ایسا موقع ملے کہ جب میں بشپ صاحب کے ساتھ نیکی بھی اور بدی بھی کرنے کی طاقت رکھتا ہوں تو میں اس کے ساتھ ایسی نیکی کروں گا جو تمام دنیا کو حیرت میں ڈال دے.لوگوں کو پاکیزگی کے راستہ کی طرف بُلانے کی طاقت اور ان کی تبدیلی کے لئے سچا جوش سچی محبت سے پیدا ہوتے ہیں دشمنی عقل کو تاریک کر دیتی ہے اور ہمدردی کو نابود کر دیتی ہے.قرآن شریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتا ہے کہ  اور پھر ایک دوسری جگہ پرجس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم نے تمہارے پاس ایک نبی بھیجا ہے جس کا دل تمہاری ہمدردی سے ایسا بھرا ہوا ہے کہ تمہارے غم اور تکلیفیں اس کو ایسا ہی رنج پہنچاتی ہیں گویا کہ وہ اسی کا رنج اور تکلیفیں ہیں اور تمہاری بہتری اور خوشحالی کے لئے وہ بڑی خواہش رکھتا ہے اور دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی کیا تو اپنے آپ کو ہلاک کر دے گا اس غم کے لئے کہ یہ لوگ سچائی کو قبول نہیں کرتے.آخری آیت اس سچی قربانی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو خدا تعالیٰ کے مرسل لوگوں کی اصلاح کے لئے کرتے ہیں یہ وہ آیتیں ہیں جن پر میں عمل کرتا ہوں اور اس سے ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کی طرف جو اپنے آپ کو میرا دشمن سمجھتے ہیں میرے خیالات کیسے ہونے چاہئیں.قبل اس کے کہ میں اس چٹھی کو بند کروں میں آپ کو یہ بھی یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ مباحثہ کی درخواست پر صرف مرزا صاحب کے ہی چند پیروؤں کے دستخط تھے مگر تمام مسلمان عام طور پر اس کی منظوری کے منتظر ہیں مذہب کے اصل اصولوں کے ساتھ مرزا صاحب کا دوسرے مسلمانوں سے اختلاف نہیں بلکہ اختلاف صرف ایسی باتوں میں ہے جیسا کہ ہر ایک بڑے مذہب کے مختلف فرقوں میں ہوا کرتا ہے اور خود عیسائیت سب سے بڑھ کر ان اختلافوں کو اپنے اندر رکھتی ہے اگر آپ اس امر کو بڑی وقعت دیتے ہیں تو ہزار ہا تعلیم یافتہ مسلمان جو مرزا صاحب کے پیرو نہیں درخواست مباحثہ پر دستخط کرنے پر تیار ہیں ترجمہ کی کاپیوں کے ساتھ جو آپ نے مانگی تھیں میں انیس ماہ گذشتہ کا انڈین ڈیلی ٹیلیگراف بھی آپ کو بھیجتا ہوں جس نے اس چیلنج پر کچھ ریمارک کئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ اپنے جواب پر دوبارہ غور کرنے کے بعد آپ کسی بہتر نتیجہ پر پہنچیں گے اور اس قدر منتظر دلوں کو جو اس کی منظوری کے منتظر ہیں مایوس نہ کریں گے.دستخط محمد علی سکرٹری

Page 272

مگر بشپ صاحب منظوری کے لئے رضامند نہ ہوئے اور جواب میں لکھا کہ مجھے آپ کی چٹھی مورخہ ۱۰ ماہ حال پہنچ چکی ہے مگر جو وجوہات پہلی چٹھی میں میرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ مباحثہ کرنے سے انکار پر میں دے چکا ہوں ان کو نہ اب میں بدلاتا ہوں اور نہ ان پر کچھ ایزادی کرتا ہوں.آپ نے اپنی پہلی چٹھی کی جو زائد کاپیاں بھیجی ہیں ان کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.دستخط جی.اے لاہور.٭ نوٹ: بشپ لیفرائے نے اپنے خط میں جو نکات اُٹھائے ہیں ان کا مفصل جواب ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر۱ صفحہ نمبر۹ میں دیا گیا ہے.دلچسپی رکھنے والے قارئین وہاں سے استفادہ کر سکتے ہیں.( ناظر اشاعت) ٭ریویو آف ریلجنز اردو ستمبر ۱۹۰۲ء

Page 273

جان الیگزنڈر ڈوئی کے نام خطوط تعارف: قبل اس کے کہ اس خط کا ترجمہ درج کیا جاوے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امریکہ کے اس مفتری الیاس کو بطور چیلنج لکھا تھا.یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ناظرین کو مختصر طور پر اس شخص سے تعارف کرا دیا جاوے.پس یاد رہے کہ جان الیگزینڈر ڈوئی سکاٹ لینڈ کا اصل باشندہ تھااور امریکہ میں پہلے پہل ۱۸۸۸ء میں پہنچا.سان فرانسسکو میں اُترا.اس سے پہلے کچھ مدت وہ تسمانیہ کے جیل خانہ میں بھی رہ چکا تھا.۱۸۹۲ء میں اس نے وعظ کرنا شروع کیا اور اس نے ایک الگ فرقہ کی بنیاد رکھنی شروع کی.اس کا دعویٰ تھا کہ مَیں لوگوں کو بیماریوں سے شفا دے سکتا ہوں اور اسی دعویٰ کی وجہ سے کئی زُود اعتقاد اور توہّم پرست لوگ اس کے ساتھ شامل ہوگئے.ان لوگوں کے روپے سے وہ ایک امیر آدمی بن گیا اور ۱۹۰۰ء میں موجودہ شہر صیحون (zoin) کی زمین خریدی جس کے ٹکڑے پھر اپنے ہی مریدوں کے ہاتھ ایک بڑے گراں نرخ پر بیچے اور یہ ظاہر کیا کہ عنقریب مسیح موعود اسی شہر میں نازل ہوگا.۲؍ جون ۱۹۰۱ء کو اس نے یہ دعویٰ اپنا شائع کیا کہ میں الیاس ہوں جو مسیح کی آمد کیلئے لوگوں کو تیار کرنے آیا ہوں.اس دعویٰ سے اس کے روپے اور مریدوں میں اور بھی ترقی ہوئی.روپے کی کثرت یہاں تک ہوئی کہ سال کے شروع میں وہ دس لاکھ ڈالر یعنی تیس لاکھ روپے سے بھی زیادہ روپیہ اپنے مریدوں سے نئے سال کے تحفے کے طور پر مانگا کرتا تھا اور جب سفر کرتا تو اعلیٰ درجے کے عیش و عشرت کے سامان اس کے ساتھ ہوتے.۱۹۰۲ء میں اس نے یہ پیشگوئی شائع کی کہ اگر مسلمان صلیبی مذہب کو قبول نہ کریں گے تو وہ سب کے سب ہلاک کر دیئے جائیں گے اور بھی وہ ہر طرح سے اسلام کی ہتک اور توہین نہایت بیباکی سے کرتا.جب اس نے اسلام پر ایسے ایسے حملے کئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ مسیح موعود کے دل میں غیرت کا جوش ڈالا اور آپ نے ستمبر ۱۹۰۲ء میں اسے انگریزی میں ایک چٹھی لکھی جو اسی رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ستمبر ۱۹۰۲ء کے پرچہ میں شائع ہوچکی ہے جس میں حضرت مسیح موعود نے اُسے مباہلہ کے لئے دعوت دی.خلاصہ اس ساری چٹھی کا یہ تھا کہ دونوں فریق دعا کریں کہ جو شخص ہم میں سے جھوٹا ہے

Page 274

خدا تعالیٰ اُسے سچے کی زندگی میں ہلاک کرے.یہ ڈوئی کی اس پیشگوئی کا جواب تھا جو اس نے تمام اہل اسلام کی ہلاکت کیلئے کی تھی.یہ چٹھی بڑی کثرت سے امریکہ کے اخباروں میں شائع ہوئی اور انگلستان کے بعض (اخبارات) نے بھی شائع کیا.یہاں تک کثرت سے اس کی اشاعت ہوئی کہ ہمارے پاس بھی ایسی بہت سی اخباریں پہنچ گئیں جن میں اس مباہلہ کا ذکر تھا.یہاں چونکہ مفصل واقعات لکھنا مقصود نہیں اس لئے اسی قدر پر اکتفا کیا جاتا ہے یہ شخص پیشگوئی کے موافق مر گیا.(ایڈیٹر)

Page 275

مکتوب نمبر۱۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم ڈوئی کی اس پیشگوئی کا جواب جو اُس نے تمام مسلمانوں کی ہلاکت کے لئے کی ہے ہر ایک کو جو حق کا طالب ہے معلوم ہو کہ یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جب زمین پر بد عقیدگی اور بداعمالی پھیل جاتی ہے اور لوگ اس سچے خدا کو چھوڑ دیتے ہیں جو آدم پر ظاہر ہوا اور پھر شیث پر اور پھر نوح پر اور ایسا ہی ابراہیم پر اور اسماعیل پر اور اسحاق پر اور یعقوب پر اور یوسف پر اور موسیٰ پر اور آخر میں جناب سیّد الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر، تو ایسے زمانہ میں جب کہ شرک اور ناپاکی اور بدکاری اور دنیا پرستی اور غافلانہ زندگی سے زمین ناپاک ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کسی بندہ کو مامور کر کے اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونک کر دنیا کی اصلاح کیلئے بھیج دیتا ہے اور اس کو اپنی عقل میں سے عقل بخشتا ہے اور اپنی طاقت میں سے طاقت اور اپنے علم میں سے علم عطا کرتا ہے.اورخدا کی طرف سے ہونے کا اس میں یہ نشان ہوتا ہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اگر معارف حقائق کی رو سے کوئی شخص اس کے مقابل پر آوے تو وہی حقائق اور معارف میں غالب آتا ہے اور اگر اعجازی نشانوں کا مقابلہ ہو تو غلبہ اُسی کو ہوتا ہے اور اگر کوئی اس طور سے اس کے ساتھ بالمقابل یا بطور خود مباہلہ کرے کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹاہے وہ پہلے مر جائے تو ضرور اس کا دشمن پہلے مرتا ہے.اب اس زمانہ میں جب خدا نے دیکھا کہ زمین بگڑ گئی اور کروڑ ہا مخلوقات نے شرک کی راہ اختیار کر لی اور چالیس کروڑ سے بھی زیادہ ایسے لوگ دنیا میںپیدا ہوگئے کہ ایک عاجز انسان، مریم کے بیٹے کو خدا بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی شراب خواری اور بے قیدی اور دنیا پرستی اور غافلانہ زندگی انتہا تک پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے مجھے اس کام کیلئے مامور کیا کہ تا میں ان خرابیوں کی اصلاح کروں.سو اب تک میرے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب انسان بدی سے اور بد عقیدگی اور بداعمالی سے توبہ کر چکا ہے اور ڈیڑھ سَو سے زیادہ نشان ظاہر ہوچکا ہے جس کے اس مُلک میں کئی لاکھ انسان گواہ ہیں.اور میں بھیجا گیا ہوں کہ تا زمین پر دوبارہ توحید کو قائم کروں اور انسان پرستی یا سنگ پرستی سے لوگوں کو نجات

Page 276

دے کر خدائے واحد لاشریک کی طرف ان کو رجوع دلاؤں اور اندرونی پاکیزگی اور راستبازی کی طرف ان کو توجہ دوں.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں میں ایک تحریک پیدا ہو گئی ہے اور ہزار ہالوگ میرے ہاتھ پر توبہ کرتے جاتے ہیں اور آسمان سے ہوا بھی ایسی چل رہی ہے کہ اب توحید کے موافق طبیعتیں ہوتی جاتی ہیں اور صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ انسان پرستی کو دنیا سے معدوم کر دے.اس ارادہ کے پورا کرنے کیلئے صد ہا اسباب پیدا کئے گئے ہیں.افسوس کہ مخلوق پرست لوگ، جن سے مراد میری اس جگہ وہ عیسائی ہیں جو مریم کے صاحبزادہ کو خدا جانتے ہیں، ابھی اپنے مشرکانہ مذہب کی اس ترقی پر خوش نہیں ہوئے جو اَب تک ہوگئی ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام دنیا حقیقی خدا کو چھوڑ کر اس ضعیف اور عاجز انسان کو خدا کر کے مانے جس کو ذلیل یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر کھینچا تھا.اس خواہش کا بجز اس کے اور کوئی سبب نہیں کہ مخلوق پرستی کی عادت نہایت بدعادت ہے جس میں گرفتار ہو کر پھر انسان دیکھتا ہوا اندھا ہو جاتاہے.مگر پادریوں کی اس قدر دلیری بہت ہی قابل تعجب ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ زمین پر ایک بھی ایسا شخص رہے کہ وہ اس اصلی خدا کو ماننے والا ہو جو ابن مریم اور اس کی ماں کے پیدا ہونے سے بھی پہلے ہی موجود تھا بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کل دنیا اور کل نوعِ انسان جو آسمان کے نیچے ہے ابن مریم کو ہی خدا سمجھ لے اور اسی کو اپنا معبود اور خالق اور خداوند اور منجی مان لے.اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ارادوں کے مقابل پر خدائے ذوالجلال نے بہت صبر کیا ہے.اس کی عزت ایک عاجز بندہ کو دی گئی.اس کے جلال کو خاک میں ملایا گیا مگر اُس نے اَب تک صبر کیا کیونکہ جیسا کہ وہ غیور ہے ویسا ہی وہ صابر بھی ہے.ان ظالم مخلوق پرستوں نے تمام خدائی صفات یسوع ابن مریم کودے دیئے.اب ان کی نظر میں جو کچھ ہے یسوع ہے.اس کے سوا کوئی خدا نہیں.اب سچے خدا کی مثال یہ ہے کہ ایک امیر نے اپنے عزیزوں کیلئے ایک نہایت عمدہ گھر بنایا اور اس کے ایک حصہ میں ایک بستان سرائے تیار کیا جس میں طرح طرح کے پھول اور پھل اور سایہ دار درخت تھے اور اس گھر کے ایک حصہ میں اپنے ان عزیزوں کو رکھا اور ایک حصہ میں اپنا مال و حشمت اور قیمتی اسباب مقفّل کیا اور ایک حصہ بطور سرائے کے مسافروں کیلئے چھوڑا لیکن جب مالک چند روز کیلئے سیر کو گیا تو ایک شوخ دیدہ اجنبی نے اس کے اس گھر پر جو بطور سرائے کے تھا، دخل اور تصرف کر لیااور تمام گھر بجز چند حجروں کے جس میں اس مالک کے عزیز تھے یا جن میں اس مالک

Page 277

Page 278

یک مسلمان کو ایسا نہیں سمجھتا لیکن میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کروڑہا انسان ابھی ان میں ایسے موجود ہیں کہ بنی نوع کے خون کے پیاسے ہیں.مجھے تعجب ہے کہ کیا وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو کوئی قتل کر دے اور ان کے یتیم بچے اور ان کی بیوہ عورتیں بیکسی کی حالت میں رہ جائیں؟ پھر وہ دوسروں کی نسبت ایسا کرنا کیوں روا رکھتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ مرض مسلمانوں کے لاحق حال نہ ہوتی تو وہ تمام یورپ کے دلوں کو فتح کر لیتے.ہر ایک پاک کانشنس گواہی دے سکتا ہے کہ عیسائی مذہب کچھ بھی چیز نہیں.انسان کو خدا بنا دینا کسی عقلمند کا کام نہیں.یسوع مسیح میں اَور انسانوں کی نسبت ایک ذرّہ خصوصیت نہیں بلکہ بعض انسان اس سے بہت بڑھ کر گزرے ہیں.اور اب بھی یہ عاجز اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ تا خدائے قادر لوگوں کو دکھلاوے اور اس کا فضل اس عاجز پر اس مسیح سے بڑھ کر ہے اور پھر یہ غلطیاں کہ گویا یسوع مسیح اب تک زندہ ہے اور گویا وہ آسمان پر ہے اور گویا وہ سچ مُچ مُردے زندہ کیا کرتا تھا اور اس کے مرنے پر یروشلم کے تمام مُردے جو آدم کے وقت سے لے کر مسیح کے وقت تک مر چکے تھے زندہ ہو کر شہر میں آ گئے تھے.یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں جیسا کہ ہندوؤں کے پورانوں میں ہیں.اور سچ صرف اس قدر ہے کہ اس نے بھی بعض معجزات دکھلائے جیسا کہ نبی دکھلاتے تھے اور جیسا کہ اب خدا تعالیٰ اس عاجز کے ہاتھ پر دکھلا رہا ہے.مگر مسیح کے کام تھوڑے تھے اور جھوٹ ان میں بہت ملایا گیایہ کس قدر قابل شرم جھوٹ ہے کہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گیا.مگر اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ وہ صلیب پر مرا نہیں.واقعات صاف گواہی دیتے ہیں کہ مرنے کی کوئی بھی صورت نہیں تھی.تین گھنٹہ کے اندر صلیب پر سے اُتارا گیا، شدتِ درد سے بیہوش ہو گیا.خدا کو منظور تھا کہ اس کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دے.اس لئے اس وقت بباعث کسوف خسوف سخت اندھیرا ہو گیا.یہودی ڈر کر اس کو چھوڑ گئے اور یوسف نام ایک پوشیدہ مرید کے وہ حوالہ کیا گیا اور دو تین روز ایک کوٹھہ میں جو قبر کے نام سے مشہور کیا گیا، رکھ کر آخر افاقہ ہونے پر ملک سے نکل گیا اور نہایت مضبوط دلائل سے ثابت ہو گیا ہے کہ پھر وہ سیر کرتا ہوا کشمیر میں آیا.باقی حصہ عمر کا کشمیر میں بسر کیا.سری نگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے.افسوس خواہ نخواہ افترا کے طور پر آسمان پر چڑھایا گیا اور آخر قبر کشمیر میں ثابت ہوئی.اس بات کے ایک دو گواہ نہیں بلکہ بیس ہزار سے زیادہ گواہ ہیں.اس قبر کے بارے میں ہم نے بڑی تحقیق سے ایک کتاب لکھی ہے جو عنقریب شائع کی جائے گی.

Page 279

مجھے اس قوم کے مشنریوں پر بڑا ہی افسوس آتا ہے جنہوں نے فلسفہ طبعی ہیئت سب پڑھ کر ڈبو دیا ہے اور خواہ نخواہ ایک عاجز انسان کو پیش کرتے ہیں کہ اس کو خدا مان لو.چنانچہ حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئی ہے.اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے تا سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں.مگر یہ کیسا خدا ہے کہ یہودیوں کے ہاتھ سے اپنے تئیں بچا نہ سکا.ایک دغا باز شاگرد نے اس کو پکڑوا دیا، اس کا کچھ بندوبست نہ کر سکا.انجیر کے درخت کی طرف دوڑا گیا اور یہ خبر نہ ہوئی کہ اس پر پھل نہیں اور جب قیامت کے بارے میں اس سے پوچھا گیا کہ کب آئے گی تو بے خبری ظاہر کی.اور لعنت، جس کے یہ معنے ہیں کہ دل ناپاک ہو جائے اور خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا سے اور اس کی رحمت سے دور جاپڑے، وہ اس پر پڑی.اور پھر وہ آسمان کی طرف اس لئے چڑھا کہ باپ اس سے بہت دور تھا کروڑہا کوس سے بھی زیادہ دور تھا اور یہ دوری کسی طرح دور نہیں ہو سکتی تھی جب تک وہ مع جسم آسمان پر نہ چڑھتا.دیکھو کس قدر کلام کا تناقض ہے.ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں اور ایک طرف کروڑ ہا کوس کا سفر کر کے اس کے ملنے کو جاتا ہے جبکہ باپ اور بیٹا ایک تھے تو اس قدر مشقت سفر کی کیوں اُٹھائی؟ جہاں ہوتا وہیں باپ بھی تھا، دونوں ایک جو ہوئے.اور پھر وہ کس کے داہنے ہاتھ بیٹھا؟ اب ہم ڈوئی کو مخاطب کرتے ہیں جو یسوع مسیح کو خدا بناتا اور اپنے تئیں اس کا رسول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ توریت استثنا ۱۸ باب آیت ۱۵ کی پیشگوئی میرے حق میں ہے اور میں ہی ایلیا اور میں ہی عہد کا رسول ہوں.نہیں جانتا کہ یہ مصنوعی خدا اس کا موسیٰ کے کبھی خواب خیال میں بھی نہیں تھا.موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہی بار بار کہا کہ خبردار ! کسی مجسم چیز، انسان یا حیوان کو خدا قرار نہ دینا.نہ آسمان پر سے نہ زمین سے.خدا نے تم سے باتیں کیں مگر تم نے اس کی کوئی صورت نہیں دیکھی.تمہارا خدا صورت اور تجسم سے پاک ہے.مگر اب ڈوئی موسیٰ کے خدا سے برگشتہ ہو کر وہ خدا پیش کرتا ہے جس کے چار بھائی اور ایک ماں ہے.اور بار بار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کے خدا یسوع مسیح نے اس کو خبر دی ہے کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجز ان لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قرار دیں.ہم ڈوئی کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ اس کو تمام مسلمانوں کے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟

Page 280

وہ غریب مریم کے عاجز بیٹے کو خدا کیونکر مان لیں بالخصوص اس زمانہ میں جب کہ ڈوئی کے خدا کی قبر بھی اس مُلک میں موجود ہے اور ان میں وہ مسیح موعود بھی موجود ہے جو چھٹے ہزار کے اخیر اور ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوا جس کے ساتھ بہت سے نشان ظہور میں آئے اور ڈوئی کا یہ الہام کہ تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور وہی لوگ باقی رہیں گے جو یسوع مسیح کو خدا مانیںگے اور ساتھ ہی ڈوئی کو بھی اس خدا کا رسول مان لیں گے.اس الہام کی رو سے تو باقی عیسائیوں کی بھی خیر نہیں کیونکہ گو وہ مریم کے صاحبزادہ کو خدا مانتے ہیں مگر یہ جھوٹا رسول جو ڈوئی ہے اب تک انہوں نے تسلیم نہیں کیا.اور ڈوئی نے صاف طور پر یہ الہام شائع کر دیا ہے کہ صرف یسوع مسیح کو خدا ماننا کافی نہیں جب تک ڈوئی کو بھی ساتھ ہی نہ مان لیں اور چاہئے کہ صاف اقرار کرے کہ ڈوئی ایلیا اور ڈوئی عہد کارسول اور ڈوئی کے حق میں ہی وہ پیشگوئی ہے جو توریت استثنا باب ۱۸ آیت ۱۵ میں ہے، تب بچیں گے ورنہ ہلاک ہو جائیں گے.غرض ڈوئی بار بار لکھتا ہے کہ عنقریب یہ سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے بجز اس گروہ کے جو یسوع کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت.اس صورت میں یورپ اور امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہئے کہ بہت جلد ڈوئی کو مان لیں تاہلاک نہ ہو جائیں اور جب کہ انہوں نے ایک نامعقول امر کو مان لیا ہے یعنی یسوع مسیح کی خدائی کو، تو چلو یہ دوسرا نامعقول امر بھی مان لو کہ اس خدا کا ڈوئی رسول ہے.رہے مسلمان.سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں باَدب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے؟ ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کر دیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندۂ عاجز مگر نبی جانتا ہوں.اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے؟ چاہئے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی کی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کروں گا اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے اور تمام عیسائیوں

Page 281

کیلئے حق کی شناخت کیلئے ایک راہ نکل آئے گی.میں نے ایسی دعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی.اس سبقت کو دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا.اور یاد رہے کہ میں اس مُلک میں معمولی انسان نہیں ہوں.میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے.صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیداہو گیا اور وہ میں ہی ہوں.صدہا نشان زمین سے اور آسمان سے میرے لئے ظاہر ہوچکے.ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے.ڈوئی بیہودہ باتیں اپنے ثبوت میں لکھتا ہے کہ میں نے ہزار ہا بیمار توجہ سے اچھے کئے ہیں.ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ کیوں پھر اپنی لڑکی کو اچھا نہ کر سکا اور وہ مر گئی اور اب تک اس کے فراق میں روتا ہے اور کیونکر اپنے اس مرید کی عورت کو اچھا نہ کر سکاجو بچہ جَن کر مر گئی اور اس کی بیماری پر بلایا گیا مگر وہ گزر گئی.یاد رہے کہ اس مُلک کے صدہا عام لوگ اس قسم کے عمل کرتے ہیں.اور سلب امراض میں بہتوں کو مشق ہو جاتی ہے اور کوئی ان کی بزرگی کا قائل نہیں ہوتا.پھر امریکہ کے سادہ لوحوں پر نہایت تعجب ہے کہ وہ کس خیال میں پھنس گئے.کیا ان کے لئے مسیح کو ناحق خدا بنانے کا بوجھ کافی نہ تھا کہ یہ دوسرا بوجھ بھی انہوں نے اپنے گلے ڈال لیا.اگر ڈوئی اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا.کیا حاجت ہے کہ تمام مُلکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے؟ لیکن اگر اس نے اس نوٹس کا جواب نہ دیا اور یا اپنے لاف و گزاف کے مطابق دعا کر دی اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اُٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہوگا.مگر یہ شرط ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ کسی بیماری سے یا بجلی سے یا سانپ کے کاٹنے سے یا کسی درندہ کے پھاڑنے سے ہو.اور ہم اس جواب کیلئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا سچوں کے ساتھ ہو.آمین یاد رہے کہ صادق اور کاذب میں فیصلہ کرنے کیلئے ایسے امور ہرگز معیار نہیں ٹھہر سکتے جو دنیا کی قوموں میں مشترک ہیں.کیونکہ کم و بیش ہر ایک قوم میں وہ پائے جاتے ہیں.انہیںامور میں سے طریق سلبِ امراض بھی ہے.یہ طریق نامعلوم وقت سے ہر ایک قوم میں رائج ہے.ہندو بھی ایسے کرتب کیا کرتے ہیں اور یہودیوں میں بھی یہ طریق چلے آتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی بہت سے

Page 282

لوگ سلب امراض کے مدعی ہیں اور سچ بات یہ ہے کہ اس طریق کو حق اور باطل کے فیصلہ کرنے کیلئے کوئی دخل نہیں کیونکہ اہل حق اور اہل باطل دونوں اس میں دخل پیدا کر سکتے ہیں.چنانچہ انجیلوں سے بھی ثابت ہے کہ جب حضرت عیسیٰ اس طریق توجہ سے بعض امراض کو اچھا کرتے تھے تو ان کی زندگی میں ہی ایسے لوگ بھی موجود تھے کہ ان کے مرید اور حواری نہ تھے مگر اسی طرح امراض کو اچھا کر لیتے تھے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کر لیتے تھے اور اس وقت ایک تالاب بھی ایسا تھا جس میں غوطہ لگا کر اکثر امراض اچھی ہو جاتی تھیں.سو یہ مشق توجہ اور سلبِ امراض کی جو عام طور پر قوموں کے اندر پائی جاتی ہے یہ سچے مذہب کیلئے کامل شہادت نہیں ٹھہر سکتی.ہاں! اس صورت میں کامل شہادت ٹھہر سکتی ہے کہ دو فریق جو اپنے اپنے مذہب کی سچائی کے مدعی ہیں وہ چند بیمار مثلاً بیس بیمار قرعہ اندازی سے باہم تقسیم کر لیں اور پھر ان دونوں میں سے جس کے بیمار فریق مقابل سے بہت زیادہ اچھے ہو جائیں، اس کو حق پر سمجھا جائے گا.چنانچہ گزشتہ دنوں میں ایسا ہی میں نے اس ملک میں اشتہار دیا تھا مگر کسی نے اس کا مقابلہ نہ کیا.مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ڈوئی یا اور کوئی ڈوئی کا ہم جنس اس مقابلہ کیلئے میرے مقابل آئے تو میرا خدا اس کو سخت ذلیل کرے گا، کیونکہ وہ جھوٹا ہے اور اس کا خدا بھی محض باطل کا پتلا ہے.لیکن افسوس! کہ اس قدر دوری میں یہ مقابلہ میسر نہیں آ سکتا.مگر خوشی کی بات ہے کہ ڈوئی نے خود یہ طریق فیصلہ پیش کیا ہے کہ مسلمان جھوٹے ہیں اور ہلاک ہو جائیں گے.اس طریق فیصلہ میں ہم اس قدر ترمیم کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں.اس طرح پر تو ڈوئی کے ہاتھ میںمکار لوگوں کی طرح یہ عذر باقی رہ جائے گا کہ مسلمان ہلاک نہ ہوںگے مگر پچاس یا ساٹھ یا سَو برس کے بعد.اتنے میں ڈوئی خود مر جائے گا تو کوئی اس کی قبر پر جا کر اس کو ملزم کرے گا کہ تیری پیشگوئی جھوٹی نکلی.پس اگر ڈوئی کی سیدھی نیت ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ سبق درحقیقت مریم کے صاحبزادہ نے ہی اس کو دیا ہے جو اس کے نزدیک خدا ہے تو یہ ٹھگوں والا طریق اس کو اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ اس سے کوئی فیصلہ نہیں ہوگا.بلکہ طریق یہ ہے کہ وہ اپنے مصنوعی خدا سے اجازت لے کر میرے ساتھ اس بارے میں مقابلہ کرے.میں ایک آدمی ہوں جو پیرانہ سالی تک پہنچ چکا ہوں.میری عمر غالباً چھیاسٹھ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے اور ذیابیطس اور اسہال کی بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں اور دورانِ سر اور کمی دورانِ خون کی بیماری بدن کے اوپر کے حصہ میں ہے.اور میں

Page 283

دیکھتا ہوں کہ میری زندگی میری صحت سے نہیں بلکہ میرے خدا کے حکم سے ہے.پس اگر ڈوئی کا مصنوعی خدا کچھ طاقت رکھتا ہے تو ضرور میرے مقابل اس کو اجازت دے گا.اگر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے عوض میں صرف میرے ہلاک کرنے سے ہی کام ہو جائے تو ڈوئی کے ہاتھ میں ایک بڑا نشان آ جائے گا.پھر لاکھوں انسان مریم کے بیٹے کو خدا مان لیں گے اور نیز ڈوئی کی رسالت کو بھی.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا کے مسلمانوں کی نفرت عیسائیوں کے خدا کی نسبت ترازو کے ایک پلہ میں رکھی جائے اور دوسرے پلہ میں میری نفرت رکھی جائے تو میری نفرت اور بیزاری عیسائیوں کے بناوٹی خدا کی نسبت تمام مسلمانوں کی نفرت سے وزن میں زیادہ نکلے گی.میں سب پرندوں سے زیادہ کبوتر کا کھانا پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ عیسائیوں کا خدا ہے.معلوم نہیں کہ ڈوئی کی اس میں کیا رائے ہے.کیا وہ بھی اس کی نرم نرم ہڈیاں دانتوں کے نیچے چباتے ہیں یا خدائی کی مشابہت کی وجہ سے اس پر کچھ رحم کرتے اور اس کی حرمت کے قائل ہیں؟ اس ملک کے ہندوؤں نے جب سے گائے کو پرمیشر کا اوتار مانا ہے تب سے وہ گائے کو ہرگز نہیں کھاتے.پس وہ ان عیسائیوں سے اچھے رہے جنہوں نے اس کبوتر کی کچھ عظمت نہ کی جس کی شبیہ میں ان کا وہ خدا ظاہر ہوا جس نے مسیح کو آسمان سے آواز دی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے.پس اس رشتہ کے لحاظ سے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے، کبوتر مسیح کا باپ ہوا، گویا خدا کا باپ ٹھہرا.مگرتب بھی عیسائیوں نے اس کے کھانے سے پرہیز نہیں کیا حالانکہ وہ اس لائق تھا کہ اس کو خداوند خداوند کہا جائے.خدا نے جب کہ توریت میںیہ کہا کہ آدم کو میں نے اپنی صورت میں پیدا کیا تبھی سے انسان کا گوشت انسانوں پر حرام کیا گیاہے.پھر کیا وجہ اور کیا سبب کہ کبوتر جو عیسائیوں کے خدا کا باپ ہے، جس نے مسیح کو بیٹے کا خطاب دیا، وہ کھایا جاتا ہے اور نہ صرف کھایا جاتا بلکہ اس کے گوشت کی تعریف بھی کی جاتی ہے جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا صفحہ۸۵ جلد ۱۹ میں لکھاہے کہ کبوتر کا گوشت تمام پرندوں سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے.جن لوگوں کو کبوتر کی قسم فروٹ پجن کھانے کا اتفاق خوش قسمتی سے ہوا ہے انہوں نے یہ شہادت دی ہے اور یہود کی شریعت کے مطابق جس کو بکرا ذبح کرنے کی توفیق نہ ہو وہ کبوتر ذبح کرے (لوقا ۲۴: ۲) اور مریم نے بھی دو کبوتر ذبح کئے تھے کیونکہ وہ غریب تھی.(لوقا۲۴:۲) اب دیکھو ایک طرف تو کبوتر کو خدا بنایا اور ایک طرف کبوتر پر ہمیشہ چھری پھیر دی جاتی ہے.مسیح تو صرف ایک دفعہ صلیب پر چڑھ

Page 284

کر تمام عیسائیوں کا شفیع بن گیا مگر بیچارہ کبوتر کو اس شفاعت سے کچھ حصہ نہ ملا جس کی بوٹی بوٹی ہمیشہ دانتوں کے نیچے پیسی جاتی ہے.چنانچہ ہم نے بھی کل ایک سفید کبوتر کھایا تھا لہٰذا روح القدس کی تائید سے یہ تحریک پیدا ہوئی.اور انسائیکلوپیڈیا میں جو پانچ سَو قسم کبوتر کی لکھی ہے، یہ بھی میری رائے میں ناقص ہے کیونکہ اس میں اس کبوتر کو شامل نہیں کیا گیا جس کی شبیہ میں عیسائیوں کا خدا ظاہر ہوا تھا.اس لئے اس بیان کی یوں تصحیح کرنی چاہئے کہ کبوتر کی اقسام ۵۰۱ ہیں اور اس کی تصریح کر دینی چاہئے کہ یہ ایک نئی قسم وہ داخل کی گئی ہے جس میں خدا مسیح پر نازل ہوا تھا.میں ایسے شخص کا سخت دشمن ہوں کہ جو کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر پھر خیال کرتا ہے کہ میں خدا ہوں.گو میں مسیح ابن مریم کو اس تہمت سے پاک قرار دیتا ہوں کہ اُس نے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تاہم میں دعویٰ کرنے والے کو تمام گنہگاروں سے بدتر سمجھتا ہوں.میں جانتا ہوں اور مجھے دکھایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم اس تہمت سے بَری اور راستباز ہے اور اس نے کئی دفعہ مجھ سے ملاقات کی لیکن ہرایک دفعہ اپنی عاجزی اور عبودیت ظاہر کی.ایک دفعہ میں نے اور اس نے عالم کشف میں جو گویا بیداری کا عالَم تھا، ایک جگہ بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا۱؎ اور اس نے اپنی فروتنی اور محبت سے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ میرا بھائی ہے اور میں نے بھی محسوس کیا کہ وہ میرا بھائی ہے.تب سے میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں.سو جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کے موافق میرا یہی عقیدہ ہے کہ وہ میرا بھائی ہے گو مجھے حکمت اور مصلحت الٰہی نے اس کی نسبت زیادہ کام سپرد کیا ہے اور اس کی نسبت زیادہ فضل اور کرم کے وعدے دئے ہیں، مگر پھر بھی میں اور وہ روحانیت کی رو سے ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں، اسی بنا پر میرا آنا اسی کا آنا ہے.جو مجھ سے انکار کرتا ہے وہ اس سے بھی انکار کرتا ہے.اس نے مجھے دیکھا اور خوش ہوا.پس وہ جو مجھے دیکھتا اور ناخوش ہوتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.نہ مجھ میں سے اور نہ مسیح ابن مریم میں سے.اور مسیح ابن مریم مجھ میں سے ہے اور میں خدا سے ہوں.مبارک وہ جو مجھے پہچانتا ہے اور بدقسمت وہ جس کی آنکھوں سے میں پوشیدہ ہوں.٭ خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی ۱؎ تذکرہ صفحہ۴۳۹.ایڈیشن چہارم ٭ ریویو آف ریلیجنز اُردو ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۳۳۹ تا۳۴۸

Page 285

جان الیگزینڈر ڈوئی کے نام دوسرا کھلا خط ڈوئی نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا جواب نہ دیا تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈوئی کے نام ایک اور خط لکھا جو امریکہ کے اخبارات و رسائل میں کثرت کے ساتھ شائع ہوا.مگر باوجود اس کثرت اشاعت پیشگوئی کے ڈوئی نے اس چیلنج کا بھی کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ میں اس کا کچھ ذکر کیا.البتہ اسلام کے متعلق اس نے وہی بدزبانی کا طریق جاری رکھا چنانچہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۳ء کو اس نے اپنے اخبار میں یہ فقرے شائع کئے.’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلدی آئے جب اسلام دنیا سے نابود ہو جائے.اے خدا تو میری اس دعا کو قبول کر.اے خدا تو اسلام کو ہلاک کر‘‘ پہلے تو صرف گول مول الفاظ میں ایک پیشگوئی تھی مگر اس چٹھی کے بعد کھلے الفاظ میں اسلام کی ہلاکت کے لئے دعا کرنا مباہلہ کا ہی اختیار کرنا تھا کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسلمانوں کی طرف سے وکیل سمجھتا تھا.(ایڈیٹر) اور پھر ۱۵؍ اگست ۱۹۰۳ء کو اسلام کا ذکر کر کے لکھا کہ ’’انسانیت پر اس سخت بدنما دھبہ کو (یعنی اسلام کو) صیہون ہلاک کر کے چھوڑے گا‘‘.پس جب وہ نہ تو اسلام کے متعلق دریدہ دہنی سے باز آیا اور نہ ہی کھلے طور پر میدان مقابلہ میں نکلا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور اشتہار جاری کیا جو صرف زبان انگریزی میں ترجمہ ہو کر بلاد یورپ اور امریکہ میں بکثرت شائع ہوا.اس اشتہار کا بھی انگریزی اور امریکن اخبارات میں بہت چرچا ہوا.اس اشتہار کا عنوان یہ تھا ’’پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں‘‘ اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے اب یہ خالی مباہلہ کی دعوت نہ رہی تھی بلکہ اس میں صراحت کے ساتھ ڈوئی کی ہلاکت کی پیشگوئی بھی کی گئی تھی.ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خط کا اُردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے.یہ ترجمہ ریویو آف ریلیجنز جلد۶ نمبر۴ میں شائع ہو چکا ہے.

Page 286

مکتوب نمبر۱۳ ڈوئی کے نام دوسرا کھلا خط زمین جب گناہ اور شرک سے آلودہ ہو جاتی ہے اور اس حقیقت سے بے خبر ہو جاتی ہے جو انسان کی پیدائش کی اصل غرض ہے.تب خدا کی رحمت تقاضا کرتی ہے کہ ایک کامل الفطرت انسان کو اپنی ذات سے پاک تعلق بخش کر اور اپنے مکالمہ سے اُس کو مشرف کر کے اور اپنی محبت میں اُس کو انتہا تک پہنچا کر اُس کے ذریعہ سے دوبارہ زمین کو پاک و صاف کرے.انسان خدا تو نہیں ہو سکتا مگر بڑے بڑے تعلقات اس سے پیدا کر لیتا ہے.جب وہ بالکل خدا کیلئے ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں صاف کرتا کرتا ایک مصفّا آئینہ کی طرح بن جاتا ہے.تب اس آئینہ میں عکسی طور پر خدا کاچہرہ نمودار ہوتا ہے اُس صورت میں وہ بشری اور خدائی صفات میں ایک مشترک چیز بن جاتا ہے اور کبھی اس سے صفاتِ الٰہیہ صادر ہوتی ہیں کیونکہ اس کے آئینہ وجود میں خدا کا چہرہ منعکس ہے اور کبھی اُس سے بشری صفات صادر ہوتی ہیں کیونکہ وہ بشر ہے اور ایسے انسانوں کو دیکھنے والے کبھی دھوکا کھا کر اور صرف ایک پہلو کا کرشمہ دیکھ کر ان کو خدا سمجھنے لگتے ہیں.اور دنیا میں مخلوق پرستی اسی وجہ سے آئی ہے اور صدہا انسان اسی دھوکا سے خدا بنائے گئے ہیں.مگرہمارے اس زمانہ میں جس قدر عیسائیوں کا وہ فرقہ جو حضرت مسیح کو خدا جانتا ہے اس دھوکا میں مبتلا ہے اس قدر کوئی اور قوم مبتلا نہیں.مسیح سے صدہا برس پہلے جو لوگ خدا بنائے گئے تھے جیسے راجہ رام چندر، راجہ کرشن، گوتم بدھ.ہمارے اس زمانہ میں ان کے پیرو متنبہ ہوتے جاتے ہیں کہ یہ ان کی غلطیاں تھیں.مگر افسوس حضرت مسیح کے پیرو اب تک اس زمانہ میں بھی خواہ نخواہ خدائی کا خطاب ان کو دے رہے ہیں.اگرچہ اس خیال کا بطلان ایسا بدیہی تھا کہ کسی دلیل کی ضرورت نہ تھی.مگر افسوس کہ عیسائی ابھی تک اس زمانہ کی ہوا سے بھی دور بیٹھے ہیں بلکہ بعض لوگوں نے جب دیکھا کہ ایسے لغو خیالات کا زمانہ ہی دن بدن مخالف ہوتا جاتا ہے تو انہوں نے اپنے معمولی طریقوں سے مایوس ہو کر یہ ایک نیا طریق اختیار کیا کہ کوئی ان میں سے الیاس بن گیا اور کسی نے یہ دعوٰی کر دیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں اور میں ہی خدا ہوں.اس مجمل

Page 287

فقرہ سے مراد میری یہ ہے کہ لندن میں تو مسٹر پگٹ نے خدائی اور مسیحیت کا دعویٰ کیا اور امریکہ میں مسٹر ڈوئی الیاس بن بیٹھے اور پیشگوئی کر دی کہ مسیح ابن مریم پچیس برس تک دنیا میں آجائے گا.دونوں میں فرق یہ ہے کہ ڈوئی نے تو بزدلی دکھلائی اور الیاس بننے میں بھی اپنی پردہ دری سے ڈرتا رہا اور مسیح نہ بنا بلکہ مسیح کا خادم بنا اور پگٹ نے بڑی ہمت دکھلائی کہ خود مسیح بن گیا، نہ صرف مسیح بلکہ خداہونے کا بھی دعویٰ کیا.اب لندن والوں کو کسی بیماری، آفت، مصیبت کا کیا اندیشہ ہے، جن کے شہر میں خدا اُترا ہوا ہے.مگر میں نے سنا ہے کہ لندن میں کچھ یہودی بھی رہتے ہیں اس لئے بے شک یہ اندیشہ ہے کہ ان کو طبعاً یہ خیال پیدا ہو کہ یہ تو وہی مسیح ہے جو صلیب سے بوجہ غشی کے غلطی کے ساتھ زندہ اُتارا گیا اور پھر موقع پا کر مشرقی بلاد کی طرف بھاگ گیا.آخر اب ایسے طور سے اس کو صلیب دیں کہ کام تمام ہو جائے اور پھر کسی طرف بھاگ نہ سکے.اور ساتھ ہی یہ فکر بھی ہے کہ مبادا عیسائیوں کو بھی خیال آ جاوے کہ پہلا کفّارہ پُرانا اور بودہ ہو چکا ہے اور شراب خوری اور فسق و فجور کی کثرت نے ثابت بھی کر دیا ہے کہ اس کفّارہ کی تاثیر جاتی رہی ہے.اس لئے اب ایک نئے خون کی ضرورت ہے.سو میں ہمدردی سے کہتا ہوں کہ مسٹر پگٹ کو ان ہر دو فرقوں سے چوکس رہنا چاہئے.القصہ ان دنوں میں جب کہ زمین میں ایسے ایسے جھوٹے اور ناپاک دعویکئے گئے ہیں اس لئے خدا نے جو زمین پر بدی اور ناپاکی کا پھیلنا پسند نہیں کرتا مجھے اپنا مسیح کر کے بھیجا تا وہ زمین کی تاریکی کو اپنی توحید سے روشن کرے اور شرک کی نجاست سے دنیا کو مخلصی بخشے.پس میں وہی مسیح موعود ہوں جو ایسے وقت میں آنے والا تھا.اور میں صرف اپنے منہ سے نہیں کہتا کہ میں مسیح موعود ہوں بلکہ وہ خدا جس نے زمین و آسمان بنایا، میری گواہی دیتا ہے.اس نے اس گواہی کے پورا کرنے کے لئے صدہا نشان میرے لئے ظاہر کئے اور کر رہا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کا فضل اُس مسیح سے مجھ پر زیادہ ہے جو مجھ سے پہلے گزر چکا ہے.میرے آئینہ میں اس کا چہرہ اس سے زیادہ وسیع طور پر منعکس ہوا ہے جو اُس کے آئینہ میںہوا تھا.اگر میں صرف اپنے منہ سے کہتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں لیکن اگر وہ میرے لئے گواہی دیتا ہے تو کوئی مجھے جھوٹا قرار نہیں دے سکتا.میرے لئے اس کی ہزار ہا گواہیاں ہیں جن کو میں شمار نہیں کر سکتا.مگر منجملہ ان کے ایک یہ بھی گواہی ہے کہ یہ دلیر دروغ گو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کا لندن میں دعویٰ کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست ونابود ہو

Page 288

جائے گا.دوسری یہ گواہی ہے کہ مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتًا یا اشارۃً میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کوچھوڑ دے گا.یہ دو نشان ہیں جو یورپ اور امریکہ کے لئے خاص کئے گئے ہیں.کاش! وہ ان پر غور کریں اور ان سے فائدہ اُٹھائیں.یاد رہے کہ اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کچھ جواب نہیں دیا اور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے اس لئے میں آج کی تاریخ سے جو ۲۳؍ اگست ۱۹۰۳ء ہے.اس کو پورے سات ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں.اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طور سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے، جس کو میں شائع کر چکا ہوں، اس تجویز کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوگا.میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ جیسا کہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے، جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی.کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک اور احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا.اور اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا تو دیکھو آج میں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی.اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئے کہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح سے موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلہ سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے.پس یقین سمجھو کہ اس کے صیہون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اس کو پکڑ لے گی.اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ’’اے قادر اور کامل خدا! جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور ظاہر ہوتا رہے گا یہ فیصلہ جلد کر کہ پگٹ اور ڈوئی کاجھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے.کیونکہ اس زمانہ میں تیرے عاجز بندے اپنے جیسے انسانوں کی پرستش میں گرفتار ہو کر تجھ سے بہت دور جا پڑے ہیں.سو اے ہمارے پیارے خدا! ان کواس مخلوق پرستی کے اثر سے رہائی بخش اور اپنے وعدوں کو پورا کر جو اس زمانہ کے لئے تیرے

Page 289

تمام نبیوں نے کئے ہیں.ان کانٹوں میں سے زخمی لوگوں کو باہر نکال اور حقیقی نجات کے سرچشمہ سے ان کو سیراب کر کیونکہ سب نجات تیری معرفت اور تیری محبت میں ہے، کسی انسان کے خون میں نجات نہیں.اے رحیم کریم خدا! ان کی مخلوق پرستی پر بہت زمانہ گزر گیا ہے.اب اُن پر تو رحم کر اور ان کی آنکھیں کھول دے.اے قادر اور رحیم خدا! سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے.اب تو ان بندوں کو اس اسیری سے رہائی بخش اور صلیب اور خون مسیح کے خیالات سے ان کو بچا لے.اے قادر کریم خدا! ان کے لئے میری دُعا سُن اور آسمان سے ان کے دلوں پر ایک نور نازل کر.تا وہ تجھے دیکھ لیں.کون خیال کر سکتا ہے کہ وہ تجھے دیکھیں گے.کس کے ضمیر میں ہے کہ وہ مخلوق پرستی کو چھوڑ دیں گے اور تیری آواز سنیں گے.پر اے خدا! تو سب کچھ کر سکتا ہے.تو نوحؑ کے دنوں کی طرح ان کو ہلاک مت کر کہ آخر وہ تیرے بندے ہیں بلکہ اُن پر رحم کر اور ان کے دلوں کو سچائی کے قبول کرنے کے لئے کھول دے.ہر ایک قفل کی تیرے ہاتھ میںکنجی ہے.جب کہ تو نے مجھے اس کام کے لئے بھیجا ہے.سو میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میںنامرادی سے مروں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ اپنی وحی سے مجھے تو نے وعدے دیئے ہیں ان وعدوں کو تو ضرور پورا کرے گا کیونکہ تُو ہمارا خدا صادق خداہے.اے میرے رحیم خدا! اس دنیا میں میرا بہشت کیا ہے! بس یہی کہ تیرے بندے مخلوق پرستی سے نجات پا جائیں.سو میرا بہشت مجھے عطا کر اور ان لوگوں کے مردوں اور ان لوگوں کی عورتوں اور ان کے بچوں پر یہ حقیقت ظاہر کر دے کہ وہ خدا جس کی طرف توریت اور دوسری پاک کتابوں نے بلایا ہے، اس سے وہ بے خبر ہیں.اے قادر کریم! میری سُن لے کہ تمام طاقتیں تجھ کو ہیں.اٰمین ثم اٰمین.۱؎ تـــــــــمّـــت نوٹ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ڈوئی کے انجام اور اس کی ہلاکت کی صریح خبر کو امریکہ کے بہت سے اخبارات اور رسائل نے جلی عنوانوں کے ساتھ شائع کیا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے عین مطابق ڈوئی انتہائی ذلّت کے ساتھ نہایت کسمپرسی کی حالت میں مارچ ۱۹۰۷ء کو اس جہان فانی سے گزر گیا اور اس کا آبادکردہ شہر صیہون ویران ہو گیا.(سیدعبدالحی) ٭ ریویو آف ریلیجنز اُردو اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۱۴۲ تا ۱۴۵

Page 290

خمکتوب نمبر۱۶ حضرت اقدس کا ایک خط ایک انگریز کے نام میرے پیارے دوست! آپ کی محبت اور اخلاص سے بھری ہوئی چٹھی پہنچی جس کے مضمون پر مطلع ہونے سے اور آپ کی خیر و عافیت کے پانے سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی.افسوس کہ میں بباعث نہ ملنے کسی انگریزی خواں کے کسی قدر دیر کے بعد اس چٹھی کو لکھتا ہوں.میں تاتحریر خط ہذا.ہر طرح سے معہ اہل وعیال خیریت سے ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جانبین کو دنیوی مکروہات اور آزمائشوں سے بچا کر اپنے خاص اور جاودانی رحمتوں سے متمتع فرماوے.میرے دل میں دن بدن بوجہ آپ کی استقامت اور استقلال طبیعت اور غیر متبدل خلوص کے آپ کی محبت بڑھتی جاتی ہے اورمیں ایسا خیال کرتا ہوں کہ آ پ جیسا ایک یک رنگ دوست پانے سے میں نے ایک خزانہ پالیا ہے یا ایک شہباز میرے قبضہ میں آیا ہے جس سے بڑے بڑے نیک نتیجوں کی امید رکھتا ہوں اور آپ کیلئے دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم روز بروز اپنی محبت اور معرفت اور وفا اور ثبات اور استقلال اور استقامت میں آپ کو ترقی بخشے اور میرے دل سے آپ کے دل کو ایک کر دیوے.اسلام سے آپ کا محبت رکھنا صاف دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے دل کو نہایت مستقیم اورسلیم پیدا کیا ہے اور ایک اجنبی قوم کیلئے آپ کو چراغ ہدایت بناناچاہاہے کیونکہ وہ دین جو آئینہ عالم پر نظر ڈال کر اس کی پوری صورت ہم دیکھ سکتے ہیں وہ اسلام ہی ہے.اسلام کوئی نئی بات نہیں سکھاتا اور نہ کوئی نیا معبو دپیش کرتا ہے اور نہ کوئی غیر طبعی اور اجنبی طریق نجات کا اس نے ایجاد کیا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے صفات کاملہ میں سے جن پر صحیفہ فطرت شہادت دے رہاہے کچھ کم کرتا ہے اور نہ نالائق صفتیں اس کی طرف منسو ب کرتا ہے بلکہ تعلیم قرآنی ان نقوش اور اشارات کی تفصیل کنندہ او رشارع اور یاددلانے او ر غلطی سے محفوظ رکھنے والی ہے جو خدا تعالیٰ کے افعال میں متنقش ہیں.قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں

Page 291

ایک ذرہ تصنع اور بناوٹ کی بدبو نہیں پائی جاتی.انسان کے تمام قویٰ جو اس کی فطرت میں پائے جاتے ہیں وہ قرآنی تعلیم کے سامنے ایسے ہیں کہ گویا وہ ایک قالب ہے جو بالطبع اس روح کے لینے کے لیے تقاضا کررہا ہے.جو شخص اس دین کی پوری صورت دیکھ لیوے اور طبع سلیم رکھتا ہو تو میں خیال نہیں کرسکتا کہ وہ اس نعمت کے قبول کرنے سے محروم رہ جائے اسی غرض سے وہ رسالہ تالیف کیا گیا ہے جس کا ترجمہ آپ کی خد مت میں بھیجنا چاہتا ہوں.افسوس کہ میں بباعث اپنی ان مجبوریوں کے جن کی تفصیل طولِ طلب ہے جلدی اپنے وعدہ کو پورا نہیں کرسکا.اگر میں انگریزی خواں ہوتا تو یہ مشکلات مجھے نہ آتیں.بہر حال امید رکھتا ہوں کہ اب میری دوسری چٹھی کوئی حصہ رسالہ کا ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں پہنچے گی.یہ نہیں وعدہ کر سکتا کہ کب.تک مگر امید رکھتا ہوں کہ خداوند قادر مطلق کوئی بہت دیر اس میں نہیںڈالے گا.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور وہ دن لاوے کہ جیسے خط و کتابت کے ذریعہ سے ایک روحانی ملاقات حاصل ہور ہی ہے خارجی ملاقات سے بھی مسرور اور خوشحال ہوجائیں.آمین والسلام آپ کا مخلص دوست غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور ٭

Page 292

مکتوب نمبر ۱۷ بانس بریلی کے ایک مسلمان کے خط کا جواب (تمہیدی نوٹ) او اخر فروری ۱۹۰۶ء میں بانس بریلی (یو.پی) کے ایک مسلمان نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ’’ینا بیع الاسلام‘‘ نام کی ایک مسیحی کتاب سے متاثر ہو کر دردناک خط لکھا اور اس کے جواب کا خواستگار ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو خدا تعالیٰ نے شوکت اسلام کے اظہار اور کسر صلیب ہی کے لئے مامور فرمایا تھا.آپ نے اس کا جواب لکھا اور وہ جواب ایک مستقل رسالہ کی صورت میں شائع ہوا.اگرچہ وہ جواب بجائے خود ایک رسالہ ہے لیکن وہ ایک خط ہی کا جواب اور مکتوب ہے.اس لئے میں اس رسالہ کے موضوع کے لحاظ سے اسے پورا درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں.اس جواب کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ حضور کو کس قدر غیرتِ اسلام کے لئے ودیعت کی گئی تھی.اس خط کا نام آپ نے چشمۂِ مسیحی تجویز فرمایا تھا.(عرفانی کبیر)

Page 293

چشمۂ مسیحی بجواب ینابیع الاسلام بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ وَ نبیّہِ العظیمِ السلام علیکم.بعد ہذا واضح ہو کہ میں نے آپ کا خط بڑے افسوس سے پڑھا جس کو آپ نے ایک عیسائی کی کتاب ینابیع الاسلام نام کی پڑھنے کے بعد لکھا.مجھے تعجب ہے کہ وہ قوم جن کا خدا مُردہ.جن کامذہب مُردہ.جن کی کتاب مُردہ اور جو روحانی آنکھ کے نہ ہونے سے خود مُردے ہیں.ان کی دروغ اورپُر افترا باتوںسے اسلام کی نسبت آپ تردّد میں پڑ گئے..آپ کو یاد رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صرف خدا کی کتابوں کی تحریف نہیں کی بلکہ اپنے مذہب کو ترقی دینے کے لئے افترا اور مفتریانہ تحریروں میں ہر ایک قوم سے سبقت لے گئے.چونکہ ان لوگوں کے پاس وہ نور نہیں جو سچائی کی تائید میں آسمان سے اُترتا اور سچے مذہب کو اپنی متواتر شہادتوں سے دنیا میں ایک صریح امتیاز بخشتاہے.اس لئے یہ لوگ ان باتوں کے لئے مجبور ہوئے کہ لوگوں کو ایک زندہ مذہب یعنی اسلام سے بیزار کرنے کے لئے طرح طرح کے افترائوں اور مکروں اور فریبوں اور دھوکہ دہی اور محض جعلی اور بناوٹی باتوں سے کام لیا جاوے.اے عزیز! یہ لوگ سیاہ دل لوگ ہیں.جن کوخدا کا خوف نہیں اور جن کے منصوبے دن رات اسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح لوگ تاریکی سے پیار کریں اور روشنی کو چھوڑ دیں.میں سخت تعجب میں ہوں کہ آپ ایسے شخص کی تحریروں سے کیوں متاثر ہوئے.یہ لوگ ان ساحروں سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے موسیٰ نبی کے سامنے رسیوں کے سانپ بنا کر دکھا دئیے تھے.مگر چونکہ موسیٰ ؑ خد اکا نبی تھا اس لئے اس کا عصا ان تمام سانپوں کو نگل گیا.اسی طرح قرآن شریف خدا تعالیٰ کا عصا ہے.وہ دن بدن رسیوں کے سانپوں کو نگلتا جاتا ہے اور وہ دن آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ ان رسیوں کے سانپوں کا نام و نشان نہیں رہے گا.

Page 294

Page 295

گوتم بدھ کی ہے اور اوّل سنسکرت میں تھی اور پھر دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے.چنانچہ بعض محقق انگریز بھی اس بات کے قائل ہیں.مگر اس بات کے ماننے سے انجیل کا کچھ باقی نہیں رہتا اور نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ اپنی تمام تعلیم میں چور ثابت ہوتے ہیں.کتاب موجود ہے جو چاہے دیکھ لے.مگر ہماری رائے تو یہ ہے کہ خود حضرت عیسیٰ کی یہ انجیل ہے.جو ہندوستان کے سفر میں لکھی گئی اور ہم نے بہت سے دلائل سے اس بات کو ثابت بھی کر دیا ہے کہ یہ درحقیقت حضرت عیسیٰ کی انجیل ہے اور دوسری انجیلوں سے زیادہ پاک و صاف ہے.مگر وہ بعض محقق انگریز جو اس کتاب کو بدھ کی کتاب ٹھہراتے ہیں وہ اپنے پائوں پر آپ تبر مارتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سارق قرار دیتے ہیں.اب یہ بھی یاد رہے کہ پادریوں کا مذہبی کتابوں کا ذخیرہ ایک ایسا ردّی ذخیرہ ہے.جو نہایت قابل شرم ہے.وہ لوگ صرف اپنی ہی اٹکل سے بعض کتابوں کو آسمانی ٹھہراتے ہیں اور بعض کو جعلی قرار دیتے ہیں.چنانچہ ان کے نزدیک یہ چار انجیلیں اصلی ہیں اورباقی اناجیل جو چھپن ۵۶کے قریب ہیں، جعلی ہیں.مگر محض گمان اور شک کی رُو سے نہ کسی مستحکم دلیل پر اس خیال کی بنا ہے.چونکہ مروجہ انجیلوں اور دوسری انجیلوں میں بہت تناقض ہے اس لئے اپنے گھر میں ہی یہ فیصلہ کر لیا ہے اورمحققین کی یہی رائے ہے کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ انجیلیں جعلی ہیں یا وہ جعلی ہیں.اسی لئے شاہ ایڈورڈ قیصر کی تخت نشینی کی تقریب پر لندن کے پادریوں نے وہ تمام کتابیں جن کو یہ لوگ جعلی تصور کرتے ہیں ان چار انجیلوں کے ساتھ ایک ہی جلد میں مجلّد کر کے مبارک باد ی کے طو رپر بطور نذر پیش کی تھیں اور اس مجموعہ کی ایک جلد ہمارے پاس بھی ہے.پس غور کا مقام ہے کہ اگر درحقیقت وہ کتابیں گندی اور جعلی اور ناپاک ہوتیں تو پھر پاک اور ناپاک دونوں کو ایک جلد میں مجلّد کرنا کس قدر گناہ کی بات تھی.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دلی اطمینان سے نہ کسی کتاب کو جعلی کہہ سکتے ہیں نہ اصلی ٹھہرا سکتے ہیں.اپنی اپنی رائیں ہیں اور سخت تعصب کی وجہ سے وہ انجیلیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں ان کو یہ لوگ جعلی قرار دیتے ہیں.چنانچہ برنباس کی انجیل جس میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیشگوئی ہے.وہ اسی وجہ سے جعلی قرار دی گئی ہے کہ اس میں کھلے کھلے طور پر آنحضرتؐ کی پیشگوئی موجود ہے.چنانچہ سیل صاحب نے اپنی تفسیر میں اس قصہ کو بھی لکھا ہے کہ ایک عیسائی راہب اسی انجیل کو دیکھ کر مسلمان ہو گیا تھا.غرض یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ یہ لوگ جس کتاب کی

Page 296

نسبت کہتے ہیں کہ یہ جعلی ہے یا جھوٹا قصہ ہے.ایسی باتیں صرف دو خیال سے ہوتی ہیں (۱) ایک یہ کہ وہ قصہ یا وہ کتاب اناجیل مروّجہ کے مخالف ہوتی ہے.(۲) دوسری یہ کہ وہ قصہ یا وہ کتاب قرآن شریف سے کسی قدر مطابق ہوتی ہے اور بعض شریر اور سیاہ دل انسان ایسی کوشش کرتے ہیں کہ اوّل اصول ۱؎ مسلّمہ کے طور پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جعلی کتابیں ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں ان کا قصہ درج ہے اور اس طرح پر نادان لوگوں کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے نوشتوں کا جعلی یا اصلی ثابت کر نا بجز خدا کی وحی کے اور کسی کا کام نہ تھا.پس خدا کی وحی کا جس کسی قصہ سے توارد ہوا وہ سچا ہے.گو بعض نادان انسان اس کوجھوٹا قصہ قرار دیتے ہیں.اور جس واقعہ کی خد اکی وحی نے تکذیب کی وہ جھوٹا ہے اگرچہ بعض انسان اس کو سچا قرار دیتے ہوں.اور قرآن شریف کی نسبت یہ گمان کرنا کہ ان مشہور قصوں یا افسانوں یا کتبوں یا اناجیل سے بنایا گیا ہے.نہایت قابلِ شرم جہالت ہے.کیا ممکن نہیں کہ خدا کی کتاب کا کسی گزشتہ مضمون سے توارد ہو جائے.چنانچہ ہندوئوں کے وید جو اس زمانہ میں مخفی تھے.ان کی کئی سچائیاں قرآن شریف میں پائی جاتی ہیں.پس کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وید بھی پڑھا تھا.اناجیل وغیرہ کا ذخیرہ جو چھاپہ خانہ کے ذریعہ سے اب ملا ہے.عرب میں ان کو کوئی جانتا بھی نہیں تھااور عرب کے لوگ محض اُمِّی تھے اور اگراس ملک میں شاذو نادر کے طور پر کوئی عیسائی بھی تھا وہ بھی اپنے مذہب کی کوئی وسیع واقفیت نہیں رکھتا۲؎ تھا.تو پھر یہ الزام کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرقہ کے طور پر ان کتابوں سے وہ مضمون لئے تھے ایک لعنتی خیال ہے.آنحضرت محض اُمی تھے.آپ عربی بھی نہیں پڑھ سکتے تھے.چہ جائیکہ یونانی یا عبرانی.یہ بارِ ثبوت ہمارے مخالفوں کے ذمہ ہے کہ اس زمانہ کی کوئی پرانی کتاب پیش کریں جس سے مطالب اخذ کئے گئے.اگر فرضِ محال کے طور پر قرآن کریم میں سرقہ کے ذریعہ سے کوئی مضمون ہوتا تو عرب کے عیسائی لوگ جو اسلام کے سخت دشمن تھے.فی الفور شور مچاتے کہ ہم سے سن کر ایسا مضمون لکھا ہے.۱؎ عیسائی مذہب میں دین کی حمایت کیلئے ہر قسم کا افترا کرنا اور جھوٹ جائز بلکہ موجب ثواب ہے.دیکھو پولوس کا قول.منہ ۲؎ پادری فنڈل صاحب نے اپنی کتاب میزان الحق میں اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ عرب کے عیسائی بھی وحشیوں کی طرح تھے اور بے خبر تھے.منہ

Page 297

یاد رہے کہ دنیا میں صرف قرآن ۱؎ شریف ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کی طرف سے معجزہ ہونے کا دعویٰ پیش ہوا اور بڑے زور سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کی خبریں اور اس کے قصے سب غیب گوئی ہے اورآئندہ کی خبریں بھی قیامت تک اس میں درج ہیں اور وہ اپنی فصاحت بلاغت کی روسے بھی معجزہ ہے.پس عیسائیوں کے لئے اس وقت یہ بات نہایت سہل تھی کہ وہ بعض قصے نکال کر پیش کرتے کہ ان کتابوں سے قرآن شریف نے چوری کی ہے.اس صورت میں اسلام کا تمام کاروبار سرد ہوجاتا.مگر اب تو بعد از مرگ واویلا ہے.عقل ہر گز ہرگز قبول نہیںکرسکتی کہ اگر عرب کے عیسائیوں کے پاس درحقیقت ایسی کتابیں موجود تھیں جن کی نسبت گمان ہو سکتا تھا کہ ان کتابوں سے قرآن شریف نے قصے لئے ہیں.خواہ وہ کتابیں اصلی تھیں یا فرضی تھیں.تو عیسائی اس پردہ دری سے چپ رہتے؟ پس بلاشبہ قرآن شریف کا سار ا مضمون وحی الٰہی سے ہے اور وہ وحی ایساعظیم الشان معجزہ تھا کہ اس کی نظیر کوئی شخص پیش نہ کر سکا اور سوچنے کا مقام ہے کہ جو شخص دوسری کتابوں کا چور ہو اور خود مضمون بناوے اور جانتا ہے کہ فلاں فلاں کتاب سے میں نے یہ مضمون لیا ہے اور غیب کی باتیں نہیں ہیں اس کو کب جرأت اور حوصلہ ہو سکتا ہے کہ تمام جہان کو مقابلہ کے لئے بلاوے اورپھر کوئی بھی مقابلہ نہ کرے اور کوئی اس کی پردہ دری پر قادر نہ ہو.اصل بات یہ ہے کہ عیسائی قرآن شریف پر بہت ہی ناراض ہیں اور ناراض ہونے کی وجہ یہی ہے کہ قرآن شریف نے تمام پَر وبال عیسائی مذہب کے توڑ دئیے ہیں.ایک انسان کا خدا بننا باطل کر کے دکھلا دیا.صلیبی عقیدہ کو پاش پاش کر دیا اور انجیل کی وہ تعلیم جس پر عیسائیوں کو ناز تھا.نہایت درجہ ناقص اور نکمّاہونا اس کا بپایۂ ثبوت پہنچا دیا.تو پھر عیسائیوں کا جوش ضرور نفسانیت کی وجہ سے ہونا چاہئے تھا.پس جو کچھ وہ افترا کریں تھوڑا ہے جو شخص مسلمان ہو کر پھر عیسائی بننا چاہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی ۱؎ قرآن شریف نے تو اپنی نسبت معجزہ اور بے مثل ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی بریت اس طرح پر ثابت کر دی کہ بلند آواز سے کہہ دیا کہ اگر کوئی اس کو انسانی کلام سمجھتا ہے تو وہ جواب دے لیکن تمام مخالف خاموش رہے.مگر انجیل کو تو اسی زمانہ میں یہودیوں نے مسروقہ قرار دیا تھا اور نہ انجیل نے دعویٰ کیا کہ انسان ایسی انجیل بنانے پر قادر نہیں.پس مسروقہ ہونے کے شکوک انجیل پر عائد ہو سکتے ہیں نہ قرآن شریف پر.کیونکہ قرآن کا تودعویٰ ہے کہ انسان ایسا قرآن بنانے پر قادر نہیں اور تمام مخالفین نے چپ رہ کر اس دعویٰ کا سچا ہونا ثابت کر دیا.منہ

Page 298

ماں کے پیٹ سے پید اہو کر اور بالغ ہوکر پھر یہ چاہے کہ ماں کے پیٹ میں داخل ہو جائے اور وہی نطفہ بن جائے جو پہلے تھا مجھے تعجب ہے کہ عیسائیوں کو کس بات پر ناز ہے اگر اُن کا خدا ہے تو وہ وہی ہے جو مدت ہوئی کہ مرگیا اور سری نگر محلہ خانیار کشمیر میں اس کی قبر ہے اور اگر اس کے معجزات ہیں تو وہ دوسرے نبیوں سے بڑھ کر نہیں ہیں.بلکہ الیاس نبی کے معجزات اس سے بہت زیادہ ہیں اور بموجب بیان یہودیوں کے اس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا.محض فریب اور مکر ۱ ؎ تھا اور پیشگوئیوں کا یہ حال ہے جو اکثر جھوٹی نکلی ہیں.کیا باراں۱۲ حواریوں کو وعدہ کے موافق باراں۱۲ تخت بہشت میں نصیب ہو گئے؟ کوئی پادری صاحب تو جواب دیں.کیا دنیا کی بادشاہت حضرت عیسیٰ کو ان کی اپنی پیشگوئی کے موافق مل گئی؟ جس کے لئے ہتھیار بھی خریدے گئے تھے.کوئی تو بولے.اور کیا اسی زمانہ میں حضرت مسیح اپنے دعویٰ کے موافق آسمان سے اُتر آئے؟ میں کہتا ہوں اُترنا کیا ان کو تو آسمان پر جانا ہی نصیب نہیں ہوا.یہی رائے یورپ کے محقق علماء کی بھی ہے.بلکہ وہ صلیب پر سے نیم مُردہ ہو کر بچ گئے اور پھر پوشیدہ طور پر بھاگ کر ہندوستان کی راہ سے کشمیر میں پہنچے اور وہیں فوت ہوئے.۲؎ ۱؎ یہودیوں کے اس بیان کی خود حضرت مسیح کے قول میں تائید پائی جاتی ہے.کیونکہ حضرت مسیح انجیل میں فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے حرام کار مجھ سے نشان مانگتے ہیں.ان کو کوئی نشان نہیں دکھلایا جائے گا.پس ظاہر ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ نے کوئی معجزہ یہودیوں کو دکھلایا ہوتا تو ضرور وہ یہودیوں کی اس درخواست کے وقت ان معجزات کا حوالہ دیتے.منہ ۲؎ جو لوگ مسلمان کہلا کر حضرت عیسیٰ کو مع جسم عنصری آسمان پر پہنچاتے ہیں وہ قرآن شریف کے برخلاف ایک لغوبات منہ پر لاتے ہیں.قرآن شریف تو آیت  ۱؎ میں حضرت عیسیٰ کی موت ظاہر کرتا ہے اورآیت۲؎ میں انسان کا مع جسم عنصری آسمان پر جانا ممتنع قرار دیتا ہے.پھر یہ کیسی جہالت ہے کہ کلام الٰہی کے مخالف عقیدہ رکھتے ہیں.توفّٰی کے یہ معنی کرنا کہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے جانا.اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہ ہو گی.اوّل تو کسی کتاب لغت میں توفّٰی کے یہ معنی نہیں لکھے کہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھایا جانا.پھر ماسوا اس کے جبکہ آیت قیامت کے متعلق ہے.یعنی قیامت کو حضرت عیسیٰ خد ا تعالیٰ کو یہ جواب دیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ قیامت تو آجائے گی مگر حضرت عیسیٰ نہیں مریں گے اور مرنے سے پہلے ہی مع جسم عنصری خدا کے سامنے پیش ہو جائیں گے.قرآن شریف کی یہ تحریف کرنا یہودیوں سے بڑھ کر قدم ہے.منہ ۱؎ المائدۃ : ۱۱۸ ۲؎ بنی اسرآئیل : ۹۴

Page 299

پھر تعلیم کا یہ حال ہے کہ قطع نظرا س سے کہ اس پرچوری کا الزام لگایا گیا ہے.انسانی قویٰ کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ حلم اور درگذر پر انجیل کی تعلیم زور دیتی ہے اورباقی شاخوں کا خون کیاہے حالانکہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ انسان کو قدرت قادر نے عطا کیا ہے.کوئی چیز اس میں سے بیکار نہیں ہے اورہرایک انسانی قوت اپنی اپنی جگہ پر عین مصلحت سے پید ا کی گئی ہے اور جیسے کسی وقت اور کسی محل پر حلم اور درگذر عمدہ اخلاق میں سے سمجھے جاتے ہیں.ایسا ہی کسی وقت غیرت اور انتقام اور مجرم کو سزا دینا اخلاقِ فاضلہ میں سے شمار کیا جاتا ہے.نہ ہمیشہ درگذر اور عفو قرینِ مصلحت ہے اور نہ ہمیشہ سزااور انتقام مصلحت کے مطابق ہے.یہی قرآنی تعلیم ہے.جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی بدی کی جزا اسی قدر ہے جس قدر بدی کی گئی.مگر جو کوئی عفو کر ے اور اس عفو میں کوئی اصلاح مقصود ہو.۲؎ تو اس کا اجر خداکے پاس ہے.یہ تو قرآن شریف کی تعلیم ہے.مگر انجیل میں بغیر کسی شرط کے ہر ایک جگہ عفو اور درگذر کی ترغیب دی گئی ہے اور انسانی دوسرے مصالح کو، جن پر تمام سلسلہ تمدن کا چل رہا ہے، پامال کر دیا ہے اور انسانی قویٰ کے درخت کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ کے بڑھنے پر زور دیا ہے اور باقی شاخوں کی رعایت قطعاً ترک کر دی گئی ہے.پھر تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا.انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پر بد دعا کی.اور دوسروں کو دعا کرنا سکھلایا اور دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو مگر خود اس قدر بد زبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا اورہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیںاور بُرے بُرے ان کے نام رکھے.اخلاقی معلّم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاقِ کریمہ دکھلاوے.پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوںنے آپ بھی عمل نہ کیا.خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے؟ پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتی ہے اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا.بلکہ کبھی تو عفو اور درگذر کی تعلیم دیتا ۱؎ الشوریٰ: ۴۱ ۲؎ قرآن شریف نے بے فائدہ عفو اور درگذر کو جائز نہیں رکھا.کیونکہ اس سے انسانی اخلاق بگڑتے ہیں اور شیرازہ نظام درہم برہم ہو جاتا ہے بلکہ اس عفو کی اجازت دی ہے جس سے کوئی اصلاح ہو سکے.منہ

Page 300

ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرین مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے.پس درحقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے ہے.یہ بات نہایت معقول ہے کہ خد اکا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں.یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خد اتعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے.ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے.نہ یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اورقول سے کچھ اور ظاہر ہو.خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگذر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزا یاب بھی کرتا ہے.ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے.ہمارا خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کاقہر بھی عظیم ہے.سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے اور سچا قول الٰہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں.ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اور درگذر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی عذاب نہ آیا ہو.اب بھی ناپاک طبع لوگوں کے لئے خد اتعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ایک عظیم الشان اور ہیبت ناک زلزلہ کی خبر دے رکھی ہے جو اُن کوہلاک کرے گا اور طاعون بھی ابھی دور نہیں ہوئی.پہلے اس سے نوحؑ کی ،قوم کا کیا حال ہوا؟ لوطؑ کی قوم کو کیا پیش آیا؟ سو یقینا سمجھو کہ شریعت کا مَاحَصَل تَخَلُّقْ بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ہے یعنی خد ائے عزوجل کے اخلاق اپنے اندر حاصل کرنا یہی کمال نفس ہے.اگر ہم یہ چاہیں کہ خدا سے بھی بڑھ کر کوئی نیک خلق ہم میں پید اہو تو یہ بے ایمانی اور پلید رنگ کی گستاخی ہے اورخدا کے اخلاق پر ایک اعتراض ہے.اور پھر ایک اور بات پر بھی غور کرو کہ خد ا کاقدیم سے قانونِ قدرت ہے کہ وہ توبہ اور استغفار سے گناہ معاف کرتا ہے اور نیک لوگوں کی شفاعت کے طور پر دعا بھی قبول کرتا ہے.مگر یہ ہم نے خدا کے قانونِ قدرت میں کبھی نہیں دیکھا کہ زید اپنے سر پر پتھر مارے اور اس سے بکر کی دردِ سر جاتی رہے.پھر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کی خود کشی سے دوسروں کی اندرونی بیماری کادور ہونا کس قانون پر مبنی ہے اور وہ کون سا فلسفہ ہے جس سے ہم معلوم کر سکیں کہ مسیح کا خون کسی دوسرے کی اندرونی ناپاکی کو دور کرسکتا ہے.بلکہ مشاہدہ اس کے بر خلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ جب تک مسیح نے خود کشی کا ارادہ نہیں کیا تھا.تب تک عیسائیوںمیں نیک چلنی اور خدا پرستی کا مادہ تھا.مگر صلیب کے

Page 301

بعد تو جیسے ایک بند ٹوٹ کر ہر ایک طرف دریا کا پانی پھیل جاتا ہے.یہی عیسائیوں کے نفسانی جوشوں کا حال ہوا.کچھ شک نہیں کہ اگر یہ خود کشی مسیح سے بالارادہ ظہور میں آئی تھی تو بہت بے جا کام کیا.اگر وہی زندگی وعظ و نصیحت میں صرف کرتا تو مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچتا.اس بے جاحرکت سے دوسروں کو کیا فائدہ ہوا.ہاں اگر مسیح خود کشی کے بعد زندہ ہو کر یہودیوں کے رُوبرو آسمان پر چڑھ جاتا تو اس سے یہودی ایمان لے آتے.مگر اب تو یہودیوں اور تمام عقلمندوں کے نزدیک مسیح کا آسمان پر چڑھنا محض ایک فسانہ اور گپ ہے.اور پھر تثلیث کا عقیدہ بھی ایک عجیب عقیدہ ہے.کیا کسی نے سنا ہے کہ مستقل طور پر اور کامل طور پر تین بھی ہوں اورایک بھی ہو اور ایک بھی کامل خدا اور تین بھی کامل خدا ہو.عیسائی مذہب بھی عجیب مذہب ہے کہ ہر ایک بات میں غلطی اور ہر ایک امر میں لغزش ہے اور پھر باوجود ان تمام تاریکیوں کے آئندہ زمانہ کے لئے وحی اور الہام پر مہر لگ گئی ہے اوراب ان تمام اناجیل کی غلطیوں کا فیصلہ حسب اعتقاد عیسائیوں کی وحی جدید کی رُو سے تو غیر ممکن ہے.کیونکہ ان کے عقیدہ کے موافق اب وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.اب تمام مدار صرف اپنی اپنی رائے پر ہے جو جہالت اور تاریکی سے مبرا نہیں اور ان کی انجیلیں اس قدر بیہودگیوں کا مجموعہ ہیں جو ان کاشمار کرنا غیر ممکن ہے.مثلاً ایک عاجز انسان کو خدا بنانا اور دوسروں کے گناہوں کی سزا میں اس کے لئے صلیب تجویز کرنا اور تین دن تک اس کو دوزخ میں بھیجنا.اور پھر ایک طرف خدا بنانااور ایک طرف کمزوری اور دروغگوئی کی عادت کو اس کی طرف منسوب کرنا چنانچہ انجیلوں میں بہت سے ایسے کلمات پائے جاتے ہیںجن سے نعوذ باللہ حضرت مسیح کا دروغگوہونا ثابت ہوتا ہے.مثلاً وہ ایک چور کو وعدہ دیتے ہیں کہ آج بہشت میں تُو میرے ساتھ روزہ کھولے گا اور ایک طرف وہ خلافِ وعدہ اُسی دن دوزخ میں جاتے ہیں اور تین دن دوزخ میں ہی رہتے ہیں.ایسا ہی انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیطان آزمائش کے لئے مسیح کو کئی جگہ لئے پھرا.یہ عجیب بات ہے کہ مسیح خدا بن کر بھی شیطان کی آزمائش سے بچ نہ سکا اور شیطان کو خدا کی آزمائش کی جرأت ہوگئی.یہ انجیل کا فلسفہ تمام دنیا سے نرالا ہے.اگر درحقیقت شیطان مسیح کے پاس آیا تھا تو مسیح کے لئے بڑا عمدہ موقع تھا کہ یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتا.کیونکہ یہودی حضرت مسیح کی نبوت کے سخت انکاری تھے.وجہ یہ کہ ملا کی نبی کی کتاب میں سچے

Page 302

مسیح کی یہ علامت لکھی تھی کہ اس سے پہلے الیاس ۱ ؎ نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا.پس چونکہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آیا.اس لئے یہودی اب تک حضرت عیسیٰ کو مفتری اور مکّار کہتے ہیں.یہ یہودیوں کی ایسی حجت ہے کہ عیسائیوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اور شیطان کا مسیح کے پاس آنا یہ بھی یہودیوں کے نزدیک مجنونانہ خیال ہے.اکثر مجانین ایسی ایسی خوابیں دیکھا کرتے ہیں.یہ مرض کابوس کی ایک قسم ہے.اس جگہ ایک محقق انگریز نے یہ تاویل کی ہے کہ شیطان کے آنے سے مراد یہ ہے کہ مسیح کو تین مرتبہ شیطانی الہام ہوا تھا مگر مسیح شیطانی الہام سے متاثر نہیں ہوا.ایک شیطانی الہاموں میں سے یہ تھا کہ مسیح کے دل میں شیطان کی طرف سے یہ ڈالا گیا کہ وہ خدا کوچھوڑ دے اورمحض شیطان کے تابع ہو جائے.مگر تعجب کہ شیطان خدا کے بیٹے پر مسلّط ہواا ور دنیا کی طرف اس کو رجوع دیا.حالانکہ وہ خدا کا بیٹا کہلاتا ہے.اورپھر خدا ہونے کے برخلاف وہ مرتا ہے.کیا خدا بھی مرا کرتا ہے اور اگر محض انسان مرا ہے تو پھر کیوں یہ دعویٰ ہے کہ ابن اللہ نے انسانوں کے لئے جان دی اور پھر وہ ابن اللہ کہلا کر قیامت کے وقت سے بھی بے خبر ہے.جیسا کہ مسیح کا اقرار انجیل میں موجود ہے کہ وہ باوجود ابن اللہ ہونے کے نہیں جانتا کہ قیامت کب آوے گی.باوجود خدا کہلانے کے قیامت کے علم سے بے خبر ہونا کس قدر بیہودہ بات ہے بلکہ قیامت تو دور ہے اس کو تو یہ بھی خبر نہ تھی کہ جس درخت انجیر کی طر ف چلا اس پر کوئی پھل نہیں.اب ہم اصل امر کی طرف رجوع کر کے مختصر طور پر بیان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ایک وحی اگر کسی گزشتہ قصّہ یا کتاب کے مطابق آجائے یا پوری مطابق نہ ہو یا فرض کرو کہ وہ قصّہ یا وہ کتاب لوگوں کی نظر میں ایک فرضی کتاب یا فرضی قصّہ ہے تو اس سے خدا تعالیٰ کی وحی پر کوئی حملہ نہیں ہوسکتا.جن کتابوں کا نام عیسائی لوگ تاریخی کتابیں رکھتے یا آسمانی وحی کہتے ہیں.یہ تمام بے بنیاد باتیں ہیں ۱؎ اس زمانہ میں یہودی لوگ الیاس نبی کے دنیا میں دوبارہ آنے اور آسمان سے اُترنے کے ایسے ہی منتظر تھے جیسے کہ آجکل ہمارے سادہ طبع مولوی حضرت عیسیٰ کے آسمان سے اترنے کے منتظر ہیں.مگر حضرت عیسیٰ کو ملاکی نبی کی اس پیشگوئی کی تاویل کرنی پڑی.اسی وجہ سے یہودی اب تک ان کو سچا نبی نہیں جانتے کہ الیاس آسمان سے نہیں اترا.اس عقیدہ کی وجہ سے یہودی تو واصل جہنم ہوئے.اب اسی طمع خام میں مسلمان گرفتار ہیں.یہ سراسر یہودیوں کا رنگ ہے.خیر اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہو گئی.

Page 303

جن کا کوئی ثبوت نہیں اور کوئی کتاب ا ن کی شکوک و شبہات کے گند سے خالی نہیں اورجن کتابوں کو وہ جعلی اور فرضی کہتے ہیںممکن ہے کہ وہ جعلی نہ ہوں او رجن کتابوں کو وہ صحیح مانتے ہیں ممکن ہے کہ وہ جعلی ہوں.خدا تعالیٰ کی کتاب ان کی مطابقت یا مخالفت کی محتاج نہیں ہے.خد اتعالیٰ کی سچی کتاب کا یہ معیارنہیں ہے کہ ایسی کتابوں کی مطابقت یا مخالفت دیکھی جائے.عیسائیوں کا کسی کتاب کو جعلی کہنا ایسا امر نہیں ہے کہ جو جو ڈیشل تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے اورنہ ان کا کسی کتاب کو صحیح کہنا کسی باضابطہ ثبوت پر مبنی ہے.نری اٹکلیں اور خیالات ہیں.لہٰذا ان کے یہ بیہودہ خیالات خدا کی کتاب کے معیار نہیں ہو سکتے.بلکہ معیاریہ ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کتاب خد اکے قانونِ قدرت ۱؎ اور قوی معجزات سے اپنا منجانب اللہ ہونا ثابت کرتی ہے یا نہیں؟ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ہزار سے زیادہ معجزات ہوئے ہیں اور پیشگوئیوں کا تو شمار نہیں.مگر ہمیں ضرورت نہیں کہ ان گزشتہ معجزات کو پیش کریں.بلکہ ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہو گئی اور معجزات نابود ہو گئے اور ان کی اُمت خالی اور تہی دست ہے.صرف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع نہیں ہوئی اور نہ معجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کاملینِ اُمت، جو شرف اتباع سے مشرف ہیں، ظہور میں آتے ہیں.اسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندہ حضرت عزت موجود ہے اوراب تک میرے ہاتھ پر ہزار ہا نشان تصدیق رسول اللہ اور کتاب اللہ کے بارہ میں ظاہر ہو چکے ہیں اورخد اتعالیٰ کے پاک مکالمہ سے قریباً ہر روز میں مشرف ہوتا ہوں.اب ہوشیار ہوجائو اور سوچ کر دیکھ لو کہ جس حالت میں دنیا میں ہزار ہا مذہب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں تو کیونکر ثابت ہو کہ وہ درحقیقت ۱؎ دنیا میں ایک قرآن ہی ہے جس نے خدا کی ذات اور صفات کو خد اکے اس قانونِ قدرت کے مطابق ظاہر فرمایا ہے.جو خد ا کے فعل سے دنیا میں پایا جاتا ہے اور جو انسانی فطرت اور انسانی ضمیرمیں منقوش ہے عیسائی صاحبوں کا خدا صرف انجیل کے ورقوں میں محبوس ہے اور جس تک انجیل نہیں پہنچی وہ اس خدا سے بے خبر ہے لیکن جس خد اکو قرآن پیش کرتا ہے اس سے کوئی شخص ذوالعقول سے بے خبر نہیں اس لئے سچا خد اوہی خدا ہے جس خد اکو قرآن نے پیش کیا ہے.جس کی شہادت انسانی فطرت اور قانونِ قدرت دے رہا ہے.

Page 304

منجانب اللہ ہیں.آخر سچے مذہب کیلئے کوئی تو مابہ الامتیاز چاہئے اور صرف معقولیت کا دعویٰ کسی مذہب کے منجانب اللہ ہونے پر دلیل نہیں ہوسکتی.کیونکہ معقول باتیں انسان بھی بیان کرسکتا ہے اورجو خدا محض انسانی دلائل سے پید اہوتا ہے.وہ خدا نہیں ہے بلکہ خد اوہ ہے جو اپنے تیئں قوی نشانوں کے ساتھ آپ ظاہر کرتا ہے.وہ مذہب جو محض خد اکی طرف سے ہے اس کے ثبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ منجانب اللہ ہونے کے نشان اورخدائی مہر اپنے ساتھ رکھتا ہو تا معلوم ہو کہ وہ خاص خد اتعالیٰ کے ہاتھ سے ہے.سو یہ مذہب اسلام ہے.وہ خداجو پوشیدہ اور نہاں درنہاں ہے اسی مذہب کے ذریعہ سے اس کا پتہ لگتا ہے اور اسی مذہب کے حقیقی پیروئوں پر وہ ظاہر ہوتا ہے جو درحقیقت سچا مذہب ہے.سچے مذہب پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور خدا اس کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے کہ میں موجود ہوں.جن مذاہب کی محض قصوں پر بنا ہے وہ بت پرستی سے کم نہیں.ان مذاہب میںکوئی سچائی کی روح نہیں ہے اگر خد ااب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے تھا اور اگر وہ اب بھی بولتا اور سنتا ہے جیسا کہ پہلے تھا تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ اس زمانہ میںایسا چپ ہو جائے کہ گویا موجود نہیں.اگر وہ اس زمانہ میں بولتا نہیں تو یقینا وہ اب سنتا بھی نہیں گویا اب کچھ بھی نہیں.سو سچا وہی مذہب ہے کہ جو اس زمانہ میں بھی خدا کا سننا اور بولنا دونوں ثابت کرتا ہے.غرض سچے مذہب میں خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے.خدا شناسی ایک نہایت مشکل کام ہے.دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کا کام نہیں ہے جو خدا کا پتہ لگا ویں.کیونکہ زمین و آسمان کو دیکھ کر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ترکیب محکم اور اَبلغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے.مگر یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے اور ہونا چاہئے اور ہے میں جوفرق ہے وہ ظاہر ہے پس اس وجود کا واقعی طور پر پتہ دینے والا صرف قرآن شریف ہے جو صرف خدا شناسی کی تاکید نہیں کرتا بلکہ آپ دکھلا دیتا ہے اور کوئی کتاب آسمان کے نیچے ایسی نہیں ہے کہ اس پوشیدہ وجود کا پتہ دے.مذہب سے غرض کیا ہے ! بس یہی کہ خد اتعالیٰ کے وجود اور اس کی صفاتِ کاملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پا جاوے اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو.کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالمِ آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہو گا.اور حقیقی خد اسے بے خبر رہنا اور اس سے دور رہنا اور سچی محبت اس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنم ہے جو عالم

Page 305

آخرت میں انواع و اقسام کے رنگوں میں ظاہر ہو گا اوراصل مقصود اس راہ میں یہ ہے کہ اس خدا کی ہستی پر پورا یقین حاصل ہو اور پھر پوری محبت ہو.اب دیکھنا چاہئے کہ کونسا مذہب اور کونسی کتاب ہے جس کے ذریعہ سے یہ غرض حاصل ہو سکتی ہے.انجیل تو صاف جواب دیتی ہے کہ مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے اور یقین کرنے کی راہیں مسدود ہیں اور جو کچھ ہوا وہ پہلے ہو چکا اورآگے کچھ نہیں.مگر تعجب کہ وہ خدا جو اب تک اس زمانہ میں بھی سنتا ہے.وہ اس زمانہ میں بولنے سے کیوں عاجز ہو گیا ہے؟ کیا ہم اس اعتقاد پر تسلی پکڑ سکتے ہیں کہ پہلے کسی زمانہ میں وہ بولتا بھی تھا اور سنتا بھی مگر اب وہ صرف سنتا ہے مگر بولتا نہیں.ایساخدا کس کام کا جو ایک انسان کی طرح جو بڈھا ہو کر بعض قویٰ اس کے بیکار ہو جاتے ہیں.امتدادِ زمانہ کی وجہ سے بعض قویٰ اس کے بھی بیکار ہو گئے اور نیز ایسا خدا کس کام کا کہ جب تک ٹکٹکی سے باندھ کر اس کو کوڑے نہ لگیں اور اس کے منہ پر نہ تھوکا جائے اور چند روز اس کوحوالات میں نہ رکھا جائے اور آخر اس کو صلیب پر نہ کھینچا جائے.تب تک وہ اپنے بندوں کے گناہ نہیں بخش سکتا.ہم تو ایسے خد اسے سخت بیزار ہیں جس پر ایک ذلیل قوم یہودیوں کی جو اپنی حکومت بھی کھو بیٹھی تھی غالب آگئی.ہم اس خدا کو سچا خدا جانتے ہیں جس نے ایک مکہ کے غریب بے کس کو اپنا نبی بنا کر اپنی قدرت اور غلبہ کا جلوہ اسی زمانہ میں تمام جہان کو دکھا دیا.یہاں تک کہ جب شاہِ ایران نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اس قادر خدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہہ دے کہ آج رات میرے خد انے تمہارے خد اوند کو قتل کر دیا ہے.ا ب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف ایک شخص خدا ئی کا دعویٰ کرتا ہے اوراخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سپاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کا دعویٰ کرتا ہے اور خدا اس کے مقابلہ پر بادشاہوں کو ہلاک کرتا ہے.یہ مقولہ طالب حق کے لئے نہایت نافع ہے کہ یار غالب شو کہ تا غالب شوی.ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے.ہم ایسی کتاب سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو مُردہ کتاب ہے.اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مُردہ خدا ہے.مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اپنے خدائے پاک کے یقینی اور قطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہوتا ہوں اور وہ خدا جس کو یسوع مسیح کہتا ہے کہ تونے

Page 306

مجھے کیوں چھوڑ دیا.میں دیکھتا ہوں کہ اس نے مجھے نہیں چھوڑا اور مسیح کی طرح میرے پر بھی بہت حملے ہوئے مگر ہر ایک حملہ میں دشمن ناکام رہے اور مجھے پھانسی دینے کے لئے منصوبہ کیا گیا مگر میں مسیح کی طرح صلیب پر نہیں چڑھا بلکہ ہر ایک بلا کے وقت میرے خدا نے مجھے بچایا اور میرے لئے اس نے بڑے بڑے معجزات دکھلائے اور بڑے بڑے قوی ہاتھ دکھلائے او ر ہزارہا نشانوں سے اس نے مجھ پر ثابت کردیا کہ خدا وہی خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیااور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور میں عیسیٰ مسیح کو ہرگز ان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا.یعنی جیسے اس پر خدا کا کلام نازل ہواایسا ہی مجھ پر بھی ہوا اور جیسے اس کی نسبت معجزات منسوب کئے جاتے ہیںمیں یقینی طور پر ان معجزات کا مصداق اپنے نفس کو دیکھتا ہوں بلکہ ان سے زیادہ.اور یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.یہ عجیب ظلم ہے کہ جاہل اور نادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کی علامات آنحضرت ﷺکے وجود میں پاتا ہوں.وہ خدا جس کو دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اس کے نبی کے ذریعہ سے دیکھ لیا اور وہ وحی الٰہی کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے.ہمارے پر محض اسی نبی کی برکت سے کھولا گیا اور وہ معجزات جو غیرقومیں صرف قصوں اور کہانیوں کے طور پر بیان کرتی ہیں.ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے وہ معجزات بھی دیکھ لئے اورہم نے اس نبی کا وہ مرتبہ پایا جس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں.مگر تعجب کہ دنیا اس سے بے خبر ہے.مجھے کہتے ہیں کہ مسیح موعود ہونے کا کیوں دعویٰ کیا.مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نبی کی کامل پیروی سے ایک شخص عیسیٰ سے بڑھ کر بھی ہوسکتا ہے.اندھے کہتے ہیں یہ کفر ہے.میں کہتا ہوں کہ تم خود ایمان سے بے نصیب ہو.پھر کیا جانتے ہو کہ کفر کیا چیز ہے.کفر خود تمہارے اندر ہے اگر تم جانتے کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں کہ  ۱؎ توایسا کفر منہ پر نہ لاتے.خدا تو تمہیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسول کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کرسکتے ہو اور تم صرف ایک نبی کے کمالات حاصل کرنا کفر جانتے ہو.غرض آپ پر لازم ہے کہ اس راہ کی طرف توجہ کرو کہ کیوں کر ایک سچا مذہب جو خدا تعالیٰ کی ۱؎ الفاتحۃ:۶،۷

Page 307

طرف سے ہے شناخت ہوسکتا ہے.پس یادر ہے کہ وہی سچا مذہب ہے جس کے ذریعہ سے خدا کا پتہ لگتا ہے.دوسرے مذاہب میں صرف انسانی کوششیں پیش کی جاتی ہیں گویا انسان کا خدا پر احسان ہے جو اس نے اس کا پتہ دیا.مگر اسلام میں خود خدا تعالیٰ ہرایک زمانہ میں اپنی اَنَاالْمَوْجُوْدُ کی آواز سے اپنی ہستی کا پتہ دیتا ہے.جیسا کہ اس زمانہ میں بھی وہ مجھ پر ظاہر ہوا.پس اس رسول پر ہزاروں سلام اور برکات جس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو شناخت کیا.بالآخر میں دوبارہ افسوس سے لکھتا ہوں کہ آپ کا یہ قول کہ حضرت مریم کا اُخت ہارون ہونا آپ پر بد اثر ڈالتا ہے.میری نگاہ میں آپ کی بہت نا واقفیت ظاہر کرتا ہے.اس بیہودہ اعتراض پر پہلے علماء نے بھی بہت کچھ لکھا ہے.اگر استعار ہ کے رنگ میں یا اور بنا پر خدا تعالیٰ نے مریم کو ہارون کی ہمشیرہ ٹھہرایا تو آپ کو اس سے کیوں تعجب ہوا.جب کہ قرآن شریف بجائے خود بار بار بیان کر چکا ہے کہ ہارون نبی حضرت موسیٰ کے وقت میں تھا اور یہ مریم حضرت عیسیٰ کی والدہ تھی جو چودہ سَو برس بعد ہارون کے پید اہوئی تو کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان واقعات سے بے خبر ہے اور نعوذ باللہ اس نے مریم کو ہارون کی ہمشیرہ ٹھہرانے میں غلطی کی ہے.کس درجہ کے خبیث طبع یہ لوگ ہیں کہ بیہودہ اعترا ض کر کے خوش ہوتے ہیں اورممکن ہے کہ مریم کا کوئی بھائی ہو جس کا نام ہارون ہو.عدمِ علم سے عدمِ شئے تو لازم نہیں آتا.مگر یہ لوگ اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے اور نہیں دیکھتے کہ انجیل کس قدر اعتراضات کا نشانہ ہے.دیکھو یہ کس قدر اعتراض ہے کہ مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیاتھا تاوہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو اور تمام عمر خاوند نہ کرے.لیکن جب چھ سات مہینہ کا حمل نمایاں ہو گیا.تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام ایک نجاّر سے نکاح کر دیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پید اہوا.وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا.اب اعتراض یہ ہے کہ اگر درحقیقت معجزہ کے طور پر یہ حمل تھا تو کیوں وضع حمل تک صبر نہیں کیا گیا؟ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عہد تو یہ تھا کہ مریم مدت العمر ہیکل کی خدمت میں رہے گی پھر کیوں عہد شکنی کر کے اور اس کو خدمت بیت المقدس سے الگ کر کے یوسف نجاّر کی بیوی بنایاگیا؟ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ توریت کی روسے بالکل حرام اور ناجائز تھا کہ حمل کی حالت میں کسی عورت کا نکاح کیا جائے.پھر کیوں خلافِ حکم توریت مریم کا نکاح عین حمل کی حالت میں یوسف

Page 308

سے کیا گیا.حالانکہ یوسف اس نکاح سے ناراض تھا اوراس کی پہلی بیوی موجود تھی.وہ لوگ جو تعددِ ازدواج سے منکر ہیں شائد ان کو یوسف کے اس نکاح کی اطلاع نہیں.غرض اس جگہ ایک معترض کا حق ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ اس نکاح کی یہی وجہ تھی کہ قوم کے بزرگوں کو مریم کی نسبت ناجائز حمل کا شبہ پیدا ہو گیا تھا.اگرچہ ہم قرآن شریف کی تعلیم کی رو سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ حمل محض خدا کی قدرت سے تھا تا خدا تعالیٰ یہودیوں کو قیامت کا نشان دے.اور جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزار ہا کیڑے مکوڑے خود بخود پید اہو جاتے ہیںاور حضرت آدم علیہ السلام بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تو پھر حضرت عیسیٰ ؑ کی اس پیدائش سے کوئی بزرگی ان کی ثابت نہیںہوتی.بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قویٰ سے محروم ہونے پر دلالت کرتا ہے.القصہ حضرت مریم کانکاح محض شبہ کی وجہ سے ہوا تھا.ورنہ جو عورت بیت المقدس کی خدمت کرنے کے لئے نذر ہو چکی تھی اس کے نکاح کی کیا ضرورت تھی.افسوس اس نکاح سے بڑے فتنے پید اہوئے اور یہود نابکارنے ناجائز تعلق کے شبہات شائع کئے.پس اگر کوئی اعتراض قابلِ حل ہے تو یہ اعتراض ہے نہ کہ مریم کا ہارون بھائی قرار دینا کچھ اعتراض ہے.قرآن شریف میں تو یہ بھی لفظ نہیں کہ ہارون نبی کی مریم ہمشیرہ تھی.صرف ہارون کا نام ہے.نبی کا لفظ وہاں موجود نہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ نبیوں کے نام تبرکاً رکھے جاتے تھے.سو قرین قیاس ہے کہ مریم کاکوئی بھائی ہو گا جس کا نام ہارون ہو گا اور اس بیان کو محل اعتراض سمجھنا سراسر حماقت ہے.اور قصہ اصحابِ کہف وغیرہ اگر یہودیوں اور عیسائیوں کی پہلی کتابوں میں بھی ہو.اور اگر فرض کر لیں کہ وہ لوگ ان قصوں کو ایک فرضی قصے سمجھتے ہوں تو اس میں کیاحرج ہے.آپ کو یاد رہے کہ ان لوگوں کی مذہبی اور تاریخی کتابیں اور خود ان کی آسمانی کتابیں تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں.آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ یورپ میں ان کتابوں کے بارے میںآج کل کس قدر ماتم ہو رہا ہے اورسلیم طبیعتیں خود بخود اسلام کی طرف آتی جاتی ہیں اور بڑی بڑی کتابیں اسلام کی حمایت میں تالیف ہو رہی ہیں.چنانچہ کئی انگریز امریکہ وغیرہ ممالک کے ہمارے سلسلہ میں داخل ہو گئے ہیں.آخر جھوٹ کب تک چھپا رہے.پھر سوچنے کا مقام ہے کہ وحی الٰہی کو ایسی کتابوں کے اقتباس کی کیا ضرورت پیش آئی تھی.خوب یاد رکھو کہ یہ لوگ اندھے ہیں اور ان کی تمام کتابیں اندھی ہیں.تعجب کہ جس

Page 309

حالت میں قرآن شریف ایسے جزیرہ میں نازل ہواجس کے لوگ عموماً عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں سے بے خبر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اُمّی تھے تو پھر یہ تہمتیں آنجنابؐ پر لگانا ان لوگوں کا کام ہے جو خد اسے بالکل بے خوف ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض ہو سکتے ہیں تو پھر حضرت عیسیٰ ؑ پر کس قدر اعتراض ہوں گے جنہوں نے ایک اسرائیلی فاضل سے توریت کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا اور یہودیوں کی تمام کتابوں طالمود وغیرہ کا مطالعہ کیا تھا اور جن کی انجیل درحقیقت بائبل اور طالمود کی عبارتوں سے ایسی پرُ ہے کہ ہم لوگ محض قرآن شریف کے ارشاد کی وجہ سے ان پر ایمان لاتے ہیں.ورنہ اناجیل کی نسبت بڑے شبہات پیدا ہوتے ہیں اور افسوس کہ انجیلوں میں ایک بات بھی ایسی نہیں کہ جو بلفظہٖ پہلی کتابوں میں موجود نہیں اور پھر اگر قرآن نے بائبل کی متفرق سچائیوں اور صداقتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا تو اس میں کونسا استبعاد عقلی ہواا ور کیا غضب آگیا.کیا آپ کے نزدیک یہ محال ہے کہ یہ تمام قصے قرآن شریف کے بذریعہ وحی کے لئے گئے ہیں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب وحی ہونا دلائل قاطعہ سے ثابت ہے اور آپ کی نبوت حقّہ کے انوار و برکات اب تک ظہور میں آرہے ہیں تو کیوں شیطانی وساوس دل میں داخل کئے جاویں کہ نعوذ باللہ قرآن شریف کا کوئی قصہ کسی پہلی کتاب یا کتبہ سے نقل کیا گیا ہے.کیا آپ کو خدا تعالیٰ کے وجود میں کچھ شک ہے یا آپ اس کو علم غیب پر قادر نہیں جانتے.اور میں بیان کر چکا ہوں کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا کسی کتاب کو اصلی قرار دینا اور کسی کو فرضی سمجھنا یہ سب بے بنیاد خیالات ہیں.نہ کسی نے اصلی کی اصلیت کا ملاحظہ کیا اور نہ کسی نے کسی جعل ساز کو پکڑا.اس کی نسبت خود یورپ کے محققین کی شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں.ایک اندھی قوم ہے جن میں ایمانی روشنی باقی نہیں رہی.اور عیسائیوں پر تو نہایت ہی افسوس ہے جنہوںنے طبعی اور فلسفہ پڑھ کر ڈبو دیا.ایک طرف تو آسمانوں کے منکر ہیں اور ایک طرف حضرت عیسیٰ کو آسمان پر بٹھاتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ اگر یہود کی پہلی کتابیں سچی ہیں تو ان کی بنا پر حضرت عیسیٰ ؑ کی نبوت ہی ثابت نہیں ہوتی.مثلاً سچے مسیح موعود کے لئے جس کا حضرت عیسیٰ کو دعویٰ ہے.ملاکی نبی کی کتاب کی رُو سے یہ ضروری تھا کہ اس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میںآتا.مگر الیاسؑ تو اب تک نہ آیا.درحقیقت یہودیوں کی طرف سے یہ بڑی حجت ہے جس کا جواب حضرت عیسیٰ ؑ صفائی سے نہیں دے سکے.یہ قرآن شریف کا

Page 310

حضرت عیسیٰ ؑ پر احسان ہے جو اُن کی نبوت کا اعلان فرمایا اور کفارہ کا مسئلہ تو حضرت عیسیٰ ؑ نے آپ ردّ کر دیا ہے.جب کہ کہا کہ میری یونس ؑ نبی کی مثال ہے جو تین دن زندہ مچھلی کے پیٹ میں رہا.اب اگر حضرت عیسیٰ درحقیقت صلیب پر مر گئے تھے تو ان کو یونس ؑسے کیا مشابہت اور یونس ؑ کو ان سے کیا نسبت؟ اس تمثیل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ صلیب پر مرے نہیں صرف یونس ؑ کی طرح بیہوش ہو گئے تھے اور نسخہ مرہم عیسیٰ جو قریباً تمام طبی کتابوں میں پایا جاتا ہے اس کے عنوان میںلکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے تیار کیا گیا تھا.یعنی ان کی چوٹوں کے لئے جو صلیب پر آئی تھیں.اگر درخانہ کس است ہمیں قدر بس است.٭ ٭…٭…٭ ٭ چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۳۳۸ تا ۳۵۸

Page 311

Page 312

غیر احمدی علماء کے نام خطوط (۱) سابقہ جلد چہارم مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ ۲۹۳ تا ۳۷۶

Page 313

Page 314

فہرست مکتوبات مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام

Page 315

فہرست مکتوبات مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام مکتوب نمبر صفحہ تاریخ تحریر مکتوب ۱ ۳۰۳ ۸ ستمبر ۱۸۸۷ء ۲ ۳۰۶ ۱۶ ستمبر ۱۸۸۷ء ۳ ۳۰۷ ۲۸ ستمبر ۱۸۸۷ء ۴ ۳۱۰ ۵ اکتوبر ۱۸۸۷ء ۵ ۳۱۱ ۵ فروری ۱۸۹۱ ء ۶ ۳۱۱ بلا تاریخ ۷ ۳۱۳ فروری ۱۸۹۱ء ۸ ۳۱۵ ۲۳ فروری ۱۸۹۱ء ۹ ۳۱۷ ۸ مارچ ۱۸۹۱ء ۱۰ ۳۱۹ بلا تاریخ ۱۱ ۳۲۱ ۱۴ مارچ ۱۸۹۱ء ۱۲ ۳۲۳ ۱۶ اپریل ۱۸۹۱ء ۱۳ ۳۲۶ ۲۰ اپریل ۱۸۹۱ء ۱۴ ۳۳۰ بلا تاریخ مکتوب نمبر صفحہ تاریخ تحریر مکتوب ۱۵ ۳۳۱ ۹ مئی ۱۸۹۱ء ۱۶ ۳۳۲ ۹ مئی ۱۸۹۱ء ۱۷ ۳۳۳ ۲۷ مئی ۱۸۹۱ء ۱۸ ۳۳۵ ۶ جون ۱۸۹۱ء ۱۹ ۳۳۷ ۳۱ دسمبر ۱۸۹۲ء ۲۰ ۳۳۹ ۳۱ دسمبر ۱۸۹۲ء ۲۱ ۳۵۴ جنوری ۱۸۹۱ء ۲۲ ۳۵۹ ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء ۲۳ ۳۶۳ ۱۹ اپریل ۱۸۹۳ء ۲۴ ۳۶۷ فروری ۱۸۹۸ء ۲۵ ۳۷۱ ۷ مارچ ۱۸۹۸ء ٭…٭…٭

Page 316

مکتوباتِ احمد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ نے جب مکتوبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اشاعت کا سلسلہ شروع فرمایا تو مالی دشواریوں کی بنا پر ہر دفعہ موقعہ ملنے پر چھوٹی چھوٹی جلدیں شائع فرمائیں.موجودہ مکتوبات جو عرفانی صاحب نے چوتھی جلد کے طور پر ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۹ء کو شائع کی اس کے بارہ میں آپ کا ارادہ تو یہ تھا کہ اس جلد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ مکتوبات شائع کئے جائیں جو حضور نے مخالف الرائے علماء اور صوفیاء کو لکھے تھے.مگر عملاً آپ نے اس جلد میں صرف وہ مکتوبات شامل کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقتاً فوقتاً مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو لکھے تھے.نظارت نے مولوی محمد حسین کے علاوہ دوسرے علماء و صوفیاء کو لکھے گئے مکتوبات بھی شامل کر دیے ہیں تا کہ ایک نوعیت کے مکتوبات یکجا مل سکیں.ہم نے ان مکاتیب میں تاریخ کو مدِّنظر رکھا ہے اور مولوی محمد حسین کے ان خطوط جنہیں عرفانی صاحب نے حاشیہ میں درج کیا ہے اوپر متن میں ہی رکھا ہے تاکہ قارئین کے لئے آسانی ہو.

Page 317

Page 318

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ عرض حال الحمد للّٰہ ربّ العالمین الرحمٰن الرحیم مالک یوم الدین والصلٰوۃ والسلام علی رسولہ محمد الامین وخاتم النبیین واٰلہ واصحابہ الطیّبین و علی خلفائہ الراشدین المھدیین.اما بعدخاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرتِ قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمۂ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فضل ہی سے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میں قوت بخشی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قلمی خدمت کیلئے اسے ایک جوش عطا فرمایا.تب ہی سے اسے یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات.مکتوبات اور ہر ایسی تحریروں کو جمع کروں جو حضور کے قلم سے کبھی نکلی ہوں اور وہ کسی منتشر حالت میں ہوں یا یہ اندیشہ ہو کہ وہ نایاب نہ ہو جائیں.محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے یہ موقع دیا کہ وہ اَلْحَکَمْ کے ذریعہ آپ کے ملفوظات اور الہامات اور مکتوبات وغیرہ کو ایک حد تک جمع کرسکا.اَلْحَکَمْ کے ذریعہ اس سلسلہ میں فضل ربی سے بہت بڑا کام ہوا.پُرانی تحریروں کو جمع کرنے میں بھی ایک حد تک کامیابی ہوئی ہے.پُرانی تحریروں کے سلسلہ ہی میں مکتوبات کا سلسلہ شامل کر دیا گیا تھا.خدا کا شکرہے کہ مکتوبات کے سلسلہ میں پانچویں جلد کا پہلا حصہ تک شائع کرنے کی توفیق پائی.پہلی جلد مکتوبات کی جب شائع کی گئی تھی اُس وقت میرا خیال تھا کہ دوسری جلد میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کے نام کے مکتوبات درج کروں لیکن بعد میں میرا خیال ہوا کہ مخالفینِ اسلام کے نام کے مکتوبات کی جلدوں کوپہلے چھاپ دوں اور مخلص خدام کے مکتوبات کا سلسلہ بعد میں رکھوں.چنانچہ آریوں، ہندوؤں، برہموں کے نام کے مکتوبات دوسری جلد میں اور

Page 319

عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام کے مکتوبات تیسری جلد میں شائع ہو چکے ہیں.اس چوتھی جلد میں سلسلہ عالیہ کے تلخ ترین دشمن مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام کے مکتوبات ہیں.پانچویں جلد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلصین کی جلد ہے.اس کے متعدد حصہ ہونگے.چنانچہ جس کا پہلا حصہ شائع ہوچکا ہے اور حصہ دوم میں حضرت چوہدری رستم علی صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کے مکتوبات ہیں.میں یہ بھی کوشش کر رہا ہوں کہ آئندہ جو مکتوبات طبع ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ہی خط کے عکس میں شائع ہوں مگر یہ بہت محنت اور کوشش اور صرف کاکام ہے.احباب نے میری حوصلہ افزائی کی اور اس کام میں میری مالی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں کہ اس میں کامیاب ہو جاؤں.کیونکہ اصل مکتوبات میرے پاس موجود (ہیں).اللہ تعالیٰ ہی کی اوّل و آخر حمد ہے.سلسلہ عالیہ کا ادنیٰ خدمت گزار خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم تراب منزل قادیان دارالامان الحکم آفس ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۹ء

Page 320

مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام (تعارفی نوٹ) مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کا نام سلسلہ کی تاریخ اعدا میں نمایاں ہے.یہ صاحب بٹالہ ضلع گورداسپور کے باشندے تھے دراصل وہ ہندو خاندان پوری سے تعلق رکھتے تھے.ان کے اجداد میں ایک شخص مسلمان ہو گیا مولوی محمد حسین اپنے علم وفضل کے لحاظ سے اپنے معاصرین میں ممتاز تھے اور شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے مایہ ناز شاگردوں میں فرد تھے.پنجاب میں فرقہ اہلحدیث کے اپنے زمانہ اوّل میں سردار تھے اور رسالہ اشاعتہ السنہ کے مؤَسّس و ایڈیٹر تھے ان کے والد شیخ رحیم بخش صاحب کو حضرت اقدس کے خاندان سے تعلقات نیاز مندی حاصل تھے اور اس خاندان کی ریاست و وجاہت سے مستفید ہوتے رہتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب نے براہین احمدیہ پر نہایت شاندار ریویو لکھا اور حضرت اقدس سے ان کو اس قدر ارادت تھی کہ اپنے ہاتھ سے وضو کراتا اور آپ کی جوتیاں سامنے رکھنا فخر سمجھتے تھے.مگر آپ کے دعویٰ مسیح موعود پر مولوی صاحب نے َعَلَمِمخالفت بلند کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ میں نے ہی اسے اونچا کیااور میں ہی گراؤں گا.اُدھر خدا کی وحی نے بشارت دی کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِہَانَتَکَ۱؎.آخر مولوی محمد حسین صاحب کا جو انجام ہوا.وہ تاریخ سلسلہ کا ایک خاص باب ہے.حضرت اقدس کی مخالفت میں کیا کیا پاپڑ بیلے مگر ہر مرحلہ پر شکست کھائی.کفر کا فتویٰ تیار کروایا، جھوٹے مقدمات میں گواہیاں دیں.خود ایک مقدمہ چلایا لیکن ہوا وہی جو خد اتعالیٰ نے پہلے سے بتا دیا تھا.عرفانی کبیر ۱۸۹۱ء سے اس کے حالات سے بے تکلّف واقف ہے اور اس نے اس کے عروج اور زوال کے زمانوں میں بچشمِ خود دیکھا ہے.میں نے مولوی صاحب کے نام کے کچھ خطوط مکتوب کی جلد چہارم میں شائع کئے تھے یہ خط میں اس وقت شائع نہ کر سکا.اس مکتوب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب شروع میں ہی مبتلائے مرض ہو چکے تھے اور ان کو شکوک و شبہات پید ا ہونے لگے امر واقعہ یہ ہے ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۱۵۸

Page 321

کہ وہ ایک قسم کی ڈکٹیڑی چاہتے تھے فی الحقیقت وہ شکوک و شبہات میں مبتلا نہ تھا.وہ براہین احمدیہ کی طبع و اشاعت کے متعلق اپنے اختیارات حاکمانہ رکھنا چاہتے تھے اور براہین کی تالیف و اشاعت کُلّیۃً حضرت ربّ کریم کے منشاء کے تحت تھی.حضرت اقدس کی اپنی ذات کو تدبیر اور انتظام میں کوئی دخل نہ تھا گو عملاً اور ظاہراً آپ کر رہے تھے مولوی محمد حسین صاحب نے نخوت و تکبرکے نشہ سے بے خود ہو کر اعتراض شروع کیا کہ کتاب کی اشاعت میں توقف کیوں ہے جو رقم آئی ہے اس کاحساب کیا ہے حضرت اقدس نے کمال رفق و ملائمت سے سمجھانا چاہا.مگر خوے بدرا بہانہ بسیار آخر وہ بیج عداوت اور مخالفت کا جو بویا گیا تھا.اس کاخار دار درخت مسیح موعود کے دعویٰ کے بعد اس نے کہا اوراسی میں جو شخص خود الجھ کر ختم ہو گیا اور آج …اور جس کی مخالفت میں اس نے بڑے بڑے دعو ے کئے تھے اور اس کے سلسلہ کا نام و نشان مٹا دینے کا متمنّی تھا.وہ سلسلہ آج اکنافِ عالَم میں پھیل چکا ہے اور اس کلمہ طیّبہ کے درخت کی شاخیں آسمان تک جا چکی ہیں اور اس کے تازہ بتازہ ثمرات سے دنیا حیاتِ نَو پارہی ہے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ.(عرفانی کبیر)

Page 322

اعلیٰ حضرت امام الملّۃ مسیح موعود کے مکتوبات مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے نام محترم ناظرین! یہ خطوط جو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں جہاں تک ہمارا علم ہے کبھی شائع نہیں ہوئے.مولوی محمد حسین صاحب جب اوّل اوّل آمادۂِ مخالفت ہوئے ہیں اُس وقت کے یہ مکتوبات ہیں.اور ۱۸۸۷ء کا یہ معاملہ ہے.ان خطوط کو پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وجہ مخالفت کیا ہوئی ہے؟ اور اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ کو اپنے مولیٰ کریم کی وحی پر کس قدر انشراحِ صدر سے بالبصیرۃ یقین کامل ہے.کسی کی مخالفت اور اعتراض کی کچھ پروا نہیں.دنیا کی خیالی ذلّت اور عزت سے سروکار نہیں.اصل غرض اعلائِ کلمۃ الاسلام ہے اس میں خواہ کوئی ناراض ہو یا خوش.یہ مکتوبات امید ہے کہ ہماری قوم کی ایمانی ترقی کا باعث ہوں گے.(ایڈیٹر) خمکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ از عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مکرم مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا اشتہارات تلاش کر کے اور بعض مہمانوں سے لے کر ارسالِ خدمت ہیں میں بباعث بیماری وجع الاذن حاضر نہیں ہو سکا کیونکہ مجھ کو دردِ گوش سے بشدتِ تکلیف ہے اور اندیشہ تپ بھی ہے اعتراض احباب دربارہ کتب مؤلّفہ ایں احقر معلوم نہیں کس صورت سے ہے اگر توقف طبع کتاب پر ہے تو یہ امر قضاء و قدر حضرت حکیم مطلق سے واقع ہو گیا ہے شاید اس میں یہ مصلحت ہوگی کہ جو کچھ درمیانی کارروائیاں آج تک ہوئی ہیں ان کا وقوع میں آ جانا قبل از طبع کتاب ضروری تھا میں اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوا اور نہ اب ہوں کہ کام طبع کتاب میں توقف ہو لیکن یہ تمام توقفات قادر مطلق کی انواع اقسام کی روکوں سے واقع ہوتی گئی ہیں.الوہیت کے زور

Page 323

اور قدرتیں بشریت کے ارادوں کو مضمحل اور کالعدم کر دیتی ہیں اور پھر جب خوب غور سے سوچیں تو اصل خیر بھی اُنہیں میں ہوتی ہے.انسان اپنی فطرت سے مستعجل اور زود پسند ہے اور یہی چاہتا ہے کہ جو کل ہونا ہے وہ آج ہی ہو جائے لیکن عادۃ اللہ تانی اور توقف ہے جیسا کہ مدۃ نزول قرآن شریف سے ظاہر ہے.غرض میرے ساتھ معاملہ حضرت عزہ جل شانہ کچھ ایسا ہے کہ میں مُردہ بدست زندہ ہوں اور اُس کی مصلحت میری مصلحت پر مقدم آ جاتی ہے وہ لوگوں کے لعن طعن کی کچھ بھی پروا نہیں کرتا کیونکہ قادر ہے کہ انجام کار لوگوں کو خوش کر دے اور جس بات کے لئے میرا سینہ کھول دیا ہے اُس کے لئے اُن کا سینہ بھی کھول دے وَھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ.اور اگر اس عاجز کی کتابوں پر اس صورت سے اعتراض ہو کہ اُن میں بعض جگہ سخت لفظ استعمال کئے گئے ہیں تو میں منطقیو ں کی طرح اُن سے جھگڑنا نہیں چاہتا بلکہ میں سادہ طور پر بیان کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ حکیم مطلق نے میرے اجتہاد کو اسی طرف رجوع دیا اور میرے دل میں یہ نقش کر دیا کہ گو بظاہر ایسی تقریریں موجب اشتعال ہونگی مگر ایک عجیب اثر ان میں یہ ہوگا کہ مخالفین کو خوابِ خرگوش سے بیداری حاصل ہوگی اور گو وہ کیسے ہی بدتہذیبی سے پیش آئیں مگر اُن کو ان تالیفات کی طرف، خواہ ردّہی کی نیت سے کیوں نہ ہو، رجوع ہو جائے گا اور اس رجوع کا انجام نہایت مفید ہوگا سو جس بات پر میری رائے قائم کی گئی سو اگرچہ ابھی اُس کے اخیر نتیجہ کا وقت نہیں آیا مگر میں دیکھتا ہوں کہ صدہا ہندو ردّ کی نیت سے میری کتاب کو پڑھتے ہیں اور صدہاہندوؤں کے خیالات پر اثر ہو گیا ہے اور بایںہمہ اس عاجز کی تقریر میں وہ سختی نہیں جس سختی کو ہندوؤںنے ابتدا سے استعمال کیا ہے.اب قصۂ کوتاہ یہ کہ یہ طرزِ تحریر جس کے اختیار کرنے کے لئے حال تک میرا سینہ کھول دیا گیا تھا اگرچہ وہ کسی معترض کی نظر میں صحیح ہو یا غیر صحیح مگر یہ وہ شے ہے جس پر میرا اجتہاد قائم کیا گیا اور اب میں نے جس قدر درشت الفاظ کو استعمال کیا اُسی قدر کو کافی سمجھا ہے اور آیندہ میں نے بھی قصد کیا ہے کہ ہر ایک بات حلم اور رفق سے بیان کی جائے اور اسی پر خدا تعالیٰ نے میرے دل کو قائم کر دیا ہے.سو میں جانتا ہوں کہ اس میں بھی ایک حکمت تھی اور اس میں ایک حکمت ہے.اور جو آںمخدوم نے پہلے خط میں ذکر فرمایا تھا کہ پیشگوئی فرزند کو رسالہ میں درج کرنا مناسب نہیں.میں نے اب تک آپ کی خدمت میں اس وجہ سے اُس کا جواب نہیں لکھا کہ خدا تعالٰی

Page 324

نے اس معاملہ میں میری رائے کو آپ کی رائے سے متفق نہیں کیا.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.مجھ کو منجانب اللہ اس بارے میں اعلان و اشاعت کا حکم ہے اور جیسا کہ میرے آقا محسن نے مجھے ارشاد فرمایا ہے میں وہی کام کرنے کیلئے مجبور ہوں.مجھے اس سے کچھ کام نہیں کہ دنیوی مصلحت کا کیا تقاضا ہے اور نہ مجھے دنیا کی عزت و ذلّت سے کچھ سروکار ہے اور نہ اس کی کچھ پروا اور نہ اُس کا کچھ اندیشہ ہے.میں جانتا ہوں کہ جن باتوں کے شائع کرنے کے لئے میں مامور ہوں ہر چند یہ بدظنی سے بھرا ہوا زمانہ اُن کو کیسی ہی تحقیر کی نگاہ سے دیکھے لیکن آنے والا زمانہ اُس سے بہت سا فائدہ اُٹھائے گا.بعض احباب مجھ پر یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اسراف کا خرچ ہے جو دو دو سَو تین تین سَو روپے ماہواری کا ہو جاتا ہے اور اسی خرچ نے طبع کتاب میں دقتیں ڈالیں اور انبار کا انبار قرضہ کا سر پر ہو گیا.اس کے جواب میں بھی یہی عرض کرتا ہوں کہ اگرچہ یہ اعتراض سچ ہے مگر یہ مہمانداری محض لِلّٰہِ ہے اور اس میں بھی بار ہا تواضع اور اکرامِ ضیف کے لئے حکم ہوا ہے نہ تخفیف مصارف کے لئے.تین سال کے عرصہ میں شاید چالیس ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جہاں تک طاقت تھی حسبِ توفیق خداداد اُن کی خدمت کی گئی.سو بظاہر یہ نہایت درجہ کا اسراف معلوم ہوتا ہے لیکن اللہ شانہٗ کو اپنے افعال میں مصالح ہیں اور میں اُسی کے حکم اور امر کا پیرو ہوں اور کسی دوسری کمیٹی یا جماعت کی پیروی نہیں کر سکتا اور نہ وہ اس کاروبار میں کچھ دخل دے سکتے ہیں.جس قدر میرے پر قرضہ اور حقوقِ عباد کے بار ڈالے گئے ہیں میں جانتا ہوں کہ میں اپنی قوت سے اُن گراں باروں سے سبکدوش نہیں ہو سکتا بلکہ الٰہی قوت مجھے سبکدوش کرے گی اس فوق الطاقۃ کام میں کسی دوست کی کچھ پیش نہیں جا سکتی مگر وہ ایک ہے حقیقی دوست ہے جو ان غموں کے دُور کرنے پر قادر ہے.٭ والسلام ۸؍ ستمبر ۱۸۸۷ء ٭ الحکم ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۶،۷

Page 325

خمکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ میری نسبت سوء ِظن مسلمان بھائیوں کا کسی معقول وجہ پر مبنی نہیں ہے.میں ایسے مسلمانوں کی فسخ بیع پر راضی ہوں ان کا ظن کسی طور سے درست ہونے میں نہیں آتا.یہ تو سچ بات ہے کہ مہمان نوازی کی نیت سے اور خود اپنی ذاتی ضروریات کی وجہ سے بہت کچھ روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے لیکن یہ خیال کہ اکثر حصہ اس روپیہ کا وہی رقوم ہیں جو قیمت کتاب میں وصول ہوئیں یہ ایک ضعیف خیال ہے جو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا.واقعی حقیقت یہی ہے کہ جیسے مصارف زیادہ ہوتے گئے اللہ جلّشانہٗ محض اپنے فضل و کرم سے ان کو انجام دیتا گیا.غایت مافی الباب یہ کہ عندالضرورت قیمت کتابوں میں سے بھی کچھ قدر قلیل خرچ ہوتا رہا ہے اور کچھ ا نہیں درمیانی کارروائیوں میں خرچ ہوا جو کتاب کے متعلق تھیں خیر سائلین اور معترضین کچھ سمجھیں اور کچھ خیال کر لیں لیکن مجھے خوب یقین حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ایسی حالت میں موت نہیں دے گا کہ ان بدظنیوں کا میرے پر کوئی اعتراض اس قسم کا باقی رہ جائے کہ جو کچھ اصلیت رکھتا ہو ٌ ۱؎ طفل نو زاد کی نسبت میں نے کسی اخبار میں یہ مضمون نہیں چھپوایا کہ یہ وہی لڑکا ہے جس کی تعریف ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہارات میں مندرج ہے ہاں کتنی دفعہ گمان ہوتا ہے کہ وہ ہی ہے کیونکہ یہی لڑکا تین کو چار کرنے والا ہوا.حضرت مسیح کے روز پیدائش میں پیدا ہوا.(۳) سنا گیا ہے کہ اسی ماہ میں ستارہ مسیح بھی یورپ میں دکھائی دیا جیسا کہ نور افشاں میں درج ہے.(۴) اس کے روز پیدائش میں یعنی بعد تولّد یہ الہامات ہوئے.اِنَّآ اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا وَّمُبَشِّراً وَّنَذِیْرًا کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ ۱؎ البقرۃ: ۱۰۷

Page 326

کُلُّ شَیْیٍٔ تَحْتَ قَدَمَیْہِ ۱؎ سو میرے نزدیک اب تک یہ الہامات ذوالوجوہ ہیں و دیگر علامات بھی.واللہ اعلم بالصواب.والسلام ٭ ۱۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی محمد حسین صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج ۲۸؍ ستمبر ۱۸۸۷ء کو آپ کا عنایت نامہ پہنچا.واضح رہے کہ اس عاجز کے قلم سے کوئی کلمہ رنج یا خفگی کا آپ کی نسبت نہیں نکلا.بلکہ میں ممنون ہوں کہ آپ بغیر اس کے کہ اصل حال سے واقف ہوتے میرے خیر خواہوں اور خیرا ندیشوں اور نیک خیالوں میں رہے.سو میرے لئے آپ کا شکر کرنے کیلئے یہی کافی ہے اور میں یقینا جانتا ہوںکہ آپ میں سچی محبت رہی ہے اور میرا دل شہادت دیتا ہے کہ فقط ایک سچی محبت کے جوش سے آپ قلم وزبان سے میری کارروائیوں کی نصرت میں لگے رہے ہیں.سو رنج اور خفگی کا کوئی محل نہیں.تا میںنے آپ پر ایک واقعی حال اظہار کیا اور پھر وہ سب واقعی عذرات آپ کی نظر میں مکتفی نہ ہوئے تو بقول شخصے کہ طاقت بمہماں نداشت خانہ مہماں گذاشت.چند الفاظ مؤدّبانہ ترکِ نزاع کیلئے میں نے استعمال کئے.شائد انہیں الفاظ کو آپ نے کلمہ رنج وخفگی سمجھا ہو گا.مگر حاشا وکلا میر اوہ منشاء نہیں ہے جو آپ نے سمجھا میں پھر باَدب آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آئندہ اخراجات کی کمی اور تخفیف کی فکر میں میں آپ ہی ہوں مگر گذشتہ تدار ک میرے حدِّامکان سے باہر ہے.اس قصور کا خود معترف ہوں کہ جو کچھ کتاب کی قیمت میں آیا وہ خرچ ہوتا رہاہے.مگر یہ بات کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک میرے وہ مصارف کس رنگ میں ہیں اور نکتہ چینوں کی نظر میں کسی رنگ میں.اس میں بحث کرنا نہیں چاہتا.کیونکہ گذری ہوئی بات کو طول دینا کچھ فائدہ نہیں اور میری رائے ناقص میں آپ کا اس فکر میں پڑنا مالا یلزم ہے.۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۱۹۹ ٭ الحکم ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷

Page 327

آں مخدوم سے شرعی یا عرفی طور پر کچھ مواخذہ یا مطالبہ نہیں۱؎ میں نے سُرمہ چشم آریہ کے پہلے صفحہ پر ہی اشتہار دے دیا ہے کہ جو شخص خرید کتاب پر ناراض ہو وہ فسخ بیع کر سکتا ہے.ایسے خطوط جب پہنچیں گے تو میں کوشش کروں گا کہ جلد تر کتابیں واپس لی جائیںاور ان کا روپیہ مسترد کیا جائے.سو وہ اشتہار اطلاعِ عام کے لئے کافی ہے.میں آپ پر مکرر ظاہر کرتا ہوں کہ میںآپ پر ہر گز ناراض نہیں لیکن اگر آپ خواہ نخواہ بات کو طول دیں تو میری طرف سے ناراض ہونا بے محل بھی نہیں.میں بشر ہوں اور بشریت کی صفات اور لوازم سے نبی بھی الگ نہیں رہ سکتے جو شخص ان کے دل کو خوش کرے اس سے راضی ہوجاتے ہیں.اور جو شخص ان کے دل کو خواہ مخواہ آزار پہنچاوے اس سے وہ خوش نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ بشر ہیں.آپ کے سامنے قرآن وحدیث سے اس کے نظائر پیش کرنا حاجت نہیں.اور پھر آپ اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ گویا مجھے یہ الہام ہو ا تھاکہ وہ لڑکا بہت قریب ہونے والا ہے آپ میرے اشتہار ۸؍ اپریل ۸۶ء کو دیکھ لیں ا س میں ’’وہ‘‘ کا لفظ نہیں بلکہ ایک کالفظ ہے اور یہ آپ کا قول کہ ایسی پیشگوئیوںسے بجائے نفع اسلام کو کمال نقصان پہنچے گا.میری دانست میں یہ کہنا اُس کاحق ہے کہ ان پیشگوئیوں کا مقابلہ کر کے دکھلاوے.میرے رسالہ سراجِ منیر اور اُس کی تمام پیشگوئیوں کی بناء اسی پر ہے کہ اگر کوئی مخالف کسی پیشگوئی کا انکار کرے تو ایسی پیشگوئی پیش کرے.آپ فرماتے ہیں کہ ’’سراجِ منیر میں اسی طور کی پیشگوئیاں ہیں تو میری رائے ہے کہ سراجِ منیر کا طبع کرانا موقوف رکھا جائے کیونکہ ایسی کتاب سے مسلمانوں کا کمال ہتک ہو گا‘‘.اس کی جواب میں عرض کرتا ہوں کہ بیشک سراجِ منیر میں اسی طرح کی پیشگوئیاں ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر یہی پیشگوئی ہے مگر دوسرا فقرہ آپ کا کہ ایسی پیشگوئیوں سے مسلمانوں کا کمال ہتک ہو گا.فراست صحیحہ پر مبنی نہیں ہے اور آپ کا یہ قول کہ ’’مجھے صرف یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کا زیادہ ہتک نہ ہو اوران کا مال ناحق بر باد نہ ہو‘‘.آپ کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹا پیدا ہونے سے مسلمانوں کا کسی قدر ہتک ہو گیا ہے اور آیندہ سراجِ منیر کے چھپنے سے اس سے زیادہ ہوگا.سو میں کہتا ہوں کہ اگر پیشگوئیوںکا سچائی سے ظہو رمیں آجانا مسلمانوں کے لئے موجب ہتک ہے تو جس قدر یہ ہتک ہو ۱؎ الانعام:۱۶۵

Page 328

اتنا ہی تھوڑا ہے.۲۷؍ جولائی ۸۶ء کو آریوں نے ایک اشتہار دیا تھا کہ ہمیں اپنے پر میشر کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ ہر گز بیٹا پیدا نہیں ہوگا.ابدتک نہیں ہوگا.معلوم ہوتا ہے کہ کسی ہندو منجم نے اُن کی اطمینان کی ہو گی اور یہ اشتہار عام طور پر پنجاب اور ہندوستان میں شائع کئے گئے تھے.اب آپ سوچ کر دیکھیں کہ برطبق اشتہار ۸؍ اپریل ۸۶ء بیٹا پیدا ہو جانا جو مصدّق پیشگوئی ہے.یہ موجب ہتک اور ندامت آریوں اور دیگر مخالفین کا ہوا یا مسلمانوں کا اس سے ہتک ہو گیا.انجیل میں حضرت مسیح کی پیشگوئیاں آپ نے نہیں دیکھیں کہ بھونچال آویں گے، کال پڑیں گے، وبا پھیلے گی، لڑائیاں ہوویں گی.نہ کسی وقت کا پتہ نہ کسی مکان کا نشان.مگر اُس وقت کے سچے عیسائیوں کا اس سے کچھ ہتک نہ ہوا.آپ کو یاد رہے کہ مخالفین خود ملزم ہیںکیونکہ وہ مقابلہ نہیں کر سکتے.ہر ایک چیز کا قدروقیمت مقابلہ سے ظاہر ہوتا ہے.والسلام خاکسار غلام احمد ۲۸؍ ستمبر ۱۸۸۷ء

Page 329

خمکتوب نمبر۴ وَلَہٗ اَیْضاً بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ میں آپ کے کسی حرف سے اتفاق نہیںکر سکتا جیساکہ بظاہر سمجھا جاتا ہے آپ بھی میری رائے سے اتفاق نہیں کرسکتے تو پھرمیری دانست میں خط و کتابت کی بات تو خاتمہ کو پہنچی.اب میری طرف سے تو یہ تحریر و داعی اور آخری خط ہی سمجھیں.اور آپ کو اختیار ہے کہ جس رائے پر آپ قائم ہیں اس کو اپنی طاقت قلمی سے بخوبی ظاہر کریں.میں بجز اُس زمانہ اور وقت کے کہ حضرت مقلب القلوب اور ہادی مطلق آپ کو آپ کے قول سے رجوع دلا کر میری رائے سے متفق کرے.آیندہ کوئی خط آپ کی طرف لکھنا نہیں چاہتا اور نہ اپنے اختیار اور مرضی سے بغیر کسی امر جدید پیش آنے کے جس کا اب مجھے علم نہیں، لکھوں گا.ہاں، آپ کے اس خط کی نسبت جس کو میں نے عزت کے ساتھ اپنے صندوق میں رکھ لیا ہے اگر مناسب سمجھا سراجِ منیر یا کسی دوسرے رسالہ میں بغرض ازالۂِ وساوس کچھ لکھوں گا اور وہ بھی اس حالت میں کہ آپ کا یہ خط یا ایسا ہی کوئی اور مضمون آپ کے رسالہ یا کسی اور پرچہ میں شائع ہو جائے یا زبانی طور پر مختلف فرقوں میں شیوع پا جائے سو مناسب ہے کہ اب آپ بھی میری طرف خطوط بھیجنے سے مستریح رہیں اور بذریعہ تحریرات مطبوعہ اپنے بخارات نکالیں.والسلام علی من اتبع الہدٰی خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۵؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء ٭ ٭ الحکم ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۷

Page 330

مکتوب نمبر۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.عاجز کی طبیعت علیل ہے.اخویم منشی عبدالحق صاحب کو تاکید فرماویں کہ جہاں تک جلد ممکن ہو معمولی گولیاں ارسال فرمائیں.توجہ سے کہہ دیں.افسوس کہ میری علالت طبع کے وقت آپ عیادت کیلئے بھی نہیں آئے.اور آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ’’ہاں‘‘ کافی سمجھتا ہوں.والسلام خاکسار ۵؍ فروری ۱۸۹۱ء غلام احمد مکتوب نمبر۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.اگرچہ خداوند کریم خوب جانتا ہے کہ یہ عاجز اُس کی طرف سے مامور ہے اور ایسے امور میں جہاں عوام کے فتنے کا اندیشہ ہے، جب تک کامل اور قطعی اور یقینی طور پر اس عاجز پر ظاہر نہیں کیا جاتا، ہرگز زبان پر نہیں لاتا.لیکن اس میں کچھ حکمت خداوند کریم کی ہوگی کہ اس نزولِ مسیح کے مسئلے میں جس کو اصل اور لُبِّ اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور ایک مسلمان پر اُس کی اصل حقیقت کھولی گئی ہے.جس پر بوجہ اخوت حسن ظن بھی کرنا چاہئے.آں مکرم کو مخالفانہ تحریر کے لئے جوش دیا گیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ کی اِس میں نیت بخیر ہوگی.اور اگرچہ مجھے آپ کے استعجال کی نسبت شکایت ہو اور اس کو روبرو یا غائبانہ بیان بھی کروں.مگر آپ کی نیت کی نسبت مجھے حسن ظن ہے اور آپ کو زمانہ حال کے اکثر علماء، بلکہ اگر آپ ناراض نہ ہوں، تو بعض للّٰہی جدّوجہد

Page 331

کے کاموں کے لحاظ سے مولوی نذیر حسین صاحب سے بھی بہتر سمجھتا ہوں اور اگرچہ میں آپ سے ان باتوں کی شکایت کروں تا ہم مجھے بوجہ آپ کی صفائی باطن کے آپ سے محبت ہے.اگر میں شناخت نہ کیا جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میرے لئے یہی مقدر تھا.مجھے فتح اور شکست سے بھی کچھ تعلق نہیں بلکہ عبودیت و اطاعت حکم سے غرض ہے.میں جانتا ہوں کہ اس خلاف میں آپ کی نیت بخیر ہوگی.لیکن میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ اوّل مجھ سے بات چیت کر کے اور میری کتابوں کو یعنی رسالہ ثلاثہ کو دیکھ کر کچھ تحریر کریں.مجھے اِس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں.کیونکہ یہ مخالفت رائے بھی حق کیلئے ہوگی.کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے اور اُس کے ساتھ مجھے الہام ہوا..۱؎ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کر دے گا.میں آپ کے لئے دعا کروں گا.مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہو جائے.حضرت موسیٰ کی جو آپ نے مثل لکھی ہے.اشارۃُ النَّص پایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے.جیسا کہ موسیٰ نے کیا.اس قصے کو قرآن شریف میں بیان کرنے سے غرض بھی یہی ہے کہ تا آئندہ حق کے طالب معارفِ روحانیہ اور عجائباتِ مخفیہ کے کھلنے کے شائق رہیں، حضرت موسیٰ کی طرح جلدی نہ کریں.حدیث صحیح بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے.اب مجھے آپ کی ملاقات کے لئے صحت حاصل ہے.اگر آپ بٹالے میں آ جائیں تو اگرچہ میں بیمار ہوں اور دورانِ سر اس قدر ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی تا ہم افتاں و خیزاں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں.بقول رنگین ع وہ نہ آوے تو تُو ہی چل رنگین اس میں کیا تیری شان جاتی ہے ازالۃ الاوہام ابھی چھپ کر نہیں آیا.فتح اسلام اور توضیح المرام ارسال خدمت ہیں.الراقم غلام احمد از قادیان ۱؎ الشعرآء: ۶۳ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۷

Page 332

کے کاموں کے لحاظ سے مولوی نذیر حسین صاحب سے بھی بہتر سمجھتا ہوں اور اگرچہ میں آپ سے ان باتوں کی شکایت کروں تا ہم مجھے بوجہ آپ کی صفائی باطن کے آپ سے محبت ہے.اگر میں شناخت نہ کیا جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میرے لئے یہی مقدر تھا.مجھے فتح اور شکست سے بھی کچھ تعلق نہیں بلکہ عبودیت و اطاعت حکم سے غرض ہے.میں جانتا ہوں کہ اس خلاف میں آپ کی نیت بخیر ہوگی.لیکن میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ اوّل مجھ سے بات چیت کر کے اور میری کتابوں کو یعنی رسالہ ثلاثہ کو دیکھ کر کچھ تحریر کریں.مجھے اِس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں.کیونکہ یہ مخالفت رائے بھی حق کیلئے ہوگی.کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے اور اُس کے ساتھ مجھے الہام ہوا..۱؎ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کر دے گا.میں آپ کے لئے دعا کروں گا.مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہو جائے.حضرت موسیٰ کی جو آپ نے مثل لکھی ہے.اشارۃُ النَّص پایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے.جیسا کہ موسیٰ نے کیا.اس قصے کو قرآن شریف میں بیان کرنے سے غرض بھی یہی ہے کہ تا آئندہ حق کے طالب معارفِ روحانیہ اور عجائباتِ مخفیہ کے کھلنے کے شائق رہیں، حضرت موسیٰ کی طرح جلدی نہ کریں.حدیث صحیح بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے.اب مجھے آپ کی ملاقات کے لئے صحت حاصل ہے.اگر آپ بٹالے میں آ جائیں تو اگرچہ میں بیمار ہوں اور دورانِ سر اس قدر ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی تا ہم افتاں و خیزاں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں.بقول رنگین ع وہ نہ آوے تو تُو ہی چل رنگین اس میں کیا تیری شان جاتی ہے ازالۃ الاوہام ابھی چھپ کر نہیں آیا.فتح اسلام اور توضیح المرام ارسال خدمت ہیں.الراقم غلام احمد از قادیان ۱؎ الشعرآء: ۶۳ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۷ مکتوب نمبر۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محبت نامہ پہنچا.چونکہ آں مکرم عزم پختہ کر چکے ہیں تو پھر میں کیا عرض کر سکتا ہوں.اس عاجز کی طبیعت بیمار ہے.دورانِ سر اور ضعف بہت ہے.ایسی طاقت نہیں کہ کثرت سے بات کروں.جس حالت میں آںمکرم کسی طور سے اپنے ارادہ سے باز نہیں رہ سکتے اور ایسا ہی یہ عاجز اس بصیرت اور علم سے اپنے تئیں نابینا نہیں کر سکتا جوحضرت احدیت شانہٗ نے بخشا ہے.اس صورت میں گفتگو عبث ہے.رسالہ ابھی کسی قدر باقی ہے، ناقص کو میں بھیج نہیں سکتا.اس جگہ آنے کیلئے آںمکرم کو یہ عاجز تکلیف دینا نہیں چاہتا.مگر ۲۶؍ فروری ۱۸۹۱ء کو یہ عاجز انشاء اللہ القدیر لودیانہ کے ارادہ سے بٹالہ میں پہنچے گا.وہاں صرف آپ کی ملاقات کرنے کا شوق ہے، گفتگو کی ضرورت نہیں.اور یہ عاجز للہ آپ کے ان الفاظ کے استعمال سے جو مخالفانہ تحریر کی حالت میں کبھی حد سے بڑھ جاتے ہیں یا اپنے بھائی کی تذلیل اور بدگمانی تک نوبت پہنچاتے ہیں معاف کرتاہے.وَاللّٰہُ عَلٰی مَاقُلْتُ شَہِیْدٌ چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء کو لکھا گیا ہے.مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمدحسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کر کے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سرخی میری نسبت ’’کمینہ‘‘ رکھی ہے.معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں.اور وہ تحریر پڑھ کرکہا ہے کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا.ھَذَا مَارَأَیْتُ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِتَاْوِیْلِہٖ ۱؎ چونکہ حتی الوسع خواب کی تصدیق کیلئے کوشش مسنون ہے اس لئے میں آںمکرم کو منع بھی کرتا ہوں کہ آپ اس ارادہ سے دست کش رہیں.خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں اور اگر صادق نہیں تو پھر  ۲؎کی تہدید پیش آنے والی ہے.۱؎ تذکرہ صفحہ ۱۲۰.ایڈیشن چہارم ۲؎ المؤمن: ۲۹

Page 333

 ولا تدخل نفسک فیما لا تعلم حقیقتہٗ یا اخی.وافوض امری الی اللّٰہ یُؤْتِکَ اجر صبرک یا اخی وانا انظر الی السماء وارجوتائید اللّٰہ واعلم من اللّٰہ مالاتعلمون.والسلام علی من اتبع الھدٰی حضرت اخویم حبی فی سبیل اللہ مولوی حکیم نورالدین اور آں مکرم کی تحریرات میں یہ عاجز دخل دینا نہیں چاہتا.خاکسار غلام احمد ٭…٭…٭ ۱؎ بنی اسرآء یل:۳۷

Page 334

مکتوب نمبر۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ و ایّدہ.بخدمت محبی اخویم مکرم ابو سعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.چونکہ یہ عاجز اپنی دانست میں ناتمام مضمون ازالۃ الاوہام کا آں مکرم کو دکھلانا مناسب نہیں سمجھتا اس لئے اجازت نہیں دے سکتا.مگر اس عاجز کی رائے میں صرف بیس پچیس روز تک رسالہ ازالۃ الاوہام چھپ جائے گا، کچھ بہت دیر نہیں ہے.پھر انشاء اللہ القدیر سب سے پہلے یہ عاجز آں مکرم کی خدمت میں بھیج دے گا.آں مکرم کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت ان رسالوں میں کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا گیا بلکہ بلا کم و بیش یہ وہی دعویٰ ہے جس کا براہین احمدیہ میں بھی ذکر ہو چکا ہے.جس کی آں مکرم اپنے رسالہ اشاعت السنۃ میں امکانی طور پر تصدیق کر چکے ہیں.پھر متعجب ہوں کہ اب پھر دوسری مرتبہ آں مکرم کو دیکھنے کی حاجت ہی کیا ہے؟ کیا وہی کافی نہیں جو پہلے آں مکرم اشاعۃ السنۃ نمبر۶ جلد۷ میں تحریر فرما چکے ہیں.جبکہ اوّل سے آخر تک وہی دعویٰ، وہی مضمون، وہی بات ہے تو پھر آپ جیسے محقق کی نگاہ میں نیا معلوم ہو.کس قدر تعجب ہے! یہ عاجز رسالہ ازالۃ الاوہام میں آں مکرم کے ریویو کی بعض عبارتیں درج بھی کر چکا ہے.اس عاجز نے جو ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء کو خواب دیکھی تھی اُس کی سرخی ’’کمینہ‘‘ تھا.جس کی حقیقت مجھے معلوم نہیں.واللّٰہ اعلم بالصَّواب.پھر بھی میں آں مکرم کو للہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس سماوی امر میں آپ کا دخل دینا مناسب نہیں.مثیل مسیح کا دعویٰ کوئی امر عند الشرع مستبعد نہیں.اگر آپ ناراض نہ ہوں تو اس عاجز کی دانست میں اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے مقابل آپ کی تحریر میں کسی قدر سختی تھی.خدا تعالیٰ انکسار اور تذلل کو ہمیشہ پسند کرتا ہے اور علماء کے اَخلاق اپنے بھائیوں کے ساتھ سب سے اعلیٰ درجے کے چاہئیں.جس دین کی حمایت اور ہمدردی

Page 335

کے لئے دن رات کوششیں ہو رہی ہیں، وہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ اللہ اور رسول کی منشاء کے موافق ہمارے جمیع احوال و افعال و حرکات وسکنات ہو جائیں.میرے خیال میں اخلاق کے تمام حصوں میں سے جس قدر خدا تعالیٰ تواضع اور فروتنی اور انکسار اور ہر ایک ایسے تذلل کو جو منافی نخوت ہے پسند کرتا ہے ایسا کوئی شعبہ خلق کا اس کو پسند نہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کیلئے الفاظ استعمال کئے.غیرت دینی کی وجہ سے کسی قدر اس عاجز نے ۱؎ پر عمل کیا مگر چونکہ وہ ایک شخص کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ تیرے بیان میں سختی بہت ہے.رفق چاہیے رفق.۲؎ اور اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو ہم کیا چیز اور ہمارا علم کیا چیز.اگر سمندر میں ایک چڑیا منقار مارے تو اس سے کیا کم کرے گی.ہمارے لئے بھی بہتر ہے کہ جیسے ہم درحقیقت خاکسار ہیں.خاک ہی بنے رہیں.جب کہ ہمارا مولیٰ ہم سے تکبر اور نخوت پسند نہیں کرتا تو کیوں کریں.ہمارے لئے ایسی عزت سے بے عزتی اچھی ہے جس سے ہم مَوردِ عتاب ہو جائیں.آپ کی تحریر اگر اس طرح پر ہوتی کہ جس قدر خداوند تعالیٰ نے میرے پر کھولا ہے.اگر آپ مہربانی فرما کر ملیں یا میں ملوں.تو بیان کرونگا تو کیا اچھا ہوتا.یہ قاعدہ ہے کہ جس حالت اندرونی سے انسان کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں وہی رنگ الفاظ میں بھی آ جاتا ہے.میں نے اس فیصلہ میں مولوی نورالدین صاحب کا کچھ لحاظ نہیں کیا اور محض للہ آں مکرم کی خدمت میں عرض کی گئی ہے.اس عاجز کو پختہ طور پر معلوم نہیں کہ کس تاریخ اس جگہ سے یہ عاجز روانہ ہو.بعض موانع پیش آگئے ہیں.مگر معلوم ہوتا ہے کہ شاید ایک ہفتہ کے اندر اندر روانہ ہو جاؤں.اس صورت میں بالفعل ملاقات مشکل معلوم ہوتی ہے لہٰذا اطلاعاً آپ کی خدمت میں لکھتا ہوں کہ اس عاجز کیلئے بٹالہ میں تشریف نہ لاویں کیونکہ کوئی پختہ معلوم نہیں.جس وقت خدا تعالیٰ چاہے گا ملاقات ہو جائے گی.والسلام خاکسار ۲۳؍فروری ۱۸۹۱ء غلام احمد از قادیان ۱؎ التُّوبۃ: ۷۳ ۲؎ تذکرہ صفحہ۱۳۸.ایڈیشن چہارم

Page 336

مکتوب نمبر۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی اخویم مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج لدہیانہ میں آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا.بظاہر مجھے گفتگو میں کچھ فائدہ معلوم نہیں دیتا.مجھے خدا تعالیٰ نے ایک علم بخشا ہے جس کومیں چھوڑ نہیں سکتا.ایسا ہی آپ بھی اپنی رائے کو چھوڑنے والے نہیں.مجھے ایک ایسا سبیل بخشا گیا ہے جو معرض بحث میں نہیں آ سکتا.ولیس الخبر کالمعاینۃ ۱؎ ہاں اس نیت سے میں مجلس علما میں حاضر ہو سکتا ہوں کہ شاید خدا تعالیٰ حاضرین میں سے کسی کے دل کو اس سچائی کی طرف کھینچے جو اس نے اس عاجز پر ظاہر کی ہے.سو اگر شرائط مندرجہ ذیل آپ قبول فرماویں تو میں حاضر ہو سکتا ہوں.(۱) اس مجمع میں حاضر ہونے والے صرف چند ایسے مولوی صاحب نہ ہوں جو مدعی کا حکم رکھتے ہیں کیونکہ وہ مجھ سے بجز اُس صورت کے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے کہ میں ان کے خیالات و اجتہادات کا اتباع کروں اور میری طرف سے بار بار ان کو یہی جواب ہے کہ۲؎ اگر یہ مجمع کسی قدر عام مجمع ہوگا اور ہر ایک مذاق اور طبیعت کے آدمی اس میں ہوں گے تو شاید کوئی دل حق کی طرف توجہ کرے اور مجھے اس کا ثواب ملے.سو میں چاہتا ہوں کہ یہ مجلس صرف چند مولوی صاحبوں میں محدود نہ ہو.(۲)دوسری شرط یہ ہے کہ یہ بحث جو محض اظہاراً لِلْحَقِّ ہوگی، تحریری ہو.کیونکہ بارہا تجربہ ہو چکا ہے کہ صرف زبانی باتیں کرنا آخر منجر بفتنہ ہوتی ہیں اور بجز حاضرین کے دوسروں کو ان کی نسبت رائے لگانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا اور کیسی ہی عمدہ اور محققانہ باتیں ہوں جلدی بھول جاتی ہیں اور جن لوگوں کو غلو یا دروغ بیانی کی عادت ہے خواہ وہ کسی گروہ کے ہیں ان کوجھوٹ بولنے کیلئے بہت سی گنجائش نکل آتی ہے.کوئی شخص محنت اُٹھا کر اور ہر ایک قسم کے اخراجات سفر کا متحمل ہو کر اور بہت ۱؎ مسند احمد بن حنبل جلد۱ صفحہ ۳۱۵ ۲؎ البقرۃ: ۱۲۱ و الانعام: ۷۲

Page 337

سی مغز خواری کرنے کے بعد کب روا رکھ سکتا ہے کہ غیر منتظم طریق کی وجہ سے تمام محنت اس کی ضائع جائے اور طالب حق کو اس کی تقریر سے فائدہ نہ پہنچ سکے.سو تحریری بحث کا ہونا ایک شرط ہے.(۳) اس مجمع بحث میں وہ الہامی گروہ بھی ضرور شامل چاہئے.جنہوں نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس عاجز کو جہنمی ٹھہرایا ہے اور ایسا کافر جو ہدایت پذیر نہیں ہو سکتا، اور مباہلہ کی درخواست کی ہے.الہام کی رو سے کافر اور ملحد ٹھہرانے والے تو میاں مولوی عبدالرحمن لکھوکے والے ہیں.اور جہنمی ٹھہرانے والے میاں عبدالحق غزنوی ہیں.جن کے الہامات کے مصدق و پیرو میاں مولوی عبدالجبار ہیں.سو ان تینوں کا جلسہ بحث میں حاضر ہونا ضروری ہے تا کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی قضیہ طے ہو جائے.اور اگر مولوی صاحب باہم مسلمانوں کے مباہلہ کو صورت پیش آمدہ میں ناجائز قرار نہ دیں تو مباہلہ بھی اسی مجلس میں ہو جائے کیونکہ یہ عاجز اکثر بیمار رہتا ہے.بار بار سفر کی طاقت نہیں.(۴) یہ کہ تحریری بحث کیلئے تمام مخالف الرائے مولوی صاحبوں کی طرف سے آپ منتخب ہوں.کیونکہ یہ عاجز نہیں چاہتا کہ خواہ نخواہ لعن طعن ہو اور تُو تُو میں میں متفرق لوگوں کا سُنے.ایک مہذب اور شائستہ آدمی تحریری طور پر سوالات پیش کرے.کہ اس عاجز کے اس دعویٰ میں جس کی الہام الٰہی پر بنا ہے، کیا خرابیاں ہیں اور کیا وجہ ہے کہ اس کو قبول نہ کیا جاوے.سو اس عاجز کی دانست میں اس کام کیلئے آپ سے بہتر اور کوئی نہیں.(۵) یہ آپ کا اختیار ہے کہ جس تاریخ میں آپ گنجائش سمجھیں مجھے اور اخویم مولوی نورالدین صاحب کو اطلاع دیں.چونکہ یہ عاجز بیمار ہے اور مرض سدر و دَوّار سے لاچار اور ضعیف بہت ہے.اس لئے اخویم مولوی نورالدین صاحب کا شامل آنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ اس عاجز کی طبیعت زیادہ علیل ہو جائے جیسا کہ اکثر دورہ مرض کا ہوتا رہتا ہے اور زیادہ بات کرنے سے سخت دورہ مرض کا ہوتا ہے.اس صورت میں مولوی صاحب موصوف حسب منشاء اس عاجز کے مناسب وقت کارروائی کر سکتے ہیں.(۶)اگر آپ ہندوستان کی طرف سفر کرنا چاہتے ہیں تو لدھیانہ راہ میں ہے.کیا بہتر نہیں کہ لدھیانہ میں ہی یہ مجلس قرار پائے؟ یہ عاجز بیمار ہے، حاضری سے عذر کچھ نہیں مگر ایسی صورت میں مجھے بیماری کی حالت میں شدائد سفر اُٹھانے سے امن رہے گا ورنہ جس جگہ غزنوی صاحبان اور

Page 338

مولوی عبدالرحمن (اس عاجز کو ملحد اور کافر قرار دینے والے) یہ جلسہ منعقد ہونا مناسب سمجھیں تو اسی جگہ یہ عاجز حاضر ہو سکتا ہے.والسلام مکرر یہ کہ ۲۳؍ مارچ ۹۱ء تاریخ جلسہ مقرر ہوگئی ہے اور یہ قرار پایا ہے کہ بمقام امرتسر یہ جلسہ ہو.اشتہارات عام طور پر اپنے واقف کاروں میں یہ عاجز شائع کر دے گا ایسا ہی آپ کو بھی اختیار ہے.آپ بواپسی ڈاک جواب سے مطلع فرماویں کہ جواب کا انتظار ہے.خاکسار ۸؍ مارچ ۱۸۹۱ء غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج مکان شہزادہ غلام حیدر ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۱۰ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلّمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کے لئے بڑی مشکل کی بات یہ ہے کہ طبیعت اکثر دفعہ ناگہانی طور پر ایسی علیل ہو جاتی ہے کہ موت سامنے نظر آتی ہے اور کچھ کچھ علالت تو دن رات شامل حال ہے.اگر زیادہ گفتگو کروں تو دورہ مرض شروع ہو جاتا ہے.اگر زیادہ فکر کروں تو وہی دورہ شامل حال ہے.چونکہ آپ کا آخری خط آیا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بشمولیت مولوی عبدالجبار صاحب لکھا گیا ہے اس لئے جواب اس طرز سے لکھا گیا تھا.یہ عاجز غلبہ مرض سے بالکل نکمّا ہو رہا ہے.یہ طاقت کہاں ہے کہ مباحث تقریری یا تحریری شروع کروں.محض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تینوں رسالے لکھے گئے اور وہ بھی اس طرح سے کہ اکثر دوسرا شخص اس عاجز کی تقریر کو لکھتا گیا اور نہایت کم اتفاق ہوا کہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا ہو، اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ عبارت کو عمدگی سے درست کر دیا جاوے.آپ کی معلومات حدیث میں بہت وسیع ہیں.یہ عاجز ایک اُمی اور جاہل آدمی ہے، نہ عبادت ہے، نہ ریاضت

Page 339

نہ علم، نہ لیاقت، غرض کچھ بھی چیز نہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک امر تھا اور قطعی اور یقینی تھا، اس عاجز نے پہنچا دیا.ماننا نہ ماننا اپنی اپنی رائے اور سمجھ پر موقوف ہے.درحقیقت میرے لئے یہ کافی تھا کہ میں صرف الہامِ الٰہی کو ظاہر کرتا لیکن میں نے اپنے رسالوں میں قال اللّٰہ اور قال الرسول کا بیان اس لئے کچھ مختصر سا کر دیا ہے کہ شاید لوگ اس سے نفع اُٹھاویں.مجھے اس سے کچھ بھی انکار نہیں کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو اس کی روحانی حالت کے لحاظ سے درحقیقت مسیح بنا کر دمشق کی مشرقی طرف اسی طور سے اُتار دے جیسے مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا اُترتے ہیں.کچھ تعجب نہیں کہ اس زمانے میں دجّال بھی ہو.حضرت مہدی بھی ہوں اور پھر اسلام میں سیفی طاقت پیدا ہو جائے اور تمام لوگ مسلمان ہو جاویں مگر جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر کھولا ہے صرف اتنا ہے کہ یہ عاجز روحانی طور پر مثیل مسیح ہے اور روحانی طور پر موعود بھی ہے اور نیز یہ کہ کوئی مسیح آسمان سے خاکی وجود کے ساتھ اُترنے والا نہیں.ظلّی اور مثالی طور پر مسیح کے آنے سے مجھے انکار نہیں بلکہ ایک کیا ایک ہزار مسیح بھی کہا جائے تو میرے نزدیک ممکن ہے.میرے نزدیک احادیثِ صحیحہ بھی حقیقی طور پر مسیح کے اُترنے کے بارے میں وہ زور نہیں دیتیں جو آج کل کے علماء خیال کر رہے ہیں.مسیح کا اُترنا سچ مگر ظلّی اور مثالی طور پر.مولوی عبدالرحمن صاحب اپنے الہامات کے حوالہ سے اس عاجز کو ضال و مضل قرار دے چکے ہیں اور ایسا کافر کہ جس کو کبھی ہدایت نہیں ہوگی.اور میاں عبدالحق غزنوی بھی اپنے الہام کے حوالہ سے اس عاجز کو جہنمی قرار دے چکے ہیں اور مولوی عبدالجبار صاحب فرماتے ہیں کہ جو کچھ میاں عبدالحق صاحب کے الہام ہیں، میں اُن پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ صحیح اور درست ہیں.اب آپ کے کہنے سے وہ کیا سمجھیں گے اور آپ انہیں کیا سمجھائیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جس طرح چاہے گا اس کی راہ پیدا کر دے گا.اگر آپ کی ملاقات ہو تو میں خوشی سے چاہتا ہوں مگر آپ کے آنے کا کرایہ میرے ذمے رہے، میں آپ کو مالی تکلیف دینی نہیں چاہتا.یہ بہتر ہے کہ آپ اس جگہ آجائیں.بہرحال ملاقات کی خوشی تو اس بیماری کی حالت میں ہوگی.ازالۃ الاوہام عنقریب طیار ہوتا ہے بھیج دوں گا ابھی کچھ باقی ہے.والسلام غلام احمد

Page 340

مکتوب نمبر۱۱ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا اور اس کے پڑھنے سے مجھ کو بہت ہی افسوس ہوا کہ آپ مکالماتِ الٰہیہ کے امر کو لہو ولعب میں داخل کرنا چاہتے ہیں.یہ سچ ہے کہ اس عاجز نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۸ و ۴۹۹ میں اس ظاہری عقیدے کی پابندی سے جو مسلمانوں میں مشہور ہے، یہ عبارت لکھی ہے کہ یہ آیت کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا.چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامّہ ہے اس لئے خداوندکریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک رکھا ہے.فقط ان عبارتوں کو اس امر کے لئے دستاویز ٹھہرانا کہ براہین میں اوّل یہ اقرار ہے اور پھر اس کے مخالف یہ دعویٰ اور ایسا خیال سراسرغلط اور دور از حقیقت ہے.اے میرے عزیز دوست! اس عاجز کے اس دعویٰ کی، جو فتح اسلام میں شائع کیا گیا ہے، اپنے علم اور عقل پر بنا نہیں تا ان دونو بیانات میں بوجہ اتحادِ بنا صورت تناقض پیدا ہو بلکہ براہین کی مذکورہ بالا عبارتیں تو صرف اس ظاہری عقیدے کی رُو سے ہیں جو سرسری طور پر عام طور پر اس زمانہ کے مسلمان مانتے ہیں اور اس دعویٰ کی بِنا الہامِ الٰہی اور وحی ربّانی پر ہے.پھر تناقض کے کیا معنے ہیں.میں خود یہ مانتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی امر پر بذریعہ اپنے خاص الہام کے مجھے آگاہ نہ کرے میں خود بخود آگاہ نہیں ہو سکتا اور یہ امر میرے لئے کچھ خاص نہیں.اس کی نظیریں انبیاء کی سوانح میں بہت ہیں.ملہم لوگ بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے.لَاعِلْمَ لِیْ اِلاَّ مَا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ بلکہ خدا تعالیٰ کا سمجھانا بھی جب تک صاف طور پر نہ ہو، انسان ضعیف البیان اس میں بھی دھوکا کھا سکتا ہے.فَذَھَبَ وَھْلِیْ۱؎ کی حدیث آپ کو یاد ہی ہوگی.اب خدا تعالیٰ نے فتح اسلام کی تالیف کے وقت مجھے سمجھا یا تب میں سمجھا.اِس سے پہلے کوئی اس بارے میں الہام نہیں ہوا کہ درحقیقت وہی مسیح آسمان سے اُتر آئے گا.اگر ہے تو آپ کو پیش کرنا ۱؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۳۴۲۵

Page 341

چاہئے.ہاں یہ عاجز روحانی طور پر مثیل موعود ہونے کا براہین میں دعویٰ کر چکا ہے جیسا کہ اسی صفحہ۴۹۸ میں موعود ہونے کی نسبت یہ اشارہ ہے.صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ.چونکہ آپ نے اپنے ریویو میں اس دعویٰ کا ردّ نہیں کیا اس لئے اپنے اس معرض بیان میں سکوت اختیار کر کے، اگرچہ ایمانی طور پر نہیں مگر امکانی طور پر مان لیا.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر براہین احمدیہ میں ابن مریم کے موعود یا غیر موعود ہونے کے بارہ (میں) کچھ بھی ذکر نہیں کیا.صرف ایک مشہور عقیدہ کے طور سے ذکر کر دیا تھا آپ کو اس جگہ اسے پیش کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی بعض اعمال میں، جب وحی نازل نہیں ہوتی تھی، انبیاء بنی اسرائیل کی سنن مشہورہ کا اقتدا کیا کرتے تھے اور وحی کے بعد جب کچھ ممانعت پاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے.اس کو تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے.آپ جیسے فاضل کیوں نہیں سمجھیں گے.مجھے نہایت تعجب ہے کہ آپ یہی طریق انصاف پسندی کا قرار دیتے ہیں.کیا اس عاجز نے کسی جگہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا ہر ایک نطق وحی اور الہام میں داخل ہے.اگر آپ طریق فیصلہ اسی کو ٹھہراتے ہیں تو بسم اللہ! میرے رسالہ کا جواب لکھنا شروع کیجئے.آخر حق کو فتح ہوگی.میں نے آپ کو ایک صلاح دی تھی کہ عام جلسہ علماء کا بمقام امرتسر منعقد ہو اور ہم دونوں حسبۃً للہ و اظہاراً لِلْحَقِّ اس جلسہ میں تحریری طور پر اپنی اپنی وجوہات بیان کریں اور پھر وہی وجوہات حاضرین کو پڑھ کر سنا دیں اور وہی آپ کے رسالہ میں چھپ جائیں.دُور و نزدیک کے لوگ خود دیکھ لیں گے جس حالت میں آپ اس کام کے لئے ایسے سرگرم ہیں کہ کسی طرح رُکنے میں نہیں آتے اور جب تک اشاعۃ السنۃ میں عام طور پر اپنے مخالفانہ خیال کو شائع نہ کر دیں صبر نہیں کر سکتے تو کیا اِس تحریری مباحثہ میں کسی فریق کی کسرشان ہے؟ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس جلسہ میں خاک کی طرح متواضع ہو کر حاضر ہو جاؤں گااور اگر کوئی ایسی سخت دُشنامی بھی کرے جو انتہا تک پہنچ گئی ہو تو میں اس پر بھی صبر کروں گا اور سراسر تہذیب اور نرمی سے تحریر کروں گا.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے جو اس نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.اگر آپ مجھے اب بھی اجازت دیں تو میں اشتہارات سے اس جلسہ کیلئے عام طور پر خبر کر دوں.

Page 342

اب میری دانست میں خفیہ طور پر آپ کا مجھ سے ذکر کرنا مناسب نہیں.جب آپ بہرحال اشاعت پر مستعد ہیں تو محض للہ اس طریق کو منظور کریں.ومااقول الاللّٰہ.والسلام علی من اتبع الھدٰی خاکسار ۱۴؍مارچ ۱۸۹۱ء غلام احمد از لودھیانہ محلہ اقبال گنج مکتوب نمبر ۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ از عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللّٰہ وایّد بخدمت اخویم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا تار جس میں یہ لکھا تھا کہ تمہارے وکیل بھاگ گئے ان کو لوٹاؤ یا آپ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے، پہنچا.اے عزیز! شکست اور فتح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.جس کو چاہتا ہے فتح مند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے شکست دیتا ہے.کون جانتا ہے کہ واقعی طور پر فتح مند کون ہونے والا ہے اور شکست کھانے والاکون ہے؟ جو آسمان پر قرار پا گیا ہے وہی زمین پر ہوگا گو دیرسے سہی لیکن اس عاجز کو تعجب ہے کہ آپ نے کیونکر یہ گمان کر لیا کہ حبی فی اللہ مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ سے بھاگ کر چلے آئے.آپ نے ان کو کب بلایا تھا کہ تا وہ آپ سے اجازت مانگ کر آتے.اصل بات تو اس قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبدالرحمن اس جگہ آئے ہوئے ہیں.ہم نے ان کو دو تین روز کے لئے ٹھہرا لیا ہے تا ان کے روبُرو ہم بعض شبہات اپنے آپ سے دور کرا لیں اور یہ بھی لکھا کہ ہم اس مجلس میں مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بلا لیں گے.چونکہ مولوی صاحب موصوف حافظ صاحب کے اصرار کی وجہ سے لاہور میں پہنچے اور منشی امیرالدین صاحب کے مکان پر اُترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بلا لیا.تب مولوی عبدالرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اُٹھ کر چلے گئے اور

Page 343

جن صاحبوں نے آپ کو بلایا تھا انہوں نے مولوی صاحب کے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی محمد حسین صاحب کا طریق بحث پسند نہیں آیا.یہ سلسلہ تو دو برس تک بھی ختم نہیں ہوگا.آپ خود ہمارے سوالات کا جواب دیجئے.ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے.تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب موصوف نے بخوبی ان کی تسلی کر دی.یہاں تک کہ تقریر ختم ہونے کے بعد حافظ محمد یوسف صاحب نے بانشراحِ صدر آواز بلند سے کہا کہ اے حاضرین! میری تومِن کل الوجوہ تسلی ہوگئی اور میرے دل میں نہ کوئی شبہ اور نہ کوئی اعتراض باقی ہے.پھر بعد اس کے یہی تقریر منشی عبدالحق صاحب و منشی الٰہی بخش صاحب و منشی امیر دین صاحب اور مرزا امان اللہ صاحب نے کی اور بہت خوش ہو کر اُن سب نے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور تہ دل سے قائل ہوگئے کہ اب کوئی شک باقی نہیں اور مولوی صاحب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلی کرانے کیلئے آپ کو تکلیف دی تھی، سو ہماری بکلّی تسلی ہوگئی آپ بلاجرح تشریف لے جائیے.سو انہوں نے ہی بلایا اور انہوں نے ہی رخصت کیا.آپ کا تو درمیان قدم ہی نہ تھا پھر آپ کا یہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کس قدر بے محل ہے.آپ خود انصاف فرماویں جب کہ ان سب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اب ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بلانا نہیں چاہتے، ہماری تسلی ہوگئی اور وہی تو تھے جنہوں نے مولوی صاحب کو لدھیانہ سے بُلایا تھا تو پھر مولوی صاحب آپ سے کیوں اجازت مانگتے، کیا آپ نہیں سمجھ سکتے.اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہئے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسروچشم حاضر ہے مگر تقریری بحثوں میں صدہا طرح کا فتنہ ہوتا ہے، صرف تحریری بحث چاہئے اور وہ یوں ہو کہ مساوی طور پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں اور لوگوں کو بآوازبلند سنادیں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دے دیں.پھر بعد اس کے میں بھی چار ورق پر اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سُنا دوں.ان دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے اور فریقین میں سے کوئی ایک کلمہ تک تقریری طور پر اس بحث کے بارہ میں نہ کرے، جو کچھ ہو تحریر میں ہو اور پرچے صرف دو ہوں.اوّل آپ کی طرف سے ایک چوورقہ پرچہ جس میں آپ میرے مشہور کردہ دعویٰ کا قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ردّ لکھیں اور پھر دوسرا پرچہ چوورقہ اسی تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں میں یہ اللہ جل شانہٗ کے فضل و توفیق سے ردّ الردّ

Page 344

لکھوں اور انہیں دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے.اگر آپ کو ایسا منظور ہو تو میں لاہور میں آ سکتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ امن قائم رکھنے کیلئے انتظام کرا دوں گا.یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے.اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز متصور ہوگی.راقم خاکسار ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج مکرر یہ کہ جس قدر ورق لکھنے کیلئے آپ پسند کر لیں اُسی قدر اوراق پر لکھنے کی مجھے اجازت دی جائے لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہئے کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں.اور آں مکرم اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ پرچے صرف دو ہوں گے.اوّل آپ کی طرف سے میرے ان دونوں بیانات کا ردّ ہوگا جو میں نے لکھا ہے کہ میں مثیلِ مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت مسیح ابن مریم درحقیقت وفات پا گئے ہیں.پھر اس ردّکے ردّ الردّ کے لئے میری طرف سے تحریر ہوگی.غرض پہلے آپ کا یہ حق ہوگاکہ جو کچھ ان دعاوی کے بطلان کے لئے آپ کے پاس ذخیرۂ نصوص قرآنیہ و حدیثیہ موجود ہے وہ آپ پیش کریں پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا.اور بغیر اس طریق کے جس کی انصاف پر بنا اور نیز امن رہنے کیلئے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں.اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ آخری تحریر تصوّر فرماویں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روا نہ رکھیں اور بحالت انکار ہرگز کوئی تحریر یا کوئی خط میری طرف نہ لکھیں.اگر پورے اور کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو صرف اس حالت میں جواب تحریر فرماویں، ورنہ نہیں.آج بھوپال سے ایک کارڈ مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۹۱ء اخویم مولوی محمد احسن صاحب مہتمم مصارف ریاست پڑھ کر آپ کے اخلاقِ کریمانہ اور مہذبانہ تحریر کا نمونہ معلوم ہوگیا.آپ اپنے کارڈ میں فرماتے ہیں کہ میں نے مرزا غلام احمد کے اس دعویٰ جدید کی اپنے ریویو میں تصدیق نہیں کی بلکہ اس کی تکذیب خود براہین میں موجود ہے.آپ بلارؤیت مرزا پر ایمان لے آئے.آپ ذرا ایک دفعہ آکر اس کو دیکھ تو لیں.تَسْمَعُ بِالْمُعِیْدِی خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَرَاہُ.اشاعت السنۃ میں اب

Page 345

ثابت ہوتا رہے گا کہ یہ شخص ملہم نہیں ہے فقط.حضرت مولوی صاحب.من آنم کہ من دانم، آپ جہاں تک ممکن ہے ایسے الفاظ استعمال کیجئے.میں کہتا ہوں اور میری شان کیا، بے شک آپ جو چاہیں لکھیں اور اس وعدہ تہذیب کی پرواہ نہ رکھیں جس کو آپ چھاپ چکے ہیں.ربی یسمع ویرٰی والسلام علی من اتبع الھدٰی.خاکسار غلام احمد آج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں خط بھیجا گیا ہے اور ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کے جواب کے انتظار (میں) رہیں گے.اگر ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کا جواب نہ پہنچا تو یہی خط آپ کے رسالہ کے جواب میں کسی اخبار وغیرہ میں شائع کر دیا جاوے گا.فقط.مرزا غلام احمد.بقلم خود ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء مکتوب نمبر۱۳ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ وَ نصلّی علی رسولہ الکریم الحمدلِلّٰہِ والسَّلام عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی از عاجز عائذ باللہ الصمد مرزا غلام احمد عافاہ اللہ و ایدہ.بخدمت اخویم مکرم مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب سلمہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.باعث تعجب ہوا.آپ نہ تو اظہارِحق کی غرض سے بحث کرنا چاہتے ہیں اور نہ اس جوشِ بے اصل سے باز رہ سکتے ہیں.عزیز من رحمکم اللہ! یہ عاجز آپ کو کوئی الزام دینا نہیں چاہتا مگر آپ ہی کا قول و فعل آپ کو الزام دے رہا ہے.آپ کا آدھی رات کو تار پہنچا کہ ابھی آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے.کس قدر آپ کی اس تار پود سے مخالف ہے جو آپ اب پھیلا رہے ہیں.افسوس کہ آپ نے بحث کرنے کے لئے بذریعہ تار بلایا پھر آپ گریز کر گئے اور اب آپ کاخط ’’مشت بعد از جنگ‘‘ کا نمونہ ہے.فضول باتوں کو پیش کر کے اور بھی تعجب میں ڈالتا ہے.چنانچہ ذیل میں آپ کے اقوال کا جواب دیتا ہوں.قولہ: دو باتیں جن سے آپ کو ڈھیل دیتاہوں لکھتا ہوں.

Page 346

اقول: حضرت! یہ تو آپ حیلہ حوالہ سے اپنے تئیں ڈھیل دے رہے ہیں.میں نے کب کہا تھا کہ مجھے ڈھیل دیں.آپ کی آدھی رات کو تار آئی.میں تیار ہو گیا.آپ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کیلئے خرچ دے کر بلاتوقف اپنا آدمی روانہ کیا.بحث منظور کر لی، سب انتظام مجلس اپنے ذمہ لے لیا مگر آپ ہماری تیاری کا نام سنتے ہی کنارہ کش ہوگئے.اب سوچیں کہ کیا میں نے بحث کو ڈھیل میں ڈال دیا یا آپ نے؟ اگر میں آپ ہی لاہور میں پہنچتا تو کس قدر تکلیف ہوتی.آپ کی اس حرکت نے نہ صرف آپ کو شرمندہ کیا بلکہ آپ کی تمام عقلمند پارٹی کو خجالت کا حصہ دیا.اس کنارہ کشی کا آپ پر بڑا بار ہے کہ جو بودے عذروں سے دُور نہیں ہو سکتا.آپ نے ناگوار طریقہ سے مقابل پر آنے کی دھمکی تو دی مگر آخر آپ ہی نہ ٹھہر سکے.کیا اس دعویٰ کے ساتھ جو آپ کو ہے، یہ گریز آپ کی علمی وجاہت پر دھبہ نہیں لگاتے؟ قولہ: اگر آپ عین مباحثہ کے جلسہ میں اصول کی تمہید و تسلیم سے ڈریں تو میں اُن اصول کو آپ کے پاس وہاں بھیج دیتا ہوں تا آپ کو آپ کے سمجھنے کیلئے کافی مہلت مل جائے.ناگہانی ابتلا سے بچ جائیں اور وہ حال نہ ہو جو آپ کے حواری کا ہوا.اقول: حضرت آپ کو خود مناسب ہے کہ آپ ان اصولوں سے ڈریں.کوئی عقلمند ان بیہودہ باتوں سے ڈر نہیں سکتا اور میں تو آپ کے ان اصولوں کو محض لغو سمجھتا ہوں اور ایسے لغویات کی طرف سے مجھے یہ آیت روکتی ہے جو اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے. ۱؎ اور نیز یہ حدیثِ نبوی کہ مِنْ حُسْنِ اِسْـلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ ۲؎ یہ بات ظاہر ہے کہ جو بات ضرورت سے خارج ہے وہ لغو ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ اس بحث کے لئے شرعی طور پر آپ کو کس بات کی ضرورت ہے.سو ادنیٰ تأمل سے ظاہر ہوگا کہ آپ صرف اس بات کے مستحق ہیں کہ مجھ سے تشخیص دعویٰ کرا دیں.سو میں نے بذریعہ فتح اسلام و توضیح مرام اور نیز بذریعہ اس حصہ ازالہ اوہام کے جو قول فصیح میں شائع ہو چکا ہے، اچھی طرح اپنا دعویٰ بیان کیا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور کوئی میرا دعویٰ نہیںجو آپ پر مخفی ہو اور وہ دعویٰ یہی ہے کہ میں الہام کی بنا پر مثیل مسیح ہونے کا مدعی ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح ابن مریم ۱؎ المؤمنون: ۴ ۲؎ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ حدیث نمبر۳۹۷۶

Page 347

درحقیقت فوت ہوگئے ہیں.سو اس عاجز کا مثیل مسیح ہونا تو آپ اشاعۃ السنۃ میں امکانی طو رپر مان چکے ہیں اور میں اس سے زیادہ آپ سے تسلیم بھی نہیں کراتا.اگر میں حق پر ہوں تو خود اللہ شانہٗ میری مدد کرے گا اور اپنے زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کر دے گا.رہا ابن مریم کا فوت ہونا، سو فوت ہونے کے دلائل لکھنا میرے پر کچھ فرض نہیں کیونکہ میں نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مخالف ہو بلکہ مسلسل طور پر ابتدائے حضرت آدم سے یہی طریق جاری ہے.جو پیدا ہوا وہ آخر ایک دن جوانی کی حالت میں یا بڈھا ہو کر مرے گا.جیسا کہ اللہ جلشانہٗ فرماتے ہیں.  ۱؎ پس جب کہ میرے پر یہ فرض ہی نہیں کہ میں مسیح کے فوت ہونے کے دلائل لکھوں، اور ان کا فوت ہونا تو میں بیان ہی کر چکا تو اب اگر میں آپ سے پہلے لکھوں تو فرمائیے کیا لکھوں؟ یہ تو آپ کا حق ہے کہ میرے بیان کے ابطال کیلئے پہلے آپ قلم اُٹھائیں اور آیات اور احادیث سے ثابت کر دکھائیں کہ سارا جہان تو اس دنیا سے رخصت ہوتا گیا اور ہمارے نبی کریم ؐبھی وفات پاگئے مگر مسیح وفات پانے سے اب تک باقی رہا ہوا ہے.کسی مناظر کو پوچھ کر دیکھ لیں کہ دَابِ مناظرہ کیا ہے؟ اب یہ بھی یاد رہے کہ آپ کی دوسری سب بحثیں مسیح کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کی فرع ہیں.اگر آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ مسیح زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھایا گیا تو پھر آپ نے سب کچھ ثابت کر دیا.غرض پہلے تحریر کرنا آپ کا حق ہے.اگر اب بھی آپ مانتے نہیں تو چند غیرقوموں کے آدمیوں کو منصف مقرر کر کے دیکھ لو.اور اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب کب آپ کے بلائے لاہور میں گئے تھے.جنہوں نے بلایا انہوں نے مولوی صاحب موصوف سے اپنی پوری تسلی کرالی اور آپ کے ان لغو اصولوں سے بیزاری ظاہر کی تو پھر اگر مولوی صاحب آپ سے اعراض نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟ اعراض کا نام آپ نے فرار رکھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے دست بدست آپ کو دکھا دیا کہ فرار کس سے ظہور میں آیا.یہ مولوی صاحب کی راستبازی کی کرامت ہے جس نے آپ پر یہ مصرعہ سچا کر دیا.۱؎ الحج: ۶

Page 348

ع مرا خواندی و خود بدام آمدی قولہ: اگر آپ میری اس شرط کو قبول نہ کریں اور مباحثہ سے پہلے ازالہ اوہام بھیج نہ سکیں تو میںاس شرط کی تسلیم سے آپ کو بری کرتا ہوں بشرطیکہ پہلی تحریرات آپ کی ہوں اور بعد میں میری.اقول: حضرت آپ ازالہ اوہام کے اکثر اوراق دیکھ چکے.اب مجھے کس شرـط سے بری کرتے ہو.اور میں ابھی ثابت کر چکا ہوں کہ پہلے تحریر کرنا آپ کا ذمہ ہے.اب دیکھئے یہ آپ کا آخری ہتھیار بھی خطا گیا.عنقریب یہ آپ کا خط بھی بذریعہ اخبارات پبلک کے سامنے پیش کیا جاوے گا تالوگ دیکھ لیں کہ آپ کی تحریرات میں کہاں تک راستی اور حق پسندی اور حق طلبی ہے.بالآخر ایک مثال بھی سنیئے.زید ایک مفقود الخبر ہے.جس کے گم ہونے پر مثلاً دو سَو برس گذر گیا.خالد اور ولید کا اس کی حیات اور موت کی نسبت تنازع ہے اور خالد کو ایک خبر دینے والے نے خبر دی کہ درحقیقت زید فوت ہو گیا لیکن ولید اُس خبر کا منکر ہے.اب آپ کی کیا رائے ہے؟ بارِثبوت کس کے ذمہ ہے؟ کیا خالد کو موافق اپنے دعویٰ کے زید کا مر جانا ثابت کرنا چاہئے یا ولید زید کا اس مدت تک زندہ رہنا ثابت کرے؟ کیا فتویٰ ہے؟ راقم خاکسار ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء غلام احمد از لودھیانہ اقبال گنج نوٹ: اس مثال سے یہ غرض ہے کہ جس پر بارِ ثبوت ہے اس کی طرف سے ثبوت دینے کیلئے پہلے تحریر چاہئے.

Page 349

مکتوب نمبر۱۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبی اخویم مولوی صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی.جس کا جواب لکھا جائے.اس عاجز کے دعویٰ کی بناء الہام پر تھی مگر آپ ثابت کرتے کہ قرآن اور حدیث اس دعویٰ کے مخالف ہے اور پھر یہ عاجز آپ کے ان دلائل کو اپنی تحریر سے توڑ نہ سکتا تو آپ تمام حاضرین کے نزدیک سچے ہوجاتے اور بقول آپ کے میں اس الہام سے توبہ کرتا.لیکن خدا جانے آپ کو کیا فکر تھی جو آپ نے اس راہ راست کو منظور نہ کیا.خیر اب ازالہ اوہام کا ردّ لکھنا شروع کیجئے.لوگ خود دیکھ لیں گے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ از مرتب: اس کارڈ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں خط و کتابت کو گونہ بند کر دیا تھا.اس لئے کہ مولوی محمد حسین صاحب اصل مطلب کی طرف آتے نہ تھے.آپ نے اتمامِ حجت کیلئے اشتہار ۳؍ مئی ۱۸۹۱ء میں علماء لودہانہ کو خطاب کیا اور اس میں مولوی محمد حسن صاحب کو بھی مخاطب فرمایا.مولوی محمد حسین صاحب نے مولوی محمد حسن صاحب کو آڑ بنا کر پھر خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا.ہر چند وہ خطوط مولوی محمد حسن صاحب کے ہاتھ کے تھے لیکن دراصل ان کی تہہ میں مولوی محمدحسین صاحب کا ہاتھ اور قلم تھا.اس لئے جو خطوط اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھے انہیں بھی درج سلسلہ کر دیتا ہوں.(مرتب)

Page 350

مکتوب نمبر۱۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی و مکرمی مولوی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز بسر و چشم تحریری گفتگو کے لئے موجود ہے.اصول پیش کرنے کو بھی میں مانتا ہوں.چند سوال آپ کی طرف سے، چند سوال میری طرف سے ہوں اور امر مبحوث عنہ وفات یا حیات مسیح ہوگا.کیونکہ اس عاجز کا دعویٰ اسی بناء پر ہے.جب بناء ٹوٹ جاوے گی تو یہ دعویٰ خود ٹوٹ جاوے گا.اصل امر وہی ہے.اس وقت بارہ بجے ۱؎ تک مجھے بباعث بعض نج کے کاموں کے بالکل فرصت نہیں.بہتر ہے کہ آں مکرم عید کے بعد یعنی شنبہ کے دن کو بحث کے لئے مقرر کریں تا فرصت اور فراغت سے ہریکشخص حاضر ہو سکے.خاکسار ۹؍ مئی ۱۸۹۱ء غلام احمد ٭…٭…٭ ۱؎ غالباً سہو کاتب ہے.صحیح ۱۲؍ مئی تک معلوم ہوتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.(سید عبدالحی)

Page 351

مکتوب نمبر۱۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی حضرت مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب آپ خوب جانتے ہیں کہ اصلی امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات یاحیات ہے اور میرے الہام میں بھی یہی اصل قرار دیا گیا ہے.کیونکہ الہام یہ ہے کہ ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق ُتو آیا ہے‘‘.۱؎ سو پہلا اور اصل امر الہام میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے.اب ظاہر ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کا زندہ ہونا ثابت کر دیں گے تو جیسا کہ پہلا فقرہ الہام کا اس سے باطل ہوگا ایسا ہی دوسرا فقرہ بھی باطل ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دعویٰ کی شرطِ صحت مسیح کا فوت ہونا بیان فرمایا ہے.اور بحکم اِذَافَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ مسیح کی زندگی کے ثبوت سے دوسرا دعویٰ میرا خود ہی ٹوٹ جائے گا.ماسوا اس کے میرے دعویٰ مثیل مسیح میں کسی پر جبر واکراہ تو نہیں کہ خواہ مخواہ اس کو قبول کرو.صرف یہ کہا جاتا ہے کہ جس پر مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ثابت ہو جائے پھر وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر میری صحبت میں رہ کر میرے دعویٰ کی آزمائش کرے.اب ظاہر ہے کہ پھر وفات و حیات پر قرعہ پڑا.بہرحال یہی امر حقیقی اور طبعی طور پر مبحوث عنہ اور متنازعہ فیہ ٹھہرتا ہے.ماسوا اس کے آپ کی غرض دوسری بحث سے، جو آپ کے دل میں ہے وہ اس بحث میں بھی بخوبی حاصل ہو جاتی ہے.کیونکہ میں اقرار کرتا ہوں اور حلفاً کہتا ہوں کہ اگر آپ مسیح کا زندہ ہونا کلامِ الٰہی سے ثابت کر دیں گے تو میں اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو جاؤں گا اور الہام کو شیطانی القا سمجھ لوں گا اور توبہ کروں گا.اب حضرت! اس سے زیادہ کیا کہوں.خدا تعالیٰ آپ کے دل کو آپ سمجھاوے.مکرر یہ کہ اوّل قرآن کریم کی رو سے دیکھا جائے گا کہ کس کس آیت کو آپ حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ ہونے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اگر بغیر کسی جرح قدح کے وہ ثبوت آپ ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۱۴۸

Page 352

کا مسلّم ٹھہرے گا تو بھلا پھر کس کی مجال ہے کہ اس سے انکار کر جائے.لیکن اگر قرآن شریف سے آپ ثابت نہ کریں گے تو پھر آپ کو اختیار ہوگا کہ بعد تحریری اقرار اس بات کے کہ قرآنی ثبوت پیش کرنے سے ہم عاجز ہیں اور احادیثِ صحیحہ غیرمتعارضہ کو اس ثبوت کیلئے آپ پیش کریں اور جب آپ ایسا ثبوت دے چکیں گے تو منصفین ترازوے انصاف لے کر خود جانچ لیں گے کہ کس طرف پلہ ثبوت بھاری ہے.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی ۹؍ مئی ۱۸۹۱ء راقم میرزا غلام احمد ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۱۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس عاجز کی گذارش یہ ہے کہ اب فتنہ مخالفت ہر جگہ بڑھتا جاتا ہے اور مولوی محمدحسین صاحب جس جگہ پہنچتے ہیں یہی وعظ شروع کی ہے کہ یہ شخص ملحد اور دین سے خارج اور کذّاب اور دجّال ہے.میں نے اوّل نرمی سے یہ عرض کیا تھا کہ میرا مسیح ہونے کا دعویٰ مبنی بر الہام ہے اور جو امور محض الہام پر مبنی ہوں وہ زیر بحث نہیں آ سکتے بلکہ خدا تعالیٰ رفتہ رفتہ ان کی سچائی آپ ظاہر کرتا ہے.ہاں! مسیح کی وفات یا حیات کا مسئلہ گو میرے الہام کا اصل الاصول ہے مگر بباعث ایک شرعی امر ہونے کے زیرِ بحث آ سکتا ہے اور اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے.تو میرا دعویٰ مؤخر الذکر خود ہی ٹوٹ جاتا ہے.لیکن یہ عرض میری منظور نہیں کی گئی اور اصل حقیقت کو محرف کر کے منشی سعد اللہ صاحب نے جو چاہا چھپوا دیا اور لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے کی کوشش کی اور میرے پر یہ الزام بھی لگایا جاتاہے کہ وہ لیلۃ القدر سے منکر ہیں اور اس کے خلافِ اجماع معنی کرتے ہیں.اور یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ملائکہ کے وجود سے منکر ہیں اور ملائکہ کو صرف قوتیں سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ سارے الزام محض بہتان ہیں.یہ عاجز اسی

Page 353

طرح ان سب باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو قال اللہ و قال الرسول سے ثابت ہیں اور سلف صالحین کا گروہ ان کو مانتا ہے.سو اس وقت مجھے خیال ہے کہ میرا ہر حال میں خدا ناصر ہے.مجھے ہر طرح سے اتمامِ حجت کرنا چاہئے.لہٰذا مکلف ہوں کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب کی یہ درخواست بھی منظور کی کہ مسیح موعود میں بحث کی جائے مگر بحث تحریری ہوگی اور تحریر میںکسی دوسرے کا ہرگز دخل نہیں ہوگا کیونکہ اب میں ایک مہجور کی طرح آدمی ہوں.میرے ہاتھوں کی طرح کسی دوسرے کے ہاتھ یہ کام نہیں کریں گے.مولوی محمد حسین صاحب بھی اپنے ہاتھ سے لکھیں اور میں اپنے ہاتھ سے لکھوں گا.درمیانی شرائط کا تصفیہ بحث سے ایک دن پہلے ہو جائے لیکن دس روز پہلے مجھے خبر ملنی چاہئے تا لوگ جو شکوک و شبہات میں غرق ہوگئے ہیں ان کو بذریعہ خطوط و اشتہارات میں بلا لوں اور تا اس بحث سے ایک عام نفع مترتب ہو اور ہر روز کا جھگڑا طے ہو جائے.آپ پر یہ فرض ہے کہ آپ براہِ مہربانی آج محمد حسین صاحب کو اطلاع دے دیں اور بحث سے دس دن پہلے مجھے بھی مطلع فرماویں.والسلام ۲۷؍ مئی ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد ٭…٭…٭

Page 354

خمکتوب نمبر۱۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.شرائط مندرجہ ذیل ہونی چاہئیں.(۱) جلسہ بحث آپ کے مکان پر ہو اور امن قائم رکھنے کیلئے تمام انتظامات آپ کے ذمہ ہوگا.یہ بات قریب یقین کے ہے کہ چھ سات ہزار آدمی تک اس جلسہ میں جمع ہو جاویں گے.ایسا مکان تجویز کرنا آپ کے ہی ذمہ ہوگا.میرے نزدیک یہ بات نہایت ضروری ہوگی کہ کوئی یورپین افسر اس جلسے میں ضرور تشریف رکھتے ہوں کیونکہ اس طرف چندآدمی اور دوسری طرف صد ہا آدمی ہونگے اور اکثر بدزبان اور مکفر ہونگے.بغیر حاضری کسی یورپین کے ہرگز انتظام نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ کے نزدیک یورپین افسر کی ضرورت نہیں تو اوّل مجھے اپنی دستخطی تحریر سے مطلع فرما دیجئے کہ میں کامل انتظام گروہ مفسد خیال لوگوں کاکر لونگا اور ان کا منہ بند رہے گا اور کسی یورپین افسر کی کچھ ضرورت نہیں ہوگی.اس صورت میں میں یہ شرط بھی چھوڑ دونگا پھر اس تحریر کے بعد ہر ایک نتیجہ کے آپ ہی ذمہ وار ہوں گے.(۲) بحث تحریری ہر ایک فریق اپنے ہاتھ سے لکھے اور جو لکھنے سے عاجز ہو وہ اوّل یہ عذر ظاہر کر کے کہ میں لکھنے سے عاجز ہوں، دوسرے سے لکھا دیوے.کیونکہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اوّل درجے پر سند کے لائق ہوتا اور دوسروں کی تحریریں اگرچہ تصدیق کی جائیں مگر پھر بھی اس درجے پر نہیں پہنچتیں کیونکہ ان میں تحریف کاتب کا عذر ہو سکتا ہے.(۳) پرچے پانچ ہونے چاہئیں جو صاحب اوّل لکھے ایک پرچہ زائد ان کا حق ہے اور مولوی محمد حسین صاحب کو اختیار ہو گا.چاہیں وہ پہلا پرچہ لکھنا منظور کر لیں یا اس عاجز کا لکھنا منظور رکھیں.جس طرح پسند کریں مجھے منظور ہے.(۴) ہر ایک پرچہ فریقین کی، ایک ایک نقل بعد دستخط صاحب راقم فریق ثانی کو اسی وقت بلاتوقف

Page 355

دی جاوے اور پھر جلسہ عام میں وہ پرچہ بآواز بلند سنا دیا جاوے.(۵) خ اس بحث میں تقریرا ًیا تحریراً کسی تیسرے آدمی کا ہرگز دخل نہ ہو.نہ تصریحاً نہ اشارتاً نہ کنایۃً اور جلسہ بحث میں کسی کتاب سے مدد نہ لی جائے بلکہ جو کچھ فریقین کو زبانی یاد ہے وہی لکھا جاوے تاتکلف اور تصنع کو اس میں دخل نہ ہو.لیکن اگر کوئی فریق یہ ظاہر کرے کہ میں بغیر کتابوں کے کچھ لکھ نہیں سکتا تو پہلے یہ تحریری اقرار اپنی عجز بیانی کا دے کر پھر اسے کتاب سے مدد لینے کا اختیار ہوگا.(۶) اگر کوئی فریق بعض امور تمہیدی قبل از اصل بحث پیش کرنا چاہے تو فریق ثانی کو بھی اختیار ہوگا کہ ایسے ہی اُمور تمہیدی وہ بھی پیش کرے مگر دونوں کی طرف سے یہ تمہیدی اُمور ایک ایک پرچہ تحریری طور پر پیش ہونگے.ایسے پرچہ کی نسبت فریقین کو اختیار ہوگا.کہ جو پہلے لکھ رکھا وہی پیش کر دے لیکن دوسری تمام تحریر رُوبرو جلسہ کے ہوگی.کوئی تحریر اپنے گھر سے لکھی ہوئی پیش نہیں کی جائے گی.(۷)بحث صبح کے چھ بجے سے دن کے گیارہ بجے تک ہوگی اور اگر ایک جلسہ کافی نہ ہوگا تو پھر دوسرے جلسے میں اور اگر دوسرا بھی کافی نہ ہو تو تیسرے دن تک ہوسکتی ہے.(۸) پرچوں کی تحریرکا وقت مساوی ہونا چاہیے.(۹) بحث کے دن سے پہلے دس روز ہمیں اطلاع ہونی چاہیے کیونکہ اس بحث کے دیکھنے کے لئے دور دور سے لوگ آنے والے ہیں.(۱۰) بحث جلسہ عام میں ہوگی اور یہ عاجز اپنے دوستوں کو اطلاع دینے کے لئے ایک اشتہار چھاپ کر شائع کرے گا اور فریق ثانی کا اختیار ہوگا چاہے وہ بھی اشتہار شائع کرے یا نہ کرے.(۱۱) حاضرین کی منصفی کی کچھ ضرورت نہیں اور نہ ہو سکتی ہے بلکہ دونوں فریق کی تحریریں اخبارات اور اشتہارات کے ذریعہ سے پبلک کے سامنے رکھی جائیں گی.تب لوگ عام طور پر خود انصاف کر لیں گے.راقم ٭ ۶؍ جون ۱۸۹۱ء مرزا غلام احمد عفی عنہ از لودھیانہ محلہ اقبال کنج

Page 356

مکتوب نمبر۱۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ بخدمت شیخ محمد حسین صاحب ابو سعید بٹالوی. ۱؎.اما بعد.میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ میں آپ کے فتویٰ تکفیر کی وجہ سے جس کا یقینی نتیجہ احدالفریقین کا کافر ہونا ہے، اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتدا نہیں کر سکا لیکن چونکہ آپ کی نسبت ایک مُنذِر الہام مجھ کو ہوا اور چند مسلمان بھائیوں نے بھی مجھ کو آپ کی نسبت ایسی خوابیں سنائیں جن کی وجہ سے میں آپ کے خطرناک انجام سے بہت ڈر گیا.تب بوجہ آپ کے ان حقوق کے جو بنی نوع کو اپنے نوع انسان سے ہوتے ہیں اور نیز بوجہ آپ کی ہم وطنی اور قرب و جوار کے میرا رحم آپ کی اس حالت پر بہت جنبش میں آیا اور میں اللہ جلشانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی حالت پر نہایت رحم ہے اور ڈرتا ہوں کہ آپ کو وہ امور پیش نہ آ جائیں جو ہمیشہ صادقوں کے مکذّبوں کو پیش آتے رہے ہیں.اسی وجہ سے میں آج رات کو سوچتا سوچتا ایک گردابِ تفکر میں پڑ گیا کہ آپ کی ہمدردی کے لئے کیا کروں.آخر مجھے دل کے فتویٰ نے یہی صلاح دی کہ پھر دعوت الی الحق کے لئے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھوں.کیا تعجب کہ اسی تقریب سے خدا تعالیٰ آپ پر فضل کر دیوے اور اس خطرناک حالت سے نجات بخشے.سو عزیز من! آپ خدا تعالیٰ کی رحمت سے نومید نہ ہوں، وہ بڑا قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے.اگر آپ طالب حق بن کر میری سوانح زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر قطعی ثبوتوں سے یہ بات کھل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ کذب کی ناپاکی سے مجھ کو محفوظ رکھتا رہا ہے یہاں تک کہ بعض وقت انگریزی عدالتوں میں میری جان اور عزت ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ بجز استعمال کذب اور کوئی صلاح کسی وکیل نے مجھ کو نہ دی لیکن اللہ جل شانہٗ کی توفیق سے میں سچ کیلئے اپنی جان اور عزت سے دست بردار ہو گیا.اور بسا اوقات مالی مقدمات میں محض سچ کیلئے میں نے بڑے بڑے نقصان اُٹھائے.اور بسا اوقات محض خدا تعالیٰ کیخوف سے اپنے ۱؎ النَّمل: ۶۰

Page 357

والد اور اپنے بھائی کے برخلاف گواہی دی اور سچ کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.اس گاؤں میں اور نیز بٹالہ میں بھی میری ایک عمر گذر گئی ہے.مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے.پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا ابتدا سے متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا.اور اگر آپ کو یہ خیال گذرے کہ یہ دعویٰ کتاب اللہ اور سنت کے برخلاف ہے تو اس کے جواب میں باَدب عرض کرتا ہوں کہ یہ خیال محض کم فہمی کی وجہ سے آپ کے دل میں ہے.اگر آپ مولویانہ جنگ و جدال کو ترک کر کے چند روز طالبِ حق بن کر میرے پاس رہیں تو امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کی غلطیاں نکال دے گا اور مطمئن کر دے گا.اور اگر آپ کو اس بات کی بھی برداشت نہیں تو آپ جانتے ہیں کہ پھر آخری علاج فیصلہ آسمانی ہے.مجھے اجمالی طور پر آپ کی نسبت کچھ معلوم ہوا ہے.اگر آپ چاہیں تو میں چند روز توجہ کر کے اور تفصیل پر بفضلہ تعالیٰ اطلاع پا کر چند اخباروں میں شائع کر دوں.اس کے شائع کرنے کیلئے آپ کی خاص تحریر سے مجھ کو اجازت ہونی چاہئے.میں اس خط کو محض آپ پر رحم کر کے لکھتا ہوں اور بہ ثبت شہادت٭ چند کس آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور آخر دعا پر ختم کرتا ہوں. ۱؎ آمین ۳۱؍ دسمبر ۱۸۹۲ء الراقم.خاکسار.غلام احمد.از قادیان.ضلع گورداسپورہ ۱؎ الاعراف: ۹۰ ٭ گواہان حاشیہ: (۱) خدا بخش اتالیق نواب صاحب (۲) عبدالکریم سیالکوٹی (۳) قاضی ضیاء الدین ساکن کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ (۴) مولوی نورالدین (۵) محمد احسن امروہی (۶) شادی خان ملازم سرراجہ امر سنگھ صاحب بہادر (۷) ظفر احمد کپور تھلی (۸) عبداللہ سنوری (۹) عبدالعزیز دہلوی (۱۰)علی گوہر جالندھری (۱۱) فضل الدین حکیم بھیروی (۱۲) حافظ محمد صاحب پشاوری (۱۳) حکیم محمد اشرف علی ہاشمی خطیب بٹالہ (۱۴) عبدالرحمن برادر زادہ مولوی نور الدین (۱۵) محمد اکبر ساکن بٹالہ (۱۶)قطب الدین ساکن بدوملی.

Page 358

مکتوب نمبر۲۰ اس عاجز کے خط مندرجہ بالا کے جواب میں جو شیخ بٹالوی صاحب کا خط آیا وہ ذیل میں مع جواب الجواب درج کیا جاتا ہے لیکن چونکہ وہ جواب الجواب اس طرف سے بٹالوی صاحب کی خدمت میں روانہ کیا گیا ہے.اس میں ان کے تمام ہذیانات و بہتانات کا جواب نہیں ہے جو ان کے خط میں درج ہیں اور ممکن ہے کہ ان کا خط پڑھنے والے ان افتراؤں سے بے خبر ہوں جو اس خط میں دھوکہ دینے کی غرض سے درج ہیں.اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس خط کی تحریر سے پہلے شیخ صاحب کے بعض افتراؤں اور لافوں اور بہتانوں کا جواب دیں.سو بطور قولہ و اقول، ذیل میں جواب درج کیا جاتا ہے.قولہ: میں قرآن اور پہلی کتابوں اور دین اسلام اور پہلے دینوں کو اور نبی آخر الزمان اور پہلے نبیوں کو سچا جانتا ہوں اور مانتا ہوں اور اس کا لازمہ اور شرط ہے کہ آپ کو جھوٹا جانوں.اقول: شیخ صاحب! اگر آپ قرآن کو سچا جانتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی صادق مانتے تو مجھ کو کافر نہ ٹھہراتے.کیا قرآن کریم اور حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ماننے کے یہی معنی ہیں کہ جو شخص اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہے اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہے اور کلمہ طیبّہ کا قائل ہے اور اسلام میں نجات محدود سمجھتا اور بدل و جان اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں فدا ہے.اس کو آپ کافر بلکہ اَکْفرَ ٹھہراتے ہیں اور دائمی جہنم اس کے لئے تجویز کرتے ہیں.اُس پر لعنت بھیجتے ہیں.اس کو دجّال کہتے ہیں اور اس کو قتل کرنا اور اسکے مال کو بطور سرقہ لینا سب جائز قرار دیتے ہیں.رہے وہ کلمات اس عاجز کے جن کو آپ کلماتِ کفر ٹھہراتے ہیں اُن کا جواب اس رسالہ میں موجود ہے ہر ایک منصف خود پڑھ لے گا اور آپ کی دیانت اور آپ کا فہمِ قرآن اور فہمِ حدیث اُس سے بخوبی ظاہر ہو گیا ہے.لکھنے کی حاجت نہیں.قولہ: عقائد باطلہ مخالفہ دین اسلام و ادیان سابقہ کے علاوہ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا آپ کا ایسا وصف لازم بن گیا ہے کہ گویا وہ آپ کی سرشت کا ایک جزو ہے.اقول: شیخ صاحب! جو شخص متقی اور حلال زادہ ہو، اوّل تو وہ جرأت کر کے اپنے بھائی پر

Page 359

بے تحقیق کامل کسی فسق اور کفر کا الزام نہیں لگاتا اور اگر لگاوے تو پھر ایسا کامل ثبوت پیش کرتا ہے کہ گویا دیکھنے والوں کے لئے دن چڑھا دیتا ہے.پس اگر آپ ان دونوں صفتوں مذکورہ بالا سے متصف ہیں تو آپ کو اُس خداوند قادر ذوالجلال کی قسم ہے جس کی قسم دینے پر حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی توجہ کے ساتھ جواب دیتے تھے کہ آپ حسبِ خیال اپنے یہ دونوں قسم کا خبث اس عاجز میں ثابت کر کے دکھلاویں.یعنی اوّل یہ کہ میں مخالف دین اسلام اور کافر ہوں اور دوسرے یہ کہ میرا شیوہ جھوٹ بولنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی رؤیا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں صادق تر ہوتا ہے.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق کی یہ نشانی ٹھہرائی ہے کہ اس کی خوابوں پر سچ کا غلبہ ہوتا ہے اور ابھی آپ دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں.پس اگر آپ نے یہ بات نفاق سے نہیں کہی اور آپ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول میں سچے ہیں تو آؤ ہم اور تم اس طریق سے ایک دوسرے کو آزما لیں کہ بموجب اس محک کے کون صادق ثابت ہوتا ہے اور کس کی سرشت میں جھوٹ ہے اور ایسا ہی اللہشانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے۱؎ یعنی یہ مومنوں کا ایک خاصہ ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے اُن کی خوابیں سچی نکلتی ہیں اور آپ ابھی دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں قرآن پر بھی ایمان لاتا ہوں.بہت خوب! آؤ قرآن کریم کی رو سے بھی آزما لیں کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے؟ یہ دونوں آزمائشیں یوں ہو سکتی ہیں کہ بٹالہ یا لاہور یا امرتسر میں ایک مجلس مقرر کر کے فریقین کے شواہد رؤیا ان میں حاضر ہو جائیں اور پھر جو شخص ہم دونوں میں سے یقینی اور قطعی ثبوتوں کے ذریعہ سے اپنی خوابوں میں اَصْدَق ثابت ہو، اس کے مخالف کا نام کذاب اور دجال اور کافر اور اَکْفَر اور ملعون یا جو نام تجویز ہوں اُسی وقت اس کو یہ تمغہ پہنایا جائے اور اگر آپ گزشتہ کے ثبوت سے عاجز ہوں تو میں قبول کرتا ہوں بلکہ چھ ماہ تک آپ کو رخصت دیتا ہوں کہ آپ چنداخباروں میں اپنی ایسی خوابیں درج کرا دیں جو امور غیبیہ پر مشتمل ہوں اور میں نہ صرف اسی پر کفایت کروں گا کہ گذشتہ کا آپ کو ثبوت دوں بلکہ آپ کے مقابل پر بھی انشاء اللہ القدیر اپنی خوابیں ۱؎ یونس: ۶۵

Page 360

درج کراؤں گا.اور جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں.یہی میرا دعویٰ ہے کہ میں بدل و جان اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس پیاری کتاب قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں.اب اس نشانی سے آزمایا جائے گا کہ اپنے دعویٰ میں سچا کون ہے.اور جھوٹا کون ہے.اگر میں اُس علامت کی رو سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قرار دی ہے، مغلوب رہا تو پھر آپ سچے رہیں گے اور میں بقول آپ کے کافر، دجال، بے ایمان، شیطان اور کذاب اور مفتری ٹھہروں گا اور اس صورت میں آپ کے وہ تمام ظنونِ فاسدہ درست اور برحق ہوں گے کہ گویا میں نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں فریب کیا اور لوگوں کا روپیہ کھایا اور دُعا کی قبولیت کے وعدہ پر لوگوں کا مال خورد برد کیا اور حرام خوری میں زندگی بسر کی.اگر خدا تعالیٰ کی اس عنایت نے، جو مومنوں اور صادقوں اور راستبازوں کے شامل حال ہوتی ہے، مجھ کو سچا کر دیاتو پھر آپ فرماویں کہ یہ نام اس وقت آپ کی مولویانہ شان کے سزاوار ٹھہریں گے یا اس وقت بھی کوئی کنارہ کشی کا راہ آپ کے لئے باقی رہے گا؟ آپ نے مجھ کو بہت دکھ دیا اور ستایا.میں صبر کرتا گیا مگر آپ نے ذرہ اس ذات قدیر کا خوف نہ کیا جو آپ کی تہہ سے واقف ہے.اس نے مجھے بطور پیشگوئی آپ کے حق میں اور پھر آپ کے ہم خیال لوگوں کے حق میں خبر دی کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ ۱؎ یعنی میں اس کو خوار کروں گا جو تیرے خوار کرنے کی فکر میں ہے.سو یقینا سمجھو کہ اب وہ وقت نزدیک ہے جو خدا تعالیٰ ان تمام بہتانات میں آپ کا دروغگو ہونا ثابت کر دے گا اور جو بہتان تراش اور مفتری لوگوں کو ذلتیں اور ندامتیں پیش آتی ہیں اُن تمام ذلتوں کی مار آپ پر ڈالے گا.آپ کاد عویٰ ہے کہ میں قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں.پس اگر آپ اس قول میں سچے ہیں تو آزمائش کے لئے میدان میں آویں تا خدا تعالیٰ ہمارا اور تمہارا خود فیصلہ کرے اور جو کاذب اور دجال ہے رُوسیاہ ہو جائے.اور میرے دل سے اس وقت حق کی تائید کے لئے ایک بات نکلتی ہے اور میں اس کو روک نہیں سکتا کیونکہ وہ میرے نفس سے نہیں بلکہ القا ئِ رَبیّ ہے جو بڑے زور سے جوش مار رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کہ آپ نے مجھے کافر ٹھہرایا اور جھوٹ بولنا میری سرشت کا خاصہ قرار دیا تو اب آپ کو اللہ شانہٗ کی قسم ہے کہ حسبِ طریق ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۲۷

Page 361

مذکورہ بالا میرے مقابلہ پر فی الفور آجاؤ، تا دیکھا جائے کہ قرآن کریم اور فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رُو سے کون کاذب اور دجال اور کافر ثابت ہوتا ہے.اور اگر اس تبلیغ کے بعد ہم دونوں میں سے کوئی شخص مُتخلّف رہا اور باوجود اشدّ غُلّو اور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق کے میدان میں نہ آیا اور شغال کی طرح دُم دبا کر بھاگ گیا تو وہ مندرجہ ذیل انعام کا مستحق ہوگا.(۱)  (۶)  (۲)  (۷)  (۳)  (۸)  (۴)  (۹)  (۵)  (۱۰)  تِلْکَ عَشْرَۃٌ کَامِلَۃٌ یہ وہ فیصلہ ہے جو خدا تعالیٰ آپ کر دے گا کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ مومن بہرحال غالب رہے گا چنانچہ وہ خود فرماتا ہے. ۱؎ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ کافر مومن پر راہ پاوے اور نیز فرماتا ہے. ۲؎ یعنی اے مومنو! اگر تم متقی بن جاؤ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا تعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا.وہ فرق کیا ہے کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا.یعنی نورِ الہام اور نورِ اجابتِ دُعا اور نورِ کراماتِ اصطفا.اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اس (سے) کرامات صادر ہو سکتی ہیں.غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریمہ ۳؎ اور حدیثِ نبوی اَصْدَ قُکُمْ حَدِیْثًا۴؎ کے صادق ثابت ہوتا ہے.مع ہذا ایک اور بات بھی ذریعہ آزمائش صادق ہو جاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ۱؎ النساء: ۱۴۲ ۲؎ الانفال: ۳۰ ۳؎ یونس: ۶۵ ۴؎ مسلم کتاب الرؤیا باب فی کون الرؤیا من اللّٰہ وانھا جزء من النبوۃ حدیث نمبر۵۹۰۵

Page 362

ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہوتا ہے کہ اُس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اس کو نظر نہیں (آتا) تب اُس وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی سرشت میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے.اس قسم کے نمونے بھی عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل بیان کرنا موجبِ تطویل ہے تا ہم تین نمونے اِس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر اُن کے برابر بھی کبھی آپ کو آزمائش صدق کے موقع پیش آئے ہیں تو آپ کو اللہ شانہٗ کی قسم ہے کہ آپ اُن کو معہ ثبوت اُن کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آکر آپ نے صدق نہیں توڑا.ازاں جملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے شر کا ملکیت قادیان سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزا غلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کرا دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ اُن شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ ایک گم گشتہ چیز تھی جو سکھوں کے وقت میں نابود ہو چکی تھی اور میرے والد صاحب نے تنِ تنہا مقدمات کر کے اس ملکیت اور دوسرے دیہات کی بازیافت کیلئے آٹھ ہزار کے قریب خرچ و خسارہ اُٹھایا تھا جس میں وہ شر کاء ایک پیسہ کے بھی شریک نہیں تھے.سو اُن مقدمات کے اثناء میں جب میں نے فتح کے لئے دعا کی تو یہ الہام ہوا کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلاَّفِیْ شُرَکَآئِکَ۱؎ یعنی میں تیری ہر یک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں.سومیں نے اس الہام کو پا کر اپنے بھائی اور تمام زن و مرد اور عزیزوں کو جمع کیا جو اُن میں سے بعض اب تک زندہ ہیں اور کھول کر کہہ دیا کہ شرکاء کے ساتھ مقدمہ مت کرو.یہ خلاف مرضی حق ہے.مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور آخر ناکام ہوئے لیکن میری طرف سے ہزار ہا روپیہ کا نقصان اُٹھانے کیلئے استقامت ظاہر ہوئی.اس کے وہ سب، جو اب دشمن ہیں، گواہ ہیں.چونکہ تمام کاروبار زمینداری میرے بھائی کے ہاتھ میں تھا اس لئے میں نے بار بار ان کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا اور آخر نقصان اُٹھایا.ازاں جملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ تخمیناً پندرہ یا سولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام ۱؎ آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۲۹۷

Page 363

رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا.ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کیلئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دُشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا.جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رُو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے.سو اُس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو.رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کیلئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے.میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام آ سکتی ہے.غرض میں اِس جرم میں صدر گورداسپورہ میں طلب کیا گیا.اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا.رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی.ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں.مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا.جو ہوگا سو ہوگا.تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا.اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بلاتوقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگرمیں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھنہیں سمجھا

Page 364

اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کوسنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتاتھا مگر اس قدر سمجھتا تھا کہ ہریک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نونو کر کے اس کی سب باتوں کو ردّ کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنی تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت.یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اُتارنے کیلئے ہاتھ مارا.میں نے کہا.کیا کرنے لگا ہے؟ تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیااور کہا کہ خیر ہے خیر ہے.۱؎ ازانجملہ ایک نمونہ یہ ہے کہ میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا.جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اُٹھانا پڑتا تھا.تب فریقِ مخالف نے موقعہ پا کر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے، جا ٹھہرا اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا.جس کا نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا.اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے.آپ کیا اظہار دیں گے میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے.تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے.میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دست بردار ہوجاؤں.سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغائً لمرضاتِ اللّٰہِ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا.یہ آخری دو نمونے بھی بے ثبوت نہیں.پچھلے واقعہ کا گواہ شیخ علی احمد وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خان صاحب ۱؎ آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۲۹۷ تا ۲۹۹

Page 365

سی ایس آئی ہیں اور نیز مثل مقدمہ دفتر گورداسپورہ میں موجود ہوگی اور دوسرے واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اِس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کرچکا ہوں جو اَب شاید لدہیانہ میں بدل گیا ہے.غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گزرا ہوگا.ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے.اب اے حضرت شیخ صاحب! اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان اور آبرو اور مال راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے سچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پرواہ نہ کی ہو تو لِلّٰہ وہ واقعہ اپنا معہ اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے.ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر مُلاّ اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں، ورنہ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو تیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے مولویوں کو بدترین خلائق بیان فرمایا ہے اور آپ کے مجدد صاحب نواب صدیق حسن خان مرحوم حجج الکرامہ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ آخری زمانہ یہی زمانہ ہے.سو ایسے مولویوں کا زہد و تقویٰ بغیر ثبوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کی تکذیب لازم آتی ہے.سو آپ نظیر پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو ثابت ہوگا کہ آپ کے پاس صرف راست گوئی کا دعویٰ ہے مگر کوئی دعویٰ بے امتحان قبول کے لائق نہیں.اندرونی حال آپ کا خدا تعالیٰ کو معلوم ہوگا کہ آپ کبھی کذب اور افترا کی نجاست سے ملوث ہوئے یا نہیں یا ان کو معلوم ہوگا جو آپ کے حالات سے واقف ہوں گے.جو شخص ابتلا کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے.اگر یہ مہر آپ کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ خدا تعالیٰ سے ڈریں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی پردہ دری کرے.آپ کی ان بیہودہ اور حاسدانہ باتوں سے مجھ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ آپ لکھتے ہیں کہ تم مختاری اور مقدمہ بازی کا کام کرتے رہے ہو.آپ ان افتراؤں سے باز آ جائیں.آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ عاجز ان پیشوں میں کبھی نہیں پڑا کہ دوسروں کے مقدمات عدالتوں میں کرتا پھرے.ہاں والد صاحب کے زمانہ میں اکثر وکلاء کی معرفت اپنی زمینداری کے مقدمات ہوتے تھے اور کبھی ضرورتاً مجھے آپ بھی جانا پڑتا تھا.مگر آپ کا یہ خیال کہ وہ جھوٹے مقدمات ہوں گے، ایک شیطنت کی بَد ُبو سے بھرا ہوا ہے.کیا ہر ایک نالش کرنے والا ضرور جھوٹا مقدمہ کرتا ہے یا ضرور

Page 366

جھوٹ ہی کہتا ہے؟ اے کج طبع شیخ ! خدا جانے تیری کس حالت میں موت ہوگی.کیا جو شخص اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے یا اپنے حقوق کی طلب کے لئے عدالت میں مقدمہ کرتا ہے اس کو ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ جس کو خدا تعالیٰ نے قوت صدق عطا کی ہو اور سچ سے محبت رکھتا ہو وہ بالطبع دروغ سے نفرت رکھتا ہے اور جب کوئی دنیوی فائدہ جھوٹ بولنے پر ہی موقوف ہو تو اس فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے.مگر افسوس کہ نجاست خور انسان ہر یک انسان کو نجاست خور ہی سمجھتا ہے.جھوٹ بولنے والے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولنے کے عدالتوں میں مقدمہ نہیں کر سکتے.سو یہ قول ان کا اس حالت میں سچا ہے کہ جب ایک مقدمہ باز کسی حالت میں اپنے نقصان کا روا دار نہ ہو اور خواہ مخواہ ہریک مقدمہ میں کامیاب ہونا چاہئے مگر جو شخص صدق کو بہرحال مقدم رکھے وہ کیوں ایسا کرے گا.جب کسی نے اپنا نقصان گوارا کر لیا تو پھر وہ کیوں کذب کا محتاج ہوگا.اب یہ بھی واضح رہے کہ یہ سچ ہے کہ والد مرحوم کے وقت میں مجھے بعض اپنے زمینداری معاملات کی حق رسی کے لئے عدالتوں میں جانا پڑتا تھا مگر والد صاحب کے مقدمات صرف اس قسم کے تھے کہ بعض اسامیاں جو اپنے ذمہ کچھ باقی رکھ لیتی تھیں یا کبھی بلااجازت کوئی درخت کاٹ لیتی تھیں یا بعض دیہات کے نمبرداروں سے تعلق داری کے حقوق بذریعہ عدالت وصول کرنے پڑتے تھے اور وہ سب مقدمات بوجہ اس احسن انتظام کے کہ محاسب دیہات یعنی پٹواری کی شہادت اکثر ان میں کافی ہوتی تھی، پیچیدہ نہیں ہوتے تھے اور دروغگوئی کو ان سے کچھ تعلق نہیں تھا کیونکہ تحریراتِ سرکاری پر فیصلہ ہوتا تھا.اور چونکہ اس زمانہ میں زمین کی بے قدری تھی اس لئے ہمیشہ زمینداری میں خسارہ اُٹھانا پڑتا اور بسا اوقات کم مقدمات کاکاشتکاروں کے مقابل پر خود نقصان اُٹھا کر رعایت کرنی پڑتی تھی اور عقلمند لوگ جانتے ہیں کہ ایک دیانتدار زمیندار اپنے کاشتکاروں سے ایسا برتاؤ رکھ سکتا ہے جو بحیثیت پورے متقی اور کامل پرہیز گار کے ہو.اور زمینداری اور نیکوکاری میں کوئی حقیقی مخالفت اور ضد نہیں.بایں ہمہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد کبھی میں نے، بجز اس خط کے مقدمہ کے جس کا ذکر کرچکا ہوں، کوئی مقدمہ کیا ہو.اگر میں مقدمہ کرنے سے بالطبع متنفر نہ ہوتا (تو) میں والد صاحب کے انتقال کے بعد جو پندرہ سال کا عرصہ گذر گیا، آزادی

Page 367

قولہ: آپ نے الہامی بیٹا تولّد ہونے کی پیشگوئی کی یعنی جھوٹ بولا.اقول: آپ اپنے سفلہ پنے سے باز نہیں آتے.خدا جانے آپ کس خمیر کے ہیں.اس پیشگوئی میں کونسی دروغ کی بات نکلی.اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ پیشگوئی کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اور مر گیا تو کیا آپ یہ ثبوت دے سکتے ہیں کہ کسی الہام میں یہ مضمون درج تھا کہ وہ موعود لڑکا وہی ہے.اگر دے سکتے ہیں تو وہ الہام پیش کریں.یاد رہے کہ ایسا کوئی الہام نہیں.ہاں اگر میں نے اجتہادی طور پر کہا ہو کہ شاید یہ لڑکا وہی موعود لڑکا ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ الہام غلط نکلا؟ آپ کومعلوم نہیں کہ کبھی ملہّم اپنے الہام میں اجتہاد بھی کرتا ہے اور کبھی وہ اجتہاد خطا بھی جاتا ہے.مگر اس سے الہام کی وقعت اور عظمت میں کچھ فرق نہیں آتا.صد ہا مرتبہ ہر یک کو اتفاق پیش آتا ہے کہ ایک خواب تو سچی ہوتی ہے مگر تعبیر میں غلطی ہو جاتی ہے.یہ ہدایت اور یہ معرفت کا دقیقہ تو خاص قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے لیکن ان کیلئے جو آنکھیں رکھتے ہیں.میں ڈرتا ہوں کہ آج تو آپ نے مجھ پر اعتراض کیا، کبھی ایسا نہ ہو کہ کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کر دیں اور کہیں کہ آنجناب نے جس وحی کی تصدیق کیلئے یعنی طواف کی غرض سے دو سَو کوس کا سفر اختیار کیا تھا وہ طواف اس سال نہ ہو سکا اور اجتہادی غلطی ثابت ہوئی.افسوس! کہ فرطِ تعصب سے فَذَہَبَ وَہْلِیْ ۱؎ کی حدیث بھی آپ کو بھول گئی مجھے تو آپ کے انجام کا فکر لگا ہوا ہے.دیکھیں کہ کہاں تک نوبت پہنچتی ہے.اور لڑکے کی پیشگوئی تو حق ہے، ضرورپوری ہوگی اور آپ جیسے منکروں کو خدا تعالیٰ رُسوا کرے گا.اے دشمنِ حق! جب کہ تمام پیشگوئیوں کے مجموعی الفاظ یہ ہیںکہ بعض لڑکے فوت بھی ہونگے اور ایک لڑکا خدا تعالیٰ سے ہدایت میں کمال پائے گا تو پھر آپ کا اعتراض اس بات پر کھلی کھلی دلیل ہے کہ اَب آپ کا باطن مسخ شدہ ہے.یہ تو یہودیوں کے علماء کا آپ نے نقشہ اُتار دیا.اب آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے.قولہ: اس سے ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بندوں پر جھوٹ بولنے میں دلیر ہو وہ خدا پر جھوٹ بولنے سے کیونکر رُک سکتا ہے.اقول: ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی فطرت ان الزامات سے خالی نہیں جن کو آپ ۱؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۳۴۲۵ و بخاری کتاب التعبیر باب اذارای بقراً تنحر حدیث نمبر۶۶۲۹

Page 368

کے والد صاحب، جِنّ کے بعض خطوط آپ کی فطرت اور آپ کے اوصافِ حمیدہ کے متعلق پاس بھی غالباً کسی بستہ میں پڑے ہوئے ہونگے، بزبانِ خودمشہور کر گئے ہیں.٭ اے نیک بخت! اوّل ثابت تو کیا ہوتا کہ فلاں فلاں شخص کے رُوبرو اس عاجز نے کبھی جھوٹ بولا تھا.اپنے التزام صدق کی جو میں نے نظیریں پیش کی ہیں ان کے مقابل پر بھلا کوئی نظیر پیش کرو تا آپ کا منہ اس لائق ٹھہرے کہ آپ اس شخص کی نکتہ چینی کر سکو جو سخت امتحان کے وقت صادق نکلا اور صدق کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.میں حیران ہوں کہ کونسا جن آپ کے سر پر سوار ہے جو آپ کی پردہ دری کرا رہا ہے.آخر میں یہ بھی آپ کو یاد رہے کہ یہ آپ کا سراسر افتراء ہے کہ الہام کَلْبٌ یَّمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ۱؎ کو اپنے اوپر وارد کر رہے ہیں.میں نے ہرگز کسی کے پاس یہ نہیں کہا کہ اس کامصداق آپ ہیں اور جو بعض درشت کلمات کی آپ شکایت کرتے ہیں، یہ بھی بے جا ہے.آپ کی سخت بدزبانیوں کے جواب میں آپ کے کافر ٹھہرانے کے بعد، آپ کے دجّال اور شیطان اور کذاب کہنے کے بعد اگر ہم نے آپ کی موجودہ حالت کے مناسب آپ کو کچھ حق حق کہہ دیاتو کیا بُرا کیا آخر  ۲؎ کا بھی تو ایک وقت ہے.آپ کا یہ خیال کہ گویا یہ عاجز براہین احمدیہ کی فروخت میں دس ہزار روپیہ لوگوں سے لے کر خوردبرد کر گیا ہے یہ اس شیطان نے آپ کو سبق دیا ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے.آپ کو کیونکر معلوم ہو گیا کہ میری نیت میں براہین کا طبع کرنا نہیں.اگر براہین طبع ہو کر شائع ہوگئی تو کیا اس دن شرم کا تقاضا نہیںہوگا کہ آپ غرق ہو جائیں؟ ہر یک دیر بدظنی پر مبنی نہیںہو سکتی اور میں نے تو اشتہار بھی دے دیا تھا کہ ہریک مستعجل اپنا روپیہ واپس لے سکتا ہے اور بہت سا روپیہ ٭نوٹ: آپ کو اس عاجز کے وہ احسانات بھول گئے جبکہ میں آپ کے والد صاحب کو آپ کی پردہ دری سے روکتا رہا.آپ خوب جانتے ہیں کہ میں نے اُس سچے الزام کو کبھی پسند نہیں کیا جو آپ کے والد صاحب آپ کی نسبت اخباروں میں شائع کرانا چاہتے تھے اور میں آپ کی پردہ پوشی اور صفوتِ فطرت کا ہمیشہ حامی رہا اور انہیں روکتا رہا.لیکن میرے احسان کا آپ نے یہ بدلہ دیا کہ میں نے تو سچے الزاموں سے آپ کو بچایا مگر آپ نے بحسب تقاضائے فطرت مبارکہ دروغ گوئی کا الزام میرے پر لگایا.اب مجھے یقین ہوا کہ آپ کے والد صاحب بے شک سچے تھے.منہ ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۱۴۵ ۲؎ التَّوبۃ: ۷۳

Page 369

واپس بھی کر دیا.قرآن کریم جس کی خلق اللہ کو بہت ضرورت تھی اور جو لوحِ محفوظ میں قدیم سے جمع تھا.تئیس سال میں نازل ہوا اور آپ جیسے بدظنیوں کے مارے ہوئے اعتراض کرتے رہے.کہ ۱؎ قولہ: جب سے آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مشتہر کیا ہے اس دن سے آپ کی کوئی تحریر، کوئی تقریر، کوئی خط، کوئی تصنیف جھوٹ سے خالی نہیں.اقول: اے شیخ نامہ سیاہ! اس دروغ بے فروغ کے جواب میں کیا کہوں اور کیا لکھوں.خدا تعالیٰ تجھ کو آپ ہی جواب دیوے کہ اب ُتو حد سے بڑھ گیا.اے بدقسمت انسان! ُتو ان بہتانوں کے ساتھ کب تک جئے گا.کب تک تُو اس لڑائی میں جو خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے، موت سے بچتا رہے گا.اگر مجھ کو ُتو نے یا کسی نے اپنی نابینائی سے دروغ گو سمجھا تو یہ کچھ نئی بات نہیں.آپ کے ہم خصلت ابوجہل اور ابولہب بھی خدا تعالیٰ کے نبی صادق کو کذّاب جانتے تھے.انسان جب فرطِ تعصب سے اندھا ہو جاتا ہے تو صادق کی ہر ایک بات اس کو کذب ہی معلوم ہوتی ہے لیکن خدائے تعالیٰ صادق کا انجام بخیر کرتا ہے اور کاذب کے نقشِ ہستی کو مٹا دیتا ہے. ۲؎ قولہ: (آپ نے) بحث سے گریز کر کے انواع اتہام اور اکاذیب کا اشتہار دیا.اقول: یہ سب آپ کے دروغ بے فروغ ہیں جو بباعث تقاضائے فطرت بے اختیار آپ کے منہ سے نکل رہے ہیں ورنہ جو لوگ میری اور آپ کی تحریروں کو غور سے دیکھتے ہیں وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا اِتہام اور کذب اور گریز اس عاجز کا خاصہ ہے یا خود آپ ہی کا.چالاکی کی باتیں اگر آپ نہ کریں تو اور کون کرے.ایک تو قانون گو شیخ ہوئے دوسرے، چار حرف پڑھنے کا دماغ میں کیڑا.مگر خوب یاد رکھو وہ دن آتا ہے کہ خود خداوند تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ ہم دونوں میں سے کون کاذب اور مفتری اور خدا تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اور رُسوا ہے اور کس کی خداوند کریم آسمانی تائیدات سے عزت ظاہر کرتا ہے.ذرہ صبر کرو اور انجام کو دیکھو.قولہ: آپ میں رحمت اور ہمدردی کا شمہ اثر بھی ہوتا تو جس وقت میں نے آپ کے دعویٰ مسیحائی سے اپنا خلاف ظاہر کیا تھا آپ فوراً مجھے اپنی جگہ بلاتے یا غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماتے.۱؎ الفرقان: ۳۳ ۲؎ النحل: ۱۲۹

Page 370

اقول: اے حضرت! آپ کو آنے سے کس نے منع کیا تھا؟ یا میری ڈیوڑھی پر دربان تھے جنہوں نے اندر آنے سے روک دیا؟ کیا پہلے اس سے آپ پوچھ پوچھ کر آیا کرتے تھے؟ آپ کے تو والد صاحب بھی بیماری اور تپ کی حالت میں بھی بٹالہ سے افتاں خیزاں میرے پاس آجاتے تھے پھر آپ کو نئی روک کونسی پیش آ گئی تھی؟ اور جب کہ آپ اپنے ذاتی بخل اور ذاتی حسد اور شیخ نجدی کے خصائل اور کبر اور نخوت کو کسی حالت میں چھوڑنے والے نہیں تھے تو میں آپ کو اپنے مکان پر بلا کر کیا ہمدردی اور رحمت کرتا؟ ہاں! میں نے آپ کے مکان پر بھی جانا خلافِ مصلحت سمجھا کیونکہ میں نے آپ کے مزاج میں کبر اور نخوت کا مادہ معلوم کر لیا تھا اور میرے نزدیک یہ قرینِ مصلحت تھا کہ آپ کو ایک مسہل دیا جائے اور جہاں تک ہو سکے وہ مادہ آپ کے اندر سے باستیفا نکال دیا جائے.سو اب تک تو کچھ تخفیف معلوم نہیں ہوتی.خدا جانے کس غضب کا مادہ آپ کے پیٹ میں بھرا ہوا ہے.اور اللہ شانہٗ جانتا ہے کہ میں نے آپ کی بدزبانی پر بہت صبر کیا.بہت ستایا گیا اور آپ کو روکے گیا اور اب بھی آپ کی بدگوئی اور تکفیر اور تفسیق پر بہرحال صبر کر سکتا ہوں لیکن بعض اوقات محض اس نیت سے پیرایہ درشتی آپ کی بدگوئی کے مقابلہ میں اختیار کرتا ہوں کہ تا وہ مادہ خبث کہ جو مولویت کے باطل تصور سے آپ کے دل میں جما ہوا ہے اور جِنّ کی طرح آپ کو چمٹا ہوا ہے.وہ بکلّی نکل جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں اور خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ میں علیٰ وجہ البصیرت یقین رکھتا ہوں کہ آپ صرف استخوان فروش ہیں اور علم اور درایت اور تفقّہ سے سخت بے بہرہ اور ایک غبی اور بلید آدمی ہیں جن کو حقائق اور معارف کے کوچہ کی طرف ذرہ بھی گزر نہیں اور ساتھ اس کے یہ بلا لگی ہوئی ہے کہ ناحق کے تکبر اور نخوت نے آپ کو ہلاک ہی کر دیا ہے.جب تک آپ کو اپنی اس جہالت پر اطلاع نہ ہو اور دماغ سے غرور کا کیڑا نہ نکلے تب تک آپ نہ کوئی دنیا کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں نہ دین کی.آپ کا بڑا دوست وہ ہوگا جو اس کوشش میں لگا رہے جو آپ کی جہالتیں اور نخوتیں آپ پر ثابت کرے.میں نہیں جانتا کہ آپ کو کس بات پر ناز ہے.شرمناک فطرت کے ساتھ اور اس موٹی سمجھ اور سطحی خیال پر یہ تکبر اور یہ ناز نعوذ باللّٰہ من ھذہ الجھالۃ والحمق و ترک الحیاء والسخافۃ والضلالۃ.اور آپ کا یہ خیال کہ میں نے اب فساد کیلئے خط بھیجا ہے تا کہ بٹالہ کے مسلمانوں میں پھوٹ پڑے.عزیز من! یہ آپ کے فطرتی توہمات ہیں.میں نے پھوٹ کیلئے نہیں بلکہ آپ کی حالتِ زار پر

Page 371

رحم کر کے خط بھیجا تھا تا آپ تحت الثریٰ میں نہ گر جائیں اور قبل از موت حق کو سمجھ لیں.مسلمانوں میں تفرقہ اور فتنہ ڈالنا تو آپ ہی کا شیوہ ہے یہی تو آپ کا مذہب اور طریق ہے.جس کی وجہ سے آپ نے ایک مسلمان کو کافر اور بے ایمان اور دجال قرار دیا اور علماء کو دھوکے دے کر تکفیر کے فتوے لکھوائے اور اپنے استاد نذیر حسین پر موت کے دنوں کے قریب یہ احسان کیا کہ اس کے مونہہ سے کلمہ تکفیر کہلوایا اور اس کی پیرانہ سالی کے تقویٰ پر خاک ڈالی.آفرین باد بریںہمت مردانۂ ُتو! نذیر حسین تو اَرذلِ عمر میں مبتلا اور بچوں کی طرح ہوش و حواس سے فارغ تھا.یہ آپ ہی نے شاگردی کاحق ادا کیا کہ اس کے اخیروقت اور لب بام ہونے کی حالت میں ایسی مکروہ سیاہی اس کے مونہہ پر مل دی کہ اب غالباً وہ گور میں ہی اُس سیاہی کو لے جائے گا.خدا تعالیٰ کی درگاہ خالہ جی کا گھر نہیں ہے.جو شخص مسلمان کو کافر کہتا ہے اس کو وہی نتائج بھگتنے پڑیں گے جن کا ناحق کے مکفّرین کیلئے اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ دے رکھا ہے.جو ایسا عدل دوست تھا جس نے ایک چور کی سفارش کے وقت سخت ناراض ہو کر فرمایا تھا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا.قولہ: (اس صورت میں قادیان پہنچ سکتا ہوں) کہ مسلمانوں پر آپ کا جھوٹ اور فریب کھولوں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آپ میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.اقول: اب آپ کسی حیلہ و بہانہ سے گریز نہیں کر سکتے.اب تو دس لعنتیں آپ کی خدمت میں نذر کر دی ہیں اور اللہ جلّشانہٗ کی قسم بھی دی ہے کہ آپ آسمانی طریق سے میرے ساتھ صدق اور کذب کا فیصلہ کر لیں.اگر آپ مجھ کو جھوٹا سمجھنے میں سچے ہیں تو میری اس بات کو سنتے ہی مقابلہ کیلئے کھڑے ہو جائیں گے ورنہ ان تمام لعنتوں کو ہضم کر جائیں گے اور کچے اور بیہودہ عذرات سے ٹال دیں گے.اور میں آپ کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا.ایک ہی ہے جو آپ کو در حالت نہ باز آنے کے ہلاک کرے گا اور اپنے دین کو آپ کے اس فتنہ سے نجات دے گا اور آپ کے قادیان آنے کی کچھ ضرورت نہیں.اگر آپ اللہ اور رسول کے نشان کے موافق آزمائش کیلئے مستعد ہوں تو میں خود بٹالہ اور امرتسر اور لاہور میں آ سکتا ہوں.تا سیاہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد.۱؎ ۱؎ آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۰۴ تا ۳۱۰

Page 372

مکتوب نمبر۲۱ جواب الجواب شیخ بٹالوی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ .۱؎ اما بعد.آپ کا رجسٹری شدہ خط مؤرخہ ۴؍جنوری ۱۸۹۳ء کو مجھ کو ملا.اگرچہ آپ کا یہ خط جو کذب اور تہمت اوربے جا افتراؤں کا ایک مجموعہ ہے اس لائق نہیں تھا کہ میں اس کا کچھ جواب آپ کو لکھتا ،فقط اعراض کافی تھا لیکن چونکہ آپ نے اپنے خط کے صفحہ دو اور تین میں اس عاجز کی تین پیشگوئیوں کا ذکر کر کے بالآخر اس تیسری پیشگوئی پر حصر کر دیا ہے جو نور افشاں دہم مئی ۱۸۸۸ء اور نیز میرے اشتہار مشتہرہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں درج ہے اور آپ نے اقرار کیا ہے کہ اگر اس الہام کا سچا ہونا ثابت ہو جائے تومیں آپ کو ملہم مان لوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ میں نے آپ کے عقائد و تعلیمات کو مخالف حق اور آپ کو بداخلاق اور گمراہ سمجھنے میں غلطی کی.اس لئے اس عاجز نے پھر آپ کی حالت پر رحم کر کے آپ کو اس الہامی پیشگوئی کے ثبوت کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھا.وہ پیشگوئی جیسا کہ آپ خود اپنے خط میں بیان کر چکے ہیں.یہی تھی کہ اگر مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری اپنی بیٹی اس عاجز کو نہ دیوے اور کسی سے نکاح کر دیوے تو روز نکاح سے تین برس کے اندر فوت ہو جائے گا.اس پیشگوئی کی یہ بنیاد نہیں تھی کہ خواہ نخواہ مرزا احمد بیگ کی بیٹی کی درخواست کی گئی تھی بلکہ یہ بنیاد تھی کہ یہ فریق مخالف جن میں سے مرزا احمد بیگ بھی ایک تھا.اس عاجز کے قریبی رشتہ دار مگر دین کے سخت مخالف تھے اور ایک ان میں سے عداوت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اللہ جلّشانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیتا تھا اور اپنا مذہب دہریہ رکھتا تھا اور نشان کے طلب کے لئے ایک اشتہار بھی جاری کر چکا تھا اور یہ سب مجھ کو مکّار خیال کرتے تھے اور نشان مانگتے تھے اور صوم و صلوٰۃ اور عقائد اسلام پر ٹھٹھا کیا کرتے تھے.سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ ان پراپنی حجت پوری کرے.سو اس نے نشان دکھلانے میں وہ پہلو اختیار کیا ۱؎ النَّمل: ۶۰

Page 373

جس کا ان تمام بے دین قرابتیوں پر اثر پڑتا تھا.خدا ترس آدمی سمجھ سکتا ہے کہ موت اور حیات انسان کے اختیار میں نہیں اور ایسی پیشگوئی جس میں ایک شخص کی موت کو اس کی بیٹی کے نکاح کے ساتھ، جو غیر سے ہو، وابستہ کر دیا گیا اور موت کی حد مقرر کر دی گئی.انسان کا کام نہیں ہے.چونکہ یہ الہامی پیشگوئی صاف بیان کر رہی تھی کہ مرزا احمد بیگ کی موت اور حیات اس کی لڑکی کے نکاح سے وابستہ ہے اس لئے پانچ برس تک یعنی جب تک اس لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح نہ کیا گیا، مرزا احمد بیگ زندہ رہا اور پھر ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء میں احمد بیگ نے اس لڑکی کا ایک جگہ نکاح کر دیا اور بموجب پیشگوئی کے تین برس کے اندر یعنی نکاح کے چھٹے مہینہ میں جو ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء تھی، فوت ہو گیا.اور اسی اشتہار میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگرچہ روزِ نکاح سے موت کی تاریخ تین برس تک بتلائی گئی ہے مگر دوسرے کشف سے معلوم ہوا کہ کچھ بہت عرصہ نہیں گذرے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نکاح اور موت میں صرف چھ مہینہ بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہا.یعنی جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء میں نکاح ہوا اور ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو مرزا احمد بیگ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا.اب ذرا خدا تعالیٰ سے ڈر کر کہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی یا نہیں؟ اور اگر آپ کے دل کو یہ دھوکہ ہو کہ کیونکر یقین ہو کہ یہ الہامی پیشگوئی ہے؟ کیوں جائز نہیں کہ دوسرے وسائل نجوم و رمل و جفر وغیرہ سے ہو؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ منجموں کی اس طور کی پیشگوئی نہیں ہوا کرتی جس میں اپنے ذاتی فائدہ کے لحاظ سے اس طور کی شرطیں ہوں کہ اگر فلاں شخص ہمیں بیٹی دے تو زندہ رہے گا ورنہ نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ بہت جلد مر جائے گا.اگر دنیا میں کسی منجم یا رمّال کی اس قسم کی پیشگوئی ظہور میں آئی ہے تو وہ اس کے ثبوت کے ساتھ پیش کریں.علاوہ اس کے اس پیشگوئی کے ساتھ اشتہار میں ایک دعویٰ پیش کیا گیا ہے یعنی یہ کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہوں اور مامور من اللہ ہوں اور میری صداقت کا نشان یہ پیشگوئی ہے.اب آپ اگر کچھ بھی اللہ شانہٗ کا خوف رکھتے ہیں تو سمجھ سکتے کہ ایسی پیشگوئی جو منجانب اللہ ہونے کیلئے بطور ثبوت کے پیش کی گئی ہے، اسی حالت میں سچی ہو سکتی تھی کہ جب درحقیقت یہ عاجز منجانب اللہ ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک مفتری کی پیشگوئی کو جو ایک جھوٹے دعویٰ کے لئے بطور شاہد صدق بیان کی گئی.ہرگز سچی نہیں کر سکتا ،وجہ یہ کہ اس میں خلق اللہ کو دھوکا لگتا ہے.جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ خود مدعی صادق کیلئے یہ علامت قرار

Page 374

دے کر فرماتا ہے ۱؎ اور فرماتا ہے .۲؎ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں.پس اس پیشگوئی کے الہامی ہونے کے لئے ایک مسلمان کے لئے یہ دلیل کافی ہے جو منجانب اللہ ہونے کے دعویٰ کے ساتھ یہ پیشگوئی بیان کی گئی اور خدا تعالیٰ نے اس کو سچی کر کے دکھلا دیا.اور اگر آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دراصل مفتری ہو اور سراسر دروغ گوئی سے کہے کہ میں خلیفۃ اللہ اور مامور من اللہ اور مجدّدِ وقت اور مسیح موعود ہوں اور میرے صدق کا نشان یہ ہے کہ اگر فلاں شخص مجھے اپنی بیٹی نہیں دے گا اور کسی دوسرے سے نکاح کر دے گا تو نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ اس سے بہت قریب فوت ہو جائے گا اور پھر ایسا ہی واقعہ ہو جائے تو برائے خدا اس کی نظیر پیش کرو، ورنہ یاد رکھو کہ مرنے کے بعد اس انکار اور تکذیب اور تکفیر سے پوچھے جاؤ گے.خدا تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ۳؎ سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنی ہیں جو شخص اپنے دعویٰ میں کاذب ہو، اس کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی.شیخ صاحب! اب وقت ہے سمجھ جاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شیخی پیش نہیں جائے گی اور اگر کوئی نجومی یا رمّال یا جفری اس عاجز کی طرح دعویٰ کر کے کوئی پیشگوئی دکھلا سکتا ہے تو اس کی نظیر پیش کرو اور چند اخباروں میں درج کرا دو.اور یاد رکھو کہ ہر گز پیش نہیں کر سکو گے اور ایسا نجومی ہلاک ہوگا.خدا تعالیٰ تو اپنے نبی کو فرماتا ہے کہ اگر وہ ایک قول بھی اپنی طرف سے بناتا تو اس کی رگِ جان قطع کی جاتی.پھر یہ کیونکر ہو کہ بجائے رگِ جان قطع کی جانے کے اللہ شانہٗ اس عاجز کو جو آپ کی نظر میں کافر، مفتری، دجال، کذاب ہے، دشمنوں کے مقابل پر یہ عزت دے کہ تائید دعویٰ میں پیشگوئی پوری کرے.کبھی دنیا میں یہ ہوا ہے کہ کاذب کی خدا تعالیٰ نے ایسی مدد کی ہو؟ کہ وہ گیارہ برس سے خدا تعالیٰ پر یہ افترا کر رہا ہو کہ اس کی وحی ولایت اور وحی محدثیت میرے پر نازل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی رگِ جان نہ کاٹے بلکہ اس کی پیشگوئیوں کو پورا کر کے آپ جیسے دشمنوں کو منفعل اور نادم اور لاجواب کر ے اور آپ کی کوشش کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ کی تکفیر سے پہلے تو کل پچہتر آدمی سالانہ جلسہ میں شریک ہوں اور بعد آپ کی تکفیر اورجانکاہی اور لوگوں کے ۱؎ المؤمن: ۲۹ ۲؎ الجنّ: ۲۷، ۲۸ ۳؎ المؤمن: ۲۹

Page 375

روکنے کے تین سَو ستائیس احباب اور مخلص جلسہ اشاعت حق پر دوڑے آویں.اب اس سے زیادہ کیا لکھوں.میں اس خط کو انشاء اللہ چھاپ کر شائع کر دوں گا اور مجھے اس بات کی ضرورت نہیں کہ اس الہامی پیشگوئی کی آزمائش کے لئے بٹالہ میں کوئی مجلس مقرر کروں.مناسب ہے کہ آپ بھی اپنے اشاعۃ السنہ میں میرے اس خط کو شائع کر دیں اور یہ بات بھی ساتھ لکھ دیں کہ اب آپ کو قبول کرنے میں کیا عذر ہے؟ خود منصف لوگ دیکھ لیں گے کہ وہ عذر صحیح یا غلط ہے.مکرر یہ کہ اللہ جلشانہٗ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں، نہ مفتری ہوں نہ دجال نہ کذاب.اس زمانہ میں کذاب اور دجال اور مفتری پہلے اس سے کچھ تھوڑے نہیں تھے تا خدا تعالیٰ صدی کے سر پر بھی بجائے ایک مجدد کے جو اس کی طرف سے مبعوث ہو، ایک دجال کو قائم کرکے اور بھی فتنہ اور فساد ڈال دیتا.مگر جو لوگ سچائی کو نہ سمجھیں اور حقیقت کو دریافت نہ کریں اور تکفیر کی طرف دوڑیں، میںان کا کیا علاج کروں.میں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے، اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گیں ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا! اے ہادی اور رہنما! ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش.اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی کیونکہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کی طرف بلاتا ہوں.یہ سچ ہے کہ اگر میں اس کی طرف سے نہیں ہوں اور ایک مفتری ہوں تو وہ بڑے عذاب سے مجھ کو ہلاک کرے گا کیونکہ وہ مفتری کو کبھی وہ عزت نہیں دیتا کہ جو صادق کو دی جاتی ہے.میں نے جو ایک پیشگوئی، جس پر آپ نے میرے صادق اور کاذب ہونے کا حصر کر دیا، آپ کی خدمت میں پیش کی ہے.یہی میرے صدق اور کذّب کی شناخت کے لئے ایک کافی شہادت ہے.کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کذاب اور مفتری کی مدد کرے.لیکن ساتھ اس کے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے متعلق دوپیشگوئی اور ہیں.جن کو میں اشتہار ۱۰؍ جولائی۱۸۸۸ء میں شائع کر چکا ہوں، جن کا مضمون یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اس عورت کو بیوہ کر کے میری طرف ردّ کرے گا.اب انصاف سے دیکھیں کہ نہ کوئی انسان اپنی حیات پر اعتماد کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی نسبت دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا یا فلاں وقت تک مر جائے گا مگر میری اس پیشگوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعویٰ ہیں.اوّل نکاح کے وقت تک

Page 376

میرا زندہ رہنا.دوم نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا.سوم پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا.چہارم اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا.پنجم اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا.ششم پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا.اب آپ ایماناً کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں؟ اور ذرہ اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیشگوئی سچے ہو جانے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہے.پھر اگر اس پیشگوئی پر جو لڑکی کے باپ کے متعلق ہے جو ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو پوری ہوگئی آپ کا دل نہیں ٹھہرتا؟ تو آپ اشاعۃ السنہ میں ایک اشتہار حسب اپنے اقرار کے دے دیں کہ اگر یہ دوسری پیشگوئیاں بھی پوری ہوگئیں تو اپنے ظنونِ باطلہ سے توبہ کروں گا اور دعویٰ میں سچا سمجھ لوں گا اور ساتھ اس کے خدا تعالیٰ سے ڈر کر یہ بھی اقرار کردیں کہ ایک تو ان میں سے پوری ہوگئی اور اگر اس پیشگوئی کے پورا ہو جانے کا آپ کے دل میں زیادہ اثر نہ ہو تو اس قدر تو ضرور چاہیے کہ جب تک اخیر ظاہر نہ ہو، کفِّ لسان اختیار کریں.جب ایک پیشگوئی پوری ہوگئی تو اس کی کچھ تو ہیبت آپ کے دل پر چاہیے.آپ تو میری ہلاکت کے منتظر اور میری رُسوائی کے دنوں کے انتظار میں ہیں اور خدا تعالیٰ میرے دعویٰ کی سچائی پر نشان ظاہر کرتا ہے.اگر آپ اب بھی نہ مانیں تو میرا آپ پر زور ہی کیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ انسان اپنے اوائل ایام انکار میں بباعث کسی اشتباہ کے معذور ٹھہر سکتا ہے لیکن نشان دیکھنے پر ہرگز معذور نہیں ٹھہر سکتا.کیا یہ پیشگوئی جو پوری ہوگئی کوئی ایسا اتفاقی امر ہے جس کی خدا تعالیٰ کو کچھ بھی خبر نہیں.کیا بغیر اس کے علم اور ارادہ کے ایک دجال کی تائید میں خود بخود یہ پیشگوئی وقوع میں آگئی؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مدعی کاذب کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی.یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی توریت کی.اگر آپ میںانصاف کا کچھ حصہ ہے اور تقویٰ کا کچھ ذرّہ ہے تو اب زبان کو بند کر لیں.خدا تعالیٰ کا غضب آپ کے غضب سے بہت بڑا ہے. ۱؎ والسلام علی من اتبع الھدی وما استکبرو ما ابٰی عاجز.غلام احمد عفی اللہ عنہ ۱؎ النِّسآء: ۱۴۸ ، آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۱۹ تا ۳۲۶

Page 377

مکتوب نمبر۲۲ ایک روحانی نشان جس سے ثابت ہوگا کہ یہ عاجز صادق اور خدا تعالیٰ سے مُؤَیّد ہے یا نہیں اور شیخ محمد حسین بٹالوی اس عاجز کو کاذب اور دجال قرار دینے میں صادق ہے یا خود کاذب اور دجال ہے عاقل سمجھ سکتے ہیں کہ منجملہ نشانوں کے، حقائق اور معارف اور لطائف حکمیہ کے بھی نشان ہوئے ہیں جو خاص ان کو دیئے جاتے ہیں جو پاک نفس ہوں اور جن پر فضل عظیم ہو جیسا کہ آیت ۱؎ اور آیت ۲؎ بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے.سو یہی نشان میاں محمد حسین کے مقابل پر میرے صدق اور کذب کے جانچنے کے لئے کھلی کھلی نشانی ہو گی اور اس فیصلہ کے لئے اَحسن انتظام اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مختصر جلسہ ہو کر منصفان تجویز کردہ اس جلسہ کے چند سورتیں قرآن کریم کی جن کی عبارت اسّی۸۰ آیت سے کم نہ ہو.تفسیر کے لئے منتخب کر کے پیش کر یں اور پھر بطور قرعہ اندازی کے ایک سورۃ اُن میں سے نکال کر اسی کی تفسیر معیار امتحان ٹھہرائی جائے او راس تفسیر کے لئے یہ امر لازمی ٹھہرایا جاوے کہ بلیغ فصیح زبان عربی اور مقفّٰی عبارت میں قلمبند ہو اور دس جزو سے کم نہ ہو، اور جس قدر اس میں حقائق اورمعارف لکھے جائیں وہ نقل عبارت کی طرح نہ ہو بلکہ معارف جدیدہ اور لطائف غریبہ ہوں.جوکسی دوسری کتاب میں نہ پائے جائیں اور بایں ہمہ اصل تعلیم قرآنی سے مخالف نہ ہوں بلکہ ۱؎ الواقعۃ: ۸۰ ۲؎ البقرۃ: ۲۷۰

Page 378

ان کی قوت اور شوکت ظاہر کرنے والے ہوں٭ اور کتاب کے آخر میں سو شعر لطیف بلیغ اور فصیح عربی میں نعت اور مدح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بطور قصیدہ درج ہوں اور جس بحر میں وہ شعر ہونے چاہئیں وہ بحر بھی بطور قرعہ اندازی کے اسی جلسہ میں تجویز کیا جائے اور فریقین کو اس کام کے لئے چالیس دن کی مہلت دی جائے اور چالیس دن کے بعد جلسہ عام میں فریقین اپنی اپنی تفسیر اور اپنے اپنے اشعار جو عربی میں ہوں گے سنا دیں.پھر اگر یہ عاجز شیخ محمد حسین بٹالوی سے حقائق اور معارف کے بیان کرنے اور عبارت عربی فصیح و بلیغ اور اشعار آبدار مدحیہ کے لکھنے میں قاصر اورکم درجہ پررہا یا یہ کہ شیخ محمد حسین اس عاجز سے برابر رہا تو اسی وقت یہ عاجز اپنی خطا کا اقرار کرے گا اور اپنی کتابیں جلا دے گا اور شیخ محمد حسین کا حق ہو گاکہ اس وقت اس عاجز کے گلے میں رسّہ ڈال کر یہ کہے کہ اے کذّاب! اے دجال! اے مفتری! آج تیری رُسوائی ظاہر ہوئی.اب کہاں ہے وہ جس کو ُتو کہتا تھا کہ میرا مددگار ہے.اب تیرا الہام کہاں ہے اور تیرے خوارق کدھر چھپ گئے.لیکن اگر یہ عاجز غالب ہو اتو پھر چاہیے کہ میاں محمد حسین اسی مجلس میں کھڑے ہوکر ان الفاظ سے توبہ کر ے کہ اے حاضرین! آج میری رو سیاہی ایسی کھل گئی کہ جیسا آفتاب کے نکلنے سے دن کھل جاتا ہے اور اب ثابت ہوا کہ یہ شخص حق پر ہے اور میں ہی دجال تھا اور میں ہی کذاب تھا اور میں ہی کافر تھا اور میں ہی بے دین تھا اور اب میں توبہ کرتا ہوں.سب گواہ رہیں.بعد اس کے اسی مجلس میں اپنی کتابیں جلا دے اور ادنیٰ خادموں کی طرح پیچھے ہو لے.۱؎ صاحبو! یہ طریق فیصلہ ہے جو اس وقت میں نے ظاہر کیا ہے.میاں محمد حسین کو اس پر سخت اصرار ہے کہ یہ عاجز عربی علوم سے بالکل بے بہرہ اور کو دّن اور نادان اور جاہل ہے۲؎.اور علم قرآن سے ٭ اگر کسی کے دل میںیہ خدشہ گذرے کہ ایسے جدید حقائق و معارف جو پہلی تفاسیر میں نہ ہوں وہ کیونکر تسلیم کئے جا سکتے ہیں اور وہ انہیں پہلی ہی تفاسیر میں محدود کرے تو اُسے مناسب ہے کہ عبارت ذیل کو ملاحظہ کرے.’’ثم رایتُ کلَّ اٰیۃٍ وکلّ حدیثٍ بحرا مواجا فیہ من اسرارٍ مالوکتبت شرحُ سرٍّ وَاحدٍ منھا فی مجلدات لما احاطتہٗ ورئیت الاسرارَ الخفیۃَ مبتذلۃً فی اشارات القران والسنّۃ فقضیتُ العجبَ کلَّ العجب’’ (فیوض الحرمین.صفحہ۴۲ (تصنیف حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی) ۱؎ شیخ بٹالوی کو اختیار ہوگا کہ میاں شیخ الکل اور دوسرے تمام متکبر ملاّؤں کو ساتھ ملا لے.منہ ۲؎ دیکھو ان کا فتویٰ نمبر۴ جلد۱۳ صفحہ۱۱۵

Page 379

بالکل بے خبر ہے اور خدا ئے تعالیٰ سے مدد پانے کے تولائق ہی نہیں.کیونکہ کذّاب اور دجال ہے اور ساتھ اس کے ان کو اپنے کمال علم اور فضل کا بھی دعویٰ ہے کیونکہ ان کے نزدیک حضرت مخدوم مولوی حکیم نورالدین صاحب جو اس عاجز کی نظر میں علامہ عصر اور جامع علوم ہیں.صرف ایک حکیم اور اخویم مکرم مولوی سید محمد احسن صاحب جو گویا علم حدیث کے ایک پتلے ہیں صرف ایک منشی ہیں.پھر باوجود ان کے اس دعوے کے اور میرے اس ناقص حال کے جس کو وہ بار بار شائع کر چکے ہیں، اس طریق فیصلہ میں کون سا اشتباہ باقی ہے اور اگروہ اس مقابلہ کے لائق نہیں اور اپنی نسبت بھی جھوٹ بولا ہے اور میری نسبت بھی.اور میرے معظم اور مکرم دوستوں کی نسبت بھی تو پھر ایسا شخص کسی قدر سزا کے لائق ہے کہ کذّاب اور دجال تو آپ ہو اور دوسروں کو خواہ نخواہ دروغ گو کر کے مشتہر کرے اوریہ بات بھی یاد رہے کہ یہ عاجز در حقیقت نہایت ضعیف اور ہیچ ہے گویا کچھ بھی نہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ متکبر کا سر توڑے اور اس کو دکھاوے کہ آسمانی مدد اس کا نام ہے.چند ماہ کا عرصہ ہوا ہے جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں کہ ایک مضمون میں نے میاں محمد حسین کا دیکھا جس میں میری نسبت لکھا ہوا تھا کہ یہ شخص کذّاب اور دجال اور بے ایمان اور بایں ہمہ سخت نادان اور جاہل اور علومِ دینیہ سے بے خبر ہے.تب میں جنابِ الٰہی میں رویا کہ میری مدد کر تو اس دُعا کے بعد الہام ہواکہ۱؎ ْ یعنی دُعا کرو کہ میں قبول کروں گا.مگر میں بالطبع نافر تھا کہ کسی کے عذاب کے لئے دُعا کروں.آج جو ۲۹؍ شعبان ۱۳۱۰ھ ہے.اس مضمون کے لکھنے کے وقت خدا تعالیٰ نے دعا کے لئے دل کھول دیا.سو میں نے اس وقت اسی طرح سے رقّتِ دل سے اس مقابلہ میں فتح پانے کے لئے دعا کی اور میرا دل کھل گیا اور میں جانتا ہوں کہ قبول ہو گئی اور میں جانتا ہوں کہ وہ الہام جو مجھ کومیاں بٹالوی کی نسبت ہو اتھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ ۲؎ وہ اسی موقعہ کے لئے ہوا تھا.میںنے اس مقابلہ کے لئے چالیس دن کا عرصہ ٹھہرا کر دعا کی ہے اور وہی عرصہ میری زبان پر جاری ہوا.اب صاحبو! اگر میںاس نشان میں جھوٹا نکلا یا میدان سے بھاگ گیا یا کچے بہانوں سے ٹال دیا تو تم سارے گواہ رہو کہ بیشک میں کذّاب اور دجال ہوں.تب میں ہر یک سزا کے لائق ٹھہروں گا.کیونکہ اس موقعہ پر ہریک پہلو سے میرا کذب ثابت ہو جائے گا اور دُعا کا ۱؎ المؤمن: ۶۱ ۲؎ تذکرہ صفحہ۱۵۷.ایڈیشن چہارم

Page 380

نامنظور ہونا کھل کر میرے الہام کا باطل ہونا بھی ہر یک پر ہویدا ہو جائے گا.لیکن اگر میاں بٹالوی مغلوب ہوگئے تو اُن کی ذلت اور رُوسیاہی اور جہالت اور نادانی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گی.اب اگروہ اس کھلے کھلے فیصلہ کو منظور نہ کریں اوربھاگ جائیں اور خطا کا اقرار بھی نہ کریں تو یقینا سمجھو کہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کی عدالت سے مندرجہ ذیل انعام ہے.(۱)  (۲)  (۳)  (۴)  (۵)  (۶)  (۷)  (۸)  (۹)  (۱۰)  تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ المشتہر مرزا غلام احمد قادیانی٭ ۳۰؍ مارچ ۱۸۹۳ء نوٹ:.اگر میاں بٹالوی اس نشان کو منظور نہ کریں اور کسی اور قسم کا نشان چاہیں تو پھر اسی کے بارے میں دعا کی جائے گی مگر پہلے اشتہارات کے ذریعہ سے شائع کر دیں کہ میں اس مقابلہ سے عاجز اور قاصر ہوں.تنبیہہ: اس کا جواب یکم اپریل سے دو ہفتہ کے اندر نہ آیا تو آپ کی گریز سمجھی جائے گی.٭ آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۰۲ تا ۶۰۴

Page 381

خمکتوب نمبر ۲۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار ۳۰؍ مارچ ۱۸۹۳ء کے جواب میں مولوی محمد حسین بٹالوی کا خط شیخ محمد حسین بٹالوی ۱۹؍ اپریل ۱۸۹۳ء تمہارے چند اوراق کتاب وساوس کے ہمدست عزیزم مرزا خدابخش اور دو رجسٹرڈ خط وصول ہوئے (۱) میں تمہاری اس کتاب کا جواب لکھنے میں مصروف تھا.اس لئے تمہارے خطوط کے جواب میں توقف ہوا.اب اس سے فارغ ہوا ہوں تو جواب لکھتا ہوں (۲) میں تمہاری ہر ایک بات کی اجابت کیلئے مستعد ہوں.(۱) مباہلہ کیلئے طیار ہوں.(۲) بالمقابلہ عربی عبارت میںتفسیر قرآن لکھنے کو بھی حاضر ہوں.میری نسبت جو تم کو منذر الہام ہوا ہے اس کی اشاعت کی اجازت دینے کو بھی مستعد ہوں.مگر ہر ایک بات کا جواب و اجابت رسالہ میں چھاپ کر مشتہر کرنا چاہتا ہوں.جو انہیں باقی ماندہ ایام اپریل میںہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ (۳) تمہارا سابق تحریرات میں یہ قید لگانا کہ دو ہفتہ میں جواب آوے اور آخری خط میں یہ لکھنا کہ ۲۰؍ اپریل تک جواب ملے ورنہ گریز مشتہر کیا جائے گا.کمال درجہ کی خفت و وقاحت ہے.اگر بعد اشتہار انکار ادھر سے اجابت کا اشتہار ہوا تو پھر کون شرمندہ ہوگا؟ (۴) ہماری طرف سے جو جواب خط نمبری ۲۱.مؤرخہ ۹؍ جنوری ۱۸۹۳ء کیلئے ایک ماہ کی میعاد مقرر ہوئی تھی.اس کا لحاظ تم نے یہ کیا کہ تیسرے مہینے کے اخیر میں جواب دیا.پھر اپنی طرف سے یہ حکومت کہ جواب دو ہفتہ یا ۲۰؍ اپریل تک آوے.کیوں موجب شرم نہ ہوئی.تم نے اپنے آپ کو کیا سمجھا ہے؟ اور اس حکومت کی کیا وجہ ہے.جن پر تم حکومت کرتے ہو.وہ تم کو دجال، کذّاب، کافر و

Page 382

زندیق سمجھتے ہیں پھر وہ ایسی حکومتوں کو کیونکر تسلیم کریں.کیا تم نے سب کو اپنا مریدہی سمجھ رکھا ہے؟ ذرا عقل سے کام لو.کچھ تو شرم کرو.دین سے تعلق نہیں رہا تو کیا دنیا سے بھی بے تعلق ہو؟ اس خط کی رسید ڈاکخانہ سے لی گئی ہے.وصولی سے انکار کرو گے تو وہ رسید تمہاری مکذّب ہوگی.ابوسعید محمد حسین عفا اللہ عنہ ایڈیٹر اشاعۃ السنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب آپ کاخط دوسری شوال ۱۳۱۰ھ کو مجھ کو ملا.الحمدللہ والمنتہ کہ آپ نے میرے اشتہار مؤرخہ ۳۰؍مارچ ۱۸۹۳ء کے جواب میں بذریعہ اپنے خط ۱۸؍اپریل ۱۸۹۳ء کے مجھ کو مطلع کیا کہ میں بالمقابلہ عربی عبارت میں تفسیر قرآن لکھنے کو حاضر ہوں.خاص کر مجھے اس سے بہت ہی خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنے خط کی دفعہ ۲ میں صاف لکھ دیا کہ میں تمہاری ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں.سو اس اشتہار کے متعلق باتیں جن کو آپ نے قبول کرلیا.صرف تین ہی ہیں زیادہ نہیں.اوّل یہ کہ ایک مجلس قرار پاکر قرعہ اندازی کے ذریعہ سے قرآن کریم کی ایک سورۃ جس کی آیتیں اسّی سے کم نہ ہوں، تفسیر کرنے کے لئے قرار پاوے.اور ایسا ہی قرعہ اندازی کی رُو سے قصیدہ کا بحر تجویز کیا جائے.دوسری یہ کہ وہ تفسیر قرآن کریم کے ایسے حقائق و معارف پر مشتمل ہو جوجدید ہوں اور منقولات کی مدمیں داخل نہ ہوسکیں.اور بایں ہمہ عقیدہ متفق علیہا اہل سنت و الجماعت سے مخالف بھی نہ ہو.اور یہ تفسیر عربی بلیغ فصیح اور مقفّٰی عبارت میں ہو.اور ساتھ اس کے سو۱۰۰ شعر عربی بطور قصیدہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ہو.تیسری یہ کہ فریقین کے لئے چالیس دن کی مہلت ہو.اس مہلت میں جو کچھ لکھ سکتے ہیں لکھیں اور پھر ایک مجلس میں سناویں.پس جبکہ آپ نے یہ کہہ دیا کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کیلئے مستعد ہوں تو صاف طور پر کھل گیا کہ آپ نے یہ تینوں باتیں مان لیں.اَب انشاء اللہ القدیر اسی پر سب فیصلہ ہوجائے گا.آج

Page 383

اگرچہ روزِ عید سے دوسرا دن ہے مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ کے مان لینے اور قبول کرنے سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ میں آج کے دن کو بھی عید کا ہی دن سمجھتا ہوں.الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ اب ایک کھلے کھلے فیصلہ کے لئے بات قائم ہوگئی.اب لوگ اس بات کو بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ اس عاجز کو بقول آپ کے کافر اور کذّاب ثابت کرتا ہے یا وہ امر ظاہر کرتا ہے جو صادقین کی تائید کے لئے اس کی عادت ہے.اگر چہ دل میں اس وقت یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اس صاف اقرار کے بعد رسالہ میں کچھ اور کا اور لکھ ماریں، لیکن پھر اس بات سے تسلی ہوتی ہے کہ ایسے صاف اور کھلے کھلے اقرار کے بعد کہ میں نے آپ کی ہر ایک بات مان لی ہے.ہرگز ممکن نہیں کہ آپ گریز کی طرف رُخ کریں اور اب آپ کے لئے یہ امر ممکن بھی نہیں کیونکہ آپ ان شرائط پیش کردہ کو بغیر اس عذر کے کہ ان کی انجام دہی کی مجھ میں لیاقت نہیں اور کسی صورت سے چھوڑ نہیں سکتے اور خودجیساکہ آپ اپنے اس خط میں قبول کر چکے ہیں کہ میں نے ہر ایک بات مان لی تو پھر ماننے کے بعد انکار کرنا خلاف وعدہ ہے.مجھے اس بات سے بھی خوشی ہوئی کہ میری تحریر کے موافق آپ مباہلہ کے لئے بھی تیار ہیں اور اپنی ذات کی نسبت کوئی نشان بھی دیکھنا چاہتے ہیں.سبحان اللہ! اب تو آپ کچھ رخ پر آگئے.اگر رسالہ میں کچھ نئے پتھر نہ ڈال دیں مگر کیوں کر ڈال سکتے ہیں.آپ کا یہ فقرہ کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں.طیار ہوں.حاضر ہوں.صاف خوشخبری دے رہا ہے کہ آپ نے میری ہر ایک بات اور ہر ایک شرط کو سچے دل سے مان لیا ہے.اب میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس خوشخبری کو چھپایا نہ جائے بلکہ چھپوایا جائے.اس لئے معہ آپ کے خط کے اس خط کو چھاپ کر آپ کی خدمت میں نذر کرتا ہوں اور ایفاء وعدہ کا منتظر ہوں.والسلام علیٰ من اتبع الھدٰی.٭ الراقم ۱۹؍اپریل ۱۸۹۳ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٭ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۳۲۱ تا ۳۲۳

Page 384

امام الوقت کی خط و کتابت ذیل میں ہم امام الزمان حضرت سیّدنا مرزا صاحب ایّدہ اللہ کا وہ ہدایت نامہ بڑے فخر سے درج کرتے ہیں جو حضور نے میاں محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنۃ کو اُن کی یہ بات سن کر ’’کہ میں نماز میں اُن پر لعنت کرتا ہوں.’’معاذ اللہ‘‘ اپنی سچی ہمدردی اور حقیقی جوشِ محبت سے (جو اس مقدس قوم کو بنی نوع انسان سے عموماً اور اپنے مخالفوں سے خصوصاً ہوتی ہے) لکھا اور یہ قول سچ کر دکھایا.گالیاں سُن کے دُعا دیتا ہوں اُن لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اس خط کو پڑھ کر ہمارے ناظرین معلوم کریں گے کہ باوجود یکہ یہ کریم النفس انسان ایک نادان مولوی کے سبّ و شتم سے سخت ستایا گیا اور رنج دیا گیا اور نہ اپنے لئے بلکہ اس لئے کہ اُس نے اُس کو خدا کی اور آسمان کی باتیں سنائیں.ایسی حالت میں اس مقدس انسان نے جب کب اس نادان مخالف الرائے کے حق میں دعائے خیر ہی کی ہے اور ہمیشہ یہی آرزو ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو وہ آنکھ اور بصیرت دے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی قدرت نمائیوں کے دیکھنے پر قادر ہو سکے.اس وقت بھی اُس کے لعن طعن سن کر اس راست باز نے یہی چاہا کہ گو عرصہ سے خط و کتابت بند ہو.تو ہو.خود ہی ابتداء کر کے پھر اس کو تبلیغ کی اور ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہونے سے پیشتر اُس کو سچی ہمدردی اور جوش دل سے لکھا تا وہ اُس وقت جب وہ نشان ظاہر ہو.اس ہدایت نامہ سے مدد لے کر اپنی اصلاح کر لے.مگر اس شتاب کار مُلاں کی تیزی طبع ملاحظہ ہو کہ بجائے اس کے اُس خط سے استفادہ کرتا اور صبر و استقلال سے اُس نشان کا انتظار کرتا اور کرشمہ قدرت کو دیکھنے کے لئے اپنے آپ کو طیار کرتا.اُس معاملہ کرسی کے جھگڑے کو لے بیٹھا کہ ثابت کرو کہ مجھے مقدمہ ہنری کلارک میں کرسی نہیں ملی اور جھڑکیاں ملیں.ناظرین خود حضرت مسیح الزمان اور اُس کے خط کو پڑھ کر اندازہ کر لیں گے کہ کونسا خط اپنے اندر ہدایت کی روشنی اور کونسا بدحواسی کی تاریکی رکھتا ہے.الغرض

Page 385

ہر دو خطوں کو ذیل میں چھاپ دیتے ہیں.حضرت مسیح الزمان نے اُسی روز میاں محمد حسین بٹالوی کے خط کے جواب میں ایک اشتہار چھاپ دیا ہے.جس کو اسی سلسلہ خط و کتابت میں ہم درج کرتے ہیں.ایڈیٹر خمکتوب نمبر۲۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الحمدللّٰہ والسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی شیخ بٹالوی محمد حسین صاحب! ہداکم اللّٰہ مجھے زبانی حبی فی اللہ مولوی قطب الدین صاحب معلوم ہوا کہ مولوی صاحب موصوف کسی مصلحت سے آپ کے مکان پر گئے اور ہمدردی انسانی سے چاہا کہ آپ کو حق کی طرف دعوت کریں مگر آپ نے علاوہ کئی الفاظ سبّ و شتم کے جو میری نسبت استعمال کئے.یہ بھی کہا کہ میں نماز میں اُن پر لعنت بھیجا کرتا ہوں.ان تمام باتوں کے سننے سے اگرچہ آپ کی صلاحیت سے نومیدی ہوتی ہے مگر جیسا کہ میں نے بعض بشارات میں دیکھا ہے.امید کی جاتی ہے کہ آپ پر عنقریب وہ زمانہ بھی آوے کہ آپ کی آنکھ کھلے اور آپ ان گستاخیوں اور شوخیوں اور بداندیشیوں سے توبہ کریں.اس لئے میں نے ایک ضروری امر پر آپ کو مطلع کرنے کے لئے یہ چند سطریں لکھیں ہیں.تا شاید کسی وقت یہ امر آپ کو کام آوے.اور آپ کی زیادہ بصیرت کا موجب ہو.اور وہ یہ ہے کہ چند متواتر الہامات اور رؤیا سے مجھے معلوم ہوا کہ عنقریب ایک نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والا ہے.جو بہت سے لوگوں کو میری طرف کھینچے گا.اور اُس دن بہت سے نیک دل انسان سچائی کو پہچان لیں گے.میری اس تحریر کو آپ محفوظ رکھیں.میں چند کس معزز گواہوں کی شہادت اس پر ثبت کر کے آپ کے پاس بھیجتا ہوں اور اس کام پر محض ہمدردی نے مجھ کو آمادہ کیا ہے.آپ جانتے ہیں کہ اللہ شانہٗ فرماتا ہے کہ  ۱؎ سوکسی شخص سے ۱؎ الجنّ: ۲۷،۲۸

Page 386

Page 387

ایسی پیشگوئی کا ظاہر ہونا جو غیب پر مشتمل ہو.اُس کے سچا ہونے کو ظاہر کرتا ہے.آپ پر بہت افسوس ہے کہ اب تک آپ نے نہ نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ سے فائدہ اُٹھایا اور نہ عقل خداداد سے کام لیا اور نہ آسمانی نشانوں سے، جو میرے ہاتھ پر یامیرے لئے ظاہر ہوئے، ہدایت پائی.احمد بیگ کی وفات سے لے کر لیکھرام کی موت تک ایک لمبا سلسلہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کا تھا، لیکن کسی نشان نے آپ کو فائدہ نہ دیا.آفتاب ماہتاب بھی رمضان میں منکسف ہوئے مگر آپ نے کچھ پرواہ نہ کی.آپ نے انسانیت اور ٹھنڈے مزاج سے اپنے شبہات کو دور نہ کرایا.صدی میں بھی چودہ برس گذر گئے.مگر آپ نے کسی مجدد کا پتہ نہ دیا جو فتن موجودہ کی اصلاح کے لئے کھڑا ہوا ہو.میں نے مباہلہ کے ساتھ بھی آپ سے فیصلہ کرنا چاہا مگر آپ وہاں سے بھی بھاگ گئے.خدا تعالیٰ آپ کے حال پر رحم کرے.اب تو انتہا تک آپ کی نوبت پہنچ گئی.آپ کہتے تھے کہ میں نے ہی تم کو اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا.آپ کو سوچنا چاہیے کہ اس فضول گوئی میں کیسے آپ جھوٹے نکلے.کیا میں نے الہام کا دعویٰ آپ کے صلاح مشورہ سے کیا تھا.کیا میں نے کبھی آپ پر بھروسہ رکھا یا آپ کو کچھ چیز سمجھا؟ اور اب مختلف شہروں اور قریب اور دُور کے ملکوں کے صد ہا آدمی اس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں.سو دیکھو.خدا تعالیٰ نے کیسے آپ کے غرور کو توڑا کہ میں ہی گرا دوں گا.سچ ہے کہ آپ نے تو کسی چال بازی میں کسر نہ کی.مگر ہر ایک حملہ کے وقت آپ ہی کو ذلّت دیکھنی پڑی.پادریوں کے مقدمہ میں آپ نہایت ناز سے دامن کشاں کچہری میں پہنچے کہ تا میری ذلّت دیکھیں مگر خدا تعالیٰ نے میرے روبرو اور میری جماعت کے روبرو آپ کو ذلیل کیا.آپ کا کرسی طلب کرنا اور پھر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کا تین جھڑکیاں دے کر کرسی سے محروم رکھنا.یہ کیسی ذلّت تھی کہ جو میرے رُوبرو میری جماعت کے رُوبرو ،منشی غلام حیدر خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ ضلع کے رُوبرو، مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر کے رُوبرو، لالہ رام بھج دت وکیل کے روبرو اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے اردلیوں کے روبرو آپ کو نصیب ہوئی.یہاں تک کہ مجھے بھی آپ کی اس حالت پر رحم آیا.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ذلّت تھی یا کچھ اور تھا.آپ مجھے مفتری کہتے ہیں مگر بتلا نہیں سکتے کہ کیا ابتدا دنیا سے آج تک کوئی ایسا مفتری آپ نے دیکھا جس کو خدا تعالیٰ نے روزِ دعویٰ الہام سے میری طرح پچیس ۲۵ برس تک مہلت دی ہو.جو خدا پر افترا کرے وہ تو کی عمر بھی نہیں پاتا اور جلد پکڑا جاتا ہے اور ہلاک کیا

Page 388

کیا جاتا ہے.اور میں تو پچیس ۲۵ برس سے برابر خدا تعالیٰ کا الہام پیش کر رہا ہوں.براہین کا زمانہ ہی دیکھو جو اب اٹھارہ برس کے قریب پہنچ گیا.اللہ شانہٗ سے شرم کرنی چاہیے.گواہوں کے دستخط دوسرے صفحہ پر اس ورق کے ثبت کئے گئے ہیں.مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی، خواجہ کمال الدین بی اے ایل ایل بی، میر ناصر نواب صاحب، سیٹھ عبدالرحمن، حاجی اللہ رکھا جنرل مرچنٹ مدراس، مولوی محمد افضل صاحب سکنہ تھانہ لالہ موسیٰ، سیٹھ اسماعیل آدم تاجر بمبئی، مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی، مولوی قطب الدین صاحب سکنہ بدوملہی، میاں معراج الدین صاحب ٹھیکہ دار لاہور.شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم.حافظ احمد اللہ خاں صاحب ناگپوری.سردار عبدالعزیز خاں صاحب قزلباش.عبدالرحمن خاں صاحب غزنوی.مولوی نورالدین صاحب بھیروی.محمد حسین کا خط مقام بٹالہ.مورخہ ۲۸؍ فروری ۱۸۹۸ء نمبر ۱۱۴ میاں غلام احمد صاحب خدا آپ کو راہ راست پر لاوے اور ضلالت و الحاد سے نجات بخشے.السلام علی من اتبع الھدی.آپ کا خط ۲۸؍ فروری ۹۸ء کو پہنچا.جس کو میں نے تعجب اور افسوس کے ساتھ پڑھا.افسوس آپ کے مرید میاں قطب الدین صاحب پر آیا کہ وہ کیا پیام و سوال لے گئے تھے اور کیا جواب لائے اور نہ سمجھے کہ وہ کیا پیام و سوال لے گئے تھے.اور کیا جواب لائے.اور نہ سمجھے کہ وہ میرے پیام و سوال کا جواب نہیں ہے.آپ نے ان پرچھوہ کر دیا.اُن کی چشم بصیرت کو نابینا کر دیا اس لئے وہ نہ سمجھ سکے کہ وہ جواب مطابق سوال نہیں ہے.اور یہ امر ان کو بطور پیشگوئی کہہ دیا گیا تھا کہ آپ ان پر چھوہ کر دیں گے جو ظہور میں آیا.تعجب آپ کی جرأت پر آیا کہ آپ نے اس خط میں اپنے ان ہی پرانے ڈھکوسلوں کا اعادہ کر دیا اور شرم سے کام نہ لے کر یہ خیال نہ کیا کہ جن باتوں کا میں اعادہ کرتا ہوں ان کو تمہارا مخاطب بارہا بدلائل رد کر چکا ہے.پھر میں اُن کا اعادہ کیوں کرتا ہوں.اس افسوس اور تعجب کے بطلان پر دوبارہ اعادہ بطلب سوال اعادہ کرتا ہوں.کیونکہ میاں

Page 389

قطب الدین صاحب دوبارہ میرے پاس آئے ہیں اور آپ کی اس چال کو میرے سمجھانے سے سمجھ گئے ہیں.اور اس وجہ سے اس خط کے ذریعہ میرا پیام دوبارہ پہنچانے کا وعدہ کر گئے ہیں.آپ نے کتاب البریہ کے صفحہ۱۱ و ۱۴ و ۱۵ میں تین دعوے کئے ہیں.اوّل یہ کہ محمد حسین نے صاحب ڈپٹی کمشنر سے کرسی طلب کی.اور کہا کہ اس کو عدالت میں کرسی ملتی ہے اور اُس کے باپ کو عدالت میں کرسی ملتی تھی.جس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے اُس کو تین جھڑکیاں دیں اور کہا کہ ُتو جھوٹا ہے.بک بک مت کر.دوسرا یہ دعویٰ کہ پھر وہ باہر کے کمرہ میں ایک کرسی پر جا بیٹھا.تو کپتان صاحب پولیس کی نظر اس پر جا پڑی اور اُس وقت کنسٹبل کی معرفت جھڑکی کے ساتھ اس کرسی سے اُٹھایا گیا.تیسرا دعویٰ یہ ہے کہ پھر وہ ایک شخص کی چادر لے کر اس پر بیٹھ گیا تو اُس شخص نے چادر نیچے سے کھینچ لی.اور کہا کہ ایک مذہبی مقدمہ میں جو بناوٹی ہے پادریوں کی گواہی دیتا ہے.اور میری چادر پر بیٹھتا ہے.میں اپنی چادر پلید کرانی نہیں چاہتا.میرے نزدیک یہ تینوں دعوے محض دروغ ہیں جس میں راستی کا شمہ دخل اور شائبہ بھی نہیں ہے.آپ ان دعووں میں سچے ہیں تو ایک جلسہ عام میں (جو بمقام لاہور یا گورداسپور یا بٹالہ ہو) ان ہی لوگوں میں سے جن کے نام اپنے خط میں درج کئے ہیں صرف دو یا تین اشخاص کو جن کو میں منتخب کروں پیش کریں.اور اُن سے شہادت دلوائیں.پس اگر وہ آپ کے بیان الفاظ کی تصدیق کریں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو آپ کے مقابلہ میں شکست یافتہ سمجھ کر آئندہ آپ کے ردّو جواب سے قلم و زبان کو بند کر لوں گا.اور اگر ان گواہوں نے آپ کے بیان و الفاظ کی تصدیق نہ کی تو اس صورت میں آپ اپنے ملحدانہ دعاوی، مسیحائی، مجدّدیت، مہدویت، نبوت وغیرہ سے تائب ہو کر خالص اسلام کے پابند ہو جائیں گے.پیام یہ تھا جس کے جواب میں آپ نے صرف دعویٰ ہی (مطابق اصل) کر دیا اور نہ سوچا کہ دعویٰ تو آپ نے پہلے میں بھی کیا تھا.اُس دعوٰی کا ثبوت بذریعہ شہادت مطلوب تھا.نہ اعادہ دعوٰی.اب بھی آپ توجہ کریں اور جواب بمطابق سوال دیں ورنہ آپ کا خط اور یہ جواب عنقریب رسالہ میں مشتہر ہوگا.راقم آپ کا خیر خواہ قدیم ابوسعید محمد حسین٭ (نقل مطابق اصل) یہ مولوی صاحب کی انشا پردازی ہے.ایڈیٹر.٭ الحکم ۶؍ مارچ ۱۸۹۸ء صفحہ۴،۵

Page 390

خمکتوب نمبر ۲۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں کرسی ملی؟ (راستی موجب رضائے خدا است) نہایت افسوس ہے کہ اس زمانہ کے بعض نام کے مولوی محض اپنی عزت بنانے کے لئے یا کسی اور غرض نفسانی کی وجہ سے عمداً جھوٹ بولتے ہیں اور اس بدنمونہ سے عوام کو طرح طرح کے معاصی کی جرأت دیتے ہیں کیونکہ جھوٹ اُم الخبائث ہے اور جب کہ ایک شخص مولوی کہلا کر کھلی کھلی بے شرمی سے جھوٹ بولنا اختیار کرے تو بتلاؤ کہ عوام پر اس کا کیا اثر ہوگا.ابھی کل کی بات ہے کہ بے چارہ میاں شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ کو بمقام بٹالہ کرسی مانگنے سے کپتان ایم ڈبلیوڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے تین مرتبہ تین جھڑکیاں دیں اور کرسی دینے سے انکار کیا اور کہا کہ ’’بک بک مت کر‘‘ اور ’’پیچھے ہٹ‘‘ اور ’’سیدھا کھڑا ہو جا‘‘.اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ہمارے پاس تمہارے کرسی ملنے کے بارے میں کوئی ھدایت نہیں‘‘ لیکن نہایت افسوس ہے کہ شیخ مذکور نے جابجا کرسی کے بارے میں جھوٹ بولا.کہیں تو یہ مشہور کیا کہ مجھے کرسی ملی تھی اور کسی جگہ یہ کہا کہ کرسی دیتے تھے مگر میں نے عمدًا نہیں لی اور کسی جگہ یہ افترا کیا کہ عدالت میں کرسی کا ذکر ہی نہیں آیا.چنانچہ آج میری طرف بھی اس مضمون کا خط بھیجا ہے کہ گویا اس کا کرسی مانگنا اور کرسی نہ ملنا اور بجائے اس کے چند جھڑکیوں سے پیچھے ہٹا ئے جانا یہ باتیں غلط ہیں.ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علیالکاذبین.ہم ناظرین کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ بات فی الواقع سچ ہے کہ شیخ مذکور نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے کرسی مانگی تھی اور اس کا اصل سبب یہی تھا کہ مجھے اُس نے صاحب

Page 391

ڈپٹی کمشنر بہادر کے رُوبروے کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر بے اختیاری کے عالَم میں اپنی طمع خام کو ظاہر کیااور نہ چاہا کہ میرا دشمن کرسی پر ہو اور میں زمین پر بیٹھوں.اس لئے بڑے جوش سے کچہری کے اندر داخل ہوتے ہی کرسی کی درخواست کی اور چونکہ عدالت میں نہ اس کو اور نہ اُس کے باپ کو کرسی ملتی تھی اس لئے وہ درخواست زجر اور تو بیخ کے ساتھ رد کی گئی اور درحقیقت یہ سوال نہایت قابل شرم تھا کیونکہ سچ یہی ہے کہ نہ یہ شخص اور نہ اُس کا باپ رحیم بخش کبھی رئیسان کرسی نشین میں شمار کئے گئے اور اگر یہ یا اس کا باپ کرسی نشین تھے تو گویا سرلیپل گریفن نے بہت بڑی غلطی کی کہ جو اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان دونوں کا نام نہیں لکھا.غضب کی بات ہے کہ کہلانا مولوی اور اس قدر فاش دروغگوئی اور پھر آپ اپنے خط میں کرسی نہ ملنے کا مجھ سے ثبوت مانگتے ہیں.گویا اپنی ذلّت کو کامل طور پر تمام لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور اپنے خط میں وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کاذب نکلیں تو اپنے تئیں شکست یافتہ تصور کریں گے اور پھر کبھی ردّ و قدح نہیں کریں گے.افسوس! کہ اس شخص کو جھوٹ بولتے ذرّہ شرم نہیں آئی.جھوٹ کہ اکبر الکبائر اور تمام گناہوں کی ماں ہے کس طرح دلیری سے اس شخص نے اس پر زور دیا ہے.یہی دیانت اور امانت ان لوگوںکی ہے جس سے مجھے اور میری جماعت کو کافر ٹھہرایا اور دنیا میں شور مچایا.واضح رہے کہ ہمارے بیان مذکورہ بالا کا گواہ کوئی ایک دو آدمی نہیں بلکہ اس وقت کہ کچہری کے اردگرد صدہا آدمی موجود تھے جو کرسی کے معاملہ کی اطلاع رکھتے ہیں.صاحب ڈپٹی کمشنر ایم ڈبلیوڈگلس صاحب بہادر خود اس بات کے گواہ ہیں جنہوں نے بار بار کہا کہ تجھے کرسی نہیں ملے گی.بک بک مت کر اور پھر کپتان لیمارچنڈ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ کرسی مانگنے پر محمد حسین کو کیا جواب ملا تھا اور کیسی عزت کی گئی تھی.پھر منشی غلام حیدر خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ ضلع جو اب تحصیلدار ہیں اور مولوی فضل دین صاحب پلیڈر اور لالہ رام بھج دت صاحب وکیل اور ڈاکٹرکلارک صاحب جن کی طرف سے یہ حضرت گواہ ہوکر گئے تھے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے تمام اَردلی.یہ سب میرے بیان مذکورہ بالا کے گواہ ہیں اور اگر کوئی شخص اُن میں سے محمد حسین کی حالت پر رحم کر کے اس کی پردہ پوشی بھی چاہے مگر میں خوب جانتا ہوں کہ کوئی شخص اس بات پر قسم نہیں کھا سکے گا کہ یہ واقعہ کرسی نہ ملنے اور جھڑکیاں دینے کا جھوٹ ہے.مجھے حیرت پر حیرت

Page 392

تی ہے کہ اس شخص کو کیا ہو گیا اور اس قدر گندے جھوٹ پر کیوں کمربستہ کی.ذرہ شرم نہیں کی کہ اس واقعہ کے توصدہا آدمی گواہ ہیں وہ کیا کہیں گے.اس طرح تو آئندہ مولویوں کا اعتبار اُٹھ جائے گا.اگر درحقیقت اس شیخ بٹالوی کو کرسی ملی تھی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے بڑے اکرام اور اعزاز سے اپنے پاس اُن کو کرسی پر بٹھا لیا تھا تو پتہ دینا چاہیے کہ وہ کرسی کہاں بچھائی گئی تھی.شیخ مذکور کو معلوم ہوگا کہ میری کرسی صاحب ڈپٹی کمشنر کے بائیں طرف تھی اور دائیںطرف صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کی کرسی تھی اور اسی طرف ایک کرسی پر ڈاکٹر کلارک تھا.اب دکھلانا چاہیے کہ کونسی جگہ تھی جس میں شیخ محمد حسین بٹالوی کے لئے کرسی بچھائی گئی تھی.سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے.اس شخص نے میری ذلت چاہی تھی اور اسی جوش میں پادریوں کا ساتھ کیا.خدا نے اُس کو عین عدالت میں ذلیل کیا.یہ حق کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور یہ راستباز کی عداوت کا ثمرہ ہے.اگر اس بیان میں نعوذباللہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو طریق تصفیہ دو ہیں.اوّل یہ کہ شیخ مذکور ہر ایک صاحب سے جو ذکر کئے گئے ہیں حلفی رقعہ طلب کرے جس میں قسم کھا کر میرے بیان کا انکار کیا ہو اور جب ایسے حلفی رقعے جمع ہو جائیں تو ایک جلسہ بمقام بٹالہ کر کے مجھ کو طلب کرے.میں شوق سے ایسے جلسہ میں حاضر ہو جاؤں گا.میں ایسے شخص کے رقعہ کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے حلفاً اپنے رقعہ میں یہ بیان کیا ہو کہ محمد حسین نے کرسی نہیں مانگی اور نہ اس کو کوئی جھڑکی ملی بلکہ عزت کے ساتھ کرسی پر بٹھایا گیا.شیخ مذکور کو خوب یاد رہے کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنا ایمان ضائع نہیں کریگا اور ہرگز ہرگز ممکن نہ ہوگا کہ کوئی شخص اشخاص مذکورین میں سے اس کے دعویٰ باطل کی تائید میں قسم کھاوے.واقعاتِ صحیحہ کو چھپانا بے ایمانوں کا کام ہے.پھر کیونکر کوئی معزز شیخ بٹالوی کے لئے مرتکب اس گناہ کا ہوگا اور اگر شیخ بٹالوی کو یہ جلسہ منظور نہیں تو دوسرا طریق تصفیہ یہ ہے کہ بلاتوقف ازالہ حیثیت عرفی میں میرے پر نالش کرے کیونکہ اس سے زیادہ اور کیا ازالہ حیثیت عرفی ہوگا کہ عدالت نے اس کو کرسی دی اور میں نے بجائے کرسی، جھڑکیاں بیان کیں اور عدالت نے قبول کیا کہ وہ اور اس کا باپ کرسی نشین رئیس ہیں اور میں نے اس کا انکار کیا.اور استغاثہ میں وہ یہ لکھا سکتا

Page 393

ہے کہ مجھے عدالت ڈگلس صاحب بہادر میں کرسی ملی تھی اور کوئی جھڑکی نہیں ملی اور اس شخص نے عام اشاعت کر دی ہے کہ مانگنے پر بھی کرسی نہیں ملی بلکہ جھڑکیاں ملیں اور ایسا ہی استغاثہ میں یہ بھی لکھا سکتا ہے کہ مجھے قدیم سے عدالت میں کرسی ملتی تھی اور ضلع کے کرسی نشینوں میں میرا نام درج ہے اور میرے باپ کا نام بھی درج تھا لیکن اس شخص نے ان سب باتوں سے انکار کر کے خلافِ واقعہ بیان کیا ہے.پھر عدالت خود تحقیقات کر لے گی کہ آپ کو کرسی کی طلب کے وقت کرسی ملی تھی یا جھڑکیاں ملی تھیں اور دفتر سے معلوم کر لیا جائے گا کہ آپ اور آپ کے والد صاحب کب سے کرسی نشین رئیس شمار کئے گئے ہیں کیونکہ سرکاری دفتروں میں ہمیشہ ایسے کاغذات موجود ہوتے ہیں جن میں کرسی نشین رئیسوں کا نام درج ہوتا ہے.اگر شیخ مذکور نے ان دونوں طریقوں میں سے کوئی طریق اختیار نہ کیا تو پھر ناچار ہمارا یہی قول ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.زیادہ کیا لکھیں.اور یاد رہے کہ ہمیں بالطبع نفرت تھی کہ ایسے ایک شخصی معاملہ میںقلم اُٹھائیں اور ذاتیات کے جھگڑوں میں اپنے تئیں ڈالیں اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی صرف اسی قدر جھوٹ پر کفایت کرتا کہ مجالس میں ہمارا ذکر درمیان نہ لاتا اور صرف اپنی پردہ پوشی کے لئے کرسی مانگنے کے معاملہ سے انکار کرتا رہتا تو ہمیں کچھ ضرورت نہ تھی کہ اصل حقیقت کو پبلک پر کھولتے.لیکن اس نے نہایت خیرگی اختیار کر کے ہر ایک مجلس میں ہماری تکذیب شروع کی اور سراسر افتراء سے میری نسبت ہر ایک جگہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ شخص کاذب ہے اور اس نے میرے پر کرسی کے معاملہ میں جھوٹ باندھا ہے اور اس طرح پر عوام کے دلوں پر بُرا اثر ڈالنا چاہا.تب ہم نے اُس کے اس دروغ کو اکثر نادانوں کے دلوں پر مؤثر دیکھ کر محض حق کی حمایت میں یہ اشتہار لکھا تا بعض ناواقف ایک راست گو کو جھوٹا سمجھ کر ہلاک نہ ہو جائیں اور تا اس کی یہ دجالی تقریریں حقانی سلسلہ کی رہزن نہ ہوں.غرض اسی ضرورت کی وجہ سے ہمیں اس کے اس مکروہ جھوٹ کو کھولنا پڑا.بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ وہ خط شیخ محمد حسین بٹالوی کا میرے پاس موجود ہے جو آج یکم مارچ ۱۸۹۸ء کو بٹالہ سے اُس نے بھیجا ہے جس میں میرے بیان کرسی نہ ملنے اور جھڑکی کھانے سے صاف انکار کیا ہے اور ایسا ہی اُن لوگوں کے خط بھی محفوظ ہیں جن کے روبروے طرح طرح کی دروغگوئی سے اس واقعہ کو پوشیدہ کرنا چاہا ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں اور میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن معزز گواہوں کے نام بھی اس جگہ درج کر دوں جنہوں نے واقعہ مذکورہ بالا بچشم خود دیکھا اور یا عین موقعہ پر سُنا اور جو کچہری میں حاضر تھے اور وہ یہ ہیں.

Page 394

حکیم فضل الدین صاحب بھیروی،مرزا ایوب بیگ صاحب سینیئر اینگلوورنیکولر کلاس لاہور (یہ دونوںصاحب بھی کمرہ عدالت کے اندر تھے اور باقی اکثر صاحبان دروازہ کے باہر سے دیکھتے تھے.) مولوی حکیم نور الدین بھیروی، صاحبزادہ منظور محمد صاحب لدھیانوی، مولوی خان ملک صاحب، حافظ احمد اللہ خاں صاحب قادیان، قاضی غلام حسین صاحب بھیروی سٹوڈنٹ لاہور، شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم قادیان، شیخ عبدالرحیم صاحب نومسلم قادیان، شیخ عبدالعزیز صاحب نومسلم قادیان، صاحبزادہ مظہر قیوم صاحب لدھیانہ، شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرتسر، سردار عبدالعزیز خان صاحب حال وارد قادیان، میاں کرم داد صاحب حال وارد قادیان، میاں عبدالحق صاحب جہلمی، میاں رمضان صاحب آتشباز قادیان،چوہدری نبی بخش صاحب بٹالہ، منشی تاج الدین صاحب دفتر ایگزیمنر ریلوے لاہور، منشی عبدالرحمن صاحب کلرک لوکو آفس ریلوے لاہور، میاں معراج الدین صاحب ٹھیکیدار وارث میاں محمد سلطان، حافظ فضل احمد صاحب کلرک دفتر ایگزیمنر ریلوے لاہور، مرزا رحمت علی صاحب ٹیچر اسلامیہ کالج لاہور، حکیم فضل الٰہی صاحب لاہور، خلیفہ رجب دین صاحب تاجر لاہور، منشی خواجہ عزیز الدین صاحب تاجر لاہور، میاں غلام حسین صاحب لاہور، میاں عبدالحق صاحب طالب علم لاہور، میاں شیر علی صاحب طالبعلم بی اے کلاس لاہور، مرزا یعقوب صاحب اسسٹنٹ سرجن لاہور، مولوی محمد علی صاحب ایم اے لاہور، میاں محمد شریف صاحب طالبعلم میڈیکل کالج لاہور، میاں عبید اللہ صاحب طالبعلم میڈیکل کالج لاہور،خواجہ کمال الدین صاحب بی اے لاہور، مفتی محمد صادق صاحب کلرک لاہور، میاں شیر محمد صاحب طالبعلم بی اے کلاس علیگڑھ.حافظ عبدالعلی صاحب طالبعلم بی اے کلاس علیگڑھ، میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسر، میاں عبدالخالق صاحب عطار امرتسر، شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر امرتسر حال قادیان، میاں قطب الدین صاحب مس گرامرتسر، شیخ عطاء اللہ صاحب مس گر امرتسر، میاں جیون بٹ رفوگر قلعہ بھنگیاں، مولوی محمد اسماعیل صاحب سوداگر امرتسر، میاں اللہ بخش صاحب امرتسر، میاں چراغ الدین صاحب امرتسر، میاں مولا بخش صاحب پٹوہلی امرتسر، مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹ، سید حامد شاہ صاحب مثل خواں سیالکوٹ، منشی عبدالعزیز صاحب ٹیلر ماسٹر صدر سیالکوٹ، مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹ، منشی محمد دین صاحب اپیل نویس سیالکوٹ، ماسٹر غلام محمد صاحب بی.اے سیالکوٹ، مستری نظام الدین صاحب سیالکوٹ، ڈاکٹر فیض قادر صاحب

Page 395

بٹالہ، محمداکبر صاحب ٹھیکہ دار بٹالہ، حکیم محمد اشرف صاحب بٹالہ، قاضی نعمت علی صاحب عرضی نویس بٹالہ، میاں برکت علی صاحب نیچہ بند بٹالہ، میاں اللہ رکھا صاحب شالباف بٹالہ، مولوی غلام مصطفی صاحب مہتمم مطبع شعلہ نور بٹالہ، محمد افضل خانصاحب یتیم مدرسہ حمایت اسلام لاہور، مولوی برہان الدین صاحب جہلم، عبداللہ خان صاحب برادر نواب خان صاحب تحصیلدار جہلم، میاں حسن محمد صاحب ٹھیکیدار جہلم، منشی روڑا صاحب نقشہ نویس عدالت مجسٹریٹی کپور تھلہ، منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس کپور تھلہ، میاں محمد خان صاحب منشی بگھی خانہ کپورتھلہ،منشی عبدالرحمن صاحب اہلمد محکمہ جرنیلی کپورتھلہ، منشی فیاض علی صاحب منشی پلٹن کپورتھلہ، میاں اللہ دیا صاحب جلد ساز لدھیانہ، میاں امیرالدین صاحب جیانوالہ، مرزا خدا بخش صاحب اتالیق مالیر کوٹلہ، منشی محمد جان صاحب وزیر آباد تاجر، خلیفہ نورالدین صاحب تاجر جموں، مرزا نیاز بیگ صاحب رئیس پنشنر کلانور، مولوی خدا بخش صاحب جالندھر، شیخ عطا محمد صاحب اسٹامپ فروش چنیوٹ، میاں نجم الدین صاحب بھیرہ، مفتی فضل الرحمن صاحب بھیرہ، منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ضلع گورداسپور، شیخ محمد صدیق صاحب تاجر سیکھواں ضلع گورداسپور، میاں جمال الدین صاحب تاجر سیکھواں گورداسپور، میاں امام الدین صاحب تاجر سیکھواںگورداسپور، میاں خیر الدین صاحب تاجر سیکھواںگورداسپور، مہر سون صاحب گورداسپور، حافظ نور محمد صاحب زمیندار فیض اللہ چک گورداسپور، شیخ فضل الٰہی صاحب نمبر دار فیض اللہ چک گورداسپور، شیخ غلام علی صاحب فیض اللہ چک گورداسپور، شیخ چراغ علی صاحب تھہ غلام نبی گورداسپور، شیخ شہاب الدین صاحب ککے زئی تھہ غلام نبی گورداسپور، شیخ امیر صاحب تھہ غلام نبی گورداسپور، شیخ شیر علی صاحب تھہ غلام نبی گورداسپور، شیخ احمد علی صاحب نمبردار وزیر چک گورداسپور، میاں چراغ الدین صاحب منڈی کنال گورداسپور، سید باقر علی صاحب بھیل ضلع گجرات، میاں عبدالغنی صاحب اوجلہ ضلع گورداسپور، محمد شفیع صاحب اوجلہ ضلع گورداسپور، نواب الدین صاحب ہیڈماسٹر دینا نگر، میاں اللہ دیا صاحب دینا نگر، مرزا سندھی بیگ صاحب دینا نگر، حافظ محی الدین صاحب بھیرہ، حافظ محمد حسین صاحب واعظ قصبہ ڈنگے ضلع گجرات.المشتہر مرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور

Page 396

غیر احمدی علماء کے نام خطوط (۲) سابقہ جلد ششم مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ ۳۷۷ تا ۴۹۸

Page 397

فہرست مکتوبات غیر احمدی علماء کے نام

Page 398

مکتوب نمبر

Page 399

Page 400

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ (تمہیدی نوٹ) اللہ تعالیٰ کاشکر اور حمد ہے کہ اس نے اس خاکسارکو توفیق بخشی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات کی چھٹی جلد کو ترتیب دے.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.اس جلد میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان مکاتیب کو جمع کرنے کی سعی کی ہے جو آپ نے مخالف الرائے علماء ومشائخین اور غیراحمدی مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً لکھے.یہ مکاتیب کبھی تو بعض کے استفسارات کے جواب میں لکھے گئے اور کبھی اتمامِ حجت اور تبلیغِ حق کیلئے.میںنے کوشش کی ہے کہ مکتوب الیہم کے متعلق ایک مختصرسا نوٹ دے دوں تاکہ تاریخ سلسلہ میں ان کی حیثیت ظاہر رہے.مکتوباتِ احمدیہ کے سلسلہ میں اس وقت تک پانچ جلدیں نو نمبروں میں شائع ہو چکی ہیں اوراس لحاظ سے یہ دسویں جلد ہے.ایک جلد متفرقات کی ہو گی اور اس طرح مکتوبات کے سلسلہ کی تکمیل ہو جائے گی.وَباِللّٰہِ التَّوْفِیْقُ.مکتوبات کی جمع وترتیب بھی دراصل سیرۃ و سوانح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اہم حصہ ہے.مجھے اعتراف ہے کہ اس کام کومیں متواتر اورمسلسل جاری نہیں رکھ سکا.میں اپنی کمزوریوں سے ناواقف نہیں مگر میں ایک یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس غفلت اور کوتاہی کے لئے جماعت بھی منفرداً و مجتمعا ذمہ دار ہے اِلاَّمَاشَآئَ اللّٰہُ اس لئے کہ ا س نے اس کام کی اہمیت کو ابھی تک نہیں سمجھا.بہر حال میں اپنے ذوق اور استعداد کے موافق اس سے غافل نہیں رہا اور یہ اسی جذبہ کی ایک حقیر کوشش ہے.اللہ تعالیٰ قبول کرے آمین.خاکسارعرفانی کبیر از سکندر آباد دکن ۲۸؍ فروری ۱۹۵۰ء

Page 401

Page 402

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ (تمہیدی نوٹ) اللہ تعالیٰ کاشکر اور حمد ہے کہ اس نے اس خاکسارکو توفیق بخشی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات کی چھٹی جلد کو ترتیب دے.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.اس جلد میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان مکاتیب کو جمع کرنے کی سعی کی ہے جو آپ نے مخالف الرائے علماء ومشائخین اور غیراحمدی مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً لکھے.یہ مکاتیب کبھی تو بعض کے استفسارات کے جواب میں لکھے گئے اور کبھی اتمامِ حجت اور تبلیغِ حق کیلئے.میںنے کوشش کی ہے کہ مکتوب الیہم کے متعلق ایک مختصرسا نوٹ دے دوں تاکہ تاریخ سلسلہ میں ان کی حیثیت ظاہر رہے.مکتوباتِ احمدیہ کے سلسلہ میں اس وقت تک پانچ جلدیں نو نمبروں میں شائع ہو چکی ہیں اوراس لحاظ سے یہ دسویں جلد ہے.ایک جلد متفرقات کی ہو گی اور اس طرح مکتوبات کے سلسلہ کی تکمیل ہو جائے گی.وَباِللّٰہِ التَّوْفِیْقُ.مکتوبات کی جمع وترتیب بھی دراصل سیرۃ و سوانح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اہم حصہ ہے.مجھے اعتراف ہے کہ اس کام کومیں متواتر اورمسلسل جاری نہیں رکھ سکا.میں اپنی کمزوریوں سے ناواقف نہیں مگر میں ایک یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس غفلت اور کوتاہی کے لئے جماعت بھی منفرداً و مجتمعا ذمہ دار ہے اِلاَّمَاشَآئَ اللّٰہُ اس لئے کہ ا س نے اس کام کی اہمیت کو ابھی تک نہیں سمجھا.بہر حال میں اپنے ذوق اور استعداد کے موافق اس سے غافل نہیں رہا اور یہ اسی جذبہ کی ایک حقیر کوشش ہے.اللہ تعالیٰ قبول کرے آمین.خاکسارعرفانی کبیر از سکندر آباد دکن ۲۸؍ فروری ۱۹۵۰ء مولوی نور محمد صاحب کے نام (تعارفی نوٹ) لکھوکے ضلع فیروز پور میں مولوی محمد صاحب لکھوکے والے ایک مشہور عالم خاندان کے رکن تھے.انہوںنے پنجابی زبان میں بعض کتابیں ’’احوال الآخرت‘‘ وغیرہ تصنیف کی تھیں اور کچھ قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی.اس خاندان کے بعض افراد کو خواب بینی یا الہام کا بھی دعویٰ تھا.اسی خاندان کے ایک فرد مولوی نور محمد صاحب بھی تھے.میں نے ان کو دیکھا ہے.یہ مکتوب جو میں نیچے درج کررہا ہوں، انہیں کے نام ہے.میں نے جب ان کو دیکھا تو وہ سلسلہ کے خلاف ضلع گورداسپور میں دورہ کررہے تھے اور وہ قادیان بھی آئے اور انہیں یہ معلوم تھاکہ حضرت اقدس کے ابنائے عم آپ کے مخالف ہیں.اس لئے انہیں بڑی امیدیں تھیں.میرے سامنے کا واقعہ ہے اور میں بحمد اللہ عینی شاہد ہوں.وہ ایک گھوڑی پر سوار تھے، مسجد مبارک کے سامنے ایک چبوترہ پر مرزا نظام الدین صاحب بیٹھے ہوئے تھے، ان سے ہی اس نے دریافت کیا کہ نمبردار مرزا نظام الدین صاحب سے ملنا ہے.مرزا صاحب نے دریافت کیا.کیا کام ہے؟ میں ہی ہوں.اس نے کہا کہ یہاں مرزا نے دعویٰ کیا ہے میں اس کی مخالفت کرنے آیا ہوں.مرزا نظام الدین صاحب نے ہنس کر کہاکہ یہ سمجھا ہوگا کہ ہم ان کے مخالف ہیں.یہاں کوئی تقریر نہیں ہوسکتی.روٹی کھانی ہے تو منگوا دیتا ہوں.ورنہ سیدھے چلے جاؤ.تمہارا کچھ کام نہیں.اس پر وہ سیدھا بازار کے راستہ چلا گیا.بازار میں بھی کسی نے پوچھا نہیں.میں نے مرزا نظام الدین صاحب کے جواب کو نہایت نرم الفاظ میں لکھا ہے ورنہ اُنہوں نے تو نہایت خشونت سے اپنے محاورہ میں ان سے کلام کیا تھا.پس یہ وہ نورمحمد صاحب ہیں.(عرفانی کبیر)

Page 403

مکتوب نمبر ۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ از طرف احقر عباد عائذ باللہ الصمد بہ مخدومی مکرمی مولوی نور محمد صاحب.سَلٰمٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.اما بعد.نامہ گرامی آں مخدوم پہنچا.یہ عاجز بباعث کم فرصتی و مشغولی ملاقات بعض احباب و نیز بوجہ ضعف طبیعت اب تک جواب لکھنے سے مقصر رہا اور اب بھی اس قدر طاقت و فرصت نہیںکہ مفصل لکھوں.صرف مجمل طور پر عرض کرتاہوں کہ اگرچہ یہ عاجز اپنی ذاتی حالت کی رو سے فی الواقع نہایت آلودہ دامن اور ناچیز اور ہیچ ہے اور جس قدر بد ظنی کی جائے وہ تھوڑی ہے.من آنم کہ من دانم.لیکن اگر رنج ہے تو صرف اس قدر ہے کہ جس بنا پر آپ اور آپ کے ان بزرگوں نے جن کے رویا اور کشوف آپ کے زعم خام میں قطعی اور یقینی ہیں.جن میں وحی انبیاء کی طرح ایک ذرہ خطا اور غلطی کی گنجائش نہیں ہے، اس ا حقر عباد پر کذب اور افترا کا الزام لگایا ہے اور اپنے گمان میں بہت کچھ فساد اور شرک اور کفر کی حالت کو بہ نسبت ایں احقریقین کرلیاہے.ایسا یقین مسلمانوں کی حالت سے بعید ہے.اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ(ﷺ)آپ کواور آپ کے بزرگوار کو بڑی وحشت میں اس خواب نے ڈالا ہے کہ جو نقول آپ کے اس بزرگوار نے دیکھی ہے جس میں ان کے متخیّلہ پر ایسا ظاہر ہوا کہ گویا یہ عاجز ایک ’’ َجھوٹہ‘‘ پرسوار ہے اور گلے میں زنّار ہے.َجھوٹے کے دُم کی طرف منہ ہے اور پھر اس بزرگ نے یہ دیکھا کہ یہ عاجز ایک ریچھ کی کھال پر بیٹھا ہوا ہے اور اس پر قرآن شریف رکھا ہوا ہے.اور پھر ایک دوسرے بزرگ نے بقول آپ کے اس عاجز کی بینائی میں فرق دیکھا.ان دونوں خوابوں کی صورت پر نظر کرکے سیرت حسن ظن اسلامی کو آپ نے چھوڑ دیا اور جو کچھ تمہارے ربّ کریم نے تاکید فرمائی ہے کہ ظن المومنین والمومنات کا اپنے بھائیوں سے بخیر ہونا چاہئے.اس تاکید کو یک لخت بھول گئے اور بڑے دعوٰے سے زبان کھولی کہ ضرور دال میں

Page 404

مکتوب نمبر ۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ از طرف احقر عباد عائذ باللہ الصمد بہ مخدومی مکرمی مولوی نور محمد صاحب.سَلٰمٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.اما بعد.نامہ گرامی آں مخدوم پہنچا.یہ عاجز بباعث کم فرصتی و مشغولی ملاقات بعض احباب و نیز بوجہ ضعف طبیعت اب تک جواب لکھنے سے مقصر رہا اور اب بھی اس قدر طاقت و فرصت نہیںکہ مفصل لکھوں.صرف مجمل طور پر عرض کرتاہوں کہ اگرچہ یہ عاجز اپنی ذاتی حالت کی رو سے فی الواقع نہایت آلودہ دامن اور ناچیز اور ہیچ ہے اور جس قدر بد ظنی کی جائے وہ تھوڑی ہے.من آنم کہ من دانم.لیکن اگر رنج ہے تو صرف اس قدر ہے کہ جس بنا پر آپ اور آپ کے ان بزرگوں نے جن کے رویا اور کشوف آپ کے زعم خام میں قطعی اور یقینی ہیں.جن میں وحی انبیاء کی طرح ایک ذرہ خطا اور غلطی کی گنجائش نہیں ہے، اس ا حقر عباد پر کذب اور افترا کا الزام لگایا ہے اور اپنے گمان میں بہت کچھ فساد اور شرک اور کفر کی حالت کو بہ نسبت ایں احقریقین کرلیاہے.ایسا یقین مسلمانوں کی حالت سے بعید ہے.اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ(ﷺ)آپ کواور آپ کے بزرگوار کو بڑی وحشت میں اس خواب نے ڈالا ہے کہ جو نقول آپ کے اس بزرگوار نے دیکھی ہے جس میں ان کے متخیّلہ پر ایسا ظاہر ہوا کہ گویا یہ عاجز ایک ’’ َجھوٹہ‘‘ پرسوار ہے اور گلے میں زنّار ہے.َجھوٹے کے دُم کی طرف منہ ہے اور پھر اس بزرگ نے یہ دیکھا کہ یہ عاجز ایک ریچھ کی کھال پر بیٹھا ہوا ہے اور اس پر قرآن شریف رکھا ہوا ہے.اور پھر ایک دوسرے بزرگ نے بقول آپ کے اس عاجز کی بینائی میں فرق دیکھا.ان دونوں خوابوں کی صورت پر نظر کرکے سیرت حسن ظن اسلامی کو آپ نے چھوڑ دیا اور جو کچھ تمہارے ربّ کریم نے تاکید فرمائی ہے کہ ظن المومنین والمومنات کا اپنے بھائیوں سے بخیر ہونا چاہئے.اس تاکید کو یک لخت بھول گئے اور بڑے دعوٰے سے زبان کھولی کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے.برادرم! آپ ناراض نہ ہوجائیں کہ یہ کلمہ کفر سے کچھ کم نہیں.کاش اگر آپ کو کچھ سمجھ ہوتی کسی مومن کی نسبت ایسے ایسے وجوہات سے کفر یا شرک یافسق اور افترا کا یقین کرنا اوریہ کہنا کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے، پرہیزگار اور نیک شعار اور نیک طبیعت مسلمانوں کا ہرگز طریق نہیں. ۱؎ نہ معلوم کہ آپ اور آپ کے بزرگوار کہاں سے اور کس سے سُن آئے کہ جو صورت مثالی خواب یا کشف میں مشہود ہو وہی صورت حقیقت مقصودہ ہوتی ہے.کیونکہ آج تک تمام معبرین کا اسی پر اتفاق ہے کہ ہر ایک نوع رئویا اور کشوف میں اکثری اصول یہی ہے کہ جو امور صور حسیّہ اور مثالیہ میں ظاہر ہوتے ہیں وہ اپنی ظاہری شکل پر حمل نہیں کئے جاتے.کیونکہ وہ تمام معانی ہیں جن کو ان صورتوں سے بوجہ من الوجوہ مناسبت ہے اوریہ مناسبت ہے کہ جو صرف بوجہ اعتقاد رائیقوت متخلیہ میں پیدا ہوجاتے ہیں.مثلاً ایک شخص اپنے دشمن کو سانپ کی صورت میں دیکھتا ہے.سو یہ نہیں کہ سانپ کی صفات ذمیمہ فی الحقیقت اس دشمن میں موجود ہیں.بلکہ ممکن ہے کہ دشمن اپنی ذاتی حالت کی رو سے پارسا اور نیک آدمی ہواور صرف رائی کے خبث اعتقاد نے سانپ کی صورت پر اس کو کردیا ہو.اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو معانی صور مثالیہ میںمشتمل ہوکر قوت متخیلہ پر ظاہر ہوتے ہیںوہ شخص رائی کی خود اپنی ہی حالت ہوتی ہے اور جو خبث اور فساد کی کسی دوسرے کی نسبت وہ رائی دیکھتا ہے.حقیقت میں وہ تمام خبث اور فساد اس کے اپنے ہی نفس میں بھرا ہوا ہے اور شخص مرئی جو کامل اور آئینہ صفت ہوتا ہے، وہ آئینہ کی طرح وہ خبث اس پر ظاہر کر دیتا ہے.مثلاً ایک شخص کہ جو نہایت بد شکل ہے جب وہ اپنی صورت آئینہ میں دیکھے گا تو ضرور اس کی شکل کا عکس آئینہ میں پڑے گا.اب یہ بات نہیں کہ آئینہ بد شکل ہے بلکہ بباعث نہایت صفائی کے اس میں انعکاس بد شکلی کا ہوگیا ہے.اسی جہت سے محققین علم تعبیر لکھتے ہیں کہ جو لوگ فانی ہیں وہ بباعث آئینہ صفت ہونے کے محل انعکاسی صفات ہو جایا کرتے ہیں.اسی وجہ سے قدیم سے یہ تحریر ہوتا چلا آیا ہے کہ اکثر کَفَرَہ فَجَرَہ نے یا ایسوںنے جن کا خاتمہ بد تھا انبیاء اور اولیاء کو خراب اور فاسد حالتوں میں دیکھا ہے اور آخر انجام ایسے لوگوں کا ۱؎ البقرۃ: ۹

Page 405

بد ہوا ہے اور کفر پر مر ے ہیں.تھوڑے عرصہ کی بات ہے کہ ایک بزرگ مولوی فضل احمد نام نے کہ جو موضع فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ میں رہتے ہیں، ایام خورد سال میں اس احقر کے استاد بھی تھے اور اب تک بقیدِ حیات ہیں.اس عاجز کے پاس ذکر کیا کہ ایک شخص نے پیغمبرخدا ﷺکو حالت خراب میں دیکھا اور لباس و وضع و مکان وحالت وغیرہ امور میں نالائق باتیں مشاہدہ کیں اور مولوی صاحب فرمانے لگے کہ اس خواب کے سننے سے مجھے بہت انقباض ہے اور ہر چند اس وسوسہ کو دور کرتا ہوں مگر بے اختیاری ہے.تب میں نے امام زین العابدین وغیرہ کے اقوال ان کوپڑھ کر سنائے اور معتبر رسائل تعبیر کے کھول کر ان پر ظاہر کیا کہ اس پلیدباطن نے اپنے ہی نفس کو دیکھا ہے، نہ رسول خد اصلی اللہ علیہ وسلم کو.اور میں یقینا جانتا ہوں کہ اس کاخاتمہ بد ہو گا.تب مولوی صاحب سن کر بہت خوش ہوئے اور ان کا تمام انقباض دور ہو گیااور فرمانے لگے کہ وہ شخص کچھ تھوڑی مدت اس خواب کے بعد عیسائی بھی ہو گیاہے.سو خاتمہ بد پر ہی قوی علامت ہے اور نیز مولوی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ کو اس عمدہ تعبیر کی ہرگز خبر نہ تھی.اب مجھ کو بہت بصیرت حاصل ہوئی.سچ ہے کہ بغیر علم کے انسان اندھا ہوتا ہے.غرض یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ جوشخص فانیوں کو حالت خراب میں دیکھتا ہے وہ درحقیقت اپنے ہی نفس کی حالت کو مشاہدہ کرتا ہے اور سِرّ اس میں یہ ہے کہ جو شخص اپنے نفس سے فانی ہے وہ بباعث اپنی نہایت شفقت کے کہ جو اس کو عباد اللہ سے ہے.دوسروں کی حالت پر کہ جن میں شخص خواب بین بھی داخل ہے ایسا ہی درد مند ہے کہ جیسا کہ خود صاحب درد کو ہونا چاہئے.پس اسی جہت سے شخص رائی کی حالت ناقصہ اس صاحب کمال میں کہ جو بوجہ غایت شفقت محوفی الخلق بھی بطور انعکاس دکھائی دیتی ہے اورسادہ لوح کو یہ دھو کہ لگتا ہے کہ واقعی طور پر یہ حالت اس میں موجود ہے.اور کبھی اس کا باعث یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی شخص کاحال اور مقام دریافت کرنے کے لئے باطنی طور پر توجہ کرتا ہے اور وہ شخص جس کاحال دریافت کرنا منظور ہے.وہ شخصِ متوجّہ کے منبع نظر سے بہت دور ہوتا ہے.ناچار نظر باطنی کے تھکنے کی وجہ سے کچھ اپنے ہی حالات ظاہر ہو جاتے ہیں.جیسے ایک شخص کہ جو آسمان کی طرف نظر کرتا ہے تو آسمان بوجہ دور ہونے کے اس کو نظر نہیں آتا.لیکن اپنی ہی آنکھوں کے کبودی سایے فضائِ آسمان میں

Page 406

دکھائی دیتی ہے اور دھوکے سے نادان آدمی یہ خیال کر لیتا ہے کہ آسمان برنگ کبود ہے.حالانکہ وہ ایک نورانی اور پاک جوہر ہے.سو اسی طرح نقصان توجہ سے بھی دھوکے لگتے رہے ہیں جس میں سلب ایمان کاخطرہ رہتاہے.اب قصے کو مختصر کرکے گزارش کرتا ہوں کہ جو آپ کے بزرگوار نے خواب دیکھا ہے وہ تعبیر کی رو سے نہایت عمدہ خواب ہے.کاش! آپ کے بزرگوار اور نیز آپ کو کچھ حصہ علم تعبیرسے ہوتا.تا دونوں تہلکہ بدظنی سے بچ جاتے.سو جاننا چاہئے کہ امام ابن سیرینؒ کہتے ہیں کہ زنّار کا باندھنا مستور الحال کے لئے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صاحب عزم ہے اور نہ گھٹے گااور نہ تھکے گا جب تک اپنے دشمنوں سے انصاف نہ لے اورگائومیش سے قومِ لایعقل اور نفس پرست لوگ مراد ہیں اور اس پر سوار ہونا اشارہ بہ غلبہ و ظفر و فتح ہے.جس سے بالآخر سب نا اہل و نفس پرست ذلیل ہو جائیںگے اور حق ظاہر ہوجائے گا اور یہ جو اس بزرگ نے دیکھا کہ سواری کی حالت میں دُم کی طرف منہ ہے.یہ اِعْرَاض عَنِ الْجَاھِلِین کی طرف اشارہ ہے یعنی جاہلوںسے منہ پھیرا ہواہے اور ان کے جاہلانہ شورو غوغا کی طرف التفات نہیں.سو دُم کی طرف منہ کرنے سے یہی مراد ہے کہ جاہلوں سے اعراض کیا ہوا ہے اور آیت ۱؎ پر عمل ہے اور دوسری خواب پہلی خواب کی تائید میں ہے.ریچھ سے مراد احمق اور سفلہ آدمی ہیں کہ جو ریچھ کی طرح ناحق اُلجھتے ہیں اور ریچھ کی کھال پر بیٹھنا تسلط تام سے مراد ہے.اور ریچھ کی کھال اس کے اخلاق ذمیمہ کا پردہ ہے جس پردہ کو خداوند کریم بذریعہ اس عاجز کے فاش کرے گا.اور یہ جو دیکھا کہ قرآن شریف اس کھال پر رکھا ہو اہے.اس کی یہ تعبیر ہے کہ حجت قرآنی ایسے ریچھوں پر قائم ہو جائے گی.گویا قرآن اس کھال پر رکھا گیا اور فرق بینائی سے اندوہ و حزن مراد ہے کہ جو شفقۃً علیٰ خلق اللہ طاری حال ہے.چنانچہ ابن سیرینؒ وغیرہ معبروںنے شخص مامور الحال کیلئے یہی تعبیرلکھی ہے اور حوالہ اس آیت کا دیا ہے.۲؎ بہ تعبیر اوّل کشف صریح کے ذریعہ سے اور پھر ابن سیرینؒ وغیرہ کے معتبر اقوال سے ۱؎ الاعراف: ۲۰۰ ۲؎ یوسف: ۸۵

Page 407

بپایہ صداقت پہنچ گئی ہے.فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.افسوس! کہ آپ کو ان قطعی اوریقینی الہامات سے کہ جو مخالفوں کی شہادت سے بپایہ ثبوت پہنچ گئے، کچھ ہدایت نہ ہوئی.کیاصدہا انوار یقینیہ قطعیہ کے سامنے کسی کی پیش جا سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ اس اُمت پر رحم کر ے اور مرض خفاش سیرتی کو، کہ جو ظلمت سے پیار اور نور سے بغض رکھنے کا موجب ہوا ہے، آپ دور فرما وے.آمین.وَالسَّلاَمُ عَلٰی اَرْبَابِ الصِّدْقِ وَالدِّیْنِ.یکم مارچ ۸۴ء مطابق ۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ٭ نوٹ:.اس خط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علم تعبیر الرئویا کے بعض عجیب نکات بیان فرمائے ہیں اورآپ کے دشمن نے آپ کی نسبت جو خواب دیکھا ظاہر کیا.جس نے مولوی نور محمد صاحب کو ٹھوکر دی، علم تعبیر الرویا کے ذریعہ اس کی صحیح تعبیر پیش کی اور بتایا کہ دشمن کا یہ خواب بھی آپ کی صداقت اور ماموریت کی دلیل ہے اور جہاں خود حضرت پر نازل شدہ الہامات و بشارات میں آپ کی کامیابی کی قبل ازوقت پیشگوئیاں ہیں.دشمن کا یہ خواب بھی ان کا مؤیدہے.٭ ٭…٭…٭

Page 408

حاجی محمد ولی اللہ صاحب (تعارفی نوٹ) حاجی محمدولی اللہ صاحب ریاست کپور تھلہ کے ایک معزز عہدہ دار تھے.اپنی سمجھ اور فکر کے موافق اس عہد کے دیندار مسلمانوں میں آپ کا شمار تھا.وہ ابتداً سرکارانگریزی میں ملازم تھے.مگر جب بندوبست کا آغاز پنجاب میں ہوا تو ریاست کپور تھلہ کے مہاراجہ نے آپ کی خدمات کو مستعار لے لیا اور پھر مستقل طور پر اپنی ریاست میں رکھا.وہ صاف گو اور دلیر عہدہ دار تھے.ریاستی پالیٹکس کے قابل نہ تھے.اس لئے وہ ریاست کے وزیراعظم تو نہ ہو سکے مگر یہ واقعہ ہے کہ وزیراعظم تک ان سے دبتے تھے.حاجی صاحب کاخاندان ضلع میرٹھ کا ایک معزز خاندان تھا اور ایک مدبّر اور علم دوست خاندان سمجھا جاتا تھا.حاجی صاحب اگرچہ خود احمدی نہ ہوسکے مگر یہ واقعہ ہے کہ کپور تھلہ کی جماعت کا باعث وہی ہوئے اور ان کے خاندان میں حضرت منشی حبیب الرحمن رضی اللہ عنہ اور ان سے تعلق رکھنے والے حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ، حاجی صاحب کے ہی ذریعہ سے سلسلہ میں آئے.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب تو آپ کے بھتیجے اور وارث ہی تھے.حاجی صاحب براہین احمدیہ کے خریدار تھے اور اس کے حصص آپ کے پاس جارہے تھے.وہ خود بھی پڑھا کرتے تھے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو بھی سنانے کے لئے فرمایا کرتے اور حضرت ظفر نے عین عنفوان شباب میں ہی براہین احمدیہ حاجی صاحب کو سناتے اس نعمت کو پالیا.میری تحقیقات میں منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلہ کے آدم ہیں.غرض حاجی صاحب براہین احمدیہ کے خریدار تھے اور شوق ذوق سے اسے

Page 409

پڑھتے اور سنتے تھے مگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قبول کرنے کی توفیق نہ ملی البتہ ان کے ذریعہ سے حضرت اقدس کی دعوت کپور تھلہ پہنچی اور ان کے خاندان میں ایک مخلص شاخ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے خاندان کی بار آور ہوئی.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب، حاجی صاحب کی وفات کے بعد جائز وارث اور ان کے جانشین تجویز ہوئے اور اس کااعلان اس زمانہ کے عام رواج دستاربندی سے کیا گیا.حاجی صاحب کومیں مخالفین کے زُمرہ میں نہیں سمجھتا.ہاں عملاً وہ سلسلہ بیعت میںبھی شریک نہ ہوسکے.براہین ہی کے زمانہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کچھ سوالات کئے.جن کے جواب میں حضرت نے آپ کوخط لکھا.حاجی صاحب کے ذریعہ جماعت کپور تھلہ (اس لئے کہ براہین، کپور تھلہ میں ان کے ذریعہ پہنچی) کا قیام عمل میں آیا اور یہ جماعت اپنے اخلاص و وفا میں ایک ایسی جماعت گزری ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ساتھ جنت میں رہنے کی بشارت دی.(رضی اللہ عنہم) حاجی صاحب کی تعمیر کردہ مسجد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کاایک زندہ نشان ہے.غیر احمدی اس مسجد کو لینا چاہتے تھے اور اس کامقدمہ عرصہ تک چلتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کو بشارت دی کہ اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد تم کو ملے گی.آخر وہی ہوا.یہاں تک کہ ایک حاکم عدالت جو احمدیوں کے خلاف اپنے دل میں فیصلہ کرچکا تھا قبل اس کے فیصلہ سنائے اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آکر فوت ہو گیا.حاجی صاحب کے یہ کام اپنی جگہ ایک وزن رکھتے ہیں مگر حضرت اقدس کے ابتدائی زمانہ کے بعض معاونین کو سنت اللہ کے موافق ابتلا آیا اوریہ اس لئے بھی ہوا تا خدا تعالیٰ کی قدرت نمایاں ہو.حاجی صاحب نے براہین کے التوا کے متعلق اعتراضات کئے اورادب کے مقام سے ہٹ کر وہی غلطی ان کے سامنے آگئی اوروہ اس نعمت کی قدر نہ کر سکے.اب ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے.وہ مکفرّین اور سبّ وشتم کرنے والوں میں نہ تھے.ان کوایک وقت حجاب ہوا ور نہ

Page 410

براہین کے ابتدائی دور میں خود حضرت کو مجدّد تسلیم کرتے تھے.اس خصوص میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت میںنے حیاتِ احمد جلد دوم نمبر دوم کے صفحہ (۸۲) پر درج کی ہے.اس خط و کتابت کے پڑھنے سے (جو حاجی صاحب اور حضرت اقدس کے مابین ہوئی) معلوم ہوتا ہے کہ ابتداً حاجی صاحب کو بعض حالات اور اثرات کے ماتحت کچھ قبض ہوا اور اس کااظہار انہوں نے اپنے کسی خط میں کیا جس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۲۳؍ دسمبر ۱۸۸۴ء کو دیا.اور پھر اس خط کے بعد حاجی صاحب نے کچھ سوالات کئے جن کا جواب حضرت نے ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۴ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا.اس کے بعد ۲۴؍ جنوری ۱۸۸۵ء کوحاجی صاحب نے ایک تفصیلی خط حضرت کی خدمت میں لکھا جس سے پایا جاتا ہے کہ وہ حضرت اقدس کو احیاء اسلام کا ذریعہ سمجھتے تھے اورہندوستان ہی میں آپ کی بعثت کو ضروری سمجھتے تھے.میں حاجی صاحب کے اس خط کو حضرت اقدس کے دوسرے مکتوب کے بعد درج کردینا اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ تاریخ سلسلہ میں حاجی صاحب کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ رہے.میں نے حیاتِ احمد جلد دوم کے نمبر دوم میں بھی آپ کا ذکر کیا ہے اور اس سے مقصد صرف اسی قدر امر واقعہ کا اظہار ہے جو اس مکتوب سے متعلق ہے جو انہوں نے براہین کے سلسلہ میں حضرت کو لکھا اورجس کا جواب ۲۳؍ دسمبر ۱۸۸۴ء کے خط میں موجود ہے اب میں کسی مزید تفصیل کے بغیر مکتوبات کو درج کرتا ہوں.(عرفانی کبیر)

Page 411

خمکتوب نمبر ۲ الحمد للّٰہ وسَلٰمٌ علی عبادہ الذین اصْطَفٰی.امابعد بخدمت مخدومی مکرمی اخویم محمد ولی اللہ صاحب! بعد سلام مسنون گذارش آنکہ آپ کا عنایت نامہ مرقوم ۱۱؍ ذیقعدہ جس کے لفافہ پر اس عاجز کا نام لکھا ہوا تھا پہنچا.معلوم ہوتا ہے کہ سلطان احمد اس عاجز کے بیٹے نے آپ کی خدمت میں کوئی خط بھیجا تھا جس کی اس عاجز کو کوئی اطلاع نہیں ہے.مگر افسوس سے لکھتا ہوں کہ اگر اس نے آپ کی طرف کسی چندہ کے بارہ میں لکھا ہے تو آپ کو ناحق تکلیف دی.وہ اس وقت یہاں قادیان میں موجود نہیں ہے گورداسپور گیا ہوا ہے.مقصود مکتوب الدّین النصیحۃ بہرحال اب باعث تحریران چند سطور کا صرف برادرانہ نصیحت ہے کہ الدّین النصیحۃ اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جیسا آپ کا خط پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایسے امور میں وساوس پکڑ رہے ہیں کہ جن پر سُوء ظن مضر ایمان ہے اور نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رفتہ رفتہ سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے کیونکہ ایک ادنیٰ امر دینی کے انکار سے ایمان ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.پھر اس صورت میں ایمان کا کیا حال ہو کہ ایک بڑے اصول دینی کا انکار کیا جائے اور وہ اصول یہ ہے کہ پہلی اُمتوں میں دین کے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ قاعدہ تھا کہ ایک نبی کے بعد بروقت ضرورت دوسرا نبی آتا تھا.پھر جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظہور فرما ہوئے اور خدا تعالیٰ نے اس نبی کریم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا تو بوجہ ختم نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ و غم رہتا تھا کہ مجھ سے پہلے دین کے قائم رکھنے کے لئے ہزار ہا نبیوں کی ضرورت ہوئی اور میرے بعد کوئی نبی نہیں جس سے روحانی طور پر تسلّی حاصل ہو.اس حالت میں فسادات کا اندیشہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بہت دعائیں کیں تب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبشارت دی اور وعدہ فرمایا کہ ہر صدی کے سر پر دین کی تجدید کے لئے مجدّد پیدا ہوتا رہے گا جس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ دین کی تجدید کرے گا اور فرمایا  ۱؎ یعنی ہم آپ قرآن شریف ۱؎ الحجر: ۱۰

Page 412

کی حفاظت کریں گے اور اپنی طرف سے ایسے لوگوں کو بھیجتے رہیں گے کہ جو کمالاتِ نبوت پا کر اور حق جَلَّ و عُلٰی اور اس کے بندوں میں واسطہ بن کر راہِ راست کی لوگوں کو ہدایت کریں گے اور حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ جو شخص اپنے وقت کے امام کو شناخت نہیں کرتا اس کی موت جاہلوں کی سی موت ہوگی اور حقانی معرفت اور حقیقی ایمان سے بے نصیب رہے گا.اب آپ ناراض نہ ہوں.آپ کے دونوں خطوں سے سخت بدگمانی کی بُو آتی ہے جس حالت میں مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہر ایک صدی کے سر پر مجدد کے آنے کی خبر دی ہے تو آپ قطعاً اس خبر کا انکار کر کے کس طرح بھاگ سکتے ہیں یا کیونکر آپ اس بات کو چھپا سکتے ہیں کہ بِلاشُبہ صدی کے سر پر ایک مجدد کا آنا ضروری ہے.جب تک آپ کو اس بات کی اطلاع نہ دی جاتی کہ خبر کا فلاں کس مصداق ہے تب تک آپ کا یہ قول ہونا چاہیے تھا کہ ہم بِلاشُبہ ایمان لاتے ہیں کہ برطبق پیشگوئی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مجدد صدی کے سر پر پیدا ہو گیا ہے جس کی ہم کو آج تک خبر نہیں اور جب آپ کو ایک شخص نے اطلاع دے دی کہ وہ مجدد میں ہوں.اور بہت سے انوار و برکات ظاہر کرنے سے خدا تعالیٰ نے اس کی مجددیت ثابت کی.تو پھر آپ کو اگر کچھ شک تھا تو آپ جیفۂِ دنیا سے چند روز فراغت کر کے اس کی خدمت میں دوڑتے اور اس سے تسلّی اور تشفی کر لیتے.اے عزیزو! دنیا روزے چند آخر کار باخداوند،تعالیٰ کی جناب میں کسی کا تکبر پیش نہیں جاتا.جیسے رسول کے انکار سے کفر لازم آتا ہے ایسا ہی امامِ وقت کے انکار سے اس قدر ضعیف ایمان ہو جاتا ہے کہ آخر سلبِ ایمان تک نوبت پہنچتی ہے.نکمی بحثیں اس جگہ پیش نہیں جاتیں.ایمان حقیقی اور یقین کامل وہ نعمت ہے کہ بجز التزام  ۱؎ کبھی ہاتھ نہیں آتا.اور لاف و گزاف اِس جناب میں پیش نہیں جاتی اور اگر اس عاجز نے کسی مدد کے لئے کہا تو برعایت ظاہر اسباب کہا.ورنہ یہ عاجز مخلوق کو ہیچ اور لاشئے سمجھتا ہے.۲؎ خداکرے کہ آپ ان خیالات سے توبہ کریں کہ مرگ نزدیک ہے اور اگر دل میں وساوس ہوں تو بکثرت ملاقات کریں.تا اگر خدا چاہے تو ایمان سلامت لے جائیں.فَتُوْبُوْا ثُمَّ تُوْبُوْا.ثُمَّ توبُوا.والسلام علی من اتبع الھدٰی.دو اشتہار بھیجے جاتے ہیں ان کو غور سے پڑھیں٭ غلام احمد عفی عنہ ۱؎ التوبۃ: ۱۱۹ ۲؎ المنافقون: ۸ ٭ الحکم ۲۸ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۹ دسمبر ۱۸۸۴ء

Page 413

مکتوب نمبر ۳ مخدومی مکرمی اخویم حاجی صاحب سلّمہُ اللہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.آج مدت کے بعد عنایت نامہ پہنچا.آپ نے جس قدر اپنے عنایت نامے میں اس حقیر عباد اللہ کی نسبت اپنے بزرگانہ ارشادات سے بد نیتی، ناراستی اور خراب باطنی اور وعدہ شکنی اورانحراف از کعبہ حقیقت وغیرہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے ہیں.میں ان سے ناراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ اوّل توع ’’ہرچہ ازدوست مے رسد نیکوست‘‘.ماسوا اس کے اگر خداوند کریم ورحیم ایسا ہی برُا انجام کرے جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے تو میں اس سے بدتر ہوں اور درشت تر الفاظ کا مستحق ہوں.رہی یہ بات کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ خلافی کی ہے یا میں کسی عہد شکنی کامرتکب ہوا ہوں تو اس وہم کا جواب زیادہ تر توجہ سے خود آپ ہی معلوم کرسکتے ہیں.جس روز چھپے ہوئے پردے کھلیں گے اور جس روز ۱؎ کا عملدرآمد ہو گااور بہت سے بدظن اپنی جانوں کو رویا کریں گے.اس روز کا اندیشہ ہر ایک جلدباز کو لازم ہے.یہ سچ ہے کہ براہین احمدیہ کی طبع میں میری امید اور اندازے سے زیادہ توقف ہو گیا مگر اس توقف کا نام عہد شکنی نہیں.میں فی الحقیقت مامور ہوں اور درمیانی کارروائیاں جو الٰہی مصلحت نے پیش کر دیں دراصل وہی توقف کا موجب ہو گئیں.جن لوگوں کو دین کی غمخواری نہیں وہ کیا جانتے ہیں کہ اس عرصہ میںکیا کیا عمدہ کام اس براہین کی تکمیل کے لئے ہوئے اور خدا تعالیٰ نے اِتمام حجت کے لئے کیا کیا سامان میسر کئے.آپ نے سنا ہو گا کہ قرآن شریف کئی برسوں میںنازل ہوا تھا.کیا وہ ایک دن نازل نہیں ہو سکتا تھا.آپ کو اگر معلوم نہ ہو تو کسی باخبر سے دریافت کرسکتے ہیں کہ اس عرصہ میں یہ عاجز بیکار رہا یا بڑا بھاری سامان اتمامِ حجت کا جمع کرتا رہا.تیس ۳۰ہزار سے زیادہ اشتہارات اُردو انگریزی میں تقسیم ہوئے.بیس ۲۰ ہزار سے زیادہ خطوط میں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مختلف مقامات میں روانہ کئے.ایک عقلمند اندازہ کرسکتا ہے کہ علاوہ جدّو ُجہد اور محنت اور عرق ریزی کے کیا کچھ مصارف ان ۱؎ العٰدیٰت: ۱۱

Page 414

کارروائیوں پر ہوئے ہوں گے.ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.بدباطن اور نیک باطن کوخوب جانتا ہے.۱؎ اور اگر بقول آپ کے میں خراب اندروں ہوں اور کعبہ کو چھوڑکر ُبت خانہ کو جارہاہوں تو وہ عالم الغیب ہے آپ سے بہتر مجھے جانتا ہو گا.لیکن اگر حال ایسا نہیں ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ روزِ مطالبہ اس بدظنی کا کیا جواب دیں گے.اللہ شانہٗ فرماتا ہے.۲؎  (۲۳؍ دسمبر ۱۸۸۴ء) نوٹ:.اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجی صاحب کے خط کا اسلوبِ بیان کیا ہو گا مگر حضرت اقدس نے جس حوصلہ اور ہضم نفس سے اس کوپڑھا اور جواب دیا ہے وہ آپ کے اخلاقِ فاضلہ کی رفعت و عظمت کا مظہر ہے اور آپ کو اپنی ماموریت پر کامل بصیرت کے ساتھ یقین ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت و کردار کے متعدد پہلو اس مکتوب کے آئینہ میں نظر آتے ہیں.یہ یقین اور بصیرت کسی شخص کو میسر نہیں آسکتی جب تک وہ خدا تعالیٰ کی متواتر وحی سے تسلی نہ پاتا ہو.(عرفانی کبیر)

Page 415

مکتوب نمبر ۴ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ اللہ.بعد سلام مسنون.آں مخدوم کادوبارہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کو اگرچہ بباعث علالت طبع طاقت تحریر جواب نہیں دے سکا.لیکن آں مخدوم کی تاکید دوبارہ کی وجہ سے بطور اجمال عرض کیا جاتا ہے.(ا) یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدّد ہے.(۲) تجدید کے یہ معنی نہیں ہیںکہ کم یا زیادہ کیا جائے.اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنی ہیںکہ جو عقائدِ حقّہ میں فتور آگیا ہے اور طرح طرح کے زوائد ان کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمالِ صالحہ کے اداکرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طریق اور قواعد محفوظ نہیں رہے ان کو مجدداً تاکیداً بالاصل بیان کیا جائے.وقال اللہ تعالیٰ.۱؎ یعنی عادت اللہ اسی طرح پرجاری ہے کہ جب دل مرجاتے ہیں اور محبت الٰہیہ دلوں سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ذوق اور شوق اور حضور اور خضوع نمازوں میں نہیں رہتا اور اکثر لوگ رُو بد نیا ہوجاتے ہیںاور علماء میں نفسانیت اور فقراء میں ُعجب اور پست ہمتی اور انواع واقسام کی بدعات پید ا ہوجاتی ہیں تو ایسے زمانہ میں خد اتعالیٰ صاحب قوتِ قدسیہ کوپیدا کرتا ہے اور وہ حجت اللہ ہوتا ہے اور بہتوںکے دلوںکو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچتاہے اور بہتوں پر اتمامِ حجت کرتا ہے.یہ وسوسہ بالکل نکمّاہے کہ قرآن شریف واحادیث موجود ہیں پھر مجدد کی کیا ضرورت ہے؟ یہ انہی لوگوں کے خیالات ہیں جنہوں نے کبھی غمخواری سے اپنے ایمان کی طرف نظر نہیں کی.اپنی حالت اسلامیہ کو نہیں جانچا ،اپنے یقین کااندازہ معلوم نہیں کیا بلکہ اتفاقاً مسلمانوں کے گھر پید ا ہوگئے اور پھر رسم اور عادت کے طور پر کہتے رہے.حقیقی یقین اور ایمان بجز صحبت صادقین میسر نہیںآتا.قرآن شریف تو اس وقت بھی ہو گا جب قیامت آئے گی مگر وہ صدیق لوگ نہیں ہوںگے کہ جو قرآن شریف کو سمجھتے تھے اور اپنی قوتِ قدسی سے مستعدین پر اس کااثر ڈالتے تھے۲؎ ۱؎ الحدید: ۱۸ ۲؎ الواقعۃ: ۸۰

Page 416

پس قیامت کے وجود کا مانع صرف صدیقوں کاوجود ہے.قرآن شریف خدا کی روحانی کتاب ہے اور صدیقوں کا وجود خد اکی ایک مجسم کتاب ہے.جب تک یہ دونوں نہ ملیں انوارِ ایمانی ظاہر نہیں ہوتے تب تک انسان خد اتک نہیں پہنچتا.فَتَدَبَّرُوْا وَتَفَکَّرُوْا.(۳) اس کا جواب جواب دوم میں آگیاہے.(۴)اوّل قرآن شریف مجدّد کی ضرورت بتلاتا ہے جیسے میںنے ابھی بیان کیا ہے.قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی۱ ؎ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی۲؎ اور ایسا ہی حدیث نبوی بھی مجدّد کی ضرورت بتلاتی ہے.عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِاْئَۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھاَ.۳؎ اور اجماع سنت وجماعت بھی اس پر ہے.کیونکہ کوئی ایسا مومن نہیں کہ جوحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رُو گرداں ہو سکتا ہے اور قیاس بھی اسی کو چاہتا ہے کیونکہ جس حالت میں خد اتعالیٰ شریعت موسوی کی تجدید ہزار ہانبیوں کے ذریعہ سے کرتا رہا ہے اور گووہ صاحب کتاب نہ تھے مگر مجدّد شریعت موسوی تھے اور یہ اُمت خیرالامم ہے.قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی.۴؎ پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس اُمت کو خدا تعالیٰ بالکل گوشہ خاطر عاطر سے فراموش کر دے اور باوجود صدہا خرابیوں کے کہ جو مسلمانوں کی حالت پر غالب ہو گئی ہیں اور اسلام پر بیرونی طور پر حملے ہو رہے ہیں، نظر اُٹھا کر نہ دیکھی.جو کچھ آج کل اسلام کی حالت ضعیف ہورہی ہے کسی عاقل پر مخفی نہیں.یعنی تعلیم یافتہ عقائدِ حقّہ سے دست بردار ہوتے جاتے ہیں.پُرانے مسلمانوں میں صرف یہودیوں کی طرح ظاہر پرستی یا قبرپرستی رہ گئی ہے.ٹھیک ٹھیک رُو بخدا کتنے ہیں؟ کہاں ہیں اور کدھر ہیں؟ (۵)پانچواں سوال میں آپ کاسمجھا نہیں.مجھ سے اچھی طرح پڑھا نہیں گیا.(۶) ہر ایک صدی میں کوئی نامی مجدّد پید ا ہونا ضروری نہیں.نامی گرامی مجدد صرف اسی ۱؎ الحدید: ۱۸ ۲؎ الحجر: ۱۰ ۳؎ ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذکر فی قدر قرن المائۃ ۴؎ اٰلِ عمران: ۱۱۱

Page 417

صدی کے لئے پید ا ہوتا ہے کہ جس میں سخت ضلالت پھیلتی ہے جیسے آج کل ہے.(۷) حضرت مجدد الف ثانی صاحب اپنے مکتوبات میں آپ ہی فرماتے ہیںکہ جو لوگ میرے بعد آنے والے ہیں جن پر حضرت احدیت کی خاص خاص عنایات ہیں میں ان سے افضل نہیں ہوں اور نہ وہ میرے پیرو ہیں.سو یہ عاجز بیان کرتا ہے نہ فخر کے طریق پر بلکہ و اقعی طورپر شُکْرًا لِّنِعْمَۃِ اللّٰہِ کہ اس عاجز کو خد ا تعالیٰ نے ان بہتوں پر افضلیت بخشی ہے کہ جو حضرت مجدد صاحب سے بھی بہتر ہیں اور مراتب اولیاء سے بڑھ کر نبیوں سے مشابہت دی ہے.سو یہ عاجز مجدد صاحب کاپیرو نہیں ہے بلکہ براہِ راست اپنے نبی کریم کا پیرو ہے اور جیسا سمجھا گیا ہے.بدل ِیقین سمجھتا ہے کہ ان سے اور ایسا ہی ان بہتوں سے کہ جو گزر چکے ہیں افضل ہے. ۱؎ (۸)خد اتعالیٰ کے کلام میں مجھ سے یہ محاورہ نہیں ہے.مجھ کو حضرت خد اوند کریم محض اپنے فضل سے صدیق کے لفظ سے یاد کرتا ہے اور نیز دوسرے ایسے لفظوں سے جن کے سننے کی آپ کو برداشت نہیں ہوگی اور حضرت خداوند کریم نے مجھ کو اس خطاب سے معزز فرما کر اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ قُلْ اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ اَجْمَعِیْنَ یہ بات بخوبی کھول دی ہے کہ اس ناکارہ کو تمام عالمین یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں پر فضیلت بخشی گئی ہے.پس سوال ہشتم کے جواب میں اسی قدر کافی ہے.(۹) اس ناکارہ کے والد مرحوم کا نام مرزا غلام مرتضیٰ تھا.وہی ہیںجو حکیم حاذق تھے اور دنیوی وضع پر اس ملک کے گردو نواح میں مشہور بھی تھے.٭ (۳۰؍دسمبر ۱۸۸۴) نوٹ:.اس مکتوب سے واضح ہوتا ہے کہ ۲۳؍ دسمبر ۱۸۸۴ء کو جو مکتوب حضرت نے لکھا تھا اور جس میں اپنی ماموریت کا اعلان فرمایا تھا اس پر حاجی صاحب نے آٹھ سوال کئے اور آپ نے ان کے جوابات دئیے اور مامورانہ قوت اور دلیری سے اپنے مقام رفیع کا اظہار فرمایا.حضرت اقدس نے اس امر کی طرف بھی اشارہ ۱؎ الجمعۃ: ۵ ٭ الحکم ۲۱، ۲۸ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ۹،۱۰

Page 418

فرمایا ہے کہ خد اتعالیٰ نے اپنی وحی میں مجھے ایسے لفظوںسے بھی یاد فرمایا ہے کہ جن کی ہر شخص کو سننے اور سمجھنے کی برداشت نہیں ہوتی.یہ وہی مقام ہے جس کومقامِ نبوت کہتے ہیں.بہرحال اس مبسوط مکتوب کے بعد حاجی صاحب نے آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا جس کو ذیل میں درج کر دیتا ہوں جس میں انہوںنے اپنے اعتراضات کو واپس لے کر اظہار معذرت کیا.اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے.اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ.۱؎ (عرفانی کبیر) ٭…٭…٭ مکتوب نمبر ۵ مخدومی مکرمی اخویم حاجی محمدولی اللہ صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.عنایت نامہ کا جواب بھیجا گیا تھا مگر آج تک انتظار رہا کہ آپ کی طر ف سے کوئی جواب آوے تا پورا منشاء خط سابق میں کاظاہر کیا جاوے.آخر جواب سے نا امید ہو کر خود اپنی طرف سے تحریک کی جاتی ہے کہ آں مخدوم کے خط سابق میں اس قدر حرارت اور تلخی بھری ہوئی تھی اور ایسے الفاظ درشت اور ناملائم تھے جن سے ببداہت یہ بُو آرہی تھی کہ آں مکرم کی بدظنی غایت درجہ کے فساد اور خرابی تک پہنچ گئی ہے.اگر کتاب کی خریدوفروخت کا تعلق نہ ہوتا تو ہر گز امید نہ تھی کہ آپ کے قلم سے ایسے الفاظ نکلتے.پس اس سے ثابت ہوا کہ ایسے منحوس تعلق نے آپ جیسے بزرگ کی طبیعت کو آشفتہ کیا اور ابھی معلوم نہیں کہ آشفتگی اور پریشان باطنی کہاں تک منجر ہو.اور اس عاجز کا حال یہ ہے کہ یہ تمام کاروبار بجز ذات باری عزّاسمہ کسی کے بھروسہ پر نہیں.پس اس صورت میں قرین مصلحت ہے کہ فسخ بیع اوراستردا د قیمت مرسلہ سے آپ کی طبیعت کو ٹھنڈ اور آرام پہنچایا جاوے.کیونکہ اس تمام اشتعال کا بجز اس کے اور کوئی موجب نظر نہیں آتا کہ چند درہم کی جدائی نے جو بہر صورت جُدا ہونے والے ہیں آپ کی طبیعت کو تردّد و تاسّف و پریشانی وحیرت میں ڈال دیا ہے.توا سی ۱؎ ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکر التوبۃ

Page 419

نظر سے یہ خط بھیجا جاتا ہے کہ اگر ان سخت اور نالائق الفاظ کا موجب یہی ہے جو میں نے سمجھا ہے تو آپ مجھ کو قیمت کے لئے اطلاع دیں تاکہ آپ کی قیمت مرسلہ واپس کر کے وہ علاج کر دیا جائے جس سے کف لسانی کی سعادت جوشعار مومنین ہے، آپ کو حاصل ہو.اگر آپ رسالہ سرمہ چشم آریہ دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ اس عاجز نے پہلے ہی اشتہار دے دیا ہے کہ اگر کوئی توقف طبع براہین پر ناراض ہو اور اپنی قیمت واپس لینا چاہے تووہ اطلاع دے تو ویسے سب خریداروں کی قیمت واپس ہو گی.آپ پر واضح رہے کہ جولوگ بدظنی کرتے ہیں اور منہ سے گندی باتیں نکالتے ہیں وہ ہمارا کچھ نقصان نہیں کر سکتے.وہ آپ ہی بدظن ہو کرخسر الدنیا و الآخرۃ کے مصداق ٹھہر جاتے ہیں.یہ کاروبار سب جناب الٰہی کی طرف سے ہے اور وہی اس کو بخیر وخوبی پورا کر ے گا.اگر تمام بنی آدم ایسا ہی خیال دل میں پید اکریں جیسا کہ آج کل آپ کا ہے تو تب بھی ایک ذرہ ہم کو ضرر نہیں پہنچا سکتا.ہمارا وہ مربی کریم ہے جس نے تاریکی کے زمانہ میں مامور کیا، وہ ہمارے ساتھ ہے اور وہی کافی ہے..٭ (۱۸؍ ربیع الثانی ۱۳۰۲ھ.۴؍ فروری ۱۸۸۵ء) نوٹ:.یہ مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس یقین اور بصیرت کا مظہر ہے جو آپ کو اپنی ماموریت اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت پر تھی اور آپ ایک کامل یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ آپ کی مخالفت کرنے والے خائب و قاسر ہوںگے اور فتح وظفر کی کلید آپ ہی کے حوالہ کی گئی ہے.یہ مکتوب آج سے ۶۵ برس پہلے کا ہے.براہین احمدیہ کے معرضِ التوا میں آنے کی وجہ سے بدظنی پھیل رہی تھی.لیکن آپ آنے والی کامیابیوں اور ربّانی تائیدات کو دیکھ رہے تھے اس مکتوب سے آپ کے توکل علی اللہ کا بھی پتہ ملتا ہے اور اسی لئے خدا تعالیٰ کی وحی نے آپ کا نام ’’متوکّل‘‘ بھی رکھا.غرض حضرت اقدس کی سیرت مطہرہ کا یہ مکتوب آئینہ ہے.٭ الحکم ۷ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ۸

Page 420

اس مکتوب میںآپ نے براہین احمدیہ کی قیمت کی واپسی کے متعلق اشتہار مندرجہ سرمہ چشم آریہ کابھی حوالہ دیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شائد تاریخوں میں کچھ غلطی ہوئی ہو.مگر اس سے نفس واقعہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس وقت یہ خط لکھ رہے تھے اس وقت آپ نے کوئی خاص دعویٰ بجز بہ حیثیت مجدد مامور ہونے کے نہ کیا تھا.بلکہ آپ بیعت بھی نہ لیتے تھے اور لوگ التجا کرتے تھے تو آپ لَسْتُ بِمَا مُوْرٍیعنی میں مامور نہیں ہوں، فرما دیا کرتے تھے.بہرحال حاجی صاحب سے یہ خط وکتابت ہوئی اور حاجی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں ۲۲؍ جنوری ۱۸۸۵ء کو ایک مکتوب لکھا.جس میں انہوں نے اظہار ندامت کیا.ان خطوط کے اسلوب سے معلوم ہو تاہے کہ حاجی صاحب نے اولاً حضرت اقدس کو ایک خط ایسے طور پر لکھا جس میں آپ کے بعض مضامین کو غلط فہمی سے نیچریت کانتیجہ سمجھا.جب حضرت اقدس نے اپنے مقام اور دعویٰ کی صراحت فرمائی تو حاجی صاحب پر انکشافِ حقیقت ہوا.مگر بعد میں انہیں پھر براہین کے توقف پر اعتراض ہوا تو حضرت اقدس نے یہ جواب دیا.حاجی صاحب کے مکتوب مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۸۸۵ء کو بھی میں یہاں درج کر دینا ضروری سمجھا ہوں.(عرفانی کبیر) ٭…٭…٭

Page 421

مکتوب منجانب حاجی محمد ولی اللہ صاحب اللہ اکبر بخدمت بابرکت مرزا صاحب مجمع فضائل وکمالات دینی و دنیوی دام مجدکم.پس ازا براز لوازم مکرمت واحترام گزارش آنکہ یہ عاجز گنہگار معافی چاہتا ہے.جو سابقاً نیاز نامہ جات ارسال کئے تھے اور اس میں آپ کو مقلد سید احمد نیچری کا تحریر کیا تھا یا کوئی اور لفظ خلافِ ادب تحریر ہوگیا ہو یا آپ کے غائبانہ کوئی لفظ برخلاف ذات شریف او رمنشاء شریف کے زبان پر گزر گیا ہو.کیونکہ وہ وقت نادانی اور ناواقفی اصل حال کا تھا.اس زمانہ میں جو ظلمات کا وعدہ ہے اور ہر طرف سے دیکھا جاتا ہے.جَو فروش گندم نما.اوّل اپنی خوبیوں کو ظاہر کرتے ہیں.پھر وہ اپنی دنیا طلبی دکھلاتے ہیں.یہ بڑی احتیاط کا زمانہ ہے.ا گر احتیاط نہ کرے تو سلامتی ایمان کی ناممکن ہے.اشتہارات اور آوازہ تصنیفات سید احمد کے دیکھ سن کر میں نے ایک دوست کو مشورہ دیا تھا کہ تصنیفات اوس کی منگا لینی چاہئیں تاکہ دیکھ کر اصل بات سے واقفیت پید ا ہوگی.چنانچہ اس نے اپنا روپیہ صرف کیا.جب ان کو دیکھا معلوم ہو اکہ یہ جانب دین سے بالکل پردہ ڈالتے ہیں اور ظلمت کو زیادہ کرتے ہیں اور جیفہ ئِ دنیا کی طرف زور سے پکڑ کر زنجیر سنگین ڈال کر کھینچے لئے جاتے ہیں.اس واسطے بندہ کو افسوس اس مشورہ سے ہوا جس دوست کو مشورہ دیا تھا.اس کی تعلیم اور طبیعت مستعد ہوگئی تھی.اس نے اس کی طرف توجہ مبذول کر لی اور اس کے مسائل پر قائم ہو گیا.چونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نیش نہیں کھاتا اور چھاچھ کو بھی دودھ کی طرح گرم سمجھ کر پھونک پھونک کر نوش کرتا ہے اس واسطے آپ کے اشتہار کو بھی دیکھ کر احتیاطاً اسی قسم کاسمجھا تھا.اب اتفاقیہ مجھ کو دوجلدیں سوم وچہارم کتاب آپ کی دستیاب ہو گئیں اور اوّل سے آخر تک مطالعہ میں آگئی ہیں اور اس عاجز کو وہ ایسی برخلاف تصنیفات سیّد احمد سے معلوم ہوئی ہیں.گویا زمین آسمان کا فرق ہے.یعنی وہ دنیا کی طرف لے جانے کا زور دیتے ہیںاور آپ کی کتاب

Page 422

دین کی طرف لے جاتی ہے.وہ خیالات جو دین اور اہل دین سابقین اوّلین اور متاخرین اورمحققین کی جانب سے بہ جبر منہ پھیرے دیتے ہیں اور شکوک اور تو ہمات دین اور قرآن شریف اور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر شیاطین اور دجّالان سے کسی کے دل میں کسی وقت پید ا ہوتے ہیں ان کی بڑے زور شورسے بیخ کنی کرتی ہے اور انوار او ر برکات کے نزول کاسبب ہوتی ہے.اس زمانہ میں جو مذاہب باطلہ اور اعتقادات ناحقّہ نے بسبب میسر ہو جانے اور پڑھائے جانے علم منطق اور فلسفہ اور ریاضی وغیرہ کے مخالف دین متین کے عموماً رواج اور شہرت پا کر مسلمانوں کے دلوں پر اثر کر کے حقیقت دین اسلام اور قرآن شریف پر پردہ ڈال رہے ہیں اور نیچری اور عیسائی اور آریہ سماج اور دھرم سماج مقابلہ پر کھڑے ہو گئے ہیں اور مسلمانوں میں نادانی اور بے علمی اور مفقود ہونے وجود علماء راستین کے سبب سے مخالفین کی لغویات نے زور ڈال دیا ہے.ضرور تھا اور لازمی تھا کہ خد اتعالیٰ کسی ایسے شخص کو واسطہ محافظت اپنے دین حق کی کرتا.جو مخالفین کامن کل الوجوہ مقابلہ کرتا اور عام خاص کو تزلزل سے بچاتا.سو شکر ہے خداوند کریم رحمن و رحیم کا کہ ہندوستان میں آپ کی ذات کو یہ شرف دیا اور اپنے نبی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ایسے نازک وقت میں، کہ جب ان کی دنیا میں کہیں نہ حکومت باقی ہے نہ ثروت نہ قدر ومنزلت.ملک پر ہر جگہ ذلیل نظر آتے ہیں، تقویت بخشی.دعا ہے اسی سے جو سب کا خالق اور حاکم ربّ العالمین ہے کہ آپ کے الہامات کے منشاء اور اثر کو جیسے اس کی مرضی ہے پورا کرے.ہندوستان میں اس وقت اور ملکوں سے زیادہ اس کی ضرورت تھی.سو شکر ہے ایسے ہندوستان میں آپ کو شرف دیا.جو آپ نے اپنی کتاب کے متن اور حاشیوں میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم و قرآن شریف کے باب میں درج فرمایا ہے.اس میں کوئی مسلمان جاہل اور عالم سوائے اٰمَنَّا اور صدقنا کے زبان پر نہیںلا سکتا.ہاں وہ زبان کھولے جس کو دین اسلام سے ظاہر و باطن میں مس نہ ہو اور شرم وحیاء بھی نہ ہو.البتہ جن اشخاص کو حسد و تکبر غالب ہوگا.وہ آپ کے الہامات اور پیشگوئیوں پراعتراض کریں گے مگر اس عاجز کے خیال میں نہیں آتا وہ ایسا کیوں خیال کرتے ہیں یا کریں گے.جب گزشتہ اولیاء اللہ اور عالمانِ دین سے ایسے الہامات اور کشف اور کرامت سنتے دیکھتے رہے ہیں اور ہرمست مدہوش دیوانہ کے

Page 423

درپے واسطہ حاصل کرنے پیشگوئیوںکے پھرتے رہتے ہیں اور اس وقت کچھ لحاظ اتباعِ سنّت ہونے یا نہ ہونے اس شخص کا نہیں کرتے بلکہ خلاف مذہب کے ایسے لوگوں پر خیال نہیں کرتے.جب ہم ایام گزشتہ میں جس کو سو برس نہیں گزرے جن کے دیکھنے والے اب تک موجود ہیں.خاندان شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اور ان کی اولاد سیّد احمد صاحب مرحوم بریلوی کو دیکھ سن چکے ہیں اور ان کی کتابوں کو معائنہ کر چکے ہیں اور اس میں اس قسم کے الہامات ان کے پڑھ چکے ہیں پھر ہم اب کسی شخص پر انکار نہ کریں جن پر اس قسم کے حالات وارد ہوں اور معلوم ہوں کیونکر انکار کے مستحق ہوسکتے ہیں.جب عموماً اس خاندان کی افضلیت اور باکمال ہونے کے قائل ہیں.یہ قائل ہونا خاص کسی پر منحصر نہیں.اہل اسلام ہندوستان کیا، اہلِ ہنود بھی تعریف اور توصیف سے یاد کرتے ہیں اور اعتقاد اپنا جتلاتے ہیں.اس عاجز نے جب سے ہوش پائی ہے اسی خاندان کو اپنا پیشوا گردانا ہے.اگرچہ بزرگان عاجز کے بھی ایسا خیال کرتے رہے اور محبت پوری بجا لاتے رہے.ان کی تصنیفات اور تالیفات جہاں تک ممکن ہوئی مطالعہ کرتا رہا ہے اور جو ان کے خاندان کاآدمی مل سکا ان سے صحبت کا فیض حاصل کرتا رہا ہے اور اقوال پسندیدہ اور افعال حمیدہ کو ذہن نشین کر کے اس زمانہ کے اشخاص واعظ اور علماء کے اقوال افعال کے قبول کرنے کے لئے انہیں کو معیارمقرر کیا ہے چونکہ آپ کی کتاب جو مطالعہ کی گئی ہے اسے ان کے طریقہ اور خیالات دینی سے متفق پایا اس واسطے اس کو ملنا اور تحسین آفرین کی صدا دل سے بلندہوئی ہے اورآپ کے اقوال کو معتبر تصور کرتا ہوں.جو زبانی مولوی عبدالقادر خلف عبداللہ لودیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ کو مولوی سید احمد صاحب نے جو دیوبند کے قریب رہتے ہیں، جواں صالح فرمایا، ان کی درخواست پر توجہ نہیں فرمائی.اس سے بھی مجھ کو آپ کی تصدیق کی تقویت ملی ہے کہ وہ لوگ بھی صاحب ظاہر و باطن ہیں اور ان کا خاندان بھی ہندوستان میں لاثانی ہے.ان پر انوار الٰہی کا اثر پایا جاتا ہے.یہ بھی ظاہر کرنا کچھ نقص نہیں معلوم ہوتا کہ میں اپنے حال پر اور اہل دین کے خیالات پر جو بندہ کو معلوم ہوئے ہیں کہ جو عموماً حالات مخالفان زمانہ دیکھ سن کر فکر کرتے ہیں تواس وقت ایسے سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے جوابات بھی اس وقت پیدا ہو جاتے ہیں جس کو آپ نے بشرح اور مفصل

Page 424

طور پر اپنی کتاب میں درج فرما کر مشتہر فرمایا ہے.اس سے یہ مراد حاصل ہوتی ہے کہ ملائے اعلیٰ میں توجہ اس طرف ہے اور جس کا انعکاس اس عالم فانی میں ہوتا ہے مگر جس قدر جس کی استعداد ہے اس پر اثرکر تا ہے.آپ کی جیسے استعداد مخلوق فرمائی گئی آپ پر اسی قدر اثر ظاہر ہوا.آپ کو خلعت اس فخر کا پہنایا گیا.اللہ تعالیٰ اپنی عنایت رحمانی سے روز افزوں شرف یاب فرماوے.جو اشارات اور بشارات آپ پر نازل ہوئے ہیں اس کو اعلان فرماوے.آمین ثم آمین.یہ کتاب ایسی اس زمانہ میں ہے جس کی ہر جگہ رائج ہونے کی ضرورت ہے.آپ کی تجویز پر سوائے اَحْسَنْتَ کے اور کچھ زائد کرنا مناسب نہیں ہے مگر دست بستہ نیک نیتی سے عرض کرتا ہوں امید ہے کہ باوجود اس قدر بلند منزلت کے ناگوار نہ ہوگا.اس وقت تعداد قیمت آدھی بھی حالات مسلمانوں پر گراں ہے اور تابع رواج اور اشتہار کے ہو رہی ہے.اکثر غریب مسکین آدمیوں کو شوق دین کا ہوتا ہے.متمول آدمیوں کو تو اپنے اشغال سے فرصت ہی نہیں ہوتی کہ توجہ دنیا سے دین کی طرف کریں.اس واسطے کم استطاعت آدمی قیمت سن کر خاموش رہ جاتے ہیں کہ اپنی قدرو منزلت سے زیادہ سمجھتے ہیں.جب آپ نے کل اوقات او رجائیداد اس کارِخیر میں مستغرق کردی ہے اور آپ کادرجہ اعلیٰ ملائے اعلیٰ میں ہے اس وقت اس فیضان عام کو کیوں محدود کیا گیا ہے؟ استمداد منعم حقیقی پر ہی کیوں تعلق چھوڑا نہیں گیا؟ اب یہ عاجز اپنا حال عرض کرتا ہے کہ ابتداء سے عاجز کو مطالعہ کتاب کا خصوص دینی او ر تواریخ کا اس قدر خیال ہے.جب کتاب دستیاب ہو کسی وقت صبر نہیں آتا جب تک اوّل سے آخر تک مطالعہ نہ کر لیا جاوے.اور درباب خرید کتب ہائے کے شوق نہیں معلوم ہوتا بلکہ روک ہو جاتی ہے.کبھی اپنے ذہن میں مالیخولیااس کوقرار دیتا ہوں او رکبھی بخل.مگر یہ عادت بدلتی نہیں.وجہ اس کی یہ ہے کہ ایام شباب میں جب ایک دفعہ کسی کتاب کومطالعہ کر لیا یا کوئی واقعہ سن لیا یا سامنے گزر گیا.جس وقت بروقت خیال کیا جاتا تھا سہو نہیں ہوتا تھا اور دوسری دفعہ کسی کتاب کو مطالعہ کرنے سے طبیعت نفرت کر جاتی تھی.اب ذ را زیادہ غور سے یاد آتا ہے.جناب سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر یہ باعث بخل کے ہو تو دعافرمائیں کہ خدا تعالیٰ نجات بخشے.

Page 425

حسبِ حال اپنی درخواست کرتا ہوں کہ یہ کتاب بندۂ عاجز کو آپ محض خد اکے واسطے عطا فرماویں اگر خد اکی مرضی ہے.کیونکہ بندہ کا کچھ اختیار نہیں عاجز حسبتہ لِلّٰہِ نہ بلحاظ قیمت محض بنظر حصول خوشنودی وہ خد اوند تعالیٰ کے لئے جلد ارسال خدمت کرے گا.اگر اب کتاب عطا فرمائی ہو جس قدر اب تک طبع ہو چکی ہے.تو ۲۷؍ جنوری سے پہلے عطا فرمائی جاوے کیونکہ بندہ اس درمیان میں غیر حاضر اپنے مقام سے رہے گا.اپنے وطن قصبہ سراوہ چوکی کھر کھو وہ ضلع پرگھہ میں جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور اگر بعد تاریخ مندرجہ بالا عنایت کرنی ہوتو ۸؍فروری تک مقام مندرجہ بالا میں ارسال کرنی چاہئے اور پھر کپور تھلہ میں بھیج دینی مناسب ہے.اگر وطن میں پہنچ جاوے گی، امید ہے وہاں دیکھ کر اور بہت خواہش مند ہوں اور خیالات جو اس عاجز گنہگار کے دل میں واسطے دین کے مستحکم ہوتے تھے ان میں سے اکثر تو مطالعہ کتاب سے ظاہر ہوگیاکہ اس کتاب نے پوری کردی اور امید ہے کہ اتفاق بھی جیسے ضرورت ہے اس سے پیدا ہوا اور نفاق کی بیخ کنی ہو.مگر یہ خیال کہ عام خاص مسلمان پانچوں شرائط اسلام بجا لایا کریں یا جس میں نقص ہے اس کو پورا کریں تب ترقی ہوگی.اور منجملہ اس کے ایک زکوٰۃ ہے جواب فرض ہونا اس کا عام لوگوں کے خیالات سے مفقود ہوگیا ہے اس کو زور دیکر رواج دیا جاوے.اپنا خیال اکثر واعظوں پر ظاہر کیاگیا اور کئی مرتبہ موقع بہ موقع جتلایا گیا کہ مجلس اور کمیٹی مقرر کرکے کیوں اس کو جاری نہیں کرتے جس سے ایسے اخراجات دینی کے اور چندہ وغیرہ بآسانی دئے جا سکیں.صاحبان امرتسر نے چرم قربانی کا تومدرسہ اسلامیہ کے لئے جمع کرنا قرار دیا مگر اس طرف توجہ نہیں کی.جناب توجہ باطنی اگر اس پر فرما کر اور دعا اور التجا بجنابِ باری کرکے خلق کو توجہ دلاویں تو عام خاص اہلِ اسلام کو فائدہ مندہوگا.اب یہ عاجز گنہگار السلام علیکم پر اس عریضہ کو ختم کرکے التجا کرتا ہے کہ اوقاتِ عزیز میں یاد رکھ کر دعائے خیر بابت درستی دنیا و آخرت کے مشرف فرمائے.معروضہ ۲۲؍ جنوری ۱۸۸۵ء روز چہار شنبہ.(پنجشنبہ) عریضہ نیاز گنہگار محمد ولی اللہ از کپور تھلہ

Page 426

خمکتوب نمبر ۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم جناب حاجی ولی اللہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.جو کچھ آں مخدوم نے لکھا ہے وہ بہت مناسب ہے.اس عاجز نے پہلے ہی سے یہ تجویز قرار دے رکھی ہے کہ کتاب براہین احمدیہ بجز متن عبارت و دلائل معقولی اور کچھ درج نہ ہو.اسی وجہ سے الہامات کے بارے میں یعنی پیشگوئیوں میں (جو) ہنوز وقوع میں نہیں آئیں.ایک مستقل رسالہ لکھا گیا ہے جس کا نام سراج منیر ہے.جن لوگوں کی ایسی باتوں سے طبیعت کچھ مناسبت نہیں۱؎ رکھتی ہوگی وہ اس رسالہ کو پڑھیں گے اور جن لوگوں کی طبیعت میں مناسبت نہیں ہوگی ان کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوگا.سو وہ ملامت طبع اور تکدّر خاطر سے محفوظ رہیں گے.اب حصہ پنجم کتاب کے چھپنے میں صرف یہ توقف ہے کہ رسالہ سراج منیر تیار ہے.رسالہ سرمہ چشم آریہ کہ وہ بھی تیار اور مرتب ہے.اکونٹنٹ ڈیرہ غازیخان سے پانسوروپیہ قرض لے کر کاغذ خریدا گیا ہے.اب تین چار روز تک یہ چھپنے شروع ہو جائیں گے.شاید ان کی ایک ایک روپیہ قیمت ہوگی اور قیمت وصول ہو کر حصہ پنجم کتاب کے لئے کام آئے گی.رسالہ سرمہ چشم آریہ، آریوں اور نیچریوں کے ردّ میں لکھا گیا ہے.بنیاد اس رسالہ کی وہ بحث ہے جو ہوشیار پور کے مقام پر آریوں کے ساتھ ہوئی تھی.رسالہ سراج منیر شاید مقبول طبع مبارک نہ ہوگا اس لئے اس کی نسبت لکھنا فضول ہے.لیکن رسالہ سرمہ چشم آریہ میں الہامات کا ذکر نہیں.الاماشاء اللہ.سو اگر آں مخدوم خالصاً للہ ثواب کی نیت سے اور محض خوشنودیٔ باری شانہٗ کی غرض سے کی۲؎ فروخت کرانے میں جدوجہد کریں یہ تو اس سلسلہ کی سعادتوں میں جس کی عظمت کا علم عالم الغیب کو معلوم ہے آپ بھی داخل ہو جائیں اور آپ بفضلہ تعالیٰ اولوالعزم ہیں.اگر متوجہ ہوں تو اس صورت میں کتاب کے لئے بآسانی ۱؎ نقل مطابق اصل.غالباً سہو کتابت سے ’’نہیں‘‘ زائد لکھا گیا ہے.۲؎ نقل مطابق اصل.غالباً سہو کتابت سے ’’کی‘‘ لکھا گیا ہے.’’کتاب‘‘ ہونا چاہیے.

Page 427

مدد کرا سکتے ہیں.ہندو لوگ بھی اس رسالہ سے ناراض نہیں ہیں کیونکہ آریہ سماج والوں سے ہندوؤں کی عداوت ہے.چنانچہ ہوشیار پور کی بحث میں ہندو لوگ باوجود اختلاف مذہب اس عاجز کے بیان پر خوش ہوتے تھے اور آریوں کے بیان پر ناراض.ایک نسخہ رسالہ سرمہ چشم آریہ بعد چھپنے کے آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا.آپ اس کو پڑھ کر اگر مناسب طبع اپنے کے پاویں تو اس میں کوشش کریں.لیکن رسالہ سراج منیر نہیں بھیجوں گا کیونکہ الہامات کی نسبت کسی قدر طبع مبارک میں گرانی ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ان رسالوں کے چھپنے کے لئے جلدی اس غرض سے کی گئی ہے کہ تا حصہ پنجم کے لئے سرمایہ کافی جمع ہو جائے.(۲۱؍مئی ۱۸۸۶ء) ٭ اخبار الحکم ۲۱ تا ۲۸؍ جولائی ۱۹۳۶ء

Page 428

امام الدین فاتح کتاب المبین کے نام امام الدین نام پنجاب میں ایک منصف تھے.انہوں نے اپنے نام کے ساتھ فاتح کتاب المبین کا اضافہ کیا.یہ شخص اس امر کامدعی تھا کہ نعوذ باللہ قرآن مجید نامکمل ہے جب تک اس کے ساتھ ایک ہی جلد میں بائبل کو نہ شریک کیا جائے.قرآن مجید کے متعلق مختلف اوقات میں فتنے اندر اورباہر سے پیدا ہوتے رہے.اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر  ۱؎کے وعدہ کے موافق قرآن مجید کی صداقت اور کمال کو ظاہر فرمایا.عباسیوں کے زمانہ میں خلق قرآن کابڑا خطرناک فتنہ پیدا ہوا.جس نے مسلمانوں کی دینی اور عملی قوت کو ضرب لگائی پھر کبھی بعض لوگوں نے دوسرے رنگ میں عدم تکمیل کا فتنہ برپا کیااور مجھے تعجب ہوتا ہے کہ باوجود ۲؎ پر اعتقاد رکھنے کے پھر ایسے عقیدہ تراشتے رہے.لیکن یہ بھی قرآن کریم کا ایک اعجاز ہے کہ ہر زمانہ میںایسے معترضین کے جواب کیلئے خد اتعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ قرآن کریم زندہ کتاب اور محفوظ صحیفہ مطہرہ ثابت ہوا.اس زمانہ میں بھی قرآن کریم کی شان پر اندرونی اور بیرونی حملے ہوئے اور خدا تعالیٰ نے ان کے کفر کو توڑنے کیلئے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مبعوث فرمایا.آریوں اور عیسائیوں سے قطع نظر خود مسلمان کہلانے والے بعض لوگوںنے بھی نادانستہ قرآن مجید پر حملے کئے.مثلاً وہ جو قرآن کریم پر احادیث کو قاضی اور حَکَمْ ٹھہراتے ہیں.ایسا ہی بعض و ہ لوگ جو قرآن سے تمسک کے مدعی ہوکر احادیث کے مقام کو گراتے ہیں اور یہ تیسرا مدعی جو بائبل کو ساتھ رکھنا ضروری سمجھتا تھا.یہ شخص فوت ہو چکا ہے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط وکتابت کی تھی اور خط وکتابت کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا.میری لائبریری میں وہ موجود تھا.اب میں مرکز سے دور ہوں.حیاتِ احمد میں اس کا تذکرہ توفیق راہ ہوئی تو لکھوں گا.انشاء اللہ العزیز.یہ شخص لاہور کے جلسہ میں بھی شریک ہو اتھا اور اب فوت ہو چکا ہے.دراز قد گندم گوں تھا.( عرفانی کبیر) ۱؎ الحجر: ۱۰ ۲؎ المائدہ : ۴

Page 429

مکتوب نمبر ۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ عنایت نامہ پہنچا.میری نسبت جوآںمکرم خود ستائی واستکبار یاکسی بے جا ادّعا کاظن رکھتے ہیں.اس ظن کی بنا صرف بے خبری وناواقفیت پر ہے.بہتوں نے نبیوں کی نسبت بھی ایسے ہی ظن کئے.پھر جب کسی وقت صحبت میسر ہوئی تو جس کو حق کے ساتھ مناسبت تھی.خدا تعالیٰ نے اس کے وساوس دور کر دیئے.سو اگر آپ صحبت سے ہی دور رہیں اور ملاقات سے کَارِہ توپھر اس بیماری کا کیوں کر علاج ہو.دعا بھی ان ہی لوگوں کے حق میںقبول ہوتی ہے کہ جو اپنے تعصب اور سوئِ ظن کو کچھ کم کرتے ہیں.جن لوگوںکوانکار میںغایت درجہ غلو تھا ان کو اولوالعزم رسولوں کی توجہ اوردعا بھی کچھ سُود مند نہ ہوئی.اور جو آپ اپنے وساوس کے دور کرنے کے لئے مجھے اپنے پاس بُلاتے ہیں، میرے گمان میں اس آرزو کی بنیاد اخلاص پر نہیں.کیونکہ جس حالت میں آپ میری ملاقات سے بھی کَارِہ ہیں تو آپ کو میری ملاقات کچھ فائدہ نہیں دے گی.میرے نزدیک یہ بہتر ہے کہ آپ ایک رسالہ مستقلہ اپنی رائے اور خیال کی تائید میں چھپوا کر میرے پاس بھیج دیں.مگر رسالہ ایسا ہونا چاہیے جس میں وہ سب دلائل مندرج ہوں.جن پر بہ تائید اپنے دعوٰی کے آپ زور دیتے ہیں.اس طور کی بحث سے پبلک کو بہت فائدہ متصوّرہے اور ہر ایک منصف کو بآسانی رائے نکالنے کا موقع مل سکتا ہے.آپ کی رائے میں قرآن شریف پہلی کتابوں کا اس طور سے مُتمِّم و مُکمِّل ہے کہ جو کچھ پہلی تحریرات سے کچھ زیادہ بیان کرنا قرین مصلحت تھا.صرف وہ امر زائد یا کسی قدر مفصل قرآن شریف نے بیان کر دیا ہے.مگر دوسری ہزار ہا صداقتیں کہ جو اچھی طرح پہلی کتابوں میں بیان ہو چکی تھیں.وہ قرآن شریف میں پائی نہیں جاتیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہی ارادہ کیا ہے کہ ان کا اعادہ قرآ ن شریف میں ضروری نہیں.ان کے لئے پہلی کتابوں کی تلاوت لازم پکڑنی چاہئے.ورنہ ایمان اور علم اور عمل ناقص رہے گا.ا ب ایک دانشمند سوچ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ

Page 430

کایہی ارادہ تھا اور قرآن شریف درحقیقت ایک ناقص کتاب ہے اور اس کی تکمیل اس تمام مجموعہ کتب پر موقوف تھی کہ جو حضرت آدم سے لے کر تمام متفرق قوموں کے نبیوں پر نازل ہوتی رہیں تو چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ وہ تمام کتابیں روئے زمین کے مسلمانوں کے لئے میسر کر دیتا.یا قرآن شریف میں ان کے نام بتلا دیتا.مگر اس نے تو بجز حضرت موسیٰ کی کتاب توریت اور حضرت دائود کی کتاب زبور اور صحف ابراہیم اور انجیل کے اور کسی کتاب کا نام بھی نہیں بتلایا اورجن کتابوں کا نام بتلایا اس کے ساتھ یہ دل توڑنے والی خبر بھی دے دی کہ وہ تمام کتابیں محرف اور مبدّل ہیں.غرض (اگر) آپ کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو اوّل وہ دنیا کی تمام کتابیں آپ جمع کر کے دکھلاویں جن کے شمول وا لحاق پر قرآن شریف کی تکمیل موقوف ہے اور اگر وہ نہ ہوں تو قرآن شریف ناقص رہ جاتا ہے.میری دانست میں آپ نے ایک ایسا فضول اور بے بنیاد دعویٰ اپنے ذمہ لیا ہے جس کا ثبوت آپ کیلئے محال اور ممتنع ہے.بینات قرآنی سے آپ کیوں بھاگتے ہیں.کیا کبھی قرآن شریف کی تلاوت کا بھی اتفاق نہیں ہوا.اللہ شانہٗ فرماتا ہے  ۱؎ سوجس حالت میں اللہ جل شانہٗ آ پ فرماتا ہے کہ تمام پاک صداقتیں جو پہلی کتابوں میں تھیںاس کتاب میں درج ہیں تو آپ ایسی جامع کتاب کو کیوں نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں؟ آپ کے لئے یہ طریق بہتر ہے کہ چند پاک صداقتیں کسی پہلی کتاب کی جو آپ کے گمان میں قرآن شریف میں نہیں پائی جاتیں اس عاجز کے سامنے پیش کریں.پھر اگر یہ عاجز قرآن شریف (میں) وہ صداقتیں دکھانے میں قاصر رہا تو آپ کا دعویٰ خود ثابت ہو جائے گا کہ ایسی ضروری اور پاک صداقتیں قرآن شریف میں نہ پائی گئیں ورنہ آپ کو اس غایت درجہ کی بے ادبی سے توبہ کرنی چاہئے کہ جس کتاب کا نام اللہ جل شانہٗ نے جامع الکتب اور نورِ مبین رکھا ہے.آپ اس کتاب کو ناقص ٹھہراتے ہیں.آپ کو اب تک یہ بھی خبر نہیں کہ خود یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ اقوام کے اقرار سے ثابت ہے کہ پہلی کتابیں جو دنیا کے لوگوں پر نازل ہوئی تھیں کچھ توان میں سے بتمام ہا نابود ہوگئیں اور کچھ تحریف کی گئیں اور کچھ ناقص رہ ۱؎ البیّنۃ: ۳،۴

Page 431

گئیںاور اب بصحت و کاملیت و جامعیت دستیاب ہونا ان کتابوں کا محال ہے.پس آپ قرآن شریف کی کاملیت کو محال پر موقوف رکھ کر ایک زہر ناک فتنہ میںلوگوں کو ڈالنا چاہتے ہیں.مگر یہ آپ کے لئے ممکن نہ ہو گا اور عنقریب آپ کو ندامت کے ساتھ اس مفسد اعتقاد سے رجوع کرنا پڑے گا.زیادہ کیا لکھوں.وَالسَّــلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.خاکسار مرزا غلام احمد قادیان (۲۸؍ اپریل ۸۸ء)٭ نوٹ:.اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف کے لئے آ پ کو کس قدر غیرت اور قرآن مجید کی تعلیم پر اس قدر بصیرت اورمعرفت حاصل ہے کہ ہر مخالف کو قرآن مجید ہی سے اس کے کمالات دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس مقابلہ میں کوئی شخص آپ کے سامنے نہیں آتا.(عرفانی کبیر) ٭…٭…٭ ٭ الحکم ۲۱؍ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ۴

Page 432

مکتوب نمبر ۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ دوست میرے دوست جناب مولوی امام الدین صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنائت نامہ پہنچا.میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ بباعث بعض موسمی بیماریوں کے آپ کے خط کا جواب لکھنے سے قاصر ہوں.دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور بوجہ ضعفِ بشریت ایک غلطی جو آپ کے خیال پر غالب آرہی ہے، اس کو رفع دفع فرمادے کہ ہر ایک ہدایت اسی کی طرف سے ہے.اور انشاء اللہ میرا ارادہ ہے کہ براہین احمدیہ کے کسی محل پر آپ کا جواب الجواب لکھوں.نہ بحث کی غرض سے بلکہ اس غرض سے کہ ہادیٔ مطلق اس کے ذریعہ سے آپ کو رہنمائی کرے.مگر میرے نزدیک اس سے پہلے مناسب ہے کہ آپ بائیبل کے ان مقامات کی صاف طور پر تشریح کردیںجن سے نہ صرف یہ بات قطعاً معلوم ہوتی ہے (کہ) وہ قصص و احکام خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی عقلمند و متقی و دیندار کابھی وہ کلام نہیں ہوسکتا.بائیبل میں بعض بیانات عقل و طبعی کے برخلاف ہیںاور بعض خدا تعالیٰ کے تقدس اور اس کی پاک تعلیم کے برخلاف اوربعض اس کے انبیاء کی شان کے برخلاف اور بعض ایسے امور ہیں جو حال کی تحقیقاتوں سے جھوٹے ثابت ہوگئے.مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن شریف اجمالی طور پر تمام امور ضروریہ علمی و عملی کا جامع اور تمام معارف و حقائق پر بطور ایجاز و اجمال مشتمل ہے اور خدا تعالیٰ نے تفصیل کا حوالہ اپنے رسول کی طرف کردیا ہے.جہاں فرمایا ہے کہ جو کچھ رسول دے وہ لے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے باز آجاؤ اور اگر فرض کے طور پر یہ خیال کیا جاوے کہ بغیر بائیبل کے تکمیل قرآن شریف نہیں ہوسکتی اوراگر بائیبل کو قرآن شریف کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر کوئی حکم اور دینی صداقت باہر نہیں رہے گی تو یہ بھی خیال خام اور گمان باطل ہے اور اگر آپ کو سیر احادیث نبویہ ہو تو کس قدر صدہا جزئیات متعلق حقوق عباد و معاملات و حقوق باری عزاسمہ وغیرہ اس میں مندرج ہیں اور پھر کس قدر فقہا نے ان جزئیات کی تشریح کرنے کے وقت اجتہاد سے کام لیا ہے اور کس قدر مسائل پیدا ہوگئے

Page 433

تو آپ کو اقرار کرنا پڑے (کہ) ہاں بڑے زور سے اقرار کرتا ہوں کہ ان ضروری امور سے تمام بائیبل خالی ہے تو پھر ہم بائیبل کی تہیدستی کا شکوہ کہاں لے جائیں اور کس کے پاس جاکر روئیں.سچ تو یہ ہے کہ انجیل اور توریت کی حالت کی نسبت یہ آیت نہایت موزوں معلوم ہوتی ہے. ۱؎.انہوں نے اپنی قوم کو جن کے ہاتھ میں صدہا سال سے یہ کتابیں ہیں، کیا فائدہ پہنچایا ہے جو آپ کو بھی پہنچائیں گی.جن کے گندہ اور غیر مہذب بیانات کی بڑے فاضل انگریز جان پورٹ ولائل جیسے قائل ہوگئے ہیں.اب آپ نے ان میں کیا دیکھ لیا کہ آپ قائل نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ رحم کرے.رَبِّ اغْفِرْ رَبِّ ارْحَمْ وَلاَ تَھْدِی نَفْسٌ اِلاَّ بِفَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ وَ تَوْفِیْقِکَ وَالسَّــلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰ ی.٭ خاکسار مورخہ ۳۰؍ ستمبر ۱۸۸۹ء غلام احمد ٭…٭…٭ ۱؎ البقرۃ: ۲۲۰ ٭ الفضل ۸؍ جنوری ۱۹۴۳ء صفحہ۳

Page 434

مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی کے نام (تعارفی نوٹ) اس مکتوب کے ساتھ سلسلہ کی او ر خاکسار عرفانی کبیر کی تاریخ کا دلچسپ تعلق ہے اس لئے میں اس مکتوب کو درج کر نے سے پہلے اس تعارفی نوٹ کو کسی قدر تفصیل سے لکھوں گا اور میرا یہ بھی مقصد ہے کہ تاریخ سلسلہ کے آنے والے مؤرّخ کے لئے آسانی ہو.مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی حضرت مولوی عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزنداکبر تھے.مولوی سید عبداللہ صاحب اہل اللہ میں سے تھے اور متبع کتاب و سنت تھے.ان کے اہلِ وطن نے ان پرکفر کا فتویٰ دیا اور اپنے ملک سے جلا وطن کیا.وہ امرتسر کے قریب موضع خیردی میں رہتے تھے اور لوگوں میں ان کے تقویٰ اور توکل علی اللہ کاشہرہ تھا.مولوی محمد حسین صاحب کو بھی ان سے ارادت تھی.حضرت مسیح موعود بھی ابتدائی زمانہ میںان کے پاس گئے تھے اور مولوی عبداللہ صاحب کو آپ کے مقامِ رفیع کی اطلاع بھی ملی تھی.ابتداً حضرت کے ساتھ جن لوگوں نے تعلق ارادت پیدا کیا.ان میںایک حصہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے مریدوں میں سے آیا تھا.ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قادیان میں ایک نور چمکے گا اور میری اولاد اس سے محروم رہے گی.مولوی محمد حسین صاحب کی علمی پردہ دری کی بھی انہوں نے باعلام الٰہی خبر دی تھی.غرض مولوی عبدالجبار صاحب ان کے ہی خلف اکبر تھے اور ان کے صاحبزادہ مولوی دائود غزنوی اب تک کانگریس کے داعی تھے اور مسلم لیگ کے مخالف مگر جولائی ۱۹۲۶ء میں انہوںنے یکایک پینترا بدلا اور جس لیگ کی مخالفت کرتے تھے اس میں شریک ہو گئے.شائد کہ ہمیں بیضہ برآردپروبال.مولوی عبدالجبار صاحب ایک عالم تھے اور اپنی جماعت کے سردار.داروغہ محمد عمر صاحب حسین پوری نے امرتسر میں ان لوگوں کے لئے ایک مسجد تعمیر کرد ی تھی اور انکا خاندان جو

Page 435

سارے کا سارا محکمہ نہر میں ملازم تھا.اس خاندان سے ارادت رکھتا اور ان کی ناز برداری کرتا تھا.اس خاندان میں سے حافظ محمد یوسف ضلعداراور ان کے بھائی محمد یعقوب صاحب اپنے مرشد مولوی عبداللہ صاحب کی ہدایتوں کے ماتحت حضرت اقدس سے ارادت رکھتے تھے.اس لئے آپ کے دعویٰ کے بعد غزنوی جرگہ سے ان کے اختلافات بڑھتے گئے.اسی غزنوی جرگہ میں ایک شخص عبدالحق غزنوی بھی تھا.بعض اسے اسی خاندان کا ایک فرد سمجھتے تھے اور بعض شاگرد.بہرحال وہ اسی جرگہ میں ملا جلا تھا اور صوفی اور صاحب الہام مشہور تھا.سارے غزنوی طائفہ کے خلاف اس نے سلسلہ احمدیہ کی مخالفت میں اقدام کیا اور کچھ الہامات شائع کئے اور مباہلہ کا اعلان کر دیا.یہ حضرت کے دعویٰ کے ابتدائی ایام کی بات تھی.حضرت اقدس اس اختلاف کو ایک اختلافی مسئلہ تو قرار دیتے مگر مباہلہ کے لئے سند چاہتے تھے.اسی سلسلہ میں یہ خط مولوی عبدالجبار صاحب کو لکھا گیا.میرا تعلق اس اشتہار سے حضرت اقدس کا یہ (اشتہار) ریاض ہند امرتسر اور پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں شائع ہوا.میں اس وقت لاہور کے ماڈل سکول میں فورتھ ہائی کا طالب علم تھا.حضرت صاحب کی بیعت تو میں۱۸۸۹ء میں کر چکا تھا مگر وہ ایک رسمی اور تقلیدی بیعت تھی گو حسن عقیدت سے ہی تھی مگر اس کے بعد لاہور آجانے کی وجہ سے میرا چنداں تعلق نہ رہا.ہاں بدستور حسن ظن اور اعتقاد حضرت کی نسبت قائم تھا اور میں پیسہ اخبار لاہور کیلئے( جس کا میں ۱۸۸۷ء سے خریدار تھا) خبروں اور بعض کہانیوں کا ترجمہ فارغ وقت میں کیا کرتا تھا اور پیسہ اخبار کے دفتر میں ایک مولوی سید احمد لکھنوی اور منشی اللہ دتہ صاحب سیالکوٹی بھی کام کرتے تھے.مارچ ۱۸۹۱ء کے پہلے یا دوسرے ہفتہ کا واقعہ ہے کہ پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں یہ خط اس عنوان سے شائع ہوا.’’آنے والا مسیح آگیا ہے جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہوں دیکھے اور جس کے کان سننے کے ہوںسنے‘‘ منشی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار جانتے تھے کہ میں مذہبی آدمی ہوں اور بار ہا انہوں نے مجھے انار کلی میں عیسائیوں اورآریوں کے خلاف لیکچر دیتے اور مباحثے کرتے ہوئے دیکھاتھا.انہوں نے مجھے اور مولوی سید احمد اور منشی الہ دتا کو بلایا اورکہا کہ ایک نئی خبر سناتا ہوں.اس پر انہوںنے یہ مضمون سنایا.

Page 436

میرا علم ومعرفت نہایت ہی کمزور تھی.میں نے مضمون سن کر اظہار افسوس کیا اور جو ناداں صوفیوں سے سنا ہو اتھا کہ سلوک کے راستہ میں بعض وقت کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے اور ایسے بزرگ کچھ دعویٰ کر دیتے ہیں، میںنے بھی یہی کہا کہ حضرت کو نعوذ باللہ ٹھوکر لگی ہے.اس سے زیادہ میں نے کچھ نہ کہا اور نہ حضرت کے متعلق کوئی شبہ پیدا ہوا.بات آئی گئی.کچھ دنوں کے بعد مجھے رسالہ فتح اسلام مل گیا.میں نے اسے تین چار مرتبہ پڑھا اور مجھے شرح صدر ہو گیا.میںنے رسالہ جیب میںرکھا اور دفتر جا کر ان ہر سہ کی موجودگی میں ان کو گواہ کر کے کہا کہ میرا خیال غلط تھا.حضرت مرزا صاحب واقعی مسیح موعود ہیں اور حضرت مسیح ابن مریم فوت ہو گئے اور رسالہ فتح اسلام سے بعض پیریگراف سنائے.اس پر منشی محبوب عالم صاحب نے کہا تم بڑے متلوّن مزاج ہو.چند روز پیشتر وہ خیال ظاہر کیا اور آج ان کے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہو.میں نے کہا آپ نے تلوّن کی حقیقت ہی نہیں سمجھی.اپنی غلطی سے رجوع کر کے صداقت کو قبول کرنا تو اعلیٰ درجہ کی خوبی ہے.اس پر وہ بحث ختم ہو گئی اور میں نے حضرت کو اپنا یہ سارا قصہ لکھ دیا.اللہ تعالیٰ نے منشی الہ دتا صاحب کو تو سلسلہ میں داخل کر دیا.سید احمدناول نویس تھے ان کو کچھ توجہ ہی نہ ہوئی اور منشی محبوب عالم صاحب مخالفت بھی کرتے رہے اور اس کے بعد خاکسار عرفانی کبیرکو تو علی الاعلان اس پیغام کو لاہور کے بازاروں میں پہنچانے کی سعادت نصیب ہوئی اور حضرت اقدس کے سفر لاہور کے ایام میں مخالفین سے ماریں بھی کھائیں.والحمد للّٰہ علٰی ذٰلک.یہ واقعہ میں نے اس اشتہار کے سلسلہ میں لکھ دینا ضروری سمجھا.حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ کا تعلق حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی زندگی کو بھی عبدالحق کے اشتہار مباہلہ سے ایک تعلق ہے.آپ نے اس سلسلہ میں حضرت کو ایک خط لکھا جس میں مزید انکشاف بذریعہ سوالات کیا گیا تھا.حضرت اقدس نے حضرت نواب کو جو مکتوب گرامی لکھا وہ آپ کے مکتوبات میں چوتھے ۱؎ نمبر پر درج ہے.جس میں حضرت اقدس نے نواب صاحب ۱؎ حضرت نواب صاحب کے نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ مکتوب اس خط کے آخر میں دیا جاتا ہے.

Page 437

کے طریق استفسار کو سعادت کی نشانی قرار دیا اور لکھا کہ’’ میری نظر میں طلب ثبوت اور انکشاف حق کا طریقہ کوئی جائز اور ناگوار طریقہ نہیں بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہئِ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں.لہٰذایہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوابلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے.‘‘ اس وقت یہ پیشگوئی تھی اور حقیقت ثابتہ ہو گئی.اس طرح یہ خط میری زندگی کے نشیب وفراز میں ایک موڑ کا مقام ہے اور مجھے بہت ہی عزیز ہے.اس خط کی ایک نقل حضرت حکیم الامۃ خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو بھی آپ نے اپنے ایک مکتوب کے ساتھ بھیجی تھی.وہ مکتوب حضرت خلیفہ اوّلؓ کے نام کے مکتوب میں کسی وجہ سے شائع نہ ہو سکا.۹؍ فروری ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس نے جو مکتوب لکھا تھا اس میں عبدالحق غزنوی کے اشتہار کا ذکر ہے اور آپ نے یہ خیال بھی ظاہر فرمایا کہ درحقیقت یہ اشتہار مولوی عبدالجبار صاحب کی طرف سے معلوم ہوتے ہیںاور اس مکتوب میں بھی حضرت نے اشارہ کیا ہے.مولوی عبدالجبار صاحب نے ا س کا کوئی جواب نہیں دیا.چونکہ حضرت حکیم الامت کے نام کا مکتوب رہ گیا ہے اس لئے اسے بھی یہاں درج کر دیتا ہوں.اس خط پر جو نوٹ لکھا گیاہے وہ حضرت مولوی عبدالکریم صافی رضی اللہ عنہ کا لکھا ہوا ہے.چنانچہ لکھتے ہیں.اب ہم ایک خط چھاپتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب نے مولانا مولوی نورالدین صاحب کے نام لکھا ہے.اس خط کو پڑھتے وقت ہمیں قرآن حمید کی وہ آیت یاد آئی اور جناب ہادی کامل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے اثبات میں ایک بڑی زبردست خطابی دلیل پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے. ۱؎ ان کو کہہ دو کہ میں تمہیں اللہ کی طرف جو بلاتا ہوں تو میں اپنے مشن کی صداقت کی نسبت مذبذب و متردّد نہیں ہوں.بخلاف اس کے مجھ کو کامل وثوق ہے، پوری بصیرت ہے کہ میں راست باز ہوں اوراس لئے بالیقین کامیاب ہونے والا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ اہل سکینہ صادق ہیں اور مذبذب دلی مضطرب متعمدکاذب کے لہجے اور ۱؎ یوسف: ۱۰۹

Page 438

کلام کی تلوّنیات میںفرق عظیم ہوتا ہے.حضرت مرزا صاحب کا یہ خط بڑی بھاری دِلی طمانیت اپنے مولائے کرام پر قوی اعتماد و وثوق کی خبر دیتا ہے.فقرہ فقرہ سے اس کے با مذاق عارفین سمجھ سکتے ہیں کہ پس پردہ کوئی حمایت و نصرت کی بشارت و تسلّی دینے والا ضرور ہے اورا س وادیِٔ ایمن کے منتخب اولوالعزم کی طرح جو ابتدامیں ضعف بشریت کی تحریک سے اَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ کا عذر پیش کرتا تھا مگر بالآخر ۱؎کی بشارت آمیز آواز پر سر کش ناخدا ترس قوم کی طرف بے خوف چل دیا.جہاں بھی عادت اللہ اس مجدّد کو تقویت دے رہی ہے.عجب ہیں وہ دل جو اس پر رقیق ہونے میں نہ آئیں.انہیں ہر وقت یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہئے.مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اَذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ.۲؎ خد اوند فرماتا ہے میرے دوست سے جو بیر کرے میں اسے اپنے ساتھ لڑنے کا نوٹس دیتا ہوں.وہ خوف کریں کہ ایسانہ ہو کہ وہ خدا سے لڑنے والے ٹھہریں.حضرت نواب محمدعلی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے.مگر میں اس خط کو یہاں اس لئے درج کر دیتا ہوں کہ زمانہ آئندہ کے مؤرّخ کو آسانی ہو.(الف) (عرفانی) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا محبت نامہ عین انتظار میں مجھ کو ملا.جس کومیںنے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا.میری نظر میں طلب ثبوت اور انکشافِ حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے.بلکہ سعیدوں کی ہی نشانی ہے کہ وہ ورطۂ مُذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں.لہٰذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا.بلکہ نہایت خوش ہے اور آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امیدیں بڑھتی ہیں.۱؎ طٰہٰ: ۴۷ ۲؎ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع حدیث ۶۵۰۲

Page 439

اب آپ پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میںنے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا.اگر امرمتنازعہ فیہ میں قرآن اور حدیث کی رو سے مباہلہ ہو تو میںسب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیں جب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کے اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے.کسی کی طرف سے عمداً افترا یاد روغ بیانی نہیں.کیونکہ مجرد ایسے اختلافات میں جو قطع نظر مصیب یا مخطی ہونے کے صحت نیت اور اَخلاق اور صدق پر مبنی ہیں، مباہلہ جائز ہوتا اور خدائے تعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مخطی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام اسلام کاروئے زمیں سے خاتمہ ہو جاتا کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ’’ جو فریق حق پر نہیں اس پر بَلا نازل ہو.‘‘ اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث.اب جب کہ فرض کیاجائے کہ سب فرقے اسلام کے جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اور خدائے تعالیٰ، اس پر جو حق پر نہیں، عذاب نازل کرے تواس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقہ اسلام کے روئے زمیں سے نابود کئے جائیں.اب ظاہر ہے کہ اس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرنا پڑتا، وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اور مسلمین ہے، کیونکر جائز ہو گا.پھر میں کہتا ہوںکہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلافات کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ۱؎ یعنی اے خدا ہماری خطا معاف کر اور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفو فرما بلکہ مصیب اور مخطی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہرگز نہیں.اگر اس اُمت کے باہمی اختلافات کا مباہلہ سے فیصلہ ہونا ضروری ہے پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کیلئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے تاکہ ایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے.کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گا اور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہو گا.وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں.۱؎ الحشر:۱۱

Page 440

اب میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کس صورت میںمباہلہ جائز ہے.سو واضح ہو کہ دو۲ صورت میںمباہلہ جائز ہے.(۱) اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعوٰے رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیر اللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتا ہوں.وہ یقینی امرہے.(۲) دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کوذلیل کرنا چاہتا ہے مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے.کیونکہ میں نے بہ چشم خود اس کو زنا کرتے دیکھا ہے یا مثلاً یہ ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خوار ہے اور میں نے بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھاہے.سو اس حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے.کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رویت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے.جیسے مولوی اسماعیل صاحب نے کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طور پر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اور انہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کر کے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے.سو مولوی اسمعٰیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی اہانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی.جس کی اپنے ایک دوست کی رویت پر بنا رکھی تھی.لیکن اگر بنا صرف اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طور پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے تو یہ کوئی تعجب نہیں.بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا.اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے.غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں.پس مَانَحْنُ فِیْہِ میں مباہلہ اس وقت جائز ہو گاجب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدّعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مُصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں.بلکہ ہم یقین کلّی سے اس شخص کومفتری جانتے ہیں اورہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کی اصل حقیقت

Page 441

خدائے تعالیٰ جانتا ہے بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی اصل حقیقت ہمیں معلوم ہو چکی ہے.اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کریں تو پھر کچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے.وہ مشورہ نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیں کیا گیا صرف اتمام حجت کی غرض سے طلب کیا گیا ہے.سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جاوے.یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص آپ ہی یقین نہیں کرتا وہ مباہلہ کس بنا پر کرنا چاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعویٰ میں یقین ظاہر کرے.صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو.مباہل کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خدائے تعالیٰ کو معلوم ہے.وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہو گیا ہے.تب مباہلہ کی بنا پید ا ہوتی ہے.پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا بھی سن لینا ضروری امر ہے.یعنی جو شخص خدا ئے تعالیٰ سے مامور ہوکر آیا ہے اسے لازم ہے کہ اوّل دلائل بیّنہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا وے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے.پھر اگر اس کے بیانات کو سن کر اشخاص منکرین باز نہ آویں اورکہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیں کہ ُتو مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے.یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست اس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کر کامل طورپر تبلیغ ہو چکی تھی.یہ عاجز کسی طرح نہیں چاہتا.صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو او ر ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں.پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اورصاف صاف بیان سے اپنا حق ہونا ظاہر کر لے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اُٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا.مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک و شبہ کو راہ نہیں بلکہ رؤیت کی طرح قطعی ہے.ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزہ ہے کہ جیسے رؤیت، تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو.مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے تا حجت پوری ہو جائے.کبھی سنا نہیں گیا کہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ… ہی شروع ہو گیا.غرض اس عاجز کو مباہلہ سے ہرگز انکار نہیں مگر اسی طریق سے جو

Page 442

اللہ تعالیٰ نے اس کو پسند کیا ہے.مباہلہ کی بنا یقین پر ہوتی ہے نہ اجتہادی خطاو صواب پر.جب مباہلہ سے غرض تائیدِ دین ہے تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے.یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالۃ الاوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا.مگر شرط یہ ہے کہ ابھی آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں.اس کا مضمون آپ تک امانت رہے.اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یکجائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے.تا خدانخواستہ قبل از وقت طبیعت سیر نہ ہو جائے.مگر آپ کے اصرار سے آپ کیلئے طلب کروں گا.چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اورحفاظت میں یہ کاغذات ہیں.اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا.اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے.آپ کیلئے ملاقات کرنا ضروری ہے.ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرناچاہئے.والسلام خاکسار غلام احمد نوٹ:.اس خط پر تاریخ نہیں ہے.لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے.اس لئے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے.نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے تعلق تحریک کی تھی.جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی تھی.اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا.اس مکتوب سے آپ کی سیرت پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعاوی پر بھی.جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو صاف فرماتے ہیں.پہلے یہ عاجزانبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لاوے.اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاجِ نبوت پر پیش کیا ہے.دوسرے آپ استکشافِ حق کے لئے کسی سوال اورجرح کو نہیں مٹاتے بلکہ سائل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے.اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں.(عرفانی کبیر)

Page 443

مکتوب نمبر ۹ بنام مولوی عبدالجبار غزنوی مشفقی و اخی مولوی عبدالجبار صاحب! السلام علیکم.ایک اشتہار جو عبدالحق کے نام سے جاری کیا گیا ہے.جس میں مباہلہ کی درخواست کی ہے.کل کی ڈاک میں مجھے ملا.چونکہ میں نہیں جانتا کہ عبدالحق کون ہے.آیاکسی گروہ کا مقتدی یا مقتدا ہے.اس وجہ سے آپ ہی کی طرف خط ہذا لکھتا ہوں.اس خیال سے کہ میری رائے میں وہ آپ ہی کی جماعت میں سے ہے اور اشتہار بھی دراصل آپ ہی کی تحریک سے لکھا گیا ہو گا.پس واضح ہو کہ مباہلہ پر مجھے کسی طرح سے اعتراض نہیں.جس حالت میںمَیںنے اس مدعا کی غرض سے قریب بارہ ہزار کے خطوط و اشتہارات مختلف ملکوں میں بڑے بڑے مخالفوں کے نام روانہ کئے ہیں تو پھر آپ سے مباہلہ کرنے میں کون سی تأ ّمل کی جگہ ہے.یہ بات سچ ہے کہ اللہ شانہٗ کی وحی اور الہام سے میںنے مثیلِ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث نبویہ میںخبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے.سو میں اسی الہام کی بنا پر اپنے تئیں وہ موعود مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں.مجھے اس بات سے انکار بھی نہیں کہ میرے سوا کوئی اور مثیلِ مسیح بھی آنے والا ہو.بلکہ ایک آنے والا تو خود میرے پر بھی ظاہر کیا گیا ہے جو میری ہی ذرّیت میں سے ہو گا.لیکن اس جگہ میرا دعویٰ جو بذریعہ الہام مجھے یقینی طور پر سمجھایا گیا ہے.صرف اتنا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث میں میرے آنے کی خبر دی گئی ہے.میں اس سے ہرگز انکار نہیں کر سکتا اور نہ کروں گا کہ شائد مسیح موعود کوئی اور بھی ہو اور شائد یہ پیشگوئیاں جومیرے حق میں روحانی طور پر ہیں ظاہری طور پر اس پر جمتی ہوں اور شائد سچ مچ دمشق میں کوئی مثیلِ مسیح نازل ہو.لیکن میرے پر یہ کھول دیا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم جس پر انجیل نازل ہوئی تھی فوت ہو چکا ہے اور یحییٰ کی روح کے ساتھ اس کی روح دوسرے آسمان میں اور اپنے سماوی مرتبہ کے موافق بہشت بریں کی سیر

Page 444

کررہی ہے.اب وہ روح بہشت سے بموجب وعدہ الٰہی کے جو بہشتیوں کے لئے قرآن شریف میں موجود ہے، نکل نہیں سکتی اور نہ دو موتیں ان پر وارد ہو سکتی ہیں.ایک موت جو اُن پر وارد ہوئی وہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے اور ہمارے اکثر مفسر بھی اس کے قائل ہیںاور ابن عباس کی حدیث سے بھی اس کا ثبوت ظاہر ہے اور انجیل میں بھی لکھا ہے اور نیز توریت میں بھی.اب دوسری موت ان کے لئے تجویز کرنا خلافِ نص و حدیث ہے.وجہ یہ کہ کسی جگہ ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دو مرتبہ مریں گے.یہ تو میرے الہامات اور مکاشفات کا خلاصہ ہے جو میرے رگ وریشہ میں رچا ہوا ہے اور ایسا ہی اس پر ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ کتاب اللہ پر.اور اسی اقرار اور انہی لفظوں کے ساتھ میں مباہلہ بھی کروں گا اور جو لوگ اپنے شیطانی اوہام کو ربانی الہام قرار دے کر مجھے جہنمی اور ضال قرار دیتے ہیں.ایسا ہی ان سے بھی ان کے الہامات کے بارہ میں اللہ شانہٗ کی حلف لوں گا کہ کہاں تک انہیں اپنے الہامات کی یقینی معرفت حاصل ہے.مگر بہرحال مباہلہ کے لئے میں مستعد کھڑا ہوں، لیکن امور مفصلہ ذیل کا تصفیہ ہونا پہلے مقدم ہے.اوّل یہ کہ چند مولوی صاحبان نامی جیسے مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری بالاتفاق یہ فتویٰ لکھ دیں کہ ایسی جزئیات خفیفہ میںاگر الہامی یا اجتہادی طور پر اختلاف واقع ہو تو ا س کافیصلہ بذریعہ لعن طعن کرنے اور ایک دوسرے کو بد دعا دینے کے جس کا دوسرے لفظوں میں مباہلہ نام ہے، کرنا جائز ہے.کیونکہ میرے خیال میں جزئی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کو لعنتوں کا نشانہ بنانا ہر گز جائز نہیں.کیونکہ ایسے اختلافات اصحابوں میں ہی شروع ہو گئے تھے.مثلاً حضرت ابن عباس محدّث کی وحی کو نبی کی وحی کی طرح قطعی سمجھتے تھے اور دوسرے ان کے مخالف بھی تھے.ایسے ہی صاحب صحیح بخاری کا یہ عقیدہ تھا کہ کتب سابقہ یعنی توریت و انجیل وغیرہ محرف نہیں ہیں اور ان میں کچھ لفظی تحریف نہیں ہوئی.حالانکہ یہ عقیدہ اجماع مسلمین کے مخالف ہے اور بایں ہمہ سخت مضر بھی ہے اور نیز بہ بداہت باطل.ایسا ہی محی الدین ابن عربی رئیس المتصوّفین کا یہ عقیدہ ہے کہ فرعون دوزخی نہیں ہے اور نبوت کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا اور کفار کے لئے عذاب جاودانی

Page 445

نہیں اور مذہب وحدت الوجود کے بھی گویا وہی موجد ہیں.پہلے ان سے کسی نے ایسی واشگاف کلام نہیں کی.سو یہ چاروں عقیدے ان کے ایسا ہی اور بعض عقائد بھی اجماع کے برخلاف ہیں.اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرّہٗ کا یہ عقیدہ ہے کہ اسماعیل ذبیح نہیں ہیں بلکہ اسحاق ذبیح ہے.حالانکہ تمام مسلمانوں کا اسی پر اتفاق ہے کہ ذبیح اسماعیل ہے اور عیدالاضحیٰ کے خطبہ میں اکثر مُلاّصاحبان رو رو کر انہی کا حال سنایا کرتے ہیں.اسی طرح صدہا اختلافات گزشتہ علماء و فضلاء کے اقوال میں پائے جاتے ہیں.اسی زمانہ میں بعض علماء مہدی موعود کے بارہ میں دوسرے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں کہ وہ سب حدیثیں ضعیف ہیں.غرض جزئیات کے جھگڑے ہمیشہ سے چلے آتے ہیں.مثلاً یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا.مگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اور ان کی جماعت نے اس اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے اور بقول میاں عبدالحق اکیلے رہے حالانکہ حدیث صحیح میں ہے گو خلیفہ وقت فاسق ہی ہو بیعت کرلینی چاہئے اور تخلّف معصیت ہے.پھر انہی حدیثوں پر نظر ڈال کر دیکھو جو مسیح کی پیشگوئی کے بارہ میں ہیں کہ کس قدر اختلافات سے بھری ہوئی ہیں.مثلاً صاحب بخاری نے دمشق کی حدیث کو نہیں لیا اور اپنے سکوت سے ظاہر کر دیا کہ اس کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں ہے.اور ابن ماجہ نے بجائے دمشق کے بیت المقدس لکھا ہے اور اب حاصل کلام یہ ہے کہ ان بزرگوں نے باوجود ان اختلافات کثیرہ کے ایک دوسرے سے مباہلہ کی درخواست ہر گز نہیں کی اور ہرگز رو انہیں رکھا کہ ایک دوسرے پر لعنت کریں بلکہ بجائے لعنت کے یہ حدیث سناتے رہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ ۱؎ اب یہ نئی بات نکلی ہے کہ ایسے اختلافات کے وقت میں ایک دوسرے پر لعنت کریں اور بد دعا اور گالی اور دُشنام کر کے فیصلہ کرنا چاہئے.ہاں اگر کسی ایک شخص پر سراسر تہمت کی راہ سے کسی فسق اور معصیت کا الزام لگایا جاوے.جیسا کہ مولوی اسماعیل صاحب ساکن علی گڑھ نے اس عاجز پر لگایا تھا کہ نجوم سے کام لیتے ہیں اور اس کانام الہام رکھتے ہیں تو مظلوم کو حق پہنچتا ہے کہ مباہلہ کی درخواست کرے.مگر جزئی اختلافات میں ۱؎ کنزالعمال نمبر۲۶۸۶ جلد۱۰ الطبعۃالاولٰی ۱۹۷۱ء مکتبہ التراث الاسلامی حلب

Page 446

جو ہمیشہ سے علماء و فقراء میں واقع ہوتے رہتے ہیں.مباہلہ کی درخواست کرنا یہ غزنوی بزرگوں کا ہی ایجاد ہے، لیکن اگر علماء ایسے مباہلہ کا فتویٰ دیں تو ہمیں عذر بھی کچھ نہیں.کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اس ملاعنہ کے طریق سے جس کا نام مباہلہ ہے اجتناب کریں.تو یہی اجتناب ہمارے گریز کی وجہ سمجھی جائے اور حضرات غزنوی خوش ہو کرکوئی دوسرا اشتہار عبدالحق کے نام سے چھپوا دیں اور لکھ دیں کہ مباہلہ قبول نہیں کیااوربھاگ گئے.لیکن دوسری طرف ہمیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر ہم مسلمانوں پر خلاف حکم شرع اور طریق فقر کے، لعنت کرنے کے لئے امرتسر پہنچیں تو مولوی صاحبان ہم پر یہ اعتراض کردیں کہ مسلمانوں پر کیوں لعنتیں کیں اور ان حدیثوں سے کیوں تجاوز کیاجو مومن لعّان نہیں ہوتا اور اس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہتے ہیں.سو پہلے یہ ضروری ہے کہ فتویٰ لکھا جاوے اور اس فتویٰ پر ان تینوں مولوی صاحبان کے دستخط ہوں جن کا ذکر میں لکھ چکا ہو ں.جس وقت وہ استفتاء مصدقہ بموا ہیر علماء میرے پاس پہنچے تو پھر حضرات غزنوی مجھے امرتسر پہنچا سمجھ لیں.ماسوا اس کے یہ بھی دریافت طلب ہے کہ مباہلہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں منجانب اللہ تجویز کیا گیا تھا.وہ کفارو نصاریٰ کی ایک جماعت کے ساتھ تھا جو نجران کے معزز اور مشہور نصرانی تھے.اس سے معلوم ہوا کہ مباہلہ جو ایک مسنون امرہے کہ اس میں ایک فریق کا کافر یا ظالم کس کو خیال کیا گیا ہے اور نیز یہ بھی دریافت طلب ہے کہ جیسا کہ نجران کے نصاریٰ کی ایک جماعت تھی.آپ کی کوئی جماعت ہے یا صرف اکیلے میاں عبدالحق صاحب قلم چلا رہے ہیں؟ تیسرا یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اس اشتہار کے لکھنے والے درحقیقت کوئی صاحب آپ کی جماعت میں سے ہیں جن کا نام عبدالحق ہے یا یہ فرضی نام ہے.اور یہ بھی دریافت طلب ہے کہ آپ بھی مباہلین کے گروہ میں داخل ہیں یا کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں.اگر داخل نہیں تو کیا وجہ؟ اور پھر وہ کونسی جماعت ہے جن کے ساتھ نساء و ابناء و اخوان بھی ہوں گے جیسا کہ منشاء آیت کا ہے.ان تمام امور کا جواب بواپسی ڈاک ارسال فرماویں اور نیز یہ سارا خط میاں عبدالحق کو بھی حرف بحرف سُنا دیں اور میاں عبدالحق نے اپنے الہام میں جو مجھے جہنمی اور ناری لکھا ہے اس کے جواب میں مجھے کچھ ضرورت لکھنے کی نہیں ہے کیو نکہ مباہلہ کے بعد خود ثابت ہوجائے گا کہ اس خطاب کا مصداق

Page 447

کون ہے.لیکن جہاں تک ہو سکے آپ مباہلہ کے لئے کاغذ استفتاء تیار کرکے مولوی صاحبین موصوفین کی مواہیر ثبت ہونے کے بعد وہ کاغذ میرے پاس بھیج دیں.اگر اس میں کچھ توقف کریں گے یا میاں عبدالحق چپ کر کے بیٹھ جائیںگے تو گریز پر حمل کیا جائے گا اور واضح رہے اس خط کی چار نقلیں چار اخبار میں اور نیز رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دی جائیںگی.والسلام علی من اتبع الہدٰی.٭ الراقم خاکسار یکم رجب ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۱؍ فروری ۱۸۹۱ء غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور حضرت مرزا صاحب بنام مولوی نورالدین صاحبؓ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل آپ کی خدمت میں مولوی عبدالجبار صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے خط روانہ کر چکا ہوں اور مجھے اس بات سے بہت خوشی ہے جس کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا کہ مولیٰ کریم اور میرا آقا و محسن عز اسمہ جل شانہٗ مجھے فتح و نصرت کی بشارت دیتا ہے اور ان لوگوں کے فیصلہ کیلئے مجھے ایک راہ بتاتا ہے جنہوں نے الہامات کا ادّعا کر کے ا س عاجز کو ضال، ملحد اور جہنمی قرار دیا ہے اور جرأت کر کے اس مضمون کو شائع بھی کر دیا.اور جو ان باتوں سے اپنے بھائی مسلمان کو آزار پہنچاتا ہے ا وراس کی تذلیل ہوتی ہے اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی اور طریق تقویٰ کی رعایت نہیں رکھی.اس لئے یہ امر خدا تعالیٰ کی جناب میں کچھ سہل و آسان نہیں بلکہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا گیا تھا.سو مجھے خدا تعالیٰ کی نصرت کی خوشبو آرہی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ مجھے ایک ایسی راہ کی رہبری کرتا ہے جس سے جھوٹوں کا جھوٹ کھل جائے.اگر یہ الزام صرف میری ذات تک محدود ہوتا تو دوسرا امر تھا لیکن اس کا بداثر ہزاروں ٭ الفضل ۹؍ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ۳ تا۵

Page 448

لوگوں پر ہوتا ہے.جہنمی اور ضال کے لفظ میں سب قسم کے عیب بھرے ہوئے ہیں.سو میں انشاء اللہ القدیر ان امور کے پورے طور پر کھلنے کے بعد جن کی مجھے بشارت دی گئی ہے اور پھر ان کے چھپوانے کے بعد ان لوگوں سے رجسٹر شدہ خطوط کے ذریعہ سے درخواست کروں گا اور انشاء اللہ القدیر وہ ایسا امر ہو گا جو کاذب کی پردہ دری کردے گا..والسلام خاکسار ٭ ۱۶؍ فروری ۱۸۹۱ء مرزا غلام احمد

Page 449

مکتوب نمبر ۱۰ نقل عبارت اقرار نامہ میرزا غلام احمد صاحب قادیانی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ یہ خط جو جماعت مسلمانانِ لودہیانہ وغیرہ نے لکھا ہے.میں نے اوّل سے آخر تک پڑھا.مجھے ہر طرح منظور و مقبول ہے کہ الہٰ بخش صاحب تونسوی سنگہڑی یا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی یا نظام الدین صاحب بریلوی یا مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی یاغلام فرید صاحب چاچڑاں والا ظاہری و باطنی طور پر بحث کرنے کے لئے تشریف لاویں.مجھے تحریری و زبانی طور پر بحث منظور ہے، کچھ عذر نہیں.اور باطنی طور پر مقابلہ کرنا خود میرا منشاء ہے.کیونکہ میں یقینی جانتا ہوں کہ خداوند قدیر میرے ساتھ ہے.وہ ہر یک راہ میں میری مدد کرے گا.غرض میں بلا عذر ہر طرح حاضر ہوں اور مباحثہ لاہور میں ہو کہ وہ مقام صدر ہے اور رئیس لاہور امن وغیرہ کے ذمہ دار ہو گئے ہیں.٭ الراقم میرزا غلام احمد قادیانی بقلم خود ۲۳؍ اگست ۱۸۹۱ء مطابق ۱۷؍ محرم الحرام ۱۳۰۹ھ محلہ اقبال گنج لودہیانہ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر ٭ (منقول از ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر ۲۴؍ اگست ۱۸۹۱ء صفحہ۴)

Page 450

اہل اسلام لودہانہ کا خط علمائے مخالفین کے نام مندرجہ ذیل خط میں صرف اس لئے درج کرر ہا ہوں کہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے تعارفی نوٹ میںاس کا ذکر آیا ہے مولوی رشید احمد صاحب اور دوسرے علماء پر عام اور ممتاز اہل اسلام کی طرف سے زور دیا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کو اختلافات سے بچانے کے لئے ایک مباحثہ کر کے فیصلہ کریں مگر کسی کو ہمت نہ ہوئی.چونکہ یہ مکتوب معزز و ممتاز علمائے لودہانہ و لاہور کی طرف سے ہے اور تاریخ سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے اس لئے درج کر رہا ہوں اور اس کا جواب جو حضرت اقدس نے دیا تھا.(عرفانی کبیر)

Page 451

مکتوب نمبر ۱۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی خط از طرف اہل اسلام لودہانہ خط بنام ۱.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ۲.مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی ۳.خواجہ نظام الدین صاحب بریلوی ۴.خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑ انوالہ ۵.خواجہ الہٰ بخش صاحب تونسوی سنگھڑی از طرف جماعت مسلمانان لودہانہ وغیرہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ہم سب لوگ جن کے نام اس خط کے نیچے درج ہیں.آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیںکہ مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب مصنف کتاب براہین احمدیہ آج کل لودہانہ میںآئے ہوئے ہیں اور بڑے زور شور سے اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیٰ نبیّنَا و علیہ الصلوٰۃ والسلام درحقیقت فوت ہو گئے ہیں اور دوسرے مُردوں کی طرح جنود اَرواح گزشتہ میں داخل ہیں.پھر اس عالَم میںکسی طرح سے نہ آئیں گے اور ا س زمانہ کے لئے جس مسیح کی روحانی طور پر آنے کی خبر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ میں دی گئی ہے.وہ مسیح موعود میں ہو ں.مرزا صاحب اور ان کی جماعت قرآن شریف کی آیتیں بکثرت پیش کرتے ہیں اور اقوال صحابہ اپنی تائید دعویٰ میں لاتے ہیں اور اس دعویٰ کے ثبوت میں تین کتابیں ایک فتح اسلام دوسری توضیح مرام تیسری ازالہ اوہام بڑی

Page 452

شدومد سے شرح و بسط سے تصنیف کی ہیں اور روز بروز ان کے سلسلہ کو ترقی ہے اور معتبر طور سے معلوم ہے کہ چودہ۱۴ عالم فاضل متبحر آج تک ان کی جماعت میں داخل ہوگئے ہیں.یہ عجیب انقلاب دیکھ کر حق کے طالب نہایت حیرت میں ہیں کہ ایک طرف تو ان کی جماعت ترقی پر ہے اور دوسری طرف مشاہیر علماء اور اکابر صوفیاء کنارہ کش ہیں.اگر کوئی مولویوں میں سے بحث کرنے کے لئے آتا بھی ہے تو مغلوب ہو کر ایک طور سے اور بھی زیادہ ان کے سلسلہ کو تائید پہنچاتا ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو پنجاب میں مشہور عالم ہیں.بحث کرنے کے لئے آئے جس کا آخری نتیجہ یہ ہو اکہ ان کی کمزوری اور گریز کو دیکھ کر اور بھی کئی شخص ان کی جماعت میں داخل ہوگئے اور ایک بڑی خجالت کی یہ بات ہوئی کہ مرزا صاحب نے روحانی طور پر بھی ایک تصفیہ کی درخواست کی کہ تم بھی دعا کرو اور ہم بھی دعا کریں تا مقبول اور اہلِ حق کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر ہو.لیکن مولوی محمد حسین صاحب نے اس طرف رخ بھی نہ کیا.اب التماس یہ ہے کہ آپ اکابر جلیل القدر صوفیاء اور صاحب عرفان اور صاحب سلسلہ اور فاضل اور مشاہیر علماء سے ہیں.آپ سے بڑھ کر اور کس کاحق ہے کہ دونوں طریق سے یعنی ظاہری اور باطنی طور پر آپ مرزا غلام احمد صاحب سے مقابلہ اور موازنہ کریں اور دونوں طور سے بحث کرنے کے لئے تشریف لاویں.ہم نے مرزا صاحب سے منظور کرا لیا ہے کہ ہم ( جن کے نام خط ہے) بلواتے ہیں.وہ آپ سے دونوں طور ظاہری و باطنی سے مقابلہ کریں گے اور وہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے زندہ بجسم عنصری آسمان پر اُٹھائے جانے اور ا ب تک زندہ ہونے اور آخری زمانہ میں نزول از آسمان کرنے پر دلائل قاطعہ اور نصوصِ صریحہ اور احادیث صحیحہ پیش کریں گے اور نیز باطنی طور پر اپنی کچھ کرامات بھی دکھائیں گے.پھر اگر آپ نے (جن کے نام خط ہے) اُن سے دونوں طور ظاہری اور باطنی میں مقابلہ نہ کیا اور بھاگ گئے تو ہم سخت مخالف بن کر آپ کی اس ہزیمت کو شہرت دیں گے بلکہ ہم نے مرزا صاحب سے لکھوا لیا ہے جس کی نقل آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے اور ہم نے حلف کے طور پر وعدہ کر لیا ہے.ضرور وہ صاحب ( جن کے نام خط ہے) ان دونوں طور کی بحثوں کے لئے لودہانہ میں تشریف لے آئیں گے.کیونکہ نازک وقت پہنچ گیا تھا اور لوگ جوق در جوق ان کی پیروی اختیار کرتے

Page 453

جاتے ہیں.ایسے وقت میں، جس میں ہزار ہا مسلمان کا ایمان تلف ہو، اگر بزرگانِ دین اور علماء اہل یقین، کام نہ آئے تو کب آئیںگے؟ ہاں ہم نے مرزا غلام احمد صاحب سے قسم کھا کر یہ بھی وعدہ کر لیا ہے کہ اگر (جن کے نام خط ہے) اس بحث کے لئے تشریف نہ لائے.تو پھر یہ بات پنجاب اور ہندوستان کے اخباروں میں چھپوا دیں گے کہ وہ گریز کر گئے اور وہ حق پر نہیں ہیں.لہٰذا ہم سب لوگ ادب سے اور عاجزی سے آپ کی خدمت میں خواستگار ہیںکہ آپ حسبۃً للہ اس کام کے لئے ضرور تشریف لاویں اور مسلمانوں کو فتنہ سے بچا ویں.ورنہ اگر آپ تشریف نہ لائے تو ناچار ایفائے عہد کے لئے آپ کا گریز کرنا حتی الوسع تمام اخباروں میں شائع کر دیا جائے گا.اسی طرح اگر مرزا غلام احمد صاحب نے گریز کی تو اس سے دس حصہ زیادہ اخباروں کے ذریعہ سے ان کی قلعی کھولی جائے گی.اورہمیں یقینی طور پر امید ہے کہ آپ دونوں طور کی بحث کے لئے ضرور تشریف لے آئیں گے اور قیامت کی باز پرس سے اپنے آپ کو بچائیںگے.لہٰذا ہم نے ایک ایک نقل اسی درخواست کی چند اخباروں میں بھی بھیج دی ہے اورآخری نتیجہ کا مضمون جو کچھ بعد اس کے ہو گا، چھپنے کے لئے بھیجا جائے گا.آپ جلد تشریف لاویں.سب مخلصین منتظر ہیں.ہم آپ کے جواب کی.آج کی تاریخ سے کہ ۱۸؍ محرم الحرام ۱۳۰۹ھ مطابق ۲۴؍ اگست ۱۸۹۱ء ہے.ایک ماہ تک انتظار کریں گے.اگر اس عرصہ تک خدانخواستہ آپ تشریف نہ لائیں تو ناچار عہد کے موافق کلماتِ حقّہ آپ کی نسبت شائع کر دئیے جائیںگے اور واضح رہے کہ ہم تین فریق کے آدمی ہیں.بعض ہم میں سے مرزا صاحب کے مرید ہیں اوربعض حسن ظن رکھنے والے اور بعض نہ حسن ظن رکھنے والے اور نہ مرید ہیں.لیکن ہم سب حق کے طالب ہیں.اَلْحَقُّ حَقٌّ.والسلام ابو اللمعان سراج الحق جمالی نعمانی سرساوی سرج اللہ وجہ.شیخ نور محمد ہانسوی.شیخ عبدالحق لودیانوی.قاضی خواجہ علی ٹھیکیدار شکرم.محمد خاں ساکن کپور تھلہ.حافظ حامد علی لودہیانوی.سید عباس علی صوفی.مولوی محمود حسن مدرس.منشی محمد اروڑا نقشہ نویس ساکن کپور تھلہ.منشی فیاض علی.منشی ظفر احمد اپیل نویس ساکن کپور تھلہ.منشی عبدالرحمن اہلمد جرنیلی کپور تھلہ.منشی حبیب الرحمن برادر زادہ حاجی ولی محمد صاحب جج مرحوم ساکن کپور تھلہ.مستری جان محمد.سردار خاں

Page 454

کوٹ دفعدار ساکن کپور تھلہ.شیخ سدوری ضلع ہوشیار پور.منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے.خیر الدین خاں سوار رجمنٹ نمبر ۱۷.حکیم عطاء الرحمن دہلوی.مولوی افتخار احمد ابن سجادہ نشین حضرت منشی احمد جان صاحب نقشبندی لودہیانوی.حافظ نور احمدتاجر پشمینہ لودہیانوی.سائیں بہادر شاہ لودہیانوی.سائیں عبدالرحیم شاہ.جیوا تاجر پشمینہ لودہیانوی.حافظ محمد بخش تاجر لودہیانہ.مولوی محمد حسین ساکن کپور تھلہ.قاضی شیخ احمد اللہ ملازم کپور تھلہ.منشی الہ بخش محرر دفتر لودہیانہ.مولوی چراغ الدین مدرس مشن اسکول لودہیانہ.قاضی عبدالمجید خاں شاہزادہ لودہیانہ.مولوی عبدالقادر مدرس جمال پور.ماسٹر محمدبخش لودہیانہ.مولوی تاج محمد ساکن بھوکڑی علاقہ لودہیانہ.مولوی نور محمد ساکن مالگوٹ علاقہ لودہیانہ.مولوی عبداللہ مجتہد لودہیانہ.مولوی نظام الدین لدھیانہ.مولوی الہ دیا واعظ ردّ ِنصاریٰ لدھیانوی.عبداللہ سنوری پٹواریعلاقہ پٹیالہ.ماسٹر قادر بخش لدھیانوی.مولوی محمد یوسف سنوری علاقہ پٹیالہ.منشی ہاشم علی پٹواری علاقہ پٹیالہ.مولوی حشمت علی مدرس پٹیالہ.عبدالرحمن سنوری علاقہ پٹیالہ.روشن دین ٹھیکیدار کپور تھلہ.شیر محمد خاں لدھیانوی.مولوی عبدالکریم سیالکوٹی.مولوی غلام قادر فصیح ایڈیٹر و پروپرائٹر پنجاب گزٹ سیالکوٹ.سید حامد شاہ سیالکوٹی.سید رخصت علی ڈپٹی انسپکٹر ضلع سیالکوٹ.مولوی غلام احمد انجینئر ریاست کشمیر.مولوی عبدالغنی عرف غلام نبی خوشابی.حکیم فضل الدین بھیروی.مولوی مبارک علی سیالکوٹی.مفتی محمد صادق مدرس جموں کاشمیر.میر عنایت علی لدھیانوی.شیخ چراغ علی ساکن گورداسپور.شیخ شہاب الدین ساکن تھہ غلام نبی.شیخ حافظ حامد علی ساکن تھ غلام نبی.مولوی غلام حسین پشاوری.خواجہ عبدالقادر شاہ لدھیانوی چشتی.سید فضل شاد لاہوری.نواب محمد اشرف علی خاں لدھیانوی.محمد عبدالحکیم خاں طالب علم میڈیکل کالج لاہور.منشی کرم الٰہی لاہوری.مولوی خدابخش اتالیق.الہٰ بندہ ہانسوی.شیخ فتح محمد ساکن جموں نائب شرف محکمہ جنرل ڈیپارٹمنٹ سری نگر کشمیر.مولوی محمد حسن خاں لودہیانوی.مولوی خد ابخش بستی شیخ.سید عبدالہادی سب اوورسیر بلیلی ملک بلوچستان.مرزا یوسف بیگ ساکن سامانہ.عبدالکریم خاں ناظر ریاست پٹیالہ.نواب عشرت علی خاں لودہیانوی ناظرعدالت سمرالہ.نواب محمد حسین خاں خلف نواب محفوظ علی خاں جھجری حال

Page 455

لدھیانہ.گلاب خاں دفعدار لدھیانوی.عبدالکریم خاں کلرک نہر لدھیانوی.مولا بخش ماسٹر لودہیانہ.عمر بخش چھنانوالہ.شہاب الدین لدھیانوی.امیر خاں سمرالہ.مولوی غلام محمد نقل نویس تحصیل سمرالہ.شیخ نور احمد مالک و مہتمم ریاض ہند امرتسر.الہٰ بخش پارسل کلرک پھلور.حاجی عبدالرحمن لدھیانوی.منشی خادم حسین خلف رشید داروغہ محمد قاسم خوشنویس لدھیانوی.محمداسمعیل.عبدالکریم سیالکوٹی.غلام محمد سیالکوٹی.مولوی محمد الدین سیالکوٹی.مولوی نورا لدین ساکن بھوکری ضلع لودہیانہ.سید امیر علی شاہ سیالکوٹی سارجنٹ پویس.منشی رحمت اللہ ممبر میونسپل کمیٹی گجرات و تاجر پارچات.رحمت سکنہ غوث گڑھ علاقہ پٹیالہ.مولوی حکیم سید محی الدین ساکن تنکور علاقہ ریاست میسور.الٰہی بخش ساکن غوث گڑھ علاقہ ریاست پٹیالہ.علی بخش ساکن چک علاقہ پٹیالہ.میر محمود شاہ سیالکوٹی.محبوب عالم درویش ساکن کپور تھلہ.مہر علی ساکن تھہ غلام نبی.نور محمد نمبردار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ.عطا الٰہی ساکن غوث گڑھ.عمر الدین لدہیانوی.امام بخش از خاندان میاں د سوندی شاہ صاحب مرحوم.منصب علی محرر.غلام ربی لودہیانوی.اس کے ساتھ ایک دوسرا خط مسلمانان لاہور نے علماء کے نام مباحثہ کے لئے شائع کیا تھا.جو اسی ضمیمہ ریاض ہند کے صفحہ اوّل پر ہے.اس کو بھی ناظرین کی واقفیت کے لئے اسی جگہ نقل کر دیا جاتا ہے.(المرتب)٭ ٭…٭…٭ ٭ مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۲۰۰،۲۰۱

Page 456

مکتوب نمبر ۱۲ دوسرا خط از طرف اہلِ اسلام لاہور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ خط بنام مولوی محمد صاحب لکھو کے.مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے.مولوی عبداللہ صاحب تبتی.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری.مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی.مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی.مولوی عبدالعزیز صاحب لودیانوی.مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری.مولوی محمد سعید صاحب بنارسی.مولوی محمد احسن صاحب امروہی حال وارد بھوپال.مولوی نور الدین صاحب حکیم.مولوی عبداللہ صاحب ٹونکی.از طرف اہل اسلام لاہور بالخصوص حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار و خواجہ امیرا لدین صاحب و منشی عبدالحق صاحب و منشی شمس الدین صاحب سکرٹری حمایت اسلام و مرزا صاحب ہمسایہ خواجہ امیرالدین صاحب و منشی کرم الٰہی صاحب وغیرہ وغیرہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جو دعاوی حضرت مسیح علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موت اور خود مسیح موعود ہونے کی نسبت کئے ہیں آپ سے مخفی نہیں.ان کے دعاوی کی اشاعت اور ہمارے اَئمہ دین کی خاموشی نے مسلمانوں کو جس تردّد اور اضطراب میں ڈال دیا ہے وہ بھی محتاجِ بیان نہیں.اگرچہ جمہور علماء موجودہ کی بے سُود مخالفت اور خود مسلمانوں کے پُرانے عقیدہ نے مرزا صاحب کے دعاوی کا اثر عام طور پر نہیں پھیلنے دیا مگر تاہم اس امر کے بیان کرنے کی بلاخوف تردید جرأت کی جاتی ہے کہ اہلِ اسلام کے قدیمی اعتقاد نسبت حیات و نزول عیسیٰ ابن مریم میں بڑا تزلزل واقع ہو گیا ہے.اگر ہمارے پیشوایانِ دین کا سکوت یا ان کی خارج از مبحث تقریر اور تحریر نے کچھ اور طول پکڑا تو احتمال کیا بلکہ یقین کامل ہے کہ اہلِ اسلام َ َعلی العموم اپنے

Page 457

پُرانے اور مشہور عقیدہ کو خیر باد کہہ دیںگے تو پھر اس صورت اور حالت میں حامیانِ دین متین کو سخت تر مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا.ہم لوگوں نے جن کی طرف سے یہ درخواست ہے اپنی تسلی کیلئے خصوصاً اور عامہ اہلِ اسلام کے فائدہ کے لئے عموماً کمال نیک نیتی سے بڑی جدوجہد کے بعد ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مولوی حکیم نورالدین صاحب کے ساتھ (جو مرزا صاحب کے مخلص معتقدین میں سے ہیں) مرزا صاحب کے دعاوی پر گفتگو کرنے کے لئے مجبور کیا تھا.مگر نہایت ہی حیرت ہے یہ کہ ہماری بد قسمتی سے ہمارے منشاء اور مدّعا کے خلاف مولوی ابو سعید صاحب نے مرز اصاحب کے دعوئوں سے جو اصل مضمون بحث تھا، قطع نظر کر کے غیر مفید امور میں بحث شروع کر دی.جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ متردّدین کے شبہات کو اور تقویت ہوگئی اورزیادہ تر حیرت میں مبتلا ہو گئے.اس کے بعد لودہیانہ میں مولوی ابو سعید صاحب کو خود مرزا صاحب سے بحث کرنے کا اتفاق ہوا.تیراں روز گفتگو ہوتی رہی.اس کا نتیجہ بھی ہمارے خیال میں وہی ہوا جو لاہور کی بحث سے ہوا تھا.بلکہ اس سے بھی زیادہ تر مضر.کیونکہ مولوی صاحب اس دفعہ بھی مرزا صاحب کے اصل دعاوی کی طرف ہرگز نہ گئے.اگرچہ جیسا کہ سنا گیا ہے اور پایہ اثبات کوبھی پہنچ گیا ہے.مرزا صاحب نے اثنائے بحث میں بار ہا اپنے دعوئوں کی طرف مولوی صاحب کو متوجہ کرنے کی سعی کی.چونکہ علماء وقت کے سکوت اور بعض بے سُود تقریر و تحریر نے مسلمانوں کو علی العموم بڑی حیرت اور اضطراب میں ڈال رکھا ہے اور اس کے سوا ان کو اور کوئی چارہ نہیں کہ اپنے اما مانِ دین کی طرف ر جوع کریں.لہٰذا ہم سب لوگ آپ کی خدمت میں نہایت مؤدبانہ اور محض بنظر خیر خواہی برادرانِ اسلام درخواست کرتے ہیںکہ آپ اس فتنہ و فساد کے وقت میدان میں نکلیں ا ور اپنے خداداد نعمت علم اور فضل سے کام لیں اور خداکے واسطے مرزا صاحب کے ساتھ ان کے دعاوی پر بحث کر کے مسلمانوں کو ورطہئِ تذبذب سے نکالنے کی سعی فرما کر عندالناس مشکور و عنداللہ ماجور ہوں.ہم چاہتے ہیں کہ آپ جن کی ذات پر مسلمانوں کو بھروسہ ہے، خاص لاہور میں مرزا صاحب کے ساتھ ان کے دعوٰے میں بالمشافہ تحریری بحث کریں.مرزا صاحب سے ان کے دعوٰے کا ثبوت کتاب اللہ او ر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا جاوے یا ان کو اس قسم کے دلائلِ بیّنہ سے توڑا

Page 458

ا جاوے.ہماری رائے میں مسلمانوں کی تسلی اور رفع تردّد کے واسطے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں.اگر آپ اس طریق بحث کو منظور فرماویں (اور امید واثق ہے کہ آپ اپنا ایک اہم منصبی اور مذہبی فرض یقین کر کے محض اِبْتِغَائً لِوَجْہِ اللّٰہِ وَھدائے خلق اللّٰہ ضرور قبول فرماویںگے) تو اطلاع بخشیں تاکہ مرزا صاحب سے بھی اس بارہ میں تصفیہ کر کے تاریخ مقرر ہوجاوے اور آپ کو لاہور تشریف لانے کی تکلیف دی جاوے.تمام انتظام متعلقہ قیام امن وغیرہ ہمارے ذمہ ہوگا اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ اُٹھانی پڑے گی.جواب سے جلدی سرفراز فرماویں.والسلام ٭ * ٭…٭…٭ ٭ (از ضمیمہ ریاض ہند امرتسر مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۸۹۱ء صفحہ۱) * مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۲۰۱ تا۲۰۳

Page 459

مولوی محمد بشیر سہوانی ثُمَّ بھوپالی کے نام (تعارفی نوٹ) مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی دراصل سہوان کے باشندے تھے اور بہ سلسلہ ملازمت بھوپال میں نواب صدیق حسن خاں صاحب کے علماء کے زُمرہ میں ملازم تھے.چونکہ نواب صاحب خود اہلِ حدیث تھے.اس لئے انہوں نے مشہور علماء اہل حدیث کو اپنے سلسلہ تالیفات کے لئے جمع کر لیا تھا.چنانچہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرو ہی بھی اسی ذیل میں تھے اور مولوی بشیر صاحب سے ان کے گہرے تعلقات تھے.مولوی بشیر صاحب ایک پستہ قد گندم گوںتھے.اس میںکچھ شبہ نہیں علوم عربیہ درسیہ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اپنے دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا تو مولوی بشیر صاحب اور مولانا سید محمد احسن صاحب میں خلوت میں تبادلۂ خیالات ہوتا رہا.مولوی سید محمد احسن صاحب اثباتِ دعویٰ کا پہلو لیتے تھے اور مولوی بشیر صاحب اس پر اعتراض کرتے تھے.مگر یہ مناظرہ مخالفت کے لئے نہ تھا بلکہ احقاقِ حق کے لئے.آخر یہ تسلیم کر لیا گیا کہ حضرت اپنے دعویٰ میںصادق ہیں.مولانا سیّد محمد احسن صاحب نے تو اَخلاقی جرأت سے کام لے کر بیعت کر لی مگر مولوی بشیر صاحب متأمّل رہے.جب بھوپال کا سلسلہ ملازمت ختم ہو گیا تو مولوی صاحب بھوپال سے دہلی آکر جماعت اہلحدیث کے امام ہو گئے اور یہ چیز ان کی راہ میں بڑی روک ہو گئی.۱۸۹۱ء کی آخری سہ ماہی میں حضرت اقدس لودہانہ سے دہلی تشریف لے گئے.جب مولوی سید نذیر حسین صاحب جو شیخ الکل کہلاتے تھے مقابلہ اور مباحثہ کے لئے نہ آئے.حیلہ سے اس پیالہ کو ٹلا دیا تو لوگوں نے مولوی بشیر صاحب کو بحث پر آمادہ کیا.جہاں تک حقیقت ہے وہ کرہاً آمادہ ہوئے.ان کے مباحثہ کے حالات رسالہ الحق دہلی (سیالکوٹ) میں شائع ہو گئے تھے.مولوی صاحب آنے کو تومیدان میں آئے مگر نون ثقیلہ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے.جہاں تک میرا ذاتی علم ہے

Page 460

مولوی بشیر صاحب ایسے مخالف نہ تھے جیسے محمد حسین بٹالوی وغیرہ بلکہ وہ کسی قدر ادب حضرت کا ملحوظ رکھتے تھے.ان پر صداقت کھل چکی تھی.مگر بعض دوسرے معاشی اسباب ان کی راہ میں روک تھے.چنانچہ جب مباحثہ کے لئے حضرت اقدس کی قیام گاہ پر آئے، اپنے آنے کی اطلاع کی تو حضرت اقد س بالا خانہ سے نیچے آئے اور مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر مؤَدّبانہ سلام علیکم کہا اور بے اختیار آپ سے معانقہ کے لئے لپٹ گئے.حضرت تواسکے عادی نہ تھے.صاحبزادہ سراج الحق صاحب بیان کرتے تھے کہ حضرت کھڑے رہے اور مولوی صاحب لپٹے رہے اورمولوی صاحب بھی آخر بیٹھ گئے اور حضرت اقدس بھی تشریف فرما ہوئے.میں نے اس واقعہ کو اس لئے نقل کیا ہے کہ مجھ پر ان کے متعلق یہی اثر تھا کہ وہ اندر سے مخالفت کا جذبہ نہیں رکھتے.وہ اب مر چکے واللّٰہ حسیبہٗ.پھر جب ۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس ؑ دہلی تشریف لے گئے میں بھی ساتھ تھا.مولانا سیّد محمد احسن صاحب امروہی نے مولوی بشیر صاحب کو ملاقات کے لئے ایک خط لکھا اور میںخود وہ خط لے کرگیا.مولوی صاحب نے خلوت ہی میں مجھے کہا کہ اس وقت ملاقات مصلحت کے خلاف ہے.میری طرف سے بہت بہت سلام دیا جائے اور میری معذوری پر معافی طلب کی جائے.میں نے ان میں شوخی اور گستاخی نہ پائی تھی.انہیں ایام میں کچھ خطوط اور رقعہ جات ان کو لکھے گئے تھے.میں عزیز مکرم مہاشے فضل حسین صاحب کے لئے بہت دعاکرتا ہوں کہ انہوں نے ان رقعہ جات کو مخالفین کے لٹریچر میں سے لے کر محفوظ کر دیا.جَزَا ء ہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآئِ (عرفانی الکبیر) یہ خطوط حضور علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء میں رقم فرمائے تھے جب کہ حضور دہلی میں قیام فرما تھے اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی کے ساتھ مناظرہ کی تجویز ہو رہی تھی.یہ خطوط مخالفین نے حضور علیہ السلام اور مولوی محمد بشیر صاحب کے مابین تحریری مناظرہ کی تمہید میں شائع کئے ہیں جس کا نام الحق الصریح فی اثبات حیات المسیح ہے (خاکسار ملک) فضل حسین کارکن صیغہ تالیف و تصنیف.

Page 461

خمکتوب نمبر ۱۳ حضرت حجۃ اللہ کا خط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مکرم مولوی محمد بشیر صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ جس کا لفظ لفظ اخلاص و تقویٰ سے بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے.لودہیانہ میں مجھ کو ملا مگر چونکہ میں اتفاقاً ضلع علیگڑھ کی طرف چلا گیا تھا اور پھر واپس آ کر ۱۹؍ اپریل ۸۹ء کو قادیان کی طرف چلا آیا اِس لئے جواب لکھنے سے مجبور رہا.جو کچھ آپ نے لکھا ہے بالکل سچ لکھا ہے جس سے خلوص اور طلب حق کی بُو آتی ہے.اللہ جلّشانہٗ نے قرآن مجید میں اولیاء اللہ کی پانچ علامتیں لکھی ہیں.جب تک وہ پانچوں علامتیں کسی میں نہ پائی جائیں تب تک وہ ولی اللہ نہیں ہو سکتا اور قبل اس کے جو کسی کی ولایت کو شناخت کیا جائے اُس سے بیعت کرنا جائز نہیں لیکن اولیاء اللہ کو شناخت کرنا ہر ایک آنکھ کا کام نہیں.اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں کہ  ۱؎ کچھ شک نہیں کہ اولیاء اللہ میں خوارق و آیات بینات پائی جاتی ہیں.لیکن جب تک خدا تعالیٰ نہ چاہے وہ موجب ہدایت نہیں ہوسکتے.ہاں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی ولی کے خوارق و آیات پر اطلاع پاوے اُس پر لازم ہے کہ دو طریقوں میں سے ایک طریق اختیار کرے.(۱) یا یہ کہ نہایت درجہ کا دوست بن جاوے.(۲) یا یہ کہ نہایت درجہ کا دشمن بن جاوے.کیونکہ جب تک دوستی یا دشمنی انتہا تک نہ پہنچے تب تک اس قوم کے خواص معلوم نہیں ہو سکتے.آپ جو طالب صادق ہیں امید ہے کہ دوستی میں ترقی کریں گے خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی طرف سے قوت و بصیرت بخشے.آمین ثم آمین ٭ والسلام علی من اتبع الہدٰی ۲۴؍ اپریل ۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۱؎ الاعراف: ۱۹۹ ٭ الحکم ۳۰؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۴

Page 462

مکتوب نمبر ۱۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم مولوی محمد احمد صاحب سلمہٗ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حسب استفسار آپ کے عرض کیا جاتا ہے کہ مجھے حضرت مولوی محمد بشیر صاحب سے مسئلہ حیات و وفات مسیح ابن مریم علیہ السلام میں بحث کرنا بدل وجان منظور ہے.پہلے بہرحال یہی ہو گی بعداس کے حضرت مولوی صاحب ان کے نزول کے بارے میں بھی بحث کر لیں.بحث تحریری ہو گی.ہر ایک فریق سوال یا جواب لکھ کر حاضرین کو سناد ے گا.والسلام خاکسار ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۵ مجھے یہ منظور ہے کہ اوّل حضرت مسیح ابن مریم کی وفات حیات کے بارے میں بحث ہو.اس بحث کے تصفیہ کے بعد پھر ان کے نزول اور اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں مباحثہ کیا جائے اور جو شخص طرفین میں سے ترک بحث کر ے گا اس کا گریز سمجھا جائے گا.( الحق الصریح صفحہ ۲۵) نوٹ: مولوی محمد بشیر صاحب کے ایک اعلان کے جواب میںرقم فرمایا تھا جو ان کے شائع کردہ مباحثہ دہلی بنام الحق الصریح فی اثبات حیات المسیح صفحہ ۲۵ پر درج ہے.مگر اس کے نیچے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستخط یا نام نہیں لکھا گیا.٭…٭…٭

Page 463

مکتوب نمبر ۱۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ حضرت مولوی محمد بشیر صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے آپ کی تشریف آوری سے بہت خوشی ہوئی اور خط آمدہ اخویم مولوی سیدمحمد احسن صاحب سے آپ کے اخلاق اور متانت اور تہذیب کا حال معلوم ہو کر دل پہلے سے ہی مشتاق ہو رہاتھا کہ اس مسئلہ میں آپ سے اِظہاراً لِلحَقّ بحث ہو.سو الحمد للہ آپ تشریف لے آئے.آج مجھے بوجہ ضروریات فرصت نہیں.کل انشاء اللہ القدیر کوئی تاریخ مقرر کر کے اطلاع دوں گا.لیکن بحث تحریری ہوگی.تاہر ایک فریق کا بیان محفوظ رہے اور دور دست لوگوں کو بھی رائے نکالنے کا موقعہ مل سکے.سب سے اوّل مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث ہو گی.حیات مسیح علیہ السلام کا آپ کو ثبوت دینا ہوگا.اس ثبوت کے بعد آپ دوسری بحث کر سکتے ہیں.آپ کی خدمت میں ایک اشتہار بھی بھیجا جا تا ہے جس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ حیات و وفات مسیح میں کن شرائط کی پابندی سے آپ کو بحث کرنا ہو گا.والسلام.خاکسار ۲۱؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء عبداللہ الصمد غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۷ نمبر ۵.مکرمی اخویم مولوی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل دس بجے کے بعد بحث ہو یا اگر ایک ضروری کام سے فرصت ہوئی تو پہلے ہی اطلاع دے دوں گا.ورنہ انشاء اللہ القدیر دس بجے کے بعد تو ضرور بحث شروع ہو گی.صرف اس بات کا التزام ضروری ہوگا کہ بحث اس عاجز کے مکان پر ہو.اس کی ضرورت خاص وجہ سے ہے جو زبانی بیان کر سکتا ہوں.جلسہ عام نہیں ہوگا.صرف دس آدمی تک جو معزز خاص ہوں آپ ساتھ لا سکتے ہیں.مگر شیخ بٹالوی اور مولوی عبدالمجید ساتھ نہ ہوں اور نہ آپ کو ان بزرگوں کی کچھ ضرورت ہے.والسلام ۲۲؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 464

مکتوب نمبر ۱۸ نمبر۶.جناب مولوی صاحب مکرم.السلام علیکم میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان تمام شرطوں کو جو میں اپنے کل کے پرچہ میں لکھ چکا ہوں.قبول کرنے سے کسی قسم کا انحراف یا میلان انحراف ظاہر نہ کریںگے.یعنی جن لوگوں کو آنے سے روکا ہے تجربتہً اور مصلحۃً روکا ہے.اور میں خوب جانتا ہوں کہ خیر وبرکت اسی میں ہے.بہت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعد از فراغ نماز جمعہ بحث شروع ہو اور شام تک یا جس وقت تک ممکن ہو سکے سلسلہ بحثجاری ہو اور دس آدمیوں سے زیادہ ہر گز ہر گز کسی حال میں آپ کے ساتھ نہ ہوں اور اس لحاظ سے کہ بحث کو بے فائدہ طول نہ ہو، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرچوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہو اور پہلا پرچہ آپ کا ہو.٭ ۲۳؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء مرزا غلام احمد بقلم خود ٭…٭…٭ ٭ الفضل ۵؍ جنوری ۱۹۴۳ء صفحہ۳ (مکتوب نمبر۲ تا۶)

Page 465

مکتوب نمبر ۱۸ نمبر۶.جناب مولوی صاحب مکرم.السلام علیکم میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان تمام شرطوں کو جو میں اپنے کل کے پرچہ میں لکھ چکا ہوں.قبول کرنے سے کسی قسم کا انحراف یا میلان انحراف ظاہر نہ کریںگے.یعنی جن لوگوں کو آنے سے روکا ہے تجربتہً اور مصلحۃً روکا ہے.اور میں خوب جانتا ہوں کہ خیر وبرکت اسی میں ہے.بہت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعد از فراغ نماز جمعہ بحث شروع ہو اور شام تک یا جس وقت تک ممکن ہو سکے سلسلہ بحثجاری ہو اور دس آدمیوں سے زیادہ ہر گز ہر گز کسی حال میں آپ کے ساتھ نہ ہوں اور اس لحاظ سے کہ بحث کو بے فائدہ طول نہ ہو، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرچوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہو اور پہلا پرچہ آپ کا ہو.٭ ۲۳؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء مرزا غلام احمد بقلم خود ٭…٭…٭ ٭ الفضل ۵؍ جنوری ۱۹۴۳ء صفحہ۳ (مکتوب نمبر۲ تا۶)

Page 466

مکتوب نمبر ۱۹ بنام عبدالحق غزنوی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ از طرف عاجز عبداللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدہ میاں عبدالحق غزنوی کو واضح ہو کہ اب حسب درخواست آ پ کے جس میں آپ نے قطعی طور پر مجھ کو کافر اور دجّال لکھا ہے مباہلہ کی تاریخ مقرر ہو چکی ہے.اور میرے امرتسر میں آنے کیلئے دو ہی غرضیں تھیں.ایک عیسائیوں سے مباحثہ اور دوسرے آپ سے مباہلہ.میں بعد استخارہ مسنونہ انہیں دو غرضوں کیلئے معہ اپنے قبائل کے آیا ہوں اور جماعت کثیر دوستوں کی جو میرے ساتھ کافر ٹھہرائی گئی ہے، ساتھ لایا ہوں اور اشتہارات شائع کر چکا ہوں اور متخلّفپر لعنت بھیج چکا ہوں.اب جس کا جی چاہے لعنت سے حصہ لے.میں تو حسب وعدہ میدانِ مباہلہ یعنی عید گاہ میںحاضر ہو جائوں گا.خدا تعالیٰ کاذب اور کافر کو ہلاک کرے. ۱؎ یہ بھی واضح رہے کہ میں ۱۵؍ جون ۹۳ء کے مباحثہ میں نہیں جائوں گا.بلکہ میری طرف سے اخویم حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب یا حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب بحث کیلئے جائیںگے.ہاں یہ مجھے منظور ہے کہ مقام مباہلہ میں کوئی وعظ نہ کروں.صرف یہ دعا ہو گی کہ ’’میں مسلمان، اللہ رسول کا متبع ہوں اگر میں اس قول میں جھوٹا ہوں توا للہ تعالیٰ میرے پر لعنت کرے‘‘ اور آپ کی طرف سے یہ دعا ہو گی کہ ’’یہ شخص درحقیقت کافر اور کذّاب اور دجّال اور مفتری ہے.اگر میں اس قول میںجھوٹا ہوں تو خدا تعالیٰ میرے پر لعنت کرے‘‘ اور اگر یہ الفاظ میری دعا کے آپ کی نظر میں ناکافی ہوں (تو) جو آپ تقویٰ کی راہ سے لکھیں کہ دعا کے وقت یہ کہا جائے.وہی لکھ دوں گا مگر اب ہرگز ہرگز تاریخ مباہلہ تبدیل نہیں ہو گی.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیٰ مَنْ تَخَلَّفَ مِنَّا وَمَا حَضَرَ فِی ذَالِکَ التَّارِیْخِ وَالْیَومِ وَالْوَقْتِ.وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ.خاکسار٭ غلام احمد از امرتسر ۱؎ بنی اسرائیل: ۳۷ ٭ الفضل ۱۶؍ جولائی ۱۹۴۳ء ہفتم ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ(۲۴؍مئی ۱۸۹۳ء)

Page 467

مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے نام مولوی رشید احمد صاحب گنگوہ ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے اور گنگوہ کو ایک وقت تک اپنی علمی حالت کی وجہ سے شہرت حاصل تھی.مولوی رشید احمد صاحب جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی مرحوم کے ہم سبق تھے جبکہ دہلی کے اس مدرسہ میں تعلیم پاتے تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومت کی جانب سے علوم عربیہ دینیہ کی تعلیم کے لئے جاری کیا تھا.مولوی رشید احمد صاحب اپنے ہمعصر علماء میں ذہین سمجھے جاتے تھے.فارغ التعلیم ہو کر انہوں نے سلسلہ بیعت بھی جاری کر لیا اور ان کے مریدین ان کو مجدّد مائۃ حاضرہ بھی کہتے رہے.مجھے مولوی رشید احمد صاحب کا تعارف اس حد تک کرانا ہے جس حد تک ان کا تعلق سلسلہ عالیہ احمدیہ سے ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر اپنا دعویٰ پیش کیا تو مولوی رشید احمد صاحب بھی جماعت مخالفین میں شریک ہوئے.اس کے اسباب کچھ ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایک قاعدہ کلیہ علمائِ ظاہر کی مخالفت کا پیش کیا ہے.گر علم خشک و کوری باطن نہ رہ زدے ہر عالم و فقیہ شدے ہم چو چاکرم! جب سلسلہ عالیہ احمدیہ میں حضرت پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی جو حضرت چار قطب ہانسوی کی اولاد سے ہیں، داخل ہوئے تو مولوی رشیدا حمد صاحب کی مخالفت نمایاں ہوگئی.اس لئے کہ حضرت پیر سراج الحق صاحب یہی نہیں کہ وہ ایک ممتاز مشائخ خاندان کے فرد تھے بلکہ اس لئے بھی پیر صاحب کے تعلقات اپنے صہری رشتہ میں مولوی رشید احمد صاحب کے ساتھ بھی تھے.مولوی رشید احمد صاحب کو حضرت اقدس کے مقابلہ میں نکلنے کی جرأت نہ ہوئی، پر نہ ہوئی لیکن وہ اپنے مریدوں اور عوام میں مخالفت کرتے رہتے تھے.صاحبزادہ صاحب نے جب مولوی رشید احمد صاحب

Page 468

سے مباحثہ کا تقاضہ کیا توانہوں نے من وجہ آمادگی ظاہر کی مگر بالآخر مختلف حیلے پیش کئے اور آخر مقابلہ میں نہ آنا تھا نہ آئے.جب حضرت اقدس نے مباہلہ کا اشتہار دیا تو اس میں بھی مولوی رشید احمد صاحب کو مخاطب کیا اور یہ بھی آپ نے اعلان کیا مگر مولوی رشید احمد صاحب نے نہ تو مباحثہ کیا اور نہ مباہلہ.اس کے متعلق میں حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب کا بیان یہاں درج کر دیتا ہوں تاکہ تاریخ سلسلہ میں یہ واقعات محفوظ ہو جاویںاور آنے والے مؤرخ کو آسانی ہو.مجھے اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں عاقبت المکذبین میں تفصیل سے لکھوں گا.وباللہ التوفیق.اولاً میں صاحبزادہ صاحب کابیان متعلق مباحثہ و مباہلہ درج کرتا ہوں اور آخر میں وہ مکتوب جو حضرت اقدس نے مولوی رشید احمد صاحب کے نام لکھا تھا.(عرفانی کبیر)  مولوی رشید احمد گنگوہی سے مباحثہ کی تحریک اور آخر اس کا انکار میں نے ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ یہ مولوی رہ گئے اور سب کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے.اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب کو لکھوں کہ وہ مباحث کے لئے آمادہ ہوں.فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے مولوی صاحب مباحثہ کیلئے آمادہ ہوں تو ضرور لکھ دو اور یہ لکھ دو کہ مرزا غلام احمد قادیانی آج کل لودھیانہ میں ہیں.انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعوٰی کیا ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگئی.وہ اب نہیں آویں گے اور جس عیسیٰ کے اس اُمت میں آنے کی خبر تھی.وہ میں ہوں.اور مولوی تو مباحثہ نہیں کرتے ہیں، چونکہ آپ بہت سے مولویوں اور گروہ اہلِ سنت والجماعۃ کے پیشوا اور مقتدا مانے گئے ہیں اور کثیر جماعت کی آپ پر نظرہے.آپ مرزا صاحب سے اس بارہ میں مباحثہ کر لیں.چونکہ آپ کو محدّث اور صوفی ہونے کا بھی دعویٰ ہے اور ماسوا اس کے آپ مدعی الہام بھی ہیں.مدعی الہام اس واسطہ کر کے کہ مولوی شاہ دین اور مولوی مشتاق احمد صاحب اور مولوی عبدالقادر صاحب نے گنگوہ مولوی رشید احمد صاحب

Page 469

متوفی کے پاس جا کر حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامات جو براہین احمدیہ میں درج ہیں، سناتے تھے.مولوی رشید احمد صاحب نے چند الہام سن کر جواب دیا تھا کہ الہام کاہونا کیا بڑی بات ہے.ایسے ایسے الہام تو ہمارے مریدوں کو بھی ہوتے ہیں.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آپ کے مریدوں کو اگر ایسے الہام ہوتے ہیں تو وہ الہام ہمارے سامنے پیش کرنے چاہئیں تاکہ ان الہاموں کا یا آپ کے الہاموں کا، کیونکہ مریدوں کو جب الہام ہوں تو مرشد کو تو ان سے اعلیٰ الہام ہوتے ہوں گے، موازنہ اور مقابلہ کریں اور  ۱؎ کی وعید سے ڈریں.مولوی صاحب نے کہنے کو کہہ دیامگر کوئی الہام اپنا یا کسی اپنے مرید کا پیش نہیں کیا کہ یہ الہام ہمارے ہیں اور یہ ہمارے مریدوں کے ہیں.غرض کہ اب آپ کا حق ہے کہ اس بحث میں پڑیں اور مباحثہ کریں اور کسی طرح سے پہلو تہی نہ کریں.کس لئے کہ ادھر تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا زور و شور سے بیان کرنا، اور وفات کا دلیلوں یعنی نصوصِ صریحہ قرآنیہ اور حدیثیہ سے ثابت کرنا اور علماء اور ائمہ سلف کی شہادت پیش کرنا اور پھر مدعی مسیحیت کا کھڑا ہونا اور لوگوں کا رجوع کرنا اور آپ جیسے اور آپ سے بڑھ کر علماء۲ ؎ کے مرید ہونے سے دنیا میں ہل چل مچ رہی ہے اور بحث اصل مسئلہ میں ہونی چاہئے ان کی یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات میں.بس میں نے یہ خط لکھااور حضرت اقدس علیہ السلام کو ملاحظہ کراکے روانہ کر دیا.۱؎ الحاقۃ: ۴۵ ۲؎ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب تم جانتے ہو کہ علماء کا رجوع کرنا اور ہمارے ساتھ ہونا غلط نہیں ہے.ایک تو حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب ہیں جو ان سے کم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر ہی ہیں.اور ایسا ہی مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب ہیں جنہوں نے رسالہ اعلام الناس چھپوا کر ہمارے دعوٰے کی تصدیق میں بھیجا ہے حالانکہ ان کی اور ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی ہے اور یہ کیسا عجیب رسالہ کہ اس میں ہمارا مافی الضمیر دیا ہے اور اس میں ہمارا اور مولوی صاحب کا توارد ہو گیا اور دو ایک اور مولویوں کے نام بھی لئے تھے جو مجھے اس وقت یاد نہیں ہے.سند

Page 470

اور آپ نے اس پر دستخط کر دئیے او رراقم سراج الحق نعمانی و جمالی سرساوی لکھا گیا.مجھے یہ خط مولوی رشید احمد صاحب کو لکھنا اس واسطے ضروری ہوا تھا کہ میں او رمولوی صاحب ہمزلف ہیں او رباوجود اس رشتہ ہمز لف ہونے کے تعارف اور ملاقات بھی تھی اور قصبہ سرساوہ او ر قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور میں ہیں اور ان دونوں قصبوں میں پندرہ کوس کا فاصلہ ہے اور ویسے برادرانہ تعلق بھی ہیں اور میری خوشد امن اور سسرال کے لوگ ان سے بعض مرید بھی ہیں.بس یہ میرا خط مولوی صاحب کے پا س گنگوہ جانا تھا اور مولوی صاحب او ران کے معتقدین اور شاگردوں میں ایک شور برپا ہونا تھا اور لوگوں کو ٹال دینا تو آسان تھا.لیکن اس خاکسار کوکیسے ٹالتے اور کیا بات بتاتے بجز اس کے کہ مباحثہ کو قبول کرتے.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ مخدوم مکرم پیر سراج الحق صاحب! پہلے میں اس بات کا افسوس کرتا ہوں کہ تم مرزا کے پا س کہاں پھنس گئے.تمہارے خاندان گھرانے میں کس چیز کی کمی تھی اور میں بحث کو مرزا سے منظور کرتا ہوں لیکن تقریری اور صرف زبانی.تحریر مجھ کو ہر گز منظور نہیں اور عام جلسہ میں بحث ہو گی او روفات و حیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے، بحث نہیں ہو گی بلکہ بحث نزول مسیح میں ہو گی جو اصل ہے.کتبہ رشید احمد گنگوہی.یہ خط مولوی صاحب کا حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھلایا.فرمایا خیر شکر ہے کہ اتنا تو تمہارے لکھنے سے اقرار کیا کہ مباحثہ کے لئے تیار ہوں، گو تقریرسہی ورنہ اتنا بھی کہیںکرتے تھے؟ اب اس جواب میں یہ لکھ دوکہ مباحثہ میں خلط مبحث کرنا درست نہیں، بحث تحریری ہونی چاہئے تاکہ غائبین کو بھی سوائے حاضرین کے پورا پورا حال معلوم ہو جائے اور تحریر میں خلط مبحث نہیں ہوتا او ر زبانی تقریر میں ہو جاتا ہے.تقریر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور نہ اس کا اثر کسی پر پڑتا ہے اور نہ پورے طور سے یا درہ سکتی ہے اور تقریر میں ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک بات کہہ کر اور زبان سے نکال کر پھر جانے اور مکر جانے کا موقع مل سکتا ہے اور بعد بحث کے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا اور ہر ایک کے معتقد کچھ کا کچھ بنا لیتے ہیں کہ جس سے حق و باطل میں التباس ہو جاتا ہے اور تحریر میں یہ فائدہ ہے کہ اس میں کسی کو کمی بیشی کرنے یا غلط بات مشہور کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے اور آپ جو فرماتے ہیں کہ مباحثہ اصل میں نزول مسیح پرہونا چاہئے.سوا

Page 471

میںیہ التماس ہے کہ نزولِ مسیح اصل کیوں کر ہے؟ اور وفات وحیات مسیح فرع کس طرح سے ہوئی؟ اصل مسئلہ تو وفات مسیح ہے.اگر حیات مسیح کی ثابت ہو گئی تو نزول بھی ثابت ہو گیا اور جو وفات ظاہر ہو گئی تو نزول خود بخود باطل ہو گیا.جب ایک عہدہ خالی ہو تو اس عہدہ پر مامور ہو.ہمارے دعوٰے کی بنا ہی وفات مسیح پر ہے.اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جاوے تو ہمارے دعوٰے میں کلام کرنا فضول ہے.مہربانی فرماکر آپ سوچیں اور مباحثہ کیلئے تیار ہوجاویں کہ بہت لوگوں اور نیز مولویوں کی آپ کی طرف نظر لگ رہی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس پر دستخط کر دئیے اور میں نے اپنے نام سے یہ خط مولوی صاحب کے پاس گنگوہ بھیج دیا.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں یہ لکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب اصل کو فرع اورفرع کوا صل قرار دیتے ہیںاور مباحثہ بجائے تقریری کے تحریری مباحثہ میںنہیں کرتا.اور ہمیں کیا غرض ہے کہ ہم اس مباحثہ میں پڑیں.یہ خط بھی میں نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سنا دیا.آپ نے یہ فرمایا کہ ہمیں افسوس کرنا چاہیے نہ مولوی صاحب کو.کیونکہ ہم نے تو ان کے گھر یعنی عقائد میں ہاتھ مارا ہے اور ان کی جائیداد دبالی ہے یہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جن پر ان کی بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں اوران کے آسمان سے اُترنے کی آرزو رکھتے تھے، مار ڈالا ہے.جس کو وہ آسمان میں بٹھائے ہوئے تھے اس کو ہم نے زمین میں دفن کردیا ہے اوران کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اوربقول ان مولویوں کے اسلام میں رخنہ ڈال دیا ہے اورلوگوں کو گھیر گھار کر اپنی طرف کر لیا ہے.جس کا نقصان ہوتا ہے وہی روتا ہے اور چلاتا ہے.یہ مولوی حامیانِ دین اورمحافظِ اسلام کہلا کر اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر کوئی ان کی جائیداد دبالے اورمکان اور اسباب پر قبضہ کر لے تو یہ لوگ عدالت میں جا کھڑے ہوں اورلڑنے مرنے سے بھی نہ ہٹیں اور نہ ٹلیں جب تک کہ عدالت نہ فیصلہ کرے.اورآپ یہ بہانے بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے.گویا یوں سمجھو کہ ان کو دین اسلام اور ایمان سے کچھ غرض نہ رہی اوراب یہ حیلہ اور بہانہ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے؟ اگران کے پا س کوئی دلیل نہیں اوران کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے اور درحقیقت کچھ نہیں ہے.ان کے باطل اعتقاد کا خرمن جل کر راکھ ہو گیا.یہ اگر اس بحث میں پڑیں توان کی مولویت کو بٹہ لگتا ہے اوران کے علم و فضل کو سیاہ دھبہ لگتا

Page 472

ہے.ان کی پیری پر آفت آتی ہے.ان کو لکھو کہ مولوی صاحب آپ تو علم لدنی اورباطنی کے بھی مدعی ہیں.اگر ظاہری علم آپ کا آپ کو مدد نہ دے، باطنی اورلدنی علم سے ہی کام لیں.یہ کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے.پس میں نے یہ تقریر حضرت اقدس علیہ السلام کی کچھ اور تیز الفاظ نمک مرچ لگا کے قلم بند کرکے مولوی صاحب کے پاس بھیج دی.اس کے جواب میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے یہ لکھا.میںتقریری بحث کرنے کو تیار ہوں اور اگر مرزا صاحب تحریری بحث کرنا چاہیں تو ان کا اختیار ہے.میں تحریری بحث نہیں کرتا.لاہور سے بھی بہت لوگوں کی طرف سے ایک خط مباحثہ کے لئے آیا ہے.مرزا صاحب چاہے تقریری بحث کرے.جب کسی طرح مولوی صاحب کو مفرکی جگہ نہ رہی اور سراج الحق سے مخلصی نہ ہوئی اور لاہور کی ایک بڑی جماعت کا خط پہنچا اور ادھر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی اس لاہور کی جماعت کی طرف سے مولوی رشید احمد کے مباحثہ کے لئے درخواست آ گئی اور اس جماعت نے یہ بھی لکھا کہ مکان مباحثہ کے لئے اور خورد و نوش کا سامان ہمارے ذمہ ہے اور میں نے بھی مولوی صاحب کو یہ لکھا کہ اگر آپ مباحثہ نہ کریں گے اور ٹال مٹال بتائیں گے اور کچے سچے عذروں سے جان چھڑا ویں گے تو تمام اخبارات میں آپ کے اور ہمارے خط چھپ کر شائع ہو جاویں گے.پڑھنے والے نکال کر کے مطلب و مقصد اصلی حاصل کر لیں گے.پھر دوسرے موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو ضرور لکھو اور حجت پوری کرو او ریہ لکھو کہ اچھا ہم بطریق تنزّل تقریری مباحثہ ہی منظور کرتے ہیں.مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جاویں اور دوسرا شخص آپ کی تقریر کو لکھتا جاوے اور جب ہم تقریر کریں تو ہماری جوابی تقریر کوبھی دوسرا شخص لکھتا جاوے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہو لے تو دوسرا فریق بالمقابل یا اور کوئی دورانِ تقریر میں نہ بولے.پھر وہ دونوں تقریریں چھپ کر شائع ہو جاویں.لیکن بحث مقام لاہور ہونی چاہئے.کیونکر لاہور دارالعلوم ہے اور ہر علم کا آدمی وہاں موجود ہے.میں نے یہی تقریر حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی مولوی صاحب کے پاس بھیج

Page 473

دی.مولوی صاحب نے لکھا کہ تقریر صرف زبانی ہو گی.لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہو گی اورجو جس کے جی میں آئے گا حاضرین میں سے رفع اعتراض و شک کیلئے بولے گا.میں لاہور نہیں جاتا.مرزا ہی سہارنپور آجاوے اور میں بھی سہارنپور آجاؤں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا بودا پن ہے اور کیسی پست ہمتی ہے کہ اپنی تحریر نہ دی جاوے.تحریر میں بڑے بڑے فائدے ہیں.حاضرین و غائبین اور نزد یک دور کے آدمی بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اورفیصلہ کرسکتے ہیں.زبانی تقریر محدود ہوتی ہے جو حاضرین اورسامعین تک رہ جاتی ہے.حاضرین و سامعین بھی زبانی تقریر سے پورا فائدہ اور کامل فیصلہ نہیں کرسکتے.مولوی صاحب کیوں تحریر دینے سے ڈرتے ہیں.ہم بھی تو اپنی تحریر دیتے ہیں گویا ان کا منشاء یہ ہے کہ بات بیچ بیچ میں خلط بحث ہو کر رہ جاوے اور گڑبڑ پڑ جائے اور سہارنپور میں مباحثہ ہونا مناسب نہیں ہے.سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق و باطل کی سمجھ نہیں ہے.لاہور آج دارالعلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہر کے لوگ اورہر مذہب و ملّت کے اشخاص وہاں موجود ہیں.آپ لاہور چلیں اورمیں بھی لاہور چلا چلتا ہوں اورآپ کا خرچ آمدورفت اورقیام لاہور ایام بحث تک اورمکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہو گااورسہارنپور اہلِ علم کی بستی نہیں ہے.سہارنپورمیں سوائے شورو شر فساد کے کچھ نہیں ہے.یہ مضمون میںنے لکھ کر اور حضرت اقدس علیہ السلام کے دستخط کرا کر گنگوہ بھیج دیا.مولوی رشید احمد صاحب نے اس کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لاہورنہیں جاتا صرف سہارنپور تک آسکتا ہوں اوربحث تحریری مجھے منظور نہیں.نہ میں خود لکھوں اور نہ کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت بھی دے سکتا ہوں.حضرت اقدس نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ ان لوگوں میں کیوں قوتِ فیصلہ اور حق وباطل کی تمیز نہیں رہی اور ان کی سمجھ بوجھ جاتی رہی.یہ حدیث پڑھاتے ہیں اور محدّث کہلاتے ہیں.مگر فہم وفراست سے ان کو کچھ حصہ نہیں ملا.صاحبزادہ صاحب ان کو یہ لکھ دو کہ ہم مباحثہ کیلئے سہارنپور ہی آجاویں گے.آپ سرکاری انتظام جس میں کوئی یورپین افسر ہو.اور ہندوستانیوں پر پورا اطمینان نہیں ہے.بعد انتظام سرکاری ہمیں لکھ بھیجیں اور کاغذ سرکاری بھیج دیں.میں تاریخ مقرر پر آجاؤں گا اورایک اشتہار اس مباحثہ کی اطلاع کے لئے شائع کر دیا جاوے گا تاکہ لاہور وغیرہ مقامات سے

Page 474

صاحب علم اور مباحثہ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات سہارنپور آجاویں گے.ورنہ ہم لاہور میں سرکاری انتظام کر سکتے ہیں اورپورے طور سے کر سکتے ہیں.رہا تقریری اور تحریری مباحثہ وہ اس وقت پر رکھیں تو بہتر ہے جیسے حاضرین جلسہ کی رائے ہو گی.کثرتِ رائے پر ہم تو کاربند ہوں خواہ تحریری خواہ تقریری جو مناسب سمجھا جاوے گا وہ ہوجاوے گا.آپ مباحثہ ضرور کریں کہ لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں.یہ تقریر میں نے مولوی صاحب کو لکھ بھیجی.مولوی صاحب نے کچھ جواب نہیںدیا.صرف اس قدر لکھا کہ انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہو سکتا ہوں.پھر میں نے دوتین خط بھیجے جواب ندارد.مولوی رشید احمد کا مباہلہ سے گریز ۱۸۹۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منکرین اور مکذّبین علماء کو مباہلہ کی دعوت دی اور ایک مفصل اشتہار انجام آتھم کے ساتھ شائع کیا اور جن علماء اور مشائخ کو آپ نے خطاب کیا تھا ان کو رجسٹری کرا کر بھیجا مگر کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ مقابلہ میں آتا.اس اشتہار میں آپ نے یہ بھی صراحت کی تھی کہ میرے مقابلہ میں جو لوگ اُٹھیں گے وہ مختلف قسم کے عذابوں میں گرفتار ہوں گے.ان میں ایک عذاب سانپ کے ڈسنے کا بھی ہے.مولوی رشید احمد صاحب کا نام بھی ان لوگوں میں درج ہے جن کو دعوتِ مباہلہ دی گئی.اس کے متعلق صاحبزادہ سراج الحق صاحب کا بیان درج کر دیتا ہوں.اس کے بعد وہ خط درج کرتا ہوں جو مولوی رشید احمد صاحب کے نام حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا تھا.(عرفانی الکبیر) رشید احمد گنگوہی کاحال منجملہ ان مدعیانِ مجددیت کے ایک مولوی رشید احمد گنگوہی تھے.ان کو ان کے مرید مجددِوقت لکھا کرتے تھے اور خاص کر مولوی محمد حسین فقیر… دہلوی کا تو یہی عقیدہ تھا.مولوی صاحب نے کبھی نہیں کہا کہ مجھ کو مجدد مت لکھو.میں مجدد نہیں ہوں.گویا ان کی مرضی تھی کہ میں بھی مجدد ہوں.مولوی رشیدا حمد گنگوہی نے بھی کفر میں حد کردی.اشتہار دیا کہ علانیہ سبّ و شتم

Page 475

کرو.مرزا مسیلمہ ہے، اسو دعنسی ہے، کذّاب ہے، مفتری ہے.دجّا ل.نعوذ باللہ منہا.مولوی صاحب پر ایک تو یہ وبال پڑا اور دوسرا وبال یہ پڑا کہ مجدد کہلایا.اس وبال و نِکال کا یہ نتیجہ ہوا کہ بیوی مری.بیٹا مرا.دو بیٹوں کی بیویاں مریں.صرف اکیلا رہ گیا.پھر نابینا ہو گیا اور حدیث جو پڑھایا کرتا تھا وہ پڑھاناجاتا رہا.کئی ایک مرید جو اس کے تھے اور بڑے تھے مرگئے اور سارا کارخانہ درہم برہم ہو گیا.اور مولوی عبدالقادر صاحب جو ان کے مرید اور خلیفہ تھے.وہ حضرت اقد س علیہ السلام کے مرید ہو گئے.اس پر مولوی گنگوہی کو سخت ہم و غم ہوا.حضرت اقد س علیہ السلام نے مباہلہ کے لئے بھی بہت مولوی رشید احمد متوفی سے تحریری اور زبانی کہا لیکن مباہلہ نہ کیا اور ایک وبال مولوی صاحب پر یہ پڑا کہ بار بار ان کی زبان سے نکلا کہ جیسے الہام مرزا غلام احمد قادیانی کو (علیہ الصلوٰۃ والسلام) ہوتے ہیں.اس سے بڑھ کر ہمارے مریدوں کو بھی ہو ا کرتے ہیں.گویا مفتری علی اللہ بھی بنا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اشتہار دیا تھا کہ مولوی رشیدا حمد گنگوہی اور احمد اللہ امرتسری اورر سل بابا وغیرھم مجھ سے مباہلہ کرلیں.گیارہ عذابوں میں سے ایک عذاب ضرور ان پر، اگر یہ مقابلہ مباہلہ نہ کریں گے، پڑے گا.منجملہ ان عذابوں کے ایک یہ عذاب تھا کہ سانپ کاٹے اور پھر وہ جانبر نہ ہو سکے.مولوی رشید احمد گنگوہی متوفی کو سانپ نے کاٹا.حالانکہ مولوی صاحب کو سانپ کے کاٹے کا علاج دعویٰ سے تھا اورسینکڑوں کوس تک ان کا پڑھا پانی جاتا تھا.لیکن یہ عذابِ الٰہی تھا اور سانپ نہیں تھا.بلکہ غلاظ شداد فرشتوں سے ایک فرشتہ تھا اور سانپ کے ڈسنے کے بعد تین چار روز تک زندہ بھی رہا.لیکن اسی زہر سے مر گیا.خدا تعالیٰ نے دکھا دیا کہ اب یہ مامور و مرسل کی مخالفت کا عذاب ٹل نہیں سکتا.ان کے مرنے سے تین ماہ یا دو ماہ پیشتر مجھے ایک کشفی نظارہ میں دکھائی دیاکہ راستہ میں ایک مکان کوچھوڑ کر بُرے کپڑے پہنے ہوئے مولوی رشید احمد زمین پر لیٹ گئے ہیں.میں نے یہ کشف حضرت اقد س علیہ السلام سے بیان کیا اور اس وقت حضرت فاضل امروہی بھی تشریف رکھتے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کی موت آگئی.سو ایسا ہی واقعہ ہوا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.٭…٭…٭

Page 476

مکتوب نمبر ۲۰ خط بنام مولوی رشید احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا عرض خدمت ہے کہ صاحبزادہ سراج الحق نے آپ کا خط بجنسہٖ میرے پاس بھیج دیا.حرف بحرف ملا حظہ کیا گیا.آپ جو اس عاجز کو واسطے بحث کے سہارنپور بلاتے ہیں، مجھ کو کچھ عذر نہیں مگر اتنی بات خدمت میں عرض کرنی ہے کہ امن قائم کرنے کے واسطے آپ نے کیا بندوبست کیا ہے.ڈپٹی کمشنر صاحب کی تحریری اجازت ہونی ضروری بات ہے اور مجالس بحث میں سپرنٹنڈنٹ یا اور کسی حاکم بااختیار کا ہونا بھی امر ضروری ہے.بنا برایں اس قسم کی تسلی بخش تحریر ہمارے پاس بھیج دیں تو بندہ واسطے بحث کے حاضر خدمت ہو جائے گا.اگر لاہور آپ تشریف لے چلیں تو تسلی بخش تحریر امن قائم کرنے کی آپ کے پاس ہم بھیج دیں.پس اس تحریر کے جواب میں جیسا آپ مناسب سمجھیں اطلاع دیں.راقم غلام احمد بقلم عباس علی

Page 477

مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری کے نام (تعارفی نوٹ) مولوی غلام دستگیر صاحب قصور کی مسجد کلاں کے امام تھے اور قصور میں ان کا بڑا اثر اور دخل تھا.خاکسار عرفانی الکبیر کو مولوی غلام دستگیر صاحب کے خطرناک مخالفت کے سلسلہ میں ہی حافظ محمد یوسف ضلعدار، خان بہادر سید فتح علی شاہ ڈپٹی کلکٹر انہار کی تحریک پر اپنے ساتھ لے گئے.میں اگرچہ اُمّی محض تھا مگر حق کی قوت اور فطرت میرے ساتھ تھی.میں نے قصور میں عام لیکچر دئیے اور مولوی غلام دستگیر صاحب کے حلقہ کے بعض علماء سے بذریعہ مراسلات گفتگو کی اور خود مولوی غلام دستگیر صاحب سے بھی.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کا کرشمہ ہے کہ مجھے ان لوگوں سے گفتگو کرنے میں کبھی جھجک نہ ہوتی تھی اور نہ میں ان کی دستار فضیلت سے مرعوب ہوتا تھا.غرض یہ سلسلہ چلتا رہا.اس کے بعد جب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رسائل اربعہ شائع کئے جن میں علماء مکفّرین کو دعوتِ مباہلہ دی تو مولوی غلام دستگیر صاحب کو بھی مباہلہ کے لئے بلایا تھا.مولوی غلام دستگیر صاحب نے اس مباہلہ کے اشتہار کا جواب دیا اور مباہلہ پر آمادگی کا اظہار کیا اور ایک خط لکھا.حضرت اقدس نے اس خط کے جواب میں حکیم حضرت فضل الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو ایک اشتہار کا مسودہ دے کر لاہور بھیجا اور یہ اشتہار چھپوا کر، شعبان کی ابتدائی تاریخوں غالباً ۳ یا ۴ تاریخ تھی، مولوی غلام دستگیر صاحب کو جا کر دیا گیا.حکیم صاحب کے ساتھ جانے والوں میں جہاں تک میری یاد میری مدد کرتی ہے حضرت حکیم محمد حسین قریشی بھی تھے اور میںخود بھی تھا.مولوی غلام دستگیر صاحب نے تو صرف ایک بہانہ تلاش کیا تھا.مگر حضرت اقدس نے اس کا فوری جواب دے کر اشتہار دیا اور لاہور میں اسے تقسیم کیا گیا.میرے مخطوطات میں وہ محفوظ تھا.لیکن اس مسودے رقمہ کی تفصیلی روئداد بھی

Page 478

مولوی غلام دستگیر صاحب نے جواب بذریعہ اشتہار طلب کیا تھا.اس نے زبانی کہا کہ میں تو مباہلہ کے لئے آگیا.اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ آپ اس خط کا جواب اشتہار سے شائع کرو.حضرت اقدس دس شعبان تک آجاویں گے.مگر وہ اس پر رضامند نہ ہو ا،چلا گیا.مگر اس نے ایک کتاب میں مباہلہ کر لیا اور مباہلہ کے موافق حضرت اقدس کی زندگی میں فوت ہوگیا.چنانچہ حضرت صاحب کی تصانیف میں اس نشان کو درج کیا گیا ہے.نزول المسیح میں آپ نے لکھا ہے کہ پھر پنجاب میں مولوی غلام دستگیر اٹھا اور اپنے تئیں کچھ سمجھا اور اس نے اپنی کتاب میں میرے مقابلہ میں یہ لکھا کہ ہم دونوں میںسے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے گا اور کئی سال ہو گئے غلام دستگیر مر گیا اوروہ کتاب چھپی ہوئی موجود ہے.(نزول المسیح صفحہ ۳۱) غرض اس طرح اس کا انجام ہوا.اب میں مولوی غلام دستگیر صاحب کا خط اور اس کے جواب کے اشتہار درج کر دیتا ہوں.(عرفانی الکبیر)

Page 479

مولوی غلام دستگیر قصوری کا خط باسمہ سبحانہ از فقیر غلام دستگیر ہاشمی قصوری کان اللہ لہ بخدمت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بعد السلام علٰی من اتبع الھدٰی.واضح ہو کہ رسائل اربعہ مرسلہ آپ کے فقیر کو پہنچے.آپ نے جو اُن میں درخواست مباہلہ کر کے فقیر کو بھی مباہلہ کے لئے بلایا ہے.سوفقیر بعدا ز استخارہ مسنونہ آپ کو اطلاع دیتا ہے کہ فقیر آپ کے ساتھ مباہلہ کے واسطے از تہ دل مستعد ہے.آپ اب اس میں طوالت نہ کریں.شعبان کے ابتدا میں لاہور آجائیں.فقیر بھی امروز فردا لاہور پہنچ جاتا ہے.اپنے دونوں فرزندوں کو لے کر اپنے عزیزوں سے مل کر فقیر سے مباہلہ کر لیں.یہ قید کہ کم سے کم دس آدمی حاضرہوں جو صفحہ ۶۷ کی سطر ۱۶، ۱۷ میں درج ہے.شرعاً بے اصل ہے.لاہور کے مدعو مولویوں سے اگر کوئی صاحب فقیر سے شامل ہوئے تو فبہا.ورنہ ایک ہی فقیر حاضر ہے.آپ نے اگر پندرہ شعبان تک مباہلہ نہ کیا تو آپ کاذب متصور ہوں گے اور فقیر اس امر کو مشتہر کر دے گا.فقط ٭ المرقوم ۲۹؍ رجب روز دو شنبہ ۱۳۱۴ء(۴؍جنوری ۱۸۹۷ء) از قصور مسجد کلاں یہ رقعہ چند معتبر شاہدوں کی شہادت سے آج رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں.فقط گواہ نمبر۱: عبدالقادر وکیل مقیم قصور بقلم خود گواہ نمبر۲: حافظ سید محمد قصوری بقلم خود گواہ نمبر۳: شیخ محمد بخش ساکن قصور بقلم خود گواہ نمبر۴: مرزا عظیم الدین بقلم خود (اس کے بعد اور بھی کئی نام مرقوم ہیں.جو پڑھے نہیں گئے ان کے آخر میں لکھا ہے.مرتب)

Page 480

خمکتوب نمبر ۲۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مولوی غلام دستگیر صاحب.بعد ماوجب آپ کا خط پہنچا.میں بہت خوش ہوا کہ آپ نے مباہلہ میں آنا منظور کر لیا ہے مگر آپ کے خط میں بعض ایسے امور ہیں جو تصفیہ طلب ہیں اور نیز آپ نے قطعی طور پر لاہور آنے کی تاریخ نہیں لکھی.اس لئے میں اس وقت محبی اخویم حکیم فضل دین صاحب کو آپ کے پاس بھیجتا ہوں.امید کہ آپ ہر طرح سے تصفیہ کر کے حکیم صاحب موصوف کے ساتھ لاہور میں مباہلہ کے لئے چلے آویں گے اور پھر حکیم صاحب میرے نام تار دے دیں گے تو میں انشاء اللہ بلاتوقف لاہور میںپہنچ جاؤں گا.مگر یہ ضروری ہوگا کہ آپ اُن مراتب کا تصفیہ کر دیں جن کو حکیم صاحب زبانی آ کر کریں گے.والسلام علی من اتبع الھدٰی الراقم مرزا غلام احمد یکم شعبان ۱۳۱۴ھ(۶؍جنوری ۱۸۹۷ء) ٭…٭…٭

Page 481

مکتوب نمبر ۲۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ  ۱؎ اشتہار صداقت آثار میں مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضیٰ ساکن قادیان ضلع گورداسپور اس وقت بذریعہ اس اشتہار کے خاص و عام کومطلع کرتا ہوں کہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پا گئے جیسا کہ اللہ شانہ فرماتا ہے.۲؎ حدیثِ نبوی اور قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس لفظ اور نیز لفظ ۳؎کے معنی وفات دینا ہے نہ اور کچھ.کیونکہ اس مقام میں اس لفظ کی شرح میں کوئی روایت مخالف مروی نہیں.نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کسی صحابی سے.پس یہ امرمتعین ہو گیا کہ نزولِ مسیح سے مراد نزول بطور بروز ہے یعنی اسی اُمت میں سے کسی کا مسیح کے رنگ میں ظاہر ہونا ہے.جیسا کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے نزول کی شرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمائی تھی.جو یہود اور نصاریٰ کے اتفاق سے وہ یہی شرح ہے کہ انہوں نے حضرت یحییٰ کو ایلیا یعنی الیاس آسمان سے اُترنے والا قرار دیا تھا.سوخد ا تعالیٰ کے الہام سے میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ مسیح جو بروز کے طورپر غلبہ صلیب کے وقت میں کسر صلیب کے لئے اُترنے والا تھا، وہ میں ہی ہوں.اس بنا پر میں مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری سے مباہلہ کرتا ہوں.اگر مباہلہ کی میعاد کے اندر جو روزمباہلہ سے ایک برس ہو گی، میں کسی سخت اور ناقابلِ علاج بیماری میں جیسے جذام یا نابینائی یا فالج یا مرگی یا کوئی اسی قسم کی اور بھاری بیماری یا مصیبت میں مبتلا ہو گیا اور یا یہ کہ اس میعاد میں مولوی غلام دستگیر نہ فوت ہوئے نہ مجذوم ہوئے اور نہ نابینا اور نہ اور کوئی سخت مصیبت انہیں آئی تو میں تمام لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ بغیر عذر و حیلہ ان کے ہاتھ پر توبہ ۱؎ النحل: ۱۲۹ ۲؎ المائدۃ: ۱۱۸ ۳؎ اٰلِ عمران: ۵۶

Page 482

کروں گا اور سمجھوں گا کہ میں جھوٹا تھا.تبھی خد انے مجھے ذلیل کیا اوراگر میں مباہلہ کے اثر سے ایک برس کے اندر مر گیا تو میں اپنی تمام جماعت کو وصیت کرتا ہوں کہ اس صورت میں نہ صرف مجھے جھوٹا سمجھیں بلکہ اگر میں مروں یا ان عذابوں میں سے کسی عذاب میں مبتلا ہو جائوں تو وہ دنیا کے سب جھوٹوں اور کذابوں میں سے زیادہ کذاب مجھے یقین کریںاور ان ناپاک اور گندے مفتریوں میں سے مجھے شمار کریں جنہوں نے جھوٹ بول کر اپنی عاقبت کو خراب کیا.اور اگر میں دس تاریخ شعبان تک بمقام لاہور مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تب بھی مجھے کاذب قرار دیں.لیکن ضرور ہے کہ اوّل مولوی غلام دستگیر صاحب عزم بالجزمکر کے اسی نمونہ کا اپنی طرف سے بقیدتاریخ اشتہار دے دیں اور اگر وہ اشتہار نہ دیں تو پھر میں لاہور نہیں جا سکتا.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی.٭ المشتہر خاکسار مرزا غلام احمد مکرراً ۱؎یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ اگر اور صاحب بھی علماء پنجاب یا ہندوستان سے مباہلہ کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ بھی اسی تاریخ پر بمقام لاہو رمباہلہ کے لئے حاضر ہو کر مولوی غلام دستگیر کے ساتھ شریک ہو جائیں اور اگر اب حاضر نہیں ہوں گے تو پھر آئندہ ان کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا.٭…٭…٭ ٭ روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۴۳ء ۱؎ حضور علیہ السلام کے اسم مبارک کے بعد کی سطور اصل مسودہ میں حضور علیہ السلام نے پنسل سے لکھی ہوئی ہیں.

Page 483

حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار کے نام تعارف حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار حسین پور ضلع مظفر نگر کے رہنے والے ایک نومسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے.یہ خاندان پنجاب کے محکمہ نہر میں ملازم تھا اور اس لئے نہر والے کہلاتے تھے.امرتسر میں اس خاندان کے ایک رکن محمد عمر صاحب نے ایک مسجد تعمیر کی تھی جو حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے خاندان میں اس وقت تک چلی آتی ہے.حافظ محمد یوسف اہلحدیث کے فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور اہلحدیث گروہ کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے اور مولوی عبداللہ صاحب کے ساتھ ارادت رکھتے تھے.محکمہ نہر کے چند آدمی سید فتح علی شاہ، حافظ صاحب منشی الٰہی بخش، منشی امیر الدین، منشی عبدالحق صاحب وغیرہم ابتداً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ارادت اورعقیدت کے ساتھ ملے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تقویٰ و طہارت اور زہد و ورع سے ذاتی طور پر واقف تھے اور نیز مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے کشوف حضرت اقدس کی نسبت سن چکے تھے اور حضرت اقدس کی اسلامی خدمات کو برأی العین مشاہدہ کرتے تھے.خاکسار عرفانی کبیر کو ذاتی طور پر ان لوگوں سے ملاقات کی ابتدا ۱۸۹۲ء میں ہوئی اور اس کے بعد یہ سلسلہ یہاں تک بڑھا کہ عرفانی کبیر کو حافظ محمد یوسف صاحب تبلیغ سلسلہ کیلئے اپنے ساتھ لے گئے اور اسے موقع ملا کہ وہ مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری اور ان کے شاگردوں کے ساتھ اپنی بصیرت کے موافق مباحثات کرتا رہا اور قصور میں جماعت کا قیام اسی وقت ہوا اور ان اوّلون سابقون میں حضرت مرزا فضل بیگ رضی اللہ عنہ اور حضرت چودھری نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا خاندان ہے.خاکسار عرفانی کبیر، حافظ محمد یوسف صاحب کو ڈپٹی کلکٹری کے امتحان کی تیاری خود قانون کی کتابوں کو یاد کر کے کراتا تھا اور ان کے ساتھ ضلعداری کا کام بھی کرتا تھا.اسی سلسلہ میں وہ نائب ضلعدار مقرر ہوا مگر خد اتعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت استعفیٰ دے دیا.یہ

Page 484

ذکر ضمناً آگیا.حافظ محمد یوسف اس وقت احمدیت کے ایک سرگرم مبلغ تھے اور اس غرض کے لئے وہ اپنا روپیہ بھی خرچ کرتے تھے.مجھے ان لوگوں سے انصاف کرنا چاہئے کہ یہ پارٹی بڑے جوش سے کام کر رہی تھی.ان سب کی روح رواں حافظ صاحب ہی تھے.وہ صاحب الہام ہونے کے بھی مدعی تھے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ انہیں اپنے الہامات اور کشوف ہی کی وجہ سے اس طرف زیادہ تر توجہ تھی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی، جب اس نے حضرت اقدس کی مخالفت کا اظہار کیا، حافظ صاحب مباحثہ کی طرف بلاتے رہے اورایک مرتبہ منشی امیر الدین صاحب کے مکان پر حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کرادیا اور اگست ۱۸۹۱ ء میں چوٹی کے علماء مخالف الرائے کے نام ایک جماعت کو شامل کر کے مباحثہ کی دعوت دی.اس وقت ایک عام شور برپا تھا.لودہانہ سے ایک جماعت اہلِ اسلام نے علماء کے نام ایک خط شائع کیا اور لاہور سے حافظ صاحب نے چند سربرآوردہ اورممتاز مسلمانوں کو ساتھ ملا کر مولوی محمد صاحب لکھوکے وغیرہ متعدد علماء کے نام ایک خط لکھا تاکہ وہ حضرت اقدس کے دعاوی کے متعلق ایک فیصلہ کن مباحثہ کر لیں.یہ خطوط اور حضرت اقدس کا جواب انہیں ایام میں اخبار ریاض ہندامرتسر کے ضمیمہ میں شائع ہو گیا تھا.میں ان کو یہاں بھی بطور ضمیمہ حافظ صاحب کے نام کے خطوط کے بعد درج کر دوں گا.(انشاء اللہ العزیز) اس سے ظاہر ہے کہ حافظ صاحب کس قدر اس سلسلہ میں سرگرم تھے.یہاں تک ہی نہیں، حافظ محمد یوسف صاحب پہلے آدمی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے مولوی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کیا اور اس مباہلہ کا اثر اسی وقت ہی ظاہر ہو گیا.حافظ محمد یوسف صاحب نے مباہلہ کے بعد کہا کہ اگر اس مباہلہ کا کچھ بھی اثر مجھ پر ہو ا تو میں اپنے عقیدہ سے رجوع کر لوں گا لیکن جب مولوی عبدالحق سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اگر میں اپنی اس بددعا سے سؤر، بندر اور ریچھ بھی ہو جائوں تب بھی اپنا عقیدہ تکفیر ہرگز نہ چھوڑوں گا اور کافر کہنے سے باز نہ آئوں گا.یہ بجائے خود عبدالحق پر مباہلہ کا اثر تھا کہ اس کی فطرت مسخ ہوگئی.حافظ صاحب کی یہ سرگرمیاں جاری رہیں اور حافظ صاحب نے اپنا ایک کشف خصوصیت سے

Page 485

حضرت اقدس کے متعلق بیان کیا تھا جس کا میں بھی گواہ تھا اور وہ معراج یوسفی کے نام سے شائع ہو چکا ہے.یہ ساری جماعت جن میں حافظ صاحب.منشی الٰہی بخش.منشی عبدالحق وغیرہ شامل تھے اخلاص کے ساتھ کام کر رہی تھی مگر کوئی مخفی معصیت تھی جو اندر ہی اندر غیر معلوم طور پر ان کے خبطِ اعمال کا سامان کررہی تھی.ایک روز منشی الٰہی بخش اور عبدالحق صاحب لاہور سے آئے.ان ایام میں منشی الٰہی بخش کو اپنے الہامات کا بڑا دعویٰ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ موسیٰ ہیں.شام کی نماز کے بعد حضرت اقدس حسب معمول شہ نشین پر تشریف فرما تھے.یہ بزرگ بھی موجود تھے.حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ قرآن مجید کی بعض آیات کے متعلق ایسے موقعہ پر کوئی سوال کیا کرتے تاکہ حقایق و معارف کے دریا بہہ نکلیں.انہوں نے (یہ سب میرے سامنے کا واقعہ ہے.عرفانی کبیر) حضرت سے دریافت کیا کہ حضرت! یہ کیا راز ہے کہ بلعم جو بڑا خدارسیدہ اور عبادت گزار، صاحب الہام تھا وہ اس قدر گرا کہ قرآن کریم میں اس کی مثال ّکتے سے دی گئی ہے.اس پر حضرت اقدس نے بڑی لطیف تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے مامورین کا مقام اتنا بلند ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کبھی گوارا نہیں کرتی کہ کوئی ان کے مقابلہ میں کھڑا ہو اور جو بھی اس مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے وہ عالِم ہو تو اس کا علم اورصاحب کشف والہام ہوتو اس کے کشوف و الہام سلب ہوجاتے ہیں.اس لئے کہ مامور مِنَ اللہ خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کی ہستی کو منوانے کے لئے اس کا مظہر ہو کر کھڑا ہوتا ہے.بلعم، موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں کھڑا ہوا.وہ موسیٰ کا نہیں خدا کا مقابلہ تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو مخذول کر دیا.یہ خلاصہ اس تقریر کا میرے اپنے الفاظ میں ہے.بد قسمتی سے منشی الٰہی بخش نے یہ سمجھا کہ مجھے بلعم بنایا گیا ہے اور میری اس طرح تحقیر کی گئی ہے.اس کے بعد وہ مخالفت پر آمادہ ہو گیا اور واقعات نے ثابت کر دیا کہ وہ فی الحقیقت مخذول بلعم ثابت ہوا.حافظ صاحب اور منشی عبدالحق.الٰہی بخش کے رفقاء میں سے تھے اور دوست نوازی نے ان کو بھی اپنے مقام سے گرادیا اور مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ ان کا انجام اس دنیامیں اس کا مصداق ہوا.

Page 486

معلوم کرکے سب کچھ محروم ہو گئے ہیں حافظ محمد یوسف نے مختلف رنگوں میں مقابلہ کرنا چاہا اور ہر پہلو سے وہ ناکام رہے.آخر اسی ناکامی میں فوت ہو گئے.یہ مختصر تذکرہ میںنے لکھ دیا ہے.تفصیل کی توفیق ملی تو عاقبتہ المکذّبین میں کر سکوں گا.وباللہ التوفیق.(عرفانی کبیر)

Page 487

مکتوب نمبر ۲۳ پہلا خط بنام حافظ محمدیوسف صاحب میرے پاس شیخ حامد علی صاحب ساکن تھہ غلام نبی نے یہ بیان کیا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ لاہور کو مرزا غلام احمد کی نسبت کئی الہامات ایسے ہوئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ منشی صاحب موصوف کو یہ خبر دیتا ہے کہ غلام احمد ُمسرِف کذّاب ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر الہام ہوئے ہیں.لیکن منشی صاحب اس مصلحت سے ان الہامات کو کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع نہیں کرتے کہ مبادا مرزا غلام احمد ہم پر انگریزی عدالت میں نالش کر دے.ہاں! اگر مرزا غلام احمد یہ تحریری وعدہ لکھ دے کہ میں نالش نہیں کروں گا.تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہفتہ عشرہ میں کسی اشتہار یا اخبار کے ذریعہ سے ان الہامات کو منشی الٰہی ۱؎صاحب کے ہاتھ سے شائع کرا دیں گے.پس چونکہ یہ طریق نہایت عمدہ ہے اورممکن ہے کہ اس سے کوئی فیصلہ ہو جائے.اس لئے میںحضرت عزت کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ میں ایسے الہامات کے شائع کرنے سے کسی عدالت میں نالش نہیں کروں گا.ہاں یہ شرط ہے بلکہ نہایت ضروری شرط ہے کہ منشی الٰہی بخش صاحب خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر الہامات شائع کریں یعنی تحریر الہامات کے پہلے یہ قسم کھائیں کہ مجھے اللہ جل شانہٗ کی قسم ہے کہ جو الہامات ذیل میں لکھتا ہوں.وہ درحقیقت خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اگر اس تحریر میں میری طرف سے کوئی گستاخی یا جھوٹ یا افترا ء ہے تو خد اتعالیٰ اس افترا کا مجھے پاداش دے.یہ لکھ کر یہ الہامات لکھ دیں.سو میں یہ رقعہ بخدمت حافظ محمدؐ یوسف صاحب اس غرض سے لکھتا ہوں.الراقم مرزا غلام احمد بقلم خود مکرر یہ کہ یہ بھی شرط ہے کہ منشی الٰہی بخش صاحب اپنے تکذیب تفسیق کے الہامات کو اپنے ۱؎ لفظ ’’بخش‘‘ چھوٹ گیا معلوم ہوتا ہے.(ناقل

Page 488

نام اور پورے پتہ و سکونت وغیرہ سے شائع کریں اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر تین ہفتہ تک انتظار کر کے یہ رقعہ کسی اشتہار یا اخبار کے ذریعہ سے شائع کر دیا جائے گا.اس کی ایک نقل اسی غرض سے رکھی گئی ہے.فقط ۲۷؍ اپریل ۹۹ء ۱.گواہ شد.دستخط عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا ۲.گواہ شد.دستخط مرزا خدا بخش.۳.گواہ شد.دستخط نور الدین عفا اللہ عنہ ۴.گواہ شد.دستخط معراج الدین عفی عنہ بقلم خود.۵.گواہ شد.دستخط عبدالکریم سیالکوٹی.٭ ٭…٭…٭ ٭ الفضل یکم جولائی۱۹۴۳ء صفحہ۲

Page 489

مکتوب نمبر ۲۴ دوسراخط بنام حافظ محمد یوسف صاحب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت شریف مکرمی حافظ محمد یوسف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.اگرچہ وہ شرائط جومیں نے لکھے تھے وہ سب قوم کے فائدہ کے لئے لکھے تھے اور ان کے لکھنے سے نہ یہ غرض تھی کہ حضرت منشی الٰہی بخش صاحب پر مجھے اعتبار نہیں اور نہ یہ غرض تھی کہ میں نعوذ باللہ ان کے لئے کوئی بد منصوبہ سوچتا ہوں.محض نیک نیتی سے لکھا گیا تھا.لیکن چونکہ مجھے آسمانی فیصلہ مطلوب ہے.یعنی یہ مدعا ہے کہ تالوگ ایسے شخص کو شناخت کر کے جس کا وجود حقیقت میں ان کے لئے مفید ہے، راہ راست پر مستقیم ہوجائیں اور تا لوگ اس شخص کو شناخت کر لیں جو درحقیقت خد اتعالیٰ کی طرف سے امام ہے اور ابھی تک یہ کس کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے؟ صرف خدا کومعلوم ہے یا ان کوجن کو خد اتعالیٰ کی طرف سے بصیرت دی گئی ہے.اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.پس اگر جناب منشی الٰہی ۱؎صاحب کے الہامات درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو وہ الہام جو میری نسبت ان کو ہوئے ہیں.اپنی سچائی کا کوئی کرشمہ ظاہر کریںگے اور اس طرح یہ خلقت جو واجب الرحم ہے.ُمسرِف کذّاب سے نجات پا جائے گی اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی ایسا امر ہے جو اس بدظنی کے برخلاف ہے تو وہ امرروشن ہو جائے گا.لہٰذا میں ا س بات سے تو باز آیا کہ منشی صاحب کے منہ سے قسم کااقرار لوں.گو خدا تعالیٰ نے بھی قسمیں کھائی ہیں اورہمارے سیّد اورمولیٰ آنحضرت ﷺصحابہ کے سامنے بعض اوقات قسمیں کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لیکن میں عام لوگوںکو زیادہ توجہ دلانے کے لئے خود منشی الٰہی بخش صاحب کو قسم دیتا ہوں اورمیری طرف ۱؎ لفظ ’’بخش‘‘ چھوٹ گیا معلوم ہوتا ہے.(ناقل)

Page 490

سے منشی صاحب موصوف کو یہ قسم ہے کہ اے منشی الٰہی بخش صاحب! آپ کو اس خدا ئے قادر ذوالجلال غیور کی قسم ہے کہ میری نسبت جس قدر آپ کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے الہامات ہوئے ہیں.وہ سب کے سب معہ ترجمہ لکھ کر کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کر دیجئے.میں آپ کو اے منشی الٰہی بخش صاحب! پھر اس قادر قدوس کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ان الہامات میں سے جو آپ نے حافظ محمد یوسف صاحب کو یا حضرت منشی عبدالحق صاحب کویا کسی اورکو سنائے ہیں یا ابھی سنائے نہیں، کوئی الہام مخفی نہ رکھئے.میں پھر تیسری مرتبہ اے منشی الٰہی بخش صاحب! آپ کواس حیّ و قیّوم لَا اِلٰـہَ اِلاَّاللّٰہُ کے مصداق کی قسم دیتا ہوں جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف نازل کیا ہے اور قسم کا منشاء یہی ہے کہ آپ اسی کے منہ کے لئے، اسی کی عزت کے لئے، اسی کے نام کے ادب کے لئے و ہ کل الہامات جو میری نسبت آپ کو ہوئے ہیں.اس خط کے پہنچنے سے ایک ہفتہ تک کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کرا دیجئے اور دس اشتہارمیری طرف بھی بھیج دیجئے اورکوئی الہام جو میری نسبت ہو چکا ہے.مخفی نہ رکھئے اورمیں وعدہ کرتا ہوں کہ نعوذ باللہ میری طرف سے نہ کوئی آپ پر نالش ہو گی اور نہ کسی قسم کا بے جا حملہ آپ کی وجاہت و شان پر ہو گا.میں جانتا ہوں کہ ایسے سب کام بد ذاتی ہیں.میں صرف خد اتعالیٰ سے عقدہ کشائی چاہوں گا تا وہ لوگ جو مجھے مسرف اور کذّاب کا نام دیتے ہیں جوقرآن میں فرعون اور کسی اشدّ کافر کا نام ہے اور وہ لوگ (جو) میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی تصدیق کرتے ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ آپ فیصلہ کرے.میں نے تین قسموں کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کی ہے اور یہ سنت رسول اللہﷺاو ر تمام پیغمبروں کی ہے کہ جب قسم دے کر ان کوپوچھا جاتا تھا تو وہ اس جواب کو بغیر کم یا زیادہ کرنے کے اور بغیر کسی قسم کی خیانت و تحریف کے ٹھیک ٹھیک مطابق واقعہ بیان کر دیتے.سو اب اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا آپ اپنے منہ سے قسم کھانے سے الگ رہیے مگر میرا مدّعا بھی اس طور سے حاصل ہو جائے گا.ضرور نہیں کہ اظہار قسم کرو.٭ ۱۵؍ مئی ۱۸۹۹ء دستخط.مرزا غلام احمد ٭ الفضل یکم جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ۲

Page 491

بابو الٰہی بخش کے نام تعارف بابو الٰہی بخش صاحب کا ضمنی ذکر میں نے حافظ محمد یوسف صاحب کے متعلق تمہیدی نوٹ میں کیا ہے.یہ صاحب ضلع ملتان کے باشندے تھے اور محکمہ نہر میں ترقی کرتے کرتے اکاو نٹنٹ کے درجہ تک پہنچ چکے تھے.محکمہ نہر کے یہ چند مسلمان افسر مولوی عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ عقیدت اور ارادت رکھتے تھے اور انہوں نے مولوی صاحب موصوف کی زبانی یہ سنا تھا کہ ’’ایک نور پیدا ہوگا جس سے دنیا کے چاروں طرف روشنی ہوجائے گی اور وہ نور مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃوالسلام ہے جو قادیان میں رہتا ہے ‘‘ اور مولوی صاحب موصوف کا جب کبھی ذکر ہو تو حضرت مرزا صاحب کے متعلق نیک خیالات کا اظہار کرتے تھے.اس لئے اس گروہ کو حضرت اقدس سے تعلق اور محبت پیدا ہوئی.اپنے فہم اور عقل کے موافق یہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور زمانہ کی حالت کے لحاظ سے اسلامی خدمات سے دلچسپی رکھتے تھے.منشی الٰہی بخش کو یہ بھی دعویٰ تھا کہ ان کو الہام اور کشف ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اسلامی خدمات اور مخالفینِ اسلام کے جواب میں سینہ سپر ہوتے دیکھ کر اور آپ کے تقویٰ و طہارت سے آگاہ ہوکر یہ گروہ آپ کی خدمت میں آیا اور تعلقات کو بڑھایا.حضرت اقدس بھی منشی الٰہی بخش صاحب کی نسبت حسنِ ظن رکھتے تھے.چنانچہ آپ نے جب منشی صاحب کی رہنمائی کے لئے خصوصاً اور عوام کے فائدہ کے لئے عموماً ضرورت الامام لکھی تو آپ نے اس میں تحریر فرمایا.’’ان دنوں میں نے ماہ ستمبر ۱۸۹۸ء میں جو مطابق جمادی الا وّل ۱۳۱۶ھ ہے ایک میرے دوست جن کو میں ایک بے شرر انسان اور نیک بخت اور متقی اور پرہیز گار جانتا ہوں اور ان کی نسبت ابتداء سے میرا بہت نیک گمان ہے واللّٰہ حسیبہ مگر بعض خیالات میں غلطی میں پڑا ہوا سمجھتا ہوں اور اس غلطی کے ضرر سے ان کی نسبت اندیشہ بھی رکھتا ہوں ‘‘.

Page 492

حضرت اقدس کو ان کی نسبت حسن ظن تھا اور ان کے انجام کے متعلق خطرہ اور اندیشہ بھی تھا کہ وہ غلطی ان کو ہلاک نہ کردے اور آخر ایسا ہی ہوا جس کا بہت ہی افسوس ہے.یہاں ایک جملہ معترضہ کے طور پرمیں یہ بھی لکھ دینا چاہتا ہوں کہ یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائے عہد میں جو لوگ بظاہر بڑے اخلاص سے شریک ہوئے اور انھوں نے آپ کے کاموں میں امداد کیلئے ہاتھ بٹایا.نخوت اور تکبر نے ان کی حالت کو بدل دیا اور وہ ع ’’ معلوم کرکے سب کچھ محروم ہوگئے‘‘.ان میں بعض الہام و کشف کا دعویٰ کرتے تھے اور بعض رسول نما بنتے تھے.اصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کے مقابلہ میں جو بھی کھڑا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے علم کو اس مخالفت کے نتیجہ میں سلب کر لیتا ہے.خدا خود قصہ شیطاں بیاں کرد است تا دانند کہ ایں نخوت کند ابلیس ہر اہل عبادت را منشی الٰہی بخش صاحب کو ابتداًء حضرت اقدس کی تائید اور تصدیق میں الہامات اور کشوف ہوتے تھے اور یہ الہامات وہ ایک رجسٹر میں لکھتے تھے.میں ان لوگوں کے ساتھ ملتا جلتا اور ان کی مجالس میں بے تکلّف آتا جاتا تھا وہ اپنے الہامات اور رئویا سناتے.یہ بھی وہ سنایا کرتے بلکہ اس رجسٹر میں لکھ رکھا تھا کہ ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ مرزا صاحب کو تو خدا نے بڑے بڑے درجات دئے ہیں مگر میرے واسطے کچھ نہیں تو الہام ہوا یعنی یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ باوجود اس محبت کے جو وہ حضرت اقدس سے ظاہر کرتے تھے ان کے دل میں ایک مخفی حسد بھی تھا جس کو وہ محسوس نہ کرتے تھے اور اپنی ظاہری عبادت پر نازاں تھے جو بجائے اس کے کہ ان کے اندر خشیت الٰہی کو پیدا کرتی.اس نے ایک قسم کی نخوت پیدا کردی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے مقام پر سمجھنے لگے کہ مجھے امام الزماں کی بیعت کی ضرورت نہیں.یہ تحریک اس حدتک پہنچی کہ انھیں ایک خواب آگیا اور وہ خود انہوں نے حضرت اقدس کو سنایا کہ ’’میں نے آپ کی نسبت کہا ہے کہ میں ان کی بیعت کیوں کروں بلکہ انھیں میری بیعت کرنی چاہیے‘‘.کشوف اور الہامات میں حدیث النفس کو سمجھنے والے لوگ

Page 493

بآسانی اس خواب کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک زمانہ تک اس شخص کا یہ دعویٰ رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں ایسے الہامات اور کشوف ہوتے ہیں اور وہ آپ کی اسلامی خدمات کو خود دیکھتا تھا اور حضرت کے متعلق اس کے اپنے الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ خاص اللہ کا فضل ہے.باوجود ان باتوں کے اس خواب نے اس کو غلطی میں ڈال دیا اور وہ اپنے آپ کو اس مقام پر سمجھنے لگا کہ وہ شخص جس کے مقام اور شان کی خدا تعالیٰ نے بقول اس کے اس کو خبردی تھی اس کی بیعت کرے.یہ خواب اس کے لئے ٹھوکر کا پتھر ہوا.بابو صاحب ستمبر۱۸۹۸ء میں قادیان اس خواب کو دیکھ کر آئے.منشی عبدالحق صاحب لاہوری بھی ان کے ساتھ تھے.انہوں نے حضرت اقدس کو اپنے الہامات اور یہ خواب سنایا.حضرت اقدس نے نہایت محبت اور درد دل کے ساتھ ان کو بتایا کہ مامور من اللہ اور عوام کے الہامات میں ایک فرق بیّن ہوتا ہے.عوام کے الہامات میں ان کی ذاتی خواہشات اور تمنابھی شامل ہوجاتی ہے اور اس طرح بعض اوقات وہ شیطان کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں.حضرت اقدس سے ان کا یہ تخلیہ قریباً دو گھنٹہ تک رہا.مغرب کی نماز کے بعد وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر میں نے حافظ محمد یوسف صاحب کے ذکر میں کیا ہے.حضرت اقدس کی نصائح سے وہ پہلے ہی افروختہ تھے.بابو صاحب زود رنج تھے اور اس کی علامات ہرشخص ان کے چہرہ پر دیکھ سکتا تھا کہ وہ عموما ً عبوس الوجہ رہتے تھے.جب بلعم والے معاملہ کو حضرت نے بیان کیا تو اس بدقسمت نے یہ سمجھا کہ مجھے ایسا کہا گیا ہے.میں جو اس مجلس میں موجود تھا، قسم کھا کر بیان کرسکتا ہوں کہ حضرت نے اشارتاً کنا یتاً بھی ان کی نسبت کچھ نہ کہا.حضرت مولوی عبدالکریم ؓ کا سوال بھی اس نیت سے نہ تھا اور وہ خالی الذہن تھے.حضرت اقدس نے اس گفتگو کا جو اندر تخلیہ میں منشی الٰہی بخش سے ہوئی اب تک ذکر نہ کیا تھا.یہ حالات تو ضرورۃالامام کی تصنیف اور منشی الٰہی بخش کے جانے کے بعد کہے.غرض منشی صاحب کیلئے یہ سفر نہایت نامبارک ہوا وہ اخلاص اور محبت جو انہوںنے سالہا سال سے پیدا کی تھی وہ اپنے نفس کے مکاید میں مبتلا ہوکر ضائع کردی اور ان کا انجام ابتداء سے بدتر ہوگیا.وہ اپنے دل میں یہ جذبہ لے کر گئے کہ حضرت مرزا صاحب نے انکو بھری مجلس میں ذلیل کیا اور میرے الہامات کو حقیر سمجھا.کیونکہ حضرت اقدس نے اپنی ملاقات میں انہیں یہ

Page 494

بھی بتایا تھا کہ آپ ان الہامی فقرات سے دھوکا نہ کھائیں جو آپ کی زبان پرجاری ہوتے ہیں.میری جماعت میں اس قسم کے ملہم مِن اللہ ہیں کہ بعض کے الہامات کی ایک کتاب بنتی ہے اور ان کے الہامات میں آپ کی نسبت غلطی کم ہوتی ہے.ایسے الہامات سے کوئی شخص بھی امام الزماں کی بیعت سے مستغنی نہیں ہوسکتا.غرض ان تمام حالات نے انکی ایمانی حالت میں ایک تغیر پیدا کردیا اور وہ محبت کی بجائے کینہ اور مخالفت کے جذبات لے کر واپس گئے اور اپنی مجلسوں میں انہوں نے ذکر کیاکہ میری تحقیر اور تذلیل کی گئی.حضرت اقدس نے ہمدردی کے جوش میں ضرورۃ الامام نام کی کتاب ڈیڑھ دن میں تیار کرکے شائع کردی.اس میں کہا کہ میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ میں ان کیلئے امامت حقّہ کے بیان میں یہ رسالہ لکھوں اور بیعت کی حقیقت تحریر کروں‘‘.حضرت اقدس کے اس رسالہ کے بعد ان کی مخالفت میں شدت اور محبت بغض کی صورت میں تبدیل ہوگئی اور وہ پھر اسی غزنوی ٹولہ کے افراد سے ربط ضبط کرنے لگے جن کی نسبت انھیں کبھی الہام ہوا تھا.چِہ دَاند بوزنہ لذّات ادرک چونکہ وہ علوم دینی سے واقف نہ تھے اور ایک عامی انگریزی خواں تھے اس لئے مخالفانہ تحریروں کے لئے ان لوگوں کے دامن میں ہی پناہ لینی پڑی جن کو نفرت اور حقارت سے اپنے الہامات میں ہندو کے لفظ سے یاد کرتے تھے اور مخالفت میں شدت ہوتی گئی.جون ۱۸۹۹ء کو حضرت اقدس نے بابو صاحب کو ایک خط لکھا کہ آپ کو بھی الہام ہوتے ہیں اور مجھے بھی الہام ہوتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی ضدہیں.مسلمان حیران ہیں کہ کس کو مانیں اور کس کو نہ مانیں.پس آپ کو خدا کی قسم ہے کہ اسلام اور مسلمانوں پر رحم کرکے ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء تک اپنے الہامات جو میرے خلاف ہیں چھاپ کر مجھے بھیج دیں تا پھر میں بھی اپنے الہامات جن پر میرے دعاوی کی بنا ہے چھاپ دوں اور پھر ہم دونوں خدا سے آسمانی فیصلہ کی درخواست کریں تا مسلمانوں کو اس تذبذب سے نجات ہو.منشی الٰہی بخش صاحب اس میدانِ مقابلہ میں نہ نکلے اور یوں اپنی مجلسوں میں مخالفت کرتے رہے.اس پر حضرت اقدس نے ۲۵؍مئی ۱۹۰۰ء کو اتمامِ حجت کے لئے ایک اعلان بعنوان معیار الاخیار شائع کیا او ر پھر ۱۶؍جون ۱۸۹۹ء والے خط کے مطالبہ کو دہرایا مگر لاہوری ملہم کو اس مقابلہ میں علی الاعلان آنے کی ہمت نہ پڑی اور ایک

Page 495

کتاب عصائے موسیٰ کے نام سے عام مکذبین کے طریق پر شائع کی اور اس میں حضرت اقدس کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ کذّاب ہیں اور میری زندگی میں طاعون سے ہلاک ہوجائیں گے.اس طرح گویا منشی الٰہی بخش صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتحان کے لئے خدائی فیصلہ کا نفاذ بھی باقی تھا.جو حق وباطل میں ہونیوالا تھا.منشی الٰہی بخش نے اپنے الہامات کی بنا پر علی الاعلان یہ کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام طاعون سے اس کی زندگی میں فوت ہوجائیں گے اور خود موسیٰ ہونے کا بھی دعویٰ کیااور حضرت کو لکھا کہ میں موسیٰ ہوں اور میرے ہاتھ سے آپ کا سلسلہ ہلاک کردیا جاوے گا.(مفہوم) اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت کو بذریعہ الہام بشارت دی کہ ’’ ایک موسیٰ ہے میں اس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اس کو عزت دوں گا اور جس نے میراگناہ کیا ہے میں اس کو گھسیٹوں گااور اس کو دوزخ دکھلاؤں گا.میرے نشان روشن ہوجائیں گے.میرا دشمن ہلاک ہوگیا(یعنی ہلاک ہوجائے گا) ہن اس دالیکھا خدا نال جاپیا اے‘‘.۱؎ یہ الہامات قبل از وقت اخبار الحکم اور بدر میں شائع ہوگئے.یہ مارچ ۱۹۰۷ء کی بات ہے ان الہامات کی اشاعت کے سترھویں دن بعد ۷؍اپریل ۱۹۰۷ء کو بابو الٰہی بخش صاحب (جو حضرت مسیح موعود کا اپنی زندگی میں طاعون سے ہلاک ہونے کااعلان کرتے تھے.خود طاعون میں مبتلا ہوکر فوت ہوگیا اور اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فیصلہ سے حق اور باطل میں امتیاز کردیااور بتادیا کہ الٰہی بخش اپنے دعاوی میں کاذب اور حضرت مرزا صاحب صادق ہیں وللّٰہ الحمد.تفصیلی تذکرہ انشاء اللہ العزیز انجام المکذبین میں ہوگا.وباللّٰہ التوفیق ہونعم المولٰی ونعم الرفیق.(عرفانی)

Page 496

مکتوب نمبر ۲۵ بنام منشی الٰہی بخش صاحب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ از جانب متوکل علی اللہ الاحد غلام احمد عافاہ اللہ وایّد.بخدمت اخویم مکرم بابو الٰہی بخش صاحب!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘.بعد ہذا اس عاجز کو اس وقت تک آنمکرم کے الہامات کی انتظار رہی.مگر کچھ معلوم نہیں کہ توقف کا کیا باعث ہے.میں نے سراسر نیک نیتی سے جس کو خداوند کریم جانتا ہے یہ درخواست کی تھی تا اگر خدا تعالیٰ چاہے ُتو ان متناقض الہامات میں کچھ فیصلہ ہوجائے.کیونکہ الہامات کا باہمی تناقض اور اختلافات اسلام کو سخت ضرر پہنچاتا ہے اور اسلام کے مخالفوں کو ہنسی اور اعتراض کا موقعہ ملتا ہے اور اس طرح پردین کاا ستخفاف ہوتا ہے.بھلا یہ کیوں کر ہوسکے کہ ایک شخص کو خدا تعالیٰ یہ الہام کرے کہ تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور اس زمانہ کے تمام مومنوں سے بہتراور افضل اور مثیل الانبیاء اور مسیح موعود اور مجدد چودھویں صدی اور خدا کا پیارا اور اپنے مرتبہ میں نبیوں کی مانند اور خدا کا مرسل ہے اور اس کی درگاہ میں وجیہہ اور مقرب اور مسیح ابن مریم کی مانند ہے اور ادھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ یہ شخص فرعون اور کذاب اور مسرف اور فاسق اور کافر اور ایسا اور ایسا ہے.ایسا ہی اس شخص کو تو یہ الہام کرے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا.وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے اور پھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ جو اس کی پیروی کرتے ہیں وہ شقاوت کا طریق اختیار کرتے ہیں.پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر اسلام پر یہ مصیبت ہے کہ ایسے مختلف الہام ہوں اور مختلف فرقے پیدا ہوں جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوں.اس لئے ہمدردیٔ اسلام اسی میں ہے کہ ان الہامات کا فیصلہ ہوجائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی فیصلہ کی راہ پیدا کردے گا اور اس مصیبت سے مسلمانوں کو چھڑائے گا.لیکن یہ فیصلہ تب ہوسکتا ہے کہ ملہمین جن کو الہام ہوتا ہے وہ زنانہ سیرت اختیار نہ کریں اور مردِ میدان بن کر جس طرح

Page 497

کے الہام ہوں.وہ سب دیانت کے ساتھ چھاپ دیں اور کوئی الہام جو تصدیق یا تکذیب کے متعلق ہو، پوشیدہ نہ رکھیں.تب کسی آسمانی فیصلہ کی امید ہے.اسی وجہ سے میں نے اللہ تعالیٰ کی قسمیں آپ کو پہلے خط میں دی تھیں تا آپ جلد تر اپنے الہام میری طرف بھیج دیں مگر آپ نے کچھ پروا نہیں کی اور میرے نزدیک یہ عذر آپ کا قبول کے لائق نہیں کہ آپ کو مخالفانہ الہام اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ ایک مدت ان کی تشریح کے لئے چاہئے.میرے خیال میں یہ کام چند منٹ سے زیادہ کا کام نہیں ہے اور غایت درجہ دو گھنٹہ تک معہ تشریح و تفسیر آپ لکھ سکتے ہیں اور اگر کسی اور کتاب کا ارادہ ہے تو اس کو اس سے کچھ تعلق نہیں.مناسب ہے کہ آپ اس اُمت پر رحم کرکے اور نیز خدا تعالیٰ کی قسموں کی تعظیم کرکے بالفعل دوتین سو الہام ہی جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کاکام ہے، چھپواکر روانہ فرما دیں.یہ تو میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ الہامات کی بڑی بڑی عبارات ہیں.بلکہ ایسی ہوں گی جیسا کہ آپ کا الہام ’’مُسْرِفٌ کذّابٌ‘‘۱؎ تو اس صورت میں آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے الہام کا غذ کے ایک صفحہ میں کس قدر آسکتے ہیں.میں پھر آپ کو اللہ جلّشانہ‘ کی قسم دیتا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت پر رحم کرکے بمجرد پہنچنے اس خط کے اپنے الہامات چھپوا کر روانہ فرماویں.مجھے اس بات پر بھی سخت افسوس ہوا ہے کہ آپ نے بے وجہ میری یہ شکایت کی کہ گویا میں نے مولوی عبداللہ صاحب کی کوئی بے ادبی کی ہے.آپ جانتے ہیں کہ میری گفتگو صرف اس قدر تھی کہ آپ مولوی محمد حسین کو کیوں بُرا کہتے ہیں.حالانکہ آپ کے مرشد مولوی عبداللہ صاحب نے اس کے حق میں یہ الہام شائع کیا تھا کہ وہ تمام عالموں کے لئے رحمت ہے اور سب اُمت سے بہتر ہے.یہ قرآنی الہام تھے جن کا میں نے ترجمہ کردیا ہے.اس صورت میں اگر شک تھا تو آپ مولوی محمد حسین سے دریافت کرلیتے.سچی بات پر غصہ کرنا مناسب نہیں ہے.پھر ماسوا اس کے جس دعویٰ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس کے مقابل پر عبداللہ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایہ ہے.میں یقینا جانتا ہوں کہ اگروہ اس وقت زندہ ہوتے تو وہ میرے تابعداروں اور خادموں میں داخل ہوجاتے.ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے آگے گردن خم کرنا اور غربت اور چاکری کی راہ سے اطاعت اختیار کر لینا ہر ایک دیندار اور سچے مسلمان کا کام ہے.پھر وہ کیوں کر میری اطاعت سے باہر رہ سکتے تھے.اس صورت میں آپ کا کچھ بھی حق نہیں تھا.اگر میں حَکَم ہونے کی حیثیت سے ان میں کچھ کلام کرتا.آپ ۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۵۱ ایڈیشن چہارم

Page 498

جانتے ہیں کہ خدا اور رسول نے مولوی عبداللہ کا کوئی درجہ مقرر نہیں کیا اور نہ ان کے بارے میں کوئی خبر دی.یہ فقط آپ کا نیک ظن ہے جو آپ نے ان کو نیک سمجھ لیا ورنہ کسی حدیث یا آیت سے تو ثابت نہیں کہ درحقیقت پاک دل تھے.ہاں جہاں تک ہمیں خبر ہے وہ پابند نماز تھے.رمضان کے روزے رکھتے تھے اور بظاہر دیندار مسلمان تھے.اندرونی حال خدا کو معلوم.حافظ محمد یوسف صاحب نے کئی دفعہ قسم کو یاد کرنے سے یقین کامل سے کئی مجلسوں میں میرے روبرو بیان کیا کہ ایک دفعہ عبداللہ صاحب نے اپنے کسی خواب یا الہام کی بناپر فرمایا تھا ’’کہ آسمان سے ایک نور قادیان میں گرا.جس کے فیضان سے ان کی اولاد بے نصیب رہ گئی.‘‘ حافظ صاحب زندہ ہیں.ان سے پوچھ لیں.پھر آپ کی شکایت کس قدر افسوس کے لائق ہے.اور اللہ جلّشانہ‘ خوب جانتا ہے کہ ہمیشہ مولوی عبداللہ غزنوی کی نسبت میرا نیک ظن رہا ہے.اگرچہ بعض حرکات ان کی میں نے ایسی بھی دیکھیں کہ اس حسن ظن میں فرق ڈالنے والی تھیں.تاہم میں نے ان کی طرف کچھ خیال نہ کیا اور ہمیشہ سمجھتا رہا کہ وہ ایک مسلمان اپنی فہم اور طاقت کے موافق پابند سنت تھا لیکن میں اس سے مجبور رہا کہ میں ان کو ایسے درجہ کا انسان خیال کرتا کہ جیسے خدا کے کامل بندے مامورین ہوتے ہیں اور مجھے خدا نے اپنی جماعت کے نیک بندوں کی نسبت وہ وعدے دیئے ہیں کہ جو لوگ ان وعدوںکے موافق میری جماعت میں سے روحانی نشوو نما پائیں گے اور پاک دل ہوکر خدا سے پاک تعلق جوڑلیں گے.میں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں ان کو صد ہا درجہ مولوی عبداللہ غزنوی سے بہتر سمجھوں گا اور سمجھتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو وہ نشان دکھلاتا ہے کہ جو مولوی عبداللہ صاحب نے نہیں دیکھے اور اُن کو وہ معارف سمجھاتا ہے جن کی مولوی عبداللہ صاحب کو کچھ بھی خبر نہیں تھی اور انہوں نے خوش قسمتی سے مسیح موعود کو پایا اور اسے قبول کیا مگر مولوی عبداللہ صاحب اس نعمت سے محروم گزر گئے.آپ میری نسبت کیسا ہی بد گمان کریں اس کا فیصلہ تو خدا کے پاس ہے لیکن میں باربار کہتا ہوں کہ میں وہی ہوں اور اس نور میں میرا پودا لگایا گیا ہے جس نور کا وارث مہدی آخرزمان چاہیے تھا.میں وہی مہدی ہوں.جس کی نسبت ابن سیرینؒ سے سوال کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کے درجہ پر ہے؟ توا نہوں نے جواب دیا کہ ابو بکرؓ کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے.یہ

Page 499

خدا تعالیٰ کی عطا کی تقسیم ہے.اگر کوئی بخل سے مربھی جائے تو اس کو کیا پروا ہے اور جو شخص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے ذکر سے مجھ پر ناراض ہوتا ہے.اس کو ذراخدا سے شرم کرکے اپنے نفس سے ہی سوال کرنا چاہئے کہ کیا یہ عبداللہ صاحب غزنوی اس مہدی و مسیح موعود کے درجہ پر ہوسکتا ہے جس کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سلام کہا اور فرمایا کہ خوش قسمت ہے وہ اُمت جو دو۲ پناہوں کے اندر ہے.ایک میں جو خاتم الا نبیاء ہوں اور ایک مسیح موعود جو ولایت کے تمام کمالات کو ختم کرتا ہے اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو نجات پائیں گے.اب فرمایئے کہ جو شخص مسیح موعود سے کنارہ کرکے عبداللہ غزنوی کی وجہ سے اس سے ناراض ہوتا ہے اس کا کیا حال ہے؟ کیا سچ نہیں ہے کہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے صلحا اور اولیاء اور ابدال اور قطبو ں اور غوثوں میں سے کوئی بھی مسیح موعود کی شان اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا.پھر اگر یہ سچ ہے تو آپ کا مسیح موعود کے مقابل پر مولوی عبداللہ غزنوی کا ذکر کرنا اور باربار یہ شکایت کرنا کہ عبداللہ کے حق میں یہ کہا ہے کس قدر خدائے تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول کریم کی وصیتوں سے لاپرواہی ہے.کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ عبداللہ غزنی سے نکالا جائے گا اور پنجاب میں آئے گا.اس کو تم مان لینا اور میرا سلام اس کو پہنچانا یا یہ نصیحت فرمائی تھی کہ غلبہ صلیب کے وقت مسیح موعود ظاہر ہوگا اور وہ نبیوں کی شان لے کر آئے گا اور خدا اسکے ہاتھ پر صلیبی مذہب کو شکست دے گا.اس کی نافرمانی نہ کرنا اور اس کو میری طرف سے سلام پہنچانا اور اگر یہ کہو کہ وہ تو آکر نصاریٰ سے لڑے گا اور ان کی صلیبوں کو توڑے گا اور ان کے خنزیروں کو قتل کرے گا تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ علمائے اسلام کی غلطیاں ہیں بلکہ ضرور تھا کہ مسیح موعود نرمی اورصلح کاری کے ساتھ آتا اور صحیح بخاری میں بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا اور نہ تلوار اُٹھائے گا بلکہ اس کا حربہ آسمانی حربہ ہوگا اور اس کی تلوار دلائل قاطعہ ہوگی.سو وہ اپنے وقت پر آچکا.اب کسی فرضی مہدی اور فرضی مسیح موعود کی انتظار کرنا اور خونریزی کے زمانہ کا منتظر رہنا سرا سر کوتہ فہمی کا نتیجہ ہے.اور خدا نے میرے ہاتھ پر بہت سے نشان دکھلائے اور وہ ایسے یقینی طور پر ظاہر ہوئے کہ تیرہ سو برس کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی

Page 500

شہرت صرف ان کے چند مریدوں تک محدود تھی لیکن یہ نشان کروڑہا انسانوں میں شہرت پاگئے.مثلاً دیکھو کہ لیکھرام کی پیشگوئی کو کیوں کر فریقین نے اپنے اشتہارات میں شائع کیا اور قبل اس کے جو وہ پیشگوئی ظہور میں آوے، لاکھوں انسانوں میں اس پیشگوئی کا مضمون شہر ت پاگیا اور تین قومیں ہندو، مسلمان ، عیسائی اس پر گواہ ہوگئیںپھر اسی کروفر سے وہ پیشگوئی ظہور میں بھی آئی اور اسی طرح لیکھرام قتل کے ذریعہ سے فوت ہوا جیسا کہ پیش از وقت ظاہر کیا گیا تھا.کیا ایسی ہیبت ناک پیشگوئی کو پورا کرنا انسان کے اختیار میں ہے؟ کیا اس ملک کی تین قوموں میں اس قدر شہرت پاکر اور ایک کشتی کی طرح لاکھوں انسانوں کے نظارہ کے نیچے آکر اس کا پورا ہوجانا ایسی پیشگوئی کی جو اس شان وشوکت کے ساتھ پوری ہوئی ہو.تیرہ سو برس کے زمانہ میں کوئی نظیربھی ہے؟ اور بعض کا یہ کہنا کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں.اس کا جواب بجز اس کے ہم کیا دیں کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.اگر ان لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ نور انصاف ہوتا تو وہ شبہ کے وقت میرے پاس آتے تو میں ا ن کو بتلا تا کہ کس خوبی سے تمام پیشگوئیاں پوری ہوگئیں.ہاں ایک پیشگوئی ہے جس کا ایک حصہ پورا ہوگیا اورایک حصہ شرط کی وجہ سے باقی ہے جو اپنے وقت پر پورا ہوگا.افسوس تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی وہ سنتیں اور قانون بھی معلوم نہیں جو پیشگوئیوں کے متعلق ہیں.ان کے قول کے مطابق تو یونس نبی بھی جھوٹا تھا جس نے اپنی پیشگوئی کے قطعی طور پر چالیس دن مقرر کئے تھے مگر وہ لوگ تو چالیس برس سے بھی زیادہ زندہ رہے اور چالیس دن میں نینوہ کا ایک تنکا بھی نہ ٹوٹا بلکہ یونس نبی تو کیا تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں یہ نظیریں ملتی ہیں.پھر اخیر پر خدا تعالیٰ کی قسم آپ کو دیتا ہوں کہ آپ وہ تمام مخالفانہ پیشگوئیاں جو میری نسبت آپ کے دل میں ہوں لکھ کر چھاپ دیں.اب دس دن سے زیادہ میںآپ کو مہلت نہیں دیتا.جون مہینے کی ۳۰ تاریخ تک آپ کا اشتہار مخالفانہ پیشگوئیوں کا میرے پاس آجانا چاہئے ورنہ یہی کاغذ چھاپ دیا جائے گااور پھر آئندہ آپ کو کبھی مخاطب کرنا بھی بے فائدہ ہوگا.والسلام٭ خاکسار ۱۶؍جون ۱۸۹۹ء مرزا غلام احمد عفی عنہ‘ ٭ تشحیذالاذہان جلد۹ نمبر۳ صفحہ۴۱ تا ۴۶

Page 501

مولوی سلطان محمود صاحب کے نام (تعارفی نوٹ) مولوی سلطان محمود صاحب ایک مشہور سجادہ نشین تھے.اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ تجدید کی حقیقت اور اپنے نام مسیح موعود اور مہدی معہود کے راز کو بیان فرمایا ہے.اس مکتوب کے آخر میں اپنی مہر بھی لگائی ہے اور مہر کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ایک وحی ہے.آپ نے بعض اور مواہیر بھی تیار کی تھیں اور ان میں بھی الہامات ہی درج تھے.اپنے نام غلام احمد کی مہر میں نے نہیں دیکھی.یہ انگوٹھیاں مختلف اوقات میں تیار ہوئیں.۱؎ کی انگوٹھی حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم آپ کے والد کی وفات کے بعد تیار ہوئی تھی کیونکہ یہ الہام وفات کے معاً بعد ہو اتھا جو ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل تھا.جس کاظہور آپ کی بعدکی زندگی میں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام ضروریات کاخارقِ عادت طور پر تکفّل فرمایا.غرض یہ مکتوب پنجاب کے ایک مشہور سجادہ نشین کی طرف ہے اور چونکہ حضرت حکیم الامۃ مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ اس خاندان سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے آپ نے بھی اس پر چندسطریں تحریر کر دیں.(عرفانی کبیر) ۱؎ الزُّمر: ۳۷ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۴۸

Page 502

مکتوب نمبر ۲۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایّد.بخدمت اخویم مولوی سلطان محمود صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا میں مامور ہوں کہ ہر ایک رشید اور سعید کو اپنی بات سے اطلاع دوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس صدی چہار دہم کے سر پر اس قسم کی تجدید کے لئے بھیجا ہے کہ تاوہ فتنہ عیسائیت کا جس کے بیرونی حملوں سے اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور نیز وہ فتنہ اندرونی جو خود مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی اور ایمانی حالت تنزّل میں ہے.یہ دونوں فتنے میرے ذریعہ سے فروکئے جائیں.چنانچہ اس حکیم مطلق نے بیرونی اصلاح کے لحاظ سے جو متعلق کسر صلیب ہے، میرا نام مسیح موعود رکھا ہے اور اندرونی فتنہ کے فرو کرنے اور مسلمانوں کو حقیقی ہدایت پر قائم کرنے کے لحاظ سے میرا نام مہدی معہود رکھا ہے.کیونکہ صلیبی فتنہ جس کے ہاتھ سے فرو ہو اور بگڑی ہوئی عیسائیت کا زوال ہو.وہ وہی مجدّد ہے جس کانام آسمان پر مسیح ہے.اور وہ شخص جو ایسے وقت میں آوے کہ جب اکثر مسلمان مغز اور حقیقت کو کھو بیٹھے ہوں اور وہ اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ تا دوبارہ حقیقی ہدایت اور ایمان کی روح ان کے اندر پھونکے، وہ وہی مجدد ہے جس کا نام مہدی ہے.جیسا کہ یہ حدیث ہے لَا الْمَہْدِیْ اِلاَّ عیسٰی۱؎.اور خد ا نے چودھویںصدی کو اس لئے خاص کیا.کیونکہ کمال نور کا نظارہ صرف چودھویں رات میں ہوتا ہے اور چودھویں رات کے دونوںطرف انحطاط ہے اور جو شخص زمانہ کی حالت موجودہ پر ایک نظر ڈالے گا اور بیرونی حملوں اور اندرونی فسادوں کو دیکھے گا.اگر وہ فراست رکھتا ہو تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ نہ کسی تکلّف اور بناوٹ سے بلکہ خود زمانہ کی حالت موجودہ نے چاہا ہے کہ اسی صدی کا مجدد مسیح موعود اور مہدی مسعود کے نام سے پکارا جاوے.کیونکہ آسمان پر خدمتوں اور کاموں کے لحاظ سے نام رکھا جاتا ہے پھر جس کی خدمت کسر صلیب ہے اس کا نام بجز مسیح موعود کے اور کیا ہو سکتا ہے اور ۱؎ ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدۃ الزمان

Page 503

جو قوم کے مرُدہ قالب میں دوبارہ ہدایت اور ایمان اور تقویٰ کی روح ڈالنا چاہتا ہے وہ بجز مہدی کے کس نام سے موسوم ہو سکتا ہے؟ کیا سچ نہیں کہ آسمان پکار رہا ہے اور زمین فریاد کررہی ہے کہ اس صدی کے مجدد کا نام بلحاظ حالت موجودہ اور مفاسد مشہودہ اندرونی اور بیرونی کے مسیح اور مہدی ہونا چاہئے.اگر یہ حالت موجودہ خود مجھ کو طبعاًیہ دونوں خطاب عطا نہیںکرتی تو میں جھوٹا ہوں اور اگر کرتی ہے تو ہر ایک متقی ، خدا ترس کے لئے واجب اور لازم ہے کہ میرے انصار میں سے ہوجاوے.اسی بنا پر میں آپ پر نیک ظن کر کے یہ خط آپ کی طرف لکھتا ہوںاور چاہتا ہوں کہ آپ اس روز سے ڈر کر، جبکہ ایک ذرہ انحراف اور خدا کی راہ میں سستی کر نا انحطاط اعمال کا موجب ہو گا، میری نصرت میں لگ جاویں.ہر ایک روح خودپسندی سے خالی ہو کر میری نسبت خد اتعالیٰ سے گواہی طلب کرے گی تو خد ا تعالیٰ میری مسیحائی کی اس کو خبر دے گا.سواے عزیزو! خدا سے خوف کر کے اور اس دن سے ڈر کر جبکہ ہر ایک شخص کو اپنی لاپرواہی کی باز پرس ہو گی.میرے معاملہ میں خد اسے روشنی مانگو.تااس جماعت میں شمار نہ کئے جائو جنہوں نے خد اکے مسیح کو پاکر سر اُٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھا.یہ میری طرف سے ایک تبلیغ ہے اور ان تمام لوگوں کا بوجھ آپ کے سر پر ہے جو آپ کے ایک ذرّہ اشارہ سے حق کو قبول کرسکتے ہیں.والسلام علیٰ من اتبع الہدٰی.الراقم المامورمن الربّ الغفور ۷؍ شعبان ۱۳۱۷ھ (۱۰؍دسمبر۱۸۹۹ء) میرز اغلام احمد عفی عنہ ازقادیان مکرریہ کہ حضرت احدیت کا محب صادق جو اپنے تئیں محجوبانہ حالت میں رکھنا نہیں چاہتا اور نہ کسی حصہ تاریکی کے ساتھ اس دار ناپائیدار سے سفر کرنا چاہتا ہے.اس کو خد ا تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اپنی معرفت کی منزلوں کو اپنی استعداد کے موافق پورا کرے.کیونکہ نشان ظاہر ہوتے ہیں اور حقائق و معارف بیان کئے جاتے ہیں.پس مبارک وہ جو اس وقت ٹھوکر نہ کھاوے.اس سعادت سے عمداً محروم نہ رہے جس کے آسمان سے دروازے کھولے گئے ہیں.فقط.

Page 504

اس خط پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام الٰہی پر مشتمل مہر اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ۱؎ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ.۲؎ لگائی تھی.ذیل میں عبارت حضرت مولوی نور الدین صاحب کی ہے جوحضرت صاحب کے حکم سے مراسلہ موصوف کے نیچے لکھی گئی.کیونکہ معلوم ہو اتھا کہ صاحب مکتوب الیہ کی مولوی صاحب سے سابقہ معرفت ہے.اس لئے حضرت صاحب نے مناسب خیال فرما کر مولوی صاحب کی طرف سے تھوڑا سا مضمون لکھوا دیا اور وہ یہ ہے.خاکسار نورالدین بگرامی خدمت قاضی صاحب.پس السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گزارش پرداز سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۳؎ پس بامتثال امرخاتم النبین رسول ربّ العٰلمین علیہ الصلٰوۃ والسلام الٰی یوم الدین کے دردِ دل سے عرض ہے کہ جناب امام زمان علیہ الرضوان کے ارشاد کو دنیاکی بے ثباتی پر نظر کر کے غور سے پڑھیں اور بجائے اس کے کہ آپ گزشتہ بزرگان کی قبور پر توجہ کریں، زندہ امام کے انصار اللہ میں اپنے آپ کو منسلک کردیں.سارے کمالات اور الٰہی رضا مندی اطاعت میں ہیں.اور بس ( نورالدین)٭ ٭…٭…٭ ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۷۵ ۲؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۷۲ ۳؎ بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ مایحب لنفسہ ٭ الحکم ۲۸؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ۶،۷

Page 505

مکتوب نمبر ۲۷ ایک مشہور درس گاہ کے صاحبزادے کے نام (معزز ناظرین بدر.ایّدکم اللہ تعالیٰ.کوئی ساڑھے تین سال کا عرصہ گزرتا ہے کہ پنجاب کی ایک مشہور درسگاہ کے صاحبزادے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور عریضہ لکھا جس کامضمون اُس کے جواب سے ظاہر ہے.حضرت نے کمال توجہ سے دو۲ ورق اپنے دست مبارک سے نوازش نامہ لکھ کر ارسال فرمایا جو تاحال پبلک پر ظاہر نہ ہوا.میں نے بڑی مشکل سے اس کی نقل بہم پہنچائی.امید ہے، کئی سعید روحیں اس سے مستفید ہوں گی.) آپ کا نیاز مند محمد ظہور الدین اکمل آف گولیکے ضلع گجرات پنجاب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم حافظ صاحب سلمہ رَبَّہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط پہنچا.واضح ہو کہ اکثر لوگ دعا کے اصول سے بے خبر ہیں اس لئے اپنے مقاصد سے محروم رہتے ہیں.دعا میں یہ شرط ہے کہ اس شخص سے جس سے دعا کروانا چاہتا ہے اور جو درحقیقت میں مقبول درگاہِ الٰہی ہے، پورا پورا تعلق ارادت اورمحبت کا پیدا کرے اور اس پر ثابت کرے کہ وہ ایسا ہی ہے تا دعا کرنے والے کی توجہ کامل طور پر اس کی طرف ہو جائے کیونکہ جو لوگ خدا کے مقبول بندے ہوتے ہیںوہ زبانی باتوں سے متوجہ نہیں ہو سکتے جب تک سچی ارادت مشہودنہ کریں اور کسی کو وفا دار نہ پائیں.پھر دوسری دعا کے لئے شرط یہ ہے کہ ایسے شخص سے جو بطور شفیع درمیان ہو کر دعا کرتا ہے ہرگز ہرگز اس سے جلدی نہ کی جاوے گو سات سال ہی گذر جائیں جو دنیا کی عمر کا ایک عدد ہے.ایسے لوگ، بہت امید سے کہا جاتا ہے کہ آخر اپنے مطلب کو پاتے ہیں مگر جلدی کرنے والے اپنے مطلب کو نہیں پاتے.

Page 506

دوسرے یہ کہ چونکہ آسمان سے ایک انقلاب کا ارادہ ہو رہاہے کہ تا غلط کار اور بدعتی مسلمانوں کو کم کر ے اور سچے مسلمان جو کتاب اللہ کے موافق چلتے ہیں ان کو زیادہ کرے تو پھر آپ دنیا کے اسباب سے ڈر کر کیوں اس سلسلہ سے دور رہتے ہیں؟ کیا بجز خدا تعالیٰ کے کوئی اور بھی قادر ہے جس سے ڈرنا چاہئے؟ یقین ہے کہ اگر آپ سچے دل سے، پورے جوش سے، پورے صدق سے، پوری وفا سے اس سلسلہ میں داخل ہوں تو کچھ مدت کے بعدخد اتعالیٰ آپ کیلئے کچھ بندوبست کر دے گا کیو نکہ زمین و آسمان دونوں اس کے اختیار میں ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھلے کھلے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا اور اپنے مال و دولت اور اقارب کی کچھ بھی پرواہ نہ کی آخر تیس برس کے بعد خد انے ان کو بادشاہ کر دیا.جو شخص مر د بن کر خد ا کی طرف آتا ہے اس پر رحم کیا جاتا ہے گو کچھ دیر کے بعد ہی ہو.اور جو شخص مخلوق سے ڈرتا ہے اس کی عزت جنابِ الٰہی میں نہیں ہوتی کیونکہ وہ شرک پر ہے مخلوق کو خد اکا شریک سمجھتا ہے.ایسا شخص ہمیشہ ناقص الدین رہتا ہے.مداہنہ سے زندگی بسر کرتا ہے.صحبت میں نہیں رہ سکتا.ڈرتا ہے کہ کسی کو اطلاع نہ ہو.دیکھو طاعون کے دن ہیں.غضب الٰہی مشتعل ہے.اوّل حق کو خوب تحقیق کر لو اور پھر اپنی سب عزت اس پر قربان کر دو او ر اس کے لئے دکھ اٹھائو، گالیاں سنو تاآسمان پر تمہاری عزت ہو اور عقدہ سر بستہ کھل جائے.٭ والسلام ۱۷؍ جون ۱۹۰۲ء غلام احمد ٭…٭…٭ ٭ اخبار بدر ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۶ء

Page 507

منشی عبدالقادر بیدؔل کے نام شکار پور (سندھ ) سے ایک شخص مسمی عبدالقادر بیدؔل نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی خدمت میں ایک خط مشتمل بر چند سوالات لکھا تھا.یہ اوائل جون ۱۹۰۵ء کی بات ہے حضور نے اس کا جواب لکھنا شروع فرمایا اور ایک حصہ اس کا بغرض اشاعت عطا فرمایا جو بدر ۲۲؍ جون ۱۹۰۵ء میں شائع ہوا.لیکن مضمون چونکہ وسعت چاہتا تھا اس لئے حضور کا خیال تھا کہ مفصل کتاب میں لکھ دیا جائے.اگرچہ ان کے سوالات کا جواب تو آگیا تھا مگر حضور مزید وضاحت کرنا چاہتے تھے اور من بعد مختلف کتابوں میں اس کی صراحت ہوئی اس لئے جس قدر حصہ منشی عبدالقادر صاحب بیدؔل کو بھیج دیا گیا تھا اور شائع بھی ہو گیا تھا اسے یہاں درج کر دیا جاتا ہے.(عرفانی کبیر)

Page 508

مکتوب نمبر ۲۸ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کاخط مجھ کو ملا سوالات کے جواب حسب ذیل ہیں.(نمبر۱) جو شخص سچی ارادت سے مریدوں میں داخل ہوگا اور سچا مسلمان بن جائے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اُس سے بہتری کرے گا.(نمبر۲)اگر کوئی معجزہ دیکھنے پر بیعت کے لئے تیار ہے تو اس وقت تک دس ہزار کے قریب اللہ تعالیٰ معجزات دکھا چکا ہے جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں اور اپنی مرضی سے ہمیشہ دکھاتا ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ گزشتہ معجزات میرے لئے کافی نہیں اور میں اپنے اقتراح سے معجزہ چاہتا ہوں تو ایسا آدمی شریر اور بد نصیب ہے.خدا تعالیٰ کو نہ اس کی پرواہ ہے نہ اس کی بیعت کی.(نمبر ۳)کرشن ہونے کا دعویٰ خدا تعالیٰ کی وحی سے ہے ہرایک ملک میں نبی ہوتے رہے ہیں پس یہ شرارت ہے کہ بغیر علم یقینی کے کرشن کو بُرا کہا جاوے. ۱؎ (نمبر۴) میںنے ثناء اللہ کو ہرگز نہیں کہا کہ میرے مکان پر نہ آئو.لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ.بلکہ خود اُن آریہ سماج والوں کے مکان پر اترا جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدہا گالیاں نکالتے تھے.جن کے گندے رسالے اب تک موجود ہیں.ایک غیرت مند مومن کا کام نہیں کہ ایسے پلید گروہ دشمن اسلام کے گھر میں اُترے.نہ میرے پاس وہ آیا نہ آنے کی خواہش ظاہر کی.میں نے اس کو کب کہا تھا کہ تم چوروں کی طرح میرے پاس آئو.وہ ہرگز میرے پاس نہیں آیا.ہاں قادیان میں آریہ سماج والوں کے پا س آیا اور اس کی اس حرکت سے قادیان کے مسلمان بھی حیران تھے کہ مولوی کہلا کر دشمنانِ اسلام کے پاس اُترا جن کا طریق توہینِ اسلام ہے.کوئی غیرت مند مسلمان ہرگز قبول نہیں کر سکتا کہ ایسے مکان پر کسی کے ۱؎ فاطر: ۲۵

Page 509

ملنے کے لئے جائے جہاں حضرت سیّدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور دن رات توہین اسلام ان کا کام ہے.وہ میرے دروازہ پر نہیں آیا تا میں اس کی خاطر داری کرتا بلکہ دشمنانِ اسلام اور دشمنانِ نبی کریمؐ کے دروازہ پر گیا اور اگر وہ اب اس واقعہ سے انکاری ہے تو میں بجز اس کے کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ.قولہ: آپ نے پیشگوئی کی تھی کہ طاعون کا قادیان پر اثر نہ ہو گا اور میرے مریدوں سے کوئی اس مرض مہلک میں گرفتار نہ ہو گا اور اس کے بر عکس ہوا.الجواب: میںنے کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی کہ قادیان میں طاعون سے کوئی نہیں مرے گا.بلکہ قادیان کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَہَلَکَ الْمُقَامُ۱؎ یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میں تیری عزت کا پاس نہ کرتا تو قادیان کے تمام لوگوں کو ہلاک کر دیتا کیونکہ اس گائوں میں اکثر شریر اور خبیث ناپاک طبع ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۲؎ یعنی میں قادیان میں طاعون بھیجوں گا اور میں ان سب لوگوں کو بچا لوں گا جو تمہارے گھر کی چار دیوار کے اندر ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر قادیان کی نسبت عام طور پر بچانے کا وعدہ تھا تو پھر اس وحی الٰہی کے کیا معنی ہوئے کہ میںاس گھر کے رہنے والوں کو بچا لوں گا.اب میں یہ بھی بتلاتا ہوں کہ شریر اور مفسد طبع لوگوں نے کہاں سے ایک جھوٹی بات بنا لی.پس اس کی جڑ یہ ہے کہ ایک یہ وحی الٰہی تھی اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ.اِنَّہٗ اَوَی الْقَرْیَۃَ.۳؎ یعنی خد اتعالیٰ اس بیماری کو اس ملک کے رہنے والوں سے دور نہیں کرے گا جب تک وہ ان خیالات کو دو رنہ کریں جو اُن کے دل میں ہیں اور وہ اس گائوں کو یعنی قادیان کو بالکل تباہ ہونے سے بچا لے گا یعنی قادیان کی ایسی حالت نہ ہو گی کہ بالکل نابود ہو جائے جیسا کہ اس نواح میں کتنے دیہات نابود ہو گئے اور ان کا نام و نشان نہ رہا.یاد رہے کہ اَوٰی کا لفظ جو اس وحی الٰہی میں ہے یعنی یہ فقرہ کہ اِنَّہٗ اَوَی الْقَرْیَۃَ.اس لفظ کے عربی میں یہ معنی ہیں کہ ایک حد تک مصیبت دکھلا کر پھر اپنی پناہ میں لے لینا اور بکلّی برباد نہ کرنا یہ محاورہ ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۴۴ ۲؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۴۸ ۳؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۲۶۱

Page 510

قرآن شریف اور تمام عرب کی زبان میں ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے  ۱؎ یعنی کیا خدا نے تجھ کو یتیم پا کر پھر پناہ نہ دی ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اوّل آپ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیم کیا اور یتیمی کے تمام مصائب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واردکئے اورپھر بعد مصائب کے پناہ دی.پس اَوٰی کے لفظ میں شرط ہے کہ جس کو پناہ دی جائے، وہ اوّل کچھ مصیبتیں اُٹھا چکا ہو.یہی فقرہ وحی الٰہی کا ہے جس کے معنی مفسد طبع لوگوں نے اپنی قدیم عادت کے موافق یہ بنائے کہ گویا خدا نے یہ فرمایا تھا کہ قادیان میں طاعون سے کوئی نہیں مرے گا.اب اس جگہ بھی بجز اس کے ہم کیا کہیں کہ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ اور یاد رہے کہ پیسہ اخبار والے کو تو حق سے قدیم بغض ہے اور خلافِ واقعہ لکھنا اور اپنی طرف سے بات بنانا اس کی عادت ہے٭اور میں اس بارے میں مدت ہوئی چند کتابیں شائع کرچکا ہوں اور عام طور پر بتلا چکا ہوں کہ ایسی کوئی مجھے وحی نہیں ہوئی جس کے یہ معنی ہوں کہ قادیان میں طاعون ہرگز نہیں پڑے گی.اب اگر آپ کا دعویٰ ہو کہ ضرور میں نے ایسی کوئی پیشگوئی شائع کی تھی تو اس کو پیش کرنا چاہئے.میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے ایسی کوئی وحی شائع نہیں کی جس کے یہ معنی ہوں کہ قادیان میں طاعون نہیںپڑے گی.اب اگر کوئی کہے کہ شائع کی تھی تو بجز اس کے کیا جواب دوں کہ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.پھر یہ دوسرا اعتراض کہ مریدوں کے لئے یہ وحی شائع کی تھی کہ ان میں سے کوئی نہیں مرے گا.یہ بھی سراسر ۱؎ الضُّحٰی: ۷ ٭ پیسہ اخبار کا خلافِ واقعہ لکھنے کا یہ نمونہ کافی ہے کہ قادیان میں بعض اموات جو اَور اور بیماریوں سے ہوئی تھیں.اس نے طاعون میں داخل کر دیں.اور ایک شخص دیوانہ کے کاٹنے سے مرا تھا وہ بھی طاعونی موت قرار دی اور اس طرح پر طاعون کی وارداتیں زیادہ دکھلائیں.ورنہ اِردگرد کے دیہات کی نسبت اس قدر قادیان میں طاعون کم رہی ہے کہ گویا نہیں ہوئی اور قادیان میں قدیم سے آبادی تین ہزار سے زیادہ نہیں بلکہ کم ہے.یہ کس دروغ گو کے منہ سے نکلا کہ اب صرف تین سَو باقی ہیں.پیسہ اخبار کی بار بار کی خلاف بیانی اور عوام کو دھوکہ دینے کی نسبت بجز اس کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ لعنت اللّٰہ علی الکاذبین.اس نے یہ بھی خلافِ واقعہ لکھا کہ فلاں فلاں آدمی طاعون سے مر گئے ہیں حالانکہ نہ ان کو طاعون ہوئی اور نہ وہ مرے.بلکہ اب تک زندہ موجود ہیں.منہ

Page 511

جھوٹ اور افترا ہے.صرف یہ وحی الٰہی شائع کی تھی.وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْاَ مْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ ۱؎ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور کسی قسم کا ظلم اور قصور ان کے ایمان میں نہ تھا وہ امن میں رہیں گے.پس میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ایک بھی ایسے مریدوں میں سے طاعون سے نہیں مرا.باقی وہ لوگ جو کچھ کچھ دنیاداری کا رنگ اپنے خ اندر رکھتے ہیں اور ان کا میرے ساتھ وہ پاک تعلق نہیں جو ظلم او ر قصور سے ان کو مبرا کرے.یہ پیشگوئی اُن کی ذمہ دار نہیں.ابھی بہت تھوڑے ہیں جو اس پیشگوئی کے مصداق ہیں.میں یقینا جانتا ہوں کہ جو شخص مجھ سے سچی محبت رکھتا ہے اور میں بھی اس سے محبت رکھتا ہوں اور نفسانی اغراض سے پاک ہے اور وفااور صدق کامل طور پر رکھتا ہے اور ٹھوکر کھانے والا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتا اور متقی ہے اور کسی ابتلا کے وقت مرتد ہونے کے لئے تیار نہیں اور میری عظمت اور مرتبہ کو سمجھتا ہے اور کوئی شک و شُبہ اپنے اندر نہیں رکھتا اور نہ کسی ابتلا کے وقت شُبہ پیدا ہونے کا خانہ اس کے دل میں موجود ہے.وہ ضرور طاعون سے بچایا جائے گا کیونکہ ایک قسم کا مجھ سے اتحاد رکھتا ہے.مگر بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ کہتے ہیں کہ ہم مرید ہیں مگر وہ مرید نہیں.وہ پورے زور سے تقویٰ کی راہوں پر قدم نہیں مارتے اور دنیا کے گند اُن کے اندر ہیں اور پورے صدق سے مجھ سے تعلق نہیں رکھتے.ایک ادنیٰ ابتلا کے وقت میں دیکھتا ہوں کہ وہ گرے، وہ گرے.پس درحقیقت ان کو مجھ سے تعلق نہیں اور نہ مجھے اُن سے تعلق.اور اگر وہ قیامت کو بھی میرے پاس آویں تو مجھے کہنا پڑے گا کہ مجھ سے دور رہو کہ میں تمہیں شناخت نہیں کرتا.ہاں ایسے بھی ہیں کہ گو طاعون سے بوجہ عدم کمال تام کے فوت ہو جائیں یعنی ان میں شرائط متذکرہ بالا پورے طور متحقق نہ ہوں مگر شہیدوں میں لکھے جائیں گے اور طاعون اُن کے بہشت کا ذریعہ ہو جائے گا کیونکہ ایک حصہ صدق کا ان میں ہے جو کامل نہیں.اعتراض پنجم۵: مسماۃ محمدی کو دوسرا شخص نکاح کر کے لے گیا اور وہ دوسری جگہ بیاہی گئی.الجواب: وحی الٰہی میں یہ نہیں تھا کہ وہ دوسری جگہ نہیں بیاہی جائے گی بلکہ یہ تھا کہ ضرور ہے کہ اوّل دوسری جگہ بیاہی جائے.سو یہ ایک پیش گوئی کا حصہ تھا کہ دوسری جگہ بیاہی جانے ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۸۴

Page 512

سے پورا ہوا.الہام الٰہی کے یہ لفظ ہیں.فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَرُدُّھَا اِلَیْکَ۱؎ یعنی خدا تیرے ان مخالفوں کا مقابلہ کرے گا اور وہ جو دوسری جگہ بیاہی جائے گی.خدا پھر اس کو تیری طرف لائے گا.جاننا چاہئے کہ ردّ کے معنی عربی زبان میں یہ ہیں کہ ایک چیز ایک جگہ ہے اور وہاں سے چلی جاوے اور پھر واپس لائی جاوے.پس چونکہ محمدی ہمارے اقارب میں سے بلکہ قریب خاندان میں سے تھی یعنی میری چچا زاد ہمشیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری طرف قریب رشتہ میں ماموں زاد بھائی کی لڑکی تھی یعنی احمد بیگ کی.پس اس صورت میں ردّ کے معنی اُس پر مطابق آئے کہ پہلے وہ ہمارے پاس تھی اور پھر وہ چلی گئی اور قصبہ پٹی میں بیاہی گئی اور وعدہ یہ ہے کہ پھر وہ نکاح کے تعلق سے واپس آئے گی.سو ایسا ہی ہوگا مگر چونکہ آتھم کی پیشگوئی کی طرح یہ بھی شرطی پیشگوئی ہے.اس لئے کسی میعاد سے اس کو تعلق نہیں اور اس کے ظہور کا منتظر رہنا چاہیے.اور اگر کوئی یہ کہے کہ ردّ کے یہ معنی نہیں تو بجز اس کے کیا کہیں کہ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ.بے شک یہ سچ ہے کہ میعاد اس شرطی پیشگوئی کی گذر گئی.مگر شرطی پیشگوئی میعاد کے گذرنے سے باطل نہیں ہوتی.بلکہ وعید کی پیشگوئیاں جو کسی کے عذاب کے متعلق ہوں باوجود نہ ہونے کسی شرط کے اصل میعاد سے متاخر ہو سکتی ہیں جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی متاخر ہوگئی.اس میں راز یہ ہے کہ خدائے کریم کا تمام نبیوں کی زبانی وعدہ ہے کہ جس بلا کا اس نے ارادہ کسی کی نسبت کیا ہے خواہ پیشگوئی کے پیرایہ میں خواہ کسی اور طرح.وہ اس بلا کو توبہ اور صدقہ اور خیرات کی وجہ سے ٹال سکتا ہے یا اس میں تاخیر ڈال سکتا ہے.اس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے اور منکر اس کا کافر ہے.پس یہ اعتراض اعتراض نہیں ہے بلکہ جہالت ہے خصوصاً جس حالت میں پیشگوئی کی ایک شاخ پوری ہوچکی ہے.یعنی محمدی کا باپ جس کی موت اس پیشگوئی میں داخل تھی.میعاد کے اندر مر چکا.پس یہ تو محل تصدیق ہے نہ جائے اعتراض.اور دوسرے شخص کی موت میں تاخیر اسی وجہ سے ہوئی کہ اسی پیشگوئی سے ایک بڑی موت فریق ثانی کے بزرگ کی یعنی احمد بیگ کی میعاد مقررہ کے اندر وقوع میں آ گئی.اور اُس نے ان کے دلوں میں سخت خوف ڈال دیا کیونکہ جب کہ دو شخص پیشگوئی کی زد میں تھے اور ایک اُن میں سے میعاد کے اندر ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۱

Page 513

مر گیا.تو یہ بات ایک طبعی امر تھا کہ دوسرے شخص اور اس کے اقارب کو خوف دامن گیر ہو جاتا.پس وہی خوف قرآن شریف کے وعدہ کے مطابق تاخیر بلا کا موجب ہوا.اور جیسا کہ وعید کی پیشگوئیوں میں ہے کسی حد تک تاخیر ہوگئی کیونکہ خوف کے وقت خدا تعالیٰ بلا کو، جس کا ارادہ کیا گیا ہے، ٹال دیتا ہے یا تاخیر میں ڈال دیتا ہے.نمبر۶: آپ نے فرمایا تھا کہ وہ ملعون مردار ہو کر مر جائے گا یا وہ جگہ آپ کے ہاتھ آئے گی مگر اب تک کوئی بات ظہور میں نہ آئی.الجواب: میں اس اعتراض کو سمجھا نہیں.آپ اس ملعون کا نام لیں مجھے بالکل معلوم نہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں.وہ جگہ کونسی ہے اور وہ ہندو کون اور الہام کون ہے.اس کی تشریح آپ کے ذمہ ہے.مکرراً اس قدر لکھنے کی ضرورت ہوئی کہ میں نے پیسہ اخبار والے کو ناحق طور پر سرزنش نہیں کی.بلکہ اس نے قادیان کی نسبت ایک لمبی فہرست دی تھی کہ اتنے آدمی طاعون سے فوت ہوگئے ہیں حالانکہ اس فہرست میں بہت سی خلافِ واقعہ اموات درج تھیں.اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ کسی دوسرے وقت میں کچھ وارداتیں طاعون کی قادیان میں بھی ہوئیں تھیں مگر نہ اس قدر جس پر پیسہ اخبار نے شور مچایا تھا اور ضرور تھا کہ کسی قدر قادیان میں طاعون کی وارداتیں ہوتیں تا پیشگوئی پوری ہوتی.یہ آپ نے کس کے منہ سے سن لیا کہ کوئی الہام میں نے ایسا شائع کیا تھا کہ قادیان میں کوئی واردات طاعون نہیں ہوگی.اور آپ کا یہ کہنا کہ قادیان کی نسبت شکارپور دارالامان ہے.یہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر ہنسی اور گستاخی ہے.معلوم نہیں کہ آئندہ شکار پور کی نسبت کیا قہر الٰہی مخفی ہے کہ یہ گستاخی کے کلمات آپ کے منہ سے نکل گئے.اور یہ آپ کا کہنا کہ اب قادیان میں صرف تین سَو آدمی کی آبادی باقی ہے.یہ آپ کو کس نے سنایا.لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ.قادیان کی آبادی قدیم سے تین ہزارسے کچھ تھوڑی ہے.اور اب بھی اسی قدر ہے کوئی اس قصبہ کے اندر داخل ہو کر نہیں خیال کر سکتا کہ ایک بھی مرا ہے.٭ مورخہ ۲۰؍ جون ۱۹۰۵ء الراقم ٭ اخبار البدر ۲۲؍ جون ۱۹۰۵ء خاکسار میرزا غلام احمد

Page 514

قاضی نذر حسین صاحب ایڈیٹر قلقل ؔ کے نام (تعارفی نوٹ) قاضی نذر حسین صاحب نے بجنور سے ایک اخبار قلقل نام شائع کیا تھا.یہ ۱۹۰۶ء کا واقعہ ہے اس زمانہ میں علی العموم اخبار نویس، الاماشاء اللہ اپنے کاروبار کی گرم بازاری کے لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف مضامین لکھنا بھی ضروری سمجھتے تھے اور بعض تو اسی مقصد کیلئے مخصوص اور وقف تھے.یو.پی میں بجنور سے کئی اخبارات وقتاً فوقتاً نکلتے رہے لیکن آخر وہ اپنے اَجْلِ مُسَمّٰی پر ختم ہو گئے.قاضی صاحب نے بھی اپنے اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں سلسلہ کی سچائی پر حملہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس نے اپنا پرچہ خاص طور پر روانہ کیا.اس لئے حضرت اقدس نے خود اس کا جواب لکھا اور شائع بھی کر دیا.اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ حضور نے اپنی صداقت کا ایک معیار دنیا کے سامنے پیش کیا کہ ’’ میں عیسیٰ پر ستی کے ستون کو توڑدوں ا وربجائے تثلیث کے توحید کو پھیلا دوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت اور عظمت اور شان دنیا پر ظاہر کر وں.پس اگر مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علّتِ غائی ظہور میں نہ آئے تو میں جھوٹا ہوں.پس دنیا مجھ سے کیوں دشمنی کرتی ہے.وہ میرے انجام کو کیوں نہیںدیکھتی؟ آج دنیادیکھتی ہے اور جانتی ہے کہ آپ نے جو دعویٰ کیا تھا وہ کس قوت اور وضاحت سے پورا ہو اہے.سلسلہ عالیہ احمدیہ قادیان سے نکل کر پنجاب اور پنجاب سے نکل کر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں پھیلا اور اب ہندوستان سے نکل کر روئے زمین میں پھیل گیا اور دنیا کی ہرقوم اور ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانام بلند ہورہا ہے اور عیسائیت کی شکست کو خود عیسائی قوم نے اپنے عمل اور اپنے قلم سے تسلیم کر لیا ہے.جس مقصد کیلئے خد ا تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا وہ پوری قوت اور شان سے پور اہوا اور ہر

Page 515

نیادن اس کی ترقی کی شعاعیں لے کر آتا ہے.وہ جو مخالفت کیلئے کھڑے ہوئے تھے وہ اور ان کے اسباب ختم ہو گئے اور کوئی ان کا نام لیوا موجود نہیںاور اگر کوئی باقی ہے وہ اپنے انجام سے اس صداقت پر مہر کریں گے.قاضی صاحب اور ان کے اخبار قلقل کو کوئی نہیں جانتا.لیکن حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی اور جسمانی نسل تادیر مبارک ہے اور دنیا کے ہر حصہ میں، دن رات کے ہر لحظہ میں آپ پر سلام بھیجا جا رہا ہے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلَّمْ.٭…٭…

Page 516

خمکتوب نمبر ۲۹ حضرت مسیح موعود ؑکا ایک تازہ خط بنام قاضی نذر حسین صاحب ایڈیٹر اخبار قلقل(بجنور.روھیل کھنڈ) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ محبی ایڈیٹر صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے پرچہ اخبار قلقل میں میرے دعوے کی نسبت جو مضمون شائع ہوا ہے، میں افسوس کرتا ہوں کہ اس کے جواب میں مجھے مفصل تحریر کی فرصت نہیں ہے.میں چند ماہ سے بیمار ہوں اور ابھی بہت کمزور ہوں.یہ سچ ہے کہ میرا دعویٰ مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا ہے.میں اپنی کتابوں میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُنیس سَو برس سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور کسی زمانہ میں واپس آ کر دنیا کی عدالت کریں گے بلکہ قرآن شریف تصریح سے فرماتا ہے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کا قول ہے اور اس کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا رویت موجود ہے کیونکہ آں جناب نے حضرت عیسیٰ کو معراج کی رات میں ان انبیاء میں دیکھا ہے جو اُن سے پہلے وفات پا چکے تھے اور پھر قرآن شریف میں سورہ نور میں فرماتا ہے کہ کل خلیفے اس اُمت کے اسی اُمت میں پیدا ہونگے.اس صورت میں ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور وہ زندہ نہیں ہیں بلکہ مَر گئے ہیں اور ان کی آمد ثانی کا خیال سراسر باطل اور طمع خام ہے اور میری طرف سے یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ صدہا نشانوں سے جو خدا کی طرف سے ظہور میں آ چکے ہیں میری سچائی ثابت ہے.اگر میں خدا کی گواہی کے بغیر دعویٰ کرتا ہوں تو جھوٹا ہوں اور اگر خدا کے کلام سے حضرت عیسیٰ کا زندہ ہونا ثابت ہے تو میں جھوٹا ہوں اور اگر میں ضرورت کے وقت نہیں آیا تو میں جھوٹا ہوں.لیکن یہ سب میری سچائی کی علامتیں ثابت ہو چکی ہیں.اسلام ایک نہایت تنزّل کی حالت میں ہے.کیا باعتبار ظاہر اور کیا باعتبار باطن.اور

Page 517

خدا نہیں چاہتا کہ اس کو اسی حالت میں چھوڑ دے.اس لئے اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوبارہ اسلام میں زندگی کی روح پھونکے.جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اُن کی سچائی پر صدہا علامتیں ہوتی ہیں.ان کی تعلیم ایک کامل بصیرت پر مبنی ہوتی ہے.وہ اپنی طاقت عملی کی وجہ سے لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہوتے ہیں.ان میں ایک خارق عادت کشش پائی جاتی ہے اس لئے ان کی قوت جاذبہ ہزار ہا سعیدوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے.اور ان کے لئے خدا تعالیٰ آسمانی نشانوں کو ظاہر کرتا ہے تا ان کی سچائی پر گواہ ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے مبعوث ہونے کی علّت غائی کو پا لیتے ہیں اور نہیں مرتے جب تک ان کی بعثت کی غرض ظہور میں نہ آجائے.پس اگرچہ پہلی چار علامتیں میرے دعوے کے متعلق ثابت ہو چکی ہیں.لہٰذا میری تعلیم علی وجہ البصیرت ہے اور اسلام کا پاک اور خوبصورت چہرہ ظاہر کرتی ہے اور میری طاقت عملی میری استقامت سے ظاہر ہے کہ میں پچیس برس سے لعن طعن مخالفوں کا نشانہ ہو رہا ہوں.میرے پر خون کے مقدمات بنائے گئے اور گورنمنٹ کو اُکسایا گیا اور کفر کا فتویٰ دیا گیا اور مجھے سخت ڈرایا گیا.پھر وہ کون سی چیز تھی جس نے میری استقامت کو بحال رکھا.کیا وہ خدا کے ساتھ پاک تعلق نہ تھا؟ اور جو مجھ میں قوتِ کشش وغیرہ بھیجی ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ جب میں نے خدا کی طرف دعوت شروع کی تو میں اکیلا تھا اور اب تین لاکھ سے زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے اور جو میرے لئے نشان ظاہر ہوئے وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور کوئی مہینہ بغیر نشانوں کے نہیں گزرتا مگر باوجود ان تمام علامتوں کے طالبِ حق کے لئے میں یہ بات پیش کرتا ہوں کہ میرا کام جس کے لئے میں اس میدان میں کھڑا ہوں یہ ہی ہے کہ میں عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑ دوں اور بجائے تثلیث کے توحید کو پھیلاؤں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت اور عظمت اور شان دنیا پر ظاہر کروں.پس اگر مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علّتِ غائی ظہور میں نہ آوے تو میں جھوٹا ہوں پس دنیا مجھ سے کیوں دشمنی کرتی ہے.وہ میرے انجام کو کیوں نہیں دیکھتی.اگر میں نے اسلام کی حمایت میں وہ کام کر دکھایا جو مسیح موعود و مہدی معہود کو کرنا چاہیے تھا تو پھر میں سچا ہوں اور اگر کچھ نہ ہوا اور میں مَر گیا تو پھر سب گواہ رہیں کہ میں جھوٹا ہوں.٭ والسلام ٭ الحکم۲۴؍ جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ۹ فقط غلام احمد

Page 518

میر عباس علی صاحب لدھیانوی کے نام خطوط سابقہ جلداوّل مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ ۴۹۹تا ۶۴۳

Page 519

Page 520

Page 521

Page 522

Page 523

Page 524

عرض حال جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے محض فضل سے اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور میرے ہاتھ میں قلم اور سلسلہ کی قلمی خدمت کیلئے ایک جوش دیا ہے اسی وقت سے مجھے یہ دھن اور آرزو رہی ہے کہ میں اپنے سید و مولیٰ امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان تحریروں اور نوشتوں کو جمع کر کے شائع کروں جو ایسے وقت اور حال کی ہیں، جب دنیا میں ایک گمنام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور میری غرض ایسی تحریروں کے جمع کرنے سے یہ تھی اور ہے کہ اس طرح پر آپ کی سوانح کے لئے ایک مواد جمع ہو جاوے.چنانچہ اس جوش اور شوق کا نتیجہ تھا کہ میں نے ۱۸۹۹ء میں ’’پرانی تحریریں‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں ۱۸۷۸ء کے وہ مضامین تھے جو آپ نے برادر ہند، آفتاب پنجاب وغیرہ اخبارات میں شائع فرمائے تھے.اس کے بعد میں اس سلسلہ میں ایک مبسوط مجموعہ آپ کے مکتوبات کا شائع کرتا ہوں اور یہ پہلی جلد ہے مکتوبات کی ترتیب میں مجھے بہت عرصہ تک غور کرنا پڑا کبھی بلحاظ سنین کے ترتیب کرتا اور کبھی بلحاظ مضامین.آخر بڑے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اسم وار ہو جاوے تو اچھا ہے اور جہاں مکتوبات ایک شخص کے نام بہت ہی کم ہونگے وہاں ایک جلد متفرق مکتوبات کی مرتب کی جاوے.بہرحال اس سلسلہ میں سب سے پہلی جلد میر عباس علی شاہ کے نام شائع کرتا ہوں.ان مکتوبات میں حضرت حجۃ اللہ کے عجیب و غریب مسائل تصوف کی فلاسفی اور اسرار ناظرین پائیں گے اور معرفت حقیقی کا ایک مصفّا چشمہ انہیں ملے گا اور بہت سی پیشگوئیاں انہیں نظر آئیں گی.میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ اپنے محبوب سیدوآقا کے مکتوبات اس کے محبوب دوستوں تک پہنچانے کا فخر حاصل کروں اس کے بعد دوسری جگہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح کے نام کے مکتوبات کی ہوگی.خدا ہی کے فضل سے امید ہے کہ وہ توفیق دے گا اور اسی کی توفیق پر سب انحصار ہے.مکتوبات حضرت حکیم الامۃ کے نام کے میرے پاس موجود ہیں.امید ہے کہ ناظرین اسی مجموعہ کو ذکرِ حبیب سمجھ کر اس کی قدر کریں گے.وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ احقر الناس یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم قادیان

Page 525

Page 526

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ ط نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ مکتوب نمبر۱ مکرمی مخدومی میر عباس علی صاحب زَادَ عِنَایَتُہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی ہوا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً.آپ اللہ اور رسول کی محبت میں جس قدر کوشش کریں وہ جوش خود آپ کی ذات میں پایا جاتا ہے.حاجت تاکید نہیں.چونکہ یہ کام خالصاً خدا کیلئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید فروخت پر نظر ہو.بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں اُنہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے کیونکہ درحقیقت یہ کوئی خرید فروخت کا کام نہیں بلکہ سرمایہ جمع کرنے کیلئے یہ ایک تجویز ہے.مگر جن کا اصول محض خریداری ہے.اُن سے تکلیف پہنچتی ہے اور اپنے روپیہ کو یاد دلا کر تقاضا کرتے رہتے ہیں.سو ایسے صاحب اگر خریداری کے سلسلہ میں داخل نہ ہوں اور نہ وہ روپیہ بھیجیں اور نہ کچھ مدد کریں تو یہ اُن کے لئے اس حالت سے بہتر ہے کہ کسی وقت بدگمانی اور شتابکاری سے پیش آویں.اس کام میں جیسے جیسے عرصہ میں خداوندکریم سرمایۂ کافی کسی حصہ کے چھپنے کیلئے حسب حکمت کاملہ خود میسر کرتا ہے اُسی عرصہ میں یہ کتاب چھپتی ہے.پس کسی وقت کچھ دیر ہوتی ہے تو بعض صاحب جن کی خریداری پر نظر ہے.طرح طرح کی باتیں لکھتے ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے.غرض آن مخدوم اسی سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکّل کر کے صادق الارادت لوگوں سے مدد لیں.اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے.ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں.وہ جو قادر مطلق ہے.وہ جب چاہے گا تو اسباب کاملہ خود بخود میسر کر دے گا.کونسی بات ہے جو اُس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو.(۲۸؍ اکتوبر ۸۲ء؍ مطابق۱۵؍ ذی الحجہ ۱۲۹۹ ہجری)

Page 527

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ مکتوب نمبر۲ مشفقی مکرمی حضرت میر عباس علی شاہ صاحب زَادَ عِنَایَتُہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بعدہذا دوقطعہ ہنڈوی بتیس۳۲ پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً.امور خمسہ کی بابت جو آپ نے حسب الارشاد منشی احمد جان صاحب تاکید لکھی ہے.مناسب ہے کہ آپ بعد سلام مسنون منشی صاحب مخدوم کی خدمت میںاس عاجز کی طرف سے عرض کر دیں کہ حتی الوسع آپ کے فرمودہ پر تعمیل ہوگی.اور آپ کو خدا جزائِ خیر بخشے.یہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ حصہ سوم کتاب براہین احمدیہ میں جو دس وسوسوں کا بیان ہے وہ آریہ سماج والوں کے متعلق نہیں.آریہ سماج ایک اور فرقہ ہے جو وید کو خدا کا کلام جانتے ہیںاور دوسری کتابوں کو نَعُوْذُبِاللّٰہِ انسانوں کا اختراع سمجھتے ہیں.اس فرقہ کے ردّ کے لئے کتاب براہین احمدیہ میں دوسرا مقام ہے.لیکن دس وساوس جو حصہ سوم میں لکھے گئے ہیں.وہ برہموسماج والوں کا ردّ ہے.یہ ایک اور فرقہ ہے جو کلکتہ اور ہندوستان کے اکثر مقامات میں پھیلا ہوا ہے اور لاہور میں بھی موجود ہے.یہ لوگ کتب الہامیہ کا انکار کرتے ہیں اگرچہ ہندو ہیں مگر وید کو نہیں مانتے.نہ اُس کی تعلیم کو عمدہ سمجھتے ہیں.یہ لوگ آریہ سماج والوں کی نسبت بہت ذی علم اور دانا ہوتے ہیں.اور کئی اصول اُن کے اسلام سے ملتے ہیں.مثلاً یہ تناسخ کے قائل نہیں.بُت پرستی کو بُرا سمجھتے ہیں.خدا کو صاحب اولاد اور متو ّلد ہونے سے پاک سمجھتے ہیں.مگر کتب الہامیہ کے مُنکر ہیں اور الہام صرف ایسی باتوں کا نام رکھتے ہیں جن کو انسان خود اپنی عقل یا فکر کے ذریعہ سے پیدا کرے.یا معمولی طور پر اُس کے دل میں گزر جائیں اور انبیاء کی متابعت کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف عقل کو کافی قرار دیتے ہیں.الہامِ ربّانی سے انکار کرنا اُن کا ایک مشہور اصول ہے جیسا رسالہ برادر ہند میں جو پنڈت شیونارائن کی طرف سے شائع ہوتا تھا.چھپتا رہا ہے چونکہ ہندوستان میں اُن کی جماعت بہت پھیل گئی ہے اور اُن کے وساوس کا ضرر نو تعلیم یافتہ لوگوں کو بہت پہنچتا ہے اور پہنچ رہا

Page 528

ہے.اس لئے ضرور تھا کہ ان کا ردّ لکھا جاوے.اور اُن کا کتب الہامیہ سے انکار کرنا ایسا جزو مذہب ہے جیسا کہ ہمارے یہاں کا اقرار اصل مذہب ہے.غرض آریہ سماج ایک الگ فرقہ ہے.جو بہت ذلیل اور ناکارہ خیال رکھتا ہے اور وہ عقل کے پابند نہیں.بلکہ صرف وید پر چلتے ہیں اور بہت سے واہیات اور مزخرفات کے قائل ہیں.مگر برہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقلِ ناتمام کی وجہ سے کتب الہامیہ سے منکر ہے.چونکہ انسان کا خاصہ ہے کہ معقولات سے زیادہ اور جلدتر متاثر ہوتا ہے.اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نوتعلیم یافتہ ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہوگئے اور سید احمد خان بھی اُنہیں کی ایک شاخ ہے اور انہیں کی صحبتوں سے متاثر ہے.پس اُن کے زہرناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضرورتھا.لاہور کے برہموسماج نے پرچہ ’’رفاہ‘‘ میں بہ نیت ردّ حصہ سیوم کچھ لکھنا بھی شروع کیا ہے.مگر حقِ محض کے آگے اُن کی کوششیں ضائع ہیں.عنقریب خدا اُن کو ذلیل اور رُسوا کرے گا اور اپنے دین کی عظمت اور صداقت ظاہر کردے گا.منشی احمد جان صاحب نے جو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو.اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا.اس کتاب میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.سو وہ دونوں دریائے بے انتہا ہیں اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل اُن کی تعریف کریں.تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا.چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے.ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القا ہوئے کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیاء کی ہیں صلی اللہ علیہ وسلم اور اسی وقت تک کوئی دوسرا اُن کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تک اس نبی کریم کی متابعت کرے اور جب متابعت سے ایک ذرّہ منہ پھیرے تو پھر تحت الثرٰی میں گر جاتا ہے.اُن الہامی عبارتوں میں خداوند کریم کا یہی منشاء ہے کہ تا اپنے نبیؐ اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے.٭ (۸؍ نومبر ۱۸۸۲ء مطابق ۲۶ ذی الحجہ ۱۲۹۹ ہجری)

Page 529

مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ مشفقی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.آپ کا عنایت نامہ معہ ایک ہنڈوی مبلغ بیس روپیہ بابت خریداری دو جلد کتاب پہنچا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا وَھُوَیَسْمَعُ وَیَرٰی.میں آپ کی مساعی پر نظر کر کے آپ کی قبولیت کا بہت امیدوار ہوں.خصوص ایک عجیب کشف سے جو مجھ کو ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یکدفعہ ہوا.آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نامعلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی.جو باشندہ لودہیانہ ہے.اس عالمِ کشف میں اُس کا تمام پتہ و نشان، سکونت بتلا دیا جو اب مجھ کو یاد نہیں رہا.صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہیانہ اور اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا.سچا ارادت مند.۱؎ یعنی اُس کی ارادت ایسی قوی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان ہے.کئی پادریوں اور ہندوؤں اور برہمو لوگوں کو کتابیں دی گئی ہیں اور وہ کچھ جان کنی کر رہے ہیں.مکتوب نمبر۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفقی و مکرمی میرعباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دس روپیہ کا منی آرڈر پہنچ گیا.خداوند کریم آپ کی سعی کا اجر بخشے جو کچھ فساد زمانہ کا حال لکھا ہے سب واقعی امر ہے.اس عاجز کی دانست میں اُمت محمدیہ پر ایسا فاسد زمانہ کوئی نہیں آیا.تمام زمانوں سے زیادہ تر ظلماتی وہ زمانہ تھا جس کی تنویر کے لئے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت پڑی.وہ ایسا ظلماتی زمانہ تھا جس کی نظیر دنیا میں کوئی نہیں گزری اور اس زمانہ کی

Page 530

حالت موجودہ ایک بڑے نبی کے مبعوث ہونے کو چاہتی تھی جس کا ثانی کوئی نہیں گزرا.اور جس پر تمام کمالات نبوت ختم ہوگئے اور جس کی بعثت کے زمانہ نے اُن تمام تاریکیوں کو دور کر دیا اور وحدانیت کو زمین پر پھیلا دیا اور جو کچھ کفر اور شرک میں سے باقی رہا وہ ذلّت اور مغلوبیت کی حالت کے ساتھ باقی رہا.لیکن چونکہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ ہیں، نبوت کے زمانہ سے بہت دور جا پڑا ہے.اس لئے دو طور کی خرابی یعنی اندرونی اور بیرونی اس پر محیط ہو رہی ہے.اندرونی یہ کہ بہت سے لوگوں نے مختلف فرقہ بنائے ہیں جو حقیقت میں خدا اور رسول کے دشمن ہیں.بہتوں پر اباحت اور الحاد کا غلبہ ہے کہ خدا کے وجود کو اور اُس مدبّرِ عالَم کی ہستی کو کوئی مستقل شَے نہیں سمجھتے بلکہ اپنے ہی وجود کو خدا سمجھے بیٹھے ہیں اور اسی خیال کے غلبہ سے احکام الٰہی کی تعمیل سے بکلّی فارغ ہیں اور شریعتِ حقّانی کوبتر ۱؎ استحفاف دیکھتے ہیں اور صوم اور صلوٰۃ پر ٹھٹھا کرتے ہیں.ایک دوسرا فرقہ ہے جو بہشت، دوزخ، ملائک، شیطان وغیرہ سب سے منکر ہیں اور وحی الٰہیہ سے انکاری ہیں باایں ہمہ مسلمان کہلاتے ہیں.غرض اندرونی فساد بھی نہایت درجہ تک پہنچ گئے ہیں اور بیرونی فسادوں کا یہ حال ہے کہ چاروں طرف سے دشمن اپنے اپنے تیر چھوڑ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بالکل اسلام کو نیست و نابود کر دیں.حقیقت میں یہ ایسا پُر آشوب زمانہ ہے کہ اسلامی زمانوں میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی.پہلے لوگ صرف غفلت اور کم توجہی سے اسلام کے مخالف تھے.مگر اب دو فرقہ اسلام سے مخالف ہیں.ایک تو وہی غافل اور کم توجہ لوگ.دوسرے وہ لوگ پیدا ہوگئے کہ جو شرارت اور خبث سے، عقل کی بداستعمالی سے اسلام پر حملہ کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو علوم کے لئے روشنی کا دعویٰ کرتے ہیں اور متبعین شریعت اسلام کو کہتے ہیں کہ یہ پُرانے خیالات کے آدمی ہیں اور یہ سادہ لوح اور ہم دانا ہیں.پس ایسے دنوں میں خداوند کریم کا یہ نہایت فضل ہے کہ اپنے عاجز بندہ کو اس طرف توجہ دی ہے اور دن رات اُس کی مدد کر رہا ہے تا باطل پرستوں کو ذلیل اور رُسوا کرے.چونکہ ہر حملہ کی مدافعت کے لئے اس سے زبردست حملہ چاہئے اور قوی تاریکی کے اُٹھانے کیلئے قوی روشنی چاہئے.اس لئے یہ امید کی جاتی ہے اور آسمانی بشارات بھی ملتے ہیں کہ خداوند کریم اپنے زبردست ہاتھ سے اپنے عاجز بندہ کی مدد کرے گا اور اپنے دین کو روشن کر دے گا.اب انشاء اللہ تعالیٰ حصہ چہارم کچھ تھوڑے مطابق اصل.یہ سہو کاتب معلوم ہوتا ہے.صحیح ’’بنظر استخفاف ہے‘‘.

Page 531

توقف کے بعد شروع کیا جاوے گا.چونکہ یہ تمام کام قوت الٰہی کر رہی ہے اور اُسی کی مصلحت سے اس میں توقف ہے.اس لئے مومنین مخلصین نہایت مطمئن رہیں کہ جیسے خداوند کریم کے کامل اور قوی کام ہیں اسی طرح وہ وقتاً فوقتاً کتاب کی حصص کو نکالے گا.وَھُوَاَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ.والسلام علیکم وعلی اخوانکم من المومنین.۲۲؍ جنوری ۱۸۸۳ء.۱۲؍ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ مکتوب نمبر۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.بعد ہذا خداوند کریم آپ کو بہت جزاء خیر دیوے.آپ سرگرمی سے تائید دین کیلئے مصروف ہیں.آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ قاضی باجی خان صاحب نے محض بطور امداد دس روپیہ بھیجے ہیں.خداوند اُن کو اجر بخشے.اس پُرآشوب وقت میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں کہ اللہ اور رسول کی تائید کیلئے اور غیرت دینی کے جوش سے اپنے مالوں میں سے کچھ خرچ کریں اور ایک وہ بھی وقت تھا کہ جان کا خرچ کرنا بھی بھاری نہ تھا.لیکن جیسا کہ ہر ایک چیز پُرانی ہو کر اُس پر گردوغبار بیٹھ جاتا ہے.اب اسی طرح اکثر دلوں پر حبِّ دنیا کا گرد بیٹھاہوا ہے.خدا اس گرد کو اُٹھاوے.خدا اس ظلمت کو دور کرے.دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے.مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے اور چونکہ ہر یک عُسر کے بعد یُسر اور ہر یک جذر کے بعد مَدّ اور ہر یک رات کے بعد دن بھی ہے.اس لئے تفضّلات الٰہیہ آخر فرو ماندہ بندوں کی خبر لے لیتے ہیں.سو خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے اُنہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اُٹھائے ہیں.ویسا ہی اُن کو مرہم عطا فرماوے اور اُن کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حَد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز اُن لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے جنہوں نے حضرت احدیّت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی، غنیمت نہیں سمجھا اور اُس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ

Page 532

جاہلوں کی طرح شک میں پڑے.سو اگراس عاجز کی فریادیں ربُّ العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا ویں.اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد ابھی تین چار سے زیادہ نہیں جن میں سے ایک آپ ہیں اور باقی لوگ لاپروا اور غافل ہیں بلکہ اکثروں کے حالات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ باطنی کے باعث سے اس کارخانہ کو کسی مکر اور فریب پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کا مقصود اصلی دنیا ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ خود جِیْفَہ دُنیا میں گرفتار ہیں.اس لئے اپنے حال پر قیاس کر لیتے ہیں.سو اُن کی روگردانی بھی خداوند کریم کی حکمت سے باہر نہیں.اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو پیچھے سے ظاہر ہوں گی.اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی.مگر اپنے دوستوں کی نسبت اس عاجز کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے صدق کا اجر بخشے اور اُن کو اپنی استقامت میں بہت مضبوط کرے چونکہ ہر طرف ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے اس لئے صادقوں کو کسی قدر غم اُٹھانا پڑے گا اور اُس غم میں اُن کے لئے بہت اجر ہیں.(۹؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۳۰؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ) ٭…٭…٭

Page 533

مکتوب نمبر۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ و نظر اللّٰہ سِرّحِمَایتِہٖ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آںمخدوم کی سعی و کوششوں سے اس عاجز کو بہت مدد ملی ہے.یہ خداوند کریم کی عنایات میں سے ہے کہ اُس نے اپنے مخلص بندوں کو اس طرف ایمانی جوش بخشا ہے.سو چونکہ عمل وہی معتبر ہے جس کا خاتمہ بالخیر ہو اور صدق اور وفاداری سے انجام پذیر ہو اور اس پُر فتنہ زمانہ میں اخیر تک صدق اور وفا کو پہنچانا اور بدباطن لوگوں کے وساوس سے متاثر نہ ہونا سخت مشکل ہے.اس لئے خداوند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس عاجز کے دوستوں کو جو ابھی تین چار سے زیادہ نہیں.آپ سکینت اور تسلّی بخشے.زمانہ نہایت پُرآشوب ہے اور فریبوں اور مکاریوں کی افراط نے بدظنیوں اور بدگمانیوں کو افراط تک پہنچا دیا ہے.ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اُس پر وہ ہی قائم رہ سکتے ہیں جن کے دلوں کو خداوند کریم آپ مضبوط کرے.اور چونکہ خداوند کریم کی بشارتوں میں تبدیلی نہیں اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت سے نورانی دل پیدا کرکے دکھلا دے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.آں مخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حال صداقت و نجابت آں مخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظر کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا.شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے.وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ وَرَحِمَہُ اللّٰہُ وَاِیَّاکُمْ وَھُوَ مَوْلٰـنَا نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ.۱۷؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۸؍ ربیع الثانی ۱۳۰۰؁ھ

Page 534

مکتوب نمبر ۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آپ کا خط جو آپ نے لودہیانہ سے لکھا تھا، پہنچ گیا.جس کے مطالعہ سے بہت خوشی حاصل ہوئی.بالخصوص اس وجہ سے کہ جس روز آپ کا خط آیا اُسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے.یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے.خداوند کریم اس رابطہ کو زیادہ کرے.آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمایا تھاکہ ایک برہمو صاحب ملے جن کا یہ بیان تھا کہ گویا اس عاجز نے اُن کی اصلیت کو سمجھا نہیں.یہ بیان سراسر بناوٹ ہے.برہمو سماج والوں کے عقائد کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ الہام اور وحی سے مُنکر ہیں اور خدا کے پیغمبروں کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مفتری اور کذّاب سمجھتے ہیں اور خدا کی کتابوں کو اختراعِ انسان کا خیال کرتے ہیں.وہ الہام اور وحی کے ہرگز قائل نہیں ہیں اور اپنی اصطلاح میں الہام اور وحی اُن خیالات کا نام رکھتے ہیں کہ جو عادتی طور پر انسان کے دل میں گزرا کرتے ہیں.جیسے کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر رحم آنا یا کوئی بُرا کام کر کے پچھتانا کہ ایسا کیوں کیا.یہ اُن کے نزدیک الہام ہے.مگر وہ الہام اور وحی جو خداوند کریم کے فرشتے کسی انسان سے کلام کریں اور حضرتِ احدیّت کسی سے مخاطبت کریں.اس پاک الہام سے وہ قطعاً منکر ہیں اور اپنے رسائل اور تصانیف میں ہمیشہ انکار کرتے رہتے ہیں.مگر اب وقت آ پہنچا ہے کہ خدا اُن کو اور اُن کے دوسرے بھائیوں کو ذلیل اور رُسوا کرے.مجھے یاد ہے کہ پنڈت ٭شیونارائن نے جو برہموسماج کا ایک منتخب معلّم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سوم کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں.ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کر دیا.چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریہ ہے ڈاکخانہ میں بھیجا گیا تا گواہ رہے.وہی ہندو اُس خط کو ڈاکخانہ سے لایا.پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ مکتوب نمبر ۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آپ کا خط جو آپ نے لودہیانہ سے لکھا تھا، پہنچ گیا.جس کے مطالعہ سے بہت خوشی حاصل ہوئی.بالخصوص اس وجہ سے کہ جس روز آپ کا خط آیا اُسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے.یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے.خداوند کریم اس رابطہ کو زیادہ کرے.آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمایا تھاکہ ایک برہمو صاحب ملے جن کا یہ بیان تھا کہ گویا اس عاجز نے اُن کی اصلیت کو سمجھا نہیں.یہ بیان سراسر بناوٹ ہے.برہمو سماج والوں کے عقائد کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ الہام اور وحی سے مُنکر ہیں اور خدا کے پیغمبروں کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مفتری اور کذّاب سمجھتے ہیں اور خدا کی کتابوں کو اختراعِ انسان کا خیال کرتے ہیں.وہ الہام اور وحی کے ہرگز قائل نہیں ہیں اور اپنی اصطلاح میں الہام اور وحی اُن خیالات کا نام رکھتے ہیں کہ جو عادتی طور پر انسان کے دل میں گزرا کرتے ہیں.جیسے کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر رحم آنا یا کوئی بُرا کام کر کے پچھتانا کہ ایسا کیوں کیا.یہ اُن کے نزدیک الہام ہے.مگر وہ الہام اور وحی جو خداوند کریم کے فرشتے کسی انسان سے کلام کریں اور حضرتِ احدیّت کسی سے مخاطبت کریں.اس پاک الہام سے وہ قطعاً منکر ہیں اور اپنے رسائل اور تصانیف میں ہمیشہ انکار کرتے رہتے ہیں.مگر اب وقت آ پہنچا ہے کہ خدا اُن کو اور اُن کے دوسرے بھائیوں کو ذلیل اور رُسوا کرے.مجھے یاد ہے کہ پنڈت ٭شیونارائن نے جو برہموسماج کا ایک منتخب معلّم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سوم کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں.ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کر دیا.چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریہ ہے ڈاکخانہ میں بھیجا گیا تا گواہ رہے.وہی ہندو اُس خط کو ڈاکخانہ سے لایا.پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ ٭ اب یہ شخص منکرِ خدا ہے.(مرتب)

Page 535

Page 536

مکتوب نمبر۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفقی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.آپ کی خواب کے آثار یوں ہی نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ رؤیا صالحہ و واقعہ صحیحہ ہوگا.مگر اس بات کے لئے کہ مضمون خواب حیز قوت سے حدِّفعل میں آوے.بہت سی محنتیں درکار ہیں.خواب کے واقعات اُس پانی سے مشابہ ہیں کہ جو ہزاروں من مٹی کے نیچے زمین کی تہ تک میں واقعہ ہے.جس کے وجود میں تو کچھ شک نہیں لیکن بہت سی جان کنی اور محنت چاہئے تا وہ مٹی پانی کے اوپر سے بکُلّی دور ہو جائے اور نیچے سے پانی شیریں اور مصفّا نکل آوے.ہمت مَرداں مددِ خدا.صدق اور وفا سے خدا کو طلب کرنا موجب فتحیابی ہے. ۱؎ گویند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود ولیک بخونِ جگر شود گرچہ وصالش نہ بکوشش دہند ہر قدر اے دل کہ توانی بکوش آپ کی ملاقات کے لئے میں بھی چاہتا ہوں مگر وقت مناسب کا منتظر ہوں.بیوقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا.اکثر حاجی جو بڑی خوشی سے حج کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں.اُس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بیوقت بیت اللہ کی زیارت کی اور بجز ایک کوٹھہ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجاورین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا.دل سخت ہو گیا.علیٰ ھٰذا القیاس.ملاقات جسمانی میں بھی ایک قسم کے ابتلاء پیش آ جاتے ہیں.اِلاَّ مَاشَآئَ اللّٰہُ.آپ کے سوالات کا جواب جو اس وقت میرے خیال میں آتا ہے مختصر طور پر عرض کیا جاتا ہے.آپ نے پہلے یہ سوال کیا ہے کہ پورا پورا علم جیسا بیداری میں ہوتا ہے.خواب میں کیوں نہیں ہوتا اور خواب کا دیکھنے والا اپنی خواب کو خواب کیوں نہیں سمجھتا.سو آپ پر واضح ہو کہ خواب اُس حالت کا نام ہے کہ جب بباعث غلبۂ رطوبتِ مزاجی ۱؎ العنکبوت: ۷۰

Page 537

کہ جو دماغ پر طاری ہوتی ہے.حواس ظاہری و باطنی اپنے کاروبار معمولی سے معطل ہو جاتے ہیں.پس جب خواب کو ّتعطل حواس لازم ہے تو ناچار جو علم اور امتیازاور تیَقّظ بذریعہ حواس انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ حالتِ خواب میں بباعث تعطل حواس نہیں رہتا.کیونکہ جب حواس بوجہ غلبہ رطوبتِ مزاجی معطل ہو جاتے ہیں تو بالضرورت اُس فعل میں بھی فتور آ جاتا ہے.پھربعلّت اس فتور کے انسان نہیں سمجھ سکتا کہ مَیں خواب میں ہوں یا بیداری میں.لیکن ایک اور حالت ہوتی ہے کہ جس سے اربابِ طلب اور اصحابِ سلوک کبھی کبھی متمتع اور محظوظ ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بباعث دوام مراقبہ و حضور و استیلاء شوق و غلبۂ محبت ایک حالت غیبتِ حواس اُن پر وارد ہو جاتی ہے.جس کا یہ باعث نہیں ہوتا کہ دماغ پر رطوبت مستولیٰ ہو.بلکہ اس کا باعث صرف ذکر اور شہود کا استیلاء ہوتا ہے.اُس حالت میں چونکہ تعطل حواس بہت کم ہوتا ہے.اس جہت سے انسان اس بات پر متنبہ ہوتا ہے کہ وہ کسی قدر بیدار ہے.خواب میں نہیں.اور نیز اپنے مکان اور اُس کی تمام وضع پر بھی اطلاع رکھتا ہے.یعنی جس مکان میں ہے اُس مکان کو برابر شناخت کرتا ہے.حتیّٰ کہ لوگوں کی آواز بھی سنتا ہے اور کل مکان کو بچشم خود دیکھتا ہے.صرف کسی قدر بجذبۂ غیبی، غیبت حس ہوتی ہے اور جو انسان خواب کی حالت میں اپنے رؤیا میں اپنے تئیں بیدار معلوم کرتا ہے.یہ علم بذریعہ حواس نہیں بلکہ اس علم کا منشاء فقط روح ہے.دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ فناء اتم اعنی غایت المعراج و نہایت الوصال میں علم حق رہتا ہے یا نہیں؟ اوّل سمجھنا چاہئے کہ فنائِ اتم عین وصال کا نام نہیں بلکہ امارات اور آثار وصال میں سے ہے کیونکہ فنائِ اتم مراد اُس حالت سے ہے کہ طالبِ حق خلق اور ارادت اور نفس سے بکلّی باہر ہو جاوے اور فعل اور ارادت الٰہی میں بکلّی کھویا جاوے.یہاں تک کہ اُسی کے ساتھ دیکھتا ہو اور اُسی کے ساتھ سنتا ہو.اور اُسی کے ساتھ پکڑتا ہو اور اسی کے ساتھ چھوڑتا ہو.پس یہ تمام آثار وصال کے ہیں نہ عین وصال.اور عین وصال ایک بیچون اور بیچگون نور ہے کہ جس کو اہلِ وصال شناخت کرتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے.خلاصہ کلام یہ کہ جب طالبِ کمال وصال کا خدا کے لئے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لئے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ خدا کے لئے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقاء کو مستلزم ہے.پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کا وجود اُس کی آنکھ میں

Page 538

باقی نہیں رہتا.یہاں تک کہ غلبۂ شہودِ ہستی الٰہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے.پس یہ مقام عبودیت و فناء اتم ہے جو غایت سیراولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب سے باذن اللہ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے.غلبہ شہود کی ایک ایسی حالت ہے کہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے.صاحبِ شہودِ تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے.سو اگرچہ وہ بھی جلنے کا ایک علم رکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے.کبھی شہود تام بے خبر ی تک بھی نوبت پہنچا دیتا ہے اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے.اُس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے..۱؎ لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے .۲؎یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی.پس غایت یہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرمایا ہے ۳؎.واللّٰہ اعلم بالصواب.٭ (۱۸؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۸ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ) مکتوب نمبر۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا والا نامہ پہنچا.خداوند کریم آپ کو خوش و خرم رکھے.آپ دقائق متصوّفین میں سے سوالات پیش کرتے ہیں اور یہ عاجز مفلس ہے.محض حضرت ارحم الراحمین کی ستاری نے اس ہیچ اور ناچیز کو مجالس صالحین میں فروغ دیا ہے.ورنہ من آنم کہ من دانم.کاروبارِ قادرِ مطلق سے سخت حیران ہے کہ نہ عابد، نہ عالم، نہ زاہد.کیونکر اخوان مومنین کی نظر میں بزرگی بخشتا ہے.اس کی عنایات کی کیا ہی بلند شان ہے.اور اُس کے کام کیسے عجیب ہیں.پسندیدگانے بہ جائے رسند زما کہترانش چہ آید پسند ۱؎ الاعراف: ۱۴۴ ۲؎ النجم: ۱۸ ۳؎ القیٰمۃ: ۲۳،۲۴ ٭ الحکم ۸؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحہ۴،۵

Page 539

میں آپ کے سوال کا جواب لکھتا ہوں.آپ نے حالت فناء فی الفناء کی یہ تعریف لکھ کر کہ وہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں شعور سے بھی بے شعوری ہوتی ہے.یہ سوال پیش کیا ہے کہ اس مرتبہ فناء میں کہ جو چہارم مرتبہ منجملہ مراتب فنا ہے اور حالت سُکْرِیّت میں کیا فرق ہے اور سُکْرِیّت سے مراد آپ نے خواب غرقی لی ہے.یعنی ایسا سونا جس میں کچھ خبر نہ رہے.سو جو کچھ خدا نے میرے دل میں اس کا جواب ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ سکریت اور فناء الفنا میں موجب اور علّت کا فرق ہے یعنی سُکْرِیّت کی حالت میں موجب اور علّت ایک ظلمت ہے.جو سُکْرِیّت کے پیدا ہونے کا باعث ہے.وجہ یہ کہ سُکْرِیّت اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ رطوبت مزاجی دماغ پر سخت غلبہ کر لیتی ہے یہاں تک کہ دماغی قوتوں کو ایسا دبا لیتی ہے کہ انسان بے ہوش ہو کر سو جاتا ہے اور کچھ ہوش نہیں رہتا.پس وہ چیز جس سے سُکْرِیّت وجود پکڑتی ہے.ایک ظلمت ہے جو اپنی اصل حقیقت میں مغائر اور منافی حواسِ انسانی کی ہے.جس کا غلبہ ایک ظلمانی حالت نفس پر طاری کر دیتا ہے اور آلات احساس کو اس قدر تعطل اور بیکاری میں ڈالتا ہے کہ اُن کو عجائبات روحانی کا ماجرا کچھ بھی یاد نہیں رہتا.لیکن فناء فی الفناکی حالت کا موجب اور علّت یعنی سبب ایک نور ہے.یعنی تجلیات صفاتِ الٰہیہ جو بعض اوقات بعض نفوس خاصہ میں یکلخت ایک ربودگی پیدا کرتے ہیں جس کے باعث سے شعور سے بے شعوری ہوجاتی ہے.جیسے ایک نہایت لطیف اور تیز عطر بکثرت کسی مکان میں رکھا ہوا ہو.تو ضعیف الدماغ آدمی کی بعض اوقات قوتِ شامہ اس کثرت خوشبو سے مغلوب ہو کر ایسی بے حس ہو جاتی ہے کہ کچھ شعور اُس خوشبو کا باقی نہیں رہتا.غرض سُکْرِیّت کی حالت کے پیدا ہونے کیلئے مؤثر اور موجب ایک ظلمت ہے اور فنا فی الفناء کی حالت کے پیدا ہونے کے لئے مؤثر اور موجب ایک نور ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ چشمِ بینا کیلئے دو۲ طور کے مانع رؤیت ہوتے ہیں.یعنی دو سبب سے ایک سوجاکھے انسان کی آنکھ دیکھنے سے رہ جاتی ہے.ایک تو سخت اندھیرا جس کی وجہ سے نورِ بینائی محجوب ہو جاتا ہے اور دیکھنے سے رک جاتا ہے اور کچھ دیکھ نہیں سکتا.یہ حالت تو سُکْرِیّت کی حالت سے مشابہ ہے.دوسر ی مانع بصارت سخت روشنی ہے کہ جو بوجہ اپنی شدت اور تیزی شعاع کے آنکھوں کو رؤیت کے فعل سے روکتی ہے اور دیکھنے سے بند کر دیتی ہے جیسے یہ صورت اس حالت میں پیش آتی ہے کہ جب عضو بصارت کو ٹھیک ٹھیک سورج کے مقابلہ پر رکھا جائے یعنی جب آنکھوں کو آفتاب کے سامنے کیا

Page 540

جائے کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ جب آنکھ آفتاب کے محاذات میں ٹکٹکی باندھے یعنی آفتاب کی آنکھ اور انسان کی آنکھ آمنے سامنے ہو جائیں تو اُس صورت میں بھی انسان کی آنکھ فعل بصارت سے بکلّی معطل ہو جاتی ہے اور روشنی کی شوکت اور ہیبت اُس کو ایسا دباتی ہے کہ اُس کی تمام قوتِ بینائی اندر کی طرف بھاگتی ہے.پس یہ حالت فناء فی الفناء کی حالت سے مشابہ ہے اور اس فقدان رؤیت میں جو دونوں طور ظلمت اور نور کی وجہ سے ظہور میں آتا ہے.سُکْرِیّت اور فناء فی الفناء کا فرق سمجھنے کیلئے بڑا نمونہ ہے.مگر بایں ہمہ باطنی کیفیت جس کا موجب تجلیاتِ الٰہیہ اور جذبات غیبیہ ہوتے ہیں، بیچون اور بیچگون ہے.جس میں اجتماع ضِدَّین بھی ممکن ہے.باوجود بے شعوری کے شعور بھی ہو سکتا ہے اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے.مگر ظلمانی حالات میں اجتماع ضِدَّین ممکن نہیں.وہ عالَم اس عالَم سے بکلّی امتیاز رکھتا ہے..۱؎ اسی جہت سے پہلے بھی لکھا گیا تھا..۲؎ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نورانی تھا.جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی بلکہ تجلیات صفاتِ الٰہیہ جو بغایت انشراق نور ظہور میں آئی تھیں.وہ اُس کا موجب اور باعث تھیں.جن کی انشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بیہوش ہو کر گر پڑا اور اگر عنایت الٰہیہ اُس کا تدارک نہ کرتیں تو اُسی حالت میں گذر ہو کر نابود ہو جاتا.مگر یہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے.انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے کہ .۳؎ انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اُس پر وارد ہوتی ہیں.مگر اعلیٰ مقام اُس کا عبودیت ہے جس کا لازمہ صحو اور ہوشیاری سے اور سکر اور شطح سے بکلّی بیزاری ہے.ھدانا اللّٰہ ایانا وایاکم الصراط المستقیم الذی انعم علی النبیّٖن والصدیقین والشھداء والصّٰلحین واخردعوٰنا ان الحمدللّٰہ رب العٰلمین.والسلام علیکم وعلی اخوانکم من المؤمنین.٭ (۲۵؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ) ۱؎ النحل: ۷۵ ۲؎ الاعراف: ۱۴۴ ۳؎ النجم: ۱۸ ٭ الحکم ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحہ۳،۴

Page 541

مکتوب نمبر۱۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آںمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.باعث اطمینان خاطر ہوا.آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت درست اور بجا لکھا ہے.جو کچھ بطور رسم اور عادت کیا جاوے وہ کچھ چیز نہیں ہے اور نہ اُس سے کچھ مرحلہ طے ہو سکتا ہے.سچا طریق اختیار کرنے سے گو طالب صادق آگ میں ڈالاجاوے.مگر جب اپنے مطلب کو پائے گا، سچائی سے پائے گا.راست باز آدمی نہ کچھ عزت سے کام رکھتا ہے، نہ نام سے، نہ ننگ سے، نہ خلقت سے، نہ اُن کے لعن سے نہ اُن کے طعن سے، نہ اُن کی مدح سے، نہ اُن کی ذَمّ سے.جب سچی طلب دامنگیرہو جاتی ہے تواُس کی یہی علامت ہے کہ غیر کا بیم اور امید بکلّی دل سے اُٹھ جاتاہے اور توحید کی کامل نشانی یہ ہے کہ محب صادق کی نظر میں غیر کا وجود اور نمود کچھ باقی نہ رہے..۱؎ آپ اتباعِ طریقہ مسنونہ میں یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے بکُلّی پاک ہو جائے اور دلی محبت کے پاک فوارہ سے جوش مارے.مثلاًدرود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں.نہ اُن کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضورِ تام سے اپنے رسولِ مقبول کیلئے برکاتِ الٰہی مانگتے ہیں بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فردِ بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ جو کچھ محبانِ صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اُٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اُٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے.وہ سب کچھ اُٹھانے کیلئے دلی صدق سے حاضر ہو.اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوتِ واہمہ پیش نہ کر سکے کہ جس کے اُٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کر سکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اُس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا ۱؎ المائدۃ: ۵۵

Page 542

تو درود شریف، جیسا کہ میں نے زبانی بھی سمجھایا تھا، اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوندکریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کابناوے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اِس عالَم اور اُس عالَم میں ظاہر کرے.یہ دعا حضورتام سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہوگا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسولِ مقبول پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے.اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو.پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلاشبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو.اور یہاں تک یہ توجہ رگ و ریشہ میںتاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے.علی ھٰذا القیاس.نماز جس کیلئے خداوندکریم نے صدہا مرتبہ قرآن شریف میںتاکید فرمائی ہے اور اپنے تقرب کیلئے فرمایا ہے..۱؎ یہ بیجا رسم اور عادت کے پیرایہ میں کچھ چیز نہیں ہے.اس میں بھی ایسی صورت پیدا ہونی چاہئے کہ مُصلّی اپنی صلوٰۃ کی حالت میں ایک سچا دعا کنندہ ہو.سو نماز میں بالخصوص دعائے  ۲؎ میں دلی آہوں سے، دلی تضرعات سے، دلی خضوع سے، سچے دلی جوش سے حضرت احدیّت کا فیض طلب کرنا چاہئے اور اپنے تئیں ایک مصیبت زدہ اور عاجز اور لاچار سمجھ کر اور حضرت احدیّت کو قادر مطلق اور رحیم کریم یقین کرکے رابطۂ محبت اور قرب کیلئے دعا کرنی چاہئے.اُس جناب میں خشک ہونٹوں کی دعا قابل پذیرائی نہیں.فیضانِ سماوی کیلئے سخت بیقراری اور جوش و گریہ و زاری شرط ہے.اور نیز استعداد قریبہ پیدا کرنے کیلئے اپنے دل کو ماسوا اللہ کے شغل اور فکر سے بکلّی خالی اور پاک کر لینا چاہئے.کسی کا حسد اورنقار دل میں نہ رہے.بیداری بھی پاک باطنی کے ساتھ ہو اور خواب بھی.بے مغز باتیں سب فضول ہیں اور جو عمل روح کی روشنی سے نہیں وہ تاریکی اور ظلمت ہے.خذواالتوحید والتفرید والتمجید وموتوا قبل ان تموتوا.آج حسب تحریر آپ کی ہر سہ حصہ روانہ کئے گئے.٭ (۱۵؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۷؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰؁ھ) ۱؎ البقرۃ: ۴۶ ۲؎ الفاتحہ: ۶ ٭ الحکم ۶،۱۳ ؍ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ۷

Page 543

مکتوب نمبر۱۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا آپ کا خط ثالث بھی پہنچا.آپ کی دلی توجہات پر بہت ہی شکر گزار ہوں.خدا آپ کو آپ کے دلی مطالب تک پہنچاوے.آمین.یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ.غرباء سے چندہ لینا ایک مکروہ امر ہے.جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردۂ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جاوے گا.جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو انجام دے.تجویز چندہ کو موقوف رکھیں.اب بالفعل لودہیانہ میں اس عاجز کا آنا ملتوی رہنے دیں.آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندوؤں کی طرف سے سوالات آئے ہیں اور ایک ہندو صوابی ضلع پشاور میں کچھ ردّ لکھ رہا ہے.پنڈت شیونرائن بھی شاید عنقریب اپنا رسالہ بھیجے گا.سو اب چاروں طرف سے مخالف جنبش میں آ رہے ہیں.غفلت کرنا اچھا نہیں.ابھی دل ٹھہرنے نہیں دیتا کہ میں اس ضروری اور واجب کام کو چھوڑ کر کسی اور طرف خیال کروں.اِلاَّمَاشَآئَ اللّٰہُ رَبِّیْ.اگر خدا نے چاہا تو آپ کا شہر کسی دوسرے وقت میں دیکھیں گے.آپ کے تعلق محبت سے دل کو نہایت خوشی ہے.خدا اس تعلق کو مستحکم کرے.انسان ایسا عاجز اور بیچارہ ہے کہ اُس کا کوئی کام طرح طرح کے پردوں اور حجابوں سے خالی نہیں اور اس کے کسی کام کی تکمیل بجز حضرت احدیّت کے ممکن نہیں.ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کی اثناء میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض ہے اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے.حضرت احدیّت کی نظر میں درست نہیں.تو اُس پر یہ الہام ہوا .۱؎ سو الحمدللہ! آپ جوہر صافی رکھتے ہیں.غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں.اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھاگیا.مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اُس کو دور کرے.مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے.جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اُس گھر کی وضع قطع ۱؎ البقرۃ: ۱۱۲

Page 544

میں بعض امور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں.اس لئے مناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب ہوں تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے.یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے.جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رفیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے...۱؎ لیکن خداوند کریم سے نہایت قوی امید رکھتا ہے کہ وہ اس غربت اور تنہائی کے زمانہ کو دور کر دے گا.آپ کی حالتِ قویہ پر بھی امید کی جاتی ہے کہ آپ ہر ایک انقباض پر غالب آویں گے.وَالْاَمْرُ بِیَدِاللّٰہِ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.والسلام علیکم وعلی اخوانکم من المومنین.مکتوب نمبر۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفقی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج ہرسہ حصہ کتاب آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں.چند ہندو اور بعض پادری عنادِ قدیم کی وجہ سے ردّ کتاب کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں.مگر آپ تسلّی رکھیں اور مسلمانوں کو بھی تسلّی دیں کہ یہ حرکت اُن کی خالی از حکمت نہیں.میں اُمید رکھتا ہوں کہ اُن کی اس حرکت اور شوخی کی وجہ سے خداوندکریم حصہ چہارم میں کوئی ایسا سامان میسر کر دے گا کہ مخالفین کی بدرجہ غایت رُسوائی کا موجب ہوگا.آسمانی سامان شیطانی حرکات سے رُک نہیں سکتے بلکہ اور بھی زیادہ چمکتے ہیں اور مخالفین کے اُٹھنے کی یہی حکمت سمجھتا ہوں کہ تا آسمانی باتیں زیادہ چمکیں اور جو کچھ خدا نے ابتدا سے مقدر کر رکھتا ہے وہ ظہور میں آ جائے.آپ مومنین کو جو آپ سے متنفر ہوں سمجھا ویں کہ آپ کچھ عرصہ توقف کریں.زیادہ تر دیر اسی سے ہے کہ تا خیالات معاندانہ مخالفین کے چھپ کر شائع ہو جاویں.سو آپ براہِ مہربانی کبھی کبھی حالات خیریت آیات سے یاد و شاد فرماتے رہیں.والسلام ۱؎ الکھف: ۶۸، ۶۹

Page 545

مکتوب نمبر۱۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے عنایت نامہ جات کو پڑھ کر نہایت خوشی ہوئی.خداوند تعالیٰ حقیقی استقامت سے حظِ وافر آپ کو بخشے.میں آپ کی ذات میں بہت ہی نیک طینتی اور سلامت رَوِشی پاتا ہوں اور میں خداوندکریم کی نعمتوں میں سے اس نعمت کا بھی شکرگزار ہوں کہ آپ جیسے خالص دوست سے رابطہ پیدا ہوا ہے.خداوندکریم اس رابطہ کو اُس مرتبہ پر پہنچا وے جس مرتبہ پر وہ راضی ہے.نماز تہجد اور اَوْرَادِ معمولہ میں آپ مشغول رہیں.تہجد میں بہت سے برکات ہیں.بیکاری کچھ چیز نہیں.بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا.وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی.’’‘‘.۱؎ درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں.اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے.پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے.غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے.یہی اس عاجز کا وِردہے اور کسی تعداد کی پابندی ضرور نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت ر ّقت اور بیخودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے.بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام مسنون برسد.۲۶؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ ۱؎ العنکبوت: ۷۰

Page 546

مکتوب نمبر۱۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا آن مخدوم کا مکتوب چہارم بھی پہنچا.جزاکم اللّٰہ علی سعیکم و اعظم اجرکم علی بذل جہدکم.آج اگر ٹکٹ میسر آئے تو یقین ہے کہ ہرسہ حصہ بنام ہرسہ خریداران کے نام روانہ کئے جائیں گے.اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی.آپ اَوراد ُ و اشغالِ معمولہ بدستور کئے جائیں کہ کثرتِ ذکر مدار فلاح و نجات ہے.درود شریف خط سابق میں لکھ دیا گیا ہے.ہر باب میں حضور اور توجہ اور خضوع اور خشوع اور اخلاص شرط ہے.من جاء بالا خلاص جعل من الخواص.اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالبِ حق ہے تو اُس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر ایسا شخص بے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلا قیمت کتاب دے سکتے ہیں.غرض اصلی اشاعت دین ہے.نہ خرید و فروخت.جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کتاب بھیجی جاوے.والسلام.بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام پہنچا دیں.مکتوب نمبر۱۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی ہرسہ حصہ بخدمت چوہدری گامے خان و جیوے خان صاحب روانہ کئے جائیں گے.اب حصہ چہارم کے طبع کرانے میں کچھ تھوڑی توقف باقی ہے اور موجب توقف یہی ہے کہ جو تین جگہ سے بعض سوالات لکھے ہوئے آئے ہیں.اُن سب کا جواب لکھا جائے.یہ عاجز ضعیف الدماغ آدمی ہے.بہت محنت نہیں ہوتی.آہستہ آہستہ کام کرنا پڑتا ہے.آپ کی خواب اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی نہایت مطابق واقعہ اور درست معلوم ہوتی ہے اور تعبیر صحیح ہے.جن لوگوں کو تاویل رؤیا کا علم نہیں اُن کو ان تعبیرات میں کچھ تکلّف معلوم ہوگا.مگر صاحب تجربہ خوب جانتے ہیں کہ رؤیا کے بارہ میں اکثر عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ حقیقت کو ایسے ایسے

Page 547

پیرایوں اور تمثیلات میں بیان فرمایا ہے.مسلم نے انس سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواب دیکھی کہ عقبہ بن رافع کے گھر کہ جو ایک صحابی تھا آپ تشریف رکھتے ہیں.اُسی جگہ ایک شخص ایک طبق رطب ابن طاب کا لایا اور صحابہ کو دیا اور رطب ابن طاب ایک خرما کا قسم ہے کہ جس کو ابن طاب نام ایک شخص نے پہلے پہل کہیں سے لا کر اپنے باغ میں لگایا تھا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ تعبیر کی کہ دنیا و آخرت میں صحابہ کی عاقبت بخیرو عافیت ہے اور حلاوتِ ایمان سے وہ خوشحال اور متمتع ہیں.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کے لفظ سے عاقبت کار نکالا اور رافع خدا کا نام ہے.اُس سے رفعت کی بشارت سمجھ لی اور خرما کی حلاوت سے حلاوتِ ایمانی لی اور ابن طاب میں طاب کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشحال ہوا.پس اس سے خوشحال ہونے کی بشارت سمجھ لی.غرض تعبیر رؤیا میں ایسی تاویلات واقعی اور صحیح ہیں اور آپ کی خواب بہت ہی عمدہ بشارت ہے.محافظ دفتر کے لفظ سے یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالیشان حاکم یا بادشاہ کا ایک جگہ خیمہ لگا ہوا ہے اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہورہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ دفتر کا عہدہ رکھتا ہے اور جیسے دفتروں میں مسلیں ہوتی ہیں، بہت سی مسلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ دفتر کی طرح ہے.اتنے میں ایک اردلی دوڑا آیا کہ مسلمانوں کی مسل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو.پس یہ رؤیا بھی دلالت کر رہی ہے کہ عنایاتِ الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اُس قوتِ ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنی خاص برکات سے متمتع کرے گا کہ ہر ایک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے.اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اَوْرَادِ معمولہ کو بدستور لازم اوقات رکھیں.صرف ایسے طریقوں سے پرہیز چاہئے جن میں کسی نوع کا شرک یا بدعت ہو.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں.تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آ کر پڑھنا ثابت ہے لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے.۱؎ مکرمی مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب

Page 548

کی خدمت میں اس عاجز کا سلام مسنون پہنچا ویں.خداوندکریم کا ہر ایک شخص سے الگ الگ معاملہ ہوتا ہے اور ہر ایک بندہ سے جس طور کا معاملہ ہوتا ہے اسی طور سے اُس کی فطرت بھی واقع ہوتی ہے.اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اللہ غالب ہے.اور معاملہ حضرت احدیّت بھی یہی ہے کہ خود روی کے کاموں سے سخت منع کیا جاتا ہے.یہ مخاطبت حضرت احدیّت سے بارہا ہو چکی ہے ’’ٌ۱؎ ‘‘.۲؎ سو چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوندکریم کی طرف سے کچھ علم نہیں.اس لئے تکلّف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں..۳؎ مولوی صاحب اخوت دینی کے بڑھانے میں کوشش کریں اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودہ کی پرورش میں مشغول رہیں.تو یہی طریق اِنْ شَآئَ اللّٰہ تعالٰی بہت مفید ہوگا.خلقتم من نفس واحدۃ جزاء البدن مستفیض لما استفاض البدن کلہ وکونوامع الصادقین ھم قوم لایشقٰی جلیسھم.والسلام.بخدمت خواجہ علی صاحب سلام علیکم.ابھی مولوی صاحب کا اس جگہ تشریف لانا بے وقت ہے.یہ عاجز حصہ چہارم کے کام سے کسی قدر فراغت کر کے اگر خدا نے چاہا اور نیت صحیح میسر آ گئی تو غالباً امید کی جاتی ہے کہ آپ ہی حاضر ہوگا والامر کلہ فی یداللّٰہ وما اعلم ما ارید فی الغیب.٭ مکتوب نمبر۱۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.خداوندکریم کا کیسا شکر کیا چاہئے کہ اُس نے اپنے تفضّلاتِ قدیم سے آپ جیسے دلی دوست بہم پہنچائے.اگرچہ آپ کا اخلاص کامل اس درجہ پر ہے کہ اس عاجز کا دل بلااختیار آپ کی دعا کیلئے کھینچا چلا جاتا ہے.پر جس ذات قدیم نے آپ کو یہ اخلاص بخشا ہے اُس نے خود آپ کو چُن لیا ہے.تب ہی یہ اخلاص بخشا ہے.۴؎ بخدمت مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سمجھا ہے

Page 549

نہایت بہتر ہے.دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں.اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ.۱؎ یہ عاجز اپنی زندگی کا مقصدِ اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو ربُّ العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آ جایا کرے.مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں.سو اگر خداوند کریم چاہے گا تو یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا.یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ سچا تعلق وہی ہے جس میں سرگرمی سے دعا ہے.مثلاً ایک شخص کسی بزرگ کا مرید ہے مگر اُس بزرگ کے دل میں اس شخص کی مشکل کشائی کیلئے جوش نہیںاور ایک دوسرا شخص ہے جس کے دل میں بہت جوش ہے اور وہ اُسی کام کے لئے ہو رہا ہے کہ حضرت احدیّت سے اُس کی رستگاری حاصل کرے.سو خدا کے نزدیک سچا رابطہ یہ شخص رکھتا ہے.غرض پیری مریدی کی حقیقت یہی دعا ہی ہے.اگر مرشد عاشق کی طرح ہو اور مرید معشوق کی طرح تب کام نکلتا ہے.یعنی مرشد کو اپنے مرید کی سلامتی کے لئے ایک ذاتی جوش ہو.تا وہ کام کر دکھاوے.سرسری تعلقات سے کچھ ہو نہیں سکتا.کوئی نبی اور ولی قوّت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا.یعنی اُن کی فطرت میں حضرت احدیّت نے بندگانِ خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے.پس وہی عشق کی آگ اُن سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر اُن کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں.تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتے اور اُن کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو جان کنی سے کیا اجر ملے گا.کیونکہ اُس کے جوشوں کی بِنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے.اُسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے .۲؎ خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ ُتو لوگوں کے مومن بن جانے کیلئے اپنے دل پر اُٹھاتا ہے.اسی میں تیری جان جاتی رہے گی.سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی.پس حقیقی پیری مریدی کا یہی اصول ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی اصول ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ سچے غمخوار بننے کے لائق ٹھہریں.جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوتِ عشقیہ رکھتے ہیں.تو اُن کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت ۱؎ ترمذی کتاب الدعوات ۲؎ الشعرآء: ۴

Page 550

کی استعداد زیادہ رکھتی ہے.اسی طرح جو شخص صاحب قوتِ عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کیلئے حکمِ والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے ڈال لیتا ہے کیونکہ قوتِ عشقیہ اُس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خداوندکریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اُس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے.مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگجو لوگوں کی ضرورت ہے سو بعض فطرتیں جنگجوئی کی استعداد رکھتی ہیں.اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے.سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے کر آتی ہیں اور قوت عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.فَالْحَمْدُلِلّٰہِ علٰی الآء ظاہرھا و باطنھا.مولوی صاحب اگر رسالہ بھیج دیں تو بہتر ہے.شاہ دین صاحب رئیس لودہیانہ کی طرف اُنہیں دنوں میں کتاب بھیجی گئی.جب آپ نے لکھا تھا مگر اُنہوں نے پیکٹ واپس کیا اور بغیر کھولنے کے اوپر بھی لکھ دیا کہ ہم کو لینا منظور نہیں.چونکہ ایک خفیف بات تھی اس لئے آپ کو اطلاع دینے سے غفلت ہوگئی.آپ کوشش میں توکل کی رعایت رکھیں اور اپنے حفظِ مرتبت کے لحاظ سے کارروائی فرماویں اور جو شخص اس کام کا قدر نہ سمجھتا ہو یا اہلیت نہ رکھتا ہو اُس کو کچھ کہنا کہانا مناسب نہیں.۲۱؍مئی ۱۸۸۳ء مطابق رجب ۱۳۰۰ھ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۱۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ھٰذاآن مخدوم کا سعی اور کوشش کیلئے جالندھر میں تشریف لے جانا خط آمدہ آں مخدوم سے معلوم ہوا.خداوند تعالیٰ ان کوششوں کو قبول فرماوے.جس آیت کو ایک مرتبہ بنظر کشفی دیکھا گیا تھا.ِ.۱؎ اس شجرہ طیبّہ کے آثار ظاہر ہوتے جاتے ہیں.۱؎ ابراہیم: ۲۵

Page 551

۱؎ نیچریوں کا جو آپ نے حال لکھا ہے یہ لوگ حقیقت میں دشمن دین ہیں یُرِیْدُوَْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ.۲؎ لیکن خداوند قادر مطلق کے کام عقل اور قیاس سے باہر ہیں.وہ ہمیشہ عاجزوں اور ضعیفوں اور کمزوروں کو متکبروں اور مغروروں پر غالب کرتا رہا ہے اور آخر کار اُنہیں کی فتح ہوتی رہی ہے جو خدا کے لئے متکبروں کے ہاتھ سے ستائے گئے.اور اگر خدا چاہتا تو ستائے نہ جاتے لیکن یہ اس لئے ضروری ہوا کہ تا خداوند کریم اپنے الطافِ خفیہ کو بصورت جلال اُن پر متجلّی کرے اور نفس کے پوشیدہ عیبوں سے اُن کو خلاصی بخشے اور اُن پر اُس کا تنہا ہونا، بیکس ہونا، غریب ہونا، ذلیل ہونا، بے اقتدار ہونا ثابت کر کے عبودیتِ حقیقی کے اعلیٰ مراتب تک پہنچاوے.کسی بشر کی طاقت نہیں کہ جو اپنے منہ کی واہیات باتوں سے خدا تعالیٰ کے ارادہ کو نافذ ہونے سے روک رکھے.اگر اُس کی حکمت کا تقاضا نہ ہوتا تو مزاحمین اور مخالفین کا وجود نابود ہو جاتا.پر ان لوگوں کے وجود میں گروہ ثانی کے لئے بڑے بڑے مصالحہ ہیں اور بعض کمالات اُن کے اسی پر موقوف ہیں کہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں.درود شریف پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں.وہی کیفیت آپ لکھ دیں.کسی تعداد کی شرط نہیں.اس قدر پڑھا جائے کہ کیفیت صلوٰۃ سے دل مملو ہو جائے اور ایک انشراح اور لذت اور حیواۃ قلب پیدا ہو جائے.اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو تب بھی بے دل نہیں ہونا چاہئے اور کسی دوسرے وقت کا منتظر رہنا چاہئے اور انسان کو وقت صفا ہمیشہ میسر نہیں آسکتا.سو جس قدر میسر آوے اُس کو کبریت اَحمر سمجھے اور اُس میں دل و جان سے مصروفیت اختیار کرے.پہلے اس سے آپ کی طرف ایک خط لکھا گیا تھا.سو جیسا کچھ اُس میں لکھا گیا تھا آپ مبلغ(پچاس) روپیہ بھیج دیں.بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون.۲؍ جون ۸۳ء مطابق ۲۵؍ رجب ۱۳۰۰ھ ۱؎ الجمعۃ: ۵ ۲؎ النَّسآء: ۱۵۱

Page 552

مکتوب نمبر۱۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب زاد اللہ فی برکاتہم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.سبحان اللہ کیا جوش ہے کہ خداوندکریم نے آپ کے دل میں ڈال دیا اور ایسا ہی آپ کے دوست مولوی عبدالقادر صاحب کے دل میں.خداوند کریم بندوں کے فعل اور اُن کی نیّات کو خوب جانتا ہے جو شخص اُس کے لئے کوئی درد اُٹھاتا ہے.اُس کا عمل کبھی ضائع نہیں ہوگا.اُس کی نظر عنایت اگرچہ دیر سے ظاہر ہو مگر جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ کام کر دکھاتی ہے جس کی عاجز بندہ کو کچھ امید نہیں ہوتی.خداوند کریم آپ کی اس دلی جوش میں مدد کرے اور اپنی عنایت خاص سے ثابت قدمی بخشے اور ابتلا سے محفوظ رکھے اور آپ بھی ثابت قدمی کیلئے دعا کرتے رہیںکیونکہ بڑے بڑے کاموں میں ابتلا بھی بڑی بڑی پیش آتی ہیں اور انسان ضعیف البنیان کی کیا طاقت ہے کہ خود بخود بغیر عنایت و حمایت حضرت احدیّت کے کسی ابتلا کا مقابلہ کر سکے.پس ثبت اقدام اُسی سے مانگنا چاہئے اور اُسی کی حول و قوت پر بھروسہ کرنا چاہئے.ہم سب لوگ بغیر اُس کے فضل و احسان کے کچھ بھی نہیں.آپ نے لکھا تھا کہ بعض لوگ یاوہ گوئی کرتے ہیں.سو آپ جانتے ہیں کہ ہرایک امر خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے.کسی کی فضول گوئی سے کچھ بگڑتا نہیں.اسی طرح پر عادت اللہ جاری ہے کہ ہر ایک مہم عظیم کے مقابلہ پر کچھ معاند ہوتے چلے آئے ہیں.خدا کے نبی اور اُن کے تابعین قدیم سے ستائے گئے ہیں.سو ہم لوگ کیونکر سنت اللہ سے الگ رہ سکتے ہیں.وہ اندر کی باتیں جو مجھ پر ظاہر کی جاتی ہیں.ہنوز اُن میں کچھ بھی نہیں.کئی مکروہات درپیش ہیں جن میں خدا کی حفاظت درکار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اُس کا فعل قابل اعتراض نہیں.جو کچھ کرتا ہے بہت اچھا کرتا ہے.کسی کی کیا طاقت ہے کہ کچھ بول سکے، جب تک اُس بولنے میں اُس کی کچھ حکمت نہ ہو اور کم سے کم یہی حکمت ہے کہ جن مَردوں نے سچائی کی راہ پر قدم مارا ہے.اُن کے لئے یہ ابتلا در پیش رہا ہے اور اس ابتلا پر ثابت قدم رہنے سے وہ اجر پاتے ہیں.

Page 553

.۱؎ آج قبل اس خط کے یہ الہام ہوا.کَذَبَ عَلَیْکُمُ الْخَبِیْثُ.کَذَبَ عَلَیْکُمُ الْخِنْزِیْرُ.عِنَایَتُ اللّٰہِ حَافِظُکَ.اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَرٰی.۲؎ .۳؎ .۴؎ ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی اس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو.مگر عنایت الٰہی حافظ ہے.اب سوچنا چاہئے کہ جب ہر ایک موذی اور معاند اور دروغ گو اور بہتان طراز کے شر سے خود خداوندکریم بچانے کا وعدہ کرتا ہے تو پھر کس سے بجز اُس کے خوف کریں.چند روز ہوئے کہ خداوندکریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا.کچھ حصہ اُس میں سے پہلے بھی الہام ہوچکا ہے.مگر یہ الہام مفصل ہوا اور اُس سے خداوند کریم کی جو کچھ عنایت اس عاجز اور اس عاجز کے دوستوں پر ہے ظاہر ہے اور وہ یہ ہے. ۵؎ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.وَقَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَجِیْبٌ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ.۶؎ .۷؎ اور یہ آیت کہ ۸؎ باربار الہام ہوئے اور اس قدر متواتر ہوئے کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئے کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہے.اس سے یقینا معلوم ہوا کہ خداوندکریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا.اور اُن کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا.اور اس عاجز کے بعد کوئی ایسا مقبول آنے والا نہیں جو اس طریق کے مخالف قدم مارے.اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی.یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلّف نہیں کرے گا اور کفر کے لفظ سے اس جگہ شرعی کفر مراد نہیں بلکہ صرف انکار ہی مراد ہے.غرض یہ وہ سچا طریق ہے جس میں ٹھیک ٹھیک حضرت نبی کریم کے قدم پر قدم ہے.اللھم صلّ علیہ وآلہٖ وسلّم.آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کیلئے ۱؎ العنکبوت: ۳ ۲؎ تذکرہ صفحہ ۴۸،۴۹.ایڈیشن چہارم ۳؎ الزُّمر: ۳۷ ۴؎ الاحزاب: ۷۰ ۵؎ اٰلِ عمران: ۳۲ ۶؎ تذکرہ صفحہ۴۸.ایڈیشن چہارم ۷؎ اٰلِ عمران: ۱۴۱ ۸؎ اٰلِ عمران: ۵۶

Page 554

فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُستضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں.اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے.جو شخص ذاتی محبت سے کسی کیلئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے.مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں.دوسرے اَوْرَاد بھی بدستور محفوظ رکھیں.بیکاری کچھ چیز نہیں ہے ہر وقت سرگرمی کی توفیق خداوندکریم سے مانگنی چاہئے.بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچا دیں.٭ ۱۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۶ شعبان ۱۳۰۰ھ ٭…٭…٭ ٭ الحکم ۵؍ مئی ۱۸۹۹ء صفحہ۷

Page 555

مکتوب نمبر۱۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا آں مخدوم کے دو عنایت نامہ دوسرے بھی پہنچ گئے.الحمدللہ کہ کام طبع کا شروع ہے.یہ سب اُسی کریم کی عنایات اور تفضّلات ہیں کہ اس ناکارہ اور عاجز کے کاموں کا آپ متولی ہو رہا ہے.ع اگر ہر موئے من گردد زبانے ازو رانم بہریک داستانے پنڈت دیانند نے کتاب طلب نہیں کی اور نہ راستی اور صدق کے راہ سے جواب لکھا بلکہ اُن لوگوں کی طرح جو شرارت اور تمسخر سے گفتگو کرنا اپنا ہنر سمجھتے ہیں.٭ ایک خط بھیجا اور خط رجسٹری کرا کر بھیجا گیا.جس کا خلاصہ صرف اس قدر تھا مجھ کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلام پر یقین کامل بخشا ہے اور ظاہری اور باطنی دلائل سے مجھ پر کھول دیا ہے کہ دنیا میں سچا دین دینِ محمدیؐ ہے اور اسی جہت سے مَیں نے محض خیر خواہی خلق اللہ کی رُو سے کتاب کو تالیف کیا ہے اور اُس میں بہت سے دلائل سے ثابت کر کے دکھلایا ہے کہ تعلیمِ حقّانی محض قرآنی تعلیم ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوں بلکہ اس بات کا بوجھ آپ کی گردن پر ہے کہ جن قوی دلیلوں سے آپ کے مذہب کی بیخ کنی کی گئی ہے اُن کو توڑ کر دکھلاویں یا اُن کو قبول کریں اور ایمان لاویں اور میں ہر وقت کتاب کو مفت دینے کو حاضر ہوں.اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا.اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰی اسی حصہ چہارم میں اُن کے مذہب اور اصول کے متعلق بہت کچھ لکھا جائے گا اور آپ اگر خط کو چھپوا دیں تو آپ کو اختیار ہے.مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اور نیز قاضی خواجہ علی صاحب کی خدمت میں سلام مسنون پہنچے.۱۵؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۹؍ شعبان ۱۳۰۰ھ ٭ نقل مطابق اصل.اگلے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت دیانند کو بھیجا تھا.

Page 556

مکتوب نمبر۲۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ رَبُّہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا آن مخدوم کے دو عنایت نامہ پے در پے پہنچے.باعث مسرت اور خوشی کاہوا.آپ کی کوششوں سے بار بار دل خوش ہوتا ہے او ربار بار دعا آپ کے لئے اور آپ کے معاونوں کے لئے دل سے نکلتی ہے.خداوند کریم نہایت مہربان ہے.اُس کے تفضّلات سے بہت سی امیدیں ہیں.اس کی راہ میں کوئی محنت ضائع نہیں ہوتی.آپ نے لکھا تھا کہ ایک عالم نے فیروز پور میں اعتراض کیا ہے کہ رسول مقبول نے سیر ہو کر بھی کھایا ہے.لیکن اس بزرگ عالم نے اس عاجز کی تقریر کامنشاء نہیں سمجھا ہے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ہونے کے معنی سمجھے ہیں.طیبّین اور طاہرین کا سیر ہو کر کھانا اُس قسم کا سیر ہونا نہیں ہے جو اُن لوگوں کا ہوا کرتا ہے جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے کھاتے ہیں جیسے چار پائے کھایا کرتے ہیں اور آگ اُن کا ٹھکانا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت سیر ہو کر کھانا اور ہی نور ہے اور اگر اُس سیری کو اُن لوگوں کی طرف نسبت دی جاوے جن کا اصل مقصد احتظاذ اور تمتع ہے اور جن کی نگاہیں نفسانی شہوات کے استفا تک محدود ہیں تو اُس سیری کو ہم ہرگز سیری نہیں کہہ سکتے.سیری کی تعریف میں پاکوں اور مقدسوں کی اصطلاح اور ناپاکوں اور شکم پرستوں کی اصطلاح الگ الگ ہے اور پاک لوگ اُسی قدر غذا کھانے کا نام سیری رکھ لیتے ہیں کہ جب فی الجملہ وقت جوع دور ہو جائے اور حرکات و سکنات پر قوت حاصل ہو جائے.غرض مومن کی سیری یہی ہے کہ اس قدر غذا کھائے جو اُس کی پشت کو قائم رکھے اور حقوق واجبہ ادا کر سکے.پس جو سیّد المومنین ہے.اُس کی سیری کا قیاس عام لوگوں کی سیری پر قیاس مع الفارق ہے.اسی طرح بہت لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عظیم کو نہیں سمجھا اور الفاظ کے مورد استعمال کو ملحوظ نہیں رکھا اور اپنے تئیں غلطی میں ڈال لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت یہ فرمانا کہ میں سیر ہو گیا ہوں ہرگز اُس قول کا مرادِف نہیں کہ جو دنیا داروں کے منہ سے نکلتا ہے جنہوں نے اصل مقصد اپنی زندگی کا کھانا ہی سمجھا ہوا ہوتا ہے.غرض پاکوں کا کام اور کلام پاکوں

Page 557

کے مراتبہ عالیہ کے موافق سمجھنا چاہئے.اور اُن کے امورِ کادوسروں پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے.وہ درحقیقت اس عالم سے باہر ہوتے ہیں.گو بصورت اسی عالم کے اندر ہی ہوں.اور بہرام خان صاحب کی کوشش سے طبیعت بہت خوش ہوئی.خدا اُن کو اجر بخشے.کتاب سات سو جلد چھپی ہے لیکن اب میں نے تجویز کی ہے کہ ہزار جلد چھپے تو بہتر.منشی فضل رسول صاحب کا خط میں نے پڑھا.منشی صاحب کے پاس جس نے یہ بیان کیا ہے کہ وید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اُس نے بہت ہی دھوکہ کھایا.وید میں تو خدا کا بھی اُس کی شان کے لائق ذکر نہیںچہ جائیکہ اُس کے رسول کا بھی ذکر ہو.جن باتوں سے وید بھرا ہوا ہے وہ آتش پرستی اور شمس پرستی اور اِندر پرستی وغیرہ ہے.اور مدار المہام تمام دنیا کا انہیں چیزوں کو وید نے سمجھا ہے اور انہیں کی پرستش کیلئے وید نے ترغیب کی ہے اور کئی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا ہے کہ وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے۱؎ اور وید کاایک حصہ ترجمہ شدہ اس عاجز کے پاس موجود ہے اور پنڈت دیانند کے وید بھاش میں سے بھی سنتا رہا ہوں اور جو کچھ اُردو میں وید بھاش لکھا گیا وہ بھی دیکھتا رہا ہوں.اس صورت میں وید کوئی ایسی عجیب چیز نہیں ہے جس کی حقیقت پوشیدہ ہو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اَظْہَرٌ مِّنَ الشَّمْسِہے.ویدوں کے پُرظلمت بیان کی محتاج نہیں.اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ویدوں میں کسی قسم کی پیشگوئی نہیں اور نہ کسی معجزہ کا ذکر ہے.جہاں تک دریافت ہوتا ہے وید کی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی پُرانے زمانہ کے شاعروں کے شعر ہیں کہ جو مخلوق چیزوں کی تعریف میں بنائے ہوئے ہیں.ابتدا میں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لئے لکھا گیا تھا بلکہ کتابیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں.سو اس میں سے صرف نواب ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیرکوٹلہ اور محمود خان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونا گڑھ نے کچھ مدد کی تھی.دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اُس کا ایفا نہیں کیا.بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا.آپ ان ریاستوں سے نااُمید رہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں. ۲؎ ۱؎ تذکرہ صفحہ ۴۹.ایڈیشن چہارم ۲؎ الزُّمر: ۳۷

Page 558

اور میں آپ کو یہ بھی تحریر کرتا ہوں کہ جو شخص اپنی رائے کے موافق کتاب کو واپس کرے یا لینا منظور نہ کرے یا کتاب یاکتاب کے مؤلّف کی نسبت کچھ مخالفانہ رائے ظاہر کرے.اس کو یکدفعہ اپنے خلق سے محروم نہ کریں.٭ ۲۱؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ شعبان ۱۳۰۰ھ مکتوب نمبر۲۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ منشی فضل رسول صاحب کے خط کی نقل معہ کارڈ پہنچ گئے اور میں نے اُس دل آزار تقریر کو تمام و کمال پڑھا..۱؎ جب میں نے منشی صاحب کے اس فقرہ کو پڑھا کہ اس میں تو بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں بھی نہیں ہے تو یہ یاد کر کے کہ منشی صاحب نے وید کو توحید میں بے مثال و مانند قرار دے کر قرآن شریف کی عظمت کا ایک ذرّہ پاس نہیں کیا اور دلیری سے کہہ دیا کہ جو وید میں توحید ہے وہ کسی دوسری کتاب میں نہیں پائی جاتی.اس فقرہ کے پڑھنے سے عجیب حالت ہوئی کہ گویا زمین و آسمان آنکھوں کے آگے سیاہ نظر آتا تھا.رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ.۲؎ پھر بعد اس کے منشی صاحب اس عاجز ذلیل، غریب تنہا سے پوچھتے ہیں کہ وید پڑھے ہیں یا نہیں اور اگر وید کو نہیں پڑھا تو اب تحقیق سے کسی وید دان سے دریافت کرنا چاہئے.تو اس بات کا جواب منشی صاحب کو کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا معرضِ بیان میں لاویں.جس حالت میں پہلے خط میں لکھا گیا تھا کہ جو کچھ یہ بیان کیا گیا ہے بِلا تحقیق نہیں تو اگر منشی صاحب ایک ذرّہ اس عاجز سے حسن ظن رکھتے تو بلا فائدہ تقریر کو طول نہ دیتے.لیکن اس پُر آشوب زمانہ میں ہم غریبوں پر کسی کا حسن ظن کہاں؟ جب خداوندکریم دلوں کو اس طرف پھیرے گا تب نیک دل لوگ اس طرف پھریں گے.اس وقت رگوید جو چاروں ویدوں میں پہلا وید ہے اور سب سے زیادہ متبرک اور معتبر اور مستند الیہ سمجھا گیا ہے میرے سامنے رکھا ہوا ہے جس کے ساتھ پروفیسر ولسن صاحب کی ایک مختصر شرح بھی ہے.اس میں ٭ الحکم ۱۲؍ مئی ۱۸۸۹ء صفحہ۳،۴ ۱؎ البقرۃ: ۱۵۷ ۲؎ تذکرہ صفحہ۳۷.ایڈیشن چہارم

Page 559

صاحب موصوف نے بعد بہت سی تحقیق کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اُپنشدیں جو وید کے ساتھ شامل ہیں.وید میں سے نہیں ہیں بلکہ وید کے تصنیف کے بہت مدت کے بعد تالیف پائے ہیں اور یہ رائے محقق پنڈتوں کی ہے کہ اُپنشدیں وید میں سے نہیں ہیں.یہ برہمن پشتک ہیں جو انسانوں نے یعنی برہمنوں نے اور اور وقتوں میں اپنے خیال سے لکھے ہیں.یہاں تک کہ پنڈت دیانند نے بھی اپنے وید بھاش میں جو ان دنوں میں چھپ رہا ہے اور ایک پرچہ اُس کا قادیان میں بھی ایک آریہ کے نام آتا ہے یہی رائے لکھی ہے اور پنڈت دیانند علانیہ لکھتا ہے کہ اُپنشدیں ہرگز وید میں داخل نہیں اور نہ وید کی جز ہے.وہ تو لوگوں نے پیچھے سے باتیں بنائی ہیں.چونکہ پنڈت دیانند اب تک مقام شاہ پور ضلع ارل میں زندہ موجود ہے اور آج پنڈتوں میں وہ دعویدار ہے کہ میرا ثانی اور کوئی پنڈت نہیں.اُسی سے منشی صاحب دریافت کر سکتے ہیں کہ اُپنشدیں جن کا بطور مختصر ترجمہ داراشکوہ نے کیا یہ حقیقت میں وید ہی ہیں؟ یہ کیا چیز ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ داراشکوہ کے وقت میں وید ایک مدفون اور مخفی چیز کی طرح تھا اور مسلمانوںکو اُس کی حقیقت کی خبر نہیں تھی.سو جب داراشکوہ نے ہندو پنڈتوں سے کچھ وید کا ترجمہ چاہا تو انہوں نے اندیشہ کیا.کہ اگر ہم مسلمانوں پر اصل وید کی حقیقت ظاہر کریں گے تو ہمارا پردہ اُڑ جائے گا.بہتر ہے کہ اکبر بادشاہ کی طرح اُس کو بھی دام میں لاویں اور جہاں تک ہو سکے اس کے مزاج میں بھی کچھ الحاد ڈالیں تو اُنہوں نے اُس کو ناواقف سمجھ کر بعض اُپنشدوں کا ترجمہ کرادیا اور اب کھل گیا کہ وہ ترجمہ بھی صحیح نہیں.بہرحال داراشکوہ نے کمال غلطی کھائی کہ اُپنشدوں کو وید سمجھ بیٹھا اور اُس کے بہت سے خیالات پریشان تھے.جن کی منشی صاحب کو خبر نہیں.چغتائی سلطنت پر پہلے آفت یہی نازل ہوئی تھی کہ اکبر اور اُس کی بعض بدنصیب نسل نے کلامِ الٰہی کو جیسا کہ چاہیے قدر نہیں کی تھی.اور ہندوؤں کے شرک آمیز اور غلط گیان کی تلاش میں پڑ گئے.اب ہم اس بات کو چھوڑ کر پروفیسر مذکور کی وید کی نسبت رائے لکھتے ہیں.وہ اپنی تمہیدی تقریر میں جو وید کی تفسیر کے پہلے لکھی ہے تحریر کرتے ہیں کہ حقیقت میں وید کے کسی فقرہ سے جو ہم نے اب تک دیکھے ہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ وید کے مصنّف پیدا کنندہ عالَم کے معتقد تھے اور ہندوؤں کے پرستش کے دیوتاؤں کی جو وید میں لکھے ہیں.جیسے آگ، پانی، چاند، سورج اُن کی تعریفوں کی عبارت ایسی ہے جس میں صریح مخلوق کی صفتیں پائی

Page 560

جاتی ہیں اور پھر وہ لکھتے ہیں کہ لفظ اُوم کہ جو پہلے زمانہ کے مذہب ہنود کی نشانی ہے اُس کا وید میں بالکل ذکر نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ان تینوں دیوتاؤں کے نام کا خلاصہ ہے.یعنی برہما کے اخیر کا الف لیا گیا اور وشن کی واؤ لی گئی اور مہادیو کا میم لیا گیا.ان تینوں کے جوڑ سے اُوم بن گیا اور تمام پنڈتوں کا بھی یہی اعتقاد ہے کہ اُوم کا لفظ برہما، وشن، مہادیو کے نام سے ایک ایک حرف لے کر بنایا گیا ہے اور پنڈت دیانند کا بھی یہی اعتقاد ہے کہ اُوم کا لفظ ترہمورتی مذہب کا ایجاد ہے.مگر ترہمورتی مذہب یعنی جس میں تین مورتوں کی پرستش کا ذکر ہے وید میں نہیں ہے کیونکہ یوں تو وید میں بیسیوں دیوتاؤں کی پرستش کا ذکر ہے لیکن برہما، وشن، مہادیو کا کہیں نشان نہیں.ہاں وشن کی پرستش کے لئے ایک شُرتی آئی ہے مگر وہاں وشن کے معنی سورج ہیں.سورج وید کے دیوتاؤں میں سے ایک اوسط درجہ کا دیوتا ہے جس کا مرتبہ اگنی دیوتا سے کچھ نیچا اور بعض دوسرے دیوتاؤںسے کچھ اونچا ہے.اب دیکھئے منشی صاحب اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ ہندوؤں میں وجودِ حق کے لئے اُوم کا لفظ جو اسم ذات ہے قرار دیا گیا ہے.کیاافسوس کا مقام ہے کہ منشی صاحب نے ایک ناواقف آدمی کی تحریر فضول پر اعتماد کلی کر کے اُوم کے لفظ کو اسم ذات مقرر کر دیا.حالانکہ ابھی ہم ظاہر کر چکے.کہ اُوم کا لفظ ان متأخر مشرکین ہنود کا ایجاد ہے جنہوں نے برہما، وشن، مہادیو کی صورتوں کی پرستش اختیار کی تھی اور اب کرتے ہیں.ان کے دانشمند پنڈتوں میں سے کوئی بھی اس بات سے ناواقف نہیں کہ اُوم کا لفظ اسی ترہمورتی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختراع کیا گیا ہے.خدا سے اور خدا کی ذات سے اس کو کچھ علاقہ نہیں.بھلا اگر منشی صاحب کے نزدیک یہ اسم ذات ہی ہے تو پھر کئی پنڈت جیسے دیانند۱؎، کھڑک سنگھ،۲؎ پنڈت شاستری صاحب وغیرہ جو اب تک جیتے جاگتے موجود ہیں.اُن کی شہادت اپنے بیان پر پیش کریں.واضح رہے کہ ہندوؤں میں دو قسم کے مخلوق پرست ہیں.ایک تو وہ جو صرف وید کے دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور یہ فرقہ بہت کم پایا جاتا ہے اور دوسرے وہ گروہ جنہوں نے ترہمورتی کا مذہب ہزاروں برس کے بعد وید کے نکالا ہے.وہ برہما، وشن، مہادیو کو مانتے ہیں اور اُوم کے لفظ کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں.کیونکہ وہ ان کے دیوتاؤں کے ناموں کی طرف اشارہ کرتا ہے.بہرحال ہماری بحث صرف وید سے متعلق ہے اور ہر چند ہم جانتے ہیں کہ اُپنشدوں میں بہت سی ۱؎ مرگئے ۲؎ عیسائی ہوگئے تھے

Page 561

غلطیاں ہیں اور ہم نے اوّل سے آخر تک اُپنشدیں غور سے پڑھی ہیں اور اُن کے ذلیل اور غلط خیالات پر بفضل خداوند ہادی مطلق اطلاع پائی ہے لیکن ہم کو ان کتابوں کی تفتیش سے کچھ بھی غرض نہیں.جس حالت میں خود ہندوؤں کے محققین اُن اُپنشدوں کو برہمن پشتک جانتے ہیں تو پھر ہم کوکیا ضرور ہے کہ ان میں کچھ زیادہ طول کلام کریں.رہا وید سو ان میں جس قدر مخلوق پرستی ہے اُس کو تمام جاننے والے جانتے ہیں.پہلا وید اگنی کی ہی تعریف سے شروع ہوتا ہے.چنانچہ ستاتیس منتر تو اُس کی تعریف میں لکھے گئے ہیں اور پینتالیس منتر اندر کے مہابرنن میں ہیں.ایسا ہی ہوا اور پانی اور چاند اور سورج وغیرہ کی تعریف میں کئی منتر وید میں مندرج ہیں اور اگر منشی صاحب بطور نمونہ چاہیں تو ہم رگوید سنگتہا اشٹک اوّل پہلا ادہیائے اشلوک ایک میں سے چند شرتیاں لکھ دیتے ہیں تا منشی صاحب اپنے اُس کلمہ کو پھر یاد کریں کہ جو اُنہوں نے قرآن شریف کی عظمتوں اور بزرگیوں اور ہمارے ربّ کریم کے پاک اور کامل کلام کی شوکتوں اور شانوں کو یکبارگی نظر انداز کرکے جلد تر منہ سے نکال دیا اور کہا کہ وید میں بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں نہیں ہے اور میں قبل از بیان یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ سخت ابتلا منشی صاحب کو ایسی عادت کی وجہ سے پیش آ گیا ہے کہ جو اپنے خط میں آپ لکھتے ہیں کہ میں مذہبی جھگڑوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.گویا منشی صاحب اس کام کو بنظر تحقیر دیکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ سارا قرآن شریف مذہبی جھگڑوں کے ہی ذکر میں ہے اور جو لوگ خدا کے بڑے پیارے ٹھہرے اُنہوں نے اُنہیں جھگڑوں میں جانیں دی تھیں.جب تک طالب حق ان جھگڑوں میں نہ پڑے دل کا صاف ہونا ہرگز ممکن نہیں.علم عقائد اور علم فقہ اور علم تفسیر اور علم حدیث مذہبی جھگڑے ہیں جو شخص مذہبی جھگڑوں میں سے نفرت کر کے علم قرآن حاصل نہیں کرتا اور حق اور باطل میں تمیز کرنے کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا وہ بڑی خطرناک حالت میں ہے اور اُس کے سُوء خاتمہ کا سخت اندیشہ ہے.اب وہ شرتیاں جن کاو عدہ کیا گیا تھا یہ ہیں.(۱) میں اگنی دیوتا کی، جو ہوم کا بڑا گروکارکن اور دیوتاؤں کو نذریں پہنچانے والا اور بڑا ثروت والا ہے، مہما کرتا ہوں.اب اس جگہ اگنی کو ایک ایسا دیوتا مقرر کیا کہ جو بطور وکیل کے دوسرے دیوتاؤں کو نذریں پہنچاتا ہے.

Page 562

(۲) ایسا ہو کہ اگنی جس کا مہما زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں.دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے.اس میں بھی آگ کو وکیل ٹھہرا کر اُس سے یہ چاہا ہے کہ وہ دیوتاؤں کو بھی ہندوؤں پر مہربان کرے.(۳) اے اگنی! دیوتاؤں کو یہاں لا.اُن کو تین جگہ بٹھا آراستہ کر.اب دیکھئے! ان شرتیوں میں کچھ خدا تعالیٰ کا بھی پتہ لگتا ہے اور پھر اُن کے بعد اِندر کی بھی مہما لکھی ہے اور ایک شرتی میں اِندر کو کوشیکا کا بیٹا ٹھہرایا ہے اور کوشیکا گزشتہ زمانہ میں ایک رشی تھا.شارح اس کے یہ معنی لکھتا ہے کہ کوشیکا رشی کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی تھی.تب اُس نے اِندر دیوتا کی اشنٹ شروع کی اور بہت تپ جپ کیا اور چونکہ کوشیکا کے گھر میں بیٹا ہونا مقدر نہیں تھا مگر اِندر کو اُس پر رحم آیا.تب اِندر آپ ہی اُس کی عورت کے رحم میں جا پڑا اور تولد پا کر اُس کا بیٹا بن گیا.تب سے اِندر کا، کوشیکا کا بیٹا، نام رکھا گیا.اب مناسب ہے کہ منشی صاحب، عبدالمعبود صاحب سے جو اُن کے زعم میں وید کے عالم ہیں.ان شرتیوں کے معنی پوچھیںکہ کیونکر ایک خدا کئی دیوتاؤں پر منقسم ہو گیا اور آگ و ہوا، پانی، سورج، چاند کا جسم پکڑا اور کیونکر وہ کوشیکا کے گھر میں پیدا ہوا.کیا یہ ایسا امر ہے جو چھپ سکتا ہے.پنڈت دیانند نے ناخنوں تک زور لگایا کہ وید میں توحید ثابت کرے.مگر آخر ناکام رہا.شاید ۱۸۷۶ء کا ذکر ہے کہ پنڈت دیانند نے کچھ اجزا وید بھاش کے تیار کر کے گورنمنٹ میں مع اپنے عریضہ کے بھیجے اور یہ درخواست کی کہ اُس کا یہ بھاش جس میں جا بجا سودائیوں کی طرح دیوتاپرستی کی دو ر از کار تاویلیں لکھی ہیں اور خواہ نخواہ وید کو مُعَلِّمُ التَّوحِید قرار دینا چاہا ہے.یونیورسٹی میں پڑھایا جائے.گورنمنٹ نے بعض نامی گرامی پنڈتوں سے کیفیت طلب کی کہ آیا وید میں مخلوق پرستی ہے یا نہیں.تو اُن سب نے بالاتفاق یہ کیفیت لکھی کہ وید میں دیوتا پرستی کی تعلیم ضرور ہے اور دیانند جو کچھ تاویلیں کرتا ہے یہ صحیح نہیں ہیں.اُن دنوں میں یہ تذکرہ اخبار وکیل شہر امرتسر میں بھی چھپ گیا تھا اور پھر اس عاجز نے بھی پنڈت دیانند کو لکھا کہ وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم میں اگر کچھ عذر ہے تو کسی جگہ یہ ثابت کر کے دکھلاویں کہ وید میں آگ اور پانی اور سورج اور چاند وغیرہ مخلوق چیزوں کی پرستش سے کسی جگہ ممانعت بھی لکھی ہے اور کسی جگہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ

Page 563

اے بندگان خدا! جو کچھ رگوید وغیرہ میں مخلوق چیزوںکی پرستش کا حکم پایا جاتا ہے اور اُن سے مرادیں مانگی گئی ہیں اور پانی اور آگ اور سورج اور چاند وغیرہ سے خدا ہی مراد ہے.تم نے دھوکہ نہ کھانا اورخدا کو واحد لاشریک سمجھنا اور ویدوں میں جو مخلوق پرستی کی تعلیم ہے اُس پر کچھ اعتبار نہ کرنا.لیکن پنڈت صاحب نے ہرگز ثابت نہ کیا اور کیونکر ثابت کر سکتے؟ ویدوں میں تو اس قدر مخلوق پرستی کھلی کھلی بیان ہے کہ کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتی.ابتدا میں برہمو سماج والوں نے ویدوں کے پڑھنے میں بڑی کوشش کی اور اُن کے بعض نامی گرامی آدمیوں نے بڑی محنت سے ویدوں کو پڑھا.سو آخر کار انہوں نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ وید مخلوق پرستی سے بھرا ہوا ہے.ابھی پنڈت شیونرائن نے تنقیح سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں مفصل طور پر بیان کیا ہے کہ وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم بکثرت ہے اور نیز کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ گورنر بمبئی نے ہندوؤں کی تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے اور یہ گورنر اپنی قوم میں فضیلت علمی سے نہایت مشہور ہے اور آنریبل کے لقب سے ملقّب ہے.اُس نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۹ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اکثر مقامات میں بید میں خدا کا ذکر بھی ہے.لیکن بید کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے بعض کو انسان سے برتر پیدا کیا ہے.سُو اُن دیوتاؤں کی پرستش کرنی چاہئے اور وہ دیوتا جن کی پرستش کا وید میں حکم ہے.پانی اور آگ اور خاک اور ستارے وغیرہ ہیں.اب دیکھئے! کہ اس آنریبل نے بھی ہماری رائے سے اتفاق کیا.پھر پنڈت سروہا رام پھلوری نے ایک رسالہ بنایا ہے اس میں تو علاوہ مخلوق پرستی کے مورتی پوجا یعنی بت پرستی کا ثبوت بھی دیا ہے.لیکن برہمو سماج والوں نے ان دلائل کو قبول نہیں کیا.اُن کا بیان ہے کہ ویدوں میں دیوتا پرستی تو ضرور ہے اور بِلاشُبہ آگ و پانی وغیرہ چیزوں کی پرستش کے لئے اس میں صریح حکم ہے اور اُن چیزوں کی حمدو ثنا ہے لیکن مورتی پوجا کا صریح طور پر اس میں حُکم نہیں پایا جاتا.چنانچہ بابو نوین چندررائے نے جو اَب لاہور میں موجود ہیں اور ویدوں کو سنسکرت میں پڑھا ہوا ہے اپنی کتاب اکشاستک میں اُس کو بہ تفصیل لکھا ہے اُن کی یہ اپنی عبارت ہے کہ برتمالو جن کا بدہان بیدوں میں نہیں پایا جاتا.مخلوق پرستی کی تعلیم بھی اور کسی جگہ نہیں.اس کا یہ باعث ہے کہ وید ایک شخص کی تالیف نہیں ہے.وید متفرق لوگوں کے خیالات ہیں.پس جن پر مخلوق پرستی غالب ہے اُنہوں نے اپنے کلام میں

Page 564

مخلوق پرستی کی تعلیم کی، اور جو لوگ کچھ توحید پسند کرتے تھے اُنہوں نے توحید میں گفتگو کی لیکن جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں پروفیسر ولسن صاحب کی یہ رائے ہے کہ جہاں تک ہم نے ویدوں کو دیکھا ہے ان تمام مواضع میں مخلوق پرستی بھری ہوئی ہے اور خالق الکائنات کا نام و نشان.(نہیں) اب قصہ کوتاہ یہ کہ جن ویدوں کا یہ حال ہے کہ باتفاق تمام محققین کے مخلوق پرستی کی تعلیم کرتے ہیں.اُن کی تعریف کرتے وقت خدا سے ڈرنا چاہئے اور جو منشی صاحب لکھتے ہیں کہ ویدوں میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت ہے ان باتوں کو منشی صاحب پوشیدہ رکھیں تو بہتر ہے.تامخالف خواہ نخواہ ہنسی نہ کریں.ان دنوں میں وید کوئی ایسی چیز نہیں کہ کسی جگہ دستیاب نہ ہو.جا بجا کتب فروشوں کی دوکان میں پائے جاتے ہیں.صدہا آدمی وید خوان ہیں.یہاں تک کہ اس عاجز کے گاؤں کے قریب ایک دہقان چاروں وید پڑھ کر آ گیا ہے اور وید اُس کے پاس موجود ہیں.کئی دفعہ اُس کا مجھ سے مباحثہ بھی ہوا ہے.رگوید اس عاجز کے پاس بھی موجود ہے اور پنڈت دیانند اور بعض اور پنڈتوں کے کچھ کچھ اجزا وید بھاش کے بھی موجود ہیں اور انگریزوں نے بھی بڑی محنت سے ویدوں کو ترجمہ کیا ہے.منشی صاحب کا خیال مجھ کو اس قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ جو ابوالفضل نے آئین اکبری میں ایک قصہ لکھا ہے کہ اکبر بادشاہ کے وقت دکھن کی طرف سے ایک پنڈت آیا اور اُس کا دعویٰ تھا کہ ویدوں میں کلمہ شریف لکھا ہوا ہے.بادشاہ نے بڑے بڑے پنڈت اکٹھے کئے، تا دیکھیں کہ اگر فی الحقیقت کلمہ طیبّہ وید میں لکھا ہوا ہے تو ہندوؤں کی ہدایت کے لئے یہ بڑی حجت ہوگی.جب پنڈت جمع ہوئے اور اُن کو وہ موقع دکھایا گیا تو اُس کے کچھ اور ہی معنی نکلے.جس کو کلمہ طیبہ سے کچھ علاقہ نہیں.تب بڑی ہنسی ہوئی اور وہ پنڈت جو ایسا دعویٰ کرتا تھا بڑا شرمندہ ہوا.آپ کی تاکید کی وجہ سے یہ لکھا گیا.نواب محمد علی خان صاحب کو کسی اور موقعہ پر اس عاجز کی طرف سے تعزیت کریں.دنیا مصیبت خانہ ہے.خداوند کریم اس مصیبت عظمیٰ کا اُن کو اجر بخشے اور صبر جمیل عطا فرماوے.۱۱؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۶؍ رمضان ۱۳۰۰ھ

Page 565

Page 566

کوشش اور محنت اور مشقت کا سلسلہ جاری رہے اور ثابت قدمی اور استقامت اور وفا اور حسن ظن میں کچھ فرق نہ آوے بلکہ اپنے سینہ میں انشراح اور اپنی طبیعت میں انبساط پاوے.اور اپنے کاموں سے خداوندکریم پر کچھ احسان نہ سمجھے تو جاننا چاہئے کہ اُس کے اجر کا وقت نزدیک ہے..۱؎ مبارک وہ لوگ جو خدمت سے سیر نہ ہوں اور جلدی نہ کریں.پھر دیکھیں کہ مولیٰ کریم کیسا خادم نواز ہے.عیالداری کے تردّدات آپ کو ہوں گے.مگر اُن تردّدات سے خداوند کریم بے خبر نہیں.جن فکر کی باتوں کو ایک عاجز بندہ رات کو اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا سوچا کرتا ہے یا دن کو اپنے گھر میں جا کر بعض وقت یہ تنگیاں اس پر آ پڑتی ہیں.ان سب تنگیوں اور تکلیفوں کو خداوندکریم اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور کچھ دنوں تک اپنے بند ہ کو ابتلا میں رکھتا ہے.پھر یک مرتبہ نظر عنایت سے دیکھتا ہے اور اُس پر وہ دروازے کھولے جاتے ہیں جن کی اُس کو کچھ خبر نہیں تھی .۲؎ کیا جس کا خدا حَيّ، قـیَّوم، قَادر، مہربان موجود ہے وہ کچھ غم کر سکتا ہے.غم اور ایمان کامل ایک جگہ کبھی جمع نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں..۳؎ والسلام ۲۵؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ رمضان 1300ھ ۱؎ التَّوبۃ: ۱۲۰ ۲؎ الاعراف: ۱۹۷ ۳؎ یونس: ۶۳

Page 567

مکتوب نمبر۲۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ھٰذا عنایت نامہ آن مخدوم پہنچا.منشی صاحب کے خیالات اگرچہ بہت ہی حیرت انگیز ہیں.پر اس پُرفتنہ زمانہ میں جائے تعجب نہیں.خداوندکریم رحم کرے.منشی صاحب جو ہندوؤں کی کئی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں.اُن کو یہ بھی خبر نہیں کہ اکثر ان کتابوں میں سے اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں اور منوکادہرم شاستر تو سرکاری طور پر بھی ترجمہ ہو کر وکلا کی امتحانی کتابوں میں داخل ہے اور گیتا اُردو میں ترجمہ کی ہوئی موجود ہے اور ایک ہندو نے اُس کو نظم میں بھی کر دیا اور شام وید اور اتھرون وید بھی کچھ پوشیدہ کتابیں نہیں ہیں.آج کل آریہ سماج والوں کی دستاویز بھی یہی کتابیںہیں اور یہ شام اور اتھرون اور رِگ اور یجر دیانند کے پاس موجود ہیں اور اس کے وید بھاش ماہ بماہ چھپتے ہیں.ایک طرف انگریزوں نے بھی ویدوں کو انگریزی میں ترجمہ کر دیا ہے.برہمو سماج والے بھی ویدوں کی حقیقت پر بکلّی ماہر ہیں.کچھ حصہ وید کا اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے اب کیا ممکن ہے کہ یہ تمام لوگ اتفاق کر کے ایک پیشگوئی جو وید میں صریح وارد ہوچکی تھی چھپاتے؟ ہرگز ممکن نہیں.وید کے محققوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وید میں کسی قسم کی پیشگوئی نہیں یہاں تک کہ پنڈت دیانند کا مقولہ ہے کہ وید میں رام چندر و کرشن وغیرہ کے پیدا ہونے کی بابت بھی کوئی تذکرہ نہیں اور یہ بات اور بھی عجیب ہے کہ پہلے منشی صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور و بعثت کی خبر ویدوں میں لکھی ہے.پھر اب یہ دعویٰ ہے کہ وہ خبر پورانوں اور پوتھیوں میں بھی لکھی ہے یہ اچھا ہوا کہ منشی صاحب کو بحث مباحثہ کا شوق نہیں ورنہ پنڈتوں اور انگریزوں اور برہمو سماج والوں کے روبرو بڑی بڑی ندامتیں اُٹھاتے.اب آپ اس تذکرہ کو طول نہ دیں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں.اور جو کچھ منشی صاحب نے کلمات الحاد آمیز لکھے ہیں اور اُن کی تائید میں شعروں کا حوالہ دیا ہے.اُن کے جواب میں بجز اس کے کیا کہا جائے کہ اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 568

.۱؎ .۲؎ سچا رہنما قرآن شریف ہے اور اُس کی پیروی اسی جہان میں نجات کے انوار دکھلاتی ہے اور سعادتِ عظمیٰ تک پہنچاتی ہے.۳؎ جو شخص معارفِ حَقّہ کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کرے اور صرف قیل و قال میں نہ پھنس رہے.اُس پر بخوبی واضح ہو جائے گا کہ باطنی نعمتوں کے حاصل کرنے کیلئے صرف ایک ہی راہ ہے.یعنی یہ کہ متابعت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کی جائے اور تعلیم قرآنی کو اپنا مُرشد اور رہبر بنایا جاوے.یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہندوؤں اور عیسائیوں میں کئی لوگ ریاضت اور جوگ میں وہ محنت کرتے ہیںکہ جس سے اُن کا جسم خشک ہو جاتا ہے اور برسوں جنگلوں میںکاٹتے ہیںاور ریاضاتِ شدیدہ بجا لاتے ہیں.لذّات سے بکلّی کنارہ کش ہو جاتے ہیں.مگر پھر بھی وہ انوارِ خاصہ اُن کو نصیب نہیں ہوتے کہ جو مسلمانوں کو باوجود قلّتِ ریاضت و ترک رہبانیت کے نصیب ہوتے ہیں.پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ صراطِ مستقیم وہی ہے جس کی تعلیم قرآن شریف کرتا ہے.بلاشُبہ یہ سچ بات ہے کہ اگر کوئی توبہ نصوح اختیار کر کے دس روز بھی قرآنی منشاء کے بموجب مشغولی اختیار کرے تو اپنے قلب پر نور نازل ہوتا دیکھے گا.یہ خصوصیت دین اسلام کی بلا امتحان نہیں.صدہا پاک باطنوں نے اس راہ سے فیض پایا ہے.جو لوگ سچے دل سے یہ راہ اختیار کرتے ہیں خدا اُن کو ہرگز ضائع نہیںکرتا.اور اُن میں وہ انوار پیدا کر دیتا ہے جس سے ایک عالم حیران رہ جاتا ہے.بجز اس کے سب حجاب ہیں جو اُن لوگوں کو پیش آئے جن کا سلوک کمال تک نہیں پہنچا تھا.کاش! اگر وہ زندہ ہوتے تو انکی حقیقت باطنی کھل جاتی.کئی ایسے آدمی ہیں جن کی بیہودہ تعریفیں کی گئی ہیں لیکن کاملوں کا نشان یہی ہے کہ وہ اپنے نبی معصوم کی پوری پوری متابعت اختیار کرتے ہیں اور اُس کی محبت میں محو ہیں.مسلم اور غیر مسلم میں صریح فرق ہے اور کوئی ایسا طالب نہیں جس پر یہ فرق ظاہر نہ ہو سکے.پھر مشکل تو یہ ہے کہ بعض لوگ طالب ہی نہیں ہیں.دُنیا کے لئے کیا کچھ محنت نہیںکرتے.ایک پیسہ کا مٹی کا برتن بھی دیکھ بھال اور ٹھوک بجا کر لیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی ٹوٹا ہوا نکلے.لیکن دین کا کام ۱؎ اٰلِ عمران: ۲۰ ۲؎ اٰلِ عمران: ۸۶ ۳؎ بنی اسراء یل: ۷۳

Page 569

صرف زبان کے حوالہ کر رکھا ہے اور ہرفعل کی سچائی امتحان سے اس کو نہیں آزماتے اور آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے اور دلی اخلاص سے طالب بن کر جستجو نہیں کرتے..۱؎ وَسَلَامٌ عَلَیْکُمْ وَعَلٰی کُلِّ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.٭ یکم اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ رمضان ۱۳۰۰ھ مکتوب نمبر۲۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ھٰذا آں مخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کی حالت میں پہنچا.خداوند کریم کے تفضّلات اور احسانات کا کہاں تک شکر کروں اور کیونکر اُس کی نعمتوں کا حق بجا لاؤں کہ اس پُر ظلمت زمانہ میں مجھ جیسے غریب، تنہا، بے ہُنر کے لئے آپ جیسے مخلص دوست اُس نے میسر کئے.سو اُسی سے میں یہ دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو اپنے الطافِ جلیّہ اور خفیّہ سے متمتع کرے اور اپنے توجہات خاصہ سے دستگیری فرماوے اور اپنی طرف انقطاعِ کامل اور تبتّلِ تام بخشے.آمین ثم آمین.اور یہ تبتّلِ تام جس کی آپ تشریح دریافت بھی کرتے ہیں.یہ ایک بڑا مقام اعلیٰ ہے جو بغیر فنائے اَتم کامل طور پر حاصل نہیںہوتا.بلکہ فی الحقیقت اسی کا نام فنائے اَتم ہے کہ تبتّلِ تام حاصل ہو جائے اور تبتّلِ تام تب حاصل ہوتا ہے کہ جب ہر ایک حجاب کا خرق ہو کر رابطہ انسان کا محبت ذاتی تک پہنچ جائے.حجاب دو قسم کے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو بدیہی طور پر معلوم ہوتے ہیں اور کچھ نظر اور فکر کی حاجت نہیں.جیسے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف توجہ کرنا.مخلوق سے مرادیں اور حاجات مانگنا اور مخلوق کواپنا تکیہ گاہ اور پناہ سمجھنا.اپنے ننگ اور ناموس اور عزت اور نام کی حفاظت میں مبتلا رہنا اور بجز ایک متصرفِ حقیقی کے کسی سے خوف یا کسی پر کچھ امید رکھنا اور زید وعمر کے وجود کو وجود سمجھنا.کسی کو کارخانہ ربوبیت کا شریک سمجھ کر حق ربوبیت میں شریک ٹھہرا دینا.عبادات یا اعتقادات میں کسی کو خدا تعالیٰ کی طرح خیال کرنا.حضرت باری کے امر اور نہی کو توڑ کر اپنے نفس کی خواہشوں کا تابع ہونا اور نفسِ امّارہ کی ۱؎ الشعرآء: ۲۲۸.٭ اخبار الحکم نمبر۱۹ جلد۳.۲۶ مئی ۱۸۹۹ء

Page 570

پیروی کرنا اور بندگی اور فرمانبرداری کی حد پر نہ ٹھہرنا.یہ تو وہ سب حجب ہیں جو بدیہی ہیں.جو عام طور پر ہر ایک کو سمجھ آ سکتے ہیں.بشرطیکہ فطرت صحیحہ میں کچھ خلل نہ ہو.دوسری قسم کے حجاب وہ ہیں جو نظری ہیں.جن کے سمجھنے کے لئے کامل درجہ پر عقل سلیم اور فہم مستقیم چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اسماء اور صفاتِ الٰہیہ تک رابطہ محدود رہے اور ذات بحت سے حقیقی طور پر تعلق حاصل نہ ہو.اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی عبادت بغرض حصول اُس کے انعام و اکرام کے کرتا ہے وہ ہنوز اسماء و صفاتِ الٰہیہ پر نظر رکھتا ہے اور محبت ذاتی کے شربت عذب سے ابھی کچھ اُس کو نصیب نہیں اور اس کا رابطہ معرضِ خطر میں ہے کیونکہ اسماء و صفاتِ الٰہیہ ہمیشہ ایک ہی رنگ میں تجلی نہیں فرماتیں.کبھی جلال اور کبھی جمال اور کبھی قہر اور کبھی لطف ہوتا ہے.غرض ان دونوں قسموں کے حجابوں سے جو شخص باہر آجائے اور اپنے مولیٰ حقیقی سے ذاتی طور پر محبت پیدا کرے اور اس محبت کی راہ میں کوئی روک نہ رہے اور نہ منجملہ ظاہری اور باطنی اور آفاقی اور انفسی حجابوں کے کوئی حجاب بھی نہ رہے تو یہ وہ مرتبہ ہے جس کو تبتلتام کہناچاہئے.اس مرتبہ کا خاصہ ہے کہ انعام اور ایلام محبوب کا ایک ہی رنگ میں دکھائی دیتا ہے بلکہ بسا اوقات ایلام سے اور بھی زیادہ محبت بڑھتی ہے اور پہلی حالت سے آگے قدم بڑھتا ہے.بات یہ ہے کہ جب محبت ذاتی کی موجیں جوش میںآتی ہیںتو اسماء اور صفات پر نظر نہیں رہتی اور انسان کا سارا آرام محبوب حقیقی کی یاد میں ہو جاتا ہے اور حبُّ اللہ کا تعلق ذات باری کی طرح بیچوںاور بیچگوں ہوتا ہے اور محب صادق کسی کو اس بات کی وجہ نہیں بتلا سکتا کہ کیوں وہ اس محبوب سے محبت رکھتا ہے اور کیوں اس کیلئے بدل و جان فدا ہو رہا ہے.اور اس محبت اور اطاعت اور جاں فشانی سے اُس کی غرض کیا ہے کیونکہ وہ ایک جذبہ الٰہی ہے جو بطور موہبت خاصہ محب صادق پر پڑتا ہے.کوئی مصنوعی بات نہیں جس کی وجہ بیان ہو سکے.یہی انقطاعِ حقیقی اور تبتّلِ تام کی حالت ہے اور یہی وہ موت روحانی ہے جس کی اہل اللہ کے نزدیک فناء سے تعبیر کی جاتی ہے کیونکہ اس مرتبہ پر نفس اِمّارہ کا بکلّی تزکیہ ہو جاتا ہے اور بباعث محبتِ ذاتی کے اپنے مولیٰ کریم کی ہر ایک تقدیر سے موافقتِ تامہ پیدا ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس دوست کے ہاتھ سے پہنچتا ہے پیار ا معلوم ہوتا ہے اور اس کا قہر اور لطف سب لطف ہی دکھائی دیتا ہے اور حقیقت میں وہ سب لطف ہی ہوتا ہے.پھر محبِ صادق نہ قہر سے غرض رکھتا ہے نہ لطف سے.

Page 571

غریق ورطۂ بحر محبت نہ بر مہرش نظر باشد نہ برکیں بگوش عاشق ازلب ہائے دلدار چناں نفریں عزیز آید کہ تحسیں چناں رویش خوش افتد از سر عشق کہ قرباں میکند بروے دل و دیں شب و روزش بدیں سرکار باشد دل و جانش شودآں یار شیریں بسوزد ہر چہ غیر یار باشد ہمیں ایں عشق را رسم است و آئین اور اس عاجز کا یہ مصرع کہ (درثمین فارسی) قربان میکند بروے دل و دین یہ معنی رکھتا ہے کہ قبل از جذبہ عشق جو کچھ انسان کے دل میں رسوم اور عادات بھری ہوئی ہوتی ہیں اور جو کچھ جہل مرکب کی باتیں اور پُر تعصب خیالات اس کے سینہ میں جمعے ہوتے ہیں.اصل میں وہی اس کا دین ہوتا ہے جس کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتا اور جب جذبۂ عشق اس پر غالب آتا ہے تو وہ خیالات کہ جو تپ دِق کی طرح رگ و ریشہ سے ملے ہوئے ہوتے ہیں بآسانی چھوٹ جاتے ہیں.اور پھر بعد اس کے عشق الٰہی ایک پاک دین کی تعلیم کرتا ہے کہ جو عادات اور رسم کی آلودگی سے منزہ ہے اور تعصبات کے لوث سے پاک ہے.پس نافع اور مبارک دین وہی ہوتا ہے جو عشق کے بعد آتا ہے اور جو عشق کے اوّل خیالات ہیں، وہ بہت سے زہروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ اس لائق ہیں کہ عشق پر فدا کئے جائیں اور اُن کے عوض میں وہ پاک خیال کہ جو عشق کے صافی چشمہ سے نکلے ہیں اور جو ہر ایک تعصب اور رسم اور عادات سے منزہ ہیں حاصل کئے جائیں.اور یہ خیالات ایسی سختی سے نفس پر قابض ہوتے ہیں کہ بغیر جذبۂ عشق کے ہرگز ممکن ہی نہیں کہ اُٹھ سکیں.مدارِ کار جذبہ عشق پر ہے جو قلب پر مستولی ہوتا ہے.اور جب وہ مستولی ہوتا ہے تو نفس اپنی اندرونی آلائش سے پاک ہو جاتا ہے اور نفس کے چھپے ہوئے جو عیب تھے اُس سے دور ہوتے ہیں کہ جب عشق الٰہی کی بھڑکتی ہوئی آگ دل پر وارد ہوتی ہے.تو اعمالِ صالحہ جن پر کشود کار موقوف ہے تب ہی صادر ہوتے ہیں کہ جب اُن کو حرکت دینے والا عشق ہوتا ہے کوئی اور غرض فاسد نہیں ہوتی اور مجرد اعمال صَوری اور عبادات رسمی سے کوئی عقدہ نہیں کھلتا بلکہ جب تک سالک رسم اور عادات کی بَدبُودار مزبلہ سے باہر نہیں آتا مورد غضبِ الٰہی رہتا ہے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے منہ پھیر رہا ہے

Page 572

اور اُس کے غیر کی طرف متوجہ ہے.وجہ یہ کہ رسم اور عادات بھی ماسوا اللہ ہے اور ہر یک ماسوا اللہ خدا سے دُور ڈالتا ہے اور سلامتی قلب میں خلل انداز ہے.سو سالک کے لئے جو بات سب سے پہلے لازم ہے وہ یہی ہے کہ رسم اور عادات سے باہر ہو اور پھر خلوص نیت سے ۱؎ پر عمل کرے تا اپنے فرض سے شفا پاوے اور ایمانِ حقیقی سے حصہ حاصل کرے.مگرافسوس کہ بہت سے علماء ظاہری اسی سے تباہ ہو رہے ہیں کہ رسوم اور عادات کے رنگ میں ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں اور جس حقیقت اور حق بینی سے انسان کا دل منور ہوتا ہے اور جس دولت اور سعادت سے باطنی افلاس دور ہوتا ہے اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے.کیا بدقسمتی ہے.ہائے! ہائے! خلق و عالم جملہ در شور و شر اند عشق بازاں در مقام دیگر اند گر دلا زین کوچہ بیروں نگذریم ہم سگان کوچہ از ما بہتراند خداایسا نہیں کہ دھوکا کھا سکے.اس کی دلوں پر نظر ہے اور حقیقتوں پر نگاہ ہے.وہ رسموں اور عادتوں سے ہرگز خوش نہیں ہوتا اور جب تک بندہ مقام اخلاص کا حاصل نہ کرے.یعنی مرنے سے پہلے ہی نہ مرے اور آفاقی اور انفسی شرکوں سے بکلّی باہر نہ آجائے تب تک الطافِ الٰہیہ اس کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہوتیں.تب ہی کمال ایمان میسر آتا ہے کہ جب وہ موت کہ جس کو ابھی میں نے اخلاص سے تعبیر کیا ہے انسان منظور کر لیتا ہے اور ۲؎ کے گروہ میں داخل ہو جاتاہے.اور حقیقت اسلام بھی تبھی اپنا چہرۂ مصفّا دکھاتی ہے کہ جب یہ موت حاصل ہو جائے.حق تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اور ہر ایک کو جو طالب ہے اس اخلاص سے بہرہ مند کرے.زمانہ سخت زہرناک ہوائیں چلا رہا ہے جس سے تمام کاروبار منقلب ہوا جاتا ہے.ہر یک بات مالک حقیقی کے اختیار میں ہے.ہم عاجز بندوں کا کام عبودیت ہے.فتح اور شکست سے مطلب نہیں.عبودیت سے مطلب ہے، اس راہ میں جنہوں نے بہت سی خدمتیں کیں پھر بھی وہ سیر نہ ہوئے.پھر ہمیں کیونکر آرام ہو جنہوں نے اب تک کچھ بھی نہیں کیا.سو ہمارا سب غم و حزن خدا کے سامنے ہے.ابھی یہ حال ہے کہ جو صرف بیرونی حملوں پر کفایت نہیں بلکہ بعض ناشناس بھائی اندرونی حملہ بھی کر رہے ہیں لیکن ہم عاجز بندوں ۱؎ الحشر: ۸ ۲؎ المائدۃ: ۵۵

Page 573

کی کیا حقیقت اور بضاعت ہے.وہی ایک ہے جس نے اپنے عاجز اور ناتواں بندہ کو ایک خدمت کیلئے مامور کیا ہے.اب دیکھئے کہ کب تک اس ربُّ العرش تک اس عاجز کی آہیں پہنچتی ہیں.آپ نے لکھا تھا کہ بعض احباب علماء کی طرف سے یہ فتویٰ لائے ہیں کہ اتباع قال اللہ وقال الرسول اور ترجیح اُس کی دوسرے لوگوں کے قولوں پر کفر ہے مگر یہ بندہ عاجز کہتا ہے کہ زہے سعادت کہ کسی کو یہ کفر حاصل ہو.گر ایں کفرم بدست آید برو قربان کنم صد دین خداوندا بمیرانم بریں کفروبریں آئیں حضرت افضل الرسل، خیر الرسل، فخر الرسل، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اور اس کی پاک اور کامل حدیث اور خدا کا سچا نور اور بلاریب کلام ترک کر کے پھر اور کونسی پناہ ہے جس طرف رُخ کریں اور اُس سے زیادہ کون سا چہرہ پیارا ہے جو ہماری دلبری کرے.گر مہر خویش برکنم از روئے دلبرم آن مہر برکہ افگنم آن دل کُجا برم من آں نیم کہ چشم بہ بندم ز روئے دوست ور بینم ایں کہ تیر بیائد برابرم آپ کسی کی بات کی طرف متوجہ نہ ہوں اور عاشق صادق کی طرح قول سے، فعل سے، مدح سے، ثنا سے، متابعت سے فنا فی الرسول ہو جائیں کہ سب برکات اسی میں ہیں.اکثر لوگوں پر عادت اور رسم غالب ہو رہی ہے اور بڑی بڑی زنجیریں پاؤں میں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی اس طرف آنہیں سکتا.مگر جس کو خدا کھینچ کر لاوے.سو صبر سے، استقامت سے اُن کے جوروجفا کا تحمل کرنا چاہئے دنیا اُنہیں سے دوستی رکھتی ہے جو دنیا سے مشابہ ہوتے ہیں مگر جو خدا کے بندے ہیں گو وہ کیسے ہی تنہا اور غریب ہوں تب بھی خدا اُن کے ساتھ ہے .۱؎ آپ کے سب دوستوں کو سلام مسنون پہنچے.٭ ۱۹؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ شوال ۱۳۰۰ھ ۱؎ المؤمن: ۲۹ ٭ الحکم ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ۱ تا ۳

Page 574

مکتوب نمبر۲۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز دعا سے غافل نہیں مگر ہر ایک امر وقت پر موقوف ہے اور آپ میں آثار سعادت اور رُشد کے ظاہر ہیں کہ آپ کی حقیقت بینی پر نظر ہے اور صدق اور خلوص اور وفا اور حسن ظن کا خُلق موجود ہے.پس یہ وہ چیزیں ہیں کہ جس کو مولیٰ کریم کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں اس کیلئے استقامت کا عطا ہونا ساتھ ہی مقدر ہوتا ہے.خداوند تعالیٰ بغایت درجہ کریم و رحیم ہے.وہ جس دل میں ایک ذرّہ بھی اخلاص اور صدق پاتا ہے اُس کو ضائع نہیں کرتا.آپ بعض اپنے دوستوں کی تغیر حالت سے دل شکستہ نہ ہوں.مولوی صاحب کی وہ حالت ہے کہ نہ اُنہوں نے ارادت کے وقت اس عاجز کو شناخت کیا اور نہ فسخ ارادت کے وقت پہچانا.سو اُن کی نہ ارادت قابلِ اعتبار تھی اور نہ اب فسخ ارادت معتبر ہے.ارادت اور فسخ ارادت وہی معتبر ہے جو علیٰ وجہ البصیرت ہو.اور اگر علی وجہ البصیرت نہیں تو کچھ بھی نہیں.مسجد کا زینہ تیار ہو گیا ہے.عجب فضل الٰہی ہے کہ شاید پرسوں کے دن یعنی بروز سہ شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک اور فقرہ الہام ہوا.اور وہ یہ ہے.فِیْہِ بَرَکاَتٌ لِلنَّاسِ.۱؎ یعنی اس میں لوگوں کیلئے برکتیں ہیں.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ ہرسہ حصہ کی کتابیں اگرچہ اس وقت زبانی یاد نہیں مگر شاید قریب دو سَو کے کتاب باقی ہوگی.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ صفحہ۳۱ فتوح الغیب کی شرح یہ ہے کہ سالک کا چار حالتوں پر گذر ہوتا ہے اور حالت چہارم سب سے اعلیٰ ہے اور وہی ترقیات قُرب کا انتہائی درجہ ہے جس پر سلسلہ کمالات ولایت کا ختم ہو جاتا ہے.تفصیل اس کی یہ ہے کہ پہلی حالت وہ حالت ہے کہ جب انسان ناسوتی اندیشوں میں مبتلا ہوتا ہے اور ُشتر بے مہار کی طرح جو چاہتا ہے کھاتا ہے اور جو چاہتا ہے پیتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے چلتا ہے.سو وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ ناگاہ حضرت خداوندکریم اُس پر نظر کرتا ہے اور باطنی اور ظاہری ۱؎ تذکرہ صفحہ۸۶.ایڈیشن چہارم

Page 575

طور پر توبہ کا سامان اس کے لئے میسر کر دیتا ہے.باطنی طور پر یہ کہ یک بیک ایک جذبہ قویہ خداوندکریم کی طرف سے اس کے شاملِ حال ہو جاتا ہے اور وہی جذبہ درحقیقت واعظ باطنی ہے اور اُسی سے فسق و فجور کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں اور انسان اپنے نفس میں قوت پاتا ہے کہ تا نفسِ امّارہ کی پیروی سے دستکش ہو جائے اور اگرچہ پہلے اس سے ایک اور کمزور جیسا واعظ بھی انسان کے نفس میں موجود ہے جس کو لِمَّۃُ المَلَک سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ بھی نیکی کے لئے سمجھاتا رہتا ہے اور نیک کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ اچھا کام کیا ہے اور بَد کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ بَد کام کیا ہے.یہاں تک کہ چور چوری کرنے کے بعد اور زانی زنا کرنے کے بعد اور خونی خون کرنے کے بعد کبھی کبھی باوجود اُن سخت پردوں کے اُس لِمَّۃُ المَلَککی آواز سن لیتا ہے.یعنی اُس کا دل فی الفور اُسے کہتا ہے کہ یہ تو نے اچھا کام نہیں کیا.بُرا کیا ہے لیکن چونکہ یہ ضعیف واعظ ہے اس لئے اُس کا وعظ اکثر بے فائدہ جاتا ہے اور اگرچہ اس کے ساتھ کوئی واعظ ظاہر بھی مل جائے یعنی کوئی صالح انسان نصیحت بھی کرے تب بھی کچھ کار براری کی امید نہیں کیونکہ نفس سخت اژدھا ہے کمزوروں سے وہ قابو میں نہیں آتا اور اگر کچھ مغلوب بھی ہو جاتا ہے تو صرف اسی قدر کہ عارضی اور بے بنیاد توبہ کرتا ہے اور حقیقی سعادت کی تبھی نسیم چلتی ہے کہ جب جذبہ الٰہی شاملِ حال ہو.سو کامل واعظ جو باطنی طور پر بھیجا جاتا ہے جذبہ ہے اور ظاہری طور پر توبہ کا یہ سامان میسر ہو جاتا ہے کہ کسی صالح کی صحبت میسر آ جاتی ہے اور فسق و فجور کے مہلک زہر سے اطلاع ہو جاتی ہے.سو یہ دونوں مل کر چکی کے دو پاٹ کی طرح نفس امّارہ کو پیس ڈالتے ہیں اور بجبرواکراہ معاصی اور فسق فجور سے جدا کرتے ہیں.سو یہ دوسری حالت ہے کہ جو ترقیات قرب کی راہ میں سالک کو پیش آتی ہیں اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا نام جبروتی حالت ہے کیونکہ وہ جبر اور اِکراہ کے ساتھ نفسانی خواہشوں سے باہر آتا ہے اور جذبہ باطنی اپنے طور پر اور واعظ ظاہری اپنے طور پر اُس پر جبر کرتا ہے اور مالوفات نفسانیہ سے سختی اور درشتی کے طور پر الگ کر دیتے ہیں.پھر جب اُس پر عنایتِ الٰہیہ اس کو قائم کر دیتی ہے تو اس کے لئے خدا کے حکموں پر چلنا اور اس کی نہی سے پرہیز کرنا آسان کیا جاتا ہے اور شوق اور ذوق اور اُنس سے اُس کو حصہ دیا جاتا ہے.پس وہ اس جہت سے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بلاتکلّف اس سے صادر ہوتی ہے اور جو حالتِ دوم میں بوجھ

Page 576

اور ثقل تھا وہ دور ہو جاتا ہے.اس لئے وہ ملائک سے تشبیہ پیدا کر لیتا ہے اور یہ حالت ملکوتی حالت ہے اور اس حالت میں سالک کا اَکل و شرب اور ہر یک مابہ الاحتظاظ امر سے وابستہ ہوتا ہے یعنی ہوا و ہوس کی اتباع سے بکلّی رستگار ہو جاتا ہے اور وہی بجا لاتا ہے جس کے بجا لانے کے لئے شرعاً یا الہاماً مامور ہو.اور پھر بعد اس کے حالت چہارم ہے جس کو لاہوتی حالت سے تعبیر کرنا چاہئے اور جب سالک اس حالت تک پہنچایا جاتا ہے تو صرف یہی بات نہیں کہ اپنے ہوا و ہوس سے خلاصی پاتا ہے بلکہ بکلّی اپنے ہوا و ہوس سے اور نیز اپنے ارادہ سے محو ہو جاتا ہے.تب انسان خدا کے ہاتھ میں ایساہوتا ہے جیسا مُردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور الوہیّت اس فانی پر اپنی تجلیات تامہ ڈالتی ہے اور ارادات ربّانی علی وجہ البصیرت اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ خدا کی طرف سے صاحبِ علم صحیح ہوتا ہے اور ہر یک ابتلا اور آزمائش سے باہر آ جاتا ہے اور یہ مرتبہ ملائک سے برتر ہے.ملائک کو یہ حالت چہارم جو غلبۂِ عشق سے پیداہوتی ہے عطا نہیں ہوتی.یہ خاص انسان کے حصہ میں آئی ہے. ۱؎ اور جیسی بصیرت کاملہ ایسی حالت سے مخصوص ہے.ایسا ہی صلاحیت کاملہ بھی اسی حالت سے وابستہ ہے کیونکہ پہلی حالتیں میں نقصان علمی و عملی سے خالی نہیں ہیں بلکہ نقصان علمی و عملی ان کے لازم حال پڑا ہوا ہے کیونکہ خدا میں اور اُن میں اپنا وجود حائل ہے.بس وہی وجود ایک حجاب بن کر علم اور اخلاص کے ناقص رہنے کاموجب ہے لیکن حالت چہارم میں وجود بشری بکلّی اُٹھ جاتا ہے اور کوئی حجاب درمیان میں نہیں رہتا اور اس حالت میں عارف کااَکل و شرب اور ہر ایک مابہ الاحتظاظ اُس کے شعور اور ارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک پودے کی طرح بے حس و حرکت ہے اور مالک جب مناسب دیکھتا ہے تو اُس کی آبپاشی کرتا ہے.اُس کو اس طرف خیال بھی نہیں آتا کہ میں کیا کھاؤں گا اور کیا پیوں گا اور جیسے ایک بے ہوش کو خواہ کوئی لات مار جائے.خواہ پیار دے جائے.یکساں ہوتا ہے ایسا ہی وہ جامِ عشق سے مست ومدہوش ہے اور اپنے نفس کے انتظاموں سے فارغ ہے.سو جیسے مادر مہربان اپنے نادان بچے کو وقت پر آپ دودھ پلاتی ہے اور اس کی بالشت نابالشت کی آپ خبر رکھتی ہے ایسا ہی خداوندکریم اس ضعیف اور عاجز بشر کا کہ جو اس کی محبت کے سخت جذبہ سے یکبارگی اپنے وجود سے اور اُس کے ۱؎؎؎ المائدۃ: ۵۵

Page 577

نفع و نقصان کے فکر سے کھویا گیا ہے آپ متولی ہوتا ہے.یہاں تک کہ اس کے دوستوں کا آپ دوست اور اُس کے دشمنوں کا آپ دشمن بن جاتا ہے اور جو کچھ اُس کو اپنے دوستوں اور دشمنوں سے معاملہ کرنا چاہئے تھا وہ اُس کی جگہ آپ کرتا ہے.غرض اُس کے سب کاموں کو آپ سنبھالتا ہے اور اُس کی سب شکست ریخت کی آپ مرمت کرتا ہے اور وہ درمیان نہیں ہوتا اور نہ کسی بات کا خواستگار ہوتا ہے اور یہ جو صفحہ۲۳۰ کے سر پر یہ عبارت ہے.فَیَا کُلُ بِالْاَمْرِ یعنی تیسری حالت کا سالک امر حق کے ساتھ کھاتا ہے اور پھر صفحہ۲۳۱ میں حالت چہارم کے مقرب کی نسبت بھی لکھا ہے.فَیُقَالُ لَہٗ تَلَبَّس بِالنّعَمِ وَالْفَضْلِ یعنی اس کو بھی کھانے پینے کے لئے امر ہوتا ہے تو ان دونوں امروں میں فرق یہ ہے کہ حالت سیوم میں تو سالک کے نفس میں ارادہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا یہ مشرب ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں حظّ کے اُٹھانے کے لئے مجھ کو اجازت فرما وے تو میں اس کو اُٹھاؤں گا اور گو وہ اتباعِ نفس سے پاک کیا جاتا ہے لیکن متابعت امر کے پیرایہ میں وہ حظّ حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ بقایا نفس کے ابھی موجود ہوتے ہیں.مگر حالت چہارم میں مقرب کامل کی طرف سے بالکل ارادہ نہیں ہوتا.خود خدا تعالیٰ بطور تلطّف و احسان کے کسی مابہ الاحتظاظ کو اُس کیلئے میسر کرد یتا ہے اور جیسے مادرِ مہربان اپنے بچے کو جگا کر دودھ پینے کی ہدایت کرتی ہے ویسا ہی وہ اس کوجگا کر کسی حظّ کے اُٹھانے کیلئے تحریک کرتا ہے.سو وہ تحریک سراسر اُسی کی شفقت سے اور فضل اور عنایت سے ہوتی ہے.٭ ۳۰؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۶؍ شوال ۱۳۰۰ھ ٭…٭…٭ ٭ الحکم ۱۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء صفحہ۳،۴

Page 578

مکتوب نمبر۲۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذامحبت نامہ آںمخدوم پہنچا.موجب شکر و سپاس ہوا.خداوند کریم مقدرات مکروہہ سے آپ کو امن میں رکھے اور آپ کی سعیوں اور کوششوں میں کہ جو آپ خالصاً للہ کر رہے ہیں بہت سی برکتیں بخشے اور بہت سے اجر اُس پر مترتب کرے.آمین.صفحہ۲۴ فتوح الغیب کی نسبت جو آںمخدوم نے دریافت فرمایا ہے یہ مقام بَین المعنی ہے، کوئی عمیق حقیقت نہیں جو کچھ شارح نے لکھا ہے وہ صحیح اور درست ہے.حضرت مخدومنا شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ اس مقام میں یہ تعلیم فرماتے ہیں کہ سالک میں حقیقت فنا کی تب محقق ہوتی ہے اور تبھی وہ اس لائق ہوتا ہے کہ مورد معارف الٰہیہ ہو جب تین طور کا انقطاع حاصل ہو جائے.اوّل انقطاع خلق اللہ سے اور وہ اس طرح پر حاصل ہوتا ہے کہ حکمِ الٰہی کو جو قضا و قدر ہے.تمام مخلوقات پر نافذ سمجھے اور ہر ایک بندہ کو پنجہ تقدیر کے نیچے مقہور اور مغلوب یقین کرے لیکن اس جگہ یہ عاجز صرف اس قدر کہنا چاہتا ہے کہ ایسا یقین کہ فی الحقیقت تمام مخلوقات کو کالعدم خیال کرے اور ہر یک حکم خدا کے ہاتھ میں دیکھے اور ہر یک نفع اور ضرر اُسی کی طرف سے سمجھے صرف اپنے ہی تکلّف اور تصنع سے حاصل نہیں ہوسکتا اور اگر تکلّف سے کسی قدر خیال قائم بھی ہو تو وہ بے بقا ہے.اور ادنیٰ ابتلا سے لغزش پیش آ جاتی ہے بلکہ یہ مقام عالی شان اس بصیرتِ کاملہ سے حاصل ہوتا ہے کہ جو خاص خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے.بات صرف اتنی ہے کہ جب عنایاتِ الٰہیہ کسی کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس کے لمبے قصہ کو آپ ہی کوتاہ کر دیتی ہیں اور وہ بوجھ جو اس سے اُٹھائے نہیں جاتے دستِ غیبی ان کو آپ اُٹھا لیتا ہے.پس اسی طرح سے جب بذریعہ علوم لدنیہ و کشوف صادقہ و الہامات صحیحہ و تائیدات صریحہ انسان پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ تمام نفع و ضرر خدا کے اختیار میں ہے اور مخلوق کچھ چیز ہی نہیں تو ایک نہایت کامل یقین سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ نفع یا نقصان اور عزت یا ذلّت ہے سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور مخلوق کو مُردہ کی طرح دیکھتا ہے لیکن اس جگہ اعتراض یہ ہے کہ حضرت مخدومنا

Page 579

شیخ عبدالقادر قدس سرّہٗ نے علوم و معارفِ الٰہیہ کے حاصل ہونے کا ذریعہ فنا عن الخلق وغیرہ اقسام فنا کو ٹھہرایا ہے.پس جب کہ فنا کا حاصل ہونا ان علوم کے حاصل ہونے پر موقوف ہے تو اس سے دَوْر لازم آتا ہے.سو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ علوم لدنیہ و کشوف صادقہ و تائیداتِ خاصہ الٰہیہ وتوجہات جلیلہ صمدیہ غیر فانی کو ذاتی طور پر حاصل نہیں ہو سکتے لیکن بتوسط صحبت شیخ فانی حاصل ہو سکتے ہیں.یعنی اگرچہ براہ راست نہیں لیکن سالک اپنے شیخ کامل میں ان تمام تائیداتِ سماویہ کو معائنہ و مشاہدہ کرتا ہے.پس یہی مشاہدہ اس کے یقین کے کمالیت کا موجب ہو جاتا ہے.اگر جلدی نہیں تو ایک زمانۂ دراز کی صحبت سے ضرور شکوک و شبہات کی تاریکی دل پر سے اُٹھ جاتی ہے.اسی جہت سے فانیوں کی صحبت کے لئے قرآن شریف میں سخت تاکید ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے  ۱؎ اَیْ کُوْنُوْا مَعَ الفانین وَالصَّادِقُوْنَ ھُمْ اَلْفَانُوْنَ لَاغَیْرُھُمْ اور جو شخص نہ فانی ہے اور نہ فانیوں سے اُس کو کچھ تعلق اور محبت ہے.وہ محض ہلاکت میں ہے اور اس کے سوء خاتمہ کا سخت اندیشہ ہے اور اس کے ایمان کا کچھ ٹھکانا نہیں.اِلَّا اَنْ یَتَدَارَکَہُ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ.دوسری شرط مورد معارفِ الٰہیہ ہونے کیلئے یہ ہے کہ ہوائے نفس سے انقطاع ہو جائے.یعنی سالک پر لازم ہے کہ اپنے تمام حرکت و سکون و قول و فعل اور امر اور نواہی میں اللہ تعالیٰ کی متابعت اختیار کرے اور کسی حالت میں قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلُسے باہر نہ جائے اور جوکچھ دوسرے لوگ اپنے نفس کی متابعت سے کرتے ہیں.وہ اپنے رسول کی متابعت سے بجالاوے اور اپنے اعمال اور اقوال میں کوئی ایسی جگہ خالی نہ چھوڑے جس میں نفس کو کچھ دخل دینے کی گنجائش ہو.پس جب کہ کامل طور پر اتباعِ سنت میسر آ جائے گا اور ایک ذرّہ ہوائے نفس کی پیروی نہیں رہے گی بلکہ ظاہر و باطن متابعت رسول کریم سے منور ہو جائے گا.تو یہ وہ حالت ہے جس کا نام فنا بامر اللہ ہے.مگر ہائے افسوس کہ اس پُر ظلمت زمانہ میں بجائے اس کے (کہ) کبریت احمر کا قدر کریں، اکثروں کو اس طریق سے بغض ہے اور اتباعِ سنت سے ایک چِڑ ہے.حالانکہ دوسری قسم فنا کی بجز اس کے ہرگز میسر نہیں ہو سکتی.اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ.اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ.اَللّٰھُمَّ اَنْزِلْ عَلَیْنَابَرَکَاتِ مُحَمَّدٍ وَ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ.۱؎ التَّوبۃ: ۱۱۹

Page 580

تیسری شرط مورد معارفِ الٰہیہ ہونے کے لئے یہ ہے کہ رضا بقضاء ہو اور ایسا انشراحِ صدر میسر آ جائے کہ جو کچھ ارادات ِ الٰہیہ سالک پر نافذ ہوں.عاشق صادق کی طرح ان سے متلذّذ ہو اور انقباض پیدا نہ ہو بلکہ یہاں تک موافقت تامّہ پیدا ہو جائے کہ اُس محبوب حقیقی کی مراد اپنی ہی مراد معلوم ہو.اور اس کی خواہش اپنی خواہش دکھلائی دے.اس جگہ بھی وہی سوال لزومِ دَور کا لازم آتا ہے جو پہلی قسم میں لازم آیا تھا اور جو اب بھی وہی ہے جو پہلے دیا گیا ہے.انسان کا کام بجز صحبتِ صادقین کے سراسر خام ہے اور بجز طریق فنا یا صحبت فانیوں کے ایمان کا سلامت لے جانا نہایت مشکل ہے.پس سعید وہی ہے کہ جو سب سے پہلے ایمان کی سلامتی کا فکر کرے اور ناحق کے ظاہری جھگڑوں اور بے فائدہ خرخشوں سے دست کش ہو کر اس جماعت کی رفاقت اختیار کرے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا درد عطا کیا ہے.اور یقینا سمجھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو عمدہ نعمت دنیا کیلئے لائے وہ یہی درد اور محبتِ الٰہی ہے جس کو خدا اور رسول کی محبت دی گئی.اس نے اپنی اصل مراد کو پا لیاہے اور بِلاشبہ وہ سعید ہے اور نارجہنم کو اس سے مَس کرنا حرام ہے لیکن جس کو وہ محبت عطا نہ ہوئی اور اُس نے اپنے خدا اور اپنے نبی کا قدر شناخت نہیں کیا.اُس کا زبانی طور پر مسلمان کہلانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ نماز وروزہ بھی بجز ذاتی محبت کے اپنی اصل حقیقت سے خالی ہے.ایک حدیث میں آیا ہے.یَأْتِیْ عَلٰی اُمَّتِیْ زَمَانٌ یُصَلُّوْنَ وَ یَصُوْمُوْنَ وَیَجْتَمِعُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ وَلَیْسَ فِیْھِمْ مُسْلِمٌ.یعنی ایک زمانہ وہ آئے گا کہ لوگ نمازیں بھی پڑہیں گے اور روزے بھی رکھیں گے اور مسجدوں میں اکٹھے بھی ہوں گے پر اُن میں سے ایک بھی مسلم نہ ہوگا.یعنی مومن حقیقی نہ ہوگا.اپنی دنیا اور اپنی رسوم میں گرفتار ہوں گے اور دین بھی رسم کے طور پر بجا لائیں گے.سو اَب ایسے وقت کا اندیشہ ہے.خداوندکریم رحم کرے.بخدمت مولوی صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچادیں اگر ملاقات میسر ہو.٭ تاریخ ۶؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۳؍ ذیقعد ۱۳۰۰ھ ٭…٭…٭ ٭ الحکم ۲۲؍ نومبر ۱۸۹۸ء صفحہ۳

Page 581

مکتوب نمبر۲۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.حدیث نبوی یَعْرِفُھُمْ غَیْرِیْکے معنی جو اس عاجز کے دل میں ڈالے گئے ہیں یہ ہیں کہ غیر کے لفظ سے نفی ماسوا اللہ مراد نہیں بلکہ نفی نااہل و ناآشنا مراد ہے.مگر جو لوگ مومن حقیقی ہیں وہ بباعث استعداد فنا اور زوال حجب کے کبریائی و امن کے اندر داخل ہیں اور غیر نہیں ہیں.خود خدا تعالیٰ نے بعض صالح اہل کتاب کے حق میں اپنی کتاب مجید میں فرمایا ہے  ۱؎ یعنی وہ لوگ پیغمبر آخر الزمان کو جو امام الانبیاء اور سید الاولیا ہے اس طرح پر شناخت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو شناخت کر رہے ہیں اور اسی طرح روحانی روشنی کی برکت سے اولیا اولیا کو شناخت کر لیتے ہیں.حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اویس کے وجود کو یمن میں شناخت کر لیا اور بارہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یمن کی طرف سے رحمان کی خوشبو آ رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے مراتب معلوم تھے اور ہر ایک کی نورانیت باطنی کا اندازہ اس قلب منور پر مکشوف تھا.ہاں جو لوگ بیگانہ ہیں وہ یگانہ حضرت احدیّت کو شناخت نہیں کر سکتے.جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۲؎ یعنی وہ تیری طرف (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں پر تو اُنہیں نظر نہیں آتا اور وہ تیری صورت کو دیکھ نہیں سکتے.اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انوار روحانی کا سخت چمکارابیگانہ محض پر بھی جا پڑتا ہے.جیسے ایک عیسائی نے جب کہ مباہلہ کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حسنین و حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنھم عیسائیوں کے سامنے آئے.دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا کہ مباہلہ مت کرو.مجھ کو پروردگار کی قسم ہے کہ میں ایسے منہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اُٹھ جا تو فی الفور اُٹھ جائے گا.سو خدا جانے کہ اس وقت نور نبوت و ولایت کیسا جلال میں تھا.کہ اس کافر، بدباطن، سیہ دل کو ۱؎ البقرۃ: ۱۴۷ ۲؎ الاعراف: ۱۹۹

Page 582

بھی نظر آ گیا.اور عام طور پر باستثناء خواص اہل اللہ و اکابر اولیا کی حقیقت ولایت کہ جو قربِ الٰہی کا نام ہے بجز حضرت احدیّت کے کسی کو اس پر اطلاع نہیں ہو سکتی ہے.ہاں اس حقیقت کے انوار و آثار جیسے استقامت، صبر، رضا، جودوسخا، صدق، وفا، شجاعت، حیا اور نیز خوارق و دیگر علاماتِ قبولیت لوگوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں.مگر یہ سب آثار ولایت ہیں اور حقیقت ولایت ایک مخفی امر ہے.جس پر غیراللہ کو ہرگز اطلاع نہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب.اور جو آپ نے دریافت کیا ہے کہ خوارق و کرامات ریاضاتِ شاقّہ کا نتیجہ ہے یا کیا حال ہے؟ اس میں تحقیق یہ ہے کہ بِلاشُبہ ریاضاتِ شاقّہ کو کشوف وغیرہ خوارق میں دخل عظیم ہے بلکہ اس میں کسی خاص مذہب بلکہ توحید کی بھی شرط نہیں اور اسی جہت سے فلاسفہ یونان اور اس ملکِ ہند کے جوگی اپنے تپوں جپوں کے ذریعہ سے صفائی نفس حاصل کرتے رہے ہیں اور اُن کا قلب اپنے معبودات باطلہ پر جاری ہوتا رہا ہے اور مکاشفات بھی اُن سے ظہور میں آتے رہے ہیں.چنانچہ کسی تاریخ دان اور صاحب تجربہ پر یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا.اب بے خبر کو بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ جب کشوف و خوارق باطل پرستوں اور استدراج دانوں سے بھی ہو سکتے ہیں.تو پھر اُن میں اور اہلِ حق میں کیا فرق باقی رہا.اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت احدیّت کے برگزیدہ بندے تین علاماتِ خاصہ سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ علامتیں ایسی ہیں کہ گویا باطل پرست لوگ اپنی کجروی کی محنتوں سے گداز بھی ہو جائیں تب بھی وہ علامات ان میں متحقق نہیں ہو سکتیں.چنانچہ اوّل ان میں سے ایک یہ ہے کہ اہل حق کو صرف کشفی صفائی نہیں.اخلاقی صفائی بھی عطا ہوتی ہے اور وہ اخلاقِ فاضلہ میں اس قدر پایہ عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جیسے خدا کو اپنے اخلاق پیارے ہیں.ویسا ہی وہ ربّانی اخلاق اُن کو پیارے ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرشت میں ربوبیت کی تجلیات گھر کر جاتی ہیں اور بشریت کی آلودگیاں اور تنگیاں اُٹھ جاتی ہیں.پس اُن سے نیک اور پاک خُلق ایسے عجیب اور خارق العادت کے طور پر صادر ہوتے ہیں کہ بشری طاقتوں سے بجز خاص تائیدِ الٰہی کے اُن کا صادر ہونا ممکن نہیں.انسان بشریت کے تعلقات اور نفسِ امّارہ کی زنجیروں میں اور ننگ و ناموس کی قیدوں میں اور خانہ داری کے جانگداز فکروں میں اور شدائد اور آلام کے حملوں میں اور وساوس اور اوہام کی نیش زنیوں میں سخت عاجز ہو رہا ہے اور اگر دعویٰ کرے کہ میں اپنی ہی قوت سے ان

Page 583

بھاری بوجھوں سے نکل سکتا ہوں تو وہ جھوٹا ہے.پس اہل اللہ میں یہ بزرگی ہے کہ وہ توفیق یافتہ ہوتے ہیں اور دستِ غیبی اپنی خاص حمایت اور قوت سے اُن کواِن تمام بوجھوں کے نیچے سے نکال لیتا ہے.سو اُن سے ایسا توکّل اور ایسا صبر اور ایسا سخا اور ایسا ایثار اور ایسا صدق اور ایسا رضا بقضاء صادر ہوتا ہے کہ دوسروں سے ہرگز ممکن نہیں.کیونکہ درپردہ الٰہی ستّاری ان کی مددگار ہوتی ہے اور وہ لغزشوں سے بچائے جاتے ہیں اور جس کی محبت میں وہ دنیا کو کھو بیٹھے ہیں اور دنیوی عزتوں اور ناموں سے بیزار ہوگئے ہیں.وہی محبوبِ حقیقی اُن کا متولّی ہو جاتا ہے.دوسرے یہ کہ اہل حق مکالمات ومخاطبات حضرت احدیّت پاتے ہیں جو تائیداتِ خاصہ کی بشارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور نیز اُن میں وہ مراتب عالیہ اُن پر ظاہر کئے جاتے ہیں کہ جو اُن کو حضرتِ احدیّت میں حاصل ہوئے ہیں اور یہ نعمت غیروں کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی.اس جگہ بتوجہ یاد رکھنا چاہئے کہ الہامات و مکالمات الٰہیہ کو جو ایسی پیشگوئی پر مشتمل ہوں جن میں شخص ملہم کی تائیداتِ عظیمہ کا وعدہ ہے.وہ اہل اللہ کی شناخت کیلئے نہایت روشن علامات ہیں اور کوئی خارقِ عادت ان سے برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندہ سے کلام کرنا اور پھر اُس کے کلام کا ایسی پیشگوئیوں پر مشتمل ہونا کہ جو تائیدات عظیمہ کے مواعید ہیں.اور پھر اُن مواعید کا اپنے وقتوں پر پورا ہونا معیت اللہ کا ایک روشن نشان ہے.تیسری علامت یہ ہے کہ خواص اولیاء ریاضاتِ شاقّہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے.ایک قسم ولایت کی ہے جو وہ نبوت سے بہت مشابہ ہے.اس قسم کے لوگ جب دنیا میں آتے ہیں تو ہوش پکڑتے ہی عنایاتِ الٰہیہ اُن کی متولّی ہو جاتی ہے.اُن کو سالکوں کی پُرتکلّف حالت سے کچھ مناسبت نہیں ہوتی.اُن کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کب فنا آئی اور کب بقا حاصل ہوئی کیونکہ دست غیبی نے اُن کو فطرت میں ہی درست کر لیا ہوتا ہے اور بیضۂ بشریت میں داخل بھی نہیں ہوتے.تعلقاتِ شدیدہ عشقِ الٰہی کے ان کی فطرت سے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتدائی فطرت سے کسی ریاضت کے محتاج نہیں ہوتے  ۱؎ اور ایسے لوگوں سے بغیر حاجت ریاضاتِ شاقّہ کے خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ شانِ نبوت اُن پر غالب ہے.۱؎ المائدۃ: ۵۵

Page 584

حومہ پر حضرت احدیّت کی یہ رحمت ہے.کبھی کبھی آخر صدی پر اصلاح اور تجدیدِ دین کیلئے اس شان کے لوگ مبعوث ہوتے ہیں اور دنیا اُن کے وجود سے نفع اُٹھاتی ہے اور دین زندہ ہوتا ہے.اور یہ بات کہ ظہور خوارق ولایت کے لئے شرط ہے یا نہیں؟ اکثر صوفیوں کا اتفاق اسی پر ہے کہ شرط نہیں.پر اس عاجز کے نزدیک ولایت تامہ کاملہ کے لئے ظہور خوارق شرط ہے.ولایت کی حقیقت قرب اور معرفتِ الٰہی ہے.سو جو شخص صرف منقولی یا معقولی طور پر خدا پر ایمان لاتا ہے اور وہ کشوف عالیہ اور زوالِ حجب اس کو نصیب نہیں ہوا جس سے ایمان اُس کا تقلید سے تحقیق کے ساتھ مُبدّل ہو جاتا.تو کیونکر کہا جائے کہ اُس کو ولایت تامہ نصیب ہوگئی ہے.بعض بزرگوں نے جیسے حضرت مجدّد الف ثانی صاحب نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ یقین کے لئے معجزاتِ نبویہ کافی ہیں.میں کہتا ہوں کہ کافی نہیں کیونکہ وہ معجزات اب اس شخص کے حق میں کہ جو صدہا سال بعد میں پیدا ہوا ہے منقولات کا حکم رکھتے ہیں اور دید اور شنید میں جس قدر فرق ہے.ظاہر ہے علماء محدّثین سے زیادہ تر اور کون معجزات سے واقف ہوگا.مگر وہ معجزات کہ جن کی رویت سے ہزار ہا صحابہ یقین کامل تک پہنچ گئے تھے.اب ان کے ذریعہ سے علماء ظاہر کو اس قدر اثر بھی نصیب نہیں ہوا کہ اور نہیں تو اُن معجزات کی ہیبت سے اخراج نفسانیت ہی ہو.مگر یہ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ سماوی نشانوں کو ازدیادِ ایمان میں دخل عظیم ہے اور خود ولایت تامہ کی حقیقت جب کہ قرب تام ہے تو پھر ظاہر ہے کہ قرب اور مشاہدہ عجائبات لازم و ملزوم ہیں.جو شخص ہمارے مکان پر آتا ہے اُسے ضرور ہے کہ مکان کی وضع اور اس کی کیفیت کمیّت سے اطلاع پیدا کرے.لیکن اگر بعد از وصول بھی ایسا ہے جو قبل از وصول تھا تو گویا اُس نے مکان کو دیکھا ہی نہیں.انبیاء کے یقین کو بھی خدا نے نشانوں سے ہی بڑھایا ہے اور قرآن شریف میں۱؎ حضرت ابراہیم کا سوال بھی موجود ہے.پھر کیونکر کہا جائے کہ ولایت بغیر خوارق کے حاصل ہو سکتی ہے.بِلاشُبہ جس ۱؎ البقرۃ: ۲۶۱

Page 585

قدرمشاہدہ خوارق کا زیادہ ہے.اُسی قدر قوت یقین زیادہ ہے.اسی قدر قوبت زیادہ ہے.۱؎ اُسی قدر علم زیادہ ہے.خدا تعالیٰ خود اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو مسجد اقصیٰ اور آسمان کا سیر کرایا تا اُس کو اپنی آیات خاصہ سے مطلع کریں.ہاں یہ ضرور ہے کہ جس ولی کو منصب ارشاد اور ہدایت کا عطا نہیں کیا گیا.اُس کے خوارق اور لوگوں پر ظاہر ہونا ضرور نہیں ہے کیونکہ اُس کو لوگوں سے کچھ واسطہ اور تعلق نہیں ہے لیکن خود اُس پر تو ظاہر ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ حقیقت ولایت تک اس کا قدم پہنچنا اسی سے وابستہ ہے.مسجد کے بارہ میں جو فقرہ خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا تھا جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ تاریخ مسجد اس میں موجود ہے اور وہ فقرہ الہامیہ یہ ہے مُبَارِکٌ وَّ مُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ.۲؎ خداوند تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا.منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے جس کے ایک فقرہ سے آپ کو پہلے اطلاع دے چکا ہوں مگر بعد اس کے ایک دوسرا فقرہ بھی الہام ہوا.اور وہ دونوں فقرہ یہ ہیں.فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ.۳؎ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا.۴؎ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آ گیا.علماء ظاہر شاید اس پر اعتراض کریں کہ یہ تو بیت اللہ خانہ کعبہ کی شان میں وارد ہے.مگر وہ لوگ برکات و سیعہ حضرت احدیّت سے بے خبر ہیں اور معذور ہیں اور نیز ایک الہام یعنی مکالمہ حضرت احدیّت اس ذلیل ناچیز عاجز سے واقع ہوا.بباعث رابطہ اتحاد آپ کو لکھتا ہوں اور چونکہ یہ عاجز اعلان کا اِذن بھی پاتا ہے اس لئے کتاب میں یعنی حصہ چہارم میں درج بھی کیا جائے گا.خداوندتعالیٰ کی الوہیت کی موجیں ہیں کہ اس ناکارہ بندہ کو کہ جو فی الواقعہ بے ہنر اور تہی دست ہے.ایسے مکالمات سے یاد کرتا ہے روحی فداہ سبیلہ بالشان من جلیلہ۵؎ اور وہ الہام یہ ہے ۱؎ نقل مطابق اصل ۲؎ تذکرہ صفحہ۸۳.ایڈیشن چہارم ۳؎ تذکزہ صفحہ۸۶.ایڈیشن چہارم ۴؎ تذکرہ صفحہ ۴۲۶.ایڈیشن چہارم ۵؎ الحکم ۲۴؍ جولائی ۱۸۹۹ء

Page 586

بُشْرٰی لَکَ یَا اَحْمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ.۱؎ بشارت باد ترایا احمدِمن، تو مراد منی و بامنی.نشاندم درخت بزرگی ترا بدست خود.بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب و منشی بہرام خان صاحب وغیرہ احباب آں صاحب سلام مسنون پہنچے.٭ ۱۳؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۰؍ ذیقعد ۱۳۰۰ھ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۲۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذاآں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.آپ نے جو سوالات کئے ہیں ان کی حقیقت خداوندکریم ہی کو معلوم ہے.اس احقر کے خیال میں جو گزرتا ہے وہ یہ ہے (۱) صوفی باعتبار اس حالت کے سالک کا نام ہے کہ جب وہ اپنے زور اور تمام توجہ اور تمام عقل اور تمام اطاعت اور تمام مشغولی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قدم اُٹھاتا ہے اور اپنی جانفشانیوں اور محنتوں اور صدقوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس حالت میں تمام کاروبار اُس کا وابستہ اوقات ہوتا ہے.اگر اپنے وقتوں کو ہریک لہو و لعب سے بچا کر یاد الٰہی سے معمور کرتا ہے تو اگر خدا تعالیٰ نے چاہا ہے تو کسی منزل تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر حفظ اوقات میں خلل ہوتا ہے تو اس کا سارا کام درہم برہم ہو جاتا ہے جیسے اگر مسافر چلتا بھی رہے تو جائے مقصود تک پہنچتا ہے.پر اگر چلنا چھوڑ دے بلکہ جنگل میں آرام کرنے کی نیت سے سو جائے تو قطع نظر عدم وصول سے جان کا بھی خطرہ ہے.سو جیسے مسافر ابن السبیل ہے.سبیل کوقطع نہ کرے تو کیسے ٹھکانہ تک پہنچے.ایسا ہی صوفی ابن الوقت ہے.اپنے وقت کو خدا کی راہ میں لگاوے تو مقصود کو پاوے.پس جب کہ حفظ وقت صوفی کے لازم حال ہی پڑا ہے تو اپنے کام کو ۱؎ تذکرہ صفحہ۱۹۵.ایڈیشن چہارم ٭ اخبار الحکم نمبر۲۶ جلد۳.۲۴ جولائی ۱۸۹۹ء

Page 587

فردا پسِ فردا پر ڈالتا ہے اس کے حق میں مہلک ہے اور نیز صوفی کیلئے یہ بھی لازم ہے کہ اسی جہان میں اپنی نجات کے آثار نمایاں کا طالب ہو اور اپنے کام کے دن میں پہلے اپنی اُجرت کا خواستگار ہو.فردا یعنی قیامت پر صوفی اپنا حساب نہیں ڈالتا اور نسیہ اور ادھار کا روا دار نہیں ہوتا بلکہ دست بدست مزدوری مانگتا ہے.اور اس آیت شریفہ پر اُس کا عمل ہوتا ہے..۱؎ پس صوفی ان علماء ظاہری کی طرح نہیں ہوتا کہ جو صرف ظاہری اعمال بطور عادت اور رسم کے بجا لا کر اور تزکیہ نفس اور تنویر قلب سے بکلّی محروم رہ کر پھر بہشت کی امیدیں باندھ رہے ہیں بلکہ صوفی اسی جہان میں اپنے بہشت کو دیکھنا چاہتا ہے اور صرف وعدوں پر قناعت نہیں کرتا.تو صوفی عمل کی رو سے بھی اور اُجرت عمل کی رو سے بھی ابن الوقت ہے جو حفظ اوقات ہی سے اس کے سارے کام نکلتے ہیں اور حاضر الوقت نعمتوں کو پاتا ہے لیکن چونکہ ہنوز اپنی ہی قوتوں اور طاقتوں اور اخلاصوں اور صدقوں اور محنتوں اور مجاہدات پر اُس کا مدار ہے اور مسافر کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ قدم رکھنا اس کا کام ہے.اس لئے وہ صاحبِ حال ہے، صاحبِ مقام نہیں.کیونکہ حال وہ ہے جو تغیر پذیر ہو اور مقام وہ ہے جس کو ثبات اور قرار ہو.سو صوفی ابھی مسافر کی طرح ہے.ایک جگہ چھوڑتا ہے دوسری جگہ جاتا ہے.دوسری چھوڑتا ہے تیسری جگہ جاتا ہے لیکن صافی وہ ہے جس کو بعد حصول فنا اَتم کے عنایاتِ الٰہیہ نے اپنی گود میں لے لیا ہے.اب اس کو ان محنتوں اور مشقتوں سے کچھ غرض نہیں کہ جو صوفی کو پیش آتی ہیں کیونکہ وہ کاسات وصال سے بہرہ یاب ہو گیا ہے اور دستِ غیبی نے اُس کو ہر ایک بشریت کے لوث سے مصفّٰی اورمطہر کر دیا ہے اور جو اعمال دوسروں کیلئے بوجھ ہیں وہ اس کے حق میں سرور اور لذّت ہوگئے ہیں.اور وہ تکلّفات حفظ اوقات اور دوام مراقبہ و مشغولی سے برترو اعلیٰ ہے بلکہ  ۲؎ میں داخل ہے اور اس کا سونا اور اس کا کھانا اور اُس کا ہنسنا اور کھیلنا اور دنیا کے کاموں کو بجا لانا سب عبادت ہے کیونکہ وہ منقطع اور مفرد ہے اور عنایات الٰہیہ نے اُس کو اُس کے نفس کے پنجہ سے چھین لیا ہے اور اس کی سرشت کو بدلا دیا ہے.اب اُس کا غیر پر قیاس کرنا اور غیر کا اُس پر قیاس کرنا ناجائز ہے.صوفی بھی اُس کو نہیں پہچان سکتا کیونکہ وہ بہت ہی دور نکل گیا ہے اور وہ صاحب مقام ہے اور ۱؎ بنی اسرآء یل: ۷۳ ۲؎ النُّور: ۳۸

Page 588

خدا نے اُس کو اپنی ذات سے تعلق شدید بخشا ہے اور وہ ہر ایک وقت اور حال سے فارغ ہے کیونکہ بجائے اُس کے عنایت الٰہیہ کام کر رہی ہے اور وہ مست اور مدہوش کی طرح پڑا ہے اور تمام آلام اُس کے حق میں بصورت انعام ہوگئے ہیں.صوفی میں اجر کی خواہش ہے.اُس میں اجر کی خواہش نہیں.صوفی معمور الاوقات ہے اور وہ فانی الذات ہے.پھر معموری کیا اور وقت کیا.صیقل زدم آں قدر کہ آئینہ نماند.اس تحقیق میں دوسرے سوال کا جواب بھی آ گیا.(۳) موسیٰ اور فرعون سے روح اور نفسِ امّارہ کا جنگ و جدال مراد ہے جو نور روح ہے جس کو نورِ قلب بھی کہتے ہیں.وہ ہر وقت قَالُوا بَلٰی کا نعرہ مار رہا ہے اور بارگاہ خدا میں اپنی لذت اور سرور چاہتا ہے اور موسیٰ کی طرح شرور کا دشمن ہے اور نفسِ امّارہ شرور کا خواہاں ہے اور شہوات کا طالب.ان دونوں میں موسیٰ اور فرعون کی طرح جنگ ہو رہا ہے.یہ جنگ اسی وقت تک رہتا ہے جب انسان اپنی ہستی کو مقصود ٹھہرا کر فنا فی اللہ کی حالت سے گرا ہوا ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنی ہستی سے بالکل کھویا جاتا ہے تو وہ پہلی بیرنگی جو عالم ہستی میں اُس کو حاصل تھی پھر حاصل ہو جاتی ہے اور کوئی شائبہ وجود کا باقی نہیں رہتا.اس مرتبہ پر نفسِ امّارہ اور نور قلب کا جنگ ختم ہو جاتا ہے اور شہوات نفسانی حظوظ کا حکم پیدا کر لیتی ہیں اور فانی کا کھانا پینا، ازدواج متعددہ کرنا وغیرہ امور جائے اعتراض نہیں ٹھہرتا اور نہ کچھ اُس کو ضرر کرتا ہے کیونکہ وہ فانی ہے اور اب یہ کام خدا کے ہیں جو اُس پر جاری ہوتے ہیں.سو اِس مقام پر آ کر موسیٰ اور فرعون کی صلح ہو جاتی ہے.(۴) حرص و ہوا سے اوّل چیز جو انسان کو روکتی ہے جذبہ الٰہی ہے.وہی جذبہ انسان کو صالحین کی صحبت کی طرف کھینچتا ہے.وہی اُس کو کسی صالح کا مرید کراتا ہے.صحیح حدیث میں وار دہے کہ انسان گناہ کرتا ہے.پھر حضرت خداوندی میں روتا ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گیا.خدا تعالیٰ اُس کو بخش دیتا ہے اور اپنے فرشتوں کے روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے.پھر چند روز پا کر اُس بندہ عاجز سے گناہ ہو جاتا ہے.پھر وہ جناب الٰہی میں روتا اور چلاتا ہے اور ہر بار خدا تعالیٰ اُس کو بخشتا جاتا ہے اور فرشتوں کے روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے.آخر اُس کو کہتا ہے اِعْمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ غَفَرْتُ لَکَ.یعنی اب جو تیری مرضی ہے کر مَیں نے تجھ کو بخش دیا ہے سو اُسی روز سے وہ محفوظ ہوتا ہے اور پھر ہوا و ہوس اس پر غالب نہیں ہو سکتے.غرض جیسے جسمانی پیدائش کی ابتدا خدا ہی کی طرف سے ہے.

Page 589

روحانی پیدائش کی ابتدا بھی خدا کی ہی طرف سے ہے.یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ.جس کو وہ بُلاتا ہے وہ دوسرے کی بھی سن لیتا ہے مگر جس کو وہ نہیں بُلاتا وہ کسی کی نہیں سنتا.جیسا کہ خود اُس نے فرمایا ہے. ۱؎ یعنی ہدایت وہی پاتا ہے جس کو خدا ہدایت دے اور جس کو خدا گمراہ رکھنا چاہتا ہے.اس کو کوئی مرشد ہدایت نہیں دے سکتا.چند انگریزی فقرات جو الہام ہوئے تھے وہ مطبع میں بھیج دیئے گئے.اس جگہ کوئی انگریزی خوان نہیں.ایک ہندو لڑکا قادیان کا لاہور پڑھتا ہے اُس نے دیکھے تھے.٭ مرزا غلام احمد ٭…٭…٭ ۱؎ الکھف: ۱۸ ٭ اخبار الحکم نمبر۳۰ جلد۳.۹ جون ۱۸۹۹ء

Page 590

مکتوب نمبر۲۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آںمخدوم کا مکتوب محبت اسلوب پہنچ کر باعث مسرت ہوا.خداوندکریم آپ کی تائید میں رہے اور مکروہات زمانہ سے بچاوے.اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلا کو چاہتا ہے سو اِس ابتلا سے آپ بچ نہیں سکتے.گربمجنوں صحبتے خواہی بہ بینی زود تر خار ہائے دشت و تنہائی و طعن عالمے عَرَفْتُ رَبِّی بِرَبِّیْ ۱؎ صحیح المضمون ہے.اس بارے میں بہت سی احادیث آ چکی ہیں.خداوندکریم نے پہلی سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم دی ہےاس جگہ عبادت سے مراد پرستش اور معرفت دونوں ہیں اور دونوں میں بندہ کا عجز ظاہر کیا گیاہے.اسی طرح دوسری جگہ بھی حضرت خداوندکریم نے فرمایا ہے.۲؎ ۳؎ جب تک خدا کی معرفت کا خدا ہی وسیلہ نہ ہو تب تک وہ معرفت شرک کے رگ و ریشہ سے خالی نہیں اور نہ کامل ہے بلکہ بجز تجلیاتِ خاصہ حضرت احدیّت کی معرفت خالصہ کاملہ کا حاصل ہونا ممکن ہی نہیں.خدا کو شناخت کرنے کے لئے خدا ہی کا نور چاہئے.پس حقیقت میں وہی عارف اور وہی معروف ہے اور نیز یہ بھی جاننا چاہئے کہ تجلیّت الوہیت یکساں نہیں.ہر یک شخص کے لئے تجلّی ربی الگ الگ ہے اور جس قدر ربّانی تجلّی ہے اسی قدر معرفت ہے.کوئی طرف وسیع اور کوئی تنقیص اور کوئی نہایت صافی اور کوئی اُس سے کم ہے.پس تجلّی بہ حسب حیثیت ظروف ہے.ایک کی معرفت دوسرے کی نسبت حکم عدم معرفت کا پیدا کر سکتی ہے اور معارف غیر متناہی ہیں.کوئی کنارہ نہیں.اُس ناپید اکنار دریا سے ہر یک شخص بقدر اپنے ظرف کے حصہ لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے  ۴؎ یعنی خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام) اُتارا سو ہر یک نالی حسب قدر اپنے بہہ نکلی.جس قدر پیاس ہے اسی قدر پانی ملتا ہے اور ۱؎ تفسیر فیض القدیر جلد۶ ۲؎ النُّور: ۳۶ ۳؎ الانعام: ۱۰۴ ۴؎ الرَّعد: ۱۸

Page 591

آپ نے دعا کے بارے میں جو دریافت فرمایا ہے کہ جو اوّل سے ہی مقدر ہے دعا کیوں کی جاتی ہے.سو اس میں تحقیق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر یک مقدر میں قانون قدیم یہی ہے کہ اگرچہ اس نے ہر امر کے بارے میں جو انسان کے مقسوم میں ہے اُس کا حاصل ہونا مقدر کر دیا.لیکن اُس کے حاصل کرنے کے طریق بھی ساتھ ہی رکھے ہیں اور یہ قانونِ الٰہی تمام اشیاء میں جاری اور ساری ہے جو شخص مثلاً پیاس بجھانا چاہتا ہے اس کو لازم پڑا ہوا ہے کہ پانی پیوے اور جو شخص روشنی کو ڈھونڈتا ہے اُس کے مناسبِ حال یہ ہے کہ آفتاب کے سامنے آوے اور اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھا نہ رہے.اسی طرح دعا اور صدقات و خیرات و دیگر تمام اعمال صالح کو شرط حصول مرادات ٹھہرا رکھا ہے اور جیسے ابتدا سے کسی چیز کا حصول مقدر ہوتا ہے ساتھ ہی اُس کے یہ بھی مقدر ہوتا ہے کہ وہ دعا یا صدقہ وغیرہ بجا لاوے گا تو وہ چیز اُس کو حاصل ہوگی.پس جس شخص کا مطلب روزِ ازل میں دعا پر موقوف کر رکھا ہے.سو اگر تقدیر مبرم اُس کے حق میں یہ ہے کہ اُس کا مطلب حاصل ہو جائے گا تو ساتھ ہی اُس کے حق میں یہ بھی تقدیر مبرم ہے کہ وہ دعا بھی ضرور کرے گا اور ممکن نہیں کہ وہ دعا سے رک جائے.تقدیر ضرور ہی پوری ہو رہے گی اور بہرحال اُس کو دعا کرنی پڑے گی اور دعا میں ضرور نہیں کہ صرف زبان سے کرے بلکہ دعا دل کی اُس عاجزانہ التجا کانام ہے کہ جب دل نہایت بے قرار اور مضطرب ہو کر روبخدا ہو جاتا ہے اور جس بلا کو آپ دور نہیں کر سکتا.اُس کا دور ہونا طاقت الوہیت سے چاہتا ہے.پس حقیقت میں دعا انسان کے لئے ایک طبعی امر ہے کہ جو اُس کی سرشت میں مخمّر ہے.یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی اپنی گرسنگی کی حالت میں گریہ و زاری سے اپنا ایسا انداز بنا لیتا ہے کہ جس کو عین دعا کی حالت کہنا چاہئے.غرض بذریعہ دعا کے خدا سے مدد ڈھونڈنا کوئی بناوٹ کی بات نہیں بلکہ یہ فطرتی امر ہے اور قوانین معینہ مقررہ میں سے ہے.جو شخص دعا کی توفیق دیا جاتا ہے اُس کے حق میں قبولیت اور استجابت بھی مقدر ہوتی ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ اُسی صورت میں استجابت ممکن ہو.کیونکہ ممکن ہے کہ انسان کسی مطلوب کے مانگنے میں غلطی کرے جیسے بچہ کبھی سانپ کو پکڑنا چاہتا ہے اور والدہ مہربان جانتی ہے کہ سانپ کے پکڑنے میں اُس کی ہلاکت ہے.پس وہ بجائے سانپ کے کوئی خوبصورت کھلونا اُس کو دے دیتی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ دعا کا مانگنا مقدراتِ ازلیہ کے نقیض نہیں ہے بلکہ خود مقدرات ازلیہ میں سے ہے اور اسی جہت سے انسان بالطبع نزول حوادث کے وقت دعا

Page 592

کی طرف جھک جاتا ہے اور عارفین کا ذاتی تجربہ ہے کہ جو مانگتا ہے اُس کو ملتا ہے.ہر یک زمانہ میں خدا نے مقبولین کی دعا کے ذریعہ سے عجیب طوروں پر مشکل کشائیاں کیں ہیں اور اپنے فضلوں کو منکشف کیا ہے.بعض لوگ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں اور اُس کی اصلیت یہ ہے کہ حکیم مطلق نے مقدر کیا ہوتا ہے کہ بہت سے اہل حاجات اُن کی دعاؤں سے اپنے مطلب کو پہنچ گئے.سو وہ اہلِ حاجات اُس شخص مستجاب الدعوات کو آ ملتے ہیں اور امر مقدر پورا ہو جاتا ہے.سو مستجاب الدعوات کی طرف جھکنا ایک نیک فال ہے.کیونکہ غالباً جو شخص مستجاب الدعوات کی طرف آیا ہے اور اس کی طرف میل کرنا اُس کو توفیق دیا گیا ہے وہ اُنہیں لوگوں میں سے ہوگا کہ جن کے حق میں قلم ازل نے کامیاب ہونا اس کی دعا سے لکھا ہے.مگر یہ بات نہیں کہ جو مستجاب الدعوات مانگتا ہے وہ بعینہٖ پورا ہو جاوے.اُس کی وجہ پہلے لکھ چکا ہوں.پانچ کتابیں روانہ کی گئی ہیں.بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون پہنچے.انشاء اللہ تعالیٰ اگرخدا نے چاہا تو لودہیانہ میں مولوی صاحب کی ملاقات حاصل ہوگی.وَالْاَمْرُکُلُّہٗ فِیْ یَدِ اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ.والسلام٭ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذیقعد ۱۳۰۰ھ ٭…٭…٭ ٭ اخبار الحکم نمبر ۲۳ جلد۳.۳۰ جون ۱۸۹۹ء

Page 593

مکتوب نمبر۳۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعض کتب میں مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ۱؎ حدیث نبوی کر کے بیان کیا گیا ہے.احیاء العلوم میں اس قسم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں محدثین کو اپنے قواعد مقررہ کے رو سے کلام ہے.مگر اس قول میں کوئی ایسی بات نہیں جو قَالَ اللّٰہُ وَ قَالَ الرَّسُوْلُ سے منافی ہو.وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی.۲؎ حضرت ربّ العالمین نے تمام عالَم کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ تا وہ شناخت کیا جاوے.اور نفس انسانی ایک نسخہ جامع جمیع اسرار عالَم ہے اور کچھ شک نہیں کہ جس کو کماحقّہٗ علم نفس حاصل ہو.اُس کو وہ معرفت حاصل ہوگی کہ جو جمیع عالَم کی حقیقت دریافت کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے پس یہ طریق نہایت قریب اور آسان ہے کہ انسان اپنے نفس کی شناخت کی کوشش کرے.اُسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام میں ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ ہے..۳؎ سو خدا نے شمس اور قمراور دن اور رات اور آسمان اور زمین کی خوبیاں بیان فرما کر پھر بعد اس کے فرمایا.یہ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نفس انسانی میں وہ سب استعدادات موجود ہیں کہ جو متفرق طور پر عالَم کے جمیع اجزا میں پائے جاتے ہیں.اگر خواہی کہ در بینی تمامی وضع عالم را یکے در نفس خودبنگر ہمہ وضعش تماشا کُن پھر بعد اُس کے فرمایایعنی وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کا کیا نجات پا گیا.سو نجات سے حصول معرفتِ تامہ مراد ہے کیونکہ تمام عذاب اور ہرایک قسم کی عقوبات جہل اور ضلالت پر ہی ۱؎ (الف) کشف الخفاء للعجلونی ۳۶۵؍۲ (ب) الدرر المنتشرہ فی الاحادیث المشتہرہ للسیوطی صفحہ۱۵۲ ۲؎ الذاریات: ۲۲ ۳؎ الشمس: ۱ تا ۱۰

Page 594

مرتب ہوں گی. ۱؎ اور تزکیہ نفس دو قسم پر ہے تَزْکِیْہ مِن حَیثُ الْعِلْماور وہ یہ ہے کہ نفس کو حضرت باری عزو جل اور دارِ آخرت کی نسبت علم یقینی قطعی حاصل ہو اور شکوک اور شبہات اور عقائد غلط اور فاسد سے نجات پا جائے.تَزکیہ مِنْ حَیثُ الْعَمل وہ ہے کہ جیسے فی الحقیقت حضرت باری عَزّاِسْمُہٗ اس بات کامستحق ہے کہ اُسی سے محبت ذاتی ہو اور جیسے فی الحقیقت حضرت باری کے وجود کے مقابل اور سب وجود ہیچ اور کالعدم ہیں.ایسے ہی سالک کیلئے حالت حاصل ہو جائے اور جب انسان کو حالت فنا حاصل ہوگئی تو وہ قوم اسرار موت اور دقائق حکمت جو زمین اور آسمان میں مخفی ہیںاُس کے نفس پر باذن اللہ تعالیٰ کھلنے شروع ہو جائیں گے اور کشفی طور پر اُن کی کیفیت اُس پر ظاہر ہوتی جائے گی کیونکہ اسرار جمیع عالم بعینہٖ اسرار نفس ہیں.پس جب نفس ببرکت فناء اَتم اپنے حجاب سے خلاصی پائے گا تو جو کچھ خدا نے اُس میں انوار مہیا رکھے ہیں اُن سب کو ظاہر کرے گا.سو یہ معرفت تامہ ہے جو انسان کو بقا کے درجہ پر حاصل ہوتی ہے لیکن یہ معرفت انسان کے اپنے اختیار میں نہیں.تمام انسانی کوششیں فنا کے مرتبہ تک ختم ہو جاتی ہیں اور پھر آگے معرفتِ الٰہی ہے اور جس پر موہبت کی نسیم چلتی ہے اسی پر وہ سب انوار ظاہر کئے جاتے ہیں جو اس کی روح میں مودَّع ہیں.انسان کی روح میں ایک بڑا سلیقہ یہ ہے کہ وہ اس قدر خدا کے سہارے کی محتاج ہے کہ اُس کے بغیر جی ہی نہیں سکتی.الوہیت اُس پر ایک ایسے طور سے محیط ہو رہی ہے کہ جو نہ تقریراً نہ تحریراً نہ صراحتہً نہ کنایۃً نہ توضیحًا نہ تمثیلاً بیان میں آ سکتی ہے بلکہ سالک جب بقا کا مرتبہ موہبت حضرت الٰہی سے پاتا ہے تو وہ کیفیت کہ جو بیچون اور بیچگون ہیں.اُس پر متجلی ہوتی ہے اور باوجود تحقیق تجلّی کے پھر بھی اُس کو بیان نہیں کر سکتا.مَنْ عَرَفَ کُلَّ لِسَانُہٗ.۲؎ آں راکہ خبر شد خبرش باز نیامد.غرض اسی تجلی کا نام معرفت تامہ ہے اور مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ کا مقصود حقیقی بھی ہے.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب.آں مخدوم نے جو سوالات لکھنے کا طریق نکالا ہے بہت اچھا ہے.مگر جائے تکلّف درمیان نہ ہو یعنی خواہ نخواہ سوال نہ تراشا جائے بلکہ جب خدا کی طرف سے کوئی موقعہ پیش آوے تب سوال کیا جائے.سلف صالح کا مکتوبات اکابر کے لکھنے میں یہی طریق رہا ہے اور جس کی معرفت کو خدا تعالیٰ ۱؎ بنی اسرآء یل: ۷۳ ۲؎ تاریخ بغداد للخطیب البغدادی جلد۲ صفحہ۳۶۲ تصویر بیروت

Page 595

ترقی دینا چاہتا ہے اس کی زندگی میں خود ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسے موقعے نکلتے آتے ہیں جن سے اُس کو سوال کرنے کا استحقاق پیدا ہو جاتا ہے.قرآن شریف جو جامع تمام معارف اور حقائق ہے عبث طور پر نازل نہیں ہوا بلکہ جب حاجت پیش آئی نازل ہوا ہے اور ہر ایک آیت محکمہ اپنی ایک ضروری شان نزول رکھتی ہے.والسلام بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب و دیگر صاحبان سلام برسد.٭ بتاریخ ۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ مکتوب نمبر۳۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.جن امور میں خلق اللہ کی بھلائی ہے، اُن کا دریافت کرنا مضائقہ نہیں.صرف مجھے خوف تھا کہ تکلف نہ ہو کہ وہ اس راہ میں مذموم ہے اور مولوی گل حسن صاحب کا سوال خداوند کریم کی جناب میں کچھ سُوئِ ادب کی رائحہ رکھتا ہے.اس لئے اُس کی طرف توجہ نہیں کی گئی.بندۂ وفادار کو رُشد یا عدم رُشد سے کیا مطلب ہے.شیخ مصلح الدین سَعدی شیرازی رحمۃ اللہ نے کیا اچھا کہا ہے.من ایستادہ ام اینک بخدمتت مشغول مرا ازیں چہ کہ خدمت قبول یا نہ قبول اور گر نباشد بدوست رہ بُردن شرط عشق است در طلب مردن اس راہ کا سالک وہ شخص ہوتا ہے کہ وصال اور بقا سے کچھ مطلب نہ رکھے اور اُن تمام واقعات اور مکاشفات سے کچھ سروکار نہ ہو کہ جو سالکوں پر کھلتے ہیں.کرامات اور خوارق عادت کا خواہاں نہ ہو اور مقامات واصلین کا جو یاں نہ ہو اور باایں ہمہ سعی اور مجاہدہ میں ہمت نہ ہارے اور خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے فی الواقع ایک ذلیل بندہ اپنے تئیں خیال کرتا رہے اور اپنی زندگی کا اصل مقصد اسی راہ میں جان دینا ٹھہراوے گو کچھ راہ پاوے یا نہ پاوے.راستبازوں کا یہی راستہ ہے.ان کو اس سے کیا کام کہ حضرت احدیّت سے اس بات کا پہلے تصفیہ کرلیویں کہ ہم کو آخر راہ ملے گا یا محض ٭ اخبار الحکم نمبر۲۲ جلد۳.۲۳ جون ۱۸۹۹ء

Page 596

محروم رکھنا ہے.صادقوں کو ملنے نہ ملنے سے کچھ کام نہیں.اگر بالفرض ہر روز پردہ غیب سے ہزار لعنت سنیں تو وہ اُس سے دل برداشتہ نہیںہوتے.محبوب کی نسبت یہی محبوب ہے..۱؎ مسجد میں ابھی کام سفیدی کا شروع نہیں ہوا.خدا تعالیٰ چاہے گا تو انجام کو پہنچ جائے گا.آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اس عاجز نے شناخت نہیں کیا.وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد کے دروازے کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں.ایسا سمجھا گیا کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں اور خط ریحانی میں جو پیچان اور مسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں.تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے۲؎ اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے.جس عمارت کو وہ بناتا ہے اُس کو کون مسمار کرے اور جس کو وہ عزت دینا چاہتا ہے اُس کو کون ذلیل کرے.٭ ۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۷؍ذِی الحجہ ۱۳۰۰ھ مکتوب نمبر۳۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آں مخدوم کا خط پہنچا.جس قدر آں مخدوم نے کوشش اور سعی اُٹھائی ہے اور اپنے نفس پر مشقّت اور تحمل مکروہات روا رکھا ہے یہ سب خداوند کریم کی ہی عنایت ہے تا آپ کو اُس کے عوض میں وہ اجر عطا فرماوے جس کا عطا ہونا اُنہیں کوششوں پر موقوف تھا.جس کریم رحیم نے اس عاجز نالائق کو اپنے غیر متناہی احسانوں سے بغیر عوض کسی عمل اور محنت کے ممنون اور پرورش فرمایا ہے.وہ محنت کرنے والوں کی محنت کو ہرگز ضائع نہیں کرتا.خدا کی راہ میں انسان ایک ذرّہ بات منہ سے نہیں نکالتا اور ایک قدم زمین پر نہیں رکھتا جس کا اس کو ثواب نہیں دیا جاتا لیکن میں اس جگہ یہ بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنے جوش دلی کے باعث سے جو ایسے لوگوں کے پاس بھی جاتے ہیں جو ظنون فاسدہ اپنے دل پر رکھتے ہیں اور غرور اور استکبارِ نفس سے بھرے ہوئے ہیں.یہ ہرگز نہیں ۱؎ الرحمٰن: ۳۰ ۲؎ یونس: ۱۰۸ ٭ اخبار الحکم نمبر۲۲ جلد۳.۲۳ جون ۱۸۹۹ء

Page 597

چاہئے.اس کام کی خداوند کریم نے اپنے ہاتھ سے بِنا ڈالی ہے اور ارادہ الٰہی اس بات کے متعلق ہو رہا ہے کہ شوکت اور شان دین کی ظاہر کرے اور اس بارہ میں اس کی طرف سے کھلی کھلی بشارتیں عطا ہو چکی ہیں.سو جس بات کو خدا انجام دینے والا ہے اُس کو کوئی روک نہیں سکتا.دنیا مُردار ہے اور جس قدر کوئی اس سے نزدیک ہے اسی قدر ناپاکی میں گرفتار ہے اور بدباطن اور بدبودار ہے اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ مومن کیلئے لازم ہے کہ دنیا دار کے سامنے تذلل اختیار نہ کرے اور اُس کی شان باطل کو تحقیر کی نظر سے دیکھے.انسان دنیا دار کے سامنے نرمی اور تواضع اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ حضرت خداوند کریم عزوجل کے نزدیک مشرک ٹھہرتا ہے.سمجھناچاہئے کہ بجز قادر توانا کے کوئی کام کسی کے اختیار میں نہیں اور تمام آسمان و زمین اور تمام دل اُس کے قبضہ میں ہیں اور قدرتِ الٰہیہ سخت درجہ پر متصرف ہے اور اگر وہ کسی کام میں توقف کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ اُس کے کرنے سے عاجز ہے بلکہ اس توقف میں اُس کی حکمتیں ہوتی ہیں.مخلوق سب ہیچ اور ادنیٰ ہے اور مُردہ ہے نہ اُن سے کچھ نقصان متصور ہے اور نہ نفع.دنیا داروں سے مطلب براری کیلئے نرمی کرنا دنیا داروں کا کام ہے اور یہ کام خَالِقُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ کا ہے.مجھ کو یا آپ کو لازم نہیں کہ ایک بدنصیب دنیا دار سے ایسی لجاجت کریں کہ جس سے اپنے مولیٰ کی کسر شان لازم آوے.جو لوگ ذات کبریا کا دامن پکڑتے ہیں وہ متکبروں کے دروازہ پر ہرگز نہیں جاتے اور لجاجت سے بات نہیں کرتے.سو آپ اس طریق کو ترک کر دیں.اگر کسی دنیا دار مالدار کو کچھ کہنا ہو تو کلمہ مختصر کہیں اور آزادی سے کہیں.اور صرف ایک بار پر کفایت رکھیں اور یار محمد کو روپے بھیجنے سے منع کر دیں اور مناسب ہے کہ آپ یہ سلسلہ غریب مسلمانوں میں جاری رکھیں.دوسرے لوگوں کا خیال چھوڑ دیں.اس میں ذرّہ تردّد نہ کیا کریں.تعجب کہ آپ جیسے آدمی متردّد ہو جائیں.اگر ایک کافر بے دین جو دولتمند ہو کسی کو وعدہ دے جو میں تیری مشکلات پر تیری مدد کروں گا تو وہ اُس کے وعدہ سے تسلّی پکڑ جاتا ہے.پر خداوند تعالیٰ کا وعدہ جو اَصْدَقُ الصَّادِقِیْنَ ہے کیونکر موجب تسلّی نہ ہو.لکھا ہے کہ اوّل حال میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کیلئے ہمراہ رکھا کرتے تھے.پھر جب یہ آیت نازل ہوئی .۱؎ ۱؎ المائدہ: ۶۸

Page 598

یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی حاجت نہیں.سو اسی طرح سمجھیں کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ ’’اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں‘‘.۱؎ پھر جب وہ قادر رحمن رحیم ساتھ ہے اور اُس کی طرف سے مواعید ہیں تو کیا غم ہے دنیا دار کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت.تا ان کے سامنے لجاجت کی جائے اور اگر خدا چاہتا تو اُن کو ایسا سخت دل نہ کرتا.پر اُس نے یہی چاہا تا اُس کے نشان ظاہر ہوں.٭ تاریخ ۲۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذِی الحجہ ۱۳۰۰ھ مکتوب نمبر۳۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث مسرت خاطر ہوا.آپ نے بہت کچھ کوشش کی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ خدا تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں کرے گا سو گو آپ نے کیسی ہی تکالیف اُٹھائی ہوں پھر جب کہ مولیٰ کریم کی راہ میں ہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اُس کریم مطلق نے اس تکلیف کشی کے لائق سمجھا.اس عاجز کو خداوند کریم نے ایک خبر دی تھی جس کو حصہ ثالث میں چھاپ دیا تھا یعنی یہ کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ ۲؎ یعنی تیری مدد وہ مردان دین کریں گے جن کے دل میں ہم آسمان سے آپ ڈالیں گے.سو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَالْمَنَّـۃُ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو سب سے زیادہ اس عاجز کے انصار میں سے بنایا اور اس ناچیز کو آپ کے وجود سے فخر ہے اور اپنے خداوندکریم کی طرف سے آپ کو ایک رحمت مجسم خیال کرتا ہے اگر لوگ رُوگردان ہیں اور متوجہ نہیں ہوتے تو آپ اس سے ذرا متفکر نہ ہوں.خدا تعالیٰ ہر یک دل پر متصرف ہے اور اُس کا قوی ہاتھ ذرّہ ذرّہ پر قابض ہو رہا ہے.اگر وہ چاہتا تو دلوں میں ارادت پیدا کر دیتا.مخلوق کیا چیز ہے اور اُس ۱؎ تذکرہ صفحہ۸۹.ایڈیشن چہارم ۲؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۹ ٭ اخبار الحکم نمبر۳۰ جلد۳.۲۴؍ اگست ۱۸۹۹ء

Page 599

کی ہستی کیا حقیقت ہے لیکن اُس نے یہ نہیں چاہا بلکہ توقف اور آہستگی سے کام کرنا چاہا ہے.سب کچھ وہی کرتا ہے.وہ دوسرا کون ہے جو اُس کا حارج ہو رہا ہے.بارہا اس عاجز کو حضرت احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجۂ قدرت احدیّت میں مقہور اور مغلوب ہے اور تصرفات الٰہیہ زمین و آسمان میں کام کر رہے ہیں.چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا.اِنْ تَمْسَسْکَ بِضُرٍّ فَـلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ھُوَ.وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَـلَا رَآدَّلِفَضْلِہٖ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ لَاٰتٍ.۱؎ سو خدا تعالیٰ اپنے کلمات مقدسہ سے اس قدر اس عاجز کو تقویت دیتا ہے کہ پھر اُس کے غیر سے نہ کچھ خوف باقی رہتا ہے اور نہ اس کو امیدگاہ بنایا جاتا ہے.جب یہ عاجز اپنے معروضات میں لطف اور لذیذ کلمات میں جواب پاتا ہے اور بسا اوقات ہر سوال کے بعد جواب سنتا ہے اور کلمات احدیّت میں بہت سے تلطّفات پاتا ہے تو تمام ہموم و غموم بکلّی دل سے دور ہو جاتے ہیں اور جیسے کوئی نہایت تیز شراب سے مست اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتا ہے ایسی ہی حالت سرور کی طاری ہوتی ہے.جس میں دوسرے ہموم و غموم تو کیا چیز ہیں موت بھی کچھ حقیقت نظر نہیں آتی.خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر کھول دیا ہے کہ زید و عمر کچھ چیز نہیں.ہر ایک کام اُس کے اختیار میں ہے.پھر جب کہ ایسا ہے تو دوسروں کی شکایت عبث ہے.اس عاجز پر جو کچھ تفضّلات و احسانات حضرت خداوندکریم ہیں وہ حدّوشمار سے خارج ہیں کیونکہ یہ اَذلِّ عباد اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ بھی چیز نہیں اور بغیر اُس کے کہ تکلف سے کوئی کسر نفسی کی جائے فی الحقیقت سخت درجہ کاناکارہ اور ہیچ ہے.نہ زاہدوں میں سے ہے نہ عابدوں میں سے، نہ پارساؤں میں سے نہ مولویوں میں سے.سخت حیران ہے کہ کس چیز پر نظر عنایت ہے.یَفْعَلُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ.۲۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ ذِی الحجہ ۱۳۰۰ھ ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۸۹

Page 600

مکتوب نمبر۳۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا یہ عاجز چند روز سے ملاحظہ کام طبع کتاب کیلئے امرتسر چلا گیا تھا آج واپس آ کر آںمخدوم کا خط ملا.یہاں سے ارادہ کیا گیا تھا کہ امرتسر جا کر بعد اطلاع دہی ایک دو دن کے لئے آپ کی طرف آؤں.مگر چونکہ کوئی ارادہ بغیر تائید الٰہی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اس لئے یہ خاکسار امرتسر جا کر کسی قدر علیل ہو گیا.ناچار وہ ارادہ ملتوی کیا گیا.سو اِس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک روک واقع ہوگئی.اُس کے کام حکمت سے خالی نہیں.مولوی عبدالقادر صاحب کی حالت سے دل خوش ہے.طلب عرفان بھی ایک عرفان ہے.حضرت خداوندکریم کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں.سو اگر خداوندکریم نے چاہا تو یہ عاجز بھی دعا کرے گا.غنیمت ہے کہ بفضلہ مولوی صاحب صاحبِ علم ہیں.طالب نادان شیطان کا بازی گاہ ہوتا ہے لیکن اس فقیر کی راہ میں مولویت بھی ایک حجابِ عظیم ہے.انسان خاک ہے اور جب تک اپنی اصل کی طرف عود کر کے خاک ہی نہ ہو جائے تب تک مولیٰ کریم کی اس پر نظر نہیں پڑتی.سو اِس خاکساری اور نیستی کو اُسی قادر مطلق سے طلب کرنا چاہئے.میں جو مانگا گیا ہے وہ بھی خاکسار ی اور نیستی ہے.انسان کے نفس میں بہت سی رعونتیں اور نخوتیں اور عجب اور ریا اور خود بینی اور بزرگی چھپی ہوئی ہے.جب تک خدا ہی اُس کو دور نہ کرے دور نہیں ہوتی.پس یہ بلا ہے جو نیستی اور خاکساری کے منافی ہے.سو تضرع اور زاری سے جنابِ الٰہی میں التجا چاہئے تا جس نے یہ بلا پیدا کی ہے وہی اُس کو دور کرے اور ظاہری جھگڑوں میں بہت ہی نرم ہو جانا چاہئے.قلت اعتراض سالکین شعار میں سے ہے.انسان جب تک پاک نفس نہ ہو جائے اُس کے جھگڑے نفسانیت سے خالی نہیں.قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّْ.۱؎ ۹؍ نومبر ۱۸۸۳ء مطابق ۸؍محرم ۱۳۰۱ھ ۱؎ المائدہ: ۱۰۶

Page 601

مکتوب نمبر۳۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آںمخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کے وقت میں پہنچا.خداوندکریم آںمخدوم کو مکروہات زمانہ سے اپنے ظل رحمت میں رکھے.جس قدر آپ اس عاجز سے محبت رکھتے ہیں وہی محبت اور تعلق اس عاجز کو آپ سے ہے.یہ سچ ہے کہ مقام تعلقات محبت میں انسان یہی چاہتا ہے کہ دیر تک اس دارفانی میں اتفاق ملاقات رہے.لیکن اس مسافر خانہ کی بنیاد نہایت ہی خام اور متزلزل ہے.اب تک اس عاجز پر جو مکشوف ہوا ہے اُن میں سے کوئی ایسا کشف نہیں جس میں طول عمر مفہوم ہوتا ہے بلکہ اکثر الہام ذومعنیین ہوتے ہیں.جن کے ایک معنی کی رو سے تو قرب وفات سمجھا جاتا ہے اور دوسرے معنی اتمام نعمت ہیں.اس بات کو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سے معنی مراد ہیں.یہ الہام اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ۱؎ اس قدر ہوا ہے جس کا خدا ہی شمار جانتا ہے.بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے اس کے بھی دو ہی معنی ہیں.رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا اور وہ یہ ہے قُلْ لِضَیْفِکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ قُلْ لِاَ خِیْکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ.۲؎ یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا اس کے معنی بھی دو ہی ہیں.ایک تو یہ کہ جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے اس کو کہہ دے کہ میں تیرے پر اِتمام نعمت کروں گا.دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں وفات دوں گا.معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے.اس قسم کے تعلقات کے کم و بیش کوئی۳؎ لوگ ہیں.اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتے ہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت.اُن کے عسر یسر کی نسبت، اُن کے حوادث کی نسبت، ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے اور میرا اصول یہ ہے کہ انسانوںکو بالکل اپنے مولیٰ کی مرضی کے موافق رہنا چاہئے اور جو کچھ وہ اختیار کرے وہ بہتر ہے کیونکہ تمام خیر اُسی بات میں ہے جو وہ اختیار کرے.دل میں ارادہ تو ہے کہ ایک دو روز کے لئے آپ کے شہر میں آؤں ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۴۸،۷۵ ۲؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۸۹ ۳؎ ’’کوئی‘‘ سہو کتابت ہے صحیح ’’کئی‘‘ ہے.(مرتب)

Page 602

مگر بجز مرضی باری تعالیٰ کیونکر پوراہو.مولوی عبدالقادر صاحب موت کو بہت یاد رکھیں اور دلی اخلاص کے حصول میں کوشش کریں اور یہ عاجز بھی کوشش کرے گا.والسلام ۲۰؍ نومبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ محرم ۱۳۰۱ھ مکتوب نمبر۳۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا چونکہ اس ہفتہ میںبعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں اور اگرچہ بعض ان میں سے ایک ہندو لڑکے سے دریافت کئے ہیں مگر قابلِ اطمینان نہیں.اور بعض منجانب اللہ بطور ترجمہ الہام ہوا تھا اور بعض کلمات شاید عبرانی ہیں.ان سب کی تحقیق تنقیح ضرور ہے تا بعد تنقیح جیسا کہ مناسب ہو، اخیر جزو میں کہ اب تک چھپی نہیں درج کئے جائیں.آپ جہاں تک ممکن ہو بہت جلد دریافت کر کے صاف خط میں جو پڑھا جاوے اطلاع بخشیں اور وہ کلمات یہ ہیں.پریشن، عمر ہراطوس، با پلاطوس یعنی پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے.بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمر عربی لفظ ہے اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں.پھر دو لفظ اور ہیں.ھوشعنا نعسا ۱؎ معلوم نہیں کس زبان کے ہیں اور انگریزی یہ ہیں.اوّل عربی فقرہ ہے یَا دَاؤدُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا۲؎.’’یو مسٹ ڈو ۳؎ وَہاٹ آئی ٹولڈ یو‘‘.۴؎ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے.پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے اور ترجمہ اُس کا الہامی نہیں.بلکہ اُس ہندو لڑکے نے بتلایا ہے.فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں.اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہو جاتا ہے اُس کو غور سے دیکھ لینا چاہئے اور وہ الہام یہ ہیں.۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۸۰ ۲؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۸۲ ۳؎ مکتوب طبع اوّل میں سہواًیومسٹ ڈڈ چھپا ہے.(مرتب) ۴؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۸۲

Page 603

’’دَو آل من شُڈ بی انگری بٹ گاڈ اِز وِد یو‘‘.۱؎ ’’ ہی شل ہلپ یو‘‘.۲؎ ’’ورڈس آف گارڈ۳؎ ناٹ کین ایکسچینج‘‘.۴؎ ترجمہ اگر تمام آدمی ناراض ہونگے لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا وہ تمہاری مدد کرے گا.اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے پھر بعد اس کے ایک دو اور الہام انگریزی ہیں جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہیں.’’آئی شل ہلپ یو‘‘.۵؎ مگر بعد اس کے یہ ہے.’’یوہیو ٹو گو امرتسر‘‘.۶؎ پھر ایک فقرہ ہے جس کے معنی معلوم نہیں اور وہ یہ ہے.’’ہی ہل ٹس اِن دی ضلع پشاور‘‘.۷؎ یہ فقرات ہیں ان کو تنقیح سے لکھیں اور براہ مہربانی جلد تر جواب بھیج دیں تا اگر ممکن ہو تو اخیر جزو میں بعض فقرات بموضع مناسب درج ہو سکیں.بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچے.۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۳ء بمطابق ۱۱؍ صفر ۱۳۰۱ھ مکتوب نمبر۳۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آںمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.موجب ممنونی ہوا.آج میرا ارادہ تھا کہ صرف ایک دن کے لئے آںمخدوم کی ملاقات کے لئے لودہیانہ کا قصد کروں.لیکن خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ حال طبع کتاب کا ابتر ہو رہا ہے.اگر اُس کا جلدی سے تدارک نہ کیا جائے تو کاپیاں کہ جو ایک عرصہ کی لکھی ہوئی ہیں خراب ہو جائیں گی.بات یہ ہے کہ کاپیوں کی چھ سات جزیں مطبع ریاض ہند سے بباعث کم استطاعتی مطبع کے مطبع چشمہئِ نور میں دی گئی تھیں.اور مہتمم چشمہئِ نور نے وعدہ کیا تھا کہ اِن کاپیوں کو جلد تر چھاپ دیں گے اور قبل اس کے جو پُرانی اور خراب ہوں چھپ جائیں گی.سو خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ وہ کاپیاں اب تک نہیں چھپیں اور خراب ہوگئیں ۱؎ تذکرہ صفحہ۷۸ و ۹۲ ۲؎ تذکرہ صفحہ۷۸ و ۹۲ ۳؎ مکتوب طبع اوّل میں غلطی سے ’’واڑڈس آف گاڈ‘‘ چھپا ہے.۴؎ تذکرہ صفحہ۹۲ ۵؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۹۲ ۶؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۹۲ ۷؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۹۲

Page 604

ہیں.کیونکہ اُن کے لکھے جانے پر عرصہ دراز گزر گیا ہے ناچار اس بندوبست کے لئے کچھ دن امرتسر ٹھہرنا پڑے گا اور دوسری طرف یہ ضرورت درپیش ہے کہ ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک بعض احباب بطور مہمان قادیان میں آئیں گے اور اُن کیلئے اس خاکسار کا یہاں ہونا ضروری ہے سو یہ عاجز بنا چاری امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور معلوم نہیں کہ کیاپیش آوے.اگر زندگی اور فرصت اور توفیق ایزدی یاور ہوئی اور کچھ وقت میسر آ گیا تو انشاء اللہ القدیر ایک دن کے لئے امرتسر میں فراغت پا کر آںمخدوم کی طرف روانہ ہوں گا.مگر وعدہ نہیں اور کچھ خبر نہیں کہ کیاہوگا اور خداوند کے فضل و کرم ربوبیت سے اس عاجز کو فرصت مل گئی تو آںمخدوم اس بات کو پہلے سے یادرکھیں کہ صرف ایک رات رہنے کی گنجائش ہوگی.کیونکہ بشرط زندگی و خیریت کہ جو حضرت خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے.۲۶؍ دسمبر۱۸۸۳ء تک قادیان میں واپس آجانا ہے.اُن سے وعدہ ہو چکا ہے.وَالْاَمْرُکُلُّہٗ فِیْ یَدِ اللّٰہِاور ایک دن کے لئے آنا بھی ہنوز ایک خیال ہے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ.اگر خداوندکریم نے فرصت دی اور زندگی اور امن عطا کیا اور امرتسر کے مخمصہ سے صفائی اور راحت حاصل ہوئی اور تاریخ مقررہ پر واپس آنے کے لئے گنجائش بھی ہوئی تو یہ عاجز آنے سے کچھ فرق نہیں کرے گا.مگر آپ ریل پر ہرگز تشریف نہ لاویں کہ یہ تکلّف ہے.یہ احقرعباد سخت ناکارہ اور بے ہنر ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس کے لئے کچھ تکلّف کیا جائے.مولیٰ کریم کی ستّاریوں اور پردہ پوشیوں نے کچھ کا کچھ ظاہر کر رکھا ہے.ورنہ من آنم کہ من دانم ۱۹؍ دسمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ صفر ۱۳۰۱ھ مکتوب نمبر۳۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آںمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.مجھ کو آپ کا اخلاص بہت شرمندہ کر رہا ہے.خداوندکریم آپ کو بہت ہی اجر بخشے اور یہ عاجز تفضّلات الٰہیہ پر بہت بھروسہ رکھتا ہے اور یقینا سمجھتا ہے کہ اُس کی رحمتیں اس اخلاص اور سعی کے صلہ میں آثار نمایاں دکھلائیں گی.یہ عالَم فانی تو کچھ چیز نہیں اور

Page 605

اس کی آرزو کرنے والے سخت غلطی پر ہیں.مومن کے لئے اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہیں کہ اس کا مولیٰ کریم اُس پر راضی ہو.آپ کے نفس میں قبولیت دعا کی شرائط پیدا ہیں.اور اس عاجز نے دوسروں میں اس قسم کی استقامت کم پائی ہے.نیک ظن بننا آسان ہے مگر اُس کا نبھانا بہت مشکل.سو خدا نے استقامت اور حسن ظن کی سالیّت آپ کے نفس میں رکھی ہے.یہ بڑی خوبی ہے کہ جس سے انسان اپنی مراد کو پہنچتا ہے اور نہایت بدنصیب وہ انسان ہے جس کاانجام آغاز کا جوش نہیں رکھتا اور بدظنی اُس کو ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے اور سعید وہ انسان ہے جس پر نیک ظن غالب ہے.یہی وہ لوگ ہیں جو ٹھوکر کھانے سے بچتے ہیں اور اُس کا فطرتی نور اُن کو شیطانی تاریکی سے بچا لیتا ہے اور تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں اور الحمدللہ کہ میں آپ کو اُن تھوڑوں کے اوّل درجہ میں دیکھتا ہوں.بخدمت تمام احباب سلام مسنون پہنچے.یکم جنوری ۱۸۸۴ء مطابق یکم ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ مکتوب نمبر۳۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرًا.اب یہ عاجز یوم شنبہ امرتسرجانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہیں سے آپ کی خدمت میں خط لکھے گا.آپ نے جو خواب دیکھی.انشاء اللہ القدیر بہت بہتر ہے.انسان کو بغیر راست گوئی چارہ نہیں اور انسان سے خدا تعالیٰ ایسی کوئی بات پسند نہیں کرتا جیسے اُس کی راست گوئی کو.اور راست یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس عاجز سے ایک عجیب معاملہ ہے کہ اِس جیسے شخص پر اُس کا تفضل اور احسان ہے کہ اپنی ذاتی حالت میں اَحقر اور اَرذلِ عباد ہے.زُہد سے خالی اور عبادت سے عاری اور معاصی سے پُر ہے.سو اُس کے تفضّلات تحیر انگیز ہیں.خدا تعالیٰ کا معاملہ اپنے بندوں سے طرزِ واحد پر نہیں اور توجہات اور اقبال اور فتوح حضرت احدیّت کی کوئی ایک راہ خاص نہیں.اگرچہ ُطرق مشہورہ ریاضات اور عبادات اور زُہد اور تقویٰ ہے مگر ماسوا اس کے ایک اور طریق ہے جس کی خدا تعالیٰ کبھی کبھی آپ

Page 606

بنیاد ڈالتا ہے.کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزوں اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور مشہود وغیرہ آتا ہے جیسے یہ مصرع تمام شب گزرانیم در قیام و سجود چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسبِ حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی اور جو شعر اُس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہو گیا اور وہ یہ ہے:.طریق زہد و تعبد ندانم اے زاہد خدائے من قدمم راند بررہِ داؤد ۱؎ سو سچ ہے کہ یہ ناچیز زہد اور تعبد سے خالی ہے اور بجز عجز و نیستی اور کچھ اپنے دامن میں نہیں اور وہ بھی خدا کے فضل سے نہ اپنے زور سے.جو لوگ تلاش کرتے ہیں وہ اکثر زاہدین اورعابدین کو تلاش کرتے ہیں اور یہ بات اس جگہ نہیں.آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے.بعض آدمیوں کے بے وقت تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی.دعا کے لئے یہ الہام ہوا.بحسن قبولی دعاء بنگر کہ چہ زود دعا قبول میکنم ۲؎.۳؍ جنوری ۱۸۸۴ء کو یہ الہام ہوا.۶؍ تاریخ کو آپ کا روپیہ آ گیا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.۷؍ جنوری ۱۸۸۴ء.۷؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ ٭…٭…٭ ۱؎ تذکرہ صفحہ۹۳.ایڈیشن چہارم ۲؎ تذکرہ صفحہ۹۳ و ۹۴.ایڈیشن چہارم

Page 607

مکتوب نمبر۴۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون آںمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز اگرچہ بہت چاہتا ہے کہ آںمخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کرے مگر کچھ خداوندکریم ہی کی طرف سے ایسے اسباب آ پڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں.نہیں معلوم کہ حضرت احدیّت کی کیا مرضی ہے.عاجز بندہ بغیر اُس کی مشیت کے قدم اُٹھا نہیں سکتا.ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے.اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو اُن کو ناگوار گزری ہے سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے.آپ نے اُس وقت مجھ کو کہا کہ وضع بدل لو.میں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے.سو وہ لوگ بیزار ہوگئے اور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جا کر بیٹھ گئے.تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں.مَیں اُن کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں پھر بھی اُنہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں.تب اس عاجز نے اُن سے علیحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا.معلوم ہوا کہ اُن سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے جب نظر اُٹھا کر دیکھا تو آپ ہی ہیں.اب اگرچہ خوابوں میں تعینات معتبر نہیں ہوتے.اور اگر خدا چاہے تو تقدیراتِ معلّقہ کو مبدّل بھی کر دیتا ہے لیکن اندیشہ ہی گزرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شبیہ نہ ہو.لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں.حقیقی شوق اور ارادت کہ جو لغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے ورنہ اکثر لوگوں کے دل تھوڑی تھوڑی بات میں بدظنی کی طرف جھک جاتے ہیں اور پھر پہلے حال سے پچھلا حال اُن کا بدتر ہو جاتا ہے.صادق الارادت وہ شخص ہے کہ جو رابطہ توڑنے کیلئے جلد تر تیار نہ ہو جائے اور اگر ایسا شخص جس پر ارادت ہوکبھی کسی فسق اور معصیت میں مبتلا نظر آوے یا کسی اور قسم کا ظلم اور تعدّی اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتا دیکھے.یا کچھ اسباب اور اشیاء منہیات کے اُس کے مکان

Page 608

پر موجود پاوے تو جلد تر اپنے جامہ سے باہر نہ آوے اور اپنی دیرینہ خدمت اور ارادت کو ایک ساعت میں برباد نہ کرے بلکہ یقینا دل میں سمجھے کہ یہ ایک ابتلاہے کہ جو میرے لئے پیش آیا اور اپنی ارادت اور عقیدت میں ایک ذرّہ فتور پیدا نہ کرے اور کوئی اعتراض پیش نہ کرے اور خدا سے چاہے کہ اس کو اُس ابتلا سے نجات بخشے.اور اگر ایسا نہیں تو پھر کسی نہ کسی وقت اُس کے لئے ٹھوکر درپیش ہے.جن پر خدا کی نظر لطف ہے اُن کو خدا نے ایک مشرب پر نہیں رکھا.بعض کو کوئی مشرب بخشا اور بعض کو کوئی اور.اُن لوگوں میں ایسے مشرب بھی ہیں کہ جو ظاہری علماء کی سمجھ سے بہت دور ہیں.حضرت موسیٰ جیسے اولوالعزم مرسل خضر کے کاموں کو دیکھ کر سراسیمہ اور حیران ہوئے اور ہر چند وعدہ بھی کیا کہ میں اعتراض نہیں کروں گا پر جوش شریعت سے اعتراض کر بیٹھے.اور وہ اپنے حال میں معذور تھے اور خضر اپنے حال میں معذور تھا.غرض اس مشرب کے لوگوں کی خدمت میں ارادت کے ساتھ آنا آسان ہے مگر ارادت کو سلامت لے جانا مشکل ہے.بات یہ ہے کہ خدا کو ہر ایک زاہد کا ابتلا منظور ہے تا وہ اُن پر اُن کی چھپی ہوئی بیماریاں ظاہر کرے.سو نہایت بدقسمت وہ شخص ہے کہ جو اُس ابتلا کے وقت تباہ ہو جائے.کاش! اگر وہ دور کا دور ہی رہتا تو اُس کے لئے اچھا ہوتا.ابوجہل کچھ سب سے زیادہ شریر نہ تھا.پر رسالت کے زمانہ نے اُس کا پردہ فاش کیا.اگر کسی بعد کی صدی میں کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو جاتا تو شاید وہ خبث اُس کی چھپی رہتی.سو خبث امتحان ہی سے ظاہر ہوتے ہیں.بہتر یہ ہے کہ آںمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف بیعت کے لئے بہت زور نہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے.یہ عاجز معمولی زاہدوں اورعابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ اُن کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے.سَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ اگر خدا نے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرماوے.ہر ایک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اُس کے ظہور کے منتظر رہیں.باقی سب خیریت ہے.٭ ۱۸؍جنوری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۸؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ ٭ اخبار الحکم نمبر۳۱ جلد۳.۳۱؍ اگست ۱۸۹۹ء

Page 609

مکتوب نمبر۴۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آپ نے جو قول وحدت وجود کی نسبت استفسار فرمایا ہے اُس میں یہ بہتر تھا کہ اوّل آپ اُن وساوس اور اوہام کو لکھتے جن کو قائلین اس قول سقیم کے بطور دلیل آپ کے روبرو پیش کرتے ہیں کیونکہ اس عاجز نے ہر چند ایک مدت دراز تک غور کی اور کتاب اللہ اور احادیثِ نبویؐ کو بتدبّر و تفکر تمام دیکھا اور محی الدین عربی وغیرہ کی تالیفات پر بھی نظر ڈالی کہ جو اس طور کے خیالات سے بھرے ہوئے ہیں اور خود عقل خداداد کی رُو سے بھی خوب سوچا اور فکر کیا لیکن آج تک اس دعویٰ کی بنیاد پر کوئی دلیل اور صحیح حجت ہاتھ نہیں آئی اور کسی نوع کی برہان اس کی صحت پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ابطال پر براہین قویہ اور حجج قطعیہ قائم ہوتے ہیں کہ جو کسی طرح اُٹھ نہیں سکتیں.اوّل بڑی بھاری دلیل مسلمانوں کے لئے بلکہ ہر یک کے لئے کہ جو حق پر قدم مارنا چاہتا ہے قرآن شریف ہے کیونکہ قرآن شریف کی آیات محکمات میں بار بار اور تاکیدی طور پر کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ جو کچھ ہے.وہ سب مخلوق ہے اور خدا اور انسان میں ابدی امتیاز ہے کہ جو نہ اس عالَم میں اور نہ دوسرے عالَم میں مرتفع ہوگی.اس جگہ بھی بندگی بیچارگی ہے اور وہاں بھی بندگی بیچارگی ہے.بلکہ اُس پاک کلام میں نہایت تصریح سے بیان فرمایا گیا ہے کہ انسان کی روح کے لئے عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اُس کی پیدائش کی عبودیت ہی علّتِ غائی ہے.جیسا کہ فرمایا ہے. ۱؎ یعنی میں نے جنّ اور انس کو پرستش دائمی کے لئے پیدا کیا ہے اور پھر انسان کامل کی روح کو اُس کے آخری وقت پر مخاطب کر کے فرمایا  .۲؎ یعنی اے نفس بحق آرام یافتہ! اپنے ربّ کی طرف واپس چلا آ تو اُس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.سو میرے بندوں میں داخل ہو اور میرے بہشت میں اندر آ جا.ان دونوں آیات جامع البرکات سے ظاہر ۱؎ الذّٰریٰت: ۵۷ ۲؎ الفجر: ۲۸ تا ۳۱

Page 610

ہو رہا ہے کہ انسان کی روح کے لئے بندگی اور عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اسی عبودیت کی غرض سے وہ پیدا کیا گیا ہے بلکہ آیت مؤخر الذکر میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو انسان اپنی سعادتِ کاملہ کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے تمام کمالات فطرتی کو پا لیتا ہے اور اپنی جمیع استعدادات کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیتا ہے.اُس کو اپنی آخری حالت پر عبودیت کا ہی خطاب ملتا ہے اور کے خطاب سے پکارا جاتا ہے.سو اب دیکھئے اس آیت سے کس قدر بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا کمال مطلوب عبودیت ہی ہے.اور سالک کا انتہائی مرتبہ عبودیت تک ہی ختم ہوتا ہے.اگر عبودیت انسان کے لئے ایک عارضی جامہ ہوتا اور اصل حقیقت اس کی الوہیت ہوتی تو چاہئے تھا کہ بعد طے کرنے تمام مراتب سلوک کے الوہیت کے نام سے پکارا جاتا.لیکن کے لفظ سے ظاہر ہے کہ عبودیت اُس جہان میں بھی دائمی ہے.جو ابدالآباد رہے گی اور یہ آیت بآواز بلند پکار رہی ہے کہ انسان گو کیسے ہی کمالات حاصل کرے مگر وہ کسی حالت میں عبودیت سے باہر ہو ہی نہیں(سکتا).اور ظاہر ہے کہ جس کیفیت سے کوئی شَے کسی حالت میں باہر نہ ہو سکے وہ کیفیت اُس کی حقیقت اور ماہیت ہوتی ہے.پس چونکہ از روئے بیان واضح قرآن شریف کے انسان کے نفس کے لئے عبودیت ایسی لازمی چیز ہے کہ نہ نبی بن کر اور نہ رسول بن کر اور نہ صدیق بن کر اور نہ شہید بن کر اور نہ اس جہان اور نہ اُس جہان میں الگ ہو سکے.جو مہتر اور بہتر انبیاء تھے.انہوں نے عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ہونا اپنا فخر سمجھا.تو اس سے ثابت ہے کہ انسان کی اصل حقیقت و ماہیت عبودیت ہی ہے الوہیت نہیں.اور اگر کوئی الوہیت کا مدعی ہے تو بمقابلہ اس محکم اور بیّن آیت کے کہ جو  ۱؎ ہے.کوئی دوسری آیت ایسی پیش کرے کہ جس کا مفہوم فَادْخُلِیْ فِیْ ذَاتِیْ ہو.اور خود قرآن شریف جا بجا اپنے نزول کی علّتِ غائی بھی یہی ٹھہراتا ہے کہ تا عبودیت پر لوگوں کو قائم کرے اور خدا نے اپنی کتاب عزیز میں اُن لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے مسیح اور بعض دوسرے نبیوں کو خدا سمجھا تھا.پس کیونکر وہ لوگ رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں جنہوں نے تمام جہان کو یہاں تک کہ ناپاک اور پلید روحوں کو بھی کہ جو شرارت اور فسق اور فجور سے بھری ہیں خدا سمجھ لیا ہے.ہاں یہ بات سچ ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے توحید تین مرتبہ پر منقسم ہے.۱؎ الفجر: ۳۰

Page 611

ایک ادنیٰ اور ایک اوسط اور ایک اعلیٰ.تفصیل اس کی یہ ہے کہ ادنیٰ مرتبہ توحید کا کہ جس کے بغیر ایمان متحقق ہو ہی نہیں سکتا.نفی شرک رکھا ہے یعنی اس شرک سے بیزار ہونا کہ جو مشرکین محض ظلم اور زیادتی کی راہ سے مخلوق چیزوں کو خدا کے کاموں میں شریک سمجھتے ہیں یعنی کسی قوم نے سورج اور چاند یا آگ اور پانی کو دیو تے قرار دے لیا ہے اور اُن سے مرادیں مانگتے ہیں اور کسی قوم نے بعض انسانوں کو خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے اور خداوندکریم کی طرح اُن کو قادر مطلق اور قاضی الحاجات خیال کر رکھا ہے.سو یہ شرک صریح اور ظلم بدیہی ہے کہ جو ہر یک عاقل کو بہ بداہت نظر آتا ہے لیکن دوسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی ہے جس کے چھوڑنے پر توحید کی دوسری قسم موقوف ہے وہ اس کی نسبت کچھ باریک ہے کہ عوام کالانعام اس کو سمجھ نہیں سکتے.یعنی اسباب کو کارخانہ قدرت حضرت احدیّت میں شریک سمجھنا اور فاعل اور مؤثر حقیقی خدا ہی کو نہ جاننا.مثلاً ایک دوکاندار مسلمان جب عین ہجوم خریداروں کے وقت میں بانگ نماز جمعہ سنتا ہے تو دل میں خیال کرتا ہے کہ اگر میں اس وقت جمعہ کی نماز کے لئے اپنی دکان بند کر کے گیا تو میرا بڑا ہی حرج ہوگا.جمعہ کی نماز میں خطبہ سننے اور نماز پڑھنے اور پھر شاید وعظ سننے میں ضرور دیر لگے گی اور اس عرصہ میں سب خریدار چلے جائیں گے اور جو آمدنی اب یہاں ٹھہرے رہنے سے متصور ہے اُس سے محروم رہوں گا.سو یہ شرک فی الاسباب ہے.کیونکہ اگر وہ دوکاندار جانتا کہ میرا ایک رازق قادر و متصرف مطلق ہے جس کے ہاتھ میں تمام قبض و بسط رزق ہے اور اُس کی اطاعت کرنے میں کوئی نقصان عائد حال نہیں ہو سکتا اور اُس کے ارادہ کے برخلاف کوئی تدبیر و حیلہ رزق کو فراخ نہیں کر سکتا تو وہ اس شرک میں ہرگز مبتلا نہ ہوتا اور یہ قسم دوئم شرک کی چونکہ باریک ہے اس وجہ سے ایک عالَم اس میں مبتلا ہو رہا ہے اور اکثر لوگ اسباب پرستی پر اس قدر جھک رہے ہیں کہ گویا وہ اپنے اسباب کو اپنا خدا سمجھ رہے ہیں اور یہ شرک دِق کی بیماری کی طرح ہے کہ جو اکثر نظروں سے مخفی اور مُحْـتَجِبْ رہتا ہے.اور تیسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی گئی ہے جس کے چھوڑنے پر تیسری قسم توحید کی موقوف ہے وہ نہایت ہی باریک ہے کہ بجز خاص بالغ نظروں کے کسی کو معلوم نہیں ہوتی اور بغیر افراد کامل کے کوئی اس سے خلاصی نہیں پاتا اور وہ یہ ہے کہ ماسوا اللہ کے یادداشت دل پر غالب رہنا اور اُن کی محبت یا عداوت میں اپنے اوقات ضائع کرنا اور اُن کی ناچیز ہستی کو کچھ چیز سمجھنا اور اس شرک کا چھوڑنا

Page 612

جس پر توحید کامل موقوف ہے.تب محقق ہوتا ہے کہ جب محب صادق پر اس قدر محبت اور محبت الٰہی کا استیلاء ہو جائے کہ اُس کی نظر شہود میں ہر یک موجود ماسوا اللہ موجود ہونے کے معدوم دکھائی دے.یہاں تک کہ اپنا وجود بھی فراموش ہو جائے اور محبوب حقیقی کا نور ایسا کامل طور پر چمکے.سو اُس کے آگے کسی چیز کی ہستی اور حقیقت باقی نہ رہے اور اس توحید کا کمال اس بات پر موقوف ہے کہ ماسوا اللہ واقعی طور پر موجود تو ہو مگر سالک کی نظر عاشقانہ میں کہ جو محبت الٰہیہ سے کامل طور پر بھڑک گئی ہے وہ وجود غیر کا کالعدم دکھائی دے اور غلبہ محبت احدیّت کی وجہ سے اس کے ماسوا کو منفی اور معدوم خیال کرے.کیونکہ اگر وجود ماسوا کافی الحقیقت منفی اور معدوم ہی ہو تو پھر اس توحید درجہ سوئم کی تمام خوبی برباد ہو جائے گی.وجہ یہ کہ ساری خوبی اس توحید درجہ سوئم میں یہ ہے کہ محبوب حقیقی کی محبت اور عظمت اس قدر دل پر استیلاء کرے کہ بوجہ غلبہ اس شہود تام کے دوسری چیزیں معدوم دکھائی دیں.اب اگر دوسری چیزیں فی الحقیقت معدوم ہی ہیں تو پھر اس استیلاء محبت اور غلبہ شہود عظمت کی تاثیر کیا ہوئی اور کون کمال اس توحید میں ثابت ہوا کیونکہ جو چیز فی الواقعہ معدوم ہے اس کو معدوم ہی خیال کرنا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو استیلاء محبت پر موقوف ہو بلکہ محبت اور شہود عظمت تامہ کی کمالیت اسی حالت میں ثابت ہوگی کہ جب عاشق دلدادہ محض استیلاء عشق کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے اپنے معدوم۱؎ کے ماسوا کو معدوم سمجھے اور اپنے معشوق کے غیر کو کالعدم خیال کرے گو عقل شرع اُس کو سمجھاتی ہوں کہ وہ چیزیں حقیقت میں معدوم نہیں ہیں.جیسے ظاہر ہے کہ جب دن چڑھتا ہے اور لوگوں کی آنکھوں پر نورِ آفتاب کا استیلاء کرتا ہے تو باوجود اس کے کہ لوگ جانتے ہیں کہ ستارے اس وقت معدوم نہیں مگر پھر بھی بوجہ استیلاء اُس نور کے کہ ستاروں کو دیکھ نہیں سکتے.ایسا ہی استیلاء محبت اورعظمت اللہ کا محب صادق کی نظر میں ایسا ظاہر کرتا ہے کہ گویا تمام عالم بجز اس کے محبوب کے معدوم ہے اور اگرچہ عشق حقیقی میں یہ تمام انوار کامل اور اَتم طور پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی عشق مجازی کا مبتلا بھی اس غایت درجہ عشق پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنے معشوق کے غیر کو یہاں تک کہ خود اپنے نفس کو کالعدم سمجھنے لگتا ہے.چنانچہ منقول ہے کہ مجنوں جس کا نام قیس ہے اپنے عشق کی آخری حالت میں ایسا دیوانہ ہو گیا کہ یہ کہنے لگا کہ میں آپ ہی لیلیٰ ہوں.سو یہ بات تو نہیں کہ ۱؎ نقل مطابق اصل.اگلی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معدوم کا لفظ سہو کتابت ہے.صحیح لفظ ’’محبوب‘‘ ہے.

Page 613

فی الحقیقت وہ لیلیٰ ہی ہو گیا تھا بلکہ اس کا یہ باعث تھا کہ چونکہ وہ مدت تک تصوّرِ لیلیٰ میں غرق رہا.اس لئے آہستہ آہستہ اس میں خود فراموشی کا اثر ہونے لگا.ہوتے ہوتے اس کا استغراق بہت ہی کمال کو پہنچ گیا اور محویّت کی اس حد تک جا پہنچا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جنون عشق سے اَنَا اللّیْلٰیکا دعویٰ کرنے لگا اور یہ خیال دل میں بندھ گیا کہ فی الحقیقت میں ہی لیلیٰ ہوں.غرض غیر کو معدوم سمجھنا لوازم کمال عشق میں سے ہے اور اگر غیر فی الحقیقت معدوم ہی ہے تو پھر وہ ایسا امر نہیں ہے کہ جس کو استیلاء محبت اور جنون عشق سے کچھ بھی تعلق ہو اور غلبہ عشق کی حالت میں محویّت کے آثار پیدا ہو جانا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو انسان مشکل سے سمجھ سکے.شیخ مصلح الدین شیرازی نے خوب کہا ہے.نہ از چینم حکایت کن نہ از روم کہ دارم دلستانے اندریں بوم چو روئے خوب او آید بیادم فراموشم شود موجود و معدوم اور پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں: باتو مشغول و باتو ہم اہم و از تو بخشایش تو میخواہم تا مرا از تو آگہی دادند بوجودت گر از خود آگاہم اور خود وہ محویت کا ہی اثر تھا جس سے زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف میں کمال توحید کا یہی درجہ بیان کیا گیا ہے کہ محب صادق بوجہ استیلاء محبت اور شہود عظمت محبوب حقیقی کی غیر کے وجود کو کالعدم خیال کرے نہ کہ فی الواقعہ غیرمعدوم ہی ہو.کیونکہ معدوم کو معدوم خیال کرنا ترقیات عشق اور محبت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.سوعاشق صادق کے لئے توحید ضروری اور لابدی ہے کہ جو اُس کے کمال عشق کی علامت ہے.یہی توحید ہے کہ جو اُس کا شہود بجز ایک کے نہ ہو.نہ یہ کہ عقلی طور پر بھی فی الواقعہ ہی موجود سمجھتا ہو کیونکہ وہ اپنے عقل میں ہو کر ایسی باتیں ہرگز منہ پر نہیں لاتا اور حق الیقین کے مرتبہ کے لحاظ سے جب دیکھتا ہے تو حقائق اشیاء سے انکار نہیں کر سکتا بلکہ جیسا کہ اشیاء فی الواقعہ موجود ہیں ایسا ہی اُن کی موجودیّت کا اقرار رکھتا ہے اور چونکہ یہ توحید شہودی فنا کے لئے لازمی اور ضروری ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنے پاک کلام میں بسط سے فرمایا ہے اور نادان جب اُن بعض آیات کو

Page 614

دیکھتا ہے تو اس دھوکہ میں پڑ جاتا ہے کہ گویا وہ آیات توحید وجودی کی طرف اشارہ ہے اور اس بات کونہیں سمجھتا کہ خداوند کے کلام میں تناقض نہیں ہو سکتا.جس حالت میں اُس نے صدہا آیات بیّنات اور نصوصِ صریحہ میں اپنے وجود اور مخلوق کے وجود میں امتیاز کلی ظاہر کر دیا ہے اور اپنے مصنوعات کو موجود واقعی قرار دے کر اپنی صانعیت اُس سے ثابت کی ہے.اور اپنے غیر کو شقی اور سعید کی ِقسموں میں تقسیم کیا ہے اور بعض کیلئے خلودِ جنت اور بعض کے لئے خلودِ جہنم قرار دیا ہے اور اپنے تمام نبیوں اور مرسلوں اور صدیقوں کو بندہ کے لفظ سے یاد کیا ہے.اور آخرت میں اُن کی عبودیت دائمی غیر منقطع کا ذکر فرمایا ہے تو پھر ایسے صاف صاف اور کھلے کھلے بیان کے مقابلہ پر کہ جو بالکل عقلی طریق سے بھی مطابق ہے بعض آیات کی کسی اور طرح پر معنی کرنا صرف اُن لوگوں کا کام ہے کہ جو راہِ راست کے طالب نہیں.بلکہ آرام پسند اور آزاد طبع ہو کر صرف الحاد اور زندقہ میں اپنی عمر بسر کرنا چاہتے ہیں.ورنہ ظاہر ہے کہ اگر انسان صرف عقل کی رُو سے بھی نظر کرے تو وہ فی الفور معلوم کرے گا کہ مشتِ خاک کو حضرت پاک سے کچھ بھی نسبت نہیں.انسان دنیا میں آ کر بہت سے مکروہات اپنی مرضی کے برخلاف دیکھتا ہے اور بہت سے مطالب باوجود دعا اور تضرع کے بھی حاصل نہیں ہوتی.پس اگر انسان فی الحقیقت خدا ہی ہے تو کیوں صرف کُنْ فَیَکُوْنُ کے اشارہ سے اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتا اور کیوں صفات الوہیت اس میں محقق نہیں ہوتیں کیا کوئی حقیقت اپنے لوازم ذاتی سے معرّا ہو سکتی ہے.پس اگر انسان کی حقیقت الوہیت ہے تو کیوں آثار الوہیت اس سے ظاہر نہیں ہوتے.حضرت یعقوب علیہ السلام چالیس برس تک روتے رہے مگر اپنے فرزند عزیز کا کچھ پتہ نہ ملا مگر اسی وقت کہ جب خدا نے چاہا.پس جب کہ صفات الوہیت نبیوں میں ظاہر نہیں ہوئے تو اور کون ہے جس میں ظاہر ہوں گے اور جب کہ اب تک کوئی ایسا مرد پیدا نہیں ہوا کہ جس نے میدان میں آکر تمام مخالفوں اور موافقوں کے سامنے الوہیت کی طاقتیں دکھلائی ہوں تو پھر آئندہ کیونکر امید رکھیں.ماسوا اس کے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ انسان سے کیسے کیسے بُرے اور ناپاک کام صادر ہوتے ہیں.پس کیا عقل کسی عاقل کی تجویز کر سکتی ہے کہ یہ سب ناپاکیاں خدا کی روح کر سکتی ہے.پھر علاوہ اس کے مخلوق کے وجود سے انکار کرنا دوسرے لفظوں میں اس بات کا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ قادرِ مطلق نہیں.کیونکہ اگر اس کو قادر مطلق مان لیا ہے تو پھر اُس کی قدرت تامّہ کا اسی بات پر ثبوت موقوف

Page 615

ہے کہ جو چاہے پیدا کرے نہ کہ ہندوؤں کے اوتاروں کی طرح ہر جگہ بُرے بھلے کام کرنے کے لئے آپ ہی جنم لیتا رہے.سو خدا کی ذات سے سلب قدرت کرنا اور اُس کو طرح طرح کے گناہوں اور پاپوں اور بے ایمانیوں کا مورد ٹھہرانا اور انواع اقسام کی جہالتوں کو اُس پر روا رکھنا اسی توحید وجودی کا نتیجہ ہے جس کو وجودی لوگ نہیں سمجھتے.عقلمند انسان کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایسا دعویٰ ہرگزنہیں کرتا جس دعویٰ کا ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہوتا.پس اگر یہ لوگ عاقل ہوتے تو ایسا دعویٰ کرنے سے متہاشی ہوتے.زیادہ تر خرابی ان میں یہ ہے کہ اُن کی زبان اُن کے فعل اور عمل پر غالب ہو رہی ہے.ذرا خیال نہیں کرتے کہ ہم کو نفس امّارہ نے کہاں تک پہنچا رکھا ہے اور کس قسم کی ظلمت ہمارے دلوں پر طاری ہو رہی ہے اور کیونکر ہم دن رات جیفہ دنیا میں غرق ہو رہے ہیں.اگر یہ لوگ ایسا خیال کرتے اور انسانی ترقیات کو حال کے ذریعہ سے دیکھتے نہ صرف قال کے ذریعہ سے، تو یہ تمام اوہام اُن کے خود بخود اُٹھ جاتے.مثلاً ایک عاقل سیاح کے پاس یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی سیاح فلاں جزیرہ میں پہنچتا ہے تو بجائے دو آنکھ کے اُس کی چار آنکھیں ہو جاتی ہیں اور منہ سے سنتا ہے اور کانوں کے ساتھ دیکھ سکتا ہے.تو ایسی خلاف قیاس خبر پر صرف اسی حالت میں عقلمند یقین کرے گا کہ جب بیان کنندہ اس خبر کا خود اس جزیرہ میں ہو کر آیا ہو اور یہ چار آنکھیں اور ایسا منہ اور ایسے کان اس نے دکھلائے ہوں یا کوئی اور انسان پیش کر دیا ہو جس میں یہ صفتیں موجود ہوں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہرگز وہ عاقل اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا اور غایت کار اُس احمق کو یہ جواب دے گا کہ بھائی میں بھی تو اُسی جزیرہ کی طرف چلا جاتا ہوں.سو اگر ایسی ہی اس جزیرہ میں خاصیت ہے تو میری بھی وہاں جا کر چار آنکھیں ہو جائیںگی اور میں بھی منہ سے سنوں گا اور کانوں سے دیکھوں گا.تب خود میں تیرے اس بیان کو قبول کر لوں گا.اب میں بلا ثبوت کیوں کر قبول کر سکتا ہوں.سوسمجھنا چاہئے کہ جو انسان اپنے نفس کو دھوکہ نہیں دیتا اور اپنے خیال کو گمراہی میں ڈالنا نہیں چاہتا وہ باتیں چھوڑ دیتا ہے اور کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور سرگرمی سے منزل مقصود کی طرف قدم رکھتا ہے.پھر اُس راہ کے تمام عجائبات بالضرورت اُس کو دیکھنے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے حق الامر اُس پر کھل جاتا ہے مگر جو کوئی صرف باتوں میں مقید رہتا ہے اور محض سنے سنائے قصوں پر کہ جو عقل اور شرع سے بکلّی منافی ہیں جم جاتا ہے وہ اپنے نفس کو آپ ہلاکت میں ڈالتا ہے.حقیقت میں ایسے

Page 616

لوگ خدا تعالیٰ سے بالکل بے غرض ہیں اور وسیع مشربی کے پردہ میں اپنے نفسِ امّارہ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں اگر اُن کی سرشت میں کچھ بُو صدق کی ہے تو پہلے انسان بن کر ہی دکھلا دیں.پیچھے سے الوہیت کا دعویٰ کریں کیونکہ انسان بننے کے ہی ایسے لوازم ہیں جن کی ابھی تک بُو اُن میں نہیں آئی.نہ اُس کے حصول کی کچھ پرواہ رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ اُمّتِ محمدیہ کی آپ اصلاح کرے.عجب خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ عاجز بباعث اپنی علالت طبع کے اس مضمون کو تفصیل اور بسط سے نہیں لکھ سکا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ طالب حق کے لئے اسی قدر کافی ہے مگر جس شخص کا مقصد خدا نہیں اس کو کوئی دقیقہ معرفت اور کوئی نشان مفید نہیں. َ ۱؎ اور یہ عاجز دو دن کے رفع انتظار کی غرض سے یہ خط لکھا گیا اور اب میں توکلاً علی اللّٰہ امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں.والسلام ۱۳؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ ٭…٭…٭ مکتوب نمبر۴۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر صاحب سلمہ ٗ.بعد سلام مسنون آںمخدوم کا خط آج امرتسر میں مجھ کو ملا.پانچ جلدیں حصہ اوّل و دوئم و سوئم روانہ ہو چکی ہیں.ایک خط دہلی کے علماء کی طرف سے اس خاکسار کو آیا تھا کہ مولوی محمد نے تکفیر کا فتویٰ بہ نسبت اس خاکسار کے طلب کیا ہے.نہایت رفق اور ملائمت سے رہنا چاہئے.آج حضرت خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا.یَا عَبْدَالرَّافِعِ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ.اِنِّیْ مُعِزُّکَ لَامَانِعَ لِمَا اُعْطِیْ.۲؎ شاید پرسوں مکرر الہام ہوا تھا..۳؎ یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہو چکا ہے.۱۵؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۶؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ ۱؎ یونس: ۱۰۲ ۲؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۹۷ ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۹۶

Page 617

مکتوب نمبر۴۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ٗ.بعد سلام مسنون آںمخدوم کا خط بعد واپسی از امرتسر مجھ کو ملا.آںمخدوم کچھ تفکر اور تردّد نہ کریں اور یقین سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں.بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے.اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے.کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہ ہوئے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا.اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اُس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یوں ہی اُن کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ اُن کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا.تاریخ ۲۶؍ فرو۱؎ری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ ۱؎ نقل مطابق اصل.یہ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے قمری تاریخ کے لحاظ سے یہ ۱۶؍ فروری بنتی ہے.

Page 618

مکتوب نمبر۴۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ٗ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آںمخدوم کا عنایت نامہ بذریعہ محمد شریف صاحب مجھ کو ملا.سو آپ کو میں اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے حصہ سوئم و چہارم بخدمت علماء دہلی بھیج دیئے ہیں.آپ نے جو لکھا ہے کہ چوتھے حصہ کے صفحہ ۴۹۶ پر مخالف اعتراض کرتے ہیں.آپ نے مفصل نہیں لکھا کہ کیا اعتراض کرتے ہیں.صرف آپ نے یہ لکھا ہے کہ یَامَرْیَمُ اسْکُنْمیں نحوی غلطی معلوم ہوتی ہے.اُسْکُنْ کی جگہ اُسْکُنِیْ چاہئے تھا.سو آپ کو میں مطلع کرتا ہوں کہ جس شخص نے ایسا اعتراض کیا ہے اس نے خود غلطی کھائی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ نحو اور صرف سے آپ ہی بے خبر ہے کیونکہ عبارت کا سیاق دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ مریم سے مریم اُمِّ عیسیٰ مراد نہیں اور نہ آدم سے آدم ابوالبشر مراد ہے اور نہ احمد سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور ایسا ہی ان الہامات کے تمام مقامات میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر ایک جگہ یہی عاجز مراد ہے اب جب کہ اس جگہ مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد نہیں ہے بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کیلئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے یعنی یَامَرْیَمُ اسْکُنْ ۱؎ کہا جائے نہ یہ کہ یَا مَرْیَمُ اسْکُنِیْ.ہاں اگر مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد ہوتی تو پھر اس جگہ اُسْکُنِیْ آتا لیکن اس جگہ تو صریح مریم مذکر کا نام رکھا گیا.اس لئے برعایت مذکر، مذکر کا صیغہ آیا اور یہی قاعدہ ہے جو نحویوں اور صرفیوں میں مسلّم ہے اور کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے اور زَوج کے لفظ سے رفقاء اور اقرباء مراد ہیں.زوج مراد نہیں ہے اور لغت میں یہ لفظ دونوں طور پر اطلاق پاتا ہے اور جنت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتحیابی اور سرور اور آرام پر بولا جاتا ہے اور یہ عاجز اس الہام میں کوئی جائے گرفت نہیں دیکھتا.۲۱؍فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۲؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ ۱؎ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۵۵

Page 619

مکتوب نمبر۴۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا یہ عاجز یہ دعا کرتا ہے کہ خداوندکریم اپنے فضل و کرم سے آں مخدوم کی عمر میں برکت بخشے.زیادہ تر اس بات میں کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح مولیٰ کریم راضی ہو جائے.ہر یک سعادت اس کی رضا سے حاصل ہوتی ہے.دنیا میں جو کچھ انسان رسوم کے طور پر کرتا ہے وہ کچھ چیز نہیں ہے.مگر جو کچھ خالصاً مرضات اللہ کے حاصل کرنے کیلئے صدق قدم سے کیا جاتا ہے وہ عملِ صالح ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے.عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے.خداوندکریم عملِ صالح سے راضی ہو جاتاہے اور قرب حضرت احدیّت حاصل ہوتا ہے مگر جس طرح شراب کے آخری گھونٹ میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے برکات اُس کی آخری خیر میں مخفی ہوتے ہیں.جو شخص آخر تک پہنچتا ہے اور عمل صالح کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ اُن برکات سے متمتع ہو جاتا ہے لیکن جو شخص درمیان سے ہر عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے اور اُس کو اپنے کمال مطلوب تک نہیں پہنچاتا، وہ اُن برکات سے محروم رہ جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ باوجود اس کے کہ کچھ کچھ عملِ صالح بجا لاتے ہیں مگر برکات ان اعمال کے ان میں نمایاں نہیں ہوتے کیونکہ جب تک کوئی میوہ خام ہے وہ پختہ اور رسیدہ میوہ کی لذت نہیں بخش سکتا.سب برکتیں کمال میں ہیں اور عمل ناتمام میں کوئی برکت نہیں بلکہ بسا اوقات ناقص العمل انسان کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتا ہے اور اُن لوگوں میں جا ملتا ہے کہ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ہیں.سو حقیقی طور پر عملِ صالح اس عمل کو کہا جاتا ہے کہ جو ہر یک قسم کے فساد سے محفوظ رہ کر اپنے کمال کو پہنچ جائے اور اپنے کمال تک کسی عملِ صالح کا پہنچنا اس بات پر موقوف ہے کہ عامل کی ایسی نیت صالح ہو کہ جس میں بجز حق ربوبیت بجا لانے کے کوئی اور غرض مخفی نہ ہو یعنی صرف اُس کے دل میں یہ ہو کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور گو اطاعت بجالانے پر ثواب مترتب یا عذاب مترتب ہو اور گو اُس کا نتیجہ آرام اور راحت ہو یا نکبت اور عقوبت

Page 620

ہو لیکن بہرحال وہ اپنے مالک کی اطاعت میں رہے گا کیونکہ وہ بندہ ہے.پس جو شخص اس اصول پر خدا کی عبادت کرتا ہے وہ اس راہ کی آفات سے امن میں ہے اور امید ہے کہ اس پر فضل ہو لیکن اسے لازم ہے کہ کسی امید پر بنیاد نہ رکھے اور اطاعت اور عبودیت کو ایک حق ربوبیت کا سمجھے کہ جو بہرحال ادا کرنا ہے اور سرگرمی سے خدمت میں لگا رہے اور اپنی کارگزاری اور خدمت کو کچھ چیز نہ سمجھے اور مولیٰ کریم پر احسان خیال نہ کرے.دنیا مزرعہ آخرت ہے اور فارغ باشی کچھ چیز نہیں.وہی لوگ مبارک ہیں کہ جو دن رات اپنے زور سے، اپنے تمام اخلاص سے، اپنے تمام رجوع سے رضائے مولیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں.۲۸؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۹؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ

Page 621

مکتوب نمبر۴۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا آپ نے جو اسی عنایت نامہ مرقومہ ۲۹؍ فروری ۸۴ء میں ایک سوال تحریر فرمایا تھا.آج تک میں نے بباعث علالت طبع اُس کی طرف توجہ نہیں کی اور اب بھی بباعث ضعف دماغ و دردِ سر طبیعت حاضر نہیں ہے لیکن جو آںمخدوم کا وہ خط دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سوال صرف ایک نزاعِ لفظی ہے کیونکہ جس مرتبہ توحید کو آںمخدوم ابتدائی مرتبہ تصور فرماتے ہیں وہ مرتبہ اس عاجز کے نزدیک ان معنوں کر کے انتہائی مرتبہ توحید کا ہے کہ وہ سِیَرِ اولیاء کا منتہا اور آخری حد ہے.جس سے فنائے اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے.اگرچہ درگاہ احدیّت بے نہایت ہے لیکن جس کمال توحید کو انسان اپنے مجاہدہ سے، اپنی کوشش سے، اپنے تزکیہ نفس سے، اپنے سیر و سلوک سے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یہیں تک ہے پھر بعد اس کے مخفی تفضّلاتِ الٰہیہ اور مواہب لدنیہ ہیں جن تک کوششوں کو راہ نہیں.ساری کوششیں اور محنتیں صرف اس حد تک ہیں کہ انسان اپنے نفس اور تمام خلق کو ہیچ اور لاشَے سمجھ کر اور اپنے ہوا اور ارادہ سے باہر ہو کر بکلّی خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائے اور اپنی ناچیز ہستی، بشہود ہستی حقیقی حضرت باری تعالیٰ کے نابود اور معدوم دکھائی دے.اور جیسا فی الواقعہ انسان محبت وجود حضرت قادر مطلق کے ہیچ اور ناچیز ہے ایسی ہی حالت پیدا ہو جائے گویا اب بھی وہ نیست ہے جیسا پہلے نیست تھا.سو یہ مرتبہ عبودیت کی آخری حد ہے اور یہی اس توحید کا انتہائی مقام ہے کہ جو سعی اور کوشش اور سیرو سلوک سے حاصل کرنا چاہئے.یہ سچ ہے کہ بعد اس کے مرتبہ سیر فی اللہ ہے.لیکن اس مرتبہ کے حصول کے لئے کوششوں کو دخل نہیں بلکہ یہ محض بطریق فضل اور موہبت کے حاصل ہوتا ہے اور کوششیں صرف اُسی مرتبہ فنا تک ختم ہو جاتی ہیں کہ جو اوپر ذکر کیا گیا ہے.مثلاً ایک شخص کئی منزلیں طَے کر کے بادشاہ کے ملنے کیلئے آیا ہے اور جس قدر راہ میں موانع تھے.سب سے خلاصی پاکر بادشاہ کے خیمہ تک پہنچ گیا ہے اب خیمہ کے اندر جانا اُس کا کام نہیں ہے بلکہ وہ اپنا کام سب کر چکا ہے اور خیمہ میں داخل کرنا اور بارگاہ میں دخل دینا یہ خاص بادشاہ کا کام ہے کہ جو ایک خاص اجازت

Page 622

بادشاہی پر موقوف ہے.ناچیز بندہ کیا حقیقت رکھتا ہے کہ جو اپنی بشری طاقتوں کے ذریعہ سے اور اپنے اختیار سے خود بخود بلا اجازت بارگاہ میں داخل ہو جائے اور اب بباعث ضعف زیادہ لکھ نہیں سکتا.آپ نے جو کئی شعروں کے معنی دریافت فرمائے ہیں وہ کسی اور وقت اگر خدا نے چاہا تحریر کروں گا.اور امرتسر سے واپس آ گیا ہوں اور واپس آ کر میر مردان علی صاحب کا خط ملا.سو اُن کی نسبت اور آںمخدوم کے لخت جگر کی نسبت دعاء خیر کر کے حوالہ بخدا کرتا ہوں جب طبیعت رو بصحت ہوئی انشاء اللہ تعالیٰ بشرط یاد آںمخدوم کے سوال یعنی اشعار کے معنوں کی بابت لکھا جائے گا.٭ ۱۱؍ مارچ ۱۸۸۴ء مطابق ۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ خمکتوب نمبر۴۷ مخدومی و مکرمی اخویم شاہ صاحب سلمہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.اللہ بخش صاحب کے اعتراض کے بارے میں بات کو طول دینا اس عاجز کے نزدیک مناسب نہیں.جو کچھ ہو رہا ہے خداوند کریم کر رہا ہے اور جو کچھ کر رہا ہے.بہتر کر رہا ہے.کیوں دوسروں کو درمیان میں دیکھا جائے.اس کے تلطّفات و احسانات کیونکر شمار میں آسکتے ہیں کہ اس احقر عباد پر باوجود صدہا طرح کی آلودگیوں کے جو اس عاجز میں دیکھتا ہے اور باوصف ہزاروں نقصانوں کے کہ جو اس عاجز میں دمبدم پاتا ہے.دم بدم اپنی عنایات زیادہ کرتا جاتا ہے.پھر جو لوگ حقیقت میں … اور طول مدت سے اس کام میں پڑے ہوئے ہیں اور ذرّیت صلحا اور بیعت یافتہ صالحین ہیں اور صحبت دیدہ اور محنت کشیدہ ہیں اگر وہ بمقتضائے اپنی بشریت کے کسی نوع کے رشک کا مظہر بن جائیں تو معذور ہیں.آپ اس خاندان سے بہ منشائے الٰہی ہیں.آپ کے لئے یہی چاہیے کہ دعائے خیر سے یاد کریں.نواب صاحب کے بارے میں جو آپ نے دریافت فرمایا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ نواب صاحب کے لئے یہ عاجز ایک مدت تک بہت تضرع سے دعا کرتا رہا ہے.ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدّل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گذار ہیں اور نہایت عمدگی اور صفائی سے یہ خواب آئی اور یہ

Page 623

خواب بہ طور کشف تھی چنانچہ اسی صبح کو نواب صاحب کو اس خواب سے اطلاع دی گئی پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک صاحب الٰہی بخش نام اکونٹینٹ نے کہ جو اس کتاب کے معاون ہیں کسی اپنی مشکل میں دعا کیلئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپیہ بھیجے.اور جس روز یہ خواب آئی اس روز سے دو چار دن پہلے ان کی طرف سے دعا کیلئے الحاح ہو چکا تھا.مگر یہ عاجز نواب صاحب کیلئے مشغول تھا اس لئے ان کیلئے دعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا اور جس روز نواب صاحب کیلئے بشارت دی گئی تھی تو اس دن خیال آیا کہ آج منشی الٰہی بخش کیلئے توجہ سے دعا کریں.سو بعد نماز عصر جب وقتِ صفا پایا اور دعا کا ارادہ کیا گیا تو پھر بھی دل نے یہی چاہا کہ اس دعا میں بھی نواب صاحب کو شامل کر لیا جائے.سو اس وقت نواب صاحب اور منشی الٰہی بخش دونوں کیلئے دعا کی گئی.بعد دعا اسی جگہ الہام ہوا.نُنَجِّیْھِمَا مِنَ الْغَمِّ.۱؎ یعنی ہم ان دونوں کو غم سے نجات دیں گے.چونکہ یہ عاجز اُسی دن صبح کے وقت نواب صاحب کی خدمت میں خط روانہ کرچکا تھا اور بذریعہ رؤیائے صادقہ نواب صاحب کو بہت سی تسلّی دی گئی تھی اس لئے اسی خط پر کفایت کی گئی.اور منشی الٰہی بخش کو اس الہام سے اطلاع دی گئی اور بروقت صدور اس الہام کے چند نمازی موجود تھے اور اتفاقاً دو ہندو مسمّٰی ملاوامل اور شرمپت رائے بھی کہ جو اکثر آیا جایا کرتے ہیں عین اس موقعہ پر موجود تھے.ان کو بھی اسی وقت اطلاع دی گئی اور کئی مہمان آئے ہوئے تھے ان کو بھی خبر دی گئی.پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کا خط آ گیا کہ سرائے کا کام جاری ہو گیا ہے.سو چونکہ دعا ایسے کام کیلئے کی گئی تھی اس لئے یہ اطلاع دینا فضول سمجھا گیا مگر خداوندکریم کا بڑا شکر ہے کہ مجمع کثیر میں یہ الہام ہوا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.عین الہام کے صدور کے وقت دو ہندو موجود تھے جن کو اُسی وقت مفصّل بتلایا گیا اور دوسرے نمازیوں کو بھی خبر دی گئی.اور منشی الٰہی بخش کو بھی لکھا گیا.نواب علی محمد خان صاحب کی ارادت اور شب و روز کی توجہہ اور اخلاص قابلِ تعریف ہے.خدا تعالیٰ اُن کو ہر ایک غم سے خلاصی بخشے اور حسن عِاقبت عطا فرماوے.آپ نواب صاحب کو یہ بھی اطلاع دے دیں کہ مالیر کوٹلہ سے نواب ابراہیم علی خاں صاحب والیئِ مالیر کوٹلہ کے ایک سررشتہ دار کا خط آیا ہے کہ وہ مبلغ پچاس۵۰ روپیہ بطور امداد بھیجیں گے.مگر ابھی آئے نہیں.یہ روپیہ انشاء اللہ پٹیالہ میں عبدالحق صاحب کو بھیجا جاوے گا اور پھر بعد اُس کے اُن کا قرضہ دو سَو روپیہ باقی رہ جاوے گا.والسلام.راقم.خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۲۶؍ مئی ۱۸۸۴ء٭

Page 624

مکتوب نمبر۴۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ یہ عاجز چند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا.آج بروز چار شنبہ بعد روانہ ہو جانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میر امداد علی صاحب کا ملا.جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اور تردّد لاحق ہوا.اگرچہ میں بھی بیمار تھا مگر اس بات کے معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی سختی پر پہنچ گئی ہے مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت سی تشویش پیدا ہوگئی.خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطا فرماوے.اسی تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرط صحت و عافیت ۱۴؍اکتوبر تک وہیں آ کر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرماوے.آپ کے لئے بہت دعا کروں گا اور اب تَوَکَّـلًا عَلَی اللّٰہِ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا.آپ اگر ممکن ہو تو اپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرماویں.۸؍ اکتوبر ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ذوالحجہ ۱۳۰۲ھ مکتوب نمبر۴۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خطوط کے چھپنے کے لئے اس عاجز نے ایک خاص معتبر لاہور میں بھیجا ہوا ہے.اگرچہ ارادہ تھا کہ دو ہزار خط چھاپا جائے مگر دو ہزار نوٹس کے بھیجنے میں پانچ سَو روپیہ خرچ آتا ہے کیونکہ ہر ایک خط رجسٹری ہو کر بصرف چار آنہ جائے گا.اس لئے بعض دوستوں کے مشورہ سے یہ قرینِ مصلحت معلوم ہوا کہ بالفعل صرف پانچ سَو خط چھپوایا جائے.جس میں کچھ انگریزی اور کچھ اُردو ہوں گے.ان خطوط کے چھپوانے اور روانہ کرنے میں بھی ایک سَو پچاس یا کچھ زیادہ

Page 625

روپیہ خرچ آ جائے گا.مگر یہ کام اتمامِ حجت کیلئے کیا گیا ہے تا ہر یک ضلع میں بڑے بڑے پادریوں اور پنڈتوں کی طرف اور بعض راجوں اور رئیسوں کی طرف بھی اور بعض علماء اور گدی نشینوں کی طرف بھی روانہ کئے جائیں اور پھر جب اُن سب کی اطلاع یابی ہوکر آجائے تو اُن سب کے نام بغرض اظہار اِتمامِ حجت حصہ پنجم میں درج کئے جائیں.سو اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اور اُس کے ارادہ میں ہوا تو یہ کام انجام پذیر ہو جائے گا ورنہ ہرچہ مرضی مولیٰ ہمان اولیٰ.مکتوب حضرت یحيٰ منیری کا مضمون جو آپ نے لکھا ہے بہت ہی عمدہ ہے اور منصف کے لئے کافی.والسلام ۲؍ مارچ ۱۸۸۵ء.۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ مکتوب نمبر۵۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ از عاجزعایٔذباللہ الصمد غلام احمدبخدمت اخویم مخدوم و مکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا عنایت نامہ آںمخدوم پہنچا.حال معلوم ہوا.جس قدر آںمخدوم نے اشاعتِ دین اور اِعلائِ کلمہئِ اسلام کے لئے رنج اُٹھایا ہے خدا تعالیٰ اُس کے عوض میں آپ پر اس طور سے راضی ہو کہ جیسا اپنے سچے خادموں اور مقبولوں پر راضی ہوا کرتا ہے.آمین ثم آمین.فی الحقیقت مسلمانوں کی عجیب نازک حالت ہو رہی ہے.جس عظمت اور بزرگی کو خدا اور رسول میں ماننا تھا، وہ اَور اَور چیزوں کو دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ رحم کرے اور اپنے سچے دین کی حمایت میں وہ تائید دکھلاوے جن سے ان کور باطنوں کی آنکھیں کھلیں.ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حقیقت اور کیا کرسکتے ہیں.اگر ہمارے ہاتھوں میں توفیق ایزدی کچھ ہے تو صرف تضرعات ہیں اگر ربّ العرش تک پہنچ جائیں لیکن دل پُر درد کا یہ حال ہے کہ نہ بہشت کے نعماء کے لئے طبیعت کو جوش ہے اور نہ دوزخ کے آلام کی فکر ہے بلکہ دل اور جان اسی تمنا میں غرق ہو رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان بدعات کے داغوں کو اسلام کی خوبصورت شکل سے دور کرے اور اپنی خاص حمایت اور نصرت سے عظمت اور بزرگی اپنے کلام کی لوگوں پر ظاہر فرما وے.آمین!

Page 626

مرزا جان جانان صاحب کے خط کا ردّ کچھ مشکل نہیں.مرزا صاحب مرحوم ہندوؤں کے اصولوں سے بکلّی ناواقف معلوم ہوتے ہیں.اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰیکسی فرصت کے وقت ان کی نسبت کچھ تحریر کیا جائے گا.اس عاجز کا یہ حال ہے کہ بعض گذشتہ اور تازہ الہامات سے قرب اَجَل کے آثار پائے جاتے ہیں گو صفائی سے نہیں بلکہ مشتبہ اور ذومعنیین الہام ہیں.تا ہم فکر سے غافل نہیں رہنا چاہئے.اسی وجہ سے میں نے اپنی تمام ہمت کو اس طرف مصروف کیا ہے.حصہ پنجم کی عبارت کو جلد مرتب اور بامحاورہ کر کے اور جو کچھ اس میں زائد داخل کرنا ہے وہ داخل کر کے تَوَکَّـلًا عَلَی اللّٰہِ چھپوانا شروع کر دوں کہ اس ناپائیدار اور ہیچ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں.آپ بھی دعا کریں اور اخوی منشی احمد جان صاحب کو بھی لکھیں کیونکہ بعض تقدیرات بعض دعاؤں سے ٹل جاتی ہیں.مکتوب نمبر۵۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ تعالیٰ.بعدالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ عنایت نامہ مع مبلغ چالیس روپیہ پہنچا.یہ عاجز آپ کا بغایت درجہ شکر گزار ہے اور اپنے مولیٰ کریم جلّ شانہٗ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ کو جزائے عظیم بخشے.آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں اور میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مؤاخذہ کرتا ہے.میں نے اُس کو کہا.کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے؟ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا.میں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلّ شانہٗ کے تصرف میں ہوں.جہاں مجھ کوبٹھائے گا، بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہو جاؤں گا.اور یہ الہام ہوا.یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ ۱؎ یعنی تیرے لئے

Page 627

ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو.واللّٰہ اعلم بالصواب.مناسب سمجھا تھا آپ کو اطلاع دوں.۶؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۳۰۲ھ مکتوب نمبر۵۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدوم مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آپ کا اخلاص اور جوش محبت اپنے کمال کو پہنچ گیا..۱؎ خداوندکریم سے چاہتا ہوں کہ آپ کا نشست خاطر بہ جمعیت مبدل ہو.آمین ۱۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۳؍ رجب ۱۳۰۲ھ مکتوب نمبر۵۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ہذا ان دنوںمیں ایک شخص اِندر مَن نام جو ایک سخت مخالف اسلام ہے اور کئی کتابیں ردّاسلام میں اُس نے لکھی ہیں.مراد آباد سے اوّل نابھہ میں آیا اور راجہ صاحب نابھہ کی تحریک سے میرے مقابلہ کیلئے لاہور میں آیا اور لاہور میں آ کر اس عاجز کے نام خط لکھا کہ اگر چوبیس سَو روپیہ نقد میرے لئے سرکار میں جمع کرا دو تو میں ایک سال تک قادیان میں ٹھہروں گا.سو یہ خط اُس کا بعض دوستوں کی خدمت میں لاہور میں بھیجا گیا.سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دولتمند مسلمان نے ایک سال تک ادا ہو جانے کی شرط سے چوبیس سَو روپیہ نقد اس عاجز کے کارپردازوں کو بطور قرضہ کے دے دیا اور قریب دو سَو مسلمان کے جن میں بعض رئیس بھی تھے جمع ہو گئے اور وہ روپیہ مع ایک خط

Page 628

کے جس کی ایک کاپی آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کا اِندرمَن کے مکان پر جہاں وہ فروکش تھا، لے گیا.مگر اِندرمَن غالباً اس انتظام کی خبر پا کر فرید کوٹ کی طرف بھاگ گیا.آخر وہ خط بطور اشتہار کے چھپوایا گیا اور شہر میں تقسیم کیا گیا اور وہ رجسٹری شدہ خط راجہ صاحب نابھہ اور راجہ صاحب فرید کوٹ کے پاس بھیجے گئے اور بعض آریہ سماجوں میں بھی وہ خطوط بھیجے گئے.شاید اگر یہ کسی راجہ کے کہنے کہانے سے اِندر مَن نے اس طرف رُخ کیا تو پھر اطلاع دی جائے گی.بالفعل اللہ تعالیٰ نے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رکھا.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ نقل اشتہار منشی اِندرمَن صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوعہ خط (جس کی ایک ایک کاپی غیرمذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو.اور زر موعودہ اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو.وغیرہ وغیرہ.اس کے جواب میں خاکسار نے رقیمہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جماعت اہلِ اسلام کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں روانہ لاہور کیا.جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود پر پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا.وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام وہ خط روانہ کیا تھا.اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں.باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریری لکھا تھا.یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا.لہٰذا یہ قرار پایا کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اس کی ایک کاپی منشی صاحب کے نام حسب نشان مکان موعودہ بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے.وہ یہ ہے:.مشفقی اِندر من صاحب! آپ نے میرے اس خط کا جواب نہیں دیا.ایک نئی بات لکھی ہے جس کی تعمیل مجھ پر اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے.میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرا دے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو.آپ اُس کے جواب میں

Page 629

اوّل تو مجھے اپنے پاس (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے.اس پر ُطرفہ یہ ہے کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا.اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے.بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا.لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کا آپ کو مشاہدہ نہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں.بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں اس امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط ایسی کروں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے.(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زَرِموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے.(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دونوں امر سے ایک امر ضرور ہو.(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں.وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں.پھر اس پر اپنے دستخط کریں.(ب) درصورت تخلّف وعدہ جانب ثانی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہ وہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر کے لئے میری خصوصیت نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلاء اور بہت

Page 630

ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں.میں جس امر میں مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں.یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے اور بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ.٭ ۳۰؍ مئی ۱۸۸۵ء مکتوب نمبر۵۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ آںمخدوم کی روح کو اس عاجز کی روح سے بشدت مناسبت ہے اسی وجہ سے تعلقات روحانی کا غلبہ ہے اور اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰیآپ کی حالت کاملہ ابتلا کے خطرات سے امن میں ہے.یہ عاجز بوجہ قلت فرصت تحریر جواب سے قاصر رہا اور مستعد تحریر تھا کہ اسی میں خط پہنچ گیا.دہلی کی طرف جانے کے لئے ابھی کچھ معلوم نہیں.ہندوستان میں اکثر اطراف بیماری بہت پھیل رہی ہے.اگر کسی وقت بطریق عجلت سفر اُس طرف کا پیش آیا تب تو مجبوری ہے ورنہ بہر طرح خواہ ایک ساعت کے لئے ہو، اِنْ شَائَ اللّٰہُ ملاقات آںمخدوم کی ہوگی.آگے ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.پردہ غیب میں جو کچھ مخفی ہے کسی کو اس پر اطلاع نہیں.آںمخدوم اپنی اصلی صحت پر آگئے ہوں تو اطلاع بخشیں.۴؍ جون ۱۸۸۵ء مطابق دہم رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ

Page 631

مکتوب نمبر۵۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ عنایت نامہ پہنچا.عاجز بدل و جان حضرت خداوندکریم سے آپ کے لئے دعا مانگتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں آپ کو خوش رکھے.جس قدر انسان عالی ہمت اور صابر ہوتا ہے.اُسی قدر تکالیف سے آزمایا جاتا ہے.بیگانہ جس میں زہر کا تخم ہے، اس لائق ہرگز نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اُس کو ایسے ابتلا میں ڈالے جس میں صادقوں کو ڈالتا ہے.سو مبارک وہی ہیں جن کوخدا درجات عطا کرنے کیلئے دنیا کی تلخیوں کا کچھ مزہ چکھاتا ہے.دنیا کی حالت یکساں نہیں رہتی جس طرح دن گزر جاتا ہے.آخر رات بھی اسی طرح گزر جاتی ہے.سو جو شخص خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے وہ مصیبت کی رات کو ایسی کاٹتا ہے جیسے کوئی سونے کی حالت میں رات کو کاٹتا ہے اگر پروردگار ایمان کو بچائے رکھے تو مصیبت کچھ چیز نہیں لیکن اگر مصیبت کچھ لمبی ہو اور مدد ایمانی منقطع ہو جائے تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ.یہ عاجز تو حضرت خداوندکریم سے امید بھی رکھتا ہے کہ آپ کے ہموم و غموم بفضلہ تعالیٰ دور ہوں اور اجر حاصل اور غم زائل ہو.اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰی.چند اشتہارات ارسالِ خدمت ہیں.والسلام ۹؍جون ۱۸۸۵ء.۲۴ ؍ شعبان ۱۳۰۲ھ

Page 632

Page 633

Page 634

درسی کتاب بنانے کے لئے سرکار انگریزی میں پیش کیا جائے تو پنڈت صاحب نے ایسا ہی کیا.اور صاحب لفٹیننٹگورنر پنجاب کی خدمت میں ایک درخواست معہ چند جز اپنے وید بھاش کے بدیں التماس مرسل کئے.کہ یہ ویدبھاش میرا یونیورسٹی میں لڑکوں کو پڑھایا جائے کیونکہ میں نے بڑی ہمت اور بہادری کر کے وید میں توحید ثابت کر دکھائی ہے اور وہ لاکھوں پنڈت جھوٹے ہیں جو وید کو توحید سے خالی سمجھتے ہیں.اس پر صاحب لفٹیننٹ بہادر کو درخواست کے سننے سے بہت تعجب ہوا کہ یہ کیونکر اور کیسے ممکن ہے کہ وید جو اپنی مشرکانہ تعلیم سے سارے جہان کے اعتراضوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ضرب المثل ہے وہ شرک اور دیوتا پرستی سے خالی ہو.سو اُنہوں نے وہ درخواست یونیورسٹی کے چیدہ اور منتخب پنڈتوں کے پاس بھیج دی کہ وہ پنڈت دیانند کی وید بھاش کو دیکھ کر اپنی رائے لکھیں.اب قصہ کوتاہ یہ کہ سب پنڈتوں نے بالاتفاق یہ رائے لکھی کہ وید بھاش دیانند کا سرا سر غلط اور پوچ اور لغو ہے.وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم اور جابجا دیوتاؤں کی پوجا کے لئے ترغیب اور تحریک ایسا امر نہیں ہے کہ اُس کو چھپا سکیں یا پوشیدہ رکھ سکیں.سو دیانند کا وید بھاش ویدوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.ہاں اگر اُس کو ایک نیا وید کہیں جس کے پنڈت صاحب ہی مصنف ہیں.تو یہ کہنا بجا اور درست ہے.اس رائے کے پہنچنے سے صاحب لفٹیننٹگورنر بہادر نے پنڈت دیانند کی درخواست کو نامنظور کر کے اُس کو اطلاع دے دی کہ یہ وید بھاش تمہارا عام رائے پنڈتوں سے برخلاف ہے.اس لئے قابل منظوری نہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ اگر وید میں ایک ذرّہ بھی توحید کی بُو پائی جائے تو کیونکر تمام ہندوستان کے پنڈت اُس سے انکاری یا غافل رہتے.اور اگر بفرض محال یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وید میں بطور معمّا یا چیستان اور پہیلی کے ایک چھپی ہوئی توحید ہے جس پر صرف پنڈت دیانند کو اطلاع ہوئی اور دوسری تمام دنیا اس سے بے خبر رہی.تو پھر یہ سوال عایٔد ہو گا کہ ایسی پیچیدہ اور سربمہر توحید سے دنیا کو کیا فائدہ ہوا.اور بجز اس کے کہ لاکھوں بندگانِ خدا وید کے اُلٹے معنی سمجھ کر دیوتا پرستی میںمبتلا ہوئے اور کیا نتیجہ ایسے پیچیدہ بیان سے نکلا.کیا ہندوؤں کے پرمیشر کو بات کرنے کا سلیقہ بھی یاد نہیں کہ بجائے اس کے جو توحید کو کہ جو اُس کا اصل مطلب تھا واضح تقریر سے بیان کرتا ایسے بے سروپا اور غیرفصیح لفظوں میں بیان کیا کہ جس سے لوگ کچھ کا کچھ سمجھنے لگے اور ہزارہا دیوتاؤں کی ہندوؤں میں پوجا شروع ہوگئی اور مخلوق پرستی اُس حد تک پہنچ گئی جس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی.اور یہ تو ہم نے

Page 635

بطور تنزل لکھا ہے اور ایک فرضی طور پر بیان کیا ہے ورنہ اگر کوئی ذرا آنکھ کھول کر ایک صفحہ وید کا بھی پڑھے تو بہ یقین تمام اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ وید کی عبارت کا اصلی مقصد اور مطلب یہی ہے کہ دیوتاؤں کی پوجا کرائی جائے.مگر پنڈت دیانند نے اس بدیہی بات کے چھپانے کے لئے کوشش کرنی چاہی.آخر ناکام رہے اور بجائے اس کے کہ وید میں توحید ثابت کرتے اور اس عیب سے مبّرا ہونا اُس کا بپایۂ ثبوت پہنچاتے کئی ایک اور عیب بھی جو وید میں پائے جاتے ہیں اُنہوں نے ظاہر کر دکھائے اور یک نہ شُد دو شُد کا معاملہ ہو گیا.جس کو ہم اپنی کتاب براہین احمدیہ کے حصہ پنجم میں اِنْ شَآئَ اللّٰہُ بہ تفصیل بیان کریں گے.اب صرف اجمالی طور پر لکھا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے وید نعمت توحید سے بالکل بے نصیب اور تہی دست اور محروم ہیں.اس جگہ یہ ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ وہ کتابیں جو وید سے موسوم کی گئیں ہیں.ایک شخص کی تالیف نہیں ہیں بلکہ مختلف لوگوں نے مختلف وقتوں میں اُن کو تالیف کیا ہے اور مؤلفین کے نام اب تک منتروں کے سر پر ُجدا ُجدالکھے ہوئے پائے جاتے ہیں اور وہ منتر بطور شعر کے ہیں جو دیوتاؤں کی تعریف میں خوش اعتقاد لوگوں نے بنائے تھے ان کتابوں کے پڑھنے سے یہ ہرگز پایا نہیں جاتا کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو کسی ایک یا چند پیغمبروں پر نازل کیا تھا بلکہ منجانب اللہ ہونے کا ذکر بھی نہیں.جابجا منتروں کے سر پر یہی لکھاہوا نظر آتا ہے کہ یہ منتر فلاںشخص نے تالیف کیا ہے اور یہ فلاں شخص نے.اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ حال کے محققوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وید ایسی کتاب نہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہو کہ میں آسمانی کتاب ہوں اور فلاں فلاں پیغمبر پر اُتری تھی بلکہ ایک مجموعہ اشعار ہے جس کو کئی ایک شاعروں نے اوقاتِ مختلفہ میں جوڑا ہے.ماسوا اس کے وید میں یہ بات بھی نہیں کہ جیسے ربّانی کتاب ربّانی قدرتوں کا اور صفتوں کا ایک آئینہ ہونی چاہئے اور خدا تعالیٰ کے وجود اور اُس کی قدرت تامہ اور اُس کی غیب بینی اور اُس کی خالقیت و رزاقیت وغیرہ صفات کو صرف عقلی طورپر ثابت نہ کرے بلکہ آسمانی نشان کے طور پر طالبِ حق کو مشاہدہ کرائے کہ خدا فی الحقیقت موجود (ہے) اور اُس میں یہ صفات موجود ہیں کیونکہ درحقیقت ربّانی کتابوں کے نازل ہونے سے عمدہ فائدہ یہی ہے کہ خدا اور اُس کی صفات کو نہ صرف عقلی اور قیاسی طور پر شناخت کیا جائے.بلکہ آسمانی کتاب خدا تعالیٰ کی ہستی اور صفات کو ایسا ثابت کر کے دکھلاوے کہ اُس کے پیروان تمام امور میں گویا رؤیت کے گواہ ہو جائیں.اور اسی طرح پر

Page 636

وہ اپنے ایمان کو اس کمال کے درجہ تک پہنچائیں.جس تک مجرد عقل کی پیروی سے انسان پہنچ نہیں سکتا.مثلاً خدا تعالیٰ میں جو صفت غیب دانی ہے اگرچہ عقلی طور پر انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے لیکن ربّانی کتاب میں شہودی طور پر اس بات کا ثبوت دینا از بس ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ حقیقت میں غیب دان ہے اور وہ ثبوت اس طرح پر میسر آ سکتا ہے کہ ربّانی کتاب میں بہت سی پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ درج ہوں جو لوگوں کے سامنے پورے ہو چکے ہوں.علیٰ ہذا القیاس خدا تعالیٰ کا قادر ہونا اور اپنے نبیوں اور مرسلوں کا حامی اور ناصر اور مؤید ہونا اگرچہ عقلی طورپر بھی ضروری اور محمود سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام مشہودی طور پر اپنی قدرتِ کاملہ اور حمایت اور نصرتِ خاصہ کا ایسا عمدہ اور کامل نمونہ دکھلائے جس کو لوگ دیکھ کر اپنے ایمان اور اعتقاد پر قوی ہو جائیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی دوسری صفات بھی اس طورپر خدا تعالیٰ کے کلام میں ثابت ہونی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات اور صفات کے پہچاننے کے لئے ایک نہایت صاف اور شفاف آئینہ ہے جو ہم عاجز اور بے خبر بندوں کو اس غرض سے عنایت ہوا ہے کہ تا ہماری معرفت صرف عقلی اور قیاسی خیالات تک محدود نہ رہے.بلکہ ہم اُن تمام پاک صداقتوں کو بچشم خود دیکھ بھی لیں کیونکہ اگر خدا تعالیٰ نے صرف اس قدر ہم کو بذریعہ اپنی کتاب کے معرفت اور بصیرت عنایت کرے جس قدر بذریعہ عقل بھی ہم کو حاصل ہو سکتی ہے تو پھر ربّانی تعلیم اور عقلی تفہیم میں کیا فرق رہا؟ اور اس بات میں خدا تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے والوںکو برہمو سماج والوں پر (جو صرف عقلی اٹکلوں پر چلتے ہیں) کونسی ترجیح ہوئی؟ سو اِس تحقیق سے بہ بداہت عقل ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں عمدہ خوبی یہی ہے کہ جن صداقتوں کو ہماری عقل ناقص صرف قیاسی طور پر پیش کرتی ہے.اُن صداقتوں کو خدا تعالیٰ کا کلام ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر دکھلا بھی دیتا ہے.مثلاً جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ عقل یہ تجویز بیان کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے.سو خدا تعالیٰ کا کلام صدہا پیشگوئیوں سے جو صحیح طور پر پوری ہوگئیں ہم پر اس صداقت کو یقینی اور قطـعی طور پر کھول دیتا ہے لیکن وید اس مرتبہ اعلیٰ سے جو خدا کی ذات اور صفات کا آئینہ ہو سکے.ہزاروں کوس دور اور مہجور ہے بلکہ مجرد عقلی طور سے بھی خدا اور اُس کی صفات کا ثبوت دینے سے ویدعاجز ہے کیونکہ وید کا پہلا اصول یہ ہے کہ عالم بجمیع اجزا انادی

Page 637

یعنی قدیم اور غیر مخلوق اور پرمیشر کی طرح واجب الوجود ہے.اور پرمیشر نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے کی اُس کو طاقت اور لیاقت ہے بلکہ اُس کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ بعض چیزوں کو بعض سے جوڑتا ہے مثلاً جسم کا قالب بنا کر روح کو اس میں داخل کر دیتا ہے یا کبھی قالب سے روح کو نکال دیتا ہے.اور یہی تالیف اور تفریق پرمیشر سے ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں یعنی اگر پرمیشر کچھ کام کر سکتا ہے تو بس یہی ہے کہ بعض اجزائے عالم کو بعض سے جوڑتا ہے اور کبھی بعض سے بعض کو الگ کر دیتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اس اعتقاد میں صرف اتنی ہی خرابی نہیں کہ پرمیشر کو قادر مطلق ہونا چاہئے.عاجز اور ناتواں سمجھا گیا ہے اور قدیم اور غیر مخلوق ہونے میں کل اجزاء عالَم کے اس کے شریک اور حصہ دار اور بھائی بند ٹھہرائے گئے ہیں اور ہر ایک موجود اپنے اپنے نفس کا آپ مالک قرار دیا گیا ہے گویا پٹی داری گاؤں کی طرح قدامت اور وجوبِ و جود کی جنس پر سب ارواح اور پرمیشر کا برابر اور یکساں دخل اور قبضہ چلا آتا ہے بلکہ ایک بڑی بھاری خرابی وید کے اصول سے یہ پیش آتی ہے کہ عقلی طور پر پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل باقی نہ رہی.کیونکہ جس حالت میں تمام عالم بجمیع اجزا خود بخود قدیم سے موجود ہے اور پرمیشر کا کام صرف تالیف اور تفریق ہے تو پھر اس سے وجود پرمیشر کا کیونکر ثابت ہو سکے.بھلا تم آپ ہی غور سے دیکھو اور انصاف کرو کہ اگر دنیا کی تمام چیزوں میں سے کوئی چیز بھی اپنے وجود کی پیدائش میں پرمیشر کی محتاج نہیں.تو پھر اُس پر کیا دلیل ہے کہ اپنے تفرق یا اتصال میں پرمیشر کی محتاج ہے.ظاہر ہے کہ ماسوا اللہ کے وجود سے صانعِ عالَم کے وجود پر اسی وجہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ماسوا اللہ کا وجود خود بخود ہونا بہ بداہت عقل محال ہے اور جس حالت میں یہ تسلیم کیا جائے اور قبول کیا جائے کہ ماسوا اللہ بھی خود بخود ہو سکتا ہے تو عقل کو خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین کرنے کیلئے کون سی راہ باقی رہے گی؟ کیا ایسے ایسے ناپاک اعتقادوں سے دہریہ مذہب والوں کو مدد نہیں پہنچے گی؟ غرض یہ وید کی ایک ایسی فاش غلطی ہے کہ اس کے تابعین کو اُس کے جواب میں کوئی بات بن نہیں آتی.اور وہ لوگ کسی طور سے پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل بیان نہیں کر سکتے اور کیوں کر بیان کر سکیں جب آپ ہی پرمیشر کی طرح قدیم اور واجب الوجود ٹھہرے تو پرمیشر سے اُن کو کیا تعلق اور غرض رہی اور اُس کے وجود کی کونسی ضرورت اور حاجت رہی.

Page 638

اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف تو وید خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے ثابت کرنے کے لئے آئینہ ہونے کی لیاقت نہیں رکھتا یعنی طالبانِ حق کو شہودی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر یقین نہیں دلا سکتا.بلکہ طرح طرح کی بدگمانیوں میں ڈالتا ہے اور پھر دوسری طرف اُس میں یہ خرابی پیدا ہوگئی کہ عقلی طور پر بھی وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دینے سے بے نصیب اور بے بہرہ ہے تو اب منصف سوچ سکتا ہے کہ معرفت الٰہی کے دونوں طریقوں عقلی اور شہودی سے ہندوؤں کا وید کس قدر دور اور مہجور ہے.اور جس قدر ہم نے اب تک بیان کیا کچھ یہی ایک اصول وید کا ایسا نہیں ہے کہ جو عقل کے برخلاف ہو بلکہ وید کے سارے اصول جو بنیاد دھرم کی سمجھے جاتے ہیں ایسے ہی ہیں.ہاں وید کی رو سے پہلی ہدایت تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کا خالق نہیں.مگر اس کے سوا وید کی دوسری ہدایتیں بھی ایسی ہیں جن کے پڑھنے سے عاقل کو ضرور یہ شک پڑے گا کہ شاید وید کا زمانہ کوئی ایسا زمانہ تھا جس میںہنوز آریہ دیس کے لوگوں نے کوئی حصہ عقل اور دانشمندی کا نہیں پایا تھا.چنانچہ ہم بطور نمونہ ایک دو اصول وید کے اور بھی لکھتے ہیں.تا جو لوگ وید کی اندرونی حقیقت سے بے خبر ہیں اُن کو اس عجیب کتاب کے حالات کسی قدر معلوم ہو جائیں.سو منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں ایک ذرا رحم اور عفو نہیں اور کسی گناہ گار کے گناہ کو اُس کی توبہ و استغفار سے ہرگز نہیں بخشتا اور جب تک ایک گناہ کی سزا میں چوراسی لاکھ جون میں ڈال کر شخص مجرم کو دنیا کی عمر سے ہزار ہا درجہ زیادہ عذاب نہ پہنچاوے تب تک اُس کا غصہ فرو نہیں ہوتا.اور گو انسان اپنے گناہ سے باز آکر پرمیشر کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جائے تب بھی جب تک پرمیشر اُس کو لاکھوں جونوں میں ڈالنے سے سزا نہ دے تب تک ہرگز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا.اب دیکھنا چاہئے کہ اس اصول میں صرف اتنی ہی قباحت نہیں کہ پرمیشر کو ایک ایسا شخص ماننا پڑتا ہے کہ جو نہایت درجہ کا سنگدل اور بے رحم ہے کہ جوجھکنے والوں کی طرف ہرگز نہیں جھکتا اور محبت کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا.اور ایک ادنیٰ خطا یا قصور سے ایسا چِڑ جاتاہے کہ پھر کوئی بھی سبیل اُس کے راضی ہونے کی نہیں نکلتی بلکہ ایک بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ اس اصول کے رُو سے نجات پانے کا راستہ بکُلّی مسدود ہو جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی راہ میں محنت اور مجاہدہ کرنا اور اس کی اطاعت اور عبادت میں دل لگانا سرا سر لغو اور بے فائدہ ٹھہرتا ہے کیونکہ جس حالت میں پرمیشر ایسا کینہ ور اور پُر غضب ہے کہ کسی خطا کے سرزد

Page 639

ہونے سے بجز لاکھوں برسوں تک جونوں میںڈالنے کے ہرگز کسی بندہ پر رحم نہیں کر سکتا.تو پھر اس حالت میں وہ نومید بندہ کہ گویا ایک گناہ کر کے جیتے جی ہی مر گیا ہے.کیوں کر اس سے دل لگائے گا اور کس امید پر عبادت اور زُہد اور رجوع الی اللہ اختیار کرے گا اور پھر زیادہ تر مشکل بات (جس کو عاجز بندہ اپنے ضعف اور کمزور حالت پر نظر کرنے سے بخوبی جانتا ہے) یہ ہے کہ بعد چوراسی لاکھ جونوں کے بھگتنے کے پھر بھی ایسی پاک اور مصفا حالت کہ جس میں ایک ذرا خطا اور غفلت سرزد نہ ہو اس کو نصیب نہیں ہو سکتی.کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے قصور اور خطا سے محفوظ نہیں رہ سکتا.اور ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو بشر کے لئے لازم غیر منفک کی طرح ہے ، غفلت ہے جو انسانی سرشت کا پہلا گناہ اور سب گناہوں کی جڑ ہے.مگر دنیا میں ایسا آدمی کہاں اور کدھر ہے جو ایک طُرْفَۃُ الْعَین کے لئے بھی اپنے مولیٰ کریم کے ذکر سے غافل نہیں رہ سکتا اور ایک لحظہ کے لئے قبض کی حالت اُس پر طاری نہیں ہوتی.ماسوا اس کے جہاں تک ہم انسانوں کی عام حالتوں پر نظر ڈالتے ہیں اور اُن کے سلسلہ زندگی کو اوّل سے آخر تک دیکھتے ہیں تو ہم پر صاف کھل جاتا ہے کہ کوئی انسان خاص کر اپنے بلوغ کے ابتدائی زمانہ میں کسی قدر خامی یا ذلت یا لغزش یا غفلت یا لہوو لعب سے خالی نہیں رہ سکتا اور نہ جیسا کہ نعماء الٰہیہ اس پر وارد ہوتی ہیں اُن کا پورا پورا شکر کر سکتاہے.اور یہ ایسی صاف اور واشگاف صداقت ہے جو خود ہمارے کوائف زندگی اور واقعات عمری اس پر شہادت دے رہی ہیں اور موجودات کا ہر یک ذرّہ اور قدرت کا ہر یک قانون اس کی تصدیق کر رہا ہے اور ہماری روحیں پکار پکار کر ہمیں یہی کہتی ہیں کہ ہم بوجہ مخلوق اور ضعیف اور کمزور اور ممنون منت ہونے کے ایسی فتح عظیم اپنے خالق اور محسن حقیقی اور مربی بے علّت پر ہرگز حاصل نہیں کر سکتے کہ جو اُس کو یہ کہہ سکیں کہ جو کچھ تیرے حقوق ہماری گردن پر تھے وہ سب ہم نے جیسا کہ چاہئے ادا کر دیئے ہیں.اور اب ہم تیرے حساب سے فارغ اور تیرے مطالبہ سے امن میں ہیں اور جب کہ ہم لوگ ایسی فارغ خطی حاصل نہیں کر سکتے تو پھر صاف ظاہر ہے کہ اگر خداوندکریم ہمارے گناہوں پر ہمیشہ ہم کو سزا دیتا رہے اور اگر درگذر اور عفو کسی حالت پر نہ کرے تو پھر ہرگز ممکن نہیں کہ ہم کسی زمانہ میں نجات کا منہ دیکھ سکیں.کیونکہ جب گناہ غیر محدود ٹھہرے تو پھر سزا بھی درصورت لازمی اور ضروری ہونے کے غیر محدود اور دائمی چاہئے.سو یہ اصول نہایت منحوس اور نامبارک ہے اور اگر یہی بات سچ ہے تو

Page 640

انسان غایت درجہ کا بدبخت اور بے نصیب ہوگا جس کے لئے سخت دل پرمیشر کا یہ ارادہ ہے کہ جب تک وہ بکلّی گناہوں کے صادر ہونے سے کہ جو انسان کی سرشت سے لازم ہوئے ہیں محفوظ نہ رہے تب تک مختلف جونوں کا تختہ مشق رہے گا.اب دیکھنا چاہئے کہ اس کے مقابل پر یہ اصول قرآن شریف کا کیسا بابرکت اور پیارا اور تسلّی بخش اور انسانی فطرت کے لئے ضروری اور مناسب حال ہے کہ گناہ کا تدارک توبہ اور استغفار سے ہو سکتا ہے اور بدیوں کی تلافی نیکیوں سے ممکن ہے.یہ ایسا ضروری اور لابدی اصول ہے کہ انسان کی مغفرت اور نجات یابی بجز اس کے ممکن ہی نہیں.خیال کرنا چاہئے کہ اگر تمام انسانوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنی ابتدائی عمر میں کسی قدر غفلت اور لہو و لعب یا نالائق باتوں اور بدچلنیوں میں رہ کر پھر کسی نیک صحبت کی برکت سے یا کسی واعظ اور ناصح کے سمجھانے سے یا اپنے ہی انصاف دلی کے جوش سے اس بات کے مشتاق ہو جایا کرتے ہیں کہ اب ہم خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور بُرے کاموں اور خراب راہوں کو چھوڑ دیں.اب سوچنا چاہئے کہ اگر ایسے طالب حق کے لئے جناب الٰہی میں باریابی کی کوئی سبیل نہیں اور توبہ منظور ہی نہیں اور استغفار قبول ہی نہیں تو پھر وہ بیچارہ اپنی آخری بہبودی کیلئے اگر کچھ کوشش بھی کرے تو کیا کرے اور کیونکر کرے اور کدھر جائے.ممکن ہے کہ وہ ایسے پرمیشر سے سخت ناامید اور شکستہ دل ہو کر اور اُس کی رحمت سے بکلّی ہاتھ دھو کر پھر اپنے گناہوں کی طرف رجعتِ قہقری کرے اور خوب دل کھول کر ہر قسم کے گناہ اور بدمعاشی سے تمتع اور حظّ اُٹھائے.غرض یہ ایسا اصول ہے کہ نہ بندہ اُس سے اپنی نجات تک پہنچ سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس سے قائم رہتی ہے.کیا یہ بات اللہ تعالیٰ کی عادت کریمانہ کے موافق ہے؟ کہ وہ انسان کی کامیابی میں اس قدر مشکلات ڈالے اور اس کی نجات کو معلق بالمحال کر کے اس کے گناہ کو ہمیشہ یاد رکھے مگر اس کے رجوع اور محبت اور توبہ اور استغفار کا ایک ذرہ قدر نہ کرے اور چوراسی لاکھ جون میں سے ایک جون کی تخفیف کرنے سے دریغ کرتا رہے.کیا ایسے پرمیشرپر کوئی امید رہ سکتی ہے.ہرگز نہیں.پھر تیسرا اصول وید کا جو عقل کے برخلاف ہے یہ ہے کہ نجات ابدی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی.بلکہ لوگ کچھ مدت محدود تک نجات پا کر پھر مکتی خانہ سے ناکردہ گناہ باہر نکالے جاتے ہیں اور پرمیشر

Page 641

ہرگز قادر نہیں کہ اُن کو ہمیشہ کے لئے نجات دے سکے.اب جو لوگ عشقِ الٰہی کی ایک چنگاری بھی اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ایسی بے مروّتی اُس محبوب حقیقی سے ہرگز نہیں ہو سکتی کہ عزت دے کر پھر بے عزت کرے اور ایک نعمت بخش کر پھر اُس کو چھین لے.ایک دفعہ اپنا پیارا اور مقرب بنا کر پھر ناکردہ گناہ کیڑوں مکوڑوں اور کتوں بلّوں کی جونوں میں ڈالتا رہے.جس شخص کو محبتِ الٰہی کے جام سے ایک گھونٹ بھی میسر ہے اُس کی عارف اللہ روح جو اس جوادِ مطلق پر بڑی بڑی امیدیں رکھتی ہے اور سب کچھ کھو کر اُسی کی ہو رہی ہے.ہرگز اس کو یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ اس کا پیارا اور محبوب جانی آخر اُس سے ایسا معاملہ کرے گا کہ اس کی سب امیدیں خاک میں ملا کر اور اُس کی خوشحالی دائمی کی خواہش جو اُس کے دل میں ڈالی گئی ہے نظر انداز کر کے اُس کو اُس مصروع کی طرح جو بار بار دورہ صرع سے دُکھ اُٹھاتا ہے مختلف جونوں کے عذاب سے معذّب کرتا رہے گا.اُس کے صدق اور وفا پر اُس کو کچھ بھی خیال نہیں آئے گا اور اس کے خالص محبوں پر اُس کو کچھ بھی نظر نہیں ہوگی.افسوس کہ ہندو لوگ ایسا اعتقاد رکھنے سے خود اپنے اوتاروں اور رشیوں کی عزت کو خاک میں ملاتے ہیں.کہ اوّل ان کو بڑے مقبول الٰہی بلکہ خدا کا اوتار سمجھ کر پھر اُن کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اُن بیچاروں کو بھی نجات ابدی نہیں اور وہ کیڑے مکوڑے اور کتّے بلّے بننے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتے.جن لوگوں کو ان مقدس ویدوں کی خبر نہیں وہ تعجب کریں گے کہ یہ کیسے اصول ہیں جو ویدوں کی طرف نسبت دیئے گئے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ وہ بدگمانی سے یہ خیال کریں کہ یہ ویدوں پر تہمت ہے.سو واضح ہو کہ ہم نے ان اصولوںکو کمال تحقیق اور تدقیق سے لکھا ہے اور اس وقت وید ہمارے سامنے پڑا ہے اور اُس کے بھاش ہمارے پاس موجود ہیں.اگر کسی کو شک ہو تو ہر طرح ہم سے تسلی کرا سکتا ہے اور خود ویدوں کے ماننے والے اس سے بے خبر اور انکاری نہیں ہیں اور اگر کوئی ہم تک نہ پہنچ سکے اور نہ پنڈتوں سے دریافت کر سکے تو ہم اس کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ رِگ وید کو جو دہلی سوسائٹی میں بکمال سعی و تحقیق چھپا ہے.ذرا نظر غور اور تدبر سے مطالعہ کرے اور پھر یہ بھی مناسب ہے کہ پنڈت دیانند کی ستیارتھ پرکاش اور وید بھاش کا بھی درشن کرے تا اُسے معلوم ہو کہ وید کیا شَے ہے اور اُس کی تعلیم کیسی ہے.بعض جاہل ہندو اور مسلمان اپنشدوں کو جو براہم پشتک ہیں اور صدہا سال ویدوں کے بعد لکھے

Page 642

گئے ہیں وید ہی سمجھتے ہیں.جیسے داراشکوہ نے بعض اپنشدوں کا ترجمہ بھی کسی پنڈت سے لکھوا کر ایک رسالہ تالیف کیا ہے لیکن جاننا چاہئے کہ یہ لوگ صریح غلطی پر ہیں.ویدوں اور اپنشدوں کے مضامین میں کچھ تعلق ہی نہیں بلکہ وہ خیالات جو اُپنشدوں میں درج ہیں صرف برہمنوں کے دلوں کی تراش خراش ہیں اور ان خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان وغیرہ مخلوق پرمیشر کے وجود کا ایک ٹکڑہ ہے اور اسی سے نکلتا ہے اور اُسی میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ صورت دخول اور خروج کی ہمیشہ بنتی رہتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیالات برہمنوں نے ایک مدت کے بعد بدھ مذہب والوں سے لئے ہیں اور یہ اس زمانہ کے خیالات ہیں کہ جب برہمن لوگ وید کی تعلیم سے بیزار ہو چکے تھے اور ان کا منشا تھا کہ بجائے تعلیم وید کے ان خیالات کو جو اُپنشدوں میں درج ہیں شائع کیا جائے.مگر باوجود اس کے پھر بھی برہمن وید کے دیوتاؤں سے الگ نہیں ہوئے اور اُن کی پرستش سے کنارہ نہیں کیا بلکہ صدہا طرح کی اور اور مشرکانہ باتیں حاشیہ کے طور پر چڑہا دیں.اور کئی طرح کے جھوٹے قصے اور کتھا اور کہانیاں برمہا اور بشن اور مہادیو اور اِندر وغیرہ کے بارہ میں لکھ ڈالیں اور کئی پشتک اپنی طرف سے تالیف کرکے یہ مشہور کرنا چاہا کہ یہ بھی وید رنک یعنی وید کی خبریں ہیں.چنانچہ انہیں میں سے وہ اُپنشدیں بھی ہیں جن کا بعض ناواقف مسلمانوں نے ترجمہ بھی کیا تھا اور اپنی اوپری واقفیت سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہی وید ہیں.مگر اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ کوئی امر مشتبہ نہیں رہ سکتا.وہی وید جو برہمنوں کے تہہ خانوں میں چُھپے ہوئے تھے اب کتب فروشوں کی دوکانوں پرچَھپے ہوئے رکھے ہیں.اس مقام پر ہم بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ مرزا جان جاناں صاحب نے کہ جو نقشبندی فقیروں میں سے ایک نامی اور مشہور بزرگوار ہیں خواہ نخواہ دخل درمعقولات دے کرکے ویدوں کے بارہ میں ایک مکتوب کسی اپنے مرید کے نام لکھا ہے اور اس میں ویدوں کی تعریف کی ہے کہ وہ شرک اور مخلوق پرستی سے پاک ہیں اور توحید کی تعلیم ان میں بھری ہوئی ہے.اب جب ہم ایک طرف ویدوں کی مشرکانہ تعلیم اور ملحدانہ عقائد کو بچشم سر دیکھتے ہیں اور پندرہ کروڑ ہندوؤں کو اُس میںمبتلا پاتے ہیں اور دوسری طرف مرزا صاحب کا یہ مکتوب پڑھتے ہیں جس کو انہوں نے نہایت سادہ دلی اور لاعلمی سے لکھاہے تو ہم بجز اس کے کہ حضرت مرزا صاحب کے حق میں دعائِ مغفرت چاہیں اور خدا تعالیٰ سے اُن کی خطا کی معافی چاہیں اور کسی طرح سے اُن کے کلام پر پردہ نہیں ڈال سکتے.مرزا صاحب نے نہایت

Page 643

بے جا اور نامناسب کام کیا کہ بے خبر محض ہونے کی حالت میں وید دانی کا بھی دعویٰ کر بیٹھے.اُن کے لئے یہی بہت فخر کی بات تھی کہ وہ اپنے فقیرانہ اَشغال و اَذکار میں مشغول رہتے اور جس کوچہ میں ایک ذرّہ بھی اُن کی رسائی نہیں تھی اس کی نامعلوم خبریں لوگوں کو نہ بتلاتے.پھر مرزا صاحب اپنے مکتوبات میں یہ لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کا وید چار دفتر میں ہے جو احکام امرونہی و اخبار ماضیۂ مستقبلہ پر مشتمل ہے اور یہ وید بذریعہ ایک فرشتہ کے جس کا نام برہما تھا آغاز ایجاد عالم میں ہندوؤں کو پہنچا ہے.اُسی وید میں سے اُن کے پُران اور شاستر نکالے گئے ہیں اس وید میں بلحاظ عمر طولانی عالم کے چار طور کی مختلف ہدایت رکھی گئی ہیں جن میں سے بعض ہدایتیں ست جگ کے مناسب حال ہیں اور بعض ہدایتیں کل جگ کے مناسبِ حال ہیں اور ہندو اگرچہ مختلف فرقے ہیں مگر وہ سب کے سب توحید باری پر اتفاق رکھتے ہیں اور عالَم کو مخلوق سمجھتے ہیں اور روز حشر کے قائل ہیں اور معارف اور مکاشفات میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں اور اُن کے بُت پرست حقیقت میں بُت پرست نہیں ہیں بلکہ وہ بعض ملائکہ کو جو باَمرِالٰہی عالَم کون و فساد میں تصرف رکھتے ہیں یا بعض کاملین کی ارواح کو جن کا تصرف بعد گذر جانے کے اس نشأ دنیا سے باقی ہے یا بعض زندوں کو جو اُن کے زُعم میں خضر کی طرح ہمیشہ زندہ رہتے ہیں قبلہ توجہ کر لیتے ہیں.یعنی صوفیہ اسلامیہ کی طرح اُن کی خیالی صورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جیسے صوفیہ اسلامیہ اپنے پیر کی صورت کا تصور کرتے ہیں اور اُس سے فیض اُٹھاتے ہیں مگر صرف اتنا فرق ہے کہ اسلامی صوفی ظاہر میں کوئی تصویر شیخ کی اپنے آگے نہیں رکھتے اور یہ لوگ رکھ لیتے ہیں.سو اُن کی یہ صورتِ عبادت کفّارِ عرب کی بُت پرستی سے مشابہ نہیں کیونکہ کفّارِ عرب اپنے بتوں کو متصرف و مؤثر بالذّات مانتے تھے اور اُن کو خدائے زمین سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو خدائے آسمان مانتے تھے.اسی طرح ہندو لوگ جو اُن تصویروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ سجدہ بھی سجدہ عبادت نہیں بلکہ سجدہ ّتحیت ہے.اُن کی شرع میں باپ اور پیر اور اُستاد کے لئے بجائے سلام کے بھی سجدہ مرسوم اور معمول ہے.انتہیٰ.اب مرزا صاحب نے اپنے اس بیان میں جس قدر غلطیاں کی ہیں اور دھوکے کھائے ہیں اور خلاف واقعہ لکھا ہے، ہم کس کس کی اصلاح کریں.مرزا صاحب نے صرف کسی نادان ہندو کی زبانی سن کر بغیر اپنی ذاتی تحقیق کے یہ خس و خاشاک غلطیوں کا اس خط میں بھر دیا ہے.نہ معلوم کہ اُنہوں

Page 644

نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ ہندوؤں کے یہی خیالات اور عقائد ہیں یا جو اُن کے محقّقوں نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھے ہیں.کیونکہ اوّل مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ وید کے چار دفتر ہیں.سو مرزا صاحب کی پہلی غلطی یہی ہے کہ وید کو ایک کتاب قرار دے کر اُس کے چار دفتر خیال کرتے ہیں بلکہ حق بات جس کا ثبوت ایک امر بدیہی کی طرح حال کے زمانہ میں کھل گیا ہے یہ ہے کہ وید کے مجموعے چار کتابیں ہیں جو چار مختلف زمانوں میں کئی لوگوں نے اُن کو بنایا ہے.چنانچہ چوتھا وید جو اتھرون سے موسوم ہے اُس کی نسبت اکثر ہندوؤں کی یہی رائے ہے کہ وہ پیچھے سے ویدوں کے ساتھ ملایا گیا ہے اور کسی برہمن نے اُس کو لکھا ہے اور اُس کے سوا جو تین وید ہیں وہ الگ الگ کتابیں ہیں جن کو الگ الگ رشیوں نے جمع کیا ہے اور ہندوؤں کے محقّقوں کے نزدیک برہما کچھ چیز نہیں ہے بلکہ وید اگنی اور وایو اور سورج پر اُترے ہیں اور محقق ہندو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو اَٹھارہ پُران اور شاستر وغیرہ اُپنشدیں ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں.وہ وید کے مضمون سے بہت مخالفت رکھتے ہیں اور بہت سے اور مضامین اُن کتابوں میں پائے جاتے ہیں جو وید میں نہیں ہیں.مثلاً یہی خیال کہ چاروں وید برہما کے چاروں مُکھ سے نکلے ہیں.اس کا کوئی اصل صحیح وید میں نہیں پایا جاتا.ایسا ہی یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی خالق ہے وید کی رُو سے بڑا گناہ اور پاپ کی بات ہے بلکہ وید کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے.دنیا خود بخود قدیم سے ایسی ہی چلی آتی ہے.جیسا پرمیشر چلا آتا ہے اور پرمیشر کے وجود سے دنیا کے وجود کو کسی قسم کا فیض نہیں پہنچتا.یہاں تک کہ اگر پرمیشر کا مرنا بھی فرض کر لیا جائے تو دنیا کا اس میں کچھ بھی حرج نہیں.اور ایسا ہی ہندوؤں کے محقق یہ بھی کہتے ہیں کہ حشر اجساد کچھ چیز نہیں اور وید پر عمل کرنے سے ہرگز کسی کا گناہ عفو نہیں ہو سکتا اور نہ توبہ و استغفار کچھ کام آتی ہے.بلکہ ایک گناہ کے عوض میں ہر ایک شخص کو چوراسی لاکھ جون سزا میں بھگتنی پڑے گی.اُن کا یہ بھی قول ہے کہ وید اخبار ماضیہ اور مستقبلہ سے بکلّی خالی ہے اور کوئی امر خارقِ عادت جو نبیوں سے ظہور میں آتا ہے اس میں درج نہیں اور مکاشفات کا ذکر تک نہیں.اور اُن کے نزدیک مکاشفات اور خوارق اور پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ از قبیل محالات ہیں جن کا وجود ہرگز ممکن نہیں.اور جن لوگوں پر وید نازل ہوا وہ لوگ ان باتوں سے بکلّی محروم تھے اور وید کی رُو سے ان باتوں کا ظہور میں آنا قطعی طور پر ناجائز اور غیر ممکن ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ ہندوؤں کے محقق تو اپنے وید کو اخبار ماضیہ اور مستقبلہ سے

Page 645

بکلّی عاری اور مکاشفات سے بکلّی بے نصیب اور خدا تعالیٰ کی خالقیت اور حشر اجساد سے بکلّی انکاری قرار دیتے ہیں اور مرزا صاحب ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوؤں کے ویدوںکی نسبت اُن سب چیزوں کو مانتے ہیں.اب دیکھئے کہ بقول شخصے کہ مدعی سُست اور گواہ چست.کیا نالائق غلو مرزا صاحب کے بیان میں پایا جاتا ہے جس پر آج کل کے محقق اطلاع پاویں تو مرزا صاحب کو ایک غایت درجہ کا سادہ لوح قرار دیں اور اُن کی باتوں پر قہقہہ مار کر ہنسیں.پھر دیکھنا چاہئے کہ مرزا صاحب اپنے اسی مکتوب میںہندوؤں کو بُت پرستی سے بھی بری قرار دینا چاہتے ہیں.یہ کس قدر بے خبری اور لاعلمی مرزا صاحب کی ہے کہ ہندوستان میں پرورش پا کر ہندوؤں کے عقائد سے کس قدر بے خبر اور غافل ہیں.اُنہیں معلوم نہیں کہ ہندو تو عرب کے بُت پرستوں سے اپنے شرک میں کئی درجہ بڑھ کر ہیں کیونکہ عرب کے بُت پرست اگرچہ اپنی مرادیں بتوں سے مانگتے تھے مگراُن کا یہ قول ہر گز نہ تھا کہ دنیا کے خالق و مالک وہی دیوتا ہیں جن کی تصویریں اور مورتیں پتھر یا دھات وغیرہ سے متشکل کر کے پوجی جاتی ہیں.لیکن ہندوؤں کا اصول جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ پرمیشر دنیا کا خالق نہیں ہے بلکہ اُن کے دیوتا دنیا کے خالق ہیں اور اُنہیں سے مرادیں مانگنی چاہئیں.اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ہندو انہیں بتوں سے مرادیں مانگنے میں بڑے سرگرم ہیں.مرزا صاحب نے شاید کسی تہہ خانہ میں پرورش پائی ہوگی کہ اُن کو اپنی مدت العمر تک یہ بھی خبر نہ ہوئی کہ ہندو اپنے پُرانے بُت خانوں کے درشن کے لئے کس جوش اور خروش میں جایا کرتے ہیں.یہاں تک کہ جگن ناتھ وغیرہ بُت خانوں کے بڑے بڑے بتوں کے راضی اور خوش کرنے کیلئے بعض بعض ہندو اپنی زبانیں بھی کاٹ کر چڑھا دیتے ہیں اور گنگا مائی کے درشن کرنے والے جو ہر سال ہزارہا جاتے ہیں اور پکار پکار کر مرادیں مانگتے ہیں.یہ بات بھی مرزا صاحب سے چھپی رہی اور اسی طرح وہ صدہا کتابیں ہندوؤں کی جنہوں نے خود اپنی بُت پرستی کا اقرار کیا ہے اور اپنے دیوتاؤں اور بتوں سے مرادیں مانگنے کے طریق لکھے ہیں.اگر اُن میں سے کوئی کتاب مرزا صاحب کی نظر میں گزر جاتی تو میں خیال کرتا ہوں کہ مرزا صاحب موصوف بہت ہی شرمندہ ہوتے.مگر بالآخر مجھ کو یہ خیال آتا ہے کہ غالباً یہ مکتوب کسی اور شخص نے لکھ کر مرزا صاحب کی طرف منسوب کر دیا ہے کیونکہ یہ بات عام طور پر چلی آتی ہے کہ اکثر اہل غرض اپنی تحریروں کو بعض اکابر کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں

Page 646

تا اُن کی مقبولیت کی وجہ سے وہ تحریریں بِلا عذر قبول کی جائیں.بہرحال اب ہم اس خط کو دعا پر ختم کرتے ہیں اور مرزا صاحب کے معتقدین کو برادرانہ نصیحت دیتے ہیں کہ وہ ایسے خیالات دور از صداقت و دیانت مرزا صاحب کی طرف منسوب نہ کریں.۱؎ وصَلّ علی نبیک وحَبِیبک محمّدٍ وآلہٖ وسلّم وتوفّنا فی امتہٖ وابعثنا فی امتہٖ واٰتنا ما وعدت لِاُمتہٖ.ربنا اننا اٰمَنَّا فاکتُبنافی عبادک المومنین..۱؎ ٭ خاکسار غلام احمد.از قادیان بتاریخ ہشتم ماہ رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۲؍ جون ۱۸۸۵ء مکتوب نمبر۵۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ از خاکسار غلام احمد باخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلّمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ خط آںمخدوم پہنچا.یہ عاجز بباعث دردِ سر و درد پہلو اس قدر بیمار رہا کہ بعض اوقات یہ عارضہ مقدمہ موت جو ہریک بشر کیلئے ضروری ہے معلوم ہوتا تھا.اب افاقہ ہے مگر کچھ درد باقی ہے.اسی وجہ سے تحریر جواب سے معذور رہا.آپ کا خط جو استفسار اختلافات نماز میں ہے وہ بھی اس عاجز کے پاس رکھا ہے مگر کیا کِیا جائے صحت پر موقوف ہے.بمبئی والے سوداگر کی بدمعاملگی ایک ابتلاء ہے اس میں صبر بہتر ہے.مقدمہ سازی و مقدمہ بازی دنیا داروں کا کام ہے جس کو خدا تعالیٰ نے بصیرت بخشی ہے وہ سب امور خدا تعالیٰ کی طرف سے دیکھتا ہے.سو اس میں حضرت خداوند کریم کی کچھ حکمت ہے.آپ صبر کریں اور خدا تعالیٰ پر توکّل رکھیں.اور جو کچھ حالت عسر و تنگدستی درپیش ہے.یہ بھی ابتلا ہے.ایسے وقتوں میں مردانِ خدا اُس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دعا اور استغفار اور

Page 647

تضرع سے استقامت و مشکل کشائی چاہتے ہیں اور حضرت ارحم الراحمین عزّاسمہٗ و قادر کریم و رحیم ہے.جب بندہ عاجز اپنے کرب اور قلق کے وقت میں ہر یک طرف سے قطع امید کر کے اُس کے دروازہ پر گرتا ہے اور پورے پورے رجوع سے دعا کرتا ہے اور دعا کرنے سے تھکتا نہیں تو خدا تعالیٰ اُس پر رحم فرماتا ہے اور اس کو مخلصی بخشتا ہے.تب اُس کو دو لذتیںملتی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ اپنے کرب و قلق سے نجات پاتا ہے.دوسرے یہ کہ دعا کے قبول ہونے میں جو ایک لذت ہے.اس سے بھی وہ متمتع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے جب بندہ یقین کامل (سے) اپنے دردوں اور تکلیفوں کے وقت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو ضرور وہ اُس کی سنتا ہے.اس عاجز کو اس بات سے افسوس ہے کہ آپ کے چند خطوط جو علوم دین کے استفسار میں تھے.ان کا جواب مجھ سے نہیں لکھا گیا اور اب ضعف دماغ و درد سر کا یہ حال ہے کہ جو کچھ کھایا جاتا ہے.اُس کی تبخیر ہو کر درد شروع ہو جاتا ہے.اس بات کی ابھی تسلی نہیں کہ عمر کا کیا حال ہے.بعض عوارض لاحقہ میں اندیشہ موت کا پیدا ہو جاتا ہے.کام کتاب کا ہنوز شروع نہیں کیا گیا.اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ کتاب پوری ہو جائے گی.۲۴؍جون۱۸۸۵ء مطابق ۱۰ رمضان ۱۳۰۲ھ خمکتوب نمبر۵۸ میر عباس علی کے نام بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خبر واقعہ وفات لختِ جگر آں مخدوم سے حزن و اندوہ ہوا.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.مومن کو اس بے ثبات گھر اور ناپائیدار جگہ میں ابتلا سے چارہ نہیں.یہی عادت اللہ انبیاء و رسُل اور صدیقوں کے ساتھ جاری ہے جس کو اس دنیا میں رنج نہیں پہنچتا.اس کا قدرو منزلت جنابِ الٰہی میں کچھ نہیں.(۵؍ اپریل ۱۸۸۶ء)٭

Page 648

خ مکتوب نمبر۵۹ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.اللہ شانہٗ آپ کے گھر کے لوگوں کو اور آپ کو صبر بخشے.دنیا مقام مصائب و شدائد ہے.ایک حدیث صحیح میں ہے کہ جس پر کوئی بھی مصیبت نازل نہیں ہوئی اِس کا نجات پانا بہت مشکل ہے اگرچہ پیغمبر زادہ ہو.اور ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب مصیبت زدوں کو اجر دیئے جاویں گے تو لوگ حسرت کریں گے کہ کاش ہمارے بدن دنیا میں مقراضوں سے کاٹے جاتے تا ہم آج اُس کا اجر پاتے اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس مومن کے دل پر کسی سخت موت کا داغ ہو اور اُس نے صبر کیا ہو تو خدا تعالیٰ اسے دو اجر دے گا ایک دنیا میں، ایک آخرت میں.غرض مومن کو مصائب سے چارہ نہیں ہے خدا تعالیٰ جس مومن سے پیار کرتا ہے اُس کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اور حدیث صحیح میں آیا ہے کہ فرزند متوفی فَرَطہے یعنی پیش خیمہ ہے اور اپنے والدین کے لئے بہشت میں جا کر سامان تیار کرتا ہے سو اللہ تعالیٰ صبر بخشے تا اُس کا ثواب مترتب ہووے.مصیبت پر از حد بے صبری کرنا کوتہ نظری ہے.دنیا کا معاملہ خود چند روزہ ہے.قضاو قدر کی لڑائی گرم ہے ہر ایک کے سر پر تقدیر کھڑی ہے.پھر کیوں ثواب کو ضائع کیا جاوے.٭ (۳؍ مئی ۱۸۸۶ء)

Page 649

میر عباس علی صاحب لدھیانوی کے بعد کے حالات یہ مجموعہ مکتوبات احمدیہ کی پہلی جلد ہے اور یہاں ختم ہوتی ہے لیکن میں اس کو ناتمام سمجھوں گا اگر میر عباس علی شاہ صاحب کے بعد کے واقعات اور حالات کا یہاں ذکر نہ کروں.(عرفانی) میر عباس علی شاہ صاحب لودہانہ کے رہنے والے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی تالیف براہین احمدیہ کے زمانہ میں ایک مخلص مددگار تھے.مسیح موعود کے دعویٰ کے وقت اُنہیں ابتلا آیا اور اسی ابتلاء میں اُن کا خاتمہ ہوا.اُنہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بذریعہ اشتہار بھی کیا اور حضرت حجۃ اللہ نے نہایت رفق وملائمت سے اُن کو جواب بھی دیا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ارادہ کر لیا تھا اُن کا خاتمہ انکار پر ہوا.اس معاملہ میں مَیں زیادہ کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا.ہاں ناظرین کو اسی مجموعہ مکتوبات کے مکتوب نمبر۳۴ اور ۴۰ پر خصوصیت سے توجہ کرنے کی صلاح دیتا ہوں.وہ ان مکتوبات کو پڑھیں گے تو اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت حجۃ اللہ نے پہلے سے پیشگوئی کی تھی.بہرحال میں حضرت اقدس علیہ السلام کی اس کے بعد کی تحریریں عباس علی شاہ کے متعلق یہاں درج کر دیتا ہوں اور اس کے بعد اور کوئی تحریر ملی یا مکتوبات ملے.جو میر عباس علی ہی کے نام ہوں وہ بطور تتمہ اس جلد کے چھاپ دیئے جاویں گے (بہرحال وہ تحریریں یہ ہیں) ’’(۹) حبی فی اللہ میر عباس علی لودہانوی.یہ میرے وہ اوّل دوست ہیں.جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے سب سے پہلے میری محبت ڈالی اور جو سب سے پہلے تکلیف سفر اُٹھا کر ابرار اخیار کی سنّت پر بقدم تجرید محض للہ قادیان میں میرے ملنے کے لئے آئے.وہ یہی بزرگ ہیں.میں اس بات کو کبھی بھول نہیں سکتا کہ بڑے سچے جوشوں کے ساتھ اُنہوں نے وفاداری دکھلائی اور میرے لئے ہر ایک قسم کی تکلیفیں اُٹھائیں اور قوم کے منہ سے ہر ایک قسم کی باتیں سنیں.میر صاحب نہایت عمدہ حالات کے آدمی اور اس عاجز سے روحانی تعلق رکھنے والے ہیں اور اُن کے مرتبہ اخلاص کے ثابت کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو اُن کے حق میں الہام ہوا تھا. ۱؎

Page 650

وہ اس مسافر خانہ میں محض متوکلانہ زندگی بسر کرتے ہیں.اپنے اوائل ایام میں وہ بیس برس تک انگریزی دفتر میں سرکاری ملازم رہے مگر بباعث غربت و درویشی کے اُن کے چہرہ پر نظر ڈالنے سے ہرگز خیال نہیں آتا کہ وہ انگریزی خوان بھی ہیں.لیکن دراصل وہ بڑے لائق اور مستقیم الاحوال اور دقیق الفہم ہیں.مگر بایں ہمہ سادہ بہت ہیں.اسی وجہ سے بعض مُوَسْوَسِین کے وساوس اُن کے دل کو غم میں ڈال دیتے ہیں لیکن اُن کی قوتِ ایمانی جلد اُن کو دفع کر دیتی ہے‘‘.اس کے بعد مخالفت کے اظہار پر حضرت اقدس ؑنے مندرجہ ذیل مضمون لکھا:.مکتوب نمبر ۶۰ میر عباس علی صاحب لدہانوی چوں بشنوی سخنِ اہل دل مگو کہ خطا است سخن شناس نۂٖ دلبرا خطا اینجا است یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر مَیں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے.افسوس کہ وہ بعض موسوسین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعدا میں داخل ہو گئے.بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اُن کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ .۱؎ اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ اصل اُس کا ثابت ہے اور آسمان میں اُس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں.بِلا شُبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اُس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدّل اور تغیر نہیں.افراد نوعِ انسان مختلف طورکی کانوں کی طرح ہیں.کوئی سونے کی کان، کوئی چاندی کی کان، کوئی پیتل کی کان.پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں

Page 651

اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے.بِلاشبہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق فطرتاً اُن کو حاصل ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سرا سر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا.ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.موجب نجات اُخروی نہیں ہو سکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں.علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کاہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی.زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا.سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی.یہ بات خدا تعالیٰ کی تعلیماتِ وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبر دیتا ہے.کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اُس کا نام کافر ہی رکھتا ہے اور اُس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اُس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے.خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجزکے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کے وقت نہ صرف آپ اُنہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر اُنہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے.اُن کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کر سکتا.لیکن دو سَو کے قریب اب بھی ایسے خطوط اُن کے موجود ہوں گے جن میں اُنہوں نے انتہائی درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر اُن کو تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز من جانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بنا پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اور اُس جہان میں ہمارے ساتھ ہیں.ایسا ہی لوگوں میں بکثرت اُنہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کو بتلائیں.اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگرخدا تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت

Page 652

ثابت قدم ہے، متزلزل نہیں توکیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا.بہت سے الہامات صرف موجودہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں.عواقب امور سے اُن کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اُس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کر سکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ شانہٗ کے قبضہ میں ہے.میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے.غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے.مآل پر ضروری طور پر اُس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے.بہتوں نے راستبازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زار زار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے.انسان کا دل خدا ئے تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں.سو میر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیت اور اجنبیت سے ترکِ ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور خََتَمَ عَلَی الْقَلَبِ سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق ۱؎ و توہین پیدا ہو گیا.عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے.کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا.مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے.میرے دوستوں کو چاہئے کہ اُن کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فرو ماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ الکریم دعا کروں گا.میں چاہتا تھا کہ اُن کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میر عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کن انکساری الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں.انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسبِ ضرورت ظاہر کیا جائے گا.یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللّٰہ فی الارض لکھا کرتا تھا.آج اس کی کیا حالت ہے.پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے.اپنی

Page 653

استقامتوں پر بھروسہ مت کرو.کیا استقامت میں فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہوگا؟ جن کو ایک ساعت کے لئے ابتلا پیش آ گیا تھا اور اگر خدا تعالیٰ کاہاتھ اُن کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہو جاتی.مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا.لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا.یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی نازل ہوگئی تھی.آخر حضرت مسیح علیہ السلام سے منحرف ہوگئے تھے.یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کاتھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور بڑے پیار کا دَم مارتا تھا.جس کو بہشت کے بارہویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھاکہ آسمان کی کنجیاں اُن کے ہاتھ میں ہیں، جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں.لیکن آخرمیاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھلائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر اور اُن کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر لعنت بھیجتا ہوں.میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں.کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو.میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اور اصلہا ثابتکی ضمیر تانیث بھی اُس کی طرف ایک اشارہ کر رہی تھی.لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا.میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں.حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ یہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے.مَیں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ.۱؎ اور اس قدر غلوہے کہ شیخ نجدی کا استثناء بھی اُن کی کلام میں نہیں پایا جاتا.تاصالحین کو باہر رکھ لیتے اگرچہ وہ بعض روگردان ارادت مندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہو جانے سے سارا باغ برباد نہیں ہو سکتا.جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اورکاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں

Page 654

Page 655

کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلا دیں تو پھر انہوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے.تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم اُن کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذّاب اور مکاّر اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے.کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری میں چلا جاوے اور اُن کے فرمودہ کے مطابق کاربند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے.وہ دس برس تک برابر ایک کذّاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہو جاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرت کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثرٰی میں گرنے والا ہو.زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت نے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفۃ اللہ اور مجدّد ِدین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعویٰ کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے.اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ اُنہوں نے پہلے دیکھا وہ بہرحال اعتبار کے لائق ہوگا اور اگر وہ خوابیں اُن کی اعتبار کے لائق نہیں اور اضغاث احلام میں داخل ہیں.تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابلِ اعتبار نہیں ٹھہر سکتیں.ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے.حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی مبرا ہو سکتی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو.ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے اور شیطانِ لعین تو خدا تعالیٰ کا تمثل اور اُس کے عرش کی تجلی دکھلا دیتا ہے.پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے.اب جب کہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حُلیۂِ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حُلیہ پر

Page 656

تمثل شیطان جائز ہے.پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقّہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علاماتِ خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے اُس رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض بشارتیں پیش ازوقوع بتلا دیں یا بعض قضاو قدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کر دیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلادیں جو پہلے قلمبند اور شائع نہیں ہو چکے تو بِلاشُبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی.ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بیشک کافر اور دجّال ہے.اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اُس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنا لی ہے.سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی خواب میں آجاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھادیں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کر دیں اور علاماتِ اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ سے اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچادیں کہ درحقیقت اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کر لیں گے.اور اگر اُنہیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اُس سیدھے طور سے مقابلہ کریں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے.ہمیں بالفعل اُن کی رسول بینی میں ہی کلام ہے.چہ جائیکہ اُن کی رسول نمائی کے دعویٰ کو قبول کیا جائے.پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب.اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا.پھر بعد اس کے رسول نمائی کی دعوت کریں.اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا عجوبہ بھی دکھلا دیں.قادیان میں آجائیں.مسجد موجود ہے.اُن کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف وگزاف

Page 657

ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے.اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے.عقلمند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی.مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفۃ اللہ اور امام او رمجدد کہتارہا اور اپنی خوابیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعویٰ میں صادق ہے؟ میر صاحب کی حالت نہایت قابلِ افسوس ہے خدا اُن پر رحم کرے.پیشگوئیوں کے منتظر رہیں جو ظاہر ہوں گی ازالہ اوہام کے صفحہ۸۵۵ کو دیکھیں.ازالہ اوہام کے صفہ۶۳۵ اور ۳۹۶ کو بغور مطالعہ کریں.اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے.وَیَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْ اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ.زَوَّجْنَاکَھَا اور تجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے کہ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا ہم نے خود اُس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے.میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کرمنہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ ۱؎ کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکّا جادُو ہے‘‘.خ والسلام علی من فھم اسرارنا واتبع الھدٰی.الناصح المشفق ۲۷.دسمبر ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد قادیانی

Page 658

آسمانی فیصلہ کے متعلق میر عباس علی کاایک مکتوب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے اس کا جواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ از جانب عباس علی.بخدمت مرزا غلام احمد قادیانی.عرض ہے کہ جواب فیصلہ آسمانی مندرجہ اشاعۃ السنۃ صفحہ۵۱ جو ایک صوفی صاحب بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے وعدے کے کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی درخواست کرتے ہیں.بھیج کر التماس ہے کہ آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہو تحریر فرماویں کہ اس کے موافق عملدرآمد کیا جاوے.اور مضمون صفحہ۵۱ بغور ملاحظہ ہو کہ فریق ثانی آپ کے عاجز ہونے پر کام شروع کرے گا.(الراقم عباس علی از لودہانہ ۶؍ مئی ۱۸۹۲ء) الجواب خمکتوب نمبر ۶۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ والسّلام علٰی عبادہ الّذی اصطفٰے اما بعد بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا رقعہ پہنچا.آپ لکھتے ہیں جو ایک صوفی صاحب بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے دعوے کے اشاعت السنۃ میں کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی درخواست کرتے ہیں.آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہو تحریر فرماویں.فقط.اس کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر درحقیقت کوئی صوفی صاحب اس عاجز کے مقابلہ پر اُٹھے ہیں اور جو کچھ فیصلہ آسمانی میں اس عاجز نے لکھا ہے اس کو قبول کر کے تصفیہ حق اور باطل کا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ لازم ہے کہ وہ چوروں کی طرح کارروائی نہ کریں.پردہ سے اپنا منہ باہر نکالیں اور مردمیدان بن کر ایک اشتہار دیں.اسی اشتہار میں بتصریح اپنا نام لکھیں اور اپنا دعویٰ بالمقابل ظاہر فرمائیں اور پھر اس طرز پر چلیں جس طرز پر اس عاجز نے فیصلہ آسمانی میں تصفیہ چاہا ہے.اور اگر وہ طرز منظور نہ ہو تو فریقین میں ثالث مقرر ہو جائیں.جو کچھ وہ ثالث حسب ہدایت اللہ اور رسول کے روحانی آزمائش کا طریق پیش کریں وہی منظور کیا جائے.چوروں اور نامَردوں اور مخنثوں کی طرح

Page 659

کارروائی کرنا کسی صوفی صافی کا کام نہیں ہے.جب کہ اس عاجز نے علانیہ اپنی طرف سے دو ہزار جِلد فیصلہ آسمانی کی چھپوا کر اسی غرض سے تقسیم کی ہے تا اگر اس فرقہ مکفرہ میں کوئی صوفی اور اہلِ صلاح موجود ہے تو میدان میں باہر آجائے.تو پھر بُرقع کے اندر بولنا کس بات پر دلالت کر رہا ہے.کیا یہ شخص مرد ہے یا عورت جو اپنے تئیں صوفی کے نام سے ظاہر کرتا ہے.کیا اس عاجز نے بھی اپنا نام لکھنے سے کنارہ کیا ہے.پھر جس حالت میں میری طرف سے مردانہ کارروائی ہے اور کھلے کھلے طور سے اپنا نام لکھا ہے تو یہ صوفی کیوں چھپتا پھرتا ہے.مناسب ہے کہ اُسی طرح مقابل پر اپنا نام لکھیں کہ میں ہوں فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں.اور اگر ایسا نہ کریں گے تو منصف لوگ سمجھ لیں گے کہ یہ کارروائی ان لوگوں کی دیانت اور انصاف اور حق طلبی سے بعید ہے.اب بالفعل اس سے زیادہ لکھنا ضرورت نہیں.جس وقت اس صوفی محجوب پردہ نشین کا چھپا ہوا اشتہار میری نظر سے گذرے گا.اس وقت اس کی درخواست کا مفصّل جواب دوں گا.ابھی تک میرے خیال میں ایسے صوفی اور عنقا میں کچھ فرق معلوم نہیں ہوتا.فقط.والسلام علی من اتبع الھدٰی الراقم خاکسار غلام احمد ۷؍ مئی ۱۸۹۲ء مکرر یہ کہ ایک نقل اس کی چھپنے کے لئے اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں بھیجی گئی تا کہ یہ کارروائی مخفی نہ رہے.بالآخر یاد رہے کہ اگر اس رقعہ کے چھپنے اور شائع ہونے کے بعد کوئی صوفی صاحب میدان میں نہ آئے اور بالمقابل کھڑے نہ ہوئے اور مرد میدان بن کر بتصریح اپنے نام کے اشتہار شائع نہ کئے تو سمجھا جائے گا کہ دراصل کوئی صوفی نہیں صرف شیخ بٹالوی کی ایک مفتریانہ کارروائی ہے.فقط جواب الجواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ بعد الحمد والصلٰوۃ.بخدمت میرزا غلام احمد صاحب.سلام مسنون.آپ کا عنایت نامہ مورخہ ۷؍ مئی میرے نیاز نامہ کے جواب میں وارد ہوا.اُسے اوّل سے آخر تک پڑھ کر سخت افسوس ہوا کہ آپ نے دانستہ ٹلانے کے واسطے سوال از آسمان جواب از ریسمان کے موافق عمل کر کے بچنا

Page 660

چاہا ہے.اصل مطلب تو آپ نے چھوڑ دیا.یعنی آزمائش کے واسطے وقت اور مقام مقرر نہیں کیا بلکہ پھر آپ نے اپنی عادت قدیمہ کے مطابق کاغذی گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے.جناب من! جس طرح آپ نے فیصلہ آسمانی میں چھاپا تھا.اسی طرح اشاعت السنۃ میں ان صوفی صاحب نے جواب تُرکی بہ تُرکی شائع کر دیا ہے.آپ کو تو غیرت کر کے بلا تحریک دیگرے خود ہی طیار ہو جانا چاہیے تھا.برعکس اس کے تحریک کرنے پر بھی آپ بہانہ کرتے ہیں اور ٹلاتے ہیں.صوفی صاحب نے خود قصداً اپنا نام پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی مصلحت سے ظاہر نہیں کیا.ناحق آپ نے کلمات گستاخانہ صوفی صاحب کی نسبت لکھ کر ارتکاب عصیان کیا.سو آپ کو اس سے کیا بحث ہے.آپ کو تو اپنے دعویٰ کے موافق تیار ہونا چاہیے.مولوی محمد حسین صاحب خود ذمہ وار ہیں.فوراً مقابلہ پر موجود کر دیں گے.لہٰذا اَب آپ ٹلائیں نہیں.مرد میدان بنیں اور صاف لکھیں کہ فلاں وقت اور فلاں جگہ پر موجود ہو کر سلسلہ آزمائش و اظہار کرامت متدعویہ شروع کیا جائے گا.یہ عاجز بصد عجز و نیاز عرض کرتا ہے کہ آپ اپنے دعویٰ میں اگر سچے ہو تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.میدان میں آؤ.دیکھو یا دکھاؤ.صاف باطن لوگ دغل باز نہیں ہوتے.حیلہ بہانہ نہیں کیا کرتے.برکات آسمانی والے کمیٹیاں مقرر کیا کرتے ہیں.رجسٹر کھلوایا کرتے ہیں.اس قسم کی کارروائی صرف دھوکہ دینا اور دفع الوقتی پر مبنی ہے.افسوس صد افسوس.اللہ سے ڈرو.قیامت پیش نظر رکھو.ایسی مریدی پیری پر خاک ڈالو.جس مطبع میں آپ اپنا مضمون چھاپنے کے لئے بھیجیں اس عاجز کے مضمون کو بھی زیر قدم چھاپ دیں.عریضہ نیاز.میرعباس علی از لدھیانہ.روز دو شنبہ.۹؍ مئی ۱۸۹۲ء جواب جواب الجواب مکتوب نمبر ۶۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی بعد ہذا بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا جواب الجواب مجھ کو ملا.جس کے پڑھنے سے بہت ہی افسوس ہوا.آپ مجھ کو لکھتے ہیں کہ صوفی صاحب کے مقابلہ پر مردِ میدان بنیں.اگر سچے ہو تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.آپ کی اس تحریر پر مجھ کو رونا آتا ہے.صاحب میں نے کب

Page 661

اور کس وقت حیلہ بہانہ کیا.کیا آپ کے نزدیک وہ صوفی صاحب، جن کے نام بھی اب تک کچھ پتہ و نشان نہیں، میدان میں کھڑے ہیں.میں نے آپ کو ایک صاف اور سیدھی بات لکھی تھی کہ جب تک کوئی مقابل پر نہ آوے اپنا نام نہ بتاوے.اپنا اشتہار شائع نہ کرے کس سے مقابلہ کیا جائے.میں کیونکر اور کن وجوہ سے اس بات پر تسلی پذیر ہو جاؤں کہ آپ یا شیخ بٹالوی اس صوفی گمنام کی طرف سے وکیل بن گئے ہیں.کوئی وکالت نامہ نہ آپ نے پیش کیا اور نہ بٹالوی نے.اور اب تک مجھے معلوم نہیں ہوا کہ اس صوفی پردہ نشین کو وکیلوں کی ضرورت کیوں پڑی.کیا وہ خود ستر میں ہے یا دیوانہ یا نابالغ.بجز اس کے کیا سمجھنا چاہیے کہ اگر فرض کے طور پر کوئی صوفی ہی ہے تو کوئی فضول گو اور مفتری آدمی ہے جو بوجہ اپنی مفلسی اور بے سرمائیگی کے اپنی شکل دکھانی نہیں چاہتا.میں متعجب ہوں.یہ سیدھی بات آپ کو سمجھ نہیں آتی.یہ کس قسم کی بات ہے کہ صوفی تو عورتوں کی طرح چھپتا پھرے اور مردِ میدان بن کر میرے مقابلہ پر نہ آوے اور الزام اس عاجز پر ہو کہ کیوں صوفی کے مقابل پر کھڑے نہیں ہوتے.صاحب من! میں تو بحکم اللہ جل شانہٗ کھڑا ہوں اور خدا تعالیٰ کے یقین دلانے سے قطعی طور پر جانتا ہوں کہ اگر کوئی صوفی وغیرہ میرے مقابل آئے گا.تو خدا تعالیٰ اس کو سخت ذلیل کرے گا.یہ میںنہیں کہتا بلکہ اس واحد لاشریک عزاسمہٗ نے مجھ کو خبر دی ہے جس پر مجھ کو بھروسہ ہے.ایسے صوفیوں کی میں کس سے مثال دوں وہ ان عورتوں کی مانند ہیں جو گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھیں اور پھر کہیں کہ ہم نے مردوں پر فتح پائی.ہمارے مقابل پر کوئی نہ آیا.مَیں پھر مکرر کہتا ہوں کہ بٹالوی کی تحریر سے مجھ کو سخت شُبہ ہے اور اس کے ہر روزہ افتراء پر خیال کرکے میرے دل میں یہی جما ہوا ہے کہ یہ صوفی کا تذکرہ محض فرضی طور پر اس نے اپنی اشاعۃ السنّہ میں لکھ دیا ہے ورنہ مقابلہ کا دم مارنا اور پھر پردہ میں رہنا کیا راست باز آدمیوں کا کام ہے.اس صوفی کو چاہیے کہ میری طرح کھلے اشتہار دے کہ میں حسب دعوت فیصلہ آسمانی تمہارے مقابل پر آیا ہوں.اور میں فلاں ابن فلاں ہوں.اگر اس اشتہار کے شائع ہونے اور میرے پاس پہنچائے جانے کے بعد میں خاموش رہا تو جس قدر آپ نے اپنے اس خط میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ ’’حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.صاف باطن دغل باز نہیں ہوتے.‘‘ یہ سارے الفاظ آپ کے میری نسبت صحیح ٹھہریں گے ورنہ دشنام دہی سے زیادہ نہیں.جب انسان کی آنکھ بند ہو جاتی ہے تو اس کو روز روشن

Page 662

بھی رات ہی معلوم ہوتی ہے.اگر آپ کی آنکھ میں ایک ذرّہ بھی نُور باقی ہوتا تو آپ سمجھ لیتے کہ حیلہ بہانہ کون کرتا ہے.کیا وہ شخص جس نے صاف طور پر دوہزار اشتہار تقسیم کر کے ایک دنیا پر ظاہر کر دیا کہ میں میدان میں کھڑا ہوں.کوئی میرے مقابل پر آوے یا وہ شخص کہ چوروں کی طرح غار کے اندر بول رہا ہے.جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی ان پر لعنت ہے.پس اگر یہ صوفی درحقیقت کوئی انسان ہے تو محمد حسین کی ناجائز وکالتوں کے بُرقع میں مخفی نہ رہے اور خدا تعالیٰ کی لعنت سے ڈرے.اگر اس کے پاس حق ہے تو حق کو لے کر میدان میں آ جائے.جب کہ مجھ کو کوئی معیّن شخص سامنے نظر نہیں آتا تو میں کس سے مقابلہ کروں.کیا مُردہ سے یا ایک فرضی نام سے.اور آپ کو یاد رہے کہ اگر میری نظر میں یہ صوفی ایک خارجی وجود رکھتا تو میں جیسا کہ میرے پر ظاہر ہوتا اس کے مرتبہ کے لحاظ سے باَخلاق اس سے کلام کرتا.مگر جب کہ میری نظر میں صرف یہ ایک فرضی نام ہے جس کا میرے خیال میں خارج میں وجود ہی نہیں تو اس کے حق میں سخت گوئی محض ایک فرضی نام کے حق میں سخت گوئی ہے.ہاں سخت گوئی آپ نے کی ہے سو میں آپ کے اس ترک ادب اور لعن طعن اور سبّ اور شتم کو خدا تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں.فقط.راقم مرزا غلام احمد مکرر واضح رہے کہ اب اتمامِ حجت کر دیا گیا.آیندہ ہماری طرف ایسی پُر تعصّب تحریریں ہرگز ارسال نہ کریں.جب یہ تحریریں چھپ جائیں گی منصف لوگ خود معلوم کر لیں گے کہ کس کی بات انصاف پر مبنی ہے اور کس کی سراسر ظلم اور تعصّب سے بھری ہوئی ہے.میرزا غلام احمد ۹؍ مئی ۱۸۹۲ء.٭ (مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ) یہ اشتہار ۲۰x۲۶ کے دو صفحوں پر ہے جو ضمیمہ پنجاب گزٹ سیالکوٹ مورخہ ۱۴؍ مئی ۱۸۹۲ء میں طبع ہوا ہے.(المرتب)

Page 663

Page 664

مکتوبات بنام منشی مظہر حسین صاحب (نئے شامل کئے گئے خطوط) صفحہ ۶۴۵ تا ۶۷۵

Page 665

فہرست مکتوبات بنام منشی مظہر حسین صاحب مکتوب نمبر صفحہ تاریخ تحریر مکتوب ۱ ۶۴۷ اگست ۱۸۸۸ء ۲ ۶۷۱ ۱۶ اگست ۱۸۸۸ء ۳ ۶۷۴ ۲۳ اگست ۱۸۹۸ء

Page 666

خمکتوب نمبر ۱ مسئلہ وحدت الوجود بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد.سلام علی من اتبع الھدٰی.منشی مظہر حسین صاحب کو واضح ہو.آپ کا خط پہنچا.باوجود عدم فرصتی محض لِلّٰہ آپ کے فائدہ کے لئے بترتیب اقوال جداگانہ یعنی بطور قولہ و اقول ذیل میں جواب لکھا جاتاہے.قولہ ـ:فقیر کو نہ مسئلہ وحدت الوجود میں کچھ شبہ ہے نہ مسئلہ وحدت الشہود میں.اقول: آپ اپنے پہلے خط میں اقرار کر چکے ہیںکہ یہ مسئلہ حالی طور سے مجھ پر منکشف نہیں اور نہ عقلی طور پر منکشف ہے.صرف قرآن شریف کی بعض آیات کے رُو سے اپنے خیال میں اس مسئلہ کو حق سمجھا گیا ہے.آپ کو اس کے جواب میں لکھا گیا تھا کہ بیناتِ قرآنیہ ہرگز اس مسئلہ کی تائید نہیں کرتیں بلکہ قرآن شریف نے جا بجا امتیاز حقیقی خالق او ر مخلوق میں بتایا ہے ۱؎ ۲؎ یہ کہاں قرآن شریف میںلکھا ہے کہ مخلوق خالق کا حقیقت میں عین ہی ہے صرف تغایر اعتباری ہے.سو میں اب بھی کہتا ہوں اور باصرار کہتا ہوں کہ قرآن شریف پر وجود یوں کی یہ تہمت ہے.بینات کو چھوڑ کر متشابہات کی پیروی کرنا کج دل آدمیوں کا کام ہے.اگر قرآن شریف کا حصہ کثیر جو حقیقی طور پر عابد اور معبود اور خالق اور مخلوق میں دائمی فرق کرکے دکھلاتا ہے ایک طرف اکٹھا کیا جاوے اور دوسری طرف وہ چند آیات متشابہات دکھلائی جائیں جن کو وجود ی محض تعصب اور نادانی کی وجہ سے اپنے دعوی کی دستاویز بنانا چاہتے ہیں تو طالب حق کو واضح ہو کہ کس قدر ان کے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اورکیسے وہ طریق انصاف اور طلب حق سے دور جاپڑ ے ہیں.اب ذرا ہوش کرکے دیکھو کہ اس استد لال کا تو یہ حال ہے کہ جو قرآن شریف سے کیا جاتا ہے اور حال سے تو وجودیوں کو کچھ بہرہ ہی نہیں اور نہ کسی وجودی کو کبھی کامل طور پر ہوا.جیسا کہ اپنی تہی دستی

Page 667

اور محرومی محض کا تو اپنے خط میں آپ کو بھی اقرار ہے.ہاں بطور قصہ اور کہانی کے دوسرے لوگوںکے فضائل کے آپ قائل ہیں مگر قصوں اور کہانیوں کے ہم قائل نہیں.مردہ پرستوں کا قدیم سے یہ شیوہ چلا آتا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیںکہ ہم روحانی برکات سے بے نصیب اور محروم محض ہیں.اور باایں ہمہ یہ بھی منظور ہے کہ اپنے مشرب کی گووہ کیسا ہی گندہ ہو تعریف کی جائے تو مخنث کی طرح جو اپنے بھائی کی مردی پر ناز کرتا ہے، کسی زمانہ کے گزرے ہوئے مردوںکی کہانیاں پیش کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ہم مشرب تھے یا ہمارے ہی داد صاحب تھے مگرایسے دعووں کو کوئی پسند نہیںکرتا.مثلاً اگر ہم کسی ہندو کے سامنے اپنے گزشتہ اولیاء کے صرف جھوٹے تذکرے پیش کر سکتے ہیں تو کیا وہ ہندو اسی بارہ میں اپنے گرنتھ یا پوتھیاں پیش نہیںکر سکتا؟ یہ تو عام عادت ہے کہ عوام کالانعام جن کے مشرب میں ہوتے ہیں مرنے کے بعد ان کو ایک بڑا صاحب مقامات و کرامات قرار دے دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اب وہ مر چکا.اب اس کے حال کی تفتیش کرنا مشکل ہے.چاہیں اس کو غوث بنا دیں یا قطب ٹھہرا دیں.کیا اس کو غوث الثقلین اور قطب دار ین کہہ دیں.پیراں نمی پرند مریداں می پرانند.انہیں لوگوں کے حق میں ہے.سو حالی طور پرنہ اس زمانہ کے وجودی کوئی ایسی دلیل دے سکتے ہیں کہ جو دوسرے پر اتمام حجت کرے اور نہ ان کے مُردہ پیشوا قبروں سے نکل کراپنی خدائی کاکوئی کرشمہ دکھا سکتے ہیں.ایسا ہی عقلی طور پر کسی وجودی کو دم مارنے کی جگہ نہیں.وجودیوں کے مذہب کا لب لباب یہ ہے کہ ہم اور خدا ایک ہی ہیں صرف درمیان میں اعتباری تغائر ہے جیساکہ اپنے خط میں آپ خود تسلیم کر چکے ہیں اور محی الدین عربی صاحب جابجا اپنی تالیفات میں اسی پر زور دیتے ہیں کہ ’’الخالق عین مخلوقہ‘‘ دیکھو فصوص کے پہلے ہی صفحات پر.پس جب کہ وجودی بزعم خود خدا ہوئے تو اب کس قدر ان پر اعتراض ہوتے ہیں.کیا کوئی گن سکتا ہے؟ کیا خدائےکی روح کبھی خدائی کے مرتبہ سے تنزّل بھی کرتی ہے اور اس سے گناہ اور فسق و فجور اور ہر طرح کی حرامکاری اور مکاری سرزد ہوتی ہے؟ اور نیز ضعف اور جہل اور نادانی وغیرہ رذائل اس کے عائد حال ہوجاتے ہیں اور پھر جہنم ابدی اس کے نصیب ہوتا ہے نعوذ باللّٰہ من ھذ ہ الخرافات و سبحٰن ربنا عما یصفون.اب جبکہ نہ حال کی رو سے نہ عقل کی روسے نہ بینات قرآنیہ کی رُو سے وجودی مذہب کی صداقت آپ کے پاس ہے تو آپ کاکہنا

Page 668

کہ فقیر کو وحدۃ الوجود میں کچھ شبہ نہیں کس قدر شرم کی بات ہے.کاش وجودی لوگ آیت کریمہ۱؎ غور سے پڑھتے اور اپنی بساط سے بڑھ کر قد م نہ رکھتے۲؎ قولہ: شبہ صرف اس بات میںہے کہ آپ کا دعوی مجدد ہونے کا اور صاحب الہام ہونے کا سچا ہے یا جھوٹا.اقول: یہ دعوی ایسا نہیںکہ وجودیوں کے پُر تزویر مشائخ کی طرح صرف چند سادہ لوح اور بے وقوف مریدوں میں کیا گیا ہو.بلکہ یہ دعوی بفضلہ تعالیٰ و توفیقہٖ میدانِ مقابلہ میں کروڑ ہا مخالفوں کے سامنے کیا گیا ہے اور قریب تیس ہزار کے اس دعوی کے دکھلانے کے لئے اشتہارات تقسیم کئے گئے.اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کراکر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کرکے انگلستان اور جرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کئے گئے.چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز و لی عہد تخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اورجرمن کا شہزادہ بسمارک ہے.چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے.پس کیا ایسی کارروائی مکر وفریب میں داخل ہوسکتی ہے؟ کیا کسی مکار کو یہ جرأت ہے کہ ایسا کام کرکے دکھلاوے؟ ہاں یہ سچ ہے کہ ان کارروائیوں سے وجودیوں کے دل پر بڑا صدمہ ہے.چنانچہ اس جگہ کے وجود ی بھی دیکھ دیکھ کر آتش حسد میں جل رہے ہیں کیونکہ وہ درحقیقت اللہ اور رسول کے دشمن ہیں اور وہ چاہتے ہی نہیں کہ اللہ اور رسول کا بول بالاہو. ۳؎ اور اگر آپ کے یا آپ کے کسی اور بھائی وجودی کے دل میںیہ شک ہو کہ دوسرے کفار کی طرح ہمیں

Page 669

آزمائش کے لئے کیوں بلایا نہیں جاتا.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اپنی دانست میں پہلے بڑے بڑے کافر وں کو حق کی طرف دعوت کی ہے اور اب تک ہم سمجھتے تھے کہ وجودیوں کے لئے بھی یہی دعوت کافی ہوگی.سو اب آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ وجودی علیحدہ طور پر اپنی دعوت چاہتے ہیں.سو انشاء اللہ عنقریب وجودیوں کے لئے الگ اشتہار چھپوائے جائیں گے اور پنجاب اور ہندوستان اور اودھ کے وجودیوں کی طرف جو ناحق ضلالت اور کورانہ حالت میں پیر زادہ اور مشائخ بن بیٹھے ہیں روانہ کئے جائیںگے.لیکن اگر آپ کی روح جو وجودیت کے بخارات سے اُچھل رہی ہے اس بات کیلئے تڑپتی ہے کہ میرے لئے جلدی ہونی چاہیے تو میں آپ کے معاملہ کو ان اشتہارات تک بھی توقف میں ڈالنا نہیں چاہتا.اللہ شانہٗ ہمارے ساتھ ہے وہ ہر ایک مخالف دین کو جو مقابل پر آوے گا ذلیل اور رُسوا کرے گا.خواہ وہ وجودی ہو ںیا یہودی یا عیسائی یاآریہ یا کوئی اور مگرشرط یہ ہے کہ آپ ہمارے پاس ایک برس تک ٹھہریں.قادیان میں بعض وجودی رہتے ہیں جو دین اور سچائی کے سخت مخالف بلکہ اللہ اور رسول کے علانیہ منکر ہیں.یقین ہے کہ بباعث ہم مادہ ہونے کے آپ کو ان سے بہت آرام مل جائے گا اور اُنس ہوجائے گا.بایں ہمہ رفع حجت کے لئے ہم اس بات پر بھی آمادہ ہیں کہ آپ کے آنے جانے کا تمام کرایہ ہمارے ذمہ رہے.دو وقت روٹی جو کچھ نان و نمک ہو وہ بھی ہماری طرف کھاویں.مگر یہ سب اس شرط سے کہ ایک سال تک رہیں ورنہ کوئی ذمہ واری نہیں ہوگی.سو اگر ایک سال تک رہنے کے بعد ہم اپنے دعوی میں جھوٹے نکلے تو وجودی لوگ جس قسم کی سزا ہمیں چاہیں دے دیں یا کچھ بطور سزا تاوان آپ مقرر کریں وہی حتی الاستطاعت ہمیں منظور ہے.جس طرح چاہیں تسلی کرالیں لیکن اگر ہم سچے نکلے یعنی ہم میں کوئی ایسا امر خارقِ عادت پایا گیا جس کا وجودی لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے تو ہم ان سے کچھ نہیںمانگتے بجز اس کے کہ اس ناپاک اور شیطانی طریق سے سچے دل سے توبہ کریں اور صراط مستقیم اسلام میں داخل ہوجائیں.اور اگر آپ بعد اس ہماری دعوت کے قادیان میں نہ آئے تو سمجھا جائے گا کہ آپ کو حق کی طلب نہیں تھی بلکہ وجودیوں کی عادت کے موافق صرف عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خَوَارٌ کے آپ مصداق تھے.قولہ: حرف درویشاں نہ بندد مرد دُوں تا نخواند بر سلیمے آں فسوں

Page 670

اقول: یہ میرے لئے آپ بے چارہ رومی کا شعرآپ لائے ہیں.سو اس کا جواب شعر کے ساتھ ہی دیا جاتا ہے کیونکہ شعر کے جواب میں شعر ہی زیباہے اور وہ یہ ہے.مہ نور می فشاند و سگ بانگ می کند سگ را بپرس خشم تو برماہتاب چیست قولہ:ان وجودیوں کی ضلالت سے جو ملک پنجاب میں پائے جاتے ہیں.اصحاب وحدت الوجود کو فرقہ ضالّہ نہیں کہا جاسکتا.اقول: جس حالت میں فرقہ ضالہ کہنے کا اصل موجب یہی ہے کہ تمام وجودی خواہ عام میں داخل ہوں یا خاص میں.مخلوق کو عین خالق کا جانتے ہیں توپھر وہ سب کے سب فرقہ کہلائے یاکچھ اور ہاں یہ سچ ہے کہ پنجاب کے وجودی اکثر تارک الصلوٰۃ والصوم، زانی، فاسق، فاجر بلکہ بعض کجرو، شارب الخمر وغیرہ ہیں.قولہ: اصحاب وحدۃ الوجود میں رومی اور محی الدین عربی اور شیخ عبدا لقادر گیلانی داخل ہیں.اقول: رومی کی عبار ت سے صرف توحید شہودی معلوم ہوتی ہے اس کو جاہل وحدۃ وجودی سمجھتے ہیں.محی الدین نے غلطی کھائی ایک بشر تھا بھول گیا اس کا بوجھ اس پر اور تمہارا تم پر.اور سید گیلانی پر وجودیت کی تہمت ہے ان کا قول ہے کہ کل حقیقۃ ردتہا الشریعۃ فھو زندقۃ.فتوح الغیب کو آپ نے نہیں پڑھا یا اگر پڑھا ہے تو نہیں سمجھا.فتوح الغیب تو وجودیوں کی جڑ کاٹتی ہے اس کو غور سے پڑھو تامعلوم ہو.قولہ:کسی وحدۃ الوجود والے نے یہ نہیں کہا اور نہ یہ سمجھا کہ میں خد اہوں.اقول:اگر وجودی مذہب میں آپ کی معلومات کا یہ حال ہے تو پھر جھگڑا ہی کیوں شرو ع کیا.آپ کو خبر نہیںکہ آپ کے مقتدا حضر ت محی الدین صاحب فصوص میں فرماتے ہیں.بل ھوعین لاغیر ھا.اور اس بات کو کون نہیںجانتا کہ وجودی مخلوق کو عین خالق کا سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں حقیقی طور پر نہ مجازی طور پر.کیونکہ اگر ا س جگہ کسی مجاز کو دخل ہوتو پھروہ توحید شہودی ہوگی نہ وحدت وجودی.قولہ: کیا تماشا ہے کہ لوگ اپنی ناقص العقلی اور خباثت باطنی سے بزرگانِ دین پر تہمت کرتے ہیں اور اناالحق اور ہمہ اوست کے معنی بگاڑ کر کچھ کا کچھ سمجھتے ہیں.

Page 671

اقول: حضر ت لوگوں کا کچھ قصو رنہیں ان کو کیوں آپ ناحق کوستے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ کے پُر جوش کلمات ناقص العقلی اور خباثت الباطنی کے وجودیوں پر ہی عائد ہوتے ہیں نہ کسی اہل حق پر.کیونکہ وہی لوگ توحید شہودی کے معنوں کو بگاڑ کر خواہ نخواہ وحدت وجودی کی طرف لے آتے ہیں.چنانچہ کسی کا سکر اور فنائے نظری کی حالت میں انا الحق کہنا ہمہ اوست کا کلمہ زبان پر لانا یا سبحانی ما اعظم شانی منہ سے نکلنا یہ سب کلمات عشقی محویت کی حالت میں توحید شہودی کے چشمہ سے نکلے ہیں.اور وجودیوں کی یہ ناقص العقلی اور خباثت الباطنی ہے جو کہ ان عاشقانہ کلمات کو وحدت وجودی پر نازل کرتے ہیں.چنانچہ اس مقام میں مجدد الف ثانی صاحب بھی اپنے ایک خط میں جو شیخ فرید کی طرف لکھا ہے لکھتے ہیں.توحید وجودی کہ نفی ماسوا یک ذات است تعالیٰ وتقدس باعقل و شرع درجنگ است… واقو ال بعضی ازمشائخ کہ بظاہر بشریت حقہ مخالف می نمایند بتوحید وجودی.بعضی مردم آنہا را فرودمی آرند مثل قول ابن منصور الحلاج انا الحق و قول ابی یزید بسطامی سبحانی و امثال اینہا… حالانکہ ایں اقوال ازاں قسم عشاق بتوحید شہودی انسب و اقرب اندوبر محل آں چسپاں ترایں کلمات بتوحید شہودی فرود ناید آورد و مخالف شرع رادور باید ساخت آن بزرگان ایں چنیں سخنان از مقام غلبہ محویت عشقی و حیرت گفتہ اند و امثال ایں سخنان درایں مقام بعض را وحی دہد… وچوں ازایں مقام بگذرند و بحق الیقین میر مسانند از امثال ایں کلمات تحاشی می نمایند واز حد اعتدال تجاوز نمی فرمایند…… اکثر ابنائے ایں وقت …بد امن توحید وجودی زدہ اند وہمہ راعین حق می دانند بلکہ عین حق می دانند وگرد نہائے خود را از ربقہ تکلیف شرعی بالحیلہ می کشایند و مدانہات در احکام شرعیہ می نمائید.ّتم کلامہ اب اس خط سے بھی ظاہر ہے کہ یہ وجودی ہمیشہ خدائی کا دعوی کرتے رہے ہیں اور بے قیدی اور اباحت ان کو لازم حال ہو رہی ہے.قولہ:منصور اور بایزید کے منہ سے فنا کے مقام میں وہ کلمات نکلتے تھے.

Page 672

اقول:اس سے آپ نے خود اقرار کر لیا کہ وہ کلمات توحید شہود ی کے پاک چشمہ سے تھے نہ مکدر اور مغشوش چشمہ وحدت وجود سے.کیونکہ فنا اور محویت عشقی کا نتیجہ توحید شہودی ہے نہ وجودی.جو شخص غلبہ عشق سے فانی اور محو ہوگیاہے اس کو ا س تحقیق سے کیا غرض کہ واقعی امر ہمہ اوست ہے یا ہمہ از وست.وہ تو محویت عشقی کے جوش سے کہتا ہے کہ من تو شدم تو من شدی عشق آمد شد خودی قولہ:اگر اب بھی میرے دعوی کو نہ سمجھے ہوں اور اپنے دعوی مجددیت کو ثابت نہ کرسکیں تومیرے خطوط واپس بھیج دو.اقول:اگر میں آپ کے خطوط کو کچھ چیز سمجھتا اور خیال کرتا کہ کسی انسان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں تومیں ان کو عزت سے رکھتا اور ان کو واپس بھی کر دیتا مگر میرے پاس ایسے مخالفین اسلام کے ہزار ہا ردّی خطوط او ر فضول آتے ہیں اور چاک کئے جاتے ہیں.رہا یہ امر کہ میری الہامیت اورمجددیت کا دعوی ثابت ہے یا نہیں؟ تو بفضلہ تعالیٰ ایسا ثابت ہے کہ وجودیوںکی ہزار پشت تک بلکہ اس وقت جو وجودیوں کا تخم نکلاہے ایسا ثبو ت ملنا ان کے خود ساختہ بزرگوں میں مشکل ہے.اور اگر وجودیوں میں کوئی صاحب الہام اور قبولیت ہے تو میرے مقابل پر آوے.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ حال کے وجودی نرے شیخ نجدی کے ہی خلیفہ ہیں اور کوئی وجہ مشیخت کی نہیں. ۱؎ قولہ:میرے خیال میں نہیں آتا کہ بغیر حصول مرتبہ فنا کے کوئی صاحب الہام ہوسکے.اقول:یہی وجہ ہے کہ وجودیوںمیں کوئی صاحب الہام نظر نہیں آتا.کیونکہ ان میں فنا کا نام ونشان نہیں وہ تو عبدالدراہم والد ینار ہیں.لیکن اس عاجز کا الہام کوئی مخفی چیز نہیں اورنہ کوئی امر غیر مثبت.آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلے باید از وے رو متاب

Page 673

دیکھو کیا روشن و درخشاں دعوی ہے کہ تمام وجودی، یہودی، عیسائی ،آریہ وغیرہ مجال نہیں رکھتے کہ سامنے آویں.ان سب دشمنان اللہ و رسول پر یہ الہام صاعقہ کا حکم رکھتا ہے.کیاآپ برعایت شرائط متذکرہ بالا ایک سال تک رہنے کیلئے آسکتے ہیں.ہر گز امید نہیں کہ آویں.اللہ شانہٗ نے مجھے الہام دیا ہے سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۱؎ اور نیز مجھے بشارت دی ہے کہ اگر کوئی مخالف آوے گا تو ذلیل اور رُسوا ہوکر جائیگا میں آپ کو پھر مکرر دعوت کرتا ہوں کہ اگر پورے ایک سال کیلئے میرے الہام کی آزمائش کے لئے آویں اورایک سال تک رہیں اور مجھ کو جھوٹا اور مکار پاویں تو جو تاوان میری مقدرت کے موافق آپ تجویزکریں وہ ادا کروں گا.یاآپ کے سال کی تنخواہ بحساب دس روپے جو آپ کو ملتے ہیں آپ کو دے دوں گا.او راگر میںسچا نکلاتو بجز اس کے کچھ نہیں چاہتا کہ آپ وجودیت سے توبہ کرکے دین اسلام میں داخل ہوں اور دوچار اخباروں میں شائع کرا دیں کہ مجھ پر ثابت ہوگیاکہ وجودی مذہب ضلالت اور الحاد کی راہ ہے اور اب سچے دل سے اللہ اور رسول اور قرآن شریف پرایمان لایا اور الحادکے طریقہ سے توبہ کی.قولہ:جس سے کرامت کا صد ور ہوگا اس کو دعوی کرنے اور اشتہار دینے کی ضرورت کیا ہے.جیسے فضل الرحمن صاحب اَوَدھ میںہیں کہ ان کی قدم بوسی کیلئے ہر شہر سے لوگ چلے آتے ہیں اور مرادیں پاتے ہیں.اقول:جو کامل مردان خدا ہیں وہی دعوی کرتے ہیں.مخنثوں اور نامردوں کا کام نہیں جو دعوی کریں.فضل الرحمن بیچارا خدا جانے کون اور کس خیال کے آدمی ہیں.غالباً وہی وجودی پیر زادہ ہوگا.یہی حضرات ہیں جو جابجا دکانیںکھول رہے ہیں.ایسے بودے کی کیا طاقت جو ایک جہان کے سامنے کچھ دعوی زبان پر لاوے.میدان میںکھڑے ہو کر کروڑ ہا مخالفوں کے سامنے دعوی کرنا ہر ایک ایسے ویسے آدمی کاکام نہیں.یہ دعوی اولوالعزم رسولوں نے کیا.یا انہوں نے جواُن کے قائمقام اور کمالات میں ان کے مثیل ہیں.دوسروں سے جو بزدل اور ضعیف الایمان اور ربانی شجاعوں اور بہادروں میں سے نہیں ہیں اور نہ کامل بھروسہ اللہ جل شانہٗ پر رکھتے ہیںایسا عالی شان دعوی کب ہوسکتا ہے.

Page 674

مردی و شجاعت سر میدانی از زن مطلب اگر نہ دانی بھلا ہم نے تو خدا کے اذن سے بادشاہانِ وقت کو دعوت کی یہاںتک کہ قیصرہ ہند کے ولی عہد کو اسلام کا خط لکھا میاں فضل الرحمن کو کہیے اپنے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو دعوت اسلام کی کرکے دکھلاوے پھر دعوی کرے کہ مجھ میں یہ طاقت ایمانی ہے.میں ایسے پیرزادوں کی حقیقت خوب جانتا ہوں مگر لکھنے کی کچھ ضرورت نہیں.اب حاصل کلام یہ ہے کہ جولوگ مسکین اور بے بصارت اور اس راہ میں گئے گزرے ہیں وہ دعوی نہیں کرسکتے اور نہ اشتہار دے سکتے ہیں.مگر جولوگ رسول یارسولوں کی مانند ہیں وہ قدیم سے دعوی کر تے چلے آئے ہیں.اس مقام میں صاحب منصب امامت نے کیا عمدہ لکھا ہے چنانچہ اس کی عبارت یہ ہے.نکتہ اوّل :.امامت ظل رسالت است وبنائے آں بر اظہار است نہ بر اخفا بخلاف سائرارباب ولایت.پس چنانکہ ادعای منازل وجاہت وادعائے مقامات ولایت وبیان معاملات ربّانی و کشف اسرار روحانی درحق ارباب ولایت مظنّہ سلب و زوال ولایت است ہمچنیں درحق ایشاں باعث ترقی وکمال آنچہ از قسم کلمات فخریہ ازائمہ ہدی سر بر میزندمثل آنچہ از حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ منقول است انا الصدیق الاکبر لایقولھا بعدی الاکذاب و انا القرآن الناطق وآنچہ از سید الشہد در معرکہ کربلا از اشعار مفاخرت مروی است وہم چنیں از سائر ائمہ اہل بیت وسیدی عبد القادرجیلانی و دیگر ائمہ ہدٰی ایں کلمات را از قبیل تحدیث بنعمۃ اللہ وتشبث برحمۃ اللہ باید شمرد نہ از جنس ہرزہ سرائی و خود ستائی.کار پاکاں را قیاس از خود یگر گرچہ ماند در نوشتن شیروشیر ترجمہ: امامت ظل رسالت ہے.بناء اس کی اظہار پر ہے نہ کہ اخفا پر.برخلاف ولایت کے.پس جیسا کہ منازل و وجاہیت اور مقامات کا دعوی اور معاملاتِ ربانی و کشف و اسرار روحانی کا بیان اربابِ ولایت کے حق میں مظغۂ سلب و زوال ہے اسی طرح اِن کے حق میں ترقی و کمال کا باعث ہے.وہ کلمات جو فخر کی اقسام سے آئمہ ہدی سے ظاہر ہوئے جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین حضرت علی

Page 675

مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے.انا الصدیق الاکبر لایقولھا بعدی الاکذاب و انا القرآن الناطق (میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد یہ لفظ سوائے کذاب کے کوئی نہ کہے گا اور میں قرآن ناطق ہوں) اور جو سید الشہداء سے معرکۂ کربلا میں فخریہ اشعار مروی ہیں اور ایسا ہی تمام ائمہ اہل بیت اور سید عبدالقادر جیلانی ؒ اور دیگر ائمہ ہدٰی سے بھی ایسے کلمات صادر ہوئے ہیں.ان کلمات کو نعمۃ اللہ اور تشبت رحمۃ اللہ کی قبیل سے شمار کرنا چاہیے نہ کہ ہرزہ سرائی اور خود ستائی کی جنس سے.اب رہی یہ بات کہ میاں فضل الرحمن کے پاس لوگ بہت آتے ہیں اور مرادیں پاتے ہیں اس کا آخری فقرہ تو پیراں نمی پرند مریداں مے پر انند میں داخل ہے.ہاں یہ قریب قیاس ہے کہ عوام کالانعام کہ جونیک اور بد میں تمیز نہیں کر سکتے بہت آتے ہونگے.مگر کیا پنجاب کے مہنتوں سے بھی زیادہ جن کا لاکھ لاکھ آدمی چیلہ ہے.ہمارے ہی قریب ایک جاہل اور نادان وجودی رہتا ہے جو موافق عادت وجودیوں کے تارک صوم و صلوٰۃ اور بہت سی ناکردنی اور ناگفتنی باتیں اس کی جماعت میں پائی جاتی ہیں مگر قریب ایک لاکھ کے اس کا مرید ہوگا.بات یہ ہے کہ ایسوں کو تیسے مل جاتے ہیں.حضرت سیدنا و مولانا مخدومنا و مخدوم الکل خاتم الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں تکالیف اُٹھا کر تیرہ برس میںمکہ معظمہ میں سَو یا سَوا سَوکافر کو خلعت ایمان پہنایا اور مسیلمہ کذّاب پر صرف ایک ماہ میں لاکھ آدمی کے قریب ایمان لے آیا.یہ قاعدہ ہے کہ حق کا اثر دیر سے پڑتا ہے مگر دیر پا ہوتا ہے اور باطل کا اثر جلد پڑتا ہے اور جلدی ہی دو رہو جاتا ہے.مرد ان خد اکی شان کمی جماعت سے کچھ کم نہیں ہوتی.قیامت کے میدان میںکئی ایسے رسول آئیںگے جن کے ساتھ دو یا ایک پیروکار ہوگا اور بعض ایسے ہونگے کہ اکیلے آئیںگے کثرت پر خوش ہونا جہال کی عادت ہے جو حقیقت اور مغز کو نہیں دیکھتے.راستی اور حقیقی برکت کو تلاش نہیں کرتے آجکل بہتیرے حرام خور پیر زادے ہیں جو ہزاروں جاہل سادہ لوح ان کی قدم بوسی کیلئے آتے ہیں اور ان کے زعم میں وہ مرادیں دیتے ہیں.۱؎ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ گمراہ کرے اس کوکون ہدایت دیوے.اگر میاں فضل الرحمن میںکچھ قبولیت اور برکت ہے تو وہ کیوں مقابلہ کیلئے میدان میں نہیں آتے.بہر حال جب

Page 676

اشتہار وجودیوں کے نام چھپیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ایک پرچہ فضل الرحمن کے نام بھی روانہ کیاجائے گا.وجودی بُرا مانیں یا بھلا مانیں ہمارا منشاء ہے کہ ان کو چاہ ضلالت سے باہر نکالیں اور جس خدا کو ابھی انہوں نے شناخت نہیں کیا اس کی طرف رجوع دلاویں .۱؎ قولہ: کیوں صاحب دیا نند میںکیا مناسبت تھی جس کو آپ خرچ دے کر بلاتے تھے.اقول: وائے بریںعقل و دانش.کیا دیانند کوکسی فیض حاصل کر نے کیلئے بلایا گیا تھا؟ اس پر اتمام حجت منظور تھی.مگر آپ کے پہلے طمع اور منافقانہ خطوں سے فیض پانے کی درخواست پائی جاتی تھی سو اس پر لکھا گیا تھا کہ تم میں مرض الحاد ارتداد لگا ہوا ہے.فیض پانے کی تم میں مناسبت نہیں ہے لیکن اب ہم نے آپ کو دوسری صورت پر پا کر اور دیانند کا قائمقام سمجھ کر آپ کی درخواست کو قبول کر لیا ہے.اب دیکھتے ہیں کہ آپ آجاتے ہیں یا وجودیوں کی روباہ بازی آپ پر غالب آکر ا س ارادہ سے آپ کو باز رکھتی ہے اورنیز یاد رہے کہ دیانند اگر چہ کافر تھا مگر آپ کے الحاد سے ایک گو نہ اس کا کفر جزو فضیلت کی رکھتا تھا کیوں کہ وجودی نہیں تھا اور اپنی قوم کے وجودیوں کو نہایت نابکار اورپلید فرقہ خیال کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر انسان پر میشر ہے تو تعجب ہے کہ وہی پر میشر پاپ کرے اور سزا پاوے دیکھو ستیارتھ پرکاش.قولہ:میں نے سنا ہے کہ دیانند گئے تھے اس نے بھی حیلہ کر دیا تھا اور کچھ نہ دکھایا تھا.جھوٹ کتاب میں لکھ دیا کہ دیانند کو خرچ دینے کا وعدہ بھی کیا مگر وہ نہ آیا.اقول: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الکٰذِبِیْنَ.اگر آپ ایسے ایسے افترا نہ کریں تو کیونکر ثابت ہو کہ وجودی در پردہ دشمن خد ااور رسول ہیں.کیوں صاحب اگر آپ اس دعوٰی میں جھوٹے نکلے تو آپ کو کیا سز ادینی چاہیے؟میرے پاس دیانند کا دستخطی انکاری خط اب تک موجود ہے جو صندوق میں بحفاظت رکھا ہوا ہے اور قادیان کے آریوں سے بھی آپ حلفاًدریافت کر سکتے ہیں.اگرچہ وہ آپ کی طرح دشمن دین ہیں مگر دشمن راستی کو کہاں تک چھپائے گا.قادیان کے وجودی خد ا و رسول کو علانیہ گالیاں دیتے ہیں اور قرآن شریف سے ٹھٹھا کرتے ہیں.مگر آپ نے

Page 677

ابھی ابجد شروع کی ہے کیوں نہ ہو وجودی جو ہوئے.وجودی ستر۷۰پردوںکے اند ر شناخت کیا جاتا ہے..۱؎ قولہ:کیوں ایسا کیا جس کا ثابت کرنا اپنے اختیار میں نہیں.اقول: اے بے شرم! ایسا دعوی کس نے کیا جس کا ثبوت اختیار سے باہر ہو.ہم نے تو وہ دعوی کیا جو آفتاب کی طرح روشنی دکھلا رہا ہے.محبانِ خد ااور رسول کبھی ذلیل نہیںہوتے اور نہ وہ جھوٹے دعوے کرتے ہیں.وہی آخر فتح پاتے ہیں کیونکہ ہر میدان میں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتاہے..۲؎ قولہ:آنراکہ خبر شد خبر ش بازنیامد.اقول:قال اللہ تعالیٰ..۳؎ اس زمانہ کے جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ اپنے تئیںظاہر کرنا منافی شان و لایت ہے.ان کے نزدیک ولی وہی ہے کہ جو خبر ش باز نیامد کا مصداق ہو.لیکن اصل حقیقت وہ ہے جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ مردانِ کامل پر لازم و واجب کیا جاتا ہے کہ اپنے تئیں ظاہر کریں.وہ اظہار کے لئے مامور ہوتے ہیں جیسے دوسرے اخفا کے لئے.اسی وجہ سے انبیاء و رسول اپنے تئیں ظاہر کرتے رہتے ہیں اور جو لوگ بوجہ عظمت قربت نبیوں او ر رسولوں کے حکم میں اور انہیں کے قائمقام اور انہیں کی قوتیں اپنے اندر رکھتے ہیں.وہ عورتوں کی طرح چھپ کر نہیں رہتے کیونکہ وہ روحانی طور پر جنگی مرد ہیں.ہاں جو ایسے عابد اور زاہد ہیں جو مخنث کے حکم میںہیں.ان کو چاہیے کہ برقعہ پہن کر بیٹھیںورنہ یاد رکھیں کہ ولایت سلب ہوجائیگی.اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ حضرت شیخ سعدی کے مصرعہ مذکور بالا سے مطلب ہی اور ہے جس کو نادان وجودی نہیں سمجھتے اور وہ یہ ہے کہ جو باطنی تعلقات اولیاء اللہ کو اللہ شانہٗ سے ہوتے ہیں.ان تعلقات سے کسی کو کچھ خبر نہیں ہوتی.وہ اپنے ربّ جلیل سے ایک ایسی نسبت رکھتے ہیں کہ انسان تو کیا فرشتوں کو بھی اس پر اطلاع نہیں ہوتی.ہاں ہر ایک صاحب بصیرت حسب استعداد خود ان کی ظاہری استقامت و برکات سے ان کی عظمت کا

Page 678

قائل ہوتا ہے.مگروہ لوگ بوجہ اس راز دقیق کے جو ان کو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے گم کے حکم میں ہیں. ۱؎ وہ خلق اللہ سے ہروقت دور ہوتے ہیں.اسی وجہ سے ان کی اندرونی حالت میں تصرف کر نا اور ان کے اخلاق او رافعال اور اطوار کی نسبت کوئی رائے لگانا ہر ایک معمولی حالت کے انسان کا کام نہیں ورنہ ہلاک ہوجائے گا.چو بیت المقدس دروں پر ز تاب رہا کرد و دیوار بیروں خراب قولہ:آپ لکھتے ہیں کہ شیخ عبد القادر کو مجھ سے میرے طریق اور قدم میں مناسبت ہے مگر یہ بھی مثل دعوی مجددیت و الہامیت دعوی بے دلیل ہے.چہ نسبت خاک را باعالم پاک.اقول:میں آپ پر کئی مرتبہ اسی خط میں واضح کر چکا ہوں کہ مجددیت اور الہامیت کا دعوٰی بے دلیل نہیں بلکہ میں نے اس حجت کو اس کمال تک پہنچایا ہے کہ اس کی نظیر ملنامشکل ہے.کوئی سال ایسانہیں گزرتا کہ جسمیں کوئی الہامی پیش گوئی پوری ہوکر مخالفوں پر حجت نہ ہو.دشمن بھاگتے چلے جاتے ہیں، مخالفوں پر سخت رعب پڑ رہا ہے اور انوار الٰہی دن رات بلکہ ہر طرفۃُ العین میں برابر نازل ہورہے ہیں.مگر جو دل کے اندھے اور۲؎ کے مصداق ہیں وہ کیونکر ان نوروں کا مشاہد ہ کر سکتے ہیں.۳؎ ۴؎ رہا آپ کا قول کہ چہ نسبت خا ک را باعالم پاک.سچ تو یہ ہے کہ میں اور میرا برادر صالح شیخ عبد القادر ہم دونوں خاک ہی ہیں.مگر الحمد للہ و المنتہ کہ تجلیات الٰہیہ نے اس مشت خاک پر بڑے بڑے کا م کئے ہیں.اب اگر ایک وجودی نادان ان تجلیات کو دیکھ نہ سکے تو کیا حرج اور کیا نقصان.قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَتَقَدَّس..۵؎ بہر حال ہم کو ایسے اقوال پر اختلال سے کچھ رنج نہیں.عوام الناس جو لکیر کے طور پر اولیاء اور

Page 679

اصفیاء کی تعظیم کرتے ہیںنہ تحقیق کے طور پر وہ ہمیشہ سے اور قدیم سے ایسے ایسے الفاظ جدید الظہور اولیاء اور انبیاء کی نسبت کہتے چلے آئے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف اُن کے خیالات و مقالات کا شاہد ہے .۱؎ قولہ:حضرت غوث الثقلین کے دعوی کو توکل اولیاء اللہ نے مان لیا تھا.مگر آپ کے دعوی کو توکوئی نہیں مانتا.اقول: اے بے خبر مجھ پر بھی ظاہر ہو اہے کہ صفحہ زمین کے کل اولیاء اللہ نے مجھے مان لیا ہے.ہاں خبیثوں اور بے ایمانوںنے نہیںمانا ۲؎ اللہ شانہٗ نے مجھے خبر دی ہے کہ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآئَ الْعَرَبِ وَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَتُصَلِّیْ عَلَیْکَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ وَ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ عَنْ عَرْشِہٖ.۳؎ بارہا غوث اور قطب وقت میرے پر مکشوف کئے گئے ہیں جو میری عظمت مرتبت پر ایمان لائے ہیں اور لائیںگے اور مجھے خد اتعالیٰ نے اپنے اس الہام سے خبر دی ہے کہ اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۴؎ اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کر نے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی وہ جہنمی ہے اور مجھے خدا وند کریم سے وہ نسبت ہے کہ اگر مجھ پر کامل طور پر کھل جاتا کہ اسی درجہ کی نسبت شیخ عبد القادر کو بھی حاصل ہے تو میں ان کی تعظیم کرتا اور اب بھی کرتاہوں کیونکہ اجمالی طور پر میںنے اپنے درجہ سے ان کی مناسبت پائی ہے.وَقَدِ اسْتَخْلَفَنِیَ اللّٰہُ کَمَا اسْتَخَلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِیْ وَقَالَ اِنَّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۵؎ وَقَالَ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ۶؎ وَقَالَ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۷؎ سِرُّکَ سِرِّیْ۸؎ وَقَالَ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۹؎ اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۱۰؎ وَقَالَ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِ لَایَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۱۱؎ وَقَالَ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ وَ کَلَّمَنِیْ وَ نَاجَانِیْ وَ ذَکَرَنِیْ فِیْ کِتَابِہٖ وَ فِیْ حَدِیْثِ رَسُوْلِہٖ وَ اٰتَانِیْ مَالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِنَ الْعٰلَمِیْنَ.

Page 680

Page 681

حال بھی.مگر وجودیو ں میں ایساکون ہے کسی آدھہ کا نشان تو دو.وہ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ کے مصداق ہورہے ہیں بمقابل ان کے شکر کا مقام ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس قدر تکمیل علم و عقل کے لئے معارف و حقائق و دقائق قرآن شریف کے کھولے ہیں وہ ایک ہی امر طالب حق کیلئے خارقِ عادت ہے.آپ نے تو اس عاجز کی نسبت بلا تحقیق رومی صاحب کا یہ شعر پڑھا.ای بسا ابلیس آدم وے ہست پس بہر دستے بناید داد دست اور اپنے مرشد فضل الرحمن کو فرشتہ بنایا لیکن اگر یہ رائے ایمان یا انصاف پر مبنی ہوتی تو اس تمیز کیلئے کہ ان دونوں میں ابلیس کون ہے آیۂ کریمہ۱؎ کو محک امتحان بنایا جاتا یعنی ایک مجلس میں ایک دو آیت قرآن شریف کی پیش کرکے اس عاجز اور میاں فضل الرحمن سے دقائق اور معارف اس آیت کے پوچھے جاتے.تا دیکھا جاتا کہ کس کو خدا تعالیٰ نے علم اسرار قرآن میں بسطت و وسعت دی ہے.۲؎ سمجھنا چاہیے کہ ولایت وارث الانبیاء ہونے کا دعوی ہے.سو نبی اپنی وفات کے بعد اپنا ترکہ دینا ر و درہم تو نہیں چھوڑتے ہیں.پس جس نے ان علوم اور برکات کو کامل طور پر پایا وہی کامل طورپر ان کا وارث ہے.اور اگر یہ امتحان کافی نہیںتو لازم تھا کہ دوسرا امتحان جو ۳؎ کے متعلق ہے کیا جاتا وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ مُخْبِرًا مِنْ اِنْعَامِہٖ عَلٰی عَبْدٍ صَالِحٍ .۴؎ قولہ:شیخ صنعان جس نے حضرت شیخ کا انکار کیا تھا ان کا جو حا ل ہوا مشہور ہے.اقول:یاد رہے کہ یہ بات بالکل باطل ہے کہ جو شخص انبیا ء یا اولیاء کا انکارکرے اس کو اسی دنیا میںجھٹ پٹ سزا مل جاتی ہے یہ تو وجودیوں کا ناقص خیال ہے جیسے ان کی عقل کچی ہے ایسا ہی ان کا خیال بھی کچا ہے.اس فیصلہ اور تصفیہ کے لئے کامل طور پر عدالت کا دن نزدیک ہے.وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَتَقَدَّس. ۵؎ وَقَالَ عَزَّوَجَلَّ

Page 682

 ۱؎ قولہ:میںنے سنا ہے کہ آپ کے ایک بھائی اپنے آپ کو صاحب الہام اور لال بیگ کا چیلہ بتلاتے ہیں.اقول:الہام کی بات آپ نے خوب کہی.وجودیت کی رگ کیا کیا افترا آپ کے منہ سے نکالتی ہے.نہ معلوم وجودیوں کو ناحق جھوٹ بولنے سے کیا مزہ آتا ہے.اس کا یہی باعث ہے کہ جس نے خد اتعالیٰ پرجھوٹ بولا پھر اس کا اوروں کے لئے منہ کُھل جاتا ہے.اب واضح ہو کہ یہ شخص اپنے تئیں ملہم نہیں کہلاتا بلکہ اس خدائے عزّوجلّ کا قائل ہی نہیں جو اپنے نیک بندوں کو الہام دیتا ہے.ہاں لال بیگ کا جھنڈا کھڑ اکیا ہوا ہے.بات یہ ہے کہ دراصل وہ آپ کی طرح اوّ ل وجودی تھا.پھر جیسا کہ وجودی ترقی کرکے دہریہ بنتے ہیں اور انکار صانع تک نوبت پہنچاتے ہیں.ا س بیچارہ کی بھی وجودیت کی شامت سے اسی حد تک نوبت پہنچی یہاں تک کہ وجودیت کے جنّنے اللہ اور رسول کی نسبت بھی زباں درازیاں کرائیں اب اسی جنّ کی ترغیب سے بقول آپ کے بھنگیوں کے چیلہ کرنے کا ڈھنگ نکالا ہے.مگرحضرت یہ آپ کا بھائی بُرا نہیں اور نہ آپ بُرے ہیں.بلکہ دراصل یہ وجودی مذہب ہی بُر اہے جس کا ادنیٰ نمونہ یہ ہے.آپ کے اس بھائی کا حقیقی بھائی بھی وجودی ہے اور مرشد اس کا گلاب شاہ نام ایک بھاری وجودی ہے اوراللہ اور رسول سے بالکل روگرداں ہے.قرآن شریف کی نسبت وہ کہتا ہے کہ پیغمبر خد اصلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بنا لیا تھا.جیسا کہ اکثر وجودیوں کا یہی اعتقاد ہے.اس پر دلیل پید ا کرنے کے لئے وجودی مذہب سے اس نے یہ نکتہ لیاہے کہ جس حالت میں مخلوق حقیقت میں خد اہی ہے تو پھر اور خدا کون ہے جو قرآن کو نازل کرتا.یہ شخص یہ بھی کہتا ہے کہ باوانانک کا گرنتھ قرآن شریف سے اچھا ہے اور بھنگ، چرس و شراب وغیرہ کو حلال جانتا ہے.غرض یہ لوگ تو آپ کے ہی بھائی ہیں میرا بھائی تو ان میں سے کوئی نہیں.میرا ایک بھائی تھا مدت ہوئی وہ اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں.فَتَدَ بَّرُوْا وَتَنَدَّمُوْا.قولہ:ان کو دنیا کمانے کی خوب تدبیر سوجھی.

Page 683

اقول: ہاں وہ آپ کے بھائی صاحب وجودی جو ہوئے.وجودیوں سے بڑھ کر دنیا کے مکر وفریب اور کس کو یاد ہوں گے.قولہ: جیسے آپ اپنے دعوؤں سے دولت مند ہوگئے.اقول: ۱؎ َ۲؎  ۳؎ ۴؎ ۵؎ ۶؎  .۷؎ قولہ:کوئی خد اپرست میں نے نہیں سنا کہ ایسے مزخرفات میں پھنسا ہو یعنی جس نے ایسے دعوے کئے ہوں.اقول: ۸؎) وَقَدْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْنَا بِوَحْیِہٖ وَاِلْھَامِہٖ وَ دَقَائِقَ مَعَارِفِہٖ وَ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِنْ عِبَادِہٖ اَفَلاَ نُحَدِّثُ بِٰالٓائِہٖ وَ نُعْمَائِہٖ اَیُّھَا الْجَاھِلُوْنَ.دانا آدمی ہر ایک درخت کو اس کے پھلوں سے پہچان سکتا ہے.کاذب آدمی اپنے دعوٰی کذب سے خود ہلاک ہوجاتا ہے.سو اس کی ہلاکت ہی اس کے مفتری ہونے کی نشانی ہوتی ہے.لیکن صادق کبھی ہلاک نہیں ہوتا اور راستباز کبھی کاٹا نہیں جاتا.اس کے چاروں طرف رحمت ایزدی نگہبان رہتی ہے.بھلا یہ کیونکر ہو کہ اپنے فد ا شدہ بندوں کو خدا تعالیٰ ذلیل کرے.جاہل ان کی ذلت کے لئے کوشش کرتا ہے مگر وہ عزیز لوگ ہر گز ذلیل نہیں ہوتے.خدائے عزّوجلّ وہ وفادار خدا ہے کہ جو ایک قدم آگے رکھنے والے کے لئے دس قدم آگے رکھتا ہے.اور میانہ چلنے والے کے لئے دوڑتا ہے.اس کا کسی سے بے وجہ رشتہ نہیں.اگر تو اس کے

Page 684

لئے بدلے گا تو وہ تیرے لئے بدلے گا اگر تو اس کے لئے بیدار ہوگا تو اسے بیدار پائے گا.اس جگہ ایک قرآنی نکتہ کہ جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو اس کی آفتاب پرستی کی غلطی پر آگاہ کرنے کے لئے صرح ممرد کی شکل میں دکھایا.یادر کھنے کے قابل ہے.چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ۱؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اجرام علوی و اجسام سفلی میں نظر آتا ہے جن میں سے بعض کی جاہل لوگ پرستش بھی کرتے ہیں تمام یہ چیزیں ہیچ اور معدوم محض ہیں.پرستش کے لائق نہیں اور جو کچھ بظاہر ان میں طاقتیں نظر آتی ہیں ان کی طرف منسوب کرنا ایک دھوکا ہے بلکہ ایک ہی طاقت عظمیٰ ان سب کے نیچے پوشیدہ ہے کہ جو درحقیقت ان سے الگ ہے اور وہی یہ سب کرشمے دکھلا رہی ہے.جیسااس صرح ممرّد کے نیچے پانی تھا اور ا س صرح کا عین نہیں تھا بلکہ اس سے الگ تھا مگر بلقیس کی نظر سقیم میں عین دکھائی دیا تھا تب ہی اس نے ان شیشوں کو بہتے پانی کے دریا کی طرح سمجھا اور اپنی پنڈلیوں پر سے پاجامہ اُٹھالیا.یہ اس کو ایسا ہی دھوکہ لگاتھا جیسا ا س کو آفتاب پر ستی میں لگا تھا کہ وہ طاقت عظمیٰ اس کو نظر نہ آئی کہ جو درپردہ آفتاب سے عجائب کام ظہور میں لاتی اور اس سے الگ تھی.اسی طرح دنیا ایک ایسے شیش محل کی طرح ہے جس کی زمین کا فرش نہایت مصفّا شیشوں سے کیا گیا اور پھر ان شیشوں کے نیچے پانی چھوڑا گیا ہے جو نہایت تیزی سے چل رہا ہے.اب ہر ایک نظر جو شیشوں پر پڑتی ہے وہ اپنی غلطی سے ان شیشوں کو بھی پانی سمجھ لیتی ہے اور پھر انسان ان شیشوں پر چلنے سے ایسا ڈرتا ہے جیسے پانی سے حالانکہ وہ درحقیقت شیشے ہیں.سو یہ نکتہ کہ جو تمام عالم کے انکشاف حقیقت کے لئے عمدہ ترین اصول ہے.اہل اللہ سے بہت مناسبت رکھتا ہے اور جس طرح اللہ جل شانہٗ نے بلقیس کی نسبت فرمایا ہے ۲؎ یعنی بلقیس نے اس شیش محل کو جس کا فرش مصفّا اور شفاف شیشے تھے اور نیچے ان کے پانی بہتا تھا اپنی غلط فہمی سے بہتا پانی خیال کیا ایسا ہی اہل اللہ کی نسبت لوگ دھوکا کھاجاتے ہیں یعنی وہ پانی جو انکی شیشوں کے فرش کے نیچے یعنی ان کی فانی حالت کے تحت میں منجانب اللہ بہتاہے اور کبھی اپنی سختی اور

Page 685

کبھی اپنی نرمی دکھاتا ہے اور کبھی تلخ اور شور اور بے مزہ کی صور ت میں اور کبھی شیریں اور خوشگوار پانی کی شکل میں نظر آتا ہے اور کبھی طوفان کی طرح قوت غضبی کے زور سے بہتا ہے اور کبھی نہایت آہستگی اختیار کرتا ہے.اس پانی کو جاہل خیال کرتا ہے کہ یہ نفسانی جذبات کا پانی ہے اور اہل اللہ کی شان عظیم سے منکر ہوجاتا ہے یاشک میں پڑجاتا ہے.حالانکہ ان کا نفس بہت سے صیقلوں کے شیشہ کی صفت پر آگیا ہے اور جو کچھ ایک جاہل کو پانی اور پانی کا زور نظر آتا ہے وہ الٰہی چشمہ ہے جو اس شیشہ کے نیچے بہتاہے.سو کامل انسان میں خدا تعالیٰ کے ارادے کام کرتے رہتے ہیں اور غسّال کی طرح اس میّت کو کبھی اس پہلو اور کبھی دوسرے پہلو بدلتے رہتے ہیں.کبھی خد ا تعالیٰ کی طرف سے کبر یائی اس میں جوش مارتی ہے اور جاہل اس کا نام تکبر رکھتا ہے اور کبھی وہ درگزر اور خاکساری اختیار کرتا ہے اور جاہل اس کو بزدلی سے منسوب کرتا ہے.کبھی عارف خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق میں ڈوب کر ایک طرفۃ العین کے لئے اس کے رنگ سے رنگیں ہوجاتا ہے اور اس عاشقانہ بے تمیزی میں الوہیت کی چادر اپنے اوپر لپیٹ لیتا ہے اور بخودی کی حالت میں اَنَا الْحَقُّ یَا سُبْحَانِیْ مَااَعْظَمَ شَأْنِیْ کے مثل الفاظ اپنے منہ سے نکالتا ہے.تب جاہل یا تو اس کو کفر کی طرف منسوب کرتا ہے اور یااس کے مستانہ قول کو فرقہ ضالہ وحدۃ الوجود کیلئے سند پکڑتا ہے.اگرچہ کسی اہل اللہ کے منہ سے اناالحق وغیرہ نکلنا اس کے ضعف اور کمزوری کی نشانی ہے اور اس بات پر دال ہے کہ ابھی وہ شخص عبودیت کے اعلیٰ ترین مقام پر جو منتہائے دائرہ کمالات انسانی ہے نہیں پہنچا.لیکن ایسے ایسے الفاظ میں یہ نقصان ہے کہ ان سے بہت سے لوگ فتنہ میں پڑتے ہیں اور ہلاک ہوتے ہیں.سو ذاتی اور اخلاقی لیاقت عارف کی یہی ہے کہ ایسے جوشوں کو دبا رکھے.یہی وجہ ہے کہ نبیوں کے منہ سے ایسے ایسے شطحیات ہرگز نہیں نکلے لیکن ناتمام عارفوں کی مستانہ بکواس سے نادانوں کو بہت نقصان پہنچا اور جس نشہ کی ایک باافراط جوش نے ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکالے تھے اس کی طرف جاہلوں کا خیال نہیں آیا اور اس شک میں پڑ گئے کہ درحقیقت مخلوق خالق کا عین ہے.تب ہی تو ایسے ایسے بزرگوار عینیت کا دعوی کرتے ہیں اور بوجہ اپنی جہالت کے ان کو یہ نہ سوجھاکہ یہ سالکین کے لئے ایک درمیانی مقام ہے.جس میں محویت عشقی کی ایک آندھی آتی ہے یہاں تک کہ حالت خواب اور

Page 686

ر کشف میں بھی اثر کرکے خود اس سالک کو بڑے بڑے دھوکوں میں ڈالتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر الہامات بھی اسی رنگ سے رنگین ہوجاتے ہیں.چنانچہ اس جگہ اس عاجز کے پاس اپنی ذاتی تجارب اور خود گزشتہ وار داتوں کا ایک عجیب ذخیرہ ہے کہ اگر اس کو نقل کیا جائے تو پھر یہ خط نہیں رہے گا بلکہ ایک رسالہ بن جائیگا جس کے لئے ابھی فرصت نہیں.بہر حال جن پر عنایت ایزدی ہے وہ اس مقام سے آگے نکالے جاتے ہیں او رجن کو شقاوت کا کچھ حصہ ہے وہ اس میںمحصور اور اسیر رہتے ہیں.اب قصہ کوتا ہ بعض نادان صوفیوں نے حدیث اور آیت سے قطع امید کرکے وحدت وجود کے اثبات کے لئے اقوال مشائخ گزشتہ کی طرف نظر کی تو اس کوچہ میں آکر بہت دھوکے انہوں نے کھائے یہاں تک کہ بعض اچھے آدمی بھی اس دھوکے میں پھنس گئے جو اقوال سلف صالحین کے توحید شہودی کے جوش میں نکلے تھے یا بعض اولیاء کے ایسے شطحیات جو متشابہات میں داخل تھے انہیںکو وحدت وجود کی دلیل سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ ایک خطا فاش تھی.ہم مکرر لکھتے ہیں کہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ عشّاق الٰہی کو ان کے سلوک عاشقانہ کی حالت میںیہ امر لابدی اور لازمی اور ان کی راہ میں پڑا ہے کہ وہ ولولہ عشق اور محبت سے مست ہوکر ایسے کلمات زبان پر لاویں جن سے ان کی اور ان کے مولا محبوب کی یگانگت مترشح ہو جیسا کہ عشاق مجازی کے منہ سے بھی اسی طور کے کلمات اکثر نکلا کرتے ہیں اور کوئی ان کو وحدتِ وجود کی طرف منسوب نہیں کرتا.سوان بزرگوں کے کلمات جابجا توحید شہودی کی خوشبو سے بھرے ہوئے ہیں جو حالت ذوق اور مستی میں ان کے منہ سے نکلے ہیں مگر وحدت وجودی تو عشق اور محبت کے مشرب سے مناسبت نہیں رکھتے بلکہ وہ خود وجودیوں کی نگاہ میں ایک فلسفیانہ راہ ہے جس کے لئے کچھ ضروری نہیں کہ عشق اور محبت بھی ہو.لیکن خدا تعالیٰ کی نسبت جو لایدرک اور وراء الوریٰ ہے ایسا ظاہر کرنا گویا یہ دعوٰی ہے کہ ہم نے اس کی اصل حقیقت معلوم کرلی ہے اور اس کی کُنہ تک پہنچ گئے ہیں.حالانکہ کلام الٰہی ایسے ایسے خیالات سے منع فرماتا ہے اور مخلوق اور خالق میں صاف امتیاز قائم کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے .۱؎

Page 687

۱؎ ٌٔ۲؎ اور قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ذات باری کی یہ صفات قرار دی گئی ہیںکہ وہ مبدأ ہے تما م فیضوں کا اور منبع ہے تمام طاقتوں کا اور مستجمع ہے جمیع کمالات کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور قیوم ہے تمام چیزوں کا اور لاشریک ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور لایدرک ہے اپنے وجود کی کُنہ میں اور اپنے کاموں کی کُنہ میں.وہ نزدیک ہے باوجود دُوری کے اور دور ہے باوجود نزدیکی کے.سب کے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کوئی چیز مماس ہے.سب کی جان ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی چیز کا عین حقیقت ہے.وہ غیر محدود ہے اوربرتر ہے خیال سے اور گمان سے اور قیاس سے نظریں اس پر احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نظروں پر محیط ہے کوئی بھی ایسی شے نہیں کہ اس کی مانند ہو.پس اس کے لئے تم مثالیں مت گھڑو.اب حاصل کلام کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وجود باری کو ایک ایسا برتر وَ لَایُدْرِکُ و ممیز ذات قرار دیا ہے کہ کوئی شے اس کی مثل و مانند نہیں ہوسکتی اور لامحدود کو محدود سے کیا مشابہت اور قوی مطلق کو ضعیف محض سے کیا نسبت.سو مخلوق عین خالق کا کیونکر ہوسکے اور خدائی قوتیں کہاں سے لاوے اور وجودیوں کے ہاتھ میں اس مسئلہ کے اثبات کے لئے شرعی یاقانونی یاعقلی کوئی ثبوت بھی نہیں صرف ایک ظن فاسد ہے.۳؎ قَالَ اللّٰہُ تَقَدَّسَ وَتَعَالٰی ۴؎ جن بزرگوں کو اپنے سلوک ناتمام اور کشف خام کی وجہ سے یہ دھوکہ لگا ہے وہ تو ایک وجہ سے معذور بھی تھے.اسی وجہ سے ہماری تمام ملامت سے جو اس خط میںہم نے کی ہے وہ مستثنیٰ ہیں.اور باوجود اس خطاکے ہم ان کو بزرگ ہی سمجھتے ہیںکیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ خد اتعالیٰ کے لطف و مرحمت نے اس غلطی پر انجام کارگو قریب موت ہی ہو.ان کو متنبہ کر دیا ہوگا جیسا کہ عین موت کے وقت مجدد سرہندی کے مرشد اس غلطی پر متنبہ کئے گئے اور اپنے آخری وقت میں انہوں نے اس ضلالت کے خیال سے توبہ کی اور لوگوں کو اس توبہ کا گواہ کیا.سو ہمارا دل بڑے استحکام سے شہادت دیتا ہے کہ محی الدین ابن العربی صاحب نے

Page 688

بھی اپنے آخری وقت میں توبہ کی ہوگی اور اپنے اقوال مردودہ سے رجوع کر لیا ہوگا.  ۱؎ وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا اٰتَیْنَا کُمْ بِرَحْمَۃٍ …   ۲؎ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَااَنِ لِلّٰہِ لْحَمْدُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.٭ (اگست ۱۸۸۸ء)

Page 689

سید مظہر حسین الہ آبادی سے خط و کتابت جناب مولوی صاحب مجمع کمالات ظاہری و باطنی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.جواب کارڈ سے آج سرفرازی حاصل ہوئی.کچھ رنج اور کچھ خوشی ہوئی.خوشی تو اس لئے کہ آپ کی خیریت سے مطلع ہوا اور رنج اس لئے کہ میرے پہلے عریضہ کے گم ہوجانے سے جواب باصواب نہ پہنچا جس پر مشیت ایزدی میں کسی کو کچھ دخل نہیںکچھ اس میں بہتری ہوگی.پھر اپنا حال لکھتا ہوں اور جواب کے واسطے لفافہ بھی رکھتا ہوں خدا کرے پہنچے اورآپ جواب باصواب سے مطلع فرماویں تاکہ مجھے اپنا پتہ ملے.حضرت میری حالت ہے کہکے شغل سے اَنَا مَجْبُوْرٌ کی صدا دل گم گشتہ سے سنتا ہوں اور ہمہ اوست کا جلوہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں کثرت میں وحدت اور وحدت میںکثرت معلوم ہوتی ہے.متکلّمین لائے نفی جنس کی خبرہا محذوف کرتے ہیںاور الہ کو بمعنی معبود بر حق کے کہتے ہیں.یہ معنے مجھے تاویلی معلوم ہوتے ہیں صوفیاء لائے نفی کی خبر غیر اللہ محذوف کرتے ہیں اور الہ بمعنی مطلق معبود کے کہتے ہیں یہ معنی ہمہ اوست کو ثابت کرتے ہیں اور مطابق قرآن اور حدیث معلوم ہوتے ہیں.  ۱؎ سے بھی ہمہ اوست کی تصدیق ہوتی ہے اور آیت۲؎ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے.پنجگانہ نماز میں ہم لاالہ غیرککہتے ہیں اور ۳؎ پڑھتے ہیں.یہ سب آیتیں اور حدیثیں صاف صاف کہتی ہیں کہ مجبوروں پر احکام تکلیفی صادر ہوتے ہیں غایت درجہ یہ ہے کہ مومنین بجا آوری احکام پر مجبور ہیں اور کفار ومشرکین عدم تعمیل احکام پر مجبور کئے گئے ہیں کسی کو ذرا بھی اختیار نہیں.۴؎ بھی اسی کا شاہد ہے جب میں بے خودی کے عالم میں ان مطالب و دلائل کو مسلمان سے بیان کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ قرآن اور حدیث پر عقیدہ رکھ کر عمل کرو تو اللہ پاک مقبول کرے گااور سینہ کھول دے گا.متکلمین کی اٹکلیں ہیں اور تاویلیں ہیں ا ن سے کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا تو مجھے

Page 690

کافرو مجنون و زندیق کہتے ہیں.میں خدا کا شکر کرتا ہوں اور اندھے مسلمانوں پر سخت افسوس کرتا ہوں جب میں بھی مثل ان کے اندھاتھا تومجھے سچا مسلمان جانتے تھے.جب اللہ پاک نے روشنی دی تو مجھے زندیق کہتے ہیں.بہر حال میں خوش ہوں اللہ پاک مجھ سے راضی ہے.خدا جانے یہ آپ کی دعا کا اثر ہے یاپیر ومرشد برحق کی توجہ کا باعث جو کچھ ہے یہ حالت ہے جو عرض کی.اس مرتبہ حضرت مرشد برحق نے بعد سننے حال کے حصنِ حصین پڑھنے اور عمل کرنے کی بھی اجازت فرما دی ہے فقیر پابند ہے آپ کی زیارت کا اشتیاق بھی ترقی پر ہے دیکھئے یہ دولت کب نصیب ہو.دعاکیجئے کہ جلدی اس دولت کے حصول کے اسباب مہیا ہوجاویں.جواب سے جلدی سرفراز فرماویں کہ یہ حالت اچھی ہے یا بُری.(۱۱؍اگست ۱۸۸۸ء) ٭ خمکتوب نمبر ۲ جواب مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ.آپ نے جو کچھ خط میں لکھا ہے اگر خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کا علم قطعی اور یقینی بخشا ہے جس میںشک اور شبہ کو راہ نہیں تو یہ حالت آپ کے لئے اچھی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر دعوٰی بے دلیل سے بچنا چاہیے. ۱؎ قرآن شریف کی بعض عبارات ذوالوجوہ (ذوالمعارف) ہیں اور بعض آیات بینات سریع الفہم اور متبادر الفہم.آیات جو بینات میں داخل ہیں وہی ہیں جو جابجا خالق ا و رمخلوق کافرق کر تی ہیں یہاں تک کہ قرآن سے ثابت ہے کہ یہ ابدی فرق ہے.یہ تو سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ تمام وجود ایسے ہی ہیں کہ گویا کچھ بھی نہیں.اور ہر ایک جگہ وہی طاقت عظمیٰ کر رہی ہے مگر جو بظاہر اجسام اور ارواح نظر آرہے ہیں ان کو ہیچ اور کالعدم کہوتو کہو مگر ان کو خدا تو نہیںکہہ سکتے.یہ سب ہیچ اور کالعدم ہیں اور خدائے ہیچ اور کالعدم نہیں.والسلام علیٰ من اتبع الھدٰی.۱۶؍ اگست ۱۸۸۸ء

Page 691

Page 692

مقد م رکھا ہے چاہے سمجھ میں نہ آوے اس کو ایمان بالغیب کہتے ہیں.اور اس اعتقاد کے صحیح ہونے پر جابجا قرآن میں اور حدیثوں میں دلائل فرمائے ہیں.منجملہ ان آیات کے جن سے ہمہ اوست ثابت ہے  ہے جس کی صحت کی دلیل ۱؎ ہے.اب اس کا ثبو ت چاہیے کہ  سے ہمہ اوست کیسے ثابت ہے سواس کے بہت دلائل ہیں منجملہ ان دلیلوں کے ایک دلیل یہ ہے کہ ایک بزرگ نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ صاحب کشاف نے شان نزول آیت کی یہ لکھی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نبی و رسول ہونے کا اعلان کیا اور چند لوگ مثل ابو بکر صدیق و حمزہ و علی و عمر وغیرھم رضی اللہ عنہم اجمعین ایمان لائے اور آنحضرت نے بتوں کو ناپاک فرمایا تو کفار قریش نے مسلمانوں کوتکلیف دینا شروع کیا.ایک روز صنا دید قریش ابو طالب کے پاس آئے اور کہا تم سردار ہو اپنے برادر زادہ محمدکو سمجھادو (صلی اللہ علیہ وسلم) کہ ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہے ہم ان کو اور ان کے ساتھیوں کو تکلیف دیں گے.ابو طالب نے آنحضرت کو طلب کیا اور کہا یہ تمھاری قوم تم سے کچھ درخواست کرتی ہے امید ہے کہ تم قبول کرو گے آنحضرت قوم کی طرف متوجہ ہوئے کہ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو.انہوں نے کہا آپ نے فرمایا کہ تم میرا ایک کلمہ مان لو تومیں بھی تمہاری بات مان لوں گا.انہوں نے کہا ہم مان لیں گے آپ نے فرمایا قولوا لا الہ الا اللّٰہپس وہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس سے متحیر اور متعجب ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے  ۲؎ پس یہ بات سب پر روشن ہے کہ رسول عربی ہیں اور وہ لوگ بھی اہل عرب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی برادری تھی وہ ان کی کلام کا مطلب سمجھتے تھے پس جب  کے نہ ماننے کی وجہ انہوںنے یہ کیا اللہ کثیرہ کا الٰہ واحد گرداننا تعجب کی بات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ کے معنی یہی ہیں یعنی کئی معبودوں کو ایک گرد اننا.اور ظاہر ہے کہ تعجب اسی چیز پر ہوتا ہے کہ جس کا بھید مخفی ہو اور عقل میں نہ آوے اور جعل سے جعل فعلی مراد نہیں ہوسکتی جعل عقلی مراد ہے اور یہی معنے ہمہ اوست کے ہیں.کہ جو چیزیں

Page 693

بچشم ظاہر کثیر معلوم ہوتی ہیں وہ بچشم باطن ایک مانی جاویں اور دیکھی جاویں یہ معنے جب ہی صحیح ہوسکتے ہیں کہ اللہ بمعنی مطلق معبود کے جیسا کہ لغت سے ثابت ہے اور قرآن کی جابجا آیتوں سے ثابت ہے کہا جاوے اور مانا جاوے اور خبر لا کی غیر اللہ محذوف کی جاوے.پس معنے یہ ہوں گے کہ نہیں ہے کوئی معبود باطل یا مستحق العبادت غیر اللہ کے مگر اللہ ہی ہے.پس جب کوئی غیر اللہ نہیں ہے تو عین اللہ ہے ورنہ ارتفاع نقیضین محال آوے گا او رمعبودان کفار ممکنات ہیںجب وہ غیر اللہ نہ ہوئے تو جملہ ممکنات غیر معبود ان بھی غیر اللہ نہ ہوئے.کیونکہ ترجیح بلا مرجح ہے کہ بعض ممکنات عین اللہ ہوں اور بعض غیر اللہ انتہٰی تقریرہ پس علم یقینی اور قطعی سے آپ کی یہ مراد ہے کہ دلائل حقہ سے یقین ہوگیا ہو تو بے شک اللہ پاک نے مجھے یقین عنایت کیا ہے او ر اگر یہ مراد ہے کہ فنا کا مقام حاصل ہونے سے جو علم ہوتا ہے جس کو الہام کہتے ہیں تو یہ مرتبہ ابھی تک نہیں حاصل ہوا.اس کی طلب سے اللہ پاک نے آپ کو صاحب الہام کیا ہے جیسا کہ آپ اپنی کتاب میں اعلان دے چکے ہیں.اگر آپ کو الہام کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوجاوے کہ مجھے یہ مرتبہ آپ کی حضور میں حاصل ہو سکتا ہے تو برائے خدا مجھے طلب فرمائے.دیانند کو جو ایک کافر تھا آپ نے ضروری اخراجات دینے کا وعدہ لکھا تھا میں آپ سے کچھ روپیہ پیسہ نہیں لینا چاہتا اور مسلمان ہوں وہ اپنی شقاوتِ ازلی کے سبب محروم رہا.میں انشاء اللہ تعالیٰ حاضر ہوں گا.جواب باصواب سے سرفراز فرمائے.۱۹؍اگست ۱۸۸۸ء خمکتوب نمبر۳ جواب مکرمی اخوی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عنایت نامہ پہنچا مجھ کو بباعث شدت کم فرصتی زیادہ گفتگو کی فرصت نہیں.میں ہر گز سمجھ نہیں سکتا کہ مخلوق باوجود اپنے ضعف و ناتوانی وجہل و نادانی و حیرت و سرگردانی اور ہر ایک قسم کے نقصان کے اور عیب کے کہ جو اس کی فطرت کو لگی ہوئی ہیں.کیونکہ دراصل اپنی ماہیت میں عین خالق ہوسکتا ہے اگر انسان عین خالق ہوتا تو الوہیت کی تمام صفات بلاشبہ اس میں پائی جاتیں.

Page 694

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیا میں آکر بہت سے غم و ہم اٹھاتاہے اور بہت کچھ اپنے نفس کیلئے چاہتا ہے مگر ملتا نہیں.با ر ہا اپنے مطالب سے ناکام اور نامراد رہتا ہے اگر اس کو خدائی میں کچھ حصہ ہوتا تو یہ عجز اور نامرادی کی حالتیں کیوں اس کو پیش آتیں.انسان کی مخلوقیت تو ایک یقینی امر ہے جس کے لوازم ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور جس کا خمیازہ ہر ایک شخص اُٹھا رہا ہے مگر اس کے خالق ہونے کی علامات کہاں ہیں.انسا ن کیسے کیسے لاعلاج مصیبتوں اور دردوں اور دکھوں میں پڑتا ہے اور فاقہ اور محتاجی میں کباب ہوتا اور جلتا ہے.اور پھر ہر ایک قسم کی معصیت اور کبائر اور صغائر میں بھی مبتلا ہوتا ہے اب کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ یہ تمام نقصان خدا تعالیٰ پر عائد ہو سکتے ہیں. ۱؎ آپ کا یہ قول کہ آیات قرآنیہ سے ہم کو یہ یقین حاصل ہے نہایت تعجب کی جگہ ہے قرآن شریف میںمتشابہات بھی ہیں اور بینات بھی اور بلاشبہ بینات قرآنی آپ کے اس مطلب کے مخالف ہیںاور اگر بفرض محال قرآن شریف میں بتصریح لکھاہوتا کہ تم سب خد ا ہو تب بھی اس کی کوئی تاویل کرنی پڑتی.کیونکہ ہم بخوبی جانتے اور یقین رکھتے ہیںکہ ہم نہایت عاجز اور ذلیل ہیں کسی طرح خدا نہیںبن سکتے اور ہمار ے اس یقین کو تاویلات رکیکہ اُٹھا نہیں سکتیں.لوہے کو لوہا توڑ سکتا ہے نہ خس و خاشاک.جنہوںنے خدائی کا دعوٰی کیا وہ آخر نہایت ذلیل ہوکر مرے ہیں.غرض خدا بننے کے لئے اپنی خدائی کا کچھ ثبوت بھی تو دینا چاہیے ورنہ دعوٰی بلادلیل صرف ایک معصیت ہے جس سے پرہیز کرنا چاہے.٭ والسلام علی من اتبع الہدٰی ۲۳؍اگست ۱۸۹۸ء

Page 694