Kitab-eTaleem

Kitab-eTaleem

کتابِ تعلیم

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

حضرت اقدس بانی سلسلہ کی ایک خواهش یکی از مطبوعات

Page 2

حضرت اقدس بانی سلسلہ کی ایک خواهش یکی از مطبوعات

Page 3

(احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے) نام کتاب : کتاب تعلیم

Page 4

اظهار تشکر کا شکر گزار ہے جن کی کا وشوی سے یہ کتاب ترتیب پائی پھر اپنے بھائی بہنوں کو تحریک کی کہ اپنے والد مرحوم محترم مرزا محمد اسمعیل صائب آف چین کو ایصال ثواب کے لئے کتاب کی اشاعت میں مالی تعاون کریں ان کا یہ احسان بھی قابل تشکر ہے کہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجکی کے دعائیہ خطوط عنایت فرمائے.اس خاندان کے لئے دعا کی تحریک کرنے کے لئے اسی تبرک سے غیر مطبوعہ دعائیہ اشعار پیش خدمت ہیں :- (صفحہ نمبر ۱۲۰۰۱۵۹ پر ملاحظہ فرمائیں)

Page 5

Page 6

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بیحد و حسابجے شکر ہے کہ اس نے الوصد ساله جشون تشکر کے موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق عطائی ہے.حضرت مسیح موعود نے ایک موقع پر اپنے ایک خواہش کا اظہار فرمایا ؛ ہیں چاہتا ہوں کہ ایک کتاب تعلیم کی لکھوں.....اس کتاب کے تین حصے ہوں گے.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمارے کیا فرائض ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے نفس کے کیا کیا حقوق ہم پر ہیں اور تیسرے یہ کہ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں." ملفوظات جلد اول نیا ایڈیشن صن (۲۶) حضرت اقدن کی اس خواہش کو ایک رنگ میں پورا کرنے کے لئے آپ ہی کی مقدس تحریرات سے ان عناوین کے تحت اقتباساتھے جمع کئے گئے ہیں.گویا یہ آپ بھے کچھ کہا ہے.کھ اس کتاب کو مرتب کرنے میں کوشش شامل ہے.امتہ الباری ناصر صاحبہ نے ان کی معاونت کی ہے یہ دو نو دہ شعبہ اشاعت میں بھر اور کام کر تجھے ہوئے.كَانَ الله معهما - نے اس کتاب کی اشاعت کی اجازت دیتے ہوئے تحریر کیا : حضرت مسیح موعود کے ایک خواہش نام کا مسودہ راپور ارسال خدمتے ہے.نظارت کی طرف سے اس کی اشاعت

Page 7

کی اجازت ہے.ماشاء اللہ بہت اچھا مسودہ ہے اور ا کرے کی اشاعت حضرت مسیح موعود کی خواہش کی تکمیل کا باعث ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء ) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قارئین کرام یہ منتخب تحریرات پڑھ کر عمل کرین اور ثواب دارین حاصل کریں.O

Page 8

عرض حال نے صد سالہ جشون تشکر کے مبارک و مسعود موقع پر شاندار طریق پر علمی خدمات کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے.اسی سلسلے میں سیکر ٹری اشاعت صاحبہ نے خاکسار کو حضرت اقدس مسیح موعود کی ایک خواہش والے اقتباس کی روشنی میں اُن کے علم کلام سے اقتباساتے کی تلاش کی دعوت دی.ایک عارف باللہ کے کلام کی عظمت پر نظر رکھتے ہوئے اپنی کم علمی کے خوف سے بھجھک گئی بگر رات بھر نیند نہ آئی....یہ احساس شدت سے غالب رہا کہ ہم کو نسا کام اپنی بہادریت سے کرتے ہیں.سب کچھ مولا کریم کے احسان سے ہوتا ہے.ہمت کرکے اپنی مہربان بہن کو فور نے کیا.کہ ہر طرح حاضر ہوں تھوڑی پہنچائے سے مطالعہ شروع کیا.حضرت اقدس کے خزائن میں غوطہ زرنے ہو کر ایسے ایسے بیش بہا انمول گوہر ملے.کہ اُن میں سے انتخاب کرنا آسان نہ تھا.دوسرے آپ کی تحریر ایسی مبسوط اور فصیح و بلیغ ہے کہ سیاق و سباق سے الگ کر کتے کوئی ٹکڑا پیش کرنے سے مطالب کی طرف اشارہ تو ہو سکتا ہے.احاطہ نہیں ہو سکتا.آپ کی کتب کا بارہ بار ڈوب کر مطالعہ ضروری ہے.

Page 9

A اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہماری ہر کتاب مقبول به درگاہ الہی ہو.ہمارے دہ نیک مقاصد یورے ہوں جن کے تحت این شفین زیر قیادت ایک فعام ٹیم کی طرح رواں دواں ہے.خاک ار اس موقع پر اپنے نانا جانیے میاں محمد اسمعیل مرحوم اور نانی جان امیر ای بی صاحہ مرحومہ سکنہ نیرہ ضلع گجرات کے درجات کی بلندی کیلئے درخواست دعا کیا ہے.ان بزرگوں نے امام وقت کو پہچانا اور مانا اور امام وقت کی آواز پر لبیکہ سے کہتے ہوئے اپنے دو بیٹے حفاظت مرکز قادیان کے لئے پیش کر کے تین قربانی کے آداب سکھائے.اللہ پاک نہیں نسلاً بعد نسل اپنی خاص رحمتوں کا وارثے بنائے آمین اللهم آمین

Page 10

4 نمبر شمار D 4 فهرست مضامین مضمون حقوق الله ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے اصل جنت خدا تعالیٰ ہے ہمارا خدادہ خدا ہے جواب بھی زندہ ہے.حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے.انسان کی پیدائش کی تخلت تھائی عبادت ہے.انسان کو انسان کامل بنانیوالا ایک کارگر اور خطا نہ کر نیوالا نسخہ گناہ کے دُور کرنے کا علاج خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کا نسخہ استعمار اور تو یہ.انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت.10 اللہ جل شانہ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے.خداتعالی تک پہنچنے کے آٹھ وسائل ۱۲ خدا تعالیٰ کی بستی پر یقین نا فرمانی سے بچاتا ہے.۱۳ صفحہ 19 19 ۲۰ ۲۲ ۲۳ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۳۰ ۳۵ 34 ۴۴ 들은 دنیا ہو و لعب سے زیادہ نہیں معرفت الہی میں حقیقی لذت ہے.۴۵ ہو سے زیادہ حقیقی لذت

Page 11

نمبر شمار | مضمون ا صفحہ ۱۴ خدائے عز وجل کی خوبی اور حسن و جمال کی معرفت اس کی محبت ۴۲۷ پیدا کرتی ہے.۱۵ انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف کرے 14 ۴۸ ۴۸ ۱۶ سچے دل سے تو یہ پہلے گناہوں کو معاف کر دیتی ہے اللہ تعالیٰ کا خوف مکروہات و منہیات سے بچا کر تقوی و ۴۹ طہارت عطا کرتا ہے.۱۸ خدا فعالی کے ساتھ صحیح اور سچا تعلق کامل وفاداری سے پیدا ہوتا ہے.19 اللہ تعالیٰ کی نسبت صحیح علم کے لئے صادق کی محبت کی ضرورت ہے 20 ۲۰ محبت کرنے والے سے زیادہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے 1 ۱ انسان خدا تعالیٰ کے تعید ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.۵۴ ۲۳ خدا تعالیٰ جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے.اللہ تعالٰی سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے ۵۴ ۵۵ جو مومن ہیں وہ خدا تعالی سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے ۵۶ ۲۵ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کا طریق ۲۷ صراط مستقیم کے حصول کے طریق انسان کی پیدائش کی اصل معرض.عبادت الہی ۲۹ اللہ تعالیٰ کے وجود کی علت بھائی.اطاعت ابدی بہت نیک وہی ہے جو بہت دُعا کرتا ہے.۵۸ ۵۹ ۵۹ ۶۲ 40 94

Page 12

نمبر شمار | Fr ۳۳ مضمون اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو ما دام الحیات وقف کر دے.صفحه 4< اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کے آگے گردن جھکا دینے کا - ۶۸ امتحان کے بعد اچھے نکلنے والے اس کے فضلوی کے وارث بنتے ہیں.انسان خدا کی راہ میں اپنے اوپر مسوت اور حالت فنا وارد کرے 49 اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف خسارہ کا سودا نہیں 49 ٧٠ ۳۴ انسان کی تمام طاقتیں اللہ تعالیٰ کے آستانے پر گری ہوں ۳۵ وہ کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں جو ظلمت کا باعث ہوئی تھیں 20 خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جانا عظیم الشان مقصود ہے.۷۲ ۳۷ خدا تعالیٰ نیک بندوں کو عزیز رکھتا ہے ان کی عمر د روانہ کرتا ہے ۷۲ ۳۹ اللہ تعالی کی راہ میں زندگی وقف خالصا لله وقف ۴۰ اسکی مرضی ماننے کیلئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑو سے ام خدا اور انسان کی دوستی کے حوالے سے افضال الہی کے حصول کے اللہ تعالی اپنے راست باز منتقی کو رزق کی بار نہیں دیتا ۴۳ جس کا خدا متولی ہو جائے وہ طمانیت اور لذت پاتا ہے ۴۴ جن کا اللہ تعالی استوتی ہو جاتا ہے وہ دنیا کے آلام سے سنجات پا جاتے ہیں.۷۳ 20 24 CA LA <9 A.

Page 13

صفحہ ۸۲۰ AM ^ ۸۵ AC ۱۲ مضمون اللہ تعالیٰ کے لئے وقف نہ کرنے والے کی سنرا انسان کی دو خوبیاں ظلوٹا جھولا اللہ تعالیٰ کی محبت سے الہی نور کا احاطہ خدا تعالیٰ کی طلب میں پوری کوشش نہ کرنے والا بھی کافر ہے اللہ تعالٰی نکتہ نواز ہے نکتہ گو بھی ہے.انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہیئے.اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی سخت سزا ہے عملی طور پر اس حد تک پہنچنا چاہیئے کہ تائید و نصرت اپنی شامل حالی ہونے لگے.حقوق النفس تزکیہ نفس سے کیا مراد ہے تزکیہ نفس کا کیا مفہوم ہے ۹۱ ۹۲ جہاں خدا تعالیٰ نے سب کے حقوق رکھے ہیں وہاں نفس کا بھی خداتعالی نے بھی ۹۲ حق رکھا ہے.۹۵ 44 تہذیب نفس کے مدارج میں قرآن کریم کی رہنمائی انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت کرے نفس امارہ پر موت وارد کرنے سے نیکیاں سرزد ہوتی ہیں 94 نفس کے جذبات کو اللہ جل شانہ کے راضی کی غرض سے کم کر دینا اورگھٹا دینا ۹۸ نمبر شمار ۴۶

Page 14

بخیر شمار مضمون روحانی کمال تک پہنچنے کے مدارج اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے.نفس پر نگاہ رکھ کر استغفار کرتے رہنا چاہیئے.نفس انسانی کی تین حالتیں ۱۲ وہ دروحیں سے خدا راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے ۱۴ جس سے خدا ناراض ہو جائے.حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو صفح 44 1.0 ۱۰۵ 1-4 1.A روح کی رفاقت کے لئے جسم ناتواں کی از سرنو قوت کے لئے 19 وفات ہم از حظوظ نفسانیہ کی ضرورت ۱۱۰ ۱۵ نفس کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اُسے پاک رکھا جائے ۱۷ نفس کے نقصانات کا علاج تو به استغفار، لاحول اور خداتعالی 111 14 کی کتاب کا مطالعہ اخلاقی ترکیہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے تین پہلو خدا تعالیٰ کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے گریہ و بکا صدق وصفا اور درد دل سے پر مٹاؤں کی ضرورت ہے 19 دیدار الہی کے لئے یہاں سے حواس اور انکھیں لے جاوے.۲۰ نفس پر قابو کی شال ۲۱ نفس کو خدا تعالی کے آگے ذبح کرنا ۲۲ پورے طور پر ترکیہ تھوڑے ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے.드 114 A ۱۱۹ 114 ۱۲۰

Page 15

۱۴ نمبر شمار مضمون تزکیہ نفس کے بغیر قرآن مجید نہیں سمجھا جا سکتا ۲۴ اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.۲۵ صفحہ ۱۲۱ ۱۲۱ تزکیہ نفس کر کے تمام امانتیں خلافتعالی کی اس کو دائیں دی جائیں ۱۲۲ ۲۶ قضا و قدر سے پیش آنے والے حادثات کی برداشت بھی ۱۲۴ ۲۷ تزکیہ نفس کا باعث ہوتی ہے.نفس اور دنیا کی محبت سے خالی دل کو خداتعالی تجلیات حسن و جمال کے ساتھ اپنی محبت سے پڑ کر دیتا ہے.۲۸ انسان کا دن خدا کی محبت کا پانی چوس کو زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے.۲۹ خدا تعالیٰ اپنے احیاء کو دوزخ میں نہیں ڈالتا.۳۰ نفس کے متعلق حضرت اقدس کا ایک مکتوب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آحاد سے اور تقویٰ و طہارت پھر قائم ہو.۲ نفس کا گند خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی دُور ہو سکتا ہے.حقوق العباد شرائط بیعت حق العباد کیا ہے ؟ حقوق العباد کا خلاصہ یہ ہے ۱۲۵ M ۱۲۹ H ۱۲۹ ۱۲۷ ۱۲۹ ۱۳۱ ۱۳۵ ۱۴۲

Page 16

نمبر شمار | A.4 مضمون حقوق العباد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کریں.سورۃ فاتحہ میں تمام نوع انسان کی ہمدردی داخل ہے.دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو.جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جائے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا.مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی سے پیش آؤ جیسا کہ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ پیش آتی ہیں.ہر ایک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دینا حقوق العباد کی پرواہ نہ کرنے والا آخر حقوق اللہ کو بھی چھوڑ دیتا ہے.صفحہ うつ ۱۴۵ 104 ۱۴۸ 11 خداتعالی فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ ۱۵۰ TP ازدواجی تعلق محبت کے دائروں کو وسیع کرتا ہے ۱۳ جو نفع رسال وجود ہوتے ہیں ان کی عمر ورا نہ ہوتی ہے.۱۴ حقوق العباد کا خیال رکھنے والا نصف قرآن پر ایمان لانے 10 والا ہے.اگر سبھی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہو جائے گی.۱۵۲ ۱۵۴ ۱۵۵ ۱۵۷

Page 17

14

Page 18

14 حقوق الله

Page 19

Page 20

19 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم ہمارا بہشت ہمارا خُدا ہے " ہمارا بہشت ہمارا خُدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیوں کہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اسے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کر لیا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.ہمیں کیا کمروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں کسی دن سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کسی دوا سے میں علاج کریں تا سننے کیلئے لوگوں کے کان کھلیں" الملفوظات جلد اول ۲ ) اصل حبنت خُدا تعالیٰ ہے وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَتِ جَنَّتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الانهر خُلِدِينَ فِيهَا وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّتِ عَدْنٍ ، وَرِضْوَانُ مِنَ اللهِ اكبرط ذيكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبه (۲) ° b

Page 21

۲۰ " اعلیٰ درجہ کی خوشی خُدا میں ملتی ہے جس سے پیسے کوئی خوشی نہیں ہے.جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں.جنت کو جنت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے.اصل جنت خدا ہے جس کی طرف تردد منسوب ہی نہیں ہوتا.اس لئے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رضوان من الله اکبر ہی رکھتا ہے.انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردد میں ہوتا ہے.مگر جس قدر قرب الہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَخَلَقُوا بِاَخلاقِ اللہ سے رنگین ہوتا جاتا ہے.اسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتا ہے جس قدر قرب الہی ہوگا.لازمی طور پہ اسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ سے گا اور رفع کے معنی اس پہ دلانت کرتے ہیں.ر تفسیر سوره مائده تا سوره توبه از حضرت مسیح موعود من ہمارا خُدا وہ خُدا ہے جو اب بھی زندہ ہے "خُدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے اسے سننے والو سنو! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم اسی

Page 22

Pl کے ہو جاؤ اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نا کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے.جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور وہ اب بھی بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اس کی تمام صفات انزلی ابدی ہیں.کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نا کبھی ہوگی.وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے.وہ تمثیل کے طور پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا سب ہے مگر اس کے لئے نا کوئی جسم ہے اور نا کوئی شکل ہے اور وہ سر اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں وہ مجمع ہے تمام صفات کا ملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبدء ہے تمام فیضوی کا اور مرجع ہے ہر ایک شے کا اور مالک ہے ہر ایک ملک کا اور متصف ہے ہر ایک کمال کا اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں اور اس کے آگے کوئی بھی بات انہونی نہیں اور تمام روح اور ان کی طاقتیں اور تمام ذرات اور ان کی طاقتیں اسی کی پیدائش ہیں اس کے بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی وہ

Page 23

۲۲ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے.اور اس کو اسی کے ذریعے سے ہم پاسکتے ہیں.اور وہ راستبانوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتا ہے اور اپنی قدر میں ان کو دکھلاتا ہے اسی سے وہ شناخت کیا جاتا ہے اور اسی سے اس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے " (روحانی خزائن جلد 19 صلات) "حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اسلام کے معنی تو یہ تھے کہ انسان خدا تعالٰی کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جاو سے اور جس طرح ہر ایک بکری کی گردن قصاب کے آگے ہوتی ہے اسی طرح ہر مسلمان کی گردن خدا تعالیٰ کی اطاعت کے لئے رکھ دی جاو سے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہی کو وحدہ لا شریک سمجھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس وقت یہ تو حید کم ہو گئی تھی اور یہ دیش آریہ ورت بھی بتوں سے بھرا ہوا تھا.جیسا کہ پنڈت دیانند سرسوتی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے.ایسے وقت میں ضرور تھا کہ آپ مبعوث ہوتے اس کا ہم زنگ یہ نہ مانہ بھی ہے جس میں ثبت پرستی کے ساتھ دہریت بھی پھیل گئی ہے اور اسلام کا اصل مقصد اور روح باقی نہیں رہی.اس کا مغز تو یہ تھا کہ خدا ہی کی محبت میں فنا ہو جانا اور اس کے سوا کسی کو معبود نہ سمجھنا اور مقصد یہ ہے کہ انسان رو بخدا ہو جاو سے رو بہ دنیا نہ رہے......حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے " د ملفوظات جلد چهارم ۵۵۰

Page 24

۲۳ انسان کی پیدائش کی معیت نمائی عبادت ہے " اَلا تَعْبُدُوا إِلَّا الله خداتعالی کے سوا ہرگز ہرگز کسی کی پرستش نا کرد - اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائیش کی علت غائی یہی عبادت ہے.جیسا دوسری جگہ فرمایا.ومَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبَدُونَ (الدویت آیت : 04) عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قیادت کچھی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صات بنا دے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مور معاد جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر نا ہمواری نا رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی روح ہو اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاد سے تو اس میں شکل نظر آ جاتی ہے.اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع واقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اگر دل صاف کر سے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور ناہمواری کنکر پتھر نا رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.إنَّنِي تَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرة (سوره هود (۳) میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہو کر نشو و نما پائیں گے.اور وہ اثمار شیرین و طیب ان میں لگیں گے.جو أكلها دائما الرعد : ۳۶) کے مصداق ہوں گے.یاد رکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے : عود :

Page 25

۲۴ جب سالک یہاں پہنچتا ہے تو خدا ہی خدا کا حلوہ دیکھتا ہے.اس کا دل عرش الہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر نزول فرماتا ہے.سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں کہ انسان کی حالت تعبد درست ہو جس میں روحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے.اسی مقام پر پہنچ کر انسان دنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی هذ الذي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَاتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا البقره : ٢٢) کہنے کا حظ اور لطف اُٹھاتا ہے.غرض حالت تعید کی درستی کا نام عبادت ہے.پھر فرمایا.انني تكُمْ مِنْهُ نَذِيرُ و بَشیر چونکہ یہ تعبد نام کا عظیم الشان کام انسان بڑوں کسی اسوہ حسنہ اور نمونہ کاملہ کے اور کسی قوت ترسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کر سکتا تھا اس لئے رسول اللہ صلعم فرماتے ہیں.کہ میں اسی خدا کی طرف سے نذیر و بشیر ہو کر آیا ہوں.اگر میری اطاعت کرو گے اور مجھے قبول کرو گے تو تمہارے لئے بڑی بڑی بشارتیں ہیں کیونکہ میں بشیر ہوں اور اگر رد کرتے ہو تو یاد رکھو کہ میں نذیر ہو کر آیا ہوں پھر تم کو بڑی بڑی عقوبتوں اور دکھوں کا سامنا ہو گا.اصل بات یہی ہے کہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر کورانہ زیست جو خداتعالی اور اس کے رسول سے بالکل الگ ہو کہ بسر کی جاو سے جہنی زندگی کا نمونہ ہے.اور وہ بہشت جو مرنے کے بعد ملے گا اسی بہشت کا اصل ہے اور اسی.لئے تو بہشتی لوگ نعماء جنت کے حظ اٹھاتے وقت کہیں گے هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ دنیا میں انسان کو جو بہشت حاصل ہوتا ہے وہ وَقَد اَفْلَحَ مَنْ زَكَهَا ) الشمس (1) پر عمل

Page 26

۲۵ کرنے سے ملتا ہے.جب انسان عبادت کا اصل مفہوم اور مغز حاصل کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے انعام دا کرام کا پاک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور جو نعمتیں آئندہ بعد مردن ظاہری مرئی اور محسوس طور پر ملیں گی وہاب ریحانی طور پر پاتا ہے.پس یاد رکھو کہ جب تک بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع نا ہو.اور اس عالم میں اس کا حظہ نا اُٹھاؤ اُس وقت تک سیر نا ہو اور نستی ناپکڑو کیوں کہ وہ جو اس دنیا میں کچھ نہیں پاتا اور آئندہ جنت کی امید کرتا ہے وہ طمع خام کرتا ہے.اصل میں وہ مَنْ كَانَ في هذه اعمى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى بنى اسرائيل : ٣) کا مصداق ہے.اس لئے جب تک با سوائے اللہ کے کنکر اور سنگ ریزے زمین دل سے دور نہ کر لو اور اُسے آئینہ کی طرح مصفیٰ اور سرمہ کی طرح باریک بنا لو صبر نا کرو.ہاں یہ سچ ہے کہ انسان کسی مرگی النفس کی امداد کے بغیر اس سلوک کی منزل کو طے نہیں کر سکتا.اسی لئے اس کے انتظام و انصرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے کامل نمونہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کا بھیجا اور پھر ہمیشہ کے لئے آپ کے سچے جانشینوں کا سلسلہ جاری فرمایا تاکہ نا عاقبت اندیش یہ ہموں کا رد ہو.جیسے یہ امر ایک ثابت شده صداقت ہے کہ جو کسان کا بچہ نہیں ہے فلائی (گوڈی دینے) کے وقت اصل درخت کو کاٹ دے گا.اسی طرح پر یہ زمینداری جو حانی زمینداری ہے کامل طور پر کوئی نہیں کر سکتا.جب تک کسی کامل انسان کے ماتحت نہ ہو.جو تخم ریزی آب پاشی بلائی کے تمام مرحلے طے کر چکا ہو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کامل کی ضرورت انسان کو ہے.مرشد کامل کے بغیر انسان کا عبادت کرنا اسی نہنگ کا ہے جیسے ایک نادان اور نا واقف

Page 27

بیچہ ایک کھیت میں بیٹھا ہوا اصل پودوں کو کاٹ رہا ہے اور اپنے خیال میں وہ سمجھتا ہے کہ وہ گوڈی کر رہا ہے.یہ گمان ہرگز نا کرو کہ عبادت خود ہی آجاد سے گی.نہیں جب تک رسول نہ سکھلائے انقطاع الى الله اور تقتل نام کی راہیں حاصل نہیں ہو سکتیں.تفسیر سوره یونس تا سوره الکهف از حضرت مسیح موعود فته تا قدم انسان کو انسان کا بنانے والا ایک کارگر خطا نہ کرنے والا نسخہ یہ وہ دعا ہے جو ہر وقت اور ہر نمانہ اور ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے.اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے.ہماری جماعت یاد رکھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رٹ دینا اصل مقصود نہیں ہے.بلکہ یہ انسان کو انسان کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطا نا کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہئیے اور تعویذ کی طرح مد نظر رہے.اس آیت میں چار قسم کے کمالات حاصل کرنے کی التجا ہے.اگر یہ ان چار قسم کے کمالات کو حاصل کرے گا تو گویا دُعا مانگنے اور خلق انسانی کے حق کو ادا کرے گا اور ان استعدادوں اور قویٰ کے بھی کام میں لانے کا حق ادا ہو جائے گا جو اس کو دی گئی ہیں.( تفسیر سوره فاتحه از حضرت مسیح موعود (۲۲)

Page 28

۲۷ گناہ کے دُور کرنے کا علاج غرض گناہ کے دُور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے.لہذا وہ تمام اعمال صالحہ جو محبت اور عشق کے سرچشمہ سے نکلتے ہیں گناہ کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں.کیوں کہ انسان خدا کے لئے نیک کام کر کے اپنی محبت پر مہر لگاتا ہے.خدا کو اس طرح پر مان لینا کہ اس کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھنا یہاں تک کہ اپنی جان پر بھی یہ وہ پہلا مرتبہ محبت ہے جو درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جب کہ وہ زمین میں لگایا جاتا ہے اور پھر دوسرا مرتبہ استغفار جس سے یہ مطلب ہے کہ خدا سے الگ ہو کر انسانی وجود کا پر وہ نہ کھل جائے اور یہ مرتبہ درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جب کہ وہ زور کر کے پورے طور پر اپنی جڑ زمین میں قائم کر لیتا ہے اور پھر تیسرا مرتبہ تو بہ جو اس حالت کے مشابہ ہے کہ جب درخت اپنی جڑیں پانی سے قریب کر کے بچہ کی طرح اُس کو چوستا ہے.غرض گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ خدا سے جدا ہو کہ پیدا ہوتا ہے.لہذا اس کا دُور کر نا خدا کے تعلق سے وابستہ ہے.پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خود کشی کو گناہ کا علاج سمجھتے ہیں ؟ (روحانی خزائن جلد ۱۲ ص۳۳)

Page 29

تنخدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کا نسخہ استغفار اور توبہ" مَّتَاعًا حَسَنًا إلَى أَجَلٍ مُسَمَّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ، وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمِ كَبيره ( عود : ۴) طبعا سوال پیدا ہوتا ہے کہ بمشکل کام کیوں کر حل، دسکتا ہے.اس کا علاج خود ہی بتلایا وَ آنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا را کیے.یاد رکھو دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے اور پھیر نے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگر راستغفار ہے.اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے.جسے قوت یعنی مطلوب ہو وہ استغفار کر ہے.خضر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے جو خدا تعالے سے روکتے ہیں.پس استغفار کے یہی معنی ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کر کے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ان پر غالب آوے.اور خدا تعالے کے

Page 30

۲۹ احکام کی بجا آوری کی راہ کی روکولی سے بیچ کر انہیں عملی زنگ میں دکھائے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھتے ہیں.ایک سمتی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دوسرا تریاتی مادہ ہے جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمتی قوت غالب آجاتی ہے.لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالے کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جسے اس کی روح گدا نہ ہو کہ یہ نکلتی ہے.اور یہی استغفار کے معنی ہیں.یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کہ نہ ہریلے مواد پر غالب اجا د ہے.غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو.ادل رسول کی اطاعت کرو.دوسرے ہر وقت خدا سے مدد چاہو.ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چاہو.جب قوت مل گئی.تو تُوبُوا لَيْهِ یعنی خدا کی طرف رجوع کرد - استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں.ایک وجہ سے استغفار کو تو بہ پر تقدم ہے کیوں کہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے.اور تو یہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے.عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا.تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تو بوا اکیہ ہے.اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے.غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا

Page 31

٣٠ سے استمداد چاہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائیگا کیا کر سکے گا.توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے.اگر استغفار نہ ہو تو یقینا یاد رکھو کہ تو بس کی قوت مرجاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر تو بہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا يُمَثْتُكُمْمتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسمَّی سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے ہر ایک آدمی نہیں.رسول صدیق شہید نہیں ہوسکتا.غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امر حق ہے.اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواطنت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پالے گا.یہی مطلب ہے اس آیت کا.دیوت كُلَّ ذِي فَضْلِ فَضْلُهُ.لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہے تو خدا تعالے اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا.اور اپنے فضل کو پالے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے.ذی الفضل کی اضافیت ملکی ہے مطلب یہ ہے کہ خدا تعالٰی محروم نہ رکھے گائے د تفسیر سوره یونس تا سوره الكهف از حضرت سیح شود (۳) انصاف کی پابندی سے خدا تعالی کی طاعت ان الله يأمرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَرَايَتَائِي ذِي الْقُرْنِي وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْنِي ، يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تذكرون - (سورة النحل آیت : ۹۱ )

Page 32

۳۱ یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے.بحق العباد کا پہلو تو ہم ذکر کر چکے ہیں اور حق اللہ کے پہلو کی رُو سے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر.کیوں کہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کہ رہا ہے اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کر سے اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہو تو نہ صرف رعایت حق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر کیوں کہ وہ محسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کر سے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور خدا تعالٰی کی اطاعت کرنے والے در حقیقت تین قسم پر منقسم ہیں.اول وہ لوگ جو بباعث محبوبیت اور رویت اسباب کے احسان الہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے.اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو محسن کی عنایات تعظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کہتی ہے بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالے کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کر لیتے ہیں اور احسان الہی کی ان تفصیلات کو جن میں ایک باریک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے.ہر گز مشاہدہ نہیں کرتے.کیوں کہ اسباب پرستی کا گرد و غبار مسبب

Page 33

۳۲ حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے.اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آئی جیسی کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کر سکتے.سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے خود بھی اس کی طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے جسے محسن کی شکل نظر کے سامنے آجاتی ہے بلکہ ان کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے.وجہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلیف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا کا حق خالقیت اور رزاقیت ہمارے سر پہ واجب ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کے وسوت فہم سے زیادہ تکلف نہیں دیتا اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں.اور آیت ان الله یا مر با تعدل (النحل : 41) میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں.انسان کی نظر روئیت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آجاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آب پاشی سے میری کھیتی ہوئی اور میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زیاد کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا.یہ تمام باتیں پہنچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے.

Page 34

٣٣ تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک درہ شرک فی الاسباب کی گرد و غبار نہیں.خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے اور یہ رویت اس قسیم کی صاف اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقیناً اس کو حاضر خیال کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں احسان ہے اور صحیح بخاری میں اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنے بیان فرمائے ہیں اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام ایسا ہی ذی القربی ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احسانات اللی کو بلا شرکت اسباب دیکھتا رہے اور اس کو حاضر اور بلا واسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کر تا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی.کیوں کہ متواترہ احسانات کا دائمی ملاحظه بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہو گئے پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے.پس اس مرتبہ یہ وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالی کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھے کہ سچے عشاق کی طرح لذت بھی اُٹھاتا ہے اور تمام اعراض نفسانی معدوم ہو کہ ذاتی محبت اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ التائی ذی القربی سے تعبیر کیا ہے اور اسی کی طرف خُدا تعالیٰ

Page 35

۳۴ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أوْ أَشَدَّ ذكرًا - ( البقره آیت: ۲۰۱) غرض آس إِنَّ اللهَ يَا مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذی القربی کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا.اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللَّهُ رَسُونُ بِالْعِبَادِ - البقره آیت (۲۰۸) یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضائے اپنی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں.اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے اور پھر فرمایا بلى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) (البقرة : ۱۱۳) یعنی وہ لوگ سنجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے بہکی عباد کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ دے کچھ غم کرتے ہیں یعنی ان کا مدعا خدا اور خدا کی محبت ہو جاتی اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرمایا وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَيَتِيمَا وَ استراه إنَّمَا نَطْعِمُكُمْ بِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلاَ شَكُورًا (الدهر آیت : ٨-٩)

Page 36

۳۵ یعنی مومن وہ ہیں ہم خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گذاری نہیں چاہتے نہ ہماری اور کچھ غرض ہے.ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے.اب سوچنا چاہیے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صات طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت اپنی اور رضائے اپنی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آدے " د روحانی خزائن جلدت ۳۳۰) اللہ جل شانہ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے یہ تو ہر ایک قوم کا دعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں سے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں مگر تثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے یا نہیں ؟ اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو اُن دلوں سے پردہ اٹھا ہے.جس پروہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالی کے وجود پر یقین نہیں رکھتا.اور ایک دھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے.بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اس کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے.اور یہ پردہ اٹھایا جانا بجز مکالمہ الہیہ کے اور کسی صورت میں میسر نہیں آسکتا.پس انسان حقیقی معرفت کے چشمہ میں

Page 37

my اس دن غوطہ مارتا ہے.جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے انا الموجود کی اس کو خود بشارت دیتا ہے.تب انسان کی معرفت صرف اپنے قیاسی ڈنہ کو سلہ یا محض منقولی خیالات تک محدود نہیں رہتی.بلکہ خدا تعالے ایسا قرب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے.اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن اس کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جل شانہ اپنے وجود سے آپ خیر دیتا ہے.اور پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیار سے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خیر ہی نہیں بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر ان پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ ان کی دعائیں جو ظاہری امیدوں سے بڑھ کر ہوں قبول فرما کہ اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے ان کو اطلاع دیتا ہے.تب ان کے دل تستی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دعائیں سنتا ہے اور ہم کو اطلاع دیتا اور مشکلات سے ہمیں نجات دیتا ہے.لفوظات جلد اول ص ۳۹.نیا ایڈیشن) 11 خدا تعالے تک پہنچنے کے آٹھ وسائل انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں یاجو کچھ توتیں عنایت ہوئی ہیں.اصل مقصود اُن سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی محبت ہے.اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خدا تعالی کے اپنی سچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا.بڑا

Page 38

دولتمند ہو کر بڑا عہدہ پا کر بڑا تاجرین کریٹری بادشاہی تک پہنچ کر بڑا فلاسفر کہلا کر اختران دنیوی گرفتاریوں سے بڑی حسرتوں کے ساتھ جاتا ہے اور ہمیشہ دل اس کا دنیا کے استغراق سے ان کو ملزم کرتا رہتا ہے اور اسکے مکروں اور فریبوں اور ناجائز کاموں میں کبھی اس کا کانشنس اس سے اتفاق نہیں کرتا.ایک دانا انسان اس مسئلہ کو اس طرح بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کے قویٰ ایک اعلیٰ سے اعلیٰ کام کر سکتے ہیں اور پھر آگے جا کہ بھر جاتے ہیں وہ اعلیٰ کام اس کی پیدائش کی علت غائی سمجھی جاتی ہے.مثلاً بیل کا کام عملی سے اعلیٰ قلبه رانی یا آب پاشی یا بار برداری ہے اس سے زیادہ اس کی قوتوں میں کچھ ثابت نہیں ہوا.سوہیل کی زندگی کا مدعا یہی تین چیزیں ہیں اس سے زیادہ کوئی قوت اس میں پائی نہیں جاتی.مگر جب ہم انسان کی قوتوں کو ٹٹولتے ہیں کہ اُن میں اعلیٰ سے اعلیٰ کو نسی قوت ہے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ خدا ئے اعلی و برتر کی اس میں تلاش پائی جاتی ہے.یہاں تک کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا کی محبت میں ایسا گدانہ اور محو ہو کہ اس کا اپنا کچھ بھی نہ ہے سب خدا کا ہو جائے.وہ کھانے اور سونے وغیرہ طبعی امور میں دوسرے حیوانات کو اپنا شریک غالب رکھتا ہے صنعت کاری میں بعض حیوانات اس سے بہت بڑھے ہوئے ہیں بلکہ شہد کی مکھیاں بھی ہر ایک پھول کا عطر نکال کر ایسا شہر نفیس پیدا کر تی ہیں کہ اب تک اس صنعت میں انسان کو کامیابی نہیں ہوئی.پس ظاہر ہے کہ انسان کا اعلیٰ کمال خدا تعالیٰ کا وصال ہے.لہذا اس کی نہ ندگی کا اصل مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دلی کی کھڑ کی کھلے.ہاں اگر یہ سوال ہو کہ یہ مدعاکیونکر اور کس طرح حاصل ہو سکتا ہے اور

Page 39

PA کن وسائل سے انسان اس کو پا سکتا ہے.پس واضح ہو کہ سب سے بڑا وسیلہ جو اس مدعا کے پانے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو صحیح طور پر پہچانا جائے اور بچے خدا پر ایمان لایا جائے کیونکہ اگر پہلا قدم ہی غلط ہے اور کوئی شخص مثلاً پرند یا چرند یا عناصر یا انسان کے بچہ کو خدا بنا بیٹھا ہے تو پھر دوسرے قدموں میں اُس کے راہ راست پر چلنے کی کیا امید ہے.سچا خدا اس کے ڈھونڈنے والوں کو مدد دیتا ہے.مگر مردہ مُردہ کو کیونکر مدد دے سکتا ہے.اس میں اللہ جل شانہ نے خوب تمثیل فرمائی ہے اور وہ یہ ہے :- لَهُ دَعْوَة الْحَقِّ وَالَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُدْنِهِم لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْ ءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَيْهِ إلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِخِهِ وَمَا دُعَاء الكفرين الا فِي ضَلَالٍ (الرعد : ۱۵) یعنی.دُعا کر نے کے لائق وہی سچا خدا ہے جو ہر ایک بات پر قادر ہے.اور جو لوگ اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ کچھ بھی ان کو جواب نہیں دے سکتے.ان کی مثال ایسی ہے کہ جب کوئی پانی کی طرف ہاتھ پھیلا د سے کہ اسے پانی میر سے منہ میں آجا.تو کیا وہ اس کے منہ میں آجائے گا ؟ ہر گز نہیں.سو جو لوگ بچے خدا سے بے خبر ہیں اُن کی تمام دعائیں باطل ہیں.دوسرا وسیلہ.خدائے تعالیٰ کے اُس حسن و جمال پر اطلاع پاتا ہے جو باعتبار کمال نام کے اُس میں پایا جاتا ہے.کیونکہ حسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع دل کی طرف کھنچا جاتا ہے اور اس کے مشاہدہ سے طبعا محبت پیدا ہوتی ہے تو حسن باری تعالیٰ اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت اور بزرگی اور صفات ہیں جیسا کہ

Page 40

۳۹ قرآن شریف نے فرمایا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ احد - الله الصمد.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كَفَوًا أَحَدٌ یعنی جدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں.سب اس کے حاجت مند ہیں.ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے وہ کل چیزوں کے لئے مبداء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں.وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں.قرآن نے بارہ بارہ خدا کا کہاں پیش کر کے اور اس کی عظمت دکھا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کا مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور قدرت.تیسرا وسیله جو مقصود حقیقی تک پہنچنے کے لئے دوسر سے درجہ کا زینہ ہے خدا تعالیٰ کے احسان پر اطلاع پاتا ہے.کیونکہ محبت کی محرک دو ہی چیزیں ہیں حسن یا احسان اور خدائے تعالیٰ کی احسانی صفات کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں پایا جاتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.الحمد لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ - مَالِكِ يَوْمِ الدِّينَ " کیونکہ ظاہر ہے کہ احسان کامل اس میں ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کو محض نابود سے پیدا کر لے اور پھر ہمیشہ اُس کی ربوبیت ان کے شامل حال ہے.اور وہی ہر ایک چیز کا آپ سہارا ہو.اس کی تمام قسم کی رحمتیں اس کے بندوں کے لئے ظہور میں آئی ہوں.اور اس کا احسان بے انتہا ہو جس کا کوئی شمار نہ کر سکے.سو ایسے احسانوں کو خدا تعالیٰ نے بار بار بتلایا جیسا کہ ایک اور جگہ فرماتا ہے.وَاِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تَحْفُوهَا یعنی اگر خدائے تعالیٰ کی نعمتوں کو گنا چاہو تو ہرگزر گین نہ سکو گے.ل : الاخلاص : له : الحمد : ا سے :.ابراہیم : ۳۵

Page 41

۴۰ چوتھا وسیلہ خدائے تعالیٰ نے اصل مقصود کو پانے کے لئے دُعا کو ٹھہرایا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم دعا کر دئیں قبول کروں گا.اور بارہ بار دعا کے لئے رغبت دلائی ہے تا انسان اپنی طاقت سے نہیں بلکہ خدا کی طاقت سے یاد ہے.پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے.یعنی اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ ہے.اور اپنی طاقتوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے :- جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ الله - التوبه (1) وَمِمَّا رَزَقَنْهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره: (( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا - (العنكبوت : ١٩) یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کردو اور جو کچھ تم نے عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ.جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش سجالاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں.چھٹا وسیلہ اصل مقصود پانے کے لئے استقامت کو بیان فرمایا ہے.یعنی اس راہ میں درماندہ اور عاجزہ نہ ہو اور تھک نہ جائے اور راہ اور امتحان سے ڈر نہ جائے.جیسا کہ اللہ تعالے فرماتا ہے :- إن الذين قالوا رَبُّنَا اللهُ لَمَّا اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ

Page 42

۴۱ عَلَيْهِمُ المَلائِكَةُ الَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ اليوم في العبوة الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ - (لحم سجدة (۲۱) یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے.پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے اُن پر فرشتے اتر تے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو بلکہ خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیوی زندگی میں اور اخرت میں تمہارے دوست ہیں.اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ اس استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے.کمالی استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پادیں اور کوئی تقسیتی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعا لئے بھی امتحان کے طور پر یستی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کردے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے اُس وقت نامردی نہ دکھلا دیں.اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں.ذلت پر خوش ہو جائیں.موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کسی اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلی سے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہرچہ بادا باد کہ کہ گردن کو آگے رکھ دیں.اور قضاء وقدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہرگز

Page 43

۴۲ بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلا دیں.جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے یہی استقامت ہے جب سی خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوئی اور شہیدوی کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے اسی کی طرف اللہ جل شانہ اس دُعا میں اشارہ فرماتا ہے :- اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ (الفاتحه :) علَيْهِمْ.یعنی اسے ہمار سے خدا ہمیں استقامت کی راہ دکھلا وہی راہ جس پر تیرا انعام واکرام مترتب ہوتا ہے.اور تو راضی ہو جاتا ہے.اور اسی کی طرف دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (الا ا ا : اسے خدا تعالیٰ ! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جیں سے صبر آجائے اور ایسا کہ کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جاننا چاہیئے.کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نوکر اتارتا ہے جسکی وہ قوت یا کہ نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے اُن زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں اُن کے پیروں میں بیڑیں.جب با خدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے رب کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا.کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرتا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت نامہ کے مخالف ہے.بلکہ سچا صحت بلاء کے اُترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے.اور ایسے وقت میں جان کو نا چیز مجھ کر اور جہان کی محبت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا ملکی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی

Page 44

۴۳ رضا چاہتا ہے.اسی کے حق میں اللہ جلشانہ فرماتا ہے :- وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللهِ وَالله رَؤُنُ بِالْعِبَادِ - (البقرة : ٢٠٨) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا تعالیٰ کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مورد ہیں غرض وہ استقامت جیسی خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی.جس کو سمجھنا ہو سمجھ ہے.ساتوان وسیله اصل مقصود کے پانے کے لئے راستبازوں کی صحبت اور ان کے کامل نمونوں کو دیکھنا ہے.پس جاننا چاہیے کہ انبیاء کی ضرورتوں میں سے ایک یہ بھی ضرورت ہے کہ انسان طبعا کامل نمونہ کا محتاج ہے اور کامل نمونہ شوق کو زیادہ کرتا ہے اور ہمت کو بڑھاتا ہے.اور جو نمونے کا پیرو نہیں وہ شکست ہو جاتا ہے اور بہک جاتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.كُونُوا مَعَ الصَّادِقِيْنَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ هِ یعنی تم ان لوگوں کی صحبت اختیار کرو جو راستباز ہیں ان لوگوں کی را ہیں سیکھو جن یہ تم سے پہلے فضل ہو چکا ہے.آٹھواں وسیلہ خدا تعالی کی طرف سے پاک کشف اور پاک الہام اور پاک خواہیں ہیں.چونکہ خدا تعالی کی طرف سفر کرنا ایک نہایت دقیق در دقیق راہ ہے اور اس کے ساتھ طرح طرح کے مصائب اور دکھ لگے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ انسان اس نا دیدہ راہ میں بھول جائے یا نا امیدی طاری ہو اور آگے قدم بڑھانا چھوڑ دے.اس لئے خدا تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ :- التوبه : ۱۲۰ ب : الفاتحه : ۶ :

Page 45

الدلم اپنی طرف سے اس سفر میں ساتھ ساتھ اس کو تستی دیتی رہے اور اس کی دند ہی کرتی رہے.اور اس کی کمر ہمت باندھتی رہے اور اس کے شوق کو زیادہ کر سے سو اس کی سنت اس راہ کے مسافروں کے ساتھ اس طرح پر واقع ہے کہ وہ وقتا فوقتا اپنے کلام اور الہام سے اُن کو تسلی دیتا اور اُن پر ظاہر کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.تب وہ قوت پا کر بڑے زور سے اس سفر کو طے کرتے ہیں.چنانچہ اس بارے میں وہ فرماتا ہے:.لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ - (یونس : ۶۳) اسی طرح اور بھی کئی وسائل ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے ہیں مگر افسوس ہم اندیشہ طول کی وجہ سے اُن کو بیان نہیں کر سکتے.دروحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۱۵ تا ۴۲۲ IP خدا تعالی کی ہستی پر یقین نافرمانی سے بچاتا ہے فرمایا کہ.آج کل خدا نمائی کی بڑی ضرورت ہے.دراصل اگر دیکھا جاو سے تو خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار ہو رہا ہے.بہت لوگوں کو یہ خیال ہے کہ کیا ہم خدا تعالیٰ کی بستی کے قائل نہیں ہیں وہ اپنے زعم میں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو وہ مانتے ہیں لیکن ذرا غور سے ایک قدم رکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ وہ در حقیقت قاتل نہیں نہیں.کیوں کہ اور اشیاء کے وجود کے قائل ہونے سے جو حرکات اور افعال ان سے صادر ہوتے ہیں وہ خدا کے وجود کے قائل ہوتے سے کیوں صادر نہیں ہوتے مثلاً جبکہ وہ ستم الفار سے واقف ہے کہ اس کے کھانے سے آدمی مرجاتا ہے تو وہ

Page 46

۴۵ اس کے نزدیک نہیں جاتا اور نہیں کھاتا.کیوں کہ اسے یقین ہے کہ میں اگر کھائوں گا تو مر جاؤں گا.پس اگر خدا تعالیٰ کی ہستی پر بھی یقین ہوتا تو وہ اسے مالک.خالق اور قادر جان کرنا فرمانی کیوں کرتا ؟ پس ظاہر ہے کہ بڑا ضروری مسئلہ ہستی باری تعالیٰ کا ہے.اور قابل قدر وہی مذہب ہو سکتا ہے جو کہ اسے نئے نئے لباس میں پیش کرتا رہے تا کہ دلوں پر اثر پڑ سکے.دراصل یہ مسئلہ اُم المسائل ہے اور اسلام اور غیر مذاہب میں ایک فرقان ہے.ملفوظات جلد چهارم ) یا لہو ولد سے زیادہ نہیں معرفت الہی میں حقیقی لذت سے" دنیا اور دنیا کو خوشیوں کی حقیقت لہو و لعب سے زیادہ نہیں.عارضی اور چند روزہ ہیں اور ان خوشیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا سے دُور جایڑتا ہے.مگر خدا کی معرفت میں جو لذت ہے.وہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو نام الکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے شنی نہ کسی اور جس نے اس کو محسوس کیا ہے.وہ ایک چیر کو نکل جانے والی چیز ہے ہر آن ایک نئی راحت اس سے پیدا ہوتی ہے جو پہلے نہیں دیکھی ہوتی.خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کا ایک خاص تعلق ہے.اہل عرفان لوگوں نے بشریت اور ربوبیت کے جوٹھ پر بہت لطیف بھٹیں کی ہیں.اگر بچے کا منہ پتھر سے نکالیں تو کیا کوئی دانش مند خیال کر سکتا ہے کہ اس

Page 47

54 پتھر میں سے دودھ نکل آئے گا.اور بچہ سیر ہو جائے گا.ہرگز نہیں اسی طرح پر جبتک انسان خدا تعالیٰ کے آستانہ پر نہیں گرتا.اس کی روح ہمہ عیستی ہو کر رہ یوسیت سے تعلق پیدا نہیں کر سکتی اور نہیں کرتی.جب تک کرده عدم یا مشابه با لعدم نہ ہو کیونکہ ربوبیت اسی کو چاہتی ہے اس وقت تک وہ روحانی دودھ سے پرورش نہیں پا سکتا.کہو میں کھانے پینے کی تمام لذتیں شامل ہیں.ان کا انجام دیکھو کہ بجز کثافت کے اور کیا ہے.زینت، سواری، عمدہ مکانات یا حکومت در خاندان پرخیر کرنا یہ باتیں ایسی ہیں کہ بالاخر اسی ایک قسم کی حقارت پیدا ہو جانی ہے جو رنج دیتی اور طبیعت کو افسردہ اور بے چین کر دیتی ہے.لوب میں عورتوں کی محبت بھی شامل ہے.انسان عورت کے پاس جاتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ محبت اور لذت کثافت سے بدل جاتی ہے.لیکن اگر یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک حقیقی عشق ہونے کے بعد ہو.تو پھر راحت پر راحت اور لذت پر لذت ملتی ہے.یہاں تک کہ معرفت حقہ کے دروازہ سے کھل جاتے ہیں.اور وہ ایک ابدی اور غیر فانی راحت میں داخل ہو جاتا ہے.جہاں پاکیزگی اور طہارت کے سوا کچھ نہیں." وہ خدا میں لذت ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کر داد را سے ہی پاؤ کہ حقیقی لذت وہی ہے یہ ملفوظات جلد اول ص )

Page 48

۱۴ خدائے عز وجل کی خوبی اور سین جمال کی معرفت کی محبت پیدا کرتی ہے- و انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے.اول بدی سے پر ہیز کرنا.دوئم نیخی کے اعمال کو حاصل کرنا اور محض بدی کو چھوڑ نا کوئی ہنر نہیں ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قومیں اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں.ایک طرف تو جذبات نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں دوسری طرف محبت الہی کی آگ جو اس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ، ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے.مگر اس روحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے معرفت الہی پر موقوف ہے کیونکہ ہر ایک چیز کی محبت اور عشق اس کی معرفت سے وابستہ ہے.جس چیز کے حسن اور خوبی کا تمہیں علم نہیں تم اس پر عاشق نہیں ہوسکتے.پس خدائے عز و جل کی خوبی اور حسن و جمال کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور محبت کی آگ سے گناہ جلتے ہیں.مگر سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ معرفت عام لوگوں کو نبیوں کی معرفت ملتی ہے.اور ان کی روشنی سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو دیا گیا.وہ ان کی پیروی سے سب کچھ پالیتے ہیں.د روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۶۲ )

Page 49

۴۸ ۱۵ انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف کرے خداتعالی دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کیسا ہے.اگر اللہ تعالیٰ سے معاملہ صاف نا ہو تو یہ چالاکیاں اور بھی خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتی ہیں.چاہیے تو یہ تھا کہ انسان خدا کے ساتھ معاملہ صاف کر سے اور پوری فرمانبرداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف رجوع کر ہے.اور اس کے بندوں کو بھی کسی قسم کی اذیت زیاد ہے.ایک شخص گیروی کپڑے پہن کر یا سبز لباس پہن کر کے فقیرین سکتا ہے.اور دنیا دار اس کو فقیر بھی سمجھ لیتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ تو اس کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدھے ہے اور وہ کیا کر رہا ہے کہ ملفوظات جلد چهارم ص 14 سچے دل سے تو بہ پہلے گناہوں کو معاف کر دیتی ہے " اللہ تعالی سے محبت کرنا مشک اور عطر کی طرح ہے جو کسی طرح سے چھپ نہیں سکتا ہی تا شیریں ہیں کچی تو یہ ہیں.جب انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے پھر اسے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے.اسی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.خدا اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے.اور وہ تقدیر جو شامت

Page 50

۴۹ اعمال سے اس کے لئے مقررہ ہوئی ہے وہ دُور کی جاتی ہے.و ملفوظات جلد چهارم مش (۱۵) 16 اللہ تعالیٰ کا خوف مکروہات منہیات سے بچ کر نقوی طہارت عطا کرتا ہے" الا بذكرِ اللهِ تَطْمَئِنُ القُلوب.اس کے عام معنی تو یہی ہیں.کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور فلاسفی یہ ہے کہ جب انسان سچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اس سے اس کے دل پر ایک خوف عظمت الہی کا پیدا ہوتا ہے وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے ، اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے.یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور وہ اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے.اس وقت وہ اللہ تعالٰی کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء انوراء طاقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے.پھر اس کے دل پر کوئی ہم و غم نہیں آسکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے.اسی لئے دوسرے مقام پر آیا ہے.لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَعْزَ اون.اگر کوئی ہم وغم واقع بھی ہو تواللہ تعالیٰ اپنے الہام سے اس کیلئے خارجی اسباب ان کے دُور کرنے کے پیدا کر دیتا ہے یا خارق عادت صبران کو عطا کرتا ہے.لملفوظات جلد چهارم ف۲) =; الرعد : ۲۹ : - یونس : ۶۳ به

Page 51

1^ خداتعالی کے ساتھ صحیح اور سچا تعلق کامل فاداری سے پیدا ہوتا ہے " اللہ تعالی کے ساتھ صحیح اور سچا تعلق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان پورا وفادار اور مخلص ہو.جو شخص وفادار نہیں اگر وہ ہر روز اس قدر روتا رہے کہ اس کے آنسوؤں کا ایک چھپڑ لگ جاد سے تو بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قدر نہیں ہے.اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمہارا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل وفاداری کا نمونہ ہو " ملفوظات جلد چهارم طلا) 19 اللہ تعالی کی نسبت صحیح علم کیلئے صادق کی صحبت کی ضرورت ہے قوت ذوق و شوق علم سے پیدا ہوتی ہے.جب تک علیم اور صرف نا ہو.کیا ہو سکتا ہے.رب زدنی علماء سورة طه : 110) کی دعا میں یہ بھی ایک سیر ہے.کیونکہ جس قدر آپ کا علم وسیع ہوتا گیا اسی قدر آپ کی معرفت اور آپ کا ذوق و شوق ترقی کرتا گیا.پس اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں اسے ذوق و شوق پیدا ہو.تو اس کو اللہ تعالیٰ کی نسبت صحیح علم حاصل کرنا چاہیئے.اور یہ علم کبھی حاصل نہیں ہوتا جب تک انسان صادق کی صحبت میں نہ رہے.اور اللہ تعالیٰ کی تازہ بتازہ تجلیات کا ظہورہ مشاہدہ لفوظات جلد چهارم طلا ) ناکر نے یہ

Page 52

اه "محبت کرنیوالے سے زیادہ اللہ تعالی اسے محبت کرتا ہے مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق کاٹ لیو ہے.اس کو تو حکم تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاتا اور صادقوں کے ساتھ ہو جاتا مگر وہ ہوا و ہوس کا بندہ بن کر رہا اور شریروں اور دشمنان خدا اور سول سے موافقت کر تا رہا.گویا اس نے اپنے طرز عمل سے دکھا دیا کہ خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیا ہے.یہ ایک عادۃ اللہ ہے کہ انسان جدھر قدم اُٹھاتا ہے اس کی مخالف جانب سے وہ دُور ہوتا جاتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الگ ہو کہ ہوا و ہوس نفسانی کا بندہ ہوتا ہے تو خدا اسے دُور ہوتا جاتا ہے.اور جوں جوں اور ہر تعلقات بڑھتے ہیں اُدھر کم ہوتے ہیں.یہ مشہور بات ہے.دل را بدل رہیست.پس اگر خدا تعالیٰ سے عملی طور پر بیزاری ظاہر کرتا ہے تو سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ بھی اس سے بیزار ہے اور اگر خدا تعالے سے محبت کرتا ہے اور پانی کی طرح اس کی طرف جھکتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ مہربان ہے.محبت کرنے والے سے زیادہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے وہ وہ خدا ہے کہ اپنے محبوں پر برکات ناندل کرتا ہے اوران کو محسوس کرادیا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے یہاں تک کہ ان کے کلام میں ان کے لبوں میں برکت رکھ دیتا ہے.اور لوگ ان کے کپڑوں اور انکی ہر بات سے برکت پاتے ہیں.امت محمدیہ میں اس کا بین ثبوت اس وقت تک موجود ہے کہ جو خدا کے لئے ہوتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے.

Page 53

۵۲ خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا.یہ ممکن ہے کہ زمیندارہ اپنا کھیت ضائع کر لے.نوکر موقوف ہو کر نقصان پہنچا ہے امتحان دینے والا کا میاب نہ ہو مگر خدا کی طرف سعی کرنیوالا کبھی بھی نا کام نہیں رہتا.اس کا سچا وعدہ ہے.والَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاء (العنكبوت :.خدا تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جو یا ہوا.وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا.دنیوی امتحانوں کیلئے تیاریاں کر نیوالے راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور مجھے انت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا.ہر گتہ نہیں.ہرگز نہیں ، اللہ تعالے کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا.اِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.(سورۃ توبہ : ۱۲۰) اور پھر فرماتا: - فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا ترة ، (سورہ الزلزال : ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہزار ہا طالب علم سال ہا سال کی محنتوں اور مشقتوں پر پانی پھر تا ہوا دیکھ کر روتے رہ جاتے ہیں اور خود کشیاں کر لیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل صمیم ایسا ہے کہ وہ ذرا سے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا.پھر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسان دنیا میں ظنی اور وہمی باتوں کی طرف تو اس قدر گرویدہ ہو کر محنت کرتا ہے کہ آرام اپنے اوپر گو یا حرام کر لیتا ہے اور صرف خشک امید پر کہ شاید کامیاب ہو جاویں ہزار ہا ر نیچ اور دکھ اٹھاتا ہے.تاجر نفع کی امید پر لاکھوں روپے لگا دیتا ہے مگر یقین اسے بھی نہیں ہوتا کہ ضرور نفع ہی ہوگا.مگر خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے کی رجس کے دعد سے یقینی اور حتمی ہیں کہ جس کی طرف قدم اٹھانے والے کی ذرا بھی محنت

Page 54

۵۳ رائیگان نہیں جاتی ، میں اس قدر دوڑ دھوپ اور سرگرمی نہیں پاتا ہوں یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے وہ کیوں نہیں ڈرتے کہ آخر ایک دن مرنا ہے.کیا وہ ان ناکامیوں کو دیکھ کہ بھی اس تجارت کی فکر میں نہیں لگ سکتے جہاں خسارہ کا نام و نشان ہی نہیں اور نفع یقینی ہے.زمیندارہ کس قدر محنت سے کاشتکاری کرتا ہے.مگر کون کہہ سکتا ہے کہ نتیجہ ضرور راحت ہی ہوگا.اللہ تعالیٰ کیسا رحیم ہے اور یہ کیسا خزانہ ہے کہ کوڑی بھی جمع ہو سکتی ہے روپیہ اشرفی بھی.نہ چور چکار کا اندیشہ نہ یہ خطرہ کہ دیوانہ نکل جائے گا.حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی ایک کا نشا راستہ سے ہٹا دے تو اس کا بھی ثواب اس کو دیا جاتا ہے.اگر پانی نکالتا ہوا اگر ایک ڈول اپنے بھائی کے گھڑے میں ڈال دے نہ خدا تعالی اس کا بھی اجر ضائع نہیں کرتا.پس یاد یہ کھو کہ وہ راہ جہاں انسان کبھی ناکام نہیں ہو سکتادہ خدا کی راہ ہے.دنیا کی شاہراہ ایسی ہے جہاں قدم قدم پر ٹھوکریں اور نا کا میوں کی چٹانیں ہیں.وہ لوگ جنہوں نے سلطنتوں تک کو چھوڑ دیا آخر بے وقوف تو نہ تھے.جیسے ابراہیم ادھم.شاہ شجاع.شاہ عبد العزیز جو مجد بھی کہلاتے ہیں.حکومت سلطنت اور شوکت دنیا کو چھوڑ بیٹھے.اس کی یہی وجہ تو تھی کہ ہر قدم پر ایک ٹھو کر موجود ہے.خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلت سے دیکھتا ہے کہ ان کے دیکھنے کے لئے بھی اُسے طبیعت پر ایک جبر اور کراہ کرنا پڑتا ہے.پس خدا تعالی کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھا کر کامیابی اسی میں ہے "

Page 55

۵۴ P انسان خدا تعالیٰ کے تعبد ابدی کیلئے پیدا کیا گیا ہے" " انسان خدا تعالیٰ کے تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے وہ اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا جس کی شناخت میں اس کی نجات ہے.اسی کی شناخت کے بار سے میں صرف چند بے ہودہ قصوں پر حصر رکھے اور وہ اندھا رہنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا ملہ کے متعلق پورا علم پار سے گویا اس کو دیکھ لے.سو یہ خواہش اس کی محض اسلام کے ذریعے سے پوری ہو سکتی ہے.ر روحانی خزائن جلد ۲ ص ۶۲ (٢٢ خدا تعالیٰ مجھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والا اور اس کے عشق میں گمشدہ قوم نبیوں کی ان جھوٹے اور فانی عاشقوں کے بعشق سے کہیں بڑھ کر اپنے اندر جوش رکھتے ہیں.کیوں کہ وہ خدادہ ہے جو جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے.یہاں تک کہ اس سے زیادہ توجہ کرتا ہے.خدا کی طرف آنے والا اگر معمولی چال سے چلتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.پس ایسے خدا کی طرف جس کی توجہ ہو جائے اور وہ اس کی محبت میں کھو جاو سے وہ محبت

Page 56

ده اور عشق الہی کی آگ ان امانی اور نفسانی خیالات کو جلا دیتی ہے پھر ان کے اندر رح ناطق ہو جاتی ہے.اور پاک نطق جواد ہر سے شروع ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا نطق ہوتا ہے.دوسرے رنگ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دعا کرتا ہے اور اللہ تعالٰی اس کو جواب دیتا ہے.پس یہ ایک کمال نبوت ہے.اور انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں رکھا گیا ہے.اس لئے جب انسان اهدِنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحه ) کی دُعا مانگے تو اس کے ساتھ ہی یہ امر پیش نظر رہے کہ اس کمال نبوت کو حاصل کر سے " ر سوره فاتحه و الحکم، را پریل شارد مث) اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے " اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں کیوں کہ جب دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے لئے خطر توں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی.اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا.بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہ جب نمازیں پڑھا کر تے تھے تو انہیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے.جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ اگر السلام وعلیکم کہے نماز سے فارغ ہوتے

Page 57

۵۶ السلام و علیکم ورحمہ اللہ کے کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک انسان نے نماز کا عقد باندھا اور اللہ اکبر کہا.تو وہ گویا اس عالم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخل ہوا.گویا ایک مقام محویت میں جا پہنچا.پھر جب وہاں سے واپس آیا تو السلام وعلیکم و رحمتہ اللہ کہ کہ آن ملا لیکن صرف ظاہری صورت کافی نہیں ہو سکتی.جب تک دل میں اس کا اثر نہ ہو چھینکوں سے کیا ہا تھ آسکتا ہے.محض صورت کا ہونا کافی نہیں حال ہونا چاہیئے.علت نمائی حال ہی ہے مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا وہ تو الٹی ہلاکت کی راہیں ہیں.انسان جب حال پیدا کر لیتا ہے اور اپنے حقیقی خالق و مالک سے ایسی سچی محبت اور اخلاص پیدا کر لیتا ہے کہ یہ بے اختیا نہ اس کی طرف پروانہ کر نے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کا عالم اس پر طاری ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کیفیت سے انسان گویا سلطان بن جاتا ہے اور ذرہ ذرہ اس کا خادم بن جاتا ہے یا التفسير سورة البقرة من والبدر جلد ۳ ۳۲ - ۲۴ اگست نشاء ص) ٢٤ تجو مومن ہیں وہ خدا سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے“ مکرم سند رواس کی وفات پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۵ فروری شاہ کو تعزیتی خط لکھ کر چوہدری رستم علی صاحب کو جو سندرو اس صاحب سے بہت محبت کرتے تھے چند نصائح فرمائیں.مضمون خط حسب ذیل ہے :-

Page 58

۵۷ بسم الله الرحمن الرحیم مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمه نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام و علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته ر حضور تعزیتی کلمات کے بعد فرماتے ہیں :- مجھے کبھی ایسا موقع چند مخلصانہ نصائح کا آپ کے لئے نہیں ملا.جیسا آج ہے.جاننا چا ہیے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی.ایمان جو ہمیں سبسے پیارا ہے وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے.کہ ہم محبت میں دوسر سے گو اس سے شریک نہ کریں.اللہ جل شانہ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے :- وَالَّذِينَ آمَنُوا اشَدُّ حُبَّا لِلَّهِ - البقره : ۱۳) یعنی جو مومن ہیں.وہ خدا سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے.محبت ایک خاص حق اللہ جل شانہ کا ہے جو شخص اس کا حق دوسر سے کر دے گا.وہ تباہ ہو گا.تمام برکتیں جو سروان خدا کو ملتی ہیں.تمام قبو لیتیں جو ان کو حاصل ہوتی ہیں.کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نمانہ روزہ سے ملتی ہیں ہر گز نہیں.بلکہ وہ توحید فی المحبت سے ملتی ہیں.اسی کے ہو جاتے ہیں اسی کے ہو رہتے ہیں.اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں.میں خوب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یکدفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے.جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے.لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میں ہے کہ کیا ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور ہونا چاہیے.ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا کہ

Page 59

جس سے دلی محبت باہر ہے.خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست.کوئی ہو ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جسے اگر شفقت و رحمت اہلی تدارک نہ کرہ سے تو سلب ایمان کا خطرہ ہے.آخر پر حضور نے دعائیہ کلمات کے ساتھ صبر کی تلقین کی اور فرمایا ) چاہیئے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں :- يا رحب من كل محبوب اغفر لي ذنوبي وادخلتي في عبادك المخلصين - آمين والسلام خاکسار - غلام احمد انه قادیان - ۱۵ر فروری شما » (مکتوبات احمد حد ، جلد پنجم نمبر سوم ) ۲۵ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر ے سچار جوع اس وقت ہوتا ہے.جب کہ خدا تعالیٰ کی رضا سے رضاء انسانی مل جا و سے.یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیاء اور ابدال اور مقربین کا درجہ پاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے اور چونکہ وہ ہرقسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوتا ہے.ہر وقت اللہ تعالٰی کی رضا ئیں زندہ ہوتا ہے اسی لئے وہ ایک ابدی بہشت اور شرور میں ہوتا ہے.انسانی مہستی کا مقصد

Page 60

اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے.کیوں کہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرہ سے " 19 کی ر تفسیر سوره آل عمران از حضرت مسیح موعود ها) "خدا کی محبت کے حصول کا طریق اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا.جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہارنی نہ بنائے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی محبوب الہی بننے کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جاوے بیچی اتباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرتا ہوتا ہے.(تفسیر سوره آل عمران از حضرت مسیح موعود قد ۲) ۲۷ صراط مستقیم کا حصول تہر ایک مسلمان پر فرض کیا گیا ہے اور اس کی دُعا ہر نماز میں بھی مقررہ ہوئی ہے جو صراط مستقیم کو مانگتا رہے، کیونکہ یہ ام اس کو توحید پر قائم کر نیوالا ی - آل عمران، ۳۷۱

Page 61

ہے.کیونکہ صراط مستقیم پر ہونا خدا کی صفت ہے.علاوہ اس کے صراط مستقیم کی حقیقت حق اور حکمت ہے.پس اگر وہ حق اور حکمت خدا کے بندوں کے ساتھ بجالایا جائے تو اس کا نام نیکی ہے اور اگر خدا کے ساتھ بجا لایا جائے تو اس کا نام اخلاص اور احسان ہے اور اگر اپنے نفس کے ساتھ ہو تو اس کا نام تزکیۂ نفس ہے اور صرح تنظیم الیسا لفظ ہے کہ جسمیں حقیقی کی اور خاص باشد اور تز کی نفی تینوں شامل ہیں.اب اس جگہ یہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ صراط مستقیم جو حق اور حکمت پر مبنی ہے.تین قسم یہ ہے علمی اور علی اور حالی اور پھر یہ تینوں تین قسم پر ہیں.علیمی میں حق اللہ اور حق العباد اور حق النفس کا شناخت کرنا ہے.اور عملی میں ان حقوق کو بجا لانا.مثلاً حق علمی یہ ہے کہ اس کو ایک سمجھنا اور اس کو مبداء تمام فیوض کا اور جامع تمام خوبیوں کا مرجع اور اب ہر ایک چیز کا اور منزہ ہر ایک عیب اور نقصان سے جانتا اور جامع تمام صفات کا ملہ ہونا اور قابل عبودیت ہونا.اسی میں محصورہ رکھنا.یہ تو حق اللہ میں علمی صراط مستقیم ہے.اور علی صراط مستقیم یہ ہے جو اس کی طاعت اخلاص سے بجا لانا اور طاعت میں اس کا کوئی شریک نہ کرنا اور اپنی بہبودی کے لئے اسی سے دعا مانگنا اور اسی پر نظر رکھنا اور اسی کی محبت میں کھوئے جانا.یہ علی صراط مستقیم ہے کیونکہ یہی حق ہے.اور حق العباد میں علمی صراط مستقیم یہ جو ان کو اپنا بنی نوع خیال کرنا.ادران کو بندگان خدا سمجھنا اور بالکل پیچ اور نا چیز خیال کرنا کیوں کہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے.جو ان کا وجود ہیچ اور ناچیز ہے اور سب فانی ہیں یہ توحید علمی ہے.کیوں کہ اس سے عظمت ایک کی

Page 62

41 ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی نقصان نہیں اور اپنی ذات میں کامل ہے.اور عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ حقیقی نیکی بنجالا نا یعنی وہ امر جوہ حقیقت میں ان کے حق میں اصلح اور راست ہے بجا لانا یہ توحید عملی ہے کیوں کہ موحد کی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا کے اخلاق میں فانی ہوں اور حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ جو جو نفس میں آفات پیدا ہوتے ہیں جیسے عجب اور دیا اور تکبر اور حقد اور حسد اور غرور اور حرص اور بخل اور غفلت اور ظلم ان سب سے مطلع ہونا اور جیسے وہ حقیقت میں اخلاق رذیلہ ہیں ویسا ہی ان کو اخلاق رزیلہ جانا یہ علی صراط مستقیم ہے اور یہ توحید علمی ہے کیوں کہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے.کہ جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے اور حق النفس میں عملی میراط مستقیم یہ ہے جو نفس سے ان اخلاق رذیلہ کا قلع قمع کرتا اور صفت تخلی من رذائل اور تحلی بالفضائل سے متصف ہونا یہ عملی صراط مستقیم ہے یہ توحید حالی ہے.کیونکہ موجد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تا اپنے دل کو غیر اللہ کے دخل سے خالی کرے اور نا اس کو فنائی تقدس اللہ کا درجہ حاصل ہو اور اس میں اور حق العباد میں جو عملی صراط مستقیم ہے ایک باریک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ جو عملی صراط مستقیم حق المنفس کا وہ صرف ایک ملکہ ہے جو بذریعہ ورزش کے انسان حاصل کرتا ہے اور ایک بامعنی شرف ہے.خواہ خارج میں کبھی ظہور میں آد سے یا نہ آوے.لیکن حق العباد جو عملی صراط مستقیم ہے وہ ایک خدمت ہے اور تبھی متحقق ہوتی ہے کہ جو افراد کثیرہ بنی آدم کو خارج میں اس کا اثر پہنچے اور شر خدمت

Page 63

۶۲ کی ادا ہو جائے.غرض تحقق عملی صراط مستقیم حق العباد کا ادائے خدمت میں ہے اور علی صراط مستقیم حق النفس کا صرف تزکیہ نفس پر مدار ہے کسی خدمت کا ادا ہونا ضروری نہیں یہ تنہ کیہ نفس ایک جنگل میں اکیلے رہ کر بھی ادا ہو سکتا ہے.لیکن حق العباد بجز بنی آدم کے ادا نہیں ہو سکتا اس لئے فرمایا گیا.کہ رہبانیت اسلام میں نہیں.اب جاننا چاہیئے جو صراط مستقیم علمی اور عملی سے غرض اصلی توحید علمی اور توحید علی ہے.یعنی وہ توحید جو بذریعہ علم کے حاصل ہو اور وہ توحید جو بذریعہ عمل کے حاصل ہو.پس یاد رکھنا چاہیئے جو قرآن شریف میں بجز توحید کے اور کوئی مقصود اصلی قرانہ نہیں دیا گیا اور باقی سب اس نے وسائل ہیں.(تفسیر سوره فاتحه صد ۲۳ - ۲۳۷) انسان کی پیدائش کی اصل غرض.عبادت الہی تمہار سے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرد - اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس ایک امر کو بیان کرتا ہوں.کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے.جس کے لئے انسان آیا ہے اور نہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑیں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں

Page 64

رکھتا.اور یہ سہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست ہشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے.اس لئے میں تو کہتا ہوں.کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو.اور وہ اس کا تردد نہ کرے.تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد ہے کہ دنیا کے کا رویا بہ سے الگ ہو جائے وہ غلطی کرتا ہے نہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کا روبار جو تم کرتے ہو.اس میں دیکھ لو.کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو.اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کہ اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو.پس اگر انسان کی زندگی کا یہ مدعا ہو جائے کہ وہ صرف تنتقم کی زندگی بسر کہ سے اور اس کی ساری کامیابیوں کی انتہا خورد و نوش اور لباس و خواب ہی ہو.اور خدا تعالیٰ کے لئے کوئی خانہ اس کے دل میں باقی نہ رہے.تو یاد رکھو کہ ایسا شخص قطرہ اللہ کا مقلب ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے قویٰ کو بے کا رہ کر لے گا.یہ صاف بات ہے کہ جس مطلب کے لئے کوئی چیز ہم لیتے ہیں اگر وہ وہی کام نہ دے ہے تو ا سے بے کار قرار دیتے ہیں.مثلاً ایک لکڑی کرسی یا میز بنانے کے واسطے لیں اور اس کام کے ناقابل ثابت ہو.تو ہم اسے ایندھن ہی بنا لیں گئے.اسی طرح پر انسان کی پیدائش کی اصل بغرض تو عبادت الہی ہے.لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بیکار کر لیتا ہے.تو خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے :- كل ما يبدا بمدى لولا دُعَاؤُكُمْة (الفرقان :)

Page 65

۶۴ میں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے ایک روٹیا میں دیکھا کہ :- " ایک جنگل میں کھڑا ہوں.شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے.اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پر مسلط ہے.ہاتھ میں چھری ہے.جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے.اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے.میں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں.میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہی آیت پڑھی.محل مَا يَقو اب سم رَبِّي لَوْلا دُعَاؤُكُم.یہ سنتے ہی ان قصابوں نے چھریاں چلا دیں اور یہ کہا کہ تم ہو کیا ؟ آخر گوہ کھانے والی بھیڑ ی ہی ہو " غرض خدا تعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقاء کو عزیز رکھتا ہے اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پر واہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے.اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کہ ہے.جیسے کلوروفارم نیند لاتا ہے.اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اُسے غفلت کی نیند سلاتا ہے.اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے.( ملفوظات جلد اول مثلا )

Page 66

40 ٢٩ ”انسان کے وجود کی علت غائی.اطاعت ابدی" حضرت اقدس صراط مستقیم میں پنہاں معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے.جیسا کہ وہ یہ دُعا سکھلاتا ہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر.ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھے سے انعام پایا.اور جن پر آسمانی دروانہ سے کھلے.واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت فائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے.اور انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ایسا ہی درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے.اور جب وہ اپنے تمام قوی سے خُدا کے لئے ہو جائے گا تو بلا شبہ اس پر العام نازل ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑکی کھولی جائے.تو آفتاب کی شعا میں ضرور کھڑکی کے اندر آجاتی ہیں.ایسا ہی جنب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بالکل سیدھا ہو جائے اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں کچھ حجاب نہ رہے

Page 67

44 تب فی الفور ایک نورانی شعلہ اس پہ نازل ہوتا ہے اور اس کو منور کر دیت ہے اور اس کی تمام اندرونی غلاظت دھو دیتا ہے.تب وہ ایک نیا انسان ہو جاتا ہے اور ایک بھاری تبدیلی اس کے اندر پیدا ہوتی ہے.تب کہا جاتا ہے کہ اس شخص کو پاک زندگی حاصل ہوئی.اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں انشارہ فرماتا ہے :- رو مَنْ كَانَ في هذه اعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعلى وَأَضَلُّ سَبيلاه د بنی اسرائیل ۳ ما یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا ہے اور خدا کے دیکھنے کا اس کو تو نہ نہ ملا وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا.دروحانی خزائن جلد ۲۱ ۳۲۲ ) بہت نیک وہی ہے جو بہت دُعا کرتا ہے" بہترین دعا فا تحہ ہے کیونکہ وہ جامع دیا ہے.جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجادونگا.تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم یہ پہنچ جائیگا اور کامیاب ہو جاہیے گا.اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دعا کرو یا الہی میں ایک تیرا گناہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں.میری راہ نمائی کرے.ادنی اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اس معطل رہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک ان اس کو بھی شرم آجاد سے گی" (تفسیر و انا تحو الحکم یا نومبر محمت)

Page 68

42 ۳۱ عالی کار میں اپنی سی طاقتوں اور قوتوں کو ام الحیات وقف کر دے.خدا تعالیٰ کے بند سے کون ہیں ؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے.اللہ تعالیٰ کی ہی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اُس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں.وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں.مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.چنانچہ خود خدا تعالی اس یہی وقف کی طرف ایماء کر کے فرماتا ہے :- مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ جرة عِندَ رَيهِ مِن وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ (البقرة : ١١٣ ) يَحْزَنُونَ.اس جگہ اسْلَمَ وَجْهَهُ لِلہ کے معنی یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلل کا لباس پہن کر آستانه الو بہقیت پر گر سے اور اپنی جان، مال، آیه و عرس جو کچھ اس کے پاس ہے.خدا ہی کے لئے وقف کر نے اور دنیا اور اس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنا دے " ( ملفوظات جلد اول ۳۶۳)

Page 69

4^ Fr اسلام نام سے خُدا تعالیٰ کے آگے گردن جھکا دینے کا " مذہب یہی ہے کہ انسان خوب غور کرے.اور دیکھے اور عقل سے سوچے کہ وہ ہر آن میں خدا کا محتاج ہے اور اس کی طرف مجز سے انسان کی جان پر، مال پر ، آبرو پر بڑے بڑے مصائب اور حملے ہوتے ہیں.لیکن سوائے خدا کے اور کوئی نجات دینے والا نہیں ہوتا اور ان موقعوں پر ہر ایک قسم کا فلسفہ خود بخود شکست کھا جاتا ہے.جن لوگوں نے ایسے اصولوں پر قائم ہونا چاہا ہے.کہ جن میں خدا کی حاجت کو تسلیم نہیں کرتے.حتی کہ انشاء اللہ بھی زبان سے نکالنا.ان کے نزدیک معیوب ہے.مگر پھر بھی جب موت کا وقت آتا ہے.تو ان کو اپنے خیالات کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے بات یہ ہے کہ ہر آن میں اور اپنے ہر ایک زیرہ کے قیام کے لئے انسان کو خدا کی حاجت اور ضرورت ہے اور اگر وہ اپنی انانیت سے نکل کر خوبہ سے دیکھے، تو تجربہ سے اسے خود پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ نس قدر غلطی پر تھا اپنے آپ کو ہر آن میں خدا کا محتاج جاننا اور اس کے آستانہ پر سر رکھنا یہی اسلام ہے.اور اگر کوئی مسلمان ہو کر اسلام کے طریق کو اختیار نہیں کرتا.اور اس پر قدم نہیں مارتا تو پھر اس کا اسلام ہی کیا ہے ؟ اسلام نام ہے خدا کے آگے گردن جھکا دینے کا یا الملفوظات نیا ایڈیشن جلد سوم ص ۴۷)

Page 70

49 انسان نخدا کی راہ مں اپنے اوپر موت اور حالت نوار کرے اصل بات یہی ہے کہ انسان خدا کی راہ میں جب تک اپنے اوپر ایک موت اور حالت فنا وارد نہ کرے تب تک ادہر سے کوئی پروا نہیں کی جاتی البتہ جب خدا دیکھتا ہے کہ انسان نے اپنی طرف سے کمائی کوشش کی ہے.اور میر سے پانے کے واسطے اپنے اوپر موت وارد کرلی ہے تو پھر وہ انسان پر خود ظاہر ہوتا ہے اور اس کو نواند تا اور قدرت نمائی سے بلند کرتا ہے.دیکھو قرآن شریف میں ہے فضل الله المجاهدين على القاعدين اجرا عظيماه (العنكبوت:۳) قاعدین یعنی سست اور معمولی حیثیت کے لوگ اور خدا کی راہ میں کوشش اور سعی کرنیوالے ایک برابر نہیں ہوتے.یہ تجربہ کی بات ہے اور سالہائے درانہ سے ایسا ہی دیکھنے میں آرہا ہے.و ملفوظات جلد پنجم مکن انسان کی تمام طاقتیں اللہ تعالیٰ کے آستانے پرگری ہوں جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ

Page 71

کر سے اور اسی سے نہ مانگے.سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سبب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون کو اسی انجن کی طاقت عظمی کے ماتحت نہ کر لیو ہے.وہ کیونکر اللہ تعالے کی الوہیت کا قائل ہو سکتا ہے.اور اپنے آپ کو اِنِّی وَجَهَتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ( العام (49) کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے ؟ جیسے منہ سے کہتا ہے ویسے ہی ادہر کی طرف متوجہ ہو تو لاریب وہ مسلم ہے وہ مومن اور حنیف ہے لیکن وہ شخص جو اللہ تعالے کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادہر بھی جھکتا ہے وہ یاد رکھے کہ بڑا ہی بد قسمت اور محروم ہے کہ اس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے " میر سورة الانعام از حضرت مسیح موعود من) ۳۵ وہ کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں جو علم کی باشوئی تھیں یہ بات نہایت صاف اور ظاہر ہے کہ چونکہ انسان خدا کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے اس کا تمام آرام اور ساری خوشحالی صرف اسی میں ہے کہ وہ سارا خدا کا ہی ہو جائے اور حقیقی راحت کبھی ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک

Page 72

انسان اس حقیقی رشتہ کو جو اس کو خدا سے ہے ممکن قوت سے جینز فعل میں نہلا دے.لیکن جب انسان خدا سے منہ پھیر لیو سے، تو اس کی مثال ایسی ہو جاتی ہے جیسا کہ کوئی شخص ان کھڑکیوں کو بند کر دیو سے جو آفتاب کی طرف تھیں اور کچھ شک نہیں کہ ان کے بند کر نے کے ساتھ ہی ساری کو ٹھڑی میں اندھیرا پھیل جائے گا.اور وہ روشنی جو محض آفتا ہے ملتی ہے یک لخت دور ہو کہ ظلمت پیدا ہو جائے گی.اور وہی ظلمت ہے جو ذلالت اور جہنم سے تعبیر کی جاتی ہے.کیوں کہ دکھوں کی وہی چیڑ ہے اور اس ظلمت کا دور ہونا اور اس جہنم سے نجات پانا اگر قانون قدرت کے طریق پر تلاش کی جائے تو کسی کے مصلوب کرنے کی حاجت نہیں.بلکہ وہی کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں جو ظلمت کی باعث ہوئی تھیں.کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ ہم در حالی کہ نور پانے کی کھڑکیوں کے بند رکھنے پر اصرار کریں کیسی روشنی کو پا سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں.سو گناہ کا معاف ہونا کوئی قصہ کہانی نہیں جس کا ظہور کسی آئیندہ زندگی پر موقوف ہو اور یہ بھی نہیں کہ یہ امور محض بے حقیقت یا مجازی گورنمنٹوں کی نافرمانیوں اور قصور بخشی کے لہنگ میں ہیں.بلکہ اس وقت انسان کو مجرم اور گنہگا یہ کہا جاتا ہے.کہ جب وہ خدا سے اعراض کر کے اُس روشنی کے مقابلہ سے پر سے ہٹ جاتا ہے اور اُس چمک سے ادہر اد ہر ہو جاتا ہے جو خدا سے اترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے.در حانی خزائن جلد احت)

Page 73

(٣٦ ۷۲ خداتعالی کی محبت میں موہوجانا عظیم الشان مقصود ہے یہ سچی بات ہے کہ گناہ سے بچنا اور خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جانا انسان کے لئے ایک عظیم الشان مقصود ہے اور یہی وہ راحت حقیقی ہے جس کو ہم بہشتی زندگی سے تعبیر کر سکتے ہیں.تمام خواہشیں جو خدا کی رضامندی کے مخالف ہیں دوزخ کی آگ ہیں اور ان خواہشوں کی پیروی میں بعمر بسر کرنا ایک جہنمی زندگی ہے.د روحانی خزائن جلد ۲ مالیکیول ہوں خُدا تعالیٰ نیک بندوں کو عزیز رکھتا ہے انکی عمر دراز کرتا ہے" خداتعالی کو ہوتو کچھ کے ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھاؤ ورنہ نکمی شے کی طرح تم پھینک دیئے جاؤ گے.کوئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا.بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھال سنبھالی تحریر کھتے ہو.لیکن اگر گھر میں کوئی چوہا مرا ہوا دکھائی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دو گے.اسی طرح پر خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ عر نیز رکھتا ہے ان کی عمر درانہ کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک برکت رکھ دیتا ہے

Page 74

وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بے عزتی کی موت نہیں مارتا.لیکن چو خدا تعالٰی کی ہدایتوں کی بے حرمتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے.اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کر سے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن جاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہرو جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ اُن میں اور ان کے غیروں کے درمیان ایک فرقان رکھ دیتا ہے.یہی راز انسان کے برکت پانے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بختیار ہے.ایسا شخص جہاں رہے وہ قابل قدر ہوتا ہے.کیوں کہ اس سے نیکی پہنچتی ہے وہ غریبوں سے سلوک کرتا ہے.ہمسایوں پر رحم کرتا ہے.شرارت نہیں کرتا.جھوٹے مقدمات نہیں بناتا.جھوٹی گواہیاں نہیں دیتا.بلکہ دل تو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہوتا ہے اور خد القالے کا ولی کہلاتا ہے.لفوظات نیا ایڈیشن جلد سوم صلا) PA اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقفے انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کر سے.میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی ز ندگی آریہ سماج کے لئے وقف کر دی ہے.اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی ہے.مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت

Page 75

< کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں.یاد رکھو یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے بلکہ بے قیاس تفع کا سودا ہے.کاش مسلمانوں کو معلوم ہوتا اور اس تجارت کے مفاد اور منافع پر ان کو اطلاع ملتی جو خدا کے لئے اس کے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے.کیا وہ اپنی زندگی کھوتا ہے.ہر گز نہیں.فله أجره عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ولا هُمْ يَحْزَلون (البقرة :١٣) اس لیہی وقف کا اجر ان کا رب دینے والا ہے.یہ وقف ہر قسم کے ہموم و عموم سے نجات اور رہائی بخشنے والا ہے......میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کا رہوں اور محض اللہ تعالے کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے پس میں چونکہ خود تجربہ کا رہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے مجھے وہ جوشش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہیہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دیکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا " و تفسیر سوره البقره از حضرت مسیح موعود ط

Page 76

خالصا لله وقف بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أجْرُهُ عِنْدَ رَبه - (البقره : ۱۱۳) یعنی مسلمان وہ ہے ہو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیو سے.یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالے کے لئے اور اس کے ارادوں گی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیدے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جاوے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیو ہے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جائے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ سے جو خدا تعالے کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصتا اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجالا و سے.مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.ده وحانی خزائن جلده من

Page 77

<4 اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس سب مرضیات چھوڑ دے خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اس کی عزت اور جلال دیگا نگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور اس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو.اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹے سکے اور اس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلادے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے.یا بھسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہیئے.غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانگاہ زخموں سے محروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے " د روحانی خزائن جلده م)

Page 78

<< M جو خُدا تعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہو خدا تعالیٰ اُس کی ساری مرادیں پوری کر دیتا ہے "برکات اور فیوض الہی کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت ضرورت پڑتی ہے.جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں چاہیئے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی حصہ یا کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو.جب یہ حالت ہو تو پھر ہی نظر کے ساتھ تجلیات آتی ہیں اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے اس کے لئے ایسا د فا دا لہ اور صادق ہونا چاہیئے.جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنا صدق دکھایا یا جس طرح پر انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونہ دکھایا.جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہے تو وہ با برکت آدمی ہو جاتا ہے پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلت نہیں اٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے.بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے دروانہ سے کھولے جاتے ہیں.اور مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ اس کو لعنتی زندگی سے ہلاگ نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے.مختصر یہ کہ جو خدا تعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی ساری مرادیں پوری کر دیتا ہے.اسے نامراد نہیں رکھتا " ر تفسير سورة يونس تا الکهف از حضرت مسیح موعود من )

Page 79

ام خدا اور انسان کی دوستی کے حوالے سے فضال الہی کے حصول کے لئے نصیحت و دو دوستوں میں دوستی اس صورت میں نبجھ سکتی ہے کہ کبھی وہ اس کی مان سے اور کبھی یہ اس کی.اگر ایک شخص سدا اپنی ہی منوانے کے درپے ہو جائے تو معاملہ بگڑ جاتا ہے.یہی حال خدا تعالٰی اور بندہ کے رابطہ کا ہونا چاہیے کبھی اللہ تعالیٰ اس کی سُن لے اور اس پر فضل کے دروازہ سے کھول دے اور کبھی بندہ اس کی قضا و قدر پر راضی ہو جائے.حقیقت یہ ہے کہ حق خدا تعالیٰ کا ہی ہے کہ وہ بندوں کا امتحان سے اور یہ امتحان اس کی طرف سے انسان کے فوائد کے لئے ہوتے ہیں.اس کا قانون قدرت ایسا واقع ہوا ہے کہ امتحان کے بعد جو اچھے نکلیں انہیں اپنے فضلوں کا وارث بناتا ہے گا الملفوظات نیا ایڈیشن جلد اول جن ۲ ) ۴۲ اللہ تعالیٰ اپنے راست باز متقی کو رزق کی مار نہیں دیتا ہر قسم کی دعائیں طفیلی ہیں.اصل دعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں.باقی دعائیں خود بخود قبول ہو جائیں گی.کیوں کہ گناہ کے دُور ہونے سے برکات آتی ہیں.یوں دُعا قبول نہیں ہوتی جو

Page 80

<9 تیری دُنیا ہی کے واسطے ہو.اس لئے پہلے خدا تعالیٰ کو راحتی کرنے کے واسطے دعائیں کریں اور وہ سب سے بڑھ کر دعا اهدنا الصراط المستقیم ہے.جب یہ دعا کرتا رہے گا.تو وہ منعم علیہم کی جماعت میں داخل ہو گا.جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے دریا میں فرق کر دیا ہے ان لوگوں کے زمرہ میں جو منقطعین ہیں.داخل ہو کر یہ وہ انعامات اپنی حاصل کرے گا.جیسی عادت اللہ ان سے جاری ہے.یہ کبھی کسی نے نہیں سُنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک راست باز متقی کو رزق کی بارہ بلکہ وہ تو سات پشت تک بھی رحم کرتا ہے.قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ کا واقعہ درج ہے کہ انہوں نے ایک خزانہ نکالا.اس کی بابت کہا گیا کہ ابو هُما صَالِحًا.اس آیت میں ان کے والدین کا ذکر تو ہے لیکن یہ ذکر نہیں کر وہ لڑکے خود کیسے تھے باپ کے طفیل سے اس خزانہ کو محفوظ رکھا تھا اور اس لئے ان پر رحم کیا گیا.لڑکوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ ستاری سے کام لیا گیا ر تفسير سورة فاتحہ ص - الحکم مارچ است) جس کا خُدا متولی ہو جائے وہ طمانیت اور لذت پاتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات میں بے نظر صفات ہیں.جو لوگ اس کی راہ پر چلتے ہیں انہیں کو اس کی اطلاع ملتی ہے اور وہی اس سے مزہ پاتے ہیں.خدا تعالیٰ سے رشتہ میں اس قدر شرینی اور لذت ہوتی ہے کہ

Page 81

کوئی پھل ایسا شیریں نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ سے جلدی کوئی شخص خبر گیراں نہیں ہو سکتا.پھر جس کا خدا متولی ہو جاتا ہے اس کو کئی فائدے ہوتے ہیں.ایک تو وہ طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ راحت پاتا ہے جو کسی دنیا دار کو نصیب ہونا نا ممکن ہے اور ایسی لذت پاتا ہے جو کہیں دوسری جگہ نصیب نہیں ہو سکتی.و ملفوظات جلد چهارم من جن کا اللہ تعالی متولی ہوجاتا ہے وہ دنیا کے کام سے نجا تے جاتے ہیں " جب تک انسان اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا اور اس کے وعدوں پر سچالیقین نہیں کرتا اور ہر ایک مقصود کا دینے والا اسی کو نہیں سمجھتا اور کامل صلاح اور تقویٰ اختیار نہیں کر لیتا تو اس وقت تک وہ حقیقی راحت دستیاب نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ یعنی جو صلاحیت اختیار کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کا متولی ہو جاتا ہے.انسان جو متولی رکھتا ہے اسکی بہت بوجھ کم ہو جاتے ہیں.بہت ساری ذمہ داریاں گھٹ جاتی ہیں.بچپن میں ماں بچے کی متولی ہوتی ہے تو بچے کو کوئی فکر اپنی ضروریات کا نہیں رہتا.وہ خود ہی اس کی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے.اس کے کپڑوں اور کھانے پینے کے خود ہی فکر میں لگی رہتی ہے.اس کی صحت قائم رکھنے کا دھیان اسی کو رہتا ہے.اس کو بہلاتی اور دھلاتی ہے اور کھلاتی اور پلاتی ہے.یہاں تک کہ بعض وقت اس کو مار کر کھانا کھلاتی ہے : - الاعراف : ۱۹۷

Page 82

Al اور پانی پلاتی ہے.اور کپڑا پہناتی ہے.بچہ اپنی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا بلکہ ہاں بنی اس کی ضرورتوں کو خوب سمجھتی.اور ان کو پورا کرنے کے خیال میں لگی رہتی ہے.اسی طرح جب ماں کی تولیت سے نکل آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولی کی ضرورت پڑتی ہے.طرح طرح سے اپنے متولی اور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطان ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں سے سکتے.لیکن جو لوگ ان سب سے منقطع ہو کر اس قسم کا تقویٰ اور اصلاح اختیار کرتے ہیں.ان کا وہ خود متولی ہو جاتا ہے.اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود ہی کفیل ہو جاتا ہے.انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے.گرنہ مستانی به ستم می رسد والی نوبت ہوتی ہے.لیکن انسان بہت سے زمانے پالیتا ہے.جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے.کہ خدا اس کا متوئی ہو جائے یعنی اس کو خدا تعالیٰ کی تولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولیوں کی توثیت سے گزرنا پڑتا ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے.قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ لَا مَلِكِ النَّاسِ هُ إِليهِ النَّاسِهُ مِنْ شَرِّ الوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ لا مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ : پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے.پھر جب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے.پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے.اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے.اور یہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں نے متولی سمجھا ہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولی سمجھنا میری غلطی تھی.کیوں کہ انہیں متولی بنانے میں نہ تو له : - الناس -

Page 83

میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی وہ میرے لئے کافی ہو سکتے تھے.پھر وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور ثابت قدمی دکھانے سے خدا کو اپنا متولی پاتا ہے.اس وقت اس کو بڑی راحت حاصل ہوتی ہے.اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے.خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا مستولی ہوا.تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا.یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے.دنیاوی حالتوں میں انسان تلخی سے خالی نہیں ہو سکتا.دشت دنیا کانٹوں اور تلخیوں.بھری ہوئی ہے.دشت د نیا جزو د و جز دام نیست جزه بخلوت گاه حق آرام نیست سے جن کا اللہ تعالیٰ متولی ہو جاتا ہے.وہ دنیا کے آلام سے نجات پا جاتے ہیں اور ایک سچی راحت اور طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں.د تفسیر سوره مائده تا سوره توبه از حضرت مسیح موعود من ۲ ۲۱۹) اللہ تعالیٰ کے لئے وقف نہ کر نیوالے کی سنرا وَلَقَدْ ذَرَانَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِ وَالاِنْسِ.رسورہ الاعراف : ۱۸) انسان اگر اللہ تعالی کے لئے زندگی وقف نہیں کرتا.تو وہ یا درکھے کہ

Page 84

A ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا کیا ہے.اس آیت سے یہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے.کہ جیسا کہ بعض عام خام خیال کو تاہ فہم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے.کہ ہر ایک آدمی کو جہنم میں ضرور جانا ہو گا.یہ غلط ہے.ہاں اس میں شک نہیں کہ تھوڑے ہیں جو جہنم کی سزا سے بالکل محفوظ ہیں اور یہ تعجب کی بات نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (سبا: (۱۴) ر تفسیر سوره مائده تا سوره تو به طلا) ۴۶ دوخت انسان کی دو خوبیاں ظلوما جهولا إِنَّا عَرَضْنَا الأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَا بَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَاشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.یعنی ہم نے اپنی امانت کو جس مراد عشق اور محبت اپنی اور مورد ابتداء ہو کہ پوری اطاعت کرتا ہے.آسمان کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا.جو بظا ہر قوی ہیکل چیزیں تھیں سو اُن سب چیزوں نے اس امانت کے اُٹھانے سے انکار کردیا اور اس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں.مگر انسان نے اس کو اٹھا لیا.کیونکہ انسان میں یہ دو خو بیاں تھیں.ایک یہ کہ وہ خدا تعالے تی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتا تھا.دوسری یہ خوبی کہ وہ خدا تعالیٰ :- الاحزاب : ۷۳

Page 85

کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیر اللہ کو بلکلی فراموش کر دے" د روحانی خزائن جلد مث ) اللہ تعالیٰ کی محبت سے الہی نور کا احاطہ مومن جب خدا سے محبت کرتا ہے تو اہی نور کا اس پر احاطہ ہو جاتا ہے اگر چہ وہ نور اس کو اپنے اندر چھپا لیتا اور اس کی بشریت کو ایک حد تک بھسم کر جاتا ہے جیسے آگ میں پڑا ہوا لوہا ہو جاتا ہے.پھر بھی وہ عبودیت اور بشریت معدوم نہیں ہو جاتی.یہی وہ راز ہے جو قُلْ إِنَّمَا أَنَا بشر مثلكم کی تہہ میں مرکوز ہے.بشریت تو ہوتی ہے.مگر وہ الوہیت کے رنگ کے نیچے متواری ہو جاتی ہے اور اس کے تمام قومی اور اعضاء الہی راہوں میں خدا تعالیٰ کے ارادوں سے پر ہو کر اسکی خواہشوں کی تصویر ہو جاتے ہیں اور یہی وہ امتیاز ہے جو اس کو کہ ڈڈیا مخلوق کی روحانی تربیت کا کفیل بنا دیتا ہے اور ویو بیت تامہ کا ایک مظہر قرار دیتا ہے اگر ایسانہ ہو کبھی بھی ایک نبی اس قدر مخلوقات کے لئے بادی اور راہبر نہ ہو سکے " د تفسیر سوره یونس تا الکهف از حضرت مسیح موعود (۳۳۳) خداتعالی کی طلب میں پوری کوشیش ز کرنیوال بھی کم ہے " خدا تعالیٰ کی طلب میں جو شخص پوری کوشش نہیں کرتا وہ بھی کافر ہے ور- الكهف : الاية

Page 86

۸۵ ہر ایک چیز کو جب اس کی حد مقرہ تک پہنچایا جاتا ہے.تب اس سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.جیسے اس زمین میں چالیس یا پچاس ہاتھ کھودنے سے کنواں تیار ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص صرف چار پانچ ہا تھ کھود کر چھوڑ دے اور کہا ہے کہ یہاں پانی نہیں ہے تو یہ اس کی غلطی ہے اصل بات یہ ہے کہ اس شخص نے حق محنت ادا نہیں کیا " ملفوظات جلد چہارم ملت) لله عالی نکتہ نواز ہے بہتر کر بھی ہے انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہیے - ہمارا اس وقت اصل مدعا یہ ہے کہ ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیئے.ایسا نہ ہو کہ یہ کفر سچا ہی ثابت ہو جاو ہے.انسان اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی مور دو قہر و عذاب الہی ہو تو پھر دشمن کی بات سچی ہی ہو جایا کرتی ہے.خالی شیخیوں سے اور بے جا تکبر اور بڑائی سے پر ہیز کرنا چاہیے اور انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہیئے.دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حقیقتاً سب سے بڑے اور مستحق بزرگی تھے.ان کے انکسار اور تواضع کا ایک نمونہ قرآن شریف میں موجود ہے لیکھا ہے کہ ایک اندھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکہ قرآن شریف پڑھا کرتا تھا.ایک دن آپ کے پاس عمائد مکہ اور رؤسائے شہر جمع تھے اور آپ ان سے گفتگو میں مشغول تھے.باتوں میں مصروفیت کی وجہ

Page 87

^4 سے کچھ دیر ہو جانے سے وہ نابینا اُٹھ کر چلا گیا.یہ ایک معمولی بات تھی.اللہ تعالے نے اس کے متعلق سورۃ نازل فرما دی اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں گئے اور اسے ساتھ لا کر اپنی چادر مبارک بچھا کر بٹھایا.اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں عظمت الہی ہوتی ہے ان کو لانہ گا خاکسار ا در متواضع بننا ہی پڑتا ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی بے نیازی سے ہمیشہ ترساں دلرزاں رہتے ہیں.آنانکه عارف تراند ترسان تر کیونکہ جس طرح اللہ تعالٰی نکتہ نوازہ ہے.اسی طرح نکتہ گیر بھی ہے.اگر کسی حرکت سے ناراض ہو جاوے.تو دم بھر میں سب کا رخانہ ختم ہے پس چاہیے کہ ان باتوں پر غور کر دادر ان کو یاد رکھو اور عمل کرد " ملفوظات جلد پنجم صلات) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی سخت سزا ہے انسان کو جس قدر خدا تعالی کے اقتدار در سطوت کا علم ہو گا.اور جس قدر یقین ہوگا کہ اس کی نافرمانی کرنے کی سخت سزا ہے اسی قدر گناہ اور نا فرمانی اور حکم عدولی سے اجتناب کرے گا.دیکھو بعض لوگ موت سے پہلے ہی مردہ ہے ہیں.یہ اخیار ، ابدال اور اقطاب کیا ہوتے ہیں ؟ اور ان میں کیا چیز نہائد آجاتی ہے ؟ وہ یہی یقین ہوتا ہے یقینی

Page 88

۸۷ اور قطعی علم ضرورتا اور فطرتاً انسان کو ایک امر کے واسطے مجبور کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ کی نسبت ظن کفایت نہیں کر سکتا یشبہ مفید نہیں ہو سکتا.اثر صرف یقین ہی میں رکھا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کا یقینی علم ایک ہیبت ناک پھلی سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے اسی کے اثر سے تو یہ لوگ سر ڈال دیتے اور گردن جھکا دیتے ہیں پس یاد رکھو کہ جس قدر کسی کا یقین بڑھا ہوا ہوگا.اسی قدر وہ گناہ سے اجتناب کرتا ہوگا کہ ۵۱ ( ملفوظات جلد پنجم ص۵۹ ) عملی طور پر اس حد تک پہنچنا چاہیئے تائید و نصر نے الہی شامل حال ہونے لگے اسلام صرف اتنی بات کا ہی نام نہیں ہے کہ انسان زبانی طور پر درود وظائف اور ذکر اذکار کرتا ہ ہے.بلکہ عملی طور پر اپنے آپ کو اس حد تک پہنچانا چاہیئے.کہ خدا تعالی کی طرف سے تائید اور نصرت شامل حال ہونے لگے اور انعام و اکرام وارد ہوں.جس قدر انبیاء اولیاء گزرے ہیں ان کی عملی حالتیں نہایت پاک صاف تھیں.اور ان کی راست بازی اور دیانت داری اعلیٰ پایہ کی تھی.اور یہی نہیں کہ جیسے یہ لوگ احکام الہی بجالاتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں.

Page 89

اور زکواتیں ادا کرتے ہیں اور نمازوں میں رکوع سجود کرتے اور سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں.وہ بھی پڑھتے تھے اور احکام الہی بجالاتے تھے بلکہ ان کی نظر میں تو سب کچھ مردہ معلوم ہوتا تھا اور ان کے وجودوں پر ایک قسم کی موت طاری ہو گئی تھی ان کی آنکھوں کے سامنے تو ایک خدا کا وجود ہی رہ گیا تھا.اسی کو وہ اپنا کارسانہ اور حقیقی رب یقین کرتے تھے.اس سے ان کا حقیقی تعلق تھا اور اسی کے عشق میں وہ ہر وقت محو اور گدانہ رہتے تھے " ( ملفوظات جلد پنجم قل ۳۵) ( ○

Page 90

حقوق النفس

Page 91

Page 92

۹۱ تزکیہ نفس سے کیا مراد ہے؟ سے تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات بعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا درواندہ اس پر کھلے.کہ خدا کو دیکھے سے ی" ملفوظات جلد دوم ملاه ) تزکیہ نفس کا کیا مفہوم ہے ؟ حضرت اقدس مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو، فرماتے ہیں:." اپنا مدعا اور مقصود یہ ہونا چاہیئے.کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق تزکیہ نفس حاصل ہو.اور اس کی مرضی کے موافق تقویٰ حاصل ہو.اور کچھ ایسے اعمال حسنہ میسر آجادیں کہ وہ راضی ہو جائے.پس جس وقت وہ راضی ہوگا تب اس وقت ایسے شخص کو اپنے مکالمات سے مشرف کرنا.اگر اس کی حکمت اور مصلحت تقاضا کرے گی تو وہ خود عطا کر دے گا.اصل مقصود اس کو ہرگزہ نہیں ٹھہرانا چاہیئے کہ یہی ہلاکت کی جڑ ہے.بلکہ اصل مقصود یہی ہونا چاہیے.کہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق احکام الہی پر پابندی نصیب ہو.اور

Page 93

۹۲ تزکیہ نفس حاصل ہو.اور خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت دل میں بیٹھ جائے اور گناہ سے نفرت ہو.خدا تعالیٰ نے بھی یہی دعا سکھائی ہے کہ : اهْدِنَا القِراطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - (الفاتحه : ۶) پس اس جگہ خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ ہیں الہام ہو.بلکہ یہ فرمایا ہے کہ تم یہ دعا کرو کہ راہ راست ہمیں نصیب ہو.ان لوگوں کی راہ پر جو آخر کار خدا تعالیٰ کے انعام سے مشرف ہو گئے.بندہ کو اس سے کیا مطلب ہے کہ وہ الہام کا خواہشمند ہو اور نہ بندہ کی اس میں کچھ فضیلت ہے.بلکہ یہ تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے.نہ بندہ کا عمل صالح تا اس پر اجر کی توقع ہوا و تفسیر سورة فاتحه از حضرت مسیح موعود (۲) جہاں خداتعالی نے بکے حقوق رکھے ہیں برا نفس کا بھی حق رکھا ہے؟ "خُدا کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہر گز نہ برتنا چاہیئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہیئے.جس وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جا دے.یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے.خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو.بلکہ تمہاری مغرض ہر ایک امریں تقویٰ ہو.اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لئے

Page 94

۹۳ بیویاں کی جائیں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہو گا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں.نہنا کا نام ہی گناہ نہیں.بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے.دنیا وی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہیئے.تاکہ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلَيَبْكُو اكثيرا - (التوبه : ۸۲) یعنی ہنسو تھوڑا اور روڈ بہت کا مصداق بنو.لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اس کو رقت اور رونا کب نصیب ہوگا.اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور انتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دُور جاڑتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں مگر اس میطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اُس میں بسر کی جاد خلاقانی تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے :- يَتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا کہ وہ اپنے رب کیلئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں.اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے.وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کیلئے شریک پیدا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے پھر بھی ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے.ایک رات آپ کی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی.کچھ حصہ رات کا گزر گیا.ت عائشہ کی آنکھ کھلی دیکھا کہ آپ موجود نہیں اُسے شہر ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں ہوں گے س نے اُٹھ کر ہر گھر میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے ، آخر دیکھا آپ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں.اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چاہتی نیوی کو چھوڑ کر

Page 95

۹۴ مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے.تو کیا آپ کی بیویاں حفظ نفس یا اتباع شہوت کی بنا پر ہو سکتی ہیں یہ غرض کہ خوب یاد رکھو کہ خدا کا اصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقہ پیش آدے تو اور بیوی کر لو...پس جاننا چاہیئے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغز اسلام سے دور رہتا ہے.ہر ایک دن جو چڑھتا ہے.اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی میسر نہیں کرتا اور رو تا کم یا با لکل ہی نہیں روتا اور ہنست زیادہ ہے.تو یا د رہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے.استیفاء لذات اگر حلال طور پر ہو تو حرج نہیں جیسے ایک شخص ٹو پر سوار ہے اور راستہ میں اسے نہاری وغیرہ اس لئے دیتا ہے کہ اس کی طاقت قائم رہے.اور وہ منزل مقصود تک اسے پہنچا دے جہاں خدا تعالیٰ نے سب کے حقوق رکھتے ہیں وہاں نفس کا بھی حق رکھا ہے کہ وہ عبادت بجالا سکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی میلانی کس طرف تھا اور رات دن آپ کس فکر میں رہتے تھے.بہت سے ملا اور عام لوگ ان باریکیوں سے نا واقف ہیں.اگر ان کو کہا جائے کہ تم شہوات کے تابع ہو تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم حرام کرتے ہیں.شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے تو ہم کرتے ہیں.ان کو اس بات کا علم نہیں.کہ بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالَّا نَسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : ۵۷ ) سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے جس قدر چیز اسے درکا ر ہے اگر اس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شے حلال ہی

Page 96

۹۵ ہو مگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لئے حرام ہو جاتی ہے.جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے.مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے.لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا.ہمارے کلام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پہلووں کا لحاظ رکھا جاوے.یہ نہیں کہ صرف لذات کے پہلو پر زور دیا جاوے اور تقویٰ کو بالکل ترک کر دیا جاو ہے ، اسلام نے جن کاموں اور باتوں کو مباح کہا ہے اس سے یہ غرض ہر گز نہیں ہے کہ رات دن اس میں مستغرق رہے.صرف یہ ہے کہ بقدر ضرورت وقت پر ان سے فائدہ اٹھایا جاوے " ا تفسير سورة النساء از حضرت مسیح موعود طلا با مثلا؟ تہذیب نفس کے مدارج میں قرآن کریم کی رہنمائی الیوم اکملت لکم میں فرما دیا.گویا یہ بات نبوت کی دوسری فصل ہے.اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقلمند اور با اخلاق انسان اور پھر با خدا انسان بنا دیا.اور تطہیر نفس عمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کرا دیئے اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پورا اور کامل کر دیا

Page 97

44 یہاں تک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہوئے ملفوظات جلد چهارم من انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت کرے انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے.بلکہ ایسا بنے کہ خدا تعالے اس کے نفس پر شفقت کرے.کیوں کہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے.اور خدا تعالے کی شفقت جنت ہے.ابراہیم علیہ السلام کے قصہ پر غور کر کہ جو انگ میں گرنا چاہتے ہیں تو ان کو خدا تعالے آگ سے بچاتا ہے.اور جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں.اور یہ اسلام ہے.کہ جو کچھ خدا تعالے کی راہ میں پیش آئے اس سے انکار نہ کرے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عصمت کی فکر میں خود لگتے تو والله يعصمك من الناس کی آیت والمائده : (۶۸) نازل نہ ہوتی.حفاظت الہی کا یہی بہتر ہے " ( ملفوظات جلد دوم صلات) نفس امارہ پر موت وارد کرنے سے نیکیاں سرزد ہوتی ہیں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں (1) ظَالِمُ لنَفْسِم (۲) مُقْتَصِدُ

Page 98

96 (۳) سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ.(1) ظَالِم لِنَفسم تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں ، جہاں تک ان سے مکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں.(ب) مقتصد وہ ہوتے ہیں جن کو میا نہ کرو کہتے ہیں.ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پا جاتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے.اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں.پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی.(ج) مگر سابق بالخَيْرَاتِ وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں.ان کی حرکات و سکنات طبعی طور پر اس قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعال حسنہ ہی کا صدر ہوتا ہے گویا ان کے نفس امارہ پر با مشکل موت آجاتی ہے.اور وہ مطمئنہ حالت میں ہوتے ہیں.ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں.کہ گویا وہ ایک معمولی امر ہے.اس لئے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں.حسنات الابرار سيئات المقربين.( ملفوظات جلد چهارم )

Page 99

۹۸ خدا تعالیٰ ظالموں اور معتدین کو جو طریق عدل اور انصاف چھوڑ دیتے ہیں دوست نہیں رکھتا.پھر وہ لوگ مورد فضل کیوں کو ٹھہر سکتے ہیں اور کیونکران کا نام مصطفے اور برگزیدہ اور چھنا ہوا رکھا جاسکتا ہے.سو ان یقینی اور قطعی دلائل سے نہیں ماشا پڑا کہ اس جگہ ظالم کا لفظ کسی مذموم معنی کے لئے استعمال نہیں ہوا.بلکہ ایک ایسے محمود اور قابل تعریف معنوی کے لئے استعمال ہوا ہے جو درجہ سابق بالخیرات سے حصہ لینے کے مستحق اور اس درجہ فاصلہ کے چھوٹے بھائی ہیں اور وہ معنی بجز اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ ظالم سے مراد اس قسم کے لوگ رکھے جائیں کے جوخدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس مخالف پر جبر دا کراہ کرتے ہیں.اور نفس کے جذبات کم کرنے کے لئے دن رات مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں.کیوں کہ یہ تو لغت کی رو سے بھی ثابت ہے.کہ ظالم کا لفظ بغیر کسی اور لحاظ کے فقط کم کرنے کے لئے بھی آیا ہے.جیسا کہ اللہ جلبشانہ قرآن کریم میں ایکدوسرے مقام میں فرماتا ہے.ولحد تظلم منه شيئًا اى ولم تنقص اور خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے جذبات کو کم کرنا بلاشبہ ان معنوں کی رو ایک ظلم ہے ماسوا اس سے ہم ان کتب لغت کو جو صد ہا برس قرآن کریم کے بعد اپنے زمانہ کے محاورات کے موافق طیار ہوئی ہے قرآن مجید کا حکم نہیں ٹھہرا سکتے.......اس جگہ ظلم سے مراد وہ ظلم لے :- الكهف : ۳۳

Page 100

٩٩ ہے جو خدا تعالیٰ کو پیارا معلوم ہوتا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس یر اکراہ عدالعالی وین کے جذبات کو اللہ جل شانہ کے راضی کرنے کی جبر کرنا غرض سے کم کر دنیا اور گھٹا دینا " د آئینہ کمالات اسلام تجواله روحانی خزائن جلده ۱۳۵ تا۱۳۴) روحانی کمال تک پہنچنے کے مدارج مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوز مرام کے لئے پہلی حرکت ہے جس کے ساتھ تکبر در محجب وغیرہ چھوڑ نا پڑتا ہے.اور اس میں فوز میرام یہ ہے کہ انسان کا نفس خشوع کی سیرت اختیار کر کے خدا تعالیٰ سے تعلق پکڑنے کے لئے مستعدا اور طیار ہو جاتا ہے.دوسرا کام مومن کا یعنی وہ کام جس سے دوسرے مرتبہ تک قوت ایمانی پہنچتی ہے اور پہلے کی نسبت ایمان کچھ قومی ہو جاتا ہے عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ مومن اپنے دل کو جو خشوع کے مرتبہ تک پہنچ چکا ہے لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے کیونکہ جب تک مومن یہ ادنیٰ قوت حاصل نہ کر لے کہ خدا کے لئے نغو باتوں اور لغو کاموں کو ترک کر سکے جو کچھ بھی مشکل نہیں اور صرف گناہ بے لذت ہے.اس وقت تک یہ طمع خام ہے کہ مومن ایسے کاموں سے دست بردار ہو سکے جن سے دست بردار ہوتا نفس پر بہت بھاری ہے اور جن کے ارتکاب میں نفس کو کوئی فائدہ یا لذت ہے.پس اس سے ثابت ہے کہ پہلے درجہ کے بعد کہ ترک بہتر

Page 101

ہے.دوسرا درجہ تحریک لغویات ہے.اور اس درجہ پر وعدہ جو لفظ اللح سے کیا گیا ہے یعنی فوز مرام اس طرح پر پورا ہوتا ہے کہ مومن کا تعلق جیب مغو کاموں اور لغو شغلوی سے ٹوٹ جاتا ہے تو ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے اس کو ہو جاتا ہے.اور قوت ایمانی بھی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور خفیف تعلق اس لئے ہم نے کہا کہ لغویات سے تعلق بھی خفیف ہی ہوتا ہے.نہیں خفیف تعلق چھوڑنے سے خفیف تعلق ہی ملتا ہے.پھر تیسرا کام مومن کا ہے جیسے تیسر سے درجے تک قوت ایمانی پہنچے جاتی ہے.عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف لغو کاموں اور لغو باتوں کو ہی خدا تعالیٰ کے لئے نہیں چھوڑتا بلکہ اپنا عزیز مال بھی خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتا ہے.اور ظاہر ہے کہ لغو کاموں کو چھوڑنے کی نسبت مال کا چھوڑنا نفس پر زیادہ بھاری ہے.کیونکہ وہ محنت سے کمایا ہوا اور ایک کارآمد چیز ہوتی ہے جس پر خوش زندگی اور آرام کا مدار ہے.اس لئے مال کا خدا کے لئے چھوڑنا بہ نسبت لغو کاموں کے چھوڑنے کے قوت ایمانی کو زیادہ چاہتا ہے اور لفظ افلح کا جو آیات میں وعدہ ہے اس کے اس جگہ یہ معنے ہوں گے کہ دوسرے درجہ کی نسبت اس مرتبہ میں قوت ایمانی اور تعلق بھی خدا تعالیٰ سے زیادہ ہو جاتی ہے.اور نفس کی پاکیزگی اس سے پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اپنے ہا تھ سے اپنا محنت سے کما یا ہوا مال محق خدا کے خوف سے نکالنا نجر نفس کی پاکیزگی کے ممکن نہیں.پھر چوتھا کام مومن کا جس چوتھے درجے تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے.عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ترک نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جس سے وہ مال سے بھی بڑھ کو پیار کرتا

Page 102

1-1 ہے یعنی شہوات نفسانیہ ان کا وہ حصہ جو حرام کے طور پر ہے چھوڑ دیتا ہے ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنی شہوات نفسانیہ کو طبعا مان سے عزیز سمجھتا ہے اور مال کو ان کی راہ میں خدا کرتا ہے.پس بلا شبہ مال کے چھوڑنے سے خدا کے لئے شہوات کو چھوڑنا بہت بھاری ہے اور لفظ افلح اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے.اس کے اس جگہ یہ معنے ہیں کہ جیسے شہوات نفسانیہ سے انسان کو طبعا شدید تعلق ہوتا ہے ایسا ہی ان کے چھوڑنے کے بعد وہی شدید تعلق خدا تعالٰی سے ہو جاتا ہے.کیونکہ جو شخص کوئی چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں کھوتا ہے اس سے بہتر پالیتا ہے.نطف او ترک طالبان نه کند که کسی به کار ریش زیان نه کند هر که آن راه جست یافته است تافت آن رو که سرنتافته است پھر پانچواں کام مومن کا جبس پانچویں درجہ تک قوت ایمانی پہنچے جاتی ہے.عبدالعقل یہ ہے کہ صرف ترک شہوات نفس ہی نہ کرے بلکہ خدا کی راہ میں خود نفس کو ہی ترک کر دے اور اس کے فدا کرنے پر تیار ہے یعنی نفس جو خدا کی امانت ہے اسی مالک کو واپس دید سے اور نفس سے صرف اس قدر تعلق رکھے جیسا کہ ایک امانت سے تعلق ہوتا ہے.اور دقائق تقویٰ ایسے طور پر پورے کرے کہ گویا اپنے نفس اور مال اور تمام چیزوں کو خدا کی راہ میں وقف کر چکا ہے.اسی طرف یہ آیت اشارہ فرمانی ہے.وَالَّذِينَ هُمْ لا مَا نَا تِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ بس جبكم انسان کے جان و مال اور تمام قسم کے آرام خدا کی امانت ہے جس کو واپس دنیا امین ہونے کے لئے شرط ہے.لہذا ترک نفس وغیرہ کے : - المومنون : ٩ :

Page 103

١٠٢ یہی معنے ہیں کہ یہ امانت خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اس طور سے یہ قربانی ادا کر دے.اور دوسرے یہ کہ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایمان کے وقت اس کا عہد تھا اور جو عہد اور امانتیں مخلوق کی اس کی گردن پر ہیں ان سب کو ایسے طور سے تقویٰ کی رعایت سے بجالا دے کر دہ بھی ایک سیچی قربانی ہو جا دے.کیونکہ دقائق تقوی کو انتہا تک پہنچانا یہ بھی ایک قسم کی موت ہے.اور لفظ افلم کا جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اس کے اس جگہ یہ معنے ہیں کہ جب اس درجہ کا مومن خدا تعالیٰ کی راہ میں بذل نفس کرتا ہے اور تمام دقائق تقومی بجا لاتا ہے تب حضرت احدیت سے انوار الہیہ اس کے وجود پر محیط ہو کر روحانی خوبصورتی اس کو بخشتے ہیں.جیسے کہ گوشت ہڈیوں پر چڑھ کر اُن کو خوبصورت بنا دیتا ہے.اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں.ان دونوں حالتوں کا نام خدا تعالیٰ نے لباس ہی رکھا ہے.تقویٰ کا نام بھی لباس ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لباسُ التَّقوای اور جو گوشت ہڈیوں پر چڑھتا ہے وہ بھی لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے.فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا کیونکہ کسوت جب سے سونا کا لفظ نکلا ہے لباس کو ہی کہتے ہیں.دروحانی خزائن جلد ۲۱ ۳۳۵ ۲۳۰۰ نیا ایڈیشن)

Page 104

١٠٣ اگر تم میری پیروی کروگے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے.قلب انسانی بھی حجر اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بہت اللہ سے شابہت رکھتا ہے.ماسوی اللہ کے خیالات وہ ثبت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع قمع اس وقت ہوا تھا جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جائڑے تھے اور مکہ فتح ہو گیا تھا.پس ما سوئی اللہ کے تہوں کی شکست اور استیصال کے لئے ضروری ہے کہ ان پر اسی طرح سے چڑھائی کی جائے.....غرض اس خانہ کو بتوں سے پاک وصاف کرنے کیلئے ایک جہاد کی ضرورت ہے، اور اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں.اگر تم اس پر عمل کر دگے تو ان بتوں کو توڑ ڈالو گے.اور یہ راہ میں اپنی خود تراشیدہ نہیں بتاتا.بلکہ خدا نے مجھے مامور کیا کہمیں بتاؤں.اور وہ راہ کیا ہے.میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آؤ.یہ آواز نئی آواز نہیں ہے.مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا تھا.قک اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ الله فاتبعوني يُحْبِبْكُمُ الله راسی طرح پر اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے.اور اسی طرح پر سینہ کو جو طرح طرح کے تہوں سے لے : - ال عمران : ۳۲

Page 105

بھرا پڑا ہے.پاک کرنے کے لائق ہو جاؤ گے.تزکیہ نفس کے لئے چند کشیوں کی ضرورت نہیں ہے.رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں.اترہ اور نفی اثبات وغیرہ کے نہیں کئے تھے بلکہ ان کے پاس ایک اور ہی چیز تھی.وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں نحو تھے.جو نور آپ میں تھا.وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ مو کے قلب پر گرتا اور ماسوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا.تاریخی کے بجائے ان سینوں میں نور بھرا جاتا تھا.اس وقت بھی خوب یاد رکھو وہی حالت ہے جب تک کہ وہ نور جو خدا کی نالی میں سے آتا ہے.تمہارے قلب پر نہیں گرتا.تزکیہ نفس نہیں ہو سکتا.انسان کا سینہ مہبط الانوار ہے اور اسی وجہ سے وہ بیت اللہ کہلاتا ہے.بڑا کام یہی ہے کہ اس میں جو ثبت ہیں وہ توڑنے جائیں اور اللہ ہی اللہ رہ جائے.ملفوظات جلد اول من ( نفس پر نگاہ رکھ کر استغفار کرتے رہنا چاہیئے حضرت اقدس سورة الاعراف کی آیت نمبر ہ کی تفسیر میں نفس میں نگاہ رکھ کر استغفار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.قالا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ ٥ (اعراف (۲۴) جہت لوگ ہیں.کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے

Page 106

انسان کے اپنے نفس کے ہنی ظلم ہوتے ہیں.ورنہ اللہ تعالے رحیم و کریم ہے بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے.اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو یا باطن کا.خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو.اور ہا تھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے آج کل آدم علیہ السلام کی دُعا پڑھنی چاہیئے.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا.یہ دُعا اول ہی قبول ہو چکی ہے.ا تفسیر سورۃ مائده تا سوره توبه از حضرت مسیح موعود منشا ) نفس انسانی کی تین حالتیں کی تین قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کر نفس انسانی کی تین حالتیں ہیں.ایک آماده دوسری توامه تیسری مطمئنه نفس امارہ کی حالت میں انسان شیطان کے پنجہ میں گویا گرفتار ہوتا ہے اور اس کی طرف بہت جھکتا ہے.لیکن نفس لوامہ کی حالت میں وہ اپنی خطا کا ریوں پر نادم ہوتا اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف جھلکتا ہے مگر اس حالت میں بھی ایک جنگ رہتی ہے.کبھی شیطان کی طرف جھکتا ہے اور کبھی رحمان کی طرف.مگر نفس مطمئنہ کی حالت میں وہ عباد الرحمن کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ گویا ارتفاعی نقطہ ہے جس کے بالمقابل نیچے کی طرف امارہ ہے.

Page 107

1.4 اس میزان کے بیچ میں لوامہ ہے جو ترازو کی زبان کی طرح ہے.انخفاضی نقطہ کی طرف اگر زیادہ جھکتا ہے.تو حیوانا سے بھی بد تر اور ارذل ہو جاتا ہے.اور ارتفاعی نقطہ کی طرف جس قدر رجوع کرتا ہے اس قدر اللہ تعالیٰ کی طرف قریب ہوتا جاتا ہے.اور سفلی اور ارضی حالتوں سے نکل کر علوی اور سماوی فیضان سے حصہ لیتا ہے.ر تفسیر سوره یونس تا سورہ الکهف از حضرت مسیح موعود متت) وه در جب سے خُدا راضی ہو اس لذ سے بہتر ہے جس رجب و انسان خدا ناراض ہو جائے " اور چاہیئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کو پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کر وجو اسی زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جُدا کرتی ہیں.اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کر دوہ در د جب سی خدا راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو.اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کو قریب کرتے اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا.اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.خدا کی رضا کو

Page 108

1.6 تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے.جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کہ اپنی لذات چھوڑ کر اپنی عورت چھوڑ کر اپنامال چھوڑ کر اپنی جان چھوڑ کر اسکی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے.لیکن اگر تم ملتی اٹھا لو گے تو ایک پیار سے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کے جاؤ گے.جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے درواز سے تم پہ کھولے جائیں گے.لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہیئے.وہی پانی جسے تقویٰ پر ورش پاتی ہے تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے.تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ پہنچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے.انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ جو زبان سے خدا طلبی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن قدم صدق نہیں رکھتا.دیکھو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ آدمی بلاک شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے اور اس نفس سے جہنم بہت قریب ہے.جس کے تمام انسان سے خدا کے لئے نہیں ہیں بلکہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دنیا کے لئے بیس اگر تم دنیا کی ایک ذرہ بھی متمونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں.اس صورت میں تم خدا کی پیروی نہیں کرتے.بلکہ شیطان کی پیروی کرتے ہو.تم ہر گز توقع نہ کرو کہ ایسی حالت میں خدا تمہاری مدد کر سے گا.بلکہ تم اسی حالت میں زمین کے کیڑے ہو اور تھوڑے ہی دنوں تک تم اس طرح ہلاک ہو جاؤ گے.جس طرح کیڑے ہلاک ہوتے ہیں اور تم میں خدا نہیں ہوگا.بلکہ تمہیں ہلاک کر کے خدا خوش ہوگا.لیکن اگر تم اپنے نفس

Page 109

1.A سے در حقیقت مر جاؤ گے.تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا.اور وہ گھر بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہو گے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر با برکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا.اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی ، تمہاری گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی.اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑو گے.بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے تم بھی انسان ہو جیسا کہ میں انسان ہوں اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے.پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو اور اگر تم پور سے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو ئیں خدا کے منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم بر گزیدہ ہو جاؤ گے خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرد تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے سے کینہ وری سے پر ہیز کرو اور بنی نوع سے نیچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ.ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ" حانی خزائن جلد ۳ ته نیا ایڈیشن) حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو مول دنیا میں بلکہ اسلام نے رسانیت کو منع فرمایا ہے.یہ بزدلوں کا کام ہے.مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں.وہ اس کے

Page 110

1.9 مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں.کیوں کہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے.اور دنیا ( اور اس کا مال وجاہ دین کا خادم ہوتا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو.بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو.اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جا و سے کہ وہ دین کی خادم ہو جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کی سواری اور نادراہ کو ساتھ لیتا ہے.تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات.اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کر سے مگر دین کا خادم سمجھ کر." ر تفسیر سورة البقره از حضرت مسیح موعود مت) رُوح کی رفاقت کے لئے جسم ناتواں کی از سر نو قوت کے لئے خطوط نفسانیہ کی ضرورت اندھیری رات سے بھی انسان کامل کو ایک مشابہت ہے کہ وہ باوجود غایت درجہ کے انقطاع اور تبتل کے جو اس کو منجانب اللہ حاصل ہے.یہ حکمت و مصلحت اپنی اپنی نفس کی ظلمانی خواہشوں کی طرف بھی کبھی کبھی متوجہ ہو جاتا ہے.لینے جو جو نفس کے حقوق انسان پر رکھے گئے ہیں جو بظا ہر نورانیت کے مخالف اور مزاحم معلوم ہوتے ہیں جیسے کھانا پینا، سونا اور بیوی کے حقوق ادا کرنا یا بچوں کی طرف التفات کرنا یہ سب حقوق بجالاتا ہے.اور کچھ تھوڑی دیر کے لئے اس تاریخی کو

Page 111

١١٠ اپنے لئے پسند کر لیتا ہے نہ اس وجہ سے کہ اس کو حقیقی طور پر تاریکی کی طرف میلان ہے.بلکہ اس وجہ سے کہ خداوند علیم و حکیم اس کو اس طرف توجہ بخشتا ہے، تا روحانی تعب و مشقت سے کسی قدر آرام پا کر پھر ان مجاہدات شاقہ کے اُٹھانے کے لئے تیار ہو جائے.جیسا کہ کسی کا شعر ہے - چشم شهبازه کاردانان شکار از بهر کشادن ست گرد وخته اند سو اسی طرح یہ کامل لوگ جب غایت درجہ کی کوفت خاطرا در گدازش اور ہم وغم کے غلبہ کے وقت کسی قدر حظوظ نفسانیہ سے تمتع حاصل کر لیتے ہیں.تو پھر جسم ناتواں ان کا روح کی رفاقت کے لئے از سر نو قوی اور توانا ہو جاتا ہے.د روحانی خزائن جلد ۳ مت - توضیح مرام) ۱۵ نفس کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اُسے پاک کھا جائے اصل امر یہ ہے کہ انسان کا نفس کچھ ایسا واقع ہے.کہ ایسے طریق کو زیادہ پسند کر لیتا ہے جس میں کوئی محنت اور مشقت نہیں مگر تیمی پاکیزگی بہت سے دیکھ اور مجاہدات کو چاہتی ہے اور وہ یا نہ ندگی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان موت کا پیالہ نہپی نے یہ (روحانی خزائن جلد ۲۱ ص۳۵)

Page 112

14 نفس کے نقصانات کا علاج توبہ استغفار، لاحول اور خدا تعالیٰ کی کتاب کا مطالعہ " انسان کی حالت ایسی واقع ہوئی ہے.کہ یہ کبھی نکما اور بیکار نہیں رہتا.اور نفس کلام سے بھی کبھی فارغ نہیں ہوتا ہے نفس اور شیطان سے ہی اس کا مکالمہ شروع رہتا ہے.اور اگر کوئی اور بات کرنے والا نہ ہو.بعض اوقات لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان بالکل خاموش ہے.لیکن در حقیقت وہ خاموش نہیں ہوتا.اس کا سلسلہ کلام اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ بہت ہی لمبا ہوتا ہے.اور شیطانی رنگ میں اسے خود لمبا کرتا ہے اور بے شرمی سے اسے کیمیا ہونے دیتا ہے.یہ سلسلہ کلام کبھی خیالی فستقی کے رنگ میں ہوتا ہے اور کبھی بے ہودہ اور جھوٹی تمناؤں کے رنگ میں اور اس سے وہ کبھی فارغ نہیں رہتا.جب تک کہ اس سفلی زندگی کو چھوڑ نہ دے.یہ بھی یاد رکھو کہ اس قسم کے خطرات اور خیالات کا سلسلہ جسے انسان لمبا نہیں ہونے دیتا.اور ایک معمولی خیال کی طرح اگر دل سے محو ہو جاتا ہے وہ معاف ہیں.لیکن جب اس سلسلہ کو لمبا کرتا ہے اور اس پر عزیمت کرتا ہے تو ود گناہ ہے.اور ان کی جواب دہی کرنی پڑے گی.جب انسان ان خیالات کو جو اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں دور کر دیتا ہے اور ان کو لمبا نہیں ہونے دیتا تو اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ معافی کے قابل ہیں لیکن جب

Page 113

۱۱۲ ان سلسلہ کی درازی میں ایک لذت پاتا ہے اور ان کو بڑھاتا چلا جاتا ہے تب وہ قابل مواخذہ ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان میں عربیت شامل ہو جاتی ہے.جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا ہے.اس بات کو خوب یاد رکھو کہ کلام نفسی دو قسم کا ہوتا ہے کی بھی شیطانی جو خیالی فسق و فجور کے سلسلہ میں چلا جاتا ہے.اور آرزوؤں کے ایک لمبے سلسلہ میں مبتلا ہو جاتا ہے.جب تک انسان ان دونوں سلسلوں میں پھنسا ہوا ہے.اُسے شیطانی دخل کا بہت اندیشہ ہوتا ہے اور اس امر کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ اس طرح سے نقصان اُٹھائے اور شیطان اُسے زخمی کر دے مثلاً کبھی کوئی منصوبہ باندھتا ہے کہ فلاں شخص میری فلاں مغرض اور مقصد میں بڑا محل ہے اُسے مار دیا جائے.یا فلاں شخص نے مجھے تو کر کے بلایا ہے اس کا بدلہ لیا جائے.اور اس کی ناک کاٹ دی جائے غرض اسی قسم کے منصوبوں اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے.یہ مرض سخت خطرناک ہے.وہ نہیں سمجھتا کہ ایسی باتوں سے نفس کا کیا نقصان کر رہا ہوں اور اس سے میری اخلاقی اور روحانی قوتوں پر کس قسم کا برا اثر پڑ رہا ہے اسلئے اس قسم کے خیالات سے ہمیشہ بچنا چاہیئے.جب کبھی کوئی ایسا بیہودہ سلسلہ خیالات شروع ہو تو فورا اس کے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.استغفار پڑھو.لاحول کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی مدد اور توفیق چا ہو.اور خُدا تعالیٰ کی کتا کے پڑھنے میں اپنے آپ کو مصروف کردو اور یہ سمجھ لو کہ اس قسم کے خیالی سلسلہ سے کچھ فائدہ نہیں.بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان ہے.اگر دشمن سر بھی جا دے تو کیا اور زندہ رہے تو کیا ؟ نفع نقصان کا پہنچا نا خدا تعالی کے قبضہ و اختیار میں ہے کوئی شخص کسی کو

Page 114

کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا.سعدی نے گلستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ نوشیرواں بادشاہ کے پاس کوئی شخص خوش خبری سے کر گیا.کہ تیرا فلاں دشمن مارا گیا ہے اور اس کا ملک اور قلعہ ہمارے قبضہ میں آگیا ہے نوشیروان نے اس کا کیا اچھا جواب دیا ہے مرا بھرگ محدد جائے شادمانی نیست کہ زندگانی ما نیند جاودانی نیست پس انسان کو چاہیے کہ اس امر پر غور کرے ، کہ اس قسم کے منصوبوں اورا دھٹرین سے کیا فائدہ اور کیا خونشی.یہ سلسلہ تو بہت ہی خطرناک ہے.اور اس کا علاج ہے تو بہ ، استغفایہ ، لاحول اور خدا تعالیٰ کی کتاب کا مطالعہ ، بیکاری اور بے شغلی میں اس قسم کا سلسلہ بہت لمبا ہو جایا کرتا ہے.دوسری قسم کلام نفس کی امانی ہے.یہ سلسل بھی چونکہ ہیجا خواہشوں کو پیدا کرتا ہے.اور طمع حسد اور خود غرضی کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے جو نہی یہ سلسلہ پیدا ہو.فوراً اس کی صفت پیسٹ دو.میں نے یہ تقسیم کلام نفس کی بھو کی ہے.یہ دونوں قسمیں انجام کا رانسان کو ہلاک کر دیتی ہیں.لیکن نبی ان دونوں قسم کے سلسلہ کلام سے پاک ہوتا ہے." و ملفوظات جلد اول ص ۲۳)

Page 115

16 اخلاقی تزکیہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے تین پہلو " انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بریایی ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اول تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑنا اسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے.اسکی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گو سحبت تپ ہے مگر اس کا علاج کھلا کھل ہو سکتا ہے لیکن تپدق جو اندر ہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت ہی مشکل ہے.اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں.یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذراذراسی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض ، کینہ ، حسد، ریا ، تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے.چند روز اگر نماز سنوار کو پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی.اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں ، حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے.اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے.علماء علم کے زہنگ میں اُسے ظاہر کرتے ہیں اور

Page 116

۱۱۵ علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں.غرض کسی کسی طرح عیب چینی کر کے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں جن کا دور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعیت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے.ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جو متعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں.ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے.اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کرلے.تزکیہ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیہ نفس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پانی ہے.لیکن جب کبھی موقعہ پڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جانہ ہے تو انہیں بڑا جوشی آتا ہے اور پھر وہ گند ان سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا.اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میستر نہیں.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی تین پہلو ہیں.اول مجاہدہ اور تدبیر، روم دُعا ، سوم محبت صادقین " دروحانی خزائن جلد چهارم منت

Page 117

114 1A خدا تعالیٰ کے فیوض کواپنی طرف کھینچنے کیلئے گریہ و کا صدق وصفا اور درد دل سے پر دعاؤں کی ضرورت ہے " یہ اُمید مت رکھو کہ کوئی اور منصوبہ انسانی نفس کو پاک کر سکے.جس طرح تاریکی کو صرف روشنی ہی دور کرتی ہے.اسی طرح گناہ کی تاریخی کا علاج فقط تجلیات الہیہ قولی ، فعلی ہیں.جو معجزانہ رنگ میں پرندور شعاعوں کے ساتھ خدا کی طرف سے کسی سعید دل پر نازل ہوتی ہیں اور اس کو دکھا دیتی ہیں کہ خدا ہے.اور تمام شکوک کی غلاظت کو دور کر دیتی ہیں.اور تسلی اور اطمینان بخشتی ہیں.پس اس طاقت بالا کی زبر دست کشش سے وہ سعید آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے.اس کے سوا جس قدر اور علاج پیش کئے جاتے ہیں.سب فضول بناوٹ ہے ، ہاں کامل طور پر پاک ہونے کے لئے صرف معرفت ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ پُر درد دعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا بھی ضروری ہے.کیوں کہ خدا تعالے غنی ، بے نیاز ہے.اس کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایسی دعاؤں کی سخت ضرورت ہے جو گر یہ اور ٹیکا اور صدق و صفا اور دردِ دل سے پُر ہوں.تم دیکھتے ہو کہ بچہ شیر خوار اگرچہ اپنی ماں کو خوب شناخت کرتا ہے اور اس سے محبت بھی رکھتا ہے.اور ماں کبھی اس سے محبت رکھتی ہے.مگر پھر بھی ماں کا دودھ اترنے کے لئے شیر خوار بچوں کا رونا بہت کچھ دخل رکھتا ہے.ایک طرف بچہ دردناک طور پر بھوک سے روتا

Page 118

116 ہے اور دوسری طرف اس کے رونے کا ماں کے دل پر اثر پڑتا ہے اور دودھ اترتا ہے.پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے سامنے ہر ایک طالب کو اپنی گریہ وزاری سے اپنی روحانی بھوک پیاس کا ثبوت دینا چاہیئے.تاوہ روحانی دودھ اترے اور اُسے سیراب کر سے.غرض پاک صاف ہونے کے لئے معرفت کافی نہیں بلکہ بچوں کی طرح درد ناک گریہ وزاری بھی ضروری ہے.اور نومیدست ہو اور یہ خیال است کر دو کہ ہما را نفس گناہوں سے بہت آلودہ ہے.ہماری دعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں.کیوں کہ انسانی نفس جو دراصل محبت الہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.وہ اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اس میں ایک ایسی قوت تو یہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے کیا د روحانی خزائن جلد ۲۱ (۳۳).نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامان دیار جس نے نفس دوں کو ہمت کر کے زیر پا کیا چیز کیا ہیں اس کے آگے رستم و اسفندیار د روحانی خزائن جلد ۲۱ ۱۳۲۵)

Page 119

14 دیدار الہی کیلئے یہاں کھو اس اور انھیں لے جائے بہشت کی لذات میں ایک اور بھی خوبی ہے جو دنیا کی لذتوں میں اور جسمانی لذتوں میں نہیں ہے.مثلاً انسان روٹی کھاتا ہے تو دوسری لائیں اسے یاد نہیں رہتی ہیں.مگر بہشت کی لذات ناصرف جسم ہی کیلئے ہوں گی.بلکہ روح کے لئے بھی لذت بخش ہوں گی.دونوں لذتیں اس میں اکٹھی ہوں گی اور پھر اس میں کوئی کثافت نہ ہوگی اور سب سے بڑھ کر جو لذت ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا.مگر دیدار الہی کے لئے یہاں ہی سے انسان آنکھیں لے جا دے.جو شخص یہاں تیاری نا کر کے جارے گا.وہ وہاں محروم رہے گا.چنانچہ فرمایا :- من كان في هذه اعلى فهو في الآخرة اعمى (الاسرى : ٣) اس کے یہ معنی نہیں کہ جو لوگ یہاں نا بینا اور اندھے ہیں وہ وہاں بھی اندھے ہوں گے.نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دیدار الہی کے لئے یہاں سے حواس اور آنکھیں لے جاوے.اور ان آنکھوں کے لئے ضرورت ہے تبتل کی، تزکیہ نفس کی اور یہ کہ خدا تعالیٰ کو سب پر مقدم کرد - خدا تعالیٰ کے ساتھ دیکھو ، سنو اور بولو.اسی کا نام فنافی اللہ ہے.اور جب تک یہ مقام اور درجہ حاصل نہیں ہوتا نجات نہیں.( ملفوظات جلد چهارم ) اور

Page 120

119 نفس پر قابو کی مثال " کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لئے لڑتے تھے.آخر حضرت علی نے اس کو اپنے نیچے گرا لیا.اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے.اس نے جھٹ حضرت علی رند کے منہ پر تھوک دیا.آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اتر آئے اور اسے چھوڑ دیا.اس لئے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالٰی کے لئے تیرے ساتھ لڑتا تھا.لیکن اب جب کہ تو نے میرے منہ پر تھوک دیا تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے.پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لئے تمہیں قتل کروں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا.ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے.اگر نفسانی لانے اور اغراض کے لئے کسی کو رکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کی طرح کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات کیا ہوگی " ( ملفوظات جلد چہارم ص ۲۳) نفس کو خُدا تعالے کے آگے ذبح کرنا یاد رہے کہ جسمانی خواہشیں اور شہوات انبیاء اور رسل میں بھی ہوتی

Page 121

۱۲۰ ہیں.لیکن فرق یہ ہے کہ وہ پاک لوگ پہلے خدا تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے تمام خواہشوں اور جذبات نفسانیہ سے الگ ہو جاتے ہیں.اور اپنے نفس کو خدا کے آگے ذبح کر دیتے ہیں.اور پھر جو خدا تعالیٰ کے لئے کھوتے ہیں فضل کے طور پر ان کو واپس دیا جاتا ہے.اور سب کچھ ان پر وارد ہوتا ہے اور وہ درماندہ نہیں ہوتے مگر جو لوگ خدا تعالٰی کے لئے اپنا نفس ذبح نہیں کرتے ان کے شہوات ان کے لئے بطور پروہ کے ہو جاتے ہیں.آخر نجاست کے کیڑے کی طرح گند میں مرتے ہیں.پس ان کی اور خدا کے پاک لوگوں کی شال یہ ہے کہ جیسے ایک ہی جیل خانہ میں داروغہ جیل بھی رہتا ہے اور قیدی بھی رہتے ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ داروغہ ان قیدیوں کی طرح ہے ".د روحانی خزائن جلد ۲۲ حث ) پورے طور پر تزکیر تھوڑے ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے او پورے طور پر تزکیہ تھوڑے ہی تشخصوں کو حاصل ہوتا ہے.اکثر لوگ جو نیک ہوتے ہیں سبب کمزوری کی کچھ نہ کچھ خرابی اپنے اندر رکھتے ہیں.ان کے دین میں کوئی حصہ دنیوی ملونی کا بھی ہوتا ہے.اگر انسان اپنے سارے امور میں صاف ہو اور ہر بات میں پوری طرح تزکیہ نفس رکھتا ہو وہ ایک قطب اور غوث بن جاتا ہے کہ د ملفوظات جلد پنجم و )

Page 122

۱۲۱ (٢٣ تزکیہ نفس کے بغیر قرآن مجید نہیں سمجھا جاسکتا جب انسان تزکیہ نفس اختیار کرتا ہے تو قرآن شریف کے معنی اور معارف اُس پر کھولے جاتے ہیں.تزکیہ نفس ایک ایسی چیز ہے کہ قرآن مجید کے بہت سے حصہ کی سمجھ اس کے بغیر آ ہی نہیں سکتی.جن لوگوں کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور جو پاک دل اور مظہر لوگ ہوتے ہیں ان کو بہت سی باتیں خود بخود ہی ایسی سوجھ جایا کرتی ہیں جو کہ قرآن مجید کے منشاء کے مطابق ہوتی ہیں اور قرآن مجید خود بخود ہی حل ہوتا جاتا ہے.لملفوظات جلد پنجم (۳) ا نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا " جب کوئی مصائب میں گرفتار ہوتا ہے تو قصور آخر بند سے کا ہی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا تو قصور نہیں.بعض لوگ بظا ہر بہت نیک معلوم ہوتے ہیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس پر کوئی تکلیف کیوں وارد ہوئی یا کسی نیکی کے حصول سے یہ کیوں محروم رہا.لیکن دراصل اس کے محفی گناہ ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی حالت یہاں تک پہنچائی ہوئی ہوتی ہے.

Page 123

الہ تعالیٰ چونکہ بہت معاف کرتا ہے اور درگزر فرماتا ہے.اس واسطے انسان کے مخفی گناہوں کا کسی کو پتہ نہیں لگتا مگر مخفی گناہ در اصل ظاہر کے گناہوں سے بدتر ہوتے ہیں گنا ہوں کا حال بھی بیماریوں کی طرح ہے.بعض موٹی بیماریاں ہیں.ہر ایک شخص دیکھ لیتا ہے کہ فلاں بیمار ہے.مگر بعض الیسی مخفی بیماریاں ہیں کہ بسا اوقات مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا.کہ مجھے کوئی خطرہ دامن گیر ہو رہا ہے.ایسا ہی تپ دق ہے کہ ابتداء میں اس کا پتہ بعض دفعہ طبیب کو بھی نہیں لگ سکتا.یہاں تک کہ بیماری خوفناک صورت اختیار کر لیتی ہے.ایسا ہی انسان کے اندرونی گناہ ہیں جو رفتہ رفتہ اسے ہلاکت تک پہنچا دیتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے رحم کرے.قرآن شریف میں آیا ہے.قد افلح من زكتها.) الشمس : (۱) اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا لیکن تزکیہ نفس بھی ایک موت ہے.جب تک مکمل اخلاق رذیلہ کو ترک نہ کیا جا و سے تزکیہ نفس کہاں حاصل ہو سکتا ہے.ہر ایک شخص میں کسی نہ کسی شر کا مادہ ہوتا ہے.وہ اس کا شیطان ہوتا ہے جب تک اس کو قتل نہ کرے کام نہیں بن سکتا " ( ملفوظات جلد پنجم مت) ترک نفس کر کے تمام امانتیں خدا تعالیٰ کی اسکو واپس بجائیں مومن کا کام یہ ہے کہ نفس کو بھی ترک کر دے اور اس کو خدا تعالے کی امانت سمجھ کر خدا تعالیٰ کی طرف واپس کرے اور خدا کے کاموں میں اپنے نفس

Page 124

۱۲۳ کو وقف کر کے اُس سے خدمت لے اور خدا کی راہ میں بذل نفس کرنے کا ارادہ رکھے اور اپنے نفس کی نفی وجود کے لئے کوشش کرے.کیونکہ جب تک نفس کا وجود باقی ہے گناہ کرنے کے لئے جذبات بھی باقی ہیں جو تقویٰ کے برخلاف ہیں اور نیز جب تک وجود نفس باقی ہے مکن نہیں کہ انسان تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مار سکے یا پورے طور پر خدا کی امانتوں اور عہدوں یا مخلوق کی امانتوں اور عہدوں کو ادا کر سکے.لیکن جیسا کہ بخل بغیر توکل اور خدا کی رازقیت پر ایمان لانے کے ترک نہیں ہو سکتا اور شہوات نفسانیہ محرمہ بغیر استیلاء ہیبت اور عظمت الہی اور لذات روحانیہ کے چھوٹ نہیں سکتیں ایسا ہی یہ مرتبہ عظمیٰ کہ تحریک نفس کر کے تمام امانتیں خدا تعالٰی کی اس کو واپس دی جائیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک تیز آندھی عشق الہی کی میل کر کسی کو اس کی راہ میں دیوانہ نہ بنا دے.یہ تو در حقیقت عشق الہی کے مستوں اور دیوانوں کے کام ہیں.دنیا کے عقلمندوں کے کام نہیں ہے آسمان با را مانت نتوانست کشید قرعه خان بنام من دیوانه فروند فال اسی کی طرف اللہ تعالی اشارہ فرماتا ہے اس إنَّا عَرَضْنَا الأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ نَا بَيْنَ اَنْ يَحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا - والاحزاب : ٣) ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہیئے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا.میں سب نے اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور

Page 125

۱۲۴ اس سے ڈرے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو.مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ علوم اور جہول تھا.یہ دونوں لفظ انسان کے لئے محل مدح میں ہیں نہ محل ندست ہیں.اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا تھا.اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے.اس لئے اُس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پائے.اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دیے " در وحانی خزائن جلد ۲۱ ص ۲۳) قضا و قدر سے پیش آنے والے حادثات کی برداشت بھی تزکیہ نفس کا باعث ہوتی ہے.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کے دو راہ ہیں.ایک تو زید نفس کسی اور مجاہدات کا ہے اور دوسرا قضا و قدر کا لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے.کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو جو اور خستہ کرنا پڑتا ہے.عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں.کہ وہ دیده دانسته تکلیف جھیلیں.لیکن قضا و قدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پیدا کر پڑتے ہیں وہ ناگہانی ہوتے ہیں اور جب آپڑتے ہیں تو قهر درویش بر جان درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیہ نفس کا باعث ہو جاتا ہے.ملفوظات جلد چهارم حت)

Page 126

۱۲۵ ۲۷ نفس اور دنیا کی محبت سے خالی دل کو خدا تعالے تجلیات حسن و جمال کے ساتھ اپنی محبت سے پر کر دیتا ہے خُدا نے انسان کی ایسی فطرت رکھی ہے.کر وہ ایک ایسے ظرف کی طرح ہے جو کسی قسم کی محبت سے خالی نہیں رہ سکتا اور خلا عینی خالی رہنا اس میں محال ہے.پس جب کوئی ایسا دل ہو جاتا ہے کہ نفس کی محبت اور اس کی آرزوؤں اور دنیا کی محبت اور اس کی تمناؤں سے بالکل خالی ہو جاتا ہے.اور سفلی محبتوں کی آلائیشوں سے پاک ہو جاتا ہے تو ایسے دل کو جو غیر کی محبت سے خالی ہو چکا ہے.خدا تعالیٰ تجلیات حسن و جمال کے ساتھ اپنی محبت سے پر کر دیتا ہے، سب دنیا اسکی دشمنی کرتی ہے کیونکہ دنیا شیطان کے سایہ کے نیچے جلتی ہے.اس لئے وہ راستیان سے پیار نہیں کر سکتی مگر خُدا اس کو ایک بچہ کی طرح اپنے کنارہ عاطفت میں لے لیتا ہے اور اس کے لئے ایسی ایسی طاقت الوہیت کے کام دکھلاتا ہے.جس سے ہر ایک دیکھنے والے کی آنکھ کو چہرہ خدا کا نظر آ جاتا ہے.پس اس کا وجود خدا نما ہوتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے کیا دروحانی خزائن جلد ۲۲ ص۵۶ )

Page 127

٢٨ انسان کا دل خدا کی محبت کا پانی چوس کر زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے ؟ دعا بھی تو بہ ہے کیونکہ اس بھی ہم خدا کا قرب ڈھونڈتے ہیں.اسی لئے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام روح دکھا کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خُدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے اور اس کا نام نفس رکھا.کیونکہ وہ خدا سے اتحاد پیدا کر نے والا ہے.خدا سے دل لگا نا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ باغ میں وہ درخت ہوتا ہے جو باغ کی زمین سے خوب پیوستہ ہوتا ہے یہی انسان کا جنت ہے اور جس طرح درخت زمین کے پانی کو چوستا اور اپنے اندر کھینچتا اور اس سے اپنے زہر یلے بخارات باہر نکالتا ہے.اسی طرح انسان کے دل کی حالت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کا پانی چوس کو زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے.د روحانی خزائن جلد ۱۲ ص ۳۲) (۲۹) خدا تعالیٰ اپنے احباء کو دوزخ میں نہیں ڈالتا " جب انسان خدا کی طرف بکلی آجاتا ہے اور نفس کی طرف کو بجلی چھوڑ دیتا ہے.تو خدا تعالیٰ اس کا دوست ہو جاتا ہے.تو کیا وہ پھر دوست کو

Page 128

۱۲۷ دوزخ میں ڈال دے گا.نحن اولیاء اللہ سے ظاہر ہے کہ احیاء کو دوزخ میں نہیں ڈالتے ؟ ر تفسیر سوره مائده از حضرت مسیح موعود من نفس کے متعلق حضرت اقدس کا ایک مکتوب ایک دفعہ منشی رستم علی صاحب سلیہ تعالیٰ نے چند اشعار لکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ارسال کئے تو حضور نے وصولی کی اطلاع دینے کے ساتھ نفس کو چھوڑنے کا نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :- محبتی مشفقی اخویم ! السلام علیکم و رحمتہ اللهو به کا تها عنایت نامہ پہنچا.آپ کے اشعار نہایت پاکیزہ اور عمدہ اول سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.با ایں ہمہ مستانت ایسی ہے کہ گویا ایک اہل زبان شاعر کی.یہ امر خداداد ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت بخشے.دنیا فانی اور محبت دنیا ہمہ فانی.جس طرح آسمان پرستارہ نظر آتے ہیں کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں خداتعالی کے حکم سے ٹھر سے ہوئے ہیں اور حکم کی پابندی سے بے ستون کھڑے ہیں گرتے نہیں.اسی طرح مومن بھی حکم کا پابند ہے.خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری میں کھڑا رہتا ہے گرتا نہیں مومن کا دنیا اور نفس کو چھوڑنا ایک خارق عادت امر ہے.وہ تبدیلی جو

Page 129

IPA خداتعالی اس میں پیدا کرتا ہے وہ مومن کو قوت دیتی ہے.ورنہ ہر ایک شخص فاقی لذت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے.مومن پر شیطان غالب نہیں آتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بیعت الموت کر چکا ہے.شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیت الموت کرے جیسے کہ آپکے اشعار میں رقت ہے.خدا تعالے آپ کے دل میں ایسی پہنی سچی رقت پیدا کرے.ایک شخص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شاعر تھا اور ایمان نہیں لایا تھا.ایک نفس پرست آدمی تھا لیکن بشعر اس کے مواحدانہ اور عارفا نہ تھے ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اس کے شعر سنے.نہایت پاکیزہ تھے.آنحضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا :- ا مَن شِعْرَهُ وَكَفَرَ نَفْسَاء یعنی شعر اس کا ایمان لایا اور تنفس اس کا کافر ہوا.خدا تعالیٰ آپ کے شعر اور آپ کے دل کو ایک ہی نور سے منور کرے........دُعا میں بہت مشغول -- رہیں کہ تمام امن اور آرام خدا کی یاد میں ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۱۳ نومبر ۶۱۹۸۹ مکتوبات احمدیہ محنت جلد پنجم نیر سوم )

Page 130

۱۲۹ (٣١) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ و طہارت پھر قائم ہو پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تجبر اور فخر نہ کرے نہ علمی ، نہ خاندانی، نہ مالی.جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھے لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی رہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے ایمان ہی سے آتی ہے....میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقوی ، ایمان نہ عبادت اظہارت اسب کچھ آسمان سے آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کر دے.کیس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشی محض سمجھے.اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالے کے فضل کو طلب کرے.اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا

Page 131

ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حقہ مل جاد سے اور کسی وقت کسی قسم کا بسطہ اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور نا نہ نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو.کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے.پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے.یکن یہ سب باتیں بار بارہ اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی.اسے دوبارہ قائم کرے.عام طور پر تکبر دنیا میں پھیلا ہوا ہے.علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبیر میں گرفت رہیں.فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا.ان کی غرض و غایت صرف تقسیم تک محدود ہے.اس لئے اُن کے مجاہد سے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کی ہیں جیسے ذکر ارہ وغیرہ.جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا.میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں.صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوتا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں.یہ مجاہد سے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں.پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے.نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ

Page 132

با لکل ترک کر دیا گیا ہے.اور اس کو بھلا دیا ہے.اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاد سے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو.اور اس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے.پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے " ( ملفوظات جلد چهارم (۲۳) ٣٢ نفس کا گند خُدا تعالیٰ کے فضل سے نہی جور ہوسکتا ہے " در حقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بداخلاقی - کبریہ یا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور یہ مواد رویہ مل نہیں سکتے.جب تک معرفت کی آگ اُن کو نہ جلائے جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا.وہ اس نور اور روشنی کو جو انوالہ معرفت سے اُسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا.اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اُسے خدا تعالے ہی کا فضل اور رحم یقین کرتا ہے جیسے ایک دیوانہ پر آفتاب کی روشنی اور دھوپ پڑ کر اُسے منور کر دیتی ہے لیکن دیوار اپنا کوئی فخر نہیں کر سکتی کہ یہ روشنی میری قابلیت کی وجہ سے ہے.یہ ایک دوسری بات ہے کہ

Page 133

۱۳۲ جس قدر وہ دیوار صاف ہو گی اسی قدر روشنی زیادہ صاف ہوگی لیکن کیسی حال میں دیوار کی ذاتی قابلیت اس روشنی کے لئے کوئی نہیں بلکہ اس کا فخر آفتاب کو ہے اور ایسا ہی وہ آفتاب کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تو اس روشنی کو اٹھا لے.اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کے نفوس صافیہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض سے معرفت کے انوار ان پر پڑتے ہیں اور ان کو روشن کر دیتے ہیں.اسی لئے وہ ذاتی طور پر کوئی دعوی نہیں کرتے بلکہ ہر ایک فیض کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہی سچ بھی ہوتا ہے.یہی وجہ ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اعمال سے داخل جنت ہوں گے تو یہی فرمایا کہ ہر گز نہیں خدا تعالی کے فضل سے انبیاء علیہم السلام کبھی کسی قوت اور طاقت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے وہ خدا ہی سے پاتے ہیں اور اُسی کا نام لیتے ہیں.د ص ملفوظات جلد چهارم ۲۱۱۰۲۲ )

Page 134

۱۳۳ حقوق العباد

Page 135

WAI

Page 136

۱۳۵ شرائط بعية.دس شرائط بیعت سلسلہ عالیہ احمدی میں سے چوتھی شرط بعیت کننده...ناقلا یہ کہ عام خلق الله و عموما اور سلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے".ونسی شرائط بیعت میں سے نویں شرط ربیت کننده....ناقل ماله خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لله مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا" داشتهارد کمیل تبلیغ ۱۳ جنوری ۶۱۸۸۹)

Page 137

حق العباد کیا ہے؟ شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے.ایک حق اللہ ، دوسرے حق العباد حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی اطاعت ، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا.اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبیر ، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے، گویا اخلاق حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو.سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہے.اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائیم ہو سکتا ہے کسی میں قوت غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے.جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے.اور نہ زبان.دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے.اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے.نیسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفت رہو کر حدود اللہ کو توڑتا ہے.غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل الایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا.پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے ہیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی رگری

Page 138

۱۳۷ ہوئی ہے.اکثر لوگوں میں بدعتی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے.وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنی اونی اسی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بڑے بڑے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو.اس لئے اول ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پہ بدلتی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کیفتہ ، بغض، حسد وغیرہ.بچا رہتا ہے.پھر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے نہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں.اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لئے تیار نہیں ہوتا.یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کراتے کہ اس سے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں.حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہانتک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شور با زیادہ کر لو تا کہ اے بھی دے سکو.اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں.لیکن اس کی کچھ پرواہ نہیں یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو.بلکہ جو تمہار سے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں.شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ کہان تک ان کی پروا کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے بھر دی اور سلوک کرتا ہے.اس کا بڑا

Page 139

۱۳ بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے.حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالی کے نا کہ میں بھو کا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.ہمیں پیاسا تھا اور تو نے مجھے پانی نہ دیا میں بیمار تھا.تم نے میری عبادت نہ کی جن لوگوں سے یہ سوال ہوگا وہ کہیں گے کہ اسے ہمارے رب تو کب بھو کا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا.تو کب پیاسا تھا جو پانی نہ دیا اور ترکیب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی.پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی.اس کی ہمیروی میری ہی ہمدردی تھی ایسا ہی ایک اور جماعت کو کہیگا کہ شاباش ! تم نے میری ہمدری کی.میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ.وہ جماعت عرض کرے گی کراسے ہمارے خدا ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا ہو تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میر سے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی.دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اسکی اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے.عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ ہے تو کیا وہ آتا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہو گا ؟ کبھی نہیں.حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی.مگر نہیں.اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گو یا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے.خدا تعالی کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے.کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے.پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی

Page 140

۱۳۹ کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے.عرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے.میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے.جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالٰی اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے مگر یہ یادرکھنا چاہیے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنا دیتے ہیں.ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے.اور اگر انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو.اللہ تعالٰی اُسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے.میں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی.ان بارش کے دنوں میں میں نے دیکھا کہ ایک انٹی برس کا بوڑھا گھر ہے جو کو ٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا ہے.میں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اس سے کہا کہ کیا تیر سے اس عمل سے تجھے کچھ تواب ہو گا ؟ اس گہر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہوگا.پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو میں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گھر طواف کر رہا ہے.اس گہر نے مجھے پہچان لیا اور کہا دیکھو ان دانوں کا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں ؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کا موجب ہو گئے.حدیث میں بھی ذکر آیا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کرو

Page 141

10 ایام جاہلیت میں میں نے بہت خرچ کیا تھا.کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہوگا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیا کہ یہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ تو ہے کر تو مسلمان ہو گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالی کسی کے ادنی فعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا.اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے.پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اس سے دُور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے.انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کہ سعودی نے کہا ہے.بنی آدم اعضائے یک دیگراند یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے.کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے.میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرد نہیں ، ہمیں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرد.خواہ وہ کوئی ہو.ہندو ہویا مسلمان یا کوئی اور میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں.ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک شیرے کے مٹکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تلوں میں ڈال کر تیل لگائے جاویں تو جس قدر تیل اس کو لگ جا دیں.اس قدر دھوکا اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں.ان کی ایسی بے ہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور ان کو قریباً وحشی

Page 142

۱۴۱ اور درندہ بنا دیا ہے.مگر میں تمہیں بابارہ ہی نصیحت کر تا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو.اور ہمدردی کے لئے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے.یعنی إن الله يأمر بالعدل والاحسان و ايتاى ذى القربي النخل) یعنی اول نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو.جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرد.اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس بڑھ کر اس سے سلوک کرو.یہ احسان ہے.احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی مکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلا دے.مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا.جیسے ہاں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کوحکم دید سے کرتو اپنے بچہ کو دودھ مت پہلا اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہوگی تو کیا ماں ایسا حکم مشن کر خوش ہو گی ؟ اور اسکی تعمیل کرے گی ؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کو سے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا.پس اس طریق یہ نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے.کیونکہ جب کوئی شئے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچے جاتی ہے اس وقت وہ کامل ہوتی ہے".ملفوظات جلد چهارم (۲۱۲)

Page 143

۱۴۲ حقوق العباد کا خلاصہ یہ ہے وحق العباد کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرنا اور کسی کے حقوق میں دست اندازی نہ کرنا.جہاں اس کی نہیں ہے جھوٹی گواہی نہ دینا وغیرہ ( ملفوظات جلد پنجم (۵۹) حقوق العباد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدری کریں حقوق العباد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کریں یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دیکھ دیں ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شئے مسلمانوں کا وہ گروہ جو جہاد کی غلطی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائنہ رکھا ہے کہ کفار کا مال ناجائز طور پر لینا بھی درست ہے خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ان کا مال لوٹ لو بلکہ یہاں تک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو.حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھی.وہ تو ایک صاف اور مصفیٰ مذہب تھا.اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوق ابوت کو چاہتا ہے.اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی

Page 144

۱۴۳ ہو وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مار ہے.اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالی کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشا ہے کہ نوع انسان میں مودت اور وحدت ہو.نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مسادی ہوں صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں.وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.( ملفوظات جلد چهارم ۵۵) سورہ فاتحہ میں تمام نوع انسان کی ہمدردی داخل ہے ی تمام تو دعا کے بارہ میں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں دُعا سکھلائی ہے لینی اخدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - (الفاتحه : 4) اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں : ۱۱) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے.(۲) تمام سلمانوں کو.(۳) تیسر سے اُن حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں.پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے

Page 145

۱۴۴ اور یہی منشاء خدا تعالیٰ کا ہے کیوں کہ اس سے پہلے اسی سورت میں اُس نے اپنا نام رب العالمین رکھا ہے.جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے جس میں حیوانات بھی داخل ہیں.پھر اپنا نام رحمان رکھا ہے.اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیوں کہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مومنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ رحیم کا لفظ مومنوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام مالک یوم الدین رکھا ہے اور یہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یوم الدین وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی.سو اسی تفصیل کے لحاظ سے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقیم کی دُعا ہے.پس اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام نوع انسان کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہویا (تفسیر سورۃ فاتحہ ملت) دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو دو اصل بات یہ ہے کہ سر سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیوں کہ ہر وقت اس کا معاملہ بڑا ہے اور ہر آن یہ ابت لا سامنے رہتا ہے.پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہو شماری سے قدم اٹھانا چاہیے.میرا تو یہ مذہب ہے کر یمن کے ساتھ بھی حد سے ، وہ سختی نہ ہو قبض لوگ چاہتے ہیں کہ جہاں کے اس کی تخریب اور مجھی کے لئے سعی کی جاوے پھر وہ اس تار من بیان اور کراچی پر امہ کے تے اس کو بدنام کرنے

Page 146

۱۴۵ کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے ، افتراء کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اکساتے ہیں.اب بتاؤ کر معمولی دشمنی سے کسقدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی " الملفوظات جلد چهارم ) جب تک شمن کیلئے دعانہ کی جائے پوری طور پر سید نا نہیں ہوتا بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک شمن کیلئے دعا نہ کی جان سے پورے طور پر سکینہ صاف نہیں ہوتا.ادعونی استجب لحکم (المومن (41) میں اللہ تعالیٰ نے قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا.بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دُعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے حضرت عمران اسی سے مسلمان ہوئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہیے اور حقیقہ موذی نہیں ہونا چاہیئے.شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں.خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایڈا پہنچائی جاوے اور ناحق مخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاد نے.ایک جگہ وہ فصل اور ایک جگہ وہ وصل نہیں چاہتا یعتی بنی نوع

Page 147

انسان کا باہمی فعل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی اس میں اُس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے.میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنی درجہ کا ہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اُن سے محبت کرنی چاہیئے " الملفوظات جلد دوم مت) مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی سے پیش آؤ جیساکہ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ پیش آتی ہیں.خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل سے پیش آیا کرو.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرد جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم اُن کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیوں کہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مختفی ہوتا ہے اور احسان کرنے وال بھی اپنے احسان کو قتل بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا.پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہوا اور یہ

Page 148

۱۴۷ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اُس کی ذات پر ایسا یقین کر لیتا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.ہر ایک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دینا خلق کی خدمت اس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طریق کی راہ سے قسام ازلی نے بعض کو قبض کا محتاج کر رکھا ہے.ان تمام امور میں محض اللہ اپنی تحقیقی اور ہے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچاؤ نے اور ہر ایک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مد دے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگا دے گا در روحانی خزائن جلد در ما)

Page 149

10A حقوق العباد کی پڑا نہ کرنیوالاآخر حق اللہ کوبھی چھوڑدیتا ہے لہ تعالی نے جا بجا رحم کی تعلیم دی ہے.یہی اخوت اسلامی کا منشا ہے.اللہ تعالی نے صاف طور پرنہ فرمایا ہے کہ تمام مسلمان مومن آپس میں بھائی ہیں ایسی صورت میں کہ تم میں اسلامی اخوت قائم ہو اور پھر اس سلسلہ میں ہونے کی وجہ سے دوسری اخوت بھی ساتھ ہو.یہ بڑی غلطی ہوگی کہ کوئی شخص مصیبت میں گرفتار ہو اور قضاء قدر سے اُسے ماتم پیش آجاد سے تو دوسرا تجہیز و تکفین میں بھی اُس کا شریک نہ ہو.ہرگز ہر گز اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جنگ میں شہید ہوتے یا مجروح ہو جاتے تو میں یقین نہیں رکھتا کہ صحابہ انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہوں یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر راضی ہو جاتے کہ وہ ان کو چھوڑ کر چلے جاویں.میں سمجھتا ہوں کہ ایسی وارداتوں کے وقت ہمدردی بھی ہو سکتی ہے.اور احتیاط مناسب بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے.اوّل تو کتاب اللہ سے یہ مسئلہ ملتا ہی نہیں کہ کوئی مرض لازمی طور پر دوسرے کو لگ بھی جاتی ہے.ہاں حسین قدر تجارت سے معلوم ہوتا ہے اُس کے لئے بھی نص قرآنی سے احتیاط مناسب کا پتہ لگتا ہے.جہاں ایسا مرکز ویا کا ہو کہ وہ شدت سے پھیلی ہوئی ہو.وہاں احتیاط کرے.لیکن اس کے بھی یہ معنے نہیں کہ ہمدردی ہی چھوڑ دے.خداتعالی کا ہر گتے یہ منشا نہیں ہے کہ انسان ایک میت سے اس قدر بعد اختیار کر سے کہ میت کی ذقت ہوا اور پھر اس کے ساتھ ساری جماعت کی ذلت ہو.

Page 150

۱۲۹ آئنده خوب یاد رکھو کہ ہرگز اس بات کو نہیں کرنا چاہیے.جبکہ خدا تعالئے نے تمہیں بھائی بنا دیا ہے تو پھر نفرت اور بعد کیوں ہے ؟ اگر وہ بھی مرے گا تو اس کی بھی کوئی خبر نہ لے گا اور اس طرح پر اخوت کے حقوق تلف ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ نے دو ہی قسم کے حقوق رکھتے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد جو شخص حقوق العباد کی پروا نہیں کرتا وہ آخر حقوق اللہ کو بھی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ حقوق العباد کا لحاظ رکھنا یہ بھی تو امراہی ہے جو حقوق اللہ کے نیچے ہے.یہ خوب یا در رکھو کہ اللہ تعالیٰ پر توکل بھی کوئی چیز ہے.یہ مت سمجھو کہ تم نری پر ہیزوں سے بچ سکتے ہو.جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو کارآمد انسان نہ بنائے اس وقت تک اللہ تعالٰی اس کی کچھ پروا نہیں کرتا.خواہ وہ ہزارہ بھاگتا پھرے.کیا وہ لوگ جو طاعون میں مبتلا ہوتے ہیں وہ پر ہیز نہیں کرتے ؟ میں نے سُنا ہے کرنا ہورہ میں نواب صاحب کے قریب ہی ایک انگریز رہتا تھا وہ مبتلا ہو گیا حالانکہ یہ لوگ تو بڑے پر ہیز کرنے والے ہوتے ہیں.ندا پر ہیز کچھ چیز نہیں جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو.پس آئندہ کے لئے یا درکھو کہ حقوق اخوت کو ہر گز نہ چھوڑو ورنہ حقوق اللہ بھی نہ رہیں گے.خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ طاعون کا سلسلہ جو مرکز پنجاب ہو گیا ہے کب تک جاری رہے لیکن مجھے یہی بتایا گیا ہے إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم رالرعد ) اللہ تعالی کسی حالت میں قوم میں تبدیلی نہ گو سے گا جب تک لوگ دلوں کی تبدیلی

Page 151

13.نہ کریں گے.ان باتوں کو سُن کر یوں تو ہر شخص جواب دینے کو تیار ہو جاتا ہے کہ ہم نما نہ پڑھتے ہیں.استغفار بھی کرتے ہیں.پھر کیوں مصائب اور است لا آجاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ خداتعا لنے کی باتوں کو جو سمجھ لے وہی سعید ہوتا ہے.اللہ تعالے کا منشا کچھ اور ہوتا ہے.سمجھا کچھ اور جاتا ہے.اور پھر اپنی عقل اور عمل کے پیمانہ سے اسے مایا جاتا ہے یہ ٹھیک نہیں.ہر چیز جب اپنے مقررہ وزن سے کم استعمال کی جاوے تو وہ فائدہ نہیں ہوتا جو اس میں رکھا گیا ہے.مثلاً ایک دوائی جو تو لہ کھانی چاہیئے اگر تولہ کی بجائے ایک بوند استعمال کی جاوے تو اسے کیا فائدہ ہوگا اور اگر روٹی کی بجائے کوئی ایک دانہ کھا لے تو کیا وہ سیری کا باعث ہو سکے گا ؟ اور پانی کے پیانے کی بجائے ایک قطرہ سیراب کر سکے گا ؟ ہر گنہ نہیں.یہی حال اعمال کا ہے.جب تک وہ اپنے پیمانہ پر نہ ہوں وہ اوپر نہیں جاتے ہیں.یہ سنت اللہ ہے جس کو ہم بدل نہیں سکتے.پس یہ بالکل خطا ہے کہ اسی ایک امر کو پتے باندھ لو کہ طاعون والے سے پر ہیز کریں تو طاعون نہ ہو گا.پرہیز کرو جہاں تک مناسب ہے لیکن اس پر ہیز سے باہمی اخوت اور ہمدردی نہ اٹھ ملفوظات جلد چهارم ) جادے " خداتعالی فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہیئے اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات

Page 152

۱۵۱ اور صفات میں وحدہ لاشریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اس کو دکھانا چاہیئے.اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہیئے اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی نبض حداد در کینہ نہیں رکھنا چاہیئے اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بال لگ ہو جانا چاہئے.لیکن میں دکھتا ہوں کہ یہ معاملہ تو ابھی دور ہے کہ تم لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے از خود رفتہ اور محو ہو جاؤ کہ بس اُسی کے ہو جاؤ اور جیسے زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو عمل سے بھی کر کے دکھاؤ.ابھی تو تم لوگ مخلوق کے حقوق کو بھی کیا حقہ ادا نہیں کرتے.بہت سے ایسے ہیں جو آپس میں فساد اور دشمنی رکھتے ہیں اور اپنے سے کمزور اور غریب شخصوں کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں اور بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیبتیں کرتے اور اپنے دلوں میں بعض اور کینہ رکھتے ہیں.لیکن خداتعالی فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ.اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اس وقت کر سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا.کیونکہ جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہوگا.اس وقت تک خدا تعالے سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا.گو ان دونوں قسم کے حقوق میں بڑا حق خدا تعالیٰ کا ہے مگر اس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا تعالے کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا.یاد رکھو.اپنے بھائیوں کے ساتھ بیلی صاف ہو جانا یہ آسان کام نہیں بلکہ نہایت مشکل کام ہے.منافقانہ طور پر آپس میں منا گنا اور بات ہے مگر سچی محبت اور ہمدردی سے پیش آنا اور چیز ہے.یاد رکھو اگر جماعت میں بھی ہمدردی نہ ہوگی تو پھر یہ تباہ ہو جائے گی.اور خطا اسکی جگہ کوئی اور جماعت پیدا کرنے گا.( ملفوظات جلد پنجم منت )

Page 153

۱۵۲ ۱۲ ازدواجی تعلق محبت کے انٹری کو وسیع کرتا ہے اداروں وسیع جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوستوں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے پس اصل جڑ شفاعت کی یہی محبت ہے جب کہ اس کے ساتھ فطرتی تعلق بھی ہو.کیونکہ بجر فطرتی تعلق کے محبت کا کمال جو شرط شفاعت ہے غیر ممکن ہے.اس تعلق کو انسانی فطرت میں داخل کرنے کے لئے توا کو علیحدہ پیدا نہ کیا.بلکہ آدم کی میسلی سے ہی اس کو نکالا.جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (سورة نساء : ۲) یعنی آدم کے وجود میں سے ہی ہم نے اس کا جوڑا پیدا کیا.جو ہوا ہے.تا آدم کا یہ تعلق حوا اور اس کی اولاد سے طبعی ہو نہ بناوٹی.اور یہ اس لئے کیا کہ تا آدم زادوں سے تعلق اور ہمدردی کو بقا ہو.کیونکر طبی تعلق غیر منفک ہوتے ہیں.مگر غیر طبعی تعلق کے لئے بقا نہیں ہے.کیونکہ ان میں وہ باہمی کشش نہیں ہے.جو طبیعی میں ہوتی ہے.غرض خدا نے اس طرح پر دونوں قسم کے تعلق جو آدم کے لئے خدا سے اور بنی نوع سے ہونے چاہیئے تھے طبعی طور پر پیدا کئے.پس اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ کامل انسان جو جو شفیع ہونے کے لائق ہو وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے ان دونوں تعلقوں سے کامل حصہ لیا ہو.اور کوئی شخص بغیر ان ہر دو قسم کے کمال کے انسان

Page 154

۱۵۳ کامل نہیں ہو سکتا.اسی لئے آدم کے بعد بھی سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہوئی.کہ کامل انسان کے لئے جو شفیع ہو سکتا ہے.یہ دونوں تعلق ضروری ٹھہرائے گئے.یعنی ایک یہ تعلق کہ ان میں آسمانی روح پھونکی گئی اور خدا نے ایسا اُن سے اتصال کیا کہ گویا ان میں انتہ آیا.اور دوسرے یہ کہ بہنی نوع کی زوجیت کا وہ جوڑا جو ھوا اور آدم میں باہمی ہمدردی اور محبت کے ساتھ مستحکم کیا گیا تھا ان میں سب سے زیادہ چمکایا گیا.اسی تحریک ان کو بیویوں کی طرف بھی رغبت ہوئی اور یہی ایک اول علامت اس بات کی ہے.کہ ان میں بنی نوع کی ہمدردی کا مادہ ہے.اور اسی کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ : خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُم لِاَهْلِهِ سے یعنی تم میں سب سے زیادہ بنی نوع کے ساتھ بھلائی کرنے والا ہ ہی ہو سکتا ہے کہ پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے.مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ قلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے.کیونکہ خدا نے آدم کو پیدا کر کے سب سے پہلے آدم کی محبت کا مصداق اس کی بیوی کو ہی بنایا ہے.پس جو شخص اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا.یا اس کی خود بیوی ہی نہیں وہ کامل انسان ہونے کے مرتبہ سے گرا ہوا ہے.اور شفاعت کی دو شرطوں میں سے ایک شرط اس میں مفقود ہے.اس لئے اگر عصمت اس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے کے لائق نہیں.لیکن جو شخص کوئی بیوی نکاح میں لاتا ہے.وہ اپنے لئے بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتا ہے.کیونکہ ایک بیوی بہت سے رشتوں کا موجب ہو جاتی ہے.اور بچے پیدا ہوتے ہیں.ان کی بیویاں آتی ہیں اور

Page 155

۱۵۴ بچوں کی نانیاں اور بچوں کے ماموں وغیرہ ہوتے ہیں.اور اس طرح پر ایسا شخص خواہ نخواہ محبت اور ہمدردی کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کی اس عادت کا دہراہ وسیع ہو کر سب کو اپنی ہمدردی سے حصہ دیتا ہے.لیکن جو لوگ جوگیوں کی طرح نشو و نما پاتے ہیں ان کو اس عادت کے وسیع کرنے کا موقع نہیں ملتا.اس لئے ان کے دل سخت اور خشک رہ جاتے ہیں.ا تفسير سورة البقره از حضرت مسیح موعود (۳۵) ۱۳ جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں اسی عمر دراز ہوتی ہے ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر درا نہ ہو لیکن بہت کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کی ہو.جس انسان کی عمر درانہ ہو.قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے کہ و اما ما يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ - (الرعد: ١٨) یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں.ان کی عمر دراز ہوتی ہے.اللہ تعالے نے ان لوگوں کو درازی عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لئے مفید ہیں.حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں.اول خدا تعالیٰ کی عبادت دوسرے بنی نوع سے ہمدردی لیکن یہاں یہ پہلو اس لئے اختیار کیا ہے کہ کامل عابد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے پہلے پہلو میں اول مرتبہ خدا تعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے.اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع

Page 156

۵۵ پہنچائے.اور اس کی صورت یہ ہے.اُن کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرنے.جیسا کہ وَتَوا صَوا بالحق - سے پایا جاتا ہے.انسان بعض وقت خود ایک امر کو سمجھ لیتا ہے لیکن دوسرے کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا.اس لئے اس کو چاہیے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا دو ہے.ہمدردی خلائق یہی ہے کہ محنت کہ کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے.تا کہ عمر دراز ہویا د تفسیر سوره یونس تا سوره الكهف از حقہ مسیح مومه حقوق العباد کا خیال رکھنے والا نصف قرآن پر ایمان لانیوال سے اخلاق فاضلہ اسی کا نام ہے بغیر کسی عوض معاوضہ کے خیال سے نوع انسان سے نیکی کی جاوے.اسی کا نام انسانیت ہے.ادنی صفت انسان کی یہ ہے کہ بدی کا مقابلہ کرنے یا بدی سے در گزر کرنے کی بجائے بدی کرنے والے کے ساتھ نیکی کی جاوے.یہ صفت انبیاء کی ہے اور پھر انبیاء کی صحبت میں رہنے والے لوگوں کی ہے.اور اس کا اکمل نمونہ آنحضرت صلی ) علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں.خداتعالی ہرگز ضائع نہیں کرتا.ان دلوں کو کہ ان میں ہمدردی بنی نوع ہوتی ہے.الله صفات حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے دو ہی حصے ہیں اور وہی قرآن شریف کی پاک تعلیم کا خلاصہ اور لب لباب ہیں.اول یہ کہ حق اللہ کے ادا کرنے میں

Page 157

184 عبادت کرنا.فسق و فجور سے بچنا اور کل محرمات الہی سے پر ہیز کرنا اور اوامر کی تعمیل میں کمر بستہ رہنا.دوم یہ کہ حق العباد ادا کرنے میں کو تا ہی نہ کرے اور بنی نوع انسان سے نیکی کرے بنی نوع انسان کے حقوق بجا نہ لانے والے لوگ خواہ حق اللہ کو ادا کرتے ہی ہوں بڑے خطرے میں ہیں کیونکہ اللہ تعالے تو ستا رہے.غفار ہے.رحیم ہے اور حلیم ہے اور معاف کرنے والا ہے.اس کی عادت ہے کہ اکثر معاف کر دیتا ہے مگر بندہ (انسان) کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ کبھی کسی کو کم ہی معاف کرتا ہے.پس اگر انسان اپنے حقوق معاف نہ کرے تو پھر وہ شخص جس نے انسانی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہو یا ظلم کیا ہو خواہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں گوشاں ہی ہو.اور نماز روزہ وغیرہ احکام شرعیہ کی پابندی کرتا ہی ہو.مگر حق العباد کی پروا نہ کرنے کی وجہ سے اس کے اور اعمال بھی حبطہ ہونے کا اندیشہ ہے.غرض موسن حقیقی وہی ہے جو حق اللہ اور حق العباد دونوں کو پورے التزام اور احتیاط سے بجالا د ہے.جو دونوں پہلوؤں کو پوری طرح سے تار نظر رکھ کر اعمال بجالاتا ہے وہی ہے کہ پورے قرآن پر عمل کرتا ہے.ورنہ نصف قرآن پر ایمان لاتا ہے.مگر یہ ہر دو قسم کے اعمال انسانی طاقت میں نہیں کہ بزور بازو اور اپنی طاقت سے بجالانے پر قادر ہو سکے.انسان نفس امارہ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور توفیق اس کے شامل حال نہ ہو کچھ بھی نہیں کر سکتا.لہذا انسان کو چاہیے کہ دعائیں کرتا رہے تاکہ خدا تعالٰی کی طرف سے اُسے نیکی پر قدرت دی جاوے اور نفس امارہ کی قیدوں سے رہائی عطا کی جاوے.یہ انسان کا سخت دشمن ہے.اگر نفس امارہ نہ ہوتا تو شیطان بھی نہ ہوتا.یہ انسان کا اندرونی دشمن اور مایہ آستین ہے.اور

Page 158

۱۵۷ شیطان بیرونی دشمن ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جب چور کسی کے مکان میں نقب زنی کرتا ہے تو کسی گھر کے بھیدی اور واقف کار سے پہلے سازش کرنی ضروری ہوتی ہے.بیرونی چور بجز اندرونی بھیدی کی سازش کے کچھ کر ہی نہیں سکتا.پس یہی وجہ ہے کہ شیطان بیرونی دشمن، نفس امارہ اندرونی دشمن اور گھر کے بھیدی سے سازش کر کے ہی انسان کے متاع ایمان پر نقب زنی کرتا ہے اور نور ایمان کو غارت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دما ابدی نفسى ان النفس لا مارة با السدر (یوسف (۵۴) یعنی میں اپنے نفس کو تری نہیں ٹھہراتا اور اس کی طرف سے مطمئن نہیں کہ نفس پاک ہو گیا ہے.بلکہ یہ تو شریر الحکومت ہے " ( ملفوظات جلد پنجم صال) ۱۵ اگر سچی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہو جائیگی "دیکھو ! مومن کے مومن پر بڑے حقوتی ہیں.جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کو جائے.اور جب مرے تو اس کے جنازہ پر جائے.ادوئی ادنی باتوں پر جھگڑا نہ کرے.بلکہ در گذر سے کام لے.خدا کا یہ منشاء نہیں کہ تم ایسے رہو.اگر بچی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہو جائے گی " ( ملفوظات جلد پنجم منته)

Page 159

۱۵۸ از پشاور شهر کوچه گل بادشاہ 16-5-1/26 عزیزم مکرم و معظم جناب مرزا صاحب اللہ تعالٰی آپ سب پر اپنی خاص برکتوں اور فضلوں کے وہ سب درواز سے جو بند ہیں ہمیشہ کے لئے کھول دے اور تا ابد کھلے رکھے.آمین ثم آمین.آپ کا خط بوجہ فتنہ و فساد ڈاک کے انتظام کے خراب ہونے کے باعث زیر سے مل سکا.یعنی آپ کا ور کا لکھا ہوا خط آج ۷ار کو ملا.میں آپ سب کے لئے دعا کرتا ہوں.آپ سب بھی مجھے خاکسار اور گنہگار کے لئے بہت بہت دعائیں فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے اہل وعیال اور نسلوں کو کبھی خاص رحمت و مغفرت کی وسیع چادر میں پیٹ ہے.اور دنیا سے دین کے وسیع فضلوں اور نوروں کے ساتھ آخرت کو سدھاریں اور ایمان اور عرفان اور محبت اور عشق الہی کے کامل مدارج اور کامل برکات کے ساتھ اپنے قدوس اور محسن مولا کی رحمت نواز اور لطف وکرم کی گود میں جگہ فراخ مل سکے.

Page 160

۱۵۹ (1) خداوندا ا تو اپنا فضل کرو سے ہیں خالی ظرف تو فضلوں سے بھر سے ترے فضل و کرم کی ہے ہمیں اس بجز اس اس کے کچھ بھی نہیں پاس تو وہ قادر ہے جب قدرت دیکھائے تو ہر مایوس بھی رحمت کو پائے ہے تو ہی عاجزوں کا اک سہارا تیرے بن کون ہے یارب ہمارا تو اپنے فضل کے سب کھول دے در تو اپنی شان رحمت کو عیاں کر ہمارے عیب ڈھا نپ اپنے کرم سے رہائی بخش ہر رنج و الم سے سزاؤں کے عوض رحمت عطا کہ گنہ گاروں کو بخشش سے رہا کر تو غمگینوں کا ہو دلدار مولا تو ہے ستار اور غفار مولا ترا فضل وکرم جو یار ہو وے تو بیٹا عاجزوں کا پار ہوئے ہر اک ظلمت سے ہم کو دور رکھیو ہمارا جان و دل پر نور رکھیں محبت عشق کے ساغر پلائے حیات عشق سے مرد سے جلا دے تو ہم سب کا بڑا محبوب بن جا ہماری جان کا مطلوب بن جا تو اسماعیل مرزا پر کرم کہ تو اس کی اہلیہ کا دور غم کر بنا ادریس اور یونس کو کامل رہے رحمت ہمیشہ ان کے شامل ہر اک برکت کی بارش سب پہ برسا عطا ہو سب کو فیض دین و دنیا تیرے فضلوں کے ہم سب اک نشان ہوں تیرے پیارے بھی ہم پر مہرباں ہوں ہیں ہم سب ہی تیرے محتاج یا رب تو محتاجوں کی رکھ لے لاج یا رب سری یہ عرض ہے منظور کرے گنہ گاروں کو ہاں مغفور کرلے

Page 161

14.میرے پیار سے نہایت ہی پیارے خُدا خود کام سب تیرے سنوارے سراک نعمت ملے تجھ کو خدا سے نہ کچھ حاجت ہے تا ما سوا سے خدا کافی رہے ہر حال تیرا رہنے خوم سدا ہر بال تیرا خدا قرمنوں سے فارغ حال رکھے ہمیشہ مال سے پُر مال رکھے تبری اولاد کو دل شاد رکھے جہاں رکھے انہیں آباد رکھے ہمیشہ ہم سے ان کو بچائے ہمیشہ مال و دولت سے بڑھائے ر ہے دن رات ان کا عید وانگوں زبان و دل رہے تحمید وانگوں ر ہیں دل شاد سب ہی دو جہاں میں ملے برکت انہیں کون و مکاں میں در خدا سب کو سدا خوشنود رکھے مصیبت کو سدا نابود رکھے میاں قدسی دعا کر ہاں دعا کر ہاں اپنے رب کی مردم شنا کر دعائیں جو لکھی ہیں سب عطا ہوں یہ فیض حضرت رب الوراء ہوں

Page 162

درس توحید وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بتیوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں سورج پر غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اس پار سا نہیں واحد ہے لا شریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اُسی کو یارو میتوں میں وفا نہیں اس جاتے پر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بستان سرا نہیں (رساله تشین الادیان مام دسمبر سنشه)

Page 162