Language: UR
قرآن مجید نے ایک مامور ربانی اور مرسل یزدانی کی شناخت اور پہچان کے جو 6 نہایت واضح اصول مقرر فرمائے ہیں ۔ زیر نظر کتاب میں مولانا موصوف نے دلائل، حوالہ جات اور اغیار کے اقرار اور گواہیاں درج کرکے ثابت کیا ہے کہ ان تمام واضح اصولوں کے مطابق کتاب اللہ قرآن کریم کا فیصلہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے حق میں ہے۔ اپریل 1957میں مہتمم نشر واشاعت نظارت اشاعت لٹریچر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے شائع کردہ یہ مختصر کتابچہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب کے زیر انتظام طبع کروایا گیا تھا۔
كتاب اللہ کا فیصلہ :مُصفَه: مولوی دوست محمد صاحب تا به مرخ احمدیت فاشر لصيف
طبع محمول کتاب الله کا فصلة مولوی دوست محمد صاحب یار دیرین دیریت الناشر نفاست اشاعت پریر و تصنیف بود
له الله الرحمن الحنين قرآن مجید کی شان حاکمیت قرآن مجید خدائے عز و جیل کی آخری اور کامل و مکمل شریعت ہے جو دنیا بھر کے دینی مباحث و مسائل حل کرنے کے لئے واضح رہنما، دائمی منصف اور مستقل پیج کی نیت رکھتی ہے چنانچہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے : إنَّهُ لَقَوْلُ فَضْلُ : (طارق (۱۲) یعنی جس قدر متنازعہ امور ہیں.سب کا فصیلہ یہ کتا ر کر تی ہے.نیز فرمایا ہے.أَفَغَيْرَ اللهِ ابْتَغَى حَكَمَا وَ هُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ سي الكتاب مفضلاء والذين انهم يعلمونا أنه منزل يَعْلَمُونَ من ربك بالي ولا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْرِينَ" (الانعام، ۱۵) فَلاَ ترجمہ : میں بحر اللہ تعالئے کے کوئی اور حکم جو مجھ میں اور تم ہمیں فیصلہ کرے مقر نہیں کر سکتا.وہ وہی ہے جس نے تم پر مشتمل کتاب نازل کی.سمر جن کو اس کتاب کا علم ہوگیا ہے.وہ اس کا منجانب اللہ ہونا ہیں.سو تو شک کرنے والوں میں مست ہوں حضرت بانی جماعت احمدیہ کتاب اللہ کی اس امامان شان کا تذکره بان الفنان رات ہونے خدا تعالی کا پاک کلام قرآن شریف ہمارے پاس موجود ہے مسائل مختار ري
میں فصیلہ کرنے اور حق پانے کے واسطے مسلمانوں کو اول قرآن ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیئے.( محفوظات جلد ) - صفحه ۲۵۵) آپ نے مسلمانان عالم کو یہ فراموش شده سبق یاد دلاتے ہوئے ہر طالب تھی کہ نہایت درو و سوز سے یہ دعوت دی ہے..منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو آزمائیں اور پھر بکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے ، خیالی اصولوں اور تجویزوں سے کچھ نہیں بنتا اور نہ میں اپنی تصدیق خیالی باتوں سے کرتا ہوں.میں اپنے دعوی کو منہاج نبوت کے معیار پر میش کرتا ہوں پھر کیا وجہ ہے کہ اسی اصول پر اس کی سچائی کی آزما بیش نہ کی جائے." ( ایضا - جلد ۴ صفحه ۳۴) ہمیں کچھ کہیں نہیں بھا ئیو نصیحت ہے نو بیا نہ کوئی جو پاک دل ہود سے دل و جہاں اس پر قربان کے فرقان حمید کا یہ بے مثال معجزہ اور نشان ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس پاک کلام میں متند و ایسے اصول متعین فرمائے گئے ہیں جن سے ہر ایک مامور من اللہ کی حقانیت اور صداقت بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے.ذیل میں بطور نمونہ چھ قرانی اصول ہدیئے قارئین کئے جاتے ہیں : پہلا اصول ( علی وجہ البصیرت دعوت الی الله ) قرآن مجید میں ہے :- مل مع سينيلي ادعوا إلى الله قد عَلَى بَصِيرَة أنا
(یوسف: ۱۰۹) تو کہ یہ میرا طریق ہے کہ میں اور میرے پیر و علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف بلاتے ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں :- ہ ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے.قرآن سے پایا.ہم نے اس خدا کی آواز اُسنی اور اس کے پر زور بازو کے نشان دیکھے میں نے قرآن کو بھیجا.سونم یعنی راستے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے.ہمارا دل اس یقین سے ایسا پر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے.سو تم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں.(کتاب البریہ صفحہ ۶۵) آپ نے جلسہ العظیم مذاہب لا ہور ( ایم) میں بآواز بلند اعلان فرمایا ایک اسلام ہی ہے جس میں خدا بندہ سے قریب ہو کر اس سے باتیں کرتا ہے وہ اس کے اندر ہوتا ہے اور اس کے دل میں اپنا تخت بناتا اور اس کے اندر سے اسے آسمان کی طرف کھینچتا ہے.میں بنی نوع پر ظلم کروں گا اگر میں اس وقت ظاہر نہ کردوں کہ وہ مقام جس کی میں نے یہ تعریفیں کی ہیں اور وہ مرتبہ مکالمہ اور مخاطبہ کا جس کی ہے یوتی میں نے اس وقت تفصیل بیان کی وہ خدا کی عنایت نے مجھے غایت فرمایا ہے" ( اسلامی اصول کی فہلا سفی)
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جیسے چاہے کلیم اب اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے کرتا ہے پایہ اس کے بریکس اہل حدیث کے مشہور ایڈووکیٹ مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب ٹالوی نے اسی تعلیہ میں نہایت ہیے میسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کر لیا کہ.امت محمدیہ کے بزرگ ختم ہو چکے بے شک وارث انبیاء ولی تھے.و کرامت رکھتے اور برکات رکھتے تھے.لیکن وہ نظر نہیں آتے.زیر زمینی ہو گئے.آج اسلام ان کرامات والوں سے خالی ہے اور ہم کو گزشتہ اخبار کی طرف حوالہ کرنا پڑتا ہے ہم نہیں دکھا سکتے." پورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۱۴۶- طبع دوم) حالانکہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ (۴۸۰ ۱۴۸ع) کا قول ہے کہ : الهام مقبول کا وصف ہے اور غیر امام استدلال کرنا مردو دوں کا کام ہے.( تذكرة الأولياء بارب) آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے: * ما انا عليه واصحابي (تریدی جلد ۲ - ابواب الایمان ) یعنی خدا کے نزدیک حقیقی مسلمان وہ فرقہ ہو گا جو میرے اور میرے اسی بیا کے طریق پہرہ دینی علمی وحید البصیر اللہ کی طرف بلانے والا) ہوگا.بید ارشاد نبری در اصل مندرجه بالا قرآنی اصول ہی کی تفسیر ہے جس سے جماعت اسمید کے منفرد اور امتیازی مقام کی نشان دہی میں بھاری مدد ملتی ہے.اس کاش کوئی خدا ترس اس پر غور کرہ ہے.
دوسرا اصول (اظہار علی الغیب) قرآن میں ہے: فَلا يُظْهرُ عَلى غَيْبَةٍ أَحَدَاهُ إِلَّا مَنِ ارْتَعَلَى مِنْ رَسُولٍ رحق ۲۷ - ۲۸) ترجمہ: غیب کا الیسا دروازہ کسی پر کون که گویا وہ غیب پر غالب اور غیب اس کے قبضہ میں ہے یہ تعریف علم غیب بجز خدا کے برگزیدہ رسولوں کے اور کسی کو نہیں دیا جاتا " (حقیقه آلو بھی صفحہ ۳۳۶) حضرت باقی مجماعت احمدیہ کی بے شمار غیبی خبروں میں سے جو روز روشن کی طرح پوری ہو چکی میں بطور شمال صرف ایک پیشگوئی ملاحظہ ہو آپ نے لشکر میں اپنے دعوئی مسیحیت کی پہلی کتاب فتح اسلام میں یہ خبردی کہ : تم باربار کہتے ہو کہ ہمیں کیوں کر لیلی آد سے کہ یہ سلسلہ منجانب الله ہے ؟ ابھی اس کا جواب دسے ہوچکا ہوں کہ اس درخت کو اس کے پھلوں سے اور اس تیر کو اس کی روشنی سے شناخت کرو گے.(صفحہ ہمہ) یشگوئی کس شان سے ظہور پذیر ہورہی ہے ؟ اس کا حیرت انگیز اعتراف جناب مولوی عبد الرحیم صاحب اشرف مدیر المنبر نے درج ذیل الفاظ میں کیا ہے.پہلا ضابطہ قیام دارتقاء یہ ہے مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَقَلتُ فِي الأرض سر وہ چیز جو انسانیت کے لئے نفع رساں ہوا اسے زمین پر
قیام و بقا عطا ہوتا ہے.قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود نہیں ان میں اولین اہمیت اس عید و جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر دہ غیر ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن کو غیر مکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں.تسلیت کو باطل ثابت کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو عش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں حکم ہوا اسلام کو امن اور سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں.غیر مسلم مالک میں قرآنی ترامیم اور اسلامی تبلیغ کا کام صرف اسی اصول نفع رسانی " کی وجہ سے قادیانیت کے بقا اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے.ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ سے قادیانیوں کی ساتھ قائم ہے.ایک عبرت انگیز واقعہ خود بہار سے سامنے وقوع پذیر ہوا ء میں جب جسٹس منیر انکواری کورٹ میں علم اور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کو غیرمسلم ثابت کرنے کی جدو جہد میں مصروف تھیں.قادیانی علی انہی دنوں ڈوچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن کو مکمل کر چکے تھے.اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمداور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ ترامیم پیش کئے گویا وہ یزبان حالی و قال کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از معیت اسلامیہ جماعت جو اس وقت جبکہ ہمیں آپ لوگ کافر قرار
دینے کے لئے پر تول رہے ہیں ہم غیر مسلمانوں کے سامنے قرآن اُن کی مادری زبان میں پیشین کره المنیره گیپور ۲ ماریا نشده و صفحه ها) تغییر اصول (نصرت الہی) انا تو رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَينَةِ الدُّنْيَا وَلَوْم يَقُومُ الْأَشْهَادة" (مومن : ۵۲) ترجمہ " ہمارا قانون قدرت یہی ہے کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمانداروں کو دنیا اور آخرت میں مدد دیا کرتے ہیں " بر این احمدیہ جلد پنجم حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اس آیت کو بھی اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں :- اس زمانہ میں جب خدا تعالیٰ نے پھر اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا ہے میں اُس کی تائیدوں کا ایک زندہ نشان ہوں.خدا جو ہمیشہ اپنے بندوں کی حمایت کرتا ہے اور جس نے راستبازوں کو غالب کر دکھایا ہے.اس نے میری حمایت کی اور میر سے مخالفوں کے خلاف ان کی امیدوں اور منصوبوں کے بالکل برعکس اس نے مجھے وہ قبولیت بخشی کہ ایک خلق کو میری طرف متو قید کیا جو ان مخالفتون اور مشکلات کے پردوں اور روکوں کو چیرتی ہوئی میری طرف
آئی اور آرہی ہے." ( ملفوظات جلد یہ صفحہ ۲۱۶) تیز لکھتے ہیں..کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ گوشہ نہیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تختم بڑھا اور بچوں اور ایک در تخت نیا اور اس کی شاخیں دوار د ودر میلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرند اس پر آرام کر رہے قدر ا نزول المسیح صفحه متاه) ہیں." موادی عبد الرحیم صاحب اشرف میر المیرا نیکپور اپنے قلم سے نفرت کے اس عظیم نشاند صداقت کا کھلے بندوں اعتراف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ : ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی کیات پہلے سے زیادہ تحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمتفائل تھا لوگوں نے کام کیا.ان میں سے اکثر تقوی ، تعلق اللہ ، دیانت ، خلوص، علم اور اثرہ کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی رکھتے تھے.نذیر حسین دہلوی مونا انورشاه دیوبندی مولانا قاضی سید سلیمان منصوری مولانا محمد حسین سیالوی مولانا عبد الجبار رو توی مولانات الشام استرا اور سے دبات ۶۱۹۰۲ که ذعات ۱۹۳۲ء کے وفات ۱۹۳۰ ء که ذرات ۶۱۹۲۰ شه ذات ۱۹۱۳ - ذات ۶۱۹۴۸
دوسرے اکابر ہم اللہ فراہم کے بارے میں ہمارا حسین طین نہیں ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالف میں تخلص تھے اور ائی کا اثر ورسوخ بھی آنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں اگر چہ یا انا وانتے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گئے لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر انور لله مرقدیم و به ماتہم) کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے ہے تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسردان ربوہ آتے ہیں (گزشتہ ہفتہ رہیں اور روس امریکہ کے دو یا گندان پارہ وارد ہوئے ) اور دوسری جانب سے اللہ کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا ان ایر کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہوتا ہ کے وسیع ترین فسادات کے بعد ہی لوگوں کو یہ و ہم لاخت ، ہو گیا ہے کہ قادیانیت ختم ہوگئی یا اس کی ترقی رک گئی.انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں میں ملکہ ( لعض اطلاعات کی بنا پر مغربی پاکستان اسمبلی میں قادیانی مرتب کئے گئے ہیں.پر المنیر ۲۳ فروری ۹۵ صفحه ۱۰) حضرت بانی سلسلہ احمدی کو مارچ میاید میں یعنی قیام سماعت اسحمید سے بھی سات سال
تیل یہ اشاعت اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی." ينصر الرجال تُو فِي اليَهِم مِّنَ السَّمَاءِ لَا مُبَدِّلَ لكلمات الله ود رامین احمدیه سوم مقصود (۲۳۲) یعنی تیری دوہ لوگ کریں گے چین کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گئے.خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا." جناب مولوی عبد الرحیم اشرف کے قلم سے اس وعدہ الہی کے شاندار ظہور کی ایک جھلک ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں:.قادیانیوں نے گذشتہ پچاس سال میں اندرون اور بیرون ملک اپنی قومی زندگی کو قائم رکھے اور قادیانی تحریک کو عام کرنے کے سلسلہ میں جو جدو جہد کی ہے.اس کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ انھوں نے اس کے لئے اشتبار قربانی سے کام لیا ہے.ملک میں ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نئے مذہب کی خاطراپنی برادریوں سے علیحدگی اختیار کی.دینوی نقصانات برداشت کئے اور جان و مال کی قربانیاں پیش کیں.ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادیانی عوام میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اس سراب کو حقیقت سمجھ کر اس کے لئے جان ومال اور دنیوی وسائل و علائق کی قربانی میشی کرتی ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل میں سزائے موت کو لبیک کہا بیرون ملک دور دراز علاقوں میں غربت و افلاس کی زندگی اختیار کی " '
۱۳ تقسیم ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی جس کے ساری خزانہ میں اپنے معتقدین کے لاکھوں روپے جمع تھے.اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہو کر آئی تو قادیانیوں کا یہ سرمایہ جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا اور اس سے ہزاروں قادیانی بغیر کسی کاوش کے از سر نو مجال ہوگئے.پھر یہ موضوع بھی مشتق توجہ ہے کہ یہ وہ جماعت ہے حسین کے افراد تقسیم کے بعد سے آج تک قادیان میں موجود ہی اور وہاں اپنے مشن کے لئے کو شان بھی ہیں اور منتظم بھی قادیانی تنظیم کا میرا پہلو وہ تبلیغی نظام ہے جس نے اس جماعت کو بین الاقوامی جماعت بنا دیا ہے.اس سلسلہ میں یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے.کہ بھارت کشمیر انڈونیشیا اسرائیل، جرمنی ، ہالینڈ - سوئیٹزر لینڈ امریکه دبیرخانی دشتی : نائیجیریا.افریقی علاقے اورپاکستان کی تمام قادیانی جماعتیں مرزا محمود احمد صاحب کو اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کرتی ہیں اور مان کے بعض دوسرے ملک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائید اوین صدر انجمن احمد یہ دیدہ " اور " صدر المجمین احمدیہ قادیان" کے نام وقف کر رکھی ہیں " ( سبقت منه المنبر ا مارچ ۱۹۹۱ و صفحه) ید محمد از بهر شاه صاحب دیوبندی (فرزند مودی انور شاہ صاحب کا شمیری) نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ :- قادیانیوں کی تنظیم، اپنی تبلیغ کے لئے ان کا ایثار اور مستعدی اپنے مشن کے لئے ان کی خدا کاری ایک مثالی چیز ہے مسلمان جب کہ
اور اختیار کی اس روح تک نے انھیں قادیان اور دو سر ہے مذاہب کے حاملہ میں کامیابی نہیں ہوگی.1940 (چیان ، از فروری ۱۹۷۵ - صفحه ۱۳) یدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے ایک بار فرمایا تھا کہ: دیکھیو کاشتند کاری میں سب چیزوں ہی سے کام کیا جاتا ہے.پانی ہے.بیج ہے.مگر پھر بھی اس میں کھاد ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے جو سخت نا پاک ہوتی ہے.کہیں اس طرح ہمارے سلسلہ کے لئے بھی گستری مخالفت کھاد کا کام دیتی ہے." الملفوظات جلد ۱ صفحه ۳۷۰) اس ضمی میں کئی عبد الرحیم صاحب اشرقت عمیر المیر کا چشم دید اور واقعاتی شہادت پر مینی بیان عرصہ سے شائع شدہ ہے.چنانچہ آپ یا ضح لفظوں میں فرمات بیان: اس وقت جو که شتی تحفظ ختم نبوت کے نام سے قادیانیت کے خلاف جاری ہے قطع نظر اس کے کہ اس کو ششی کا اصل محرکی خاص.خدا کے دین کی حفاظت کا تجربہ ہے.یا حقیقی وجہ معاشی اور منفی ذہین کے رجحانات کا مظاہرہ ہے.ہار کی رائے میں کوشش نہ صرف یہ کہ اسی مسئلہ کے حل کرنے کے لئے مفید نہیں ہے بلکہ ہم علی وجہ البصیرت کامل یقین و اذعان کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ جدو جہد قادیانی شہرہ کے بار آور مر نے کے لئے مفید کھاد کی حیثیت رکھتی ہے.المرة الرجولائی ۱۹۵۶ ، صفحہ ۷)
ہے کو ئی کا ذپ جہاں میں لاؤ لوگو کو نظیر میرے جیسی نہیں کی تائیدیں ہوتی ہوں بار بار (مسیح موعود ) چوتھا اصول ( کاذب مدکی ماموریت کی ہلاکت) وَلَوْ تَقَوَّل عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيل لَاخَذْنَا مِنْهُ اليمينه ثمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِي فَمَا مِنكر مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِرِينَ “ (الحاقة : ۱۳۵ ۲۸) حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ اس آیت کریمہ کا ترجمہ و تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر تو اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر لوگوں کو سنائے اور اس کو میری طرف منسوب کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کام ہے حالانکہ وہ خدا کا کلام نہ ہو تو تو ہلاک ہو جائے گا.اور یہی دلیل صداقت نبوت محمدیہ مولوی آل حسین صاحب اور مولوی رحمت اللہ کہ سب نے نصاری کے سامنے پیش کی تھی نیند وہ اس کا جواب نہ دے سکے اور اب یہی دلیل قرآنی ہم اپنے دعوئی کی صداقت میں پیش کرتے ہیں." ملفوظات جلد دوم صفحه ۳۱۲۳۱۳) ے ازالته الاو عام ( مؤلفه مولوی آل حسن صاحب متوفی XINFL ے اظہاری (مصنفقه موری رحمت اللہ صاحب شرفی - (۶۱۸۹)
۱۶ اب ہم پچ پچھتے ہیں کہ اگر ہمارا یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کر دہ ہے وہ نہیں ہے ت کسی قوم کی تاریخ سے ہم کو پتہ دو کہ خدائے تعالیٰ پر کسی نے افترا کی ہو اور پھر اسے مہلت دی گئی ہو.ہمارے لئے تویہ معید صاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ۲۳ سال تک کا ایک در از زمانہ ہے اس صادق اور کا بل نہیں آئے زمانہ سے قریباً ملتا ہوا زمانہ اللہ تعالی نے اب تک ہم کو دیا.ہم ایک مسلم صادق میکہ حملہ صادقوں کے سرتاج صادق کے زمانہ سے ملتا ہوا زمانہ پیش کرتے ہیں." محفوظات جلد اول صفحه ۳۰۱) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اس دعوی کی تائید میں لکھتے ہیں: نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی میں یہ بھی ہے کہ کا ذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.واقعات گذشتہ سے بھی اس کا ثبوت پہنچتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نہیں کو سر سبزی نہیں دکھائی.یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر مرتا ہی ناب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوت مخالف بھی نہیں بتا سکتے." پھر فرماتے ہیں :.بیوی نیت کاذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا.چاک ہوگا متقدمه تفسیر بنائی جلد صفحه طبع اول ها اس اصول کے مطابق بھی حضور مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی آفت آپ کی طرح روشنی ہے
حضور نے کیا ہی درد دل سے فرمایا تھا اے میں اگر کاذب ہوں کنائیوں کی دیکھیوں گا منزا پر اگر صادق ہوں پھر کیا عذر ہے روز شمار پانچواں اصول (ضرورت زمانه ) قرآن کریم میں ہے : ظهَرَ الْفَسَادُ فِي البَرِّ وَالْبَحْرِ (ق: ٢٣) ینی دریا بھی کیے گئے اور خشک زمین بھی جھڑ گئی مطلب یہ کہ جس قوم کے ہاتھ میں کتاب آسمانی تھی وہ بھی گر گئی اور جن کے ہاتھ میں کتب آسمانی نہیں کی اور خشک جنگل کی طرح تھے وہ بھی بگڑ گئے..در چشمه معرفت صفحه ۸) اس آیت سے ثابت ہے کہ زمانہ کا عالمگیر فساد ایک آسمانی مصلح کی سچائی پر برگمان ناطق ہوتا ہے.اسی لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.نہ صرف یہ کہ میں اس زمانہ گئے لوگوں کو اپنی طرف جاتا ہوں بلکہ خود زمانے نے مجھے بجھایا ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم یادداشتیں) ے وقت تھا وقت بہیمانہ کسی اور کا وقت کیں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا جمد حاضر میں غیر مسلم اور کافر قوموں کا حال تو سب پر عیاں ہے خود دنیائے اسلام کا نقشہ کیا ہے ؟ اس کا جواب مسجد حرام موت کے خطیب الایا اور بی ایمیل تو ملا
IA کے الفاظ میں پیش کنا مناسب ہوگا.انہوں نے بیت اللہ شریف کے سایہ میں خطبہ حجہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا ہے : " ان واقع المسلمين اليوم في اكثر الميلاد الاسلاميه مؤلم جداً - انه لمخالف ما عليه الرسول صلى الله عليه وسلم واصحابه - اليس في اكثر البلاد الاسلاميه ترى الرجل منتسبا للإسلام ويقول الله مسلم ومع ذالك فلا سعة اسلامية من ارتكاب الجرائم العظام لا بمنعه اسلامة من الرياء وأكل أموال الناس والفجور ولا من حوانيت اللهو و الخمور لا يمنعه إسلامه من الكذب وشهادة الزور - لا ينعه اسلامة من الغش والتدليس والخداع في معاملات المسلمين - لا يمنعه اسلامه من ترك الصلاة والصيام لا يمنعه اسلامة من ان ينسب المسكين بدينهم إلى الحمود والتحجر والى الرجعية التأخر ليشوهون الحق بالقاب المنفرة عند بعض السذج من الناس - لا يتجه إسلامة من تفضيل طريقة الغربيين ومذاهب الشرقية و انكار المنحرفين على طريقية الرسول وصحبه - لا يمنعة إسلامة من الحكم بالقوانين الوضعية ونبذ القرآن والاحاديث النبوية لا يمنعة السلامة من
الصاق العيوب بالشريعة الاسلامية وادخالي فيها ماليس" ويذهبوك بذهب الاشتراكية ويُسَخُرُوق الأقلام والالسن بالدعوة اليها ونيا صحوت الأهرسين ويوالون الشيوعيين دينكرون لدين الله ولعباد الله من المؤمنين - ايها المسلمون لا نصر ولا عزَّ ولا تقدم ولا رقي الا بالمسك بكتاب الله والاهتداء بهدي نبيه والاجتماع تحت راية الاسلام اسلاماً حقيقياً عقيدة وعلما وتحكيماً.ر اخبار العالم الاسلامی - حاشیعیان ۱۳۹۳ هر مطابق با ستمبر ۱۹۷۲ و صفحه ی ترجیه : آج اکثر بلاد اسلامیہ کے مسلمانوں کی کیفیت سخت الم انگیز ہے.مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور کے صحابہ کی روش مجھے مخالف ہو چکا ہے کیا اکثر مسلمان ممالک میں نہیں ایسے لوگ نظر نہیں آتے جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے اور اپنے ہیں مسلم کہتے ہیں اور بائیں محمد ان کا اسلام انہیں بڑے بڑے برائلہ سے نہیں روکتا.ان کا اسلام انھیں سود اور لوگوں کے اموال کھانے اور مجور سے نہیں روکتا اور نہ رقص گا ہوں اور شراب خانوں سے منع کرتا ہے اور نہ ان کا اسلام کذب بیانی اور جھوٹی گواہی سے انھیں روکتا ہے.قران کا السلام ان میں مسلمانوں کے معاملات میں دھوکا ، چالبازی اور فریم یا دہی سے
باز رکھتا ہے.نہ ملی کا اسلام انھیں نماز وروزہ کے چھوڑنے سے روکتا ہے.ان کا اسلام انہیں اس بات سے بھی نہیں روکتا کہ دین کو مضبوطی سے اختیار کرنے والے لوگوں کو مجبور اور بے حسی اور قدامت پسندی اور پیچاندگی کی طرف منسوب زکریں.وہ حق کو نفرت انگیز القاب کے ذریعہ تعض سادہ لوح لوگوں کے سامنے بدنما بناتے ہیں.ان کا اسلام انہیں اس سے بھی نہیں روکتا ہے کہ تربیتی کے طریقہ اور شرقیں کے اہب اور منحرفین کے افکار کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی سنت پر فضیلت نہ دیں.ان کا اسلام قرآن اور احادیث نبویہ کو پس پشت ڈال کر خود ساختہ قوانین کے تفصیلہ سے بھی انہیں نہیں رکھتا اور ان کا اسلام انہیں اس بات سے بھی نہیں روکتا کہ شریعیت اسلامیہ کو عیوب اور نقائص کا تختہ مشق بنائیں اور اس میں ایسی باتوں کو بے جا طور پر داخل کریں جو در حقیقت اس کا حصہ نہیں ہیں.وہ اشترا کی مذہب رکھتے ہیں.اور اپنی فلموں اور زبانوں کو اسی کی دعوت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں.وہ دہریوں کی مدد کرتے اور کمیونسٹوں کی دوستی کادم بھرتے ہیں اور خدا کے دین اور خدا کے مومن بندوں سے بیگانگی اختیار کئے ہوئے ہیں.اسے مسلمانو یا کوئی نفرت ، کوئی عرفت ، کوئی ترقی ، کوئی بلندی کتاب اللہ سے وابستگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے رہنمائی حاصل کر تھے اور اس اسلام کے جھنڈ سے تلے جمع ہوئے بغیر مکن نہیں ہو
۲۱ اپنے عقیدہ علم ، اور قول فیل ہونے کے اعتبارسے حقیقی اسلام ہے.جناب مولوی عبد الرحیم صاحب اشرف میر المیز کے صاجزاء سے جناب فائدہ اکثر صاحب نے رسالہ المنیر ۲ اگست سہ میں لکھتا ہے.ور خدا کے نام پر حاصل کی ہوئی سلطنت میں خدا کی وحدانیت پر ایمان لانے کے باوجود کئی چھوٹے بڑے خود گھر سے اور ان کی پوجا کی مزاروں کو مسجد سے کہئے.خدا کے برگزیدہ انسانوں کو حاجت روا اور مشکلشا تھوڑا کر وحدہ لاشریک معبود کا شریک بنایا گیا.کیا قوم نوح کا جرم اس سے مختلف تھا ہماری قوم کے نوجوان اس (زنا) کے رسیا ہوگئے تو پھر قوم بود کی طرح ہم اس تباہی سے کیونکر بیچ سکیں گے.کیا قوم عاد کی قیا شیاں ہم سے بڑھی ہوئی تھیں.تم نے خدا سے عہد کر کے اس کی خلاف ورزی کی اور پوری قوم نے اسلام کو ترک کر کے نظر کو اپنایا.خدا اور اس کے دین سے منہ موڑ کر پوری قوم نے کفر کے حق میں و رویا س قراقی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ومن المحکم بما انزل الله فأولئك هم الكافرون (ماده) یعنی جو لوگ اللہ کے ابلے ہوئے حکم سے فیصلہ نہ کریں گے.وہی کا فر ہیں.ان يتبعون الا الطق نیر منائی جلد اول صفحه ۳۷-۳۷۱) ليضلو له عَن سَبِيلِ الله وَ ال الفن وإن هُمَا لا يَخْرُصُونَ ( العام ع ١٠) یعنی شن کو اگر تو زمین کے باشندوں میں سے اکثریت کے کیسے چلا تو ضرور تمیر کو بند کی راہ پی لیں گے کیونکہ وہ تو صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں اور تری انگلیس ہی دوڑاتے ہیں.( ترجمه از تغییر نائی)
۴۲ خود مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف کے مسلمانوں کی کرب انگیز دنی واخلاقی و روحانی کیفیت پر بار بار روشنی ڈالی ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں موصوف نے مندر جہ ذیل پہلو بھی پیش کیا ہے.لکھتے ہیں :.ختم نبوت کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ امت محمدیہ بنیان مرصوص کی حیثیت سے قائم علی الحق رہتی اس کے جملہ مکاتیب فکر اور ت م فرقوں کے مابین دین کی اساسات پر اس نوع کا اتحاد ہوتا جس نوع کار اتحاد ایک صحیح الذین امت میں ہونا ناگزیر تھا لیکن غور کیجئے کیا ایسا ہوا؟ بلاشبہ ہم نے متعدد مراحل پر اتحاد امت کے تصور کو پیش کیا اور سب سے زیادہ قادیانیوں کے خلاف مناظرہ کے سٹیج سے ڈائرکٹ اکشن کے ویرانے تک ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام فریقے یکجان ہیں لیکن کیا حقیقتا الیا تھا.کیا حالات کی شدید سے شدید تر نا مساعدت کے باوجود بہاری تلوار تکفیر نیام میں داخل ہوئی ؟ کیا ہولناک سے ہولناک تر واقعات مجھے ہمار سے منادی کی جنگ کو کو ٹھنڈا کیا ؟ کیا کسی مرحلہ پر بھی مہارا فرقہ معنی پر ہے اور باقی تمام جہنم کا ایندھن میں گئے نعرہ سے کان نامانوس ہوئے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو بتا ئیے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی اہمت کے اگر تمام فرقے کافر ہیں اور میرا ایک دوسرے کو جہنمی کہتا ہے تو لا محالہ ایک ایسے
۲۳ شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس کفر اور جہنم سے نکال کر اسلام اور جنت کا یقین دلا سکے.دالته د مارچ در صفحه (۵) تاریخ (!) مند بعد بالا الفاظ ما مور وقت کی ٹھیک ٹھیک آمد کا منہ بولتا ثبوت ہیں.چھٹا اصول (صادق کی تکذیب و استہزاء ) بحشوة ነ ـرَةً عَلَى الْعِبَادَةِ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِرُونَ (لين) ( ليس : ٣١) یعنی " کوئی رسول نہیں آیا جس سے جاہل آدمیوں نے ٹھٹھا نہیں کیا." • (حقیقة الوحی صفحه ۲۳) حضرت بانی مسلہ احمدیہ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے جو اس میں منا کے ساتھ حصر کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سچا ہے اس کے ساتھ سنی اور ٹھٹھا ضرور کیا جاتا ہے" 19.1 (الحکم 4 امت ANG: در چشمہ معرفت صفحه ۳۱۸) (٣١) ایش نیروی میں آخری زمانہ کی یہ خاص علامت رکھتی ہے کہ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يُجْعَل كِتابُ اللهِ عَارًا وَيَكُوهُ إسْلَا مُغَرِيباً وَيُصَدَّقُ الكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ الصَّادِقُ ويقوم الخُطَبَارُ بِالكَذِبِ فَيَجْعَلُونَ حَقِى الشوار امتى فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِذَا إِلكَ وَرَضِيَ بِهِ لَمْـ
يرح رائحة الجنة طبرانی کبیر درایانه ابو نصر و تاریخ ابن عساکر، بحوالہ مطلقه الاختراعات تالیف الامام المجتهد احمدين الصديق الغماري الحسني مطبوعة مصر صفحه (۸) تربی: - قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی.یہانتک کہ کتاب اللہ کو موتیپ دار سمجھا جائے گا اور اسلام کس مپرسی کی حالت میں ہوگا.کا ذب کی تصدیق اور صادق کی تکذیب کی بجائے گی.خطیب جھوٹ بولیں گے اور میرے حق کو امت کے بدترین لوگوں کے سپرد کر دیں گئے.جو شخص بھی اس میں ملک کی تصدیق کرے گا اور اسے پسند کرے گا جنت کی خوشبو پا سے محروم رہے گا.فرقان حمیدہ کے مندرجہ بالا اصول اور حدیث النبی کی پیشگوئی کے مطابق بھی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا برحق ہونا الم نشرح ہے.معترضین کا رخ کردار اس حقیقت کے ثبوت میں جناب مولوی عبد الرحیم صاحب اشرف مدير المنیر کا درج ذیل تیره خاص طور پر لائق مطالعہ ہے.موصوف تحفظ ختم نبوت تحریکات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : تحفظ ختم نبوت ہو یا مجلس احرار.ان دونو کے نام سے آج تک قادیانیت کے خلاف جو کچھ کیا گیا ہے اس نے قادیانی مسئلے کو الجھایا ہے.ان حضرات کے اختیار کردہ طرز عمل نے راہ حق سے ٹھیکنے والے #
قادیانیوں کو اپنے اعتقاد میں جنگی کا مواد فراہم کیا ہے.اور جو لوگ مذبذب تھے انہیں بد عقیدگی کی جانب مزید دھکیلا ہے." استہزاء ، اشتعال انگیزی ، یادہ گوئی ، بے سر و پا لفاظی ، اس مقدس نام کے ذریعہ مالی عین لادینی سیاست کے داؤ پھیر خلوص سے محروم اظہار جذبات ، مثبت اخلاق فاضلہ سے نہی کردار ، نا خدا ترسی سے بھر اوپر نی لغت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی.اور ملت اسلامیہ پاکستان کی ایک اہم محرومی پر ہے کہ مجلس احرار اور تحفظ ختم نبوت کے نام سے جو کچھ کیا گیا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ انہی عنوانات کی تفصیل ہے.اس سلسلہ میں آپ نے جناب سید عطاء اللہ شاہ بخاری امیر شریعیت احدار کو خاص طور پر منی طلب کرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا :- ہ شاہ صاحب نے کہا کہ حضور خاتم النبین نے میر سے نام پیغام دیا ہے کہ میں ختم نبوت کے مسئلہ کو کامیابی سے چلاؤں...شاہ صاحب کی جانب منسوب کردہ الفاظ اگر صحیح ہیں یا انھوں نے اس مفہوم کو بیان کیا ہے کہ حضور سرور کانات روحی و نفسی خدا صلی الہ علیہ وسلم نے انھیں متخب فرمایا کہ وہ ختم نبوت کی حفاظت کریں اور اب شاہ مانا اسی ارشاد رسالت کی تعمیل کے لئے شہر شہر گھوم پھر رہے ہیں.تو مر کھو بھر سے دل سے کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے حضور اقدس کی شان میں
نادانسته) ایسی گستاخی کی ہے جس سے وہ جتنی جلدی توبہ کر لیں ان کے لئے بہتر ہے." شاہ صاحب کی اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سید العرب والعجم صلی اللہ علیہ وسلم ، شاہ صاحب کی ان تقریروں کو جو تحفظ ختم نبوت کے نام پر آج ہم کرتے رہے اور اب کر رہے بھی منظوری و پسندیدگی حاصل ہے اور اسی وجہ سے انھیں دربار رسالت مرسے پر امتیاز عطا ہوا ہے کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے انھیں اس عظیم کام کیلئے منتخب فرمایا گیا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر مولانا سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی یہ تقریریں جو وہ قادیانیت کے خلاف کر رہے ہیں ریجن میں سے آیات کی تلاوت اور ان کے بعض مطالب کی تبلیغ کا حصہ بن فی الحقیقت ان کی تقریروں کا یہ ہو گا مستی کر لیا جائے اگر انہیں دربار راست کی پسندیدگی حاصل ہے تو ہم اس اسلام کو جو کتاب و سنت میں پیش کیا گیا ہے اور جس میں ذہن ، قلب ، زبان اور اعضاء کومستوالیت سے ڈرایا گیا ہے.خیر باد کہنے کو تیار ہیں.A ہار سے نزدیک شاہ صاحب نے نہایت غلط سہارا لیا ہے اور مسلمانوں میں جو عقیدت رحمتہ اللعالمین بالی سہر والی صلی اللہ علیہ و کے ساتھ موجود ہے اس سے نہایت غلط قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش اور پھر اس میں جب ہم مرید و بجھتے ہیں کہ وہ اس کی ہے..خواب سے مراد یہ لیتے ہیں کہ تحفظ ختم نبوت کے نام پر جو نظم ؟؟؟
۲۷..تھے انھوں نے قائم کر رکھا ہے حضور خاتم النبیین مردمی و نفسی نداہ اس نظم کی تائید فرمارہے ہیں تو ہماری روح لرز جاتی ہے، اگر خدانخواستہ یہ نظیر اور اس کے تحت تحقیق کردہ مبلغی کا کام اور اس کے نام پر امال کئے گئے صدقات ، زکواتیں اور چند سے اس بری طرح صرف ہوئے کے باوجود انھیں پیغمبر امن کی پسندیدگی حاصل ہے تو نا گزیر ہے کہ ان تمام احادیث رسالت آپ کو خیر باد کہہ دیا جائے جن میں آپ نے مسلمانوں کے مال کے احترام کی اہمیت بیان فرمائی ہے اورتین میں اموال المسلمین میں خیانت کو حرام اور موجب میرا بتلایا گیا ہے." ا شیفت بعده المنیر لامپور و ماریت در صفحه ۲ کالم (۲) بعده بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی صاحب جیسے مفکر اسلام احرار کے کارنامہ تحفظ ختم نبوت کی نسبت اپنی رائے یہ دی : اس کارروائی سے دریائی میر سے سامنے بالکل عیابی ہو گئیں.بیک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے ملکہ نام اور سہر سے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کی جان ومال کو اپنی اغراض کے لئے ہوئے کے داؤں پر لگا دنیا چاہتے ہیں.دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرارداد طے کرنے کے بعد عید آدمیوں نے الگ بیٹھ کر سازباز کیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں جو بہر حال کنونشن کی مقرر کردہ سبجیکٹس کمیٹی کا مرتب کیا ہوا نہیں ہے میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نبیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس
میں کبھی شیر ہی ہوسکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطر نج کے مہروں کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہوسکتے." بہت دوره المنتر کا شیپور ۱۰ار جولائی - صفحه ۲ دوسری طرف مجلس تحفظ ختم نہیت کے راہ نماؤں نے جماعت اسلامی اور ان کے قائد و بانی جناب سید ابو الاعلی مودودی کو کیسے کیسے خطابات سے نوازا ہے اس کی دلچسپ تفصیل مولانا عبد الرحیم صاحب اشرف کے الفاظ میں دی جاتی ہے.مٹی کا بیابی ہے.- تحفظ ختم نبوت کے فنڈ اور اس فنڈ سے حاصل کئے گئے یا تنخواہ مبلغین کو جماعت اسلامی کے خلاف تقاریر کی ٹرینگ کا اہتمام کیا گیا.جس کی زمام کار مولوی لال حسین دینے محتاط اور شیریں متقال مناظر کے انھوں میں سونپی گئی اور یہ کام بھی انہی کے سپرد کیا گیا کہ وہ ہر شہری سیاسی کارکنوں کی میٹنگیں ملائیں اور ان میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف نفرت و حقارت پھیلانے کا کام کریں بالی مانی میں مسلم لیگ آزاد پکست کی پارٹی.جناح عوامی لیگ کے کارکنوں کو بلایا جاتا اور امجد سمیت دیوبندی.اور بریلوی حضرات کو دعوت دی جاتی.انھیں یکجا کر کے مذہبی اور سیاسی اختلافات کے علاوہ یہ بات عام طور پر کہی جاتی رہی کہ جماعت اسلامی کا کردار اور اس کے جتبائیڈ انو انا علی مودودی کے اس طرز عمل سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مودودی
صاحب میں مجلس عمل کے اجلاسوں میں شریک ہو تے اور رات کو نظم الدین سے طلاقاتیں کرتے اور آخری مرتبہ مودودی صاحب نے تحریک تحقد خستم نبوت سے یہ عظیم غداری کی کہ ناظم الدین سے یہ جا کر کہا کہ جماعت اسلامی تحریک سے الگ ہے.آپ جو چاہیں ان لوگوں سے سلوک کر سکتے ہیں.چنانچہ اسی منشور پر ۲۶ فروری کو مجلس عمل کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد ویت مارشل لا تک پہنچی جس میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی اگر مودودی صاحب تحریک سے غداری تند کرتے...تو کوئی نوجوان قتل نہ ہوتا.اخیر کا طیور کار جولائی یه صفحه (۹) پھر تحفظ ختم نبوت کا نفرنس لائل پور میں امیر شریعیت احرار مولانا سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری نے.مولانا ابوالاعلی مودودی کو تقرار در دنا گو اور تمن را جرم است کرنے کے بعد مباہلے کا چیلنج دے دیا." عبرت ناک حقائق دالمنیر ، ار مولائی یه صفحه (۹) مندرجہ بالا حیرتناک اور تلخ حقائق پر سچے اور مخلص مسلمان کے دل کو اس یقی سے بھر دیتے ہیں کہ نام نہاد می عظیم ختم نبوت کی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر تنقید جہاں آپ کی صداقت کی دلیل ہے وہاں بات يعسرة عَلَى الْعِبَاد
کی روشنی میں اس کو آسمانی صداقت سے استہزاء اور مذاق کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں ہے دیا جا سکتا.اس استہزار میں مغالطہ کہانی سنتی جھوٹ اور اشتعال انگیزی کے سب اجزاء مکمل صورت میں موجود ہیں جیسا کہ درج ذیل چند اعتراضات کے تجزیہ سے بخوبی معلوم ہو جائے گا.ایک غیر قرآنی نظریہ عوام کو مغالطہ دینے کیلئے یہ خود ساختہ نظری پھیلایا جاتا ہے کہ ہرنی کے آتے ہی نئی امت معرض وجود میں آجاتی ہے حالانکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کے ماننے والے ایک ہی امت ہیں اور ان سب کا مذہب اسلام ہے اور بھی انبیاء کے حقیقی پر وہی تندا کے دفتر میں مسلمان اور محبت اسلامیہ کے خرد کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں.یہ قرآنی حقیقت منذ سبعہ ویل آیات کے کیجاتی مطالعہ سے ثابت ہوتی ہے :- ان هدية أمتْكُمُ امَّةً وَاحِدَةً وَانَاتُكُمْ فَاعْبُدُونِ (1) (الانبياء (۹۳) اسے نبیوں ، یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں.پس تم میری ہی عبادت کرو.بعد سالہ قادیانیوں سے پہلا خطاب نار مرکزی نیم ختم تو لائل پور
(٣) وَات مِن شِيعَتِم لَابْرَاهِيمَ الصَّافات : ۸۴) ترجمان القرآن بحضرت ابن عباس - حضرت علامہ سیلیه طی 2 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی.حضرت شاہ رفیع الدین.نواب صدیق حسن خان اور علامہ احمد مصطفی المراغی نے اس آیت کے معنی یہی کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سیدنا حضر فرج علیہ السلام کے دین پر تھے اوران کے تبع تھے.(۳) دعائے ابراہیمی ہے :- ربَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ خُدِيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ القبرة ، (۱۲۹) (* اسے ہمارے رب ہم دونو کو مسلمان نیاد سے اور ہماری ذریت کو بھی امت مسلمہ نیاد ہے.(۴) د ملة ابنكُمُ ابْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّكُمُ المُسلِمِينَ لا مِن (انیم :) قبل وفي هذا (اسے مومنو!) اپنے باپ ابراہیم کے دین کو اختیار کرو کیونکہ اللہ ہے نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے.اس سے پہلے کتاب میں بھی اور اس کتاب میں بھی.مندر جہ بالا آیات میں نقطہ مرکزیہ کی شادی ہی کرتی ہیں ان کا فصیح و بلنچ خلاصہ حضرت خاتم الانبیاء صلی الہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ بیان ہوا ہے کہا.الانبار اخوة لِعَلاتِ أُمَّهَاتُهُرْشَى وَدِيْنَهُمْ واحد (بخاری کتاب بد ما الخلائق)
۳۲ تمام انبیاء مثل علاتی بھائی کے میں سائیں ان کی جدا جدا ہیں.گردن سب کا واحد ہے.گفته او گفته الله بود گرچه از حلقوم عبدالله بود صرف اختلاف شخصیت احمدیت کے مخالف حلقوں میں سب سے زیادہ نقد میں نزاعی مبحث پر دیا جاتا ہے وہ سکہ ختم نبوت ہے.حالانکہ جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمان فرقوں میں ختم نبوت میں نہیں بعض شخصیت میں اختلاف ہے.دوید یہ کہ قرآن مجید میں یہ پیشگوئی موجود ہے.هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِ على الدين كله (سورة توبة والصف) یعنی خداوہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل صداقت اور پیچھے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک سے قطعی طور پر ثابت ہے.کہ اسلام کا کل ادیان باطلہ پر عالمگیر غلبہ اس مسیح موعود کے ذریعہ ہو گا.(جن کو حضور نے مسلم شریف میں چار دفعہ نبی اللہ کے نام سے یاد فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: - في اللَّهُ فِي نَمَانِهِ المَالَ كُلَّمَا خَيْرَ الْإِسْلًا من (الانو کتاب الحلاهم باب خروج الدجالی جلد ۲)
یعنی الشر تعالی اس کے زمانہ میں اسلام کے سوا باقی سب مذاہب کو نیست و یا بود کردے گا.اس تفسیر کے عین مطابق گزشتہ تیرہ صدیوں کے اکابر است ، خواہ ان کا تعلقی بالا سنت والجماعت سے ہو یا اہل تشیع سے بالاتفاق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ھو الذی انال دستوره کا وعدہ آخری زمانه مینی سیح، وعود و مہدی معہود کے ساتھ والبتہ ہے.چنانچہ دنیائے اسلام کے مستند اور قدیم مستر حضرت علامہ ابن جریدہ تحریر فرماتے ہیں."عَنْ إِلَى هُرَيْرَةً فِى قَوْلِهِ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّي كلم قال " حضرت ابوہریرہ سے عمرة على الدين، علم کی نسبت مردی جبکہ آپ نے فرمایا کہ یہ عیسی بن مریم کے ظہور پر وقوع پذیر ہوگا.سين بن مردوو مردُوقٍ قَالَ حَدَّشَى مَنْ سَمِعَ أَبَا جَعْفَرٍ قَالَ إِذا خَرَجَ : عليه السلام الشيعة أهل كل حين رتفسیر آن بر به مفیدقه مصر زیر صورة صف) نہیں بن مرزوق سے روایت ہے کہ مجوست اس شخص نے یہاں کیا ہوں نے ابو بھر سے سنا آپ نے فر علی الدین کلام کی نیت عمران کر جب عیسی علیہ السلام فروج کریں گے.سی ایل نا امن امان کا امریکا کریں گئے.
۳۴ بروقت نزول عینی که برای زمین دین اسلام قبول کننده ا تغیر حسینی مترجمه فارسی منا مترجم فارسی صفحه ۴ مه زیر سوره صف مطرح کو لیلی مینی که دین اسلام کا عالمگیر غلبہ نزول عیسی کے وقت ہوگا.جبکہ تمام اہل ذیبی دین اسلام قبول کر لیں گئے.حضرت علامہ شندی نے فرمایا: ذالك عندَ خُرُوحِ المُهْدِي عَلَيْهِ السَّلَامَ لَا يبقى أَحَدٌ الأدخَلَ فِي الْإِسْلَامية ادى الخراج - " و تغیر خواب القرآن از علامه نظام الدین نیشا پوری بر حاشیه این جرید) غلیہ دین کا وعدہ خروج مہدی علیہ السلام کے وقت پورا ہو گا.جبکہ ہر شخص حلقه بگوش اسلام ہو جائے گاما در خراج ادا کرہ سے گا.شیعہ بزرگوں کی مشہور کتاب بحار الانوار جلد ۳، صفحہ ۱۲ میں لکھا ہے: م نَزَلَتْ فِي الْقَائِمِ مِنَ الِ مُحَمد" کہ یہ آیت قائم آل محمد کی نسبت نازل ہوئی ہے.اسی طرح شیعہ مسلک کی ایک اور کتاب غایہ المقصود " جلد ۲ صفر ۱۲۳ پر ہے.مراد از رسول در این جا مهدی موعود است اس جگہ رسولی سے مراد مہدی موعود ہے.مندرجہ بالا تفاصیل سے عیاں ہے کہ آخری زمانہ میں عالمگیر علیہ اسلام کے لئے ایک رسول کی بعثت کا عقیدہ ہر مکتب فکر کے مسلمانوں میں قدیم سے چلا آتا ہے اور مسلمہ ہے.احمدیوں کے نزدیک یہ جگہ ٹی پوری ہو چکی ہے.مگر دوسرے مسلمان اس
موعود شخصیت کی آمد کے ابھی منظر میں ثابت ہوا کہ بنیادی نزاع ختم نبوت کا نہیں تعین شخصی کا ہے.تناقص کے الزام کی حقیقت یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اپنے دعوی کی نسبت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات میں تضاد پایا جاتا ہے کہیں اپنے تین غیر نبی لکھا ہے اور کہیں نہیں.حق یہ ہے کہ حضرت اقدس نے اللہ سے لے کہ آخر دم تک آیت هر انسانی ارسل رسوله الخ کے مصداق ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا.البتہ رسالت : نبوت کی دو تعریفوں کو مد نظر رکھ کر جن میں سے پہلی رسمی اور دوسری الہامی و قرآنی تھی دو الگ الگ زاویہ نگاہ پیش کرتے ہیں.جیسا کہ آپ خود ہی فرماتے ہیں : جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعیت لانے وان نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے.رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعیت کے ایسی طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا." یک غلطی کا ازالہ ) اس کے ساتھ ہی ہمیشہ آپ نے یہ وضاحت فرمائی ہے :- یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئیے اور ہرگز نہیں فراموش کرنی چاہیئے کہ
I میں با وجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فوش بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے ہمیں کا رد عالی افاضہ میر سے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم به (ایضاً) نیز واضح اعتراف کیا :- اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی ن کرتا تو اگر دنیا کےتمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و شیاطیہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ ان میجر محمد تی نبوت کے ونشی سب نبوتی بند ہمیں شرابیت والا ہی کوئی نہیں آسکتا اور اخیر شرعیت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہ جو پہلے امتی ہو برامین احمدیہ کی عدم تکمیل کا پس منظر تجليات البنية - صفحہ ۲۲-۲۵) مشرقی وسطیٰ کے قدیم بزرگ حضرت یحی بن عقد ہ نے اپنے ایک الہامی قیر میں مہدی موجود کی صداقت کا ایک نشان یہ بتلایا کہ ويأتي بالبَرَامِنِينَ القَوَاتِي تُسَهَا الْبَرِيَّةُ بِالكَمَال اشمى للعارف الكبري جعلها انا مو له شيخ بعد امیر فی المتوفی ۴۶۲۲) فيلمها یعنی مهدی مورد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لیے براہین کھائے گا جس کو اس کے کہ کلات کی وجہ سے خلقت تسلیم کرے گی.
برا ی مہتم بالشان پیشگوئی حضرت بانی سلسلہ کی شہرہ آفاق کتاب براہین احمدیہ (۲۱۸۸۴-۴۱۸۸۰) سے بھی پوری ہوئی بیس کی نسبت مشہور اہل حدیث عالم مولوی ابو سعید محمدحسیبی بٹالوی نے یہاں ایک لکھا کہ اس ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کیا ہے ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی اور آئندہ کو تہی نہیں لعل الله يحدث بعد ذالك امرا اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و عالی وقالی نصرت میں عیسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پانی گئی ہے." (اشاعة المستند حالا نمیره (۱) براہی احمد یہ اس شان کی کتا یہ ہے کہ مخالفین احمدیہ اس کے مفاہیلی سے استفادہ بھی نہیں کرتے بلکہ اس کے الفاظ تک کا مرقدہ کرتے رہتے ہیں.بطور رشمال رسالہ " مونوی دہلی.رسول نمبر " (ماہ صفر سے حرم میں بیا نذیر الحق صاحب سابق خطیب جامع مسجد ڈلہوزی کا مطلب شائع شدہ ہے جس میں آیت الله نور الاموات والارض کی سیر تفسیر انہوں نے یہاں کا ہے وہ معمولی تصرف کے ساتھ لوکی لغت می آمد به مادرم مستم ۸۰۰ ہی کے الفاظ میں دریا ہے مگر خطبہ ہی ھاتی خدا سے اپنی طرف منسوب فرما لیا ہے.افسوس ایک طرف تو یہ ذہنیت کم رفرما ہے اور وہ سری طرف اس بلند پایہ اسلامی شما ہی کام کی عظمت پر پردہ ڈالنے کے لئے کہا جاتا ہے گرم را با سی نے اس کی پچاس جلد وار کے لکھنے کا وعدہ کو کسے لوگوں سے بہت سا چندہ یا پھر مانتے 1
کی اشاعت پر اکتفا کر کے لکھا: چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لئے پانچ مشغول سے وہ وعدہ پورا ہو گیا " (رامین احمدیہ حصہ بین صفر) جہان تک براہین احمدیہ کے پچاس اجزا کے لئے کافی چندہ وصول کرنے کا تعلق ہے اس کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بیان فرمود مندر جہ ذیل تصریحات کافی ہیں :- اول آپ نے ۲ اکتوبر شام کو میر عباس علی صاحب لدھیانوی کو برا چیه احمید کی نسبت یہ خاص ہدایت فرمائی کرا - به چونکه بی نام خانصا خدا کے لئے اور خود حضرت احدیت کے مادہ خاص سے ہے.اس لئے آپ اس کے تحرید اروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایک خرید ار شامل نہ ہو جن کی محض خرید و فروخت پر نظر ہو بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں انہی کی خریداری مبارک اور بہتر ہے کیونکہ در حقیقت یہ کوئی خرید و فروخت کا کام نہیں.اس کام میں جیسے جیسے عصر میں خداوند کریم سرائی کا فی کسی حصہ کے لئے جب حکمت کا طر خود میستر کرتا ہے اس عرصہ میں یہ کتاب کھیتی ہے.(مکتوبات احمدیہ جلد اول مٹ) دوم بیشتر میں اعلان فرمایا کہ: اگر یہ خیال ہے کہ بطور ریداروں سے روپیہ لیا گیا تھا تو ایسا خیل کرنا بھی حق اور نا واقعی کے باعث ہوگا.کیونکہ اکثر بر این احمدیہ کاحصہ
۲۹ مفت تقسیم کیا گیا ہے اور بعض سے پانچ روپیہ اور بعض سے آٹھ آنتیک قیمت لی گئی ہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن سے دس روپے لئے گئے ہوں اور جن سے پچیس روپے لئے گئے وہ چند آدمی ہیں.پھر......دہ مرتبہ اشتہار د سے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چلا ہے وہ مہاری کیا میں ہمارے حوالے کرے اور اپنی قیمت سے لے چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتاب میں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی.اور بعض نے کتابوں کو بہت تعریب کر کے لے لی.بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی." اشتهار شموله ایام التقرين) سوم.حضور نے اپنی وفات سے دو برس قبل برای احمدیہ حصتہ پیچی شا فرمائی جس میں بالوضاحت تحریر فرمایا : چار تھے اس کتاب کے جو طبع ہو چکے تھے.کچھ تو مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تھے اور کچھ ملت تقسیم کئے گئے تھے.بیس چین لوگوں نے قیمتیں دی تھیں.اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی " براین احمدیه حصه بحجم صفحه به طبع معلول) جہاں تک پانچ کو یہ اس قرار دینے کا تعلق ہے.یہ در اصل بخاری شریف کی اسی مدیر قدیمی کی طرف تعریف اشارہ ہے جس میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں مخاطب کر کے فرمایا : هِيَ خَمْسَ وَهِيَ خَمْسُونَ" (بخاری کتاب الصلواة جلد ا صفحماه مصری)
اس ہی ہو یعنی یہ پانچ نمازیں نا علمی اور انادی حیثیت سے بالکل ہی صورت بر امین احمدیہ کے پانچوں حصوں کی ہے.کی چنانچہ حضور نے براہین احمدیہ جلد پنجم کے شروع میں ہی لکھا ہے :- میں نے پہلے ارادہ کیا کہ اثبات حقیقت اسلام کے لئے تین صدر لاتی برای احمد میں لکھوں.لیکن جب میں نے رو سے دیکھا تومعلوم یا کہ یہ آحمدیہ دلائل ائی ہزار انشانوں کے قائم مقام میں لیں بنانے ہی سے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا.نیز فرمایا: (شور) لوگ کہتے ہیں کہ ان میں جولائی کو دور دیا گیا تھا وہ پورا نہیں تھا حالا که ورامین میں صداقت اسلام کے واسطے کئی لاکھ دنیل ہے." دیده را بریلند - منوعات چواره مهر ۱۲۷) نے فرمایا قرآن مجید نے: حدیث وَمَن يَوتَ الْحِكْمَةَ فَقَد أ ولى خير كثيرا.اسرة يقود و ٢٠٠) سیس کو حکومت دی گئی اس کو مال کیر دیا گی.الذي هو خير منها ربي کتاب المغازی) جب میں کسی چیز کو کرنے کی قسم کھاتا ہوں پھر امن سے بہتر کوئی پنیر پیتا ہوں تویہ ہر کو اختیار کرتا ہوں.+;
۴۱ تفينينا قيمة الجبار عنيا تنا علم و بنه مالي مال م خدا تعالی کی اس تقسیم پر خوش ہیں اس نے ہمیں علم کی دولت عطا فرمائی اور کیا نلوں) کو مال دیا.تو میں حضرت میں سما نجیب و غریب تصویر الجيب عیسائی پادریوں کاعرصہ دراز سے بی شیده است که در قرآن مجید کی ابھی آیات کو میں کی کے جن میں حضرت سید امین ناصری علیہ اسلام کی تعریف کی گئی ہے.یہ علوی کہتے ہیں کہ یہ الفاظ بانی اسلام کے اسنے بھی استمال نہیں کیئے گئے ثابت ہوا کہ سب نہیں گناہ گار ہیں اور معصوم اور نجی صرف یسوع کیسے ہی ہیں ( معانو فش) قیدی اسلامی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ صلیب پرستوں کے یہ چہار جانہ کی ہے کئی صدیوں سے جاری ہیں جن کا ایک دستاویزی ثبت دوسری صدی ہجری کے متکلم اسلام حضرت علام عارف بالله الشيخ ابو الفضل المالكي المسعود کی مایہ ناز کرنا المنتخب الجليل من تفعيل من حرف الانجيل ہے بو شوال ۴۹۲۲ اپریل ۵۳ او) کی تالیف ہے.اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ علیہ انا انا واہیں دنوں قرآني آت إنما السيم منية الى مريمَ رَسُولُ اللهِ وَكَلِمَتُه القتال إلى مريم وروح منه : الو م سے فضیلت بیٹے کا خاص طور پر استدلال کیا کرتے تھے.A المرات عن الشيخ ابو الفضل المالكي المعمودی ترین تعریف میں علی امیر کے
اس اعتراض کا جواب حسب ذیل الفاظ میں دیا کہ.إن الروح الآتية ليست لعيسى بل هي لاستاذه الذي عمده يحيى بن زكرياء لانه لشهادة الانجيل أفضل منه اذا هو الذي استلامي روح القدس في بطن أمه ثم يتأسيداً و حصوراً وقلتم في الجيلكمرات يومنا هذا كانه لأ يا كل ولا يشرب ولا يتناول خبراً مشكرا....وانه انتهض قبل المسيح إلى الدعاء إلى الله تعالى وحمد الخلق حتى عدد المسيح فيمن محمد وأما المسيح فلم تأته الروع في قولكم الا بعد الثلاثين سنة من عمره على يديو منا شي هام واستاذ م - بل أكل الخير واللحم وشرب الخمر في دعمكم وحضر الدعوات وتناول تمليس الطعام وصبت عليه امرأة دمنا قيمته ثلثمائة متقابل فلم ينكر عليها كل ذلك يشهد به انجيلكم واذا كان الامر على ما و هفتم من حال الرحيلين صلوات الله عليهما فلاخفاء حينذ يانه أفضل منه ويويده قول المسيح لم تلد النساء مثله وقد مترح الكتاب العزيز بسيادته فقال وسَيْدًا وَحَسُوْراً و نَبَا مِّنَ الصَّالِحِلية وناهيك بهذا الشتاء من رب العالمين " رس ١٩١٨- مطبوعه مطبعة التمدده عابدین مصر ۱۳۲۲ هجر) ترجیہ (حضرت مریم کے پاس ) آنے والی روح میسلی کے لئے نہیں ان کے
السلام کام استناد یحیی بن زکریاء کے لئے تھی جنہوں نے آپ کو میکسچر دیا تھا وجہ یہ کہ ینی انجیلی شہادت کے مطابق عیسی سے افضل تھے.آپ ہی تھے جو اپنی والدہ کے لعین میں روح القدس سے محو ہو گئے تھے اور پھر سید اور تصور کی حیثیت یں نشو نما پائی اور تم نے انہی میں کہا کہ یہ دواخانہ کھاتے پیتے تھے اور نہ نشہ آور شراب پیتے تھے.یور جنا ہی تھے جو مسیح سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لئے متوقہ ہوئے اور لوگوں کو حتی کہ مسیح کو بھی پتسمہ دیا لیکن میسج کے پاس روح تمہار سے قول کے مطابق اس کی کمر کے تیس سال بعد یو سینا کے ہاتھ پر آئی جو آپ کا مر شد و استاذ تھا یہی نہیں بلکہ مسیح نے روٹھی اور گوشت بھی کھایا اور تمہار سے زعم میں شراب نوشتی بھی کی اور دعوتوں میں بھی شریک ہوا اور نفیس کھانے ناول کئے اور ایک عورت نے ان پر تین سو مشتقال کا قیمتی تیل ڈالا گردہ برا نہ مانے اور ان سب پر تمہاری انجیل شاہد ہے، اور جبکہ تم نے خود ان دو انسانوں (صلوات اللہ علیہ جام کا یہ وصف بیان کیا ہے تو اس میں اس کو بھی استفادہ نہیں رہ جاتا کہ یحی عیسی سے افضل تھے اور سینے کا انتقام یہ قول اس کا مرید ہے کہ عورتوں نے یو متا جیسا کوئی بچہ نہیں جیتا.اور کتاب عزیز نے بھی کی سیادت کی تصریح فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا وَسَيْدًا وَ حَمورًا ونبياً من الصالحين اور العالمين کی یہ تعریف و توصیف تیرے لئے کافی ہے.انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان کے متعصب مسیحی معنوں نے اسلام کے خلاف
۴۴ دشنام آنود، اشتعال انگیز اور زہر لائٹر بھی شائع کیا جس میں ایک بار پھر پوری شدت - کے ساتھ قرآن مجید کے مسیح علیہ السلام سے متعلق تعریفی کلمات کے معنوں میں ہیجان و تلبیس سے کام لیا گیا اور سب مقد ستوں اور پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ بار گنہگار اور صرف یسوع میں کو معصوم اور نجانے مہندہ ثابت کرنے کی مذموم اور ناکام کوشش کی گئی.اس ضمن میں کر میں انٹر سحر سوسائٹی لدھیانہ کی شائع کردہ کتابوں میں جیسے مسیح یا محمد اور بے گناہ نبی خاص طور پر قابل ذکر حقی دوست دور میں سر ایران کی تعداد میں بھی پائی گئیں اور وسیع پیمانے پر ملک کے ایک سرے سے سے کمر دوسر سے سر سے تک شائع کی گیئیں.حضرت بانی مسند احمد به مربا اعلام احمد قارياني عليها المعلومة والسلام مبین بے مثالی عاشق رسول نے دشمنان اسلام کے اس حملہ کے جواب میں پالکل ہی علم کلام استعمال کیا جس کو صدیوں قبل حضرت علامه الشيخ ابو المفاصل المائي رحمتہ اللہ علیہ نے اختیار فرمایا تھا اور اس طرح مسیحی حربہ کی دھجیاں فضا ہے آسما نی میں بکھیر دیں.چنانچہ حضرت اقدس نے اپنی کتاب " واقع البلاء (مطبوعہ اپریل ) ** " کے شرور میں اردو سے قرآن حضرت یحیی کو حضرت عیسی سے اقتل قرار دیتے ہو سے ببانگ دہل اس صداقت کا اعلان فرمایا کہ: سے متقی کو ہر ایک شخص چاہتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے لین بلاشبہ اس دن انگٹر ہیں کہ ثابت ہو کہ سیتا منجی کون ہے.ہم
00 تھا اور مسیح ابن مریم کو بے شک ایک راستباز آدمی جانتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے اکثر لوگوں سے البتہ اچھا تھا.واللہ اعلم.مگر وہ حقیقی می فی نہیں تھا یہ اُس پر تہمت ہے کہ وہ حقیقی منجی تھا.حقیقی منجی ہمیشہ او قیامت تک نجات کا پھیل کھلانے والا وہ ہے جو زمینو حجاز میں پیدا ہوا تھا اور تمام دنیا اور تمام زمانوں کی نجات کے لئے آیا تھا." حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس پر آشوب زمانہ میں دفاع اسلام کا سجود شماری دارد کارنامہ انجام دیا اس نے لاکھوں عشاق رسول " کو آپ کا گرویدہ بنا دیا.مگر افسوس مسلمان کہلانے والے بعض علماء ظواہر اس جہاد کبیر کہ کہیے قرآنی دلائل سے آپ نے کیا حضرت سیدنا مسیح کی تہک سے تعبیر کرتے ہیں اور عیسائی لوگ بھی اُن کی حمایت کرتھے اور کا سر صلیب کے پیدا کردہ عظیم الشان لٹریچر کی مسطی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں.چنانچہ ابھی کھلے سال پاکستان منشیل کو سینین بیگ کے صدر نے دنیا کے تمام علیبائی ملکوں کے مسر یا سہوں سے کہا ہے کہ وہ :.66 یسوع مسیح کیے تو میں آمیز لٹر بحر کو فوراً ضبط کر لیں " در خانه امن کراچی ۲۱ ستمبر ۱۹۷۲ ( صفحه ۲) بر صغیر پاک و ہند کے عیسائی مواقف قرآن مجید کی معنوی تحریف کر کے :- یہ عقیدہ بھی بکثرت پھیلاتے چلے آرہے ہیں کہ : ایر اسی اسلام کا ختم المرسلین خداوند یسوع میسج ہے " القران محروم من اسان کاری ای سیه پاسترانیا از شر چرچ (۱۱۹)
تحریک احمدیت کے خلاف مندرجہ بالا نا پاک گٹھ جوڑ اس بات کا فیصلہ کن ثبوت ہے کہ مخالف علماء ظواہر کو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے ، صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع و اعلیٰ مقام ختم نبوت سے تو دور کا بھی تعلق نہیں البتہ عیسائی مذہب کی حمایت کا جوش ضرور ہے.مه علیهائیان را از مقابل خود مرد دادند دلیری با پدید آمد پرستاران نیست را فَانَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
خلاصه خلاصہ کلام یہ کہ قرآن مجید نے ایک مامور ریائی اور مرسل یزدانی کی شناعت اور پہچان کے جو چھ نہایت واضح اصول مقرر فرمائے ہیں.اُن کی روشنی میں حضرت بانی جماعت احمدیہ ہی کے حق میں ہے.کیا ہی مبارک ہیں وہ خوش نصیب جو قرآن عظیم کی آسمانی عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے اور اس کے بے شمار انوار و برکات کے دارت بن جاتے ہیں.دردمندانه خطاب بیه مقالا حضرت بانی تماعت احمدیہ کے ایک درد ناک خطاب پر ختم کیا جاتا ہے.آپ نہایت دردبھر سے الفاظ میں فرماتے ہیں : قطط اسے سونے والو یا بیدار ہو جاؤ.اسے غافلو! اٹھو بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا.یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا اور تصریح کا وقت ہے.نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا.دعا کرو کہ خدا وند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کسانی
دیکھ لو اور نیز اُس نور کو بھی جو رحمت الہیہ نے اس ظلمت کو مٹانے کے لئے تیار کیا ہے.پچھلی راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو " آمیز کمالات اسلام منعهم ۵۲ - ۵۳ ) یا لیلی فضل کرا سلام پھیرا در خود بجا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سل سے پکار اک کردم کہ مرد سے لوگوں کو فرقان کی طرف نیز در سے توفیق تا وہ کچھ کریں سویچ و کیا پرنٹر : اميد عبد الحي (مطبوعها : ضياء الاسلام علي ويق)