Language: UR
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے ’’قرآن مجید میں ردوبدل‘‘ کے عنوان سے ایک شرانگیز کتابچہ شائع کیا جس میں بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اور ساری جماعت احمدیہ پر ’’تحریف قرآن‘‘ کا الزام لگایا۔ دراصل جماعت کی مسلسل اور شدید مخالفت کے باوجود عالمگیر ترقیات سے مایوس اور سیخ پا ہوکر معاندین اب ایک بھرپور تحریک کی شکل میں یہ ناپاک پروپیگنڈا شروع کرچکے ہیں کہ احمدیوں نے قرآن کریم میں رد و بدل کرکے تحریف شدہ قرآن شائع کیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کو تو اللہ تعالیٰ نے محفوظ قرار دیکر اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے پاس رکھی ہے۔ اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز انگلستان نے نہایت اختصار کے ساتھ اس بےسروپا اعتراض کا جواب مرتب کرکے رقیم پریس انگلستان سے شائع کروایا۔ کیونکہ بانی جماعت احمدیہ کا پختہ ایمان تھا کہ ’’قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اولین اور آخرین کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا۔ وہ ایسا پتھر ہے جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کردے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا‘‘ جماعت کے مخالف مولویوں کا تحریف قرآن کا پروپیگنڈا دراصل معصوم اور سادہ لوح عوام کو حق سے محروم رکھنے کی ایک سازش سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کیونکہ جماعت احمدیہ کی طرف سے طبع شدہ قرآن کریم کے نسخے موجود ہیں اور تراجم قرآنی میں تو اپنے اپنے نکتہ نظر، فہم، علمی اور تحقیقی بصارت اور گہرائی کی وجہ سے قریباً تمام ہی مکاتب فکر کے علماء نے اختلاف کیا ہوا ہے۔ مولویوں کے مذکورہ بالا شر انگیز کتابچہ کے سب اعتراضات کا مدلل جواب دیکر اس کتاب کے آخر پر حقیقت حال کے باب میں بتایاگیاہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف تحریف قرآن کا یہ حملہ اس سازش سے بڑھ کر کچھ نہیں جس کی تیاری میں غلط معلومات، تحریف، تبلیس اور جھوٹے الزامات سب کچھ ہی جمع کردیا گیا ہے، حالانکہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق قرآن، خدمت قرآن اور لفظی ومعنوی حفاظت قرآن کے لئے کاوشوں کا کوئی پاسنگ بھی نہیں ہے۔ اور نظم و نثر سے ایک حسین اقتباسات جمع کیئے گئے ہیں۔
انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحفظون کتا محفوظ بجواب قرآن مجیب میں رد و بدل خدا تعالیٰ نے تو قرآن مجید کو قطعاً کتاب محفوظ قرار دیا ہے لیکن بعض مولوی نجانے کیوں غیر محفوظ سمجھتے ہیں ؟ ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز، لمیٹڈ
Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, U.K.©1991 ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.ISBN 1 85372 439 4 Electronic version by www.alislam.org
قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اولین اور آخرین کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا.وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کر دے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا." آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 257 حاشیہ)
| نمبر شمار -1 پیش لفظ -2._3 -4 _5 عناوین پہلا اترام اور اس کا جواب دوسرا الزام (تحریف قرآن حکیم لفظی) - پہلی آیت -11- دوسری آیت iii - تیسری آیت iv - چوتھی آیت پانچویں آیت vi - چھٹی آیت vii - ساتویں آیت تیسرا الزام -- کلمه طیبه ii - درود شریف چوتھا الزام 1 قصے کہانیوں کی کتاب ii - صرفی نحوی غلطیاں iii - قرآن اور میری وحی ایک ہیں iv - میرے الفاظ خدا کے الفاظ ہیں - قرآن اٹھا لیا گیا vi - ہم نے قرآن کو قادیان کے قریب نازل کیا حقیقت حال -6
بسم الله الرحمن الرحیم پیش لفظ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے ” قرآن مجید میں رد و بدل" کے عنوان سے ایک نگیز کتابچہ شائع کیا ہے.اس میں بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام اور تمام احمدیوں پر " تحریف قرآن " کا الزام لگایا گیا ہے.1973ء میں بھی مخالفین احمدیت نے یہی ناپاک پراپیگنڈہ کیا تھا جسے بھر پور تحریک کی صورت میں جمیعتہ العلماء اسلام کے جنرل سیکرٹری مولانا مفتی محمود نے کوئٹہ (بلوچستان) سے شروع کیا اور شور مچایا کہ احمدیوں نے رد و بدل کر کے تحریف شدہ قرآن مجید شائع کئے ہیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے اسی وقت روزنامہ الفضل کے صفحہ اول پر : " ایک سرا سر جھوٹے اور بے بنیاد الزام کی پر زور تردید " کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ شائع ہوا :- " ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ الزام سراسر جھوٹا اور بے بنیاد ہے.ربوہ میں کوئی ایسا قرآن شائع نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے.کیونکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ قرآن کریم کا ایک نقطہ یا شعثہ بھی تاقیامت منسوخ نہیں ہو سکتا.لہذا جماعت احمدیہ کی طرف سے کسی تحریف شدہ قرآن مجید کے شائع ہونے اور اس اور کا کے نسخے تقسیم کئے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.( الفضل یکم اگست 1973ء) حکومت وقت نے اپنے طور پر تحقیق کی.گورنر بلوچستان جناب نواب محمد اکبر بگٹی کی طرف سے اخبارات میں بیان شائع ہوا کہ :
" قرآن مجید مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے.فورٹ سنڈیمن کے واقعات کے تعلق سے یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ وہاں تحریف شدہ قرآن پاک کے نسخے تقسیم کئے گئے.میں نے اگرچہ اس معاملہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور اس کام پر ممتاز علماء کو مقرر کیا ہے.تاہم اب تک جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کے مطابق قرآن شریف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی اس کی جرات کر سکتا ہے.البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی فرقہ یا مکتبہ فکر نے اپنے نقطہ نظر سے اس کا ترجمہ مختلف کیا ہو".نواب صاحب نے مزید فرمایا : جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ قرآن پاک کے تحریف شدہ نسخے تقسیم کئے گئے ہیں وہ دراصل غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ خود مسلمانوں کے ممتاز علماء نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے قرآن پاک کے ترجمے ایک دوسرے سے مختلف کئے ہیں.انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبد الحق محدث دہلوی اور مولانا مودودی نے قرآن پاک کے تراجم اپنی اپنی قسم اور علمی اور تحقیقی بھارت کے مطابق کئے ہیں.ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ان لوگوں نے سرے سے قرآن پاک کو ہی تبدیل کر دیا ہے".روزنامه مشرق کوئٹہ.۲۹ جولائی ۱۹۷۳ء) گورنر بلوچستان کے اس نہایت متوازن اور منصفانہ بیان سے جماعت احمدیہ کے خلاف اس کلیتہ جھوٹے اور ظالمانہ الزام کی قلعی کھل گئی اور عوام الناس پر حقیقت حال واضح ہو گئی.لیکن اس کے باوجود عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اپنی ضد اور تعلی پر قائم رہتے ہوئے جماعت احمدیہ کے خلاف قطعی جھوٹے اور شرانگیز پراپیگنڈہ کو جاری رکھے ہوئے ہے.زیر نظر رسالہ بھی ایسے ہی جھوٹ کا پلندہ ہے جس کا ثبوت ہم آئندہ صفحات میں دیں گے.-1- پہلا الزام : قرآنی الفاظ میں الہام اس الزام میں مصنف رسالہ نے پانچ آیات قرآنیہ کو درج کیا ہے جو حضرت مرزا
صاحب پر بھی الہانا نازل ہوئیں وہ آیات یہ ہیں.ا - قل يايها الناس إني رسول الله اليكم جميعا ۲ - سراجا منیرا pr ۴ - يا ايها المدثر - وما ارسلنک الا رحمة للعالمين ۵ - انا اعطیناک الکوثر مذکورہ بالا آیات پر مصنف رسالہ تبصرہ یہ کرتا ہے کہ ان آیات بینات پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا ہے اور یہ کہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مندرجہ بالا تمام آیات میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے.اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت مرزا صاحب پر زبان طعن بھی دراز کی ہے.جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے، بالکل لغو اعتراض ہے.اسے تحریف قرآن کا نام دینا محض جہالت ہے کیونکہ جو الفاظ الہام کے ہیں وہی بعینہ قرآنی آیات کے ہیں اس سے قرآن کریم میں ردو بدل کیسے ہو گیا؟ قارئین کرام! دیکھنا یہ ہے کہ - کیا آیات قرآنیہ کسی امتی پر الہاما نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ ۲.کیا وہ آیات جن میں خاص طور پر ہمارے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا گیا ہے وہ کسی امتی پر الہاما نازل ہو سکتی ہیں؟ جہاں تک امر اول کا تعلق ہے نہیں سرتاج صوفیاء حضرت شیخ محی الدین ابن العربي" بتاتے ہیں.تنزل القرآن على قلوب الأولياء ما انقطع مع كونه محفوظا لهم ولكن لهم ذوق الانزال وهذ البعضهم ) فتوحات کمیته جلد ۲ صفحه ۲۵۸ باب ۱۵۹ یعنی قرآن کریم کا ولیوں کے دل پر نازل ہونا منقطع نہیں ہوا باوجودیکہ وہ ان کے پاس اصلی صورت میں محفوظ ہے ، لیکن اولیاء کو نزول قرآنی کا ذائقہ چکھانے کی خاطر ان پر نازل ہوتا ہے اور یہ شان بعض کو عطا کی جاتی ہے.
اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ہر سالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اے انسان! اگر تو نیکی میں ترقی کرتا چلا جائے تو اللہ تعالیٰ تجھے اتنی عزت دے گا کہ تخاطب بانک اليوم لدينا مكين امين - (فتوح الغيب مقاله ۲۸ صفحہ اے سورہ یوسف) 55 انک اليوم لدينا مکین امین" سورہ یوسف کی آیت ہے جس کا ترجمہ ہے:.تو آج سے ہمارے ہاں معزز مرتبہ والا اور قابل اعتماد آدمی شمار ہو گا".حضرت شیخ عبد القادر جیلانی" فرماتے ہیں کہ خدا تعالی تجھے اس آیت قرآنی سے مخاطب فرمائے گا.پس یہ سنت ابرار ہے کہ ان پر خدا تعالٰی آیات قرآنیہ الہانا نازل فرماتا ہے چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب زندگی ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بیٹے کی پیدائش سے قبل انہیں الہام ہوا " انا نبشرک بغلام اسمه يحمى" (مکتوبات امام ربانی فارسی جلد دوم صفحه ۱۳۶ مطبوعہ دہلی) یہ سورہ مریم کی آٹھویں آیت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ "ہم تجھے ایک ہونہار بچے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام بیٹی ہے" چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام آپ نے بیکٹی رکھا.پس کیا حضرت مرزا صاحب کے ان الہامات پر تمسخر کرنے والے حضرت مجدد الف ثانی حضرت سید عبد القادر جیلانی اور حضرت امام ابن العربی پر بھی آیات قرآنیہ پر غاصبانہ قبضہ" کرنے کا الزام لگائیں گے اور ان پر بھی ویسی ہی بدزبانی کرنے کی جسارت کریں گے جیسی کہ حضرت مرزا صاحب پر کرتے ہیں.۲.جہاں تک کسی امتی پر ان آیات قرآنیہ کے الہاما نزول کا تعلق ہے جن میں خالصتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا گیا ہے تو مولوی عبد الجبار غزنوی صاحب جو جماعت احمدیہ کے شدید مخالفوں میں سے تھے اور مصنف رسالہ کے بزرگوں میں سے تھے ، بڑی وضاحت سے اپنی کتاب "اثبات الالهام والبیعتہ" میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں ان کی یہ تحریر ان لوگوں کے جواب میں ہے جو برصغیر کے مشہور اور صاحب کشف والہام بزرگ حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کے ان الہامات پر اعتراض کرتے تھے جو قرآنی آیات پر مشتمل
تھے اور ان میں خالصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا گیا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں.اگر الہام میں اس آیت کا القاء ہو جس میں خاص آنحضرت کو خطاب ہو تو صاحب الہام اپنے حق میں خیال کر کے اس مضمون کو اپنے حال کے مطابق کرے گا اور نصیحت پکڑے گا.اگر کوئی شخص ایک آیت کو جو پروردگار نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نازل فرمائی ہے اسے اپنے پر وارد کرے اور اس کے امر دینی اور تائید و ترغیب کو بطور اعتبار اپنے لئے سمجھے تو بے شک وہ شخص صاحب بصیرت اور مستحق تحسین ہوگا.اگر کسی پر ان آیات کا القاء ہو جن میں خاص آنحضرت کو خطاب ہے مثلاً الم نشرح لك صدرک.کیا نہیں کھولا ہم نے لک واسطے ترے سینہ ترا ونسوف یعطیک ربک فترضی، فسيكفيكهم الله - قاصب كما صبر اولو العزم من الرسل - واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداوة و العشى يريدون وجهه فصل لربک وانحر - ولا تطع من اغفلنا قليه عن ذكرنا واتبع هواه و وجدک ضالا فھدی تو بطریق اعتبار یہ مطلب نکالا جائے گا کہ انشراح صدر اور رضا اور انعام ہدایت جس لائق یہ ہے علی حسب المزملہ اس شخص کو نصیب ہوگا اور اس امرونی وغیرہ میں اس کو آنحضرت کے حال میں شریک سمجھا جائے گا." اثبات الالهام والبيعته صفحه ۴۳-۱۳۲) قارئین کرام ! اس کے بعد نمونته چند آیات قرآنیہ ملاحظہ فرمائیں جن میں خالصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے لیکن وہ آپ کے امتیوں پر بھی الہام کی گئیں.: حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی سوانح میں درج الہامات سے چند مثالیں : نیسرک الیسری بار ہا الهام ہوئی (صفحہ ۵) ولئن اتبعت اهوائهم بعد الذى جانك من العلم ما لك من الله من ولى ولا واق (صفحه ۱۵) واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه فاذا قرانه
نا تبع قرانه ثم علینا بیانه (صفحه ۳۵) لا تمدن عينيك الى ما متعنا بد ازواجا منهم زيرة الحيواة الدنيا ولا تطع من الغفلنا قلبه عن ذكرنا واتبع هواه و ک این امره قرطا.(صفحہ ۳۶) ولسوف یعطیک ریک فترضی (صفحہ ۳۷) الم نشرح لک صدرک (صفحہ ۳۷) - سوانح مولوی عبداللہ غزنوی مولفه مولوی عبد الجبار غزنوی و مولوی غلام رسول) -۲ حضرت خواجہ میر درد مرحوم نے اپنی کتاب " علم الکتاب" میں اپنے الہامات درج فرمائے ہیں.ان میں دو درجن سے زائد الہامات آیات قرآنیہ پر "مشتمل ان میں سے ایک الہام یہ بھی ہے وانذر عشیرتک الاقربین" (علم الكتاب صفحه (۶۴ -۳- حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کو کئی مرتبہ آیت قرآنی الہام ہوئی : و ما ارسلنک الا رحمه للعالمين ہیں چنانچہ حضرت مخدوم گیسو دراز لکھتے ہیں : ” حضرت شیخ فرماتے تھے کہ کبھی کبھی کسی ماہ میرے سرہانے ایک خوب رو اور خوش جمال لڑکا نمودار ہو کر مجھے اس طرح مخاطب کرتا : وما ارسلنک الا رحمہ للعالمین میں شرمندہ سر جھکا لیتا اور کہتا یہ کیا کہتے ہو؟ یہ خطاب حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہے.یہ بندہ نظام کس شمار میں ہے جو اس کو اس طرح مخاطب کیا جائے.جوامع الكلم ملفوظات گیسو در از صفحه ۲۲۶ ڈائری بروز شنبه ۲۶ شعبان ۸۰۲ ه ) تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مندرجہ بالا الہامات آیات قرآنیہ ہیں.اور ایسی آیات قرآنیہ ہیں کہ جن میں خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے.اب کیا یہ مولوی صاحب اپنے ان بزرگوں پر بھی آیات قرآنیہ پر غاصبانہ قبضہ" کا فتویٰ صادر فرمائیں گے.حضرت امام ابن العربی کا امام مہدی کے متعلق مذہب بیان کرتے ہوئے حضرت امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں:
يلهم بشرع محمد الیواقیت والجواہر - جلد ۲ صفحہ ۸۹ بحث ۴۷) کہ اس پر شریعت محمدیہ نازل ہوگی.پس جب امام مہدی پر شریعت محمدیہ کا الہانا نازل ہونا بزرگان امت کے عقائد میں ہے تو اندازہ کریں کہ ان مولوی صاحب کے ایسے فتوؤں کی تان کہاں کہاں جا کر ٹوٹتی ہے.
-2- دوسرا الزام : ( تحریف قرآن حکیم لفظی) مصنف رسالہ نے جماعت احمدیہ پر قرآن کریم میں لفظی تحریف کا الزام لگایا ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر سات آیات پیش کی ہیں.معزز قارئین! قبل اس کے کہ ہم ان مذکورہ آیات کا نمبردار جائزہ لیں، یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ کتابت کی غلطیاں کسی بھی ضابطے کے تحت تحریف نہیں کہلاتیں.یہ بات علمائے فن کے مسلمہ اصولوں میں سے ہے.تحریف کرنے والا اصل متن کے الفاظ کو جانتے بوجھتے ہوئے تبدیل کرے اور پھر تبدیل کردہ الفاظ کے مطابق اپنا عقیدہ یا موقف بنائے.اس لئے کسی بھی کتاب یا تحریر میں خصوصاً الہی کتب میں تحریف ایک بڑا گناہ ہے.علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو کے کاتب عموماً عربی زبان اور علم الاعراب سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کی کتابت کی غلطیاں ہوں اور باوجود سو احتیاط کے پروف ریڈنگ میں بھی وہ نہ پکڑی جا سکیں، انہیں تحریف قرار دینا سخت نا انصافی ہی نہیں صریح بدیانتی بھی ہے.حضرت مرزا صاحب کی کتب میں بھی معدودے چند جگہ کتابت کی غلطیاں رہ گئیں لیکن کسی ایک جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ ترجمہ اصل آیت کے مطابق نہ ہو اور نہ ہی کسی جگہ استدلال اصل آیات کے مخالف تھا.دو سرے یہ کہ وہی آیت جس پر تحریف کا الزام دھرا گیا جب اسی کتاب میں یا کسی دوسری کتاب میں درج کی گئی تو بالکل درست اور اصل الفاظ میں درج کی گئی.مزید برآں یہ کہ جب کبھی بھی علم ہوا کہ کسی جگہ سہو کتابت ہوئی ہے تو اگلے ایڈیشن میں اس کو درست کر دیا گیا.پس ایسی صورت میں کتابت کی کسی غلطی کو تحریف قرار دینا اخفائے حق نہیں تو کذب صریح ضرور ہے.اس وضاحت کے بعد ہم اب ان آیات کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں جو
مصنف رسالہ نے بطور اعتراض کے تحریر کی ہیں.پہلی آیت و ما ارسلنا من رسول ولا نبي الا اذا تمنى القى الشيطان في امنيته ازالہ اوہام ص ۶۲۹ وافع الوساوس ، مقدمہ حقیقت اسلام من ۳۳ روحانی خزائن جلد 3 ص ۴۳۹) مصنف رسالہ لکھتا ہے کہ "من تبلک" کے الفاظ (وما ارسلنا کے بعد) خارج کر کے تحریف لفظی کی ہے.یہاں یہ آیت درج کرتے ہوئے من قبلک کے الفاظ سمو کتابت کی وجہ سے رہ گئے ہیں جبکہ یہی آیت اسی کتاب میں دوسری جگہ من قبلک کے الفاظ کے ساتھ لکھی گئی ہے.پھر ایک اور کتاب برا حسین احمدیہ کے صفحہ ۵۴۹ طبع اول کے حاشیہ میں بھی یہ آیت اپنے پورے الفاظ کے ساتھ تحریر شدہ ہے.نیز بعد کے ایڈیشن میں مذکورہ بالا صفحہ ۴۳۹) (روحانی خزائن جلد ۳) پر کتابت کی اس غلطی کی تصحیح کر لی گئی ہے.دوسری آیت ان بجاهد والى سبيل الله باموالهم وانفسهم ) جنگ مقدس صفحه ۱۹۴، ۵ جون ۱۸۹۳ ) مصنف رسالہ نے لکھا ہے " و جاهدوا باموالكم وانفسکم کو خارج کر کے فی سبیل اللہ کو آخر سے اٹھا کر درمیان میں رکھ دیا ہے".مولوی صاحب کا یہ فقرہ ان کی بد دیانتی اور بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے.قارئین کرام ! حضرت مرزا صاحب نے سورۂ توبہ کے رکوع نمبر ۳ کا حوالہ دیا ہے.نہ کہ رکوع ۶ کا.رکوع ۳ میں جو آیت ہے وہاں نہ باموالکم وانفسکم ہے اور نہ ہی فی سبیل اللہ آخر میں ہے بلکہ وہاں الفاظ فی سبیل الله يا موالهم وانفسهم" ہی ہیں.یعنی فی سبیل اللہ پہلے ہے اور باموالکم وانفسکم کی بجائے باموالهم وانفسهم اس کے بعد ہے.اب ان مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ یہاں باموالهم وانفسهم کی بجائے باموالكم وانفسکم لکھ دیا جائے اور فی سبیل اللہ کے الفاظ شروع سے اٹھا کر بعد میں لکھے جائیں، قرآن کریم میں تحریف کی جسارت نہیں تو اور کیا ہے.یہ مولوی صاحب
جو قرآن کریم کی آیات کو بدلنے پر دوسروں کو ترغیب دے رہے ہیں ، کیا خود سورۃ توبہ کی اس آیت میں اسی طرح تبدیلی کرنے کی بے باکی کریں گے جس طرح کہ یہ دوسروں سے کرانا چاہتے ہیں ؟ یہ لوگ تعصب اور بے باکی میں حد سے اس قدر تجاوز کر چکے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات میں تبدیلی کی تحریض سے بھی گریز نہیں کرتے.تیری آیت : کل شئى فان و ببقى وجه ربك ذوالجلال والاکرام (ازالہ اوہام صفحہ ۱۳۶) یہ آیت اسی کتاب ازالہ اوہام میں صفحہ ۴۳۴) (روحانی خزائن جلد (۳) پر درست يعني كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام" الفاظ میں درج ہے اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے یہی آیت اپنی کتب چشمه معرفت اسلامی اصول کی فلاسفی ، ست بچن میں بھی تحریر فرمائی ہے اور درست الفاظ میں تحریر فرمائی ہے.پس کسی ایک جگہ کتابت کی غلطی کی صورت میں شائع ہو جانا، سوائے اس کے کہ کسی کی نیت خراب ہو کوئی اسے متحرف و مبدل قرار نہیں دے سکتا.جہاں تک مصنف رسالہ کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ ”دو آیتوں کو ایک آیت تحریر کیا ہے" ہم اس کے جواب میں بکثرت مثالوں میں سے صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور حضرت علی نے روایت فرمایا ہے اور امام ترندی نے اپنی جامع تریدی میں کتاب الدعوات میں درج فرمایا ہے.ملاحظہ فرمائیں عن على بن ابى طالب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان اذا قام في الصلاة قال وجهت وجهي للذى قطر السموات والارض حنيفا وما انا من المشركين ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العالمين لا شریک له وبذلک امرت وانا من المسلمين (جامع الترمذی : جزو خامس - ابواب الدعوات باب ماجاء في الدعاء عند افتتاح الصلاة بالليل - الطبعة الثانية - دارا لفكر للطباعة والنشر بيروت) اس میں تین آیات مذکور ہیں.پہلی سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۸۰ ہے اور دو
آیات اسی سورۃ کی نمبر ۱۶۳ ۱۶۴ میں دو مختلف جگہوں سے لے کر ان تینوں آیات کو ایک ہی آیت تحریر کیا گیا ہے.پس کیا یہ مولوی صاحب اس پر اور کتب احادیث میں ایسی دیگر بکثرت مثالوں پر وہی اعتراض کریں کے جو یہ کتاب ازالہ اوہام میں مذكور آيات كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذوالجلال والاکرام پر کرتے ہیں.اور کیا یہ نعوذ باللہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اور امام ترندی رحمتہ اللہ علیہ پر بھی ویسے ہی حملہ کی جسارت کریں گے جیسا کہ یہ حضرت مرزا صاحب پر کرتے ہیں.اگر یہ ایسی جرات کر سکتے ہیں تو کر کے دیکھیں.چومتی آیت : انا اتمناک سبعا من المثاني والقرآن العظيم برا حسین احمدیہ صفحہ ۵۵۸) اس پر مصنف رسالہ لکھتا ہے "ولقد غائب انا زائد قرآن میں آن پر زبر ہے اور کتاب میں زیر ہے.العظیم کے م پر زیر اور مرزا صاحب کی کتاب میں زیر ہے.عجیب بات ہے کہ اشماریہ برا مین احمدیہ صفحہ ۳۷ میں اس آیت کو صحیح لکھا گیا ہے." (رسالہ ہذا صفحه (۴) معزز قارئین! دیکھئے مولوی صاحب خود پکڑے گئے.خود اقرار کر رہے ہیں کہ دوسری جگہ یہ آیت درست درج کی گئی ہے.یہ جانتے ہوئے بھی کہ کتاب کے متن میں کتابت کی غلطی ہوئی ہے اور دوسری جگہ یہی آیت درست لکھی ہوئی ہے، عوام الناس کو محض دھوکا دینے کے لئے لکھ رہے ہیں کہ تحریف کی گئی ہے.پانچویں آیت: الم يعلموا انه من يحاد د الله ورسوله يدخله نارا خالدا فيها ذلک الخزى العظيم ( حقیقته الوحی صفحہ ۱۳۰ ) اس پر اعتراض ہے کہ ”ید خلہ اپنی طرف سے داخل کیا ہے اور فان له نار جھنم کو خارج کر دیا ہے".قارئین کرام ! یہ بھی سو کتابت ہے.لیکن ترجمہ میں جہنم کا لفظ ہی لکھا ہے.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ہو ہے اس لئے اسے تحریف قرار دینا بدیانتی ہے.جبکہ
بعد کے ایڈیشن میں آیت کے الفاظ کی بھی درستی کر لی گئی ہے.اس درستی کے بعد ایسے اعتراض کو بدیانتی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے.چھٹی آیت : يايها الذين امنو ان تتقوا الله يجعل لكم فرقانا ويكفر عنكم سيانكم ويجعل لكم نورا تمشون به دافع الوساوس ۱۷۷ آئینہ کمالات اسلام مصنف رسالہ اس پر اعتراض کرتا ہے کہ ويجعل لكم نورا تمشون به داخل کیا اور ويغفر لكم والله ذو الفضل العظيم خارج کیا.معزز قارئین! یہ طریق جو حضرت مرزا صاحب نے اختیار فرمایا کہ مختلف آیات قرآنیہ کو مسلسل لکھ کر مضمون کو مربوط و منظم کیا ہے.یہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سنت ہے.اسی طریق پر چلتے ہوئے آپ نے اپنے کلام کو مزین کیا ہے اور اسی پاک سنت کی تبرک کے طور پر پیروی کی ہے.، لیکن یہ مولوی صاحب جن کو نہ ادب کا علم ہے نہ ادب کا سلیقہ وہ اس کو تحریف قرار دیتے ہیں اور یہ بھی دیا نہیں کرتے کہ زبان درازی کی زد کس پر پڑتی ہے.دیکھئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو بهذه الدعواة عند الكرب لا له الا الله العليم العظيم لا اله الا الله رب العرش العظيم لا اله الا اللدرب السموات السبع ورب العرش الكريم (مسند احمد بن حنبل جلد ا ص 339 مصری روایات حضرت عبداللہ بن عباس مطبوعه المكتب الاسلامی بیروت و بخاری کتاب الدعوات) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں علی الترتیب سورۂ توبہ کی آیت ۱۳۰ اور سورۂ المومنون کی آیت ۸۷ اور ۱۱۷ کے بعض حصوں کو اکٹھا کیا ہے.یہی پاک طریق حسب ذیل فرمودات میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہے.ملاحظہ فرمائیں.ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " من دخل السوق فقال لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير
وهو على كل شي قدير " كتب الله له الف الف حسنه و محى عند الف الف سيئه ورفع له الف الف درجه " (جامع الترندی - ابواب الدعوات - بات ما يقول اذا دخل السوق) نیز هو الله الذي لا اله الا هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام المومن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الخالق الباري المصور ) جامع التريدى - ابواب الدعوات بات جزء الخامس - الطبعه الثانيه ۱۹۸۳ ء وارا لفكر للطباعة والنشر بيروت) احادیث میں بکثرت ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پاک سنت کا ثبوت ملتا ہے کہ مختلف آیات کے مختلف حصوں کو ملا کر مضمون مرتب فرمائے گئے ہیں اور یہ منچلے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ تحریف قرآن ہے اور قرآن کریم میں رو و بدل ہے.لعنتہ اللہ علی الکاذبین.ساتویں آیت و ما ارسلنا من قبلک من رسول ولانبي ولا محدث الا اذا تمنى القى الشيطن في امنيته فينسخ الله ما يلقى الشيطان ثم يحكم الله اياته (برا مين احمدیه (۳۴۸) معاند اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے: ناظرین دیکھئے اصل آیت من رسول تک تحریر کی گئی آگے اپنی طرف سے ساری عبارت لگائی اور محدث کا لفظ جو سارے قرآن مجید میں نہیں ہے داخل کر دیا.یہ سارا ڈھونگ مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو محدث و ملهم من الله ثابت کرنے کے لئے رچایا ".
قارئین کرام ! برامین احمدیہ صفحه ۶۵۵ روحانی خزائن جلد ا کی جس عبارت کو مصنف رسالہ نے نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد جو حملہ حضرت مرزا صاحب پر کیا ہے دیکھئے یہ حملہ حضرت مرزا صاحب پر نہیں بلکہ حضرت عبداللہ ابن عباس پر کیا گیا ہے.حضرت مرزا صاحب کی بیان فرمودہ عبارت ملاحظہ فرما دیں کہ : " آپ لوگ کیوں قرآن شریف میں غور نہیں کرتے اور کیوں سوچنے کے وقت غلطی کھا جاتے ہیں.کیا آپ صاحبوں کو خبر نہیں کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اس امت میں بھی پہلی امتوں کی طرح محدث پیدا ہوں گے اور محترث بفتح دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات و مخاطبات الہیہ ہوتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ابن عباس کی قرات میں آیا ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبي ولا محدث الااذا تمنى القى الشيطان في امنيته فينسخ الله ما يلقى الشيطان ثم يحكم الله آیا ته پس اس آیت کی رو سے بھی جس کو بخاری نے بھی لکھا ہے محدث کا الہام یقینی اور قطعی ثابت ہوتا ہے" (براہین احمدیہ صفحه ۱۵۵ روحانی خزائن جلد ۱) حضرت مرزا صاحب نے اس آیت میں ولا محدث کا لفظ از خود داخل نہیں فرمایا بلکہ اس آیت کی ایک دوسری قرآت کا ذکر فرمایا ہے جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور اسے تفسیر روح المعانی میں حضرت علامہ آلوسی نے اور تغییر الدرالمنشور میں حضرت امام جلال الدین سیوطی کے علاوہ متعدد کتب تفاسیر میں دیگر مفسرین نے درج فرمایا ہے.پس ان مولوی صاحب کا حملہ حضرت مرزا صاحب پر نہیں بلکہ حضرت ابن عباس پر ہے یا پھر ان مفسرین پر جن کی بزرگی کے یہ خود بھی قائل ہیں.قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کہیں ان مولوی صاحب نے ہمارے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سنت اور مبارک طریق پر زبان دراز کی ہے تو کہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ کی روایت کردہ قرآت کو تحریف کا نام دیا ہے اور اس طرح گستاخ رسول اور گستاخ صحابہ ہونے کا ثبوت دیا ہے.
مصنف رسالہ نے حضرت مرزا صاحب کی اسی (۸۰) سے زائد کتب میں سے صرف سات آیات ایسی پیش کی ہیں جنہیں وہ محض ظالمانہ طور پر تحریف قرار دیتا ہے.اس کی پیش کردہ سب آیات کے متعلق ہم نے وضاحت کر دی ہے اور قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریف ہرگز نہیں.قبل اس کے کہ ہم قارئین پر یہ واضح کریں کہ آیات قرآنیہ میں ایسی غلطیاں ہر مصنف سے ممکن ہیں اور اس کے ثبوت کے لئے چند نمونے مشتے از خردارے پیش کریں، یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ مذکورہ بالا رسالہ جس کا نام مصنف نے "قرآن مجید میں رد و بدل" رکھا ہے، ۱۹۸۹ء میں شائع کیا گیا ہے جبکہ اس سے کئی سال قبل حضرت مرزا صاحب کی کتب میں ایسی آیات جن میں کتابت کی غلطی ہوئی تھی، ان کی تصحیح کر لی گئی تھی اور جن آیات کا مصنف رسالہ نے ذکر کیا ہے وہ درست شکل میں تحریر ہیں.پس اس کے بعد مصنف کا شور و غوغا اس کی بد دیانتی کا واضح ثبوت ہے.اب قارئین کی تسلی کے لئے چند نمونے تحریر کئے جاتے ہیں تاکہ علم ہو کہ ایسی غلطیاں ہر جگہ ہوتی ہیں.پس کیا یہ مولوی صاحب ان سب پر بد زبانی پر اتر آئیں گے.ملاحظہ ہو.: - حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں:.اما ان الظن لا يغنى عن الحق شيئا (جلد ۱ صفحه ۱۵۶ مکتوب (۱۵۳ جبکہ اصل آیت ہے : وان الطن لا يغني من الحق شيئا" (سورة النجم : ٢٩) -۲- علامہ سید محمد سلیمان صاحب ندوی لکھتے ہیں :.فان الله بالشمس من المشرق فات بها من المغرب - اصل آیت : (ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۵ د کمبر ۱۹۵۴ صفحه ۵) فان الله ياتي بالشمس من المشرق لت بها من المغرب ) سورة البقره : ۲۵۹) مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں :.في ايا مذحمات (مضامین البلاغ)
اصل آیت - فی ایام نحست حم سجده : ۱۷) پھر لکھتے ہیں -فای تصریق الحق بالامن (مضامین ابلاغ) اصل آیت - فلى الفريقين لحق بالامن (الانعام - ۸۲ ) - مولوی اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی مسلمانوں کے روحانی و دینی پیشوائے طریقت و مجدد سمجھے جاتے ہیں.اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:.يحلون فيما من اساور بہشتی زیور پہلا حصہ صفحه ۵ مطبوعہ نومبر ۱۹۵۳ء ) اصل آيت يحلون فيها من اساور (کف - ۳۱) دیو بندی تحریک کے مفتی اعظم مولوی عزیز الرحمن کے فتاویٰ میں آیت لکھی ہے:.و خلق لكم كهيئه الطير" (فتاوی دار العوم دیوبند جلد پنجم صفحه (۱۳۰) اصل آیت الى اخلق لكم من الطين كهيئة الطير - ( العمران: ۴۹ ) امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری لکھتے ہیں :- ترهبون بح عدو الله (خطبات صفحه ۸۷) اصل :آیت ترهبون به عدو الله انقال : ٦٠ ) : - ويضع عنهم أمرهم والإخلال التي كانت عليهم (خطبات صفحه ۶۳ ) اصل آیت : ويضح عنهم اصرهم والإغلال التي كانت عليهم (اعراف : ۱۵۸ ) " امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی تقریروں کا ایک مجموعہ مکتبہ تبصرہ لاہور نے ”خطبات امیر شریعت" کے نام سے شائع کر رکھا ہے جس کے دیباچہ میں لکھا ہے: شاہ جی اپنی تقریر کے دوران آیات قرآنی کی تلاوت کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ قرآن کی آیات آسمان سے نازل ہو رہی ہیں." اس سے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں ۹ على قلبك لتكون نذير اللعلمين ) ( خطبات صفحہ ۳۳) اصل آيت على قلبك لتكون من المنذرين (الشعراء: ۱۹۵ ) - ولا تخط بيمينه وما تدري الكتاب (خطبات صفحه (۳۵)
اصل آیت : ولا تخطر بیمینک نالارتاب المبطلون ( عنكبوت : ۴۸) - ممتاز محقق و مؤلف علامہ سید مناظر احسن گیلانی نے حضرت شاہ اسمعیل مجدد صدی سیزدهم کی شہرہ آفاق تصنیف "طبقات" کا ترجمہ شائع کیا ہے.اس میں سے چند حوالے مع اصل آیت کے درج ذیل ہیں:.و ارسینا الی ام موسی ان ارضعیه (طبقات صفحه ۱۴ ناشر الجنتہ العلمیت ، حیدر آباد) اصل آیت و اوحينا الى ام موسی ان ارضعیه (نقص : ۸ ) -۱۲ امیرا طوریث حضرت العلام مولانا محمد اسماعیل صاحب نے آیت یوں پڑھی : وان الساعه ايته لا ريب فيها وان الله يبهث من في القبور الاعتصام مورخه ۲۸ جون ۱۹۶۳ صفحه ۲ اصل آيت وان الساحنا تية لا ريب فيها و ان الله يبعث من في القبور (حج : ٨) ۱۳ مولانا کوثر نیازی صاحب وزیر اوقاف و اطلاعات اپنی کتاب میں ایک آیت نقل.کرتے ہیں : لنهم من بعد خوفهم امنا اسلام ہمارا دین" صفحہ ۷۳ ناشر فیروز سنز لمیٹڈ) اصل آیت : وليبدلنهم من بعد خواهم امنا (نور : ۵۲ ) ۱۴.مولانا کوثر نیازی صاحب کی ایک کتاب بصیرت میں ایک آیت نقل ہے : لو شاع الله ما اشتركوا ولا اباونا (بصیرت صفحہ ۱۷۷.ناشر فیروز سنٹر لمٹیڈ) اصل آیت لو شاء الله ما اشركنا ولا ابا ونا (سوره انعام : ۱۴۹) -۱۵ مولانا کوثر نیازی صاحب کی ایک اور کتاب میں ایک آیت یوں درج ہے:.وما يتز غفك من الشيطان نرخ تخلیق آدم صفحہ ۷۵ ناشر فیروز سنز لمیٹیڈ) ۱۶.مولوی احمد رضا خان بریلوی آیت قرآنی کو اس طرح لکھتے ہیں :." عالم الغيب فلا يظهر على غيبه أحدا الا من ارتضى من رسول الله -
الملفوظ حصہ اول صفحہ ۸۸ اصل آیت علم الغيب فلا يظهر على غيبه أحدا - الامن ارتضى من رسول (سورة الجن : 25 و 26) ۱۷ مشہور بریلوی عالم مولانا سید محمود احمد صاحب رضوی مدیر رضوان نے لکھا:.ولو ان القرى امنو واتقوا لفتحنا عليهم بركات من السماء والارض - (ہفتہ وار رضوان لاہور اپریل ۱۹۶۳ء صفحه ۳ ) اصل :آیت ولو ان لعل القرى امنوا واتقوا لفتحنا عليهم بركات من السماء والارض ۱۸.ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب درج کرتے ہیں : ایعو الله والرسول و اولی الامر منکم (سورۃ اعراف : ۹۷) ( حرف محرمانہ (احمدیت پر ایک نظر) صفحه ۲۴ از ڈاکٹر غلام جیلانی برق) اصل آیت اطیعو اللہ و اطیعو الرسول وأولي الأمر منكم (سوره النساء : ٧٠ ) 19.مولانا حافظ محمد جاوید صاحب روپڑی مدیر « تنظیم اہلحدیث " لاہور لکھتے ہیں.مزايا منام ممن كتم شهادة عنده مولا للم".تعظیم اہلحدیث " ۱۰-۱۷ نومبر ۱۹۶۷ صفحہ (۳) اصل آیت : ومن اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله (سورة البقره : ۱۳۱ ) ایسی بیسیوں مثالیں ہیں جن میں سے صرف ۱۹ آیات جو مصنفین کی کتب میں لکھی گئی ہیں پیش کی گئی ہیں تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں آسانی ہو.غلط طور پر
-3- تیسرا الزام: کلمہ طیبہ اور درود شریف میں تحریف (i) کلمہ طیبہ کا ذکر کرتے ہوئے مصنف رسالہ نے جماعت احمدیہ کی طرف یہ کلمہ منسوب کیا ہے.لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ اور اس کے ثبوت کے طور پر رسالہ Africa Speaks سے احمد یہ سنٹرل ماسک اجیبوڈے نائیجیریا کی تصویر دی ہے.مصنف رسالہ جس نے اپنا نام اس رسالہ پر نہیں لکھا اس کے اس الزام کا سیدھا اور سادہ جواب قرآن کریم کی زبان میں تو یہ ہے کہ لعنة اللہ علی الکذبین.معزز قارئین! یہ بہتان ایسا ہے کہ جس کا جواب بار بار جماعت احمدیہ کی طرف سے دیا گیا ہے اور بار بار یہ کہا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کا کلمہ ہوائے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے اور کوئی نہیں! ہرگز کوئی نہیں !! ہرگز ہرگز کوئی نہیں !!! مگر یہ جھوٹ بولنے والے مولوی تقویٰ سے کلیہ خالی ہو کر جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں ، افتراء پر افتراء باندھے چلے جاتے ہیں.ہم ایک دفعہ پھر یہ واضح کرتے ہیں کہ ہمارا کلمہ ہمارے آ کہ ہمارا کلمہ ہمارے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم والا لا اله الا الله محمد رسول الله ہے.اس کے سوا کوئی اور کلمہ اگر ہماری طرف منسوب کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے.نائجیریا میں جس مسجد کی تصویر اس رسالہ میں دی گئی ہے.اس پر ہرگز احمد رسول اللہ نہیں لکھا ہوا بلکہ محمد رسول اللہ ہی لکھا ہوا ہے.یہ کلمہ کسی اردو اور عربی جاننے والے کاتب نے نہیں لکھا بلکہ ایک نائجیرین نے لکھا ہے جس نے اپنی طرز میں تم کو ذرا لمبا کر کے لکھا ہے.اس طرح رسول میں "س" کے دندانے بھی
بہت لمبے بنائے ہیں اور یہ وہاں کی طرز تحریر ہے.اصل تصویر کا ہم نقش پیش کرتے ہیں.قار مکین ملاحظہ فرمائیں یہاں محمد ہی لکھا ہوا ہے، یہ احمد ہو ہی نہیں سکتا یہ لکھا اس طرز پر گیا ہے کہ اگر "م" اور "ح" کے درمیان فاصلہ ڈالیں گے تو یہ الحمد ہو جائے گا.سے پہلے یہ دجل شورش کا شمیری مدیر رسالہ چٹان نے کیا تھا اور الحمد میں م" اور "ح کے درمیان خلا کر کے یہ تصویر شائع کی اور اس پر اپنے جھوٹے پراپیگنڈے کی بنا ڈالی.لیکن معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی اس وجل کو پکڑ سکتا ہے.اگر "م" کو علیحدہ بھی کر دیا جائے تو بھی یہ احمد نہیں بنتا."احمد" میں "ح" کے اوپر جو ڈنڈا ہے اس کا یہاں کوئی کام ہی نہیں.پس وہاں محمد ہی لکھا ہوا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں.یہ جواب جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے بھی شائع کیا جا چکا ہے لیکن یہ ملاں لوگ جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے.زبان سے تو سچ کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور تعلق جھوٹ سے باندھا ہوا ہے.جماعت احمدیہ نے ساری دنیا میں مساجد بنائی ہیں.اگر کلمہ بدلنا تھا تو ساری دنیا میں کیوں نہ بدلا.کیا صرف نائجیریا میں ہی گمراہ کرنے کے لئے کلمہ بدلنا تھا اور وہ بھی ایک ایسے علاقہ میں جس میں مسلمان کثرت سے موجود ہیں.وہاں کے مسلمانوں کو تو عقل نہ آئی! صرف پنجاب کے ملاں کو آگئی !! ----- یہ ہے سرا سر جھوٹ اور افتراء جو جماعت احمدیہ پر باندھا جا رہا ہے.پاکستان میں احمدیوں پر ہزاروں کی تعداد میں کلمہ طیبہ لا الہ الا الله محمد رسول الله پڑھنے کی وجہ سے جو مقدمات درج ہوئے اور ہور ہے ہیں وہی مولویوں کو جھوٹا کرنے کے لئے کافی ہیں.جس کا کلمہ احمد رسول اللہ ہو اس کے خلاف محمد رسول
أمان التقى ضائع نہیں کرے گا." 松 عبانين ฟุตบ 絶 MADIYYA CENTRAL MOSQUE ں کا مسجد انھوڈے نائجیریا
اللہ کی وجہ سے مقدمات درج کرنے کا مطلب ہی کیا ہے؟ کیا مولوی یہ نہیں چاہتا کہ احمدی یہ کلمہ چھوڑ دیں؟ اور پھر جس پر مقدمہ درج کیا گیا ہو وہ کیوں نہیں کہتا کہ اس کا کلمہ محمد رسول اللہ نہیں بلکہ احمد رسول اللہ ہے.سارے کیس چھان ماریں.ایک احمدی بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس نے مقدمہ درج ہونے پر یہ کہا ہو کہ.اس کا کلمہ احمد رسول اللہ ہے.ہر ایک کی زبان پر ایک ہی اقرار تھا اور ایک ہی گواہی تھی کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ لیکن ان مولویوں میں سے کون ہے جو کلمہ طیبہ کی وجہ سے جیل میں گیا ہو.احمدیوں پر یہی تو الزام ہے کہ وہ کلمہ طیبہ کو حرز جان بنائے ہوئے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت کوئی صعوبت کوئی تشدد ان کو اس کلمہ سے جدا نہیں کر سکتا.چنانچہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ الودود فرماتے ہیں:." احمدی کسی قیمت پر بھی کلمہ سے جدا نہیں ہوں گے.ان کی زندگیاں ان کو چھوڑ سکتی ہیں مگر کلمہ احمدی کو نہیں چھوڑے گا اور احمدی کلمہ کو نہیں چھوڑے گا.ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر سکتی ہے مگر کلمہ کو ساتھ لے کر اٹھے گی اور ناممکن ہے کہ ان کی روح سے کلمہ کا تعلق کاٹا جائے.ان کی رگِ جان تو کائی جا سکتی ہے مگر کلمہ طیبہ کی محبت کو ان سے الگ نہیں کیا جا سکتا.احمدیوں کی کیفیت تو یہ ہے کہ جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری وجود کو جب خطرہ تھا تو انصار کے دل سے ایک بے ساختہ آواز اٹھی تھی کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے ! اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے! آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے.اور خدا کی قسم! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ نکلے !!.آج حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری وجود تو ہم میں نہیں ہے لیکن آپ کی یہ پاک نشانی ہمیں دل و جان سے زیادہ پیاری ہمارے اندر موجود ہے.یعنی وہ کلمہ طیبہ جس میں توحید باری تعالٰی کا محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ اتصال ہوتا ہے.جو کچھ بھی عزیز تر ہو سکتا ہے انسان کو وہ سب اس میں مجتمع ہے اس لئے ہم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ وعدہ ضرور کرتے ہیں کہ اے خدا کے پاک رسول ؟! جو سب محبوبوں سے بڑھ کر ہمیں محبوب ہے.خدا کی قسم! تیری اس پاک نشانی تک ہم لوگوں کو نہیں پہنچنے دیں گے اور اس کے دائیں بھی لڑیں گے اور اس کے بائیں بھی لڑیں گے، اس کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن کے ناپاک قدم نہیں پہنچ سکیں کے کہ جب تک ہماری لاشوں کو روندتے ہو.کے یہاں تک نہ پہنچیں.اس لئے یہ تو ہر احمدی کے دل کی آواز ہے......یہ وہ زبان اور سچی زبان ہے جو احمدی کے دل کی زبان ہے.آسمان کا خدا اس زبان کو سنے گا اور اسے ضائع نہیں کرے گا." (خطبہ ۱۹۸۴-۱۲-۷) پس ایسی پاک اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم جماعت جس کی تعلیم یہ ہو اور جس کا علم یہ ہو، اس پر یہ الزام کہ اس نے کلمہ طیبہ بدلا ہے، انصاف اور.انسانیت سے گری ہوئی بات ہے.کلمہ بولا کس نے ؟ اس کا اصل مجرم کون ہے؟ اس کی نشاندہی ہم کرتے ہیں.وہ ان مولویوں کے آباؤ اجداد ہیں.چنانچہ دیکھیں کس نے کلے بدلے اور کس کس کے کلے جاری کئے گئے:.ا لا اله الا الله اشرف على رسول الله (الامداد صفر ۱۳۲۶ ه صفحه ۳۵) ۲.لا الہ الا اللہ چشتی رسول الله ( حسنات العارفین صفحه ۳۲ فوائد فریدیہ صفحہ ۸۳ لا الہ الا اللہ معین الدین رسول اللہ (ہفت اقطاب صفحہ ۱۷۷ مطبوعہ ڈیرہ غازی خاں) اس کلمہ کے ساتھ دعائے منظوم بھی درج ہے.جو وقت اخیر میں ہو تیاری نظر میں صورت رہے تمہاری کلمہ یہی ہو جاری که با محمد معین خواجہ - لا اله الا الله مهر علی شاه رسول الله (سیف) رحمانی اور کڑک آسمانی صفحہ (۵) زبان (ii) مصنف رسالہ نے ایک اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ جماعت احمدیہ نے (نعوذ
باللہ) درود شریف میں تبدیلی کی ہے.اپنے اس جھوٹ کی تائید میں اس نے افتراء کرتے ہوئے یہ عبارت بھی تراشی ہے کہ اللهم صل على محمد واحمد و على آل محمد وأحمد كما صليت على ابراهيم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید اللهم بارک علی محمد واحمد و علی الى محمد و احمد كما باركت على ابراهيم وعلی ال ابراهیم انک حمید مجید اور اسے ضیاء الاسلام پریس قادیان سے مطبوعہ رسالہ "درود شریف" کی طرف منسوب کیا ہے کہ یہ اس کے صفحہ ۴۴ پر لکھا ہوا ہے.معزز قارئین! یہ رسالہ دراصل عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مدح نبوی میں ایک دلکش رسالہ ہے.اس کا ایک ایک صفحہ اور ایک ایک سطر پڑھ جائیں کہیں بھی آپ کو یہ عبارت نظر نہیں آئے گی جو اس مولوی نے محض افتراء کے طور پر درج کی ہے اور ذرا خدا کا خوف نہیں کھایا کہ وہ مفتری کا دشمن ہے اور افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے.اسی وجہ سے اس مولوی نے رسالہ پر اپنا نام طبع کرنے سے گریز کیا ہے اور لوگوں سے چھپایا ہے لیکن کیا وہ خدا تعالٰی سے بھی چھپ سکتا ہے؟ قارئین کرام ! جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ مذکوره رساله "درود شریف" مطبوعه ضیاء الاسلام پرلیس قادیان میں کسی جگہ بھی وہ عبارت درج نہیں جس پر اس مولوی نے اپنے افتراء کی بنیاد رکھتی ہے اور صفحہ ۴۴ جس کا اس نے حوالہ دیا ہے وہ تو حضرت مرزا صاحب کے مدح نبوی میں ایک فارسی قصیدہ سے شروع ہوتا ہے.اس صفحہ پر پہلا شعر یہ ہے.بر سر و جد است دل تادید روئے او بخواب اے بر آن رو و سرش جان و سر و رویم نثار کہ جب سے میں نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں دیدار کیا ہے تب سے میرا دل وجد کر رہا ہے اور میرا سر اور میری جان اور منہ سب اس کے سر اور منہ پر قربان ہیں.اسی رسالہ کے صفحہ ۷۹ پر حضرت مرزا صاحب کا یہ ارشاد درج ہے.فرمایا:.
درود شریف وہی بہتر ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا اور وہ یہ ہے:.اللهم صل على محمد و على ال محمد کما صلیت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید اللهم بارک علی محمد و علی ال محمد كما باركت على ابراهيم وعلى ال ابراهیم انک حمید مجید پس اس مولوی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے.
-4- ہیں.چوتھا الزام : (قرآن کے بارہ میں کفریہ عقائد) اس الزام کے تحت مصنف رسالہ نے جماعت احمدیہ پر سات بہتان باندھے - قصے کہانیوں کی کتاب --- " قرآن پہلوں کی قصے کہانیاں ہیں.آئینہ کمالات اسلام مطبع لاہوری صفحه ۲۹۴ معزز قارئین! جس طرح پہلے اس مولوی نے ہر بات میں پورا پورا افتراء باندھا ہے ، اس اعتراض کی بھی وہی حیثیت ہے.حضرت مرزا صاحب کی کتاب "آئینہ کمالات اسلام" قرآن کریم کی خوبیوں اور عظمتوں اور اس کے کمالات کے بیان میں ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس نے ہر مخالف اسلام کا منہ بند کر کے رکھ دیا ہے اور جو شخص اس کتاب کو پڑھتا ہے وہ اس کی خوبیوں سے انکار نہیں کر سکتا.مولوی صاحب نے اس کتاب کے جس صفحہ کا حوالہ دے کر اعتراض کیا ہے وہ نہ اس صفحہ پر موجود ہے، نہ ساری کتاب میں کسی بھی جگہ پر.مولوی صاحب نے صریح جھوٹ بولا ہے.اس اعتراض کو پڑھ کر مزید حقیقت کھل گئی کہ اصل رسالہ پر مولوی کا نام کیوں نہیں لکھا گیا.حضرت مرزا صاحب کی کتاب چشمہ معرفت سے ایک عبارت من و عن حدیہ قارئین کی جاتی ہے.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مولوی کس قدر جھوٹ بولنے کا عادی ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.اور جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی در حقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصبوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں.ہاں وہ توریت میں تو ضرور صرف قصتے پائے جاتے ہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کے لئے اور اسلام کے لئے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہے اور یہ تصوئی کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں.غرض
قرآن شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے.اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآن شریف کے پورے طور پر خدا تعالٰی پر یقین لا سکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طور پر قرآن شریف میں ہی ہے کہ اس کی کامل پیروی سے وہ پردے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دور ہو جاتے ہیں.ہر ایک مذہب والا محض قصہ کے طور پر خدا کا نام لیتا ہے مگر قرآن شریف اس محبوب ا حقیقی کا چہرہ دکھلا دیتا ہے اور یقین کا نور انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے.اور وہ خدا جو تمام دنیا پر پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے." ) چشمه معرفت - روحانی خزائن جلد ۱۲۳ ص ۲۷۱ 0 0 0 نمبر ۲: صرفی نحوی غلطیاں ---- " قرآن میں صرفی و نحوی غلطیاں ہیں.".(حقیقة الوحی ص ۳۰۴) جو شخص حضرت مرزا صاحب کی تحریروں کا معمولی سا بھی مطالعہ کرے وہ ایسی بات آپ کی طرف منسوب کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا.معزز قارئین! مولوی صاحب نے اس مذکورہ بالا عبارت کا حوالہ کتاب حقیقتہ الوحی کے صفحہ ۳۰۴ سے دیا ہے.جیسا کہ ہمیں پہلے امید تھی وہاں کوئی عبارت ایسی موجود نہیں لیکن اس خیال ہے کہ شاید ایسی عبارت کہیں مل جائے جس کو حسب عادت توڑ مروڑ کر مولوی صاحب نے غلط عبارت بنا لی ہو، ہم نے ساری کتاب کا از سر نو مطالعہ کیا تو صفحہ ۳۱۷ پر ایک عبارت تھی.اب بجائے اس کے کہ مولوی صاحب کے فرضی اعتراض کا جواب دیا جائے اس عبارت کو شائع کرنا کافی ہے جو خود بول رہی ہے کہ یہ ایک عاشق قرآن کی تحریر ہے نہ کہ نعوذ باللہ کسی شاتم قرآن کی فرمایا بعض جگہ خدا تعالی انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف و نحو کے ماتحت نہیں چلتا.اس کی نظیریں
قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں.مثلاً یہ آیت ان مذان لساحران.انسانی نحو کی رو سے ان حزین چاہئے.منہ.( حقیقتہ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۷) حضرت مرزا صاحب کے اس عارفانہ کلام میں سوائے اس کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ انسانی گرائمر کلام الہی کے سامنے عاجز ہے اور قرآنی نظائر کے سامنے انسان کی بنائی ہوئی صرف و نحو کے قواعد اپنی کوتاہ دستی تسلیم کرتے ہیں.اس لئے قرآن کریم کو اس صرف و نحو پر نہیں پرکھا جائے گا جو انسان کی بنائی ہوئی ہے.بلکہ اس صرف و نحو کو قرآن کریم پر جانچا جائے گا.پس قرآن کریم حاوی اور بالا ہے ہر گرائمر پر اور گرائمر کے ہر قاعدہ پر.پس مولوی صاحب کو اگر جھوٹ لکھتے ہوئے شرم نہیں آئی تو کم از کم کچھ حیا کرتے ہوئے قرآن کریم کے الہی کلام کو انسانی قواعد کا پابند کرنے کی بے باکی تو نہ کرتے.متعدد جہاں تک اس آیت کریمہ " ان هذان لسحران" کا تعلق ہے جو حضرت مرزا صاحب نے محولہ بالا عبارت میں تحریر فرمائی ہے اس پر یہی بحث امت کے بزرگ مفسرین نے بھی کی ہے جو د کتب تفاسیر میں مذکور ہے.حضرت امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں حضرت عثمان حضرت عائشہ حضرت سعید بن جبیر اور حضرت حسن رضی اللہ عنہم سے اس آیت کی قرآت ان هذين لساحران درج کی ہے اور لکھا ہے کہ اس میں تحویوں نے اختلاف کیا ہے اور اس کی کئی وجوہ بیان کی ہیں جن میں سے اول اور قومی وجہ یہ ہے کہ یہ بعض عربوں کی زبان ہے.اسے قبیلہ کنانہ اور قبیلہ ربیعہ کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے.(دیکھیں تفسیر کبیر از امام فخر الدین رازی جلد ۲۲ صفحہ ۷۳ سورة طه زیر آیت هذا مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت) اسی طرح حضرت امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان میں اسی مضمون کو جو حضرت مرزا صاحب نے بیان فرمایا ہے، بڑی شرح وبسط کے ساتھ اور مثالیں دے دے کر بیان فرمایا ہے.جس سے قرآن کریم کے اعجاز اور انہی کلام کی بے نظیری کا ثبوت ملتا ہے نہ کہ اس کے نقائص اور عیوب ظاہر ہوتے ہیں.پس یہ مولوی صاحب اگر پھر بھی حملہ کرنے سے باز نہیں آتے تو کیا یہ حضرت عثمان حضرت عائشہ ، حضرت سعید بن جبیر اور حضرت حسن رضی اللہ عنہم اور ان کے ساتھ امت کے مفسرین پر بھی حملہ کرنے کی جسارت کریں گے؟
نمبر ۳.قرآن اور میری وحی ایک ہیں.....قرآن کریم اور میری وحی میں کوئی فرق نہیں.(نزول مسیح صفحہ ۹۹) مصنف رسالہ نے یہ عبارت حضرت مرزا صاحب کی طرف منسوب کی ہے اور حوالہ کتاب نزول امسیح کے صفحہ ۹۹ کا دیا ہے.قارئین کرام! یہ ساری کتاب دیکھ لیں، کہیں بھی یہ عبارت آپ کو نہیں ملے گی.اب فیصلہ خود کر لیں کہ یہ مولوی صاحب جھوٹ کے عادی ہیں یا تحریف کے.یہ مضمون کہیں بھی کسی بھی کتاب میں موجود نہیں البتہ ایک اور بحث ملتی ہے جو اس قرآنی بیان پر مبنی ہے کہ لا نفرق بین احد من رسلہ کہ ایسے مومن نہ ہوں جو رسولوں میں فرق کرنے والے ہوں.اس کے پیش نظر اگر خدا کا کلام کسی پر وحی کی صورت میں نازل ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی وجہ سے اور اس پر ایمان لانے کے لحاظ سے اس میں فرق نہیں کیا جائے گا.البتہ ایک اور پہلو جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ صاحب وحی کے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے فرق پڑ جاتا ہے جو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ تلک الرسل فضلنا بعضم علی بعض کہ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے اس سے ملتی جلتی کوئی عبارت کہیں سنی یا پڑھی ہے مگر اپنی لاعلمی کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکے یا محمد اظلم سے کام لے رہے ہیں.اگر کوئی ان سے پوچھے کہ کیا وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلّم، موسیٰ و عینی و یونس علیہم السلام اور اسی طرح دیگر انبیاء علیہم السلام میں کوئی فرق نہیں سمجھتے تو کیا جواب دیں گے ؟ اگر کہیں کہ کوئی فرق نہیں کرتے تو کیا دوسرے کو حق ہے کہ عوام کو اشتعال دلائے؟ پس جب قرآن کریم کہتا ہے کہ لا نفرق بين احد من رسلہ تو اس کا معنی یہی ہوتا ہے کہ خدا تعالی کی وحی کے امین ہونے کے لحاظ سے ان میں فرق نہیں اور اسی
طرح ان پر ایمان لانے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں.البتہ صاحب وحی کے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے فرق ہو سکتا اور اس لحاظ سے بھی کہ وحی کے پیغام میں عمومیت ہے یا خصوصیت ، وحی کی ماہیت میں بھی فرق ہو سکتا ہے.حضرت مرزا صاحب جو اپنے آپ کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادنی خادم اور قرآن کریم کا سچا عاشق یقین کرتے تھے.آپ نے ہرگز کہیں بھی ان معنوں میں قرآن کی وحی سے اپنے پر نازل ہونے والے کلام الہی کا موازنہ نہیں کیا کہ شان اور مرتبہ کے لحاظ کے لحاظ سے آپ پر نازل ہونے والی وحی جو قرآن کریم کے الفاظ میں نہیں تھی نعوذ باللہ قرآن کریم کے ہم پلہ تھی.لیکن اس نقطہ نظر سے کہ خدا تعالی کی طرف سے نازل شدہ وحی ہے اس پر ایمان لانے کے لحاظ سے فرق کرنے کا کوئی جواز نہیں.نمبر ۴ میرے الفاظ خدا کے الفاظ ہیں " میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ تھے " ( تذکرہ صفحہ (۲۰) یہ بھی حسب عادت ان مولوی صاحب نے جھوٹ بولا ہے.تذکرہ میں کہیں بھی یہ عبارت موجود نہیں اور نہ ہی کسی اور کتاب میں یہ موجود ہے.البتہ حضرت مرزا صاحب کی کتاب براحسین احمدیہ حصہ چهارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۳ کے حاشیہ میں اس مضمون کی بحث ملتی ہے جو ہم بعینہ اسی طرح درج کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ یہ لوگ کس طرح بات کو توڑ مروڑ کر اس کا غلط مفہوم پیش کر کے حضرت مرزا صاحب کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں.اصل عبارت یہ ہے: " قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں".جب آپ نے یہ الہام شائع فرمایا تو : سوال پیش ہوا کہ الہام الہی میں ”میرے" کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے؟ یعنی کس کے منہ کی باتیں؟ فرمایا : "خدا کے منہ کی باتیں".اس طرح کے اختلاف ضمائر کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں".(بدر ) جولائی ۱۹۰۷ء ، صفحہ ۶) اس واقعہ کے سوا اور کوئی ملتا جلتا مضمون حضرت مرزا صاحب کی کسی بھی
کتاب میں موجود نہیں.جہاں تک قرآن کریم میں اختلاف ضمائر کی امثلہ کا تعلق ہے چند آیات بطور نمونہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں.ا.سورہ فاتحہ میں ہی غائب کے صیغہ سے بات شروع کر کے ایاک نعبد کہہ دیا اور صیغہ حاضر استعمال کیا.اس سے غلط مفہوم نکالنا کسی کا حق نہیں.٢- والذي نزل من السماء ماء بقدر فانشرنا به بلدة ميتا ( زخرف: ١٢ ) ٣- وهو الذي انزل من السماء ماه نا خرجنا به نبات کل شئی (انعام : (۱۰۰) الله الذي ارسل الرياح لتثير و سحابا فستناه إلى بلد ميت (فاطر: ۱۰) ترجمہ : آیت نمبر ۲ اور اس نے بادل سے ایک اندازہ کے مطابق پانی اتارا ہے پھر اس کے ذریعہ ہم نے ایک مردہ زمین کو زندہ کر دیا ہے.آیت نمبر ۳.اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا ہے پھر اس کے ذریعہ ہم نے ہر ایک چیز کی روئیدگی پیدا کی.آیت نمبر ۴.اور اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے جو بادل کو اٹھاتی ہیں.پھر ہم اس کو ایک مردہ ملک کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں.- نمبر ہ قرآن اٹھا لیا گیا....قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن حکیم ۱۸۵۷ء میں اٹھا لیا گیا تھا." یہ ایسا ظالمانہ اعتراض ہے کہ جس کا نہ سر ہے نہ پیر.حضرت مرزا صاحب کی ساری کتابیں دیکھ لیں کہیں بھی آپ کو ایسا عقیدہ نہیں ملے گا.اس ظالمانہ جھوٹ بولنے والے مولوی نے معلوم ہوتا ہے لوگوں کی پھنکار سے بچنے کے لئے نام نہیں لکھا لیکن خدا کی پھٹکار تو جہاں بھی ظالم ہو اس کو پہنچ جاتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کا ذکر اس مولوی نے ایک مجذوب کے کشف سے لیا ہے جس کو حضرت مرزا صاحب نے اپنی کتاب ازالہ اوہام (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۸۱۴۴۸۰) میں تحریر فرمایا ہے کہ ضلع لودھیانہ میں ایک نہایت متقی ، پارسا اور ولی اللہ مشہور تھے حضرت گلاب شاہ مجذوب قریباً ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنے
ایک صالح موجد اہلحدیث میاں کریم بخش صاحب سے اپنے ایک کشف کا ذکر کیا اور اس کی بناء پر فرمایا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور اب قادیان میں عیسی جوان ہو گیا ہے.وہ جب دعوی کرے گا تو مولوی اس کے مخالف ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ میاں کریم بخش صاحب کے گاؤں جمال پور کے پچاس سے زائد معززین کی گواہیاں شائع شدہ ہیں کہ وہ ایک نہایت را متباز ، پاک طینت اور پکے نمازی تھے.ان کا بیان پختہ گواہیوں کے ساتھ نیز میاں کریم بخش صاحب کی را متبازی پر مکمل گواہیاں ازالہ اوہام کے صفحہ ۲۸۱ سے ۴۸۷ پر درج ہیں.اس مجذوب کے کشف میں بیان کیا گیا : عینی اب جوان ہو گیا ہے اور لدھیانہ میں اگر قرآن کی غلطیاں نکالے گا اور قرآن کی رو سے فیصلہ کرے گا اور کہا کہ مولوی اس سے انکار کریں کے.پھر کہا کہ مولوی انکار کر جائیں گے.تب میں نے تعجب کی راہ سے پوچھا کہ کیا قرآن میں بھی غلطیاں ہیں، قرآن تو اللہ کا کلام ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ تفسیروں پر تفسیریں ہو گئیں اور شاعری زبان پھیل گئی (یعنی مبالغہ پر مبالغہ کرکے حقیقوں کو چھپایا گیا جیسے شاعر مبالغات پر زور دے کر اصل حقیقت کو چھپا دیتا ہے) پھر کہا کہ جب وہ عیسی آئے گا تو فیصلہ قرآن سے کرے گا." ایک پرانے بزرگ کی بات ہے حضرت مرزا صاحب کی طرف منسوب کی جا رہی ہے.دوسرے یہ کہ کشف ہونے کی وجہ سے ویسے بھی اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.البتہ جس طرح اس بزرگ نے تشریح کی ہے اسے پڑھ کر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد آ جاتا ہے کہ :.ياتي على الناس زمان لا يبقى من الاسلام الا اسمه ولا من القرن الا رسمس " (مشکوة - كتاب العلم) کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب اسلام کا فقط نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کریم کے صرف الفاظ رہ جائیں گے.
نمبر ۶ ہم نے قرآن کو قادیان کے قریب نازل کیا."انا انزلناه قريباً من القادیان." ہم نے قرآن کو قادیان کے قریب نازل کیا." (ازالہ اوہام صفحہ ۳۲ (20° پھر مولوی صاحب لکھتے ہیں.دو تین شہروں کا نام قرآن شریف میں اعزاز کے ساتھ لکھا ہوا ہے.مکہ ، مدینہ قادیان" (تذکره) قارئین کرام ! حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:." عالم کشف میں میرے دل میں اس بات کا یقین تھا کہ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے یعنی مکہ اور مدینہ اور قادیان کا." (خطبہ الہامیہ - روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۰ حاشیه ) پس یہ عالم کشف کی بات ہے.اور کشف پر اعتراض کرنا صرف جاہلوں کا کام ہے اب اس کے بعد ہم وہ پورا اقتباس درج کرتے ہیں جس میں سے مصنف نے ایک عبارت اچک کر اس پر اپنے افتراء کی عمارت تعمیر کی ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں."کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ " انا انزلنا قريبا من القاديان " تو میں نے سن کر تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے.تب میں نے نظر ڈالی جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے." (ازالہ اوہام حاشیہ صفحہ ۷۶ ۷۷ ) قارئین کرام ! جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں اس تمام عبارت میں کہیں اشارہ بھی قرآن کریم کے قادیان کے قریب نازل ہونے کا ذکر نہیں پس یہ نتیجہ نکالنا بالکل بجا
ہے کہ اس رسالہ کے مصنف نے عمداً پورا اقتباس پیش کرنے سے اس لئے گریز کیا ہے کہ ایک فقرے سے جو چاہیں نتیجہ نکالیں اور قاری لا علمی میں ان کے نکالے ہوئے نتیجہ پر ایمان لے آئے.اب رہا اس اقتباس کا نفسِ مضمون تو یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ خوابوں کی طرح کشفی نظاروں میں بھی بہت سی تعبیر طلب باتیں دکھائی جاتی ہیں جو ظاہری دنیا کے حقیقی واقعات سے مختلف ہوتی ہیں، انہیں جھوٹ قرار دینے والا بھی پاگل ہوگا اور ان پر اعتراض کرنے والا بھی جاہل مطلق.اب دیکھئے ! حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:.ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیاں مبارک آپ کی لحد سے جمع کرتے تھے اور ان میں سے بعض کو اختیار کرتے تھے.ہیبت کے سبب خواب سے بیدار ہوئے." یہ اللہ تعالی کا ان پر خاص احسان تھا کہ یہ رویا مصنف رسالہ جیسے کسی مولوی کے سامنے بیان نہیں فرمائی.ورنہ قیامت برپا ہو جاتی اس کی بجائے آپ نے خدا ترس، عارف باللہ اور عالم دین محمد بن سیرین سے ڈرتے ڈرتے یہ رویا بیان کی تو دیکھئے کیسی عمدہ روحانی تعبیر انہوں نے فرمائی اور انہوں نے یہ کہہ کر تسلی کہ: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور جناب کی سنت کی حفاظت میں تو بہت بڑے درجے تک پہنچے گا.یہاں تک کہ اس میں تیرا تصرف ہو جائے گا کہ صحیح اور غلط میں فرق کرے گا.؟ (کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۱۶ باب ذکر تبع تابعین) پس ایسی بے شمار مثالیں صالحین امت کی زندگیوں میں ملیں گی.ہم ان میں سے چند ایک ہدیہ قارئین کر رہے ہیں جو "قرآن مجید میں رو و بدل" کے مصنف کو مانے کو دل نہیں کرتا کیونکہ نہ وہ اس کوچے سے آشنا ہیں اور نہ اس کوچے کی باتیں سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں.چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کا درج ذیل کشف ملاحظہ فرمائیں.
حضرت مجدد الف ثانی کو ہمیشہ کعبہ شریفہ کی زیارت کا شوق رہتا تھا کیا مشاہدہ فرماتے ہیں کہ تمام عالم انسان، فرشتے، جن سب کی سب مخلوق نماز میں مشغول ہے اور سجدہ آپ کی طرف کر رہے ہیں.حضرت اس کیفیت کو دیکھ کر متوجہ ہوئے.توجہ میں ظاہر ہوا کعبہ معظمہ آپ کی ملاقات کے لئے آیا ہے اور آپ کے وجود باجود کو گھیرے ہوئے ہے.اس لئے نماز پڑھنے والوں کا سجدہ آپ کی طرف ہوتا ہے.اسی اثناء میں الہام ہوا کہ تم ہمیشہ کعبہ کے مشتاق تھے ہم نے کعبہ کو تمہاری زیارت کے لیئے بھیج دیا ہے اور تمہاری خانقاہ کی زمین کو بھی کعبہ کا رتبہ دے دیا ہے.جو نور کعبہ میں تھا اسی نور کو اس جگہ امانت کر دیا ہے." اس کے بعد کعبہ شریف نے خانقاہ مبارک میں حلول کیا اور دونوں کی زمین باہم مل جل گئی.اس زمین کو بیت اللہ کی زمین میں فناء اور بقاء اتم حاصل ہوا." ( حدیقہ محمودیه ترجمه روضه قیومیه صفه ۶۸ از حضرت ابوالفیض کمال الدین سرہندی) اب فرمائیے کہ آپ اس عبارت پر کیا کیا عنوانات سجائیں گے اور کیا کیا پھبتیاں کیں گے؟ اور کیسے کیسے اعتراض باندھیں گے؟ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمہ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے:.ایک روز حضرت قبلہ نے حلقہ نشین علماء کے سامنے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرے دونوں پاؤں کے نیچے مصحف حمید یعنی قرآن مجید ہے.اور میں اس کے اوپر کھڑا ہوا ہوں.اس خواب کی کیا تعبیر ہے.سارے علماء اس خواب کی تعبیر بیان کرنے سے عاجز آگئے.پس آپ نے مولوی محمد عابد سوکڑی علیہ الرحمتہ کو جو کہ بڑے متبحر اور متدین عالم تھے طلب کیا اور ان کے سامنے خواب بیان کیا مولوی صاحب آداب بجا لائے اور کہا کہ مبارک ہو کیونکہ قرآن شریف عین شریعت ہے اور جناب والا کے دونوں قدم ہر زمانہ میں جادہ شریعت پر مستحکم رہے ہیں اور اب بھی ہیں.چنانچہ یہ عمدہ تعبیر ہر کسی کے فکر و عقل کے مطابق تھی.انڈا
سب کو پسند آئی".تذکرہ خواجہ سلیمان تونسوی - اردو ترجمہ نافع السا لکین صفحه ۱۵۶) ہاں ہاں ! یہ عمدہ تعبیر ہر کسی کے فکر و عقل کے مطابق تھی سوائے مصنف رسالہ کی عقل و ا فکر کے! انہیں کے پیرو مرشد مولوی اشرف علی صاحب تھانوی لکھتے ہیں :." ایک ذاکر صالح کو مکشوف ہوا کہ احقر اشرف علی تھانوی کے گھر حضرت عائشہ آنے والی ہیں.انہوں نے مجھ سے کہا تو میرا ذہن معا اس طرف نقل ہوا کہ کم من عورت ہاتھ آنے والی ہے." (رساله الامداد ماه صفر ۱۳۳۵ھ) یہ قصہ تو ہماری سمجھ میں بھی نہیں آیا.تعجب ہے! خواب دیکھنا تو بے اختیاری اور بے بسی کی بات ہے لیکن تعبیر کرنا تو انسان کی اپنی عقل اور سمجھ کے دائرہ قدرت میں ہوتا ہے.پس مصنف رسالہ کے پیر طریقت کی یہ تعبیر ہماری عقل اور ہماری سمجھ سے بالا ہے لیکن یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی سمجھ اور عقل کے عین مطابق ہوگی.اور آخر میں مصنف رسالہ سے یہ درخواست ہے کہ اگر انہیں دسترس ہو تو سلسلہ قادریہ مجددیہ کے مشہور بزرگ پیر طریقت ، ہادی شریعت حضرت شاہ محمد آفاق رحمہ اللہ علیہ متوفی مئی ۱۸۳۵ء کے اس کشف کو پڑھ لیں جو انہوں نے اپنے ایک مزید فضل الرحمان گنج مراد آبادی کو بتایا جو کتاب "ارشاد رحمانی و فضل یزدانی" کے صفحہ ۵۸ میں مذکور ہے اور اس کشف کی تعبیر و تشریح بھی پڑھنی نہ بھولیں جو اسی کتاب میں مذکور ہے.ان چند مثالوں سے ہر قاری پر واضح ہو گیا ہو گا کہ کشوف ہمیشہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اگر ان کی عقل و سمجھ کے مطابق مناسب تعبیر نہ کی جائے تو نتائج انتہائی بھیانک ہو جاتے ہیں.اس کے بعد ہم پھر " قرآن مجید میں رد و بدل" کے مصنف کے اس افتراء کی طرف لوٹتے ہیں جو انہوں نے حضرت مرزا صاحب کے مذکورہ بالا کشف کو اپنے الفاظ میں ڈھال کر پیش کیا ہے.جس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے اس کشف میں جو فقرہ الہام
ہوا اس میں یہ کہا گیا تھا کہ قرآن قادیان کے قریب ہی اترا ہے.یہ مضمون حضرت مرزا صاحب نے کسی جگہ پر بھی بیان نہیں کیا بلکہ ہر جگہ یہی بیان کیا ہے کہ قادیان کے قریب جو کچھ نازل ہوا ہے وہ مسیح موعود اور اس پر نازل ہونے والے آسمانی نشانات ہیں.چنانچہ تذکرہ جہاں سے لدھیانوی صاحب نے یہ کشف لیا ہے وہیں پر براہین احمدیہ کا یہ حوالہ لکھا ہے:.انا انزلناه قريبا من القاديان و با لحق انزلنه و با لحق نزل --- یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الهام پر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے.اور ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے.اور بضرورت حقہ اترا ہے." (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۴۹۸ روحانی خزائن جلد ۱ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ایک اور جگہ لکھا ہے:.اس الهام پر نظر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالی کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیشگوئی کے پہلے سے لکھا گیا تھا." (ازالہ اوہام صفحہ ۷۳ حاشیہ بحوالہ تذکرہ حاشیہ ) 000
حقیقت حال قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس رسالہ میں جو حملہ کا طریق اختیار کیا گیا ہے صاف بتا رہا ہے کہ یہ دیوبندی طرز تحریر ہے.غلط معلومات، تحریف، تلبیس اور جھوٹے الزامات لگانا سب ان ہی کی ادائیں ہیں.در اصل عوام کو دھوکہ دینے کی خاطر یہ اس طرح چور چور کی آوازیں بلند کر رہے ہیں جس طرح ایک چور لوگوں کی پکڑ سے بچنے کے لئے دوڑتا بھی چلا جاتا ہے اور چور چور کی آوازیں بھی بلند کرتا چلا جاتا ہے.ان لوگوں کی طرف سے حضرت مرزا صاحب پر یہ الزام کہ نعوذ باللہ آپ نے قرآن کریم میں ردو بدل کیا ہے یا اس کی ہتک کی ہے، اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ کم ہی اس دور میں ایسا جھوٹ بولا گیا ہو گا ---- قرآن کریم کی مدح میں اور قرآن کریم کی شان میں آپ کا نظم و نثر پر مشتمل ، عربی، اردو اور فارسی میں کلام غیر معمولی عظمت کا حامل ہے اور قرآن کے عشق سے لبریز آپ کی تحریرات پڑھ کر انسان وجد میں آجاتا ہے.ان تحریرات میں سے نمونہ چند پیش کرنے سے قبل ہم بڑے افسوس کے ساتھ یہ عرض کرتے ہیں کہ یہ دیوبندی علماء ہی ہیں کہ جنہوں نے بارہا ایسے ایسے خوفناک رنگ میں قرآن کریم کی گستاخی کی ہے کہ ان کی عبارتیں پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے.محض چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ قارئین خود فیصلہ کر لیں کہ دراصل جور کون ہے.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں.: بحالت خواب قرآن پر پیشاب کرنا اچھا ہے ایک شخص نے کہا کہ ”میں نے ایسا خواب دیکھا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میرا ایمان نہ جاتا رہے.حضرت نے فرمایا بیان تو کرو.ان صاحب نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ قرآن مجید پر پیشاب کر رہا ہوں.حضرت نے فرمایا یہ تو بہت اچھا خواب ہے." (افاضات یومیہ تھانوی صفحه ۱۳۳ فتاوی رشیدیہ صفحہ ۱۰۹ و مزید الجید تھانوی صفحه ۶۲۱ سطر ۲۳)
خدا کے کلام لفظی یعنی قرآن مجید کا جھوٹا ہونا ممکن ہے اس کے لئے کافی بحث موجود ہے.دیکھئے 1 لجهد المقل از صدر دیو بند صفحه ۴۴ بوادر النوادر از تھانوی صفحه ۲۱۰ و صفحه ۴۸۱ قرآن کو پاؤں تلے رکھنا جائز ہے " کسی عذر سے قرآن مجید کو قارورات میں ڈال دینا کفر نہیں، رخصت ہے اور کوئی اور چیز نہ ہو تو قرآن شریف کو پاؤں کے نیچے رکھ کر اونچے مکان سے کھانا اتار لینا درست ہے اور بوقت حاجت قرآن شریف کو کسی کے نیچے ڈال لیتا رہا ہے." تحریف اوراق صفحه ۴ بحوالہ وہابی نامه صفحه ۳۵) دیکھیں ! کھانے پر تو مولوی سے برداشت نہیں ہو سکتا.نہ اسے قرآن دکھائی دیتا ہے نہ کچھ اور.کھانا ضرور اتارنا ہے چاہے قرآن کریم کو پاؤں تلے روند نا بھی پڑے.اب آخر میں ہم حضرت مرزا صاحب کی تحریرات میں سے چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کس طرح قرآن کریم پر فریفتہ تھے اور آپ کے جسم کا رواں رواں اس کے عشق سے سرشار تھا.اور آپ کی روح اس کی محبت سے معمور و مخمور تھی.آپ فرماتے ہیں:." قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا.اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت (ملفوظات جلد ۳ صفحه ۷ (۵) مسلماں ہے جمال و حسن قرآن نور جان ہر قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نیز فرمایا نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر لوکوئے مماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے (براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد نمبر ا ص ۱۹۸ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے اپنے فارسی کلام میں قرآن پاک کی مدح ان الفاظ میں فرمائی.ه از نور پاک قرآن صبح صفا و میده.برنچہ ہائے دلہا باد صبا وزیده قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہو گئی اور دلوں کے غنچوں پر باد صبا چلنے گئی این روشنی و لمعان شمس الضحی ندارد.و این دلبری و خوبی کس در قمر ندیده ایسی روشنی اور چمک تو دوپہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں.یوسف بقعر چاه محبوس ماند تنا.ویں یوسفے که تن با از چاه برکشیده یوسف تو ایک کنوئیں کی تہ میں اکیلا گرا تھا مگر اس یوسف نے بہت سے لوگوں کو کنوئیں.میں سے نکالا.از مشرق معافی صدہا و قایق آورد.قد طلال نازک زان ناز کی خمیده منبع حقایق سے یہ سینکڑوں حقایق اپنے ہمراہ لایا ہے.ہلال نازک کی کمر ان حقایق سے جھک گئی.
کیفیت علومش دانی چه شان دارد.شهدیست آسمانی از وحی حق چکیده تجھے کیا پتہ کہ اس کے علوم کی حقیقت کس شان کی ہے؟ وہ آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹیکا.اے کان دلربائی، دانم که از کجائی.تو نور آں خدائی میں مخلق آفریده اے کان حسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی.فیلم نماند باکس، محبوب من توئی بس.زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریاد رس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے.(براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه صفحه ۳۰۵٬۳۰۴ روحانی خزائن جلد ۱) قرآن مجید سے محبت اس کے مقام اور اس کی عظمت کے بیان میں فرمایا : والله انه درة يتيمة ظاهره نور و باطنه نور و فوقه نور و تحته نور وفي كل لفظه و كلمته نور - جنته روحانيه ذللت قطوفها تذليلا و تجري من تحتها الأنهار - كل ثمرة السعادة توجد فيه و كل قبس يقتبس منه ومن دونه خرط القتاد موارد فيضه سائغة - فطوبى للشاريين وقد قذف في قلبي انوار سند ماکان لیان استحصلها بطريق آخر ووالله لو لا القرآن ما كان لي لطف -حیاتی رايت حسنه ازيد من مائة الف يوسف - فملت اليه اشد میلی و اغرب هو في قلبي هو رباني كما يربى الجنين ولد فى قلبی اثر عجیب و حسنه يراودنى عن نفسي واني ادركت بالكشف - ان حظيرة القدس تسقى بماء القرآن وهو بحر مواج من مك الحياة - من شرب منه فهو يحمي بل يكون من المحيين آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۴۵ روحانی خزائن جلد (۵) ترجمہ -: خدا کی قسم ! قرآن کریم ایک نایاب اور انمول موتی ہے اس کا
ظاہر بھی نور ہے اور باطن بھی.اس کے اوپر بھی نور ہے اور نیچے بھی اور اس کا ایک ایک لفظ نور ہے.یہ روحانیت کا باغ ہے جس کے بکثرت پھل جھکے ہیں اور جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.خوش بختی کے تمام ثمرات اس میں پائے جاتے ہیں.ہر روشنی اس سے خاص کی جا سکتی ہے اس کے بغیر اس کا حصول محال ہے.اس کے فیض کے چشمے بہت ہی شیریں ہیں پس اس سے پینے والوں کو مبارک ہو.یقیناً میرے دل میں اس کے انوار جاگزیں ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ان کا حصول کسی اور ذریعہ سے میرے لئے ممکن نہ تھا.خدا کی قسم اگر یہ قرآن نہ ہوتا تو میری زندگی بد مزہ تھی.میں نے اس کا حسن لاکھ یوسفوں سے بھی زیادہ پایا ہے بس میں اس کی طرف کلیتہ راغب ہو گیا ہوں اور میرے دل میں اس کی محبت گھر کر گئی ہے.اس نے مجھے اس طرح نشود نما دی جس طرح جنین کو پرورش دی جاتی ہے.میرے دل پر اس کا عجیب اثر ہے.اس نے میرے نفس کو موہ لیا ہے.مجھے کشف کے ذریعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ باغ قدس کو آب قرآن سے سیراب کیا جاتا ہے.وہ آب حیات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے.جو بھی اس سے پیتا ہے وہ زندہ ہے بلکہ وہ زندہ کرنے والوں میں سے ہو جاتا ہے.====== تمت بالخير =====