Mahmooda Begum

Mahmooda Begum

حضرت سیّدہ محمودہ بیگم صاحبہ

المعروف ’اُمّ ناصر‘
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ المعروف أم ناصر

Page 2

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 3

حضرت سید محمودہ بیگم صاحبہ پیارے بچو! 1 حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ المعروف اُمّم ناصر حضرت سیدہ محمودہ بیگم جو ام ناصر کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی تھیں.آج تمہیں اُن کی زندگی کی کہانی سناتے ہیں کہ کون تھیں؟ کتنی عظیم ( بڑی ) زندگی گزاری اور کب فوت ہوئیں وغیرہ.جب تمہیں بھی ان کے متعلق پتہ چل جائے گا تو تم اپنی نمازوں اور دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا.اور کوشش کرنا کہ ایسی پیاری پیاری خوبیاں اپنے اندر بھی پیدا کرو! حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 1891ء میں پیدا ہوئیں ، آپ کا نام امی ابا نے رشیدہ رکھا ( لیکن ہم یہ بات کہ محمودہ نام کیوں پڑ گیا بعد میں بتائیں گے ) آپ کے ابا کا نام حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب تھا اور اُمی کا نام مکرمہ عمدہ بیگم تھا.اُس زمانے میں لڑکیوں کے اسکول تو پورے ہندوستان میں ہوتے ہی نہیں تھے.اس لئے آپ نے گھر میں تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی اور قرآن شریف بھی پڑھا.آپ کے داد خلیفہ حمید الدین صاحب اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے عالم اور بزرگ انسان تھے.لاہور کی مشہور شاہی مسجد کے

Page 4

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 2 امام، مشہور اسکول اسلامیہ اسکول کی بنیاد آپ نے ڈالی اور انجمن حمایت اسلام کے نام پر ایک جماعت بنائی جو اسلام کی خدمت کرے.آپ کو قرآن حفظ تھا.ایک بیٹی اور پھوپھی بھی حافظ قرآن تھیں.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ اس قدر نیک گھر میں پرورش پا کر جب آپ جوان ہوئے اور اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر لی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اُں خوش قسمت صحابہ میں شمار ہونے لگے جن کو اولین کہتے ہیں ، یعنی شروع میں ایمان لانے والے.ایک دن حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اپنی بیٹی رشیدہ کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کے لئے قادیان آئے سات سال کی لڑکی رشیدہ نے جب اتنی بڑی ہستی جو خدا کے نبی تھے.اُن کو پہلی دفعہ دیکھا تو ادب اور عزت کی وجہ سے دوبارہ نظریں نہ اُٹھا سکیں ، کچھ ہی عرصہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے ابا کو خط لکھا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے محمود ( حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ) کا رشتہ رشیدہ سے کرنا چاہتے ہیں.اور یہ بھی لکھا کہ ” دعا کریں اور چونکہ دونوں 66 بچے چھوٹے ہیں رشتہ طے کر دیتے ہیں شادی بعد میں ہو جائے گی.“ اس محلط نے منفی رشیدہ کی قسمت کو چار چاند لگا دیئے.بچو! یہاں

Page 5

حضرت سید ہ محمودہ بیگم صاحبہ 3 چار چاند کا مطلب ہے بہت روشن کہ ایک نیک باپ کی بیٹی تو تھیں اب ایک ایسے گھر کی بہو نے جارہی تھیں جو اس زمانہ میں سب سے زیادہ نیک انسان کا گھر تھا اور سب سے بڑے بیٹے کی دلہن ، جس کے اندر بہت چھوٹی عمر سے اسلام کی خدمت کی ایسی کچی اور زبر دست تڑپ تھی کہ جس کی سمجھ عام طور پر بہت بڑے بڑے انسانوں میں بھی نہیں ہوتی.190 ء میں جب رشیدہ گیارہ سال کی ہوئیں تو اُن کی شادی ہو گئی.بارات میں حضرت میر ناصر نواب صاحب ( جو حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب کے نانا تھے ) اور حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ڑ کی تشریف لے گئے.'رُڑ کی ہندوستان کے ایک قصبہ کا نام ہے.جہاں اُن دنوں آپ کے ابا کی ملازمت تھی.جب دلہن کو بیاہ کر گھر لے آئے.اس کے بعد حضرت اماں جان ( جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیوی تھیں) نے آپ کا نام محمودہ رکھا.اور تب سے اسی نام سے سب آپ کو بلانے لگے.شادی کے وقت آپ چھوٹی تھیں.اس لئے آپ ایک سال کے لئے واپس اپنے امی ابا کے پاس چلی گئیں اور 1903ء میں دوبارہ آگئیں.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جو آپ کی نند تھیں فرماتی ہیں:.”انہوں نے شادی کے بعد اس گھر کو اپنا گھر اور ہم لوگوں کو اپنے

Page 6

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ بہن بھائی سمجھا، نہایت پیار سے ہم لوگ رہے.میں بہت چھوٹی تھی ضرور ستاتی بھی ہوں گی، مگر ان کی شفقت میں کمی نہ آتی دیکھی.ہمارے بچوں کے آپس میں رشتے ہوئے ایسے میں سو باتیں قدرتی ہو جاتی ہیں بد مزگی کی اور ہو سکتی تھیں انگر ہمارے ذاتی تعلقات پر بھی کوئی اثر نہ پڑا نہ انہوں نے ان رشتوں کو پہلے رشتہ کے درمیان میں کبھی بھی حائل ہونے دیا.حضرت اماں جان کے بعد اور بھی محبت و شفقت خصوصیت سے ان کی جانب سے حاصل رہی.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان سے خاص تعلق تھا.بہت کم اس زمانہ میں بات کرتے بڑوں سے میں نے ان کو دیکھا ، شام کو باہر صحن میں ) آنا تو مؤدب ہو کر بیٹھنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے بھی دوپٹہ بہت لپیٹ کر اوڑھے رکھنا ان کا طریق تھا جیسے پنجابی میں دُہری بنگل کہتے ہیں اب لڑکیوں نے شاید یہ طریقہ دیکھا ہی نہ ہو، اسی صورت میں دو پٹہ اوڑھ کر صحن میں نکلتی تھیں یہ ایک طرح کا گھر کا پردہ ہی ہوتا ہے.حالانکہ اس وقت شروع میں پردہ والا کوئی خاص گھر میں نہ ہوتا تھا.“ وو بہت دعائیں کرنے والی تھیں ، جب میرا پہلا بھتیجا ، نصیر احمد فوت ہو گیا اور پھر بچہ کافی عرصہ تک نہ ہو تو انہوں نے اولاد

Page 7

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 5 کے لئے بے حد دعائیں کیں.پھر تو خدا کے فضل سے اوپر نیچے بیٹے بھی 66 دیئے اور بیٹیاں بھی ، مبارک زندگی تھی ، مبارک انجام ہوا.“ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی پہلی بہو تھیں اور آپ علیہ السلام کے الہام خواتین مبارکہ میں شامل ہوئیں.سب سے پیاری بات یہ تھی کہ آپ نے پانچ یا چھ سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے، اُن کے گھر میں گزارے اور جس قدر بھی ممکن ہوتا ہر طرح خدمت کرتیں.جب بھی حضور علیہ السلام وضو کر نے لگتے تو بھاگ کر لوٹا پکڑ لیتیں اور خود پانی ڈالنے لگتیں تا کہ خدمت کر سکیں.گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کے علاوہ آپ نے بہت دفعہ حضور علیہ السلام کے پاؤں دبانے کی توفیق بھی پائی.حضرت اماں جان جو آپ کے میاں کی اتنی تھیں اور اب تو آپ کی بھی امی تھیں.بے حد پیار اور محبت سے اپنی محمودہ کا خیال رکھتیں تھیں.شادی کے بعد شروع میں کچھ راتیں اپنے پاس سلا یا کرتیں تا کہ بچی کو نئے گھر میں اپنا پن محسوس ہونے لگے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی گھر میں آنے والی نئی مہمان کا بہت خیال رکھتے.اکثر صبح جب حضور علیہ السلام لکھنے کا کام کر رہے ہوتے اور آپ کا دل یہ نہ چاہتا کہ پراٹھے وغیرہ کا ناشتہ کروں تو خاموشی سے جا کر آپ علیہ السلام کے پاس کھڑی ہو جاتیں اور

Page 8

حضرت سید ہ محمودہ بیگم صاحبہ 6 آپ اُن کو فوراً اپنے ٹرنک کی چابیاں پکڑا دیتے جن میں مزیدار سی کھانے کی ایسی چیزیں رکھی ہوتی تھیں ، جو اکثر قادیان کے باہر سے آتی تھیں.مثلاً بسکٹ مٹھائیاں وغیرہ اور آپ چابیاں لے کر اپنی مرضی کی چیزیں مزے سے کھاتیں.اس کے علاوہ کئی دفعہ اگر آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی تو بے تکلفی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مانگ لیتیں اور آپ خوشی سے فرمائش پوری کر دیتے.بچو! اس سادہ ، بے تکلف اور محبت کرنے والے گھرانے میں آپ کے شو ہر محترم سید نا محمود بھی آپ کا بہت خیال رکھتے لیکن ایک رات جب کہ آپ اپنے کاموں کی وجہ سے کچھ دیر سے آئے تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں دباتے رہاتے پلنگ کی پیٹی پر سر رکھے سو گئیں تھیں.تو حضور علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا " میاں محمود ! جلدی آجایا کرو محمودہ کو اکیلے ڈر لگتا ہے چنانچہ اس کے بعد آپ رات کو جلد گھر آجایا کرتے تھے.ایک اور مزے دار بات یہ ہے کہ ایک دفعہ یہ بات مشہور ہوئی کہ شائد میاں محمود دوسری شادی کرلیں گے.تو آپ یہ سن کر اداس ہو گئیں.شام کو جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دبارہی تھیں تو حضور علیہ السلام نے پوچھا ” محمودہ تم کیوں اُداس ہو؟“ آپ نے اُس خبر کا

Page 9

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ ذکر کیا تو آپ علیہ السلام فرمانے لگے کہ میری زندگی میں محمود دوسری شادی نہیں کرے گا“ اور یہ بات سُن کر آپ کو تسلی ہوئی اور حضور علیہ السلام کی منہ سے نکلی ہوئی بات پوری بھی ہوئی.(چنانچہ باقی شادیاں آپ نے بعد میں کیں) آپ کے گھر پہلا بچہ نصیر احمد جو حضور علیہ السلام کی زندگی میں پیدا.ہوا تھا اور یہ چند ماہ کا ہوکر فوت ہو گیا تھا.اس کے کچھ عرصہ بعد کوئی اور بچہ نہ ہوا ایک دن کسی نے ایسا دل دُکھایا کہ آپ ساری رات اللہ تعالیٰ کے سامنے بہت روئیں اور پھر جلد ہی اللہ تعالی نے آپ کو وہ بیٹا عطا کیا جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام سافلة لك " تیرا ہوتا ہوگا پورا ہوا اور بچو! تمہیں پتہ ہے کہ وہ کون تھے؟ وہ بعد میں ہمارے تیسرے خلیفہ بنے (حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ جو اپنے بیٹے ناصر کے نام کی وجہ سے دام ناصر، مشہور ہیں.اس کے علاوہ جب آپ کے بچوں نے امی جان کہنا شروع کیا پھر سب لوگ بھی آپ کو امی جان کہتے.اور جماعت کی عورتوں اور بچوں نے بھی اسی نام سے مخاطب کرنا شروع کر دیا.بچو! آپ نے کبھی قادیان دیکھا ہے ؟ اور اگر آپ قادیان گئے ہیں تو دار مسیح تو ضرور دیکھا ہو گا.اُس گھر میں جہاں آج کل

Page 10

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 8 صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب رہتے ہیں.وہ حضرت سید و محمود و بیگم صاحبہ کا گھر تھا.اس گھر میں ایک کمرہ ایسا تھا جس سے سب گھر والے گزر کر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے دفتر میں جایا کرتے تھے.اور اس کمرے میں امی جان اپنے بچوں کے ساتھ سوتی تھیں.جب رات کو آپ سب سو بھی جاتے اور اگر کسی گھر والے نے حضور علیہ السلام سے ملنے جانا ہوتا تو بغیر بُرا منائے ، بڑی خوشی کے ساتھ آپ بار بار اٹھ کر دروازہ کھولتیں اور بند کر تیں لیکن کبھی بُرا نہ منا نہیں.آپ کی بہت پیاری پیاری خوبیوں میں سے ایک خوبی قربانی کرنے کا مادہ تھا.وہ بہت ہی زیادہ تھا.جب آپ کے پیارے شوہر سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ بنے اور عورتوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے آپ نے اور شادیاں کیں.تو امی جان نے بہت ہمت اور حوصلے اور قربانی کے ساتھ سب کچھ برداشت کیا.اور اس سلسلے میں نہ اپنے میاں کو ستایا، نہ آنے والی نئی بیویوں کو بلکہ ایک گھر میں رہتے ہوئے ہمیشہ بڑی بہن بن کر گزارا کیا.آپ کو گلے شکوے کرنے کی بالکل عادت نہ تھی اور نہ ہی کبھی کوئی بات ادھر کی سن کر اُدھر بیان کرنے والی طبیعت تھی.کم گو اور سادہ مزاج تھیں.شاید یہی وجہ تھی کہ آپ کئے بڑے پن نے سب کو سکون اور

Page 11

حضرت سید ہ محمودہ بیگم صاحبہ 9 خوشیوں والی زندگی عطا کی، آپ نے ہمیشہ دوسری بیویوں کے بچوں سے بھی بہت اچھا سلوک کیا.بلکہ جب حضور کی ایک بیوی سیدہ سار و بیگم صاحبہ فوت ہوئیں تو ان کے بچوں کی بہت پیار سے پرورش کی ، جیسے اپنے بچے ہوتے ہیں.اور بھی کوئی فرق ان کے بچوں سے نہ کیا.بچو! امی جان کا ایک اور پیارا واقعہ آپ کو سناتے ہیں کہ جب آپ کے شوہر نے دوسری شادی کا ارادہ ان پر ظاہر کیا تو انہوں نے ایک بات کہی کہ میری ایک بات مان لیں کہ ” آپ کے ذاتی کام سب میں ہی کیا کروں گی، یعنی کپڑے دھلوانا استری کرنا ، پگڑیوں کو مایہ وغیرہ دینا اور بے شمار چھوٹے چھوٹے کام بہت خوشی اور پیار سے کرتیں اور پھر یہ کام آپ نے ہمیشہ اتنی محنت اور پیار سے باقاعدگی کے ساتھ کئے کہ حضور کوکوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے.کیونکہ حضور جماعتی کاموں کی وجہ سے اس قدر مصروف تھے اور یہ ضروری بھی تھا کہ آپ کے آرام کا ایسا خیال رکھا جائے کہ وقت ضائع نہ ہو.امی جان کھانا بھی بہت مزیدار پکاتی تھیں اور سب کو آپ کے ہاتھ کے کھانے بے حد پسند آتے تھے.بچو! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں جو بعض چھوٹے چھوٹے رواج ہیں ان میں سے اکثر حضرت اماں جان جو دہلی میں رہنے والی تھیں ان کی وجہ سے بھی بنے ہیں.مثلاً پان کھانا یا گھر میں پاندان

Page 12

حضرت سید ہ محمودہ بیگم صاحبہ 10 موجود رکھنا گو کہ اب اس کا اتنا زیادہ نہ شوق ہے نہ رواج ہے.البتہ اُس زمانے میں اکثر گھروں میں پاندان بھی ہوتے تھے اور کوئی باقاعدہ کھاتا تھا اور کوئی کبھی کبھار.حضرت امی جان کو بھی بہت مزیدار پان بنانے آتے تھے.حالانکہ سادہ سے پان ہوتے تھے.حضور کو صرف اُمی جان کے ہاتھ کا پان ہی پسند تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی بچے عطا فرمائے جن میں سے کچھ چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے.سات بیٹیاں اور دو بیٹیوں نے لمبی عمر پائی.آپ نبی کی بہو، ایک خلیفہ کی بیوی ، ایک خلیفہ کی ماں اور ایک خلیفہ کی نانی بنیں.اور وہ اس طرح کہ شوہر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ومصلح موعود بیٹے حضرت خلیفۃ السیح الثالث (حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احہ صاحب) احمد نواسے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ( حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب) امی جان کی بڑی بیٹی حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے سب سے چھوٹے بیٹے صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی وفات کے بعد جماعت احمد یہ کے پانچویں خلیفہ کے لئے منتخب فرمایا.

Page 13

حضرت سید ہ محمودہ بیگم صاحبہ 11 جس گھر کی آپ بہو بنیں تھیں وہاں انسان کی خدمت ، خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ بہت ہی اہم کبھی جاتی تھی.چنانچہ خصوصاً عورتوں سے بے حد محبت اور پیار سے ملاقات کرنا ، صبح شام ان کے مسائل سننا اور ہر ممکن مدد کرنا ، لجنہ کے کام کرنا، گھر کے کام ، بچوں کے کام الغرض ایسی مصروف زندگی تھی کہ شاید رات کو تھک ہار کر ہی آرام ملتا ہوگا.بچھوا آؤ آج لجعہ کی کہانی بھی تمہیں بتاتے ہیں.1922 ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے قادیان میں احمدی عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک جماعت بنائی.جس کا نام لجنہ اماءاللہ رکھا یعنی اللہ کی لونڈیوں کی جماعت.پہلے دن اس میں 14 عورتیں شامل ہوئیں.اُن سب کا ایک اجلاس ہوا جس میں حضور نے بھی تقریر فرمائی.اور اُن سب کے نام نوٹ کرنے کے بعد یہ بتایا کہ ایک ممبر کو صدر بناؤ اور ایک سیکرٹری ہو جو با قاعدہ اجلاس کیا کریں.سب شامل ہوں.عورتوں کی تعلیم میں ترقی کے لئے کوشش کی جائے.قرآن مجید سکھایا جائے اور دین سکھایا جائے وغیرہ.چنانچہ جب پہلا اجلاس ہوا اور حضرت اماں جان کو سب نے صدر بنایا تو اماں جان نے اپنی صدر والی کرسی پر حضرت اُمّم ناصر یعنی

Page 14

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 12 امی جان کو خود ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور سب اس بات سے یہ سمجھ گئے کہ اب سارے کام اُمی جان کی صدارت میں ہوں گے.اور امی جان ہی ہماری صدر ہیں.چنانچہ اللہ کے بے حد فضل اور احسان کے ساتھ انہوں نے وفات تک یعنی 36 سال تک اس عہدے پر کام کیا اور احمدی عورتوں کی بے حد خدمت کی.آج جو ہمارے گھروں میں بھی لجنہ کا ذکر ہوتا ہے اور کام ہوتا ہے تو یاد رکھنا کہ اس کے پیچھے کچھ ایسی عورتوں کی قربانی کی کہانیاں ہیں جنہوں نے بہت محنت سے اس پودے کی پرورش کی اور آج یہ ساری دنیا میں پھیل چکی ہے.( خدا کرے کہ سب مٹھی بچیاں لجنہ کے کام کرنے والیاں ہوں اور سب ننھے بچے اطفال ،خدام اور انصار کے کام کرنے والے ہوں.آمین ) امی جان نے لجنہ کے کام بہت ہمت سے سنبھالے شروع میں تو یہ بھی تھا کہ اجلاس کے لئے بہنیں اپنی اپنی گرسی لاتیں اور پھر اُن پر بیٹھ کر اجلاس ہوتا.اور دین کی ترقی کے لئے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے منصوبے بنائے جاتے اور ان پر خوب محنت سے سب مل جل کر عمل کرتیں.آہستہ آہستہ یہ جماعت قادیان سے نکل کر پورے ملک ہندوستان میں اور پھر جہاں جہاں احمدی عورتیں ہیں وہاں قائم ہونا شروع

Page 15

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 13 ہوگئی.اور ان سب کی صدر حضرت ام ناصر صاحبہ تھیں.شروع میں چار درس گاہیں (اسکول ) اور قرآن مجید پڑھانے اور سکھانے کیلئے کھولے گئے.جن میں سے ایک حضرت امی جان کا گھر بھی تھا جو آپ نے خود پیش کیا.جہاں آپ نے بہت سی عورتوں اور بچوں کو قرآن مجید ، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور عربی سکھاتی تھیں.آپ کی ایک بہت نمایاں خوبی اپنے مال کی ہر طرح قربانی کرنا تھی.اور آپ اس میں اس قدر بڑھی ہوئی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی ایک قربانی کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے اپنے الفاظ کے ذریعہ دنیا میں ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیا ہے.جب 1913 ء میں اخبار الفضل، جاری کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت کی بات آپ کے اپنے قلم سے بہت خوبصورت طریقہ سے آپ خود پڑھ کر مزا لے سکتے ہیں.حضور فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہ کے دل میں رسول کریم معدے کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں پیسہ لگانا ایسا ہی ہے.جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا.اپنے دو زیور مجھے

Page 16

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 14 دے دیئے کہ ان کو فر وخت کر کے اخبار جاری کر دوں.وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنوا کر نہ دی ہے.اس کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے اور اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کر دوں تو ان کا سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے.اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میری زندگی کے ایک نئے باب کا ورق الٹ دیا.بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بڑا سبب پیدا کر دیا.کیا ہی کچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے لوگ اس دکان کو تو یا در کھتے ہیں جہاں سے عطر خرید تے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو بھی خیال نہیں آتا جس نے مرکر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا ہو.“ آپ کے شوہر آپ کو گھر کے خرچ کے علاوہ جیب خرچ بھی اپنے ذاتی استعمال کے لئے دیا کرتے تھے.آپ وہ سارا چندہ میں دے دیتیں تھیں.ہر مالی تحریک میں حصہ بھی لیتیں.یہاں تک کہ وصیت کا چندہ 13 اداء کرتی تھیں یعنی اپنی آمد کا تیسرا حصہ.بے حد سلیقہ مند تھیں، فضول خرچ بالکل نہ تھیں، تبھی تو پیسے بچا کر چندے دینے کا شوق تھا.پرانے جوڑوں کے اوپر لگے گوٹے اُتار کر نئے کپڑوں پر لگا کر پہنتیں تو لوگ

Page 17

حضرت سید ہ محمودہ بیگم صاحبہ سمجھتے ، بہت قیمتی جوڑا پہنا ہے.15 بچو! یہی قربانی تھی جس کی اس وقت خدا کی ایک غریب جماعت کو بھی بہت ضرورت تھی.گھر میں رہنے کا طریقہ بھی بہت سادہ مگر صاف ستھرا تھا.کھانے پینے کی چیزیں ہو یا کپڑ اسب کچھ بہت سلیقہ مندی سے خرچ کیا جاتا.تا کہ زیادہ سے زیادہ پیسے بچا کر ضرورت مندوں کی مدد میں یا چندے میں دے دیں اور یہی وہ پہلے لوگوں کی قربانیاں تھیں.اسلئے بچو! ان پاک اور نیک بزرگ عورتوں، مردوں کو اپنی دعاؤں میں ضرور یا درکھنا جن کی وجہ سے آج ہماری جماعت اتنی پھیل چکی ہے اور دن بدن بڑھتی اور چھیلتی جارہی ہے.حضرت ام ناصر جن کو ہم امی جان کے نام سے یاد کر رہے ہیں اُن کی ایک بہت پیاری بات بھی سنو ! اُن کو سب سے زیادہ احمدیت سے محبت تھی اور خلافت کے مقام کا خوب علم تھا.اور اس کے لئے اتنی غیرت رکھتی تھیں کہ سب رشتے اس کے سامنے کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے.ایک دفعہ آپ کے ایک چچا زاد بھائی جو جماعت کے خلاف تھے.آپ سے ملنے آئے امی جان نے فوراً کہلا بھیجا کہ ” میں بالکل بھی نہ ملوں گی“ بعد میں جب انہوں نے حضور سے ملاقات کی تو حضور نے کہلا بھیجا کہ کھانا تیار کریں میں اُن کو لا رہا ہوں چنانچہ آپ کے حکم کو مانتے ہوئے جلدی سے

Page 18

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 16 کھانا تیار کر وایا اور جب وہ کھانا کھا کر جاچکے تو امی جان نے حضور سے کہا کہ میں تو ملاقات سے بھی انکار کر چکی تھی اور آپ اُن کو گھر کھانے پر لے آئے ؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ " بے شک وہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں لیکن اس وقت وہ ہمارے مہمان تھے اور مہمان کی خاطر فرض ہے.“ آپ کو ہمیشہ سے مہمانوں کی خدمت کرنے اور خیال رکھنے کا بہت شوق تھا.دارا مسیح میں جلسہ سالانہ کے موقعوں پر اکثر اتنے زیادہ مہمان ہوتے کہ تین تین سو اور چار چار سو تک لوگ ٹھہرتے تھے اُن دنوں ہر روز صبح سویرے ملازمین کے ساتھ آپ بھی اٹھ کر مہمانوں کو اُن کے کمروں میں گرما گرم چائے بھجوا تیں اور فرما تھیں کہ بے حد ٹھنڈ ہے یہ نہ ہو کہ کسی کو صبح چائے کی عادت ہو اور اس کو نہ ملنے سے تکلیف ہوتی ہو.مہمان کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں کا بہت خیال رکھتی تھیں اور ہر وقت آپ کے گھر عورتوں کا ایک مجمع سالگا رہتا.شائد ہی کوئی وقت ایسا ملتا کہ فارغ بیٹھ سکیں.یہاں تک کہ جب ربوہ میں زندگی کے آخری سالوں میں کچھ بیار تھیں احمدی عورتیں صبح سے لے کر رات بارہ بارہ بجے تک محبت اور شوق سے ملنے آتیں تو آپ بھی سب سے بہت پیار اور محبت سے ملاقات فرماتیں.اور باوجود کمزوری کے تھکان کا اظہار نہ کرتیں.خاص طور پر حضرت اماں جان کی وفات کے بعد تو احمدی خواتین بہت

Page 19

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 17 زیادہ آپ سے ملاقات کے لئے آتی تھیں.حضرت امی جان بے حد دُعا گو، عبادت گزار اور ایک فرشتہ صفت انسان تھیں.اپنے بچوں کی نمازوں کا خاص خیال رکھتیں کہ وقت پر باقاعدگی سے نمازیں پڑھا کریں.آپ کی بڑی صاحبزادی حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ بیان کرتیں ہیں ” مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی تھی تو صبح کی نماز کے لئے جگاتی تھیں اگر میں اُٹھنے میں سستی کرتی تو پانی کے چھینٹے دے کر صبح کی نماز کے لئے جگاتی تھیں لڑکوں کو مسجد بھجواتیں تھیں کہ جماعت کے ساتھ جا کر نماز پڑھیں.چنانچہ آج ان کے بچے اپنے والدین کی تربیت کی وجہ سے بھی دُعاؤں اور نمازوں میں بہت توجہ دیتے ہیں.66 آپ کی مندرجہ ذیل اولا د نے لمبی عمر پائی.1 حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب 4 صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب 5 صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب

Page 20

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ 8 صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب 18 صاحبزادہ مرزار فیق احمد صاحب آج آپ نے امی جان کی جو چھوٹی سی کہانی پڑھی ہے اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی لیکن شرط ہے کہ قربانی بہت خلوص ، محبت اور مسلسل محنت سے کی جائے یہی قربانی جو خاوند کی خاطر دی کہ انہوں نے دین کی خاطر مزید شادیاں کیں.ایک وقت میں بعض دفعہ چار چار گھر تھے.دوسری سب بیویوں کے ساتھ بڑی بہنوں والا سلوک کیا.سب کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھا.پھر اپنے بڑے بیٹے (حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) کو چھوٹی عمر میں ہی حضرت اماں جان کے سپر د کر دیا.اگر چہ سب کے گھر ساتھ ساتھ تھے.لیکن بچے کی مکمل ذمہ داری التہاں جان ہی کی رہی اور آپ نے بھی کبھی دخل نہ دیا.مال کی قربانی کی ، تو سب کچھ خدا کی راہ میں دے دیا.وقت کی قربانی ، یہ کہ ہر لمحہ خلیفہ وقت جو آپ کے شوہر تھے کی رضا کی خاطر اپنے گھر اور اپنے آپ کو وقف رکھا.الغرض خدا کی اس پیاری ہستی نے اگر اتنی قربانیاں دیں تو خدا تعالیٰ نے ان کو قبول فرمایا اور آپ کی نسل میں خلافت کی صورت میں آپ پر انعام جاری کئے.

Page 21

حضرت سید محمودہ بیگم صاحبہ 19 حوالہ جات (1) تاریخ لجنہ جلد دوم صفحه 506 تا509 (2) سيرة وسوانح حضرت سیّدہ ام ناصر از مکرمه نسیم سعید صاحبه لاهور صفحہ 5 تا 87 (3) مصباح ستمبر 1958 ، صفحہ 5-4

Page 22

حضرت سید محمودہ بیگم صاحبہ (Hadhrat Syeda Mehmuda Begum Sahiba) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 22