Language: UR
محضرنامہ وہ اہم تاریخی دستاویز ہے جو جماعت احمدیہ نے ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے سامنے اپنے مسلمان ہونے، ا پنے بنیادی عقائد کی وضاحت اور جماعت پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی تردید کے لئے پیش کی تھی۔
الله الحمن الحيم محضر نامہ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشن، لمیٹڈ
1990 Islam International Publications Limited.Published by: Islam International Publications Limited Islamabad Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ U.K.Printed by: Raqeem Press Islamabad, U.K.ISBN 1 85372 386 X
ترتيب ایوان کی حالیہ قرار دادوں پر ایک نظر...مسلمان کی تعریف اور جماعت احمدیہ کا موقف.مقاهم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بانی سلسلہ! کی عارفانہ تحریرات - ذات باری کا عرفان از افادات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ - ۲۵ ۳۵ قرآن عظیم کی اعلیٰ و ارفع شان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نظر میں..آیت خاتم النبیین کی تغییر انکار جہاد کے الزام کی حقیقت.بعض دیگر الزامات کا جائزہ.معزز ارکان اسمبلی کی خدمت میں ایک اہم گذارش - پاکستان کے مختلف فرقوں کے عقاید جو دوسرے فرقوں کے نزدیک محل نظر ہیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ایک پر درد انتباه - ١٣ دُعاء.۵۳ 41 91 198 ۱۸۵ 149
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محضر نامہ وہ اہم تاریخی دستاویز ہے جو جماعت احمدیہ نے ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے سامنے اپنے مسلمان ہونے، اپنے بنیادی عقائد کی وضاحت اور جماعت پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی تردید کے لئے پیش کی تھی اور یہ بات شروع میں ہی واضح کر دی گئی تھی کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک دنیا کی کسی اسمبلی یا عدالت کو کسی شخص یا جماعت کے مذہب کی تعین کا قطعا کوئی اختیار نہیں کیونکہ اس کا اختیار صرف خدا تعالیٰ کو ہے جو دلوں کے بھید سے واقف ہے.اسی طرح درد بھر سے الفاظ میں یہ انتباہ بھی کیا گیا تھا کہ یہ سمبلی احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے کر امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے کا موجب نہ بنے کیونکہ اس سے ایک ایسی غلط اور خوفناک مثال قائم ہوگی جو آئندہ دوسرے فرقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے.اس افسوس ناک واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ایک سوچی بھی سکیم کے مانخت بعض سیاسی اغراض کے تابع جن کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں.اُس وقت کی حکومت نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر منتشر و علماء کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی.اور چونکہ حزب اختلاف میں پہلے ہی بہت سے متشد د علماء کا نفوذ تھا اس لئے حزب اختلاف نے بھی پوری قوت کے ساتھ حکومت وقت کا اِس معاملہ میں ساتھ دیا.یہاں تک کہ بالآخر جب یہ معاملہ سوچے سمجھے سیاسی منصوبہ کے تحت اپنے منطقی انجام کو پہنچا تو حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں با ہم اس امر پر کھینچا تانی شروع ہو گئی کہ اس مبینہ تو سے سالہ مسئلہ کو حل کرنے کا سہرا کس کے سر ہے.
در حقیقت یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کے ساتھ سیاست کو مذہب میں اور مذہب کوسیاست میں دخل دینے کا اختیار دے دیا گیا.یہی وہ نگین غلطی ہے جس کا خمیازہ پاکستان کی سیاست آج بھگت رہی ہے اور آج تک اس ٹھوکر سے سنبھل نہیں سکی.اس کے بعد سلسل ملک کی سیاست میں انتہاء پسند علماء کا رسوخ بڑھتا رہا اور در حقیقت یہی وہ غلطی ہے جو بالآخر اس بد نصیب مارشل لاء پر منتج ہوئی جس کا گیارہ سالہ دور دوسرے مارشل لاء سے عبیدیوں گنا زیادہ منحوس ثابت ہوا اور جس کی نحوست کا سایہ آج بھی کراچی سے لے کر پشا ور تک قوم کے نصیب گھتائے ہوئے ہے اور دن بدن ملک نظم و ضبط، اتحاد، رواداری اور قومی کمیٹی سے محروم ہوتا چلا جارہا ہے.خود غرض سیاست نے مذہب میں وضل دے کر جو افتراق کا بیج بویا تھا وہ کئی طرح کی نفرتوں کی فصلیں لیکر چھوٹنے لگا اور پاکستان طبقوں، فرقوں ، گروہوں اور مصوبوں میں بٹنے لگا.آج بنصیبی سے ملک کا جو حال ہے اس بارے میں اہلِ دانش سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ در اصل اس کی داغ بیل ۱۹۷۴ ء ہی میں ڈال دی گئی تھی.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم کو روشنی عطاکر سے اور اس ملک کے متعلق قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جو خواب دیکھا تھا اور جس کا تصور آپ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں ایک عظیم چارٹر کے طور پر قوم کو عطا کیا تھا، ملک اسی خواب کی تعبیر بن جائے اور اس عظیم چارٹر کو اپنا ہے.آپ نے فرمایا :- " تم آزاد ہو.اس مملکت پاکستان میں تم اپنے مندروں ، اپنی مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں میں جانے میں پوری طرح آزاد ہو.تمہارا مذہب ، تمہاری ذات اور تمہارا عقیدہ کچھ بھی ہوائ کا اس بنیادی اصول سے کوئی تعلق نہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں اور برابر کے شہری ہیں میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں اسی نصب العیض کو پیش نظر رکھنا چاہئیے پھر تم دیکھو گے کہ وقتے گزرنے کے ساتھ
نہ ہندو ہندو ر ہیں گے نہ مسلمان مسلمان رہیں گے.نہ سہی معنوں میں نہیں کیونکہ وہ تو ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی رنگ میں ہم سب ایک ہی مملکت کے شہری ہوں گے.“ (خطاب ار اگست ۶۱۹۴۷) جو محضر نامہ جماعت احمدیہ کو پیش کرنے کی توفیق ملی تھی وہ مین ویگن ایک اہم تاریخی دستاویز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے.اس محضر نامہ کے پیش کرنے کے بعد گیارہ روز تک پاکستان کی قومی اسمبلی میں ملک کے اٹارنی جنرل اور مختلف علماء کی طرف سے جماعت احمدیہ پر بشدت تنقید کی گئی اور اس وقت کے امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پیش کردہ تمام اعتراضات کا ٹھوس ، مدیل اور اطمینان بخش جواب دیا.یہ تمام کاروائی حکومت کی طرف سے با قاعدہ ریکارڈ کی گئی لیکن افسوس نا معلوم وجوہات کی بناء پر حکومت نے اس کا رروائی کو مخفی رکھا ہوا ہے اور با وجود اس کے کہ ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے کئی حکومتیں گزرگئیں لیکن آج تک یہ کارروائی منظر عام پر نہیں آئی.خدا وہ دن جلد لائے کہ کسی حکومت کو اس اہم کارروائی کو من وعن شائع کرنے کی جرات اور توفیق ملے تاکہ ساری قوم اس حقیقت کو جان لے کہ جماعت احمدیہ کا موقف در حقیقت حق پر مبنی تھا.مز تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت مرزا ناصراحمد خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا پابند کیا کہ نیشنل اسمبلی کی مذکورہ بالا کمیٹی کے سامنے خود پیش ہو کر اپنے موقف کی وضاحت کریں اور ہر قسم کے سوالات جو موقع پر ان سے کئے جائیں اُن کے جوابات دیں.اس سلسلہ میں ان کے مددگار کے طور پر یہ اجازت دی گئی کہ وہ اپنے ساتھ چار دیگر نمائندگان انتخاب کرلیں.گویا جماعت احمدیہ کے وفد کی کل تعداد پانچ افراد مقرر ہوئی.1 - موجودہ امام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲ - مکرم و محترم جناب مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری (مرحوم)
- مکرم و محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظهر- ایڈووکیٹ، امیر جماعت ہائے احمدی ضلع فیصل آباد.م - مکرم و محترم جناب مولوی دوست محمد صاحب شاہد ( مؤرخ احمدیت ) مذکورہ اجلاس سے پہلے املی کی خصوصی کمیٹی نے ہزاروں اعتراضات کی چھان بین کر کے چند سو اعتراضا خصوصیت سے جماعت احمدیہ کو تنقید کا ہدف بنانے کے لئے تیار کئے.پاکستان کا شعبہ مذہبی امور اور محکمہ قانون کے اٹارنی جنرل اس کمیٹی کی بھر پور مدد کرتے رہے تب جاکر وہ سوالنامہ تیار ہوا جسے اٹارنی جنرل نے پیش کیا.علاوہ ازیں بعض دوسرے علماء کو بھی بعد میں براہ راست امام جماعت احمدیہ سے سوالات کرنے کی اجازت دی گئی.ا جوابتداءمیں پیش کیاگیا تھا اور میران املی میں ہی تقسیم کر دیا گیا تا بعض ممبران اسمبلی نے بعد ازاں اپنے احمدی دوستوں کو از راہ شفقت مہیا فرما دیا چنانچہ اسی نسخوں میں سے ایک نسخہ جماعت احمدیہ انگلستان تک بھی پہنچا.زیر نظر پیشکش ایک ایسے ہی نسخے پر مبنی ہے جماعت احمدیہ نگلستان نے اس امید پر اسے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ طالبان حق براہ راست اسے پڑھہ کہ فیصلہ کر سکیں کہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کس حد تک مبنی بر انصاف اور مبنی برتعلیمات اسلام ہے.ناشر
ایوان کی حالیہ قرارد رون پایک نظر
خُدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر ایوان کی حالیہ قراردادوں پر ایک نظر ہمارے محبوب ملک پاکستان کی قومی اسمبلی کے تمام معزز ایوان پرشتمل خصوصی کمیٹی کے سامنے اس وقت دو قرار دادیں خصوصی بحث کے لئے پیش ہیں.ان میں سے ایک حزب اقتدار.کی طرف سے اور ایک حزب اختلاف کی طرف سے ہے.ایک اُصولی سوال پیشتر اس کے کہ ان دونوں قرار دادوں میں اُٹھائے جانے والے سوالات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے ہم نہایت ادب سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سرسے پہلے یہ اصولی سوال طے کیا جائے کہ کیا دنیا کی کوئی اسمبلی بھی فی ذاتہ اس بات کی مجاز ہے کہ اول : کسی شخص سے یہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو ؟ قرم یا مذہبی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اِس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرقے یا فرد کا کیا مذہب ہے ؟
انسان کا بنیادی حق اور دستور ہم ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں دیتے ہیں.ہمارے نزدیک رنگ و نسل اور جغرافیائی اور قومی تقسیمات سے قطع نظر ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو اور دُنیا میں کوئی انسان یا انجمن یا اسمبلی اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتے.اقوام متحدہ کے دستور العمل میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ہر انسان کا یہ حتی بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہتے منسوب ہو.(ضمیمہ علا) اسی طرح پاکستان کے دستور اساسی میں بھی دفعہ نمبر 1 کے تحت ہر پاکستانی کا یہ بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے.اس لئے یہ امر اصولاً طے ہونا چاہیئے کہ کیا یہ میٹی پاکستان کے دستور اساسی کی رو سے زیر نظر قرار داد پر بحث کی مجاز بھی ہے یا نہیں ؟ اس ضمن میں امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر حمد صاحب کے ایک خطبہ کا انگریزی ترجمہ جس میں اس پہلو پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ضمیمہ نمبر کے طور پر لطف ہذا کیا جاتا ہے) انسانی فطرت اور عقل بھی کسی سہیلی کو یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ کسی شخص یا فرقہ کو اس حق سے محروم کر سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو کیونکہ ایسی صورت میں دنیا کی ہر اسمبلی کو یہی حتی دینا پڑے گا اور اس اصول کو تسلیم کرنے کے ساتھ جو مختلف قبیح صورتیں پیدا ہوں گی اُن میں سے بعض نمونہ حسب ذیل ہیں :.:- دنیا کی ہر قومی اسمبلی کو فی ذاتہ یہ حق بھی ہو گا کہ عیسائیوں کے بعض فرقوں کو غیر عیسائی یا ہندوؤں کے بعض فرقوں کو غیر ہندو قرار دے.وغیرہ وغیرہ.ب :.ہر ملک میں موجود ہر مذہب کے ہر فرقے کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ فلاں فلاں فرقے کوغیر عیسائی یا غیر ہند و یا غیرمسلم قرار دینے پر غور کرے.وعلى هذا القیاس.
ج :- اگر جماعت احمدیہ کو بالخصوص زیر نظر رکھنے کی وجہ حالیہ فسادات ہیں تو اس دلیل کی رُو سے پاکستان میں اب تک جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں.یا امکانا ہو سکتے ہیں.ان سب کے بارہ میں بھی اسی پہلو سے غور کرنا ضروری اور مناسب ہوگا..دنیا کی دیگر اسمبلیوں کو بھی یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ بعض مسلمان فرقوں کو اُن کے بعض عقائد کی رو سے غیرمسلم قرار دے دیں.مثلاً ہندوستان کی قومی اسمبلی کا حق تسلیم کر نا پڑے گا کہ مسلمان فرقوں کو یکے بعد دیگر سے اُن فتاوی کی بناء پر جو ان کے خلاف دیئے گئے غیر مسلم قرار دے کر ہندوستان کی غیر مسلم اکثریت میں جذب کرے.(یاد رہے کہ اکثر ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں) :- اسی طرح عیسائی حکومتیں اپنی عددی اکثریت کے حق کو استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہوں گی کہ مسلمانوں کو اقلیت قرار دے کر شہری حقوق سے محروم کر دیں.یادر ہے کہ اس وقت پاکستان میں عیسائی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ انہیں شہری حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے (دیکھیئے پریس ریلیز جوشوا افضل الدین تتمہ مسلم ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورتیں عقلاً قابل قبول نہیں ہو سکتیں اور شمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کا موجب ہو جائیں گی.قومی اہلی اور مذہبی امور پرفیصلہ کی اہمیت کوئی قومی اسمبلی اس لئے بھی ایسے سوالات پر بحث کی مجاز فرار نہیں دی جا سکتی کہ کسی بھی قومی اسمبلی کے ممبران کے بارے میں یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ وہ مذہبی امور پر فیصلے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں ؟ دنیا کی اکثر اسمبلیوں کے ممبران سیاسی منشور لے کر رائے دہندگان کے پاس جاتے ہیں اور ان کا انتخاب سیاسی اہمیت کی بناء پر ہی کیا جاتا ہے.خود پاکستان میں بھی ممبران اسمبلی کی بھاری اکثریت سیاسی منشور کی بناء پر اور علماء کے فتویٰ کے علی الرغم منتخب کی گئی.
پس ایسی اسمبلی کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ کسی فرد کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اس کا مذہب کیا ہے ؟ یا کسی ایک عقیدہ کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ فلاں عقیدہ کی رو سے فلاں شخص مسلمان رہ سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر کیسی اسمبلی کی اکثریت کو محض اس بناء پر کسی فرقہ یا جماعت کے مذہب کا فیصلہ کرنے کا مجاز قرار دیا جائے کہ وہ ملک کی اکثریت کی نمائندہ ہے تو یہ موقف بھی نہ عقلاً قابل قبول ہے نہ فطرتا نہ مذہنیا.اس قسم کے امور خود جمہوری اصولوں کے مطابق ہی دُنیا بھر میں جمہوریت کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دئیے جاتے ہیں.اسی طرح تاریخ مذہب کی رو سے کسی عہد کی اکثریت کا یہ حق کبھی تسلیم نہیں کیا گیا کہ وہ کسی کے مذہب کے تعلق کوئی فیصلہ دے اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو نعوذ باللہ دنیا کے تمام انبیاء علیہم السّلام اور ان کی جماعتوں کے متعلق ان کے عہد کی اکثریت کے فیصلے قبول کرنے پڑیں گے.ظاہر ہے کہ یہ ظالمانہ تو ہے جسے دنیا کے ہر مذہب کا پیرو کار بلا توقف ٹھکرا دے گا.قرآن کریم اور ارشادات نبوی کا واضح ثبوت و تصور قرآن کریم اور ارشادات نبوی کی رو سے بھی کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ جبڑا کسی کا مذہب تبدیل کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لا اكراة في الدين ( البقرہ : ۲۵۶) یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر (جائز) نہیں اگر جسمانی ایذا رسانی کے ذریعے زبر دستی کسی کا مذہب تبدیل کیا گیا ہو جبکہ الا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مطمي بالايمان ( النحل : ۱۰۹) دل حسب سابق ایمان پر قائم ہو تو ایسا طریق بھی لا اکراہ فی الدین کی تعلیم کے منافی ہے.اور زبر دستی کسی مسلمان کو غیرمسلم یا ہندو کومسلم قرار دینا بھی جبکہ اول الذکر اسلام پر شرح صدر رکھتا ہوا اور مؤخر الذکر ہندو مذہب پر تویہ بھی آیت لا اكترات في الدين کی نا فرمانی میں داخل ہوگا.اسکی مزید تائید آیت وَلَا تَقُولُوا لِمَن القَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنَّا ( النساء : ۹۴) کر رہی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہجو تمہیں مسلمانوں کی طرح " السلام علیکم کہے اُسے یہ کہنے کا تمہیں کوئی حتی نہیں کہ تو مومن نہیں.آنحضور صلی الہ علیہ وسلم کا واضح فرمان یہی ہے کہ جو شخص توحید باری تعالیٰ کا اقرار کرے اس پر یہ الزام
لگانا کہ وہ زبان سے تو اقرار کر رہا ہے مگر دل سے منکر ہے لہذا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں.اپنے حق اختیا سے تجاوز کرتا ہے.چنانچہ ذیل کی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بالبد است اس امر پر روشنی ڈال رہی ہے :.حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جمہینہ قبیلہ کے نخلستان کی طرف بھیجا ہم نے صبح صبح اُن کے چشموں پر ہی اُن کو جالیا.نہیں نے اور ایک انصاری نے ان کے ایک آدمی کا تعاقب کیا.جب ہم نے اس کو جالیا اور اسے مغلوب کر لیا تو وہ بول اُٹھا لا إِلهَ إِلَّا الله (خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ) اس بات سے میرا انصاری ساتھی اس سے رک گیا لیکن میں نے اس پر نیزے کا وار کر کے اسے قتل کر دیا.جب ہم مدینہ واپس آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا ہے اسامہ کیا لا الہ الا اللہ پڑھ لینے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا ؟ میں نے عرض کیا یا یوں ہے وہ صرف بچاؤ کے لئے (یہ الفاظ ) کہہ رہا تھا.آپ بار بار یہ دہراتے جاتے تھے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ کاش آج سے پہلے میں مسلمان ہی نہ ہوتا.اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبکہ اس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا پھر بھی تونے اُسے قتل کر دیا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اس نے ہتھیار کے ڈر سے ایسا کہا تھا آپ نے فرمایا کہ کیوں نہ تو نے اُس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے دل سے کہا ہے یا نہیں چھوڑ نے یہ بات اتنی بار دہرائی کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش میں آج مسلمان ہوا ہوتا.(بخاری کتاب المغازی باب بحث النبي أسامة بن زيد الى الحرقات من جهينة طلا قراداؤں پر اسلامی نقطہ نگاہ سے ایک بنیادی اعتراض اس سلسلہ میں نہایت ادب سے یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ نیشنل اسمبلی کے سامنے جس صورت میں موجودہ ریزولیوشن پیش ہوا ہے اس پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے ایک نہایت اہم اور بنیادی اعتراض وارد
" ہوتا ہے جس کی روشنی میں موجودہ قرار داد پر غور کرنے سے قبل اس نکتہ استحقاق کا فیصلہ ضروری ہے.وہ یہ کہ ہمارے آقا و مولا حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ سَتَفْتَرِقُ هَذِهِ الْأُمَّةُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُتُهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً " کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے.حضرت محمد بن عبد الوہاب رحمتہ اللہ علیہ جو مسلمانان حجاز کی بھاری اکثریت اور اعلی حضرت شافعیل کے عقیدہ کے مطابق بارھویں صدی کے مجدد تھے مندرجہ بالا حدیث درج کر کے ارشاد فرماتے ہیں :.فَهَذِهِ الْمَسْتَلَةُ اَجَ الْمَسَائِلِ فَمَنْ فَهِمَهَا فَهُوَ الْفَقِيهُ وَمَنْ عَمِلَ بِهَا 't ދހ ދ فهو المسلم مختصر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۱۳ ۱۴- الامام محمد بن عبد الوہاب مطبوعہ قاہرہ) یعنی تہتر فرقوں میں سے بہتر کے ناری اور ایک کے منبتی ہونے کا مسئلہ ایک عظیم الشان مسئلہ ہے جو اسے سمجھتا ہے وہی فقیہہ ہے اور جو اس پر عمل کرتا یعنی بہتر فرقوں کو عملاً ناری اور ایک کو جنتی قرار دیتا ہے صرف اور صرف وہی مسلمان ہے.جماعت اسلامی کا مشہور آرگن " ترجمان القرآن“ بابت جنوری ۱۹۴۵ء لکھتا ہے :- " اسلام میں اکثریت کا رکسی بات پر متفق ہونا اس کے حق ہونے کی دلیل ہے نہ اکثریت کا نام سواد اعظم ہے نہ ہر بھیڑ جماعت کے حکم میں داخل ہے اور نہ کسی مقام کے مولویوں کی کسی جماعت کا کسی رائے کو اختیار کر لینا اجماع ہے.....اس مطلب کی تائید اس حدیث نبوی سے ہوتی ہے جو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بایں الفاظ مروی ہے :- ان بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرَقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةٌ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّامِلَةً - قَالُوْا مَنْ هِيَ يَارَسُوْلَ اللهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي
یعنی بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں پڑ جائیں گے بجز ایک کے.لوگوں نے پوچھا یہ کون لوگ ہوں گے یا رسول الله ؟ آپ نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریقہ پر ہوں گے " یہ گروہ نہ کثرت میں ہوگا نہ اپنی کثرت کو اپنے برحق ہونے کی دلیل ٹھہرائے گا بلکہ اس امت کے تہتر فرقوں میں سے ایک ہو گا اور اس معمور دنیا میں اس کی حیثیت اجنبی اور بیگانہ لوگوں کی ہوگی جیسا کہ فرمایا : بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَءَ فَطُوبى لِلْغُرَبَاءِ.....پس جو جماعت محض اپنی کثرت تعداد کی بناء پر اپنے آپ کو وہ جماعت قرار دے رہی ہے جس پر اللہ کا ہاتھ ہے.....اس کے لئے تو اس حدیث میں امید کی کوئی کرن نہیں کیونکہ اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طور پر بیان کر دی گئی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہو گی دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہو گی یا ترجمان القرآن جنوری، فروری ۶۱۹۴۵ صفحه ۱۷۶۶۱۷۵ مرتبه سید ابو الاعلیٰ مودودی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا فرمان کے بالکل بر عکس اپوزیشن کے علماء کی طرف پیش کردہ ریزولیوشن یہ ظاہر کر رہا ہے کہ امت مسلمہ کے بہتر فرقے تو جنتی ہیں اور صرف ایک دوزخی ہے جو قطعی طور پر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کے خلاف اور آپ کی صریح گستاخی کے مترادف ہے.لماذا موجودہ شکل میں اس ریزولیوشن پر غور کرنا بلکہ پیش کیا جانا اسلامی مملکت پاکستان کی معرز قومی امیلی کو ہر گز زیب نہیں دیتا البتہ اگر یہ قرار داد اس رنگ میں پیشیں ہو کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی
میں واحد ناجی فرقہ کا تعین کیا جائے جو اس معمور دنیا میں اجنبی اور اقلیت میں ہوگا تو ایسا کرنا عین منشاء نہوئی کے مطابق ہوگا.حق وصداقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی درخواست مندرجہ بالا امور کی روشنی میں ہم مودبانہ مگر پرزور گزارش کرتے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے معاملات پر غور کرنے اور فیصلہ کرنے سے گریز کرے جن کے متعلق فیصلہ کرنا اور غور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے.اقوام متحدہ کے منشور اور پاکستان کے دستور اساسی کے خلاف ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم اور ارشادات نبوئی کے بھی سراسر منافی ہے اور بہت سی خرابیوں اور فساد کو دعوت دینے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے.مزید برآں پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائم کردہ یہ مثال دیگر ممالک میں بسنے والے اقلیتی مذاہب اور فرقوں کے لئے شدید مشکلات کا موجب بن سکتی ہے بہرحال اگر پاکستان کی قومی اسمبلی مندرجہ بالا گزارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کو اس امر کا مجاز تصور کرے کہ وہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے کسی بھی فرقہ کوکسی عقیدہ یا قرآن کریم کی کسی آیت کی مختلف تشریح کی بناء پر دائرہ ا سلام سے خارج قرار دینے کی مجاز ہے تو ہم یہ تجویز کریں گے کہ ایسی صورت میں حتی المقدور احتیاط برتی جائے اور عقل و انصاف کے تقاضوں کو حد امکان تک پورا کیا جائے اور ہر گز ایسے رنگ میں اس مسئلہ پر ہاتھ نہ ڈالا جائے کہ غیر جانبدار دنیا کی نظر میں یہ معامل تصحیک کا موجب ہو اور قومی وقار کوٹھیس پہنچانے کا باعث بنے.سربراہ قوم جناب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھی قوم سے اپنی نشری تقریر تاریخ ۱۳ مئی میں یہ وعدہ فرمایا تھا کہ زیر نظر مسئلہ کو عمدگی اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کیا جائے گا.قوم کے سربراہ کے اس حتمی وعدہ کی بناء پر قومی سمبلی پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے انصاف اور معقولیت کے تقاضوں کو ہاتھ سے نہ جانے دے.
= مسلمان کی تعریف جماعت احمدیہ کا موقف
مسلمان کی تعریف اور جماعت احمد کا موقف دنیا بھر میں یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی نوع معین کرنے سے قبل اس نوع کی جامع ومانع تعریف کر دی جاتی ہے جو ایک کسوٹی کا کام دیتی ہے اور جب تک وہ تعریف قائم رہے اس بات کا فیصلہ آسان ہو جاتا ہے کہ کوئی فرد یا گر وہ اس نوع میں داخل شمار کیا جا سکتا ہے یا نہیں.اس لحاظ سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس مسئلے پر مزید غور سے قبل مسلمان کی ایک جامع ومانع متفق علیہ تعریف کی جائے جس پر نہ صرف مسلمانوں کے تمام فرقے متفق ہوں بلکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اس تعریف پر اتفاق ہو.اس ضمن میں مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرنا ضروری ہوگا :- :- کیا کتاب اللہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بلا استثناء کیا گیا ہو ؟ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے ؟ ب :.کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو کسی زمانہ میں بھی کوئی اور تعریف کرنا کسی کے لئے جائز قرار دیا جا سکتا ہے ؟ ج : مذکورہ بالا تعریف کے علاوہ مختلف زمانوں میں مختلف علماء یا فرقوں کی طرف سے اگر مسلمان کی کچھ دوسری تعریفات کی گئی ہیں تو وہ کون کونسی ہیں ؟ اور اول الذکر شق میں بیان کر وہ تعریف کے مقابل پر انکی کیا شرعی حیثیت ہوگی ؟ :- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں فتنہ ارتداد کے وقت کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ یا آپ کے صحابہ نے یہ ضرورت محسوس فرمائی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج شدہ تعریف میں کوئی ترمیم کریں ؟ د کیا زمانہ نبوتی یا زمانہ خلافت راشدہ میں کوئی ایسی مثال نظر آتی ہے کہ کلمہ لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدُ
اله رَسُولُ اللہ کے اقرار کے اور دیگر چار ارکان اسلام یعنی نماز، زکوۃ ، روزہ اور بچ پر ایمان لانے کے با وجود کسی کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو ؟ س :- اگر اس بات کی اجازت ہے کہ پانچ ارکان اسلام پر ایمان لانے کے با وجو د کسی کو قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تشریح کرنے کی وجہ سے جو بعض دیگر فرقوں کے علماء کو قابل قبول نہ ہو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے.یا ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے جو بعض دیگر فرقوں کے نزدیک اسلام کے منافی ہے تو ایسی تشریحات اور عقائد کی تعین بھی ضروری ہوگی تا کہ مسلمان کی مثبت تعریف میں یہ شق داخل کر دی جائے کہ پانچ ارکان اسلام کے با وجود اگر کسی فرقہ کے عقائد میں یہ یہ امور داخل ہوں تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا.ص :- پنج ارکان اسلام پر ایمان کے باوجود اگر مسلمان فرقوں کی تکفیر کا کوئی ایسا دروازہ کھول دیا جائے جس کا ذکر شق ”ر“ میں ہے تو ایسے تمام امور پر نظر کرنا عقلا اور انصافا ضروری ہے جن پر بناء کرتے ہوئے مختلف علماء نے اپنے فرقہ کے علاوہ دیگر فرقوں کو قطعاً کافر، مرتد یا دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا.مثال کے طور پر چند امور درج ذیل کئے جاتے ہیں :.و : قرآن کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کا عقیدہ.(اشاعرہ - حنابلہ ) ب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترنہیں بلکہ نور یقین کرنا.(بریلوی) ج : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نور نہیں بلکہ کبشر یقین کرنا.(اہلحدیث ) د : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ایمان رکھنا کہ حاضر ناظر بھی ہیں اور عالم الغیب بھی.(بریلوی) : یہ ایمان رکھنا کہ فوت شدہ بزرگان سے امداد طلب کرنا جائز ہے اور بہت سے وفات یافتہ اولیاء یہ طاقت رکھتے ہیں کہ عند الطلب کسی کی مراد پوری کر سکتے ہیں.(بریلوی) த் و :- یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے سوا شریعت میں کوئی اور چیز معتبر نہیں لہذا ہم سنت رسول اور احادیش رسول کی پیروی کے پابند نہیں خواہ کیسے ہی تو اتر اور قومی روایات سے هم تک پہنچی
18 ہوں.(چکڑالوی.پرویزی ) ز : یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے تیس پاروں میں درج سورتوں کے علاوہ بھی کچھ سورتیں ایسی نازل ہوئی تھیں جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ذکر پایا جاتا تھا لیکن وہ سورتیں ضائع کر دی گئیں لہذا جو قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا وہ مکمل صورت میں ہم تک نہیں پہنچا.(غالی شیعه) یہ عقیدہ رکھنا کہ جماعت خانوں میں پنجوقتہ نماز کی بجائے کیسی بزرگ کی تصویر سامنے رکھ کر مینا جات کرنا جائز ہے اور خدا سے مخاطب ہونے کی بجائے اس بزرگ کی تصویر سے مخاطب ہو کر دعا کرنی جائز ہے اور یہی دعا نماز کے قائم مقام ہے.(اسمعیلی فرقہ) ط :- یہ عقیدہ رکھنا کہ پنج تن پاک اور چھ دیگر صحابہ کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ بشمولیت خلفائے راشدین ثلاثہ حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب اسلام سے برگشتہ ہو چکے تھے اور عیاذ باللہ منافق کا درجہ رکھتے تھے.نیز یہ عقیدہ کہ پہلے تین خلفاء نعوذ باللہ غاصب تھے اس لئے ان پر تبرا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے.(شیعہ ) ی.کیسی بزرگ کے متعلق یہ عقیدہ رکھا کہ خدا اس میں عارضی یا مستقل طور پر حلول فرما چکا ہے.حلولی فرقه ) مندرجہ بالا تنقیحات پر غور کرنا اس لئے ضروری ہے کہ قطعی اور ٹھوس شواہد سے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے متعلق مختلف مسلمان فرقوں کے علماء اور مجتہدین قطعی فتوی صادر فرما چکے ہیں کہ ایسے عقائد کے حامل خواہ دیگر ضروریات دین پر ایمان بھی رکھتے ہوں یقیناً دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور اُن کے گھرمیں شک کرنے والا بھی بلاست بر خارج از اسلام قرار دیا جائے گا.اس ضمن من بعض فتاوای ضمیمہ نمبر ہ میں ملاحظہ فرمائیے.مندرجہ بالا امور کی روشنی میں ہم پر زور اپیل کرتے ہیں کہ اگر حقیقتا عقل اور انصاف کے تقاضوں کو
IN پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام میں جماعت احمدیہ کی حیثیت پر غور فرمانا مقصود ہے یا اسلام میں آیت خاتم النبیین کی کیسی تشریح کے قائل ہونے والے کسی فرد یا فرقہ کی حیثیت کا تعین کرنا مقصود ہے تو پھر ایسا پیمانہ تجویز کیا جائے جس میں ہر منافی اسلام عقیدہ رکھنے والے کے گھر کو ماپا جاسکتا ہو اور اس پیمانہ میں جماعت احمدیہ کیلئے بہر حال کوئی گنجائش نہیں.مندرجہ بالا تمام سوالات کے بارے میں جماعت احمدیہ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ :- اقول :.جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابل قبول اور قابل عمل ہو سکتی ہے جو قرآن عظیم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اسی پر عمل ثابت ہو.اس اصل سے ہٹ کر مسلمان کی تعریف کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ رخنوں اور خرابیوں سے مبرا نہیں ہوگی بالخصوص بعد کے زمانوں میں (جب کہ اسلام بنتے بنتے بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گیا) کی جانے والی تمام تعریفیں اس لئے بھی رد کرنے کے قابل ہیں کہ ان میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بیک وقت اُن سب کو قبول کرنا ممکن نہیں.اور کسی ایک کو اختیار کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس طرح ایسا شخص دیگر تعریفوں کی رو سے غیرمسلم قرار دیا جائے گا اور اس دلدل سے نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیں رہے گا جسٹس محمد منیر نے ۱۹۵۳ء کی انکوائری کے دوران جب مختلف علماء سے مسلمان کی تعریف پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا تو افسوس ہے کہ کوئی دو عالم بھی کسی ایک تعریف پر تشفق نہ ہو سکے.چنانچہ اس بارے میں جسٹس منیر صاحب افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- علماء کی طرف سے کی گئی مختلف تعریفوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا اس امر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم کسی قسم کا تبصرہ کریں سوائے اس کے کہ کوئی بھی دو عالمان دین اس بنیادی مسئلہ پر متفق نہیں اگر ہم بھی ایک عالم دین کی طرح اپنی طرف سے ایک تعریف کریں اور وہ باقی تمام تعریفوں سے مختلف ہو تو ہم خود بخود دائرہ اسلام سے خارج
14 ہو جائیں گے اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی طرف سے کی گئی تعریف اختیار کریں تو ہم اس عالم کے نظریہ کے مطابق تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسری ہر تعریف کے مطابق کا فری رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ۶۱۹۵۳ مثل(۲) جسٹس منیر جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس سے یہ امرقطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ مسلمان کی تعریف کے بارہ ہیں رپورٹ کی تدوین تک کبھی کوئی ایسا اجماع نہیں ہوا جسے سلف صالحین کی سند حاصل ہو لہذا آج اگر کوئی بظاہر متفق علیہ تعریف پیش کی جائے تو اسے اُمت کی اجتماعی تعریف ہرگز قرار نہیں دیا جائے گا اور اُسے سلف صالحین کی سند حاصل نہیں ہو گی.پس جماعت احمدیہ کا موقف یہ ہے کہ مسلمان کی وہی دستوری اور آئینی تعریف اختیار کی جائے ہو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمائی اور جو اسلامی مملکت کے لئے ایک شاندار چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لئے ہم تین احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں :- ا.حضرت جبریل علیہ السلام آدمی کے بھیس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضور سے پوچھا : " يَا مُحَمَّدُ اخْبِرُنِي عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ : الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لا إلة : إلا اللهُ وَانَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلوةَ وَتُؤْتِي الزَّكوةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وتحجر البَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا - قَالَ صَدَقْتَ.فَعَجِبْنَالَهُ يَسْئَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيْمَانِ قَالَ : أن تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَيكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُـ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِهِ قَالَ صَدَقْتَ (مسلم کتاب الایمان) - " جَاءَ رَجَل إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ قَائِرًا لرأْسِ نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ وَلَا نَفْقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ
JA رسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسُ صَلَوَتِ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ هَلْ علَى غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِيَامُ رمضانَ قَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهُ ، قَالَ لَّا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ قَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ وَاللهِ لَا أَزِيدُ عَلى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ “ ( صحیح بخاری کتاب الایمان جلد عن صلا مصری ) ترجمه حدیث را : کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اسلام کے بارے میں مطلع فرمائیں.حضور نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمدصلی الہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگر راستہ کی توفیق ہو تو بیت اللہ کا حج کرو.اس شخص نے کہا کہ حضور نے بجا فرمایا.راوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب آیا کہ سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے.پھر اُس شخص نے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں آگاہ فرمائیں.حضور نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ پر ایمان لائیں.اُس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں پر ایمان لائیں.نیز یوم آخر پر ایمان لائیں اور قضاء و قدر کے بارے میں خیر و شر پر بھی ایمان لائیں.اُس شخص نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا ہے.ترجمہ حدیث ۲۷ :- اہل نجد میں سے ایک شخص پر اگندہ بالوں والا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنتے تھے مگر اس کی باتوں کو نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ شخص زیادہ قریب ہو گیا تو معلوم ہوا کہ وہ حضور سے اسلام کے بارے میں دریافت کر رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دن اور رات میں پانچ نمازیں مقرر ہیں.اس نے کہا کہ ان پانچ کے علاوہ اور بھی نمازیں ہیں ، حضور نے فرمایا کہ نہیں بجز اس کے کہ
14 تم بطور نفل ادا کرنا چاہو حضور نے پھر فرمایا کہ رمضان کے روزے رکھو.اس نے پوچھا کہ رمضان کے روزوں کے علاوہ اور بھی روزے فرض ہیں حضور نے فرمایا نہیں سوائے اسکے کہ تم بطور نفل رکھنا چاہو.پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے زکوۃ کا ذکر فرمایا.اس نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی اور ہے حضور نے فرمایا کہ نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفضل زیادہ ادا کرنا چا ہو.و شخص مجلس سے اٹھ کر چل پڑا اور یہ کہہ رہا تھا کہ بخدا میں ان احکام نہ زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا....رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اس قول میں سچا ثابت ہوا تو ضرور کامیاب ہو جائے گا.- " مَنْ صَلَّى صَلوتَنا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنا وَ اَمَل ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَةُ اللهِ وَذِمَةُ رَسُولِهِ فَلَا تُخْفِرُوا اللهَ فِي ذِمَّتِهِ بخاری جلد اول باب فضل استقبال القبلة) " جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم کرتے ہیں.اُس قبلہ کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جبر کے لئے اللہ اور اُس کے رسوا کا ذمہ ہے.پس تم اللہ کے دئے ہوئے ذمے میں اس کے ساتھ دغا باز ی نہ کروایاہے ہمارے مقدس آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس تعریف کے ذریعہ آنحضور نے نہایت جامع و مانع الفاظ میں عالمی اسلامی کے اتحاد کی بین الاقوامی بنیا د رکھ دی ہے اور ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے که اس بنیاد کو اپنے آئین میں نہایت واضح حیثیت سے تسلیم کرے ورنہ امت مسلمہ کا شیرازہ ہمیشہ کھرا رہیگا اور فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہ ہو سکے گا.قرون اولیٰ کے بعد گزشتہ چودہ صدیوں میں مختلف زمانوں ے حدیث نبوی کا یہ ترجمہ جناب ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کے رسالہ " دستوری سفارشات پر تنقید، صفحه ۱۵۶۱۴ سے لیا گیا ہے ؟
میں مختلف علماء نے اپنی من گھڑت تعریفوں کی رُو سے گھر کے جو فتاوی صادر فرمائے ہیں ان سے ایسی بھیانک صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ کسی ایک صدی کے بزرگان دین ، علمائے کرام ،صوفیاء اور اولیاء الشعر کا اسلام بھی ان تعریفوں کی رُو سے بچ نہیں سکا اور کوئی ایک فرقہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا جس کا شفر بعض دیگر فرقوں کے نزدیک مسلمہ نہ ہو.اس ضمن میں ضمیمہ نمبرہ لف لہذا کیا جاتا ہے.فتاوی کفر کی حیثیت یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فتاوای کفر کی کیا حیثیت ہے اور کیا کوئی عالم دین انفرادی حیثیت سے یا اپنے فرقہ کی نمائندگی میں کسی دوسرے فرد یا فرقہ پر گفر کا فتویٰ دینے کا مجاز ہے یا نہیں اور ایسے فتاوی سے امت مسلمہ کی اجتماعی حیثیت پر کیا اثر پڑے گا ؟ جماعت احمدیہ کے نزدیک ایسے فتاوی کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عند اللہ کا فرقرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حشر نشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو گا.اس لحاظ سے ان فتاوای کو اس دنیا میں محض ایک انتباہ کی حیثیت حاصل ہے اور جہاں تک دنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو امت مسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا اہل یا مجاز قرار نہیں دیا جا سکتا یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے روز جزا اسٹرا کے دن ہی ہو سکتا ہے دُنیا کے معاملات میں ان فتاوی کا اطلاق امت مسلمہ کی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کسی فرقے کے علماء کے فتویٰ کے پیش نظر کسی دوسرے فرقہ یا فرد کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا.یہ موقف کہ ایک فرقہ کے گھر کے بارہ میں اگر باقی تمام فرقوں کا اتفاق ہو جائے تو ایسی صورت میں دائرہ اسلام سے اس فرقہ کا اخراج جائز قرار دیا جا سکتا ہے اس بناء پر غلط اور نا معقول ہے کہ جیسا کہ
ضمیمہ میں درج شدہ فتاوی کے مطالعہ سے ظاہر ہو گا ، عملاً مسلمانوں کے ہر فرقہ میں کچھ نہ کچھ اعتقادات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے متعلق اکثر فرقوں کا یہ اتفاق ہے کہ ان کا حامل دائرہ اسلام سے خارج ہے اور یہ صورت حال آسمانی حکم و عدل کا تقاضہ کرتی ہے.اگر آج بعض اختلافات کی بناء پر جماعت احمدیہ کے خلاف دیگر تمام فرقوں کا اتفاق ممکن ہے توکل شیع کے خلاف ان کے بعض خصوصی عقائد کے بارے میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے.اور اہل قرآن الموسوم چکڑالوی یا پرویزی کے متعلق بھی ایسا ہو سکتا ہے اور اہل حدیث وہابی یا دیوبندیوں کے بعض عقائد کے متعلق بھی دیگر فرقوں کے علماء کا عملاً اتفاق ہے.پس سوادِ اعظم کا لفظ ایک مبالغہ آمیز تصور ہے.کیسی ایک فرقہ کو خاص طور پر بد نظر رکھا جائے تو اس کے مقابل پر دیگر تمام فرقے سوا و اعظم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اس طرح باری باری ہر ایک فرقہ کے خلاف بقیہ سواد اعظم کا فتومی گفر ثابت ہوتا چلا جائے گا.ہمارے نزدیک یہ فتاوی ظاہر پر مبنی ہیں اور فی ذاتہا ان کو جنت کا پروانہ یا جہنم کا وارنٹ قرار نہیں دیا جا سکتا.جہاں تک حقیقت اسلام کا تعلق ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں تحقیقی مسلمان کی تعریف درج کرتے ہیں :- " اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اُس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْتُ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیو سے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.
اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی طاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالعصا اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجالا و سے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.....اب آیات ممدوحہ بالا پر ایک نظر غور ڈالنے سے ہر ایک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی وظاہری قومی کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی معلی حقیقی کو واپسین دی جائیں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقیت کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کہ دیوے کہ اس کے ہاتھ اور کبیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا علم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیات اور اس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قومی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں.
اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے دو قسم پر ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خون اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اُس کی تقدیس اورتسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بہ دل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارا دتِ تامہ سر پر اٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اُس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اُس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قومی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں.دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اُس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور بار برداری اور سچی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جائے دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دُکھ اُٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر کرنج گوارا کر لیں.اس تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہل اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بھدا نہ کر دیوسے اور اپنی انانیت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا کہ جب اس کی غافلا نہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اُس کے نفس امارہ کا نقش ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے ایک وفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد میں بل ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ہیں
پاک زندگی ہو جو اُس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اُس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کیلئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور اس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اُس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلا وسے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا مجسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہیئے.غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑے.اور تعلق اللہ کی خدمت اس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طرق کی راہ سے قسام ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے.ان تمام امور میں محض للہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچا وسے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خدا دا د قوت سے مدد دے اور اُن کی دنیاو آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگا ہے.سویہ عظیم الشان منتهی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حقیت تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اسلام اور اسلام کی حقیقت اور اسلام کا لب لباب ہے جو نفس اور خلق اور ہوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے “ (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۷ ۵ تا ۶۲ )
۲۵ مقام تم الين ما حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عارفانہ تحریرات
انکار ختم نبوت کے الزام کا تجزیہ 11 یہ الزام بالہداہت غلط ہے اور افتراء پردازی کے مترادف ہے کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ آیت خاتم انبینی کی منکر ہے اور آنحضور حضرت محمدمصطف خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ سلم کو خاتم النبین تسلیم نہیں کرتی تب تب ہے کہ یہ الزام مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے ایک ایسی ہمارے مذہب کا خلاصہ اور کرتے کباب یہ ہے کہ لا الہ الا الله جماعت پر لگایا جاتا ہے جو یہ پختہ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله ہمارا اعتقاد جو ہم اسے دنیوی زندگی میں ایمان رکھتی ہے کہ قرآن کریم کی ایک رکھتے ہیں جن کے ساتھ ہم بغض و توفیقی باری تعالیٰ اس آیت تو کجا ایک شوشہ یا ایک نقطہ بھی منسوخ عالم گزران سے کوچ کرین گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفے نہیں حالانکہ اسکے بر عکس دیگر فرقوں صلی اللہ علیہ ولم خاتم النبتين و خیرالمرسلین ہیں جرض کے ہاتھ کے علماء کے نزدیک قرآن کی بعض آیات سے الکمال دین ہو چکا اوروہ نعمت مرتبہ اتمام پہنچ چکھے جس کے بعض دوسری آیات کے ذریعہ منسوخ ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالی بڑھے پہنچ ہو چکی ہیں اور آب ان کی مثال گویا انسانی سکتا ہے" (ازالہ اوہام) جسم میں اپینڈکس تعجب کی بات نہیں کی سی ہے.پھر کیا یہ کہ قرآن کریم میں پانچ سے لے کر پانچ صد آیات تیک منشوخ مانے والے فرقے ایک ایسے فرقے پر قرآن کریم کی کسی آیت کے انکار کا الزام لگا رہے ہیں جو پانچ تو در کنار ایک آیت کے ایک نقطہ تک کی تنسیخ کا قائل نہیں ہے ناطقہ سر بگر یہاں کہ اسے کیا کہئے زبر دستی اور دھونس کے سوا اسے اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے ؟ جب جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ ہمارا یہی عقیدہ ہے اور اسی کی بار بار ہمیں بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے تلقین کی گئی ہے کہ قرآن خدا کی آخرمی اور کامل کتاب اور محمد صلے صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم اس کے آخری اور کال رسول اور خاتم انبیین
VA ہیں تو مخالف علماء کی طرف سے ہمیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ تم یہ کہنے کے با وجود کسی نہ کسی معنی میں نہی کے آنے کے امکان کو باقی سمجھتے ہو لہذا اس آیت کریمہ کے مفہوم کا انکار کرتے ہو.پس عملاً آیت ہی کے منکر شمار ہوگئے.مخالفین جماعت کا یہی وہ سب سے بڑا دھکہ ہے جس کے زور سے وہ جماعت احمدیہ کو اسلام کے دائرہ سے باہر دھکیل دینے کا عزم لے کر اُٹھے ہیں.آئیے ذرا ٹھنڈے دل سے اس الزام کی حقیقت کا جائزہ لیں اور بڑے تحمل اور انصاف کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ یہ الزام لگانے والے کس حد تک حق بجانب ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ خود ہی اپنے عائد کر دہ الزام کی زد میں آرہے ہوں اور بجاطور پر اس آیت کے منکر قرار دیے جانے کے سزا وار ٹھہریں.جماعت احمدیہ کا موقف یہ ہے کہ ہم آیت خاتم النبیین کے تمام ایسے معانی پر ایمان لاتے ہیں جو قرآن حدیث اجماع سلف صالحین اور محاورہ عرب اور گفت عربی کے مطابق ہوں یہم اِس آیت کے لفظی معانی پر بھی ایمان لاتے ہیں اور حقیقی معنوں پر بھی ایمان لاتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں میں سب سے کال ہیں نبیوں کی مہر اور نبیوں کی زینت ہیں.نبوت کے سب کمالات آپ پر ختم ہوگئے اور پرفضیلت کی گنجی آپ کو تھمائی گئی.آپ کی شریعت یعنی قرآن و سنت کا سکہ تا قیامت چلتا رہے گا اور دنیا کے ہر کونے پر محیط ہو گا اور ہر انسان اُسے مانے کا مکلف ہو گا اور کوئی نہیں جو ایک شعشہ بھی اس شریعت کا منسوخ کر سکے.پس آپ آخرمی شریعت کے حامل رسول اور آخری واجب الاطاعت امام ہیں.آپ سب نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں جسمانی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی.اور آپ کی اس ضرب خاتمیت سے کوئی نبی کیسی پہلو سے بچ نہیں سکتا.آپ کے ظہور کے بعد یہ ممکن نہیں کہ کوئی پہلا نبی جسمانی لحاظ سے آپ کی ہمعصری میں زندہ رہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں عالم گزران سے کوچ فرما جائیں کہ کوئی دوسرا نبی جسمانی لحاظ سے زندہ سلامت موجود ہو اور نعوذ باللہ آپ کو جسمانی لحاظ سے ختم ہوتا ہوا دیکھنے کے بعد وفات پائے.حقیقی معنوں میں بھی آپ سب نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ کسی پہلے نبی کا فیض
آپ کی بعثت کے بعد جاری رہے اور وہ کیسی انسان کو کوئی آوئی سا روحانی مقام بھی دلوا سکے.آپ سب دوسرے نبیوں کے فیوض بند کرنے والے ہیں مگر خود آپ کے فیوض قیامت تک جاری رہیں گے اور وہ تمام روحانی فیوض اور انعام جو پہلے نبیوں کی متابعت سے انسانوں کو ملا کرتے تھے پہلے سے بڑھ کر قیامت تک آپ کے اور صرف آپ ہی کے دست کوثر سے انسانوں کو عطا ہوں گے.غرضیکہ ہم لفظی اور حقیقی ہر معنی میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں اور بادب اس تلخ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانے کی جرات کرتے ہیں کہ منکرین حدیث کے سوا ہمارے تمام مخالف فرقوں کے علماء آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان معنوں میں خاتم النبین تسلیم نہیں کرتے.وہ یہ کہنے کے باوجود کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کو ختم کرنیوالے ہیں یہ متضا و ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ حضرت عیسی بن مریم کو نہ تو جسمانی لحاظ سے فرما سکے نہ ہی روحانی لحاظ سے.آپ کے ظہور کے وقت ایک ہی دوسرا نبی جسمانی لحاظ سے زندہ تھا مگر افسوس وہ آپ کی زندگی میں ختم نہ ہو سکا آپ وفات پاگئے لیکن وہ زندہ رہا.اور اب تو وصال نہوئی پر بھی چودہ سو برس گزرنے کو آئے لیکن ہنوز وہ اسرائیلی نبی زندہ چلا آرہا ہے.ذرا انصاف فرمائیے کہ خاتم کے جسمانی معنوں کے لحاظ سے حیات شیح کا عقیدہ رکھنے والوں کے نزدیک دونوں میں سے کون خاتم ٹھہرا.پھر یہی علماء روحانی لحاظ سے بھی عملاً مسیح ناصری ہی کو خاتم تسلیم کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فیض رسانی کے لحاظ سے بھی مسیح ناصری کی فیض رسانی کو ختم نہ فرماسکے.دیر کیوں کے فیض تو پہلے ہی ختم ہو چکے تھے اور نجات کی دوسری تمام راہیں بند تھیں.ایک مسیح ناصری زندہ تھے مگر افسوس کہ ان کے فیض کی راہ بند نہ ہو سکی.یہی نہیں ان کی فیض رسانی کی قوت تو پہلے سے بھی بہت بڑھ گئی اور اُس وقت جبکہ امت محمدیہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان قوت قدسیہ کے با وجود خطر ناک روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوگئی اور طرح طرح کے رُوحانی عوارض نے اُسے گھیر لیا تو براہ راست آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ تو اس امت مرحومہ کو نہ بچا سکی ہاں بنی اسرائیل کے ایک رسول کے سیمی دموں نے اُسے موت کے چنگل سے نجات دلائی اور ایک نئی رُوحانی زندگی عطا کی.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - کیا صريحًا اِس سے یہ
ثابت نہیں ہوتا کہ حیات شیح کا عقیدہ رکھنے والے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو افاضہ فیض کے لحاظ سے بھی سب نبیوں کا ختم کرنے والا نہیں سمجھتے بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی نہی جو اُس وقت زندہ تھا اُس کی فیض رسانی کی قوت کو بھی آپ ختم نہ فرما سکے بلکہ نعوذ باللہ وہ اسرائیلی نبی اس حال میں فوت ہوا کہ امت محمدیہ کا آخری رُوحانی محسن بن چکا تھا.غور فرمائیے کہ کیا جسمانی اور روحانی دونوں معنوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کو خاتم النبتی تسلیم نہیں کیا جا رہا ؟ کیا یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح گستاخی نہیں ؟ کیا یہ آیت خاتم النبیین کی روح کو سبوتاثر کرنے کے مترادف نہیں ؟ اور پھر بھی یہ دعوی ہے کہ احمدی خاتم النبیین کے منکر اور ہم خاتم النبیین کے قائل بلکہ محافظ ہیں.کیا دنیا سے انصاف بالکل اُٹھ چکا ہے ؟ کیا عقل کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا ؟ کیا اس قصے کو عدل کے ترازو پر نہیں تولا جائے گا بلکہ محض عددی اکثریت کے زور پر حق و باطل اور اخروی نجات کے فیصلے ہوں گے ؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو.خدا ہرگز نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن ایسا اگر ہو توپھر تقوی اللہ کا دعوی کیوں کیا جاتا ہے.کیوں نہیں اسے جنگل کا قانون کہا جاتا اور کیوں اس نا انصافی کے لئے اللہ اور رسول کے مقدس نام استعمال کئے جاتے ہیں.ویرانے کا نام کوئی اچھا سا بھی رکھ لیں ویرانہ ویرانہ ہی رہے گا.ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم مطلق طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور تاویلیں کر کے ایک اُمتی اور ظلی نبی کے آنے کی راہ نکال لیتے ہو اور اس طرح ختم نبوت کو توڑنے کے مرتکب ہو جاتے ہو.ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ایسے امتی نبی کا امت محمدیہ ہی میں پیدا ہونا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل غلام ہو اور اپنے ہر روحانی مرتبے میں سرتا پا آپ ہی کے فیض کا مرہونِ منت ہو ہر گز این خاتم النبیین کے مفہوم کے منافی نہیں کیونکہ فانی اور کامل غلام کو اپنے آقا سے جدا نہیں کیا جاسکتا.ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ اپنے اس موقف کو قرآن حکیم سے، ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ، اقوال بزرگان اقت
سے اور محاورہ عرب سے ثابت کریں اور اس سلسلہ میں ایک سیر حاصل بحث آئندہ صفحات میں پیشی کی جارہی ہے مگر اس سے پہلے ہمیں رخصت دیجئے کہ ہم اُن لوگوں کا کچھ محاسبہ کریں جو ہم پر مہر نبوت کو توڑنے کا الزام لگاتے ہیں کہ خود ان کے عقیدہ کی حیثیت کیا ہے.وہ بظاہر یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلقاً بلا شرط و بلا استثناء ہر معنی میں آخری نبی مانتے ہیں اور آپ کے بعد کسی قسم کے نبی کی بھی آمد کے قائل نہیں لیکن ساتھ ہی اگر پوچھا جائے تو یہ اقرار کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ سوائے حضرت عیسی علیہ اسلام کے جو ضرور ایک دن اس اُمت میں نازل ہوں گے یا جب آپ ان پر یہ جرح کریں کہ ابھی تو آپ نے یہ فرمایا تھا کہ آنحضور مطلقاً، بلا استثناء ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی بھی نہیں آئے گا تو پھر اب آپ کو یہ استثناء قائم کرنے کا حق کیسے مل گیا تو اس کے جواب میں انتہائی بے معنی اور بے جان تا ویل پیش کرتے ہیں کہ وہ چونکہ پہلے نبی تھے اس لئے ان کا دوبارہ آنا ختم نبوت کی مہر کو توڑنے کا موجب نہیں.جب ان سے پو چھا جائے کہ کیا وہ موسوی شریعت ساتھ لے کر آئیں گے تو جواب ملتا ہے نہیں بلکہ وہ بغیر شریعت کے آئیں گے.پھر جب پوچھا جائے کہ اس صورت میں اوامر و نواہی کا کیا بنے گا ہر کس بات کی نصیحت فرمائیں گے اور کس سے روکیں گے تو ارشاد ہوتا ہے کہ پہلے وہ امت محمدیہ کے ممبر بنیں گے پھر اس شریعت کے تابع ہو کر نبوت کریں گے.مزید سوالات کے جوابات ان کے اختیار میں نہیں کہ آیا سیم ناصری کو شریعت محمدیہ کی تعلیم علماء دیں گے یا براہ راست اللہ تعالیٰ سے وحی کے ذریعہ ان کو قرآن، حدیث اور سنت کا علم دیا جائے گا لیکن یہ امر تو اس جرح سے قطعا ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلقاً آخری نبی نہیں مانتے بلکہ یہ استثناء رکھتے ہیں کہ ایسانہی جو پرانا ہو صاحب شریعیت نہ ہو امتی ہو اور لفظ لفظاً شریعت محمدیہ کا تابع ہو اور اسی کی تعلیم و تدریس کرے مہر نبوت کو توڑے بغیر بعد ظہور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسکتا ہے.ہم اہل عقل و دانش اور اہل انصاف سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا ایسا اعتقاد رکھنے الوں کے لئے کسی بھی منطق یا انصاف کی رو سے یہ کہنا جائز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا بھی کوئی
۳۲ نہی نہیں آسکتا.بات در اصل یہ ہے کہ کیا ہم اور کیا ہمارے غیر تمام قائلین حدیث ، فرمودات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی روشنی میں یہ عقیدہ رکھنے پر مجبور ہیں کہ عیسی نبی اللہ ہم اس امت میں نزول کریں گے.ہم قرآن و حدیث کی واضح تعلیم کے مطابق چونکہ یہلم بھی رکھتے ہیںکہ عیسی ابن مریم ناصری فوت ہو چکے ہیں اس لئے مذکورہ بالا فرمودات کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ آنے والا " عیسی کبھی اللہ امت محمدیہ ہی میں آپ کے غلاموں میں سے پیدا ہو گا اور قرآن و حدیث اور اقوال بزرگان ہی سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ آنے والا موعود نبی اللہ بھی ہوگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی ہوگا اور یہ عقیدہ خاتمیت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز منافی نہیں.لیکن دیگر علماء اس تاویل سے اپنے دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر پرانا ہی دوبارہ آجائے تو بوجہ اس کے کہ وہ پہلے پیدا ہوا تھا اور اسے پہلے نبوت عطا ہوئی تھی وہ آخری قرار نہیں دیا جا سکتا لہذا ایسے نبی کی آمد کا راستہ مُہر نبوت کو توڑے بغیر کھلا رہتا ہے.اس استدلال کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پہلے پیدا ہونے والا نبی آخری نبی قرار نہیں دیا جا سکتا.جب ہم اس استدلال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بھی انتہائی بودا اور لغو نظر آتا ہے.سوال یہ ہے کہ آج اگر کسی بیس سالہ نوجوان کے سامنے کوئی بچہ پیدا ہو اور دیکھتے دیکھتے چند دن میں فوت ہو جائے پھر وہ نوجوان اسی سال بعد سنو سال کی عمر میں وفات پائے تو مورخ رکس کو آخری لکھے گا یعنی ہر صاحب فہم اور ذی ہوش و حواس مورخ کیس کو آخری قرار دے گا ؟ اس بچے کو جو بعد میں پیدا ہوا مگر چند دن کی زندگی پا کر فوت ہو گیا یا اس پہلے پیدا ہونے والے انسان کو جو اس بچے کی وفات کے اسی سال بعد سنتو سال عمر پا کر فوت ہوا ؟ مسلم جلد ۲ باب ذکر الدجال
افسوس که بعینہ یہی صورت ہمارے مخالف علمائے کرام پیش کر رہے ہیں اور انہیں اس منطق کا بود این نظر نہیں آرہا.وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے بیان کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر کم وبیش چھ صد سال کی تھی جب سید کونین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے.۶۳ سال کی عمر میں حضرت عیسی کی زندگی میں ہی آپ کا وصال ہوا اور اس کے بعد اب تک چودہ سو سال مزید ہونے کو آئے کہ عیسی نبی اللہ زندہ سلامت موجود ہیں.بتائیے کہ جب وہ نازل ہو کر اپنا مشن پورا کرنے کے بعد بالآخر فوت ہوں گے تو ایک غیر جانبدار موترخ زمانی لحاظ سے کیس کو آخری قرار دے گا.جب علماء ظاہر کے نزدیک آیت خاتم النبیین زمانی اعتبار سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو آخری ہونے کا حق نہیں دیتی تو پھر زمانی اعتبار سے ہی علماء ظاہر کو حضرت عیسی علیہ السلام کو آخری نبی قرار دینے کا کیا حق ہے ؟ صرف منہ سے اس حقیقت کا انکار کوئی معنے نہیں رکھتا جب کہ وہ عملاً حضرت عیسی علیہ اسلام کو اس دنیا میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں سال بعد آنے والا سب سے آخری نبی تسلیم کرتے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خاتمیت محمدیہ کے بارے میں جو جامع اور دلکش تصور پیشیں فرمایا ہے وہ بالکل لیگانہ اور بے نظیر ہے.آپ نے قرآن پاک کی روشنی میں آیت خاتم النبیین کی تفسیر مختلف پیرایوں میں اپنی کتب میں ایسے انداز میں بیان فرمائی ہے کہ اس کا ہر حصہ دعوت ایمان و عرفان دے رہا ہے گویا کہہ رہا ہے 5 دامنم می کشد که بجا اینجا است آپ نے کس قدر شاندار اور کتنی موثر اصطلاح بیان فرمائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے ہماری کتاب قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے اور ہمارا رسول حضرت خاتم النبیین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ رسُول ہے.امت محمدیہ میں یہ اصطلاح پہلی مرتبہ آپ نے جاری فرمائی اور عشاق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح طور پر خاتمیت محمدیہ سے متعارف کروایا.
یہ تینوں بنیادی مسائل یعنی ایمان بالله، ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسول ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح پیوست ہیں اور باہم ایسا گہرا ربط رکھتے ہیں کہ ایک مضمون کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا.پس ممکن نہیں کہ ان میں سے ایک مضمون کے متعلق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اعتقادات اور نظریات کا جائزہ دوسرے متعلقہ مضامین کے ذکر کے بغیر کما حقہ کیا جاسکے پس لا نا ہمیں ختم نبوت کے بارہ میں بانی سلسلہ کے فرمودات پر نظر ڈالنے سے قبل ہستی باری تعالیٰ اور قرآن عظیم کے متعلق آپ کے ایمان، اعتقادات اور نظریات پر بھی نظر کرنی پڑے گی ورنہ ختم نبوت کے بارہ میں آپ کے تصور کا ادراک معمل نہ ہو سکے گا.اب ہم بستی باری تعالیٰ کے مضمون سے ابتداء کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ کے بعض اقتباسات پیش کرتے ہیں جو انشاء اللہ بعد ازاں ختم نبوت کے مضمون کو ذہن نشین کروانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے :
۳۵ ذات باری کا عرفان از افادات حضرت بانی سلسلہ احمدية
ذات باری کا عرفان از افادات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب "شهر مر چشم آریہ" میں فرماتے ہیں :- کئی مقام پر قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم الوہیت ہیں ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور ا ور ان کا آنا خدا کا آنا ہے" "پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نہی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے اس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نہی کے توحید مل سکے.نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے.جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے.پس جن لوگوں کا وجود ضروری طور پر خدا کے قدیم قانون از لی کے رو سے خداشناسی کے لئے ذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک تجزو ہے اور بجز اس ایمان کے توحید کامل نہیں ہوسکتی کیونکہ یمکن نہیں که آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص توحید ہو چشہ یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آسکے.وہی ایک قوم ہے جو خدانما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر
ہوتا ہے اور ہمیشہ سے وہ کٹر مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے ور نہ وہ توحید جو خدا کے نزدیک توحید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوتا ہے اس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نہی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویسا ہی خلاف تجارب سالکین ہے ؟ (حقیقة الوحی صفحه ۱۱۲ ۱۱۳) حضرات عیسائی خوب یاد رکھیں کہ مسیح علیہ اسلام کا نمونہ قیامت ہوناسر موثابت نہیں اور نہ عیسائی جی اُٹھے بلکہ مردہ اور سب مردوں سے اول درجہ پر اور تنگ و تاریک قبروں میں پڑے ہوئے ہیں اور مشرک کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں.نہ ایمانی رُوح اُن میں ہے نہ ایمانی روح کی برکت بلکہ آدٹی سے ادنی درجہ توحید کا جو مخلوق پرستی سے پر ہیز کرنا ہے وہ بھی ان کو نصیب نہیں ہوا اور ایک اپنے بیسے عاجز اور ناتو ان کو خالق سمجھ کر اس کی پرستش کر رہے ہیں.یاد رہے کہ توحید کے تین درجے ہیں سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کی پرستش نہ کریں.نہ پتھر کی، نہ آگ کی ، نہ آدمی کی شنکی سترہ کی دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پربھی ایسے نہ گریں کہ گو یا ایک قسم کا اُن کو ربوبیت کے کارخانہ میں منتقل خیل قرار دیں بلکہ ہمیشہ نقیب پر نظر ہے نہ اسباب پر.تیسرا درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلیات الہیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہر یک غیر کے وجود کو کا لعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی.غرض ہر یک چیز نظر میں فانی دکھائی دے بجز اللہ تعالیٰ کی ذات کامل الصفات کے.یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاثہ توحید کے حاصل ہو جائیں آب غور کر کے دیکھ لو کہ روحانی زندگی کے تمام جاودانی چینے محض حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل دنیا میں آئے ہیں.(آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۲۳ ۲۲۴) " رُوحانی قالب کے کامل ہونے کے بعد محبت ذاتیہ اللہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک روح کی طرح پڑتا ہے اور دائمی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے.کمال کو پہنچتا ہے اور تب ہی روحانی ن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے لیکن پیٹس جو روحانی سن ہے جس کوشین معاملہ کے ساتھ موسوم کرسکتے
۳۹ ہیں.یہ وحسن ہے جو اپنی قومی کششوں کے ساتھ حسن بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے کیونکہ چین بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہوگی.لیکن وہ روحانی حسن جس کو حسین معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کشتوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھیچا جاتا ہے اور قبولیت دعا کی بھی در حقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا روحانی حسن والا انسان جس میں محبت الہیہ کی روح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دعا کرتا ہے اور اس دُعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حسن روحانی رکھتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے.پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں.تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اس کی دُعائیں ان تمام ذرات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن ربا لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس غیر معمولی اتیں جن کا ذکرکسی علم طبعی اورفلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے جب سے کہ صانع مطلق نے عالم اجسام کو ذرات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرے میں و کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرہ رُوحانی محسن کا عاشق صادق ہے اور ایسا ہی ہر ایک سعید روح بھی کیونکہ وہ حسن تجلی گاہِ حق ہے.وہی حسن تھا جس کے لئے فرمایا اُسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلا إبليس.اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اسی حسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حُسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے.نوح میں وہی حسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جل شانہ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا.پھر اس کے بعد موٹی بھی وہی حسین روحانی
لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اُٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا.پھر سب کے بعد سید الانبیاء و خیر الورٰی مولانا وستيدنا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے دَی فَتَد کی فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی یعنی وہ نبی جناب الہی کے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوق کو جو حق اللہ اور حقوق العباد ہے ادا کر دیا اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا " (ضمیمه برا همین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۶۱ - ۶۲) " اپنے ذاتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدا تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے.قدیم سے اہلِ حق حضرات واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت وجوب ذاقی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناع ذاتی اور امکان بالواجب عزاسمہ کا عقیدہ ہے یعنی یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کے ہویت حقہ کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ عالم الغیب ہو مگر ممکنات جو ہالکتہ الذات اور باطلہ الحقیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرت باری عزة اسمہ جائز نہیں.اور جیسا ذات کی رُو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کی رُو سے بھی ممتنع ہے.پس ممکنات کے لئے نظرم علی ذاتہم عالم الغیب ہونا ممتعات میں سے ہے.خواہ نبی ہوں یا محدث ہوں یا ولی ہوں.ہاں الہام الہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصہ ملتا رہا ہے اور اب بھی ملتا ہے جس کو ہم صرف تابعین آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں.تصدیق النبی صفحه ۲۶ - ۲۷) " اس کی قدر میں غیر محدود ہیں اور اس کے عجائب کام نا پیدا کنار ہیں اور وہ اپنے خاص بندوں کے لئے اپنا قانون بھی بدل لیتا ہے مگر وہ بدلنا بھی اس کے قانون میں ہی داخل ہے.جب ایک شخص اس کے آستانے پر ایک نئی روح لے کر حاضر ہوتا ہے اور اپنے اندر
ایک خاص تبدیلی محض اس کی رضامندی کے لئے پیدا کر لیتا ہے تب خدا بھی اس کے لئے ایک تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ گویا اس بندے پر جو خدا ظا ہر ہوا ہے وہ اور ہی خدا ہے نہ وہ چندا جس کو عام لوگ جانتے ہیں.وہ ایسے آدمی کے مقابل پرجس کا ایمان کمزور ہے کمزور کی طرح ظاہر ہوتا ہے لیکن جو اس کی جناب میں ایک نہایت قومی ایمان کے ساتھ آتا ہے وہ اس کو دکھلا دیتا ہے کہ تیری مدد کے لئے یکس بھی قوی ہوں.اسی طرح انسانی تبدیلیوں کے مقابل پر اس کی صفات میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں.جو شخص ایمانی حالت میں ایسا مفقود الطاقت ہے کہ گویا میت ہے.خدا بھی اس کی تائید اور نصرت سے دستکش ہو کر ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ وہ مر گیا ہے.مگر یہ تمام تبدیلیاں وہ اپنے قانون کے اندر اپنے تقدس کے موافق کرتا ہے.اور چونکہ کوئی شخص اس کے قانون کی حد بست نہیں کر سکتا، اس لئے جلدی سے بغیر کسی قطعی دلیل کے جو روشن اور بدیسی ہو یہ اعتراض کرنا کہ فلاں امرقانون قدرت کے مخالف ہے محض حماقت ہے کیونکہ جس چیز کی ابھی حدیبت نہیں ہوئی اور نہ اس پر کوئی قطعی دلیل قائم ہے اس کی نسبت کون رائے زنی کر سکتا ہے ؟ (چشمہ معرفت صفحه ۹۷۷۹۶) " اے سننے والو! اسنو ! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ.اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں.ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں.بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہو گی.وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں.وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی
۴۲ خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جیکی کوئی طاقت کم نہیں.وہ قریب ہے باوجود دُور ہونے کے اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے وہ تمثیل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا ہے مگر اس کے لئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے.اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے.اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہ سکتے کہ زمین پر نہیں.وہ جمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور نظر ہے تمام محامد حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا او مبدء ہے تمام فیضوں کا اور مرجع ہے ہر ایک شئی کا.اور مالک ہے ہر ایک ملک کا اور تصف ہے ہر ایک کمال سے اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے.اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں اور اس کے آگے کوئی بات بھی ان ہونی نہیں.اور تمام روح اور اس کی طاقتیں اور تمام ذرات اور ان کی طاقتیں اسی کی پیدائش ہیں.اس کے بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی.وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اس کو اُسی کے ذریعہ سے ہم پا سکتے ہیں.اور وہ راستبازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتا ہے اور اپنی قدرتمیں ان کو دکھلاتا ہے.اسی سے وہ شناخت کیا جاتا ہے اور اسی سے اس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے.وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے اور سُنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کے اور بولتا ہے بغیر جسمانی زبان کے.اسی طرح نیستی سے ہستی کرنا اس کا کام ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ خواب کے نظارہ میں بغیر کسی مادہ کے ایک عالم پیدا کر دیتا ہے اور ہر ایک فانی اور معدوم کو موجود وکھلا دیتا ہے.نہیں اسی طرح اس کی تمام قدرتیں ہیں.نادان ہے وہ جو اس کی قدرتوں سے انکار کرے.اندھا ہے وہ جو اس کی عمیق طاقتوں سے بے خبر ہے.وہ سب کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے بغیر ان امور کے جو اس کی شان کے مخالف ہیں یا اس کے مواعید کے برخلاف ہیں.اور وہ
السلام سلام واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں.اور اس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے یہ ) الوصیت صفحه ۱۴ - ۱۷) قرآن شریف میں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جو خدا کو پیارا بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہیں.کہیں اس کے حسن و جمال کو دکھاتی ہیں اور کہیں اس کے احسانوں کو یاد دلاتی ہیں کیونکہ کسی کی محبت یا تو حسن کے ذریعہ سے دل میں بیٹھتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے پینا نچہ لکھا ہے کہ خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے.کوئی بھی اس میں نقص نہیں.وہ جمع ہے تمام صفات کا ملہ کا اور منظر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور مبداء ہے تمام مخلوق کا اور کتریشدہ ہے تمام فیضوں کا اور مالک ہے تمام جزا سزا کا اور مرجمع ہے تمام امور کا.اور نزدیک ہے باوجود دُوری کے اور ڈور ہے با وجو دن دیگی کے.وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے.وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے.وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے.اُس نے ہر ایک پیز کو اُٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اس کو اٹھا رکھا ہو.کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے.وہ ہر ایک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کر سکتے کہ کیسا احاطہ ہے.وہ آسمان اور زمین کی ہر یک چیز کا نور ہے اور ہر یک نور اُسی کے ہاتھ سے چھکا اور اسی کی ذات کا پر توہ ہے.وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے.کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو کیسی روح کی کوئی قوت نہیں جو اس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو.اور اسکی رحمتیں دو قسم کی ہیں (۱) ایک وہ جو بغیر سبقت عمل کسی عامل کے قدیم سے ظہور پذیر ہیں جیسا کہ زمین و آسمان اور سورج اور چاند اور تاہے.اور پانی اور آگ اور ہوا اور تمام ذرات اس
سلام مهم عالم کے جو ہمارے آرام کے لئے بنائے گئے.ایسا ہی جن جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی وہ تمام چیزیں ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہمارےلئے مہیا کی گئیں اور یہ سب اس وقت کیا گیا جب کہ ہم خود بخود موجود نہ تھے نہ ہمارا کوئی عمل تھا.کون کہ سکتا ہے کہ سورج میرے عمل کی وجہ سے پیدا کیا گیا یا زمین میرے کسی شدھ کرم کے سبب سے بنائی گئی.غرض یہ وہ رحمت ہے جوانسان اور اس کے عملوں سے پہلے ظاہر ہو چکی ہے جو کسی کے عمل کا نتیجہ نہیں (۲) دوسری رحمت وہ ہے جو اعمال پر مرتب ہوتی ہے اور اس کی تصریح کی کچھ ضرورت نہیں.ایسا ہی قرآن شریف میں وارد ہے کہ خدا کی ذات ہر ایک عیب سے پاک ہے اور ہر ایک نقصان سے مبرا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اس کی تعلیم کی پیروی کر کے عیبوں سے پاک ہوا اور وہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ آغمی یعنی جو شخص اس دُنیا میں اندھا رہے گا اور اس ذات بے چون کا اس کو دیدار نہیں ہوگا وہ کرنے کے بعد بھی اندھا ہی ہوگا اور تاریکی اُس سے جدا نہیں ہوگی کیونکہ خدا کے دیکھنے کے لئے اسی دنیا میں حواس ملتے ہیں.اور جو شخص ان حواس کو دنیا سے ساتھ نہیں لے جائے گا وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان سے کس ترقی کا طالب ہے اور انسان اس کی تعلیم کی پیروی سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے.پھر اس کے بعد وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آسکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَن كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَدًا یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہیے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں ایسا ہوں.اورنہ وہ تمل ناقص اور ناتمام ہوں اور نہ
اُن میں کوئی ایسی بد بو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہیے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہیے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو.نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پائی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا ان پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں، اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گرمی رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جوسخت پیاسا اور بے دست وپا بھی ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے.نہایت صافی اور شیریں.پس اُس نے افتان و خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنے لہوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا.اور پھر قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَم يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ ) یعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنے ذات اور صفات میں واحد ہے.نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی از لی اور ابدی یعنی انا دی اور اکال ہے.نہ کسی چیز کے صفات اس کی صفات کے مانند ہیں.انسان کا علم کیسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور بائیں ہمہ غیر محدود ہے.انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محمد و دنہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان.
کی پیدا کرنے کی قدرت کیسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کیسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اسکی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.اگر ایک صفت ہیں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا اس لئے اس کی توحید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو.پھر اس سے آگے آیت محمد وعہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کوئی اس کا بیٹا ہے کیونکہ وہ غنی بالذات ہے اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی.یہ توحید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو ہدایہ ایمان ہے (لیکچر لاہور صفحہ ۹ تا ۱۳) اس قادر اور پیچھے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنے تمام قوامی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے.اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اس کے تصرف سے.نہ اس کے خلق سے.اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد صطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے ہو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا استیا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بے شمار حسن والا ، احسان والا اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں " نسیم دعوت ص)
م " جب میں ان بڑے بڑے اجرام کو دیکھتا ہوں اور ان کی عظمت اور عجائبات پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ صرف ارادہ الہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہو گیا تو میری روح بے اختیار بول اُٹھتی ہے کہ اسے ہمارے قا در خدا تو کیا ہی بزرگ قدرتوں والا ہے.تیرے کام کیسے عجیب اور وراء العقل ہیں.نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں کا انکار کرے اور احمق ہے وہ جو تیری نسبت یہ اعتراض پیش کرے کہ اُس نے ان چیزوں کو کیس بادہ (نسیم دعوت منه حاشیه ) سے بنایا ؟“ جانا چاہیے کہ جس خدا کی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اس کی اس نے یہ صفات بھی ہیں:.هُوَ اللهُ الَّذِي لا إلهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبَرُ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَورُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ ما في السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - رَبُّ الْعَلَمِينَ الرّحمن الرّحِيم - مُلِكَ يَوْمِ الدِّينِ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ الْحَيُّ الْقَيُّومُ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدَّ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَهُ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ -.یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ اگروہ لاشریک نہ ہو توشاید اس کی طاقت پر شمن کی طاقت غالب آجائے.اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی اور جو فرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں.اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات
کا ملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو وہ سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہوسکتا وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کرنا ظلم ہے.پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے.اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سرا پا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سرا پا دیکھنے سے قاصر ہیں.پھر فرمایا کہ وہ عالم الشہادۃ ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پر وہ میں نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر معلم اشیاء سے غافل ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت بر پا کر دے گا اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہو گا.سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے.پھر فرمایا هُوَ الرَّحْمنُ یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کے پاداش میں اُن کے لئے سامان راحت میستر کرتا ہے جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے اور اس کام کے لحاظ سے خدا تعالے رحمن کہلاتا ہے اور پھر فرمایا کہ الرحیم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے او کیسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے اور یہ صفت رحمیت کے نام سے موسوم ہے.اور پھر فرمایا ملك يوم الدين یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزاء اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اس کا کوئی ایسا کارپرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو.وہی کار پر داز سب کچھ جزا اعزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو.اور پھر فرمایا الملكُ الْقُدُّوسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی واریخ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں.اگر مثلاً تمام
۴۹ رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی.یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خوارج شاہی کہاں سے آئے.اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے.اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دُنیا کے لئے قانون بناتے ہیں.بات بات پر بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں.مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو یہ اضطرار بیشیں نہیں آنا چاہیے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو وہ یا تو کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوداع کہتا.بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے پھر فرمایا السلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور تختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے.اس کے معنے بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا.لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو اس کے بد نمونے کو دیکھ کر کس طرح دل تستی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا.چنانچہ اللہ تعالی باطل معبودوں کے بارہ میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعْفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ
مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُہ جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک تھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں بلکہ اگر مکھی اُن کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ تھی سے چیز واپس لے سکیں.اُن کے پرستار عقل کے کمزور اور طاقت کے کمزور ہیں.کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں ؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے.نہ اس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے.ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدرنہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہیے.اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پیچھے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہو سکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہوگا کیونکہ اس کے پاس زیر دست دلائل ہوتے ہیں لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ المُتكبر یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کا بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے.اور فرمایا هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنی یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جموں کا پیدا کرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا.رحم میں تصویر کھینچنے والا ہے.تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آسکیں سب اُسی کے نام ہیں.اور پھر فرمایا يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی.اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں.اور پھر فرمایا علی کل شی قدیر یعنی خدا بڑا قادر ہے.یہ
اه پرستاروں کے لئے تسلی ہے.کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا اُمید اور پھر فرمایا رَبّ الْعَلَمِينَ - الرَّحْمنِ الرَّحِيم - مُلِكَ يَوْمِ الدِّينِ - أُجِيبُ دَعْوَةَ الداع إذا دَعَانِ یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا.رحمن رحیم اور جزاء کے دن کا آپ مالک ہے.اس اختیار کو کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا.ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سننے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا.اور پھر فرمایا الحمى القوم یعنی ہمیشہ رہنے والا اور تمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا.یہ اس لئے کہا وہ ازلی ابدی نہ ہو تو اس کی زندگی کے بارے میں بھی دھڑکا رہے گا شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو جائے اور پھر فرمایا کہ وہ خدا اکیلا خدا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا.اورنہ کوئی اُس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس یا اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۱۵۸ تا ۱۶۲) کس قدر ظاہر ہے نور اس مبداء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت سیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا اس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیاسے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی راہ ہے تیرے پیار کا چشمه خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشہ ہے تیری چمکار کا تو نے خود رُوحوں پر اپنے ہاتھ سے چھڑ کا ملک اس سے ہے شور محبت عاشقان زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرے میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دختران اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کسی سے نگل سکتا ہے پینے اس عقدہ دشوار کا خوبروؤں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترسے گلزار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا
۵۲ آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ورنہ تھا قبلہ تراریخ کا فر و دیندار کا ہیں تری پیاری نگا ہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ انیم اغیار کا تیرے ملنے کے لئے ہم ہل گئے ہیں خاک میں تامگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں سے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا د سرور سر چشم آرید )
۵۳ قرآن عظیم کی اعلی وارفع شان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نظر ہیں
۵۵ قرآن عظیم کی اعلی وارفع شان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نظر میں " خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اس لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں کیونکہ کلام الہی کے نزول کا قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمالی باطنی اس شخص کا ہوتا ہے جس پر کلام الہی نازل ہوتا ہے اسی قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہوچکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے.اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے.آپ خاتم انبیین ٹھرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب مظہری میں قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے یعنی کیا باعتبار فصاحت و بالات کیا باعتبار ترتیب مضامین کیا باعتبار تعلیم.کیا باعتبار کمالات تعلیم.کیا باعتبار مرات تعلیم بغرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا
۵۶ ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کیسی خاص اس کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر پیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت - خواہ بلحاظ مطالب مقاصد " خواہ بلحاظ تعلیم.خواہ بلحاظ پیش گوئیاں اور غریب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں.غرض کسی رنگ میں دیکھویہ معجزہ ہے (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۷۳۶) " قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا.اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا.علاوہ اس کے یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اس پا یہ کا وہ کلام ہو گا.سو وحی الہی میں بھی وہی رنگ ہو گا جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہو گا اُسی پایہ کا کلام اسے ملے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدود وقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی ن بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا قُلْ اِنّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اور مَا اَرْسَلْنَكَ الا رَحْمَةَ لِلعلمين ، جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہواس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے الہام میں اتنا دائرہ وسیع نہیں ہو گا جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے." الملفوظات جلد سوم ص ) لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے بر کارتے الہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولا کریم سے ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ
A6 کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اُترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے منہ سے نکلتے ہیں.ایک قومی تو کل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے اُن کے دلوں میں رکھی جاتی ہے.اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز محبت الہی کے اور کچھ نہیں.دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر اور بلند تر ہیں.خدا کے معاملات اُن سے خارق عادت ہیں.اُن پر ثابت ہوا ہے کہ خُدا ہے.انہی پر کھلا ہے کہ ایک ہے.وہ جب دُعا کرتے ہیں تو وہ اُن کو سُنتا ہے.جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے.جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ اُن کی طرف دوڑتا ہے.وہ بالوں سے زیادہ اُن سے پیار کرتا ہے.اور اُن کی در و دیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے.پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائید وں سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ ہر یک میدان میں اُن کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے اور وہ اُن کا ہے.یہ باتیں بلا ثبوت نہیں “ شهر مهر پشم آریه صفحه ۴ ۲ تا ۳۱ حاشید) ” سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری وحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے.قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کا متکفل ہو کر آیا ہے جس کی آیت آیت اور لفظ لفظ ہزارہا طور کا تو اتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آب حیات ہماری زندگی کے لئے بھرا ہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں.یہی ایک عمدہ ملک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کر سکتے ہیں.یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے.بلاشبہ جن لوگوں کو راه راست سے مناسبت ہے اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآن شریف کی طرف
کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے اُن کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ قرار نہیں پڑتے اور اس سے ایک صاف اور صریح بات سُن کو پھر کسی دوسرے کی نہیں سنتے.اس کی ہر ایک صداقت کو خوشی سے اور دوڑ کر قبول کر لیتے ہیں اور آخر وہی ہے جو موجب اشراق اور روشن ضمیری کا ہو جاتا ہے اور عجیب در عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہر ایک کو حسب استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے.راستبازوں کو قرآن کریم کے انوار کے نیچے چلنے کی ہمیشہ حاجت رہی ہے اور جب کبھی کسی حالت جدیدہ زمانہ نے اسلام کو کسی دوسرے مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا ہے تو وہ تیز اور کارگر ہتھیار جو فی الفور کام آیا ہے قرآن کریم ہی ہے.ایسا ہی جب کہیں فلسفی خیالات مخالفانہ طور پر شائع ہوتے رہے تو اس خبیث کو دہ کی بیخ کنی آخر قرآن کریم ہی نے کی اور ایسا اس کو حقیر اور ذلیل کر کے دکھلا دیا کہ ناظرین کے آگے آئینہ رکھ دیا کہ سچا فلسفہ یہ ہے نہ وہ حال کے زمانہ میں بھی جب اول عیسائی واعظوں نے سمر اُٹھایا اور بد فہم اور نا دان لوگوں کو توحید سے کھینچ کر ایک عاجز بندہ کا پرستار بنانا چاہا اور اپنے مغشوش طریق کو سوفسطائی طریق سے آراستہ کر کے اُن کے آگے رکھ دیا اور ایک طوفان ملک ہند میں برپا کر دیا.آخر قرآن کریم ہی تھا جس نے انہیں کپ پا کیا کہ اب وہ لوگ کیسی با خبر آدمی کو منہ بھی نہیں دکھلا سکتے اور ان کے لمبے چوڑے عذرات کو کیوں الگ کر کے رکھ دیا جس طرح کوئی کاغذ کا تختہ پیٹے (ازالہ اوہام صفحہ ۲۸۲۲۸۱) " انسان کو یہ ضرورت ہے کہ وہ گناہ کے مہلک جذبات سے پاک ہو اور اس قدر خدا کی عظمت اُس کے دل میں بیٹھ جائے کہ وہ بے اختیار کرنے والی نفسانی شہوات کی خواہش کہ جو بجلی کی طرح اُس پر گرتی اور اُس کے تقوی کے سرمایہ کو ایک دم میں جلا دیتی ہے.وہ دور ہو جاوے مگر کیا وہ ناپاک جذبات کہ جو مرگی کی طرح بار بار پڑتے ہیں اور پرہیز گاری کے
وه ہوش و حواس کو کھو دیتے ہیں وہ صرف اپنے ہی خود تراشیدہ پر میشر کے تصور سے دور ہو سکتے ہیں یا صرف اپنے ہی تجویز کردہ خیالات سے دب سکتے ہیں اور یا کسی ایسے کفارہ سے رُک سکتے ہیں جس کا دُکھ اپنے نفس کو چھوا بھی نہیں.ہرگز نہیں.یہ بات معمولی نہیں بلکہ سب باتوں سے بڑھ کر عقلمند کے نزدیک غور کرنے کے لائق یہی بات ہے کہ وہ تباہی جو اس بے باکی او بے تعلقی کی وجہ سے پیش آنے والی ہے جس کی اصل میٹر گناہ اور معصیت ہے اس سے کیونکر محفوظ رہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان یقینی لذات کو محض خلتی خیالات سے چھوڑ نہیں سکتا.ہاں ایک یقین دوسرے یقینی امر سے دست بر دار کر اسکتا ہے.مثلاً ایک بن کے متعلق ایک یقین ہے کہ اس جگہ سے کئی ہرن ہم بآسانی پکڑ سکتے ہیں اور ہم اس یقین کی تحریک پر قدم اُٹھانے کے لئے مستعد ہیں مگر جب یہ دوسرا یقین ہو جائے گا کہ وہاں پنچا پس شیر بر بھی موجو د ہیں اور ہزار ہا خونخوار اثر یہ بھی ہیں جو منہ کھولے بیٹھے ہیں تب ہم اس ارادہ سے دست کش ہو جائینگے.اسی طرح بغیر اس درجہ یقین کے گناہ بھی دور نہیں ہوسکتا.لوہا لو ہے سے ہی ٹوٹتا ہے.خدا کی عظمت اور ہیبت کا وہ یقین چاہیے جو غفلت کے پردوں کو پاش پاش کر دے اور بدن پر ایک لرزہ ڈال دے اور موت کو قریب کر کے دکھلا دے اور ایسا خوف دل پر غالب کرے جس سے تمام تار و پود نفس امارہ کے ٹوٹ جائیں اور انسان ایک غیبی ہاتھ سے خدا کی طرف کھینچا جائے اور اُس کا دل اس یقین سے بھر جائے کہ در حقیقت خدا موجود ہے جو بے باک مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا.پس ایک حقیقی پاکیزگی کا طالب ایسی کتاب کو کیا کرے جس کے ذریعہ سے یہ ضرورت رفع نہ ہوسکے.اس لئے میں ہر ایک پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ وہ کتاب جو ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے وہ قرآن شریف ہے.اس کے ذریعہ سے خدا کی طرف انسان کو ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی محبت سرد ہو جاتی ہے اور وہ خدا جو نہایت نہاں در نہاں ہے اُس کی پیروی سے
آخر کار اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور وہ قادر جس کی قدرتوں کو غیر قومیں نہیں جانتیں قرآن کی پیروی کرنے والے انسان کو خدا خود دکھا دیتا ہے اور عالم ملکوت کا اس کو سیر کراتا ہے اور اپنے انا الموجود ہونے کی آواز سے آپ اپنی ہستی کی اس کو خبر دیتا ہے مگر وید میں یہ ہر نہیں ہے ہر گز نہیں ہے.اور ویک اس بوسیدہ گٹھڑی کی مانند ہے جس کا مالک مرجائے اور یا جسکی نسبت پتہ نہ لگے کہ یہ کس کی گٹھڑی ہے.جس پر میشر کی طرف وید بلاتا ہے اس کا زندہ ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ویک اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں کرتا کہ اس کا پر میشر موجود بھی ہے.اور ویک کی گمراہ کنندہ تعلیم نے اس بات میں بھی رخنہ ڈال دیا ہے کہ مصنوعات سے صانع کا پتہ لگایا جائے کیونکہ اس کی تعلیم کی رو سے ارواح اور پر مانو یعنی ذرات سب قدیم اور غیر مخلوق ہیں پس غیر مخلوق کے ذریعہ سے صالح کا کیونکر پتہ لگے.ایسا ہی وید کلام الہی کا دروازہ بند کرتا ہے اور خدا کے تازہ نشانوں کا منکر ہے.اور وید کی رُو سے پر میشر اپنے خاص بندوں کی تائید کے لئے کوئی ایسا نشان ظاہر نہیں کر سکتا کہ جو معمولی انسانوں کے علم اور تجربہ سے بڑھ کر ہو.پس اگر وید کی نسبت بہت ہی حسن خکن کیا جائے تو اس قدر کہیں گے کہ وہ صرف معمولی سمجھ کے انسانوں کی طرح خدا کے وجود کا اقرار کرتا ہے اورخدا کی ہستی پر کوئی یقینی دلیل پیش نہیں کرتا.غرض وید وہ معرفت عطا نہیں کر سکتا جو تازہ طور پر خدا کی طرف سے آتی ہے اور انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیتی ہے مگر ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور ان سب کا جو ہم سے پہلے گزرچکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے پتے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹک ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے.وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول
کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے اور ہر ایک جو اس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے یا چشمہ معرفت صفحہ ۲۹۱تا ۲۹۵) متبعین نے قرآیض شریف کو جو انعامات ملتے ہیں اور جو مواہب خاصہ ان کے نصیب ہوتے ہیں اگر چہ وہ بیان اور تقریر سے خارج ہیں مگر اُن میں سے کئی ایک ایسے انعامات عظیمہ ہیں جن کو اس جگہ مفصل طور پر بغرض ہدایت طالبین بطور نمونہ لکھنا قرین مصلحت ہے.چنانچہ وہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں :.ازاں جملہ علوم و معارف ہیں جو کامل متبعین کو خوان نعمت فرقانیہ سے حاصل ہوتے ہیں جب انسان فرقان مجید کی پیچی متابعت اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس کے امروہی کے بجلی حوالہ کر دیتا ہے اور کامل محبت اور اخلاص سے اس کی ہدایتوں میں غور کرتا ہے اور کوئی اعراض صوری و معنوی باقی نہیں رہتا تب اس کی نظر اور منکر کو حضرت فیاض مطلق کی طرف سے ایک نور عطا کیا جاتا ہے اور ایک لطیف عقل اس کو بخشی جاتی ہے جس سے عجیب وغریب لطائف اور نکات علم الہی کے جو کلام الہی میں پوشیدہ ہیں اس پر کھلتے ہیں اور ابر نیساں کے رنگ میں معارف دقیقہ اس کے دل پر برستے ہیں.وہی معارف دقیقہ ہیں جن کو فرقان مجید میں حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِي خَيْرًا كثيرا یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے یعنی حکمت خیر کثیر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثیر کو پالیا سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں یہ خیر کثیر پشتمل ہونے کی وجہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الہی کے تابعین کو دئیے جاتے ہیں اور ان کے منکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ
۲۲ درجہ کے حقائق حقہ اُن کے نفس آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقت ہیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں اور تائیدات الہیہ ہر ایک تحقیق و تدقیق کے وقت کچھ ایسا سامان اُن کے لئے میسر کر دیتی ہیں جس سے بیان اُن کا ادھورا اور ناقص نہیں رہتا اور نہ کچھ غلطی واقع ہوتی ہے.سو جوجو علوم و معارف و دقائق و حقائق و لطائف ونکات و ادله و برا این ان کو سو جھتے ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے مرتبہ کا ملہ پر واقعہ ہوتے ہیں کہ جو خارق عادت ہے اور جس کا موازنہ اور مقابلہ دوسرے لوگوں سے ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ ہی نہیں بلکہ تعمیم غیبی اور تائید صمدی اُن کی پیش رو ہوتی ہے اور اس تقسیم کی طاقت سے وہ اسرار و انوار قرآنی اُن پر کھلتے ہیں کہ جو صرف عقل کی دود آمیز روشنی سے گھل نہیں سکتے اور یہ علوم و معارف جو اُن کو عطا ہوتے ہیں جن سے ذات اور صفات الہی کے متعلق اور عالم معاد کی نسبت لطیف اور باریک باتیں اور نہایت عمیق حقیقتیں ان پر ظاہر ہوتی ہیں.یہ ایک روحانی خوارق ہیں کہ جو بالغ نظروں کی نگاہوں میں جسمانی خوارق سے اعلیٰ اور الطف ہیں بلکہ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ عارفین اور اہل اللہ کا قدرو منزلت دانشمندوں کی نظر میں اُنہیں خوارق سے معلوم ہوتا ہے اور وہی خوارق اُن کی منزلت عالیہ کی زینت اور آرائش اور اُن کے چہرہ مقالات کی زیبائی اور خوبصورتی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ علوم و معارف حقہ کی ہلیت سب سے زیادہ اس پر اثر ڈالتی ہے اور صداقت اور معرفت ہر یک چیز سے زیادہ اس کو پیاری ہے.اور اگر ایک زاہد عابد ایسا فرض کیا جائے کہ صاحب مکاشفات ہے اور اخبار غیبیہ بھی اُسے معلوم ہوتے ہیں اور ریاضات شاقہ بھی بجا لاتا ہے اور کئی اور قسم کے خوارق بھی اُس سے ظہور میں آتے ہیں مگر علم الہی کے بارہ میں سخت جاہل ہے یہاں تک کہ حق اور باطل میں تمیز ہی نہیں کر سکتا بلکہ خیالات فاسدہ میں گرفتار اور عقائد غیر صحیحہ میں مبتلا ہے.ہر ایک بات میں خام اور ہر ایک رائے میں فاش غلطی کرتا ہے تو ایسا شخص طبائع سلمہ کی نظر میں نہایت
۶۳ حقیر اور ذلیل معلوم ہوگا.اس کی یہی وجہ ہے کہ جس شخص سے دانا انسان کو جہالت کی بد بو آتی ہے اور کوئی احمقانہ کلمہ اس کے منہ سے سُن لیتا ہے تو فی الفور اس کی طرف سے دل متنفر ہو جاتا ہے اور پھر وہ شخص عاقل کی نظر میں کسی طور سے قابل تعظیم نہیں ٹھہر سکتا اور گو کیسا ہی زاہد عابد کیوں نہ ہو کچھ حقیر سا معلوم ہوتا ہے.پس انسان کی اس فطرتی عادت سے ظاہر ہے کہ خوارق روحانی یعنی علوم و معارف اُس کی نظر میں اہل اللہ کے لئے شرط لازمی اور اکابر دین کی شناخت کے لئے علامات خاصہ اور ضرور یہ ہیں پس یہ علامتیں فرقان شریف کے کامل تابعین کو اکمل اور اتم طور پر عطا ہوتی ہیں اور باوجودیکہ ان میں سے اکثروں کی سرشت پر امیت غالب ہوتی ہے اور علوم رسمیہ کو باستیفاء حاصل نہیں کیا ہوتا لیکن نکات اور لطائف اور عظیم الہی میں اس قدر اپنے ہمعصروں سے سبقت لے جاتے ہیں کہ بسا اوقات بڑے بڑے مخالف اُن کی تقریروں کو شنکر یا اُن کی تحریروں کو پڑھ کر اور دریائے حیرت میں پڑ کر بلا اختیار بول اُٹھتے ہیں کہ ان کے علوم و معارف ایک دوسرے عالم سے ہیں جو تائیدات الہی کے رنگ خاص سے رنگین ہیں اور اس کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ اگر کوئی منکر بطور مقابلہ کے الہیات کے مباحث میں سے کسی بحث میں اُن کی محققانہ اور عارفانہ تقریروں کے ساتھ کسی تقریر کا مقابلہ کرنا چاہے تو اخیر پر بشرط انصاف و دیانت اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ صداقت حقہ اسی تقریر میں تھی جو ان کے منہ سے نکلی تھی.اور جیسے جیسے بحث عمیق ہوتی جائیگی بہت سے لطیف اور دقیق براہین ایسے نکلتے آئیں گے جن سے روزہ روشن کی طرح ان کا سچا ہونا کھلتا جائے گا.چنانچہ ہر ایک طالب حق پر اس کا ثبوت ظاہر کرنے کے لئے ہم آپ ہی ذمہ دار ہیں.ازاں جملہ ایک عصم سے بھی ہے جس کو حفظ الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پی صمت بھی فرقان مجید کے کامل تابعین کو بطور خارق عادت عطا ہوتی ہے اور اس جگہ عصمت سے مُراد
۶۴ ہماری یہ ہے کہ وہ ایسی نالائق اور مذموم عادات اور خیالات اور اخلاق اور افعال سے محفوظ رکھے جاتے ہیں جن میں دوسرے لوگ دن رات آلودہ اور ملوث نظر آتے ہیں اور اگر کوئی لغزش بھی ہو جائے تو رحمت اللہ جلد تر ان کا تدارک کر لیتی ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ عصمت کا مقام نہایت نازک اور نفیس اتارہ کے مقتضیات سے نہایت دُور پڑا ہوا ہے جس کا حاصل ہونا بجز تو قبر خاص الہی کے ممکن نہیں مثلاً اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ وہ صرف ایک کذب اور دروغ گوئی کی عادت سے اپنے جمیع معاملات اور بیانات اور حرفوں اور پیشیوں میں قطعی طور پر باز رہے تو یہ اس کے لئے مشکل اور متنع ہو جاتا ہے.بلکہ اگر اس کام کے کرنے کے لئے کوشش اور سعی بھی کرے تو اس قدر موانع اور عوائق اس کو پیش آتے ہیں کہ بالآخر خود اس کا یہ اصول ہو جاتا ہے کہ دنیا داری میں جھوٹ اور خلاف گوئی سے پر ہیز کرنا ناممکن ہے مگر ان سعید لوگوں کے لئے کہ جو سچی محبت اور پر جوش ارادت سے فرقان مجید کی ہدایتوں پر چلنا چاہتے ہیں.صرف یہی امر آسان نہیں کیا جاتا کہ وہ دروغگوٹی کی قبیح عادت سے باز رہیں بلکہ وہ ہر نا کر دنی اور ناگفتنی کے چھوڑنے پر قادر مطلق سے توفیق پاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا ملہ سے ایسی تقریبات شنیعہ سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے جن سے وہ ہلاکت کے ورطہ میں پڑیں کیونکہ وہ دنیا کا نور ہوتے ہیں اور اُن کی سلامتی میں دنیا کی سلامتی اور اُن کی ہلاکت میں دنیا کی ہلاکت ہوتی ہے.اسی جہت سے وہ اپنے ہر ایک خیال اور علم اور فہم اور غضب اور شہوت اور خوف اور طمع اور تنگی اور فراخی اور خوشی اور غمی اور محسر اور ٹیسر میں تمام نالائق باتوں اور فاسد خیالوں اور نا درست علموں اور ناجائز عملوں اور بے جا فہموں اور ہر ایک افراط و تفریط نفسانی سے بچائے جاتے ہیں اور کسی مذموم بات پر ٹھرنا نہیں پاتے کیونکہ خود خدا وند کریم اُن کی تربیت کا متکفل ہوتا ہے اور جس شاخ کو ان کے شجرۂ طیبہ میں خشک دیکھتا ہے اس کو فی الفور اپنے مرتبانہ ہاتھ سے کاٹ ڈالتا ہے اور حمایت الہی ہر دم اور ہر لحظہ ان کی نگرانی کرتی رہتی ہے اور یہ نعمت محفوظیت کی جو اُن کو عطا ہوتی
۶۵ ہے.یہ بھی بغیر ثبوت نہیں بلکہ زیرک انسان کسی قدر محبت سے اپنی پوری تسلی سے اس کو معلوم کر سکتا ہے.ازاں مجملہ ایک مقام تو حمل ہے جس پر نہایت مضبوطی سے ان کو قائم کیا جاتا ہے اوران کے غیر کو وہ چشمہ صافی ہرگز میستر نہیں آسکتا بلکہ انہیں کے لئے وہ خوش گوار اور موافق کیا جاتا ہے اور نور معرفت ایسا ان کو تھامے رہتا ہے کہ وہ بسا اوقات طرح طرح کی بے سامانی میں ہو کر اور اسباب عادیہ سے بجلی اپنے تئیں دُور پا کر پھر بھی ایسی بشاشت اور انشراح خاطر سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ایسی خوشحالی سے دنوں کو کاٹتے ہیں کہ گویا اُن کے پاس ہزار ہا خانگی ہیں.اُن کے چہروں پر تو نگری کی تازگی نظر آتی ہے اور صاحب دولت ہونے کی مستقل مزاجی دکھائی دیتی ہے اور تنگیوں کی حالت میں کمال کشادہ دلی اور یقین کامل اپنے مولیٰ کریم پر بھروسہ رکھتے ہیں.سیرتِ ایثار ان کا مشرب ہوتا ہے اور خدمت خلق ان کی عادت ہوتی ہے اور کبھی انقباض ان کی حالت میں راہ نہیں پاتا اگرچہ سارا جہان ان کا خیال ہو جائے اور فی الحقیقت خدا تعالیٰ کی ستاری مستوجب شکر ہے جو ہر جگہ اُن کی پردہ پوشی کرتی ہے اور قبل اس کے جو کوئی آفت فوق الطاقت نازل ہو ان کو دامن عاطفت میں لے لیتی ہے کیونکہ اُن کے تمام کاموں کا خدا متوتی ہوتا ہے جیسا کہ اس نے آپ ہی فرمایا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّالِحِینَ لیکن دوسروں کو دُنیا داری کے دلآزار اسباب میں چھوڑا جاتا ہے اور وہ خارق عادت سیرت جو خاص ان لوگوں کے ساتھ ظاہر کی جاتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ ظاہر نہیں کی جاتی اور یہ خاصہ ان کا بھی محبت سے بہت جلد ثابت ہو سکتا ہے.از ان جملہ ایک مقام مجتبے ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور اُن کے رگ و ریشہ میں اِس قدر محبت الہیہ تاثیر کر جاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ اُن کی جان کی جان ہو جاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار
۶۶ اُن کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت اُنس اور شوق اُن کے قلوب صافیہ پر مستولی ہو جاتا ہے کہ جو غیر سے بجلی منقطع اور رستہ کر دیتا ہے اور آتش عشق الہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم محبت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے بلکہ اگر محبان صادق اس جوش محبت کو کسی حیلہ اور تدبیر سے پوشیدہ رکھنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے غیر ممکن ہو جاتا ہے.جیسے عشاق مجازی کے لئے بھی یہ بات غیر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کی محبت کو جس کے دیکھنے کے لئے دن رات کرتے ہیں اپنے رفیقوں اور ہم محبتوں سے چھپائے رکھیں بلکہ و عشق جو ان کے کلام اور اُن کی صورت اور اُن کی آنکھ اور اُن کی وضع اور ان کی فطرت میں گھس گیا ہے اور اُن کے بال بال سے مترشح ہو رہا ہے وہ اُن کے چھپانے سے ہر گز چھپ ہی نہیں سکتا اور ہزار چھپائیں کوئی نہ کوئی نشان اس کا نمودار ہو جاتا ہے اور سب سے بزرگ تر اُن کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہر یک چیز پر اختیار کر لیتے ہیں اور اگر آلام اُس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگِ انعام اُن کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت کذب کی طرح سمجھتے ہیں کیسی تلوار کی تیز دھار اُن میں اور اُن کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بلیتہ عظمیٰ اُن کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتی.اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں لذات پاتے اور اُسی کی ہستی کو ہستی خیال کرتے ہیں اور اسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ما حصل قرار دیتے ہیں.اگر چاہتے ہیں تو اُسی کو اگر آرام پاتے ہیں تو اسی سے.تمام عالم میں اسی کو رکھتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے ہیں.اُسی کے لئے جیتے ہیں اُسی کے لئے کرتے ہیں.عالم میں رہ کر پھر بے عالم ہیں اور با خود ہو کر پھر بے خود ہیں.نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے نہ اپنی جان سے نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کے پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہیں.لا یدرک آتش سے ملتے جاتے
ہیں اور کچھ بیان نہیں کر سکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور نفتیم سے صم بکم ہوتے ہیں اور ہر یک مصیبت اور ہر ایک رُسوائی کے سہنے کو تیار رہتے ہیں اور اُس سے لذت پاتے ہیں سے عشق است که بر خاک مذلت غلطاند و عشق است که بر آتش سوزان بنشاند کس بر کسے سرند ہر جاں نہ فشاند به عشق است که این کار بصد صدق کناند ازاں جملہ اخلاق کے فاضلہ ہیں جیسے سخاوت، شجاعت، ایثار، علو همت، وفور شفقت، حلم، حیا، مودت ، یہ تمام اخلاق بھی بوجہ احسن اور انسب انہیں سے صادر ہوتے ہیں اور وہی لوگ به یمن متابعت قرآن شریف و فاداری سے اخیر عمر تک ہر ایک حالت میں ان کو بخوبی و شائستگی انجام دیتے ہیں اور کوئی انقباض خاطر ان کو ایسا پیش نہیں آتا کہ جو اخلاقی حسنہ کے کما میبینی صادر ہونے سے ان کو روک سکے.اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ خوبی علمی یا عملی یا اخلاقی انسان سے صادر ہو سکتی ہے وہ صرف انسانی طاقتوں سے صادر نہیں ہوسکتی بلکہ اصل موجب اس کے صدور کا فضل الہی ہے.پس چونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ مور فضل الہی ہوتے ہیں اس لئے خود خداوند کریم اپنے تفصیلات لامتناہی سے تمام خوبیوں سے اُن کو تمتع کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ حقیقی طور پر بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں.تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اُسی کے لئے مسلم ہیں.پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہو کر اس ذات خیر محض کا قرب حاصل کرتا ہے اُسی قدر اخلاقِ الہیتہ اس کے نفس پر منعکس ہوتے ہیں.بس بندہ کو جو جو خوبیاں اور پچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہیے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہ کچھ چیز نہیں ہے.سو اخلاق فاضلہ البیتہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور
YA روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ اُن سے صدر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی.اگر چہ منہ سے ہر ایک شخص دعوی کر سکتا ہے اور لاف و گزاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجربہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اُس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں.اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلف اور تصنع سے ظاہر کرتے ہیں اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں اور ادنی اردنی امتحانوں میں اُن کی قلعی کھل جاتی ہے اور تخلف او تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دونیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں.اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خل پڑتا ہے.اور اگرچہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تخم اخلاق کا اُن میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزش اعراض نفسانی کے خالص اللہ ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے.اور خالص اللہ انہیں میں وہ تم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہو رہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریت کی کوٹ سے بجلی خالی پا کر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے اور اُن کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کر دیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہو جاتے ہیں جس کے توسط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور اُن کو ٹھو کے اور پیاسے پا کر وہ آب زلال ان کو اپنے اُس خاص چشمہ سے پلاتا ہے جس میں کسی مخلوق کو على وجہ الاصالت اس کے ساتھ شرکت نہیں.اور منجملہ ان عطیات کے ایک کمالِ عظیم جو قرآن شریف کے کامل تابعین کو دیا جاتا ہے عبود تیتے ہے.یعنی وہ باوجود بہت سے کمالات کے ہر وقت نقصان ذاتی اپنا پیش نظر
49 رکھتے ہیں اور مشہود کبریائی حضرت باری تعالیٰ ہمیشہ تنقل اور ریتی اور انکسار میں رہتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پر تقصیری اور خطا داری سمجھتے ہیں اور ان تمام کمالات کو جو ان کو دیئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے.پس وہ تمام خیر و خوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اُسی کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الہیہ کے کامل شهود سے اُن کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بجلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الہی کا پر جوش دریا اُن کے دلوں پر ایسا محیط ہو جاتا ہے کہ ہزارہا طور کی نیستی اُن پر وارد ہو جاتی ہے اور شرک خفی کے ہر یک رگ و ریشہ سے سبکتی پاک اور منزہ ہو جاتے ہیں.“ (براہین احمدیه صفحه ۵۱۰ تا ۵۲۳ حاشیه در حاشیه ع۳) نور فرقاں ہے جو سب ٹوروں سے اعلی نکلا ہے پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا جو ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا یا الهی ! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے بہ جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں رکھیں : مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشا نکلا کیس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ ؟ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں ؟ پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ہے ایسا چمکا ہے کہ صد نیتر بیضا نکلا
زندگی اکیسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں : جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اعملی نکلا براہین احمدیه صفحه ۲۹۵ حاشیه در حاشیه ۲ ) جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلمان ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں بین کر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو سکتا کلام پاک رحماں ہے بهار جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چین میں ہے نہ اُس سا کوئی بتاں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر کو گوٹے عثماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برا بر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لا علمی سخن میں اُس کے ہمسائی کہاں مقدر انساں ہے بنا سکتا نہیں رک پاؤں کیڑے کا کیٹر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نوری کا اس پہ آساں ہے ارے لوگو کرد کچھ پاس شان کبریائی کا زباں کو تھام لو آپ بھی اگر کچھ لوٹے ایماں ہے خدا سے غیر کو ہمتا بنانا سخت کفراں ہے خدا سے کچھ ڈرویا رو یہ کیس کذب بہتاں ہے اگر اقرار ہے تم کو خدا کی ذاتِ واحد کا تو پھر کیوں اس قدر دل میں تمہارے شرک پنہاں ہے یہ کیسے پڑ گئے دل پر تمہارے جہل کے پردے خط کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوف یزداں ہے ہمیں کچھ رکیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہوئے دل و جاں اُس پر قربان ہے برا بین احمدیہ صفحه ۱۸۸)
شان تقام النيليا.بانی سلسلہ احمدیہ کی نگاہ میں
مقام خاتمہ صل الله عليه وسلم اور.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عارفانہ تحریرات حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ جس شدت عقیدت اور معرفتِ تامہ کے ساتھ خاتم الانبیاء والاصفیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کرتے تھے اس کا اندازہ خود آپ کی تحریرات کے مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں.پس اس ضمن میں آپ کی متعد دتحریرات سے بعض اقتباسات پیش ہیں.فرماتے ہیں :- "1 مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم و خاتم یقین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے.ہم جس قوت ، یقین ، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لا کھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا طرف بھی نہیں ہے.وہ اس تحقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے، اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پرختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا، بجز اُن لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ( ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۴۲) ہوں یا
1 " ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفے صلی للہ علیہ وسلم کے نہیں اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے.یسو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہئیے اور یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہونے کے اور کوئی دعوی بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف پی منسوب کرے وہ ہم پر افتراء کرتا ہے.ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اور قرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے، ورنہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہوگا.اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کا روبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے.خاکسار مزا غلام احمد از قا دیان در اگست ۶۱۸ (مکتوبات احمدیہ جلا نم نمبر چهارم ) " إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَدِّلِ شَأْنَا يَفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ وَجْهُ الْمُهَيْمِن ظَاهِرُ فِي وَجْهِهِ وَشُدُّونَهُ نَمَعَتْ بِهَذَا الشَّانِ فَاقَ الْوَرى بِكَمَالِهِ وَجَمَالِهِ وَجَلَالِهِ وَجَنَانِهِ الرَّيَّانِ لَا شَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا خَيْرُ الْوَرى رَيقُ الْكِرَامِ وَنُخْبَةُ الأَعْيَانِ تَمَّتْ عَلَيْهِ صِفَاتُ كُلِّ مَرِيَّةٍ خُتِمَتْ بِهِ نُعَمَاءُ كُلِّ زَمَانٍ هُوَ خَيْرُ كُلِ مُقَرَّبِ مُتَقَدِّمٍ وَالْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ لَا بِزَمَانِ يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعَثُ تَانِ “ کا کام (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۹۴ تا ۵۹۶)
نُورُ عَلى نُور : " وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا ، نجوم میں نہیں تھا ، تمر میں نہیں تھا ، آفتاب میں بھی نہیں تھا، وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا، وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ ر کسی چیز ارضی و سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور الملک اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولى سید الانبیاء سيد الاحياء محمد صطفیٰ (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۶۰، ۱۷۱) صلی اللہ علیہ وسلم ہیں“ سید شان آنکه نامش مصطفی است رہبر ہر زمره صدق وصفا است می درخشد روئے حق در روئے اُو بُوئے حق آید زبام و گوئے اُو ہر کمال رہبری بر کے تمام پاک رُوئے و پاک رویاں را امام " (ضیاء الحق منگ) " سورة آل عمران جز و تیسری میں مفصل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد و اقرار لیا گیا کہ تم پر واجب و لازم ہے کہ عظمت و جلالیت شان ختم الرسل پر جو محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور حلالت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کرتا حضرت مسیح کلمتہ اللہ جس قدر نبی و رسول گزرے ہیں وہ سب کے سب عظمت و جلالیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں یا سرمه چشم آریہ حاشیہ منت ) YA
។ " ایک کامل انسان اور سید الرسل کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہوگا ، دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی ؟ (براہین احمدید) " چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی اور انشراح صدری و عصمت و حیاء و صدق و صفا و توکل و وفا و عشق الہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے فضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اعلی واصفی تھے اس لئے خدائے جل شانہ نے ان کو عطر کمالاتِ خاضہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ و دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی الہی وی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وجیوں سے اقوای و اکمل و ارفع و تم ہوکر صفات الہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہوا سرمه چشم آرید صفحه ۲۳ ۲۴ حاشیه ) وہ انسان جس نے اپنی ذات سے ، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال را اپنے روحانی اور پاک قومی کے پر زور دریا سے کمال نام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقا و ثباتاً دکھلایا اور انسان کا مل کہلایا.وہ انسان جوسب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے رُوحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلين فخر النبييض جناب محمد مصطفے صلی الله علیہ وسلم ہیں.اسے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تونے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دُنیا میں آئے جیسا کہ
64 یونس اور ایوب اور سیح بن مریم اور ملا کی اور بیٹی اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہم اسے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگر چہ سب مغرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.یہ اسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے.اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ " اتمام الحجة ) ” مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے " والا صرف حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (اربعین راحت) وہ زمانہ کہ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے حقیقت میں ایسا زمانہ تھا کہ جس کی حالت موجودہ ایک بزرگ اور عظیم القدر تصلح ربائی اور ہادی آسمانی کی اشد محتاج تھی اور جو جو تعلیم دی گئی وہ بھی واقع میں بیچی اور ایسی تھی کہ جس کی نہایت ضرورت تھی اور ان تمام امور کی جامع تھی کہ جس سے تمام ضرورتیں زمانہ کی پوری ہوتی تھیں اور پھر اس تعلیم نے اثر بھی ایسا کر دکھایا کہ لاکھوں دلوں کو حق اور راستی کی طرف کھینچ لائی اور لاکھوں سینوں پر لا اله الا الله کا نقش جما دیا اور جو نبوت کی علت غائی ہوتی ہے یعنی تعلیم اصول نجات کی اس کو ایسا کمال تک پہنچایا جو کسی دوسرے نجی کے ہاتھ سے وہ کمال کسی زمانہ میں بہم نہیں پہنچایا ( براہین احمدیہ صفحه ۱۱۲ - ۱۱۴) " اعظم اور اکبر حصہ روح القدس کی فطرت کا حضرت سیدنا محمد صطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.....دنیا میں معصوم کامل صرف محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوا ہے “ (تحفہ گولڑویہ ۲۳) " جب ہم انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوتے میں سے اعلی درجہ کا جوانمرد نبوھے اور زندہ بجتے اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نہ ھئے صرف ایک مرد کو جانتے
ہیں یعنی وہی نیوں کا سردار، رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد صطفے واحمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برس تک نہیں مل سکتی تھی “ (سراج منیر ) سبحان اللہ تم سبحان اللہ حضرت خاتم الانبیاء کی شان کے نبی ہیں.اللہ اللہ کیا عظیم الشان نور ہے جس کے ناچیز خادم جس کی ادنیٰ سے ادنی امت ،جس کے احقر سے احتر چاکر مراتب مذکورہ بالا (مکالمه ومخاطبه البیه و اظہار علی الغیب کے مراتب.ناقل ) تک پہنچ جاتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ وَحَبِيبِكَ سَيّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَفْضَلِ الرُّسُل وَخَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ وَ الِهِ وَ أَصْحَابِهِ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ براہین احمدیه صفحه ۲۵۶ تا ۲۶۵ حاشیہ نمبر ۱۱) " یکی ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کیس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دُنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پرمحبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی نہیں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولیریض اور آخریض پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہ ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کیسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریری تے شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلتے کے نجی اسس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفرقے کا خزانہ اس سے کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم
آڑ لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا ا قرار نہ کریں کہ حقیقی تو حید ہم نے اسے نبوت کے ذریعہ سے پائی.زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کا ملک نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اس بزرگ نبجے کے ذریعہ سے ہمیں بیشتر آیا.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اس وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں یا (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵، ۱۱۶) " اے نادانو ! اور آنکھوں کے اندھو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے سید و مولی ) 1 اس پر ہزا ر سلام ) اپنے افاضہ کی رو سے تمام انبیا ء سے سبقت لے گئے ہیں کیونکہ گزشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آگر ختم ہو گیا اور اب وہ قومیں اور وہ مذہب مُردے ہیں کوئی ان میں زندگی نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیضان قیامت تک جاری ہے اس لئے با وجود آپ کے اس فیضان کے اس اُمت کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی مسیح باہر سے آوے بلکہ آپ کے سایہ میں پرورش پانا ایک ادنی انسان کو سیح بنا سکتا ہے جیسا کہ اس نے اس عاجز کو بنایا (چشمه سیحی صفحه ۷۵۱۷۴) " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع اخلاق کے متم ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری ہے نمونہ آپ کے اخلاق کا قائم کیا ہے؟" الحکم ار مارچ شائد ) " صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی رسول ہے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلی اور افضل سجے نبیوں سے اور اتم اور اکمل سجے رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر التارے ہیں جن کی پیروی سے خدا ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اُٹھتے ہیں اور اس جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے براہین احمدیہ صفحه ۵۳۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۳ ) ہیں."
اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاکم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نہی کو ہر گز نہیں دی گئی، اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبيين ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نہی تراش ہے.اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی " (حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۷ حاشیہ) " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اِس اُمت میں بڑی بڑی استعدادیں رکھ دی ہیں یہاں تک کہ علماء امتى كَانْبِيَاءِ بَنی اِسرائیل بھی حدیث میں آیا ہے.اگرچہ محدثین کو اس پر جرح ہے مگر ہمارا نور قلب اس حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے اور ہم بلا چون و چرا اس کو تسلیم کرتے ہیں اور بذریعہ کشف بھی کسی نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ اگر کی ہے تو تصدیق ہی کی ہے “ الحکم اگست شاه ) تمام رسالتیں اور نہو تیں اپنے آخری نقطہ پر آکر جو ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجو دتھا کمال کو پہنچ گئیں “ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۸۱۷۸۰) " بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل كمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی ہے بار رو بر نہ رہی اور ختم نبو تے آپنے پر نہ صرف زمانہ کے تاثر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالاتے نبوت تے آپنے پر ختم ہو گئے اور چونکہ آپ صفات البیتہ کے مظہر اتم تھے اسلئے آپ کی شریعیت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی ؛ لیکچر سیالکوٹ صفحه ۲ تا ۷ طبع اول ) وجود باجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک نبی کے لئے منتظم اور کیمیکل ہے اور اس
A ذات عالی کے ذریعہ سے جو کچھ امریح اور دوسرے نبیوں کا مشتبہ اور مخفی رہا تھا وہ چمک اُٹھا اور خدا نے اس ذات مقدس پر انہیں معنوں کر کے وحی اور رسالت کو ختم کیا کہ سب کمالات اس وجود یا جود پر ختم ہو گئے.وَهَذَا فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ (براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۳ حاشیہ نمبر۱۱) جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غمخواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا بلکہ کیا با عتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی اس لئے قدرتے کے تجلیا تے کا پورا اور کامل حصہ اس کو یلیا اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچے سکتا اور اس کی اُمت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ المیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے اور اس کی ہمت اور ہمدردی نے اُمت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا اور ان پر وحی کا دروازہ جو حصولِ معرفت کی اصل جڑ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا.ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیض وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص امتی نہ ہو اس پر وحی الہی کا دروازہ بند ہو.سوخدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا.لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص پنچھی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجودمونہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پاسکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہوسکتا ہے کیونگ منتقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے مگر ظلی نبوت جس کے معنے ہیں کہ حض فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہوا اور نارینشان
دُنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک ہیں چاہا ہے کہ مکالمہ اور مخاطبات الہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الہیتہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہو جائے (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۸۰۲۷) " میں بڑے یقین اور دعوئی سے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالات نبوت ختم ہو گئے.وہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جو آپ کے خلاف کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اور آپ کی نبوت سے الگ ہو کر کوئی صداقت پیشیش کرتا ہے اور چشمہ نبوت کو چھوڑتا ہے ئیں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آپ کے بعد کسی اور کو نبی یقین کرتا ہے اور آپ کی ختم نبوت توڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس مہر نبوت محمدی نہ ہو الحکم، ارجون نشر صت ) خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرمایا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رو سے ان صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات انکو بخشا جاتا ہے جیسا کہ وہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رجالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبين یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے.اب ظاہر ہے کہ لکین کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے سو ما اس آیت کے پہلے حصے میں جو امرفوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی تھی وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا سو لیکن کے لفظ سے ایسے تھایہ فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء عظھر ایا گیا.
جس کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا.ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی صفحه ۷۷۶) "کیا ایسا بد بخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعوی کرتا ہے قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت ولکن رسول اللهِ وَخَاتم النبین کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسول اور نبی ہوں.صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعوی نہیں کیا اور غیرحقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور گفت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم گفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے لیکرنے وہ مکالماتھے اور مخاطباتے جو اللہ جل شانہ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں جرے میں یہ لفظ نبو تھے اور رسالت کا بکثرتے آیا ہے ارض کو میرے بوجہ مامور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا لیکن بار بار کہتا ہوں کہ اُن الہامات میں جو لفظ مُرسل یا رسول یا نبی میری نسبت آیا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پر مشتمل نہیں ہے اور اصل حقیقت جس کی میں علیٰ رؤوس الانشا د گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں او آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا - وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُولِنَا وَ سيدنا الى نَبِيُّ اَوْ رَسُولُ عَلَى وَجْهِ الْحَقِيقَةِ وَالِاخْتِرَاءِ وَتَرَكَ الْقُرْآنَ وَاحْكَامُ الشَّرِيعَةِ الْغَرَاءِ فَهُوَ كَافِرُ کذاب.غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعوی کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنے فریض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سر چشمہ سے جُدا ہو کر آپ بھی براہ راستے
سلام ا نبی اللہ بننا چاہتا ہے تو وہ ملحد بے دین ہے.اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلم بنائے گا اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا پس بلاشبہ و سیلمہ کذاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں.ایسے عصبیت کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے " انجام آنختم صفحہ ۲۷، ۲۸ حاشیہ) ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے ، رسول اور نہی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اِس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول «من بیستم رسول دنیا ورده ام کتاب " اس کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعیت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی ضرور یا د رکھنی چاہیئے اور ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کہیں با وجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا رُوحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اسی واسطے کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمدؐ اور احمد سے مسمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور نطقی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۷۶ ) "
۸۵ " اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہویا پرانا نہیں آسکتا جس طرح آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں ان کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے.بے شک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت ولکن رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور حدیث لَا نَبِيَّ بعد منی اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلكِن رُّسُولَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِينَ اور اِس آیت میں پیشگوئی ہے جس سے ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش گوئیوں کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے ہیں اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہند و یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نہی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی گھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے اسلئے اس کا نہی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے.اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے پیعنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد ہی کو لی گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ.اِس کے معنی یہ ہیں کہ لَيْسَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِ الدُّنْيَا وَلكِن هُوَابُ لِرِجَالِ الْآخِرَةِ لِأَنَّهُ خاتم النَّبِيِّنَ وَلَا سَبِيلَ إِلى فُيُونِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ توسطه - عرض میری نبوت اور رسالت
AM باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کی رُو سے اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا.لہذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا لیکن عیسی کے اترنے سے فرق ضرور آئے گا اور یہ بھی یادر ہے کہ نبی کے معنی گفت کی رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا.اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غرب مصفے کی خبر اس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ، اب اگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کی رُو سے نہی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جسکے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لا يُظهر على عبہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اِس طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا ہی کوئی نہیں جس پر شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی السوال کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے.وَمَن ادَّعَى فَقَدْ كَفَر- اس میں اصل بھی یہی ہے کہ خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پر وہ معاشرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نہی کہلائے گا تو گویا مہر توڑنے والا ہو گا جو خاتم النبیین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیرت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر قہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر پیس باوجود اس شخص کے عوامی نبوت کے جس کا نام لی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبیین ہی رہا کیونکہ یہ محمد ثانی ای محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر
AL " " اور اسی کا نام ہے مگر عیسی بغیر کمر توڑنے کے آ نہیں سکتا ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۳ تا ۶ ) یا د رہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اسکے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعیت ہو یا بلا واسطه متابعت آنفر صلی اللہ علیہ وسلم وحی پاسکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوئی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں.وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعیت والی یا نبوت مستقل منقطع ہو چکی ہے.وَلَا سَبِيلَ إِلَيْهَا إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَادَّعَى أَنَّهُ نَبِيُّ صَاحِبُ الشَّرِيعَةِ اَوْ مِنْ دُونِ الشَّرِيعَةِ وَلَيْسَ مِنَ الْأُمَّةِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ غَمَّرَهُ السَّيْلُ الْمُنْهَمِرُ فَالْقَاهُ وَرَاءَهُ وَلَمْ يُغَادِرُ حَتَّى مَاتَ.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء میں اُسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رو سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے.جیسا کہ وہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولُ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے.اب ظاہر ہے کہ لکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے سو اس آیت کے پہلے حصہ میں جو امرفوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا.سولیکن کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اٹھرا یا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اُس شخص کو
^^ ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہو گا اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہو گا.غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت اِن شانِكَ هُوَ الاسد میں ہے دُور کیا جائے.ماحصل اِس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شرعیت ہوا اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہ راست مقام نبوت حاصل کر سکے لیکن اس طرح پر منع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو امتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوار محمدیہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ امت کی نفی کی جائے تو اس سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں.نہ جسمانی طور پر کوئی فرزند نہ روحانی طور پر کوئی فرزند.اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ابتر رکھتا ہے.اب جبکہ یہ بات طے پا چکی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت مستقلہ جو براہ راست ملتی ہے اس کا دروازہ قیامت تک بند ہے اور جب تک کوئی امتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اور حضرت محمدیہ کی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا " تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جوپہلے گزر چکیں اُن کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمد یہ ان سب پر شتمل اور حاوی ہے اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں.تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں.نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں.اس لئے اس نبوت پر تمام ہو توں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہیے کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے لیکن یہ نبوت
محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبتوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام بل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا مگر اس کا کامل پیرو صرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کا ملہ نامہ محمدیہ کی اس میں ہتک ہے.ہاں اُمتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آ سکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کا عہ محمدیہ کی ہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اسی فیضان سے زیادہ ترظاہر ہوتی ہے اور جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچے جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے پس یمکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا ه كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ راهْدِنَا الصّراط المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا.اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ امت محمدیہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہر تی تھی.اور ساتھ اس کے وہ دُعاؤں کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا س کا سکھلانا بھی عبث ٹھرتا تھا مگر اس کے دوسری طرف یہ خرابی بھی تھی کہ اگر یہ کمال کسی فرد امت کو براہ راست بغیر پیروی نور نبوت محمدیہ کے مل سکتا تو ختم نبوت کے معنے باطل ہوتے تھے پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مکالمہ مخاطبہ کا علم تا مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو عطا کیا جو فنافی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچے گئے اور کوئی حجاب درمیان نہ رہا اور امتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کے معنے اتم اور اکمل درجہ
٩٠ پر ان میں پائے گئے.ایسے طور پر کہ ان کا وجود اپنا وجود نہ رہا بلکہ اُن کے محوتیت کے آئینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہو گیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پر " مکالمہ مخاطبہ اللہ نبیوں کی طرح ان کو نصیب ہوا (رسالہ الوصیت صفحہ ۱۲۰۱۱) اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوے تو پھر بھی میں کبھی شرف الامام اب ہر گز نہ پاتا کیونکہ اس بحر محمد کی نبوتے کے سے نبوتیں بند ہیں تجلیات البیہ صفحہ ۲۴ ۲۵) کیا کچھ
41 آیت تمام النبین کی تفسیر مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ وَ كَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ) (سورۃ احزاب غ ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں ہے.اگر قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی ہوتی کہ جو شخص کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہوسکتا یا قرآن کریم سے پہلے بعض قوموں کا یہ عقیدہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن کریم میں اس عقیدہ کا استثناء بیان کیا گیا ہے یا اس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تو کسی قوم کا مذہب نہیں کہ جو کسی مرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہوسکتا.مسلمان اور عیسائی تو حضرت یحیی علیہ السلام کی نبوت کے قائل ہیں اور یو دی ان کی بزرگی مانتے ہیں مگر یہ کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ ان کے ہاں اولا د تھی کیونکہ ان کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی.پس اس آیت کے معنے کیا ہوئے کہ محد تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن نبی ہیں.لازمگر اس فقرہ کی کوئی وجہ ہونی چاہیے.پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک شخص جس کے متعلق لوگ غلطی سے یہ کہتے تھے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبنی ہے اس اظہار کے بعد کہ وہ متبنی نہیں.اِس امر کا کیا تعلق تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر کیا جاتا اور پھر اس بات کا کیا تعلق تھا کہ آپ کی ختم نبوت کا ذکر کیا جاتا.کیا اگر زید رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دیتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو ختم نبوت کا مسئلہ مخفی رہ جاتا.کیا اتنے اہم اور عظیم الشان مسائل یونہی ضمناً بیان ہوا کرتے ہیں ؟ اس کے علاوہ جیسا کہ ہم او پر لکھ چکے ہیں کسی مرد کے باپ ہونے یانہ ہونے کے ساتھ نبوت کا کوئی تعلق نہیں.پس ہمیں قرآن کریم پرغور کرنا چاہیے کہ کیاکسی اور جگہ کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہے جس سے اگر بالغ مردوں کے باپ ثابت نہ
۹۲ ہوں تو لفظ مشتبہ ہو جاتا ہے کیونکہ لیکن کا لفظ عربی زبان میں اور اس کے ہم معنی لفظ دنیا کی ہر زبان میں کسی شبہ کے دُور کرنے کے لئے آتے ہیں.اس الجھن کو دور کرنے کے لئے ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں صاف لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ :- إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْلُ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (سورة الكوثر ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمایا ہے پس تو اللہ تعالی کی عبادتیں اور قربانیاں کر یقینا تیرا تین ہیں نریند اولاد سے محروم ہے، تو نہیں.یہ آیت مکتی زندگی میں نازل ہوئی تھی اس میں ان مشرکین مکہ کا ر کیا گیا تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند کی وفات ہو جانے پر طعنہ دیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی تو نرینہ اولاد نہیں.آج نہیں تو کل اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا.(البحر المحیط) اس سورۃ کے نزول کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہوگی اور زندہ رہے گی لیکن ہوا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندہ رہنے والی اولاد نرینہ تو ان کے خیال کے مطابق ہوئی نہیں اور جن دشمنوں کے متعلق ھو الابتر کہا گیا تھا ان کی اولاد نرینہ زندہ رہی.چنانچہ ابوجہل کی اولاد بھی زندہ رہی، عاص کی اولا دبھی زندہ رہی، ولید کی اولاد بھی زندہ رہی (گو آگے چل کر ان کی اولاد مسلمان ہو گئی اور ان میں سے بعض لوگ اکابر صحابہ میں بھی شامل ہوئے ، جب حضرت زید کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہوئے کہ زیادہ کی مطلقہ سے جو آپ کا متینی تھا آپ نے شادی کر لی ہے اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ ہو سے شادی جائز نہیں.تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم جو سجھتے ہو کہ زید رضی اللہ عنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں یہ غلط ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی بالغ جوان مرد کے باپ ہیں ہی نہیں اور ماکان " کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ اس وقت باپ نہیں بلکہ یہ عنی بھی دیتے ہیں کہ آئندہ بھی باپ نہیں ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں
۹۳ آتا ہے " كَانَ اللهُ عَزِيزاً حكيمان (سورہ نساء) یعنی اللّہ تعالی عزیز حکیم تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا.اس اعلان پر قدر تا لوگوں کے دلوں پر ایک اور شبہ پیدا ہونا تھا کہ مکہ میں تو سورۃ کوثر کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دشمن تو اولاد نرینہ سے محروم رہیں گے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) محروم نہیں رہیں گے لیکن اب سالہا سال کے بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ اب کیسی بالغ مرد کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ سورۃ کوثر والی پیشگوئی (نعوذ باللہ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مشکوک اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلكِن رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ یعنی ہمارے اِس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ یہ اعلان تو (نعوذ باللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اس اعلان سے یہ نتیجہ نکالناغلط ہے.با وجود اِس اعلان کے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں بلکہ خاتم النبیین ہیں یعنی نبیوں کی عمر میں پچھلے نبیوں کے لئے بطور زینت کے ہیں اور آئندہ کوئی شخص نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہوسکتا جب تک کہ مدرسو اللہ دصلی اللہ علیہ وسلم) کی فہر س پر ن لگی ہو.ایسا شخص آپ کا روحانی بیٹا ہوگا اور ایک طرف سے ایسے روحانی بیٹوں کے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اُمت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکا بر میگہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ سورۃ کوثر میںجو کچھ بتایا گیا تھا وہ ٹھیک تھا.ابوجہل، عاص اور ولید کی اولا د ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منسوب کر دے گی اور آپ کی رُوحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عوت کبھی فائز نہیں ہوسکتی لینی نبوت کا مقام بوصرف مردوں کے لئے مخصوص ہے.پس سورۃ کوثر کو سورہ احزاب کے سامنے رکھ کر ان معنوں کے سوا اور کوئی معنے ہو ہی نہیں سکتے.اگر خاتم النبیین کے یہ معنے کئے جائیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن
۹۴ وہ اللہ کے رسول ہیں اور آئندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفار کا وہ اعتراض جس کا سورۃ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے پختہ ہو جاتا ہے." آیت تمام نبیین کی تفسیر قرآن مجید کی دوسری آیات کی رو سے قرآن عظیم ایک کامل و مکمل کتاب ہے جس کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منفرد مقام ختم نبوت ہی کا ذکر نہیں کیا بلکہ متعد دجگہوں پر اس کی تفسیر پر بھی روشنی ڈالی ہے.اس سلسلہ میں ہم قرآن شریف کی مندرجہ ذیل آیات پیش کرتے ہیں :- 1 - سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَئِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيرٌ بَصِيرُ (الحج) ) اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد کو رسول بنانے کے لئے چن لیتا ہے.اللہ تعالیٰ یقیناً دعاؤں کو سنتا اور حالات کو دیکھتا ہے.اس آیت سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کا ذکر ہے.آپ سے پہلے کے لوگوں کا ذکر نہیں ہے اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی ملائکہ اور انسانوں میں سے رسول چنتا ہے اور رفتار ہیگا یقینا اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یعنی آپ کے زمانہ نبوت ہیں اور انسان بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کا نام پانے والے کھڑے ہوں گے.۲.سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھلائی ہے :.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یا اللہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا.ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرے انعام ہوئے ہیں.
۹۵ یہ دکھا پانچ وقت فرضا اور اس کے علاوہ کئی اور وقت نفلا مسلمان پڑھتے ہیں.اب سوال ہے کہ منعم علیہ گروہ کا رستہ کیا ہے؟ قرآن شریف نے خود اس کی تشریح فرمائی ہے.فرمایا :.وَلَهَدَيْنَهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا 0 ( النساء مع ) اگر مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں پر عمل کریں اور بشاشت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کریں تو ہم ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دیں گے.پھر اس صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے کا طریقہ یوں بیان کیا ہے :.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَا وَلَكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ الصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَيْكَ رَفِيقًا ل ذلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيْنَاه ( الناء ) اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے فا و لَكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ تو وہ ان لوگوں کے گروہ میں شامل کئے جائیں گے جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں کے گروہ میں اور صدیقیوں کے گروہ میں شہیں کے گروہ میں اور صالحین کے گروہ میں اور یہ لوگ سب سے بہتر ساتھی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فضل ہے اور اللہ تعالیٰ تمام امور کو بہتر سے بہتر جانتا ہے.اِس آیت میں صاف بتا یا گیا ہے کہ منم علیہ گروہ کا رستہ وہ رستہ ہے جس پر چل کر انسان نبیوں میں اور صدیقوں میں اور شہیدوں میں اور صلحاء میں شامل ہوتا ہے.بعض لوگ اس جگہ یہ کہ دیتے ہیں کہ یہاں " معر“ کا لفظ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے خود منعم علیہ گروہ میں شامل نہیں ہوں گے حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اس صورت میں اس آیت کے یہ معنی بن جائیں گے کہ یہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے لیکن اس گروہ میں شامل نہیں ہوں گے یعنی نبیوں کے ساتھ ہوں گے لیکن نبیوں میں شامل نہیں ہوں گے
44 صدیقوں کے ساتھ ہوں گے مگر صدیقوں میں شامل نہیں ہوں گے شہیدوں کے ساتھ ہوں گے لیکن شہیدوں میں شامل نہیں ہوں گے.اور صالحین کے ساتھ ہوں گے لیکن صالحین میں شامل نہیں ہوں گے.گویا ان معنوں کی رو سے امت محمدیہ صرف نبوت سے ہی محروم نہیں ہوئی بلکہ صدیقیت سے بھی محروم ہوگئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جویہ فرمایا تھا کہ ابوبکر صدیق ہے وہ نعوذ باللہ غلط ہے.وہ شہداء کے درجہ سے بھی محروم ہو گئی اور قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم شہداء کے مقام پر ہیں وہ بھی غلط ہے.(شهداء علی الناس ( البقرة (٤) اور صالحین میں بھی اس امت کا کوئی آدمی داخل نہیں ہوتا اور جو یہ خیال ہے کہ امت محمدیہ میں بہت سے صلحاء گزرے ہیں یہ بھی بالکل غلط ہے نعوذ باللہ.کیا کوئی عقلمند آدمی جس کو قرآن اور حدیث پر عبور ہو ان معنوں کو مان سکتا ہے ؟ معر کے معنی ساتھ کے نہیں ہوتے مکہ کے معنی شمولیت کے بھی ہوتے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں مومنوں کو یہ دعا سکھلائی گئی ہے : تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( ال عمران ع ) اسے اللہ ہم کو ابرار کے ساتھ موت دے.اور ہرمسلمان اس کے یہی معنی کرتا ہے کہ اے اللہ مجھے ابرار میں شامل کر کے موت دے یہ معنی کوئی نہیں کرتا کہ یا اللہ میں دن کوئی نیک آدمی مرے اُسی دن میں بھی مر جاؤں.اسی طرح قرآن کریم میں ہے :.اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا هُ إِلَّا الَّذِينَ ۲۱ و النساء ع ) تابُوا وَ اَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَاخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَبِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَ سَونَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ اَجْرًا عَظِيمًا 0 یعنی منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو کسی کو ان کا مددگار نہ دیکھے گا.ہاں جو تو بہ کرے اور اصلاح کرے اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کو مضبوطی سے پکڑے اور خدا تعالے
94 کے لئے اپنی اطاعت مخصوص کرے تو وہ مومنوں میں شامل کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ جلد مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا.اس جگہ " مَعَ الْمُؤْمِنِينَ" کے الفاظ ہیں مگر مَعَ مِن کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.اسی طرح سورۃ الحجر ع میں آیا ہے :.مَالَكَ الَّا تَكُونَ مَعَ السُّجِدِينَ.اسے ابلیس با کیوں تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوا.مگر سورة الاعراف میں ہے لَمْ يَكُنْ مِنَ الجِدِينَ ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا.پس مع قرآن کریم میں "من" کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم کی مشہور گفت مفردات القرآن مصنفہ امام راغب میں بھی لکھا ہے :.وَقَوْلُهُ فَاكَتَبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ ، أَى اجْعَلْنَا فِي زُمْرَتِهِمْ إِشَارَةٌ إِلَى قَوْلِهِ فَا وَلَيْكَ مَعَ الَّذِينَ الْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ - مفردات راغب صفحه ۴۳۵ زیر لفظ كتب ) یعنی فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِین میں " مع " کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو زمرہ شاہدین میں داخل فرما جس طرح کہ آیت فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِیں مَعَ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے منم علیم کے زمرہ میں شامل ہوں گے.نیز تفسیر بحر محیط میں امام راغب کے اس قول کی مزید تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے :.قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ الْفَرَقِ الْأَرْبَعِ فِي الْمَنْزِلَةِ وَالثَّوَابِ النَّبِيَّ بِالنَّبِيِّ وَالصِّدِّيقَ بِالصِّدِّيقِ وَالشَّهِيدَ بِالشَّهِيدِ وَالصَّالِحَ بِالصَّالِحِ.(تفسیر بحر محیط جلد ۲ صفحہ ۳۸۷ مطبوعہ مصر ) یعنی امام راغب کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے نبیوں، صدیقوں ،شہیدوں اور صالحین میں شامل
۹۸ کئے جائیں گے یعنی اِس اُمت کا نبی نہی کے ساتھ.صدیق صدیق کے ساتھ.شہید شہید کے ساتھ.صالح ، صالح کے ساتھ.اسی طرح مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :- بنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقْضُونَ عَلَيْكُمْ ايْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) ( الاعران ع ) اے بنی آدم ! اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے ان کی باتوں پر کان دھریں گے اور اصلاح کے طریق کو اختیار کریں گے ان کو آئندہ کسی قسم کا خون نہ ہوگا اور نہ ہی گزشتہ غلطیوں پر انہیں کسی قسم کا غم ہو گا.اس آیت میں صاف بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ میں رسول آتے رہیں گے.اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَإِذَ الرُّسُلُ التَتْ.( المرسلت ع ) اور جب رسول ایک وقت مقررہ پر لائے جائیں گے.یعنی آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو بروزی رنگ میں دوبارہ ظاہر کرے گا شیعہ لوگ اسی سے استدلال کرتے ہیں کہ امام مہدی کے زمانہ میں تمام رسول لائے جائیں گے اور وہ ان کی اتباع کریں گے.چنانچہ تفسیر قمی“ میں لکھا ہے :.مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا مِنْ لَدُنْ أَدَمَ إِلَّا وَيَرْجِعُ إِلَى الدُّنْيَا فَيَنْصُرُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ( تفسیر القمی صفحه ۲۳ ) اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دنیا میں واپس آئیں گے
اور امیرالمؤمنین مہدی کی مدد کریں گے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سارے رسول آئیں گے اور پھر بھی آپ کی ختم نبوت نہیں ٹوٹے گی.بہر حال قرآن کریم کی آیتوں میں سے چند آیات بطور نمونہ درج کر دی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور کفش برداری میں اور حضور کے دین کی اشاعت کے لئے امت محمدیہ میں اتنی نہی آسکتے ہیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نہی ہونے ، قرآن کے زندہ کتاب ہونے اور اسلام کے زندہ مذہب ہونے پر ابدی اور فیصلہ گن دلیل ہیں.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - خَاتَمَ النَّبِيِّينَ کے معنی لغت عربی کی رُو سے خاتم کا لفظ لغوی اعتبار سے زبان عرب میں جن حقیقی یا مجازی معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جماعت احمدیہ ان سب کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کرتی ہے.مثلا آخری نبی.آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی رُو سے حضرت سرور کونین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا بایں معنیٰ ثابت و واضح ہے کہ آپ شریعیت لانے والے نبیوں میں سے آخری ہیں.آپ کی شریعت ہمیشہ قائم و دائم ہے کبھی منسوخ نہ ہوگی.خاتم النبیین کے یہ معنی مجملہ فرقوں میں مسلم اور اجتماعی ہیں جماعت احمد یہ بھی ان معنوں پر ایمان رکھتی ہے.جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مقام ختم نبوت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :- " حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام محمدیت میں منفرد ہیں.آپ کے سوا کسی شخص کو یہ مقام حاصل نہیں ہے.آپ خاتم النبیین ہیں اور روحانی رفعتوں کے
144 لحاظ سے آپنے آخری نبجھے ہی ہے.آپ اُس وقت سے آخری نبی ہیں جس وقت ابھی آدم کو نبوت تو کیا انہیں یہ مادی وجود بھی عطا نہ ہوا تھا.غرض سب نبوتیں نبوت محمدیہ کے تحت حاصل کی گئی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی نبوت کی خاطر اور اسی مقام محمدیت کی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا تھا.اس لئے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روحانی رفعت ساتویں آسمان تک پہنچنے کے باوجود ختم نبوت کے منافی نہیں ہے.اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کی روحانی رفعت پہلے آسمان تک پہنچنے کے با وجود ختم نبوت میں خلل اندازی نہیں کر رہی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بیاں تک فرمایا ہے کہ میرے روحانی فرزند یعنی علمائے باطن جو مجھ سے قرآنی علوم حاصل کر کے قرآن کریم کی شریعیت کو زندہ اور تابندہ رکھیں گے اور ہر صدی میں آتے رہیں گے وہ بھی انہی انبیاء کی طرح ہیں جن میں سے کوئی پہلے آسمان تک پہنچا، کوئی دوسرے پر کوئی تیسرے پر کوئی چوتھے پر کوئی پانچویں پر کوئی چھٹے پر، اور ایک ایسا بھی پیدا ہو گا جو انتہائی عاجزی اور عشق کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد اور محبت کی انتہائی رفعتوں کو پالینے کی وجہ سے ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم کے پہلو میں جاپہنچے گا اور ستید و مولی حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ پائیگا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روحانی رفعت ساتویں آسمان تک پہنچنے پر ختم نبوت کے منافی نہیں پڑتی اسی طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند کی روحانی رفعت ساتویں آسمان تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمد یت میں کوئی رخنہ اندازی نہیں کرتی.دوسرے یہ تصویر، یہ حقیقت معراج ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کسی کی روحانی رفعتیں سات آسمانوں میں محصور ہونے کی وجہ سے مقام ختم نبوت میں کوئی خلل نہیں ڈالتیں کیونکہ وہ ارفع مقام اس کے اُوپر کا مقام ہے اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ روحانی رفعتوں کے حصول کیلئے
اپنی اپنی استعداد کے مطابق کوشش کرو ہمیں یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ امت محمدیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرزند جلیل پیدا ہو گا جو ساتویں آسمان تک پہنچے جائیں گا تاہم اس کا مقام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہے یا الفضل ۱۷ اپریل ۹۷ ) - مزید تفصیل کے لئے پمفلٹ " مقام محمدیت کی تفسیر» ضمیمہ نمبرہ ملاحظہ فرمائیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب " ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں :- " ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ مرتبہ پر آسمان میں جن سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں تشریف فرما ہیں عِندَ سِدْرَة الْمُنْتَفِى بِالرفيق الأعلى اور امت کے سلام و صلوۃ برابر آنحضرت کے حضور میں پہنچائے جاتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى سَيّدِنَا محَمَّدٍ وَ عَلَى الِ سَيّدِنَا مُحَمَّدٍ اكْثَرَ مِمَّا صَلَّيْتَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَنْبِيَائِكَ وَبَارِكْ وسلم نیوں کا سردار :- نبوت ایک روحانی کمال ہے.نبی ایک صاحب مرتبت وجود ہوتا ہے صاحب کمال و مرتبت وجودوں میں خاتم وہی ہوتا ہے جو اس کمال میں آخری درجہ کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے.اس حقیقت کے ثبوت میں بر صغیر پاک و ہند اور بلاد عربیہ کی اکتالیس مثالیں درج ذیل کی جاتی ہیں :.۱۸۸ ۶۸۴۵ ۶۸۰۴ ۱ - ابو تمام ( ما ) ( ا ) شاعر کو خاتم الشعراء لکھا ہے.( وفیات الاعیان جلد اول) ۲ - (۳۳.ابو الطیب ( ۳۵ ) کو خاتم الشعراء کہا گیا ہے.(مقدمہ دیوان المتنبتی مصری صت ) ۳۰۳ مهر ۴۹۲۵۶۹۱۵ - ابو العلاء المعترى ( ۳۹ ) کو خاتم الشعراء قرار دیا گیا ہے.(حوالہ مذکورہ حاشیہ مت ) ۵۴۴۹ و خاتم قراردیا اااه 114 شیخ علی حزین ( کو ہندوستان میں خاتم الشعراء سمجھا جاتا ہے.(حیات سعدی ) BILA+ $1676 $16.1 ۵ - حبیب شیرازی کو ایران میں خاتم الشعراء سمجھا جاتا ہے.(حیات سعدی م۸ )
- حضرت علی خاتم الاولیاء ہیں.(تفسیر صافی سورۂ احزاب ) امام شافعی امام ) خاتم الاولیاء تھے.(التحفة السنیہ مثا) ۲۰۳۳ ۱۵۰ -۸- شیخ ابن العربی ) ۲۰ ۵۶۳۸ ) خاتم الاولیاء تھے.(سرورق فتوحات مکیہ ) سلام الله - کا فور خانم الکرام تھا.(شرح دیوان المتنبی ص۳) -۱- امام محمد عبده مصری خاتم الائمہ تھے.(تفسیر الفاتحہ (۱۳) 1 - السید احمد السنوسی خاتم المجاہدین تھے.(اخبار الجامعة الاسلامیه فلسطین ۲۷ محرم ۱۳۵۲ ) ۱۲ - احمد بن ادریس کو خاتمہ العلماء المتقین کہا گیا.(العقد النفیس) ۱۳- ابو الفضل الالوسی کو خاتم المحققین کہا گیا ہے.(سرورق تفسیر روح المعانی ) ۶۱۵۰۵ شیخ الازہر سلیم البشری کو ختم المحقین قرار دیا گیا ہے.(الحراب ص۳۷) ۱۵ - امام سیولی (وفات ) و خاتمہ المتقین نکھا گیا ہے.(سرورق تفسیر اتقان ) ۱۰- حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کو خاتم المحدثین لکھا جاتا ہے.(عالہ نافعہ ) ۱۷ اشیخ شمس الدین خاتمة الحفاظ تھے.(التجريد الصريح مقدمہ منت) -14 -14 ۱۸.سب سے بڑا ولی خاتم الاولیاء ہوتا ہے.(تذکرۃ الاولیاء ص۴۳) ۱۹.ترقی کرتے کرتے ولی خاتم الاولیاءد بن جاتا ہے.(فتوح الغیب ص ) ۲۰ - الشیخ نجیب کو خاتمہ الفقہاء مانا جاتا ہے.(اخبار الصراط المستقیم یافا ۲۷ رجب ۵۱۳۵۴) - شیخ رشید رضا کو خاتمہ المغترین قرار دیا گیا ہے.(الجامعۃ الاسلامیہ و حمادی الثانی ۱۳۵۴ھ ) -۲۲ اشیخ عبدالحق ) (۲) خاتمتہ الفقہاء تھے.(تفسیر الاکلیل سرورق) - ۶۱۵۵۱ -۲۳ - الشیخ محمد نجیب خاتمۃ المتقین تھے.( الاسلام مصری شعبان ۵۱۳۵۴) -۲۴- افضل ترین ولی خاتم الولایۃ ہوتا ہے.(مقدمہ ابن خلدون طلا ) ۲۵ - شاه عبد العزیز (۱۱۵۹هـ - ۱۲۳۶ هـ ) خاتم المحدثين والمفترین تھے.(ہدیۃ الشیعہ صا
۲۶.انسان خاتم الخلوقات الجمانیہ ہے.(تفسیر کبیر جلد ۶ ص۲۲ مطبوعہ مصر) الشيخ محمد بن عبد الله خاتمة الحفاظ تھے.(الرسائل النادره منا) ۲۱ - علامہ سعد الدین تفتازانی خاتمہ المتقین تھے.(شرح حدیث الاربعین صل ) ۲۹ - ابن حجر العسقلانی خاتمۃ الحفاظ ہیں.(طبقات المدرسین سرورق ) ۳۰ - مولوی مد قاسم صاحب ( ۱۱۴۸ هـ - ۱۲۹۷ھ ) کو خاتم المفسرین لکھا گیا ہے.(اسرار قرآنی ٹائٹیل پیچ) ۳۱ - امام سیوطی خاتمته المحدثین تھے.( ہدیۃ الشیعہ منا۲ ) ۳۲ - با دشاہ خاتم الحکام ہوتا ہے.(حجۃ الاسلام ص۳) ۲۳ - حضرت عیسی خاتم الاصفیاء الائمۃ ہیں.(بقیہ المتقدمين منها) -۳-۴- حضرت علی خاتم الاوصیاء تھے.(منار الهدی مثا) ۳۵ - الشيخ الصدوق کو خاتم المحدثین لکھا ہے.(کتاب من لا یحضره الفقيه ) ٣٦ - البوا ابو الفضل شہاب الالوسی ( ب) کو خاتم الا دباء لکھا ہے.(سرورق روح المعانی ) ۳۷ - صاحب روح المعانی نے ایشیخ ابراہیم الکورانی کوخاتمته المتأخرین قرار دیا ہے.(تفسیر روح المعانی جلد صفحه ۴۵۳) ۳۸ - مولوی انورشاہ صاحب کا شمیری کو خاتم المحدثین لکھا گیا ہے.(کتاب رئیس الاحرار م ) ۶۱۲۲۳ ۶۱۱ ۳۹ - حضرت فرید الدین عطار (۵۱۳ و ۵۶۲۰ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتے ہیں سٹ خستم کرده عدل و انصافش بحق تا فراست برده از مردم سبق (منطق الطیر ) هم - جناب مولانا حالی حضرت شیخ سعدی کے متعلق لکھتے ہیں :." ہمارے نزدیک جس طرح طعن و ضرب اور جنگ و حرب کا بیان فردوسی پر ختم ہے.اسی طرح اخلاق نصیحت و پند عشق و جوانی ، ظرافت و مزاح، زہد و ریا وغیرہ کا بیان شیخ پر ختم
ہے" (رسالہ حیات سعدی ما ) اسم - حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ( ۱۱۴۸ هـ - ۱۲۹۷ ھ ) تحریر فرماتے ہیں " سوجیں ہیں اس صفت کا زیادہ ظہور ہو جو خاتم القفات ہو لینی اس سے اوپر اور صفت ممکن الظهور یعینی لائق انتقال و عطائے مخلوقات ہو و شخص مخلوقات میں خاتم المراتب ہو گا اور وہی شخص سب کا سردار اور سب سے افضل ہوگا یا ( رسالہ انتصار الاسلام مثل ) ران استعمالات سے ظاہر ہے کہ اہل عرب اور دوسرے محققین علماء کے نزدیک جب بھی کسی ممدوح کو خاتم الشعراء يا خاتم الفقهاء يا خاتم المحدثين يا خاتم المفسرین کہا جاتا ہے تو اس کے معنی بہترین شاعر اس ہے بڑا فقیہہ اور سب سے بلند مرتبہ محدث یا مفتر کے ہوتے ہیں.ان معنوں کے رو سے خاتم النبیین کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت و رسالت کا ہر کمال ختم ہے.آپ سے بڑا یا آپ کے برابر کوئی نبی نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے.گویا آپ افضل الانبیاء اور سید المرسلین ہیں اور آپ سب نبیوں کے کمالات کے جامع ہیں.خاتم انیکیتین کے ان معنوں پر علمائے امت کا اتفاق رہا ہے اور جماعت احمدیہ خاتم النبیین کے یہ منی بھی ہر پہلو سے تسلیم کرتی ہے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :." میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزرچکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہر گز نہ کر سکتے.ان میں وہ دل اور قوت نہ تھی جو ہمارے نبئی کو ملی تھی.اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سُوء ا دبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا.یکن نبیوں کی عزت و حرمت کرنا اپنے ایمان کا جز سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت حل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں (الحکم ۱۷ جنوری ۶۱۹۰۱ ) ار
۱۰۵ نبیوں کو ختم کرنے والے :.اگر نبیوں کوختم کرنے والا کے معنی کئے جائیں تب یہ غور طلب آمر ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح نبیوں کو ختم فرمایا جسمانی اور مادی زندگی کے ختم کرنے کا سوال نہ تھا وہ سب نبی تو پہلے ہی فوت ہو چکے تھے جو ایک نبی حضرت عیسی زندہ سمجھے جاتے تھے وہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ قرار دیئے جاتے ہیں.باقی رہا معنوی طور پر ختم کرنا تو یہ درست ہے کہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نبیوں کو بلحاظ کمالات ختم کر دیا ہے یعنی آپ سب نبیوں سے کامل تر، بلند تر اور اعلیٰ تو ہیں اور آپ کی شان یہ ہے کہ آپ پر فقط نبوت ہی نہیں جملہ کمالات روحانی بھی ختم ہو گئے ہیں جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں سے ختم شد بر نفس پاکش ہر کمال لاجرم شد ختم ہر سنجیرے آپ اپنی کتاب "توضیح مرام" میں مزید فرماتے ہیں :." جناب سیدنا ومولانا سید الکل و افضل الرسل حضرت خاتم النبيين محمد صطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک اعلیٰ مقام اور بر ترمرتبہ ہے جو اسی ذات کامل الصفات پر ختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کا کام نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اور کو حاصل ہو سکے یا نبیوں کی مہر :- عربی میں خاتم مہر کو کہتے ہیں.جماعت احمدیہ آنحضرت کو نبیوں کی مہربھی یقین کرتی ہے چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں :- 11 اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خا تمر النبتين ٹھرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی تو جب روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.یہی معنی اس حدیث کے ہیں عُلَمَاءُ امتى كَا نَبِيَاءِ بنی اسرائیل اور بنی اسرائیل میں اگر چہ بہت سے نہی آئے مگر ان کی نبوت موسٹی کی پیروی کا
1.4 نتیجہ نہ تھی بلکہ وہ ہوتیں براہ راست خدا کی ایک موسیعیت نھیں حضرت موسی کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ بھی کچھ دخل نہ تھا یا اس کے ساتھ ہی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے نہایت پر زور رنگ میں یہ اعلان بھی فرمایا ہے کہ مہر محمدی کے یہ اثرات صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہی سے حاصل ہو سکتے ہیں.چنانچہ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں :- پس میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کیس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے.اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی گنجی اس کو دی گئی ہے.(صفحہ ۱۱۵، ۱۱۶) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے اس پہلو پر جو کچھ لکھا ہے اسکی تائید و تصدیق عہد حاضر کے علماء بھی کر رہے ہیں.چنانچہ دیوبندی مسلک کے مشہور عالم مولانا محمود الحسن صاب اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے ترجمہ قرآن میں لکھا ہے :- جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالیم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی صلح پر ختم ہوتا ہے.بدین لحاظ
1.4 کہہ سکتے ہیں کہ آپ مرتبی اور زمانی ہ حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے " اسی طرح مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا قاری محمد طیب صاحب فرماتے ہیں :." حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نہتوت بخشی بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہوگیا یہ آفتاب نبوت کامل ما ناشر ادارہ عثمانیہ ۳۲- انارکلی لاہور ) خلاصہ : مختصر یہ کہ قرآن و حدیث اور لغت عرب مومن کہ جس نقطہء نظر سے بھی دیکھا جائے یہ حقیقت روز روشن کی طرح نمایاں ہو جاتی ہے کہ آج مسلمانان عالم میں جماعت احمدیہ ہی کو یہ نخرہ اعزاز حاصل ہے کہ ہر لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین تسلیم کرتی ہے اور اس مقدس عقیدہ پر علی وجہ البصیرت ایمان رکھتی ہے.(مزید وضاحت کے لئے پمفلٹ "ہم مسلمان ہیں ہمارا موقف “ ” عظیم روحانی تجلیات 66 بطور ضمیمہ نمبر ۹-۱۰-۱۱ شامل ہیں ).حضرت بانی سلسلہ فرماتے ہیں سے ”ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام نختم المرسلین شرک اور بدعت سے ہم ہزار ہیں خاک را و احمد مختار ہیں سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے چکے دل آب تین خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی خدا " (ازالہ اوہام )
| A تفسیر آیت خاتم النبین احادیث نبویہ کی روشنی میں ا - آیت "خاتم النبین کے نزول کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنی کو مجھنے کیلئے ایک نہایت محکم کلید اُمت کے ہاتھ میں دی ہے.واضح رہے کہ سنہ ہجری میں آیت خاتم التباين کا نزول ہوا اور سنہ ہجری میں حضور علیہ الصلواۃ والسلام کا صاحبزادہ ابراہیم تولد ہوا اور فوت ہوگیا اس کی وفات پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا.لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ) ابن ماجه كتاب الجنائز ) کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سچا نبی ہوتا.حضور کا یہ ارشاد آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد ہے اور اس سے خاتم النبین کی واضح تغیر ہو جاتی ہے حضور نے فرمایا کہ خاتم النبین کا لفظ صدیق نبی یا امتی نبی ہونے میں روک نہیں.اگر حضور کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی یہ ہوتے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا تو حضور اس موقع پر یوں فرماتے کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ بھی رہتا تب بھی نبی نہ بن سکتا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں مگر حضور نے یوں فرمایا کہ اگرچہ میں خاتم النبیین ہوں لیکن اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو وہ ضرور نبی بن جاتا.گویا صاحبزادہ ابراہیم کے نبی بننے میں اس کی وفات روک تھی نہ کہ آیت خاتم النبیین.ظاہر ہے کہ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی ہونہار طالب علم کے فوت ہو جانے پر کہا جائے کہ اگر یہ زندہ رہتا تو ضرور ایم.اسے کر لیتا.یہ فقرہ اسی صورت میں کہا جائے گا جب لوگوں کے لئے ایم.اسے پاس کرنا ممکن ہو.اگر ایم.اے کا درجہ ہی بند ہو چکا ہو اور کسی شخص کا ایم.اسے بننا ممکن نہ ہو تو ہونہار طالب علم کی وفات پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر یہ زندہ رہتا تو ایم.اے بن جاتا.حدیث نبوی لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا کی صحت پر ائمہ حدیث کا اتفاق ہے.امام شہاب
1.4 لکھتے ہیں : آمَا صِحَةُ الْحَدِيثِ فَلَا شُبُهَةَ فِيهَا لِأَنَّهُ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَغَيْرُهُ كَمَا ذَكَرَهُ ر الشهاب على البيضاوى جلد ، مثلا ) ابْن حَجْرٍ اہل سنت والجماعت کے مشہور صنفی امام ملا علی القاری اس حدیث کو تین طریقوں سے مروی اور قومی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :." توْعَاشَ إِبْرَاهِيمُ وَصَارَ نَبِيًّا وَكَذَ الْوَصَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِيسَى وَالْخِفْرِ وَالْيَاسَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ فَلَا يُنَا قِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذِ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِئَتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ اميه یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتے اور نبی بن جاتے.اسی طرح حضرت عمر نبی بن جاتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع یا امتی ہوتے جیسے عیسی ، خضر اور الیاس علیہم السلام ہیں.یہ صورت خاتم النبیین کے منافی نہیں کیونکہ خاتم النبیین کے تو یہ معنے ہیں کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ قرار دے اور آپ کا امتی نہ ہو.(موضوعات کبیر ملا علی القاری مث ) - مسلم شریف کی حدیث میں آنے والے مسیح موعود کو چار مرتبہ لفظ نبی اللہ کے ساتھ موصوف کیا گیا ہے.( صحیح مسلم جلد ۲ باب ذکر الدجال) حضور کی یہ حدیث ایک مشہور حدیث ہے :.1) أبُو بَكْرٍ اَ فَضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلا أَن يَكُونَ نَبِيُّ (كنوز الحقائق) کہ حضرت ابو بکر امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اِس کے کہ اُمت میں کوئی نبی پیدا ہو.
-۲ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے.آپؐ نے فرمایا :- قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا الا نبي بعده " (تكمله مجمع البحارم) که حضور کو خاتم النبیین تو کولیکن یہ نہ کہوکہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہ ہو گا.پھر ابن ماجہ کی حدیث جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اس میں حضور نے فرمایا اگرمیرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی بن جاتا.ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امت میں ایک قسم کی نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور وہ فنافی الرسول کے ذریعہ سے نبوت کو پانے کا دروازہ ہے.بلاشبہ ایسی احادیث کے مقابل دوسری احادیث بھی ہیں جن میں بظا ہر باب نبوت کو مسدود قرار دیا گیا ہے.ہمارے نزدیک اصولی طور پر جملہ احادیث کا حل یہ ہے کہ جن احادیث میں نبوت کو بند قرار دیا گیا ہے اس سے مراد نئی شریعت والی یا مستقل نبوت ہے.اور جن احادیث میں نبوت کے امکان کا ذکر ہے اس جگر غیر تشریعی اور آنتی بیوت مراد ہے.اس طرح سے جملہ احادیث میں پوری تطبیق ہو جاتی ہے اور اس لحاظ سے جملہ احادیث قرآن مجید کی آیات سے مطابق ہو جاتی ہیں.اس تفصیلی پہلو پر كتاب القول المبين في تفسير خاتم النبيين ملاحظہ فرمائی جائے جو بطور ضمیمہ نمبر شامل کی گئی ہے ؟ پس جملہ احادیث نبویہ کو یکجائی طور پر دیکھنے سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بعد نئی شریعیت لانے والے نبیوں یا مستقل نہیوں کی آمد بند ہے ہاں اتنی نبی اور تابع شریعیت محمدیہ نبی کے آنے کا امکان موجود ہے.اسی بناء پر جملہ فرقے آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع نبی مانتے ہیں.آنحضرت کا اُمتی نبی یقین کرتے ہیں اور یہی جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے.
بزرگان سلف اور تفسیر تم نبوت جماعت احمدیہ کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ اصولی اور بنیادی طور پر ختم نبوت کی ان تمام تفاسیر کو بدل جان تسلیم کرتی ہے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع اور منفردشان دوبالا ہوتی ہے اور جو بزرگان امت نے گزشتہ تیرہ صدیوں میں وقتاً فوقتاً بیان فرمائیں.) اس حقیقت کے ثبوت میں رسالہ " خاتم الانبياء" بطو ضمیمہ نمبر پیش ہے)
انکارِ جہاد کے الزام کی حقیقت
110 انکارِ جہاد کے الزام کی حقیقت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر آپ کے مخالفین کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ اسلامی فریضہ جہاد کومنسوخ فرما دیا.یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے.جہاد اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے جس کی فرضیت اور اہمیت قرآن کریم اور احادیث نبوی سے واضح ہے.جہاد ایک جامع لفظ ہے جو وسیع مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے علمائے دین اور فقہاء نے جہاد کی بہت سی اقسام کو تسلیم کیا ہے.مثلاً جهاد بالنفس، جهاد بالمال، جهاد بالعلم، جهاد اکبر،جہاد کبیر اور جہاد اصغر وغیرہ وغیرہ.جہاں تک جہاد اصغر یعنی جہاد بالسیف کا تعلق ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے پہلے کے علمائے دین اور فقہاء نے جہاد کی اس قسم کو جو قرآنی اصطلاح میں قتال کہلاتی ہے مخصوص حالات اور شرائط کے ساتھ مشروط قرار دیا ہے.بدقسمتی سے اُمت مسلمہ میں امتداد زمانہ کے ساتھ جہاد کا یہ غلط مفہوم را ہ پکڑا گیا کہ اسلام کو بذریعہ جنگ بزور شمشیر پھیلانا جہاد ہے.اسلامی جہاد کی حقیقت سے متعلق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے پر معارف ارشادات پیش ہیں :- " اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے ؟ سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں.جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول بخدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور باہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور
114 ایک قسم کا بغض پیدا ہو جایا کرتا ہے بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں...اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں.وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو نا حق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور ان کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت ان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں.ان کے دل کی قصور وار حالت کو ان پر ظاہر کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجین عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے.یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا.لہذا وہ اس تشکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے ان کے مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزین ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ، مال میں، کثرت جماعت میں، عزت میں ، مرتبہ میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت شمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پو وہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے سو اسی خون سے جو ان کے دلوں میں ایک رُعب ناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں ان سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے در دناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز یک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے
114 اور نوع انسان کے فخرزان شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بیچنے او عاجزا اور مسکین عورتیں کوچوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے.اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سےقطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شتر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو.چنانچہ ان برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا ان کے خونوں سے گوچھے سرخ ہو گئے پر انہوں نے کم نہ مارا.وہ قربانیوں کی طرح ذبیح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام میں بارہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگرہ اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دیلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ کروشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پرظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اس نے اپنے پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے یکیں سب کچھ دیکھ رہا ہوں لیکں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے مزا نہیں چھوڑوں گا یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا.اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے.اذنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أَخْرِجُوا گورنمنٹ انگریزی اور جہاد صفحہ اتاهم ) اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اٹھانا حکم فرمایا ہے کہ جو اول آپ تلوار اُٹھائیں اور انہیں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ قتل کریں.یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کا فر با دشاہ کے تحت میں ہو کر اور اس کے عدل اور انصاف سے فائدہ اُٹھا کر پھر اسی پر باغیانہ حملہ کر دو قرآن کے رو سے یہ بد معاشوں کا طریق ہے نہ نیکوں کا لیکن توریت مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَق وو
نے یہ فرق کسی جگہ کھول کر بیان نہیں فرمایا.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلال او جمال احکام میں اسی خط مستقیم عدل اور انصاف اور رحم اور احسان پر چلتا ہے جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں کیا انجام آنهم حصہ دوم ص ) اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں ظاہری جنگ کی مطلق ضرورت اور حاجت نہیں بلکہ آخری دنوں میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا کیونکہ اس قت باطنی ارتداد اور الحاد کی اشاعت کے لئے بڑے بڑے سامان اور اسلحہ بنائے گئے اس لئے ان کا مقابلہ بھی اسی قسم کے اسلحہ سے ضروری ہے.کیونکہ آج کل امن و امان کا زمانہ ہے اور ہم کو ہر طرح کی آسائش اور امن حاصل ہے.آزادی سے ہر آدمی اپنے مذہب کی اشاعت اور تبلیغ اور احکام کی بجا آوری کرسکتا ہے.پھر اسلام جو امن کا سچا حامی ہے، بلکہحقیقہ امن اور سلم اور آشتی کا اشاعت کنندہ ہی اسلام ہے کیونکہ اس زمانہ امن و آزادی میں اس پہلے نمونہ کو دکھانا پسند کر سکتا تھا ؟ پس آجکل وہی دوسرا نمونہ یعنی روحانی مجاہدہ مطلوب ہے ؟ (ملفوظات جلد اول منه ) وو ابتدائے اسلام میں دفاعی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کی اس لئے بھی ضرورت پڑتی تھی کہ دعوتِ اسلام کرنے والے کا جواب دلائل و براہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا اس لئے لا چار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جاتا بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے که سیف (تلوار) کا کام قلم سے لیا جائے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو کبست کیا جائے اس لئے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے.ع گر حفظ مراتب نکسنی زندیقی ، (i الملفوظات جلد اوّل صفحہ ۵۹۵۸)
119 اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقینا سمجھے لوسیف کی نہیں قلم کی ہے.ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رُو سے اللہ تعالے کے پیچھے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اُتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ دکھلاؤں.یکیں کب اس میدان کے قابل ہو سکتا تھا.یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو.میں نے ایک وقت ان اعتراضات اور حملات کو شمار کیا جو اسلام پر ہمارے مخالفین نے کئے ہیں تو ان کی تعداد میرے خیال اور اندازہ میں تین ہزار ہوئی اور یکں سمجھتا ہوں کہ اب تو تعداد اور بڑھ گئی ہوگی.کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام کی بناء ایسی کمزور باتوں پر ہے کہ اس پر تین ہزارہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے یہ اعتراضات تو کوتاہ اندیشوں اور نا دانوں کی نظر میں اعتراض ہیں مگر میں تم سے پیچ پیچ کہتا ہوں کہ میں نے یہاں ان اعتراضات کو شمار کیا وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تہ میں در اصل بہت ہی نا در صداقتیں موجود ہیں جو عدم بصیرت کی وجہ سے معترضین کو دکھائی نہیں دیں اور در حقیقت یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نا بینا معترض آکر اٹکا ہے و ہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے یا (ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۵۹ ۶۰) " سو جاننا چاہئیے کہ قرآن شریف یونہی لڑائی کے لئے حکم نہیں فرماتا بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو ایمان لانے سے روکیں اور اس بات سے روکیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کاربند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبرا اپنے دین میں داخل کرتے ہیں
۱۳۰ اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کومسلمان ہونے سے روکتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنوں پر واجب ہے جو اُن سے لڑیں اگر وہ باز نہ نور الحق حصہ دوم ص ) آدیں اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین اسلام کی خوبیاں دُنیا میں پھیلا دیں یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کر دے " ( اخبار البدر قادیان ۴ ار اگست ۶۱۹۰۲ صفحه ۲۳۹ کالم عند) "خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جو ان درخشاں جواہرات پر تھو پا گیا ہے اس سے ان کو پاک صاف کروں خدا تعالیٰ کی غیرت اِس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ و مقدس کرے.الغرض ایسی صورت میں کہ مخالفین قلم سے ہم پر وار کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں کس قد بیوقوفی ہو گی کہ ہم ان سے ٹیم لٹھا ہونے کو تیار ہو جائیں میں نہیں کھول کر بتلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں اگر کوئی اسلام کا نام لے کر جنگ و جدال کا طریق جواب میں اختیار کرے تو وہ اسلام کا بدنام کرنے والا ہوگا اور اسلام کا کبھی ایسا منشاء نہ تھا کہ بے مطلب اور بلا ضرورت تلوار اُٹھائی جائے.اب لڑائیوں کی اعراض جیسا کہ میں نے کہا ہے فن کی شکل میں آکر دینی نہیں رہیں بلکہ دنیوی اعراض ان کا موضوع ہو گیا ہے.بیس کس قدر ظلم ہوگا کہ اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کی بجائے تلوار دکھائی جائے.اب زمانہ کے ساتھ معرب کا پہلو بدل گیا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں.راستبازی اور تقویٰ سے خدا تعالیٰ سے امداد اور فتح
چا ہیں.یہ خدا تعالی کا ایک اٹل قانون اور تحکم اصول ہے، اور اگر مسلمان صرف قیل و قال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیں تو یہ یمکن نہیں، اللہ تعالی لاف و گزان اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ تو حقیقی تقویٰ چاہتا ہے اور سچی طارت کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ ) ملفوظات جلد اول صفحه ۶۰-۲۱) ” قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتداء میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا ان قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا.(ستاره قیصریه ملا) یکی نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے لا اکراه في الدين یعنی دینِ اسلام میں جبر نہیں تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا اور جبر کے کونسے سامان تھے (پیغام صلح مدد ) " مسیح موعود دنیا میں آیا ہے تاکہ دین کے نام سے تلوار اُٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنے حج اور براہین سے ثابت کر دکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اس کے حقائق و معارف و حج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں.اس لئے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوی میں جھوٹے ہیں.اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کیسی جبر کی محتاج نہیں ہیں.اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلام اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے.
۱۲۲ اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دُور کر دے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں تلوار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہوں گے" (ملفوظات جلد سوم م) " اسلام میں جبر کو دخل نہیں.اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں.ا - دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری - -۲ بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون.- ۳ - بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبرا وقت کی چمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سراسر لغو اور بیہودہ ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے " اسیح ہندوستان میں منا ) "سوچنا چاہیئے کہ اگر مثلاً ایک شخص ایک بچے مذہب کو اس وجہ سے قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کی سچائی اور اس کی پاک تعلیم اور اس کی خوبیوں سے ہنوز نا واقف اور بے خبر ہے تو کیا ایسے شخص کے ساتھ یہ برتاؤ مناسب ہے کہ بلا توقف اس کو قتل کر دیا جائے بلکہ ایسا شخص قابل رقم ہے اور اس لائق ہے کہ نرمی اور تعلق سے اس مذہب کی سچائی اور خوبی اور روحانی منفعت اس پر ظاہر کی جائے نہ یہ کہ اس کے انکار کا تلوار یا بندوق سے جواب دیا جائے لہذا اس زمانہ کے ان اسلامی فرقوں کا مسئلہ جہاد اور پھر اس کے ساتھ یہ تعلیم کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک خونی مهدی پیدا ہو گا جس کا نام امام محمد ہو گا اور مسیح اس کی مددکیلئے آسمان سے اترے گا اور وہ دونوں مل کر دنیا کی تمام غیر قوموں کو اسلام کے انکار پرقتل کردیں گے نهایت درجہ اخلاقی مسئلہ کے مخالف ہے.کیا یہ وہ عقیدہ نہیں ہے کہ جو انسانیت کے تمام
پاک قومئی کو معطل کرتا اور درندوں کی طرح جذبات پیدا کر دیتا ہے اور ایسے عقائد والوں کو ہر ایک قوم سے منافقانہ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے یا (سیح ہندوستان میں صفحہ ٤٤٦) " ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں اور پھر بعد اس کے بھی کفار کے ہاتھ سے دکھ اُٹھایا اور بالخصوص مکہ کے تیرہ برس اس مصیبت اور طرح طرح کے ظلم اُٹھانے میں گزرے کہ جس کے تصور سے بھی رونا آتا ہے لیکن آپ نے اس وقت تک دشمنوں کے مقابل پر تلوار نہ اُٹھائی اور نہ ان کے سخت کلمات کا سخت جواب دیا.لہذا یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کبھی دین پھیلانے کے لئے لڑائی کی تھی یا کسی کو جبراً اسلام میں داخل کیا تھا سخت غلطی اور ظلم ہے (مسیح ہندوستان میں صفحہ ۸۱۷)
سوم ۱۳ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلقہ اقتباسات کے بعد اب ہم آپ کے زمانہ سے پہلے کے بزرگان اسلام، آپ کے ہم عصر علمائے کرام اور آپ کے زمانہ کے بعد کے بعض مشہور علماء کے جہاد کے متعلق چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے موقف کی پر زور تائید ہوتی ہے اور یہ حقیقت خوب گھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آج جن فرقوں کے علماء حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر انکار جہاد کا الزام لگا رہے ہیں خود ان فرقوں کے علماء کی تحریرات کی رُو سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا فیصلہ عین شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تھا اور سیر مو بھی اس سے انحراف کا الزام نہیں لگایا جاسکتا.ا.حضرت سید احمد صاحب بریلوی کا ارشاد سرکا یہ انگریزی گو شنکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے.ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے اور تر و پیچ کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے.ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی اور احیائے سن سید المرسلین ہے.سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں.پھر ہم سرکارہ انگریز پر کی سب سے جہاد کریں اور خلاف اصولِ مذہب طرفین کا خون بلا سبب گرا دیں سوانح احمدی مرتبه مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صفحہ (۷) ۲.حضرت مولانا شاہ اسماعیل صاحب شہید کا فتویٰ حضرت مولانا اسماعیل ضا شہید کے متعلق لکھا ہے :.
۱۲۵ " مولانا اسماعیل شہید کا سکھوں سے اُن کے مذہب اسلام میں دست اندازی کے سبب جہاد رہا.اس جہاد کی ترغیب کے لئے وہ خطبہ انہوں نے بنایا تھا.گورنمنٹ انگلشیہ سے نہ ان کا جہاد تھا اور نہ اس گورنمنٹ سے جہاد کا اس خطبہ میں صراحتہ یا کنایہ ذکر ہے بلکہ اس گورنمنٹ سے وہ جہاد کرنے کو نا جائز سمجھتے تھے" (اشاعۃ السنہ جلد ۹ نمبر صفحه ۱۲٬۱۱) - مولوی نذیر حسین صاحب ہلوی کا فتویٰ " جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کا یہاں کرنا سبب ہلاکت اور معصیت (فتاوی نذیر یه جلد ۴ صفحه ۴۷۲) ہوگا ۴ - خلیفہ مسلمین کا فتومی جناب متقضی احمد خان میکش "تاریخ اقوام عالم میں لکھتے ہیں :.خلیفہ نے اس مضمون کا فتوی لکھ کر انگریزوں کو دے دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں سے نہیں لڑنا چاہئیے کیونکہ وہ خلافتِ اسلامیہ کے حلیف اور مددگار ثابت ہوچکے ہیں.“ تاریخ اقوام عالم صفحه ۶۳۹ از مرتضی احمد خان میکش ناشته مجلس ترقی ادب ۲ نویر سنگھ واس گارڈن کلب روڈ لاہو) ه فتوی علماء اسلام مطبع دخانی لاہور " سرورق پر آیت " أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ لکھی ہے جس میں انگریزوں کو اولی الامر قرار دے کر ان کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے.اس فتوی پر مندرجہ ذیل مشہور علمائے کرام کے دستخط ثبت ہیں :.
ه جناب مفتی مولوی محمدعبداللہ ہونگی.میرملبس مستشار العلماء.لاہور ه جناب مولوی غلام محمد صاحب بگوی.امام مسجد شاہی و رکن اعظم انجمن مستشار العلماء لاہور ه جناب سید مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی ه جناب ابو الصفاء مولوی قاضی میر احمد شاہ صاحب رضوانی پشاوری ه جناب مولوی محمد صاحب لدھیانوی ه جناب مولوی ابومحمد عبد الله الانصاری ناظم محکمہ دینیات مدرستہ العلوم علی گڑھے ه جناب مولوی عبدالحی صاحب امین آبادی لکھنوی منتظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ه جناب مفتی محمد عبد الرحیم صاحب پشاوری ه جناب مولوی غلام محمد صاحب ہوشیار پوری رکن اعظم ندوۃ العلماء لکھنؤ ه جناب ملا حافظ عزت اللہ صاحب ساکن زخی ضلع پشاور • جناب ابوالحامد مولوی عبدالحمید صاحب لکھنوی ه جناب قاضی ظفر الدین صاحب ساکن گوجرانوالہ جناب ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ه جناب ملا حافظ حامد شاہ صاحب خطیب جامع مسجد مہابت خان پشاور ه جناب مولوی ابو محمد غلام رسول صاحب امرتسری ه جناب مولوی عبد الرحمان صاحب ابن مولوی غلام علی صاحب مرحوم قصوری ه جناب مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانوی ه جناب مولوی غلام احمد صاحب مدرس اقول مدرسہ نعمانیہ.لاہور ه جناب مولوی محمد حسین صاحب یعنی مدرس مدرسه نمانید - لاہور ه جناب مولوی سید احمد صاحب امام جامع مسجد دہلی
جناب قاضی رفیع اللہ صاحب ساکن بڑنی ضلع پشاور ه جناب مولوی عبد الجبار صاحب غره نومی امرتسری ه جناب سید محمدعبد السلام الدعلوی نبیرہ حضرت جناب مولانا شمس العلماء سید محمدنذیر حسینم مدظلہ العالی المحدث دہلوی.ه جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب دہلوی ابن مولوی محمد حسین صاحب فقیر ه جناب سید محمد ابوالحسن الدهلوی نبیره خورد جناب مولانا شمس العلماء سید محمد نذیر حسین مدظلہ العالی المحدث دہلوی.ه جناب مولوی مداح بشیر و نذیر این مولوی محمد حسین صاحب المتخلص بفقیر ه جناب مولوی خلیل احمد صاحب مدرس اول مدرسه سهارنپور • جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ه جناب محمود حسن صاحب مد ترس اول مدرسه دیوبند صالح اس فتوی میں جو انجمن اسلامیہ پنجاب کے استفتاء پر مندرجہ بالا علماء کرام نے دیا تھا صاف طور پر لکھا ہے کہ :.(۱) مذہب اسلام کی رو سے کسی آدمی کو ناحق مارڈالنا ناجائز، حرام اور سخت بدترین گناہوں میں سے ہے خواہ وہ آدمی مسلم ہو یا غیر مسلم ہو، عیسائی ہو یا سیو دی ، ہندو ہو یا پارسی وغیرہ وغیرہ.(۲) برٹش گورنمنٹ اور اس کی تمام رعایا میں باہمی حفاظت و سلامت کی بابت حقیقی یا ضمنی طور پر قطعی معاہدہ ہو چکا ہے.(۳) یہ یقینی بات ہے کہ جو شخص گورنمنٹ کی قوم یا اس کی رعایا میں سے کسی کو قتل کرے گا وہ بمقتضائے حدیث مذکور مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ يَرِحُ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ جنّت کی خوشبو سے محروم رہے گا یا
۱۳۸ - المحدیث ہنما مولوی محسین بنا بٹالوی کے فتوی کی رو سے (3) اہل اسلام ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے " ار سالہ اشاعۃ السنہ جلد نمبر ، صفحہ ۲۸۷) (ب) " مفسدہ عشاء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہگار اور حکم قرآن و حدیث وہ مفسد باغی اور بد کردار تھے" (رسالہ اشاعته السته جلد 9 نمبرا) (ج) " اس گورنمنٹ سے لڑنا یا ان سے لڑنے والوں کی (خواہ اُن کے بھائی مسلمان کیوں نہ ہوں ) کسی نوع سے مدد کر نا صریح غدراور حرام ہے “ در ساله اشاعه السنه جلد نمبر، صفحه ۳۸ تا ۴۸) - جناب مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کا فتوی فقیر نے اعلام الاعلام بأن من دونستان دار السلام میں بدلائل ساطعہ ثابت کیا ہے کہ ہندوستان دارالسلام ہے اور اسے دارالحرب کرنا ہر گز صحیح نہیں یا النصرة الابرار ۲ مطبع صحافی لاہور آیلین گنج میں چھپا ۱۷ ربیع الاول سی جناب سرسید احمد خان صاحب کا بیان سرسید احمد بانی دارالعلوم علی گڑھ اپنی کتاب " اسباب بغاوت ہند میں لکھتے ہیں :- " جب کہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستامن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری ہیں جہاد نہیں کر سکتے تھے ہمیں تمہیں برس پیشتر ایک بہت بڑے نامی مولوی محمد اسماعیل نے ہندوستان میں جہاد کا وعظ کیا اور آدمیوں کو جہاد کی ترغیب دی.اس وقت اس نے صاف بیان کیا کہ.
۱۲۹ ہندوستان کے رہنے والے جو سرکایہ انگریزی کے امن میں رہتے ہیں ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے " ( اسباب بغاوت ہند صفحه ، ناشر اردو اکیڈمی سند مین روڈ، کراچی).مکہ معظمہ کے مفتیوں کا فتویٰ (1) جمال الدین بن عبداللہ شیخ عمر حنفی مفتی مکه مکرمه (۲) حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مستر معظمه (۳) احمد بن زمعنی شافعی مفتی مکہ معظمہ نے ہندوستان کے دار السلام ہونے کا فتوی دیا تھا “ (کتاب السید عطاء اللہ شاہ بخاری ملا مولفه شورش کا شمیری) - مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار لا ہوں لکھتے ہیں :- "1 مذہبی آزادی اور امن و امان کی موجودگی میں بھی اگر کوئی بدبخت مسلمان گو رنمنٹ سے سرکشی کی جرأت کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں “ اخبار "زمیندار" لاہور - 11 نومبر شاه بحوالۂ ظفر علی خان کی گرفتاری از خان کابلی )
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر انکار جہاد کا الزام واضح طور پر آپ کی تعلیم، مجاہدانہ زندگی اور فرمودات کے منافی ہے.آپ کی ساری زندگی اسلام کی مدافعت تبلیغ اور جہاد کبیر یعنی جہاد بالقرآن میں صرف ہوئی.آپ نے اپنے وقت میں اسلام کی تائید میں ہندو مذہب اور عیسائیت کی خطرناک یلغار کے خلاف ایک عظیم جہاد کیا.کا سر صلیب ہونے کی حیثیت سے آپ نے عیسائیوں کے گمراہ کن پراپیگینڈہ اور تثلیث کی باطل عمارت کو دلائل و براہین کے ساتھ پاش پاش کر دیا.اس ضمن میں آپ کے چند اقتباسات پیش ہیں جن سے بخوبی واضح ہو جائے گا کہ آپ نے اسلام کی تائید میں عیسائیت کے خلاف جو عظیم الشان جہاد کیا اس کے پیچھے کتنا قوی اور والہانہ جذبہ کار فرما تھا.آپ تحریر فرماتے ہیں :- " خدا نے کسر صلیب کے لئے میرا نام سیے قائم رکھا تا جس صلیب نے مسیح کو توڑا تھا اور اس کو زخمی کیا تھا دوسرے وقت میں مسیح اس کو توڑے مگر آسمانی نشانوں کے ساتھ نہ انسانی ہاتھوں کے ساتھ، کیونکہ خدا کے نبی مغلوب نہیں رہ سکتے یسوس نہ عیسوی کی بیسویں صدی میں پھر خدا نے ارادہ فرمایا کہ صلیب کو سیح کے ہاتھ سے مغلوب کرے " تتمہ حقیقۃ الوحی ص ) 51.ایک متقی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اس چودھویں صدی کے سر پر جس میں ہزاروں عملے اسلام پر ہوئے ایک ایسے مجدد کی ضرورت تھی کہ اسلام کی حقیقت ثابت کرے.ہاں اس مجدد کا نام اس لئے مسیح ابن مریم رکھا گیا کہ وہ کس صلیب کے لئے آیا ہے اور خدا اس وقت چاہتا ہے کہ جیسا کہ میسج کو پہلے زمانہ میں یہودیوں کی صلیب سے نجات دی تھی اب عیسائیوں کی صلیب سے بھی اس کو نجات دے چونکہ عیسائیوں نے انسان کو خدا بنانے کے لئے بہت کچھ افتراء کیا ہے اس لئے خدا کی غیرت نے چاہا کہ مسیح کے نام پر ہی ایک شخص کو مامور کر کے اس افتراء کو
١٣١ نیست و نابود کرے.یہ خدا کا کام ہے اور ان لوگوں کی نظر میں مجیب “ ( انجام آنهم صفحہ ۳۲۱۳۲) اس زمانہ میں پادریوں کا متعقب فرقہ جو سراسر حق پوشی کی راہ سے کہا کرتا تھا کہ گویا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ ظہور میں نہیں آیا ان کو خدا تعالیٰ نے سخت شرمندہ کرنے والا جواب دیا اور کھلے کھلے نشان اس اپنے بندہ کی تائید میں ظاہر فرمائے.ایک وہ زمانہ تھا کہ انجیل کے واعظ بازاروں اور گلیوں اور کوچوں میں نہایت ریدہ دہانی سے اور سراسر افتراء سے ہمارے ستید و موئی خاتم الانبیاء اور فضل الرسل والاصفیاء اور سید المعصومین و الاتقیاء حضرت محبوب جناب احدیت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ قابل شرم جھوٹ بولا کرتے تھے کہ گویا آنجناب سے کوئی پیش گوئی یا معجزہ طور میں نہیں آیا اور اب یہ زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے علاوہ ان ہزار ہا معجزات کے جو ہمارے سرور ولی شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف اور احادیث میں اس کثرت سے مذکور ہیں جو اعلیٰ درجہ کے تواتر پر ہیں تازہ بتازہ صد بانشان ایسے ظاہر فرمائے کہ کسی مخالف ومنکر کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں.ہم نہایت زمی اور انکسار سے ہر ایک عیسائی صاحب اور دوسرے مخالفوں کو کہتے رہے ہیں کہ در حقیقت یہ بات سچ ہے کہ ہر ایک مذہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو کر اپنی سچائی پر قائم ہوتا ہے اس کے لئے ضرور ہے کہ اس میں ایسے انسان پیدا ہوتے رہیں کہ جو اپنے پیشوا اور ہادی اور رسول کے نائب ہو کر یہ ثابت کریں کہ وہ نبی اپنی روحانی برکات کے لحاظ سے زندہ ہے فوت نہیں ہوا کیونکہ ضرور ہے کہ وہ نبی جس کی پیروی کی جائے جس کو شفیع او منبتی سمجھا جائے وہ اپنے روحانی برکات کے لحاظ سے ہمیشہ زندہ ہوا اور عزت اور رفعت اور جلال کے آسمان پر اپنے چکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ ایسا دی طور پر مقیم ہو اور خدائے ازلی ابدی می وقیوم او الاقتاً کے دائیں طرف بیٹھنا اس کا ایسے پر زور الہی نوروں سے ثابت ہو کہ اس سے کامل محبت رکھنا
۱۳۲ اور اس کی کامل پیروی کرنا لازمی طور پر اس نتیجہ کو پیدا کرتا ہو کہ پیروی کرنیوالا روح القدس اور آسمانی برکات کا انعام پائے اور اپنے پیارے نبی کے نوروں سے نور حاصل کر کے اپنے زمانہ کی تاریکی کوڈ ورکر سے اور نستعد لوگوں کو خدا کی ہستی پر وہ پختہ اور کامل اور درخشاں اور تاباں یقین بخشے جس سے گناہ کی تمام خواہشیں اور سفلی زندگی کے تمام جذبات جیل جاتے ہیں یہی ثبوت اِس بات کا ہے کہ وہ نبی زندہ اور آسمان پر ہے سو ہم اپنے خدائے پاک الجلال کا کیا تشکر کریں کہ اسی نے اپنے پیارے نبی محمد صطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی کی توفیق دے کر اور پھر اسی محبت اور پیروی کے روحانی فیضوں سے جو پیتے تقومی اور پیچھے آسمانی نشان ہیں کامل حصہ عطا فرما کہ ہم پر ثابت کر دیا کہ وہ ہمارا پیارا برگزیدہ نبی فوت نہیں ہوا بلکہ وہ بلند تر آسمان پر اپنے میک مقتدر کے دائیں طرف بزرگی اور جلال کے تخت پر میٹھا ہے.اَللّهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَبَارِكْ وَسَلّمْ - اِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ 16 ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسليمًا ( تریاق القلوب مشتام.سیح موعود کے وجود کی علت غائی احادیث نبویہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسائی قوم کے دجل کو دور کرے گا اور ان کے صلیبی خیالات کو پاش پاش کر کے دکھلا دے گا چنانچہ یہ امر میرے ہاتھ پر خدا تعالیٰ نے ایسا انجام دیا کہ عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا.میں نے خدا تعالیٰ سے بصیرت کا ملہ پا کر ثابت کر دیا کہ وہ لعنتی موت کہ جو نعوذ باللہ حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس پر تمام مدار مصلیبی نجات کا ہے وہ کسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی اور کسی طرح لعنت کا مفہوم کسی راستباز پر صادق نہیں آسکتا.چنانچہ فرقہ پا دریاں اس جدید طرز کے سوال سے جو حقیقت میں ان کے مذہب کو پاش پاش کرتا ہے ایسے لاجواب ہو گئے کہ جن جن لوگوں نے اس تحقیق پر اطلاع پائی ہے وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی تحقیق نے صلیبی مذہب کو توڑ دیا ہے بعض پادریوں کے خطوط سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ
۱۳۳ وہ اس فیصلہ کرنے والی تحقیق سے نہایت درجہ ڈر گئے ہیں اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس سے ضرور صلیبی مذہب کی بنیاد گرے گی اور اس کا گرنا نہایت ہولناک ہوگا نیا (کتاب البریة حاشیه صفحه ۲۶۲ ) میں ہر دم اس منکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاری کا کیسی طرح فیصلہ ہو جائے میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خوار ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اس سے بڑھ کر اور کورن سادھے درد کا مقام ہو گا کہ ایک عاجز انسارض کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک سے مشریقے خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے میرے بجھی کا اسے علم سے فنا ہوجاتا ار میرا موالیے اور میرا قادر توان مجھے سکھے نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتحی ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور چھوٹے خدا اپنے خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قا اور فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سو آب اس نے چاہا ہے کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھا دے.سو اب دونوں مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدا دیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نز دیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو پچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اسکے توبہ کا دروازہ بند ہو گا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نُور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام، و رسب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ گند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور
تمام تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.....اور خدا کا ایک ہی ہاتھ گھر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کیسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے تب یہ باتیں جو میں کوتا ہوں سمجھ میں آئیں گی " د تبلیغ رسالت جلد ششم مث ) " اسے مسلمانو !سنو ! اور غور سے سنو ! کہ اسلام کی پاک تاثیروں کے روکنے کے لئے جسقد پیچیدہ افتراء اس عیسائی قوم میں استعمال کئے گئے اور پر سکر جیلے کام میں لائے گئے اور ان کے پھیلانے میں جان توڑ کر اور مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں یہاں تک کہ نهایت شرمناک ذریعے بھی جن کی تصریح سے اس مضمون کو منترہ رکھنا بہتر ہے اسی راہ میں ختم کئے گئے.یہ کرسچن قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کا روائیاں ہیں کہ جب تک اُن کے اس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پر زو ر ہاتھ نہ دکھاوے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اس معجزہ سے اس طلسم کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو مخلصی حاصل ہونا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے سو خدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لئے اس زمانہ کے پیچھے مسلمانوں کو یہ معجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکات خاصہ سے مشرف کر کے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے ہر کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات رُوحانی معارف و دقائق ساتھ دیئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جو سعر فرنگ نے تیار کیا ہے.سوائے مسلمانو ! اِس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوں کے اُٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے.کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر
۱۳۵ معجزہ بھی دُنیا میں آتا.کیا تمہاری نظروں میں یہ بات عجیب اور انہونی ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ کے مکروں کے مقابلہ پر جو ھر کی حقیقت تک پہنچ گئے ہیں ایک ایسی حقانی چمکار دکھا وسے جو معجزہ کا اثر رکھتی ہو یا (فتح اسلام صفحه ۶۶۵) چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں اس لئے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے.میرے دل پر اس قدر صدمہ پہنچاتا رہا ہے کہ میں گمان نہیں کرسکتا کہ مجھے پرمیری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گذرا ہو.بلکہ اگر ہم غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو سچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے.ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس نظم کے صدمات سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں.....اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ گوں اور میری روح ہر وقت دعا کرتی ہے کہ اسے خدا ! اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اُٹھا دی جائے کہ گویا نعوذ باللہ انہوں نے خدائی کا دعوی کیا.ایک زمانہ گذر گیا کہ میرے پہنچ وقت کی یہی دعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشتے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لاویں اور اسکے رسول کو شناخت کرلیں اور تثلیث کے اعتقاد سے توبہ کریں تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۷۲،۷۱)
14 انظُرُ إِلَى الْمُتَنَصِرِينَ وَذَانِهِمْ وَانْظُرُ إلَى مَا بَدء مِنْ أَدْرَانِهِمْ عیسائیوں کو دیکھو اور ان کے عیبوں کو اور ان کے میلوں کو دیکھے جو ان سے ظاہر ہوئیں مِن كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُوْنَ تَشَدُّدًا وَيُنجِسُونَ الْأَرْضَ مِنْ أَوْثَانِهِمْ وہ اپنی زیادتیوں اور تدریوں کی وجہ کہ ایک بلندی رویت ہیں اور اپنے مہتوں سے زمین کو نا پاک کر رہے ہیں نَشْكُو إِلَى الرَّحْمَنِ شَرِّ زَمَانِهِمْ وَنَعُوذُ بِالْقُدُّوسِ مِنْ شَيْطَانِهِمُ ہم اُن کے مانہ کے شرسے خداتعالی کی طرف شکار ہے انہیں اور ان کے شیطان پاک پروردگار کی پناہ میں آتے ہیں يَا رَبِّ خُذْهُمْ مِثْلَ آخَذِكَ مُفْسِدًا قَدْ أَفْسَدَ الأَفَاقَ طُولُ زَمَانِهِمْ اسے خدا تو ان کو پکڑ جیسا کہ تو ایک مرد کو پکڑتا ہے اُن کے طولِ زمانہ نے دنیا کو بگاڑ دیا يَا رَبِّ أَحْمَدَ يَا اللَهُ مُحَمَّدٍ اِعْصِمُ عِبَادَكَ مِنْ سُمُومِ دُخَانِهِمْ اسے احمد کے رب اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے الہ اپنے بندوں کو ان کے دھوئیں کی زہروں سے بچائے سبوا نَبِيَّكَ بِالْعِنَادِ وَكَذَّبُوا خَيْرَ الْوَرى فَانْظُرُ إلى عُدْوَانِهِمُ تیرے نبی کو انہوں نے عناد سے گالیاں دیں او جھٹلایا وہ نبی جو افضل المخلوقات ہے سو تو ان کے ظلم کو دیکھ دیں اور يَا رَبِّ سَحْقُهُمْ كَسَحْقِكَ طَاغِيًا وَ انْزِلُ بِسَاحَتِهِمْ لِهَدْمِ مَكَانِهِمْ اے میرے بے اُن کو اس میں ڈال یا کہ تو ایک ان کو پتا ہے اور انکی عمارتوں کو مار کرنے کیلئے ان کے صحن خانہ میں اتر يا رَبِّ مَرْتُهُمْ وَفَرِّقُ شَمْلَهُمْ اسے میرے رب ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور انکی جمعیت کو پاش پاش کرد يَا رَبِّ قَوْدُهُمْ إِلى ذَوَبَانِهِمْ “ اسے میرے کرب ان کو ان کے گداز ہونے کی طرف کھینچے (نور الحق حصہ اوّل)
۱۳۷ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین حق کی حمایت میں عیسائی مذہب کے خلاف جو عظیم الشان قلمی جہاد کیا اسکی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی.آپ ایک ایسے فتح نصیب جرنیل تھے جس کے مقدر میں ہر محاذ پر غلبہ لکھا گیا اور کیا دوست اور کیا دشمن بے اختیار آفرین صد آفرین پکار اٹھے.آپ کے اس عظیم الشان جہاد سے متعلق بعض اعترافات پیش خدمت ہیں :- حضرت خواجہ غلام فرید صاحب سجادہ نشین چاچڑاں شریف فرماتے ہیں :.حضرت مرزا صاحب تمام اوقات خدائے عز وجل کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں یا دوسرے ایسے ہی دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین اسلام کی حمایت پر اس طرح کمر ہمت باندھی ہے کہ ملکۂ زمان لنڈن کو بھی دین محمدی (اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ہے اور روس اور فرانس اور دیگر ملکوں کے بادشاہوں کو بھی اسلام کا پیغام بھیجا ہے اور ان کی تمام ترسعی و کوشش اس بات میں ہے کہ وہ لوگ عقیدہ تثلیث وصلیب کو جو کہ سراسر گفر ہے چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اختیار کریں اور اس وقت کے علماء کا حال دیکھو کہ دوسرے تمام چھوٹے مذاہب کو چھوڑ کر ایسے نیک مرد کے در پئے ہو گئے ہیں جو کہ اہل سنت و الجماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے اور ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے اور یہ اس یہ اس پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں.ان کا عربی کلام دیکھو جو انسانی طاقتوں سے بالا ہے اور ان کا تمام کلام معارف و حقائق اور ہدایت سے بھرا ہوا ہے وہ اہلسنت والجماعت اور
۱۳۸ دین کی ضروریات سے ہرگز منکر نہیں ہیں.(ترجمه از فارسی انتشارات فریدی جلد ۳ صفحه ۷۰۰۶۹) اخبار وکیل امرتسر مسلمان اخبارات میں سب سے زور دار، موثر اور حقیقت افروز ریویو اخبار وکیل امرتسر کا تھا جو مولانا ابو الکلام آزاد کے قلم سے نکلا.انہوں نے لکھا :.وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی اُنگلیوں سے انقلاب کے تاراً لجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.و شخص جو نہ ہی دنیا کے لئے تین برس تک زلزلہ اور طوفان رہا جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا.....مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اُسے امتداد زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب جاتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دیکھا جاتے ہیں.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم باکستان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک کیست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے.مرزا صاحب کا لٹریپر جوسیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس ٹریچر کی قدر عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے
اس لئے کہ وہ وقت ہر گز کوح قلب سے نَسيَّا مَنْیسیا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری کی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سیر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو یوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور عملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صا حب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اورمستحق کا میا بی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنیوالی نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ اُن کے شعار قومی کا عنوان بحواله بذر ه ار جوان شنتشار ص ایضا اخبار ملت کا ہو نظر آئے قائم رہے گا تصادق الاخبار ریواڑی ” صادق الاخبار“ ریواڑی نے لکھا کہ :- جنوری شای صفوی ۳ تا ۵ بحواله اخبار الحکم جلد ۱۵ اصل
مرزا صاحب نے اپنی پر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے کچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حقی ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کما حقہ ادا کر کے خدمت دین سلم میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامی اسلام اور معین الاسلمین فاضل اجل عالیم بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے“ (بحوالہ بدر ۲۰ اگست شنا صفحه ۶ کالم ۲ ) کرزن گزٹ ویلی کرزن کنٹ“ دہلی کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے لکھا کہ جب " مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لڑکی پسر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ حق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندئی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں....اس کا پُر زور لریچہ اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے...(بحوالہ سلسلہ احمدید ما ) چه وری فضل حق صا ف کر احرار آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھاجس میں تبلیغی حتی
السوم مفقود ہو چکی تھی...مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی.ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا.ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا....اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ فتنه ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں طبع دوم صفحه ۲۴) ہے یا مولانا سید حبیب صاحب مدیر سیاست فرماتے ہیں :." اس وقت کہ آریہ اور سیمی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے اتنے دستے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا اس وقت مرز اعلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا ہیں مرزا صاحب کے ادعائے نبوت و غیرہ کی قلعی کھول چکا ہوں لیکن بقولیکہ عیب ہائے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیے.اسلام کے متعلق ان کے بعض مضامین (تحریک قادیان صفحه ۲۰۹٬۲۰۸) لا جواب ہیں.اسے حقہ مضمون کے آخر پر ہم یہ گزارش کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اسلام کے اس عظیم مبل مبیل کے متعلق جس کی زندگی سرتا پا دین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر جہاد میں وقف تھی اور عیسائیت کے خلاف جس کی شہرۂ آفاق مذہبی جنگوں نے عالم عیسائیت میں تہلکہ مچارکھا تھا یہاں وہی فتح نصیب جرنیل جس کے متبعین
آج تک اس عظیم جہاد میں مصروف ہیں اور آئے دن نئے محاذوں پر عیسائیت کو شکست فاش دے رہے ہیں.اسلام کے یہ دیوانے دنیا کے کونے کونے میں عیسائیت سے برسر پیکار ہیں اور کیا یورپ اور کیا امریکہ اور کیا افریقہ کا تاریک براعظم، ہر میدان کارزار میں کلیسیا جن کے عملوں سے لرزاں ہے اور عیسائی دنیا رشتہ براندام نظر آتی ہے جن کے لبوں کی منیش سے صلیب ٹوٹتی ہے اور جین کے قدموں کی چاپ عیسائیت کے لئے پسپائی کا پیغام ہے.افسوس صد افسوس ! کہ اسلام کے اس بطل طبیل اور اس فتح نصیب جرنیل پر بھی بعض ظالم زبانیں طعن وتشنیع کے یہ چر کے لگاتی ہیں کہ وہ نعوذ باللہ عیسائی حکومتوں کا آلہ کار تھا.ہم اس بارہ میں صرف اتنا کہ کہ یہ عمل اپنے علیم خبیر اور نور خدا پر چھوڑتے ہیں کہ معاملہ اسے مظفر ، تجھ پر سلام.نیر مقام حاسدوں کی طعن وتشنیع سے بہت بلند ہے.اسے محمد عربی صل للہ علیہ وسلم کے نور سے منور چودھویں صدی کے چاند ! حاسدوں کے تھوک تیری رفیع الشان کائنات کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے.
بعض دیگر الزامات کا جائزہ الدله
بعض دیگر الزامات احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبہ کو معقول اور صحیح ثابت کرنے کے لئے بعض دیگر از اتا بھی عائد کئے گئے ہیں جن میں سے دو خاص طور پر قابل ذکر ہیں :.اول :- احمدی دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نہ نماز پڑھتے ہیں نہ ان کا جنازہ ادا کرتے ہیں نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق قائم کرتے ہیں.دوم : احمدی قرآن مجید میں لفظی اور معنوی تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں.امر اول کے متعلق نہایت ادب سے عرض ہے کہ جماعت احمدیہ اس معاملہ میں ایک مظلوم جماعت ہے جس پر شروع ہی سے علماء حضرات نے فتاوی لگا رکھے ہیں.چنانچہ شائر میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق فتوی دیا کہ " نہ اس کو ابتداء سلام کریں....اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں یا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتوی دیا کہ اشاعت السنه جلد ۱۳ نمبر ۶ مه ) " قادیانی کے مرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بنا دونوں باہم مدین ہیں یہ جمع نہیں ہوسکتیں یا ا شرعی فیصلہ صا۳ ) اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنا نا حرام ہے.( شرعی فیصلہ صا۳ ) مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا کہ " اس کے خلف نماز جائزہ نہیں " (فتوی شریعیت غراء مث )
مولوی عبد اآمیع صاحب بدایونی نے فتوی دیا کہ کیسی مرزائی کے پیچھے نماز ہرگز جائز نہیں.مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا ہندوؤں اور یہودو نصاری کے پیچھے.مرزائیوں کو نماز پڑھنے یا دیگر مذہبی احکام ادا کرنے کیلئے اہلسنت والجماعت اور اہل اسلام اپنی مسجدوں میں ہرگز نہ آنے دیں “ مولوی عبد الرحمن صاحب بہاری نے فتوی دیا کہ صاعقه ربانی بر فتنہ قادیانی مطبوعه شاه مث ) " اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل و مردود ہے.....ان کی امامت ایسی ہے جیسے کسی یہودی کی امامت " مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتوی دیا کہ فتومی شریعت غراء ص) اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اقتداء ہرگز درست نہیں " (شرعی فیصلہ ص ۳) مولوی عبد الجبار صاحب عمر پوری نے فتومٹی دیا کہ " مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے....ہر گنا امامت کے لائق نہیں ! (شرعی فیصلہ منگ) مولوی عر بیز الرحمن صاحب مفتی دیو بند نے فتوی دیا کہ " جس شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امام الصلوۃ بنانا حرام ہے " (شرعی فیصلہ ) مشتاق احمد صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ مرزا اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعت اسلام سے جدا ہے اور اس کو امام بنا نا نا جائز ہے یا شرعی فیصلہ ) مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے فتویٰ دیا کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتدوں کا حکم ہے یا (حسام الحرمین مشا)
مولوی محمد کفایت اللہ صاحب شاہجہان پوری نے فتوی دیا کہ ان کے کافر ہونے میں شک و شبہ نہیں اور ان کی بیعت حرام ہے اور امامت ہرگز جائز نہیں یا (فتوی شریعت غراء مت) جنانے کے متعلق ان حضرات کے فتوے یہ ہیں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ " ایسے وقبال کذاب سے احترانہ اختیار کریں....نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں " مولوی عبد الصمد صاحب غزنوی نے فتوی دیا کہ (اشاعت السنه جلد ۳ انمبر ۲) " اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے " (اشاعت السمنة جلد ۱۳ نمبر ملا ) قاضی عبید اللہ بن صبغتہ اللہ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ " جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے.....اور مرتد بغیر تو بہ کے مرگیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا افتوی در یکفر منکر عروج جیمی و نزول حضرت عیسی علیه السلام ) مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ ور جس نے دیدہ دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اس کو اعلانیہ تو بہ کرنی چاہیئے اور مناسب ہے کہ وہ اپنا تجدید نکاح کرے!" (فتوی شریعت فراء ص ) پھر اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی دفن نہ ہونے دیا جائے چنانچہ مولوی عبد الصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ کیا جائے تاکہ : " اہل قبور اس سے ایذاء نہ پائیں یا د اشاعت الستة جلد ۳ انمبر ملا )
IMA قاضی عبید اللہ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ ان کو " مقابر اہل اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل و کفن کے گتے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا " افتوی شاء منقول از فتوی در تنکیر منکر عروج جیمی و نزول عیسی علیہ السلام ) راسی طرح انہوں نے یہ بھی فتوے دیئے کہ کسی مسلمان کے لئے احمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز نہیں چنانچہ شرعی فیصلہ میں لکھا گیا کہ جو شخص ثابت ہو کہ واقع ہی وہ قادیانی کامریدہ ہے اس سے رشتہ مناکحت کا رکھنا نا جائز ہے" بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فتویٰ دیا گیا کہ (شرعی فیصلہ صا۳) " جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہوں وہ بھی کا فر ہیں اور اُن کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرے “ افتوی مولوی عبد الله و مولوی عبد العزیز صاحبان لدھیانه از اشاعت است جلد نمبر۱۳ ص) گویا احمدیوں کی عورتوں سے جبر نکاح کرلینا بھی علماء کے نزدیک میں اسلام تھا.اسی طرح یہ فتوی دیا کہ جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر مرتد ہے اور شرعا مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی عورت حرام ہوتی ہے اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولاد ان کے پیدا ہوتے ہیں وہ ولد زنا ہوں گے یا افتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسی علیہ اسلام مطبوعه السلام) تحریک احمدیت کے مخالف علماء نے صرف فتاوی ہی نہیں دیے بلکہ ان پر سختی سے عمل کرانے کی ہمیشہ کوشش کی جیسا کہ پر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مرید مولوی عبد الاحد صاحب خانپوری کی کتاب مخادعت سیلمہ قادیانی (مطبوعہ لنشار) کی مندرجہ ذیل اشتعال انگیز تحریر سے ظاہر ہے کہ " طائفہ مرزائیہ بہت ذلیل و خوار ہوئے.جمعہ اور جماعت سے نکالے گئے اور میں مسجد میں جمع ہو کر
۱۴۹ نمازیں پڑھتے تھے اُس میں بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکما روکے گئے....نیز بہت قسم کی ذلتیں اُٹھائیں معاملہ اور برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا.عورتیں منکوحہ اور مخطو بہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں.مردے اُن کے بے تجہیز وتکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے " (ص ) آب معر نزارکان اسمبلی غور فرما سکتے ہیں کہ اگر سالہا سال تک تکالیف و مصائب کا نشانہ بننے کے بعد جماعت احمدیہ کے افراد کو ابتداء اور فتنہ کے احتمال سےکوئی قدم اُٹھانا پڑا تو یہ ان کی قابلِ رحم اور دردناک حالت پر تو دلالت کرتا ہے ان کے تغیر مسلم ہونے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا.ہے :.اس مسئلہ کے دوسرے پہلو بھی ہیں جن کی تفصیل مطبوعہ رسالہ میں درج ہے جو ذیل میں بجنس نقل کیا جاتا احمدی مسلمان غیر احدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے پاکستان میں آجکل اکثر علماء کا دلچسپ ترین مشغلہ یہ ہے کہ جیسے تیسے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا جائے.اس ضمن میں بکثرت ایسا لٹریچر شائع کیا جارہا ہے جو دلائل سے کہیں زیادہ اشتعال انگیز بے بنیاد ۱۹۵۲-۵۳ء الزامات اور دشنام طرازی پرشتمل ہے اور تمام تر انہیں باتوں کا اعادہ ہے جو ۱۹۵۲ میں سادہ کوح عوام میں شدید اشتعال انگیزی کی خاطر نشر کی گئیں.ڈاکٹر غلام جیلانی برقی اس نوع کے لٹریچر کا ذکر اپنی کتاب حرف محرمانہ " میں حسب ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :." آج تک احمدیت پر جس قدر لٹریچر علمائے اسلام نے پیش کیا ہے اس میں دلائل کم تھے اور گالیاں زیادہ.ایسے دشنام آلود لٹریچر کو کون پڑھے اور مغلظات کون سنے " ( حرف محرمانه (ص) ۱۹۵ء میں جب اِن مغلظات اور گالیوں نے عوام الناس کے مزاج کو بھڑک اٹھنے پر تیار کر دیا تو
۱۵۰ " اچانک جناب مودودی صاحب نے اس صورتِ حال سے استفادہ کرنے اور اس آتش گیر مادہ کو اپنے مقصد کی خاطر استعمال کرنے کے لئے وہ تیلی دکھائی جسے قادیانی مسئلہ کا نام دیا گیا.اس رسالہ کی اشاعت کا مقصد بھی بعینہ وہی تھا جو قبل از میں شائع ہونے والے لٹریچر کا تھا لیکن ظاہر یہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس میں دشنام طرازی اور مغلظات کم اور دلائل زیادہ ہیں.سادہ لوح اور کم علم عوام کے نقطۂ نگاہ سے تو یہ بات شاید درست ہو جو دلائل کو جانچنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور میں طرح مجمع باز عطائی حکیموں کے ہاتھوں وہ رنگ ملا پانی اکسیر سمجھ کر خرید لیا کرتے ہیں اسی طرح قادیانی مسئلہ کو مدتل رسالہ کے طور پر قبول کر لیا ہو تو ہم کہ نہیں سکتے البتہ بعض مشہور غیر احمدی علماء کے نزدیک ان دلائل کی جو حیثیت تھی وہ جناب غلام احمد صاحب پرویز مدیر طلوع اسلام کے مندرجہ ذیل الفاظ سے ظاہر ہے :.سب سے زیادہ اہمیت مودودی صاحب کے رسالہ " قادیانی مسئلہ کو دی جاتی ہے.ہمارے نزدیک اس رسالہ کے دلائل اس قدر پوچ ہیں کہ ان کا تجزیہ کیا جائے تو وہ خود احمدیوں کے حق میں چلے جاتے ہیں " (مزاج شناس رسول صفحه ۴۲۳ ) آج ہم ان اعتراضات میں سے جو اس رسالہ میں اُٹھائے گئے ہیں اور آجکل پھر بکثرت ان کا اعادہ کیا جا رہا ہے ایک اہم مرکزی اعتراض کو لیتے ہیں کہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ اور چونکہ وہ ایسا نہیں کرتے لہذا ثابت ہوا کہ وہ الگ امت ہیں اور اس لائق ہیں کہ غیر مسلم اقلیت قرار دے دیئے جائیں.اس اعتراض کا ایک جواب تو ہم نہایت اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں اسی جواب میں در اصل قادیانی مسئلہ کے اکثرو بیشتر اعتراضات کا جواب آجاتا ہے بلکہ اگر کوئی منصف مزاج قاری اسلامی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے تو یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اگر قادیانی مسئلہ اور اس قماش کے دوسرے لٹریچر کے دلائل کو تسلیم کر لی جائے تو قادیانی تو الگ رہے ہر دوسرے فرقہ کو از روئے انصاف غیرمسلم اقلیت قرار دینا بدرجہ اولیٰ فرض ہو جائے گا لیکن یہ محض ایک ضمنی سوال تھا اصل سوال جو اس وقت ہمارے
۱۵۱ پیش نظر ہے وہ یہی ہے کہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ و ینے ! کہ غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی بیسیوں اہم وجوہات میں سے ایک وجہ مقتدر اور مشاہیرا چوٹی کے مانے ہوئے غیر احمدی علماء کے وہ فتاوی ہیں جن میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بڑی شدت کے ساتھ روکا گیا ہے.(۱) آپ ہی انصاف کیجیئے کہ کیا ہم اُن دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق احمدیوں کا نہیں بلکہ غیر احمدی اکابر علماء کا یہ فتوی ہے کہ :.وہابیہ دیوبند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتی کہ حضرت سید الاولین و آخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اور خاص ذاتِ باری تعالیٰ شانہ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعامُرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد گھر میں سخت سخت سخت اشتد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و گھر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کافر ہے.اور جو اس شک کرنے والے کے گھر میں شک کرے وہ بھی مُرتد و کا فر ہے.مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سے بالکل ہی محترز مجتنب رہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں.نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں.نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں.مریں تو گاڑنے تو پنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں.فرض ان سے بالکل احتیاط و اجتناب رکھیں.....پس وہابیہ دیوبندیہ سخت سخت اشد مرند و کافر ہیں ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کا فر ہو جائے گا.اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہو گی اور از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی " ( انا للہ وانا الیہ راجعون.ناقل ) اس اشتہار میں بہت سے علماء کے نام لکھے ہیں مثلا سید جماعت علی شاه ، حامد رضا خان قادری نوری رضوی
۱۵۲ بریلوی، محمد کرم دین بھی ، محمد جمیل احمد بدایونی، عمر نعیمی مفتی شرع اور ابومحمد دیدار علی مفتی اکبر آباد و غیره.یہ فتوے دینے والے صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ جب وہابیہ دیوبندیہ کی عبارتیں ترجمہ کر کے بھیجی گئیں تو افغانستان و نیوا و بخا را و ایران و مصروروم و شام اور مکه معظمه و مدینه منوره و غیره تمام دیا رعرب و گونه و بغداد شریف غرض تمام جہاں کے علماء اہل سنت نے بالا تفاق یہی فتویٰ دیا ہے کیا خاکسار محمدابراهیم با گلوری با اتمام شیخ شوکت حسین منیجر کے سن برقی پریس اشتیاق منزل " ہیوٹ روڈ لکھنو میں چھپا.سن اشاعت درج نہیں قیام پاکستان سے قبل کا فتوی ہے) فتوی مولوی عبد الکریم ناجی داغستانی حرم شریف مکته :- " هُمُ الكُفْرَةُ الْفَجرةُ تَتْلُهُمْ وَاجِبٌ عَلَى مَنْ لَهُ حَدٌ وَ نَصْلُ وَافِرُّ بَلْ هُوَ افْضَلُ مِنْ قَتْلِ الْفِ كَافِرِفَهُمُ الْمَلْعُونُونَ فِي سِلْكِ الْخَبِشَاءِ مُنْخَرِطُونَ فَلَعْتَةٌ اللهِ عَلَيْهِمْ وَعَلَى أَعْوَانِهِمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَى مَنْ خَذَلَهُمْ فِي اطوَارِهِمْ ترجمہ -:- وہ بدکار کافر ہیں.سلطان اسلام پر کہ سزا دینے کا اختیا را ورستان و پیکان رکھتا ہے ان کا قتل واجب ہے بلکہ وہ ہزار کافروں کے قتل سے بہتر ہے کہ وہی ملعون ہیں اور خبیثوں کی لڑی میں بندھے ہوئے ہیں تو ان پر اور ان کے مددگاروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جو انہیں ان کی بک اطوار یوں پر مخذول کرے اس پر اللہ کی رحمت اور برکت اسے سمجھ لو.( فاضل کامل نیکو فصائل صاحب فیض یزدانی مولوی عبد الکریم ناجی داستانی حرم شریف مکه حسام الحرمین علی منحر الكفر والمین صفحه ۷۰ تا ۹، مصنف مولانا احمد رضاخان صاحب بریلوی مطبوعہ اہل سنت و الجماعت بریلی ۲۶-۱۳۲۴هـ.:) (۲) پھر کیا ہم ان اہل مدینے کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق بریلوی ائمہ میں غیرمبہم الفاظ
١٥٣ میں خبردار کرتے ہیں کہ :.وہابیہ وغیرہ مقلدین زمانہ باتفاق علمائے حرمین شریفین کا فرمرتد ہیں.ایسے کہ جوائن کے اقوال ملعونہ پر اطلاع پا کر انہیں سے کا فرنہ جانے یا شک ہوں کرے خود کا فر ہے ارض کے پیچھے نماز ہوتے ہی نہیں.انکے ہاتھ کا ذبیہ حرام.ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں.اُن کا نکاح کسی مسلمان کا فریا مرتد سے نہیں ہو سکتا.ان کے ساتھ میل جول ، کھانا پینا ، اُٹھنا بیٹھنا، سلام کلام سب حرام.ان کے مفصل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں.واللہ تعالیٰ اعلم.دار الافتاء مدرسہ اہل سنت الجماعت آل سول احمدرضاخان شفیع احمدخان رضوی شتی حفی نیز ملاحظہ فرمائیے :.بریلی بریلی قادری افتاوی ثنائیہ جلدم منه مرتبه الحاج مولانا محمد داود را از خطیب جامعہ اہلحدیث شائع کردہ مکتبہ اشاعت دینیات مومن پورہ بیٹی ) " تقلید کو حرام اور مقلدین کو مشرک کہنے والا شرعا کا فریبکہ مرتد ہوا اور حکام اہل اسلام کو لازم ہے کہ اس کو قتل کریں اور عذرداری اس کی بایں وجہ کہ مجھ کو اس کا علم نہیں تھا مشرعا قابل پذیرائی نہیں بلکہ بعد تو بہ کے بھی اس کو مارنا لازم ہے یعنی اگر چہ تو بہ کرنے سے مسلمان ہو جاتا ہے لیکن ایسے شخص کے واسطے شرعا یہی سزا ہے کہ اس کو حکام اہل اسلام قتل کر ڈالیں یعنی میں طرح حد زنا تو بہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتی اسی طرح یہ حد بھی تائب ہونے سے دُور نہیں ہوتی.علماء اور مفتیانِ وقت پر لازم ہے کہ بمجرد مسموع ہونے ایسے امر کے اس کے گھر اور ارتداد کے فتوے دینے میں تر قد نہ کریں ورنہ زمرہ مرتدین میں یہ بھی داخل ہوں گے " انتظام المساجد باخراج
۱۵۴ اہل الفتن و المكائد و المفاسد احث تا حث مطبوعہ جعفری پریس لاہور مصنفہ مولوی محمد ابن مولوی عبد القادر لودھیانوی) (۳) پھر کیا ہم ان بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھ کر کا فرین جائیں جن سے متعلق دیوبندی علماء ہمیں یہ شرعی حکم سناتے ہیں کہ :.جو شخص اللہ جل شانہ کے سوا علم غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بیشک کافر ہے.ان کی امامتے اور اس سے میں جوان مجھے و موقت سب حرام ہیں " مهر (فتاوی رشید یه کامل مبتوب از مولوی رشید احمد صاحب گنگوهی م.ناشر شد سید اینڈ سنز تاجران کتب قرآن محل بالمقابل مولوی مسافر خانہ کراچی شده STAAY-A ( یا جن کے بارہ میں مشہور دیوبندی عالم جناب مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی سابق صدر مدرس دارالعلوم دیو بند ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ :." یہ سب تکفیریں اور منتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف کوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے موجب خروج ایمان وازالہ تصدیق وایقان ہوں گی کہ ملائکہ حضور علیہ السلام سے کہیں گے اِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعُدَكَ - اور رسولِ مقبول على السلام وتبال بریلوی اور ارض اتباع کو سحقاً سحقا فرما کر حوض مورود و شفاعت محمود سے کتوں سے بد تر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر و ثواب و منازل نعیم سے محروم کئے جائیں گے.“ (رجوم المذنبين على رؤس الشياطين المشهور به الشهاب الثاقب على المسترق الكاذب ملا مؤلفہ مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی ناشر کتب خانه اعزاز یہ دیوبند ضلع سہارنپور) (۴) پھر کیا ہم ان پرویز یوں اور چکڑالویلوٹ کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق متفقہ طور پر
۱۵۵ بریلوی اور دیوبندی اور مودودی علماء یہ فتوی صادر فرماتے ہیں کہ :." چکڑالویت حضور سرور کائنات علیہ التسلیمات کے منصب و مقام اور آپ کی تشریعی حیثیت کی متشکر اور آپ کی احادیث مبارکہ کی جانی دشمن ہے.رسول کریم کے ان کھلے ہوئے باغیوں نے رسول کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر دیا ہے.جانتے ہو! باغی کی سزا کیا ہے ؟ صرف گولی یا (ہفتہ وار رضوان لاہور چکڑالوتیت نمبر، اہل سنت و الجماعت کا نسبی ترجمان ۱- ۲۸ فروری ۵۳ پنڈ ی مو احد رضوی کو آپریٹوکیپیٹل پرنٹنگ پریس لاہور دفتر عنوان اندرون دہلی دروازہ لاہو) پھر ولی حسن صاحب ٹونکی اُن پر صادر ہونے والے شرعی احکامات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :.غلام احمد پرویز شریعت محمدیہ کی روسے کا فر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج.نہ اس شخص کے عقد نکاح میں کوئی مسلمان عورت رہ سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح اس سے ہو سکتا ہے.نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کا دفن کرنا جائز ہوگا.اور یہ حکم صرف پر ویز ہی کا نہیں بلکہ ہر کا فر کا ہے.اور ہر وہ شخص جو اس کے متبعین میں ان عقائد کفریہ کے ہمنوا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اور جب یہ مرتد ٹھرا تو پھر اس کے ساتھ کسی قسم کے بھی اسلامی تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں ہیں “ د ولی حسن ٹونکی غفر اللہ مفتی و مدرس مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن کراچی محمد یوسف بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ اسلامیہ ٹاؤن کراچی ) پرویزیوں کے متعلق جماعت اسلامی سے آرگن تسنیم' کا فتویٰ یہ ہے کہ :- اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ شریعت نہیں ہے تو یہ صریح گھر ہے اور بالکل اسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر قا دیانیوں کا ہے بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے.مضمون مولانا امین حسن اصلاحی، روز نام نیستیم لاہور ، راگست ۶۱۹۵۲ ما)
104 (۵) پھر کیا ہم ان شیعوں کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق علماء عامتہ السلمین ان لرزہ خیز الفاظ میں تنبیہ کرتے ہیں :.بالجملہ ان رافضیوں برائیوں کے باب میں حکیم نقدینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے.ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے معاذاللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہی ہے.اگر مروستی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی نکاح ہر گز نہ ہو گا محض زنا ہوگا.اولاد ولد الزنا ہوگی.باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگر چہ اولاد بھی سنی ہی ہو کہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں.عورت نہ ترکہ کی تحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں.رافضی اپنے کسی قریب بھی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتا شتی توشنی کیسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی.یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں.ان کے مرد عورت ، عالم ، جاہل ، کسی سے میل جول، سلام کلام سخت کبیرہ اشتہ حرام جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کا فر ہونے میں شک کرے باجماع تمام ائمہ دیر نے خود کا فربے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکور ہوئے مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کر کے پیچھے بچے سنی بہنیں یا فتوی مولانا شاہ مصطفی رضا خان بحواله رساله رد الرفضه ۲۳ شائع کرده نوری کتبخانه بازارها تا اب لاہور پاکستان مطبوعہ گلزار عالم پریس بیرون بھاٹی گیٹ لاہور ) " آج کل کے روافض تو عموما ضروریات دین کے منکر اور قطعا مرتد ہیں.ان کے مرد یا عورت کا کسی سے نکاح ہوسکتا ہی نہیں.ایسے ہی وہابی ، قادیانی ، دیوبندی، نیچری، چکڑالوی جمله مرتین ہیں کہ ان کے مرد یا عورت کا تمام جہان میں جس سے نکاح ہوگا مسلم ہو یا کافر اصلی یا مرتد انسان ہو یا حیوان محض باطل اور ناخالص ہوگا اور اولا دو لدالزنا الملفوظ حفتر دوم منحه من الظلم بند)
106 (۶) پھر کیا جمعیت اسلامی کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہم اپنا اسلام بچا سکیں گے کہ جن کے متعلق کیا بریلوی اور کیا دیوبندی علماء پر قطعی فتوی صادر فرماتے ہیں کہ :.مودودی صاحب کی تصنیفات کے اقتباسات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان کے خیالات اسلام کے مقتدایان اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے سے مملو ہیں.ان کے مال معضل ہونے میں کوئی شک نہیں میری جمیع مسلمانان سے استدعا ہے کہ ان کے عقائد وخیالات سے مجتنب رہیں اور ان کو اسلام کا خادم نہ سمجھیں اور مغالطے میں نہ رہیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اصلی دجال سے پہلے تیس دجال اور پیدا ہوں گے جو اس وقبال اصلی کا راستہ صاف کریں گے میری سمجھ میں ان تفیس و جالوں میں ایک مودودی ہیں فقط والسلام امحمد صادق علی عنه مهتم مدرس نظرالعلوم محل کندہ کراچی ۲ ذوالحجر ۵۱۳۷ ۱۹ستمبر۶۱۹۵ حق پرست علماء کی مودودی سے ناراضگی کے اسبابے مرتبہ مولوی امدعلی انجمن خدام الدین لاہو) پھر ان کے پیچھے نماز کی حرمت کا واضح اعلان کرتے ہوئے جمعیت العلماء اسلام کے صد رحضرت مولانا مفتی محمود فرماتے ہیں :.یکن آج یہاں پریس کلب حیدر آباد میں فتویٰ دیتا ہوں کہ مودودی سے گمراہ کا فراور خارج از اسلام ہے.اس کے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا نا جائز اور حرام ہے اس کی جماعت سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت ہے.وہ امریکہ اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے.اب وہ موت کے آخری کنارے پر پہنچ چکا ہے اور اب اسے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی.اس کا جنازہ نکل کر رہے گا یا (ہفت روزه زندگی از نومبر ۱۹۶۹ء منجانب جمعیتہ گارڈ لائل پور ) (۷) کیا ہم احراری علماء کے پیچھے نماز پڑھیں جن کے متعلق واقف اسرار جناب مولوی ظفر علی خاں حناب
10 A یہ اعلان عام فرما رہے ہیں کہ درحقیقت یہ لوگ اسلام سے بیزار ہی نہیں بلکہ یقینا اسلام کے غدار ہیں ملاحظہ فرمایئے.اللہ کے قانون کی پہچان سے بے زار اسلام اور ایمان اور احسان سے بے زار ناموس پیمبر کے نگہبان سے بے زار.کافر سے موالات مسلمان سے بے زار اس پر ہے یہ دعوامی کہ ہیں اسلام کے احرار اقتدار کہاں کے یہ ہیں اسلام کے غدار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار بیگا نہ یہ بد بخت ہیں تہذیب عرب سے ڈرتے نہیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے مل جائے حکومت کی وزارت کیسی ڈھا ہے سرکارِ مدینہ سے نہیں ان کو سروکار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار (زمیندار ۲۱ اکتوبر ۶۱۹۴۵ مت) پھر مولانا مودودی صاحب مولوی ظفر علی خان صاحب کی ایک گونا تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :." اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہوگئیں ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے بلکہ نام اور سہرے کا ہے.اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے داؤں پر لگا دینا چاہتے ہیں.دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرار داد طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز با زکیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خو دلکھ لائے ہیں.....
۱۵۹ میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی تیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطر نج کے مہروں کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے بھی سرفراز نہیں ہوسکتے یا روز نامرتسنیم لاہور ۲ جولائی ۶۱۹۵۵ ص کالم ۵) یہ محض نمونہ کے طور پر بڑے اختصار کے ساتھ بہت سے طویل فتاوی میں سے چند اقتباسات پیش ہیں.یہ فتاوی آپ نے ملاحظہ فرمائے.اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ پر رحم فرمائے یقینا آپ دل تھام کر اور سر کڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے لیکن ہمیں اِس وقت صرف اتنا پوچھنے کی اجازت دیجئے کہ کیا ان دل دہلا دینے والے فتاوی کی موجودگی میں احمدیوں پر کوئی دُور کی بھی گنجائش اِس اعتراض کی باقی رہ جاتی ہے کہ وہ مذکورہ بالا فرقوں کے ائمہ کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ للہ کچھ انصاف سے کام لیجئے کچھ تو خوب خدا کریں.آقائے دوجہاں عدل مجسم حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہی کی شرم رکھ لیجیئے اور بتائیے کہ مذکورہ بالا اکثر فرقوں کے علماء جماعت احمدیہ سے جو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی کی ہولی کھیل رہے ہیں یہ کہاں تک ایک مسلمان کو زیبا ہے ، ایک غلام رحمت للعالمین کے شایان شان ہے ؟ ان کے پیچھے نماز پڑھو تو کافر نہ پڑھو تو کافر کوئی جائے تو آخر کہاں جائے ؟ مسلمان رہنے کا کیا صرف یہی ایک راستہ باقی رہ گیا ہے کہ اکثریت کی طرح نماز کو بھی ترک ہی کر دیا جائے.آج کل کے علماء کا فیصلہ تو سہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلمانی باقی رکھنی ہے تو نماز چھوڑ دو ورنہ جس کے پیچھے نماز پڑھوگے بچے کافر اور جہنمی قرار دیئے جاؤ گے.ایک بچنے کی راہ یہ رہ گئی تھی کہ کسی کے پیچھے بھی نماز نہ پڑھی جائے تو احمدیوں پر یہ راہ بھی بند کر دی گئی اور یہ فتوی بھی دے دیا گیا کہ جو کسی دوسرے فرقہ کے پیچھے نمازنہ پڑھے وہ بھی کافر اور غیرمسلم اقلیت پڑھے تب کا فرنہ پڑھے تب کا فر آخر کوئی جائے تو کہاں جائے ؟ یا بقول آتش ہے کوئی مر نہ جائے تو کیا کرے؟ حکما ءنے اس نوع کے انصاف پر طنز کرتے ہوئے ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک بھیڑ کا بچہ کسی ندی پر پانی
۱۶۰ نا رہا تھا.بڑیا اُوپر کی سمت سے آیا اور ڈپٹ کر پو چھا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ کہیں بھی پانی پی رہا تھا پھر تم نے اسے گدلا کرنے کی جرات کیسے کی ؟ بچے نے عرض کیا حضور میں تو نچلے حصے سے پانی پی رہا تھا آپ کا پانی کیسے گدلا ہو سکتا ہے جو اوپر کی طرف سے پی رہے تھے ؟ بھیڑیے نے غضبناک ہو کر کہا اچھا تو آگے سے بکواس کرتے ہو ؟ مجھے جھوٹا کہتے ہو لعنتی ہیں میں تمہاری سزا یہی ہے کہ تمہیں پھاڑ کھایا جائے.کچھ ان علماء کوخدا کا خوف دلائیے.بھیڑیے اور بھیڑ کے بچے کا یہ قصہ آپ پڑھتے ہیں تو کبھی اس رضی بھیڑ کے بچے پر ترس کھانے لگتے ہیں اور کبھی بھیڑیے پر غصہ آتا ہے لیکن آج آپ کی آنکھوں کے سامنے بھیڑ کے بچوں سے نہیں آبنائے آدم سے یہ سلوک کیا جا رہا ہے کیسی فرضی قصہ میں نہیں روز مرہ کی جیتی جاگتی دنیا میں ایک دردناک حقیقت کے طور پر یہ ظلم دہرایا جا رہا ہے اور احتجاج کا ایک حرف بھی آپ کی زبان تک نہیں آتا.یلہ اتنا تو کیجئے کہ ان علماء سے کہئے کہ اگر یہی ظلم کی راہ اختیار کرنی ہے اور اسی جنگل کے قانون کو اپنانا ہے اور ظاہری طاقت کے گھمنڈ نے خدا تعالیٰ کے قانون عدل کو ہر قیمت پر گھلنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو کم از کم اتنا پاس تو کریں کہ اسلام کے مقدس نام کو اس میں ملوث کرنے سے باز رہیں.اتنا کرم تو فرمائیں کہ ناموس رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی واقعی کو اس قضیہ میں آئودہ نہ کریں.طاقت اور کثرت کے گھمنڈ کو ان کمزور اور بودے دلائل کے سہاروں کی کیا ضرورت ہے ؟ 8 جب میکدہ چھٹا ہے تو پھر کیا جگہ کی قید ؟ جب اسلامی اقدار عدل و انصاف کا خوارض کر کے بھی ھے مقصد اپنے عزائم کو پورا کرنا ہے تو چھوڑیے الف دلائل اور اپنے تنکوں کے سہاروے کو.دندناتے ہوئے میدارنے کربلا میں کو دیئے اور کر گزریے جو کر گزرنا ہے.اور پھر اپنی آنکھوں سے یہ بھی ھے دیکھ لیجیے کہ اسلام کا خدا اور اسلام کا ر سوٹ کیس کے ساتھ ہیں ؟ اور مصائب اور شدائد کا میدان کرنے کو حضرت محمد صطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ستیا مخلص اور جا نثار عاشق اور فدائے غلام ثابت کرتا ہے ؟؟
141 انشاء اللہ آپ دیکھ لیں گے اور وقرتح ثابتے کر دے گا کہ ہر احمد یھ اپنے اس دعوی میں سچا ہے کہ سے در گوئے تو اگر سر عشق را زنند اول گے کہ لاف تعشق زند کنم ہارتے اے میرے پیارے رسوا ھے ! اگر تیرے کوچہ میں عشاق کا سر قلم کرنے کا ہی دستور جاری ہوتو وہ پہلا شخص جو نعرۂ عشق بلند کرے گا وہ میں ہوں گا ایں (مبارک محمود رام کی نمبر برانڈرتھ روڈ لاہور ) ہوں گا !! (۲) ایک اور نهایت ظالمانہ اور مفت بانه الزام یہ عام کیا گیاہے کہ بانی اسلسلہ احمدیہ اور آپ کے ماننے والوں نے (معاذ اللہ ) قرآن مجید میں لفظی اور معنوی تحریف کی ہے حالانکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت ہی وہ واحد جماعت ہے جس کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت یا اس کا کوئی لفظ منسوخ نہیں ہو سکتا اور نہ اُسے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور قرآن شریف ہمیشہ کے لئے محفوظ کتاب ہے.افسوس ہے کہ فی زمانہ بعض علماء نے محض اشتعال انگیزی کی خاطر جماعت احمدیہ پر تحریف کا الزام لگایا اور سلسلہ احمدیہ کی بعض کتب سے سو کتابت کے نتیجہ میں غلط طبع ہونے والی بعض آیات پیشیں کر کے یہ ثابت کرنے کی ناپسندیدہ کوشش کی کہ (نعوذ باللہ) جماعت احمدیہ قرآن کریم میں تحریف کی مرتکب ہوئی ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ جس قسم کے سہو کتابت کو پیش کر کے تحریف کا الزام لگایا جاتا ہے وہ قریباً ہر صنف کی کتابوں میں موجود ہے.سلسلہ احمدیہ کے آرگن "الفضل کی مختلف اشاعتوں میں مندرجہ ذیل علماء کی شائع کردہ کتابوں سے ایسے نمونے پیش کئے جاچکے ہیں جن میں قرآن کریم کی آیات سہو کتابت سے غلط طور پر شائع ہوگئی ہیں.ا - سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری خطبات امیر شریعیت مطبوعہ مکتبہ تبصرہ لاہور)
۲ - مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی ( الملفوظ حصّہ اوّل) مفتی اعظم دیوبند مولوی عزیز الرحمن صاحب دیوبندی (فتاوی دار العلوم دیوبند جلد پنجم) امام الہند مولانا ابوالکلام صاحب آزاد (مضامین البلاغ ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور) ۵ - علامہ مولانا سید محمد سلیمان صاحب ندوی (ہفت روزہ الاعتصام لاہور ) 4 - اخوان تحریک کے قائد حسن البناء (ہفت روزہ المنیر لائلپور جنوری شاه ) مولوی اشرف علی صاحب تھانوی (بہشتی زیور پہلا حصہ.ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لا ہور) - صدرالمدرسین محمد محمدعلی صبا اعظمی رضوی شستی، برکاتی اجمیر شریف (بہار شریعت جلد ششم) ۹ - اخوان لیڈر حسن اہیمی - (هفت روزه المنیر لائل پور جنوری ۹۵ (۶) -۱۰ - مولوی عبد الرحیم صاحب الشرقت مدير المنیر ) -11 رد زیر تم حضرت امام غزالی رحمة الل عليه اربعين في اول این کارو تری به اترین افضل الدین وغیرہ لاہور) ۱۹۵ ۱۲- مهتم دارالعلوم دیوبند قاری محمدطیب صاحب - تعلیمات اسلام روی اقوام شاد کرده نار المصنفین ولی) ۱۳ - مولانا سید محمد داؤ د صاحب غوره نوسی (هفت روزه الاعتصام ر ا پریل ۴۹ ) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری افتادی ثنائیہ جلد اول مومن پورہ بمبئی نمبرا مکتبہ اشاعت دینیات) ۱۵ - مولوی محمد بخش صاحب مسلم لاہور (کتاب الاخلاق ) -16 ۱۹ مولوی عبدالرؤف صاحب رحمانی (ہفت روزہ الاعتصام لاہور 11 جنوری ) ۱۷ مولوی محمد اسمعیل صاحب امیر اہلحدیث (ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۲۸ جنوری ۱۹۶۳مه) ۱۸- علامہ سید مناظر احسن صاحب گیلانی (طبقات مترجم علامہ مناظر احسن گیلانی اللجنة العلمیہ حیدرآباد) ۱۹.مولانا کوثر صاحب نیازی" وفاقی وزیر اوقات و حج " اسلام ہمارا دین ہے“ فیروز سنز لاہور ) -19 ۲۰ - ملا واحدی صاحب دہلوی (حیات سرور کائنات جلد دوم) ۲- مفتی محمودا جزل سیکرٹری جمعیت اسلام اذان کومولانااور کیاہوا)
۲۳ ۲۲- مولانامحمود احمد صاحب (مدیر رضوان ) (ہفتہ وار "رضوان" لاہور ۲۸ فروری ۱۹۵۳) مفتی محمدنعیم الدین صاحب مجموعه افاضات صدرالی فاضل - ناشر ادارہ نعیمیہ رضویہ لاہور ) ۲۴- مولانا سید ابوالاعلیٰ حضنا مودودی.(الجهاد فی الاسلام طبع دوم ، شائع کردہ اچھرہ لاہور ) ۲۵- مولانا شمس الحق صاحب افغانی بهاولپور (ہفت روزہ " لولاک لائلپور ، جون شاه) -۲۶ - جناب غلام جیلانی صاحب -برق ( حرف محرمانه - احمدیت پر ایک نظر ) اگر سہو کتابت کو تحریف کہنا درست ہے تو کیا ان سب علماء حضرات کو قرآن مجید میں تحریف کرنے والے قرار دیا جائے گا.اس سلسلہ میں ہم ایک پمفلٹ بھی شامل کرتے ہیں جس کا عنوان ہے :." حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور تحریف قرآن کے بہتان کی تردید (ضمیمہ نمبر ۱) معنوی تحریف کا الزام بھی سراسر بے بنیاد ہے.علماء نے قرآن مجید کے مختلف تراجم کئے ہیں اور تفسیریں لکھی ہیں اگر اس اختلاف کو تحریف قرار دیا جائے تو پھر سب مفترین اور علماء کو تحریف کا مرتکب قرار دینا پڑے گا.یا درکھنا چاہیئے کہ قرآنی معارف اور حقائق پاک اور مطہر لوگوں پر گھلتے ہیں.اللہ تعالی فراتا ہے." لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " اگر ان روحانی حقائق و معارف کو تحریف کا نام دیا جائے تو تمام اولیائے امت کو تحریف کرنیوالے قرار دیا جائے گا." العیاذباللہ
178 معززار کان سمبلی کی خدمت میں ایک اہم گذارش
194 معزز ارکان سمبلی کی خدمت میں ایک ہم گذارش جماعت احمدیہ پر عائد کردہ الزامات کا مختصر جائزہ لینے کے بعد معتز زارکان اسمبلی کی خدمت میں نہایت دردمند دل کے ساتھ ہم یا انتباہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر پاکستان کے مسلمانوں کو باہم لڑانے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی ایک دیرینہ سازشھے چل رہی ہے جس کا انکشاف بزم ثقافت اسلامیہ کے صدر خلیفہ عبدالحکیم صاحب نے درج ذیل الفاظ میں مدتوں قبل کر رکھا ہے.لکھتے ہیں :- پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے ہیں، میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا انہوں نے فتوی دیا کہ ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں.ایک اور فرقے کی نسبت پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں.فرمایا کہ وہ سب واجب القتل ہیں.یہی عالم ان تین آیتیں علماء میں پیش پیش اور کرتا دھرتا تھے جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقے کو تسلیم کر لیا جائے سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے.ہیں تو وہ بھی واجب القتل مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا.انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالیم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جہاد فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شروع کیا ہے اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر دے جائے گھے" اقبال اور ملا از ڈاکٹر خلیف عبدالحکیم ایم.اسے اپی.ایچ ڈی ما یکے از مطبوعات بزمی اقبال لاہور )
IYA ختم نبوت کے مقدس نام پر اس ارضِ پاک میں جوتحریک چلائی جا رہی ہے اس کا پس منظرمندرجہ بالا تحریر سے خوب واضح ہو جاتا ہے چنانچہ جناب ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے ۱۹۵۳ء کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک خصوصی بیان میں یہ حیرت انگیز اعتراف کیا :.اس کا رروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہوگئیں.ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے بلکہ نام اور سرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جھوٹے کے داؤ پر لگا دینا چاہتے ہیں، دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرار داد طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کی ہے اور ایک دوسرا ریز و لیوشن بطور خو دلکھ لائے ہیں.بیس نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور طریقوں سے کیا جائے اُس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے....الخزری (روزنامہ تسنیم لاہور ۲ جولائی ۹۵ ) اس پس منظر میں اگر پاکستان کے گذشتہ دور اور موجودہ پیدا شدہ صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ اگر چہ موجودہ مرحلہ پر صرف جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر زور ڈالا جا رہا ہے مگر دشمنان پاکستان کی دیرینہ سکیم کے تحت امت مسلمہ کے دوسرے فرقوں کے خلاف بھی فتنوں کا ایک وسیع راستہ یقیناً کھل چکا ہے اور سواء کے بعد سے ہی احمدیوں کے علاوہ بعض دوسرے فرقوں کو بھی غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آوازیں بلند ہونی شروع ہو چکی ہیں.چنانچہ شروع مارچ سالہ میں کراچی کے در و دیوار پر ایک اشتہار بعنوان " مطالبات چسپاں تھا جو بجنسہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے :-
ت ر الوند والی اقلیتی فرقہ تسلیم کیاجائے فرقه کو چند علماء کی مجلس شوری کے وضع شدہ اسلامی حکومت کے بنیادی اصول نظر سے گذرے جس کی دفعہ ؟ میں اسلامی فرقوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کی تفصیل ندارد.بظاہر اس نظر اندازی کی وجہ دور برطانیہ کے پیدائشی اقلیتی فرقہ تخلیقی و سیاسی اغراض کی تکمیل اور اس کو پاکستان کے اکثریتی فرقہ میں مدغم دکھا کر اس کے ہاتھوں اکثریت کے عقائد پائمال کرا نا معلوم ہوتی ہے اس لئے ہم گھلے الفاظ میں حکومت پاکستان پر یہ واضح کر دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ خدام اولیاء اللہ یعنی المتنقت و الجماعت فرقہ پاکستان کی اکثریت ہے.جو مذہب اور مسلک آج اس کا ہے وہی عہد شہاب الدین غوری سے تا شاہ عالم بادشاہ دہلی مملکت اسلامیہ غیر منقسیم ہند کا مذہب و مسلک رہا ہے.پاکستان کے اس مسلم اکثریت کے عقائد ہیں :.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور آداب تعین کے ساتھ ایصالِ ثواب معینہ تاریخوں پر نذرونیا زیبزرگان اسلام کے مقررہ تاریخوں میں اعراس، محافل میلاد اور اس میں قیام کے ساتھ صلوۃ و سلام وغیرہ وغیرہ داخل ہیں.لیکن دور برطانیہ کا پیدائشی اقلیتی فرقہ اکثریت کے مذکورہ بالا معتقدات کو شرک اور بدعت قرار دیتا ہے اور سمجھتا ہے اور ابتداء جو پابندیاں ابن مسعود کی جانب سے معتقدات قدیمہ کی بجا آوری پر عائد تھیں ویسی پابندیاں اکثریت کے عقائد بالا کی بجا آوری پر یہ اقلیتی فرقہ بھارت اور پاکستان میں عائد کرنا جائز سمجھتا ہے.اس اقلیتی فرقہ کی تخلیق ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد حکومت میں ہوئی اور اس کے بانی مولوی اسمعیل صاحب دہلوی ہیں جنہوں نے انگریزوں پر جہاد نا جائز قرار دیا مگر انگریزوں کے ایماء سے سیکھوں پر
16.جہاد فرمایا اور امکان کذب اور امکان نظیر نعوذ باللہ خدا کے جھوٹ بولنے اور رسول کے مثل پیدا ہونے کے خود تراشیدہ عقائد وضع فرمائے.شمار میں ملکہ وکٹوریہ کے سامنے ہندوستان کو عیسائی بنانے کی جو اسکیم پیشیں کی گئی تھی اس کی ایک دفعہ یہ ہے :.ہندوستان کے بت پرستوں یعنی غیر عیسائیوں کو ان کے سیاسی اور مذہبی میلوں میں جمع نہ ہونے دو اس اسکیم کے بعد مولوی اسمعیل صاحب کے معظمہ مشن میں نئی روح داخل ہوئی اور ان کے وضع کردہ عقائد اور حد و دو خطوط پر قصبہ دیوبند میں ان کے قائم کر وہ فرقہ کی تشکیل جدید عمل میں آئی.بدیں وجہ" آب وہ دیوبندی فرقہ کے نام سے موسوم ہیں مگر یہ فرقہ تعداد میں کم ہے اس لئے خود کو اہلسنت والجماعت میں داخل کہتا ہے حالانکہ اس کے عقائد اہلسنت و الجماعت سے قطعی جدا ہیں یعنی جس طرح سکھ ہندوؤں سے نکلے مگر ہندو نہیں ہیں یا انگلینڈ کے پروٹسٹنٹ رومن کیتھولک سے نکلے مگر روؤمن نہیں اسی طرح دیوبندی فرقہ اہلسنت والجماعت سے نکلا مگر اہم سنت و الجماعت نہیں.اقلیتی فرقہ دیوبندیہ کے نمائندگان خصوصی مفتی حمد شفیع صاحب، مولاناسید سلیمان ندوی صاحب، مولوی احتشام الحق صاحب، مسٹر ابو الاعلیٰ مودودی و غیر هم می مگر اکثریت کے عقائد اور اس کے حقوق کی نظر اندازی اصول جمہوریت کی تو ہین کے مترادف ہے اس لئے اکثریت کی جانب سے حسب ذیل مطالبات پیش کئے جاتے ہیں :- جمہوریہ پاکستان کے امیر کے مسلمان ہونے کی دفعہ میں اس کا اکثریت کا ہم عقیدہ ہونالازمی شرط قرار دیا جائے.- اہلسنت والجماعت سے دیوبندی فرقہ کوعلیحدہ فرقہ تسلیم کیا جائے.-۳- دیوبندی فرقہ کی المسنت والجماعت کے معتقدات اور اوقات میں مداخلت قانوناً ممنوع قرار دیا جائے.ران مطالبات کا مقصد پاکستان میں فرقہ بندی کو ہوا دینا نہیں بلکہ ان کا مقصد پاکستان سے ہمیشہ کے لئے
141 فرقہ وارانہ فسادات کو ختم کرانا اور اکثریت کا تحفظ و اظهار نفس الامری کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ ہنری ہشتم کے عہد حکومت میں بعض چیتے پروٹسٹنٹ پادریوں نے خود کو رومن ظاہر کرتے ہوئے اور رومن مذہب کی ترقی کے لئے حکومت الہیہ اور نظام عیسوی کے نغمے بلند فرما کر ہی پارلیمنٹ کے ذریعہ رومن کیتھولک مذہب کو انگلینڈ کی سرزمین سے ختم کرایا تھا“ اگر اہلسنت والجماعت کے سر پر دیوبندی فرقہ کو مسلط کیا گیا تو اس کے معنی ہنری ہشتم اور رومن کیتھولک کی تجدید کے ہوں گے.الداعيان الى الخير ( آگے حضرت مولانا مخدوم سید ناصر جلالی سرپرست جمعیت العلماء پاکستان کے علاوہ بہت سے بریلوی علماء کے دستخط ثبت ہیں ) ١٩٥٣ (بحوالہ ماہنامہ طلوع اسلام مئی ۱۹۵۳ ه صفحه ۶۵۷۶۴) شیعی رسالہ " المنتظر“ لاہور نے شاء میں لکھا کہ :- 1960 جمعیت کا منشور مرتب کرنے والوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے سوا دوسرے اسلامی فرقوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کے لئے بھی دفعہ شامل کر دی ہے ختم نبوت کا تو بہانہ ہے ورنہ لفظ " وغیرہ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی اسلام کے کسی بھی فرقہ کو غیر اسلامی بنا کر رکھ دیں گے " المنتظر" لاہور فروری کلمه من) المنتظر نے جس خطرہ کا اظہار کیا تھا وہ دوسال بعد تحقیقت کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا دستاویزی ثبوت " خلافت راشدہ کا نفرنس“ ملتان کی مندرجہ ذیل قرار داد ہے :- خلافتِ راشدہ کا نفرنس ملتان کا یہ عظیم الشان اجلاس حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ جب شیعوں نے مسلمانوں سے علیحدہ اوقات اور علیحدہ نصاب تعلیم کا مطالبہ کر کے بیلت سے علیحدگی کا ثبوت دیا ہے اور اس طرح عملاً یہ دعوامی کیا ہے کہ وہ عامتہ المسلمین سے جدا ایک مستقل اقلیت ہیں اور حکومت نے بھی ان کی اس علیحدگی کو تسلیم کر لیا ہے تو شیعوں کو ہر شعبہ میں
IKY علیحدہ کر دیا جائے.آئین ساز اداروں اور ملازمتوں میں بھی ان کو تناسب آبادی کے لحاظ سے حصہ دیا جائے.آج کتنی بیچارہ عموما ادنی ملازم ہے اور اکثر اعلی اور با اختیار پوسٹوں پر شیعہ ہی نظر آتے ہیں سواد اعظم کا پرزور مطالبہ ہے کہ حکومت اس علیحدہ پسند فرقہ کو ملازمتوں وغیرہ میں بھی علیحدہ کر دے اور کلیدی اسامیوں اور اعلیٰ ملازمتوں میں اس کی تعداد کے تناسب سے حصہ دے.محترک :.حضرت مولانا دوست محمد صاحب قریشی - مؤید :- حضرت مولانا قائم الدین صاحب " (ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور ۳۱ مارچ ایم مث کالم نمبر ) فرقہ اہل حدیث کے علا و مندرجہ بالا قرارداد کے حق میں عملاً اعلان کر چکے ہیں اور احمدیوں کی طرح شیعہ اصحاب کو بھی ختم نبوت کا منکر گردان رہے ہیں.چنانچہ مولانا خیف ندوی لکھتے ہیں :.نبوت کے ساتھ ساتھ حضرات شیعہ کے نزدیک ایک بالکل متوازی نظام امامت کا بھی جاری ہے یعنی میں طرح انبیاء کی بعثت ضروری ہے اسی طرح ائمہ کا لقب ضروری ہے....واقعہ د عمل کے اعتبار سے اجرائے نبوت اور اجرائے امامت میں کوئی فرق نہیں رہتا " (مرزائیت نئے زاویوں سے)
پاکستان کے مختلف فرقوں کے عقائد جو دوگر فرقوں کے نزدیک محل نظر ہیں
140 پاکستان کے مختلف فرقوں کے عقائد دو کے فرقوں کے نزدیک محل نظر ہیں معتز زارکان اسمبلی کو معلوم ہونا چاہیے کہ کافرگری کی وہ تلوار جو آج ہمیں کاٹ کر الگ پھینکنے کی کوشش میں اُٹھائی جارہی ہے وہی شیعہ، دیوبندی مسلک کے مسلمانوں ہی کو نہیں ، پاکستان کے ہر کتب فکر کو زیادہ بھیانک اور شدید صورت میں کاٹ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس واضح حقیقت کے ثبوت میں مختلف فرقوں پر وارد کئے جانے والے اُن اعتراضات کا ایک مختصر خاکہ بطور نمونہ درج کرنا کافی ہو گا جن کی بناء پر ان فرقوں پر بھی فرد جرم عائد کی جاتی ہے.یہ معاملہ ممبران قومی اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ کس حد تک ان عقائد کی بناء پر ان فرقوں کو غیرمسلم قرار دینے کا جواز یا عدم جواز پایا جاتا ہے.سم بریلوی مشرقه ا.آنحضرت کو خدا تعالیٰ کا درجہ دیتے ہیں.(شمع توحید صث مصنفہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری) خدا کے علاوہ بزرگوں کو شکل گی سمجھتے اور مددمانگتے ہیں.(انوار الصوفیہ لاہور اگست ششار مت) - علی پور سیداں کوسی القرنی کجھتے ہیں.(انوار الصوفیہ جون شاشه مث ).ختم نبوت کے منکر ہیں.انسان کامل باب ۳۶ مؤلفه سید عبدالکریم جیلی ) سلسلہ وحی و الہام کو جاری سمجھتے ہیں.(میانه در صفر ۴ ۱۳۵۶۱۳ فتوحات مکیه جلد هم صفر ۱۹۲۶) ۶ - اصطلاحات اسلامی مثلاً آنحضرت، أم المؤمنین رضی اللہ عنہ کا خطرناک استعمال اپنے بزرگوں -4
164 کے لئے کرتے ہیں.نظم الدررفی سلک اسیر مولفہ ملا صفی اللہ صاحب ) ( اشارات فریدیہ قلائد الجواہر).انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام قرار دیتے ہیں.(نصرت الابرار ص ۱۳ مطبوعہ شمار) - انگریز کے خود کاشتہ پودے ہیں.چٹان ۵ار اکتوبر ) ۹ - انگریزوں کے جاسوس ہیں.(چیان در نومبر مث) - سید جماعت علی شاہ کو ہادی اور شافع سمجھتے ہیں.- ¼ ۵ ) انوار الصوفیہ لاہور سمبر ۶۴۱۹۱۳ ۲۳ و اگست ۶۴۱۹۱۵ ۳۳ ) -١- سید جماعت علی شاہ کو حضور کے برابر سیدوں کے سید مظہر خدا نور خدا شاہ لولاک اور ہا دئی گل قرار دیتے ہیں.( انوار الصوفير ستمبر مه ها و ستمبر له من و جولائی ۹۲ مش ) ۱۲ - آنحضرت کو عرش تک حضرت سید عبد القادر جیلانی نے پہنچایا.(گلدستہ اکرامات مشا) ۱۳.ان کا عقیدہ ہے کہ آنحضور عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہیں.(رسالہ العقائد ص ۲ مؤلفہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری ) ۱۴.جبرائیل قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے.-1A دلائل السلوک ما مؤلفہ مولانا اللہ یار خاں چکڑالہ ضلع میانوالی ) حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ کی توہین کرتے ہیں.) ارشاد رحمانی فضل یزدانی از مولوی محمد علی صاحب مونگیر می صفحه ۵ ۵۲ گلدسته کرامات ) دیوبندی فرقه - خدا تعالی کو جھوٹ بولنے پر قادر سمجھتے ہیں.(فتاوی رشیدیہ حصہ اول صدا دیوبندی مذہب از مولانا غلام مهر علی شاہ گولڑوی )
164 -۲- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم بیچوں بمجنونوں اور جانوروں کے علم کے برابریم ( حفظ الایمان مصنفہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ دیوبند مث ) - شیطان کا علم حضور علیہ السلام سے وسیع تر تھا.(براہین قاطعہ صنفه خلیل احمد مصدقہ رشیداحمد گنگوهی مث ) -۴- حاجی امداداللہ صاحب کو رحمۃ للعالمین کہتے ہیں.(افاضات الیومیہ از مولانا اشرف علی تھانوی جلد مثلا ) A A.دیو بندیوں نے معاذ اللہ حضور علیہ اسلام کو جہنم میں گرنے سے بچایا.بلغة الحمران بحوالہ دیوبندی مذہب مش ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُردو سکھنے میں دیوبندیوں کے شاگرد ہیں.براہین قاطعہ بحوالہ دیوبندی مذہب ص ۲ ) حضرت علی الاعلی اسلام کا گنبدخضراء ناجائز اور حضرت امام حسین اور حضرت مجددالف ثانی کے روضے ناجائز اور حرام ہیں.(فتاوی دیوبند جیلدا ما ۸ - مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی بانی اسلام کے ثانی ہیں.(مرثیہ تحریر کردہ مولانا محمود السن ) ۹ - دیوبندی ختم نبوت کے منکر ہیں.ر سالہ تحذیر الناس از مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ) ۱۰- خانہ کعبہ میں بھی گنگوہ کا رستہ تلاش کرتے ہیں.( مرثیہ از مولانا محمود الحسن ) - حضرت فاطمتہ الزہرا کی توہین کرتے ہیں.(افاضات الیومیہ جلد ا م ) رضی اللہ عنہ اور امیر المؤمنین کی مقدس اصطلاحات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں.ار ساله تبیان داد ولی شریف فروری ۹۵۳ه مث ) ۱۳- دیوبندیوں کا کلمہ لا الہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ اور درود اللهم صل على سيدنا ونبينا و مولانا اشرف علی.۱۴.ماں کے ساتھ زنا عقلاً جائز سمجھتے ہیں.در ساله الامداد مولانا اشرف علی بابت ماہ صفر ۱۳۷۶ ۳۵) (افاضات الیومیه از مولوی اشرف علی صاحب تھانوی جلد ۲ )
16A ۱۵.دیوبندی انگریز کے وفادار رہے.(فتاوی رشیدیہ) مندرجہ بالا اکثر حوالہ جات دیوبندی مذہب مؤلفہ مولانا غلام مر علی شاہ صاحب سے لئے گئے ہیں.اہل حدیث ا.انگریزوں کے خلاف جہاد کو غد ر اور حرام سمجھتے ہیں.-F -4 در ساله اشاعت السنه جلد ۹ نامه ۳۰ حیات طیبہ ص۲۹۲ مصنفہ حیرت دہلوی) - قرآن پر حدیث کو مقدم جانتے ہیں.(رسالہ اشاعت السنه جلد ۱۳ عن ۲۹۶).کروڑوں محمد پیدا ہو سکنے کا عقیدہ رکھتے ہیں.( تقویت الایمان ص ) کئی خاتم النبیین کے قائل ہیں.(ر و قول الجاملين في نصر المؤمنين صفر به مؤلف وانا لم تصدیق نیشاپوری - آنحضرت کی شان میں گستاخی کے مجرم ہیں.صراط مستقیم مترجم ما ناشر شیخ محمد اشرف تا حرکت کشمیری بازار لاہور ) پنڈت نہرو کو رسول السلام اور گاندھی کو امام مہدی اور بالقوہ نبی سمجھتے ہیں.تاریخ حقائق مده تا ملا مؤلفہ مولانامحمد صادق هنا خطیب زینت المساجد گوجرانواله ما طلبه ماری شد) ے.ختم نبوت کے منکر ہیں.سلسلہ وحی و الہام کو جاری سمجھتے ہیں.( اقتراب الساعة ملام اثبات الالهام والبعد ما و سوانح مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مصنفہ مولوی عبدالجبار غزنوی ) و.ہمیشہ انگریزوں کی خوشامد کرتے رہے.( ترجمان و با بیمه صفحه ۱۲۱ ۱۲۲ ) ۱۰ شمار کی جنگ آزادی کو غدر کہتے ہیں.(الحیاۃ بعد الممات مثلا مؤلفه حافظ عبد الغفار ) 11 - حکومت برطانیہ ان کے نزدیک اسلامی سلطنتوں سے بہتر ہے.(اشاعت الستہ جلد 9 کے صفحہ ۱۹۶۶۹۵) ۱۲.سلطنت برطانیہ کے دائمی غلام ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہے.(اشاعت است جلد 9 صفحہ ۲۰۵ ۲۰۶)
149 ۱۳ -۱ انگریز کا خود کاشتہ پودا (رساله طوفان بر نومبر ) ۱۴ انگریز اولوالامر ہیں.(داستان تاریخ اردو مصنفه حامد حسن قادری من؟ -10 ۱۵ ہندوستان سے باہر بھی انگریزوں کی ایجنٹی کرتے رہے.(ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۳۲۶۱۲۱) -۱۶ ترکی حکومت کو پارہ پارہ کیا.تاریخی حقائق مده تا ما از مولانا محمد صادق خطیب گوجرانواله ) ۱۷.جہاد کے خلاف فتوی دے کر جہالت حاصل کی.f ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک من از مولانا مسعود احمد ندوی ) جماعت اسلامی قرآنی سورتوں کے نام جامع نہیں ہیں.تقسیم القرآن حصہ اول حصہ ) - اسلام فاشزم اور اشتراکیت سے مماثل نظام ہے جس میں خارجیت اور انار گز مت تک کی گنجائش ہے.اسلام کا سیاسی نظام بحوالہ طلوع اسلام ۱۹۶۳ ۱۳۰ ).آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا.-۴- فرشتے تقریباً وہی چیز ہیں جس کو ہندوستان میں دیوی دیوتا قرار دیتے ہیں لیے _A (حقیقت جهاد ) جهادم.تجدید و احیائے دین منا حاشیہ طبع چهارم) قرآن مجید میں ، تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے نہ کتابی اسلوب تفہیم القرآن دیباچہ م ) 4 - حضرت ابوبکرصدیق سے غلطیاں صادر ہوئیں.د ترجمان القرآن جلد ۳۳ ۲۰ ص۹۹ ) حضرت عمرؓ کے قلب سے جذیہ اکابر پرستی محو نہ ہو سکا.ترجمان القرآن جلد ۲ عددم ما بحوالہ مودودیت کا پوسٹمارٹم مش۳ ) لے نئے ایڈیشنوں میں تحریف کر کے یہ عبارت حذف کر دی گئی ہے ؟
- حضرت خالد بن ولید غیر اسلامی جذبہ کے حدود کی تمیز نہ کر سکے.- ترجمان القرآن جلد ۱۲ عد دم ۲۹ بحوالہ مودودیت کا پوسشمار م م ).اسلامی تصوف کے بنیادی نظریے میں بڑی بھاری غلطی موجود ہے.د ترجمان القرآن جلد ۳۷ عدد اصنام بخاری شریف کی حدیثیوں کو بلاتنقید قبول کر لیا صحیح نہیں.(ترجمان القرآن جلد ۳۹ مثلا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مصطفے کمال تک کی تاریخ کو اسلامی کہنا مسلمانوں کی غلطی ہے.( ترجمان القرآن جلد نمبراحته ) ۱۲ - اہل حدیث حنفی دیوبندی بریلوی شیعہ شتی جہالت کی پیدا کی ہوئی اُمتیں ہیں.خطبات مت از مودودی صاحب) ۱۳.مسلمان قوم کے نو سو ننانوے فی ہزا ر ا فراد حق و باطل سے نا آشنا ہیں.مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم مثلا) ۱۴ امام مہدی ایک نیا مذہب شکر پیدا کرے گا.(تجدید و احیائے دین صداه تا مده) ۱۵ - جمہوری اصول پر مبنی اسمبلیوں کی رکنیت بھی حرام اور ان کے لئے ووٹ ڈالنا بھی حرام ہے.در سائل و مسائل حصہ اول ۳۷) پاکستان کا پاکستان، جنت الحمقاء اور مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہے جو مسلمانوں کی مرتب حماقت سے مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ها تا مدت طبع اول حصہ سوم قائم ہوئی.۱۷- قائد اعظم رجل فاجر - -16 روئیدا و جماعت اسلامی حصہ پنجم صفحه ۱۱۴ ۱۱۵) ترجمان القرآن فروری ۱۹۲۶ء من ۱۳ تا صد ۱۵) ۱۸ - جہاد کشمیر نا جائز.(نوائے وقت ۳۰ اکتوبر شاه و ترجمان القرآن جون شاه) مندرجہ بالا اکثر حوالہ جات رسالہ مودودی شہ پارے میں درج ہیں.
AI - 1 چکڑالوی اور پرویزی فرقہ حدیثوں کو شہر کا سند نہیں مانتے.۲ - لفظ اللہ سے قرآنی معاشرہ مرا دیتے ہیں.نظام ربوبیت ما از جناب غلام احمد پرویز ) - قرآنی حکومت نماز اور زکواۃ کی جزئیات میں ردو بدل کی مجاز ہے.د قرآنی فیصلے صدا فردوس گم گشته ما ۳۵ خدا در سرمایه ارمنت شائع کرده اداره مطلوع اسلام) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الیقین نہیں بلکہ قرآن مجید حاتم اب بیتی ہے.رسالہ اشاعت القرآن ۱۵ جون ۱۹۲۳مه صا۳ ) ۵.ہر عامل قرآن مہدی ہے..معراج کے منکر ہیں.ر ساله اشاعت القرآن لاہور ۱۵ نومبر ۶۴۱۹۲۳) نوادرات ما از علامہ اسلم جیراجپوری ) برطانوی حکومت کے خوشامدی رہے.در ساله اشاعت القرآن ۱۵ جون ۱۹۳۶ ۶ صفحه ۲۹ - ۳۲) شیعہ مذہب 1 ا.حضرت علی خدا ہیں.( تذكرة الأئمة صله ) ۲ - حضرت علی خدا ہیں اور محمد اس کے بندے ہیں.(مناقب مرتضوی حیات القلوب جلد ۲ باب ۴۹) - خدا تعالیٰ نے تمام کائنات ائمہ تشیع کے تصرف اور اطاعت پر مامور کر دی ہے.-A حضرت علی فرزند خدا ہیں.(ناسخ التواریخ جلد ششم کتاب دوم من ۳۳ ) (رساله نورتن ص۲).ہم امیر المؤمنین کو حلال مشکلات اور کاشف الکروب مانتے ہیں.شیعہ مذہب میں وہابیت کی روک تھام کیلئے دوسرامقاله ظهور علی بمقام قاب قوسین صفحه ۱۶۷۱۵)
JAN -4 جب تک کوئی شخص ایک تیسرے جز یعنی اولوالامر کی اطاعت کا اقرار نہیں کرتا اس وقت تک و مسلمان نہیں.کہلا سکتا.قرآن در اصل حضرت علی کی طرف نازل ہوا تھا.معارف اسلام لاہور خیلی و فاطمہ نمبر اکتو بر م ) (رساله نورتن مش۳ ) - حضرت علی جمیع انبیاء سے افضل ہیں.غنیتہ الطالبین اور حق الیقین مجلسی باب ۵ ) - -۹- اگر حضرت علی شب معراج میں نہ ہوتے تو حضرت محمد رسول اللہ کی ذرہ قدر بھی نہ ہوتی.-4 (جلاء العیون مجلسی از خلافت شیخین مشا) ۱۰- اصل قرآن امام مہدی کے پاس ہے جو چالیس پارے کا ہے موجودہ قرآن بیاض عثمانی ہے جس میں کامل دس پارے کم ہیں.اسباق الخلافت تفسیر لوامع التنزيل جلد یہ مصنفہ سید علی الحائری لاہوری -11 تفسیر صافی جز ۲۲ ص۲۱ ) - حضرت عز، رائیل حضرت علی کے حکم سے ارواح قبض کرتے ہیں.( تذكرة الأئمة ) -۱۲- حضرت ابابکر و حضرت عمر دونوں حضرت فاطمہ کے جمال پر فریفتہ تھے اور اسی سبب سے ہجرت کی.(کتاب کامل بھائی اور کتاب خلافت شیخین صال) حضرت عمر ایسے مرض میں مبتلا تھے جس سے ان کو لواطت کے بغیر راحت نہیں ہوتی تھی.( الزهرا بحوالہ شیعہ سنی اتحاد مت) ۱۴.حضرت ابو بکر سے مسجد نبوی میں منبر نبوی پر سب سے اول بیعت خلافت شیطان نے کی.(کتاب امامی امام اعظم طوسی شیعی وخلافت شیخین مشت ) ۱۵- قرآن مجید میں جہاں جہاں وقال الشیطان آیا ہے وہیں ثانی (عمر ) مراد ہے.-4 (بحوالہ مقبول قرآن امامیه ص۵۱) ۱ - حضرت ابو بکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کا فر فاسق تھے.(حیات القلوب مجلسی باب ۵۱) ۱۷ - شیطان حضرت علی کی شکل منتقل ہو کر مارا گیا.( تذكرة الائمة منه )
IAP ۱۸.سوائے چھ اصحاب کے......باقی مجمع اصحاب الرسول مرتد اور منافق تھے.- JA د کتاب وفات النبي سليم ابن قسير الهلال مجالس المؤمنين مجلس سوم قاضی نوراللہ حیات القلوب باب صلا) 19 - عمر نے کتیا کی شکل اختیار کر کے چھ بچوں کو جنم دیا اور انتہائی ذلیل ہوئے.(کتاب عیسائیت اور اسلام مسلمان بادشاہوں کے تحت ص۲۳) ۲۰- حضور اقدس پر انتہائی ناپاک الزام...خلاصته النهج قلمی جلد اول زیر آیت سورۃ النساء) ۲۱.حضرت علی اور ان کے باقی ائمہ جمیع انبیاء سے افضل ہیں.( حق الیقین مجلسی باث ) ۲۲.ہمارے گروہ کے علاوہ تمام لوگ اولا د بغایا ہیں.الفروع من الجامع الکافی جلد ۳ - كتاب الروضه ۱۳۵ ) ۲۳- اگر میت شیعہ نہ ہو اور دشمن اہل بیت ہو اور نماز بضرورت پڑھنا پڑے تو بعد چوتی بیر کہے.اللهم...اے اللہ تو اس کو آگ کے عذاب میں داخل کر.ا تحفته العوام صفحه ۲۱۶، ۲۱۷ بار چهارم ) نوٹ :.مندرجہ بالا اکثر حوالہ جات قاطع انف الشیعة الشنیعہ اور شیعہ سنی اتحاد کی مخلصانہ اپیل " سے ماخوذ ہیں.
شیعوں کی طروب انگریز کی کافرانہ حکومت کی تما اور جہاد کی مخالفت - موعظه تحریف قرآن صفحه ۷۲۷۷۱ بار دوم ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی کتاب ہمارے ہندوستانی مسلمان صفحہ ، ۳ - موعظه تقیه صفحه ۷۴،۷۳ بارسوم ۴ - اخبار وکیل امرتسر ۲۸ اکتوبر میں بیان آغا خان وحدت اسلامیہ کی بقاء کی واحد صُورت ہمارے نزدیک عالیم اسلام خصوصا پاکستان پہلے ہی مذہب کے نام پر شورشوں سے بہت نقصان اُٹھا چکا ہے اس لئے معزز ایوان کا فرض اولین ہے کہ وہ احمدی مسلمانوں کے خلاف موجودہ فسادات اور ہنگامہ آرائی کے پیش نظر فرقہ پرستی کے خوفناک نتائج پر غور کرے.مولانا عبد المجید سالک نے ۱۹۵۲ میں حکومت پاکستان کو یہ مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ :- ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحمد رسُولُ اللہ کے پر قائل کو مسلمان سمجھیں اور مسلمان کی تکفیر کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دیے بلکہ وقت آگیا ہے کہ اسلامی حکومت تکفیر مسلمین کو قانونا جرم قرار دے دے تا معاشرہ اسلامی اس لعنت سے ہمیشہ کے لئے پاک ہو جائے " د روزنامه آفاقی در دسمبر ۶۹)
۱۸۵ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا پردرد انتباه
JAZ حضرت بانی سلسلہ احمدیکا پر کرد انتباه اس محضر نامہ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ایک پر شوکت بیان پر ختم کیا جاتا ہے.آپ نے امتِ مسلمہ کے علماء اور زعماء کو درد بھرے دل سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی ہے نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.....اے لوگو ! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ مشکل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سُنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے.اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اُس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افتراء کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اُس میں سستی کروں اگرچہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر چلنا چاہیں.انسان کیا ہے محض ایک کیڑا.
IAA اور بشر کیا ہے محض ایک مصنفہ پس کیونکر میں جیتے وقیوم کے حکم کو ایک کیڑے یا کے لئے ٹال دوں جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم میں یقینا سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ ہے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو ! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دونا (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹۰۸) " میں نصیحتا اللہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور یک زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیا ر ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بد دعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی.اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یا درکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ کہیں خُدا سے آیا ہوں.....کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے.میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں ہیں وہ پودا نہیں ہوں کہ اُن کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں.....اے خدا! تو اس امت پر رحم کر.آمین " ( اربعین نمبر ۴ صفحه ۵ تا ۷ )
۱۸۹ دُعاء دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطا فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں اور پاکستان ترقی دسر بلندی اور عروج و اقبال کے اس عظیم الشان مقام تک پہنچے جائے جس کا تصور جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین مواحد خلیفہ اسیح الثانی نے ۱۹۴۶ء میں درج ذیل الفاظ میں پیش کیا تھا :."t ہم نے عدل اور انصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بناتا ہے.بہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امر نے قائم کرے گا اور ہر ایک کو اُس کا حق دلائے گا ، جہان رو اور امریکہ فیل ہوا صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہوں گے ( روزنامه الفضل ۲۳ر ما رچ نشانه ) وأخر دعوننا ان الحمد لله ربّ العلمين