Madeena

Madeena

ہجرت مدینہ اور مدینے میں آمد

سیرۃ و سوانح حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

چھوٹے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کی سیرت وسوانح پر آسان زبان میں کتب کی تیاری کے سلسلہ میں زیر نظر کتاب حضرت محمد ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں ہجرت کی اجازت ملنے سے لیکر تیاری سفر، رفیق سفر، معجزانہ حفاظت میں مکہ سے مدینہ پہنچنا اور مدینہ میں بے نظیر استقبال وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔  موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر واشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے۔


Book Content

Page 1

ہجرت مدینہ مدینے میں آمد شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

سيرة وسوانح حضرت محمدمصطفی سال ملیا میلیم دید بینہ مدینے میں آمد | مرتبہ امہ الباری ناصر

Page 3

سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی اسانه ای هستم ہجرت مدینہ و مدینے میں آمد امہ الباری ناصر نام کتاب: مرتبه: اشاعت اول ( انڈیا ): اشاعت هذا: تعداد: مطبع ناشر $2008 اپریل 2017ء 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا ، 143516 Name of the Book: Seerat wa Swaneh Hazrat Muhammad say saw Compiled by: Hijrat Madina wa Madine Me Amad Amatul Bari Nasir First edition published in : 2008(INDIA) Present edition Quantity: 2017(INDIA) 1000 Printed at: Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Published by: Nazarat Nashr-o-Isha'at Qadian Distt: Gurdaspur, Punjab, India, 143516 ISBN: 978-81-7912-193-1

Page 4

عرض ناشر لجنہ اماءاللہ کراچی پاکستان نے صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر احباب جماعت کی معلومات اور بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے کم از کم سو کتب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت مختلف افراد کی طرف سے مرتب کردہ یا تصنیف کردہ کتب شائع کی گئیں.یہ کتب نہایت آسان اور عام فہم سادہ زبان میں لکھی گئیں تا کہ ہر کوئی آسانی سے اسے سمجھ سکے.ان میں سے کتابچہ ہجرت مدینہ و مدینے میں آمد خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی سال میں سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی منظوری سے نظارت نشر و اشاعت کے تحت شائع کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور نافع الناس بنائے.ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کوصد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ کی 74 ویں کتاب ”سیرۃ وسوانح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ ومدینے میں آمد پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے.الحمدُ لله على ذلك - 9966 اس سے پہلے عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ سیکرٹری اشاعت لجنہ کراچی سیرت پاک کے موضوع پر بچوں کے متعلق چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھ چکی ہیں مثلاً حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن ” مشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ سے شادی آغاز رسالت’دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ “ شعب ابی طالب اور سفرِ طائف‘ان کتابوں میں مکہ کی زندگی کے حالات میں اسلام کی تبلیغ کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششیں مخالفین کی ایذا دہی اور آپ کے صبر و استقامت کا بخوبی علم ہوتا ہے.آپ کے خدا پر توکل ، تائید و نصرت پر بھروسہ اور الہی وعدوں پر مکمل یقین کے متعلق پڑھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے اور بے اختیار آپ پر درود وسلام بھیجنے کو جی چاہتا ہے.زیر نظر کتاب میں سلسلہ آگے بڑھتا ہے آپ کو ہجرت کی اجازت ملی اس کا سارا سامان اور مکمل حفاظت مولیٰ کریم کے خاص فضلوں سے ہوئی.پھر مدینے میں آمد کے وقت بے نظیر استقبال کی تفصیل بھی اس کتاب میں درج ہے مرتبہ نے اپنی روایت کے مطابق سیرت خاتم

Page 6

النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کو بنیاد بنا کر قدرے تفصیل سے بچوں کے لئے آسان زبان میں لکھا ہے.منظر کشی اتنی واضح اور مکمل ہے کہ آنکھوں کے آگے نقشہ بنتا چلا جاتا ہے.قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان کتابوں کو خرید کر خود بھی پڑھیں اور بچوں کو بھی دیں تاکہ سیرۃ نبوی کا درست نقش اُن کے دل میں جم جائے انہیں پختہ یقین ہو جائے کہ جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی اطاعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا خود محافظ وکفیل ہو جاتا ہے.قارئین کرام عزیزہ امتہ الباری ناصر اور ان کی معاونات کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں جن کی محنت اور لگن کی بدولت یہ روحانی مائدہ ہمارے گھروں تک پہنچتا ہے.فجزاهم اللہ تعالیٰ احسن الجزا فى الدارين خيرا یہ کتاب شعبہ اشاعت و تصنیف ربوہ سے منظور شدہ ہے.خاکسار

Page 7

ہجرت مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا مقام ملے قریباً تیرہ (13) سال ہو چکے تھے ان تیرہ (13) سالوں میں مکہ کے اچھی فطرت کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا مگر ان کی تعداد ستر (70) سے زیادہ نہ ہوئی تھی اور مخالفین کی تعداد لاکھوں میں تھی اور طاقت بہت زیادہ تھی.وہ اپنی ساری طاقت سے مسلمانوں کی کھلی کھلی دشمنی پر اُترے ہوئے تھے وہ مسلمانوں کی جانیں، مال ، اولادیں، عزت آبروسب کچھ برباد کرنے کیلئے پورا زور لگا رہے تھے.ایسے میں یثرب کے مسلمانوں کی طرف سے محبت اور امن کی خوشگوار ہوائیں آئیں تو آپ نے مکہ کے مسلمانوں کو میٹر ب جانے کی اجازت دے دی.آپ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ہجرت کر رہے ہیں رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ إِنِّي أَهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضِ بِهَا نَخْلِ فَذَهَبَ وَهْلِي إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوِ الْحَجَرُ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبَ ( بخاری جلد ثانی باب ہجرت النبي وَ أَصحابه إِلَى الْمَدِينَةِ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کی ہے جس میں کھجوروں کے درخت ہیں.پس میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ زمین یمامہ یا زمینِ حجر ہے مگر وہ مدینہ نکلا یعنی یثرب.“ 66 ( براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۶۹) مسلمانوں کی خواہش تھی کہ کھل کر تبلیغ اسلام کریں.مکہ کے گھٹے ہوئے ماحول میں پورے جوش و جذ بہ سے تبلیغ ممکن نہ تھی.جو مسلمان مکہ سے باہر دوسرے شہروں میں گئے تھے ان کی تبلیغ کے واقعات سننے میں آرہے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجازت 1

Page 8

ملتے ہی خوش ہو کر مگر چپکے چپکے مکہ سے نکلنے کے منصوبے بنانے لگے.اور خفیہ خفیہ طریق پر سفر کرتے ہوئے میثرب اور دوسرے شہروں کا رُخ کیا، زیادہ تر مسلمان یثرب پہنچے.وہاں مسلمانوں نے اپنے وطن چھوڑ کر آنے والوں کا خوشی سے استقبال کیا.اپنے گھروں میں جگہ دی اور حقیقی بھائیوں جیسا سلوک کیا.یثرب کے رہنے والے بھی بہت عرصہ پہلے یمن کے علاقے سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے.یمن سے انہیں اس لئے آنا پڑا کہ وہاں ایک دفعہ بہت شدید سیلاب آیا.اس قدر شدید کہ وہاں رہنا مشکل ہو گیا جب وہاں رہنا مشکل ہو گیا تو رہائش کی اچھی جگہ کی تلاش میں سفر کرتے ہوئے یمن کے دو بھائی جن کے نام اوس اور خزرج تھے یثرب پہنچے.یہ علاقہ انہیں پسند آیا.اُس وقت اُن کے آنے سے پہلے جو لوگ یثرب میں رہتے تھے وہ زیادہ تر یہودی تھے.وہ بڑے مالدار اور بااثر لوگ تھے.اوس اور خزرج نے بھی وہاں رہنا شروع کیا آل اولا د بڑھی تو اُن کے قبیلے اپنی اپنی بستیوں میں رہنے لگے...یہودیوں سے میل جول کی وجہ سے اُن پر یہ اثر ہوا کہ محنت سے کام کرنے لگے جس سے اُن کی مالی حالت بہتر ہو گئی.یہودی ایک خدا کو مانتے تھے اپنی مذہبی کتاب توریت سے رہنمائی لیتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ایک عظیم الشان نبی انسانوں کی اصلاح کے لئے تشریف لائیں گے.اوس اور خزرج قبائل بت پرست تھے مگر مذہبی خیالات پر یہودیوں کا اثر ہوا اور وہ بھی ایک نبی کا انتظار کرنے لگے.اُن کے بزرگوں نے بھی ایک نبی کی آمد کی بشارت دے رکھی تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں نبی کے استقبال کی تاکید موجود تھی.حضرت ابراہیم کا ایک بیٹا لقیان تھا جو آپ کی تیسری بیوی قطورا کے بطن سے تھا لقیان کے بیٹے کا نام دوان تھا ( پیدائش باب (21) دو ان کی اولا دیمن میں آباد ہوئی تھی حضرت اسمعیل 2

Page 9

علیہ السلام کے نویں بیٹے کا نام تیا تھا ( پیدائش باب 25) تیا کی اولا د مدینہ کے نواح میں آباد ہوئی تھی.حضرت یسعیاہ نے دوان اور تیما کی نسلوں کو جو نواح مدینہ میں آباد تھیں مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ کا الہام سنایا کہ ایک زمانہ میں قریش کے مظالم سے تنگ آکر نبی پاک کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنی پڑے گی تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھو اور اپنی آنکھوں کو فرش راہ کرو اور روٹی اور پانی لے کر اُن کے ملنے کو نکلو یعنی اپنے گھروں کے دروازے اُن کے لئے کھول دو اور اُن کی خدمت کو اپنے لئے برکت اور رحمت کا باعث سمجھو.(یسعیاہ باب 21 آیت 13 تا 17 تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 561) میثرب وہ شہر تھا جس میں یہودی اور بت پرست آباد تھے.مسلمانوں کی آمد سے اس شہر کا نام بدل گیا مسلمان اسے مدینۃ الرسول اور مدینتہ النبی کہتے جس کا مطلب ہے رسول کا شہر نبی کا شہر.بار بار یہ نام استعمال ہونے سے الرسول اور النبی کے الفاظ کی ضرورت نہ رہی کیونکہ سب جانتے تھے کہ مدینہ کہنے سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے اس عظیم الشان نبی کے نام سے منسوب ہونے کی وجہ سے اس شہر کا نام بھی عزت سے لیا جاتا اور اسے مدینہ منورہ کہا جا تا یعنی روشن شہر.جبکہ اس کے پہلے نام یثرب کا مطلب ہلا کت تھا.آہستہ آہستہ یہ نام لوگوں کو بھول گیا اور صرف کتابوں میں لکھا رہ گیا جبکہ پوری دنیا کو روشن کرنے والا مدینہ منورہ رہتی دنیا تک کے لئے عزت والا شہر بن گیا.مدینہ منورہ میں اُس وقت اسلام اور مسلمانوں کو سکون میسر آیا جب خود اُن کے شہر میں رہنا مشکل ہو گیا تھا.مدینہ کی طرف ہجرت کوئی اکا دُکا واقعہ نہ رہا بلکہ اکثر مسلمان اپنے بیوی بچوں سمیت مختصر سامان لے کر مکہ چھوڑ دیتے پہلے کہیں کہیں گھر اپنے مکینوں سے خالی ہوئے پھر ایک ایک گلی میں کئی کئی مکانوں میں تالے پڑ گئے مکہ میں صرف وہ لوگ رہ گئے جو اتنے کمزور تھے کہ 3

Page 10

سفر نہ کر سکتے تھے یا اتنے غریب تھے کہ سفر کا سامان نہ تھا یا پھر مجبور تھے کہ رشتہ داریاں ایسی تھیں کہ ان کے لئے جانا مشکل تھا.کچھ بچارے ایسے بھی تھے جو قریش کی قید میں تھے.ان کے علاوہ سب نے مکہ چھوڑ دیا.مسلمانوں کا مکہ سے نکلنا ڈھکا چھپا نہ رہا.جب بھی کوئی خاندان ہجرت کر تا قریش مکہ کو اپنی شکست محسوس ہوتی کہ یہ ہم سے بچ کر کیسے نکل گئے.اور اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر ہاتھ ملتے رہ جاتے.غصے اور جھنجھلاہٹ میں وہ پہلے سے بڑھ کر ظلم کرنے لگے انہیں اس بات پر طیش آتا کہ مکہ میں دب کر ، جھک کر بے بسی سے رہنے والے مدینہ میں جا کر آزاد فضا میں کیوں رہنے لگے پھر یہ بھی خوف تھا کہ آزاد فضا میں رہ کر متحد ہوکر طاقت ملنے پر وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کے قابل نہ ہو جائیں اس خیال سے وہ مکہ سے جانے والوں کے راستے میں روڑے اٹکانے لگے.ابو جہل نے عجیب حرکت کی ایک سادہ دل مسلمان کو جن کا نام عیاش تھا جھوٹ موٹ باتوں میں لگا کر واپس لے آیا جب مکہ قریب آیا تو چالا کی اور دھو کے سے ہاتھ پاؤں باندھ کر اونٹنی پر ڈال دیا اور سب کو بتانے لگا کہ جس طرح ہم عیاش کو واپس لے آئے اسی طرح باقی لوگ بھی اپنے اپنے جاننے والوں کو واپس لے آئیں.وہ ہجرت کا ارادہ کرنے والوں کو طرح طرح کا دُکھ دینے لگے.ابتدائی مہاجرین میں ایک حضرت صہیب تھے جو کافی مالدار تھے اپنا سامان باندھ کر مدینہ جانے لگے تو قریش نے کہا یہ مال تم ساتھ نہیں لے جاسکتے حضرت مہیب نے فرمایا یہ سب مال و دولت تم رکھو مجھے جانے دو.اپنا مال قربان کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا ” صہیب نے بڑا نفع حاصل کیا دنیا کا مال قربان کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی.حضرت صہیب کے بعد ابن ام مکتوم نے ہجرت کی جو لوگوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے پھر بلال ، سعد بن ابی وقاص اور عمار بن یاسر نے ہجرت کی.( حدیث نمبر 3647 بخاری شریف باب 15 صفحہ 144) 4

Page 11

ہجرت میں دُکھ اُٹھانے والوں میں ایک حضرت ام سلمہ بھی تھیں جن کو ایک سال تک شوہر اور بچے سے جدا رکھا گیا ان کے حالات بڑے دردناک ہیں.لوگوں کے غم وغصہ کو دیکھ کر خاموشی سے ہجرت کرنا ہی دستور تھا مگر جب حضرت عمرؓ نے ہجرت کی تو علی الاعلان ہجرت کی.وہ دلیر، نڈر اور پر جوش تھے باقاعدہ ہتھیار لگا کر نکلے خانہ کعبہ میں آئے اور بلند آواز سے اعلان کیا کہ کسی نے روکنے کی جرات کی تو انجام ٹھیک نہیں ہو گا حضرت عمرؓ کے ساتھ ہیں صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ہجرت کی.آخر مکہ میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی اور چند غلام باقی رہ گئے.ایک بار حضرت ابوبکر نے ہجرت کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا آپ ابھی ٹھہریں اُمید ہے مجھے بھی اجازت مل جائے گی.حضرت ابوبکر کو امید ہوگئی کہ جب اُن کے محبوب آقا کو اجازت ملے گی تو ہمراہی نصیب ہوگی اس خیال سے کہ کاش اس طرح ہو جائے آپ نے سفر کے لئے دو اونٹنیاں خرید کر گھر میں باندھ لیں اور انہیں خوب کھلانے پلانے لگے تا کہ لمبے سفر کے قابل ہوجائیں.سردارانِ قریش ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو دیکھ کر غصے میں آتے تھے مگر انہیں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اُن کا اصل دشمن ابھی اُن کے ہاتھوں میں ہے.آپ کے ساتھیوں کے ہجرت کر جانے سے اُن کا حوصلہ بڑھا اور سوچنے لگے کہ موقع پا کر آپ پر حملہ کر دیا جائے.کفار مکہ کو جب کسی بڑے قومی مسئلے پر فیصلہ کرنا ہوتا تو وہ اپنے پارلیمنٹ ہاؤس میں جمع ہو جاتے جس کا نام دارالندوہ تھا.چنانچہ اس اہم مسئلے پر فیصلہ کرنے کے لئے قریش کے سو (۱۰۰) بڑے بڑے سردار دارالندوہ میں جمع ہوئے وہ سب انتقام کی آگ میں جل رہے تھے.شکست غم اور کینے نے مل کر اُن میں زہر بھر دیا تھا.جس قدر شدید سے شدید سزا وہ سوچ سکتے تھے سب پر گفتگو ہوئی.اگر کوئی کمزور پہلو نظر آتا تو اس کورڈ کر کے مزید سخت طریق سوچا جاتا.مقصد یہ تھا کہ کوئی 5

Page 12

طریق ہو جس میں موت سے کم سزا نہ ہو اور کسی طرح بچ نکلنے کا موقع نہ دیا جائے.پیارے آقا" تو خود مکہ چھوڑ کر جارہے تھے انہیں تو اس بات پر مطمئن ہونا چاہیے تھا مگر وہ بہت جاہل لوگ تھے.اس بات پر خوش نہیں تھے کہ چلو جس شخص کو ہم فساد کی جڑ سمجھ رہے ہیں وہ شہر چھوڑ کر جارہا ہے انہیں نکل جانے میں سہولت دیتے مگر ایسا نہیں تھا وہ دراصل آپ کی جان کے دشمن تھے جان سے ماردینے کی تجویزیں پیش ہو رہی تھیں.ابوجہل ، ان بد بختوں کا سردار، ایسی تجویز لایا جس پر سب متفق ہو گئے تجویز یہ تھی کہ ہر ایک قبیلہ سے ایک ایک جوان صحت مند آدمی چن لیا جائے پھر ان جوانوں کے ہاتھوں میں تلوار میں دے دی جائیں یہ جوان محمد کے گھر کو گھیر لیں جب وہ کسی کام سے باہر نکلیں تو یکدم حملہ کر کے انہیں قتل کر دیں اس طرح سب قبائل پر قتل کی ذمہ داری عائد ہو جائے گی.مسلمان یا آلِ ہاشم کس کس سے بدلہ لیں گے؟ خون کے بدلے خون کس کس کا کریں گے؟ آخر وہ قتل کے بدلے کچھ رقم لے کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے وہ رقم سب قبائل مل کر ادا کر دیں گے بات ختم ہو جائے گی.یه منصو بہ اتنا مکمل تھا کہ کسی کو بھی اس کے ناکام ہونے کا شبہ نہ تھا مگر یہ منصوبہ کمزور اور جاہل انسانوں کا تیار کیا ہوا تھا.جس کا مقصد بانئی اسلام اور اسلام کو کچلنا تھا وہ کیا جانتے تھے کہ ایک قادر وتوا نا ذات اپنے پیاروں کی حفاظت کرنے کی طاقت رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کو بھیجا کہ وہ حضرت محمد صلی الہ تم کو پیغام دے کہ آپ اس رات اپنے گھر پر نہ سوئیں.سورۃ انفال کی آیت 31 میں اس کا بیان اس طرح ہے.اور تو وہ وقت یاد کر کہ جب کا فرلوگ تیرے قید کرنے یا قتل کرنے یا نکال دینے پر مکر کر کے منصوبے باندھتے تھے اور مکر کر رہے تھے اور خدا بھی مکر کر رہا تھا اور خدا سب مکر کرنے 66 والوں سے بہتر ہے.براہین احمدیہ صفحہ 233 حصہ سوم حاشیہ نمبر 11) عربی میں مکر کے معنی تدبیر کے ہوتے ہیں) 6

Page 13

”اوراے پیغمبر وہ وقت یاد کر جب کافر لوگ تجھ پر داؤ چلانا چاہتے تھے تا کہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا تجھے مارڈالیں اور یا تجھے جلاوطن کر دیں.اور حال یہ تھا کہ کا فر تو قتل کے لئے اپنا داؤ کر رہے تھے اور خدا ان کو مغلوب کرنے کے لئے اپنا داؤ کر رہا تھا اور خدا سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے جس کے داؤ میں سراسر مخلوق کی بھلائی ہے.چشمه معرفت صفحہ 234 - روحانی خزائن جلد 23) شہر میں نو (9) شخص ایسے تھے جن کا پیشہ ہی فساد تھا اور اصلاح کے روادار نہ تھے انہوں نے باہم قسمیں کھائیں کہ رات کو پوشیدہ طور پر شب خون مار کر اس شخص کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کر دو اور پھر ہم اس کے وارث کو جو خون کا دعویدار ہوگا یہ کہیں گے کہ ہم تو ان لوگوں کے قتل کرنے کے وقت اس موقع پر حاضر نہ تھے اور ہم سچ سچ کہتے ہیں یعنی یہ بہانہ بنا ئیں گے کہ ہم تو قتل کرنے کے وقت فلاں فلاں جگہ گئے ہوئے تھے جیسا کہ اب بھی مجرم لوگ ایسے ہی بہانے 66 بنایا کرتے ہیں تا مقدمہ نہ چلے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو دیکھ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا؟ (سورة النحل: 19 ترجمہ حضرت مسیح موعود چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 201) مخلوق کی بھلائی والا خدائی داؤ اور تدبیر یہ تھی کہ وہ اپنی محبوب ہستی حضرت محمد مصطفیٰ لانا سلیم کو دشمنوں کے پہنچوں سے بچا کر امن کی جگہ لے جائے اس کیلئے اللہ تعالیٰ کا جو منصوبہ تھا اُس کی ایک جھلک خواب میں آنحضرت کو نظر آئی تھی.اس خواب سے آپ ذہنی طور پر تیار ہو گئے کہ آپ کو بھی دوسرے انبیاء کی طرح وطن چھوڑنے کا دُکھ اُٹھانا پڑے گا.پہلے بھی اسی طرح ہو چکا تھا جب وطن کے لوگ بات ہی نہ سنیں تو وہ کام کس طرح ممکن ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نبی کو بھیجتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے مگر جب اُن کی قوم نے بات نہ سنی تو فلسطین کی طرف ہجرت کرنا پڑی.حضرت نوح علیہ السلام کو بھی اپنا وطن چھوڑنا پڑا اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی 7

Page 14

دعوت الی اللہ میں مخالفت کی وجہ سے وقت ہوئی تو اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا.حضرت عیسی علیہ السلام نے کشمیر کی طرف ہجرت فرمائی.قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کرنے والوں کو دنیا میں ترقی اور آخرت میں بڑا ثواب ملے گا.وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَونَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الَّذِينَ (النحل:43-42) صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ.اور جن لوگوں نے اس کے بعد کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہجرت اختیار کی ( ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ) ہم انہیں ضرور دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو اور بھی بڑا ہو گا کاش ( یہ منکر اس حقیقت کو ) جانتے.جو (ظلموں کا نشانہ بن کر بھی ) ثابت قدم رہے اور جو ( جو ہمیشہ ہی ) اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں.اللہ تبارک تعالیٰ کا ایک اور ارشاد ہے.اے میرے مومن بندو میری زمین وسیع ہے.پس تم میری ہی عبادت کرو.ہر جاندار موت کا مزا چکھنے والا ہے پھر ہماری طرف ہی سب کو لوٹا یا جائے گا اور وہ لوگ جوایمان لاتے ہیں اور اُس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں ہم اُن کو جنت میں بالا خانوں میں جگہ دیں گے ( ایسی جنت میں ) کہ اُس کے سائیوں ( تلے ) نہریں بہتی ہوں گی وہ ( یعنی مومن ) اُن جنتوں میں ہمیشہ کے لئے رہتے چلے جائیں گے اور اچھے عمل کرنے والوں کا اجر بہت اچھا ہوتا ہے.(العنکبوت :59-58) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو بھی ہجرت کی مشکلات سے گذارا آپ کو بھی نبیوں کی سنت کے مطابق اپنے وطن کو چھوڑنا پڑا آپ مکہ ہی میں رہتے تو آپ کے سب کمالات کھل کر سامنے نہ 8

Page 15

آتے آپ کی تعلیمات تو پوری دنیا کے لئے ہیں مکہ کی فضا میں محدود رہنے کے لئے نہیں تھیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے ذہنی طور پر اس ہجرت کے لئے تیار کیا تھا آپ کو وطن واپسی کی خوشخبریاں وطن چھوڑنے سے پہلے دی تھیں.سورۃ القصص آیت 86 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وہ خدا جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ تجھے اُس مقام کی طرف لوٹائے گا جس کی طرف لوگ لوٹ لوٹ کر آتے ہیں.“ ہجرت کرنی پڑے گی مگر جانے سے پہلے واپس آنے کی خوشخبری دے کر حساس دل کو سہارا بھی دیا.ہجرت کے متعلق ایک پیشگوئی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چازاد بھائی ورقہ بن نوفل نے بھی کی تھی حضرت خدیجہ نے اُسے پہلی وحی کا حال سنایا تھا تو اس نے کہا تھا کاش میں اُس وقت جوان ہوتا جب تیری قوم تجھے مکہ سے نکال دے گی آپ حیران ہوئے تھے کہ یہ امین اور صادق سمجھنے والی قوم ، آپ کو عزت دینے والی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی آپ نے حیران ہو کر ورقہ بن نوفل سے پوچھا تھا.او مُخْرِج هم کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ آپ نے وطن سے نکالے جانے کی خبر پر حیرت اور دکھ کا اظہار فرمایا تھا مگر اب سب پیشگوئیاں پوری ہو رہی تھیں.حالات مکہ میں رہنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے رحمتہ اللعالمین حضور پاک یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ وہ خود تو مکہ سے تشریف لے جائیں اور مسلمانوں کو ظلم سہنے کے لئے چھوڑ دیں اس لئے آپ نے بہت دلیری سے اپنی ذات کو ڈھال بنا کر مسلمانوں کو ہجرت کا موقع دیا آپ کو علم تھا کہ جب تک دشمنوں کو آپ نظر آتے رہیں گے انہیں یہ احساس رہے گا کہ کوئی جاتا ہے تو جائے اصل سردار تو ابھی ہاتھ میں ہے.9

Page 16

اصل سردار ، وہ ہستی ، جو خدا تعالیٰ کی محبوب تھی جس کیلئے یہ زمین و آسمان تخلیق کئے گئے تھے جس پر ہاتھ ڈالنے والے کے ہاتھ توڑ دئے جاتے تھے جس کی طرف اُٹھنے والی میلی آنکھ پھوڑ دی جاتی تھی.دارالندوہ کے منصوبہ کرنے والے بچانے والے کی طاقت سے واقف نہ تھے.اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے ذریعے اپنے نبی کو ان کے بد ارادوں سے اطلاع دے دی اور اجازت عطا فرمائی کہ میثرب کی طرف ہجرت کر جائیں اور آنے والی رات مکہ میں نہ گزاریں.(ابن ہشام.طبری) یہ حکم ملتے ہی آپ نے سفر ہجرت کے لئے منصوبہ بندی کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہجرت کے حالات یوں بیان فرماتی ہیں.ہم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ عین دو پہر کے وقت رسول کریم تشریف لائے اور سر لپیٹا ہوا تھا آپ اس وقت کبھی نہیں آیا کرتے تھے حضرت ابوبکر نے (دروازہ کھولنے کے لئے اٹھتے ہوئے) فرمایا گے.میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اس وقت کسی بڑے کام کے لئے آئے ہوں رسول کریم نے اندر آنے کی اجازت مانگی اجازت ملنے پر اندر تشریف لائے اور فرمایا ”جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو اُٹھا دو حضرت ابوبکر نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے قسم ہے وہ آپ کے رشتہ دار ہیں آپ نے فرمایا ”اچھا! مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے“ حضرت ابوبکر نے عرض کیا 10

Page 17

یا رسول اللہ مجھے بھی ساتھ ہی جانے کی اجازت دیجئے.الصحبہ یا رسول اللہ رسول کریم نے فرمایا بہت اچھا" ( بخاری جلد اول کتاب المناقب باب ہجرت النبی واصحابہ الی المدینہ ) خوشی سے حضرت ابوبکر کے آنسو جاری ہو گئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے اس وقت تک کسی شخص کو خوشی سے روتے نہیں دیکھا تھا.(طبری وابن ہشام) حضرت ابوبکر نے اس رفاقت کے لئے تیاری بھی کر رکھی تھی بڑے ادب سے عرض کیا.یا رسول اللہ میں نے ہجرت کی تیاری میں دو اونٹنیاں بول کی پتیاں کھلا کھلا کر پال رکھی ہیں ان میں سے ایک آپ قبول فرمالیں آنحضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے مگر قیمت لوں گا حضرت ابوبکر نے مجبوراً قیمت دینا قبول کر لیا آپ نے حضرت ابوبکر سے راز داری کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور واپس تشریف لے گئے.حضرت ابو بکر کے گھر سفر کی تیاری ہونے لگی.کھانا تیار کر کے چمڑے کے برتن میں بند کیا گیا اس کو باندھنے کے لئے کپڑے کی ضرورت تھی حضرت عائشہ کی بہن اسماء نے اپنے نطاق ( کمر پر باندھنے والے کپڑے) کو پھاڑ کر دوٹکڑے کیا ایک ٹکڑا کھانے کے برتن پر باندھ دیا اور دوسرا پانی کے برتن پر باندھ دیا اس وجہ سے انہیں ذات النطاقین یعنی دو طاقوں والی بھی کہتے ہیں.( بخاری کتاب الہجرت و کتاب الاطعمه ) رات ہوئی تو مختلف قبائل کے ظالم ترین لوگ اپنے منصوبہ قتل کے ساتھ آپ کے گھر کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے.انہوں نے گھر کو مکمل گھیرے میں لے لیا.ننگی تلوار میں سونتے وہ انتظار میں بیٹھ گئے تا کہ جوں ہی رسول کریم ہے گھر سے نکلیں لپک کر آپ کا کام تمام : 11

Page 18

کر دیا جائے.گھر کے باہر یہ خونی منصو بہ باز جاگ رہے تھے اور گھر کے اندر آنحضرت حضرت علی کو سمجھا رہے تھے کہ اُن کے پاس مکہ والوں کی امانتیں ہیں.جو اُن کو لوٹانی ضروری ہیں.میں ہجرت کر رہا ہوں تم ابھی یہیں ٹھہرو یہ امانتیں واپس کئے بغیر تم ہجرت نہ کرنا.میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور بالکل مطمئن رہو اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا.امانتیں لوٹا کر تم بھی مدینے آجانا.حضرت علی ساری بات سمجھ گئے اور حسب ارشاد آپ کے بستر پر لیٹ گئے آپ نے اپنی چادر جو سرخ رنگ کی تھی حضرت علی کو اوڑھادی.اور خاموشی سے اپنا گھر چھوڑ دیا.” جب رسول کریم صلی یا یہ تم رات کے وقت اُن لوگوں کے پاس سے گذرے تو اُن میں سے بعض نے آپ کو دیکھا بھی مگر انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ کوئی اور شخص ہے جو شائد آپ سے ملنے کے لئے آیا ہو گا اور اب واپس جارہا ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول کریم ملایا یہ ہم نہایت دلیری کے ساتھ باہر نکلے تھے اور آپ کی طبیعت پر ذرا بھی خوف نہیں تھا.انہوں نے سمجھا کہ اتنی دلیری سے آپ اس وقت نکلنے کی جرات کہاں کر سکتے ہیں یہ ضرور کوئی اور آدمی ہے جو آپ سے ملنے کیلئے آیا ہو گا اس کے بعد انہوں نے دروازے کی دراڑ میں سے اندر جھانکا یہ اطمینان کرنے کیلئے کہ کہیں آپ باہر تو نہیں نکل گئے تو انہوں نے ایک آدمی کوسو یا ہوا دیکھا اور خیال کیا کہ یہی رسول کریم صلی پیتم ہی.غرض ساری رات وہ آپ کے مکان کا پہرہ دیتے رہے پھر جب مناسب وقت سمجھا تو اندر داخل ہوئے اور شائد انہیں جسم سے شک پڑ گیا کہ یہ جسم آنحضرت کا نہیں انہوں نے منہ پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھایا شاید منہ نگا تھا.بہر حال انہیں معلوم ہوا کہ سونے والے شخص حضرت علی ” ہیں رسول 12

Page 19

کریم صلہ تم نہیں تب انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی لی کہ ہم جاچکے ہیں اور اُن کے لئے اب سوائے ناکامی کے کچھ باقی نہیں رہا.“ ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه 510) وہ جھنجھلا کر حضرت علی کو مارنے لگے کچھ لوگ جن میں ابو جہل بھی شامل تھا حضرت ابوبکر کے مکان پر گئے اور شور مچایا کہ ابوبکر کہاں ہیں؟ ان کی بیٹی اسماء نے جواب دیا کہ اُسے علم نہیں کہ اُس کے ابا جان کہاں ہیں.اُن کو اس جواب پر بہت غصہ آیا.طیش میں آکر اتنے زور کا تھپڑ مارا کہ اسماء کے کان کی بالی کو کو پھاڑتی ہوئی دور جا گری.محاصرہ کرنے والوں کا خیال ہوگا کہ اُن کا شکاررات کے آخری حصے میں یا بہت صبح گھر سے باہر نکلے گا اس لئے ابھی غافل بیٹھے تھے کہ آپ اُن کے درمیان سے اُن کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے یعنی اُن کی شکست اور رسوائی کا سامان کرتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے اور ذکر الہی کرتے ہوئے بالکل تنہا ملکہ کی گلیوں سے تیز تیز چلتے ہوئے اپنے شہر کی آبادی سے باہر تشریف لے آئے.حضرت ابوبکر بھی راستے میں آپ سے آملے اب ان دو مقدس مسافروں کی منزل جبل تو تھی.جبل ثور مکہ سے جنوب کی جانب تین میل کے فاصلے پر ہے.پہاڑ کی چوٹی قریباً ایک میل بلند ہے یہ ایک بنجر اور ویران پہاڑی ہے جس پر بہت بلندی پر ایک غار، غار ثور کے نام سے مشہور ہے اس غار کا راستہ پتھریلا اور غیر ہموار ہے.اس کی لمبائی اور چوڑائی دو تین گز ہے اس میں داخل ہونے کی جگہ کھلی اور چوڑی ہے چڑھائی بہت مشکل ہے.آنحضور صلی یا پی ایم کے دونوں پاؤں چلتے چلتے زخمی ہو گئے ویسے بھی آپ اس خیال سے پنجوں کے بل چل رہے تھے کہ قدموں کے نشان نمایاں نہ ہوں ایک وقت پر تو آپ کی تکلیف دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اُٹھالیا تھا یہ غاران دونوں مقدس احباب کے قیام کی وجہ سے یاد گا ر اہمیت اختیار کر گئی.13

Page 20

غار ثور میں پہلے حضرت ابوبکر داخل ہوئے اور قدرے جھاڑ پونچھ کی تنکے وغیرہ اکھٹے کر کے ایک طرف کئے صفائی کے دوران حضرت ابو بکر کو کچھ سوراخ نظر آئے جو آپ نے اس خیال سے بند کر دئے کہ کہیں کوئی سانپ وغیرہ نکل کر تکلیف کا باعث نہ بنے.آنحضور لمبا فاصلہ پیدل طے کر کے تشریف لائے تھے آرام فرمانے کے لئے لیٹ گئے حضرت ابوبکر کی ران کو تکیہ بنایا تھکے ہوئے تو تھے ہی لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی اتنے میں حضرت ابوبکر کو ایک اور سوراخ نظر آ گیا.اب آپ ہل تو نہیں سکتے تھے سوراخ پر اپنا پاؤں جما کر رکھ دیا.وہ کسی سانپ کا بل تھا.سانپ نے حضرت ابوبکر کے پاؤں پر کاٹ لیا.شدید تکلیف محسوس ہوئی مگر حرکت نہ کی.اللہ تعالیٰ کے رسول اُن کے سہارے آرام فرمارہے تھے ہر تکلیف پیچ تھی.مگر درد بڑھا تو باوجود ضبط کے آنکھوں میں آنسو آگئے.آنسو حضرت اقدس کے چہرہ مبارک پر گرا تو آپ کی آنکھ کھل گئی اپنے دوست کی طرف دیکھ کر پوچھا ابوبکر یہ تمہیں کیا ہوا؟“ مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے فداہ ابی وامی آپ نے سن کر اپنا لعاب دہن تکلیف کی جگہ پر لگا دیا.اللہ تعالیٰ کے حکم سے تکلیف دور ہو گئی.اُدھر کفار مکہ میں کھلبلی مچی ہوئی تھی کوئی کہہ رہا تھا ہم ساری رات درزوں سے جھانک کر دیکھتے رہے ہیں وہ اپنے بستر پر تھے صبح ہونے پر کہاں غائب ہو گئے.کوئی کہہ رہا تھا ہم نے انہیں شروع رات میں جاتے ہوئے دیکھا تھا مگر عقل پر ایسے پتھر پڑے کہ سمجھا وہ اس وقت نکل کر کیسے جا سکتے ہیں کوئی اور ہوگا.غم و غصے کی آندھی پورے شہر میں چل رہی تھی خفت اور شرمندگی نے اندھا کر دیا تھا صدمے کے مارے کھسیائے ہوئے اور تو کچھ نہ کر سکے یہ اعلان 14

Page 21

کروادیا کہ جو محمد کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اُس کو ایک سو اونٹ انعام میں دئے جائیں گے.سو اونٹوں کا انعام مکہ میں سب سے بڑا انعام سمجھا جاتا تھا.لوگوں میں جوش تو تھا ہی اب بڑے انعام کا لالچ بھی شامل ہو گیا لوگ شہر کے اندر اور باہر تلاش میں لگ گئے.ایک گروہ نے بڑی ہوشیاری سے کام لیا اپنے ساتھ چند کھو جی لے لئے.پہلے زمانے میں چوروں اور مجرموں کو کھوجیوں کی مدد سے تلاش کیا جاتا تھا جو پیروں کے نشانوں پر چلتے چلتے مجرم تک پہنچ جاتے.کفار کو جب علم ہوا کہ رسول کریم کہیں باہر چلے گئے ہیں تو وہ تعاقب کرتے ہوئے غارِ ثور کے منہ پر پہنچ گئے.وہاں انہوں نے ڈیرہ ڈال دیا کھو جی اُن کے ساتھ تھا اُس نے کہا بس یہیں تک نشانات پہنچتے ہیں اب یا تو محمد سلمانی اینم یہیں کہیں چھپا ہوا ہے اور اگر یہاں نہیں تو پھر وہ آسمان پر چڑھ گیا ہے.عرب لوگ کھوجیوں کی بات پر بڑا اعتبار کیا کرتے تھے اور وہاں کے کھوجی اپنے فن میں بہت ماہر ہوا کرتے تھے.ہمارے ملک میں بھی ایسے کھو جی ہوتے ہیں جو بعض دفعہ چوری کا سُراغ لگا لیتے ہیں مگر ہمارے کھو جی بہت ادنیٰ ہوتے ہیں عرب کے کھوجی وہاں کے خاص حالات کے ماتحت بہت اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے تھے چنانچہ وہ کھوجی جسے مکہ والے ساتھ لے گئے تھے اُس نے صاف صاف کہہ دیا کہ محمد صلای شما اینم ) اسی جگہ معلوم ہوتے ہیں لوگوں نے کہا یہاں چھپنے کی کون سی جگہ ہے؟ اُس نے کہا کہ اگر یہاں نہیں ہیں تو پھر آسمان پر چلے گئے ہیں اُس کی بات سُن کر سب ہننے لگ گئے اور کہنے لگے ہمارا کھوجی تو آج پاگل ہو گیا ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے بھلا یہ بھی کوئی چھپنے کی جگہ ہے اس غار کے منہ پر درخت کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں اور اُن پر مکڑی کا جال بنا ہوا ہے اگر وہ اندر جاتے تو جالا نہ ٹوٹ جاتا.“ ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه 511 تا512) 15

Page 22

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پیارے الفاظ میں یہ واقعہ پڑھئے.خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھر دیئے اور آپ کے دل کو روشن کیا تھا آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہو گئے اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں نے دشمنی پر کمر باندھ لی یہاں تک کہ آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا اور کئی مرد اور کئی عورتیں بڑے عذاب کے ساتھ قتل کر دئے گئے اور آخری جملہ یہ کیا کہ آنحضرت سال یہ تم کو قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا مگر جس کو خدا بچاوے اُس کو کون مارے.خدا نے آپ کو اپنی وحی سے اطلاع دی کہاں اس شہر سے نکل جاؤ اور میں ہر قدم میں تمہارے ساتھ ہوں گا پس آپ تشہر مکہ سے حضرت ابوبکر کو ساتھ لے کر نکل آئے اور تین رات تک غار ثور میں چھپے رہے دشمنوں نے تعاقب کیا اور ایک سراغرساں کو لے کر غار تک پہنچے اُس شخص نے غار تک قدم کا نشان پہنچادیا اور کہا کہ اس غار میں تلاش کرو اس کے آگے قدم نہیں اور اگر اس سے آگے گیا ہے تو پھر آسمان پر چڑھ گیا ہوگا مگر خدا کی قدرت کے عجائبات کی کون حد بست کر سکتا ہے خدا نے ایک ہی رات میں یہ قدرت نمائی کی.کہ عنکبوت نے اپنی جالی سے غار کا تمام منہ بند کر دیا اور ایک کبوتری نے غار کے منہ پر گھونسلہ بنا کر انڈے دے دئے اور جب سراغاں نے لوگوں کو غار کے اندر جانے کی ترغیب دی تو ایک بڑھا آدمی بولا کہ یہ سراغرساں تو پاگل ہو گیا ہے.میں تو اس جالی کو غار کے منہ پر اُس زمانہ سے دیکھ رہا ہوں جبکہ محمد (صلی آیتم ) ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا.اس بات کوٹن کر سب لوگ منتشر ہو گئے اور غار کا خیال چھوڑ دیا.(روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 466 467) 16

Page 23

حضرت ابوبکر فرماتے ہیں.میں رسول کریم کے ساتھ غار میں تھا میں نے اپنا سر اٹھا کر نظر کی تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے اس پر میں نے رسولِ کریم سے عرض کیا یا رسول اللہ اگر کوئی نظر نیچی کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا یعنی ہر گز کوئی فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے.پھر فرمایا مَاظُنُّكَ يَا أَبَا بَكْرِ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِقُهُما اے ابوبکر تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے.بخاری باب مناقب المهاجرين وفَضْلِهِمْ ) ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب قریش غار کے منہ کے پاس پہنچے تو حضرت ابوبکر سخت گھبرا گئے.آنحضرت صالنا تم نے ان کی گھبراہٹ کو دیکھا تو تسلی دی کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے.اس پر حضرت ابوبکر نے رفت بھری آواز میں کہا إِنْ قُتِلْتُ فَآنَارَجُلٌ وَاحِدٌ وَإِنْ قُتِلْتَ اَنْتَ هَلَكَتِ الْأُمَّةُ (زرقانی) یعنی " یا رسول اللہ ! اگر میں مارا جاؤں تو میں تو بس اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپ پر کوئی آنچ آئے تو پھر گویا ساری اُمت کی اُمت مٹ گئی اس پر آپ نے خدا سے الہام پا کر یہ الفاظ فرمائے کہ لا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا ( سورة توبه : 40) یعنی اے ابوبکر ! ہرگز کوئی فکر نہ کرو کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم دونوں اس کی حفاظت میں ہیں یعنی تم تو میرے وجہ سے فکرمند ہو اور تمہیں اپنے جوش اخلاص میں اپنی جان کا 17

Page 24

کوئی غم نہیں مگر خدا تعالیٰ اس وقت نہ صرف میرا محافظ ہے بلکہ تمہارا بھی.اور وہ ہم دونوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے گا.“ ( سيرة خاتم النبین صفحہ 239،238) یار غار، رفیق صدیق حضرت ابوبکر کس قدر خوش ہوئے ہوں گے کہ آپ نے معنا فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ صرف رسول اللہ کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ابوبکر کے ساتھ بھی ہے.سبحان اللہ غار کے اندر یہ دن اس طرح گذرے کہ حضرت ابوبکر کا ایک غلام عامر بن فہیرہ دن بھر شہر میں بکریاں چراتا رہتا شام کے اندھیرے پھیلتے تو بکریوں کو گھر لے جانے کے لئے ہنکاتا ہوا غار کے آگے سے گذرتا اس دوران خاص طور پر ایسی بکری کو جو بہت دودھ دے سکتی ہو غار کے آگے کر دیتا.غار کے پناہ گزین اس سے تازہ دودھ حاصل کر لیتے.اس طرح غار کے ارد گرد قدموں کے نشان بھی مٹ جاتے.عامر بن فہیرہ حسب معمول بکریوں کو آواز دیتا ہوا مکہ کی طرف روانہ ہو جاتا.اسی دودھ پر ان کا گزارا تھا.حضرت ابوبکر کے بیٹے عبداللہ ذہین اور ہوشیار تھے.اُن کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ دن بھر سادگی کے ساتھ جیسے عام آدمی رہتے ہیں شہر میں گھو میں پھریں اور دشمن کے منصوبوں کا اندازہ لگائیں.اور رات کو اندھیرے میں غار ثور میں آکر دن پھر کی رپورٹ دیں.رات کو عبداللہ غار ہی میں سو ر ہتے صبح منہ اندھیرے اُٹھ کر شہر آ جاتے مکہ والوں کی صبح ہوتی تو عبداللہ وہیں موجود ہوتے کسی کو شک بھی نہ ہو سکا.تین رات آپ غار ثور میں اسی طرح رہے.تیسرے دن صبح کے وقت آپ غار سے نکلے ( بخاری باب الہجرت) یہ پیر کا دن تھا 28 صفر 1ھ بمطابق 11 ستمبر 622ء ( دوست محمد شاہد قمری شمسی کیلنڈر ) بعض دوسری روایات میں رات کا وقت لکھا ہے جو زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے اس وقت آپ کی عمر مبارک ترین (53) سال تھی.( سيرة خاتم النبيين ) 18

Page 25

ایک گائیڈ عبداللہ بن اریقط جو قبیلہ بنی الدیل کا ایک شخص تھا اور اجرت پر راستہ بتانے کا کام کرتا تھا.دو اونٹنیاں لے کر غار ثور کے پاس پہنچ گیا.وہ مسلمان نہیں تھا مگر قابل اعتماد تھا.دونوں مسافروں نے اونٹنیاں اُس کے حوالے کر کے منصوبہ طے کر لیا تھا.ایک اونٹنی پر جس کا نام القصوئی بیان ہوا ہے، حضرت محمد مصطفی سال ہی تم اور وہ گائیڈ سوار ہوئے اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابوبکر اور عامر بن فہیر ہ سوار ہوئے.( خمیس وزرقانی) مدینہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرت ابوبکر نے کہا خدا کی لعنت ان شہر والوں پر جنہوں نے اپنے نبی کی مخالفت کی اور اُس کو شہر سے نکال دیا آپ نے فرمایا ” ایسا مت کہو رسول اللہ نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا.اُس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے ، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمعیل کے زمانہ سے آپ کے آباؤ اجداد رہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.”اے مکہ کی بستی ! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے“ اُس وقت حضرت ابو بکر نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے.“ ( دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 135) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کو ایسے تحریر فرمایا ہے.آنحضرت صلی یا ایتم نے مکہ معظمہ میں تیرہ برس تک سخت دل کا فروں کے ہاتھ سے وہ مصیبتیں اُٹھا ئیں اور وہ دیکھ دیکھے کہ بجز اُن برگزیدہ لوگوں کے جن کا خدا پر نہایت درجہ بھروسہ ہوتا ہے کوئی شخص ان دکھوں کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس مدت میں کئی عزیز صحابہ آنحضرت الم اسلام کے نہایت بے رحمی سے قتل کئے گئے اور بعض کو بار بارز دوکوب کر کے موت کے قریب 19

Page 26

کر دیا اور بعض دفعہ ظالموں نے آنحضرت صلی الیہ ہم پر اس قدر پتھر چلائے کہ آپ سر سے پیر تک خون آلودہ ہو گئے.اور آخر کار کافروں نے یہ منصو بہ سوچا کہ آنحضرت سلیم کو قتل کر کے اس مذہب کا فیصلہ ہی کر دیں تب اس نیت سے انہوں نے آنحضرت ملائیشیا پی ایم کے گھر کا محاصرہ کیا اور خدا نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تم اس شہر سے نکل جاؤ تب آپ اپنے ایک رفیق کے ساتھ جس کا نام ابوبکر تھا نکل آئے اور خدا کا یہ معجزہ تھا کہ باوجود یکہ صد ہا لوگوں نے محاصرہ کیا تھا مگر ایک شخص نے بھی آنحضرت صلی لا الہ سلم کو نہ دیکھا اور آپ شہر سے باہر آگئے اور ایک پتھر پر کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ نکلتا ”اے مکہ! تو میرا پیارا شہر اور پیارا وطن تھا اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں ہر گز نہ تب اس وقت بعض پہلے نوشتوں کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ :- وہ نبی اپنے وطن سے نکالا جائے گا“ 20 20 (روحانی خزائن جلد 23 چشمہ معرفت صفحه 391)

Page 27

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منظوم کلام میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے.تكتف عَقُوَة دَارِه ذَاتَ لَيْلَةٍ جَمَاعَةُ قَوْمٍ كَانَ لا وَ مُفْسِدا ایک رات اس کے گھر کے قریب وجوار کا احاطہ ایسے لوگوں نے کر لیا جو جھگڑالو اور مفسد تھے.فَادْرَكَة تاييد رَبِّ مُهَيْمِنٍ وَنَجَاهُ عَوْنُ اللهِ مِنْ صَوْلَة الْعِدا کارساز رب کی تائید نے اُس کو پالیا اور اللہ کی مدد نے اُس کو دشمنوں کے حملے سے نجات دے دی.تَذَكَّرْتُ يَوْمًا فِيهِ أُخْرِجَ سَيِّدِى فَفَاضَتْ دُمُوعُ الْعَيْنِ مِي بِمُنْتَدَا مجھے وہ دن یاد آیا جس میں میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی یا ایہام گھر سے نکالے گئے تو میری آنکھوں سے مجلس ہی میں آنسو بہہ پڑے.( قصائد الاحمدیہ صفحہ 80) 21

Page 28

رہبر اس مقدس قافلے کو معمول کے راستے کی بجائے سمندر کے کنارے والے راستے سے لے کر چلا.اس راستے پر تجارت کے لئے آنے جانے والے مسافر حضرت ابو بکر کو پہچانتے تھے تجارتی قافلوں کے مسافر اکثر ملتے رہنے سے ایک دوسرے کی صورتوں سے واقف ہو جاتے ہیں مگر پیارے آقا کا یہ اس راستے پر پہلا سفر تھا اس لئے لوگ آپ سے واقف نہ تھے کوئی شخص حضرت ابو بکر سے ملتا تو پوچھتا ابوبکر شخص کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ حضرت ابوبکر جواب دیتے.یہ میرے ہادی ہیں اور مجھے راستہ بتاتے ہیں.سوال کرنے والا تو راستے سے مراد مکے سے مدینے کا راستہ لیتا مگر آنحضور سالی یا یہ تم تو دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف ہدایت دینے والے صراط مستقیم کے ہادی تھے.آپ دو جہانوں کے بادشاہ تھے جبکہ حضرت ابو بکر آپ کے غلام اور آپ کے محافظ تھے.اصل محافظ تو قادر تو انا خدا کی ذات ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بظاہر اپنی ذمہ داری سمجھ رہے تھے اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا خود ہی کبھی آپ کے آگے ہو جاتے کبھی پیچھے ہو جاتے دائیں ہو جاتے کبھی بائیں ہو جاتے.یہ محبت کا ایک انداز تھا.اپنے ساتھی پر جانثاری کا جذبہ تھا.آپ کے قیمتی وجود ہونے کا جتنا احساس حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تھا اور کسی کو نہیں تھا.آپ ساری رات چلتے رہے اُس سے اگلا دن بھی ہو گیا گرم دن تھا راستے میں ایک چٹان اس طرح جھکی ہوئی نظر آئی کہ کچھ راستے میں اُس کا سایہ ہو گیا تھا.حضرت ابوبکر نے اپنا لبادہ اس سایہ دار جگہ پر بچھا دیا.آنحضور ایا کہ تم اس چھونے پر لیٹ گئے.حضرت ابوبکر آپ کے آس پاس جو کوڑا کرکٹ تھا اُسے صاف کرتے رہے اتنے میں ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ چٹان کے سائے میں آرام کرنے کے لئے آگیا.حضرت ابوبکر نے اُس سے پوچھا : 22

Page 29

تمہاری بکریاں دودھ دیتی ہیں کیا تم دودھ دوھ سکتے ہو اُس نے کہاں : ہاں آپ نے کہا تھنوں کو جھاڑ کر صاف کرلو.پھر ہاتھ صاف کروائے اور دودھ دوھنے کو کہا حضرت ابوبکر کے پاس ایک چھا گل تھی.جس کے اوپر ایک کپڑا بندھا ہوا تھا اس میں پانی تھا آپ نے دودھ پر اس طرح پانی ڈالا کہ وہ خوب ٹھنڈا ہو گیا پھر اپنے دوست کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے خوب سیر ہو کر پیا.حضرت ابوبکر کو بہت خوشی ہوئی ایک تو دودھ میسر آ گیا پھر آپ نے پسند فرمایا.آپ نے پوچھا کیا ابھی چلنے کا وقت نہیں آیا شام ہو چکی تھی آپ آگے روانہ ہوئے.( صحیح بخاری باب مناقب المهاجرین) آنحضور صلی ہی ایام اور حضرت ابوبکر کو مکہ سے غائب ہوئے جوں جوں وقت گذرتا جارہا تھا کفار مکہ کی مایوسی میں اضافہ ہورہا تھا.اب وہ یہ اعلان کروار ہے تھے کہ کوئی اگر انہیں جان سے ماردے گا یا قید کر کے پکڑ کر لے آئے گا اُسے بہت بڑا انعام دیا جائے گا....جگہ جگہ ٹولیوں میں یہی باتیں ہو رہی تھیں.ان میں ایک گروہ میں ایک شخص سراقہ بن مالک جعشم بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے باتوں باتوں میں کہا کہ میں نے ابھی سمندر کے کنارے کچھ آدمی جاتے دیکھے ہیں میرا خیال ہے کہ وہی ہوں گے محمد اور اُس کے ساتھی.سراقہ کو یہ بات دل کو لگی ہو نہ ہو یہ شخص جن مسافروں کا ذکر کر رہا ہے وہی ہوں جن کو پکڑنے پر انعام واکرام کا چرچا ہورہا ہے.یہ سوچتے ہی اس خیال سے کہ کسی کا دھیان ادھر نہ جائے بے پروائی سے کہا کہ وہ تو فلاں فلاں ہیں ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں.یہ کہہ کر پھر سیدھا گھر گیا اور اپنی خادمہ سے کہا میرا گھوڑا تیار کر کے گھر کے پچھواڑے میں کھڑا کر دو اس کے بعد کا ماجرا سراقہ نے اس 23

Page 30

طرح بیان کیا ہے.” میں نے ایک نیزہ لیا اور گھر کی پشت کی طرف سے ہو کر چپکے سے نکل گیا اور گھوڑے کو تیز کر کے محمد سایش ایتم ) اور ان کے ساتھیوں کے قریب پہنچ گیا.اس وقت میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں زمین پر گر گیا لیکن میں جلدی سے اُٹھا اور اپنا ترکش نکال کر میں نے ملک کے دستور کے مطابق تیروں سے فال لی.فال میرے منشاء کے خلاف نکلی.مگر (اسلام کی عداوت کا جوش اور انعام کا لالچ تھا میں نے فال کی پرواہ نہ کی.اور پھر سوار ہو کر تعاقب میں ہولیا اور اس دفعہ اس قدر قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت ﷺ کی جو اس وقت قرآن شریف کی تلاوت کرتے جارہے تھے ) قرآت کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی.اس وقت میں نے دیکھا کہ آنحضرت سال میں یہ تم نے ایک دفعہ بھی منہ موڑ کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا مگر ابوبکر آنحضرت کے فکر کی وجہ سے ) بار بار دیکھتے تھے.میں جب ذرا آگے بڑھا تو میرے گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور اس دفعہ اس کے پاؤں ریت کے اندر دھنس گئے اور میں پھر زمین پر آرہا.میں نے اُٹھ کر گھوڑے کو جو دیکھا تو اس کے پاؤں زمین میں اس قدر دھنس چکے تھے کہ وہ انہیں زمین سے نکال نہیں سکتا تھا.آخر بڑی مشکل سے وہ اُٹھا اور اس کی اس کوشش سے میرے اردگر دسب غبار ہی غبار ہو گیا.اس وقت میں نے پھر فال لی اور وہی فال نکلی.جس پر میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا.اور آنحضرت سلایا کہ ہم اور آپ کے ساتھیوں کو صلح کی آواز دی.اس آواز پر وہ ٹھہر گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اُن کے پاس پہنچا.اس سرگذشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گذری تھی میں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرت غالب رہیں گے؛ چنانچہ میں نے صلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنے یا پکڑ لانے کے لئے اس اس قدر انعام مقرر کر رکھا ہے اور لوگ آپ کے متعلق ارادہ رکھتے ہیں اور میں بھی اسی ارادے سے آیا تھا مگر اب میں واپس جاتا ہوں اس کے بعد 24

Page 31

میں نے انہیں کچھ زاد راہ پیش کیا مگر انہوں نے نہیں لیا.اور نہ ہی مجھ سے کوئی اور سوال کیا.صرف اس قدر کہا کہ ہمارے متعلق کسی سے ذکر نہ کرنا.اس کے بعد میں نے ( یہ یقین کرتے ہوئے کہ کسی دن آنحضرت صلی ایام کو ملک میں غلبہ حاصل ہو کر رہے گا ) آپ سے عرض کیا کہ مجھے ایک امن کی تحریر لکھ دیں.جس پر آپ نے عامر بن فہیرہ کو ارشاد فرمایا اور اس نے مجھے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امن کی تحریر لکھ دی.اس کے بعد آنحضرت سی سی ایم اور آپ کے ساتھی آگے روانہ ہو گئے.( بخاری کتاب الہجرت) ( سيرة خاتم النبین صفحہ 241) سراقہ کی واپسی کے وقت ایک عجیب واقعہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی نیلم کوسراقہ کی آئندہ زندگی کا ایک واقعہ کشف دکھا دیا آپ نے سراقہ سے فرمایا سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب شہنشاہ ایران کے سونے کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے.سراقہ نے حیران ہو کر کہا کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران کے....؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ حیرت زدہ ہو گیا اپنا ہاتھ سامنے کر کے کہا ان ہاتھوں میں کڑے؟ آپ نے فرمایا میں تو دیکھ رہا ہوں ( حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں یہ واقعہ بالکل اسی طرح ہوا) سراقہ واپس چلا گیا تو آپ نے قدم آگے بڑھائے.آپ کی منزل قریب آرہی تھی اللہ 25

Page 32

تعالیٰ نے عجیب انتظام فرمایا کہ مدینہ پہنچنے سے پہلے آپ کے لئے صاف لباس اور خوراک مہیا فرما دی.وہ اس طرح کہ راستے میں زبیر بن العوام سے ملاقات ہوگئی وہ شام کے تجارتی سفر سے واپس مکہ جارہے تھے.زبیر نے ایک جوڑ اسفید کپڑوں کا آپ کی خدمت میں پیش کیا اور ایک جوڑا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں.اس طرح دونوں مسافروں کو ستھرے لباس مل گئے.پھر آپ کا گذر ایک خاتون ام معبد کے خیمے کے پاس سے ہوا وہ تنہا ضعیف عورت مسافروں کو کھانا پانی پیش کر دیا کرتی تھیں.آپ کے ساتھیوں نے اُس سے پوچھا کہ تمہارے پاس خوراک گوشت کھجور وغیرہ کچھ ہے مگر اتفاق کی بات کہ اُس دن اُس کے پاس کچھ بھی نہ تھا آپ نے کونے میں ایک کمزوری بکری دیکھی اُتم معبد سے پوچھا ام معبد یہ بکری کیسی ہے؟ ام معبد کہنے لگیں یہ اپنی کمزوری اور لاغری کی وجہ سے ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے چراگاہ نہیں جاسکی یہ تو دودھ بھی نہیں دیتی.آنحضور نے فرمایا تم اس کا دودھ دوھنے کی اجازت دیتی ہو ام معبد کہنے لگیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اگر اس بکری میں دودھ نظر آتا ہے تو پھر دوھ لو.حضور نے بکری کو اپنے پاس بلایا اور اللہ کا نام لے کر دودھ دوہا.خدا تعالیٰ کی شان کہ اُس لاغر بکری نے اتنا دودھ دیا کہ ایک بڑا برتن دودھ کا بھر گیا.آپ نے سب سے پہلے ام معبد کو دودھ پینے کے لئے دیا جب وہ خوب سیر ہوگئیں تو سب کو پلانے کے بعد آپ نے دودھ پیا.26

Page 33

ابھی بہت دودھ باقی تھا آنحضرت ﷺ کے وجود کی برکت کا یہ واقعہ اُمّ معبد بڑے مزے لے لے کر سنا تیں اور آپ کے حسن صورت اور حسن سیرت کی عمدگی سے بیان کرتیں.دلائل النبوت حدیث ام معبد جلد 1 صفحہ 278 سے استفادہ) بارہ ربیع الاول 14 نبوی مطابق 20 ستمبر 622ء کو آپ مدینہ کے پاس پہنچے.( سيرة خاتم النبین صفحہ 243) یہ سفر آٹھ دن جاری رہا آپ 19 ستمبر 622ء کو مدینہ کے قریب پہنچے.(ہجری شمسی کیلنڈر دوست محمد شاہد ) 27

Page 34

مدینے میں آمد مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں گہما گہمی تھی کسی بہت بڑے مہمان کا انتظار تھا.بچے بوڑھے جوان مردعورتیں اپنے اپنے انداز میں جوش و مسرت کے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھے اُنہیں اطلاع مل چکی تھی کہ اُن کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفی صلی ایتم مکہ سے روانہ ہو چکے ہیں.روانگی کاعلم تو ہو گیا تھا مگر پہنچنے کے معین وقت کا علم نہیں تھا.ایک تو پیارے آقا نے مکہ سے مدینہ ہجرت کا پروگرام نہایت راز داری سے بنایا تھا دوسرے تین دن غار ثور میں قیام رہا مدینہ والے سراپا انتظار تھے.مگر صحیح اندازہ نہ کر سکتے کہ آنحضور کب تشریف لائیں گے.مدینہ میں خوش آمدید - مرحبا - جاء رسول الله - جاء رسول الله - رسول الله آگئے.رسول اللہ آگئے کے نعرے لگ رہے تھے ساری فضا روح پرور نعروں سے گونج رہی تھی.شوق کا یہ عالم تھا کہ شہر میں رُک کر انتظار مشکل ہو گیا.لوگ گروہ در گروہ، روزانہ مدینہ سے باہر میلوں تک آگے آکر آپ کے استقبال کے لئے نکلتے جشن کا سا سماں ہوتا لیکن شام ہونے پر اس امید کے ساتھ واپس چلے جاتے کہ اگلی صبح تو آپ ضرور ہی آجائیں گے.اس راستے میں کچھ بلندی پر ایک ہموار جگہ تھی جسے حرہ کہتے تھے یہاں چڑھ کر دور دور تک راستہ دیکھا جاسکتا تھا آپ کی پہلی جھلک دیکھنے کے شیدائی وہاں آکر بیٹھ جاتے مگر دھوپ تیز اور نا قابل برداشت ہو جاتی تو واپس چلے جاتے.رسول خدا سی سی ایم کے انتظار میں آنکھیں بچھانے والے یہ لوگ کون تھے آپ سے کیوں اتنی محبت کرتے تھے کہ کڑکتی دھوپ کی پرواہ کئے بغیر پہروں ٹیلے پر بیٹھ کر اس مسافر کا رستہ دیکھتے جس کو اُس کے ہم وطنوں نے تکلیفیں دے کر شہر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا جس کے سر کی 28

Page 35

قیمت مقرر کی گئی تھی.جس کی دعوت الی اللہ کو روکنے کے لئے پورا زور لگا دیا گیا تھا جس کے شہر والے اپنی اخلاقی بیماری کو سمجھتے تھے نہ کسی معالج مسیحا کی قدر تھی بلکہ اُسے جان سے مارنے کی پوری کوشش کی تھی.وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے مدینہ والے اس مہاجر رسول کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے ان باتوں کو سمجھنے کے لئے مدینے کے حالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں.مدینہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں گھری ہوئی ایک وادی ہے جو مکہ سے شمال کی طرف دو اڑھائی سومیل کے فاصلے پر بحر احمر کے مشرقی ساحل سے قریباً پچاس میل ہٹ کر واقع ہے.یہاں گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے.اس کی زمین مکہ کی نسبت زرخیز ہے جس کی وجہ سے زراعت اور باغبانی ممکن ہے.بہت پرانی بات ہے کئی سوسال پہلے عمالیق قوم کے لوگ اس علاقے میں آئے اور زمین کی زرخیزی کی وجہ سے یہاں آباد ہو گئے کھجوروں کے باغات لگانے لگے.چھوٹے چھوٹے قلعے بنا کر اُن میں رہنے لگے اُن کے بعد بنی اسرائیل یہودی یہاں آکر آباد ہوئے.یہودیوں کے تین بڑے قبیلے تھے بنو قینقاع، بنونضیر اور بنو قریظہ.یہ قبیلے بھی اپنے اپنے قلعے بنا کر رہنے لگے.تجارت، زراعت اور صنعت ان کے پیشے تھے یہ لوگ خوشحالی، تعلیم اور تمدن میں بہتر تھے اس لئے پورے علاقے میں ان کا اقتدار تھا.پھر یمن کی طرف سے بنو قحطان کے دو قبیلے جو دو بھائیوں اوس اور خزرج کی اولاد تھے یہاں آکر آباد ہوئے اور مقامی لوگوں کے دستور کے مطابق قلعے بنا کر رہنے لگے.یہودیوں کو اقتدار حاصل تھا اس لئے اوس اور خزرج قبائل کو دبا کے رکھتے تھے.اس دباؤ اور ظلم سے تنگ آکر انہوں نے قریبی ریاست عنسان کے بادشاہ سے مدد لے کر ہوشیاری کے ساتھ بڑے بڑے یہودیوں کو قتل کروا دیا.اس طرح یہودی کمزور ہو گئے اوس و خزرج طاقتور ہو گئے.مگر ایک بڑی بات یہ ہوئی کہ طاقت پکڑتے ہی آپس میں لڑنے لگے اور لڑتے لڑتے اتنے کمزور ہو گئے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے یہودیوں کی مدد مانگی.یہودی تو پہلے 29

Page 36

ہی ان سے خار کھائے ہوئے تھے یہودی قبیلہ بنو قینقاع قبیلہ خزرج کے ساتھ مل گیا اور بنو نصیر اور بنوقریظہ اوس کے ساتھ مل گئے اس طرح دو بڑے بڑے گروہ بن گئے اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کیلئے آپس میں جنگیں کرنے لگے.یہودی فطرتا شرارت پسند تھے.اختلافات پیدا کر کے لڑائی کروانا اُن کی عادت تھی.سب سے طویل مشہور اور خوں ریز جنگ جنگ بعاث کہلاتی ہے یہ اُس زمانے میں لڑی جارہی تھی جب مکہ میں آنحضرت نے نبوت کا دعویٰ فرمایا.اسلام کے مدینہ میں آنے کے قریب کے زمانہ میں مدینہ کے لوگوں کو اس حالت کا احساس پیدا ہوا اور انہوں نے اپنی حالت پر غور کرنا شروع کیا آخر بعض لوگوں نے یہ تجویز کی کہ اس فتنہ کے سد باب کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مدینہ میں ایک منظم حکومت قائم کی جائے اور اپنے میں سے کسی کو بادشاہ تجویز کرلیا جائے یہ خیال زور پکڑ گیا اور مدینہ کے مشرک لوگ ایک بادشاہ کے انتخاب پر متفق ہو گئے آخر ایک شخص عبداللہ ابن ابی سلول پر جو خز رج قبیلہ کا رئیس تھا سب کا اتفاق ہوا عام رواج کے مطابق اس کے لئے ایک تاج بنوانے کی تیاری ہورہی تھی کہ ان تک اسلام کی آواز پہنچ گئی اور انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی مشکلات کا علاج اسلام ( تفسیر کبیر جلد اول صفحه 171) ہے.اسلام کا پیغام مدینہ پہنچ چکا تھا.با قاعدہ نماز جمعہ کا آغاز بھی ہو چکا تھا.قرآنِ کریم کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا.پیغام الہی کا نور آہستہ آہستہ اُن کے شہر کو منور کر رہا تھا.لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ پیشگوئیوں کے مطابق موعود نبی مطلع مدینہ پر نمودار ہونے والا ہے.انہیں کے انتظار میں مدینہ والے آنکھیں بچھائے بیٹھے تھے.ایک دن انتظار کی گھڑیوں میں سورج سر پر آ گیا اور دو پہر کی گرمی میں شدت آگئی تو لوگ 30

Page 37

اُٹھ کر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے.اتنے میں ایک بلند آواز نے چونکا دیا.”اے قبلہ کی اولاد جس کا تمہیں انتظار تھا وہ آگئے“ (قبیلہ اوس و خزرج کی دادی کا نام تھا.سب کو ایک ساتھ مخاطب کرنے کے لئے ایسے پکارا جاتا تھا).یہ آواز ایک یہودی کی تھی جس نے اونٹنیوں کے پیروں سے اُٹھنے والی گرد اور مسافروں کے چمکتے چہروں سے اندازہ لگا لیا کہ یہی وہ عظیم الشان مہمان ہیں جن کے انتظار میں مدینے کے گلی کوچوں میں نئی زندگی کی ہما ہمی تھی.رسول اللہ صلی ایتم کی آمد کی خبر سے لوگ گھروں سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے اپنے اپنے ہتھیار سجاتے ہوئے استقبال کے لئے نکل کھڑے ہوئے.مدینہ میں ہتھیار لگا کر نکلنا اس بات کی علامت تھی کہ مہمان کو بہت عزت دی جا رہی ہے.یہ 20 ستمبر 622ء بمطابق 8 ربیع الاول 1ھ پیر کا دن تھا لوگوں کا مجمع پانچ سو افراد تک پہنچ گیا جو ایک نظر ایک جھلک اپنے آقا کو دیکھنے کا مشتاق تھا.(صحیح بخاری جلد اول صفحہ 233 حدیث 413) رسول اللہ آگئے نبی اللہ آگئے کے روح پرور نعرے ہر طرف گونج رہے تھے ایک صحابی براء بن عازب کہتے ہیں کہ جو خوشی انصار کو آنحضرت ﷺ کے مدینہ میں تشریف لانے کے وقت پہنچی ویسی خوشی کی حالت میں میں نے انہیں کبھی کسی اور موقع پر نہیں دیکھا.بخاری باب 15 حدیث 3647) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے پیارے انداز میں ان محبت کرنے والے دلوں کی تعریف فرمائی ہے.” جب نفوس صافیہ کا جذب ہوتا ہے تو ممد و معاون بھی پیدا ہو جاتے ہیں صحابہ 31

Page 38

کے دل اچھے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے ایک رسول بھی پیدا کر دیا ایسا ہی کہتے ہیں کہ مکہ سے جو مدینہ کی طرف ہجرت کی.اس میں بھی یہی سیر" تھا کہ وہاں کے اصلاح پذیر قلوب کا ایک جذب تھا، “ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 244) یعنی وہ دل جو اصلاح کی طرف مائل تھے اُن کے جذبہ نے رسول اللہ صلی اسلام کو اپنی طرف کھینچ لیا.ہجرت کے کامیاب سفر اور احباب سے ملاقات نے آپ کو مسرور کر دیا.ملاقات کے بعد آنحضرت سلیم کسی خیال کے ماتحت ( جس کا ذکر تاریخ میں نہیں آیا ) سیدھے شہر کے اندر داخل نہیں ہوئے بلکہ دائیں طرف ہٹ کر مدینہ کی بالائی آبادی جو اصل شہر سے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر تھی اور جس کا نام قبا، تھا تشریف لے گئے اس جگہ انصار کے بعض خاندان آباد تھے.( سيرة خاتم النبيين صفحه 264) آپ اور آپ کے ساتھیوں نے مکہ اس حال میں چھوڑا تھا کہ چاروں طرف خون کے پیاسے آپ کی گھات میں لگے ہوئے تھے اور یہاں مدینہ میں علی الاعلان تو حید و رسالت کی گواہیاں دی جارہی تھیں.چمکتے چہروں اور کھلی بانہوں سے استقبال ہورہا تھا یہ سب خدا تعالیٰ کا خاص کرم تھا کہ اُس نے خراب سے خراب حالات میں بھی آپ کی حفاظت فرمائی اور کسی دشمن کے ناپاک منصوبے آپ کو نقصان نہ پہنچا سکے تھے.ہجرت بہت بڑا واقعہ تھا اسلامی تاریخ میں اس واقعہ میں ہجرت سے سن ہجری کا آغاز ہوا اب ہم سیرت پاک کے مطالعے میں سنِ نبوی کی جگہ سن ہجری لکھیں گے.قبا میں آپ ممتاز بن عوف کے خاندانی مکان میں ٹھہرے جس کے رئیس کلثوم بن الہدم تھے.ان کے مکان میں پہلے ہی مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے کچھ لوگ ٹھہرے ہوئے تھے 32

Page 39

آپ کی آمد کی خبر چند لمحوں میں پورے شہر میں پھیل گئی لوگ گروہ در گروہ آپ کی ملاقات کے لئے آنے لگے.اس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی.مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہ تھے.جب قبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے ناواقف لوگ حضرت ابوبکر کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر اُن کی ڈاڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح اُن کا لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بہتر تھا یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے.حضرت ابوبکر نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے.وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا یا رَسُول الله ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں اور اس لطیف طریق سے اُنہوں نے لوگوں پر اُن کی غلطی کو ظاہر کر دیا.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 137) کلثوم کے مکان کے قیام کے دوران آپ نے دریافت فرمایا اسعد بن زرارہ نظر نہیں آرہے“ یہ خوش نصیب شخص جس کی آنحضور سانیاں پہنم کی آنکھوں کو تلاش تھی مدینہ کے اولین مسلمانوں میں سے تھے جو پہلی بیعت عقبہ میں شامل تھے.اور مدینہ میں تبلیغ اسلام کرتے تھے.دوسری بیعت عقبہ میں شامل ہونے والے بہتر (72) اشخاص کے آپ نے بارہ نقیب مقرر فرمائے جن 33

Page 40

میں سے ایک اسعد بن زرارہ تھے جو امام نماز مقرر ہوے...وہ جنگ بعاث میں شامل تھے اور ایک خزرجی رئیس اُن سے قتل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے قبیلہ اوس کے لوگ اُن کے خون کے پیاسے تھے.اس لئے زیر زمین ہو گئے تھے.آنحضور صلی سی ستم کی قبا میں تشریف آوری کائن لیا تھا مگر قدم بوسی کے لئے حاضر نہیں ہو سکے تھے.رات کا اندھیرا پھیلا تو منہ پر کپڑا لپیٹے ہوئے خاموشی سے حضور کے دیدار کے لئے آئے اور صبح کے اُجالے سے پہلے چلے گئے.آنحضور نے قبیلہ اوس کے سرداروں سے فرمایا کہ اسعد کو پناہ دو.یہ پہلا موقع تھا کہ آپ کی برکت سے دونوں قبیلوں میں صلح کی رسم پڑی سعد ابن خیمہ اسعد بن زرارہ کو ساتھ لے کر مدینے کی گلیوں سے گھومتے ہوئے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوئے جانی دشمن برکاتِ نبوت سے یک جان ہو گئے.آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کو انسانیت کے آداب سکھائیں اور پھر انسانیت کو ترقی دے کر اعلیٰ اخلاق سکھائیں اور پھر اعلیٰ اخلاق میں محبت الہی کے رنگ بھر کے اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر ڈال دیں اتنا قریب کہ خدا کی رضا اُن کی رضا ہو جائے اور وہ خدا میں فنا اور محو ہو جائیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سب سے مقدم خانہ خدا کی تعمیر تھی.چنانچہ آپ نے اپنے قبا کے قیام کے اگلے ہی دن یعنی 21 ستمبر 622ء مطابق 9 ربیع الاول 1ھ ایک مسجد کا سنگ بنیا درکھا.یہ زمین پر پہلی مسجد تھی جس کا سنگ بنیا درسول اللہ صلی ای ایم کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا.روایت ہے کہ حضور نے صحابہ سے فرمایا.قریب کی پتھریلی زمین سے پتھر جمع کر کے لاؤ.پتھر جمع ہو گئے تو حضور نے خود ایک خط کھینچا اور خود اس پر پہلا پتھر رکھا.پھر بعض بزرگ صحابہ سے فرمایا اس کے ساتھ ایک ایک پتھر رکھو پھر عام اعلان فرمایا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر رکھے.حضور خود بھاری پتھر اٹھا کر لاتے یہاں تک کہ جسم مبارک جھک جاتا.پیٹ پر مٹی نظر المعجم الكبر للطبرانی جلد 24 صفحہ 318 مکتب ابن تیمیہ قاہرہ) آتی.34

Page 41

اپنی مدد آپ کے تحت ہونے والے اس پہلے کام کا مہاجرین مکہ اور مسلمانانِ مدینہ پر بہت اچھا اثر ہوا رسول اللہ سلینی ای ام نگرانی بھی فرما رہے تھے اور کام بھی کر رہے تھے مزدوروں کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے بغیر کسی ظاہری بڑائی کے اظہار کے آپ پتھر اُٹھا اُٹھا کر لا رہے تھے.عرب کے معاشرے نے آقا اور غلام کا کلچر دیکھا ہوا تھاوہ اس انسان دوست نبی کو دیکھ کر حیران رہ گئے آپ پتھر اٹھاتے تو جاں نثار آگے بڑھ کر عرض کرتے ہمارے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ چھوڑ دیں ہم اُٹھائیں گے آپ اُن کی درخواست سُن کر وہ پتھر چھوڑ بھی دیتے تو دوسرا اُس جیسا یا اُس سے بھی وزنی اُٹھا لیتے مسجد کی تعمیر کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول تھا اور وہ سب کو چاہئے تھی اس لئے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے.حضرت عبداللہ بن رواحہ ایک شاعر تھے اس موقعہ پر اُن کے اشعار نے بڑی رونق لگائی اور کام کرنے کا جذبہ بڑھایا آپ اونچی آواز سے پڑھتے أَفْلَحَ مَنْ يُعالج الْمَسَاجِدا کامیاب ہیں وہ جو مسجد تعمیر کرتے ہیں سب مل کر جواب دیتے ويقرء القرآن قائما وقاعدًا اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتے ہیں پھر سب مل کر پڑھتے وَلَا يبيتُ اللَّيل عنه راقدا اور جو راتوں کو عبادت کے لئے جاگتے ہیں آنحضرت سال اسلم بھی ہر ہر قافیہ کے ساتھ اپنی آواز ملاتے تھے.( وفاء الوفا بحوالہ ابن شبہ جلد 1 صفحہ 181) 35

Page 42

چند دن میں یہ مسجد تعمیر ہوگئی.آپ اس مسجد سے بہت محبت کرتے تھے مدینہ جانے کے بعد ہر شنبہ قبا تشریف لاتے تھے کبھی پیدل اور کبھی سواری پر اور اس مسجد میں دو رکعت نفل ادا فرماتے.( بخاری جلد اول صفحہ 482 حدیث 1114 باب 753) آنحضور صلی اللہ تم کو نماز سے بہت محبت تھی آپ فرمایا کرتے تھے کہ نماز مومن کی معراج ہے آپ اسلام قبول کرنے والوں کو نماز باجماعت کی بے حد تلقین فرماتے.نماز مکہ میں فرض ہوگئی تھی.ہجرت کے کچھ عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے نماز کی رکعات متعین فرما دیں جو مکہ والی نماز سے زیادہ تھیں.فجر اور مغرب میں پہلے کی طرف دو رکعات اور تین رکعات فرض ہی تھے ظہر عصر اور عشاء میں دو کی بجائے چار رکعات فرض مقرر فرمائے.البتہ سفر کے دوران یہ سہولت رکھی کہ مغرب کے علاوہ سب نمازوں میں دو دو رکعات فرض ادا کئے جائیں.اسی طرح آپ نے نوافل پڑھنے پر بھی زورد یا نماز تہجد سے تو آپ کو اسقدر پیار تھا کہ پابندی سے ادا کرتے اور لمبی لمبی سورتیں پڑھتے اور دیر تک دعائیں کرتے حتی کہ آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے.قبا میں آپ کا چند دن قیام رہا بعض روایتوں میں چار دن اور بعض میں دس دن بھی مذکور ہے.یہیں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مکہ والوں کو اُن کی امانتیں لوٹا کر جس میں تین دن لگ گئے سفر کر کے قبا پہنچے اور آنحضرت سالی یہ اہم سے آملے.اب قبا سے مدینہ روانگی کا دن آیا آپ اپنی اونٹنی القصوئی پر سوار ہوئے آپ کے ساتھ آپ کے یار غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار ہوئے مگر اب یہ سوار دو ہی نہیں تھے بلکہ بہت سے لوگ اس قافلے میں شامل ہو گئے تھے کچھ اپنی سواریوں پر تھے کچھ پیدل ہی ساتھ ہو لئے قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع ہوا راستے میں جمعہ کا وقت آگیا آنحضرت الینی ای ایم نے بنی سالم بن عوف کے محلہ میں ٹھہر کر نماز جمعہ ادا فرمائی.اس سے پہلے نماز جمعہ کا 36

Page 43

آغاز تو ہو چکا تھا مگر یہ وہ نماز جمعہ تھی جو آنحضرت سلیم نے پڑھائی یہ جمعہ 24 ستمبر 622 ء مطابق 11 ربیع الاول 1ھ کو پڑھا گیا.جمعہ کی نماز میں سو (100) احباب شامل ہوئے.(طبقات ابن سعد اخبار النبی جلد اول صفحہ 302) آپ نے خطبہ میں اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا.آپ نے ارشاد فرمایا: مسلمانو! میں تمہیں اللہ سے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں بہترین وصیت جو مسلمان ، مسلمان کو کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اُسے آخرت کے لئے آمادہ کرے اور تقویٰ کے لئے کہے.اللہ نے جن باتوں سے تمہیں دور رہنے کو کہا ہے ان سے بچتے رہو اس سے بڑھ کر نہ کوئی نصیحت ہے نہ ذکر.یادرکھو! جو شخص خشیت الہی کے ساتھ عمل کرتا ہے اُس کا تقویٰ امور آخرت میں بہترین مددگار ثابت ہوگا.نیز جو شخص اپنے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ خفیہ اور ظاہر میں درست رکھتا ہے تو اُس کے لئے دنیا میں ذکر باقی رہے گا اور آخرت میں نیکیوں کا ذخیرہ بن جائے گا.“ تاریخ طبری حصہ اول صفحہ 144) نماز جمعہ کے بعد آپ کا قافلہ اپنی منزل کے لئے روانہ ہوا راستے میں بھی لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا.بعض مسلمانوں نے بڑے ادب سے عرض کی کہ ہمارا گھر حاضر ہے ہماری جان حاضر ہے ہمارا مال حاضر ہے ہم آپ کی حفاظت کے سامان بھی کر سکتے ہیں آپ ہمارے ہاں قیام فرمائیں.آپ بڑی محبت سے ان دعوت دینے والوں کے لئے دعائے خیر فرماتے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے.مدینہ میں داخل ہوئے تو پر شوق استقبالیہ نعروں سے پورا شہر گونج رہا تھا مگر اُن سب 37

Page 44

آوازوں میں سب سے پر مسرت اُن بچوں اور بچیوں کی آوازیں تھیں جو آپ کی آمد پر خوشی کے ترانے گا رہے تھے.طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوِدَاع وَجَبَ الشُّكُرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلهِ دَاع ايُّهَا الْمَبْعُوثُ فِينَا جنت بالأمر المطاع یعنی چودھویں رات کا چاند ہم پر وداع کے موڑ سے چڑھا ہے اور جب تک خدا کی طرف بلانے والا دنیا میں کوئی موجود ر ہے ہم پر اس احسان کا شکر یہ ادا کرنا واجب ہے اور اے وہ جس کو خدا نے ہم میں مبعوث کیا ہے تیرے حکم کی پوری طرح اطاعت کی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے تھے وہ مشرقی جہت نہیں تھی.مگر چودھویں رات کا چاند تو مشرق سے چڑھا کرتا ہے.پس مدینہ کے لوگوں کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ اصل چاند تو روحانی چاند ہے.ہم اس وقت تک اندھیرے میں تھے اب ہمارے لئے چاند چڑھا ہے اور چاند بھی اُس جہت سے چڑھا ہے جدھر سے وہ چڑھا نہیں کرتا.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 138 ) مدینہ میں اپنے قیام کے بارے میں آپ نے قبا میں ہی ارادہ ظاہر فرمایا تھا کہ ” میں عبد المطلب کے ننھیال بنو نجار کے ہاں ٹھہروں گا (مسلم باب الہجرت ) اس فیصلے سے آپ نے 38

Page 45

بڑی دانائی سے وقت پر ایسے سب دروازے بند کر دئے جن سے رقابت یا مخالفت اندر آ سکتی تھی.بنونجا ر سے عبد المطلب کی والدہ سلمی کا تعلق تھا اور یہی خصوصیت آپ کے انتخاب کا باعث بنی.مدینہ میں اگر چہ ہر طرف عید کا سماں تھا مگر بنو نجار کے محلے میں زیادہ جوش و خروش تھا لوگ ہتھیار لگائے ہوئے دونوں طرف قطاروں میں کھڑے تھے بچیاں اپنی خوشی کا اظہار دف بجا بجا کر کر رہی تھیں.نحن جوارٍ مِنْ بنی نجار يا حبذا محمدا مِنْ جارٍ ہم قبیلہ بنو نجار کی لڑکیاں ہیں اور ہم کیا ہی خوش قسمت ہیں کہ محمد رسول اللہ ہمارے محلہ میں ٹھہرنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں.آپ ان نفھمے الاپنی بچیوں کے قریب تشریف لائے بڑے پیار سے انہیں مخاطب ہو کر فرمایا " کیا تم مجھے چاہتی ہو وہ بیک زبان بولیں ”جی ہاں یا رسول اللہ آپ نے فرمایا میں بھی تمہیں چاہتا ہوں“ مشتاقانِ دین کے لئے یہ دن بہت خوشیوں کا دن تھا رسول اللہ اُن کی بستی میں تشریف لائے تھے اور اب بستی میں سے ایک خاص محلے میں تشریف لا چکے تھے اب بنو نجار کے کسی گھرانے کو یہ شرف ملنے والا تھا کہ آپ اُسے اپنی قیام گاہ کے لئے پسند فرمالیں ذوق وشوق سے بے تاب ہو ہو کر لوگ آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے اور درخواست کرتے یا رسول اللہ ہماری جان مال گھر سب کچھ آپ کا ہے ہم آپ کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں.آنحضور صلی یا اسلام نے فرمایا 39

Page 46

میری اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کام پر لگائی گئی ہے خود منزل تلاش کر لے گی.اونٹنی خراماں خراماں رواں تھی.حضرت بریدہ اسلمی نے ایک جھنڈا بنا لیا تھا وہ اُس کو لہراتے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے.آخر ایک جگہ یہ اونٹنی بیٹھ گئی.تھوڑی دیر کے بعد وہ اونٹنی اٹھی اور آگے کی طرف چلنے لگی لیکن پھر چند قدم چل کر واپس آئی اور اُسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی دوبارہ بیٹھ گئی آپ نے فرمایا هذا انشاء الله المنزل یعنی اللہ تعالیٰ کی منشاء سے یہی ہماری منزل ہے ( بخاری کتاب الہجرت ) آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ زمین کس کی ملکیت ہے؟ آپ کو بتایا گیا کہ سہل اور سہیل دو یتیم بچے ہیں یہ زمین اُن کی ملکیت ہے آپ نے فرمایا میں اُنہیں معاوضہ دے کر راضی کرلوں گا پھر آپ نے فرمایا کہ یہاں سے سب سے قریب کس کا گھر ہے؟ ” میرا گھر ہے“ حضرت ابوایوب انصاری نے جواب دیا اور تیزی سے اونٹنی کی کاٹھی اُتار کر اپنے گھر لے گئے آپ نے مسکرا کر فرمایا انسان وہیں جاتا ہے جہاں اُس کا سامان ہوتا ہے.گھر جاؤ اور ہمارے لئے کوئی کمرہ تیار کرو.( بخاری کتاب الہجرت ) ابوایوب انصاری کا مکان دو منزلہ تھا انہوں نے رسول اللہ صلی یتیم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل کو پسند فرمایا.انصار کو رسول اللہ لا یا یہ تم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہوگئی تھی ، اُس کا 40

Page 47

مظاہرہ اس موقع پر بھی ہوا.رسول اللہ صلی شما ایام کے اصرار پر حضرت ابوایوب مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں، لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی ا یہی ہم ان کے نیچے سورہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں.رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ایوب نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا.صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی ایتم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم ملائیشیا ایلیم نے او پر جانا منظور فرمالیا.حضرت ابوایوب روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بھجواتے پھر جو آپ کا بچا ہوا کھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا.کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ لسانی یا پی ایم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے.“ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 139 - 138 ) آنحضور ملا لیں یہ تم چھ ماہ تک حضرت ابو ایوب انصاری کے مکان پر قیام پذیر رہے.وہ کتنے خوش نصیب تھے کہ میز بانِ رسول ہونے کا شرف حاصل ہوا.آپ کی دعائیں لیں.ہر روز تبرک کھانا نصیب ہوا.تبرک کھانے کے متعلق ایک بڑا دلچسپ اور سبق آموز واقعہ ہوا.حضرت ابو ایوب اور اُن کی بیگم پہلے آنحضور کی خدمت میں کھانا پیش کرتے جب بچا ہوا کھانا آتا تو دونوں میاں بیوی کھانا کھاتے اور شوق سے اُس جگہ سے کھاتے جہاں آپ کی مبارک انگلیوں کے نشان ہوتے.ایک روز کھانا ویسے کا ویسا واپس آ گیا آپ نے چکھا بھی نہ 41

Page 48

تھا.دونوں گھبرا گئے کہ نہ جانے کیا غلطی ہوئی ہے بھاگے بھاگے گئے اور سبب دریافت کیا.آپ نے فرمایا ابوایوب تم نے پیاز ڈال دی تھی اور میں بو کے سبب اُس کو نہیں کھا تا کیونکہ مجھ کو فرشتوں سے ہم کلام ہونا ہوتا ہے تم شوق سے کھاؤ.ابوایوب انصاری" کہتے ہیں اُس روز کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ کے کھانے میں پیاز نہیں ڈالی.ابن ہشام اردو ترجمہ جلد اوّل صفحہ 334) حضرت ابوایوب انصاری کے دو منزلہ مکان کے متعلق ایک روایت ہے کہ آنحضرت الی یہ کام کی آمد سے ایک ہزار سال پہلے علاقہ یمن کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام تبع ابنِ حسان حمیری تھا اس کی سلطنت اتنی وسیع تھی گویا ساری دنیا کو فتح کر لیا تھا جب تبع ملک پر ملک فتح کرتا ہوا میثرب پہنچا تو یہاں کے یہودی علماء نے اس کو بتایا کہ یہ علاقہ کوئی معمولی علاقہ نہیں ہے یہاں آئندہ زمانے میں ایک نبی ظاہر ہوگا جس کا نام محمد ہو گا وہ ہجرت کر کے آئے گا اور قیام کرے گا پھر وہ یہاں سے کبھی نہیں جائے گا،.شہر کی عظمت کا علم ہوا تو بادشاہ کو خدا کا خوف محسوس ہوا تباہی سے ہاتھ روک لئے خانہ کعبہ کی زیارت کی ، یثرب میں ایک شاندار محل بنوایا تا کہ جب وہ عظیم الشان نبی ہجرت کر کے آئے تو اس میں قیام کرے اُس نے ایک تحریر بھی لکھی جس میں اپنے تابع دار ہونے کا اقرار کیا اپنے علماء کو میٹر ب میں ٹھہرنے کی اجازت دی شاہ تبع کا سجا سجا یا محل اور وہ تحریر نسل در نسل ایک عالم کے خاندان کی تحویل میں رہی وقت گذرنے کے ساتھ محل کی شان و شوکت باقی نہ رہی تاہم جو حصہ باقی تھا اسی میں آنحضور صلی اینم کا قیام ہوا کیونکہ حضرت ابو ایوب انصاری اُسی عالم کی نسل سے تھے.اسی طرح جس زمین پر مسجد نبوی 42

Page 49

تعمیر ہوئی وہ بھی اسی محل کے ساتھ کی زمین تھی.رض (خلاصہ تاریخ حلبیہ بحوالہ ابن اسحق مبداء قصص الانبیاء) ایک دن بڑے مزے کا واقعہ ہوا آپ کی خدمت میں ایک بہت اچھا تحفہ پیش کیا گیا.آپ کی رشتے کی خالہ اُتم سلیم بنتِ سلمان رسول کریم صلی ا یتیم کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ کے ساتھ دس سال کا ایک بچہ تھا.جس کو پیارے آقا کو ایک نظر دیکھنے کا بے حد شوق تھا.وہ آپ کی آمد پر بہت خوش تھا خوشی کے نعرے لگانے میں آگے آگے تھا اپنی خوشی کا اظہار بعد میں ایک دفعہ ان الفاظ میں کیا.و میں نے ہر گز نہیں دیکھا کہ کوئی دن اُس دن سے خوب تر اور روشن تر ہو جس میں رسول اللہ صلی سیستم تشریف لائے جس دن آپ مدینہ تشریف لائے آپ کے جمالِ جہاں آرا سے ہر چیز روشن ہوگئی ย ( مشکوۃ شریف صفحہ 547) حضرت ام سلیم نے انس کو آنحضرت صلی پانی کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا :- هذا انس غلام يخدمك یہ انس ہے آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں آپ نے یہ پیارا تحفہ قبول فرمایا.ساری عمر ساتھ رکھا حضرت انس کو خادم رسول کہا جاتا ہے یہ خدمت ایسی سعادت تھی جود و جہانوں کی نعمت سے بڑھ کر تھی.آنحضور صلی یا یہ ہم نے آپ کو دعا دی ”اے خدا انس کے مال و اولاد میں برکت دے اور اسے جنت میں داخل کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاسنی 43

Page 50

انس " رسول اللہ سی ایتم کی صحبت میں اسلام کے بہت بڑے عالم ہوئے اور آہستہ آہستہ بہت بڑے مالدار ہو گئے انہوں نے ایک سو سال سے زیادہ عمر پائی اور اسلامی بادشاہت میں بہت عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھے جاتے تھے.انس کا بیان ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں رسول اللہ لا یا یتیم کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور آپ کی زندگی تک آپ کے ساتھ رہا کبھی آپ نے مجھ سے سختی کے ساتھ بات نہیں کی کبھی جھڑ کی نہیں دی کبھی کسی ایسے کام کے لئے نہیں کہا جو میری طاقت سے باہر ہو.“ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 139 ) ایک خادم کی اپنے آقا کے حسنِ اخلاق کے متعلق اتنا خوبصورت بیان ظاہر کرتا ہے کہ عام گھریلو زندگی میں بھی آپ کس قدر اعلیٰ برتاؤ کا انداز اختیار فرماتے تھے آپ حضرت انس کو اس طرح پیار کرتے جیسے والدین اپنے حقیقی بیٹے کو کرتے ہیں آواز دیتے تو بیٹا کہتے یا انیس اور کبھی لاڈ سے یا ڈالا ذنین (اے دوکانوں والے) فرماتے.ہجرت کے شروع کے دنوں کا ایک اور واقعہ ہے آنحضرت مصلای ایلام مع تمام مہاجرین کے انصار کے مہمان تھے.دس دس آدمیوں کی ایک ایک جماعت انصاریوں کے ایک ایک گھر میں اُتاری گئی تھی.مقداد بیان کرتے ہیں کہ میں اس جماعت میں تھا جس میں خود آنحضرت صلا نیلم شامل تھے ہمارے والے گھر میں چند بکریاں تھیں انہیں کے دودھ پر گزارا تھا دودھ دوھ کر سب اپنا اپنا حصہ پی لیتے اور آپ کے لئے ایک پیالہ میں رکھ چھوڑتے ایک رات آنحضرت صلای ایام کو واپس تشریف لانے میں بہت دیر ہوئی تو سب لوگ دودھ پی پلا کر سور ہے آپ کے لئے کچھ نہ چھوڑا شاید یہ خیال کیا کہ باہر کھانا کھالیں گے آنحضرت سلام تشریف لائے دودھ پینے لگے تو دیکھا پیالہ خالی تھا کسی سے کچھ نہ کہا پھر کچھ دیر کے بعد فرمایا یا اللہ ! جو آج ہمیں کھلائے تو بھی اُسے کھلانا 44

Page 51

مقداد نے یہ بات سنی اور چاہا کہ ایک بکری ذبح کر کے گوشت پکا کر آپ کو کھانا کھلا ئیں.مگر آپ نے روک دیا اور بکری کو پکڑ کر اس کا دودھ دوہا اور جو نکلا پی کر سور ہے اور دودھ کا حصہ نہ رکھنے والوں کو کسی قسم کی ملامت نہ کی.آنحضور صلی یا پیام مکہ میں راہ مولا کے اسیروں کو یاد کرتے تھے اور اُن کی رہائی کی دعائیں کرتے تھے.الگ الگ نام لے لے کر اور اجتماعی طور پر سب کے لئے بھی آپ کی ایک دعا ہے ”اے اللہ! ولید ابن ولید کو نجات فرما.اے اللہ ! سلمہ ابن ہشام کو رہائی عطا فرما.اے اللہ ! عیاش ابن ربیعہ کو چھٹکارا دلا دے.اے اللہ ! ہشام ابن عاص کو آزادی عنایت فرما.اے اللہ ! کمزور مسلمانوں کو نجات عطا فرما آپ کی دعائیں قبول ہو ئیں اور آہستہ آہستہ سب ہی مسلمانوں کو مشرکین کے پنجوں سے آزادی مل گئی آپ کو یاد ہو گا کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت آنحضور ساینا یہ ہم نے خاص حکمت عملی سے منصوبہ بندی فرمائی تھی گھر کے سب لوگوں نے ایک ساتھ ہجرت نہیں کی تھی بلکہ خواتین اور بچے مکہ میں ہی رہ گئے تھے.قبا کے قیام کے دوران حضرت علی تشریف لے آئے تھے اب باقی سب کو بلانے کیلئے آپ نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے غلام ابورافع کو دواونٹ اور پانچ سو درہم دے کر بھیجا کہ مکہ جا کرام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور صاحبزادیوں کو لے آئیں.ابن سعد، طبقات جلد اول صفحہ 304) حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے عبداللہ کو لکھا کہ وہ بھی اپنی والدہ اور بہنوں کو لے کر رض آجا ئیں چنانچہ حضرت زید کے ساتھ حضرت سودہ حضرت فاطمتہ الزہرا ، حضرت أم كلثوم أن 45

Page 52

کی بیگم ام ایمن اور بیٹا اسامہ مدینے آگئے آپ نے اپنے اہل خاندان کو حارث بن نعمان کے گھر ٹھہرایا.حضرت ابو بکر صدیق کے گھر سے اُن کی بیگم ام رومان ، حضرت عائشہ اور حضرت اسماء مدینے آگئے حضرت رقیہ ان دنوں اپنے شوہر حضرت عثمان غنی کے ساتھ حبشہ میں تھیں اور حضرت زینب اپنے شوہر ابوالعاص کے ساتھ مکہ میں رہیں کیونکہ اُن کے شوہر نے ہجرت کی اجازت نہ دی تھی.اس طرح ہجرت کے تمام مرحلے خیر وعافیت سے مکمل ہوئے.یہ بات کچھ عجیب سی لگ رہی ہے کہ جہاں سب سے زیادہ خطرہ تھا وہاں کمز ور عورتوں اور بچوں کو پیچھے چھوڑ دیا مگر اصل بات یہ تھی کہ آپ نے دشمنوں کی سوچ کو اس راہ پر ڈالے رکھا کہ بیوی بچے پیچھے ہیں آخر بیچ کر کہاں جائیں گے مگر جب آپ دشمنوں کے ہاتھوں سے صاف نکل گئے تو بوکھلا ہٹ میں کوئی قدم نہ اٹھا سکے اور آپ کی منصوبہ بندی ہر لحاظ سے مکمل اور کامیاب رہی.جب یہ قافلہ قبا پہنچا تھا تو حضرت اسماء کے گھر عبداللہ ابن زبیر پیدا ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبا تشریف لائے ہوئے تھے آپ نے اس بچے کو گود میں لیا ایک کھجور منگوا کر اپنے منہ میں ڈال کر چبائی اور اپنا لعاب اس بچے کے منہ میں ڈال دیا یہ پہلا بچہ تھا جو مہاجرین میں پیدا ہوا.ہم آنحضرت صلی اسلم کی ہجرت کے حالات پڑھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے نبی کا اپنے مخالفین کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے وطن کو چھوڑ ناوہ بھی ایسی حالت میں کہ نبی کمزور نظر آئے مخالفین طاقتور بظاہر ایک پسپائی کی حالت ہے مگر اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں.انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں جیسا کہ یہ ذکر صحیح بخاری میں بھی موجود ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی مصر سے کنعان کی طرف ہجرت کی تھی اور ہمارے نبی سی میں یہ ہم نے بھی 46

Page 53

مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه 350 حاشیہ) قادر خدا چاہے تو اپنے اپنے وطن میں حفاظت کے سامان فرما دے مگر وہ تعلیم خدا جانتا ہے کہ اُس کا بندہ کہاں زیادہ کام کر سکتا ہے.وہیں لے جاتا ہے.حضرت نوح ، حضرت لوط ، حضرت داؤد ، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام سب نے ہجرت فرمائی.فرق یہ ہے کہ ان انبیائے کرام کی ہجرت کے پھل اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھے جبکہ آنحضور کی ہجرت کل انسانیت کے لئے پیغامِ امن بن گئی.واقعات اور نتائج کے لحاظ سے آنحضرت کی ہجرت سب نبیوں سے زیادہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت سے ملتی جلتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ کو حضرت موسیٰ کی مانند مثیل موسیٰ قرار دیا ہے.حضرت موسیٰ نے فرعون کو پیغام حق دیا اُس کی نافرمانیوں پر اُسے بنی اسرائیل کے سامنے اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا اور اُس کے ظلموں سے اپنے پیاروں کو نجات دی.آنحضور صلی ا لی ہم نے تیرہ سالہ کی زندگی میں کفار کے ہاتھوں جو ظلم سہے وہ اُن سے زیادہ تھے جو فرعون نے بنی اسرائیل پر ڈھائے تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے ہجرت کی اور آپ کو مکہ جیسی پیاری بستی چھوڑنی پڑی فرعون نے جان سے مارنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کیا آپ کو بھی قتل کرنے کے لئے آپ کا تعاقب کیا گیا پھر جس طرح فرعون اور اُس کا لشکر دریائے نیل میں غرق کئے گئے ابو جہل اور اُس کے ساتھی بڑے بڑے کفار مکہ جنگ بدر میں مارے گئے آپ نے ابو جہل کی لاش کو دیکھ کر فرمایا شخص اس اُمت کا فرعون تھا“ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کو جو فضیلت دی ہے اُس کا ایک ثبوت حضرت موسیٰ کی ہجرت اور 47

Page 54

آنحضور صلی اسلم کی ہجرت میں ایک جیسی باتوں کا مقابلہ کرنے سے ہوتا ہے.حضرت موسی کا شدید مخالف فرعون سمندر کی تہ میں ڈوب گیا جبکہ پاک نبی حضرت موسی کو اللہ تعالیٰ نے کوہ سینا، طور سینین پر اپنا جلوہ دکھایا.اہل مکہ نے ظلم کئے اور پیارے نبی حضرت محمد مصطفی سنی سی ایتم کو مکہ چھوڑنا پڑا.اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا اور آپ کو مدینہ میں سر بلندی عطا فرمائی گویا کہ مدینہ آنحضور کیلئے کوہ سینا تھا.( تفسیر کبیر جلد نهم صفحہ 172 سے استفادہ) اگر آپ ہجرت نہ کرتے تو اسلام کی اشاعت، حفاظت اور سر بلندی کا جو فرض آپ کو سونپا گیا تھا وہ ادا نہ کر سکتے.سارے مکہ والے اسلام کے چراغ کو بجھانے کی کوششوں میں مصروف تھے آپ وہاں رہ کر کیا کرتے.مکہ کی تیرہ سال کی محنت سے کتنے کا فرمسلمان ہوئے ؟ اور جو ہوئے بھی اُن میں سے چند حبشہ ہجرت کر گئے باقی ماندہ مظالم برداشت کرتے ہوئے کتنی تبلیغ کر لیتے مولا کریم نے اپنے پیارے محبوب نبی کو بڑی حفاظت سے مدینہ پہنچا دیا.مدینہ آپ کے لئے ایک ایسا محفوظ مقام بن گیا جہاں سے آپ مدینہ میں ، پورے عرب میں بلکہ ساری وسطی دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانے لگے.یہاں حضرت نوح سے مماثلت دیکھئے.جسطرح نوح کو اپنے دشمنوں کی اذیت کے نتیجہ میں اپنا وطن چھوڑنا پڑا اسی طرح محمد رسول اللہ صلیہ السلام کو بھی مکہ والوں کی متواتر تکالیف اور ایذاء رسانیوں کے نتیجہ میں اپنا وطن چھوڑنا پڑا.جس طرح نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جا کر ٹھہر گئی تھی جہاں نوح کو پناہ لی اور خدا تعالیٰ نے اس پر اپنے انعامات کی بارش نازل کی اسی طرح مدینہ بھی وہ جو دی تھا جہاں محمد رسول اللہ صلی یا اسلام اور آپ کے صحابہ کی کشتی لنگر انداز ہوئی اور جس طرح زیتون کی پتی کے ذریعے نوح کو اس کی جماعت کی آئندہ ترقی اور اس کی ایمانی ترقی کی بشارت دی گئی اسی طرح محمد رسول 48

Page 55

الله سلایا کہ تم کو مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ انصار عطا فرمائے جو عروۃ الوثقی کو مضبوطی سے پکڑنے والے تھے اور جنہوں نے اپنی ایمانی قوت کے ایسے شاندار مظاہرے کئے جن کو دیکھ کر انسان کا دل لذت اور سرور سے بھر جاتا ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 165) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہجرت کی وجوہات کے متعلق ایک واقعہ درج فرمایا ہے.وو دو بزرگ ابولقاسم اور ابوسعید نام تھے اتفاق سے دونوں ایک جگہ اکٹھے ہو گئے ان کے ایک مرید نے کہا کہ میرے دل میں ایک سوال ہے اتفاق سے دونوں ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں.میں پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ سوال یہ پیش کیا کہ آنحضرت سیل ایلم جومدینہ میں آئے تھے اس کی وجہ کیا تھی؟ ابو القاسم نے کہا کہ بات اصل میں یہ تھی کہ آنحضرت سال یا اسلام کے بعض کمالات مخفی تھے ان کا بروز اور ظہور وہاں آنے سے ہوا.ابوسعید نے کہا کہ آنحضرت صالی ایتم اس لئے وہاں آئے تھے کہ بعض لوگ مدینہ میں ناقص تھے اور معرفت کے پیاسے تھے ان کو کامل کرنے اور ان کے دلوں کی پیاس بجھانے کے لئے آپ مکہ سے مدینہ تشریف لائے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 495) جس طرح قبا میں مختصر قیام کے دوران آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ اللہ کے گھر یعنی مسجد کی تعمیر کی تھی بالکل اسی طرح مدینہ میں بھی سب سے پہلے خانہ خدا کی تعمیر کا منصوبہ بنایا.اس مبارک کام کے لئے جگہ بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے منتخب فرمائی گھوم پھر کر علاقہ منتخب کیا نہ زمین دیکھی 49

Page 56

بلکہ جہاں اللہ تعالیٰ کی مرضی سے اونٹنی القصوری بیٹھی تھی اُسی جگہ کو مسجد نبوی بنانے کے لئے پسند فرما لیا.یہ زمین دو بیتیم بچوں کی ملکیت تھی جہاں وہ کھجور میں سکھاتے تھے.یہ بچے سہل اور سہیل اسعد بن زرارہ کی نگرانی میں پرورش پارہے تھے.آپ نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے اس جگہ کی قیمت دریافت فرمائی انہوں نے کہا ہم آپ سے قیمت نہیں لیں گے بلکہ بخوشی بطور تحفہ دیتے ہیں مگر آپ نے بغیر معاوضے کے زمین لینے سے انکار کر دیا اور اصرار کے ساتھ قیمت ادا فرمائی.یہ زمین کافی فراخ تھی اور اس پر کچھ کھنڈرات بھی تھے دراصل یہ شاہ تبع کے بنوائے ہوئے محل کا حصہ تھی جو وہ رسول خدا کے نام کر گیا تھا.بہر حال آپ نے زمین ہموار کروائی اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس مسجد کی تعمیر میں سب بڑے بڑے مسلمانوں نے حصہ لیا.کوئی مزدور بن گیا کوئی معمار بن گیا جس کے حصے میں جو کام آیا عین خوشی خوشی کیا اور تعمیر میں حصہ ملنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھا آنحضور بھی سب کے ساتھ کام میں شامل رہے.حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری کے دو شعر اس موقع پر بلند آواز میں پڑھے جاتے.آنحضور صلی یا اسلم بھی اپنی آواز اُن کی آواز میں ملا دیتے تو عجیب سماں بندھ جاتا.هذا الحِمالُ لاحمال خيبر هذا آبرُ رَبَّنا وَاطْهَرُ یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جو جانوروں پر لا کر آیا کرتا ہے بلکہ اے ہمارے مولیٰ ! یہ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کیلئے اُٹھاتے ہیں.اللهُمَّ إِنَّ الْأَجْرَ أَجْرُ الْآخِرَةَ فارحم الانصار والمهاجرة 50

Page 57

یعنی اے ہمارے اللہ ! اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے پس تو اپنے فضل سے انصار و مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما.( بخاری ابواب الہجرت وزرقانی ) " آپ نے صحابہ کو بتایا ہے کہ تم مخیر کی کھجوریں اور سبزیاں اکثر اٹھاتے ہو گے اور اس کے اُٹھانے میں تمہیں یہ خیال ہوتا ہوگا کہ ہم دنیا کا فائدہ اُٹھائیں گے اور مال کمائیں گے مگر یہ یادرکھو کہ خدا تعالیٰ کے لئے جو کام انسان کرتا ہے وہ گو بظاہر کیسا ہی ادنی معلوم ہو.در حقیقت نہایت پاک اور عمدہ نتائج پیدا کرنے والا ہوتا ہے پس یہ خیال اپنے دلوں میں مت لا نا کہ ہم اس وقت ادنی کام کر رہے ہیں کہ مٹی اور اینٹیں ڈھو رہے ہیں بلکہ خوب سمجھ لو کہ یہ اینٹیں جو تم ڈھو ر ہے ہوان کھجوروں اور میووں کے بوجھ سے جو خیبر سے آتا ہے کہیں بہتر ہیں اور اس میں تمہارے نفوس کی پاکیزگی کا سامان ہے ان میووں کے بوجھ کی ہستی ہی کیا کہ اس کے مقابلے میں اُسے رکھا جائے.“ (سیرۃ النبی محضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ 124) آنحضرت صلی یا اسلام نے انہیں بتایا کہ اس کام میں کسی مزدوری یا نفع کا خیال مت رکھنا بلکہ یہ تو خدا کا کام ہے جس میں اگر کسی نفع کی امید ہے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوگا اور بجائے فوری نفع کے انجام کی بہتری ہوگی اور جس کا انجام اچھا ہو اس سے زیادہ کامیاب کون ہوسکتا ہے پس اسی پر نظر رکھو اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کر دی کہ خدایا یہ لوگ اپنے کام چھوڑ کر تیرے لئے مشقت اُٹھا رہے ہیں تو ان پر رحم فرما.“ سيرة النبي محضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ 127) 51

Page 58

آنحضرت صلی لا یتیم کے ارشاد پر قربان ہونے والوں کا ایک گروہ موجود تھا جو آپ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار تھے مگر آپ کا یہ حال ہے کہ خود اپنے جسم مبارک پر اینٹیں لاد کر ڈھو رہے ہیں.یہ وہ کمال ہے جو ہر ایک بے تعصب انسان کو خود بخود آپ کی طرف کھینچ لیتا ہے اور چشم بصیرت رکھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ یہ پاک انسان کن کمالات کا تھا کہ ہر ایک بات میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے ایک گھر بن رہا ہے اور آپ اس کی اینٹیں ڈھونے کے ثواب میں شامل ہیں خود اپنے کندھوں پر اینٹیں رکھتے ہیں اور مسجد کی تعمیر کرنے والوں کو لا کر دیتے ہیں یہ وہ عمل تھا جس نے آپ کو ابراہیم علیہ السلام کا سچا وارث اور جانشین ثابت کر دیا تھا کیونکہ اگر حضرت ابراہیم نے خود مینٹیں ڈھو کر کعبہ کی تعمیر کی تھی تو اس وارث علوم سماویہ نے مدینہ منورہ کی مسجد کی تعمیر میں اینٹیں ڈھونے میں اپنے احباب کی مدد کی.کہنے کو تو سب بزرگی اور تقویٰ کا دعویٰ کرنے کو تیار ہیں مگر یہ عمل ہی ہے جو پاکبازی اور زبانی جمع خرچ کرنے والوں میں تمیز کر دیتا ہے اور عمل ہی میں آکر سب مدعیانِ تقویٰ کو آپ کے سامنے با ادب سر جھکا کر کھڑا ہونا پڑتا ہے.اس حدیث سے اگر ایک طرف ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سلی یہ تم کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کے کام کرنے سے خواہ وہ بظاہر کیسا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو کسی قسم کا عار نہ تھا آپ اُس معبود حقیقی کی رضا کی تمام راہوں میں دوسروں سے آگے قدم مارتے تھے تو دوسری طرف یہ امر بھی روشن ہو جاتا ہے کہ آپ ماتحتوں سے کام لینے کے ہر فن میں بھی اپنی نظیر آپ ہی تھے.“ (سیرت النبی محضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ 123) 52

Page 59

جن دنوں مسجد نبوی بن رہی تھی دوسرے صحابہ تو ایک ایک اینٹ اُٹھاتے تھے اور عمار بن یا سر دو دو اُٹھا کر لاتے تھے آنحضرت نے جب ان کی محنت کو ملاحظہ فرمایا تو محبت سے ان کی مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا افسوس اے عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا تو انہیں جنت کی طرف بلاتا ہوگا اور وہ تمہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہوں گے.چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا حضرت عمار حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں ان کی طرف سے باغیانہ خلافت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے.مسجد کی عمارت پتھروں کی سلوں اور اینٹوں کی تھی جو لکڑی کے کھمبوں کے درمیان چن دی گئی تھیں اور چھت پر کھجور کے تنے اور شاخیں ڈالی گئی تھیں مسجد کے اندر چھت کے سہارے کے لئے کھجور کے ستون تھے اور جب تک منبر کی تجویز نہیں ہوئی انہی ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ آنحضرت سلیا مسلم خطبہ کے وقت ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے تھے مسجد کا فرش کچا تھا اور چونکہ زیادہ بارش کے وقت چھت ٹپکنے لگ جاتی تھی اس لئے ایسے اوقات میں فرش پر کیچڑ ہو جاتا تھا چنانچہ اس تکلیف کو دیکھ کر بعد میں کنکریوں کا فرش بنوا دیا گیا.شروع شروع میں مسجد کا رُخ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا تھا لیکن بعد میں جب قبلہ کا رُخ تبدیل ہوا تو رُخ بدل دیا گیا مسجد کی بلندی اُس وقت دس فٹ اور طول ایک سو پانچ فٹ اور عرض نوے فٹ کے قریب تھا.(سیرت خاتم النبین صفحہ 270) اس مسجد کے تین دروازے بنائے گئے تھے ایک دروازہ مسجد کے پیچھے یعنی جنوب کی طرف تھا دوسرے دروازے کا نام باب عاتکہ اور باب الرحمت تھا تیسرا دروازہ باب عثمان اور باب جبریل کہلاتا تھا یہی وہ دروازہ تھا جس سے آپ مسجد اور حجرے میں آتے جاتے تھے.53

Page 60

مسجد کے ساتھ ہی آنحضور صلی ا یتیم کی رہائش کے لئے حجرہ بنایا گیا تھا یہ ایک چھوٹا سادس پندرہ فٹ کا حجرہ تھا جس کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا اس حجرے کی چھت کھجوروں کے پتوں سے ڈالی گئی تھی اور صرف اس قدر اونچی تھی کہ کوئی کھڑا ہو کر ہاتھ اُٹھائے تو چھو لے.بعد میں آپ کی بیگمات کے لئے اس کے برابر میں حجرے تیار ہوتے رہے ان حجروں میں دروازے کی جگہ صرف کمبل یا موٹے پردے ہوتے تھے لکڑی کے کواڑ نہ تھے.یہ مسجد اور پہلا حجرہ تیار ہونے میں سات ماہ کے قریب عرصہ لگا پھر آپ اپنی بیگم حضرت سودہ کے ساتھ اس میں منتقل ہو گئے.مسجد نبوی کے ایک کونے میں ایک چبوترا بنایا گیا جس پر کھجور کے پتوں کی چھت تھی یہ غریب مہاجرین کے لئے سر چھپانے کی جگہ تھی چبوترے کو عربی میں صفہ کہتے ہیں اس پر رہنے والے اصحاب الصفہ کہلائے یہ خوش نصیب دن بھر عبادت کرتے قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور آنحضرت صلی اسلم کے ارشادات سنتے ان کی کمائی کا کوئی ذریعہ نہ تھا آنحضور ان کا بہت خیال رکھتے کہیں سے کوئی تحفہ آتا تو ان کا حصہ بھجواتے بعض دفعہ گھر میں فاقہ ہو جاتا مگر ان کو کھانے کو کچھ بھجوا دیتے انصار کو بھی اپنے بھائیوں کا بہت خیال رہتا کھجوروں کے خوشے لا لا کر مسجد میں لڑکا دیتے یہاں مدرسہ کا کام بھی ہوتا.تعلیم دی جاتی اور تعلیم لی جاتی یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا پھر ان لوگوں کے لئے کام ملنے لگا کچھ قومی بیت المال سے امداد ہو جاتی.رہے.حضرت ابوہریرہ " جن سے سب سے زیادہ حدیثیں روایت ہیں، بھی کچھ عرصہ یہاں ایک یورپین مصنف مدینہ کی اس حالت کو دیکھ کر ایسا متاثر ہوا کہ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے تم کچھ کہ لو مد سال اسلام اور اس کے ساتھیوں کو.لیکن میں تو جب یہ بات دیکھتا ہوں کہ مدینہ میں ایک چھوٹی سی مسجد میں جس پر کھجوروں کی 54

Page 61

ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے جب بارش ہوتی ہے تو اُس میں سے پانی ٹپک پڑتا ہے.نماز پڑھتے ہیں تو اُن لوگوں کے گھٹنے اور ماتھے کیچڑ سے لت پت ہو جاتے ہیں اُس مسجد میں ننگی زمین پر بیٹھے ہوئے ایسے آدمی جن کے نہ سروں پر ٹو پیاں ہیں نہ اُن کے تن پر پورا لباس ہے دنیا کو فتح کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں اور اس یقین اور وثوق کے ساتھ یہ باتیں کرتے ہیں کہ گویا دنیا کو فتح کرنا ان کے لئے معمولی بات ہے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ خدا کا وعدہ ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا.“ ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه 48) مکہ کے مہاجرین کو مدینہ میں اپنا وطن بہت یاد آتا وہ بے قرار ہو جاتے ایک تو اپنی بستی ، عزیز اقرباء ، مکان جائیدادیں گلی محلے چھوڑے دوسرے مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہ آئی مدینے میں اُن دنوں ملیریا بخار پھیلا ہوا تھا.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں.جب رسول اللہ صلی ایلام مدینہ میں تشریف لائے تو ابو بکر اور بلال کو بخار ہو گیا میں اُن دونوں کے پاس گئی اور پوچھا ابا آپ کا کیا حال ہے اور پھر بلال سے پوچھا تمہارا کیا حال ہے ابوبکر بخار کی حالت میں یہ شعر پڑھتے كُلُّ امْرِيءٍ مُصبَحُ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنى مِنْ شِراكِ نَعْلِهِ ہر آدمی اپنے کنبے میں صبح اُٹھتا ہے.سلامتی کی دعائیں دی جاتی ہیں اور حالت یہ ہوتی ہے کہ موت اُس کی جوتی کے تسمہ سے زیادہ قریب ہوتی ہے.اور بلال ” جب اُن کا بخار اتر جاتا تو زور زور سے روتے اور کہتے :.اے کاش مجھے پتہ ہو.آیا میں وادی مکہ میں ایک رات پھر بھی گزاروں گا اور میرے آس پاس اذخر اور جلیل گھاس ہو گی آیا میں کسی دن حجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا اور کیا شامہ اور طفیل 55

Page 62

پہاڑ مجھے دکھائی دیں گے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں رسول اللہ کے پاس آئی اور ابوبکر و بلال کا حال آپ سے بیان کیا آپ نے دعا کی.”اے اللہ مدینہ بھی ہمیں ایسا ہی پیارا بنا جیسا کہ مکہ سے ہمیں محبت ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اور اس کو صحت بخش بنا اور ہمارے لئے اس کے صاع اور مد ( ناپنے کے پیمانے میں برکت دے اور اس کے بخار کو یہاں سے لے جا کر حجفہ میں ڈال دے.“ بخاری باب 15 حدیث 3658) اللہ تعالیٰ نے یہ دعاسنی اور دو باٹل گئی.مدینہ میں مسلمانوں نے زیادہ تر مسجد نبوی کے اردگر دجگہ لے کر گھر بنالئے مگر جن کو قریب جگہ نہ ملی انہیں جہاں جگہ میسر آئی مکان بنالئے.نماز کا وقت ہوتا تو اندازے سے مسجد نبوی میں جمع ہو کر آنحضور کی امامت میں نماز ادا کرتے.مگر مکان دور ہونے کی وجہ سے ایک مقررہ وقت پر جمع ہونا مشکل تھا.اس بات کے لئے مشورہ ہونے لگا کہ کس طرح سب مسلمان ایک وقت میں نماز کے لئے جمع ہو جا ئیں کسی صحابی نے مشورہ دیا کہ عیسائیوں کی طرح ناقوس بجایا جائے کسی نے یہودیوں کی طرح بگل بجانے کا مشورہ دیا کہ کوئی آدمی مقرر کر دیا جائے جو اونچی آواز سے اعلان کرے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.یہی رائے آنحضور کو پسند آئی.حضرت بلال کی آواز بلند تھی آپ نے حضرت بلال کو ارشاد فرمایا کہ نماز کے وقت بلند آواز میں الصلوۃ جامعہ پکارا کریں تا کہ لوگ جمع ہو جائیں.مسلمانوں کو اس آواز پر مسجد میں جمع ہونے کی عادت ہوگئی اگر کسی اور کام کے لئے مسلمانوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہوتی تو یہی آواز دی جاتی.کچھ عرصہ یہی طریق جاری رہا ایک دن ایک صحابی عبد اللہ بن زید انصاری کو خواب میں آذان کے الفاظ سکھائے گئے.وہ آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک 56

Page 63

شخص کو آذان کے طریق پر یہ الفاظ پکارتے سنا ہے.آپ نے فرمایا یہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبد اللہ کو ارشاد فرمایا کہ یہی الفاظ بلال کو سکھا دیں.عجیب اتفاق یہ کہ بلال نے ان الفاظ میں پہلی اذان دی تو حضرت عمر اُسے سن کر جلدی جلدی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا.یا رسول اللہ ! آج جن الفاظ میں بلال نے آذان دی ہے بعینہ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ ) ایک اور روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت ای سی ایل میمن نے آذان کے الفاظ سنے تو فرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہو چکی ہے.زرقانی بروایت ابوداؤد، عبدالرزق جلد 1 صفحہ 378) چنانچہ اس ایمان افروز طریق پر آذان کے بامعنی الفاظ پر جلال لحن میں مسلمانوں کی عبادت کا حصہ بن گئے.الله اكبر الله اكبر الله اكبر الله اكبر اشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله حَى عَلَى الصَّلوة حَى عَلَى الصَّلوة حَى عَلَى الفلاح 57

Page 64

حَى عَلَى الفلاح الله اكبر الله اكبر لا إله إلا الله مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلا اس کی سب سے بڑی وجہ آنحضور کی عاجزانہ دعائیں تھیں.جو وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر لوگوں کی اصلاح کے لئے کرتے تھے.پھر آپ کی قوت قدسیہ تھی یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے آپ کے اندر ایسی پاکیزہ کشش پیدا ہوگئی تھی جو اچھے دلوں کو آپ کی طرف کھینچتی رہتی تھی اور جو ایک دفعہ آپ سے ملتا آپ کا ہوجا تا.پھر یہ بھی کہ آپ کے متعلق سب کو علم تھا کہ بالکل اُمّی یعنی ان پڑھ ہیں مگر آپ اللہ تعالیٰ سے علم پا کر بڑی بڑی حقیقتیں بیان فرماتے اور اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے غیب کے علم سے ایسی پیشگوئیاں فرماتے جو بالکل اُسی طرح پوری ہو جاتیں آپ کی گفتگو میں اتنی کشش تھی کہ لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے اور انداز ایسا تھا جو عام انسانوں کا نہیں ہوتا.انداز میں الہام الہی کی طرز کو ایسے علماء پہچان لیتے جو الہی نوشتوں کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے اُنہوں نے اپنی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک عظیم نبی آنے والا ہے جب ہو بہو نشانیاں پوری ہوتے دیکھتے تو ایمان لے آتے.قرآنِ کریم میں سورہ المائدہ آیات 83 تا 85 کا ترجمہ پڑھئے.سب فرقوں میں سے مسلمانوں کی طرف زیادہ رغبت کرنے والے عیسائی ہیں کیونکہ ان میں بعض اہلِ علم اور راہب بھی ہیں جو تکبر نہیں کرتے اور جب خدا کے کلام کو جو اُس کے رسول پر نازل ہوا ہے سنتے ہیں تب تو دیکھتا ہے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ حقانیت کلام الہی کو پہچان جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا ہم ایمان لائے ہم کو ان لوگوں میں لکھ لے جو تیرے دین کی سچائی کے گواہ ہیں اور کیوں ہم خدا اور خدا کے بیچے کلام پر ایمان نہ 58

Page 65

لاویں حالانکہ ہماری آرزو ہے کہ خدا ہم کو ان بندوں میں داخل کرے جو نیکوکار ہیں.66 (براہین احمدیہ صفحہ 577) اسی طرح قرآن پاک سورہ بنی اسرائیل آیات 108 تا 110 کا ترجمہ ہے.” جولوگ عیسائیوں اور یہودیوں میں سے صاحب علم ہیں جب اُن پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں پر گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خدا تخلف وعدہ سے پاک ہے ایک دن ہمارے خداوند کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا اور روتے ہوئے مونہہ ( منہ ) پر گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے“.(براہین احمدیہ صفحہ 578) مدینہ میں وہاں کے سیاسی حالات کی ابتری نے بھی اسلام کی طرف رُخ پھیرنے میں مدد دی.حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے.” بعاث کی جنگ تھی جسے اللہ عز وجل نے اپنے رسول اللہ کے لئے خاص طور پر پیش خیمہ بنایا تھا رسول اللہ مدینہ تشریف لائے اور حالت یہ تھی کہ مدینہ والوں کی جمعیت بکھر چکی تھی اور ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے جس کی وجہ سے وہ اسلام میں داخل ہو گئے.( بخاری باب 15 حدیث 3652) آپ کے اصحاب کے نیک نمونہ کا بھی اسلام پھیلانے میں بہت دخل تھا آپ نے ہجرت سے پہلے حضرت ابوذر غفاری" کو معلم بنا کر مدینہ بھیجا تھا انہوں نے جاکر اسلام کی صدا بلند کی تو نصف لوگ تو اُسی وقت مسلمان ہو گئے نصف نے کہا ہم حضور کی ہجرت کے بعد اسلام لائیں گے چنانچہ آپ مدینہ آئے تو وہ لوگ بھی اسلام لے آئے ان کو دیکھ کر قبیلہ اسلم نے بھی اسلام کے آگے سر جھکا دیا.(مسلم کتاب الفضائل باب ابی ذرجلد 7 صفحہ 54) 59

Page 66

ایک یہودی عالم کے قبول اسلام کا واقعہ پڑھئے ایک دن آپ کی خدمت میں ایک یہودی حصین بن سلام حاضر ہوئے اور تین باتیں دریافت کیں اور کہا کہ اگر آپ ان باتوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیں گے تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا.آپ نے فرما یا پوچھ لو حصین بن سلام نے تین سوال کئے آپ نے جواب دئے جو اُس کے خیال میں درست تھے جواب سُن کر انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں.اس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ یہودی بات بنانے کے فن میں ماہر ہیں اگر وہ سنیں گے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو کہیں گے کہ وہ تو تھا ہی بڑا آدمی مسلمان ہو گیا تو کیا ہوا.اس لئے میں اندر چھپ جاتا ہوں آپ اُن کو بلا کر میرے متعلق اُن کی رائے پوچھیں چنانچہ یہودی بلائے گئے آپ نے اُن سے پوچھا حصین بن سلام کیسے شخص ہیں؟ یہودیوں نے کہا اُن کا باپ بھی بڑا عالم تھا اور وہ بھی بڑے عالم ہیں اور ہم سب سے زیادہ نیک اور بزرگ ہیں آپ نے پوچھا اگر وہ مسلمان ہو جا ئیں تو کیا تم بھی اسلام لے آؤ گے؟ یہودیوں نے کہا خدا انہیں بچائے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا.حصین سب کچھ ٹن رہے تھے خاموش نہ رہ سکے لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھتے ہوئے باہر آ گئے اور یہودیوں کو مخاطب ہو کر کہا ”اے میری قوم کے لوگو! خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور اس عذاب کو اپنے اوپر مت لوتم جانتے ہو کہ محمد سلیم کا ذکر تمہاری کتابوں میں موجود ہے اور وہ وہی نبی ہیں جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا پس خدا سے ڈرو اور انکار کی طرف قدم نہ بڑھاؤ“ یہودی یہ خطاب سُن کر مبہوت رہ گئے مگر پھر اُس شخص کو جسے کچھ دیر پہلے وہ دین کا عالم 60

Page 67

اور اپنا سر دارمان رہے تھے گالیاں دیتے ہوئے ادھر ادھر چلے گئے.آنحضرت صلی یا یہ ہم نے ان کا نام تبدیل کر کے عبداللہ رکھ دیا تاریخ اسلام میں عبد اللہ بن سلام کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہودیوں میں سب سے پہلے اسلام لائے.عبد اللہ بن سلام یہود کے اکابر علماء میں سے تھے پرانی روحانی کتابوں کی ان پیشگوئیوں سے اچھی طرح واقف تھے جو آخری زمانے میں آنے والے نبی کے متعلق بنی اسرائیل کے انبیاء نے کی ہوئی تھیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول حق کی سعادت عطا فرمائی جبکہ دوسرے یہودیوں کی راہ میں رکاوٹ کی وجہ احادیث میں جماعت کا خوف بیان ہوئی ہے.یہودیوں میں آپ کی آمد کا چر چا تھا مگر دلوں کے زنگ سچائی قبول کرنے میں روک بنے رہے چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ دو یہودی عالم رسول کریم ﷺ سے ملے واپس جاتے ہوئے انہوں نے کہا یہ نبی وہی ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں آتا ہے لیکن ہم مانیں گے نہیں کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ ہمیں قتل کر دیں گے یہی ذہنیت ہے جو اکثر لوگوں کو سچائی سے محروم کر دیتی ہے.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 239) اب ہم ایران سے تعلق رکھنے والے پہلے خوش نصیب شخص کا ذکر کرتے ہیں جن کو اسلام لانے کی سعادت نصیب ہوئی.یہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ان کے والد زرتشتی تھے.یعنی آگ کی پوجا کرتے تھے اُن کے گھر ہر وقت آگ جلتی رہتی تھی آگ میں ایندھن جھونکنے کا کام اُن کے بیٹے سلمان کے ذمہ تھا.سلمان کی فطرت میں نیکی تھی انہیں اس بات پر تسلی نہیں ہوتی تھی کہ آگ خدا ہو سکتی ہے ایک دفعہ وہ عیسائیوں کے گرجے کے پاس سے گذرے اُن کا عبادت کا طریق بہتر لگا راہب سے ملے اور کہا کہ مجھے عیسائیت کی تعلیمات کے متعلق بتائیے.راہب نے کہا کہ اگر ہمارا دین سیکھنا ہے تو شام چلے جاؤ وہاں ایک راہب 61

Page 68

ہے جو مجھ سے بہتر دین سکھا سکتا ہے چنانچہ آپ نے شام کی طرف سفر شروع کر دیا جب روم کے شہر عمور یہ پہنچے اور راہب سے ملے تو اُس نے بتایا کہ اب دین سکھانے والا نبی پیدا ہو گیا ہے.جس نبی کی حضرت عیسی علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ عرب میں پیدا ہوگا اور حضرت ابراہیم کے دین پر ہو گا وہ نبی تحفہ قبول کرے گا مگر صدقہ قبول نہیں کرے گا اور نشانی یہ ہوگی کہ کندھے پر ختم نبوت کا نشان ہو گا سلمان اُس نبی کی تلاش میں چل پڑے.ایک عرب تاجر نے انہیں خرید کر غلام بنالیا.اُن دنوں غلاموں پر بڑا ظلم ہوتا تھا.آپ نے بڑے ظلم برداشت کئے قریب دس دفعہ تو ایک کے بعد دوسرے نے خرید کر آپ کو غلامی میں رکھا اور سختیاں کیں اسی خرید وفروخت کے چکر میں آپ بنو قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ لگے جو آپ کو مدینہ لے آیا یہ وہ دن تھے جب آپ ہجرت کے بعد قبا میں مقیم تھے.اللہ تعالیٰ نے سچے دین کی تلاش میں دکھ اُٹھانے والے سلمان فارسی کو رسول کریم مسی سی ایم کے دیدار کی نعمت بخشی جو نشانیاں عیسائی راہب نے بتائی تھیں وہ آپ میں موجود تھیں.اب سلمان نے خود کو بیچ دیا یعنی آنحضور سلیمی ایام کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمان ہو گئے.وہ منزل پالی جس کی تلاش میں اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھائی تھیں.آنحضور سالا ای ایم کو آپ سے بہت پیار تھا ایک دفعہ فرمایا سلمان تو میرے اہلِ بیت میں سے ہے 66 سورہ جمعہ نازل ہوئی تو اُس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آئندہ زمانے میں ایک جماعت پیدا ہوگی جو صحابہ کے طریق پر چلے گی.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے سلمان فارسی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا 62

Page 69

اگر اسلام ثریا تک بھی اُٹھ جائے گا تو ان فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک شخص اسے دنیا میں پھر قائم کر دے گا.اسلام نے شدید قومی تعصبات کے زمانہ میں جب مدینہ جیسے معمولی قصبہ کے دو قبیلے اوس اور خزرج آپس میں لڑ رہے تھے مکہ سے اوس وخزرج کو کھینچا یمن جو عرب میں سیاسی برتری کا مدعی تھا اُسے اپنے تابع کیا یہود سے عبداللہ بن سلام اور ایران سے سلمان فارسی دوڑے ہوئے آئے مگر یہ صرف اپنی قوموں کے نمائندے تھے بعد میں تو میں آئیں اور پروانوں کی طرح آئیں کیونکہ اسلام ایک تالاب کا پانی نہ تھا وہ بارش تھی جو ٹیلے پر برستی ہے اور وہیں جمع نہیں ہو جاتی بلکہ دور دور پھیل جاتی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه 97) آنحضرت صلیم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہاں کی آبادی میں چار قسم کے لوگ جمع ہو گئے.1 مسلمان جن میں مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ شامل تھے.-2 منافقین : یعنی اوس و خزرج کے وہ لوگ جو بظاہر مسلمان ہو گئے مگر دل سے کافر تھے یا کمزور مسلمان تھے.3 بت پرست : یہ اوس و خزرج کے لوگ تھے جو مسلمان ہوئے تھے نہ یہودی بلکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے.-4 یہود: جو قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنوقریظہ میں منقسم تھے.یہودی قبائل مدینہ کے چاروں طرف آباد تھے منافقین اور بت پرست مل جل کر رہتے تھے مگر اسلام کی تبلیغ کے لئے جس امن کی ضرورت تھی وہ میسر نہیں تھا خاص طور پر مکہ والوں کی طرف سے ہر وقت خطرہ بھی رہتا آپ نے کمال حکمت و دانائی سے ان مختلف مذاہب اور خیال 63

Page 70

کے بکھرے بکھرے لوگوں کو چند ایسے نکات پر متحد کر لیا جن میں اُن کی بہتری تھی مدینہ میں نیا نظام قائم فرما دیا جس کی بنیا د عدل اور انصاف تھا رنگ نسل خاندان قبیلے دولت وغیرہ کونہیں دیکھا بلکہ انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مل جل کر رہنے کے آداب پر سمجھوتہ کروایا.اس طرح معاشرتی تہذیبی تمدنی اصلاح نے انہیں اخلاقی اور دینی اصلاح کے قابل بنا دیا گویا اسلام کا بیج بونے کے لئے زمین تیار ہوگئی اور عادلانہ نظام قائم کرنے والے بادشاہ کی طرف امید بھری نظریں اُٹھنے لگیں آپ نے باقاعدہ تحریر کئے ہوئے معاہدے پر سب کو جمع کیا.معاہدہ یہ دستاویز ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو نبی ہیں قریش اور اہل یثرب میں سے ایمانداروں اور اطاعت گزاروں نیز ان لوگوں کے درمیان جو اُن کے تابع اُن کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اُن کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیں.کچھ اہم شرائط درج ذیل ہیں.مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہیں لیں گے.−1 2- ہر قوم کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی -3 -4 -5 تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی شخص ظلم یا جرم کا مرتکب ہو.ہر قسم کے اختلافات اور تنازعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فیصلہ کے لئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم ( یعنی ہر قوم کی اپنی شریعت ) کے مطابق کیا جائے گا.کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ جنگ کے لئے نہیں نکلے گا.64

Page 71

اگر یہودیوں یا مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے.7 اسی طرح اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے.قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی -8 جائے گی.ہر قوم اپنے اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی.10 اس معاہدہ کی رُو سے کوئی ظالم یا آشم یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہوگا کہ اسے سزادی جائے یا اس سے انتقام لیا جاوے.ہے.( سيرة خاتم النبین صفحہ 279، بحوالہ سیرۃ ابن ہشام جلد 1 صفحہ 178-179 ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس عادلانہ نظام کا خوبصورت انداز میں ذکر فرمایا دنیا کے نظام کے واسطے خدا تعالیٰ نے دو حکومتیں بنائی ہیں ایک ظاہری اور ایک باطنی.ہمارے رسول کریم ما یا یہ تم کو یہ دونوں حکومتیں عطا کی گئی تھیں پس شریروں ، بدمعاشوں، لٹیروں ، رہزنوں کو ان کی شرارتوں کی سزا دینی ملک میں امن قائم کرنے کے واسطے ضروری تھی.مدینہ کے لوگوں نے آپ کو اس وقت اپنا ظاہری بادشاہ بھی مان لیا تھا.اکثر مقدمات کے فیصلے آپ ہی سے کراتے تھے.چنانچہ ایک مقدمہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان تھا آپ نے یہودی کو اس میں ڈگری دی تھی بعض وقت آپ نے کفار کے جرائم اُن کو معاف بھی کئے اور بعض رسوم بد کو آپ نے مقابلہ میں بھی ترک کر دیا ہے چنانچہ کفار مکہ لڑائی 65

Page 72

میں مسلمان مردوں کی بے حرمتی کرتے تھے.ناک کان کاٹ لئے جاتے تھے مگر آنحضرت صلی ا یہ تم نے اس رسم بد کو ترک کر دینے کا حکم دیا تھا.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 470) مدینے میں مسلمانوں کے اندر یکجہتی اور معاشی ہمواری پیدا کرنے کے لئے آپ نے مہاجرین مکہ اور انصارِ مدینہ کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا.قدرتی طور پر ان دو گروہوں میں بہت فرق تھا ایک وہ جو اپنا گھر بار چلتے کاروبار سب چھوڑ آئے تھے اور ایک وہ جو ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک اپنے گھروں اور کاروباروں میں مصروف تھے.دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ دنیا والوں نے ایسے مسئلے کا اتنا خوبصورت حل کبھی دیکھا تھا یہ تو ہمارے آقا و مولیٰ نبی کریم ان ایام کو خدا تعالیٰ کی عطا کی ہوئی سمجھ بوجھ تھی جو رنگ لائی.آپ نے دعاؤں کے ساتھ ایک منصوبہ بنایا حضرت انس بن مالک کے گھر سب مہاجرین وانصار کو جمع کیا آپس میں اتحاد سے رہنے کی تلقین فرمائی اور عجیب فہم و فراست سے مردم شناسی کا مظاہر کرتے ہوئے ہم مزاج لوگوں کو جمع کیا دو دو کے جوڑے اس طرح بنائے کہ گویا وہ مزاج کے لحاظ سے سب سے زیادہ اس بات کے اہل تھے کہ اکٹھے کئے جائیں.اُس دن قریباً نوے احباب کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا.ان نئے بننے والے بھائیوں نے بھی آنحضور علی نے پی ایم کے منشاء کو خوب سمجھا اور اتنے خلوص سے ایک دوسرے سے محبت کی جس کی مثال نہیں ملتی دونوں طرف خوشی تھی جوش تھا جیسے ایک دوسرے کو آرام وسکون پہنچانے کا مقابلہ شروع ہو گیا ہو.انصار نے آپ سے عرض کیا ہمارے باغات ہیں انہیں آدھے آدھے کر کے ہم میں اور مہاجر بھائیوں میں تقسیم فرما دیں.مہاجرین تجارت پیشہ تھے جبکہ انصار کھیتی باڑی کرتے تھے مہاجرین کے لئے کام نیا تھا انصار نے کہا ٹھیک ہے کام ہم خود کریں گے اور جو آمد ہوگی وہ آدھی آدھی کرلیں گے 66

Page 73

مہاجرین نے اپنی آمد سے تجارتیں شروع کیں اور آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے لگے.سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے نئے بھائی حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بنو حارثہ کے محلے میں اپنے گھر لے گئے.کھانا کھلایا اور بڑے پیار سے کہا کہ میں اپنا مکان باغ اور مال واسباب سب کچھ آدھا آدھا کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.میری دو بیویاں ہیں ان کو دیکھ لیں جو آپ کو پسند آئے میں اُسے طلاق دے دوں گا آپ عدت کے بعد اُس سے نکاح کر لینا.(اسدالغابہ جلد 4 صفحہ 86) حضرت عبدالرحمن نے کہا اللہ تعالیٰ تمہاری جان میں ، تمہارے گھر والوں میں اور تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے.مجھے صرف بازار کا راستہ بتا دیجئے.اُن کو دعائیں دے کر بازار چلے گئے اور تجارت شروع کی جس میں بہت برکت پڑی اور آپ کا شمار بڑے تاجروں میں ہونے لگا اور آپ نے مدینہ کی ایک انصاری لڑکی سے شادی کر لی.ان کی شادی کے واقعہ میں یہ سبق آموز پہلو بھی ہے کہ آنحضور نے آپ کے لباس پر زعفران کا رنگ دیکھ کر دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے حضرت عبد الرحمن نے بتایا کہ انہوں نے شادی کی ہے.آپ نے پوچھا مہر کیا دیا ہے؟ عبدالرحمن نے کہا یا رسول اللہ کھجور کی ایک گٹھلی کے برابر سونا دیا ہے آپ نے فرمایا اولِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ اب ولیمہ کی دعوت گر دوخواہ صرف ایک بکری کے گوشت کی کیوں نہ ہو.67 ( بخاری باب فضائل اصحاب النبی)

Page 74

سبق آموز پہلو یہ ہے کہ مدینے میں تھوڑے سے مسلمان تھے ایک دوسرے کے بے حد قریب بھی تھے مگر شادی اتنی سادگی سے ہوئی ہوگی کہ رسول اللہ متک کو خبر نہ ہوئی.نہ یہ کہ آپ کو شادی میں بلایا جاتا اور اتنا دھوم دھڑا کا ہوتا کہ سب کو کوفت ہوتی.انصار کی غیر معمولی محبت اور سلوک کو دیکھ کر مہاجر بے حد متاثر ہوئے اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی.یا رسول اللہ! انصار کی اس نیکی کو دیکھ کر ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں خدا سے سارا اجر و ہی نہ لے جائیں.آپ نے فرمایا نہیں نہیں ایسا نہیں ہوگا جب تک تم اُن کی نیکی کے شکر گذار اور خدا کے حضور اُن کے لئے دستِ بد عار ہو گے تم اجر سے محروم نہیں ہو سکتے.(ابوداؤد) مؤاخاۃ کے اس سلسلے میں جو مشہور جوڑے بنے اُن میں سے چند نام درج ذیل ہیں.حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت خارجہ بن زہیر (زید) حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عتبان بن مالک حضرت عثمان غنی اور حضرت اوس بن ثابت حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور سعد بن معاذ اشبلی حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سلامه بن دفش اشبلی حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ایوب انصاری حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو درداء رض 68

Page 75

حضرت بلال حبشی اور حضرت ابور ویجہ حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ربیع مؤاخات کا یہ سلسلہ کئی لحاظ سے مفید اور بابرکت رہا.اول جو پریشانی اور بے اطمینانی مہاجرین کے دلوں میں اس بے وطنی اور بے سروسامانی کی حالت میں پیدا ہوسکتی تھی وہ اس سے بڑی حد تک محفوظ ہو گئے.دوم رشتہ داروں اور عزیزوں سے علیحدگی کے نتیجہ میں جس تکلیف کے پیدا ہونے کا احتمال تھا وہ ان نئے روحانی رشتہ داروں کے مل جانے سے جو جسمانی رشتہ داروں کی نسبت بھی زیادہ محبت کرنے والے اور زیادہ وفادار تھے پیدا نہ ہوئی.سوم انصار و مہاجرین کے درمیان جو محبت و اتحاد مذہبی اور سیاسی اور تمدنی لحاظ سے ان ایام میں ضروری تھا وہ مضبوط ہو گیا.چهارم: بعض غریب اور بیکار مہاجرین کے لئے ایک سہارا اور ذریعہ معاش پیدا ہو گیا.( سيرة خاتم النبيين صفحه 277) حضرت رسول خداصلی یا ایہام کے ہر فیصلہ میں حکمت کے ہزاروں پہلو ہوتے.ایک چھوٹا سا واقعہ ہے بظاہر چھوٹا ہے مگر اس میں خاندان کی عظمت قائم رکھنے کا نفسیاتی سبق بھی شامل ہے.ہجرت کے ابتدائی دنوں میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کوئی خدمت میرے سپرد کر دیں تا کہ روزی کا سامان بنے آپ نے حضرت حمزہ سے فرمایا آپ کو اپنی عزت نفس کو قائم اور زندہ رکھنا زیادہ پسند ہے یا اسے ختم کرنا؟ حضرت حمزہ نے عرض کیا میں تو اُسے زندہ رکھنا ہی پسند کرتا ہوں.69

Page 76

آپ نے فرمایا پھر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرو یعنی محنت وغیرہ کا کام کریں آپ کو یہ پسند نہیں تھا کہ آپ کے عزیز دوسرے مسلمانوں پر (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 175) بوجھ بنیں.قرآنِ کریم کی سورہ تو بہ میں مہاجرین وانصار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذکر ہے اور مخالفین و منافقین سے ہوشیار بھی کیا گیا ہے.آیات 99 تا 101 کا ترجمہ ہے.”اور ( ان بادیہ نشینوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتے ہیں اور جو کچھ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کی قربتوں کا ذریعہ اور رسول کی دعائیں لینے کا ایک سبب سمجھتے ہیں.سنو کہ یقیناً یہ ان کے حصول قرب کا ذریعہ ہی ہے.اللہ ضرور انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا یقینا اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت لے جانے والے اولین اور وہ لوگ جنہوں نے حُسنِ عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں.یہ بہت عظیم کامیابی ہے.اور تمہارے اردگرد کے بادیہ نشینوں میں سے منافقین بھی ہیں اور اسی طرح مدینہ میں بسنے والوں میں سے بھی.وہ نفاق پر جم چکے ہیں تو انہیں نہیں جانتا مگر ہم جانتے ہیں ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ عذاب عظیم کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے.“ قرآنِ پاک نے مکہ کے منافقین کے نقصان دہ ارادوں سے آگاہ کیا.مکہ والے حسد کی آگ میں جل رہے تھے.اور سر جوڑ کے بیٹھے رہتے تھے کہ کس طرح آنحضور سالی یہ تم سے بدلہ لیں.انہیں مدینہ میں اپنے مطلب کا ایک آدمی نظر آیا یہ خزرج کا رئیس عبد اللہ بن ابی سلول تھا.70

Page 77

جو اسلامی نظام قائم ہونے کی وجہ سے اپنی سرداری کا موقع کھو کر اندر ہی اندر جل رہا تھا.اُس نے اسلام سے بظاہر تعلق جوڑا ہوا تھا مگر اندر سے بالکل آگ تھا مشرکین مکہ نے اُس کی اس حالت سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اُسے خط لکھا.تم لوگوں نے ہمارے آدمی محمد مالی یا یہ تم کو پناہ دی ہے اور ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم اُس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے خلاف جنگ کرو یا کم از کم اسے اپنے شہر سے نکال دوور نہ ہم اپنا سارالا ولشکر لے کر تم پر حملہ آور ہو جائیں گے اور تمہارے سارے مردوں کو تہ تیغ کردیں گے اور تمہاری عورتوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنے لئے جائز کر لیں گے.(ابوداؤد کتاب الخراج باب في خبر النفير ) عبد اللہ اور اس کے ساتھیوں کو شہ ملی تو آپ سے جنگ پر آمادہ ہو گئے مگر آپ جنگ بعاث اور اُس کی خوں ریزی کا حوالہ دے کر اُسے جنگ سے باز رکھنے میں کامیاب ہو گئے.کافر پے در پے زخم کھائے ہوئے تھے مسلمان ہمیشہ اُن کے ہاتھ سے نکل جاتے جس سے وہ مزید طیش میں آکر پہلے سے زیادہ خطرناک منصوبے بناتے.اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہوتا ہے جو ہجرت کے کچھ عرصہ بعد ہوا.قبیلہ اوس کے رئیس اعظم سعد بن معاذ مسلمان ہوکر عمرہ کی غرض سے مکہ گئے جہاں کعبے کے پاس ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا اور سخت برا بھلا کہا اور دھمکی دی کہ اگر محمد کی طرفداری سے باز نہ آئے تو کعبہ کا طواف نہ کر سکو گے.اگر آج تمہارے ساتھ ابو صفوان نہ ہوتا تو بیچ کر نہ جاتے.( بخاری کتاب المغازی) کفار مکہ کا مسلمانوں کے خلاف غم و غصہ اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے اسی زمانہ کی بات ہے ولید بن مغیرہ ( خالد بن ولید کے والد ) جو مکہ کا ایک با اثر معزز رئیس تھا بیمار ہو گیا.جب اُس نے دیکھا کہ موت قریب ہے تو بے اختیار ہو کر رونے لگا اس وقت مکہ کے بڑے بڑے رئیس اس کے پاس بیٹھے تھے انہوں نے حیران ہو کر اس کے رونے کا سبب پوچھا تو ولید نے کہا 71

Page 78

ہیں.کیا تم سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں واللہ ایسا ہر گز نہیں مجھے تو یہ غم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد کا دین پھیل جائے اور مکہ بھی اس کے قبضہ میں چلا جائے.ابوسفیان بن حرب نے جواب دیا کہ اس بات کا غم نہ کرو جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا ہم اس بات کے ضامن ہوتے ( تاریخ الخمیس جلد 1 صفحہ 398) آنحضرت سلایا یہ تم کو اندازہ تھا کہ اہلِ مکہ خار کھائے بیٹھے ہیں ہر وقت چوکس اور چوکنا رہتے.مسلمان خدا تعالیٰ پر مکمل بھروسہ اور توکل رکھتے تھے مگر ہرلمحہ پھیلنے والی خبریں انہیں قدرتی طور پر پریشان اور خوفزدہ رکھتیں اور وہ راتوں کو جاگتے رہتے.سب سے زیادہ ذمہ داری آنحضور صالی ایم پر تھی اس لئے کہ آپ کو اپنے علاوہ سب مسلمانوں کا بھی فکر تھا.آپ راتوں کو عموماً جاگتے رہتے.ایک رات آپ بہت دیر تک جاگتے رہے اور پھر فرمایا کہ اگر اس وقت ہمارے دوستوں میں سے کوئی مناسب آدمی پہرہ دیتا تو میں ذرا سولیتا“.( صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 88 حدیث 148 باب 114) اتنے میں ہتھیاروں کی چھنکار سنائی دی.آپ نے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی یا رسول اللہ میں سعد بن وقاص ہوں میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ پہرہ دوں.آپ کو اطمینان ہوا تو آپ تھوڑی دیر کے لئے سو گئے.ایک اور رات کی 72

Page 79

بات ہے مدینہ میں کچھ شور سا سنائی دیا لوگ گھبرا کر گھروں سے نکل آئے اور جس طرف سے آواز آئی تھی اُدھر کا رُخ کیا ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ دیکھا سامنے سے آنحضور صلی اشیا پریتم ابوطلحہ کے گھوڑے کی نگی پیٹھ پر سوار تشریف لا رہے ہیں آپ نے قریب آکر صحابہ سے فرمایا : میں دیکھ کر آیا ہوں کوئی فکر کی بات نہیں.کوئی فکر کی بات نہیں.“ ( بخاری جلد دوم صفحہ 82 حدیث 126 ) لوگ سوکر اُٹھے تھے انہیں شور کی طرف جانے میں کچھ دیر لگی مگر آپ جاگ رہے ہوں گے آپ کو اپنے ساتھیوں کی حفاظت کا فکر رہتا آپ بہت بہادر بھی تھے اکیلے ہی دوسروں کو جگائے بغیر خطرے کی طرف تشریف لے گئے پہلے توصرف اہل مکہ کی طرف سے خطرہ رہتا اب تو سارا عرب ہی مسلمانوں کے خلاف ہو گیا قریش کے قافلے جو تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں کی طرف جاتے راستے میں اسلام کے خلاف زہر بھی پھیلاتے رہتے.حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی ا یہ اہم اور آپ کے صحابہ ہجرت کر کے مدینہ آئے اور انصار نے اُنہیں پناہ دی تو تمام عرب یک جان ہو کر اُن کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اس وقت مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ رات کو بھی ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور دن کو بھی ہتھیار لگائے رہتے تھے کہ کہیں کوئی اچانک حملہ نہ ہو جائے اور وہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک زندہ بھی رہتے ہیں یا نہیں جب ہم رات کو امن کی نیند سو سکیں گے اور سوائے خدا کے ہمیں کسی کا ڈر نہ ہوگا.حاکم بحوالہ لبابُ النُّقُولِ فِي أَسباب النزول ) 73

Page 80

خدائے کریم و ودود مقام محمود پر فائز فرمائے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی یا یہ تم کو جن کی قربانیوں کے صلے میں اسلام کو سر بلندی نصیب ہوئی.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں ”خدا تعالیٰ نے ہمارے سید و مولی نبی آخر الزمان جو سید المتقین تھے انواع اقسام کی تائیدات سے مظفر اور منصور کیا گو اوائل میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کی طرح دارغ ہجرت آپ کے بھی نصیب ہوا مگر وہی ہجرت فتح اور نصرت کے مبادی اپنے اند ر کھتی تھی.66 ر از حقیقت، روحانی خزائن جلد 14 صفحه 155) اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد 74

Page 80