Libas

Libas

لباس

میاں بیوی کے حقوق و فرائض
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اخلاقیات

Book Content

Page 1

ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرة: ۱۸۸) لباس میاں بیوی کے حقوق و فرائض مرتبه :: محترم حنیف محمود صاحب شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 3

نام کتاب مصنف ایڈیشن اول پاکستان لباس :محترم حنیف محمود صاحب $2003 : ایڈیشن اول انڈیا زیر اہتمام لجنہ اماءاللہ بھارت 2007 ء *2013 : 1000 : حالیہ اشاعت تعداد مطبع ناشر : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد به قادیان ، ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا.143516 LIBAS By: Haneef Mahmud Sahib ISBN: 978-81-7912-274-7

Page 4

بسم الله الرحمن الرحيم عرض ناشر کتاب" لباس " محترم حنیف محمود صاحب مربی ضلع اسلام آباد کی مرتب کردہ اور لجنہ اماءاللہ اسلام آباد پاکستان کی جانب سے شائع شدہ ہے.اس کتاب میں ازدواجی زندگی کے آداب اور میاں بیوی کے حقوق اور فرائض اور ان کی ذمہ داریاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے ارشادات مبارکہ کے حوالہ سے بیان کی گئی ہیں.لباس دراصل ننگ چھپانے اور زینت کا باعث ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کے لئے لباس قرار دیا ہے اور چونکہ ہر چیز کو زینت تقویٰ سے ہی حاصل ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ لباس التقوى ذلك خير یعنی لباس التقویٰ سب سے بہتر ہے.پس آپسی معاشرت میں تقویٰ کا اختیار کرنا نہایت ضروری ہے.خاوند اور بیوی پر ایک دوسرے کے لئے موجب سکون اور آرام ہونے کے لحاظ سے برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.مرد عورت ایک دوسرے کے شریک حیات ہوتے ہیں لہذا نیکی اور بدی میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں.جب میاں اور بیوی لباس تقوی کے حقیقی مفہوم کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے تو وہ ایک حسین اور جنت نظیر معاشرہ قائم کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ محترم حنیف محمود صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے نہایت ہی

Page 5

دلچسپ انداز میں یہ کتاب ترتیب دی ہے.فجزاهم الله تعالیٰ احسن الجزاء سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے کتاب ” لباس “ کو افادہ عام کے لئے نظارت نشر و اشاعت قادیان سے بھی شائع کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اس اشاعت کو ہر لحاظ سے با برکت فرمائے.آمین تمام احباب جماعت کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے تا کہ وہ اپنے گھر کو جنت نما بناسکیں اور ایک خوبصورت اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرسکیں.اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ان ارشادات کے مطابق اپنی زندگیوں کو مزین کرنے کی توفیق و سعادت عطا فرمائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 6

پیغام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز "ماشاء اللہ یہ ایک اچھی کوشش ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے“ (خلیفه ای) (مکمل پیغام اگلےصفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)

Page 7

واجعل لي من لدنك سلطنا نصيراً انا فتحنا لك فتحامي الله بندر امام جماعت احمدیة لندن 10-6-03 بسم الله الي العالم نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مکرمه سیده ذاکره نا صراح اسلام می دهد کشته شده به کاند آپ کا خط ملا جس میں آپ نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض پر مشتمل ایک مسودہ بعنوان کی اشاعت کی تکمیل کے متعلق لکھے ھے.ماشاء الله یہ ایک اچھی کوشش ہے اور وقت کی ضرورت کرتا ہیں ہے...زینت کا کام کیا ہے اور باکس انتقامی رینیت کو دوبالا کرتا ہے.میاں بیوہ جیتک ایک دوسرے کے لئے زینت نہ بنیں تو زندگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے.آخون علی است علیہ دونم کا اسوہ حسنہ سامنے رہے تو گھر جنت بن جاتے ہیں بس میرا تو ایک بھی پیغام ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے لئے دعائیں کرنے والے بھورے اور آخرت ملتی استہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی سے درس کہیے.اللہ تعالی سبکو اسی کی تومنین ملازمائے آمین نگار سیم صد کنه اماد است خليفة المسيح الخامس ار سلام بر بیاد

Page 8

میرا گھر میری جنت تمہاری صبح حسین ہو رُخ سحر کی طرح تمہاری رات منور ہو شب قمر کی طرح کوئی بہشت کا ہو جتھے تو کہہ سکو ہنس کر کہ وہ خوب جگہ ہے ہمارے گھر کی طرح میاں بیوی کے حقوق و فرائض

Page 9

7 میاں بیوی کے حقوق و فرائض پہلی شعف دین محمد ہمیں ایک پاکیزہ اور مطہر معاشرہ کی تعمیر کرنے کی نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ اس کی تعمیر کے آداب بھی سکھلاتا ہے.جس میں خاندانی نظام کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے اور اُسے مضبوط بنانے کی تعلیم بھی.خاندانی زندگی میں بنیادی یونٹ میاں بیوی کے پاکیزہ ازدواجی تعلقات ہیں اور اس تعلق کو خوش گوار اور استوار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ میاں اور بیوی دونوں ازدواجی زندگی کے آداب و فرائض سے بخوبی واقف ہوں.اور ان کی بجا آوری کے لئے خلوص دل سے دُعاؤں کے ساتھ سر گرم عمل ہوں.ازدواجی زندگی کے آداب اور میاں بیوی کے حقوق وفرائض پر مشتمل ایک کتابچہ مکرم و محترم حنیف احمد محمود صاحب مربی ضلع اسلام آباد نے ترتیب دیا ہے جو “ کے نام پر آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.مصنف نے اس کتاب کو قرآن ، احادیث اور سید نا حضرت مسیح موعود و خلفاء کرام کے ارشادات سے مزین کیا ہے.ایک قاری کو بعض اقتباسات میں تکرار معلوم ہوگی.دراصل یہ تکرار نہیں.مضمون کو مختلف Angles سے قاری کو سمجھانے کے لئے ایسے تکرار کی ضرورت ہے.ع اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے تکرار کے لئے ایک مثال دیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہر انسان کی قوت جاذ بہ اور قوت متاثرہ مختلف ہوا کرتی ہے.جیسے کسی پانی

Page 10

8 میاں بیوی کے حقوق و فرائض کے برتن میں ایک ہی وقت میں ململ کا کپڑا بھی ڈالیں ، اسفنج کا ٹکڑا بھی ڈالیں ، فلالین کا کپڑا بھی ڈال دیں ہر ایک کی جذب کی قوت مختلف ہوگی.ململ کا کپڑا بہت جلد پانی کو جذب کرے گا.فلالین کا کچھ تاخیر کے ساتھ اور اسفنج کا ٹکڑا کچھ اور دیر کے بعد.اور اسی طرح جب ان تمام کپڑوں اور ٹکڑوں کو پانی جذب کر لینے کے بعد باہر نکالیں توململ کا کپڑا جس کی قوت جاذ بہ بہت تیز تھی وہ بہت جلد خشک ہو جائے گا فلالین کا کپڑا قدرے تاخیر سے اور اسفنج کا ٹکڑا بہت دیر سے خشک ہوگا.بعینہ بعض قاری اور سامع ململ کے کپڑے کی طرح مقرر کی تقریر یا مصنف کی تحریر سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں مگر جو نہی محفل برخواست ہوئی یا کتاب ختم ہوئی بھول جاتے ہیں کہ کیا پڑھا تھا اور کیا سنا تھا.کچھ لوگ فلالین کے کپڑے کی طرح کچھ عرصہ تک یادر کھتے ہیں اور کچھ اسفنج کے ٹکڑے کی طرح آہستہ آہستہ مضمون کو دل میں اُتارتے ہیں اور پھر ایک لمبے عرصہ تک اس کلام یا تحریر سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں.اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے مصنف کتاب نے ایک ہی مضمون کو متعلقہ بعض اقتباسات کو مختلف زاویوں سے مختلف عناوین کے تحت بیان کیا ہے.ع شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات یہ مضمون در اصل مکرم مربی صاحب موصوف کا ایک لیکچر تھا جو آپ نے گزشتہ رمضان المبارک میں دیا تھا اور دوست احباب و خواتین کی طرف سے مسلسل اسے کتابی شکل میں مہیا کرنے کا مطالبہ ہورہا تھا.جسے مکرم مربی صاحب نے مزید وسعت دے کر ہم سب کے لئے روحانی مائدہ کے طور پر پیش کیا ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ خیراً فى الدنيا والآخرة-

Page 11

9 میاں بیوی کے حقوق و فرائض اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ لجنہ اماءاللہ اسلام آباد کی اس کاوش کو بھی قبول فرمائے اور مردوں کو اُسوہ رسول پر چل کر عورتوں کے لئے اپنے دلوں میں نرم خوشے اختیار کرنے کی توفیق دے اور عورتوں کو مکمل وفا کے ساتھ اپنے خاوندوں کی اطاعت کی توفیق سے نوازتار ہے.یہاں تک کہ ہر دو اطراف سے موڈت اور رافت کا ایک ایسا رشتہ قائم ہو جائے کہ ہر گھر جنت نظیر بن جائے.اے اللہ تو ایسا ہی کر.آمین.میں یہاں اُن تمام معاونین و معاونات کے لئے بھی دُعا کی درخواست کرنا چاہوں گی جو ہماری کتب کی اشاعت میں کسی نہ کسی طرح مالی معاونت فرمارہے ہیں.فجزاهم الله تعالى خيرا في الدارين - سیدہ ذاکرہ ناصر صدر لجنہ اماءاللہ اسلام آباد ۱۰رجون ۲۰۰۳ء

Page 12

10 میاں بیوی کے حقوق و فرائض حقوق و فرائض قرآن کریم کی روشنی میں مردوں کے فرائض : (1) وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء : 20) ترجمہ : اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.(2) ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ صِرَارًا لِتَعْتَدُوا، وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَد (البقرة : 232) ترجمہ : اور تم انہیں تکلیف پہنچانے کی خاطر نہ روکوتا کہ ان پر زیادتی کرسکو.اور جو بھی ایسا کرے تو یقیناً اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا.(3) فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا (النساء : 35) ترجمہ : پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر اُن کے خلاف کوئی حجت تلاش نہ کرو.(4) هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقره : 188 ) ترجمہ : وہ تمہارا ہیں اور تم ان کا ہو.(5) وَأَتُوا النِّسَاءَ صَدُ قُتِهِنَّ نِحْلَةً (النساء : 5)

Page 13

11 ترجمہ : اور عورتوں کو ان کے مہر دلی خوشی سے ادا کرو.(6) میاں بیوی کے حقوق و فرائض فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء : 4) ترجمہ : لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک ( کافی ہے ) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ عَلى شِئْتُمْ (7) ط وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلْقُوهُ وَبَثِرِ الْمُؤْمِنِينَ (البقرة : 224) ترجمہ : تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں.پس اپنی کھیتیوں کے پاس جیسے چاہو آؤ.اور اپنے نفوس کیلئے ( کچھ ) آگے بھیجو.اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم ضرور اس سے ملنے والے ہو.اور مومنوں کو (اس امر کی ) بشارت دے دے.دَرَجَةٌ (8) وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ (البقرة : 229) ترجمہ : اور ان (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مردوں پر ) اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ) ان پر ہے.حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے.عورتوں کے فرائض : (1) الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ويماً اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ، فَالصَّلِحْتُ قَنِتُت حفظتُ لِلْغَيْبِ يَمَا حفظ الله ط (النساء : 35)

Page 14

12 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ترجمہ : مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے.اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال ( ان پر ) خرچ کرتے ہیں.پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے.(2) لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً (الروم : 22) ترجمہ : تاکہ تم اُن کی طرف تسکین ( حاصل کرنے ) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی.(3) وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ ( النور : 32) ترجمہ : اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کروگر اپنے خاوندوں کے لئے (4) لين شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم : 8) ترجمہ : اگرتم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگرتم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے.

Page 15

(i) 13 دو دلچسپ مگر فکر انگیز ارشادات آنے واہ : میاں بیوی کے حقوق و فرائض سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مردوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں : پس آٹی شخم میں تو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو.لیکن یہ نصیحت یا درکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے.یہ ایک طریق کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے.مثلاً ایک شخص کو ہم رہنے کے لئے مکان دیں اور کہیں کہ اس مکان کو جس طرح چاہو رکھو.تو اس کا مطلب اُس شخص کو ہوشیار کرنا ہوگا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا.اور تمہیں نقصان پہنچے گا.اسی طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیاہتے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے.جیسا چاہو اس سے سلوک کرو.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے جو تیاں مارا کرو.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے اسے سنبھال کر رکھنا.پس آٹی شتخُم کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے بڑا ہوگا.اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہو گا.دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے آٹی کو پنجابی کا آنگاہ سمجھ لیتے ہیں اور یہ معنی کرتے ہیں کہ آنے ہے واہ کرو.“ (فضائل القرآن صفحہ 186 )

Page 16

14 میاں بیوی کے حقوق و فرائض (ii) بعض خاوند بھی یتیمی جیسی زندگی گزار رہے ہیں سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ للہ عورتوں کومخاطب ہوکر فرماتے ہیں : و بعض مرد کہتے ہیں کہ ہمارا بھی تو ذکر کرو.ہم پر بھی تو ظلم ہوتا ہے اور ایسے بیچارے لوگ ہیں جو واقعۂ گھر سے باہر زندگی زیادہ سے زیادہ کاٹتے ہیں کیونکہ گھر جانا ان کے لئے مصیبت بن جاتا ہے.اسی ضمن میں ایک لطیفہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایک شخص اپنے دوست کو بتارہا تھا کہ میرا کتنا کام ہے اس نے کہا دیکھو اتنے گھنٹے میں دفتر میں صرف کرتا ہوں ، اتنے گھنٹے فلاں دوکان پر ملازمت کرتا ہوں، اتنے گھنٹے فلاں کام کرتا ہوں، اتنے گھنٹے فلاں جگہ کام کرتا ہوں تو گھر کے لئے دو چار گھنٹے صرف بچتے تھے تو اس نے بڑے تعجب سے کہا کہ تمہیں آرام کا کوئی وقت نہیں ملتا.اس نے کہا یہی تو آرام کا وقت ہے جو گھر سے باہر میں خرچ کرتا ہوں.یہی تو میرے آرام کا وقت ہے گھر تو ایک عذاب ہے.تو ایسے لوگ بھی ہیں بیچارے جن کی بیویاں ظالم ہوتی ہیں اور ان کے لئے گھر جانا ایک مصیبت بن جاتا ہے.خاوند بے چارے تو بے اختیار ہیں.اب ان کے ہاتھ سے معاملہ آگے نکل گیا ہے، کچھ بھی نہیں کر سکتے سوائے یتیمی کے رونے کے ان کے پلے کچھ نہیں رہ باقی تو عورتوں کو چاہئے کہ ہوش کریں اور ایسے لوگوں کی عزت کریں، ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں، اپنے گھر کو ان کے لئے جنت بنا ئیں.اگر وہ اپنے گھر کو خاوندوں کے لئے جنت بنائیں گی تو ان کے پاؤں تلے ان کے بچے بھی جنت حاصل کریں گے.“ (خطبہ جمعہ 5 فروری 1999ء از الفضل انٹر نیشنل مورخہ 26 مارچ تا یکم اپریل1999 صفحہ 6)

Page 17

15 میاں بیوی کے حقوق و فرائض بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم میاں بیوی کے حقوق و فرائض اور حسن معاشرت کا بظاہر رمضان سے تعلق معلوم نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریم میں روزوں کے احکامات کے درمیان ذکر لا کر رمضان سے بہت گہرا تعلق جوڑا ہے.تربیت اولاد کے لئے میاں بیوی کا آپس میں حسن سلوک اور حسن معاشرت پہلی سیڑھی ہے.گھر کا ماحول اگر جنت نظیر ہوگا تو بچے خود بخود اسلامی اور دینی ماحول میں ڈھلتے جائیں گے.لہذا تربیت اولاد سے قبل اُس بنیادی یونٹ کی اصلاح ضروری ہے جس پر اس عظیم عمارت کی بنیاد رکھی جانے والی ہے.اگر گھر میں میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑا، تو تو میں میں اور ایک دوسرے پر طعن و تشنیع اور جھوٹ و بہتان لگانے کا ماحول ہے تو بچے کی تربیت اسلامی تقاضوں کے مطابق کیسے ممکن ہے.اس لئے ضروری ہے کہ پہلے بنیادی یونٹ کی اصلاح ہو اور انہیں پہلے اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے.سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 188 میں جہاں روزوں کے ذکر میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت دی گئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے اجازت بطور احسان دینے کے ذکر کے در میان هنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ “ کے الفاظ لا کر اس مضمون کو بیان کیا ہے.اجازت دینے کا مضمون اپنی ذات میں کافی تھا.مگر هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ کے الفاظ زائد لا کر دراصل ایک بہت اہم اور بڑا سبق اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو دینا چاہتا ہے.آیت کے اس حصہ کا ترجمہ یہ ہے.وہ عورتیں تمہارے لئے ہیں اور تم عورتوں کا ہو.“

Page 18

16 میاں بیوی کے حقوق و فرائض آئیں اب ہم دیکھتے ہیں کہ کس کام آتا ہے.اول : انسان کا عیب اور ننگ چھپاتا ہے.لہذا میاں بیوی ایک دوسرے کے عیبوں کا ذکر نہ کریں اور ستر پوشی سے کام لیں.دوم : زینت کا باعث بنتا ہے.لہذا میاں بیوی کا آپس کا تعلق اور خوشگوار ماحول نہ صرف ایک دوسرے کے لئے خوبصورتی کا باعث ہو بلکہ دوسروں کو بھی بھلا محسوس ہو.سوم : انسان کو سردی گرمی سے بچاتا ہے اور بدن کی حفاظت کرتا ہے.لہذا دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شامل ہونا چاہئے اور طعن و تشنیع سے نہ صرف خود بچیں بلکہ دوسروں کے حملوں سے ایک دوسرے کو بچائیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر صغیر میں اس آیت کے Foot note میں لکھا ہے.خاوند کی وجہ سے لوگ عورت پر الزام لگانے سے ڈرتے ہیں اور عورت کی وجہ سے خاوند پر الزام لگانے سے ڈرتے ہیں.“ ( تفسیر صغیر) اور تفسیر کبیر میں زیر نظر آیت کی تفسیر میں آپ تحریر فرماتے ہیں : پس هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُ ء میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں.فرماتا ہے.مردوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمیشہ کا کام دیں.یعنی (۱) ایک دوسرے کے عیب چھپائیں.(۲) ایک دوسرے کے لئے زینت کا موجب بنیں.(۳) پھر جس طرح سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اُسی طرح مرد وعورت سکھ اور دُکھ کی

Page 19

17 میاں بیوی کے حقوق و فرائض گھڑیوں میں ایک دوسرے کے کام آئیں.اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں.غرض جس طرح جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اُسے سردی اور گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے اسی طرح انہیں ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے.حضرت خدیجہ کی مثال دیکھ لو.انہوں نے شادی کے معابعد کس طرح اپنا سارا مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا.تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دقت پیش نہ آئے.اور آپ پورے اطمینان کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لیتے جائیں.یہ اہلی زندگی کو خوشگوار رکھنے کا کتنا شاندار نمونہ ہے جو انہوں نے پیش کیا.“ ( تفسیر کبیر جلد دوئم صفحہ 411) لفظ ” ہی کی تشریح بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ آپ نے تحریر فرمایا : خدا تعالیٰ فرماتا ہے هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ، (بقره آيت 188) یعنی عورتیں تمہارے لئے ہیں اور تم اُن کے لئے ہو.پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں.عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کے لئے.مرد و عورت دونوں کو ایک کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہئے.اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا.کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا گندہ ہو تو وہ گندہ ہی کہلاتا ہے.پس هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھ میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے.اسی طرح لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیق سفر کے کام

Page 20

18 میاں بیوی کے حقوق و فرائض کرتے ہیں.(فضائل القرآن صفحہ 175 تا 176 ) سید نا حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مفہوم میں بیان فرماتے ہیں : عورتیں تمہارا ہیں اور تم ان کا ہو.جیسا کہ میں سکون ، آرام، گرمی سردی سے بچاؤ، زینت ، قسم قسم کے دُکھ سے بچاؤ ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے.جیسا کہ میں پردہ پوشی ، ایسا ہی مردوں اور عورتوں کو چاہئے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کیا کریں.اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں.اس کا نتیجہ رضائے الہی اور نیک اولاد ہے.عورتوں کے ساتھ حسن سلوک چاہئے اور ان کے حقوق کو ادا کرنا چاہئے.اس زمانہ میں ایک بڑا عیب ہے کہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.“ (خطبہ جمعہ 4- جون 1909 ء از خطبات نور صفحہ 400) 66 مساوی حقوق و فرائض قرآنی ترتیب کو قائم رکھتے ہوئے میں پہلے مردوں کے فرائض بیان کروں گا.کیونکہ ھر لِبَاسٌ لَّكُم“ کے الفاظ پہلے ہیں جن میں عورتوں کے حقوق کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ تمہارے لئے ہیں.ویسے بھی مرد کو قوم کہا گیا ہے اس لئے مردوں کے فرائض کا ذکر پہلے ہونا ضروری ہے.لیکن میاں بیوی کے مساوی حقوق اور مشترکہ فرائض کا ذکر آغاز میں ہو جانا بھی ضروری ہے.کیونکہ ہوم سویٹ ہوم جس کو جنت نظیر معاشرہ یا خاندان کا نام دیا جا سکتا ہے

Page 21

19 میاں بیوی کے حقوق و فرائض کی راحت و آرام اور سکون کا انحصار مرد و عورت کی باہمی رضامندی اور اتفاق و پیار پر ہے.سب سے پہلی بات میاں بیوی کا ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے جس سے گھر کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں اور گھر محبتوں کا گہوارہ بنتا ہے اور جنت کا نمونہ ہوتا ہے.وہی گھر سب سے اچھا گھر ہے جس کے باسیوں کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں.اور اگر کوئی گھر ایسا نہیں تو اس گھر کی بنیادیں ان گھروندوں کی طرح ہیں جنہیں بچے سارا دن بناتے اور ڈھاتے رہتے ہیں اور ان کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی ہیں.ایک خوشیوں بھرا آشیانہ بنانے کے لئے باہمی اتفاق و پیار، ایثار اور بلند اخلاق و کردار جیسے قیمتی گہر چاہئیں جو دونوں میاں بیوی میں نمایاں طور پر ہونے ضروری ہیں تا پیار و محبت کی خوشبوؤں سے سارا گھر معطر اور مہکتا رہے.کیڑا ذرا سا اور وہ پتھر میں گھر کرے انسان وہ کیا جو نہ دل دلبر میں گھر کرے ویسے بھی آیت کریمہ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ( اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ان پر ہے ) کے مطابق دونوں کے حقوق مساوی ہیں.دونوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے زمرہ میں شامل کیا ہے.مرد و عورت دونوں کو یکساں احکامات سے نوازا ہے.اسی طرح انعامات بھی یکساں ہی تقسیم کئے ہیں.جن نعماء کے وارث مرد حضرات ٹھہریں گے اسلامی تعلیم کے مطابق اُن جیسے نعماء عورتوں کو بھی ملیں گی.کسی کی حق تلفی نہ ہوگی.اس لئے معاشرہ کو حسین بنانے اور گھر کو جنت نظیر بنانے کے لئے دونوں کو یکساں طور پر

Page 22

20 میاں بیوی کے حقوق و فرائض مخاطب کیا گیا ہے دونوں کو دو دوست کہا گیا ہے.جو ایک ساتھ زندگی نبھانے کا عہد باندھتے ہیں.یہ دل کی دو دھڑکنیں ہیں جو دو وجودوں میں ایک ساتھ چلتی ہیں گاڑی کے دو پہیئے ہیں جو ایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں.بادام کی اُن دو گریوں کی طرح ہیں جو ایک خول میں پیوست ہوتی ہیں.اُن کو جدا جدا کر دیں تو کہلاتی بادام کی گریاں ہی ہیں مگر خوبصورت اور حسین اسی وقت لگتی ہیں جب اُن کو اپنی اصل حالت میں جوڑ دیا جائے.غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے زوج ( جوڑا) کے لفظ سے یاد کیا ہے.جو حقوق و فرائض کے حوالہ سے جدا نہیں ہو سکتے.اگر اُن میں سے کسی کا کوئی حق ہے تو وہ دوسرے فریق کا فرض ہے اور اگر وہ پہلے فریق کا فرض ہے تو دوسرے کا وہ حق ہے.اسی لئے دونوں میں سے ہر فریق Give and take کے اصول کو اپناتے ہوئے پہلے اپنے ساتھی کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے.اُس کے اپنے حقوق خود بخود پیروی کریں گے.میاں بیوی کو انگریزی کے اس محاورہ کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے."If you wish to be Loved, Love" "I ' Love creates Love" کے معنوں میں بھی یاد کیا جاتا ہے.اور ہم اس دُنیا میں دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کی محبت کا طلبگار ہوتا ہے.اُسے اس محبت کو حاصل کرنے کے لئے محبت کے دیپ جلانے پڑتے ہیں.پیار واخوت کے پھول نچھاور کرنے پڑتے ہیں.اپنائیت کے رستے کو اپنا نا پڑتا ہے.دوسروں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو“ کے رہنما اصول کو حرز جاں بنانا پڑتا ہے.سخت قومی رکھنے والے قوموں کو صنفِ نازک قواریر کے مفہوم کو

Page 23

21 میاں بیوی کے حقوق و فرائض سمجھ کر ان کی قدر کرنی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی بندیوں قواریر کو اپنے جیون ساتھیوں قوامون کے پورے پورے حقوق ادا کرنے ہوں گے.اور اگر ایسا ہو تو کا مفہوم ان دونوں پر صادق آئے گا.کیونکہ ہر دو حقوق اور ذمہ داریوں کے اعتبار سے ایک دوسرے کا ہیں.کے لفظ کی جتنی بھی ذمہ داریاں اُبھرتی ہیں مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو خاوند کے لئے ادا کرنا ہوں گی.آئیں دیکھتے ہیں کہ یہ ذمہ داریاں کون سی ہیں.اور ہمارے بزرگوں کی تحریرات میں میاں بیوی کے حقوق وفرائض بارے کیا تعلیمات ملتی ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود عورتوں کے حقوق کے متعلق فرماتے ہیں : عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ ان پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مرد پر بھی اس کے بہت سے حقوق رکھے گئے ہیں بلکہ عورتوں کو گو یا بالکل گرسی پر بٹھا دیا ہے اور مرد کو کہا ہے کہ ان کی خبر گیری کر.اس کا تمام کپڑا کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمہ ہیں.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 30) پھر فرمایا : در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو “ (تعلیم خاتون صفحہ 29) مومنوں کا گھر بطور نمونہ بہشت : سید نا حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتوں کو اُن کے فرائض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

Page 24

22 میاں بیوی کے حقوق و فرائض جیسا کہ میں مردوں کو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ اپنی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کیا کریں ایسا ہی میں عورتوں کو بھی خاوندوں کے حقوق کے متعلق وعظ کیا کرتا ہوں.عورت اور مرد کے درمیان بہت محبت کے تعلقات ہونے چاہئیں جن سے مومنوں کے گھر نمونہ بہشت بن جائیں.“ ( خطبہ نکاح 5 فروری 1910 ء از خطبات نور صفحہ 457) انسانیت کے دوٹکڑے : سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کیا ہی حسین رنگ میں دونوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں : انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے.وہ نفس واحدہ ہے.اس کے دوٹکڑے کئے گئے ہیں.آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت.جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اُس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی.وہ تبھی کامل ہوگی جب اُس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے.(فضائل القرآن صفحہ 170) ازدواجی زندگی ہے مژدہ امن و اسلام اس کا مقصد ارتقاء ، انسانیت کا احترام دونوں مل کر کامل وجود بنتے ہیں : نیز حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا (اعراف آیت : 190 ) کی پر معارف تفسیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں : ج

Page 25

23 میاں بیوی کے حقوق و فرائض اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زوجھا کی ضمیر نفس واحدہ کی طرف جاتی ہے جو مؤنث ہے.اسی طرح منہا میں بھی ضمیر مؤنث استعمال کی گئی ہے.اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس نفس واحدہ سے اُس کا زوج بنایا اور زوج کے لئے ليَسكُن میں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا.پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پہلی سے نہیں بلکہ مرد عورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں.الگ الگ رہیں تو مکمل نہیں ہو سکتے.مکمل اسی وقت ہوتے ہیں جب دونوں مل جائیں.اب دیکھو یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی.اس لحاظ سے جومرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا.اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہوسکتی.پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اُسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کا ٹتا ہے.اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گزارہ نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جز و نامکمل رہ جاتا ہے.“ ( فضائل القرآن صفحه 172) مرد و زن دونوں اگر ہوں ہم خیال و ہمرکاب ازدواجی زندگی ہے کامگار و کامیاب

Page 26

24 میاں بیوی کے حقوق و فرائض مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے بطور سیفٹی والو : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان حُببَ إِلَى مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطيب وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة کی تشریح میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد وعورت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جیسے انجن سے زائد سٹیم نکلنے کا راستہ ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کے لئے مرد اور مرد کے لئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کرنی تھی، اُس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقعہ دے دیا گیا.اگر اُس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کر دیتی.دنیا میں کوئی عقل مند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا.پھر کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے.پس اُس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دوحصوں میں تقسیم کر کے اُسے دو شکلوں میں ظاہر کیا.جس سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حصہ دوسری طرف نکل جاتا ہے.اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے.اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ محبتبَ إِلَى مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطيب وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة - یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون ہوتا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری اور عاجزانہ دُعا ئیں جو لذت پیدا کرتی ہیں، وہ بھی انسان کے لئے سکون کا موجب ہوتی ہیں.“ (فضائل القرآن صفحہ 174-175)

Page 27

موقت اور رحمت : 25 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ط حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے چل کر وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةٌ (سورۃ روم آیت : 22) کی پر معارف تشریح کرتے ہوئے کیا ہی حسین رنگ میں میاں بیوی کے تعلقات کو بیان فرمایا ہے : ” دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بتائی کہ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً ( سورة روم آیت :22) اس ذریعہ سے تم میں موڈت پیدا کی گئی ہے.موڈت محبت کو کہتے ہیں.لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور مودت میں ایک فرق پایا جاتا ہے.اور وہ یہ کہ مودۃ اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسرے کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ موڈت کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد، عورت کو اور عورت ، مرد کو جیت لینا چاہتی ہے.ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت لیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا.کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کر سکے.چنانچہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے وَدُودُ ہے مگر خدا تعالیٰ کے لئے آیا ہے کہ وہ وَدُودُ ہے.وہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے.مگر مرد و عورت کے لئے مودۃ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے لیکن خدا تعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کر سکتا.اس لئے بندوں کے لئے يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ يَا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ آتا ہے.يَوَدُّونَ اللہ نہیں آتا.

Page 28

26 میاں بیوی کے حقوق و فرائض مرد و عورت میں اللہ تعالیٰ نے مودت کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دوٹکڑے بنا کر ایک دوسرے کی کشش پیدا کر دی ہے.اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اس طرح طبعا تکمیل انسانیت کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے.(فضائل القرآن صفحہ 182 ) اور رحمت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس ذریعہ سے رحمت پیدا کی گئی ہے.کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اُس سے رحم کا سلوک کرتا ہے.مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑا بھی تو ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے.جہاں اصل ٹکڑے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی بسر ہوتی ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا.کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں ناچاقی رہتی ہے اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے.لیکن اس مرد کی کسی عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ بڑی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کا ٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملتا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے پس مرد، عورت کو اپنا ٹکٹر سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے.اور اس طرح اُسے رحم کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہر جگہ اس عادت کو استعمال کرتا ہے.“ (فضائل القرآن صفحه 183 ) وہ رحمت عالم آتا ہے ، تیرا حامی ہوجاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے

Page 29

27 --- میاں بیوی کے حقوق و فرائض بھیج درود اُس محسن پر ، تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار مرد اور عورت خدا تعالیٰ کے نزدیک برابر ہیں : حضرت خلیفہ المسیح لثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : خدا تعالیٰ کے نزدیک مرد اور عورت دونوں برابر ہیں.اُس نے دونوں کو پیدا کیا ہے.اگر کوئی مرد اس کے حکم کو توڑتا اور عورت فرمانبرداری کرتی ہے تو وہ عورت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مرد سے بدرجہا اچھی ہے.اسی طرح اگر کوئی عورت خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتی 66 ہے اور مر دفرمانبرداری کرتا ہے تو وہ مرد خدا تعالیٰ کے نزدیک اس عورت سے بدرجہا اچھا ہے.“ اوڑھنی والیوں کے لئے پھول حصہ اوّل صفحہ 4) نوجوان عدل قائم کریں : وو مردوں کے حقوق سے متعلق حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : مرد کے حقوق کو جواللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ الرِّجَالُ قَوَمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد کو گھریلو معاملات میں ویٹو پاور کا درجہ حاصل ہے.جب میاں بیوی میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جائے تو اس وقت مرد کا فیصلہ ناطق ہوگا.لیکن جب اختلاف بڑھ جائے اور مرد ویٹو پاور کا ناجائز استعمال کرے تو عورت کو عدالت کی رُو سے اپنے حقوق لینے کی اجازت ہے.پس میں مردوں ، خصوصاً نو جوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ عدل قائم کریں اور اسلام کے رستے میں دیوار حائل نہ کریں.( اوڑھنی والیوں کے لئے پھول حصہ اوّل صفحہ 452-453)

Page 30

مرد کی افسری سے مراد : 28 حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میاں بیوی کے حقوق و فرائض یہ طریق افسری اور ماتحتی کا جو میاں بیوی کے درمیان رکھا گیا ہے محض اس لئے کہ تا دونوں بغیر کسی قسم کی شکر رنجی کے ایک دوسرے کا تعاون کر سکیں.مرد کی اس افسری کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی وجہ سے عورت سے مرد کے حقوق کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاتَّقُوا اللہ پہلے تو اصل منبع کی طرف توجہ دلائی کہ انسان کی تم اولاد ہو.کیا مرد اور کیا عورت.یہ نہیں فرمایا کہ مرد کو ہم نے افسری کے لئے پیدا کیا ہے.اور عورت کو ماتحتی کے لئے.ایسا قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا.اگر کچھ آیا ہے تو دونوں کے لئے آیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً لے کہ تم تسکین اور آرام حاصل کرو.اس طرح کہ تم بیوی سے محبت کرو اور بیوی تم سے محبت کرے.تم بیوی پر مہربانی کرو اور بیوی تم پر مہربانی کرے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عورتوں کو مردوں کے تقویٰ کے لئے بطور بنایا ہے.حالانکہ صرف عورتیں مردوں کے لئے نہیں بنائی گئیں بلکہ مرد بھی عورتوں کے لئے بطور بنائے گئے ہیں.حُرنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ حض عورت مرد کے لئے نہیں بلکہ مرد بھی عورت کے لئے ہے اور ذمہ داریاں دونوں کی برابر ہیں.ہاں درجوں میں تفاوت ہے.جیسے اشتراک اور تعاون قائم رکھنے کے لئے پریذیڈنٹ اور امیر کو درجہ دیا جاتا ہے.بڑے سے بڑا اگر اس کو کچھ فائدہ ہے تو یہی کہ اس کی رائے زیادہ سُنی جائے گی.حقوق میں وہ کوئی زیادہ نفع حاصل نہیں کر سکتا.اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مسئلہ کو نہ مجھو گے اور تقویٰ سے کام لے کر

Page 31

29 میاں بیوی کے حقوق و فرائض عورتوں کے حقوق کی حفاظت نہ کرو گے تو یا درکھو تم پر بھی ایک اور ہستی نگران ہے.“ قومون کے لفظ میں حکمت : خطبات محمود جلد سوئم صفحہ 174-175) اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں.خدا کے نزدیک دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں.جس طرح مرد خدا کا بندہ ہے اسی طرح عورت خدا کی بندی ہے.جیسے مرد خدا کا غلام ہے ویسے ہی عورت خدا کی لونڈی ہے.جیسے مرد آزاد اور خر ہے ویسے ہی عورت آزاد ہے.دونوں کو حقوق حاصل ہیں.بعض مرد اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ کے ماتحت عورتوں پر حاکم ہیں، حالانکہ ان کو درجہ نگرانی کا ملا ہے.مگر نگرانی سے حریت میں فرق نہیں پڑتا.بادشاہ نگران ہے.خلیفہ نگران ہوتا ہے.اسی طرح حاکم وقت نگران ہوتا ہے.مگر کیا کوئی حکم یا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں معاملہ کر لیں.نگران تو اس بات کا ہوتا ہے کہ جو حق اس کو ملا ہے اسے وہ شریعت کے احکام کے مطابق استعمال کرے.نہ یہ کہ جو چاہے کرے.نگران کا مفہوم یہ ہے کہ اس کو شریعت کے ماتحت چلائے مگر ہمارے ہاں اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جو چاہا کر لیا.اس وجہ سے بعض لوگ عورتوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں.وہ ان کو گائے بکری سمجھتے ہیں.اور عورتوں پر جبر یہ حکومت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایسی حکومت تو خدا بھی نہیں کرتا.وہ تو کہتا ہے تم وہی کہو جو تمہاری ضمیر کہتی ہے.پھر خدا بھی بغیر اتمام حجت کے سزا

Page 32

30 میاں بیوی کے حقوق و فرائض نہیں دیتا.باوجود اس بات کے کہ وہ مالک ہے تو پھر مرد کے مقابلہ میں عورتوں کو آزادی ضمیر کیوں حاصل نہیں.اس کے برخلاف دوسری حد بھی خطرناک ہے جو عورتوں کی طرف سے ہے.قومون کا لفظ بھی آخر کسی حکمت کے ماتحت ہے.یہ قانون خدا کا بنایا ہوا ہے جو خود نہ مرد ہے نہ عورت.اس پر طرف داری کا الزام نہیں آسکتا.پس ایسی ہستی کے قوانین شافی ہو سکتے ہیں.عورت عموماً عورت کی طرف دار ہوتی ہے اور مرد کے طرف دار مرد.مگر خدا کو دونوں کا پاس نہیں.وہ خالق ہے.جو طاقتیں اس نے مرد کو دی ہیں ان کا اس کو علم ہے اور انہی کے ماتحت اُس نے اختیارات دیئے ہیں.قوموں کے بہر حال کوئی معنے ہیں جو عورت کی آزادی اور حریت ضمیر کو باطل نہیں کرتے.اس کے لئے عورت کے افعال، اس کے ارادے ، اس کا دین و مذہب قربان نہیں ہو سکتے مگر قومون بھی قربان نہیں ہو سکتا.نہ اس کا وجود ( لفظ پڑھا نہیں جار ہا.ناقل ) ہو.قوم نظر آنا چاہئے.اس کے متعلق مثال بیان کرتا ہوں.شریعت کا حکم ہے کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نہ جائے.مگر اس کے باوجود مرد عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا.اگر کوئی مرد ایسا کرے تو یہ کافی وجہ خلع کی ہوسکتی ہے.والدین سے ملنا عورت کا حق ہے مگر وقت کی تعیین اور اجازت مرد کا حق ہے.مثلاً خاوند یہ کہ سکتا ہے کہ شام کو نہیں صبح کوئل لینا یا اس کے والدین کو اپنے گھر بلالے یا اس کو والدین کے گھر بھیج دے.“ (خطبات محمود جلد سوئم صفحہ 205-206) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اور موقعہ پر میاں بیوی کے حقوق اور فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک دوسرے کو اطاعت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

Page 33

31 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ”نکاح بھی ایک اطاعت ہوتی ہے...میاں بیوی کی اطاعت کرے اور بیوی میاں کی اطاعت کرے کہ یہ خدا کا حکم ہے تو ہمیشہ نتیجہ اچھا ہوتا ہے.بیسیوں باتیں ہیں جن میں خاوند کی اطاعت کرنی پڑتی ہے کوئی خاوند نہیں جو بیوی کو نہ مانے اور کوئی بیوی نہیں جسے کئی باتیں اپنے خاوند کی ماننی پڑیں.یہ علیحدہ بات ہے کہ کئی زور سے منواتے ہیں.اور کئی محبت سے مگر چاہے وہ غلط طریق سے منوائیں یا صحیح طریق سے انہیں ایک دوسرے کی اطاعت کرنی پڑتی ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے کی اطاعت کی جائے.اور ایک دوسرے کو محض خدا کے لئے خوش رکھنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ اچھا پیدا ہوگا.ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا کی رضا کے لئے کام کرے، اس کے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے ایسا دُ کھ پہنچے جو اُسے تباہ کر دے.‘ (خطبات محمود جلد سوم صفحہ 281) قرآن نے مردوں اور عورتوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا : حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے دورہ فرینکفورٹ جرمنی کے دوران ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید اپنے ہاتھ میں اُٹھاتے ہوئے فرمایا : اس کتاب میں یہی لکھا ہے کہ عورتیں وہی حقوق رکھتی ہیں ، جو مردوں کے ہیں.انسان ہونے اور انسانی حقوق رکھنے میں قرآن نے مردوں اور عورتوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا بلکہ انہیں اس لحاظ سے مساوی درجہ دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت میں مردوں اور عورتوں کو مساوی درجہ دے کر ان کے مساوی حقوق مقرر کئے ہیں بلکہ

Page 34

32 میاں بیوی کے حقوق و فرائض انہیں بعض لحاظ سے مردوں کے مقابلہ میں زیادہ حقوق دیئے ہیں.اس کی مثال دیتے ہوئے حضور نے فرمایا.گھر کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مرد پر ڈالی ہے.یعنی اس کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ مال کمائے اور اس سے بیوی بچوں کی جملہ ضروریات پوری کرے.عورت کو اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری سے کلی طور پر آزا درکھا ہے.حتی کہ اگر عورت کے پاس اپنا ذاتی کچھ مال ہے یا وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی مال حاصل کرے تو مرد کو یہ حق نہیں دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے بیوی کے مال میں سے کچھ لے.عورت کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے مال کا کوئی حصہ بھی گھر یلو اخراجات کے لئے خاوند کے حوالے نہ کرے کیونکہ گھریلو اخراجات کو پورا کرنا کلیۂ مرد کی ذمہ داری ہے.ہاں عورت اپنی خوشی سے اپنے مال کا کوئی حصہ خاوند کو بطور تحفہ دینا چاہے تو وہ ایسا کرسکتی ہے.مرد اسے مجبور نہیں کر سکتا.( دورہ مغرب 1400ھ بمطابق 1980 ، صفحہ 51-52) مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کے حقوق زیادہ ہیں : حضرت اللہ مسیح اثاثے فرماتے ہیں : اسلام بحیثیت انسان ہونے کے عورتوں کو مساوی درجہ دیتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ الناس کو مخاطب کر کے دیئے گئے ہیں اور عربی لغت کی رُو سے الناس“ کا لفظ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اکٹھا بولا جاتا ہے.قرآن مجید کی ایسی آیات کی تعداد (جن میں صرف عورتوں کے حقوق کا ذکر ہے ) اُنچاس ہے.اس کے بالمقابل جن آیات میں مرد ہونے کی حیثیت میں صرف ان کے حقوق کا ذکر ہے ان کی تعداد

Page 35

33 میاں بیوی کے حقوق و فرائض تھوڑی ہے.انہیں (عورتوں) بعض لحاظ سے مردوں کے مقابلہ میں زیادہ حقوق دیئے ہیں بشر کا لفظ عربی زبان میں عورت اور مرد دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.سو گویا انسان ہونے کی حیثیت میں عورتوں کو مردوں کے برابر تسلیم کیا گیا ہے.“ ( دورہ مغرب 1400ھ بمطابق 1980 صفحہ 52-53) حضرت خلیفہ المسح الثالث مزید فرماتے ہیں : ” جب میں نے مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق و فرائض کی روشنی میں قرآنی آیات کا جائزہ لیا تو میں نے دیکھا کہ قرآن مجید کی ایسی آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے 'الناس کہہ کر مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کر کے احکام دیئے ہیں ان کی تعداد دوسوستائیس ہے.اسی طرح انسان اور الناس کہہ کر جن آیات میں مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے ان کی تعداد علی الترتیب اکسٹھ اور سڑسٹھ ہے.اب رہیں وہ آیات جن میں عورتوں کو جسمانی طور پر مختلف حالات کے پیش نظر صرف عورتوں کو مخاطب کر کے صرف انہیں احکام دیئے گئے ہیں یا اُن کے بعض زائد حقوق کا ذکر کیا گیا ہے سو اُن کی تعداد انچاس ہے.اس کے بالمقابل جن آیات میں صرف مردوں کا ذکر ہے وہ صرف گیارہ ہیں.“ آنکھوں کی ٹھنڈک : دورہ مغرب 1400ھ بمطابق 1980 ، صفحہ 84) سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی گھروں کو پرسکون اور مثالی بنانے اور دنیا میں ہی ایک چھوٹی سی جنت کی تعمیر اور ایک صحت مند اور مثالی معاشرہ کی تشکیل و ترویج کے سلسلہ

Page 36

34 میاں بیوی کے حقوق و فرائض میں احباب وخواتین سے متعدد بار مخاطب ہوئے.آپ فرماتے ہیں : چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب تک دونوں فریق ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک نہ بنیں، اُس وقت تک یہ توقع رکھنا کہ اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوگی یہ ایک فرضی بات ہے اور اس میں ایک بہت ہی گہری حکمت بیان فرمائی گئی ہے جس کا انسانی نفسیات سے گہرا تعلق ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ والدین جو ایک دوسرے سے آنکھوں کی ٹھنڈک پاتے ہیں اُن کی اولادیں ہمیشہ اُن کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنتی ہیں.تربیت میں پجہتی پائی جاتی ہے اور ایک ہی مزاج کے ساتھ بچے پرورش پارہے ہوتے ہیں اور وہ ماں باپ جو ایک دوسرے سے سچا پیار کرنے والے اور ایک دوسرے کا ادب کرنے والے اور ایک دوسرے کا لحاظ کرنے والے ایک دوسرے کی ضروریات کی طرف دھیان رکھنے والے اور اخلاق سے پیش آنے والے ماں باپ ہوتے ہیں، اُن کی اولا د بھی اپنے ماں باپ سے پیار کرنے والی بنتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نسبتاً بہتر تعلقات قائم کرتی ہے اور ایسی اولاد پھر ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے.“ (خطبہ جمعہ مورخہ 29 جون 1990 ء بعنوان گھر کی جنت) نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست ہاتھوں سے جن کی دین کو نصرت نصیب ہو

Page 37

عورتوں کی فضیلت : 35 حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :.میاں بیوی کے حقوق و فرائض و لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے زیادہ عظمت کے مقام بخشے ہیں اور کئی پہلوؤں سے آپ کو مردوں پر فضیلت ہے.سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں میں ہے، کہیں نہیں فرمایا کہ باپوں کے قدموں میں ہے.یعنی ساری آئندہ نسلوں کی عورتوں کی بھی اور مردوں کی بھی جنت ان کی ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.اتنا بڑا مرتبہ اور مقام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دے دیا ہے کہ جس کے بعد دنیا کا کوئی جاہل انسان اسلام پر یہ حملہ نہیں کر سکتا کہ اس میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے.وہ مقام حاصل کرنے کے لئے جو ذرائع ہیں وہ میسر آنے چاہئیں.اگر خاوند بیوی سے ہر وقت بدتمیزی سے بات کرتا ہے ، اس کی عزت کا خیال نہیں ، اس کے ماں باپ کی عزت کا خیال نہیں، بات بات پر طعنے دینے لگ جاتا ہے، گھٹیا با تیں کرتا ہے، اس سے مطالبہ ہے کہ یہ بھی کرو وہ بھی کرو اور اس کے باوجود خوش نہیں ہوتا، تو ایسا خاوند بسا اوقات خود اپنی بیوی کے پاؤں کے نیچے جہنم پیدا کر رہا ہوتا ہے...اگر بیوی کی یہ عادت ہو کہ خاوند کے جانے کے بعد اپنے بچوں سے خاوند کے دُکھڑے روئے اور یہ کہے کہ تمہارے ابا نے مجھ پر یہ ظلم کئے اور یہ ظلم کئے اور یہ حال ہو گیا ہے، میں تو دن رات بجتی رہتی ہوں، مرتی رہتی ہوں، اور دیکھو وہ میرا خیال نہیں کرتا ، وہ اپنے اوپر بچوں کو رحم دلاتی ہے.نتیجہ ایسے بچوں میں مرد کے خلاف بغاوت پیدا ہو جاتی ہے.باپ کے رشتے کے خلاف بغاوت پیدا ہو جاتی ہے اور

Page 38

36 میاں بیوی کے حقوق و فرائض نفسیاتی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں.ایسے بچے باغیانہ ذہن لے کر اُٹھتے ہیں اور اکثر جماعت سے تعلق توڑنے والے بچے ایسی ماؤں کے بچے ہوتے ہیں.پھر ایسی مائیں بھی میں نے دیکھی ہیں کہ باپ اگر مخلص ہو اور چندے دیتا ہو اور ماؤں کے اندر خدمت دین کی لگن نہ ہو تو وہ اپنے بچوں کے کان بھرتی ہیں.“ (خطاب بر موقع جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ کینیڈ امورخہ 6 جولائی 1991ء) حضرت خدیجہ کی طرف سے خراج تحسین : حضرت خلیفتہ امسح الرابع فرماتے ہیں : " حضرت مسیح موعود نے جو یہ فرمایا ' ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں.کتنے احمدی ہیں جو اس پہلو سے باحیا شمار کئے جاسکیں اور کتنے احمدی ہیں جو اس پہلو سے بے شرم شمار کئے جاسکتے ہیں.اس کی تفصیل جانچنے کا تو میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے.نہ خطبوں میں ایسی تفصیلیں بیان کرنے کا موقعہ ملتا ہے لیکن ہر آدمی اپنے آپ کو اس کسوٹی پر پرکھ سکتا ہے اور آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کے نزدیک وہ بے شرموں اور بے حیاؤں میں شمار ہوگا یا با حیاء لوگوں میں شمار ہوگا.عورتوں پر بعض لوگ اتنی جلدی کرتے ہیں، بد تمیزی کرنے اور ہاتھ اٹھانے میں کہ حیرت ہوتی ہے اور بعض دفعہ تو مسلسل اس بچاری کو لونڈی بنا کر یہ سمجھایا جاتا ہے تم اس لئے نیچے ہو اور تمہیں بنایا اس خاطر گیا ہے کہ تم میری نوکری کرو اور میں تمہارے ساتھ ذلت کا سلوک کروں.اگر تم چاہتے ہو کہ عورتیں تم سے حسن سلوک کریں تو تم اُن سے حسن سلوک کرو.اگر عورتوں کو یہ یقین ہو جائے کہ ہمارا مردسچا ہے اور صاحب خلوص ہے اور پاک دل رکھتا ہے اور ہماری طرف سے سوائے ہمارے وجود کے اس کو کوئی حرص نہیں

Page 39

37 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہے ، تو ایسی عورتیں پھر کوئی غیریت نہیں رکھا کرتیں.اور حضرت خدیجہ نے ہمیشہ کے لئے عورتوں کو ایسا خراج تحسین پیش کیا ہے کہ اُس کی مثال آپ کو دنیا میں کہیں اور دکھائی نہیں دے گی.پس اس نمونے کو آپ پکڑیں.جتنا آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے قریب ہوں گے اتنا ہی زیادہ اپنے گھروں پر اپنی بیویوں پر آپ کا نیک اثر پڑتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ پھر جہاں دونوں طرف سے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہو وہاں یہ غیریت مٹ جایا کرتی ہے.یہ سوال ہی نہیں رہا کرتا کہ کون سا مال کس کا ہے.وہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے کا مال ہے.اور یہ ہی وہ طریق ہے جس سے گھر میں جنت پیدا ہوتی ہے.عورتیں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ بھی اس قصور میں شریک ہیں کیونکہ اکثر مطالبوں کا آغاز ساسوں سے ہوتا ہے یعنی بیٹے کی ماں کی طرف سے اکثر یہ ہوتا ہے اور جن معاملات میں مجھے تحقیق کا موقعہ ملا ہے مجھے پتہ چلا ہے کہ بسا اوقات ایسے مرد کمزور ہیں ، جن کی بیویاں ایسے مطالبے کرتی ہیں اور اُن کے بیٹے اُن کی سو فیصدی غلام ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ نیکی اسی بات میں ہے کہ ہر بات میں اطاعت کرو حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اطاعت اُس حد تک فرض ہے جس حد تک خدا کی اطاعت سے تمہیں باہر نہ نکال دے.جہاں ماں باپ کی اطاعت تمہیں خدا کی اطاعت سے باہر نکلنے پر مجبور کرے وہاں تم نے خدا کی اطاعت کرنی ہے.ماں باپ کی اطاعت نہیں کرنی.(خطبہ جمعہ مورخہ 23 مارچ 1988ء بمقام لندن) گھروں کو جنت نظیر بنائیں: ہیں : سید نا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے

Page 40

38 میاں بیوی کے حقوق و فرائض پس آج ہم جو حضرت مسیح موعود کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ، ہمارے اوپر یہ ذمہ واری، بہت بڑی ذمہ واری ڈالی گئی ہے کہ اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں.اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنا ئیں.اپنے ماحول میں بھی ایسا تقویٰ پیدا کریں جو اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے اور ہم سے کوئی فعل سرزد نہ ہو جو اس خدائی بشارت کو ہم سے دُور کر دے.پس ہم پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دُعاؤں پر بہت زور دیں کیونکہ آج عالم اسلام کی حفاظت کی ذمہ واری سب سے بڑھ کر جماعت احمدیہ پر ہے.(خطبہ جمعہ مورخہ 16 مئی 2003ء بمقام مسجد فضل لندن ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے : گھر کی حقیقی سکینت اور حقیقی برکت صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتی ہے کہ خاوند بیوی کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہو اور بیوی خاوند کے حقوق پوری پوری وفاداری کے ساتھ ادا کرے.( چالیس جواہر پارے صفحہ 81) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت مسیح موعود کے محبوب صحابہ میں سے تھے.آپ ایک متبحر عالم دین، مفسر قرآن اور جماعت میں ایک مقام رکھتے ہیں.یہاں ان کی خانگی زندگی کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے : " آپ کی گھر یلو زندگی بہت پر سکون تھی آپ نے عمر بھر کبھی اپنی زوجہ سے سختی سے بات نہیں کی.کبھی چڑ چڑے پن کا اظہار نہیں کیا.کبھی ناراض نہیں ہوئے.آپ کے صاحبزادے مبارک احمد سرور صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے میری شادی کے موقع پر نصیحت فرمائی کہ قرآنی دُعا :

Page 41

39 میاں بیوی کے حقوق و فرائض رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کثرت سے پڑھا کرو.اب تم پر ذمہ داری پڑنے والی ہے.کیا تم نے کبھی مجھے اپنی والدہ سے لڑتے جھگڑتے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہماری شادی ہوئی تو میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ ہم ایک سے جذبات رکھتے ہیں.ہر ایک کو غصہ بھی آسکتا ہے گھروں میں معمولی باتوں سے معاملہ بڑھ جاتا ہے.اس لئے جب مجھے کسی بات پر غصہ آتا دیکھیں تو دوسرے کمرے میں چلی جایا کریں.اور جب آپ کو غصہ میں دیکھوں گا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں دوسرے کمرے میں چلا جایا کروں گا تا کہ بات بڑھنے نہ پائے.دیکھنے میں آیا ہے کہ معمولی معاملہ طول پکڑ جاتا ہے.بیوی خاوند کو جواب دینا شروع کرتی ہے اور باہمی تلخ کلامی بعض اوقات خلع اور طلاق پر منتج ہوتی ہے یا اس وجہ سے گھر یلو سکون اور امن تباہ ہو جاتا ہے.آپ کی زوجہ آپ کے آرام کا ہر وقت خیال رکھتی تھیں.آپ گھر میں ہوتے تو کبھی ادھر ادھر نہ جاتی تھیں.نہ ان کے مطالعہ کے کمرے میں کسی بچے وغیرہ کو جانے دیتی تھیں.“ تابنده ستاره از ستاره مظفر صفحه 96-97) تمہاری صبح حسین ہو رُخ سحر کی طرح تمہاری رات منور ہو شب قمر کی طرح کوئی بہشت کا پوچھے تو کہہ سکو ہنس کر کہ وہ خوب جگہ ہے ہمارے گھر کی طرح

Page 42

40 بیویوں سے حسن سلوک میاں بیوی کے حقوق و فرائض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور جگہ مردوں کو بیویوں سے حُسن معاشرت کی تلقین فرمائی ہے اور حکم دیا ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کی زندگی گزارو.یہ بہت مختصر مگر جامع الفاظ ہیں.ارشادات نبویه : اس مضمون کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے.مثلاً درج ذیل زریں قول فرما کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَانَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اپنے اہل وعیال سے سلوک اچھا ہے.اور میں تم میں سے اپنے اہل سے اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے بہتر ہوں.(مشکوۃ باب عشرۃ النساء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مبارک ارشاد گھروں کی چاردیواری کو جنت بنا دینے کے لئے کافی ہے جس میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کا معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حسن معاشرت رکھی ہے کیونکہ ہر کوئی شخص اپنے سلوک کو بزعم خود اچھا قرار دے سکتا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اسوہ رسول پر چلتے ہوئے خاوند عورت کے لئے سکھ اور تسکین کا باعث ہو تو وہ دُنیا کی ہر دوسری تکلیف کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہو جاتی ہے اور اُس کے دامن میں خاوند کی طرف سے دُکھ ہی دُکھ بھرے ہوئے ہیں تو اُس کے نزدیک دُنیا کی کوئی

Page 43

41 اور نعمت کچھ حقیقت نہیں رکھتی.حجتہ الوداع کے موقعہ پر مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو.اس موقعہ پر مزید فرمایا : میاں بیوی کے حقوق و فرائض عورتیں تمہارے پاس قیدی ہیں اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں.اس لئے تمہارا فرض ہے کہ ان کا خود خیال رکھو.ان کی ضروریات و حاجات کو پورا کرو اور حسن معاشرت کا رویہ پیش نظر * ایک اور موقعہ پر فرمایا : (سیرت ابن ہشام جلد 3) أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ إِيْمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ ( ترمذی کتاب النکاح باب حق المرأة على زوجها ) سب سے زیادہ کامل الایمان وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ با اخلاق ہو اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت میں سب سے زیادہ اچھا ہو.گویا کہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اور برتاؤ رکھنے والا خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہوگا.اور ایک روایت میں الطفُهُم بِأَهْلِہ کے الفاظ ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں اچھا اور اپنے اہل وعیال پر مہربان ہو.(ترمذی) * سب سے بہتر دینار ان دیناروں میں سے جو انسان خرچ کرتا ہے وہ دینا ر ہے جسے آدمی اپنے عیال پر خرچ کرے.(مسلم)

Page 44

ایک دفعہ فرمایا : 42 میاں بیوی کے حقوق و فرائض مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے.اگر اس کی ایک بات تجھے ناپسند ہے تو کچھ اچھی باتیں بھی ہونگی.ہمیشہ اچھی باتوں پر نظر رکھو.(مسلم) اس حدیث کی روشنی میں خاوند کو فیاضی ، در گذر ، ایثار اور مصالحت سے کام لینا چاہیئے کیونکہ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ صلح ہی بہتر ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.“ * مردوں کو یہ نصیحت بھی فرمائی : (سورة النساء آیت 20 ترجمه حضرت خلیفة اصبح الرابع ) وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.کہ تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل کا بھی تجھ پر حق ہے.* اس سلسلہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جامع کلام بھی مدنظر رہنا چاہئے : جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں سے عزت سے پیش نہیں آتا وہ ہم سے نہیں.(ترمذی) أسوة رسول : اور ان تعلیمات کے آئینہ میں جب ہم آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو انا خَيْرُكُمْ لا هلی کہتے نظر آتے ہیں.یعنی میں تم میں سے اپنے اہل سے سلوک کرنے

Page 45

43 میاں بیوی کے حقوق و فرائض میں سب سے بہتر ہوں.آپ گھر میں ہنستے کھیلتے ، اہل وعیال سے خندہ پیشانی سے پیش آتے.ازواج مطہرات سے مزاح کرتے اور ان کی دل لگی فرماتے.گھر کے کاموں میں مدد فر ماتے.اگر کوئی بی بی آٹا گوند رہی ہوتی تو پانی لادیتے.کھانا تیار ہورہا ہوتا تو چولہے میں لکڑیاں ڈال دیتے.گویا کہ بلا تکلف گھر کے کام کاج کرتے.احادیث میں آپ کی یہ سیرت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے.الْيَنُ النَّاسِ وَأَكْرَمُ النَّاسِ.کہ آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ نرم اور سب سے زیادہ کریم تھے.ایک بارحج کے موقع پر حضرت صفیہ کا اونٹ بیٹھ گیا اور وہ پیچھے رہ گئیں.نبی کریم نے دیکھا کہ وہ زار و قطار رو رہی ہیں.آپ رُک گئے اور اپنی دستِ مبارک سے چادر کا پلو لے کر ان کے آنسو پونچھے.آپ آنسو پونچھتے جاتے تھے اور وہ بے اختیار روتی جاتی تھیں.رشته زوجیت میں آتے وقت ایک بی بی بہت سے مراحل سے گزر کر آتی ہے.اپنے پیارے والدین اور عزیز بہن بھائیوں اور دیگر اعزاء سے بچھڑ کر اُن کے ساتھ پیار ومحبت کی یادگار یادوں کو چھوڑ کر ایک ان جانے مرد کے دامن میں آبستی ہے.اور سخت اور تلخ واقعات و تجربات سے گزر کر وہ عورت تمام عمر اُس خاندان کا بھرم “ اور ”عربت قائم رکھنے کی خاطر مختلف اشکال میں قربانی وایثار کا مجسمہ بنی رہتی ہے.اپنی تمام عمر گھڑی کی سوئیوں کی طرح متحرک گزارتی ہے.اس کے کسی کام میں چند منٹ کی تاخیر تمام عمر اس کے لئے حرف شکایت کی چابی بن جاتی ہے اور شادی کے آغاز پر بی بی کی آنکھوں کے آنسو پونچھ کر اس کے دامن میں دُنیا کی تمام خوشیاں ڈال دینے کے بلند و بانگ دعوی کرنے والے جیون ساتھی کچھ ہی عرصہ بعد اپنی نظریں بدل لیتے ہیں.

Page 46

44 میاں بیوی کے حقوق و فرائض اور آج اُن میں سے بعض ایسے ہیں جو بات بات پر اپنی بیوی پر ہاتھ اُٹھا لیتے ہیں گالی گلوچ تک نوبت آتی ہے.بیوی کے ماں باپ کو طعنے دیئے جاتے ہیں.مرچ ذرا تیز ہوگئی تو فساد برپا ہو گیا.کھانا دیر سے ملاتب بے سکونی پیدا کی.ایک درشتی اور سختی کا سلوک ہے جو دیکھنے کو ملتا ہے.گویا گھر کی کیفیت Police State سے کم نہیں ہوتی اور جب دلوں میں فرق اور کدورت پیدا ہو تو پھر شکوہ شکایت کے دفتر کھلتے ہیں اور ایک دوسرے کی پردہ دری ،عیب شماری ہوتی ہے اور یوں بات گھر سے باہر نکلتی ہے اور کا مفہوم تار تار ہوکر رہ جاتا ہے.کے مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے عورت کی لغزشوں اور غلطیوں کو نظر انداز کرنا بھی تو مردانگی ہے اور ایک خوبی ہے.فریق ثانی کوئی فرشتہ تو نہیں.کیا غلطی مرد سے سرزد نہیں ہوسکتی.ایک دفعہ کچھ سہیلیاں ایک محفل میں اپنے خاوندوں کی خوبیوں کا ذکر کر رہی تھیں.حضرت عائشہ بھی وہاں موجود تھیں.ایک خاتون نے اپنے خاوند ابوزرعہ کی خوبیاں بہت اچھے انداز میں بیان فرما ئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : کیا میں ابوزرعہ جیسا ہوں.حضرت عائشہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ اس سے بھی کہیں بہتر ہیں.(شمائل ترمذی) آپ نے فرمایا اگر مومن مرد اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے اس کا بھی ثواب ملے گا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ رضوان اللہ علیہم کو حسن معاشرت کی اس قدر تا کید تھی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ہمارا یہ حال ہو گیا تھا کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی عورتوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرنے سے ڈرتے تھے کہ کہیں یہ شکایت نہ کر دیں اور ہمارے خلاف کوئی آیت ہی نازل نہ ہو جائے.(بخاری کتاب النکاح باب الوصايا بالنساء)

Page 47

45 میاں بیوی کے حقوق و فرائض آپ نے رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا.ایک حصہ اپنی ازواج اور اہل خانہ کے لئے وقف تھا.آج مغربی دنیا میں عورت کی حفاظت اور اس سے حسن معاشرت کا بڑا پر چار کیا جاتا ہے اور ان کی زبان پر ایسے محاورے رائج پاگئے ہیں جو عورتوں کے حقوق کے بارہ میں ہیں جیسے Glass with care Ladies first اگر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ الفاظ تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400 سال پہلے عورت کے حق میں استعمال فرمائے تھے.جب ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے کہ اونٹ کا پاؤں پھسلا اور آپ دونوں گر پڑے.حضرت ابوطلحہ فوراً آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے آپ نے فرمایا : عَلَيْكَ بِالْمَرْأَةِ - اَلْمَرْأَةُ الْمَرْأَةُ کہ پہلے عورت کا خیال کرو یعنی Ladies first ایک دفعہ کچھ ازواج مطہرات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں ہمراہ تھیں.ایک حبشی غلام انجخش نامی خری پڑھنے لگا.جس کی وجہ سے اونٹ تیز چلنے لگے اور خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ازواج مطہرات میں سے جو اونٹوں پر سوار تھیں گر نہ جائیں.آپ نے فرمایا : رُوَيْدَكَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيرِ (مسلم کتاب الفضائل ) دیکھنا یہ شیشے اور آبگینے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائیں یعنی Glass with care

Page 48

46 میاں بیوی کے حقوق و فرائض سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کی اس تعلیم اور حُسنِ معاشرت کے بارہ میں بانی اسلام کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اسلام ہی ہے جس نے عورتوں کی انسانیت کو نمایاں کر کے دکھایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عورتوں کے بلحاظ انسانیت برابر کے حقوق قائم کئے اور وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ کی تفسیر لوگوں کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کی.آپ کے کلام میں عورتوں کے سا محسن سلوک اور ان کے حقوق اور ان کی قابلیتوں کے متعلق جس قدر ارشادات ہیں ان کا دسواں حصہ بھی کسی مذہبی پیشوا کی تعلیم میں نہیں ملتا اور یہی مطلب ہے حبب إلى النِّسَاءُ کا.یعنی عورتوں کی قدر دانی اور ان کی خوبیوں کا احساس میرے دل میں پیدا کیا گیا ہے.“ حق الیقین از انوار العلوم جلد 9 صفحہ 303) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں حسن معاشرت اور آپ کا کردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت ذات پر جو احسان فرمایا اس کی تجدید عملی اور علمی طور پر حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہوئی.آپ کی سیرت حسن معاشرت کے پہلو سے نمایاں رہی اور آپ نے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِہ کی تعلیم کو ہمیشہ مدنظر رکھا.آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کو شعائر اللہ سے سمجھ کر اُن کی خاطر داری کیا کرتے تھے کبھی دل شکنی نہ کرتے.آپ کی ازدواجی زندگی میں کبھی ایسا موقعہ نہیں آیا کہ خانہ جنگی کی آگ مشتعل ہوئی ہو

Page 49

47 میاں بیوی کے حقوق و فرائض بلکہ اندرون خانہ کی خدمت گار عورتوں جو عوام الناس سے تھیں حیرت سے کہا کرتی تھیں کہ مر جا ( مرزا) بیوی دی گل بڑی مندا اے.“ ) سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی زیر عنوان حسن معاشرت) ایک دفعہ ہندوستان کے ایک نامی گرامی سجادہ نشین سے ایک نیک بخت خاتون کو سیدنا حضرت مسیح موعود کے اندرون خانہ میں رہنے کا شرف حاصل ہوا.وہ حضرت اقدس کی سیرت.سے بہت متاثر ہوئیں اور اہل خانہ سے حسن معاشرت کو دیکھ کر بار بار اس امر کا اظہار کرتیں : ”ہمارے حضرت شاہ صاحب کا حال تو سراسر اس کے خلاف ہے.وہ جب باہر سے زنانہ میں آتے ہیں، ایک ہنگامہ رستخیز برپا ہو جاتا ہے.اُس لڑکے کو گھور ، اُس خادمہ سے خفا، اُس بچہ کو مار بیوی سے تکرار ہورہی ہے کہ نمک کھانے میں کیوں زیادہ یا کم ہو گیا.یہ برتن یہاں کیوں رکھا ہے.اور وہ چیز وہاں کیوں دھری ہے.تم کیسی پھو ہر بد مذاق اور بے سلیقہ عورت ہو.اور کبھی جو کھانا طبع عالی کے حسب پسند نہ ہو تو آگے کے برتن کو دیوار سے شیخ دیتے ہیں.اور بس ایک کہرام گھر میں بچ جاتا ہے.عورتیں بلک بلک کر خدا سے دعا کرتی ہیں کہ شاہ صاحب باہر ہی رونق افروز رہیں.“ سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی صفحہ 402) حضرت مسیح موعود کی تعلیم بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں.آپ فرماتے ہیں : ہے.66 ”میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ایک اور موقعہ پر آپ نے فرمایا : ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 387 )

Page 50

48 میاں بیوی کے حقوق و فرائض فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.“ سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی صفحہ 400) آپ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب کشتی نوح میں جہاں اپنی تعلیمات لکھی ہیں فرمایا : ” جو شخص اپنی اہلیہ اور اسکے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ وو میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت (کشتی نوح صفحه 19) میں سے نہیں ہے.“ اب جبکہ کشتی نوح کو لکھے سو سال بیت رہے ہیں اور یہ رمضان سو سال کے بعد پہلا رمضان ہے ہمیں چاہئے کہ کشتی نوح میں بیان تعلیم کو حرز جان بنا ئیں اور بیویوں سے حسن سلوک کریں.اور سب سے بڑھ کر اگر شرائط بیعت کا مطالعہ کریں تو ایک شرط میں آپ نے بہت واضح طور پر تحریر فرمایا کہ : عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.“ خلق اللہ میں سب سے زیادہ تو میاں کے لئے بیوی اور بیوی کے لئے میاں کے حقوق ہیں اور انہیں ایک دوسرے کو نفسانی جوشوں میں مغلوب ہوکر کسی نوع کی تکلیف نہیں دینی چاہئے.اور خود اس بارہ میں حضرت مسیح موعود کا نمونہ اور کردار بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے.

Page 51

49 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ایک دفعہ آپ کے سامنے ایک دوست کا ذکر ہوا کہ وہ بیوی سے درشتی اور سختی سے پیش آتا ہے تو آپ نے سخت ناراضگی میں فرمایا : ”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے.“ سیرت حضرت مسیح موعود از مولا نا عبد الکریم سیالکوٹی صفحہ 14) من رب کی خدمت میں دے دو ، تن مخلوق کی خدمت میں ہے یہ راز کا پیارو ، یہی عین عبادت ہے (عرشی ملک اپنا کردار : عبد اللہ آتھم سے مناظرہ کے وقت شدت کام کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کی طبیعت سر درد کی تکلیف سے ناساز تھی تو حضرت منشی عبد الحق صاحب نے از راہ کمال محبت و رسم دوستی صحت کے بارہ میں دریافت کرنے کے بعد عرض کی کہ مقوی غذا صحت جسمانی کے لئے استعمال کرنا ضروری ہے.اور اس کا خاص اہتمام ہونا چاہئے اور روزانہ تیار ہونی چاہئے.اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا : ”ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اور باتوں کی چنداں پرواہ نہیں کرتیں.“ اس پر منشی صاحب نے کہا : جی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے.میرے کھانے کا

Page 52

50 میاں بیوی کے حقوق و فرائض خاص اہتمام ہوتا ہے اور کیا مجال ہے جو میر احکم مل جائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لے لیں.“ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو قریب ہی تشریف فرما تھے اور مزاج کے ذراسخت تھے نے اپنے مزاج کے مطابق بات پا کر فوراہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ : حضور کو بھی چاہئے کہ درشتی سے یہ امر منوائیں.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا : ”ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پر ہیز کرنا چاہئے.“ اور گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے.“ سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبد الکریم سیالکوٹی صفحہ 14-16) ایک اور جگہ پر آپ فرماتے ہیں : میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے.ایک عورت کو صد ہا کوس سے لا کر میرے حوالے کیا.شائد معصیت ہوگی مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان سے کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو.اگر یہ عمل مرضی حق تعالیٰ ہے تو وہ مجھے معاف کرے اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہوجائیں.“ (فتاوی احمد یہ جلد سوم صفحہ 38 )

Page 53

51 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ذرا غور کریں کس قدر نرمی محبت اور شفقت کا سلوک ہے.اگر بادل ناخواستہ ایسی حرکت ہو جاتی تو اپنی اہلیہ سے اپنے لئے بادب دُعا کی درخواست کرتے.رحم ہو دل میں تیرے بے جا کوئی تیزی نہ ہو وقت پر سختی بھی ہو پر آبرو ریزی نہ ہو آپ دُعا کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ( حضرت مرزا بشیر احمد ) سوروحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دُعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو.کیونکہ نہایت بدخدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 25 حاشیہ اور اربعین نمبر 3 صفحہ 38 حاشیہ) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی بارے الہام : حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کے دوست احباب کے متعلق ناپسند فرماتے تھے کہ وہ عورتوں سے درشتی اور سختی سے پیش آئیں اور کوئی ایسی حرکت کریں جو معاشرت حسنہ کے خلاف ہو.حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی جو طبیعت کے ذراسخت تھے اور اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتے تھے کہ بارہ میں حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا.وو یہ طریق اچھا نہیں.اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو.خُذُوا الرفق الرّفْقَ فَإِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَيرات نرمی کرو، نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا سر تذکرہ صفحہ 409 ایڈیشن 1956ء) نرمی ہے.“

Page 54

52 میاں بیوی کے حقوق و فرائض سیدنا حضرت مسیح موعود نے یہ الہام درج کرنے کے بعد تحریر فرمایا : اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی بیوی سے کسی قدر سختی کا برتاؤ کیا تھا.اس پر حکم ہوا کہ اس قدر سخت گوئی نہیں چاہئے.“ ( اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 429) اور حاشیہ میں ہی جماعت کو مزید نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں.وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں.در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہر و.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور حدیث میں ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُم لِأَهْلِه یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلدی مت توڑو.“ ( تذکرہ صفحہ 409 واربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 428) حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب کو ایک دردمند خط : حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا.باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں.سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل

Page 55

53 میاں بیوی کے حقوق و فرائض خانہ سے کرنی چاہئے.کس قدر آپ شدت رکھتے ہیں.آپ کو ) ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپر د کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمان داری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے.خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے.بیویوں پر رحم کرنا چاہیئے اور ان کو دین سکھلانا چاہئے در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقا ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد با کوس سے میرے حوالہ کیا ہے.شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.سو میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے.ہمارے سیدو مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدرا اپنی بیویوں سے علم کرتے تھے.زیادہ کیا لکھوں.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ النساء جلد دوئم صفحہ 230) میاں بیوی دو بچے اور حقیقی دوست : وو حضرت مسیح موعود عورتوں کے حقوق کے متعلق فرماتے ہیں : چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.“ ( ملفوظات جلد سوئم صفحہ 300)

Page 56

54 میاں بیوی کے حقوق و فرائض بیوی سے عمدہ معاشرت : حضرت مسیح موعود بیویوں سے حسن سلوک کے متعلق فرماتے ہیں : اس سے یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے.نہیں نہیں.ہمارے بادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِه تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدوکوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اُس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے.اس لئے اُن کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوف ( النساء :20) ہاں اگر وہ بے جا کام کرے، تو تنبیہ ( ملفوظات جلد سوئم صفحہ 403-404) ضروری چیز ہے.“ خاوند اللہ تعالیٰ کا مظہر : آپ مزید فرماتے ہیں : " خاوند عورت کے لئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.پس مرد میں جلالی اور جمالی رنگ دونوں موجود ہونے چاہئیں.اگر خاوند عورت کو کہے کہ تو

Page 57

55 میاں بیوی کے حقوق و فرائض اینٹوں کا ڈھیر ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ رکھ دے.تو اس کا حق نہیں ہے کہ اعتراض کرے.عورتیں کنیز نہیں ہیں : ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 404) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں.قرآن شریف میں لکھا ہے عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء : 20) مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیج الرسن (بے مہار ) کر دیا ہے.دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا.بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیع الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اور کنیزوں اور بہائم سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد دوئم صفحہ 387 ) ارشادات خلفاء سلسلہ احمدیہ سید نا حضرت مسیح موعود کے بعد خلفاء نے بھی مختلف اوقات میں احباب کو اپنی بیویوں سے

Page 58

حسن معاشرت کی تلقین فرمائی.56 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ : : سید نا حضرت حکیم مولا نا نور الدین صاحب خلیفہ اسی الاول رضی اللہ تعالی عنہ عورتوں سے حسن معاشرت کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (1) تم میں جو نقص ہیں ان کی اصلاح کرو.عورتوں سے جن کا سلوک اچھا نہیں ، قرآن کے خلاف ہے، وہ خصوصیت سے توجہ کریں.میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ سمجھیں ، پھر سمجھ جائیں ، پھر سمجھ جائیں.ایسا نہ ہو کہ میں ان کی ٹھوکر کا باعث بنوں.“ ( خطبہ عید الفطر 15 اکتوبر 1909ء از خطبات نور صفحہ 422) (2) آپ پھر فرماتے ہیں : ” بیویوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آؤ.بیوی ، بچوں کے جنے اور پالنے میں سخت تکلیف اُٹھاتی ہے.مرد کو اس کا ہزارواں حصہ بھی اس بارے میں تکلیف نہیں.ان کے حقوق کی نگہداشت کرو.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (البقرہ : 229 ) ان کے قصوروں سے چشم پوشی کرو.اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا.“ (3) (خطبہ جمعہ 9 جون 1911 ء از خطبات نور صفحہ 499) ایک اور موقعہ پر فرماتے ہیں : تعلیم و تربیت عورتوں کی بہت کم رہ گئی ہے.چونکہ عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں ،اس

Page 59

57 -⑰7- میاں بیوی کے حقوق و فرائض لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان سے ہمیشہ رحم و ترس سے کام لیا جائے اور ان سے خوش خلقی اور حلیمی (خطبات نور جلد دوم صفحہ 217) برتی جائے.“ ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (1) سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ عورتوں کے حقوق سے متعلق فرماتے ہیں : مرد یا درکھیں کہ عورت ایک مظلوم ہستی ہے.اس کے ساتھ محبت اور شفقت کے سلوک سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا خَيرُكُمْ خَيْرُكُمْ لاهله یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے کہ جو اپنے اہل وعیال سے بہتر سلوک کرتا ہے.“ (2) اوڑھنی والیوں کے لئے پھول حصہ دوئم صفحہ 156 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ط فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَلَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ (بقرہ آیت : 224) کی بہت پیاری اور لطیف تشریح کرتے ہوئے فرمایا : نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ (بقره آیت : 224 تمہاری بیویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں.تم جس طرح چاہوان میں آؤ...دوسری بات یہ بتائی ہے کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ اُن کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری.اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہوجاتا ہے اور اگر کھیتی سے پے بہ پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے.پس اس میں یہ بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا

Page 60

58 میاں بیوی کے حقوق و فرائض چاہئے.جس طرح عقل مند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہئے.اور کس حد تک کھیت سے فصل لینی چاہئے.اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے.اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے، کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں.کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معا دوسری بودی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی.اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی.اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے.لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کے متعلق خدا کے جس قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مدنظر رکھو جس طرح ہو شیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہو جائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہو جائے اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا ہونے لگے اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال رکھنا چاہیئے.اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولا د پیدا کرنے کے فعل کو روک دو.تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو تو اولاد پر اچھا اثر ہوگا.اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولا د بھی تم سے بے وفائی کرے گی.پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولا دا چھی ہو.اگر بدسلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب ہوگا.یعنی عورتوں سے بدسلوکی اولاد کو بداخلاق بنادے گی.کیونکہ بچہ ماں سے اخلاق سیکھتا ہے....پس آٹی شِئْتُم میں تو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو لیکن یہ نصیحت یاد رکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے.یہ ایک طریق کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے.مثلاً ایک شخص کو ہم رہنے کے لئے مکان دیں اور کہیں

Page 61

59 میاں بیوی کے حقوق و فرائض کہ اس مکان کو جس طرح چاہو ر کھو.تو اس کا مطلب اُس شخص کو ہوشیار کرنا ہوگا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا.اور تمہیں نقصان پہنچے گا.اسی طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیاہتے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے.جیسا چاہو اس سے سلوک کرو.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے جوتیاں مارا کرو.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے اسے سنبھال کر رکھنا.پس آٹی شتم کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے بُرا ہوگا.اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہو گا.دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے آٹی کو پنجابی کا آنگاہ سمجھ لیتے ہیں اور یہ معنے کرتے ہیں کہ ان ہے واہ کرو‘ ( فضائل القرآن صفحہ 184 تا186) ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ : (1) سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ امسح الثالث نے اپنے دور خلافت میں جو مبارک تحریکات جاری فرما ئیں اُن میں سے ایک ” بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور عزت سے مخاطب ہونے کے بارہ میں بھی ہے.“ (حیات ناصر صفحہ 608) (2) حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ ( حرم ثانی حضرت خلیفۃ المسح الثالث) آپ کا نمونہ تحریر کرتی ہوئی فرماتی ہیں کہ : ایک دفعہ رات مجھے معدے میں جلن کی تکلیف ہوگئی.میں نے تو خاص پرواہ نہ کی.باتوں باتوں میں ایسے ہی ذکر ہو گیا تو آپ کو سخت فکر دامن گیر ہوئی.اور خود اُٹھ کر ہومیو پیتھک کی دوادی اور ہر دس منٹ بعد خود ہی دوا مہیا فرماتے رہے اور بار بار پوچھتے کہ اب ٹھیک

Page 62

60 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہو.(سیرت حضرت مرزا ناصر احمد از سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ ) ہیں : (3) وو آپ ایک موقعہ پر عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے سورۃ النساء کی آیت الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاء...میں مردوں کی اس ذمہ داری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو گھر کی جملہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ان پر ڈالی گئی ہے.اس آیت میں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ عورتیں مردوں سے کمتر درجہ رکھتی ہیں.بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ مرد گھر کے جملہ اخراجات کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں اور اس کی طاقت رکھتے ہیں.“ (دورہ مغرب 1400ھ بمطابق 1980 ، صفحہ 85) ارشادات حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالی : (1) سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَانَا خَيْرُكُمْ لاهلي کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بہترین ہے اور دیکھو میں اپنے اہل کے لئے بہترین ہوں.یعنی تم سب میں اس لئے بہترین ہوں کہ اپنے اہل کے لئے بہترین ہوں.اور اہل کے لئے بہترین ان معنوں میں تھے کہ آپ نے اُن کے تمام حقوق ادا کئے اور ایک حق کا ادنی سا حصہ بھی نہیں رکھا اور اس کے ساتھ اُن کے اخلاق کی نگرانی کی اور ہمیشہ مسلسل اُن کی تربیت کی طرف متوجہ رہے.“ (خطبہ جمعہ 6 جولائی 1990 ء بعنوان گھر کی جنت)

Page 63

61 میاں بیوی کے حقوق و فرائض (2) پھر آپ نے فرمایا : دو بعض گھریلو جھگڑے ہیں جنہیں دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے.بعض مردا اپنی عورتوں پر ظلم کر رہے ہیں.گندی زبان استعمال کرتے ہیں.اپنی بیویوں پر بدظنی کرتے ہیں اور ان پر بے ہودہ اور ناپاک الزام لگاتے ہیں اور اس میں کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کرتے اور کوئی خوف نہیں کھاتے کہ وہ اپنے معاشرہ کو کس طرح دُکھ پہنچارہے ہیں.وہ اپنی بیویوں کے حقوق پر حقوق مارتے چلے جاتے ہیں.پھر جب چاہتے ہیں ایک رڈی کپڑے کی طرح اُن کو اُٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں.وہ بچے پالتی ہیں ، وہ سلائیاں کرتی ہیں اور طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہیں.ایسے مردوں میں انسانیت کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہوتا.وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ انہوں نے کس آرام سے اپنے بوجھ عورت پر ڈالے اور اس کو تسکین کا ذریعہ بنایا اور جب ذمہ داریاں پیدا ہو گئیں تو ساری ذمہ داریاں بھی اس پر ڈال دیں.نو مہینے اس نے مصیبت سے اپنا خون دے کر ، اپنی ہڈیاں دے کر اپنا دماغ دے کر، اپنی ساری طاقتیں دے کر مرد کے بچہ کی پرورش کی ہے اور جب وہ وجود میں آجاتا ہے جب اس کی ذمہ داریاں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں تو ایک آرام طلب مرد، آرام کی راہوں پر چلنے والا ، بڑے آرام سے اس کو کہتا ہے بہت اچھا اب میرا تمہارا گزارہ مشکل ہے جاؤ بھاگ جاؤ گھر سے نکل جاؤ.بہت بھاری تعداد میں معاشرہ اس دُکھ میں مبتلا ہے.“ خطبہ جمعہ مورخہ 12 نومبر 1982ء بعنوان پاک معاشرہ کا قیام اور جماعت احمدیہ کا فرض) (3) حضور ایک اور خطبے میں عورتوں کے حقوق کے متعلق فرماتے ہیں : ”مردوں کو خصوصیت سے مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ تا تم اپنی بیوی سے تسکین

Page 64

62 میاں بیوی کے حقوق و فرائض حاصل کرو.یہ کہنے سے ایک غلط فہمی بھی پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ اکثر دُنیا کے معاشروں میں یہ غلط منہمی پائی جاتی ہے کہ مرد کا کام ہے عورت سے تسکین حاصل کرے.عورت کا کام ہے تسکین دے اور اس کے بعد چھٹی اور مرد پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے.اس باطل خیال کو زائل کرنے کی خاطر معاً بعد فرمایا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً = اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان گہری محبت اور رحمت کا رشتہ قائم فرما دیا ہے.اور یہ رشتہ دونوں طرف سے ہے.بَيْنَكُمْ ہے اور بَيْنَكُم نے مضمون کو اور زیادہ وسیع فرما دیا.بینَکُما نہیں کہا بلکہ بَيْنَكُمْ فرمایا.یعنی وہ بچے جو میاں بیوی کے تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ بھی آپس میں محبت اور رحمت کے تعلقات سے زندگی بسر کریں اور سارے معاشرہ کے لئے یہ پیغام ہے کہ عائلی زندگی میں موڈت اور رحمت کو اختیار کر و...حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن معاشرت کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے اور جو کچھ مل کر کے دکھایا ہے وہ تو ایک لامتناہی سمندر ہے جس میں فیوض موجزن ہیں.جس میں حکمتیں موجزن ہیں لیکن ان میں سے ایک بات میں اس سلسلہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرما یا کہ دیکھو اپنے ماں باپ کو گالیاں نہ دیا کرو.بہت ہی گندی ، بہت ہی مکر وہ بات ہے کہ تم اپنے ماں باپ کو گالیاں دو.صحابہ میں سے کسی نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اپنے ماں باپ کو کون گالیاں دیتا ہے.آپ نے فرمایا جب تم اپنے رشتوں کے بعد ایک دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہو تو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے رہے ہوتے ہو....اپنے معاشرے کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی کے مطابق بنا ئیں تو گھر موڈت اور رحمت سے بھر جائے گا.“ خطبہ جمعہ مورخہ 16 را پریل 1993ء)

Page 65

63 میاں بیوی کے حقوق و فرائض حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اہلیہ حضرت بی بی آصفہ بیگم صاحبہ کی وفات کے معابعد آنے والی عید الفطر 1992ء کے موقع پر خطبہ میں احباب جماعت کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی تھی.”اپنی بیویوں سے حسن سلوک کیا کرو.ایسی بیویاں جو خاوند کے ظلموں تلے زندگی بسر کرتی ہیں وہ بے بس اور بے اختیار ہوتی ہیں.خاوند بد خلق ہو تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا تو در کنار، بد زبانی سے کام لے، طعنے دے کر غریب کے ماں باپ کو بھی تکلیف دے اور دل آزار باتیں کر کے ان کے دلوں کو چھلنی کرے، ایسا خاوند اپنی بیوی کے لئے مسلسل عذاب کا موجب بنا رہتا ہے.اس عید کے وقت اگر کوئی سچا احمدی ہے اور میری بات سن رہا ہے ، اس کے دل میں میری اس بات کا اثر ہو سکتا ہے تو میں اسے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی میں ایک انقلاب برپا کرے پھر اسے سچی عید نصیب ہوگی.ایک مظلوم لڑکی نازوں میں پلی کسی کی بیٹی آپ کے گھر جا کر آپ کے رحم و کرم پر ہوتی ہے اُسے جب ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے کوئی معمولی گناہ نہیں.ایسا شخص اگر باز نہیں آئے گا تو اُسے عذاب الیم کی خبر دیتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ مرنے کے بعد اسکی زندگی درد ناک عذاب میں مبتلا ہوگی.ایسے ظلموں میں صرف خاوند شریک نہیں ہوا کرتے بلکہ بہت حد تک ساسوں کا قصور ہوتا ہے.احمدی مجھے لکھتے ہیں کہ آپ مردوں کو ڈانٹتے اور نصیحتیں کرتے ہیں عورتیں بھی تو زیادتیاں کرتی ہیں.عورتیں کرتی ہوں گی اور کرتی ہیں جیسا کہ رسول خدا نے فرمایا کہ ناشکریاں بھی کرتی ہیں.لیکن ان ناشکریوں کے نتیجے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا سلوک تھا آپ فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لاهلي “ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی

Page 66

64 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ناشکری کے نتیجے میں کبھی بدخلقی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ بڑے پیار اور محبت سے بات کو سمجھایا کرتے تھے.پس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو دیکھیں اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے آپ کو بہت تکلیف پہنچنے والی ہے.بعض جگہوں پر خاوند، ساس اور نندوں کے ظلموں کا نشانہ بننے والی بچیوں کی عجیب کیفیت ہے.خوشی کے موقع پر بھی طعنے دیئے جاتے ہیں.ایک بچی کا خط آیا دُعا کریں اللہ تعالیٰ ایک لڑکا دے دے.چار بچیاں ہیں.ہر پیدائش پر طعنے کیا جوٹ جیسی ہو.کیا نحوستیں لے کر آئی ہو.ہماری نسل برباد کر دی.ساسیں اس نحوست کا سبق اپنے بچوں کو دے رہی ہوتی ہیں کیا وہ خود عورت نہیں.کیا وہ اس نحوست کا نشان نہیں.ایسی ذلیل اور کمینی حرکتیں اگر احمدی معاشرے میں پائی جائیں تو ہم دنیا کو تعلیم دینے کے اہل نہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سلوک کیا، تمام نبیوں کی تعلیمات اور ساری دنیا کے افراد میں سے کسی نے ایسا سلوک عورت سے نہیں کیا.یہ ہمارے لئے نمونہ ہے اس سلوک کو اپنے گھروں میں جاری کریں پھر حقیقی عید ہوگی.ورنہ بڑے درد میں مبتلا ہوں گے.میں نے ساری عمر، یہ کوشش کی کہ عمر بھر مجھ سے ظلم سرزد نہ ہو.بی بی ( حضرت آصفہ بیگم صاحبہ ) کو کوئی ناجائز تکلیف نہ پہنچے.لیکن اپنی بیوی کی بیماری میں زندگی کے سارے واقعات آنکھوں کے سامنے آتے رہے جسے میں سمجھتا ہوں کہ دانستہ یا نادانستہ، جائز اور ناجائز طور پر میں ان کے لئے دُکھ کا موجب بنا.بار بار استغفار کرتا رہا.میرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں ان سے معافی نہیں مانگ سکتا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ وہ اس سے سمجھیں گی کہ میرا وقت قریب آگیا ہے.خدا سے معافی مانگتا رہا کہ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تو مجھے معاف کر دے اور ان کی روح کو تحریک فرما کہ یہ مجھے معاف

Page 67

65 میاں بیوی کے حقوق و فرائض فرما دیں.اگر ان کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی ہے تو خدا کی قسم میری طرف سے تمام داغ مٹ چکے ہیں.میں کلیتا راضی ہو کر ان کو رخصت کرنے والا ہوں.اس نے مجھے بے چین رکھا اس دوران مجھے اُن مظلوم عورتوں کا خیال آتا رہا، جن کے خاوند ابھی بھی غفلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں.ان کو احساس ہی نہیں کہ وہ کس حالت میں اپنی عورتوں سے سلوک کرتے ہیں.اس لئے میں نے سوچا کہ اس عید کے تحفہ کے طور پر یہ نصیحت ، میں ضرور احمدیوں سے کروں کہ اپنے معاشرے کو جنت کا نشان بنادیں تبھی سچی عید ہوگی جب آپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلیں گے.اس لئے اگر آپ آج میرے غم میں شریک ہیں، آپ اگر تعزیت کے خط لکھنے کی سوچ رہے ہیں تو میری سب سے بڑی تعزیت یہ ہے کہ مجھے جماعت کی طرف سے یہ تسکین ملے ، خوشی کی خبر ملے کہ ہمارے مرد عورتوں کے لئے نرم گوشے اختیار کر چکے ہیں.اپنے گھروں کو جنت کا نمونہ بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں.ان کی غلطیوں کو عفو اور درگزر کرنے والے ہیں.انہیں سچے شکر اور پیار کی تلقین کرنے والے ہیں اور سختی کی ساری باتیں جو ہمارے گھروں میں رائج ہو چکی ہیں یکدم معدوم کرنے والے ہیں.خدا کرے یہ عید ہمیں نصیب ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کی فتح کی عید بھی اس عید کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رکھتی ہے.اگر احمدی معاشرہ گھروں کو جنت کا نشان بنادے گا تو خدا کی قسم آپ ضرور غالب آئیں گے اور دیر کی بجائے جلد آئیں گے کیونکہ یہی وہ عملی نمونہ ہے جس کو دنیا آج دیکھنے کی منتظر ہے.جو احمدی گھروں کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا.خدا ہمیں اسکی تو فیق عطا کرے.“ (خلاصہ خطبہ عید الفطر 1992ء بمقام مسجد فضل لندن)

Page 68

آپ کی عائلی زندگی : 66 میاں بیوی کے حقوق و فرائض مرحوم و مغفورآ قا حضرت خلیفة اصبح الرابع حمہ اللہ کے کر دار پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں اور کردار اُن کی عائلی زندگی کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں اس دُنیا میں ایک جنت نظر آتی ہے.بعض گھرانوں میں میاں کے بیوی کے ساتھ تعلقات اس وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں کہ بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں.نرینہ اولاد نہیں.مگر ہمارے آقا کا اُسوہ وہ اُسوہ ہے جو آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا.اپنی بچیوں سے بے انتہا پیار کرتے اور احادیث کے مطابق ان کی اصلاح اور دینی تعلیم کو جنت کا ایک رستہ تصویر فرماتے.میں جب 1983ء میں سیرالیون خدمات دینیہ کے لئے روانہ ہونے سے قبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کے لئے دربارِ خلافت میں حاضر ہوا تو حضور نے میری نومولود بچی جو ابھی ایک ڈیڑھ ماہ کی تھی گود میں اٹھا لیا اور پیار کرنے لگے.میری اہلیہ محترمہ فرط جذبات میں بہہ گئیں اور آنکھوں میں آنسو آگئے، جسے حضور نے دیکھتے ہوئے فرمایا کہ فردوس ائم تین بچیوں کی وجہ سے رورہی ہو.میری چار بچیاں ہیں.میں تو کبھی نہیں رویا بلکہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے.آپ خود اپنی بچیوں کے ساتھ کھیل کو دکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " ہم اکٹھے کھیلتے.ایک دوسرے کو بھاگ کے پکڑتے.درختوں پر چڑھنے کے مقابلے "ہما.ہوتے.آنکھ مچولی کا کھیل بھی ہوتا.جب بچیوں سے کھیلتا تو یوں لگتا جیسے میں ان کا ہم عمر ہوں.ی کھیل میرے لئے کیا تھے تفریح کی تفریح اور آرام کا آرام اور دلی مسرتوں کا خوان یغما.(ایک مرد خدا صفحہ 128)

Page 69

67 میاں بیوی کے حقوق و فرائض بچیاں اکثر کہا کرتیں کہ ابا ہمارے بہترین دوست ہیں.کھیل کود اور ہنسی مذاق تو روز کا معمول تھا.محترمہ صاحبزادی شوکت جہاں بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں : اگر ہم کبھی ابا جان کو ہنسی مذاق میں چھیڑ تیں تو بڑے خوش ہوتے.ایک دفعہ یوں ہوا کہ میری بہن فائزہ نے سوائے ایک ٹافی کے ، ڈبے کی ساری ٹافیاں کھالیں اور ان کی جگہ بالکل انہیں کی طرح کنکر لپیٹ کر انہیں اس صحیح سلامت اکلوتی ٹافی کے ہمراہ ڈبے میں رکھ کر ڈبہ ابا جان کی میز پر سجایا.اور لگے ہاتھوں بڑا سا سوالیہ نشان بھی ڈبے پر لگا دیا.اور خود بڑی بے تابی سے انتظار کرنے لگیں کہ دیکھئے اب ابا جان کیا کرتے ہیں.تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتی ہیں کہ ڈبہ اپنی اصل جگہ پر واپس رکھ دیا گیا ہے.لیکن اب کی بار اس کے ساتھ ایک پرچہ بھی منسلک تھا جس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے میں نے اپنے حصہ کی ایک ٹافی کھالی ہے.باقی ٹافیاں آپ کھالیں.غور سے دیکھا تو وہ اکلوتی ٹافی غائب تھی.“ ایک مرد خدا صفحہ 212-213) آپ با وجود دینی مصروفیات کے گھر اور اہل خانہ کے لئے ضرور وقت نکالتے.اُن کے ساتھ بیٹھ کر راحت محسوس کرتے.آپ خود فرماتے ہیں : بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر میں دلی راحت اور اطمینان محسوس کرتا ہوں.روز مرہ کی عام سے معمول کی باتیں ہوتی ہیں.خاندان اور رشتہ داروں کی خیریت اور ان کی تازہ ترین دلچسپیوں اور معمولات کا ذکر ہوتا ہے.مختلف موضوعات پر ہلکے پھلکے رنگ میں تبصرہ ہوتا ہے.“ (ایک مرد خدا صفحہ 223)

Page 70

68 میاں بیوی کے حقوق و فرائض حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا نمونہ : حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ آپ بھی زندگی بھر کے اعلیٰ مفہوم پر پورا اترتے رہے.حضرت نیک محمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ جنگ عظیم کے بعد انفلوئنزا کی وبا کے دوران میں نے دیکھا کہ آپ نہایت شفقت ، ادب اور محبت سے دوائی (بو صاحبہ اہلیہ محترمہ کو ) پلاتے.میں نے بو صاحبہ سے آپ کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا تو فرمانے لگیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لاهله - تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے اچھا ہے.ایسے خیر لوگ کہاں سے ملیں گے.(سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب از چوہدری عبد العزیز صفحه 93) تعدد ازدواج اور مردوں کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے گومرد کو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف اور اعتدال برقرار رکھ سکے.اگر ایسا نہیں تو اسے ہرگز دوسری بیوی رکھنے کی اجازت نہیں.اور عدل کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر تمام بیویوں کو برابر رکھا جائے ، خالمُعلّقہ نہ چھوڑا جائے.کھانے پینے ، پہننے، خرچ اخراجات اور میل ملاقات میں برابر مساوی حقوق دیئے ہیں.سورۃ النساء کی آیت نمبر 4 کی رُو سے اسلام نے کثرت ازدواج کی صرف اجازت دی ہے حکم نہیں دیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی دو بیویوں کے درمیان انصاف

Page 71

69 --+9 میاں بیوی کے حقوق و فرائض نہیں کر پاتا ، قیامت کے دن وہ شخص خدا کے حضور ایسی حالت میں لایا جائے گا کہ اس کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگا.ابن حیان ) اس ضمن میں سب سے بڑا حسین اُسوہ تو ہمارے آقا ومولیٰ سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جنہوں نے اپنی ازواج مطہرات سے ہمیشہ عدل کا برتاؤ کیا اور اُن سے وہ حسن سلوک برتا جو ہمارے لئے رہتی دنیا تک بطور نمونہ قائم رہے گا.آپ نے بیویوں میں باریاں تقسیم کر رکھی تھیں.اپنے عمل سے یا قول سے نہ تو کبھی کسی کی حوصلہ شکنی فرمائی اور نہ حق تلفی.حضرت مسیح موعود نے بھی متعدد بار ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والوں کو عدل اختیار کرنے کی نہ صرف تلقین فرمائی بلکہ عورتوں کو مخاطب ہو کر اس معاملہ میں درج ذیل نصیحت فرمائی : ”اے عورتو! فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اُس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں.اگر عورت مرد کے تعدد ازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم ضلع کراسکتی ہے.خدا کا یہ فرض تھا کہ مختلف صورتیں جو مسلمانوں میں پیش آنے والی تھیں اپنی شریعت میں ان کا ذکر کر دیتا تا شریعت ناقص نہ رہتی.سو تم اے عورتو! اپنے خاوندوں کے ان ارادوں کے وقت کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہیں ، خدا تعالیٰ کی شکایت مت کرو بلکہ تم دعا کرو کہ خدا تمہیں مصیبت اور ابتلاء سے محفوظ رکھے.بلکہ وہ مرد سخت ظالم اور قابل مؤاخذہ ہے جو دو جور میں کر کے انصاف نہیں کرتا.اے عور تو اگر تم خود خُدا کی نافرمانی کر کے قہر الہی مت بنو.ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا.اگر تم خُدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جاوے گا.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 81)

Page 72

70 میاں بیوی کے حقوق و فرائض حضرت مسیح موعود ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں : یہ مسئلہ بڑا نازک ہے.دیکھا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کی غیرت نہیں چاہتی کہ اس کی عورت اس میں اور اس کے غیر میں شریک ہو، اسی طرح عورت کی غیرت بھی نہیں چاہتی کہ اس کا مرد اُس میں اور اس کے غیر میں بٹ جاوے.مگر میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں نقص نہیں ہے.اور وہ نہ خواص فطرت کے برخلاف ہے.اس میں پوری تحقیق یہی ہے کہ مرد کی غیرت ایک حقیقی اور کامل غیرت ہے.“ ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی سے بہت کچھ حتی کیا کرتا تھا.ایک مرتبہ اس نے دوسری بیوی کرنے کا ارادہ کیا جس سے بیوی کو سخت رنج پہنچا.اُس نے اپنے شوہر کو کہا میں نے تیرے سارے دُکھ سے مگر یہ دُکھ نہیں دیکھا جاتا کہ میرا خاوند ہوکر تو اب دوسری کو میرے ساتھ شریک کرے.اس پر ایک بزرگ جو ہمسایہ میں رہتے تھے کہنے لگے کہ اس عورت کے کلمے نے میرے دل پر نہایت درد ناک اثر کیا.اور میں نے چاہا کہ اس کلمہ کے مشابہ کچھ قرآن کریم میں پاؤں تو مجھے یہ آیت می : وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : وحدہ لاشریک ہو نا خدا کی تعریف ہے مگرعورتیں بھی شریک ہرگز پسند نہیں کرتیں.“ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اپنے شوہر کے بیویوں سے مساوی حسن سلوک کے بارہ میں تحریر فرماتی ہیں : ”حضور نے اپنی چاروں بیویوں کا انفرادی طور پر اور مجموعی طور پر اس قدر خیال رکھا کہ ہر بیوی کے دماغ کے رگ وریشہ میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ جو تعلق حضور کو مجھ سے ہے وہ کسی اور

Page 73

71 میاں بیوی کے حقوق و فرائض سے کیا ہوگا؟ اپنے اپنے گھروں میں اپنی اپنی جگہ تمام خوش اور مطمئن ہیں.یہ کیوں ؟ اس لئے کہ حضور نے ہر بیوی کو اس کے حقوق دیئے کہ کیا کوئی دے گا.ہر بیوی کا خیال اس حد تک رکھا کہ ہر بیوی اپنے عزیزوں (میکے والوں) تک کو بھول کر حضور ہی کی ذات میں کھو کر رہ گئی.بیویوں کی خوشی میں ، بیویوں کے غم اور دکھ درد میں ، بیویوں کی بیماری اور پریشانی میں ، باوجود غیر معمولی دینی مصروفیات اور سلسلہ کی ذمہ داریوں کے آپ ہر وقت ہر موقع پر شریک ہوئے.اور ان کی اس قدر خوبصورت طریق سے دلداریاں کیں کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے.ہم لوگوں کی طبیعت کی خرابی پر خواہ معمولی سر درد ہی کیوں نہ ہو، جب پتہ چلتا تو دوائیاں خود لے کر اپنے ہاتھ سے کھلاتے.غذا تک اپنے ہاتھ سے دیتے.خود بار بار طبیعت دیکھتے.پھر ڈاکٹر کو بلا کر ہدایات دیتے.خاص توجہ کے لئے تلقین کرتے.خواہ شدت کی گرمی ہوتی ، خواہ کڑاکے کا جاڑا ، آپ بذات خود بار بار آتے.کبھی دوائی کی تلقین کبھی غذا اور پرہیز کی اور پھر اسی پر بس نہیں.اگر کھانے کا وقت ہے یا دوائی کا وقت تو اپنے ہاتھ سے غذا یا دوائی دے کر پھر واپس اپنے کام میں لگ جاتے.اخراجات دینے کے لحاظ سے بھی آپ نے ایسا انصاف قائم رکھا کہ اس میں کسی کی رعایت نہ رکھی سب کے ساتھ ایک سا برتاؤ اور ایک سا سلوک کیا.بارہا ایسا ہوا کہ مہمان اچانک آگئے اور آپ نے اس خیال سے کہ مہمان کو تکلیف نہ ہو، اگر ہم لوگ مہمان کے لئے کوئی مشروبات تیار کر رہی ہیں یا کھانے کا وقت ہے اس کا اہتمام کر رہی ہیں تو آپ فورا خندہ پیشانی سے آگے بڑھتے ہیں اور ہمارا ہاتھ بٹانا شروع کر دیتے ہیں.یا گرمیوں کے دنوں میں بارش یا آندھی اچانک آجاتی اور ہم لوگ جلدی جلدی بستر چار پائیاں اُٹھاتے تو آپ آگے بڑھ کر خود ہی کام ہمارے ساتھ کرنے لگ جاتے اس حد تک کہ ہمیں اصرار کرنا پڑتا کہ آپ یہ بوجھ

Page 74

72 میاں بیوی کے حقوق و فرائض نہیں اٹھا سکیں گے.یا بارش کی وجہ سے کیچڑ ہورہا ہے آپ جلدی سے اندر چلے جائیں سامان ہم خود سمیٹ لیں گی.مگر آپ ہیں کہ بالکل نہیں مانتے اور فرماتے ہیں تمہیں اکیلے تکلیف ہوگی اور برابر ساتھ ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں.خود بیوی کے ایک ایک عزیز کا پوچھیں گے.ان کی خوشی و غمی میں پورے اہتمام اور انہماک سے حصہ لیں گے.بیویوں کے ضرورتمند عزیزوں کا اتنا خیال کہ بعض اوقات بیویوں کو اس بات پر ناراضگی کا اظہار کرتے کہ میرے فلاں عزیز کو فلاں تکلیف تھی تم نے مجھے کیوں نہ بتایا( بیوی کے عزیز کو آپ نے کبھی بیوی کا عزیز نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی یہ فرمایا کہ تمہارے فلاں عزیز بلکہ ہمیشہ میرا فلاں عزیز فرما یا کرتے تھے ) اور پھر ان کی ضروریات کو اس طرح پورا کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑا فیاض بھی حضور کی فیاضی اور دریا دلی کے سامنے بیچ ہو کر رہ جاتا ہے.اس قدر محبت و پیار اور فیاضانہ سلوک کرنے کے بعد کیا مجال جو کبھی آپ نے کبھی اشارہ یا کنایہ اپنے اس رویہ کا ذکر بھی کیا ہو.اب میاں بیوی کا معاملہ واحد ہوتا ہے.کبھی تخلئے میں بھی انسان بے تکلفی میں اظہار کر دیتا ہے.نہیں ہرگز نہیں.اس قدر لمبا عرصہ گزارنے پر بھی مجھے کبھی کوئی ایسی مثال ڈھونڈے نہیں ملی.“ مصباح خلافت نمبر دسمبر ، جنوری 65-1964 ، صفحہ 44 تا46) محترم مولانا محمد منور صاحب مبلغ مشرقی افریقہ نے بھی دو شادیاں کر رکھی تھیں اور وہ دونوں کے مفہوم پر پورا اتر رہی تھیں.محترم مولانا مرحوم خود ہی اپنی بیویوں کے حسن سلوک کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں : ” میری غیر حاضری میں بھی میری دونوں بیویوں کا باہم معاملہ غیر معمولی طور پر قابل تعریف رہا.کبھی جھگڑے کی نوبت نہ آئی.اس کی وجہ یہ تھی کہ صرف میں ہی واقف زندگی نہ تھا

Page 75

73 میاں بیوی کے حقوق و فرائض میری دونوں بیویاں بھی عملاً اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے وقف کر چکی تھیں.ان کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش رہی کہ وہ مجھے خدمت دین کے لئے زیادہ سے زیادہ فرصت مہیا کریں.ہماری یہ حالت دیکھ کر بعض دفعہ نا واقف عورتیں والدہ مبارک احمد سے دریافت کرتیں کہ کیا یہ آپ کی بیٹی ہیں.تو وہ کہتیں.یہ مولوی صاحب کی دوسری بیوی ہیں.یہ سن کر وہ متعجب ہوتیں کہ بظاہر ایسا معلوم نہیں ہوتا.والدہ مبارک احمد نے کبھی سوت یا سوکن کا لفظ استعمال نہیں کیا.نہایت صبر و تحمل بلکہ محبت اور شفقت کا سلوک ایک دوسری سے کرتی رہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس نے نفسی کا احسن بدلہ دے.(نیک بی بی کی یاد میں صفحہ 13) طلاق اور ضلع میں بھی تشریح باحسان کی تعلیم میاں بیوی کو ایک دوسرے کا کہا گیا ہے.اور اگر قرآن میں مذکور تمام علاجوں کے بروئے کار لانے کے باوجود اگر کسی ایک کو اپنے تن سے کو الگ کرنے کے حالات پیش آئیں تو سورۃ البقرہ آیت نمبر 230 کے مطابق احسان کے ساتھ رخصت کرنے کی مرد حضرات کو تلقین ملتی ہے.اس موقعہ پر جب کو اپنے تن سے جدا کیا جارہا ہو تب بھی احسان اور مروت کا اعلیٰ ترین نمونہ دکھلاتے ہوئے اُتارے گئے کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے لاہور کے قیام کے دوران مجھے ایک طلاق کیس نبٹانے کا موقعہ ملا.جس میں لڑکا کسی صورت میں بھی لڑکی کو اپنے ہاں بسانے کو تیار نہ تھا.اور نہ ہی اس کی وجہ بتلاتا تھا.ہر طرف سے دباؤ بھی ڈلوایا گیا مگر وہ اپنی بیوی کو آباد کرنے کو تیار نہ ہوا.چونکہ اس نوجوان کے اندر نیکی اور جماعت کے وقار کی تعلیم موجود تھی اس لئے طلاق نامہ پر دستخط کرتے

Page 76

وقت اُس نے کہا کہ : 74 میاں بیوی کے حقوق و فرائض اب تک یہ میری عزت تھی.میر ا تھا اس لئے میں نے اس کی کسی کمزوری کا اظہار نہیں کیا.اگر میں کرتا تو میری اپنی عزت برباد ہوتی اور میرا اپنا گندا ہوتا اور اب جبکہ میں طلاق دے رہا ہوں تو طلاق کے بعد یہ جماعت کی بچی ہے اور آئندہ کبھی کسی کی عزت بننے والی ہے اور کسی کا بنے والی ہے.اس لئے میں عہد کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اسکی کسی کمزوری کا ،، ذکر کسی سے نہیں کروں گا.“ یہ وہ کا عظیم الشان مفہوم ہے جو اس نوجوان نے سمجھا اور ہر اُس شخص کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو اس مرحلہ سے گزر چکا ہے یا گزر رہا ہو.عورتوں کے فرائض جہاں تک آنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ “ کے تحت مردوں کے لئے عورتوں کے فرائض کا تعلق ہے وہ بھی ایک طویل مضمون ہے.وہ عورت ہی ہے جو مرد کے گھر کی زینت ہے اس کے گھر کا چراغ اور مرد کا ہے اس لئے عورت پر لازم ہے کہ وہ قرآن اور احادیث میں مذکور ایک صالحہ، قانتہ اور مومنہ عورت کی صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے اپنے خاوند کی مکمل طور پر مطیع وفرمانبردار رہے.عقلمند بیوی اپنے میاں کے راز سے جلد واقف ہو جاتی ہے.اس کی باتوں اور اشاروں پر کام کرتی ہے.اس کے ادب و احترام سے باہر نہیں ہوتی اس لئے جلد اپنے میاں کے دل میں گھر کر جاتی ہے.کیونکہ اگر ایک بار از وامانت میں خیانت ہو جائے تو اعتما دٹوٹ جاتا ہے اور زندگی نا خوشگوار ہو جاتی ہے.

Page 77

ارشادات نبوية : 75 میاں بیوی کے حقوق و فرائض آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : بہترین عورت (رفیقہ حیات) وہ ہے جسے اس کا خاوند دیکھے تو اس کا دل خوش ہو اور جب خاوند اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے.اور جس بات کو اُس کا خاوند ناپسند کرے اُس سے بچے (مشكوة) جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی.رمضان کے روزے رکھے.اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہا مانا ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو.(طبرانی) یہ حدیث بھی میرے مضمون کی تائید کر رہی ہے کہ حسن معاشرت کا رمضان سے بہت گہرا تعلق ہے عبادات جس میں رمضان کے روزے بھی شامل ہیں کے بعد خاوندوں کے حقوق کا ذکر ہے.اگر خدا کے بعد کسی کو سجدہ کر ناروا ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے.( ترمذی ابواب الرضاعة ) عورتوں میں سے سب سے اچھی عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کو خوش کرتی ہے جب وہ اس کو دیکھتا ہے.اس کا کہنا مانتی ہے جب وہ کوئی حکم دیتا ہے اور اپنے مال و جان میں اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ کوئی ایسا کام سرزد نہ ہوجس سے خاوند کو کراہت ہو.( بیہقی فی شعب الایمان رواه مشکوۃ)

Page 78

76 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ایک اور مقام پر تین افراد کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ تو ان کی نماز قبول ہوتی ہے اور نہ ان کی کوئی نیکی آسمان کی طرف چڑھتی ہے.ان تین افراد میں سے دوسرے نمبر پر ایسی عورت کا ذکر ہے جس سے اس کا خاوند ناراض ہو.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں.الْمَرْأَةُ السَّاخِطُ عَلَيْهَا زَوْجُهَا.( مشکوۃ باب عشرة النساء) ایک اور حدیث میں آتا ہے آپ نے فرمایا : جب خاوند اپنی بیوی کو بلائے اور عورت خاوند کے پاس جانے سے انکار کر دے اور خاوند کو اپنی نافرمانی سے ناراض کر دے تو ساری رات فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں.(متفق علیہ مشکوۃ باب عشرۃ النساء) ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے دوزخ کو دیکھا کہ وہاں عورتیں کفر کرنے کی وجہ سے مردوں کی نسبت زیادہ ہیں.صحابہ نے کہا کہ کیا اللہ کا کفر کرتی ہیں.آپؐ نے فرمایا نہیں.خاوند کا کفر.اُس کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتی.اگر تو ایک عورت پر ساری عمر احسان کرے اور وہ کوئی معمولی بات تجھ میں اپنی طبیعت کے خلاف دیکھے تو کہ دیتی ہے کہ میں نے تجھ سے پہلے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں پائی.( بخاری جلد اول پارہ نمبر 1 صفحہ 119) ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو عورت مرے اور خاوند اس پر راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی.( مشکوۃ ابواب الرضاعة )

Page 79

77 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے حضرت عثمان بن مظعون کی اہلیہ کو سادہ کپڑوں اور بناؤ سنگھار کے بغیر دیکھا تو حضرت عائشہ کو بہت تعجب ہوا اور پوچھا کہ کیا عثمان کہیں باہر سفر پر گئے ہوئے ہیں.گویا حضرت عائشہ (جن کے بارہ میں کہا گیا کہ نصف علم حضرت عائشہ سے سیکھیں) یہ درس دینا چاہتی تھیں کہ عورت کا اپنے گھر میں خاوند کے لئے بناؤ سنگھار کر کے رہنا بہت ضروری ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی عورت اس وقت تک خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کے حق ادا نہیں کرتی.(ابن ماجہ ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس حدیث کی بہت پر معارف تشریح فرمائی ہے جو نصیحت آموز اور سبق آموز بھی ہے.وہ عورتوں کی خاطر یہاں درج کرنی ضروری ہے.آپ فرماتے ہیں : یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو عورت اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی وہ خدا کا حق بھی ادا نہیں کر سکتی اس میں دو گہری حکمتیں ہیں اول یہ کہ خواہ درجہ کا کتنا ہی فرق ہو، یہ دونوں حقوق در اصل ایک ہی نوعیت کے ہیں مثلاً جس طرح خدا اپنے بندوں سے انتہائی محبت کرنے والا ہے اسی طرح خاوند کو بھی اپنی بیوی کے متعلق غیر معمولی محبت کا مقام حاصل ہوتا ہے اور جس طرح باوجود اس محبت کے خدا اپنے بندوں کا حاکم اور نگران ہے اسی طرح خاوند بھی بیوی کی محبت کے باوجود گھر کا نگران اور قوام ہوتا ہے پھر جس طرح خدا اپنے بندوں کا رازق ہے اور

Page 80

78 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ان کی روزی کے سامان مہیا کرتا ہے اسی طرح خاوند بھی اپنی بیوی کے اخراجات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے اور اسی طرح اور بھی کئی پہلو مشابہت کے ہیں اور یہ مشابہت اتنی نمایاں ہے کہ ہماری زبان میں تو خاوند کو مجازی خدا کا نام دیا گیا ہے اور لفظاً بھی خداوند اور خاوند ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں.دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ اسلام میں بندوں کے حقوق بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر شدہ ہیں اور شریعت نے حقوق العباد کو انتہائی اہمیت دی حتی کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ خدا اپنے حقوق سے تعلق رکھنے والے گناہ معاف کر دیتا ہے مگر بندوں کے حقوق سے تعلق رکھنے والے گناہ اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک کہ خود بندے معاف نہ کریں.انہی دو حکمتوں کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور خدا کی قسم کھا کر بڑے زور دار الفاظ میں فرماتے ہیں کہ کوئی عورت اس وقت تک خدا کے حقوق ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کے حقوق ادا نہ کرے.اور پھر ان الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس عورت پر خدا راضی نہیں جو اپنے خاوند کے حقوق ادا نہیں کرتی.باقی رہا یہ سوال کہ بیوی پر خاوند کا حق کیا ہے سو اس کے متعلق قرآن شریف اور حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ بیوی پر خاوند کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی فرمانبردار ہو.اس کا واجبی ادب ملحوظ رکھے.اس سے محبت کرے.اس کی وفادار رہے.اس کی اولاد کی تربیت کا خیال رکھے.اس کے مال کی حفاظت کرے اور جہاں تک ممکن ہو اس کی خدمت بجالائے اس کے مقابل پر خاوند پر بیوی کا حق یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ محبت اور شفقت اور دلداری سے پیش آئے.اس کے آرام کا خیال رکھے.اس کے جذبات کا احترام کرے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کے ضروری اخراجات کا کفیل ہو.اب ہر شخص خود سوچ سکتا ہے کہ اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق

Page 81

79 ان حقوق کا خیال رکھیں تو مسلمانوں کے گھر جنت بننے میں کیا کسر رہ جاتی ہے؟ میاں بیوی کے حقوق و فرائض (چالیس جواہر پارے صفحہ 82-83) ازواج مطہرات کی آنحضرت سے مثالی محبت : پیارے آقا ومولیٰ سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت قدسیہ سے ازواج مطہرات کی ایسی پیارے رنگ میں تربیت کر دی تھی کہ آپ تمام ازواج مطہرات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف کوئی کام کرنا پسند نہ کرتی تھیں.آپ کے کاموں و معاملات میں بے جا مداخلت نہ کرتیں.آپ کے آرام کا بہت زیادہ خیال رکھتیں.حضور کا ہر کام بڑی خوشی سے کرتیں.آپ کا بستر بچھانے میں فخر محسوس کرتیں.وضو کا پانی خود لاکر دیتیں.خود آٹا پیتیں، گوندھتیں اور روٹی پکایا کرتیں گویا آپ کو گھر داری کی فکروں سے آزاد کر رکھا تھا تا آپ یک سوئی سے عبادت کر سکیں اور دین کے کاموں میں مصروف رہ سکیں.حضرت خدیجہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ربع صدی کی ازدواجی رفاقت سے دُنیا میں پہلی بار ایک مثالی جنت ارضی کا ظہور ہوا.ایک مستشرق مسٹر ایڈورڈ جے جرجی Edward-J-Jurgi) لکھتے ہیں : "When he was about twenty-five years old, his marriage with Khadijah, a rich and noble widow of matronly virtues, brought him domestic contentment and happiness.And he could then easily afford to give him self up to long and assidous reflection upon the

Page 82

80 میاں بیوی کے حقوق و فرائض nature and destiny of man." (Collier Encyclopaedia vol.16 P.690) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس کے قریب ہوئی تو ( حضرت ) خدیجہ سے آپ کی شادی ہوئی جو ایک امیر اور شریف النفس بیوہ خاتون تھیں اور خاندانی امور میں بھی خاص انتظامی سلیقہ رکھتی تھیں.اس شادی کے بعد آنحضرت کو حقیقی سکون اور مسرت میسر آئی اور آپ اس قابل ہو گئے کہ انسانی فطرت اور اس کے مقصد حیات سے متعلق پیچیدہ مسائل میرسلسل غور وفکر کرسکیں.تمام ازواج مطہرات کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مثالی محبت تھی.ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو حضرت صفیہ انتہائی حسرت کے ساتھ بولیں " کاش آپ کے بجائے میں بیمار ہوتی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں نے اس اظہار محبت پر جب تعجب کیا تو آپ نے فرمایا : دکھاوا نہیں ہے بلکہ سچ کہہ رہی ہیں.“ اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی شہنشائے دو جہاں تاج المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا نمونہ ہماری خواتین کے لئے مشعل راہ ہے.کس قدر سادہ ہے.تکلف و تصنع نام کی کوئی چیز نہیں.نہایت صبر و شکر کے ساتھ آپ تمام ازواج مطہرات نے محض اور محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں زندگی گزاری.اور آج ہماری خواتین ہیں جو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عار مجھتی ہیں.خاوند پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالتی ہیں.خاوند کے نہ چاہتے ہوئے بھی رات کو باہر نکل کر بازار میں ہوٹلوں میں کھانا کھانے کی عادت بعض عورتوں نے اپنالی ہے.جو بالآخر طلاق پر منتج ہوتی ہے.

Page 83

81 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہے مسلمہ عورت شریک زندگی شوہر کی وہ محافظ بھی ہے گھر کی ، راعیہ بھی گھر کی ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کو لحسن معاشرت کی تعلیم دی.حضرت علی فرماتے ہیں : " جس طرح فاطمہ بہترین مخلوق خدا ہے اسی طرح بہترین گھر والی ہے.اگر چہ میرے گھر میں دیباج اور حریر یعنی ریشم تو نہیں لیکن فاطمہ کی چکی پر گرد و غبار نہیں اور ہمارے بچھونے پر خاک دھول نہیں ہوتی اگر چہ اس کی ردا یعنی چادر میں پیوند ہوتے ہیں مگر میلی نہیں ہوتی ان تمام امور سے حضرت فاطمہ کے سگھڑ ہونے کا پتہ چلتا ہے.“ (حضرت فاطمتہ الزہرا، از صادقه فضل، شائع کردہ لجنہ اماءاللہ لاہور ) حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ المعروف اماں جان کا کردار : آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند سید نا حضرت مسیح موعود کی بیگمات آپ کے حسنِ معاشرت اور اہل خانہ سے عمدہ سلوک کا اکثر ذکر کرتیں.حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ کی وفات پر حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نعش مبارک کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا : تو نبیوں کا چاند تھا.تیرے ذریعہ میرے گھر میں فرشتے اترتے تھے اور خدا کلام کرتا تھا.سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی صفحہ 406) حضرت اماں جان کا یہ فقرہ حضرت مسیح موعود کے اپنے اہل بیت سے حسن سلوک کی عکاسی کرتا ہے.

Page 84

82 میاں بیوی کے حقوق و فرائض حضرت اماں جان بھی حضور کی پسند ناپسند کا خیال رکھتیں.کھانا بھی اکثر خود پکاتیں یا پھر سامنے بیٹھ کر اپنی نگرانی میں تیار کرواتیں.آپ کے دوسرے کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹاتیں جیسے کوئی دوست اپنے دوست کا کام کر رہا ہے.غرض یہ جوڑا بے مثال تھا اور آپس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان نے حضرت اقدس سے مخاطب ہوکر کہا کہ : میں ہمیشہ دُعا کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے آپ سے پہلے اُٹھا لے “ یہ سن کر حضرت مسیح موعود فوراً بولے کہ : اور میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں.“ (سیرت حضرت اماں جان از صاحبزادی امتہ الشکور شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان صفحہ 3) رخصتی سے پہلے اہم نصائح اور اُن پر عمل : حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو شادی کے وقت ذیل کی نصائح فرمائیں.اپنے شوہر سے پوشیدہ ، یا وہ کام جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہرگز کبھی نہ کرنا.شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے.اگر کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف سرزد ہوجائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا صاف کہہ دینا کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے.کبھی ان کے غصہ کے وقت نہ بولنا.تم پر یاکسی نوکر یا بچہ پر خفا ہوں اور تم کو معلوم ہو کہ

Page 85

83 میاں بیوی کے حقوق و فرائض اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں جب بھی اس وقت نہ بولنا.غصہ تقسم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان کا غلطی پر ہونا ان کو سمجھادینا.غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی.اگر غصے میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو.ان کے عزیزوں کو ، عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا.کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے.تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ کرنا.دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا کرے گا.( سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ مرتبہ پروفیسرسیده نیم سعید صفحه 109) اور واقعۂ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے ان نصائح کا حق ادا کر دیا.آپ کی تربیت کی طرف خود حضرت مسیح موعود کی بھی بہت توجہ تھی.چنانچہ آپ کی سیرت کے بارہ میں آپ کی بیٹی مکرمہ آ پا محمودہ بیگم صاحبہ تحریر کرتی ہیں : کوئی اور بیوی ہوتی تو یقینا مغرور ہو جاتی اور شوہر کے حقوق اور محبت اور عزت میں کوتاہی کرنے لگتیں اپنی بڑائی کا خیال پیدا ہوجاتالیکن امی جان نے باوجود اس کے کہ بہت چھوٹی عمر کی تھیں ( بمشکل بارہ سال کی ہوں گی ) ابا میاں کے اس سلوک سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا یا ہمیشہ ان کا بے حد ادب کیا، بے انتہا محبت اور عزت کی.جن باتوں کو وہ پسند نہ کرتے تھے ان کا ہمیشہ خیال رکھا.ہمیشہ سامنے بھی اور غیر حاضری میں بھی ان پر عمل کیا.ہمیشہ ہمیں بھی یہی کہنا کہ تمہارے ابا میاں کو یہ بات پسند نہیں ہے اس کا خیال رکھو.ان کی بیماری میں پریشان ہوجانا.ان کی زندگی کے لئے بے حد دعائیں کرنا.ان کے ہر حکم اور خواہش پر شرح صدر سے عمل کرنا.چھوٹی عمر میں شادی ہوئی ، کہا کرتی تھیں بہت باتیں میں نے میاں سے سیکھی ہیں.کبھی کسی بات

Page 86

84 میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا نقص نہ نکالتے تھے بلکہ بڑی نرمی سے بہت اچھے طریقے سے بات سمجھاتے تھے.“ سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ مرتبہ پروفیسرسیده نیم سعید صفحه 126) ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام : حضرت مسیح موعود نے متعدد بار عورتوں کو اپنے خاوندوں کی فرمانبرداری اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے.1- خاوند کی فرمانبرداری : د عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر انٹیوں کا اُٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ رکھ دے تو اس عورت کو چاہئے کہ چوں چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے.‘ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 30) -2 عورتوں پر مردوں کی تابعداری لازمی ہے : یہ بھی عورت میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہے اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ بُرا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں.ان کا نماز ، روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری

Page 87

85 میاں بیوی کے حقوق و فرائض پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجانہ لائے اور....اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار ہیں ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں....اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بدزبانی کرتی یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور اس کا رسول اُس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہئے کہ خاوندوں کا مال نہ چرائیں جو عورتیں نامحرم مردوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان اُن کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر لازم ہے کہ بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بدکار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو.“ ( تبلیغ رسالت جلد 1 صفحہ 48، ملفوظات جلد 5 صفحہ 47-48) -3 عبادت کا ٹکڑا : عورتوں کے لئے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا کا شکر بجالانا ہے.خدا کا شکر کرنا اور خدا کی تعریف کرنی یہ بھی عبادت ہے.دوسرا ٹکڑ ا عبادت کا نماز کوادا کرنا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 369) -4- خاوند کی اطاعت ہر بلا سے محفوظ رکھے گی : عورتوں کے لئے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی تو خدا ان کو ہر ایک بلا سے بچاوے گا.اور ان کی اولا دعمر والی ہوگی اور نیک بخت ہوگی.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ النساء جلد دوئم صفحہ 237)

Page 88

86 میاں بیوی کے حقوق و فرائض 5 خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو : سیدنا حضرت مسیح موعودا اپنی معرکة الآراء کتاب کشتی نوح میں زیر عنوان ”عورتوں کو کچھ صیحت فرماتے ہیں : خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاکدامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز زکوۃ وغیرہ میں ستی مت کرو.اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو.بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے.سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قامات میں گئی جاؤ.اسراف نہ کرو اور خاوندوں کے مالوں کو بے جاطور پر خرچ نہ کرو، خیانت نہ کرو، گلہ نہ کرو، ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے.“ وو خاوند کے والدین سے حسن سلوک کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 81) حضرت مسیح موعود عورتوں کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہ مرض عورتوں میں بہت کثرت سے ہوا کرتا ہے کہ وہ ذراسی بات پر بگڑ کر اپنے خاوند کو بہت کچھ بھلا بُرا کہتی ہیں بلکہ اپنی ساس اور سسر کو بھی سخت الفاظ سے یاد کرتی ہیں.حالانکہ وہ اس کے خاوند کے بھی قابل عزت بزرگ ہیں.وہ اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیتی ہیں اور ان سے لڑنا وہ ایسا ہی سمجھتی ہیں جیسا کہ محلہ کی اور عورتوں سے جھگڑا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی خدمت اور رضا جوئی ایک بہت بڑا فرض مقرر کیا ہے یہاں تک کہ حکم ہے کہ اگر والدین کسی لڑکے کو مجبور کریں کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے تو اس لڑکے کو چاہئے کہ وہ طلاق دے

Page 89

87 میاں بیوی کے حقوق و فرائض دے.پس جبکہ ایک عورت کی ساس اور سسر کے کہنے پر اس کو طلاق مل سکتی ہے تو اور کون سی بات رہ گئی ہے.اس لئے ہر ایک عورت کو چاہئے کہ ہر وقت اپنے خاوند اور اس کے والدین کی خدمت میں لگی رہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 179-180) سیدنا مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک حالیہ خطبہ میں اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں : بعض صورتوں میں جب لڑکی کو بحیثیت بہو اختیارات ملتے ہیں تو وہ ساس پر زیادتیاں کرتی ہے.یوں یہ شیطانی چکر جاری رہتا ہے.حالانکہ نکاح کے وقت تقولی اور قول سدید کی نصیحت کی جاتی ہے.احمدی گھرانے ایسا نمونہ پیش کریں کہ غیر بھی کھنچے چلے آئیں.ہر کام سے پہلے سوچیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا.اللہ ہر زیادتی سے باخبر رہتا ہے.خدا کرے کہ ہر احمدی گھرانہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والا اور حسین معاشرہ قائم کرنے والا بن جائے.“ عزیزہ کے نام خط : ( خطبہ جمعہ 30 مئی 2003ء از روز نامہ الفضل 3 جون 2003ء) حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب اپنے ایک عزیز کے نام خط میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق لکھتے ہیں : و لیکن ساتھ ہی خاوند کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے تعلقات میں تربیتی رنگ ہو مگر تربیت کے پہلو میں بھی شفقت اور ہمدردی کا رنگ ہونا لازم ہے.بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ اس کے والدین اور عزیزوں کے ساتھ بھی حسن سلوک ہو.“ ایک عزیزہ کے نام خط صفحہ 134-135)

Page 90

88 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ارشادات سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ : حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : عورت کو مرد سے رقابت ہوتی ہے اور وہ اس کے مخالف چلنے کی طبعا خواہش مند ہوتی ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں کی طبیعت میں ایک قسم کی کبھی ہوتی ہے.یہ مطلب نہیں کہ عورتوں میں بے ایمانی ہوتی ہے بلکہ یہ ہے کہ عورت کو خاوند کی بات سے کسی قدر رقابت ہوتی ہے....اور خاوند کی بات پر ضرور اعتراض کرے گی اور جب وہ کوئی بات مانے گی بھی تو تھوڑی سی بحث کر کے اور یہ اس کی ایک انا کی حالت ہوتی ہے اور اس میں وہ اپنی حکومت کا راز مسطور پاتی ہے.“ سیر روحانی جلد اوّل صفحہ 51-52) ارشادات حضرت خلیفتہ المسیح الثالث وو بیوی اپنے اخراجات کو خاوند کی آمدنی تک محدود رکھے : شادی بیاہ سے متعلق مشکلات کا حل بیان کرتے ہوئے حضور فر ماتے ہیں :- " الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ کی رو سے گھر کے تمام تر اخراجات کو پورا کرنے کا مرد ذمہ دار ہے.عام حالات میں ضروری نہیں کہ عورتیں باہر جا کر کام کریں اور گھر کے اخراجات کے لئے روپیہ کمائیں.آمد پیدا کر نامرد کی ذمہ داری ہے لیکن عورتوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ مرد کی آمدن کے مطابق گھر کے اخراجات کو کنٹرول کریں.خرابی اس وقت ہی پیدا ہوتی ہے جب

Page 91

89 میاں بیوی کے حقوق و فرائض عورتیں اپنے خاوندوں کی آمدنی سے بڑھ کر اخراجات کرتی ہیں.اسلام نے عورتوں کی یہ ذمہ داری قرار نہیں دی کہ وہ اپنی کمائی ہوئی یا ورثہ وغیرہ میں ملی ہوئی دولت سے اپنے خاوندوں کے اخراجات پورا کریں.یہ ذمہ داری مردوں کی ہے کہ وہ اپنے اور بیوی بچوں کے اخراجات اپنی آمدن سے پورا کریں.البتہ عورتوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی اور گھر کی ضرورتوں کو 66 خاوندوں کی آمدن کے اندر محمد و درکھیں.“ دورہ مغرب 1400ھ بمطابق 1980 ، صفحہ 506) ارشادات حضرت خلیفة المسیح الرابع 1 - بعض عورتیں خاوند پر بوجھ ہوتی ہیں : اس کے برعکس بعض عورتیں ہیں جن کی زبانیں دراز ہوتی ہیں.جو گندی تربیت لے کر آئی ہوتی ہیں.اولاد کو نیکیوں سے محروم کرنے والی ، اُن کی بُری باتوں کی پردہ پوشی کرنے والی نیکیوں سے باز رکھنے والی ہیں.نہ خود نماز پڑھتی ہیں نہ نماز کی تعلیم دیتی ہیں.نہ پا کی ناپاکی کا خیال رکھتی ہیں.خاوند کی کوئی مدد نہیں کرتیں بلکہ اس کو نیکیوں سے محروم کر کے اُس پر بوجھ بن جاتی ہیں اور خاوند ان کو گھسیٹتے پھرتے ہیں.بعض ان کو گلے سے اُتار بھی دیتے ہیں.بعض نہیں اُتارتے اور اُن کی اولادیں تباہ ہو جاتی ہیں.پس معاشرہ کے یہ سارے دُکھ ہیں جن سے 66 ہم نے آزاد ہونا ہے.“ خطبہ جمعہ مورخہ 12 نومبر 1982 بعنوان پاک معاشرہ کا قیام اور جماعت احمدیہ کا فرض)

Page 92

90 2- بعض خاوند بھی یتیمی جیسی زندگی گزار رہے ہیں میاں بیوی کے حقوق و فرائض : د بعض مرد کہتے ہیں کہ ہمارا بھی تو ذکر کرو.ہم پر بھی تو ظلم ہوتا ہے اور ایسے بیچارے لوگ ہیں جو واقعہ گھر سے باہر زندگی زیادہ سے زیادہ کاٹتے ہیں کیونکہ گھر جانا ان کے لئے مصیبت بن جاتا ہے.اسی ضمن میں ایک لطیفہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایک شخص اپنے دوست کو بتارہا تھا کہ میرا کتنا کام ہے اس نے کہا دیکھو اتنے گھنٹے میں دفتر میں صرف کرتا ہوں ، اتنے گھنٹے فلاں دوکان پر ملازمت کرتا ہوں، اتنے گھنٹے فلاں کام کرتا ہوں، اتنے گھنٹے فلاں جگہ کام کرتا ہوں تو گھر کے لئے دو چار گھنٹے صرف بچتے تھے تو اس نے بڑے تعجب سے کہا کہ تمہیں آرام کا کوئی وقت نہیں ملتا.اس نے کہا یہی تو آرام کا وقت ہے جو گھر سے باہر میں خرچ کرتا ہوں وقت.یہی تو میرے آرام کا وقت ہے گھر تو ایک عذاب ہے.تو ایسے لوگ بھی ہیں بیچارے جن کی بیویاں ظالم ہوتی ہیں اور ان کے لئے گھر جانا ایک مصیبت بن جاتا ہے....ہمارے اپنے تجربے میں بھی ایسے بہت سے احباب ہیں جن کا یہی حال ہے بیچاروں کا.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس میں عورت خوش کبھی نہیں رہتی اس لئے یہ نصیحت میں خاوندوں کو کرنے کی بجائے عورتوں کو کر رہا ہوں.خاوند بے چارے تو بے اختیار ہیں.اب ان کے ہاتھ سے معاملہ آگے نکل گیا ہے، کچھ بھی نہیں کر سکتے سوائے یتیمی کے رونے کے ان کے پلے کچھ نہیں رہا باقی ، لیکن عورتوں کو خود اپنا محاسبہ کرنا چاہئے.میں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے ایسی عورتیں کبھی بھی خوش نہیں رہتیں.نہ ان کی اولادیں خوش رہ سکتی ہیں نہ ان کی اولادوں کی تربیت ہو سکتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو قوام بنایا ہے جس کسی عورت کا مرد قوام نہ ہو وہ اس طرح اندرونی

Page 93

91 میاں بیوی کے حقوق و فرائض غصے نکالتی ہے لیکن اس کی کچھ پیش نہیں جاتی.تو عورتوں کو چاہئے کہ ہوش کریں اور ایسے لوگوں کی عزت کریں ، ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں، اپنے گھر کو ان کے لئے جنت بنا ئیں.اگر وہ اپنے گھر کو خاوندوں کے لئے جنت بنائیں گی تو ان کے پاؤں تلے ان کے بچے بھی جنت حاصل کریں گے.اگر خاوندوں کے لئے وہ اپنے گھروں کو جنت نہیں بنائیں گی تو ان کے پاؤں تلے سے بچوں کے لئے جہنم تو پیدا ہو سکتی ہے ، ان کو جنت نصیب نہیں ہو سکے گی.کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان ماؤں کے بیچے گستاخ ہو جاتے ہیں جن کی مائیں خاوند سے گستاخ ہوں.ان کے بچے صرف باپ سے ہی گستاخ نہیں ہوتے بلکہ ماں سے بھی گستاخ ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے یہ سوچ کر غور کرنے کے بعد میں نے یہی سوچا ہے کہ ایسے خاوندوں بیچاروں کو تو میں نصیحت نہیں کر سکتا ، ان کا یتیم تو اب موت ہی دور کر سکتی ہے.عورتوں کو نصیحت کرنی چاہئے اور ان کی بھلائی میں ہے یہ بات.“ (خطبہ جمعہ 5 فروری 1999ء از الفضل انٹرنیشنل مورخہ 26 مارچ تا یکم اپریل 1999 ، صفحہ 6) ایک تکلیف دہ خط : سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”ہماری زندگی عجیب اجیرن بن گئی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ہم کیا کریں بڑی چاہت سے ایک لڑکی گھر لائے تھے اس خیال سے کہ بزرگوں کی اولاد ہے اور حضرت مسیح موعود کے صحابہ کی اولاد ہے اور ایسا خاندان ہے جو جماعت میں معروف ہے لیکن لڑکی ایسی دنیا پرست ہے کہ جب بھی میں دین کی خاطر قربانی کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کوئی چندہ دینے کی کوشش کرتا ہوں تو گھر

Page 94

92 میاں بیوی کے حقوق و فرائض میں ایک جہنم بن جاتی ہے.یوں لگتا ہے کہ گھر میں سکون کو آگ لگا دی گئی ہے.بچوں کے سامنے بولتی ، گند ، بکواس کرتی.ہر وقت یہ طعنے دیتی کہ مولویوں کے پلے میں کہاں سے پڑگئی.نہ 66 عقل نہ سمجھ.(خطبہ جمعہ 9 اگست 1991ء) اسی خطبہ میں اس خط کے ذکر کے بعد حضرت ابراہیم کی اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو زوجہ کی تبدیلی کی نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : اس کے بعد پھر ( حضرت اسماعیل نے ) دوسری شادی کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسی نیک اور پارسا خاتون تھیں کہ اس کے نتیجہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعد ازاں اسی کی صلب سے پیدا ہوئے تو دیکھیں کہ اچھی اور نیک بیوی کو کتنی اہمیت حاصل ہے.“ ( خطبہ جمعہ مورخہ 9 اگست 1991ء بمقام مسجد فضل لندن) ماں کو خاوند کی تکالیف کا ذکر بچوں کے سامنے نہیں کرنا چاہئے : پھر حضور فرماتے ہیں : وو اگر کوئی ماں ارادتا اپنے بچوں کے دل میں باپ کے خلاف نفرت اور بغاوت کے جذبات پیدا کرتی ہے تو وہ قرآن کی تعلیم کے صریحاً خلاف کرتی ہے اس کو اپنی رنجشیں اور تکالیف صرف اپنی ذات تک محدود رکھنی چاہئیں.اور بچوں میں باپ کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے اور غیر جانب دار رہتے ہوئے بچوں کو وہی تعلیم دینی چاہئے جو قرآن کریم سکھاتا ہے.( بحر عرفان، لجنہ اماءاللہ لاہور صفحہ 172) یہ وہ مضمون ہے جو قرآنی آیت حفظت لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظ اللہ میں بیان ہو کر

Page 95

93 میاں بیوی کے حقوق و فرائض عورت کے فرائض بتلائے گئے ہیں.یعنی وہ خاوند کی عدم موجودگی میں اس کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ہیں.جس میں نسب کی حفاظت، عصمت و آبرو کی حفاظت ، اس کے رازوں کی حفاظت ، اس کے اموال کی حفاظت مراد ہے.یہ تمام باتیں گویا بطور امانت بیوی کے پاس ہوتی ہیں.قریش کی عورتوں کی اس لحاظ سے تعریف کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا : قریش کی عورتیں کیا ہی خوب ہیں.بچوں پر نہایت مہربان ہیں اور شوہر کے گھر کی انتہائی حفاظت کرنے والی ہیں.( بخاری ) حضرت خلیفة أصبح الرابعُ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَامًات کی تشریح کرتے ہوئے ایک موقعہ پر فرماتے ہیں : یہ وہ دعا ہے جس کے ذریعہ ہمارے گھروں کے حالات سدھر سکتے ہیں.جو خطوط مجھے ملتے ہیں روزانہ بلا استثناء ان میں کچھ خطوط ایسے ضرور ہوتے ہیں جن میں گھریلو ناچاقیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے عذاب کا ذکر ہوتا ہے.اور ایسے خطوط بعض دفعہ بچوں کی طرف سے ملتے ہیں بچے لکھتے ہیں ہمارے والدین آپس میں ایک دوسرے کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے ہیں گھر جہنم بنا ہوا ہے.ہم بہن بھائی یوں لگتا ہے بے سہارا ہیں اور ہم پر کوئی چھت نہیں ہے بہت ہی تنگ ہیں اس صورت حال میں مشکل یہ ہے کہ ہم کسی کی طرف داری کر نہیں سکتے اگر ہم کسی کو سچا سمجھیں بھی تو ہم کسی ایک کی طرف داری نہیں کر سکتے.پھر بیویوں کے خط آتے ہیں ، خاوندوں کے آتے ہیں.اخلاق کی کمی کے نتیجے میں یہ دنیا ہمارے لئے جہنم بن

Page 96

94 میاں بیوی کے حقوق و فرائض سکتی ہے اگر اخلاق گھروں کو جہنم بنا سکتے ہیں تو یہی اخلاق قوموں کو بھی جہنم میں دھکیل دیتے ہیں.یہی اخلاق بنی نوع انسان کے لئے جہنم پیدا کر دیتے ہیں.پس اخلاق کی بہت بڑی اہمیت ہے اور اعلیٰ خلق کے نتیجہ میں صرف ہمارے گھر ہی جنت کے نشان نہیں بن سکتے بلکہ ہماری گلیاں، بازار اور وطن بھی جنت کے نشان بن سکتے ہیں.لیکن اس کے لئے دعا کی ضرورت ہے.میں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس دعا سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ یہ دعا پھر اولاد پر بھی ممتد ہو جاتی ہے اس کا فیض اولاد پر بھی جاری ہو جاتا ہے.ذريتنا میں صرف موجودہ نسلیں ہی مراد نہیں بلکہ وہ نسلیں بھی مراد ہیں جو قیامت تک ہیں.اس دعا کے نتیجہ میں یقین دلاتا ہوں کہ گھر کا نقشہ بدل سکتا ہے.“ دعاؤں ، ذکر الہی اور اپنے گھروں کو جنت بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پس یہ دونوں خوبیاں ایسی ہیں جن سے ایک دوسرے کو تقویت ملتی ہے.اس لئے آپ ذکر الہی پر بہت زور دیں.نماز، ذکر الہی اور درود شریف سے اپنی زبان اور اپنے دل کو تر رکھیں تو پھر جب کبھی آپ عادتا بخش کلامی کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا نفس آپ کو جھنجوڑے گا اور متوجہ کرے گا کہ بھئی تم کیسے انسان ہو کہ دودھ کے لئے بھی وہی برتن اور پیشاب کے لئے بھی وہی.کھانے کے لئے بھی وہی اور گندگی کے لئے بھی وہی برتن استعمال کرتے ہو.تمہیں شرم نہیں آتی.ذکر الہی سے دل و جان معطر کرتے کرتے اس میں ایسا گند ڈالتے ہو.کیا اس منہ کو جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کا نام چل رہا ہو یہ گند زیب دیتا ہے.“ خطبه جمعه فرموده 5 اگست 1983)

Page 97

95 میاں بیوی کے حقوق و فرائض میاں بیوی کو آپس میں ادب سے پیش آنے کی تلقین ملتی ہے.انہیں چاہئے کہ نرم اور پاک زبان کا استعمال کریں تا ما حول میں کشیدگی پیدا نہ ہو.وو حضرت خلیفہ مسیح الرابع فرماتے ہیں : یہ بھی بظاہر چھوٹی سی بات ہے.ابتدائی چیز ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے ، وہ سارے جھگڑے جو جماعت کے اندر نجی طور پر پیدا ہوتے ہیں ، یا ایک دوسرے کے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں اُن میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا.اُن کی زبان میں درشتگی پائی جاتی ہے.اُن کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے.جس سے بسا اوقات وہ باخبر ہی نہیں ہوتے.جس طرح کانٹے دُکھ دیتے ہیں اور اُن کو پتہ نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اسی طرح ایسے اگر مرد ہوں تو اُن کی عورتیں بے چاری ہمیشہ ظلموں کا نشانہ بنی رہتی ہیں.اور اگر ایسی عورتیں ہوں تو مردوں کی خطبہ جمعہ فرمودہ نومبر 1989ء) زندگی اجیرن ہو جاتی ہے.“ دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا ایک نیک بخت بی بی : متعین محترم مولانا محمد منور صاحب مرحوم نے اپنی نیک بخت بی بی کی یاد میں کچھ واقعات اکٹھے کئے ہیں.لکھتے ہیں کہ والدہ مبارک احمد محبت اور وفا کا مجسمہ تھیں.بیرونِ ملک خدمت پر منہ

Page 98

96 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہونے کی وجہ سے میرے ساتھ کم ہی رہیں.نہایت ہی صبر وشکر کے ساتھ وقت گزارا.ایک دفعہ صرف اتنا لکھا کہ افسوس ہے اپنی بیماری کی وجہ سے پردیس میں میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کر رہی.مجھ سے انتہائی احترام کا سلوک کرتی تھیں.میاں بیوی میں محبت تو ہوتی ہے لیکن ان میں ادب کا مادہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا.52 سالہ ازدواجی زندگی میں کبھی کسی قسم کی درشتی اور ہتک آمیز الفاظ نہیں کہے.اس لحاظ سے وہ مثالی بیوی تھیں.(خلاصہ ایک نیک بی بی کی یاد میں ) والدہ کا مثالی کردار : خاکسار کے امی جان اور ابا جان مرحومین ( محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ اور محترم چوہدری نذیر احمد سیالکوٹی صاحب) کا آپس میں رشتہ ازدواج بھی مثالی تھا.میں نے امی جان کو ابا جان کی بہت خدمت کرتے دیکھا.اور بہت چھوٹے چھوٹے امور میں بھی خاوند کی اطاعت اور خدمت امی جان کا شعار تھا.اور ہر وقت اس میں کوشاں رہتیں کہ میری وجہ سے میرے میاں کو کوئی تکلیف نہ ہو.حتی کہ گھر میں بھر دیں کریلے (جو ابا جان مرحوم کو بہت پسند تھے ) پکتے تو ابا جان کو کھانے میں پیش کرتے وقت اُوپر سے دھاگہ اُتار دیتیں.بسا اوقات میں مذاق سے امی مرحومہ کو کہتا کہ امی جان! ہمیں دیئے گئے کریلوں کا بھی تو دھاگہ اُتار دیا کریں...اس وقت آپ اُتار تو دیتیں لیکن ساتھ ہی فرماتیں کہ دیکھو! وہ آپ کے ابو ہیں اور میرے میاں ( سرتاج کہا کرتی تھیں ) اُن کی سہولیات کا خیال رکھنا میرے فرائض میں شامل ہے.کبھی اپنے میاں کا راز فاش نہ کرتیں.اُن کی عزت و توقیر کے مقابل پر ایک مضبوط دیوار بن جاتیں اور کبھی کوئی بات اُن کے خلاف سننا گوارا نہ کرتیں.(ضمیمہ میرے محسن والدین از حنیف احمد محمود صفحه (5)

Page 99

عورت کا رویہ : 97 میاں بیوی کے حقوق و فرائض عورت پر خاوند کی اطاعت لازم ہے جو اولوالامر منکم کے زمرہ میں آتا ہے.عورت جب بیاہ کے اپنے گھر جا رہی ہوتی ہے تو دراصل ایک پودا کو، ایک بیل کو اُکھاڑ کر دوسری جگہ پر منتقل کیا جارہا ہوتا ہے.جس کی دیکھ بھال اور آبیاری کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے.اُسے نئی زمین کی خاصیت اختیار کرنے اور اُس میں رچ بس جانے کے لئے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے جو اُس کے والدین اور سسرال دونوں کی طرف سے باہم میسر آنا ضروری ہے.تا وہ اپنی جڑیں مضبوط کرے.اُدھر تو بیا ہتی دلہن کو بھی چاہئے کہ خود کو سر ال سا بنالے.نہ کہ سسرال کو اپنے جیسا بنانے کی کوشش میں اپنے آپ کو بھی اور اپنی آئندہ اولاد کو بھی نقصان پہنچائے مگر بسا اوقات عورت حاکم اہلی بنے کی کوشش میں خاوند کے سر پر بھوت کی طرح سوار رہتی ہے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دد بعض عورتیں اس رنگ میں اپنے مردوں سے تعلقات قائم کرتی ہیں کہ گویا وہ بہتر معاشرہ سے آئی ہیں وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں وہ زیادہ باتوں کو بجھتی ہیں.مرد میں نقائص ہیں اس کے باوجود انہوں نے قبول کر لیا.مرد کا خاندان نسبتا ہلکا ہے اس کے باوجود وہ شہزادی ان کے گھر آگئی وہ یہ باتیں منہ سے کہیں نہ کہیں ان کی طرز عمل بتارہی ہوتی ہے کہ میں اونچی ہوں تم نیچے ہو اور وہ نیچے پھر ہمیشہ کے لئے واقعہ نیچے ہو جاتے ہیں.“ (خطاب فرموده سیدنا خلیفہ مسیح الرابع بر موقعہ صد سالہ جلسہ سالانہ بمقام قادیان 1991ء)

Page 100

عورتوں کا نُشُور : 98 میاں بیوی کے حقوق و فرائض اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 35 میں عورتوں کے نشوز کا جہاں ذکر کیا ہے اس سے مراد عورت کا اپنے خاوند سے بغض اور اپنے کو اُس کی اطاعت سے بالا سمجھنا ہے.اور ابن کثیر میں ناشزہ اس عورت کو کہا گیا ہے ”جو اپنے شوہر پر بلندی چاہے.اس کا حکم نہ مانے.اُس سے بے رخی کرے اور اس سے بغض رکھے.“ حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے اپنے ترجمہ قرآن کریم میں اس کے معنی عورتوں کے باغیانہ رویے اور روش کے کئے ہیں اور ایسی عورتیں جو ” کے قرآنی مفہوم پر عمل نہیں کر رہی ہوتیں ان سے برتاؤ کے بارہ میں foot note میں تحریر فرمایا ہے : وو " الرِّجَالُ قَوَمُونَ کا ایک ظاہری معنی تو یہ ہے کہ مرد عموماً عورتوں سے زیادہ مضبوط اور ان کو سیدھی راہ پر قائم رکھنے والے ہوتے ہیں.اگر مرد قومون نہیں ہوں گے تو عورتوں کے بہکنے کے زیادہ امکان ہے.دوسرا یہ کہ وہ مرد قوم ہیں جو اپنی بیویوں کے خرچ برداشت کرتے ہیں.وہ نکھٹو جو بیویوں کی آمد پر پلتے ہیں وہ ہر گز قوم نہیں ہوتے.آیت کے آخری حصہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر تم قوم ہو اور اس کے باوجود تمہاری بیوی بہت زیادہ باغیانہ روح رکھتی ہے تو اس صورت میں یہ اجازت نہیں کہ اس کو فوری طور پر بدنی سزا دو بلکہ پہلے اسے نصیحت کرو.اگر نصیحت سے نہ مانے تو ازدواجی تعلقات سے کچھ عرصہ تک احتراز کرو.در اصل یہ سز اعورت سے زیادہ مرد کو ہے ) اگر اس کے باوجود اس کی باغیانہ روش دُور نہ ہو تو پھر تمہیں اس پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے مگر اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

Page 101

99 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہے کہ ایسی ضرب نہ لگے جو چہرہ پر ہو اور جس سے اس پر کوئی داغ لگ جائے.اس آیت کریمہ کے حوالہ سے بہت سے لوگ اپنی بیویوں پر نا جائز تشدد کرتے ہیں کہ مرد کو بیوی کو مارنے کی اجازت ہے حالانکہ اگر مذکورہ بالا شرائط پوری کریں تو بھاری امکان ہے کہ کسی تشدد یا سختی کی ضرورت ہی نہ پڑے.اگر تشدد جائز ہوتا تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بیویوں پر بدنی تشدد کی کوئی ایک ہی مثال نظر آجاتی.حالانکہ بعض بیویاں بعض دفعہ آپ کی ناراضگی کا موجب بھی بن جاتی تھیں.“ (سورۃ النساء آیت foot note35 ترجمہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع صفحه 14 کچھ خطوط اور تحریرات (135-134 حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اپنی ایک تحریر میں عورت کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں : 1 پس آے عورت ! اے گزشتہ نسل کی بیٹی ! موجودہ نسل کی بہن اور بیوی اور آئندہ نسل کی ماں، تیری اور محض تیری خیر خواہی اور فائدہ کے لئے تیرے پیدا کرنے والے اور تیری حقیقی فطرت کے جاننے والے نے تیرے لئے بعض مفید اور اعلی قواعد تجویز فرمائے ہیں تو ان پر عمل کر اور آخرت میں سرخرو ہو.پہلی بات یہ ہے کہ تو اپنے خداوند خدا کا درجہ اور عظمت دُنیا کی ہر چیز اور ہر عزیز سے بلند اور اعلیٰ سمجھ اور اس کے ان احکام کو جو اس نے تجھ پر فرض کئے ہیں، ہر شخص کے حکم اور منشاء پر مقدم رکھ.خدا تعالیٰ کے بعد تجھ پر تیرے خاوند کا حق ہے.تو اس کی حتی الوسع فرمانبرداری کر.

Page 102

(100) میاں بیوی کے حقوق و فرائض خاوند کی اطاعت کے بعد سب سے بڑا فرض تیرا یہ ہے کہ تو اپنی اولاد کی نیک تربیت کرے تاکہ تیری نیکی دائمی اور تیرے عمل باقیات الصالحات میں شمار ہوں.اگر صرف ان تین باتوں پر ہی تیرا عمل ہو تو یقین کر لے کہ تو جنت کی حور ، خُدا کی پاک باز اور پیاری بندی اور دُنیا کی رونق اور برکت ہے.(شمع حرم صفحہ 30-31) مکرم مولوی عبد اللطیف صاحب لکھتے ہیں : اچھی بیوی سردی ، گرمی ، بہار و برسات کے لئے الگ الگ پروگرام بناتی ہے.اسی طرح خاوند اگر غریب ہو، متوسط حال ہو یا امیر ، اس کی آمد کے لحاظ سے خرچ کرتی ہے اور سگھڑ بیوی کا سب سے بڑا کارنامہ، سب سے بڑی دانائی اور عقلمندی یہی ہے کہ وہ خاوند کی آمدنی کے مطابق خرچ کرے.اگر ایک عورت اس معاملہ میں کامیاب ہو جائے تو یوں سمجھو دنیا میں ہی بہشت حاصل ہو گیا.“ (شمع حرم صفحه 192 ) 3- میرے والد مکرم چوہدری نذیر احمد سیالکوٹی مرحوم نے اپنی ہمشیرہ کو رخصتی کے وقت درج ذیل تحریری نصیحت فرمائی : عزیزہ ! تم بالکل اجنبی اور نئے ماحول میں جا رہی ہو.جس سے تم قطعی طور پر واقف نہیں ہو.مگر تمہیں بہر صورت اس کو اپنانا ہے.اور وہاں اپنے دل کو لگانے کی کوشش کرنا ہے.کیونکہ وہی وہ اصلی اور مستقل گھر ہے، جس میں کہ تم نے اپنی آئندہ زندگی کو بسر کرنا ہے.اور اس گھر کو نہیں چھوڑ ناختی کہ تمہاری موت تمہیں مجبور کر دے.اگر چہ ہم تمہیں وہاں نہ ملیں گے، مگر ہماری جگہ وہاں کئی اور نئے رشتہ دار ہونگے.مثلاً خسر ، ساس ، جیٹھ ، دیور، نندیں ، خاوند وغیرہ وغیرہ.تمہارا یہ فرض ہوگا کہ ہر ایک کی اس کے درجہ اور رتبہ کے مطابق عزت و توقیر کرو.اور

Page 103

(101) میاں بیوی کے حقوق و فرائض چھوٹوں سے پیار و محبت سے کام لو.اور خسر و ساس کو والدین کے برابر تصور کرتے ہوئے ان کی پوری عزت کرو.اور ان کی حتی الوسع خدمت کرتے ہوئے ان کو آرام پہنچاؤ اور دعائیں لو.خاوند کی پورے طور پر عزت واطاعت کرو.اور اس کے بڑے اور چھوٹے بہن بھائیوں کو اپنے بھائی بہن تصور کرتے ہوئے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے پیار کے اصول پر عمل کرو تمہیں اگر کوئی بات کہہ بھی لے تو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرو.اور ہرگز تر کی بہ ترکی جواب دینے کی کوشش نہ کرو.اگر تمہیں کسی وجہ سے دلی تکلیف پہنچے تو اسے ہم تک یا دوسرے غیر لوگوں تک پہنچانے کی کوشش مت کرو.اور گھر کی سب باتوں کو صرف اور صرف اپنے تک ہی محمد و در کھو.میرے نزدیک وہ عورت نہایت بڑی ہے جو کہ اپنے گھر کی خفیہ باتیں دوسروں تک پہنچاتی ہے.( میرے محسن والدین از حنیف محمود صفحه 63-64) -4- عورت کا فرض ہے مرد کو خوش رکھنا.افسوس کہ دنیا میں کس قدر کم عورتیں اس فرض کو ادا کرتی ہیں.مردوں کا درجہ خدا نے عورتوں سے زیادہ کیا.نہ صرف حکم دینے سے بلکہ مردوں کے جسم میں زیادہ قوت اور ان کی عقلوں میں روشنی دی ہے.دنیا کا بندوبست مردوں کی ذات سے ہوتا ہے.مرد کمانے والے اور عورتیں ان کی کمائی کو مناسب موقع پر خرچ کرنے والیاں اور اس کی نگہبان ہیں.“ (مراۃ العروس صفحہ 58) 5- فقہ احمدیہ میں لکھا ہے : وو اس کے مقابل پر بیوی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خاوند کے ازدواجی حقوق ادا کرے.اس پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خاوند کی وفادار اور معروف طریق پر اس کی اطاعت گزار ہو.“ ( فقه احمد یه مشتمل بر احکام شخصیه صفحه 53)

Page 104

(102) میاں بیوی کے حقوق و فرائض 6- خاوند کے حقوق اور اُس کی اطاعت اور اُس سے وفا کے سلسلہ میں تمام تعلیم کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے : بیوی کو اپنے خاوند کے مندرجہ ذیل حقوق کی ادائیگی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے : خاوند کے آرام و احترام اور جذبات کا خیال رکھے.-1 -2 -3 -4 -5 -6 خاوند کی عزت کی حفاظت کرے.خاوند کے مال کی حفاظت کرے.خاوند کی اولاد کی تربیت اور نگہداشت کرے.خاوند کے رشتہ داروں سے ایسا سلوک کرے کہ گویا اپنے رشتہ دار ہیں.خاوند کے سوا کسی پر اپنی زینت ظاہر نہ کرے.7- خاوند کے کھانے پینے اور وغیرہ کا خیال رکھے.-8 -9 خاوند کی صحت کا خیال رکھے.خاوند اگر کسی گھر یلو یا باہر کے معاملہ میں مشورہ کرے تو خالص نیک نیتی سے مشورہ دے.10- خاوند سے ایسے تقاضے نہ کرے جو اس کی طاقت اور استطاعت سے زیادہ ہوں.11 - ہر دکھ سکھ کی گھڑی میں خاوند کا ساتھ دے اور دلجمعی کا باعث ہو.12- ہر کام میں خاوند کے وقار کو ملحوظ رکھے.-13 صلح و آشتی کا رویہ ہر حالت میں قائم رکھے.اسلامی معاشرہ میں میاں بیوی کے حقوق و فرائض صفحہ (30)

Page 105

(103) میاں بیوی کے حقوق و فرائض پس یہ دن نیک ارادوں کے عزم باندھنے کے دن ہیں.اپنی نیکیوں اور بدیوں کو اُلٹ پلٹ کر جائزہ لینے کے دن ہیں.آئیں عہد کریں کہ اگر ہمارے اندر یہ کمزوری ہے تو اسے اولاد کی خاطر ، اولاد پر احسان کرتے ہوئے الوداع کہیں اور رمضان سے رخصت ہوتے وقت اپنے اپنے گھروں کو جنت نظیر بنا دیں.مرد حضرات خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِه کے مبارک پیغام کو ہمیشہ یاد رکھیں اور بہنیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے خاوندوں کی مجسم اطاعت بن جائیں کہ اگر میں کسی کو اللہ کے سوا سجدہ کرنے کا حکم دے سکتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.“ ( ترمذی کتاب النکاح) میں اپنے اس مضمون کو ایک سبق آموز واقعہ پر ختم کرتا ہوں.1983ء میں جب مجھے بیرون ملک خدمت دین کے لئے بھجوایا گیا ، سیرالیون کے BO مقام پر میری تعیناتی ہوئی.آغاز ہی میں میاں بیوی کے ایک جھگڑے کا مجھے سامنا کرنا پڑا.ہر دو میں معاملہ بہت سنگین اور صورت حال بہت گمبھیر تھی.خاکسار نے دعا کرتے ہوئے ان دونوں کو سمجھانا شروع کیا اور ہر دو کے سامنے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات رکھتے ہوئے میاں سے کہا کہ تمہارے لئے تو تمہارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام کافی ہے کہ : خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ اور عورت سے کہا کہ تمہارے لئے یہ ہدایت ہے کہ اگر خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے.اسلام سے وفار کھنے والی اس بندی نے جو کسی صورت میں بھی اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کو

Page 106

(104) میاں بیوی کے حقوق و فرائض تیار نہ تھی اور گالی گلوچ تک معاملہ پہنچا ہوا تھا ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار اور عقیدت سے لبریز وہ خاتون فوراً اُٹھی اور جا کر خاوند کو ظاہر اسجدہ کر کے معافی کی خواستگار ہوئی.تمام افریقن قوم اپنے محسن اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت سے سرشار ہر وقت تعلیمات اسلامی کو حرز جان بنائے ہوئے ہیں.ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی قرآن اور احادیث میں مذکور تمام ہدایات، تعلیمات اور پیغامات کو حرز جان بنا ئیں اور جماعت احمد یہ کے روشن و تابناک مستقبل کی خاطر اپنے بچوں کی صحیح تربیت کے لئے اپنے ماحول کو اسلامی بنائیں اپنے تعلقات کو صحیح اسلامی لائنوں پر استوار کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اب مضمون کے آخر پر مرحوم ومغفور آقا حضرت مرزا طاہر احمدصاحب خلیفہ امسح الرائع کا ایک تاریخی اقتباس پیش کیا جاتا ہے، جس میں آپ نے میاں بیوی ہر دو کو اپنی اولا داور معاشرہ کی بہتری اور بھلائی کی خاطر اپنی اپنی سمت کو درست رکھنے کی تلقین فرمائی ہے.آپ نے یہ فکر انگیز نصیحت صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی : پس ماں اور باپ کے اخلاق میں سے جس کا اخلاق بدتر ہو بالعموم وہی اولاد میں رائج ہو جاتا ہے پس دونوں طرف کی کمزوریاں آگے جا کر جمع ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ضرب کھا جاتی ہیں اس لئے گھر کے معاشرے کو جنت بنانا کوئی معمولی بات نہیں ہے.بہت باریک نظر سے ان باتوں کو اور ان تعلقات کو دیکھنا چاہئے.آخری فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ آپ کا گھر آپ کے

Page 107

(105) میاں بیوی کے حقوق و فرائض لئے جنت بنا ہے کہ نہیں.آپ کے خاوند کے لئے جنت بنا ہے کہ نہیں.آپ کے بچے آپ دونوں سے پیار کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں کہ نہیں.اگر مرد میں کمزوریاں ہیں تو عورت حتی المقدور ان سے صرف نظر کرتی ہے کہ نہیں لیکن کوشش ضرور کرتی ہے کہ ان کمزوریوں کو دور کرے.نیک اور پاک مخلصانہ نصیحت کے ذریعہ وہ اپنے خاوند کو سمجھاتی رہتی ہے اگر ایسا ہے تو اچھا ہے.اگر پہلی باتیں ہیں تو پھر وہ عورت اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی اہل نہیں ہے.یہی حال مردوں کا ہے.پس اگر چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کا نام نہیں لیا اور عورتوں کا لیا ہے تو اس میں بڑی گہری حکمت ہے مگر گھر کی جنت بگاڑنے میں یقیناً مرد بھی ایک بڑا بھاری کردار ادا کرتے ہیں اور عورت کا کام ہے کہ اپنی اولاد کی ان سے حفاظت کرے.حفاظت کیسے کی جائے؟ یہ ایک بار یک نکتہ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.جب مرد کے مظالم یا مرد کی زیادتیاں کسی عورت کا دل ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہوں تو مرد کے جانے کے بعد اس کا رد عمل یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ اپنی اولاد کی اس ظالم مرد کی عادتوں سے حفاظت کر رہی ہے کہ نہیں.اگر وہ اس اولا دکو اپنا ہمدرد بنانے کی خاطر بڑھا چڑھا کر ان باتوں کو بیان کرے اور ظلموں کے قصے بتا کر ٹسوے بہائے اور انہیں اپنائے اور انہیں کہے کہ یہ تمہارا ظالم باپ ہے تو اپنے ہاتھوں سے اس نے ان کو برباد کر دیا اور ان کی حفاظت کرنے کی بجائے مرد کے ظلموں کو ان تک پہنچنے کی اجازت دی.اگر وہ قربانی کرے اور مرد کے ظلم اور اولاد کے درمیان حائل ہو جائے ، اپنے پروں پر اپنے سینے پر مرد کے ظلم لے لیکن اولا د تک ان کا نقص نہ پہنچنے دے تو اس کی مثال ایک ایسی مرغی کی طرح ہوگی جو کمز ور جانور ہے لیکن جب چیل اس کے بچوں پر جھپٹتی ہے تو اپنے پیروں تلے ان کو لے لیتی ہے.آپ کتنا ہی دُکھ اٹھائے ، آپ چاہے

Page 108

(106) میاں بیوی کے حقوق و فرائض اس راہ میں ماری جائے لیکن اپنے بچوں تک اس ظالم چیل کا نقصان نہیں پہنچنے دیتی سوائے اس کے مرنے کے بعد وہ اس سے جو چاہے کرے.یہ وہ سچی ماں ہے جو ایک جانور کے اندر ہمیں دکھائی دیتی ہے.اے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دم بھرنے والی خواتین ! کیا تم جانوروں میں سے ایک سچی ماں کے برابر بھی نہیں ہوسکتی.کیا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے یہی تقاضے ہیں کہ ماں کی حیثیت سے حیوانی دنیا میں جو عظیم نمونے ہمیں ملتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈیاں اور آپ کی غلام عورتیں ان نمونوں کو بھی اپنا نہ سکیں.آخری فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ آپ اپنی اولاد اور بداثرات کے درمیان حائل ہو کر ہر قیمت پر اپنی اولاد کو ان بداثرات سے روک سکتی ہیں کہ نہیں روک سکتیں.خطاب 27 دسمبر 1991ء بمقام قادیان) ایک موقعہ پر رَبَّنَا هَبْ لَنَا کی عظیم مؤثر کن دُعا ( جو گھر کو جنت نظیر بنانے کے لئے ایک نسخہ ہے ) کو حرز جان بنانے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : پس رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا كَ دُعا کو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے مستقل مانگنے کی عادت ڈال لیں اور جب یہ دُعا کیا کریں تو اپنے تعلقات پر نگاہ کیا کریں کہ ان کی کیا نوعیت ہے.آپ واقعہ اُن کو بدلنے کے لئے تیار ہیں بھی کرہ نہیں.اگر ہیں تو کیا کوشش کر رہے ہیں اور اگر نہیں تو پھر یہ دُعا کیوں مانگ رہے ہیں.پھر اس دعا کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی.پس اس گہری اور تفصیلی نظر سے جب آپ صداقت کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس دُعا کے ذریعے اپنے معاشرتی تعلقات اور اہلی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے تو بلا شبہ مجھے کامل یقین ہے کہ اس دُعا کی برکتیں آپ پر آسمان سے بھی

Page 109

(107) میاں بیوی کے حقوق و فرائض نازل ہوں گی اور زمین سے بھی اگلیں گی اور آپ کے گھر دیکھتے دیکھتے جنت نشان بن (خطبہ جمعہ مورخہ 6 جولائی 1990 ء گھر کی جنت) جائیں گے.“ اصلی انسانی زیور - تقوی : اس تمام مضمون کا خلاصہ ” تقوی“ کے لفظ میں بیان ہوسکتا ہے جو اصلی انسانی زیور ہے.اگر فریقین تقوی سے کام لیں تو میاں اور بیوی آپس میں وفا کی پینگیں بڑھاتے ہوئے اللہ کی رضا کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں.حضرت خلیفتہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب کو اپنے ایک حالیہ خطبہ میں یوں توجہ دلائی ہے : پوری دُنیا کی اصلاح کی ذمہ داری اور تمام لوگوں کو دین واحد پر اکٹھے کرنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.اس کے لئے نیک نمونہ سب سے بڑی دعوت الی اللہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے معزز ترین وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.گویا عظمت کا حقیقی باعث تقویٰ ہے.متقی کی یہ شان نہیں کہ وہ ذاتوں کے جھگڑوں میں پڑے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عملی نمونہ سے اخوت کا رشتہ قائم کر کے قوموں کی تمیز کو اڑا دیا اور وحدت کی روح پھونک دی اور امتیاز تقویٰ کے معیار پر رکھا.بعض لوگ رشتہ طے ہونے کے بعد حسب نسب کے طعنے دیتے ہیں یہ رشتہ سے پہلے سوچنے کی باتیں ہیں اور انتہائی ظلم کی بات ہے اور خوف خدا کی کمی کے نتیجہ میں ذات برادری اور حسب نسب پر فخر پیدا ہوتا ہے.“ (خطبہ جمعہ 23 مئی 2003 ء از روزنامه الفضل 28 مئی 2003ء)

Page 110

(108) وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں ہر دم اسیر نخوت و کبر و غرور ہیں تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولی اسی میں ہے تقویٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے عِفت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے جو لوگ بد گمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں میاں بیوی کے حقوق و فرائض GOD BLESS SWEET HOME لجنہ اماءاللہ پاکستان کے آرگن ماہنامہ ” مصباح کے ماہ اپریل 2003ء کے شمارہ میں ”گھر پیار سے بستے ہیں“ کے عنوان سے ایک دلچسپ مضمون شائع ہوا ہے.جس میں گھر کے حوالہ سے عورت اور مرد کے حقوق وفرائض کا ذکر ہے.جس کا میرے مضمون کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.لہذا اس کا کچھ حصہ ماہنامہ ” مصباح“ کے شکریہ کے ساتھ یہاں دیا جاتا ہے.

Page 111

(109) گھر پیار سے بستے ہیں“ میاں بیوی کے حقوق و فرائض گھر وہ جگہ ہے جہاں محبت اور وفا کے دیئے جلتے ہیں.گھر جو کہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے پیار سے ہی بستا ہے.گھر وہ جگہ ہے جو انسان کی سارے دن کی تھکان دُور کر دیتا ہے.گھر جو کہ محبت سے پھلتا پھولتا ہے، اس گلشن کو ہرا بھرا رکھنے میں جو ہستی سب سے زیادہ قربانی دیتی ہے وہ عورت ہے.عورت کے بغیر گھر گھر نہیں.عورت کے کئی روپ ہیں.اگر عورت ماں کے روپ میں ہے تو یہ ہستی کتنی خوش قسمت ہے جس کے بارہ میں ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” جنت ماں کے قدموں کے تلے ہے.“ اگر عورت بیٹی کے روپ میں ہے تو رحمت کا باعث بنتی ہے اگر عورت بہو کے روپ میں ہے تو گھر کی عزت اور نیک نامی کا باعث بنتی ہے.اگر عورت بہن ہے تو بھائیوں کے لئے آرام اور سکون کا باعث ہوتی ہے.اگر عورت بیوی کے روپ میں ہے تو اپنے گھر کی جنت کو پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے.گویا دنیا میں وہ اپنے شوہر کے لئے ایک جنت نما گھر تشکیل دیتی ہے.گھر عورت کے دم سے ہے.اب اس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس گھر کو جنت بنادے یا دوزخ.ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ حوا کی بیٹی نا سمجھی کا شکار ہوکر اپنے گھر کی جنت سے نکل جاتی ہے، وہ باہر کی دنیا میں اپنے لئے خوشی اور سکون ڈھونڈتی ہے.مگر یہ چیزیں تو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے گھر کے اندر ملتی ہیں.گھر کیوں ٹوٹتے ہیں؟

Page 112

(110) میاں بیوی کے حقوق و فرائض اس کی سب سے بڑی وجہ لڑکے لڑکیوں میں خدا تعالیٰ سے دُوری ہے.اس کی ذمہ داری بعض حالات میں عورت پر اور بعض حالات میں مرد پر آتی ہے.ہر انسان کی زندگی تین ادوار پر مشتمل ہوتی ہے.پہلا دور جو کہ ماضی ہوتا ہے.دوسرا دور حال.اور تیسرا دور ہمارا مستقبل ہوتا ہے.انسان کی زندگی کا ہر دور بے حد اہم ہوتا ہے.ہمارا ماضی‘ ہمارے ماں باپ، خاندان سے وابستہ ہوتا ہے.ہم اپنے والدین کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں.ہمارا دوسرا دور ہمارا حال ہے.اس میں ہماری شخصیت ، ہماری خوبیاں ، ہماری کمزوریاں، ہماری صورت ، ہماری تعلیم ، کیریئر سب کچھ شامل ہوتا ہے.اس کے بعد وہ شخصیت ہماری زندگی میں آتی ہے جس سے ہماری شادی ہوتی ہے.اس شخصیت کی خامیاں ، خوبیاں غرض اس سے منسلک ہر چیز ہم سے منسلک ہو جاتی ہے.یہ ہمارا نصیب کہلاتا ہے.اس سلسلہ میں ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دُعا کریں خدا تعالیٰ نیک نصیب کرے.جو نصیب سے ملے اس کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے خوشی سے قبول کریں خدا تعالیٰ شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.تیسرا دور ہمارا مستقبل ہے.اس میں ہماری اولاد اور اس سے وابستہ ہر چیز ہوتی ہے.یہ دور بہت ذمہ داریوں کا دور ہے.اس سلسلہ میں ہماری پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اپنی اولاد کو ایک اچھا انسان بنا ئیں.وہ نیک اور صالح وجود ہوں.کیونکہ باقی سب چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں.پس بیٹی ہو یا بیٹا ، اُس کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں.اور ان کو نیک اور اچھے انسان بنائیں.یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم جہاں پر لڑکیوں کی تربیت اس رنگ میں کرتے ہیں کہ ان کو

Page 113

(111) میاں بیوی کے حقوق و فرائض اگلے گھر جانا ہے ، اسی طرح لڑکوں کی بھی اچھی اور احسن رنگ میں تربیت کریں تا کہ جو لڑکیاں آپ کے گھر بیاہ کر آئیں وہ بھی خوش رہیں اور آپ کے گھر کو جنت بنا ئیں.یہ بات تو طے شدہ ہے کہ گھر کو جنت بنانے میں سب سے اہم کردار عورت کا ہے.جب ایک لڑکی عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے تو ایک بات اس کو ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا آپ سے آپ کی اہمیت مانگتی ہے.وہ آپ سے یہ پوچھتی ہے کہ آپ اسے کیا دے سکتے ہیں.اس کے بعد وہ آپ کی اہمیت اور آپ کی جگہ تعین کرتی ہے.یہ طے کرتی ہے کہ اُسے آپ کو کتنی عزت دینی ہے.اگر دنیا کو یہ پتہ چل جائے کہ آپ اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے تو وہ آپ کو نظر انداز کر دیتی ہے.پس پہلے خود قربانی سے کام لیتے ہوئے دوسروں کے لئے کچھ کریں.اپنے فرائض اچھی طرح انجام دیں پھر اپنے حقوق طلب کریں.بحیثیت بیوی اپنے شوہر کے ساتھ وفاداری کیجئے.وفا و قربانی ایک ایسا نسخہ ہے جس سے ہر مشکل دور ہو جاتی ہے.کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے اپنے شوہر کی ہمیشہ فرمانبرداری کیجئے.نرم پاک زبان کا استعمال کیجئے.ہمیشہ شکر اور قناعت سے کام لیں.اپنے شوہر کی بے پناہ عزت کریں.اس کی عزت میں ہی آپ کی عزت ہے.بحیثیت بیوی حضرت اما جان کی ایک نصیحت ضرور یادرکھیں.” پہلے بیوی ، میاں کی لونڈی بنتی ہے تو پھر میاں ، بیوی کا غلام بنتا ہے.“ شادی کے بعد سسرال کو اپنا اصل گھر سمجھیں.اب اس گھر کے دکھ سکھ آپ کے ہیں.دوسروں کی عزت کیجئے.ساس سسر کو ماں باپ سے بڑھ کر درجہ دیں.اگر ساس یا کوئی اور آپ کو ایسی بات کہہ دیتا ہے جو آپ کو اچھی نہ لگے تو برداشت کریں.( آخر ماں باپ کے گھر میں بھی ایسا ہوتا تھا اور آپ برداشت کرتی تھیں ) اپنے آپ کو میکہ اور سسرال کے بیچ معلق نہ کریں بلکہ اپنا دل خاوند

Page 114

(112) میاں بیوی کے حقوق و فرائض کے گھر یعنی سسرال میں لگائیں.شادی کے بعد میکہ کو ایک اچھا پڑوس سمجھیں.وفا ، قربانی ، برداشت یہ ایک ایسا نسخہ ہے جس سے آپ نہ صرف سسرال بلکہ زندگی کے ہرمیدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں.شادی کے وقت ماں باپ اپنی بچی کو احساس دلائیں کہ اب ہماری عزت کا تم نے خیال رکھنا ہے.شادی کے بعد آپ جو بھی کریں گی خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا وہ آپ کے ماں باپ سے منسوب کیا جائے گا.بزرگوں کی بات کہ میکے کی لاج رکھنا اسی سلسلہ کی کڑی ہے.اس لئے یا درکھیں شادی کے بعد ماں باپ کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہے.کبھی بھی سسرال کا موازنہ اپنے ماں باپ کے گھر سے نہ کریں.سسرال جو کہ آپ کے خاوند کا گھر ہے اب آپ کا گھر ہے.اور میکہ آپ کی ماں کا گھر ہے.اب آپ کو سسرال کے ماحول کے مطابق ایڈ جسٹ ہونا ہے.آپ کا سسرال آپ کے لئے تبدیل نہیں ہوگا.بلکہ آپ اپنے آپ کو اس ماحول میں ڈھالیں گی.ایک بات ہمیشہ یادرکھیں.یہاں کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہے.ہر کوئی خوبیاں بھی رکھتا ہے اور خامیاں بھی.نکتہ چینی یا عیب جوئی بہت بُری عادت ہے.دوسروں میں غلطیاں مت نکالیں.ہر کام کرنے سے پہلے ذرا اپنے اوپر ضرور نظر ڈالیں.آپ کو یقیناً اپنے اندر بھی خامیاں نظر آئیں گی.اس لئے پہلے اپنی اصلاح کیجئے پھر دوسروں سے کوئی اور توقع رکھئے.اکثر سرال کے خلاف شکایات سنے کوملتی ہیں.سرال میں آپ ہی کی طرح کے انسان ہوتے ہیں.شادی کے بعد دوباتوں کا ہمیشہ خیال رکھیں.1- اپنی نیت ہمیشہ نیک رکھیں.2- اپنی سوچ ہمیشہ مثبت رکھیں.

Page 115

(113) میاں بیوی کے حقوق و فرائض جب آپ کی نیت نیک ہوگی تو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ کے لئے ہر مشکل آسان ہو جائے گی.اگر آپ سمجھتی ہیں کوئی آپ کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو آپ درگز رکریں.اپنا عمل اس کے ساتھ اچھا رکھیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے سامنے آپ اپنے اعمال کی جواب دہ ہیں.پس اپنے شوہر اور سسرال کی عزت کیجئے.آج جو آپ ان کے ساتھ سلوک کریں گی وہی سلوک کل آپ کی اولاد آپ کے ساتھ کرے گی.سسرال کا کردار : جب آپ بہو بیاہ کر لاتے ہیں تو آپ پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اپنے بیٹے کی تربیت تقویٰ کی راہوں پر کریں.وہ نیک اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ہو.آپ کی بہو اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو وداع کر کے آپ کے گھر آئی ہے.اس کے ساتھ پیار و محبت کا سلوک کیجئے.اگر کوئی کمزوری آپ دیکھتے ہیں تو پیار کے ساتھ اصلاح کریں.اس کو کچھ وقت تو دیں تا کہ وہ اپنے آپ کو آپ کے گھر کے ماحول کے مطابق ڈھال لے.ہمارے معاشرے میں عموماً ہر گھر کے تین بنیادی کردار ہوتے ہیں ساس، بیٹا ، بہو خوشگوار گھریلو ماحول کے لئے شوہر یعنی بیٹا بہت اہم کردار ادا کرتا ہے.اس کو چاہئے کہ وہ تو ازن سے کام لے.ماں کو ماں کی جگہ پر رکھے اور بیوی کو بیوی کی جگہ پر.شوہر کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق ”میاں بیوی ایک دوسرے کا ہیں اس لئے آپس کی باتوں کا تذکرہ کسی دوسرے کے ساتھ نہ کیا جائے.لوگ وقتی طور پر آپ کی بات سن لیں گے مگر بعد میں آپ کے بارہ میں ضرور باتیں بنائیں گے.

Page 116

(114) میاں بیوی کے حقوق و فرائض بعض سائیں، بہوؤں کے ساتھ مقابلہ کرنے لگتی ہیں اور دُلہن کی ادنی سی لغزش اُس کی آئندہ قسمت کا فیصلہ کر دیتی ہے.یہ بات سراسر غلط ہے.بہو بہر حال ساس کے مقابلہ میں کم عمر اور کم سمجھ ہوتی ہے.اس لئے اگر وہ غلطیاں بھی کرتی ہے تو اس کو درگزر کریں اور احسان کا سلوک کریں.اس کی کمزوریوں کا تذکرہ باہر نہ کریں.جس طرح آپ اپنی بیٹی کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرتی ہیں اسی طرح بہو کی بات بھی کسی دوسرے سے مت کریں.کسی کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنا ہمارے پیارے خدا تعالیٰ کو بے حد پسند ہے.بہوا گر گھر کے کام کاج کی ماہر نہیں ہے تو محبت کے ساتھ رہنمائی کریں.آج نہیں تو کل وہ ضرور سیکھ جائے گی.بہو، بیٹیوں کے ساتھ ایک معیار رکھیں.بہو، بیٹی کے معاملہ میں دوہرے معیار سے کام نہ لیں.بہو کے ساتھ محبت و شفقت کا ایسا نمونہ دکھا ئیں کہ وہ میکہ بھول جائے.پس ہمیشہ یادرکھیں پیار ومحبت ایسا گر ہے جس سے آپ سب کو اپنا بنا سکتی ہیں.زندگی تو وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے.اپنے لئے جینا بھی کیا جینا ہوا.دوسروں کو محبت دیں گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو محبت نہ دے.یادر کھیں نفرت، بغض کینہ اور انتقام جیسے جذبات نہ صرف آپ کی زندگی میں زہر گھولتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی خراب کرتے ہیں.زندگی خدا تعالیٰ کی ایک نعمت ہے.اس کو محبت کے ساتھ گزار ہیں.اس چھوٹی سی دنیا میں نفرتوں سے بچیں اس لئے کہ زندگی کم بلکہ بہت کم ہے.سب کے لئے سکھ کا باعث بنیں نہ کہ دُکھ کا.آپ کی ذات سے سب کو سکون و خوشی ملے.آپ کا وجود پوری دنیا کے لئے نفع بخش ہو.(ماہنامہ مصباح اپریل 2003ء صفحہ 13 تا 16 ،18)

Page 117

(115) میرا گھر، میری جنت میری نظر میں گھر ہے وہ میرے عزیز دوستو ! میاں بیوی کے حقوق و فرائض محبتیں بھی ہوں جہاں رفاقتیں بھی ہوں جہاں جہاں خلوص دل بھی ہوں جہاں صداقتیں بھی ہوں بھی ہو احترام جہاں جہاں عقیدتیں بھی ہوں کچھ لحاظ بھی ہو جہاں جہاں مروتیں بھی ہوں جہاں نوازشیں بھی ہوں جہاں عنایتیں بھی ہوں ذکر بھی یار ہو جہاں جہاں عبادتیں کبھی حسین ، دلنواز کی حکایتیں بھی ہوں بھی ہوں

Page 118

(116) میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہو کدورتیں جہاں جہاں ہوں عداوتیں دل فکر کی جہاں ہوں کثافتیں سکوں ایسی اک جگہ ہو کہ جسے میں اپنا کہہ جہاں سکون سے جی سکوں جہاں میں سکھ سے رہ سکوں جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے پہ جان دیں بھرم محبتوں کا اور عزتوں کا مان وہ جن کے سینے چاہت و خلوص کا جہان ہوں جبیں دیں جن کی مثبت پیار کے حسیں نشان ہوں جہاں نہ بد لحاظ ہو کوئی نہ بد زبان ہو جہاں نہ بد سرشت ہو کوئی نہ بد گمان ہو جہاں بڑوں کی شفقتوں کا میرے سر ہاتھ ہو تو دوستوں کی چاہتوں کا بھی حسین ساتھ ہو نہ جس جگہ دکھائی دیں انا کی سکج ادائیاں گو خامیاں ہزار ہوں پہ ہوں نہ جگ ہنسائیاں

Page 119

(117) میاں بیوی کے حقوق و فرائض جہاں بسر ہو زندگی محبتوں کی چھاؤں میں ہو باس پیار کی جہاں رچی ہوئی فضاؤں میں دمک رہے ہوں بام و در بھی روشنی سے پیار کی کلی پیامبر بہار کی ہو جس چمن کی ہر ہوں جسم کو تھکے ہوئے روح نہ ملول ہو کسی کے دل میں کھوٹ نہ کسی کے من میں دھول ہو میری یہ آرزو ہے جو بھی میرے گھر کا فرد ہو نہ اس کا لہجہ گرم ہو نہ اس کا سینہ سرد ہو (بشکریہ ماہنامہ مصباح اپریل 2003ء)

Page 120

(118) میاں بیوی کے حقوق و فرائض ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفہ ایدہ کتاب کی طباعت اول کے وقت عالمگیر جماعت احمدیہ کے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ابھی تک اس موضوع پر کوئی خطاب ارشاد نہ فرمایا تھا.اسی لئے لجنہ اماء اللہ اسلام آباد کی درخواست پر حضور انور نے اس کتاب کے لئے اپنا ایک خصوصی پیغام احباب و خواتین جماعت کے نام بھجوایا تھا جو شامل اشاعت کر دیا گیا تھا.موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہ کتاب سٹاک پر بہت جلد ختم ہوگئی اور اسے دوبارہ چھپوانے کی ضرورت محسوس ہوئی.اس طباعت ثانی تک ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ اس موضوع پر متعد د خطبات و نقار بر ارشاد فرما چکے ہیں.ان کو بطور ضمیمہ شامل اشاعت کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ ان تمام ارشادات پر ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہمارا معاشرہ جنت نظیر نظر آنے لگے.آمین.i- آپ فرماتے ہیں : پس آج ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے کا دعوی کرتے ہیں ہمارے اوپر بہت بڑھ کر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں.اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنائیں ، اپنے ماحول میں بھی ایسا تقویٰ قائم کریں جو اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے.اور ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اس خدائی بشارت کو ہم سے دُور (خطبہ جمعہ مورخہ 16 مئی 2003ء) کردے.“.اپنے گھر کے ماحول کو ایسا پر سکون اور محبت بھر ابنا ئیں کہ بچے فارغ وقت میں گھر

Page 121

(119) میاں بیوی کے حقوق و فرائض سے باہر گزارنے کے بجائے ماں باپ کی صحبت میں گزارنا پسند کریں.ایک دوستانہ ماحول ہو.بچے کھل کر ماں باپ سے سوال بھی کریں اور ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر قسم کی باتیں کر سکیں.اس لئے ماں باپ دونوں کو بہر حال قربانی دینی پڑے گی.“ خطبه جمعه فرمودہ 27 جون 2003ء) iii- جلسہ سالانہ لندن 2003ء کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : ”اپنے گھروں کے ماحول کو بھی ایسا پاکیزہ بنانا ہوگا جہاں میاں بیوی کا ماحول ایک نیک اور پاکیزہ ماحول کو جنم دے.اور یوں ہر احمدی گھرانہ ایک نیک اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے والا بن جائے جس سے جو بچہ پیدا ہو جو بچہ پروان چڑھے ، وہ صالحین میں سے ہو.پس اپنی قدر و منزلت پہچانیں.کوئی احمدی عورت معاشرہ کی عام عورت کی طرح نہیں ہے.آپ تو وہ عورت ہیں جس کے بارہ میں خدا کے رسول نے یہ بشارت دی ہے کہ جنت تمہارے پاؤں کے نیچے ہے اور کون ماں چاہتی ہے کہ اس کی اولاد دنیا و آخرت کی جنتوں کی وارث نہ بنے.( الفضل انٹر نیشنل 29 اگست 2003ء) iv جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر مستورات سے خطاب کے دوران آپ نے فرمایا : سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں، اپنے گھروں کو محبت و پیار کا گہوارہ بنائیں اور اولاد کے حق ادا کریں، ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں، ایک دوسرے کے ماں باپ اور بہن بھائی سے محبت کا تعلق رکھیں، ان کے حقوق ادا کریں اور یہ صرف عورتوں کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہے، اس طرح جو معاشرہ قائم ہوگا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہوگا

Page 122

(120) میاں بیوی کے حقوق و فرائض اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہوگی.ہر عورت اور ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی کوشش کر رہا ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میری ہے یہ ایک دوسرے کے حقوق ہیں، یہ عورت ومرد کی ذمہ داریاں ہیں فطرت کے عین مطابق ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کس حد تک تم اس پر عمل کرتے ہو، اگر صحیح رنگ میں عمل کرو گے تو میرے فضلوں کے وارث بنو گے تمہیں قطعاً مغربی معاشرے سے متاثر ہونے اور ان کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ وہ تم سے متاثر ہوں گے اور کچھ سیکھیں گے اسلام کی خوبیاں اپنا ئیں گے...پھر تسلسل میں فرمایا.یہ ہے عورت کے مقام کا حسین تصور جو اسلام نے پیش کیا ہے ، جس سے سلجھی ہوئی قابل احترام شخصیت کا تصور ابھرتا ہے، جو جب بیوی ہے تو اپنے خاوند کے گھر کی حفاظت کرنے والی ہے، جب ماں ہے تو ایک ایسی ہستی ہے جس کی آغوش میں بچہ اپنے آپ کو محفوظ ترین سمجھ رہا ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے جب وہ بہو ہے تو بیٹیوں سے زیادہ ساس سسر کی خدمت گزار اور جب ساس ہے تو بیٹیوں سے زیادہ بہوؤں سے محبت کرنے والی ، اسی طرح مختلف رشتوں کو گنتے چلے جائیں اور ایک عظیم حسین تصور پیدا کرتے چلے جائیں، جو دین کی تعلیم کے بعد عورت اختیار کرتی ہے تو ایسی عورتوں کی باتیں پھر اثر بھی کرتی ہیں اور ماحول میں ان کی چمک بھی نظر آ رہی ہوتی ہے.آپ نے اپنے خطاب کے تسلسل میں عورتوں کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا : حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک کی جواب دہی ہوگی امام نگران ہے اس کی جواب دہی ہوگی ، آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے اس سے جواب طلبی ہوگی ، اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اس سے اس بارے میں جواب طلبی ہوگی.اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے

Page 123

(121) میاں بیوی کے حقوق و فرائض اُس سے بھی جواب دہی ہوگی.سنو ! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نگرانی سے متعلق جواب طلب کیا جانے والا ہے.حضور انور نے فرما یا اس حدیث میں آیا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اس کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی گھر کا حساب کتاب چلانا ، خاوند جتنی رقم گھر کے خرچ کے لئے دیتا ہے، اس میں گھر چلانے کی کوشش کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ جس عورت نے پانچوں وقت نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بڑے کاموں سے بچایا اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اس کا کہنا مانا، ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے.عورت کے حقوق کی حفاظت کے موضوع پر آپ نے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعا نہیں کی مختصر الفاظ میں فرما دیا کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے.تو یہ حسین تعلیم ہے جو اسلام نے عورتوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے دی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ یہ مت سمجھو کہ عورتیں ایسی چیز ہیں جن کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جائے نہیں نہیں ، ہمارے بادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خَيْرُ كُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو، بیوی کے ساتھ جس کی معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں، دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرسکتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو خاوند عورت کے لئے خدا تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے.حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ

Page 124

(122) میاں بیوی کے حقوق و فرائض کرے.پس مرد میں جلالی اور جمالی دونوں رنگ موجود ہونے چاہئیں، تو یہ عورت کے حقوق ہیں ، اسلام قائم کر رہا ہے، اور آج مغرب کی آزادی کے علمبر دار عورت کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، جس میں آزادی کم اور بے حیائی زیادہ ہے اور بعض لوگ ان کے کھوکھلے نعروں کے جھانسے میں آکر آزادی کی باتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں.آزادی تو آج سے چودہ سوسال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائی تھی مغرب کی اندھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے.“ خلاصه خطاب از روزنامه الفضل 29-اگست 2003ء) -V اسلام نے بعض حالات میں عورتوں کو حکم دیا ہے کہ بعض نفلی عبادتیں یا بعض ایسی عبادتیں جو تمہارے پر اس طرح فرض نہیں جس طرح مردوں پر ہیں جیسے پانچ وقت کی مسجد میں جا کر نماز پڑھنا وغیرہ تو جب بھی ایسی صورت ہوتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی ارشاد فرماتے تھے کہ وہ اپنے خاوندوں کے حکم کی پابندی کریں.دیکھیں یہ کیسی پیاری تعلیم ہے ، جو عورتیں اپنے خاوندوں کا کہنا ماننے والی ہیں ، ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنے والی ہیں، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی.عورت کو اس قربانی کا خدا تعالیٰ کتنا بڑا اجر دے رہا ہے ضمانت دے رہا ہے کہ تم اس دنیا میں اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے کی کوشش کرو اور اگلے جہان میں میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں.“ روزنامه الفضل 30 اگست 2003ء) (لجنہ سے خطاب بر موقعہ جلسہ سالانہ جرمنی 2003ء) **

Page 124