Majalis-eIrfan

Majalis-eIrfan

مجالس عرفان

زیر اہتمام لجنہ اماءاللہ کراچی
Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد ، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ پاکستان کی مختلف جماعتوں کے دورہ جات کے سلسلہ میں اپنے  قیام کراچی کے دوران (فروری 1983 ءتا 1984ء) جن مجالس عرفان میں رونق افروز ہوئے۔ تب حضور رحمہ اللہ کی موجود گی جماعت کراچی کے لئے عید کا سماں لاتی تھی اور حضور ہر طرف علم و عرفان کے موتی بکھیرتے تھے، اس دوران ہر طبقہ فکر سے متفرق تعلیمی معیار کی حامل  شریف النفس اور زیر رابطہ غیر از جماعت خواتین کو لجنہ اماء اللہ نے یہ موقع بہم پہنچایا کہ وہ حضور رحمہ اللہ سے سوال کر سکیں ، جن کے مدلل، دلنشین اور عام فہم جوابات سے حاضرین گہرا اثر لیتے تھے۔ اس علمی سرمایہ میں سائلین کی  علمی اور روحانی پہلوسے تشنگی دور کرنے کے بکثرت سامان ہیں۔


Book Content

Page 1

مجالس عرفان

Page 2

Page 3

حضرت مرزا بر حمام جماعت احمدیہ عالمگیر کی مجالس عرفان مرتبہ امہ الباری ناصر

Page 4

Page 5

مفونیر ۲۵ ۲۷ ۳۰ سوال نمبر فہرست سوالات مضمون سوال را مجلس عرفان منعقده ۲۷ فروری ۱۹۹۳ء میں غیر از جماعت خواتین کی طرف سے کئے گئے سوالات اور ان کے جوابات خاتم النبیین کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے ؟ آپ کہتے ہیں کہ آپ جنتی ہیں باقی سارے ناری ہیں.آپ کو ایسی باتیں کرنے کا کیا حق ہے ؟ آپ نے جتنی بھی گفتگو کی ہے وہ کتاب اور سنت کی روشنی میں اور تمام احادیث کی روشنی میں جو قول افعال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں ، ان ہی کی روشنی میں آپ چل رہے ہیں لیکن میں نے یہ دیکھا کہ بہت سی احادیث اور بہت سی سنتیں ایسی ہیں جن پر آپ عمل پیرا نہیں ہوتے مثلاً ابھی میں نے خواتین کو دیکھا کہ نماز خواتین نے ادا کی اور سلام پھیرنے کے بعد اپنی سیٹوں پر آ گئیں، جکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا جو ہے دہ عبادت کی جان ہے.آنحضرت جب عبادت کیا کرتے تھے تو اپنی دعا کو طویل کر دیا کرتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ دعا نہیں کرتے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیئے مسلمانوں سے تعظیم

Page 6

q H نہیں کروائی تو آپ کے لئے میں نے سنا ہے لوگوں کی زبان ہے کہ ہمارے حضور تشریف لارہے ہیں " " ہمارے خلیفہ اول ہمارے پیشوا آپ نے یہ کیسے قبول کر لیا کہ آپ کو لوگ اتنا بڑا رتبہ دیتے ہیں ؟ ۳۲ ہمارا عقیدہ ہے کہ امام مہدی کی علامتیں ظاہر نہیں ہوئیں.؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ خالی جنگ ہے جس ہم میں حضرت عیسی دفن کئے جائیں گے ؟ اگر کسی کا شوہر احمدی نہ بننا چاہیے اور وہ خود احمدیت میں داخل ۴۲ ہونا چاہیں تو وہ کیا کریں ؟ بعض حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ ۴۲۴ دستم پر جادو کیا گیا ؟ میں یہ سمجھتی ہوں کہ جو لا إله إلا الله محمد رسول الله پڑھ لے وہ دل سے مسلمان ہے.اگر میں کلمہ پڑھتی ہوں اور میں مرجاؤں تو آپ میری نماز جنازہ پڑھنے کو کیوں تیار نہیں ؟ نماز وقت پر پڑھنے کے متعلق فقہی مسئلہ کیا ہے ؟ آج جبکہ دنیائے اسلام چاروں طرف سے دشمنوں میں گھری ہے ، لوگ اسرائیل وغیرہ بہت مار ہے ہیں مسلمانوں کو.تو جب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا تو اس وقت وہ کسی پر ظلم نہیں برداشت کرتے تھے.آپ کیوں نہیں آواز اُٹھاتے ؟ آپ حج کیوں نہیں کرتے ہے ۴۹ ۱۳ قرآن کریم کے الفاظ الجن والانس میں حرف " و" جو استعمال ہوا ہے " اس میں دو " کا مطلب تو اور ہے لیکن آپ لوگ کہتے ہیں جن اور انسان

Page 7

IF میں کوئی فرق نہیں اگر ایسا ہے تو اس میں لفظ من" ہونا چاہیئے تھا.وضاحت کیجئے ؟ قرآن کریم میں سحر کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن آپ لوگ جادو ۶۵ کو کیوں نہیں مانتے ؟ ۱۵ آپ لوگوں نے یہ بات کب محسوس کی کہ مرزا صاحب بنی ہیں ؟ یہ 16 IA > 19 ۲۰ ۶۶ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں تو پھر آپ امام مہدی ۷۳ کو کیسے نبی مانتے ہیں ؟ (۲) مجلس عرفان منعقده ، فروری ۱۹ ء میں غیر از جماعت خواتین کی طرف سے کئے گئے سوالات اور ان کے جوابات آپ لوگوں کی تو ویسی ہی نماز ہے ویسا ہی روزہ تو پھر آپ لوگوں کو کافر کیوں قرار دیا گیا ؟ امام مہدی پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے ؟ لوگ آپ کو حضور کیوں کہتے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ کیسے ہوا تھا اور کس نے پڑھایا تھا ؟ ۲۱ کیا ادلے بدلے کی شادی کی ممانعت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟ ۸۲ X AA ٨٩ میں احمدیت سے متاثر تھی ، کافی قریب ہوگئی تھی بشر خواب ۹۱

Page 8

۲۳ بھی آئے مگر مرزا صاحب کی کتابوں سے یہ تاثر کیا کہ زبان نبیوں والی نہیں ؟ آپ کے اور ہمارے درمیان اتنا اختلاف کیوں ہے کہ اتنی بڑی ۹۶ اور ہمارے درمیان اختلاف کوں ہے کہ اتنی بڑی فلیج کی میں کھڑی کر دی گئی ہے 1.4 ۲۲ اگر حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مریم کے بیٹے معجزانہ طور ۱۲ پر ہو سکتے ہیں تو دوسرا معجزہ آسمان سے اترنے کا کیوں نہیں ہوسکتا ہے ۲۵ دعا بين السجدتین کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ آپ لوگ سوئم ، چالیسواں ، ختم قرآن آیت کریمہ کے ختم پڑھنے، باداموں کے ختم کو کیوں نہیں مانتے ؟ ۲۷ رض مجلس عرفان منعقده ۱۹۱۴ فروری ۶۱۹۸۳ میں ممرات لجنہ کراچی اور بعض غیر از جماعت خواتین کی طرف سے عرض کئے چند سوالات اور اُن کے جوابات غیر از جماعت لوگ عموماً قرآن کریم پڑھنے کے لئے بلاتے ہیں اور ۱۱۷ نہ جائیں تو لوگ بڑا مانتے ہیں.اس کے لئے کیا کریں ؟ حضرت اقدس بانی سلسلہ کا ایک شعر ہے.میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں تسلیں ہیں میری بے شمار ۱۲۰

Page 9

اس شعر سے یہ تاثر تمتا ہے کہ وہ خود کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلیٰ اور افضل ثابت کرتے تھے.وضاحت فرما دیجئے.۱۹ مجدد ہر صدی پر آتے رہے.کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا ؟ اگر ہیوی برقع پہننا چاہیے اور شوہر اجازت نہ دے تو کیا I کیا جائے ؟ ۱۲۲ ۱۲۵ غیر از جماعت بہنیں گھروں میں سیپارے بانٹ دیتی ہیں کہ یہ ۱۲۵ سیپارہ تم پڑھ کر فلاں کو بخش دو اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ کیا میک آپ میں نماز جائز ہے ؟ کیا نیل پالش سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟ ۳۴ غیر احمدی مسلک کے مطابق منعقد کی جانے والی عید میلاد النبی کی تقریبات ۱۲۷ میں شامل ہونا چاہیئے کہ نہیں ؟ ۳۵ جنوں کی کیا حقیقت ہے ؟ ۱۳۹ ۳۶ علم نجوم سے کیا مراد ہے نیز دست شناسی کی کیا حقیقت ۱۳۱ ہے ؟ کیا شادی میں ڈھولک بجانا جائز ہے ؟ ۱۳۴ کسی کے فوت ہونے پر کھانا بانٹنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ۱۳۵ کیا خلیفہ وقت سے پردہ جائز ہے ؟ ۴۰ فوت شدہ کو کس طرح ثواب پہنچایا جاسکتا ہے ؟ M آپ کسی طرح کہہ سکتے ہیں کہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہو نیوالے سارے جنتی ہیں ؟ ۱۳۹

Page 10

Page 11

١٩٨١ء رام مجلس عرفان منعتقده ۲۷ فروری ۱۹۹۳ء میں غیر از جماعت خواتین کی طرف سے کئے گئے سوالات اور ان کے جوابات ۲۷ فروری سوار سو پانچ بجے شام گیسٹ ہاؤس کے سبزہ زار میں خواتین کی ایک مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی جس میں سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غیر از جماعت خواتین کے متعد د سوالوں کے جواب دیئے اس مجلس میں بڑی دلچسپ اور پیر مغز گفتگو ہوئی.مہمان خواتین میں کالجوں کی چند پروفیسر اور سنیر طالبات بھی شامل تھیں.اس محفل کی ریسپی کا یہ عالم تھا کہ رات آٹھ بجے ایک جاری رہی اور اس کے خاتمے پر شامل ہونے والی خواتین تشنگی محسوس کر رہی تھیں.مجلس کی ابتداء ہی بہت اہم سوال سے ہوئی.ایک بہن نے پوچھا.خاتم النبیین کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے ؟ حضور ایدہ الودود نے فرمایا.

Page 12

۱۲ دستور پاکستان کے مطابق ختم نبوت کی تعریف خاتم النبیین کی جو تعریف ہمارے مخالف تمام فرقوں کے (موجودہ زمانے گئے) علماء کی متفقہ تعریف ہے وہ پاکستان کی Constitution (آمین) کا حصہ بن چکی ہے.اس تعریف کی رو سے خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ ایسا رسول آگیا جونہ مانی لحاظ سے آخری ہے جس کے بعد ہر قسم کی نبوت ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے اور آئندہ دنیا کبھی کسی بنی کا منہ نہیں دیکھے گی خواہ وہ امتی ہو یا غیر امتی ہو، ماتحت ہویا غیر تخت ہو.اس میں کوئی شرط نہیں.پرانی پانی ہر قسم کی نبوت ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی.یہ ترجمہ ہے آیت خاتم النبیین کا.آج کل کے علماء کا اور ہمارا یہ ترجمہ نہیں ہے.پہلے اس سے کہ میں اپنا ترجمہ بتاؤں اور اسکی تائید میں Evidence (ثروت ) پیش کروں.(موجودہ زمانے کے مخالف علماء) کے ترجمے کے اوپر میں کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں اور اتنے قطعی او یقینی حوالے دوں گا جو ہر فریق کو ا نا اس طرح مسلم ہیں کہ آج دنیا کا بڑے سے بڑا عالم بھی ان حوالوں پر اعتراض نہیں کر سکتا.لفظ خاتم کی تشریح میں خود آنحضرت کے دو ارشادات سب سے پہلی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت خاتم النبین نازل ہوئی.آپ سے بہتر آیت خاتم النبیین کا مفہوم کوئی نہیں تم دیتی پھر وہ سوی مسلمان ہو آپ کی صدی میں پیدا ہوئے.پھر جو اس کے بعد روشنی کے زمانہ میں آئے اور پھر جو تیسری صدی میں پیدا ہوئے.ان کی بات کو لانہ کا زیادہ وقعت دی جائے گی یہ نسبت آج کل کے علماء کے.اگر نیستم لے اوپر پر دو قوسین کے درمیان کے الفاظ وضاحت کی خاطر زائد کئے گئے ہیں.

Page 13

۱۳ ہے.اور میرے نزدیک یہ مسلمہ ہے.دنیا کا کوئی مسلمان آج یہ نہیں کہہ سکتا.کہ ان کی باتوں کے مقابل پر آج کے کسی عالم کی بات قابل پذیرائی ہے یعنی شنوائی کے لائق ہے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ خاتم کے لفظ کو اس طرح استعمال فرمایا کہ اس کا وہ ترجمہ ہو نہیں سکتا جو آج ہم پر ٹھونسا جا رہا ہے اس کو وہ مضمون Totally رو کرتا ہے جو حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں تھا.آپ کا محاورہ یہ ہے اپنی تخلیق کی مٹی میں لت پت تھا.اب سوال یہ ہے کہ اگر خاتم کے لفظ میں آخریت پائی جاتی ہے.کہ اس کے بعد کوئی نبی کسی قسم کا آ نہیں سکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آغاز انسانیت سے بلکہ آغانہ زندگی سے بھی پہلے خود فرمار ہے ہیں کہ میں خاتم النبیین تھا.اس کے بعد کسی نبی کو نہیں آنا چاہیے تھا.دوسرا موقعہ ہے جبکہ حضرت علی کو مخاطب کر کے حضور نے فرمایا انا خاتم الأنبياء وانتَ يَا عَلَى خَاتم الاولياء ایک ہی بریکٹ میں دونوں لفظ خاتم کے مضاف کئے ہیں نبی کی طرف اور ولی کی طرف فرمایا اے علی نہیں خاتم الانبیاء ہوں.اور تو خاتم الاولیاء ہے.اب ہم علماء سے یہ گزارش کرتے ہیں اور کرتے چلے آئے ہیں کہ آپ جو چاہیں خاتم کا ترجمہ کر کے ان دونوں پر فٹ کر کے دکھا دیں.حضور اکرم کا کلام ہے.اور ایک ہی بریکٹ میں دونوں لفظوں کا استعمال فرمایا ہے اور لفظ خاتم میں کوئی تبدیلی نہیں.صرف نبیوں کا خاتم اور ولیوں کا خاتم.اس لئے خاتم کا ترجمہ تبدیل نہیں ہو گا.ولی اور نبی کا صرف مفہوم بدلے گا.اگر یہ ترجمہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فماتے ہیں کہ میرے بعد آئندہ قیامت تک کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبوت کی صف پیٹی گئی.اب کبھی دُنیا کسی اور

Page 14

۱۴ نبی کا منہ نہیں دیکھے گی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے دوسرے قول کا اسی طرح پر معنی بنے گا کہ اے علی تجھے پر ولایت ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی.یہ ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو استعمالات - دُنیائے عرب کے نزدیک خاتم کے معنے اب سننے دنیائے عرب نے ان الفاظ کا کن معنوں میں استعمال کیا ہے.مثال کے طور پر پہلی دوسری اور تیسری صدیوں کے عربوں کو دیکھیں کہ انہوں نے ہر نیکی پر فضیلت کے لئے لفظ ختم استعمال کیا اور ایک جگہ بھی وہ معنی نہیں بیٹھتا تو آج نہیں بنایا جارہا ہے کہ یہ درست معنی ہے.مثلاً متنبی کو خاتم الشعراء کہا گیا.مثلاً بوعلی سینا کو خاتم الاطباء کہا گیا.اسی طرح خاتم الفضلاء بھی آگئے.خاتم الحماء بھی آگئے.حکیم اجمل خان تیک کو بھی خاتم الاطباء قرار دیا گیا اور آج تک ان کے نسخوں (بیاض) پر یہی لکھا ہوا ہے.تو سوال یہ ہے کہ اگر لفظ خاتم میں زمانی لحاظ سے آخریت کا معنی پایا جاتا ہے تو ان سب استعمالات کا مطلب یہ ہوگا کہ امت محمدیہ میں آنحضور کے اوپر نبوت ان معنوں میں ختم ہو گئی کہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو حضرت علی پر بھی لایت ختم ہوگئی.اب اُمت میں کوئی دلی نہیں آئے گا.متنبی پر شاعری ختم ہو گئی.بو علی سینا پر طبابت ختم ہو گئی.اور اسی طرح استعمالات ہیں جو ہم نے حوالے کے ساتھ درج کئے ہیں اور ان تمام استعمالات میں ایک جگہ بھی کوئی عالم زمانی لحاظ سے آخری کا ترجمہ کو نہیں سکتا کیونکہ اگر کرے گا تو اس کے بعد ہمیشہ کے لئے وہ چیز ختم ہو جاتی ہے.یہ تو ہے میری اس ترجمہ پر تنقید.اب مینے ہم کیا ترجمہ کرتے ہیں اور اس کی کیا سند ہے.

Page 15

۱۵ ختم نبوت کی حقیقت خاتم کا معنی عرب ہمیشہ بہترین زمانی لحاظ سے نہیں بلکہ مقام کے لحاظ سے آخری کا لیتا ہے.وہ جس کے اوپر اس چیز کا مقام ختم ہو جائے.وہ مضمون ختم ہو جائے اور یہ محاورہ عربی کا بعینہ اسی طرح ہے جس طرح اُردو میں ہم کہتے ہیں.اس پر بات ختم ہو گئی.انگریزی میں کہتے ہیں is the last of thing یہ Is دنیا کی زبانوں کا ایک محاورہ ہے جو مضمون کے لحاظ سے آخری بتاتا ہے.نہ کہ زمانی لحاظ سے.ان معنوں میں ہمارا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت سب نبیوں سے افضل ہیں.ان پر نبوت کا مضمون ختم ہوگیا.نبوت جو کچھ انسان کو عطا کر سکتی تھی.اس سے زیادہ نہیں کر سکتی.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سے خاتم انہیں تھے جبکہ ابھی آغاز انسانیت بھی نہیں ہوا تھا.اس وقت بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں عائد ہوتا.اس لئے خاتم کی یہ تعریف Timeless ہے اور ولایت کے اوپر چھی بعینہ درست بیٹھتی ہے، شاعری پر بھی درست بیٹھتی ہے دوسرا معنی خاتم کا جو ہم لیتے ہیں وہ ہے سند.اسی لئے بعض جگہ قرآن کریم میں Seal of Prophet ترجمہ کیا گیا ہے اور وہ مضمون انگر یٹی سے لیا گیا ہے.کیونکہ خاتم کا لفظی ترجمہ انگوٹھی ہے انگوٹھی کو پرانے زمانوں میں مہر کے لئے Seal کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا.تو دوسرا معنی خاتم کا یہ بنتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سند ہے ، نبوت میں آپ کا فعل سند ہے.نبوت میں کسی اور نبی کے اوپر حضور کی نبوت نہیں پر کھی جاگتی مگر حضور پر ہر بچی کی صداقت پر لکھی جاسکتی ہے.یہ مضمون شاعری میں بھی برابر بیٹھتا ہے.طبابت میں بھی برابر بیٹھتا ہے، ہر مضمون میں صحیح اترتا ہے.اب :

Page 16

14 آپ کسی شاعر کو سند کہتے ہیں تو مراد ہے کہ اس کے کلام پر دوسرے کا کلام پہ کھا جائے گا ، اس کو فضیلت ملے گی.ان معنوں میں آپ جہاں تک محاورہ عرب پر غور کریں گی ہر جگہ بلا استثناء یہ معنی ٹھیک بیٹھے گا.ایک بھی استثناء کرنے کی ضرورت نہیں رہتی.تیسرا معنی ہم یہ لیتے ہیں کہ انگو ٹھٹی زینت کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے.دنیا میں ہر قوم میں زینت کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور عرب خاتم کے لفظ کو بطور زینت کے بھی استعمال کرتا تھا.ان معنوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کا یہ معنی بنے گا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو زمرہ انبیاء کی رونق آگئی.انبیاء کی زینت آگئی جس سے یہ محفل مجی.اگر آپ نہ آئے ہوتے تو یہ محفل بے رونق رہتی.اس طرح ولایت کے مضمون یہ معنی بنے گا کہ اے علی تو آیا تو ولیوں کی محفل میں رونق آئی تو نہ ہوتا تو یہ محفل خالی رہتی.یعنی اس مجلس میں شان نہ پیدا ہوتی.شاعروں کے اوپر بھی آپ لگا کر دیکھ لیجیئے.اطبا پ بھی لگا کہ دیکھ لیجئے.بات تو وہ درست ہوتی ہے جو ہر جگہ صحیح بیٹھے.اب گز تو ریشم کو بھی ویسے ہی ناپتا ہے جیسے کٹھے کو ناپتا ہے.وہ گنہ تو قابل اعتبار نہیں ہوگا جو ریشم کی دفعہ لمبا ہو جائے اور لٹھے کی دفعہ چھوٹا ہو جائے.پس اگر آپ دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ خاتمیت کا مفہوم سمجھنا چاہتی ہیں تو تمام عرب محاورے کو اور آنحضرت کے اپنے محاورے کو اس کی فلاسفی کو سمجھے اور استعمال کر کے دیکھ لیں.ایک اور معنی ہے خاتیت کا جس میں زمانی لحاظ سے آخریت پائی جاتی ہے لیکن وہ کیوں ؟ میں آپ کو بتاتا ہوں.اور ان معنوں میں بھی ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم تسلیم کرتے ہیں.وہ شخص جس کا کلام درجہ کمال کو پہنچ جائے، وہی اپنے مضمون کا خاتم ہوتا ہے.اس کے سوا کوئی اور ادبی کلام والا اپنے مضمون

Page 17

K کا قائم نہیں بن سکتا.اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت درجہ کمال کو نہ پہنچی ہوتی تو آنحضور کو قائم کرنا درست نہیں تھا.اس لئے قائم میں آپ کی شریعت کا کمال شامل ہے اور اس کی سند کے طور پر ہم قرآن کریم کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اليوم أكملت لكوديتكم وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَى وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا - کہ آج ہم نے دین کو کامل کر دیا اور کمال کے اوپر اضافہ نہیں ہو سکتا نہ اس میں نفی ہو سکتی ہے.کیو نکہ نفی ہوگی تب نقص پیدا ہو گا.اضافہ ہو گا تب نقص پیدا ہو گا.تو لازم ہے کہ جو بھی صاحب خاتم ہو اس کا دین یا اس کا کلام جن معنوں میں بھی وہ ہے وہ قیامت تک جاری رہے.اور کسی ترسیم کی اس میں گنجائش نہ ہو.پس ان معنوں میں بھی ہم حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم مانتے ہیں کہ آپ کے بعد قیامت تک اب کوئی شریعت نہیں آسکتی.کسی اور رسول کا حکم آپ کے حکم کے سوا نہیں چل سکتا.دین کامل ہو گیا اور اس دین کی حفاظت کا وعدہ ہو گیا.اس لئے اب قیامت تک یہ سکہ جاری رہے گا.یہ چار معنی ہیں خاتم کے جو ہمارے نزدیک درست اور محاورہ عرب سے ثابت ہیں اور معقولیت رکھتے ہیں.بعض بزرگان سلف کا بھی یہی مسلک ہے جو جات پیش کرتی ہے آخریت کے معنی محض زمانی لحاظ سے اس لئے بھی غلط ہیں کہ گزشتہ چوٹی کے علماء ہر فرقے کے جس میں شیعہ آئمہ بھی شامل ہیں، سنی بزرگ بھی.اس درجے کے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت این سوربی حضرت شیخ عبد القادر کردستانی

Page 18

IA حضرت ملا علی قاری، اس مقام کے لوگ اس آیت کا بعینہ یہی ترجمہ کر چکے ہیں جو ہم کر رہے ہیں.ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جو آدھے گھنٹے میں ختم کیا جا سکتا ہے.اس میں تمام گزشتہ امت کے چوٹی کے بزرگوں کے حوالے موجود ہیں جو اس مضمون سے تعلق ہیں.جوئیں بیان کرنے لگا ہوں کہ خاتم النبیین کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر قسم کی نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی ہے.یہ اس سے بات شروع کرتے ہیں.اہلِ علم کے نزدیک یہ نہیں ہے.عوام الناس یہ سمجھتے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ کیا ہے پھر مطلب ؟ مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ دستم کی شریعت آخری ہو گئی.اب کوئی بھی صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا.ہاں اُمتی ہو تو آسکتا ہے.اتنی کھلی بات اگر نو فیصد ی قطعی حوالوں سے ہم گزشتہ بزرگوں کے متعلق ثابت کردیں تو اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو اسی تلوار سے ان کو بھی کاٹو یا ہماری گردن بھی آزاد کرو.یہ پھر کیسی بے انصافی ہوگی کہ وہی بات جو آپ کے مسلمہ بزرگ ہمیشہ سے کہنے چلے آئے اس پر وہ مسلمان کے مسلمان رہے اور آج وہی بات کہنے پہ ہم کافرہو گئے اور جوان کے مخالف باتیں کر رہے ہیں.وہ مومن کے مومن ٹھہرے.اس لئے انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہیں.اگر تحقیق چاہتی ہیں تو ان حوالوں کو دیکھیں اور پھر سوچیں کہ آخر اس کا کیا مطلب بنتا ہے.آج کی دنیا میں بھی لفظ خاتم کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے بھی ایک آسان طریقہ آپ کو بتاتا ہوں.میں نے خود استعمال کر کے دیکھا ہے.آپ بھی بغیر کسی عالم دین یا عرب کو بتائے بغیر اس سے ایک سوال کریں گی تو اس سے آپ اپنا مطلب پا جائیں گی.میں نے یہ طریق اختیار کیا.یونیورسٹی آف لنڈن کے ہمارے جونئیر پر وفیسر

Page 19

تھے.ان کے سامنے عمداً آخری کے معنوں کا جو ترجمہ تھا.اس میں لفظ خاتم الستعمال کیا اور انہوں نے کاٹ دیا کہ غلط ہے.مثلا بہادر شاہ ظفر مغلیہ خاندان کا آخری بادشاہ تھا.زمانے کے لحاظ سے.لیکن بہترین نہیں تھا آپ یہ ترجمہ کر لیجیئے.اُردو میں یا انگریزی میں.مغلیہ خاندان کا آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھا.اور کسی عرب سے ترجمہ کروا لیجئے.وہ کبھی کسی قیمت پر خاتم السلاطین من سلاطین مغلیہ نہیں کرے گا.کیوں نہیں کرے گا.وہاں دل گواہی دیتا ہے.عرب کا محاورہ لوٹ آتا ہے واپس.وہ جانتے ہیں کہ قائم بہترین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اور اگر اس کے یہ معنی نہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین ہونے کی آیت پھر اور کونسی رہ جاتی ہے ؟ سارے قرآن کریم میں یہی آیت ہے جو تو فیصدی قطعیت کے ساتھ اور وضاحت کے ساتھ آپ کو اگلوں اور پہلوں سے اعلیٰ اور سب سے افضل قرار دیتی ہے.اس آیت کے ایسے معنی کر لینا جو محض اتفاقی حادثے سے تعلق رکھنے والے ہوں یعنی آخریت زمانہ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.چنانچہ مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دیو بند سه راسی بارے میں قلم اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خاتم النبیین کا محض آخری ترجمہ کرنا زمانہ کے لحاظ سے کوئی بھی فضیلت اپنے اندر نہیں رکھتا.اور یہ مقام مدرج ہے اس لئے یہ ترجمہ مقام مدح کے خلاف ہے.قائم کا معنی ہے بہترین، سب سے اعلیٰ، سب سے افضل.یہ کل تک کی آوازیں تھیں.یعنی دیو بند جب بنایا گیا ہے.اس کے بانی کا میں قول بیان کر رہا ہوں.اور یہ سارے حوالے ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں آپ بے شک تحقیق کر لیجیے.لے یہ حوالہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے رسالہ تحذیران اس میں دیکھا جا سکتا ہے.اسی مضمون کے مطابق یہ حوالہ مولانا عبد الحئی صاحب فرنگی محلی کی کتاب واقع الوسواس فی اثر این عباس میں دیکھا جا سکتا ہے.

Page 20

- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور فضیلت اس لئے جماعت احمدیہ کے نزدیک خاتمیت کے معنی تین معنوں میں یہ بات بنے گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری ہے ، آپ کی سنت آخری ہے ، آپ کا قول قیامت تک سند بنارہے گا.کوئی اس سے انحراف نہیں کر سکتا.اُمت محمدیہ میں اطاعت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نتیجے میں درجہ بدرجہ تمام انعامات کھلتے ہیں.اس شرط کے ساتھ کہ مطیع ہو.اگر کم مطیع ہو گا تو کم انعام ملے گا، اگر زیادہ ہو گا تو زیادہ ملے گا اور انتہائی اطاعت کے نتیجے میں نبوت بھی منع نہیں ہے.یہ ہے ہما را دعوی اس کے نبوت ہیں ہم ایک اور آیت پیش کرتے ہیں جو قرآن کریم میں بالکل مضمون کو کھول دیتی ہے.سورۃ النساء کی وہ آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَتِكَ مَعَ الَّذِينَ الْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقين والشهد او و الصالحين وَحَسُنَ أو ليك رفيقاً (النساء -.)) ایک حیرت انگیز انقلابی اعلان ہے.فرماتا ہے.آج کے بعد جو بھی اللہ کی اور اس رسول یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا.باقی سارے رسول اطاعت کے معاملے میں کٹ گئے.ہمیشہ کے لئے ان سے آزادی دلادی.اس آیت میں اب کے بعد قانون یہ ہے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذین انعم الله عَلَيْهِمْ.یہاں أُولَئِكَ حصر کا صیغہ ہے اب صرف یہی لوگ ہوں گے جو انعام پانے والوں میں شمار کئے جائیں گئے.ایک بھی باہر نہیں ہے.اور کسی اطاعت کے نتیجے میں انعام نہیں مل سکتا.حضرت محمد مصطفی کی اطاعت باقی

Page 21

اطاعتوں سے آزاد بھی کرتی ہے، اور ہر انعام کی ضمانت دیتی ہے.لیکن انعام کیا ہے.یہ آیت ابھی ختم نہیں ہوئی چل رہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.DOWNLOAD LANGELALWANA العَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النبي والام القِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أو ليك رفيقاً چار ہی انعام میں روحانی دنیا کے نبوت صدیقیت ، شہادت اور صالحیت اور اس اطاعت کی کھڑکی سے جو داخل ہو رہا ہے.اُس کے لئے یہ آیت سب سے بڑا انعام نبوت بیان کر رہی ہے.اب بتائیے کہ اگر نعوذ یا اللہ من ذالک اس کا وہ مفہوم درست تھا تو اللہ تعالیٰ بھول تو نہیں سکتا کہ ابھی میں تین انعام صرف کھول چکا ہوں اور چوتھا بند کر بیٹھا ہوں.اور پھر یہ اعلان کر دے کہ حضورہ اگریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اتنی عظیم الشان ہے.کہ چاروں انعاموں میں سے ایک بھی بند نہیں کہتی.اس آیت کو کہاں لے جائیں گے.اس لئے ہمارے نز دیک قطعیت کے ساتھ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مقام اتنا بلند ہے کہ غلام بنی یعنی محمد مصطفی " کا غلام نبی آسکتا ہے.شرط یہ ہے کہ اطاعت کا مل ہو اور یہ منع نہیں ہے.اگر منع ہو جاتا تو یہ آیت نہ ہوتی.حديث لا نبی بعدی کی اصل حقیقت اب ہے حدیث لا نبی بعدی اس مضمون پر جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو اکثر علماء ہٹ کر فوراً حدیث لا نجح بعدی میں پناہ لیتے ہیں.اور حدیث کے الفاظ بظاہر بڑے سخت ہیں.یوں لگتا ہے کہ کلیہ ہر قسم کی نبوت کو وہ حدیث بند کر رہی ہے.اور وہ حدیث سارے پاکستان کی مساجد

Page 22

۲۲ میں 190 ء میں بالخصوص پیش کی گئی.وہ حدیث یہ ہے کہ میرے بعد میں جال آئیں گے.وہ سب جھوٹے ہوں گے.ان میں سے ہر ایک یہ زکم کرے گا کہ وہ نبی اللہ ہے.لیکن وہ بنی نہیں ہوگا.ولا نبی بعدی.میرے بعد کوئی بنی نہیں.یہ ہے وہ حدیث جس کے بعد علماء کہتے ہیں اب بتاؤ اب کسی طرح تم اس حدیث کے دائرے سے نکل سکتے ہو.ہم کہتے ہیں.ہم ہر گز نہیں نکلیں گے.حضرت محمد مصطفی کے کلام کے دائرے سے نکلنا ہلاکت ہے.ہم سو فیصدی اس حدیث کو تسلیم کرتے ہیں.لیکن آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس مضمون پر آنحضور نے کچھ اور بھی فرمایا ہے.اس کو بھی تو ساتھ رکھیئے.ایک متکلم کے آدھے کلام کو لے لینا اور آدھے کو چھوڑ دینا یہ تقوی کے بھی خلاف ہے.اور انصاف کے بھی خلاف ہے.اگر نبوت کے مضمون پر پر صرف یہی حدیث ہوتی تو ٹھیک ہے بات ختم ہو جاتی.ہم سمجھتے عربوں کو قائم کا محاورہ نہیں آتا تھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریح کردی مگر حضور نے کچھ اور بھی تو فرمایا ہے.چنانچہ ملا علی قاری نے جو علمائے اہل سنت میں سب سے چوٹی کا مقام رکھتے ہیں اور ان کو علماء کا بھی امام سمجھا جاتا ہے.انہوں نے بعض اور حدیثیں اکٹھی کر کے پیسٹلہ کھول دیا ہے.وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک طرف یہ حدیث ہے اور دوسری طرف ایک اور حدیث ہے.اور وہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم جب خدا کو پیارا ہوا تو اس کو لحد میں اتارتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو خاص ایک مقام ہوتا ہے خدا کے خوف کا اور تقوی کا یہ کلمہ فرمایا کو عاش لكان مِدٌ يُعَا نَيا " یہ میرا بیٹا اگر زندہ رہتا تو لانہ کا سچا نبی بنتا

Page 23

۲۳ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ کوئی اگر یہ کیسے کہ اس لئے خدا نے مار دیا کہ نبی نہ بن جائے تو اس سے زیادہ لغو معنی ہو ہی نہیں سکتے.اول تو خدا انعام سے محروم کرنے کے لئے کسی کو مارا نہیں کرتا.دوسرے انعام دنیا اس کے اپنے بس میں اپنی طاقت میں تھا.کوئی زبر دستی تو نہیں لے سکتا نبوت یہ تو موہت ہے.فضل ہے محض.کوئی کمائی کا ذریعہ تو نہیں ہے کہ آپ نے یہ کما لیا.اس لئے لاز ما بخوست پالیں گے.تو موہت پر یہ فقرہ بولا ہی نہیں جاسکتا.اللہ تعالے نہیں دینا چاہتا تو نہ دیتا.دوسرے وہ کہتے ہیں کہ مضمون کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر خاتمیت کا معنی زمانی لحاظ سے آخری سمجھتے تو ہر گز یہ فقرہ نہ بولتے.آپ کو پھر یہ کہنا چاہئے تھا کہ کیونکہ ہرقسم کی نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی ہے.اس لئے میرا بیٹا ہزار سال بھی زندہ رہتا تو نبی نہ بنتا.پچھلے سارے مقام پا لیتا.لیکن بنوت چونکہ بند ہوگئی ہے اس لئے نہ بنتا.یہ کہنے کے بجائے فرماتے ہیں.اگر یہ زندہ رہتا تو نبی بن جاتا.پھر لور بھی مدیش ان کے سامنے آئیں.انہوں نے کہا ایک عجیب بات ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے سُنا کہ " لَا نَيَّ بَعْدَهُ : آنحضرت کے بعد کبھی کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ان کو بلایا اور فرمایا قُوْلُوْاإِنَّهُ خَاتَمُ الأَنْبِيَارِ وَ لَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ یہ تو کہا کرو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی بنی نہیں ہے.کہتے ہیں آخر ان کو کیا خطرہ پیدا ہوا جس کو دور کرنے اور سمجھانے کے لئے انہوں نے یہ طریق استعمال کیا.اس کے بعد وہ محاکمہ کرتے ہیں اور وہ

Page 24

احمدی تو نہیں تھے سینکڑوں سال پہلے وہ وفات پاچکے ہیں.علمائے اہلسنت میں سے تھے.کہتے ہیں اس کا اصل اس کی حقیقت اس طرح ظاہر ہوتی ہے، اس کا تضاد اس طرح دور ہوتا ہے کہ بیف دہی کا مفہوم ہے کہ میرے مخالف مجھے چھوڑ کر میرے سوا چنانچہ اس کی تائید میں وہ قرآن کریم کی یہ آیت پیش کرتے ہیں.فباي حَدِيد بَعْدَ اللهِ وَ أَيَاتِ يُؤْمِنُون.اللہ اور اس کے نشانوں کے بعد پھر وہ کیا مانیں گے.فرماتے ہیں.اللہ کے بعد تو کوئی نہیں ہوتا.وہ تو ازلی ابدی ہے اسی طرح وہ اور عرب محاورے بھی بتاتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں بعد کا معنی ہے میرے خلاف مجھے چھوڑ کر میری شریعت سے ہٹ کر، اور یہ معنی باقی تمام احادیث کے ساتھ مطابقت کھا جاتا ہے.پس یہ ہے بنیاد کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں تضاد نہیں ہو سکتا اس لئے وہی معنی کرنا پڑے گا جس کا تضاد دوسری احادیث سے نہ ہو.اب اس مضمون کی دوسری احادیث مینے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مسیح ابن مریم نازل ہوگا اور وہ نبی اللہ ہو گا.آنے والے کے متعلق فرمایا.گزشتہ کی بات نہیں کر رہے.نازل ہوگا وہ نبی اللہ ہو گا وہ نبی اللہ یہ کام کرے گا نبی اللہ یہ کرے گا نبی اللہ وہ کرے گا.چار مرتبہ صحیح مسلم کی حدیث میں آنے والے کو نبی اللہ فرمایا.پھر ایک جگہ فرمایا.ليْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فِي کہ میرے اور ریح ابن مریم کے درمیان کوئی نبی نہیں.اب بعدی کا مضمون کسی اور نے تو حل نہیں کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اس مضمون کو کھولتے چلے جارہے ہیں.بعدی کا ایک مفہوم

Page 25

۲۵ ملا علی قاری نے نکالا اور اس کے بعد یہ ترجمہ کیا کہ مراد یہ ہے کہ مجھے چھوڑ کر میر امخالف میری شریعت سے ہٹ کر کبھی کوئی بنی نہیں آسکتا.دوسری جگہ حضور نے معین جو خبر دی کہ میرے بعد سیح ابن مریم نبی اللہ ہو گا.اس سے پتہ چلا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں آئے گا.چنانچہ آج بھی آپ یہ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے علماء سے پوچھیے کہ اگر کسی قسم کا کوئی بنی نہیں آسکتا تو عیسی علیہ اسلام کہاں سے آجائیں گے کیونکہ وہ سابقہ کو دوبارہ آنا جانتے ہیں.وہ کس راستہ سے داخل ہونگے.تو جواب دیتے ہیں کہ اُمتی ہو جائیں گے.گویا خود تسلیم کر لیا کہ امتی بنی ہوتا خاتم النبیین کے مخالف نہیں.ورنہ غیر کا اُمت میں آکر نبوت کرتا یہ زیادہ قابل اعتراض ہے بہ نسبت اس کے کہ اُمت میں اطاعت کے نتیجے میں کوئی نبوت کے کمال کو حاصل کرے.پس یہ و مضمون ہے جس کے نتیجے میں ہمارا یہ موقف ہے اور دوسرے فرقے چونکہ سمجھتے ہیں کہ بلا استثناء استی نبوت بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہے اور خاتم کا مطلب ہے آخری زمانے کے لحاظ سے.اس لئے انہوں نے اکٹھے ہو کہ اکثریت سے فیصلہ کیا اور کہا کہ تمہارا معنی ہمیں اس قدر نا قابل قبول ہے.گویا تم غیر مسلم ہو یہ ایک خاتون نے سوال کیا.آپ جو کہتے ہیں کہ صرف آپ جنتی ہیں باقی سارے ناری ہیں.تو آپ کو ایسی باتیں کرنے کا کیا حق ہے؟ حضور اید الودود نے فرمایا.حدیث نبوی کی سچائی پر پاکستانی اسمبلی کی مہر تصدیق

Page 26

۲۶ میں کہتا ہوں ہمیں حق نہیں ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صلی کو حق ہے کہ نہیں ہے ؟ اگر آنحضور خود ایک فیصلہ کریں تو کوئی ہے دنیا میں جو آپ پر انگلی رکھے کہ آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ آنحضرت صلی الہ علی یم نے ایک پیشگوئی فرمائی.فرمایا کہ میری اُمت کے ۷۲ فرقے ہو جائیں گے.ایک تہرے ویں جماعت ہوگی گلهُمْ فِي النَّارِ إِلا وَاحِدَةً - وه.بہتری کے بہتر کاری ہوں گے.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتوی ہے.میرا نہیں ہے.فرمایا.میری اُمت کے فرقے ہوں گے.بہتر ہے کو ناری کہہ ہے ہیں.الا واحِدَةً.صرف ایک ہوگی جماعت جو کہ نادری نہیں ہوگی.چنانچہ اس حدیث کی بناء پر پہلے دستور یہ تھا.کہ تمام فرقے یہ کہا کرتے تھے.کہ ہم وہ ایک ہیں اور باقی بہتر ہے ہیں.یہ عجیب الٹی گئی ہے عقل بر ۱۹ ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ ۷۲ ہم ہیں اور ایک یہ ہے.۲، ر پر نہر لگادی.سن لیں.جب ۲ ایک طرف ہو گئے.ہم ایک طرف ہو گئے فتوی کس کا چلے گا.فتویٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چلے گا.کسی اسمبلی کا نہیں چلے گا.حضور فرماتے ہیں کہ جب بہتریں اور ایک ہوں تو ایک جنتی ہوگا اور نار ناری ہوں گے.اور فیصلہ یہ ہے کہ نہیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ غلط کہتے تھے ؟ بہتر جنتی اور ایک ناری...جنت کی بحث ہی نہیں.کوئی احمدی جنت کا حق دار انہ خود احمدی ہونے کے لحاظ سے نہیں بن سکتا ہے.جنت کا فیصلہ اللہ کرے گا.میں نے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول پیش کیا تھا.اس قول پر اعتراض کرنے کا کسی مسلمان کو حق نہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کا تو نام ہی نہیں لیا.ایک بات سنئے.ایک میں آپ کو حدیث ہوں

Page 27

۲۷ سنادوں.رسول اللہ فرماتے ہیں.اگر کوئی میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے جو میں نے یہ کہی ہو تو وہ جہمیں اپنی جگہ بناتا ہے.اس warning انتباہ کو سُن لیجیے.اس ساری حدیث میں جو تمام دنیا کے فرقوں میں QUOTE (کوٹ) ہوئی ہے.ایک جگہ بھی قیامت کا ذکر نہیں آتا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اختلاف کا ذکر فرمایا.فرمایا کہ جب ۷۲ اور ایک کی بحث چلے گی ۲ ناری ہوں گے.اور ایک ناری نہیں ہوگا اس لئے یہ تو آپ کہہ سکتی ہیں.کہ ہم ایک ہیں.اور تم ہے میں ہو لیکن حدیث کے مضمون کو الٹانے کا آپ کو کوئی حق نہیں.سوائے اس کے کہ حدیث کے خلاف بغاوت کی جائے میرا توصرف یہ دعوی ہے کہ یہ کہنے کا کسی فرقے کو حق نہیں.خدا فیصلہ کرے گا.کہ آیا وہ ایک ہے کہ نہیں.البتہ سہی وار کے فیصلہ سے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کی حدیث پوری ہوگئی کہ ۷۲ ناری اور تہترواں جنتی فرقہ ہے ) ایک مہمان خاتون نے طویل سوال کیا.آپ نے جتنی بھی گفتگو کی ہے.وہ کتاب اور سنت کی روشنی میں اور تمام احادیث کی روشنی میں جو قول افعال حضرت محمدؐ کی تھیں ان کی ہی روشنی میں آپ چل رہے ہیں.لیکن میں نے یہ دیکھا کہ بہت سی احادیث یا بہت سی سنتیں ایسی ہیں.جن پر آپ عمل پیرا نہیں ہوتے.مثلاً ابھی میں نے خواتین کو دیکھا کہ نمازہ خواتین نے ادا کی.اور سلام پھیرنے کے بعد خواتین اپنی سیٹوں پر آگئیں.جب کہ آنحضور نے فرمایا ہے کہ دعا جو ہے وہ عبادت کی جان ہے.آنحضرت جب عبادت کیا کرتے تھے.تو اپنی دُعا کو طویل کر دیا کرتے تھے.تو کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ دُعا نہیں کرتے ؟ مضمون کو واضح کرنے کے لئے اس جملے کا اضافہ کیا گیا ہے.

Page 28

۲۸ حضور ایدہ الودود نے فرمایا.ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت نبوی سے ثابت نہیں آپ کی بات درست ہے جائز ہے.مگر آپ کے حدیث کے علم کے متعلق مجھے کچھ تھوڑا سا اعتراض کا حق دیجئے.ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنت ثابت ہو وہ قیامت تک جاری رہنی چاہئیے.جو حضور سے اور حضور کے خلفاء سے ثابت نہ ہو بعد کے علماء نے اضافے کئے ہوں ہم ان کو قبول نہیں کرتے.اور احادیث سے سنت سے ہر گز ثابت نہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے تھے.اس وجہ سے ہم نہیں کرتے.یہ نہیں کہ ہم سنت کی مخالفت کرتے ہیں.سنت کو چھوڑ کر نہیں بلکہ ہمارے نزدیک یہ بعد کی رسم ہے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج نہیں تھی.آنحضور کا فیصلہ یہ تھا کہ اصل میں نماز ہی دُعا ہے.تمام عبادتوں کا سراج نماز ہے اور سب سے اعلیٰ دعا نماز ہے.اس لئے دُعا جو بھی کرتی ہے نمازہ کے اندر کرنی چاہیے نماز سے نکل کر نہیں.حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ نماز کے بعد نسیجیات پڑھتے تھے.سُبحان الله - الله اكبر - الحَمدُ لله - یہ حمد اور تسبیح پڑھا کرتے تھے اور اسی کی تاکید کی بعد تازہ تھا تھا کہ دوا کرنے کے بارہ میں ایک بھی حدیث نہیں ہے.اب میں آپ کو بتا رہا ہوں.آپ بے شک علماء سے پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ حضور نے فرمایا ہو کہ ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کیا کرو.ئیں یہ عرض کر رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ علتی ہی نہیں.اسوقت کمر اقعد یہ ہے کہ چودہ صدیوں کے اندر ہر قوم می جس طرح نئی چیز ہیں نشو و نما پا جاتی

Page 29

۲۹ ہیں.بجڑی بوٹیاں اور گھاس اگ جاتی ہیں اسی طرح اُمتوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے ہم رواج اُمتوں میں جڑ پکڑ جاتے ہیں.اور بعد میں سمجھا جاتا ہے کہ گویا عبادتوں کا حصہ ہے.جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے کہ دین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ہوا تھا.اس لئے حضور اکرم کے زمانے میں جو رسم و رواج عبادت کے تھے اُن پر ایک ذرے کا بھی اضافہ نہیں کرنا.میں اور مثالیں دیتا ہوں مثلاً ختم قرآن ، مثلاً گیارہویں شریف، مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کھڑے ہو جانا ان تمام باتوں میں سے ایک بھی آنحضور کے زمانے میں یا آپ کے خلفاء اور صحابہ کے زمانے میں ثابت نہیں.راس خاتون نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا.اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جھک رہے ہیں بلکہ احترام اور آدمیت ہے حضور ایدہ الودود نے اپنے استدلال کو جاری رکھا.احترام کے نام پر ایک نئی بدعت کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام آج کے مسلمانوں کو زیادہ ہے؟ اُس زمانے کے مسلمانوں کو کم تھا ؟ یہ سوچیے.سینے ! میں یہ کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.يكُمْ بِسُنّى وَسُنَةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المهديين ابو داؤد د کتاب السته باب فی لزوم استه) تم پر میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت فرض ہے.اب ایک بھی شال سازی سلام کی خلافت کی ساری تاریخ سے نہیں ملتی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں صحابہ یا خلفاء حضور کا نام لینے پر کھڑے

Page 30

ہوا کرتے تھے.اس لئے ہمارے نزدیک تو حضور کا ارشاد ہی قابل تعظیم اور قابل اطاعت ہے.جس کی عزت کرنی ہے.اُس کی عدم اطاعت کر کے تو عونت نہیں کی جاسکتی.اور صحابہ نے اور خلفاء نے اپنے فعل سے ثابت کیا کہ یہ عزت کا طریق نہیں ہے.یہ سنت کے خلاف ہے.اس لئے ہم تو اسلام کے اُسی حصے پر کار بند رہیں گے اور اُسی کو کافی سمجھیں گے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ثابت ہے.خاتون محترم کی تسلی نہیں ہو رہی تھی پھر اپنی بات دہرائی.آنحضرت نے اپنے لئے مسلمانوں سے تعظیم نہیں کروائی تو آپ کے لئے میں نے سُنا ہے.لوگوں کی زبان سے کہ ہمارے حضور تشریف لارہے ہیں بہائے خلیفہ اول.ہمارے پیشوا ہمارے حضور تشریف لارہے ہیں.تو آپ نے یہ کیسے قبول کر لیا کہ آپ کو اتنا بڑارتبہ لوگ دے دیں ؟ حضور پر نور نے تحمل سے فرمایا.جماع احمدی سے زیادہ آنحضرت کا اور کوئی احترام نہیں کرتا آپ نے تو ایسی بات کی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جتنا احترام اور جتنا عشق ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے.آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی نظم نشرھ لیجئے.اور سارے اب تک کے جو مدحیہ ، یا نعتیہ کلام ہیں ان کو دیکھ لیجئے.آپ کا دل گواہی دے گا کہ اس کلام میں زیادہ مشق اور احترام ہے.یہ تو ہر انسان کا دل اگر وہ تقویٰ سے فیصلہ کرنا چاہے تو فوراً فیصلہ دے سکتا ہے.دیکھئے دنیا میں کوئی احمدی وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا کہ

Page 31

کہ نعوذ باله آ نحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے مقابل پرکسی کو ادنی سی بھی عربیت دے.یکی یہ عرض کر رہا ہوں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تہذیب ہمیں عطا فرمائی.اس تہذیب کی حدود میں رہنا ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علی کو دیکھ کر صحابہ کھڑے ہوتے تھے.خلفاء کو دیکھ کر صحابہ کھڑے ہوتے تھے.اور دوسرے بزرگوں کو دیکھ کر کھڑے ہوتے تھے.غائبانہ نام پر انہیں کھڑ- ہوتے تھے.صرف یہ فرق ہے جو بیان ہو رہا ہے.مہمان خاتون کے پاس ایک دلیل ابھی باقی تھی سوال کیا.غائبانہ جب ہم آپ پر ایمان لا سکتے ہیں تو احترام کیوں نہ کریں ؟ حضور نے فرمایا نہ احترام کیوں نہیں کرتے.احترام تو لازمی ہے.ہمیں کب کہتا ہوں احترام نہ کریں.آپ تو مجھے بالکل نہیں سمجھ رہیں.ہمیں کہتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کہ احترام ساری دنیا میں کسی کا نہیں ہوسکتا.مگر احترام کا طریق وہ ہو گا.جو حضور نے سکھایا ہے.یہ صرف فرق ہو رہا ہے.کون ظالم کہتا ہے.احترام نہ کرو.احترام تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرکسی کا نہیں ہوگا.مگر اسنفور جو احترام کا طریق بتاتے ہیں اس سے باہر نکلنا ہے احترامی ہے نہ کہ احترام.یہ ہماری Logic ہے.آپ اگر یہ احترام سمجھتیں ہیں کہ رسول اللہ کے بیان کردہ طریق احترام کو ترک کر کے اس کی اطاعت سے باہر نکل کر بھی کوئی احترام ہو سکتا ہے تو آپ کو یہ احترام مبارک ہو.میرے نزدیک عدم اطاعت، عدم احترام ہے.اس لئے لازما احترام کرنا ہے.تو اطاعت کے دائرے میں رہیں.اس سے باہر نہ نکلیں.اور جو طریق احترام کا آنحضور نے سکھایا ہے.اس طریق کو کافی سمجھیں.

Page 32

۳۲ ایک خاتون نے سوال کیا ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امام مہدی کی علامتیں ظاہر نہیں ہوئیں حضور نے فرمایا یہ ایک نیا سوال ہے ؟ بڑا چھا سوال ہے.امام مہدی کے آنے کی علامتیں تو ظاہر ہو چکیں امام مہدی نے کب آتا ہے؟ اس کی علامتیں دو طریق پر بیان کی گئی ہیں.ایک آنے سے پہلے کی علامتیں اور ایک آنے کے بعد کی علامتیں.جہاں تک آنے سے پہلے کی علامتیں ہیں وہ تو سو سال سے بھی زیادہ ہوا کہ پوری ہو چکی ہیں.امام مہدی کے آنے سے پہلے کی جو علامتیں بیان ہوئیں ہیں ران میں یہ ہے کہ ایمان عملاً نزائل ہو جائے گا مسلمانوں کے اندر فتنہ فساد پیدا ہو جائے گا ، افتراق آجائے گا، نمازوں سے بے رخیتی ہوگی، یہاں تک حضور نے فرمایا مسجدیں آباد بھی ہوں گی تو ویران ہوں کی ہدایت سے خالی ہوں گی ، نام کا اسلام ہو جائے گا ، اعمال سارے غیر مسلموں والے شروع ہو جائیں گے.جھوٹ ، دنگا فساد، دنیا داریاں ، ظلم و ستم ، دوسروں کا مال لوٹنا، جھوٹ بون ، لہو و لعب میں مبتلا ہو جانا یعنی قوم کی اکثریت کا یہ حال ہو چکا کہ قرآن کریم آجائے ٹیلی ویژن پر تو بند ہو جائے ٹیلی ویژن اور ناچ گانے والی آجائے تو دوڑ دوڑ کر کھولیں اس کو.تو اور کیا ہوتی ہیں علامتیں امام مہدی کی.اگر آپ دل میں غور کریں خدا کے خوف کے ساتھ تو یہ علامتیں تو بہت پہلے سے قوم میں ظاہر ہو چکیں ہیں.یہاں تک کہ اکبر اللہ آبادی مرحوم جو مشہور شاعر تھے وہ تو اس وقت یہ کہہ رہے تھے ، ان کا حساس دل تھا ، وہ پہچان گئے تھے کہ اُمت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.

Page 33

٣٣ وہ کہتے ہیں کہ یہ بت پر وہ نہیں کرتے خدا ظاہر نہیں ہوتا قیمت یہ زمانہ ہے کہ میں کافر نہیں ہوتا تو حساس لوگوں نے تو اس زمانہ میں جو سو سال پہلے کا زمانہ ہے اس وقت بھی پہچان لیا تھا کہ اطوار بگڑ گئے ہیں.تو یہ وہ ساری علامتیں ہیں.امام مہدی کے آنے سے پہلے کی جن کو پورا ہوئے سو سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے.اس لئے علماء کہتے تھے کہ چودہویں صدی کے سر پہ امام مہدی آجائے گا.علماء کہتے تھے کہ نہیں ؟ ساری مسجدوں سے یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ چودہ ہوئیں صدی آئے گی تو اس کے کسریہ امام مہدی آجائے گا.جب چودہویں کا سر آیا تو حضرت مرزا صاحب کے سوا امامت کا دعویدار ہی کوئی نہیں تھا.اب بڑی مصیبت میں پھنس گئے کہ ہم تو خود کہا کرتے تھے کہ چودہویں صدی کے کرکے آئے گا اور آگئے مرزا صاحب ان کو تو ہم نے مانتا نہیں.تو پھر انہوں نے کہا کہ ابھی تو چودہ ہویں کا سر پورا نہیں گزرا.چنانچہ اس وقت کے علماء نے لکھا کہ جو چودھویں کا سر ہے یہ پچھیں، تین سال تک چلے گا.اور ۳۴ سال تک بڑھا دیا.چنانچہ دلی کے مشہور صوفی خواجہ حسن نظامی صاحب ان سے احمدیوں نے جب اس بات کا مطالبہ کیا کہ بیٹی کل تک توتم کہہ رہے تھے کہ چودھویں صورتی کے سریع آجائے گا اور گیا کہاں با علامتیں تو پوری ہوگئیں اور وہ نہیں آیا تو خواجہ حسن نظامی صاحب نے کہادی و ۱۲۳۴ سال تک و بینی صدای کامیار در حصہ یہ شہر کا چلنا ہے.تو ہم قوت رکھتے ہیں کو ۳۷ سال گورنے سے ترقی پہلے آجائے گا.وہ کبھی نہ آیا.پھر علما نے کہا اچھا پیسٹ میں پھر کہا اچھا کام پر آجائے گا اور شائع کیا.اور موروں میں اعلان کیا کہ چودھویں صدی نہیں کرے گی ؟

Page 34

ایک دن بھی رہ گیا تو سورج غروب نہیں ہوگا.جب تک امام مہدی نہ آجائے.کل ایک تو یہ کہتے تھے.اور آج کیا کہ ر ہے ہیں.کہاں گیا وہ امام مہدی اینڈ ہیں صدی کا جشن بھی متالیا ساری اُمت نے اور یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ کیا واقعہ ہمارے سامنے ہو رہا ہے.خدا تعالئے جگا رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آج ایک ایک بھی صدی کا جشن اُمت مسلمہ نے نہیں منایا تھا.صرف پندرہویں صدی کا منایا.توجہ دلانے کے لئے خدا نے یہ انتظام کیا.یہ بتانے کے لئے کہ تمہاری صدی خالی چلی گئی.اس وقت ہم نے یہ سوال اٹھایا.ہم نے علماء سے کہا کہ جشن تو وہ مناتا ہے جس کی بارات آجائے جس کا دولہا پہنچے اس کو تو حق ہے جشن منانے کا.تمہارا تو نہ چودہویں کا دولہا آیا نہ پندرہویں کا آیا.یہ جشن کس بات کا منارہے ہو.خالی صدیوں کا جشن مناتا تو عجیب بات ہے.مہدی کے انکار کے ساتھ مجدد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے پھر علما ء نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نہیں نہیں یہ سب غلطی تھی.کسی صحیح حدیث میں قطعی حدیث میں جو صحاح ستہ میں ہو یہ ثابت نہیں ہے کہ چودھویں صدی کے سر پہ امام مہدی آئے گا.اس لئے یہ ہمارے خیالات تھے، بنہ رگوں کی باتیں تھیں.جو بھی تم کہ لو غلطی ہوگئی بھتر ماری جس کو کہتے ہیں.وہ ہم نے کر دی.تو نہیں آنا تھا چودہویں کے سر پہ.تو ہم اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ بھٹی چودھویں کے کر یہ امام نہیں آتا تھا ؟ مجدد کہاں چلا گیا.تم یہ تو مانتے ہو تا کہ وہ قطعی حدیث ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد ضرور آئے گا.چودھویں صدی کے سر پر تیس مجدد نے آنا تھا وہ اگر امام مہدی نہیں تھا تو مجدد تو نکالو.غیر احمدیوں کے نزدیک امام مہدی ایسا غائب ہوا ہے.

Page 35

۲۵ کہ مجدد کو بھی ساتھ لے ڈریا، دونوں نہیں آئے اور پندرہویں کے سر کا مجدد بھی غائب ہو گیا اور سڑک خالی ہوگئی.یہ غور کریں جہاں چیز کھوئے جہاں دوراہا پھوٹے وہیں واپس جاکر تلاش کی جاتی ہے.جس صدی کے شریر سے آپ کا مجدد غائب ہوا ہے وہیں لے گا اور کہیں نہیں ملے گا.واپس ٹوٹیں گی تو نظر آجائے گا.اور وہاں ایک ہی ہے جو دعویدار ہے.اس کے سواد عویدار ہی کوئی نہیں تھا.سوئی گھر میں گئے تو باہر کھینے کے نیچے تو نہیں ڈھونڈی جاتی.وہ تو لطیفے کے طور پر کہتے ہیں کہ اندر اندھیرا تھا اس لئے میں باہر آ کر ڈھونڈ رہا ہوں.تو جس صدی کا آپ کا امام غائب ہوا ہے اگر آپ امام کی تلاش میں دیانتدار ہیں تو اس صدی میں واپس جائیے جہاں گنگ ہے وہیں سے نکلے گا.یہ کیسے ہو سکتا ہے گیا وہاں ہو اور نکل کہیں اور سے آئے.تو آپ اب اس بات پر غور کریں کہ آپ کے دو امام غائب ہوچکے ہیں.ایک چودہویں صدی کا مجدد ایک پندرہویں صدی کا مجدد.دونوں کے کمر آکر ختم ہو گئے ہیں اور وہ نہیں آئے.اور یہ بات ہو نہیں سکتی کہ نہ آیا ہو.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بتایا ہے.فرمایا ہے کہ اللہ تعالے ہر صدی کے سر پہ مجدد بھیجے گا.تو اگر امام مہدی نہیں تھا تو مجددہی نکلا ہوتا.مجدو کا غائب ہونا بتاتا ہے کہ آپ نے وقت کے امام کو پہچانا نہیں وہی امام تھا جس نے دعوی کیا ہے اور آپ اس کو Miss کر گئی ہیں.جب تک اس سیک آپ نہیں پہنچیں گی آپ کو دوبارہ وہ دھاگہ نہیں لے گا.وہ رستہ نہیں ملے گا.مہدی معہود کی صداقت پر ایک بے دست آسمانی گواہی

Page 36

اب میں آپ کو بتاتا ہوں وہ قطعی علامت جو امام مہدی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور وہ اتنی قطعی ہے کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف بھی اس علامت کو باطل قرار نہیں دے سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے امام مہدی کی جو علامتیں بیان فرمائیں ان میں سب سے واضح سب سے روشن علامت وہ ہے جس کا آسمان سے تعلق ہے لینی چاند سورج کا گر ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ان لِمَهْدِينَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنذُ خَلقِ السَّمَوَاتِ و الأرْضِ يَنْكَسِيفُ الْقَمَرُ الأَول لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَ تَنْكَسِيفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ - وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللهُ السَّمواتِ والأَرضِ یہ پورے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.اچھا اب بتاتا ہوں.یہ جو پیشگوئی ہے چاند سورج کے گرہن والی یہ امام مہدی سے وابستہ ہوئی.یہ پیشگوئی اپنے اندر کچھ شرائط رکھتی ہیں.چاند سورج کو ویسے گرہن تو بہت لکھتے رہتے ہیں.ہر تاریخ میں لگ جاتے ہیں جو اس کی گرہن کی تاریخیں ہیں.بعض جنیوں میں اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں.لیکن جو علامتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں حضور فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا بنی ہے کبھی بھی پوری نہیں ہوئیں.ایک یہ فرمایا کہ چاند کو پہلی رات کا گرسن لگے گا یعنی گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات - دوسرا فرمایا.سورج کو درمیانی دن میں گرہن لگے گا یعنی ہم کہتے ہیں گر ان کے دنوں میں سے درمیانے دن.دوسرے علماء کہتے ہیں.نہیں جینے کا پندرواں دن.اور اگر وہ تیس کا مہینہ نکلا.تو درمیانی ہو گا کوئی نہیں.اس لئے لازمی ہے.جہینہ بھی ۲۹ کا ہو ورنہ درمیانی

Page 37

۳۷ دن نہیں بنتا.بہر حال یہ اختلاف ہے.اگلی علامت یہ بیان فرمائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک ہی مہینے میں یہ واقعہ ہوگا.چاند کو پہل کو گرین سورج کو درمیانی کو اور اس چہیتے کا نام رمضان شریف ہوگا.یہ بھی حضور نے فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس وقت امام مہدی کا پہلے ایک دعویدار ہوگا.ورنہ پھر وہ گواہ کس کا ہوگا.تو یہ علامتیں کبھی اکٹھی نہیں ہوئیں کہ کبھی دنیا میں کوئی امام مہدی کا دعویدار آیا ہو اور رمضان شریف کا مہینہ ہو اور چاند اور سورج کو ان تاریخوں میں گرہن لگ جائے.جب مرزا صاحب نے دعوی کیا تو آپ جانتی ہیں نوے سالہ مسئلاتنا مشہور ہوا تھا.شام میں حضرت مرزا صاحب نے مسیح موجود اور امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا اور شانہ کے بعد پھر یہ سارا اختلاف شروع ہوتا ہے.جماعت کی بنیاد شاہ میں ڈالی گئی اور سو میں چاند سورج کو گرہن لگا.اور اسی طریق کے مطابق جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا.تیرھویں کو چاند گرہن لگا اور اٹھائیسویں کو سورج کو.تیرھویں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات ہے.یعنی ۱۳۲- ۱۲ - ۱۵ تین راتیں ہیں جن میں قانون قدرت کے 10.مطابق گرہن لگ سکتا ہے.اس کے سوا لگ ہی نہیں سکتا.کیونکہ خدا نے اسی طرح زمین و آسمان کو بنایا ہے.اس کی رفتاریں اس طرح Set کی ہیں کہ سایہ پڑ کر جو گرہن لگتا ہے.وہ سوائے ۱۳ ۱۴ ۱۵ کے لگ ہی نہیں سکتا.تو خدا کا بنایا ہوا قانون ہے.اس کو ہم کیسے بدل سکتے ہیں.اگلا حصہ ہے.سورج کو ۲۸ کو گرہن لگا کیونکہ سورج کے بھی تین دن ہیں ۲۷ ۲۸.اور ۲۹, ان میں سے درمیانہ دن ۲۸ ہے.جب یہ واقعہ ہو گیا تو بہت سے لوگوں نے احمد میت کو قبول کر لیا.پنجاب میں بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جو اس نشان کو دیکھ کر قائم

Page 38

ہوئیں کیونکہ وہ حیران رہ گئے کہ تیرہ سو سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی.مہدویت کا ایک دعویدار موجود ہے.اس کے سوا اور کوئی دعویدار ہے ہی نہیں اور چاند سورج کو رمضان کے مہینے میں گرین لگ جاتا ہے.لیکن اس وقت علماء نے موقف بدلا اور ترجمہ یہ کیا کہ نہیں پہلی رات چاند کو گرہن لگے گا.تب ہم مانیں گے.کیونکہ حضور نے فرمایا.لا ولِ لَيْلَةٍ پہلی رات.ہم اُن کے سامنے یہ بات رکھتے ہیں کہ تمہارا یہ موقف لازماً غلط ہے سو فیصدی غلط ہے کیونکہ کام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکرا رہا ہے.جو موقف بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے مخالف ہوگا.وہ غلط ہو گا.آنحضر کرتے جب پیشگوئی کی تو یہ الفاظ فرمائے ينكسف القمر قمر چاند کو کہتے ہیں يتكسف بینی گرہن یہ تو فرما یا چاند کو گرہن لگے گا.اور ساری دنیا جانتی ہے کہ پہلی تین راتوں کے چاند کو قمر نہیں کہا جاتا بلکہ طلال کہا جاتا ہے.آج بھی رویت ہلال کمیٹی تو آپ نے سُنی ہوگی.رویت قمر کمیٹی اگر کہیں تو وہ مولوی صاحب الٹ کے آپ کو کہیں گے جاہل تمہیں عربی نہیں آتی.میں تو رویت ہلال کمیٹی کا اور ممبر ہوں رویت قمر تم نے کیا لغو بات کر دی.تمہیں عربی نہیں آتی.تعوذ باللہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی نہیں آتی ان مولویوں کو آتی ہے.اور جو افصح العرب تھے.ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ قرآن کے بعد سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے تھے تو انہوں نے کیسے غلط لفظ استعمال کر لیا.اگر آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں پہلی رات کا چاند کا گرہن مراد ہوتا تو پہلی تین راتوں کے چاند کا ذکر کرتے ہوئے آنحضور لاز ما بلال فرماتے قمر نہیں کہہ سکتے تھے.تو حدیث خود اتنی قوی ہے کہ اپنے معنے خود بیان کر دیتی ہے.اس لئے اس کے بعد اور کونسی دلیل آپ چاہتے

Page 39

۳۹ ہیں.یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہو، آسمان کے سیاروں سے اس کا تعلق ہو زمین کے انسانوں کا اس پر بس نہ چل سکتا ہو اور فرمائیں کہ ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا کہ امام مہدی ہونے کا دعویدار موجود ہو اور پھر یہ باتیں پوری ہو جائیں اور وہ بعینہ اسی طرح ہو جائے.جن لوگوں کو عربی نہیں آتی ان کے سمجھنے کے لئے ایک اور دلیل بھی ہے.پہلی رات کا چاند بے چارہ جیسا نکلا.ویسا نہ نکلا ابھی اُنگلیاں اُٹھ ہی رہی ہوتی ہیں تو نظر سے غائب بھی ہو جاتا ہے.کسی بچے کو نظر آیا کسی کو نہ آیا.تو امام مہدی کی نشانی ہو اور نشانی ایسی کمزور کہ امام مہدی کیسے دیکھو نکلا تھا.لیکن گرین لگ گیا اور مولوی کہیں نکلا ہی نہیں.جس چاند بے چارے کا یہ حال ہو اور اوپر سے اس کو لگ جائے گرمین تو اس کا رہے گا کیا.باقی وہ نظر ہی نہیں آسکتا.وہ باریک ہی قوس جس کا ہونا یا نہ ہو تا یعنی To be or not to be یہ سوال بن جائے کہ تھا بھی کہ نہیں بیچارہ اور پر سے اس کو گرہن کی چپیڑ پڑ جائے.تو یہ کچھے اس کا کیا منہ رہ جائے گا.تو کیا بحث چلے گی.اس وقت اگر یہی مراد ہے تو امام مہدی کہے گا دیکھوئیں سچا نکا، پہلی رات کو لگ گیا نا گرمین مولوی کہیں گے جاؤ جھوٹے کوئی نہیں لگا، وہ تو نکلا ہی نہیں.ایسی لغو بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتی ہیں یا بعض لوگ کرتے ہیں کہ اتنی عظیم الشان پیشگوئی جس کا صدیوں سے انتظار ہو رہا ہو نکلے تو اس مشکل میں کہ بحث ہی بدل جائے کہ نکلا تھا کہ نہیں نکلا تھا.اس لئے وہی درست ہے کہ پہلی رات سے مراد چاند گرہن کی پہلی رات مراد ہے اور لفظ ہلال کی بجائے لفظ قمر قطعی طور پر سو فیصدی ثابت کرتا ہے کہ پہلی تین رات کے چاند آنحضور کے تصور کے کسی گوشے میں داخل نہیں ہوئے تھے.جب آپ نے

Page 40

- یہ پیشگوئی فرمائی تھی.ایک محترم خاتون نے کہا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ خالی جگہ ہے جس میں حضرت علی دفن کئے جائیں گے ؟ حضرت صاحب کا جواب تھا.حديث يُدهن می کی قبری کی رُوحانی تشریح کے بغیر کوئی چار نہیں اول تو یہ بات بالکل غلط ہے ، کوئی خالی جگہ نہیں ہے.یہ تو اب آسان طریق ہے، سعودی عرب کے محکمہ اوقاف کو آپ خط لکھ کر معلوم کرلیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ مدفون خلفاء کے درمیان میں کوئی جگہ خالی نہیں.اس لئے یہ خالی جگہ والا بہانہ تو خواہ مخواہ علماء کے تصور کی بات ہے اور دوسرے الفاظ میں حضور اکرم نے یہ فرمایا ہی نہیں تھا کہ میری قبر کے ساتھ خالی جگہ میں دفن ہو گا.آپ کے الفاظ جو ہیں وہ کیسے.آپ فرماتے ہیں يد من مَعِى فِى قَبْرِى - میرے ساتھ میری قبر کے اندر دفن ہو گا، یہ الفاظ ہیں.ہم علماء کو یہ سمجھاتے ہیں کہ تم نے بچھے ہونے والے کی یہ نشانی بنائی ہے.اور حضرت مرزا صاحب کا اس لئے انکار کر رہے ہو کہ یہ آنحضرت صلی الحرملہ یکم کی قبر میں دفن نہیں ہوئے.تو پہلے اس نشان پر تو غور کر لو کہ اس کے کیا معنی بنیں گے.اگر یہ جھوٹا ہے نعوذ بالله من ذالك تو سچا امام جب دعوئی کرے گا تو یہ علماء کہیں گے میاں ابھی نہیں موت تک ہمیں انتظار کرنے دو جب تم مر جاؤ گے اور وہاں دفن ہو گئے تب ہم ایمان لائیں گے.یہ اچھا امام بے چارہ آیا ہے کہ زندگی میں کسی کو ایمان لانا ہی نصیب نہیں

Page 41

ہو گا.جب تک مریں نہ نشانی نہ پوری ہو.اور جب جھوٹے کے طور پر مر جائے گا تو کون ہے جو اس کو وہاں دفن کرنے دے گا.لوگ تو انتظار کر رہے ہوں گے کہ ہم مانیں گے نہیں اس لئے کہ ابھی مرا نہیں اور جب تک مرے نہ اور پریشانی پوری نہ ہو جائے اس وقت تک ہم ایمان نہیں لاتے اور جب مر جائے گا تو پھر اس کو وہاں دفن کون ہونے دے گا.ایک تو یہ بات قابل غور ہے دوسرا یہ سوچیے کہ کون ہے ایسا انسان کوئی ہے پیدا ہوا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو اکھاڑے.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.سارے مسلمان جین کو غیرت اور حیا ہے وہ کٹ جائیں گے اس سے پہلے کہ حضور اکرم کی قبر کی طرف کوئی بدنیتی سے ہاتھ اٹھائے.تو معنی آپ روحانی کلام کے جسمانی کر لیتے ہیں اور پھر اُلٹے کیلئے اعتراض شروع کر دیتے ہیں.اپنے دین کو بھی بگاڑ دیتے ہیں اور حقیقت حال سمجھنے سے بھی خالی رہ جاتے ہیں.کلام رسول کا معنی روحانی معنوں میں کریں گی تو سمجھ آئے گی ورنہ نہیں سمجھ آئے گی.پنجابی میں اُردو میں محاورہ چلتا ہے کہ تو نے میرے ساتھ دفن ہونا.تو میری قبر پیناں ایں جس کا انجام ایک ہو اس کے لئے یہ آتا ہے کہ اس کی قبر اور میری قبر ایک ہے اور یہ محاورہ ہے زبانوں کا.آنحضرت نے دو طریق سے اس بات کو بیان فرمایا.اگر آغانہ ایک ہو انجام ایک ہو تو اس کو پھر جد انہیں کیا جاسکتا.دوسرے آپ نے تو یہ خبر دی تھی کہ آنے والے امام کے ساتھ بدسلوکی نہ کرتا.اس کو مجھ سے الگ نہ سمجھنا کیونکہ ایک جگہ فرمایا اس کے ماں باپ کا نام میرے ماں باپ کا نام ، اس کا نام میرا نام ہو گا یعنی آغاز اس کا اور میرا ایک ہی آغاز اور اسکا اور میرا ایک ہی انجام ہوگا یا گویا میری قبر میں دفن ہو گا.یہ مراد نہیں ہے کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اکھاڑی جائیگی

Page 42

۴۲۲ اس میں کوئی دفن ہو گا.مراد صرف اتنی تھی کہ اس کا انجام میرا انجام ہو گا، اگر تم گستاخی کہ دو گے تو میری گستاخی کرو گے یہ کلام ہے رسول اکرم کا اسی عربت اور شان سے اس کا ترجمہ کریں تو پھر مفہوم سمجھ آتا ہے.اگر زور دیا ہے کہ ظاہری معنی کرتا ہے تو پھر وہی تمسخرز والی بات نکلے گی.ظاہری معنے کر کے دیکھ لیجئے نتیجہ یہ نکلے گا کہ جب بھی امام آئے گا آپ پہلے انتظار کریں گی.آپ کہیں گی مرنے کے بعد فیصلہ کریں گے تم پہلے مروہ گلے سے اتر و قبر میں دفن ہو تب ہم مانیں گی اور پھر اس کو جس کو جھوٹا کہ کہ آپ نے مرنے دیا، کون ہوتا ہے جو اس کو جا کہ وہاں دفنانے کی جرات کر سکے.ویسے ہی کسی کو توفیق نہیں ہوتی.حضرت صاحب نے اگلا سوال جو چٹ پر لکھا ہوا تھا.پڑھا ایک بغیر احمدی بہن سوال کرتی ہیں کہ اگر ان کا شوہر احمدی نہ بننا چاہے اور وہ خود احمدیت میں شامل ہونا چاہیں تو کیا کریں ؟ حضور ایدہ الودود نے فرمایا.مولویوں کے بعض ظالمانہ فتوے جماعت احمدیہ کا تو فقہی اس سلسلے میں بڑا واضح ہے کہ اسلامی نکاح آتنا کچھا نہیں ہوتا کہ ان باتوں سے ٹوٹ جائے.یہ تو اسلام کے نکاح کے مفہوم کو نہیں سمجھتے وہ فتوے دیتے ہیں کہ فرقہ بدلا تو نکاح ٹوٹا اور فلاں بات کردی تو نکاح ٹوٹ گیا.یہاں تک کہ سپین کی مسجد سے واپسی پر لاہور میں جو ہلٹن میں ہم نے دعوت دی تھی میرا خطاب تھا، وہاں جو غیر احمدی بیچارے گئے ان کے متعلق اخباروں میں چھپ گیا کہ ان سب کے نکاح ٹوٹ گئے ہیں، دوبارہ

Page 43

۴۳ نکاح کروائیں.عجیب باتیں ہیں.ہم تو یہ نہیں مانتے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ نکاح ایک انسانی ضرورت ہے جو جائز طریق پر ہو جائے وہ اس طرح نہیں ٹوٹا کرتا اور امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی غیر احمدی خاوند کی بیوی ہے تو اس کا نکاح جائز رہے گا.اس کو کوئی Problem نہیں.ہاں معاشرتی مسائل اُٹھتے ہیں بعض صورتوں کو تنگ کیا جاتا ہے، بعضوں کو گھر بٹھا دیا جاتا ہے، بعض جگہ یہاں تک بھی ہوتا ہے کہ ہمارے سرگودھا میں ایک شیعہ دوست جو بڑے عالم تھے اور ذاکر تھے، وہ احمدی ہوئے تو اس کی بیٹیاں جہاں جہاں بیاہی گئیں تھیں حالانکہ وہ احمدی نہیں ہوئی تھیں.اتنا کیا نکاح تھا بے چاریوں کا کہ باپ کے احمدی ہونے سے بیٹیوں کے نکاح ٹوٹ گئے اور سب کو گھر بٹھا دیا گیا اور بڑی دُکھ کی حالت میں مجھے ملے.ان کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے کہ میرا قصور تو چلو ہوگیا لیکن میری بچیوں کا کیا قصور تھا کہ میرے احمدی ہونے سے وہ میرے گھر میں آرہی ہیں اور بڑے دکھ کا حال ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں اپنے سامنے ساری بیٹیاں بیاہی ہوئی گھر میں لا کر بٹھا دیں.تو یہ ظالمانہ باتیں ہیں.ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ہے.آپ کو خدا نے توفیق بخشی ہے، آپ احمدی ہو جائیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ بعض دفعہ صداقت کے لئے دُکھ اُٹھانے پڑتے ہیں اس لئے ہمت ہے تو احمدی ہوں ورنہ پھر اللہ سے دعا کریں کہ اللہ توفیق بخشے

Page 44

۴۴ ایک مہمان بہن نے سوال کیا.بعض حدیثوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو کیا گیا ؟ حضور ایده الورود نے جواب میں فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جادو کے اثر سے مبرا تھے میں عرض کرتا ہوں ان حدیثوں کے متعلق جماعت احمدیہ کا موقف بالکل واضح اور قطعی ہے.ہم کہتے ہیں کہ نعود باللہ من ذالك حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جادو کے اثر سے بالکل میرا اور غالب تھے دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جو آپ پر جادو کر سکے.اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ بعض یہود کی شرارت سے ایسی باتیں مسلمانوں میں داخل ہوئی ہیں اور اس کے نتیجے میں عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کو شدید اعتراض کا موقع ملا.ہمارا موقف یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو حضرت موسیٰ سے بہت زیاد عظیم الشان وجود تھے.ہوسٹی کو تو ان کی قوم کے سحر سے خدا نے بچا لیا.ہو ہی نہیں سکتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہو جائے.اس کے خلاف ہمیں ایسی قطعی حدیث ملتی ہے کہ آنحضرت کی اللہ تعالے حفاظت فرماتا تھا اور ہر کہ اکثر اور ہر مخالف طاقت سے آپ کو بچاتا تھا اور معجزہ دکھاتا تھا.خلا جب آپ نے ابو جہل کو مخاطب کر کے فرمایا کہ فلاں کا حق دو تو وہ فورم مان گیا.جب حضور چلے گئے تو اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تم مجیب بے وقوف آدمی ہو.ہمیں تو کہتے ہو اس کی مخالفت کرو اور یہ کرو اور تم اس کی بات فورآمان

Page 45

گئے.ابو جہل نے یہ بیان دیا کہ خدا کی قسم جب میں انکار کرنے لگا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ آپ کے دونوں جانب مست اونٹ ہیں جو غصے سے میری طرف بڑھنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور میں اتنا خوف زدہ ہوا کہ میرے لئے مانے بغیر چارہ نہیں تھا.یہیں ہمارا مسلک یہ ہے کہ انبیاء علیہ اسلام دنیا کے جادو گروں کی زد سے پاک ہوتے ہیں.اور جو جادو بیان کیا جاتا ہے ہم بناتے ہیں وہ واقعہ کیا تھا.واقعہ یہ ہے کہ یہودیوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا اور اس کے اثر سے آپ کے معدے پر بھی اثر پڑا.اور یادداشت میں بھی کچھ دیر کے لئے ذہول آگیا.احادیث میں یہ ملتا ہے کہ آپ بعض باتیں بھول جاتے تھے.اس موقع سے فائدہ اٹھا کہ یہودیوں نے شرارت کے ساتھ ایک کنویں میں بہت سارے ٹوٹے ٹوٹکے پھینک دیئے.یہ ان کے جادو کا نتیجہ تھا.حالانکہ وہ نتیجہ تھا اس ظاہری وجہ کا جو حضور اکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر استعمال کی گئی اور یہود آپ کی بھول کو اپنے جادو کا کرشمہ بیان کرنے لگے اور صحابہ میں عجیب و غریب باتیں ہونے لگیں کہ یہودی کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہارے رسول کو جادو کر دیا ہے.خاتم النبیین پر جادو کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اللہ تعالے نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ جھوٹ بول صبح میں کہا کہ ہم ان کا پول کھولتے ہیں اور سول اند کو خبر دی کہ فلاں کنویں میں جس کو یہ جادو کہہ رہے ہیں وہاں کچھ ٹونے ٹوٹکے پڑے ہوئے نہیں جانتے دیکھے اور اور رسول کریم صحابہ کونے کہ گئے اور وہاں سے نکلوا کر دکھا دیے مگر ہرگز یہ ثابت نہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک اس کے نتیجے میں حضور کو دھول ہو ا تھا.اس سے پہلے دھول ثابت ہے اور یہ کہ یہودیوں

Page 46

نے شرارت کی تھی کہ ہم نے جادو کیا ہے.میں جنازہ پڑھنے کا مستر کئی مرتبہ اٹھایا گیا این اتو نے فرمایا.میں یہ بجھتی ہوں کہ جو لا إله إلا الله محمد رسول اللہ پڑھ لے وہ دل سے مسلمان ہے.اگر میں کلمہ پڑھتی ہوں اور میں مرجاؤں تو آپ میری نمازہ جنازہ پڑھنے کو کیوں تیار نہیں ؟ حضور کا جواب بہت منطقی اور قطعی تھا فرمایا غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کا مسئلہ آپ ہمارے علم کلام میں آج تک ایک جگہ بھی دوسرے مسلمانوں کے لئے غیر سلم کا محاورہ نہیں دیکھیں گے.ہر جگہ غیر احمدی مسلمان کا محاورہ چلتا ہے.نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے یا پیچھے نمازیں نہ پڑھنے کا مسئلہ ایک اسلام کے اندر رہتے ہوئے کفراً دون کفر کا مسئلہ ہے جس کو تمام دنیا کے علماء جانتے ہیں.جتنے بھی فرقے مسلمانوں میں گزرے ہیں.بلا استثناء ہر ایک نے یہ فتویٰ دیا کہ تمہاری نمازہ دوسرے کے پیچھے نہیں ہوگی اور اس کی نماز تمہارے پیچھے نہیں ہوگی.اس کے ساتھ تمہارا رشتہ جائز نہیں اور تم ان کے ساتھ رشتے نہ کرو.اور ایک بھی استثناء سارے عالم اسلام میں نہیں ہے اس کے باوجود ایک دوسرے کو غیر مسلم نہیں کہتے تھے.تو ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.اور کیوں نہیں پڑھتے ہمارے پیچھے کیا حکمت ہے وہ میں بتاتا ہوں.باقی علماء کا تو ایک مسلک فکر ہے جو ان کی تشریحات سے تعلق رکھتا ہے.ہم باقی سب سے اس معاملے

Page 47

میں الگ حیثیت رکھتے ہیں ہم یہ مانتے ہیں کہ جس امام نے آنا تھا وہ آچکا ہے اور امام خدا بناتا ہے.اگر آج یہ نہیں آیا اور کل وہ امام آجائے جس کا آپ انتظار کر رہی ہیں تو آپ کا بعینہ یہی فتوی ہو گا جو ہمارا فتویٰ ہے کہ جو بھی امام کا منکر ہو گا.اس کے پیچھے نہ آپ کی نمازہ ہوگی، نہ آپ کا نماز جنازہ ہو گا ، نہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں گی اور اس کے باوجود دوسروں کو غیر مسلم نہیں کہیں گے.یہ ہیں ogical Condusion منفی نیتوں جو ہم نکالتے ہیں اگر ہم اپنے ادھا میں دیانتدار ہیں کہ یہ شخص وہی امام ہے جس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی تو اس کے شکرین کے پیچھے ہماری نمانہ نہیں ہوسکتی.جس کو خدا نے امام بنایا ہو اس کے منکر کا نہ جنازہ جائز ہے نہ نماز جائز.لیکن دعا کرنی نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے یہ فرق ہے.باقی فرقے دعا کی بھی اجازت نہیں دیتے.ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے صرف عبادتوں سے روکا ہے.دُعا کی تلقین فرمائی ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی نوع انسان کے لئے دُعا کرتے تھے مشرکین کے لئے بھی دُعا کرتے تھے.بددعا نہیں کرتے تھے.تو ہم تمھی خوشی میں شریک ہوتے ہیں.دُعاؤں کی تلقین کرتے ہیں.قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہیں یا غیرمسلم تمام دنیا کے انسانوں کے لئے مسلمان کی دُعا پہنچنی چاہیے.مگر جنازے کا اور پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ امامت کے نتیجے میں ہمارے نز دیک جائز نہیں ہے اور ہم تمام دنیا کے مسلمان فرقوں سے پوچھ چکے ہیں اور آج آپ بھی پوچھ سکتی ہیں.ہر ایک کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر امام نہیں ہے.تو جب بھی امام آئے گا اس کے منکرین کے پیچھے اس کو ماننے والوں کی نمازہ نہیں ہو سکتی.نہ ان کے منکرین کی نماز جنازہ کی ان کو اجازت ہوگی لیکن صرف یہی نہیں حضور اکرم صلی ال علیہ وسلم کا مسلک تو یہ تھا کہ جولین دین میں کمزور تھا اس کی بھی نمازہ جنازہ

Page 48

نہیں پڑھتے تھے.ایک حدیث نہیں بکثرت احادیث سے ثابت ہے.وہاں مسئلہ یہ ہے کہ نمازہ جنانہہ فرض کفایہ ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ چند افراد بھی امت میں سے پڑھ لیں تو کافی ہو جاتا ہے اور ہر ایک کے لئے ہر ایک کا پڑھنا ضروری نہیں ہے.اسی بناء پر جماعت احمدیہ کا فتویٰ یہ ہے جس پر حال ہی میں عمل ہوا کہ امام کے انکار کی بناء پر ہم یہ طریق استعمال کر رہے ہیں.لیکن اگر کوئی ایسی صورت آجائے تو جماعت احمدیہ پر فرض ہوگا کہ اس کا جنازہ پڑھے.چنانچہ سویڈن میں یہ واقعہ ہوا کہ ایک ہوائی جہانہ کریش ہوا اور وہاں ہماری بیت الصلوۃ اور میشن تھا اور دوسرے مسلمان نہیں تھے.ہمیں علم تھا کہ احمدی نہیں ہیں مسلمانوں کی لاشیں نکلیں امام بیت الصلوۃ نے کہا کہ اگر ان کا جنازہ نہ پڑھا گیا تو امت محمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے چند لوگ ایسے ہونگے جو بغیر جنازے کے دفن ہوں گے.ہمارے اہام نے جو مجھ سے پہلے تھے انہوں نے فون کر وائے کہ فوری طور پر ان کا جنازہ پڑھو کیونکہ ہمارا مسلک اس قسم کا متشدد نہیں ہے جیسا کہ دوسرے مسلمانوں کا ہے.کوئی مسلمان بغیر جنازے کے دفن نہیں ہوگا.تو یہ ہمارا مسلک ہے اور اس کے پیچھے ہمارا ایک Logic ہے.

Page 49

۴۹ ایک خاتون نے تمانہ کے وقت گزرنے کے خیال سے کہا."نماز قضاء ہورہی ہے.پہلے نماز پھر اور کچھ حضرت صاحب نے نمانہ کے وقت کے متعلق فقہی مسئلہ سمجھاتے ہوئے فرمایا.نماز مغر کے وقت کی تعیین لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہمارا مسلک اور ہے، اور آپ کا مسلک اور ہے اور ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں لیکن یہ بالکل درست نہیں ہے.مسلمان حنفی فرقے، شافعی فرقے، خیلی فرقے ، ان سب فقہی سنی فرقوں میں اس بارے میں اتفاق ہے.کہ شفق شام مغرب کی نماز کا وقت ہے.لیکن شفق شام کیا ہے، اس میں نمایاں اختلاف ہے.اور مسلمان فقہی فرقے یہ کہتے ہیں کہ سُرخی شفق نہیں ہے بلکہ سفیدی شفق ہے.جب تک عشاء کی نمانہ کا وقت نہیں شروع ہوتا مغرب کا وقت رہتا ہے.چنانچہ کروڑوں مسلمان اس مسلک کے قائل ہیں.اور ہم بھی اسی مسلک کے قائل ہیں کہ نماز کا اول وقت ہے شفقت کا وقت جو سُرخی کا ہے.اور دوسرا وقت ہے سفیدی کا وقت اور صبح کی نمازہ سے ہم ثابت کرتے ہیں کہ شفق سفیدی سے شروع ہوتی ہے نہ کہ سُرخی ہے.تہجد کا وقت کب ختم ہوتا ہے.جبکہ پہلی سفیدی کی ہر ظاہر ہوتی ہے نہ کرسرخی کی لہر.اس لئے ہمارے نزدیک مغرب کا وقت موجود ہے.ہم جب نماز پڑھیں.گئے تو مغرب کی پڑھیں گے.اور ہم اکیلے نہیں ہیں اس ہیں.اہلحدیث اس کے خلاف ہیں لیکن تمام حنفی اہلحدیث کے علاوہ اسی مسلک کے قائل ہیں جس کے ہم قائل ہیں.آپ پوچھ پیچھے کسی صنفی عالم سے وہ کہتے ہیں، جب تک

Page 50

سورج غروب ہونے کے بعد سفیدی کی پہلی لیکر آسمان پہ ظاہر ہوتی ہے یعنی ان کے نزدیک شفق سفیدی کا نام ہے نہ کہ سُرخی کا نام.اس لئے میں تو اپنے مسلک کے مطابق کہہ رہا ہوں.مگر ہو سکتا ہے.آپ میں سے بعض اہلحدیث مسلک کی ہوں جو فوراً نماز پڑھنا ضروری سمجھتیں ہیں.سُرخی سے پہلے تو وہ ابھی نماز پڑھ سکتی ہیں اس لئے ہم مجلس کو ختم کر دیتے ہیں.اس کے بعد سوال مختلف نوعیت کا تھا.دیکھیں آج جب کہ دنیائے اسلام چاروں طرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی ہے، لوگ اسرائیل وغیرہ بہت مارے سے میں مسلمانوں کو.تو جب سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا.تو اس وقت وہ کسی پر ظلم نہیں برداشت کرتے تھے.آپ کیوں نہیں آواز اٹھاتے ؟ حضور نے وضاحت فرمائی اسرائیلی حکمت کے خلاف جماعت احمدیہ کی زیر ست تحریکات کیوں نہیں اُٹھائی آپ کو اس بات کا پتہ نہیں میں اس وقت صرف تین باتیں آپ کو بتاتا ہوں عوام الناس کی یادداشت بڑی کمزور ہوتی ہے.جب پہلی دفعہ فلسطینیوں کا مسئلہ پیش ہوا تو سب سے زیادہ پر شوکت شاندار اور پر قوت دفاع کس نے کیا تھا ؟ سر ظفر اللہ خان صاحب نے جو اس وقت کے وزیر خارجہ پاکستان تھے.ابھی اور سینے.وہ مضمون جو اسرائیل کیخلاف مدل اور مسلمانوں کے حق میں اور ان کو نصیحت پر مبنی جس نے تمام عالم عرب میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا.اور انہوں نے اعلان کیا کہ اس سے زیادہ شاندار دفاع مضمون کی

Page 51

اه شکل میں نہیں کیا گیا.اور وہ میرے والد (مرحوم) کا مضمون تھا جو خلیفہ ایسی اشتی تھے.جب میں خلافت کے لئے منتخب ہوا تو پہلا بیان میں نے جماعت کو یہ دیا تمام دنیا میں کہ ساری جماعت نماز تہجد میں دُعائیں کریں اور حتی الامکان کوشش یہ کریں کہ اسرائیل کا وجود کہ نیا سے ختم ہو.اور جو مظالم کر رہے ہیں ؟ یہ مسلمان اس سے نجات پائیں.چنانچہ ساری دنیا کی جماعتوں میں دعائیں کی گئیں.اور ہر جگہ جب بھی مجھ سے سوال ہوا باہر ، اسرائیل کے متعلق سب سے زیادہ مدلل جواب ہماری جماعت کی طرف سے میں نے ان کو دیا.تو یہ خیال کر لینا کہ ہم شامل نہیں یہ غلط ہے.رہا یہ سوال کہ پھر تم جہاد میں جا کر شامل کیوں نہیں ہوتے.جو عرب احمد ی ہے وہ شامل ہوتا ہے ، جو بغیر عرب ہے اس کو عرب دنیا شامل نہیں ہونے دیتی.اسی خاتون نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا.ان کو شکست کیوں نہیں ہوتی ؟ حضور ایدہ الودود نے فرمایا یہ میں پتا دیتا ہوں شکست ہونے کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک پلنگوئی کی تھی.اس پیشگوئی میں لکھا ہوا تھا.ایک ایسا وقت آئے گا کہ ہم یہود کو دوبارہ بیت المقدس پر قابض کر دیں گے.یہ قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے جئْنَا بك و لفيفا اے یہود تمہیں پہلے بھی بیت المقدس عطا ہوا اور تم نے

Page 52

۵۲ نافرمانیاں کیں اور سرکشی کی.ایسا وقت آنے والا ہے کہ ہم دوبارہ تمہیں بیت المقدس پر مسلط کریں گے.اور پھر جب تم دوبارہ بے حیائیاں اور مظالم کروگے تو ہم تمہیں اپنی عبرتناک سزا دیں گے کہ وہ ساری دنیا کی قوموں کے لئے ایک نصیحت بنے گی.یہ معدہ کا وعدہ ہے.اور ایک وعدے کا حصہ پورا ہو گیا ہے.اس لئے لازما وسرا بھی پورا ہوتا ہے.یہ تقدیر الہی ظاہر کریگی.کب یہ واقعہ ہو گا.یہ ہمیں نہیں کر سکتا.لیکن مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ہماری زندگیوں میں یہ واقعہ رونما ہو جائے گا لیکن ہماری لڑائیوں کے نتیجے میں نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس تقدیر کو چلانا ہے.ہو سکتا ہے کہ عالمی جنگ ایک ایسی شکل اختیار کر جائے کہ یہود کو شدید سزائیں میں مثلاً جرمنی میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے یہود کو سزائیں دی گئیں تھیں کہ نہیں.اتنی ہولناک سزائیں دی گئیں تھیں.کہ دنیا کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملیں.اس لئے آپ مایوس کیوں ہوتی ہیں جس خدا نے یہ تقدیر کی ہے کہ یہ یہاں آگئے ہیں وہی خدا دوسری تقدیر بھی چلائے گا انشاء اللہ تعالے.محترم مہمان نے سوال کا انداز بدلا.وہ تو صحیح ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ امام مہدی آئیں گے تو ان کو شکست دیں گے.ہم تو مانتے ہیں ناں.تو پھر آپ آئے ہیں تو پھر یہ کیوں چاروں طرف سے اسلام پر مظالم کر رہے ہیں ؟ حضور پر نور نے مہدی کے تصور کی وضاحت فرمائی.قومی ترقی کا راز جانی ومالی قربانیوں میں مضمر ہے

Page 53

۵۳ امام مہدی کے متعلق جو خونی مہدی کا تصور ہے ہم اس کو تسلیم ہی نہیں کرتے.ہم تو مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پینگوئیاں کی ہیں ان کے مطابق واقعہ رونما ہوگا.کبھی دُنیا میں ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ امام آئے قوم نہتی بیٹھی رہے اور امام تلوار پکڑے اور دنیا کو فتح کر کے قوم کے سپرد کر دے.آج تک تاریخ اسلام میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا.ہوتا یہ ہے کہ وہ دعوی کرتا ہے.لوگ اس کو مارتے ہیں کاٹتے ہیں گھر جلاتے ہیں ان کے ماننے والوں کے.انتہائی ظلم کی چکی میں وہ لوگ پیسے جاتے ہیں جس طرح سونا آگ میں پڑ کر کندن بنتا ہے.اسی طرح ان کے کردار کی تعمیر ہوتی ہے.وہ مظالم برداشت کرتے ہیں.اس کے باوجود پھیلتے چلے جاتے ہیں.ان کو قربانیوں کے بعد غلبہ عطا کیا جاتا ہے.قربانیوں کے بغیر تو کبھی غلبہ عطا ہی نہیں ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راستے کو اختیار فرمایا.ہمارے نزدیک اس راستے کے سوا اگر کسی اور نتھنے کا کوئی قوم انتظار کرتی ہے تو وہ اپنے خوابوں کی جنت میں بستی رہے.کبھی یہ واقعہ نہیں ہو گا.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کو کس طرح ہندہ کیا تھا احدمیں سے گزارا تھایا کہ یہ سے گزارا تھا، طائف سے آپ زخمی ہوتے ہوئے گزرے، کتے سکسی گلیوں میں آپ کے غلام گھیٹے گئے، ان کے اموال لوٹے گئے، ان کی بیویوں کو غیروں نے طلاقیں دیں ، ان کی اولاد کو ورثے سے محروم کیا گیا؟ ان کے بیج بند کئے گئے.یہ ہے Phenomena جو خدا کی طرف سے آنے والے کے مقدر میں ہے اور اس Phenomena سے جو قوم میز اور رضا کے ساتھ گزرتی ہے.وہ لازماً ایک دن غالب آجاتی ہے کبھی جلدی کبھی ذرا دیر کے بعد.مثلاً حضرت موسیٰ کو زندگی میں غلبہ عطا

Page 54

۵۴ ہوا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں غلبہ عطا ہوا لیکن قربانیوں کے دور سے گزرے بغیر نہیں ہوا.حضرت عیسی کو زندگی میں نہیں ہوا.ان کی قوم نے تین سو سال قربانیاں دی ہیں اور لیے دور کی قربانیوں کے بعد جب لوگ سمجھتے تھے ہم ان کو مخالفت سے مٹادیں گے، وہ بڑے ہو کر اُبھرتے رہے.ہمارے نزدیک آنے والے امام کو مسیح ابن مریم راسی وجہ سے کہا گیا ہے.یہ پیشگوئی تھی کہ جس طرح موسی کے مسیح نے لیے عرصے تک قربانیاں دی تھیں اور صبر و رضا کے ساتھ منتقل مزاج ہے، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں بھی ایک ویسا ہی سیج پیدا ہو گا جومشقتوں، مخالفتوں کے باوجود ثابت قدم رہے گا.اس کی قوم کے ساتھ وہ سارے سلوک کئے جائیں گے ، گھر جلائے جائیں گئے زندہ جلائے جائیں گے ، کافر کہلائے جائیں گے، ہر بات ہوگی لیکن ہر مخالفت کے بعد وہ پہلے سے بڑھ کر نکلے گی.اور رفتہ رفتہ اسلام کے غلبے کے اوپر منتج ہو جائے گا.یہ ہے ہمارا عقیدہ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہو رہا ہے.دنیا کے ہر ملک میں ہر مخالفت کے باوجود جماعت خدا کے فضل سے پھیلتی جارہی ہے.اس ملک میں ہم نے عظیم الشان قربانیاں دی ہیں.ہر دور میں ۱۹۵۳ ء میں بھی دیں ، ۱۹۳۳ ۱۹۳۴ء میں بھی دیں، ۱۹۷۴ء میں بھی.دیں اور اس کی تو آپ کو یاد بھی ہوں گی.ایک ایک گاؤں میں لوگ مارے گئے، جلائے گئے، مال لوٹے گئے، بیویاں چھینی گئیں ، بچے چھینے گئے پھر بھی ثابت قدم رہے، اللہ کے فضل سے نتیجہ کیا نکلا، کیا ہم کم ہو گئے ؟ کم نہیں ہوئے حکومت پاکستان کے نمائندہ جنرل چشتی نے بیان دیا تاء یا 19 میں اور وہ شائع ہوا تمام پاکستان کی اخباروں میں یا بعضا خباروں -1961

Page 55

میں.ان سے سوال ہوا کہ بتاؤ جماعت احمدیہ کے خلاف جو اتنے Measures لئے گئے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ نتیجہ یہ نکلا ہے ، ہماری Finding یہ ہے ہی رہ سے لے کر اب تک تبلیغ کے ذریعے 19 ان کی تعداد میں دس فیصدی اضافہ ہو چکا ہے.یہ ہے وہ نشان جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسیحیت کے نشان سے موسوم کرتے ہیں.انصاف کو اگر آپ چھوڑ کر باتیں کریں گے تو سارا نظام کائنات در ہم یہ ہم ہو جائے گا ؛ سارا مذہبی نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا.اسلام مذہبی آزادی کا سب سے بڑا علمبرار ہے انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ جو وہ کیسے کہ میرا مذہب ہے.وہی اس کا مذہب ہے.آپ اس کو حق دیں کہ وہ اپنے مذہب کا نام نخود رکھے اور دوسرے کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کے مذہب کا نام تبدیل کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہٹ کر اگر کوئی کرنا چاہے تو اس کی مرضی ہے.جس سنت کا ہمیں علم ہے وہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں.دو مواقع ایسے ہیں جو بڑے قطعی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لئے ایک راہنمائی فرما دی.ایک موقع تھا غزوہ ہو ر ہا تھا.ایک مسلمان صحابی نے بڑی مشکل سے ایک کافر پہلوان کو لتاڑا جو قابو نہیں آتا تھا اور بڑا نامور پہلوان تھا.جب اس کو قتل کرنے لگا تو اس نے کہا میں مسلمان ہوتا ہوں.اس لئے مجھے چھوڑ دو.اس نے کہا جھوٹ بولتے ہو.مرنے کا وقت آیا ہے تو جان بچانے کی خاطر ایسی کی تیسی تمہاری اور اس کو ذبح کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بڑے فخر اور

Page 56

۵۶ شان سے بنایا کہ یا رسول اللہ ! آج اس طرح واقعہ ہوا.اس طرح میں نے اس کو پچھاڑا اور آخر میں کہتا تھا میں مسلمان ہوں.میں نے کہا مجھے پتہ ہے تم جھوٹ بول رہے ہو اور میں نے اس کو ختم کر دیا.وہ کہتے ہیں کہ میں نے ساری زندگی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا پریشان نہیں دیکھا چہر قتا اُٹھا اور بار بارہ کہنے لگے.هَلْ شَعَتَتَ قَلْبَهُ - هَلْ شَعَمتَ قَلْبَهُ.کاش تم نے سینہ پھاڑ کے دیکھا ہوتا سینہ کیوں نہیں چاک کر لیا.معلوم تو کر لیتا سینہ کھول کہ کہ اندر سے بھی وہی تھا.جو باہر سے تھا یا کچھ اور تھا.اور پھر فرماتے ہیں اتنی بارہ فرمایا کہ بند نہیں کرتے تھے.یہ کلام کہتے چلے گئے کہتے چلے گئے.یہاں تک کہ میرے دل سے آواز نکلی کہ کاش اس سے پہلے کیں مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا کہ آنحضور کی اتنی ناراضگی نہ دیکھتا.یہ تو ہے اس جستہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا.ہر انسان کو حق دیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اعلان کرے اور اگر کوئی مسلمان کہتا ہے تو اس کو غیر مسلم قرار دینے کا حق آنحضور نے صحابہ سے چھین لیا ہے.اور موقع اتنا خطر ناک تھا کہ عام عقل بھی فیصلہ کرتی ہے کہ ڈر کے مارے کیا ہوگا اور دل سے نہیں ہوا ہو گا.دوسرا موقع ہے اس سے برعکس لیکن وہ بھی ایک بڑا حسین منظر ہے.جنگ بدر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے صحابہ کی ظاہری کمزوری کی حالت سب پر عیاں ہے.۳۱۳ ایک ہزار عرب جوانوں کے مقابل پر ان میں لنگڑے بھی تھے بوڑھے بھی تھے ، ایسے بھی تھے جن کے پاس لکڑی کی تلوار تھی.بچے بھی تھے جو ایڑیاں اُونچی کر کے کھڑے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ہمیں بچہ سمجھ کے نہ نکال دیں.یہ شکر تھا.اور اس وقت اچانک مُسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑی

Page 57

کہ ایک بہت زبر دست تلوار کا لڑنے والا نامی غرب جو کافر تھامسلمان نہیں تھا.وہ آیا ہے اور کہتا ہے میں تمہاری طرف سے ہو کہ کفار مکہ کے خلاف لڑوں گا.عام رد عمل یہ تھا کہ بہت خوشی کی بات ہے.ہم میں ایک اور طاقت آجائے گی.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان استغناء دیکھیں اور مقام تو کل دیکھیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادنی سا بھی اقتدار نہیں فرمایا.فرمایا ، مجھے تو کسی مشرک کی مدد کی ضرورت نہیں.میرا تو کل تو اپنے رب پر ہے اس لئے اس کو کہہ دو میں تمہیں اجازت نہیں دیتا.اس کو جب یہ بات پہنچی تو اس نے کہا میں مسلمان ہوتا ہوں.اب بظاہر وہ کوئی اعتبار والا وقت نہیں تھا.پہلے اصرار کر رہا ہے کہ میں بحثیت مشترک لڑوں گا.کیونکہ اس نے اپنے کچھ بدلے لیتے تھے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتے تھے کہ نہیں تمہارا یہ موقع نہیں ہے.میں تم یہ اعتبار نہیں کرتا.لیکن فور تسلیم کر لیا.تم کہتے ہو کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں.تو میں مانتا ہوں کہ مسلمان ہو.اس لئے کہ یہ فیصلہ خدا نے کرنا ہے.کسی بندے کے ہاتھ میں خدا نے یہ تقدیر دی ہی نہیں کہ وہ بیٹھے اور فیصلہ کرے.یا قیامت کے دن کوئی جیوری بیٹھی ہو گی اللہ تعالے کے ساتھ علماء کی جو فیصلے کریں گے کہ نہیں میں سلمان ہے ، یہ غیر مسلم ہے.صرف خدا کی ذات ہے اور کوئی ذات نہیں ہے.جو فیصلہ کر سکتی ہے ، جو دلوں کا حال جانتی ہے.اسی لئے نہ قرآن نے حق دیا ہے کسی کو غیر مسلم قرار دینے کا نہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حق دیا ، نہ ساری زندگی یہ حق استعمال کیا.تو یہ فیصلہ ڈیمو کریسی کے نام پر اگر کسی کو قبول ہے.تو شوق سے کرے.ہم تو تاریخ مذہب سے یہ فیصلہ دیتے ہیں اور اس کے سوا تاریخ مذہب کا کوئی فیصلہ ہی نہیں ہے.

Page 58

۵۸ اگلے پرچے کا سوال حضور نے پڑھا کہ آپ حج کیوں نہیں کرتے ؟ حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہر نیکی کا ثواب ملتا ہے حج سب سے پہلے تاریخ میں جانتی ہیں کس پر بند ہوا تھا ؟ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حج بند کیا گیا تھا.وہ وجود جس کی خاطر در حقیقت خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی ہے اس میں سب سے زیادہ عبادت کا حق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے.آپ کا حج بند کیا گیا اور قرآن کریم یہ گواہی دیتا ہے کہ حج بند ہونے پر سب سے زیادہ حج جو قبول ہوا ہے وہ وہ تھا جو آنحضرت نے نہیں کیا.سورۃ الفتح میں تفصیل موجود ہے اور اس کی گواہی موجود ہے.احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے اور کسی فرقے کا کوئی اختلاف نہیں صحابہ کرام اس بات پر اصرار کر رہے تھے، بلا استناد کر یا رسول اللہ یہ تھا رانج روکتے ہیں اہم زبر دستی بج کر کے دکھا ئیں گے، ہماری قربانیاں قبول کیجیئے اور ہو نہیں سکتا کہ آپ کی رویا قبول نہ ہو.اس لئے ہم حاضر ہیں ہمیں اجازت دیں.جس طرح منہ زور گھوڑے کی باگیں تھا منی پڑتی ہیں.اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و استقلال سے ان کو روکے رکھا.اس قدر غم تھا صحابہ میں اس قدر جوش تھا کہ روایت آتی ہے کہ جب رسول اکرم نے یہ فیصلہ کیا کہ یہیں قربانیاں دے دی جائیں اور وہاں نہ جائیں تو ایک بھی صحابی نہیں اُٹھا.جو اطاعت کے میلے تھے اور آگے بڑھ کرم نہوں نے قربانیاں نہیں دیں.تب امہات المومنین میں سے ایک جو ساتھ تھیں.

Page 59

۵۹ انہوں نے مشورہ دیا کہ یا رسول اللہ ! یہ غم سے نڈھال ہو گئے ہیں، ان کے دماغ کے اندر سوچنے کی بھی طاقت نہیں رہی، آپ اُٹھیں اور قربانی دیں؟ پھر دیکھیں یہ کیا کرتے ہیں.تو رسول اکرم نے قربانی دی تو سارے صحابہ پک پڑے اور قربانی دی.یہ وہ منظر ہے کیونکہ حضور اکرم نے زبر دستی حج نہیں کیا.اس لئے کہ قرآن کریم نے حج کی یہ شرط رکھی ہوئی ہے کہ راستے کا امن مہیا نہ ہو تو حج نہیں کرنا.اور حضور اکرم سے بڑھ کر فلسفہ شریعت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا.آپ جانتے تھے کہ ثواب اور تقویٰ اور نیکی اللہ کی اطاعت کا نام ہے نہ کہ زیرہ دستی خدا کو خوش کرنے کا نام ہے.اس لیئے قرآن کریم میں عائد کردہ شرطا جب تک موجود ہے.اس وقت تک کسی کو حج کرنے کی قرآن اجازت نہیں دیتا.یعنی زبر دستی جس کو روکا جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رک جاؤ پھر ہم جانیں اور تمہارا معاملہ ہمارے ساتھ ہے.ہمارے نزدیک تمہارا حج بغیر کئے بھی قبول ہو سکتا ہے.یہ بات میں نے کہاں سے نکالی.یہ قرآن کریم میں ہے.سورۃ الفتح میں اللہ تعالیٰ رسول کریم کی حج کی قبولیت کی دو علامتیں بیان فرماتا ہے کہ عام حج تو یہ ہوتے ہیں.کہ حج سے پہلی زندگی کے سارے گناہ بخشے جاتے ہیں.لیکن یہ حج جو نہیں کیا گیا تھا بظاہر خدا کی رضا کی خاطر، فرمایا یہ ایسا ہے کہ پہلے گناہ بھی بنتے گئے.اور آئندہ کے گناہ بھی بنے گئے اس سے بھی بڑا کبھی دنیا میں حج ہوا ہے کہ بظاہر نہیں ہوا اور پہلی زندگی پر بھی حاوی ہو جائے اس کی برکت اور آئندہ زندگی پر بھی عادی ہو جائے، اور تمام بیعت رضوان کرنے والوں کے لئے جنت کی خوش خبری دے دے.پس اصل ظاہر پرستی میں کوئی دین نہیں.اللہ تعالیٰ کی اطاعت

Page 60

اور اس کی شرائط کو پورا کرنے کا نام دین ہے.محترم بہن نے دوسرے الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا وہاں مقابلہ تھا مسلمانوں کا اور کافروں کا اور یہاں ایک طرف آپ دوسری طرف مسلمان ہیں ! حضور نے فرمایا.احمدیوں کو حج سے روکنا بڑی خوش آئند بات ہے موجودہ حکومت جس نے ہمارا حج روکا ہے.اس سے پہلے شریف مکو نے ان کا روکا ہوا تھا.وہ مسلمان تھے.تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ ان کا داخلہ بند تھا.یعنی Ban تھا.اور شریف مگر جب تک رہے.وہ شرفاء کا خاندان انہوں نے ان کو کافر مرتد قرار دے کر جس طرح آج ہم سے سلوک کیا جارہا ہے، ان کا خانہ کعبہ میں داخلہ روک رکھا تھا.مدتوں یہ سلسلہ جاری رہا.اللہ تعالے کی خاطر جو زبر دستی رو کے جاتے ہیں.اللہ تعالے بالاخر ان کو لازما کامیاب کرتا ہے.یہ ہے ت تاریخ تجو ہمارے سامنے unfold ہو رہی ہے.اور ہم یقین رکھتے ہیں خدا کے فضل سے کہ جب آنحضرت کو روکا گیا.تو خانہ کعبہ آپ کے سپرد کیا گیا.اور اب احمدیوں کو روکا گیا.یہ تو ہمارے نئے خوش آئند بات ہے.سعودی عرب وہ سختی نہیں کرتا جو پاکستان میں ہو رہی ہے.چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے احمدی، احمدی کہلا کہ نہ صرف سعودی عرب میں گئے بلکہ حج کرنے کی ان کو اجازت دی گئی.چند سال پہلے نائیجریا کے وفد کا لیڈر

Page 61

احمدی تھا.حکومت سعودی عرب کی ایمبیسی نے یہ اعتراض کیا کہ ہم تو احمدیوں کو اندر نہیں آنے دیتے اور یہ احمدی ہے.نائیجیرین گورنمنٹ نے کہا کہ اپنے وند کا لیڈر بنانا ہمارا کام ہے.تمہارا کام نہیں.تم و قد کو کینسل کرنا چاہتے ہو کینسل کر دو.لیکن یہ وفد اسی طرح جائے گا.اور سعودی عرب نے تسلیم کیا.اور وہ حج کا لیڈر احمدی تھا.انگلستان سے ہندوستان سے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے احمدی کم از کم سینکڑوں نہیں تو بیسیوں جاتے ہیں.اور سعودی عرب قبول کر لیتا ہے.ہمارے معاملے میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان گورنمنٹ تمہیں منظور نہیں کرتی تو ہم کس طرح کر لیں.یہ صورت حال ہو رہی ہے.وہاں احمدی ملازم ہیں اور سعودی عرب کی حکومت کو پتہ ہے.انہوں نے بتایا ہوا ہے.وہ شہزادوں کو لے کر ربوہ بھی آئے ہیں.انگلستان میں ہماری بیت الصلوۃ میں ہے کہ آئے ہیں.سوئٹزر لینڈ میں ہماری بیت الصلوۃ میں لے کر آئے ہیں.کون کہتا ہے کہ ان کو پتہ نہیں کہ احمدی ہیں.میں نے خود ان سے گفتگو کی ہوئی ہے.اس لئے یہ آپ کا خیال غلام ہے.خواتین کی محافل میں جنوں کی حقیقت پر ضرور سوال ہوتا ہے.ایک بہن نے پوچھا.قرآن کریم کے الفاظ الجن ولانس میں حرف "و" جو استعمال ہوا ہے اس وکا مطلب تو اور ہے لیکن آپ لوگ کہتے ہیں جن اور انسان ہیں کوئی فرق نہیں.اگر ایسا ہے تو اس میں لفظ میں ہونا چاہئے تھا.وضاحت کیجئے؟ حضور ایدہ الودود نے فرمایا.

Page 62

41 لفظ جن کا حقیقی اور معنوی اطلاق دونوں لفظ ہیں "و " والا بھی ہے اور مین والا بھی ہے.جماعت احمدیہ کا یہ موقف نہیں ہے.کہ انسان کے علاوہ جن نام کی کوئی مخلوق نہیں ہے.یہ موقف بالکل نہیں ہے.جماعت احمدیہ کا موقف یہ ہے کہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ جن کا لفظ الگ مخلوق پر بھی عائد ہوتا ہے اور انسانوں پر بھی عائد ہوتا ہے وہاں معنوی ہے.اور دوسری جگہ حقیقی ہے.کیوں ! مختصراً بتاتا ہوں.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہڈیوں سے استنجا نہ کرو، ہڈیاں جنوں کی خوراک ہے.اس زمانے میں تو بیکٹیریا کا تصور بھی کوئی نہیں تھا.آج معلوم ہوا کہ ہڈیاں بیکٹیریا کی خوراک ہے.اور اس سے واقعہ Injury ہو جاتی ہے.یعنی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں تو آنحضرت کو اللہ تعالے نے کسی مخلوق کی خبر دی تھی جو مخفی ہے.اس کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں ایک شکل بیکٹیر با لینی ایسی زندگی کی قسمیں جو آنکھ سے نظر نہیں آئیں.جن کا لفظ ہر مخفی مخلوق کے لئے عربی میں بولا جاتا ہے.اور عربی ڈکشنریاں اس کی بکثرت مثالیں دیتی ہیں.مثلا قرآن کریم میں جان کا لفظ سانپ کے لئے استعمال کیا.اور عربی میں جن سانپ کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ چھپ جاتا ہے.بلوں میں رہنے والی مخلوق ہے.جن کا لفظ پہاڑی قوموں کے لئے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا.جن کا لفظ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے قبضے میں بھی جو قومیں دی گئیں تھیں ، ان کے لئے بھی قرآن کریم نے استعمال فرمایا.

Page 63

۶۳ حالانکہ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا.مقرنِينَ فِي الأَصْفَاه - وه زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے.اگر وہ جسمانی جن نہیں تھے.اور روحانی چن تھے ، وہ تو زنجیروں میں نہیں جکڑے جاتے.دوسری جگہ اسی آیت کے شروع میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ غوطے لگاتے تھے سمندر میں.تو اگر وہ آگ تھی تو آگ تو غوطے سے ختم ہو جاتی ہے.تو قرآن کریم میں جن کا لفظ متفرق جگہ مختلف معنی میں استعمال فرمایا.مثلاً سورۃ رحمان میں فرماتا ہے.يمَعْشَرَ الجن والان اِنِ اسْتَطَعْتُمْ آن ات تَنْفُذُوا مِنْ أَقَطَارِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُواء لا تَنْفُذُون الا بسلطنه (سوره رحمت: ۳۴) اسے معشر الجن والانس تم اگر چاہتے ہو کہ تم آسمان اور زمین کی قطاروں سے نکل جاؤ تو نکل کر دکھاؤ.سلطان کے بغیر نہیں نکل سکو گئے.یہاں کیا معنی ہیں.جن جو دوسرے ہیں یعنی کوئی اور وجہ رہے انسان کے علاوہ ہمارے نزدیک وہ مخاطب ہی نہیں ہیں.کیونکہ عربی محاورے سے ثابت ہے کہ جن بڑی قوموں کو بھی کہتے ہیں.غالب اور عظیم الشان لوگوں کو بھی بولا جاتا ہے.لیکن بعض اوقات عوام الناس کے لئے عربی میں صرف ناس کا لفظ آتا ہے.تو مخاطب یہاں اے بڑے لوگوں کے معشر اور اسے چھوٹے لوگوں کے معشر یارے Capitalist طاقتوں کے نمائندو ، اور اے عوامی طاقتوں کے نمائندو.یہ ترجمہ اس کا سو فیصدی درست بیٹھتا ہے.اور واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ مراد تھی.کیونکہ یہ کوشش اب شروع ہوئی ہے.آج کے زمانے میں جب کہ دنیا عوامی طاقتوں اور Capitalist بورژوا طاقتوں میں بٹی ہے.تب یہ ہوئی ہیں.اور قرآن کریم ان کو اٹھا چانچ کر رہا

Page 64

ہے.یہ ہم ترجمہ کرتے ہیں تفسیری! اب سنئے سورۃ الناس اس میں من والا محاورہ آجاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ النَّاسِ کا سارا ذکر چل رہا ہے.الناس کا کرب الناس كا مالك ، الناس الله مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنّاس کی تشریح کی مِنَ الجَنَّةِ وَالنَّاس.تک الناس چلا.صُدُورِ الناس کی تشریح کی.مِنَ الجَنَّةِ وَالنَّاس.الناس دو قسموں کے ہوں گے.الناس میں سے جن اور الناس میں سے الناس یہ تو قرآن کریم نے اتنا مضمون کھول دیا ہے کہ خود جو آپ نے مین کے لفظ کا مطالبہ کیا تھا.وہ کھل کر بیان فرما دیا کہ جب ہم کہتے ہیں کان اس میں وہ وسوسہ چھونکے گا تو مراد یہ ہے کہ الناس کے دونوں گروہوں میں الناس میں سے بڑے لوگوں میں بھی اور الناس میں سے عوامی طاقتوں میں بھی مراد یہ تھی کہ آخری زمانہ میں ایسے فتنے پیدا ہونے والے ہیں جن معنوں سے خدا سے متنفر کیا جائے گا.یہ بڑی capitalist طاقتوں میں بھی فتنے کر نکالیں گے اور دہریت کی طرف لے کر جائیں گے.تو ان اس کی تشریح مِنَ الجُنَّةِ والناس کہہ کر سارے مضمون کو کھول دیا.اگر کوئی احمدی خاتون کہتی ہے.کہ انسان کے سوا جن کا کوئی وجود نہیں تو غلط کہتی ہے.اگر وہ یہ کہتی ہے کہ وہ بھی ہو گا لیکن جن انسانوں کے لئے بھی قرآن کریم نے استعمال کیا ہے تو وہ درست کہتی ہے.

Page 65

ایک دوسرا سوال ہوا.قرآن کریم میں سحر کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن آپ لوگ جادو کو کیوں نہیں مانتے ؟ حضور پر نور نے فرمایا.جماعت احمدیہ ٹونے ٹوٹکے کی قائل نہیں جو قرآن نے تشریح کی ہے اس کے مطابق مانتے ہیں.دیکھیں ہمارا مسلک بالکل واضح ہے اور اس میں ایک روشنی ہے خدا کے فضل سے.ہم کہتے ہیں کہ جو محاورہ قرآن اور حدیث میں استعمال ہوا ہو اس کا ماخذ ہی روشنی کا ماخذ ہے.اور محاورہ اگر قرآن کریم سے ثابت ہو جائے کہ اس کا یہ معنی ہے تو اس میں انسان اپنی طرف سے جب معنی ڈالے گا تو وہ معنی بگڑ جائیں گے.چنانچہ سحر کا لفظ قرآن کریم نے حضرت موسی اور فرعون کے مقابلے کے وقت استعمال فرمایا.ایک طرف جادوگر تھے ایک طرف حضرت موسی تھے.جادوگروں نے رسیاں پھینکیں اور بظاہر سانپ بنا دیا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.انہوں نے جادو کیا مگر کیا جادو تھا ؟ فرماتا ہے سَحَرُوا العَنَ النَّاسِ اُنہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا.پھر فرماتا ہے.ان کے لئے یادہ خیال کرنے لگے کہ وہ سانپ ہیں.حالانکہ وہ رسیاں کی رسیاں رہیں.تو جادو کی حقیقت جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے اس کو Modern Terms میں مسمریزم کہتے ہیں.اسینَ النَّاسِ کو ایسا دھوکہ دے دینا جس کے نتیجے میں حقیقت اگرچہ وہی رہے مگر وہ تبدیل شدہ شکل میں نظر آئے.یہ ہے قرآن کریم میں مبینہ جادو.دنیا کا کوئی احمدی اس جادو کا انکار نہیں کرتا.لیکن جہاں ٹوٹے

Page 66

ٹوٹکے اور قسم کے ہیں.ان کا قرآن سے ثبوت ہی نہیں ملتا.ہم ان کو کیوں تسلیم کریں گے.حضور نے اگلا سوال پڑھ کر جواب دیا.یہ بہت دلچسپ سوال ہے.کہتے ہیں آپ لوگوں نے یہ بات کب محسوس کی کہ مرزا صاحب مہدی ہیں ؟ گویا آہستہ آہستہ محسوس ہوا ہے ہمیں کہ مہدی مرزا صاحب ہیں.مہدی منجانب اللہ مامور زمانہ ہے مہدی احساسات سے نہیں بنے گا.مہدی تو وہی ہوگا جس کو خدا تعالے واضح طور پر فرمائے کہ میں تجھے مہدی کہتا ہوں.تو یہ ساری باتیں سُن کر پھر وہ سوال اپنی جگہ کا اپنی جگہ کہ ہا کہ مہدی محسوس کریں گے آپ ! یہ تو ویسی ہی بات ہے جس طرح زلیخا کی کہانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ساری رات کسی بے چارے نے زلیخا کی کہانی سنائی تھی کسی کو ! اور جب صبح ہوئی تو اس نے سوال کیا کہ زلیخا عورت تھی کہ مرد تھا.تو مجھ سے ان خاتون نے وہی بات کی ہے.میں تو کہہ رہا ہوں کہ احساسات کا مہدی کی ماموریت سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس کے ماننے والوں کے احساس کا نہ اس کے احساس کا.مہدی صرف وہی ہوگا برحق جس کو اللہ کھڑا کرے گا اور اللہ حکم دے گا کہ میں تجھے امام مہدی بناتا ہوں.اور اس کے بغیر تو ویسے بھی کوئی ہمت نہیں کر سکتا.دیکھیں غور کریں جس کو خدا کھڑا کرتا ہے اس کو کھڑا ہوتے ہی مار پیرنی شروع ہو جاتی ہے

Page 67

یہ تو مسلمہ بات ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے کوئی ایک آپ بتا سکتی ہیں کہ جس کے دعوے کے ساتھ ہی ساری عورتیں نہ چھین لی گئیں نہیں اور شدید مار نہ پڑی ہو.تاریخ عالم میں سے ایک نکال کے بتا دیں.ایک بھی نہیں.تو یہ مسلم بات ہو گئی کہ جب خدا کسی کو کھڑا کرتا ہے تو اسی دن سے اُسے خوب مار پڑنی شروع ہو جاتی ہے.تو وہ ہم پر کون مار کھا سکتا ہے بے چارہ ! اس کو تو حوصلہ چاہیے.اس بار کے باوجود مٹ نہ سکے، مار کے باوجود زندہ رہے.قتل ہونے کے باوجود ان کے ماننے والوں.کے نفوس میں برکت ہوتی چلی جائے.مال لٹوانے کے باھر خود اللہ تعالے ان کے اموال میں برکت دیتا چلا جائے یہ معجزہ جب تک خدا کی تائید کانہ ہوا اور واضح نہ ہو محض احساس سے کون کھڑا ہو سکتا ہے ، جرات بھی نہیں کر سکتا ہے.کوئی پاگل کھڑا ہوتا ہے تو پھر لوگ مٹا بھی دیتے ہیں اس کو اور اس کی کوئی تائید اس کے کام نہیں آتی.کہانی بن جاتا ہے ، قصہ ہو جاتا ہے.کتابوں میں اس کے نام ملتے ہیں.خدا جس کو کھڑا کر تا ہے واضح طور پر کھڑا کرتا ہے اور پھر تائید کرتا ہے اور نہیں مٹنے دیتا.یہ ہے مکمل مضمون جس میں آپ یہ استثناء نہیں دیکھیں گے.التی تائیدات حضر میں صاحب کے بچے ہونے کی دلیل ہے حضرت مرزا صاحب کے متعلق احساسات کا کیا تعلق ہے.آپ یہ دیکھیں کہ کتنے امام مہدی کے دعویدار پہلے بھی آچکے ہیں کہاں ہیں ان کے ماننے والے ؟ جس طرح پھول کتابوں میں ملتے ہیں.یہ وہ کانٹے ہیں جو کتابوں میں ملیں گے آپ کو ! کوئی ان کا سلسلہ باقی نہیں رہا کوئی نظام دنیا میں

Page 68

47 قائم نہیں ہے.ایک جھٹکے میں قوم نے انہیں اتار کر پھینک دیا، اور ڈلیل کرکے رسوا کر دیا، تاک میں ملا دیا.کچھ دیر شہرت بھی حاصل کی لیکن مٹ کے ختم ہو گئے.ایک ہی دعویدار ہے ساری دنیا میں امام مہدی کا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ر آپ پر سلامتی ہو، جس کے سلسلے کو ہر کوشش مٹانے میں ناکام رہی اور ہر نا کام بنانے والی کوشش کے بعد وہ بڑھا ہے پہلے سے ! ء کے بعد اس کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا.ان کی قوت میں اضافہ ہوا.190 ء میں بھی بالکل یہی نتیجہ نکلا.۱۹۷۴ء میں بھی یہی نتیجہ نکلا.اور آج سارے علماء جو میری گردن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں یہی کہ رہے ہیں کہ یہ آیا تو اور جارحیت آگئی ہے اور زیادہ تیزی سے پھیلنے لگ گئے ہیں.ان کا تو علاج وہی کرو جو پہلے لوگ کرتے آئے تھے.قتل و غارت کر دیا وطن سے نکالو.ورنہ ان لوگوں نے پھیلنے سے رکنا ہی نہیں.مخالفتوں کی معمول پر خطر راستوں گزرنا مامور زمانہ کا مقلد ہوتا ہے جتنی بڑی مخالفت کوئی کرتا ہے بچے امام کی اس کے نتیجے میں وہ پھیلتا ہے اور جب تک خدا کی تائید واضح قطعی سامنے نہ ہو احساسات سے کس طرح کوئی قوم بیچ سکتی ہے.اس لئے یہ بات جھوٹ ہے کہ امام مہدی کا دعونی بیڑا آسان کام ہے.یہ تو سب سے مشکل کام ہے.آسٹریلیا میں میں بیت الصلواۃ کی تعمیر کے لئے گیا تھا.وہاں میں نے یونیورسٹی آف کینبرا میں ایک لیکچر دیا.اس کے بعد سوالات ہوئے تو آسٹریلین یونیورسٹی کا ایک طالب علم بہت دلچسپی لینے لگ گیا.سوالات میں حضرت

Page 69

۶۹ عیسی کی زندگی موت کا بھی سوال تھا.میں نے بائیبل سے ثابت کیا کہیں نے کہا وہ تو قوت ہو گئے ہیں، تم کیس کا انتظار کر رہے ہو؟ توہ باہر نکل کر موٹر تک میرے ساتھ آیا اور مجھے اس نے کہا یہ تو میں سمجھ گیا ہوں، مجھے یقین ہو گیا ہے کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں، اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ نیا ان کی مثال پر کوئی اور آئے گا تو شاید میں کیوں نہ ہوں.یہ مجھے سمجھائیں کہ میں ہو سکتا ہوں کہ نہیں.میں نے کہا جہاں تک گھلے عقلی امکان کا تعلق ہے کوئی بھی ہو سکتا ہے ، خدا نے بنانا ہے.اگر حضرت مرزا صاحب نہیں ہیں تو پھر کوئی بھی ہو سکتا ہے.اس نے کہا پھر یہ کیوں نہ ہو کہ میں ہی ہوں شاید ! ہمیں اس طرف کیوں نہ توجہ کروں بجائے مرزا صاحب کے جو غیر ملک کا آدمی تھا تو میرے لئے تو آپ نے راستہ کھول دیا ہے.نہیں نے کہا ایک دستہ کھول بھی دیا ہے لیکن اس رستے کے اوپر جو آپ پر گورے گی وہ میں بتا دتیا ہوں.پہلے میچ سے جو سلوک ہوا وہ تو آپ کو پتہ ہے کہ کیا ہوا تھا اور اس بیچ سے جو ہوا وہ ہمیں بتا دیتا ہوں.اب بتائیے کیا خیال ہے.میں نے تھوڑی دیہ بتایا کہ احمدیوں سے کیا ہو رہا ہے خود اپنے وطن میں اور دوسرے ممالک میں کیا ہوا ہے اس نے کہا اچھا بیج کے دعوے کے ساتھ یہ چیز یں بھی لگی ہوئی ہیں میری تو یہ میں نے نہیں بیج بننا کبھی ساری زندگی یعنی گویا خدا بنا رہا ہے اس کو اور وہ کہتا ہے میں نے نہیں بننا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ نے کھڑا کیا تھا تو آپ نے وہ روایت پڑھی ہو گی.آپ کانپ رہے تھے بڑی شدید سردی لگ رہی تھی ؟ اور بے انتہا کرب اور بے چینی تھی کہ کیا ہونے والا ہے، میرے ساتھ

Page 70

6.کیا واقعہ ہو گیا.اور حضرت خدیجہ نے جب اپنے کزن کو بلایا اور کہا کہ ان کو بتاؤ وہ مذہبی کتب کے کافی عالم تھے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے کہا کہ تناؤ مجھے خود سناؤ کیا واقعہ ہوا کس طرح فرشتہ رونما ہوا ہے کیا اس نے کہا ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ساری بات سنائی تو ان کا جواب گئیں.انہوں نے کہا کہ ایک وقت آئے گا جب تیری قوم تجھ سے بہت بدسلوکی کرے گی تجھے اپنے وطن سے نکال دے گی اور شدید ظلم تیرے ماننے والوں پر توڑے جائیں گے.کاش میں اس وقت زندہ ہوں اور میں بھی تیزی خاطر وہ دکھ اٹھانے والوں میں شامل ہوں اور میں بھی تیرے آگئے اور پیچھے مدد کر رہا ہوں.جب یہ بات سنی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اتنا معصوم تھا کہ آپ نے فرمایا کیوں میں نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے کسی سائیں نے کون سا رکھ دیا ہے کسی کو کہ قوم میرے ساتھ ایسا سلوک کرے گی.انہوں نے کہا اے محمد یہ ہمیشہ سے مقدر ہے.خدا کے ہر پیارے سے جو خدا کی خاطر کھڑا ہوتا ہے.ایک کام یہ اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے.اس لئے کوئی استثناء نہیں.اور پھر جب نبوت آگے بڑھتی ہے تو آپ کو پتہ ہے کیا سلوک ہوئے تو یہ کوکیسے سکتا ہے کہ خدا نے یہ کروانا ہو اس کے ساتھ اور صرف وہم پر ہی سلسلہ چل رہا ہو اور احساسات پر ہم اس لئے امام مہدی مانتے ہیں کہ اللہ تعالے نے واضح طور پر آپ سے کلام کیا اور فرمایا میں تجھے امام بناتا ہوں زمانے کا تو وہی امام مہدی ہے جس کی خبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور اس کا ظاہری ثبوت یہ نکلا کہ اس دعوے کے ساتھ ہی ساری قوم نے آپ کو چھوڑ دیا.اپنے بیٹوں نے انکار کر دیا.

Page 71

دو بیٹے موجود تھے.اپنے خاندان والے دشمن ہو گئے.وہ شخص جس کے اوپر سارے ہندوستان کی نظریں تھیں اور بعض صوفیاء اور بزرگ یہ کہا رہے تھے کہ ہم مریضوں کی ہے تم ہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے جس دن یہ دعوی کیا ہے کہ خدا نے مجھے کہا ہے اس دن ساری قوم چھوڑ بیٹھی.دجال، قتل کے فتوے ، سب سے بڑا مفتری لوگ یہ ساری باتیں قرار دینے لگ گئے.اس لئے یہ واضح ہے جب خدا فرماتا ہے اسی وقت ہمت عطا ہوتی ہے ورنہ ہو ہی نہیں سکتی.اور اگر کوئی پاگل پن میں کرتا ہے تو پھر وہ مٹ جاتا ہے.یہ دونوں باتیں حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) کی سچائی کی دلیل ہیں.اس سوال پر کہ کی کوئی اور بنی آسکتا ہے؟ حضور نے فرمایا.متی بھی آسکتا ہے لیکن ہیں جس کی خبر آنضرت صلی الہ علیہ سلم نے دی ہو میں نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی اور امام مہدی قرآن کریم کی رو سے ہم معنی لفظ نہیں.امت محمدیہ میں اگر کوئی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل غلامی کرے تو عقلاً یہ امکان گھلا ہے کہ امتی نبی آجائے لیکن وہی آئے گا

Page 72

جس کی خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہو.جس کی خبر حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم نے نہ دی ہو وہ کیسے سچا ہو گا.اس لئے کون آئے گا، کتنے آئیں گے، اس کا فیصلہ مجھے یا آپ کو کرنے کی ضرورت نہیں.اس کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو کرنے کا حق نہیں کیونکہ آپ قیامت تک کے رسول ہیں.قیامت تک کی اہم خبریں اللہ تعالے نے آپ کو عطا فرمائیں اور یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا نے دین امتی نبی بھیجنے ہوں اور صرف ایک کی خبر دے.اس لئے عقلاً امکان اور چیز ہے.واقعتا کتنے آئیں گے یہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر فیصلہ نہیں ہو سکتا.اور آپ نے ایک امام مہدی کی خبر دی ہے یہ تو ہمیں علم ہے اور ہم ایک کو مان بھی بیٹھے ہیں.اس لئے کل کو اگر کسی نے دعوی کیا تو جماعت احمدیہ اس سے پوچھے گی کہ ہم نے پہلے کو تو اس لئے مانا تھا کہ اس کے متعلق آنحضور کی خوشخبریاں تھیں.اگر تم بہتے ہو تو وہ خوشخبریاں دکھاؤ ہم تمہیں بھی مان لیں گے.یہ ہمارا مسلک ہے.اس مسلک میں کوئی دھوکہ کھانے والی بات نہیں ہے.کوئی غلطی اور ٹھوکر کا امکان نہیں ہے.خدا کی طرف سے جب کوئی آنے کا دعویٰ کرتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ پتہ کریں کہ کیا بات ہے.اگر وہ سچا ہو گا اور امت محمدیہ میں ہوگا تو لاز کا حضور اکرم کی سند اس کو دکھانی پڑے گی.ساری بحث اس پر چلے گی.

Page 73

ایک خاتون نے پوچھا آنحضور خاتم النبیین ہیں تو پھر آپ امام مہدی کو کیسے نبی مانتے ہیں ؟ حضور نے فرمایا.قام انہیں نے اپنے بعد آنیوالے کی خود بشارت دی ہے یہ سوال تو پہلے بھی ہو چکا ہے کہ خاتم النبیین جب رسول اکرم ہیں تو پھر آپ کیسے امام مہدی کو نبی مانتے ہیں.سوال یہ ہے کہ آیت خاتم النبیین جس رسول پر نازل ہوئی جس کی شان میں نازل ہوئی، اگر وہ خود جس پر نازل ہو رہی ہے.وہ پیشگوئی کرے کہ میرے بعد ایک نبی اللہ آئے گا اور مسلم کی حدیث چار مرتبہ آنے والے کو نبی اللہ کہے تو جن معنوں میں آنحضور ینی اللہ فرماتے ہیں ، ان معنوں میں مانے بغیر چارہ ہی نہیں.اور یہ ماننا ضروری ہوگا کہ ان معنوں میں بنبی ماننا آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے.دوسرا میں پہلے بھی بار بار ذکر کر چکا ہوں کہ امام مہدی کا آپ کا تصور بھی نبی والا ہی ہے.اسلئے نبی نام سے بلانے سے کیا فرق پڑ جاتا ہے.اپنے عقیدے کو کھنگالیں یہ معلوم کریں پہلے اچھی طرح کہ جس امام مہدی کی آپ منتظر ہیں.اس میں یہ دو صفات نبیوں والی ہوں گی یا نہیں.یعنی خدا اس کو الہاما کھڑا کرے اور اس کا ماننا ضروری قرار دے دیا ہو.قرآن مجید پڑھ ہیں نیوں کے سوا کسی کا ماننا انسانوں میں سے ضروری نہیں ہے دیکھ لیجئے فرشتوں پر ایمان ضروری ہے.خدا کے بعد کتابوں پر ایمان ضروری ہے انسانوں میں سے

Page 74

نبیوں پر ایمان ضروری ہے، کسی غیر بنی پریان مروری ہے کہیں دکھا دیں قرآن کریم میں لکھا ہوا.تویہ دو صفات نبیوں کی ہیں.عقیدہ تو آپ کا بھی رہی ہے، جو ہمارا ہے.اس لئے عقیدے سے فرق پڑا کرتا ہے.نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ تو ویسے ہی پھر فیض والی بات ہے.ہم سے کہتے ہیں چمن والے عربیبان چمن تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام “ اب نام سے ویرانہ کس طرح گلشنوں میں تبدیل ہو جائے گا.وہ تو ویرانہ ہی رہے گا اور اگر گلشن کو کوئی دیوانہ کہہ دے گا تو وہ تب بھی ملٹن ہی رہے گا.تو آپ کا جو گلشن ہے امام مہدی کا اس کا نام آپ ویرانہ رکھ رہی ہیں کہ وہ نبی نہیں حالانکہ عقیدہ یہی ہے کہ اللہ کھڑا کرے گا اور مانا ضروری ہے یہ تعریف ہے نبوت کی جن معنوں میں ہم حضرت مسیح موعود کو نبی مانتے ہیں.اس تعریف کے سوا اور کوئی تعریف نہیں ہے.لینی خدا کا کلام پیار دو الگ باتیں ہیں.میں یہ کہ رہا ہوں کہ یہ دو باتیں ہم مانتے ہیں.یہ دو باتیں اگر کفر ہیں تو آج نہیں تو کل جب امام مہدی آئے گا تو آپ کا فر ہو جائیں گی اس کو مان کر اس میں بھی دو باتیں ہوں گی اس لئے ہمارا اختلاف ہے ہی نہیں خاتم النبیین کی وہی تشریح ہماری ہے جو آپ کی ہے عملاً صرف جرات نہیں ہے گھل کر معاملے کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی اور حق الفاظ میں تسلیم کرنے کی.

Page 75

د، ء (۲) مجلس عرفان منعقدہ ، فروری شام میں غیر از جماعت خواتین کی طرف سے کئے گئے سوالات اور ان کے جوابات بار فروری ۹۸اد کو حضرت خلیفة المسیح ایده الله تعالى بعشر العزيز کی کراچی آمد پر لجنہ اماءاللہ کی ممیرات نے اپنی مہمان بہنوں کو دعوت دی اور ایک پر معارف مجلس میں اُن کے سوالات کے حضرت صاحب نے پر مغرب قاطع جوابات مرحمت فرمائے راس انداز میں کہ خواتین کی دلچسپی انتہا درجے پر قائم کر ہی.ایک خاتون نے فرمایا و آپ لوگوں کی نماز اور روزہ تو ہماری ہی طرح ہے تو پھیر آپ لوگوں کو کافر کیوں قرار دیا گیا ہے؟ حضور نے شفقت سے جواب مرحمت فرمایا پاکستان کی قومی اسمبلی کافیصلہ محل نظر ہے جماعت احمدیہ کے متعلق جو بنیادی بات ہے وہ سب کو معلوم ہونی چاہئیے جو اختلاف کی وجہ ہے.اور کس حد تک وہ وجہ جائز ہے؟ اور واقعی کافر قرار دیا حق بجانب ہے کہ نہیں یہ فیصلہ آپ خود کر سکتی ہیں یہ 19 دیں

Page 76

<4 جو نیشنل اسمبلی اس مسئلے پر غور کرنے کے لئے بیٹھی تھی اس میں متفرق فرقوں کے نمائندے بھی شامل تھے ، اگر چہ فرقوں کے نمائندے کے طور پر نہیں.مگر نمبر اسمبلی کی حیثیت سے.ہر فرقے ہر خیال کے لوگ تھے.علماء بھی تھے اور جہلاء بھی بیچ میں تھے.ایسے بھی تھے جو کبھی نماز کے قریب نہیں گئے.ایسے بھی تھے جو دہریہ تھے.ایسے بھی تھے جو رشوت لیتے ہیں سفارشیں بیچ کر پیسے کھانے والے بھی بہت تھے.ایک بہت دلچسپ قسم کی اہمیلی تھی جس میں بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا تھا اور وہ بیٹھی اس بات پر فیصلے کے لئے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں یا نہیں ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نور اللہ مرقدہ ہو میرے بڑے بھائی بھی تھے ان کے ساتھ جو چار دوسرے جماعت کے خدام گئے ان میں ایک میں بھی تھا.ساری اسمبلی میں میں موجود رہا.تو باہر کی دنیا کے سامنے تو صرف یہ بات آئی کہ پاکستان کی نمائندہ اسمبلی نے اور بڑے بڑے علماء نے غور کرنے کے بعد ایک فیصلہ دے دیا ہے اور جو ان کا فیصلہ ہے وہ درست ہے.اس کے بعد یہ بحث فضول ہے کہ یہ مسلمان میں یا نہیں ہیں.فیصلہ کیوں دیا گیا اور فیصلہ دینے والے کس حد تک حق بجانب تھے یہ چند باتیں میں آپ کے سامنے کھول دیتا ہوں.جماعت احمدیہ کا امل عقیدہ بنیاد یہ بنائی گئی کہ خاتم النبیین کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ باقی سب مسلمانوں سے اتنا مختلف ہے کہ اس کے بعد ان کے لئے مسلمان کہلانے کا حق باقی نہیں رہتا.سارے مسلمان بلا استثناء اس بات کے قائل ہیں

Page 77

46 کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اب کسی قسم کا کوئی بنی بھی نہ پرانا نہ نیا نہ اُمتی نہ بغیر اُمتی کوئی نہیں آئے گا اور اس پر ساری اُمت کا اتفاق ہے.یہ دروازے بند ہو چکے ہیں اور وحی بھی بند ہو گئی ہے کیسی قسم کی وحی نہیں ہو گی.تو اس کے بعد یہ نیا شوشہ چھوڑ دینا کہ ایک بنی آگیا خواہ وہ اپنے آپ کو امتی بھی کہے تب بھی یہ امت کے متفق علیہ فیصلے کے خلاف ہے.اور کیونکہ اس کے نتیجے میں آیت خاتم النبیین کا انکار لازم آتا ہے اس لئے یہ غیر مسلم ہیں.یہ تھا اصل فیصلہ جو غنیات ہے ہمیں غیر مسلم قرار دینے کی جماعت احمدیہ کا اس کے مقابل پر کیس کیا ہے، ہم کیا کہتے ہیں اور واقعتاً یہ لوگ ہمیں غیر مسلم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نہیں.یہ ہیں آج آپ سے عرض کرتا ہوں جس طرح اس بہن نے سوال کیا ہے ، امر واقعہ ہے کہ باقی سارے قرآن پر عمل، شریعت پر عمل ہمارے تمام بنیادی عقائد ایمانیات سب ایک ہیں اور Fundamentals میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے.ہم بھی اسی پنجگانہ نماز کے قائل ہیں جس طرح آپ ہیں.اُسی روزے کے قائل ہیں.اُسی حج کے قائل ہیں اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء سے افضل اور خاتم الرسل یقین کرتے ہیں.ایمان ، جو بالآخرت ایمان بالغیب کوئی بھی ذرہ نہیں تو مبادیات اور Fundamentals سے تعلق رکھتا ہو ، اس میں ہمارا اختلاف ہو.تو اس لئے عام لوگوں کو سب کو دیکھ کر یہ تعجب پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ دے دیا گیا ہے اور دیکھنے میں جب ہم قریب آتے ہیں تو ان کی نمازیں وہی روزے وہی بیہا الصلواة اسی طرح اذان اسی طرح تو یہ فیصلہ کیوں دیا گیا ؟ اب اس خطرے کو محسوس کر کے آج کل علماء یہ بھی تحریک چلا رہے ہیں کہ ان کی اذانیں بھی

Page 78

بند کر دی جائیں، ان کو قانوناً نمازیں پڑھنے سے روک دیا جائے، ان کو نبوت الصلاة بنانے سے روک دیا جائے، ان میں الصلاۃ پر قبضہ کر لیا جائے یا جلا دی جائیں یا منہدم کر دی جائیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا کہنے کا حق ان سے چھین لیا جائے ، توحید پر ایمان کا حق ان سے چھین لیا جائے یعنی کلمہ پڑھنے سے روکا جائے ان کو کیونکہ اس طرح عوام ان اکس کو دھو کہ لگتا ہے.کیونکہ یہ سوال اسی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں تفصیل بیان کر رہا ہوں کہ اس سارے واقعہ کے بعد یہ خیالات دلوں میں ایک ہیجان پیدا کرتے ہیں کہ دیکھنے میں بظاہر ساری باتیں وہی اور پھر غیر مسلم.تو علماء اب باقی باتیں بھی بلانے کی زیر دستی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے عقیدے کے بر خلاف ہمارے عمل کے بر خلاف اور یہ وہ بات ہے جس پر ہم کسی قیمت پر بھی ان کے مطالبے کو قبول نہیں کر سکتے.وہ کہتے ہیں اپنے منہ سے غیرمسلم کہو.بات یہ ہے.کہ ہم اگر اپنے منہ سے غیرمسلم کہیں تو کیا نتیجہ نکلے گا.غیر مسلم تو کم شہادت کے انکار کے بغیر بن ہی نہیں سکتا.جو کلمہ شہادت کو توڑے گا وہی غیر مسلم بنے گا یا باہر جائے گا.تو ہمیں جب کہتے ہیں کہ زیر دستی تم اپنے منہ سے غیر مسلم کہو تو مطلب یہ ہے کہ توحید کا انکار کرو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ غلط قرار دو.اور خدا پر افتراء باندھنے والا قراردو.یہ تو نا ممکن ہے.میں نے بار ہا جماعت کو کہا ہے کہ ساری جماعت بھی کٹ جائے.جو پھانسیاں آپ نے لگاتی ہیں بے شک لگا دیں.مگر یہ ناممکن ہے کہ جماعت احمد یہ کلمہ توحید اور کلمہ رسالت کا انکارہ کرے.آپ جو چاہیں نہیں کہیں لیکن آپ دین تو نہیں بدل سکتے.دین ہمارا یہی ہے کہ قرآن آخری کتاب ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری صاحب شریعت

Page 79

69 نبی ہیں، قیامت تک آپ کا سکہ جاری رہے گا.کوئی ایسا انسان نہیں آسکتا جو آپ کی سنت میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکے، آپ کے اقوال کو بدل سکے ، قرآن کریم کو بدل سکے.یہ ہمارا متفق علیہ عقیدہ ہے اور اہل عقید ہے اس میں کوئی چیز ہمیں ڈرا کر اس سے باز نہیں رکھ سکتی.اس لئے یہ جو کوشش ہے، بیکار ہے.یعنی قتل کرنے کی تعلیم جو مرضی دے دے مگر یہ کہ ہمیں دل سے غیر مسلم بناڈالے یہ بہر حال نہیں ہوسکتا.امام مہدی کا مقام امتی نبی ہونے کی وجہ سے ختم نبوں کے منافی نہیں اب میں بتاتا ہوں جو انہوں نے فرق بتایا ہمارے اور آپ کے درمیان جس کی بناء پر غیرمسلم قرار دیا گیا.وہ فرق کس حد تک جائز ہے.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) وہ امام مہدی ہیں جن کے متعلق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ وہ تشریف لائیں گے اور ہمارے نزدیک امام مہدی کا مقام ہی امتی نبی کا مقام ہے.یہ ہے اصل وجہ جس کی وجہ سے سارا اختلاف چلا ہے.ہم کہتے ہیں کہ امام مہدی امتی نبی ہوئے بغیر امام مہدی کہلا نہی نہیں سکتا.یہ ایک ہی چیز کے دو نام میں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ ولہ خاتم انبیین ہونے کے باوجود اور سب سے زیادہ آیت خاتم النبیین کا مفہوم سمجھنے کے با وجود اگر امام مہدی کی پیشگوئی کرتے ہیں تو یہ امام مہدی ختم نبوت کو توڑ کر نہیں آسکتا.ورنہ حضور اکرم پیشگوئی نہ کر سکتے اور امام مہدی کا جو تصویر ہمارا ہے بالکل وہی تصویر دوسرے سارے علماء کا ہے اور یہ غلط بیانی سے

Page 80

کام لیتے ہیں کہ ہم تو عقیدہ ختم نبوت کے خلاف امتی نبی مان رہے ہیں اور یہ لوگ نہیں مان رہے.میں آپ کے سامنے ایک ایسا طریق رکھ دیتا ہوں کہ جس بہن کو عربی کی الف ب بھی نہ آتی ہو وہ بھی سمجھ سکتی ہیں اس مضمون کو اور وہ بھی اپنے علماء سے سوال کر کے تسلی کر سکتی ہیں.مثلاً اگر بفرض محال آپ کے نزدیک حضرت مرزا صاحب جھوٹے ہیں، امام مہدی نہیں ہیں از خود یہ فتنہ کھڑا کر لیا اور فساد بر پا گیا.تو اس کے نتیجے میں جو آنے والا امام ہے وہ تو نہیں رکے گا نا.اس نے تو پھر آنا ہی آنا ہے.یہ ہے بنیادی چیز - اگر مرزا صاحب جھوٹے ہیں تو ایک بچے نے تو پھر ضرور آتا ہے.کیونکہ وہ پیشگوئیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں.ان کو کوئی جھوٹا نہیں کہہ سکتا.چودھویں صدی میں نہیں آیا تو ہو سکتا ہے کہ پندرھویں سو سال میں آجائے مینگور آنا تو ہے اس نے.آپ اب تھوڑی دیر کے لئے سوچیے کہ امام مہدی جب بھی آئے گا وہ کیسے امام بنے گا.یہ ہے اصل بنیادی سوال جس سے ہمارا اور آپ کا جو فرضی اختلاف ہے وہ بالکل مٹ جاتا ہے اور سوفیصدی ثابت ہو جاتا ہے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان عقیدے کا اختلاف ہی کوئی نہیں ہے.یہ محض جھوٹ ہے.امام مہدی جو آئے گا اس پر آپ کا ایمان ہے.اس میں کوئی شک نہیں.امام مہدی کیسے بنے گا ؟ اس پر آپ نے کبھی غور نہیں کیا.امام مہدی اس طرح بن جائے گا کہ اُسے و ہم پیدا ہو گا کہ میں امام ہوں.ایسے امام کو تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں اس کو تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالے گا کہ تمہیں وہم ہے اپنے گھر میں بیٹھے وہم کرتے رہو.ہمیں اس سے کیا بچہ ہی تم ہو یا نہیں ہو.امام تو خدا بناتا ہے جس کو خدا امام نہ بنائے اور واضح طور پر یہ نہ کہے کہ ہمیں تجھے امام بناتا ہوں وہ بن کیسے سکتا ہے ؟

Page 81

علماء سے پوچھ لیجئے.ان سے پوچھیں کہ کیا امام مہدی جب تشریف لائیں گے.تو آپ ان کا الیکشن کریں گے ؟ یا پیر فقیر مل کر اس کو ووٹ دیں گے تو تب امام بنے گا.وہ کہیں گے نہیں نہیں بالکل نہیں یہ کلمہ کفر ہے.آپ ان سے پوچھیے کہ وہ بنے گا کیسے اچانک بیٹھے بیٹھے کسی کا سر پھر جائے گا.وہ کہے گائیں امام مہدی ہوں.یہ ہو ہی نہیں سکتا.امام خدا بناتا ہے اور جس کو خدا بناتا ہے اس کو واضح طور پر فرماتا ہے کہ میں تجھے امام بنا رہا ہوں.یہی وجہ ہے کہ گزشتہ مجددین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ بھی امام نہیں فرمایا.کسی مجدد کو اہم نہیں کہا گیا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں میں صرف امام مہدی کے لئے لفظ امام آیا اور یہ حکم بھی آیا کہ جب وہ ظاہر ہو گا.تو اگر برف کی سلوں پر سے گھٹنوں کے بل چل کر جانا پڑے.تب بھی اس کے پاس پہنچے اور اس کو میرا سلام کہو.ایک حدیث میں ہے جب امام مہدی ظاہر ہو تو یہ خوں کی چوٹیوں پر سے بھی جانا پڑے گھٹنوں کے بل گھٹتے ہوئے بھی جانا پڑے تو تب بھی جاؤ اور اس کی بیعت کرو تو امام مہدی کا تو یہ مقام ہے.جب تک اسے خدا نہ بنائے اور اس پر وحی نازل نہ کرے کہ میں تجھے امام بناتا ہوں.امام بننے کی اور کوئی ترکیب ہی نہیں ہے.اگر ہے تو تلاش کر کے کبھی مجھے خط کے ذریعے بتائیں کہ فلاں عالم بزرگ نے یہ نئی ترکیب بتائی ہے کہ آنے والا امام مہدی اس طرح بنے گا.ریچھلے کو تو بھول جائیے وہ تو آپ کہتی ہیں جھوٹا ہے.سوائے وحی کے امام بن نہیں سکتا.اور آنے والے پر جب وحی نازل ہو گی تو اس وقت آپ اُن علماء سے پوچھیں گے کہ بتائیے یہ سچا ہے یا جھوٹا ہے.وہ کہیں گئے و ہی تو ہمیشہ کے لئے بند ہو چکی ہے اس لئے جھوٹا ہے.تو بتائیے امام

Page 82

AY آئے گا کس طرح بیچارہ پھر ؟ اب آپ نے اس کے تو رستے بند کر دیے.خدا امام بناتا ہے.اس پر عقیدہ ضرور ہے.جب تک خدا اس پر وحی نہ کرے وہ امام بن نہیں سکتا.اور وحی کے رستے میں روک ڈال دی کہ وجی ہم نے ہونے نہیں دیتی.تو اگلے امام سے بھی چھٹی ہو گئی نا ساتھ ہیں؛ اس لئے عقیدہ اپنا عقل اور فہم کے مطابق Consistent بنائیں.آپس میں اپنے عقیدے کے درمیان تضاد نہیں ہونا چاہیے.یہ قطعی بات ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیلہ آپ بے شنگ علماء سے پوچھئے.ساری دنیا کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ امام مہدی کو خدا بنائے گا.وہ خوابوں سے نہیں بنے گا.واضح طور پر خدا اس کو کھڑا کرے گا اور پھر اس کی مدد کرے گا.امام مہدی پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے ؟ دوسرا جزو جس پر سب علماء متفق ہیں وہ یہ ہے کہ جب امام مہدی کو خدا بنا دے گا تو امت پر فرض قرار دے گا کہ اس کو ضرور مانو.یہ ناممکن ہے کہ خدا امام بنائے اور امت کو چھٹی دے دے کہ اب بیشک اس کی تکذیب کرو.امام بنایا تو میں نے ہے لیکن تم گالیاں دو اس کو جھوٹا کہو مرتد قرار دو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا جو مرضی کر لو اور پھر بھی تم اُمت کے وجود رہو گے.امر واقعہ یہ ہے کہ جس کو خدا امام بنائے اس کا انکار کافر تک بنا دیتا ہے.اور ان معنوں میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے کبھی کسی رسول میں فرق نہیں کیا.مرتبے کے لحاظ سے تو بہت فرق ہے.قرآن کریم خود فرماتا ہے.تلك الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ.

Page 83

یہ رسول ہیں کثرت سے آئے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی.لیکن تسلیم کرنے کا جہاں تک تعلق ہے.خدا نے یہ اجازت نہیں دی کہ ادبی کہہ کر کسی کو چھوڑ دو.خدا کی طرف سے جو آئے گا اسے ماننا پڑے گا.اور امام مہدی کے متعلق بھی ساری اُمت کے علماء کہتے ہیں، متفق ہیں کہ اس کا ماننا ضروری ہے.جو امام مہدی کو نہیں مانے گا وہ کافر ہو جائے گا.اب یہ دو شرطیں ذہن میں رکھیئے اور بتائیے کہ اس کے سوا بھی نبی کی کوئی تعریف ہے.نبی کس کو کہتے ہیں جس کو خدا کھڑا کرے خود بنائے اور اس کا ماننا ضروری قرار دے دے.تمام مذہبی تاریخ میں سے کوئی عالم ایک شخص بھی نکال کر نہیں دکھا سکتا کہ جس میں دو باتیں اکٹھی ہوں اور وہ نبی نہ ہو یعنی خدا نے اس کو خود مقرر کیا ہو، مامور بنایا ہو اور اس کا ماننا ضروری قرار دے ہمیں خاتم النبیین کے منکر قرار دیتے ہیں آنے والے امام کے متعلق وہی دو باتیں مانتے ہیں، جو ہم مرزا صاحب کے متعلق مانتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ تم خاتم النبیین کے منکر.اور آپ پھر کیوں منکر شبنے.نام رکھنے سے تو کوئی فرق نہیں پڑا کرتا.عقیدہ رکھنے سے فرق پڑا کرتا ہے.عقیدے کے لحاظ سے ہمارے اور دیگر علماء کے درمیان امام مہدی کے بارے میں ایک ذرے کا بھی فرق نہیں ہے.دیا ہو.امام مہدی کے متعلق مسلمانوں کا وہی عقیدہ ہے جو جماعت احمدیہ کا حضرت مرزا صاحت کے متعلق ہے تو ایک ہی مجلس میں تو ساری باتیں طے نہیں ہوا کر میں.آپ بڑی تسلی سے علماء سے مل کے پوچھیے.اور میری یہ درخواست ہے.ان کو پہلے یہ نہ بتائیں

Page 84

دور نہ پھر وہ گھیرا کہ اپنا جو اب کچھ بدل لیں گے.ان سے یہ نہ پوچھئے کہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق آپ پوچھ رہی ہیں.آپ ان سے کہیں کہ امام آنا ہے.یا نہیں آتا.وہ کہیں گے ضرور آئے گا.تو کہیں پھر ذہنی طور پر ہماری تیاری کراؤ.ہمیں بتاؤ تو سہی کہ امام کیسے بنے گا تا کہ ہم پھر دھوکہ نہ کھا جائیں.اور دو سوال ہمارے حل کر دیجیئے کہ امام مہدی کو خدا الہاما بنائے گا یا ہم سے بنے گا یا الیکشن سے بنے گا.اور دوسری بات یہ کہ اللہ تعالے جب بنادے گا تو پھر اُمت کو ٹھیٹی دے دے گا کہ اس کو گالیاں دو کافر کہو، اس کے ماننے والوں کے مکانوں کو آگئیں لگاؤ، ان کے اموال لوٹو، یہ تعلیم دو کہ امام مہدی اور ماننے والوں کو مسجدیں بنانے کی اجازت نہیں ہے ، اذان دینے کی اجازت نہیں ہے، ان کے اموال آپ پر حلال ہیں جنہوں نے کمائے ان پر حرام ہو گئے.شادیاں کوئی اور کرے امام مہدی کے ماننے والا اور باہر بیٹھے مولوی ان کو طلاقیں دے دیں.یہ چلے گا معاملہ ! علماء کہیں گے بالکل نہیں ، ہرگز نہیں جو اس طرح کرے گا وہ کافر ہو جائے گا.تو آپ کہیں اب بتاؤ کہ نبی کوئی ایسا بھی ہوا ہے جس میں دو باتیں اکٹھی نہ ہوں اور کوئی ایسا غیر بنی بھی ہوا ہے جس میں یہ دو صفات اکٹھی ہو گئیں ہوں کہ بنی تو نہ ہو لیکن خدا نے اس کو الہا کا بنایا ہو اور خدا نے اس کا ماننا ضروری قرار دے دیا ہو.تو منہ سے آپ جو مرضی کہہ دیں.عقیدہ ہے جو اصل فرق ڈالا کرتا ہے.عقیدہ کے لحاظ سے آپ کا بین ہوہی عقیدہ ہے جو ہمارا حضرت مرزا صاحب کے متعلق ہے.آپ صرف اس کو سچا نہیں مان رہیں مگر آنے والے امام کے متعلق یہی عقیدہ رکھتی ہیں.پس عقیدے سے اگر کوئی امت سے باہر چلا جاتا ہے تو پھر آپ سب ہمارے ساتھ ہی اُمت سے باہر چلی گئیں.کیونکہ

Page 85

AD آپ کا بھی یہی عقیدہ ہے اور اگر یہ نہیں ہے تو پھر آپ علماء کے سامنے اپنا نیا عقیدہ بیان کریں.وہ آپ کو کا فر قرار دے دیں گے.کیونکہ امام مہدی کے متعلق جو یہ دو بائیں نہ مانے اس کو سارے علماء کا فر کہتے ہیں پھر بھی آپ نے ہمارے ساتھ ہی آتا ہے تو نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن.اگر عقل سے غور کریں اور عقائد کا تجزیہ کریں.یعنی جذباتی باتوں میں پڑ کر لوگوں کے کافر کہنے میں آگر آپ جو مرمنی سوچ لیں وہ الگ بات ہے مگر تقویٰ اور انصاف کے ساتھ.عور تو کریں کہ جس امام مہدی کا آپ انتظار کر رہی ہیں وہ بنے گا کیلئے اس کا ماننا ضروری ہو گا کہ نہیں ، خدا کھڑا کرے گا کہ بندوں نے بنایا ہوگا ہے جب ان باتوں پر آپ پہنچیں گی تو اس عقیدے پر پہنچے بغیر چارہ نہیں جو ہمارا عقیدہ ہے اس کے بغیر تصور ہی کوئی نہیں امام مہدی کا ! اور جب آپ وہاں پہنچیں گی تو ہمیں کافر کہہ رہی ہوں گی.اور آپ مومن رہیں گی ، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ تو تقویٰ کے خلاف بات ہے کہ ایک ہی جرم کی الگ الگ سزائیں دیدی جائیں، اور اگر بہٹ جائیں گی اس عقیدے سے تو علماء کہیں گے تم اسلام سے نکل گئی ہو.اس لئے فرق فرمنی ہے.از قرآن مہدی کی تعریف مطروسین اللہ کے سوا کسی اور پر صادق نہیں آتی اصل بات یہ ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس امام مہدی کی خبر دی تھی اس کا مقام امتی نبی کا ہے، کیونکہ خدا اسے بنائے گا.اس کا مقام امتی نبی کا ہے، کیونکہ اس کے انکار کی خدا اجازت نہیں دے گا.اس سے زیادہ ہمارا عقیدہ ہی کوئی نہیں.باقی سب فرضی تھتے ہیں اور جہاں یک میسی کا تعلق ہے ، عیسی کی آمد ثانی کا اُس کے متعلق تو اتنی بھی بحث کی

Page 86

A4 ضرورت نہیں کیونکہ مسلم کی حدیث میں چار مرتبہ آنے والے نازل ہونے والے بیح کو نبی اللہ نبی اللہ نبی اللہ بھی اللہ فرمایا گیا.تو جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ میرے بعد آئے گا اور خالہ کے طور پر آئے گا دنیا میں کون عالم اور غیر عالم ہے جو اس سے اس لقب کو چھین لے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا ہے.پس آنے والوں کے دو تصورات ہیں.ان دونوں کے ساتھ نبوت لازما ہے.لیکن وہ نبوت جو خادم کی نبوت ہے ، غلام محمد مصطفی کی نبوت ہے ، آپؐ سے باہر والے کی نہیں جب تک وہ امتی نہیں ہوگا جب تک اسی شریعت کا پابند نہیں.ہو گا اس کو کوئی مقام نہیں مل سکتا.جب امتی کو مقام ملے گا تو اس کا نام شام مہدی رکھا جائے گا اور اسی کو نبوت کہتے ہیں.اس سلسلہ میں آخری بات جو نہیں کہنا چاہتا ہوں وہ علمی ہے.آپ قرآن کریم سے اگر خورد نکال سکتی ہیں تو خود نکالیں ورنہ علماء سے پوچھ لیں کہ یہ آیت جو قرآن کریم میں آئی ہے یہ ایک سے زائد مرتبہ قرآن کریم میں آئی ہے.اس میں امام مہدی کا ذکر موجود ہے.اس میں یہ بتایا گیاہے کہ امام مہدی کون ہوتا ہے.اور بالکل معاملہ کھل جاتا ہے.اس آیت کی رو سے جو میں ابھی پڑھوں گا امام مہدی اور نبی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.کوئی فرق نہیں ہے.چنانچہ قرآن کریم انبیاء کا ذکر کر کے فرماتا ہے.وجعلتهم ايمة لهدون بأمرنا ( انبياء ) یہ وہ لوگ ہیں یعنی سارے انبیاء جن کو ہم نے امام بنایا تھا.ادمة جمع ہے امام کی يَهُدُونَ بامرنا ترجمہ ہے مہدی کا یعنی اس ترجمے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ احمدی ترجمہ اور کریں اور غیر احمدی علماء

Page 87

اور کریں.اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے ہدایت نہیں دیتے تھے بلکہ ہمارے محکم کے تابع ہدایت دیتے تھے.یعنی مہدی بن کر ہدایت دیتے تھے ہادی بن کہ ہدایت نہیں دیتے تھے.بادی اس کو کہتے ہیں جو انہ خود ہدایت دے دے.اور مہدی اس کو کہتے ہیں جو پہلے ہدایت کسی سے لے پھر جاری فرمائے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَئِمَّةً يَهْدُونَ يَا مُرِنَا یہ ایسے امام تھے ، سارے انبیاء جو ہمارے امر کے تابع ہدایت دیتے تھے.یعنی پہلے مہدی تھے پھر بادی بنتے تھے.تو یہ تعریف تو قرآن کریم کی بیان کردہ تعریف ہے اور کسی غیر بنی کے بارے میں قرآن کریم نے یہ دو باتیں اکٹھی نہیں کہیں.یہ بھی ایک عجیب بات ہے.تو بہر حال یہ تو علمی بات ہے.یہ آپ تحقیق بے شک کریں.لیکن جو پہلے میں نے بات کی تھی وہ تو عربی دانی کی محتاج نہیں ہے ہر علم و فہم ہر عمر کی عورت جو غور کرے تقویٰ سے منطق کے ساتھ وہ اس نتیجے گی کہ امام مہدی میں وہ دو باتیں مجھے ہو گئیں جو غیر بنی میں اکٹھی نہیں پر پہنچے ہو تیں نہ ہو سکتی ہیں.حضرت صاحب نے سوالات کی چٹوں میں سے اگلی چٹ اٹھا کر سوال پڑھا.کہ آپ کو لوگ محصور کیوں کہتے ہیں ؟ حضور تو آنحضرت کے لئے استعمال ہوتا ہے.تو پھر آپ کے لئے تو مناسب نہیں لفظ حضور حضور نے فرمایا

Page 88

AA ایک غلط فہمی کا ازالہ مجھے تو کوئی حضور چھوڑ کر کچھ بھی نہ کہے.مجھے کوئی شوق نہیں ہے کچھ کہلوانے کا لیکن یہ میں آپ کی درستگی کر دوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حضور نہیں بلکہ آنحضور کا لفظ استعمال ہوتا ہے.حضور کا لفظ تو عام ہے.ہر شخص کو ہر بڑے چھوٹے کو شعروں میں بھی کہہ دیتے ہیں، ادب میں بھی آپ بائیں کرتے ہوئے نشو دفعہ حضور کہہ دیتی ہیں یا بعض کہہ دیتے ہیں.یہ عام محاورہ ہے.لیکن آنحضور سے مراد ہے.وہ حضور" یہ سوائے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے لئے زیب نہیں.تو مجھے کبھی کوئی آنحضور نہیں کہتا اور نہ جماعت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آنحضور کا محاورہ چلتا ہے.تو یہ آپ کو غلط فہمی ہے.حضور نے فرمایا.ایک خاتون ہیں ان کو صرف جنازے میں دلچسپی ہے وہ کہتی ہیں یہ بتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ کیسے ہوا تھا کس نے پڑھایا تھا ؟ آنحضر صیب اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ی کئی دفعہ سوال ہوتا ہے.مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا وجہ ہے Confusion کیوں ہے.بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جنازہ ہوا ہی نہیں.تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہ کو جوں جوں اطلاع ملتی چلی گئی.اس زمانے میں کوئی رسل و رسائل کے انتظامات تو نہیں تھے کہ ٹیلیفون ہو گئے ہوں اور تاریں

Page 89

Aq چلی گئی ہوں گھلا علاقہ تھا.سفر میں دقت ہوتی تھی.مدینے اور مکے کے درمیان کئی منازل کا اڑھائی سو میل کا فاصلہ تھا اور زیادہ سے زیادہ ایک دن کی منزل لمبی سے لمبی ۲۰ میل کہلاتی ہے اور جھوٹا بارہ میل کی ہوتی تھی.آپ بتائیں کہ پانچ جمع پانچ دس دن اور پھر آگے اڑھائی دن ساڑھے بارہ دن کی تو منزل ہے.مکہ اور مدینے کے درمیان تو اردگرد کے جو صحابہ تھے عرب میں بننے والے ان کو اطلاعوں میں دیر ہو رہی تھی اور ہر ایک کی خواہش تھی ہم نمازہ جنازہ پڑھیں.اس لئے تدفین سے پہلے جو بھی ٹولی باہر سے آتی تھی.وہ اپنا لیڈر منتخب کر کے امام میں طرح ان کو عادت تھی نماز میں امام بنانے کی وہ نماز جنازہ پڑھ لیتے تھے.اور تدفین کے بعد غائبانہ جنازے ہوئے تو یہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے کی کیفیت.خواب کی تعبیر ایک خواب میں حضرت عائشہ صدیقہ کو دیکھا ہے کسی نے قرآن مجید پڑھ رہی ہیں.یہ تو بڑی مبارک خواب ہے.اللہ تعالے مبارک کرے حضرت عاشرہ کی تلاوت سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کی طرف است کی توجہ پیدا ہوگی.حضور نے اگلا سوال اٹھایا ایک خاتون نے یہ فقہی سوال کیا ہے کہ اسلام نے ادلے بدلے کی شادی کو منع کیا ہے اگر ایسا ہے تو کیا یہ حدیث اور قرآن کا محکم ہے ہے حضور نے فرمایا

Page 90

9-.اور بڑے کی شادی بعض سماجی قباحتوں کی وجہ سے شرم نا جائز ہے.یہ ادے بدلے کی شادی کا قرآن کریم میں تو کوئی ایسا محکم نہیں جو اس پر وہ روشنی ڈالے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن معنوں میں فرمایا ہے و ان معنوں میں منع فرمایا ہے جن معنوں میں آج کل ہمارے جھنگ کے علاقے میں بھی رواج ہے.بعض تو اتفاقی ہوتا ہے کہ ایک گھر میں ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی ہے اور دوسرے گھر میں بھی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت معلوم ہوتی ہے اور وہ غور کے بعد فیصلہ کرتے ہیں.یہ دونوں کے لئے اچھا ہے.جس شادی کو منع کیا ہے اور اس کا عرب میں بھی رواج تھا اور آج کل ہمارے بعض پسماندہ Backward ضلعوں میں بھی جہالت کی وجہ سے اس کا رواج ہے کہ ایک بڑھا ہے بھائی اور ایک چھوٹی عمر کی بیٹی ہے.اور وہ شادی کی خاطر مجبور کرتے ہیں کہ تم اپنی چھوٹی بہن جس کے ساتھ کوئی پچاس ساٹھ سال کا فرق ہے وہ دو تو پھر ہم اپنی بہن تمہیں دیں گے.اس قسم کی شادیاں ہوتی ہیں.اور یہ بھی شرط ہوتی ہے کہ اگر کسی کی بہن کی اپنے خاوند سے معاشرت ٹھیک نہ ہو تو یہ گھر آئے گی تو دوسری بھی بے چاری مظلوم بے وجہ دوسرے کے گھر پہنچ جائے گی.کیونکہ اس طریق کار میں لیے وعید سوسائٹی میں دکھ پیدا ہوتا تھا اور ظلم ہوتا تھا شادیوں کے پیوند میں بھی اور ان کے پیوند ٹوٹنے میں بھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو منع فرمایا.ابھی بھی اگر کوئی یہ کرے تو نا جائز ہے..

Page 91

او ایک خاتون لکھتی ہیں کہ میں کافی حد تک احمدیت کے قریب ہوگئی تھی بشر خواب بھی آئے.مگر مرزا صاحب کی کتابوں سے تاثر یہ لیا کہ زبان نیوں والی نہیں ہے جہاں انہوں نے یہ کہا کہ میرے نہ ماننے والے کون ہیں یعنی آگے انہوں نے....لکھا ہوا ہے یا شاید وضاحت کی ہوئی ہے آخر میں لکھا ہوا ہے.کیوں اور بلیوں کی اولاد ہیں.حضور نے فرمایا.امرواقعہ کا اظہار گالی نہیں ہوتا معلوم ہوتا ہے ان خاتون نے غیر احمدی علماء کی وہ کتابیں پڑھی ہیں جس میں وہ بعض فرضی حوالے اور بعض حوالوں کے غلط ترجمے تو مروڑ کر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر جو بات عیسائیوں کے متعلق کی جارہی ہے وہ اشتعال دلانے کی خاطر مسلمانوں کی طرف منسوب کرتے ہیں.یہ جو طریق ہے.اس طریق سے تو کبھی بھی صداقت معلوم نہیں ہوگئی.اگر یہ خاتون اصلی کتابیں پڑھتیں تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ ایسی کوئی بات حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے کسی مسلمان کے متعلق کبھی نہیں لکھی.جو اس سے ملتے جلتے یہ الفاظ تو نہیں ہیں، لیکن جو سخت الفاظ آئے ہیں وہ میں بناتا ہوں کہاں آئے ہیں.عیسائیوں کے ساتھ جب حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہوں کا مناظرہ ہو رہا تھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں شدید گستا بیاں کر رہے تھے اور امہات المومنین پر حملے کر رہے تھے تو چونکہ ہم سب نبیوں کو مانتے ہیں، اس لئے ان کا بدلہ نبیوں سے تو اتار نہیں سکتے.اس لئے حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہوں نے حقائق کی روشنی میں جو ان کے اپنے مسلمہ حقائق

Page 92

۹۲ تھے ان کے ساتھ سختی سے کلام کیا میا کہ ان کو معلوم ہو کہ کسی پر حملہ کرنے سے کتنا رکھ پہنچتا ہے ان لوگوں کو جن کو ان سے محبت ہو.تو یہ وہ پس منظر ہے جس میں حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے اپنی بے شمار کتابوں میں سے صرف چند جملوں میں سختی کی ہے.یعنی انگلی سے زائد کتب لکھیں اور وہاری کتب بھلا کر وہ چند جملے جو سختی کے ہیں ان کو موقع محل سیاق وسباق سے اٹھا کر چھوٹے چھوٹے اشتہاروں میں شائع کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں.مثلاً یہ جو موقع ہے آپ نے جو لکھا ہے کہ تم لوگ جو مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے پہنچے ہوئے ہو امر واقعہ یہ ہے کہ تمہاری عورتیں بے جانی کے ساتھ گھر گھر جاتی ہیں اور لوگوں کو طرح طرح کی حرص دلاتی ہیں.اور تم اپنے اموال بھی خرچ کر رہے ہو اور اس طرح دین بدلا رہے ہو.یہ طریق تو شرفاء کا طریق نہیں ہے.یہ ہے مفہوم اور پھر حملے کرتے ہو اسلام پر یعنی تمہیں اتنی غیرت نہیں ہے کہ اپنی عورتوں کو لوگوں کے گھروں میں بھجواتے ہو کہیں شادیوں کی لانچیں دیتے.کہیں اور گندے طریق اختیار کر کے ان کو عیسائیت کی دعوت دے رہے ہو اور تمہارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ مسلمہ طریق پر تمہارے اندر بے حیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ ایک بڑی تعداد میں تمہارے ہاں ولد الحرام پیدا ہو رہے ہیں.اس معاشرے کو لے کر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کرتے ہو کہ نعوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِكَ وہ پاک نہیں تھے کہتے ہیں چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے یہ مضمون تھا جس کو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوم نے عیسائیوں کے مقابل پر بیان فرمایا ہے.اور وہ کتاب ہی عبداللہ آتھم کے مناظرہ کے سلسلے میں لکھی گئی ہے.جس میں یہ حوالہ موجود ہے اور سارا گھلا کھلا ذکر فرما رہے ہیں.اس بات میں اب بتائیے کہ یہ

Page 93

۹۳ امر واقعہ ہے یا گالی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ کی جو Figures تعداد ابھی چھپی ہیں اور بڑے فخر سے انہوں نے بیان کی ہیں.اس میں کوئی چھپاتے نہیں.ہر سال ان کے ہاں ۳۰ فیصد ایسے بچے پیدا ہو رہے ہیں جو قانون گیاں بیوی کی اولاد نہیں ہیں.اور ایک سال میں ۳۰ فیصد تو سو آئین سال میں ساری قوم کا خون بدلا گیا.زیادہ سے زیادہ اتفاقات کو آپ ڈال لیں تو چھ سات سال میں کوئی بھی باقی نہیں رہتا.ایسی قوم اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پہ ناپاکی کے الزام لگائے اور حضرت عائشہ کا نام گستاخی اور بدتمیزی سے لے ان کے مقابلے میں اگر ان کو یہ کہا جائے کہ تم اپنا معاشرہ تو دیکھو چغل خوریاں کرنے والے جھوٹ بولنے والے افراد کے ساتھ چلنے پھرنے والے کثرت کے ساتھ چھوٹے پروپیگنڈے کرنے والے ان کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا عُتُل بَعْدَ ذالك رينو - تو کیا کوئی کہے گا کہ یہ زبان بڑی خطرناک ہے ہم رسول اکرم یا خدا کو نہیں مانتے.یہ لغو بات ہے جب واقعات کی طرف توجہ دلانی پڑتی ہے اور اس معاملے میں سختی کرنی پڑتی ہے.جہاں تک کیتیوں، بلیوں کا تعلق ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو سوروں میں اور بندروں میں تبدیل کر دیا.یعنی کتے سے بڑھ کر ہیں سٹور یا نہیں تو کیا بتنی ہیں ؟ قوم کے کردار کو ظاہر کرنے کے لئے یہ محاورے ہوتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظاہری طور پر سٹور بن گیا اور گتا ہو گیا بلکہ اللہ تعالے قوم کی حالت اُس پر ننگی کرنے کے لئے محاورے استعمال کرتا ہے.چنانچہ یہود علماء کے لئے یہ لفظ قرآن کریم میں آئے ہیں کہ ہم نے ان کو سٹوروں اور بندوں میں تبدیل کر دیا.آج کل علماء اس کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ سچ مچ ان کو سور اور بندر بنا دیا تھا اور وہ کئی دن تک ایک قلعے میں قید رہے سوٹر اور بندر کے

Page 94

۹۴ طور پر پھر آگے ان کی نسل جاری نہیں رہی اس لئے وہ دنیا سے غائب ہو گئے.بالکل غلط ہے.قرآن کریم کا مفہوم جب تک روحانی معنوں میں نہ سمجھو فرمنی اور قصے کہانیوں والا کردار آجاتا ہے اور جس جانور کا کر دار نمایاں طور پر کسی قوم میں آجائے وہ متخق کہلاتی ہے وہ نام پانے کی.قرآن نے سور اور بندر جو ان علماء کو کہا ان خاتون کی رو سے جنہوں نے سوال کیا ہے یہ تو بڑی خطر ناک گالی بن گئی نا اور کلام الہی نہیں لگتا.نعوذ باللہ من ذالك لیکن جن معنوں میں ہم اس کو سمجھتے ہیں میں ان کو بتا دیتا ہوں کہ کلام الہی کی یہی شان بھی کہ اس طرح باتیں کرے.سٹوکہ ایک تہذیب ہے.اس کے اندر سارے جانوروں سے بڑھ کر بعض جنسی گندگیاں پائی جاتی ہیں.جس قوم میں وہ گندگیاں آجائیں اس کو سٹور سے مثال دنیا بعیت ہے برقی مثال ہے اور ایک لفظ میں ساری بیماری کی تفصیل آجاتی ہے.قومی اصلاح کی خاطر سچی بات کرنے کو سختی پر محمول نہیں کیا جاتا آب میں آپ کی مجلس میں تفصیل سے تو بیان نہیں کر سکتا.لیکن آپ غور کریں کتابیں پڑھیں تو آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ سٹور ساری دنیا کے جانوروں میں بعض قسم کی بے حیائیوں میں ممتاز ہے اور وہ بے حیائیاں یہود علماء میں آچکی تھیں.اور اس وقت ان کا نام سو کر رکھنا قرآن کی رو سے ایک امر واقعہ کا اظہار تھا بنانے کے لئے کہ تمہارے دینی رہنماؤں کا تو یہ حال ہے اور تم مقابلے کرتے ہو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے.پھر اگلی بات یہ ہے کہ سو نہ اجائے تا بہت ہے.جس کھیت میں جائے وہاں ہل چلا دیتا ہے.کھانا اتنا نہیں جتنا اُجاڑتا ہے.میرے بھی ربوہ کے پاس

Page 95

کھیت ہیں.میں نے ایک دفعہ گندم کاشت کی دوسرے دن جا کر دیکھا تو ہل چلا ہو ا تھا.میں نے اپنے ملازم سے پوچھا کہ یہ کیا تماشہ ہے.یہ تم نے کل کاشت کی ہے آج ہل چلا دیا ہے.اس نے کہا نہیں یہ رسور کو بارلا کہتے ہیں نام بھی نہیں لیتے) بارلا آیا ہی اُنے کل چلایا ہے.اس کا کل جو ہوتا ہے نہ چند دانے کھائے باقی سارا اُجائے کہ چلا گیا.گنے کے کھیت میں چلا جائے، مکئی کے کھیت میں چلا جائے اُجاڑتا بہت ہے.سارا کھیت برباد کر دیتا ہے.چند چھلیاں کھائے گا.بیچ میں سے لیکن سارا کھیت تباہ کر دیتا ہے.علماء کا یہ حال ہو کہ اپنی اُمت کے باغ کو ہر طرف اجاڑ رہے ہوں جدھر جائیں رگیدتے جائیں.تباہیاں مچار ہے ہوں.ان کے متعلق قرآن کریم نے یہ لفظ استعمال کیا اور ایک ہی لفظ میں بہت سی صفات ان کی بیان فرما دیں.تو اب آپ سوچ سکتی ہیں کہ نعوذ باللہ یہ خدا کا کلام نہیں لگتا.اس میں ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں موقع محل کے مطابق بعض دفعہ سچی بات کرنی پڑتی ہے سختی کرنی پڑتی ہے.صرف دیکھنا یہ ہے کہ وہ واقعاتی ہے یا جھوٹی ہے.اگر جھوٹی ہے تو گالی ہے.اگر بدنیتی سے سچی بات بھی کہی گئی ہے تب بھی گالی ہے.اگر علاج کے طور پر ایسا شخص جو خدا کی طرف سے مامور ہو وہ بیماریوں کو کھول کر بیان کرے تو اس کا نام گالی نہیں رکھا جاتا.یہ ایسی بات ہے جیسے جج کسی کے متعلق فیصلہ کر دے کہ یہ اس نے گندی حرکت کی تھی.اور کوئی باہر بیٹھا ہے کہ یہ بیج کی شان کے خلاف ہے ایسی بات اس نے فلاں کے متعلق کہہ دی.وہ تو اس کے کاموں میں داخل ہے اس لئے مامور من اللہ کے متعلق فیصلہ کرنا پڑے گا.اس لئے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ مامورمن اللہ ہے اللہ نے اس شخص کو کھڑا کیا ہے.تو جس طرح پہلے کھڑے کرنے

Page 96

44 والوں کے سپر د بعض دفعہ اللہ یہ کام بھی کرتا ہے کہ قوم کی حالت کو اس پر کھول کر بیان کرے.اس طرح اس پر بھی کرنے سے یہ جھوٹا کیسے ہو جائے گا.اگر مامور من اللہ ہے ہی نہیں اللہ نے نہیں بھیجا تو پھر چھوڑیں اس کے قصوں کو.پھر جو لکھتا ہے اپنے گھر میں لکھتا رہے.پھر آپ کو اس سے کیا عرض ہے.تو اصولی فیصلے پہلے کریں پھر آپ کو ان باتوں کی سمجھ آئے گی.حضور نے فرمایا ایک خاتون نے جنرل سوال کیا ہے.وہ کہتی ہیں کہ میں نے احمدی خواتین دیکھی ہیں.میں نے محسوس کیا ہے کہ ان کے اخلاق عموماً اچھے ہیں اور پابند شریعت بھی معلوم ہوتی ہیں.تو پھر یہ اتنا اختلاف کیوں ہے اور مجھے یہ بتائیں.کہ آپ کے اور ہمارے درمیان اتنا اختلاف کیوں ہے کہ اتنی بڑی خلیج پیچ میں کھڑی کردی گئی ؟ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں بنیادی اختلاف اس کا جواب رو تمین طریق سے دیا جاسکتا ہے.پہلا یہ کہ جس امام کی آپ منتظر ہیں، ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ آچکا ہے اور سب سے بڑا اختلاف یہ ہی شخص کا ہوا کرتا ہے.قوم کسی آنے والے کا انتظار کر رہی ہوتی ہے اور کوئی آنے والا آجاتا ہے اور اعلان کر دیتا ہے کہ میں آگیا ہوں.قوم کی اکثریت اس کو پہچان نہیں سکتی.وہ کہتے ہیں جھوٹا ہے، فرضی باتیں کر رہا ہے، ہم تو اس شان کا آدمی سوچ رہے تھے ، یہ تو عام سا انسان نکلا ہے ، ہم تو سوچ رہے تھے اس میں غیر معمولی طاقتیں ہوں گی، یہ تو عام بندوں جیسا کوئی بندہ ہے.اس لئے

Page 97

ہمیں یہ قبول نہیں کہ ہم اس کو امام بنالیں یہ ہے ہمارا بنیادی اختلاف اور اس میں دراصل اختلاف ہے ہمارے اور آپ کے تصویر کا کہ دنیا میں امام کیسے آیا کرتے ہیں ، ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے.آپ کو سب سے بڑا اعتراض حضرت مرزا صاحب کو ماننے پر عملاً یہ ہے کہ اس کے آنے پر تو اس کی کوئی آدھگت نہیں ہوئی.اگر یہ سچا ہوتا تو وقت کے علماء تو جا کر اس کے گلے میں ہار ڈالتے شیر فیاں تقسیم ہوتیں، ساری محفلوں اور انجمنوں میں اس کے گیت گائے جاتے کہ الحمد للہ آنے والا آ گیا ہے.ہم بھی مان جاتے.مگر اس کو تو سب نے چھوڑ دیا.ایسا آیا کہ گھر والے بھی مخالف ہو گئے.ایسا آیا کہ جو پہلے تعریف کیا کرتے تھے وہ بھی جان کے دشمن ہو گئے.سارے ہندوستان کے لوگ مدعاؤں کے خط لکھا کرتے تھے.یہ اچھا امام ہے کہ جب اس نے دعوی کیا تو انہوں نے گالیاں دینی شروع کردیں ، انہوں نے قتل کے فتوے دینے شروع کر دیئے ، انہوں نے ہر قسم کی گالیاں دیں اور یہ کہا کہ یہ دجال ہے.تو ہمارا امام تو ایسا نہیں ہوگا.ہمارا امام جب آئے گا تو اس کے لئے Red carpets بچھائے جائیں گئے ساری قومیں اس کے اوپر ہار ڈالیں گی، علماء شیر پنیاں تقسیم کروائیں گے مسجدوں میں نعت خوانیاں ہوں گی کہ الحمد للہ امام آگیا.جب تک ایسا امام نہ آجائے آپ کو یقین نہیں آتا اور ہمارے اور آپ کے تصور کا فرق جو ہے وہ آپ میں آپ کو بتاتا ہوں.ہم کہتے ہیں کہ ایسا امام جیسا آپ سوچ رہی ہیں یا بعض سورچ رہے ہیں وہ آج تک کبھی نہیں آیا اور نہ کبھی آسکتا ہے.کیونکہ گذشتہ اکین کے کی طرز سے ہٹ کر ان کے رستے سے ہٹ کہ جو آئے گا وہ سچا کہاں سے ہوگا.وہ تو جھوٹا ہو گا.آنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا.آنے والوں نے کیا طریق اختیار کیا کس طرح دعوے کئے.قوم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا.یہ ساری باتیں

Page 98

۹۸ تو پہلے سے طے شدہ ہیں.آدم سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود تک مذہب کی تاریخ خوب کھول کھول کر قرآن کریم نے بیان فرما دی ہے.تو کیا ایک بھی امام ایسا آیا تھا جو سچا تھا اور وقت کے علماء نے اس کے گلے میں ہار ڈالے تھے ؟ یا جوتیاں برسائیں تھیں کوئی ایک بھی امام ایسا تھا جس کے اوپر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں ؟ نہیں ! ان کے کھانے بند کر دیتے تھے ، ان کے بائیکاٹ کئے تھے.کوئی امام ایسا تھا جس کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہو اس وقت کے لوگوں نے ؟ سر آنکھوں پر بٹھانا تو کیا گلیوں میں ان کو اور ان کے ماننے والوں کو گھسیٹا جاتا تھا.وہ کہتے تھے ہم ایمان لے آئے ہیں کہتے تھے اچھا اب تم جھوٹے امام پر ایمان لے آئے ہو.تمہارا علاج یہ ہے کہ کتوں کی طرح تمہارے پاؤں سے رسیاں باندھی جائیں اور پھر یلی گلیوں میں گھسیٹا جائے یہاں تک کہ بدن سے جلد اتر کر تمہاری ہڈیاں تنگی ہو جائیں.اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپؐ کے ماننے والوں سے قوم نے اسی طرح سلوک کیا کہ حضرت بلان کو اس طرح بنا دیتے تھے زبر دستی قیمتی ہوئی زمین پر کہ اس کے اوپر پتھر کی گرم سیل رکھ دیتے تھے اور جو چھالے اُبلتے تھے ان کے پانی سے وہ پتھر اور زمین ٹھنڈی ہوا کرتی تھی اور آپ نے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے.پھر ہوش آتی تھی تو پھر نئی گرم زمین اور نیا پتھر.اور جب بے ہوش ہوتے تھے اور پھر ہوش آتی تھی تو کہتے تھے بتاؤ یہ سچا ہے یا جھوٹا ہے ؟ تو وہ صرف اَشْهَدُ ان لا الله کہتے تھے پھر بے ہوش ہو جاتے تھے.ایسی حالت میں ان کو حضرت ابو بکر صدیق نے دیکھا تو پھر ان کو آزاد کرایا.یہی کیفیت ایک لو ہار غلام مصطفی کی تھی.اس کی اپنی بھٹی تھی جسے وہ جھوٹ کا کرتا تھا.اس میں سے کو ٹلے نکالے اور کوئلوں کے اوپر ان کو لٹا دیا اور اوپر پتھر کی

Page 99

44 سل رکھ دی اور اپنے خون اور پانی سے اس کے اپنے کو ٹلے ٹھنڈے ہوئے اور ان ظالموں کے دل نہیں ٹھنڈے ہوئے.ان ظالموں کے دل کی آگ اسی طرح بھڑکتی رہی.اور وہ ظلم میں حد سے زیادہ آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو شہید کیا.بعض کو اونٹوں سے باندھا اس طرح کہ ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اور دوسری دوسرے اونٹ سے.اور ان کو چروا دیا.یہ سلوک ہے دنیا کے سب سے بڑے امام سے اس وقت آپ کی قوم نے کیا اور آپ یہ کہتی ہیں کہ اس امام کو مانیں گے جس پر پھول برسائے جائیں گے وہ سچا ہوگا.جب کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی خاطر کائنات پیدا کی گئی، جب کتے کی گلیوں سے گزرتے تھے تو آپ کے سر پر گھر کا کوڑا پھینکا جاتا تھا ، خاک پھینکی جاتی تھی اور حضرت فاطمہ روتی ہوئی کر صاف کیا کرتی تھیں کہ اس ظالم قوم کو کیا ہو گیا ہے.تو غلام کے ساتھ یہ سلوک ہوگا کہ اس پر پھول برسائے جائیں گے ؟ کوئی عقل کریں، ہوش کریں.ایسہ کی نشانیاں تو قرآن نے محفوظ کر دی ہیں اور سنت نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دی ہیں.جو امام ان رستوں سے چل کر آئے گا وہی ستا ہو گا.جس امام پر دعوے کے بعد پھول برسیں گے اور اس کی نعتیں پڑھی جائیں گی اور اس کے اوپر قوالیاں کہی جائیں گی وہ تو جھوٹا ہوگا.کیونکہ نظام مصطفی ہو کہ آقا سے الگ سلوک کا متقی بنایا جائے گا.یہ ہوہی نہیں تھا.مذہبی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ اس لئے ہمارے اور آپ کے درمیان پہچان کا فرق ہے.آپ کی پہچان بگڑا چکی ہے.آپ ایک ایسے فرضی امام کے انتظار میں ہیں.جس کے

Page 100

آتے ہی ڈھول ڈھمکے سے ساری دُنیا میں اعلان ہو جائے کہ امام آگیا.سب مان جائیں اور علماء اس کے حق میں تقریریں کریں گے اور اعلان کریں گے اور آپ کہیں گی شکر ہے آپ امام ہیں.اب تو کبھی آیا ہی کوئی نہیں وقت کے علماء جس کی مخالفت کریں وہی سچا ہوتا ہے.اور کبھی کسی بچے کی تائید نہیں کی اس وقت کے علماء نے کل عالم کی تاریخ سے ایک انسان نکال کر دکھا دیں تو پھر میں آپ کے ساتھ شامل ہونے کو تیار ہوں.ایک بھی نہیں تو اسی طرح امام نے آنا تھا اسی طرح آیا ہے وہی رستے ہیں جس پر حضور اکرم چلے تھے.اور ان دستوں پر چلنے والے کو آپ جھوٹا کہتی ہیں کیونکہ یہ اور رستے پر نہیں چلا.جو سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں سے ہوا.وہ متوفیصدی سارے کا بنا را جماعت احمدیہ سے ہو چکا ہے.اور اب آپ کے سامنے ہو رہا ہے.ہر روز اخبارات میں مطالبے چھپ رہے ہیں کہ ان کو کلمہ پڑھنے سے روکو.چھپ رہے ہیں یا نہیں چھپ رہے ؟ ان کو اذان دینے سے روکو، ان کو نمازیں پڑھنے سے روکو، ان کو مسجدیں بنانے سے روکو اور قرآن کریم کی اشاعت سے روکو اور ان کو اپنا نام مسلمان نہ رکھنے سے روکو.یہ ساری باتیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہی جاتی تھیں یا نہیں کہی جاتی تھیں ؟ اگر کسی دل میں تقویٰ ہو تو تردد کے بغیر بے ساختہ وہ یہ کہے گا ہاں ضرور کہی جاتی تھیں تو جس کے متعلق کہی جاتی تھیں وہ نعوذ باللہ جھوٹا تھا کہ سچا تھا ؟ وہ سب بچوں سے پڑھ کر سچا تھا.یہ جھوٹوں کا کر دار ہوتا ہے کہ ان کو عبادتوں سے تکلیف ہوتی ہے ، ان کو کلموں سے تکلیف ہوتی ہے، ان کو نمازوں سے تکلیف ہوتی ہے.سچا آدمی تو جب کسی ہیں اچھی چیز دیکھتا ہے.تو اس کو پیار آتا ہے.اس پر چاہے وہ دشمن بھی ہو

Page 101

ہے جتنا حسن اس میں پیدا ہوتا چلا جائے آتا وہ اس کے دل کے قریب ہو جاتا کیونکہ اس کو بھی مامتنا ہوتی ہے جس طرح بچھی ماں بچھے کے اندر ہزار خرابیاں بھی ہوں اگر سچا پیار ہو گا اس سے تو ایک بھی خوبی کی بات ہو تو وہ اُچھالتی پھرے گی.آج میرے بچے نے یہ کیا.آج میرے بچے نے یہ کیک دشمن کی مبرائیاں تو الگ رہیں جو شریکے کے لوگ ہوتے ہیں جن سے دشمنی اور نفرت ہوتی ہے.ان کی خوبیاں بھی بُری لگنے لگ جاتی ہیں.تو یہ تو حال ہو چکا ہے اور یہ حال ہمیشہ اس وقت ہوا کرتا ہے جب خدا کسی کو بھیجتا ہے.ایک مسلم تاریخ پہلی آرہی ہے.ہیں حضرت امام مہدی نے اگر یہ نہیں ہیں تو آئندہ آتا ہے.آئندہ کے لئے تو اپنا تصور ٹھیک کرلیں.ورنہ آپ اس کو بھی Miss کر دیں گی.یہ تو گیا ہاتھ سے.آنے والا بھی چلا جائے گا.کیونکہ اس وقت بھی اس سے یہی سلوک ہوگا.اس نے دعوی یہی کرنا ہے کہ مجھے خدا نے بنایا ہے مجھے الہام ہوا ہے.اللہ نے کہا ہے میں تجھے کھڑا کرتا ہوں.اور علماء کی طرف آپ دیکھیں گی وہ کہیں گے جھوٹا ، وحی بند، کسی کو خدا نہیں بنا سکتاکہ وہ کہے گا دیکھو میں خدا کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھا ہوں ، میں تم میں سب سے زیادہ ہر دلعزیز تھا ، آج ساری دنیا مجھے گالیاں دے رہی ہے ، ساری دنیا مخالفت کر رہی ہے ، پھر بھی میں اس رشتے پر چل رہا ہوں ، میرے جاننے والے اس رستے پر چل رہے ہیں، نیکیاں کر رہے ہیں، ماریں کھا رہے ہیں.علماء کہیں گے بالکل جھوٹا، یہ جھوٹ کی علامت ہے ، سچ کی علامت نہیں ہے.تو آپ اس وقت کیا فیصلہ کریں گی.آتا تو اس نے اسی طرح ہے تو اس لئے آپ اپنا تصور درست کریں.

Page 102

١٠٢ مسیح موعود کی آمد کے بارے میں بگڑتے ہوئے تصورات دوسرا تصور ہے حضرت عیسی کا.علماء یہ کہتے ہیں کہ پرانا عیسی زندہ آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ جسم سمیت اکثر بے گا اور امت محمدیہ ہو چاہے کرتی رہے وہ اُترے گا اور ساری دُنیا اُمت محمدیہ کے لئے خود فتح کرے گا.اور فتح کر کے ساری دنیا کی سلطنتوں کی چابیاں مسلمانوں کے سپرد کردے گا.اور بیٹھے بیٹھے قعر مذلت میں گری ہوئی قوم اچانک دُنیا کی بادشاہ بن جائے گی.ہم اس تصور میں بھی آپ سے اختلاف رکھتے ہیں.ہم کہتے ہیں کہ تمثیلات ہوتی ہیں ، یہ پیشگوئیاں رومانی معنی رکھتی ہیں اور جب بھی لوگ ٹھوکر کھا کر ان کو ظاہری معنی دینے لگ جاتے ہیں وہ آنے والے کو نہیں پہچان سکتے کیونکہ آنے والے کا رخ کسی اور طرف ہوتا ہے اور وہ کسی اور طرف منہ کر کے بیٹھے رہ جاتے ہیں.ہمیشہ انہوں نے اسی طرح MISS کیا ہے.آپ آسمان کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ اوپر سے کوئی اترے گا.تو اس رستے سے آیا ہی نہیں.تو یہ دھو کہ ہمیشہ پہلے بھی لگتا رہا ہے.اور یہ کبھی نہیں ہوا کہ قوم کوئی بے عملی کی حالت میں پڑی ہو گناہوں میں ملوث ہو، رشوت ستانی، جھوٹ، دنیا داری دکھا دئے ہر قسم کے رسم رواج میں اس کا انگ انگ بندھ جائے اور خدا تعالے ان کی ان سب باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اچانک ان کو دنیا کا بادشاہ بنا دے.آسمان سے کوئی اترے اور وہ ساری دُنیا اُن کے لئے فتح کرے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کو بلا ما است کے منصب پر کھڑا کر دے.یہ تو واقعہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پہلے کبھی نہیں ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ترقی کا گر بیان نہیں فرمایا وہ گر ہے

Page 103

١٠٣ ہی جھوٹا کیونکہ ترقی کا ہر سچا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما چکے ہیں.قوموں کی اصلاح بیماروں کی زندگی کوئی ایک بھی نسخہ نہیں جس کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہ فرمایا ہو.ورنہ وہ خاتم النبیین نہیں بنتے.ورنہ کلام الہی کتاب الله کامل کتاب نہیں بنتی.اگر اس میں سے کوئی چیز باہر گئی ہو یعنی کوئی ایسی ترکیب جو اصلاح احوال کی ہو قوموں کو زندہ کرنے کی ہو.اگر قرآن میں نہ ہو تو قرآن مکمل کیسے ہوگیا.تو ہم کہتے ہیں قرآن پر غور کریں قرآن بناتا ہے کہ کبھی خدا تے کسی لٹکتے ہوئے آدمی کو آسمان سے نہیں بھیجا.کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا.لوگ انتظار ضرور کرتے ہیں.لیکن پیدا نہ مین سے ہوتا ہے.جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں ایلیاہ کا انتظار ہو رہا تھا.اس میں بھی وہ تصور بدل گئے تھے یعنی آنے والے کی انتظار کا تصور بڑا چکا تھا.یہودی کہتے تھے حضرت عیسی کے آنے سے پہلے آسمان سے ایلیاہ نبی اُترے گا جو آسمان پر چڑھ کر وہاں انتظار کر رہا ہے.اور وہ اترے گا اور منادی کرائے گا کہ آنے والا آ رہا ہے ، اپنے دل کے درپٹ کھول لو.تب مسیح آئیں گے.یہ بائیل میں لکھا ہوا موجود ہے، یہودی اور عیسائی تاریخ اس پر متفق ہے کہ یہ واقع اس طرح ہوا اور حضرت مسیح آگئے اور کوئی آسمان سے نہ اترا.کسی نے نہیں دیکھا کہ ایلیاہ لٹکتا ہوا آسمان سے آرہا ہے تب یہودی علماء نے وہی اعتراض کیا جو ہم یہ آج کل کے علماء کر رہے ہیں اُسی طرح مذاق اڑائے جس طرح ہمارے سے اٹائے جاتے ہیں کہ مسیح ابن مریم کے متعلق تو نکھا ہے کہ مریم کا بیٹا میسج آسمان سے نازل ہوگا اور یہ مرزا غلام احمد قادیانی چراغ بی بی کا بیٹا زمین سے پیدا ہوا اور ہمارے پنجاب میں تو شریح کیسے ہو گیا جس نے آسمان سے اترنا تھا اور وہ مریم کا بیٹا تھا.بالکل ہی واقعہ

Page 104

۱۰۴ پہلے بیج کے وقت گزر چکا ہے.پڑھیں تو سہی پوچھیں تو سہی کسی سے ایک ذرہ کا بھی فرق نہیں ہے.اُس زمانے میں ایلیاہ کے متعلق یہی اس وقت کی اُمت کا خیال تھا.اور لکھا ہوا بھی تھا بائیل میں.تو حضرت مسیح کے حواریوں کو انہوں نے چھیڑنا شروع کیا کہ بھئی تمہارا میں ہو گا سچا ہم مان جائیں گے لیکن وہ ذرا ایلیاہ دکھا دو جس نے آسمان سے آنا تھا.وہ دیکھتے ہی ہم کہیں گے ہاں ٹھیک ہے.خدا کے صحیفوں کی بات پوری ہوگئی.تو حضرت شیخ سے آپ کے حواریوں نے ذکر کیا کہ یہ ہمیں محول کر رہے ہیں.یہ تمسخر اڑا رہے ہیں کہتے ہیں ایلیاہ دکھاؤ.تو حضرت کی جو خدا کے نبی تھے اور حضرت ذکریا کے بیٹے تھے.ان کو بائبل میں یوحنا نام دیا جاتا ہے.وہ حضرت مسیح سے پہلے نبوت کر رہے تھے.تو حضرت بیج نے حضرت یوحنا کے متعلق فرمایا.یہ وہی ایلیاہ ہے جس نے آسمان سے اتر نا تھا ، چاہو تو قبول کرو چاہو تو نہ کر د کتنا عظیم استان فقرہ ہے اور کتنا دائمی صداقت رکھنے والا فقرہ ہے.آسمان سے لوگ اسی طرح آیا کرتے ہیں.زمین سے پیدا ہوتا ہے ، اللہ کے تصرف سے کھڑا ہوتا ہے صحیفوں میں اس کو آسمان سے آنا قرار دیتے ہیں.فرمایا اگر نہیں مانتے تو پھر اس کے بعد اب کوئی آسمان سے انتہ ا تم نہیں دیکھو گے.جس طرح تم انتظار کر رہے ہو آسمان سے اترنے والے کا وہ اب کبھی نہیں آئے گا بیچ کو گزرے ہوئے اب کتنے سال گزر چکے ہیں.۱۹۸۴ سال تو ہو چکے ہیں اور آج تک کسی نے عیسی کو آسمان سے اترتا نہیں دیکھا.۱۹۸۴ سال ہو گئے کہ یہودی ہر سال دیو بہ گریہ پر جا کر کر چکتے ہیں، لہو لہان ہو جاتے ہیں وہاں ایک دیوار ہے فلسطین میں جس کو Wailing Wall کہتے ہیں.اس سے بحریں مارتے ہیں ، دعائیں کرتے ہیں ، واویلا کرتے ہیں کہ اے خدا اُس

Page 105

1.0 عیسی کو بھیج جس کے بعد دمیج نے آنا تھا اور دیکھ رہے ہیں آسمان کی طرف کہ خدا سچ سچ آسمان سے اتارے گا.وہ ابھی گیا ، اس کو پہچانا ہی نہیں.مسیح بھی آگیا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ظاہر ہو گئے.ایک کہیں MISS ہو جائے تو باقی بھی ہوتی چلی جاتی ہیں.یہ حال تو اپنا نہ کریں صحیفوں کو انبیاء کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں.خدا کا کلام کسی ظاہر پرست انسان کا کام نہیں ہے.یہ معنی رکھتا ہے.اس کے اندر خدا تعالے نے حکمتیں رکھی ہیں آسمان سے آنے سے مراد صرف اتنا ہوتا ہے کہ اللہ اس کو بھیجے گا.کوئی اور کبھی نہیں آیا.منشائے الہی کو نہ سمجھنے کی غلطی تو یہ خاتون کہتی ہیں کہ فرق کیا ہے ؟ ایسا تصویر بنا بیٹھی ہیں کہ اب قیامت تک انتظار کے سوا آپ کے مقدر میں کچھ نہیں.پہلے کبھی لٹکتا ہوا وجود آسمان سے اترا ہے نہ اب اُترے گا.نہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تشریف لائے.اس لئے آپ کے لئے دو ہی رستے ہیں یا تو تمثیل کو قبول کریں.یا پھر ہمیشہ کیلئے رستے میں بیٹھ جائیں.اور اس رستے پر تو سوائے فیض کے اس شعر کے اور کچھ لکھا ہوا نہیں ہے کہ گل کرو شمعیں بڑھا دو کے دمینا و ایاغ اپنے بے خواب کو اڑوں کو مقفل کر لچہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا فرضی قصے بنانے والے جو دین کی اصطلاحات کو نہیں سمجھتے اور کہانیوں میں بنے کو پسند کرتے ہیں ان کے لئے کبھی کوئی آسمان سے نہیں اترا نہ آئندہ اترے گا ہم

Page 106

-1.4 کہتے ہیں اس واقعہ کو پہچانو جو ہر موت کے وقت رونما ہوا ہے مصائب کی چکی میں سے ایک قوم گزاری جاتی ہے.ماننے والوں کو عاق کیا جاتا ہے ، مائیں اپنے بیٹوں کو گھروں.نکال دیتی ہیں ، باپ اپنے بیٹیوں کو بعض دفعہ مار مار کر ہلاک کر دیتے ہیں.یہ واقعات بھی گزرے ہیں آج کی دنیا ہیں قصور یہی احمدی ہونیوالا.ایک بیٹا ایسا تھا جس کو خود باپ نے مار مار کر ہلاک کر دیا.جھوٹوں کو تو پوچھتا ہی کوئی نہیں جھوٹے ہزار پھرتے ہیں.آج بھی دہر ہے ، بد کردار ہے جیا، چھوٹ بول کر لوگوں کی جائیدادیں کھانے والے عدالتوں میں جھوٹے قرآن اٹھانے والے کی کیا پرواہ ہے؟ کچھ نہیں فرق پڑتا صرف سچا تکلیف دیتا ہے.برداشت نہیں ہوتا.وہ ایک ایسی سوسائٹی بن جاتا ہے جو دوسری سوسائٹی سے الگ بن رہی ہوتی ہے اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کوئی نئی قوم بن گئی.اس کو ختم کرو اس کو بلاک کردوں تو یہ ہے اصل فرق جو ہمارے اور آپ کے درمیان ہے.ورنہ شریعت وہی ہے ، سنت رہی ہے، حدیث وہی ہے بنیادی عقائد رہی ہیں ، اعمال وہی ہیں اس میں کوئی فرق نہیں.اگلے کاغذیر سے حضرت صاحب نے یہ سوال پڑھا.اگر حضرت عیسی حضرت مریم کے بیٹے مسجد انہ طور پر ہو سکتے تھے تو دوسرا معجزہ آسمان سے اترنے کا کیوں نہیں ہو سکتا تھا ؟ آپ نے جو ایا فرمایا خضر عیسی کا جسم سمی اسیمان پر اٹھایا جانا سنت اللہ کے خلاف ہے بالکل ٹھیک ہے سب کچھ ہو سکتا ہے.مگر قرآن کریم نے جو اس کا جواب دیا ہے معجزانہ پیدائش کا وہ ہمیں آپ کوٹنا دیتا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے.حضرت علی کی مثال آدم کی مثال کی طرح ہے.اس پر غور کرو اس کے متعلق

Page 107

1+6 تو تم کہتے ہو کہ بین باپ کے کیسے پیدا ہوا.تو آدم کے متعلق عقیدہ رکھتے ہو کہ نہ اس کی ماں تھی نہ اس کا باپ تھا.تو اگرین باپ کی پیدائش کے نتیجے میں آسمان پر چڑھنا چاہیے تو حضرت آدم کو تو ساتویں آسمان سے بھی اوپر نکل جانا چاہیئے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ مشال ملتی جلتی ہے بلکہ اس سے زیادہ شدید ہے.تو یہ کون سی لغویات ہوئی.یہ کوئی استدلال تو نہ ہوا کہ چونکہ ایک معجزہ عطا ہو گیا.اس لئے دوسرا عجیب و غریب معجزہ ضرور عطا ہو.خدا کو کون پابت کر سکتا ہے.سب کچھ ہو سکتا ہے، اگر خدا چاہیے.اس بات نہیں ہمارا کوئی اختلاف نہیں.مگر اگر چاہیے.تو بنائے گابھی تو سہی کہ میں نے ایسا کیا ہے.جب ایک گواہی نہ ملے ہم کیوں مانیں.ایک دفعہ ایک مولوی صاحب نے مجھ سے یہی بات پوچھی تھی کہ حضرت عیلی آسمان پر جا نہیں سکتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں جاسکتے ، خدا قادر ہے؟ میں نے کہا کیوں قادر نہیں ہے.ضرور جاسکتے ہیں خدا بھی قادر ہے تو پھر کیوں نہیں مانتے.میں نے کہا آسمان پر جاسکتے ہیں تو کشمیر نہیں جاسکتے ؟ خدا قادر نہیں ہے کہ کشمیر پہنچا دے تو کیوں نہیں مانتے آپ یہ کوئی دلیل ہے کہ ہم تب انہیں گئے جب خدا کہے گا کہ ہاں یہ واقعہ ہوا ہے.اس کے بغیر نہیں نہیں گے.اس لئے نہیں ہم انکار کرتے کہ ناممکن ہے.ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالے نے کبھی کیا نہیں یہ اس کی سنت کے خلاف ہے اور آئندہ سے متعلق خدا نے یہ نہیں کہا.قرآن کریم میں جو آیت ایک ہے وہ آیت جس میں رفع کا ذکر ہے تو علماء اس سے استنباط کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے ہم نے جسم سمیت آسمان پر اٹھا لیا.اس آیت پر میں تھوڑی سی گفتگو کر دیتا ہوں اگر ان کے ذہن میں یہ شبہ ہو تو وہ دور ہو جائے گا.قرآن کریم میں وہ آیت لمبی ہے.صرف آخری حصہ بیان کرتا ہوں.حضرت عیسی کے متعلق فرمایا یہ دلوں

Page 108

1.A نے ان کو قتل نہیں کیا.وہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ ہم نے قتل کیا.وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَاهُ بَلْ تَفَعَهُ اللهُ البناء (الساد، ۱۵ ۱۵۸) وہ ہرگز حضرت مینی کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ اللہ نے حضرت علی کا اپنی طرف رفع فرمالیلہ یہ وہ آیت ہے جس کا علماء یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ہم نے عیسی کو زندہ آسمان پر جسم سمیت اُٹھالیا.اب یہ مسئلہ تو دو منٹ میں حل ہو جائے گا کہ اس کا کیا معنی ہے.ہم کہتے ہیں کہ کہ مفع کا لفظ قرآن کریم میں اور بھی جگہ تو استعمال ہوا ہے.خدا نے رفع فرمایا اور بندے گا.یا خدا رفع کرنا چاہتا تھا کسی بندے کا.تو قرآن قرآن کی تشریح کرتا ہے.وہاں لفظ رفع پر غور کہو تو اس لفظ رفع کے معنی سمجھ میں آجائے گا.سب سے بڑی تصدیق قرآن کی تو قرآن ہی کرتا ہے اور قرآن کے معنی میں کسی اور کی محتاجی بھی نہیں رہتی ایک آیت دوسری کی تشریح کر دیتی ہے.تو دو جگہیں اپنی ہیں قرآن کریم میں اس کے علاوہ جہاں اللہ تعالٰی نے کسی بندے کے رفع کا ذکر فرمایا ہو اور دونوں موقعوں پر علماء رفع سے جسم سمیت اٹھا نا مراد نہیں لیتے اور نہ لے سکتے ہیں اور قرب الہی کا ترجمہ کرتے ہیں.مثلاً اللہ تعالے حضرت ادریس کے متعلق فرماتا ہے.ورفعته مكانا علت از مری مد اور ہم نے ان کو ایک بلند مقام کی طرف اُٹھا لیا یا رفع کر لیا.اور ترجمہ کیا ہے اس کا ہم نے حضرت اور میں کے درجات بلند کئے ان کو اپنا قرب عطا فرمایا.کہ فتح کا معنی قرب الہی، خدا کا پیار ایک اور آیت ہے.بلعم باعور کا نام آپ نے سُنا ہوگا کہ جو ایک وقت میں اپنے زمانہ کا ولی اللہ تھا اور پھر وہ کو نیا داری کی طرف جھک گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مردود کر دیا.یہ بلم یا مور کا واقعہ ہے.اس کا نام لئے بغیر ایک کتے سے اس کی مثال دے کہ دیہاں بھی لفظ کتا آیا ہے) ایک

Page 109

کتے سے مثال دے کر اس کے متعلق فرماتا ہے.ولويتنَا لَرَفَعْتُهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ اگر ہم چاہتے تو ان بلعم باعور کا رفع فرمالیتے وہی لفظ ہے رفع مینٹی والا.لیکن یہ بد بخت زمین کی طرف جھک گیا.اب بتائیے اس کا ترجمہ کیا بنتا ہے؟ اگر علماء کا اعتراض درست ہے کہ جب خدا رفع کرے کسی بندے کا تو مراد جسم سمیت اٹھانا ہوتا ہے.تو پھر اس کا ترجمہ یہ بنے گا کہ بلعم باعور سانپ بچھو کی طرح زمین میں گھنے کی کوشش کر رہا تھا اور اللہ تعالے اسے کھینچ تان کر اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا.اور وہ ہاتھ پاؤں مار کر چھٹ کر زمین میں گھس گیا.کیسا تمسخر بن جاتا ہے، کلام الہی کے ساتھ مذاق کرنے والی بات ہے.اس لئے روحانی کلام کا ترجمہ اس وقت سمجھ آتا ہے جب معانی معنوں میں کیا جائے.اللہ جب رفع فرمائے تو قرب الہی مراد ہوتا ہے.جس طرح اس کو کہتے ہیں رفیع الشان ہے.وہ شانیں بلند کرنے والا ہے، وہ دیتے بلند کرنے والا ہے.ان معنوں میں قرآن کریم نے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے اور حدیث کا استعمال دیکھ لیجئے تو بعیت بے قرآن کے مطابق ہے ایک ذرہ کا بھی فرق نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دو مواقع پر لفظ رفع استعمال فرمایا.بندوں کی نسبت سے ایک حدیث ہے.اس میں حضور فرماتے ہیں کہ جب خدا کا بندہ عاجی اختیار كتاب رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِة بالسلسلة (كنز العمال جلد ۲ صفر ۲۵) پھر اس کو ساتویں آسمان پر اٹھا کر لے جاتا ہے جسمانی معنی کرنے کے سارے مواقع یہاں پر موجود ہیں.ایک اور حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں بالسلسلہ کہ وہ اس کو ساتویں آسمان پر زنجیروں میں پیٹ کہ خدا اُٹھا کنہ لے جاتا ہے.اب بتائیے.اگر که فع کا ترجمہ جسم سمیت اُٹھانا جائزہ ہو تو سب سے زیادہ یہ موقع ہے کیونکہ

Page 110

11° آسمان سے زنجیر بھی اتر رہی ہے اور بندہ پیٹا جا رہا ہے اور پھر ساتویں آسمان کا بھی ذکر ہے لیکن کیوں ترجمہ نہیں کرتے.اس کا ترجمہ تو یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ اس کے درجے بلند کرے گا اس کو اپنا قرب عطا فرماتا ہے.زنجیر سے مراد کیا ہے ؟ زیخیر تو طبقہ یہ طبقہ ہوتی ہے.حلقوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہے تو مراد یہ ہے کہ جتنا خدا کے حضور کوئی عاجز ہی کرے گا جتنا مجھکے گا اتنے زنجیر کے حلقے وہ خدا کے قریب ہوتا چلا جائے گا اتنے درجے وہ بلند ہو گا.تو یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے.اگر تم قرب الہی چاہتی ہو اور ساتویں آسمان پر جانا پسند کرتی ہو.خدا کے قرب کے لحاظ سے تو اتنا ہی عجز اختیار کرد.خدا کے حضور تکبر اس کے ہاں قبول نہیں ہوتا ، عاجہ بندی بندگی خدا کی تو اللہ تمہارا کہ فع کرنا شروع کرے گا اور وہ کہ فتع ساتویں آسمان تک ہو جائے گا.اب بتائیے یہ مفہوم ہے فوراً ذہن میں آنا ہے.جسم سمیت والا رفع کا معنی تو کہیں ٹھیک بیٹھتا ہی نہیں.آگے سُنیے آپ کو آنحضور نے ایک دعا سکھائی جو دو سجدوں کے درمیان آپ پڑھتی ہیں اور مرد بھی پڑھتے ہیں.اس میں آخر میں ایک لفظ آتا ہے وارفعنِی.اللَّهُمَّ اغْفِرُ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِی اِس میں آخر میں آتا ہے وار فعنی اے خدا ہمارا کہ فع فرمادے.اب بتائیے کیا سکھایا آپ کو کیا دعا مانگو دوسجدوں کے درمیان ہم یہ دعا پڑھتے ہیں کہ اے خدا ہمارا کہ فع فرما ہے.اگر علماء کا یہ ترجمہ درست ہے کہ کرفع سے مراد جسم سمیت اٹھانا ہے تو ایک سجدے سے اتنا تھک جاتی ہیں آپ کہتی ہیں مجھے اگلے سجدے سے پہلے پہلے جسم سمیت اُٹھا ہی لے ، یہاں رہنے ہی نہ دے ہمیں دوسرے سجدے کی مصیبت سے بچ جاؤں کس قدر تمسخر ہے.کلام الہی اور کلام رسول

Page 111

کے معنی جب آپ بگاڑیں گی تو وہ تمسخر بن جائے گا اور بول اُٹھے گا وہ ترجمہ کہ میں جھوٹا ہوں.میں اس اصول پر اور کلام الہی پر سجتا نہیں.اس لئے جھوٹا ہوں.تو ہم کوئی صدا نہیں کرتے ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو سمجھنے کے لئے اللہ کے کلام کی مدد لیجیے.قرآن کریم میں جہاں جہاں خدا نے بندے کا کہ فع کیا ہے ان آیات پر غور کرلیں تو یہ جھگڑے والی آیت فور اصل ہو جائے گی.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاں خدا کو کہ فع کرنے والا اور بندے کو مرفوع قرار دیا، وہاں حدیثیں اُٹھا کر دیکھ لیجیے اس ترجمے کے سوا آپ کے پاس چارہ ہی کوئی نہیں رہے گا.پس ہم یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ وہاں قرب الہی مراد ہے.اس سے زیادہ کوئی معنی نہیں.بَلْ فَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ سے صبح کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت نہیں ہوتا اس آیت کا اگلا حصہ کلام کو خود اتنا واضح کر دیتا ہے کہ اتنے لیے حوالوں کی بھی دراصل ضرورت نہیں رہتی.اللہ تعالی فرماتا ہے بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيهِ خدا نے حضرت عیلی کو آسمان پر نہیں اٹھایا اپنی طرف اٹھایا.تو اب خدا کی طرف خدا کی سمت طے کئے بغیر عینی کیسے اُٹھ جائیں گے ؟ جب کہا جائے کوئی کسی طرف گیا تو جائے سمت معین کرنے سے پہلے کہنے والے کی طرف تو معین کرنی ضروری ہے.ورنہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ حرکت ہو سکے.میری طرف میری یہ بھانجی آئے تو جب تک میری طرف نہ معلوم ہو بیچاری کدھر جائے گی.اندھیرے میں میں اس کو آوازہ دوں کانوں میں سمت تو سمجھ نہ آئے کہ کدھر سے آرہی ہے تو شکریں مارتی پھرے گی ، پتہ نہیں لگے گا کہ کدھر جانا ہے تو جسم کی حرکت کیلئے سمرت معین ہونا ضروری ہے.تو اللہ کی سمت کون سی تھی جدھر حضرت عیسی گئے وہ تو ہر جگہ موجود ہے.وہ تو فرماتا ہے میں

Page 112

١١٢ تمہاری رگ جان سے بھی قریب ہوں.حضرت عیسی کی رگ جان کے اندر طبی خدا تھا اور وہاں موجود تھا.توپھر حرکت کیوں کی ؟ اگر اس جگہ کو چھوڑ کر کسی طرف گئے تو ثابت ہوا کہ وہاں خدا نہیں تھا جہاں سے چلے اور وہاں خدا تھا جہاں پہنچے.تو خدا کی ہستی ہاتھ سے جاتی ہے.عیسی کو آسمان پر چڑھائیں بے تک پھر وہاں اللہ نہیں رہے گا.کیونکہ جس خدا کی سمت معین ہو جائے وہ خدا نہیں رہتا.یاد رکھیں سمت ہمیشہ محدود آدمی کی ہوتی ہے.یعنی ایک طرف ہو اور دوسری طرف نہ ہو.اس لئے لا محدود کی طرف محدود کی جسمانی حرکت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ وہ ہر جگہ ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.انَ مَا تُوَلُّوا فَلَو وَجهُ الله وہ تو ہر طرف ہے کوئی سمت اس سے خالی نہیں.تمہاری رگِ جان سے قریب ہے.تو خدا نے تو محاورہ ایسا پیارا استعمال فرمایا کہ حضرت عیسی کے جسم کی حرکت کی گنجائش ہی کوئی نہیں.اس لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا.اگر یہ لکھا ہوتا کہ آسمان پر چلا گیا تو جیسا کہ پہلے صحیفوں میں بھی لکھا ہوا تھا اور اس کا یہ ترجمہ درست نکلا کہ روحانی معنی مراد ہیں.لیکن یہاں تو یہ بھی نہیں لکھا ہوا کہ آسمان پر چلا گیا.اس لئے کوئی دھو کے کی وجہ نہیں ہے.حضرت عیسی عام نبیوں کی طرح فوت ہو چکے ہیں.قرآن کریم ان کی وفات کی واضح خبر دیتا ہے.ایک سے زیادہ آیات میں ان کی وفات کی خبر ہے اور ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں اور کسی اور نبی کو خدا نے آسمان پر بٹھایا ہو.اور وہ بھی امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے.آپ کسی طرح اس عقیدے کو مان رہی ہیں یعنی جس رسول کے متعلق خدا قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَرَسُولاً إلى بني إسرائيل - یہ صرف بنی اسرائیل کا رسول ہے.

Page 113

وہ ایک دن آسمان سے اُترے اور کہے میں اُمت محمدیہ کا بھی رسول ہوں.اس کی بات مانیں گی تو یہ آیت جھوٹی ، آیت مانیں گی تو اُترنے والا جھوٹا ، کیونکہ دونوں میں تضاد ہے.موسوی اُمت کے رسول کی شان ہی نہیں ہے کہ وہ امت محمدیہ کی اصلاح کر سکے.یہ صرف غلام مصطفے کی شان ہے گر است میں سے پیدا ہوا محمد مصطفی سے ہدایت کے سبق سیکھے اللہ سے ہدایت پائے اور امت محمدیہ کی ہدایت کرے بغیر کا کام ہی نہیں ہے.چنانچہ قرآن کریم نے حضرت عیسی کو خود مثل قرار دیا ہے جب وہ آئیں گے بطور مثال آئیں گے اس لئے ہم تو مثل مانتے ہیں کہ میٹی اپنے وجود میں اصل نہیں آئے گا بلکہ ایک مثل کے طور پر اترے گا.ایک احمدی خاتون نے کہا ہے کہ آپ نے دو سجدوں کے درمیان کی دُعا کی بات کی ہے حالانکہ مختلف فرقوں کے غیر احمدی دو سجدوں کے درمیان کوئی دُعا نہیں پڑھتے ؟ حضرت صاحب نے سمجھایا.دُعا بين السجدتین کی شرعی حیثیت غیر احمدی مالک مختلف ہیں.کچھ ہیں نظریاتی لحاظ سے مثلاً بریلوی اہلِ حدیث وغیرہ کچھ میں فقہی لحاظ سے مثلاً حنفی ، شافعی ، حنبلی وغیرہ سے محترم خاتون نے یہ سوال اُس دُعا کے حوالے سے اٹھایا جو تام فرقوں میں پڑھی جاتی ہے.خواہ دوسروں کے درمیان ، خواہ نماز سے الگ ہو کر.اس دعا کا ذکر تفصیلا اسی کتاب کے صفحات 1 کے درمیان سے لے کر صفورا کے درمیان تک لاحظ ہو.

Page 114

繩 ان میں سے بعض فرقے دوسروں کے درمیان یہ گو عا ضرور پڑھتے ہیں.اور بعض نہیں پڑھتے.لیکن جو نہیں پڑھتے وہ بھی وہ معنی نہیں کرتے جوئیں نے بیان کئے تھے کہ ہو نہیں سکتے.اسی لئے اس بات پر سب متفق ہیں کہ پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے کہ اپنی دعا کا یہ مطلب بہر حال نہیں ہے کہ مجھے جسم سمیت اٹھالو.وہ بلا کر بھی ثابت ہو جاتی ہے.کہتے ہیں کہ ریڈیو پر پر بھی کہا جانگ ہے کہ دو بھولو کے درمیان کچھ نہ پڑھا جائے.یہ معلوم ہوتا ہے اس فرقے کا قبضہ ہے.ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جن کے عقیدے میں داخل نہیں ہے لیکن یہ کبھی آپ کو بتا دیتا ہوں اپنے علماء سے بے شک پوچھ لیں.احمدیوں کے سوا بھی کروڑوں مسلمان ہیں جو اس بات کے قائل ہیں اور پڑھتے ہیں اسی دعا کہ جوئیں نے پڑھی ہے.اگلا سوالی احمد یا خیر امور کی اسب بہنوں کی یکساں دلچسپی کا تھا.آپ لوگ سوئم ، چاہوانی ، ختم قرآن ، آیت کریمہ کے ختم پڑھنے :- باداموں کے عصر کو کیوں نہیں دے ختم حضور نے علمی استدلال سے جواب خوال مذہبی بگاڑ اور قومی تعمیل کی ماں واقعہ یہ ہے کہ ہم وہی ختم مانتے ہیں جو ختم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہو اور نہ اس کے سوا کوئی عقیدہ ہے.اگر یہ قصور ہے تو ہم قصور وار ہیں.

Page 115

وجہ یہ ہے کہ اس میں اصولی اختلاف ہے.بعض دفعہ نیکی کے نام پر بھی غلط رسمیں رائج ہو جاتی ہیں اور وہ فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچایا کرتی ہیں.امر واقعہ یہ ہے اور اس عقیدے پر ہم بڑی شرح صدر سے قائم ہیں، اور اس میں ہم کبھی تبدیلی نہیں کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کامل ہو گیا اور آپ کا اسوہ حسنہ ہی ہمیشہ کے لئے تقلید کے لائق ہے یا ان صحابہ سوختہ جنہوں نے آپ سے تربیت پائی.ان کے سوالو قرآن میں اور کسی کا اور ماننے کا کہیں محکم نہیں ہے نکال کر دکھاد کیجئے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی الہ علیہ وسلم آخری نمونہ ہیں جن کی پیروی لازمی قرار دے دی گئی اور کسی اور کی پیٹری تب ہم کریں گے اگر وہ حضور کریم کی پیروی کرے گا ور نہیں کریں گے.تو یہ ساری چیزیں جن کا ذکر ہے، سوئم ، چالیسواں، گھٹلیوں پر قرآن پھوک ختم قرآن بادالوں پر پڑھنا اُن میں سے ایک بھی چیز حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں نہیں تھیں.اور اس بارے میں شیعہ سنی روایات میں اختلاف ہی کوئی نہیں متفق الیہ ہیں.کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے خلفاء راشدین آپ کے صحابہ کے وقت یہ رسمیں نہیں تھیں.تو قرآن ان سے بہتر کون سمجھتا تھا ؟ قرآن سے تم قرآن کے اور اگر کر مارا کیا ہے اور پیری زبان کھلے گی.دوری تو نہیں کرتے تھے.اور سر بادام یہ منزل کی راتیں ہیں.جب قرض کرتی ہیں تو رسم و روا کیا ہوا به

Page 116

114 کرتی ہیں.اتنی بات تو غالب بھی سمجھ گیا تھا.ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم متیں جب مٹ گئیں ابتدائے ایمان ہوگئیں اگر تم واقعی توحید کے قائل ہو اگر تمہارا یہ دعوی بھی ہے کہ تم موحد ہو تو موعد کا فرض ہے کہ رسم و رواج کو مٹائے اور کاسٹ دے.ہمارا کیش ہے ترک رسوم.اگریہ نہیں کرو گے تو پھر مٹی ہوئی اُمتوں کی علامتیں تمہارے اندر ظاہر ہو جائیں گی.اُمتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایمان ہو گئیں، پھر ایمان نہیں ہوتا.کسی کے ہاتھ کچھ تھوڑا سا ایمان کا ٹکڑا گیا ، کسی کے کچھ کڑ آگیا، کسی نے بہت اخلاص دکھایا تو باداموں پر پھونک دیا.کسی نے کر دکھایا تو کھائی ہوئی گھٹلیوں پر پھونک دیا سو ہیں تو سہی کہ آپ کا دین کیا بن رہا ہے.قرآن والا دین تو نہیں حضرت محمد مصطفی کی سنت کا دین تو نہیں ہے.حضرت اقدس محمدمصطفی صل اللہ علیہ کو کا تو سوئم ہوا.نگار ہوں ہوئی نہ چالیسواں ہوا، آپ کے کسی خلیفہ کا نہیں ہوا آپ کے کسی صحابی کا نہیں ہوا تو آج کون حق رکھتا ہے ان ریموں سے علاوہ ہیمیں بنانے کا جو آپ کے زمانے میں نہیں تھیں.توہم تو کہتے ہیں کہ قوم نے اگر زندہ ہوتا ہے.تو واپس جانا پڑے گا.اس زمانے میں لوٹنا پڑے گا جو زندگی کا زمانہ تھا اس روشنی میں جانا پڑے گا جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی روشنی تھی باقی سب اندھیرا تھا.

Page 117

(۳) منعقدہ ۱۴، ۱۹ فروری شاء میں ممبرات لجنہ کراچی اور بعض غیر از جماعت خواتین کی طرف سے عرض کئے ہوئے چند سوالات اور اُن کے جوابات ایک مسوال جو کراچی سے میں خواتین کی طرف سے اٹھایا جاتا رہا یہ تھا کہ غیر از جماعت لوگ عموما قرآن کریم پڑھنے کے لئے بلاتے ہیں.اس کے لئے کیا کریں ؟ نہ جائیں تو لوگ بُرا مناتے ہیں : حضور نے جواباً فرمایا ہر ختم قرآن کی محافل سنت نبوی سے ثابت نہیں اصل بحث یہ ہے کہ قرآن پاک کی محفل کس طرح سچائی جارہی ہے.اگر تو کوئی قرآن کریم کی تلاوت کر کے اس کے متعلق گفتگو کرتا ہے اس کی تعلیم دیتا ہے تو اس میں ضرور شامل ہونا چاہیئے کوئی حرج نہیں ہے.اس بہن نے مزید عرض کیا کہ وہ لوگ اپنے وفات شدہ عزیزوں کے ختم قرآن پر بلاتے ہیں حضور نے فرمایا.ایسی صورت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے.ان سے کہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اس کی کوئی سند نہیں.وہ پولیس ہم لوگ اگر نہ جائیں توہم بھی بلائیں تو نہیں آتے ہم نے سیرت النبی کا جلسہ کیا تو وہ نہیں آئے.فرمایا ہے تک نہ آئیں آپ کو اس سے کیا.اُن کو بلانے کی خاطر آپ نے دین

Page 118

HA تو نہیں چھوڑتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا کریں.کہیں میں دن تم سنت نبوی سے ثابت کر دو گی کہ یہ بات جائز ہے اس دن میں آجاؤں گی.بار ثبوت ان پر ڈالیں.سیرت کا جو جلسہ ہے یہ میں ثابت کرتی ہوں کہ تمہارے نزدیک بھی اور میرے نزدیک بھی غلط نہیں.اسلئے جس بات پر ہمارا اتفاق ہے اس کی طرف میں بلا رہی ہوں اس معاملے میں ہمارا اتفاق نہیں اس لئے میں نہیں آسکتی.ہاں اپنے طور پر قیادت کیا کریں.اسی ضمن میں ایک اور سوال ہوا کہ لوگ ختم کے چاول بھجوا دیتے ہیں کہ ہم لے کر خود کھنے کی بجائے کمی غریب کو دے دیں تو یہ جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا در سنت نبوی کی پیروی میں لومتہ لائم کی پرواہ نہ کریں اگر وہ چاول لے کر آپ غریب کو دے دیں گی تو وہ بجھیں گی کہ آپ نے اس کو بطور جائز قبول کر لیا ہے اور اخلاقی جرات آپ کی ماری جائے گی.آپ کو بڑی جرات کے ساتھ کہنا چاہیئے کہ میں منون ہوں آپ کے جذبہ کی.لیکن میں کے نزدیک شرعاً یہ درست نہیں ہے اس لئے میں واپس کرتی ہوں.سوائے اللہ کے نام کے کسی کے نام پر صدقہ خیرات نہیں ہونا چاہئیے کسی کو صدقہ دینا یا کسی کے گناہ معاف کروانے کے لئے اس کی طرف سے صدقہ دنیا بالکل اور چیز ہے.اگر یہ ہورہا ہے تو آپ کہیں کہیں تو صدقہ لینے کے لائق نہیں ہوں.اگر تو صدقہ ہے حضرت خواجہ معین الدین اور کسی بزرگ کے لئے آپ نے صدقہ دیا ہے تو آپ بے شک دیں.مگر غریبوں میں تقسیم کرائیں اور اگر یہ ان کے نام کی کوئی خیرات ہے ایسی جوان کی طرف سے دی جارہی ہے.اس کے لئے صدقہ کے رنگ کے علاوہ کسی رنگ

Page 119

114 میں کی ہوں اس کو جائز نہیں سمجھتی.ایک بہن نے کہا لیکن وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم بھی اپنے بزرگوں کے نام پر چندے وغیرہ دیتے ہو.فرمایا یہ تو نا جائز نہیں ہے.وہ بھی اسے سکتے ہیں کبھی بزرگ کی طرف سے کسی کو صدقہ دنیا یہ سنت سے ثابت ہے اگر وہ آپ کو صدقو بیجھتے ہیں تو آپ شکریہ کے ساتھ واپس بھیج دیں کہ ہمیں صدق نہیں چاہیئے.اس کے بعد محفل قرآن میں جانے کا ایک بہن کی طرف سے ایک بار پھر سوال اٹھایا تو حضور نے فرمایا.قرآن شریف کی محفل کا غلط استعمال جہاں ہو رہا ہو وہاں نہیں جانا چاہیئے.جہاں تک قرآن کریم ختم کروانے کا تعلق ہے اس کی سنت نبوی سے کوئی سند ثابت نہیں ہے بعض ایک رسم ہے.جس کا قرآن کریم سے ساری عمر کوئی تعلق نہیں رہا ، تا قرنہیں کرتے نہیں اور نہ ہی مکمل کرتے ہیں اور مردہ کو قرآن نجتے ہیں.جس کو آپ بھی نہیں پڑھنا آتا تو اس کی خاطر بخشوانا بھی ثابت نہیں ہے.ایسی عورتوں سے کہیں سنت سے جو چیز ثابت نہیں وہ ہمارا دین نہیں ہے ضمنا یہ سوال بھی پیش ہوا کہ ایسی صورت میں بعض غیر از جماعت خواتین اعتراض کرتی ہیں کہ آپ پارٹیوں وغیرہ میں آجاتی ہیں، قرآن خوانی کی محفل میں کیوں نہیں آئیں ؟ فرمایا کسی بھی محفل میں جانے کی اجازت ہے لیکن محفل میں دین کو بگاڑنے کی اجازت نہیں ہے.آپ ان کو یہ کہیں کہ محفل کی اجازت ہے جھیلیں اُس وقت بھی لگتی تھیں اب بھی لگتی ہیں.البتہ محفل میں دین کی باتیں کرنے کی اجازت ہے.دین کو بگاڑنے کی اجازت نہیں.قرآن کو محض رسم کے طور پر چین رنگ میں تم پڑھ رہی ہو سنت نیوئی سے کیونکہ ثابت نہیں ہے اس لئے ہمارے نزدیک یہ دین کو بگاڑنے کے مترادف.ہے.

Page 120

۱۲۰ ایک غیر از جماعت خاتون کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ایک شعر ہے.میں کبھی آدم کبھی موسمی کبھی لیقوب ہوں نیز ابراہیم ہوئی نسلیں ہیں میری بے شمار اس شعر سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ خود کو حضرت رسول کریم صل اللہ علیہ دوم سے بھی اعلیٰ اور افضل ثابت کرتے ہیں.حضور کے فرمایا.وہ ہے میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے “ یہ بالکل الٹ مفہوم لیا ہے جو شخص یہ دعوی کرے کہ میں کامل غلام ہوں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا اور یہ کہے کہ ت سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا ایک ایک چیز ہم نے اس سے پائی اور جو یہ دعویٰ کرے سے این چشمه روان که بخلق خدا دیم یک قطره زیجر کمال محمد است علم و عرفان کا جو چشمہ رواں دیکھ رہے ہو یہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بحر عرفان کا ایک قطرہ ہے.اس کا مقام جتنا بڑا ہو آقا کا اس سے زیادہ ہی.بڑا ہوتا چلا جائے گا نہ کہ تعوذ باللہ اس کے مقام کے پڑھنے سے وہ گر جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو نے اس مضمون کو ایک اور جگہ خود کھولا.آپ نے فرمایا ے بر ترگمان و دہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو بیح الزمان ہے کہ صیح الزمان کی شان تو ایک طرف ہے جو گپیں بنائی ہیں عیسائیوں نے.خدا نے

Page 121

مجھے دوبارہ مسیح المزمان بنا کر امت محمدیہ میں اس لئے بھیجا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے نبیوں سے افضل ہے، اللہ تعالیٰ یہ ثابت کرے کہ مسیح تو وہ ہے جو انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا غلام ہونے میں فخر حاصل کرتا ہے تو غلام کے مرتبے کی بلندی آقا کے رتبے کی بلندی ہوتی ہے.اس میں مقابلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ اس میں بعض پیش گوئیوں کی طرف اشارہ ہے.قرآن کریم نے ایک آیت میں اس طرف روشنی ڈالی اور آگے اس کے اوپر تمام گزشتہ بزرگان نے بھی گذشتہ امتوں کے آئمہ نے بھی تفصیل سے روشنی ڈالی اور وہ یہ آیت ہے.وإذ الرسل اقتَتْ کہ آخری زمانہ میں ایسا وقت آئے گا کہ رسول مبعوث کئے جائیں گے گویا کہ سارے رسول دوبارہ آگئے ہیں.یہ وہی زمانہ ہے.اس زمانے میں یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ گزشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں سے جو نقشہ کھینچ رہے ہیں وہ اس زمانہ کا ہے اور کہتے ہیں ہم دوبارہ آئیں گے.یشدا زرتشت کی کتب میں بھی اس زمانے کا نقشہ ملتا ہے.ہندو کتب میں کرشن جی کہتے ہیں کہ میں دوبارہ آؤں گا تو کلجگ کا جو نقشہ ہے وہ بعینہ آج کل کے نقشہ کے مطابق بنتا ہے.پھر حضرت بدھ نے جو نقشہ کھینچا ہے اپنے دوبارہ آنے کا وہ بھی اسی زمانے کے مطابق ملتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مہدی علیہ السلام کے آنے کی علامتیں بیان کی ہیں وہ بھی ان کے ساتھ ملتی جلتی ہیں تو اب عقلاً دو چیزیں ممکن تھیں ایک یہ کہ ہر نبی اپنی اپنی امت میں آتا اور ہر امت دوبارہ زندہ ہو جاتی یا صرف اسلام میں ہی وہ ظاہر ہوتا مگر اسلام میں وہ کس طرح ظاہر ہوتا ایک شخص کی صورت میں یا پندرہ بیس ، چالیس پچاس انبیاء انگ انگ ظاہر ہو جاتے کہ ہم بھی مسلمان ہیں.ہماری طرف آؤ.اس طرح تو وہ اسلام کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے ایک ہی حل تھا کہ ایک شخص کو تمثیلی طور پر وہ سارے نام عطا کئے جاتے جنہوں نے آتا تھا اور اجتماعی صورت میں ایک شخص ان کا مظہر بن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی

Page 122

۱۲۲ کا دعویدار ہوتا اور یہ ثابت ہو جاتا کہ تمام انبیاء در اصل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں فخر حاصل کرتے ہیں.کیونکہ ان کی اپنی پیش گوئیوں کے مطابق اُن کا آنا ہوا تو امت محمدیہ میں ہوا اور بحیثیت غلام محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہوا.یہ وہ مضمون ہے جسے حضرت اقدس نے مختلف اشعار میں کھولا اور اس مضمون میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے.چنانچہ ایک شیعہ امام اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مہدی جب آئے گا وہ خود تو دعویدار نہیں تھے آنے والے کے متعلق کہہ رہے تھے) تو کبھی وہ یہ کہے گا کہ میں آدم ہوں، پھر کہے گا میں موسی کہوں کبھی کہے گا ابراہیم ہوں، کبھی کہے گا میں موسلی ہوں، کبھی یہ بھی دعوی کریگا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی بھی True Copy ہوں ، آپ کا خلیل کامل ہوں اور اس لحاظ سے وہ تمام گزشتہ صالحین امت سے افضل ہوگا کیونکہ تمام انبیاء اس میں جلوہ گر ہو جائیں گے یہ پرانوں نے بھی پیشگوئی کمی ہوئی ہے.انہوں نے کہاں سے نکالی اس لئے کہ وہ قرآن کا فہم رکھتے تھے احادیث کا فہم رکھتے تھے، اخذ کر کے یا اللہ تعالے سے الہام پا کر یہ باتیں پہلے سے بیان کر دی ام کا فہم کے تھیں تو وہ امام مہدی جو اس تصور کے مطابق آتا ہے اس نے بھی تو یہی کہنا تھا اب تو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے یہ کہا تو غلط بات کس طرح کر دی.ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ مجدد ہر صدی پر آتے رہے کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا ؟ حضور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا.مجددیت خلافت کی قائم مقام ہے سوال یہ ہے کہ تجدید دین کے متعلق پیش گوئیاں ہیں.ان میں کیا خوشخبری تھی اور کیا اقدار کا پہلو تھا اور تاریخ اسلام سے ثابت ہوا کہ دونوں پہلو پیچھے ثابت ہوئے خلافت کے ہوتے ہوئے جب مجددیت کی خبر دی گئی کہ ایک سو سال بعد مجدد آئے گا تو یہ بھی

Page 123

۱۲۳ پیش گوئی تھی کہ سو سال سے پہلے خلافت ہاتھ سے نکل جائے گی.ورنہ قرآن کریم نے.خلافت کی پیش گوئی کی ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پیشگوئی کو نظر انداز کر کے کوئی اور پیش گوئی کر دیں؛ یہ بات درست نہیں ہے تو مجددیت خلافت کے قائم مقام ایک انسٹی ٹیوشن ہے اور واقعہ یہی ہوا کہ اسلام کی پہلی صدی کے ختم ہونے سے بہت پہلے خلافت کا نظام ٹوٹ گیا اور خلافت کا نظام ٹوٹنے کے نیبو میں روحانی نظام حکومت سے الگ ہو گیا.اور مرکزی نظام در حقیقوں میں بٹ گیا، ایک مصلحاء اور اولیا و پیدا ہونے شروع ہوئے جنہوں نے اپنے طور پر اسلام کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور اس دوران میں جب بگاڑ پیدا ہوا، ایک سو سال کے بعد تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عمربن عبد العزیز کو مجید دینا یا جو بظاہر خلیفہ بھی تھے لیکن ان کا اصل مقام مجددیت کا تھا کیونکہ خلافت راشدہ تو ختم ہو چکی تھی اور انہوں نے اسلام کی عظیم الشان خدمت کی اور بدر سوم کو نکالا اور بہت سی نئی باتیں جاری کیں.پھر ایک عرصہ گذرا اور عالم اسلام زیادہ پھیل گیا.پھر ایک وقت میں ایک سے زیادہ مجدد بھی آتے رہے کوئی ایران میں پیدا ہو رہا ہے کوئی مڈل ایسٹ میں پیدا ہو رہا ہے، کوئی افریقہ میں پیدا ہورہا ہے، سارے عالم اسلام کے لئے ایک مجدد آہی نہیں سکتا تھا کیونکہ وسائل کی کمی تقاضا کرتی تھی کہ انگ انگ جگہوں کے لئے الگ الگ مجدد آئیں اور پھر ایک اور بات ہم نے عالم اسلام میں دیکھی کہ مجددین میں سے اکثریت نے دعوی بھی نہیں کیا.اور بہت سے ایسے تھے جن کو بعضوں نے مجید کہا اور بعض ایسے تھے جن کو بعض دوسروں نے محمدد کہا اور کسی کو بعین تیسر وں نے مجدد کہا اور آپ کئی لسٹیں مجددین کی بن گئیں تو سن لے کے اندر جمع کا پہلو بھی موجود تھا اس لئے مجددیت کے پیغام میں نہ تو کوئی دعوی شرط تھا نہ اس مجدد کو ماننا له إن الله يبعث لهذ والامة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها بينها، كى حدیث میں لفظ مسن کی طرف اشارہ ہے.

Page 124

۱۲۴ ضروری قرار دیا گیا.کہیں بھی تمام احادیث میں جن کی تشریح عالم اسلام کی تاریخ نے کی ہے یہ بات کہیں نہیں آتی کہ مجدد مامور ہو اور اس کی بات مانی جائے.ایک بزرگ ہے جس نے خدمت کی ہے اور خدا نے اس کو عظیم خدمت کی توفیق عطا فرمائی ہے اور کرتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کی توفیق بخشی ہے.یہ ہے مجددیت کا تصور لیکن خلافت کے مقابل پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے کسی محمد دیت کا کوئی ذکر نہیں ملتا اگر خلافت راشدہ جاری رہتی اور مجدد پھر الگ الگ کھڑے ہوتے اور دعوے بھی کرتے ، اپنی طرف بھی بلاتے تو وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے بجائے فائدہ پہنچانے کے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مجدد کی پیشگوئی فرمائی وہاں ساتھ یہ بھی خبر دی کہ جب مسیح آئے گا فرمایا در ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاج النبوة.د مستند احمد بحواله مشكوة باب الانذار والتحذير) پھر مجددیت نہیں آئے گی بلکہ منہاج نبوت پر خلافت جاری ہو جائے گی.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مجددیت کی پیشگوئی فرمائی ہوتی تو ٹھیک ہے ہم سمجھتے کہ اس قسم کے مجدد آئیں گے لیکن آپ نے خود وضاحت فرما دی کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد محمد دیت نہیں جاری ہوگی بلکہ خلافت دوبارہ جاری ہو جائے گی.یہ ایک ایسی صورت نظر آتی ہے جو معقول ہے اور جس کا ظاہر ہونا بعید از عقل نہیں ہے وہ یہ ہے کہ جب تک خلافت راشدہ جاری رہے گی جب ضرورت ہوگی انہی خلفار میں سے اللہ تعالیٰ مجدد بنا سکتا ہے.یعنی سپیشل توفیق کسی خلیفہ کو دے سکتا ہے بعض کاموں کی اس لئے Clash کمراؤ بھی نہیں ہو سکتا جب ضرورت ہوگی تو اگر خلافت بچی ہے تو پھر اس کے مقابل پر خدا مجدد کو کھڑا نہیں کرے گا.لیکن خدا کے لئے یہ کون سی روک ہے کہ ایک خلیفہ کو غیر معمولی تجدید دین کی توفیق بخش دے لیکن منصب خلافت منصب مجددیت سے بالا بھی ہے اور ماموریت کا پہلوان معنوں میں رکھتا ہے کہ خلفاء

Page 125

۱۲۵ چونکہ مامور کے جانشین تھے اس لئے ان کی بیعت اور ان کی اطاعت فرض قرار دے دی گئی.ایک یہ منصب ہے اور ایک مجددیت کا ہے جس کی بیعت فرض ہی نہیں، جس کا دعوی بھی فرض نہیں، تو ظاہر و با ہر فرق ہے اس لئے مجددیت کو خلافت سے فضیلت دی ہی نہیں جاسکتی کہاں یہ کہ ایک کے متعلق اُمت کو پابند کر دیا جائے کہ اس کی بیعت کرتی ہے اور اس کی اطاعت کرنی ہے اور کہاں یہ کہ آزاد چھوڑا ہے بلکہ یہ بھی نہیں پتہ کہ کوئی مجدد ہے بھی یا نہیں.ہوسکتا ہے کہ کسی بزرگ کے مرنے کے سو سال بعد پتہ لگے کہ وہ مجدد تھے پس مجدد کا مفہوم آپ سمجھ لیں تو پھر آپ کے ذہن میں کوئی CLASR پیدا نہیں ہوگا.احمدیت کی تعلیم اور ان کی مجددیت کی احادیث میں بلکہ تمام اسلامی تعلیم کو مد نظر رکھ کر بات کریں گی تو ایک نہایت خوبصورت سمجھی ہوئی اور ایک جاری شکل نظر آئے گی جس میں کوئی ذہنی CLASH نہیں ہے.SH اس سوال پرکی اگر عورت برقع پہننا چاہے اور شوہر اجازت نہ دے تو کیا کرے.حضور نے جواب دیا.یہ بھی کیسے شوہر ہیں ! ایسے شوہر کے متعلق مجھے چھٹی لکھیں.اب وہ کہیں گی اگر چٹھی لکھنے کی اجازت نہ دے اگر ایسا ہے تو پھر خدا سے شکایت کریں اور کیا کیا جاسکتا ہے.ایک بہن نے کہا قرآن خوانی کے ضمن میں ایک یہ بھی رسم ہے کہ غیر از جماعت بہنیں گھروں میں سیپارے بانٹ دیتی ہیں کہ یہ سیپارہ تم پڑھ کر فلاں کو بخشوا دو.اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

Page 126

حضور نے فرمایا : قرآن کریم زندوں کے لئے ہے نہ مردوں کے لئے میں پہلے بھی اس کا جواب دے چکا ہوں.یہ عجیب و غریب بات ہے.قرآن کریم تو زندوں کے لئے ہے تاکہ زندہ لوگ اس کو پڑھ کر اور اس کی تعلیم پر مل کر کے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں نہ کہ مردوں کے لئے مردوں سے اس کتاب کا کیا تعلق ہے جو زندوں کی کتاب تھی اس کو مردوں کی کتاب میں تبدیل کر تا ظلم ہے.سوال یہ کیا میک آپ میں نماز جائز ہے میک اپ اور نماز حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نا محرم نہیں نماز میک آپ میں جائز ہے ایک بہن نے سوال کیا کہ کیا نیل پالش سے وضو ٹوٹ جاتا ہے حضور نے فرمایا نیل پالش سے وضو نہیں ٹوٹتا جو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تیل مالش سے دامنوا موتا خود کمتر ہیں.ان کو مشکل ہے.کہ ناخن کو پانی نہیں رکھتا.یہ محض لغو باتیں ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں ان میں سے بجھی ہے گندے رہتے ہیں کہ ان کے اوپر نیل پالش سے سوئی ہندو خلوقات کی چڑھی ہوتی ہے ان کا و خود بھی ہو جاتا ہے غسل بھی ہو جاتا ہے.پھر یہ بیچاری نیل پال رہی ہے جو ان کا وضو نہیں ہونے دیتی یہ سب تو سمات ہیں.

Page 127

ایک بہن نے سوال کیا کہ غیر احمدی مسلک کے مطابق منعقد کی جانے والی عید میلاد النبی کی تقریبات پر جب غیر از جماعت بہنوں کی طرف سے دعوت نامے آتے ہیں تو ہمیں اُن کی تقریبات میں شامل ہونا چاہیئے یا نہیں ؟ حضور نے فرمایا A ید میلادالنبی کی تقریبات - ایک لمحہ فکریہ ! اس سوال کے پہلے حصے کا جواب یہ ہے کہ ضر در جائیں با شوق سے جائیں.آپ کو ان مجالس میں شامل ہونا چاہیے.آپ کو پتہ بھی چلے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وستم کے متعلق ان کا تصور کیا ہے اور آپ کا کیا ہے اور آپ کے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے نہیں کتنے عظیم الشان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف کر وایا ہے جبکہ یہ لوگ ظاہری باتوں کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور جانتے ہی نہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کتنا بلند ہے لپس اس سے بہت فائدے پہنچیں گے.جہاں تک اس سوال کے دو سے چھنے کا تعلق ہے، میں یہ کہوں گا کہ جب وہاں جائیں تو ان کی بد رسموں میں شامل نہ ہوں مثلا وہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیہ وسلم اور معنوں میں حاضر ناظری کن معنوں میں خدا حاضر ناظر ہے یہ الہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے آنحضور صلی الله علیه و سلم تنشر ا چند سال استان بود کتہ لگ جاتے ہیں.اس لئے فوراً ادب سے کھڑے ہو جاو.یہ شرک ہی شر کند ہے.انہوں نے دین کی خاطر شرک کو قبول کرلیا.ہر کوئی علم رسم نہیں ہے.بکھری ہیں کو.در کم ہے جس میں شرک آجاتا ہے اور رسمی قرآن خوانی کی نسبت زیادہ خطرناک ہے شرک سے کلیتہ پر ہیز ضروری ہے.

Page 128

بعض غیر احمدی علماء بھی اس کو شرک سمجھتے ہیں.میں نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں جن میں لکھا ہے کہ انہوں نے مولود کے وقت کھڑے ہونے والوں سے سوال کیا کہ آپ جو حاضر ناظر مانتے ہیں تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ہر حرکت دیکھ رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں جی سر حرکت دیکھ رہے ہیں تو پھر اول تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سر وقت کھڑے رہنا چاہیے اور با ادب کھڑے رہنا چاہیئے.اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر وہ حاضر ناظر ہیں تو انسان کو بعض ذاتی حوائج پیش آتی ہیں مثلاً وہ علی نے بھی جاتا ہے اور بھی اسی قسم کی کئی ضرور نہیں ہوتی ہیں تو اس وقت بھی نعوذ باللہ من ذالک آپ یہ سمجھیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے ہیں ، ان معنوں میں جن معنوں میں انسان دیکھتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اس وقت بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے.انہوں نے کہا وہ شرم کے مارے نظریں جھکا لیتے ہیں.یہاں تک لغویات کو پہنچا دیا گیا ہے تو لغویات کے ایک کنارے سے جب کوئی داخل ہو گا تو دور کنارے تک ضرور پہنچے گا.اس چینل Channel میں داخل ہو جائیں تو پھر نکل نہیں سکتا واپسی کا کوئی راستہ نہیں.اس لئے داخل ہی نہ ہوں.ر محض لغو تصورات ہیں جنہوں نے اسلام کو داغدار کر دیا ہے.احمدیت نے اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ہے.کسی کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے.احمدیوں کو ان کو کہنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے نہ یہ کہ دوسروں کی باتیں ماننے کے لئے.ان کو کہیں کہ یہ بات....بنیادی عقیدہ میں داخل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا نہیں ہیں.توحید حقیقی کے قیام کی خاطر تو آپ نے ساری زندگی خرچ کی تو خدا کی توحید کے پیغام کو مرنے دیں اس سے بڑی بے وفائی اور کیا ہو سکتی ہے.اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق کا تقاضا یہ ہے کہ آپ نے توحید کا جو پیغام دیا ہے اس کو زندہ رکھیں.اوپر

Page 129

۱۲۹ بات ہو تو حید پر حملہ آور ہورہی ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سینہ سپر ہو جائیں ہیں جو امنے دیتے ہیں بے شک دیں لیکن ہم توحید کے پیغام کو بہر حال زندہ رکھیں گے.ایک دلچسپ سوال جو قریباً ہر مجلس میں ضرور اٹھایا جاتا ہے وہ جنوں کے متعلق ہوتا ہے.چنانچہ کراچی میں بھی ایک بہن جنوں کے متعلق جاننا چاہتی ہیں.حضور نے فرما یار جنوں کی حقیقت قرآن کریم میں جنوں کے وجود کا ذکر ہے تو وہ ہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ نہیں ہیں.لیکن جنوں پر ایمان لانے کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں.بعض وجود ہیں جو ایمانیات میں داخل ہیں.مثلاً ملائکہ نہیں ان پر ایمان کا ذکر ملتا ہے.لیکن جنوں پر ایمان کا قرآن کریم میں ذکر نہیں ملتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوں سے ایسا تعلق قائم نہ کریں کہ ان کی باتیں مانی جارہی ہیں.ان سے محبت کے مراسم پیدا ہو رہے ہیں بلکہ دنیا میں بہت سارے وجود ہیں ، پہاڑ ہیں ، دریا ہیں ، آپ ان کو مانتی ہیں.اسی طرح سمجھے ہیں کر حین بھی کوئی مخلوق ہوگی.لیکن وہ جن بہر حال نہیں ہے جو مولوی قابو کر لیتا ہے جس سے دل رام کئے جاتے ہیں اور ان کی طرف بہت سی ایسی حرکتیں منسوب کی جاتی ہیں جن کا شرعاً کوئی جواز ہی نہیں ہے.قرآن کریم میں ایسے جن کا کوئی ذکر نہیں ملتا قرآن کریم میں جنات کی جو تمہیں بیان ہوئی ہیں ان میں بکٹیریا بھی شامل ہیں، ان میں ٹوٹے لوگوں کو بھی جن کہا گیا ہے، ان میں چھوٹے لنگوں کو الناس ، اور بڑے لوگوں کو " جن " قرار دے کر انہی اصطلاحوں میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آئندہ زمانہ میں Capitalist سرمایه دارا در عوامی طاقتیں الگ الگ ہو جائیں گی.پھر ان لوگوں کو بھی چھی کہا

Page 130

گیا ہے جو عوام الناس سے نہیں ملتے اور الگ ہو جاتے ہیں، سوس ٹی سے کٹ جاتے ہیں.پردہ دار عورتوں کو بھی جن کہا گیا ہے اور مخلوقات بکثیر بار جراثیم کے علاوہ عربی اصطلاح میں سانپ کو بھی جن کہا گیا ہے.چنانچہ ان معنوں میں عورتوں کا الگ ہونا بڑائی اور احترام کے لئے ہے جس طرح بڑے لوگ اپنی عقلوں کو غیر اسلامی سوسائٹی میں بھی پردہ کراتے ہیں.Royal Family ارشاہی خاندان میں بھی ایک خاص انداز کی جالی استعمال کی جاتی ہے جو احترام کا نشان ہوتی ہے.اگر اس میں تذلیل ہوتی تو آزاد سو ٹسیٹیوں میں گھٹیا عورتوں سے پردہ کرایا جاتا اور رائل فیملی کی عمر نہیں بے پردہ پھر ہیں.لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے.رائل فیملی کی عوز میں پردہ میں پھر رہی ہیں اور عام عورتیں بغیر پر وہ کے یہ بتانا مقصود ہے کہ پردہ عزت و احترام کے خیال سے ہے.اس لئے عورتوں کو جو جین کہا تو معزز جن مراد ہیں، بڑے معنوں میں نہیں.غرض عربی اصطلاح میں جن کے معنی ہیں مخفی مخلوقات ، سانپ یا پلوں میں رہنے والی مخلوق پہاڑی تو میں جو عام طور پر میدانوں میں لینے والوں سے الگ رہتی ہیں ایسی قومیں جن میں اشتعال پایا جاتا ہے اور بغاوت کی روح پائی جاتی ہے، ایسی قومیں جو بڑی قوی ہیں اور بڑی شدید ہیں جن میں جفاکشی کے مادے پائے جائیں جن کہلاتی ہیں.چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو جن جنون پر فتح دی گئی تھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وہ اسی قسم کی تو میں تمھیں.پس قرآن کریم میں جن کے جتنے معنے ہیں وہ سب درست ہیں لیکن نقیب عام طور پر معاشرہ میں جن کا سوال ہوتا ہے تو چونکہ اس سے مراد وہ جن ہوتا ہے جن کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں ملنا صرف مولوی کے تصور کی ایجاد ہے.اس لئے ہم اس قسم کے جن کو نہیں مانتے.کراچی کی ایک اور بہن کی طرف سے جتنا زیادہ مشکل اور علمی سوال تھا جواب اتناہی

Page 131

١٣١ زیادہ دلچسپ خیال افروز اور فکر انگیز تھا.سوال یہ تھا کہ علم نجوم سے کیا مراد ہے ؟ نیز دوست شناسی کی کیا حقیقت ہے؟ حضور نے فرمایا قسمت کی لکیریں یا مزاج کی تعبیریں علم نجوم کے ذریعہ آج کل دنیا میں بڑی بڑی معلومات حاصل ہو رہی ہیں Astronomy علم نجوم کے تدید ساری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کو سٹڈی کیا جارہا ہے.اس حد تک تو علم نجوم درست ہے مگر یہ کہنا کہ لال ستارے نے فلاں کی قسمت بنائی ہوئی ہے اور اس کی سنڈی سے فعال کی زندگی میں یہ یہ واقعات رونا ہوں گے ، یہ سب گپ شپ ہے.اسی طرح ہاتھ دکھا کہ قسمت کا حال معلوم کرنا بھی محض گپ ہے.واقعہ یہ تو ممکن ہے کہ ہاتھ کی بناوٹ سے انسانی مزاج اور اس کے اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہو جس طرح پاؤں دیکھ کر مغرب بھی قیافہ شناسی کیا کرتے تھے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو درست قرار دیا.اس حد تک تو دست شناسی درست ہے.لیکن یہ خیال کرتا کہ ہاتھوں کی لکیروں میں قسمت بنی ہوئی ہے اور یہ یہ واقعات رونما ہوں گے ، یہ سب گئیں ہیں.چنانچہ بعض بڑے بڑے مشہور نجومی تھے جو احمدی ہوئے تو انہوں نے اس پیشہ سے تو یہ بھی کی اور خود اپنے قصے بھی سنائے کہ جو دست شناسی کیا کرتے تھے اس کی اصل حقیقت کیا تھی.وہ کہتے ہیں ، ایک لمبے تجربے سے ہم انسانوں کا مزاج سمجھنے لگ جاتے ہیں بعض الفافات کا نہیں علم ہے کہ ہوتے رہتے ہیں اور یہیں یہ بھی پتہ ہے کہ اگر ہم چار پانچ باتیں بیان کریں ، چاران میں سے نہ ہوں پانچویں ہو گئی ہو تو اکثر بیان کرنے والا چار کا ذکر نہیں کرتا صرف پانچویں کا ذکر کر دیتا ہے اور نجومیوں کا خوب پروپیگنڈہ ہوتا ہے کہ فلاں نجومی

Page 132

۱۳۲ نے فلاں بات کی تھی وہ بالکل پوری ہوگئی اور اس نے جو ساتھ دس گپیں ماری تھیں ان کو بیان کرنے والے چھوڑ دیتے ہیں.یہ انسانی فطرت کا ایک چپکا ہے کہ فلاں نے ایک واقعہ بیان کیا اور وہ اس طرح ہوا.تو احمدی نجومیوں کا یہ کہنا تھا کہ انسانی نظرت کی ان ساری کمزوریوں کو پر نظر رکھ کر بخومی کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ کی لکیروں سے کچھ نہیں پڑھتے ایک اندازہ - ایک حقیقت فرمایا ایک دفعہ لندن یونیورسٹی میں ہم ایک جگہ ایک پارٹی میں جمع تھے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ کا ایک بڑا دلچسپ Academic (ایکڈیک) اجتماع تھا.میں بھی وہاں گیا ہوا تھا.طلبہ سے باتوں باتوں میں پامسٹری (دست شناسی) کے متعلق بات شروع ہوگئی ہیں نے ان سے کہا کہ پامسٹری ہے تو گپ شپ لیکن اس کے باوجود یہ ہو سکتا ہے کہ آدمی بڑے اچھے اچھے اندازے لگائے.اس نیت سے اگر تم مجھے ہاتھ دکھانا چاہتے ہو تو میں دیکھ لیتا ہوں.میں ایسے اندازے تمہیں بتاؤں گا کہ تم حیران ہو جاؤ گے.اور یقین ہو جائے گا کہ بغیر لکیروں کے بھی انسان Features کو کسی حد تک پڑھ سکتا ہے.ایک صاحب تھے جو بعد میں بی بی سی کے ایک بڑے افسر ہے.انہوں نے اپنا ہاتھ دکھایا.میں نے ا کا ہاتھ دیکھ کر کہا کہ آپ کی شادی شدہ زندگی نہایت تاریخ گزرے گی یہاں تک کہ بہت دکھوں میں آپ مبتلا رہیں گے.آپ کو پہلی تسکین جو نصیب ہوگی وہ تقریباً پچپن سال میں ہوگی.اس وقت تک آپ کی زندگی بڑی تلخ گزرے گی.ایک مدت کے بعد جب میں 1940ء میں لندن گیا.آصفہ بھی میں کے ساتھ تمھیں خودی صاحب کے ہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے میرے کسی دوست نے ان صاحب

Page 133

۱۳۳ کو بتا دیا کہ میں لندن میں آیا ہوں.اس نے غوری صاحب سے بار بار پتہ کیا.غوری صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک صاحب آپ سے ملنے کے بہت مشتاق ہیں.بار بار خون آرہے ہیں.بی بی سی میں ہیں.پہلے تو مجھے یاد نہیں تھا پھر خیال آیا کہ وہی طالب ہوں گے جنہوں نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا تھا.چنانچہ فون پر اُس سے بات ہوئی وہ کہنے لگے آپ تو کہتے تھے کہ پامسٹری میں کچھ نہیں ہے لیکن آپ نے جو میت کے متعلق خبر دی تھی دہ تو سو فیصد بچی نکلی.بتائیں کسی طرح پتہ لگایا تھا آپ نے جو میں نے کہا، ہوا کیا ؟ کہنے لگے.وہی ہوا جو آپ نے کہا تھا.میں نے بڑی تلخ زندگی گزاری اور اب میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے.مگر یہ بتائیں آپ نے کیسے اندازہ لگایا تھا.ہمیں نے کہا بات یہ ہے کہ میں آپ کا مزاج سمجھتا تھا.آپ نہایت اچھی اور نفیس طبیعت کے آدمی ہیں لیکن آپ جو گرل فرینڈ ساتھ لائے تھے جس کے متعلق نظر آتا تھا کہ آپ اس کے ساتھ شادی کرنے والے ہیں وہ ایک Crude قسم کی عورت تھی اگر چہ وہ جسمانی لحاظ سے آپ کو Allract کر رہی تھی.لیکن دو مین باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ وہ مزاجاب تھے چل ہی نہیں سکتی.چند دن کی لذتیں ہیں جو ختم ہو جائیں گی.لیکن پھر جب مزاج زندہ رہتا ہے بینی رفاقت کا مزاج تو وہ اصل چیز ہے.جسمانی حسن تو کچھ عرصہ کے بعد ماند پڑ جاتا ہے چانچہ میں نے یہ اندازہ لگایا کہ جب یہ کشش ختم ہو جائے گی تو آپ جیسے نفیس آدمی کے لئے ایسی Crude عورت کے ساتھ یہ بنا جہنم بن جائے گا.مجھے یہ علم نہیں تھا کہ آپ مین سال کی عمر میں طلاق دے دیں گے.میں نے تو یہ اندازہ لگایا تھا کہ بوڑھے ہو کر آہستہ آہستہ چین آہی جائے گا.آپ گزارہ کر جائیں گے.انہوں نے کہا خیر یہ بات پھر طلاق کے ذریعہ پوری ہوئی ہے.یہ لیکن نے مثال اس لئے دی ہے کہ ایک اندازہ ہو جاتا ہے، کچھ ہاتھوں کی طرز انسان کا مزاج بتا دیتی ہے، بعض بیماریوں کے نتیجہ میں بعض ہاتھوں کی شکلیں بدل جاتی

Page 134

۱۳۴ ہیں جن سے بیماریوں کی بھی تشخیص ہو جاتی ہے.مثلاً Lungs کمزور ہوں تو ہا تھ کی ایک خاص قسم کی شکل بن جاتی ہے.آنکھوں پر بھی بیماریوں کے اثر پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ آج کل جرمنی میں باقاعدہ ایک سائنس Develop ہو رہی ہے جو ایلو پیتھی طریق علاج میں مدد دے رہی ہے.ڈاکٹر صرف آنکھوں کا رنگ دیکھتے ہیں اور بیماری کی تشخیص کر دیتے ہیں.یہ محض ذہانت ہے جو خبر دیتی ہے.کیریں خواہ مخواہ بہانہ بنا ہوا ہے اور لوگوں کو بے وقوف بنا کر اسے پیسے بٹورنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ایک خاتون نے حضور سے پوچھا.کیا شادی میں ڈھولک سجانے کی اجازت ہے ؟ حضور نے فرمایا شادی میں ڈھولک بجانا منع نہیں شادی میں ڈھولک جتنا چاہیں بجائیں، یہ منع نہیں ہے جگانا بھی لگائیں.آخر شادی اور موت میں کچھ فرق تو ہونا چاہیے لیکن ایسے مواقع پر نا جائز ہمیں نہ کریں.تا جائز ہمیں بظا ہر معصوم بھی ہوں تو نہ کریں کیونکہ وہ معاشرہ کو بوجھل بنا دیں گی اور صیبتوں میں مبتلا کر دیں گی لیکن اسلام نے جس حد تک جائز خوشی کا اظہار رکھا ہوا ہے اس میں منع نہیں کرنا چاہیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں کی بچیاں دف بجارہی تھیں جو ڈھولک ہی کی ایک قسم ہے اور گیت گا رہی تھیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع نہیں کیا جبکہ پسند فرمایا.آپ کے ساتھ مرد بھی تھے انہوں نے بھی کیا.فرمایا.اس سے قبل بھی بہت مبارک ربوہ میں بھی ایک سوال ہوا تھا وہاں بھی نہیں

Page 135

۱۳۵ نے یہی جواب دیا تھا کہ اگر عورت کی آواز میں پاکیزہ گیت گایا جا رہا ہو.اور اس کے نتیجہ میں شر پیدا نہ ہوتا ہو تو کہاں منع کیا ہوا ہے.خدا نے.اگر عورت کی آواز سنتا منع سے تو مرد کی بھی منع ہونی چاہئیے ، وہ عورت کے دل میں تحریک پیدا کرے گی.پیس اگر اشعار صاف اور پاکیزہ ہیں مثلاً در زمین کی نظمیں ہیں اس کے نتیجہ میں گند پیدا ہوسی نہیں سکتا یہ محض لغو بات ہے.اگر چہ ڈھولک بجانے کی بات اور ہے.لیکن اس میں بھی اگر اس قسم کے گیت گائے جائیں جن سے معاشرہ میں گند نہ پھیلے تو جائز ہے لیکن ڈھولک پر گندی گالیاں دنیا اور سٹھنیاں دنیا لغویات ہیں ان کو آپ اختیار نہ کریں.عام گیت چھیڑ چھاڑ کے پیار کی باتیں ہیں مذاق بھی ہوتے ہیں، جائز ہیں اُس میں گندگی اور غلاظتیں نہیں ہونی چاہئیں.کراچی میں بھی خواتین کی مجالس سوال وجواب میں فوتیدگی کی رسموں کا کئی بار ذکر ہوتا رہا.چنانچہ اس مسئلہ کے متعلق ایک بہن نے یہ سوال کیا کہ کسی کے فوت ہونے پر گھر والوں کو کھانا کھلانے کا جورواج ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ حضور نے فرمایا.فوتیدگی پر کھانا بانٹنے کی رسمیں فوتیدگی میں کھانا بانٹنے کا تصور بالکل لغو بے معنی اور بے جوڑ بات ہے سوائے اس کے کہ صدقہ دے کوئی.اور آپ کسی کے مرے ہوئے کا صدقہ تو نہیں کھائیں گے اس لئے ظاہر بات ہے کہ آپ اس کو رد کر دیں گی.اگر لوگ یہ کہیں کہ اس کے کھانے سے فوت ہونے والے کو ثواب پہنچتا ہے تو یہ ایک بیہودہ اور لغو رسم ہے جس کا روایت

Page 136

میں کوئی بھی جواز نہیں ہے، اس لئے سبھی اس کو رد کر دیں.ویسے بھی نا مناسب بات ہے دکھ کے موقع پر کھانے تقسیم کرنا ایسی بیہودہ رسم ہے اس کو توڑنا چاہیئے.جس کا کوئی فوت ہو جائے اس کا لوگوں میں کھانا تقسیم کرنا ہے معنی اور لغو بات ہے، اس سے پر ہیز کریں ، نہ ایسے کھانے کھائیں تو ایسی حرکت کریں جب کوئی فوت ہو جاتا ہے چند دن ایسے آتے ہیں کہ اُن دنوں میں ملنے والے بہت ، تعزیت والے بہت ، انتظام کی مشکلات اور لیا اوقات فوت ہونے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے نقدی چھے نہیں چھوڑی ہوتی اس وقت اُن کے بچوں یا ہیولوں کے لئے پیسے مانگنا اور گھر کے اخراجات چلانا یہ مزاج کے خلاف بات ہے.اس لئے وہ کھانا تعاون یا ہی کا ایک اظہار ہے اگر دکھاڑے سے پاک ہو.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رسموں کے بہت خلاف تھے.انہوں نے اس خیال سے ایک نظم لکھی جس کا ایک مصرعہ یہ تھا.نہ غم کے عذر سے زردے پلاؤ فرنیاں آئیں یعنی لیکن جب مروں تو مجھے اس ظلم سے باز رکھنا کہ غم کے بہانے تم بڑی بڑی پر تکلف دعوتیں بھیج رہے ہو.مناسب کھانا جو ایسے موقعوں کے لئے مناسب ہو؟ کوئی حرج نہیں ہے اور بعض دفعہ ہم چاول بھی ساتھ بھیج دیتے ہیں اس لئے کہ ان دنوں بعض بیمار ہوتے ہیں، اُن کے کام آجائیں.اور کچھ دن کے بعد اگر کچھ میٹھا بھی بھیج دیں تکلف سے پاک رہ کر تو منع نہیں ہے.لیکن جہاں تھی یہ رسمیں تکلف میں داخل ہو جائیں گی اور سوک نئی پر بوجھ بن جائیں گی وہاں منع کرنا پڑے گا.اس لئے حد اعتدال میں رہا کریں.اصل تعلیم اسلام کی حد اعتدال ہے جب نظام کی طرف سے دخل دیئے جاتے ہیں تو ہمیشہ حقہ اعتدال کو توڑنے کی وجہ سے دیئے جاتے ہیں.اگر آپ مناسب حد تک محض تعاون یا سچی اور ہمدردی کے طور پر اور ان لوگوں کو انتظامی مصیبتوں سے نجات دینے کے لئے چند دن ریا سے پاک رہ کر مخفی طور پر کھانے بھجوائیں تو ٹھیک ہے.لیکن اگر مجھے سچ کر جائیں

Page 137

irc اور پتہ ہو کہ فلاں کے گھر سے آرہے ہیں تو پھر دیا کاری پیدا ہوگی اس سے بچنا چاہیئے.ایک بہن نے سوال کیا.کیا خلیفہ وقت سے پردہ ضروری ہے ؟ حضور نے فرمایا.خلیفہ وقت سے پردہ ضروری ہے خلیفہ وقت سے پردہ نہ کرنے کا یہ مدد کہ وہ روحانی باپ ہوتا ہے درست نہیں.پردے کی مختلف قسمیں ہیں.ایک ہے چہرہ ڈھانپتا اور اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھنا.یہ پردہ ہر ایک سے ضروری ہے.خلیفہ وقت سے بھی ضروری ہے.لیکن گھر کے ماحول میں جس طرح بعض عزیز آتے رہتے ہیں.اس سے یہیں پر دو کافی ہے یعنی اپنے آپ کو ڈھانک کر رکھنا اور چہرہ چھپانا ان سے ضروری نہیں ہوتا.ہم گھروں میں بے پردگی کی اجازت نہیں دیتے بلکہ Relax پردہ اس خیال سے کہ وہاں ماں باپ بھی موجود ہوتے ہیں کسی قسم کے خطرات نہیں ہوتے اور روزمرہ کا آنا جانا ہے وہاں برقعہ سمیٹ کر کہاں تک بیٹھا جا سکتا ہے.اس لئے وہ بھی پردہ ہی ہے.لیکن پردے کی نرم قسم ہے.اس کی اجازت دی جاتی ہے.خلیفہ وقت کے سامنے جب آپ آتی ہیں یا اپنے کسی اور بندگی کے سامنے جاتی ہیں تو اس وقت نرم پردہ کر تا ضع نہیں ہے لیکن پڑے کی روح کو بہر حال قائم رکھنا چاہیے.یہ بات ہے جسے آپ ہمیشہ پیش نظر رکھیں.بعض دفعہ ایسی بچیاں ہوتی ہیں جو خلیفہ وقت کے سامنے اسی طرح کے کلنی سے بیٹھ جاتی ہیں میں طرح اپنے ماں باپ کے سامنے بیٹھی ہوتی ہیں.ان میں زیادہ مین سیخ کرنا دخل اندازی کرنا مناسب نہیں ہوتا حسب حالات سمجھ آجاتی ہے انسان کو کہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے.مگر اصولی تعلیم ہی ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہیئے.

Page 138

چہرہ کی Relaxation خلیفہ وقت کے علاوہ بھی ہے اور مناسب ماحول میں اگر یہ Relaxation ملے تو منع نہیں.لیکن جو عورتیں پورا پردہ کرتی ہیں ان کو میں نے کبھی منع نہیں کیا.حضرت مصلح موعود ( نوراللہ مرقدہ) اور خلیفہ ثالث (نوراللہ مرقدہ) نے کبھی منع کیا تھا.بعض بیچاں سمٹ کر بیٹھتی ہیں مجھے خوشی ہوتی ہے جو یہاں پابندی کرتی ہیں وہ باہر جا کر اور بھی زیادہ کرتی ہوں گی.اس سوال پر کہ کسی فوت ت م عزیز کو ثواب کس طرح پہنچایا جائے ؟ حضور نے جواب دیا.صدقہ جاریہ کی حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر کوئی اپنی زندگی میں نیکیاں کرتا ہو ان کو اس کی موت کے بعد بھی جاری رکھنا جائز ہے اگر زندگی میں قرآن نہیں پڑھنا مرنے کے بعد اُسے قرآن بخوایا جائے تو یہ لغو بات ہے.ایک شخص نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ میری ماں صدقہ و خیرات بہت کیا کرتی تھی اور اس کی خواہش تھی کچھ دینے کی لیکن وہ اس سے پہلے فوت ہو گئی تو میرے لئے کیا حکم ہے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کی طرف سے صدقہ دو.اس کا ثواب خدا تعالٰی اس کو دے گا.یعنی وہ نیکی کی نیت کرنے والی تھیں.لیکن موت حائل ہو گئی.اب اس کو جاری رکھنا منع نہیں.اس لئے جماعت میں اپنے بزرگوں کی طرف سے چندے دینا جائز سمجھا جاتا ہے اور اس کو کثرت سے رواج دیا جاتا ہے.چنانچہ ہم بھی اپنے ماں باپ کی طرف سے چندے دیتے ہیں.اس لئے کہ وہ دیتے تھے.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ نادہند کا چندہ میں دینا شروع کر دوں

Page 139

۱۳۹ اس کا اُسے ثواب ملے گا تو یہ لغو بات ہے.ایک آدمی خود تو ساری عمر چندہ نہ دیا ہو.اور اس کا بچہ مخلص بن جائے اور کہے میں اپنے باپ کے چندے پورے کروں گا تو وہ اسی بچہ کے نام لیں گے اس کے نادہند نبرگ کے نام نہیں گئیں گے تو جواز اس بات کا ہے کہ کسی سے جونیکی ثابت ہو خصوصاً جو منفعت بخش نیکی سو اس کو آگے جاری رکھنا جائز ہے اور اس کا ثواب بھی مل جاتا ہے.کراچی کی ایک غیر از جماعت نے یہ سوال کیا کہ آپ کسی طرح کہہ سکتے ہیں کہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے سارے جنتی ہیں ؟ حضور نے فرمایا در تدا کے سوا کوئی بھی کسی کو جنتی نہیں بناسکتا یہ امر واقعہ ہے کہ ہر چیز میں غلو نقصان پہنچاتا ہے.اگر ہم یہ عقیدہ بنائیںکہ بہشتی مقبر میں مدفون ہر آدمی جنتی ہو گا تو عملاً یہ عقیدہ بن جائے گا کہ مجلس کار پرداز جو Certificate جاری کرتی ہے وہ گویا جنت کا پڑا نہ ہوتا ہے.یہ بات درست نہیں ہے ہم اس پر ہر گز یقین نہیں رکھتے بہشتی مقبرہ اصل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان پر قائم کیا جارہا ہے.تاہم حضرت مسیح موجود ( آپ پر سلامتی ہوں کے نظام وصیت میں جو شخص پورے اخلاص سے شامل ہوتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اس پر قائم رہتا ہے اور دمیت کی شرائط کو پورا کرتا ہے.ایسے لوگوں کے متعلق ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ان کے متعلق یہ خوشخبری ہے کہ وہ جنتی ہیں.وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے سے محروم بھی رہ جائیں گے تب بھی جنتی ہوں گے.لیکن اگر کوئی شخص بظاہر اس قربانی کی روح کے ساتھ آگے آتا ہے اور

Page 140

۱۴۰ اپنی امر ہی صحیح نہیں بتا تا اور دنیا کے علم کے مطابق نہیں پکڑا جاتا تو آپ کسی طرح کہہ سکتی ہیں کہ وہ بہشتی ہے.پس یہ نیک اعمال ہیں جو کسی کو بہشتی بناتے ہیں.اس لئے یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی دھوکا دے کر نظام وصیت میں داخل ہو جائے گا لیکن خدا کو دہ Gate crash نہیں کرسکتا.اس لئے ایسا دعوی نہیں کرنا چاہئیے.ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے خدا پر حسن ظن رکھتے ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ شخص میں کو ساری عمر قربانی کی ایک غیر معمولی توفیق علی اور اللہ تعالے نے اس کی پردہ پوشی فرمائی.ہم امید کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا اور غالب امید ہے کہ وہ جنت میں جائے گا.لیکن دنیا میں کسی انسان کا فیصلہ خواہ وہ کسی مقام کا بھی ہو جب تک خدا اسے خبر نہ دے دے وہ کسی کو جنتی نہیں بنا سکتا :

Page 141

Page 142

نوروں نہلائے ہوئے قامت گلزار کے پاس اک عجب چھاؤں میں بیٹھے رہے ہم یار کے پاس تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اُس کو آسماں کی ہے زباں یار طرح دار کے پاس یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے چل کے خود آئے مسیحاء کسی بیمار کے پاس یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسئہ دل یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس پھر اسے سایۂ دیوار نے اُٹھنے نہ دیا آ کے اک بار جو بیٹھا تری دیوار کے پاس تو آکر خوش ہے یہاں مجھ سے تو پھر حشر کے دن ایک تیری ہی شفاعت ہو گنہگار کے پاس عبید اللہ علیم

Page 142