Maktoob Australia

Maktoob Australia

مکتوب آسٹریلیا

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

I I I I I I I نحمده ونصلى على رسوله الكريم !! بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ مکتوب آسٹریلیا مکرم و محترم چوہدری خالد سیف اللہ خان صاحب ( آف آسٹریلیا) کی ان نگارشات اور مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے جو مختلف اوقات میں جماعت احمد یہ کے اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے.بحیثیت ایڈیٹر ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل میرے لئے یہ امر باعث مسرت ہے کہ اس انتخاب کا ایک بڑا حصہ آپ کی ان تحریرات پر مشتمل ہے جو ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہوئیں.محترم خالد سیف اللہ خان صاحب الفضل انٹرنیشنل کے ان چند ابتدائی قلمی معاونت فرمانے والوں میں سے ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اب تک بڑے استقلال اور استقامت کے ساتھ یہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں.شروع شروع میں آپ نے مختلف دلچسپ خبریں اور تبصرے الفضل میں بھجوانے شروع کئے.بعد میں آپ کی مرسلہ تحریریں ایک لمبے عرصہ تک مکتوب آسٹریلیا کے سلسلہ وار کالم کے تحت شائع ہوتی رہیں.خاکسار کی تحریک پر آپ نے دنیائے مذاہب کے ایک اور سلسلہ وار کالم کے لئے بھی نہایت مفید اور معلوماتی مضامین ارسال فرمائے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت عمدہ علمی ذوق عطا فرمایا ہے اور صرف علم ہی نہیں نور علم سے بھی نوازا ہے.مکتوب آسٹریلیا' کے مطالعہ سے قارئین پر واضح ہوگا کہ آپ سائنسی تحقیقات ، جدید انکشافات ، نت نئی ایجادات ، روز مرہ زندگی میں ہونے والے حادثات ہمتفرق حالات و واقعات اور

Page 2

iii مشاہدات کو قرآن مجید، احادیث نبویہ اور مامور زمانہ حضرت اقدس مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کرام کے ارشادات و فرمودات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہی ہمارے لئے آسمانی روشنی اور ہدایت کے وہ محکم اور مستحکم ذرائع ہیں جن کے تابع رہنے سے انسان فکر و عمل کی لغزشوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.مکرم خالد سیف اللہ خان صاحب ان آسمانی و نورانی ذرائع ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی سے اور بڑی نفاست اور سلاست کے ساتھ سادہ مختصر مگر اثر انگیز الفاظ میں اپنے خیالات ومحسوسات کو قارئین کے لئے پیش کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں.مَا شَاءَ اللهُ اللَّهُمَّ زِدْ وَبَارِكْ - مکرم خالد سیف اللہ خان صاحب نے بڑی کثرت سے الفضل انٹر نیشنل کے لئے مضامین بھجوائے.کچھ شائع ہوئے اور کچھ نہیں ہوئے.مگر انہوں نے نہ تو کبھی شائع نہ ہونے والے مضامین پر کوئی شکوہ کیا ، نہ ہی مرسلہ مضامین کی اشاعت تک اپنی نئی نگارشات کو روکا اور نہ ہی کسی مضمون میں ادارتی کانٹ چھانٹ پر بُرا منایا بلکہ نہایت انکسار اور تواضع کے ساتھ الفضل انٹرنیشنل کے لئے اپنا بے لوث قلمی تعاون مسلسل جاری رکھا.میرے نزدیک یہ بات آپ کی سلسلہ سے گہری محبت اور عرفان پر دلالت کرتی ہے.آپ ذاتی تجربہ سے اس حقیقت کو بخوبی جاتے ہیں کہ جماعت کے اخبارات و رسائل کے لئے لکھنا جماعت پر احسان نہیں بلکہ فی الحقیقت خود لکھنے والے کے لئے سعادت و برکت کا موجب ہوتا ہے اور وہ لکھنے والے اپنے محبوب امام خلیفہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ان مضامین سے استفادہ کرنے والے احباب جماعت کی بھاری اکثریت کی ان دعاؤں میں شامل ہوتے اور ان سے حصہ پاتے ہیں جو وہ دین کی خدمت کرنے والوں کے لئے کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح پاک کی اس جماعت میں مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں جو دینی و دنیوی علوم پر گہری دسترس رکھتے ہیں مگر بہت سے محققین ، ریسرچ سکالرز ، صاحب علم و عرفان دوست اپنے آپ کو پردوں میں لیٹے ہوئے ہیں اور ڈر مکنونہ کی طرح ہیں.فی زمانہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں قلمی اسلحہ سے لیس ہو کر اور فتح کا علم ہاتھوں میں لے کر علمی و قلمی جہاد کے لئے میدان

Page 3

1 iv کارزار میں اتریں کہ آسمانی روشنی اور الہی نصرت و تائید کے مبشر وعدے ان کے ساتھ ہیں.خدا کرے کہ وہ جماعت کے مرکزی وملکی سطح پر شائع ہونے والے اخبارات ورسائل میں خدا تعالیٰ کی تو حید کے قیام اور اس کی عظمتوں اور قدرتوں کو آشکار کرنے ، دین اسلام اور قرآن مجید اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و برتری کو ثابت کرنے اور بنی نوع انسان کی مادی و روحانی فلاح و بہبود کے لئے ٹھوس ، مستند علم و معرفت اور روحانیت سے معمور اعلیٰ پایہ کے مضامین لکھ کر اپنے علم کا فیض عام کریں اور سب کی دعائیں لیں.مجھے امید ہے کہ مکتوب آسٹریلیا کے نام سے شائع ہونے والی یہ کتاب نہ صرف یہ کہ قارئین کے علم میں اضافہ اور دلچسپی کا موجب ہوگی بلکہ وہ اس کے مصنف کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور ان کے برادار اصغر مکرم ڈاکٹر محمد زبیر خان را نا صاحب کو بھی جنہوں نے ان مفید مضامین کی کتابی صورت میں اشاعت کے لئے مالی معاونت کا بیڑا اٹھایا اور عزیزم حافظ محمد نصر اللہ صاحب کو بھی جنہوں نے اس کتاب کی کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ اور تیاری کے مختلف مراحل کو محض اللہ محبت اور اخلاص کے ساتھ انجام دینے کے لئے بے لوث تعاون فرمایا.فجزاهم الله احسن الجزاء.خاکسار نصیر احمد قمر (ایڈیٹر ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل وایڈیشنل وکیل الاشاعت.لندن ) 7/6/2006

Page 4

14001/001 امام جماعت احمدید لندن 3-7-09 07 2009 FRI 20:27 FAX →→→ AUSTRALIA نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ المَوْعُود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مکرم خالد سیف اللہ خان صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مکتوب آسٹریلیا کے نام سے آپ کے مطبوعہ مضامین کا مجموعہ موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.میں نے جستہ جستہ پڑھا ہے.آپ اپنے انداز میں کبھی رسالوں سے اخذ کر کے بھی اپنے ذوق کے مطابق خوب لکھتے ہیں.بڑے معلوماتی علمی نوعیت کے مضامین ہیں.ان کو کتابی شکل میں شائع کریں.اللہ تعالیٰ توفیق دے اور آپ کے علم و عرفان اور روحانیت کو بڑھاتا چلا جائے.آمین والسلام خاکسار نائب امر برای ایلیا نقل دفتر PS لندن خليفة المسيح الخامس

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيم i نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض حال خاکسار نے مختلف اوقات میں جماعتی رسائل واخبارات کے لئے جو کچھ لکھا ہے اس کا ایک انتخاب پیش خدمت ہے.کتاب کو مضامین کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.پہلا حصہ مکتوب آسٹریلیا کا ہے دوسرا " متفرق علمی مضامین کا اور تیسرا دنیائے مذاہب کا.“ قرآن کریم سب علوم کا مخزن ہے اور ہر سچا علم قرآن کا خادم ہے.اس اصول کو پیش نظر رکھ کر اگر دنیاوی علوم کا مطالعہ کیا جائے تو ان گنت انو کھے.نئے نئے اور دلچسپ مضامین دل و دماغ کو سوجھتے ہیں جس کا انحصار قاری کے اپنے علم اور استعداد کی نسبت سے ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی کتاب Revelation Rationality Knowledge And Truth ( وحی.عقل علم اور سچائی ) اسی بات کا منہ بولتا ثبوت ہے.اس کی ہلکی سی جھلک آپ خاکسار کے مضامین میں مشاہدہ فرما ئیں گے.جب دلچسپیاں سانبھی ہوں تو آقا کے حسن کی ایک جھلک اس کے غلاموں میں بھی آجاتی ہے.حضور کے سوال و جواب کی مجالس سے خاکسار نے بہت کچھ سیکھا اور ان کو اپنے بہت سے مضامین کا مرکزی نقطہ بنایا اس لئے حق یہی ہے کہ جمال ہم نشیں درمن اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

Page 6

ii اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ لکھنے کے لئے کوئی وجہ اور محرک الفضل انٹر نیشنل لنڈن ہوا ہے جس کے مدیر مولانا نصیر احمد قمر صاحب نے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور اپنے مؤقر اخبار میں جگہ دے کر انہیں عزت بخشی اور مقبول عام بنا دیا.انہوں نے ہی مجھے ایک بار فرمایا تھا کہ اپنے مضامین کو جمع کر کے کتاب کی شکل میں شائع کرا دیں لیکن تساہل آڑے آتا رہا.اب یہی بات جب انہوں نے میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد زبیر خان را نا (سابق صد ر احمد یہ ڈاکٹر ایسوسی ایشن برطانیہ ) سے کہی تو انہوں نے خاکسار کے تعاون سے اس کا بیٹرہ اٹھا لیا.اللہ تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کو اس کی جزا دے.آمین تحدیث نعمت کے طور پر خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ نے فضل فرمایا کہ بچپن ہی سے میرے دل میں قرآن کریم سیکھنے کی خواہش ڈال دی اور اس کے سیکھنے کے لئے اسباب بھی میسر فرما دیے.خاکسار کا بچپن قادیان میں گذرا اور تقسیم ملک تک وہیں دسویں جماعت تک تعلیم الاسلام ہائی سکول کا طالب علم رہا.اس زمانہ میں ہمارے سکول میں دینیات کا مضمون لازمی ہوتا تھا اور جو کوئی اس میں فیل ہوتا اسے سارے امتحان میں فیل کر دیا جاتا تھا.سکول سے فارغ ہونے تک دینیات اور عربی کے طالب علموں کو سارے قرآن کریم کا ترجمہ.کچھ احادیث و کتب مسیح موعود علیہ السلام.عربی ادب کی چند کتابیں مع صرف ونحو وغیرہ پڑھا دیا کرتے تھے جس سے بعد میں دینی علوم کے حصول کے لئے ایک بنیاد فراہم ہو جاتی تھی.مجھے قرآن کریم ناظرہ میری والدہ مرحومہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ نے پڑھایا اور دینی علوم کے حصول کے لئے قادیان میں میرے والد صاحب مرحوم چوہدری محمد یعقوب خان صاحب ( نمبر دار موضع گل منبج نزد قادیان وسب انسپکٹر محکمہ امداد باہمی ) نے ہم کو رکھا اور خود بسلسلہ ملا زمت قادیان سے باہرا کیلے رہنے کی تکلیف اٹھائی.وہ خود بھی اسی سکول کے طالب علم رہ چکے تھے.اللہ تعالیٰ دونوں سے اپنی مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے.آمین پاکستان آکر 1954ء میں خاکسار نے انجیز نگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجیز نگ (الیکٹریکل ) کیا اور واپڈا میں بطور ایس ڈی او ملازمت کا آغاز کیا.ملازمت کے دوران ایک سال بغرض ٹریننگ کوپن ہیگن (ڈنمارک) رہا اور ساڑھے چار سال تک حکومت کی طرف سے بنغازی لیبیا

Page 7

iii میں کام کرتا رہا.وہیں سے آسٹریلیا میں مائیگریشن کی درخواست دی.پاکستان واپس آکر ایک سال ملازمت کی اور 1988ء میں جب آسٹریلیا کا ویزامل گیا تو 34 سال کی ملازمت کے بعد ریٹارئر ڈمنٹ لے کر آسٹریلیا مع فیملی آگیا.واپڈا سے میں بطور ڈائرکٹر جنرل (چیف انجینئر ) ریٹائر ہوا تھا آسٹریلیا آکر پبلک سروس کمشن کا امتحان پاس کر کے بطور ایڈمنسٹرمٹوسروس آفیسر کام کرتا رہا اور 1996ء میں 65 سال کی عمر میں ایک بار پھر ریٹائر ہو کر ملازمت سے فارغ ہو گیا.خدا کے فضل سے ملازمت کے دوران جہاں کہیں بھی رہا مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کا موقع ملتا رہا.گذشته تیرہ چودہ سال سے بطور نائب امیر جماعت احمدیہ آسٹریلیا خدمت کی توفیق مل رہی ہے.الحمد الله خاکسار نے گزشتہ چالیس سال کے دوران جماعت کے رسائل واخبارات میں جولکھا اس کا ایک حصہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے.اگر انہیں مفید پائیں تو جہاں خاکسار کے لئے دعا کریں وہاں سب احباب کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں جنہوں نے ان مضامین کے لکھنے لکھانے اور جمع کرنے میں مددفرمائی ہے.جزاهم الله خيرا ( چوہدری ) خالد سیف اللہ خان سڈنی آسٹریلیا 3.9.2005 [Add: 65 ROPES CREEK ROAD, MT.DRUITT, NSW 2770 SYDNEY AUSTRALIA.TEL\ FAX: 61-2-96254391 e-mail :Ahmad_khalid2000@hotmail.com]

Page 8

1 حصہ اول مکتوب آسٹریلیا

Page 9

2 مکتوب آسٹریلیا خلافت خامسہ کے آغاز پر مؤلف کا ایک خط مولا نانصیر احمد قمر صاحب ایڈیٹر الفضل انٹر نیشنل کے نام محترم مولانا نصیر احمد قمر صاحب الفضل انٹر نیشنل لندن السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحہ اللہ تعالی کی اچانک وفات پر دل سخت غمگین اور اداس ہے لیکن ساتھ ہی خلافت خامسہ کی شکل میں قدرت ثانیہ کے ایک بار پھر ظہور سے دل کو بڑی ڈھارس بندھی ہے اور دل سے کئی قسم کے اندیشے اور خوف دور ہو کر اس پر سکینت واطمینان کی ہوائیں چلتی محسوس ہوتی ہے یوں تو ہر خلافت خدا تعالیٰ کے دائی وعدہ کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہے اور ضروری نہیں کہ ہر خلافت کے لئے علیحدہ علیحدہ پیشگوئی تلاش کی جائے لیکن اگر کوئی خدائی اشارے سامنے آجائیں تو خلافت کے وعدہ پر ایمان عرفان میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسلام واحمدیت کی

Page 10

3 سچائی پر ایک نیا یقین پیدا ہوتا ہے.پیارے آقا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کا خطبہ جمعہ فرموده ۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۷ ء ایم ٹی اے پر دوبارہ سننے پر بہت حیرت و مسرت ہوئی کہ اس میں حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں واضح اشارے ملتے ہیں جن کی طرف پہلے ہمارا دھیان نہیں گیا تھا.ان کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت جس طرح سے پیشگوئی دلاتی ہے ایسا کوئی اور سچا علم نہیں.معرفت کو زیادہ کرنے کا صرف یہی ایک طریق ہے.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحه ۱۳۶) نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ایمان عرفان کیسے ہوتا ہے: یہ پیشگوئیاں جو ہیں یہ ایمان کو قوی کر کے عرفان بنادیتی ہیں.نری باتوں سے ایمان قوی نہیں ہوسکتا جب تک اس میں قوت کی شعاعیں نہ پڑیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات سے پیدا ہوتی ہیں.پس ان پیشگوئیوں کو خوب کان کھول کر سننا چاہئے.دوسرے وقت جب یہ پوری ہوتی ہیں تو ایمان کی تقویت کا باعث ہوکر اس کو عرفان بنادیتی ہیں.اس لئے جو امر پیشگوئی پر مشتمل ہو میں اس کو ضرور سنا دیا کرتا ہوں اور میری غرض اس سے یہی ہوتی ہے.یہ ایک نور بخشتی ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور نازل نہ ہوانسان غلطی میں پڑا رہتا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۳۵۱-۳۵۲) اللہ تعالیٰ کے ہر قول و فعل کے کئی کئی بطن ہوتے ہیں.ان میں تہ بہ تہ علوم ومعارف پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے پیشگوئیاں کئی کئی رنگ میں پوری ہوتی رہتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیشگویوں میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ تمام باتیں ایک ہی وقت میں پوری ہو جائیں بلکہ تدریجا پوری ہوتی رہتی ہیں اور ممکن ہے کہ بعض باتیں ایسی

Page 11

4 بھی ہوں کہ مامور کی زندگی میں پوری نہ ہوں اور کسی دوسرے کے ہاتھ.جو اس کے متبعین میں سے ہو پوری ہو جائیں.“ نیز فرمایا: سے ( ملفوظات جلد ۶ صفحه ۲۰۲ حاشیه ) اصل بات یہی ہے جس کو میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ پیشگوئیوں کا بہت بڑا حصہ مجازات اور استعارات کا ہوتا ہے اور کچھ حصہ ظاہری رنگ میں بھی پورا ہو جاتا ہے یہی ہمیشہ سے قانون چلا آتا ہے اس سے ہم انکار تو نہیں کر سکتے خواہ کوئی مانے یا نہ مانے.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۳۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیشگوئیوں کا ایک اصل یہ بیان فرماتے ہیں کہ پیشگوئیوں کی حقیقت اپنے وقت پر اس وقت کھلتی ہے جب واقعات کی رو سے وہ صحیح ثابت ہو جائیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.اور باتوں کو جانے دو.واقعات بھی تو کچھ چیز ہیں.متشابہات کی بحث میں نہ پڑو.مگر یہ تو مانناہی پڑے گا کہ پیشگوئیوں کے وہ معنے ہوتے ہیں جو واقعات کی رو سے صحیح ثابت ہو جائیں.‘“ 66 ( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۴۵۱) اسی طرح فرمایا: بات یہ ہے کہ بہت سی باتیں پیشگوئیوں کے طور پر نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچی ہیں اور جب تک وہ اپنے وقت پر ظاہر نہ ہوں ان کی بابت کوئی یقینی رائے قائم نہیں کی جاسکتی.لیکن جب ان کا ظہور ہوتا ہے اور حقیقت کھلتی ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مفہوم اور منشاء تھا اور جو شخص اس کا مصداق ہو یا جس کے حق میں ہو اس کو اس کا علم دیا جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۲۸)

Page 12

5 بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کو انسان خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ آگیا اور پھر صبح اس کا کوئی ہم رنگ آجاتا ہے.بعض دفعہ اگر خواب میں کسی شخص کو دیکھیں تو مراداس کا بیٹی یا پوتا یا اس کی نسل میں سے کوئی شخص مراد ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.وو...آپ لوگ ہمارے نبی کریم ﷺ سے زیادہ علم وفراست نہیں رکھتے.صحیح بخاری کی حدیث دیکھو کہ جب آنحضرت ﷺ کو ایک ابریشم کے ٹکڑے پر حضرت عائشہ صدیقہ کی تصویر دکھائی گئی کہ تیرے نکاح میں آوے گی تو آپ نے ہرگز یہ دعویٰ نہ کیا کہ عائشہ سے درحقیقت عائشہ ہی مراد ہے.بلکہ آپ نے فرمایا کہ اگر در حقیقت اس عائشہ کی صورت سے عائشہ ہی مراد ہے تو وہ مل ہی رہے گی ورنہ ممکن ہے کہ عائشہ سے مراد کوئی اور عورت ہو.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ابو جہل کے لئے مجھے بہشتی خوشئہ انگور دیا گیا مگر اس پیشگوئی کا مصداق عکرمہ نکلا.جب تک خدا تعالیٰ نے خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگوئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اس کی کسی شق خاص کا کبھی دعوی نہ کیا.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۴ صفحه۳۱۰) پیشگوئیوں کے جو اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں اب ان کی روشنی میں آپ کے ان الہامات و کشوف پر ایک نظر ڈالیں جو حضرت مرزا شریف احمد رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ہیں.( یہ مضمون تفصیل کا متقاضی ہے کہ کس طرح مندرجہ ذیل پیشگوئیاں جزوی طور پر خود آپ کی ذات میں پوری ہوئیں.پھر آپ کے صاحبزادے حضرت مرزا منصور احمد مرحوم و مغفور کی ذات میں پوری ہوئیں اور ایک بار پھر بڑی شان سے آپ کے پوتے حضرت مرزا مسرور احمد اطال اللہ عمرہ وایدہ بروح القدس کی ذات میں پوری ہو رہی ہیں).(۱) جنوری ۱۹۰۷ ء رویا شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ

Page 13

6 وہ بادشاہ آیا.دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.فرمایا : قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رد کرے.“ ( تذکره صفحه (۶۹) (۲) ۲۸ مئی ۱۹۷ء : شریف احمد کی نسبت اس کی بیماری میں الہامات ہوۓ.عَمَّرَهُ اللهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَقُعِ أَمَرَهُ اللَّهُ عَلَى خِلافِ التَّوَقُعِ اَءَ نْتَ لَا تَعْرِفِيْنَ الْقَدِيْرَ مُرَادُكَ حَاصِلُ اللَّهُ ( تذکره صفحه ۷۲۰ تا ۷۲۱ ) خَيْرٌ حَافِظاً وَهُوَ أَرْحَمُ الرّاحِمِيْنِ (۳) ۱۹۰۳ء : ” چند سال ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالم کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ : ” اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے 66 ہیں." ( تذکره صفحه ۴۸۷) ان پیشگوئیوں میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی نسل میں ایک وجود کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے جس کے سر پر خلافت کی پگڑی رکھی جائے گی.وہ روحانی بادشاہ ہوگا اور اس کو روحانی سلطنت عطا کی جائے گی اور اس مقام پر پہنچنے سے پہلے اس کو ایسی خدمت دین کی توفیق دی جائے گی جس سے حق کی تائید اور باطل کا رد ہو.اور اللہ تعالیٰ اُسے توقع کے خلاف عمر دے گا اور بغیر کسی توقع یا امید کے مومنوں کا امیر بنادے گا.یہ قدیر خدا کے کام ہیں جو چاہے وہ کرے.اور اس کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی مراد یعنی غلبہ اسلام حاصل ہوگا.اللہ اس کا حافظ ہوگا اور اس کی رحمت کا سامیہ اس کے سر پر ہوگا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جگہ بیٹھے گا یعنی خلیفہ ایسے ہوگا.واللہ اعلم بالصواب ہماری خواہش اور عاجزانہ دعا ہے کہ یہ ساری پیشگوئیاں پوری شان کے ساتھ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کی ذات میں پوری ہوں.آمین ( الفضل انٹرنیشنل 23.5.03)

Page 14

7 کم کھانے سے عمر لمبی ہوتی ہے اور انسان کئی بیماریوں سے بچتا ہے حال ہی میں ایک دلچسپ سائینسی رپورٹ شائع ہوئی ہے.دودھ پلانے والے جانوروں پر کم خوری کے کیا اثرات ہوتے ہیں ان کا پہلی بار جائزہ لیا گیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ کم خوری اور غذا میں حراروں (Calories) کو کم کرنے سے ان کی عمریں ۳۰ فیصد تک بڑھ گئی ہیں.یہ تجربات بالٹی مور امریکہ کے National Institute on Aging نے ۲۰۰ بندروں پر کئے ہیں جو Rhesus اور Squirrel اقسام سے تعلق رکھتے تھے.ڈاکٹر جارج راتھ D.R.George) (Roth جوریسرچ ٹیم کے لیڈر تھے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ کم خوری بڑھاپے کے عمل کو کس طرح روکتی ہے تو اس پر عمل کر کے انسانوں کی عمروں میں ۲۰ تا ۳۰ سال کا اضافہ کیا جاسکتا ہے.ڈاکٹر صاحب موصوف ایک اور زاویے سے بھی تحقیق کر رہے ہیں.وہ اس فکر میں ہیں کہ انہیں یہ پتہ چل جائے کہ جسم کا وہ نظام کو جو کم خوری کے نتیجہ میں طوالت عمر پر خوشگوار اثر پیدا کرتا ہے وہ کیسے کام کرتا ہے.اگر یہ راز کھل جائے تو کوئی دوا ایسی ایجاد کی جاسکتی ہے جو اس نظام کو اس طرح کا دھوکہ دے کہ گویا ہم جسم کو کم حرارے مہیا کر رہے ہیں اور پھر جو ہم چاہیں کھاتے پیتے رہیں.گویا رند کے رندر ہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی.

Page 15

8 سڈنی یونیورسٹی کے شعبہ غذا کے پروفیسر سٹوارٹ کو جب اس خبر پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ تحقیق یقیناً دلچسپ ہے.لیکن جب میں کھانے کی میز پر بیٹھا ہوں اور مزید کھانا چاہتا ہوں تو یہ ریسرچ میرا ہاتھ نہیں روک سکتی کہ میں اپنی معمول کی خوراک کم کر دوں.گویا غالب کا سا حال ہے کہ جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی مذکورہ بالا تجر بات تو بندروں پر کئے گئے تھے لیکن قبل از میں یہ تجربات چوہوں اور کیڑوں مکوڑوں پر کئے گئے تھے اور ان سے بھی ایسے ہی نتائج حاصل ہوئے تھے.انسانوں پر ایسے تجربات ابھی نہیں کئے گئے لیکن تجربہ یہی بتاتا ہے کہ جو انسان ضرورت سے زائد کھانا نہیں کھاتے یا کم کر کے حقیقی ضرورت کی سطح پر لے آئے ان کا بلڈ پریشر کم ہوا.اچھا کولیسٹرل HDL بڑھا اور برا کولیسٹرل گھٹا جس سے دل کے امراض میں کمی ہوئی اور کینسر ہونے کا امکان بھی کم ہوا.لیکن یہ ہوتا کیسے ہے.محققین کا خیال ہے کہ اس کا تعلق Matabolism سے ہے.یعنی غذا میں حراروں (Calories) کو کم کرنے سے جسم کا وہ کیمیائی عمل جو غذا کو قوت میں تبدیل کرتا ہے.فاضل مواد کو خارج کرتا ہے اور جسم کی نشو ونما کرتا ہے وہ کم حرارے ملنے پر اپنا رخ افزائش Growth and) (Development سے موڑ کر بقا(Survival) کی طرف کر لیتا ہے.نیز بڑھاپے کا عمل زنگ لگنے کے عمل سے مشابہ ہے.جسم کے ایسے ایٹم یا ان کا گروپ جو ہمارے سانس کی آکسیجن سے مل کر ( زنگ کی طرح )Oxidise ہوتے ہیں ان کو Free Redicals کہا جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ جسم جتنا زیادہ غذا حاصل کرتا ہے اتنے ہی زیادہ جسم میں Free Redicals بنتے ہیں اور اس عمل تکسید (Oxidation) سے بڑھا پا آتا ہے.طاقتوں کو زوال آتا ہے اور جسم پر جھریاں پڑتی ہیں.بازار میں اس عمل کو روکنے کے لئے Anti Oxidant وٹامنز وغیرہ کی جو بھرمار ہے اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے.حقیقت کیا ہے وہ تو ماہرین ہی جانیں.محققین کہتے ہیں غالباً Matabolism انسانی گاڑی کے گیئر کو جو نشوونما پر ہوتا ہے جب اسے کم حرارے ملتے ہیں تو بقا پر لے آتا ہے جس سے توڑ پھوڑ کم ہوکر عمر بھی ہو جاتی ہے.لہذا اپنی گاڑی کو بلا وجہ ادھر ادھر نہ بھگائے پھریں.ضرورت کے مطابق احتیاط سے چلائیں تو گاڑی

Page 16

9 زیادہ عرصہ چلے گی.اخباری نمائندے نے ڈاکٹر راتھ سے سوال کیا.کہ چلو مان لیا کہ جن جانوروں پر آپ نے تجربے کئے ہیں وہ غذا کی کمی (Malnutrition) کا شکار نہیں ہوئے بلکہ تندرست ہی رہے لیکن کیا بھوک کی وجہ سے ان کو ہر وقت کھانے کی اشتہا نہیں لگی رہتی تھی اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تھوڑا بہت بھوکے تو وہ ضرور رہتے ہونگے لیکن بھوکا رہنا بری بات نہیں.کئی تہذیبوں میں یہ بات عام کہی جاتی ہے کہ جب تمہارا پیٹ اسی فیصد ( ۸۰ ) بھر جائے تو دستر خوان سے اٹھ کھڑے ہوا گر چہ کچھ اور بھی کھاسکتے ہو.بھوک رکھ کر کھانے کی تحقیق ہمارے لئے نئی نہیں.ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی علی نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت سے کہ آنحضرت ﷺ کے خاندان نے کبھی جو کی روٹی دو دن مسلسل پیٹ بھر کر نہ کھائی یہاں تک کہ آپ وفات پاگئے.( بخاری ومسلم - از ریاض الصالحین روایت نمبر ۴۹۴) نیز حضرت مقداد بن معدی کرب روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے سنا کہ کوئی آدمی اپنے کسی برتن کو بھی اس بری طرح نہیں بھرتا جس طرح اپنے پیٹ کو بھرتا ہے.وہ چند لقمے جو انسان کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں وہ اس کے لئے کافی ہیں لیکن اگر اس نے ضرور ہی زیادہ کھانا ہے تو اسے چاہئے کہ پیٹ کے تیسرے حصے کو کھانے سے اور تیسرے حصے کو پانی سے بھرے اور بقیہ تیسرے حصے کو آسانی سے سانس لینے کے لئے فارغ رکھے.“ (ترمندی روایت ۵۱۹ ایضاً) اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوکا کھانا تین کیلئے کافی ہوتا ہے اور تین کا کھانا چار کے لئے کافی ہوتا ہے.( بخاری مسلم روایت ۵۶۸ ایضاً ) اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کا پیٹ جب کھانے پانی سے ستر پچھتر فیصد پر ہو جائے تو وہ اس کے لئے کافی ہوتا ہے کیونکہ دو کا کھانا جب تین کھائیں گے تو ہر ایک کا پیٹ تقریباً ستر فیصد پر ہو جائے گا اور جب تین کا چار کھائیں گے تو ہر کھانے والے کا پیٹ پچھتر فیصد

Page 17

10 پر ہو گا اور پچیس فیصد خالی.یہ بات محققین کے لئے یقیناً دلچسپی اور حیرت کا باعث ہوگی کہ جو کچھ انہوں نے تجربات سے معلوم کیا ہے وہ ہمارے حکیم اعظم نے پہلے ہی فرما چکے ہیں.(الفضل انٹر نیشنل 10.10.97)

Page 18

11 عقیقہ کی حکمت بچہ کی پیدائش پر خوشی ایک فطرتی بات ہے اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس خوشی کے اظہار کے لئے بھی ایسی ہدایات دیں جس میں بچہ اور اس کے والدین کی خدا اور نیکی کی طرف توجہ پھرے، خدا کا شکر ادا ہو.جب کہ دنیا دار لوگ اس موقعہ پر راگ رنگ اور ناچ کی محفلیں سجاتے ہیں جو کہ کسی طرح بھی جائز نہیں.عرب اسلام سے پہلے بھی بچہ کی پیدائش پر جانور ذبح کیا کرتے تھے.جس کو ایک پاکیزہ رنگ دے کر قائم رکھا گیا.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:.’بچہ جب سات روز کا ہو جائے تو اس کا نام رکھا جائے اس کے بال منڈوائے جائیں اور قربانی دی جائے ( ابن ماجہ ).حدیث میں آتا ہے کہ جب آپ کے نواسے حضرت حسن پیدا ہوئے تو آپ کا عقیقہ کیا گیا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ” جانور کی ایک ران دائی کو بھیج دو اور باقی خود کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ.(سنن ابوداؤد) ابن ماجہ باب العقیقہ کے حوالہ سے فقہ احمدیہ میں لکھا ہے: ”بچہ کی پیدائش پر ساتویں روز سر کے بال اتروانا اور ان بالوں کے برابر چاندی یا سونا بطور صدقہ دینا ، نام رکھنا اور عقیقہ کرنا مسنون ہے.عقیقہ سے مراد جانور کا ذبح کرنا ہے.لڑکے کی صورت میں دو بکرے یاد نے لڑکی کی صورت میں ایک بکر ایا دنبہ ذبح کرنا چاہئے...عقیقہ کا گوشت انسان خود بھی کھا سکتا اور دوست احباب رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے.پکا کر دعوت بھی کر سکتا ہے.غریبوں کو بھی اس میں سے حصہ دینا

Page 19

12 چاہئے.اگر بامر مجبوری دو جانور ذبح نہ کر سکے تو ایک پر بھی کفایت کر سکتا ہے.66 (فقه احمد یہ عبادات صفحه ۱۸۳) لفظ عقیقہ کا مادہ عق ہے جس کے معنے ہیں اس نے آزاد کیا.اس نے ذبح کیا.اس نے کاٹا بچہ کی ولادت کا وقت بچہ اور اس کی ماں دونوں کے لئے نازک اور خطرات سے پر ہوتا ہے.بچہ کی بخیر و عافیت پیدائش پر خوش ہونا اور خدا کے فضل اور عطا پر اس کا شکر ادا کرنا فطرتی بات ہے.بچہ ایک طرف بطن مادر سے آزاد ہوتا ہے دوسری طرف ہر بچہ آزاد اور معصوم پیدا ہوتا ہے.اس پر ساتویں روز شکرانے کے طور پر جانور ذبح کرنا خود کھانا اور رشتہ داروں دوستوں کو کھلانا اور بالخصوص غریبوں کو گوشت میں سے حصہ دینا عقیقہ کہلاتا ہے.پیدائش کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کرنا منع نہیں لیکن اس کو عقیقہ کا بدل بنا لینا جائز نہیں.کئی لوگ مٹھائی پر تو اتنا زور دیتے ہیں کہ گویا فرض ہے اور عقیقہ کو بالکل بھول جاتے ہیں یہ مناسب نہیں.خدا اور رسول کے احکام کو اولیت دینی چاہئے.بہت سے مذاہب میں بالوں کو منڈوانا اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر دینے کی علامت سمجھا جاتا ہے.نوزائیدہ بچہ کے بال منڈوانے سے بھی یہی مراد ہے کہ اے خدا ہم اس بچہ کو تیری غلامی میں دیتے ہیں.اسے ساری عمر اپنا بندہ (غلام ) ہی بنائے رکھنا یہ شیطان یا اپنی خواہشات کا غلام نہ بنے.تیرا اور تیرے رسول کا غلام بنے.وقف کی اہمیت لڑکے کے لئے بنسبت لڑکی کے زیادہ ہے کیونکہ لڑ کے آزادی کے ساتھ تمام خدمات بجالا سکتے ہیں.نیز لڑ کے پر بیوی بچوں اور خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے.اور جتنا کسی پر بوجھ ہو اتنا ہی اس کے گرنے کا امکان ہوتا ہے.اس دوسری ذمہ داری کے پیش نظر لڑکے کی طرف سے دو جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور لڑکی کی طرف سے ایک لیکن حالات کے پیش نظر یہ بھی جائز ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی طرف سے ایک ایک جانور ہی ذبح کیا جائے اگر کوئی ایسی مجبوری ہو کہ ساتویں روز عقیقہ نہ ہو سکے تو بعد میں جب توفیق ملے کیا جاسکتا ہے.انسان اپنا عقیقہ خود بھی کر سکتا ہے.عقیقہ کے ساتھ بالوں کے وزن کے برابر حسب استطاعت چاندی اور سونے کا صدقہ بھی کرنا چاہئے بچہ کی پیدائش پر یہ صدقہ دینا نہیں بھولنا چاہیئے.لڑکے کی صورت میں یہ بھی مناسب ہے کہ ساتویں روز اس کا ختنہ بھی عقیقہ کے ساتھ ہی کر دیا جائے.ختنہ بھی اس عہد کا نشان ہے جو حضرت

Page 20

13 ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے انبیاء اور بالخصوص آنحضرت ﷺ کے ساتھ خدا نے کیا تھا.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تم میری باتوں کو ماننا میں تمہاری دعاؤں کوسنوں گا اور تم پر دین و دنیا میں فضل فرماؤں گا.خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور اموال جنت کے بدلہ میں خرید لی ہیں.ختنہ جس عہد کا ( جو بندے اور خدا کے درمیان ہے ) ظاہری نشان ہے اس کا بائبل میں بھی ذکر ہے اور قرآن میں بھی.پس ختنہ کرواتے وقت اس عہد کو بھی یاد کرنا چاہئے اور بعد میں بھی والدین اور بچوں کو اسے دہراتے رہنا چاہئے.بعض لوگ بالوں کو ساتویں روز منڈوانا (اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو بھی) اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے.بال منڈوانے وقف کرنے کی علامت ہے اور ہر کام جو سنت نبوی کی پیروی کی نیت سے کیا جائے اس کا ثواب ہوتا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 18.4.03)

Page 21

14 ذوق و شوق کی ترقی میں دماغ کا حصہ سان ڈیاگو کے محکمہ صحت کے ایک حالیہ تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ ہر وہ کام جو انسان ذوق وشوق سے کرتا ہے وہ انسانی دماغ پر ایک نقش پیدا کرتا ہے یعنی اس کے کام سے متعلقہ حصہ کے خلیات (Brain cells) پر بجلی کی طرح کے کنکشن یا سرکٹ بن جاتے ہیں.ایک ہی کام بار بار کرنے سے وہ نقش گہرے اور پختہ ہوتے جاتے ہیں.لیکن اگر وہ کام کرنے چھوڑ دیئے جائیں تو وہ نقوش مدھم پڑتے پڑتے بے اثر ہو جاتے ہیں.تجربہ میں دیکھا گیا کہ جب انسان کے سامنے ایسی چیز آتی ہے جس سے ان کاموں کی یادیں وابستہ ہوں.تو متعلقہ سرکٹ روشن اور فعال ہوکر اسی قسم کا احساس ذہن میں پیدا کر دیتے ہیں.دماغ میں ایک حصہ روحانی امور کے لئے بھی ہے جسے G-Spot کا نام دیا گیا ہے.مذکورہ بالا تجربہ ایک سکول کے تمہیں طلباء پر MRI کی مدد سے کیا گیا جس کے ذریعہ دماغ کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کام کے دوران اس کا کونسا حصہ سر گرم عمل ہوتا ہے.ان لڑکوں میں سے آدھی تعداد ان کی تھی جو شراب پینے کے عادی تھے اور دوسرے وہ تھے جنہوں نے کبھی ایک آدھ بار کے سوا شراب نہ پی تھی.ان سب لڑکوں کو شراب کی مختلف قسموں کے اشتہار دکھائے گئے.شرابیوں کے ذہن اشتہار کے دیکھتے ہی یوں روشن اور بیدار ہو گئے جس طرح گوشت دیکھ کر بلی کے منہ میں پانی آجاتا ہے جب کہ دوسروں پر ان نظاروں کا کوئی اثر نہ تھا.ان کا وہی حال تھا جیسے گائے بکری کے سامنے

Page 22

15 گوشت پڑا ہوا ہو.اس تجربہ سے کئی دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں جن پر غور کر کے انسان خود اپنی اصلاح کے سلسلہ میں فائدہ اٹھا سکتا ہے.دماغوں کے فعل کا مشاہدہ جس طریق سے کیا گیا اس کو MRI یعنی Magnetic Resonance Imaging کہا جاتا ہے.انسان جب کچھ سوچتا ہے ،محسوس کرتا یا کام کرتا ہے تو دماغ (Brain) کا جو خاص حصہ کام کرتا ہے وہ اس طریق سے دیکھا جاسکتا ہے.ہر کام کے لئے دماغ کا ایک مخصوص حصہ فعال ہوتا ہے جس طرح زبان کے حصے کڑوے، میٹھے اور کھٹے مزوں کے لئے مخصوص ہیں.انسانی دماغ میں تقریباً ایک سوارب خلیات (Brain Cells) ہوتے ہیں.جتنے پیدائش پر خدائے رحمن کی طرف سے عطا ہوتے ہیں عمر بھر تقریباً اتنے ہی رہتے ہیں ان میں اضافہ نہیں ہوتا ہے.پیدائش سے لے کر عمر بھر انسان جو کچھ سوچتا ہے محسوس کرتا یا کام کرتا ہے اس سے ان خلیات میں باہم کنکشن یا سرکٹ بنتے رہتے ہیں.جتنا زیادہ کوئی دماغ سے کام لیتا ہے اتنے ہی دماغ میں کنکشن بنتے جاتے ہیں اور انسان ان معاملات میں ذہین ہوتا جاتا ہے.کہتے ہیں کوئی انسان اپنے دماغ کا پانچ فیصد استعمال کرتا ہے کوئی دس فیصد اور ۱۵ فیصد تک استعمال کرنے والے خوش قسمت انسان تو بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں.انسان کے آباؤ اجداد کی جو کھوپڑیاں ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ ۳۰ ہزار سال میں انسانی دماغ کی ساخت یا اس کے خلیات کی تعداد میں کوئی فرق نہیں پڑا جوں کا توں ہی رہا ہے.اس تجربہ کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ کھانے پینے اور مختلف کاموں کے مزے انسان کے اندر ہی سے پیدا ہوتے ہیں.باہر سے صرف تحریک (Stimulation) ہی ہوتی ہے اور مزا اور ذوق پیدا کرنے اور بڑھانے میں انسان کی اپنی سوچ کا بھی خاصہ دخل ہوتا ہے.جو شرابی لڑکے شراب میں مزا لیتے تھے ان کے دماغ بھی اسی طرح کے ہو گئے تھے اور شراب کا محض تصور بھی ان کے ذوق کے لئے مہمیز کا کام دیتا تھا.وہی کھانے جو صحت کی حالت میں مزا دیتے ہیں بیماری کی حالت میں بدمزہ اور کڑوے لگتے ہیں.اگر چہ یہ تجربہ صرف شراب کی مختلف اقسام کا تصور پیدا کر کے کیا گیا ہے لیکن اگر یہ دوسری دنیاوی لذات پر کیا جاتا تو بھی ویسے ہی نتائج برآمد ہوتے.لہذا جو مزہ اور ذوق حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پالیتا ہے اور جو توجہ نہیں کرتا وہ نہیں پاتا.

Page 23

16 یہ اصول صرف مادی لذات پر لاگو نہیں ہو تا روحانی امور میں بھی لذت اسی کو ملتی ہے جو شعوری طور پر محنت سے اسے حاصل کرنا چاہتا ہے.دعاؤں اور نمازوں کا مزہ بھی پیدا کر نا پڑ تا ہے اسی طرح جس طرح مادی کھانوں کا مزہ (Taste) پیدا کیا جاتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک بار ذکر فرمایا کہ افریقہ کے دورہ کے دوران ایک لذیذ میٹھی ڈش آپ نے بنوائی اور افریقن دوستوں کو پیش کی تو وہ ایک لقمہ لے کر ہی ہٹ گئے.حضور کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ حضور ہم چونکہ میٹھی ڈش نہیں کھاتے اس لئے ہم کو مزہ نہیں آتا.اب پتہ نہیں وہ ڈش کتنی لذیذ ہوگی لیکن جس نے کبھی وہ کھائی ہی نہیں اس کو کیا مزہ آتا اسی طرح نماز کا مزہ بھی متواتر کوشش اور دعا سے حاصل کرنا پڑتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: یا درکھو انسان کے اندر ایک بڑا چشمہ لذت کا ہے.جب کوئی گناہ اس سے سرزد ہوتا ہے تو وہ چشمہ لذت مکدر ہو جاتا ہے اور پھر لذت نہیں رہتی.مثلا جب ناحق گالی دیتا ہے یا ادنی ادنی سی بات پر بد مزاج ہوکر بدزبانی کرتا ہے تو پھر ذوق نماز جاتا رہتا ہے.اخلاقی قومی کو لذت میں بہت بڑا دخل ہے جب انسانی قوی میں فرق آئے گا تو اس کے ساتھ ہی لذت میں بھی فرق آجاوے گا.پس جب کبھی ایسی حالت ہو کہ انس اور ذوق جونماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہیئے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہوکر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے.اور اس کا علاج ہے تو بہ استغفار.تضرع.بے ذوقی سے ترک نماز نہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے جیسے ایک نشہ باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر اس کو لذت اور سرور آجاتا ہے.پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہو اس کو کثرت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیئے اور تھکنا مناسب نہیں.آخر اسی بے ذوقی میں ایک ذوق پیدا ہو جاوے گا.دیکھو پانی کے لئے کس قدر زمین کو کھودنا پڑتا ہے.جب لوگ تھک جاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں.جو تھکتے نہیں وہ آخر نکال ہی لیتے ہیں.اس لئے اس ذوق کو حاصل

Page 24

17 کرنے کے لئے استغفار، کثرت نماز و دعا مستعدی اور صبر کی ضرورت ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۴۳۱-۴۳۲) قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا مزا ہمیں عبادات ، خدمت دین اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اس زندگی میں ملتا ہے ویسا ہی مزا ان پھلوں کا ہوگا جو ہمیں حیات اخروی میں ان اعمال کے بدلہ میں ملیں گے جب کہ ہمارے اعمال پھلوں کی صورت میں متمثل ہوں گے.حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر جلد اول صفحہ نمبر ۲۵ پر سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶ کی تفسیر میں فرماتے ہیں.کیونکہ جیسی ہماری نماز اور جیسا ہمارا روزہ ہوگا اسی قسم کے مزہ کا وہ پھل ہوگا جو ہمیں جنت میں ملے گا.اگر ہم اپنے اعمال کو پوری دلجمعی اور شوق سے بجا نہیں لاتے تو ہم اپنی روحانی غذا کو جو ہمیں جنت میں ملنے والی ہے 66 دوسروں سے کم لذیذ بناتے ہیں.“ (الفضل انٹر نیشنل 29.8.03)

Page 25

18 تین کروڑ سال سے خوابیدہ جراثیم حیات نو پاگئے ایک خبر کے مطابق تمیں ملین سالوں سے خوابیدہ (Dormant) چلے آنے والے جراثیم سائنس دانوں کی کوشش سے نئی زندگی پاگئے ہیں.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میکسیکو اور ڈومینیکن ریپبلک (Maxico and Dominican Republic) میں کھدائی کے دوران بعض چٹانوں میں عنبر (Amber) کے درخت دبے پڑے ملے ہیں ان چٹانوں کی عمر چھپیں تا چالیس ملین سال خیال کی جاتی ہے.سائنس دانوں نے عنبر کے ٹکڑے ان چٹانوں سے چن کر باہر نکال لئے.ان کے نزدیک وہ ہیرے جواہرات سے بھی زیادہ قیمتی تھے کیونکہ ان کے اندر کیڑے مکوڑے، مینڈک اور دوسرا حیاتیاتی مادہ منجمد اور محفوظ حالت میں مل جاتا ہے جن کے معائنہ سے اس عرصے کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جب وہ زمین پر رہا کرتے تھے.یہ جاندار گویا ٹائم کیپسول ہیں جن کے اندر وقت کا اندازہ بتانے والی گھڑیاں بند ہیں.بہر حال انہیں کیڑے مکوڑوں میں کچھ شہد کی مکھیاں بھی خوابیدہ اور بظاہر مردہ حالت میں ملیں.ان مکھیوں کے پیٹ جب کھولے گئے تو ان کے اندر کچھ جراثیم بھی منجمد اور نیم خوابیدہ حالت میں پڑے مل گئے.یہ حیران کن امر تھا کیونکہ نامیاتی جسموں Living) (Organisms کے لئے زندگی برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے.بھوک پیاس، گرمی سردی ، کیمیائی اشیاء اور اینزائم (Enzymes) کے حملے دوسرے جراثیم کے حملے.پھر آکسیجن کے ساتھ مل کر نئے مرکبات کی تشکیل اور توڑ پھوڑ ان کے اجسام کو قائم نہیں رہنے دیتے.لیکن عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ

Page 26

19 نے جراثیم میں قائم رہنے کی بعض مخفی صلاحیتیں بھی ودیعت کی ہوتی ہیں.یعنی یہ کہ مخالف حالات میں وہ اپنے آپ کو پروٹین کی موٹی تہوں کے نیچے چھپا لیتے ہیں اور اپنا Matabolism بند کر دیتے ہیں.یعنی جسم کے اندر جو کیمیاوی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جن سے زندگی قائم رہتی ہے وہ عمل معطل کر دیتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرح سے نباتاتی تخمک (spores) بن جاتے ہیں اور اس طرح خشکی، گرمی، سردی وغیرہ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں اور اس خوابیدہ (Dormant) حالت میں ایک لمبا عرصہ اپنی زندگی کا بیج برقرار رکھ سکتے ہیں.سائنس دان پہلے بھی اس طرح کی Spores کو تری بہم پہنچا کر یعنی Rehydrate کر کے اور Culture کر کے صدیوں سے خوابیدہ جراثیم کو از سرنو زندہ کر چکے ہیں.لیکن یہ بات کہ خوابیدہ رہنے کا عرصہ کروڑوں سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے اس کا انہیں پہلے علم نہ تھا بلکہ اب بھی اکثروں کا اس میں شبہ ہے لیکن کیلی فورنیا پالی ٹیکنیک سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رال کانو Dr.Raul) Cano کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایسا ممکن ہے اور انہوں نے چٹان میں سے عنبر کے ٹکڑے نکال کر اس میں سے منجمد شہد کی مکھی حاصل کر کے اور اس کے پیٹ میں سے خوابیدہ جراثیم نکال کر انہیں پانی ، غذا مناسب ماحول کی مدد سے از سر نو زندہ کر دیا ہے اور زندگی جو بیچ کی صورت میں اپنی خواب گاہ میں سوئی پڑی تھی وہ حیات نو پا گئی ہے.چونکہ اتنے پرانے جراثیم جو کروڑوں سال کے ارتقائی دور سے پہلے کے ہیں دنیا کی صحت کے لئے خطرہ بھی پیدا کر سکتے ہیں لہذا انہیں بڑی حفاظت سے لیبارٹری میں بند رکھا ہوا ہے.اب ان نشاۃ ثانیہ پانے والے جراثیم سے نئی جراثیم کش (Antibiotic) ادویہ تیار کی جائیں گی.ڈاکٹر کا نو کا اس سلسلہ میں ایک دوائیں تیار کرنے والی کمپنی سے معاہدہ بھی ہو گیا ہے.نئی ادویہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پرانی اینٹی بائیوٹک ادویہ بوجہ کثرت استعمال تدریجاً غیر مؤثر ہو رہی ہیں کیونکہ جراثیم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر کے ان ادویہ کے دفاع کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے.ڈاکٹروں اور مریضوں کے لئے یہ امر تشویش پیدا کر رہا ہے.مومن کو اللہ تعالیٰ کے کاموں پر غور وفکر کرنے کا حکم ہے کہ یہ علم ومعرفت میں ترقی کا ذریعہ ہے.قرآن نے برزخ یا قبر کو مرقد یعنی سونے کی جگہ بھی کہا ہے جیسے فرمایا وہ کہیں گے ہم پر افسوس کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھا دیا (یس :۵۳) اور مرقد سے حشر اسی رنگ میں ہوگا جس طرح

Page 27

20 نباتات کو خوابیدہ (Dormant) زندگی پانی سے حیات نو پاتی ہے.جیسے فرمایا اور ہم اس (پانی) کے ذریعہ سے مردہ ملک کو زندہ کرتے ہیں اسی طرح مرنے کے بعد نکلنا بھی ہوگا“ (الزخرف:۱۲) نیز فرمایا اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے جو بادل کو اٹھاتی ہیں.پھر ہم اس کو ایک مردہ ملک کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی ویرانی کے بعد آباد کر دیتے ہیں.اسی طرح موت کے بعد اٹھنے کا قانون مقرر ہے (فاطر :۱۰) (الفضل انٹرنیشنل)

Page 28

21 امریکہ کی سرزمین پر ہونے والے جرائم نسلی جنگ کا رنگ اختیار کر چکے ہیں مسٹر پال شی من (Mr.Paul Sheenan) امریکہ کے جرائم کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ نے جو سب سے لمبی جنگ لڑی ہے اسے گندی جنگ‘یاDirty War کا نام دیا جاسکتا ہے.یہ وہ جنگ ہے جو خود امریکی سرزمین پر گزشتہ تمہیں سال سے لڑی جارہی ہے اور ۲۵ ملین افراد کو اپنا نشانہ بنا چکی ہے.اس جنگ میں تقریباً اتنی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جتنی ساری ویت نام کی جنگ میں.اس گھمبیر صورت حال کے باوجود امریکی میڈیا اس کا ذکر کر نا پسند نہیں کرتا.یہ جنگ کا لوں گوروں کی ہے اور کالے گوروں سے نئی اور پرانی زیادتیوں کا انتقام لے رہے ہیں.امریکہ میں گزشتہ بیس سال میں پر تشدد جرائم آبادی بڑھنے کی رفتار سے چار گنا زیادہ بڑھے ہیں.۱۸ سال سے کم عمر کے کالے نوجوان گزشتہ نسلوں سے زیادہ پر تشدد ہیں اور اپنی عمر کے گوروں کے مقابلہ میں بارہ گنا زیادہ امکان ہے کہ وہ قتل کے جرائم میں ماخوذ ہونگے.امریکہ کے محکمہ انصاف کے آخری سروے کے مطابق امریکہ میں ہر سال ۶۶ لاکھ قتل، زنا، ڈاکہ وغیرہ تشدد کے جرائم ہوتے ہیں جن میں سے بیس فیصد یا تیرہ لاکھ واقعات کا تعلق کالے گوروں کے باہمی جھگڑوں سے ہوتا ہے.۹۰ فیصد تختہ مشق بننے والے گورے امریکی ہوتے ہیں.صرف ایک سال ۱۹۹۲ء میں لا کھ گورے

Page 29

22 نشانہ بنے جبکہ اس کے مقابل پر ایک لاکھ بیس ہزار جرائم کا نشانہ کالے بنے.گورے کالوں سے تعداد میں سات گنا ہیں لیکن کالے جن سے جرائم سرزد ہوئے وہ گوروں سے ساڑھے سات گنا زیادہ ہے.اس لحاظ سے فی کس (Per capita) جرائم کے مرتکب کالے گوروں کی نسبت پچاس گنا زیادہ ہیں ایک اور ادارہ کی رپورٹ کے مطابق جتنے گورے کالوں کو قتل کرتے ہیں کالے ان سے ۱۸ گنا زیادہ قتل کرتے ہیں.۱۹۶۴ء سے ۱۹۹۴ ء تک کالوں گوروں کے باہمی جھگڑوں میں ۰۰۰، ۴۵ آدمی قتل ہوئے جب کہ ویت نام کی جنگ میں ۵۸،۰۰۰ امریکی مارے گئے تھے اور جنگ کوریا میں ۳۴۰۰۰۰ مارے گئے تھے.ویسے کالوں کا یہ کہنا ہے کہ جرائم کی اصل وجہ نسلی منافرت نہیں یا کالوں کا جذ بہ انتقام نہیں بلکہ اصل وجہ اقتصادی ہے.گوروں کے پاس دولت ہے اور کالوں کے پاس غربت اور یہ اقتصادی ناہمواری جرائم کو جنم دے رہی ہے.بہر حال تجزیہ نگار جو بھی وجوہات تلاش کریں دنیا کے وہ ممالک جو اندھا دھند امریکہ کی تقلید میں فخر محسوس کرتے ہیں ان کو امریکی سرزمین پر بر پا ہونے والی Dirty War سے ضرور سبق حاصل کرنا چاہئے.(الفضل انٹر نیشنل)

Page 30

23 23 تیسری دنیا کے افراد میں ذہنی صحت کا بحران اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تیسری دنیا میں ذہنی صحت کا معیار تیزی سے گر رہا ہے جس کی وجہ عمر میں زیادتی ، غربت اور تشدد وغیرہ ہیں اور یہ امر گروہی جھگڑوں اور عدم استحکام میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے اور کئی جسمانی بیماریاں بھی اس سے جنم لے رہی ہیں.رپورٹ کے مصنف Dr.Kleinman نے لکھا ہے کہ چونکہ ذہنی بیماریاں ایک وجہ شمار ہوتی ہیں لہذا انہیں چھپایا جاتا ہے.اب وقت ہے کہ ان ملکوں کی حکومتیں اور بین الاقوامی تنظیمیں اس طرف توجہ کریں.رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سری لنکا میں خود کشی کا تناسب دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور امریکہ سے چار گنا زیادہ ہے.خود کشی میں سری لنکا کے بعد ہنگری کا نمبر آتا ہے.ملائشیا ، بنگلہ دیش اور پاکستان کے بیچے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں دو تین گنا زیادہ ذہنی طور پر کمزور یعنی Mentally Retarted ہوتے ہیں.مرگی کی بیماری لاطینی امریکہ اور افریقہ میں یورپ اور امریکہ کے مقابلہ میں تین تا پانچ گنا زیادہ ہے.اس وقت دنیا میں کوئی چار کروڑ ( چالیس ملین ) پناہ گزین اور گھروں سے نکالے ہوئے لوگ ہیں.سیاسی تشدد نے ان کو کئی قسم کے پہنی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے دو چار کر رکھا ہے.رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ سب دنیا مل کر اس کا کچھ چارہ کریں اور ذہنی صحت کے کاموں کو افریقہ، ایشیا ، لاطینی امریکہ اور شرق اوسط میں تیز کیا جائے.

Page 31

24 ڈاکٹر بطروس غالی نے سفارشات کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اداروں کو نفسیاتی وسماجی بے قاعد گیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے جوان ملکوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے.(الفضل انٹر نیشنل)

Page 32

شما 25 زار روس کی تدفین خدا کی ایک تقدیر کے ظہور کا اعلان ہے مملکت روس کا شہنشاہ زار روس 1919ء میں بالشویکوں کے ہاتھوں مع اپنے خاندان کے قتل ہوا اور اس طرح انقلاب روس کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں کی تھی کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار جن حالات میں وہ قتل ہوا وہ بہت دردناک تھے اور اس کا حال زار تاریخ کے صفحات میں رقم ہو چکا ہے.کمیونزم کا انقلاب مذہب اور خدا کے خلاف ایک ایسی منظم بغاوت تھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی.اب گزشتہ ماہ اسی سال کے بعد زار روس کی ہڈیاں اکٹھی کر کے عیسائی طریق پر جنازہ پڑھ کر شاہی اعزاز کے ساتھ دفن کی گئیں.یہ گویا اس کمیونسٹ نظام کے خاتمہ کا اعلان تھا جس کے ہاتھوں میں زار حال زار کو پہنچا تھا.وہ جو مذہب کو زمین سے اور خدا کو آسمان سے نکالنے کا عزم لے کر اٹھے تھے وہ خود ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے.چونکہ اس زمانہ میں لوگوں کو خدا اور مذہب اسلام کی طرف بلانے کے لئے حضرت مسیح موعود

Page 33

26 علیہ السلام کھڑے کئے گئے ہیں اس لئے آپ کو اور آپ کے خلفاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمیونزم کے انقلاب کے اٹھنے اور گرنے کے بارہ میں بھی وقت سے پہلے بتادیا گیا تھا.چنانچہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب Cammunism & Democracy شائع کردہ وکالت تبشیر ربوہ میں فرماتے ہیں.(انگریزی سے ترجمہ ): میں امریکہ کے لوگوں کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ کمیونزم ایک ایسی برائی ہے جس کے بارہ میں بہت پہلے سے انتباہ کیا جا چکا تھا.پہلے حز قیل نبی ، پھر Book of Revelations میں سیکی کے ذریعہ، پھر نبی کریم ﷺ کے ذریعہ اس کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں ہے.ہمارے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شر کے خلاف متعدد بار ۱۹۰۳ ء اور ۱۹۰۷ء کے درمیان اپنے الہامات کی بناء پر انتباہ فرمایا.یہ عمل آپ کے خلیفہ اور پسر موعود یعنی میرے ذریعہ سے جاری ہے.۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مندرجہ ذیل الہام ہوا.: ” ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت ( تذکره صفحه ۴۷۸ مورخه ارجولائی ۱۹۰۵ء) یہ پیشگوئی گزشتہ چھیالیس سال سے بار بار اور وسیع طور پر شائع شدہ ہے یہ وضاحت سے بتاتی ہے کہ کوریا ایک نازک خطہ بننے والا ہے اور ایک مشرقی طاقت اس کے معاملات میں الجھے گی.یہ ایک معروف بات ہے کہ صدی کے آغاز سے ہی روس کوریا کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتارہا ہے.کوریا میں حالیہ تبدیلیوں کے پیش نظر اس الہام کی اہمیت پر مزید تبصرہ غیر ضروری ہے.میں خود اپنی دور و یا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.پہلی رویاء میں نے ۱۹۴۳ء کے آغاز میں دیکھی تھی.یہ ۱۴ار اپریل ۱۹۴۳ء کے الفضل کے صفحہیم پر شائع ہوئی تھی.یہ رویا واضح طور پر اشارہ کرتی تھی کہ روس کا اثر چین میں پھیل جائے گا.یہ وہ وقت تھا جب روس جرمنی کے ہاتھوں سخت دباؤ کا شکار تھا اور چین جاپان

Page 34

27 کے رحم وکرم پر تھا.بعد میں واقعات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ کمیونزم چین میں غالب آگیا.دوسری رؤیا مجھے ۱۹۴۶ء کے وسط کے قریب دکھائی گئی تھی اور بڑی وضاحت سے روز نامہ الفضل میں ۲۳ را گست ۱۹۴۶ء کو شائع ہوئی تھی.مختصر یہ کہ میں نے ایک پہاڑ دیکھا جس میں تین محرا ہیں تھیں.روس درمیانی محراب میں کھڑا تھا.امریکہ جنوبی طرف واقع محراب میں اور انگلستان مغربی طرف کی محراب میں.لگتا تھا ان کے درمیان کوئی تنازعہ ہوا ہے جس کے دوران امریکہ اور انگلستان روس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے.انگلستان نے مجھے اشارہ کیا کہ میں اس کی مدد کروں.چنانچہ میں نے روس پر فائز کئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا.تب روس محراب سے باہر نکلا اور دوڑ پڑا.میں اس کے پیچھے دوڑا اور اسے جالیا.اس نے میری طرف رخ پھیرا اور کہا کہ تم بے شک مجھ پر فائرنگ کئے جاؤ لیکن ایک وقت مقرر ہے.پہلے میں تباہ نہیں کیا جاسکتا.میں نے اس پر کئی بار فائر کئے اور اگر چہ چھرے اس کے جسم میں غائب ہوتے گئے لیکن اس کو کوئی زخم نہ آیا اور چلا گیا.اس تعلق میں میں نے اور بھی کئی رؤیا دیکھے ہیں جو گزشتہ چالیس سال کے دوران چھپتے رہے ہیں.وہ ظاہر کرتے ہیں کہ شروع میں روس کے خلاف کچھ بھی کارگر نہ ہوگا لیکن آخر کار میری اور میری جماعت کی دعاؤں کی وجہ سے خدا اسے تباہ کر دے گا.ان سب کشوف کا مطلب یہی ہے کہ کمیونزم کی تباہی خدا کے ہاتھوں مقدر ہے لیکن ایساز مینی اسباب سے نہیں بلکہ روحانی ذرائع سے ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ امریکہ اور مغرب کے لوگ خدا کی آواز پر کان دھریں اور اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کریں.(Cammunism & Democracy by Hazrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad P: 1-3)

Page 35

28 جب کمیونزم کا نظام گرنے کو آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چوتھے جانشین تین سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو کشفاً بتایا کہ Friday the" 10th یعنی کوئی بہت اہم واقعہ دس تاریخ کو جمعہ کے روز ظہور میں آئے گا.چنانچہ جس روز برلن کی دیوار گری اور یورپ میں کمیونزم کا حصار ٹوٹا اس روز انگریزی مہینے کی بھی دس تاریخ تھی اور قمری مہینے کی بھی دس تاریخ تھی اور دن بھی جمعہ کا تھا اور وقت بھی رات دس بجے کا تھا.یہ نہایت اہم واقعہ بغیر امریکہ اور برطانیہ کے کسی حملہ کے ہوا اور خدائی تقدیر بعض روحانی ذرائع یعنی برگزیدہ بندوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی.یہ دنیا بہر حال عالم اسباب ہے اس لئے ان دعاؤں نے ایسے اندرونی اور بیرونی حالات پیدا کئے کہ کمیونزم کے بت پر کاری ضرب لگی البتہ اس کے مکمل خاتمہ کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یہ ضروری ہے کہ امریکہ اور مغرب کے لوگ خدا کی آواز پر کان دھریں اور اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کریں، پس ایک خدا کی تقدیر وہ تھی جب روسی قوم نے جس کے سر پر اس وقت کمیونزم کا بھوت سوار تھا اپنے بادشاہ اور اس کے خاندان کو سخت حالت زار میں مبتلا کر کے تہ تیغ کر دیا اور دوسری تقدیر یہ ہے کہ ۸۰ سال بعد وہی قوم اس نظام سے بیزار ہو کر سجدہ سہو بجا لاتی ہوئی بادشاہ کی بچی کچھی ہڈیاں اکٹھی کر کے شاہی اعزاز کے ساتھ دفن کر رہی ہے.یہ بالفعل اس نظام کی تباہی کا اعلان ہے جس کی خبر خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خلفاء کو قبل از وقت دے دی تھی.فالحمد للہ علی ذالک.(الفضل انٹر نیشنل 21.8.98)

Page 36

29 29 سگریٹ نوش اور ان کے قریب بیٹھنے والے کئی قسم کے کینسر کا شکار بن سکتے ہیں ہلے خیال تھا کہ خود سگریٹ پینے یا سگریٹ پینے والوں کے قریب اٹھنے بیٹھنے والوں کو صرف پھیپھڑوں کا کینسر ہو سکتا ہے لیکن اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے ایک شعبہ کے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ سگریٹ کا دھواں جسم کے اندر جانے سے صرف پھیپھڑے ہی نہیں بلکہ جگر ، معدہ ، گردے اور لیکومیا کے کینسر ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے.سگریٹ نوشوں کے پاس بیٹھنے والوں ( سیکنڈ ہینڈ سگریٹ نوشوں ) کو کینسر ہونے کا خطرہ ہیں تا تمہیں فیصد بڑھ جاتا ہے.دوسروں کے اندر سے خارج کردہ دھواں Carcinogenic ہوتا ہے یعنی اس میں کینسر پیدا کرنے والا مادہ پایا جاتا ہے.سگریٹ پینے کی وجہ سے دنیا بھر میں تمہیں لاکھ اور ا کیلئے آسٹریلیا میں ۰۰۰، ۱۹ لوگ ہر سال بوجہ کینسر جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں.سگریٹ نوش (Active Smokers) اور دوسروں کا اگلا ہوا دھواں نگلنے والے (Passive Smokers) جو اس بلا سے ۲۰۰۰ ء میں آسٹریلیا میں موت کا شکار ہوئے ان میں ۴۴۴ معدہ کے کینسر سے ، ۱۹۹ جگر کے کینسر سے ، ۸۸ رحم کے کینسر سے ۲۸۹ گردوں کے کینسر سے، ۴۶۵ لیکومیا (خون کے سفید ذرات کی زیادتی ) اور تقریباً سترہ ہزار پھیپھڑوں کے کینسر سے جاں بحق ہوئے.( الفضل انٹر نیشنل 5.7.2002)

Page 37

30 قرب وفات کے لمحات چین میں ۱۹۷۶ میں Tangshan کے قیام پر ایک سخت زلزلہ آیا جس میں ۲۴۲۰۰۰ انسان لقمہ اجل بن گئے تھے.اور ہزاروں ہی شدید زخمی ہوئے تھے.ایسے زخمی بھی تھے جو گویا عالم نزع تک پہنچے تھے لیکن بعد میں بچ گئے.چینی ماہرین نفسیات اور ڈاکٹروں نے ان کے ایسے وقت کے حالات واحساسات کو بنظر عمیق دیکھا اور ان کو ایک تحقیقاتی رپورٹ کی شکل میں پیش کیا.انہوں نے چالیس قسم کے مختلف تجربات ریکارڈ کئے ہیں جس کو وہ مریضوں کے نفسیاتی علاج کی غرض سے استعمال کرنا چاہتے ہیں.ان کے تجربات بتاتے ہیں کہ آخری وقت میں اکثر انسان کی آنکھوں میں ایک چمک آجاتی ہے جس طرح شمع بجھ جانے سے پہلے اچانک بھڑک اٹھتی ہے ایسے وقت میں انسانی سوچ اور خیالات واضح ہو جاتے ہیں طبیعت میں سکون اور جذبات میں ٹھہراؤ آجاتا ہے.بہتوں کی کیفیت ایسے تھی جیسے خواب دیکھ رہے ہوں.موت کو سامنے پا کر لوگوں نے مختلف رد عمل کو ظاہر کیا جس کا تعلیم پیشہ اور ازدواجی حیثیت وغیرہ سے بھی تعلق نظر آیا.یہ بھی دیکھا گیا کہ جو لوگ ایسے وقت میں پرسکون ، رسکون ، مطمئن اور بے خوف ہوتے ہیں ان پر موت ذرا آہستہ آتی ہے لیکن جو لوگ نفسیاتی دباؤ (Stress) کا شکار ہوتے ہیں وہ اچانک موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اس لئے انہوں نے ڈاکٹروں اور نرسوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسے وقت میں مریض کوحتی الوسع پر سکون رکھنے کی کوشش کریں.( سڈنی ہیرلڈ یکم اگست ۹۶ء)

Page 38

31 مذکورہ بالا رپورٹ Tianjin کے نفسیاتی امراض کے چیف ریسرچر Mr Geng Zhjying نے تیار کی ہے.غالبا وہ خود بھی اور ان کے زیر مشاہدہ مریض بھی کمیونسٹ اور دہر یہ ہیں اس لئے انہوں نے اپنی رپورٹ میں اس امر کا جائزہ نہیں لیا کہ قریب وفات کی کیفیات پر مذہب عقائد اور تعلق باللہ کیا اثر ڈالتے ہیں.یہاں پہنچ کر بالطبع اپنے سب سے زیادہ پیارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری لمحات کی طرف توجہ پھرتی ہے جن کو ان کے ایک عاشق صادق نے یوں بیان فرمایا ہے : ”جب موت قریب ہوتو اس وقت تو اکثر آدمی اپنے مشاغل کو یاد کر کے افسوس کرتے ہیں کہ اگر اور کچھ دن زندگی ہوتی تو فلاں کام بھی کر لیتے اور فلاں کام بھی کر لیتے.جوانی میں اس قدر حرص نہیں ہوتی جس قدر بڑھاپے میں ہو جاتی ہے اور یہی خیال دامنگیر ہو جاتا ہے کہ اب بچوں کے بچے دیکھیں اور پھر ان کی شادیاں دیکھیں اور جب موت قریب آتی ہے تو اور بھی توجہ ہو جاتی ہے.اور بہت سے لوگوں کا بستر مرگ دیکھا گیا ہے کہ حسرت واندوہ کا مظہر اور رنج وغم کا مقام ہوتا ہے اور اگر “ اور ” کاش‘ کا اعادہ اس کثرت سے کیا جاتا ہے کہ عمر بھر اس کی نظیر نہیں ملتی.میرا آقا جہاں اور ہزاروں باتوں میں دوسرے انسانوں سے اعلیٰ اور مختلف ہے وہاں اس بات میں بھی دوسروں سے بالا تر ہے.اس میرے سردار کی موت کا واقعہ کوئی معمولی سا واقعہ نہیں.کس گمنامی کی حالت سے ترقی پاکر اس نے اس عظیم الشان حالت کو حاصل کیا تھا اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اسے ہر دشمن پر فتح دی تھی اور ہر میدان میں غالب کیا تھا.ایک بہت بڑی حکومت کا مالک اور بادشاہ تھا اور ہزاروں قسم کے انتظامات اس کے زیر نظر تھے.لیکن اپنی وفات کے وقت اسے ان چیزوں میں سے ایک کا بھی خیال نہیں.نہ وہ آئندہ کی فکر کرتا ہے نہ تدابیر ملکی کے متعلق وصیت کرتا ہے نہ اپنے رشتہ داروں کے متعلق ہدایت لکھواتا ہے بلکہ اس کی زبان پر اگر کوئی فقرہ جاری ہے تو یہی کہ اللـهـم فـي الرفيق الاعلى ـ اللهم

Page 39

32 في الرفيق الاعلیٰ.اے میرے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے.ا.میرے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے.“ لمصل (سیرۃ النبی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود.مطبوع فضل عمر فاؤنڈیشن ) (الفضل انٹر نیشنل 11.4.97)

Page 40

33 33 کیا زمین پر زندگی مریخ سے آئی تھی ؟ سائنسدان عموماً یہ خیال کرتے ہیں کہ زندگی کا آغاز جن جراثیم سے ہواوہ زمین میں ہی کہیں گرم پانی کے جوہڑوں کے کیچڑ میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ بھوکے جراثیم کے لئے ان میں وافر خوراک موجود تھی لیکن ایک چونکا دینے والا نظر یہ حال ہی میں یہ پیش کیا گیا ہے کہ گرم کیچڑ سے بھی پہلے یہ جراثیم نظام شمسی کے سیاروں جیسے زمین.مریخ، زہرہ ( Venus) عطارد(Mercury) وغیرہ کی چٹانوں کے اندر جنم لے چکے تھے اور شہب ثاقبہ کے اندر شدید گرمی اور دباؤ میں محفوظ رہتے ہوئے بچتے بچاتے زمین کی سطح پر پانی کے جو ہڑوں تک پہنچتے تھے آج سے تقریباً ۸ ۳۰ تا ۴ ارب سال بڑے بڑے حجم کے سیاروں کے ٹکڑے کثرت سے زمین پر گرا کرتے تھے اس وقت تک نظام شمسی کوکروں کی شکل اختیار کئے ہوئے تقریباً ایک ارب سال گزر چکے تھے یہ نظریہ ایڈلیڈ ( آسٹریلیا ) یونیورسٹی کے بین الا قوامی شہرت کے حامل ماہر فلکیات پروفیسر پال ڈیویز نے حال ہی میں پیش کیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ نظام کشسی کے مختلف کروں کے درمیان زندگی کا تبادلہ کثرت سے ہوتا رہا ہے اور غالبا اس وقت بھی ہو رہا ہے.پرانے ڈی.این اے (DNA) جو زمین سے مٹ چکے ہیں وہ ایک دفعہ پھر یہاں پر سراٹھا سکتے ہیں جن سے زندگی ایک دفعہ پھر نئے سرے سے شروع ہو سکتی ہے یا کئی قسم کے حیران کن اور عظیم نتائج ظہور میں آسکتے ہیں.زمین کے اندر گہرائی میں ایسے سخت جان بیکٹیر یا ملے ہیں جو سو درجہ سینٹی گریڈ کے پانی میں بھی خوب نشو و نما پاتے ہیں ان کو Archaea کہا

Page 41

34 جاتا ہے اور یہ گرمی اور دباؤ میں خوش رہتے ہیں اور ہزاروں بلکہ کروڑوں سال تک خوابیدہ حالت (Frozen and Dormant) میں زندہ رہ سکتے ہیں.ان جراثیم میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ پتھروں کے اندر چھپ کر ہزاروں سال کا سفر کر کے شدید گرمی اور دباؤ کے باوجود زندہ سلامت ایک کرہ سے دوسرے کرہ تک پہنچ جائیں اور یہی بیکٹیریا غالباً ان بیکٹیریا کے آباء واجداد ہونگے جن سے زمین کے گرم جو ہڑوں میں زندگی کا آغاز ہوا تھا.ماخوذ ہیرلڈا امارچ ۱۹۹۶ء ، ۲ جون تا۴ جولائی ۱۹۹۶ء) سوچ اور تجربہ کے نتیجہ میں مختلف نظریات وجود میں آتے رہتے ہیں اس لئے اصل حقیقت کو خدا ہی جانتا ہے.پروفیسر پال ڈیویز (Paul Davies) کے نظریہ کے دو حصے ہیں ایک تو یہ کہ زمین پر انسان سے پہلے ایک ایسی آنکھوں سے اوجھل مخلوق بستی تھی جو گرم ابلتے پانی میں بھی نہ صرف زندہ رہتی تھی بلکہ خوب نشو ونما پاتی تھی.دوسرا حصہ یہ ہے کہ زندگی کا تبادلہ ایک کرہ سے دوسرے کرہ میں کثرت سے ہوتا رہا ہے اور غالبا اب بھی ہو رہا ہے اور اس حقیقت سے عظیم نتائج ظہور میں آسکتے ہیں.قرآن کریم اس سلسلہ میں غور و فکر کرنے والوں کی یوں راہنمائی فرماتا ہے.اور انسان کو ہم نے آواز دینے والی مٹی سے یعنی سیاہ گارے سے جس کی ہیت تبدیل ہوگئی تھی پیدا کیا ہے اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے سخت گرم ہوا کی (قسم کی) آگ سے پیدا کیا تھا“ (الحجر: ۲۸،۲۷) پھر فرمایا' اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان جانداروں کی قسم سے اس نے پھیلا دیا ہے اس کے نشانوں میں سے ہے اور جب وہ چاہے گا ان سب کے جمع کرنے پر قادر ہوگا“ (الشوری:۳۰) ( الفضل انٹر نیشنل 28.6.96)

Page 42

35 آسٹریلیا میں ۳۰ ہزار سالہ پرانی چکی کی دریافت آسٹریلیا میں کڑی سپرنگز (Cuddie Springs) کے مقام پر کھدائی کے دوران کوئی چار ہزار پرانی اشیاء کے ٹکڑے دستیاب ہوئے ہیں جو تقریباً تمہیں ہزار سال قبل آسٹریلیا کے باسی استعمال کیا کرتے تھے عام اندازہ ہے کہ یہاں کے اصلی باشندے (Aborigines) کم از کم چالیس ہزار سال سے آسٹریلیا میں رہ رہے ہیں.جو ٹکڑے دستیاب ہوئے ہیں ان میں ایسے پتھر بھی ملے ہیں جن پر دانے کوٹے یا پیسے جاتے تھے ان ٹکڑوں پر کنگرو اور خرگوشوں وغیرہ کے بال اور خون کے دھبے بھی ملے جن کو وہ شکار کیا کرتے تھے.یہ تحقیق اس لحاظ سے اہم ہے کہ اب تک اس سے زیادہ پرانے پتھر کے آلات و اوزار کسی اور جگہ سے دستیاب نہیں ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھر کا زمانہ اس سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا جواب تک سمجھا جاتا تھا.نیز اس زمانہ میں بھی لوگ کا شتکاری کرتے تھے.دانے کوٹ کر روٹی پکاتے اور شکار پتھروں کے ہتھیاروں سے کیا کرتے تھے.اس سے قبل سب سے پرانے پتھر کے آلات مصر سے دریافت ہوئے تھے جو انیس ہزار سال پرانے تھے.( الفضل انٹر نیشنل 28.6.96)

Page 43

36 مشتری کی سطح اور فضا کا احوال مشتری جسے انگریزی میں Jupiter کہتے ہیں ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا کرہ ہے تو ہم پرست لوگ ہر بڑی چیز کو خدا سمجھ بیٹھتے ہیں.یہی حال کسی زمانہ میں رومیوں کا تھا.چنانچہ رومی لوگ مشتری کو دیوتاؤں کا دیوتا ( god of gods) یا دیوتاؤں کا بادشاہ (King of gods) کہا کرتے تھے.اب اس کے بارہ میں کچھ خبریں ملی ہیں جو گلیلیو خلائی جہاز نے وہاں سے روانہ کی ہیں.سائنس دان کو تجسس تھا کہ پتہ کریں مشتری کی فضا کیسی ہے اور اس کی سطح پر پانی ہے یا نہیں چنانچہ دو سال قبل گلیلیو نے موسم کا حال معلوم کرنے والے جو آلات مشتری پر اتارے تھے انہوں نے جو تصویر میں بھیجیں ان سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ مشتری کے اردگرد چکر لگا رہا ہے اور مسلسل تصویریں بھیج رہا ہے.چنانچہ ماہرین کے مطابق یہ تصویریں اخباروں میں چھپی ہیں ) ان میں سخت گرم پانی کے بادل صاف نظر آتے ہیں.یہ بادل متعدد تہوں کی شکل میں ہیں.ہر تہہ کی موٹائی مختلف ہے.بادلوں کا رنگ سرخ ہے جیسے دور کہیں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں.کیلی فورنیا کی Jet Propulsion Laboratory کے سائنس دان کہتے ہیں کہ دو سال قبل پانی نظر نہ آنے کی وجہ ی تھی کہ ہمار انها موسمی سٹیشن (Whether Station) مشتری کے ایسے مقام پر گرا تھا جہاں اس وقت موسم خلاف معمول صاف اور خشک تھا.

Page 44

37 ان تصاویر کے مطابق مشتری کے اوپر کوئی سوکلومیٹر ایمونیا (Amonia) کے بادل ہیں جن میں گھسا نہیں جاسکتا.امونیا کے بادلوں کے نیچے کہیں کہیں سفید پانی کے بادل ہیں جو تیزی سے بھاگتے پھرتے ہیں گو یا شدید طوفان کی زد میں ہوں.ان طوفانوں کی موٹائی بھی ۶۵ تا۰۰ اکلومیٹر تک ہے.لیکن عجیب بات ہے کہ گو بادل تو پانی کے ہیں پر نہ گر جتے ہیں اور نہ برستے ہیں.ان تصویروں میں نہ بارش کے آثار نظر آئے ہیں نہ بجلی کی چمک کے.بارش نہ ہونے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ مشتری کی فضا (Atmosphere) زمین جیسی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے برتن کی طرح ہے جس کا پیندا نہ ہو.اس لئے زمین کی طرح بارش سمندروں پر نہیں برستی بلکہ مشتری کے اندرونہ میں جو آگ بھڑک رہی ہے اس کی وجہ سے اس کے سیدھے بخارات ہی بنتے ہیں اور پھر کثیف ہو کر پانی میں بدل جاتے ہیں گو یا گرم پانی کا ایک بہت بڑا حمام ہو.مشتری کے اردگرد گیسوں کا اتنا بڑا گھیرا ہے کہ اس نے اپنے مدار میں درجنوں چاندوں کو گھیر رکھا ہے.ان میں آکسیجن اور ہائیڈ روجن بھی ہیں جو باہم مل کر پانی بناتی ہیں.اور سلفر اور کار بن کی بھی کثیر مقدار ہے.غالبا یہ عناصر وہاں دمدار ستارے (Comets) لائے ہونگے.ہوسکتا ہے کہ زمین پر بھی یہ عناصر اس کی زندگی کی ابتداء میں اسی طرح باہر سے پہنچے ہوں.یہ گیسیں بھی تیزی سے حرکت کرتی نظر آتی ہیں تقریباً ایسے ہی جیسے زمین کے اوپر.لیکن مشتری کے فضائی طوفان ہماری زمین کی طرح نہیں ہیں جو آئے اور گزر گئے.بلکہ جب چلنے پر آتے ہیں تو ہزاروں سال تک چلتے چلے جاتے ہیں.مشتری کی فضا مختلف علاقوں میں مختلف ہوتی ہے کہیں نم اور کہیں خشک.( بحوالہ سڈنی مارٹنگ ہیرلڈ.۷ جوان ۱۹۹۷ء) پچھلے دنوں امریکہ کے Pathfinder نے مریخ کی سطح کا حال بھی سنایا کہ وہاں کی مٹی لوہے کی آمیزش کی وجہ سے سرخ ہے.سطح پر چھوٹے بڑے پتھر لا تعداد میں بکھرے پڑے ہیں.موسم شدید سرد اور خشک ہے.شہب ثاقب بموں کی طرح اس کی سطح پر ہر وقت ٹکراتے رہتے ہیں.دن کو درجہ حرارت منفی ۱۲ڈگری ہے تو رات کو منفی ہے.ہوا کا دباؤ صرف ۶۶۷۵ ملی بار ہے جبکہ زمین پر اوسط دباؤ اس سے ۱۵۰ گنا زیادہ یعنی ۰۱۳۲۵ املی بار ہے.اتنے کم دباؤ پر نہ تو کوئی کام ہوسکتا ہے نہ سانس لیا جا سکتا ہے کچھ ایسا ہی حال چاند کی سطح کا چاند پر جانے والوں سے بھی سن چکے ہیں.نظام نشسی کے

Page 45

38 دوسرے کروں اور ہماری کہکشاں کے اکثر کروں کی سطح کا بھی یہی حال نظر آتا ہے.اگر یہی حال زمین کی سطح کا بھی ہوتا تو ہمارا وجود کہاں ہوتا.ہمارے جسم اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زمین کو تمام قوتیں ودیعت کر دی گئی ہیں اور سطح زمین کو عین ہمارے مناسب حال بنایا گیا ہے.دوسرے کروں کے مقابلہ میں زمین ایسے لگتی ہے جیسے پتھروں کے پہاڑ میں کوہ نور ہیرا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانوں کے بیان میں سطح زمین کا بھی ذکر فرمایا ہے جیسے فرمایا ' والی الارض كيف سطحت “ ( الغاشیہ (۲۱) یعنی کیا دیکھتے نہیں کہ زمین کس طرح بچھائی گئی ہے اور ہموار کی گئی ہے سطح زمین کو قابل رہائش بنانے میں اس کی فضاء، ہوا، پانی مٹی ، پہاڑ ، سمندر، اس کے مدفون خزائن اور اس پر موجود عناصر اور ان کا صحیح تناسب، باہمی تعلق سبھی اپنا مفوضہ کردار ادا کرتے ہیں.اب جوں جوں مریخ کی سطح کا حال معلوم ہورہا ہے زمین کی سطح کی قدرو قیمت اتناہی ابھر کر سامنے آتی ہے.اور اس موازنہ سے یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ خدا نے بطور خاص سطح زمین کا ذکر بطور انعام کیوں کیا ہے ورنہ ہم تو بچپن سے یہی سنتے آئے تھے کہ جیسی ہماری زمین ہے ایسے ہی دوسرے کروں وغیرہ کی زمین ہے اور چودہ سو سال پہلے سطح زمین کی قدرو قیمت کا اندازہ کون کر سکتا تھا.(الفضل انٹر نیشنل 19.9.97)

Page 46

39 کوے بہت ہوشیار ہوتے ہیں یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کوے بہت ہوشیار ہوتے ہیں لیکن اس پر بہت کم لوگوں نے غور کیا ہے کہ اللہ نے ان کو اتنی ذہنی صلاحیت عطا کی ہے کہ یہ اپنے مقصد اور ضرورت کے مناسب حال پتھر کے اوزار بنا سکتے ہیں.یہ ایسے اوزار بناتے ہیں جن سے وہ مکڑیوں کیڑے مکوڑوں اور اپنے ننھے شکاروں کو ان کی محفوظ رہائش گاہوں سے باہر کھینچ سکیں.کوؤں کے ہتھیاروں کا معیار انسانوں کے ان آباؤ اجداد کے برابر ہے جو ہیں لاکھ سال پہلے زمین پر رہا کرتے تھے.رسالہ نیچر میں درج مضمون کے مطابق کوئے تنکوں کو موڑ کر ان سے بک بنا لیتے ہیں.اور سخت قسم کے پتوں سے کاٹنے والی آریاں بنا لیتے ہیں پھر کوؤں کو اپنے ہتھیاروں سے اتنا پیار ہوتا ہے کہ ان کو استعمال کر کے پھینک نہیں دیتے بلکہ آئندہ کے استعمال کے لئے بچا چھوڑتے ہیں اور جب غذا کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کو اپنے گھر سے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور ان کو اپنی چونچ اور پہنچوں میں باری باری منتقل کرتے رہتے ہیں.ان کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ کون سی چٹان نرم ہے اور ہتھیار بنانے (ماخوذ از ہیرلڈ ۲۰ جنوری ۱۹۹۶ء) کے لئے موزوں ہے.قرآن کریم میں بھی کوؤں کی تکنیکی صلاحیت کا ذکر ملتا ہے جہاں ایک کوے نے اپنے مردے بھائی کی لاش کو زمین میں دبا کر آدم کے ایک بیٹے کو اپنے مقتول بھائی کی لاش کو دفن کرنے کا سبق دیا تھا.چنانچہ فرماتا ہے:

Page 47

40 ' تب اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کریدتا تھا کہ اسے دکھائے کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے.کہنے لگا مجھ پر افسوس مجھ سے اتنا نہ ہوسکا کہ اس کوے کی مانند ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپاتا.تب وہ پچھتانے والوں میں سے ہوا.“ (المائدہ:۳۲) یاوہ اپنے مناسب حال ہتھیاروں کے استعمال کے کوے کے بارہ میں مشہور ہے کہ وہ اپنی جنس کی لاش کو کھلا نہیں رہنے دیتا اور ایک دوسرے سے اتنی ہمدردی رکھتا ہے جس کی نظیر دوسرے جانوروں میں نہیں ملتی.کوئی کھانے کے چیز دیکھے تو بجائے خود غرضی اور لالچ میں مبتلا ہونے کے آوازیں دے دے کر اپنے سارے بھائیوں کو اکٹھا کر لیتا ہے.اس میں بھی انسانوں کے لئے عمدہ سبق ہے.کوؤں کی ہوشیاری کے متعلق ایک کہانی یاد آئی کہ ایک قریب المرگ بوڑھا کوا اپنے بچوں کو جمع کر کے نصیحت کر رہا تھا کہ دیکھو جب تم کسی انسان کو جھکتے دیکھو تو سمجھ جایا کرو کہ وہ تمہیں مارنے کے لئے روڑا لینے کے لئے جھکا ہے اور تم اڑ جایا کرو.یہ سن کر ایک نوجوان کوے نے کہا کہ بابا اگر اس کے ہاتھ میں پہلے ہی روڑا پکڑا ہو تو کیا کریں.بابے نے کہا کہ بس بس تم مجھ سے زیادہ ہوشیار ہو تمہیں کوئی ڈر نہیں.(الفضل انٹر نیشنل 4.10.96)

Page 48

41 اونگھنے والوں کو ہوشیار کرنے کا جدید طریقہ ڈرائیور جب تھکاوٹ سے اونگھنے لگتے ہیں تو خود اپنے لئے اور اوروں کے لئے خطرات کا موجب بنتے ہیں.اور یہ سٹرک کے حادثات کا ایک بڑا سبب خیال کیا جاتا ہے.ڈرائیوروں کی غفلت سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں.اب امریکہ اور جاپان کے دواداروں Nissan Motor Compony اور امریکی محکمہ ٹریفک سیفٹی نے مل کر ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو گاڑیوں میں فٹ ہوگا اور جونہی کوئی ڈرائیور ذرا غافل ہو گا قبل اس کے کہ اس پر اونگھ آئے ایک الارم بجے گا اور اگر پھر بھی ڈرائیور ہوشیار نہ ہوا تو مینتھل (Menthol) اور لیموں (Lemon) کی بوکی پھوار ڈرائیور پر پڑے گی اور اس کو ہوشیار کر دے گی.اس غرض کے لئے گاڑی میں ایک کیمرہ نصب کیا جائے گا.ڈرائیور ایک خاص عینک پہنے گا اور اس پر انفراریڈ لیمپ سے شعاعیں پڑتی رہیں گی.کیمرہ اور کمپیوٹر ڈرائیور کی آنکھوں کی جھپک کی رفتار نوٹ کرتے رہیں گے اور جو نہی ڈرائیور کو اونگھ آنے لگے گی اور پلک جھپکنے کی رفتار کم ہوگی ایک الارم بجے گا اور اگر پھر بھی اونگھ دور نہ ہوئی تو ایک تیز قسم کی بوڈرائیور کے چہرہ پر پڑے گی اور اس کے لئے جاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا.افسوس کہ اس قسم کی ایجاد مجنوں کے زمانہ میں نہیں تھی ورنہ شاید لیلی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا.ایک حکایت میں آتا ہے کہ جب مجنوں اپنی اونٹنی پر لیلی کا تعاقب کر رہا تھا تو جو نہی مجنوں تھک کر غافل ہوتا تو اونٹنی اپنا رخ گھر کی طرف کر لیتی.مجنوں جب ہوشیار ہوتا تو اونٹنی کا رخ پھر لیلی

Page 49

42 کی سمت کر دیتا.اونٹنی بھی سمجھ دار تھی جب وہ دیکھتی کہ مجنوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے اور وہ غافل ہو گیا ہے تو پھر وہ اپنا رخ گھر کی طرف کر لیتی.جب کئی بار ایسے ہوا تو مجنوں کو یاد آیا کہ اونٹنی کا چھوٹا بچہ گھر میں ہے اس کو اس کی کشش ہے اور جب بھی میں حالت غفلت میں ہوتا ہوں تو اونٹنی طبعا گھر کا رخ کر لیتی ہے.کہتے ہیں حکایت میں مجنوں سے مراد سالک، لیلیٰ سے مراد محبوب حقیقی ( اللہ تعالیٰ ) اور اونٹنی سے مراد انسان کا اپنا نفس ہے.انسان اپنے نفس کو قابوکر کے خدا کی طرف جاتا ہے اور جونہی ذرا غافل ہوتا ہے نفس اپنی محبوب اشیاء کی طرف پلٹ جاتا ہے.جب تک انسان کے اندر اور باہر الا رم نہ بجتے رہیں اور ہوشیار کرنے والی چیزیں چہرے پر نہ پڑتی رہیں کسی وقت بھی غفلت میں گرنے اور حادثہ سے دوچار ہونے کا خطرہ ساتھ لگارہتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا: نفس امارہ کی باگیں تھام کر رکھیو گرادے گا یہ سرکش ورنہ تم کو سیخ پا ہو کر اللہ تعالیٰ نے اونگھنے والوں کو ہوشیار رکھنے کا بھی انتظام کیا ہوا ہے.ہمارے لئے قرآن وحدیث ، سلسلہ کے کتب و رسائل، خلیفہ وقت کے ارشادات ، ایم ٹی اے کا سماوی مائدہ اور قضا و قدر کا سلسلہ ایسے ہی ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ہیں جو ہمیں ہوشیار کرنے کے لئے ہم پر پڑتے ہیں جب زندگی کی گاڑی چلاتے ہوئے ہم غافل ہو جاتے ہیں.(الفضل انٹرنیشنل 4.10.96)

Page 50

43 مریخ کا سفر مریخ ایک سرخ رنگ کا سیارہ ہے جو ہماری زمین کی طرح نظام نشسی کا حصہ ہے.انسان کو چاند کے بعد سب سے زیادہ شوق مریخ پر جانے کا تھا.چاند تک اس کے قدم پہنچ چکے ہیں.اب مریخ کی باری ہے.چنانچہ اپنے جانے سے پہلے اپنی گاڑی وہاں پہنچا دی ہے.اپنا پروگرام ۲۰۱۰ء میں وہاں جانے کا ہے لیکن یہ معرکہ ناسا National Aeronautics and Space) (Agency کی کیلیفورنیا میں واقع Jet Propulsion Laboratory نے سر کیا ہے.ان کی ذہانت اور عزم قابل داد ہیں.لگتا ہے واقعی عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں.جو خلائی جہاز ناسا نے مریخ کی طرف بھیجا تھا اس کا نام Pathfinder Space Craft ہے.جہاز پر چھ پہیوں والی گاڑی Sojourner بھی بھیجی گئی تھی جس پر کئی قسم کے آلات نصب تھے.خلائی جہاز نے پیراشوٹ کے ذریعہ گاڑی مریخ پر اتار دی اور اب مریخ کے ارد گرد چکر لگا رہا ہے.زمین سے مریخ کا فاصلہ کوئی ۴۹۵،۰۰۰،۰۰۰ کلومیٹر ( یعنی ۴۹۵ ملین کلومیٹر ہے ) جہاز تقریباً ایک لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار کرتا ہوا کوئی چھ سات ماہ میں مریخ پر پہنچا.جب وہ مریخ کے قریب پہنچا تو اس کی رفتار کم ہو کر ۲۶،۵۶۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کر دی گئی تھی.پیرا شوٹ گول شکل کا ایک بہت بڑا گیند تھا جو مریخ پر ایسے گرا جیسے گیند کو زمین پر مار کر اچھالا جاتا ہے.جب وہ کھلا تو اس کے اندر

Page 51

44 سے گاڑی مع آلات کے برآمد ہوئی.خود انسان کے لئے مریخ کا سفر اس کے صبر واستقلال اور ہمت حوصلہ کا سخت کڑا امتحان ہوگا.زمین سے مریخ تک پہنچنے میں کوئی چھ ماہ لگیں گے.واپسی پر پھر چھ ماہ لگیں گے اور ۶۰۰ دن مریخ پر ٹھہر کر تجربات کرنے ہوں گے.اس طرح خلا بازوں کو کوئی اڑھائی تین سال اس سفر میں لگیں گے.مریخ کا موسم شدید سرد ہے.دن کو درجہ حرارت منفی ۲ ۱ در جے سنٹی گریڈ اور رات کو منفی ۷۲ درجے ہو جاتا ہے.ہوا کا دباؤ زمین کے مقابلہ میں ۱۵۰ گنا کم ہے یعنی صرف ۶۶۷۵ ملی بار ، جبکہ زمین پر اوسط دباؤ ۲۵ ۰۱۳ املی بار ہوتا ہے.اندازہ ہے کہ کوئی چار ارب ( بلین ) سال پہلے مریخ پر پانی بافراط موجود تھا.پھر کوئی ایک تا تین بلین سال پہلے ایک تباہ کن سیلاب آیا جس نے پتھروں کو خوب دھو ڈالا اور کہیں کہیں انہیں جمع بھی کر دیا البتہ بعد میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ پانی مریخ سے ختم ہو گیا.اب وہاں کوئی پانی نہیں ہے.اور جہاں پانی نہ ہو وہاں زندگی کیسے ہوسکتی ہے.اب تو وہاں کے موسمی حالات اتنے سخت ہیں کہ جراثیم تک کا بھی زندہ رہنا مشکل ہے سوائے اس کے کہ کسی پناہ گاہ میں چھپ کر بیٹھے ہوں.مریخ پر اس کی زندگی کے ابتدائی ایام میں پتھروں کی شدید بارش ہوتی رہی ہے.اب بھی اس پر شہاب ثاقب گرتے رہتے ہیں.چٹانیں اس قسم کی ہیں جو آتش فشاں پہاڑوں میں سے لاوا اگلنے پر پیدا ہوتی ہیں(lgneous).زمین پر اب تک بارہ عدد شہاب ثاقب گرے ہوئے دریافت ہوئے ہیں جو مریخ سے آئے تھے.چونکہ مریخ پر پتھر اسی ساخت کے ہیں لہذا یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ وہ مریخ سے ہی آئے تھے.مریخ کی سطح پر ۲۹ تا ۴۰ کلومیٹر تک گرد چھائی رہتی ہے.ناسا کے مشن کے دو مقاصد تھے ایک تو اپنی ٹیکنالوجی کو ٹیسٹ کرنا اور دوسرے مریخ اور زمین وغیرہ کی تخلیق کے ابتدائی حالات کے بارہ میں معلومات حاصل کرنا.پہلا مقصد تو پورا ہو گیا ہے اور دوسرے کے بارہ میں صحیح فیصلہ کچھ عرصہ بعد ہوگا کیونکہ ابھی معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں.جہاں تک آسٹریلیا کے سائنس دانوں کا تعلق ہے وہ حسرت اور شک سے ناسا والوں کو دیکھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کاش ہمارے پاس بھی اتنے ذرائع ہوتے تو پھر دیکھتے کہ ہم کیا کرتے ہیں.چنانچہ پروفیسر پال ڈیویز نے کہا ہے کہ آسٹریلیا کے پاس زمین کی ابتدائی حالت کے متعلق تحقیق کے

Page 52

45 لئے بیش قیمت خزانہ موجود ہے.ہمارے پاس دنیا کے قدیم ترین آثار تجر ہ (Fossils) ہیں.سیارچوں (Asteroids) کے گرنے سے جو گڑھے (Craters) پڑے تھے وہ اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہیں نیز تحقیق کے لئے دنیا کا قدیم ترین Hydrothrmal نظام بھی ہے.اگر ان پر تحقیق کی جاتی تو مریخ کے مقابلہ میں بہت زیادہ معلومات حاصل ہوسکتی تھیں.دوسرے لفظوں میں پروفیسر صاحب شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ناسا والے جائیں مریخ پر ہمارے لئے آسٹریلیا ہی مریخ ہے.( الفضل انٹر نیشنل 12.9.97)

Page 53

46 ستارے بوڑھے سہی پر اتنے بھی نہیں آسمان پر لٹکائی ہوئی دور بین ہبل ٹیلی سکوپ (Hubble Telescope) نے جو اطلاعات فراہم کی ہیں ان کے مطابق ہماری کائنات بشمول وقت ، خلا، روشنی اور مادہ (Time) (Space, Light, Matter کی عمر کوئی اٹھارہ ارب سال(Billion Years ,18) بنتی ہے لیکن گارڈین کی خبر کے مطابق کیلیفورنیا کی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہر فلکیات ڈاکٹر رائیڈ (Dr.Neill Ried) کو اس سے اختلاف ہے.انہوں نے اپنے طور پر ایک سیٹلائٹ (Hipparcos) کے ذریعہ اطلاعات حاصل کی ہیں ان کے مطابق ہماری کائنات کی عمر کوئی تیرہ ارب سال بنتی ہے.وہ کہتے ہیں دوسرے سائنس دانوں کے اندازے دس پندرہ فیصد زیادہ ہیں.اور ان کو حساب میں غلطی لگی ہے.چلو اچھا ہوا ہماری کائنات آخر اتنی بوڑھی بھی نہیں جیتنی خیال کی جاتی ہے.ویسے یہ بات کچھ ایسی ہی ہے کہ کہتے ہیں ایک شخص جس کی بلا خوری بہت مشہور تھی ایک دفعہ اس کے کسی میزبان نے اس کے آگے اکٹھی ہیں روٹیاں کھانے کے لئے رکھ دیں.اس شخص نے اوپر سے ایک روٹی اٹھا کر واپس کرتے ہوئے کہا یہ لے جائیں میں پیٹ ہی سہی پر اتنا بھی نہیں ہوں.( الفضل انٹر نیشنل 12.9.97)

Page 54

47 ایک تبدیل شدہ وائرس کے ذریعہ چوہوں کی نسل کا خاتمہ اسی طریق سے انسانوں کی نسل بھی ختم کی جاسکتی ہے.آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے جینیاتی سائنس(Genetic Science) کے ذریعہ ایک وائرس کے جینز (Genes) میں ایسی تبدیلی پیدا کر لی ہے جسے اگر چوہوں میں پھیلا دیا جائے تو چوہے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے اور اس طرح ان کی نسل ختم ہو جائے گی یہی طریق باقی نقصان رساں کیڑوں مکوڑوں (Pets) کو ختم کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے.لیکن اس تحقیق کا ایک پہلو بہت فکر انگیز بھی ہے چنانچہ CSIRO کی اس ریسرچ ٹیم کے ایک رکن DR.Lyn Hinds نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ اگر چہ اس تحقیق کا فوری مقصد تو نقصان رساں جانوروں جیسے خرگوشوں ، لومڑوں، چوہوں اور دیگر کیڑوں مکوڑوں کو ختم کرنا ہے لیکن اس کے ذریعہ انسانوں کو بھی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے.سائنس دانوں نے جو کچھ کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے چوہوں کے ایک وائرس

Page 55

48 (Mouse Pox) میں ایک نئے جین (Gene) کا اضافہ کر دیا ہے جو چوہے کے سپرم کو چوہیا کے بیضہ کے ساتھ ملنے میں رکاوٹ ڈال دیتا ہے.( سڈنی ہیرلڈ ۲۵ را پریل ۱۹۹۷ء) اگر خدانخواستہ اس طرح کا وائرس انسانوں کے حسب حال تیار کر کے کسی ملک میں پھیلا دیا جائے تو اس ملک کی ساری یا اکثر آبادی کو کچھ عرصہ میں بغیر جنگ لڑے یا بم گرائے ختم کیا جا سکتا ہے جہاں تک بیماریاں پیدا کرنے والے جراثیم کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی دنیا کی کئی خفیہ لیبارٹریوں میں تیار پڑے ہیں اور دنیا کے دانشور پہلے ہی حیاتیاتی جنگ (Biological Warfare) کے تصور سے لرزاں ہیں.اور پھر کیا ضمانت ہے کہ اس طرح کے خوفناک جراثیم یا وائرس کسی مخصوص ملک کی حدود پار کر کے باقی دنیا میں اور بالخصوص اس طرح کے جراثیم تیار کرنے والوں کے اپنے ملکوں میں تباہی نہیں پھیلائیں گے.جراثیموں کو بارڈر کر اس کرنے کے لئے کوئی پاسپورٹ ویزا در کار نہیں ہوتا.اللہ ہی جانے جینیاتی سائنس (Genetic Engineering) کا غلط اور بے حجابانہ استعمال انسانوں، حیوانوں بلکہ چرند پرند تک کو کن کن مصائب میں مبتلا کرے گا.(الفضل انٹر نیشنل 31.10.97)

Page 56

49 آسٹریلیا نے اپنی کالی بھیڑوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا آسٹریلیا میں سفید بھیڑیں اٹھانوے فیصد اور کالی بھیٹر میں صرف دو فیصد ہیں.لیکن ان کا وجود بھی نا قابل برداشت ہے.چنانچہ جینز کی تبدیلی کے ذریعہ دو فیصد کالی بھیڑوں کو بھی سفید بھیڑوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے.وہ کہتے ہیں کالی بھیڑوں کی وجہ سے اون کی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے.لیکن حقیر سمجھی جانے والی کالی بھیڑوں کے بھی ہمدرد ہوتے ہیں چنانچہ اخبار میں ایک احتجاج شائع ہوا ہے کہ کالی بھیڑوں کی نوع دنیا سے ختم ہوتی جارہی ہے.اس لئے ان کا ختم کرنے کا پروگرام واپس لیں.آخر کالی بھیڑوں کی اون کو سفید بھیڑوں کی اون سے علیحدہ کیوں نہیں کیا جاسکتا.اور پھر کچھ لوگ کالا رنگ بھی تو پسند کرتے ہیں.( ہیرلڈ ۲۶ فروری ۱۹۹۷ء) کالی بھیڑیں تو آخر پھر بھی بھیڑیں ٹھہریں.دو فیصد کالے قدیم باشندوں کو گوروں نے کب برداشت کیا تھا.وہ تو بہر حال انسان تھے اور بھیڑوں سے بہتر.( الفضل انٹر نیشنل 31.10.97)

Page 57

50 50 سپین کے کھلنڈروں نے بے چاری گائے کو وسکی پلا پلا کر مار دیا سپین کے بعض کھلنڈرے کھیل ہی کھیل ہی میں بے زبان جانوروں کو جان سے مار دیتے ہیں جس میں زندہ بکری کو اونچی عمارت سے زور سے نیچے پیخ دینے کی ظالمانہ کھیل بھی شامل ہے جس کے خلاف وہاں کی حقوق حیوان کی تنظیم نے آواز بلند کی ہے.اسی طرح کا ایک واقعہ شمالی سپین کے ایک گاؤں (Villarefrades) میں ایک تہوار کے روز پیش آیا.کچھ کھلنڈروں نے ایک گائے کو پکڑ کر زبردستی و سکی کی چار بوتلیں اس کے اندر انڈیل دیں گائے یہ زیادتی برداشت نہ کر سکی اور حرکت قلب بند ہو جانے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی.کچھ عرصہ قبل سڈنی میں شراب کی مضرت پر ایک سیمینار ہوا تھا جس میں ایک ڈاکٹر نے کہا تھا کہ سمجھنے کی بات ہے کہ الکوحل بہر حال ایک زہر ہے کیونکہ اس کی زیادہ مقدار مہلک ہے.جو چیز انسانوں کی جان لے سکتی ہے وہ حیوانوں کی بھی لے سکتی ہے.سپین کے کھلنڈروں کو اگر گائے کا یہ آخری پیغام سمجھ میں آجائے تو اس بے چاری گائے کی جان رائیگاں نہیں گئی.( ہیرلڈ ور جون 1996ء ) ( الفضل انٹرنیشنل)

Page 58

51 آسٹریلیا کی خلائی تحقیقات میں پیش رفت آسٹریلیا نے کینبرا کے نزدیک ایک رصد گاہ تعمیر کی ہے جس نے کچھ عرصہ قبل کام کرنا شروع کر دیا ہے.یہ رصد گاہ ایک بین الاقوامی منصوبہ کا حصہ ہے جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا یہ کائنات جو ایک بڑے دھما کہ (Big Bang) کے نتیجہ میں وجود میں آئی تھی اور اس وقت سے دھما کہ کی قوت کے زیر اثر ہر آن پھیلتی چلی جارہی ہے کیا یہ ہمیشہ ایسے ہی پھیلتی رہے گی یا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب کائنات میں بکھرے ہوئے بے پناہ مادہ کی کشش ثقل پھیلاؤ پیدا کرنے والی قوت پر غالب آجائے گی اور پھر اپنے آغاز کی طرح ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے گی جس طرح کہ بگ بینگ سے پہلے تھی.اس واپسی کے عمل کو آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے Big Bang کوالٹا کر Gnab Gib کا نام دیا ہے جب کہ دوسرے سائنس دان اس کو Big Crunch Big Squeez کا نام دیتے ہیں.آسٹریلیا کے سائنس دان کہتے ہیں ہمارا دھرا ہوا نام دوسرے ناموں سے کم نہیں.اس غرض کے لئے سائنس دان کا ئنات کے آخری معلوم کنارے پر واقع دس ستاروں کا مشاہدہ ومعائنہ کر رہے ہیں جن میں سے ایک کا نام انہوں نے ۱۹۹۵۷ء رکھا ہے اور چھ ارب سال پہلے بگ بینگ کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا.اتفاق کی بات ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی اب زمین پر پہنچی ہے اور وہ اس طرح نظر آرہا ہے جس طرح چھ ارب سال پہلے اپنی پیدائش کے وقت تھا گویا سائنس دان ایک ستارے کی

Page 59

52 پیدائش کا نظارہ کر رہے ہیں.اس وقت وہ کیا ہے اور کیسا ہے وہ وہی دیکھ سکتا ہے جو چھ ارب سال بعد زمین پر سے مشاہدہ کرے گا بشرطیکہ تب تک ہماری زمین رہی تو جس کا امکان بہت کم ہے.یہی حال دوسرے ان گنت ستاروں کا ہے.جو کچھ آج ہم دیکھتے ہیں پتہ نہیں ان پر کتنا عرصہ گزر چکا ہوگا.اگر سورج پر کوئی دھما کہ ہو تو ہمیں نو منٹ بعد دکھائی دے گا.( غالب شاید سائنس دان بھی تھا جس نے کہا تھا ے ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکہ کھلا بہر حال سائنس دانوں کی ٹیم کائنات کے انتہائی دور کنارہ پر واقع Supernovae یعنی جلتے ہوئے ستاروں کا مشاہدہ کر رہے ہیں تا یہ معلوم کریں کہ کہکشائیں کس رفتار سے ایک دوسرے سے پرے ہٹ رہی ہیں.سپر نو و ا۱۹۹۵Kء بھی ایک کہکشاں کا حصہ ہے یہ سورج سے بھی دس کروڑ گنا زیادہ روشن ہے لیکن بوجہ دوری کے اس کی جو روشنی ہم تک پہنچتی ہے وہ اس روشنی سے بھی چالیس لاکھ گنا کم ہے جو ہماری تنگی آنکھ دیکھ سکتی ہے.لہذا اس کو دیکھنے کے لئے طاقتور دور بینوں کی ضرورت ہے.جہاں تک ہمارے اپنے سورج کا تعلق ہے سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ مزید پانچ ارب سال تک روشنی دے گا اور پھر اس کا تیل ( یعنی اس کے اندر ہونے والا نیو کلائی عمل ) ختم ہو جائے گا اور یہ چراغ بجھ جائے گا (لہذا جو کام نبٹانے ہیں ابھی روشنی ہے جلدی جلدی نپٹالیں ) لیکن سائنس دان کہتے ہیں زمین کے باسیوں کو فکر کی ضرورت نہیں.اس وقت تک انسان یا تو ارتقاء کے عمل کے نتیجہ میں بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ بدلتا ہوا کسی دوسری مخلوق کی صورت میں بدل چکا ہوگا یا مٹ چکا ہوگا.پانچ ارب سال پہلے بھی وہ آج جیسا انسان کب تھا بلکہ صرف امیبا (Amoeba) تھا یعنی ایک ہی خلیہ (Cell) والا ایسا جاندار تھا جوصرف خوردبین سے نظر آسکتا تھا.وہ آنکھوں سے مخفی ایک مخلوق تھی جو تازہ پانی، گیلی مٹی یا دوسرے جانداروں کے ساتھ چمٹ کے پلتا تھا.ایسے ہی پانچ ارب سال بعد بھی ممکن ہے وہ آنکھوں سے مخفی کسی اور طرز کی مخلوق میں بدل چکا ہو جو آکسیجن وغیرہ سے بے نیاز خلا اور وقت (Space & Time) کی وسعتوں میں اڑتا پھرتا

Page 60

53 ہو.کون جانے کیا ہو.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے وجود میں آنے سے قبل زمین پر ایک مخفی مخلوق ( جن ) پیدا کی گئی تھی جو اس وقت کے گرم ماحول سے مناسبت رکھتی تھی ( الحجر : ۲۷.۲۸) قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدائش کے بعد وسعت دے رہا ہے جیسے فرمایا وَ السَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِايْدٍ وَّإِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات: ۴۸) اور ہم نے آسمان کو قوت کے ساتھ بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں.کائنات کو اس کے پھیلاؤ کے بعد پھر سے سمیٹنے اور اس کی صف کو لپیٹنے کے بارہ میں اس قادر مطلق نے فرمایا يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ.كَمَا بَدَانَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُه وَعْداً عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ (الانبياء: ۱۰۵) یعنی جس دن آسمان کو ہم اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح ہم نے پیدائش کو پہلی دفعہ شروع کیا تھا اسی طرح اس کو پھر دہرائیں گے.یہ ہم نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے.ہم ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم.سچ ہے: تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا ( الفضل انٹر نیشنل 31.10.97)

Page 61

54 برے رجحانات کے جینز رکھنے پر بچہ کو پیدائش سے قبل ہی ماردینا مناسب ہے یا نہیں؟ کیا ایسے جینس (Embryos) جن میں ہم جنس پرستی کے رجحان کا جین (Gene) آئے انہیں پیدائش سے پہلے ہی ختم کر دینا مناسب ہوگا یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب امریکہ کے ایک نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر جیمز واٹسن یہ دیتے ہیں کہ اگر آپ کو وہ جین مل جائے جو انسان کا میلان طبع ہم جنس پرستی کی طرف متعین کرتا ہے اور اس کی ماں کہے کہ مجھے اس طرح کا بچہ نہیں چاہئے تو بہتر یہ ہے کہ اسے حمل ضائع کرنے دیں.( گویاNip the evil in the Bud والی بات ہے ) ڈاکٹر صاحب نے اپنے نیو یارک والے گھر میں سنڈے ٹیلیگراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے یاد ہے ایک ماں ترستی تھی کہ اس کے بیٹے کے ہاں اولا د ہو اور وہ اپنے پوتے پوتی کو دیکھے لیکن اس کے سامنے اس کا بیٹا اس طرف نہیں آرہا تھا.اس ماں کے لئے اس کے بیٹے کا ہم جنس پرست ہونا اس کی زندگی کاسب سے بڑا دکھ تھا.ایسی صورت میں اگر ماں کو بچے کے رجحان کا پیدائش سے پہلے علم ہو جائے اور وہ اسے ختم کرنا چاہے تو میں کون ہوتا ہوں کہ اسے مجبور کروں کہ تم ضرور ایسے بچہ کی ماں بنو جو تمہیں ساری عمر دکھ میں مبتلا رکھے.ڈاکٹر جیمز واٹسن کے اس بیان پر کئی ڈاکٹروں نے سخت تنقید کی ہے کہ یہ امر خاصہ ما بہ النزاع

Page 62

55 ہے کہ کسی بچہ کو پیدائش سے پہلے ہی اس جرم میں ماردیا جائے کہ وہ بڑا ہوکر سدومی بنے گا.ڈاکٹر واٹسن وہ ہیں جنہوں نے DNA دریافت کیا تھا اور ۱۹۸۹ء میں ایک ایسے بین الاقوامی ادارہ کے امریکی شاخ کے ڈائریکٹر تھے جو اس کوشش میں تھا کہ انسان کے اندر پائے جانے والے دو لاکھ جینز (Genes) کی شناخت کی جائے.بعد میں وہ اس ادارے سے علیحدہ ہو گئے تھے دی ٹیلیگراف لندن بحوالہ سڈنی مارننگ ہیرلڈ ، ۹۷.۲.۱۸) ہر انسان کے جسم میں تقریبا دس ہزار ارب خلیات (Cells) ہوتے ہیں ہر خلیہ کے مرکز (Nucleus) میں اس کا ڈی.این.اے ہوتا ہے جس کے اندر پچاس ہزار تا ایک لاکھ جینز ہوتے ہیں.یہ جینز انسان کو وہ بناتے ہیں جو وہ ہے.انسان کا رنگ ونسل، قد ، موروثی خوبیاں ، خامیاں ، عادات سب اس کے اندر ودیعت کی ہوئی ہوتی ہیں.بچے جہاں اپنے والدین بلکہ کئی کئی پشتوں کے آباؤ اجداد کی خوبیوں کے وارث بنتے ہیں وہاں ان کی خرابیوں ، بیماریوں اور عادات وغیرہ کو بھی ورثہ میں پاسکتے ہیں.سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض بچہ کی پیدائش سے پہلے یہ علم ہو جائے کہ بچہ کے کسی موذی مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے تو بچہ کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دینا جائز ہوگا ؟.جسمانی بیماریوں کے علاوہ بعض خطر ناک اخلاقی بیماریاں بھی جیز میں پائی جاسکتی ہیں.مثلاً اگر یہ پتہ چل جائے کہ بچہ نے ورثہ میں خطرناک حد تک غصہ کے جینز پائے ہیں اور اس میں خطرناک ڈاکو بننے کارجحان پایا جاتا ہے تو کیا اسے حالت جنین میں ہی ختم کرنا جائز ہوگا ؟ یہ تو وقوعہ جرم بلکہ ارادہ جرم سے بھی پہلے سزا دینے والی بات ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسے جینز رکھنے والا شخص اپنی شعوری کوشش سے اصلاح کرسکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں کر سکتا اور اس سے جرم سرزد ہو جائے جو ایک لحاظ سے بے اختیاری والی بات ہے تو کیا وہ مستوجب سزا ہوگا یا نہیں یا کم از کم نرم سزا کا حق دار نہیں ہوگا.اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو دنیا کے قوانین کی حد تک تو جزا سزا کا تصور ہی درہم برہم ہو جائے گا.معلوم ہوتا ہے کہ اول تو فطرت انسانی ابتدا صحیح یا نیوٹرل ہی تھی لیکن ماں باپ ماحول اور غذا وغیرہ جو پشت ہا پشت چلتے ہیں انسان کو خراب رجحانات عطا کر دیتے ہیں.دوسری صورت یہ ہے کہ ہر انسان کی فطرت ہی ایسے واقع ہوئی ہے کہ اس میں اچھے برے رجحانات ومیلانات پیدائشی طور پر

Page 63

56 موجود ہوتے ہیں گویا (فَالهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوهَا ) (الشمس: 9) کا ایک عمل پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے اور اچھے برے دونوں رجحانات اس کے اندر رکھ دیئے جاتے ہیں تاوہ کشمکش اور جدو جہد کے نتیجہ میں ترقی کر سکے.اللہ تو اس سے پاک ہے کہ وہ فسق و فجور کے خیالات دل میں ڈالے یا میلانات طبیعت میں رکھے لیکن چونکہ اچھے برے نتائج اسی کے قانون کے تحت نکلتے ہیں اس لئے اچھے اور برے دونوں رجحانات کا طبیعت میں ڈالے جانا خدا کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اس کا دوسرا عمل اس وقت ہوتا ہے جب انسان خود اپنے دل سے اچھے برے کا فیصلہ کرنے کا اہل ہو جاتا ہے اور گناہ اس کے سینے میں کھٹکنے لگ جاتا ہے.اس کا تیسرا عمل اس ہدایت کے ذریعہ ہوتا ہے جو انبیا ءلاتے ہیں اور انسانوں پر فسق و فجور اور نیکی و تقویٰ کی راہوں کو واضح کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو وہ سب کمزوریوں کی دعا و استغفار اور تدبیر ومجاہدہ کے نتیجہ میں پردہ پوشی کر دیا کرتا ہے.اگر ایسا ممکن نہ ہوتا اور انسان اپنے پیدائشی رجحانات پر عمل کرنے پر مجبور ہوتا تو اللہ پر الزام آتا کہ جب اس نے خود ہی گناہ پر پابند کر دیا ہے تو سزا کیسی اور ایسے ہی نیک رجحان کے تحت نیکی کرنے کا ثواب کیسا؟ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: غرض بے اعتدالیوں اور بدیوں کی طرف جانا انسان کی ایک حالت ہے جو اخلاقی حالت سے پہلے اس پر طبعا غالب ہوتی ہے اور یہ حالت اس وقت تک طبعی کہلاتی ہے جب تک انسان عقل اور معرفت کے زیر سایہ نہیں چلتا بلکہ چارپایوں کی طرح کھانے پینے ،سونے جاگنے یا غصہ اور جوش دکھلانے وغیرہ امور میں طبعی جذبات کا پیرور ہتا ہے.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۳) الغرض اچھے برے دونوں رجحانات انسان کی طبعی حالت اور متوازن فطرت کا خاصہ ہیں اور پیدائش سے پہلے ہی خراب رجحانات کا اندازہ کر کے بچے کا قتل مناسب نہیں.واللہ اعلم بالصواب (الفضل انٹر نیشنل 18.7.97)

Page 64

57 انسان ہی نہیں بلکہ دوسری انواع بھی ہمیشہ ہجرت کرتی اور نئی بستیاں آباد کرتی چلی آئی ہیں درختوں پر رہنے والی پندرہ سبز رنگ کی چھپکلیوں نے درختوں کے گٹھ پر بیٹھ کر ۳۲۰ کلو میٹر دور سمندر پار کے ایک ملک میں پہنچ کر اس بات کی تصدیق کر دی ہے جو سائنسدان ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ صرف اہل نظر انسان ہی تازہ بستیاں آباد نہیں کرتے حیوان بھی ہمیشہ کرتے رہے ہیں.۱۹۹۵ء میں جنوبی امریکہ کے علاقہ کریبین میں ایک سخت سمندری طوفان آیا تھا.اس وقت ایک جزیرہGuadeloupe سے کچھ درخت دوسرے جزیرہ Anguilla تک بہہ کر پہنچے.ان پر بیٹھ کر پندرہ بڑے سائز کی چھپکلیاں بھی وہاں پہنچ گئیں اور گزشتہ اڑ ہائی سال میں ان کی نسل وہاں خوب پھل پھول رہی ہے.اس قسم کی چھپکلیاں وہاں پہلے نہیں ہوا کرتی تھیں.یوں تو درختوں وغیرہ کے ساتھ چمٹ کر مینڈک اور کیڑے مکوڑے پہلے بھی نقل مکانی کیا کرتے تھے لیکن اس قسم کی مخلوق کی یہ پہلی مثال سامنے آئی ہے.یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے پروفیسر آرچر کہتے ہیں کہ چوہوں جیسے کترنے والے جانور (Rodents) پانچ چھ ملین سال پہلے یقیناً اسی طرح آسٹریلیا پہنچے ہوں گے جس طرح چھپکلیاں پہنچی ہیں.البتہ بڑے بڑے جانوروں کے بارہ میں اندازہ ہے کہ تیر کر آئے ہوں گے.ہاتھی

Page 65

58 تو انڈونیشیا کے جزائر سے تیر کر آسٹریلیا پہنچے تھے.پھر شمالی آسٹریلیا سے کئی ہزار میل کا سفر طے کر کے جنوب میں نیو ساؤتھ ویلز کے علاقہ میں پہنچے جہاں ۱۹۰۰ ء میں ان کے تجر ڈھانچے (Fossils) دستیاب ہوئے تھے.البتہ بعد میں ان کا وجود یہاں نا پید ہو گیا.۱۹۷ء میں قطب جنوبی (Antarctic) کے پنگوئن کا ایک انڈہ صحیح حالت میں آسٹریلیا کے ساحل پر ملا تھا جو دو ہزار کلومیٹر کا سمندری سفر کر کے یہاں پہنچا تھا.پروفیسر آرچر اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ ۴۵ تا ۳۵ ملین سال پہلے جب آسٹریلیا اور قطب جنوبی پھٹ کر علیحدہ ہوئے تھے اس وقت آسٹریلیا ہر طرف سے ایسے سمندر میں گھرا ہوا تھا جن میں کروڑوں قسم کی انواع بھری پڑی تھیں اور ان میں سے بہت سی نئی بستیوں کی تلاش میں آسٹر یلیا آگئی تھیں.ہم یہ کبھی نہ جان سکیں گے کہ ان میں سے کتنی انواع اس کٹھن سفر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور کتنی یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں.( سڈنی مارٹنگ ہیرلڈ ۹ را کتوبر ۶۹۸) جنگلوں کے جانور اور فضاؤں کے پرندے جب چاہیں اور جہاں چاہیں خدا کی زمین میں دانا دنکا چگنے کے لئے اور نئی بستیاں آباد کرنے کے لئے جاسکتے ہیں.ان کو موج ہے کسی ویزے کی ضرورت نہیں.یہ مشکل انسانوں ہی کو کچھ عرصہ سے ہے.(الفضل انٹر نیشنل 9.4.99)

Page 66

59 59 گھوڑے سننے اور اطاعت کرنے کی صفت کی وجہ سے تین سو تک الفاظ یا درکھ سکتے ہیں ڈیون انگلینڈ میں گھوڑوں کی نفسیات کا ایک ادارہ قائم ہے جس کے سر براہ.Dr Marthe Kiley Worthington ہیں.انہوں نے پانچ سالہ تحقیق و تجربہ کے بعد بتایا ہے کہ گھوڑے اتنی استعداد رکھتے ہیں کہ تین سو تک الفاظ یادرکھ سکتے ہیں.ان الفاظ میں نام، کام اور تعریفی الفاظ شامل ہیں.سکھانے کے بعد گھوڑوں کا امتحان بھی لیا جاتا ہے.ڈاکٹر صاحب گھوڑوں کی تعلیم و تربیت ( ٹریننگ ) ان کی پیدائش سے ہی شروع کر دیتے ہیں.ان کو فیملی گروپس میں رکھا جاتا ہے اور ہر گھوڑے کا علیحدہ معلم (Trainer) ہوتا ہے.سکھانے کا طریق یہ ہے کہ گھوڑے کے سامنے ایک چیز لا کر بار بار اس کا نام دہرایا جاتا ہے.جب گھوڑ ا کئی اشیاء کے نام سیکھ جاتا ہے تو محض نام ادا کرنے سے وہ چیز کو مجھ لیتا ہے.ایسے ہی گھوڑے کے سامنے بعض الفاظ بول کروہ حرکات کرائی جاتی ہیں مثلاً تیز چلو، دلکی چال چلو، آہستہ چلو وغیرہ.بعد میں یہ الفاظ سن کر گھوڑا وہ حرکات کرنا شروع کر دیتا ہے.اسی طرح گھوڑے سرخ، نیلے اور پیلے رنگوں کا انتخاب کر سکتے ہیں گھوڑے اپنے معلم کے احکام کو سنتے اور ان کی اطاعت کرتے ہیں اور یوں تین سو الفاظ تک سمجھنے اور یاد رکھنے کی استعداد حاصل کر لیتے ہیں.(ماخوذ از ٹیلیگراف لندن بحوالہ سڈنی ہیرلڈ.۲۸ / جولائی ۱۹۹۸ء)

Page 67

60 الغرض گھوڑے اپنے مالک کے احکام کو سنتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ ان کی ذہانت اور وفاداری ایک ضرب المثل بن چکی ہے.قرآن مجید میں بھی گھوڑوں کا ذکر متعدد بار آیا ہے بلکہ ایک سورۃ کا تو نام ہی ”العادیات یعنی دوڑنے والے گھوڑے رکھا گیا ہے اور اس میں بالخصوص ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کو بطور گواہ پیش کیا گیا ہے اور ان کا تعریفی انداز میں ذکر مومنوں کے لئے بطور ایک انعام اور سبق کے کیا گیا ہے.اس سورۃ میں گھوڑوں کا ذکر ایسے پیارے انداز میں کیا گیا ہے کہ ان کی ذہانت اور اطاعت کی تصویر آنکھوں کے سامنے ابھر کر آجاتی ہے.یہ گھوڑے اپنے مالکوں کے احکام کے تحت ایسے جوش وخروش اور ذوق وشوق سے دوڑتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ہانپنا شروع کر دیتے ہیں.رستے کی سختیوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے چنانچہ ان کے سموں سے چنگاریاں نکلتی ہیں.پھر لمبے اور مشکل سفر کے بعد نہ ہمت ہارتے ہیں اور نہ آرام کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ اپنے مالک کی اطاعت میں صبحدم تیزی سے غبار اڑاتے ہوئے دشمن کو غارت کرنے کے لئے اس پر پڑتے ہیں اور جان کی بازی لگاتے ہوئے دشمن کی صفوں میں جا گھستے ہیں اور تیروں کی بارش کی بھی پرواہ نہیں کرتے.خدا ان کی مثال پیش کر کے فرماتا ہے کہ ان گھوڑوں کی طرف دیکھو کہ وہ اپنے مالک کی کیسی اطاعت کرتے ہیں تمہارا بھی ایک مالک ہے اور وہ ا حقیقی مالک ہے.اگر تم ان وفادار اور اطاعت شعار گھوڑوں کوغور سے دیکھو گے تو تمہارے نفوس خود گواہی دیں گے کہ تم اپنے مالک کے انعامات کی قدر نہیں کرتے بلکہ ناشکری کرتے ہو.تم اطاعت اور وفا کا سبق اپنے گھوڑے سے ہی سیکھو.( الفضل انٹر نیشنل 9.4.99)

Page 68

61 مغرب میں دعاؤں کی تأثیر پر عوام کی رائے کیا ہے؟ مغرب میں تجس پایا جاتا ہے کہ کسی طرح پتہ چلے کہ دعاؤں میں واقعی کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں ؟ اور کیا واقعی کوئی ایسی بالا ہستی ہے جو دعاؤں کو سنتی اور قبول کرتی ہے.اس غرض کے لئے حال ہی میں امریکہ اور آسٹریلیا میں متعد د سروے ہوئے ہیں جن کے نتائج اخباروں میں چھپے ہیں.امریکہ میں گیلپ پول Gallup (Poll) کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ نوے فیصد امریکی دعا کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہماری دعاؤں کو کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول کرتا ہے.۳۰ فیصد امریکیوں نے بتایا کہ ان کی بیماری میں اپنی اور دوسروں کی دعاؤں کی وجہ سے غیر معمولی رنگ میں صحت حاصل ہوئی ہے.اس کے بالمقابل آسٹریلیا میں دعا کرنے والوں اور اس پر یقین رکھنے والوں کی تعداد تھوڑی ہے.۵۴ فیصد آسٹریلوی باشندوں نے کہا کہ وہ با قاعدہ دعا کرتے ہیں جبکہ ۲۹۷ فیصد نے کہا کہ انہوں نے کبھی دعا نہیں کی.اسی طرح کئی ہسپتال والوں نے مریضوں پر دعا کا اثر معلوم کرنے کے لئے سروے کئے ہیں.سان فرنسکو کے جنرل ہسپتال میری لینڈ آسٹریلیا کے ہسپتال اور ایڈز کے مریضوں پر دعا کو مفید پایا گیا لیکن میوکلینک آسٹریلیا کے۷۵۰ مریضوں پر دعا کا کوئی اثر نظر نہیں آیا.بہر حال جو نتیجہ انہوں نے نکالا ہے وہ یہ ہے کہ فرماں روائی تو عقلیت پسندی کی ہے لیکن دعا ئیں بھی ایک ضرورت پوری کرتی ہیں: (Rationaliyy Reigns, But Prayers can still serve a need)

Page 69

62 حقیقت یہ ہے کہ خدا کی ہستی پر قبولیت دعا سے بڑھ کر اور کوئی دلیل نہیں جو انسان کو مطمئن کر سکے.مذہب کی جان اور روح دعا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کے موضوع پر نہایت عارفانہ انداز میں اپنے ذاتی تجربات کی بناء پر روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں: میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلا ہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دعا کی صورت میں آتا ہے میں نے اپنی طرف کھنچتے ہوئے محسوس کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے.ہاں آج کل کے زمانہ کے تاریک دماغ فلاسفر اس کو محسوس نہ کر سکیں یا نہ دیکھ سکیں تو یہ صداقت دنیا سے اٹھ نہیں سکتی اور خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ میں قبولیت دعا کا نمونہ دکھانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.“ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریرات کی رو سے صفحہ ۶۳۱) پس دعا کا تعلق باریک روحانی امور کے ساتھ ہے.اس کی قبولیت اور عدم قبولیت روحانی قوانین کے تابع ہے.اسی طرح جیسے دوا کے اثر کرنے کے لئے بھی کچھ قوانین ہیں.لہذا گیلپ وغیرہ کے فلسفیانہ سروے کی بنیاد پر دعا کی تاثیر کا فیصلہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایسا شخص جس نے زندگی میں خود کوئی پھل نہ چکھا ہو لوگوں سے پوچھ کچھ کر کے مختلف پھلوں کے مزوں کو بیان کرنے کی کوشش کرے.(الفضل انٹر نیشنل 4.7.03)

Page 70

63 چوہوں پر کئے گئے دلچسپ تجربات حال ہی میں چوہوں پر کچھ دلچسپ تجربات کئے گئے ہیں جن کے نتائج انسانوں پر بھی منطبق کئے گئے ہیں.ایک تجربہ یہ کیا گیا کہ ہم عمر جو ان چوہوں کے دوگروپ بنائے گئے.ایک گروپ کو متناسب غذا با قاعدگی سے صرف اتنی مقدار میں دی گئی جو صرف ان کی بدنی ضرورت کے لئے کافی ہو اور جس سے ان کا وزن نہ بڑھنے پائے.دوسرے گروپ کو وہی غذا با فراغت مہیا کی گئی کہ جب چاہیں اور جتنا کھائیں یعنی خوب عیش کریں.تجربہ سے پتہ چلا کہ پہلے گروپ کے چوہوں نے لمبی عمریں پائیں جب کہ دوسرے گروپ کے چوہے اپنے حصہ کا رزق جلدی جلدی وقت بے وقت کھا کر جلدی اس دنیا سے کوچ کر گئے.دوسرے تجربہ میں دونوں گروپوں کو ایک جیسی غذا مہیا کی گئی لیکن ایک گروپ کے چوہوں کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا رہا جب کہ دوسرا گروپ سکون سے اپنی زندگی بسر کرتا رہا.اس تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ پریشان رکھے جانے والوں کے بچے تعداد میں دوسرے گروپ کی نسبت بہت کم پیدا ہوئے اور ان کے بچوں کی حرکتوں سے بھی اضطراب ظاہر ہوتا تھا.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ عورتوں میں بچے نہ ہونے کی ایک وجہ ان کا گھر کے اندر یا باہر کا Stress ہے لہذا پر سکون گھرانے خوش قسمت ہوتے ہیں جب کہ ایسے گھرانے جن میں ہر وقت لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں اور گھر کھچاؤ اور تناؤ کا شکار ہوتا ہے وہ خود اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اور اپنی پریشانیوں اور اضطراب کو اپنی آئندہ نسلوں میں بھی منتقل کر دیتے ہیں.

Page 71

64 حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں امور کے بارہ میں فرمایا تھا کہ مومن اس لئے کھاتا ہے تا زندہ رہے اور کافر اس لئے زندہ رہتا ہے تا کھائے.نیز فرمایا کہ تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم میں سے سب سے اچھا ہوں.بعض لوگ اپنے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے بجائے اپنا سکون باہر دوستوں اور سہیلیوں میں تلاش کرتے ہیں اور ان میں مقبول ہونے کے لئے کوشاں رہتے ہیں.ان کے لئے اس میں سبق ہے.قرآن کے مطابق اللہ نے میاں بیوی کے درمیان مووت ورحمت رکھ دی ہے اور اسی میں زندگی کا سکون ہے.خدا فرماتا ہے اور اس کے نشانوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس میں سے تمہارے لئے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم ان کی طرف سے تسکین حاصل کرو اور تمہارے درمیان پیار اور رحم کا رشتہ پیدا کیا ہے.اس میں فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بڑے نشان ہیں (الروم :۲۲) ( الفضل انٹرنیشنل 27.12.96)

Page 72

99 65 حملہ آور بکٹیریا اور پودوں کی ایک دوسرے کے خلاف جنگی چالیں آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ریسرچ سکالرز نے عملی تجربات سے معلوم کیا ہے کہ پودے اپنے دشمن بکٹیریا کے حملہ کو ناکام بنانے کے لئے دلچسپ جنگی چالیں چلتے ہیں.پودے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو خوب پہچانتے ہیں.دشمن بکٹیریا کا طریق یہ ہے کہ حملہ کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں.سپاہی جمع ہوتے رہتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں.جب وہ اتنی طاقت جمع کر لیتے ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ اب حملہ کامیاب ہوسکتا ہے تو ایک کیمیکل کی صورت میں سگنل چھوڑتے ہیں جن سے ان کا جارحیت والا جین (Gene) فعال ہوتا ہے اور وہ اکٹھے ہو کر پودے کی جڑوں پر حملہ کر دیتے ہیں.لیکن مقابل پر پودے بھی بڑے ہوشیار ہوتے ہیں.ان کو دشمن کی نگرانی (Surveillance) اور دشمن کے سگنل کے بالمقابل اسی قسم کا سگنل جاری کرنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے اور اسے فنا کرنے کا نظام عطا ہوا ہے.چنانچہ جب پودے دیکھتے ہیں کہ دشمن حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو جوسگنل ایک کیمیکل پیدا کر کے وہ دیتے ہیں اسی قسم کا سگنل پودا چھوڑ کر دشمن کے سگنل کو خلط ملط (Confuse) کر دیتا ہے اور دشمن سمجھتا ہے کہ اس کے پاس کامیاب حملہ کے لئے درکار طاقت جمع ہوگئی ہے اور وہ خام

Page 73

66 (Premature) حالت ہی میں حملہ کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجہ میں پودے سے مارکھا جاتا ہے اور مٹ جاتا ہے.ملبورن کے ایک فورم 2003 Fresh Science میں ڈاکٹر Mathesius نے بتایا کہ انہوں نے یہ تجربہ الفلفا (Alfalfa) قسم کے پودے پر کئے ہیں.انہوں نے مصنوعی طور پر وہ کیمیکل بنائے جن کے ذریعہ دوست اور دشمن بکٹیر یا سگنل دیتے ہیں.یہ پودے ۲۵۰۰ اقسام کے پروٹین بناتے ہیں جن میں سے ۱۵۰ پر ان سگنلز کا اثر پایا جا تا ہے جن میں سے اکثر کا تعلق پودہ کے دفاعی نظام سے تھا.وہ کہتے ہیں ہمیں ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ یہ پودے ایسی ذہانت اور سمجھ بوجھ کے ساتھ دشمن کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہوں گے.اب تک کسی کو یقینی طور پر یہ پتہ نہ تھا کہ پودوں کا جاسوی نظام اتنا شاندار ہوگا کہ وہ دشمن کے منصوبہ کا چوری چھپے پتہ لگا لیتے ہیں اور وسیع پیمانہ پر فوری طور پر جوابی کاروائی کرتے ہیں.اس تحقیق کے نتیجہ میں پودوں کو بکٹیریا کے حملوں سے بچانے کے لئے نئے طریق وضع کئے جاسکیں گے اور ایسے کیمیکلز بنائے جاسکیں گے جن کو سپرے کر کے بکٹیریا کو دھوکہ دے کر حملوں سے باز رکھا جائے.یا پھر ایسے پودے بنائے جاسکیں گے جو خود اپنے اندر ہی ایسے کیمیکلز کے سگنل چھوڑ سکیں.ڈاکٹر صاحب موصوف کہتے ہیں کہ جب آپ کسی پودہ کو دیکھتے ہیں تو بظاہر نظر آتا ہے کہ وہ کچھ کام وام نہیں کرتا.لیکن اگر بغور زمین کے اندر پوشیدہ جڑوں کو دیکھیں تو تب پتہ لگتا ہے کہ کتنا پیچیدہ نظام ہے جو پیچھے کام کر رہا ہے.لگتا ہے کہ پودے اندھے نہیں ہیں بلکہ دیکھتے اور سنتے ، اور بولتے ہیں.(ماخوذ از سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۱ اگست ۲۰۰۳ء) سبحان اللہ ! کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا.اللہ تعالیٰ نے پودہ کی جڑ ، تنا، شاخوں اور پتوں وغیرہ میں کیسا شاندار نظام جاری فرما دیا ہے جس کے بغیر کوئی چھوٹے سے چھوٹا بوٹا بھی نہ اگ سکتا ہے نہ پھل پھول سکتا ہے تبھی تو کھیتوں کے مالک نے فرمایا أَفَرَءَ يْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ وَ انْتُمْ تَزْرَعُوْنَة أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ ( الواقع ۶۴ - ۶۵ ) بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو کچھ تم کاشت کرتے ہو کیا تم ہی ہو جو اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں.کیوں نہیں اے ہمارے پیارے خالق و مالک! ہمیں تسلیم ہے کہ آپ ہی اگانے والے

Page 74

67 ہیں ہم کون اگانے والے ہوتے ہیں سچ ہے : مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے ما لک دا کم پھل پھل لا ؤ نالا دے یا نہ لاوے (الفضل انٹرنیشنل 24.10.03)

Page 75

68 80 دنیا کو درپیش خطرات الہی نوشتوں کے مطابق دنیا اپنے آخری دور میں سے گزر رہی ہے جس کے بعد خاتمہ ہے یہ خاتمہ کیسے وقوع میں آئے گا.اس کے بارہ میں سائنسدان مختلف اندازے لگاتے ہیں.ایک اندازہ جو حال ہی میں برطانیہ کے آنریری ماہر فلکیات Martin Ress نے لگایا ہے وہ پیش خدمت ہے.آپ کہتے ہیں کہ ایک صدی قبل دنیا کے تباہ ہونے کا امکان ایک فیصد تھا اب بڑھ کر ۵۰ فیصد ہو گیا ہے.آج سب سے زیادہ خطرہ ایٹمی دہشت گردی (Neuclear Terrorism) سے ہے.دوسرے نمبر پر بیماریوں کے پھیلنے سے ہے جو ایسے وائرس پیدا کریں جن میں جینیاتی تبدیلیاں مصنوعی طور پر کی گئی ہوں (Deadly Enginered Viruses) پھر فریب کارمشینیں (Rogue Mashienes) پھر سب سے بڑھ کر خلقت انسانی میں تبدیلیاں جن سے انسان کا کردار ہی بدل جائے اور کوئی اور ہی مخلوق زمین پر قبضہ کر کے انسان کی جگہ لے لے.یہ خطرناک چیزیں بطور حادثہ بھی انسان کو پیش آسکتی ہیں اور عمداً بھی شرارت سے بنائی جاسکتی ہیں.اس بات کا امکان ہے کہ ۲۰۲۰ ء تک کوئی دس لاکھ آدمی جرا ثیمی دہشت گردی Bio) (Terrorism سے ہلاک ہو جائیں.ابھی ایک صدی پہلے تک ایٹمی خطرہ کے بارہ میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا.وہ خطرہ ابھی تک بدستور قائم ہے اور اس کے ساتھ دوسرا خطرہ جینیاتی تبدیلیوں (Genetic Engineering) اور ان خطرناک وائرسوں کو پھیلانے والی دواؤں

Page 76

69 (Biotech Drugs) کا ہے وہ سامنے آکھڑا ہوا ہے.اس وقت دنیا میں ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جو اس قابل ہیں کہ خطرناک نا قابل علاج بیماریاں پھیلانے والے جراثیم بناسکیں.کوئی بھی دیوانہ دنیا میں تباہی مچاسکتا ہے اگر بے شمار لوگ مرنے سے بچ بھی جائیں تو زندگی کے معمولات کو ضرورز مروز برکر سکتے ہیں.ایٹمی طاقت کی ترقی کے لئے جو تجربات کئے جاتے ہیں وہ بھی دنیا کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں.مثلاً ایٹم کے ذرات کی رفتار اور طاقت بڑھانے کے لئے جو مشینیں Particle) (Accelerator استعمال کی جاتی ہیں.ان کے ذریعے ایسے بلیک ہول کا وجود میں آنا بھی ممکن ہوسکتا ہے جو ارد گرد کی سب چیزوں کو اپنے اندر کھینچ کر تباہ کر دے.قرآن کریم میں آیا ہے چنانچہ حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتاب Revelation, Rationality) (Knowledge and Truth کے صفحات ۶۱۳ تا ۶۵۳ میں ان کا ذکر فرمایا ہے ان میں ایٹمی جنگ کے خطرات کا بھی ذکر ہے.جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے خدا کی پیدائش میں تبدیلیاں لانے کا بھی اور ایڈز اور طاعون جیسی بیماریوں کا بھی.اسی کتاب کے صفحہ ۷ ۴۸ پر خدا کی اس وعید کا بھی ذکر ہے کہ ہم انسانوں کو بدل کر زمین پر ایک اور مخلوق لانے پر بھی قادر ہیں چنانچہ خدا فرماتا ہے.”ہم نے ہی ان انسانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط بنائے ہیں اور جب ہم چاہیں گے ان کی صورتیں یکسر تبدیل کر دیں گے.“ (الدھر: ۲۹) جب انسان خدا سے بغاوت کریں گے تو پھر اس انجام سے دو چار تو ہوں گے.( الفضل انٹر نیشنل 2.6.03 )

Page 77

70 یہودیوں کے وجود کو سب سے بڑا خطرہ کس چیز سے ہے؟ ورلڈ جیوئش کانگرس نے اپنی کتاب رپورٹ میں کہا ہے کہ یہودیوں کے وجود کو سب سے بڑا خطرہ غیروں کی طرف سے نہیں ہے بلکہ غیروں میں رشتے ناطے کر کے یہودیوں سے باہر نکلنے کا ہے انہوں نے کہا ہے کہ یہودی اپنی بقاء کے خطرہ سے دو چار ہیں (Endangered Species) اور اپنی روح اور شناخت کے اعتبار سے ایک بحران کا سامنا کر رہے ہیں.(A People in a Crisis of Spirit and Identity) رپورٹ کے مطابق آج دنیا میں ۳ ملین یہودی ہیں جبکہ ہولو کاسٹ (Holocaust) کے وقت یعنی جنگ عظیم دوم سے پہلے ان کی تعداد ۱۸ ملین تھی.ان میں سے ۰۸ ۵ ملین امریکہ میں ۶ ۴۰ ملین اسرائیل میں رہتے ہیں.آسٹریلیا میں ان کی تعداد پچھلے دس سال سے ۹۰ ہزار پر ٹھہری ہوتی ہے.یہودیوں کے دستور کے مطابق یہودیوں سے باہر رشتہ کرنے والے یہودیت سے خارج ہو جاتے ہیں.ایک سروے کے مطابق ۱۲۰۰ یہودی لیڈروں میں سے ۷۷ فیصد یہ کہتے ہیں کہ غیروں رشتہ کرنے والوں کو یہودیت کے اندر رہنے کی ترغیب دلانی چاہئے.وہ کہتے ہیں ہم غیر یہودیوں میں رشتہ کرنے کے خلاف ہیں لیکن جو لوگ باز نہیں آتے اگر ان کو یہودیت سے خارج کرتے گئے تو ہم ختم ہو جائیں گے.وہ کہتے ہیں دنیا کے ہر ملک میں یہودیوں کی تعداد (سوائے اسرائیل کے ) مسلسل گرتی جارہی ہے.(الفضل انٹر نیشنل 31.1.91)

Page 78

71 لعاب دہن.پورے وجود کا نمائندہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سکالرز کہتے ہیں کہ انسان کا منہ اس کے وجود کی کھڑکی کی طرح ہے جس میں جھانک کر گھر کے اندر کا حال معلوم کیا جاسکتا ہے.لعاب دہن ایک رنگ میں پورے وجود کا نمائندہ ہے اور جسم کے تمام اعضاء کی کیفیت اور کارکردگی کا آئینہ دار ہے.منہ کے اندر بے شمار انواع واقسام کے اربوں بیکٹیریا، وائرس، مائیکروب خمیری مادے اور نمکیات پائے جاتے ہیں.یہ بھی مخلوق دوطرح کی ہے ایک وہ ہے جو صحت دینے والی ہے اور دوسری بیماری پیدا کرنے والی ہے لیکن یہ بھی ایک رنگ میں انسان کی خدمت کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی ہی قسم کے مضر بیکٹیریا کو جو کھانے پینے کے ساتھ منہ میں داخل ہوتے ہیں ان کو اسی طرح مار مار کر ہلاک کرتی ہے جس طرح کسی ملک کے پرانے باسی باہر سے آنے والے حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہیں.مفید صحت بیکٹیر یا ہر آن مضر صحت بیکٹیریا سے الگ برسر پیکار رہتے ہیں.یہ جنگ خوراک نمی ،جگہ اور محفوظ ٹھکانوں کے لئے لڑی جاتی ہے.جب بیکٹیریا کا ماحول تبدیل ہوتا ہے یعنی انسان اپنی خوراک تبدیل کرتا ہے ، دوائیں بالخصوص اینٹی بائیوٹک استعمال کرتا ہے تو منہ کے ان باسیوں میں بھی ردو بدل ہوتا ہے اور مخالف قوتوں کے توازن میں تبدیلی آتی ہے.یہ بکٹیریا منہ کے اندر بے ہنگم انداز سے نہیں رہتے بلکہ اپنی علیحدہ بستیاں بسا کر ترتیب سے رہتے ہیں.ان کے بڑے بڑے ٹھکانے دانتوں کے مسوڑھے اور زبان کا نچلا حصہ ہوتا ہے.چنانچہ ان کے معائنہ سے جسم کے مختلف اعضاء کا حال معلوم کیا جاسکتا

Page 79

72 ہے.مثلاً دانتوں کی بیماریاں، گردے، جگر ، معدہ اور پھیپھڑوں وغیرہ کی خرابی.اور دوسرے اعضاء کی خرابی ، چنانچہ اس انکشاف نے بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کا نیا باب کھول دیا ہے.کوشش ہوگی کہ صحت بخش بیکٹیریا کی مدد کی جائے اور مضر صحت بیکٹیریا کو دبایا جائے اور مضر صحت بیکٹیریا کو دبایا جائے.ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے لیکن پھر بھی ۶۱۵ قسم کے بیکٹیریا منہ کے اندر معلوم ہو چکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں.(بحوالہ سڈنی مارننگ ہیرلڈ۷۲ / مارچ ۲۰۰۳ء) اس خبر میں دو پہلو خاص دلچسپی کے حامل ہیں.ایک تو یہ کہ رحمان خدا نے اربوں ننھے مزدور ہمارے منہ کے اندر ہماری خدمت میں لگارکھے ہیں جن کے بغیر شاید ہم زندہ ہی نہ رہ سکتے.دوسری بات یہ کہ لعاب دہن ایک رنگ میں انسان کے سارے اعضاء اور ان کے حالات کی نمائندگی کرتا ہے جو لوگ پورے طور پر خدا کے ہو جاتے ہیں خدا ان کا ہو جاتا ہے اور ان کے ذریعہ اپنے نشانات ظاہر فرماتا ہے.ان کے وجود کے ہر عضو میں ، ان کے چھونے میں لباس میں اور لعاب دہن میں برکت رکھ دیتا ہے.جس کو جب وہ چاہے اور جس کے لئے چاہے اقتداری معجزہ دکھا دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر تم اپنے نفس سے درحقیقت مرجاؤ گے.تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا اور وہ گھر بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہوگے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیوار میں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا.“ (رساله الوصیت صفحه ۱۰) انبیاء واولیاء کی زندگیوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جن میں ان کے محض چھونے سے، کپڑوں سے یا لعاب دہن سے لوگوں نے برکت پائی اور بیماروں نے صحت پائی حضرت مرزا بشیر احمد نے اس طرح کا ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان فرمایا ہے: مسماۃ امتہ اللہ بی بی سکنہ علاقہ خوست مملکت کا بل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب وہ شروع شروع میں اپنے والد اور چچا سید صاحب نور اور سید احمد نور

Page 80

73 کے ساتھ قادیان آئی تو اس کی عمر بہت چھوٹی تھی اور اس کے والد ین اور چا چی حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد قادیان چلے آئے تھے.مسماة امتہ اللہ کو بچپن میں آشوب چشم کی سخت شکایت ہو جاتی تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے وہ آنکھ کھولنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی.اس کے والدین نے اس کا بہت علاج کرایا مگر کچھ آفاقہ نہ ہوا اور تکلیف بڑھتی گئی.ایک دن جب اس کی والدہ اسے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگی تو وہ ڈر کر یہ کہتے ہوئے بھاگ گئی کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی.چنانچہ وہ بیان کرتی ہے کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر پہنچ گئی اور حضور کے سامنے جا کر روتے ہوئے عرض کیا کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اور در داور سرخی کی شدت کی وجہ سے میں بہت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں تک نہیں کھول سکتی آپ میری آنکھوں پر دم کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو میری آنکھیں واقعی خطرناک طور پر ابلی ہوئی تھیں اور میں درد سے بے چین ہوکر کراہ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی انگلی پر اپنا تھوڑا سا لعاب دہن لگا یا اور لمحہ کے لئے رک کر (جس میں شائد حضور دل میں دعا کر رہے ہوں گے ) بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی یہ انگلی میری آنکھوں پر آہستہ آہستہ پھیر دی اور پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا! بیچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہوگی.“ روایت مسماۃ امتہ اللہ بی بی مہاجرہ علاقہ خوست ) مسماۃ امتہ اللہ بیان کرتی ہے کہ اس کے بعد آج تک جب کہ میں ستر سال کی بوڑھی ہو چکی ہوں کبھی ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دکھنے نہیں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دم کی برکت سے میں اس تکلیف سے بالکل محفوظ رہی ہوں.حالانکہ اس سے پہلے میری آنکھیں اکثر دکھتی رہتی تھیں اور میں نے بہت تکلیف اٹھائی تھی.وہ بیان کرتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا لعاب دہن لگا کر میری آنکھوں پر دم کرتے ہوئے اپنی انگلی پھیری تو اس وقت میری عمر صرف دس

Page 81

74 سال تھی گویا ساٹھ سال کے طویل عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس روحانی تعویذ نے وہ کام کیا جو اس وقت تک کوئی دوائی نہیں کر سکتی تھی، (سیرۃ حضرت مسیح موعود پر حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی چار تقریریں صفحہ ۳۶۸) (الفضل انٹر نیشنل 27.6.03 )

Page 82

15 75 کیا ایک اور جہان Antimatter کا بھی ہے؟ ہماری کائنات مادہ یعنی Matter سے بنی ہوئی ہے جس میں سو کے قریب عناصر (Eliments) ہیں جیسے کاربن ، آکسیجن، ہائیڈروجن ، لوہا،سونا وغیرہ.سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ایک اور کائنات ایسی بھی ہونی چاہئے جو اس کا الٹ ہو جس طرح شیشہ میں عکس ہوتا ہے.یعنی اینٹی میٹر (Antimatter) کی بنی ہوئی ہو.اس خیال کو سائنس فکشن کا موضوع بنایا گیا چنانچہ ایک سلسلہ وار فلم سٹار ٹریک (Star Track) میں ری ایکٹر کا ایندھن اینٹی میٹر سے بنا ہوا دکھایا گیا تھا.مادہ اور اس کا الٹ یعنی Matter and Antimatter جب اکٹھے ہوتے ہیں تو دونوں مٹ جاتے ہیں اور عظیم الشان طاقت Energy میں بدل جاتے ہیں.خبر آئی ہے کہ سائنس دان پہلی بار مینٹی ہائیڈ روجن ایٹم بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں.ہائیڈ روجن ایٹم سب سے سادہ ایٹم ہے جس کے مرکز میں مثبت بجلی کا حامل اینٹی پروٹون اور باہر لگ اینٹی الیکٹرون یا (Positron) جو مثبت بجلی کا حامل ہوتا ہے.اگر سائنس دان ایک پروٹون ہوتا ہے اور اس کے اردگرد گھومنے والا ایک منفی بجلی کا حامل اینٹی میٹر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے طاقت ور ہتھیار بنانے کا ایک اور ذریعہ ان کے ہاتھ آجائے گا.اس تحقیق کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ جہاں ہماری کائنات مادہ کی اینٹوں سے بنی ہوئی ہے وہاں ایک اور اتنی ہی بڑی کا ئنات اینٹی میٹر کی بھی ہے

Page 83

76 اور اگر کبھی دونوں اکٹھے ہو جائیں تو دونوں صفحہ ہستی سے نابود ہو جائیں گے اور پیچھے ایک ایسی عظیم طاقت رہ جائے گی جس کا اندازہ لگاناکسی سائنس دان کے بس میں نہیں.کائنات میں ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی خواہ اس کا تعلق عالم جمادات سے ہو، عالم نباتات سے ہو یا عالم حیوانات سے.قرآن کریم نے چودہ سو سال قبل یہ عظیم الشان سائنسی انکشاف کر دیا تھا کہ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ “ (الذاریات: ۵۰) کہ ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو.لہذا جہاں کا ئنات کی ہر چیز جوڑوں کی صورت میں بنائی گئی ہے کیا عجب ہے کہ خود کائنات کا بھی جوڑا ہو.حقیقت تو یہ ہے کہ جوڑا ہونا مخلوقیت کی دلیل ہے.سورۃ اخلاص ہمیں یہی بتاتی ہے کہ وہ صرف خدا ہی ہے جو اپنی نوع اور جنس میں اکیلا ہے.وہی ہے جو اپنی ذات کے لئے کسی سہارے کا محتاج نہیں بلکہ دوسری ہر چیز اپنے وجود میں آنے اور قائم رہنے کے لئے اس کے سہارے کی محتاج ہے.وہی ہے جو علت العلل ہے.اس کے سوا ہر چیز اپنے وجود میں آنے کے لئے کسی وجہ (Cause) کی محتاج ہے.اس کی نوع یا جنس سے نہ اس سے پہلے کوئی تھا اور نہ بعد میں کوئی ہوگا اور حقیقت تو یہی ہے کہ کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں جو حقیقی طور پر اس کی طرح کی اس جیسی یا اس کی ہم پلہ ہو.ہر مخلوق چیز کا جہاں ایک آغاز ہے وہاں اس کا انجام بھی ہے اور وہ اجل مسمی ( وقت مقررہ ) کے ساتھ بندھی ہوئی ہے.گو یا وقت اور عمر کے ساتھ بندھے ہونا بھی مخلوق ہونے کی دلیل ہے.خالق کا اس پہلو سے بھی کوئی کفو نہیں.وہی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.اس عظیم سورۃ میں مخلوقیت کی کھوٹ سے خدا تعالیٰ کو خالص کر کے دکھایا گیا ہے اور اس کی ایسی تنزیہی صفات کو پیش کیا گیا ہے جنہوں نے خدا کو مخلوقیت کی ہر صفت سے منزہ قرار دے کر اس کی خالص تو حید کو پیش کیا ہے.فسبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم (الفضل انٹر نیشنل 24.5.96)

Page 84

77 گرمی سردی میں سفر کرنے والے پرندوں کو خدا نے گھڑی مقناطیسی قطب نما اور رستہ کا نقشہ ودیعت کیا ہوتا ہے آسٹریلین جرنل آف زوالوجی میں ایک دلچسپ تحقیق شائع ہوئی ہے جو آسٹریلین ، جرمن اور امریکن سائنس دانوں کی مشترکہ محنت کا ثمر ہے.اس ٹیم کے سربراہ یو نیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی کے Dr.Ursula Munro تھے.انہوں نے یہ راز معلوم کیا کہ پرندے گرمی سردی کے لمبے سفر طے کر کے واپس اپنے ٹھکانوں پر کیسے پہنچ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں یہ حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ قدرت نے ان کے ننھے، دماغوں میں بالکل صحیح وقت بتانے والی گھڑی، ایک مقناطیسی قطب نما اور ایک راستے کا مفصل نقشہ ودیعت کر رکھا ہے.انہوں نے دیکھا کہ وہ ننھے پرندے جو تسمانیہ آسٹریلیا کے علاقہ میں پائے جاتے ہیں جو حجم میں چڑیا سے بھی چھوٹے ہیں اور جن کو وہاں Tasmanian Silvereyes کہا جاتا ہے وہ ہر سردی کے موسم میں تسمانیہ کوئنز لینڈ (Queensland) کے شمال میں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں.تسمانیہ میں بہت سردی پڑتی ہے جب کہ شمالی کوئنز لینڈ گرم علاقہ ہے اور دونوں کے درمیان کوئی چار ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے.یوں یہ چڑیاں جہاں سردی سے اپنی جان بچاتی ہیں وہاں خدا کی وسیع زمین پر اپنا مقدر رزق بھی تلاش کرتی ہیں.ان پرندوں کو پیدائش کے بعد بال و پر ملتے ہیں تو اس وقت انہیں ان جگہوں

Page 85

78 اور رستوں کا علم نہیں ہوتا بلکہ یہ لمبا سفر طے کرنے کے لئے ایک طرف تو اپنی جبلت (Instinct) سے کام لیتی ہیں اور دوسری طرف اپنے بڑوں کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتی ہیں.سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ ان پرندوں کے سروں میں مقناطیسی ذرات Magnetic) (Particles پائے جاتے ہیں جن کا تعلق ایک طرف تو ان کی آنکھوں کے اعصاب (Nerves) ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ بطور قطب نما کے کام کرتے ہیں.رستہ کے نقشہ کو ذہن میں محفوظ کرنے کا تعلق بھی انہیں سے ہوتا ہے.یہ قطب نما اتنی حساس واقع ہوئی ہے کہ زمینی مقناطیس میں جو تبدیلی مختلف مقامات میں ہوتی ہے یہ اس کو بھی معلوم کر سکتی ہے.اور اسی ارضی مقناطیس کی تبدیلی سے وہ مختلف مقامات کے درمیان فاصلوں کا اندازہ بھی کر لیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایسے پرندے بغیر یہ جانے ہوئے کہ کہاں جارہے ہیں شمال کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں اور واپسی پر جنوب کی طرف لیکن یہ کمپاس(Compass) صرف سورج کی روشنی اور زمین کی قدرتی مقناطیس میں کام کرنے کے لئے ہی ڈیزائن کی گئی ہے.چنانچہ اگر پرندوں کے راستہ میں سرخ روشنی پیدا کر دی جائے یا کوئی بڑا مصنوعی مقناطیس رکھ دیا جائے تو یہ پریشان (Confuse) ہو کر راستہ بھول جاتے ہیں اور ان کا شمال جنوب کا احساس ختم ہو جاتا ہے.(بحوالہ سڈنی ہیرلڈ ۲۸ جولائی ۱۹۹۷ء) اللہ کی کیا قدرتیں ہیں کہ ہر مخلوق کو اس کے مناسب حال قومی بھی دیئے ہیں اور ان کو استعمال کرنے کے لئے جبلی استعدادیں بھی عطا کی ہیں.یہ ننھے پرندے سردی گرمی سے اپنی جان کی حفاظت کے لئے اور خدا کی زمین میں اپنا رزق تلاش کرنے کے لئے کتنے دور دراز کے سفر اختیار کرتے ہیں.خدا نے قرآن کریم میں پرندوں کے پروں کو پھیلانے اور سمیٹنے اور فضا میں اڑنے کو بھی اپنا نشان قرار دیا ہے اور اس پر غور کرنے کا ارشادفرمایا ہے.(الملک: ۲۰ النحل: ۸۰) علاوہ ازیں سورہ الفیل میں گرمی سردی میں سفروں کو جاری رکھنے کی توفیق ملنے ،خوف سے بچانے اور بھوک میں کھانا عطا کرنے کو بھی اپنا فضل واحسان قرار دیا ہے اور اس پر رب کعبہ کا شکر بجالانے کا حکم دیا ہے.پس اگر کسی کو رزق کی تلاش میں دور دراز سفر کرنے کی توفیق ملے اور کئی قسم کے

Page 86

79 خوفوں سے نجات بھی ملے تو یہ خدا کا ایسا فضل ہے جس کو یاد رکھنا اور اس پر خدا کا شکر بجالاتے رہنا اطاعت خداوندی ہے.پر اس کی توفیق دینا بھی تو اسی پر منحصر ( الفضل انٹر نیشنل 5.12.97)

Page 87

80 60 نیو ساؤتھ ویلز میں انسانوں اور حیوانوں کی کلوننگ اور انسانوں کو حیوانوں کے ساتھ مخلوط کرنے پر پابندی سکاٹ لینڈ کے سائنس دانوں نے ایک بھیڑ کی کلوننگ کر کے دنیا کو حیران و پریشان کر دیا ہے.لوگ ڈرنے لگے ہیں کہ کل کلاں سرکاری یا پرائیویٹ طور پر کہیں انسانوں کی بھی کلوننگ نہ ہونے لگے.نیز یہ کہ انسانی سپرم کو حیوانوں جیسے گوریلا یا سوروں کے ساتھ مخلوط کر کے کوئی ایسی مخلوق نہ وجود میں آجائے جو حیوانوں اور انسانوں کے درمیان ہو.یہاں کی کئی تنظیموں نے اس طرح کے امکانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے.چنانچہ نیو ساؤتھ ویلز آسٹریلیا کے وزیر صحت نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا ہے کہ حکومت ایسے قوانین بنا رہی ہے جن کی رو سے نہ انسانوں اور حیوانوں کی کلوننگ ہو سکے گی اور نہ سڈنی کی تجربہ گاہوں سے کوئی ایسی مخلوق برآمد ہو سکے گی جو نیم انسان اور نیم حیوان ہو.ہیرلڈ ۱۸ اپریل ۱۹۹۷ء) اچھی بات ہے.قرآن بھی خدا کی خلقت میں تبدیلی کرنے کو شیطانی کام قرار دیتا ہے.یوں بھی دنیا میں نیم انسانوں، نیم حیوانوں کی تعداد پہلے کونسی تھوڑی ہے بلکہ بہت ہیں جو اَسْفَلَ سَافِلِينَ ہونے کی وجہ سے حیوانوں سے بھی نیچے گرے ہوئے ہیں.( الفضل انٹر نیشنل 5.12.97)

Page 88

81 سڈنی کے قریب پہاڑوں کے نیچے کچھ نئی غاریں دریافت ہوئی ہیں سڈنی کے نزدیک Blue Mountain کے علاقہ میں پہاڑوں کے نیچے کچھ غاریں واقع ہیں.ان کو Jenolan Caves کہتے ہیں اور سیاح دور دور سے انہیں دیکھنے کے لئے آتے ہیں.غاروں کے اندر سخت ٹھنڈے پانی کے نالے اور تالاب وغیرہ بھی ہیں اور پانی کے کٹاؤ نے پتھروں کو عجیب و غریب شکلیں دے دی ہیں.ان ٹورسٹ غاروں کے کافی نیچے جا کر غاروں کا ایک اور سلسلہ حال ہی میں دریافت ہوا ہے.ماہرین کا اندازہ ہے کہ نئی غاروں کا پرانی غاروں کے ساتھ کوئی رابطہ کہیں ہونا چاہئے اگر وہ رابطہ دریافت ہو جائے تو پرانی اور نئی غاروں کی مجموعی لمبائی کوئی ۳۱ کلومیٹر ہو جائے گی اور اتنی لمبائی کی کوئی غار آسٹریلیا میں پہلے دریافت نہیں ہوئی.چوبیس آدمی جونئی غاروں کے اندر گئے ہیں بتاتے ہیں کہ وہاں کا پانی شدید سرد ہے.درجہ حرارت کوئی دس درجے ہے.اور اندر ایسی گھٹن ہے کہ پتہ ہی نہیں لگتا تھا کہ ہمارا رخ اوپر کی طرف ہے یا نیچے کی طرف یا کس سمت ہے.وہ بہر حال اپنے کام کے ماہر تھے اور اپنا پورا ساز وسامان ساتھ لے کر گئے تھے.سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ دریافت اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے ہمیں یہ پتہ کرنے میں رہنمائی ملتی ہے کہ اس قسم کی غاریں کس طرح وجود میں آئی تھیں.ان کا خیال ہے کہ ۲۰۰ ملین

Page 89

82 (۲۰ کروڑ ) سال تک پانی بڑے دباؤ کے ساتھ اس جگہ بہتا رہا اور اس نے پہاڑوں کو کاٹ کر یہ غاریں بنائی ہیں.پانی کو جدھر راستہ ملتا گیا وہ جگہ بناتا گیا اور اس طرح یہ غاریں بھول بھلیوں کی شکل اختیار کرتی گئیں.ایک زمانہ میں یہ علاقہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا اور شدید بارشوں اور طوفانوں کی زد میں تھا.چنانچہ پانی اپنی جولانیوں میں پہاڑوں اور زمین کے نیچے رستے بنا تا رہا.اور جب وہ پیچھے ہٹا تو اپنا ایک حصہ اور نمکیات پیچھے چھوڑ گیا.دنیا کی اکثر غاریں اسی لئے سمندروں کے ارد گرد پائی جاتی ہیں جیسے بحیرہ مردار کے کنارے وادی قمران میں.دریائے نیل کے کنارے ناگ حمادی میں اور بحیرہ روم (Mediterranean) کے اردگرد، روم، نیپلز ، سائرین اسکندریہ اور مالٹا وغیرہ میں.ہوسکتا ہے کہ کچھ غار میں انسانوں نے بھی اپنے استعمال کے لئے ٹھیک ٹھاک کی ہوں یا بنائی ہوں.پرانے زمانہ میں کئی لوگ انہیں چھپنے وغیرہ کے لئے استعمال کرتے تھے جیسے ڈاکو، چور اور غلام.نیز وہ لوگ اپنے مردوں کو غاروں کی دیواروں میں دفن کیا کرتے تھے.ابتدائی موحد عیسائی بھی جب ظلم حد سے بڑھ جاتا تو کچھ عرصہ غاروں کو چھپنے کے لئے استعمال کرتے تھے جن کا ذکر سورۃ کہف میں آیا ہے.ایک دفعہ خاکسار کو روم کی غاریں دیکھنے کا اتفاق ہوا.بغیر گائیڈ کی مدد کے اندر جا کر بھول بھلیوں میں رستہ تلاش کر کے باہر نکل آنا آج کے زمانہ میں بھی سخت مشکل ہے.Jenolan کی غاریں جن کے بارہ میں یہ خبر ہے وہاں بھی ایک بار لندن کے رشید احمد چوہدری صاحب کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا تھا.ہم وہاں پہنچے ضرور تھے لیکن غار کے منہ پر ہی بیٹھے رہے.ہم خود تو اندر غار میں نہیں گئے لیکن دوسرے ساتھی گئے تھے بس ان سے ہی سارا حال احوال پوچھ لیا تھا.(الفضل انٹر نیشنل 6.2.98)

Page 90

83 883 آسٹریلیا میں ۳۵ کروڑ سال پرانی مچھلی کا متجر ڈھانچہ دریافت ہوا ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ریاست وکٹوریہ آسٹریلیا کے وسط میں Mt.Howitt کے قریب Monash یونیورسٹی کے پروفیسر جم وارن کو ہزاروں مچھلیوں کے پتھرائے ہوئے ڈھانچے (Fossils) ملے تھے.دس سال پہلے ان میں سے ایک مچھلی پر ایک نو جوان طالبعلم جان لانگ نے تحقیق کر کے ثابت کیا تھا کہ اس نے سب سے قدیم مچھلی کو دریافت کیا ہے جو ۳۵۰ ملین سال پہلے آسٹریلیا کے سمندر میں تیرتی پھرتی تھی.اس وقت وہ پی ایچ ڈی کا سٹوڈنٹ تھا.اس نے اپنا مقالہ مؤقر رسالہ نیچر کو اشاعت کے لئے بھیجا لیکن انہوں نے شائع نہ کیا.نوجوان طالب علم دل برداشتہ ہو کر بیٹھ گیا اور اس دوران پر تھ کے میوزیم کا کیوریٹر لگ گیا.اب نیچرل ہسٹری میوزیم لندن کے Dr.per Ahlberg نے بھی اس مچھلی پر اپنی علیحدہ تحقیق کی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے جس پر ڈاکٹر جان لانگ پہنچا تھا.چنانچہ اب ڈاکٹر لانگ نے ایک سائنٹفک کا نفرس میں اپنا مقالہ پیش کیا ہے.اگر چه ۳۵ کروڑ سال پہلے تمام براعظم ساتھ ساتھ ملے ہوئے تھے اور بعد میں پھسل کر دور دور ہو گئے لیکن آسٹریلیا اس زمانہ میں بھی یورپ اور شمالی امریکہ کے دوسری طرف تھا اس وجہ سے اس علاقہ میں

Page 91

84 حیوانی زندگی کا ارتقاء بھی دوسروں سے کچھ مختلف تھا.چنانچہ ڈاکٹر لانگ کہتے ہیں کہ اس طرح کی شہادتیں مل رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے آغاز میں آسٹریلیا ابتدائی ارتقاء کا مرکز رہا ہے اور یہیں سے ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی انواع ایک دوسرے سے علیحدہ ہوکر پھیلیں لہذا جولوگ زندگی کے آغاز وارتقاء میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو آسٹریلیا کے Fossils سے مفید معلومات حاصل ہوسکتی ہیں.(الفضل انٹر نیشنل 6.2.98)

Page 92

85 ملبورن آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے کینسر کا ٹیکہ تیار کر کے آزمائشی طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ملبورن آسٹریلیا کے سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ دنیا بھر میں پہلی بار انہوں نے چھاتی اور قولون کے کینسر کے لئے ٹیکہ (Vaccine) ایجاد کر لیا ہے اور اب آزمائشی طور پر مریضوں کو لگانا شروع کر دیا ہے.ان کا خیال ہے کہ یہ ٹیکہ کینسر کی دوسری قسموں کے لئے بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے.یہ ٹیکہ ایک ادارہ آسٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے تیار کیا ہے.انہوں نے کینسرسیل سے ایک چیز Mucin لے کر اس میں خمیر (Yeast) کی شوگر جسے Mannan کہا جاتا ہے باہم جوڑ کر (Synthesis) اسے بنایا ہے.یہ ٹیکہ جسم کے دفاعی نظام (Immune System) پر کام کرتا ہے اور ٹیومروں کو سکیڑ دیتا ہے.اب تک یہ ٹیکہ بطور آزمائش کے تمیں مریضوں کو لگایا جا چکا ہے اور اب مزید ایسے مریضوں کو لگایا جائے گا جن کا مرض ابتدائی اسٹیج پر ہے یا زیادہ بڑھ چکا ہے.ٹیکہ کے ابتدائی نتائج کی رپورٹ کینبرا کی ایک کا نفرس میں پیش کی گئی ہے ( سڈنی ہیرلڈا ۲ / اگست ۱۹۹۷ء) اللہ کرے اس موذی مرض کے لئے کوئی مؤثر دوا ڈاکٹروں کے ہاتھ لگ جائے.( الفضل انٹر نیشنل 6.2.98)

Page 93

86 مینڈ کی کو زکام ہو جائے تو ناک دائیں پنجہ سے صاف کرتی ہے یا بائیں سے اور پیٹ میں درد ہو تو کیا کرتی ہے؟ کیا زمانہ آ گیا ہے کہ ہر بات کی کھال اتاری جاتی ہے.بظاہر اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ریسرچ ہوتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی نئی بات سامنے آتی ہے.ایک ایسی ہی ریسرچ رسالہ ” آسٹریلیا نیچر میں شائع ہوئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مینڈک کا معدہ خراب ہو جائے یا کوئی زہریلی چیز نگل بیٹھے تو وہ بجائے الٹی کرنے کے پورا معدہ ہی پیٹ سے باہر نکال کر اس کی خوب صفائی کرتا ہے اور پنجوں سے اچھی طرح چھان پھٹک کر کے دوبارہ اندر ڈال لیتا ہے.مینڈکوں کا معدہ پیٹ کے وسط میں نہیں بلکہ ایک طرف کو ہٹا ہوا ہوتا ہے جس جھلی سے یہ جسم سے جڑا ہوتا ہے وہ سائز میں دائیں طرف سے چھوٹی اور بائیں طرف سے لمبی ہوتی ہے اس لئے معدہ جب وہ باہر نکالتا ہے تو وہ دائیں طرف کو جھکا ہوتا ہے تا صفائی میں آسانی ہو.مینڈک کے پاس معدہ کو صاف کرنے کا اگر چہ انتظام ہے لیکن اس کو استعمال کرنے کی ضرورت بہت کم پیش آتی ہے.بس کبھی کبھارہی.اسی سلسلہ میں ایک اور تحقیق آسٹریلیا اور اٹلی کے سائنس دانوں نے مل کر کی تھی جو بین الاقوامی رسالہ نیچر“ میں شائع ہوئی تھی تحقیق طلب معاملہ یہ تھا کہ مینڈک اپنے معدہ اور

Page 94

87 تھوتھنی (Snout) کو صاف کرنے کے لئے دایاں پنجہ استعمال کرتا ہے یا بایاں اور اس کا تعلق دماغ کی ساخت اور مینڈک کے ارتقاء سے کیا ہے.اب تک تو یہی سنتے آئے تھے کہ ”لو جی بی مینڈ کی کو بھی زکام ہوا، جس سے غالباً یہ مرا تھی کہ وہ جو ہر وقت پانی نمی اور سردی میں رہے اس کو بھی زکام ہونے لگے تو عجیب بات ہے.اب پتہ چلا کہ مینڈک کو نہ صرف زکام ہوسکتا ہے بلکہ وہ اپنے ناک کوصاف بھی کرتا ہے.بہر حال ان کی تحقیق نے یہ بتایا کہ یورپ کے مینڈک معدہ اور ناک وغیرہ کی صفائی کے لئے دایاں پنجہ استعمال کرتے ہیں اور آسٹریلیا کے مینڈک دونوں کو.اس سے خیال پیدا ہوا کہ شائد ان کے دماغوں کی ساخت مختلف ہو یا اس میں ارتقاء کے عمل کو کچھ دخل ہو.سائنس دانوں نے معلوم کیا ہے کہ جس طرح انسانوں کے دماغ دائیں بائیں سے بظاہر ایک ہونے کے باوجود مختلف کام سرانجام دیتے ہیں ایسا ہی سلسلہ جانوروں ، بندروں، چوہوں ، پرندوں وغیرہ میں بھی ہے.گویا کثرت میں بھی ایک وحدت ہے.گو بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اللہ کے کاموں پر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اس نے اپنی ہر مخلوق کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کی فطری اور آسمانی ہدایت کا بھی سامان کیا ہے.جانوروں کو اپنی بقا اور حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہئے.اس کی ہدایت بطور جبلت Purposiveness i) (Instinct ان کے اندر ودیعت کر دی گئی ہے الغرض ہر مخلوق کو اس کے مناسب حال ہدایت دی گئی ہے کہ ہر چیز میں ایک اعلیٰ درجہ کا منصوبہ، ارادہ اور مقصدیت نظر آتی ہے ورنہ ایک مینڈ کی کے بچہ کوکس نے سکھایا کہ زہریلی یا نقصان دہ چیز کو معدہ سے کیوں اور کیسے صاف کرنا ہے اور تھو تھنی کیسے صاف کرنی ہے اور پھر دائیں پنجہ سے صاف کرنی ہے یا بائیں پنجہ سے یا دونوں سے.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یہ ایک زبردست دلیل ہے کہ دیکھو کس طرح کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے مناسب حال ہدایت سے فیضیاب ہورہا ہے خواہ وہ عالم جمادات ہو، نباتات ہو، حیوانات ہو یا اشرف المخلوقات انسان.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یہ وہ دلیل ہے جو موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے پیش کی تھی.اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو دلیلیں بھی کیا خوب سمجھاتا ہے.فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے اور جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ” رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى (ط:۵۰) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو (اس کی ضرورت کے مطابق ) اعضاء

Page 95

88 عطا کئے ہیں اور پھر ان (اعضاء) سے کام لینے کا طریقہ سکھایا ہے.فسبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم ( الفضل انٹر نیشنل 5.9.97)

Page 96

89 88 آپ چائے پیئیں گے یا کافی ؟ بظاہر تو اس پیشکش کا جواب بڑا سیدھا سادہ ہے دونوں میں سے کوئی بھی ہوٹھیک ہے.لیکن سنتے ہیں اٹھارویں صدی میں اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے سویڈن کے شاہ گستاف سوئم نے کئی سال لگا دیئے تھے بادشاہ نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ صحت کے لئے چائے اچھی ہے یا کافی دو جڑواں بھائیوں پر تجربہ کیا جن کو قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی جا چکی تھی.بادشاہ نے کہا کہ دونوں کی سزائے موت اس شرط پر عمر قید میں تبدیل کی جاتی ہے کہ ان میں سے ایک چائے کا اور دوسرا کافی کا جگ دن میں تین بار روزانہ عمر بھر پیئے گا.اتفاق سے چائے پینے والا بھائی پہلے مرگیا (اس نے ۸۳ سال عمر پائی تھی ) اور کافی پینے والا زندہ رہا.چنانچہ بادشاہ نے تب سے کافی پینی شروع کر دی اور وہ رواج پاگئی.لیکن شاید زیادہ کافی پینے کا نتیجہ تھا کہ بادشاہ خود۱۸۹۲ء میں صرف ۴۵ سال کی عمر میں چل بسا.لہذا یہ سوال تشنہ جواب ہی رہا کہ لمبی عمر کے لئے چائے مفید ہے یا کافی.حال ہی میں برطانیہ کے سائنسدانوں نے کافی پینے کے نتائج پر تحقیق کی ہے اور آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے چائے کے اثرات پر.دونوں کے نتائج جو اخباروں میں چھپے ہیں دلچسپ ہیں.کافی کے بارہ میں ثابت ہوا ہے کہ یہ دل کی شریانوں کو سکیڑتی ہے.بلڈ پریشر بڑھاتی ہے اور دل کے حملہ کا باعث بنتی ہے.اس لئے کافی زیادہ پینے سے اجتناب کرنا چاہئیے.اس کے بالمقابل آسٹریلیا کے سائنسدان کہتے ہیں کہ سیاہ یا سبز چائے میں ایک ایسا جزو پایا جاتا ہے جسے پالی فینولز (Polyphenols)

Page 97

90 کہتے ہیں اور یہ پھلوں کے وٹامن سی ، کئی غذاؤں ، آٹے کے چھان بورے ( وٹامن ای ) اور ریڈوائن میں پایا جاتا ہے.یہ جزو جسم میں عمل تکسید کو روکتا ہے یعنی Anti Oxidant ہے جس سے جسم کے توڑ پھوڑ بڑھاپے اور جھریوں وغیرہ پڑنے کا عمل سست پڑ جاتا ہے.چائے میں یہ جز و پھلوں کے رس سے پندرہ گنا زیادہ ہوتا ہے اور یہ دل کی بیماریوں اور کینسر کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لحاظ سے مفید ہے گویا چائے کے اثرات اس لحاظ سے کافی الٹ ہیں.جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ جسم کی تعمیر بھی کرتی ہے اور اس مشین کو چلانے کے لئے ایندھن کا کام بھی کرتی ہے لیکن ہر ایندھن کی طرح اس کو بھی جلنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارا سانس مہیا کرتا ہے.یہ ایک کیمیائی عمل ہے جو Oxidation کہلاتا ہے.اور یہ جسم کے ایسے مالیکیولز جو Free Radicals کہلاتے ہیں جب آکسیجن کے ساتھ ملتے ہیں تو پیدا ہوتا ہے.یہ عمل لوہے کو زنگ لگنے کے مشابہ ہے اور جسم کو قلیل کر کے بڑھاپے کی طرف دھکیل رہا ہوتا ہے.جسم کی ضرورت سے زائد جتنی غذا زیادہ کھائی جائے گی FREE RADICALS تعداد میں اتنے ہی زیادہ ہوں گے اور پھر بجائے اس کے کہ بدن غذا کو کھائے ، غذا بدن کو کھانا شروع کر دیتی ہے.حدیث میں بھوک رکھ کر کھانے کا جوارشاد ملتا ہے اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے.اس عمل کو سست کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض Anit Oxidant ہماری غذاؤں میں رکھ دیتے ہیں ( مثلاً وٹامنز سی ای وغیرہ) بہر حال وہی غذا اور سانس جو ایک وقت میں جسم کی تعمیر کرتے ہیں وہی دوسرے وقت میں جسم کی تخریب کا سامان بھی اپنے اندر رکھتے ہیں.شاید اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے غالب نے کہا تھا: میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی خلاصہ کلام یہ کہ ” آپ چائے پیئیں گے یا کافی ؟‘ کی پیشکش کا مناسب جواب یہی لگتا ہے کہ چائے ہی کافی ہے.لہذ اوہی چلے گی.(الفضل انٹر نیشنل)

Page 98

91 اکیسویں صدی کا آغاز کب ہوگا ؟ یکم جنوری ۲۰۰۰ء کو یا یکم جنوری ۲۰۰۱ ء کو؟ یہاں ایک اخبار میں بحث چھڑی ہوئی ہے کہ موجودہ صدی یا ہزار سال کا اختتام ۳۱ دسمبر 1999ء کو ہوگا یا ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء کو؟ یعنی آئندہ صدی یا ہزار سالہ دور کا آغاز کس روز سے شمار ہونا چاہئے یکم جنوری ۲۰۰۰ء کو یا یکم جنوری ۲۰۰۱ء سے؟ یہ بھی کہا گیا کہ سن عیسوی کے آغاز میں چار سال کی غلطی ہے یعنی جس روز سے اس سن کا آغاز کیا گیا اس وقت عیسی چار سال کے ہو چکے تھے.لہذا اگر عیسی جسمانی طور پر آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں تو یکم جنوری 1996ء کو ان کی دوہزارویں برتھ ڈے ہونی چاہئے.ان کو تو اپنی عمر کا صحیح علم ہوگا.وہ سن عیسوی کو جاری کرنے والوں کی غلطی کے پابند نہیں ہیں.لیکن اگر اس چار سالہ غلطی کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر عیسی کی پیدائش پر دو ہزار سال کب پورے ہوتے ہیں.یکم جنوری ۲۰۰۰ء کو یا یکم جنوری ۲۰۰۱ء کو.آسٹریلیا کے نیشنل سٹینڈرڈ کمیشن نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ اکیسویں صدی یا تیسرے ہزار سالہ دور کا آغاز یکم جنوری ۲۰۰۱ء کو ہوگا.سن عیسوی کا آغاز چھٹی صدی عیسوی میں ایک رومی شخص نے کیا تھا جس کا نام Abbot Dionysius Exiguus تھا.اس نے قرار دیا تھا کہ جس سال عیسی پیدا ہوئے تھے وہ پہلا

Page 99

92 عیسوی سال شمار ہوگا اور اس سے پہلا سال ایک سال قبل مسیح کہلائے گا.گویا کوئی سال زیرو (Zero) شمار نہیں ہو گا.اس لحاظ سے پہلی صدی عیسوی ۳۱ دسمبر ۰۰اعہ میں ختم ہوئی تھی اور موجودہ صدی کا خاتمہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ہو گا اور یوں یکم جنوری ۲۰۰۱ء سے انگلی صدی یا ہزار سالہ دور کا آغاز ہوگا.( الفضل انٹر نیشنل 7.2.97)

Page 100

83 93 دعائے غائبانہ دوسروں کے لئے دعا کرانے کے دو دلچسپ اعلان اخبار میں نظر سے گزرے جن سے پتہ لگتا ہے کہ اس بارہ میں لوگوں میں کس طرح کے نظریات راہ پاچکے ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے.ایک اعلان تو سڈنی کی کسی یہودی تنظیم کی طرف سے تھا جو ایک رنگ میں دعائیہ ایجنسی کا کام سرانجام دے رہی ہے.انہوں نے لکھا تھا کہ ہم نے آپ کی طرف سے اسرائیل کی دیوار گریہ کے ساتھ چمٹ کر رو کر دعا کرنے والوں کا انتظام کیا ہے.معاوضہ بہت مناسب ہے.اگر آپ خواہش مند ہوں تو اپنا نام پتہ اور مطلوبہ مقصد جس کے لئے دعا در کا رہے سے مطلع کریں.دوسرا اعلان سڈنی کے ایک کیتھولک سکول کے ہیڈ ماسٹر پیٹر آئر لینڈ کی طرف سے ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ایسے طلباء و طالبات کے لئے جو میٹرک (HSC) کا امتحان دے رہے ہیں دعا کرنے والے اصحاب کا انتظام کیا ہے اور اس سکیم کو انہوں نے Prayer Sponsership Scheme کا نام دیا ہے.ایک سپانسر اپنے حصہ کے ایک طالبعلم کے لئے امتحان میں اعلیٰ کامیابی کے لئے دعا کرے گا جوطلباء دعاء سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ اپنے نام پتہ پر کس پر چہ کے لئے دعا درکار ہے اور پر چہ کے انعقاد کے وقت سے مطلع کریں تائین جب پر چہ شروع ہو تو اس وقت ان کی طرف سے دعا کی جائے.اعلان میں دعا کرنے والے (سپانسر) کے معاوضہ کا کوئی ذکر نہیں.اس اعلان پر اخبار کے کالم نویس نے مذاق کے رنگ میں بہت کچھ لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خود اپنے لئے کوئی

Page 101

94 دعا کرے تو چلو مان لیا کچھ فائدہ ہو گا لیکن کسی اور سے دعا کرائیں تو اس سے آپ کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.معاوضہ پر دوسروں سے دعا کروانے کا یہود کی طرح مسلمانوں میں بھی رواج ہے.اس کی ایک مثال کسی وفات یافتہ شخص کی روح کو ثواب پہنچانے کی غرض سے اجرت پر قرآن پڑھانا ہے.ایک دفعہ میرے ایک غیر از جماعت دوست کے والد فوت ہو گئے.سوم کی رسم پر قرآن خوانی کا انتظام کرنے کے لئے وہ لاہور کے کسی یتیم خانہ میں گئے.وہاں کے منتظم نے کہا کہ قرآن پڑھنے کے ہمارے دور یٹ ہیں ایک تین روپے فی سیپارہ اور دوسرا چھ روپے سیپارہ ( کوئی بیس سال پرانی بات ہے اب تو ریٹ بڑھ گئے ہونگے ) وہ کہتے ہیں میں نے منتظم صاحب سے پوچھا کہ دونوں ریٹوں میں کیا فرق ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ تین روپے والے ریٹ میں قرآن جلد جلد پڑھا جاتا ہے اور چھ روپے والے ریٹ میں احتیاط سے پڑھا جاتا ہے جس پر تقریباً دو گنا وقت لگتا ہے.پھر انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں جس طرح اچھی طرح قرآن پڑھنے کا ثواب آپ کے والد کو پہنچے گا ویسے ہی جلد جلد پڑھنے میں جو غلطیاں رہ جائیں گی ان کا گناہ بھی آپ کے والد صاحب کے سر ہوگا.اب فیصلہ آپ کا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ میں نے والد صاحب کی روح کو ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کرانی ہے لہذا چھ روپے والا ریٹ منظور ہے.دوسروں سے دعا کرانے کے سلسلہ میں دو قسم کے خیالات عوام میں پائے جاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو عادتاً دوسروں سے دعا کے لئے کہتے رہتے ہیں.نہ دعا کرانے والا سنجیدہ ہوتا ہے اور نہ کرنے والا اور نہ ان کے درمیان کوئی ایسا تعلق ہوتا ہے کہ دعا کرانے والے کا دکھ دعا کرنے والے کا دکھ بن جائے گویا وہ اپنے ہی دکھ کے دور ہونے کے لئے دعا کر رہا ہے.ایسے لوگ جب ملیں گے تو کہیں گے بس جی آپ کی دعا سے میر افلاں کام بن گیا ہے جب کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ نہ میں نے ان کو دعا کے لئے کہا اور نہ انہوں نے کی ، صرف بطور تکلف اور احترام کے ایسا کہہ دیتے ہیں.اس گروہ کے مقابلہ میں دوسرے وہ ہیں جو مادہ پرست معاشرہ کے زیر اثر دعا کی اہمیت سے ہی لاعلم ہوتے ہیں.ایسے لوگ دوسروں کو دعا کے لئے کہنا غیر ضروری تکلف سمجھتے ہیں.بیمار ہوں تو کسی کو بتا ئیں گے نہیں کہ کسی نے دعا تو کرنی نہیں خواہ مخواہ پریشان کرنے کا کیا فائدہ ہے.دعائیہ اعلانات کو محض ذاتی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں.قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں.

Page 102

95 قرآن کریم خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے دعا کرنے اور کرانے کے تعلق میں فرماتا ہے:.(اے رسول ) تو ان سے کہہ دے کہ اگر تمہاری طرف سے دعا نہ 66 ہو تو میرا رب تمہاری پر واہ ہی کیا کرتا ہے...(الفرقان: ۷۸) نیز بتاؤ تو ) کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے جب وہ اس (خدا) 66 سے دعا کرتا ہے اور (اس کی) تکلیف دور کر دیتا ہے.(النمل:۶۳) ”اور تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا...66 (المومن: ۶۱) ”اور (اے رسول) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو ( تو جواب دے کہ ) میں (ان کے ) پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سو چاہئے کہ وہ ( دعا کرنے والے ) بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تو وہ ہدایت پائیں (البقرة: ۱۸۷) اور جولوگ ان کے زمانہ کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مومنوں کا کینہ نہ پیدا ہونے دے.اے ہمارے رب تو (الحشر: 1) بہت مہربان اور بے انتہا کرم کرنے والا ہے“ ”اے میرے رب مجھے اور میری اولاد ( میں سے ہر ایک ) کو عمدگی سے نماز ادا کرنے والا بنا (اے ) ہمارے رب ( ہم پر فضل کر ) اور میری دعا قبول فرما.اے ہمارے رب جس دن حساب ہونے لگے اس دن مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنوں کو بخش دیجو (ابراهیم :۴۲-۴۱) صحیح مسلم میں ہے کہ ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کے لئے غائبانہ طور پر دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ کہتا ہے کہ خدا کرے تیرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو.نیز آپ نے فرمایا کہ دعا عبادت کا مغز ہے.

Page 103

96 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ان باتوں کے بیان کرنے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دعا کرنے والے اور کرانے والے میں ایک تعلق نہ ہو متاثر نہیں ہوتی.غرض جب تک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہواور دعا کرنے والے کا قلق دعا کرانے والے کا قلق نہ ہو جائے کچھ اثر نہیں کرتی.بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے اور دعا کا کوئی بین فائدہ محسوس نہ کر کے خدائے تعالیٰ پر بدظن ہو جاتے ہیں اور اپنی حالت کو قابل رحم بنا لیتے ہیں بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دعا کرو یا دعا کراؤ پاکیزگی اور طہارت پیدا کرو.استقامت چاہو اور تو بہ کے ساتھ گر جاؤ.کیونکہ یہی استقامت ہے اس وقت دعا میں قبولیت نماز میں لذت پیدا ہوگی.ذالک فـضـل الـلـه يوتيه من ( ملفوظات جلد ۹ صفحه ۲۴) ( الفضل انٹر نیشنل 10.1.97 ) يشاء“.

Page 104

97 بچیوں پر ظلم آج بھی جاری ہے ایام جاہلیت میں لوگ بچیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے یہ دلدوز ظلم آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے.اس سلسلہ میں جو اعدادوشمار انڈیا، چین ، تائیوان سے اکٹھے کئے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں آج بھی بے شمار لوگ ہیں جو بچیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور دوران حمل ٹیسٹ کے ذریعہ اگر پتہ لگ جائے کہ بچی آرہی ہے تو حمل کو ضائع کروادیتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں صرف بیٹے ہی پیدا ہوں.جہاں مغربی ملکوں میں بچے اور بچیوں کی تعداد تقریباً برابر ہوتی ہے وہاں مذکورہ بالا ممالک میں ۱۰۶ تا ۱۴ الڑکوں کے مقابلہ میں ۰۰ الڑکیاں ہیں.چونکہ ان ملکوں کی آبادی کروڑوں میں ہے وہاں پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد جو بچیاں ماردی جاتی ہیں ان کی تعداد لاکھوں میں جا پہنچتی ہے.عورتوں کے ساتھ تعصب کا یہ حال ہے کہ انڈیا میں کثرت سے ایسے خاندان ہیں جو غذا کی کمی کا شکار ہیں ان میں جب تک مرد اورلڑ کے پیٹ بھر کر کھانا نہ کھالیں عورتوں اور بچیوں کو کھانے کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی.صرف انڈیا میں ۱۹۸۱ء تا ۱۹۹۱ء کے دوران ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ بچیاں پیدائش سے پہلے ہی ختم کر دی گئیں.اسی عرصہ میں مزید چالیس لاکھ بچیاں اپنی عمر کے پہلے چار تا چھ سال کے عرصہ میں غائب“ کر دی گئیں یعنی ہر ہزار میں سے ۳۶ لڑکیاں آبادی سے غائب ہو گئیں.خیال تھا کہ چونکہ کافی بچیاں اب پیدائش سے پہلے ہی غائب کر دی جاتی ہیں لہذا پیدائش کے بعد کی اموات میں کمی واقع ہو جائے گی

Page 105

98 لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایسی گم کردہ بچیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہے.امریکہ کے اعداد وشمار کے ادارہ نے کہا ہے کہ چین میں ۱۹۸۰ء تا ۱۹۹۰ء کے دوران پندرہ لاکھ بچیوں کو پیدائش سے پہلے ہی ہلاک کر دیا گیا.یہی حال تائیوان کا ہے جہاں بچیوں کی جنس کا پتہ لگا کر پیدائش سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا ہے.جن عورتوں کے ہاں شروع میں بیٹے ہو جاتے ہیں وہ پھر بچیوں کی پیدائش کے خوف سے مانع حمل ادویہ استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں.سروے میں کہا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ گھرانوں میں جہاں بچیاں پڑھ لکھ کر ملازمت وغیرہ کے ذریعہ سے اپنا بوجھ خود اٹھاسکتی ہیں یا اپنے جہیز کے لئے بھی ، ماں باپ کا ہاتھ بٹاسکتی ہیں وہاں بچیوں کے خلاف تعصب کم ہے اگر چہ دل کی گہرائیوں سے وہ بھی بیٹے ہی چاہتے ہیں.مذکورہ بالا حالات حقیقتاً بہت درد ناک ہیں.کاش ان قوموں کے رہنما ان وجوہات کو تلاش کریں جن کی وجہ سے ماں باپ بچیوں کو اس قدر نا قابل برداشت بوجھ سمجھتے ہیں اور ان اسباب کو دور کر کے ان مظلوم بچیوں کی سیسیں لیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں حتی کہ ان کے ماں باپ بھی نہیں.سب سے بڑی لعنت تو جہیز کی ہے اگر اسی کا علاج کر لیں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے.(الفضل انٹر نیشنل 17.1.97)

Page 106

99 کان جو صرف کام کی بات سنتے ہیں، غیر پسندیدہ شور نہیں سنتے آپ کا گھر سٹرک کے کنارے واقع ہے اور ٹریفک کے مسلسل شور سے تنگ آچکے ہیں.دفتر جائیں تو وہاں ائر کنڈیشنر اور دفتری مشینوں کا مسلسل شور آپ کو سننا پڑے گا.ہوائی جہاز میں بیٹھیں تو اس کے شور سے کان بند ہو جاتے ہیں.اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ کانوں میں روئی ٹھونس لیں شور کا کچھ نہ کچھ مداوا ہو جائے گا.لیکن ساتھ ہی جو کام کاج کی باتیں آپ سننا چاہتے ہیں ان سے بھی محروم ہو جائیں گے.اب سائنس نے اس مسئلہ کا حل بھی سوچ لیا ہے اور ایسا آلہ ایجاد کر لیا ہے کہ جو آپ کے اردگرد کے مسلسل شور (Low Frequency Noise) کو تو ختم کر دے گالیکن بات چیت کی آواز بالکل صاف سنائی دے گی.اس کے لئے جو آلہ ایجاد کیا گیا ہے اس کا نام 2000 Quiet Zone رکھا گیا ہے.اس کی قیمت پانچ سو ڈالر کے قریب ہے اور بنانے والی کمپنی امریکہ کی Koss Corporation ہے.کمپنی کے ڈائریکٹر مائیکل کاس کا کہنا ہے کہ ہمارے آلے کے اولین گا ہک ہوائی جہازوں کے بین الاقوامی کمپنیاں ہونگی.نیز یہ آلہ ایسے افراد کے لئے بھی کارآمد ثابت ہوگا جن کی قوت سماعت کمزور ہے اور اردگرد کے شور کی وجہ سے بات چیت نہیں سن سکتے.اس آلہ میں ایسے الیکٹرونک آلات نصب ہیں جو مسلسل آنے والے شور کو دوحصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کی لہروں کو الٹادے گا.چونکہ آواز اہروں میں سفر کرتی ہے دونوں حصوں کی

Page 107

100 لہریں ایک دوسرے کے مخالف ہونے کی وجہ سے منسوخ (Cancell) ہو جاتی ہیں.لہر کا ایک حصہ جب مثبت ہوتا ہے تو دوسرا منفی ہو جاتا ہے.اس طرح غیر پسندیدہ لہروں میں اختلاف پیدا کر کے، ان کو گھتم گتھا کر کے ان کی طاقت کو صفر کر دیا جاتا ہے لیکن دوسری آوازیں جن کی فریکوئنسی (Frequency) وغیرہ بات چیت کے دوران کم و بیش ہوتی رہتی ہے وہ صاف صاف سنی جاتی ہیں یوں یہ آلہ آپ کو اس قابل بنا دے گا کہ آپ کام کی بات چیت تو سن سکیں لیکن غیر پسندیدہ شور کے سننے سے بچ جائیں.کیا خوب ہو کہ کل کلاں کوئی ایسا آلہ بھی ایجاد ہو جائے کہ جس کے لگانے سے ہمارے کان نیکی اور تقویٰ کی باتوں کو تو صاف سن سکیں لیکن جب خلاف تقویٰ باتوں ، غیبت، جھوٹ اور فساد وغیرہ کا غیر پسندیدہ شور ہو تو وہ کانوں میں داخل ہی نہ ہو سکے.بس آلہ کانوں کو لگایا اور گناہوں سے بیچ گئے.لیکن درحقیقت اس کے لئے کسی خاص آلہ کی ایجاد کی ضرورت نہیں.انسان اگر چاہے تو وہ اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنا سکتا ہے کہ وہ اچھی باتیں تو سے مگر بری باتوں سے بہرہ ہو جائے.اس کے لئے صرف قوت ارادی کی ضرورت ہے.جیسا کہ ایک عربی شاعر کہتا ہے: أَهُمُّ عَنِ الشَّيْيَ الَّذِي لَا أُرِيدُهَ وَاسْمَعُ خَلْقَ اللَّهِ حِيْنَ يُرِيدُ کہ جس بات کو میں پسند نہیں کرتا اس سے میں بہرہ ہو جاتا ہوں اور جب میں چاہتا ہوں تو میں اللہ کی مخلوق کی باتیں پوری توجہ سے سنتا ہوں.(الفضل انٹرنیشنل)

Page 108

101 آسٹریلیا میں بچے جلد ہی کمپیوٹر کے ذریعہ پڑھنا شروع کر دیں گے آسٹریلیا کو خطرہ ہے کہ عنقریب امریکہ کی طرف سے اس پر CD.Roms کے ذریعہ سے ایک سخت حملہ کیا جائے گا.بچے کمپیوٹر پر اس ذریعہ سے تاریخ خصوصاً جنگ عظیم دوم.آرٹ کلچر، کہانیاں وغیرہ تصویری زبان میں دیکھیں گے جس کے ساتھ آواز بھی شامل ہوگی اور امریکہ جس طرح اس کے قومی مفاد میں ہوگا یا جس طرح پیسے کمانے والے چاہیں گے اس طرح کی CDS تیار کر کے یہاں کے بچوں کے ذہنوں پر یلغار کرے گا.اگر چہ اس حملہ کو پورا تو نہیں روکا جاسکتا لیکن ایک حد تک کوشش ضرور کی جاسکتی ہے.چنانچہ مواصلات اور آرٹ کے وزیر نے ۶۶۸ ملین ڈالر اس حملہ کی پیش بندی کے لئے خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے اس غرض کے لئے حکومت پانچ اداروں کو مدد دے رہی ہے تا کہ وہ بچوں کے لئے متبادل CDS تیار کریں.پہلی سٹیج میں پانچ موضوعات پر یہ مواد تیار ہورہا ہے.اس میں آسٹریلیا کے کلچر ، تاریخ، جغرافیہ، کہانیاں (بالخصوص جانوروں کی ) سکول کا کورس تھیڑ ، مقامی باشندوں کے کلچر اور جنگ عظیم دوم کے حالات پر مبنی CDS شامل ہیں.بچوں کو متبادل دلچسپ مواد مہیا کر کے بچوں کے ذہنوں کو امریکی بننے سے بچا کر آسٹریلوی بنانا مقصود ہے.(الفضل انٹرنیشنل)

Page 109

102 انسانی اعضاء کی خود اپنے خلاف گواہی سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ اب مجرم کے جسم کا ذرہ ذرہ اس کا خون ، پسینہ، آنسو، لعاب دہن اور ایک ایک بال خود اپنے خلاف گواہی دینے لگا ہے.دنیا کے بہت سے ممالک میں مجرم کی شناخت کے لئے اس کےD.N.A کے تجزیہ کو تسلیم کیا جانے لگا ہے.برطانیہ میں حال ہی میں پولیس کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ملزم کا بال یا لعاب زبر دستی حاصل کر سکتے ہیں.بال کی جڑ D.N.A کا مفید ترین گڑھ ہوتی ہے.البتہ خون حاصل کرنے کے لئے اگر ملزم انکاری ہو تو مجسٹریٹ سے اجازت نامہ حاصل کیا جاسکتا ہے.حکومت کو امید ہے کہ ان نئے قوانین کو بروئے کارلاکر صدی کے خاتمہ تکD.N.A کی پچاس لاکھ تجزیاتی رپورٹوں کو اپنی کمپیوٹروں کی لائبریری میں جمع کرسکیں گے جس سے مجرموں کو ۹۹ فیصد سے زائد درستگی کے ساتھ شناخت کیا جاسکے گا.اس سے جرائم کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید مدد ملے گی.اگر صحیح طریق کار اختیار کیا جائے توD.N.A کے تجزیہ کے نتائج حیران کن حد تک درست ثابت ہوتے ہیں.تین کروڑ انسانوں میں سے شاید دو افراد ایسے نکل آئیں جن کی D.N.A کی تصویر ایک جیسی ہو.پولیس کو یقین ہے کہ اس ذریعہ سے مجرموں کو پکڑنے میں بہت آسانی ہو جائے گی.برطانیہ اور ویلز میں پر تشدد جرائم کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے گزشتہ سال ایسے جرائم میں ۵۶۹ فیصد اضافہ ہوا جب کہ قتل کی وارداتوں میں ۸۶۵ فیصد اضافہ ہوا.مشکوک کردار کے حامل افراد کا D.N.A ریکارڈ کمپیوٹر پر ہوگا.موقع واردات پر پائی جانے والے جسم کے لعاب، بال وغیرہ کے معائنہ سے فوراً مجرم کا پتہ چل

Page 110

103 جائے گا.اور گویا قاتل کا خون اس کے خلاف گواہی دے گا.جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا یہ D.N.A کیا چیز ہے اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ جسم انسانی میں تقریباً دس ہزار ارب ( دس ٹریلین ) خلیات (Cells) ہوتے ہیں.جینی مواد (Genetic Material) ڈی این اے میں ہوتا ہے جو ہر سیل کے مرکز میں ہوتا ہے.D.N.A مخفف ہے Deoxyribonucleic Acid کا.ہر ڈی این اے کے اندر ۲۳ کروموسوم (Chromosomes) کے جوڑے ہوتے ہیں.یعنی کل ۴۶ کروموسوم ہوتے ہیں.یہ سیڑھی کے دو بازوؤں کی طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر لیٹے ہوئے ہوتے ہیں.ان باہر کے بازوؤں کو باہم پیوست رکھنے کے لئے سیڑھی کی طرح کے ڈنڈے (Rungs) ہوتے ہیں.ان کو Bases کہتے ہیں اور یہ چار مختلف اشیاء سے بنے ہوئے ہیں.(Adenine, Thymine, Cystosine, Guanine,A,T,C,G) لیکن ایک ڈنڈے یعنی Base میں ان میں سے دو استعمال ہوتے ہیں جیسے اے ٹی یاسی جی یا اے جی وغیرہ.یہ Base Pairs شوگر اور فاسفیٹ Suger and Phosphate سے مرکب ہوتے ہیں اور انسانی جسم میں ان کی تعداد تین ارب ہوتی ہے.ان کو آپ حیاتیاتی حروف ابجد کہہ سکتے ہیں.(Biological Alphabets) جب یہ تین حروف اکٹھے ہوں تو ایک حیاتیاتی لفظ وجود میں آتا ہے.Biological Word.ان کو Amino Acid بھی کہا جاتا ہے.ان الفاظ یعنی امینو ایسڈ سے مل کر حیاتیاتی فقر : Biological Sentence وجود میں آتا ہے.اس کو جین (Gene) کہتے ہیں انسان میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک (Gene) ہوتے ہیں.یہ جینز ہم میں سے ہرایک کو وہ بناتی ہے جو ہم ہیں یعنی ہمارا قد ، رنگ نسل، ذہانت،خوبیاں ، خامیاں ، بیماریاں اور کردار وغیرہ.اگر انسان کو ایک کمپیوٹر سے تشبیہ دی جائے تو یہ جینز اس پروگرام کی طرح ہیں جس کے مطابق کمپیوٹر کام کرتا ہے.اس موضوع پر اتنی تحقیق ہورہی ہے کہ ایک لامحدود خزانے کی طرح ہے.یہ اسرار کا اتنا بڑا دفتر ہے کہ ساری دنیا کے سائنس دان بھی مل کر اس کو پڑھنے سے قاصر ہیں.ہر اٹھارہ ماہ کے بعد اس موضوع پر علم کا خزانہ دگنا ہو جاتا ہے.ان رازوں کو منکشف کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے

Page 111

104 دنیا بھر کے سائنس دانوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے خاص طور پر ایسی دوائیں بنانے کے لئے جن کا تعلق کسی رنگ میں وراثتی بیماری سے ہو.ڈی این اے کے نشانات DNA Fingerprints جو برطانیہ کی پولیس اب جمع کر رہی ہے.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جسم کے لعابات (خون ، پسینہ آنسو، لعاب دہن، منی وغیرہ) کے معمولی نشانات کو پہلے ہزاروں لاکھوں گنا بڑھایا جاتا ہے.اس عمل کو Polymerase Chain Reaction کہا جاتا ہے.یہ لاکھوں گنا بڑھائے ہوئے.DNA کے ساتھ ایک Radioactive Tag ملا دیا جاتا ہے.اس سے DNA کی ترتیب قائم ہو جاتی ہے.پھر اس میں سے بجلی گزار کے چھوٹے بڑے ٹکڑے الگ الگ کئے جاتے ہیں.پھرا ایکس رہے کے ذریعہ سے ان کا معائنہ کیا جاتا ہے.بہر حال یہ طریقہ اب امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں بھی مجرموں کی شناخت کے لئے استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے.اور اس طرح خود انسان اپنے خلاف نا قابل تر دید گواہی دیتا ہے.قرآن کریم میں خود اپنے خلاف گواہی دینے کا ذکر موجود ہے.خدا فرماتا ہے: اور جس دن اللہ کے دشمن (یعنی کافر) زندہ کر کے آگ کی طرف لے جائے جائیں گے پھر ان کو مختلف درجوں میں تقسیم کر دیا جائے گا.یہاں تک کہ جب وہ دوزخ کے پاس پہنچ جائیں گے ان کے کان اور آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے عمل کی وجہ سے ان کے خلاف گواہی دیں گے.اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ اور ان کے چمڑے جواب میں کہیں گے ہم سے اسی خدا نے کلام کروایا ہے جس نے ہر چیز سے کلام کروایا ہے اور اس نے تم کو پہلی دفعہ بھی پیدا کیا تھا اور پھر بھی تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے.“ 66 ( حم السجدہ : ۲۰-۲۲) (الفضل انٹرنیشنل)

Page 112

105 روزانہ چار لیٹر سادہ پانی پینا کئی بیماریوں کے لئے مفید ہے حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں طبی نقطہ نگاہ سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ کثرت سے صاف ، سادہ پانی پینا انسانی صحت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے اور اس کے ذریعہ سے بعض بیماریوں کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے.کتاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے.انسان کے جسم میں تین چوتھائی پانی ہوتا ہے پانی کی کمی سے جسم کو نقصان پہنچتا ہے اور اگر یہ کمی برقرار رہے تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے.انسانی صحت کا راز جسم میں پانی اور نمکیات و کیمیات کے توازن کے درست رہنے میں ہے.ایک اوسط بالغ آدمی روزانہ تقریباً چھ پائنٹ (۳۶۴ لیٹر ) پانی جسم سے خارج کرتا ہے.نصف لیٹر پسینہ، ایک لیٹر سانس اور کوئی دو لیٹر پیشاب کے ذریعہ خارج ہوتا ہے گویا جسم کی مشین کو چلتے رہنے کے لئے مسلسل پانی درکار ہوتا ہے.یہ جاننے کے لئے کسی لمبے چوڑے حساب کی ضرورت نہیں کہ جتنا پانی روزانہ جسم سے خارج ہوتا ہے اتنا داخل کرنا بہر حال ضروری ہے اور اگر یہ کی پوری نہ کی جائے تو جسم کی مشین میں کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ضرور پیدا ہوگی جس سے بیماری پیدا ہوگی.کتاب کے مصنف نے جو ریسرچ کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کم پانی پیتے رہنے سے کئی تشویشناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جن میں دمہ، ہائی بلڈ پریشر ، معدہ کا السر

Page 113

106 (Ulser) انجائنا، سردرد ، کمر درد ، جوڑوں کا درد، قولنج (Colitis) کھچاؤ تناؤ (Stress)، ذیابیطس اور موٹا پا وغیرہ شامل ہیں.نیز الرجی کی تکلیف کئی شکلیں اختیار کر سکتی ہیں.جسم کے پیاسے خلیات (Cells) پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کئی قسم کے رد عمل ظاہر کرتے ہیں.جو بعض دفعہ اتنے شدید ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں بیماریاں بن جاتی ہیں.انہی کو الرجک ری ایکشن بھی کہا جاتا ہے.کتاب کے مصنف ڈاکٹر فریدون ایرانی نژاد امریکی ہیں.جب ایران میں ثمینی انقلاب آیا تو ان کو سزائے موت سنائی گئی.وہ ایران کی ایک جیل میں اڑ ہائی سال قیدر ہے جہاں تین ہزار اور قیدی بھی تھے.جیل میں علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں چنانچہ ڈاکٹر صاحب کو مجبوراً قیدیوں کا علاج پانی اور نمک وغیرہ سے کرنا پڑتا تھا.وہ حیران ہوئے کہ پانی بطور دوا کے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے.چنانچہ قیدیوں پر اس تھیوری کو آزمانے کے لئے تجربہ کرتے رہے اور بڑی احتیاط سے انہیں ریکارڈ کرتے رہے.انہوں نے دو ہزار سال پرانے ایرانی حکماء کے تجربوں کی تصدیق کی جو در داور صدمہ کی حالت میں مریض کو پانی پلایا کرتے تھے اور اس کی زبان پر نمک رکھا کرتے تھے.چنانچہ اسی بناء پر ان کی جان بخشی کر دی گئی.ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک قیدی سخت پیٹ درد کی حالت میں آیا.انہوں نے اسے دو گلاس پانی پلایا اور آٹھ منٹ کے بعد درد دور ہوگئی.وہ کہتے ہیں جسم میں بعض کیمیکلز ہوتے ہیں جو جسم کے افعال کو درست حالت میں رکھتے ہیں وہ تب ہی کام کر سکتے ہیں جب وہ پانی میں حل ہوں.ایک ایسا کیمیکل (Histamine) بھی ہے جو دماغ سے پیغام لاتا ہے اور جسم میں پانی کی تقسیم اور استعمال کو صحیح رکھتا ہے.نیز جسم کے دفاعی نظام کو کنٹرول کرتا ہے لیکن خود ہسٹا میں کا کام بھی تبھی درست رہتا ہے جب جسم میں مناسب مقدار میں پانی موجود ہو.جب جسم میں پانی کی کمی ہو جائے تو اس کی مقدار پانی کے تناسب سے بڑھ جاتی ہے اور اس کا عمل نارمل حالت سے زیادہ تیز ہو جاتا ہے.اور اس کے ردعمل کے طور پر جسم کے ہوا کے راستے بند ہونے لگتے ہیں اور سانس لینے میں دقت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ دمہ کے مریضوں کے پھیپھڑوں (Lungs) میں Histamine نارمل مقدار سے زیادہ پائی جاتی ہے.اگر ایسی حالت میں جسم میں پانی کم ہوگا تو پھیپھڑے بلغم

Page 114

107 (Mucus) پیدا کرتے ہیں جس کو پتلا کرنے کے لئے نمک درکار ہوتا ہے.چنانچہ دمہ کے مریضوں کو تکلیف کے وقت نمک کا استعمال بڑھا دینا چاہئے بلکہ جب دیکھیں کہ دمہ والی کیفیت ہو رہی ہے تو نمک زبان میں رکھ لیں جس سے دماغ یہ سمجھے گا کہ جسم میں نمک پہنچ گیا ہے اور وہ بلغم کو پتلا کرنے کی ہدایات جاری کر دے گا جس کے نتیجہ میں جسم کے ہوا کے سکڑے ہوئے رستے کھل جائیں گے اور دمہ کا مریض بہتر محسوس کرنے لگے گا.ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اگر کوئی دمہ کا مریض ان کی ہدایات کے مطابق پانی پئے گا تو وہ دو ہفتوں میں ٹھیک ہو جائے گا.زیادہ پانی پینا معدے کی تیزابیت اور قبض کے لئے بھی مفید ہے پانی صاف ہونا چاہئیے اور ابلا ہوا ہو تو بہتر ہے.سمندری نمک عام نمک سے بہتر ہے جسم میں پانی کی کمی (Dehydration) دور کرنے کے لئے نمکین پانی ہی استعمال کرتے ہیں.ہسپتالوں میں بھی نمکین پانی کا ڈرپ لگاتے ہیں.اس سلسلہ میں احتیاط کی بھی ضرورت ہے.پانی اور نمک کا استعمال بڑھانے سے پہلے ہائی بلڈ پریشر ، دمہ، ذیابطیس اور دل کے مریض جو کوئی دوا استعمال کر رہے ہوں اپنے معالج سے ضرور مشورہ کریں.نمک سے پریشر فورا بڑھ جاتا ہے.ڈاکٹر فریدون کہتے ہیں کہ چائے اور کو لاقسم کے جو مشروبات بازار میں ملتے ہیں وہ پانی کی اس چار لیٹر کی حد میں شامل نہیں جو بالغ آدمی کو روزانہ پینا چاہئے.بلکہ یہ مشروبات تو اصل مقصد کے خلاف کام کرتے ہیں.ان میں کیفین (Caffeine) شامل ہوتی ہے جو پیشاب آور ہونے کی وجہ سے جسم سے پانی کو خارج کرتی ہے.اس لئے کافی کے ہر کپ کے بعد اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے اتنا ہی سادہ پانی پینا چاہئے.یہی صورت پھلوں کے جوس کی ہے.سنگتروں کا جوس پینے سے جسم میں اتنی پوٹاشیم داخل ہو جائے گی جو جسم کے اندرونی توازن کو بگاڑ سکتی ہے لہذا صاف سادہ پانی ہی استعمال کرنا چاہئے.(ماخوذ از : Your Body's many cries for water by Dr" Fereydoon Ghelidj, Boo Books) ہوا کے بعد پانی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اللہ کی بڑی نعمت ہے.پیاس مٹانے کے لئے سادہ پانی سے بہتر کوئی مشروب نہیں.پانی تھوڑا پینے سے زہریلے مادے جسم میں جمع ہو جاتے ہیں جو بیماریوں کا موجب بنتے ہیں.آج کل بازاری مشروبات نے ہر طبقہ کے لوگوں کو

Page 115

108 مشکل سے دو چار کر رکھا ہے.بہت ہیں جو پانی کی بجائے مختلف کو لے ہی پیتے ہیں اور اس طرح نہ صرف پانی کے فوائد سے محروم رہتے ہیں بلکہ الٹا اپنے جسم میں غیر ضروری اور نقصان دہ کیمیکلز جمع کرتے ہیں.کچھ لوگ ہیں جو بطور تکلف کے انہیں مہمانوں کو پیش کرتے ہیں اور عدم استطاعت کے باوجود اپنی مہمان نوازی کے تقاضہ کو پورا کرتے ہیں پر کیا ہی اچھا ہو کہ مہمان بھی خود اپنے میزبان کے بھلے کے لئے سادہ پانی پینے پر اصرار کریں اور میز بانوں کو تکلف نہ کرنے دیں.ذوق نے کیا خوب کہا تھا کہ اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے کئی لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں آرام رہے نہ رہے پر تکلف پر حرف نہ آنے پائے.وہ کہتے ہیں استاد ذوق اس زمانے میں ہوتے تو شاید یوں کہتے: اے ذوق تکلف میں ہے تہذیب سراسر دہقانی ہیں وہ سب جو تکلف نہیں کرتے (الفضل انٹر نیشنل 23.1.98)

Page 116

109 بلی نے اپنے مالک کو قتل کے الزام میں پکڑ وادیا عدالتوں میں ثبوت جرم کے لئے انسانوں کے ڈی این اے (DNA) تو اب تک استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن کینیڈا کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایک ملزم کو کسی حیوان کے ڈی این اے کی گواہی پر سزا ملی ہے.رسالہ نیچے واقعہ کو بیان کر کے لکھتا ہے کہ یہ ایک ایسی عدالتی نظیر ہے جس سے جرم کی تفتیش کا ایک نیا باب کھل گیا ہے.واقعات کے مطابق اکتوبر ۱۹۹۴ ء میں ایک بتیس سالہ عورت جو کینیڈا کے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کی رہنے والی تھی اچانک گھر سے غائب ہوگئی.پولیس نے چند روز کے بعد اس کی خون آلود کا رکو برآمد کر لیا جو وقوع قتل کے بعد کہیں چھوڑ دی گئی تھی.مزید تین ہفتوں کے بعدا یک مردانہ جیکٹ بھی کہیں پڑی ہوئی مل گئی جس پر مقتولہ کے خون کے چھینٹے اور کسی بلی کے ستائیس بال گرے ہوئے تھے.یہ بال قاتل کی اپنی بلی کے تھے اور انہی نے اپنے مالک کے خلاف گواہ بن کر اسے پکڑوا دیا.پولیس نے پہلے تو جیکٹ پر گرے ہوئے بالوں کا تجزیہ کر کے ان کا ڈی این اے حاصل کیا اور پھر مشتبہ فرد کی بلی کے ڈی این اے سے مقابلہ کیا تو وہ دونوں ایک نکلے.پھر مزید تسلی کے لئے کینیڈا اور امریکہ کی اٹھائیس بلیوں کے ڈی این اے حاصل کر کے ان سے مقابلہ کیا لیکن وہ سب مختلف نکلے.چنانچہ بلی کا مالک گرفتار کر لیا اور جیوری کے سامنے بلی کی گواہی پیش کی گئی جو تسلیم کر لی گئی اور قاتل کو سزائے موت دی گئی.قاتل مقتولہ کا ڈی فیکٹو ( بالفعل ) خاوند تھا.اور دونوں کے تعلقات

Page 117

110 کچھ عرصہ سے کشیدہ تھے.قاتل بھی آہ بھر کر کہتا ہوگا میری بلی اور مجھ ہی کو میاؤں.انسان کا عمل بھی طائر یا پرندے کی طرح ہے جو خود تو اڑ جاتا ہے لیکن پیچھے اپنے آثار اور نشان چھوڑ جاتا ہے.اور اس طرح انسان کے اچھے برے اعمال کے لا تعداد نشانات اس کے اپنے وجود کے اندر اور اردگرد گواہیوں کے طور پر جمع ہوتے رہتے ہیں.ان کا اکثر حصہ تو زندگی میں مخفی ہی رہتا ہے لیکن اس روز وہ سب ظاہر ہو جائیں گے جس کے بارہ میں خدا نے فرمایا يَوْمَ تُبلی السر آئر (الطارق: ۱۰) یعنی جس دن پوشیدہ بھید ظاہر کر دیئے جائیں گے سوائے اس کے جس پر اللہ رحم فرما دے.اِلَّا مَنْ رَحِمَ الله (الدخان : ۴۳) ( الفضل انٹر نیشنل 23.1.98)

Page 118

111 ہنسی بہترین دوا ہے رسالہ ”ہیلتھ ایڈ منسٹریٹر سڈنی کے مطابق مورویا ہسپتال (Motuya Hospital) میں ( جو نیو ساؤتھ ویلز کے جنوبی ساحل پر واقع ہے ) مریضوں اور ہسپتال کے عملہ کے لئے ایک ہنسنے ہنسانے والا کمرہ (Laughter Room) تعمیر کیا گیا ہے.جس کی بنیا د غالبا اس مقولہ پر ہے کہ ہنسی بہترین دوا ہے (Laughter is the Best Medicine) اس کمرہ میں نت نئے دلچسپ کارٹون آویزاں کئے جاتے ہیں.نیز مزاحیہ آڈیو ویڈیو کیسٹس اور لطائف وغیرہ پر مبنی کتا بیں رکھی گئی ہیں.تا کہ انسان جب ان کو دیکھے سنے یا پڑھے تو ان سے محظوظ ہو.ہسپتال والوں کا خیال ہے کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے مریض خیالات بیماری وغیرہ سے ہٹا سکیں تو اس کے جلد صحت یاب ہونے کا امکان ہوتا ہے.سیانے کہتے ہیں کہ انسان کے خیالات اور سوچ کا اس کی بیماری اور صحت سے گہرا تعلق ہوتا ہے.مریض کی عیادت میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مریض سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں اکیلا اور بے کار نہیں ہوں بلکہ کچھ لوگ میرے لئے فکر مند ہیں اور مجھ سے پیار رکھتے ہیں اور دعائیں کرنے والے بھی ہیں.اس طرح اس کا حوصلہ بڑھتا ہے اور ادھر ادھر کی دلچسپ باتوں سے کچھ عرصہ کے لئے طبیعت بہل جاتی ہے اور خواہ وقتی طور پر ہی سہی مریض مایوسی و یاس سے چھٹکارا پاتا ہے.اسی لئے کہا گیا ہے کہ مریض سے حوصلہ دلانے والی باتیں کرنی چاہئیں نہ کہ اس کو مزید مایوس کرنے والی.آنحضرت ﷺ جب کسی کی بیمار

Page 119

112 پرسی کرتے تو یوں فرماتے کوئی فکر کی بات نہیں.خدا چاہے تو تو اچھا ہو جاوے گا.(بخاری) نیز آپ بیمار پرسی کی تلقین فرمایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت ابوموسی سے روایت ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا کہ ”لوگو! بیماروں کی بیمار پرسی کرو.اور بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، قیدیوں کو چھڑایا کرو ( بخاری.بحوالہ پیارے رسول کی پیاری باتیں.مصنفہ حضرت علامہ میر محمد اسحاق شائع کردہ انجمن ترقی اسلام سکندر آباد دکن، انڈیا) (الفضل انٹر نیشنل 6.6.97)

Page 120

113 آسٹریلیا کے قدیم باشندوں نے کیا دیا اور کیا لیا ؟ آسٹریلیا میں کم از کم چالیس ہزار سال سے مقامی باشندے آباد تھے.اپنے اپنے قبیلہ کے رسم ورواج کے پابند تھے.جنگلوں میں جو کچھ ملتا اسے کھا کر اپنی بھوک مٹاتے.بیاہ شادی اور موت کی رسومات بھی ان میں تھیں.باوجود آزاد رہنے کے اپنے سرداروں اور بڑوں احترام کرتے تھے.خوا ہیں جن کو ایک حدیث میں نبوت کا چالیسواں حصہ بتایا گیا ہے.ان کے لئے رہنمائی کا ذریعہ تھیں ان کو یقین تھا کہ اس کائنات میں ایک برتر ہستی ہے.جو ہر چیز سے پہلے موجود تھی.جس نے دنیا کو یدا کیا اور پھر آسمانوں پر چلی گئی اور وہ انہیں خوابوں میں آئندہ کی باتیں بتاتی ہے.وہ ہستی سب کے پیدا کرنے والی ہے اور کوئی چیز ازلی ابدی طور پر اس کے ساتھ نہیں ہے.یہ لوگ نہ شراب سے آشنا تھے نہ نشوں کے عادی تھے نہ کوئی ایسی جوئے کی لت انہیں تھی.ان لوگوں کے مذہبی حالات حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشہور کتاب ,Revelation, Rationality) (Knowledge and Truth کے صفحات ۲۱۷ تا ۲۳۴ میں درج کئے ہیں جو دوسروں کی تحقیق پیدا اور اپنے ذاتی مشاہدہ پر بنی ہیں اور بہت دلچسپ ہیں.یور بین اقوام نے ان سے ان کا ملک چھینا.جہاں تک ہوسکا ان کو ختم کیا اور ملک کو اپنے انداز اور مفاد کے مطابق آباد کیا.کالوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا جو نتیجہ نکلا ہے اس کی ایک جھلک اس رپورٹ میں دیکھی جاسکتی ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے.لکھا ہے کہ ۲۰۰ء کے

Page 121

114 دوران یعنی صرف ایک سال کے عرصہ میں نیو ساؤتھ ویلز آسٹریلیا میں کالوں کی کل آبادی کا پانچواں حصہ عدالتوں میں پیش کیا گیا.اس تعداد میں ۲۰ تا ۲۴ سال کے کالے نوجوانوں کی کل آبادی کا چالیس فیصد شامل تھا یعنی نو جوانوں کا حال تو بہت ہی خراب ہے.جرائم کا سبب کالوں کا منشیات اور الکحل کی لت میں مبتلا ہونا ہے.حکومت ان کو اتنا دیتی ہے کہ بغیر کوئی کام کئے زندگی گزار سکتے ہیں لیکن بے کاری نے انہیں اخلاقی اور سماجی برائیوں میں مبتلا کر دیا ہے.جب خرچ پورے نہیں ہوتے تو چوریاں کرتے اور ڈا کے ڈالتے ہیں.ان میں وہ سب برائیاں رچ بس گئی ہیں جن میں گورے خود بھی مبتلا ہیں اور ان کے سمجھدار لوگ ان سے تنگ آچکے ہیں لیکن کچھ نہیں کر سکتے بلکہ شخصی آزادی کے نام پر کھلی چھٹی دینے پر مجبور ہیں.حد تو یہ ہے کہ ان طور طریقوں سے تنگ آنے کے باوجود ان کے خلاف کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتے.اب ان کالوں کی اہلی زندگی برباد ہو چکی ہے.اکثر شادی کے بغیر رہتے ہیں نشہ آور اشیاء کھا کر بے کار پڑے رہتے ہیں یا ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں.( الفضل انٹر نیشنل 23.1.04)

Page 122

115 شعوری طاقت سے چلنے والے ہوائی جہاز آج کل پائیلٹ ایک ایسے انقلابی سسٹم تجربات کر رہے ہیں جو آخر کار انہیں اس قابل بنادے گا کہ وہ محض اپنی شعوری طاقت (Mind Power) کے بل پر ہوائی جہاز چلایا کریں گے.کسی گئیر یا سونچ کو ہاتھ نہیں لگا نا پڑے گا.امریکہ کے ایک فوجی ہوائی اڈے پر اس ایجاد پر تجربات ہورہے ہیں جس کے نتیجہ میں پائیلٹ بغیر ہاتھ ہلائے جہاز کوزمین سے بلند کر سکے گا، اڑا سکے گا اور زمین پر اتار سکے گا.ڈاکٹر اینڈریو جنکر (Dr.Andrew Junker) الیکٹریکل انجینئر ہونے کے ساتھ انسانی اعصاب کے ماہر (Neuro-Physiologist) بھی ہیں.گزشتہ پچیس سال سے ایک ایسے منصوبہ پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد ایسی مشینیں ایجاد کرنا ہے جو محض سوچنے کی طاقت سے کام کیا کریں گی.یعنی انسان کی توجہ ہی مشین کو چلانے کے لئے کافی ہوگی.ہاتھ پاؤں نہیں ہلانا پڑے گا.اس آلہ کا نام (Cyberlinks Interface) ہے.ایک سرکی پٹی (Head Band ) انسانی سوچ کو اس آلہ میں منتقل کرے گا جو ریموٹ کنٹرول کی طرز پر مشین کی چلائے گا.اس کا پہلا تجربہ ورجن آئی لینڈ (Virgin Islands) کے نزدیک ایک کشتی کو چلانے کے لئے کامیابی کے ساتھ کیا جا چکا ہے.مذکورہ بالا تجر بات امریکہ میں Ohio کے ایک فوجی ہوائی اڈے پر کئے جارہے ہیں.

Page 123

116 وہاں ایک مصنوعی نظام (Simulator) پر تجربات سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ جیٹ ہوائی جہاز بغیر ہاتھ پاؤں چلائے محض ذہنی قوت سے بھی چلائے جا سکتے ہیں.ڈاکٹر جنکر کا کہنا ہے کہ دس بیس سال میں حقیقت کی دنیا میں بھی ہوائی جہاز خیالی و شعوری طاقت کی مدد سے چلائے جاسکیں گے.چونکہ اس امر کا امکان ہے کہ پائیلٹ ہر وقت اپنی توجہ جہاز پر نہیں رکھ سکے گا اور ادھر اُدھر کے خیالات بھی اس کے ذہن میں پیدا ہوں گے لہذا اس طرح کے آوارہ خیالات کو جہاز کی مشینوں پر منتقل ہونے سے بچانے کے لئے ایک فلٹر بھی لگا ہوگا اور اگر کہیں پائیلٹ کو اونگھ آجائے اور آلہ محسوس کرے کہ اس کو چلانے ولای طاقت کمزور یا ڈھیلی پڑ گئی ہے تو ایک مددگار خود کار نظام جہاز کا کنٹرول سنبھال لے گا.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسافروں کو ایسے جہاز پر سفر کرنے کے لئے آمادہ کیا جاسکے گا جس کا چلانے والا اونگھ یا نیند کا شکار ہو سکتا ہو.جب اس طرح کا آلہ ایجاد ہو جائے گا تو وہ کاروں ،ٹرینوں، کارخانوں، گھروں اور ہسپتالوں وغیرہ میں بھی استعمال ہو سکے گا.سوچنے کی بات ہے کہ وہ خدا جس نے انسان کو ایسی شعوری طاقت عطا کی ہے جس سے جہاز اڑائے اور کنٹرول کئے جاسکتے ہیں کیا وہ خود انے ارادہ کی قوت سے محض ایک ”کن“ کہنے سے کارخانہ عالم میں تیرنے والے کھربوں کھرب ستاروں کو وجود میں لانے اور اڑائے رکھنے پر قادر نہیں ہوگا! اور پھر اس قدیر و حکیم خدا کو نہ تو اونگھ آتی ہے نہ نیند.کیا ان مادہ پرستوں کے لئے اب بھی یہ سوچنے کا وقت نہیں آیا کہ اس عالم کون و مکاں کا ایک خالق ہے جوحی و قیوم ہے.(الفضل انٹر نیشنل 23.1.2004)

Page 124

117 امریکی اداره CIA نے چھٹی حس کی حقیقت تسلیم کر لی لیکن یہ جاسوسی کے لئے کارآمد نہیں اللہ تعالیٰ نے انسانی روح کو کئی قسم کے خواص سے نوازا ہے.انسان کی پانچ حسیں تو مشہور ہیں جن کو حواس خمسہ کہا جاتا ہے یعنی دیکھنا، سننا، چکھنا، چھونا اور سونگھنا.لیکن ان کے علاوہ بھی ایک حس کبھی کبھار کام کرتی نظر آتی ہے جس کو چھٹی حس یا ماورائے ادراک حسیہ Extra-Sensory) (Preception کہا جاتا ہے اور جس کا مخفف ESP اکثر استعمال ہوتا ہے.جس کا مطلب ہے که انسان بعض دفعہ حواس خمسہ کو استعمال کئے بغیر پیغام دے سکتا ہے یا وصول کرسکتا ہے.ESP کا مطالعہ نفسیات کی برانچ پیرا سائیکالوجی کا کام ہے لیکن اس کے وجود یا عدم وجود کے بارہ میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں.ESP کی تین شاخیں ہیں ایک تو ٹیلی پیتھی ہے جس کے ذریعہ ایک شخص کے خیالات و جذبات دوسرا آدمی اسی وقت دور بیٹھے لاشعوری طور پر محسوس کر لیتا ہے دور کہیں ایک عزیز کو کوئی صدمہ پہنچا تو اسی وقت اس طرح کے جذبات اس کے کسی پیارے کے دل میں بھی پیدا ہو گئے.دوسری شاخ کو Clairvoyance کہتے ہیں.اس میں بعض چیزوں ، واقعات یا اشخاص کی موجودگی کا بغیر حواس خمسہ کی مدد کے احساس ہو جاتا ہے تیسری شاخ Precognition کہلاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ پہلی دوشاخوں کی مدد سے آئندہ ہونے والے واقعات کا اندازہ لگانا.ان

Page 125

118 کے علاوہ ایک اور شاخ بھی ہے اس کو Psychokinesis کہتے ہیں.اس میں انسان محض اپنے ذہنی قوت کے ذریعہ مادی چیزوں پر اثر ڈالتا ہے اور اپنی قوت ارادی سے دیا سلائی وغیرہ کسی چیز کو نیچے گرا دیتا ہے (لیکن ان چیزوں کا نیکی و تقویٰ اور روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ) جن دنوں امریکہ اور روس کی سرد جنگ جاری تھی تو سی آئی اے کو احساس ہوا کہ ہم شاید ESP کے استعمال میں روس سے پیچھے رہ گئے ہیں تو بقول پروفیسر Jessica Utis سی آئی اے نے کچھ ایسے آدمی بھرتی کئے جو اس علم کے شناسا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے.Ms Utis جو کیلیفورنیا یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں وہ بھی اس تحقیق میں شامل تھیں اس گروپ کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ اس علم کی مدد سے روس کے ایک سو سیاسی و فوجی نشانوں کا پتہ لگائیں ان میں وہ ۵۲ امریکی یرغمالی بھی شامل تھے جو ایران میں ۱۹۷۹ء میں ۴۴۴ دن تک محصور رہے.اس کے علاوہ ان کو روسی اور امریکی ہوائی جہازوں اور پانی کی تہہ میں آبدوزوں سے رابطہ کا فرض بھی سونپا گیا تھا.پروفیسر صاحبہ نے کہا کہ انہوں نے ان سب کوششوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور ان دستاویزات کے معائنہ کے بعد وہ کہہ سکتی ہیں کہ ایسے حتمی شواہد ملے ہیں جن سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ESP (یعنی چھٹی حس ) ایک حقیقت ہے اور یہ علم ایسا ہی ہے جیسے دوسرے سائنسی علوم.دوسری طرف امریکی Committee Senate Appropriations نے بھی اس طرح کی تحقیق ایک دوسرے ادارہ کے سپرد کی تھی ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ انہوں نے نہایت اہم شواہد ESP کے حق میں دیکھے ہیں لیکن یہ ایسے نہیں کہ ان کے ذریعہ کوئی قابل اعتماد از نیشنل سیکوریٹی کے مقصد کے لئے حاصل کئے جاسکیں بس لیبارٹری کی حد تک ہی یہ تجربات کچھ کامیاب کہے جاسکتے ہیں.خبر ماخوذ ہیرلڈ، ABC TV پروگرام) (الفضل انٹر نیشنل 22.3.96)

Page 126

119 آسٹریلیا کی طرف سے دنیا کو فلو کے علاج کا تحفہ عام زکام تو الرجی یا جراثیم وغیرہ سے لگتا ہے لیکن انفلوئنزا جسے مختصر فلو کہا جاتا ہے ایک ایسے وائرس کی انفیکشن سے ہوتا ہے جو جلدی جلدی اپنی ہیئت بدل لیتا ہے (Mutate) جس کی وجہ سے اس پر کوئی دوا کارگر نہیں ہوتی.جسم کا قدرتی مدافعتی نظام ہی وائرس کا مقابلہ کرتا ہے جو اپنی عمر پوری کر کے ختم ہوتا ہے اس لئے جب دوا سے زکام کو آرام نہ آئے تو کہتے تھے فلو ہو گیا ہے.ایک زمانہ میں یوں بھی زکام کوفلو کہنا فیشن ہو گیا تھا اور غریبوں کو زکام اورامیروں کو فلو ہوا کرتا تھا.یہ تو خبر ایک جملہ معترضہ تھا.واقعہ یوں ہے کہ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے آخر میں ڈاکٹر لیور Laver نے معلوم کیا کہ فلو کے وائرس کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو متغیر نہیں ہوتا چنانچہ وائرس کا پروٹین کرسٹل کی شکل میں اکٹھا کیا گیا.۱۹۸۲ء میں ڈاکٹر کولمین نے اس مالیکیول کو کروڑوں گنا بڑا کیا تا کہ دوا اس جگہ پہنچائی جائے جو تبدیل نہیں ہوتی چنانچہ وہ جگہ اور دوا دریافت کر لی گئی لیکن یہ دوا وائرس کو ختم نہیں کرے گی بلکہ اس کی افزائش کو آہستہ کر دے گی اور اس طرح جسم کا مدافعتی نظام آسانی سے وائرس کو ختم کر سکے گا.یہ دوا جو فلو کے خلاف ۹۵ فیصد مؤثر سمجھی جاتی ہے تین سال تک گلیکسو و یکم کے ذریعہ مارکیٹ میں آجائے گی.(الفضل انٹر نیشنل 22.3.96)

Page 127

120 فضائی آلودگی میں مضمر فوائد بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ فضائی آلودگی جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سے پیدا ہوتی ہے اس میں بعض فوائد بھی پنہاں ہیں جب کہ اس کے نقصانات تو ظاہر و باہر ہیں جس سے دنیا کی سبھی حکومتیں پریشان ہیں.لیکن اس پر کسی نے نہیں سوچا تھا کہ فضائی آلودگی کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں.آسٹریلیا کے ایک مشہور تحقیقی ادارہ نے اب اس پر تحقیق کی ہے کہ جب فضا میں آلودگی بڑھ جائے گی تو اس کے فصلوں پر کیا اثرات مترتب ہوں گے.چنانچہ اس غرض کے لئے ایک ایسا گرین ہاؤس تعمیر کیا گیا جس میں سن ۲۰۵۰ء میں متوقع حالات مصنوعی طور پر پیدا کئے گئے اور اس میں مختلف فصلیں اور پھلدار درخت لگائے گئے.فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار صنعتی انقلاب سے پہلے ۲۷۰ پی.پی.ایم (Parts per Million) تھی جو بڑھ کر اب ۳۵۰ ہوگئی ہے اور ۲۰۵۰ء میں ۴۰ ۵ متوقع ہے.اس قدر بڑھی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ نے فصلوں اور پھلوں پر حیران کن طور پر خوشگوار اثر ڈالا.بٹاویہ قسم کی گندم کا جھاڑ آج کل کے مقابلہ میں دگنا ہو گیا.پکنے میں نصف وقت لیا.سٹہ اور تنا کہیں زیادہ مضبوط ہو گئے.چاول کی پیداوار میں ۵۸ فیصد اضافہ ہوا.درخت پودے اور گھاس جلد : جلد بڑھے اور پیداوار کہیں زیادہ بڑھ گئی لہذا اسی زمین پر دگنی گائیں پالی جاسکیں گی.اللہ تعالیٰ کا بھی عجیب نظام ہے عالم حیوانات اور عالم نباتات ایک دوسرے کے لئے قیام کا

Page 128

121 موجب بنائے گئے ہیں.انسان حیوان آکسیجن کھا کر کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں جو نباتات کی غذا ہے جب کہ وہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں جو انسان اور حیوان کی غذا ہے.جب فضا میں کار بن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہوگی تو پودے اپنی کاربن کی ضرورت آسانی سے بافراغت حاصل کر کے خوب موٹے تازے ہو جائیں گے.اس طرح جوں جوں انسان اور مشینیں زیادہ بڑھیں گی تو ان کی خوراک کے لئے اسی قدر فصلیں زیادہ مقدار میں غذا مہیا کرنے لگیں گی.گرمی کے بڑھنے سے بارشیں بڑھیں گی اور بند (Dams) اور نہروں کے ذریعہ زیادہ علاقہ سیراب ہونے لگے گا وغیرہ وغیرہ الغرض وہ خدا جس نے پیدا کیا ہے آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوراک مہیا کرنے کا سامان بھی بڑھاتا چلا جائے گا جیسا کہ ماضی میں اب تک ہوتا آیا ہے.فالحمد للہ علی ذالک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَرَكَ فِيْهَا وَقَدْ رَفِيْهَا أَقْوَاتَهَا فِي ط أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ ( حم السجدہ : 11) ” اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے ہیں اور اس میں بڑی برکت رکھی ہے اور اس میں رہنے والوں کے کھانے پینے کے لئے ہر چیز کو اندازہ کے مطابق بنادیا ہے یہ سب کچھ چار دور میں کیا ہے.یہ بات - پوچھنے والوں کے لئے برابر ہے.“ اس کی تشریح میں حضرت مصلح موعود تفسیر صغیر میں فرماتے ہیں: اس آیت سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ ایک زمانہ میں زمین کو پوری غذا پیدا کرنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا مگر اللہ تعالیٰ اس کا رد کرتا ہے اور فرماتا ہے ہم نے زمین میں ایسے سامان پیدا کر دیئے جن کی وجہ سے وہ حسب ضرورت غذا دے گی خواہ زمین سے نکال کر یا نئی غذا کے ایجاد ہونے سے یا آسمانی شعاؤں کی مدد سے.“ ( الفضل انٹر نیشنل 23.3.96)

Page 129

122 اگر سطح سمندرصرف ایک میٹر بلند ہو جائے تو کیا ہو؟ زمین سے گیسوں کے اخراج اور گرین ہاؤس اثر کے نتیجہ میں زمین روز بروز گرم ہورہی ہے بارشوں اور سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے.اندازہ ہے کہ سن ۲۱۰۰ ء تک سطح سمندر ۲۰ تا ۹۰ سینٹی میٹر تک اونچی ہو جائے گی.اس اضافہ سے ملائشیا ، انڈیا، بنگلہ دیش سمندروں کے ساحل پر آباد شہر اور جزیروں کے کروڑہا افراد اپنی زمینوں اور گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے انداز ا ایک سوملین ( دس کروڑ افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر ہر سال مجبور ہوں گے جس سے آسٹریلیا جیسے ملکوں کو ابھی سے فکر پڑ گئی ہے.بہت سے ملکوں کا پورا اقتصادی ڈھانچہ مفلوج ہو کر رہ جائے گا.رپورٹ کے مصنف نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل دن بدن غیر یقینی ہوتا چلا جا رہا ہے.آج سے ربع صدی پہلے تک تو یہ کیفیت نہ تھی.( الفضل انٹر نیشنل 23.2.96)

Page 130

123 بچے کے وجود کی تعمیر میں ماں باپ دونوں کا حصہ برابر ہوتا ہے بچہ پیدا ہوا تو گھر کی عورتوں نے اسے گھیر لیا اور اس کے ناک نقشہ پر تبصرے ہونے لگے.ایک نے کہا اس کی آنکھیں باپ کی ہیں.دوسری نے کہا اس کا ناک ماں کا ہے.تیسری بولی ماتھا بالکل دادی کا ہے.چوتھی نے کہا ٹھوڑی بالکل ماموں کی ہے وغیرہ وغیرہ.ایک عورت جو ذرا ہٹ کر بیٹھی ہوئی تھی پکاری کہ اس غریب کا اپنا بھی کچھ ہے یا سب کچھ مانگا تا نگا ہی ہے.یہ لطیفہ عام سوچ کے مطابق ہے.عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ بچہ جینز (Genes) کا ایک سیٹ باپ سے لیتا ہے اور ایک سیٹ ماں سے اور پھر وہ دونوں آپس میں یوں گڈمڈ ہو جاتے ہیں کہ محض اتفاق سے وہ بعض کیریکٹر یا بناوٹ باپ کی طرف سے لیتا ہے اور بعض ماں کی طرف سے مثلاً جیسے یہ کہا جائے کہ بچہ نے حس مزاح ماں سے لی ہے اور پیشہ کا رجحان باپ ہے.لیکن نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ حض اتفاق نہیں کہ بعض کیریکٹر باپ سے آتے ہیں اور بعض ماں کی طرف سے بلکہ انسانی وجود کے مخصوص اور معلوم حصے ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے بچہ کو ورثہ میں ملتے ہیں.مثلاً دماغ کا وہ حصہ جو ہمارے جذبات کو کنٹرول کرتا ہے وہ باپ کے جینز سے بنتا ہے اور دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق قوت فیصلہ اور ذہانت سے ہے وہ ماں کی طرف سے آتا ہے.

Page 131

124 کوئی دس سال تک جینز کے ماہرین کا خیال تھا کہ جینز بس جینز ہی ہوتے ہیں ان میں نرو مادہ کی تخصیص نہیں ہوتی لہذا وہ خواہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے کوئی فرق نہیں پڑتا.لیکن یہ تصور اب باقی نہیں رہا.جینز میں بھی نرومادہ کی تخصیص ہوتی ہے.اور ہر ایک کا جسم کی تخلیق میں ایک طے شدہ حصہ ہوتا ہے.یہ بات پہلے کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر عظیم سورانی نے دریافت کی تھی.اور پھر دوسرے سائنس دانوں نے اس کی توثیق کی.ڈاکٹر عظیم سورانی نے اپنے تجربات دودھ پلانے والے جانوروں (Mammals) پر کئے.انہوں نے ایک انڈہ (Egg) مادہ کا لیا اور اس میں سے DNA حاصل کر کے اس میں سپرم سیلز (Sperm Cells) کے دو DNA ملائے لیکن باوجود یکہ جینز کا باہمی تناسب معمول کے مطابق تھا کچھ بھی حاصل نہ ہوا.پھر ڈاکٹر صاحب نے دو انڈوں کے DNA ایک ایسے انڈے میں داخل کئے جس کا اپنا DNA نکالا ہوا تھا.لیکن تب بھی بچہ نہ بنا.جس سے یہ ثابت ہوا کہ ہر چیز کا باہمی تناسب اور تعداد وغیرہ درست ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ان کا نصف نر سے اور نصف مادہ سے آنا بھی ضروری ہوتا ہے.بچہ کی نشو و نما کے دوران ایسے مراحل آتے ہیں کہ ان کا آغاز کرنے کے لئے کبھی باپ کے جینز کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی ماں کے جینز کی.سائنس دان سمجھتے ہیں کہ اس تحقیق نے عورتوں کا پلہ مردوں سے بھاری کر دیا ہے اور آج وہ فخر سے یہ کہہ سکتی ہیں کہ بچہ کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں میں ماں کے جیز کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا باپ کا.چنانچہ بچہ ایک ایسے نطفہ سے پیدا ہوتا ہے جو ماں باپ کے پانی کے امتزاج سے بنتا ہے گویاوہ ایک ایسا بیج ہے جود و بیجوں کے ملنے جلنے سے وجود میں آتا ہے اور ماں کا زائد کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بطور اس زمین یا کھیتی کے بھی کام کرتی ہے جس میں وہ ملا جلا بیج اگتا ہے.ریسر چر کہتے ہیں کہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بچہ جس نالی کے ذریعہ اپنی ماں سے غذائیت اور آکسیجن حاصل کرتا ہے (Placenta) وہ باپ کے جینز سے نشو ونما پاتی ہے.نر سے آنے والے جینز جارح (Aggressive) ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ چھینا جھپٹی کر کے بچہ کے لئے جتنی غذا حاصل کرنی ممکن ہے وہ حاصل کر لی جائے.اس کے بالمقابل مادہ کے جینز میں صبر اور برداشت کا مادہ ہوتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نر جینز کی حرص کو حد اعتدال میں رکھیں تاماں کا

Page 132

125 شوگر لیول حد سے نیچے نہ گر جائے.یہ تجربات فی الحال چوہوں پر کئے گئے ہیں اس لئے ماہرین انہیں انسانوں پر منطبق کرے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں.(ماخوذ از رپورٹ Jerome Burne دی گارڈین.بحوالہ سڈنی ہیرلڈ ۶ جون ۱۹۹۶ء) اگر مزید تحقیق کے نتیجہ میں یہ باتیں انسانوں پر بھی صادق آجائیں تو اس سے وقت کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ اور سماجی مسائل میں کئی دور رس تبدیلیاں پیدا ہونگی.یہ خیال کہ بچہ کے لئے تخم صرف نر مہیا کرتا ہے اور مادہ صرف بطور زمین یا کھیتی کے ہوتی ہے غلط ثابت ہو جائے گا کیونکہ تم یا بیچ نرومادہ دونوں کے پانی کے خلط ملط سے پیدا ہوتا ہے اور مادہ کا یہ کردار کہ وہ بطور قطعہ زمین کے پودے کو بڑھنے کے لئے قوت فراہم کرتی ہے ایک ضروری مگر زائد فعل کے طور پر ہے.قرآن کریم نے انسانی تخلیق میں عورت کے ان دونوں کرداروں کا ذکر فرمایا ہے.ایک جگہ فرمایا نِسَانُكُمُ حَرْثٌ لَّكُمْ (البقرہ:۲۲۴) یعنی تمہاری بیویاں تمہارے لئے (ایک قسم کی کھیتی ہیں.اور دوسری جگہ فرمایا " إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجِ ، (الدھر:۳۰) یعنی ہم نے انسان کو ایسے نطفہ سے پیدا کیا ہے جو ملا جلا ہے.اس میں ایک ایسے نطفہ کا ذکر ہے جو نر و مادہ دونوں کے پانیوں کے اختلاط سے وجود میں آتا ہے صرف مرد کا نطفہ مراد نہیں.مسیج عربی میں دو چیزوں یا رنگوں کے باہم ملنے کو کہتے ہیں.اور امشاج اس کی جمع ہے.اس لحاظ سے یہ تحقیق کہ ماں باپ دونوں ہونے والے بچہ کو تئیس تمیس کروموسوم مہیا کرتے ہیں اور دونوں کے جینز مل کر بچہ کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں نہ صرف قرآن کے مطابق ہے بلکہ قرآن کریم کا ایک علمی اعجاز ہے.اس تحقیق سے ذات برادری کے مسئلہ پر بھی دلچسپ روشنی پڑتی ہے.اور اس سے ایک نئی سوچ ابھرتی ہے.وہ یہ کہ اگر بچہ میں ماں باپ دونوں کی طرف سے برابر کروموسوم اور جینز آتے ہیں اور اس میں باپ کا پلڑہ ماں سے بھاری نہیں تو ذات برادری صرف باپ کی طرف سے کیوں چلے ، ماں کی طرف سے کیوں نہیں.ویسے اس طرح کی سوچ مغربی آسٹریلیا میں پہلے ہی پیدا ہو چکی ہے.میں نے جب بھی کسی سے پوچھا کہ آپ کے آباؤ اجداد کس ملک سے آکر آسٹریلیا میں آباد ہوئے تھے تو اگر چہ میرے ذہن میں صرف باپ دادے کا اصل وطن پوچھنا ہی مقصود ہوتا تھا مگر مجھے ہمیشہ اس

Page 133

126 طرح کا جواب ملا ہے کہ میرا باپ سکاٹ لینڈ سے تھا اور ماں اٹلی سے.بلکہ اپنی دادی نانی کا بھی بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ فلاں فلاں ملک سے تھے.اس لحاظ سے تو تمام انسان ایک ایسے سمندر کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں جس میں سب دنیا کے پانی خلط ملط ہو چکے ہوں.اب ذرا اس میں کوئی مختلف براعظموں، ملکوں اور جزائر کے پانیوں کو الگ الگ کر کے دکھائے تو جانیں.گویا ذات پات قبیلے محض شناخت کے لئے رہ جاتے ہیں.اور ان کی یہی غرض قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے.وحدت انسانی کے سلسلہ میں ایک اہم ریسرچ کا ذکر بھی یہاں مناسب ہوگا.سائنس دانوں نے ۱۹۸۷ء میں ایک تحقیق شائع کی تھی جس سے ثابت ہوا تھا کہ دنیا بھر میں جو مختلف رنگ ونسل کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک ایسا جین (Gene) مشترک ہے جو صرف ماں ہی بچے کو منتقل کر سکتی ہے.(یعنی Mitochondria) گویا تحقیق سے یہ تصور درست معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں.سائنس دانوں نے بھی اس ماں کا نام Eve یعنی حوا رکھا ہے.اس تحقیق کے آٹھ سال بعد ۱۹۹۵ء میں دنیا کی تین معروف یونیورسٹیوں ,Yale, Harward) Chicago نے (Y-chromosome) وائی کروموسوم کا تجزیہ کیا جوان ۳۸ مردوں سے لئے گئے تھے جن کا تعلق مختلف قوموں اور نسلوں سے تھا.وائی کروموسوم وہ ہوتے ہیں جو جنین (Embryo) کولڑ کا بناتے ہیں.تینوں یونیورسٹیوں کی تحقیق نے ثابت کیا کہ اپنی ولدیت میں بھی سب انسان مشترک ہیں.لیکن اس بار اس جد امجد کا نام انہوں نے آدم نہیں رکھا.بلکہ یہ خیال ظاہر کیا کہ دنیا کے سب انسان شاید چند ہزار پرمشتمل ایک گروپ کی شاخیں در شاخیں ہیں جن میں باپ کی طرف سے ایک قدر مشترک تھی.پچھلی تحقیق کو موجودہ سے ملا کر اگر دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے انسان خواہ وہ کسی ذات پات یا ملک و قوم کے ہوں ان میں ماں باپ دونوں کی طرف سے ایک قدر مشترک ضرور موجود ہے.چنانچہ اخبار نے اس رپورٹ پر جو عنوان جمایا وہ تھا We are) all Related یعنی ہم سب انسان باہم رشتہ دار ہیں.(ماخوذ از واشنگٹن پوسٹ.لاس اینجلیز ٹائم بحوالہ سڈنی مارٹنگ ہیرلڈ ۲۷ رمئی ۱۹۹۵ء) معلوم ہوتا ہے یہ قدر مشترک وہی ہے جس کا ذکر خدا نے یوں فرمایا ہے ”اے لوگو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کر جس نے تمہیں ایک ہی جان (نفس واحدہ ) سے پیدا کیا...( النساء:۲)

Page 134

127 یہ جدید تحقیقات کئی پرانے تصورات پر کاری ضرب لگاتی ہیں.مثلا یہ تصور کہ نسل صرف بیٹوں سے چلتی ہے بیٹیوں سے نہیں.اگر ماں باپ دونوں کی طرف سے جینز یکساں طور پر منتقل ہوتے ہیں تو ان کی نسبت بھی یکساں ہوئی.یوں مرد و عورت کی نسل لڑکے اور لڑکی اور ان کی اولادوں میں یکساں طور پر چلتی چلی جاتی ہیں.اور نسلی تعلق کے لحاظ سے بیٹے بیٹی اور پوتے نواسے میں کوئی فرق نہ رہا.لیکن ایشیائی اور افریقی ممالک میں کتنے لوگ ایسا سمجھتے ہیں ! ؟ ماں باپ دونوں کی طرف سے یکساں جین اولاد میں منتقل ہونے کی تھیوری نے رحمی تعلقات کی اہمیت بھی خوب اجاگر کی ہے.رشتہ دار باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے دونوں کے ساتھ آپ کے جین یکساں طور پر مشترک ہوتے ہیں اور ان میں سے کسی کو اپنی زبان یا ہاتھ سے دکھ پہنچانا ایسے ہی ہے جیسے خود اپنے وجود کے ایک حصہ کو خارش کرتے کرتے زخمی کر دینا.الغرض صدیوں سے جو تصورات چلے آتے ہیں ان کا اگر جدید سائنسی انکشافات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو کافی دلچسپ باتیں سامنے آسکتی ہیں.صلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لئے ( الفضل انٹر نیشنل 2.1.98)

Page 135

128 پندرہ کروڑ سال سوئے رہنے کے بعد نئی زندگی پانے والا درخت یہ بھی خدا کی قدرت کا ایک نمونہ ہے کہ ایک درخت کا ذرہ جو پندرہ کروڑ سال تک ایک پرندے کے پیٹ میں پڑا رہا.اب نئی زندگی پا کر ہزاروں ناظرین کے لئے حیرت واستعجاب کا موجب بنا ہوا ہے.اس کی خوابیدہ حالت اچانک حیات نو میں بدل چکی ہے.آج سے دس سال قبل سڈنی کے ڈولی نیشنل پارک سے ایک سیاہ رنگ کا پتھر ملا.معائنہ سے پتہ چلا کہ وہ پندرہ کروڑ سال پرانے ایک پرندے کا متجر ڈھانچہ تھا.اس کے پیٹ میں سے ایک چیر (Pine) کے درخت کا ایک ذرہ دستیاب ہوا جو کبھی اس نے کھایا ہوگا.پارک کے نام کی مناسبت سے اسے (Wollemi Pine) کا نام دیا گیا.اس ذرہ سے اس درخت کا DNA حاصل کیا گیا جو کروڑوں سال پہلے سڈنی کے شمال مغربی علاقہ میں ہوا کرتے تھے.مگر جن کی نوع کسی طبعی حادثہ کے نتیجہ میں نا پید ہو چکی ہے.یہ خبر دنیا بھر کے ماہرین نے بہت دلچسپی سے سنی اور وہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں اس ناپید پودہ کو دوبارہ اگانے کا تجربہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں.پودہ کی افزائش کے لئے خاص ماحول تیار کیا گیا تھا.تجربہ کامیاب رہا اور اب یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آیا یہ پودہ دنیا کے آج کل کے ماحول

Page 136

129 میں زندہ رہتا ہے یا نہیں اس کو ٹرک پر لاد کر ادھر ادھر گھمایا پھرایا گیا.کبھی روشنی اور کبھی تاریکی میں بھی رکھا گیا.اب تک تو وہ پودہ دیکھنے کے لئے کثرت سے لوگ آتے ہیں.اب اسے امریکہ میں مشوری نیو یارک اور واشنگٹن بھیجا جا رہا ہے اس سے پتہ لگے گا کہ وہ امریکہ کی آب و ہوا میں کیسا پرورش پاتا ہے.بہت لوگوں کو اس مجو بہ کو اپنے گھروں میں اگانے کا شوق ہے.چنانچہ اس کے فی الحال ۵۰۰ پودے تیار کئے جارہے ہیں جوا کتوبر ۲۰۰۵ ء میں فروخت کئے جائیں گے.(ماخوذ از سڈنی مارننگ ہیرلڈے ستمبر ۲۰۰۴ء) ( الفضل انٹر نیشنل 19.11.04)

Page 137

130 ہندوستان میں معصوم بچیوں کا قتل اور اس کی وجوہات اخبار انڈی پنڈنٹ میں خبر شائع ہوئی ہے کہ ہندوستان میں منھی بچیوں کے قتل کے واقعات آج کل بھی کثرت سے ہورہے ہیں.بعض بچیوں کو گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا جاتا ہے.بعض کو زہر دے دیا جاتا ہے یا کبھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جیسے گجرات میں ہوا کہ ایک بچی کو اس کی ماں کے بازوؤں سے چھین کر ایک خالی گھر میں پھینک دیا گیا جہاں اس کی درد ناک چیچنیں کسی کا دل نہ ہلا سکیں اور بالآخر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئیں.بچیوں کے قتل کا ایک اور طریق یہ ہے کہ پیدائش سے قبل بچے کی صنف مختلف ٹیسٹوں (جیسے Amniocentesis, Ultrasound) کے ذریعہ معلوم کر لی جاتی ہے اور اگر بچی ہو تو حمل گرا کر مار دیا جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب کہ باقی دنیا میں ہر سومردوں کے مقابلہ میں ۱۰۵ عورتیں ہیں، ہندوستان میں ان کی تعداد صرف ۹۳ ہے بلکہ بعض علاقوں میں تو ۱۰۰ مردوں کے مقابلہ میں صرف ۸۵ عورتیں ہیں.اس پر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسف (Unicef) نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کوئی نہ ہوگی کہ ہندوستان کی آبادی سے چار تا پانچ کروڑ بچیاں اور عورتیں غائب ہیں چنانچہ یکم جنوری ۱۹۹۲ء سے ہندوستان میں پیدائش سے پہلے بچہ کی جنس معلوم کرنا جرم قرار دے دیا گیا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حکم پر

Page 138

131 عمل بھی کرایا جا سکے گا یا نہیں.قرآن کریم میں پیش گوئی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ بچیوں کے قتل پر مواخذہ ہوگا.جیسے فرمایا اور جب زندہ گاڑی جانے والی (لڑکی) کے بارہ میں سوال کیا جائے گا ( کہ آخر ) کس گناہ کے بدلہ میں اس کو قتل کیا گیا تھا.“ (التکویر ۱۰۰۹) چنانچہ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے وہاں بچیوں کے قتل کو ممنوع قرار دینے کے لئے ۱۹۷۰ء میں حکومت انگریزی نے قانون بنایا تھا جواب تک وہاں جاری ہے لیکن افسوس کہ اس کی خلاف ورزی بدستور جاری ہے.حکومت ہندوستان کا نیا قانون بھی ایک لحاظ سے اسی کی ذیل میں آتا ہے.آگے چل کر اخبار مذکور بچیوں کے قتل کا ذمہ دار جہیز کی منحوس رسم کو ٹھہراتا ہے.وہ لکھتا ہے کہ بچی کو اس لئے بوجھ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کو پالنے پوسنے کا فائدہ تو کوئی ہے نہیں الٹا اس کے جہیز پر کثیر رقم خرچ کرنا پڑے گی.وہاں اکثر یہ کہاوت بیان کی جاتی ہے کہ لڑکی کی پرورش کرنا تو ہمسائے کے باغ کو پانی دینے کے مترادف ہے.غریب والدین کو اپنی بچی کو جہیز میں بائیسکل، ٹی وی، ریشمی ساڑھی اور سونے کے زیورات لازماً دینے پڑتے ہیں جس کا قرضہ وہ ساری عمر نہیں اتار سکتے.یہ رقم لڑکے کی تعلیم اور ملازمت وغیرہ کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور آئی سی ایس افسر کو داماد بنانے کے لئے کم از کم ساٹھ ہزار ڈالر کی رقم جہیز کے لئے درکار ہوگی.اخباروں میں اشتہار آتے ہیں کہ پیدائش سے پہلے پانچ سو روپیہ خرچ کر کے بچے کی جنس کا پتہ کروالیں اور بعد کے ہزاروں روپے بچائیں.بعض بچیاں جو اپنے غریب والدین سے سسرال کی خواہش کے مطابق جہیز نہیں لاسکتیں اور بعد میں بھی ان کے مطالبات پورے نہیں کر سکتیں ان کی ساری زندگی جہنم بنادی جاتی ہے.بلکہ ایک خاصی تعداد کومٹی کا تیل پھینک کر آگ میں جلا دیا جاتا ہے اور بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ تیل کا چولہا پھٹ گیا تھا.بے شمار بچیاں ساری عمر شادی کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہیں.بد قسمتی سے جہیز کے مطالبہ کی لعنت ہندوؤں کے زیر اثر پاکستان میں بھی آچکی ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے ان رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا.مبارک ہیں وہ جو خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جہاد میں شامل ہوتے ہیں اور کمزور بچیوں اور ان کے والدین کو ان کے دکھوں سے آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ

Page 139

132 نے تحریک فرمائی تھی کہ امیر لوگ جتنا خرچ اپنی بچیوں کی شادی پر کرتے ہیں وہ اس کا دسواں غریب بچیوں کی شادی پر بھی خرچ کریں.یہ بڑی مبارک اور خدا کا رحم جذب کرنے والی تحریک ہے.خدا ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.(الفضل انٹر نیشنل 19.7.96 )

Page 140

133 شادی سے پہلے شادی کورس پاس کرنا لازمی قرار دیا جائے کیتھولک چرچ کا حکومت آسٹریلیا سے مطالبہ آسٹریلیا میں چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہے لیکن اگر نہیں ہے تو شادی کرنے کے لئے نہیں ہے.چنانچہ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کیتھولک چرچ کے وکیل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ طلاقوں کی تباہ کن بھر مارکو روکنے کے لئے شادی کا ارادہ کرنے والے خواتین و حضرات کو شادی کی اہمیت ، میاں بیوی کے فرائض و حقوق اور گھر گرہستی کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے ضروری علم حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے.بہت سے لوگ شادی کو گڑی گڑے کا کھیل سمجھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ شادی عمر بھر اکٹھے رہنے کے عہد کا نام ہے.فادر کرس (Cris) نے کہا کہ تمہیں کار چلانے کے لئے Licence کے لئے دو امتحان پاس کرنے پڑتے ہیں اس کے لئے پیسے خرچ کر کے سبق لینے پڑتے ہیں لیکن شادی کے لئے آپ کو صرف اٹھارہ سال کا ہونا چاہئے.ایک ماہ اور ایک دن کا نوٹس چاہئے اور ایک ایسا فرد جو آپ سے شادی کرنے پر راضی ہو اور بس.حالانکہ اگر ایک شادی ٹوٹ جاتی ہے تو اس سے جو مسائل، پریشانی اور دکھ پیدا ہوتے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہیں کہ ڈرائیونگ اچھی نہ آتی ہو اور کار کا حادثہ ہو جائے شادی ٹوٹنے کا حادثہ کارٹوٹنے کے حادثہ سے زیادہ گھمبیر ہوتا ہے.اگر چہ حکومت ماقبل شادی کورس

Page 141

134 (Pre-marriage Course) پہلے ہی جاری کر چکی ہے اور اگلے تین سالوں میں ۶۵ کورسز چھ ملین ڈالر کے خرچہ سے چلائے گی لیکن وہ ضرورت کے لئے کافی نہیں اور پھر ان کو رسوں میں شمولیت خود اپنی مرضی پر منحصر ہے.فادر کرس کا مطالبہ ہے کہ کورس بڑھائے جائیں اور ان میں شمولیت لازمی قرار دی جائے.پرانے زمانے میں ہندوستان میں مسلمانوں میں ایک اس طرح کی کتاب ہوتی تھی.عجیب سا نام تھا اس کا، کچی روٹی ، پکی روٹی.اس کتاب میں نماز ، دینی مسائل، میاں بیوی کے حقوق وفرائض ، سسرال اور عزیزوں سے تعلقات ، چھوٹے بچوں کی تکالیف اور ان کا علاج وغیرہ درج ہوتے تھے.اکثر لوگ بچی کے جہیز میں ساتھ یہ کتاب بھی دیا کرتے تھے.اگر اس ضرورت کے مدنظر کوئی جدید طرز کی کتاب لکھی جائے جس میں تربیتی نقطہ نظر سے شادی بیاہ کے مسائل اور شادی شدہ جوڑوں کے لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہدایات درج ہوں تو امید ہے وہ مفید ثابت ہوسکتی ہے.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مقدس خلفاء کے خطبات وتحریرات میں اسلامی تعلیم کی روشنی میں ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے اور معاشرہ کو حسین بنانے کے سلسلہ میں بہت رہنمائی موجود ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے فرمودہ خطبات نکاح فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے شائع شدہ ہیں.تمام بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے اسی طرح شادی شدہ جوڑوں کے لئے ان کا مطالعہ کرنا از حد مفید ہے.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے کئی ایک خطبات کی آڈیو اور ویڈیو ٹیسٹس بھی دستیاب ہیں جنہیں غور سے سننے اور ان میں بیان فرمودہ نصائح پر عمل کرنے کے نتیجہ میں بہت سی معاشرتی خرابیوں اور نقصانات سے بچا جاسکتا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 9.8.96)

Page 142

135 حضرت مریم کے زمانہ کی کھجور میں دوبارہ اگانے کی کوشش اسرائیل کے ڈاکٹرز اور سائنسدان کھجور کی ایک ایسی گٹھلی سے پودہ اگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو دو ہزار سال پہلے بیت اہم ( فلسطین) میں بکثرت ہوتی تھی لیکن اب نا پید ہو چکی ہے.اس گٹھلی کا نام میتھو صلاح (Methuselah) رکھا گیا ہے.بہت اہلحم کا قصبہ (Bareham) وہی ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی جو یروشلم کے مضافات میں اور حضرت مریم کے شہر ناصرہ (Nazareth) سے قریباً سو میل جنوب میں واقع ہے.بحیرہ مردار (Dead Sea) بھی اس سے کوئی چند میل ہی دور تھا.اس علاقہ میں واقع ایک ٹیلے کی کھدائی کے دوران تین گٹھلیاں ملی تھیں.اس جگہ کا نام Masada ہے.محققین پتہ لگانا چاہتے ہیں کہ یہودا علاقہ (Judea) کی اصل کھجور میں وہ کیا خصوصیات پائی جاتی تھیں جنکی بناء پر بائبل اور قرآن میں اس کے سایہ.غذائیت.خوبصورتی اور طبی فوائد کی بہت تعریف کی گئی ہے.صلیبی جنگجوؤں نے کھجوروں کے سبھی درختوں کو کاٹ کر اس کی نسل کو مٹا دیا تھا.ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے اس گٹھلی کی عمر ۳۵ قبل مسیح تا ۶۵ عیسوی معلوم ہوئی ہے.اتنے پرانے بیج سے پودا اگانا بہت مشکل ہوتا ہے.اگر آگ بھی جائے تو جلدی ہی مرجھا کر مر جاتا ہے.اس لئے اس گٹھلی کی اگنے کی قوت بحال کرنے کے لئے بہت جتن کئے گئے ہیں.کئی قسم کے محلولات میں رکھ کر قرنطینہ (Quarantine) میں اسے اگایا گیا ہے.پھر

Page 143

136 بھی سب سے پہلے اس کے جو پتے نکلے وہ عجیب شکل کے بالکل چیپٹے اور زرد سے تھے.البتہ بعد میں جو پتے نکلے وہ بالکل نارمل عام کھجور کے پتوں جیسے تھے.یہ پودا اب ایک فٹ اونچا ہو گیا ہے لیکن ابھی یہ پتہ نہیں کہ بڑا ہو کر یہ نر نکلتا ہے یا مادہ.اگر نر نکلا تو اس سے کھجور میں حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا.لیکن کھجور کا یہ پودا اگر مادہ بھی ہوا تو ۳۰ برس کے بعد اس کو کھجور میں لگیں گی کیونکہ جو طبعا دیر سے جوان ہوتا ہے اس کی عمر بھی اسی حساب سے لمبی ہوتی ہے.چنانچہ اس قسم کی کھجور کی عمر دوسوسال ہوتی ہے.(ماخوذ سڈنی مارٹنگ ہیرلڈ ۱۳ جون ۲۰۰۵ء) انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش گرمیوں کے موسم میں ہوئی تھی.جب گڈریے اپنے ریوڑ کو کھلے آسمان تلے کھیتوں میں رکھتے تھے اور رات بھر ان کی نگرانی کرتے تھے (لوقا: ۷۸) قرآن کریم کے مطابق بھی وہ کھجوروں کے پکنے کا موسم تھا.یعنی گرمیوں کا.اگر وہ ۲۵ دسمبر کا دن ہوتا تو اتنی شدید سردی میں کھلے آسمان تلے کھیتوں میں ریوڑ کی نگرانی کے لئے پاس رہنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا.بہت اللحم کا شہر ۲۳۵۰ فٹ بلند چٹان پر واقعہ تھا.جس کے اردگرد چشموں والی سرسبز وادیاں تھیں.ڈھلوان پر کھجوریں اگی ہوئی تھیں جن کا پھل چٹان پر کھڑے ہوکر تو ڑا جاسکتا تھا.عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے: پس اسے اس کا حمل ہو گیا اور وہ اسے لئے ہوئے ایک دور کی جگہ کی طرف ہٹ گئی.پھر در دزہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لے گیا.اس نے کہا اے کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بسری ہو چکی ہوتی تب (ایک پکارنے والے نے ) اسے اس کی زیر میں طرف سے پکارا کہ کوئی غم نہ کر تیرے رب نے تیرے نشیب میں ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور کھجور کی ساق کو تو اپنی سمت جنبش دے وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی.پس تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر اور اگر تو کسی شخص کو دیکھے تو کہہ دے کہ یقیناً میں نے رحمان کے لئے روزے کی منت مانی ہوئی ہے پس آج میں کسی انسان سے گفتگو نہیں کروں گی (مریم: ۲۳-۲۷)

Page 144

137 ایک عفیفہ صدیقہ خاتون کے حالات جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں کیسے ایمان افروز اور رقت آمیز ہیں.پڑھ کر اس پاک بی بی پر جہاں ترس آتا ہے وہاں ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.لیکن افسوس کہ انجیل میں ان واقعات کا کوئی تذکرہ اس طرح کا نہیں ملتا.(الفضل انٹرنیشل )

Page 145

138 زبان اپنی اپنی مزا اپنا اپنا خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا ملکہ بھی خدا کی نعمت ہے.جتنا جتنا کوئی زبان قال و حال سے خدا کی نعمتوں کی قدر کرتا ہے اتنا اتنا ہی وہ ترقی کرتی ہیں.اور جتنا جتنا کوئی ناشکری و ناقدری سے انہیں بے کار چھوڑ دیتا ہے.اتنا اتنا ہی وہ ضائع ہوتی چلی جاتی ہے جیسے فرمایا: اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب تمہارے رب نے (انبیاء کے ذریعہ ) اعلان کیا تھا کہ (اے لوگو!) اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو (یاد رکھو ) میرا عذاب یقیناً سخت ( ہوا کرتا ) ہے.“ (ابراهیم : ۸) لہذا چکھنے کی قوت بھی اللہ کی نعمت ہے.ایک ہی غذا کئی لوگ کھا رہے ہوتے ہیں لیکن مزہ اپنا اپنا ہوتا ہے.لیکن اب سائنس دانوں نے تجربات سے معلوم کیا ہے کہ ہر زبان میں چکھنے کی استعداد بھی مختلف ہوتی ہے.Yale یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کی پروفیسر لنڈا کہتی ہیں کہ زبانوں کی موٹی موٹی تین قسمیں ہیں.ایک Non Taster نہ چکھنے والی دوسری اوسط چکھنے والی اور تیسری اعلیٰ چکھنے والی.یہ تقسیم انہوں نے اس بناء پر کی ہے کہ ہر زبان پر چکھنے والے شگوفوں کی تعداد مختلف ہوتی جنہیں وہ Taste Buds کہتی ہیں.انہوں نے یہ تجربات دو کیمیائی مرکبات کو زبانوں

Page 146

139 پر رکھ کر کئے.جن کی زبانوں پر چکھنے والے شگوفے تھوڑے تھے ان کا مزا ان کے مقابلہ میں بہت کم تھا جن کی زبانوں پر Buds زیادہ تعداد میں تھے.ڈاکٹر صاحبہ حیران رہ گئیں کہ زبانوں کے Buds کی تعداد اور ان کے چکھنے کی استعداد میں بہت زیادہ فرق تھا.مثلاً ایک نوجوان کی زبان پر ایک مربع سنٹی میٹر پر صرف 1 چکھنے والے شگوفے تھے جبکہ ایک اور آدمی کی زبان پر اس کے بالمقابل اتنی جگہ پر ہی ۱۰۰ الیعنی اس سے سو گنا تھے.ان تجربات سے یہ بھی پتہ چلا کہ مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کے چکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے.( شاید صدیوں سے باورچی خانہ میں کھانا چکھتے چکھتے ان کی استعداد ترقی کر گئی ہے ) بہر حال ان کے تجربات تو یہی کہتے ہیں کہ زبان اپنی اپنی مزا اپنا اپنا.( الفضل انٹر نیشنل)

Page 147

140 بنی اسرائیل کے گم شدہ قبائل کی تلاش اسرائیل کے ایک رہائی (Rabbi Eliyahu Avichail) نے ایک تحریک شروع کی ہے جس کا نام Amishav ہے ( یعنی میرے لوگ واپس لوٹتے ہیں ) اور مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے دس یہودی قبائل کا کھوج لگایا جائے.اس سلسلہ میں وہ دنیا بھر کا دورہ کر رہے ہیں اور آج کل آسٹریلیا آئے ہوئے ہیں.وہ اس سلسلہ میں باوجود ذاتی خطرہ کے پاکستان اور افغانستان بھی جاچکے ہیں.ان کے نزدیک اسرائیلی قبائل کے کھوئے رہنا ان کے اپنے وجود کے کھو جانے سے زیادہ خطرات کا حامل ہے.وہ کہتے ہیں:.Lost tribes and the marranos (groups who renounced Judaism during the Spanish Inquisition) are believed to be scattered through North Africa, Kashmir, The Caucasus, Spain, Portugal,South America, The Indian Subcontinent and Palestine." (S.M.Herald, 4.9.95) یعنی گمشدہ قبائل کے متعلق یقین کیا جاتا ہے کہ وہ شمالی افریقہ، کشمیر، کاکیشیا ( یعنی صاف

Page 148

141 رنگ کی نسلیں جو یورپ، شمالی افریقہ، جنوب مغربی ایشیا اور برصغیر ہند میں آباد ہیں ) سپین ، پرتگال، جنوبی امریکہ، برصغیر ہندوپاک اور فلسطین میں بکھرے پڑے ہیں.رہائی صاحب اس وقت کے لئے چشم براہ ہیں جب یہودی روایات کے مطابق حضرت مسیح آئیں گے اور اسرائیلی گھرانہ کے ۳۰ ملین ( ۳ کروڑ ) افراد کو اسرائیل میں جمع کریں گے.اسرائیلی حکومت کے ایک متنازعہ قانون کے تحت یہودی مذہب پر قائم اسرائیلی بلکہ ان کے پوتے بھی اسرائیل میں پورے شہری حقوق کے ساتھ آباد ہو سکتے ہیں.لیکن اسرائیل کی اپنی آبادی صرف پانچ ملین ہے اور وہ مزید یہودیوں کو وہاں بسانے میں لیت و لعل کرتی ہے.چنانچہ گزشتہ سال ۵۷ آباد کار شمال مشرقی ہندوستان سے اسرائیل پہنچے جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ ”بنی مناش“ (Beni Menasche) ہیں جو بائبل کے گم شدہ قبیلہ (Manasseh) کی نسل میں سے ہیں.اسرائیلی کہتے ہیں اگر ہم نے یہ دروازہ کھول دیا تو تیسری دنیا کے سینکڑوں ملین افراد غربت سے بچنے کے لئے یہاں بھاگے آئیں گے اور انسانوں کی یلغار اسرائیل کو لے ڈوبے گی.(الفضل انٹرنیشنل)

Page 149

142 حکومتوں کی ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کا روائیاں یوں تو حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کیا ہی کرتی ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل ایک دو بہت دلچسپ واقعات اخباروں میں آئے ہیں.ذرا آپ بھی سن لیجئے.جا کر نہ انڈونیشیا میں جاپان اور آسٹریلیا کے سفارت خانے ایک دوسرے سے ۶۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع ہیں.بظاہر تو یہ ناممکن سی بات لگتی ہے کہ آسٹریلیا کے سفارت خانے کے اندر کمرے کی کھڑکیاں بند کر کے دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تو ۶۰۰ میٹر دور جاپان کے سفارت خانے میں وہ باتیں صاف سنائی دیں لیکن ایسا ہوا اور پتہ نہیں کتنی بار ہوا.جوطریق اس غرض کے لئے اپنا یا گیا وہ یہ تھا کہ جاپانی سفارت خانے سے بعض شعائیں Infra Red Beam آسٹریلیا کے سفارت خانے کے ایک شیشہ کی بند کھڑکی پر پھینکی گئیں.اس کمرہ میں دو آدمی باتیں کر رہے تھے جس سے شیشہ میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا.انفراریڈ شعائیں اس ارتعاش کو لے کر واپس جاپانی سفارت خانہ پہنچیں وہاں ان کو مختلف آلات Processors and Filters میں سے جب گزارا گیا تو باتیں صاف سنی گئیں.آسٹریلیا والے جب جاسوسی سے متعلقہ عام معائنہ کر رہے تھے تو انہیں ان شعاؤں کا شک گزرا.چنانچہ انہوں نے کھڑکیوں پر ایسے خاص شیشے (Lens) لگا دئیے جو انفراریڈ شعاؤں کو محسوس کر لیتے ہیں.چنانچہ ان کو پتہ لگ گیا کہ جاپانی سفارت خانے کے مختلف کمروں سے آسٹریلیں سفارت خانے کے ایک خاص کمرے پر با قاعدہ شعائیں پھینکی جاتی ہیں.چنانچہ اس کا

Page 150

143 تدارک کر لیا گیا.حکومت آسٹر یلیا کو شکایت ہے کہ ماسکو، بیجنگ، وارسا، بلغراد، انقرہ، ہنوئی ، رنگون ، جاکر تہ اور براسیلیہ میں ان کے سفارت خانوں کے خلاف جاسوسی کا روائیاں کی گئیں.دو مقامات پر ایسے سیف نصب کئے گئے تھے جو آسانی سے کھولے جاسکیں.اس کے بالمقابل کینبرا آسٹریلیا میں چین کے سفارت خانے کے خلاف امریکہ نے جاسوسی کے آلات آسٹریلیا کی ملی بھگت سے نصب کئے تھے.چین نے ۱۸ ملین ڈالرخرچ کر کے کینبرا میں اپنے سفارت خانہ کی عمارت بنائی.امریکہ نے پانچ ملین ڈالر لگا کر اس کے ہر کمرے میں Fiber Optical Listening Devices یعنی فائبر آپٹک کے سننے والے آلات نصب کروادئیے.وہاں کی ہر بات ایک باہر کے مقام پر پہنچتی تھی اور وہاں سے براہ راست امریکہ پہنچتی تھی.امریکہ اپنے کام کی باتیں رکھ لیتا اور دوسری آسٹریلیا کو بھی بتادیتا.اس سودے میں آسٹریلیا کو گھاٹا رہا.کہتے ہیں آسٹریلیا نے چین کو سستے داموں گندم بیچنے کی بات چیت کی.امریکہ کو اس جاسوسی نظام کے ذریعہ علم ہو گیا اور اس نے مزید ستی کر کے (Subsidy دے کر ) چین کو بیچ دی.پھر امریکہ اور آسٹریلیا میں اس معاملہ میں شکر رنجی بھی ہوئی.بہر حال حیرانی ہوتی ہے کہ ان قوموں کے کان کتنے لمبے ہیں.ایک بند کمرہ میں آسٹریلیا میں ایک بات ہوتی ہے اور وہ اس وقت ہزاروں میل دور امریکہ پہنچ جاتی ہے.خیال سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو خدا نے کیا کیا طاقتیں دی ہیں.ایک سائنس دان جب کان کی بناوٹ پر غور کر رہا تھا تو اچانک پکار اٹھا کہ وہ خدا جس نے یہ کان بنایا ہے اور اس کو قوت سماعت بخشی ہے کیا وہ خود نہیں سنتا ہوگا ؟ وہ ضرور سنتا ہے وہ سمیع و بصیر ہے جو کچھ انسان کو ملا ہے اس کی ہلکی سی جھلک ہے.( الفضل انٹرنیشنل)

Page 151

144 سڈنی میں عیسائیوں کے ٹی وی کا اجراء کیتھولک چرچ کی ایک شاخ Jesuits سڈنی میں Pay TV کی کمپنی Foxtel - دو چینل ( پانچ صد گھنٹے فی ہفتہ ) خریدنے کے لئے بات چیت کر رہی ہے.اس فرقہ کو Society of Jesus بھی کہا جاتا ہے اور اس کی بنیاد ۱۵۳۳ء میں Jgnatius Loyola نے رکھی تھی.یہ فرقہ اپنے مشنری کاموں میں بہت فعال رہا ہے اور سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں چین، شمالی و جنوبی امریکہ اور ہندوستان میں عیسائیت پھیلانے میں بہت سرگرم رہا ہے.ٹی وی کی کمپنی اکتوبر اور دسمبر ۱۹۹۵ء کے دوران کیبلوں کے ذریعہ ۲۰۰ چینل جاری کر رہا ہے.یہ پہلا موقعہ ہے کہ آسٹریلیا میں عیسائیوں کی طرف سے ٹی وی جاری کیا جائے گا.ان کو امید ہے کہ Catholic Parishes۱۴۵۰ اور ۱۷۵۰ پرائیویٹ سکول ان کے چینل سے استفادہ کریں گے.اور ان کو فیس میں دس فیصد رعایت دی جائے گی اپنے ٹی وی کا نام انہوں نے Life Vision Net work رکھا ہے جس کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ ان کا پروگرام سیکس اور تشدد (Sex and Violence) سے مبرا ہوگا.اس میں تعلیمی وتربیتی اور تفریحی پروگراموں پر مبنی دستاویزی فلمیں ، عام فلمیں ، خبریں اور فیملی پروگرام دکھائے جائیں گے.انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹی وی امریکہ کے بعض Hot Gospel Network کی طرح نہیں ہوگا.اس میں ایسے پروگرام پیش کئے جائیں گے جو آپ اپنے بچوں کو دکھا سکیں.(الفضل انٹرنیشنل)

Page 152

145 آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کی مسروقہ نسل کے لیڈر برنم برنم انتقال کر گئے مسٹر برنم برنم جو اپنی بھاری بھر کم سفید داڑھی کی وجہ سے ہر جگہ نمایاں نظر آیا کرتے تھے اور آسٹریلیا کے اصل باشندوں ایورجیز (Aborigines) کے لیڈر، مصنف، تاجر اورا یکٹر تھے اگست ۱۹۹۷ء میں عارضہ قلب سے انتقال کر گئے.۱۹۸۹ء میں جب حضرت خلیفتہ اسیح الرابع ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آسٹریلیا کے دورہ پر تشریف لائے تھے.تو یہ صاحب بھی مع اپنے ایک گروپ کے حضور سے ملاقات کیلئے آئے تھے وہ ایو جنیز کی اس نسل کے نمائندہ تھے جنہیں ”مسروقہ نسل“ (Stolen Generation) کہا جاتا ہے.وہ ان ہزاروں بچوں میں سے ایک تھے جن کو حکومت نے ان کے والدین سے زبردستی چھین کر مختلف اداروں اور چرچوں کی کفالت میں دے دیا تھا، ان کا ماضی ان سے چھین لیا گیا.انہیں عیسائی مذہب اور کلچرسکھایا گیا.ان کے والدین اور قبیلوں سے ان کا تعلق منقطع کر دیا گیا اور ان پر طرح طرح کے ظلم روا ر کھے گئے.برنم برنم ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے.ابھی پانچ ماہ کے تھے کہ گوروں نے زبر دستی ان کی والدہ کی گود سے انہیں چھین لیا.پہلے تو دس سال کی عمر تک انہیں United Aboriginal Mission Home جو بو ماڈیری (Bomaderry) کے مقام پر تھا رکھا گیا اور پھر مزید چھ سال تک کمسی (Kemsey) کے

Page 153

146 Kemchila Boy Home میں رکھا گیا.دوسرے ادارہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں وہاں انسان نہیں بلکہ حیوان سمجھا جاتا تھا.رات کے وقت ان کے سامنے بے حیائی کے کام کئے جاتے.ایک بار اتفاقا مجھ سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا تو سزا کے طور پر ننگا کر کے میری پیٹھ پر دس کوڑے برسائے گئے جس کے نتیجہ میں تین ماہ تک بیٹھ نہ سکا.یہ ایسا تجربہ تھا جو میری روح پر نہ مٹنے والے حروف میں لکھا جا چکا ہے.بعد میں برنم برنم ساری عمر ا یوجنیز کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے.انہوں نے بڑی عمر میں جا کر ایک گوری عورت سے شادی کی جوان سے عمر میں بہت چھوٹی تھی اس بیوی سے ایک بیٹا ۱۹۸۹ء میں پیدا ہوا.ایوجیز کی مسروقہ نسل جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کے بارہ میں آسٹریلیا کے Human Rights and Equal Opportunity Commission نے حال ہی میں ایک رپورٹ مرتب کی ہے.یہ رپورٹ جب تک پارلیمنٹ میں پیش نہ ہو عوام کے لئے شائع نہیں کی جاسکتی لیکن اس کے بعض حصے اخبارات میں اشاعت کے لئے دے دیئے گئے ہیں.رپورٹ کا نام Bringing them Home ہے.سڈنی مارننگ ہیرلڈ کی ۲۴ رمئی ۱۹۹۷ء کی اشاعت کی Ms Debra jopson جو مضمون اس رپورٹ کے بارہ میں شائع ہوا ہے اس کے بعض حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کئے جاتے ہیں.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ”جب یورپین لوگوں نے آسٹریلیا پر قبضہ کیا تو اس کے ابتدائی ایام ہی سے ایبور جنی بچوں کو ان کے خاندانوں اور قبیلوں سے زبردستی جدا کیا جاتا رہا ہے.عموماً تو بچوں کو ان کے ماں باپ کی عدم موجودگی میں اٹھا کر لے جاتے تھے.لیکن یوں بھی ہوتا تھا کہ بچوں کو زبر دستی ان کی ماؤں کی گود سے چھین لیا جاتا.جن اداروں میں لے جا کر انہیں رکھتے انہیں ٹریننگ انسٹی ٹیوشن کا نام دیا ہوا تھا.جیسے گوٹا منڈرا ( cootamundra) والا.وہاں لڑکیوں کو گھر کا کام کاج سکھایا جاتا تھا.دراصل ان کوستے داموں گھر یلو نوکرانیوں کا حصول مقصود تھا.ان سے شدید تھکا دینے والا کام لیا جاتا تھا.گورے قدیمی باشندوں کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ آزاد نہ مخلوط جنسی

Page 154

147 تعلقات رکھتے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ جب یہ کالی بچیاں کام سے تھک کر چور ہو جائیں تو اس وقت وہ اس کام ( Promiscuity) سے بچیں گی.ان عورتوں سے کمیشن نے جو گواہیاں حاصل کیں ان کے مطابق ہر پانچ بچیوں میں سے ایک کو سخت زدوکوب کیا گیا اور دس میں سے ایک کو جنسی زیادتیوں کا شکار بنایا گیا.ایسے ادارے اور گھر جس میں یہ چوری کردہ بچے رکھے جاتے تھے ان سے ان کا ایبور جنی ہونا چھپایا جاتا تھا.یا کبھی اس کا انکار کر دیا جاتا تھا اور یا پھر ایور جنی ہونے کی بنا پر ان کو ذلیل کیا جاتا تھا.ان کی محنت کا استحصال ہوتا تھا.ان کو عام حالات سے بہت بدتر حالت میں رکھا جاتا تھا.ان کو تعلیم بھی بڑی معمولی اور نامکمل دی جاتی تھی.وہ وحشیانہ مظالم اور جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنتے تھے اور کئی بد قسمت تو ایسی تھیں کہ وہ متواتر جنسی ہوس کا نشانہ بنتیں.سینچلا (Kinchela) کا ادارہ تو بالکل قیدخانہ کی طرح تھا.اور وہاں انہیں حیوان سمجھا جاتا تھا....جان جب ابھی شیر خوار بچہ تھا کہ اسے اٹھا کر Bomaderry children Home میں لے گئے.جب وہ دس سال کا ہوا تو کنچلا کے ادارہ میں منتقل کر دیا گیا.وہاں کا حال بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ اگر ہم وہاں کسی ملازم کے آگے بول پڑتے تو ہمیں لائن“ میں بھیج دیا جاتا.وہاں اس زمانہ میں 9ے لڑکے تھے انہیں حکم دیا جاتا کہ ملزم کو باری باری مارو.چنانچہ وہ مکے مار مار کے تمہارا بھر کس نکال دیتے.مکے مارنے والوں میں تمہارا بھائی اور کزن بھی شامل ہوتا لیکن وہ مارنے پر مجبور تھے.اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو بھی لائن میں بھیج دیا جاتا.اگر کسی لڑکے کو مار کھا کھا کر پسلیاں یا ناک ٹوٹ جاتا تو بھی جب تک سارے ۷۹ لڑکے اس کو مار نہ لیتے ان کی جان نہیں چھوٹتی تھی.اور یہ روز کا معمول تھا.کہیں ۱۹۳۵ء میں جا کر Aborigines Protection) Board نے فیصلہ کیا کہ کنچلا کے ادارہ کے سربراہ کو کہا جائے کہ لڑکوں کو جنگلے

Page 155

148 (Fence) یا درختوں کے ساتھ نہ باندھا کریں.نہ ان کو ہوز پائپ یا کوڑوں کے ساتھ مارا جائے.لیکن اب ان پر دوسری نوعیت کے ظلم ہوتے تھے.مثلاً ان اداروں کو اتنے کم فنڈ دیئے جاتے کہ وہ ہمیشہ بھو کے ہی رہتے.ان کی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کی جاتیں.ان کو علاج کی سہولت سے بھی محروم رکھا جاتا چنانچہ بہت تھے جو وقت سے پہلے مرجاتے.“ ایک اور شخص نے جو کنچلا کے ادارہ میں رہ چکا تھا اور ۱۹۵۰ء میں نو سال کا تھا، کمیشن کے رو برو بیان دیتے ہوئے کہا: آپ کو پتہ ہے ہمیں وہاں کھانے کو کیا ملتا تھا.گھاس پھونس اور بند (Straw and Buns) بس وہ ہماری چائے تھی.اب تنکے تو نگلے نہیں جاسکتے تھے جب انہیں چن کر باہر پھینکے لگتے تو ہمیں چھڑیوں سے پیٹا جاتا اور وہ تنکے مجبوراً ہمیں کھانے پڑتے.“ ایک اور عورت جس کا نام Lola Mcnaughton تھا وہ بھی ان اداروں میں بچپن گزار چکی تھیں بعد میں وہ ایک تنظیم Link Up کی طرف سے ایور جیز کی مسروقہ نسل پر ریسرچ کا کام بھی کرتی رہیں وہ کہتی ہیں : مجھے کوٹا مینڈرا ہوم Cootamundra Home) کے وہ بد نام زمانه صندوق نما کمرے (Box Room) خوب یاد ہیں.ان میں نہ روشنی کا گزر ہو سکتا تھا نہ ہوا کا.رات کے وقت لڑکیوں کو ان کمروں میں بطور سزا کے بند کر دیا جاتا تھا.مجھے عملہ کا وہ رکن بھی یاد ہے جو خاص طور پر بڑا ظلم کیا کرتا تھا بالخصوص ہفتہ کی صبح وہ فرش صاف کروایا کرتا تھا.ہم ایک جھاڑو (Mop) لے کر اس وقت تک فرش صاف کرتے رہتے جب تک ہم اپنا بچپن کا چھوٹاسا کالا منہ نہ دیکھ سکتے.اگر اتنا ابھی صاف نہ ہوتا تو وہ شخص پانی کا ایک ڈول وہاں پھینک دیتا اور کہتا کہ دوبارہ صاف کرو.میرے والدین دور کا سفر کر کے اپنے گاؤں Tingha سے چل کر مجھے ملنے کے لئے آئے لیکن

Page 156

149 کوٹامنڈرا کی نمائش گراؤنڈ سے دو میل دور ہی روک دئے گئے وہ بقیہ دومیل کا سفر کبھی طے نہ کر سکے.پتہ نہیں کیوں؟ وہاں اس ادارہ میں لڑکیاں ایک دوسرے کا سہارا بنتیں.وہاں ایک لڑکی Alice میرا اتنا خیال رکھتی کہ میں اسے اپنی رضاعی والدہ مجھتی تھی.وہ اٹھارہ سال کی عمر کی وہاں سے چلی گئی.میری عمر اس وقت تیرہ سال تھی.اس کے جانے پر میرا برا حال ہو گیا.مجھے لگتا تھا جیسے کسی نے مجھ سے میری ماں چھین لی ہے.لیکن بعد میں میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا.“ رپورٹ کے مطابق: قدیم باشندوں کو اپنے اندر سمو لینے Assimilation کی پالیسی پر عمل کے دوران ایبور جنل والدین از روئے قانون اپنے ایسے بچوں سے رابطہ قائم نہیں کر سکتے تھے جن کو مختلف اداروں میں رکھا ہوا ہو.ایسے کسی بچہ کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا جو ان اداروں میں مقیم ہو یا ایسے کسی ادارہ میں داخل ہونا قانونی طور پر جرم تھا.“ کمیشن کے سامنے کئی دردناک داستانیں بیان کی گئیں.اخبار میں ایک فوٹو چھپا ہے جس میں ایک گورے نے ہاتھ سے ہل پکڑا ہوا ہے اور چھوٹے پانچ سات سال کی عمر کے کالے بچے جانوروں کی طرح ہل کو آگے سے کھینچ رہے ہیں.ایک گواہ نے کمیشن کو بتایا کہ د میں نے لڑکیوں کو بالکل ننگی حالت میں کرسیوں کے ساتھ بندھے دیکھا ہے جن پر کوڑے برسائے جارہے تھے.ہم میں سے سبھی کمروں میں بند کئے جانے کی اذیت برداشت کر چکی ہیں.ہمیں اندھیرے کمروں میں بند کر دیا جاتا تھا.“ مذکورہ بالا رپورٹ کے جو چند اقتباسات اخباروں میں شائع ہوئے ہیں ان سے بہت گوروں کو یہ احساس ہوا ہے کہ ہم اور ہمارے آباؤ اجداد کالے قدیم باشندوں پر ظلم کرتے رہے ہیں.

Page 157

150 چنانچہ انہوں نے وزیرا عظم جان ہاورڈ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایور جنیز سے معافی مانگیں.چنانچہ وزیر اعظم نے اپنی ذاتی حیثیت میں جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے لیکن وزیر اعظم کی حیثیت سے یعنی حکومت کی طرف سے معافی نہیں مانگی کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں ظلم سہنے والے معاوضہ کا مطالبہ شروع کر دیں گے جیسا کہ کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں زیادتیوں کا نشانہ بننے والوں کو معاوضہ ادا کرنے کی سفارش کی ہے.ایسے لوگ جو استعماریت کی ذہنیت کو بے نقاب دیکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے مذکورہ بالا رپورٹ کا مطالعہ دلچسپی کا حامل ہوگا.(الفضل انٹر نیشنل)

Page 158

151 مشہور آدمیوں کے بال چوری ہونے کا خطرہ.جب سے یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ کسی شخص کے بالوں سے اس کا ڈی این اے حاصل کر کے بطریق کلونگ ہو بہو اس شخص کی شکل وصورت کا انسان پیدا کیا جاسکتا ہے (اگر چہ اس کی روح اور اس سے متعلقہ اخلاقی و روحانی استعدادیں مختلف ہوں گی ) بڑے بڑے آدمیوں کے بالوں کی خرید و فروخت کا کاروبار شروع ہو گیا ہے.آرمسٹرانگ (Armstrong) چاند پر قدم رکھنے والا پہلا شخص تھا وہ امریکہ میں ایک دوکان سے ہر ماہ حجامت بنوایا کرتا تھا.اس کے بار بر کے پاس ایک ایسا شخص آیا جس کا دھندا دنیا کے بڑے بڑے آدمیوں کے بال جمع کرنا ہے اور اب تک کئی مشہور شخصیات کے بال اکٹھے کر چکا ہے جن میں آئن سٹائن ، ابراہام لنکن ، جان کینیڈی، نپولین اور کنگ چارلس وغیرہ شامل ہیں اس نے بار بر سے آرمسٹرانگ کے بال خریدنے کی پیشکش کی لیکن بار برنے انکار کر دیا.لیکن جب اس نے بہت اصرار کیا تو وہ تین ہزار ڈالر کے عوض بال بیچنے پر رضا مند ہو گیا.بار بر نے قیمت وصول کی اور اپنے بل ادا کر دئیے جب آرمسٹرانگ کو اس کا علم ہوا تو اس نے اپنے بال واپس طلب کئے.جب بار بر نے معذوری ظاہر کی تو اس نے اپنے وکیل کے ذریعہ اس کو دھمکی دے دی آخر معاملہ اس پر ختم ہوا کہ بار بر وہ رقم آرمسٹرانگ کی مرضی کے مطابق خیرات کر دے.یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے.اس طرح کے کئی واقعات ہو چکے ہیں.ایک گلوکار

Page 159

152 پرسیلے ) کے بال اس کے بار بر نے ۱۲۰ ، ۱۵ا ڈالر میں فروخت کئے تھے اور اس سلسلہ ریکارڈ قائم کیا تھا.(ماخوذ سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۳ / جون ۲۰۰۵ء) (الفضل انٹر نیشنل)

Page 160

153 مردہ عضو کی تجدید کی کوشش انسان کے جسم میں اوسطاً دس ہزار ارب (Ten Trillion) سیلز ہوتے ہیں.ہرسیل (Cell) کے مرکزہ (DNA) میں تین ارب جنیاتی حروف (Genetic Letters) ہوتے جن سے وہ ہدایات یا پروگرام مرتب ہوتا ہے جن کے مطابق جسم کا کوئی خاص حصہ بنتا اور کام کرتا ہے.یہ ہدایات جو Genes کہلاتی ہیں اور تعداد میں تمہیں تا چالیس ہزار ہوتی ہیں ہرسیل کے اندر مالک نے رکھی ہوتی ہیں.لیکن ہر عضو یا ٹشو میں کچھ ہدایات فعال (Active) ہوتی ہیں اور کچھ خوابیدہ (Dormant).ایسا ہونا ضروری ہے ورنہ جسم کا کوئی حصہ بھی نہ بن سکے.اگر ان ہدایات کو اپنی مرضی کے مطابق فعال یا خوابیدہ بنایا جاسکے اور یہ پتہ چل جائے کہ جسم کے کونسے حصہ میں وہ کونسی ہدایات ہیں جو فعال یا خوابیدہ ہوتی ہیں اور ایسی تبدیلی کر کے اس کو جسم کے اس حصہ میں پہنچا دیا جائے تو وہ خود ہی وہاں افزائش پاکر مردہ حصہ جسم کا کام سنبھال لے گا.اس کو Reprogramming of Genes کہا جاتا ہے.یہ تجربات اب چوہوں پر ہورہے ہیں.چوہے کی جلد سے سیل لے کر اس کی پروگرامنگ تبدیل کر کے اس کے مردہ عضو کی مرمت بطور تجربہ کی جارہی ہے.ہارورڈ یونیورسٹی کے ریسرچرز کو امید ہے کہ یہ طریق انسانوں میں بھی کام کرے گا اور یوں ایک وقت آئے گا کہ کینسر، ذیا بیطس، الزائمر اور جسم کے دوسرے بیمار یا مردہ اعضا کی تجدید یا مرمت ممکن ہو سکے گی.اور اس طریق کے لئے جنین (Embryo) تیار کرنے اور اس کو ضائع کرنے

Page 161

154 کی ضرورت نہیں رہے گی جس کی اخلاقیات (Morality) کی بنیاد پر مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ آج کل یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابتدائی سیل (Stem Cell) جس کو پروگرام دے کر کوئی بھی حصہ جسم کا بنایا جاسکتا ہے وہ صرف جنین کی ابتدائی حالت سے ہی حاصل ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ خام ہو اور اس کی ابھی پروگرامنگ نہ ہوئی ہو ( یعنی ابھی سیل بالغ (Mature) نہ ہوا ہو.جس کو اپنا کام سرانجام دینے کی ہدایات مل چکی ہوں ) سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اگر جسم کے سارے ڈی این اے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر رکھے جائیں تو یہ اتنی لمبی زنجیر بنے گی کہ سورج جو نور کروڑ میل دور ہے وہاں تک پہنچ کر چھ سو بار واپس زمین تک آسکے گی اور ان پر جو انفرمیشن یا ہدایات درج ہیں ان کو لکھنے کے لئے ۵۰۰ صفحات پر مشتمل ۲۰۰ ٹیلی فون ڈائریکٹری کے برابر رجسٹر درکار ہیں.(ماخوذ سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۱۸ جون ۶۲۰۰۵) کیا یہ اتفاقی حادثہ ہے یا ایک کامل حکیم ہستی کا عظیم الشان ڈیزائن؟ (الفضل انٹر نیشنل)

Page 162

155 اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا اگر کسی حادثہ میں کان ٹوٹ کر گر جائے (یا کوئی ماسٹر مروڑ تے مروڑتے جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکے) تو بازار سے نیا کان آرڈر پر بنوایا جاسکتا ہے جو اصلی کان ہی کی طرح انسان کے اپنے جسم کا حصہ ہوگا.سائنس کی اس نئی شاخ کا نام ” ٹشو انجینئر نگ“ ہے اس میں لیبارٹری میں انسان کی اپنی جلد اور مرمری ہڈی کو جسم کے ایک ذرہ سے اگا کر بڑھایا جاسکتا ہے.فی الحال اس لیبارٹری میں کان اور ناک بنائے جا سکے ہیں.بعض لوگوں کے کان لڑائی بھڑائی میں اتنے کچلے جاتے ہیں کہ انہیں کو دوبارہ نہیں لگایا جاسکتا ایسی صورتوں میں یہ سائنس کام آئے گی.لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوگئی بلکہ اب جگر ، جلد ، کان مرمری ہڈی، دل کے والو، وہ سخت قسم کے ریشے جو پٹھوں کو ہڈی سے جوڑتے ہیں (Tendons) آنتیں.خون کی شریانیں اور چھاتی کے اعصاب تک کامیابی سے بنانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے.اس کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بہت دلچسپ تھا.مختلف شکل کے اعضاء تیار کرنے کے لئے ایک خاص قسم کا مصالحہ Porous, Biodegradable) (Polyester تیار کیا گیا.اس سے کان کی شکل کا فرما(Scaffolding) بنایا گیا اس کے اوپر انسانی مرمری ہڈی کے ذرات بکھیرے گئے ان کو اب ترقی دینے کے لئے پہلے سے تیار شدہ ایک چوہے کے جسم پر لگا دیا گیا.یہ چوہا بغیر بالوں کے تھا اور DNA انجینئر نگ کے ذریعہ اس کو ایسا بنایا گیا تھا کہ اس میں دفاعی نظام (Immune System) بہت ہی کم ہوتا کہ وہ انسانی جسم کی

Page 163

156 پیوند کاری کو بڑھانے سے انکار نہ کر دے یعنی Reject نہ کر دے.امریکہ میں ٹشو انجینئر نگ کی شاخ پر کافی تحقیقی کام ہورہا ہے.(الفضل انٹر نیشنل )

Page 164

157 و نیلی بیگم کی ملکیت پر جھگڑا پرنس آغا خان کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے.انہوں نے پچیس سال قبل ایک برطانوی نژاد ماڈل گرل سارہ کرو کر پول (Sarah Crocker Poole) سے شادی کی تھی اور ان کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا تھا.آغا خان اسماعیلیوں کے امام ہیں.ان کے اس شادی سے تین بچے بھی ہیں.آپ برطانوی شہری ہیں اگر چہ رہائش بالعموم سوئٹزرلینڈ میں رہتی ہے.اب میاں بیوی کی علیحدگی ہوگئی ہے اور جنیوا کی عدالت میں 19 ملین ڈالر کے ہیروں کی ملکیت کے مسئلہ پر مقدمہ چل رہا ہے.ان ہیروں میں سب سے قیمتی ہیرا دل کی شکل کا ایک گہرے نیلے رنگ والا ہے جس کا نام ” نیلی بیگم (Blue Bagum) ہے اور اکیلا ہی تقریباً نوے لاکھ ڈالر کا ہے.پرنس سلیمہ اسے فروخت کرنا چاہتی ہیں لیکن آغا خان نے جنیوا کی عدالت سے اس فروخت کو روکنے کا حکم نامہ حاصل کر لیا ہے.طلاق کی شرائط کے مطابق تمام ہیرے شہزادی سلیمہ کی ملکیت ہیں لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یہ خاندان ہی میں رہیں گے.دیکھیں نیلی بیگم، بالآخرکون لے جاتا ہے.(الفضل انٹرنیشنل )

Page 165

158 گلیوں اور پارکوں کی صفائی کے لئے پچیس ہزار مکھیوں کی بھرتی ایک خبر کے مطابق Warringah کی کونسل آسٹریلیا یا شاید دنیا بھر میں پہلا ادارہ ہے جس نے گلیوں اور پارکوں میں سے کتوں کے پاخانہ کو ختم کرنے کے لئے فرانس ، پین اور شمالی افریقہ سے ۲۵ ہزار مکھیاں درآمد کی ہیں.یہ پہلا حیاتیاتی ہتھیار ہے جو کتوں کے پھیلائے ہوئے گند کے خلاف استعمال کیا گیا ہے.اس کونسل کے علاقہ میں کتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو سات لاکھ بیان کی جاتی ہے اور سٹرکوں اور پارکوں وغیرہ میں ۰۰اٹن گند ہر روز پھیلاتے ہیں جس کی وجہ سے بارش کا پانی جو اس علاقہ سے بہہ کر آتا ہے اس میں فاسفیٹ کی مقدار بہت بڑھ گئی ہے نیز اس کے ذریعہ سے پانی میں ایسے جراثیم داخل ہو جاتے ہیں جس سے کان کی بیماری پیدا ہوسکتی ہے.یہ کھیاں اس گند کو چٹ کر جاتی ہیں اور خوب پھولتی پھلتی ہیں لیکن یہ ے ملی میٹر سے زیادہ لمبی نہیں ہوسکتیں اور جونہی ان کی غذا ختم ہوتی ہے وہ اپنا کام ختم کرتے ہی مرجاتی ہیں.لہذا فضا میں آلودگی نہیں پیدا کرتیں.مکھیوں کو خریدنے سے پہلے ان کے بارہ میں پوری معلومات حاصل کی گئیں ان کی صفات و عادات کا معائنہ کیا گیا اور غالبا یہ بھی سوچا گیا ہوگا کہ تین مختلف علاقوں کی مکھیوں کا باہمی ربط وضبط

Page 166

159 کیسا ہوگا اور آیا شمالی افریقہ کی مکھیاں فرانس والوں کو اور فرانس والی سپین والوں کو برداشت کر سکیں گی یا نہیں اور پھر کسی نے کہا ہوگا کہ مکھیاں بہر حال مکھیاں ہیں کوئی انسان تو نہیں کہ باہم فساد کریں گی اور ایک دوسرے کا خون بہائیں گی.اور یوں بغیر کسی کھنکہ کے بھرتی کر لی گئیں اور بغیر تنخواہ کے مزدور میر آگئے.(الفضل انٹر نیشنل)

Page 167

160 مکڑی کی مامتا آسٹریلیا کے یوکلپٹس کے جنگلوں میں مکڑی کی ایک خاص قسم پائی جاتی ہے جس کا نام (Crab Spider) ہے.دنیا بھر میں مکڑیوں کی پینتیس ہزار انواع پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے.اس پر ملبورن یونیورسٹی نے تحقیق کی ہے جو جولائی ۱۹۹۵ء کے رسالہ Nature میں شائع ہوئی ہے.یہ مکڑی دوسری انواع کے برخلاف گرمیوں میں انڈوں پر بیٹھتی ہے.اور اس کے بچے ابھی اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ خود غذا تلاش نہیں کر سکتے کہ سردیاں آجاتی ہیں.چنانچہ ماں موسم خزاں میں اپنے آپ کو موٹا کرتی رہتی ہے.پھر اپنے خون (Hyemolymph) کوغذائیت سے بھر پور دودھ میں تبدیل کرتی ہے.پھر اپنا آپ ان کے آگے ڈال دیتی ہے.وہ ابھی زندہ ہی ہوتی ہے لیکن بچے اس کا خاص طور پر تیار شدہ خون چوستے ہیں.پھر اس کے انڈے، ذوق وشوق سے کھاتے ہیں.پھر ماں کی ٹانگیں ان کی بھوک کا مداوا کرتی ہیں.پھر آہستہ آہستہ باقی جسم بھی ان کی نذر ہو جاتا ہے.تب تک موسم سرما بہار میں تبدیل ہونے لگتا ہے اور بچے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو جاتے ہیں.اس طرح ماں خود اپنی قربانی پیش کر کے اپنی زندگی اپنے بچوں کو منتقل کر دیتی ہے.محقق ایک مخصی منی مکڑی کی مامتا کے جذ بہ پر حیران ہیں جس کا سارا جسم 9 ملی میٹر اور طبعی عمر ایک سال ہوتی ہے.سائنس دانوں نے پتہ کیا کہ جب ماں یہ قربانی پیش کر رہی ہوتی ہے تو بچوں کا

Page 168

161 باپ کہاں ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ غریب مادہ مکڑی سے ملاپ (Mating) کرنے کے فورا بعد ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا.گو یا ماں باپ دونوں کی بے مثال قربانی کی بدولت ہی ان کی نسل زندہ ہے.وہ دونوں ہی تعریف کے قابل ہیں لیکن اصل تعریف تو اس خدا کی ہے جس نے ان کے اندر ایسا جذ بہ بطور جبلت پیدا کر دیا.جو وہ نسلاً بعد نسل اپنی اولاد کو ورثہ میں منتقل کرتے چلے جاتے ہیں.کروڑوں ہی موسم سرما ان پر گزرچکے ہوں گے لیکن ان کے وجود کومٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکے.(الفضل انٹرنیشنل)

Page 169

162 اڑن طشتریوں کی حقیقت اخبار گارڈین لکھتا ہے کہ اڑن طشتریوں کی حقیقت معلوم کرنے کا بخار جتنا مغربی دنیا کو آج کل چڑھا ہوا ہے.اتنا پہلے کبھی نہ تھا.ایک پندرہ روزہ رسالہ Fortean Times تو صرف ایسی باتوں کے لئے وقف ہو گیا ہے جن کی سائنسی توجیح ممکن نہیں.لوگوں کے ذوق شوق کا یہ عالم ہے کہ تین سال قبل اس کی اشاعت جو صرف تین ہزار تھی اب بڑھ کر چالیس ہزار ہو چکی ہے.انٹرنیٹ (Internet) اڑن طشتریوں (U.F.O) یعنی Unidentified Flying Objects پر بحثوں سے اٹا پڑا ہے.اس پر یونیورسٹیوں کے پروفیسر تک کتابیں لکھ رہے ہیں جو ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہیں.الغرض اڑن طشتریوں پر گفتگو اب ایک دلچسپ مشغلہ بن چکا ہے.اصل بات یہ ہے کہ مغربی دنیا روحانی رموز و اسرار پر آگاہی حاصل کرنے کے لئے بہت متجسس ہے لیکن وہ مذہب کا رخ اس لئے نہیں کرتے کہ اس کے احکام و قوانین پر عمل کرنا انہیں دو بھر لگتا ہے.اس لئے ادھر ادھر سے اسرار روحانی کا علم حاصل کرنے کے لئے کان لگائے بیٹھے ہیں.لوگوں کے بڑھتے ہوئے تجس کو دیکھتے ہوئے اب اڑن طشتریوں پر ایک فلم بھی بن گئی ہے جو اگست میں دکھائی جائے گی.کہتے ہیں فلم میں وہ مبینہ منظر بھی شامل ہوگا جس میں دو ایسے مردہ اجسام پر اپریشن کیا گیا تھا جن کی اڑن طشتری نیو میکسیکو کےRoswell Air Force Base نزدیک ۴ جولائی ۱۹۴۷ء کو دن کے ساڑھے گیارہ بجے زمین پر گر کر تباہ ہوگئی تھی.ڈاکٹر جن کا آپریشن

Page 170

163 کرتے دیکھائے گئے ہیں ان کی بارہ بارہ انگلیاں تھیں، بارہ ہی ٹخنے ، پیاز کی شکل کے جسم اور لمبے سر تھے.جولوگ اڑن طشتریوں کے وجود کو مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی ائر فورس نے اس واقعہ پر پردہ ڈالا ہوا ہے.لیکن دوسری طرف ائر فورس والوں کا کہنا ہے کہ اس فلم میں جو کچھ وہ دکھانے کا کہتے ہیں وہ ایک دھو کہ پر مبنی مذاق کے سوا کچھ نہیں.اڑن طشتریوں کی حقیقت کے بارہ میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا.اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ زمین کے علاوہ آسمانی کروں میں بھی چلنے پھرنے والی زندہ مخلوق خدا نے پیدا کی ہے.جیسا کہ فرماتا ہے: اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے جانداروں کی قسم سے اس نے پھیلایا ہے.اس کے نشانوں میں سے ہے اور جب چاہے گا ان سب کو جمع کرنے پر قادر ہو گا (الشوری: ۳۰) خدا ہی جانتا ہے کہ اس مخلوق کی نوعیت کیا ہے اور یہ اجتماع کب ، کیسے اور کہاں ہوگا.اس کائنات میں کہیں ہوگا یا قیامت کے روز.(الفضل انٹرنیشنل)

Page 171

164 کیا ستر ولاکھ انواع کے جوڑے کشتی نوح میں سوار کئے گئے تھے؟ یواین او کے ایک ادارہ نے دنیا میں موجود انواع (Species) کی پہلی بار گنتی کی ہے (First Global Biodiversity Assessment) جس کے مطابق دنیا میں حیوانوں، درختوں ، پودوں ، کیڑے مکوڑوں اور بکٹیر یا وغیرہ کی تیرہ تا چودہ ملین انواع پائی جاتی ہیں.جن میں سے تمہیں ہزار انواع صرف ایک نوع ( یعنی انسان) کے ہاتھوں مٹنے کے قریب ہیں.ان انواع میں سے صرف پونے دو ملین ایسی ہیں جن کو دستاویزی شکل میں ریکارڈ پر اب تک لایا جا چکا ہے.کیٹروں میں سے سات ملین انواع ایسی ہیں جن کو ابھی شمار نہیں کیا جاسکا.یہی حال دوسری انواع کا ہے.ایک اخباری کالم نگاران اعداد و شمار کونقل کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ وہ انواع کے بھی کیا کہنے ہیں چودہ ملین انواع کے جوڑوں کو ایسی کشتی میں بھر دینا جو صرف ۱۵۰ میٹر لمبی ۲۵ میٹر چوڑی اور ۱۵ میٹر اونچی تھی جگہ کے صحیح استعمال کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو صرف انہی کا حصہ تھی.لیکن سب سے بڑا کارنامہ ہے جو صرف انہی کا حصہ تھی.لیکن سب سے بڑا کارنامہ تو عظیم الجثہ ڈائنا سورز (Dinosaurs) کوشتی میں سوار کرنا تھا لیکن افسوس کہ حضرت نوح کی کوشش کے باوجود یہ نوع زیادہ دیر تک نہ بچ سکی.کالم نگار نے جس واقعہ کی طرف طنز یہ اشارہ کیا ہے وہ بائبل میں پیدائش (Genesis)

Page 172

165 کے باب سات اور آٹھ میں بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق طوفان نوح ساری زمین پر محیط تھا اور ہر زندہ چیز جو زمین پر اس وقت موجود تھی انسان، جانور، پرندے وغیرہ سب مٹ گئے تھے اور صرف وہی بچے تھے جو نوح کے ساتھ کشتی پر سوار تھے.یہ بیان موجودہ بائبل کے ان مقامات میں سے ہے جنہوں 9966 نے لوگوں کو د ہر یہ بنا کر مذہب سے دور کر دیا ہے اور قرآن کریم نے بائبل کی اصلاح کی ہے.قرآن کے مطابق نوح تمام دنیا کی طرف نبی نہ تھے بلکہ ایک قومی نبی تھے.قرآن بار بار اس کی قوم ” میری قوم کے الفاظ میں ان کی امت کا ذکر کرتا ہے.شرعی عذاب نبی کے انذار کے بعد ہی نازل ہوتا ہے.حضرت نوح نہ ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور نہ ساری دنیا پر طوفان کا عذاب آیا تھا.یہ بھی قرآن میں نہیں لکھا کہ حضرت نوح کو تمام ذی حیات انواع اور ان کی خوراک کو کشتی پر سوار کرنے کا حکم ملا تھا.ان کو صرف ضروری جانور ساتھ رکھنے کا حکم ہوا تھا.ایسے ہی تمام دنیا کے انسان نوح کے تین بیٹوں کی اولاد نہیں بلکہ جہاں نوح علیہ السلام کے ساتھ جو چند مومن تھے ان کی نسل چلی ہوگی وہاں ان انسانوں کی بھی جو زندگی کے آغاز ہی سے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل چکے تھے.پس جہاں قرآن کریم صحیح واقعات کو بیان کرتا ہے وہاں اس امر میں بائبل کا بیان وحی والہام سلسلہ نبوت اور خدا کی ہستی کے بارہ میں مطمئن نہیں کرتا بلکہ شکوک وشبہات میں مبتلا کرتا ہے جیسا کہ کالم نگار کے مذکورہ بالا فقرات سے ظاہر ہے.(الفضل انٹر نیشنل 2.2.96)

Page 173

166 فطرت انسانی کی آواز آسٹریلیا میں کئی چرچوں کے تعاون سے ایک سروے حال ہی میں کیا گیا ہے جس کا مقصد یہ پتہ لگانا تھا کہ چرچوں کی حاضری جو دن بدن گررہی ہے تو کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ لوگوں کو خدا کی ذات پر سے ہی ایمان اٹھ گیا ہے یا ان کو چرچ میں جانے کی کوئی افادیت نظر نہیں آتی.سروے کے نتائج دلچسپ ہیں پہلی بات تو یہ کہ ۷۵ فیصد لوگوں نے کہا کہ خدایا کوئی طاقت بالا ضر ور موجود ہے اور ۱۰ فیصد نے کہا کہ کوئی بالا طاقت ہونی چاہئے اور یہ ۸۵ فیصد وہ لوگ تھے جن کی اکثریت چرچ نہیں جاتی.صرف ۸ فیصد ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ انہیں خدا پر یقین نہیں ہے اور باقی نے یہ کہا کہ انہیں خدا کے وجود میں شک ہے.دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بے خدا معاشرہ کے صرف ۲۰ فیصد افراد نے کہا کہ خدا کے احکامات خداوندی پر عمل کرنا چاہئے.ریسرچ کے نتیجہ کے طور پر اس کے مصنف کہتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے عقیدہ اور عمل کا درمیانی رابطہ ٹوٹ چکا ہے کچھ لوگ جن کو مذہب سے زیادہ لگاؤ ہے وہ خدا اور بندے کے درمیان ایک فعال تعلق کے قائل ہیں لیکن بہت دوسرے ایسے ہیں جو ایسا خیال نہیں کرتے.“ (الفضل انٹرنیشنل 2.2.96)

Page 174

167 آسٹریلیا کے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے بھو کے جراثیم کی خدمات حاصل کی جائیں گے گھروں کا کوڑا کرکٹ دو قسم کا ہوتا ہے ایک نامیاتی (Organic) یعنی جوایسی اشیاء کا بچا کھچا حصہ یا فضلہ ہوتا ہے جو زمین اگاتی ہے اور دوسرا غیر نامیاتی (Inorganic) جیسے پلاسٹک کاغذ گفتہ، کپڑا وغیرہ پہلی قسم جو نامیاتی ہے اس کے کوڑا کرکٹ کی مقدر آسٹریلیا کے بڑے آٹھ شہروں میں ۲۲ ملین ٹن تک سالانہ ہوتی ہے.اتنی بڑی مقدار کو ٹھکانے لگانا ایک خاصہ مشکل مسئلہ ہے حکومت نے ۲۰۰۰ ء تک اس مقدار کو ۴۰% کم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے.حکومت نے بتیس لاکھ ڈالر کے خرچ سے ایک تحقیق کروائی ہے جو دنیا بھر میں سلسلہ کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تحقیق ہے.چنانچہ ایک ایسا بکٹیر یا تیار کیا گیا ہے جو تمیں سال کی بجائے صرف پانچ سال کے عرصہ میں کوڑا کرکٹ کو کھا کر اور اس پر عمل کر کے اسے نہایت قیمتی کھاد میں تبدیل کر دے گا جو ملک کے اندر اور باہر فروخت کی جاسکے گی اور پھلوں اور اجناس کی پیداوار بڑھانے کا موجب ہوگی.اس طرح ان جراثیم ( بکٹیریا ) کی مدد سے ہر سال جہاں کروڑوں ٹن کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگ جایا کرے گا وہاں نہایت قیمتی روڑی بھی مہیا ہو جائے گی.گویا آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی بات ہے.(الفضل انٹر نیشنل 16.2.96)

Page 175

168 عمر بھر تر و تازہ رہنے کے لئے مچھلی کھائیں انگلینڈ کے طبی مجلہ The Lancet میں یونیورسٹی آف سرے کی ایک تحقیق شائع ہوئی ہے کہ مچھلی کے تیل میں جو اومیگا ۳ (Omega3) قسم کے تیل ہوتے ہیں وہ رات کے وقت نظر کی خرابی اور آنکھوں کی بیماری Dyslexia) جس میں پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے ) کے لئے بہت مفید ہے.جو مائیں حمل کے دوران مچھلی زیادہ کھاتی ہیں ان کے بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور جو ہونے والی مائیں مچھلی نہیں کھاتیں ان کے بچوں کے دماغ اور آنکھ کے پردہ کی جھلی کمزور رہ سکتی ہے کیونکہ اس سے ڈی ایچ اے (Docosahexaenoic Acid) کیکمی ہوجاتی ہے.جس کی وجہ سے دماغ اور آنکھوں کی صحیح نشو و نما نہیں ہوسکتی.مچھلی پر کئی ادارے تحقیق کر رہے ہیں.سڈنی کے رائل سرنیس الفریڈ ہسپتال والوں نے تحقیق کی ہے کہ جو بچے مچھلی نہیں کھاتے ان میں سے ۴، ۱۸ فیصد کو دمہ کی شکایت تھی اور جو ہفتہ میں ایک بار سے زیادہ مچھلی کھاتے تھے ان میں سے صرف ۴۹ فیصد بچے دمہ میں مبتلا تھے.گو یا مچھلی دمہ، زکام ، کھانسی وغیرہ کے خلاف بھی جسم میں مدافعت پیدا کرتی ہے.سڈنی ہی میں ایک اور ادارہ Garuan Institute نے بھی مچھلی پر تحقیق کی ہے وہ کہتے ہیں مچھلی میں اومیگا ۳ کے استعمال سے خون جمنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اس سے کولیسٹرول لیول بھی کم ہوتا ہے نیز یہ جسم کی سوجن کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے جوڑوں کی دردوں

Page 176

169 (Arthritits) میں افاقہ ہوتا ہے.مچھلی ذیا بیطس کے لئے بھی مفید ہے.جن جانوروں پر تحقیق کی گئی ان میں سے ایسے جن کو انسولین کے خلاف بدن میں مزاحمت تھی ان کو مچھلی کھلانے سے انسولین کے خلاف ان کی الرجی ختم ہوگئی.سڈنی مارٹنگ ہیرلڈ لکھتا ہے کہ مچھلی کے تیل کے ایسڈ کی صورت میں موجودہ ہزار سال کا معجزانہ علاج دریافت ہوا ہے.سالمن مچھلی جو بالخصوص اومیگا ۳ سے بھر پور ہوتی ہے وہ امراض قلب کولیسٹرول لیول، دمہ، آرتھرائٹس اور نظر کی بیماریوں کا بہت عمدہ علاج ہے.اخبار لکھتا ہے شاید ہی کوئی ہفتہ گزرتا ہو گا جب مچھلی کے فوائد پر کوئی نئی سے نئی تحقیق سامنے نہ آتی ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مچھلی کو اپنے فضلوں میں سے گنواتے ہوئے اسے لـحـمــا طرياً قرار دیا ہے (النمل: ۱۵)’طریا‘ مصدر ہے جو کبھی مفعول اور کبھی فاعل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو ” لحماً طرياً “ کے معنے ہوئے ایسا گوشت جو تر و تازہ رکھا گیا ہے یا ایسا گوشت جو کھانے والے کو ترو تازہ رکھتا ہے یعنی صحت بخش ہے.اور طریا “ ہونے کی وجہ سے جسم کی رطوبات کو قائم رکھتا ہے جیسے کسان زمین میں بیج بونے کے لئے اس کے وطر“ ( وتر ) پر آنے کا انتظار کرتا ہے.’طری النباء ، کسی عمارت کو مٹی گارے سے پلستر کرنے کو کہتے ہیں جس سے عمارت میں ایک نیا پن ، خوبصورتی اور مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے.الغرض مچھلی کے فوائد پر ہمیشہ تحقیق ہوتی رہے گی اور ہر تحقیق قرآنی صداقت کو ثابت کرنے والی ہوگی.( الفضل انٹر نیشنل 16.2.96)

Page 177

170 اس دور کے بچے بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں کچھ عرصہ قبل امریکہ میں ایک بچی Jessica ہوائی جہاز چلاتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوگئی اس کی عمر صرف سات سال تھی.اگر وہ بچ رہتی تو وہ دنیا کی سب سے کمسن پائلٹ ہوتی.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سڈنی کی ایک مضمون نگار Jaslyn Hall لکھتی ہیں کہ آج کے دور کے بچے سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۸۲ء اور ۱۹۹۳ء کے دوران نوجوانوں کی خود کشی میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے.بچپن سے ہی پہنی تناؤ میں پلے ہوئے بیچی جب بڑے ہو گے تو یہ تناؤ عام معاشرتی زندگی میں ضرور تلخی پیدا کرے گا.اس کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ بھتی ہیں کہ بچوں پر یہ دباؤ خود ان کے والدین اور معاشرہ کی طرف سے ڈالا گیا ہے.جیسیکا (جو حادثہ کا شکار ہوئی ) کی والدہ نے کہا کہ تم کو پتہ نہیں میری بیٹی کو ہوائی جہاز چلانے کا کتنا شوق تھا.وہ اپنی اس خواہش کے پورا کرنے میں آزاد تھی.اس کی آزادی پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی تھی.سوال یہ ہے کہ کیا اتنی چھوٹی عمر کی بچی کو ہوائی جہاز کی حفاظت کا بوجھ اٹھانے پر مقرر کیا جا سکتا تھا یا اس کو اس کی اجازت دی جاسکتی تھی ؟ کیا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ان کو مناسب جسمانی سزا دینی چاہئے یا نہیں؟ یا پھر کیا بچوں کو شروع سے ہی آزاد چھوڑ دینا چاہئے ؟ ان کو اپنے فرائض سمجھنے کے قابل ہونے سے پہلے ہی سارے حقوق دے دینے میں کیا خطرات مضمر ہیں ؟ ان دونوں میں سے کون سی بات بچوں کی تربیت اور بہتر معاشرہ کی تعمیر کے لئے زیادہ مناسب ہے؟ وہ لکھتی ہیں کہ کسی زمانہ میں والدین بچوں کو بتایا کرتے تھے کہ کیا

Page 178

171 بات درست ہے اور کیا غلط.وہ کیا کریں، کیا نہ کریں اور عمر اور سمجھ کے لحاظ سے کس چیز یا مقام کا حصول ان کے لئے مناسب ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اب اس کی بجائے والدین بچوں سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرتے ہوئے کہتے ہیں تم یہ کر سکتے ہو.مجھے پتہ ہے تم کر سکتے ہو اور بچوں کی طرف سے جذباتی جواب یہ ہوتا ہے میں اسے کیوں نہیں کر سکتا یا کرسکتی ، میں یہ حاصل کرنا چاہتا ہوں یا کرنا چاہتی ہوں“.مغربی معاشرہ میں سن بلوغت کے اثمار ووٹ کا حق ، الکوحل خریدنے کا حق اور ڈرائیونگ Licence کے حصول کا حق تصور کئے جاتے ہیں.لیکن عصر حاضر کے معاشرہ میں یہ حدود مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں.بچوں سے غیر حقیقی اور غیر طبعی تو قعات وابستہ کی جاتی ہیں.چودہ سال کی سپر ماڈل لڑکی ، تیرہ سال کا اولمپک تیراک اور اگر جیسی کا زندہ رہتی تو سات سال کی پائلٹ لڑکی وغیرہ بچوں کو کہا جاتا ہے کہ زندگی کا مزا ہی کیا ہے.اگر پندرہ سال تک تم مقصد زندگی حاصل نہ کر سکو.معاشرہ کی طرف سے بچوں پر الگ دباؤ ہیں.نوجوانوں کی بریکاری کا خوف، کم سے کم عمر میں زیادہ سے زیادہ کاموں میں مہارت حاصل کرنے کا فکر ، چھوٹی سے چھوٹی عمر میں پڑھائی کا آغاز سکول میں ہوتے ہوئے یو نیورسٹی کورسز میں داخلہ، نئے سے نئے کمپیوٹر کو استعمال کرنے کا مقابلہ، بچوں کے لئے لڑائی بھڑائی قتل وغارت اور سیکس پربنی فلمیں ، ویڈیو، رسالے اور کمپیوٹ کے پروگرام وغیرہ مضمون نگار آخر پر کھتی ہیں کہ آج کے بچوں کے والدین اور بڑوں کے لئے یہ بھاری چیلنج ہے کہ وہ بچوں کے حق انتخاب (Freedom of Choice) اور ذمہ دارانہ افعال (Responsible) (Action) کے درمیان نازک توازن قائم کریں.یہ مضمون خیال افروز ہے بالخصوص ایک ایسی جماعت کے لئے جو دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑی کی گئی ہو.اسلام میں والدین کو بچوں کا امین اور محافظ ونگران مقرر کیا گیا ہے.جہاں اولاد کے احترام اور چھوٹوں پر شفقت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اساتذہ اور بڑوں کے حقوق بھی قائم کئے گئے ہیں اسلام میں نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنا معاشرہ کی بہتری کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے اور اسے شخصی آزادی کے منافی نہیں سمجھا جاتا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ موجودہ کلچر کے ایسے اجزاء جو قرآنی تعلیم کے مخالف ہیں انہیں بار بار اپنی نظر کے سامنے لاتے رہیں اور اس سے مجتنب رہنے کی کوشش کرتے رہیں.آمین (الفضل اند نیشنل)

Page 179

172 پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی اٹھارہ سال کی ہوگئی سائنس کے اس شعبہ سے متعلقہ مذہبی، سماجی و اخلاقی مسائل برطانیہ کی لوئیس براؤن دنیا بھر میں پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے.وہ حال ہی میں اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے اور بچوں کی نرسنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہے.لوئیس کی پیدائش ایک ایسے طریق علاج سے ممکن ہوئی جس کو آئی وی ایف (In Vitro Fertilisation) کہتے ہیں.اس میں جنین (Embryo) کو مصنوعی طریق سے ٹیسٹ ٹیوب میں پیدا کیا جاتا ہے اور مزید پرورش کے لئے اسے اس کی قدرتی حیاتیاتی ماں کے جسم میں پیوند کر دیا جاتا ہے.اس طریق علاج کی بدولت اب تک ڈیڑھ لاکھ بچے پیدا ہو چکے ہیں جن میں سے ہیں ہزار صرف آسٹریلیا میں ہیں.اکثریت ایسے بچوں کی ہے جن کے والدین پہلے اولاد کی نعمت سے محروم تھے.اس لحاظ سے سائنس کی یہ ایجاد خدا کے فضل کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے.لیکن ہر اچھی ایجاد کی طرح اس کے بھی بعض ایسے پہلو ہیں جن سے مذہبی ، سماجی اور اخلاقی مسائل پیدا ہورہے ہیں.کئی لوگ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوقیہ بھی الٹے پلٹے کام کرتے رہتے ہیں.اس طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں یا ان کا امکان ہے کہ ایک عورت اپنے بیٹے اور بہو کے بچے کو جنم دے رہی ہے گویا وہ بچہ کی ماں بھی ہے اور دادی بھی.دوسری اپنے والد اور والدہ

Page 180

173 کے بچے کو جنم دے رہی ہے گویا وہ بچہ کی ماں بھی ہے اور بہن بھی.تیسری اپنی ہمشیرہ کے بچے کی والدہ بن گئی ہے.چوتھی ایک وفات شدہ جوڑے کے بچے کی ماں ہے.اور پانچویں ایک لاتعلق جوڑے کی اولا دکو اجرت پر اپنے پیٹ میں پال رہی ہے یا ایسے بچہ کو جس کے حیاتیاتی والدین Biological) (Parents نے بھی ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہ ہو.وعلی ہذا القیاس.اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے رشتوں کے تقدس اور حسب نسب کو پامال کرنے کے امکان پیدا ہور ہے ہیں.اس سلسلہ میں ایک فوری مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ اس وقت صرف برطانیہ میں ساٹھ ہزار جنین (Embryos) لیبارٹریوں میں نائٹروجن میں منجمد پڑے ہیں.جن میں سے نو ہزار ایسے ہیں جن کو وجود میں آئے ہوئے اب پانچ سال پورے ہورہے ہیں جبکہ برطانوی قانون کے مطابق جنین پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک منجمد نہیں رکھے جا سکتے.یہ ایسے جنین ہیں جن کا کوئی وارث نہیں.بعض غیر شادی شدہ عورتیں یا لا اولا د جوڑے ان کو حاصل کر کے متبنیٰ (Adopt) بنانا چاہتے ہیں.لیکن جن کے وہ ہیں ان کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا.تو اب سوال یہ ہے کہ ان جنینیوں کا کیا کیا جائے.کیا ان کو جلا کر راکھ کر دیا جائے اور کیا ایسا کرنا انسانی جانوں کے مارنے یا حمل ضائع کرنے (Abortion) کے مترادف ہے یا نہیں.یوں بھی ہر دفعہ جب بغرض علاج ٹیوب میں جنین تیار کئے جاتے ہیں تو وہ ضرورت سے زائد ہوتے ہیں ان میں سے صرف تین جنین پیوند کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں.جو باقی بچتے ہیں اور استعمال نہیں ہو سکتے کیا ان کو ضائع کر دینا مذہبی واخلاقی قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے کئی سوچنے والوں کو پریشان کر رکھا ہے اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے.(الفضل انٹر نیشنل 27.9.96)

Page 181

174 آسٹریلیا میں گزشتہ سال ۸۲۶۰ ملین ڈالرز کا جوا کھیلا گیا آسٹر یلیا میں جوا کھیلنے کی لت روز بروز ترقی پذیر ہے.شاید ہی اتنا جوا دنیا بھر میں کہیں اور کھیلا جاتا ہو.گزشتہ سال اس سے پہلے سال کے مقابلہ میں ۲۰۰ ، املین ڈالرز کا جواز یادہ کھیلا گیا.ڈالر کی حقیقی قیمت خرید کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دس سال میں اس سے پہلے دہا کہ کی نسبت دگنی رقم جوئے پر لگائی گئی.گویا اس رقم میں ہر سال دس فیصد اضافہ ہورہا ہے.جوئے پر لگنے والی رقم ۶۱۷ ڈالر فی کس سالانہ تھی.آسٹریلیا کی ریاستوں کی حکومتوں کے بجٹ کی دس فیصد آمد جوا کھلانے والے اداروں سے ٹیکس کی صورت میں وصول ہوتی ہے.یہ اتنی بڑی آمد ہے کہ حکومتیں جوئے کی روز افزوں ترقی میں خاصی دلچسپی لیتی ہیں.انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اس جوئے کا عوام کی اخلاقی ، اقتصادی اور سماجی حالت پر کیا اثر پڑتا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 27.9.96)

Page 182

175 آپ کاٹی وی ویڈیوفون کا کام بھی کرے گا ویڈ یوفون میں آپ بات چیت کے علاوہ تصویر بھی دیکھتے ہیں.حال ہی میں امریکہ کی ایک کمپنی (MCI Corporation) نے ایک ایسے آلہ کی نقاب کشائی کی ہے جو آپ کے ٹی وی پر پڑا ہوگا اور اس میں ایک چھوٹا سا کیمرہ نصب ہوگا اور آپ کے ٹی وی اور فون دونوں کے ساتھ منسلک ہوگا.جب آپ کے فون کی گھنٹی بجے گی آپ ٹی وی بند کر کے فون اٹھا لیں اگر دوسری طرف بھی ایسا آلہ نصب ہے تو آپ دوسری طرف بولنے والے کی جہاں آواز سنیں گے وہاں اس کی تصویر بھی ٹی وی پر دیکھ سکیں گے.اگر آپ خود ٹی وی کے سامنے اس وقت تک نہیں آنا چاہتے تو کیمرہ کے لینز (Lense) پر پردہ ڈال دیں.اس آلہ کی قیمت ۳۰۰ ا ڈالر ہوگی اور فون کا خرچ اتنا ہی ہوگا جتنا آج کل بغیر تصویر کے ہوتا ہے.آپ بات چیت کو وی سی آر پر ریکارڈ بھی کرسکیں گے اور منہ ہلائے بغیر بھی ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے کو پیغام دے سکیں گے.خیال ہے کہ اس سال (۱۹۹۶ء) میں جون تک یہ آلہ برائے فروخت بازار میں آجائے گا.رابطے اتنی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں کہ فاصلوں کے پرانے تصور مثٹتے چلے جارہے ہیں جب سے فون عام ہوئے ہیں لوگوں نے خط لکھنے بند کر دئے ہیں یا کم کردئے ہیں.اب ویڈ یوفون جب عام ہو جائیں گے تو گفتار یار کے ساتھ دیدار یار بھی ممکن ہو جائے گا اور اس کا ریکارڈ بھی.تو خط لکھنے کی قدیم روایت کو مزید دھکا لگے گا اور ساتھ ہی گھروں کی پرائیویسی کو بھی.( الفضل انٹر نیشنل 12.7.96)

Page 183

176 پچھلوں اور فصلوں کی بیماریوں کے لئے ہو میو پیتھی طرز علاج پھلوں اور فصلوں کی بیماریوں کے علاج کا عام طریق تو یہ ہے کہ ان پر جراثیم کش ادویہ چھڑ کی جاتی ہیں.جن سے بیماری پیدا کرنے والے جراثیم مرجاتے ہیں.یہ طریق علاج ڈاکٹری کی اینٹی بائیوٹک ادویہ کے مشابہ ہے.اس میں نقصان یہ ہے کہ وہ جراثیم ان دواؤں کے عادی بنتے جارہے ہیں اور اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر کے ان کے خلاف قوت مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں.وہ دوائیں غیر موثر ہونے لگتی ہیں تو نئی دوا ئیں تلاش کرنا پڑتی ہیں.نیز انہی دواؤں کے زہریلے اثرات کسی نہ کسی شکل میں تھوڑا بہت ان انسانوں اور حیوانوں تک بھی پہنچتے ہیں جو انہیں استعمال کرتے ہیں.اس مسئلہ کے حل پر آسٹریلیا کے سائنس دان غور کر رہے ہیں.اب انہوں نے ایک جدید طریق علاج دریافت کیا ہے جس میں پودوں کو ایسی دوائیں دی جائیں گی جو بجائے جراثیم کو براہ راست مارنے کے خود پودوں کی اپنی قوت مدافعت کو اس طرح ابھاریں گی کہ وہ جراثیم کا مقابلہ کر کے ان کو ختم کر سکیں.گویا پودے اپنا علاج خود کریں گے.پودوں کی قوت مدافعت کو بڑھایا اور ابھارا جائے گا.یہ دوائیں زہریلی نہیں ہونگی.یہ طریق علاج اپنی فلاسفی میں ہومیو پیتھی سے مشابہ

Page 184

177 معلوم ہوتا ہے جس میں دوا روح کو ایک پیغام دیتی ہے جس سے جسم کا دفاعی نظام بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے متحرک اور مستعد ہو جاتا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 12.7.96)

Page 185

178 چودہ ہزار سال قبل شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی آسٹریلیا کی اصل نسل کے لوگ آباد تھے امریکہ اور برازیل کے سائنس دانوں نے ہزاروں سال پرانی انسانی کھوپڑیوں پر جو علیحدہ علیحدہ تحقیق کی ہے اس کے نتائج حیران کن طور پر یکساں نکلے ہیں.دونوں کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ چودہ ہزار سال قبل شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی وہی نسل آباد تھی جو آسٹریلیا میں تھی.یہ تحقیق اس عام خیال کے خلاف ہے کہ امریکہ میں سب سے پہلے منگولین نسل آباد تھی جو آسٹریلیا میں تھی.یہ تحقیق اس عام خیال کے خلاف ہے کہ امریکہ میں سب سے پہلے منگولین نسل کے ریڈ انڈین آباد ہوئے تھے.بلکہ ان سے پہلے آسٹریلیا کے (Aborigines) وہاں پہنچ چکے تھے.اس تھیوری کے مطابق چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزرا کہ اس نسل کے لوگ ایشیا سے ہجرت کر کے آسٹریلیا میں آباد ہوئے.بعد میں ان کی ایک شاخ آج سے چودہ ہزار سال قبل آبنائے بیرنگ (Bering Strait) سے ہوتے ہوئے ایشیا سے براعظم امریکہ میں جا آباد ہوئی.وہ زمین کے آخری برفانی دور کا زمانہ تھا.(اب سے گیارہ تا ستائیس ہزار سال قبل ) اور یہ آبناء زمینی پل کا کام دے رہی تھی.( الفضل اند نیشنل 12.7.96)

Page 186

179 سویا بین امراض قلب، کینسر اورسن یاس کے امراض کا علاج ہے آسٹریلیا کی نیو کاسل یونیورسٹی کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سویا بین میں ایسے کیمیاوی مادے ہیں جن کو Isoflavones کہتے ہیں اور جو کولیسٹرول کم کرتے ہیں.امراض قلب، کینسر اور عورتوں میں حیض کی دائمی بندش کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا موثر علاج ہیں.چند ماہ تک عام دودھ کی بجائے سویا بین کا دودھ استعمال کرنے سے تقریباً نو دس فیصد کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے جس سے ۲۲ تا ۲۵ فیصد دل کا حملہ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 12.7.96)

Page 187

180 آسٹریلین کتے بھونکیں گے نہیں ، صرف کا ٹاکریں گے سڈنی کے شمالی مضافات میں رہنے والے کتوں کے بھونکنے سے بہت پریشان تھے بالخصوص راتوں کو ان کی نیند خراب کرتے.یہاں بعض میاں بیوی جو ایک دوسرے کے خراٹوں کو بھی برداشت نہیں کرتے وہ بھلا کتوں کے بھونکنے کو کب تک برداشت کرتے.آخر جب شکایات بہت بڑھیں تو ان کے تدارک کی طرف بھی توجہ پھری.معلوم ہوا کہ اس طرح کی شکایات فرانس میں بھی ہیں چنانچہ ایک فرانسیسی کمپنی نے اس کا علاج ایک کالر کی شکل میں دریافت کر لیا ہے.یہ کالر کتون کو بھونکنے سے روکتا ہے.اس کی قیمت ۱۹۰ ڈالر ہے جس میں کچھ الیکڑانک آلات ، بیٹری ، مائیکروفون اور ایک تیز بد بودار مگر بے ضرر دوائی کی پچکاری ہے.جب کتا بھونکنے لگتا ہے تو اس کی آواز سے آلات متحرک ہوتے ہیں اور دوائی کی پھوار کتے کے ناک پر پڑتی ہے اور وہ بھونکنا بند کر دیتا ہے.تقریباً ایک ہفتے کے بعد کتے کو بھونکنے سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ غریب بھونکنا ہی چھوڑ دیتا ہے.یہ کالر کثیر تعداد میں فرانس سے درآمد کئے گئے ہیں لہذا یہاں کے کتے کتیاں بھونکنے سے ہی متنفر ہورہے ہیں.اب کتے بھونکیں گے نہیں بلکہ سیدھا کا ٹاہی کریں گے.کیا پتہ کل کلاں کو انسانوں کے لئے بھی ایک ایسا کالر تیار ہو جائے کہ جونہی کوئی دل آزار، غیظ و غضب ، طعن و تشنیع اور بدظنی وغیبت کی بات منہ سے نکلے تو کالر سے ایسی پھوار نکلے جو زبان کو بات کرنے سے روک دے.ایسا روحانی کالر تو خدا نے پہلے ہی انسان کے ساتھ باندھا

Page 188

181 ہوا ہے شاید کبھی جسمانی بھی ایجاد ہو جائے.جیسے فرمایا ” مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق: ۱۹) یعنی انسان کوئی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس کوئی نگران و محافظ ہوتا ہے جوا سے ریکارڈ کرتا جاتا ہے.قرآن کریم انسان کے گلے میں کالر باندھنے کا بھی ذکر کرتا ہے جو یوم حساب کو ایک کتاب کی شکل میں اس کے سامنے آحاضر ہوگا جیسے فرمایا وَكُلَّ إِنْسَانِ الْزَمُنهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ كِتباً يَلْقَهُ مَنْشُوراً ( بنی اسرائیل:۱۴) اور ہم نے ہر انسان کی گردن میں ایک پرندہ یا عمل باندھ رکھا ہے جس کو ہم قیامت کے دن ایک کھلی کتاب کی شکل میں اس کے سامنے رکھ دیں گے.( الفضل انٹر نیشنل 14.6.96)

Page 189

182 الکوحل کی کوئی حد بھی محفوظ نہیں کہلا سکتی سڈنی میں حال ہی میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی ہے جس کے سپر داس امر کا فیصلہ کرنا تھا کہ الکوحل کی کتنی حد محفوظ قرار دی جاسکتی ہے.کانفرنس میں ماہرین نے اپنی آراء پیش کیں.پروفیسر روڈنی جیکسن نے کہا ”یہ موجودہ تصور کہ شراب پینے کا صحت کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے یہ تجرباتی شہادت کی ایسی تشریح پر مبنی ہے جو بہت سادہ اور سطحی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کو زائل کیا جائے.“ ایک ماہر نفسیات (MR.Vaughan Raees) نے کہا ”اپنی حقیقت یعنی فنی لحاظ سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ الکوحل زہر ہے اور اس کی زیادہ مقدار آپ کو ہلاک کر سکتی ہے.“ بعض ماہرین نے اس کے فائدے بھی گنوائے.آخر پر جو فیصلہ ہوا وہ یہ تھا: "Our Strategy has to be about harm minimisation if we told people like the under 40s Not to drink, they would just laugh.We say there is absolutely no amount of Alcohol that,s absolutely "safe".For some people, "safe"levels may not be drinking at all."

Page 190

183 یعنی ضروری ہے کہ ہماری حکمت عملی ایسی ہو جس سے کم از کم نقصان کا احتمال ہو.اگر ہم چالیس سال سے کم عمر کے افراد کو کہیں کہ وہ نہ پئیں وہ اس پر صرف ہنسیں گے.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پورے طور پر الکوحل کی کوئی مقدار ایسی نہیں ہے جسے مکمل طور پر محفوظ قرار دیا جا سکے.بعض لوگوں کے لئے محفوظ حد یہ ہے کہ وہ بالکل نہ پئیں.قرآن کریم نے بھی شراب کے فائدہ اور نقصان دونوں کا ذکر کر کے نقصان کے پلڑے کے بھاری ہونے کا ذکر کر کے اس سے اجتناب کا حکم دیا ہے ہر تحقیق جور و رعایت کے بغیر کی جائے گی اس نتیجہ پر پہنچے گی.( الفضل انٹر نیشنل 14.6.96)

Page 191

184 شادی اب بھی مستحکم معاشرہ قائم کرنے کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے بوسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر Brigitte Berger جومشہور ماہر عمرانیات (Sociologist) ہیں نے سڈنی میں اپنی تقریر میں شادی کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج بالعموم میاں بیوی اور بچوں کے روائتی خاندان کو نفرت اور مذمت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن یہی وہ طاقت تھی جس کے نتیجہ میں مغرب کا جمہوری اور خوش حال معاشرہ وجود میں آیا تھا اور دونوں کی قسمت با ہم نہ کھل سکنے کے انداز میں بندھی ہوئی ہے.مستقبل کے جو تیکنیکی مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے لئے نفسیاتی طور پر مطمئن فعال متحرک اچھے تعلیم یافتہ اور اخلاقی لحاظ سے ذمہ دار افراد کی ضرورت ہے اور ایسے بچے شادی شدہ مطئمن گھرانوں ہی کی پیداوار ہو سکتے ہیں.تمہیں سال قبل خاندان کی مرکزیت کے خلاف جنگ شروع کی گئی تھی اس کے نتیجہ میں مغربی حکومتیں مجبور ہوگئیں کہ غیر شادی شدہ گھرانوں کو بھی برابری کا درجہ دے دیا جائے.اس سے خاندان کی ایسی شکل ابھری جس نے غیر قانونیت ، جرائم ، ڈرگ کا استعمال عنفوان شباب کے حمل، غیر شادی شدہ ماؤں اور غیر ذمہ دار مفت خوروں کے سیلاب کو بے قابو کر دیا ہے.مغربی حکومتوں نے ایسے افراد کو بجائے سوسائٹی میں مدغم کرنے کے ایسی پالیسیاں وضع کیں جس سے یہ لوگ سوسائٹی پر بوجھ بنتے چلے گئے

Page 192

185 اور خطرہ ہے کہ آج کی سوسائٹی کا یہ زیریں طبقہ (Under Class) مغربی معاشرہ کا ایک مستقل بن جائے.ان خطرات کو اب مغرب میں محسوس کیا جا رہا ہے اور امریکہ اور برطانیہ میں شادی اور روائتی خاندان کی افادیت پھر سے تسلیم کی جانے لگی ہے لیکن اس کے آثار مجھے آسٹریلیا میں ابھی نظر نہیں آتے.آسٹریلیا والوں کو بھی سوچنا چاہئے.غیر شادی شدہ گھرانوں کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ افراد کے لئے اچھی ہوں تو ہوں لیکن قوم کے لئے اچھی نہیں ہیں روایتی مرکزی خاندان آج بھی بچے کے لئے سکول میں کامیابی کی بہترین ضمانت ہے.شادی کا عہد اور ذمہ داری ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے متوسط خاندانوں کے بچوں میں عزم استقلال ، ذمہ واریت ، امانت ودیانت ، فعالیت اور خود اعتمادی کے اوصاف پیدا کئے جاسکتے ہیں جو کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے ضروری ہیں.باتیں تو پروفیسر صاحبہ نے بہت اچھی کی ہیں مغربی معاشرہ میں ان کو بار بار دھرانے کی ضرورت ہے.(الفضل انٹر نیشنل 5.1.96)

Page 193

186 آسٹریلیا میں دوگز زمین کے حصول میں دشواری مدنی کے قبرستانوں سے متکلمین کی ایسوسی ایشن نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری کاروائی نہ کی تو آئندہ دس سال بعد مرنے والوں کو قبر کی جگہ مہیا نہیں ہو سکے گی.اکثر قبرستان آئندہ پانچ سال میں بھر جائیں گے اور قبروں کی قیمتیں ( زمین کی بجائے ) آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی.اب بھی ایک قبر کی قیمت مختلف قبرستانوں میں ۱۳۰۰ اور ۳۵۰۰ ڈالر کے درمیان ہے قبریں بڑی مہنگی پڑ رہی ہیں ہر قبر کی حفاظت اور نگرانی پر ہر سال ۴۰ تا ۱۰اڈالرخرچ ہوتے ہیں جن میں افراط زر کی وجہ سے ہر سال اضافہ ہو رہا ہے.ایسوسی ایشن نے تجویز پیش کی کہ قبر کی جگہ کو فروخت کرنے کی بجائے پچیس یا پچاس سال کے لئے لیز (Lease) پر دیا جائے جیسا کہ بشمول اٹلی بعض ملکوں میں رواج ہے.مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر قبروں کو ٹھیکہ پر دینے کی تجویز نیو ساؤتھ ویلز کی پارلیمینٹ میں زیر غور آئی جس پر بڑی گرما گرم بحث ہوئی.ایک ممبر پارلیمینٹ نے کہا کہ Rest In Peace ( امن چین سے آرام کرو ) جو قبروں پر لکھے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم مرنے کے بعد ہر ایک کو ہمیشہ کے لئے آرام کرنے کا حق حاصل ہے.یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد سونے والے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے اور اس کی جگہ کسی دوسرے کو الاٹ کر دی جائے ان کی تشویش بزبان شاعر یوں بیان کی جاسکتی ہے.

Page 194

187 اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے یہ بھی کہا گیا کہ زمین کی ضرورت مردوں کی نسبت زندوں کو زیادہ ہے اس لئے متبادل طریقے سوچے جائیں بہر حال حکومت نے فیصلہ کیا کہ قبروں کی زمین کو معین عرصہ کے لئے کرایہ پر دینے کا سلسلہ فی الحال شروع نہیں کیا جائے گا.یہ خبر جہاں اہل قبور کے لئے اطمینان کا باعث ہوگی وہاں زندوں کے لئے بھی باعث تسلی ہوگی جو روز بروز اپنے اپنے حصہ کی دوگز زمین کی طرف رواں دواں ہیں.( الفضل انٹر نیشنل 22.13.95) انٹرنیشنل

Page 195

188 سسلی کے مجسمہ مریم کے آنسوؤں کا راز ہمیشہ سے انسانوں کا ایک طبقہ تو ہم پرستی کا شکار رہا ہے.سیاسی وسماجی افراتفری کے دور میں تو ہم پرستی خصوصاً زور پکڑ جاتی ہے.سابق یوگوسلاویہ اور روسی ریاستوں کے جنگ وجدل کے دور میں یورپ خصوصاً اس کا تجربہ کر رہا ہے.لوگوں کو میڈونا کے مجسموں کی آنکھوں میں آنسو نظر آتے ہیں چرچ اس طرح کی روایات کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتا رہا ہے سوائے ایک رونے والی میڈونا کے جس کو چرچ نے ۱۹۵۳ء میں سرکاری طور پر تسلیم کر لیا کہ اس کی آنکھوں سے واقعی آنسو ٹپکتے ہیں.یہ میڈونا حضرت مریم کا پلاسٹر کا مجسمہ ہے جو سلی کے مشرقی ساحل پر واقع شہر Siracusa میں بنا ہوا ہے.اب ایک کیمسٹ نے اس مجسمہ کے آنسوؤں کا راز بھی فاش کر دیا ہے اس کا ذکر برطانیہ کے رسالہ کیمسٹری میں کیا گیا ہے.کیمسٹ نے ہو بہو اس رونے والے مجسمہ کی طرح کا ایک مجسمہ بنایا جو بغیر کسی میکانکی کل یا الیکٹرانک آلات کے آنکھوں سے آنسو بہاتا ہے وہ کافی عرصہ لوگوں کو بے وقوف بنا تا رہا.اب اس نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ مجسمہ پلاسٹر کا بنا ہوا ہے جس کی اندرونی سطح مسام دار (Porous) ہے اور باہر کی چکنی روغن دار (Glazed) ہے.اندر کی سطح پانی جذب کر لیتی ہے اور باہر کی نمی کو خارج ہونے سے روکتی ہے.اس کے سر میں ایک خفیہ مقام ہے جہاں سے اندر سے خالی مجسمہ میں پانی ڈالا جاتا ہے اور اس کی آنکھوں پر سے روغن ایسے طریق سے کھرچا ہوا ہے کہ محسوس نہیں ہوتا.

Page 196

189 اندر کی سطح کا جذب شدہ پانی باہر شبنم کے قطرات کی طرح آنکھوں سے ٹپکتا دکھائی دیتا ہے.اس طرح (Dr.Garlaschelli) نے آنسو ٹپکانے والی مریم کے مجسمہ کا طلسم توڑ دیا اور اس کے دنیا کے دکھوں پر ٹپکنے والے آنسو جھوٹے نکلے.جبکہ ۴۲ سال سے چرچ ان آنسوؤں کو حقیقی تسلیم کرتارہا ہے.بھلا پتھر کی مورتیاں بھی کسی کے دکھوں پر آنسو ٹپکایا کرتی ہیں؟ ( الفضل ان نیشنل 5.1.96)

Page 197

190 آسٹریلیا کے باسیوں کی خدمت میں شہد کی مکھی کا حصہ حال ہی میں نیوساؤتھ ویلز ( آسٹریلیا) کی حکومت نے آبادیوں کے قریب بعض جنگلوں اور پارکوں میں شہد کی مکھیاں پالنے کے ممانعت کی ہے.سائنسدانوں نے اس حکم پر نکتہ چینی کرتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ ایسا کرنے سے اس علاقہ کی زرعی فصلوں کو نقصان پہنچے گا.انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں ہر سال ۲۷۰۰ ملین ڈالر کی فصلیں شہد کی مکھی کی مرہون منت ہیں.یہ لکھیاں ان فصلوں کو گا بھن یا بارور (Pollinate) کرتی ہیں جس کے بغیر کسی فصل کو پھل نہیں لگ سکتا.اگر ان مکھیوں کو ختم کر دیا جائے یا دور بھیج دیا جائے تو دس سال کے عرصہ میں یہ فصلیں پھلوں سے محروم ہونا شروع ہو جائیں گی.علاوہ ازیں آسٹریلیا ہر سال ان مکھیوں کی بدولت ۲۴ ملین ڈالر کا شہد پیدا کرتا ہے اور چھ لین ڈالر کی زندہ مکھیاں دوسرے ملکوں کو برآمد کی جاتی ہیں.یادر ہے کہ شہد کی مکھی دوسوسال پہلے آسٹریلیا میں لائی گئی تھی.اس میں کوئی شک نہیں کہ فصلیں اپنی پیدائش سے لے کر پکنے تک بے شمار خاموش اور مفت مزدوروں کی مرہون منت ہیں.جہاں فصلیں آسمان کے پانی گا بھن کرنے والی ہواؤں ،فضا میں نائیٹروجن بکھیر نے والی کڑک سورج کی روشنی وغیرہ کی محتاج ہیں وہاں ایک ایک پودے کے لئے غذا تیار کرنے والے لاکھوں بکٹیریا جو مٹی میں سرگرم عمل ہوتے ہیں اور مکھیوں اور پرندوں وغیرہ کی بھی محتاج ہیں.

Page 198

191 اگر یہ سارے عناصر، جاندار کارکن اور عوامل کار فرما نہ ہوتے تو فصلیں کیسے اگتیں.اسی لئے خدا نے کھیتوں کے بارہ میں فرمایا اَءَ نَتُمُ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ “ کہ کیا تم کھیتوں کو اگاتے ہو کہ ہم اگاتے ہیں.ہاں سچ یہی ہے کہ وہی اگاتا ہے ہم کہاں اگاتے ہیں.( الفضل انٹرنیشنل 22.12.95)

Page 199

192 ائیر پورٹ کے قریب رہنے سے ملیریا بھی ہو سکتا ہے سنتے تھے کہ ائیر پورٹ کے قریب رہنے سے صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے.اب ڈاکٹروں کو اس کی ایک اور وجہ معلوم ہوئی ہے جس کا ذکر میڈیکل جرنل آف آسٹریلیا میں کیا گیا ہے.واقعہ یوں ہوا کہ سوئٹزرلینڈ کا ایک ۵۴ سالہ شخص جو جنیوا ایئر پورٹ کے قریب رہتا تھا ملیریا کا شکار ہوکر جاں بحق ہو گیا جب کہ اس سارے علاقہ میں ملیر یا پھیلانے والے مچھر کا نام ونشان نہیں ملتا.بادی النظر تو یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ ایئر پورٹ کا قرب کسی کو ملیریا میں مبتلا کر دے یہ تو اسی طرح کی بات لگتی ہے جو امام دین گجراتی نے کہی تھی کہ نہ چھیڑو نہ چھیڑو میری پنڈلیوں کو کہ ان میں ہے درد جگر مام دینا مگر جب پوری خبر پڑھی تو وجہ سمجھ میں آگئی.کسی دور دراز ملک میں ایک مچھر نے کسی ملیریا میں مبتلا شخص کو کاٹ لیا اور اس طرح مچھر میں ملیر یا پیدا کرنے والے جراثیم سرایت کر گئے.اس علاقہ سے کسی مسافر کے لباس یا سامان میں چھپ کر وہ مچھر جس کے ہاتھوں کسی دور دراز بسنے والے شخص کی موت لکھی تھی جنیوا پہنچ گیا.اور ابھی ائیر پورٹ کے قریب ہی کہیں شکار تلاش کرتا پھر رہا تھا کہ ایک شخص مل گیا جس کے جسم میں اس نے ملیریا کے جراثیم منتقل کر دیئے اور اس کو ملیر یا بخار نے آلیا لیکن چونکہ اس علاقہ میں ملیریا ہوتا ہی نہیں ڈاکٹر اس کے بخار کی نوعیت کو نہ سمجھ سکے.چونکہ ملیریا کی طرف

Page 200

193 ان کا ذہن منتقل نہ ہوا مریض کو صحیح علاج میسر نہ آسکا اور وہ چل بسا.ملک الموت نے ایک مچھر کے ذریعہ کدھر سے کہاں وار کیا.اگر چہ بات اسی طرح کی ہے کہ مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا یعنی شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دینا ورنہ شہد بنے گا موم بنے گی اور ناحق کسی پروانے کا خون ہو جائے گا.بہر حال اس واقعہ کے بعد ڈاکٹروں نے ہدایت جاری کی ہے کہ خواہ کسی شخص نے ایسے علاقہ کا سفر نہ بھی کیا ہو جہاں ملیریا موجود ہو تو پھر بھی اگر مریض ائیر پورٹ کے قریب رہتا ہو یا اس کا وہاں آنا جانا رہتا ہوا گر بخار کی وجہ سمجھ نہ آئے تو ملیریا کا امکان بھی پیش نظر رکھ لیا کریں.( الفضل انٹر نیشنل 4.4.03)

Page 201

194 کمپیوٹر کا نشہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے کمپیوٹر کے جو نشہ بازمسلسل گھنٹوں اس کے آگے بیٹھے رہتے ہیں ان کو ڈاکٹروں نے ہوشیار کیا ہے کہ وہ D.V.T یعنی (Deep Vein Thermobosis ) کی مہلک مرض کا شکار ہو سکتے ہیں.یہ وہی بیماری ہے جو ہوائی جہاز کی لمبی فلائٹ پر بغیر ہلے جلے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھنے سے بھی ہو سکتی ہے.جس کو اکانومی کلاس سنڈرم (Economy Class Syndrome) اس لئے کہتے ہیں کہ اس کلاس میں ٹانگیں ہلانے جلانے کے لئے جگہ بہت کم ہوتی ہے.اس بیماری میں ٹانگوں کی شریان میں خون کا تھکا (Blood Clot) جم جاتا ہے جو جب خون کے ساتھ پھیپھڑوں میں پہنچتا ہے تو پہلے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے پھر پھیپھڑوں کے اوپر جو شفاف جعلی (Pleurisy) ہوتی ہے وہ سوج جاتی ہے ، پھر بے ہوشی واقع ہوتی ہے جو موت پر منتج ہوتی ہے.اس مہلک بیماری کا سب سے زیادہ خطرہ حاملہ عورتوں ، موٹے افراد، بوڑھوں اور سگریٹ نوشوں کو ہوتا ہے.کمپیوٹر کے رسیا لوگوں میں سب سے پہلے جو کیس علم میں آیا وہ نیوزی لینڈ کے ایک ۳۲ سالہ نوجوان کا تھا جو اکثر بارہ بارہ گھنٹے بلکہ کبھی تو ۱۸ گھنٹے روزانہ کمپیوٹر کے آگے جم کر بیٹھا رہتا تھا.پہلے اس کی پنڈلی سوجی جس میں دس روز مسلسل درد ہوتی رہی.پھر سانس لینے میں مشکل پیش آنے لگی.وہ بے ہوش ہو گیا اور آخر وفات پا گیا.

Page 202

195 ذرائع ابلاغ میں بہت سے ایسے جو بازوں کی خبریں بھی آئی ہیں جو میں تمیں گھنٹے جوئے کی مشینوں کے آگے بیٹھے رہتے تھے.اور آخر اسی بیماری کا شکار ہوکر چل بسے.ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات تحقیق کرنے والی ٹیم کے علم میں آئے ہیں.چنانچہ اس بیماری کے ماہر ڈاکٹر بیکر نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ احتیاط سے کام لیں کیونکہ دیر دیر تک کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہنا آپ کی صحت کے لئے مضمر ہے.(الفضل انٹر نیشنل 4.4.03)

Page 203

196 آسٹریلوی پارلیمنٹ کے نقیب کا عصا ہر چیز کی اہمیت وقت اور مقام کے ساتھ بدلتی رہتی ہے.چھڑی بہر حال چھڑی ہے خواہ بادشاہ کی ہو یا فقیر کی لیکن ایک چھڑی (Rod) ایسی ہے جس کے بغیر پارلیمنٹ کے کام رک سکتے ہیں.یہ چھڑی آسٹریلیا کے ایوان بالا (سینیٹ) کے نقیب (Usher) مسٹر راب ایلیسن کی ہے جس کے ٹوٹنے سے بڑی پریشانی پیدا ہوئی.ہوا یوں کہ آسٹریلیا کے گزشتہ انتخابات کے بعد نئی پارلیمنٹ کا افتتاح سرولیم ڈین، گورنر جنرل نے کرنا تھا ( جو کہ ملکہ برطانیہ کے نمائندہ ہیں ) جس میں سیاہ چھڑی کے نقیب مسٹر راب (Usher of the Black Rod) کا بھی ایک کردار تھا اور ان کی چھڑی کا بھی.پارلیمنٹ کے افتتاح سے ایک روز قبل مسٹر راب اپنی چھڑی پالش کی غرض سے اپنے گھر لے آئے تھے.جب غسل خانہ میں وہ چھڑی کی جھاڑ پونچھ کر رہے تھے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور جب اس سے فارغ ہوکر واپس آئے تو چھڑی گر کر ٹوٹ چکی تھی.اور زمین پر یوں پڑی تھی جیسے عین فٹ بال کے میچ کے دوران کسی کھلاڑی کی ٹانگ ٹوٹ جائے.یہ چھڑی ۱۶۴۵ میٹر لمبی سیاہ آبنوس کی لکڑی سے بنی ہوتی ہے جس کے تین حصے ہیں جن کے درمیان جوڑ ہوتے ہیں.بس ایک جوڑ ٹوٹ گیا تھا.چھڑی کے دستہ پر حکومت آسٹریلیا اور تاج برطانیہ کا نشان کندہ ہوتا ہے چنانچہ اسی وقت مکینک بلائے گئے اور چھڑی کی مرمت کروائی گئی.

Page 204

197 برطانوی روایات کے مطابق جن پر آسٹریلیا میں بھی عمل ہوتا ہے جس وقت ایوان زیریں ایوان نمائندگان یا ہاؤس آف کامنز ) کا اجلاس ہورہا ہو برطانوی تاجدار بادشاہ یا ملکہ یا ان کا نمائندہ (گورنر جنرل ) ایوان میں داخل نہیں ہو سکتا.جب گورنر جنرل نے ایوان سے خطاب کرنا ہو تو وہ سینٹ کے نقیب کو حکم دیتے ہیں کہ ارکان اسمبلی کو کہیں کہ سینٹ کے ہال میں آجائیں.جس پر نقیب (جس نے کالے رنگ کا لمبی دم والا کوٹ ، ننگ پہنچوں والی پر برجس، عدالتی بوٹ ،سیاہ دستانے پہنے ہوتے ہیں تلوار جسم پر آویزاں کی ہوتی ہے اور ہاتھ میں مذکورہ بالا عصا یا چھڑی پکڑی ہوتی ہے ) ایوان زیریں میں آکر تین بار چھڑی سے دروازہ پر زور سے ٹھوکر لگاتے ہیں.جس پر ایوان زیریں کا نقیب (Serjeant at Arms) دروازہ سے باہر جھانک کر دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ ”کون ہو؟“ جب اس کو بتایا جاتا ہے تو پھر وہ تسلی کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی سپاہی تو نہیں اور جب دیکھتا ہے کہ کسی رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کا خطرہ نہیں تو پھر وہ ایوان کو بتاتا ہے اور وہ اس کے پیچھے پیچھے ایوان بالا میں داخل ہوتے ہیں جہاں گورنر جنرل ان سے خطاب کرتا ہے.اس ساری کاروائی میں نقیب کے عصا کا ایک مخصوص کردار ہوتا ہے.خطرہ تھا کہ مرمت شدہ چھڑی کہیں زور سے ٹھوکر لگاتے ہوئے اپنے جوڑ سے دوبارہ نہ ٹوٹ جائے لیکن خیر گزری اور کوئی حادثہ پیش نہیں آیا.اس روایت کی ابتداء ۱۹۴۲ء میں ہوئی جب شہنشاہ چارلس اول نے برطانوی ہاؤس آف کامنز پر مسلح چھاپہ مارا تھا اور کی ممبران پارلیمنٹ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی.تب سے یہ برطانیہ اور دیگر سترہ ممالک میں جو آج بھی ملکہ برطانیہ کو اپنا سر براہ تسلیم کرتے ہیں ) یہ روایت چلی آتی ہے کہ ملکہ یا ان کا کوئی نمائندہ اجلاس کے دوران ایوان زیریں میں داخل نہیں ہوتے.برطانوی قوم اپنی روایات کی کتنی پاسبان ہے یہ اس کی ایک عمدہ مثال ہے.(الفضل انٹر نیشنل 23.8.96)

Page 205

198 روزانہ اسپرین کھانے کے حیران کن فوائد ایک نادر محقق پروفیسر Peter Elwood کہتے ہیں کہ پچاس سال کی عمر سے زائد ہر شخص کو روزانہ اسپرین کی چھوٹی ٹکیہ (75 یا100 ملی گرام) استعمال کرنی چاہئے.تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ ایسا کرنے سے ہارٹ اٹیک اور سٹروک (فالج ) کا خطرہ تیسرا حصہ کم ہو جاتا ہے.نیز لگتا ہے کہ یہ کینسر اور الزائمر (Alzheimer) کی بیماریوں کے خلاف بھی کچھ بچاؤ کرتی ہے.اسپرین کو ایک حیران کن دوا (Wonder Drug) سمجھا جاتا ہے.یہ بید کے درخت (Willow) کی چھال کے ایک اہم جزو ( Salicin) سے تیار کی جاتی ہے اور تقریباً ۵۰ دواؤں کا جزو بن چکی ہے.ہمارا جسم ہارمون کی طرح کا ایک مادہ (Prostaglandin) ایسا بنایا ہے جو دوسرے پیغام رساں مادوں کے ساتھ مل کر جسم کے ہر حصہ میں پہنچاتا ہے اور درد، بخار، سوجن وغیرہ کی علامات پیدا کرتا ہے.اسپرین اس مادہ کی پیدائش کو کم کر کے ان علامتوں میں کمی لاتی ہے.اسپرین کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ خون کو پتلا رکھتی ہے.اور اس کو منجمد ہونے سے روکتی ہے.حکماء کہتے ہیں کہ یہی کام پیاز بھی کرتا ہے اسی لئے گرمیوں میں صحراؤں کے مسافر ہمیشہ پیاز ساتھ رکھا کرتے ہیں.اگر خون کا کوئی ذرہ منجمد ہو جائے یعنی Clot بن جائے تو اگر وہ دل کی شریانوں میں چلا جائے تو ہارٹ اٹیک کا خطرہ ہوتا ہے.دماغ کی شریانوں میں رکاوٹ ڈال دے تو سٹروک (فالج )

Page 206

199 پیدا کر دے گا.لیکن اگر اسپرین کی وجہ سے خون پتلا ہو کر جسم کی باریک شریانوں میں بسہولت پہنچتا رہے تو خیال ہے کہ اس سے فضلہ کی تھیلی (Bowl) اور چھاتی کے کینسر کا خطرہ میں بھی کمی آئے گی.نیز تدریجا یادداشت ختم ہونے کی بیماری (Alzheimer) کے بچاؤ میں بھی اس سے مدد ملے گی.بعض ماہرین کا خیال ہے (اگر چہ اس بات سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے ) کہ اگر ہوائی جہاز کے سفر سے پہلے اسپرین کھائی جائے تو اس سے ٹانگوں میں خون جمنے کی مرض Deep) (Vein Thrombosi جس میں خون جمنے سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہے،اسپرین کا با قاعدہ استعمال اس کے لئے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے.اسپرین کے استعمال میں احتیاط کی بھی ضرورت ہے.اگر آپ خون پتلا کرنے کی دوسری دوائیں بھی استعمال کر رہے ہیں تو اسپرین نہ کھائیں کیونکہ خون کا زیادہ پتلا ہونا بھی سٹروک ( فالج ) کا موجب بن سکتا ہے.بہر حال اسپرین کا استعمال شروع کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہئے.(ماخوذ از سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۱ اپریل ۲۰۰۵ء) (الفضل انٹر نیشنل 3.6.05)

Page 207

200 کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا مسلمان اپنے عمل سے خود ہی اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور الزام دوسروں کو دیتے ہیں اس کی تازہ مثال وہ خبر ہے جو آسٹریلیا کے ایک کثیر الاشاعت روز نامہ میں شائع ہوئی ہے: ( ترجمہ ) پاکستان کے روز نامہ جنگ کے مطابق ہر دوسری پاکستانی عورت کسی نہ کسی قسم کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنتی ہے.ہزاروں عورتیں ہر سال عزت کے نام پر قتل کی جاتی ہے.گذشتہ پانچ سالوں کے دوران صرف پنجاب میں ۹۶۷۹ عورتیں قتل ہوئیں ان میں سے ۱۶۳۸ عورتیں تو ان کے گھر والوں نے ہی انتظام اور گھریلو جھگڑوں کی بناء پر قتل کر دیں ۴۶۶۲ عورتیں اس لئے ماری گئیں کہ وہ بے چاری جہیز تھوڑا لائی تھیں یا اس لئے کہ انہوں نے ورثہ کی جائیداد میں سے اپنا حصہ طلب کیا تھا.مقتولین میں سے ۳۳۷۹ عورتوں کو یا تو آگ سے جلا کر مارا گیا یا تیزاب پھینک کر.ایک دوسرے پاکستانی روزنامہ ”خبریں“ میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک جاگیردارانہ رسم جاری ہے جس کو کاروکاری کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن عورتوں کے بارہ میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے خاندان کی بے عزتی کی ہے انہیں با قاعدہ ایک رسمی تقریب کے طور پر قتل کیا جاتا ہے اور مارنے کے بعد ان کی لاشوں کو غیر رشتہ دار مردوں کے سپر د کر دیا جاتا ہے جو انہیں

Page 208

201 کہیں دور لے جا کر بغیر کوئی مذہبی رسم ادا کئے زمین میں دبا آتے ہیں.مذکورہ بالا صورت حال پر ہندوستان کے اخبار پاؤ نیر کے ایڈیٹر ساجد عبید نے سخت غصہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے: یہ ہے وہ پاکستان جس کے بارہ میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا جو دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں عورتوں کا زیادہ خیال رکھتا ہے اور قابل توجہ قرار دیتا ہے.یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ باوجود مسلمان ہونے کے پاکستان کے حکام اور عوام اسلام کے بنیادی اصول صداقیت اور انصاف کے معاملہ میں ناکام ہو گئے ہیں.“ سڈنی مارننگ ہیرلڈ مورخہ ۱۲۹ اپریل ۲۰۰۴ء) (الفضل انٹر نیشنل 25.6.05)

Page 209

202 زیتون کی خوبیاں اور اس سے متعلقہ روایات اٹلی کے انتخابات میں زیتون کے درخت کا اتحاد (Olive Tree Coalition) جیت گیا ہے.ایک اخبار کے کالم نویس لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ اتحاد کا خوبصورت نام ہے.زیتون قوم کی صحت کے لئے اچھا ہے.اس میں نہ صرف کولیسٹرول نہیں ہوتا بلکہ یہ کینسر اور امراض قلب کے خلاف جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے.زیتون عمدہ اخلاق کی نمائندگی کرتا ہے.اس کا صاف پاک تیل جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو کا ذائقہ بہت عمدہ ہوتا ہے.زیتون ہمت ، بہادری اور صبر بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ سب سے اچھا ایسی زمین میں اگتا ہے جہاں کی زمین اور آب و ہوا ایسی ہو کہ اسے نشو ونما کے لئے جدو جہد درکار ہو.زیتون امن کا بھی نشان ہے اور اسے روایتی طور پر صلح اور امن کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.زیتون فتح کا بھی نشان ہے.چنانچہ شروع میں اولمپک کھیلوں میں جیتنے والوں کو زیتون کے پتوں سے بنا ہوا تاج پیش کیا جاتا تھا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زیتون کی قسم کھائی ہے یعنی اس کو شہادت کے طور پر پیش کیا ہے جیسے فرمایا 'والزیتون (التین :۲) اس کی تشریح میں حضرت مصلح موعودہ تفسیر صغیر میں فرماتے ہیں: زیتون کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ زیتون کی شاخ حضرت نوح کے واقعہ کی یاد دلاتی ہے اور وہ بھی رحم اور امن کے واقعہ کو.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی جب جودی یعنی اراراط پر پہنچی تو حضرت نوح نے

Page 210

203 مختلف پرندوں کو چھوڑا تا کہ وہ پتہ لے کر آئیں کہ کہیں زمین بھی نظر آتی ہے یا نہیں.آخر میں انہوں نے کبوتری چھوڑی جب وہ واپس آئی تو زیتون کی ایک تازہ پتی اس کے منہ میں تھی جس سے حضرت نوح نے سمجھ لیا کہ اب خدا کی طرف سے فضل نازل ہو گیا ہے اور زمین نظر آنے لگ گئی ہے.چنانچہ وہ اپنے قافلہ سمیت وہاں اتر گئے.“ قرآن کریم میں اللہ کے نور کی جو مثال دی گئی ہے اس میں جس چراغ کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی زیتون کے بابرکت درخت سے روشن کیا گیا بتایا گیا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی.اس طرح نور محمدی گو درخت زیتون سے روشن قرار دے کر اس سے مشابہت دی گئی ہے.گویا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ایسا ہے جو ظاہری و باطنی ، جسمانی وروحانی صحت کے لئے بھی اچھا ہے.روحانی لذت کا سر چشمہ اور شمع ہدایت کی جان ہے.صبر و استقلال اور مجاہدہ کی خاص شان کا مالک ہے اور صلح اور امن اور رحم کا منبع ہے.آج دنیا امن امن پکارتی ہے حقیقی امن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہی مل سکتا ہے اور آخری فتح کا تاج بھی آپ ہی کے مبارک سر کے لئے مقدر کیا جا چکا ہے.(الفضل اند نیشنل)

Page 211

204 جونکوں کا طب جدید میں استعمال دو ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ سے اطباء کئی بیماریوں کے علاج کے لئے جونکوں کا استعمال کرتے رہے.جونکیں جسم کے متاثرہ حصہ سے خون چوستی ہیں اور اس حد تک خون پیتی ہیں کہ ان کا اپنا حجم پانچ گنا بڑھ جاتا ہے اور سیر ہونے کے بعد گر جاتی ہیں.گزشتہ صدی میں وجع المفاصل (Gout) موٹاپا.(Obesity) اور کالی کھانسی (Whooping Cough) کے علاج کے طور پر جونکیں لگوانا عام تھا.جونکیں طب جدید میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور سڈنی کے اور پول ہاسپٹل میں اور سینٹ ونسنت ہسپتال میں با قاعدہ پالی جاتی ہیں.لیکن فرق یہ پڑا ہے کہ یہ جونکیں خاص اس غرض کے لئے تیار کی جاتی ہیں.ان جونکوں میں ایسی دوائیں شامل ہیں جو درد کو روکتی ہیں.خون منجمد نہیں ہونے دیتیں تا کہ جونک اترنے کے بعد بھی خون جاری رہے اور خون کو جاری کرتی ہیں.پچھلے دنوں سڈنی میں ایک بچی کا ہاتھ دروازے میں آگیا انگلی کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہو گیا.ڈاکٹروں نے آپریشن سے انگلی کو ٹوٹے ہوئے حصہ کو دوبارہ جوڑ تو دیا لیکن اس کی رگیں اتنی بار یک تھیں کہ ان کا جوڑ نا اوران میں دوران خون کا قائم رکھنا نہایت مشکل تھا چنانچہ یہ کام لوسی کے سپر د کیا گیا جو ایک نھی جونک کا نام ہے اس کے خون چوسنے سے اور ان دواؤں کی مدد سے جو اس کے جسم میں شامل تھیں تمام چھوٹی بڑی رگوں میں خون جاری رہا اور بچی کی انگلی بالکل جڑ گئی.ڈاکٹر کہتے ہیں اگر جونک لوسی مدد نہ کرتی تو بچی صوفی کی انگلی

Page 212

205 کبھی صحیح نہ جڑ سکتی.البتہ ڈاکٹروں نے لوسی سے کام نکالنے کے بعد اس کا اپنا کام تمام کر دیا تا کہ کسی اور مریض پر استعمال کر کے اس بچی کی انفیکشن ادھر منتقل نہ ہو جائے.ایک جونک ایک ہی مریض پر استعمال کی جاتی ہے.(الفضل انٹر نیشنل )

Page 213

206 مینڈک برفانی علاقوں میں کیسے زندہ رہتے ہیں؟ ایک راز جو انسانی اعضاء کی پیوند کاری میں ممد ثابت ہوگا اللہ کی مخلوق پر غور و فکر کرنے سے عجب طرح کے راز منکشف ہوتے ہیں.شمالی امریکہ کے مینڈک (Wood Frogs) کی بعض اقسام ایسی ہیں کہ اگر انہیں منفی ۱۵ ڈگری سنٹی گریڈ پر منجمد کر لیا جائے تو ان کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے.برف میں مینڈک کا دماغ.دل اور جسم کا دوتہائی پانی منجمد ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی زندہ رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو شدید سرد موسم برداشت کرنے کی طاقت عطا کی ہے.کینیڈا کی چارٹن یونیورسٹی کے پروفیسر Prof.Ken Storcy نے کہا کہ اگر ہم ان مینڈکوں اور کچھووں کے راز معلوم کر لیں تو انہیں انسانی اعضاء کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے.سڈنی میں پروفیسر سٹوری نے ایک کا نفرس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم انسانی اعضاء کو ۴۸ گھنٹے تک بھی محفوظ رکھنے کے قابل ہو جائیں تو انسانی اعضاء کی پیوند کاری میں بہت ممد ثابت ہوگا.اس عرصہ میں ڈاکٹر اعضاء کے دینے اور لینے والے کے درمیان صحیح (Matah) کر سکتے ہیں.پروفیسر صاحب نے کہا کہ انسانی جسم کو محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے صرف بعض اعضاء ہی منجمد کئے جا سکتے ہیں جیسے دل کے والو، ورید میں اور شریا نہیں.کھال ، دانت ماده تولید و بیضہ اور لبلبہ (Pancreases) وغیرہ استعمال کئے جاسکتے ہیں.

Page 214

207 پروفیسر موصوف کی تحقیق نے ان مینڈکوں میں بعض منفرد قسم کے لحمیات (Nuclcating Proteins) معلوم کئے ہیں جو ان کے خون میں شامل ہوتے ہیں جن کے گرد پانی منجمد ہو سکتا ہے چنانچہ خون کا پانی تو منجمد ہو جاتا ہے اور خلیات (Cells) منجمد ہونے سے بچے رہتے ہیں جو اگر منجمد ہو جائیں تو ضائع ہو جائیں.اگر اس طرح کے مخصوص پروٹین انسانی اعضاء میں بھی شامل کئے جاسکیں تو وہ کچھ زیادہ عرصہ کے لئے پیوند کاری کے لئے محفوظ رکھے جاسکتے ہیں تحقیق کا دروازہ کھل گیا ہے.کنجی مل گئی ہے.مستقبل کا حال خدا جانے.(الفضل انٹر نیشنل 1.3.96)

Page 215

208 مغربی معاشرہ میں بچوں کے دکھ مادہ پرستی کی حد تک بڑھی ہوئی حب دنیا اور خود غرضی اور جنسی بے راہ روای اور منشیات کے استعمال نے گھروں کا جو امن بر باد کر رکھا ہے اس کا سب سے دردناک شکار نھے منے بچے ہیں.آسٹریلیا میں حکومت نے بچوں کی شکایات سننے اور ان کو مشورہ دینے کے لئے ٹیلیفون کی ایک مفت خدمت مہیا کی ہوئی ہے جس کا نمبر ۱۸۰۰۵۵۱۸۰۰ ہے.ایک خبر کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں تالیس ہزار (۴۳۰۰۰ ) بچوں نے اس ادارہ کو فون کئے جس سے اس مسئلہ کی شدت کا پتہ لگتا ہے.یہ ساری شکایات چونکہ ریکارڈ پر رکھی گئی تھیں اب ان کا تجزیہ شائع ہوا ہے.بعض دفعہ پانچ سال کی عمر کے بچوں نے بھی فون پر بتایا کہ وہ سخت پریشان ہیں ، والدین آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں، اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے ہمیں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے.زیادہ جھگڑے لین دین اور خرچ کے معاملات پر ہوتے ہیں.کاش ہم کچھ کر سکتے اور کما کر والدین کو دے سکتے تا ان کے جھگڑے ختم ہو جاتے.والدین کی علیحدگی کا خوف ہر وقت ان کے ننھے ذہنوں پر مستولی رہتا ہے.بعض چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں لوگوں کے گھروں میں جا کر چاکلیٹ وغیرہ بیچ کر یا ان کے گھروں کے چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے والدین کی مدد کرنا چاہتے ہیں.ہیں فیصد شکایات گھریلو مسائل کے بارہ میں تھیں جو شکایات میں سے سب سے بڑی تعداد میں تھیں.

Page 216

209 فون کرنے والے بچوں کی عمریں زیادہ تر ۱۰ اور ۴ سال کے درمیان تھیں.کئی ماں باپ کی متوقع علیحدگی پر دلبرداشتہ تھے.بعض علیحدگی کے بعد کے مسائل سے پریشان تھے.بعض اپنے سوتیلے والد یا والدہ کی سرد مہری یا سختی کے شاکی تھے.دوسری شکایات میں دوستوں اور ہم جولیوں سے جھگڑے، گھر کے اپنے افراد یا باہر والوں کی بچوں سے جنسی زیادتیاں ، بچپن کے حمل، مار پیٹ ،خوف زدگی ، اکیلا پن اور منشیات کا استعمال تھا.بعض بچے مجبور ہوکر گھروں کو چھوڑ جاتے ہیں اور اس سے بدتر حالات میں پھنس جاتے ہیں اور بعض گلیوں میں بسنے والے بچے (Street Kids) بن جاتے ہیں.یہی ستم رسیدہ بچے بڑے ہو کر مجرم بن کر پورے معاشرے کا امن برباد کرتے ہیں.رپورٹ کے مطابق گھروں سے بھاگنے والے بچے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھروں کو کسی شوق میں نہیں چھورا بلکہ ان کے گھر یلو حالات ہی نا قابل برداشت ہو گئے تھے.( الفضل انٹر نیشنل 1.3.96)

Page 217

210 برطانیہ کے سر دو تار یک موسم کے ستم رسیدوں کو آسٹریلیا کی سیاحت کا مشورہ خبر ہے کہ امسال برطانوی شہریوں کو انتہائی سرد تاریک اور اداس موسم سرما کا سامنا کرنا پڑا ہے.جنوری ۹۶ء کے اکتیس دنوں میں صرف ساڑھے انیس گھنٹے سورج کا منہ دیکھنا نصیب ہوا ورنہ گہرے بادلوں نے دنوں کو بھی تاریک بنائے رکھا.جن کے اعصاب کم زور ہیں وہ ایک ایسی دینی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں جس میں خود کشی کے ذریعہ دنیا ہی چھوڑ دینے کا رجحان پایا جاتا ہے اندازہ ہے کہ برطانیہ کے چار فیصد باسی اس بیماری کا شکار بن گئے ہیں جس کا نام ڈاکٹروں نے SAD یعنی Scasonal Affective Disorder رکھا ہے.ماہرین نفسیات نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ اگر واقعی دنیا چھوڑنے کا ارادہ ہے تو آسٹریلیا چلے جاؤ.ایک ہی بات ہے، خدا بھلی کرے گا ٹھیک ہو جاؤ گے.آسٹریلیا کئی لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے، اسے دنیا کا پچھواڑا کہا جاتا ہے.یہ واحد ملک ہے جو سارے کا سارا جنوبی نصف کرہ میں واقع ہے اور ایک پورے براعظم پرمشتمل ہے.سڈنی سے پر تھ کا سیدھا فاصلہ ۳۲۷۸ کلو میٹر ہے.سورج ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں تقریباً تین گھنٹے لیتا ہے.یہاں کے موسم دنیا سے الٹ ہوتے ہیں اور دن رات بھی ( بمقابلہ یورپ ) ملک کے ساحلی علاقے آباد ہیں اور بہت خوبصورت جب کہ باقی اکثر حصہ صحرائی ہے.ہر وقت ملک کے

Page 218

211 کسی نہ کسی حصہ میں ہر طرح کا موسم مل سکتا ہے ، شدید سرد سے شدید گرم تک ، سڈنی میں بعض دن تو ایسے آتے ہیں کہ ایک ہی دن میں سردی اور گرمی دونوں موسموں کا مزا آ جاتا ہے.الغرض ہر طرح کے موسم اور ہر طرح کی زمین آسٹریلیا بھی گویا حاجی لق لق کی آنکھوں کی طرح ہے جس نے کہا تھا مزا برسات کا چاہوتو ان آنکھوں میں آ بیٹھو سیاہی ہے سفیدی ہے شفق ہے ابر باراں ہے ( الفضل انٹرنیشنل 8.3.96)

Page 219

212 آسٹریلیا کانھا منا ہیرو آسٹریلیا کا قصبہ بونارگہ میں ایک نادر میموریل ہال تعمیر کیا گیا ہے جو ایک ننھے ہیرو کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ہے اور دنیا بھر میں اپنی طرز کی واحد یادگار ہے.یہ ہیرو بہت گمنام ہے.آسٹریلوی بھی نہیں بلکہ انسان بھی نہیں بلکہ ایک نھا پتنگا ہے.ہوا یہ کہ ۱۹۲۵ء میں ناشپاتی کے باغوں میں خاردار کیکٹس (Cactus) کثرت سے پیدا ہو گیا جسے ناشپاتی کی طاعون کا نام دیا گیا.جب کوئی علاج کارگر نہ ہوا تو ۱۹۳۶ء میں ارجنٹائن سے یہ پتنگا درآمد کیا گیا جوکیکٹس کے پھولوں کو چٹ کر جاتا ہے اور اسے افزائش سے روک دیتا ہے.یہ اتنی بڑی خدمت تھی جو آج بھی جاری ہے کہ اس کی قدر افزائی میں مذکورہ بالا ہال تعمیر کیا گیا.لیکن یہ اپنی نوعیت کا واحد کیٹر انہیں بلکہ اور بھی کئی ہیں جن کی افادیت اور خدمات کا واضح اقرار کیا جانے لگا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 8.3.96)

Page 220

213 یورپ اور شمالی امریکہ کے شب و روز.رجحانات کے آئینہ میں یو این کے ادارہ اکنا مک کمیشن برائے یورپ نے ۵۶ ملکوں کے رجحانات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں سب سے زیادہ امریکہ میں ہوتی ہیں جہاں ہرسال فی لاکھ ۱۱۸ عورتیں اس کا نشانہ بنتی ہیں جب کہ اسی نسبت سے سویڈن میں ایسی عورتوں کی تعدا د ۴۳ ہے کینیڈا میں ۲۳ ہے اور فرانس میں ۱۷ ہے اس لئے کینیڈا باوجود امریکہ کے قریب کے عورتوں کے لئے اس کی نسبت کافی محفوظ ہے.دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ باوجود یکہ سوئٹر لینڈ دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ہے وہاں صرف ۳۰ % لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہیں.امریکہ میں قتل کی شرح ایک لاکھ پر ۴ ۱۲۶ ہے جو کہ یورپ اور کینیڈا کے مقابلہ میں پانچ گنا زیادہ ہے.جہاں تک شرح پیدائش کا تعلق ہے سابق روس کی مسلمان ریاستوں ازبکستان، ترکمانستان اور کرگستان میں فی ہزار آبادی پر ۲۸ تا ۳۲ کے درمیان ہے جب کہ پین اور اٹلی کی کیتھولک آبادی میں اضافہ کی شرح اس سے تین گنا کم ہے.( الفضل انٹر نیشنل 8.3.96)

Page 221

214 کیا کسی انسان کے جسم سے ایک ذرہ لے کر ہو بہو اسی طرح کا ایک اور انسان پیدا کیا جا سکتا ہے؟ ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا لیکن سائنسدان کہتے ہیں کہ اس امر کا امکان ہے کہ مستقبل میں ایسا ہو سکے.یہ واقعہ ایک بھیڑ کے ساتھ تو گزر چکا ہے اس لئے کوئی عجب نہیں کہ انسانوں کے ساتھ بھی کبھی ہو سکے.مذکورہ بالا امکان اس خبر کے بعد ظاہر کیا گیا ہے جس کا پچھلے دنوں اخبارات اور ٹی.وی وغیرہ پر خوب چر چار ہا اور جس نے تمام دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.ہوا یوں کہ ایڈنبرا اسکاٹ لینڈ کے ایک ادارہ Roslin Institute کے ایک سائنس دان Dr.lan Wilmut نے ایک چھ سالہ بالغ بھیڑ کے تھنوں سے کچھ ذرات (Cells) لے کر ہو بہو اسی طرح کی ایک اور بھیڑ پیدا کر لی جو جولائی 1999ء میں پیدا ہوئی اور اس کا نام گڑیا، یعنی Dolly رکھا گیا.گڑیا اس بھیڑ کی ہو بہو نقل ہے جس کے خلیات سے اس کا جسم تشکیل پایا ہے نہ صرف ظاہری طور پر بلکہ اپنے جینز (Genes) کے اور DNA کے اعتبار سے بھی.یوں کہ اگر ایک بھیڑ کے جسم کا کوئی حصہ نکال کر دوسری کو لگا دیا جائے تو وہ اسے اپنا ہی عضو سمجھ کر قبول کر لے اور رد نہ کرے.اس قسم کے تجربات پھلوں اور سبزیوں پر تو پہلے ہی کامیابی سے کئے جارہے ہیں لیکن بچوں

Page 222

215 کو دودھ پلانے والے جانوروں کا جڑواں تیار کرنے کا پہلا کامیاب تجربہ ہے.چونکہ انسان بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے یعنی Mammal ہے اس لئے سائنسدان کہتے ہیں کہ اب یہ ممکن ہو گیا ہے ایک انسان کے جسم سے ایک ذرہ لے کر چند مراحل سے گزار کر عین اس طرح کا ایک اور انسان بھی پیدا کیا جاسکے گا.پہلے یہ بات ناممکن سمجھی جاتی تھی اور صرف سائنسی افسانوں ہی میں اس کا ذکر ملتا تھا.ڈاکٹر ولمٹ نے جس طرح اس مشکل کو حل کیا وہ کچھ یوں تھا کہ انہوں نے پہلے مرحلہ میں جس بھیڑ کا جڑواں بنانا مقصود تھا اس کے تھنوں سے اس کا DNA حاصل کیا اور اس کو لیبارٹری میں بڑھایا.دوسرے مرحلہ میں ایک دوسری بھیٹر سے اس کا انڈہ حاصل کیا اور لیبارٹری میں جا کر اس کا اپنا DNA اس میں فٹ کر دیا.پھر ٹیسٹ ٹیوب کے عمل کی طرح اس جنین کی افزائش کی.تیسرے مرحلہ میں ایک تیسری بھیڑ لی اور یہ جنین اس کے رحم میں منتقل کر دیا.اس بھیٹر نے متبادل ماں Surrogate Mother کا کردار ادا کیا اور اس نے جولائی 1999ء کو گڑیا کو جنم دیا.اس ڈرامہ میں تین مادہ بھیڑوں نے حصہ لیا جب کہ کسی نر بھیڑ کا کوئی عمل داخل نہ تھا.کہا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا طریق سے ایک بہترین جانور سے عین اسی طرح کے ہزاروں جانور پیدا کئے جاسکتے ہیں اور اس طرح گوشت زیادہ مقدار میں حاصل کیا جاسکتا ہے.اس کے علاوہ جانوروں میں انسانی جینز اور ان کی خصوصیت شامل کر کے ایسے جانور پیدا کئے جاسکتے ہیں جو نیم حیوان نیم انسان ہوں گے اور ان کے اعضاء دل گردہ وغیرہ انسانوں کے جسموں میں لگائے جاسکیں گے جو اگر زیادہ عرصہ کام نہ بھی کریں تو اتنی مہلت مریض کو دے دیں گے کہ اس کے جسم کے لئے قابل قبول انسانی اعضاء مہیا ہو سکیں.اس کے علاوہ جینز کی تبدیلیوں سے جانوروں کا دودھ اس قابل بنایا جا سکے گا کہ اسے بطور دوا استعمال کیا جا سکے.مذکورہ بالا تجر بہ حیران کن تھا.اس کی کامیابی کا سن کر پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر آف بیالوجی ڈاکٹر لی سلور (Dr.Lee Silver) نے کہا کہ اس خبر پر یقین نہیں آتا کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سائنس کے اس شعبہ میں کچھ بھی کیا جاسکتا ہے.سب حدیں ٹوٹ چکی ہیں اور جو کچھ سائنسی افسانوں میں لکھا گیا تھا وہ سب سچا ثابت ہو رہا ہے.گویا افسانے حقیقت بن رہے ہیں.لوگ کہتے تھے ایسا ہو ناممکن نہیں لیکن سائنسدانوں نے ۲۰۰۰ء سے بھی پہلے یہ کر دکھایا.

Page 223

216 ب سے زیادہ فکر کی بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اگر بھیڑ والا تجربہ انسانوں پر بھی کامیاب ہو جائے تو پھر انسانوں کے مثنی بھی بنے لگیں گے اور اس سے بہت سے سماجی اور اخلاقی مسائل جنم لیں گے.یہ تجربہ انسانوں پر کس کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص کے گردے بریکار ہو گئے ہیں اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور موت یقینی نظر آ رہی ہے.ڈاکٹر اس کے جسم سے ایک ذرہ لے کر اور اس کی بیوی کا بیضہ لے کر اس کا DNA نکال دیتے ہیں اور مریض کا اس کی جگہ فٹ کر کے ٹیسٹ ٹیوب میں جنین تیار کرتے ہیں.اس جنین کو مریض کی بیوی کے جسم میں منتقل کر دیتے ہیں جو وقت پر ایک بچے کو جنم دیتی ہے.یہ بچہ مریض کی جینیاتی نقل ہوگا اس لئے اس کا نتھا گردہ جہاں پر وہ آہستہ آہستہ بڑھ کر پورے سائز کا ہو جائے گا.چونکہ نیا گردہ مریض کے اپنے ہی جسم کا گویا ایک حصہ ہوگا اس لئے جسم اسے رد نہیں کرے گا.لیکن اس عمل میں نوزائیدہ بچہ کی جان جائے گی جب کہ مریض کی جان بچ جائے گی.اگر وہ مریض شادی شدہ نہ ہواور پیسے خرچ کر سکتا ہے تو کسی دوسری عورت کی خدمات بھی کرایہ پر حاصل کر سکتا ہے.گویا انسانوں کے بچوں کو پیدا کر کے ان کے اعضاء کو بطور سپئر پارٹس کے استعمال کیا جا سکے گا جو نہایت ہی بھیانک خیال ہے.وہ بچہ بھی قیامت کے دن سوال کر سکتا ہے کہ خدایا مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟ دوسری مثال فائدہ کا پہلو اپنے اندر رکھتی ہے.فرض کریں ایک بچہ کو لیکومیا (Leukeemia) کی بیماری ہے اور کوئی علاج کارگر نہیں ہورہا.اس کی ریڑھ کی ہڈی کا مغز (Bone Marrow) اگر تبدیل ہو جائے تو جان بچ سکتی ہے لیکن ایسا جو جسم قبول کرے میسر نہیں آرہا.اب اس نئے تجربہ کے مطابق اس بیمار بچے کے جسم کا ایک ذرہ سے اس کی والدہ اس جیسے ایک اور بچے کو جنم دیتی ہے ( باپ کی ضرورت یہاں پر بھی نہیں ہے ) نوزائیدہ بچہ چونکہ مریض کا جڑواں ہے اس کے جسم سے مغز لے کر مریض میں جب منتقل کیا جائے گا تو وہ شفایاب ہو جائے گا اور نوزائیدہ بچہ کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.ٹی.وی کے ایک پروگرام میں اس مسئلہ پر دلچسپ گفتگو ہورہی تھی تو ایک صاحب نے کہا کہ اگر اس طریق سے دس ہیں صدام حسین اور وجود میں آجائیں تو پھر کیا ہو.اور ایسے ہی چونکہ ہزاروں سال پہلے فوت ہوئے شخص کے جسم سے بھی DNA حاصل کیا جاسکتا ہے اگر سو، دوسو آئن

Page 224

217 سٹائن اور پیدا ہو جائیں تو پھر دنیا میں کیسا انقلاب آجائے گا.لیکن بالفرض اگر کوئی انسان دوبارہ بھی اپنے پہلے قومی کے ساتھ جنم لے لے تو ضروری نہیں کہ وہ ویسا ہی بن جائے جیسے پہلے تھا.وہ پہلے سے بہتر بھی بن سکتا ہے اور خراب بھی.والدین، اساتذہ تعلیم و تربیت ، ماحول، ساتھی اور ترقی کے مواقع تبدیل ہوتے رہتے ہیں جو انسان کو کچھ کا کچھ بنادیتے ہیں.دو جڑواں بھائی اگر ایک جیسی قابلیت بھی رکھتے ہوں تو ضروری نہیں کہ زندگی میں ایک جیسا مقام حاصل کر لیں.بسا اوقات ایک دوسرے سے محنت اور سازگار ماحول کی وجہ سے کہیں آگے نکل جاتا ہے.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسانوں کے جڑواں اس طرح تیار ہونے لگے تو اس سے گھمبیر معاشرتی اور اخلاقی مسائل جنم لے سکتے ہیں.اسی لئے ویٹیکن نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ شادی کے علاوہ کسی طریق سے بھی انسانی پیدائش خدائی منصوبہ کے خلاف ہے.قرآن کریم تو چودہ سو سال پہلے ہی خدا کی مخلوق میں تبدیلی کی نہ صرف خبر دے چکا ہے بلکہ اسے شیطانی فعل قرار دے چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خلق یا جینز کی تبدیلی جسے آج کل سائنسی زبان میں Genetic Engineering کہتے ہیں اس کے ذریعہ ضرور کچھ شیطان کی مرضی کے کام بھی کئے جائیں گے.(النساء: ۱۲۰) خدا نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے اور اسے اپنی شکل پر پیدا کیا ہے.امکانی طور پر اگر انسان جسم کے ایک ذرہ سے ہو بہو اس جیسا اور انسان خدائی قوانین کو بروئے کار لا کر پیدا کرسکتا ہے تو خدا خودایسا کیوں نہیں کر سکتا.ضرور کر سکتا ہے.اگر چہ اگلا جہان مادی نہیں بلکہ روحانی ہے لیکن قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی انسان کا کسی نہ کسی رنگ میں تعلق اس کے جسم کے ذرات سے بھی رہتا ہے.یہ خدائی اسرار میں سے ہے اور انسانی عقل اس کی کہنہ تک نہیں پہنچ سکتی.خدا تعالیٰ دوسری پیدائش کے بارہ میں فرماتا ہے: (انسان ) اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ جب ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو ان کو بھلا کون زندہ کرے گا.تو کہہ دے کہ ایسی ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کی حالت

Page 225

218 سے واقف ہے.لیس : ۷۹-۸۰) ( وہ کہتے ہیں ) کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیاں ہو جائیں گے ہم کو پھر سے اٹھا کر کھڑا کر دیا جائے گا؟ اور (اسی طرح ) ہمارے پہلے باپ دادوں کو بھی ؟ تو کہہ دے ہاں (ہاں) بلکہ تم ذلیل (الصفت : ۱۹۱۷) ہو جاؤ گے.(الفضل انٹر نیشنل 21.3.97)

Page 226

219 آپ کے (Genes) آپ کی ملازمت کو بھی خطرہ میں ڈال سکتے ہیں جینز (Genes) پر جونت نئی تحقیقات ہو رہی ہیں ان سے بعض موروثی بیماریوں کا بھی علم ہوا ہے اور جن لوگوں کے خون میں ایسے جینز دریافت ہوتے ہیں جن سے بعض بیماریوں کے پیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے تو آجر انہیں ملازمت میں لینے سے کتراتے ہیں.یہ بیماریاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں مثلاً نفسیاتی اور ذہنی بیماریاں.امراض قلب اور کینسر وغیرہ.امریکہ میں ایک سوشل ورکر کے خاندان میں کسی کو ایک نفسیاتی مرض تھی تو اس کا علم ہونے پر اس سوشل ورکر کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا.امریکہ کی ائر فورس میں ایک ملازم کو بھی یہی تکلیف ہونے کا ۵۰ ٪ امکان تھا تو اس کو بھی ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا.امریکہ میں سرکاری ہسپتال اور علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں.اس لئے اکثر کمپنیوں کو پرائیویٹ طور پر ہیلتھ انشورنس لینی پڑتی ہے.اگر یہ انشورنس کمپنیاں جیز کی بنیاد پر بیمہ کرانے سے انکار کر دیں یا ان کے لئے بیمہ اتنا مہنگا کر دیں کہ وہ کروا نہ سکیں تو ایسے غریب لوگ عام علاج معالجہ کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے اور ہسپتالوں سے ایمر جنسی کے علاوہ انہیں کوئی سہولت میسر نہیں آسکے گی.اس چیز نے امتیازی سلوک برتنے کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے اور یہ خطرناک رو جو چل پڑی ہے اسے جین ازم (Gene-ism) کا نام دیا گیا ہے اور اس سے عوام میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے.( الفضل انٹر نیشنل 26.7.96)

Page 227

220 باپ کی وفات کے کئی سال بعد پیدا ہونے والا میٹ ٹیوب بے بی اپنے باپ کا وارث ہو گا تسمانیہ ( آسٹریلیا) کی ہائیکورٹ کا فیصلہ تسمانیہ ( آسٹریلیا ) کے ایک میاں بیوی کے تین بچے پہلے سے موجود تھے.پتہ نہیں ان کو کیا سوجھی کہ انہوں نے چار عدد جنین (Embryos) لیبارٹری میں منجمد کروا دیئے.ان میں سے دو کو استعمال کر کے ۱۹۹۴ء میں بیوی نے ایک بچے کو جنم دیا اپریل ۱۹۹۵ء میں خاوند انتقال کر گیا.اب اس کی بیوہ اس ایک اور بچے کو جنم دینا چاہتی ہے.اس کے خاوند کا ترکہ ایک لاکھ نواسی ہزار ڈالر کا ہے.لہذا ماں نے مناسب سمجھا کہ پانچویں بچے کی تیاری سے قبل عدالت سے یہ فیصلہ کروالیا جائے کہ ہونے والا بچہ بھی اپنے آنجہانی باپ کا وارث ہوگا.تسمانیہ ہائی کورٹ تک معاملہ پہنچا اور جسٹس سلائیسر (j Slicer) نے فیصلہ دیا کہ بچہ پیدائش کے بعد ماں سے علیحدہ وجود اختیار نہ کرے لیکن چونکہ یہ فیصلہ پہلے سے موجود ہے کہ باپ کی وفات کے بعد پیدا ہونے والا بچہ ورثہ پائے گا لہذا اگر تم کسی مزید بچے کو جنم دو تو وہ باپ کے ترکہ میں سے حصہ پائے گا.بعض دوسری ریاستیں اس فیصلے سے متفق نہیں.ریاست وکٹوریہ کے ایک افسر نے کہا

Page 228

221 ہے کہ فیصلہ میں ایک وفات شدہ شخص کو زندہ کی طرح تسلیم کیا گیا ہے جس کو ہم درست نہیں سمجھتے.( الفضل انٹر نیشنل 26.7.96)

Page 229

222 لوگ آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ماہرین نفسیات نے بہت تجربات کے بعد یہ دیا ہے کہ: ایسا ہی جیسا آپ ان کو سمجھتے ہیں.“ نفسیات کی ایک شاخ کو STT یعنی (Spontaneous Trait Transference) کہا جاتا ہے.یعنی ہر انسان میں بعض نمایاں امتیازی صفات ہوتی ہیں جو اس کی شخصیت کا طرہ امتیاز کہی جاسکتی ہیں.یہ صفات اچھی بھی ہو سکتی ہیں اور بری بھی اور پاس اٹھنے بیٹھنے والوں کو منتقل ہو جاتی ہیں.امریکہ کی اوہائیوسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر جان سکور انسکی جو اس شعبہ سے متعلق ہیں انہوں نے اپنی لیبارٹری میں بہت سے افراد پر ایسے تجربات کئے ہیں جن کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ لوگ دوسروں کے بارہ میں آپ کی اچھی یا بری باتیں سن کر خود آپ کے بارہ میں لاشعوری طور پر کیا رائے قائم کرتے ہیں.ان کے تجربات کی رپورٹ رسالہ & Joumal of personality) (Social Psychology میں شائع ہوئی ہے جو دلچپسی کی حامل ہے.پروفیسر صاحب نے بہت سے لوگوں کو ویڈیو پر کسی شخص کی تصویر دکھائی جس کے ساتھ ایک بیان بھی تھا جس میں کسی کے بارہ میں بعض باتیں بتائی گئی تھیں.وہ باتیں یا تو صاحب تصویر نے کسی کے بارہ میں کہی تھیں جس کو وہ جانتا تھا یا کسی اور نے صاحب تصویر کے بارہ میں کہی تھیں.جب لوگوں سے رائے لی گئی کہ صاحب تصویر یا دوسرے شخص کو آپ کیا سمجھتے ہیں تو تقریبا سبھی نے یہ کہا کہ

Page 230

223 جس نے یہ باتیں بیان کی ہیں وہ خود ہی ایسا ہے یعنی جنہوں نے دوسروں کے بارہ میں اچھی رائے ظاہر کی وہ خود ا چھے تھے اور جس نے نکتہ چینی کی اور دوسروں کے نقص بیان کئے وہ خودا چھے نہ تھے.ان تجربات سے پروفیسر مذکور نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر آپ مجلس میں دوسروں کے نقائص اور کمزوریاں بیان کرتے ہیں تو سننے والوں کے ذہن میں خود آپ کے بارہ میں برا تا تر پیدا ہوتا ہے اور خود آپ کا مقام ان کی نگاہ میں گر جاتا ہے.اور جو شخص دوسروں کے بارہ میں بالعموم اچھی اور مثبت رائے ظاہر کرتا ہے لوگ خود اس کو اچھا سمجھتے ہیں.رپورٹر باب بیل تجربات کے مذکورہ بالا نتائج تحریر کر کے لکھتے ہیں کہ ہماری ماں ٹھیک ہی کہا کرتی تھی کہ اگر تم کسی کے بارہ میں اچھی بات نہیں کر سکتے تو پھر بہتر ہے کہ منہ بند رکھو اور خاموش رہو.(ماخوذ از سڈنی ہیرلڈ ۲۸ مارچ ۱۹۹۸ء) باب بیل کی مان واقعی ٹھیک کہا کرتی تھی.قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ ہر غیبت اور نکتہ چینی کرنے والے کے لئے ہلاکت ہے اور یہ کہ بچوں اور نیکوں کی صحبت اختیار کیا کرو.اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے یعنی جیسا تم دوسرے کو دیکھتے ہو در اصل تم اپنا عکس ہی اس میں دیکھتے ہو.اگر تم اس کو دل سے اچھا سمجھتے ہو تو تم خود اچھے ہو اور اگر برا سمجھتے ہو تو تمہاری اپنی برائی ہی اس میں جھلکتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ جیسا رویہ کسی کا دوسرے کے بارہ میں ہوتا ہے ویسا ہی لاشعوری طور پر دوسرے کا رویہ اس کے بارہ میں ہو جاتا ہے منافقت سے اختیار کیا ہوار و یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا.جھوٹ کا ٹھ کی ہنڈیا کی طرح ہوتا ہے.حضرت رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ قوم ہلاک ہوگئی اسی نے قوم کو ہلاک کیا بلکہ وہ خودسب سے زیادہ ہلاک شدہ ہے.بلاشبہ انسان کے خیالات دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں.ماہرین نفسیات نے بھی تجربات سے یہی ثابت کیا ہے اور سائنس دان بھی خیال کی قوت (Thought Energy) کے قائل ہیں.امریکہ کی بحریہ نے محض خیال کی طاقت سے بطور ریموٹ کنٹرول کشتی کی موٹر کو کنٹرول کر لیا ہے اور اب محض خیال اور ارادہ کی قوت سے ہوائی جہازوں کے نظام کو کنٹرول کرنے کے بارہ میں کوشش کر رہے ہیں.یہ وہ باتیں ہیں جو قرآن وحدیث کی باتوں کو سچا ثابت کرنے والی ہیں.اس

Page 231

224 میں کوئی شک نہیں کہ تمام سچے علوم قرآن کے خادم ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اثر صحبت : لیکن صحبت میں بڑا شرف ہے.اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچاہی دیتی ہے.کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے.اسی طرح پر صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں كُونُوا مَعَ الصادقین (توبہ: ۱۱۹) فرمایا ہے اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانہ میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد ۸ صفحه ۳۱۵) اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ بہت بڑا انعام ہے کہ خلیفہ وقت کی ذات میں وہ صادق ہر وقت موجود رہتا ہے.کہیں جسمانی صورت میں بھی اور کہیں ایم ٹی اے کے توسط سے اور آپ کے خطبات اور فرمودات اور نیکی کی باتیں ہر وقت ہمارے کانوں میں پہنچتی رہتی ہیں.دوسروں کو یہ نعمت کہاں میسر ہے.الحمد للہ علی ذلک.کسی نے کیا خوب کہا ہے: جمال ہم نشیں در من اثر کرد وگرنه من ہماں خاکم کہ ہستم یعنی اگر مجھ میں کوئی خوبی ہے تو یہ میرے ہم نشیں کی صحبت کا ہی اثر ہے ورنہ میں تو محض خاک ہی ہوں.(الفضل انٹرنیشنل 10.7.96)

Page 232

225 آسمانی بجلی گھروں کے قیام کی تجویز آسمان سے سورج کی گرمی کو زمین پر منعکس کر کے متعدد بڑے بڑے بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے تیار کئے جارہے ہیں.یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں آئندہ ہیں سالوں میں سکائی پاور سٹیشنوں کا قیام ممکن ہے.امریکی ادارہ ناسا National Aeronautics and) (Space Administration نے امریکہ کے ایوان نمائندگان کی سب کمیٹی کو بتایا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خلا سے شمسی توانائی حاصل کرنے کے مسئلہ پر سنجیدگی سے دوبارہ غور کیا جائے.آئندہ ہیں سالوں میں شمسی توانائی کے دو منصوبے کام شروع کر سکتے ہیں.پہلے منصوبہ کا نام Sun Tower رکھا گیا ہے.اس میں ایسا نظام قائم کیا جائے گا جس میں متعد دسیٹلائٹ خط استوا کے اوپر بارہ ہزار کلومیٹر کی بلندی پر زمین کے گرد چکر لگائیں گے.ہر سیٹلائٹ ۲۰۰ تا ۴۰۰ میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا.(ایک میگاواٹ ایک ہزار کلوواٹ کا ہوتا ہے ) سٹیلائیٹ پر ایسی ڈسکیں لگی ہوں گی جو سورج کی گرمی کو زمین پر منعکس کریں گی جس کی طاقت سے بجلی گھر چلیں گے.اس منصوبہ کے تحت دنیا بھر میں کہیں بھی پاورسٹیشن تعمیر کئے جاسکیں گے اور اس طرح امریکی ادارے جس ملک کو چاہیں گے بجلی مہیا کر سکیں گے.دوسرے منصوبہ کا نام Solar Disk ہے.اس کے تحت سیٹلائٹ بہت زیادہ اونچائی پر قائم کئے جائیں گے لیکن ان کا مقصد کسی خاص علاقے کو بجلی مہیا کرنے تک ہی محدود ہوگا.اس کا ہر

Page 233

226 سیٹیلائٹ پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکے گا.لطف کی بات یہ ہے کہ اگر چہ سیٹلائٹ کے مختلف حصے زمین پر ہی تیار کئے جائیں گے لیکن ان کو آسمان پر جوڑنے کے لئے کسی خلا باز کی ضرورت نہیں ہوگی.ان کو ناسا کے انجینئر زمین پر سے ہی ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ تعمیر کریں گے.وہ منظر بھی عجیب ہوگا جب بغیر ظاہری ہاتھ سے استعمال کے آسمان پر مصنوعی سیارے بن رہے ہونگے.ناسا کے انجینئروں کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا کی بجلی کی ضروریات اتنی بڑھ جائیں گی کہ انہیں مروجہ طریقوں سے پورا نہیں کیا جاسکے گا.لہذا شمسی توانائی کا استعمال فائدہ بخش ہوگا.(الفضل انٹر نیشنل 12.6.98)

Page 234

227 چوہوں کے نوزائدہ بچوں کا خلا کا سفر ناسا امریکہ کے سائنسدان انسانوں کو لمبا عرصہ خلا میں رکھنے اور ان پر بے وزنی کی کیفیت کے اثرات معلوم کرنے کے لئے تجربات کر رہے ہیں.چنانچہ ۷ار اپریل ۹۸ء کو جو خلائی شٹل کولمبیا خلا میں بھجوائی گئی اس میں سات خلا باز تھے اور ان کے ساتھ دو ہزار کترنے والے جانور (Rodents) اور کیڑے مکوڑے شامل تھے.خلا میں بھیجے جانے والے جانوروں میں انگوٹھے کے سائز کے۹۶ عدد چوہوں کے بچے بھی تھے جن کی عمر صرف نو دن تھی.مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بے وزنی کی کیفیت دماغ اور اعصابی نظام کی نشوونما پر کیا اثر ڈالتی ہے.کچھ چوہیاں حاملہ بھی تھیں تا ان کے ہونے والے بچوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا اندازہ ہو سکے.چوہوں کے بچوں کو خلا کا سفر راس نہیں آیا.ان میں سے زائد از نصف جان سے ہاتھ دھو بیٹھے.اس پر جانوروں کے حقوق کی ایک سوسائٹی (Peta) نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناسا کا تجربہ بڑا خوفناک ہے.ناسا والے چوہوں کو بھی نہیں سنبھال سکتے نہ زمین پر ان کو زندہ رکھ سکتے ہیں نہ خلا میں.اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ صرف ۱۰ فیصد کے قریب چوہوں کے بچے مریں گے لیکن ہوا یہ کہ ان کی ماؤں (Surrogate Mother) نے پانی کم پیا اور انہوں نے اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلایا یا دودھ بنا نہیں.بہر حال وہ مائیں بچوں سے دور دور رہیں اور ان کی طرف سے غافل رہیں.اس لئے موت کی اصل وجہ نا کافی نرسنگ تھی نہ کہ ناسا کی غفلت.

Page 235

228 خلا بازوں کا قد بے وزنی کی وجہ سے کچھ بڑھ گیاریڑھ کی ہڈی کچھ سیدھی ہوگئی لیکن زمین پر قدم دھرتے ہی وہ اپنے اصل قد پر لوٹ آئے.خلا بازوں پر بھی بے وزنی کے اثرات معلوم کرنے کے لئے کئی قسم کے تجربات کئے گئے.(الفضل انٹر نیشنل 12.6.98)

Page 236

229 سمندر کی تہہ میں معدنیات امریکی سائنسی ادارہ AAAS کے ۱۹۹۷ء کے اجلاس میں بتایا گیا کہ مستقبل میں سطح سمندر کے نیچے ابلنے والے آتش فشاں پہاڑوں سے معدنیات حاصل کی جائیں گی لیکن چونکہ وہ کوئی تین کلومیٹر زیر زمین ہیں اس لئے وہاں تک پہنچنا خاصہ مہنگا پڑے گا.اس لئے ان کے نکالنے کی باری تب آئے گی جب زمین کی کانیں خالی ہو جائیں گی یا وہاں سے نکالنا بہت زیادہ مہنگا ہو جائے گا.نیویارک سٹیٹ کی Rutgers University کی Dr Richard Lutz نے بتایا کہ سمندر کی تہ سے نیچے جو آتش فشاں پہاڑ ہیں وہ چمنیوں کی شکل میں گیسیں اور پگھلی ہوئی قیمتی دھاتیں اگل رہے ہیں جیسے سونا، چاندی، تانبہ اور سکہ وغیرہ.نیز یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لاوے کے راستوں کے اردگرد ایسی جاندار مخلوق پھولتی پھلتی ہے جو سخت گرم ماحول، گندھک اور تاریکی کو پسند کرتی ہے.( سڈنی ہیرلڈ ۱۸ فروری ۱۹۹۸ء) قرآن مجید میں پیشگوئی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب زمین اپنے خزانے باہر نکال پھینکے گی (الزلزال ۳) جس طرح آج زیر زمین سے پٹرولیم اور معدنیات نکالی جارہی ہیں.ایسا تاریخ میں پہلے کب ہوا تھا اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا دوسرا دور وہ ہوگا جب خشکی کے بعد سمندر کے نیچے سے بھی مدفون خزائن باہر نکالے جائیں گے.ایک لحاظ سے اس کا بھی آغاز ہو چکا ہے اور سمندر کے نیچے سے پڑولیم نکالا جارہا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 12.6.98)

Page 237

230 لہسن کی بو، پیچش پیدا کرنے والے امیبا کو بھی نا گوار ہے امیبا(Amoeba) ایک خلیاتی (Single-Cell) مخلوق ہے.جو پانی ہٹی یا بطور پیراسائٹ جانوروں میں پایا جاتا ہے.وہ امیبا جو پیچش پیدا کرتا ہے لہسن کی بو اس کے بعض اینزائمنر (Enzymes) کو روک دیتی ہے اور اس طرح ان کی نشو و نمارک جاتی ہے.لہسن میں وہ چیز جو بو پیدا کرتی ہے اس کو Allicin کہا جاتا ہے.شاید یہی وجہ تھی کہ حکماء ہمیشہ سے پیاز اور لہسن کو بطور جراثیم کش دوا کے استعمال کرتے رہے ہیں.پیاز کا ایک مشہور فائدہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ خون کو جمنے (Blood Clotting) سے بچاتا ہے.چنانچہ گرم صحراؤں میں سفر کرنے والے Dehydration اور اس کے نتائج (خون جمنا وغیرہ) سے بچنے کے لئے اپنے ساتھ پیاز ضرور رکھتے تھے.عرب میں آج بھی پیاز بہت کھایا جاتا ہے.( الفضل ان نیشنل 26.6.98)

Page 238

231 آپ کے دماغ کی ٹریننگ اور ترقی آپ کے ہاتھ میں ہے.Michael Posner of Oregon University Eugene USA نے انسانی دماغ پر بڑے دلچسپ تجربات کئے ہیں.انہوں نے پہلے ایسے بچوں کے دماغوں کا مشاہدہ کیا جنہوں نے ابھی پڑھنا لکھنا شروع نہیں کیا تھا.پھر جیسے جیسے حساب اور لکھنا پڑھنا سیکھتے گئے ان کے دماغوں میں تبدیلیاں پیدا ہوتی گئیں.دماغ کے جو حصے زیر استعمال آتے گئے ان کے اجزاء میں باہم رابطہ بڑھ گیا جیسے انہوں نے ایک دوسرے سے بولنا شروع کر دیا ہو.جس بچے نے نہ پڑھا اس کا دماغ کورے کا کورا رہا.دماغ میں ان گنت قومی ودیعت کئے گئے ہیں لیکن وہ کارآمد اور مفید بھی بنتے ہیں جب انہیں استعمال کیا جائے.پنگھوڑے کی عمر سے لے کر لحد تک علم حاصل کرتے رہنے میں یہی حکمت ہے کہ اس طرح انسان کا دماغ ترقی کرتا اور کارآمد رہتا ہے.اس لئے یہ کبھی نہ سوچیں کہ بوڑھے طوطے کیا سیکھیں گے.(الفضل انٹر نیشنل 26.6.98)

Page 239

232 دانتوں کو صاف نہ رکھنے سے دل کی تکلیف بھی ہوسکتی ہے مشہور مقولہ ہے کہ دانت اچھے تو صحت اچھی.اب نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بیکٹیریا Sterptococcus Sanguis) جو منہ کے اندر تو بے ضرر ہوتا ہے لیکن جب خون کی رو میں داخل ہوتا ہے تو یہ خون میں لوتھڑے (Clot) بنا سکتا ہے جس سے دل کا عارضہ پیدا ہوتا ہے.جن لوگوں کے مسوڑوں میں تکلیف ہوتی ہے ان کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.ایک اور ڈاکٹر نے ۲۵۶۶ سن یاس (Post-Menopausal) سے آگے نکلنے والی عورتوں کو زیر مطالعہ رکھا.معلوم ہوا کہ جن عورتوں کے دانت نکل گئے تھے ان کو ہڈیوں کے بھر بھرا ہونے اور ان میں کیلشیم کی کمی کی تکلیف ہوگئی تھی.منہ اور دانتوں کی صفائی اور مسواک کے استعمال پر تو اسلام میں ایساز ورد یا گیا ہے کہ گویا یہ عبادت کا حصہ بن چکا ہے.( الفضل انٹرنیشنل 26.6.98)

Page 240

233 مریخ سے لائی جانے والی مٹی کے لئے خاص لیبارٹری کا قیام ناسا امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ مختلف اداروں کے سائنس دان مل کر ایک ایسی لیبارٹری قائم کر رہے ہیں جس میں وہ تمام مٹی پتھر وغیرہ رکھے جائیں گے جو مریخ سے لائے جائیں گے.منصوبہ کے مطابق مریخ سے مٹی ۲۰۰۱ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء میں لائی جائے گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ خطرہ بہت معمولی ہے لیکن امکان ہے کہ مریخ سے لائی ہوئی مٹی کے ساتھ کچھ جراثیم بھی ساتھ زمین پر آجائیں جس سے زمین کے انسانوں، حیوانوں اور نباتات میں بیماری پیدا ہو جائے.(الفضل انٹر نیشنل 26.6.98)

Page 241

234 خدا پر یقین ، جسم اور روح دونوں کو صحت دیتا ہے اس خبر کا عنوان ہے Faith Heals Body & Soul اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ۱۷۲۷ ، بوڑھوں کا مطالعہ اس غرض سے کیا کہ مذہب پر اعتقاد کا ان کے جسموں پر کیا اثر پڑتا ہے.انہوں نے واضح طور پر یہ پایا کہ اعتقاد کا جسم کے دفاعی نظام (Immune System) سے گہرا تعلق ہے.چنانچہ ٹیم کے سر براہ Dr.Harold (Koeing جو ڈرہم کی ڈیوک یونیورسٹی سے متعلق ہیں کہتے ہیں کہ ”ہمارا خیال ہے کہ مذہبی اعتقاد، ذہنی صحت اور جسم کے نظام دفاع کا آپس میں تعلق ہے.“ 66 ( الفضل انٹر نیشنل 26.6.98)

Page 242

235 گولیاں جو دشمن کا پیچھا کر کے اس کو لگیں گی 66 برطانوی رسالہ ”نیو سائنٹسٹ کے مطابق امریکہ ایسی ”سمارٹ بلیٹ “ Smart) (Bullet ایجاد کر رہا ہے جو اپنے نشانہ کا تعاقب کریں گی.ان گولیوں کو BLAMS یعنی (Bamal Launched Adaptiv Munitions) کہا گیا ہے.اور ایک لیزر کی.اور شعاع (Laser Beam) گولی کی رہنمائی کرے گی.یہ تو وہی بات ہوئی: ع ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانہ میں ( الفضل انٹر نیشنل 26.6.98)

Page 243

236 کھچاؤ اور دباؤ کے حاملہ عورتوں اور ان کے ہونے والے بچوں پر بداثرات حال ہی میں ملبورن : آسٹریلیا میں ایک سائنس کا نفرنس منعقد ہوئی ہے اس میں Dr Miodrag Dodic نے بتایا کہ حاملہ بھیڑوں کے بچوں پر دوران حمل ان کے ماؤں کو جس کھچاؤ اور دباؤ ( Stress) سے گزرنا پڑا ہم نے اس کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لئے تجربات کئے ہیں اس غرض کے لئے انہوں نے حاملہ بھیڑوں کو صرف دو روز کے لئے ان کو وہ ہارمون زیادہ مقدار میں دئے جو ان کا جسم Stress کے دوران پیدا کرتا ہے یعنی ان کو Stress Hormones کی نارمل سے زیادہ مقدار دی گئی.پھر جب ان کے بچے جوان ہوئے تو ان کے معائنہ سے پتہ لگا کہ ان کو ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف ہو گئی ہے جو ان بھیڑوں کو نہیں جن کی ماؤں کو دوران حمل فکر و تشویش کا سامنا نہیں کرنا پڑا.البتہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایسے بچوں پر لمبا عرصہ چلنے والے بداثرات کیا مرتب ہونگے.ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جس چیز کا علم ہم سب کو ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ عورتوں کے آغاز حمل کے تین مہینے بالخصوص اہم ہوتے ہیں کیونکہ اس دوران بچہ کے تمام اعضاء بن رہے ہوتے ہیں اور اس کا وہ ماحول تیار ہورہا ہوتا ہے جس میں بچہ نے پرورش پانی ہوتی ہے لہذا اس عرصہ میں ماں پر

Page 244

237 جو گزرتی ہے اس کا بچہ کی نشو و نما اور نفسیات پر گہرا اثر پڑتا ہے.وہ کہتے ہیں ہماری آبادی کا چوتھا حصہ ۴۵ سال کی عمر کے بعد ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہو جاتا ہے جس سے فالج اور امراض قلب پیدا ہوتے ہیں.لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ حاملہ عورتوں کا ماحول خوشگوار رکھا جائے اور ان کو Stress سے بچایا جائے ورنہ امکان ہے کہ ان کے بچوں کو اس کے بدنتائج ۴۵ سال کی عمر کے بعد بھگتنا پڑیں گے.ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب حاملہ عورتوں کو کوئی تشویش کی بات پیش آئے تو وہ اپنی توجہ ادھر سے ہٹانے کے لئے ایک سے دس تک گنتی توجہ سے شروع کریں اس سے افاقہ ہوگا.(ماخوذ سڈنی ہیرلڈ ۸ مئی ۱۹۹۸ء) گنتی کی بجائے اگر نماز ، دعا، استغفار اور درود شریف سمجھ مجھ کر پڑھا جائے اور خدا کی رضا پر راضی رہنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا جائے تو امید ہے کہ یہ فارمولا سٹریس کو دور کرنے کے لئے گنتی کی نسبت کہیں زیادہ مؤثر ہوگا.نیز اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنا اور فکر و تشویش (Stress & Tension) کو خواہ مخواہ پیدا نہ ہونے دینا نہ صرف اپنی صحت کے لئے بلکہ اپنے بچوں کی صحت کے لئے بھی ضروری ہے.جو طبائع ہر وقت فکر و تشویش میں مبتلا رہتی ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کے لاشعور میں وہی تشویش ڈیرے ڈالے ہوئے جوان کی ماں کو ان کی پیدائش سے پہلے رہا کرتی تھی.بہر حال خدا کے قانون میں ہر چیز خواہ ایٹم کے برابر چھوٹی ہو، اچھی یا بری اپنا نتیجہ پیدا کئے بغیر نہیں رہتی.جیسے فرمایا کہ جو ذرہ برابر بھی نیک یا براعمل کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا.(سورۃ الزلزال ) سوائے اس کے کہ خدا اس کے بدنتائج کو اپنے فضل سے محوکر دے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر مذکور ہے.( الفضل ان نیشنل 19.6.98)

Page 245

238 بھونکے گتا کالے قانون وہ بھی کیا دن تھے کہ جب کتے بھونک بھونک کر ہی اپنا غصہ نکال لیتے تھے اس لئے جو بھونکتے تھے وہ کانٹتے نہیں تھے لیکن آج کل تو کتے بھونکتے بھی ہیں اور کاٹتے بھی ہیں.چنانچہ لوگوں کی شکایت اتنی بڑھیں کہ حکومت نیو ساؤتھ ویلز ( آسٹریلیا) قانون بنارہی ہے کہ مالک اپنے کتوں کو پٹہ بھی ڈالیں اور چھین کا بھی.ورنہ بھونکنے والے کتوں کے مالکوں کی قانون خبر لے گا.خبر کے مطابق کتا پہلی بار بھونکے گا تو..ا ڈالر جرمانہ ہوگا اس کے بعد ہر بار بھونکنے پر پھر اتنا ہی جرمانہ یہاں تک کہ جرمانہ کی کل رقم ۴۴۰۰ ڈالر ہو جائے ( یہ واضح نہیں کہ اتنا جرمانہ ادا کرنے کے بعد فری بھونکنے کی اجازت ہوگی یا نہیں ) جو کتے زیادہ خطر ناک ہیں ان کے مالکوں کو جرمانہ بھی ہوگا یعنی ۵۵۰۰ ڈالر تک.سڑکوں پر گند ڈالنے کی صورت میں موقعہ پر ہی ۲۰۰ ڈالر جرمانہ ہوگا.رجسٹریشن فیس بھی بڑھا کر ۱۰۰ ڈالر کر دی گئی ہے.ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آئندہ جو بھی بلیاں کتنے رجسٹر کئے جائیں گے ان کے اندر ایک مائیکر و چپ لگایا جائے گا جس سے ان کی نقل و حرکت ہر وقت معلوم کی جاسکے گی.یوں مفرور کتوں اور بلیوں کو پکڑنا اور مالکوں کو لوٹانا آسان ہو جائے گا.یہ مائیکر وچپ صرف دس ڈالر کی ہوگی.یاد آیا کہ چند روز قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ نیو ساؤتھ ویلز کے جو قیدی جیل سے باہر کام کرنے کے لئے جاتے ہیں ان کے گھٹنوں پر ایسا چھوٹا سا آلہ باندھ دیا جایا کرے گا جس سے ان کی نقل

Page 246

239 و حرکت ہر وقت جیل میں ریکارڈ کی جاسکے گی.اور وہ جو نہی اپنی مقررہ حدود سے تجاوز کریں گے ان کے خلاف فوری کاروائی عمل میں لائی جاسکے گی.( الفضل اثر نیشنل 19.6.98)

Page 247

240 پڑھنے والا بین اب تک ایسی عینک تو کوئی نہیں بنی جس کو پہن کر ان پڑھ بھی پڑھنے لگیں لیکن اس کی بجائے اب ایک کمپنی (Sieko Instruments) نے ایک ایسا قلم ایجاد کر لیا ہے جو اگر کسی ٹائپ شدہ لفظ پر رکھا جائے تو اس کو اونچی آواز سے پڑھ کر سنا دیتا ہے.اس کا نام Quicktionary Reading pen ہے اور جیسی سائز کا ہے.کوئی تین سو ڈالر اس کی قیمت ہے لیکن یہ تحریر کو ایک ایک لفظ کر کے ہی پڑھ سکتا ہے.بہر حال جن کے لئے عینک سے پڑھنا بھی ممکن نہیں لیکن وہ سن سکتے ہیں ان کے لئے مفید ایجاد ہے.(الفضل انٹر نیشنل 4.6.99)

Page 248

241 بولنے والی کتاب امریکہ کی ایک کمپنی نے ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جس پر کہ پوری کتاب ریکارڈ ہو جائے اور آپ چلتے پھرتے کانوں کو لگا کر اس کو سنتے رہیں.کتاب کی کیسٹ بازار سے خریدنے کی بھی صورت نہیں، انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا بھر کی جو کتاب چاہیں اپنے کمپیوٹر پر لا کر اس کو Software میں بھر لیں اور Mobile Player کے ذریعہ سنتے رہیں.کوئی پڑھنے والا ہو بلکہ سننے والا ہو.سہولتوں کے تو انبار لگ رہے ہیں.یہ سب ایجادیں کبھی دینی تعلیم اور تبلیغ کے لئے بھی استعمال ہونگی.انشاء اللہ (الفضل انٹر نیشنل 4.6.99)

Page 249

242 آپ کے گھر میں سب سے زیادہ بکٹیریا کہاں پائے جاتے ہیں امریکہ کی University of Arizona نے تمہیں ہفتوں کی تحقیق کے بعد یہ معلوم کیا ہے کہ سب سے زیادہ بکٹیریا اس کپڑے میں ہوتے ہیں جس سے پلیٹیں دھونے کے بعد صاف کی جاتی ہیں.اس کپڑے کو نچوڑنے سے جو پانی نکلا اس میں ٹائلٹ کی سیٹ کے مقابلہ میں دس لاکھ گنا زیادہ بکٹیر یا پائے گئے لہذا پلیٹوں کو دھونے کے بعد خود ہی سوکھنے دیں تو بہتر ہے.کپڑے کی نمی میں جراثیم خوب پھلتے پھولتے ہیں جب کہ ٹائیلٹ کی سیٹ چکنی ہونے کی وجہ سے بکٹیریا کی افزائش کے لئے کم موزوں ہے لیکن پبلک ٹائیٹ کا استعمال پھر بھی احتیاط سے ہی ہونا چاہئے ، ہر طرح کے لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں.جو لوگ ڈش کلاتھ استعمال کرتے ہیں انہیں ہر ہفتہ کسی جراثیم کش پاؤڈر وغیرہ سے دھونا چاہئے.جس تختہ پر سبزی، گوشت کاٹتے ہیں وہاں بھی جراثیم کافی موجود ہوتے ہیں.گندے پانی سے اگائی ہوئی سبزیوں پر بھی کئی بیماریوں کے جراثیم ہوتے ہیں جو دھلنے سے صاف نہیں ہوتے لیکن پکانے کے دوران مرجاتے ہیں.(الفضل انٹر نیشنل 4.6.99)

Page 250

243 فرانس میں روبوٹ کے ذریعہ دل کا پہلا بائی پاس آپریشن پیرس کے ایک ہسپتال میں پہلی بار ایک اوپن ہارٹ سرجری کا کامیاب آپریشن دو ڈاکٹروں نے ایسے روبوٹ (Robot) کے ذریعہ کیا ہے جس کو وہ کمپیوٹر کے ذریعہ مریض سے کئی میٹر دور بیٹھے ہوئے کنٹرول کر رہے تھے.پانچ دوسرے آپریشن بھی روبوٹ کے ذریعہ کئے گئے.مریض کے جسم میں صرف چارسنٹی میٹر ( کوئی ڈیڑھ انچ لمبا چوڑا چیرا دیا گیا.سرجن دور بیٹھے کیمرے کے ذریعہ مریض کے جسم کے اندر دیکھ رہے تھے اور کمپیوٹر کے ذریعہ روبوٹ کو ہدایات دے رہے تھے چونکہ کمپیوٹر کو سر جنوں کے ہاتھوں کی نسبت تین تا پانچ گنا کم جگہ درکار تھی اس لئے سرجری زیادہ ٹھیک طور پر کی گئی.دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مریض کو صحت یاب ہونے کے دوران نسبتا کم درد محسوس ہوئی.ایک وقت وہ بھی آسکتا ہے جب ڈاکٹر ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے کسی مریض کا آپریشن روبوٹ اور کمپیوٹر کی مدد سے کر رہے ہونگے.(الفضل انٹر نیشنل 4.6.99)

Page 251

244 برازیل کے گول کیپر کو سینٹ ( ولی اللہ ) کا درجہ دے دیا گیا حال ہی میں فرانس میں جو فٹ بال کے ورلڈ کپ کے مقابلے ہوئے اس میں برازیل کی ٹیم کے گول کیپر کلاڈیو (Claudio Taffarel) نے سیمی فائنل میچ میں ہالینڈ کی طرف سے ہونے والے دو گول رو کے اور اس طرح برازیل کی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی جہاں اس کا مقابلہ فرانس کی ٹیم سے ہوا.برازیل کے چرچ نے دو گول روکنے کو اس قدر اہمیت دی کہ انہوں نے کلا ڈیو کوسیدھا (Canonise) کر دیا یعنی اسے عیسائی اولیاء اللہ (Saints) کی مسلمہ فہرست میں شامل کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ کلاڈیو بہت ہی بزرگ اور بابرکت وجود ہے کہ جس کے ہاتھوں نے اتنا بڑا معجزہ کر دکھایا.پاکٹ بائبل ڈکشنری میں Canon of Scripture کے ماتحت لکھا ہے: لفظ Canon سے مراد Straight Rod or Rule ہے جیسے ترکھان کا فٹ رول.لہذا ہر وہ چیز جو اس قابل سمجھی جائے کہ وہ دوسروں کی قدر و قیمت کو متعین کرے یا ان کو کسی باقاعدہ نظام کے تحت لائے اسے

Page 252

245 Canon کہتے ہیں.آسمانی کتب میں چونکہ عقائد واعمال کے قوانین مذکور ہوتے ہیں اس لئے جو کتاب بائبل کا حصہ بننے کے لائق سمجھی جائے اسے Canonical کہتے ہیں گویاوہ خدا کی طرف سے نازل شدہ ہے.ڈکشنری کے مطابق Canonize کا مطلب ہے کہ سینٹ یا عیسائی اولیاء کی مسلمہ 66 فہرست میں شامل کرنا.اب گو یا کلاڈیو بھی سینٹ میری کی طرح سینٹ کلا ڈ یو کہلائے گا.لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ فائنل میچ میں کلاڈیو فرانس کی ٹیم کی طرف سے ہونے والے گولوں کو نہ روک سکا ( شاید خدا کو اس کا سینٹ بننا پسند نہیں آیا لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چرچ نے اس کے سینٹ ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے یا واپس لے لیا ہے.اب گویا بزرگی، تقویٰ اور خدا شناسی کا فیصلہ کھیل کے میدان میں ہوا کرے گا.جتنے زیادہ کوئی گول کرے گا یا مخالف ٹیم کے گول روکے گا وہ اتنا ہی پہنچا ہوا سمجھا جائے گا.یہ تو مذہب کو کھیل بنانے والی بات ہے.( الفضل ان نیشنل 4.9.98 )

Page 253

246 غریب امریکیوں کی درد کی دوا امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک اور واحد سپر پاور ہے لیکن ایک خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے غریبوں کے دکھ بھی کچھ کم نہیں ہیں.اے پی کی خبر کے مطابق کم از کم سات عورتوں نے دعوی کیا ہے کہ بچہ پیدائش کے دوران انہیں بے ہوش کرنے والی دوا (Anesthesia) کی ضرورت پڑ گئی لیکن وہ انہیں محض اس لئے نہ دی گئی کہ ان کے پاس ڈاکٹر کو دینے کے لئے پیسے نہیں تھے.ایک ماں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ درد سے تڑپتی ہوئی لوٹ پوٹ ہوتی رہی اور درد کم کرنے کی دوا دئے جانے کے لئے بصد عاجزی منتیں کرتی رہی لیکن سب بے سود.( سڈنی ہیرلڈے اجون ۱۹۹۸ء) امریکہ کے ڈاکٹر اپنی مجبوریاں بہتر سمجھتے ہونگے لیکن خبر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے نزدیک غریبوں کے درد کا وہی علاج مناسب ہے جو غالب نے تجویز کیا تھا کہ عے درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا (الفضل انتر نیشنل 4.9.98)

Page 254

247 پہاڑوں کے جنگل نیلے کیوں نظر آتے ہیں؟ سڈنی کے قریب ایک پہاڑی سلسلہ ہے جس کا نام نیلے پہاڑ (Blue Mountain) ہے اور یہ دیکھنے میں بھی نیلگوں لگتے ہیں.پروفیسر تھا اس نے تحقیق کے بعد سراغ لگایا ہے کہ ان کے نیلے رنگ کی وجہ یہ ہے کہ کروڑوں یوکلپٹس (Eucalypts) درخت فضا میں کچھ ایسی گیسیں چھوڑتے ہیں جو منجمد سی ہو جاتی ہیں اور پھر سورج کی روشنی میں نیلے رنگ کی شعاؤں کو منعکس کرتی ہیں جن سے جنگل نیلے رنگ کے نظر آتے ہیں.جو گیسیں یہ درخت پیدا کرتے ہیں ان میں ایک کا نام Isoprene ہے یہ ان کے پتوں کو ٹھنڈا رکھتی ہے اور ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ حرارت پر بھی اس کی وجہ سے پتے محفوظ رہتے ہیں.سائنس دانوں نے مصنوعی طور پر ایسا انتظام کیا کہ درخت یہ گیس نہ چھوڑیں تو پتے ۳۷ درجہ سینٹی گریڈ پر ہی جلنے شروع ہو گئے.دوسری گیس جو یوکلپٹس پیدا کرتے ہیں وہ Cineole ہے یہ پتوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا مقابلہ کرتی ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور حیوانوں کی طرح نباتات کو بھی خود حفاظتی کا دفاعی نظام عطا کیا ہے.اور اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بھی زمین پر نہ ہوتے.(الفضل انٹرنیشنل 28.7.95)

Page 255

248 جدید آلات جاسوسی تمام حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف ممکن حد تک جاسوسی میں لگی رہتی ہیں.ہم خیال حکومتیں اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتی ہیں اور پھر آپس میں بھی ایک دوسرے کی طرف کان اور آنکھیں کھلی رکھتی ہیں.یہ سائنس بھی روز بروز ترقی کر رہی ہے.ایک فائبر آپٹک کیبل (Fiber Optical Cable) کسی عمارت میں چھپا دی جاتی ہے یہ سگنل ایک بہت چھوٹی سی بیٹری کے ذریعہ ریڈیو ویوز (Radio Waves) کو ایک اور Repeater Box میں بھیجتی ہیں جو سینکڑوں میٹر دور رکھا ہوتا ہے وہاں سے آگے پھر وہ سگنل جاسوس وصول کرتا ہے لیکن اب جدید سٹم میں کسی عمارت کے اندر یہ کیبل بچھانے کے لئے یار کھنے کے لئے نہیں جانا پڑتا.یہ ۱۹۸۰ء کی باتیں ہیں اب اس طرح کے آلات استعمال ہوتے ہیں.Gas Loaded Laser یہ دیواروں کے باہر سے بھی دیکھ لیتا ہے اور عمارت کے اندر کی تصویریں اور بات چیت حاصل کر لیتا ہے.Radio Laser: اس کا حجم ایک عام قلم جتنا ہوتا ہے اور یہ ہزاروں میٹر دور کی باتیں نہایت صفائی سے سن لیتا ہے.بہت چھوٹے سائز کے چینی کے آلات جن کے اندرسونے کے پتے ہوتے ہیں اس کا پتہ بھی نہیں لگایا جاسکتا اور کسی عمارت کے اندران کو چھپایا جاسکتا ہے.

Page 256

249 * Russian Made Sonic Bug: اس کے متعلق ابھی کچھ پتہ نہیں چل سکا.Burst Bug اس کا بھی پتہ نہیں لگ سکا کہ کیسے کام کرتا ہے لیکن اتنا پتہ ہے کہ یہ ۲۰ سیکنڈ کی بات کو اکٹھا کر کے فورا اطلاع آگے پہنچا دیتا ہے.Infra Red Beams یہ کی کھڑکی پر پھینکی جاتی ہے جو بات چیت کے ہلکے سے ارتعاش کو بھی دور بھیج سکتا ہے اور وہاں سے باتیں صاف سنی جاسکتی ہیں.اگر ان شعاعوں کو کسی کمپیوٹر پر پھینکا جائے تو جو کچھ اس کی سکرین پر ٹائپ ہو ایک نظام کے واسطے سے ہزاروں میل دور بیٹھے بھی پڑھا جا سکتا ہے.اور ابھی تو یہ سلسلہ ہر آن ترقی پذیر ہے.آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا.(الفضل انٹر نیشنل 28.7.95)

Page 257

250 انسان کے حقیر خدمت گار اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لئے ان گنت خدمت گار مقرر کر رکھے ہیں.ایسے لشکروں کے نام، کام اور تعداد کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا.اس وقت اس حقیر سی موٹی بھدی مکھی کا ذکر مقصود ہے جو گائے بھینس کے گوبر پر بیٹھا کرتی ہے.جب گائے کو آسٹریلیا میں پہلی بارلا یا گیا تو اس کے گو بر پر بیٹھنے والی مکھی کو ساتھ لانا بھول گئے.اس طرف ذہن ہی نہیں گیا ہوگا کہ اس کی بھی ضرورت ہوتی ہے.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ چراگاہیں بنجر ہونی شروع ہو گئیں.جہاں گائے گو بر پھینکتی اس کے نیچے کا گھاس خشک ہونا شروع ہوجاتا.اور ہوتے ہوتے ساری چراگاہیں بنجر ہو گئیں.آخر حکومت کے تحقیقی ادارہ CSIRO نے ۱۹۷۸ء میں گوبر کی مکھی کی پچاس اقسام کو آسٹریلیا بھر کی چراگاہوں میں پھیلا دیا.یکھی گوبر پر کام کر کے زمین کی غذائیت کو واپس زمین میں بھیج دیتی ہے.زمین کو کھود کر زرخیز رکھتی ہے.یوں آسٹریلیا کی چراگاہوں پر پلنے والی لاکھوں گائیاں اور ان سے حاصل ہونے والے گوشت ، دودھ مکھن اور پنیر میں ان لاکھوں مکھیوں کی محنت بھی شامل ہے جو بغیر معاوضہ کے خدمت میں مصروف ہیں.(الفضل انٹر نیشنل 28.7.95 )

Page 258

251 ایٹمی کلاک کو آسمانی کلاک سے ملانا ایٹمی کلاک گو ہزاروں سالوں میں ایک سیکنڈ کا فرق ڈالتا ہے لیکن ہمارے دن رات اور سال وغیرہ تو نظام شمسی کے تابع ہیں اور مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر قدرتی وقت میں سال بھر میں ایک آدھ سیکنڈ کا فرق پڑ سکتا ہے.ہم نظام شمسی اور اس کے اوقات کے پابند ہیں اور یہ انسانوں کے لئے بنیادی وقت ہے جس سے وہ مستغنی نہیں ہو سکتے.چنانچہ ایٹمی کلاک کو ہر سال نظام شمسی کے کلاک کے مطابق کرنے کے لئے ایک آدھ سیکنڈ آگے پیچھے کرنا پڑتا ہے.دونوں اوقات کو ایک کر کے جو ٹائم نکلتا ہے اسے UTC کہا جاتا ہے.ایٹمی کلاک کے وقت کو کتنا آگے پیچھے کرنا ہے اس کا فیصلہ فرانس میں قائم ایک بین الاقوامی اداره بنام Intemational Eargh Rotation Service کرتا ہے.۳۰ رجون ۱۹۹۷ء کو رات بارہ بجے ، جی ایم ٹی ، ٹائم کو ایک سیکنڈ آگے کیا گیا تھا اور عین اس وقت دنیا بھر کی گھڑیوں کو بھی اس کے مطابق آگے کیا گیا تھا.اس وقت آسٹریلیا میں اگلے روز کے صبح کے دس بجے تھے اس وقت ٹیلیفون کمپنی نے 9 بج کر ۵۹ منٹ اور ۶۱ سیکنڈ کا وقت بتایا.گزشتہ ۲۵ سال میں اس طرح ۲۱ سیکنڈ بڑھائے جاچکے ہیں.ابھی تک کبھی کم نہیں کئے گئے اور نہ مستقبل قریب میں ایسا امکان ہے.قصہ مختصر یہ کہ تمام گھڑیاں سورج اور چاند کے ساتھ زمین کی نسبتی رفتار کے تابع ہی کرنی پڑتی ہیں اور یہ بات قرآن کریم میں بھی بتائی گئی تھی کہ الشَّمسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان (الرحمن: ٦)

Page 259

252 یعنی سورج اور چاند ایک مقررہ قاعدہ اور حساب کے تحت چل رہے ہیں.نیز ایک اور مقام پر فرمایا فَالِقُ الْإِصْبَاحٍ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسُبَاناً ذَالِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (الانعام: ۹۷) یعنی وہ (خدا) صبح کو ظاہر کرنے والا ہے اور اس نے رات کو باعث آرام اور سورج اور چاند کو ذریعہ حساب بنایا ہے.یہ اندازہ اس کا ہے جو غالب ہے (اور) بہت جاننے والا ہے.پس انسانوں کو اپنی سب گھڑیاں بالآخر نظام شمسی یعنی سورج اور چاند وغیرہ کے حساب کے ماتحت ہی کرنی پڑتی ہیں جیسا کہ خدا نے فرمایا.صدق الله العظيم (الفضل انٹر نیشنل 14.8.98)

Page 260

253 ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radio Carbon Dating) عام طور پر یہ رائے باوثوق سمجھی جاتی ہے کہ آسٹریلیا کے قدیمی باشندے (Abrigines) یہاں پر قریباً چالیس ہزار سال سے رہ رہے ہیں.لیکن پندرہ ماہ قبل سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے شمالی آسٹریلیا(Northem Territory) کے آثار قدیمہ کے مطالعہ کے بعد یہ دھما کہ خیز اعلان کر دیا کہ گول دائروں کی شکل میں پتھروں پر کندہ نشانات کی عمر ایک لاکھ سولہ ہزار سال (1,16,000) سے لے کر ایک لاکھ چھہتر ہزار سال (1,76,000) سال تک ہے.یہ نشانات ہزاروں کی تعداد میں Jinmium کے علاقہ میں علاقوں کی حد بندی یا غاروں کی طرف رہنمائی کی غرض سے کبھی انسانوں نے بنائے تھے.سائنسدانوں کے ایک دوسرے حصہ کو تحقیق کے نتائج سے اختلاف تھا.چنانچہ انہوں نے عمر معلوم کرنے کے جدید ترین ذرائع استعمال کر کے اب یہ کہا ہے کہ ان نشانوں کی عمر کم از کم پانچ ہزار سال سے زائد تو ہر گز نہیں.وہ کہتے ہیں جن پتھروں پر یہ نشان بنے ہوئے ہیں وہ بھر بھرے ہیں اور اصل نشانات میں ان ذروں کی آلودگی شامل ہوگئی ہے یعنی پتھروں کی اپنی عمر نے نشانات کی عمر کے اندازہ کو غلط کر دیا ہے.اس کے بالمقابل پہلی ٹیم کے سائنس دان کہتے ہیں کہ ہمارا اندازہ درست تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اندازہ میں اختلاف اور تاویل

Page 261

254 (Interpretation) بالکل ممکن ہے.وہ جدید طریق جس سے اندازہ لگایا گیا ہے وہ Optically Stimulated Luminescence کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے جس کو خاص طور پر اس تحقیق کے لئے Refine کیا گیا تھا.اس طریق سے موقع پر پائی جانے والی ریت (Quartz Sand) سے جو نمونے حاصل کئے گئے تھے ان کے ایک ایک ذرہ کی عمر علیحدہ علیحدہ معلوم کی گئی تھی.ابھی ایک مزید تحقیق ہونا باقی ہے ان نشانات کے اوپر ایک ہلکی سی تہ کاربن کی بھی ہے.ریڈیو کار بن طریق سے ان کی عمر نکال کر مزید توثیق کی جائے گی.سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۳ دسمبر ۱۹۹۷ء) جس ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radio Carbon Dating) کا خبر میں ذکر کیا گیا ہے وہ عمر معلوم کرنے کا ایسا طریق ہے جس کو امریکہ کے ایک سائنس دان willard F.Libby نے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں ایجاد کیا تھا.انہوں نے معلوم کیا کہ ہر جگہ کار بن بکھرا پڑا ہے اور اس میں ایک تھوڑا سا جزو ایسے کاربن ایٹم کا بھی پایا جاتا ہے جو Radio Active ہوتا ہے.اسے 14 Carbon کہتے ہیں اور اس میں سے تابکاری یاریڈیائی شعائیں خارج ہوتی ہیں ( جس طرح ایٹم بم سے خارج ہوتی ہیں ) ان شعاؤں کے اخراج کی رفتار ہمیشہ یکساں رہتی ہے.اور انہیں ایک آلہ کی مدد سے ماپا جاسکتا ہے.یہ کار بن ۱۴ کا ایسا انحطاط ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ماہیت تبدیل ہوتی جاتی ہے.یہاں تک کہ ۵۷۰۰ سالوں میں کار بن ۱۴ کے ذرات آدھے رہ جاتے ہیں.اسی طرح ۱۴۰۰ سالوں میں چوتھا حصہ.۲۲۸۰۰ سالوں میں آٹھواں حصہ اور ۶۰۰ ۴۵ سالوں میں صرف سولہواں حصہ باقی رہ جاتا ہے.چونکہ پچاس ہزار سال کے بعد یہ مقدار بہت کم رہ جاتی ہے.اس لئے یہ طریق قابل اعتبار نہیں رہتا.اور زیادہ پرانی اشیاء کے لئے ان کی عمر معلوم کرنے کے لئے دوسرے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ہم سب میں ریڈیو کاربن موجود ہوتی ہے.ایسے ہی تمام حیوانوں اور درختوں پودوں وغیرہ میں بھی لیکن جب تک وہ زندہ ہوتے ہیں وہ ہوا اور غذا کے ذریعہ اس کمی کو پورا کرتے رہتے ہیں.لیکن مرنے کے بعد جب غذا اور سانس کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے تو اس کی کمی کو

Page 262

255 پورا کرنے کا سلسلہ بھی بند ہو جاتا ہے اور جتنی یہ جسم میں مرتے وقت موجود ہوتی ہے وہ تابکاری شعاؤں کے اخراج کی وجہ سے آہستہ آہستہ کم ہوتی رہتی ہے اور اس کمی سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ انسان یا حیوان کو مرے یا درخت کو گرے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے.کائنات میں ہر چیز کی عمر کا ایک اندازہ مقرر ہے اور ذرہ ذرہ میں یہ امر ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ کتنا عرصہ زندہ رہے گا یعنی اپنی صفات کو ظاہر کر سکے گا.ایک دائرہ کے اندرا یک Band Width مقرر کر دی گئی ہے.جو بتاتی ہے کہ اس کی طبعی عمر اس حد سے اس حد تک ہے.انسان کے ہر DNA میں اس کی طبعی عمر کا اندازہ موجود ہے.مثلا خدا اگر اپنے کسی پیارے بندے کو بتائے کہ تمہاری عمر ۷۵ سے ۸۵ سال کے درمیان ہوگی تو ایک تو اس پر اس کے DNA میں مرقوم عمر کا انکشاف کیا گیا اور دوسرے یہ کہ کوئی حادثہ یا مہلک بیماری اسے اس کی طبعی عمر تک پہنچنے سے نہیں روک سکے گی.واللہ اعلم اللہ کی قدرت ہے کسی نے ہزاروں سال پہلے پتھروں پر کوئی نشان بنائے اور آج یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ اس نے کب یہ معمولی سا کام کیا تھا.کل کو اسی مقام پر اس کا DNA بھی گرا پڑا دریافت ہو سکتا ہے جس سے اس بندے کی تصویر بھی سامنے آجائے گی.خدا نے سچ ہی فرمایا تھا من يعمل مثقال ذره خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره (الزلزال ۹۸) یعنی جس نے ایک ایٹم کے برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس (کے نتیجہ ) کو دیکھ لے گا.اور جس نے ایٹم کے برابر بھی بدی کی ہوگی وہ بھی اس کے نتیجہ ) کو دیکھ لے گا.(استغفر الله ربي من كل ذنب واتوب اليه) (الفضل انٹر نیشنل 14.8.98)

Page 263

256 یونیورسٹی کے بگاڑے ہوئے شادی نے سنوار دیئے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کے مچیکن یونیورسٹی (Uni.of Michigan) کے شعبہ سوشل ریسرچ نے ۳۳۰۰۰ نو جوان طلباء وطالبات پر مبنی ایک مطالعاتی رپورٹ جاری کی ہے جس پر اٹھارہ سال تک ۱۹۷۶ء اور ۱۹۹۴ء کے درمیان کام ہوتا رہا.یہ رپورٹ اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ انسانی نفسیات پر جو اثرات یو نیورسٹی کے زمانہ کی بے مہابہ آزادی ، شادی اور طلاق کے مرتب ہوتے ہیں ان کا اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے.یو نیورسٹی کے زمانہ میں طلباء وطالبات کو بالغ ذمہ دار افراد سمجھا جاتا ہے اور ان کو اپنے افعال وکردار کے معاملہ میں پوری آزادی دی جاتی ہے اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی پوری ذمہ داری سے آزادی کے حق کو استعمال کریں گے.لیکن رپورٹ کے مطابق اکثر طلباء جو اپنے گھروں کو چھوڑ کر یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لئے جاتے ہیں وہ آوارگی کا شکار ہو جاتے ہیں.وہ کثرت شراب نوشی ، سگریٹ نوشی بلکہ ناجائز نشہ آور اشیاء کے استعمال کی بد عادات میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اپنے امتحانوں میں وہ پاس ہوتے ہیں یا نہیں اس کا تو رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں لیکن یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ ان میں سے اکثر آزادی اور ذمہ داری کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں.شاید ایسے ہی کالجوں کے بارہ میں اکبرالہ آبادی نے کہا تھا: یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

Page 264

257 ریسرچ سے پتہ لگتا ہے کہ وہ جن کو یونیورسٹی کی آزادی نے بگاڑ دیا تھا شادی کے بندھنوں نے انہیں سنوار دیا.منگنی ، شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد اکثر نو جوان منشی اشیاء اور کثرت شراب نوشی سے بچنے لگے.ایسے لوگوں کی تعداد میں نمایاں طور پر کمی حیران کن تھی.چنانچہ اس کا نام انہوں نے "Marriage Effect" یا شادی کا اثر رکھا ہے.شادی کے بعد کوکین اور میر یوآنا Cocain (and Marijuana کا استعمال تو بہت ہی کم پایا گیا.یو نیورسٹی کے زمانہ میں بھی شادی کا اثر عادات پر نمایاں تھا.جہاں ۴۱ فیصد غیر شادی شدہ طلباء وطالبات ڈرگز استعمال کرتے ہیں وہاں ایسے شادی شدہ افراد کی تعداد ۲۸ فیصد ہے البتہ سگرٹ کا معاملہ مختلف ہے.وہ ایسا ڈھیٹ نکلا کہ اس نے شادی کا بھی کوئی اثر قبول نہیں کیا.گویا شادی نے بڑے بڑے ٹیڑھے چلنے والوں کو سیدھا کر دیا.بقول حالی.اے عشق تو نے سارے کس بل دئے نکال مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی لیکن وہی لوگ جو شادی کے بعد سدھر گئے تھے وہ طلاق کے بعد پھر اپنی پرانی عادات کی طرف لوٹ گئے.ہر گھر ایک اینٹ کی طرح ہے جس سے معاشرہ کی عمارت تعمیر ہوتی ہے.اینٹیں کچی ہونگی تو مکان کچا ہوگا.پختہ ہوگی تو پختہ ہو گا.گھر کا ماحول خوشگوار اور سکون آور ہوگا تو مجموعی طور پر معاشرہ بھی خوشگوار اور سکون آور ہو گات لہذا معاشرہ کو خوشگوار بنانے میں خوشگوار گھریلو زندگی اور حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز یعنی طلاق سے بچنے کا کردار بہت نمایاں ہے...آزادی اللہ کی بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اسے حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کیا جائے.احساس ذمہ داری ایک حد تک انسان کو حد اعتدال میں رکھتا ہے لیکن اگر خدا کا خوف نہ ہو تو یہ کھوکھلی ریت کی دیوار کی طرح ہے جس پر جب ذرا دباؤ پڑے تو ٹوٹ جائے.سچی بات یہی ہے کہ.ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ( الفضل انٹر نیشنل 23.5.97)

Page 265

258 مغربی دنیا میں جرائم بڑھ رہے ہیں آسٹریلیا کے فیڈرل اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ ہم روز بروز زیادہ پر تشدد ہوتے جارہے ہیں.وہ 3 مارچ ۱۹۹۷ء کو کینبرا میں جرائم کے موضوع پر ہونے والی ایک مجلس مذاکرہ میں تقریر کر رہے تھے.انہوں نے بتایا کہ ۱۹۸۳ء اور ۱۹۹۵ ء کے دوران یعنی بارہ سال کے عرصہ میں قاتلانہ حملوں میں ۲۵۵ فیصد اضافہ ہوا ہے ( یعنی کوئی بیس فی صد سالانہ ) اسی عرصہ میں جنسی حملوں میں ۱۶۲ فیصد اور ڈاکوں میں اے فیصد کا اضافہ ہوا.اس کے بالمقابل ایک ماہر نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ آسٹریلیا میں تشدد کی کوئی ہر آئی ہوئی ہے بلکہ سو سال پہلے کی نسبت آج آسٹریلیا کی گلیوں میں چلنا پھر نا زیادہ محفوظ ہے.ایک اور ماہر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کا شمار دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت محفوظ ممالک میں ہونا چاہئے.انہوں نے کہا کہ جرائم کے لحاظ سے ہم صرف برطانیہ اور جاپان سے پیچھے ہیں.برطانیہ اور جاپان میں ہر سال ایک لاکھ کی آبادی میں ایک آدمی قتل ہوتا ہے جب کہ آسٹریلیا، کینیڈا اور جرمنی میں دو آدمی قتل ہوتے ہیں.سویڈن جو کبھی محفوظ ممالک میں شمار ہوتا تھا اب وہاں تین ،سویٹزرلینڈ میں چار امریکہ میں آٹھ نو آدمی قتل ہوتے ہیں.گویا امریکہ قتل و غارت گری کے مقابلہ میں بھی اول آیا ہے.سچ تو یہ ہے کہ جتنا جتنا کوئی ملک مادہ پرستی میں ڈوبتا اور خدا سے دور ہوتا جائے گا اتنا اتنا ہی اس کا امن بر باد ہوتا چلا جائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کیا کرتے تھے (اللهم انت السلام ومنک

Page 266

259 السلام) یعنی اے اللہ تو ہی ہے جو ہر نقص اور آفت سے پاک اور محفوظ ہے اور تو ہی ہر قسم کی سلامتی ،حفاظت اور امن کا سر چشمہ ہے.لہذا جن ممالک کے امن دن بدن بر باد ہورہے ہیں ان کو یہی کہہ سکتے ہیں.منبع امن کو جوتو چھوڑ کے دور چل دیا تیرے لئے جہاں میں امن ہو کیوں امان کیوں ( کلام محمود ) (الفضل انٹر نیشنل 23.5.97)

Page 267

260 وہ چیڑ کے درخت جو پندرہ کروڑ سال پہلے مر چکے تھے از سرنو زندگی پا کر بازار میں بکنے لگے اڑھائی سال قبل سڈنی کے نیشنل پارک میں ایک سیاہ رنگ کا پتھر ملا.تجزیہ سے معلوم ہوا کہ یہ کسی جانور کا اندرونہ ہے جس نے پندرہ کروڑ سال پہلے کسی چیڑ کے درخت کی شاخیں پتے وغیرہ کھائے تھے جو مرنے کے بعد اس کے جسم میں پڑے رہ گئے اور گل سڑ کر چورا بن گئے.اور پھر لمبا عرصہ گزرنے کی وجہ سے سیاہ رنگ کے پتھر کی شکل اختیار کر گئے یعنی Fossilize ہو گئے.تجزیہ کے نتیجہ میں اس چیڑ کے درخت کے زندہ DNA مل گئے جس کی نوع کسی طبعی حادثہ کے نتیجہ میں ختم ہو چکی ہوئی ہے.یہ درخت کروڑوں سال قبل سڈنی کے شمال مغربی علاقہ میں اگا کرتے تھے پھر لاکھوں سال پہلے کوئی ایسا حادثہ گزرا کہ ان کی نسل یا نوع ہی ختم ہوگئی.جوڈی این اے حالت خواب میں پڑے مل گئے ان کو مناسب عمل کے ذریعہ بڑھا لیا گیا اور وہی چیڑ کے درخت اب دوبارہ اگ آئے ہیں.چونکہ یہ تجر (Fossilized) پودہ وولمی نیشنل پارک سڈنی سے دستیاب ہوا تھا اس لئے اس کا نام وولی پائن (Wollemi Pine) پیٹنٹ کیا گیا.یہ پودے اب اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ عنقریب ان کو پھل لگنا شروع ہو جائے گا اور پھر ان کے بیج سے آگے درخت اگائے جاسکیں گے.اب تک جتنے اگائے گئے ہیں ان میں بیچ کو نہیں بلکہ بچے کھچے ذرات کو استعمال کیا گیا ہے.چنانچہ

Page 268

261 حکومت کا متعلقہ محکمہ اب ایسے لوگوں کی تلاش میں ہے جو تجارتی بنیادوں پر اس پودے کو فروخت کریں.خواہشمند احباب کیمڈن سڈنی کے نزدیک Mount Annan Botanic Garden میں ان پودوں کا معائنہ کر سکتے ہیں.لیکن وہ کہتے ہیں ان کو اس قسم کے کام کا تجربہ ہونا چاہئے.اب تک کوئی ایک سوادارے کاروبار میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں.ہر پودہ جو بکے گا اس پر متعلقہ محکمہ رائیلٹی وصول کرے گا.تا اس ریسرچ پر جو خرچ اٹھا ہے اسے پورا کیا جاسکے.(ماخوذ از سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۱۵ / مارچ ۱۹۹۷ء) اللہ کی قدرت ہے کہ وہ درخت جو کروڑوں سال پہلے مرچکے تھے بلکہ مرورزمانہ سے پتھر بن چکے تھے.وہ ایک بار پھر زندہ ہو کر دنیا کو دعوت نظارہ و فکر دے رہے ہیں.قرآن کریم نے انسانوں کو اپنی حیات اخروی کو حیات نو کے آئینہ میں دیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اور اس سے مشابہ قراردیا ہے چنانچہ فرمایا: وو اور ہم اس ( پانی ) کے ذریعہ سے مردہ ملک کوزندہ کرتے ہیں.اسی طرح مرنے کے بعد نکلنا بھی ہوگا...نیز فرمایا: 66 (14:5) اور انہوں نے یہ ( بھی ) کہا ہے کہ جب ہم (مرکز ) ہڈیاں ہو جائیں گے اور کچھ عرصہ بعد گل کر ہڈیوں کا ( بھی ) چورا بن جائے گا ( تو ہمیں از سرنو زندہ کیا جائے گا اور) کیا واقعی ہمیں ایک نئی مخلوق کی صورت میں اٹھایا جائے گا؟ تو (انہیں) کہہ کہ تم (خواہ) پتھر بن جاؤ یا لوہایا کوئی اور ایسی مخلوق جو تمہارے دلوں میں ان سے بھی سخت نظر آتی ہو تب بھی تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا ) بیسن کر وہ ضرور کہیں گے (کہ) کون ہمیں دوبارہ زندہ کر کے وجود میں لائے گا ) تو (انہیں) کہہ کہ وہی (خدا) جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا.66 (بنی اسرائیل ۵۰-۵۲) (الفضل انٹر نیشنل 25.7.97)

Page 269

262 برطانیہ میں سائنس دانوں نے نو ہزار سال قبل فوت ہونے والے شخص کی زندہ اولاد کا سراغ لگالیا برطانیہ کے سائنس دانوں نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس پر وہ بڑے فخر وانبساط کا اظہار کر رہے ہیں.کچھ عرصہ قبل انہیں ایک ایسے شخص کے پتھرائے ہوئے جسم کا پورا ڈھانچہ ملا تھا جو نو ہزار سال قبل فوت ہوا تھا اس کا نام Cheddar Man رکھا گیا تھا.سائنس دانوں نے اس کے ایک دانت کے گڑھے (Cavity) میں سے اس کا DNA حاصل کیا اور جاسوسی کے حیران کن طریقے استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا شخص ڈھونڈ نکالا جس کا DNA فوت شدہ شخص کے DNA سے Match کرتا تھا وہ شخص ۴۲ سالہ تاریخ کا استاد ہے اوراس کا نام Mr.Adrian Targett ہے.یہ دنیا کا قدیم ترین شجرہ نسب ہے ( ہمارے آدم سے تو پہلے کا ہے ) اور ہے بھی اس شخص کا جو تاریخ کا استاد ہے.رائیٹر بحوالہ سڈنی مارننگ ہیرلڈ.۱۰ مارچ ۱۹۹۷ء) سائنس دانوں کو واقعی جاسوسی کے اس عظیم کارنامہ پر خوش ہونے کا حق ہے.مسٹر ٹارگیٹ کو

Page 270

263 بھی The Son of Soil جیسا کوئی خطاب ملنا چاہئے جو قدیم ترین معلوم برطانوی ہیں.کسی نسل کا نو ہزار سال سے ایک ہی قطعہ زمین پر رہتے چلے جانا کوئی معمولی بات نہیں.(الفضل انٹر نیشنل 25.7.97)

Page 271

264 ڈائنو ساور کیسے ختم ہوئے؟ حال ہی میں میکسیکو کے ساحل کے نزدیک سمندر کی گہرائی میں ایک ایسا سیارچہ (Asteroid) دھنسا ہوا ملا ہے جو تقریباً بارہ میل لمبا تھا.یہ واقعہ کوئی ۶۵ ملین سال پہلے گزرا تھا.سیارچے کے گرنے سے ایک زبردست دھما کہ ہوا اور زمین سے اتنی گر داٹھی کہ سارے آسمان پر گرد کی تہہ بن گئی.گرد کی چادر نے ایک خاصے عرصہ کے لئے سورج کی روشنی کو زمین پر آنے سے روک لیا جس کے نتیجے میں زمین اتنی سرد ہوگئی کہ وہ بڑے بڑے جسموں والے رینگنے والے جانور ( چھپکلی کی شکل کے ) جنہیں ڈائنو ساور (Dinisaur) کہتے ہیں زندہ نہ رہ سکے.اب ان کے ڈھانچے اور بڑے بڑے انڈے جو لمبا عرصہ دبے رہنے سے پتھر بن گئے ہیں کہیں کہیں دستیاب ہوتے ہیں.کہتے ہیں ڈائنو ساور کے علاوہ دوسرے حیوانوں کی ستر فیصد انواع بھی اس سردی میں ختم ہو گئیں.جو میں فیصد انواع بچ گئیں وہ بھی کوئی تیرہ ملین کے قریب بتائی جاتی ہیں.اللہ کی مخلوق کا کون شمار کر سکتا ہے.بے شمار سیارچے ہمارے سورج کے گرداب بھی چکر لگارہے ہیں.ان کی زیادہ تعداد مریخ (Mars) اور مشتری (Jupiter) کے درمیان بیان کی جاتی ہے.خدا ہی ہے جو انہیں گرنے سے روکے ہوئے ہے اگر اس طرح کا کوئی پھر زمین سے آٹکرائے تو موجودہ حیوانوں اور انسانوں کی بھی خیر نہیں.(الفضل انٹر نیشنل 25.7.97)

Page 272

265 ٹیڑھی سوچ کا نتیجہ خبر آئی ہے کہ آسٹریلیا میں ایسے بچوں کی تعداد میں دھما کہ خیز اضافہ ہو گیا ہے جو بن بیاہی ماؤں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں.گزشتہ دس سالوں میں شادی کے بندھن کے باہر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں ۷۰ فیصد اضافہ ہو گیا ہے.کل نومولود بچوں میں سے ۲۷ فیصد بن بیاہی ماؤں کے بطن سے جنم لیتے ہیں.( سڈنی ہیرلڈ ۴ فروری ۱۹۹۸ء) ایک دوسری خبر یہ ہے کہ نیو ساؤتھ ویلز کی پولیس کے کمشنر نے اپنے ہم جنس پرست (Homosexual) پولیس افسروں کو ہم جنس پرستوں کے حالیہ میلہ (Mardi Gras) میں وردی سمیت شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ چونکہ قوم نے ہم جنس پرستی کو ایک جائز بنیادی حق کے طور پر تسلیم کر لیا ہے اس لئے ایسا رجحان رکھنے والے افسروں کو میلے میں شمولیت سے روکنا ان کو ان کے حق سے محروم کرنے کے مترادف ہوتا.جنسی بے راہ دری ، ڈرگ کا استعمال، جو اشراب وغیرہ اور ان سے متعلقہ جرائم کی خبریں اس کثرت سے آتی ہیں کہ بلاشبہ مادہ پرستی نے مذہبی اقدار پر ایسا بھر پور حملہ کر دیا ہے جس کی تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی.نفس امارہ کی کارستانیوں کا یہ سیلاب ایسے ہی پیدا نہیں ہو گیا بلکہ ان رجحانات کو فروغ دینے میں ایک مخصوص فلسفہ، طرز فکر اور کلچر کا ہاتھ ہے.شروع میں تو اس فلسفہ کو مغربی ملکوں کے دانشوروں،

Page 273

266 فلاسفروں ، ادیبوں ، شاعروں ، استادوں ، آرٹسٹوں اور سیاسی وسماجی رہنماؤں نے تسلیم کر لیا اور اسے اپنی زندگیوں میں جاری وساری کر دیا اور پھر ان کی دیکھا دیکھی عوام الناس بھی جو اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں وہ بھی اسی ڈگر پر چل پڑے.اگر چہ ان کی اکثریت ایسی تھی کہ انہوں نے فلسفہ کی کسی کتاب کو ہاتھ نہ لگایا تھاوہ فقط اس ماحول میں سانس لیتے تھے جس میں اس جدید فلسفہ کا دھواں بکھر چکا تھا.جدید فلسفہ کی وہ شاخ جس نے مغربی یا عیسائی کلچر کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اسکا بانی سگمنڈ فرائیڈ ہے.فرائیڈ نے کہا کہ انسانی ذہن کے دو حصے ہیں ایک شعور (Conscience) اور دوسرا لا شعور (Uncncience) انسان شعوری طور پر جو بھی سوچتا ہے، خواہش کرتا ہے یا کوئی کام کرتا ہے اس کا اصل منبع و مرکز اس کا لاشعور ہوتا ہے.اس لاشعور کو اس کی جبلت یاInstinct بھی کہہ سکتے ہیں.ہمیں لاشعور کا نہ کوئی علم ہے نہ اس پر کوئی کنٹرول ہے.ہمیں اس پر آگاہی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم سے کوئی قول و فعل سرزد ہوتا ہے.چونکہ ہم لاشعور کو کنٹرول نہیں کر سکتے اس لئے لاشعوری طور پر جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو ہم اس کے لئے ذمہ دار بھی نہیں ٹھہرائے جاسکتے.لاشعور سے اٹھنے والی خواہشات (Desires) نے ہی ہمیں بتانا ہے کہ ہم کیا سوچیں اور کیا کریں.ہمارا شعور البتہ بہت چالاک ہے وہ ہماری پوشیدہ خواہشات کو اس طرز اور رنگ میں پیش کرتا ہے کہ سماج اسے قبول کرے.اس کو شعور کی تہذیبی کوشش (Sublimation) کے طور پر دیکھا جاتا ہے.لاشعور میں جو کھچڑی پکتی رہتی ہے اسکا ہمیں کوئی علم نہیں ہوتا البتہ ہمارے تمام شعوری کام اس کی ضمنی پیداوار (By-Product) ہوتے ہیں.ہمارے جذبات وخواہشات اور ان کے زیر اثر واقع ہونے والے کام اس دھوئیں کی طرح ہیں جو اس آگ سے اٹھتا ہے جو ہمارے لاشعور میں بھڑک رہی ہے نہ آگ ہمارے بس میں ہے نہ دھواں.فرائیڈ کا لاشعور انسان کی جبلت (Instinct) کی طرح ہے یعنی انسان و حیوان دونوں کوئی کام اپنی جبلت کے خلاف نہیں کر سکتے.گویا فرائیڈ کے نزدیک انسان اپنے اعمال میں مختار اور آزاد نہیں بلکہ مجبور ہے ایسے ہی جیسے حیوان ہے.اس کے مقابلہ میں بعض دوسرے فلاسفر کہتے ہیں کہ انسان میں شعور کے علاوہ ارادہ (Will) کی قوت بھی پائی جاتی ہے.مانا کہ ہمیں لاشعور کی آگ پر اختیار نہیں لیکن اس سے اٹھنے

Page 274

267 والے دھوئیں پر ضرور ہے.انسانی جبلت میں ہر طرح کی خواہشات موجود ہوتی ہیں جواکثر ایک دوسرے سے متضاد بھی ہوتی ہیں.مثلاً ایک طالب علم کرکٹ کا بے حد شوقین ہے لیکن اتفاق سے میچ کے روز اس کا امتحان بھی ہے.وہ دونوں میں سے کوئی بھی چھوڑ نا نہیں چاہتا.ایک طرف میچ دیکھنے کی شدید خواہش ، دوسری طرف امتحان پاس کرنے کی شدید خواہش.آخر وہ اپنا مجموعی بھلا امتحان پاس کرنے میں سمجھتا ہے تو اس کی خاطر کھیل کود کی خواہش کو قربان کر دیتا ہے.اسی کو ارادہ یا ضمیر کہتے ہیں.یہ انسانی ضمیر ہی ہے جو اس کو بتاتی ہے کہ کون سا کام اچھا ہے اور کون سا برا ( یعنی اس کی فطرت میں فسق و فجور اور تقویٰ کی راہوں میں امتیاز کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے.) اخلاق کی بنیاد تعریف (Praise) اور ملامت (Blame) کے دوستونوں پر کھڑی ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی انسان اپنے عمل میں آزاد نہیں تو نہ وہ اچھے کام کی تعریف کا مستحق رہتا ہے نہ برے کام کی مذمت کا سزاوار اور اس طرح اخلاقیات کی عمارت ہی دھڑام سے گر جاتی ہے.مغربی کلچر کی بنیاد ہی گو یا اس بات پر ہے کہ انسان اپنے لاشعور میں دبی ہوئی دلی خواہشات کے آگے بے بس ہے.لہذا اسے اپنے فکر و عمل میں مکمل آزادی ہونی چاہیئے.وہ اپنے لئے خود ضابطہ حیات وضع کر سکتا ہے اور اسے کسی آسمانی رہنمائی کی حاجت نہیں.اس سوچ کا نتیجہ مادہ پرستی اور نفسانی لذات کی بے محابا تسکین کی صورت میں نکلتا ہے.آسٹریلیا میں گزشتہ دس سال میں بن بیاہی ماؤں کے ہاں بچوں کی پیدائش میں ستر فیصد اضافہ بھی اسی سوچ اور کلچر کی ہی پیداوار ہے.(الفضل انٹر نیشنل 18.9.98)

Page 275

268 قدرتی گھڑیاں اڑھائی لاکھ ڈالر کی نیلم الیکڑ ایک گھڑی: پر تھ آسٹریلیا کے سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ انہوں نے دنیا کا سب سے زیادہ صحیح وقت دینے والا ٹائم پیس ایجاد کر لیا ہے.اس کی صحت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ ان ایٹمی گھڑیوں سے بھی ایک ہزار گنا زیادہ درست وقت بتاتا ہے جو دنیا کے بین الاقوامی معیاری وقت جی ایم ٹی (Greenwich Mean Time) کو ماپنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یہ گھڑی اس حد تک صحیح ہے کہ ایک سیکنڈ کے دس لاکھ اربویں حصہ Millionth of a Billionth of a) (second کو بھی ماپ سکتی ہے.زمین کی کشش ثقل (Gravity) سے وقت بدل جاتا ہے.چنانچہ زمین سے جتنا اونچا آپ اٹھتے جائیں گے وقت اتنا ہی تیزی سے گزرے گا.گھڑی کے موجدوں کا دعویٰ ہے کہ یہ گھڑی ایک اونچی عمارت کی پہلی اور آخری منزل کے وقت کا فرق بھی بتا سکتی ہے ( خواہ یہ سیکنڈ کا لاکھواں حصہ ہو ) آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافت (General Theory of Relativity) سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ انسان کے سر اور پاؤں کے درمیان بھی وقت کا فرق ہونا چاہئے.اس تھیوری نے مطلق وقت (Absolute Time) کے تصور کو ختم کر دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں ہر

Page 276

269 جگہ ایک ہی جتنا وقت نہیں گزرتا.اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ خلا ووقت“ کا خط منحنی -Space) (Time Curve کشش ثقل (Gravity) کی وجہ سے ٹیڑھا ہو جاتا ہے اور اس ٹیڑھے پن کی وجہ سے وقت گزرنے کی رفتار پر بھی فرق پڑ جاتا ہے.یو نیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا پر تھ کے پروفیسر David Blair نے کہا ہے کہ ہمارا نصب العین یہ ہے کہ ہم ایک ایسی گھڑی بنائیں جو ایک میٹر کے فاصلہ کے وقت کے فرق کو بھی ظاہر کر سکے.اس گھڑی میں چونکہ نیلم ہیرا استعمال ہوتا ہے اس لئے اس Saphire Clock کہا جاتا ہے.گھڑی کی صحت کا راز نیلم کی صفائی میں مضمر ہے.کہتے ہیں اگر نیلم کا کوئی بہت ہی شفاف کرسٹل ہو تو وہ صاف ترین شیشہ سے بھی ایک لاکھ گنازیادہ شفاف ہوتا ہے.جس کی وجہ سے ماینکر و ویواہروں کے گزرنے کے لئے یہ شفاف ترین چیز ہے.اس گھڑی کے اندر ایک انسانی مٹھی کے سائز کا نیلم کا بنا ہوا سلنڈر ہوتا ہے جس میں ماینکر و ویولہریں داخل کی جاتی ہیں.یہ لہریں اپنی صدائے بازگشت (Echo) پیدا کرتی ہیں جن کو ایک حساس آلہ (Detector) وصول کرتا ہے.یہ آلہ اتنا حساس ہوتا ہے کہ یہ گیارہ ارب سائیکل (Cycle) ( چکر ) ایک سیکنڈ میں وصول کر سکتا ہے.ان لہروں کو الیکڑانک آلات کے ذریعہ گن کر وقت معلوم کیا جاتا ہے.(الفضل انٹرنیشنل 31.7.98)

Page 277

270 ایٹمی کلاک آج کل دنیا کا معیاری وقت جی ایم ٹی بیٹی کلاکوں سے ماپا جاتا ہے.یہ گھڑی جدید نیلم گھڑی سے صحت میں پیچھے ہوگی لیکن ان کا معیار بھی حیران کن ہے.ایٹمی گھڑی کئی ہزار سال میں صرف ایک سیکنڈ کا فرق ڈالتی ہے.سائنس دان کافی عرصہ سے اس تلاش میں رہے کہ وہ کوئی ایسا آلہ ایجاد کرسکیں جو بالکل صحیح وقت دے اور اس پر کشش ثقل ، جگہ ، حرکت ، ٹوٹ پھوٹ اور درجہ حرارت کا اثر نہ ہو.یا بہت کم اثر ہو.ان سب سوالوں کا جواب انہیں خود ایٹم کے اندر ہی مل گیا.انہوں نے معلوم کیا کہ بعض عناصر (Elements) ایسے ہیں کہ ان میں سے جو لہریں خارج ہوتی ہیں وہ نہایت با قاعدہ اور منظم اور عین بر وقت ہوتی ہیں.اگر ان لہروں کی تعداد کو ماپا جا سکے تو وقت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے.چنانچہ سیزیم (Cesium) ایک ایسا عنصر ہے کہ اس میں سے ایک سیکنڈ میں نو ارب سے کچھ زائد (19,192,631,770) لہریں خارج ہوتی ہیں.چنانچہ لہروں کو گننے کے کاؤنٹر کے ذریعہ صحیح وقت معلوم کیا جاتا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 31.7.98)

Page 278

271 نظام کشی کا کلاک کارخانہ عالم کا نظام اتنا منضبط اور باقاعدہ ہے کہ سب کام عین وقت پر سرانجام پاتے ہیں ایک گھڑی اس نظام شمسی کی ہے جس کا حصہ ہماری زمین ہے.اس کے وقت کو Asronomically Defined Universal Time کہا جاتا ہے.یعنی سورج اور چاند وغیرہ کی رفتار سے وقت ماپنا یعنی وہ نسبتی رفتار جو زمین اور سورج کے درمیان ہے اس سے وقت کا اندازہ لگانا.ہماری زمین سورج کے گرد ایک سال میں چکر پورا کرتی ہے اس ایک سال کو Tropical Year یا کیلنڈر کا سال کہا جاتا ہے.یہ سال ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۸ منٹ اور ۴۶ سیکنڈ کا ہوتا ہے.لیکن ان سالوں میں سیکنڈ یا اس سے کچھ کم فرق پڑ جاتا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً زمین اپنے محور کے گرد کبھی کبھی ڈگمگاتی ہے.یہ اپنے محور (Axis) پر جھکی ہوئی ہے.اس کا مدار (Orbit) سورج کے گردگول نہیں بلکہ بیضوی (Ovel Shaped) ہے جس کی وجہ سے جب زمین سورج کے قریب ہوتی ہے تو نسبتاً زیادہ تیز دوڑتی ہے پھر زمین کے سمندروں پر چاند کی کشش ثقل (Gravity) سے مدو جزر پیدا ہوتا ہے اور جواہریں اٹھتی ہیں ان کی باہمی رگڑ کی وجہ سے بھی زمین کی رفتار کچھ دھیمی ہو جاتی ہے.زمین کے بطن (Core) میں جو مائع مادہ ہے اس کی وجہ سے بھی کبھی زمین کی حرکت بے قاعدہ ہو جاتی ہے.(الفضل انٹر نیشنل 31.7.98) 66

Page 279

272 آپ جسمانی و ذہنی اعتبار سے کتنے پانی میں ہیں؟ یہ دور ہندسہ کا ہے جسے انگریزی میں Digital Age کہتے ہیں.کوئی بھی چیز ہوا سے بالآخر ہندسوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے.نظام کمپیوٹر کا ہو یا مواصلات کا ہر طرف ہند سے ہی چلتے ہیں اور تو اور اب تو انسانوں کی جسمانی و ذہنی صحت کو بھی ہندسوں کی زبان میں ادا کیا جانے لگا ہے.بھرتی کرنے والے ادارے اب امیدوارں سے اس طرح کے کوائف طلب کرنے لگے ہیں.عمر ، قد ، وزن، بلڈ پریشر ، عام حالات میں نبض کی رفتار، کولیسٹرول، عمر باعتبار صحت اور آئی کیو وغیرہ.عمر باعتبار صحت نکالنے کے لئے جن امور کو فارمولے میں ڈھالا جاتا ہے ان میں بلڈ پر یشر کولیسٹرول، مشقت کے دوران نبض کی رفتار ، قد اور وزن کی نسبت ، ورزش یا سیر کی عادت، نشہ کی لت تمباکونوشی ، الکوحل کا استعمال اور کسی دوا کا مستقل استعمال وغیرہ ہیں.عمر باعتبار صحت نکال کر اصل عمر سے موازنہ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ صحت کا معیار اچھا ہے یا برا.پندرہ سال کا بچہ ہیں سال کے جوان جتنا مضبوط ہوسکتا ہے.اور کوئی ستر سال کا پچاس سال والے شخص جیسی ہمت وطاقت کا مالک بھی ہوسکتا ہے.اسی طرح عمر باعتبار ذہانت بھی نکالی جاتی ہے جسے آئی کیو Intelligence) (Quotient کہا جاتا ہے.آئی کیو معلوم کرنے کے لئے بہت سے ٹیسٹ بنائے گئے ہیں جن میں امیدوار کی عقل و فہم میں تیزی ، باریک بینی ، قوت فیصلہ، قائدانہ صلاحیت اور رجحانات کا جائزہ لیا جاتا

Page 280

273 ہے اور جو ذہنی عمر اس طرح نکلتی ہے اس کا جسمانی عمر کے ساتھ مقابلہ کر کے آئی کیونکالا جاتا ہے.اگر آپ کی جسمانی و ذہنی عمر دونوں ایک ہی ہیں تو آپ دوسروں سے بہتر ہیں.اور اگر ۱۴۰ ہے تو لوگ آپ کی ذہانت سے ڈرنا شروع ہو جائیں گے اور آپ کے سامنے سنبھل کے بات کریں گے.جب یہ سارے جسمانی و ذہنی ٹیسٹ مکمل ہو جائیں گے تو آپ کی شخصیت کچھ اس طرح بیان کی جائے گی: ۲۵-۷۰اسم ۶۰ کے جی ۱۳۰/۸۰-۷۲-۴- G - ۱۲۵ جس سے مراد یہ ہوگا کہ آپ کی عمر ۲۵ سال قدر ۷۰ اسنٹی میٹر.وزن ۶۰ کلوگرام.بلڈ پریشر ۱۳۰/۸۰ نبض ۷۲، کولیسٹرول ۴، صحت کا معیار باعتبار عمر Good یعنی اچھا.ذہانت کا معیار باعتبار عمر ۱۲۵.تو دیکھا کہ کس طرح آپ کی جسمانی و ذہنی صحت چند ہندسوں میں ڈھل گئی ہے یعنی Digitise ہوگئی ہے.اب ایمپلائر آسانی کے ساتھ آپ کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا دوسروں سے مقابلہ کر سکتا ہے.اتنا ہو چکنے کے بعد پھر تعلیم وتجربہ کو بھی اسی طرح ہندسوں میں تبدیل کر کے نوکری ملنے یا نہ ملنے کا فیصلہ ہوگا.بڑھتی ہوئی بے کاری کے دور میں نوکری حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانا ہے.( الفضل انٹر نیشنل 11.7.97 )

Page 281

274 ان گنت مخلوق جو انسان کی خدمت پر مامور ہے سمندر کے اندر موجود نوے فیصد مخلوق اتنی چھوٹی ہے کہ ہم نگی آنکھ سے اسے دیکھ نہیں سکتے اس کا سائز ایک ملی میٹر کے دسویں حصہ سے لے کر اس کے ہزارویں حصہ تک ہوتا ہے.ایک ایک خلیه والی مخلوق (Single Cell Organism) جس کو Protist کہتے ہیں اسے خوردبین سے دیکھیں تو ان کی عجیب و غریب اور پیچیدہ ڈیزائن والی شکلیں ابھر کر سامنے آتی ہیں.کوئی لمبوتری گاجر جیسی کوئی بالکل گول، کوئی دائرہ کے باہر چھ پہلوؤں والی، کوئی گلوب یا ٹوکری جیسی شکل کی.سمندر سے ایک گلاس پانی کا لیں تو اس میں یہ کئی کروڑ کی تعداد میں پچھد کتی نظر آئیں گی.پچھلے چودہ سال سے آسٹریلیا کی ایک خاتون سائنسدان ان پر تحقیق کر رہی ہیں.Fiona Scott کا کہنا ہے کہ اگر یہ بھی مخلوق نہ ہوتی تو سمندری جانوروں کے لئے خوراک نہ ہوتی اور زمین کی جاندار مخلوق کو آکسیجن نہ ملتی.وہ کہتی ہیں کہ سمندری حیات کے لئے (جس پر انسانوں کا دارو مدار ہے ) خوراک کی تیاری کے سلسلہ کا آغاز اسی منفی مخلوق سے ہوتا ہے.دوسرا بہت اہم کام جو یہ سرانجام دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ تمام ذی حیات مخلوق جو کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے سانس وغیرہ کے ذریعہ بناتی ہے اس کے نصف حصہ کو دوبارہ آکسیجن میں تبدیلی کرنے کا عظیم کارنامہ بھی یہی نھی مخلوق سرانجام دیتی ہے.یہ انہیں کی پیدا کردہ آکسیجن ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں Fiona Scott ان جانداروں کو آکسیجن انجن کا نام دیتی ہیں ( اگر زمین کی ۵۰ فیصد کار بن ڈائی آکسائیڈ فضا میں

Page 282

275 جمع ہوتی رہے اور دوبارہ آکسیجن میں تبدیل نہ ہوتو زندہ مخلوق شاید دم گھٹ کر مر جائے.اس لئے جب سمندروں کے دوسرے فوائد پر غور کریں تو ان میں بسنے والی اس منخصی مخلوق کو بھی یاد کرنا نہ بھولیں) (ماخوذ از سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۰ را پریل ۲۰۰۵ء) خدا کی قدرت ہے کہ جس طرح سمندروں کی ۹۰ فیصد مخلوق نظر نہیں آتی مگر عظیم کارنامے سرانجام دیتی ہے اسی طرح کائنات میں بکھرا ہوا ۹۰ فیصد مادہ ایسا ہے جو کر وں کی شکل میں تو نہیں ڈھلا مگر کائنات کے استحکام میں کئی طریق سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے.پھر ہر پودہ جواناج سبزہ یا پھل وغیرہ کا اگتا ہے اس کی جڑوں میں کروڑوں ننھے مزدور کام کر رہے ہوتے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے مگر مٹی سے ان پودوں کے لئے غذا تیار کرتے ہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ بتاؤ تو جو کچھ تم بوتے ہو ان کو تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں.یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا کی مخلوق پر جتنا بھی غور کیا جائے دل سے یہی آواز آتی ہے کہ اے خدا! تیرا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : ۱۹۱) ( الفضل انٹر نیشنل 17.6.05)

Page 283

276 تو ہم پرستی کی بلا تو ہم پرستی عموماً جہالت اور شرک کی پیداوار خیال کی جاتی ہے اور یہ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے.سڈنی کے علاقہ ولوبی (Willoughby) میں چینی آبادکاروں کی تعداد ہر پانچ سال میں دگنی ہو رہی ہے.انہوں نے کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے مکانوں اور گلیوں سے نمبر چار ختم کر دیا جائے کیونکہ وہ اسے منحوس سمجھتے ہیں.چینی زبان میں ۴ کا عدد اور ”موت“ کا لفظ صوتی لحاظ سے باہم اتنے ملتے جلتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ میں چار نمبر کے مکان میں رہتا ہوں تو وہ سمجھے گا یہ کہہ رہا ہے کہ موت گھر میں رہتا ہوں.اسی طرح اگر چینی اپنی زبان میں کہے کہ میں گلی نمبر رہ میں رہتا ہوں تو سننے والا یہ خیال کر سکتا ہے کہ شاید اس نے کوچہ مرگ میں ڈیرہ ڈال لیا ہے.چنانچہ چینی آباد کاروں کا مطالبہ کونسل کے اجلاس میں پیش کیا گیا جس پر سخت تنقید کی گئی کہ عام طریق سے محض وہم کی بناء پر ہٹنا اکثریت کو چینیوں کے خلاف انگیخت کرنے والی بات ہے اور نظم ونسق میں بعض مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں.چنانچہ کونسل کو کہا گیا کہ اپنے وہم کا علاج جادوٹو نے کرنے والے عاملوں سے کرا ئیں کونسل ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے.چینیوں کے اکابر نے کہا کہ نمبر چار کی نحوست دور کرنے کا علاج اس طریق سے ممکن ہے کہ دروازے پر تعویذ ٹونا باندھ دیں.ایک آئینہ لٹکا دیں.کچھ ہم آہنگ گھنٹیاں باندھ دیں یا مکان کے نمبر کو سرخ پس منظر میں لکھ دیں.چنانچہ کونسل سے مایوس ہو کر اب ٹونے ٹوٹکے اور تعویذ باندھنے والے عاملوں کو تلاش کیا جارہا ہے.

Page 284

277 مختلف قوموں اور ملکوں میں کئی دلچسپ قسم کے وہم رائج ہیں.صبح گھر سے کام پر جانے کے لئے نکلتے ہیں تو پیچھے سے کسی نے بلا لیا تو آپ کا کام نہیں ہوگا.اگر پہلا گا ہک ادھار مانگے یا جھگڑا کرے تو سارا دن خراب گزرے گا.اگر کالی بلی نے رستہ کاٹ لیا تو کام نہیں ہوگا.خرگوش کے پنجے پر ہاتھ رگڑ نا خوش قسمتی کی علامت ہے.صبح آٹا گوندھتے ہوئے باہر گر جائے تو مہمان آئے گا.چھینک آنا بھی منحوس خیال کی جاتی ہے.اگر لکڑی کو کھٹکھٹائیں یا سیٹھی کے نیچے سے نہ گزریں تو بری قسمت بدل سکتی ہے.اتوار کے روز پیدا ہونا خوش قسمتی کی علامت ہے.اگر شادی کے روز تقریب کے انعقاد سے پہلے دولہا دلہن ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو براشگون ہے.جب آدمی مرتا ہے تو کھڑکیاں دروازے کھول دیں تا روح کو باہر نکلنے میں دقت نہ ہو.نوزئیدہ بچہ کی پہلی بارسٹر ھیوں کے ذریعہ اوپر لے جایا جائے نہ کہ نیچے.کسی کو بٹوا تحفہ میں دیں تو خالی نہ ہو کچھ نہ کچھ رقم اس میں ضرور ہو ورنہ ہمیشہ ہی بٹوہ روپے سے خالی رہے گا.کئی لوگ سفر ۱۳ تاریخ کو یا جمعہ کے روز شروع نہیں کرتے.ہوٹلوں میں ۱۳ نمبر کا کمرہ کئی بار خالی رہتا ہے.جاپانی بھی چینیوں کی طرح چار کا عدد منحوس خیال کرتے ہیں.اگر شادی کے مہمان نئے شادی شدہ جوڑے پر چاول پھینکیں تو ان کے ہاں بچے بہت ہو نگے.شیشہ توڑنا یا نمک گرانا بد قسمتی کی علامت خیال کیا جاتا ہے.ایک دیا سلائی سے تین سگریٹ سلگھانا بھی منحوس ہے.وغیرہ وغیرہ.وہم کی ایک شکل ” آپ کے ستارے کیا کہتے ہیں.“ کی ہے.بہر حال ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان سب وہموں سے آزاد کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی اچھی یا بری شگون والی بات دیکھیں یا سنیں تو دعا کریں کہ اللهم لا طير ا لا طيرک ولا خیر الا خیرک ولا حول ولاقوة الا بالله “ کہ اے اللہ وہی بدشگونی ہے یا خیر ہے جو تیری طرف سے آئے اور تیری ہی ایک طاقت ہے جو ہمیں شر سے بچا سکے اور ضرر پہنچا سکے.یعنی تیرے سوا کسی چیز میں کوئی ذاتی خیر وشر نہیں ہے اور اس دعا سے ہر وہم کا خاتمہ ہو جاتا ہے.الحمد للہ.( الفضل انٹر نیشنل 20.9.96)

Page 285

278 حصہ ووع مضامین متفرقه

Page 286

279 حضرت عزیر علیہ السلام یہود کا ایک فرقہ عزیر کو ابن اللہ مانتا تھا حضرت عزیر علیہ السلام کو یہود میں ان کی خدمات کے سبب ایک خصوصی مقام حاصل تھا اور ان کے اس حد تک معتقد تھے کہ ان کے ایک فرقہ نے انہیں خدا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا تھا.بنی اسرائیل اپنے خاص مذہبی محاورہ میں ہر اس شخص کو استعارةُ ابن اللہ کہہ دیا کرتے تھے جو ان کے نزدیک خدا کو ایسا پیارا ہوتا جیسے ایک باپ کو اسکا بیٹا ہوتا ہے اور جو خدا کی صفات اور قدرت کا مظہر ہوتا چنانچہ ان معنوں میں بائیل میں اسرائیل.افرائیم.داؤد سلیمان.آدم اور عیسی علہیم السلام کو ابن اللہ کہا گیا ہے (دیکھیں 27 Exodus 4:23, Jeremiah 31:39 Psalms) I.Chronicles 22:10, Luke 3:38, John 3:16, Romans 8:41, IJohn 5:1) قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ یہود اسی مروجہ اصطلاح میں حضرت عزیر کو بھی استعارة ابن اللہ کہتے ہوں گے مگر رفتہ رفتہ (عیسائیوں کی طرح) ان کے ایک حصہ نے ان کو حقیقی معنوں میں ابن اللہ کہنا شروع کر دیا.مگر جس طرح مذہب.فرقے بنتے مٹتے رہتے ہیں یہ فرقہ بھی مرور زمانہ سے مٹ گیا اور آج یہودیوں میں سے کوئی انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتا.

Page 287

280 حضرت عزیر کو ابن اللہ کہنے کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ملتا ہے: ”اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے.یہ محض ان کے منہ کی باتیں ہیں.یہ ان لوگوں کے قول کی نقل کر رہے ہیں جنہوں نے (ان سے پہلے ) کفر کیا تھا.اللہ انہیں نابود کرے یہ کہاں الٹے پھرائے جاتے ہیں“ (التوبہ:۳۰) اس آیت میں یہ پیشگوئی مضمر ہے کہ جس طرح عزیز کو ابن اللہ کہنے والے نابود ہو چکے ہیں اسی طرح یہ بھی مقدر ہے کہ علینے کو ابن اللہ کہنے والے بھی نہیں رہیں گے وہ بھی اس عقیدہ کو انہیں کی طرح بیزار ہو کر ترک کر دیں گے.چونکہ آج کل یہود عزیر کو ابن اللہ نہیں کہتے اس لئے بعض معترضین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن نے ایک خلاف حقیقت بات کہہ دی ہے.اس اعتراض کا جو جواب حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے دیا ہے وہ درج ذیل ہے: حضرت خلیفتہ اسیح اوّل فر ماتے ہیں: وو دنیا میں کئی مذاہب آتے ہیں پھر مٹتے ہیں.ایک فرقہ تھا یہود سے وہ حضرموت ( غربی کنارہ یمن ) میں رہتا تھا وہ عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے ہجری چوتھی صدی تک ان کا بقایا رہا ہے پس یہ اعتراض نہیں چاہئے کہ اب تو یہود نہیں کہتے عزیز ابن اللہ تھے کیونکہ دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے.دیکھو قسطلانی داؤد ظاہری.لیٹ کے متبعین اب نہیں پائے جاتے مگر کتا ہوں میں ان کا ذکر ہے.( نوٹس درس القرآن فرمودہ حضرت خلیفتہ مسیح اول.مطبوعہ قادیان اکتو برا۲۳۹.صفحه۳۶۲) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: عزیز یا عزرا ( Ezra) پانچویں صدی قبل مسیح میں گزرے ہیں.آپ سیرائیاہ ( Sraiah) کی نسل میں سے تھے جو اپنے وقت کے بڑے دینی پیشوا (High Priest) تھے.آپ خود بھی دینی پیشوائی سلسلہ کے رکن تھے اور بطور ”دینی پیشوا عزرا (Era ,the priest) کے جانے جاتے

Page 288

281 تھے.وہ اپنے زمانہ کی اہم ترین شخصیات میں سے تھے.اور ان کی شخصیت نے یہودی مذہب کی نشو و نما پر ایک دور رس اثر پیدا کیا.انبیاء بنی اسرائیل میں انہیں عزت کا ایک خاص مقام حاصل تھا.مدینہ کے یہود اور حضر موت کا ایک یہودی فرقہ انہیں خدا کا بیٹا مانتا تھا یہودی علماء ان کا نام کئی اداروں سے منسوب کرتے ہیں.( قرآن مجید انگریزی مرتبہ ملک غلام فریڈ.ترجمہ نوٹ ۶۷۱۱) رین ( Renan) نے اپنی کتاب History of the People of Israel کے دیباچہ میں یہ رائے دی ہے کہ یہودیت کے معین ڈھانچہ ( قانون ) کا آغا ز صرف عزرا کے وقت سے ہی کیا جاسکتا ہے.یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں کے ریکارڈ کے مطابق تو عزیز کو اس قابل خیال کیا جاتا ہے.کہ اگر شریعت پہلے ہی موسیقی کی معرفت نہ دے دی گئی ہوتی تو عزرا کا یہ مقام تھا کہ ان کو اس کے لانے کا ذریعہ بنایا جاتا.انہوں نے نحمیاہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور بابل کی سلطنت میں ۰۲۱ سال کی عمر میں وفات پائی (جیوش انسائیکلو پیڈیا و انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا بحوالہ نوٹ ۲۷۱۱ بر صفحه ۲۰۴ ترجمہ وتفسیر انگریزی) باوجود یکہ یہ آیت (سورۃ توبہ ) مدینہ میں نازل ہوئی تھی لیکن مدینہ کے یہود نے کبھی یہ اعتراض نہیں کیا تھا کہ وہ عزیر کو ابن اللہ نہیں مانتے اس لئے کہ وہ ایسا اعتقاد رکھتے تھے.حضرت عزیر کی بعثت کا تاریخی پس منظر حضرت عزیر علیہ السلام اسرائیلی تاریخ کے جس نازک موڑ پر مبعوث ہوئے تھے اس کے پس منظر کے بیان سے ان کے کاموں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے.کنعان ( فلسطین) کی ابتدائی تاریخ کے مطابق آج سے تقریباً ۰۰۵۴ سال پہلے (۰۰۵۲ ق ) عرب سے سامی (Semite) نسل کے قبائل وہاں آباد ہوئے تھے.یہ پتھر کا زمانہ تھا چنانچہ اس زمانہ کے کئی ہتھیار یروشلم کے قریب سے دریافت ہو چکے ہیں.تقریباً ۱۴۰۰ سال قبل مسیح میں یروشلم کا علاقہ مصریوں کا باجگزار بن چکا تھا(Encyd, BritanicaVOL13,P7) اس وقت تک نہ اسرائیلی قوم ابھی وجود میں آئی تھی نہ اسماعیلی.اسکے قریباً ۰۰۵ سال بعد (۰۰۲.قم) میں ابراہیم علیہ السلام اپنے شہر اور (۲) سے جو جنوبی عراق میں واقع تھا ہجرت کر کے یروشلم

Page 289

282 ( بیت المقدس) میں آباد ہو گئے.اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کو اس کی پہلے سے موجود بنیادوں پر دوبارہ کھڑا کیا اور اس واقعہ کے چالیس سال بعد آپ نے اپنے دوسرے بیٹے حق کے لئے بیت المقدس میں خانہ کعبہ کی ظلیت میں ایک ”بیت ایل (مسجد ) تعمیر کی.چونکہ آپ نے ایسا خدا کی منشاء کے مطابق کیا اس لئے وہ جگہ ارض مقدس یا ارض حرم قرار پائی اور یہی مسجد بنی اسرائیل کے انبیاء کا قبلہ ٹھہری.یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی قرآن اور بائیبل کے مطابق ارض حرم کا درجہ رکھتا تھا چنانچہ قرآن کے مطابق انہوں نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”اے میری قوم ! ارض مقدس میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے...( المائدہ:۲۲) بائیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ موسی فلسطین کو ارض حرم یقین کرتے تھے چنانچہ وہ اپنی نظم میں کہتے ہیں کہ اے خدا تو نے رحم کرتے ہوئے جن کو نجات دلائی تھی اپنی طاقت سے ارض مقدس کی طرف ان کی رہنمائی کی (15:13 Exodus).صحیح بخاری صفحہ ۴۷۷ پر ایک حدیث درج ہے جس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مسجد حرام اور مسجد اقصے کے ایام بناء میں کس قدر فاصلہ ہے تو آپ نے فرمایا چالیس برس کا.لیکن دوسری طرف صحیح روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کے بانی حضرت ابرا ہیم ہیں اور بیت المقدس کے بانی حضرت سلیمان ہیں (جو حضرت موسیٰ کے قریبا پونے پانچ سو سال بعد میں آئے تھے ) ان دونوں حدیثوں کی تطبیق اسی صورت میں ہو سکتی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے.یعنی خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں.حضرت سلیمان نے تعمیر تو اسی مقام پر کی تھی.اس ارض مقدس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے اس وعدہ کا ذکر فرماتا ہے جو اس نے داؤد علیہ السلام کے ذریعہ زبور میں دیا تھا.فرمایا: اور یقیناً ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ لکھ رکھا تھا کہ لازماً موعود زمین کو میرے صالح بندے ہی ورثہ میں پائیں گے، (الانبیاء: ۱۰۶).زبور کی

Page 290

283 جس پیشگوئی کا اس آیہ کریمہ میں ذکر ہے وہ ان الفاظ میں آتی ہے: صالح (The Rightious) اس زمین (ارض مقدس ) کے وو وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گئے (37:29 Psalms) لیکن اس زمین پر جو لوگ فساد برپا کریں گے وہ سزا پائیں گے.چنانچہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو واضح طور پر بتادی تھی کہ تم زمین میں دوبارہ عظیم فساد برپا کرو گے اور اس کی پاداش میں تم تباہ برباد ہو گے.اسکا ذکر سورہ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں آیا ہے.جہاں فرمایا: اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو اس قضا سے کھول کر آگاہ کر دیا تھا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور یقیناً ایک بڑی سرکشی کرتے ہوئے چھا جاؤ گے ( بنی اسرائیل: ۵ ) ان دو عذابوں کا ذکر قرآن مجید کی ایک اور آیت میں بھی ہے.جہاں فرمایا: جن لوگوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا وہ داؤد کی زبان سے لعنت ڈالے گئے اور عیسے ابن مریم کی زبان سے بھی.یہ ان کے نافرمان ہو جانے کے سبب سے اور اس سبب سے ہوا کہ وہ حد سے تجاوز کیا کرتے تھے“ (المائدہ: ۷۹) اس پیشگوئی کے مطابق داؤد کے ۴۰۰ سال بعد بابل کے بادشاہ Nebuchad nezzar ( بخت نصر ) نے ۸۸۵ تا ۲۸۵ قبل مسیح کے درمیان یروشلم کو تباہ کیا اور دوسری بار ۶ ۸ عیسوی میں ٹائٹس (Titus) رومی نے یروشلم کو تباہ کیا.پہلی تباہی کے تقریباً سو سال بعد حضرت عزیر علیہ السلام واپس بیت المقدس آئے.یہ واقعہ بائبل میں 2Kings, Ch25 میں بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق نیبو کد نضر نے یروشلم پر چڑھائی کی اور ۸۸۵ قبل مسیح میں فلسطین کے دارالخلافہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا.شہر کے اندر جب غلہ کم ہو گیا تو ۶۸۵ ق م میں شہر کی دیوار توڑ دی گئی.اس وقت یروشلم کا بادشاہ صدقیاہ تھا وہ بھاگ اٹھا مگر پکڑا گیا اس کی آنکھیں نکالی گئیں اور آنکھیں نکالنے سے پہلے اس کے بیٹوں کو اس کے سامنے ہلاک کر دیا گیا

Page 291

284.پھر اس کے پاؤں میں بیٹریاں ڈال کر اسے بابل لے گئے.( آیت ۴ تا ۷ ) بابل کے بادشاہ نے خداوند کا گھر.بادشاہ کا محل.ہر رئیس کا مکان بلکہ ہر گھر جلا دیا.یروشلم کے ارد گرد کی دیواروں کو گرا دیا.یہودیوں کی مقدس کتا بیں بھی جلا کر راکھ کر دی گئیں.بائبل کے مٹنے کے بعد حضرت عزیز نے اپنی یادداشت بناء پر دوبارہ لکھا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بائبل کی تاریخ کے اس اہم ترین واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تورات کی اندرونی شہادت سے یہ امر ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ کتاب مٹ گئی تھی اور اس کے مٹنے کا باعث یہ ہوا کہ چھٹی صدی قبل مسیح یعنی چودھویں صدی ابراہیمی کے آخر میں جب بخت نصر نے بیت المقدس کو جلا دیا تو تورات کی مقدس کتا بیں بھی جل گئیں اور یہو دقید ہوکر بابل میں لے جائے گئے جہاں ستر سال تک قید ر ہے.اس اسیری کے بعد وہ رہا ہوئے اور حضرت عزیر جن کی کتاب پرانے عہد نامہ میں پائی جاتی ہے.انہوں نے اس کتاب کی تدوین دیگر احبار سمیت کی اور اپنی یادداشت کی بناء پر اسے لکھا.حضرت عزیر کے نام سے ایک اور کتاب عیز ڈراس (Esdras) یونانی زبان میں موجود ہے جو حضرت عزیر کی اس کتاب کے علاوہ جو پرانے عہد نامہ میں پائی جاتی ہے.اگر چہ یہ کتاب موجودہ بائبل کی کتابوں میں شامل نہیں مگر بائبل سے کسی درجہ کم معتبر نہیں چنانچہ بائبل کا جو ضمیمہ بعد میں مرتب ہوا ہے اس میں عیز ڈراس کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اس کتاب کی دوسری کتاب کے چودھویں باب کو پڑھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح حضرت عزیر نے اپنے پانچ ساتھیوں سمیت چالیس دن تک تو رات کو دوبارہ لکھا.کتاب مذکور کے چودھویں باب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہے.لکھا ہے: ”دیکھو اے خدا میں جاؤں گا جیسا تو نے مجھے حکم دیا ہے اور جولوگ موجود ہیں ان کو فہمائش کروں گا.لیکن جو لوگ کہ بعد کو پیدا ہوں گے ان کو کون

Page 292

285 فہمائش کرے گا.اس طرح دنیا تاریکی میں ہے اور جولوگ اس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں کیونکہ تیرا قانون جل گیا.پس کوئی نہیں جانتا ان چیزوں کو جو تو کرتا ہے اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں.لیکن اگر مجھ پر تیری مہربانی ہے تو تو روح القدس کو مجھ میں بھیج اور میں لکھوں تمام جو کہ دنیا میں ابتدا سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میں لکھا تھا تا کہ تیری راہ کو پاویں اور دہ لوگ جو اخیر زمانہ میں ہوں گے زندہ رہیں اور اس نے مجھے کو یہ جواب دیا کہ جا اپنے راستے سے لوگوں کو اکٹھا کر اور ان سے کہہ کہ وہ چالیس دن تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں.لیکن دیکھ تو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور اپنے ساتھ سیریا (Saria) ، ڈبریا (Dabria) ، سلیمیا (Selemia)، اکانس (Echanus) اور اسیل (Esial) کو لے اور ان پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنےکو تیار ہیں اور یہاں آور میں تیر سے دل میں مجھ کی شمع روشن کروں گا جو نہ بجھ گی تو وقتیکہ وہ چیزیں پوری نہ ہوں جو تو لکھنی شروع کرے گا“ (آیت ۲-۲۵) غرض حضرت عزیر اور پانچ روز نویس چالیس روز تک لوگوں سے الگ تھلگ اور الہامی تائید سے انہوں نے چالیس دن میں دو سو چار کتابیں لکھیں ( آیت ۴۴) جن میں نہ صرف تورات بلکہ وہ سب کتابیں جو حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت عزیز تک پیغمبروں کی طرف منسوب تھیں شامل ہیں.مزید برآں یہ کہ تاریخی طور پر اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا کہ یہودیوں میں تو رات کو حفظ کرنے کا عام رواج ہو.بلکہ آج تک بھی یہود میں تو رات کو حفظ کرنے کا عام رواج نہیں اور جبکہ ان میں حفظ کا رواج ہی نہیں تھا یہ کیونکر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں نے دوبارہ تو رات کو لکھا تھا انہوں نے اسے صحیح طور پر ہی لکھا تھا.تو رات کی دوبارہ تدوین یہود کی جلاوطنی کے ایک لمبے عرصہ بعد ہوئی ہے.بخت نصر یہود کو قید کر کے بابل لے گیا تھا اور وہاں اس نے ایک مدت تک ان کو اپنی غلامی میں رکھا.یہ مدت تقریباً ساٹھ ستر سال بنتی ہے.دیکھو تاریخ بائبل مصنفہ پادری ولیم.جی

Page 293

286 بلیکی (بارہواں باب ) اس کے بعد جب سائرس فارس اور مید کے بادشاہ کا زور ہوا تو اس کے ساتھ یہود نے خفیہ مجھوتہ کیا اور اس کے حملہ آور ہونے پر اندر سے اس کی مدد کی جس کی وجہ سے وہ بابل پر بہت جلد قابض ہو گیا.اس کے بعد انعام کے طور پر اس نے بنی اسرائیل کو اپنے ملک کی طرف واپس جانے کی اجازت دے دی.اس وقت عزرا نبی کا زمانہ تھا.اور انہی کے زمانہ میں دوبارہ تو رات لکھی گئی.یہ سارا عرصہ تقریباً سو سال کا بنتا ہے اور ہر شخص قیاس کر سکتا ہے کہ اس عرصہ میں کتنے لوگ زندہ رہے ہوں گے اور کتنے مر چکے ہوں گے.بخت نصر کے حملے اور عزرا نبی کے زمانہ میں سوسال کا جو وقفہ ہے اس میں اگر یہود کو تو رات حفظ ہوتی تب بھی اتنے لمبے عرصہ کے بعد اس کا دوبارہ لکھا جانا یقینی نہیں سمجھا جاسکتا تھا کیونکہ بہت سے لوگ مرچکے ہوں گے لیکن ان میں تو حفظ کا رواج ہی نہیں تھا اس لئے انہوں نے جو کچھ لکھا قیاسی اور خیالی طور پر لکھا چنانچہ اس کا ثبوت بائبل سے ہی اس رنگ میں ملتا ہے کہ پہلے تو یہ ذکر آتا ہے کہ موسیٰ سے خدا نے یہ کہا اور موسیٰ کو خدا نے یہ حکم دیا مگر اس کے بعد لکھا ہے: سوخداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گا ڑا پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا اور موسیٰ اپنے مرنے کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا کہ نہ اس کی آنکھیں دھندلا ئیں اور نہ اس کی تازگی جاتی رہی (استشناء باب ۴۳ آیت ۵ تا ۷ ) اب کیا کوئی شخص تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ موسیٰ سے کہہ رہا ہے کہ پھر موسیٰ مر گیا اور اسے موآب کی ایک وادی میں گاڑا گیا مگر اب اس کی قبر کا کہیں پتہ نہیں چلتا.صاف پتہ لگتا ہے کہ موسیٰ کی وفات کے بعد کسی شخص نے یہ حالات لکھے ہیں اور اس وقت لکھے ہیں جبکہ موسیٰ کی قبر کا بھی لوگوں کو علم نہیں رہا تھا کہ وہ کہاں گئی ( تفسیر سورہ اعلی.آیت ۶- از تفسیر کبیر جلد هشتم صفحه ۶۱۴ تا ۸۱۴)

Page 294

287 حضرت عزیز جنہوں نے بائبل کو دوبارہ یادداشت کی بنا پر لکھا ان کو خود بھی بعض مقامات کے درست ہونے کے بارہ میں شک تھا.چنانچہ انہوں نے ایسے مقامات پر نشان لگا دیا تھا اور کہا تھا که اگر ایلیا ( Eah) بنی ان مقامات کو درست قرار دیں تو انہیں رہنے دیں ورنہ کتابوں میں سے نکال دیں.اس کا ذکر Jewish Encyclopedia میں ملتا ہے جس کا حوالہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی میں دیا ہے.آپ فرماتے ہیں: ( ترجمہ از انگریزی ) اسرائیل کی تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبو کد نضر کے وقت میں اسرائیلی کتب جلا دی گئی تھیں اور ضائع کر دی گئی تھیں.ان کو عز را نبی نے دوبارہ لکھا تھا اور عزرا کے متعلق ہم یہودی لٹریچر میں یہ پڑھتے ہیں : ”یہ بھول چکی تھیں اور عزرا نے انہیں دوبارہ بحال کیا.“ اور پھر لکھا ہے: جیوئش انسائیکلو پیڈیا جلد ۵ صفحه ۳۲۲) عزرا نے کتب خمسہ (Pentateuch) کے متن کو دوبارہ رائج کیا اور اس میں آشودی اور مربع رسم الخط کو داخل کیا (ایضاً).پھر ہم پڑھتے ہیں: انہوں (عزرا) نے متن کے بعض الفاظ کے درست ہونے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ان پر نقطے ڈال دیئے تھے اور کہا تھا کہ اگر ایلیا (Elijah) ان کو منظور کر دیں تو نقطوں کو نظر انداز کر دیں اور اگر وہ نا منظور کریں تو مشکوک الفاظ کو متن سے خارج کر دیں (ایضاً) ان حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ تو رات جس صورت میں بھی اس وقت تھی وہ بہت غیر یقینی اور نا قابل اعتبار کتاب تھی خواہ وہ اس شکل میں ہو جو اسے عزرا نے دی یا جس صورت میں پہلے وقتوں سے چلی آتی تھی (Genaral Introdaction of Holy Quran by "

Page 295

288 Hazrat Musleh Maud, Page XVIII) (دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی صفحه ۸۱) حضرت عزیز کی خدمت بلاشبہ عظیم تھی مگر بشری کمزوریوں سے پاک نہ تھی حضرت عزیز نے مٹی ہوئی کتابوں کو اپنے حافظہ کی مدد سے دوبارہ لکھ کر اپنی قوم کی بے بہا خدمت کی ان سے ایک صدی پہلے ایک ظالم بادشاہ نے بائبل کی سب کتابوں کو جلا کر راکھ کر دیا تھا اور اب اسرائیلیوں کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہا تھا.لیکن وہ بہر حال انسان تھے اور بشری کمزوریاں نسیان وغیرہ بھی ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اس لئے بہت سی غلطیاں ان میں راہ پاگئیں.پھر موجودہ بائیبل کے متعلق یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ یقیناً وہی ہے جو حضرت عزیر نے لکھی تھیں ہوسکتا ہے بعد میں ان میں تحریف ہوتی رہی ہو.ان کتابوں میں غلطیاں یقیناً داخل ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے وہ قابل اعتبار نہیں رہیں.بطور نمونہ چند فروگزاشتوں کا ذکر یہاں مناسب ہوگا.(حوالے King James Version سے ہیں) (۱) ابراہیم کو خدا کا نام ” یہوواہ معلوم نہ تھا (6:3 8 Exodus) ابراہیم کو خدا کا یہ نام معلوم تھا اسی لئے ایک جگہ کا نام انہوں نے ” یہوواہ جیرے رکھا (22:14 Genesis) (۲) ہارون نے جہاں وفات پائی اس جگہ کا نام مائنٹ ”Hor‘ تھا.(Numbers 33:38) ہارون نے جس جگہ وفات پائی اس کا نام ”Mosera “ تھا.(۳) جیسی (Jesse) کے بچوں کی تعداد آٹھ تھی.جیسی کے بچوں کی تعداد سات تھی.(Deut 10:6) (1.Sameul 61:10.11) (1.Chronicels 2:13.15) (۴) مائیکل (MICHAL) کا کوئی بچہ نہ تھا.(2.Samuels 6:23)

Page 296

289 مائیکل کے پانچ بیٹے تھے.(2.Samuels 21:8) (۵) بن یامین(Benjamin) کے بیٹوں کی تعداد تین تھی.بن یامین کے بیٹوں کی تعداد پانچ تھی.(1.Cheronicles.7:6) (1.Chronicels 8:1.2) سچ تو یہ ہے کہ ہر کمزوری سے پاک علیم وخبیر ذات تو صرف خدا کی ہے.اسی لئے قرآن کریم کا دعوی ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں.فرمایا: پس کیا وہ قرآن پر تک بڑھ نہیں کرتے ؟ حالانکہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے (النساء : ۸۳) جو باتیں سینہ بسینہ بطور روایات آگے چلتی ہیں ان میں تضاد کا راہ پا جانا کوئی قابل تعجب امر نہیں بہر حال حضرت عزیر علیہ السلام کی خدمت قابل قدر ہے.اللہ انہیں اس کی جزا دے اور بوجہ بشری کمزوری جو غلطیاں ہوگئی ہیں ان سے درگزر فرمائے.“

Page 297

290 شہبِ ثاقبہ کا ایک کام شیطانوں کو رجم کرنا بھی ہے یہ سوال اکثر اپنے بھی پوچھتے ہیں اور غیر بھی کہ ٹوٹنے والے ستاروں کا شیطانوں کو رجم کرنے اور ان کو پتھر اور آگ کی سزا دینے سے کیا تعلق ہے.شیطانوں کو گھات میں بیٹھ کر خدائی وحی کو چوری چھپے سنے کی کوشش کرنا اور ایک آدھ بات کو اچک لینے سے کیا مراد ہے اور یہ شیطان جنوں میں سے ہیں یا انسانوں میں سے؟ ہر زمانہ میں علماء و صوفیاء اپنے اپنے رنگ میں ان سوالوں کے جواب دیتے رہے ہیں.خاکسار اپنے اس مضمون میں ان جوابات کو پیش کرنے کی کوشش کرے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام - حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ.حضرت مصلح موعودؓ.اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے ارشاد فرمائے.سارے پھل ہی خوشبودار اور لذیز ہیں جو چاہیں لے لیں.قرآن کریم میں آسمانوں کی حفاظت اور رجوم الشیاطین کا ذکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآن کریم میں آسمان سے مہب یا پتھر پڑنے کا ذکر یا آسمانوں کی حفاظت کا ذکر مندرجہ ذیل سورتوں میں ہے (۱) سورہ حجر زیر تفسیر آیت (یعنی ۷:۱۵ اناقل ) (۲) سوره ملک رکوع ۱ ( یعنی ۶:۶۷ ناقل) اس میں آتا ہے وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَا هَا رُجُومًا لِلشَّيطِيْنِ ہم نے

Page 298

291 سماء دنیا کو ستاروں سے مزین کیا ہے اور انہیں شیطانوں کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے (۳) سورہ الصفت رکوع ۱ ( یعنی ۱۱۷:۳۷) میں ہے إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيا بِزِيْنَةِ ن الكَوَاكِبٍ وَحِفْظاً مَّنْ كُلِّ شَيْطَانِ مَا رِدٍ لَا يَسْمَعُوْنَ إِلَى الْمَلَاءِ الْأَعْلَى وَيُقْدَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ واصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةُ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ.ہم نے ور لے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا اور ہر باغی شیطان سے اسے محفوظ بنایادہ ملاء اعلیٰ کی بات نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے انہیں بھگانے کے لئے ان پر پتھراؤ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بھی انہیں قائم رہنے والا عذاب ملے گا ( وہ سن تو نہیں سکتے ) لیکن اگر کوئی بات اچک لے جائے تو اس کے پیچھے چمکتا ہوا شہاب جاتا ہے (اور اسے تباہ کر دیتا ہے ) (۴) سورہ جن میں ہے و أَنَّا لَمَسْنَا = السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيدًا وَشُهُباً وَ أَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْها مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْلَهُ شِهَـابـا رَّصَدًا ركوع (یعنی ۷۲ : ۱۰۹) اور ہم نے آسمان کے بارہ میں جستجو کی ہے اور یہ معلوم کیا ہے کہ اس میں سخت پہرہ لگا ہوا ہے مہب بھی مقرر ہیں اور اس سے پہلے تو ہم آسمان میں سننے کی جگہوں پر بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو سنے لگتا ہے وہ اپنے پر ایک شہاب کو نگران پاتا ہے.(۵) حم السجدہ میں ہے وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظاً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ - رکوع ۲ ( یعنی ۱۳:۴۱).اور ہم نے ورلے آسمان کو چراغوں سے مزین کیا ہے اور ان کو ذریعہ حفاظت بھی بنایا ہے.یہ غالب اور علم والے خدا کی تقدیر ہے ( تفسیر کبیر جلد چہارم صفحه ۳۷ - ۳۸) پرانے مفسرین کے نزدیک رجم الشیاطین کی حقیقت حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

Page 299

292 یہ وہ پانچ مقام ہیں جن میں اس مضمون کو تفصیلاً یا اجمالاً بیان کیا گیا ہے مفسرین اس کی حقیقت یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی وحی ملائکہ پر نازل کرتا ہے تو وہ درجہ بدرجہ نیچے اترتی ہے.جب سماء الدنیا تک پہنچتی ہے تو جن ایک دوسرے پر چڑھ کر آسمان تک پہنچتے ہیں اور اس خبر کو اڑانے کی کوشش کرتے ہیں کچھ خبریں اچک اچکا کر جب دوڑتے ہیں تو ان کے پیچھے شہب مارے جاتے ہیں.اس کے آگے اختلاف ہے.حضرت ابن عباس کی طرف یہ روایت منسوب کی جاتی ہے کہ شہب شیطانوں کو مار نہیں سکتے بلکہ زخمی کر دیتے ہیں یا بعض عضو توڑ دیتے ہیں.لیکن حسن بصری اور ایک گروہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ شیطان قتل کر دئیے جاتے ہیں.جو کہتے ہیں کہ شیطان قتل کر دیے جاتے ہیں وہ آگے پھر مختلف الخیال ہیں.ایک گروہ کہتا ہے کہ جب وہ ساحروں اور کاہنوں کو خبر پہنچا لیتے ہیں تو پھر مار دیے جاتے ہیں اور ماوردی کا قول یہ ہے کہ خبر پہنچانے سے پہلے ٹھہب ان کو جا پکڑتے اور مار دیتے ہیں.(تفسیر فتح البیان بحوالہ قرطبی)‘ (ایضاً) پرانے مفسرین نے بے احتیاطی سے غیر معروف روایات کو لے لیا ہے: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: افسوس کہ ان بزرگ مفسرین نے جنہوں نے قرآنی تفسیر کو بیان کرنے میں نہایت محنت اور کوشش سے کام لیا ہے اس معاملہ میں سخت بے احتیاطی برتی ہے اور غیر معروف روایات کے رعب میں آگئے ہیں حالانکہ وہ قرآن کریم کے صریح خلاف ہیں.ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) شیطان آسمان کی باتوں کو سن لیتے تھے (۲) ان خبروں میں سے غیب بھی ہوتا تھا (۳) ابلیس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر ان مہب کی مار پیٹ سے ہوئی تھی پہلے نہ تھی.ان تفاسیر کے یہ تین بنیادی اصول ہیں.ان تینوں

Page 300

293 باتوں کو نکال دیا جائے تو روایات میں کچھ رہتا ہی نہیں.لیکن یہ تینوں باتیں کیسی غلط ہیں ( ایضاً صفحہ ۳۹) آگے حضور نے قرآن کریم کی ان آیات کو بیان فرمایا ہے جو روایات کی ان تینوں باتوں کی تردید کرتی ہیں مثلاً یہ کہ ان کے پاس ایسی کوئی سیڑھی نہیں جس کے ذریعہ یہ آسمان پر جا کر خدا کی باتیں سن سکیں.(الطور ۳۹:۵۲) خدا تعالیٰ نے شیطانوں کو آسمان کی باتیں سننے سے محروم کیا ہوا ہے.غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے.(الشعراء ۲۱۱:۲۶ ۲۱۳) (یونس ۲۱:۱۰) ہاں یہ دور بیٹھے صرف رجماً بالغیب یعنی ڈھکو سلے ہی مار سکتے ہیں.(سبا ۵۴:۳۴) خدا اپنے منصفی غیب کو صرف رسولوں پر ظاہر کرتا ہے( سورۃ الجن ) پس قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے بھی اپنے اس کلام کی حفاظت فرما تا رہا ہے جو وہ انبیاء پر بھیجتا رہا ہے تا اس میں کوئی دخل نہ دے سکے اور کلام کے ساتھ یہ حفاظت اس وقت تک لگی رہتی ہے جب تک نبی اسے بندوں تک نہیں پہنچا دیتا.البتہ جب نبی اللہ کا کلام بندوں تک پہنچا دیتا ہے تو پھر شیطان اس کلام کو اچلنے کا کام شروع کرتا ہے اور ظاہر ہے یہ کلام شیاطین الانس ہی کرتے ہیں اور ان کوششوں کو ناکام بنانے والے بھی اللہ کے نیک بندے ہی ہوتے ہیں.شیطانوں کا وحی میں سے کچھ اچکنے کا مطلب : فرماتے ہیں: حضرت مصلح موعودؓ تفسیر ابن کثیر میں مندرج ابن ابی حاتم کی ایک روایت نقل کر کے بن ابی حاتم کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی جبریل کی حفاظت میں اس مقام تک پہنچا دی جاتی ہے جو وحی کے لئے مقرر ہے یعنی

Page 301

294 رسول تک.پس دوسری روایات جو بتاتی ہیں کہ جن اسے اچک لیتے ہیں ان کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ مور دوحی کے پاس جب وحی پہنچ جاتی ہے اور جب وہ اس کا اعلان کر دیتا ہے اُس کے بعد شیطان اُسے اچکتے ہیں اور کئی جھوٹ ملا کر انہیں اپنے اشباع میں پھیلا دیتے ہیں“ شہاب ثاقب کا نجومیوں اور کاہنوں سے کوئی تعلق نہیں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: (ایضاً صفحه ۲۴) اگر یہ معنے درست ہوں تو چاہئے کہ جب کوئی نجومی حساب لگائے اور زائچہ تجویز کرے اُسی وقت مہب آسمان سے گرنے لگیں.مگر یہ نہیں ہوتا.پس واقعات ان معنوں کو رد کر رہے ہیں.رات دن ہزاروں نجومی کا ہن.رمال.جفار.جوتشی.پنڈت.اسٹرانومر اسٹرالوجر ان کاموں میں مشغول ہیں اور غیب کی خبریں معلوم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.اگر ان لوگوں کا تعلق شیطانوں سے ہے اور شیطان آسمان سے اُچک کر انہیں خبریں بتاتے ہیں تو رات اور دن شہب کی بارش ہوتی رہنی چاہئے جو جو شخص ستاروں کا تھوڑا سا علم بھی جانتا ہو وہ بتا سکتا ہے کہ یہ خلاف عقل بات ہے.علم نجوم ورمل وغیرہ گولغو اور فضول ہیں مگر حسابی اصول پر قائم ہیں.جنات کا اس معاملہ میں (ایضاً صفحه ۴۴) کوئی بھی دخل نہیں“ الہامی زبان میں مذہبی نظام کو نظام شمسی سے مشابہت دی جاتی ہے حضرت مصلح موعودؓ قرآن کریم سے یوسف علیہ السلام کی خواب جس میں چاند ستاروں کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے سے استدلال کرتے ہیں کہ : اس خواب اور اس کی تعبیر سے جو خود قرآن کریم نے بیان فرمائی

Page 302

295 ہے ظاہر ہے کہ الہامی زبان میں خاندانی یا مذہبی نظام کو نظام شمسی سے مشابہت دی جاتی ہے اور مرے نزدیک آیت زیر بحث ( الحجر اے ) میں بھی یہی معنے مراد (ایضاً صفحه ۱۳) ہیں.اگر ان آیات میں بجائے ظاہری نظام کے روحانی مذہبی نظام مرا دلیا جائے اور اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ جب تک خدا کا پیغام نبی کے ذریعہ بندوں تک نہ پہنچ جائے وہ فرشتوں کی حفاظت میں ہوتا ہے اور بعد میں شیاطین الانس اُسے اُچکنے کا کام کرتے ہیں تو ان کی کوششوں کو نا کام بنانے والے بھی خدا کے نیک بندے مرسل.مامور مصلح اور علماء ربانی ہوتے ہیں.حضور فرماتے ہیں: اس آیت میں کلام چرا لینے (استراق السمع.ناقل ) سے مراد یہ ہے کہ جس طرح چور ناحق دوسرے کے مال کو لیتا ہے اسی طرح وہ کلام الہی کو ناحق لیتے ہیں.یعنی اس کے معنوں کو سمجھ کر ایمان نہیں لاتے تا اس کا ناجائز استعمال کریں اور اس کے غلط معنے کر کے لوگوں کو گمراہ کریں“ آیات مذکورہ کا خلاصہ (ایضاً صفحه ۲۳) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خلاصہ یہ کہ ان آیات میں کلام الہی کی حفاظت کا ذکر ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نبی پر کلام نازل ہونے تک کوئی اُسے معلوم نہیں کرسکتا.جب وہ نازل ہو جاتا ہے تو پھر شیاطین الانس والجن اسے مختلف ذرائع سے اچک کر اُس میں جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور نبی کے خلاف انہیں اُکساتے ہیں..کوئی صحیح حوالہ لیا اس کے غلط معنے کئے یا ایک ٹکڑالیا اور سیاق وسباق سے الگ کر کے اس کے مضمون سے لوگوں کو جوش دلایا.یہ نبیوں کے

Page 303

296 دشمنوں کا روز مرہ کا مشغلہ ہے اور یہی وہ اچکنا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی مشیت نے جائز رکھا ہے اور اس سے نبی کے مشن کی حفاظت نہیں کی...غرض جہاں کلام الہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حفاظت حاصل ہے کہ اس میں کوئی ظاہری یا باطنی دشمن تبدیلی نہیں کر سکتا.وہاں اللہ تعالیٰ نے شیطانی لوگوں کو اپنی مضلحت سے اس امر کی اجازت دے رکھی ہے کہ اس کلام کے غلط معنے لوگوں میں پھیلائیں یا نبی کی وحی کے متعلق جھوٹ بول بول کر لوگوں کو جوش دلائیں.لیکن جب وہ ایسا کر چکتے ہیں تو پھر ان پر آسمان سے شہاب گرتا ہے اور نبی کے ذریعہ سے ان کے فریب کا پردہ چاک کر دیا جاتا ہے.یہ وہ استثناء ہے کہ اس سے نہ خدا تعالیٰ کی طاقت پر حرف آتا ہے نہ دین مخدوش ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی شرارت کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی مستغنی کر دیا ہوا ہے.نیز اس قسم کی شرارت سے دین میں کچھ حرج نہیں آتا وہ اپنی جگہ محفوظ رہتا ہے.یہ جھوٹی باتیں صرف دشمنوں میں پھیلائی جاتی ہیں اور دشمن کی چند روز و خوشی کا موجب ہوتی ہیں...ایک بات اور بھی یادر کھنے کے قابل ہے اور وہ نجمین اور نام نہاد روحانیین کے بارہ میں ہے انبیاء کا وجود ان کے خیالات کا قلع قمع بھی کرتارہتا ہے.پس ضمنی طور پر ان کے متعلق بھی یہ آیت چسپاں ہوسکتی ہے...اسلام وہم اور شرک سے روکتا ہے پس جہاں تک ان علوم کا تعلق تخمین اور وہم سے ہے وہ نا جائز ہیں اور جب ان کو مذہب کی طرح سمجھا جاتا ہے وہ مشرک بن جاتے ہیں.ستاروں کی حرکات میں تاثیرات یقینا ہیں لیکن وہ قانون قدرت کا ایک جزو ہیں.ہزاروں امور ایک وقت میں تا خیر ڈال رہے ہوتے ہیں.اپنی ذات میں کامل تاثیر جو دوسرے کی محتاج نہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ہے پس ستارے کیا

Page 304

297 کسی اور مادی سبب کے متعلق بھی اگر کوئی شخص خیال کرے کہ وہ قطعی اور یقینی تاثیر رکھتا ہے تو وہ مشرک ہے..نجومیوں وغیرہ کے لحاظ سے اس رجم شیاطین کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جس زمانہ میں نبی نہیں ہوتے یہ لوگ خوب دعوی کرتے رہتے ہیں لیکن جب نبی ظاہر ہوتے ہیں تو ان کو خوب مار پڑتی ہے یعنی فریب کھل جاتا ہے اور لوگ مصفی غیب اور تک بندی میں فرق معلوم کر لیتے ہیں.66 پھر فرماتے ہیں: ( ایضاً صفحه : ۴۴-۴۵) یہ امر واقعات اور احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کے ظہور کی علامت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے شہب کا گرنا سنت کے طور پر مقرر کر رکھا ہے.اسکی ظاہری وجہ تو جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں یہ ہے کہ تا اس آسمانی نشان کو دیکھ کر لوگ اس وسوسہ سے نجات پائیں کہ شاید اسکے معجزات کسی انسانی تدبیر کا نتیجہ ہوتے ہوں مگر کوئی تعجب نہیں کہ اسکے علاوہ بھی کوئی مخفی وجہ نبی کے زمانہ میں شہب گرنے کی ہو اور اُس میں کوئی روحانی تاثیرات بھی ہوں جو گوانسانی نگاہ سے مخفی ہوں لیکن ان شیطانی تدابیر کا ازالہ کرنے میں ممد ہوتی ہوں جو انبیاء کے دشمن کرتے رہتے ہیں.“ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی تشریح لمسیح (ایضاً صفحہ:۳۷) خاکسار نے ایک بار حضرت خلیفہ اسیح الرابع سے سوال کیا کہ شیاطین تو روحانی وجود ہوتے ہیں وہ اگر گھات میں بیٹھ کر خدائی وحی کو چوری چھپے سننے کی کوشش کریں تو ان کو دور کرنے کے لئے ان پر آگ اور پتھروں کی بارش کیسے مؤثر ہوسکتی ہے؟

Page 305

298 حضور نے جواب میں ارشاد فرمایا: ( مفہوم ) آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ان آیات میں مذکور شیاطین روحانی وجود ہی ہیں.شیاطین الانس بھی تو ہوتے ہیں اور اگر وہ مراد لئے جائیں تو وحی الہی کی حفاظت کو تمثیلاً بیان کیا گیا ہے.نبیوں کے مخالفین نبی کے پاس آکر اپنے شکوک دور کرنے کی بجائے پیچھے اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ کر ان کی وحی پر اعتراض کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو ان کے مقابلہ کیلئے خدا ایسے روحانی وجود یعنی عارف باللہ افراد کھڑے کر دیتا ہے جو خدا دادنور سے ان شیطانوں کی پھیلائی ہوئی تاریکیوں کو پاش پاش کر دیتے ہیں.66 حضور نے وحی الہی کی حفاظت کے اسی طریق کا ذکر قرآن کریم (اردو ترجمہ ) کے سورۃ الحجر کے تعارف میں یوں بیان فرمایا ہے: اسکے علاوہ اللہ تعالیٰ بڑی تحدی سے یہ اعلان فرما تا ہے کہ دشمن خواہ کچھ بھی کہے یقیناً ہم نے ہی اس کتاب کو نازل فرمایا ہے اور آئندہ بھی اسکی حفاظت کرتے چلے جائیں گے اسکے بعد کی آیات میں بروج کا ذکر فرمایا گیا ہے جو سورۃ البروج کی یاد دلاتا ہے اور ہم ہی اس کلام کی حفاظت کریں گئے“ کے مضمون پر سے پردہ اٹھاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی غلامی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ مامور ہوتے رہیں گے جو قرآن کریم کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت مستعد رہیں گے.یہاں بروج میں اسطرف بھی اشارہ ہے کہ جو مجددین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ برجوں کے طور پر آتے رہے وہ بھی اسی کام پر مامور تھے“ ( قرآن کریم اردو تر جمه تعارف مضامین سورۃ الحجر صفحه ۴۲۳) المسیح حضرت خلیفۃ ایح الرابع رحمہ اللہ نے شہاب ثاقب کے نظارہ کوایک عارف باللہ

Page 306

299 سائنس دان کی نظر سے بھی دیکھا ہے چنانچہ قرآن کریم اردو تر جمہ میں سورۃ الصافات کی آیات ۶ تا ۱۱ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ان آیات میں کائنات کے ظاہری نظام کا بھی ذکر ہے کہ کس طرح زمین کی فضا زمین پر ہمیشہ برسنے والے Meteors کو فضا ہی میں جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور اسکے جلنے سے پیچھے ایک شعلہ دور تک لپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے.اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا کہ ایک زمانے میں انسان کائنات کی خبریں لینے کی کوشش کرے گا جسکا کوئی واہمہ بھی اُس زمانہ میں نہیں ہوسکتا تھا لیکن راکٹوں میں سفر کرنے والے ان انسانوں پر ہر طرف سے پتھراؤ کیا جائیگا اور یہ سماء الدنیا سے آگے نہیں بڑھ سکتے.صرف نزدیک کے آسمان تک پہنچنے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں.“ (ایضاً صفحه ۷۸۵) یہی پیشگوئی سورہ رحمن میں بھی ہے کہ جن وانس اقطار السموات والارض سے آگے نکلنے کی جب کوشش کریں گے تو وہ ایسا نہیں کر سکیں گے اور ان پر شعلے گرائے جائیں گے.حضور نے اپنے ترجمہ قرآن میں وحی کا پیچھا کرنے والوں کو شیاطین الانس ہی قرار دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں: روحانی طور پر اس سے مراد بد نیتی سے وحی کا نیغ کرنے والے اور اندازہ لگانے والے انسانی شیاطین ہیں.شیطان تو نزول وحی کے قریب تک نہیں پہنچ سکتا لیکن انسانی شیطان جیسے سامری تھا کچھ اندازہ لگا سکا کہ وحی کی وجہ سے لوگوں پر کیوں رعب پڑتا ہے.“ ( قرآن کریم اردو تر جمه صفحه ۷۸۵ ) حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کے بیان کرد و مطالب حضرت خلیفتہ امیج اول نے فرمایا ہے کہ شہب ثاقبہ کے نظاروں کو ہر شخص اپنے ذوق اور معرفت کے مطابق دیکھتا ہے.ہر ایک کا اپنا اپنا زاویہ نگاہ ہے اور یہ بھی کہ کسی گہرائی میں ڈوب کر اُسے

Page 307

300 دیکھتا ہے.آپ اپنی تصنیف ”نورالدین میں ان آیات کی تشریح کی تمہید کے طور پر فرماتے ہیں: مناظر قدرت کو دیکھنے والے مختلف الاستعدا دلوگ ہوا کرتے ہیں مثلاً دوسرے کی آنکھ کو ایک بچہ بھی دیکھتا ہے جو مصنوعی اور اصلی آنکھ میں تمیز نہیں کر سکتا.پھر ایک عقلمند بھی دیکھتا ہے گو وہ اصلی اور مصنوعی میں فرق کر لیتا ہے مگر آنکھ کے امراض سے واقف نہیں ہوسکتا اور نہ اسکی خوبیوں اور نقصانوں سے آگاہ ہوتا ہے.پھر شاعر دیکھتا ہے جو اسکے حسن و قبح پر سینکڑوں شعرلکھ مارتا ہے پھر طبیب ڈاکٹر دیکھتا ہے جو اُسکی بناوٹ اور امراض پر صد ہا ورق لکھ دیتا ہے.پھر موجدین لکھتے ہیں جیسے فوٹو گرافی کے موجد نے دیکھا اور دیکھ کر فوٹو گرافی جیسی مفید ایجادیں کیں.پھر اُسکے اور بھائی دیکھتے ہیں جنہوں نے عجیب در عجیب ٹیلی سکوپ ایجاد کئے.پھر اُن سے بالا تر صوفی دیکھتا ہے اور اُس سے بھی اوپر انبیاء ورسل دیکھتے ہیں اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر اللہ کریم دیکھتا ہے غرض اسی طرح پر ہزاروں ہزار نظارہ ہائے قدرت ہیں اور ان کے دیکھنے والے 66 الگ الگ نتیجے نکالتے ہیں.“ (نورالدین بحوالہ درس القرآن فرمودہ حضرت مولا نا مولوی حکیم نورالدین خلیفه مسیح اول مطبوعہ کتاب گھر قادیان اکتوبر ۱۹۳۳ ء صفحه ۶۰۷ - ۲۰۸) حضرت خلیفہ المسیح الاول کی تشریح وو سماء الدنیا سے مراد دنیا کا آسمان ہے وہ آسمان جو نزدیک ہے.حفظاً : ایک کام تو ستاروں کا زنیت ہے.دوسرا حفاظت یعنی مخلوقات کی جو زمین میں ہے اپنی تاثیر سے اُسکے زہریلے موادوں کو دور کرتے ہیں.شیطان مَّارِدٍ : یہ ایک مخلوق ہے جو نا پاک اور مخلوق سے دور رہتی ہے.عرب اُسے کا ہن کہتے ہیں.شانہ بین بھی انہی میں داخل ہیں.وہ انبیاء کی اتباع نہیں کرتے اور غیب کی باتوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں.لا يَسمَّعُوْنَ إِلَى

Page 308

301 الْمَلَاءِ الْاعْلیٰ: ( ان کا ہنوں کی ناقل) جبرئیل اور اُسکے قرب والے ملائکہ تک رسائی نہیں مگر وہ زمین کے ملائکہ یا ادھر ادھر سے کچھ اڑا لیتے ہیں کچھ جھوٹ ملا دیتے ہیں.شــــــاب ـــاقــب : چمکتا ہو شعلہ پڑتا ہے اور وہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں رَجُوْمـاً لنشيطين : منجمین اور کا ہن بھی انہیں میں سے ہیں کہ جو رَجْـمـا بِالْغَيْبَ ( تیر نگہ.ناقل ) کرتے ہیں آئندہ کی باتیں بیان کرتے ہیں اور ستاروں کو دیکھ کریگہ بازیاں کرتے ہیں.یہ ستارے ان کے واسطے تنگہ بازی کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں.“ ( ایضاً صفحه ۶ ۴۷ پاره ۲۳ رکوع ۵) حضرت خلیفہ المسح اول کی اس تشریح کے مطابق نجومی کا ہن جولوگوں کو اپنے جھوٹے غیب دانی کے رعب سے نبیوں کے ماننے سے دور رکھتے ہیں وہ ستاروں کے ذریعہ تخمینے لگاتے ہیں لیکن جب زمانہ میں کوئی نبی.مامور یا مصلح موجود ہو اور وہ خدا سے علم پاکر ان کے مقابلہ میں پیشگوئی کرتا ہے تو وہ ان پر چمکتے ہوئے شعلہ کی طرح گرتی ہے اور ان کو جھوٹا ثابت کر دیتی ہے وہ حسد سے جل بھن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو ایسے شیطانوں سے محفوظ کیا ہوا ہے یعنی منجموں اور کاہنوں کو ان ستاروں سے غیب کا کوئی سچاعلم حاصل نہیں ہوسکتا وہ صرف تیر تکے ہی مار سکتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح اول کی دوسری تشریح آپ فرماتے ہیں کہ: د تمام عقلاء میں یہ امر مسلم ہے کہ اس زمین کا کوئی واقعہ ہدوں کسی سبب کے ظہور پذیر نہیں ہوتا بلکہ صوفیائے کرام اور حکماء عظام اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی امر حقیقت میں اتفاقی نہیں ہوا کرتا.تمام امور علل اور حکم سے وابستہ ہیں.“ (ایضاً صفحہ ۶۱۱)

Page 309

302 وو اور پھر فرماتے ہیں: اور شہابوں کے بارے میں لکھا ہے کہ دیکھو ایوب ۳۸ باب ۳۶ آیت میں ہے یا کس نے شہابیوں کو فہمید عطا کی اس سے اتنا پتہ لگتا ہے کہ شہابیوں کو بھی فہمید ( سمجھ.ناقل ) ہے.پر آگے بیان نہیں کیا گیا کہ کیا فہمید ہے اور اس فہمید سے کیا کام لیتے ہیں.اور زبور میں ہے.وہ اپنے فرشتوں کو روحیں بناتا ہے اور اپنے خدمت گذاروں کو آگ کا شعلہ اب تک ہم نے یہ باتیں بیان کی ہیں کہ Meteors.ایکا پات.شہاب ثاقب اور شعلہ ہائے تار آسمان سے گرتے نظر آتے ہیں اور کتب یہود اور مسیحیوں نے بھی نہیں بتایا کہ کیوں گرتے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ فعل الہی ہے اسلئے لغو بھی نہیں بلکہ ضرور ہے کہ عادت اللہ کے مطابق اس میں بڑی حکمتیں ہوں، (ایضاً صفحه : ۶۱۰) ہر امر کیلئے جہاں طبیعی واسلے ہوتے ہیں وہیں روحانی واسطے بھی ہوتے ہیں: حضرت خلیفہ اسیح اول فرماتے ہیں: اب جبکہ تم ان ( مادی وطبیعی.ناقل ) وسائط کے قائل ہو اور اضطرارا قائل ہونا پڑتا ہے تو روحانی امور میں کیوں وسائط کے منکر ہو.خدا تعالیٰ کے ہستی کو مان کر بھی تم ملک اور شیاطین کے وجود پر کیوں ہنسی کرتے ہو.افسوس اسکا معقول جواب آج تک کسی نے نہیں دیا.ناظرین جسطرح بچے وسائط مشاہدات میں الہی ذات وراء الواراء ہے اور یہ ضرور ہے اسی طرح الہی ذات روحانیات میں بھی وراء الوراء ہے.“ (ایضاً صفحه : ۶۱۴) یعنی جس طرح علت و معلوم Cause and Effects) کا سلسلہ ہرامر میں طبعی طور پر قوانین قدرت کے تحت موجود ہوتا ہے ایسے ہی اس امر کے لئے ایک روحانی واسطہ یا باعث بھی

Page 310

303 وہیں موجود ہوتا اور کام کر رہا ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام اور ان کی ارواح کے لئے بطور جان کے ہیں.شیطان بھی ہلاکت ،ظلمت اور جناب الہی سے دوری اور دکھوں کے 66 پیدا کرنے کے لئے بمنزلہ اسٹیم (Steam) کے اسٹیم انجن کے لئے ہیں.“ (ایضاً صفحه : ۵۱۶) یعنی زمین و آسمان کی ہر شے میں جو بھی صفات اور قوتیں ودیعت کی گئی ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہے اُسکو چلانے کے لئے جو انجن یا Motive Power ہے وہ دراصل ملائکہ ہیں.لیکن جس طرح گاڑیوں کو زمین پر چلنے کیلئے زمین کی مزاحمت (Friction) درکار ہے.ہوائی جہازوں کو ہوا کی مزاحمت اور کشتی کو تیرنے کے لئے پانی کی مزاحمت کی ضرورت ہوتی ہے.مقناطیس کے ایک پول کو قائم رکھنے کے لئے بالمقابل کے پول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح شیطانوں کا کام بھی فرشتوں کو آگے بڑھنے کے خلاف مزاحمت مہیا کرنا ہے.اسلئے جہاں فرشتے ہوتے ہیں وہاں ساتھ ہی شیاطین الجن بھی ہوتے ہیں.جب کوئی نبی مبعوث ہونے والا ہوتا ہے تو جہاں فرشتوں میں اسکی مدد کیلئے حرکت پیدا ہوتی ہے.وہیں جنات بھی لنگر لنگوٹے کس کر میدان میں آجاتے ہیں.نیکی اور بدی کی تحریک کر نیوالی دونوں قو تیں فعال ہو جاتی ہیں جیسے جب آسمان سے بارش آتی ہے تو تمام اچھے برے نباتات پر ایک نئی رونق آجاتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح اول فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ صلح کے تولد.ظہور اور اسکی فتح مندی پر حزب الرحمن اور حزب الشیطان کی جنگ پہلے اوپر ہوتی ہے پھر زمین پر.(ایضا صفحہ ۶۷) فرشتے تمام ستاروں اور اشیاء وغیرہ پر اپنا روحانی اثر ڈالتے ہیں.شہب پر بھی اثر ڈالتے ہیں اور پھر یہ اثر ان سے متعلقہ دیگر اشیاء پر پڑتا ہے.پس فرشتے جو شہب کو اپنے اثر سے چلاتے ہیں ان کا اثر مزاحمت پیدا کرنے والے شیاطین الجن پر کیوں نہیں پڑتا ہوگا آپ فرماتے ہیں:.آیت إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمّا عَلَيْهَا حَافِظ (الطارق) کے نیچے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے مفصل لکھا ہے کہ فرشتے بروج پر اثر ڈالتے

Page 311

304 ہیں اور ان سے ایک اثر ہوا اور دیگر اشیاء پر پڑتا ہے اور ملائکہ کا اثر شہب میں بھی نفوذ کرتا ہے.۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء میں ۲۷ اور ۲۸ نومبر کی درمیانی رات میں غیر معمولی کثرت سے شہب گرے اور اس وقت ہمارے امام علیہ السلام کو اس نظارہ پر یہ وحی بکثرت ہوئی دیکھو صفحہ 238 برامين يا اَحَـمَـدُ بارَكَ اللـه فِيْكَ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رَمَى اور اسی کے بعد دمدار د والسنین نظر آیا.اور ۱۸۷۲ء کی رمی مہب غیر معمولی تھی.الحمد لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ پس یہ اور کل کو اکب زینت سماء الدنیا ہیں اور روحانی عجائبات کی علامات ہیں اور نیز ان سے راہ نمائی حاصل ہوتی ہے.یہی تین فائدے بخاری صاحب نے اپنی صحیح میں بیان فرمائے ہیں.“ (ایضاً صفحه : ۶۱۷) مادی اشیاء کا روحانی تاثیرات کی قرآن وحدیث سے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں مثلاً غذا کا جہاں مادی اثر (Physical Effects) ہوتا ہے وہیں روحانی اثر Spiritual) (Effect بھی ہوتا ہے.(دیکھیں اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۶ ).سور کے گوشت کا روح پر پلید اثر ( ایضاً صفحہ ۲۹).رات کے اندھیرے کا نیند اور آرام سے تعلق جو سائنس سے ثابت ہے اور اسکا روحانی اثر نفس کو کچلنے اور استغفار کرنے پر (الذاریات ۲۰:۵۱.مزمل ۷۳ :۷ ) وغیرہ.پس اسی طرح رمی شہب سے کہ شیطان سوزی کوئی قابل تعجب امر نہیں.خدا نے جو ایسا فرمایا ہے تو لفظاً لفظاً (Litterally) ایسا ہونا عین ممکن ہے.خواہ سمجھ نہ بھی آئے.البتہ اشیاء کی طبعی وروحانی صفات واثر ذاتی نہیں بلکہ خدا کے حکم سے ان کو قائم رکھنے والے فرشتے ہیں اسلئے تمام طاقت وقوت خدا ہی کی ہے.یعنی لاحول ولاقوة الا بالله.ستاروں کے گرنے اور رحم شیاطین سے تعلق کی وضاحت از حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس تساقط شہب کو جسکے اسباب بتمامہا

Page 312

305 بظاہر مادی معلوم ہوتے ہیں رجم شیاطین سے کیا تعلق ہے اور کیونکر معلوم ہو کہ در حقیقت اس حادثہ سے شیاطین آسمان سے رفع اور دور کئے جاتے ہیں.“ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے اعتراض در حقیقت اُس وقت پیدا ہوتے ہیں کہ جب روحانی سلسلہ کی یادداشت سے خیال ذہول کر جاتا ہے یا اس سلسلہ کے وجود پر یقین نہیں ہوتا ورنہ جس شخص کی دونوں سلسلوں پر نظر ہے وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اجرام علوی اور اجسام سفلی اور تمام کا ئنات الجو میں جو کچھ تغیر اور تحول اور کوئی امر مستحدث ظہور میں آتا ہے اُسکے حدوث کی درحقیقت دو علتیں یا موجب ہیں: اول: پہلے تو یہی سلسلہ ململ نظام جسمانی جس سے ظاہری فلسفی اور طبعی بحث اور سروکار رکھتا ہے اور جسکی نسبت ظاہر بین حکماء کی نظر یہ خیال رکھتی ہے کہ وہ جسمانی علل اور معلولات اور موثرات اور متاثرات سے منضبط اور ترتیب یافتہ ہے.دوم: دوسرے وہ سلسلہ جوان ظاہر بین حکماء کی نظر قاصر سے مخفی ہے اور وہ خدا کے ملائک کا سلسلہ ہے جو اندرہی اندر اس ظاہری سلسلہ کو مدد دیتا ہے اور اس ظاہری کاروبار دکو انجام تک پہنچا دیتا ہے اور بالغ نظر لوگ بخوبی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بغیر تائید اس سلسلہ کے جو روحانی ہے ظاہری سلسلہ کا کام ہرگز چل ہی نہیں سکتا...بہر حال یہ ثابت ہے کہ قادر مطلق نے دنیا کے حوادث کو صرف اسی ظاہری سلسلہ تک محصور اور محدود نہیں کیا بلکہ ایک باطنی سلسلہ ساتھ ساتھ جاری ہے.اگر آفتاب ہے یا ماہتاب یاز مین یاوہ بخارات جن سے پانی برستا ہے یاوہ آندھیاں جو زور سے آتی ہیں یا وہ اولے جو زمین پر گرتے ہیں یا وہ شہب ثاقبہ جوٹوٹتے ہیں اگر چہ یہ تمام چیزیں اپنے کاموں اور تمام تغیرات اور تحولات

Page 313

306 اور حد وثات میں ظاہری اسباب بھی رکھتی ہیں جن کے بیان میں ہیئت اور طبعی کے دفتر بھرے پڑے ہیں لیکن بایں ہمہ عارف لوگ جانتے ہیں کہ ان اسباب کے نیچے اور اسباب بھی ہیں جو مد بر بالا رادہ ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں نام ملائک ہے وہ جس چیز سے تعلق رکھتے ہیں اُسکے تمام کاروبار کو انجام تک پہنچاتے ہیں اور اپنے کاموں میں اکثر ان روحانی اغراض کو مد نظر رکھتے ہیں جو مولیٰ کریم نے اُنکو سپرد کی ہیں اور ان کے کام بیہودہ نہیں بلکہ ہر ایک کام میں بڑے بڑے مقاصد ان کو مد نظر رہتے ہیں...ٹھہب ثاقبہ کے تساقط کا ظاہری نظام جن علل اور اسباب پر مبنی ہے وہ علل اور اسباب روحانی نظام کے کچھ مزاحم اور سد راہ نہیں.اور روحانی نظام یہ ہے کہ ہر یک شہاب جو ٹوٹتا ہے دراصل اسپر ایک فرشتہ موکل ہوتا ہے جو اسکو جس طرف چاہتا ہے حرکت دیتا ہے چنانچہ شہب کی طرز حرکات ہی اسپر شاہد ہے اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ فرشتہ کا کام عبث نہیں ہوسکتا اسکی تہ میں ضرور کوئی نہ کوئی غرض ہوگی جو مصالح دین اور دنیا کیلئے مفید ہو.سو بتوسط ملائک یعنی جبرائیل علیہ السلام آخر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی ظاہر ہوا کہ ملائک کے اس فعل رمی شہب سے علت نمائی رحم شیاطین ہے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵- حاشیه صفحه ۱۲۲-۱۲۶ حاشیه ) پس ہر واقعہ جو کائنات میں وقوع پذیر ہوتا ہے اسکی دو وجوہات (Causes) ہوتی ہیں ایک تو جسمانی اور طبعی (Physical Cause Under Law of Nature) اور دوسری روحانی (Sprititul Laws of Cause and Effects) اسلئے ہر واقعہ کا جہاں ایک طبعی اثر ہوتا ہے وہیں ایک روحانی اثر بھی ہوتا ہے.یہ دونوں سلسلے متوازی چلتے ہیں اور ایک دوسرے پر اثر پذیر بھی ہوتے ہیں.اسلئے ستاروں کے گرنے کی جو بھی طبعی اور سائنسی وجہ اور اثر ہو سکی روحانی وجہ بھی ہوتی ہے.

Page 314

307 اور اسکی آخری غرض شیطانوں کو رجم کرنا ہے جو کہ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف فرمائی.اب دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ستاروں کے ٹوٹنے سے شیاطین کیونکر بھاگ جاتے ہیں؟ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’ اور یہ بھید کہ شہب کے ٹوٹنے سے کیونکر شیاطین بھاگ جاتے ہیں اسکا سر روحانی سلسلہ پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین اور ملائک کی عداوت ذاتی ہے.پس ملائک ان شہب کے چھوڑنے کے وقت جن پر وہ ستاروں کی حرارت کا بھی اثر ڈالتے ہیں اپنی ایک نورانی طاقت جو میں پھیلاتے ہیں اور ہر ایک شہاب جوحرکت کرتا ہے اپنے ساتھ ایک ملکی نور رکھتا ہے کیونکہ فرشتوں کے ہاتھ سے برکت پاکر آتا ہے اور شیطان سوزی کا اس میں مادہ ہوتا ہے.پس یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ جنات تو آگ سے مخلوق ہیں وہ آگ سے کیا ضر ر اُٹھائیں گے کیونکہ در حقیقت جسقد ررمی شہب سے جنات کو ضرر پہنچتا ہے اسکا یہ ظاہری موجب آگ نہیں بلکہ وہ روشنی موجب ہے جو فرشتہ کے نور سے شہب کے ساتھ شامل ہوتی ہے جو بالخاصیت محرق شیاطین ہے.“ (ایضاً حاشیہ صفحہ ۱۲۶.۱۲۷) جس طرح تمام آسمان فرشتوں سے بھرا پڑا ہے وہیں ان کے ساتھ شیاطین بھی موجود ہوتے ہیں اور ان کی باہم مخالفت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آسمان پر ایک قدم بھی ایسی جگہ خالی نہیں جس میں کوئی فرشتہ ساجد یا قائم نہ ہو.“ ( ایضاً حاشیه صفحه : ۸۹) جب شیطان وحی لانے والے فرشتوں کے کام میں مداخلت کرتے ہیں تو شہب کو چلانے والے فرشتے اپنے نور سے جو شہب کے ساتھ شامل ہوتا ہے ایسے شیاطین کو جلاتے ہیں.شیاطین کو سزا ظاہری پتھروں اور آگ سے نہیں بلکہ ملائک کے اس نور کے ذریعہ ملتی ہے جو ان کے ساتھ شامل ہوتی

Page 315

308 ہے اور جسکی خاصیت یہ ہے کہ وہ شیطانوں کو جلاتی ہے.الغرض جیسا حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر شخص کی آنکھ شہاب ثاقب کو اپنے اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق دیکھتی ہے.

Page 316

309 صحائف قمران کی مرکزی شخصیت نیک استاد کو پہچانئے ” فلسطین اور شرق اردن کی سرحد پر واقع وادی قمران کے کھنڈرات سے ۳۹۱ے ، اور ا۱۵۹ء کے دوران جو صحائف دریافت ہوئے تھے جنہیں Dead Sea Scrolls یا صحائف قمران کہا جاتا ہے ) ان کی مرکزی شخصیت کوئی ایسے بزرگ تھے جن کا نام کا ذکر عمد اچھپایا گیا ہے.اور انہیں ہر جگہ نیک استاد یا نیکی کا استاد کہہ کر پکارا گیا ہے.ایسا غالبا ان کی حفاظت کے پیش نظر کیا گیا تھا کیونکہ بوقت تحریر وہ زندہ ہوں گے.وہ بزرگ کون تھے ؟ ہر ایک محقق نے اپنے اپنے خیال اور عقیدہ کے مطابق اندازے لگائے ہیں.ایک خیال یہ ہے کہ وہ عیسی بن مریم" (Jusus) تھے.دوسرا خیال یہ ہے کہ ”نیک استاد کے پردہ میں یوحنا بپتسمہ دینے والے تھے.تیسرا خیال یہ ہے کہ وہ عیسی کے بھائی جیمز تھے.صحائف قمران میں جو کچھ نیک استاد کے بارہ میں بیان کیا گیا یا جو تعلیم انہوں نے اپنے پیروکاروں کو دی یا اپنی نظموں میں خدا کا شکر بجالاتے ہوئے جو کچھ خود اپنے بارہ میں کہا ان پر مبنی کچھ حوالوں کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے تاوہ انصاف سے خود ہی فیصلہ کرسکیں، نیکی کے استاد کی شناخت کچھ مشکل نہیں بشرطیکہ مذہبی تعصب کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے.

Page 317

310 ان حوالہ جات میں سوائے حوالہ (۲) کے باقی سارے حوالے مندرجہ ذیل کتاب سے اخذ کئے گئے ہیں."The Complete Dead Sea Scrolls in English" by Geza Vermes, published by the Penguin Book Ltd, 27 Wrights Lane W8 5TZ London, in 1998." یه کتاب ۶۴۸ بار یک پرنٹ کے صفحات پر مشتمل ہے جس میں تمام دریافت شدہ صحائف کا تعارف اور انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا ہے.مندرجہ ذیل اقتباسات کے مطابق 'نیک استاد (The Righteous Teacher) یا نیکی کا استاد (The Teacher of Righteousness) اسرائیلی قوم سے تعلق رکھتے تھے.ان کا زمانہ عیسائیت کے ابتدائی زمانہ پر منطبق ( Overlap) ہے.وہ بن باپ پیدا ہوئے.ان کی والدہ نے بچپن ہی کی عمر سے انہیں خدمت دین کے لئے وقف کر کے (غالباً تعلیم و تربیت کی غرض سے ) کہیں علیحدہ چھوڑ رکھا تھا.جب وہ جوان ہوئے تو انہوں نے دعوی کیا کہ خدا نے انہیں بنی اسرائیل کی ہدایت اور بائبل کی صحیح تشریح کرنے کے لئے مبعوث کیا ہے.ان کا دعویٰ مسیح ہونے کا تھا.انہوں نے ایک نئے مذہبی فرقہ کی بنیاد رکھی.وہ تشبیہات واستعارات میں کلام فرماتے.نثر کے علاوہ انہوں نے منظوم کلام بھی لکھا جس میں انہوں نے بار بار اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کیا ہے.یہودی علماء ان کی جان کے در پے ہو گئے بالخصوص بڑا پادری جسکا حکومت سے بھی تعلق تھا جسے صحائف میں Wicked Priest کہا گیا ہے.اپنی نظموں میں وہ خدا کا شکر بجالاتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا تو نے مجھے دشمنوں سے اس طرح بچایا جس طرح جال میں پھنسے ہوئے ایک پرندہ کو یا شیروں کے منہ میں آئے ہوئے ایک شکار کو بچایا جائے.پھر وہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ انہیں ایک ایسے دور دراز کے ملک میں پناہ دی جہاں پانی کے چشمے بہتے تھے اور باغات تھے.انہوں نے یہ بھی پیشگوئی کی کہ اپنے ظلموں کی وجہ سے یہود قیامت تک مغضوب رہیں گے اور میرے ماننے والے ہمیشہ ان پر غالب رہیں گے.جن اقتباسات میں مذکورہ بالا باتیں بیان کی گئی ہیں یا جن میں محققین نے صحائف قمران کا

Page 318

311 تعارف و تبصرہ پیش کیا ہے ان کا اردو ترجمہ اور اصل انگریزی عبارت درج ذیل ہے.صحائف قمران کب لکھے گئے؟ پروفیسر گیز اور مز (Gezavermes) کہتے ہیں: (1) "An almost unanimous agreement soon emerged, dating the discovery, on the basis of palaeography and archeaology, to the last centuries of the second Temple, I.e.Second century BCE to first century CE" (Page 3) یعنی ” جلد ہی قدیم تحریروں کے پڑھنے کے علم اور آثار قدیمہ کے علم کی مدد سے تقریباً سب کا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ ان کا زمانہ دوسرے ٹمپل کی آخری صدیوں کا تھا یعنی دوسری صدی قبل مسیح اور پہلی صدی عیسوی کا درمیانہ عرصہ“ صحائف کے لکھنے والے کون تھے: پروفیسر ڈاکٹر ول وارنر (Dr.WILL VARNER) لکھتے ہیں: (2) "The contents of the Dead Sea Scrolls indicate that their authors were a group of priests and laymen pursuing a communal life of strict dedication dedication to God.Their leader was called "The Righteous Teacher" They viewed themselves the true elect of Israel.....They opposed the "Wicked priest" the jewish High Priest in Jerusalem.Who represented the establishment and who had persecuted them in some way."(Dr Will Varner, Professor of Old Testament at "The Master's College,"

Page 319

312 Israel quoted by The Christian Answers Network, Associates For Biblical Research, Israel.") یعنی ڈیڈ سی سکرولز میں بیان کردہ مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے لکھنے والے کچھ پادری یا غیر پادری گروپ تھے جو بڑی سختی سے خدا کے لئے وقف تھے اور علیحدہ جماعتی حیثیت میں رہتے تھے.وہ اپنے امام کو ” نیک استاد کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور اپنے آپ کو حقیقی منتخب اسرائیلی سمجھتے تھے.وہ ” فاسق پادری (Wiked Priest) کے مخالف تھے جو یروشلم کا سب سے بڑا ند ہی رہنما تھا اور حکومت کا نمائندہ تھا اور کئی طور پر ان کو اذیتیں پہنچایا کرتا تھا.“ صحائف قمران اور انجیل کی زبان میں مشابہت پائی جاتی ہے صحائف قمران اور انجیل کی زبان میں بعض مشابہتیں پائی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے لکھنے والے ابتدائی عیسائی تھے.پروفیسر گیزا اور مز لکھتے ہیں: (3)"We note(a)fundamental Similarities of language (both in the Scrolls and in the New Testament the faithful are called Sons of light')(b) ideology (both communities considered themselves as the true Israel, governed by twelve leaders and expected the imminent arrival of the Kingdom of God): (c) attitude to Bible (both considered their own history as a fulfilment of the words of the words of the prorhets" (p:22) یعنی ایک چیز جو نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ (۱) صحائف اور انجیل دونوں کی زبان میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے.(مثلاً دونوں میں مومنوں کو روشنی کے فرزندلکھا گیا (ب) نظریاتی بنیاد مشابہ ہے (صحائف اور انجیل دونوں کی مصنف جماعتیں اپنے آپ کو حقیقی اسرائیلی سمجھتے تھے جن پر بارہ سردار فرمانروائی کرتے تھے.نیز دونوں گروہ یقین رکھتے تھے کہ خدا کی

Page 320

313 حکومت اب آنے والی ہے ) ( ج ) دونوں کا بائبل کے متعلق انداز نظر یکساں تھا ( مثلاً دونوں ہی یہ سمجھتے تھے کہ نبیوں کی پیشگوئیاں ان کے متعلق تھیں.نیک استاد ایک نئی مذہبی جماعت کے بانی تھے جس کو سخت اذیتیں دی گئیں پروفیسر گیز اور مز لکھتے ہیں: (4) "The principal novelty by the manuscripts consists of cryptic allusions to the historical origins of the community, launched by a priest called "The Teacher of Righteousness" who was persecuted by a Jewish ruler, designated as the "Wicked Priest." The Teacher and his followers were compelled to withdraw into desert, where they awaited the impending manifestation fo God's triumph over evil and darkness in the end of days, which had already begun."(P3) یعنی صحائف کی سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ ان میں اشاروں کنایوں میں ایک ایسی مذہبی جماعت کے آغاز کی تاریخ بیان کی گئی ہے جو اس مناد نے قائم کی تھی جس کو نیکی کا استاد کہہ کر پکارا جاتا تھا اور جس کو ایک یہودی حکمران جس کو فاسق یا شریر پادری کہہ کر پکارا گیا ہے مسلسل اذیتیں پہنچاتا رہتا تھا.جس کے نتیجہ میں استاد اور اس کے پیرو کارکسی بیابان علاقے کی طرف ہٹنے پر مجبور کر دئیے گئے تھے.جہاں وہ خدا سے جلد آنے والے غلبہ کی تجلی کا انتظار کرنے لگے جو آخری زمانہ میں برائی اور تاریکی پر غلبہ پائے گی جس کا کہ آغاز ہو چکا تھا.پروفیسر گیز اور مزمزید لکھتے ہیں: (5)"Since Qumran and early Christianity overlap, it is not surprising that from the very beginning of the 'Dead

Page 321

314 Sea Scrolls' research, some scholars endeavoured "to identify the two." (p21)....JL Teicher thought the Teacher was Jesus.For Barbara Theiring Jesus was the 'Wicked Priest; R.H Eisenman rejects both, and prefers James the Just'the brother of the lord, as the Teacher of Righteousness.only the sensation-seeking media have been taken in by their theorie....Admittedly, the various fragments of information gleaned through the Dead Sea Scrolls results in an unavoidably patchy story, but it is fundamentally sound, and the continuing anonymity of the Teacher does not impair it...in my opinion all these theories fail the basic credibility test; they do not spring text." the on, foisted are but from, (Page:71&72)...یعنی "چونکہ قمران اور ابتدائی عیسائیت کا زمانہ ایک دوسرے پر منطبق ہوتا ہے اس لئے یہ بات کوئی موجب حیرت نہیں کہ صحائف قمران کی تحقیق کے آغاز ہی سے کئی سکالرز دونوں کو ایک ہی قرار دینے کی بہت کوشش کرتے رہے ہیں.جے.ایل.ٹینشر (J.L Tiecher) کا خیال تھا کہ استاد دراصل JESUS (عیسی علیہ السلام) تھے.بار براتھیر نگ(Barbara Theiring) کا خیال تھا کہ Wicked Priest عیسی (Jesus) کو کہا گیا ہے اور استاد کا لفظ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے لئے ہے.آر.ایچ آئیز نمین (R.H.Eisenman) ان دونوں اندازوں کو درست نہیں سمجھتا.اس کا خیال تھا کہ نیک استاد سے مراد لارڈ ( یعنی یسوع مسیح ) کے بھائی جیمز منصف (James The Just) تھے.ان سب تھیوریوں کی صرف سنسنی خیز خبروں کے متلاشی میڈیا ہی پذیرائی ملی.ان سب کے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحائف قمران سے معلومات چن کر

Page 322

315 ایک ایسی پیوند شدہ تصویر ضرور ابھرتی ہے جس سے گریز ممکن نہیں اور یہ تصویر بنیادی طور پر حقیقی ہے اور باوجودیکہ استاد کی شناخت کو مسلسل مخفی رکھا گیا ہے اس کا کچھ نہیں بگڑتا....میری رائے میں یہ ساری تھیوریاں اعتبار کے اس بنیادی اصول پر اس لئے پوری نہیں اترتیں کہ یہ صحائف کے مضامین سے از خودا بھرنے کی بجائے اس کے سر پر منڈھی جاتی ہیں.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ پروفیسر صاحب درست فرماتے ہیں.خدا کے ماموروں کی شناخت خدا سے آنے والی روشنی ہی کی مدد سے ہو سکتی ہے.نیکی کے استاد نے اپنے آپ کو کرم خاکی، عاجز ، بن باپ اور خدا کا برگزیدہ کہا نیکی کے استاد نے نثر کے علاوہ منظوم کلام بھی کافی لکھا.ان کی نظموں میں خدا کی محبت اور اس کے احسانات پر شکر گزاری کا بہت دلنشین انداز میں ذکر ملتا ہے.ان نظموں کو متعارف کراتے ہوئے پروفیسر گیز اور مز لکھتے ہیں: (6) "The poems contained in the Scrolls are similar to the biblical psalms.They are mostly hymns of thanksgiving, individual prayers as opposed to those intended for communal worship, expressing a rich variety of spiritual and doctrinal detail.But two fundamental themes running through the whole collection are those of salvation and Knowledge.The sectary thanks God continually for having been saved from the 'lot' of the wicked, and for his gifts of insight into the divine mysteries.He, a creature of clay' has been singled out by his maker to receive favours of which he feels unworth, and alludes again and again to his frailty and total

Page 323

316 dependence of God.Whereas some of the Hymns give impression to thoughts and sentiments common to all members of the sect, others particularly nos.1,2,7-11, appear to refer to the experience of aTeacher abandoned by his friends and persecuted by his enemies.Several scholars tend to ascribe the authorship of these to the Teacher of Righteousness and even cosider that he may be responsible for all the Hymns.But although this hypotesis is not impossible, no conclusion can yet be reached.Nor are we in a position to date any particular composition."(P243-244) یعنی صحائف میں شامل نظمیں بائبل کے حمدیہ گیتوں (Hymins) سے ملتی جلتی ہیں.ان گیتوں میں زیادہ تر خدا کے شکر کا مضمون پایا جاتا ہے.ی نظمیں انفرادی مناجات پر مبنی ہیں اور ان نظموں سے مختلف ہیں جو اجتماعی عبادت کی غرض سے لکھی جاتی ہیں اور جن میں مختلف انداز میں بکثرت روحانی باتیں اور عقائد کی تفصیلات بیان کی گئی ہوتی ہیں.تاہم صحائف کے مجموعہ میں دو بنیادی مضامین جابجا ملتے ہیں یعنی نجات اور علم.نظموں کو کہنے والا شخص عام دھارے سے الگ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے.وہ مسلسل خدا کا شکر بجالاتا نظر آتا ہے کہ اس نے اسے شریروں کے ٹولے سے نجات بخشی ، اسے روحانی اسرار کی معرفت عطا کی اور وہ جو محض کرم خا کی A Creature of) (Clay ہے اس کے مالک نے باوجود نالائق ہونے کے اسے اپنے ایسے فضلوں کے لئے مخصوص کر لیا جن کا وہ ہرگز حقدار نہ تھا.وہ جابجا اپنی عاجزی اور بے بسی اور خدا پر ایسے کامل تو کل کا اظہار کرتا ہے اگر چہ بعض نظمیں ایسی ہیں جن میں ایسے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے جو اس کے فرقہ کے سبھی ارکان کے ساتھ مشترک ہیں وہاں بعض نظمیں ایسی بھی ہیں بالخصوص نمبر ۱.۲.۷ تااا جن میں ایک ایسے استاد کے ذاتی تجربات کا ذکر ملتا ہے جس کو اس کے اپنوں نے بھی چھوڑ دیا اور دشمنوں نے مسلسل

Page 324

317 از بینتیں پہنچائیں.بہت سے سکالرز کا میلان طبع اس طرف ہے کہ ان نظموں کا لکھنے ولا خود نیکی کا استاد ہے.بلکہ وہ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ ساری ہی نظموں کا مصنف وہ خود ہی ہے.اگر چہ ایسا دعویٰ ناممکن تو نہیں ہے لیکن ہم کسی نتیجہ پر فی الحال نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ کسی خاص نظم کے لکھے جانے کا وقت متعین کر سکیں.نیک استاد اپنی ایک نظم میں اپنے آپ کو بن باپ اور عاجز بیان کرتے ہیں جس کو اس کی ماں نے بھی علیحدہ چھوڑ کر خدا کے سپرد کر دیا.چنانچہ وہ اپنی نظم نمبر ۴۱ ( سابقہ نمبر ۹) اور نظم نمبر ۸۱ ( سابقہ نمبر ۴۱ ) میں خدا کے حضور عرض کرتے ہیں: (7) "I thank Thee(corrected: Blessed art Thou) O Lord, for Thou hast not abandoned the fatherless or despised the poor." (p268)...."Until lam old Thou wilt care for me: for my father Knew me not and my mother abandoned me to Thee, for Thou art the father to all the sons of Thy truth, and as a woman tenderly loves her babe, so dost Thou rejoice in them, and as foster father bearing a child in his lap, So carest Thou for all they creatures."(Page:284) یعنی ” اے خدا تیرا شکر ہے ( سبحان اللہ ) کہ تو نے ایک بن باپ شخص کو نہ تو چھوڑا اور نہ اس عاجز کو ذلیل ہونے دیا...تو ہی میرے بڑھاپے تک میری حفاظت فرمائے گا کیونکہ میرا باپ مجھے جانتا نہ تھا اور میری ماں نے مجھے تیرے سپر د کر دیا تھا.پس تو ہی ہے جو ایسوں کے لئے بمنزلہ باپ ہوتا ہے جو تیری سچائی کے فرزند ہوتے ہیں اور تو ان پر اسی طرح راضی ہوتا ہے جس طرح ایک عورت اپنے بچہ سے پر شفقت محبت کرتی ہے اور جس طرح ایک پالنے پوسنے والا باپ ایک بچہ کی اپنی گود میں اٹھاتا ہے تو بھی اپنی مخلوق کی ایسی ہی نگہداشت کرتا ہے.“

Page 325

318 استاد کو خدا تعالیٰ کی توحید خالص پر یقین کامل تھا استاد اپنی نظم نمبر ۶۱ ( سابق نمبر ۲۱) خدا سے عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں: (8)" For Thou art an Eternal God, all Thy ways are determined for {and ever} and there is none other baside Thee."(Page: 277) یعنی اے خدا تو ازلی ابدی ہے.تیرے طریقے (یا تیری سنت ) ازلی ابدی ہے اور تیرے سوا کوئی اور نہیں.استاد نے مسیح ہونے کا دعوی کیا: نیک استاد کا دعویٰ مسیح ہونے کا تھا چنانچہ ایک صحیفہ کا عنوان ہیA Messianic Apocalypse یعنی مسیح کا الہام رکھا گیا ہے.اس میں مسیح اپنی کامیابی کی پیشگوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (9) According to the Scroll which has been provided the heading.A Messianic Apocalypse' (I.e.Massiah's Revelation)", the Teacher prophesied {the Heavens and the earth will to His Messiah and none therein will stray away from the commandments of the holy ones."(P391) یعنی آسمان اور زمین مسیح کی آواز کو سنیں گے (یعنی قبول کریں گے ) اور کوئی مقدس وجودوں کے احکام سے دور نہیں رہے گا.خدا نے استاد کی تائید روح القدس سے کی نظم نمبر ۵۱ ( سابقہ نمبر ۱) میں استاد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کی روح القدس سے تائید کی.چنانچہ فرماتے ہیں: (10) Thanking God the Teacher said: "I thank Thee O Lord, for Thou hast upheld me by Thy strength.Thou

Page 326

319 hast shed Thy Holy spirit and {Hast opened my heart} till this day."(Page:284) یعنی اے میرے رب میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے اپنی طاقت سے میری تائید کی.تو نے اپنا روح القدس (Holyspirt) مجھ پر نازل فرمایا تا میرے پاؤں ڈگمگانے نہ پائیں.خدا سے رہنمائی پاکر استاد نے تو رات کی نئی تشریح کی جس سے علماء بھڑک اٹھے : استاد اپنی نظم نمبر ۶ (سابقہ) میں فرماتے ہیں: (11) Addressing God the Teacher Said: These thing Iknow by the wisdom which comes from Thee, for Thou hast unstopped my ears to marvellous mysteries."(P 254 "But to the elect of righteousness Thou hast made me a banner, To the interpreters of error I have been an opponent, {but a man of peace} to all those who see true things." ( P 257) یعنی میرے سارے علم کی بنیاد اس حکمت پر ہے جو تو نے مجھے عطا کی کیونکہ تو ہی ہے جس نے میرے کانوں کو معجز نما اسرار کے لئے کھول دیا ہے تو نے متقیوں کے لئے مجھے ایک پرچم بنا دیا ہے اور حیران کن اسرار کی ایسی تفسیر سے نوازا ہے جو معرفت سے پر ہے تا ان کو آزمائے جو حق پر چلنے والے ہیں اور اصلاح پسندوں کا امتحان لے.لیکن وہ جو غلط تفسیر میں کرتے ہیں میں ان کا مخالف ہوں پر میں ان تمام لوگوں کو امن دینے والا ہوں جو حق کو سمجھتے ہیں.نیک استاد کو مارنے کی ناکام کوشش ہوئی.اس کا خون بہا پر خدا نے اسے بچالیا اور چشموں والی زمین میں جگہ دی استاد اپنی نظم نمبرے (سابقہ نمبر۲ ) میں خدا کے حضور عرض پرداز ہیں: (12) Thanking God for protecting his life from his

Page 327

320 enemies the Teacher said: I thank Thee O Lord, for Thou hast placed my soul in the bundle of the living, and has hedged me about all snares of the Pit.Violent men have sought after my life because I have clung to Thy Covenant.For they, an assembly of deceit, and a horde of belial, Know not that my stand is maintained by Thee and that in Thy mercy Thou wilt save my soul, since my steps proceed from Thee."(P257)...."I thank Thee O Lord, for Thou hast {fastened} Thy eyes upon me from the zeal of lying interpreters, and from the congregation of those who seek smooth things.Thou hast redeemed the soul of the poor one whom they planned to destroy by spilling his blood, because he served Thee."(P258-259....."I thank Thee O lord, for Thou hast not abandoned me while I sojourned among a people {burdened with sin}...For Thou, O God, has sheltered me from the children of men, and hast hidden Thy Law {within me} against the time when Thou shouldst reveal Thy salvation to me.For Thou hast not forsaken me in my soul's distress, and Thou has heard my cry in the bitterness of my soul; and when I groaned Thou didst consider my sorrowful complaint....The Wicked and fierce have stormed against me with their afflictions; they have pounded my soul all day.But

Page 328

321 Thou O my God, has changed the tempest to a breeze; Thou hast delivered the soul of the poor one like {a bird from the net and like} prey from the mouth of lions."(P267-268)...."I thank Thee, O Lord, for Thou hast placed me beside a fountain of streams in an arid land, and close watered ina wilderness" to a spring of waters in a dry land, and besides a(Page:278) یعنی ”اے میرے رب میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے میری جان کو زندوں کی پوٹلی میں رکھا اور گڑھے میں پھینکنے کے لئے جو پھندے تیار کئے گئے تھے تو نے ان سے بچانے کے لئے میرے اردگرد حفاظتی باڑ لگادی.متشد دلوگ میری جان کے پیچھے صرف اس لئے پڑ گئے تھے کہ میں تیرے عہد سے چمٹا رہا.یہ دھوکہ بازوں کا گروہ اور شیطانی ہجوم نہیں جانتے کہ تو نے ہی مجھے کھڑا کیا ہے اور تو ہی اپنے رحم سے میری جان بچائے گا کیونکہ میرے سارے قدم تیری منشاء کے مطابق اٹھتے ہیں.“ پھر استاد نظم نمبر ۸ ( سابقہ نمبر۳) میں عرض کرتا ہے : ”اے میرے خالق میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمیشہ مجھ پر نظر رکھی.تو نے ہی مجھے جھوٹے مفسرین کے تعصب سے بچایا اور نیز خوشامد پسند گروہ سے تو نے اس عاجز کی جان ان سے چھڑائی جنہوں نے تدبیر کی تھی کہ اس کا خون بہا کر اسے تباہ کر دیا جائے اور یہ صرف اس لئے کہ وہ تیری خدمت میں لگا تھا.“ نیز استاد اپنی نظم نمبر ۳۱ (سابقہ نمبر (۸) میں عرض گزار ہیں: ”اے خدا میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں جب کچھ عرصہ میں نے ان سخت نافرمانوں کے درمیان گزارا تو نے مجھے چھوڑا نہیں.....اے خدا تو نے مجھے آدم زادوں سے پناہ دی اور اپنی باتوں ( یا قانون ) کواس وقت تک میرے دل میں پوشیدہ رکھا جب تک میرے بچائے جانے کو ظاہر کر دے.تو نے میری جان کو رنج والم کی گھڑیوں میں نہیں چھوڑا اور روح کی تلخی کے وقت جب میں درد سے کراہ رہا تھا تو تو نے میری آہ وزاری کو سنا اور میری غم بھری فریادوں کو بہپایہ قبولیت جگہ دی...شریر ظالموں نے میرے خلاف دکھوں کے طوفان کھڑے کر دیے.وہ سارا دن میری جان پر ہتھوڑے چلاتے رہے.پراے خدا تو نے اس

Page 329

322 شدید طوفان کو ہوا کے نرم جھونکوں سے بدل دیا.تو نے اس عاجز کی جان کو اس طرح رہائی دلائی جس طرح جال میں پھنسے ہوئے پرندہ شیروں کے منہ میں آئے ہوئے شکار کو چھٹکارا دلایا جائے.“ پھر نظم نمبر ۸۱ ( سابقہ نمبر ۴۱) میں استاد خدا کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: ”اے خدا میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے ایک غیر آباد زمین کے اندر ندیوں کے چشمہ کے پہلو میں جگہ دی جو خشک زمین کے اندر پانیوں کے چشمہ کے قریب والے باغ کے نزدیک واقع ہے.“ استاد نے پیشگوئی کی کہ میرے دشمن قیامت تک مغضوب رہیں گے نیک استاد اپنی نظم نمبر ۵ ( سابقہ نمبر ۲۲) میں یہ پیشگوئی فرماتے ہیں: (13) The Teacher prophesied that his persecutors would incur the wrath of God till eternity.He said: " But the wicked Thou didst create for {the time} of Thy {wrath} Thou didst vow, from the womb to the Day of Massacre, for the walk in the way which is not good.They have despised {Thy Covenant} and their souls have loathed Thy {truth}; they have taken no delight in all Thy commandments and have chosen that which Thou hatest {For according to the mysteries}of Thy wisdom, Thou hast ordained them for great chastisements before the eyes of all Thy creature, that {foreternity} they may serve as a sign{and a wonder} and that {all men} may know Thy glory and Thy tremendous power." (Page:250-251) یعنی ، لیکن یہ تیری شریر مخلوق ہمیشہ خدا کے غضب کے نیچے رہے گی.یہ تیرا ایسا فیصلہ ہے

Page 330

323 جو رحم مادر سے لے کر قیامت تک چلتا چلا جائے گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان راہوں پر چلتے ہیں جو اچھی نہیں.انہوں نے تیرے عہد کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور حق سے سخت کراہت سے پیش آتے ہیں.وہ تیرے احکام پر ہرگز راضی نہیں اور انہوں نے وہ طریق اختیار کیا ہے جسے تو نا پسند کرتا ہے.تیری پوشیدہ حکمت نے ان کے لئے سخت عذاب مقدر کر دیا ہے جس کو تیری ساری مخلوق مشاہدہ کرے گی تا ہمیشہ کے لئے یہ ایک عظیم نشان بن جائے اور تمام لوگ تیری شان اور مہیب طاقت کو جان لیں.“ استاد نے پیشگوئی کی کہ میرے ماننے والے ہمیشہ دوسروں پر غالب رہیں گے نیک استاد نے اپنی جماعت کے لئے اپنی تعلیم پر مبنی کچھ نصائح لکھیں جو THE EXHORTATION کے عنوان کے تحت مذکورہ بالا کتاب کے صفحات ۲۱ ۷ تا ۶۳۱ پر درج ہیں.ان میں وہ لکھتے ہیں : (14) Exhorting his followers the Teacher said:"And God observed their deeds, that they sought Him with a whole heart, and He raised for them a Teacher of Righteousness to guide them in the way of His heart.And He made known to the latter generation, that which God had done to the latter generation, the congregation of traitors, to those who departed from the way."(P 127)....."But all those who hold fast to these precepts, going and coming in accordance with the Law, who heed the voice of the Teacher and confess before God, (saying) Truly we have sinned, we and our father, by walking counter to the precepts of His righteous statutes or His true testimonies;

Page 331

324 who have learned from the former judgements by which the members of the community were judged; who have listened to the voice of the Teacher of Righteousness and have not despised the precepts of righteousness when they heard them; they shall rejoice and hearts shall be strong, and they shall prevail over all sons of the earth.God will forgive them and they shall see His salvation because they took refuge in His holy Name."(P135-136) یعنی ”اے خدا نے ان کے کاموں کو دیکھا کہ پورے دل کے ساتھ خدا کو تلاش کرتے ہیں تو نے ان کے لئے نیکی کا استاد مبعوث کیا تا وہ ان کو خدا کے منشاء کے مطابق چلائے....پس وہ تمام جوان ہدایات کو مضبوطی سے پکڑیں گے اور ان کا چلنا پھرنا شریعت کے مطابق ہوگا.جو استاد کی آواز پر لبیک کہیں گے اور خدا کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے خدا ہم نے اور ہمارے باپ دادوں نے تیرے عہد کی خلاف ورزی کر کے سخت گناہ کیا ہے.ہمارے متعلق تیرے فیصلے حق و حکمت پر مبنی ہیں.نیز جو لوگ خدا کے مقدس احکام کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھاتے جو اس کے بچے قوانین اور عہدوں کے مطابق ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نیکی کے استاد کو آواز کی سنا ہے.اور وہ جنہوں نے جب تقویٰ پر مبنی احکام سے تو ان کو تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھا وہ خوش ہوں گے اور ان کے دل مضبوط ہوں گے اور وہ تمام زمینی لوگوں پر غالب آئیں گے.اللہ ان کے قصور معاف فرمائے گا اور وہ نجات پائیں گے کیونکہ وہ خدا کے مقدس نام کی پناہ میں آگئے ہیں.“ ہے.بھلا بو جھئے کہ نیک استاد کے پردہ میں خدا کے کون سے فرستادہ ہیں؟ ایک یہودی جب مذکورہ بالا نشانیوں کو پڑھے گا تو وہ کہے گا کہ نیک استاد کے لبادہ میں مریم کے بیٹے عیسی تو نہیں ہو سکتے ان کو تو ہم نے صلیب پر مار دیا تھا اور یوں لعنتی قرار پا کر جھوٹے مسیح

Page 332

325 ٹھہرے تھے.نعوذ باللہ نہ وہ بچ نکلے تھے ، نہ دور کہیں چشموں والی زمین میں چلے گئے تھے.ایک عیسائی جب ان علامتوں کو دیکھے گا تو وہ کہے گا کہ یہ نیک استاد مسیح کیسے ہو سکتا ہے.صحیح تو مر کر جی اٹھے تھے اور اپنے زخمی بدن کے ساتھ بادلوں میں ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے.اگر وہ بچ گئے تھے اور بجائے آسمان کے کسی اور چشموں والے علاقہ میں چلے گئے تھے تو پھر وہ خدا کے بیٹے کیسے ہوئے اور کفارہ کیا ہوا ؟ ایک غیر احمدی مسلمان بھی نیک استاد کے لباس میں حضرت عیسی علیہ السلام کو نہیں پہچان سکے گا.اس لئے کہ اس کے عقیدہ کے مطابق تو وہ صلیب پر چڑھے ہی نہیں ، وہ تو کوئی چور تھا جس کی شکل قدرت خداوندی سے عیسی جیسی ہو بہو بنادی گئی تھی اور وہ چور صلیب دیا گیا جب کہ عیسی علیہ السلام کو خدا نے بجسد عنصری چوتھے آسمان پر اٹھالیا.نہ ان کا خون بہا، نہ خدا کو اسے شیروں کے منہ میں آئے ہوئے شکار کی طرح بچانے کی ضرورت پڑی اور نہ وہ کسی دور کی زمین میں ہجرت کر گئے تھے.اس لئے یہ نیک استاد عیسی نہیں ہو سکتے وہ کوئی اور خدا کا نیک بندہ ہوگا.لیکن ایک احمدی مسلمان کے لئے نیک استاد کے پردہ میں چھپے ہوئے حضرت عیسی علیہ السلام کو پہچان لینا کچھ بھی مشکل نہیں.یہ ساری باتیں جو صحائف قمران میں لکھی ہوئی ہیں اور اوپر بیان ہوئی ہیں خدا سے علم پا کر بہت پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف صاف بیان فرما چکے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں جو ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی لکھا کہ مجھے خدا نے بذریعہ الہام بتایا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحه ۵۶۱-۵۶۲) پھر ۱۹۸۱ء میں آپ نے کتاب ” مسیح ہندوستان میں تحریر فرمائی اور اس میں قرآن ، بائبل تاریخ اور حکمت کی کتابوں سے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کی تدبیروں کو نا کام کیا اور صلیب پر موت سے بچا کر انہیں کشمیر کی چشموں والی زمین میں پناہ دی.پس صحائف قمران کی شکل میں خدا کا ایک عظیم نشان ظاہر ہوا ہے جس سے آنحضرت علی قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود کی صداقت ثابت ہوتی ہے.یہ صحائف پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اے یہود ! جس مسیح کا تمہیں انتظار تھاوہ تو کب کا آچکا اور اے عیسائیو! حضرت مسیح علیہ السلام نہ خدا

Page 333

326 کے بیٹے تھے، نہ وہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہوئے اور جس خدا کی بادشاہت کا تمہیں انتظار ہے وہ تو ۰۰۵۱ سال پہلے آچکی.اور اے مسلمانو! تم آسمان سے کسی عیسی کو اترتے نہ دیکھو گے.جو مسیح آنا تھا وہ تو آچکا.آؤ اور بھی اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ.(الفضل انٹر نیشنل)

Page 334

327 کچی خوشحالی اور اطمینان قلب کا راز کہتے ہیں کہ کسی ملک کا بادشاہ ہر وقت کسی نہ کسی فکر و غم اور پریشانی کا شکار رہا کرتا تھا.اس نے اس بارے میں اپنے دانا مشیروں اور لائق حکیموں سے مشورہ طلب کیا.ان کے مشوروں پر بادشاہ کے لئے ہر قسم کے دنیاوی لہو ولعب اور عیش و عشرت کے سامان مہیا کئے گئے مگر ولی اطمینان نصیب نہ ہوا.ایک درویش تک یہ سارا ماجرا پہنچا تو اس نے کہا بادشاہ سے کہو کہ اپنی سلطنت میں کوئی ایسا شخص ڈھونڈے جسے کوئی غم اور فکر لاحق نہ ہو.اس کا قمیص حاصل کیا جائے اور بادشاہ کو پہنایا جائے اس کی برکت سے بادشاہ کے فکر و غم دور ہو جا ئینگے.چنانچہ بادشاہ کے حکم سے ساری سلطنت میں ہر طرف آدمی دوڑائے گئے کہ ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے لیکن جس سے بھی پوچھا جاتا وہ اپنے کسی نہ کسی غم یا پریشانی کا ذکر کر دیتا.بالآخر بادشاہ کے وزیر کو ایک پہاڑ کے دامن میں ایک شخص بکریاں چراتا ہوا ملا جو خدا کی محبت کے گیت گا رہا تھا.اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تمہیں بھی کوئی پریشانی لاحق ہے تو اس نے جواب دیا کہ الحمد للہ کوئی نہیں ، وزیر نے درویش سے کہا کہ ہمیں تمہارا قمیص درکار ہے.ہم نے اسے بطور علاج بادشاہ کو پہنانا ہے تا اس کے بھی ہموم و عموم دور ہوں.اس مرد دوریش نے تعجب سے کہا کہ قمیص ؟ وہ تو میرے پاس ہے ہی نہیں.میرے پاس تو یہی لنگوٹی ہے جو پہنے ہوئے ہوں.وزیر نے حیرت سے پوچھا.اے درویش اگر تمہارا د امن دنیا کی نعمتوں سے اتنا ہی تہی ہے کہ تمہارے پاس قمیص بھی نہیں تو پھر تم خوش کیسے رہتے ہو؟ اس نے جواب دیا خدا نے میری ساری کی ساری

Page 335

328 خواہشات پوری کر دی ہیں اور میری ساری مرادیں مجھے عطا کر دی ہیں.اس کے ہر چھوٹے بڑے انعام پر دل اس کے شکر سے بھر جاتا ہے اور زبان اس کی حمد کے ترانے گاتی ہے.ایک طرف میری خواہشات اور ضروریات نہایت محدود و مختصر اور اس کی رضا کے تابع ہیں تو دوسری طرف اس کے ذکر و شکر اور تعلق کی بے انتہاء لذت نے دنیا کی ساری تلخیاں اور محرومیاں اپنے دامن میں سمیٹ لی ہیں اور ان کے وجود کا احساس مٹا دیا ہے.جاؤ اپنے بادشاہ کو بتاؤ کہ اطمینان قلب صرف دنیوی لذتوں، راحتوں اور نعمتوں میں نہیں بلکہ خدا کے ذکر و شکر اور تعلق میں ملتا ہے جس چیز کی اس کو ظاہر میں تلاش ہے وہ تو اس کے باطن میں پنہاں ہے.مذکورہ بالا حکایت میں ایک گراں قدر صداقت بیان کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کا پاک کلام اس کا سر چشمہ ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ یعنی سنو دلوں کو اطمینان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے.جوں جوں زمانہ مادی ترقی کرتا جارہا ہے زندگی کی گہما گہمی آسائشوں اور ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے.ذہنی سکون دلوں سے رخصت ہوتا جا رہا ہے.انسان کی ہر آن بڑھتی ہوئی خواہشات کا گویا ایک سیلاب ہے جو امنڈتا چلا آرہا ہے حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر و شکر ، صبر و توکل اور قناعت کی مضبوط دیوار میں ہی ہیں جو اس طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہیں.اور جب یہ بندٹوٹ جائے تو خواہشات کا سیلاب اپنے ساتھ اطمینان قلب کو بھی بہا کر لے جاتا ہے.اور کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے (غالب) خواہشات کا دامن پھیلتا جاتا ہے اور انسان اپنی ہی خواہشات کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے، ہوا و ہوس کا بندہ بن جاتا ہے، گویا ایک بہت ہے جس کو سینے میں چھپائے پھرتا ہے جیسا کہ خدا تعالی فرماتا ہے اَفَرَأَيْتَ الَّذِى مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَواهُ کہ کیا تو نے اس شخص کی حالت پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیا ہے.دنیا اور اس کی فانی اشیاء سے انسان کی محبت اس درجہ پر پہنچ جاتی ہے کہ اگر وہ اس سے چھن

Page 336

329 جائیں تو نا قابل برداشت صدمہ اور رنج مبتلائے جان ہو جائے.دنیا کی محرومی کی یہی وہ آگ ہے جو دنیا میں ہی دوزخ کا ایک نمونہ دکھا دیتی ہے.اسی تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دو مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک شخص کا ایک دوست مرگیا جس کے غم میں وہ رور ہا تھا.اس سے پوچھا گیا تو کیوں روتا ہے تو اس نے کہا کہ میرا ایک نہایت ہی عزیز مر گیا.اس نے کہا کہ تو نے مرنے والے سے دوستی ہی کیوں کی.اصل بات یہ ہے کہ مفارقت تو ضروری ہے اور جدائی ضرور ہوگی.یا یہ خود جائے گا یا وہ جس سے دوستی اور محبت کی ہے پس وہ مفارقت کا عذاب کا موجب ہو جائے گی لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں اور ان فانی اشیاء کے دلدادہ اور گرویدہ نہیں ہوتے وہ ان عذاب سے بچالئے جاتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد ہشتم صفحه ۴ ۵-۵۵) خالد ربوہ شہادت (۱۳۴۹)

Page 337

330 مونگ پھلی کھانے سے خطرناک الرجی مونگ پھلی لوگ شوق سے کھاتے ہیں اور اس کا تیل بھی کھانے پکانے میں استعمال ہوتا ہے اس کے کھانے سے ایک خطرناک الرجی جس سے موت واقع ہو جائے پہلے نہیں سنی تھی.لیکن اب اس طرح کے واقعات خبروں میں آنے لگے ہیں.آسٹریلیا میں ایک پندرہ سالہ لڑکے نے مونگ پھلی کھائی تو اس کے جگر میں ایسی خوفناک الرجی ہوئی کہ اس کی موت واقع ہوگئی.اس کا جگر سڈنی کے ایک ہسپتال میں ایک ساٹھ سالہ مریض کو لگایا (Transplant) کیا گیا.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ عموماً پیوند شدہ عضو کی الرجی دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوتی.صرف ۱۹۹۷ء میں فرانس میں ایک واقعہ رپورٹ کیا گیا تھا لیکن سڈنی کا مریض جب تندرست ہو کر گھر آیا تو اس نے کا جو (Cashew Nut) کھالئے جس سے اس کو سخت الرجی ہوگئی.فوراً علاج میسر آنے سے جان تو بچ گئی لیکن اب آئندہ کے لئے کسی عضو کی پیوند کاری سے پہلے یہ پتہ کرنا پڑے گا کہ عضو کا عطیہ دینے والے کو کن کن چیزوں سے الرجی تھی.اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ذرہ ذرہ میں کچھ صفات اور یادداشتیں (Memories) لکھ رکھی ہیں جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ نے ہومیو پیتھی کے ایک لیکچر میں یہ دلچسپ نکته بیان فرمایا تھا مثلاً سلفر کی کچھ صفات ہیں.وہ ہر حال میں اس کے اندر پوشیدہ رہیں گی خواہ اس کا ایک قطرہ دنیا کے سارے سمندروں میں ملا دیا جائے ، اس کی یادداشت تقسیم در تقسیم ہونے سے

Page 338

331 بڑھتی جائے گی ختم نہیں ہوگی.روح کی یادداشتوں کا بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے.جو قلب وروح پر گزرتا ہے اپنی یاد داشتوں کے نقوش چھوڑ جاتا ہے.سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۹ جنوری ۲۰۰۳ء) (الفضل انٹر نیشنل 21.3.03)

Page 339

332 حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر خاکسار اس مختصر نوٹ کے ذریعہ حضرت شیخ محمد احد مظہر امیر جماعت احمد یہ فیصل آباد کی بعض ایسی یادوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے جن کو وہ اپنے لئے مشعل راہ سمجھتا ہے.کوئی پچیس سال پہلے مجھے حضرت شیخ صاحب کی ماتحتی میں بطور جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ فیصل آباد کام کرنے کا موقع ملا.یہ خدا کا فضل تھا.پھر بعد میں بطور ممبر سٹینڈنگ کمیٹی صد سالہ جو بلی فنڈ (جس کے آپ صدر تھے ) آپ کی رفاقت کا اعزاز حاصل رہا.جب میں جنرل سیکرٹری مقرر ہوا تو ارشاد فرمایا کہ اب روزانہ شام کو جماعتی امور کی انجام دہی کے لئے ملا کرنا.جاتے تو ہم پہلے بھی تھے لیکن ناغوں کے ساتھ اب تو روزانہ کی حاضری پکی ہوگئی.آپ شام کو ملفوظات کا درس دیتے.کئی بار ایسے ہوا کہ راستہ میں آتے آتے دل میں کوئی سوال پیدا ہوا یا کسی بات کی وضاحت کی خواہش پیدا ہوئی تو اسی روز کے درس میں اس کا جواب موجود ہوتا.دل نے کہا یہ اتفاقات نہیں ہیں بلکہ درس دینے والے کو جو صاحب ملفوظات سے روحانی مناسبت ہے اس کا نتیجہ ہے.ایک بار آپ نے میرے تلفظ کی تصحیح فرمائی.میں نے اشارہ سمجھا اور تلفظ کی صحت پر مزید توجہ کی اور فائدہ اٹھایا.حضرت شیخ صاحب نے باتوں باتوں میں اپنی تحقیق ام الالسنہ سے بھی مجھے متعارف کیا مجھے شوق ہوا اور میں نے آپ کے کتاب English Traced to Arabic کا مطالعہ کیا اور اس

Page 340

333 کا اردو میں خلاصہ تیار کیا جسے ماہنامہ انصار اللہ نے اپنے اگست ۱۹۶۸ء کے شمارہ میں شامل اشاعت کیا.اس کے پندرہ سال بعد جب میں لیبیا بغرض ملازمت گیا تو یہ کتاب میرے سامان میں تھی جس کا میرے بعض عرب دوستوں نے بھی مطالعہ کیا اور بہت ہی پسند کیا.اور اپنے حلقہ احباب میں اس کا ذکر کیا.ابھی دوسال پہلے ہی آسٹریلیا سے انگلینڈ گیا اور وہاں سے پاکستان آیا.حضرت شیخ صاحب کی ملاقات کے لئے فیصل آبادان کے مکان پر حاضر ہوا بہت ضعیف اور بیمار تھے لیکن ذہن ہمیشہ کی طرح چاک و چوبند میری حاضری کی اطلاع ہوئی ایک لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے ملنے کے لئے تشریف لائے بہت خوشی کا اظہار فرمایا.حال احوال کے بعد میں نے بتایا کہ آتے ہوئے حضور سے لنڈن میں شرف ملاقات حاصل ہوا.حضور کے ذکر پر مٹھی بند کر کے فرمانے لگے ”حضرت صاحب نے جماعت کو خوب سنبھالا ہے حضرت صاحب نے بہت دکھ اٹھایا ہے.شیخ صاحب کے قلبی تاثرات چہرے پر نمایاں تھے پھر خود ہی میرے اس ۲۳ سال پرانے ام الالسنہ والے مضمون کا ذکر فرمایا اور فرمانے لگے آپ نے میری تحقیق کو متعارف کرانے میں اچھا کام کیا ہے میں دل میں شرمندہ ہورہا تھا کہ محض حوصلہ افزائی فرما ر ہے ہیں ورنہ من آنم کہ من دانم.ایک بار حضرت شیخ صاحب نے مجھے فرمایا کہ صاحب ایمان ہر لغو اور بے مقصد چیز یا کام سے اعراض کرتا ہے.محض زیب وزیبائش کے لئے ڈرائنگ روم پر خرچ کرنا بھی لغو میں داخل ہے.میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ حضرت شیخ صاحب کی ساری زندگی اس حکم الہی کی مجسم تصویر تھی.آپ کا اپنا مکان اور درائینگ روم صرف ضرورت پوری کرنے کی حد تک تھا.آپ کی رہائش گاہ فیصل آباد کے کسی چوٹی کے وکیل کا گھر نہیں تھا بلکہ ایک خدا دوست درویش کا ڈیرہ تھا آپ کا کلام مختصر اور بامعنی اور اوقات مصروفیات سے معمور ہوتے تھے.وقت کو خدا کی امانت سمجھتے تھے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے ربوہ کسی میٹنگ کے لئے جارہے ہیں کار میں بیٹھے اور بیٹھتے ہی اپنا بستہ کھولا اور ام الالسنہ پر کام کرنا شروع کر دیا.آپ کا ذہن بطور کمپیوٹر کے کام کرتا تھا.لگتا تھا پوری عربی لغت اس میں محفوظ ہے.کسی زبان کا کوئی لفظ دیکھتے اپنے فارمولے لگاتے اور فوراً اس لفظ کی عربی ماں تک پہنچ جاتے.آپ خشک عالم نہ تھے بلکہ آپ کی مجلس میں پاک مزاح کی چاشنی بھی ہوتی.جب خدام

Page 341

334 الاحمد یہ ربوہ کے وسیع ہال کو دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہا ” یہ حال ہے کہ مستقبل فارسی کے بلند پایہ شاعر تھے اور حضرت مولانا عبید اللہ بسمل صاحب کا ذکر کئی باران کی زبان سے سنا.غالباً اوائل میں شعروں میں ان سے اصلاح لیا کرتے تھے.خدا ان کے اخلاص اور خدمات دینیہ کا بہترین رنگ میں صلہ دے.(الفضل ربوه 6.12.93)

Page 342

335 حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی کچھ یادیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ سے خبر پا کر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.ہم نے اس پیشگوئی کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا ہے.ہم نے خلفاء مسیح موعود علیہ السلام کے ارد گر دا ایسے عظیم علماء اور فضلاء کو حصار کی طرح کھڑے دیکھا ہے جو جماعت کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات کے تیروں کو اس شان سے اپنے سینوں پر لیتے تھے اور ان کو یوں لوٹاتے تھے کہ دل عش عش کر اٹھتا تھا.وہ دنیا دار مناظر نہ تھے بلکہ اولیاء الرحمن میں سے تھے اور خدا ان کی دعائیں عرش پر سنتا تھا.ایسے ہی وجودوں میں ایک حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی تھے.خاکسار کو ان سے محبت تھی اور جب بھی موقع ملتا ان کی ملاقات سے شاد کام ہوتا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ملکہ عطا فر مایا تھا کہ مشکل سے مشکل مسائل کو علماء وعوام دونوں کے لئے عام فہم اور مسکت انداز میں حل فرما دیتے.ان کی تحریر سے باریک بینی اور ذہانت پھوٹتی تھی اور مخالفوں کے اعتراضات کے جواب میں بعض اوقات چلتے چلتے ایسی بات کہہ جاتے جو متعین ہونے کے باوجود ایسی دلچسپ ہوتی کہ پڑھتے ہوئے بے اختیار مسکراہٹ بکھیر جاتی.ماہنامہ ”الفرقان“ کے مضامین گواہ ہیں کہ پرانے مسائل کو نئے انداز میں پیش کرنا گویا آپ پر ختم تھا الفرقان“ کے ٹھوس علمی مضامین ایک خاص شان کے حامل ہوتے تھے.لیکن اب تو لگتا ہے کہ دنیا کا

Page 343

336 علمی ذوق بھی ایسا بدل چکا ہے کہ وہ فصل اسی موسم کے ساتھ خاص تھی.اللہ کی حکمت ہے کہ بدلتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک نئی نسل میدان میں آچکی ہے گویا موسم کے ساتھ ساتھ بادہ وساقی بھی بدلتے رہتے ہیں.لیکن دل کا کیا علاج وہ تو اب بھی کبھی چپکے چپکے پکارتا ہے: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لاساقی حضرت ابوالعطاء صاحب نے ۱۹۳۰ء میں تفہیمات ربانیہ تصنیف فرمائی تھی جو بلاشبہ ایک بیش بہا علمی خزانہ ہے اور آپ کے علم و فضل پر دال ہے.جب آپ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی تو اس وقت آپ ایک ابھرتے ہوئے نوجوان عالم تھے.حیرت ہوتی ہے کہ وہ۲۶ سالہ نو جوان کس پا یہ کا محقق اور ذہین وفطین عالم ہو گا جس کے قلم سے ایسی عظیم کتاب منصہ شہود پر آئی.پھر لوگ جب کتابیں لکھتے ہیں تو ساتھ نوٹ دے دیتے ہیں کہ کتاب کا کوئی حصہ مصنف کی اجازت کے بغیر شائع نہیں کیا جاسکتا.ایک نمایاں چوکھنے کے اندر کاپی رائٹ کی صورت میں مصنف کا یہ حق دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے.مگر حضرت مولانا نے کتاب کے آخر میں ”ضروری اعلان“ کے عنوان سے لکھا: د تفہیمات ربانیہ سلسلہ کی امانت ہے بے شک یہ میری تصنیف ہے مگر میں خود سلسلہ کا ادنیٰ خادم ہوں تفہیمات ربانیہ کو کوئی جماعت کوئی فرد بلکہ میری اولا د بھی خلیفہ وقت کے مقررہ کردہ نظام کی اجازت سے طبع کرسکتی ہے.والله الموفق.(مصنف).یقیناً جب تک ہدایت کے متلاشی اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے صدقہ جاریہ کے طور پر اس کا ثواب آپ کو بھی پہنچتا رہے گا جو جنت میں آپ کے درجات کو بلند کرنے کا موجب ہوگا انشاء اللہ.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے ملنے کا مجھے بارہا موقع ملا.ایک دفعہ مجھے ان کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا.خدا تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی حسن آپ کو وافر عطا فرمایا ہوا تھا.نیکی تقویٰ اور علم وفضل کے ساتھ ساتھ آپ بہت ہمدرد اور منکسر المزاج انسان تھے.میں نے دیکھا کہ آپ اپنے ملنے والوں میں ذاتی دلچسپی لیتے تھے اور تعلقات محبت خوب نبھاتے تھے.زاہد و عابد تو بہت

Page 344

337 تھے لیکن خشک اور تنگ نظر ہرگز نہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور آگے ان سے اکتساب فیض کرنے والے تقریباً سبھی تہجد گزار تھے.حتی کہ وہ سفروں میں بھی تہجد کو نہیں چھوڑا کرتے تھے جب کہ سفروں میں فرض نماز بھی قصر کی جاتی ہے.191 ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت گیانی واحد حسین صاحب دورہ پر سیالکوٹ تشریف لائے.رات کا کھانا محترم چوہدری نذیر احمد باجوہ صاحب ایڈوکیٹ مرحوم کے ہاں تھا.جنہوں نے بہت سے معززین شہر کو کھانے پر مدعو کیا ہوا تھا کھانے کے دوران بہت دلچسپ گفتگو ہوتی رہی.بعد میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے تو محترم باجوہ صاحب کے ہاں قیام فرمایا اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت گیانی صاحب کی میزبانی کا شرف مجھے حاصل ہوا.( میں اس زمانہ میں ایس ڈی اوالیکڑانک سٹی واپڈا سیالکوٹ تھا ) ان دونوں بزرگوں کی طبیعت میں پاک مزاح بھی بہت تھا.خاکساران کی گفتگو سے بہت محظوظ ہوا.رات کے آخری حصہ میں جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ دونوں بزرگ تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے.اس سے پہلے ا۸۵۹ء میں جب خاکسارایس ڈی او اوکاڑہ تھا تو حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کی میزبانی کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا تھا.ان کے ساتھ بھی میرا ایسا ہی تجربہ ہوا گرمیوں کا موسم تھا رات کے پچھلے پہر جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ حضرت مولا نا صاحب کوٹھی کے لان میں ایک چادر بچھا کر تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے.یہ واقعات میں نے اس لئے عرض کئے ہیں کہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کو پتہ لگے کہ ہمارے بزرگ کتنے عبادت گزار تھے.ہم نے اپنے والدین کو بھی بچپن سے تہجد پڑھتے دیکھا اور بزرگوں کو بھی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے متعلق یہی سنا ہے کہ رات کے آخری حصہ میں اپنے مولا کے حضور اپنی حاجتیں پیش کرتے اور وہ بار ہا معجزانہ طور پر پوری فرما دیتا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب میں دلجوئی کا رنگ بھی بہت نمایاں تھا.ایک بار میرے ایک عزیز ربوہ نکاح کی غرض سے آئے ہوئے تھے اتفاق سے اس روز مجلس مشاورت کا آغاز ہورہا تھا اور کبھی بزرگ اس سلسلہ میں بہت مصروف تھے.مصروف تو حضرت مولوی صاحب بھی بہت ہوں گے.مگر جب میں نے جمعہ کی نماز کے بعد اعلان نکاح کی درخواست کی تو آپ فورا تیار ہو گئے اور مسجد

Page 345

338 مبارک کے جنوبی کو نہ میں جتنے دوست بھی وہاں اکٹھے ہو سکے ان کی موجودگی میں نکاح کا اعلان فرما دیا اور اس طرح میرے عزیز کی دلجوئی فرمائی.جس روز میرے نانا جان حضرت میاں مہر اللہ صاحب کی وفات ہوئی حضرت مولوی صاحب کو علم ہوا تو نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے اور آخر وقت تک ہمارے ساتھ رہے.اس دوران میں نے انہیں بتایا کہ کل میرے نانا نے کشف میں دیکھا تھا کہ آسمان پر بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کچھ جنت کی طرف اڑتے جارہے ہیں اور کچھ جہنم کی طرف.اور پوچھنے پر بتایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو جنت کی طرف بھاگے جارہے تھے.(جیسے پتنگے روشنی کی طرف بھاگتے ہیں ) جب ان کا یہ کشف جو وفات سے ایک روز قبل انہوں نے دیکھا تھا میں نے حضرت مولوی صاحب کو بتایا تو فرمانے لگے کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ الا رواح جنود مجندة یعنی روحیں جمع کئے ہوئے لشکروں کی طرح ہیں.جب خاکسارا یگزیکٹو انجینئر تھا تو بہت سے غریب نوجوان ملازمت کے حصول کے لئے میرے پاس حضرت مولوی صاحب کے تعارفی رقعوں کے ساتھ آیا کرتے تھے کہ ملازمت کے سلسلہ میں ان کی مناسب امداد کی جائے.اس سلسلہ میں ربوہ سے زیادہ خطوط مجھے غالبا حضرت مولوی صاحب کے ہی آیا کرتے تھے.مجھ سے جو ہو سکتا تھا کرتا تھا.اس زمانہ میں افسروں کو اختیار بھی بہت ہوتے تھے لیکن میں سوچتا تھا کہ مولوی صاحب غریب اور بے کار نوجوانوں کے لئے کس قدر ہمدردی رکھتے تھے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے قائم مقام جماعت میں ہمیشہ پیدا کرتا چلا جائے اور ہماری جماعت میں ایسے علم وفضل کے اہل اللہ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں.آمین (الفضل انٹر نیشنل 16.7.2004)

Page 346

339 حضرت چوہدری محمد خان صاحب حضرت چوہدری محمد خان صاحب موضع گل منبج گورداسپور کے رہنے والے تھے جو قادیان سے پانی میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے.بہشتی مظہرہ قادیان کتبہ ۳۶۴ پر لکھا ہے.چوہدری محمد خان ولد چوہدری ملنگ خان نمبر دار موضع گل منبج وفات وو ۶۱-۱-۶۳ عمر ۵۶ سال اس حساب سے آپ کی تاریخ پیدائش اے ای بنتی ہے.آپ نے نو جوانی میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ آپ کو احمدیت کا پیغام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خود ذاتی طور پر دیا تھا.اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ ایک بار آپ اپنے ایک ہم عمر عزیز چوہدری را تجھے کے ساتھ اپنی منبج راجپوت برادری کے ایک گاؤں موضع کھے ضلع امرتسر گئے ہوئے تھے.قادیان کے رستے پیدل اپنے گاؤں کو واپس آرہے تھے کہ بیت اقصیٰ کے پاس سے گزر ہوا.عصر کا وقت تھا چوہدری محمد خان اپنے ہمراہی سے کہنے لگے کہ آؤ یہاں عصر پڑھ لیتے ہیں ورنہ وقت جاتا رہے گا.چنانچہ وہ دونوں بیت الاقصیٰ میں داخل ہوئے.عبادت ہو چکی تھی اور حضرت بانی سلسلہ احمد یہ گھر واپس جانے کے لئے اپنا جوتا پہن رہے تھے.چوہدری محمد خان نے حضرت صاحب کو سلام عرض کیا جس کے جواب میں بڑی عمدگی سے انہوں نے جواب دیا اور جوتا اتار کر پھر صف پر تشریف فرما ہو گئے.ان دونوں نے وضو کیا.اس زمانہ میں وضو کی ٹوٹیاں

Page 347

340 بیت اقصیٰ کے صحن کے اوپر ہی ہوا کرتی تھیں.جب ان دونوں نے عبادت کر لی تو حضرت صاحب نے چوہدری محمد خان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا آپ کے ہاں میرے اشتہار پہنچ گئے ہیں.انہوں نے عرض کیا کہ نہیں جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ میرے اشتہار تو دور دراز کے جزیروں میں پہنچ چکے ہیں آپ کا گاؤں کتنی دور ہے.چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ یہی کوئی چارکوس کے فاصلہ پر ہے.تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا میرے ساتھ چلو میں آپ کو اشتہار دیتا ہوں چنانچہ آپ ان دونوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر (الدار...) میں لے آئے.بیت المبارک کے ساتھ والے کمرہ میں صف بچھی ہوئی تھی اور اس پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا.حضرت صاحب نے کمرہ کی الماری کھول کر فرمایا کہ تمہارے گاؤں میں جتنے پڑھے لکھے ہوئے ہیں اتنے اشتہار لے لو.چوہدری صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمارے گاؤں میں پڑھے لکھے تو دو تین ہی تھے لیکن میں نے پندرہ اشتہار اٹھالئے اور واپس اپنے گاؤں آگیا.ان کے والد چوہدری ملنگ خان گاؤں کے نمبر دار اور معزز زمیندار تھے.رواج کے مطابق شام کو کام کاج سے فارغ ہو کر لوگ ان کے ہاں آکر بیٹھا کرتے تھے.چوہدری محمد خان نے اپنے والد صاحب کو کہا کہ مجھے مرزا صاحب نے یہ اشتہار دیے ہیں.میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں چنانچہ ایک آدمی کو پکڑا اور چوہدری صاحب نے اپنے والد اور موجود حاضرین کو وہ اشتہار پڑھ کر سنایا جسے سن کر ان کے والد صاحب خاموش رہے اور کسی مخالف یا موافق رد عمل کا اظہار نہ کیا.موضع گل منبج سے کوئی چار کوس کے فاصلہ پر ہی سیکھواں نامی گاؤں تھا جہاں حضرت میاں جمال دین.حضرت میاں خیر دین اور حضرت میاں امام دین رہا کرتے تھے ( حضرت مولانا جلال الدین شمس کے والد.تایا اور چاچا) چوہدری صاحب کی ان سے واقفیت تھی اور بٹالہ میں ان سے کئی بارمل چکے تھے اور ان کی زبانی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ احمدی ہو چکے ہوئے ہیں حضرت صاحب کی ملاقات اور اشتہار نے چوہدری محمد خان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ اگلی ہی صبح سیکھواں میاں صاحبان کے پاس پہنچ گئے.یہ تینوں بھائی بہت مخلص احمدی تھے ( حضرت صاحب کے خصوصی رفقاء میں شامل تھے ) اور ان سے حضرت صاحب سے ملاقات اور اشتہار کا تذکرہ کر کے ان کی رائے طلب کی.انہوں نے حضرت صاحب کے دعوی کی وضاحت کی اور بتایا کہ ہم تو احمدی ہو چکے ہوئے ہیں آپ بھی بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو جائیں.چنانچہ چوہدری صاحب سیکھواں سے سیدھے قادیان چلے گئے.

Page 348

341 قادیان پہنچ کر آپ نے بیعت کی درخواست کی جو منظور ہوئی اور یوں بیعت کر کے آپ جماعت کی جومنظور احمدیہ میں داخل ہو گئے.چوہدری محمد خان صاحب نے جس روز بیعت کی وہ جمعہ کا روز تھا.بیعت کے بعد آپ نے گاؤں واپس جانے کی اجازت طلب کی تو حضرت صاحب نے فرمایا ابھی ٹھہر و.چنانچہ تعمیل ارشاد میں آپ اگلے جمعہ تک ٹھہرے اور جمعہ پڑھ کر اجازت لے کر گاؤں واپس چلے آئے.اس کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ ہر جمعہ قادیان میں پڑھا کرتے تھے اور عیدوں جلسوں وغیرہ میں شامل ہوتے تھے.بیعت کے بعد ایک روز جب چوہدری محمد خان حضرت صاحب کے پاؤں دبا رہے تھے تو جھجکتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں جس سے میری دین و دنیا دونوں سنور جائیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمارا وظیفہ یہی ہے کہ نماز سنوار کرادا کیا کرو اور استغفار کثرت سے کیا کر و بعد میں ایک مرتبہ پھر جب آپ ایسے ہی پاؤں دبارہے تھے تو پھر یہی عرض کیا تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ استغفار اور درود شریف کثرت سے پڑھا کریں چنانچہ وہ اس پر عمر بھر عمل پیرا رہے آپ کی روایات حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ المہدی میں درج فرمائیں.۱۹۰۵ء میں حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی صاحب وفات پاگئے.اسی زمانہ میں حضرت مولوی برہان الدین جہلمی صاحب بھی فوت ہو گئے.خود حضرت صاحب کو بھی قرب وفات کے الہامات متواتر ہورہے تھے.حضرت صاحب کو اس بات کا بڑا فکر تھا کہ علماء کی جماعت فوت ہو رہی ہے لیکن ان کے قائم مقام سامنے نہیں آرہے.حضرت صاحب نے ۱۹۹۸ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اسی غرض کے لئے جاری فرمایا تھا کہ بچے دنیا کے علوم خدمت دین کے لئے سیکھیں.۱۹۰۵ء کے اواخر میں قادیان کے ایک جلسہ میں حضرت صاحب نے ان باتوں کو بیان فرمایا.اس جلسہ میں چوہدری محمد خان بھی موجود تھے آپ بتایا کرتے تھے کہ حضرت صاحب کی باتیں سن کر میرا دل رفت سے بھر گیا اور آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے.اس وقت ان کی شادی ہوچکی تھی لیکن ابھی اولاد کوئی نہ تھی.آپ نے اشکبار آنکھوں سے اپنے دل میں دعا کی اور خدا سے وعدہ کیا کہ اے خدا اگر تو مجھے دو بیٹے دے دے تو میں ایک کو تو تعلیم دلواؤں اور دوسرے کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھاؤں.اللہ کی قدرت کہ اس کے بعد ان کے ہاں پانچ بیٹے پیدا ہوئے جن میں سے تین نو عمری میں فوت ہو گئے اور دو

Page 349

342 مانگے تھے تو عمر پانے والے دو بیٹے ہی ملے.مدرسہ احمدیہ ۱۹۰۹ء میں دینی علوم سکھانے کے لئے جاری ہوا تو بیٹا اس میں داخل کرایا اور چھوٹے بیٹے کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل کرایا.چوہدری محمد خان صاحب خاکسار راقم الحروف کے دادا تھے.مذکورہ بالا واقعات و حالات انہوں نے میرے والد صاحب سے کئی بار بیان کئے اور انہوں نے مجھ سے متعدد بار زبانی اور تحریری طور پر بیان کئے میرے تایا جنہوں نے مدرسہ احمدیہ سے دینی علم حاصل کیا.زندگی وقف کی اور تادم آخر خدمت دین میں زندگی گزاری ان کا نام چوہدری محمد طفیل خان تھا.آپ کو خدا کے فضل سے دعوت الی اللہ کا بہت اچھا موقع ملا وہ انسپکٹر مال کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور زندگی کے آخری ایام میں لالیاں میں بطور معلم وقف جدید کام کر رہے تھے.کام کے دوران ہی دل کی تکلیف ہوئی فضل عمر ہسپتال میں پندرہ روز زیر علاج رہے پھر آرام کی غرض سے میرے والد صاحب کے ہاں لائل پور (فیصل آباد ) آگئے اور ابھی ایک ہفتہ بھی آئے ہوئے نہ گزرا تھا کہ دل کا پھر دورہ پڑا اور علاج میسر آنے سے پہلے جان جان آفریں کے سپرد کر دی ان کے بیٹے رانا محمد بشیر یحیی خان اور رانا محمد موسیٰ خان اور بیٹیاں اور ان کی اولا د کراچی میں ہوتی ہے میرے والد صاحب چوہدری محمد یعقوب خان صاحب ماشاء اللہ 4 برس کے ہیں میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد طارق را نا ڈینٹل سرجن اسلام آباد کے پاس ہوتے ہیں.میٹرک کر کے وہ محکمہ کو اپر بیٹوسوسائٹیز میں سب انسپکٹر بھرتی ہوئے اور وہاں سے ریٹائرڈ ہو کر کئی سال تک بطور انسپکٹر انصار اللہ مرکز یہ خدمت سرانجام دیتے رہے.میرے دوسرے بھائی ڈاکٹر محمد زبیر خان را نا بون متھے (انگلینڈ) کی جماعت کے پریذیڈنٹ ہیں.تیسرے محمد عثمان خان سیکرٹری مال جماعت آسٹریلیا اور چوتھے رشید الدین خان و نیکو ور کینیڈا میں دعوت الی اللہ کے کام میں ذوق وشوق سے حصہ لیتے ہیں.ہمشیرہ امینہ مبارکہ اہلیہ پروفیسر چوہدری عبدالحمید بھٹی امیر حلقہ فاروق آباد لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں.خاکسار بھی عمر بھر ملازمت میں جہاں جہاں رہا ہے حسب توفیق جماعت کے کاموں میں حصہ لیتا رہا ہے.آج کل جماعت احمد یہ آسٹریلیا کا نیشنل وائس پریذیڈنٹ اور نمائندہ الفضل انٹرنیشنل ہے.قبل ازیں خاکسار کو جن عہدوں پر کام کرنے کی عزت وسعادت حاصل رہی ہے ان میں ممبر سٹینڈنگ کمیٹی صد سالہ جو بلی فنڈ.دوسالوں میں ربوہ کی مرکزی شوری کی سب کمیٹی تحریک جدید کا صدر خدام الاحمدیہ کی مرکزی شوریٰ کی

Page 350

343 دستور کمیٹی کا صدر.جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ فیصل آباد، مرکزی فنانشنل سیکرٹری احمدیہ انجینئر ز ایسوسی ایشن ربوہ صدر انصار اللہ آسٹریلیا، صدر حلقہ سول لائن لاہور وتربیلہ وامیر بن غازی لیبیا وغیرہ شامل ہیں.خدمت کی کوئی بھی توفیق ملنا سب خدا کے فضل پر موقوف ہے اور اس میں ہمارے دادا جی کی دعاؤں کا بھی بڑا دخل ہے.اگر کوئی خدمت کرنے کی ان کی اولاد میں سے کسی کو توفیق ملتی ہے تو خدا کرے اس کا اجر ان کو بھی پہنچتا ر ہے اور ان کا بسیرا ہمیشہ ہمیش خدا کی رضا کے سایہ تلے ہو.آمین (الفضل ربوه 9.10.97)

Page 351

344 دجال کا گدھا اگر کسی اجنبی شخص کی آمد کا انتظار ہو جس کو پہلے کبھی دیکھا نہ گیا ہولیکن اپنے کسی عجیب و غریب صفات والی سواری پر سوار ہو کر آنا ہو جس کا ہمیں پہلے سے علم دے دیا گیا ہو تو سواری کو دیکھ کر ہم اس کے مالک کو پہچان سکتے ہیں.بالکل ایسا ہی واقعہ دجال کے ساتھ پیش آنے والا تھا.مسلمانوں کو صدیوں سے امام مہدی ومسیح کی آمد کا انتظار تھا اور اس کی آمد سے پہلے دجال اور یا جوج ماجوج کا ظہور مقدر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کے گدھے یعنی اس کی سواری کی علامات خدا سے علم پا کر تفصیل سے بیان فرما دی تھیں.اس میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ تھی کہ مسلمان جب ان علامتوں سے دجال کے گدھے کو پہچان لیں گے تو اس کے موجد وسوار کو پہچان کر دجالی فتنہ سے ہوشیار ہو جائیں گے اور سمجھ جائیں گے کہ اب اس کے روحانی مقابلہ کے لئے مسیح و مہدی بھی آنے والے ہیں.کیونکہ وہی وقت وقت مسیحا کا ہونا مقدر تھا.پس یہ کوئی معمولی بات نہیں.دجال کا گدھا مع اپنی تمام علامتیں دجال اور یا جوج ماجوج کی بتائی تھیں وہ بھی کب کی پوری ہو چکی ہیں لیکن لوگ ظاہر کو پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں مستور پیغام پر غور نہیں کرتے.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رویا و کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اور ان کے اصل معنے اپنے وقت پر کھلتے ہیں.دجال کے معنے ہیں بہت بڑا دجل (دھو کہ ) دینے والا.خدا کے ایک عاجز بندے کو خدا

Page 352

345 کے بیٹے کے طور پر دنیا سے منوانے سے بڑا دھو کہ اور کیا ہوسکتا ہے اور اسی قوم کے فلسفیوں نے اپنے فلسفہ کے زور پر دنیا کو خدا اور مذہب سے دور کر کے دہریت کے گڑھے میں گرا کر بہت بڑے دجل کا ارتکاب کیا ہے.چنانچہ دجال کی حقیقت کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: ” دراصل یہی لوگ دجال ہیں جن کو پادری یا یورپین فلاسفر کہا وو جاتا ہے یہ پادری اور یورپین فلاسفر دجال معہود کے دو جبڑے ہیں جن سے وہ ایک اثر دہا کی طرح لوگوں کے ایمانوں کو کھا جاتا ہے اول تو احمق اور نادان لوگ پادریوں کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کے ذلیل اور جھوٹے خیالات سے کراہت کر کے ان کے پنجے سے بچارہتا ہے تو وہ یورپین فلاسفروں کے پنجے میں ضرور آجاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کے عوام کو پادریوں کے دجل کا زیادہ خطرہ ہے اور خواص کو فلاسفروں کے دجل کا زیادہ خطرہ ہے.“ (کتاب البریه حاشیه صفحه ۲۵۲) یا جوج ماجوج قوم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خدا نے مجھے سمجھایا ہے یا جوج ماجوج وہ قوم ہے جو تمام قوموں سے زیادہ دنیا میں آگ سے کام لینے میں استاد بلکہ اس کام کی موجد ہیں اور ان ناموں میں یہ اشارہ ہے کہ ان کے جہاز.ان کی ریلیں.ان کی کلیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی اور ان کی لڑائیاں آگ کے ساتھ ہوں گی اور وہ آگ سے خدمت لینے کے فن میں تمام دنیا کی قوموں سے فائق ہوں گی اور اسی وجہ سے وہ یا جوج ماجوج کہلائیں گے.سو مقرر ہو چکا تھا کہ مسیح موعود یا جوج ماجوج کے وقت ظاہر ہوگا.“ ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۴ - ۴۲۵) پس دجال اور یا جوج ماجوج دو مختلف حیثیتوں سے ایک ہی قوم کے نام ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب,Revelation, Retionality

Page 353

346 Knowledge and Truth میں صفحہ ۶۰۶ تا ۶۰۹ میں دجال کے گدھے کی جو مختلف نشانیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی تھیں اور احادیث کی مختلف کتب میں مذکور ہیں ان کو مع حوالہ جات جمع فرما دیا ہے جن سے اس گدھے کی ایک دلچسپ تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کے اس انوکھے گدھے کی علامتیں بیان فرمائی ہوں گی تو وہ باتیں اس زمانہ کے لوگوں کو بہت عجیب لگی ہوں گی کیونکہ باوجودا سے بار بار گدھا کہہ کر پکارنے کے عام گدھے کی کوئی بات بھی اس میں نہیں پائی جاتی.لیکن آج کل کے زمانہ کی سواریوں مثلا ریل، ہوائی جہاز ، کار، بس، بحری جہاز وغیرہ پر وہ سب باتیں ہو بہو پوری اترتی ہیں.ان سبھی سواریوں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ سبھی آگ کی طاقت سے کام کرتی ہیں.حضور رحمہ اللہ نے اس علامتی گدھے کی جو نشانیاں مختلف کتابوں سے اپنی کتاب میں نقل کی ہیں ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ا.دجال خود بھی اپنے گدھے کی طرح ایک دیو ہیکل وجود ہوگا.اس کا قد اتنا لمبا ہو گا کہ اس کا سر بادلوں میں چھپ جائے گا اور اتنا طاقتور ہوگا کہ اکیلے ساری دنیا کو فتح کرلے گا.۲.دجال کی دائیں آنکھ اندھی ہوگی (كَنْزُ الْعُمَّال) (صحیح مسلم).اس گدھے پر صرف دجال ہی سواری نہیں کرے گا بلکہ بطور پبلک ٹرانسپورٹ کام کرے گا.اس کی ایک سائیڈ میں کھلی جگہ رکھی جائے جہاں سے سواریاں اس کے پیٹ کے اندر داخل ہوں گی (بحار الانوار) ۴.گدھے کے پیٹ کے اندر خوب روشنیاں ہوں گی اور ان پر بیٹھنے کے لئے آرام دہ سیٹیں ہوں گی (بِحَارُ الْأَنْوَار).یہ گدھا غیر معمولی تیز رفتار سے چلے گا اور ایسے لمبے فاصلے جو عام حیوانی سواریاں مہینوں میں طے کرتی ہیں وہ دنوں بلکہ گھنٹوں میں طے کر لے گا.(نُزْهَتُ الْمَجَالِس) ۶.سفر کے دوران اس گدھے کے لئے با قاعدہ سٹاپ مقرر ہوں گے.اور ہر سٹاپ سے دوبارہ روانگی کے وقت سواریوں کو بلایا جائے گا کہ وہ اپنی سیٹوں پر بیٹھیں.یوں یہ گدھا عام لوگوں

Page 354

347 کے لئے تیز اور آرام دہ سواری کے طور پر کام کرے گا (بحار الانوار) ے.جو مسافر اس گدھے کے پیٹ میں بیٹھیں گے وہ اس آگ سے نہیں جلیں گے جو وہ بطور خوراک کھائے گا جس کا مطلب ہے کہ اس کا آگ والا کمپارٹمنٹ بیٹھنے والے کمپارٹمنٹ سے علیحدہ ہوگا (بحار الانوار) ۸.یہ گدھا سمندر پر بھی سفر کرے گا اور اس کی لہروں پر سوار ایک براعظم سے دوسرے (نزهت المجالس) براعظم تک پہنچے گا.جب یہ گدھا سمندروں پر سفر کرے گا تو کچھ ایسا ہوگا کہ اس کا سائیز پھیل جائے گا اور کھانے پینے کی اشیاء کے پہاڑ اپنی پشت پر لا دے سمندروں کے پار جائے گا.کئی دفعہ دجال اس گدھے کے ذریعہ خوراک کے بڑے بڑے ڈھیر ایسی غریب اقوام کو بھیجے گا جو اس کی ماتحی قبول کرتی ہوئی اس کی مرضی کے مطابق چلیں گی (صحیح بخاری) ا.یہ عجیب وغریب گدھا آسمان میں بھی پرواز کرے گا اور اتنی لمبی لمبی چھلانگیں لگائے گا کہ مشرق سے مغرب تک جا پہنچے گا.اس کا ایک قدم اگر مشرق میں ہوگا تو دوسرا مغرب میں گویا ایک براعظم سے Take off کرے گا تو دوسرے براعظم میں Land کرے گا.(نزهت المجالس) ۱۱.جب یہ گدھا ہوا میں اڑے گا تو بادلوں سے بھی اوپر پرواز کرے گا.(کنز العمال) ۲۱.اس کے ماتھے پر چاند ہو گا.بظاہر چاند سے یہاں مراد Head Light ہیں جو آج (کنز العمال) کل کی سواریوں کے آگے لگی ہوتی ہیں سبحان اللہ مسیح موعود کے زمانہ کے واقعات کسی تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھا دیئے تھے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ احادیث سے اخذ کردہ نشانیوں کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ جس وضاحت کے ساتھ اس گدھے کے متعلق بیان کیا گیا ہے جس کو بروئے کار لا کر دجال دنیوی فتوحات حاصل کرے گا ہم حیران ہیں کہ کیا قاری کو اس کے پہچاننے کے لئے کوئی مزید مدد درکار ہے.

Page 355

348 یہ بات واضح ہے کہ یہاں دجل کا نام انہیں عظیم عیسائی طاقتوں کو دیا گیا ہے جن کے لئے مقدر تھا کہ وہ ایک روز تمام دنیا پر حکومت کریں گی.ہوائی جہاز.بحری جہاز اور مختلف گاڑیاں دجال کے گدھے ہی کی مختلف شکلیں ہیں.یہی ہیں جن کی غیر معمولی تیز رفتاری نے عیسائی اقوام کو دنیا پر غلبہ حاصل ہونے میں سب سے اہم کردار ادا کیا.پس جب دجال کے گدھے کو شناخت کر لیا تو اس کے مالک کو پہچاننے میں کیا مشکل رہی.یہی وہ طاقتیں ہیں جن کے روحانی مقابلہ کے لئے خدا نے مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے جب دجال کی فوجیں صف آرا ہو چکیں تو ضروری تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود بھی اپنی فوجوں کے ساتھ ان کے بالمقابل اتارا جاتا.

Page 356

349 مردوں اور عورتوں کی غیر طبعی مساوات کے خوفناک نتائج اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو بطور زوجین بنایا ہے یعنی ایک دوسرے کا جوڑا ہے.اس کا مطلب ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی تعمیل کرتے ہیں.یعنی باہم Complementary ہیں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے.بعض باتوں میں مرد افضل ہیں اور بعض میں عورتیں لیکن مجموعی طور پر مرد کو زیادہ قوی بنایا گیا ہے.چنانچہ بعض کاموں کے لئے مرد موزوں ہیں اور بعض کے لئے عورتیں.اسی طرح بعض کام مرد نہیں کر سکتے اور بعض کام عورتیں نہیں کر سکتیں.وہ دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں.ایک کی خوبیاں دوسرے کی خامیوں کو ڈھانپتی ہیں گویا وہ ایک دوسرے کے لباس کے طور پر ہیں.اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کا دائرہ کار (Role) ایک دوسرے سے مختلف رکھا ہے.یہ جو ایک دوسرے پر انحصار (Interdependence) ہے اس میں گہری حکمت ہے.اسی سے گھر یلو زندگی کو استحکام (Stability) ملتا ہے.یہ فطرت اور نظام قدرت کے مطابق ہے جس کے نظارے ایک ایٹم سے لے کر پوری کائنات میں جاری وساری نظر آتے ہیں.اس لئے جیسے ہی مساوات کے جذباتی نعرہ سے متاثریا مرعوب ہو کر مرد یا عورت اپنا وہ رول چھوڑ کر جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر

Page 357

350 کیا ہے دوسرے کا رول ادا کرنا شروع کرتے ہیں تو گھریلو زندگی میں عدم استحکام آنا شروع ہو جاتا ہے.پھر چونکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی تو باہم جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں جو گھروں کا سکون برباد کر دیتے ہیں اور اکثر طلاقوں تک نوبت پہنچتی ہے.بچوں کو بوجھ سمجھ کر ان سے بچتے ہیں اور اگر ہوں تو ان کی نفسیات اور تربیت پر بہت برا اثر پڑتا ہے.بعض صورتوں میں تو ایسے لوگ بے اولا دہی گزر جاتے ہیں.مغربی معاشرہ جو مساوات مردوزن کا علمبر دار ہے اب اس میں اس مسئلہ نے شدت سے اپنا سر اٹھایا ہے.حکومت آسٹریلیا نے اس مسئلہ کے تجزیہ کے لئے ایک تحقیق کروائی ہے جس کے نتائج چند روز قبل شائع ہوئے ہیں.اس کے مطابق بچوں کی پیدائش میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوگئی ہے کئی خاندانوں کی نسل ختم ہوگئی ہے.آج کل ۶۶ فیصد مرداور ۴۰ فیصد عورتیں ایسی ہیں جن کی کوئی اولاد نہیں ہے.پورا وقت ملازمت کرنے والی عورتوں کے ماں بننے کا امکان بہت کم ہے بہ نسبت ان عورتوں کے جو کام نہیں کرتیں یا جز وقتی ملازمت کرتی ہیں.۲۰ تا ۳۹ سال کی عمر کے افراد (مرد دعورت ) نے کہا ہے کہ مثالی خاندان دو یا تین بچوں پر مشتمل ہونا چاہیے لیکن عملاً تعداد اس سے کم ہوتی ہے.ایسے گھر دن بدن زیادہ ہوتے جارہے ہیں جن میں صرف ایک فرد ( مرد یا عورت ) رہتا ہے.اس رفتار سے ۵۲۰۲ء میں آسٹریلیا کا ہر تیسرا گھر ایسا ہوگا جس میں صرف ایک شخص اکیلا رہتا ہوگا.آگے پیچھے کوئی رشتہ دار اس کی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوگا اور اس کی وفات کے ساتھ اس کے خاندان کا چراغ گل ہو جائے گا.جب لوگوں سے اس صورتحال کی وجہ دریافت کی گئی تو جو انہوں نے بتایا وہ خالصہ یہ تھا کہ :.بچوں کی پرورش کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ایک مضبوط و مستحکم گھر ہو یعنی ایک Secure and Stable Home ہو.میاں بیوی ( قانونی یا ڈی فیکٹو ) کے باہمی تعلقات مستحکم ہوں.پھر دونوں کی آمدن بھی معقول اور مستحکم ہو.(ماخوذ از سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۸ جنوری ۲۰۰۵ء) یہ تو وہی بات ہوئی نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھانا چے گی.

Page 358

351 اسلام نے مردوں اور عورتوں کے رول متعین کر دیئے ہیں.مرد کو عورت کے لئے قوام بنایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے لئے روزی مہیا کرنے والا ، اس کے سارے معاملات کا نگران اور متکفل اور محافظ.اسلام نے مرد کو خاندان کا سر براہ بنایا ہے بوجہ اس کی بہتر جسمانی و دماغی صلاحیتوں کے اور خاندان کے نان و نفقہ اور دیگر ضروریات کی ذمہ داری کی وجہ سے.اس طرح ایک رنگ میں مرد کو عورت کا خادم اور نوکر بنایا گیا ہے.لیکن بعض صورتوں میں عورتوں کو بھی گھر سے باہر کام کرنا پڑتا ہے اس لئے عورت کو بھی کمانے کی اجازت ہے.چنانچہ فرمایا: وو مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں اور عورتوں کے لئے اس میں حصہ ہے جو وہ کمائیں.“ (النساء:۳۳) چونکہ روٹی کمانے کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے نہ کہ عورت پر اس لئے عورت کو کمانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا.نہ ہی مرد کو بوجہ قوام ہونے کے عورت سے ایسی توقعات وابستہ کرنی چاہئیں.البتہ اگر عورت اپنی خوشی سے اپنی کمائی میں سے اپنے خاوند کی مدد کرنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے اور خاوند کو بیوی سے بطور عطیہ لینے کی اجازت ہے اور چونکہ بیوی کے لئے گھر پر خرچ کرنا فرض نہیں اس لئے خاوند کو اس کے لئے بیوی کا ممنون ہونا چاہئے خواہ وہ رقم خود اس پر یا اس کے بچوں پر ہی خرچ ہوتی ہو.عورت کو اپنے مال میں سے جس پر اس کا قبضہ ہو ( جیسے وصول شدہ حق مہر ) اپنے خاوند کو دے سکتی ہے.جیسے خدا نے فرمایا: اور عورتوں کو ان کے مہر دلی خوشی سے ادا کرو.پھر اگر وہ اپنی دلی خوشی سے اس میں سے کچھ تمہیں دینے میں راضی ہوں تو اسے بلاتر ددشوق سے کھاؤ“ (النساء: ۵) عورت کا دلی خوشی سے دینا ضروری ہے.جبرا اس کا مال نہیں لیا جاسکتا.اگر چہ خاوند کے مال میں بیوی کا حق ہے لیکن خاوند بیوی کے مال سے سبھی لے سکتا ہے جب وہ دلی خوشی سے د سے دے.

Page 359

352 قرآن مجید کے مطابق اگر چہ عورت کو خاوند کی مرضی سے کام کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا عمومی دائرہ کار اس کا گھر ہی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کو ارشاد فرمایا: اپنے گھروں میں ہی رہا کرو اور گزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار جیسے سنگھار کی نمائش نہ کیا کرو“ (الاحزاب :۳۳) اس حصہ آیت پر حضرت مصلح موعودؓ کے تفسیری نوٹس کے مطابق انگریزی ترجمہ قرآن میں مندرجہ ذیل تشریح کی گئی ہے ( انگریزی سے ترجمہ :.ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا دائرہ کار زیادہ تر اس کا گھر ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گھر کی چاردیواری کو چھوڑ نہیں سکتی.وہ جتنی بار بھی اپنے جائز کام کاج کے لئے ادھر ادھر جانا چاہے جاسکتی ہے.لیکن مخلوط سوسائٹی میں گھومنا پھرنا یا ہر طرح کے چھوٹے موٹے کاموں یا پیشوں (Profession) وغیرہ کے لئے مرد کے شانہ بشانہ کام کرنا اور یوں بطور گھر کی مالکن کے جو مخصوص گھریلو کام اس کے ذمہ ہیں ان سے غفلت برت کر یا ان کو نقصان پہنچا کر ایسا کرنا اسلام جس مثالی عورت کا تصور پیش کرتا ہے اس کے مطابق نہیں.آنحضرت ﷺ کی ازواج کو بالخصوص گھروں کے اندر رہنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بوجہ امہات المومنین ہونے کے ان کی اعلیٰ حیثیت کا وقار اس کا متقاضی تھا.نیز اس لئے بھی کہ مسلمان اکثر ان کے پاس احتراماً حاضر ہوتے تھے اور کئی اہم دینی معاملات میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے.لیکن یہ حکم سبھی دیگر مسلمانوں عورتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے.قرآن کریم کا یہ طرز کلام ہے کہ اگر چہ بظاہر وہ خصوصی طور پر آنحضرت ﷺ سے مخاطب ہوتا ہے لیکن وہ خطاب اسی طرح سب مسلمانوں کے لئے بھی ہوتا ہے.اسی طرح یہ حکم اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کو مخاطب ہو کر دیا گیا ہے پر سبھی

Page 360

353 مسلمان عورتیں اس میں شامل ہیں.“ پس اسلام جس کلچر کوفروغ دینا چاہتا ہے اس میں پیشوں کو اختیار کرنا یا ان کی تعلیم حاصل کرنا مردوں کے دائرہ کار میں آتا ہے.عورتیں ضرور تعلیم حاصل کریں لیکن وہ تعلیم ایسی ہو جو ان کے دائرہ کار اور بچوں کی تعلیم و تربیت یا جماعتی و قومی ضرورت کے مناسب حال ہو.مردوں والے پیشے اختیار کرنا اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ایک صالحہ مسلمان عورت کی شان کے خلاف ہے.خدا کا قانون سب کے لئے یکساں ہے.غیر طبعی مساوات کے جو نتائج مغربی قو میں بھگت رہی ہیں ان کی اندھی تقلید کرنے والے بھی ان ہولناک نتائج سے بچ نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَلَى الْمَوْلُوْدِلَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ (البقره:۴۳۲ ) یعنی یہ بات سب مردوں کے ذمہ ہے کہ جو عورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب ان کے لئے مہیا کریں.اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور محسن اور ذمہ دار آسائش کا ٹھہرایا گیا ہے.اور وہ عورت کے لئے بطور آقا اور خداوندِ نعمت کے ہے.اسی طرح مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قومی زبر دست دیئے گئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے.“ پھر فرماتے ہیں: چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۸) خدا تعالیٰ فرماتا ہے الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ اور اسی لئے مردوں کو عورتوں کی نسبت قومی زیادہ دیئے گئے ہیں.اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے.وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی

Page 361

نکالتا ہے یا مختلف؟ 354 ( ملفوظات جلد ہفتم صفحه ۱۳۴ مطبوعہ لندن) اللہ تعالیٰ نے مرد کو جور ول (Role) تفویض کیا ہے.وہ حضرت مسیح موعود کی اس تحریر سے ظاہر ہے: اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے.ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے.اور بہر حال مردوں کے لئے قرآن شریف میں حکم ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوف یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کر سکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو.“ (ایضاً) اگر دنیا اپنے گھروں کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتی ہے تو اسے اسی تعلیم پر عمل پیرا ہونا ہوگا.(الفضل انٹر نیشنل 11.3.2005)

Page 362

355 خدائے رحمن کا ایک انعام.اونٹ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اونٹوں کی پیدائش پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے.چنانچہ سورہ غاشیہ میں ارشاد ہوا کہ اَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ کہ کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح تخلیق کئے گئے ہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کے حسن واحسان اور صفات کا ملہ وحسنہ کا آئینہ دار ہے اور چونکہ ہر چیز کو خلعت وجود اس غیر محدود طاقتوں والی ہستی کے ہاتھوں پہنایا گیا.لہذا اس کے راز قیامت تک کھلتے جائیں گے.اور یہ سلسلہ غیر محدود اور غیر ختم ہوگا.اونٹ پر ایک اچپیٹتی نظر سرسری نگاہ سے دیکھیں تو یہ جانور بے ڈھنگا عجیب وغریب موٹے موٹے لٹکتے ہونٹوں والا غیر متناسب لمبی گردن.پتلی ٹانگوں.چوڑے چوڑے پاؤں.ناخوشگوار بو اور کھنکھناتے گھٹنوں والا نظر آئے گا.یوں لگتا ہے جیسے فرشتوں کی ایک کمیٹی نے مل کر بنایا ہو دیکھنے والوں نے کہا اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی.اور کسی کو یہ فکر کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے.اس کا شتر کینہ ضرب المثل اس کو سدھانا کار دشوار اور اس پر سواری بہت مشکل ہے.گو چہرے سے بڑا متین وسنجیدہ دکھائی دیتا ہے.

Page 363

356 تخلیقی معجزه لیکن اونٹ کی خصوصیات پر ذرا غور سے نگاہ ڈالیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم انعام دکھائی دیتا ہے.یہ ایک تخلیقی معجزہ ہے.اور بجا طور پر صحرا کا جہاز کہلاتا ہے.صحرا ہماری زمین کے چھٹے حصہ پر پھیلا ہوا ہے.جہاں بار برداری کے لئے اونٹ ہی ایک کارگر ذریعہ ہے.کل دنیا میں تقریباً ڈیڑھ دو کروڑ اونٹ خدمت انسان میں مشغول ہیں.پاکستان اور بھارت کے علاوہ براعظم افریقہ.مشرق وسطی روس.چین.منگولیا.افغانستان اور ایران کے ممالک بالخصوص اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.راجستھان سیکٹر میں جو پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئی اس میں دونوں ممالک کی فوجوں نے اس سے فائدہ اٹھایا.عجیب خواص کا حامل غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کے جو اعضاء زیادہ بے ڈھنگے نظر آتے ہیں وہی سب سے زیادہ قیمتی صفات کے حامل ہیں.آنکھوں کی بناوٹ ایسی غلاف دار اور جھالر والی کہ صحرا میں اڑنے والی ریت کے لئے بطور چھلنی کے کام آتی ہیں اور ریت آنکھوں تک نہیں پہنچ پاتی اس کے کان اور نتھنے ایسے کہ جب ارد گر دریت اڑے تو انہیں بند کر لیتا ہے.پاؤں جو غیر متناسب طور پر بڑے نظر آتے ہیں وہ چونکہ چوڑے.باہر کو پھیلے ہوئے اور گری دار ہیں ریت میں نہیں دھنستے.لمبی گردن کے ذریعہ اسے صحراؤں کی جھاڑیاں چننے میں آسانی ہوتی ہے.اور جب بوجھ لے کر اٹھتا ہے تو گردن کا زور استعمال کرتا ہے.اس کے ہونٹ بڑے موٹے موٹے اور سخت ربڑ جیسے ہوتے ہیں.اور سخت نو کیلے کا نٹوں کو بھی کتر لیتے ہیں.ایسے سخت کانٹے بھی جو جوتوں کے تلووں سے بھی گذر جائیں.جھاڑیاں توڑنے کے لئے اونٹ کو زبان باہر نہیں نکالنی پڑتی اور اس طرح جسم کا پانی زبان کے ذریعہ ضائع نہیں ہوتا.اونٹ کا معدہ بھی خوب ہے اس کے چار حصے ہوتے ہیں.جس میں کھائی ہوئی اشیاء بار بار چکر لگاتی رہتی ہیں.اونٹ اگر بھوکا ہو تو کسی جھونپڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے چھت کا خشک گھاس پھونس بھی کھا جائے گا پلاسٹک اور تانبہ کی چیزیں بھی نگل جائے گا.اور معدہ کے اس عمل میں ایسی چیزوں سے بھی طاقت حاصل کر لیتا ہے جن میں بظاہر غذائیت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.یہی

Page 364

357 وجہ ہے کہ اس کا فضلہ بہت خشک اور تھوڑا ہوتا ہے.اور اس کی مینگنیاں خوب جلتی ہیں.اونٹ کی کوہان بھی بہت کام کی چیز ہے اس میں اونٹ کے پورے جسم کے وزن کے پانچویں حصہ کے برابر چربی جمع ہوتی ہے.دواڑھائی من سے کم کیا ہوگی.جب اونٹ کو غذا نہ ملے تو یہی چہ بی ملتی اور طاقت ہم پہنچاتی ہے.اونٹ کی ساری چہ ہی کو ہان میں جمع ہوتی ہے.لہذا باقی جسم چربی سے خالی ہوتا ہے.اسی لئے اونٹ کے گوشت میں چربی نہیں ہوتی.جسم کی گرمی کو ہان کے علاوہ باقی جسم سے خارج ہوتی رہتی ہے.لیکن اس کے جسم سے پسینہ خارج نہیں ہوتا.یوں پانی کی ضرورت کم ہو جاتی ہے.سب سے اہم خصوصیت اونٹ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پانی کی ضرورت کم از کم ہوتی ہے.تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اونٹ کی ساخت میں درجنوں ایسے عوامل ہیں.جو پانی کے ضیاع کو روکتے اور اس کی ضرورت کو قلیل ترین حد تک پہنچا دیتے ہیں.باقی جانوروں کے جسم سے اگر پیشاب کے ذریعہ یور یا خارج نہ ہو تو ان کے جسموں میں زہر پھیل جائے.لیکن اونٹ کا بدنی نظام ایسا ہے کہ پیشاب جگر میں بار بار چکر لگاتا رہتا ہے اور جگر یوریا کو لحمیات (Protein) میں تبدیل کر دیتا ہے اور پیشاب میں سے طاقت مہیا کرنے والے اجزا اچھی طرح نچوڑ لئے جاتے ہیں.اس طرح غذا اور پانی دونوں کی بچت ہو جاتی ہے اور پیشاب کی مقدار بہت قلیل رہ جاتی ہے.(اس جگہ مراد جی ڈیسائی یاد آتے ہیں جو اپنے ہی شربت قارورہ کا ایک جام ہر صبح نوش فرماتے ہیں لیکن اونٹ کے طبعی نظام سے کیا مقابلہ کجا رام رام کجا ٹیں ٹیں پھر باہر کی گرمی روکنے کے لئے اسے قدرت کی طرف سے بالوں کی موٹی تہہ عطا کر دی گئی ہے.اگر اونٹ زیادہ پر مشقت کام نہ کر رہا ہو اور اسے چرنے کا موقع ملتا ہے تو یہ اپنی ضرورت کا سارا پانی اپنے چارہ کی نمی سے حاصل کر لیتا ہے اور دس ماہ تک بغیر پانی پئے گزارہ کر سکتا ہے.اگر کبھی پانی کی نایابی کی مشکل وقت آن پڑے تو اپنے ہی جسم کے پٹھوں سے پانی حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے جسم گھلتا جاتا ہے یہاں تک کہ بغیر خطر ناک کمزوری کے پورے جسم کے چوتھے حصہ کے وزن کے برابر پانی حاصل کر لیتا ہے.

Page 365

358 اونٹ اور گھوڑے کا مقابلہ ایک جوان اونٹ گھوڑے کے مقابلہ میں زیادہ سفر کر سکتا ہے اونٹ چھ من وزن اٹھا کر ۲۵ میل یومیہ کے حساب سے مسلسل تین دن سفر کر سکتا ہے وزن کے بغیر دس میل فی گھنٹہ کے حساب سے ۱۸ گھنٹے مسلسل دوڑ سکتا ہے.ایک بار آسٹریلیا میں اونٹ اور گھوڑے کی دوڑ کا مقابلہ ہوا.۱۰ امیل کا سفر طے کرنا تھا.گھوڑا معمولی فاصلہ سے مقابلہ جیت گیا لیکن منزل پر پہنچ کر گرا اور مر گیا.اس کے مقابلہ میں اونٹ ایک رات سویا اور اگلے روز پھر ۱۰ امیل اتنے ہی وقت میں طے کر گیا.سنجیدہ طبع.مشقت پسند اونٹ ایک باوقار سنجیدہ طبع.مشقت پسند.پابند نظم جانور ہے.قطار میں چلتا ہے اور اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتا ہے.اگر صبر کا لفظ جانوروں کے لئے استعمال ہوسکتا ہو.تو اونٹ بے انتہا صبر کا مادہ رکھتا ہے شاید خدا نے اسی لئے قرآن کریم میں مثال دی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ انفرادی اور قومی ترقی کے جو یاں اس سے سبق حاصل کریں.اونٹ نافع الناس جانور ہے اپنی چالیس سالہ زندگی میں دو نسلوں کی خدمت کرتا ہے.ہل چلاتا ہے.کنوئیں سے پانی نکالتا ہے وزن اٹھاتا ہے.اونٹنی بچہ کی پیدائش کے بعد تین سال تک چار پانچ سیر دودھ روزانہ دیتی ہے.اس کے بال بہت مضبوط اور گرم ہوتے ہیں جس سے کمبل اور کپڑے بنائے جاتے ہیں.گوشت کھانے کے کام آتا ہے.یہ زندگی میں ہی نہیں مرنے کے بعد بھی بنی نوع انسان کے کام آتا ہے.اس کے چمڑے سے صحرانشین خیمے بناتے ہیں.قرآنی دعوت غور و فکر ی مضمون نشتہ ہے اور تشنہ رہے گا.قرآن کریم اونٹ کی تخلیق پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے.ہر بار غور و فکر سے تحقیق کے نئے میدان سامنے آتے رہیں گے.یہ دعوت ہم سب کے لئے ہے.

Page 366

359 قیامت تک کے لئے ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ تیری قدرت کا کوئی بھی انتہاء پاتا نہیں کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتران اسرار کا (لا ہور 8.11.81)

Page 367

360 آسمان میں کتنے سیارے ایسے ہوں گے جن میں چلنے پھرنے والی مخلوق بستی ہے؟ صحیح علم تو صرف خدا ہی کو ہے البتہ سائنسدان اندازے ضرور لگا رہے ہیں.ان کوسننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں.اس لئے کہ قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ خدا کی نشانیوں میں زمین و آسمان کی تخلیق اور ان دونوں کے درمیان زندہ چلنے پھرنے والی مخلوق کا وجود ہے جو اس نے وہاں پھیلا رکھے ہیں اور وہ اس بات پر بھی خوب قادر ہے کہ جب وہ چاہے انہیں اکٹھا کر دے.(الشوری ۳۰) اس سوال کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ کائنات میں کل ستارے کتنے ہیں اور دوسرا یہ کہ کتنے سیارے ایسے ہیں جو زندہ مخلوق کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.سوال کے پہلے حصہ پر آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی نے سٹڈی کی ہے اور دوسرے حصہ پر ملبورن کی Swinburme University اور سڈنی کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی نے مل کر تحقیق کی ہے.ان تحقیقات کا نچور پیش کرنے کے سے پہلے کائنات کی وسعت کا ایک اندازہ پیش کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا.کائنات جن انتہائی چھوٹے ذرات سے بنی ہے ( یعنی ایٹم ) ان کا نظام بھی ہمارے نظام شمسی سے مشابہ ہے.جس طرح ہمارے سورج کے گرد مختلف دائروں میں سیارے محو گردش ہیں

Page 368

361 ایسے ہی ایٹم کے مرکز (Nucleus) کے اردگرد مختلف دائروں میں الیکٹر ان گھومتے ہیں.ہمارا نظام سمسی ایک خاندان کی طرح ہے جو اپنی کہکشاؤں کے اندر چکر بھی لگاتا ہے اور ساتھ آگے بھی کسی سمت بڑھ رہا ہے.ہمارے نظام شمسی کی طرح کے ایک سوارب نظام اس کہکشاں کا حصہ ہیں.ہر نظام میں کچھ ستارے (Stars) ہوتے ہیں جو ذاتی طور پر روشن ہوتے ہیں اور ان سے حرارت اور روشنی خارج ہوتی ہے یعنی سورج.پھر ہر ستارے کے گردگھومنے والے سیارے(Planets) ہوتے ہیں جیسے ہماری زمین اور پھر ہر سیارے کے گرد گھومنے والے اپنے اپنے ” تابع سیارے (Satelites ہوتے ہیں جیسے ہمارا چاند.جس کہکشاں (Milkeyway(Galaxy کا حصہ ہمارا نظام شمسی ہے اور اس میں اس طرح کے سوا رب اور نظام بھی ہیں ) اس کہکشاں جیسی کوئی سوارب مزید کہکشائیں ہماری کائنات میں چکر لگاتی لگاتی اپنے مستقر کی طرف بڑھ رہی ہیں.ہماری کائنات کوئی ۱۳۰۷ بلین ارب ) سال پہلے بگ بینگ (دھما کہ ) کے ساتھ ایک ایسے نقطہ سے پھوٹی تھی جس کی کثافت (Density) کہتے ہیں لامحدود (Infinity) تھی لیکن حجم (طول ، عرض ، گہرائی) صفر تھا.سائنسدان نیست (Nothingness) یا عدم وجود کو اسی طرح بیان کر سکتے ہیں کہ جس نقطہ سے کائنات پھوٹی تھی (Singularity) نہ اس کی لمبائی تھی نہ چوڑائی نہ موٹائی اور نہ ہی اس پر فزکس کے قوانین لاگو ہوتے تھے.سیدھی بات یہ ہے کہ اس کو ہم نیست سے ہست کرنا یا عدم وجود سے تیز وجود میں لانا کہتے ہیں اور یہ کام اسی خالق ، قادر اور علیم ہستی کا ہو سکتا ہے جو خود مکاں اور زماں Space and) (Time اور مخلوق کی دوسری کمزوریوں سے پاک ہو اور اس کی صفات اور طاقتیں لامحدود ہوں.کائنات چونکہ اتنی وسیع ہے کہ عام میلوں کے پیمانہ سے اسے اپنا ممکن نہیں اس لئے فاصلے ظاہر کرنے کے لئے نوری سال (Light year Distance) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی یا بجلی ۳ لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی ایک سال میں طے کرتی ہے.ایک نوری سال ۲۸.۹۴۶۷ بلین (ارب ) کلومیٹر کا ہوتا ہے.سورج زمین سے ۱۵۰ ملین (۱۵ کروڑ ) کلومیٹر دور ہے اور روشنی وہاں سے زمین تک پہنچنے میں 9 منٹ لیتی ہے.ہمارے نظام شمسی کا سب سے دور سیارہ پلوٹو ہے جو سورج سے ۹۰۰ ۵ ملین کلومیٹر دور ہے اور روشنی وہاں تک

Page 369

362 پہنچنے کے لئے پانچ گھنٹے اور ۴ ۵ منٹ لیتی ہے.کائنات مسلسل پھیل رہی ہے.سٹیفن ہاکنگ کا اندازہ ہے کہ ہر ہزار ملین سالوں میں کائنات پانچ تا دس فیصد تک پھیل جاتی ہے.کائنات میں کہیں نہ کہیں نئے بھی پیدا ہور ہے ہیں ( گویا ستاروں میں بھی حیات و ممات کا سلسلہ جاری ہے.گویا ہر چیز فانی ہے ہمیشہ رہنے والا صرف خالق مطلق ہی ہے ) کائنات میں اس قد ر مادہ بکھرا پڑا ہے کہ تمام کروں کے مجموعی مادہ (Matter) سے نو گنا زیادہ ہے اس کو سیاہ مادہ (Dark Matter) کہا جاتا ہے.چونکہ یہ نظر نہیں آسکتا اس لئے اس کو سیاہ مادہ کہتے ہیں.کسی چیز کے نظر آنے کے لئے ضروری ہے کہ روشنی اس سے ٹکرا کر دیکھنے والے تک واپس پہنچے.لیکن یہ سیاہ مادہ اتنا زیادہ کثیف (Dense) ہے اور اس کی وجہ سے اس کی کشش ثقل (Gravity) اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ جو چیز اس کے قریب آئے اسے کھینچ کر اپنے اندر ہڑپ کر لیتی ہے.روشنی جیسی ہلکی چیز بھی اس کو چھوکر واپس نہیں آسکتی اسی میں جذب ہو جاتی ہے اس لئے اسے کبھی دیکھا نہیں جاسکتا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں زمین و آسمان کے درمیان پائے جانے والے اس مادہ کا بھی ذکر ہے جیسے فرمایا اللهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (المائدہ: ۱۸) اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اسکی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے.وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.( دونوں کے درمیان ۹۰ فیصد سیاہ مادہ ہے ) ستاروں کی تعداد کے بارہ میں تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر سائمن ڈرائیور (Dr Simon Driver آف آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کہتے ہیں کہ دنیا میں پہلی بار ہم نے ہی آسمان کے تاروں کو گنے کی کوشش کی ہے.( شاید ان کو علم نہیں کہ اگلے وقتوں میں عاشق بھی ہجر کی طویل راتوں میں تارے ہی گنا کرتے تھے ) جو تارے ہم کمپیوٹروں کی مدد سے گن سکے ہیں ان کی تعداد ستر ہزار ملین ملین ملین (سات عدد کے دائیں طرف بائیس صفر ) نکلتی ہے.لیکن یادر ہے کہ یہ تعداد کائنات کے صرف نظر آنے والے حصہ کے ستاروں کی ہے.وہ حصہ جو نظروں سے اوجھل ہے اس کے بارہ میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے نہ ہی ابھی تک کوئی ایسی دور بین بنی ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کر سکے.وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے بحرو بر میں پائی جانے والی ریت کے کل جتنے ذرے ہیں یہ

Page 370

363 تعداد اس سے بھی دس گنا زیادہ ہے.ستاروں کی تعداد کا پہلا اندازہ جیسا اوپر بیان ہوا وہ دس ہزار ملین ملین ملین ( ۱۰۰ بلین × ۱۰۰ بلین) تھا جبکہ جدید اندازہ ستر ہزار ملین ملین ملین یعنی سات گناہ زیادہ ہے اور یہ اندازہ بھی کائنات کے صرف نظر آنے والے حصہ کا ہے.علاوہ ازیں وہ کہتے ہیں کہ بے شمار ستارے ایسے ہیں جن کی روشنی ابھی تک ہم تک پہنچی ہی نہیں لہذاوہ نظر نہیں آسکتے.بگ بینگ ( یعنی کن فیکون ) کا واقعہ اگر چہ ۱۱۳۰۷ ارب سال پہلے گزرا ہماری زمین کوئی ساڑھے چار ارب سال پہلے اپنی ماں (سورج) کے بطن سے علیحدہ ہوئی.ڈاکٹر ڈرائیور سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ یقین رکھتے ہیں کہ زمین سے باہر بھی زندگی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ستر ہزار ملین ملین ملین ایک بہت بڑی تعداد ہے.کہیں نہ کہیں زندگی کا پایا جا نانا گزیر (Inevitable) ہے.(ماخوذ سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۲ جولائی ۲۰۰۳ء) سوال کے دوسرے حصہ پر تحقیق ملبورن کی SwinBurne University of Tecnology اور سڈنی کی NSW یونیورسٹی نے مل کر کی ہے.لیکن ان کی سٹڈی صرف ہماری اپنی کہکشاں تک ہی محدود ہے جس کا حصہ ہمارا نظام شمسی اور ہماری زمین ہے.ہمیں دلچسپی بھی زیادہ اسی میں ہے.دوسری اربوں کہکشائیں تو ہم سے بہت ہی دور ہیں.یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ زندگی کتنے سیاروں میں پائی جاسکتی ہے انہوں نے پہلے یہ طے کیا کہ زندگی کے قیام کے لئے کن حالات اور چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے اور پھر ایسے سیاروں کا اندازہ لگایا جائے جن میں مناسب حالات پائے جاتے ہیں.مثلاً وہ کہتے ہیں کہ کہکشاں بھی ایک شہر کی طرح ہوتی ہے.شہر کے جس علاقہ میں گھر قریب قریب ہوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں آبادی زیادہ ہوگی.اسی طریق پر ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جس علاقہ میں ستاروں کے جھرمٹ ہوں گے وہاں زندگی کے قابل سیاروں کے پائے جانے کا زیادہ امکان ہے.دوسری بات یہ ہے کہ جب تک بعض عناصر (Elements) سیاروں میں نہ پائے جائیں زندگی نہیں ہوگی مثلا کار بن، آکسیجن ، نائٹروجن اور بھاری دھاتیں (Matals) وغیرہ لیکن یہ دھاتیں بھی ایک خاص حد کے اندر ہونی چاہئیں.نہ بہت زیادہ ہونی چاہئیں نہ بہت کم تیسری بات یہ کہ زندگی کے قیام کے مناسب حال سیارے نہ تو کہکشاں کے مرکز سے بہت دور ہونے

Page 371

364 چاہئیں.نہ بہت زیادہ ہونی چاہئیں نہ بہت کم.تیسری بات یہ کہ زندگی کے قیام کے مناسب حال سیارے نہ تو کہکشاں کے مرکز سے بہت دور ہونے چاہئیں نہ بہت نزدیک.چوتھی بات یہ کہ وہی سیارے زندگی کی پیدائش کے لئے مناسب ہیں جو اپنی عمر کے اعتبار سے بچے ہوں نہ بوڑ ھے.دونوں صورتوں میں حالات زندگی کے لئے مناسب نہیں رہیں گے.ایسے سیاروں کی عمر تین تا پانچ ارب سال ہونی چاہئے.(جیسے ہماری زمین کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے )NSW یونیورسٹی کے پروفیسر Dr.Lineweaver نے بتایا کہ اس موضوع پر سب سے پہلی سٹڈی ہم نے کی ہے اس سے پہلے کسی نے حیات کے قابل سیاروں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا تھا.ہمارا اندازہ ہے کہ ہماری کہکشاؤں میں کوئی دس فیصد سیارے ایسے ہیں جن میں زندگی وجود میں آکر قائم رہ سکتی ہے.ایسے سیاروں کی تعداد صرف ہماری کہکشاں میں ۳۰ ملین (ارب) تک پہنچتی ہے.لہذا بہت سے سیارے ایسے ہوں گے جن میں زندگی کسی نہ کسی شکل میں ضرور پائی جاتی ہوگی.المسح ( سڈنی ہیرلڈ ۳ ۴ جنوری ۲۰۰۴ء) ” حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے اپنی مخزن علوم کتاب Revelation, Rationality "Knowledge and Truth کے صفحہ ۳۲۹ ۳۳۴ پر قرآن کریم کی رو سے زمین و آسمان کے درمیان چلنے پھرنے والی مخلوق کے وجود اور ان کے باہم اجتماع کا ذکر فرمایا ہے.نیز تخلیق کائنات ، کائنات کا ایک نقطہ سے سفر کا آغاز حیات و ممات کا سلسلہ، کائنات کا وسعت پذیر ہونا ، سورج کا اپنے نظام اور کہکشاں سمیت ) اپنے مستقر کی طرف سفر کرتے کرتے ایک بار پھر ایک نقطہ پر مرکوز ہو جانا، کائنات کی صف کا پیٹا جانا اور تخلیق کے عمل کا دہرایا جانا جیسے علوم کو قرآن کریم سے نکال کر پیش فرمایا ہے یہ مضمون بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہے اور مذکورہ کتاب کے کوئی تین سو صفحات پر پھیلا ہوا ہے.زمین کے باسیوں کا آسمانی کروں میں رہنے والوں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں رابطہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ بس اتنے ہی دور ہوں کہ چند دنوں ، مہینوں یا سالوں میں پیغام ان تک پہنچ کر واپس بھی آسکے.ہمارے نظام شمسی سے باہر ہماری کہکشاں (Galaxy) میں جو قریب ترین نظام شمسی ہے جس کے سورج کو (Proxima Centauri) کہتے ہیں وہ چارنوری

Page 372

365 سال دور ہے.دوسرے نظام ہائے شمسی اس سے زیادہ ہوں گے.ہماری کہکشاں کوئی ایک لاکھ نوری سال لمبی چوڑی ہے.A Brief History of Time By Stephen Hawking(P39) اس لئے ہماری کہکشاں کے قریب ترین کہکشاں ظاہر ہے ایک لاکھ نوری سال سے زیادہ فاصلہ پر ہوگی اور ان میں اگر کوئی زندہ مخلوق ہو اور انہیں بجلی کی رفتار سے کوئی پیغام بھیجا جائے تو اس کے آنے جانے میں کم از کم دو لاکھ سال گزر جائیں گے اور بعض کہکشائیں تو اتنی دور ہیں کہ وہاں پیغام کے آنے جانے میں اربوں سال تک لگ جائیں گے اور اتنی عمر تو خود ہماری زمین کی بھی نہیں ہوگی اور اگر ہوگی بھی تو پتہ نہیں کس قسم کی مخلوق اسپر اسوقت بستی ہوگی.خدا فرماتا ہے کہ ہم اس چیز پر قادر ہیں کہ ہم انسانوں کی جگہ کوئی ان سے بہتر مخلوق لے آئیں.(المعارج: ۴۲) جب پیغام بھیجنے اور وصول کرنے والے ہی نہ رہے تو رابطہ تو قائم نہ ہوسکا.اس لئے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آسمانی کروں کی زندگی ہماری اپنے کہکشاں میں ہی کہیں قریب قریب مل جائے.اس سلسلہ میں ایک دلچسپ خبر امریکہ سے آئی ہے انہوں نے وہاں کسی لیبارٹری میں ایسے کامیاب تجربے کئے ہیں جن سے روشنی کی رفتار کئی گنا بڑھائی جاسکتی ہے.(مادہ کی رفتار روشنی سے زیادہ نہیں بڑھ سکتی لیکن الیکٹرانک سگنلز کی بڑھائی جاسکتی ہے ).ان کا اندازہ ہے کہ روشنی کی رفتار ۳۰۰ گنا تک بڑھائی جاسکتی ہے یعنی اگر کوئی زندگی رکھنے والا سیارہ ۳۰۰ نوری سالوں کے فاصلہ پر بھی واقع ہو تو پیغام وہاں پہنچنے میں صرف ایک سال لے گا اور اتنا ہی عرصہ واپسی پر لگے گا.اس لئے یقین ہے کہ خدا کی زمینی اور آسمانی مخلوق کے رابطہ کی کوئی صورت جب خدا چاہے گا تو ضرور نکل آئے گی.کائنات کی وسعت، توازن، ترتیب، حکمت اور ڈایزئن دیکھ کر مومن کی روح وجد میں آتی اور پکار اٹھتی ہے.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (الفضل انٹر نیشنل 20.2.04)

Page 373

366 وقت کا راز بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں کہ وقت بہت قیمتی چیز ہے.اس کی قدر کرو.وقت کا تیر جب کمان سے نکل جائے تو واپس نہیں آسکتا لیکن وقت بجائے خود ایک سر بستہ راز ہے.وقت آخر کیا چیز ہے آیا اس کا وجود ہے بھی کہ نہیں اس کی حقیقت کا کیسے پتہ چلے؟ کیا اسے حواس خمسہ کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے جواب نفی میں ہے کیونکہ وہ اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں اور نہ ہی سونگھ اور چکھ سکتے ہیں.یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا آغاز کب ہوا اور خاتمہ کب ہوگا یہ کہاں سے آتا ہے اور کدھر کو جاتا ہے اگر یہ حرکت کر رہا ہے تو کیا بھی ساکن بھی ہوسکتا ہے اگر وقت کا تیر بالفرض مشرق سے مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے تو کیا کبھی اس کا رخ مغرب سے مشرق کی طرف بھی پھیرا جاسکتا ہے اگر کبھی یوں ہوسکتا تو یہ حسرت بھی پوری ہو جاتی کہ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو اور جب کائنات کی صف پیٹی جائے گی تو کیا الٹی چلنے والی فلم کی طرح وقت الٹنا شروع ہو جائے گا اور پھر اگر کبھی یوں ہوا تو کیا گزرے ہوئے واقعات پھر الٹے دہرائے جائیں گے.آئیے دیکھیں کہ حکماء وقت کی ماہیت کے بارہ میں کیا کہتے ہیں.وقت کی تعریف وقت کی تعریف بھی گول دائرہ کی طرح ہے جیسے کوئی پوچھے کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی تھی

Page 374

367 یا انڈہ.کہا جاتا ہے کہ کوئی سے دولھوں کے درمیانی وقفہ کو وقت کہتے ہیں لیکن وہ وقفہ بذات خود وقت ہی تو ہے اس لئے مسئلہ تو حل نہ ہوا.صرف وقت کا ایک مترادف لفظ ہاتھ آ گیا لیکن علم میں کوئی اضافہ نہ ہوا.سوال یہ ہے کہ کیا وقت کی کوئی تعریف بغیر وقت یا اس کا مترادف لفظ استعمال کئے ہو سکتی ہے.اگر نہیں ہوسکتی تو جب کسی کو گھنٹوں.منٹوں یا سیکنڈوں میں وقت بتاتے ہیں تو دراصل اس کا مطلب کیا ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ گھڑیاں دراصل وقت کی پیمائش نہیں کرتیں بلکہ وہ صرف ایک سٹینڈرڈ ہیں جن سے تبدیلی (Change) کو ماپا جاتا ہے.تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دراصل وقت نام ہے تبدیلیوں کے باہمی تعلق اور نسبت کو ماپنے کا.کلاک بذات خود ایک تبدیلی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے لوگ دوسری تبدیلیوں کو مانتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص دوڑ رہا ہے تو وہ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جاتا ہے.اس جگہ کی تبدیلی کو ہم سوئیوں کی جگہ کی تبدیلی کے ساتھ منسلک کر لیتے ہیں یہ گو یا دونوں کا باہمی تعلق یا نسبت ہے.ہم ان تبدیلیوں کو مختصر طور پر یوں بیان کرتے ہیں کہ فلاں شخص دس منٹ میں ایک میل دوڑا اس طرح جگہ تبدیلی یعنی ایک میل کو کلاک کی سوئیوں کی جگہ کی تبدیلی یعنی دس منٹ کے ساتھ منسلک کر دیا.اس لئے بجائے یہ کہنے کہ کلاک وقت کو ماپتی ہے یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ کلاک تبدیلی (Change) ظاہر کرنے کا ایک سٹینڈرڈ ہے.پس جب ہم وقت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو دراصل ہمارا منشاء تبدیلی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے.اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر بالفرض کا ئنات میں کوئی تبدیلی نہ ہو رہی ہو اور ہر چیز ساکن ہو جائے تو وقت بھی ٹھہر جائے گا لیکن جب تک کا ئنات موجود ہے ایسا ہونا ممکن نہیں.مخلوق کا ہر آن بدلتے رہنا خالق کے ہر آن نئی شان میں جلوہ گر ہونے کا مظہر ہے.چونکہ عناصر میں ہر آن تبدیلی کا عمل جاری ہے اور ایسے آلے بن گئے ہیں جن سے اس تبدیلی کا پتہ چلایا جا سکتا ہے اس لئے اس تبدیلی کو وقت ماپنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے.نیز ہمارے نظام شمسی ، یعنی سورج چاند اور زمین وغیرہ میں جو تبدیلیاں وقوع میں آرہی ہیں ان کو بھی وقت ماپنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی ان میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کو اپنے کلاک کی تبدیلیوں کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے.

Page 375

368 گھڑیوں کی دواقسام گھڑیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ جو مادی دنیا میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کو ماپتی ہیں یہ مشینی بھی ہوتی ہیں اور عناصر اور اجرام فلکی میں مسلسل رونما ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق بھی ہوتی ہیں جیسے ایٹمی کلاک یا نظام شمسی کی حرکت.گھڑیوں کی دوسری قسم کو روحانی کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ اس کا تعلق تبدیلیوں کے اس ادراک یا شعور سے ہے جو روح انسانی میں ودیعت کہا گیا ہے.ایک بے ہوش یا گہری نیند میں سویا ہوا شخص چونکہ ماحول میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس نہیں کر سکتا اس لئے اس کیفیت میں گزرے ہوئے وقت کا بھی اسے احساس نہیں ہوتا ان کو نفسیاتی گھڑیاں (Psychological Clocks) بھی کہا جاسکتا ہے.انسان اپنا کام علم اپنے حواس خمسہ اور ان سے ماورا جو چھٹی حس ہے ان کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اور ان کا تعلق دماغ (Brain) کی ساخت اور ذہن (Mind) کی مخصوص استعدادوں کے ساتھ ہے یعنی اگر دماغ کو ایک کمپیوٹر سے تشبیہ دیں تو جیسا خالق نے اس کو پروگرام کیا ہے نفسیاتی گھڑی ویسا ہی وقت بتائے گی ادراک و شعور کی علامتیں حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور مختلف انواع (Species) میں مختلف ہوتی ہیں.اسی لئے حیوانوں اور انسانوں میں چونکہ یہ پروگرامنگ مختلف ہوتی ہے اس لئے ان کا ادراک وشعور اور وقت کا احساس بھی مختلف ہوتا ہے.مثال کے طور پر انسانی کان بہت تھوڑی آوازوں کوسن سکتے ہیں یہ بھی خدا کا احسان ہے ورنہ ہمارے ارد گرد ہر وقت اتنی آواز میں موجود ہوتی ہیں کہ ان کے ایک تھوڑے سے حصہ کو بھی سن سکتے تو شور سے پاگل ہی ہو جاتے.اگر کوئی چیز ایک سیکنڈ میں سولہ تا اٹھارہ بار ارتعاش (Vibrate) کرے تو انسان اس مسلسل آواز کو نہیں سکتا اور اگر ارتعاش کی رفتار ایک سیکنڈ میں ہیں ہزار مرتبہ ہو جائے تو ایسی آواز کو انسان بالکل نہیں سن سکتا.اس کے بالمقابل کتا ارتمیں سو ( ۳۸۰۰) فی سیکنڈ مرتعش ہونے والی آواز کو بھی سن سکتا ہے اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ آپ کا کتا ایک سخت اور تیز آواز سن رہا ہو اور گھبرا کر ادھر ادھر دیکھ رہا ہو اور آپ کہیں پتہ نہیں اس کو کیا ہو گیا ہے جبکہ کتا شاید الٹا یہ سوچتا ہوگا کہ میرا مالک بہرا ہے کہ اتنی اونچی آواز بھی نہیں سن سکتا.یہی حال دوسری حسوں کا بھی ہے اور عالم حیوانات میں اس کی ہزاروں مثالیں بکھری پڑی ہیں.سچی بات یہی ہے جو خدا نے کہی کہ

Page 376

369 صرف خدا ہی کو علم ہے کہ تمہارے سامنے کیا ہے اور تمہارے پیچھے کیا ہے اور نہ تمہیں حاضر کا علم ہے نہ غائب کا سوائے اتنے حصہ کے جو خدا تمہیں دینا چاہئے.اس اصول کے تابع یہی کہا جاسکتا ہے کہ خود وقت اور اس کا احساس ادراک وشعور بھی خدا ہی کے ہاتھ میں ہے انسان وہی کچھ جان سکتا ہے جو اسے خدا بتائے یا سمجھائے.وقت محدود ہے یا لا محدود وقت کی ماہیت کا مسئلہ ہمیشہ سے سائنسدانوں اور فلاسفروں کے لئے دلچسپی کا حامل رہا ہے.جس طور پر کسی نے کائنات کو سمجھا اسی کے مطابق وقت کے محدود یالا محدود ہونے کے بارہ میں رائے قائم کی.پروفیسر سٹیفن ہاکنگ (Prof Stephen Hawking) نے اپنی مشہور کتاب "A Brief History of Time" میں اس بارے میں بعض آراء کا ذکر کیا ہے جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے: (۱) علمائے یہود عیسائیت اور اسلام کہتے ہیں کہ کائنات کا آغاز ایک خاص وقت پر ہوا.اس سے پہلے عدم تھا.(۲) سینٹ آگسٹائن (Agustine) نے کہا کہ وقت ہر مخلوق کی صفت ہے یعنی جو چیز وقت کے ساتھ بندھی ہوگی وہ ضروری مخلوق ہوگی اسی لئے خالق وقت سے منزہ ہے.(۳) ارسطور اور یونانی فلاسفر کہتے تھے کہ ہماری دنیا اور کائنات اور دنیا ہمیشہ سے یونہی ہے اور ہمیشہ یونہی رہے گی ان کے سامنے جب یہ اعتراض پیش کیا گیا کہ تہذیب و تمدن کی عمر اتنی تھوڑی اور محدود کیوں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ تہذیب و تمدن کے دور آتے جاتے رہتے ہیں اور یہ بنتے مٹتے رہتے ہیں اس لئے پتہ نہیں لگ سکتا کہ کائنات کب سے ہے.(۴) ایک فلاسفر Immanuel Kant نے اپنی کتاب Critipue of Pure Reason میں لکھا کہ کائنات کے ہمیشہ سے موجود ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں اور اس کے الٹ ایک خاص وقت پر پیدا ہونے کے بھی.اگر ایک مانا جائے کہ کائنات ہمیشہ سے ایسے ہی ہے تو وقت لا محدود ( Infinite) ہونا چاہئے لیکن یہ اس لئے درست نہیں کہ اگر لامحدود (Infinite) کو

Page 377

370 کسی بھی عدد سے تقسیم کریں تو جواب Infinity ہی آتا ہے جس کا مطلب بنتا ہے کہ ہر واقعہ سے پہلے لا محدود زمانہ گزر چکا ہوگا جو کہ لایعنی بات ہے.لیکن اگر اس کے بالمقابل کائنات کا آغاز ایک خاص وقت پر مانا جائے تو اس سے پہلے وقت کو لا محدود ماننا پڑتا ہے اور یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ ایسی صورت میں کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کائنات ایک خاص وقت پر ہی کیوں شروع ہوئی اور اس سے پہلے کیوں نہ ہوئی یہاں خاکسار عرض کرنا چاہتا ہے کہ آج کے اکثر دہر یہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات اور اس میں کارفرما قو تیں ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں اور ایسے ہی رہیں گے گویا یہ خود ہیں اور ان کا خالق کوئی نہیں.کائنات کا آغاز کسی خاص وقت پر تسلیم کرنے سے انکا موقف غلط ثابت ہوتا ہے اس لئے کہ کوئی چیز خود اپنے آپ کو ( مع ضروری صفات اور طاقتوں کے ) پیدا نہیں کر سکتی اس لئے اگر کسی بھی وقت کا ئنات عدم سے وجود میں آئی تھی تو اس کا ایک غیر محد ودقد رتوں والا خالق ہونا چاہئے.(۵) ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے کہا کہ کائنات ہر طرف پھیل رہی ہے اور دور کی کہکشائیں ہم سے اور بھی دور ہوتی جارہی ہیں اور کائنات جس رفتار سے پھیل رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دس میں ارب سال پہلے یہ ایک نقطہ پر مرکوز ہوگی اور اس کی کثافت (Density) لامحدود ( Infinity) ہوگی جس کی وجہ سے سائنس کے قوانین ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور مستقبل کے متعلق کوئی اندازے نہیں لگائے جا سکتے.اگر ” بگ بینگ (Big Bang) سے پہلے کوئی واقعات ہوئے بھی ہوں گے تو بھی چونکہ ہمارا ان سے کوئی تعلق واسطہ نہیں اس لئے انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مہبل کی تھیوری کے مطابق کائنات کی تخلیق کا ایک نقطہ آغاز تھا جو کوئی پندرہ ارب سال پہلے تھا جس چیز کا آغاز ہے اس کا انجام بھی ہے اور چونکہ کائنات اپنی حدود اور صفات خود متعین نہیں کر سکتی اس لئے عقلاً حدود مقرر کرنے والا ایک قدیر خدا بھی ہونا چاہئے.(1) نیوٹن (Newton) بھی ارسطو کی طرح وقت کے مطلق ہونے پر یقین رکھتا تھا جس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ کوئی سے دو گزرے ہوئے واقعات کے درمیان وقت کی پیمائش درست طور پر کی جاسکتی ہے لہذا یہ وقت اور خلاء (Time and Space) ایک دوسرے سے علیحدہ اور آزاد ہیں

Page 378

371 اور دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں.(۷) آئن سٹائن نے کہا کہ وقت کوئی مطلق (Absolute) چیز نہیں.اگر کوئی کلاک تیزی سے حرکت کر رہا ہو تو اس کے ساتھ وقت بھی بدل جاتا ہے.ان کے نظریہ اضافت کے مطابق ایسا کلاک جو تیزی سے حرکت کر رہا ہو اس کا وقت ایک ساکن کلاک کی نسبت آہستہ گزرتا نظر آتا ہے.۱۹۳۸ء میں ایک سائنسدان H.E.Ives نے اس نظریہ پر تجربات کئے اور اسے درست پایا (اگر اس جہان کا وقت بھی مطلق نہیں تو فرشتوں وغیرہ روحانی وجودوں اور حیات اخروی کے وقت کے پیمانوں کو انسان کیسے سمجھ سکتا ہے (خالد) اللہ نے ہر چیز کو لاجل مسمی یعنی ایک مقررہ مدت تک قائم رہنے کے لئے بنایا ہے اور اس نے پیدائش کے وقت ہی سے اس کی عمر کی حد اس کے اندر گو یا لکھ چھوڑی ہے.کائنات جن ایٹموں سے مل کر بنی ہے اس کے جزو پروٹون تک کی عمر سائنسدانوں نے معلوم کر لی ہے.جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس مادی کائنات کی کوئی بھی چیز نہ ہمیشہ سے ہے اور نہ ہمیشہ رہے گی.جب کوئی شے اپنی مدت حیات پوری کر لیتی ہے.تو وہ ٹوٹ پھوٹ کر اپنے مرکز اصلی کی طرف لوٹ جاتی ہے.کسی شے کا اپنی صفات سے محروم ہونا ہی اس کی موت ہے اور جب اس کے اجزاء ایک نئی ترکیب اور نئی صفات کے ساتھ ظہور کرتے ہیں تو وہ ایک دوسری نوع کی پیدائش کہلاتی ہے اور خدا ہمیشہ سے ایسے ہی ایک نوع کے بعد دوسری نوع پیدا کرتا چلا آیا ہے تا اس کی صفت خلق ظہور کرتی رہے لیکن مخلوق کی کوئی نوع بھی خدا کی طرح ازلی ابدی نہیں ورنہ وہ خدائی صفات میں شریک ہو جائے.چونکہ کائنات میں کوئی شے بھی ایسے نہیں جو کسی مدت حیات کی پابند نہ ہو اس کے لئے کائنات اور اس میں موجود ہر شے مخلوق ہے اور اپنے وجود میں اور قیام کے لئے ایک حی و قیوم ہستی کی محتاج ہے.وقت ہر مخلوق کی صفت اور کمزوری ہے جس سے خالق خود پاک ہے.وقت کا گھن ایسا ہے جو ہر چیز کو چاٹ جاتا ہے.غالب کا اشارہ شاید اسی طرف تھا جب اس نے کہا تھا: ہ میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی وقت روح و مادہ کی طرح خدا کی مخلوق اور اس کی تقدیر مبرم کا حصہ ہے.یہ وہ دھارا ہے جس کے ساتھ ہے بنا چارہ نہیں لہذا اس کو کو سنا اور برا بھلا کہنا بھی مناسب نہیں.ہاں اس

Page 379

372 کی قدر کرناضروری ہے کیونکہ ن گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں (17.6.2005")

Page 380

373 کائنات میں ہر طرف موت و حیات کا سلسلہ جاری ہے پچھلے دنوں ناسا امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دسمبر ۱۹۹۷ء کے دوران کا ئنات میں ایک بہت بڑا دھما کہ مشاہدہ کیا تھا جو اس بگ بینگ دھما کہ کے بعد سب سے بڑا تھا جس سے کائنات کا آغاز ہوا تھا.یہ دھما کہ کائنات کے آغاز کے دوارب سال بعد اور اب سے کوئی بارہ ارب سال پہلے ہوا تھا.دھما کہ کا مقام زمین سے اتنا دور ہے کہ روشنی جو بجلی کی رفتار سے سفر کرتی ہے اب ہم تک پہنچی ہے.جس سیٹلائٹ کے ذریعہ زمین پر یہ ریڈیائی پیغام موصول ہوا تھا وہ اٹلی اور ہالینڈ نے مل کر آسمان پر چھوڑا ہوا ہے اور اس کا نام Beppo Sax رکھا ہوا ہے.اب اسی قسم کا ایک اور واقعہ ہوا ہے.مذکورہ بالا سیٹلائٹ نے کینبرا آسٹریلیا کے قریب واقع Mount Stromla کی رصد گاہ کو جو پیغام بھیجے ہیں ان کے مطابق زمین سے ا..ملین روشنی کے سال (Light Year Distance) دور فاصلہ پر ایک بہت بڑا جلتا ہوا ستارہ نظر آیا ہے.یہ ستارہ جو پھٹ کر مر رہا ہے وہ اکیلا اس وقت اتنی روشنی دے رہا ہے جتنا وہ ساری کہکشاں (Galaxy) بھی نہیں دے رہی جس کا وہ ایک حصہ ہے اور جس میں اس جیسے ۱۰۰ ارب سورج چمک رہے ہیں.جو کچھ سائنس دانوں نے ریکارڈ کیا ہے وہ ایک بلیک ہول کی پیدائش کا منظر معلوم ہوتا ہے

Page 381

374 یعنی یہ ستارہ جل کر اپنے مرکز کی طرف تہہ بہ تہہ ہو کر یعنی لپٹا جا کر گر رہا ہے.عام ستارہ اس طرح نہیں جلا کرتاوہ جل کر ٹھنڈا سفید کنکر بن کر چکر لگاتا رہتا ہے جلنے کی حالت میں اس کو Super Nova کہتے ہیں.لیکن یہ واقعہ اس لئے مختلف تھا کہ یہ ستارہ کسی بلیک ہول میں تبدیل ہو رہا ہے یا پہلے سے موجود کسی بلیک ہول میں مدغم ہو رہا ہے.اس لئے اس کے جلنے کی کیفیت کو سپر نو وانہیں بلکہ Hyper Nova کہتے ہیں.بلیک ہول میں مادہ (Matter) شدید بھاری اور گھنا(Dense) ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی کشش ثقل (Gravity) اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ اگر چہ روشنی بالکل ہلکی ہوتی ہے وہ بھی اس کی کشش سے بچ کر نہیں جاسکتی اور اس میں جذب ہو جاتی ہے اور بالکل منعکس (Reflect) نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بلیک ہول نظر نہیں آسکتا.آسٹریلیا کے سائنس دان کہتے ہیں کہ لگتا ہے ناسا والوں نے بھی گزشتہ دسمبر میں کوئی اسی قسم کا منظر دیکھا ہوگا بلکہ عجب نہیں کہ پہلا بگ بینگ بھی کوئی بہت بڑا بلیک ہول ہی ہو.( سڈنی ہیرلڈ و مئی ۱۹۹۹ء ) خدا ہی جانتا ہے کہ کائنات میں کہاں کہاں کیا کچھ وقوع پذیر ہورہا ہے.حیات وموت کا سلسلہ صرف نباتات اور حیوانات کی انواع تک ہی محدود نہیں بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ پر محیط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت (روحانی خزائن جلد۲۳) میں زندگی وموت کے فلسفہ پر بہت لطیف انداز میں روشنی ڈالی ہے.مثلاً آپ فرماتے ہیں: ”موت اسی بات کا نام ہے کہ ایک چیز اپنی لازمی صفات کو چھوڑ دیتی ہے.تب کہا جاتا ہے کہ وہ چیز مرگئی.“ (صفحہ ۱۶۶) اکثر لوگ موت کے لفظ پر بہت دھو کہ کھاتے ہیں.موت صرف معدوم ہونے کا نام نہیں بلکہ اپنی صفات سے معطل ہونے کا نام بھی موت ہے.“ (صفحہ ۱۶۱) ایسا ہی بعض نباتاتی اور معدنی چیزیں علیحدہ علیحدہ ہونے کی حالت میں تو ایک خاصیت نہیں رکھتیں مگر ترکیب کے بعد ان میں ایک نئی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً شورہ یا گندھک یا صرف کوئلہ سے بارود بنایا جائے تو یہ غیر ممکن

Page 382

375 66 ہوتا ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکیب سے ایک نئی چیز پیدا ہوسکتی ہے.“ (صفحه ۱۷۲) پس معلوم ہوا کہ جب کوئی چیز اپنی لازمی صفات سے محروم ہو جاتی ہے تو وہی اس کی موت ہوتی ہے اور جب وہ نئی حالت یا نئی ترکیب میں جدید صفات پاتی ہے تو یہ اس کی نئی زندگی کہلاتی ہے مثلاً سب جانتے ہیں کہ پانی آکسیجن اور ہائیڈ وجن کا مرکب ہے.ہائیڈ ورجن بطور ایندھن جلتی ہے اور آکسیجن اسے جلنے میں مدد دیتی ہے لیکن وہ خاص نسبت (H2O) میں ملتے ہیں تو پانی وجود میں آتا ہے جو نہ جلتا ہے اور نہ جلنے میں مدد دیتا ہے بلکہ الٹا آگ کو بجھاتا ہے.یوں ہائیڈ روجن اور آکسیجن دونوں اپنی پہلی صفات سے محروم ہو کر نئی صفات حاصل کر کے ایک نئی قسم کی زندگی پاتے ہیں.جس نسبت سے عناصر باہم ملتے ہیں اس کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے.اگر آکسیجن اور ہائیڈ وجن H2O2 کی نسبت سے ترکیب پائیں تو بجائے پانی کے ایک زہر بن جائے گا.شرعی قوانین بھی طبعی قوانین کے متوازی چلتے ہیں چنانچہ جب انسان کی طبعی حالتیں صحیح تناسب میں کام کریں تو اعلیٰ اخلاق اور نیکی بن جاتے ہیں اور اگر ان کا تناسب بگڑ جائے تو بد خلقی اور برائی جنم لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جسم اور روح کے تغیرات حیات اخروی پر بڑی عمدہ روشنی ڈالتے ہیں چنا نچہ فرمایا: یہ بھی طبعی تحقیقاتوں سے ثابت ہے کہ تین سال تک انسان کا پہلا جسم تحلیل پا جاتا ہے اور اس کے قائم مقام دوسرا جسم پیدا ہو جاتا ہے اور یہ یقینی امر ہے جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ جب انسان کسی بیماری کی وجہ سے نہایت درجہ لاغر ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ایک مشت استخوان رہ جاتا ہے تو صحت یابی کے بعد آہستہ آہستہ پھر وہ ویسا ہی جسم تیار ہو جاتا ہے.سواسی طرح ہمیشہ کے لئے اجزاء جسم کے تحلیل پاتے ہیں اور دوسرے اجزاء ان کی جگہ لے لیتے ہیں پس جسم پر گویا ہر آن ایک موت ہے اور ایک حیات ہے.ایسا ہی جسم کی طرح روح پر بھی تغیرات وارد ہوتے رہتے ہیں.اس پر بھی ہر آن ایک موت اور ایک حیات ہے.صرف یہ فرق ہے کہ جسم کے تغیرات ظاہر اور کھلے کھلے ہیں مگر جیسا روح مخفی ہے ایسا ہی اس کے تغیرات بھی

Page 383

376 مخفی ہیں اور روح کے تغیرات غیر متناہی ہیں.جیسا کہ قرآن شریف سے ظاہر ہے کہ روح کے تغیرات غیر محدود ہیں.یہاں تک کہ بہشت میں بھی وہ تغیرات ہونگے مگر وہ تغیرات رو بہ ترقی ہونگے اور روحیں اپنی صفات میں آگے سے آگے بڑھتی جائیں گی اور پہلی حالت سے دوسری حالت ایسی دور اور بلند تر 66 ہو جائے گی گویا پہلی حالت بہ نسبت دوسری حالت کے موت کے مشابہ ہوگی.“ (چشمه معرفت صفحه ۱۶۸) پھر فرماتے ہیں: حالت خواب میں روحانی نظارے عجیب و غریب ہوتے ہیں مثلاً کبھی انسان ایک بچہ کی طرح اپنے تئیں دیکھتا ہے اور بیداری کا یہ واقعہ کہ وہ در حقیقت جوان ہے یا بوڑھا ہے اور اس کی اولاد ہے اور اس کی بیوی ہے بالکل فراموش کر دیتا ہے سو یہ تمام نظارے جو عالم خواب میں پیدا ہوتے ہیں صاف دلالت کرتے ہیں کہ روح خواب کی حالت میں اپنے حافظہ اور یادداشت 66 اور اپنی بیداری کی صفات سے الگ ہو جاتی ہے اور یہی اس کی موت ہے.“ (صفحه ۶۴ حاشیہ) نیز فرماتے ہیں: مجھے ایسے لوگوں سے سخت تعجب آتا ہے کہ وہ اپنی حالت خواب پر بھی غور نہیں کرتے اور نہیں سوچتے کہ اگر روح موت سے مستثنیٰ رکھی جاتی تو وہ ضرور عالم خواب میں بھی مستی رہتی.ہمارے لئے خواب کا عالم موت کے عالم کی کیفیت سمجھنے کے لئے ایک آئینہ کے حکم میں ہے.جو شخص روح کے بارے میں کچی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ خواب کے عالم پر بہت غور کرے کہ ہر ایک پوشیدہ راز از موت کا خواب کے ذریعہ سے کھل سکتا ہے.“ (صفحه ۱۶۲،۱۶۱) پس کائنات کی ہر چیز کے لئے موت مقدر ہے.ہر مخلوق پر فنا آنے والی ہے.ایک سے

Page 384

377 دوسری حالت دوسری سے تیسری اور اسی طرح ہر چیز فنا اور ارتقاء کے دائرہ میں آگے ہی آگے بڑھتی جاتی ہے اور تمام مخلوقات کا دائرہ اول و آخر خدا کی ذات سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہو جاتا ہے اور یہ کیسے ہوتا ہے یہ وہ راز ہے جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: پس جیسا کہ خدا نے اس آیت میں کہ وَخَلَقَ كُلَّ شيءٍ “ (الفرقان:۳) ہے لفظ کل کے ساتھ جو احاطہ تامہ کے لئے آتا ہے ہر ایک چیز کو جو اس کے سوا ہے مخلوق میں داخل کر دیا.ایسا ہی اس لفظ کل کے ساتھ اس آیت میں جو كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص:۸۹) یعنی ہر ایک چیز معرض ہلاکت میں ہے اور مرنے والی ہے بجز خدا کی ذات کے کہ وہ موت سے پاک (صفحه: ۱۶۵) پس اگر امریکہ اور آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے مرتے ہوئے سورج ،ستارے، آسمان پر مشاہدہ کئے ہیں تو یہ خدا کے سنت کے عین مطابق ہے جو ہر مخلوق پر حاوی ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں.( الفضل انٹر نیشنل 9.10.98)

Page 385

378 کرسمس کا آغاز کب اور کیسے ہوا ؟ پروفیسر اوون چیڈوک (Owen Chadwick) جو کیمبرج یونیورسٹی میں ماڈرن ہسٹری کے استادرہ چکے ہیں اپنی کتاب (A History of Christianity) میں لکھتے ہیں کہ جب ۳۳۶ عیسوی میں پہلی بار کرسمس منایا گیا تھا تو اس تہوار کے تین پہلو تھے ایک تو موسم سرما کی اداسی سے چھٹکارا پانے کی خوشی.دوسرے رومیوں کی سورج اور اس کی دھوپ سے روایتی عقیدت کا اظہار اور تیسرے فلسطین کے شہر بیت اللحم (Bethlhem) کے ایک طویلے میں جو بچہ پیدا ہوا تھا اس کی یاد منانے کے لئے.جہاں تک اس کی پیدائش کی یاد کا تعلق ہے گو عیسائی اسے آج بھی اسی طرح مناتے ہیں لیکن دوسری دو باتیں (جشن منانا اور سنٹا کلاز کی بے اصل داستان کے تجارتی پہلو ) اس پر بڑی طاقت سے حاوی ہو چکی ہیں.اس ذکر کے بعد سڈنی کا ایک موقر اخبار اپنے اداریہ میں رقم طراز ہے.یہ کوئی نئی بات نہیں.یہ درست ہے کہ انجیل میں یسوع (Jesus) کی پیدائش کا کوئی ذکر اس کے سوا نہیں ملتا کہ لوقا میں ہے کہ ”جب Cyrenius سیریا کا گورنر تھا“ یا مستی میں ہے کہ ” یہ واقعہ ہیروڈ کی موت ( قبل مسیح) سے پہلے کا ہے.اولین عیسائی یسوع کی پیدائش کے واقعہ کو ایک اہم مذہبی تقریب کے طور پر دیکھتے معلوم

Page 386

379 نہیں ہوتے ان کے مذہبی کیلنڈر میں توجہ ایسٹر پر تھی.یہ امر تصدیق شدہ ہے کہ سب سے پہلی بار ۳۳۶ ء میں روم سے کرسمس کا آغاز ہوا.زیادہ امکان یہی ہے کہ کرسمس کے لئے ۵۲ / دسمبر کی تاریخ اس لئے مقرر کی گئی تھی کہ اس روز روی موسم سرما کے زوال کی خوشی کا تہوار منایا کرتے تھے اور کرسمس کو اس پر منطبق کی گیا تھا.یر جیسا کہ Chadwick نے لکھا ہے رومن یہ تہوار شراب کی مدہوشی اور خوشی کی سرمستی (Drunkenness and Riot) کی کیفیت میں منایا کرتے تھے.چرچ اگر چہ کہتا رہا کہ کرسمس کو با مقصد تہوار کے طور پر منانا چاہئے.لیکن جس طرح آج کے عیسائی اس طرح کی اپیلوں کو نظر انداز کر کے پینے پلانے اور کھانے پینے میں حد اعتدال سے گزر جاتے ہیں ایسا ہی حال ان پہلے عیسائیوں کا تھا.انہوں نے بھی اسی طریق کی پیروی کی جس پر ان کے غیر عیسائی رومی ہمسائے چلتے تھے.سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۲۴ دسمبر ۲۰۰۳ء) یہاں ضمنا یہ ذکر مناسب ہوگا کہ ہیروڈ (Herod) فلسطین کا رومی بادشاہ تھا جس کا زمانہ ۷۳ تام قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے.اس لحاظ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش چارتا چھ سال قبل مسیح یاور کی جاتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر جلد پنجم میں قرآن کریم، انجیل اور عیسائی محققین کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش جولائی یا اگست میں یعنی موسم گرما میں ہوئی تھی جب کھجوریں پکتی ہیں.گڈریے اپنے ریوڑ کو کھلی جگہ رات کو رکھتے ہیں اور چشموں کا پانی بچہ کو نہلانے کے لئے موزوں ہوتا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: بائبل کی روایت سے پتہ لگتا ہے کہ بچہ بیت اللحم میں پیدا ہوا اور بیت اللحم ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو سمندر سے ۲۳۵۰ فٹ اونچی ہے.اس کے اردگر دسبز وادیاں ہیں جو سارے یہودا سے زیادہ سرسبز ہیں.اس پہاڑی کے اندر دوتین چشمے ہیں جن کو چشمہ سلیمان کہتے ہیں اور یہیں سے شہر میں پانی لایا جاتا ہے.گویا شہر میں پانی نہیں بلکہ تالاب سلیمان سے نالیوں کے

Page 387

380 ذریعہ پانی لایا جاتا ہے.مگر شہر سے جنوب مشرق کی طرف آٹھ سو گز یعنی نصف میل پر اور وہ بھی نیچے ڈھلوان کی طرف چشمہ ہے.“ قاموس کتاب المقدس ترجمہ و تالیف ڈاکٹر جارج ای پوسٹ ایم ڈی )...اصل بات یہ ہے کہ بائبل بتاتی ہے حضرت مریم جب بیت اللحم گئیں تو انہیں ٹھہر نے کے لئے شہر میں جگہ نہ ملی پس وہ شہر سے باہر جا کر رہیں.اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ اس جگہ پر رہیں جہاں گڈریے اپنے جانور چریا کرتے تھے.(انجیل لوقا باب ۲ آیت ۱۸) اور گڈریے اپنے جانور ہمیشہ شہر سے کچھ فاصلہ پر چرایا کرتے ہیں.اسی وجہ سے لکھا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اسے کھلیان میں ڈالا.پس شہر اور چشموں کے درمیان کسی جگہ پر جا کر وہ ٹھہر گئیں.شاید انہیں یہ بھی خیال ہوگا کہ اگر میں شہر میں رہی تو لوگ شور ڈالیں گے کہ یہ کس کا بچہ ہے اس لئے بہتر ہے کہ شہر سے فاصلہ پر ڈیرہ لگا دیا جہاں سے پانی نزدیک تھا مگر بوجہ اجنبی جگہ ہونے کے انہیں اس کا علم نہیں تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ کے فرشتہ نے انہیں الہام بتا دیا کہ اس طرف چشمہ رہا ہے.“ نیز فرماتے ہیں: ( تفسیر کبیر جلد پنجم سوره مریم آیت ۲۶ صفحه ۱۷۸) قرآن کریم بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک چشمہ کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی بھی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پانی سے نہانا اور بچے کونسل دینا خصوصا ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا.(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۱۷۹)

Page 388

381 پھر انجیل میں مسیح کی پیدائش کا موقع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے.اسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی (لوقا باب ۲ آیت ۸) نگہبانی کر رہے تھے“ ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھا نہ کہ شدید سردی کا.دسمبر کا مہینہ تو علاوہ شدید سردی کے فلسطین میں سخت بارش اور دھند کا ہوتا ہے.کون یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ ایسے موسم میں کھلے میدان میں چر وا ہے اپنے گلوں کو لے کر باہر نکل آئے تھے.صاف ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھا.چنانچہ پیکس تفسیر بائبل میں انجیل لوقا کے مفسر پرنسپل اے.جے.گریو.ایم اے ڈی، کی طرف سے لوقا کے اس بیان پر کہ حضرت مسیح کی پیدائش جس موسم میں ہوئی تھی اس وقت چروا ہے گلوں کو باہر نکال کر کھلے میدان میں راتیں بسر کرتے تھے.مندرجہ ذیل تبصرہ موجود ہے کہ یہ موسم ماہ دسمبر کا نہیں ہوسکتا.ہمارا کرسمس ڈے مقابلہ بعد کی ایک روایت ہے جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی.اسی طرح بشپ جانس اپنی کتاب Rise of Christianity میں تحریر کرتے ہیں: اس تعیین کے لئے کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ ۲۵ دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن تھا اگر ہم لوقا کی بیان کردہ ولادت مسیح کی کہانی پر یقین کر لیں کہ اس موسم میں گڈریے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کے گلہ کی نگرانی بیت اللحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی جبکہ رات کو ٹمپریچر اتنا گر جاتا ہے کہ یہودیہ کے پہاڑی علاقہ میں برف باری ایک عام بات ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد قریباً ۳۰۰ء میں متعین کیا گیا ہے.“ 66 (صفحہ ۷۹) پس ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی.( تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه ۱۸۵،۱۸۴) خلاصہ کلام یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام چار قبل مسیح سے پہلے پیدا ہوئے.ان کی پیدائش موسم گرما میں ہوئی اور عیسائیت کے ابتدائی تین سو سالوں میں کسی نے کرسمس ڈے نہیں منایا.پہلی بار

Page 389

382 روم کے عیسائیوں نے ۳۳۶ عیسوی میں کرسمس منایا اور ۲۵ دسمبر کا دن اس لئے مقرر کیا گیا کہ اس روز رومی اپنا موسمی تہوار پینے پلانے کے شغل کے ساتھ منایا کرتے تھے.عیسائیوں نے اس کا نام بدل کر کرسمس رکھ دیا اور اس میں عبادت اور روحانیت پر شراب و کباب جس طرح اس وقت حاوی تھا ، اور آج بھی ہے.اس کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جن تہواروں کا آغاز ہوان میں صلى الله آج بھی عبادت ، روحانیت اور نیکی کا رنگ پایا جاتا ہے جیسے عیدین ، حج اور جمعات اور پھر آپ می کے روحانی فرزند مسیح موعود کے ذریعہ جاری ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ وغیرہ.الحمد للہ.(الفضل انٹر نیشنل 16.1.04)

Page 390

383 نوع انسانی کا سفر انسان کی ابتداء کس سرزمین سے ہوئی اور ہم کن کن حالتوں سے گزر کر موجود ہ شکل وصورت تک پہنچے.یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر انسان پوچھتے ہیں.اس کا جواب سائنس دان پہلے یہ دیا کرتے تھے کہ انسانی سفر ڈیڑھ لاکھ سال پہلے افریقہ سے شروع ہوا تھا.سب انسان ایک ہی جگہ رہتے تھے اس لئے ارتقاء بھی اکٹھے ہی ہوا.لیکن اب حال ہی میں کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ (Stanford) یونیورسٹی نے انسانوں کے D.N.A پر تحقیق کی ہے جن کا تعلق مختلف رنگ ونسل اور ملکوں سے ہے تا انسانوں کا باہمی تعلق معلوم کیا جائے.اس تحقیق سے دو باتیں سامنے آئی ہیں.اول یہ کہ یہ بات درست ہے کہ زندگی کا سفر افریقہ سے کوئی دولاکھ سال پہلے شروع ہوا تھا.دوسری بات جو زیادہ دلچسپ ہے وہ یہ کہ نوع انسانی شروع سے ہی دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلنا شروع ہوگئی تھی اور ہر حصہ اپنے اپنے ماحول کے مطابق بقا کی جدو جہد کرتا رہا جس سے مختلف انسانی نسلیں وجود میں آئیں.دوسرے لفظوں میں شجر انسانی شاخ در شاخ ہو کر دنیا میں اس طرح پھیلا کہ ہر شاخ اور پھر اس کی شاخ آزادانہ طور پر ترقی کرتی ہوئی موجودہ رنگ ونسل تک پہنچی.انسانی ارتقاء کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی سوالات کئے گئے تھے ان کے جوابات کی روشنی میں جو کچھ خاکسار سمجھ پایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وَقَدْ خَلَقَكُمْ

Page 391

384 اَطوَاراً» (نوح: ۱۵) اور انسان پر وہ حالت بھی گزری ہے کہ قابل ذکر چیز نہ تھا.(الدھر:۲) یہ درست نہیں ہے کہ ایک ہی نوع (Species) سے انسان، حیوان ، چرند پرند اور کیڑے مکوڑے پیدا ہوئے بلکہ انسانی نوع شروع ہی سے باقی انواع سے مختلف تھی اور اس کا ارتقاء خوداس کی اپنی نوع کے اندر ہی ہوا ہے.تمام انسانوں کا تعلق اسی نفس واحدہ سے ہے اور سب انسان ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں (النساء:۲) انسان اپنی پیدائش سے قبل رحم مادر میں جن اطوار سے گزرتا ہے وہ ان حالتوں کی تصویریں ہیں جن میں سے نوع انسانی کروڑوں سال پہلے اپنے ارتقائی مراحل میں سے گزری ہے.چونکہ ہر نسل اور شاخ نے آزادانہ طور پر ترقی کی ہے اس لئے ہر شاخ کا پہلا شخص جو خدا کی وحی کا مہبط بنا وہ اس سلسلہ کا آدم تھا.اس طرح کوئی ایک لاکھ آدم گزرے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آسٹر یلیا اور افریقہ کے اصلی باشندوں کا آدم دوسروں کے آدم سے مختلف ہو.جیسے جیسے زندگی مسلسل ترقی کر رہی تھی.اس کے اندر بھی مختلف دور ساتھ ساتھ چل رہے تھے.جسمانی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی.ایک دور ہزار سال کا اس سے بڑا سات ہزار سال کا اور اس سے بڑا دائرہ پچاس ہزار سال کا.(الحج: ۴۷، المعارج : ۵) یہ ایسے ہی ہے جیسے جب انسان کی عمر بڑھتی ہے سو اس پر روزانہ ایک دور چوبیس گھنٹے کا آتا ہے.ایک سات دن کا اور ایک سال بھر کا آخری آدم وہ تھے جن کی نسل سے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے.آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک ۴۷۳۹ قمری سال گزرے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشفا علم دیا گیا.(تحفہ گولڑویہ ) احادیث صحیحہ متواترہ کے رو سے عمر دنیا یعنی حضرت آدم سے لے کر آخیر تک سات ہزار برس قرار پائی ہے.آجکل ۱۴۱۶ ہجری قمری سال جارہا ہے.سات ہزار سالہ دور میں سے ۶۱۴۵ قمری سال اور ہزار سالہ دور میں سے ۱۴۵ قمری سال اور ہزار سالہ دور میں سے ۱۸۵۴ قمری سال گزر چکے ہیں.یہ دور ۱۸۵۴ عیسوی میں شروع ہوا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بابرکت وجود دنیا میں ظاہر ہو چکا تھا.اور قرآن سے نور حاصل کر رہا تھا تا دنیا کو اس نور سے منور کرے گویا موجودہ سات ہزار سالہ دور میں سے ۵۵۸ سال باقی ہیں.اس کے بعد اگلا دور کس شکل میں ظاہر ہو گا خدا ہی جانتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

Page 392

385 " یادر ہے کہ قیامت بھی کئی قسم پر منقسم ہے اور ممکن ہے کہ سات ہزار سال کے بعد کوئی قیامت صغریٰ ہو جس سے دنیا کی ایک بڑی تبدیلی مراد ہو، نہ کہ قیامت کبری.“ اسی طرح فرمایا: (تحفہ گولڑویہ ) اسلام اس بات کا قائل ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا جو خدا کے ساتھ کوئی نہ تھا اور صرف وحدت اپنا جلوہ دکھلا رہی تھی.اور خدا ایک پوشیدہ خزانہ کی طرح تھا.پھر خدا نے چاہا کہ میں شناخت کیا جاؤں تو اس نے اپنی شناخت کے لئے انسان کو پیدا کیا مگر ہم نہیں جانتے کہ کتنی دفعہ وحدت الہی کا زمانہ آچکا ہے اس کا علم خدا کو ہے.لیکن جیسا کہ دوسری صفات ہمیشہ کے لئے معطل نہیں رہ سکتیں، ایسا ہی وحدت الہی کی صفت بھی ہمیشہ معطل نہیں رہتی اور کبھی کبھی اس کا دور آجاتا ہے اور کبھی ذات الہی دنیا کو ہلاک کرنا چاہتی ہے اور کبھی پیدا کرنا کیونکہ احیاء اور امانت دونوں صفات اس کے ہیں.اس لئے ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ خدا ہر ایک جاندار کو ہلاک کرے گا یہاں تک کہ آسمان اور زمین کا بھی ایسے طور پر تختہ لپیٹ دے گا جیسا کہ ایک کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے.“ (چشمه معرفت ) الفضل انٹرنیشنل 22.9.95)

Page 393

386 زمین پر ہمارے آدم سے پہلے بھی انسان بستے تھے ٹیلیگراف لنڈن کی خبر کے مطابق اور جس کا یہاں ٹی.وی پر بھی چر چا رہا ہے چلی میں ایسے انسان کے قدم کے نشانات ملے ہیں جو آج سے ۲۵۰۰ سال پہلے وہاں بستے تھے.ان کے علاوہ جو پرانی اشیاء ہتھیار وغیرہ ہزاروں کی تعداد میں وہاں سے ملی ہیں وہ بھی قدیم ترین انسانی ہتھیاروں سے تقریباً تیرہ ہزار سال پرانی ہیں.یہ دریافت اس لحاظ سے بڑی اہم خیال کی جارہی ہے کہ اس نے شمالی اور جنوبی امریکہ کے قدیمی باشندوں کے بارہ میں جو مروجہ تھیوریاں ہیں کہ وہ کب اور کیسے یہاں پہنچے ان کو غلط ثابت کر کے رکھ دیا ہے.(بحوالہ سڈنی مارننگ ہیرلڈ ا۲ فروری ۱۹۷۹ء) اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک اور جدید تحقیق اخباروں میں چھپی تھی جس کے مطابق چودہ ہزار سال قبل امریکہ اور برازیل میں آسٹریلیا کے Aborigines نسل کے لوگ آباد تھے.دونوں کے Genes اور کھوپڑیاں باہم ایک جیسی تھیں.اس پر یہاں کے اخباروں نے بڑے فخر سے یہ لکھا تھا کہ امریکہ کے قدیم ترین باسی تو ہم آسٹریلین تھے.جہاں تک آسٹریلیا کے قدیمی باشندوں کا تعلق ہے سائنسدان وثوق سے کہتے ہیں کہ وہ کم از کم چالیس ہزار سال سے یہاں رہ رہے ہیں بلکہ اب تو پتھروں اور غاروں میں ایسے نشانات رستہ وغیرہ یا حدود متعین کرنے والے ملے ہیں جو ۷۶۰۰۰ سال تک پرانے ہیں اور یہ تقریباً وہ زمانہ ہے

Page 394

387 جب انسان دو پاؤں پر چلنے لگا تھا جسے Homo Erectus کہتے ہیں گویا یا تو انسان اسی زمانہ میں یہاں پہنچ گیا تھا اور یا پھر انسانیت کئی مراکز میں ارتقائی مراحل آزادانہ طور پر طے کرتی رہی ہے.اگر جدید سائنسی تحقیقات کو درست تسلیم کیا جائے تو یہ مانے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ ہمارے آدم سے پہلے بھی زمین پر انسان بستا تھا اور آدم زمین پر خدا کا خلیفہ تو تھا لیکن پہلا انسان نہیں تھا.لیکن یہ بات بائبل کے بیان کے خلاف ہے جو کہتی ہے کہ آدم زمین پر پہلا انسان تھا (1:26-2:8 Genesis) اور چونکہ یہ بات سائنسی تحقیقات کے خلاف ہے لہذا بہت لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یا تو بائبل محرف ہوچکی ہے یا وحی والہام کا سلسلہ ( نعوذ باللہ ) مشکوک ہے چنانچہ ایسے لوگ منتشلک اور دہر یہ ہو گئے ہیں.قرآن کریم کا انسانیت پر احسان ہے کہ اس نے اس معاملہ میں بھی لوگوں کو شک کی دلدل سے باہر نکالا ہے کیونکہ یہ کتاب خودشک سے بالا ہے.چنانچہ موجودہ تحقیقات سے بہت پہلے کوئی ۸۹ سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی.سائل پروفیسر ریگ انگلستان کا رہنے والا ایک ثقہ ماہر علم ہیئت تھا وہ تمام دنیا کی سیر کے ارادے سے وطن سے نکلا اور بڑے بڑے لیکچر دیتا پھر رہا تھا کہ لاہور بھی آنکلا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس کے لیکچر کو سنا اور اس سے ملاقات کی اور تبلیغ کی.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے کی خواہش ظاہر کی.آپ ان دنوں اپنے آخری سفر کے دوران لاہور میں قیام پذیر تھے.حضور نے ملاقات کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس نے ۱۲ مئی ۱۹۰۸ء اور دوسری بار ۱۸؎ مئی ۱۹۰۸ء کو حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور اس دوران اس نے بہت سے سوالات پوچھے جن کے حضور نے بہت لطیف جواب مرحمت فرمائے.ایک سوال جو اس نے پوچھا وہ یہ تھا کہ ( ملفوظات جلد دہم صفحه ۴۲۶،۳۵۳) بائبل میں لکھا ہے کہ آدم یا یوں کہئے کہ پہلا انسان بیچون بجون میں پیدا ہوا تھا اور اس کا وہی ملک تھا.تو پھر کیا یہ لوگ جو دنیا کے مختلف حصوں امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں یہ اس آدم کی اولاد سے ہیں؟“

Page 395

388 اس سوال کا جو جواب حضور نے مرحمت فرمایا وہ یہ تھا کہ : ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم تو ریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا.اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اسی آخری آدم کی نسل ہے.ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں جیسا کہ قرآن شریف کے الفاظ سے پتہ لگتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اِنِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَة (البقره:٣١) خلیفہ کہتے ہیں جانشین کو.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اسی آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدمی کی اولاد میں سے ہیں.( ملفوظات جلد دہم صفحه ۴۳۲) اس سلسلہ میں ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کشفا یہ علم دیا گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کا ظہور ( یعنی دعوی نبوت یا قرآنی وحی کا آغاز ) آدم کے ۴۵۹۸ شمسی سال بعد ہوا اور آنحضرت ﷺ کے روز وفات تک ۴۷۳۹ قمری سال گزر چکے تھے.(تحفہ گولڑ و یه صفحه ۹۲ - ۹۴) اس حساب سے تادم تحریر آدم سے ۵۹۸۵ شمسی سال گزر چکے ہیں ( ہوسکتا ہے اس بنیاد پر کبھی نئے کیلنڈر کا آغاز بھی کیا جائے ) یہ عرصہ قمری حساب سے ۶۱۴۶ سال بنتا ہے.ظہور نبوت ۲۰ اگست ۶۱۰ء کو ہوا تھا جس پر ۱۳۸۷ سال گزر چکے ہیں.عہدی نبوی کا قمری شمسی کیلنڈر مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب) قرآن کریم کا اسلوب بائبل کی اصلاح کرنے کا بڑا پیارا ہے.کاش بائبل کے پیروکار قرآن کریم کے اس احسان پر غور کریں.یہی ایک مثال لے لیں.بائبل بھی کہتی ہے کہ آدم کومٹی سے

Page 396

389 پیدا کیا گیا اور قرآن بھی کہتا ہے کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا.لیکن قرآن کریم نے یہ کہہ کر کہ عیسی علیہ السلام کو بھی مٹی سے پیدا کیا گیا اور اے انسا نو تم سب کو بھی مٹی سے پیدا کیا گیا، آدم کی اس بارہ میں تخصیص ختم کر دی ہے اور یوں وضاحت بھی کر دی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا گیا ہے.یعنی وہی عناصر جو مٹی میں ہوتے ہیں وہ سبزیوں ، پھلوں ، اناجوں، دودھ گوشت وغیرہ کے توسط سے کئی حالتیں بدل کر انسان کے جسم کا حصہ بنتے ہیں.اس طرح بائبل کی اصلاح بھی کر دی کہ آدم کو مٹی سے پیدا کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر کسی تغیر وتبدل کے مٹی سے ہی پیدا کیا گیا تھا اور لہذاوہ پہلا انسان تھا.قرآن کریم نے عیسی علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا: عیسی کا حال اللہ کے نزدیک یقینا آدم کے حال کی طرح ہے اسے ( یعنی آدم کو ) اس نے خشک مٹی سے پیدا کیا، پھر اس کے متعلق کہا کہ وجود میں آجا تو وہ وجود میں آنے لگا.“ (آل عمران: ۶۰ ) نیز تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کرنے کے بارہ میں فرمایا اور اس کے نشانات میں سے ایک نشان ) یہ بھی ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا.پھر اس پیدائش کے نتیجہ میں تم بشر بن جاتے ہواور ( تمام زمین میں ) پھیل جاتے ہو.(الروم :۲۱) الغرض آدم بھی اسی طرح مٹی سے پیدا ہوئے تھے جس طرح ہم سب اور عیسی پیدا ہوئے تھے لہذا وہ پہلے انسان نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انسان کے زمین میں پھیل جانے کا ذکر بھی کیا ہے.مذکورہ بالا تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہی دنیا میں پھیل گیا تھا.نوع انسانی کا ارتقاء بطور ایک درخت کے ہوا جو ایک ہی جڑ سے نکلا اور جس کی شاخیں در شاخیں اور پھر آگے ان کی شاخیں دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئیں.انسان کی تخلیق کے بعد اللہ نے اس کو مناسب حال قو تیں عطا کیں اور ان کے مناسب حال ہدایت کا سامان کیا.چنانچہ ہر شاخ درشاخ میں جو نہی انسان ، جسمانی، ذہنی ، معاشرتی اور روحانی لحاظ سے اس قابل ہوا کہ خدا کی طرف

Page 397

390 سے آنے والی ہدایت کو حاصل کر سکے.سمجھ سکے اور اس پر عمل کر سکے تو اللہ نے وہاں اپنا خلیفہ بصورت آدم مقرر فرما دیا.ساری دنیا کی طرف صرف حضرت محمد مہ کوہی مبعوث کیا گیا تھا.اگر ہر شاخ در شاخ میں اپنے اپنے وقت پر ایک آدم آیا ہو تو کوئی عجب نہیں کہ اب تک ایک لاکھ آدم گزر چکے ہوں (علاوہ ازیں آدم سے تمثیلی طور پر ابن آدم یا نوع انسانی بھی مراد ہوسکتا ہے) چنانچہ نوع انسان کا شجر شاخ در شاخ ہوکر جو دنیا میں پھیلا اس پر ترقی و تباہی اور جہالت و ہدایت کے بھی دور آتے رہے ہیں جس طرح دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہوتے ہیں.خدا ہی جانتا ہے کب سے یہ حالات انسانوں پر گزر رہے ہیں.ہمارے آدم سے تو بہر حال پہلے کے ہیں کیونکہ ان کو آئے ہوئے تو صرف ۵۹۸۵ سال ہی اب تک گزرے ہیں.واللہ اعلم بالصواب.( الفضل انٹر نیشنل 9.5.97)

Page 398

391 انسان افریقہ سے عرب میں آیا اور پھر وہاں سے دنیا میں پھیلا.نیا انکشاف مروجہ تھیوری کے مطابق نسل انسانی افریقہ میں کوئی ڈیڑھ لاکھ سال پہلے ابھری تھی اور وہاں سے شمال کی طرف مصر اور مشرق وسطی میں ہجرت کر گئی اور پھر وہاں سے آگے دنیا میں پھیلی لیکن اب نئی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام انسان جو اس وقت دنیا میں موجود تھے وہ افریقہ سے ۶۵ تا ۷۵ ہزار سال قبل جزیرہ نمائے عرب ( موجودہ سعودی عرب) میں آئے اور پھر وہاں سے مختلف اطراف میں پھیلے تھے.ایک حصہ ان کا ۶۵ ہزار سال قبل بحیرہ ہند کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے جزائر انڈیمان.ملیشیا اور انڈونیشیا میں پہنچے اور وہاں سے آگے ۴۶ ہزار سال پہلے جنوبی آسٹریلیا تک جا پہنچے.چنانچہ اسی وقت سے آسٹریلیا کے اصل باشندے (Aborgines) وہاں رہ رہے ہیں.انسانوں کا دوسرا گروہ ۳۰ تا ۴۰ ہزار سال پہلے یورپ کی طرف گیا.اس زمانہ میں انسان سمندر کے ساحل کے ساتھ ساتھ رہتا اور آگے بڑھتا تھا اس نئی تحقیق نے پہلی تھیوری کو غلط قرار دے دیا ہے.مندرجہ بالا تحقیق دو مختلف اداروں نے اپنے اپنے طور پر آزادانہ کی ہے لیکن وہ دونوں ایک ہی نتیجہ پر پہنچے ہیں.ایک ٹیم کا تعلق آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی سے تھا اور دوسری کا کیمرج یونیورسٹی سے.تحقیق کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ تمام عورتوں کو ان کی ماں کی طرف سے ایک ڈی این اے ورثہ

Page 399

392 میں ملتا ہے جس کو Mitochondrial D.N.A کہا جاتا ہے.اس ڈی این اے میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں (Mutations) آتی رہتی ہیں.انہیں تبدیلیوں سے وقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس نسل کا کس سے تعلق ہے اور کب سے وہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں یہ تبدیلیاں گویا تاریخی گھڑی(Historical Watch) کا کام دیتی ہے.(ماخذ سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۱۴، ۱۵ مئی ۲۰۰۵ء) یہ جدید تحقیق ہمارے لئے بہت دلچسپی کی حامل ہے.اگر ابتدائی انسان وادی بلکہ میں آباد ہوئے تھے جس کا مرکزی مقام مکہ تھا تو وہی تمام دنیا کے لئے اُم القری یعنی بستیوں کی ماں ٹھہرتا ہے.اسی جگہ پہلے نبی آدم مبعوث ہوئے ہوں گے اور جو زبان خدا نے انہیں سکھائی ہوگی وہی ( یعنی عربي ) اُمُّ الألسنه یعنی زبانوں کی ماں ہوگی جس سے بگڑ کر دنیا کی سب زبانیں وجود میں آئی ہوں گی پس تمام انسانوں کا نہ صرف روحانی مرکز ہی مکہ ٹھہرتا ہے بلکہ اصل وطن بھی وہی ٹھہرتا ہے نیز اسی جگہ کو خدا نے یہ عزت بخشی کہ جہاں پہلا نبی آیا تھا اور پہلی ہدایت نوع انسان کو عطا ہوئی تھی و ہیں آخری ہدایت لے کر خاتم النبین مبعوث ہوا تا ابتدا اور انتہاء باہم مشابہ ہوں.

Page 400

393 دنیا کی عمر یہ کا ئنات کب سے ہے؟ زمین کب وجود میں آئی ؟ اس میں حیات کب پیدا ہوئی ؟ انسان نے کب جنم لیا؟ زمین کا انجام کیا ہے؟ اس کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا ؟ یہ وہ چندسوالات ہیں جو ہمیشہ سے انسان کی دلچسپی کا مرکز رہے ہیں اور فلاسفر اور سائنسدان ان گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں.جوں جوں انسان کا علم ترقی کرتا گیا متعدد نظریات قائم ہوتے اور تبدیل ہوتے رہے.اس مقالہ کا مقصد سائنس اور قرآن و حدیث اور تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہے.وباللہ التوفیق عمر زمین از روئے سائنس زمین کی عمر کے متعلق سائنسدانوں کے مختلف نظریات Mr.W.Maxwall Reed اپنی کتاب The Stors for Sam میں زمین کی عمر کے بارہ میں مختلف نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وو یہ ہے ہماری زمین کی قدیم تاریخ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بہت کچھ جان لینے کے باوجود ہم ابھی کچھ بھی نہیں جانتے.ہم سب کے سب زمین کے حال اور مستقبل کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش

Page 401

394 میں لگے ہوئے ہیں.کبھی ان معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نئے حقائق کی روشنی میں پرانے نظریات کو خیر باد کہنا پڑتا ہے.“ پھر لکھتے ہیں: ”ہماری زمین کی پیدائش کسی ایسے حادثے کا نتیجہ ہے جب آج سے تقریباً دس ارب سال پہلے سورج کسی دوسرے ستارے کے ساتھ ٹکرا گیا یا دونوں اس قدر قریب سے گزرے کہ سورج متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ( اور زمین سورج سے علیحدہ ہو کر گردش کرنے لگ پڑی) جارج کیمو George Gamow نے اپنی کتاب Biography of Earth میں لکھا ہے کہ زمین سورج کے بطن سے دو ارب سال پہلے پیدا ہوئی.سید محمد تقی صاحب اپنی کتاب روح اور فلسفہ میں زمین کی عمر کے بارہ میں مختلف نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حیات کی عمر سے متعلق اب سے کچھ پہلے تک قیاس یہ تھا کہ وہ اسی کی ہے.کروڑ سال پہلے وجود میں آئی تھی.لیکن جدید تحقیقات کی بناء پر حیات کی عمر اس سے بہت زیادہ خیال کی جاتی ہے.ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر آرتھر ہومس نے بتایا ہے کہ حیات کی عمر لگ بھگ تین ارب سال ہے..........اب تک حیاتیات کی نصابی کتابوں میں آغاز حیات کی عمر پچاس کروڑ یا زیادہ سے زیادہ اسی کروڑ بتائی جاتی تھی اور کائنات کی عمر دوارب سال مگر تازہ انکشافات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیات کی عمر تین ارب سال اور غالباً 66 پانچ یا دس ارب کے درمیان یا اس سے بھی زیادہ ہوگی.“ الغرض سائنس دان نے زمین پر زندگی کی عمر دوا رب سے دس ارب سال کے درمیان بیان سائنس دان نے زمین کی عمر کے اندازے کس طرح لگائے ہیں؟ یہاں طبعا سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن کے ذریعہ سائنسدانوں نے

Page 402

395 زمین کی عمر کے اندازے لگائے ہیں.اختصار کے ساتھ دو اہم ترین ذرائع کا یہاں ذکر کر دینا مناسب ہوگا.ا.سمندروں کی عمر: سمندر ہماری زمین کے تقریباً تین چوتھائی حصوں پر پھیلے ہوئے ہیں.سمندر کا پانی نمکین ہوتا ہے لیکن کم لوگوں نے اس پر غور کیا ہوگا کہ یہ نمک ان ہی دریاؤں کالا یا ہوا ہے جن کے پانی کو ہم شیریں کہتے ہیں.سمندر کا پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے لیکن نمک سمندروں ہی میں رہ جاتا ہے.اس طرح ہر سال سمندر کے پانی میں نمک کی مقدار بڑھتی جاتی ہے.ہمارے سمندروں میں اس وقت جتنا نمک موجود ہے وہ انتہائی مقدار کا تقریباً دسواں حصہ ہے اور اس کا وزن تقریباً چالیس لاکھ ارب ٹن ہے.دنیا کے تمام دریا ہر سال تقریباً چالیس کروڑ ٹن نمک مختلف سمندروں میں لا ڈالتے ہیں.اگر ہم سمندروں کے کل نمک اور ہر سال کے اضافہ کا مقابلہ کریں تو سمندروں کی عمر تقریباً ڈیڑھ ارب سال بنتی ہے.۲.چٹانوں کی عمر: اللہ تعالیٰ نے چٹانوں میں اپنی ایک گھڑی چھپارکھی ہے جسے دیکھ کر ماہرین ارضیات زمین کی عمر کا اندازہ لگا سکتے ہیں.وہ گھڑی یہ ہے کہ کچھ چٹانوں میں Uranium اور Thorium کے Radio Active Elemints پائے جاتے ہیں جو الفاذرات‘ بڑی تیزی سے اپنے چاروں طرف پھیلاتے ہیں.ان ذرات کے جدا ہونے کی وجہ سے یہ تابکار عناصر بالآخر سیسہ (Lead) میں تبدیل ہو جاتے ہیں.ایک معینہ مدت میں ان خارج ہونے والے الفاذرات کی مقدار کا اندازہ ایک نہایت حساس آلہ ”گیگر کا ؤنٹر کے ذریعہ لگایا جاسکتا ہے.وہ ایک ایک ذرہ کے اخراج کو ریکارڈ کرتا رہتا ہے.تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ یورینیم کی کسی بھی مقدار کو اس انتشار اور تبدیلی کی وجہ سے نصف رہ جانے میں ساڑھے چار ارب سال لگتے ہیں.اسی طرح تھوریم کی مقدار کو نصف رہنے میں ساڑھے سولہ

Page 403

396 ارب سال لگنے چاہئیں.سائنسدانوں کے نزدیک دنیا میں کسی بھی چیز کی عمر دریافت کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں.اب ان چٹانوں کا معائنہ کرنے سے جن میں یورینیم اور تھوریم پایا جا تا ہے یہ دیکھ کر ان میں بچا کھچا سیسہ کتنی مقدار میں ہے ان چٹانوں کی عمرکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.جوانداز ہ اس طرح پر لگا یا گیا ہے وہ تقریباً دوارب سال بنتا ہے.قرآن مجید کی رو سے ایک ایک زمینی دور پچاس ہزار سال کا ہوتا ہے اور اس کا آخری سات ہزار سالہ حصہ دور انسانیت یا دور نبوت کہلاتا ہے چنانچہ سورہ معارج میں آتا ہے کہ سائل پوچھتا ہے کہ دنیا کو ختم کر دینے والا اہل عذاب کب آئے گا؟ جس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ عذاب ذو المعارج خدا تعالیٰ کی طرف سے آکر رہے گا.کب آئے گا ؟.اس کے جواب میں ارشاد ہوا تَعْرُجُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ (المعارج : ۵) یعنی عام فرشتے اور کلام الہی لانے والے فرشتے اس خدا کی طرف اتنی مدت میں چڑھا کرتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوتی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایک زمینی دور کا خاتمہ پچاس ہزار سال کے بعد ہوتا ہے.یعنی ہر پچاس ہزار سال کے بعد دنیا کا نظام چلانے والے اور کلام الہی لانے والے فرشتے اپنے فرائض سرانجام دے کر خدا تعالیٰ کی طرف لوٹ جایا کرتے ہیں.فرشتوں کی ڈیوٹی یا شفٹ تبدیل ہوتی ہے.پہلے دور کے فرشتے واپس لوٹ جاتے ہیں اور دوسرے دور کے فرشتے چارج سنبھال لیتے ہیں.اس آیت کی تشریح میں پرانے مفسرین اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دنیا کی عمر پچاس ہزار سال ہی لکھی ہے یعنی اس دور کی جس کا ہمارے ساتھ تعلق ہے.حضور تفسیر صغیر میں اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں: ر صلحاء اور اولیاء نے حضرت آدم سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک پانچ ہزار سال کی عمر قرار دی ہے مگر اندازے الگ الگ

Page 404

397 حساب سے ہوتے ہیں.پس یہ اختلاف کوئی نہیں.آدم کی نسل سے سلسلا انبیاء کی عمر ممکن ہے سات ہزار سال ہو.اور طبقات الارض کے اندازے کے لحاظ سے دنیا کی عمر پچاس ہزار سال ہو.پس یہ کوئی اختلاف نہیں.“ حضور کی اس تشریح سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ زمین کا ایک دور پچاس ہزار سال کا اور اس دور کے آدم سے لے کر اس کے خاتمہ تک کا عرصہ سات ہزار سال ہوتا ہے.دور کے خاتمہ کا حال اسی سورۃ معارج میں آگے چل کر دور کے خاتمہ کا حال بیان ہوا ہے اور ان خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں آخری زمانہ کے انسان مبتلا ہوں گے اور جو خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہوں گے.ان سب امور کو بیان کرنے کے بعد سورۃ کے آخر میں فرمایا ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ (المعارج : ۴۵) کہ یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یعنی یہ ہے تفصیل اس دور کے خاتمہ کی جس کے بارہ میں سائل نے سوال کیا تھا.پچاس ہزار سالہ زمینی دور کے خاتمہ کا حال بیان فرماتے ہوئے بتایا کہ اس کا خاتمہ شدید شعلہ والے عذاب سے ہوگا.آسمان کا رنگ پگھلائے ہوئے تانبہ کی طرح ہو جائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے اور کوئی شخص اس سے بھاگ کر بچ نہیں سکے گا.ان آیات کی تشریح میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یعنی ایسی ایسی ایجاد میں نکل آئینگی جیسے ایٹم بم اور ہائیڈ ورجن ہم کہ جن کے گرنے سے پہاڑوں جیسی مضبوط چیز بھی روئی کے گالوں کی طرح اڑ 66 جائے گی.“ ابھی چند روز ہوئے ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک روسی ماہر کے اندازہ کے مطابق اس وقت بھی دنیا میں اتنے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں کہ جو ساری دنیا کی مکمل تباہی کے لئے کافی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا قرآن مجید کی بتائی ہوئی نشانیوں کے مطابق اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے.

Page 405

398 دورانسانیت سات ہزار سال کا ہوتا ہے پچاس ہزار سالہ زمینی دور کے آخری سات ہزار سالہ حصہ کو دور انسانیت کی دور نبوت کہا جاتا ہے.یہ آخری سات ہزار سال ظہور آدم سے لے کر اس دور کے خاتمہ تک ہوتے ہیں.پچاس ہزار سالوں کے ابتدائی تینتالیس ہزار سالوں میں زمین روئیدگی سے تقریباً خالی ہو جاتی ہے اور ہزاروں سالوں کے بعد آہستہ آہستہ زندگی کے قیام اور انسان کی رہائش کے قابل ہوتی ہے.گزشتہ دور کے خاتمہ پر جو اکا دکا انسان استثنائی طو پر دنیا کے کسی حصہ میں جان سے بچ جاتے ہیں وہ اس عذاب اور اس کی مسموم فضا سے ذہنی اور جسمانی طور مفلوج ہو جاتے ہیں اور انسان کہلانے کے قابل نہیں رہتے.پیدائش انسانی کا سلسلہ تقریباً ختم ہو جاتا ہے.اگر کہیں کوئی بچہ جنم بھی لے تو وہ بھی مسموم فضا سے متاثر ہوتا ہے.چنانچہ ایٹم بم کے اثرات بھی ایسے ہی بیان کئے جاتے ہیں.حیوانات اس صدمہ سے پہلے نجات حاصل کرتے ہیں.چنانچہ درندوں سے بچنے کے لئے وہ نامکمل انسان غاروں میں رہنا شروع کر دیتے ہیں ایک وقت کے بعد خدا کی رحمت پھر جوش میں آتی ہے اور ان کے قومی ترقی کرنے لگتے ہیں اور مسموم فضا کے اثرات دور ہونا شروع ہوتے ہیں اور جب وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ مل جل کر رہ سکیں تو اللہ تعالیٰ آدم کو زمین میں اپنا جانشین مقرر کر دیتا ہے.وہ انہیں وحدانیت کا ابتدائی درس دیتے ہیں.غاروں سے باہر نکال کر معاشرہ کی بنیاد ڈالتے ہیں.عربی زبان اور زراعت کا علم سکھاتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.اس کے بعد انسان دوربارہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگ پڑتا ہے.اس دور انسانیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیکچر سیالکوٹ میں صفحہ ۶.ے پر فرماتے ہیں: تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لیکر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار سال رکھی ہے...چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو.کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت

Page 406

399 دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجد دصدی بھی ہے اور مجددالف آخر بھی.“ پھر حضور علیہ السلام لیکچر لا ہور صفحہ ۳۸.۳۹ پر فرماتے ہیں: یہ سب علامتیں اس زمانہ میں پوری ہوگئیں ( یعنی قرب قیامت کی ناقل ) اور ایک اور علامت قرآن شریف نے مسیح موعود کے زمانہ کے لئے قرار دی ہے کہ ایک جگہ فرماتا ہے.اِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ یعنی ایک دن خدا کا ایسا ہے جیسا تمہارا ہزار برس ہے.پس چونکہ دن سات ہیں اس لئے اس آیت میں دنیا کی عمر سات ہزار برس قرار دی ہے.لیکن یہ عمر اس آدم کے زمانہ سے ہے جس کی ہم اولا د ہیں.خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا تھی.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ لوگ کون تھے اور کس قسم کے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ سات ہزار برس میں دنیا کا ایک دور ختم ہوتا ہے.ہمیں معلوم نہیں کہ دنیا پر اس طرح سے کتنے دور گزر چکے ہیں اور کتنے آدم اپنے اپنے وقت میں آچکے ہیں.....اس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں.“ ایک لاکھ آدم گزرے ہیں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر میں سورۃ حج کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس موقعہ پر حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کے ایک کشف کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ کی جلد میں بیان فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں

Page 407

400 جو بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں مگر وہ کچھ اجنبی قسم کے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتا نہیں.پھر انہوں نے دو شعر پڑھے جن میں سے ایک تو مجھے بھول گیا مگر دوسرا یا در ہا.وہ شعر جو مجھے یادر ہا وہ یہ تھا کہ لَقَدْ طُفْنَا كَمَا طُفْتُمْ سِنِيْنَا بِهَذَا الْبَيْتِ طُرًّا أَجْمَعِيْنَا یعنی ہم بھی اس مقدس گھر کا سالہا سال اسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج تم اس کا طواف کر رہے ہو.وہ فرماتے ہیں مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا.پھر ان میں سے ایک شخص نے مجھے اپنا نام بتا یا گروہ نام بھی ایسا تھا جو میرے لئے بالکل غیر معروف تھا.اس کے بعد وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہارے باپ دادوں میں سے ہوں.میں نے پوچھا کہ آپ کو وفات پائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟ اس نے کہا کہ چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.میں نے کہا کہ زمانہ آدم پر تو اتنا عرصہ نہیں گزرا.اس نے کہا تم کس آدم کا ذکر کرتے ہو؟ کیا اس آدم کا جو تمہارے قریب ترین کا زمانہ میں ہوا ہے یا کسی اور آدم کا ؟ وہ کہتے ہیں اس پر معا مجھے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث یاد آ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں اور میں نے یہ سمجھا کہ میرے یہ جد اکبر بھی انہیں میں سے کسی آدم سے تعلق رکھنے والے ہونگے.فتوحات مکیہ جلد ۳ باب ۲۹ صفحه ۵۴۹ منقول از تفسیر کبیر ) حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کا یہ کشف بتا رہا ہے کہ بیت اللہ نہایت قدیم زمانہ سے دنیا کا مرکز اور لوگوں کی ہدایت کا ایک ذریعہ بنارہا ہے اور اسی طرح یہ دنیا بھی لاکھوں سال سے چلی آرہی ہے.چنانچہ آج سے ہزار ہا سال قبل بھی لوگ اس مقدس گھر کا اسی طرح طواف کرتے رہے ہیں.یہی حقیقت قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ یہ بیت العتیق ہے جو زمانہ قدیم سے خدا تعالیٰ کے انوار و برکات کا تجلی گاہ رہا ہے اور قیامت تک دنیا کو ایک مرکز

Page 408

401 پر متحد رکھنے کا ذریعہ بنا رہے گا.“ حضرت آدم علیہ السلام کا سن پیدائش ( تفسیر کبیر جلد ۵ حصہ اول صفحہ ۳۸-۳۹) آئیے اب آدم علیہ السلام کا سن پیدائش معلوم کریں.سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکر ہے؟ یہ تو زمانہ ماقبل تاریخ کی بات ہے، اس زمانہ کی کوئی تحریر ریکارڈ دستیاب نہیں.یہ بھی ظاہر ہے کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ کا کوئی ایسا پتھر بھی دستیاب نہیں ہو سکتا جس پر ” قبل مسیح میں کوئی سن درج ہو لیکن خدائے علیم وخبیر سے کوئی بات مخفی نہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کشفاً آدم کے سن پیدائش سے خبر دی.چنانچہ حضور فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے یعنی تئیس برس کا تمام و کمال زمانہ کل مدت گزشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر ۴ ۹۳۷ برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سے ہے." 66 پھر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: (تحفہ گولر و یه صفحه ۹۳ - ۴۹) دوستشسی حساب کی رو سے ۹۸۴۵ برس بعد آدم صفی اللہ حضرت نبینا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر ہوئے.“ (تحفہ گولڑویہ صفحه ۹۲) اگر ظہور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعوی نبوت مراد لیا جائے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۰ عیسوی میں فرمایا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا کشف کی رو سے آدم علیہ السلام سن ۳۹۸۸ قبل مسیح پیدا ہوئے.

Page 409

402 دنیا کی عمر الغرض اگر ایک لاکھ دور گزرے ہوں اور ہر دور قرآن کریم کے مطابق پچاس ہزار سال کا ہو تو زمین پر انسانی زندگی کی عمراب تک پانچ ارب سال بنتی ہے.اور حیوانات اور نباتات کی عمر اس سے زائد ہوگی چونکہ زمین کو ٹھنڈا ہونے اور آبادی کے قابل ہونے کے لئے بھی ایک طویل عرصہ درکار تھا لہذا زمین کی عمر نباتات کی عمر سے زائد ہونی چاہیئے.ظاہر ہے کہ کائنات کی عمر زمین کی عمر سے بھی زائد ہوگی.ہمارے زمینی دور کے جب ابتدائی تالیس ہزار سال گزر گئے تو آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ۴۷۳۹ سال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے اب تک (یعنی ۱۹۶۸ء تک) ۱۳۷۸ قمری سال گزرے ہیں گویا ہمارے پچاس ہزار سالہ دور میں سے ۴۹۱۱۷ سال اور دور نبوت سے یا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے اب تک ۶۱۱۷ سال گزر چکے ہیں اور ہمارے دور کے خاتمہ میں تقریبا نو سو سال باقی ہیں.گویا ہم دنیا کے آخری دنوں میں سے گزر رہے ہیں اور قرآن مجید نے جو آخری زمانہ کی نشانیاں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی تھیں وہ سب پوری ہو چکی ہیں.یہاں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ یہ سب اندازے قرب قیامت کے ہیں جس کی بہت سی علامات قرآن کریم اور احادیث میں مذکور ہیں لیکن یہ امر کہ وہ ساعت عین کب واقع ہوگی اور ہمارے دور کی گھڑی اپنے آخری منٹ کا کب اعلان کرے گی ؟ اس کا علم صرف خدا تعالیٰ ہی کو ہے اور یہی قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے.وحدت اور کثرت کے دور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ وحدت اور کثرت کے بھی دور ہوتے ہیں.چنانچہ حضوڑہ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ قدیم سے خالق چلا آتا ہے لیکن اس کی وحدت اس بات کو بھی چاہتی ہے کہ کسی وقت سب کو فنا کر دے.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ وقت

Page 410

403 کب آئے گا مگر ایسا وقت ضرور آنے والا ہے.یہ اس کے آگے ایک کرشمہء قدرت ہے وہ چاہے پھر خلق جدید کر سکتا ہے.(ملفوظات جلد ۹ صفحه ۱۹۳) پھر حضور فرماتے ہیں: پس خدا تعالیٰ کی صفات قدیمہ کے لحاظ سے مخلوق کا وجود نوعی طور پر قدیم ماننا پڑتا ہے نہ شخصی طور پر یعنی مخلوق کی نوع قدیم سے چلی آتی ہے.ایک نوع کے بعد دوسری نوع خدا پیدا کرتا چلا آیا ہے سواسی طرح ہم ایمان رکھتے ہیں اور یہی قرآن کریم نے ہمیں سکھایا ہے.اور ہم نہیں جانتے کہ انسان سے پہلے کیا کیا خدا نے بنایا مگر اسقدر ہم جانتے ہیں کہ خدا کی تمام صفات کبھی ہمیشہ کے لئے معطل نہیں ہوئیں اور خدا تعالیٰ کی قدیم صفات پر نظر کر کے مخلوق کے لئے قدامت نوعی ضروری ہے مگر قدامت شخصی ضروری نہیں.“ 66 چشمه معرفت صفحه ۱۶۸-۱۶۹) پھر حضور فرماتے ہیں: اگر چہ اسلام بھی مخلوق کی نوعی قدامت کا قائل ہے مگر اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر ایک چیز مخلوق ہے اور ہر ایک چیز خدا کے سہارے سے قائم اور موجود ہے اور نیز اسلام اس بات کا قائل ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا جو خدا کے ساتھ کوئی نہ تھا اور صرف وحدت اپنا جلوہ دکھلا رہی تھی کہ خدا ایک پوشیدہ خزانے کی طرح تھا.پھر خدا نے چاہا کہ میں شناخت کیا جاؤں تو اس نے اپنی شناخت کے لئے انسان کو پیدا کیا مگر ہم نہیں جانتے کہ کتنی دفعہ وحدت الہی کا زمانہ آپکا ہے.اس کا علم خدا کو ہے.لیکن جیسا کہ دوسری صفات ہمیشہ کے لئے معطل نہیں رہ سکتیں ایسا ہی وحدت الہی کی صفت بھی ہمیشہ معطل نہیں رہتی اور کبھی کبھی اس کا دور آ جاتا ہے.اور کبھی ذات الہی دنیا کو ہلاک کرنا چاہتی ہے اور کبھی پیدا کرنا کیونکہ احیاء اور امانت دونوں صفات اس کے ہیں.اس لئے ایک زمانہ ایسا

Page 411

404 آنے والا ہے کہ خدا ہر ایک جاندار کو ہلاک کرے گا یہاں تک کہ آسمان اور زمین کا بھی ایسے طور پر تختہ لپیٹ دے گا جیسا کہ ایک کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اس صورت میں تعطل صفات کا لازم نہیں آتا.کیونکہ بعض صفات کی جب تجلی ہوتی ہے تو دوسری صفات جو ان کے مقابل پر ہیں اور ان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں وہ کسی دوسرے وقت میں ظاہر ہوتی ہیں اور اس وقت کی منتظر رہتی ہیں اور یہ ایک سلسلہ قدرت کا واقعی ہے جس سے اہلاک کے بعد احیاء لازم پڑا ہوا ہے پس انہیں معنوں سے ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کوئی صفت معطل نہیں ہوتی وہ قدیم سے محبی بھی ہے اور میت بھی ہے اور کوئی صفت اس کی ایسی نہیں ہے کہ پہلے تھی اور اب نہیں ہے یا اب ہے اور پہلے نہیں تھی.غرض ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی چیز خدا تعالیٰ کی وحدت کے ساتھ مزاحمت نہیں رکھتی.محض اسی کی ذات قائم بنفسہ اور ازلی ابدی ہے اور باقی سب چیزیں ہالکتہ الذات اور باطلۃ الحقیقت ہیں اور یہی خالص تو حید ہے جس کے مخالف عقیدہ رکھنا سراسر شرک ہے.چشمه معرفت صفحه ۱۸۹،۱۸۶،۱۸۵) (الفرقان جنوری ۱۹۶۹ء)

Page 412

405 جمعہ مو دنیائے مذاہب

Page 413

406 ٹورین والا کفن سات صدیاں پرانا نہیں بلکہ بائبل کے زمانے کا ہے ۱۹۸۸ء میں کفن ٹورین پرتحقیق کرنے کے لئے سائنسدانوں کی ایک ٹیم بنائی گئی تھی جن کا کام اس کپڑے کی عمر معلوم کرنا تھا.اس غرض کے لئے چادر کے کچھ ٹکڑے کاٹ کر دیئے گئے تھے.اس وقت انہوں نے اعلان کیا تھا کہ کپڑا ۱۲۶ تا ۱۳۹۰ عیسوی کے عرصہ سے تعلق رکھتا ہے.اس ابتدائی تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن مسٹر یمنڈ روجر ز بھی تھے.کئی سال کے غوروفکر کے بعد اب انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ کمیٹی کا عمر کا اندازہ غلط (Invalid) تھا.اصل کفن کی حفاظت یا مرمت کے لئے اسکی پشت پر کہیں بعد میں ایک اور چادرسی دی گئی تھی.مسٹر روجرز کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ٹیسٹ اس حفاظتی چادر کے ٹکڑوں پر کئے گئے تھے اس لئے درست نہ تھے.وہ کہتے ہیں میں خود ۱۹۸۸ء کے مہیا کردہ نمونوں اور اصل چادر کے ۳۲ ٹکڑوں پر کیمیائی ٹیسٹ کر چکا ہوں وہ دونوں ایک دوسرے سے کئی لحاظ سے مختلف تھے اس لئے ان کی عمریں بھی مختلف تھیں.نیز اصل چادر کے حصوں پر ایک کیمیکل کمپاؤنڈ (Vanilin) موجود نہ تھا.اگر چادر سات سوسال پرانی ہوتی تو اس کے نشانات (Traces) ان پر ضرور موجود ہوتے ، وہ اتنے کم عرصہ میں ضائع نہیں ہو سکتے.کپاس وغیرہ کے ریشوں میں ایک کیمیائی مادہ Lignin ہوتا ہے جو حرارت کے زیر اثر وقت کے ساتھ ساتھ

Page 414

407 Vanillin میں تبدیل ہوتارہتا ہے.اور بالآخر ختم ہو جاتا ہے.جو خبر یار پورٹ اس سلسلہ میں سڈنی مارننگ ہیرلڈ کے ۲۹.۳۰ جنوری ۲۰۰۵ء کے شمارہ میں بحوالہ 'دی ٹیلیگراف لنڈن شائع ہوئی ہے وہ روم سے Bruce Johnston نے بھیجی ہے اور اس کا عنوان ہے Faithful Heartened By Turin Shraud.Tesls رپورٹر نے Veiled in mystery) پر سرار پردوں میں ) کے عنوان سے کفن ٹورین کی جو مختصر تاریخ بیان کی ہے اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: ۵۵۳۱ء میں یہ چادر لائرے فرانس کے مقام پر سب سے پہلے منظر عام پر آئی جسے مبینہ طور پر ایک فرانسیسی سردار نے قسطنطیہ سے حاصل کیا تھا.۴۳۵۱ء میں جب یہ Sainte Chapelle Chambery کے مقام پر تھی تو اسے آگ سے نقصان پہنچا.وہاں کی راہبات (Nuns) نے کفن کی پشت پر ایک اور کپڑ اسی کر اس کی مرمت کی.۱۵۷۸ء میں یہ چادر ٹورین پہنچی.۱۹۶۷ء میں اس کے بارہ میں یہ دعوی کیا گیا کہ زمانہ وسطی میں کسی پینٹر نے Iron Oxide سے پینٹ کر کے اسے بنایا تھا.۸۸۹۱ء میں ریڈیو کاربن ٹیسٹوں کے بعد یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ زمانہ وسطی کی ایک جعلسازی (Fake ) ہے ۲۰۰۲ء میں اس کی مرمت (Restoration) کے دوران چادر کی دوسری طرف سے بھی ایک انسانی چہرہ کا عکس نظر آیا.۲۰۰۴ء میں اس پر مزید غور فکر ہوا تو پتہ چلا کہ کفن ٹورین تین ہزار سال پرانا ہوسکتا ہے.“ چوکھٹے میں مذکور کفن ٹورین کی مختصر تاریخ کے بعد رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کفن ٹورین (Shroud of Turin) کی عمر کا اندازہ جو کاربن ڈیٹنگ (Carbon Dating) کے ذریعہ اب سے پہلے لگایا گیا تھا اُس کی اصل عمر اُس سے کہیں زیادہ ہے.ایک نئی تحقیق سے اندازہ ہوا ہے کہ جیسا کہ معتقدین یقین کرتے ہیں یہ کفن بائبل کے زمانہ کا ہوسکتا ہے.اس تحقیق کے بعد از سرنو یہ امید پیدا ہوگئی کہ یہ کپڑا زمانہ وسطی کی کوئی جعلسازی کی کاروائی نہیں ہے بلکہ یہ تو واقعہ ء

Page 415

408 صلیب کے بعد یسوع کے چہرہ کا عکس ہے جو معجزانہ طور پر اس پر محفوظ رہ گیا ہے.یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی لاس الاموس لیبارٹری (Los Alamas Laboratory) سے منسلک مسٹر ریمنڈ رو جز ( Raymond Rogers) کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ۸۸۹۱ء کے تجربات کے نتائج غلط (Invalid) تھے.ان کا استدلال ہے کہ جس سوتی کپڑے پر ٹیسٹ کئے گئے تھے وہ اصل کفن کی بجائے اس کے مرمت شدہ حصہ سے حاصل کیا گیا تھا.ان کے اپنے ٹیسٹ جو زیادہ تر کپڑے کے کیمیائی تجزیہ پرمبنی تھے بقول ان کے اصل کپڑے سے حاصل کردہ حصوں پر تھے اور ان کی عمر ( بجائے سات سوسال کے ) ۱۳۰۰ء تا ۳۰۰۰ ء سال منکشف ہوئی تھی.بہت سے کیتھولک یقین رکھتے ہیں کہ کپڑے پر جو عکس ہے وہ یسوع کا ہے اور اس وقت کا جب انہیں صلیب سے اتارنے کے بعد اس میں لپیٹا گیا تھا.و محققین جنہوں نے ۰۸۹۱ء کی دہائی میں الگ الگ طور پر اریزونا، کیمبرج اور زیورچ میں اس پر تجربات کئے تھے وہ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ کپڑے کی عمر ۱۹۲۱ء تا ۰۹۳۱ ء کے درمیانی عرصہ کی ہے.اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ زمانہ وسطی کا کوئی فریب ہو.چنانچہ اس وقت کے ٹورین کے کارڈینل Anatasio Alberto کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا کہ کپڑا ایک عملی مذاق (HOAX) لگتا؟.لیکن مسٹر روجرز رساله Thermochinica Acta میں لکھتے ہیں کہ اصل کپڑے پر کیمیائی مادہ Vanillin کی موجودگی کے کوئی آثار نہ تھے جو حرارت کے زیر اثر Lignin کے ٹوٹنے پھوٹنے سے بنتی ہے جو روئی وغیرہ میں پایا جاتا ہے.اس مادہ Lignin کی مقدار وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ گرتی جاتی ہے.اگر کفن زمانہ وسطی میں بنایا گیا ہوتا تو اس پر ابھی بھی Vanillin موجود ہوتا.مسٹر روجرز جو خود ابتدائی تحقیقاتی ٹیم Shroud of Turin Research) (Project کے ایک ممبر تھے انہوں نے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے نتائج پر اپنی حیرانگی کا اظہار اس کے دس سال بعد کیا ہے.انہوں نے مبینہ حقائق (Data) پر از سر نو غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ عمر نکالنے کے لئے ۸۸۹۱ء میں مہیا کئے گئے نمونے اور ان دوسرے۳۲ نمونوں میں جو انہوں نے ساری

Page 416

409 چادر کے مختلف حصوں سے لئے وہ یکساں نہ تھے.حرارت کی وجہ سے جو کیمیائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں ان کی سائنس یعنی Chemical Kinetics پھر کیمیائی تجزیہ اور دوسرے تجربات سے یہ بات پایہ ثبوت پہنچ گئی ہے کہ ریڈیو کاربن ٹیسٹ جس نمونہ پر کئے گئے تھے وہ اصل کپڑے کا حصہ نہ تھا اور اس لئے کپڑے کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کا استعمال جائز یا قانونی نہ تھا.ان کے الفاظ ہیں: "Chemical kinetics, analytical chemistry and other tests proved the,, radio carbon sample was not part of the original cloth,, and so was,, Invalid in detetmining the age of the shroud." (the Telegraph London-Reproduced by Sydney Morning Herald dated 29.30January 2005) اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے کہ یہ چادر وہی ہے جس میں واقعہ، صلیب کے بعد مرہم لگا کر عیسی علیہ السلام کو لپیٹا گیا تھا.خون بہنے کے نشانات واضح کرتے ہیں کہ ایک زندہ انسان کو اس میں لپیٹا گیا ہے.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر مرنے سے بچ گئے تھے تو صلیبی مذہب کا خاتمہ ہو جاتا ہے.لیکن یہ مقدر ہے کہ اس زمانہ میں ایسے ثبوت مہیا ہوں تو آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ مسیح موعود کے ہاتھوں اس کے زمانہ میں کسر صلیب ہوگا.چنانچہ مکتوب اسکندریہ، صحائف قمران اور کفن مسیح پر یہ جدید تحقیق، قبر مسیح کا انکشاف، تاریخی ، مذہبی اور طب کی کتب جو اس زمانہ میں دریافت ہورہی ہیں اسی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے خدائی تقدیر کا حصہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو اپنی کتاب ”سیح ہندوستان میں“ میں یوں بیان فرمایا ہے : پس اس جگہ ہم بجز ا سکے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خدا کا ارادہ تھا کہ وہ چمکتا ہوا حربہ اور وہ حقیقت نما برہان کہ جو صلیبی اعتقاد کا خاتمہ کر سکے اس کی

Page 417

410 نسبت ابتدا سے یہی مقدر تھا کہ مسیح موعود کے ذریعہ سے دنیا میں ظاہر ہو.کیونکہ خدا کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ صلیبی مذہب نہ گھٹے گا اور نہ اس کی ترقی میں فتور آئے گا جب تک مسیح موعود دنیا میں ظاہر نہ ہو اور وہی ہے جس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہوگی.اس پیشگوئی میں یہی اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل جائے گی.تب انجام ہوگا اور اس عقیدہ کی عمر پوری ہو جائے گی.لیکن نہ کبھی جنگ اور لڑائی سے بلکہ محض آسمانی اسباب سے جو علمی اور استدلالی رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوں گے.پس ضرور تھا کہ آسمان ان امور اور شہادتوں اور ان قطعی اور یقینی ثبوتوں کو ظاہر نہ کرتا جب تک کہ مسیح موعود دنیا میں نہ آتا اور ایسا ہی ہوا.اور اب سے جو وہ موعود ظاہر ہوا ہر ایک کی آنکھ کھلے گی اور غور کرنے والے غور کریں گے کیونکہ خدا کا مسیح آ گیا.اب ضرور ہے کہ دماغوں میں روشنی اور دلوں میں توجہ اور قلموں میں زور اور کمروں میں ہمت پیدا ہو اور اب ہر ایک سعید کو فہم عطا کیا جائے گا اور ہر ایک رشید کو عقل دی جائے گی کیونکہ جو چیز آسمان میں چمکتی ہے وہ ضرور زمین کو بھی منور کرتی ہے.“ مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴) (الفضل انٹر نیشنل 25.3.05)

Page 418

411 پوپ جان پال دوم کا انتقال اور انتخاب جانشین دنیا کے ایک ارب کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی رہنما جان پال دوم ۱۳اپریل ۲۰۰۵ء کو ۸۵ سال کی عمر میں انتقال کر گئے.وہ ۱۹۲۰ء میں پولینڈ میں پیدا ہوئے.ان کا اصل نام Karol Wojtyla تھا.وہ ۱۹۷۸ء میں پوپ جان پال اول کی وفات پر منتخب ہوئے.ان کے پیشر وصرف ۳۳ دن پوپ رہنے کے بعد وفات پاگئے تھے اس لئے انہیں کا نام انہیں دے دیا گیا.پوپ کی وفات کے بعد اخباروں میں ان کے بارہ میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے.کچھ حق میں اور کچھ خلاف.ان کے مداح کہتے ہیں کہ ان کی خاص توجہ اور کوشش سے افریقہ اور ایشیا میں عیسائیت کی تبلیغ مستحکم ہوئی.پورپ سے کمیونزم کے خاتمہ کے لئے انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا.یہودیوں اور عیسائیوں کو باہم قریب کیا.دو ہزار سال تک عیسائی جو یہودیوں پر ظلم کرتے رہے ہیں اس پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کو بتایا کہ Jesus کو صلیب پر چڑھانے کے اصل مجرم یہودی نہیں بلکہ رومی تھے.یورپی یونین کے وہ حامی تھے.کیتھولکس اور پروسٹنٹس کو ایک دوسرے کے خلاف تشدد کے اظہار سے روکتے رہے اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ڈائیلاگ شروع کرنے پر زور دیتے رہے.دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سخت قدامت پرست تھے.دور حاضر کے تقاضوں کو نہ سمجھتے تھے.سخت گیر تھے.بشپوں کے اختیار محدود کئے ہوئے تھے.سب اختیارات اپنے

Page 419

412 ہاتھ میں مرکوز کئے ہوئے تھے.دنیا کے ساتھ نہ چلتے تھے.Abortion (اسقاط حمل )،خاندانی منصوبہ بندی ، ہم جنس افراد کی باہم شادیاں ، ہم جنس پرست پادریوں اور عورتوں کو پریسٹ (Priest) بنانے کی مخالفت کرتے رہے.ایک صاحب نے کہا کہ کسی بھی مذہبی رہنما کی کامیابی کا پیمانہ اپنے پیروکاروں کی اخلاقی و روحانی حالت کو سدھارنے سے لگایا جاسکتا ہے.ساری مغربی دنیا اور خود اٹلی اور روم کے لوگوں کی اخلاقی حالت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور چر چوں میں عبادت کرنے والوں کی تعداد مسلسل گررہی ہے.اگر وہ واقعی عظیم پوپ تھے تو اس اہم معاملہ میں تو ان کا اثر کہیں نظر نہیں آتا.ان کے پاس اگر کسی پادری کے خلاف ہم جنس پرستی کی شکایت پہنچتی تھی تو وہ کوئی کارروائی اس کے خلاف نہ کرتے تھے.پوپ اور پاپا کا ماخذ ایک ہی ہے.کیتھولک عیسائی پوپ کو فادر یا باپ بھی کہتے ہیں.پوپ کا سرکاری عہدہ Supreme Pontiff کہلاتا ہے.یہ لفظ لاطینی ہے جس کے معنے پل کے ہیں.اس لئے انجیل کی صحیح تشریح بھی انہیں کا حق ہے.اس بات کو پروٹسٹنٹ اور دوسرے غیر کیتھولک تسلیم نہیں کرتے.پوپ جان پال دوم کی صحت کافی عرصہ سے خراب اور کمزور چلی آتی تھی.چرچ کے Canon Law کے مطابق پوپ کو اس کے عہدہ سے معزول نہیں کیا جاسکتا ، نہ اس کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے.البتہ خود پوپ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر کسی وقت اپنے آپ کو اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے قابل نہ پائے تو از خود اپنے عہدہ سے دستبردار ہوسکتا ہے.کوئی ایسا ادارہ اس کے او پر نگران نہیں جس کو وہ اپنا استعفیٰ پیش کرے.پس خود ایک تحریر لکھ کر دستبردار (Abdicate) ہوسکتا ہے.تاریخ عیسائیت میں اب تک چھ پوپ اپنے عہدہ سے دستبردار ہو چکے ہیں جن کے نام ہیں 235 عیسوی میں Pontian ,537 عیسوی میں Silverius ,109 میں John Xvll 1045 عیسوی میں Benedict IX,1294ء میں Celestine V اور 1415 عیسوی میں - Gregory xll دس سال پہلے جب پوپ جان پال بیمار پڑے تھے تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید وہ

Page 420

413 دستبردار ہو جا ئیں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اس کی تردید کردی کہ دیکھیں خدا کس طریق پر مجھے اس بوجھ سے فارغ کرتا ہے.اگر پوپ کی صحت ایسی گر جائے کہ وہ کام نہ کر سکے اور نہ وہ دستبردار ہوتو پھر اس کے معتمدین یعنی اس کی کیبنٹ ، پرائیویٹ سیکرٹری وغیرہ اس کے نام پر فیصلے کرتے اور کام چلاتے ہیں.لیکن اگر صورت حال غیر یقینی ہو تو اہم فیصلے کرنے سے گریز کرتے ہیں.جب ایک پوپ فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جانشین کے انتخاب تک کے عرصہ کو Vecante Sede ( یعنی Vacant See) کہا جاتا ہے.اس عرصہ کے دوران وہ کارڈ مینل جو خرچ کے منتظم اعلیٰ یا میر حاجب اور خزانچی ہوتے ہیں اور Chamberlain کہلاتے ہیں وہ عارضی نگران کے طور پر کام چلاتے ہیں لیکن سوائے انتخابی کاموں کے اور کوئی اہم فیصلہ نہیں کر سکتے.جب کوئی پوپ فوت ہوتا ہے تو سب سے پہلے انہیں کو اطلاع دی جاتی ہے اور صرف وہی پوپ کی وفات کی تصدیق کر کے اس کا اعلان کرنے کے مجاز ہوتے ہیں.پوپ کا انتخاب ایک انتخابی ادارہ (Electoral College) کرتا ہے جو آج کل ۵۸ ممالک کے ۱۲۰ کارڈینلز (Cardinals) پر مشتمل ہوتا ہے.ان میں سے تین ایسے ہیں جو ۸۰ سال سے اوپر کی عمر کے ہیں.وہ انتخاب سے پہلے مشورہ میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن انتخاب میں شریک نہیں ہو سکتے.اس لئے عملاً یہ کالج ۷ افراد پر مشتمل ہے جو سوائے تین کے سبھی پوپ جان پال دوم کے مقرر کردہ ہیں.انتخابی ادارہ کی کوشش ہوتی ہے کہ پوپ کی مسند پر ایسا شخص بیٹھے جس کی صحت اچھی ہو.جس میں روحانیت پائی جاتی ہو، اس کی عمر ۶۴ اور ۴ے سال کے درمیان ہوتا کہ اس کی پاپائیت کا عرصہ نہ تو بہت مختصر ہو نہ بہت لمبا.اگر چہ چرچ کے قانون کے مطابق امیدوار کے لئے صرف کیتھولک عقیدہ کا ہونا ضروری ہے اس کے لئے پریسٹ (Priest) یا کارڈینل ہونا ضروری نہیں.لیکن ہوتے عموماً وہی ہیں جو کارڈینل وغیرہ ہوں.دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہوں بالخصوص روم کے مرکزی مدرسہ سے.قانون کی رو سے تو اس کا تعلق دنیا کے کسی ملک سے ہوسکتا ہے لیکن بوجہ عیسائیت کا مرکز ہونے کے اٹلی والوں کا حق فائز سمجھا جاتا ہے.پوپ کے لئے ضروری ہے کہ اطالوی زبان اچھی طرح بول سکتا ہو.مغربی پوپ کے کلچر سے پوری طرح شناسا ہو اور اس کی عمر اپنے مذہب کی خدمت میں

Page 421

414 گزری ہو.پوپ کا انتخاب خاصہ مشکل اور دقت طلب کام ہوتا ہے.بارھویں صدی عیسوی سے College of Cardinal کے ذریعہ سے انتخاب کا طریق رائج ہوا.شروع شروع میں تو انتخاب کے موقعہ پر بہت اختلاف پیدا ہو جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے تیرھویں اور چودھویں صدی میں ایک پوپ کی وفات پر دوسرے انتخاب تک لمبے لمبے وقفے پڑ جایا کرتے تھے.تنگ آکر ایک طریق یہ نکالا گیا کہ کالج کے ممبران کو ایک کمرہ میں بند کر دیتے تھے جس کو Conclave کہا جاتا ہے.اس کمرہ کو باہر سے تالا لگا دیتے تھے اور اسی وقت کھولتے تھے جب ان کی اکثریت کسی ایک نام پر متفق ہو جاتی تھی.ممبران کے علاوہ کسی کو اس کمرہ میں جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی.چونکہ ان کو روٹی پانی کسی طریق سے اندر پہنچا دیا جاتا تھا اس لئے پھر بھی کئی دن لگ جایا کرتے تھے.آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ روزے رکھیں گے اور ان کو کھانا بھی نہیں دیا جائے گا.بھوک سے تنگ آکر وہ جلد انتخاب کرلیا کرتے تھے.یہ طریق ابھی بھی رائج ہے اگر چہ روٹی پانی اب مہیا کر دی جاتی ہے.اگر تین دن تک صبح و شام دودو دفعہ بیلٹ کرنے کے بعد بھی فیصلہ نہ ہو سکے تو چوتھے روز دعا اور مشورہ کے لئے ناغہ کیا جاتا ہے.سولہویں صدی عیسوی سے یہ Conclave روم کے Sistine chapel میں منعقد ہوتا ہے.موجودہ قانون کے مطابق انتخابی ادارہ کے ارکان پوپ کی وفات کے پندرہ بیس دن بعد Conclave میں چلے جاتے ہیں.پوپ کو اختیار ہوتا ہے کہ اپنے پیچھے آنے والے کے لئے انتخابی قانون میں تبدیلی کر سکے.آج کل پوپ کیلئے دو تہائی ووٹ درکار ہوتے ہیں.لیکن اگر کئی دن بعد بھی اتنی تعداد کسی نام پر متفق نہ ہو سکے تو یہ ادارہ بھی معمولی اکثریت سے منتخب کر سکتا ہے.کارڈینلز کونوٹس وغیرہ لینے کے لئے بہت تھوڑا کاغذ دیا جاتا ہے اور ہر ایک یاد و بیلٹ پیپر اور وہ نوٹس جلا کر ضائع کر دئے جاتے ہیں تا اس کا رروائی کو خفیہ رکھا جاسکے.کمرہ انتخاب کے اندر ایک انگیٹھی ہوتی ہے.ہر دفعہ جب ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو بعض خاص کیمیکلز ڈال کر دھواں باہر نکالا جاتا ہے تو بالکل سفید ہوتا ہے یا بالکل سیاہ.سیاہ دھوئیں کا مطلب ہوتا ہے کہ اس بار بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا.اور سفید دھوئیں کا مطلب ہوتا ہے کہ پوپ کے انتخاب پر اتفاق ہو گیا ہے.ہزاروں لوگ صبح و شام اس انگیٹھی سے نکلنے والے دھوئیں کا رنگ بے چینی سے دیکھ

Page 422

415 رہے ہوتے ہیں.جب پوپ جان پال دوم کا انتخاب ہوا تھا تو وہ کیمیکل ایسا خراب تھا کہ دھوئیں کا رنگ نہ سفید ہوتا تھانہ سیاہ بلکہ درمیان تھا.جس سے بہت گڑ بڑ اور پریشانی ہوئی تھی.امید کی جاسکتی ہے کہ اس بار بجائے دھواں چھوڑنے کا کوئی اور طریق اختیار کیا جائے گا.الفضل انٹر نیشنل 22.4.2005)

Page 423

416 ہم جنس پرستوں کی ” شادیوں کو چرچ نے برکت دینی شروع کر دی ہم جنس پرستی (سدومت) کی بائبل میں سخت مذمت کی گئی ہے اور لوط علیہ السلام کی قوم پر اسی گناہ کی پاداش میں خدائی گرفت کا تذکرہ ملتا ہے.لیکن آج کل کے چرچ بجائے لوگوں کو بدکاری سے روکنے کے ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں.آسٹریلیا کے یونائیٹنگ چرچ (Uniting Church) میں عورتیں بھی پادری کے طور پر کام کرتی ہیں.مرد پادریوں کو جنسی زیادتیوں کے خلاف تو احتجاج اور ہر جانوں کے مطالبوں کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اب ایک عورت پادری کے اس انکشاف نے کہ وہ ہم جنس پرست (Lesbian) ہے.مذکورہ بالا چرچ میں تزلزل کی کیفیت پیدا کر دی ہے.وہ اس مشن کے نہایت ذمہ دار عہدہ پر فائز ہیں اور سارے آسٹریلیا کی نیشنل ڈائریکٹر ہیں.ان کا نام Rev Dorothy Mc Mahon ہے.ان کے اعلان سے سخت ہنگامہ برپا ہو گیا اور ایک حلقہ کی طرف سے اسے بائبل کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی وجہ سے انہیں اپنے عہدہ سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ ہوا.دوسری طرف چرچ سے متعلق ایک بڑے گروپ نے انہیں فارغ کر نیکی صورت میں چرچ سے علیحدگی کی دھمکی دے دی اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ سدومی اپنا علیحدہ چرچ قائم کر لیں گے.اس مسئلہ کا حل نکالنے

Page 424

417 کے لئے ایک میٹنگ بلائی گئی جو اگرچہ بڑی ہنگامہ خیز رہی لیکن دونوں گروپ کسی تصفیہ پر آمادہ نہ ہو سکے.لہذا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا کہ آیا ہم جنسوں کی باہم شادیاں Sama-sex) (Marriages با ضابطہ قرار دی جائیں یا نہ.نیز یہ کہ جو افراد اعلانیہ طور پر ہم جنس پرست Gay) (Lesbians & ہوں ان کو چرچ پادری مقرر کرے یا نہ.ابھی یہ گومگو کی کیفیت جاری تھی کہ مذکورہ بالا پادری مسماۃ ریورنڈ ڈورتھی نے یہ اعلان کر کے ایک اور دھما کہ کر دیا کہ انہوں نے مردوں کی مردوں کے ساتھ اور عورتوں کی عورتوں کے ساتھ غیر حقیقی شادیوں (Pseudo-Marriages) کو برکت (Bless) دینے کا کام شروع کر دیا ہے.یعنی اگر چہ یہ تقریبات رسمی طور پر شادیاں تو نہیں کہلائیں گی لیکن ایک رنگ میں چرچ کی رضامندی کا اظہار ہوگا کہ جاؤ تم خوش رہو.(ماخوذ از سڈنی ہیرلڈ ۲۸ جولائی ۱۹۹۷ء) اس قسم کی ایک خبر ڈنمارک سے بھی آئی ہے.نیشنل چرچ آف ڈنمارک نے تقریباً دس سال قبل ایک اعلانیہ سوددمی (Homosexual) کو باضابطہ طور پر اپنا پادری مقرر کیا تھا.اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہاں کے سود ومیوں (Gays and Lesbians) نے مطالبہ کیا کہ ان کی شادیوں کو چرچ تسلیم کرے.اس پر چرچ نے ایک کمیشن مقرر کیا جنہوں نے سوصفحات پر مشتمل رپورٹ مرکزی اداره Church's College of Bishops کو پیش کی.چنانچہ اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ لوتھرن چرچ (Luthern Church) تین سفارش کردہ طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر کے ایک ہی صفت Same Sex کے جوڑوں کی شادی کو Bless کر سکتے ہیں.(ماخوذ از سڈنی مارٹنگ ہیرلڈ ۲۳ مئی ۱۹۷۷ء) خاکسار متجسس ہوا کہ یہ معلوم کرے کہ عیسائیت میں کسی کو Bless کرنے کا کیا مطلب ومفہوم ہوتا ہے.چنانچہ جب میں نے پاکٹ بائبل ڈکشنری“ کی طرف رجوع کیا تو اس میں لفظ ’Bless “ کی مندرجہ ذیل تشریح پائی.Bless, Blessing: The bestowal of divine favor and benefits (Ge1.22.9:1-7,39:5) It includes recognition of God's goodness in a thankful and adoring

Page 425

418 manner.(Ps103:1:MA26:26:lco11:24) And invoking God's favor upon another(Ge27:4-12,27-29.Ps129:8) یعنی Bless “ کرنے کا مطلب ہے خدا کی نعمتوں اور فضلوں کی عطا.اس میں خدا کے احسانات پر اس کا شکریہ ادا کرنا اور اس کی عبادت کرنا شامل ہے.علاوہ ازیں اس کا مطلب کسی دوسرے کے لئے دعا کرنا ہے کہ خدا اس پر فضل فرمائے.(Pocket Bible Dictionary-published by Meridian and world Bible publisher, USA, P-49) اگر پادری صاحبان ہم جنس شادیوں (Same-sex Marriages) کو مذکورہ بالا مفہوم میں Bless کرتے ہیں تو یہ خدا، مذہب اور بائبل کے ساتھ ایک نہایت گستاخانہ اور گھناؤنے مذاق سے کم نہیں.اس کو اپنے چہرے کی سیاہی کو خدا کے چہرہ پر ملنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے.گویا اس طرح کی شادیاں خدا کا نام لے کر اور اس کی اجازت سے کی جاتی ہیں.اور خدا کی ایسی نعمتوں اور فضلوں میں متصور ہوتی ہیں جن پر خدا کا شکر اور اس کی تسبیح وتحمید کی جاتی ہے.(نعوذ باللہ من هذه الخرافات) اس طرح کی خبریں قصر عیسائیت کے اندرونی توڑ پھوڑ کی مظہر ہیں.لیکن ایسا ہونا مقدر تھا کیونکہ جب تک پرانی عمارت نہ گرائی جائے اس کی جگہ نئی تعمیر نہیں کی جاسکتی.قانون قدرت یہی ہے کہ جتنازیادہ خلا پیدا ہو گا اتنے ہی زور سے وہ جگہ پر کرنے کے لئے باہر سے جھگڑا چلیں گے.یہ خلا کون پر کرے گا اس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو.چونکہ ضرور تھا کہ خدا ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام دنیا میں قائم کرے اس لئے عیسائیت کا بگڑنا اسلام کے ظہور کے لئے بطور ایک علامت کے تھا.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۵) ( الفضل انٹرنیشنل 28.11.96)

Page 426

419 پروفیسر پال ڈیویز (Paul Davies) سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی معرکۃ الآراہ کتاب جو ہام عقل علم اور سچائی“ & Revelation Rationality Knowledge) (Truth کے علوم کا بحر بیکراں ہے ، میں بے شمار ماہرین علوم کے حوالے درج فرمائے ہیں اُن میں آسٹریلیا کے مشہور سائنس دان پروفیسر پال ڈیویز بھی شامل ہیں.الہام پروفیسر صاحب موصوف ا۱۴۹ء میں لندن میں پیدا ہوئے اور ایڈیلیڈ آسٹریلیا میں Mathematical Physics اور اس کے بعد Natural Philosophy کے پروفیسر بنے.آپ ۰۲ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں "The Edge of Infinity" اور The Mind of God" بہت مشہور ہیں.سائنسی امور پر آپ دنیا کے بہترین لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں.آپ کا خاص مضمون مذہب اور سائنس ہے.آپ کو ساڑھے چودہ لاکھ ڈالر کی مالیت کا انعام Templeton Prize for Progress in Religion مل چکا ہے.حضور ایدہ اللہ نے اپنی کتاب میں پروفیسر صاحب کی کتابوں سے دو بہت دلچسپ حوالے پیش فرمائے ہیں.پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ سائنس پر اسرار امور کی وجہ سے ہی ترقی کرتی ہے.جب ہم ایک بات کو حل کرتے ہیں تو دوسری ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی مضمون کو بہت عارفانہ طریق پر ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:

Page 427

420 کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا حضور انور ایدہ اللہ نے پروفیسر پال ڈیویز کے جود وحوالے اپنی کتاب میں درج فرمائے ہیں ان کا خلاصہ آسان الفاظ میں یہ ہے کہ آج سے کوئی ڈیڑھ صدی پہلے تک سائنس دانوں کو ایسے ہی قوانین قدرت سے واسطہ پڑتا تھا جو ہر وقت یکساں رہتے ہیں اور جیسے زمانہ حال میں لاگو ہیں ویسے ہی زمانہ ماضی میں بھی تھے اور مستقبل میں بھی رہیں گے.لیکن پھر حرارت اور توانائی کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے کے مسائل سامنے آئے تو پرانے تصورات یکسر بدل گئے.اس کا بنیادی اصول بہت سیدھا سادا ہے کہ گرمی صرف گرم جسم سے ٹھنڈے جسم کو منتقل ہوسکتی ہے.کم گرم جسم سے زیادہ گرم جسم کو منتقل نہیں ہو سکتی.یعنی گرمی کے انتقال کا رخ تیر کی طرح سیدھا ایک ہی سمت میں سفر کرتا ہے اور اس عمل کو الٹایا نہیں جاسکتا.اس اصول نے کائنات کے اوپر وقت کے تیر کا نشان ثبت کر دیا ہے.یعنی یہ کائنات ہمیشہ سے ہی ایسے نہیں ہے جس طرح آج ہے بلکہ ایک خاص وقت سے کائنات کے گرم اجسام نے اپنے ارد گر د گر می بکھیر نی شروع کی تھی اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تمام اجسام کا درجہ حرارت یکساں نہ ہو جائے.اور جب کائنات کی تمام اشیاء ایک ہی درجہ حرارت پر آجائیں گی.یعنی اس حالت پر پہنچ جائیں گی جس کو Thermo Dynamic Equilibrium کہا جاتا ہے تو کائنات میں مزید تغیر و تبدل کی گنجائش نہ رہے گی اور اس کی حرارتی موت (Heal Death) واقع ہو جائے گی.ساری کائنات سالموں یعنی Molecules سے بنی ہے جب اس کی حرارتی موت ہو جائے گی تو ان مالیکولز میں انتہائی ابتری پیدا ہو جائے گی.وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے اور ساتھ ہی یہ کائنات مرکز کسی اور حالت میں آجائے گی.اس حالت کو Emtropy کہا جاتا ہے.چونکہ کائنات ابھی زندہ ہے ، کائنات کا سفر بھی رواں دواں ہے، سورج چاند ستارے محو گردش ہیں اس لئے اگر چہ Entropy کا عمل آج بھی جاری ہے ، ابھی کامل نہیں ہوا.پس ثابت ہوا کہ ہماری

Page 428

421 کا ئنات نہ ہمیشہ سے ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہے گی.پروفیسر صاحب نے وہی بات کہی ہے جو قرآن بار بار کہتا ہے کہ سورج چاند اور ستارے ایک (اجل مسمی) یعنی مقررہ مدت کیلئے کام پر لگائے گئے ہیں.خدائے ذوالجلال والاکرام کے سواہر چیز فانی ہے.حقیقت یہ ہے کہ ایک ازلی ابدی خالق ہی ہے جو وقت وخلا Time) (Space& کی پابندیوں سے آزاد ہے.اس کے سوا ہر دوسری چیز مخلوق ہے اور وہ وقت و مکان کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے.ہندومت اور بدھ مت والے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مادہ وروح ہمیشہ سے اپنے آپ ہیں اور کائنات ہمیشہ سے ہی اس طرح ہے جس طرح آج ، ان کو Entropy کے اصول پر غور کرنا چاہئے.(حضور انور ایدہ اللہ نے اپنی کتاب کے صفحات ۳۱۹ تا ۳۲۸ پر اس دلچسپ مضمون کو بیان فرمایا ہے ) اس مضمون کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے اصل کتاب کا مطالعہ فرمائیں.(الفضل انٹر نیشنل 28.2.2003)

Page 429

422 دل بھی دماغ کی طرح باہر سے پیغام وصول کرنے ، اس پر فیصلہ کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بین الاقوامی رسالہ ”فزیالوجی میں ملبورن یو نیورسٹی آسٹریلیا کی تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں پہلی بار یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دماغ کی طرح دل کا بھی اپنا علیحدہ شعوری نظام ہے.اگر چہ دل کے Sensory Cells دماغ کے Nerve Cells کے مقابلہ میں پانچ گنا چھوٹے ہیں اور ان کو معلوم کرنا خاصہ مشکل کام ہے.محققین نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے دل کے فعل کو سمجھنے کے لئے ایک نئی دریافت کی ہے جو یہ ہے کہ دل کے اپنے Nerve Cells مرکزی اعصابی نظام سے آزادانہ طور پر بھی کام کر سکتے ہیں.اس انقلابی دریافت کے نتیجہ میں ایسی دوائیں وجود میں آئیں گی جو دل کی حرکت کو منضبط کرنے کے لئے براہ راست دل کے اعصاب پر اثر کریں گی بجائے اسکے کہ وہ دماغ پر اثر کریں اور دماغ آگے دل کو احکام بھیجے جس طرح آجکل ہوتا ہے.پروفیسر ڈیوڈ ہرسٹ نے کہا ہمارے گروپ کی تحقیق نے پہلی بار یہ ثابت کیا ہے کہ دل کا علیحدہ نروس سسٹم ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ دل بھی سوچتا ہے اگر سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ حواس کے ذریعہ علم حاصل کرنا ceiving Re Sensory Information پھر اس پر فیصلہ کرنا اور اس پر عمل کرنا تو پھر دل بھی یہ کام کرتا ہے.دل میں ایسے حسی خلیات (Sensory Cells) ہیں جو پیغام وصول کر سکتے ہیں

Page 430

423 اور اسے دل کے فعل میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں.( ہیرلڈ ، ۲۷ نومبر ۱۹۹۸ء) یہ تحقیق اس لئے اہم ہے کہ اس کے مطابق دل بھی دماغ کی طرح باہر سے براہ راست پیغام وصول کر سکتا ہے اگر چہ دماغ کے مقابلہ میں بہت کم لیکن باقی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ شعور مکمل طور پر صرف دماغ میں ہوتا ہے اور کہیں نہیں.یہ تحقیق اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کہ اس کے ذریعہ قرآن پر ایک اعتراض کا ایک اور جواب ملتا ہے معترض کہتا تھا کہ قرآن کہتا ہے اور یقینایہ ( قرآن ) رب العلمین خدا کی طرف سے اترا ہے اس کو 66 لے کر ایک امانت دار کلام بردار فرشتہ (جبرائیل ) تیرے دل پر اترا ہے.“ (الشعراء: ۱۹۳-۱۹۵) یعنی قرآن دل پر اترا ہے جس میں شعور نہیں کیونکہ شعور کا مرکز صرف دماغ ہے.اب اگر یہ تحقیق درست ثابت ہوتی ہے کہ دل میں بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے تو یہ اعتراض باطل ہو جاتا ہے.66 لیکن اصل بات یہ ہے کہ عربی میں قلب کے اصل معنے ہیں پھیر نے اور الٹا نے پلٹانے والا اس لئے کہ وہ خون کو پھیرتا ہے یا خیالات کو پھیرتا ہے اور قلب کے معنے کسی چیز کا اصل اور لب یعنی خلاصہ اور روح (Essence) کے بھی ہیں جیسے حدیث میں ہے کہ ہر چیز کا ایک قلب ہے اور قرآن کا قلب دیس“ ہے.پس قلب سے مراد وہ روحانی قلب ہے جو جسمانی قلب کے بالمقابل واقع ہے انسان کے تمام ظاہری اعضاء و جوارح کے بالمقابل ویسے ہی باطنی اور روحانی اعضاء بھی واقع ہوئے ہیں.ظاہری آنکھوں کی بصارت کے بالمقابل باطنی آنکھوں کی بصیرت ظاہری کانوں کے پیچھے باطنی سماعت اور ظاہری دل کے اندر روحانی دل اور یہی روحانی دل آنکھیں اور کان ہی آسمان روحانیت کی خبریں سننے کی اہلیت رکھتے ہیں اور یہی ہیں جو جب اس دنیا میں نور بصیرت سے محروم ہوتے ہیں تو دوسرے جہان میں بھی اندھے ہوں گے.یہ امر ظاہر ہے کہ یہاں جسمانی آنکھیں مراد نہیں لیکن خدا کا نظام ایسا ہے کہ جسمانی وروحانی قلب و دیگر اعضاء علیحدہ علیحدہ اپنے طور پر کام نہیں کر سکتے

Page 431

424 اور اپنے مفوضہ فرائض کی انجام دہی کے لئے مل کر کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں (جسے دوسرے لفظوں میں جسم و روح کا باہمی تعلق بھی کہا جاتا ہے ) لہذا جب باطنی قلب الہام ووحی کا مہبط بنتا ہے تو ظاہری یا جسمانی قلب بھی اس کی کیفیات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ اپنے اوپر خدا کے کلام کو نازل ہوتا محسوس کرتا ہے.قرآن کریم باطنی قلوب وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: کیا وہ زمین میں چل کر نہیں دیکھتے تا کہ ان کو ایسے دل حاصل ہو جائیں (جوان باتوں کو سمجھنے والے ہوں یا کان حاصل ہو جائیں (جوان باتوں کو ) سننے والے ہوں.کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں.“ (الحج: ۴۷) اس آیت سے ظاہر ہے کہ جسمانی دل، آنکھ اور کان وغیرہ کے بالمقابل باطنی و روحانی دل آنکھ اور کان وغیرہ ہوتے ہیں اور جب وہ بیمار اور اندھے ہوتے ہیں تو خدا کی باتوں کے سنے ،ان پر غور وفکر کرنے اور ان کا اثر قبول کرنے کی اہلیت سے محروم ہو جاتے ہیں.لیکن جب غور و فکر کے نتیجہ میں ان کی فطرتی استعداد میں حالت صحت کی طرف لوٹتی ہیں تو خدا کی باتوں سے فائدہ اٹھانے لگتی ہیں.ورنہ کیا سینوں کے اندر کے گوشت پوست کے دل بھی کبھی کسی نے آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے دیکھتے ہیں.ہاں قلب ظاہری کے اندر پوشیدہ روحانی دل یا دوسرے لفظوں میں روح انسانی ضرور بیمار بھی ہوتی ہے اور صحتمند بھی وہ تاریک بھی ہوتی ہے اور نورانی بھی پس وہ ایک قلب روحانی ہی تھا جو تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ پاک ترین اور نوروں سے پر تھا جس پر قرآن نازل ہوا اور جس کا پر تو جسمانی قلب پر بھی پڑا ( صلی اللہ علیہ وسلم).معترض کے سمجھنے کے لئے اتنی بات بھی کافی ہے کہ ہمیشہ سے دل کو اعتقادات اور خیالات کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے اور دماغ کو عقل و شعور کا.تمام دنیا کی زبانیں اس محاورہ کو استعمال کرتی رہی ہیں بلکہ آج بھی سب اہل زبان اپنی تحریرات میں دل ہی کو عشق ومحبت اور جذبات کامل بیان کرتے ہیں اور اس کے بالمقابل روکنے ٹوکنے والی قوت کو دماغ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے دل و دماغ کی کشمکش

Page 432

425 بھی ہمیشہ موضوع سخن رہی ہے.چنانچہ یہی زبان کا محاورہ قرآن کریم نے استعمال کیا ہے اور وحی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کرنے کا ذکر فرمایا.لہذا اعتراض کی حیثیت محض سطحی ہے.(الفضل انٹر نیشنل 10.5.96)

Page 433

426 کیتھولک چرچ میں تبدیلیوں کی خاطر پندرہ لاکھ جرمنوں کی تحریری یاد داشت پندرہ لاکھ جرمنوں نے کیتھولک چرچ میں اصلاح کی خاطر ایک تحریری عرض داشت پیش کی ہے.جو جرمنی میں اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے.عرضداشت میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عورتوں کو پر یسٹ مقرر کیا جائے اور لازمی رہبانیت کا طریق ختم کیا جائے.اس تحریک کا نام ہے We are" "The People یعنی ”ہم عوام ہیں اور اس نے دیوار برلن کے گرائے جانے سے قبل لوگوں کو کیمونزم کے خلاف متحرک کیا تھا.وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم جنس پسندوں اور مطلقہ افراد کے متعلق بھی ہمدردانہ رویہ اور نرم گوشہ اختیار کیا جائے.اسی طرح کی تحریک اور عرض داشت اس سال کے شروع میں آسٹریلیا میں بھی کی گئی تھی.نیز سوئٹزر لینڈ میں بھی ویکن کی رجعت پسندی پر تنقید کی جارہی ہے.یورپ کی اصلاحی تحریکیں کہتی ہیں کہ موجودہ پوپ کے ہوتے ہوئے چرچ میں جدید رجحانات کو سمونے کی کوشش کامیاب ہونے کا کوئی امکان نہیں جرمنوں نے عورتوں کو پریسٹ بنانے کی جو عرضداشت دی تھی پوپ نے اس کا ناقابل تنسیخ رد کرنے کی صورت میں جواب دیا ہے.چنانچہ اب ہر سال ڈیڑھ لاکھ کیتھولک چرچ کو چھوڑ رہے ہیں.

Page 434

427 آسٹریلیا میں اینگلیکن چرچ کا حال بھی اس سے مختلف نہیں.اس چرچ کی مجلس Diocese نے 2991ء میں اپنے ہی چرچ کی قومی مجلس General Synod کا یہ فیصلہ مستر د کر دیا تھا کہ عورتیں بھی پریسٹ بن سکتی ہیں انہوں نے کہا تھا کہ بائبل کے مطابق صرف مرد ہی پادری بن سکتا ہے اور مذہبی رسومات کی امامت کر سکتا ہے.چنانچہ جوعورتیں پر یسٹ بنے کی متمنی ہیں وہ سڈنی کے چرچ کو چھوڑ کر دوسرے چرچوں میں قسمت آزمائی کر رہی ہیں جن میں سے ایک ریورنڈ لوسل پائپر ہیں جنکی ایک دوسرے شہر نیو کاسل کا منتقلی ایک نمایاں خبر کا موضوع بنی ہے.آسٹریلیا میں اینگلیکن چرچ نے ایک اور جدت بھی کی ہے.شروع سے یہ طریق چلا آرہا ہے کہ بچے کو چرچ لے جا کر عیسائی بناتے تھے اور اس کو بپتسمہ دے کر اس کا موروثی گناہ دھوتے اور عیسائی نام دھرتے اور جب تقریباً چودہ سال کا ہو جاتا تو اسے Cfirmation کی رسم کے ذریعہ چرچ کا پور امبر بناتے اس کے بعد وہ تمام مذہبی عبادات و رسومات میں حصہ لینے کا حقدار بن جاتا.لیکن اب چونکہ اس چرچ کے ممبروں کی تعداد گرتی جارہی ہے اس لئے انہوں نے چرچ کی اس آٹھ سوسالہ قانون کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب جلد ہی تین سالہ بچے بھی عبادات میں پورے ممبروں کی طرح شریک ہوسکیں گے.گو یا یوں لگتا ہے کہ عیسائیت کا ہر قاعدہ واصول توڑ پھوڑ کا شکار ہورہا ہے اور عیسائیت کا قلعہ اپنے کلچر کے سہارے ہی قائم ہے.(الفضل اند نیشنل 10.5.96)

Page 435

428 ڈاکٹر بلی گراہم نے اپنا کام اپنے بیٹے کو سونپ دیا آج کل ڈاکٹر بلی گراہم (Billi Graham) کے بیٹے فرینگلن گراہم سڈنی آئے ہوئے ہیں اور دعائیہ اجتماعات منعقد کر رہے ہیں جس کا اخبارات میں بہت چرچا ہے.ان کا مختصر تعارف قارئین کے لئے باعث دلچسپی ہوگا.ڈاکٹر بلی گراہم مشہور عیسائی مناد ہیں جو ۱۹۱۸ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے تھے.انہوں نے دنیا بھر میں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے ایک ادارہ بنام Crusade Christ for Youth قائم کیا جس نے امریکہ اور انگلستان میں کام شروع کیا.بعد میں روس شرق اوسط اور افریقی ممالک میں اپنی تنظیم کو قائم کیا.آپ کئی کتب کے مصنف ہیں جن میں Peace With God, Secret of Happiness, My Answer, How to be Born.Again زیادہ مشہور ہیں.انہوں نے بعض مذہبی فلمیں بھی بنا ئیں.ایک دفعہ انہوں نے کہا تھا کہ مغربی معاشرہ میں جنسی بے حیائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ان پر عذاب نہ آیا تو خدا کولوط کی بستیوں سدوم اور گمورہ سے معذرت کرنی پڑے گی.(سدوم اور گمورہ لوط علیہ السلام کی پانچ بستیوں میں سے تھیں جن پر عذاب آیا تھا.) ڈاکٹر بلی گراہم اب ے ے سال کے ہیں اور بیماری کی وجہ سے سفر کے قابل نہیں آسٹریلیا میں

Page 436

429 بار دورہ پر وہ ۱۹۵۹ء میں آئے تھے اور ۳.۳ ملین لوگ ان کے اجتماعات میں شامل ہوئے تھے.پھر ۱۹۷۹ء میں جب سڈنی آئے تو ۴۹۱۵۰۰ افراد ان کے اجتماعات میں شامل ہوئے.ان کی تنظیم کا سالانہ بجٹ 1 کروڑ ڈالر سالانہ ہے.(10 ملین ڈالر ) ان کا ایک ہی بیٹا ہے جس کے عشق و محبت کے افسانے ،شراب و کباب اور پینے پلانے کے شغل اخباروں میں خوب شہرت پاتے رہے ہیں اور اخبار لکھتا ہے کہ اب اس کے بعد اس نے اپنی باپ کی تنظیم ، شکل وصورت اور خدا کی محبت ورثہ میں پالی ہے کیونکہ ڈاکٹر بلی گراہم نے اپنا سب کام کاج اپنے ۴۳ سالہ بیٹے کے سپر دکر دیا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کے کام کو کیسے چلاتے ہیں.پہلے تو وہ باغی بیٹے کے طور پر مشہور تھے.ڈاکٹر بلی گراہم تو بعض دفعہ چھ چھ گھنٹے خطاب کرتے اور بڑے بڑے اجتماعات پر اجتماعی دعا کے دوران رفت طاری کر دیتے.لوگ گھنٹوں روتے اور دعا کرتے لیکن ریورنڈ ہیری جے ہر برٹ کہتے ہیں کہ یہ سب بے کا رتھا اگر لوگوں کے دلوں پر اس کا واقعی اثر ہوتا تو ان کے جانے کے بعد گرجوں میں حاضری بڑھتی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا.لوگ محض ایک وقتی لطف اٹھاتے تھے اور بات وہیں ختم ہو جاتی تھی.ڈاکٹر بلی گراہم وہی صاحب ہیں کہ جب وہ ایک بار افریقہ میں ایسے ہی دعائیہ اجتماعات منعقد کرتے پھر رہے تھے تو ہمارے مبلغ محترم شیخ مبارک احمد صاحب (اطال اللہ عمرہ ) نے ان کو دعا کے مقابلہ کا چیلنج دیا تھا لیکن انہوں نے راہ فرار اختیار کر لی تھی.(الفضل انٹر نیشنل 10.5.96)

Page 437

430 پوپ نے لمبو (Limbo) کا عقیدہ چپکے سے ترک کر دیا آسٹریلیا ( نمائندہ الفضل ) مذکورہ بالا عنوان سے یہاں سڈنی مارننگ ہیرلڈ میں ایک خبر چھپی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں پوپ نے لمبو (Limbo) کا عقیدہ چپکے سے اپنے عقائد کی فہرست سے نکال دیا ہے.پوپ کیتھولک عقائد پر بنی ایک سرکلر وقفہ وقفہ سے جاری کیا کرتے ہیں.حال ہی میں جو آخری سرکلر اس سلسلہ کا جاری کیا گیا ہے اس میں لمبو کا عقیدہ خارج کر دیا گیا ہے.اسکی وجہ غالب یہ تھی کہ اس کی قابل قبول تشریح مشکل تھی اور یہ عقیدہ عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد کی ناراضگی کا موجب بن رہا تھا.لمبو کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر شخص پیدائشی طور پر گناہ گار ہے اور یہ گناہ دھونے کے لئے اس کو بپتسمہ دینا ضروری ہے تا اس کے بعد اس کا معاملہ یسوع مسیح کے سپر د کر دیا جائے اور وہ پیدائشی گناہ کی سزا سے بچ جائے.چونکہ بپتسمہ لئے بغیر کوئی انسان جنت میں داخل نہیں ہو سکتا.لہذا ایسے افراد کی رہائش کے لئے ایک ایسا مقام تجویز کیا گیا جو جنت سے باہر دوزخ کے کنارے پر واقع ہے جہاں بپتسمہ نہ لینے والے سزا بھگتے رہیں گے.جو بچے چھوٹی عمر میں وفات پا جاتے ہیں ان کا مقام بھی لمبو بیان کیا جاتا تھا.لیکن اب جبکہ بپتسمہ نہ لینے والے بالغ عیسائیوں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے

Page 438

431 لہذا ان سب کولمبو میں داخل کرنا اور اس طرح ان کی ناراضگی مول لینا دن بدن مشکل ہوتا جارہا تھا.لہذا اس کا آسان حل یہ تجویز کیا گیا کہ چپکے سے یہ عقیدہ عقائد کی فہرست ہی سے خارج کر دیا گیا.ی اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی.CHLIBACY چرچ کا بنایا ہوالغوقانون " برطانیہ میں حال ہی میں ایک فلم ”پریسٹ (Priest) بنائی گئی ہے جس میں ایک ہم جنس پسند پادری کی زندگی اور اس کے زوال کی کہانی پیش کی گئی ہے.اس فلم کے بارہ میں نیویارک کے آرچ بشپ جان اوکانر (Cardinal john O'Connor) نے کہا ہے کہ یہ نفرت آمیز کیتھولک مخالف (Viciously Anti-Catholic) ہے.آسٹریلیا کے پادری فادر رچرڈ لیفن (Fr.Richard Lennan) نے فلم دیکھ کر کہا کہ ایک کیتھولک پادری کی مشکلات جو اس میں بیان کی گئی ہیں وہ محض سطحی ہیں.اور ایک پادری کو عام زندگی کی رو سے غیر متعلق ظاہر کیا گیا ہے.تجرد کی بحث بھی محض چرب زبانی ہے.تجر دیا تو چرچ کا اپنا بنایا ہوا بے مقصد قانون تھا یا پھر خدا نے یہ نا قابل یقین و عمل توقع ایک پادری سے باندھی تھی لیکن وہ خود اس سے الگ رہا.پادری صاحب کے الفاظ ہیں: The discussion of celibacy was glib.It was either a useless rule of the church, or it was some incredible ideal that God asked of the priest but that God was not part of.پادری صاحب نے جو کہا ہے وہ شروع سے اب تک لاکھوں پادریوں کے دل کی آواز ہے اور قرآن اس سوال کا جواب چودہ سو سال پہلے دے چکا ہے کہ تجرد کی زندگی بسر کرنا چرچ کا اپنا فیصلہ تھا یا خدا نے ایسا حکم دیا تھا.خدا فرماتا ہے: پھر ہم نے ان کے ( یعنی اولا دنوح وابراہیم کے بعد اپنے رسول ان کے نقش قدم پر چلا کر بھیجے اور عیسی بن مریم کو بھی ان کے نقش قدم پر چلایا اور

Page 439

432 اس کو انجیل بخشی.اور جو اس کے متبع ہوئے ہم نے ان کے دل میں رافت اور رحمت پیدا کی اور انہوں نے کنوارا رہنے کا طریق اختیار کیا جیسے اور انہوں نے خود اختیار کیا تھا.ہم نے یہ حکم ان پر فرض نہیں کیا تھا اور ( گو ) انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا تھا مگر اس کا پورا لحاظ نہ رکھا.پس ان میں سے جو مومن تھے ان کو ہم نے مناسب حال اجر بخشا اور ان میں بہت سے فاسق تھے.“ (الحدید: ۸۲) (الفضل انٹر نیشنل 11.2.2005)

Page 440

433 آسٹریلیا کے کیتھولک پادریوں کی شرط تحجر د کے خلاف بغاوت آسٹریلیا کے کیتھولک پادریوں نے پوپ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان پر شادی نہ کرنے کی پابندی ختم کی جائے ان کے مطالبہ کی تائید میں سڈنی مارٹنگ ہیرلڈ میں بہت سے خطوط ،مضامین اور ایک ادار یہ لکھا گیا ہے جن میں سے چند اقتباسات ہدیہ قارئین ہیں.ایک صاحب Brian Haili لکھتے ہیں: اس بات کا بہت ہی کم امکان ہے کہ پادریوں کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا.لیکن اگر یوں ہو جائے تو چرچ میں عورتوں کی بڑی اہمیت کا حامل اثر نفوذ کر جائے گا.اب تک یہ تھا کہ عملاً تو مرد و عورت کی مساوات کو نظر انداز کیا جارہا تھا جبکہ زبانی کلامی ان کو مساوی حقوق دینے کی تلقین کی جاتی تھی جو ایک بریکار بات تھی.اب پادریوں کو بھی بیویوں ، ماؤں ، خاوندوں اور باپوں کا کردار 66 اور ضرورت کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا.“ ایک اور صاحب Owen Koegh لکھتے ہیں: وو و مجھے کامل یقین ہے کہ آج کیتھولک چرچ کے اہم مسائل میں سے

Page 441

434 ایک پادریوں کو شادی کرنے کی اجازت دینا ہے.جب تک ویٹیکن (vatican) اس مسئلہ کی طرف اپنی توجہ مبذول نہیں کرے گی پادریوں کی تعداد مسلسل گرتی جائے گی اور بالآ خر کیتھولک مذہب ہی نا پید ہو جائے گا.“ ایک اور صاحب S.E.P.Keogh لکھتے ہیں:.کیتھولک چرچ میں مجتر درہنے کی شرط در اصل عورتوں کے خلاف اس تعصب کا نتیجہ ہے جو زمانہ وسطی میں ان کے خلاف پایا جاتا تھا اور جس کے متعلق کوئی حکم قدیم اولین چرچ میں نہیں.ہمیں پتہ ہے کہ پطرس (Peter) شادی شدہ تھے.(متی باب ۸ آیت ۱۴) اس لئے جس طرح سب سے پہلے پوپ کا شادی شدہ ہونا درست تھا.اسی طرح ان کے جانشینوں اور دوسرے پادریوں کے لئے بھی درست ہے.زمانہ وسطیٰ کے پوپ عورتوں کے بارہ میں عجیب پر اسرار خیالات رکھتے تھے.ان کے نزدیک عورتوں کی دو ہی قسمیں تھیں یا تو وہ زنا کا رطوائفیں تھیں یا بے داغ معصوم.سینٹ میری مگد لینی کو خطرناک طور پر بدنام کر کے پہلی قسم کے نمونہ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور دوسری قسم کی مثال سینٹ میری (حضرت مریم ) کی اندھی عقیدت کے ساتھ بیان کی جاتی تھی.یہ خوش آئندہ بات ہے کہ تاریک ماضی کی ان یادگاروں کو ختم کرنے کے لئے آسٹریلیا کے کیتھولک پادریوں نے علم بغاوت بلند کیا ہے.سڈنی مارننگ ہیرلڈا اپنے ۲۸ جنوری ۲۰۰۵ء کے ادارتی کالم میں پادریوں کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آج ۱۵ فیصد سے بھی کم لوگ چرچ جاتے ہیں اور پادری ہیں کہ اپنے مذہبی اداروں کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور نئے لوگ ان کی جگہ لینے کے لئے آگے نہیں آرہے....یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کیتھولک پادری ہمیشہ ہی تجرد کی زندگی نہیں گزارتے رہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ ابتدائی پوپ شادی شدہ ہوتے تھے.بعضوں کے بچے بھی تھے جو بعد میں پوپ نے اندازہ ہے کہ ۲۰ سال کے عرصہ میں کیتھولک چرچ کے پاس رسمی دعا کی قیادت کے لئے جتنے پادری چاہئیں ان کا صرف چھٹا حصہ رہ جائے گا.(الفضل انٹر نیشنل 11.2.2005)

Page 442

435 عیسوی سال کا آغاز آج کل عملاً ساری دنیاسن عیسوی کو ہی استعمال کرتی ہے اگر چہ پہلے وقتوں میں قوموں کے اپنے اپنے سال ہوتے تھے.مثلاً مصریوں ، ہندوستانیوں ، چینیوں ، ایرانیوں ، وغیرہ کے اپنے اپنے سال مقرر تھے.عرب چاند کے مہینوں کو استعمال کرتے تھے ، رومن اپنا سال یکم جنوری سے شروع کرتے تھے.در اصل سال ایک گول دائرہ کی طرح ہے اس لئے اس کا آغاز سال کے کسی بھی دن سے کیا جاسکتا ہے.اس لئے موسم کی تبدیلی پر اس کی بنیاد رکھی گئی.ورنہ دراصل تو سورج کے سال کا آغاز اس دن سے ہونا چاہئے تھا جس روز ۴۶۰۰ ملین سال پہلے زمین سورج سے علیحدہ ہو کر اپنے محور پر جھکی اور کشش ثقل (Gravity) کے زیر اثر اس نے سورج کے گردا اپنے مدار پر گھومنا شروع کیا تھا.اس وقت زمین پر کوئی مخلوق نہ بستی تھی.ظاہر ہے ہزاروں درجے سنٹی گریڈ گرم آگ کے گولہ پر کون رہ سکتا تھا لیکن بفرض محال اگر اس وقت کوئی وجود زمین پر ہوتا اور سورج کو پہلی بار زمین پر طلوع ہوتے دیکھتا تو وہی دن سال کا پہلا دن ہوتا.لہذا سال کے آغاز کا فیصلہ ہر قوم کی اپنی مرضی پر منحصر تھا جس طرح کسی نے چاہا کر لیا.اس لئے یکم جنوری کو کوئی مخصوص حیثیت دینے کی وجہ سمجھ نہیں آئی.باقی دن بھی اسی خدا کے بنائے ہوئے ہیں اور نظریاتی طور پر کسی بھی دن سے سال کا آغاز سمجھا جاسکتا ہے.رومنوں نے ۱۵۳ اقبل مسیح میں یکم جنوری سے سال کا آغاز کیا لیکن ان کا کیلنڈر موسموں کے

Page 443

436 ساتھ منطبق نہیں ہوتا تھا.47 قبل مسیح میں جولیس سیزر (Julius Caeser) نے اس سال کو ۴۴۵ دن کا قرار دے کر اس فرق کو دور کیا.لیکن ۷۶ ۵ عیسوی ( یعنی آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے چھ سال بعد ) اس وقت کی رومن حکومت نے موسم بہار میں جب دن رات برابرا ہوتے ہیں یعنی ۲۱ / مارچ سے سال کا آغاز قرار دے دیا.سیزر کے کیلنڈر میں ایک اور غلطی تھی.اس کا کیلنڈر کا سال سمسی سال کے مقابلہ میں ۱۸ گھنٹے اور ۳۲ منٹ زیادہ لمبا تھا.اس غلطی کی اصلاح ۱۵۸۲ء میں پوپ گریگوری (XIII) نے کی اور ۴ راکتو بر۱۵۸۲ء بروز جمعرات کے بعد جمعہ کے روز کو۱/۱۵اکتو بر قرار دے دیا.نیز اس نے دیکھا کہ سال ۲۵.۳۶۵ دن کا ہوتا ہے اور چار سال بعد ایک دن زائد ہو جاتا ہے اس لئے لیپ کا سال ۳۶۶ دن کا کر دیا.یہی گریگورین کیلنڈر آج دنیا استعمال کرتی ہے.اس سال ۲۶ / دسمبر ۲۰۰۴ء کو بارہ ممالک پر قیامت گزرگئی.شدید زلزلہ اور سمندری طوفان (Tsunami) کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن گئے.کئی ممالک نے نئے سال کی تقریبات منسوخ کر دیں اور ان پر اٹھنے والا خرچ سیلاب زدگان کو دے دیا.سڈنی میں گو تقریبات منسوخ تو نہیں کی گئیں البتہ آتش بازی کے بعد ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی.گویا رند کے رندر ہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی.مومن چونکہ کوئی دعا کا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اس لئے وہ معروف سال کا آغاز بھی دعاؤں ہی سے کرتا ہے.ورنہ وہ تو ہر روز خدا سے عرض کرتا ہے : ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے.( الفضل انٹر نیشنل 14.1.2005)

Page 443