Khutbat Waqfe Jadid

Khutbat Waqfe Jadid

خطبات وقف جدید

فرمودہ خلفائے کرام 1957ء تا 2007ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

خلبات وقف جديد فرمودہ خلفائے کرام 2007.1957

Page 2

وعد الله الذين أمنوا لكم وعملوا الصلحت لبيتهم فى الأرْضِ كَما التخلف الذِينَ مِن قبل خلافت احمدیہ صد سالہ جو الی ۱۹۰۸ - ۲۰۰۸ میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے.مبارك سومبارك خطبات وقف جدید بسلسلہ خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی

Page 3

خطبات وقف جدید بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ وقف جدید کی تحریک حضرت خلیفہ المسح الثای نوراللہ مرقدہ کی بابرکت تحریکات میں سے آخری اور ایک بہت ہی اہم اور مبارک تحریک ہے جو آپ نے القائے الہی کے تحت رشد و اصلاح کے لئے جاری فرمائی.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے 19 جولائی 1957ءکوعیدالاضحیہ کے مبارک اور تاریخی موقعہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی مثال بیان کرتے ہوئے اس مثال کو زندہ رکھنے کیلئے احمدی نوجوانوں کو خدمت دین کی اس اہم تحریک کی طرف متوجہ کیا اور اشاعت دین کے سلسلہ میں بزرگوں اور صوفیاء کی مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا:." خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمارے لئے رکھے تھے تا کہ ہمارے نوجوان ان میں کام کر کے حضرت اسمعیل سے مشابہت حاصل کریں.پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے نوجوان افریقہ کے جنگلات میں بھی کام کر رہے ہیں.مگر میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی اس طریق کو جاری کیا جا سکتا ہے.چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نو جوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی “ اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی " کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں.وہ اپنی زندگیاں براہِ راست میرے سامنے وقف کریں تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کرسکیں.وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے، اور آج بھی اس میں چشتیوں کی ضرورت ہے، سہر وردیوں کی ضرورت ہے اور نقشبندیوں کی ضرورت ہے.اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت شہاب الدین

Page 4

خطبات وقف جدید || صاحب سہروردی اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج ” جیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں.“ پھر حضور انور نے کچھ عرصہ کے بعد اس وقف کی مزید تفصیلات اور کام کے طریقہء کار اور سکیم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:.” میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لیکر کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر.یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو.اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو.یا دکان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے.ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہر حال ابتداء دس واقفین سے کی جائے گی.اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1957 ء) اس سکیم کی تفصیل یہ ہے کہ.......بعض واقفین کو اگر ممکن ہو سکا تو ہم کمپونڈری بھی سکھا دیں گے اور کچھ رقم دواؤں کیلئے بھی دے دیں گے اور ان سے جو آمد ہوگی وہ ہم انہی پر خرچ کریں گے.ان سے خود کچھ نہیں لیں گے.اسی طرح ہم بعض واقفین زندگی کو کہیں گے کہ وہاں سکول کھول دیں جو ابتداء میں چاہے پرائمری تک ہی ہوں بعض واقفین کو اس علاقہ میں جن میں انکا تقرر کیا جائے روز مرہ کی ضرورت کی چیزوں کی دوکانیں کھلوا دیں...بہر حال دوست اس سکیم کو نوٹ کر لیں.اس کے لئے اپنے نام پیش کریں اور اس سلسلے میں اگر کوئی مفید بات ان کے ذہن میں آئے تو اس سے بھی اطلاع دیں.“ تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1957ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی جماعت کی ترقی اور رشد و ہدایت کے سلسلہ میں وقف جدید کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:.” ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے

Page 5

خطبات وقف جدید III وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا...اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑیگا اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب میری بی نئی سکیم پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب میں بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دئے جائیں جو اس علاقے کے لوگوں کے اندر رہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں وہ انہیں پڑھا ئیں بھی اور رشد و اصلاح کا کام بھی کریں اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے...پس جب تک ہم اس مہا جال کو نہ پھیلائیں گے اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.“ (خطبه جعه فرموده 3 جنوری 1958ء) اس تحریک کی اہمیت ، ضرورت اور کامیابی کے لئے جو جوش حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے قلب مطہر میں موجزن تھا اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں، کپڑے بیچنے ، پڑیں میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے تو خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا.پس میں اتمام حجت کے لئے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں تا کہ مالی امداد کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہوا اور وقف کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو.“ (پیغام حضرت خلیفہ مسیح الثانی الفضل 7 جنوری 1958 ء) پھر حضرت خلیفہ امسح الثالث نے وقف جدید کے سلسلہ میں جماعت کو ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.اس وقت حضرت مصلح موعود کو یہ نظر آ رہا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک معلم ضرور بیٹھا دیا جائے...جماعت خود بھی احساس رکھتی ہے کہ جب تک اسے کوئی معلم نہ دیا جائے وہ ان کی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتی

Page 6

خطبات وقف جدید IV جو تربیت کے لحاظ سے اس پر عائد ہوتی ہیں.“ خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 1966ء) حضرت خلیفہ المسح الرابع اس تحریک کے آغاز سے تا انتخاب خلافت براہ راست اس سے وابستہ رہے.آپ اس تحریک کی اغراض کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.حضور نے جب اس تحریک کا آغاز فرمایا تو اولین ممبران وقف جدید میں خاکسار کو بھی مقرر فرمایا.ابتدائی نصیحتیں جو مجھے کیں ان میں ایک تو یہی دیہاتی تربیت کی طرف توجہ دینے کے متعلق ہدایت تھی اور دوسرے ہندوؤں میں خاص طور پر تبلیغ کی 66 تاکید کی گئی تھی.“ (خطبہ جمعہ 27 دسمبر 1985ء) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موجودہ زمانے میں بڑھتی ہوئی ضروریات اور تقاضوں کے پیش نظر تحریک وقف جدید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اب زمانہ ہے کہ ہر گاؤں میں، ہر قصبہ میں اور ہر شہر میں اور وہاں کی ہر مسجد میں ہمارا مربی اور معلم ہونا چاہئے.اب اس کے لئے بہر حال جماعت کو مالی قربانیاں کرنی پڑیں گی تبھی ہم مہیا کر سکتے ہیں.پھر جماعت کے افراد کو اپنی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اپنے بچوں کی قربانیاں کرنی پڑیں گی کہ ان کو اس کام کے لئے پیش کریں، وقف کریں.اور یہ سب ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر بھی قائم ہوں.ہم نے صرف آدمی نہیں بٹھانے بلکہ تقویٰ پر قائم آدمیوں کی ضرورت ہے.آئندہ سالوں میں انشاء اللہ واقفین نو بھی میدان عمل میں آجائیں گے لیکن جو ان کی تعداد ہے وہ بھی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتے.یہ کام وسیع طور پر ہمیں کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آدمیوں کی ضرورت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے والے مربیان اور معلمین ہمیں مہیا فرما تار ہے.“ خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2006ء) وقف جدید کے مقاصد کی تکمیل لئے جہاں واقف زندگی معلمین کی ضرورت ہے وہاں مالی قربانی کی بھی بے انتہا ضرورت ہے.اور اس کے لئے وقف جدید کے تحت چندہ وقف جدید بالغان ، چندہ دفتر اطفال، قیام مراکز اور نگر پارکر جیسی مدات ہیں جن مخلصین بچے ، بوڑھے، جوان ، خواتین اپنی

Page 7

V استطاعت کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہے الحمد للہ.خلفاء کرام وقف جدید کے آغاز سے ہی اس تحریک کے متعلق مختلف خطبات،خطابات اور ہدایات ارشاد فرماتے رہے ہیں.اب خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے زیر نظر کتاب میں وقف جدید کے آغاز سے لے کر 2007 ء تک پچاس سالوں کے وہ تمام فرمودات جو خلفائے کرام نے وقف جدید کی تحریک کے حوالے سے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے ہیں، جمع کر دیے گئے ہیں.یہ ایک کتاب نہیں بلکہ نہایت قیمتی خزانہ ہے جو افادہ عام کے لئے شائع کیا جارہا ہے.اللہ کرے کہ یہ کتاب وقف جدید کے تمام مقاصد عالیہ کو پورا کرنے والی ہو اور احباب جماعت کو اپنے محبوب آئمہ کے ارشادات کی روشنی میں اپنی زندگی سنوارنے میں مدد گار ثابت ہو.آمین.آخر پر خاکساران تمام احباب کا شکر گزار ہے جنہوں نے اس کتاب کے مختلف مراحل میں تعاون فرمایا.اللہ تعالیٰ سب احباب کو اجر عظیم سے نوازے.آمین

Page 8

1 حضرت مصلح موعود خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 9 / جولائی 1957 ء بمقام ربوہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ عید قربانیوں کی عید ہے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی یاد میں ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی یہ نہیں تھی جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انھیں ذبح کرنے کے لئے حضرت ابراہیم نے زمین پر لٹا دیا تھا لیکن بعد میں خدا تعالیٰ سے الہام پا کر آپ نے ذبح کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور الہی اشارہ کی بنا پر ان کی جگہ ایک بکرا ذبح کر دیا.میں بارہا بتا چکا ہوں کہ در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کے وادی مکہ میں چھوڑ آنے کے متعلق یہ رویا دکھائی گئی تھی کیونکہ ایک بے آب و گیاہ وادی میں بیٹھ جانا بھی بہت بڑی قربانی ہے جیسے شروع شروع میں ربوہ میں چند آدمی خیمے لگا کر بیٹھ گئے تھے تا کہ اسے آباد کیا جائے.وہ آدمی در حقیقت اس وقت اس اسمعیلی سنت کو پورا کر رہے تھے، وہ صرف اس لئے یہاں بیٹھ گئے تھے کہ آئندہ یہاں ربوہ آباد کیا جائے.اگر وہ قربانی نہ کرتے اور ربوہ میں آکر خیمے لگا کر نہ بیٹھ جاتے تو نہ یہ شہر بنتا اور نہ سڑکیں بنتیں ، نہ بازار بنتے ، نہ مکانات بنتے اور یہ جگہ پہلے کی طرح چٹیل میدان ہی رہتی.امریکہ میں جو فری تھنگنگ ( Free Thinking ) کی تحریک پیدا ہوئی ہے اس کا بانی ایک فرانسیسی شخص ہے اس نے اپنا قصہ یہی لکھا ہے کہ میں ایک دن اپنے باپ کے ساتھ ایک پادری کا وعظ سننے گیا تو وہاں اس نے یہ کہا کہ ابراہیم علیہ السلام بڑا نیک انسان تھا اس نے خدا کی خاطر اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر دی.وہ لکھتا ہے کہ اتفاق کی بات ہے میں بھی اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہی تھا.میں وہاں سے نکل کر بھاگا.میرے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر میرے باپ کو یہ خطبہ پسند آ گیا تو وہ کہیں میری گردن پر بھی چھری نہ پھیر دے.میں سمندر پر گیا وہاں ایک امریکہ جانے والا جہاز کھڑا تھا.میں اس میں نفس گیا اور کسی کو نہ میں چھپ کر بیٹھ گیا اور اس طرح امریکہ پہنچ گیا.یہاں آکر میں نے یہ دہریوں والی تحریک جاری کی.غرضیکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کو غلط شکل میں پیش کیا جاتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رؤیا کا یہ مطلب تھا کہ آپ اپنی مرضی سے اور یہ جانتے بوجھتے ہوئے

Page 9

2 حضرت مصلح موعود کہ وادی مکہ ایک بے آب و گیاہ جنگل ہے اور وہاں کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا، اپنی بیوی اور بچے کو وہاں چھوڑ آئیں.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا.جب حضرت اسمعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو آپ نے اپنی نیکی اور تقویٰ کے ساتھ اپنے گر دلوگوں کا ایک گروہ جمع کر لیا اور انھیں نماز اور صدقہ و خیرات کی تحریک کر کے اور اس طرح عمرہ اور حج کے طریق کو جاری کر کے آپ نے مکہ کو آباد کرنا شروع کیا.چنانچہ ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں صدیوں سے مکہ آباد چلا آتا ہے قریباً تین ہزار سال سے برابر خانہ کعبہ آباد ہے اور اس کا طواف اور حج کیا جاتا ہے.پس عیدالاضحیہ کی قربانی بے شک اس قربانی کی یاد دلاتی ہے.مگر اس قربانی کی یاد نہیں دلاتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ظاہری شکل میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری پھیر دی در حقیقت قربانیوں کی عید ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے بعد دین کے لئے جنگلوں میں جائیں اور وہاں جا کر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کریں اور لوگوں سے اس کے رسول کا کلمہ پڑھوائیں.جیسا کہ ہمارے صوفیاء کرام کرتے چلے آئے ہیں.اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً ہماری قربانی حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ ہوگی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ قربانی بالکل حضرت اسمعیل کی قربانی کی طرح ہو جائے گی کیونکہ دلوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے حضرت اسمعیل کے دل کی حالت اور تھی اور ہمارے زمانے کے لوگوں کے دلوں کی حالت اور ہے.مگر بہر حال وہ حضرت اسمعیل کی قربانی کے مشابہ ضرور ہو جائے گی.پس تم اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش کرو.میرے نزدیک اس زمانہ میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ قربانی وہ مبلغ کر رہے ہیں جو مشرقی اور مغربی افریقہ میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.وہ غیر آباد ملک ہیں جن میں کوئی شخص خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام نہیں جانتا تھا لیکن ان لوگوں نے وہاں پہنچ کر انھیں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام بتایا.میں پہلے بھی ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ مغربی افریقہ کے ایک ملک میں عیسائیوں نے اپنے پریس میں احمدی اخبار کا چھاپنا بند کر دیا تو ہمارے مبلغ انچارج جماعت کا علیحدہ پر یس لگانے کے سلسلے میں چندہ اکٹھا کرنے کے لئے ایک جگہ گئے.وہاں انھیں ایک ایسا آدمی ملا جسے انھوں نے بڑی تبلیغ کی تھی مگر اس نے احمدیت قبول نہیں کی تھی.بعد میں اس کے پاس ایک مقامی مبلغ پہنچا تو اس نے کہا کہ تمہارے بڑے پاکستانی مبلغ نے مجھے تبلیغ کی ہے.لیکن اگر یہ دریا ( وہ اس وقت ایک دریا کے کنارے جا رہے تھے ) اپنا رخ پھیر کر الٹی طرف چل پڑے تو یہ بات ممکن ہے لیکن میرا احمدیت کو قبول کرنا ناممکن ہے.لیکن کچھ دن اس مبلغ کی صحبت میں رہنے کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ احمدی ہو گیا ہمارے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ جب میں وہاں چندہ لینے گیا تو اتفا قاوہ شخص اس شہر

Page 10

3 حضرت مصلح موعود میں آیا ہوا تھا.وہ مجھے ملا اور کہنے لگا کہ آپ یہاں کیسے تشریف لائے ہیں؟ میں نے اسے اپنی آمد کا مقصد بتایا اور کہا کہ عیسائیوں نے اپنے پریس میں ہمارا اخبار شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر تمہارے خدا میں کوئی طاقت ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کوئی معجزہ دکھائے اور تمہارا اپنا پر لیس جاری کر دے.پس میں اپنا علیحدہ پریس لگانے کے لئے چندہ اکٹھا کرنے آیا ہوں.اس پر وہ احمدی دوست کہنے لگا کہ مولوی صاحب یہ تو بڑی بے غیرتی ہے کہ اب ہمارا اخبار ان کے پریس میں چھپے.آپ یہاں کچھ دیر انتظار کریں میں ابھی آتا ہوں.اُس کا گاؤں قریب ہی تھا وہ وہاں گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر اس نے 500 پونڈ کی رقم مولوی صاحب کے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ پریس کے سلسلہ میں یہ میرا چندہ ہے اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مد میں 2500 پونڈ کے قریب چندہ جمع ہو چکا ہے اور اب سنا ہے کہ پریس لگ رہا ہے یا کم از کم وہ انگلستان سے چل چکا ہے غرض ہمارے یہ مبلغ ایسے ممالک میں کام کر رہے ہیں جہاں جنگل ہی جنگل ہیں شروع شروع میں جب ہمارے مبلغ وہاں گئے تو بعض دفعہ انھیں وہاں درختوں کی جڑیں کھانی پڑتی تھیں اور وہ نہایت تنگی سے گزارہ کرتے تھے.جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہو جاتی تھی.گو اب ہمارے آدمیوں کے میل ملاپ کی وجہ سے ان لوگوں میں کچھ نہ کچھ تہذیب آگئی ہے.ان ممالک کو سفید آدمیوں کی قبر کہا جاتا ہے، کیونکہ وہاں کھانے پینے کی چیزیں نہیں ملتیں ، جب سفید آدمی وہاں جاتے ہیں تو وہ مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور پیچش وغیرہ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.غرض اس زمانے میں حضرت اسمعیل علیہ السلام سے زیادہ سے زیادہ مشابہت ہمارے مبلغوں کو حاصل ہے.جو اس وقت مشرقی اور مغربی افریقہ میں کام کر رہے ہیں.کیونکہ وہ ملک اس وقت بھی جنگل ہیں اور دنیا میں کوئی اور ملک جنگل نہیں، امریکہ بھی آباد ہے، یورپ بھی آباد ہے اور مڈل ایسٹ بھی اب آباد ہو چکا ہے لیکن افریقہ کے اکثر علاقے اب بھی غیر آباد ہیں.ان میں تبلیغ کرنے والوں کو بڑے بڑے لمبے سفر کرنے پڑتے ہیں اور بڑی جانکاہی کے بعد لوگوں تک اسلام پہنچانا پڑتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمارے لئے رکھے تھے تا کہ ہمارے نوجوان ان میں کام کر کے حضرت اسمعیل علیہ السلام سے مشابہت حاصل کریں.پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے نوجوان افریقہ کے جنگلات میں بھی کام کر رہے ہیں.مگر میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی اس طریق کو جاری کیا جا سکتا ہے.چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی " کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں.وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں

Page 11

4 حضرت مصلح موعود تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں.وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے، اور آج بھی اس میں پشتوں کی ضرورت ہے، سہر وردیوں کی ضرورت ہے اور نقشبندیوں کی ضرورت ہے.اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت معین الدین صاحب چشتی ،حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج ” جیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ ویران ہو جائے گا جتنا مکہ مکرمہ کسی زمانہ میں آبادی کے لحاظ سے ویران تھا.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں وہ صدر انجمن احمد یہ یا تحریک جدید کے ملازم نہ ہوں بلکہ اپنے گزارہ کے لئے وہ طریق اختیار کریں جو میں انھیں بتاؤں گا.اور اسی طرح آہستہ آہستہ دنیا میں نئی آبادیاں قائم کریں اور طریق آبادی کا یہ ہوگا کہ وہ حقیقی طور پر تو نہیں ہاں معنوی طور پر ربوہ اور قادیان کی محبت اپنے دلوں سے نکال دیں اور باہر جا کرنے رہوے اور نئے قادیان بسائیں.ابھی اس ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں میلوں میل تک کوئی بڑا قصبہ نہیں وہ جا کر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسب ہدایت وہاں تبلیغ بھی کریں اور لوگوں کو تعلیم بھی دیں، لوگوں کو قرآنِ کریم اور حدیث پڑھائیں اور اپنے شاگر د تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں اس طرح سارے ملک میں وہ زمانہ دوبارہ آجائے گا جو پرانے صوفیاء کے زمانہ میں تھا.دیکھو ہمت والے لوگوں نے پچھلے زمانے میں بھی کوئی کمی نہیں کی.یہ دیو بند جو ہے یہ ایسے ہی لوگوں کا قائم کیا ہوا ہے.مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کی ہدایت کے ماتحت یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور آج سارا ہندوستان ان کے علم سے منور ہو رہا ہے.حالانکہ وہ زمانہ حضرت معین الدین صاحب چشتی کے زمانہ سے کئی سو سال بعد کا تھا لیکن پھر بھی روحانی لحاظ سے وہ اس سے کم نہیں تھا جبکہ ان کے زمانہ میں اسلام ہندوستان میں ایک مسافر کی شکل میں تھا اس زمانہ میں بھی وہ ہندوستان میں ایک مسافر کی شکل میں ہی تھا.حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے اپنے شاگردوں کو ملک کے مختلف حصوں میں بھجوایا جن میں سے ایک ندوہ کی طرف بھی آیا پھر ان کے ساتھ اور لوگ مل گئے اور ان سب نے اس ملک میں دین اور اسلام کی بنیاد میں مضبوط کیں.اب چاہے ان کی اولاد خراب ہوگئی ہے اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو بچائے کہ وہ خراب نہ ہوں ) لیکن ان کی اولادوں کی خرابی ان کے اختیار میں نہیں تھی انھوں نے تو جس حد تک ہو سکا دین کی خدمت کی بلکہ جہاں تک صلمی اولا د کا تعلق

Page 12

5 حضرت مصلح موعود ہے مولا نا محمد قاسم صاحب کی اولاد پھر بھی دوسروں سے بہت بہتر ہے.میں جب دیو بند دیکھنے گیا تو مولویوں نے ہماری بڑی مخالفت کی مگر مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے بیٹے یا پوتے جو ان دنوں دیو بند کے منتظم تھے انھوں نے میرا بڑا ادب کیا اور مدرسہ والوں کو حکم دیا کہ جب یہ لوگ آئیں تو ان سے اعزاز کے ساتھ پیش آئیں بعد میں انھوں نے میری دعوت بھی کی لیکن میں پیچش کی وجہ سے اس دعوت میں شریک نہ ہوسکا.میرے ساتھ اس سفر میں مولوی سید سرور شاہ صاحب ، حافظ روشن علی صاحب اور قاضی سید امیرحسین صاحب بھی تھے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے اندرا بھی مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی والی شرافت باقی تھی اگر ان میں وہ شرافت نہ ہوتی تو ہمارے جانے پر جیسے اور مولویوں نے مظاہرے کئے تھے وہ بھی مظاہرہ کرتے لیکن انھوں نے مظاہرہ نہیں کیا اور بڑے ادب سے پیش آئے اور بڑی محبت کے ساتھ انھوں نے ہماری دعوت کی اور استقبال کیا بعد میں انھوں نے مولوی عبید اللہ صاحب سندھی کو ہمارے پاس بھجوایا اور معذرت کی کہ مجھے پتہ لگا ہے کہ بعض مولویوں نے آپ سے گستاخانہ کلام کیا ہے مجھے اس کا بڑا افسوس ہے میں انھیں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ ایسا نہ کیا کریں لیکن وہ سمجھتے نہیں.اس وقت مولوی عبید اللہ صاحب سندھی جو بڑے متمدن اور مہذب آدمی تھے ، ان کے مشیر کار تھے اور وہ مولوی صاحب کا بڑا لحاظ کرتے تھے اور انھیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی باتیں مانتے تھے.لیکن اصل بات یہی ہے کہ ماننے والے کے اندر جب تک اطاعت کا مادہ نہ ہو تو چاہے اسے کوئی کتنا بڑا آدمی کیوں نہ مل جائے وہ مفید نہیں ہوسکتا.مولوی محمد قاسم صاحب کے یہ بیٹے یا پوتے جن کا میں نے ذکر کیا ہے.ان کا نام غالبا محمد یا احمد تھا.مولوی عبید اللہ صاحب سندھی انھیں ہمیشہ صحیح مشورہ دیتے رہتے تھے اور ان سے ایسا کام لیتے تھے جس سے اسلامی اخلاق صحیح طور پر ظاہر ہوں چنانچہ اس کا یہ نتیجہ تھا کہ انھوں نے میرا بڑا ادب کیا اور دعوت کی اور بعد میں مولوی عبید اللہ صاحب سندھی کو میرے پاس بھیج کر معذرت کی کہ بعض مولویوں نے آپ کے ساتھ گستاخانہ کلام کیا ہے جس کا مجھے افسوس ہے.آپ اس کی پروانہ کریں.تو ہماری جماعت کے لئے اس ملک میں بھی ابھی صوفیاء کے طریق پر کام کرنے کا موقعہ ہے جیسا کہ دیو بند کے قیام کے زمانہ میں ظاہری آبادی تو بہت تھی لیکن روحانی آبادی کم ہوگئی تھی روحانی آبادی کی کمی کی وجہ سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے دیکھ لیا تھا کہ یہاں اب روحانی نسل جاری کرنی چاہئے تا کہ یہ علاقہ اسلام اور روحانیت کے نور سے منور ہو جائے.چنا نچہ انھوں نے بڑا کام کیا جیسے انکے پیر حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے بڑا کام کیا تھا اور جیسے ان کے ساتھی حضرت اسمعیل صاحب شہید کے بزرگ اعلیٰ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے بڑا کام کیا تھا.یہ سارے کے سارے لوگ اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.درحقیقت ہر زمانہ کا فرستادہ

Page 13

6 حضرت مصلح موعود اور خدا تعالیٰ کا مقرب بندہ اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ ہوتا ہے.حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے ( باقی انبیاء اپنے اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے ) سید احمد صاحب سرہندی اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ تھے اور سید احمد صاحب بریلوی اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ تھے.پھر دیو بند کے جو بزرگ تھے وہ اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ تھے.انھوں نے اپنے پیچھے ایک نیک ذکر دنیا میں چھوڑا ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے اسے یادرکھنا چاہئے اور اس کی نقل کرنی چاہئے.سو آج بھی زمانہ ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جن میں اس قربانی کا مادہ ہو کہ وہ اپنے گھر بار سے علیحدہ رہ سکیں ، بے وطنی میں ایک نیا وطن بنائیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کے ذریعہ سے تمام علاقہ میں نورِ اسلام اور نور ایمان پھیلائیں ، اپنے آپ کو اس غرض کے لئے وقف کریں.میرے نزدیک یہ کام بالکل نا ممکن نہیں ، بلکہ ایک سکیم میرے ذہن میں آرہی ہے.اگر ایسے نو جوان تیار ہوں جو اپنی زندگیاں تحریک جدید کو نہیں بلکہ میرے سامنے وقف کریں اور میری ہدایت کے ماتحت کام کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ خدمت اسلام کا ایک بہت بڑا موقع اس زمانہ میں ہے.جیسا کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے زمانہ میں تھایا جیسا کہ حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور دوسرے صوفیاء واولیاء کے زمانہ میں تھا.(روز نامه الفضل ربوه 6 فروری 1958 ء)

Page 14

7 حضرت مصلح موعود تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1957ء بمقام ربوہ حضور انور نے فرمایا: اب میں ایک نئے قسم کے وقف کی تحریک کرتا ہوں.میں نے اس سے پہلے ایک خطبہ جمعہ ( 19 جولائی 1957 ء ) میں بھی اس کا ذکر کیا تھا.اور اس وقت بہت سے لوگوں نے بغیر تفصیلات سنے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا میں نے ان کو کہہ دیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر میں اس نئے وقف کی تفصیلات بیان کر دیں تو ان تفصیلات کو سن کر اگر تم میں ہمت پیدا ہوئی تو پھر تم اپنے آپ کو پیش کر دینا.میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لیکر کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر.یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو.یا دکان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہر حال ابتدا دس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.اس سکیم کی تفصیل یہ ہے کہ ہم اس سکیم کے واقف زندگی کو چالیس سے ساٹھ روپیہ تک ماہوار الاؤنس دیں گے جس کے معنے یہ ہیں کہ انتہائی الاؤنس کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اس سکیم کا خرچ دس معلمین پر صرف 7200 روپے سالا نہ ہوا کریگا.مگر کچھ امداد ہم زمینداروں سے بھی لیں گے.اور وہ اس طرح کہ جہاں جماعتیں زیادہ ہوں گی وہاں ہم کوشش کریں گے کہ وہ 110،8 یکر زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں اس مقام پر ہم اپنے نئے واقف زندگی کو ٹھہرائیں گے جو اس زمین میں باغ لگائے گا اور اس باغ میں اپنا مکان بنائے گا اس مکان کے بنانے میں وہ اس علاقہ کے احمدیوں سے کوئی مدد نہیں لے گا.ہاں مزدوری وغیرہ کی مدد لے گا.یا پرانے درخت تحفہ کے طور پر قبول کرے گا جن سے چھتیں اور دروازے بن سکیں پھر بعض واقفین کو اگر ممکن ہو سکا تو ہم کمپاؤنڈری بھی سکھا دیں گے اور کچھ رقم دواؤں کے لئے بھی

Page 15

8 حضرت مصلح موعود دے دیں گے اور ان سے جو آمد ہوگی وہ ہم انہی پر خرچ کریں گے.ان سے خود کچھ نہیں لیں گے.اسی طرح ہم بعض واقفین زندگی کو کہیں گے کہ وہاں سکول کھول دیں جو ابتداء میں چاہے پرائمری تک ہی ہوں اور ان میں مدرسہ احمدیہ کا نصاب جو اردو میں ہوگا پڑھانا شروع کر دیں تا کہ اس علاقہ میں دو تین سال کے اندراندر مزید معلمین پیدا ہو جائیں.اگر ان سکولوں میں علاقہ کے مناسب حال کو ئی فیس بھی لگادی جائے تو وہ ہم نہیں لیں گے.بلکہ وہ فیس بڑے اور چھوٹے استادوں میں تقسیم کر دی جائے گی ہاں ہمارا دیا ہوا اعطیہ اس میں ملالیا جائے گا تا کہ تمام استادوں کو معقول رقم مل جائے.ہمارا یہ بھی ارادہ ہے کہ بعض واقفین کو اس علاقہ میں جن میں ان کا تقرر کیا جائے روز مرہ کی ضرورت کی چیزوں کی دوکانیں کھلوا دیں اور جہاں دس دس میل تک کوئی حکیم اور طبیب نہ ہو وہاں عطاری کی دوکان کھلوا دیں.جس میں عرق بادیاں ، عرق گاؤ زبان ، اور خشک دوائیں جیسے بنفشہ، لسوڑیاں اور کالی مرچ وغیرہ رکھوائی جائیں.ان دوکانوں کو چلانے کے لئے روپیہ ہم اس سکیم سے دیں گے.اس سکیم کو چلانے کے لئے ان دوستوں سے جو تعاون کے لئے تیار ہوں چھ روپیہ سالانہ چندہ لیا جائے گا جسے پھیلا کر یعنی آٹھ آنہ ماہوار کے حساب سے بھی دیا جا سکتا ہے اس طرح صرف دس ہزار آدمی مل کر اس سکیم کو پانچ ، چھ گنا تک وسیع کر سکتے ہیں اور پھر اس سکیم کو اور بھی پھیلایا جا سکتا ہے، اگر خدا چاہے.اور ہمیں ایک لاکھ آدمی اس سکیم میں چندہ دینے والا مل جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قریباً ایک ہزار معلم رکھا جا سکتا ہے.اور جو ابتدائی سکیم میں نے بتائی ہے اس سے سو گنا کام کیا جاسکتا ہے.پس میں جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ جتنی قربانی کر سکیں اس سلسلہ میں کریں اور اپنے نام اس سکیم کے لئے پیش کریں.اگر ہمیں ہزاروں معلم مل جائیں تو پشاور سے کراچی تک کے علاقہ کو ہم دینی تعلیم کے لحاظ سے سنبھال سکتے ہیں.اور ہر سال دس دس بیس بیس ہزار اشخاص کی تعلیم و تربیت ہم کر سکیں گے.بہر حال دوست اس سکیم کو نوٹ کر لیں.اس کے لئے اپنے نام پیش کریں اور اس سلسلے میں اگر کوئی مفید بات ان کے ذہن میں آئے تو اس سے بھی اطلاع دیں.میں نے مختصرا اس سکیم کو بیان کر دیا ہے کہ ہم ایسے واقفین کو چالیس سے ساٹھ روپے ماہوار تک دیں گے اگر ہو سکا تو کمپاؤنڈری کی تعلیم دلائیں گے.علاقہ کے زمینداروں کو تحریک کریں گے کہ وہ آٹھ دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں.اس زمین میں ہم باغ لگوادیں گے بعض علاقوں میں بڑے بڑے زمیندار احمدی ہیں ، ان کے لئے اس قدر زمین وقف کرنا کوئی مشکل امر نہیں.پھر واقف زندگی اس زمین میں اس قدر پیداوار کر سکتا ہے جو اسے کفایت کر سکے.اب تو ایسے طریق نکل آئے ہیں جن پر عمل کر کے تھوڑی زمین سے بھی زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے.امریکہ میں ایک ایک ایکڑ سے اتنی پیداوار لی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں اتنی

Page 16

حضرت مصلح موعود پیداوار ہیں ایکٹر زمین سے بھی حاصل نہیں ہوتی.مثلاً امریکہ سے مجھے مکئی کا ایک نمونہ آیا تھا اس مکئی کے متعلق فرم والوں نے لکھا تھا کہ اس سے فی ایکڑ سال میں ہم 50 سے 100 من تک پیداوار حاصل کرتے ہیں لیکن ہم ایک ایکڑ سے صرف ہیں پچیس من پیدا کرتے ہیں.اگر اتنی پیداوار ہمارے ملک میں بھی ہونے لگ جائے تو یہ آٹھ ایکڑ زمین 32 ایکڑ کے برابر ہو جائے گی.پھر اگر ہم اس میں گندم بوئیں تو اور زیادہ آمد ہوگی ، اگر کتا بو ئیں تو آمد اور بھی بڑھ جائے گی.پشاور کی طرف گنا عام بویا جاتا ہے.اور اس کے نتیجہ میں تھوڑی تھوڑی زمین سے بھی بڑی آمد پیدا کی جاتی ہے.اور معمولی معمولی زمیندار بھی بڑے دولت مند ہوتے ہیں وہاں زمین کی بڑی قدر ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ اس علاقہ کی ایک لڑکی جو بڑی مخلص احمدی ہے میرے پاس آئی.اس کے باپ نے جو بڑا زمیندار تھا اپنی زمین میں سے لڑکوں کے ساتھ اپنی اس لڑکی کو بھی حصہ دے دیا تھا.اس نے مجھے بتایا کہ میرے باپ نے مجھے 275 جریب زمین دیدی ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اسے 1137 ایکڑ زمین مل گئی تھی.پس اگر زمینیں رکھنے والے دوست آٹھ آٹھ دس دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کریں.تو ہمارا واقف زندگی بڑی عمدگی سے گزارا کر سکتا ہے.چک منگلا اور چنڈ بھروانہ کی طرف جو احمدی ہوئے ہیں ان میں سے بالعموم جو احمدی یہاں آتا ہے وہ کہتا ہے میری زمین 8 مربعے ہے.دوسرا کہتا ہے کہ میری زمین سولہ مربعے ہے تیسرا کہتا ہے میری زمین 40 مربعے ہے.8 مربعوں سے کم تو مجھے کسی نے بھی زمین نہیں بتائی.اور جس احمدی کے پاس 8 مربعے زمین ہو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ دوسو ایکڑ کا مالک ہے اور جس کے پاس 40 مربعے زمین ہے اس کے پاس ایک ہزار ایکڑ زمین ہے.اور اس قدر زمین میں سے 18 یکٹر اس سکیم کیلئے وقف کر دینا کونسی مشکل بات ہے.یہ علاقہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہا ہے اور یہی وہ بہادر لوگ ہیں.جن کی ایک عورت کی مثال کل میں نے اپنی افتتاحی تقریر میں بیان کی تھی.وہ بیعت کرنے یہاں آئی ہوئی تھی کہ شام کو اس کی بیٹی بھی یہاں آگئی اس نے کہا اماں تو نے مجھے کہاں بیاہ دیا ہے وہ لوگ تو میری بات سنتے ہی نہیں تو نے مجھے جو کتا بیں دیں تھیں میں انھیں پڑھ کر سناتی ہوں تو وہ سنتے ہی نہیں.میں احمدیت پیش کرتی ہوں تو وہ جنسی اور مذاق کرتے ہیں اور مجھے پاگل قرار دیتے ہیں.وہ عورت کہنے لگی بیٹی تو میری جگہ آکر اپنے والد بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کی روٹی پکا.میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ کون میری بات نہیں سنتا میں ان سب کو احمدی بنا کر ہی دم لوں گی.شاید یہی عورت جلسہ سالانہ سے چند ماہ قبل یہاں آئی اس کے پاس

Page 17

10 حضرت مصلح موعود ایک بچہ تھا.اس نے مجھے بتایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے، وہ ربوہ نہیں آتا تھا.میں اس کا بچہ اٹھالا ئی ہوں کہ وہ اس بچہ کی وجہ سے تو ربوہ آئے گا.مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس کا وہ بھائی احمدیت کے قریب ہے لیکن چوہدری فتح محمد صاحب نے جن کے سپرد یہ علاقہ ہے بتایا ہے کہ وہ احمدی ہو گیا ہے اور اس وقت جلسہ سالانہ پر آیا ہوا ہے ( اس موقع پر چوہدری فتح محمد صاحب کے کہنے پر وہ دوست کھڑے ہو گئے اور سب حاضرین جلسہ نے انھیں دیکھا) تو دیکھویہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ یا تو وہ بھائی ربوہ آتا نہیں تھا اور اس کی بہن اس کا بچہ اٹھا لائی کہ شاید وہ اس بچہ کی وجہ سے ربوہ آجائے اور یا اب وہ احمدی ہو گیا ہے اور اس وقت جلسہ سالانہ پر آیا ہوا ہے.- روزنامه الفضل 16 فروری 1958ء)

Page 18

11 حضرت مصلح موعود خطبه جمعه فرموده 3 جنوری 1958ء بمقام ربوہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں بیان کیا تھا اور پھر جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اپنی ۲۷ / دسمبر کی تقریر میں بیان کیا تھا کہ جماعت کے وہ دوست جنھیں سلسلہ کی تبلیغ سے لگاؤ ہو یا تعلیم و تدریس کا شوق رکھتے ہوں وہ جماعت کی ترقی کے لئے اپنے آپ کو نئے وقف کے ماتحت پیش کریں سلسلہ ان کی مدد کرے گا اور خود بھی ان کو کمائی کرنے کی اجازت دے گا.اس طرح ان کا عمدگی سے گزارہ ہوتا رہے گا.چار پانچ سال تک امید ہے کہ مدرسہ احمد یہ جدید جو قائم ہوا ہے اس کی چار پانچ جماعتیں نکل آئیں گی اور چونکہ یہاں اردو میں پڑھائی ہے اس لئے وہ نو جوان پرائمری تک اردو میں تعلیم دے سکیں گے اور ساتھ ہی وہ واعظ اور مبلغ بھی ہونگے لیکن اس کے درمیان جو وقفہ ہے اس کو پُر کرنے کے لئے ہمیں واقفین کی ضرورت ہے مجھے افسوس ہے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے تو بعض نوجوانوں کی درخواستیں آتی رہیں کہ ہم اپنے آپ کو اس سکیم کے ماتحت وقف کرتے ہیں لیکن جب میں نے وقف کی شرائط بیان کیں تو پھر ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں.پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہماری جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو.اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹہ ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب میری اس نئی سکیم پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب میں بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیئے جائیں جو اس علاقہ کے لوگوں کے اندر رہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں وہ انھیں پڑھائیں بھی اور رشد و اصلاح کا کام بھی کریں اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلا یا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے کنڈی ڈالنے سے صرف ایک ہی مچھلی آتی ہے لیکن اگر مہا جال ڈالا جائے تو دریا کی ساری مچھلیاں اس میں آجاتی ہیں ہم

Page 19

12 حضرت مصلح موعود ابھی تک کنڈیاں ڈالتے رہے ہیں ان کی وجہ سے ایک مچھلی ہی ہمارے ہاتھ میں آتی رہی ہے لیکن اب مہا جال ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جائے.بلکہ ہر گاؤں کے ہر گھر تک ہماری پہنچ ہو.پہلے لڑکوں اور لڑکیوں تک ہماری پہنچ ہو پھر لڑکوں اور لڑکیوں کے ماں باپ تک ہماری پہنچ ہو اور اس کے بعد سارے گاؤں تک ہماری پہنچ ہو جائے ، پھر گاؤں سے نکل کر چار چار پانچ پانچ میل تک کے دیہات میں ہماری پہنچ ہو جائے اور پھر یہ دائرہ دس دس پندرہ پندرہ میل تک وسیع ہو جائے اس کے بعد اور ترقی کرے اور یہ دائرہ میں تمیں میل تک چلا جائے پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ 45 میل تک چلا جائے پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ 60 میل تک چلا جائے پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ 75 میل تک چلا جائے پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ 90 میل تک چلا جائے پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ 105 میل تک چلا جائے.پھر اور ترقی کرے اور یہ دائر 0 120 میل تک چلا جائے.گویا اگر ہم صرف ہیں سکول کھول دیں اور 15 ، 15 میل کے دائرہ میں ایک سکول رکھیں تو 300 میل تک ہمارا دائرہ بڑھ جاتا ہے اور اگر 20 سکول ایک طرف ہوں اور 20 سکول دوسری طرف ہوں تو 300 میل ادھر اور 300 میل اُدھر ہمارا دائرہ بڑھ جاتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا دائرہ 90 ہزار مربع میل تک وسیع ہو جاتا ہے اور سارے پنجاب کا رقبہ 62 ہزار مربع میل ہے غرض اگر ہم اس تجویز پر عمل کریں تو رفتہ رفتہ سارا مغربی اور مشرقی پاکستان اس کے احاطہ میں آ جاتا ہے پس جب تک ہم اس مہا جال کو نہ پھیلائیں گے اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.تین چار سال تک جیسا کہ میں نے بتایا ہے مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہونے پر ہمیں ایسے نوجوان مل جائیں گے جو دین کی خدمت کے لئے آگے آجائیں گے اور ان کے لئے بظاہر اور کوئی کام نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے مولوی فاضل کی ڈگری کو اڑا دیا ہے پہلے لڑکے مولوی فاضل پاس کر کے گورنمنٹ سروس میں چلے جاتے تھے، اس لئے اب ہم نے مولوی فاضل کو اڑا دیا ہے ہم انھیں اپنے ہی امتحان پاس کرائیں گے تاکہ وہ فارغ ہو کر دین کی خدمت کریں آخر کوئی وجہ نہیں کہ ہم ہزاروں روپیہ خرچ کر کے فارغ التحصیل نوجوان گورنمنٹ کو دے دیں اور وہ انھیں اپنے سکولوں میں لگا لے.اب جو نو جوان تعلیم حاصل کریں گے.وہ مجبور ہونگے کہ دین کی خدمت کریں.بیشک سلسلہ بھی مجبور ہوگا کہ ان کے کھانے پینے کا مناسب انتظام کرے.لیکن وہ بھی مجبور ہونگے کہ اپنے کھانے پینے کا سامان سلسلہ سے آکر لیں اور اپنی خدمات سلسلہ کے لئے وقف کریں باہر جا کر ان کو کچھ نہیں ملے گا اور ان کو نہ رکھ کر سلسلہ کو کچھ نہیں ملے گا گویا دونوں ایک دوسرے کے گلے میں رسی باندھے ہوئے ہونگے.مدرسہ احمدیہ کی تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں نے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے گلے میں رسی باندھی

Page 20

13 حضرت مصلح موعود ہوئی ہوگی کہ اگر ہم سے کام نہیں لو گے تو تم کو مبلغ نہیں ملیں گے اور صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید نے ان کے گلے میں رسی باندھی ہوئی ہوگی کہ اگر تم ہمارا کام نہیں کرو گے تو تم کو بھی روٹی نہیں ملے گی.اس طرح دونوں فریق مجبور ہونگے کہ ایک دوسرے کا کام کریں اور ان دونوں کے ملنے سے لاکھوں میل کے رقبے میں تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے گا.جہاں تک چندے کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ ہماری جماعت چندہ دینے کی عادی ہے اس لئے آہستہ آہستہ رقم آنی شروع ہو جائے گی.جو رقم میں نے تجویز کی ہے وہ بہت معمولی ہے یعنی صرف چھ روپیہ سالانہ ہے.تحریک جدید میں اس وقت ہیں، بائیس ہزار آدمی چندہ دے رہے ہیں.اگر زور دیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ اس سکیم میں ایک لاکھ آدمی چندہ دینے لگ جائیں.تحریک جدید کی رقم بہت زیادہ ہوتی ہے اس میں بعض لوگ پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ بلکہ سوسو روپیہ بھی دیتے ہیں.یہ رقم چونکہ کم ہے اس لئے کوئی بعید نہیں کہ اس سکیم میں حصہ لینے والے ایک لاکھ ہو جائیں اور اگر ایک لاکھ احمدی چھ روپیہ سالانہ کے حساب سے چندہ دے تو چھ لاکھ روپیہ آ جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ خرچ جو ایک واقف زندگی پر اس سکیم کے ماتحت کیا جائے گا ، وہ 60 روپیہ ماہوار ہے گویا دس واقفین زندگی پر 7200 روپیہ سالانہ خرچ آئے گا بلکہ اگر کم سے کم رقم دی جائے یعنی چالیس روپیہ ماہوار تو دس واقفین پر 4800 روپیہ سالانہ خرچ آئے گا اور سو واقفین 48000 روپیہ میں رکھے جاسکتے ہیں.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پورے طور پر اس سکیم پر توجہ دی جائے تو اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک بھی پہنچ سکتی ہے اور اگر ڈیڑھ لاکھ آدمی چھ روپیہ سالانہ کے حساب سے چندہ دے تو کو لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوتی ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ماہوار چھتر ہزار روپیہ آ جائے گا.میں نے جو سکیم پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ فی الحال صرف دس واقفین لئے جائیں اور انھیں چالیس سے 60 روپیہ تک ماہوار گزارہ دیا جائے اگر نو لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہو جائے تو اس سے کئی گنا زیادہ واقفین رکھے جا سکتے ہیں کیونکہ ہر ایک واقف زندگی کو اگر ساٹھ روپیہ ماہوار دیں تو پچھتر ہزار میں 1250 مبلغ رکھے جاسکتے ہیں.اور جب صحیح رنگ میں کام شروع ہو جائے گا تو ڈیڑھ لاکھ تو کیا میرا خیال ہے پانچ چھ لاکھ احمدی اس سکیم میں چندہ دینے لگ جائیں گے اور پھر ممکن ہے کہ وہ چندہ بڑھا کر دینے لگ جائیں اگر ہر ایک آدمی میرے بتائے ہوئے چندہ سے دو گنا یعنی بارہ روپیہ سالا نہ دے اور جماعت کے چھ لاکھ افراد چندہ دیں تو بہتر لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہو جاتی ہے یعنی چھ لاکھ روپیہ ماہوار اور اس میں ہم دس ہزار مبلغ رکھ سکتے ہیں اور دس ہزار مبلغ رکھنے سے ملک کی کوئی جہت ایسی نہیں رہتی جہاں ہماری رشد و اصلاح کی شاخ نہ ہو.

Page 21

14 حضرت مصلح موعود پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مشرقی بنگال والے اپنا بوجھ خود اٹھا لیں اور وہ خود اس سکیم کے لئے رقم جمع کر لیں ایسٹ بنگال کا رقبہ صرف 54 ہزار مربع میل ہے اگر ایک لاکھ آدمی اس سکیم میں حصہ لے تو ان کا کام چل سکتا ہے.بلکہ پچاس ہزار آدمی بھی حصہ لے تو ایسٹ پاکستان اپنے کام کو سنبھال سکتا ہے.پس میں جماعت کو اس خطبہ کے ذریعہ پھر تحریک کرتا ہوں کہ نوجوان اس وقف میں اپنے نام لکھوائیں اور آگے آنے کی کوشش کریں تا کہ جلد سے جلد انھیں مختلف جگہوں پر بٹھا دیا جائے اور دکانیں اور مدر سے کھول دیئے جائیں اور احمدیت کا پھل نکلنا شروع ہو جائے.یہ یاد رکھو کہ مذہب کی تبلیغ پھل کی طرح ہوتی ہے اور پھل ایک دن میں نہیں نکلا کرتا.اگر تم کسی زمین میں گندم بو دو تو تمہیں چھ ماہ میں پھل مل جائے گا.لیکن باغ کا پھل بعض اوقات 8 سال میں بھی نہیں مل سکتا.اگر تم باغ لگانا شروع کر دو اور پھر ایک ایک باغ باری باری لگاؤ تو ایک باغ کا پھل تمہیں آٹھ سال بعد ملے گا.دوسرے کا سولہ سال بعد ملے گا.تیسرے کا 24 سال بعد ملے گا.چوتھے کا 32 سال بعد ملے گا.پانچویں کا 40 سال بعد ملے گا.ساتویں کا 56 سال بعد ملے گا.آٹھویں کا 64 سال بعد ملے گا.نویں کا 72 سال بعد ملے گا.دسویں کا 80 سال بعد ملے گا اور گیارھویں کا 88 سال بعد ملے گا.بارھویں کا 96 سال بعد ملے گا اور تیرھویں کا 104 سال بعد ملے گا اور تم میں سے کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ 104 سال زندہ رہے گا.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد اس وقف کی طرف توجہ کرے اور اپنے آپ کو ثواب کا مستحق بنائے.یہ مفت کا ثواب ہے جو تمہیں مل رہا ہے اگر تم اسے نہیں لو گے تو یہ تمہاری بجائے دوسروں کو دے دیا جائے گا.دیکھو جب یہاں کے لوگوں نے احمدیت کی طرف توجہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ ایسٹ اور ویسٹ افریقہ کو آگے لے آیا.اسی طرح اور کئی ملک احمدیت کی طرف توجہ کرنے لگے.خدا تعالیٰ نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس کے لئے وہ کوئی نہ کوئی ذریعہ نکال دیتا ہے.اب ایسے ایسے ملک ہیں جن میں دس دس ، پندرہ پندرہ ہزار احمدی ہیں.اگر باہر کے سارے احمدیوں کو ملا لیا جائے تو وہ پاکستان کے احمدیوں کے برابر ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ جب یہاں کے لوگوں نے احمدیت کو قبول کرنے میں ستی کی تو خدا تعالیٰ نے دوسرے ملکوں کے لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنا شروع کر دیا.چنانچہ اگر غانا ، سیرالیون ، نائجیر یا اور ایسٹ افریقہ کے علاقوں کینیا ، ٹانگانیکا، یوگنڈا اور امریکہ کے علاقوں ٹرینیڈاڈ ، ڈچ گی آنا ، برٹش گی آنا ، فرنچ گی آنا.U.S.A اور دوسرے تمام یورپین اور ایشیائی ممالک کو جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں ملا لیا جائے تو پتہ لگ جائے گا کہ ان کی مشترکہ احمدی آبادی مغربی پاکستان کی احمدی آبادی سے کم نہیں.خدا تعالیٰ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ سارے احمدی ایک ہی ملک میں پائے جائیں بلکہ وہ جہاں چاہتا

Page 22

15 حضرت مصلح موعود ہے احمدیت کو پھیلا دیتا ہے.پہلے مغربی پاکستان نے احمدیت کی طرف توجہ دی تو خدا تعالیٰ نے مغربی پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کو بڑھا دیا پھر ایسٹ پاکستان نے اس طرف توجہ کی تو خدا تعالیٰ نے وہاں ایک بہت بڑی تعدا د احمدیوں کی پیدا کر دی.پھر اس نے احمدیت کو سیرالیون، غانا، نائیجیریا، ٹرینیڈاڈ ، برٹش گی آنا، فرینچ گی آنا ، ڈچ گی آنا، یوایس اے، ویسٹ اور ایسٹ افریقہ اور دوسرے علاقوں میں پھیلا نا شروع کر دیا.ان سارے علاقوں کی احمدی آبادی کو ملا لیا جائے تو غالبا وہ مغربی پاکستان کی احمدی آبادی سے کم نہیں ہوگی.پھر بیرونی ممالک میں تو ہمیں تمہیں سال سے تبلیغ ہورہی ہے اور یہاں 70 سال سے تبلیغ ہورہی ہے اور پھر جتنے مبلغ اس ملک کو ملے ہیں دوسرے ممالک کو نہیں ملے ، مثلاً حافظ روشن علی صاحب تھے، مولوی ابوالعطا ءصاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں اور پھر اور بہت سے مبلغ ہیں جن کے نام اسوقت ذہن میں نہیں آرہے.یہ سب اسی ملک میں تبلیغ کرتے رہے.پرانے زمانہ میں قاضی امیر حسین صاحب تھے مولوی سید سرور شاہ صاحب تھے، مولوی برہان الدین صاحب تھے، اور شیخ غلام احمد صاحب تھے یہ لوگ باہر جاتے تھے اور تبلیغ احمدیت کرتے تھے.پھر پروفیسر عبد القادر صاحب کے چچا مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری تھے ان کی تعلیم صرف مڈل تک تھی مگر انگریزی زبان میں انھیں اتنی مہارت تھی کہ ایک دفعہ مدراس میں انکا لیکچر ہوا تو گورنران کا لیکچر سننے کے لئے آیا اور بعد میں اس گورنر نے کہا کہ ہم بھی اتنی اچھی انگریزی نہیں بول سکتے جتنی اچھی انگریزی مولوی صاحب نے بولی ہے.انھوں نے ایک کتاب ” تائید حق بھی لکھی ہے جو نہائت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے میں نے ایک دفعہ اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو میں اس وقت تک سویا نہیں جب تک کہ میں نے اس ساری کتاب کو ختم نہ کر لیا.مولوی صاحب شروع شروع میں ایمان لائے پھر احمدیت کی تبلیغ کے لئے ملک کے مختلف علاقوں میں پھرتے رہے انکی تعلیم معمولی تھی مگر ذاتی مطالعہ سے انھوں نے اپنی لیاقت بڑھالی تھی.اسی طرح دوسرے لوگ بھی ذاتی مطالعہ سے اپنی قابلیت بڑھا سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہمت ہو ، جب ہمت گر جاتی ہے تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن اگر کوئی تھوڑا سا کام کرنے والا آدمی بھی ہو تو میں نے دیکھا ہے کہ وہ دوسروں سے بہت آگے نکل جاتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ کئی بی اے.بیٹی ہوتے ہیں مگر جب ان کے سپر دکوئی کام کیا جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا ہماری طبیعت کا اس کام سے کوئی لگاؤ نہیں لیکن مولوی حسن علی صاحب صرف مڈل پاس تھے اور انھوں نے وہ کام کیا جو آج کل کے بی اے.بی ٹی بھی نہیں کر سکتے.ان کا یہ کہنا کہ فلاں کام ہم سے نہیں ہوسکتا یا ہماری طبیعت اس طرف راغب نہیں محض دھوکہ اور فریب ہوتا ہے.وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے باوجود ہم اپنی طبیعت کو اس طرف راغب کرنا نہیں چاہتے.

Page 23

16 حضرت مصلح موعود یہ اصل فقرہ ہے جو انھیں کہنا چاہئے مگر وہ یہ فقرہ نہیں کہتے.مگر یہ کہتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس طرف لگاؤ ہی نہیں حالانکہ خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کو اعلیٰ قو تیں دے کر بھیجا ہے اور اسے احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے.اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس طرف لگاؤ نہیں تو یہ محض بہانہ ہوتا ہے دراصل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کہ دیا کہ ہم فلاں کام نہیں کرتے تو دوسرے ناراض ہونگے.اس لئے وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس سے لگاؤ نہیں.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے اندر روحانیت پیدا کرو اور تقویٰ پیدا کر و بھلا یہ تو دیکھو کہ اب تو صدر انجمن احمد یہ یا تحریک جدید کچھ نہ کچھ دیتی ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تھا تو ان کے پاس کونسا روپیہ تھا.جب خدا تعالیٰ نے آپ کو فر مایا کہ اٹھ اور دنیا کو کہہ دے کہ میں مسیح موعود ہوں تو آپ کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا پھر بھی آپ کھڑے ہو گئے.اور لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور اس کی پہلی جزاء آپکو یہ لی کہ آپکو دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے پتھر پڑنے شروع ہوئے لیکن آپ پھر بھی کام کرتے رہے.اور کبھی بھی خدا تعالیٰ سے یہ نہ کہا کہ اے اللہ تو نے مجھے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے.کھڑا تو تو نے مجھے مسیح موعود بنا کر کیا تھا اور یہاں یہ صورتِ حال ہے کہ چاروں طرف سے پتھر پڑ رہے ہیں.آپ ایک دفعہ لا ہور تشریف لے گئے وہاں ایک اور شخص بھی تھا جس نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہوا تھا اس کا بھائی بعد میں تو بہ کر کے احمدی ہو گیا تھا بڑا سادہ آدمی تھا.داڑھی اس نے سکھوں والی رکھی ہوئی تھی.وہ قادیان میں بھی آیا کرتا تھا.ایک دفعہ میں لاہور گیا تو وہ دواند ھے پکڑ کر لے آیا اور کہنے لگا کہ یہ میرا شکار ہیں وہ سارا دن ان کی خدمت کرتا تھا.کھانا کھلاتا تھا، ان کے کپڑے دھوتا تھا اور جوئیں نکالتا تھا یہ سلوک دیکھ کر انھوں نے احمدی تو ہونا ہی تھا سنا ہے کہ اب وہ فوت ہو گیا ہے اس کا بھائی سخت مخالف تھا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انارکی میں سے گزر رہے تھے اور آپ کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم اور بعض اور دوست تھے کہ اس نے پیچھے سے آکر آپ کی پیٹھ پر اچانک لات ماری جس سے حضرت مسیح موعود گر گئے شیخ رحمت اللہ صاحب اسے مارنے پر آمادہ ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا شیخ صاحب اسے کچھ نہ کہیں اس نے مجھے یہ سمجھ کر مارا ہے کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی ہتک کرتا ہوں.اگر اسے پتہ ہوتا کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی ہتک نہیں کرتا تو یہ ایسی حرکت ہی کیوں کرتا.صلى الله ہماری جماعت میں ایک پروفیسر عبداللہ صاحب ہوا کرتے تھے.وہ واقعہ میں پروفیسر نہیں تھے بلکہ ان کا نام پروفیسر اس لئے پڑ گیا تھا کہ وہ شعبدہ بازی اور مداریوں کے کرتب وغیرہ جانتے تھے.ایک

Page 24

17 حضرت مصلح موعود دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب لاہور سے قادیان گئے تو انھوں نے حضرت مسیح مود عود علیہ السلام سے شکایت کی کہ پروفیسر صاحب بڑے تیز مزاج ہیں.اگر کوئی ان کے سامنے حضور کو بُرا بھلا کہے تو وہ اسے گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ خبردار اگر تو نے ان کو گالی نکالی تو میں تیرے منہ پر منگا ماروں گا تو کون ہوتا ہے جو حضرت صاحب کو گالیاں دے.کچھ دنوں کے بعد پروفیسر صاحب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انھیں بلایا اورفرمایا پروفیسر صاحب میں نے سنا ہے کہ آپکے سامنے مجھے کوئی بُرا بھلا کہے تو آپ اس سے لڑنے لگ جاتے ہیں آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے.اور صبر اور تحمل سے کام لینا چاہئے اللہ تعالیٰ نے نہیں نرمی کی تعلیم دی ہے بختی کی تعلیم نہیں دی.ان کی طبیعت بڑی تیز تھی یہ سنتے ہی ان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے میں یہ بات ماننے کے لئے بالکل تیار نہیں آپ کے پیر ( یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو اگر کوئی بُرا بھلا کہے تو آپ فوراً اس سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں صبر کر خود تو کہتے ہیں کہ الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بران صلى الله محمد بیا بنگر زغلمان محمد کرامت گرچه بے نام و نشان است یعنی اے مخاطب تو اگر محمد رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کرتا ہے تو جان لے کہ محمد رسول الله الا اللہ خدا نے ایک تلوار بھی دی ہوئی ہے تو اس سے ڈر اور اگر تجھے یہ خیال ہے کہ اس زمانے میں محمد رسول اللہ ے کی کوئی کرامت نہیں تو محمد رسول اللہ اللہ کے غلاموں کے پاس آ اور ان سے کرامت دیکھ لے.ان دنوں حضرت مسیح موعود نے لیکھرام کی بدزبانیوں کے مقابلے میں یہ شعر کہے تھے انہیں کی طرف پروفیسر عبداللہ صاحب نے اشارہ کیا اور کہا کہ آپکے پیر کو اگر کوئی برا بھلا کہتا ہے تو آپ فورا جوش میں آجاتے ہیں اور اسے مباہلہ کا چیلنج دے دیتے ہیں.لیکن اگر کوئی میرے پیر کو گالیاں دے تو آپ کہتے ہیں صبر کرو.میں ایسی بات ماننے کے لئے تیار نہیں.صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کا بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ہے ایک دفعہ میاں چٹو جو قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری لاہور والوں کے دادا تھے اور اہلِ قرآن میں سے تھے انھوں نے ایک عرب کو جو ہندوستان میں آیا ہوا تھا لکھنؤ سے بلایا.ان کی غرض یہ تھی کہ اگر وہ شخص اہلِ قرآن ہو گیا تو عرب میں یہ مذہب پھیل جائے گا.میاں چٹو اس عرب کو قادیان لائے اور حضرت مسیح موعود سے ملاقات کرائی.گفتگو کے دوران میں وفات مسیح کا ذکر آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ پنجابی تھے اور آپ مولویوں کی طرح تلفظ ادا نہیں کرتے تھے اسلئے آپ نے سادہ طریق پر قرآن کہہ دیا اس پر وہ عرب کہنے لگا کہ میچ

Page 25

18 حضرت مصلح موعود موعود علیہ السلام بنا پھرتا ہے اور قرآن کہنا بھی نہیں آتا.ق کی بجائے ک کہتا ہے.اس کی زبان سے یہ لفظ نکلے ہی تھے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے یکدم اپنا ہاتھ اٹھایا اور اسے مارنا چاہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبد الکریم صاحب سے کہا ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور جب تک یہ لوگ اس مجلس سے اٹھ کر چلے نہ جائیں انھیں چھوڑیں نہیں.اور صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا یہ حال تھا کہ وہ کانپتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے مجھے چھوڑو میں اسے کچل کر رکھ دوں گا.اس نے حضرت صاحب کی ہتک کی ہے.پروفیسر عبداللہ صاحب جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یو.پی کے رہنے والے تھے اور سارے ہندوستان میں تماشے دکھاتے پھرتے تھے.پھر وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلیم حاصل کی اس وقت ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا.وہ پہلے بڑے بڑے سرکسوں کے مالک تھے قادیان آئے تو ان کی یہ حالت تھی کہ وہ مہمان خانے میں بیٹھ جاتے تھے اور اگر کوئی لڑکا آتا تو اسے سیر بین دکھا دیتے تھے اور وہ آنا یا دونی دے دیتا.اور اس میں گزارہ کر لیتے.کچھ عرصہ تک وہ پھیری کا کام بھی کرتے رہے.جب وہ لوگ اس طرح گزارہ کر لیا کرتے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے نو جوان اس طرح گزارہ نہ کرسکیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لوگ اپنا وسیع کاروبار چھوڑ کر قادیان آگئے تھے اور وہاں پر کسی نہ کسی طرح اپنی روٹی کما لیتے تھے اور گزارہ کر لیتے تھے.جو مالدار لوگ اس زمانے میں آئے ان کا بھی یہ حال تھا کہ انھوں نے اپنے سب مال لٹا دئے مثلاً سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی تھے.ان کی تجارت بڑی وسیع تھی مگر انھوں نے اپنا سارا روپیہ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا.بعد میں جب وہ دیوالیہ ہو گئے تو ان کے ایک دوست سیٹھ لال جی، وال جی تھے اور وہ بھی بہت بڑے تاجر تھے سیٹھ صاحب نے انھیں تحریک کی کہ آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کرایا کریں.اس میں بڑی برکت ہوتی ہے.اور پھر کہا میں آپ کو ماہوار نذرانہ کے طور پر ایک بڑی رقم بھجوایا کرتا تھا آپ بھی انھیں نذرانہ بھجوایا کریں.چنانچہ انھوں نے ساڑھے تین سو روپیہ ماہوار بھجوانا شروع کر دیا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں روحانیت پائی جاتی تھی.ورنہ وہ سیٹھ عبد الرحمن مدراسی کو کہہ دیتے کہ آپ نے دعا کرا کے کیا لیا.آپ کا تو پہلا کا روبار بھی نہ رہا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ انھیں جو برکتیں ملی ہیں وہ روحانی ہیں.اور ان کو بھی روحانی برکتیں ہی ملیں گی.اس لئے انھوں نے سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کی نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دیا.پھر ہمارے ایک دوست چوہدری رستم علی صاحب تھے پہلے وہ سپاہی تھے پھر کانٹیبل ہو گئے پھر

Page 26

19 حضرت مصلح موعود سب انسپکٹر بنے ، پھر پراسیکیوٹنگ انسپکٹر بنے.اس وقت تنخواہیں بہت تھوڑی تھیں آجکل تو ایک سپاہی کو مہنگائی الاؤنس وغیرہ ملا کر قریباً ساٹھ روپیہ ما ہوا مل جاتے ہیں لیکن ان دنوں سپاہی کو غالباً گیارہ روپے اور تھانیدار کو چالیس روپے اور انسپکٹر کو 75 یا سو روپے ملتے تھے اور پراسیکیوٹنگ افسر کو سو سے کچھ زیادہ ملتے تھے.مجھے یاد ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوبھجوایا کرتے تھے.ایک دفعہ ان کو یکدم آرڈر آ گیا کہ ان کو عہدہ میں ترقی دی جاتی ہے اور تنخواہ اتنی بڑھائی جاتی ہے.اس کے بعد ان کی تنخواہ میں جو بڑھوتی ہوئی وہ ساری کی ساری وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج دیا کرتے تھے.ایک دفعہ انھوں نے حضرت صاحب کو جو خط لکھا وہ حضرت مسیح موعود نے مجھے پڑھنے کے لئے دیا.میں نے پڑھ کر بتایا کہ یہ خط چوہدری رستم علی صاحب کا ہے اور انھوں نے لکھا ہے کہ میں سورو پیہ تو پہلے ہی بھیجا کرتا تھا لیکن اب میری تنخواہ میں 80 روپے کی ترقی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض حضور کی دعاؤں کے طفیل ہوئی ہے اور آپ کے لئے ہوئی ہے اس لئے اب میں آپ کو 180 روپے ماہوار بھیجا کروں گا.میں اس بڑھوتی کا مستحق نہیں ہوں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میں تو پہلی تنخواہ کا بھی مستحق نہیں تھا وہ بھی اللہ تعالیٰ مجھے آپکی خاطر ہی دے رہا ہے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کو جو مالدار دیئے تھے وہ بھی کیسی کیسی قربانیاں کرتے تھے.اور پھر ان قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے بیشک آخر میں ان میں بگاڑ پیدا ہوا لیکن شروع شروع میں وہ پشاور میں نہایت کامیاب وکیل تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک مقدمہ ہوا تو آپ نے خواجہ صاحب کو لکھا کہ اس اس طرح ایک مقدمہ ہے جس میں ایک احمدی وکیل کی نگرانی کی ضرورت ہے.اس پر آپ اپنی کامیاب وکالت چھوڑ کر پشاور سے گورداسپور آگئے گو ایک بات ضرور ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ آخر شاید گرے بھی اسی کی وجہ سے تھے اور وہ یہ کہ جب ان پر تنگی آتی تھی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے روپیہ مانگ لیا کرتے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی کمزوری بعد میں ان کی خرابی کی وجہ ہوئی ورنہ انھوں نے بھی بہت قربانی کی تھی بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی قربانی اپنے سب ساتھیوں سے زیادہ تھی.مولوی محمد علی صاحب کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بڑی قربانی کی.انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور کی پروفیسری چھوڑی تھی.اور اس وقت پروفیسری کی تنخواہ 90،80 روپے ماہوار ہوا کرتی تھی.اور انھوں نے قادیان آکر انجمن سے 20 روپے ماہوار تنخواہ لی لیکن حقیقت میں ان کو نہیں نہیں بلکہ 120 روپیہ ماہوار تنخواہ ملا کرتی تھی ہیں روپے انجمن کی طرف سے ملتے تھے اور ایک سو روپے ماہوار ان کے لئے نواب صاحب انجمن کو دیا کرتے تھے.غرض مولوی محمد علی صاحب نے تو قادیان

Page 27

20 حضرت مصلح موعود جا کر فائدہ اٹھا لیا لیکن خواجہ صاحب نے اپنی کامیاب وکالت چھوڑ دی.انھوں نے مولوی محمد علی صاحب جیسا فائدہ نہیں اٹھایا.ہاں اگر کبھی ضرورت ہوتی تو حضرت صاحب سے کچھ مانگ لیا کرتے تھے.مولوی محمد علی صاحب نے قادیان آ کر تنخواہ لی اور پھر اسے بڑھاتے چلے گئے.شیخ رحمت اللہ صاحب ان کی تائید کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ان کی تنخواہ بہت تھوڑی ہے اس لئے ان کی تنخواہ بڑھانی چاہئے.ایک دفعہ میں نے کہا مولوی صدر الدین صاحب کی تنخواہ بھی بڑھانی چاہیئے تو مولوی محمد علی صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے کہ آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں نے کوئی قربانی نہیں کی.میں نے کہا یہ بات نہیں ہے بلکہ میں یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ مولوی صدرالدین صاحب نے بھی تو قربانی کی ہے.ان کی تنخواہ بھی بڑھانی چاہئے.تو یاد رکھو آنے والے آئیں گے اور انھیں رزق بھی خدا تعالیٰ دے گا.مگر پہلے آنے والوں کے لئے بہت برکت ہوگی جو پہلے آئیں گے ان کے لئے جنت کے دروازے پہلے کھولے جائیں گے اور جو بعد میں آئیں گے ان کے لئے جنت کے دروازے بھی بعد میں کھولے جائیں گے.روز نامه الفضل ربوہ 11 جنوری 1958 ء) *****

Page 28

21 24 حضرت مصلح موعود سید نا حضرت مصلح موعود کا پیغام احباب جماعت کے نام میں نے اس سال 27 دسمبر کو ارشاد و اصلاح کی ایک اہم تحریک پیش کی تھی.جس کے دو حصے تھے.ایک وقف اور ایک چندہ.چندہ میں نے کہا تھا گولازمی نہیں لیکن ہر احمدی کوشش کرے کہ چھ روپے چندہ سالانہ یکمشت یا بارہ اقساط میں دیا کرے ہماری جماعت میں آسانی سے ایک لاکھ آدمی ایسا پیدا ہو سکتا ہے اور اگر وہ ایسا کریں تو رشد و اصلاح کی تحریک کو ہم بڑی آسانی کے ساتھ ڈھاکہ سے کراچی تک اور کراچی سے ملتان اور لا ہور ہوتے ہوئے راولپنڈی کے راستہ سے پشاور اور ہزارہ کی وادیوں میں پھیلا سکتے ہیں.وقف جدید کی تحریک گودیر سے شروع ہوئی.مگر خدا کے فضل سے شروع ہوگئی ہے.میرے اس خطبہ کے بعد پانچ درخواستیں آچکی ہیں.جن میں سے دو مولوی فاضل اور میٹرک ہیں اور ایک معمولی تعلیم کا آدمی ہے.میں نے جلسہ میں بتایا تھا کہ ہم پانچویں جماعت کے آدمی کو بھی اس کام کے لئے لے سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ایسا نوجوان کسی زیادہ تعلیم یافتہ آدمی کے ساتھ لگا دیا جائے گا.مدرسہ احمدیہ میں جوار دو کا کورس شروع ہے اس کے مکمل ہونے میں ابھی پانچ سال لگیں گے.جس کے بعد انشاء اللہ پچاس طالب علم ہمیں مل جائیں گے پرائمری پاس ہماری جماعت میں اب بھی پچاس ساٹھ ہزار آدمی موجود ہے.لیکن وہ آگے نہیں بڑھ رہا اور ستی دکھا رہا ہے.اور خدا تعالیٰ کو چیلنج کر رہا ہے کہ اس کو بدل کر اس کی جگہ اور آدمی پیدا کرے مگر چندہ کا معاملہ جو وقف سے بہت ستا تھا اس کے لئے ایک درخواست بھی نہیں آئی.حالانکہ ایک لاکھ آدمی کی درخواست کی ضرورت تھی.یہ کام خدا تعالے کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں کپڑے بیچنے پڑیں میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے تو خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میر اساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا.پس میں اتمام حجت کے لئے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں تا کہ مالی امداد کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو اور وقف کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو مجھے اس کام کیلئے ایک ایسے چست آدمی کی بھی ضرورت ہے جو سارے پنجاب کا دورہ کر کے ان نئے اسکولوں کا معائنہ کر کے رپورٹ کرتا رہے.اور انسپکر تعلیم کے طور پر کام کرے اگر کوئی اس کام کا اہل ہو تو وہ بھی اپنے آپ کو پیش کرے.اس کام کیلئے ایسا آدمی کافی ہے جو

Page 29

22 حضرت مصلح موعود ایف اے پاس ہو یا مولوی فاضل اور انٹرنس پاس ہو اور ادھیڑ عمر کا ہو.میں امید رکھتا ہوں کہ اگلے تین ہفتہ میں جماعت ان دونوں کاموں کو پورا کر دے گی.میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے معزز زمیندار کراچی سے لے کر پشاور تک اپنے اپنے گاؤں کے ارد گرد دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں گے.اس میں یہ واقفین کھیتی باڑی کریں گے اور اس سے اس سکیم کو چلانے میں مدد دیں گے.اسکی پیدا وارسب ان کی ہوگی.(5 جنوری 1958 ء ) ( روزنامه الفضل ربوہ 7 جنوری 1958 ء ) *****

Page 30

23 23 حضرت مصلح موعود خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1958 ء بیت مبارک ربوہ) سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہماری جماعت کی حالت کا نقشہ سورۃ انفال کی آیت نمبر 17،16 رکوع نمبر 2 میں کھینچا گیا ہے اور اس نقشہ کو شیخ سعدی نے ایک حکایت کے رنگ میں اپنی کتاب ” گلستان میں بیان کیا ہے.ہم بچپن میں وہ شعر پڑھا کرتے تھے تو بہت مزہ آیا کرتا تھا.یوں تو جب ہم بڑے ہوئے تو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ہمیں مثنوی مولانا روم بھی پڑھائی تھی مگر وہ زمانہ جب ہمیں مثنوی مولانا روم پڑھائی گئی 1911ء یا 1912 ء کا زمانہ تھا اور گلستان اور بوستان اس سے پہلے زمانہ میں ہمیں شروع کرائی گئی تھی.شیخ سعدی نے گلستان میں ایک کہانی لکھی ہے کہ ایک بادشاہ تھا جس کے کئی بیٹے تھے اس کے اور تو سب بیٹے نہایت خوبصورت تھے اور بادشاہ ان سے بہت محبت کیا کرتا تھا لیکن ایک لڑکا بہت چھوٹے قد کا تھا اور اس کی شکل بھی نہایت مکر وہ تھی اس سے وہ سخت نفرت کیا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک بادشاہ جو اس سے دشمنی رکھتا تھا اور جس کی طاقت بہت زیادہ تھی اس پر حملہ آور ہوا.جب اس کی فوج نے اس بادشاہ کے دائیں اور بائیں بڑے زور سے حملہ کیا تو اس کی ساری فوج بھاگ گئی اور میدانِ جنگ میں صرف چند آدمی بادشاہ کے ساتھ رہ گئے.جب بادشاہ نے دیکھا کہ اب دشمن مجھے بھی حملہ کر کے قید کر لے گا تو یکدم صفوں کو چیرتا ہوا ایک سوار نکلا.جس نے اپنے ہاتھ میں نیزہ پکڑا ہوا تھا وہ پوری ہمت کے ساتھ اپنے دائیں اور بائیں نیزہ چلاتا ہوا آ رہا تھا جس کی وجہ سے دشمن کی فوج تتر بتر ہوگئی.پھر اس نے بادشاہ کی بچی کچھی فوج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن فوج بھاگ گئی.وہ شخص حملہ کرتا جا تا تھا اور کہتا جاتا تھا آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میان خاک و خوں بینی سرے یعنی میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تو میری پیٹھ دیکھے بلکہ جنگ کے دن تو صرف میرا منہ دیکھے گا میری پیٹھ نہیں دیکھے گا اور اگر کوئی شخص مجھ سے میرا کچھ حال پوچھنا چاہے تو میں اسے یہ بتا تا ہوں کہ میں جب لڑائی میں آؤں گا تو وہ میرے سر کو خاک اور خون میں لتھڑا ہوا پائے گا یعنی میں قتل ہو جاؤں گا لیکن بھا گوں گا نہیں.جب فتح ہوئی تو بادشاہ نے پہچان لیا کہ وہ اس کا وہی بیٹا ہے جس سے وہ نفرت کیا کرتا

Page 31

24 حضرت مصلح موعود تھا.بادشاہ نے اسے بلایا اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا میں نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے اور تمہاری بڑی بے قدری کی ہے.جن کی میں قدر کیا کرتا تھا اور جن سے محبت کیا کرتا تھا وہ تو پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے لیکن تم میدان میں رہے اور میری جان کی حفاظت کرنے کے لئے آگے آئے.اس پر اس لڑکے نے کہا اے باپ! ہر چہ بقامت کہتر بقیمت بہتر جو شخص قدوقامت اور صورت کے لحاظ سے ذلیل نظر آتا تھا وہ قیمت کے لحاظ سے بہت بہتر تھا یعنی آپ تو مجھے چھوٹے قد کا آدمی سمجھ کر نفرت سے دیکھا کرتے تھے لیکن آپ کو معلوم ہو گیا کہ جوقد وقامت اور صورت میں ذلیل نظر آتا تھا قیمت کے لحاظ سے وہی بہتر تھا.یہ تو ایک آدمی کا قصہ ہے لیکن ہماری جماعت بھی گو تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے اور بقامت کہتر کی مصداق ہے لیکن بقیمت بہتر ہے.امریکہ یورپ اور باقی ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈ اوہی گاڑ رہی ہے اور باقی مسلمان جن کو علماء نے اپنے سروں پر اٹھا رکھا ہے انھوں نے بیرونی ممالک میں کسی مسجد کی ایک اینٹ بھی نہیں لگوائی.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپ میں ہماری تین مسجدیں بن چکی ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہمارا انشاء ہے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی ایک اور مسجد بھی بنادی جائے.ایک مسجد امریکہ میں بنانے کا میں نے آرڈر دے دیا ہے.ایک مسجد لنڈن میں بنی ہے، ایک مسجد ہیگ میں بنی ہے ، ایک مسجد ہمبرگ (جرمنی) میں بنی ہے ، ایک فرینکفرٹ (جرمنی) میں بن رہی ہے.جب یہ مسجد بن گئی تو انشاء اللہ ایک مسجد ہنوور (جرمنی) میں بنائی جائے گی پھر ایک زیورچ میں بنے گی ، پھر ایک روم میں بنے گی، پھر ایک نیپلز میں بنے گی، پھر ایک جینوا میں بنے گی ، پھر ایک دینیس میں بنے گی ، اور اس طرح یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا بہر حال ہماری جماعت اس وقت بقامت کہتر اور بقیمت بہتر کی مصداق ہے جو ہر جگہ مسجدیں بنا رہی ہے.مسلمان ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان کے مقابلے میں آئے میں نمک کے برابر بھی نہیں.مولوی ظفر علی خان صاحب اب تو فوت ہو گئے اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے جب وہ زندہ تھے تو بڑی حقارت سے لکھا کرتے تھے کہ یہ لوگ تو مسلمانوں میں سو میں سے ایک بھی نہیں پاکستان کی ساری آبادی جس میں ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں 8 کروڑ ہے.اگر ہندوؤں اور عیسائیوں کو نکال دیا جائے تو غالبا مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ رہ جاتی ہے اور ہماری تعدا د کا زیادہ سے زیادہ اندازہ دس لاکھ ہے.ہندوستان کی آبادی 32 کروڑ ہے.اس کے ساتھ پاکستان کی آبادی کو ملا لیا جائے تو یہ 40 کروڑ بن جاتی ہے اور دس لاکھ کی آبادی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی لیکن اب اگر اللہ تعالیٰ ہمیں طاقت بخشے اور یہ نئی تحریک جو میں نے کی ہے پھیل جائے تو پھر امید ہے کہ ہماری جماعت اس ملک

Page 32

25 25 حضرت مصلح موعود میں ایک نمایاں مقام پیدا کر لے گی میں نے جلسہ سالانہ پر اس کے متعلق تحریک کی تھی اور پھر پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بھی اس کا ذکر کیا.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیسیوں خطوط جماعت کے افراد کے آئے انھوں نے لکھا کہ ہم نے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی تقریر کا مفہوم نہیں سمجھا تھا مگر اب جو آپ کا پیغام چھپا ہے تو ہم نے اس کی حقیقت کو سمجھا ہے اس لئے اب ہم نے وقف اور روپیہ کے لئے اپنے نام لکھوانے شروع کر دئے ہیں.چنانچہ اس کے بعد اب تک چالیس وقف آچکے ہیں اور بارہ ہزار کے قریب آمد کا اندازہ ہے.میں نے جو شکل وقف کی جماعت کے سامنے پیش کی ہے اور جس کے ماتحت میرا ارادہ ہے کہ پشاور سے کراچی تک اصلاح و ارشاد کا جال بچھا دیا جائے اس کے لئے ابھی بہت سے روپیہ کی ضرورت ہے اس کام کے لئے کم سے کم 6لاکھ روپے سالانہ کی ضرورت ہے.اگر 6لاکھ روپیہ سالانہ آنے لگ جائے تو پھر پچاس ہزار روپیہ ماہوار بنتا ہے اور اگر ہم ایک واقف زندگی کا ماہوار خرچ پچاس روپیہ رکھیں تو ایک ہزار مراکز قائم کئے جا سکتے ہیں.اور اس طرح ہم پشاور سے کراچی تک رشد و اصلاح کا جال پھیلا سکتے ہیں بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم نے رشد و اصلاح کے لحاظ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کا گھیرا کرنا ہے تو اس کے لئے ہمیں ایک کروڑ روپیہ سالانہ سے بھی زیادہ کی ضرورت ہے.اگر ڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ آمد ہو بارہ لاکھ پچاس ہزار روپیہ ماہوار بنتا ہے.اگر بارہ لاکھ روپیہ بھی ماہوار آئے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایک واقفِ زندگی کا پچاس روپیہ ماہوار خرج مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے 24 ہزار نئی طرز کے واقف زندگی بن جاتے ہیں اور 24 ہزار واقف زندگی دولاکھ چالیس ہزار میل کے اندر پھیل جاتے ہیں.کیونکہ ہم نے دس دس میل پر ایک آدمی رکھنا ہے اور گو ابھی تو اتنی رقم جمع نہیں ہو سکتی لیکن اگر اتنی رقم جمع ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے 24 ہزار آدمی رکھے جا سکتے ہیں، ہاں اگر یہ واقف زندگی ہمت کریں اور خوب کوشش کر کے جماعت بڑھانی شروع کر دیں تو ممکن ہے کہ اگلے سال ہی یہ صورت پیدا ہو جائے.اب تک جو آمد آئی ہے وہ ایسی نہیں کہ اس پر زیادہ تعداد میں نو جوان رکھے جاسکیں.لیکن جب رو پیہ زیادہ آنا شروع ہو گیا اور نو جوان بھی زیادہ تعداد میں آگئے اور انھوں نے ہمت کے ساتھ جماعت کو بڑھانے کی کوشش کی تو جماعت کو پتہ لگ جائے گا کہ یہ سکیم کیسی مبارک اور پھیلنے والی ہے.کد اس سکیم میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جہاں اپنی طرف سے اور اپنے خاندان کی طرف سے چندہ لکھوایا ہے وہاں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کراچی کے پاس ٹھٹھہ میں میری زمین ہے اس میں سے میں اس سکیم کے ماتحت دس ایکڑ زمین وقف کرتا ہوں.دس ایکڑ میں خود انشاء اللہ ضلع تھر پارکریا حیدر آباد کے ضلع میں وقف کروں گا.اور ابھی تو اور بہت سے احمدی زمیندار ہیں جو اس غرض کے لئے زمین

Page 33

26 حضرت مصلح موعود وقف کر سکتے ہیں پھر ایک ایک دو دو ایکڑ دے کر کئی آدمی مل کر بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں بہر حال چوہدری صاحب کی زمین اور میری وقف شدہ زمین میں دو مرکز بن جائیں گے.تیسرا مرکز ضلع مظفر گڑھ میں بنے گا وہاں کے ایک نوجوان نے لکھا ہے کہ میرا ایک مربع ہے جو مجھے فوجی خدمات کے صلہ میں ملا ہے وہ مربع میں آپکی اس سکیم میں دیتا ہوں مگر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کو اسطرح ساری زمین سے محروم کر دیں.میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ ہم ان سے کہیں کہ اس زمین میں سے دس ایکڑ ہمیں کرایہ پر دے دیں اور باقی پندرہ ایکڑ وہ خود استعمال کریں اور دس ایکڑ کوئی معمولی زمین نہیں.ہالینڈ میں میں نے دریافت کیا تھا وہاں تین ہزار روپیہ فی ایکڑ آمد ہوتی ہے اگر تین ہزار روپیہ فی ایکٹر آمد ہوتی ہو تو دس ایکڑ سے تمہیں ہزار آمد ہوسکتی ہے.اگر سو مربع ہمیں اس سکیم میں مل جائے تو 75 لاکھ سالانہ آمد ہو جاتی ہے اور اس سے ہم سارے مشنوں کا خرچ چلا سکتے ہیں.طریق ہم بتائیں گے کام کرنا ہمارے مبلغوں کا کام ہے اگر ان کو خدا تعالیٰ اسلام کی خدمت کا جوش دے اور وہ شیخ سعدی کے بیان کردہ واقعہ کو یا درکھیں تو یہ سکیم بہت اچھی طرح چلائی جاسکتی ہے کیونکہ جن لوگوں میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم حقیر اور ذلیل ہیں وہ صرف یہ بات جانتے ہیں کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی پیٹھ تو جنگ میں دیکھے بلکہ تو میرے سر کو میدان میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا پائے گا.ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ دلائل کی جنگ ہے اور دلائل کی جنگ میں جس شخص میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہی کہتا ہے کہ میں وہ نہیں جو دلائل کے میدان میں اپنی پیٹھ دکھاؤں بلکہ اگر مقابلے کی صورت پیدا ہوئی تو میں سب سے آگے ہونگا اور جب تک میری جان نہ چلی جائے میں قربانی کا عہد نہیں چھوڑوں گا.اگر اس طرز پر عمل کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سکیم بہت شاندار طور پر کامیاب ہو گی.ابھی تو میری جلسہ سالانہ کی تقریر پر صرف 14 دن گذرے ہیں لیکن اب آ کر لوگوں کو میری تحریک کا احساس ہوا ہے اور انھوں نے اپنے نام لکھوانے شروع کئے ہیں.اسی طریق پر ہر تحریک بڑھتی ہے.جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تو جماعت کے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ ہم نے تو آپ کی تحریک کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ 7000 روپیہ جمع کرنا ہے مگر اب وہ کام لاکھوں تک پہنچ گیا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کی تحریک پر بہت سا چندہ لکھوا دیا تھا اور یہ سمجھا تھا کہ آپ نے صرف ایک ہی دفعہ چندہ مانگا ہے لیکن اب میں اپنا چندہ کم نہیں کروں گا بلکہ اپنے وعدہ کے مطابق دینے

Page 34

27 حضرت مصلح موعود کی کوشش کروں گا.اس کے علاوہ اور بھی کئی لوگ تھے جنھوں نے اس وقت سو سو ، دو دوسو روپیہ چندہ لکھوا دیا تھا مگر بعد میں انھوں نے اس چندہ کو کم نہ کیا اور بڑھتے بڑھتے وہ سولہ سو، دو ہزار یا اڑھائی ہزار چندہ دینے لگ گئے.یہ تحریک بھی آہستہ قدموں سے شروع ہوئی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ جماعت میں اس قد را خلاص اور جوش پیدا ہو جائے گا کہ وہ لاکھوں اور کروڑوں روپیہ دینے لگ جائے گی.تم یہ نہ دیکھو کہ ابھی ہماری جماعت کی تعداد زیادہ نہیں اگر یہ سکیم کا میاب ہوگئی تو تم دیکھو گے کہ دو تین کروڑ لوگ تمہارے اندر داخل ہو جائیں گے اور جب دو کروڑ اور آدمی تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں گے تو آمد کی کمی خود بخود دور ہو جائے گی.دو کروڑ آدمی 6 روپے سالانہ دے تو بارہ کروڑ بن جاتا ہے.اگر ایک کروڑ روپے ماہوار آمد ہو تو دو لاکھ مبلغ رکھا جا سکتا ہے جو بیس لاکھ میل کے رقبے میں پھیل جاتا ہے اور اتنا رقبہ تو سارے پاکستان کا بھی نہیں.پس ہمت کر کے آگے بڑھو اور وہی نمونہ دکھلاؤ کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من سرے صلى الله اں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی دشمن تمہارے مقابلہ میں کھڑا ہے اور یہ جنگ روحانی ہے جسمانی نہیں.اس جنگ میں دلائل اور دعاؤں سے کام لینا اصل کام ہے.صحابہ کو دیکھ لو وہ تلواروں سے لڑتے تھے اور میدانِ جنگ میں ان کی گردنیں کٹتی تھیں مگر وہ اس سے ذرا بھی نہیں گھبراتے تھے.جنگِ اُحد کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے ایک صحابی کے متعلق ہدایت فرمائی کہ اسے تلاش کرو وہ کہاں ہے.صحابہؓ نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لاش دوسری لاشوں کے نیچے کہیں دبی پڑی ہے اس لئے وہ کہیں ملی نہیں آپ نے فرمایا جاؤ اور پھر تلاش کرو چنا نچہ بہت تلاش کے بعد وہ صحابی ملے وہ زخمی تھے اور پیٹ پھٹا ہوا تھا.تلاش کر نیوالے صحابی نے کہا اپنے رشتہ داروں کو کوئی پیغام پہنچانا ہے تو دے دو ہم پہنچادیں گے.وہ کہنے لگے اور تو کوئی پیغام نہیں ، میرے عزیزوں صلى الله تک صرف اتنا پیغام پہنچا دینا کہ جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ ملے کی حفاظت کی اب یہ فرض تم پر ہے اور میری آخری خواہش یہ ہے کہ میرے خاندان کے سارے افراد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں.اگر تم ایسا کرو تو میری یہ موت خوشی کی موت ہوگی.تو دیکھو صحابہ نے تو عملی طور پر قربانیاں کی تھیں اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں تھوک میں بڑے پکائے.دلیلیں دینا کونسی بڑی بات ہے دلیلیں دے کر گھر آگئے لیکن وہاں یہ ہوتا تھا کہ صحابہ میدانِ جنگ میں جاتے تھے اور پھر بسا اوقات انھیں اپنے بیوی بچوں کی دوبارہ شکل دیکھنی بھی نصیب نہیں

Page 35

28 حضرت مصلح موعود ہوتی تھی.ایک عورت کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم وہ جنگ تبوک کے لئے تشریف لے گئے تو اس کے خاوند کو آپ نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہوا تھا جب وہ صحابی مدینہ واپس آئے تو رسول کریم ﷺہ تبوک کی طرف تشریف لے جاچکے تھے اور اس صحابی گو اس کا علم نہیں تھا وہ صحابی سید ھے گھر آئے.اپنی بیوی سے انھیں بہت محبت تھی.وہ گھر میں گھسے اور بیوی انھیں نظر آئی تو انھوں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے جسم سے چمٹا لیا.لیکن اُس زمانہ کی عورتیں بھی اس زمانہ کے مردوں سے زیادہ مخلص ہوتی تھیں اس عورت نے خاوند کو دھکا دیا اور کہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی کہ خدا تعالیٰ کا رسول تو جان دینے کے لئے رومیوں کے مقابلہ کے لئے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار کرنا سوجھتا ہے.اس بات کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت اس نے اپنا گھوڑا پکڑا اور سوار ہو کر تبوک کی طرف چلا گیا اور کئی منزلوں پر جا کر وہ رسول اللہ سے جا کر مل گیا.تو اس قسم کی ہمت اگر تم بھی اپنے اندر پیدا کر لوتو دین کی اشاعت کوئی مشکل امر ہیں چند دنوں کی بات ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اترنے والی ہے.اب یہ ناممکن بات ہے کہ زیادہ عرصہ تک آسمان اپنی مددکورو کے رکھے.کوئی 25 ، 26 سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دشمنوں کی گالیاں سنیں ان سے پتھر کھائے اینٹیں کھائیں ماریں کھائیں لیکن تبلیغ جاری رکھی.اس کے بعد قریباً 50 سال تک یہ کام ہم نے کیا یہ سارا زمانہ مل کر 75 سال کا ہو جاتا ہے.آخر اللہ تعالیٰ ایسا تو نہیں کہ 75 سال تک ایک قوم کو گالیاں دلوائے، ماریں کھلائے ، پتھر مروائے اور پھر چپ کر کے بیٹھا رہے.اب میں سمجھتا ہوں بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اترے گی اور گوساری دنیا میں احمدیت پھیل جانے میں ابھی دوسوسال باقی ہیں لیکن ساری دنیا میں پھیلنے کے تو یہ معنے ہیں کہ امریکہ میں بھی پھیل جائے ، انڈونیشیا میں بھی پھیل جائے ، کینیڈا میں بھی پھیل جائے ، چین میں بھی پھیل جائے ، اٹلی میں بھی پھیل جائے ، جرمنی اور فرانس میں بھی پھیل جائے.ایسا بھی ایک دن ضرور ہوگا لیکن ابھی ہمیں صرف اپنے ملک میں پھیلنے کی ضرورت ہے اور اتنی ترقی میں سمجھتا ہوں کہ 80 سال کے اندراندر ہو جانی چاہئے اور اس میں اب صرف چند سال باقی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1882ء میں دعوی کیا اور 1908ء میں آپ فوت ہوئے.یہ 26 سال کا عرصہ ہو گیا.26 سال کے بعد پھر 50 سال اب تک کے ملائے جائیں تو 76 سال بن جاتے ہیں اور اگر ہم یہ عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے لیں تو 1835ء میں آپ پیدا ہوئے اور 1935ء میں آپ پر سو سال ہو گئے.ہمارا فرض تھا کہ 1935ء میں ہم ایک بہت بڑی جو بلی مناتے لیکن ہماری جماعت نے 1939ء میں خلافت جو بلی تو منائی لیکن 1935ء

Page 36

29 حضرت مصلح موعود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صد سالہ جو بلی بھول گئی.اب بھی وقت ہے کہ جماعت اس طرف توجہ کرے.100 سال کی جو بلی بڑی جو بلی ہوتی ہے جب جماعت کو وہ دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جوبلی منائے.اب تک انھوں نے 76 سال کا عرصہ دیکھا ہے اور 24 سال کے بعد 100 سال کا زمانہ پورا ہو جائے گا.اس وقت جماعت کا فرض ہوگا کہ ایک عظیم الشان جوبلی منائے.اس سوسال کے عرصہ میں سارے پاکستان کو خواہ وہ مغربی ہو یا مشرقی.ہم نے احمدی بناتا ہے.اس کے بعد جو لوگ زندہ رہیں گے وہ انشاء اللہ وہ دن بھی دیکھ لیں گے جب ساری دنیا میں احمدی ہی احمدی ہونگے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ رفتہ رفتہ اس قدر کم ہو جائیں گے کہ ان کی حیثیت بالکل ادنی اقوام کی سی ہو جائے گی.پس ہمت سے آگے بڑھو زیادہ سے زیادہ چندے لکھواؤ.اور جولوگ آنریری سیکریٹری کے طور پر کام کر سکتے ہوں وہ اپنے آپ کو آنریری سیکریٹری بنالیں اور شہر میں یا باہر جہاں کہیں جائیں وہاں احمد یوں سے مل کر یا غیر جواثر قبول کریں ان سے مل کر زیادہ سے زیادہ چندہ لینے کی کوشش کریں تا کہ ہما را چندہ جلدی جلدی 12 لاکھ تک پہنچ جائے.اسی طرح نو جوانوں کو وقف زندگی کی تحریک کریں.یہ ایسا چھوٹا وقف ہے کہ پرائمری تک کے آدمی کو بھی ہم لے لیتے ہیں.ہم جو مرکز بنائیں گے اور پھر اسے قائم کریں گے وہاں ہم ایک زیادہ تعلیم یافتہ شخص رکھ لیں گے اور اس کے ساتھ پرائمری پاس شخص کو لگا دیں گے اور تعلیم اردو میں دیں گے.اردو زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کئی کتا بیں ہیں.مثلاً در مشین ہے، تحفہ گولڑویہ ہے، سرمہ چشم آریہ ہے، براہین احمدیہ حصہ پنجم ہے، ازالہ اوہام ہے، فتح اسلام ہے.یہ کتا بیں ان کو پڑھائیں گے.میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ ان کتابوں کو پڑھ لیتے ہیں وہ بڑے سے بڑے مولویوں کے اعتراضات کے ایسے جواب دے سکتے ہیں کہ وہ بول نہیں سکتے.اسی طرح ہم تفسیر صغیر پڑھائیں گے.پھر جب کچھ قابلیت بڑھ جائے تو وہ سیر روحانی پڑھیں ، احمدیت ، دعوت الامیر، تحفتہ الملوک اور تحفہ شہزادہ ویلز پڑھیں.ان ساری کتابوں کو پڑھ لیا جائے تو عیسائیوں کا اور مسلمانوں میں سے غلط رستہ پر چلنے والے مولویوں کے اعتراضات کا بڑی عمدگی سے ازالہ کیا جاسکتا ہے.اسی طرح دیبا چہ تفسیر القرآن ہے اس کے متعلق تمام مبلغ لکھتے ہیں کہ اس کو ہم ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم ہر علمی مجلس میں غالب آتے ہیں.ان سب کتابوں کو غور سے پڑھ لیا جائے تو بڑی علمی قابلیت پیدا ہوسکتی ہے.اب تو یہاں پادری زیادہ تعداد میں نہیں.زیادہ تر اپنے ممالک کو واپس چلے گئے ہیں.تھوڑے سے پادری موجود ہیں جن کے لئے ان کتابوں سے بہت حد تک علم سیکھا جا سکتا ہے یا ہندوستان جانے کا موقعہ ملے تو وہاں پنڈت موجود

Page 37

30 حضرت مصلح موعود ہیں ان کے لئے سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت وغیرہ کتابیں ہیں وہ پڑھ لی جائیں تو انسان ان کا مقابلہ کر سکتا ہے.باقی لوگوں کے لئے ہندوستان اور پاکستان میں دوسری کتا بیں زیادہ مفید ہیں.جیسے ازالہ اوہام ہے، توضیح مرام ہے، فتح اسلام ہے تحفہ گولڑویہ ہے، یہ اردو میں پڑھ لی جائیں تو تمام مولویوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے یا سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت کے ذریعہ ہندوستان میں جا کر پنڈتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.میں نے بعض کتابوں کا گورکھی میں ترجمہ کروایا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کتابوں کے متعلق سکھوں اور ہندوؤں کے بڑی کثرت سے خطوط آتے ہیں کہ ہم نے ان کو پڑھا تو یوں معلوم ہوا کہ آسمانی نور ہمیں ملا ہے ہمیں اور کتا بیں بھجوائی جائیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے ہماری روحانی آنکھیں کھل گئی ہیں.روزنامه الفضل ربوه 16 جنوری 1958 صفحه 2 تا 4 ) *****

Page 38

31 حضرت مصلح موعود خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1958 ء بمقام ربوہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ والتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (مائدہ: آیت 3) قرآن کریم کی اس آیت میں مومنوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ نیکی کے بارے میں سارے کے سارے جمع ہو جایا کریں.پرہ" کے معنی اعلیٰ درجہ کی نیکی کے ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹی نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن ہمیشہ کرتے ہی اعلیٰ درجے کی نیکیاں ہیں اور جب بھی وہ کوئی کام کرتے ہیں مکمل طور پر کرتے ہیں ادھورا نہیں کرتے.جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے میں نے گذشتہ جلسہ سالانہ پر وقف جدید کی تحریک کی تھی یہ تحریک بھی ایسی ہی ہے کہ اس میں حصہ لینا تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ والتَّقوی کے مطابق ہے اور اس میں کسی طرح روک بننا وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ کے ماتحت آتا ہے.جلسہ سالانہ کے دنوں میں غالبا لاؤڈ سپیکر کی خرابی کی وجہ سے دوستوں کو آواز پوری طرح سنائی نہیں دی بعد میں اخبار الفضل میں میرا نوٹ چھپا تو اس پر لوگوں نے اس تحریک کی طرف توجہ کی.اس کے بعد پھر میرے دو خطبے شائع ہوئے تیسرا خطبہ آج ہو رہا ہے.جوں جوں یہ خطبات شائع ہو کر جماعت کو پہنچیں گے امید ہے کہ دوستوں میں بیداری پیدا ہوتی چلی جائے گی.چنانچہ جب 3 جنوری کو میں نے خطبہ پڑھا تو اس وقت تک ایک شخص کی طرف سے بھی اس تحریک میں وقف کا وعدہ نہیں آیا تھا اور ایک پیسہ کی بھی آمد نہیں ہوئی تھی مگر آج کی رپورٹ یہ ہے کہ 36 ہزار روپے کے وعدے آچکے ہیں اور 135 اشخاص کی طرف سے وقف کی درخواستیں آچکی ہیں.لیکن ان 36 ہزار کے وعدوں میں بھی کچھ غلطی ہے، اصل میں وعدوں کی تعداد 40 ہزار سے کچھ اوپر بنتی ہے.بعض رپورٹیں ناقص تھیں اور بعض وعدے ابھی اس رپورٹ میں شامل نہیں کئے گئے.ان سب وعدوں کو ملا کر میرا خیال ہے کہ شاید یہ وعدے 50 ہزار سے بھی اوپر ہو جائیں.پھر شروع میں یہ غلطی بھی ہوئی کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ 6 روپیہ آخری حد ہے اس لئے جو شخص ایک ہزار روپیہ تک بھی اس تحریک میں دے

Page 39

32 حضرت مصلح موعود سکتا تھا اس نے 6 روپے کا وعدہ لکھوا دیا حالانکہ یہ ضروری نہیں تھا کہ اس تحریک میں صرف 6 روپے دے کر ہی حصہ لیا جائے بلکہ کم از کم 6 روپیہ کی رقم دے کر اس تحریک میں حصہ لیا جا سکتا تھا.لیکن جماعت کے دوستوں نے اسے زیادہ سے زیادہ رقم قرار دے لیا اور اس کے مطابق وعدے لکھوانے شروع کر دیئے اب بعض وعدے ایسے آرہے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت کے افراد پر یہ بات واضح ہوگئی ہے اور وہ اسے سمجھ رہے ہیں چنانچہ اب 6 روپیہ سے زیادہ کے وعدے بھی آرہے ہیں لیکن جب یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی تو ایسے دوست بھی نکل آئیں گے جو مثلاً 500 یا 600 روپیہ سالانہ دے دیں اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو اور پھیلائے گا تو ایسے مالدار بھی نکلیں گے جوا کیلے ہی اپنی طرف سے اس تحریک میں ہزار، ڈیڑھ ہزار، دو ہزار، چار ہزار روپیہ بھی دے دیں.اسی طرح امید ہے کہ اگر اس سال پوری کوشش کی جائے تو وعدوں کی تعداد 80 ہزار روپیہ تک پہنچ جائے گی اور اگلے سال تو امید ہے کہ یہ رقم بہت زیادہ بڑھ جائے گی لیکن اس وقت تک صرف 36 ہزار کی آمد ہوئی ہے اور 135 افراد کی طرف سے وقف کی درخواستیں آچکی ہیں گو یا وقف زیادہ ہے اور روپیہ تھوڑا ہے حالانکہ پیچھے ایک دور ایسا آیا ہے کہ خیال آتا تھا کہ وقف کی درخواستیں کم آئی ہیں اور روپیہ زیادہ آیا ہے مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف بڑھ گئے ہیں اور روپیہ کم ہو گیا ہے.گویا ہماری مثال ایسی ہے جیسے ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڑیانی جنھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے 12 حواریوں میں شامل کیا تھا سنایا کرتے تھے کہ ایک احمدی حافظ تھے انھیں تبلیغ کا بہت جوش تھا وہ ایک دفعہ اس جگہ سے گذرے جہاں میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرتا تھا اور حافظ صاحب میرے مکان پر ہی ٹھہر گئے کھانا تیار تھا.میں نے چاولوں کا ایک تھال حافظ صاحب کے آگے لا کر رکھ دیا.جب وہ کھا چکے تو میں نے کہا حافظ صاحب اور چاول لاؤں ؟ وہ کہنے لگے کہ اگر چاول ہیں تو لے آویں.پھر میں نے ایک اور تھال بھر کر ان کے سامنے رکھ دیا انھوں نے اسے بھی ختم کر دیا.میں نے کہا حافظ صاحب اور چاول لاؤں؟ کہنے لگے ہیں تو لے آئیں.میں ایک اور تھال چاولوں کا لے آیا.حافظ صاحب جب وہ بھی کھاچکے تو میں نے کہا حافظ صاحب اور چاول لاؤں؟ وہ کہنے لگے نہیں تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے.میں نے کہا.حافظ صاحب آپ کا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ وہ کہنے لگے سنا ہے بھیرہ میں ایک مشہور طبیب حضرت مولوی نورالدین صاحب ہیں.میں ان سے اپنے ہاضمہ کا علاج کروانے جا رہا ہوں.میں نے ہنس کر کہا حافظ صاحب جب آپکے ہاضمہ کا علاج ہو جائے تو آپ مہربانی فرما کر واپسی کے وقت اس طرف سے نہ آئیں بلکہ کسی اور طرف سے جائیں مجھ غریب کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ہاضمہ درست ہونے پر آپکی مہمان نوازی کر سکوں.جب آپ خراب ہاضمہ میں چاولوں کے 4 تھال کھا گئے ہیں تو جب ہاضمہ

Page 40

درست ہو جائے گا تو اس وقت کیا بنے گا.33 33 حضرت مصلح موعود اسی قسم کا ایک لطیفہ پرانے زمانہ کا بھی مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی شخص تھا جس کی بھوک بہت بڑھی ہوئی تھی کسی نے اس کی دعوت کی اور اس کے سامنے بہت سے نان رکھ دیئے اور خود سالن لینے کے لئے اندر گیا جب واپس آیا تو وہ شخص سارے نان کھا چکا تھا پھر وہ سالن رکھ کر نان لینے کے لئے گیا تو آکر دیکھا کہ شور بہ ختم ہے.دو تین دفعہ اس کے ساتھ یہی حال ہوا.وہ نان لا کر رکھ جاتا اور شور بہ لینے جاتا تو نان ختم ہو چکے ہوتے اور شور بہ رکھ کر نان لینے جاتا تو شور بہ ختم ہو چکا ہوتا.وہی حال ہمارا ہے کہ ایک وقت روپیہ زیادہ تھا اور واقفین کم تھے اور اب روپیہ کم ہے اور واقفین زیادہ ہیں.میں نے اپنے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کہا ہے کہ ٹھٹھہ میں میری کچھ زمین ہے میں اس زمین میں سے دس ایکڑ تبلیغ کے لئے وقف کر دوں گا مگر یہ میری غلطی تھی.چوہدری صاحب نے بتایا ہے کہ ٹھٹھہ کی زمین ابھی پوری طرح ان کے قبضہ میں نہیں آئی دوسرے وہ زمین ایسی جگہ ہے جو ایک طرف ہے اور وہاں آبادی کم ہے اس لئے وہاں کسی مبلغ کا رہنا مشکل ہے.انھوں نے کہا ہے کہ میرا مطلب یہ تھا کہ لا بینی ( ضلع حیدر آباد ) میں جو میری زمین ہے اس میں سے میں دس ایکڑ اس غرض کے لئے وقف کر دوں گا.میرا بھی منشاء ہے کہ میں بھی اپنی زمین میں سے کسی جگہ دس ایکڑ اس غرض کے لئے وقف کروں.اس طرح یہ دو وقف ہو جاتے ہیں.ایک باندھی ، ( سندھ ) کے رئیس حاجی عبدالرحمن صاحب ہیں انھوں نے لکھا ہے کہ میری زمین میرے غیر احمدی رشتہ داروں سے مشترک ہے اس کو تو میں تقسیم نہیں کر سکتا مگر میں یہ کر دوں گا کہ دس ایکڑ زمین خود خرید کر دیدوں.اس طرح تین وقف ہو گئے پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ میرے پاس دو مربع زمین ہے اس میں سے جتنی زمین کی ضرورت ہوئیں دینے کے لئے تیار ہوں.ایک اور دوست نے لکھا ہے کہ مجھے فوجی خدمات کی وجہ سے ایک مربع زمین ملی ہے میں وہ زمین اس غرض کے لئے وقف کرتا ہوں.اس کو تو میں نے لکھا ہے کہ میں اس طرح ساری زمین لینے اور تمہیں روزی سے محروم کرنے کے لئے تیار نہیں.تم اس میں سے دس ایکڑ زمین ہمیں مقاطعہ پر دے دینا.اس میں ہم اپنا مبلغ رکھیں گے.غرض اب تک پانچ زمینیں بھی آچکی ہیں.ملتان والے بھی کہہ گئے تھے کہ دو تین جگہیں ہمارے ضلع میں بھی مل جائیں گی کیونکہ بہت سے مربعوں والے ہمارے علاقہ میں ہیں اور بڑے بڑے زمیندار ہیں.اگر وہ ایک ایک ایکڑ بھی دیں تو کافی جگہیں ہو جائیں گی لیکن بڑی چیز جو ان علاقوں میں کام دے سکتی ہے وہ دیسی طب ہے.چوہدری صاحب نے بتایا ہے کہ ان کے رشتے کے بھائی (یعنی ماموں کے بیٹے ) جو ان کی زمینوں پر لابینی میں کام کرتے ہیں انھوں نے سنایا کہ

Page 41

34 حضرت مصلح موعود باوجود یکہ لا بینی ایک جنگل سا ہے پھر بھی امریکن عیسائی وہاں آکر رہتے ہیں اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ ایسے لوگوں میں رہتے ہیں کہ گو وہ ہمارے مزارع ہیں لیکن اگر وہ ہمیں بھی بلائیں تو ہم بھی ان کے گھروں میں نہ جائیں.لیکن وہ رات دن وہیں رہتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں.یہی قربانی کی روح ہمیں بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.اگر اسی قسم کی قربانی کی روح ہم میں بھی پیدا ہو جائے تو 135 واقفین کیا ہماری جماعت میں سے ایک لاکھ 35 ہزار واقفین بھی آسانی سے نکل آئیں گے لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہم امریکنوں اور انگریزوں جیسی قربانی کرنے لگ جائیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک انگریز عورت چین میں پادری کے طور پر کام کر رہی تھی.چینیوں میں پادریوں کے خلاف بڑا جوش پیدا ہوا.اور وہ جوش اب تک بھی ہے.ایک دن چینیوں نے اس عورت پر حملہ کیا اور اسے قتل کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد کھا گئے.جب اس واقعہ کی اطلاع انگلستان میں پہنچی اور پادریوں کے اخبار نے یہ شائع کیا کہ ہماری ایک مبلغہ جو چین میں کام کر رہی تھی اسے چینیوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہے.ہمیں اس کے قائم مقام کی ضرورت ہے تو اسی دن شام تک دو ہزار عورتوں کی طرف سے تار آگئے کہ ہم اس مبلغہ کی جگہ جانے کے لئے تیار ہیں.تو جب عیسائیت جو ایک باطل مذہب ہے اس کی تائید کے لئے لوگوں کے اندر اس قدر جوش پیدا ہوسکتا ہے تو اسلام جو ایک سچا مذہب ہے اس کی تائید کے لئے لوگوں کے اندر کیوں جوش پیدا نہیں ہوسکتا.یہ محض ہماری غفلت اور کوتا ہی ہے کہ لوگوں کے اندر جوش پیدا نہیں کرتے ورنہ جب ان کے اندر جوش پیدا ہو گا تو وہ اس قدر پھیلے گا کہ زمین و آسمان ہل جائیں گے اور دنیا میں ہر جگہ اسلام ہی اسلام نظر آئے گا.یہ ہماری اپنی کو تا ہی ہے کہ ہم لوگوں تک حقیقت حال پہنچا نہیں سکے.جب ہم ان تک حقیقت حال پہنچا دیں گے تو انشاء اللہ بڑوں اور چھوٹوں سب کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ وہ دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں اور پھر جب سارے کے سارے دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں گے تو لازمی بات ہے کہ اگر دس لاکھ کی جماعت آگے بڑھے گی اور ان میں سے ہر فرد دس دس افراد کو بھی صداقت پہنچا دے گا تو اگلے سال ایک کروڑ احمدی ہو گا.اس سے اگلے سال دس کروڑ احمدی ہوگا اور اس سے اگلے سال ایک ارب احمدی ہو جائے گا.یعنی دنیا کے قریباً سارے ممالک میں احمدیت پھیل جائے گی.مگر یہ چیز جوش کا تقاضا کرتی ہے ورنہ ہماری موجودہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی تعداد میں ہے کہ اگر وہ ساری کی ساری اپنا فرض ادا کرے اور دوسروں کے اندر جوش پیدا کر دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی دنیا میں صرف احمدی ہی احمدی ہوں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

Page 42

35 حضرت مصلح موعود لوشید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا یعنی اے مسلمان نوجوانو! کوشش کرو تا دینِ اسلام میں بھی قوت پیدا ہو جائے اور امت اسلامیہ کے باغ میں بھی بہار اور رونق نظر آنے لگے.اسی طرح ایک اور شعر میں فرماتے ہیں.ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ یزید کی فوجوں کی طرح ہر طرف کفر جوش مار رہا ہے اور اسلام امام زین العابدین کی طرح بیمار اور کمزور ہے.امام زین العابدین ، حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے تھے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت بیمار پڑے تھے.جب ان کی پھوپھی نے آواز دی کہ میرا بھائی خاک و خون میں تڑپ رہا ہے تو یہ اندر سے اٹھ کر باہر آ گئے اور کہنے لگے میں باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں لیکن خاندان کے بعض افراد آگے آگئے اور انھوں نے کہا کہ تم بیمار ہو تمہیں باہر نہیں جانا چاہئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام تو آجکل اسی طرح بیمار ہے جسطرح امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام زین العابدین بیمار تھے اور کفر یزید کی فوجوں کی طرح جوش مار رہا ہے لیکن ذرا مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو جائے تو دیکھنا کہ انشاء اللہ تعالیٰ کفر میدان میں دم توڑ رہا ہوگا اور اسلام کی فوج میں اس قدر جوش ہو گا کہ اس کی مثال دنیا میں پہلی کسی قوم میں نظر نہیں آئے گی اور ہر جگہ اسلام کا جھنڈا اونچا ہو گا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت قائم ہوگی.الفضل 22 جنوری 1958 ، صفحہ 2-3 *****

Page 43

36 46 حضرت مصلح موعود خطبه جمعه فرموده 21 فروری 1958ء بمقام کراچی سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس دفعہ 1957ء کے آخر میں میری طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی تھی مگر پھر جلسہ کے وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہوگئی.اس کے بعد پھر خراب ہونی شروع ہوگئی.میں تو اسے گاؤٹ کا اثر ہی سمجھتا رہا مگر ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ یہ تکلیف گاؤٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ تبدیلی موسم کی وجہ سے ہے.وہ کہتے ہیں کہ کیونکہ جلدی جلدی موسم تبدیل ہوا ہے اور سردی زیادہ شدید پڑی ہے اس لئے آپ کو یہ تکلیف ہوئی ہے.اب یہاں کے ڈاکٹروں کا مشورہ لینے کے لئے ہم اس جگہ آئے ہیں.مجھے پچھلے دنوں یہ بھی وہم ہونا شروع ہو گیا کہ مجھ پر فالج کا حملہ بڑھ رہا ہے یا دوبارہ فالج ہو گیا ہے مگر ڈاکٹروں سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہماری طب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ فالج کا حملہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور دوبارہ حملہ کے لئے بے ہوشی ہونی ضروری ہوتی ہے جیسے پہلے یکدم کچھ بے ہوشی ہوئی اور پھر فالج کا حملہ ہو گیا.پس انھوں نے کہا کہ آپ کو فالج کا دوبارہ دورہ نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کو بے ہوشی نہیں ہوئی اور فالج کے حملہ میں زیادتی طبی اصول کے خلاف ہے.یہ الگ بات ہے کہ آپ کو ضعف ہو گیا ہو.یا اعصابی کمزوری کی وجہ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو.مگر یہ کہ فالج کا حملہ آپ ہی آپ بڑھتا چلا جائے یہ طبی اصول کے خلاف ہے اور دوبارہ حملہ کے لئے پہلے بے ہوشی ضروری ہوتی ہے بہر حال اگر ان کی یہ رائے درست ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی سال گذرا ہے جس میں بڑی سخت سردی آئی.پچھلے سال جب ہم جابہ سے چلے ہیں تو وہاں بہت سردی تھی ربوہ میں آئے تو وہاں بھی سردی تھی.جلسہ کے قریب کچھ سردی کم ہوئی تو بدن میں طاقت آنی شروع ہوگئی.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے، قادیان میں بھی 22، 23 دسمبر کو شاید لوگوں کے اثر دہام کی وجہ سے گرمی سی آجاتی تھی.اور ربوہ تو یوں بھی گرم مقام ہے.بہر حال اس گرمی کا فائدہ ہوا اور مجھے تقریروں کی توفیق مل گئی.آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں مختلف انبیاء گذرے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے اپنے وقت میں ہدایتیں بخشیں اور انھوں نے خدا تعالیٰ کا نام پھیلانے اور اس کے دین کی خدمت کرنے کے لئے بڑی جدو جہد کی اس کے بعد اللہ تعالیٰ صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ

Page 44

37 حضرت مصلح موعود أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَهُدَاهُمُ اقْتَدِهُ ط صل الله (سورۃ انعام:91) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہدایت دی پس اے محمد رسول اللہ ﷺ جس طرز پر یہ لوگ چلے ہیں اس طرز پر تجھے اور تیرے ساتھیوں کو بھی چلنا چاہئے.اب یہ صاف بات ہے کہ محمد رسول اللہ لہ سے پہلے جو نبی گذرے ہیں یا جن کا یہاں ذکر آتا ہے جن میں حضرت ابراہیم کا نام بھی آیا ہے ، حضرت اسحاق" کا نام بھی آیا ہے ، حضرت یعقوب کا نام بھی آیا ہے، حضرت داؤڈ کا بھی نام آیا ہے ، حضرت سلیمان کا بھی نام آیا ہے ، حضرت ایوب کا بھی نام آیا ہے ، حضرت یوسف کا بھی نام آیا ہے، حضرت موسیٰ“ کا بھی نام آیا ہے ، حضرت ہارون کا نام بھی آیا ہے اسی طرح زکریا ، ہیجی ، عیسی ، الیاس ، اسمعیل ، یسعیاہ ، یونس اور لوط کا بھی نام آیا ہے.ان تمام کی زندگیوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں لگادی تھی.اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی یہی حکم دیا گیا کہ فبهداهُمُ اقْتَدِه تو بھی ان نبیوں کے طریق پر چل.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شروع دعویٰ نبوت سے لے کر 23 سال تک محمد رسول اللہ ﷺ نے کوئی ذاتی کام نہیں کیا صرف دین کی خدمت کرتے رہے اور اسلام کے پھیلانے میں دن رات لگے رہے اور اسی حالت میں فوت ہو گئے رسول کریم کے دل میں دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کا اس قدر شوق تھا کہ مرض الموت میں آپ نے ایک دن فرمایا کہ میرے اور مسجد کے درمیان میں جو پردہ حائل ہے اسے ہٹا دو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے.جب پردہ ہٹایا گیا اور صحابہ جو نماز کے لئے جمع تھے انھوں نے محمد رسول اللہ کو دیکھا تو وہ شوق کے مارے دیوانے ہو گئے اور انھوں نے بے تحاشہ اپنی خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا مگر رسول کریم ﷺ کی طبیعت چونکہ زیادہ نا ساز تھی اس لئے آپ نے فرمایا اب پر دے گرا دو اور باہر کہلا بھیجا کہ میرا دل تو چاہتا تھا کہ آؤں مگر میں کمزوری کی وجہ سے نہیں آ سکتا.میری جگہ ابو بکر نماز پڑھا علوسام دیں.صلى الله الله غرض یہ ایک قرآنی ہدایت ہے جس کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ضروری ہے اور ہمارا بھی فرض ہے کہ دنیا صل الله میں جتنے انبیاء گذرے ہیں جن میں خصوصیت سے محمد رسول اللہ ﷺہ شامل ہیں ان کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہم اسلام کی خدمت بجالائیں کیونکہ اس وقت سوائے اسلام کے اور کوئی سچا دین نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (آل عمران:20) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت صرف اسلام ہی حقیقی دین ہے پس قرآن کے نزول کے بعد اب سوائے اسلام

Page 45

38 حضرت مصلح موعود کے اور کوئی دین نہیں رہا.اگر عیسی کے پیرو عیسی کے پیچھے چلتے ہیں اور موسیٰ کے پیر و موسی کے پیچھے چلتے ہیں تو ہمارے لئے یہ حکم نہیں کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کریں یا یہودیت کو پھیلانے کی کوشش کریں بلکہ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چلیں اور آپ کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کے لئے اپنی جانیں تک لڑا دیں.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی ویسی ہی نازک حالت ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک فارسی قصیدے میں فرمایا کہ:.ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین جیسے کربلا کے وقت ہوا تھا کہ یزید کی فوجیں غالب آ رہی تھیں اور امام حسین کا لڑکا زین العابدین بیمار پڑا ہوا تھا اور دین کی مدد کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا انھوں نے چاہا بھی کہ اپنی بیماری میں اٹھ کر کر بلا کے میدان میں حضرت امام حسین کی مدد کریں مگر امام حسین نے کہا میرے بیٹے کو سنبھالو.اس کو اٹھنے نہ دو.چنانچہ ان کی پھوپھی زینب آئیں اور انھوں نے کہا کہ صبر سے کام لے تیرے باپ کا یہی حکم ہے کہ تجھے لٹا یا جائے اٹھنے نہ دیا جائے.اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین صلى الله یعنی جس طرح کربلا کے میدان میں رسول کریم علیہ کے خاندان کے صرف 70 آدمی تھے اور باقی سینکڑوں ہزاروں سپاہیوں کی رجمنٹیں ایک مشہور جرنیل کے ماتحت یزید کی طرف سے ان کو گھیرے ہوئے تھیں اسی طرح آجکل اسلام کی حالت ہے کہ چاروں طرف سے یزیدی فوجوں کی طرح لوگ اس پر چڑھے آرہے ہیں اور اسلام کی حالت ایسی ہی ہے جیسے زین العابدین بیماری میں تڑپ رہے تھے اور اپنے صلى الله باپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے ہمارے روحانی باپ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اس لئے اس کے معنی یہ صل الله عل وسام ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں اگر ایمان ہوتا ہے تو وہ تڑپتے ہیں کہ اپنے حقیقی روحانی باپ محمد رسول اللہ ﷺ کی مددکریں لیکن وہ بیمار و بیکس ہیں یعنی ان میں طاقت نہیں کہ مقابلہ کر سکیں نہ پیسہ ان کے پاس ہے، نہ پریس ان کے پاس ہے نہ فوجیں ان کے پاس ہیں ، نہ حکومتیں ان کے پاس ہیں.عیسائی، محمد رسول اللہ ے پر گندا اچھالتے ہیں مگر ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ جواب دے سکیں.اب ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ اس کے افراد یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور انڈو نیشیا وغیرہ میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں.مگر کام کی وسعت کے مقابلے میں ہماری جدو جہد ایسی ہی ہے جیسے کوئی چڑیا

Page 46

39 حضرت مصلح موعود سمندر میں سے چونچ بھر کر پانی پیئے.عیسائیوں کی طاقت کے مقابلہ میں نہ ہمارے پاس کوئی طاقت ہے اور نہ ان کے مبلغوں کے مقابلہ میں ہمارے مبلغوں کی تعداد کوئی حقیقت رکھتی ہے.رومن کیتھولک پادریوں کی تعداد ہی اٹھاون ہزار ہے اور ہمارے مبلغ تین سو بھی نہیں.ایک دفعہ وکالت تبشیر نے مجھے رپورٹ پیش کی تھی کہ مقامی جماعتوں کے مبلغ ملا کر ہمارے کل مبلغ 270 ہیں.اب کجا 270 مبلغ اور کجا 58000 مبلغ.اور ابھی یہ صرف رومن کیتھولک پادریوں کی تعداد ہے.اگر پروٹسٹنٹ فرقہ کے پادریوں کو ملا لیا جائے تو ایک لاکھ سے بھی زیادہ ان کے مبلغوں کی تعداد بن جاتی ہے.قرآن کریم نے ایک جگہ بتایا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سچا ایمان پایا جائے تو ایک مومن دس کفار کا مقابلہ کر سکتا ہے (سورہ انفال ع:9) اس کے معنی یہ ہیں اگر ان کے دو ہزار سات سو مبلغ ہوں تب تو انسانی طاقت کے لحاظ سے ہماری فتح کا امکان ہے لیکن ہمارے 270 مبلغوں کے مقابلہ میں ان کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ مبلغ ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے ایک مبلغ کے مقابلے میں ان کے تین چار سو مبلغ کام کر رہے ہیں پس بظاہر دنیوی نقطہ نگاہ سے ان کا مقابلہ نہیں ہوسکتا گو صحابہ میں ہمیں عملاً اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ انھوں نے کئی کئی گنا لشکروں کا مقابلہ کیا اور دشمن پر فتح حاصل کی.جب رومیوں سے جنگ ہوئی تو حضرت خالد بن ولیڈ نے صرف ساٹھ آدمیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ منتخب کیا اور ان ساٹھ آدمیوں نے ساٹھ ہزار کے لشکر پر حملہ کر دیا.اسی طرح صلى الله رسول کریم مہ جب رومیوں پر حملہ کرنے گئے تو آپ کے ساتھ صرف دس ہزار آدمی تھے اور رومی فوج کئی لاکھ تھی مگر خدا تعالیٰ نے ان پر ایسا رعب ڈالا کہ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور انھوں نے رسول کریم علیہ کا مقابلہ نہ کیا.دراصل جرہم قبیلہ کی کہ پر رومی مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے یہ قبیلہ اصل میں عرب تھا مگر رومی اثر کے نیچے عیسائی ہو گیا تھا.پہلے تو انھوں نے قیصر کو انگیخت کی اور اسے حملہ کے لئے اکسایا مگر جب رسول کریم ﷺ پہنچے تو وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے.اور جب وہ پیچھے ہٹے تو رومی فوج بھی ڈر گئی اور اس نے حملہ نہ کیا غرض صحابہ کے زمانہ میں دو دو ہزار گنا لشکر کا بھی مسلمانوں نے مقابلہ کیا ہے مگر یہ مقابلہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ہماری جماعت بہت قلیل ہے اور ساری دنیا میں ہم نے اسلام پھیلانا ہے.پس یہ کمی اس طرح پوری ہو سکتی ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعاؤں میں لگا رہے اور ہر شخص اس بات کا عہد کرے کہ وہ دین کے لئے کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گا اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیگا.میں نے اس غرض کے لئے جماعت میں وقف جدید کی تحریک کی ہے اور اس وقت تک جو اطلاع آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو چوالیس دوست اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں جن میں سے تیرہ صلى الله

Page 47

40 حضرت مصلح موعود معلم پہلے بھیجے جاچکے ہیں اور سترہ اور واقفین کو قابل انتخاب قرار دیا جا چکا ہے.جن کے متعلق مقامی جماعتوں سے رپورٹ کی جارہی ہے اور دفتر والوں نے مجھے لکھا ہے کہ ان کی رپورٹیں آنے کے بعد ان سترہ واقفین کے نام منظوری کے لئے پیش کئے جائیں گے میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ ابھی اس کام کو شروع کئے چند دن ہی ہوئے ہیں جو وفد بھجوائے گئے ہیں ان کے کام کے خوشکن نتائج نکلنے شروع ہو گئے ہیں.ابھی تک ان مرا کز کو قائم ہوئے صرف چند دن ہوئے ہیں اور یہ اتنا تھوڑا عرصہ ہے جس میں کوئی نمایاں نتیجہ نہیں نکل سکتا اصل نتیجہ اس وقت معلوم ہو گا جب چھ سات مہینے گزر جائیں گے.پس وہ لوگ تو اپنا کام کر رہے ہیں.آپ لوگوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم ان کی مدد کے لئے کیا کر رہے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقف جدید کے مالی مطالبہ میں جماعت احمدیہ کراچی کے اڑھائی ہزار آدمیوں نے حصہ لیا ہے اور پندرہ ہزار روپے سالانہ کا وعدہ کیا ہے لیکن اگلے سال امید ہے کہ یہ چندہ اور بھی ترقی کرے گا.اس سال کچھ تو فصلیں خراب ہوئی ہیں اور کچھ چندے بھی دوستوں کو زیادہ دینے پڑے ہیں.ممکن ہے اگلے سال کراچی کی جماعت اس سے بھی زیادہ توجہ کر سکے.اس سال بڑی مہنگائی رہی ہے اور فصلیں بھی خراب ہوئی ہیں جس کی وجہ سے گاؤں کی جماعتیں تو اقتصادی لحاظ سے بالکل پچلی گئی ہیں.پھر تفسیر صغیر کی وجہ سے بھی جماعت کے دوستوں کو بہت سی رقمیں دینی پڑیں اور کچھ چندوں کی کمی کی وجہ سے بجٹ کے متعلق جو خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ شاید وہ پورا نہ ہو سکے اس کو پورا کرنے کے لئے بھی جماعت کو کوشش کرنی پڑی.پس اس سال کی متواتر قربانیوں کی وجہ سے آپ لوگوں کا کام قابل تحسین ہے لیکن امید ہے کہ جب پچھلے بوجھ اتر جائیں گے اور اس عرصہ میں جماعت بھی ترقی کرے گی تو دوست وقف جدید میں بھی اس سال سے زیادہ حصہ لیں گے اور تحریک جدید میں بھی زیادہ حصہ لیں گے تحریک جدید کے اس وقت تک بہت کم وعدے آئے ہیں.جب میں چلا تھا تو میرے پاس رپورٹ آئی تھی کہ تحریک جدید کے پانچ لاکھ کے وعدے آئے ہیں اور یہ بہت کم ہیں.ان کا خرچ بارہ تیرہ لاکھ کا ہے صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ بھی پچھلے سال تیرہ لاکھ کا تھا.اگر ہماری جماعت کے زمینداروں کی آمد زیادہ ہو جائے اور صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تیرہ لاکھ سے بڑھ کر سولہ سترہ لاکھ پر آجائے اس طرح تحریک جدید کا بجٹ ترقی کر جائے تو پھر امید ہے کہ ہمارے کام آسانی سے چلنے لگیں گے.مولا نا عبدالماجد صاحب دریا آبادی نے ایک دفعہ اپنے اخبار میں لکھا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد جماعت احمد یہ پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جتنا بجٹ ان کا اب ہوتا ہے اتنا بجٹ ان کا پہلے کبھی نہیں ہوا اور یہ بالکل درست ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات کے وقت

Page 48

41 حضرت مصلح موعود جماعت کا سارا بجٹ تیس پینتیس ہزار کا تھا مگر اب صرف صدر انجمن احمدیہ کا ہی پچھلے سال تیرہ لاکھ کا بجٹ تھا اور اگر اس کے ساتھ تحریک جدید کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہمارا بجٹ چھپیں ، چھبیس لاکھ تک پہنچ جاتا ہے اس کو دیکھ کر مخالف بھی متاثر ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ جماعت پہلے سے ترقی کر رہی ہے.اور جب وقف جدید مضبوط ہو گیا جس کی وجہ سے لازماً چندے بھی بڑھیں گے اور آدمی بھی بڑھیں گے تو ممکن ہے اگلے سال تینوں انجمنوں کا بجٹ چالیس، پچاس لاکھ تک پہنچ جائے پس ان قربانیوں کی طرف جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہئے اور ہر آدمی کو یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مد دجلدی آئے.بیشک جہاں تک اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا سوال ہے ہمیں یقین ہے کہ اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے گا لیکن اگر اس مدد کے آنے میں کچھ دیر ہو جائے تو مومن کا قلب اسے برداشت نہیں کر سکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب مومن کہہ اٹھتے ہیں کہ مَتی نَصْرُ الله یعنی انتظار کرتے کرتے ہماری آنکھیں تھک گئیں اب اللہ کی مدد کب آئے گی.فرماتا ہے الا اِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (البقرة: آیت 215) اللہ کی نصرت آنے ہی والی ہے.گھبراؤ نہیں تم گھبرا جاتے ہو اور سمجھتے ہو کہ نہ معلوم اس کی مدد کب آئے گی ، حالانکہ وہ تمہارے بالکل قریب پہنچ چکی ہے چنانچہ ان آیتوں کے نزول کے ایک دو سال بعد ہی مکہ فتح ہو گیا اور سارے عرب پر اسلام غالب آ گیا.اب بھی ایسا ہی وقت ہے کہ ہر احمدی کے دل سے یہ آواز اٹھنی چاہئے کہ می نَصْرُ اللهِ اے خدا تیری مدد کب آئے گی.ہم نے تیرے دین کی ترقی کے خواب اس وقت دیکھنے شروع کئے تھے جب یہ صدی شروع ہوئی تھی اور اب تو یہ صدی بھی ختم ہونے والی ہے مگر ابھی تک ہماری امیدیں بر نہیں آئیں اور کفر دنیا میں قائم ہے.اے خدا تو اپنی مددبھیج تا کہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی وہ دن دیکھ لیں کہ اسلام دنیا پر غالب آجائے اور عیسائی اور ہندو اور دوسرے تمام غیر مذاہب کے پیر ومغلوب ہو جائیں اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں مسجدیں بن جائیں اور اللہ اکبر اللہ اکبر کی آوازوں سے سارا یورپ اور امریکہ گونج اٹھے اگر آپ لوگوں کے دلوں سے اس طرح آواز اٹھے تو آپ کو یقین رکھنا چاہئے کہ آپ کے دل میں ایمان کی چنگاری پیدا ہوگئی ہے لیکن اگر یہ آواز نہ اٹھے تو آپ سمجھ لیں کہ آپ لوگوں نے اپنے متعلق بلا وجہ نیک فنی کی.آپ سمجھتے رہے کہ ہم مومن ہیں حالانکہ مومن نہیں تھے.اسلام تو بہت بڑی چیز ہے رسولِ کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مومن کی علامت یہ ہے کہ اگر اس کے کسی بھائی کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اسے بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے جیسے وہ تکلیف خود اسے پہنچی ہے.جب ایک مومن بھائی کی تکلیف کو بھی دوسرا شخص اپنی تکلیف سمجھتا ہے تو اگر اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ پر اعتراضات کئے جاتے ہیں ، آپ پر غلاظت اچھالی صلى الله

Page 49

42 حضرت مصلح موعود جاتی ہے اور تمہارے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا تو یہ ایمان کی کمی کی علامت ہے.بیشک جس بات کی ہمیں طاقت حاصل نہیں اس کے متعلق خدا تعالیٰ ہم سے کوئی سوال نہیں کرے گا.لیکن ہمارے دلی جذبات کے متعلق تو وہ ہم سے سوال کر سکتا ہے.وہ کہے گا کہ اگر تمہارے دلوں میں سچا ایمان ہوتا تو تم ان مخالفتوں کو دیکھ کر کیوں نہ میری طرف جھکتے اور مجھ سے دعائیں کرتے اور چونکہ تم میری طرف نہیں جھکے اس لئے معلوم ہوا کہ جو تمہارا فرض تھا وہ تم نے ادا نہیں کیا.(روز نامه الفضل ربوہ 9 مارچ 1958 ء صفحہ 2 تا 4 )

Page 50

43 حضرت مصلح موعود خطبہ جمعہ فرموده 28 فروری 1958 بمقام کراچی تشہد اور تعوذ اورسورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ اس سال ایک وقف جدید کی تحریک کی گئی ہے.جس کے ذریعے تمام ملک میں رشد و اصلاح کے کام کو وسیع کرنے کے لئے واقفین زندگی بھجوائے جارہے ہیں.اب تک یہ واقفین ربوہ سے پشاور ڈویژن، ملتان ڈویژن اور بہاولپور ڈویژن میں بھجوائے گئے ہیں نیز خیر پور ڈویژن میں بھی اور حیدر آباد ڈویژن میں بھی بعض واقفین بھیجے گئے ہیں.میں نے چوہدری عبداللہ خان صاحب سے جو یہاں کی جماعت کے امیر ہیں کہا ہے کہ وہ ایک ایسا انسپکٹر مقرر کریں جو اس طرز سے نواب شاہ تک کے علاقہ کا دورہ کرے اور معلمین کے کام کی نگرانی کیا کرے آخر جو معلم جاتے ہیں ان کے کام کی نگرانی کرنا بھی ہمارا فرض ہے.مگر بجائے اس کے کہ ربوہ سے انسپکٹر بھجوایا جائے میں جانتا ہوں کہ کراچی سے ایک انسپکٹر نواب شاہ تک کے علاقہ کو سنبھال لے اور تمام مقامات کا دورہ کرے.وہ کہتے تھے کہ اس غرض کے لئے ایک انسپکٹر وقف جدید مقرر کر دیا جائے گا.میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس غرض کے لئے پیش کریں اگر ادھر سے نواب شاہ تک کے علاقہ کی نگرانی کراچی کرے تو ربوہ سے نواب شاہ تک کے علاقہ کی ہم خود نگرانی کر لیں گے.اس کے بعد ہم ایک انسپکٹر صوبہ سرحد سے مانگ لیں گے جو مردان ، نوشہرہ ، راولپنڈی اور ایبٹ آباد وغیرہ کا کام سنبھال لے گا.اس طرح نگرانی کا کام دو تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر خرچ بہت کم ہو جائے گا.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ چوہدری صاحب سے تعاون کریں.یہ اتنا تھوڑا علاقہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مہینہ میں ایک دو دن کے اندراندر تمام علاقہ کو دیکھا جاسکتا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سلسلہ کا خرچ بہت سا بچ جائے گا.اگر ربوہ سے انسپکٹر چلے تو کراچی تک تھرڈ کلاس میں بھی 21 روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور اب تو ریل کے کرایوں پر ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے جس سے کرایہ میں اور بھی زیادتی ہوگئی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ہم وہاں سے انسپکٹر بھجوائیں تو اس کے آنے جانے میں پچاس روپے لگ جائیں گے لیکن اگر یہاں سے کوئی آدمی چلا جائے اور وہ نواب شاہ تک کے علاقہ کی نگرانی کرے تو خرچ میں بہت سی تخفیف ہو جائے گی دوسرے کام جلدی جلدی ہونے لگے گا.وہاں سے انسپکٹر آئے تو ہمیں

Page 51

44 حضرت مصلح موعود انتظار رہے گا کہ نہ معلوم وہ کب تک سب مقامات کا دورہ کر کے واپس آتا ہے لیکن اگر ملک کے مختلف سیکشن مقرر ہوں تو نگرانی میں بڑی آسانی ہوسکتی ہے مثلاً پشاور والے نگرانی کا کام سنبھال لیں تو وہ مردان ایک ہی دن میں جا کر واپس آسکتے ہیں.نوشہرہ سے بھی اسی دن واپس آسکتے ہیں راولپنڈی بھی ایک دن میں آجا سکتے ہیں.1956ء میں جب ہم مری میں تھے تو ایک دفعہ ہم نے ایک پہاڑی مقام پر سیر کے لئے جانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ وہاں دُنبہ پکا کر لے چلیں.کیپٹن محمد سعید صاحب جو ان دنوں وہاں ہوتے تھے ان کو ہم نے بھیجا کہ وہ کہیں سے اچھا سا دُنبہ تلاش کر کے لے آئیں جب وہ دُنبہ لے کر واپس آئے تو انھوں نے بتایا کہ یہاں چونکہ اچھا دنبہ نہیں ملتا تھا اس لئے میں پشاور چلا گیا تھا اور وہاں سے دنبہ لے آیا.تو پشاور سے راولپنڈی تک آنا جانا بڑا آسان ہے.پس پشاور والے اگر ہمت کریں تو ان کا انسپکٹر مردان ، نوشہرہ ، راولپنڈی ، ایبٹ آبا داور مری وغیرہ کی آسانی سے نگرانی کر سکتا ہے بلکہ اب تو ایبٹ آباد میں بھی اتنے احمدی ہیں کہ ممکن ہے کہ وہی اپنے ارد گرد کے علاقہ کو سنبھال لیں.اسی طرح ملتان کی جماعت ایک بڑی ہوشیار جماعت ہے اگر وہ توجہ کرے تو ممکن ہے کہ وہ بھی کئی ضلعے سنبھال لے مثلاً منٹگمری ہے ، اوکاڑہ ہے ، میاں چوں ہے، چیچہ وطنی ہے.چیچہ وطنی کا نام آنے پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ایک دفعہ میں کراچی آرہا تھا جب گاڑی چیچہ وطنی پہنچی اور وہاں کے دوست ملاقات کے لئے آئے تو ایک عورت نے جلدی جلدی میرے کوٹ کی جیب میں جلیبیاں ڈال دیں.میری بیوی نے اسے روکا تو وہ کہنے لگی حضرت صاحب نے کچھ کھایا نہیں ہوگا اور راستہ میں ان کو بھوک لگے گی اس لئے میں نے ان کی جیب میں جلیبیاں ڈال دی ہیں تا کہ وہ راستہ میں کھاتے جائیں.میں نے یہ واقعہ خطبہ میں بیان کر دیا اور کہا کہ میرے کوٹ کا تو ستیاناس ہو گیا اور اس کا ناشتہ ہو گیا چنانچہ اگلے سال جب وہاں کی جماعت آئی تو انھوں نے اس واقعہ پر معذرت کی اور اس عورت نے بھی معافی مانگی.پھر کبیر والا ہے شورکوٹ ہے، یہ تمام علاقہ ایسا ہے جس کو ملتان کی جماعت سنبھال سکتی ہے.اس کے بعد دو چار مرکز جور بوہ کے ارد گر درہ جائیں گے انکی نگرانی خود دفتر اچھی طرح کر لے گا.بہر حال اس وقت بعض بڑی جماعتوں کی خدمات کی ہمیں نگرانی کا کام سرانجام دینے کے لئے ضرورت ہے تا کہ کم سے کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ کام ہو سکے.اس وقت تک جور پورٹیں آرہی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت خوشکن ہیں جو وفد بہاولپور ڈویژن کی طرف گیا تھا اس کے کام کا یہ اثر ہوا ہے ایک گریجویٹ کے متعلق وہاں کے امیر کی چٹھی آئی ہے کہ اس نے بیعت کر لی ہے.یہ دوست سلسلہ کے لٹریچر کا دیر سے مطالعہ کر رہے تھے اور وقف جدید کے معلم

Page 52

45 حضرت مصلح موعود نے بھی مجھے لکھا تھا کہ ایک دوست احمدیت کے قریب ہیں اور سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیعت اس شخص کی ہوگی بہر حال اس تحریک کے نتائج خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے نکلنے لگ گئے ہیں.سابق صوبہ سرحد کی طرف سے بھی اچھی رپورٹیں آرہی ہیں وہاں ہم نے ایک کمپونڈ ر کو بھجوایا ہے پہلے اس کے بھائی نے وقف کیا تھا لیکن پھر اس نے ہمیں لکھا کہ میرے بھائی کو آپ چھوڑ دیں وہ دوسو میں روپے لیتا ہے اور اس کی آمد پر تمام گھر پلتا ہے پھر وہ کچھ زیادہ پڑھا ہوا بھی نہیں.میں کمپونڈری پاس ہوں اور اپنی دوکان کرتا ہوں آپ مجھے لے لیں اور میرے بھائی کو چھوڑ دیں چنانچہ ہم نے اسکور کھ لیا اور اسے پشاور کی طرف بھیج دیا.جیسے سندھ میں ڈاکٹروں کی کمی ہے اسی طرح سرحد میں بھی ڈاکٹروں کی کمی ہے اب اس کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ پٹھان میری دوکان پر آتے ہیں اور دین کی باتیں سنتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی وفد گئے ہیں وہاں سے خوشکن اطلاعات آنی شروع ہوگئی ہیں مگر کہتے ہیں کہ کئے آمدی و کئے پیر شدی جب میں ربوہ سے چلا تھا تو ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ان مرکزوں کو قائم کئے ہوا تھا، حالانکہ اصل نتائج سال ڈیڑھ سال کے بعد نکلا کرتے ہیں پس صحیح نتائج تو اگلے جلسے کے بعد انشاء اللہ نکلنے شروع ہوں گے.لیکن اس کے خوشکن آثارا بھی سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں جیسے کہتے ہیں ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے آثار بتا رہے ہیں کہ اس کا مستقبل بہت شاندار ہوگا.اس وقت یہ تحریک ایک بچہ کی صورت میں ہے اور بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے دانت نہیں دیکھے جاتے نہ اس کی داڑھی دیکھی جاتی ہے، دو تین سال میں اس کے دانت نکلتے ہیں، پھر وہ چلنا پھرنا سیکھتا ہے اور کہیں اٹھارہ ، ہیں سال کے بعد اس کی داڑھی نکلتی ہے اگر پہلے دن ہی اس کی داڑھی تلاش کی جائے تو یہ بیوقوفی ہوگی.اسی طرح وقف جدید کے نتائج اور اس کی خوبیوں کا ابھی سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.اس وقت تک جو کیفیت ہے اس کے لحاظ سے واقفین زیادہ ہیں اور چندہ کم ہے.جب میں چلا ہوں تو وقف جدید میں 70,000 سالانہ کے وعدے آئے تھے ، لیکن واقفین 345 تھے.اگر پچاس روپیہ ماہوار بھی ایک شخص کو دیئے جائیں اور پھر دورہ کرنے والوں کے اخراجات کو بھی مد نظر رکھا جائے اور اوسط خرج 70 روپیہ ماہوار سمجھا جائے تو 345 واقفین کے لئے 25000 روپیہ ماہوار یا تین لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی.اور اتنا روپیہ ہمارے پاس نہیں بلکہ ہماری اصل سکیم تو یہ ہے کہ کم سے کم ڈیڑھ ہزار سینٹر سارے ملک میں قائم کر دیے جائیں ، اگر ایک ہزار سینٹر بھی کھولے جائیں اور 70 روپیہ ماہوار ایک شخص کے خرچ کا اندازہ رکھا

Page 53

46 حضرت مصلح موعود جائے تو 70,000 روپیہ ماہوار یا ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوگا.بظاہر یہ رقم بہت بڑی نظر آتی ہے لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے کبھی مایوس نہیں کیا.اس لئے ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ روپیہ ہمارے لئے مہیا فرمادے گا.بلکہ ہمیں تو امید ہے کہ ایک دن اس سے بھی زیادہ روپیہ آئے گا اگر ڈیڑھ ہزار سنٹر قائم ہو جائیں تو کراچی سے پشاور تک ہر پانچ میل پر ایک سنٹر قائم ہو جاتا ہے.بنگال سے بھی اب ایسی خبریں آ رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی لوگوں کو وقف جدید کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے چنانچہ ایک سکول کے مدرس نے لکھا ہے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنے کے لئے تیار ہوں میں نے اسے لکھا ہے کہ تم کام شروع کر دو ہم وہیں تمہیں اپنا معلم مقرر کر دیں گے.غرض یہ تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے دوست اس کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو تحریک بھی کرتے رہیں.قرآن کریم نے مومن کا یہی کام بتایا ہے کہ وہ نیکیوں میں آگے بڑھتا ہے اور جب کوئی پیچھے رہ جائے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے پھر اور آگے بڑھتا ہے اور جو پیچھے رہ جائے اسے پھر اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کا بھی خیال رکھتا ہے اور ان کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ دنیا میں نیکی ہی نیکی قائم ہو جاتی ہے.یہی فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقره: 149) کے معنے ہیں.پس اگر ڈیڑھ ہزار سینٹر قائم ہو جائے تو ہمارے ملک کا کوئی گوشہ اصلاح وارشاد کے دائرہ سے باہر نہیں رہ سکتا.ویسٹ پاکستان کا رقبہ تین لاکھ مربع میل سے زائد ہے اور ایسٹ پاکستان کا 54 ہزار مربع میل ہے.ہماری سکیم ایسی ہے جس کے ماتحت چار چار، پانچ پانچ مربع میل میں ایک ایک سنٹر قائم ہو جاتا ہے پھر اور ترقی ہو تو دو دو مربع میل میں بھی ایک ایک سنٹر مقرر کیا جا سکتا ہے بلکہ اور ترقی ہو تو ایک ایک میل کے حلقہ میں بھی سنٹر قائم ہوسکتا ہے اور اگر ایک ایک میل میں ہم سنٹر قائم کر دیں تو پھر ہمارے ملک میں کوئی جگہ ایسی باقی نہیں رہتی جہاں خدا اور رسول کی باتیں نہ ہوتی ہوں جہاں قرآن کی تعلیم نہ دی جاتی ہو اور جہاں اسلام کا پیغام نہ پہنچایا جاتا ہو.روزنامه افضل 15 مارچ 1958 ، صفحہ 3-4)

Page 54

47 حضرت مصلح موعود خطبہ جمعہ فرموده 7 مارچ 1958 ء بمقام ناصر آباد سندھ) سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہاں ہماری اسٹیٹس کو قائم ہوئے چوبیس پچیس سال گذر چکے ہیں، ناصر آباد اسٹیٹ تو 1935ء میں قائم ہوئی تھی لیکن احمد آباد 1933ء سے اور محمود آباد1934ء سے قائم ہیں.اس کے بعد محمد آباد 1937 ء میں اور بشیر آباد 1939ء میں قائم ہوئیں مگر باوجود اس کے کہ ان اسٹیوں کو قائم ہوئے ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے اب تک یہاں جماعت کے بڑھنے کی رفتار بہت کم ہے میرا خیال ہے کہ اگر ان ساری اسٹیوں کے احمدی ملالئے جائیں تو باوجود اس کے کہ ان میں بہت سے مہاجر بھی ہیں، پھر بھی ہزار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ احمدی نہیں ہوں گے حالانکہ جس رفتار سے احمدیوں کو بڑھنا چاہئے تھا اگر اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایک احمدی سالانہ ایک ایک آدمی بھی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کرتا تو اب تک یہاں پچاس ہزار سے زیادہ احمدی ہوتے لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں اور ہماری جماعت کے قیام کی جو اصل غرض ہے.اس کی پروا نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ان کی حالت ایک جیسی چلی جاتی ہے.انسان کو چاہئے کہ یا تو وہ اخلاص کے ساتھ ایک سچائی کو قبول کرے اور یا پھر اسے چھوڑ دے خدا تعالیٰ کو کسی بندے کی احتیاج نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص مرتد ہو جائے تو ہم اس کے بدلہ میں ایک نئی قوم لے آئیں گے جو خدا اور اس کے رسول سے محبت رکھنے والی اور اس کے دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے والی ہوگی.پس آپ لوگ احمدی بن کر اس وقت جماعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہے.اگر خدانخواستہ مرتد ہو کر الگ ہو جاتے تو اس کا یہ فائدہ پہنچتا کہ ایک ایک شخص کے بدلہ میں جیسا کہ قرآنِ کریم نے بتایا ہے ایک ایک قوم آجاتی جو بعض دفعہ کئی کئی لاکھ کی بھی ہوتی ہے.سندھ میں ہی چانڈیہ، خاصخیلی، گرگیز ، اور بر وغیرہ کئی تو میں ہیں اور ہر قوم کے پانچ پانچ سات سات ، آٹھ آٹھ لاکھ افراد ہیں بلکہ چانڈیوں کی تعداد تو اس سے بھی زیادہ ہے سو آپ لوگوں کو اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنی چاہئے اور اپنے فرائض کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر جو اپنے فرائض کی طرف پوری توجہ نہیں کر رہے وقف جدید کی تحریک جاری کی ہے جس کے لئے خود میں نے بھی دس ایکڑ زمین کا وعدہ کیا ہے اور ارادہ ہے کہ یہاں بھی

Page 55

48 حضرت مصلح موعود ایک مرکز قائم کر دیا جائے.لا بینی میں جو مرکز کھولا گیا ہے اس کے ذریعہ اب تک چار آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کر چکے ہیں اور ڈیڑھ سو آدمی احمدیت میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے.یہ لوگ ادنی اقوام میں سے ہیں جن کو امریکن لوگ عیسائی بنا رہے ہیں.اگر پندرہ سولہ دن کے عرصہ میں ایک مرکز نے 154 آدمی تیار کر دیئے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مہینے میں تین سو آدمی شامل ہو جائے گا.مگر یہ تعداد ابھی کم ہے.ہماری سکیم یہ ہے کہ ہر مرکز سال میں پانچ ہزار آدمیوں کو اسلام پر پختہ کرے.اور ان کی اصلاح اور تعلیم کے کام کو مکمل کرے.اس وقت تک 370 کے قریب وقف کی درخواستیں آچکی ہیں اگر 370 جگہ مراکز قائم کر دیئے جائیں اور ہر مرکز کے ذریعہ پانچ ہزار آدمی سالانہ اسلامی تعلیم پر پختگی حاصل کر کے سلسلہ میں شامل ہو تو ایک سال میں 18 لاکھ پچاس ہزار آدمی اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس ہوسکتا ہے اور ان کے اندر ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا ہوسکتی ہے اتنے عرصے میں امید ہے کہ یہ تحریک اور بھی ترقی کر جائے گی اور کئی نئے مقامات پر بھی مرکز کھل جائیں گے.یہ تحریک میں نے جلسہ سالانہ میں کی تھی مگر اس وقت لوگ اسے پوری طرح سمجھے نہیں.اب آہستہ آہستہ لوگ اس کی اہمیت سے واقف ہو رہے ہیں.اگر سال ڈیڑھ سال میں 370 کی بجائے آٹھ سو یا ہزار واقفین ہو جائیں اور ہر واقف کے ذریعہ پانچ ہزار آدمی سالانہ اسلامی تعلیم سے آگاہ ہو کر اس پر مضبوطی سے قائم ہونے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے ذریعہ پچاس لاکھ آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال اسلامی تعلیم پر پختہ ہوتا چلا جائے گا اور اسلام اور قرآن کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے گی اور دو تین سال میں تو امید ہے کہ یہ تعداد انشاء اللہ کروڑوں تک پہنچ جائے گی.(روز نامه الفضل ربوہ 10 اپریل 1958 ء صفحہ 2)

Page 56

49 حضرت مصلح موعود خطبہ عید الفطر فرموده 21 اپریل 1958ء بمقام ربوہ) سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کچھ دن ہوئے میں نے رویاء میں دیکھا کہ ایک مجلس ہے اور بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں.میں ان میں بڑھتا چلا جاتا ہوں چلتے چلتے میں نے دیکھا کہ آگے قاضی ظہور الدین صاحب اکمل بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ان کے پاس سے ہو کے گزرا ہوں.میں نے اس کی یہ تشریح کی کہ الدین“ سے مراد اسلام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (آل عمران: 20 ) پس اس لحاظ سے ظہور الدین اکمل کے یہ معنے ہونگے کہ ظہور الاسلام اکمل یعنی خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں کامل طور پر غالب کرے.یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس عید کے دن جب کہ سب لوگ اپنے اپنے دوستوں کو تحفے دیتے ہیں اس غریب جماعت کو یہ تحفہ دے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کو دنیا پر غالب کرے اور کامل طور پر غالب کرے یہاں تک کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کو رسول کریم ﷺ کو اور اسلام کو بُرا کہنے والا کوئی باقی نہ رہے.تمام کے تمام ایمان لانے والے ہوں اور اپنے ایمان اور اخلاص کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی توحید اور خدا تعالیٰ کی شان کے بڑھانے اور اسے پھیلانے والے ہوں.صلى الله پھر چند روز ہوئے.میں نے دیکھا کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا تقریر کر رہا ہوں ذہن میں تو نہیں مگر وہ ایسا ہی مجمع ہے جیسے عید کا مجمع ہوتا ہے اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو گو اس وقت تلوار کا جہاد نہیں ہے مگر تبلیغ کا جہاد ہے جو تلوار کے جہاد سے زیادہ آسان ہے تم رسول کریم ﷺ کے صحابہ کو دیکھو کہ انھوں نے ایمان لانے کے بعد ایسا اخلاص دکھایا کہ یا تو وہ اتنے بتوں کو پوجتے تھے کہ ہر دن میں ایک ایک بت آجا تا تھا اور یا پھر وہ تو حید کا جھنڈا اٹھا کر دنیا میں نکل گئے اور اس کے کناروں تک پھیل گئے انھوں نے ایران فتح کیا، عرب فتح کیا، افغانستان فتح کیا اور پھر سندھ کے ذریعہ سے ہندوستان فتح کیا پھر مصر فتح کیا پھر تیونس اور مراکش فتح کیا پھر ہسپانیہ فتح کیا پھر تاریخوں سے ثابت ہے اور بعض آثار قدیمہ بھی ایسے ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پھر مسلمانوں میں سے بعض جہازوں پر بیٹھ کر امریکہ چلے گئے جہاں اب تک بھی ایک پرانی مسجد باقی ہے اور کولمبس نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ میں نے جو امریکہ دریافت کیا ہے تو

Page 57

50 حضرت مصلح موعود اس کی اصل تحریک مجھے ایک مسلمان بزرگ کی تحریر سے ہوئی ہے اس کا اشارہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کی طرف تھا انھوں نے اپنی کتاب ” فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ میں نے مغرب کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ اس سمندر کے پرے ایک اور ملک بھی ہے.چنانچہ جب لوگوں نے کولمبس پر اعتراض کیا اور بادشاہ نے اسکوروپیہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تجھے وہم ہو گیا ہے اور تو پاگل ہے تو اس نے کہا نہیں میں نے یہ بات ایسے لوگوں سے سنی ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے یعنی مسلمانوں سے اور پھر انھوں نے بھی یہ بات اپنے ایک بہت بڑے بزرگ کے حوالہ سے کہی ہے اس لئے میں ضرور کامیاب ہوں گا اگر نا کام وا پس آیا تو آپ کا اختیار ہے کہ جو چاہیں مجھے سزا دیں.آخر ملکہ نے اپنے زیور بیچ کر اس کے لئے روپیہ مہیا کیا.پادری اس وقت اتنے احمق تھے کہ ایک پادری نے دربار میں تقریر کی کہ یہ تو پاگل ہو گیا ہے اور عیسائیت کے خلاف تقریریں کرتا ہے.اس وقت پادریوں کا خیال تھا کہ زمین چپٹی ہے گول نہیں.اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر زمین گول ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی علاقہ ایسا بھی ہے جہاں انسانوں کا سر نیچے ہوتا ہے اور ٹانگیں اوپر اور بارش بھی اوپر سے نیچے نہیں ہوتی بلکہ نیچے سے اوپر ہوتی ہے اولے بھی نیچے سے اوپر گرتے ہیں اور یہ ساری حماقت کی باتیں ہیں لیکن آخر وہی کامیاب ہوا.غرض میں نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو رسول کریم ﷺ کے صحابہ یا تو اتنے کمزور اور نا طاقت تھے کہ سارے عرب میں دس ایرانیوں یا دس رومیوں کا مقابلہ کرنے کی بھی طاقت نہیں تھی اور یا وہ دن آیا کہ وہ اسلام کے سیاہ جھنڈے ہاتھوں میں لے کر نکلے اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے اور رسول کریم نے کی وفات پر ابھی پندرہ سال کا عرصہ ہی گذرا تھا کہ مسلمان ہندوستان اور چین تک جا پہنچے.تم کو بھی چاہئے کہ چھوٹے چھوٹے سیاہ جھنڈے بنا لو اور وقف جدید کے جو مجاہد ہیں وہ دنیا میں پھیل جائیں اور اسلام کا جھنڈا ہر جگہ گاڑ دیں یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم ہو جائے اور گو یہ حکومت سیاسی نہیں ہو گی بلکہ دینی اور مذہبی ہوگی کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو پڑھائیں گے اور علاج معالجہ کریں گے اور دین سکھائیں گے مگر پھر بھی ان کے ذریعہ اسلام کا ایک نشان قائم رہے گا.دیکھ لو بعض علاقے ایسے ہیں جواب تک بھی رہائش کے قابل نہیں لیکن حکومتوں نے ابھی سے وہاں اپنے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں تا کہ جب کبھی بھی وہاں آبادی کی صورت پیدا ہو تو ان کا حق قائم رہے چنانچہ بحر منجمد جنوبی کے قریب ایک جہاز اتفاقاً روس کا پہنچ گیا پھر جاپان کا ایک جہاز پہنچ گیا پھر ڈچ کا پہنچ گیا پھر امریکہ کا پہنچ گیا.ان چاروں حکومتوں کے آدمی جب وہاں برف کے تو دوں پر پہنچے تو انھوں نے وہاں اپنے اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ دیا.اب چاروں حکومتیں اس علاقہ کی ملکیت کی مدعی ہیں امریکہ کہتا ہے بحر منجمد جنوبی ہمارا ہے اور اس کے اندر جو

Page 58

51 حضرت مصلح موعود زمین نکلے گی وہ ہماری ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے.ہالینڈ والے کہتے ہیں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے، جاپان والے کہتے ہیں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ وہاں ہمارے آدمیوں نے اپنا جھنڈا گاڑا ہے ، روس والے کہتے ہیں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ وہاں ہمارے آدمیوں نے اپنا جھنڈا گاڑا ہے.بہر حال وہ خیالی جگہ جہاں ابھی تک آبادی نہیں صرف قیاس ہے کہ وہاں کسی وقت آبادی ہو جائے گی ابھی سے حکومتیں اس پر اپنا حق جتا رہی ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ ان جھنڈوں میں سے ایک جھنڈ امحمد رسول اللہ ﷺ کا بھی نہ ہو تا کہ ہم کہہ سکیں کہ یہ علاقہ نہ امریکہ کا ہے نہ جاپان کا ہے نہ ہالینڈ کا ہے نہ روس کا ہے بلکہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کا علاقہ ہے کیونکہ آپ پر ایمان لانے الله والوں نے آپ کا جھنڈا وہاں گاڑا ہے اور چونکہ جو کچھ محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُلْ اِنَّ صَلوتِی وَ نُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العلمينَ (سورة انعام آیت: 163 ) یعنی اے محمد رسول اللہ یہ تو لوگوں سے کہہ دے کہ میری ہر قسم کی عبادتیں ، میری قربانیاں ، میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اس لئے جو کچھ محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہے.پس دنیا میں جو چیز محمد رسول اللہ ﷺ کی بنے گی وہ آپ ہی خدا تعالیٰ کی بن جائے گی کیونکہ آپ کے سوا اور کوئی وجود دنیا میں ایسا نہیں جس نے توحید کامل کو قائم کیا ہواور خدا تعالی کی حکومت تو حید ہی کے ذریعے سے دنیا میں آتی ہے صرف منہ سے کہہ دینا کہ اے خدا تیری بادشاہت جس طرح آسمانوں پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی ہو یہ کافی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو صرف یہ دعا کی تھی اور محمد رسول اللہ ﷺ نے عملاً خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کر کے دکھا دی اور وہ لوگ جو بت پرستی کرتے تھے اور طرح طرح کے عیوب میں مبتلاء تھے انھیں پاکیزہ کر کے کامل توحید پر صلى الله صلى الله قائم کر دیا یہاں تک کہ وہ لوگ جو رات دن شرک میں مبتلا تھے اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے.چنانچہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل مسلمانوں پر بڑے بڑے سخت ظلم کیے تھے اور ان پر گندے حملے کئے تھے جیسے ہندہ جس نے بعض مسلمان شہیدوں کے کلیجے نکلوا کر انھیں کچا چبا لیا تھا.ان کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں ملیں انھیں قتل کر دیا جائے.ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی جب رسول کریم ﷺ نے عورتوں کی بیعت لینی شروع کی تو ہندہ چادر اوڑھ کر ان میں شامل ہو گئی.جب آپ نے بیعت لینی شروع کی اور فرمایا کہ کہو ہم زنا نہیں کریں گی ، چوری نہیں کریں گی ، شرک نہیں کریں گی تو ہندہ بے اختیار بول اٹھی اور کہنے گی یا رسول اللہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ آپ اکیلے تھے اور ہم سارا عرب آپ کے مخالف تھے آپ نے توحید کی تعلیم دینی شروع کی اور ہم نے 360 دیوتاؤں

Page 59

52 حضرت مصلح موعود کی تائید کرنی شروع کی مگر باوجود اس کے کہ سارا عرب آپ کے مارنے پر تلا ہوا تھا.آپ اکیلے خدا کے ساتھ جیت گئے اور ہم اپنے 360 دیوتاؤں کے ساتھ ہار گئے کیا اس کے بعد بھی ہم شرک کر سکتی ہیں وہ چونکہ آپ کی رشتہ دار تھی اس لئے آپ نے اس کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا ہندہ ہے؟ وہ عورت بڑی دلی تھی اس نے کہا یا رسول اللہ اب آپ کا مجھ پر کوئی اختیار نہیں.اب میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکی ہوں اور خدا تعالی کی پناہ میں آچکی ہوں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے میرے سارے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں کیونکہ اسلام انسان کے پچھلے سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اب آپ مجھے میرے کسی پچھلے گناہ کی وجہ سے سزا نہیں دے سکتے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم ٹھیک کہتی ہو.تو دیکھو وہ عورت جو تو حید کی اتنی مخالف تھی کہ مسلمان شہیدوں کے کلیجے دوسروں سے چروا کر کچا چبانے کے لئے تیار ہو جاتی تھی وہ کہتی ہے کہ ہم ایسے بیوقوف تھوڑے ہیں کہ باوجود یہ نمونہ دیکھنے کے کہ آپ اکیلے خدا کے ساتھ غالب آگئے اور ہمارے 360 دیوتا با وجود ساری طاقت اور قوت کے اور باوجود سارے عرب کی مجموعی تائید کے ہار گئے پھر بھی ہم شرک کریں گی؟ اب اس کے بعد تو حید کا کون انکار کر سکتا ہے.تو دیکھو رسول کریم ﷺ کی صداقت کا یہ کس قدر زبر دست نشان تھا کہ آپ نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا کہ تو حید اور اسلام کے شدید ترین دشمن کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے اور پھر انھوں نے قربانیوں کے ایسے شاندار نمونے دکھائے کہ ان کی مثال دنیا کہ پردہ پر نہیں ملتی.وہی ہندہ جو ایک وقت میں کفار کو اکسایا کرتی تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کر وحضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس کا خاوند ابوسفیان اور اس کا بڑا بیٹا یزید حضرت ابو عبیدہ کی امارت میں ایک لڑائی میں شامل ہوئے رومیوں کے ساتھ بڑی سخت لڑائی ہوئی اور ایک وقت ایسا آیا جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے.مسلمانوں نے اپنی سواریوں کو روکنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ نہ رکیں.آخر وہ پیچھے کی طرف دوڑ پڑے.جب سپاہی پیچھے کی طرف آرہے تھے تو ہندہ نے مسلمان عورتوں سے کہا کہ آج مر دوں کے قدم اکھڑ گئے ہیں اب وقت ہے کہ عورتیں اپنی بہادری دکھائیں.انھوں نے کہا ہم کس طرح مقابلہ کریں ہمارے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں.اس نے کہا خیموں کی طنابیں کاٹ دو اور ان کے بانس نکال لو اور بھاگتی ہوئی سواریوں کے مونہوں پر بانس مار کر انھیں پیچھے کی طرف موڑو.چنانچہ اس نے خود ایک طناب کاٹ دی اور بانس لے کر عورتوں کے آگے آگے مسلمانوں کے لشکر کی طرف بڑھی.ابوسفیان اور اس کا بیٹا یزید بھی بھاگے ہوئے آرہے تھے اس نے ان کی سواریوں کے مونہوں پر بانس مار کر کہا.تمہیں شرم نہیں آتی کہ ایک لمبے عرصہ تک تو تم لوگوں نے اسلام کے خلاف لڑائیاں کیں اب اسلام کی خاطر لڑائی کرنے کا موقع آیا ہے تو تم دشمن کے

Page 60

53 حضرت مصلح موعود مقابلہ کی تاب نہ لا کر پیچھے کی طرف بھاگ پڑے ہو.ابوسفیان نے یزید سے کہا.بیٹا واپس چلو دشمن کے تیروں سے زیادہ سخت ان عورتوں کے ڈنڈے ہیں چنانچہ اسلامی لشکر واپس ہوا اور اس نے دشمن کے لشکر پر فتح پائی.تو دیکھو اسلام لانے کے بعد ان لوگوں میں خدا تعالیٰ نے کیسا تغیر پیدا کر دیا کہ وہی ہندہ جو مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو ابھارا کرتی تھی اور اسلام کی شدید دشمن تھی ، اسلام کی خاطر لوگوں کو ابھارنے لگی اور اس نے اپنے خاوند اور اپنے بیٹے کی سواریوں کے مونہوں پر ڈنڈے مار کر انھیں واپس لوٹا دیا.تو میں رویاء میں اس مجمع کو جو میں وہاں دیکھتا ہوں کہتا ہوں کہ اپنے ہاتھوں میں اسلام کے سیاہ جھنڈے لے کر باہر نکل جاؤ اور جس طرح پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے اسلام کے جھنڈے دنیا کے ہر کونہ میں لہرا دیئے تھے اسی طرح تم بھی اسلام کے جھنڈے دنیا کے تمام کونوں میں لہرا دو.گویا یہ رویاء میری پہلی رویاء کی ایک تشریح ہے.یہ کام ہے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے تم اس کام کو جلد سے جلد پورا کرو اور اسلام کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلا دو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقف جدید کی تحریک پر بھی بہت کم وقت گذرا ہے مگر وہ نتائج جو اب تک وقف جدید کے نکلنے چاہئیں تھے ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں نکلا.ہم تو یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ لوگ جو نہایت قربانی اور اخلاص سے آگے بڑھے ہیں ان کی باتوں میں اور ان کے کام میں اس قدر برکت ہوگی کہ وہ رشد و اصلاح اور تعلیم کے کام کو مہینوں میں لاکھوں اور کروڑوں افراد تک پہنچا دیں گے مگر اب تک اس تحریک کے شاندار نتائج نکلتے نظر نہیں آتے لیکن اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتیں حاصل ہیں اگر اللہ چاہے تو وہ اس کو پورا کر سکتا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہماری حقیر کوششوں کو بار آور کرے اور ہماری پیدائش کی غرض اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض کو ہمارے ہاتھوں سے جلد سے جلد پورا کرے اور ہم اسلام کے جھنڈے دنیا کے کناروں تک گاڑ دیں تا کہ قیامت کے دن ہم بھی سرخرو ہوں اور رسول کریم ﷺ بھی سارے نبیوں کے سامنے اپنا سینہ تان کر اپنی فضیلت اور برتری کا اظہار فرمائیں اور ان سے کہیں کہ دیکھو تمہاری قوموں نے تو شرک سے ساری دنیا کو بھر دیا تھا مگر میری قوم نے ہر جگہ تو حید کا جھنڈا گاڑ دیا اور لوگوں کو خدائے واحد کے آستانہ پر لا ڈالا.اگر ایسا ہو جائے تو یہ ہماری انتہائی خوش قسمتی ہوگی اور اس کی وجہ سے ہم قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں.(الفضل 29 اپریل 1958ء ص 3،2)

Page 61

.....54 حضرت مصلح موعود خطبه جمعه فرموده 25 اپریل 1958 ء بمقام ربوہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میری بیماری کے پچھلے تین سالوں میں جو کسی قدر مجھے صحت ہوئی تھی وہ گو در میان میں آکر رک گئی تھی اور بعض عوارض شروع ہو گئے تھے لیکن پھر بھی گزارا ہو جاتا تھا اور خیال تھا کہ اب کے پہاڑ پر جانے کی وجہ سے شاید اور زیادہ فائدہ ہو لیکن اس سال گرمی اس غضب کی پڑی ہے کہ پچھلے سال جب ہم مئی کے مہینہ میں پہاڑ پر گئے تھے تو وہاں لحاف اوڑھ کر سوتے تھے لیکن اس دفعہ پہاڑ پر بھی اتنی گرمی پہنچی ہے کہ وہاں بھی بغیر کپڑے کے سونا پڑا ہے اس لئے پہاڑ پر جا کر جو فائدہ ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا یہاں تو انتہائی گرمی ہے.کل یہاں درجہ حرارت 112F0 تھا.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی میں اخبارات پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جیکب آباد میں درجہ حرارت 111F0 تک جا پہنچا ہے اور اس پر شور مچ گیا تھا کہ دوزخ کا منہ کھل گیا ہے.ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ دوزخ سال میں دو دفعہ سانس لیتا ہے ایک سانس تو وہ گرمی میں لیتا ہے اور ایک سانس سردی میں لیتا ہے اس دفعہ بھی گرمی اتنی شدید ہے کہ کمزور آدمی اس کی برداشت کی طاقت نہیں رکھتا.نوجوان آدمی تو اس کی پرواہ نہیں کرتا آخر اس گرمی میں دوست روزے بھی رکھتے رہے ہیں اور سارا مہینہ بعض لوگ درس بھی دیتے رہے ہیں.اب تو کمزوری کی وجہ سے میں زیادہ کام نہیں کر سکتا لیکن اپنی جوانی کے زمانے میں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ادھیڑ عمر میں یعنی 1922 ء میں میں نے وہ درس دیا تھا جو تفسیر کبیر ( سورۃ یونس تا کہف) کی صورت میں چھپا ہوا ہے اس وقت میری عمر 34 سال کی تھی اور قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ د کہل میں باتیں کیا کرتے تھے اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو 33 سال میں نبوت ملی تھی اور باتیں کرنے سے یہی مراد ہے کہ آپ نبوت والی باتیں کیا کرتے تھے ورنہ اڑھائی تین سال کی عمر میں سارے بچے باتیں کرنے لگ جاتے ہیں اور اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی کوئی فضیلت نہیں رہتی.عام طور پر نبوت 40 سال کے بعد ملتی ہے لیکن اس زمانے میں لوگوں کو جلد پیغام پہنچانے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کو 33 سال کی عمر میں ہی نبوت کا مقام عطا کر دیا گیا تھا.

Page 62

55 حضرت مصلح موعود 1922ء میں میری عمر 34 سال کی تھی یعنی وہ کہولت کی عمر تھی گو در حقیقت یہی عمر جوانی کی انتہائی طاقت کی ہوتی ہے ورنہ جس عمر کو عرف عام میں جوانی کہا جاتا ہے وہ ایک رنگ میں بچپن کا زمانہ ہوتا ہے.بہر حال جب میری عمر 34 سال کی تھی تو میری یہ حالت تھی کہ میں رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھ کر درس دیا کرتا تھا اور یہ درس میں نو بجے صبح سے شروع کیا کرتا تھا اور شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب ختم کیا کرتا تھا.اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ روزہ کھول کر میں نے درس بند کیا.مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ درس ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اذان ہو گئی ہم نے روزہ کھولا، نماز پڑھی اور پھر دوبارہ درس دینا شروع کر دیا لیکن اب یہ ہوا کہ رمضان آیا تو میں نے کہا کہ رمضان میں قرآنِ کریم کی زیادہ تلاوت کرنی چاہئے چنانچہ میں نے اس مہینہ میں تلاوت قرآن کریم شروع کر دی اور بارہ سیپارہ روزانہ کی تلاوت کی.بعض دفعہ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں بیہوش ہو چلا ہوں لیکن پھر بھی ہمت کر کے پڑھتا چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دے دی کہ میں نے اپنا ارادہ پورا کر لیا اور آخری دم تک برابر بارہ پارے قرآنِ کریم کے پڑھتا رہا.یوں حافظ تو شاید اس سے بھی زیادہ پڑھ سکتے ہیں چونکہ انھوں نے قرآن کریم حفظ کیا ہوتا ہے اس لئے وہ جلدی جلدی پڑھ سکتے ہیں لیکن جب وہ تلاوت کر رہے ہوتے ہیں تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا تلاوت کر رہے ہیں.ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست مولوی عبد القادر صاحب مرحوم تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی اور حکیم محمد عمر صاحب کے والد تھے وہ بڑے نیک انسان تھے لیکن جب قرآن کریم پڑھا کرتے تو اتنی جلدی جلدی پڑھتے کہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں لیکن اگر قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے تو بارہ سیپارے روزانہ پڑھ لینا بڑی ہمت کا کام ہوتا ہے سوائے اس کے کہ جو حصہ زیادہ کثرت سے پڑھا ہوتا ہے وہ نسبتاً جلدی نظر سے گذر جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم کی آخری سورتیں مجھے اکثر یاد تھیں اگر چہ اب میں ان میں سے کچھ حصہ بھول گیا ہوں لیکن پھر بھی میں جب ان پر پہنچا تھا تو میری رفتار بہت تیز ہو جاتی تھی شروع میں رفتار کمزور ہوتی تھی کیونکہ صحت کی کمزوری کی وجہ سے توجہ ہٹ جاتی تھی مگر آخری حصہ باوجود بیماری کے جلدی گذر جاتا تھا.پس یہ گرمی ایک استثنائی صورت میں پڑی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی حفاظت کرے کیونکہ جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے یہ گرمی دوزخ کا ایک نمونہ ہے.میں نے بتایا ہے کہ پچھلے سال ہم مئی میں پہاڑ پر گئے اور وہاں ہم لحاف لے کر سوتے تھے لیکن اس دفعہ وہاں دروازے اور کھڑکیاں کھول کر سونا پڑتا تھا.اسی طرح پچھلے سال وہاں کا ٹمپریچر 50 درجہ سے بھی کم تھا لیکن اس دفعہ 94 تھا اور یہ بہت بڑا فرق ہے.بہر حال آج شوری کا اجلاس بھی ہے اور دوستوں کو وہاں جانا پڑے گا اس

Page 63

56 حضرت مصلح موعود لئے میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری شوری میں برکت ڈالے اور ہمیں ایسا کام کرنے کی توفیق دے جس کے نتیجے میں اسلام دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل جائے اور یہ کام اس چھوٹی سی جماعت سے نہیں ہو سکتا یہ صرف خدا تعالیٰ کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے.اصل میں تو چھوٹے چھوٹے کام بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر کام جس میں کچھ نہ کچھ اہمیت نظر آتی ہو اس سے پہلے استخارہ کر لیا کرو.اس کے معنی یہی ہیں کہ در حقیقت سب کام خدا تعالیٰ کی مدد سے ہوتے ہیں لیکن دنیا کو دلائل اور قرآن کریم کے ساتھ فتح کرنا تو بہت بڑا کام ہے.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (فرقان : آیت 31) یعنی ہمارے رسول نے ہمارے پاس فریاد کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے.اب بتاؤ کہ جس قرآن کو مسلمان بھی اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رہے ہوں اس قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے کر ان عیسائیوں میں نکل جانا جو 1900 سوسال سے برابر اسلام کو مٹانے کے لئے زور لگا رہے ہیں اور اسلام اور قرآن کریم کو دوبارہ قائم کرنا کیا کوئی معمولی بات ہے.اس کے لئے تو ہمیں ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغوں کو کا میاب کرے اور دوسرے نو جوانوں کو بھی جن میں طاقت اور ہمت ہے خدا تعالیٰ توفیق دے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کر کے دین کی خدمت کے لئے آگے نکل آئیں.میں نے اس غرض کے لئے وقف جدید کی تحریک جاری کی تھی اور امید تھی کہ واقفین بڑا اچھا کام کریں گے اور گو اس کو جاری ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے لیکن پھر بھی بعض لوگوں کو باہر گئے ہوئے دو دو ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر جو نتائج ابھی تک ظاہر ہوئے ہیں وہ کوئی خوش کن نہیں ہیں چنانچہ پچھلے سال مارچ کے مہینے میں 200 آدمیوں نے بیعت کی تھی لیکن اس سال مارچ کے مہینے میں صرف 101 کی بیعت ہوئی ہے گویا وقف جدید کے اجراء کے بعد بیعت آدھی رہ گئی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے صحیح معنوں میں کوشش نہیں کی ورنہ بیعت کا نہ صرف پہلا معیار قائم رہنا چاہئے تھا بلکہ اس سے بھی ترقی کرنا چاہئے تھا اگر یہ لوگ ہماری توقع کے مطابق کام کریں اور جماعت کے دوست بھی اپنے فرائض کو سمجھیں اور خدا اور اس کے رسول کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں تو یہ مکن ہی نہیں کہ لوگوں پر اثر نہ ہو دیکھ لو اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا تھا جب کہ منافق مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تم رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جاؤ اب تمہاری خیر نہیں.احادیث میں آتا ہے کہ منافق کھلے بندوں کہتے پھرتے تھے کہ اب تو مسلمان عورتوں کو باہر پاخانہ پھرنے کو بھی جگہ نہیں ملتی اور یہ لوگ مکہ فتح کرنے کے دعوے کرتے ہیں مگر دیکھ لو بھی چند سال بھی نہیں گذرے تھے کہ رسول کریم صل الله

Page 64

57 حضرت مصلح موعود صلى الله ہ دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہو گئے اس وقت مکہ والے ایسے گھبرائے ہوئے تھے کہ انھوں نے فتح مکہ سے چند دن پہلے ابوسفیان کو مدینہ بھیجا تا کہ صلح حدیبیہ والے معاہدہ کی ابتداء اس دن سے شمار کی جائے جب ابوسفیان اس کی توثیق کر دے اور وہ مسلمانوں کو مکہ پر حملہ کرنے سے باز رکھے.ان لوگوں کو یہ تشویش اس لئے پیدا ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہیں مکہ والوں سے مل جائیں اور جو چاہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل جائیں اور یہ کہ دس سال تک دونوں فریق کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی اجازت نہیں ہو گی سوائے اس کے کہ ایک فریق دوسرے فریق پر حملہ کر کے معاہدہ کو تو ڑ دے.اس معاہدہ کے ماتحت عرب کا قبیلہ بنوبکر مکہ والوں کے ساتھ مل گیا تھا اور خزاعہ قبیلہ محمد رسول اللہ اللہ کے ساتھ مل گیا تھا.صلح حدیبیہ پر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد بنو بکر نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے معاہد قبیلہ خزاعہ پر حملہ کر دیا اور ان کے کئی آدمی مار ڈالے.وہ جانتے تھے کہ اگر رسول کریم ﷺ کو اس واقعہ کا علم ہوا اور آپ کو اس کا یقینا علم ہوگا تو آپ معاہدہ کی حرمت کو قائم رکھنے کی خاطر مکہ والوں پر حملہ کر دیں گے.چنانچہ انھوں نے چاہا کہ پیشتر اس کے کہ مدینہ میں اس معاہدہ شکنی کی خبر پہنچے ابوسفیان وہاں جائے اور اس بارے میں کوشش کرے مگر پیشتر اس کے کہ قریش مکہ کی اس عہد شکنی کی مدینہ میں اطلاع پہنچتی حضرت میمونہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک رات تہجد کے وقت جب وضو کرنے کے لئے اٹھے تو میں نے سنا کہ آپ بلند آواز سے فرما رہے ہیں لبیک لبیک لبیک اور پھر آپ نے تین دفعہ فرمایا نُصِرْتَ نُصِرْتَ نُصِرُتَ ہیں نے کہا یا رسول اللہ آپ نے یہ کیا فقرات فرمائے ہیں یہ تو ایسے الفاظ ہیں جیسے آپ کسی شخص سے گفتگو فرما رہے تھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے ابھی دیکھا ہے کہ خزاعہ کا ایک وفد میرے پاس آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ قریش نے بنو بکر کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کر دیا ہے آپ معاہدہ کے مطابق ہماری مدد کریں اور میں نے کہا کہ میں تمہاری مدد کے لئے تیار ہوں چنانچہ تیسرے دن اس قبیلہ کے نمائندے مدینہ پہنچ گئے اور انھوں نے سارا واقعہ کہ سنایا بعد میں ابوسفیان آیا اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہیں تھا.اس لئے وہ کوئی معاہدہ نہیں تھا اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرنا چاہتا ہوں مگر رسول کریم ﷺ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا آخر اس نے بے وقوفی سے خود ہی مسجد میں جا کر یہ اعلان کر دیا کہ چونکہ میں اس معاہدہ میں شامل نہیں تھا اور میں مکہ کارئیس ہوں اس لئے وہ معاہدہ درست نہیں ہو سکتا.اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرتا ہوں.یہ بات سن کر مسلمان اس کی بیوقوفی پر ہنس پڑے اور وہ سخت شرمندہ ہوا.بعد میں ابوسفیان نے کہا کہ مجھ سے حضرت علی نے کہا تھا کہ تم مسجد میں جا کر اس قسم کا اعلان کر دو.خدا تعالیٰ بنو ہاشم کا بُرا کرے انھوں نے علوس الله

Page 65

58 حضرت مصلح موعود صلى الله صلى الله مجھے ذلیل کیا ہے.چونکہ بنو ہاشم اور بنو امیہ دونوں خاندانوں میں دیر سے رقابت چلی آتی تھی اس لئے ابو سفیان نے خیال کیا کہ حضرت علی نے اس مخالفت کی وجہ سے مجھے یہاں مسلمانوں کے سامنے ذلیل کیا ہے لیکن یہ بیان صرف ابو سفیان کا ہے جو اس وقت کا فر تھا اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اس پر یقین کیا جائے.اس کے بعد ابوسفیان رسول کریم ﷺ کے گھر کی طرف آیا اس کی ایک بیٹی حضرت ام حبیبہ رسول کریم ہے سے بیاہی ہوئی تھیں، وہاں ایک گدا بچھا ہوا تھا وہ اس پر بیٹھنے لگا تو حضرت ام حبیبہ نے وہ گڈا اس کے نیچے سے کھینچ لیا.ابوسفیان نے کہا بیٹی میں اس گدا کے قابل نہیں ہوں یا یہ گڈ امیرے قابل نہیں ہے؟ اس نے یہ خیال کیا کہ چونکہ میں بڑا آدمی ہوں اس لئے شاید میری بیٹی نے میرے اعزاز کی وجہ سے یہ گڈا اٹھالیا ہے حضرت ام حبیبہ نے کہا کہ اے میرے باپ معاف کر ناتم میرے باپ ہو اور ادب کی جگہ ہومگر اس گذا پر محمد رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا کرتے ہیں اور تم ایک مشرک اور نا پاک شخص ہو سو میں اس گڈا پر جس پر خدا تعالیٰ کا رسول نماز پڑھا کرتا ہے خدا تعالیٰ کے دشمن کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دے سکتی.ابوسفیان جھٹ اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا میری بیٹی تو تو میرے بعد بہت بگڑ گئی ہے.صلى الله (اصابہ جلد 2 صفحہ 85) اسکے بعد ابوسفیان مکہ والوں کو اپنی ناکامی کی خبر دینے کے لئے واپس لوٹا اور ادھر اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ کے قریب خیمہ زن ہو گیا مکہ والے چونکہ بہت زیادہ خوفزدہ تھے انھوں نے ابوسفیان کو پھر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کے پاس جائے اور انھیں جنگ سے باز رکھے.مگر مکہ سے تھوڑی دور نکلنے پر ہی ابوسفیان نے رات کے وقت جنگل کو آگ سے روشن پایا.رسول کریم ﷺ نے حکم دے دیا تھا کہ ہر خیمہ کے آگے آگ روشن کی جائے.ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں.انھوں نے کہا یہ فلاں قبیلہ کے لوگ ہیں.ابوسفیان کہنے لگا.اس قبیلہ کے لوگ تو بہت تھوڑے ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ، یہ وہ نہیں ہو سکتے.ساتھیوں نے پھر کہا، یہ فلاں قبیلے کے لوگ ہوں گے.ابوسفیان نے کہا میں جانتا ہوں کہ اس قبیلہ کے لوگ بھی تھوڑے ہیں یہ ان سے بہت زیادہ ہیں ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اندھیرے میں سے آواز آئی ابوقنطلہ ( یہ ابوسفیان کی کنیت تھی ) ابوسفیان نے آواز پہچان کر کہا عباس تم یہاں کہاں؟ انھوں نے جواب دیا سامنے محمد رسول اللہ کا شکر پڑا ہے ابوسفیان گھبرایا اور اپنی سواری پر کھڑا ہو گیا اور اس نے خیال کیا کہ اب میری شامت آ گئی ہے کیونکہ میں نے ساری عمر محمد رسول اللہ اللہ کو دکھ دیا ہے.حضرت عباس “ جو ابوسفیان کے گہرے دوست تھے اور پہرہ پر مقرر تھے انھوں نے کہا کمبخت جلدی سے میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جاور نہ عمر میرے

Page 66

59 59 حضرت مصلح موعود پیچھے آرہا ہے وہ تیری خبر لے گا.چنانچہ حضرت عباس نے ابو سفیان کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اپنے پیچھے بٹھا لیا الله اور گھوڑا دوڑاتے ہوئے رسول کریم ﷺ کے پاس جا پہنچے.وہاں پہنچتے پہنچتے ابوسفیان مبہوت سا ہو چکا تھا.رسول کریم ﷺ نے اس کی یہ حالت دیکھی تو حضرت عباس سے فرمایا عباس تم ابوسفیان کو صل الله اپنے ساتھ لے جاؤ اور رات کو اپنے پاس رکھو.صبح میرے پاس لانا.چنانچہ ابوسفیان ساری رات حضرت عباس کے پاس رہا جب صبح اسے رسول کریم ﷺ کے پاس لائے تو فجر کی نماز کا وقت تھا اور رسول کریم ہے نماز پڑھا رہے تھے اور دس ہزار کا لشکر پیچھے صف باندھے کھڑا تھا رسول کریم اللہ نے جب رکوع کے لئے صلى الله اپنا سر جھکایا تو دس ہزار مسلمان آپ کی اتباع میں نیچے جھک گئے.رسول کریم وہ رکوع سے کھڑے ہوئے تو دس ہزار مسلمان کھڑے ہو گئے.پھر رسول کریم میلہ سجدہ میں گرے تو دس ہزا را فرا دسجدہ میں گر گئے ، پھر سجدہ سے اٹھے تو دس ہزار افراد سجدہ سے اٹھ بیٹھے ، پھر دوبارہ سجدہ کے لئے جھکے تو دس ہزار افرا دسجدہ میں جھک گئے پھر سجدہ سے اٹھ کر تشہد کے لئے بیٹھے تو دس ہزار افراد تشہد میں بیٹھ گئے.ابوسفیان نے سمجھا کہ شاید میرے لئے یہ کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے.چنانچہ اس نے حضرت عباس سے جو پہرہ پر مقرر ہونے کی وجہ سے نماز میں شریک نہیں ہوئے تھے دریافت کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انھوں نے کہا ابوسفیان گھبراؤ نہیں یہ تمہارے مارنے کی تیاری نہیں رسول کریم ﷺ نماز پڑھا رہے ہیں اور یہ مسلمان تو ایسے ہیں صلى الله علوم کہ اگر آپ فرما ئیں کہ کھانا چھوڑ دو تو وہ کھانا بھی چھوڑ دیں.ابوسفیان پر اس بات کا بہت اثر ہوا اور اس نے کہا میں نے کسریٰ کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے لیکن ان کی قوموں کو بھی میں نے ان کا ایسا فدائی نہیں دیکھا جیسے محمد رسول اللہ علی کی جماعت اس کی فدائی ہے کہ آپ نیچے جھکے تو سب لوگ جھک گئے ، سجدہ میں گرے تو سب لوگ سجدہ میں چلے گئے ، تشہد کے لئے بیٹھے تو سب لوگ تشہد میں بیٹھ گئے.یہ بے نظیر اطاعت ہے جو میں نے کہیں اور نہیں دیکھی.جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس ابوسفیان کو لے کر رسول کریم ﷺ کے پاس آئے.رسول کریم ﷺ نے کہا ابوسفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم مجھے اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم کرلو؟ ابوسفیان نے کچھ تردد کا اظہار کیا لیکن پھر کچھ خوف کی وجہ سے اور کچھ حضرت عباس کے زور دینے کی وجہ سے اس نے صلى الله الله بیعت کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا.پھر اس نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ تو بڑے مہربان ہیں مکہ والے آپ کے رشتے دار ہیں کوئی ان کے بچاؤ کی صورت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر شخص جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا اسے امن دیا جائے گا.حضرت صلى الله عباس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ابوسفیان کی عزت کا بھی کچھ سامان کر دیا جائے.رسول کریم ﷺ نے

Page 67

60 حضرت مصلح موعود فرمایا بہت اچھا جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اسے بھی امن دیا جائے گا.ابوسفیان نے کہایا رسول اللہ میرا گھر کتنا بڑا ہے؟ اس میں تو سب لوگ نہیں آ سکتے ، بے شک جو لوگ اندر آگئے وہ تو امن میں آجائیں گے مگر باقی لوگوں کا کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص خانہ کعبہ میں گھس جائے گا اسے بھی امن دیا جائے گا.ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہ خانہ کعبہ بھی سارے مکہ والوں کو اپنے اندر نہیں سماسکتا اور نہ ہی ہر شخص اعلان سن سکتا ہے کوئی ایسی صورت پیدا کی جائے جو ہر شخص کو نظر آ جائے.آپ نے فرمایا اچھا.کچھ کپڑا لاؤ.چنانچہ کپڑا لایا گیا اور آپ نے اس کا ایک جھنڈا بنایا اور وہ جھنڈا ابورویحہ کے ہاتھ میں دیا جن کو آپ نے حضرت بلال کا بھائی بنایا ہوا تھا اور فرمایا جو شخص اس جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اسے بھی پناہ دی جائے گی.اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی مکہ والے حضرت بلال کے پیروں میں رستہ ڈال کر انھیں تپتی ریت پر گھسیٹا کرتے تھے.انھیں تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بڑے بڑے بھاری جوتوں سمیت کو دا کرتے تھے چنانچہ ان کی پیٹھ کا رنگ گرگٹ کی پیٹھ کا سا ہو گیا تھا اور وہ بالعموم اپنی پیٹھ دوسرے لوگوں کو دکھایا کرتے صلى الله تھے.رسول کریم ﷺ نے خیال فرمایا کہ آج بلال کا دل انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا اس لئے اس کا انتقام لینا بھی ضروری ہے لیکن میرا انتقام شاندار ہونا چاہیئے میری شانِ نبوت یہ ہے کہ میں سب کو معاف کر دوں لیکن بلال خیال کرے گا کہ محمد رسول اللہ علیہ نے اپنے بھائیوں کو تو معاف کر دیا اور میرا انتقام یوں ہی رہا.اس حکمت کے پیش نظر آپ نے ایک جھنڈا بنا کر آپ کے ایک بھائی کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا جو شخص اس جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اسے بھی امن دیا جائے گا اور بلال کو کہا کہ تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ تا وہ سمجھ لیں کہ آج میری وجہ سے مکہ والوں کو معاف کیا گیا ہے.یہ انتظام فرما کر آپ مکہ میں داخل ہوئے آپ نے حضرت خالد کو ایک دوسری جانب سے شہر میں داخل ہونے کا ارشادفرمایا تھا اور انھیں سختی سے حکم دیا تھا کہ جب تک کوئی شخص تم سے لڑائی نہ کرے تم نے کسی سے لڑائی نہیں کرنی.لیکن جس طرف سے حضرت خالد مکہ میں داخل ہوئے غالباً اس طرف امن کا پیغام نہیں پہنچا تھا اس لئے اس علاقہ کے لوگوں نے حضرت خالد کا مقابلہ کیا جس میں ان کے 24 آدمی مارے گئے.کسی نے دوڑ کر رسول کریم تک یہ خبر پہنچادی آپ نے حضرت خالد کو بلایا اور سرزنش کی.حضرت خالد نے کہا یا رسول اللہ آپ کی ہدایت مجھے یاد ہے لیکن ان لوگوں نے تنگی تلواروں کے ساتھ ہمارا راستہ روکا اور ہم پر حملہ کیا اگر یہ لوگ ہم پر حملہ نہ کرتے تو میں بھی ان لوگوں کو قتل نہ کرتا.بہر حال اس خفیف سے واقعہ کے سوا اور کوئی واقعہ نہ ہوا اور صلى الله رسول کریم ﷺ مکہ میں داخل ہو گئے جب رسول کریم ﷺ خانہ کعبہ کے پاس آکر کھڑے ہوئے تو مکہ کے سارے روساء جو آپ پر تھو کا کرتے تھے اور آپ کو مارا اور دکھ دیا کرتے تھے ، آپ کے سامنے کھڑے ہو صلى الله.

Page 68

61 حضرت مصلح موعود گئے اور آپ نے فرمایا اے مکہ کے لوگو ! تمہیں یاد ہے کہ میں نے توحید کا نعرہ بلند کیا اور تم نے مجھے گالیاں دیں میں نے خدائے واحد کی پرستش کے لئے تمہیں کہا اور تم نے مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے ہمیں نے تم کو نیکی اور تقویٰ کی تعلیم دی مگر تم نے کہا کہ یہ شخص روپیہ کمانا چاہتا ہے یا شاید کسی خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن خدا نے میری مدد کی میں اکیلا تھا اور تم ہزاروں کی تعداد میں تھے.سارا عرب تمہارے ساتھ تھا.تم نے دیکھ لیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات کس طرح لفظ بلفظ پورے ہوئے.اب بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ مشرکین مکہ کی خوش قسمتی تھی کہ انھوں نے حضرت یوسف کا واقعہ کہیں سے سنا ہوا تھا انھوں نے کہا محمد ﷺ ہم کیا کہیں جو سلوک یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا وہی سلوک آپ ہم سے کریں چنانچہ آپ نے فرمایا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ آج تم پر کوئی گرفت نہیں کی جاتی.جاؤ میں نے تم سب کو معاف کر دیا ہے چنانچہ مکہ والے خوش خوش اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور مسلمانوں کی تلوار میں اپنی میانوں کے اندر چلی گئیں.وہ تو چاہتے تھے کہ آج مشرکین مکہ کو تلواروں سے ریزہ ریزہ کر دیں آخر وہ واقعات جو ان کے سامنے گذرے تھے ان کی آنکھوں کے آگے پھر رہے تھے.ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی نے آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دی وہ کافی بوجھل تھی اس کے بوجھ کی وجہ سے آپ اپنا سر نہ اٹھا سکے جب تک کہ حضرت فاطمہ نے جو ابھی چھوٹی عمر کی تھیں دوڑ کر آپ سے اس اوجھڑی کو نہ ہٹایا.اس طرح ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے کہ لوگوں نے آپکے گلے میں پڑکا ڈال کر کھینچنا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں اتنے میں حضرت ابو بکر وہاں آگئے اور انھوں نے آپ کو چھڑایا اور کہا اے لوگو کیا تم ایک شخص کو صرف اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ خدا میرا آتا ہے.آخر یہ تم سے کچھ مانگتا تو نہیں صرف یہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے اس کی عبادت کرو.مگر تم اسے مارنے لگ جاتے ہو.یہ ان لوگوں کی حالت تھی اور تم سمجھ سکتے ہو کہ جب ان دکھی مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے مشرکین مکہ پر غلبہ عطا کر دیا تو ان کے دلوں کی کیا حالت ہوگی مگر اس کے باوجود جب رسول کریم ﷺ نے مکہ والوں کو معاف کر دیا تو انھوں نے بھی انھیں معاف کر دیا.حضرت ابوبکر کے بیٹے عبدالرحمن " جنگ بدر کے بعد ایمان لائے تھے ،جنگ بدر کے بعد انھوں نے ایک دن حضرت ابو بکر کو سنایا کہ آپ ایک دفعہ زور سے حملہ کرتے ہوئے ہمارے لشکر تک پہنچ گئے تھے اور میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا تلوار میرے ہاتھ میں تھی اور میں اگر چاہتا تو آپ پر حملہ کر سکتا تھا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ آپ میرے باپ ہیں اس لئے میں نے اپنا ارادہ نسخ کر دیا.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا تیری قسمت اچھی تھی کہ تو مجھے نظر نہ آیا اور نہ خدا کی قسم اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو میں تیری بوٹیاں اڑا دیتا اور اس

Page 69

62 حضرت مصلح موعود بات کی قطعا پر واہ نہ کرتا کہ تو میرا بیٹا ہے.اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ ایسے غیرت مند لوگوں کے لئے اہلِ مکہ کو معاف کرنا کس قدر مشکل تھا لیکن انھوں نے معاف کیا بلکہ ان لوگوں کو بھی جنھیں معاف کیا گیا تھا یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوئی اور وہ حیران ہوئے کہ انھیں کیسے معاف کیا گیا ہے.ابوجہل کا بیٹا عکرمہ ان لوگوں میں شامل تھا جن کے متعلق رسول کریم اللہ نے فیصلہ فرمایا تھا کہ ان کے بعض ظالمانہ قتلوں اور ظلموں کی وجہ سے انھیں قتل کر دیا جائے چنانچہ وہ ڈر کے مارے حبشہ کی طرف بھاگ گیا.اس کی بیوی رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ کو یہ اچھا لگتا ہے کہ آپ کے بھائی کا بیٹا عکرمہ آپ کے ماتحت رہے یا یہ اچھا لگتا ہے کہ وہ حبشہ جا کر عیسائیوں کے ماتحت رہے.آپ نے فرمایا وہ بیشک یہاں رہے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے.ہم اسے معاف کرتے ہیں.اس نے کہا وہ ساحلِ سمندر کی طرف بھاگ کر چلا گیا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ اسے کوئی کشتی مل جائے تو وہ اس میں سوار ہو کر حبشہ چلا جائے.کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں وہاں جا کر اسے واپس مکہ لے آؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں میں اجازت دیتا ہوں تم بڑی خوشی سے اسے واپس لے آؤ.عکرمہ کی بیوی نے پھر کہا یا رسول اللہ وہ بڑا غیرت مند ہے ، شاید آپ کے دل میں یہ خیال ہو کہ وہ یہاں آکر مسلمان ہو جائے گا.وہ مسلمان نہیں ہوگا.کیا آپ اس امر کی بھی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے آباء واجداد کے مذہب پر قائم رہ کر یہاں رہے؟ آپ نے فرمایا وہ بیشک اپنے مذہب پر قائم رہے ہم اسے مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کریں گے چنانچہ وہ عکرمہ کے پیچھے ساحل سمندر پر پہنچی عکرمہ ابھی کسی کشتی پر سوار نہیں ہوئے تھے اس نے کہا، اے میرے چا کے بیٹے عرب عورتیں اپنے خاوندوں کو چا کا بیٹا کہا کرتیں تھیں) کیا تجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تو اپنے بھائی کے ماتحت رہے یا یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تو کسی غیر ملک میں جا کر کسی غیر بادشاہ کے ماتحت رہے.عکرمہ نے کہا کہ کیا تجھے پتہ نہیں کہ اگر میں مکہ میں رہا تو میں مارا جاؤں گا.بیوی نے کہا نہیں میں نے رسول کریم ہے سے بات کر لی ہے، اگر تو مکہ میں واپس چلا جائے گا تو تجھے مارا نہیں جائے گا.تجھے پناہ دی جائے گی.عکرمہ کہنے لگے تو مجھ سے دعا تو نہیں کر رہی ؟ وہ کہنے لگی کیا میں اپنے خاوند سے دغا کروں گی ؟ میں رسول اللہ ﷺ سے اس بارہ میں اجازت حاصل کر کے آئی ہوں چنانچہ مکرمہ مان گئے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ مکہ واپس آگئے مکہ آکر انھوں نے اپنی بیوی سے کہا مجھے تیری باتوں پر تب یقین آئے گا جب وہ باتیں جو تو نے کہیں ہیں محمد ﷺ کے منہ سے بھی کہلوا دے.مجھے یقین ہے کہ وہ راست باز انسان ہیں جھوٹ نہیں صلى الله بولتے.چنانچہ ان کی بیوی انھیں رسول کریم ہے کے پاس لے کر گئی.عکرمہ نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے اب آپ مجھے کچھ نہیں کہیں گے.رسول کریم صلى الله صلى الله

Page 70

علوسام 63 حضرت مصلح موعود نے فرمایا وہ ٹھیک کہتی ہے.انھوں نے کہا میری بیوی نے مجھے یہ بات بھی بتلائی ہے کہ آپ مجھے مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کریں گے کیا یہ بات بھی سچ ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے.حضرت عکرمہ حیران ہوئے اور انھوں نے سمجھ لیا کہ جو شخص اتنے شدید دشمنوں کو بھی معاف کر سکتا ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا چنانچہ انھوں نے یہ بات سنتے ہی فوراً کہا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اے محمد (ع) آپ اس کے بندے اور اسکے رسول ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا عکرمہ یہ کیا بات ہے ؟ عکرمہ نے کہا یا رسول اللہ میں آج تک آپ کا مخالف تھا اور مجھے یقین نہیں تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں لیکن آج آپ نے جو سلوک مجھ سے کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رسولوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا.میرے باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے آپ کو تنگ کیا آپ کو مارا اور کئی مسلمانوں کو قتل کیا اور پھر یہیں تک بس نہیں کی بلکہ ہماری بعض عورتوں نے مسلمان شہیدوں کے کلیجے نکلوا کر کچے چبائے.آپ کی بیٹی کو مدینہ جاتے ہوئے اونٹ سے گرایا جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا اور وہ خود بھی اسی صدمہ کی وجہ سے فوت ہو گئیں.ان سب باتوں کے باوجود جب آپ کو غلبہ ملا تو آپ نے ہم سب کو معاف کر دیا یہ کام خدا تعالیٰ کے رسولوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا.آپ کا یہ سلوک دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور اسی لئے میں نے کلمہ پڑھا ہے.پھر دیکھ لو حضرت عکرمہنگا وہ کلمہ پڑھنا کیسا سچا تھا.ایک موقع پر جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں رومیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی تو حضرت خالد نے کہا دشمن کی ہر اول فوج ساٹھ ہزار کی ہے میں چاہتا ہوں کہ صرف ساٹھ مسلمان میرے ساتھ جائیں اور وہ مسلمان ایسے ہوں جو جان دینے کے لئے تیار ہوں.حضرت ابو عبیدہ نے انھیں سمجھایا کہ خالد یہ بہت بڑی قربانی ہے.سارے چیدہ چیدہ مسلمان مارے جائیں گے مگر حضرت خالد نے کہا کہ اگر ایسانہ کیا گیا تو ہمارا دشمن پر رعب نہیں پڑے گا چنانچہ حضرت ابو عبید گمان گئے اور جو ساٹھ آدمی منتخب کئے گئے ان میں حضرت عکرمہ بھی شامل تھے.اس جنگ میں رومی لشکر کا کمانڈر انچیف ایک ایسا شخص تھا جس سے بادشاہ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ جیت گیا تو وہ اسے اپنی آدھی سلطنت دے دے گا اور اپنی لڑکی اس کے نکاح میں دے دے گا.چنانچہ ساٹھ آدمی حملہ کے لئے چلے گئے ان میں حضرت فضل بن عباس بھی شامل تھے ان لوگوں نے رومی لشکر پر اس تیزی سے حملہ کیا کہ گو دشمن ساٹھ ہزار کی تعداد میں تھا اور یہ صرف ساٹھ افراد تھے مگر دشمن گھبرا گیا اور یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ ساٹھ آدمی انسان ہیں یا جن ہیں.یہ لوگ لشکر کے عین وسط میں گھس گئے اور اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں کمانڈر

Page 71

64 حضرت مصلح موعود انچیف تھا اور وہاں جا کر اسے ٹانگ سے پکڑ کر سواری سے نیچے گھسیٹ لیا اور اسے مار ڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارالشکر بھاگ گیا مگر کمانڈر انچیف پر حملہ کرنا آسان نہیں تھا.یہ سارے لوگ یا تو زخمی ہو گئے یا وہیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.چند زخمی صحابہ ایک جگہ پڑے ہوئے تھے کہ ایک شخص پانی لے کر وہاں پہنچا.حضرت عکرمہ کی اسلام لانے سے پہلے بھی بڑی شان تھی اور اسلام لانے کے بعد بھی بڑی شان تھی اس لئے وہ پہلے ان کے پاس گیا اور کہنے لگا عکرمہ آپ شدید پیاسے معلوم ہوتے ہیں تھوڑا سا پانی پی لیں ، حضرت عکرمہ نے اپنے دائیں طرف دیکھا تو حضرت فضل بن عباس بھی زخمی پڑے ہوئے تھے انھوں نے اس شخص کو کہا مجھے نظر آ رہا ہے کہ اس وقت میرا ایک اور ساتھی پانی کا سخت محتاج ہے وہ مجھ سے پہلے اسلام لایا ہے اس لئے مجھ سے زیادہ مستحق ہے تمہیں خدا کی قسم پہلے انھیں پانی پلاؤ پھر میرے پاس آنا چنانچہ وہ شخص ان کے پاس گیا اور ان سے پانی پینے کے لئے کہا لیکن انھوں نے بھی پاس والے زخمی صحابی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ پہلے انھیں پانی پلاؤ پھر میرے پاس آؤ.وہ سات صحابہ تھے.پانی پلانے والا شخص پانی لے کر ساتوں کے پاس باری باری گیا لیکن ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا جب آخری صحابی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے اور جب وہ واپس عکرمہ کے پاس آیا تو وہ بھی دم تو ڑ چکے تھے.تو دیکھو اتنے شدید دشمن کو بھی خدا تعالیٰ نے کس قدر مخلص بنا دیا تھا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کر لیں اور ایسے اعمال بجالائیں جن سے لوگوں کی دشمنی دور ہو جائے.اور ہماری محبت ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دین کے معاملہ میں مداہنت سے کام لیا جائے یہ کام تو منافق بھی کر سکتا ہے.حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں اپنوں اور بیگانوں سے حسنِ سلوک کیا جائے وہاں دین کے معاملہ میں ایسی غیرت رکھی جائے کہ اگر عزیز سے عزیز وجود کو بھی خدا تعالیٰ کے لئے ترک کرنا پڑے تو انسان اسے فورا ترک کر دے.صحابہ کو دیکھ لوانھوں نے اپنے ایمان کا کیسا عظیم الشان مظاہرہ کیا.عبداللہ بن ابی بن سلول نے ایک موقع پر کہا تھا اور قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے کہ مجھے مدینہ میں داخل ہو لینے دو.مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص ( یعنی وہ کمبخت خود) سب سے زیادہ ذلیل شخص یعنی نعوذ باللہ محمد کو وہاں سے نکال دے گا (منافقون: آیت 9) یہ بات رسول کریم ﷺ کو بھی پہنچ گئی عبد اللہ بن ابی بن سلول کا بیٹا جس کا پہلا نام حباب تھا مگر بعد میں رسول کریم ﷺ نے اس کا نام بھی عبداللہ رکھ دیا تھا بھاگتا ہوا رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ میرے باپ نے ایسی بات کہی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہوسکتی میں صرف یہ درخواست کرنے کے الله

Page 72

65 حضرت مصلح موعود لئے آیا ہوں کہ اگر آپ نے اسے قتل کروانا ہو تو مجھ سے کروائیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی اور صحابی اسے قتل کرے تو بعد میں کسی وقت مجھے جوش آجائے اور میں اسے قتل کر بیٹھوں اس لئے کہ اس نے میرے باپ کو مارا ہے لیکن رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں.اب گو رسول کریم ﷺ نے اس کا یہ گناہ معاف کر دیا تھا مگر اس کے بیٹے نے اسے معاف نہ کیا.جب لشکر مدینہ کو واپس چلا تو اس کا بیٹا جلدی سے آگے نکل کر شہر کے دروازے پر کھڑا ہو گیا ،تلوار اس کے ہاتھ میں تھی.جب عبد اللہ بن ابی بن سلول مدینہ میں داخل ہونے لگا تو اس کے بیٹے نے کہا میں تمہیں اس وقت تک شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تو یہاں کھڑا ہو کر اس بات کا اقرار نہ کرے کہ تو مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہے اور محمد رسول اللہ اللہ مدینہ کے سب سے زیادہ معزب شخص ہیں اگر تو نے اس بات کا اقرار نہ کیا تو خدا کی قسم میں اس تلوار سے تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا اور اس بات کی قطعا پرواہ نہیں کروں گا کہ تو میرا باپ ہے.بیٹے کے منہ سے یہ بات سن کر وہ بہت گھبرایا اور جھٹ گھوڑے سے اتر آیا اور مدینہ کے دروازے میں کھڑے ہو کر اس نے کہا اے لوگوسن لو اور گواہ رہو کہ میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلى الله مدینہ کے سب سے زیادہ معزز انسان ہیں.اس کے بعد اس کے بیٹے نے کہا اب تم اندر جاسکتے ہو ور نہ خدا کی قسم اگر تم یہ اقرار نہ کرتے تو میں تمہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیتا بلکہ یہیں تمہیں قتل کر دیتا تو دیکھو ان لوگوں نے کیسی شاندار قربانیاں کی تھیں.آجکل تو کوئی اپنے دوست کے خلاف بھی بات نہیں سن سکتا لیکن وہاں بیٹا اپنے باپ کا رستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے سب سے زیادہ معز شخص ہیں.ورنہ میں الله تمہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا بلکہ تلوار سے اسی جگہ ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا.ہماری جماعت کو بھی دینی معاملات میں اسی قسم کی غیرت دکھانی چاہئے اور پھر انتظار کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کس طرح مدد کرتا ہے یقیناً اگر وہ ایسا کریں گے تو آسمان سے خدا تعالیٰ کے فرشتے پڑے باندھ کر نیچے اتریں گے اور وہ لوگوں کے دل دھو دھو کر احمدیت کے لئے صاف کر دیں گے اور جولوگ ان سے پہلے ایمان لاتے ہیں بعد میں آنے والے ان کے قدم چومیں گے اور ان کی قدر کریں گے کیونکہ جو شخص ایمان لے آتا ہے اس کے اندر ایمان کی قدر بھی ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ پہلے ایمان لانے والے کی غیرت اس سے بہر حال زیادہ ہے.رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ایران سے عرب میں چکیاں آئیں جو نہایت باریک آٹا پیستی تھیں جب ان چکیوں پر پہلی دفعہ آٹا پسا تو وہ حضرت عمرؓ کے پاس لایا گیا آپ نے فرمایا یہ آنا ہمیں

Page 73

صلى الله 66 صلى الله حضرت مصلح موعود رسول کریم ﷺ کے طفیل ملا ہے اور رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے ہیں اس لئے یہ آٹا سب سے پہلے حضرت ام المومنین عائشہ کے پاس لے جاؤ.چنانچہ آنا حضرت عائشہ کے پاس لایا گیا آپ نے اس کی روٹی پکوائی.چونکہ آٹا میدہ کی قسم کا تھا اس لئے نہایت ملائم روٹی پکی.جب آپ نے ایک لقمہ منہ میں ڈالا تو آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگ گئے ، وہ خادمہ جس نے روٹی پکائی تھی گھبرا کر کہنے لگی آٹا تو بہت ملائم ہے اور روٹی بھی اچھی پکی ہے پھر آپ روتی کیوں ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا تو نہیں جانتی رسول کریم ﷺ کے دانت آخری عمر میں کمزور ہو گئے تھے اور ہم دانوں کو پتھروں سے گوٹ کر روٹیاں پکایا کرتیں تھیں چنانچہ جو روٹیاں تیار ہوتیں تھیں وہ بڑی سخت ہوتیں تھیں اور وہی رسول کریم ﷺ کھایا کرتے تھے.آج ان کے طفیل ہمیں یہ ملائم آٹا ملا ہے مگر مجھے یہ خیال کر کے رونا آیا کہ جن کے طفیل ہمیں یہ نعمت ملی وہ تو اس دنیا میں نہ رہے اور ہمیں یہ چیز مل گئی.حقیقتاً ہماری حالت بھی حضرت عائشہ جیسی ہی ہے اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھے تھے آپ کے اشتہارات اس بات سے بھرے پڑے ہیں کہ ہم نے یورپ اور امریکہ میں اسلام پھیلانا ہے لیکن آپ ساری عمر اپنے مخالفوں سے گالیاں کھاتے رہے بلکہ آپ کی وفات پر بھی لاہور والوں نے آپ کا مصنوعی جنازہ نکالا اور خوشیاں منائیں لیکن آپ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دن نصیب کیا کہ ہم یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کر کے آپ کی خوابوں کو پورا کر رہے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ انہی کے طفیل ہے اور ہمارا یہ کام آپ کی ہی دعاؤں اور تعلیم کا نتیجہ ہے آپ نے ہمیں قرآن کریم کی وہ تفسیر سکھائی جس کی وجہ سے آج سارے پادری کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ بالکل حضرت عائشہ والی مثال ہے کہ ملائم آٹا جن کے طفیل ملا وہ تو دنیا میں نہ رہے اور بعد میں آنے والوں نے اس سے فائدہ اٹھایا.ہم کو بھی اسلام کی اشاعت کی توفیق ملی مگر اس وقت جب ہمارے ہاتھ میں یہ ہتھیار دینے والا اور اسلام کے غلبہ کی خوا ہیں دیکھنے والا اس دنیا میں نہیں ہے اب بھی ہماری خواہش یہی ہے کہ ہمارے ذریعہ اسلام اس طرح پھیلے اور اس طرح اس کی اشاعت ہو کہ ہم اسلام کی فتح کا جھنڈا قیامت کے روز آپ کے قدموں میں ڈال دیں اور کہیں اے مسیح موعود یہ تیرے خوابوں کی تفسیر ہے یہ تیری خواہشات کا ظہور ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام پہلے بھی موجود تھا قرآن پہلے بھی موجود تھا مگر کسی مسلمان کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہ ہوا کہ اسلام دنیا پر غالب ہو.تیرے ہی دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور تو نے ہی ہمیں وہ تفسیر سکھائی جس کی وجہ سے ہم ہر جگہ غالب ہو رہے ہیں.یہ جھنڈا تیرا ہی ہے اس لئے ہم اسے تیرے ہی قدموں میں ڈالتے ہیں اب تیرا ہی یہ منصب ہے کہ تو یہ جھنڈا محمد رسول اللہ اللہ کے قدموں میں ڈال دے کیونکہ اسلام لانے والے محمد رسول اللہ

Page 74

67 وسام حضرت مصلح موعود صلى الله ہیں اور تیرے متعلق محمد رسول اللہ اللہ نے ہی خبر دی تھی کہ تو دنیا میں آئے گا اور اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا ، اس لئے تیری فتح محمد رسول اللہ ﷺ کی فتح ہے اور محمد رسول اللہ علیہ کی فتح خدائے واحد کی فتح ہے ہم تیرے آگے جھنڈا ڈالتے ہیں کیونکہ تو نے ہمیں ہدایت دی تو آگے اسے محمد رسول اللہ ہے کے قدموں میں ڈال دے اور وہ آگے اسے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں اور کہیں اے خدا تو نے مجھے تو حید کی اشاعت کے لئے دنیا میں بھیجا تھا میں نے وہ تو حید دنیا میں قائم کر دی اور پھر اس کے بعد میں نے تیری ہدایت اور تیرے دیئے ہوئے علم کے ماتحت ایک آنے والے موعود کی خبر دی جس نے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کر دیا.اب میں یہ اسلام کا جھنڈا تیری خدمت میں پیش کرتا ہوں یہ تو حید کا تحفہ ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ جو کام تو نے ہمارے سپرد کیا تھا اسے ہم نے پورا کر دیا ہے پس اس خوشی میں ہم یہ جھنڈا تیری خدمت میں پیش کرتے ہیں خدا کرے یہ مضمون ہمارے مبلغوں کے ذہن نشین ہو جائے اور وہ بس جلدی جلدی کام کریں ان میں سے بعض ست ہیں اور بعض پچُست ہیں ، جو سُست ہیں ان کو یا درکھنا چاہئے کہ انھوں نے ایک دن مرنا ہے قیامت کے دن ان کو کوئی عزت نہیں دی جائے گی لیکن جو پچست ہیں اور خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن انھیں اپنے عرش کے دائیں طرف بٹھائے گا اور ان سے وہی سلوک کرے گا جیسے باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کو اپنی توحید سے ویسی ہی محبت ہے جیسے باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے پس جب وہ خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں پھیلائیں گے تو خدا تعالیٰ بھی ان سے ویسی ہی محبت کرے گا جیسے باپ اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو فرمایا کہ اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِي وَ تَفْرِيدِی یعنی تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے مجھے اپنی توحید اور تفرید پیاری ہے“.آخر ساری دنیا سے عیسائیت اور شرک کا مٹانا کتنا بڑا کام ہے وہ صبح جسے عیسائیوں نے عرش پر بٹھا رکھا ہے اسے زمین پر نیچے اتار دینا معمولی آدمی کا کام نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے مصنوعی خدا کو عرش سے نیچے پھینک دیا اور اس کی اپنی قوم سے اقرار کروا لیا کہ مسیح ناصری نیچے تھے اور محمد رسول اللہ اللہ اونچے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا اور میں علاج کی غرض سے لنڈن گیا تو ایک بہت بڑا مصنف ڈسمنڈ شامیرے پاس آیا اور اس نے کہا شاید آپ مجھے پاگل قرار دیں گے کہ عیسائی ہو کر میں ایسی باتیں کرتا ہوں، یہ ٹھیک ہے کہ میں عیسائی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ محمد رسول اللہ مسیح ناصری سے بڑے تھے.محمد رسول اللہ ﷺ جو اعلیٰ تعلیم دنیا میں لائے وہ مسیح نا صرتی نہیں لائے تھے.آپ حیران ہوں صلى الله

Page 75

68 حضرت مصلح موعود صلى الله گے کہ میں عیسائی ہو کر ایسی بات کر رہا ہوں لیکن میں سچی بات کا انکار کیسے کر سکتا ہوں.میں جب اسے رخصت کر کے اپنے کمرہ کی طرف آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے پیچھے پیچھے کوئی آ رہا ہے میں نے مڑ کر دیکھا تو ڈسمنڈ شا آ رہا تھا وہ کہنے لگا میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا تھا، میں نے چاہا کہ آپ سے پوچھ لوں، میں نے کہا پوچھو کیا سوال ہے؟ وہ کہنے لگا کہ جب میں یہ تقریر کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ یہ سب سے بڑے نبی تھے تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے مگر یہ عیسائی لوگ پھر بھی نہیں مانتے.میں نے کہاڈ سمنڈ شا جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ خدا آپ کے اندر بول رہا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ شاید دوسرے لوگ بھی اس آواز کو سن رہے ہیں حالانکہ دوسرے لوگ صرف تمہاری آواز سنتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی آواز نہیں سنتے اس لئے وہ تمہاری بات نہیں مانتے.وہ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.جب یہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کی آواز سنے لگ جائیں گے اور خدا تعالیٰ ان کے دلوں میں بھی بولا تو ان پر بھی اثر ہو جائے گا.میں نے کہا ابھی ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب تم بولتے ہو تو یہ لوگ صرف تمہاری آواز سنتے ہیں.تم انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو کہ جب تم بولا کرو تو خدا صرف تمہاری زبان سے نہ بولے بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی بولے اور جس دن وہ لوگوں کے دلوں میں بولنے لگے گا، لمبی چوڑی تقریروں کی ضرورت نہیں رہے گی.سارا یورپ تمہاری بات ماننے لگ جائے گا.(خطبہ جمعہ الفضل 20 مئی 1958، صفحه 1-7)

Page 76

69 حضرت مصلح موعود تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1958ء اب میں تحریک جدید اور وقف جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.تحریک جدید کو قائم ہوئے 25 سال ہو چکے ہیں.لیکن وقف جدید کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہوا ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی درخواستیں برابر چلی آرہی ہیں.مگر ابھی یہ تعداد بہت کم ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والے لوگ کم سے کم ایک ہزار ہونے چاہیں.اگر دس ہیں ہزار ہوں تو اور بھی اچھا ہے.اگر ہماری جماعت کے زمیندار اپنی آمد نہیں بڑھائیں تو وقف جدید کے چندے بھی بڑھ جائیں گے اور وہ مزید آدمی رکھ سکیں گے.اس وقت 80 آدمی کام کر رہے ہیں.پچھلے سال 70 ہزار کے وعدے آئے تھے جس میں سے اکثر حصہ وصول ہو چکا ہے.اور یہ صیغہ اپنا کام عمدگی سے کر رہا ہے اور ترقی ہوئی تو اس کا کام اور بھی بڑھ جائے گا.اس تحریک کے ذریعہ اس سال 400 بیعتیں آئی ہیں جبکہ اصلاح و ارشاد کے ذریعہ صرف 54 بیعتیں آئی ہیں.پس یہ نہایت مبارک کام ہے.چونکہ وقف جدید میں پرائمری اور مڈل پاس لڑکے بھی لئے جاسکتے ہیں اس لئے ہماری جماعت جو باقی سب جماعتوں سے تعلیم میں بہت زیادہ ہے وہ آسانی کے ساتھ اس تعلیم والے دس پندرہ ہزار مبلغ پیش کر سکتی ہے امید ہے کہ جماعت کے افراد اس طرف خاص توجہ کریں گے اور ملک کی جہالت کو دور کرنے میں مدد کریں گے.مجھے بعض لوگوں کی درخواستیں آتی ہیں لیکن ان میں یہ لکھا ہوتا کہ میں اپنا لڑ کا جسکی عمر اڑھائی سال کی ہے وقف جدید میں پیش کرتا ہوں حالانکہ جو بچہ اڑھائی سال کا ہے اور جو بولتا بھی نہیں اس نے تبلیغ کیا کرنی ہے یا تعلیم کیا دینی ہے.بے شک ہم نے تعلیم کا معیار کم رکھا ہے لیکن عمر کم نہیں کی.بڑا آدمی ہو تو چاہے وہ پرائمری پاس ہی ہو کام کر سکتا ہے لیکن جو شخص اپنا اڑھائی سال کا بچہ وقف کرتا ہے وہ دین پر بہت احسان کرتا ہے.امید ہے کہ جماعت کے افراد اس طرف خاص توجہ کریں گے اور ملک کی جہالت کو دور کرنے میں مدد کریں گے.اسی طرح ملک کی بیماریوں کے دور کرنے میں بھی مدد کریں گے کیونکہ وقف جدید کے واقفین اپنے علاقہ میں تعلیم بھی دیتے ہیں اور بیماروں کا دیسی اور ہومیو پیتھک علاج بھی کرتے ہیں.گو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہمیں کافی ڈاکٹر مل گئے ہیں.لیکن ہمارے ملک کی آبادی کے لحاظ

Page 77

70 حضرت مصلح موعود سے ان کی تعدا دا بھی کافی نہیں.چنانچہ میرے پاس کئی احمدی ڈاکٹروں کے خط آتے ہیں کہ ہماری عمر ریٹائر ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن محکمہ ہمیں ریٹائر نہیں کرتا جس سے پتہ لگتا ہے کہ ابھی محکمہ کے پاس کافی ڈاکٹر نہیں.اگر کافی ڈاکٹر ہوں تو ریٹائر ہونے کی عمر تک پہنچنے پر انہیں ریٹائر کیوں نہ کرے.یورپ کے بعض ملکوں میں فی سو آدمی ایک معالج ہوتا ہے.ہمارے ملک کی آبادی آٹھ کروڑ ہے.اس لحاظ سے ہمارے پاس تو ایک لاکھ معالج ہونا چاہیے.انگلستان میں سب سے کم معالج ہیں.وہاں دو ہزار پر ایک معالج ہے.پس پاکستان کے لحاظ سے بھی ہمارے پاس چالیس ہزار معالج ہونا چاہیے.ہومیو پیتھک اور دیسی طب میں یہی فائدہ ہے کہ ایک تو علاج سستا ہو جاتا ہے، دوسرے کثرت سے معالج مہیا ہو سکتے ہیں امریکہ میں ہومیو پیتھک معالج کثرت سے ہیں.ہمارے ملک میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ڈاکٹری پاس لوگ ہی علاج کر سکیں.یہ درست نہیں مجھے ہو میو پیتھک کا شوق ہے اور میں محض خدمت خلق کے طور پر میں سال سے مفت علاج کر رہا ہوں.اور میرے کتب خانہ میں اتنی کتابیں ہیں جو بڑے بڑے ڈاکٹروں کے کتب خانوں میں بھی نہیں.میں نے دیکھا ہے کہ مری میں ایک صاحب جو پہلے معمولی کمپاؤنڈر تھے اور ہومیو پیتھی کی پریکٹس کرتے تھے انہوں نے میرا علاج کیا اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا.بڑے بڑے ڈاکٹروں نے میرا علاج کیا تھا.لیکن میں اکڑوں نہیں بیٹھ سکتا تھا.لیکن ان صاحب نے میرا علاج کیا اور میں اکڑوں بیٹھنے لگ گیا.وہ معمولی کمپاؤنڈر تھے.لیکن کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بڑے اچھے ڈاکٹر بن گئے ہیں.یہاں تک کہ لاہور کے بعض کا لجوں کے پاس شدہ ڈاکٹر ہیں ان سے بھی زیادہ ان کی دوائی مؤثر ہوتی تھی.ہمارے ربوہ میں بھی ایک صاحب ہومیو پیتھک کی پریکٹس کرتے ہیں وہ معمولی کلرک تھے لیکن ہومیو پیتھک کی پریکٹس میں انہوں نے بڑی مشق کر لی ہے.بہر حال جماعت کو چاہیے کہ تحریک جدید اور وقف جدید کی طرف خاص توجہ کرے.اسی طرح واقفین کو چاہیے کہ وہ تفسیر میں لے کر پڑھیں.تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر بھی اور لوگوں میں پھیلائیں.تا کہ قرآن کریم سے لوگوں کا تعلق پیدا ہو قرآن کریم ہی ایک ایسی چیز ہے جو دلوں میں نور پیدا کرتی ہے.اگر آپ لوگ قرآن پھیلا ئیں گے تو احمدیت کی دشمنی لوگوں کے دلوں سے خود بخود کم ہو جائے گی.وہ جب پڑھیں گے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی سختی نہ کرو تو کیا انہیں خیال نہیں آئے گا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ کیوں کرتے ہیں.ہماری جماعت شکایت کیا کرتی ہے کہ لوگ ہم پر سختی کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو قرآن سے واقف نہیں کیا.اگر وہ تفسیر صغیر وغیرہ اپنے

Page 78

71 حضرت مصلح موعود پاس رکھیں اور لوگوں کو پڑھنے کیلئے دیں تو آہستہ آہستہ لوگوں میں قرآن سیکھنے کا شوق پیدا ہو جائے گا.مجھے یاد ہے پچھلی جنگ میں ہمارے ایک دوست عراق گئے.انہوں نے ایک غیر احمدی کرنل کو تفسیر کبیر پڑھنے کیلئے دی.انہوں نے جب واپس لی تو وہ کہنے لگا مجھے یہ کتاب دے دو اور سور و پیہ لے لو.چنانچہ وہ کہتے ہیں اس نے سوروپیہ مجھے دیدیا اور میں نے تفسیر کبیر کیلئے قادیان لکھ دیا لیکن مجھے معلوم ہوا کہ تفسیر کبیر کی وہ جلد ختم ہو چکی ہے.پس ہمارے دوست اگر تبلیغ کیلئے یہ طریق استعمال کریں تو بڑا مؤثر ثابت ہوسکتا ہے.مگر ایسا نہ کریں کہ وہ تفسیر کبیر کی ان دو جلدوں کا جو ان کے پاس ہیں سوسور و پیہ مجھ سے مانگنا شروع کر دیں.میں نے پچھلے سال جلسہ پر ذکر کیا تھا کہ پندرہ سال پہلے ایسا ہوا تھا لیکن ایک دوست نے جھٹ اپنی تفسیر مجھے بھیج دی اور کہا کہ ایک سو روپیہ مجھے دیدیں میں نے کہا یہ تو پندرہ سال پہلے کی بات ہے اب تو مجھے پتہ بھی نہیں کہ وہ صاحب کہاں ہیں.کہنے لگا کچھ کم روپے دیدیں میں نے کہا.میں نے تو تفسیر خرید نی نہیں میرے پاس تفسیر موجود ہے.میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ ایک غیر احمدی افسر پر اس کا اس قدر اثر ہوا تھا کہ اس نے سوروپیہ دے کر اس کتاب کو خریدنا چاہا.جاؤ اور عراق سے اس آدمی کو تلاش کرو شاید وہ آدمی مل جائے اور تفسیر لے لے میں کیوں لوں.بعد میں وہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو لکھتے ہیں کہ کچھ روپیہ ہی مجھے دے دیں.ساٹھ ہی دیدیں چالیس ہی دے دیں.بہر حال جو شخص ان کتابوں کو پڑھتا ہے اس پر اثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.میں نے یہاں تک بھی کہا تھا کہ اگر کوئی غیر احمدی کتاب خرید کر پڑھنا چاہے تو اسے نصف قیمت میں دیدو.بہر حال بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے تفسیر کبیر پڑھی اور بعد میں اس کے متعلق بڑی اچھی رائے کا اظہار کیا.تفسیر کبیر کا تو ہر ایک کیلئے پڑھنا مشکل ہے لیکن تفسیر صغیر سے تھوڑی سی محنت کے بعد پورا قرآن پڑھا جا سکتا ہے.اس لئے اس کی طرف توجہ بہت مفید ہو سکتی ہے.یہ تبلیغ کیلئے با بہترین ذریعہ ہے.زبانی تبلیغ کرنے بیٹھو تو بعض اوقات لڑائی ہو جاتی ہے اور فتنہ پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے لیکن اگر تم کسی کو کتاب پڑھنے کیلئے دے دو تو وہ گھر میں بیٹھ کر ہی اسے پڑھے گا.اور اگر وہ گھر میں بیٹھا ہوا وہ کتاب پڑھے گا تو وہ بیوی سے تو نہیں لڑے گا اور نہ تم سے لڑائی کر سکے گا.اس لئے یہ طریق بہت مفید ہے دوسرے قرآن میں یہ برکت ہے کہ وہ دوسرے پر اثر کئے بغیر نہیں رہتا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ سنایا کرتے تھے.کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک رئیس آیا جو شراب کا عادی تھا.میں نے اسے بہت سمجھایا کہ شراب چھوڑ دو.مگر وہ کہتا تھا کہ مجھ سے شراب چھوڑی نہیں جاتی.اس نے کہا مجھے حضرت صاحب سے ملا دو.چنانچہ میں نے اس کی ملاقات کا انتظام کروا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ دار الفکر میں لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد جب

Page 79

72 حضرت مصلح موعود وہ باہر نکلا تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں.آپ فرماتے تھے.میں نے کہا تمہیں کیا ہوا کہنے لگا آپ نے مجھے اتنی نصیحت کی تھی لیکن مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا.لیکن مرزا صاحب نے صرف چند لفظ کہے تو میری چیخیں نکل گئیں اور آج سے میں نے عہد کر لیا ہے کہ آئندہ کبھی شراب نہیں پیوں گا.حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں جو اثر ہوسکتا تھاوہ میرے کلام میں کہاں ہوسکتا تھا اور یہ سچی بات ہے کہ جو فرق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کے کلام میں تھا اس سے لاکھوں گنا فرق آپ لوگوں کے کلام اور قرآن کریم میں پایا جاتا ہے آپ لوگ اگر کسی کو وعظ ونصیحت کریں گے تو اتنا اثر نہیں ہو سکتا.لیکن اگر قرآن اسے پڑھنے کیلئے دیں گے تو اس پر بہت زیادہ اثر ہو گا.غرض لوگوں تک حق پہنچانے اور ان کے دل نرم کرنے کا یہ سب سے بہتر ذریعہ ہے.قرآن کریم میں حُب وطن کا بھی ذکر آتا ہے.تہذیب و تمدن کا بھی ذکر آتا ہے اپنے ہمسایوں پر رحم کرنے کا بھی ذکر آتا ہے غیر مذاہب کے لوگوں سے ہمدردی کرنے کا بھی ذکر آتا ہے.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص قرآن پڑھے اور پھر دوسرے پر ختی کرے.ابھی ایک جگہ ایک احمدی کو سزا ملی ہے.چھوٹا افسر جو سزا دینے والا تھا وہ مخالف تھا.اس کی اپیل ایک اور اعلیٰ افسر کے پاس گئی تو اس نے کہا.کیا مرزائی ہی سزا دینے کیلئے رہ گئے ہیں.عیسائی بھی تبلیغ کرتے ہیں.اگر انہوں نے تبلیغ کی تو کیا ہوا.گویا یہ فطرت کی آواز تھی جو اس کے دل سے آئی ممکن ہے اس نے قرآن کریم پڑھا ہوا ہو.اور اس پر یہ اثر ہو کہ اگر عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے تو غریب مرزائی کو کیوں سزادی جائے.تو یہ تبلیغ کا ایک نہایت ہی کامیاب ذریعہ ہے اس کی طرف خاص توجہ کرنے چاہیے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ہمارے ایک دوست شیر محمد یکہ بان ہوتے تھے وہ کا ٹھ گڑھ کے رہنے والے تھے.انہوں نے ایک سو سے زیادہ احمدی کیا تھا.ان کی تبلیغ کا یہ طریق تھا کہ وہ الحکم منگوایا کرتے تھے.وہ ان پڑھ تھے لیکن الحکم جیب میں ڈالے رکھتے تھے.اور جو آدمی پڑھا لکھا یکہ میں بیٹھتا اسے کہتے بھائی جی مجھے یہ اخبار پڑھ کر سنائیں.وہ شخص الحکم پڑھنا شروع کرتا اور اس پراثر ہونا شروع ہو جا تا اور یا تو وہ سخت مخالف ہوتا تھا اور یا پھر گھر پہنچ کر لکھتا مجھے پہ دیکھو دو میں نے بھی یہ اخبار منگوانا ہے.اس میں بہت اچھی باتیں ہیں.وہ پھر تھوڑے دنوں کے بعد آتا اور کہتا میری بیعت کا خط لکھ دو.اس طرح انہوں نے سو سے زیادہ احمدی کئے اگر الحکم دلوں پر اثر کر سکتا ہے تو قرآن سے تو یقیناً بہت زیادہ فائدہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ایسی برکت دے گا کہ لوگوں کے دل بالکل صاف ہو جائیں گے اور جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے آج جو تمہارے دشمن ہیں کل وہ تم پر جان قربان کرنے لگ جائیں گے.اور اگر وہ تمہیں نقصان

Page 80

73 حضرت مصلح موعود پہنچانا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری خود حفاظت فرمائے گا.اسلام کو دنیا میں پھر سے غالب کرنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے.اس لئے اسے اس سلسلہ میں ہمیشہ مالی اور جانی قربانیوں میں پورے جوش سے حصہ لینا چاہیے تا کہ ہم اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوسکیں.اب میں اپنی تقریر کوختم کرتا ہوں کل انشاء اللہ دوسری تقریر ہوگی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو زیادہ سے زیادہ جلسہ سے مستفیض ہونے کی توفیق بخشے.(الفضل ربوہ 3 اپریل 1959 ء)

Page 81

74 حضرت مصلح موعود خطبہ جمعہ فرموده 13 فروری 1959ء بمقام ربوہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں کہا تھا کہ بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک میں غلہ کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے اب اخباروں میں بھی چھپا ہے کہ گورنمنٹ کے محکمہ زراعت کا خیال تھا کہ چونکہ اس سال بارش وقت پر ہوگئی ہے، اس لئے اس سال غلہ باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا.لیکن اب چونکہ بارش زیادہ ہوگئی ہے اس لئے اس کا اثر فصلوں پر بہت زیادہ پڑے گا اور خطرہ ہے کہ کہیں غلہ کی پیداوار اس سال بھی امید سے کم نہ ہو.مجھے ان بارشوں کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ فروری اور مارچ کے مہینہ میں میری بیماری میں افاقہ ہو جائے گا لیکن ٹھنڈک کی وجہ سے میری ٹانگ کے درد میں افاقہ ہونے کی بجائے زیادتی ہوگئی ہے.اس لئے اس ہفتہ جن صحابیوں اور موصی عورتوں اور مردوں کے جنازے آئے ان کی نماز جنازہ میں نہیں پڑھا سکا.اور آج بھی مجھے تکلیف زیادہ ہے اس لئے ان کی نماز جنازہ غائب نہیں پڑھا سکتا چونکہ میں نے اگلے ہفتہ سندھ جاتا ہے اس لئے میں کوشش کروں گا کہ اگلے جمعہ ان سب کی نماز جنازہ غائب پڑھا دوں.دوست تمام مرحومین کے لئے چاہے وہ صحابی تھے یا غیر صحابی موصی تھے یا غیر موصی نماز جمعہ میں دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے رشتہ داروں پر اپنا فضل نازل کرے اور انھیں اپنی پناہ میں رکھے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دفتر تحریک جدید والوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وعدوں کی آخری تاریخ اس دفعہ 28 فروری مقرر ہے مگر اس وقت تک وعدے بہت کم آئے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد تحریک جدید کے وعدے بھجوائیں اور 28 فروری سے پہلے پہلے ان وعدوں کی مقدار کو پچھلے سالوں سے بڑھانے کی کوشش کریں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریک جدید کا کام زیادہ تر پاکستان سے باہر ہے اور چونکہ اس کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے ایکسچینج ملنے میں دقتیں ہیں اس لئے شاید دوستوں کا یہ خیال ہو کہ ابھی وعدے بھیجنے کی ضرورت نہیں مگر ان کا یہ خیال درست نہیں گورنمنٹ کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اگر کل کو گورنمنٹ کے حالات سدھر جائیں اور وہ ایکسچینج دینے کے لئے تیار ہو جائے تو

Page 82

75 حضرت مصلح موعود اگر تحریک جدید کے پاس روپیہ ہی نہ ہوا تو وہ انھینچ حاصل کر کے روپیہ باہر کس طرح بھیجے گی.اس لئے وعدے بہر حال آنے چاہئیں اور چندہ کی وصولی بھی باقاعدہ ہونی چاہئے تا کہ جب بھی گورنمنٹ اینچ دے تحریک جدید روپیہ باہر بھیج سکے اگر گورنمنٹ نے ایکسچینج منظور کر لیا اور تحریک جدید روپیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کی نظروں میں بھی ہماری سبکی ہوگی اور مبلغ بھی روپیہ نہ ملنے کی وجہ سے تکلیف اٹھائیں گے.یہی مبلغ ہیں جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے.کل کسی نے اخبار ” صدق جدید کا ایک کٹنگ مجھے بھجوایا تھا کہ احمدی جماعت میں لاکھ برائیاں ہوں لیکن گذشتہ جلسہ پر انھوں نے اکاون (51) زبانوں میں جو تقریر میں کروائی ہیں اور غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے لئے جو جد و جہد کر رہے ہیں ان کا یہی کام اگر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ان کی برائیوں کو جو لوگ بیان کرتے ہیں دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ان کے اچھے کام والا پلڑا بوجھل ہو گا اور ان کی برائیوں کا پلڑا کمزور ثابت ہو کر اوپر اٹھ جائے گا.اب دیکھو یہ ہماری تبلیغ کا ہی اثر ہے.پاکستان کے وزراء اور سفراء باہر جاتے ہیں تو وہ بھی واپس آکر ہمارے مبلغین کے کام کی تعریف کرتے ہیں.پچھلے دنوں ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ربوہ آئے تو انھوں نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ ٹرینی ڈاڈ گئے تھے.انھوں نے دیکھا کہ احمدیت کے مبلغ کی وجہ سے وہاں پاکستان کی لوگوں میں زیادہ شہرت ہے.اسی طرح پرسوں ایک خط آیا کہ کسی عیسائی نے اسلام کے خلاف اعتراضات کئے.تو ہمارے مبلغ شکر الہی صاحب نے اس کا جواب شائع کیا.اسے پڑھ کر شاہ فاروق کی والدہ ملکہ نازلی نے کہا کہ اشاعت اسلام کا کام صرف احمدی مبلغین ہی کر رہے ہیں.ان کے سوا اور کوئی یہ کام نہیں کر رہا.ان لوگوں نے ہی اس ملک میں اسلام کی عزت کو قائم رکھا ہوا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مبلغین کے ذریعہ غیر ممالک میں اسلام کو عظمت حاصل ہوتی ہے غیر ملکوں مثلاً مشرقی افریقہ ، مغربی افریقہ، جرمنی ، سکینڈے نیویا، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں ہمارے مبلغ اسلام کی اشاعت کرتے ہیں اور جب ان کے ذریعہ سے غیر ممالک میں اسلام کی عزت بڑھتی ہے تو ان کے کام پر جہاں احمدی فخر کر سکتے ہیں وہاں غیر احمدی بھی فخر کر سکتے ہیں.پچھلے دنوں انڈونیشیا سے ایک چینی لڑکا آیا تھا (انڈونیشیا میں چینی لوگ بھی آباد ہیں ) اس لڑکے نے بتایا کہ مجھے احمدی مبلغوں کے ذریعہ ہی تبلیغ ہوئی تھی اور اسی کے نتیجہ میں میں مسلمان ہوا.وہ لڑکا بڑا مخلص تھا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں ہر جگہ اسلام احمدی مبلغین کے ذریعہ تقویت پا رہا ہے اور ان کے لئے چندہ کے وعدے بھجوانا چاہئے وہ فوری طور پر ادا کئے جائیں جو ایک بڑی دینی خدمت ہے اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے.اگر گورنمنٹ کی مالی حالت اچھی ہوگئی اور اس کے پاس ایکھینچ جمع ہو گیا تو وہ اس نے بہر حال تقسیم کرنا ہے اگر انھوں نے کسی وقت

Page 83

76 حضرت مصلح موعود اکھینچ دے دیا لیکن تحریک جدید روپیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کے نزدیک بھی محکمہ کی سبکی ہوگی اور مبلغ بھی الگ تکلیف اٹھائیں گے.وقف جدید کے چندہ میں بھی ابھی دس بارہ ہزار روپیہ کی کمی ہے دوستوں کو اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.پچھلے سال انھوں نے نسبتاً بہت اچھا کام کیا تھا اگر اس سال بھی انھیں رو پیل جائے تو امید ہے اگلے سال وہ اور بھی اچھا کام کر سکیں گے.پس میں دونوں محکموں کے متعلق چندہ کی تحریک کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان دونوں تحریکات میں چندہ دے کر خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں.میں نے تحریک جدید کے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا ہے کہ چونکہ ایکسچینج نہیں ملتا اس لئے تحریک جدید کے وعدے کرنے اور پھر ان کی وصولی میں کچھ دیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.میں نے بتایا ہے کہ اس میں بڑا سخت حرج ہے علاوہ اس کے کہ ہماری گورنمنٹ میں سبکی ہوگی ہمارے مبلغ بھی بے بس ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ آج دھوپ نکل آئی ہے اگر یہ دھوپ کچھ دن اور بھی نکلی رہی تو امید ہے فصلیں اچھی ہو جائیں گی.دوست خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر یہ بھی ادا کریں اور دعائیں بھی کریں کہ خدا تعالیٰ اپنے اس فضل کو جاری رکھے اور اسلام کی اشاعت کے لئے مالی امداد کے وعدے کر کے اس فضل کو جذب کرنے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس سال کو پچھلے سال سے ہزاروں گنا اچھا کر دے.امید ہے کہ دوست ان باتوں کا خیال رکھیں گے اور اپنے وعدوں کو بڑھا کر اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کریں گے.الفضل 19 فروری 1959)

Page 84

77 حضرت مصلح موعود تقریر بر موقع جلسہ سالانہ 24 /جنوری 1960ء.....اسی طرح آئندہ خلفاء کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں خصوصاً اپنی اولا دکو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولا د در اولا د کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے.اسی مقصد کو پورا کرنے اور اسلام کے نام کو پھیلانے کیلئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے جو چھپیں سال سے جاری ہے اور جس کے ماتحت آج دنیا بھر کے تمام اہم ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے تبلیغی مشن قائم ہیں اور لاکھوں لوگوں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچایا جارہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغی مراکز کو وسیع کرنے اور مبلغین کا جال پھیلانے میں ہمیں خدا تعالیٰ نے بڑی بھاری کامیابی عطا کی ہے.مگر ابھی اس میں مزید ترقی کی بڑی گنجائش ہے اور ابھی ہمیں ہزاروں واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو دنیا کے چپہ چپہ پر اسلام کی تبلیغ کریں.ہماری جماعت اب خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں ساٹھ ہزار واقفین زندگی کا میسر آنا کوئی مشکل امر نہیں اور اگر ایک آدمی سواحمدی بنائے تو ساٹھ ہزار واقفین زندگی کے ذریعہ ساٹھ لاکھ احمدی ہوسکتا ہے.پھر ساٹھ لاکھ میں سے چار پانچ لاکھ مبلغ بن سکتا ہے اور چار پانچ لاکھ مبلغ چار پانچ کروڑ احمدی بنا سکتا ہے اور چار پانچ کروڑ احمدی اگر زور لگائے تو وہ اپنی تعداد کو چار پانچ ارب تک پہنچا سکتا ہے جو ساری دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہے لیکن دوستوں کو یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے کرشن بھی قرار دیا ہے اور آپ کو الہام ہے کہ وو ہے کرشن رو ڈ ر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.( تذکرہ:312) اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کرشن اور روڈ رگو پال قرار دیا گیا ہے.روڈر کے معنے ہوتے ہیں درندوں اور سوروں کو قتل کرنے والا.اور گوپال کے معنے ہوتے ہیں گائیوں کو پالنے والا یعنی نیک طبع لوگوں کی خدمت کرنے والا اس میں بتایا گیا ہے کہ مسیح موعود ایک طرف تو دلائل اور

Page 85

78 حضرت مصلح موعود نشانات سے اپنے دشمنوں کو ہلاک کرے گا اور دوسری طرف اپنے انفاس قدسیہ سے نیک اور پاک لوگوں کی روحانی تقویت اور ان کے ایمانوں کی زیادتی کا موجب ہوگا.احادیث میں بھی مسیح موعود کے متعلق آتا ہے کہ يَقْتُلُ الخِنْزِيرَ وَيَكْسُرُ الصَّلِيبَ یعنی مسیح موعود ختر بری طبع لوگوں کو جو سیدھا حملہ کرتے ہیں اپنے دلائل اور نشانات سے ہلاک کرے گا اور عیسائیت کے زور کو توڑ دے گا.دتی میں ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں.انہوں نے ایک دفعہ کشف میں دیکھا کہ حضرت کرشن آگ کے اندر جل رہے ہیں اور حضرت رام چندر جی اس کے کنارہ پر کھڑے ہیں.وہ بزرگ یہ نظارہ دیکھ کر گھبرا گئے اور چونکہ وہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر دونوں کو بزرگ اور خدا رسیدہ انسان سمجھتے تھے اسلئے انہوں نے کسی اور بزرگ سے اس کی تعبیر پوچھی.انہوں نے کہا کہ حضرت کرشن کو آگ کے اندر دیکھنے کی تعبیر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے عشق میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور حضرت رام چندر کو کنارہ پر دیکھنے کی تعبیر ہے کہ ان کے دل میں اتنا عشق نہیں تھا جتنا حضرت کرشن کے دل میں تھا.بہر حال اس الہام سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں خدا تعالیٰ کی بے انتہا محبت تھی.کیونکہ آپ کو الہام میں کرشن قرار دیا گیا ہے اور اس بزرگ کے کشف اور تعبیر میں یہی بتایا گیا ہے کہ حضرت کرشن خدا تعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور اس الہام میں آپ کو گئو پال قرار دے کر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں جولوگ نیک طبع اور شریف ہونگے ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے لوگ مدد کریں گے.گائے سور کی طرح حملہ نہیں کرتی اور وہ مردہ گوشت نہیں کھاتی بلکہ سبزی کھاتی ہے.پس آپ کو گئو پال کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ گائے کی سی طبیعت رکھنے والے ہوں گے یعنی نرم مزاج اور نیک اور شریف لوگ ہوں گے خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی جماعت ان کی مدد کرے گی اور ان سے ہمدردی رکھے گی.ابھی تو دنیا میں عیسائیت کا غلبہ ہے اور ہماری اتنی بھی تعداد نہیں کہ ہم ہندوؤں پر غالب آجائیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کا کرشن نام رکھنا بتاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوؤں پر بھی غالب آجائیں گے اور يَكْسِرُ الصَّلِيْبَ بتاتا ہے کہ ہم ساری دنیا کے عیسائیوں سے بھی بڑھ جائیں گے.پس جو لوگ ہجرت کے بعد پاکستان آگئے ہیں وہ پاکستان میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں اور جولوگ ہندوستان میں رہتے ہیں وہ ہندوستان میں اسلام پھیلانے کی کوشش کریں.اور بیرونی ممالک کے مبلغین یورپ اور امریکہ میں اسلام پھیلانے کی کوشش کریں یہاں تک کہ ساری دنیا احمدی ہو

Page 86

79 حضرت مصلح موعود جائے.کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے غلام ہیں کسی ملک یا قوم کے طرف دار نہیں.لطیفہ مشہور ہے کہ کسی راجہ نے ایک دن بینگن کا بھر نہ کھایا جو اسے بڑا مزیدار معلوم ہوا اور اس نے دربار میں آکر تعریف کی کہ بینگن بڑا مزیدار ہوتا ہے.اس پر ایک درباری کھڑا ہو گیا اور اس نے بینگن کے فوائد گنوانے شروع کر دیئے اور کہا کہ حضور طب کی کتابوں میں اس کا یہ فائدہ بھی لکھا ہے اور وہ فائدہ بھی لکھا ہے.اور آخر میں کہنے لگا حضور اس کی شکل بھی تو دیکھیں کہ کیسی پاکیزہ ہے جب یہ بیل سے لٹکا ہوا ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی صوفی منش بزرگ سبز جامہ پہن کر گوشہ تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہے.مگر پھر چند دن راجہ نے جو مسلسل بینگن کھائے تو اسے بواسیر کی شکایت ہوگئی.اور اس نے دربار میں آکر کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ بینگن بڑی اچھی چیز ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اچھی چیز نہیں.اس پر وہی درباری کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور بینگن بھی کوئی کھانے کی چیز ہے طبی کتابوں میں اسکی یہ خرابی بھی لکھی ہے اور وہ خرابی بھی لکھی ہے اور پھر کہنے لگا حضور اس کی شکل بھی تو دیکھیں کیسی منحوس ہے.یہ بیل سے لٹکا ہوا یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی چور کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اور اس کا منہ کالا کر کے اسے پھانسی پر لٹکایا ہوا ہو.کسی نے اسے کہا کہ کمبخت پہلے تو تو نے اس کی اتنی تعریف کی تھی اور آج اتنی مذمت کر رہا ہے.وہ کہنے لگا میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں.ہم بھی خدا کے نوکر ہیں کسی بندے یا قوم کے نو کر نہیں.جدھر ہما را خدا ہو گا.ادھر ہی ہم ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی میاں نظام الدین صاحب ہوا کرتے تھے.انہوں نے جب شروع شروع میں سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہتے ہیں حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں تو چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے دوستوں میں سے تھے وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہنے لگے کہ قرآن کریم سے تو حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ ہونا ثابت ہے آپ یہ کس طرح کہتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اگر قرآن کریم سے ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.تو میں مان لونگا.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اگر میں سو آیتیں ایسی لا دوں جن سے ثابت ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ مان لیں گے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میاں صاحب سو آیت کا کیا سوال ہے آپ ایک آیت بھی لے آئیں تو میں مان لوں گا.اور اپنے عقیدہ سے توبہ کرلوں گا.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اچھا اگر سو نہیں تو میں دس آیتیں تو ضرور نکلواؤں گا.چنانچہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کے پاس بٹالہ گئے وہاں سے پتہ لگا کہ مولوی صاحب لاہور گئے ہوئے ہیں.چنانچہ وہ لاہور گئے ان دنوں حضرت خلیفہ اسیح الاول قادیان آنے کیلئے لاہور آئے ہوئے

Page 87

80 حضرت مصلح موعود تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اشتہار دینے شروع کئے تھے کہ میرے ساتھ وفات وحیات صحیح پر مباحثہ کر لو اور شرائط مناظرہ طے ہو رہی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول فرماتے تھے کہ اپنے دعوی کے ثبوت میں صرف قرآن کریم پیش کیا جائے اور مولوی محمد حسین صاحب کہتے تھے کہ حدیثیں پیش کی جائیں.آخر حضرت خلیفہ اول نے بحث کو چھوٹا کرنے کیلئے فرمایا چلو بخاری کی احادیث پیش کر دی جائیں اس پر مولوی محمد حسین بٹالوی بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ میری فتح ہوئی ہے جب میاں نظام الدین صاحب لاہور پہنچے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اہل حدیث کی مسجد میں اپنے دوستوں میں بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو ایک طرف سے مرزا صاحب کا پہلوان نورالدین نکلا اور دوسری طرف سے اہلحدیث کے پہلوان کے طور پر میں کھڑا ہوا.میں نے کہا حدیث اس نے کہا قرآن اور دونوں اسی پر اصرار کرتے رہے.آخرمیں نے اسے یوں پنچا اور یوں رگیدا اور اس طرح گرایا کہ اسے مانا پڑا اور کہنے لگا کہ بخاری بھی پیش کر سکتے ہو.اتنے میں میاں نظام الدین صاحب جا پہنچے اور کہنے لگے جانے دیں اس بحث کو.میں تو مرزا غلام احمد صاحب کو بھی جو مولوی نورالدین صاحب کے سردار ہیں منوا آیا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کیا منوا آئے ہو؟ میاں نظام الدین نے کہا مرزا صاحب تو کہتے تھے کہ ایک آیت ہی کافی ہے لیکن میں کہہ آیا ہوں کہ حیات مسیح کے ثبوت میں میں دس آیات لکھوا کر لا دیتا ہوں.اس لئے آپ جلدی سے مجھے حیات مسیح کے ثبوت میں قرآن کریم کی دس آیتیں لکھ دیں.مولوی محمد حسین صاحب تو فخر کر رہے تھے کہ میں نے مولوی نورالدین کو یوں پنچا اور یوں پچھاڑا اور یوں دلیلیں دیں آخر وہ حدیث کی طرف آگئے میاں نظام الدین صاحب کی بات سن کر انہیں غصہ آگیا اور وہ کہنے لگے بے وقوف کہیں کا میں مہینہ بھر نورالدین کے ساتھ بحث کرتا رہا اور آخر اسے اس طرف لایا کہ حدیث پیش کی جائے گی اور تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ فقرہ میاں نظام الدین صاحب کو اس طرح چھا کہ وہ اسی وقت کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے اچھا مولوی صاحب پھر جدھر قرآن ادھر میں اگر قرآن مرزا صاحب کے ساتھ ہے.تو میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں اور یہ کہہ کر وہ واپس آگئے اور قادیان آ کر بیعت کرلی.پس ہم بھی ادھر ہی ہوں گے جدھر قرآن ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو تمام دنیا کیلئے نازل کیا ہے اس لئے ساری دنیا میں ہی اسلام کی اشاعت کرنا ہمارا فرض ہے کسی خاص قوم یا ملک تک ہماری مساعی محدود نہیں رہنی چاہیے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس وقت مقدم ہندوستان ہے جس میں ہمارا اصل مرکز ہے اور جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کرشن قرار دیا گیا ہے جس درخت کا تنا

Page 88

81 حضرت مصلح موعود مضبوط ہوتا ہے اس کی شاخیں بھی وسیع ہوتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَثَلُ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم:27) یعنی کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت کی سی ہے جس کا تنا مضبوط ہو اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں.پس آپ لوگ پہلے پاکستان اور ہندوستان کو احمدی بنائیں اور جب یہ لوگ احمدی ہوگئے تو خود بخود چندے بھی دیں گے اور غیر ملکوں میں بھی اسلام کی اشاعت کیلئے اپنے آدمی بھیجوانا شروع کر دیں گے اور فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کے مطابق آپ لوگ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے.اور آپ کی دعائیں کثرت سے قبول ہونے لگیں گی.پس ہندوستان میں بھی تبلیغ اسلام کو وسیع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے آپ ہندوستان میں جو کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں یہ کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ خود ہندوؤں میں سے ہی نکل کر آئے ہیں ورنہ جو مسلمان باہر سے ہندوستان میں آئے تھے وہ بہت قلیل تھے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ہندوستان میں بھی تبلیغ اسلام پر زور دیں.اس ملک کی ترقی اور عظمت کے قیام کیلئے مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے اور ہندوستان کے چپہ چپہ پر ان محبان وطن کی لاشیں مدفون ہیں جنہوں نے اس کی ترقی کیلئے اپنی عمر میں خرچ کر دی تھیں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے خوبصورت اصول پیش کر کے ہندوؤں اور سکھوں کو بھی اپنا جزو بنانے کی کوشش کریں.جب تک ہم ہندوؤں میں تبلیغ نہیں کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کرشن ثابت نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس طرح مسیح اور مہدی قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کی جماعت کو مسیحیوں پر بھی غلبہ ملے گا اور مسلمانوں کو بھی آپ کے ذریعہ ہدایت حاصل ہوگی.اسی طرح آپ کو کرشن قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہندوؤں میں بھی آپ کی تعلیم کی قبولیت پھیلے گی.چنانچہ جو دوست قادیان میں رہتے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں میں اور اسی طرح مسلمانوں میں بھی احمدیت کی طرف بڑی رغبت پیدا ہورہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک دفعہ الہام ہوا کہ وو پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.‘ ( تذکرہ 247) اور یہ ظاہر ہے کہ جب ان کا اسلام کی طرف رجوع ہو گا تو چونکہ احمدیت اسلام سے جدا نہیں اس لیے لا زم وہ لوگ احمدیت کو قبول کریں گے اور بجائے دشمن ہونے کے قادیان کو آباد کرنے کی کوشش کریں گے.ہماری عمریں تو محدود ہیں ہماری اصل تمنا یہی ہے کہ اسلام اور احمدیت دنیا میں پھیلے اور ہمیں خدا تعالیٰ

Page 89

82 حضرت مصلح موعود کے وعدوں سے یا امید ہے کہ ہماری عمروں میں ہی اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ مصلح موعود کے زمانہ میں اسلام بہت ترقی کرے گا مگر اس کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے جائیں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اس کو راسخ کرتے جائیں تا کہ آپ کی ترقی آپ کی ترقی نہ ہو بلکہ اسلام کی ترقی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ترقی ہو.اسی طرح آپ نے فرمایا: دو دفعہ ہم نے رویا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں.“ صلى الله ( تذکرہ ص343) اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہندوؤں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت قائم ہو جائے گی اور سارا ہندوستان آپ کے کرشن ہونے کے لحاظ سے اور ساری دنیا محمد رسول اللہ ﷺ کا بروز ہونے کے لحاظ سے آپکے تابع ہو جائے گی.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک طرف تو یورپ اور امریکہ والوں کو بتائیں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور اس کے قبول کرنے میں ہی تمہاری نجات ہے اور دوسری طرف ہندوؤں میں تبلیغ اسلام پر زور دیں اور انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور اس وقت تک صبر نہ کریں جب تک ساری دنیا کومحمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا کر نہ ڈالدیں.اسی غرض کے لئے میں نے جماعت میں تحریک جدید کے علاوہ وقف جدید کی تحریک بھی جاری کی ہوئی ہے تا کہ سارے پاکستان میں ایسے معلمین کا جال بچھ جائے جولوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں اور انہیں اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے روشناس کریں مگر یہ کام صحیح طور پر تبھی ہو سکتا ہے جب کم از کم ایک ہزار معلم ہوں اور ان کیلئے اخراجات کا اندازہ بارہ لاکھ روپیہ ہے.بارہ لاکھ روپیہ کی رقم مہیا کرنا جماعت کیلئے کوئی مشکل امر نہیں کیونکہ اگر دولاکھ افراد جماعت چھ روپے سالانہ فی کس کے لحاظ سے چندہ دیں تو بارہ لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.اور ظاہر ہے کہ ہماری جماعت تو اس سے کہیں زیادہ ہے.پچھلے سال جماعت کی طرف سے صرف ستر ہزار روپے کے وعدے ہوئے تھے اور اس سال بھی اتنے ہی وعدے ہوئے جس سے صرف 90 معلمین رکھے جاسکے.اس سال پچھلے سال سے زیادہ اچھا کام ہوا ہے.چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھی کام شروع ہو گیا ہے.اور وہاں بھی ایک انسپکٹر اور چار معلم مقرر کئے جاچکے ہیں.پچھلے سال ان معلمین کی تعلیم و تربیت اور خدمت خلق کا جذبہ دیکھ کر پانچ سو نئے افراد نے بیعت کی تھی.اس سال چھ سو

Page 90

83 حضرت مصلح موعود اٹھائیس افراد نے بیعت کی ہے.پس میں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ کریں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فرد جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندہ میں حصہ نہ لے.یہ امر یا درکھو کہ قوم کی عمر انسان کی عمر سے بہت زیادہ ہوتی ہے.پس آپ لوگ ایسی کوشش کریں کہ آپ کے زمانہ میں تمام دنیا میں احمدیت پھیل جائے.ابھی تو ایک نسل بھی نہیں گزری کہ ہندوستان میں ہمارے سلسلہ کے شدید ترین مخالف بھی احمدیت کی خوبیوں کے قائل ہوتے جارہے ہیں اور میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنیٰ خادم ہوں میری تفسیر کی وہ بہت تعریف کرتے ہیں.یہ انقلاب جو پیدا ہو رہا ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی وجہ سے ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار اور اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی طرف لوگوں کی توجہ پھیر نی شروع کر دی.اور ہمیں یقین ہے کہ اس دعا کے مطابق ایک دن ساری دنیا احمدیت میں داخل ہو جائے گی.دنیا کی آبادی اس وقت دو ارب سے زیادہ ہے اور اگلے بیس پچیس سال میں وہ تین ارب ہو جائے گی اور پھر تعجب نہیں کہ کئی سال میں وہ اس سے بھی زیادہ ہو جائے مگر دنیا کی آبادی خواہ کتنی بڑھ جائے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ احمدیت کو ترقی دے گا اور اسے بڑھائے گا یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی.بشرطیکہ جماعت اپنی تبلیغی سرگرمیاں ہندوستان میں بھی اور یورپ میں بھی جاری رکھے اور وکالت تبشیر اور اصلاح وارشاد کے محکموں کے ساتھ پورا تعاون کرے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں سے بیس پچیس ہزار مبلغ یورپ کے لیے اور پچاس ساٹھ ہزار مبلغ ہندوستان اور پاکستان کیلئے آسانی کے ساتھ مل سکتا ہے.پس چاہئے کہ اپنی نسل میں احمدیت کی تبلیغ کا جوش پیدا کرتے چلے جائیں.عیسائیت کو دیکھ لو حضرت مسیح کے واقعہ صلیب پر 1959 ء سال گذر چکے ہیں مگر عیسائی اب تک اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے چلے جاتے ہیں.اگر مسلمان بھی تلوار کے جہاد پر زور دینے کی بجائے تبلیغ پر زور دیتے تو وہ عیسائیوں سے بہت زیادہ پھیل جاتے.عیسائی اگر ایک ارب تھے تو وہ دس ارب ہوتے مگر وہ چالیس کروڑ صرف اس وجہ سے رہے کہ انہوں نے غلطی سے جہاد صرف تلوار کا جہاد سمجھ لیا اور تبلیغ کے جہاد کو فراموش کر دیا لیکن حضرت مسیح ناصری نے لوگوں سے یہ کہا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو اور تمہیں کوئی ایک میل تک بیگار میں لے جانا چاہے تو تم دو میل تک اس کے

Page 91

84 حضرت مصلح موعود ساتھ چلے جاؤ.یہ ایسی تعلیم تھی جو دوسروں کے دلوں میں گھر کر لیتی.اگر آپ لوگ بھی نرمی اور محبت اور حلم اور آشتی پر زور دیں تو دنیا میں آپ کی جماعت عیسائیوں سے بہت زیادہ پھیل جائے گی کیونکہ آپ کے ساتھ دلائل ہیں اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے.پس اگر دلائل کے بغیر ان کو اتنی کامیابی ہوئی ہے تو دلائل کی وجہ سے آپ کو تو ان کے مقابلہ میں چار گنا ترقی ملنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1908ء میں فوت ہوئے تھے.اور آپ کی وفات پر ابھی صرف ۵۲ سال گذرے ہیں.اگر آپ تبلیغ اسلام کرتے چلے جائیں تو یقیناً ایک دن دنیا کے چپہ چپہ پر احمدیت پھیل جائے گی.اور ساری دنیا کے لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر اپنے بڑے بڑے فضل نازل فرمائے اور ان کے مقاصد کو پورا فرمائے ان کے ارادوں میں برکت دے انہیں دین کی ترقی اور اس کی اشاعت کیلئے اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگیاں وقف کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ایسا فضل کرے کہ وہ اس جلسہ سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں تا کہ جب وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں تو وہ روحانی لحاظ سے ایک تبدیل شدہ انسان نظر آئیں ، ان میں پہلے سے زیادہ نیکی پائی جاتی ہو اور پہلے سے زیادہ ایثار پایا جا تا ہو اور پہلے سے زیادہ سلسلہ سے وابستگی اور اخلاص پایا جاتا ہو.اور پھر اللہ تعالیٰ ایسا فضل فرمائے کہ وہ قیامت تک ہماری جماعت کو اس سے بڑے بڑے اجتماع کرنے کی طاقت بخشے تا کہ ہم سب کے سب احمدیت کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دیکھیں اور خدا اور اس کے رسول کی آواز دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچ جائے.الفضل 17 فروری 1960ء)

Page 92

حضرت مصلح موعود 55 85 پیغام بر موقع جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1960ء وقف جدید کی تحریک پر تین سال گذر چکے ہیں.اور اب نئے سال کے آغاز سے اس تحریک کا چوتھا سال شروع ہوتا ہے.میں نے ابتداء میں ہی جماعت کے دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ انہیں وقف جدید کا سالانہ بجٹ بارہ لاکھ تک پہنچانا چاہیے.تا کہ اس کے ذریعہ کم سے کم ایک ہزار ایسے معلم رکھے جاسکیں جو اسلام اور احمدیت کی تعلیم لوگوں تک پہنچائیں اور ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہمارے متعلق ان کے دلوں میں پائی جاتی ہیں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک وقف جدید کا بجٹ اسی ہزار کے اردگرد چکر لگا رہا ہے اور اس میں بھی کچھ وعدے ایسے ہوتے ہیں جن کی وصولی میں دفتر کو مشکلات پیش آجاتی ہیں.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس غفلت کا ازالہ کرنا چاہیے اور نہ صرف اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے بلکہ جماعت کی طرف سے نئے سال کے وعدے گذشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ پیش ہوں کیونکہ جب تک وقف جدید کی مالی حالت مضبوط نہیں ہوگی ہم معلمین کی تعداد بھی نہیں بڑھا سکتے اس وقت صرف 60 معلم کام کر رہے ہیں لیکن صحیح طور پر کام چلانے کیلئے کم از کم ایک ہزار معلمین کی ضرورت ہے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے.جبکہ مالی لحاظ سے وقف جدید کو مضبوط بنایا جائے پس دوست ہمت سے کام لیں اور وقف جدید کو ترقی دیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک میں کام کرنے والوں کے ذریعہ جماعت کی تعداد میں ہر سال ترقی ہورہی ہے.اور اگر کام بڑھ جائے اور وقف جدید کی مالی حالت بہتر ہو جائے تو اس میں اور بھی اضافہ ہوسکتا ہے.پس دوست اس تحریک کو کامیاب بنائیں اور نئے سال کے آغاز سے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور جوش کیسا تھ اس میں حصہ لیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو آپ کے فرائض کے سمجھنے اور ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عائد کی گئی ہیں.(27-12-1960).....

Page 93

86 98 حضرت مصلح موعود وقف جدید کے پانچویں سال کے آغاز پر پیغام چار سال ہوئے میں نے پاکستان کے دیہات اور قصبات میں ارشا دو اصلاح کا کام وسیع کرنے کیلئے وقف جدید کی تحریک جاری کی تھی جو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہورہی ہے چنانچہ دفتر کی رپورٹوں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ 1961ء میں وقف جدید کا چوتھا سال تھا ہماری جماعت کے دوستوں نے گذشتہ تمام سالوں سے بڑھ کر قربانی کا مظاہر کیا اور چندہ کو تقریباً ایک لاکھ روپیہ تک پہنچا دیا.میرے لئے یہ امر بڑی خوشی کا موجب ہے کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بیداری سے کام لے رہی ہے.مگر کام کی اہمیت اور اسکی وسعت کو دیکھتے ہوئے ابھی آپ لوگوں کو اپنی قربانی کا معیار اور بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دیہاتی جماعتوں کی تربیت اور عیسائیت کا مقابلہ لاکھوں روپیہ کے خرچ کا متقاضی ہے.پس میں جماعت کے افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بارہ میں دعاؤں سے بھی کام لیں اور زیادہ سے زیادہ مالی قربانیاں بھی پیش کریں تا کہ مسیح اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کیا جائے اور عیسائیت کا زور توڑا جائے.مجھے بتایا گیا کہ وقف جدید کے ماتحت اب اچھوت اقوام تک بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کا کام شروع کر دیا ہے اور اس کے امید افزا نتائج پیدا ہورہے ہیں.پس جس طرح اس تحریک کے چوتھے سال جماعت نے قربانی کا ایک اعلی نمونہ پیش کیا ہے اسی طرح اب وقف جدید کے پانچوں سال میں بھی وہ اپنے ایمان اور اخلاص کا شاندار نمونہ دکھائیں اور اپنے وعدے گذشتہ سالوں کے اضافہ کے ساتھ پیش کریں.مجھے امید ہے کہ یہ تحریک جس قدر مضبوط ہوگی اسی قدر خدا تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ ہوگا کیونکہ جب کسی کے دل میں نور ایمان داخل ہو جائے تو اس کے اندر مسابقت کی روح پیدا ہو جاتی ہے اور وہ نیکی کے ہر کام میں حصہ لینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.میں نے جن دنوں یہ تحریک کی تھی اسی وقت سے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں وقف جدید کا سالا نہ چندہ چھ لاکھ تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے مگر یہ ایک ابتدائی اندازہ تھا.چنانچہ اس کے دو سال بعد میں نے وقف جدید کا بجٹ بارہ لاکھ تک لے جانے کی تحریک کی مگر ابھی وقف جدید کا چندہ صرف ایک لاکھ تک پہنچا ہے.دوستوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس کمی کو جلد سے جلد پورا کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ قوت اور

Page 94

حضرت مصلح موعود 87 وسعت کے ساتھ تبلیغ اسلام کے کام کو جاری رکھا جا سکے.ان مختصر کلمات کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے اور اسی سے دعا کرتے ہوئے وقف جدید کے پانچویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو ہمیشہ اپنی قربانیوں کا معیار زیادہ سے زیادہ اونچا لے جانے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ دن ہمارے قریب تر آجائے جبکہ اسلام ساری دنیا پر پھیل جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس روح آسمان پر دیکھ کر خوش ہو جائے کہ جماعت احمدیہ نے اس فرض کو ادا کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد کیا گیا تھا.(3-01-1962) *****

Page 95

حضرت مصلح موعود 88 وقف جدید کے چھٹے سال کے آغاز پر روح پرور پیغام وقف جدید کو مضبوط کر و.ہمت کرو.خدا برکت دے گا.اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دو.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے یہی بتایا تھا کہ میرے زمانہ میں احمدیت پھیلے گی.وقف جدید کا کام بہت پھیل رہا ہے.چندہ ضرورت سے کم آرہا ہے.بغیر دفتر کے کوئی کام نہیں بنے گا اس لئے اس سال وقف جدید کا دفتر بھی بنے گا.دوستوں کو چاہیے کہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے اور کام میں برکت دے.(20-11-1962) پیغام برائے ہفتہ وقف جدید منعقد ہ 13 ستمبر تا 7 ستمبر 1963 دفتر وقف جدید کی طرف سے ہفتہ وقف جدید 3 ستمبر سے 7 ستمبر 1963 ء تک منایا جارہا ہے.یہ تحریک بہت مبارک ہے اس لئے سب دوستوں کو اس میں حصہ لینا چاہیے.جن دوستوں نے وعدے کئے ہیں وہ ادا کریں اور جنہوں نے تا حال حصہ نہیں لیا وہ حصہ لے کر خدا کی رحمت اور اس کے فضل کے وارث ہوں.26-08-1963 00000

Page 96

69 89 حضرت مصلح موعود وقف جدید کے ساتویں سال کے آغاز پر پیغام وقف جدید کا ساتواں سال شروع ہو رہا ہے.میں احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پہلے سے زیادہ قربانی کر کے وقف جدید کو مضبوط کریں.نوٹ: حضور نے وقف جدید سال ہفتم کیلئے 1250 روپے کا وعدہ فرمایا.وقف جدید کے آٹھویں سال کے آغاز پر پیغام وقف جدید کے نئے مالی سال کا آغاز ہو رہا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس تحریک میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو پہلے سے بھی تیز کر دیں گے اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے.28-12-1964

Page 97

Page 98

91 حضرت خلیفہ المسح الثالث تقریر بر موقع جلسہ سالانہ 20/ دسمبر 1965ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق میں آج بعض عمومی رنگ کی باتوں کے متعلق کچھ کہوں گا.سب سے پہلے تو بعض کتابیں اور رسالے ہیں جن کے متعلق یہ خواہش کی گئی ہے کہ میں ان کی خریداری کے لئے تحریک کروں.اس تعلق میں میں اصولی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے لٹریچر میں بنیادی اہمیت کی حامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں اور ان کے بعد خلفاء کی کتب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علم کا اتنا بڑا خزانہ عطا کیا گیا تھا کہ اس میں قیامت تک پیدا ہونے والے مسائل حل کرنے کے لئے ہر ضروری مواد موجود ہے.ہر امر کے بارہ میں راہنمائی ہمیں حضور کی کتابوں میں ملتی ہے.ہر احمدی کو حضور کی خواہش کے مطابق حضور کی کتابوں کا کم از کم تین مرتبہ ضرور مطالعہ کرنا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حضور کی کتابوں کا تین سو مرتبہ بھی مطالعہ کرے تب بھی اس کی طبیعت سیر نہیں ہوگی کیونکہ حضور کی کتب ایک علمی سمندر ہیں.جب بھی اس سمندر میں غوطہ لگا ئیں نئے سے نئے موتی ملتے چلے جاتے ہیں.میں نے خود حضور کی کتابوں کو دس پندرہ مرتبہ پڑھا ہے ہر مرتبہ ہی ایسی نئی نئی باتیں نگاہ میں آتی ہیں جن کے متعلق یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ نگاہ سے اوجھل ہوگئی تھیں.حضور کی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں بھی سینکڑوں ہی نہیں ہزاروں نئی باتیں پائی جاتیں ہیں.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ایک چھوٹی سی کتاب ہے اس میں اگر ہم غور کریں تو عیسائیت کے غلط عقائد کی تردید میں ہمیں سینکڑوں دلائل ملیں گے.پہلی دفعہ غور کرنے سے ہیں پچھپیں دلائل ہماری نظر میں آئیں گے.پھر غور کریں تو اور دلائل ہماری نگاہوں کے سامنے آئیں گے اور علی ھذا القیاس بار بار مطالعہ کرنے سے نئے سے نئے مطالب نگاہ میں آنے کا یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا.حضور کی سب کتب کا یہی حال ہے.ہماری روحانی غذا ان میں پائی جاتی ہے اس کے بعد خلفاء کی کتب کا درجہ ہے وہ بھی اپنے رنگ میں علوم کا خزانہ ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے بعد علم کا دروازہ بند ہو گیا ہے.اللہ بڑا دیالو ہے.اس نے چاہا ہے کہ علم کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں.چنانچہ ہر سال ایسی کتب شائع ہوتی ہیں جو واقعی بڑی کارآمد اور مفید ہوتی ہیں

Page 99

92 حضرت خلیفة المسیح الثالث جن کو خدا نے توفیق دی ہے انھیں نئی کتب تصنیف کرنے میں پوری جدو جہد کرنی چاہیے.درجنوں کتب اعلیٰ علمی معیار کی ہر سال شائع ہونی چاہئیں جو حضور کے پیش کردہ دلائل پر مشتمل ہوں.ان میں نیا مواد شائع نہ بھی ہو تو بھی وہ دنیا پر یہ ثابت کریں گی کہ جس طرح قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے اسی طرح حضور کی کتب بھی ایک زندہ لٹریچر کی حیثیت رکھتی ہیں جن میں سے نئے نئے معارف نکلتے چلے آتے ہیں اور ان کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوتا.(سلسلہ کے لٹریچر سے متعلق اس اصولی وضاحت کے بعد حضرت خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حال ہی میں شائع ہونے والی کتب میں سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کی جلد ہشتم ، حضرت مصلح موعود کی تفسیر صغیر کا جدید ایڈیشن محترم ابوالعطاء صاحب فاضل کی تصنیف ”تفہیمات ربانیہ ، حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کی کتاب حجابی قدرت ہمکرم رحمت اللہ شاکر صاحب کی کتاب مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے ، مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور کا شائع کردہ مجلہ یادگار ” فاروق خرید نے اور ان سب کتب سے استفادہ کرنے کی طرف توجہ دلائی.نیز سلسلہ کے اخبارات ورسائل میں سے الفضل ، الفرقان، ماہنامہ انصار اللہ ، خالد، تشخیز اور لاہور کی اشاعت کو بڑھانے اور ان اخبار اور رسائل کو خرید کر ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی تحریک فرمائی اور علی الخصوص الفضل کا معیار بلند کرنے کے سلسلہ میں ادارہ الفضل کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اسے بیش قیمت نصائح سے نوازا.) پھر حضور نے فرمایا کہ: سلسلہ احمدیہ کا نظام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ غلبہ اسلام کی جو تحریک جاری فرمائی وہ جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے.اس جماعت کے نظام کی بنیاد ” الوصیت پر ہے.جس میں حضور نے واضح فرمایا ہے کہ یہ نظام کن اصولوں اور کن بنیادوں پر قائم ہے.میں جماعتی نظام اور اس کے مختلف شعبوں کے متعلق مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک وہ نظام جو الوصیت کی بنیادوں پر قائم ہوا اس کی تشکیل درجہ بدرجہ اس طرح پر ہے.خلیفہ وقت، بحیثیت مجموعی ساری جماعت ، وہ تنظیمیں اور ان کے شعبے جنھیں خلیفہ وقت قائم کرتا ہے.یہ ہمارا نظام ہے.خلیفہ کا کام مامور من اللہ کی نیابت ہے.اس نیابت کی رو سے ایک جماعتی نظام قائم ہوتا ہے.اس نظام کو قائم رکھنے اور چلانے کی پوری پوری ذمہ داری خلیفہ

Page 100

93 حضرت خلیفہ امسح الثالث وقت پر ہے.اسے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک مخلصانہ مشوروں کی اور دوسرے مخلصانہ دعاؤں کی میں بھی احباب جماعت سے ان دو باتوں کی توقع رکھتا ہوں.مجھے مخلصانہ مشوروں اور دعاؤں کی ضرورت ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ دونوں چیزیں مجھے ملتی رہیں گی.( احباب کی آواز میں حضور ہم آپ کے ساتھ ہیں) سوہمارا نظام مندرجہ ذیل باتوں پر مشتمل ہے: (1) (r) خلیفہ وقت جماعت (۳) انتظامی ادارے اور شعبہ جات حضور علیہ السلام نے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے جماعت کے ہر حصہ کو اقتصادی طور پر اور روحانی طور پر قائم رکھا.پھر حضور نے جماعتی کاموں کو چلانے کے لئے ”الوصیت میں ایک مالی نظام بھی قائم کیا ہے.اس کی رو سے وصیت کرنے والے احباب اپنی آمدن اور جائیداد کا 1/10 حصہ جماعتی خزانہ میں جمع کراتے ہیں.انتظامی ادارے کے طور پر حضور نے صدر انجمن احمدیہ کا نظام قائم فرمایا تھا لیکن جماعت کے ایک حصہ نے اس نظام کی حیثیت کو غلط سمجھا.ایک گروہ وہ تھا جوا کا بر پرمشتمل تھا اور ہر معاملہ میں صدر انجمن ہی کو کار مختارسمجھتا تھا اور دوسرا گروہ وہ جو کہتا تھا کہ خدا کا خلیفہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں موخر الذکر گروہ کامیاب ہو گیا.صدرانجمن احمد بی اور اس کا دائرہ کار غلبہ اسلام کے تعلق میں جو کام صدر انجمن احمدیہ کے سپر د کیا گیا ہے وہ بہت اہم ہے اور اس لحاظ سے صدرانجمن احمد یہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.میرا تا قریہ ہے کہ جو کام صدرانجمن احمدیہ کے سپر د ہے انجمن والے اس کے متعلق سوچتے بھی نہیں.آپ جانتے ہیں ایک ملک کو سنبھالنا کتنا مشکل ہے.ہمارے اپنے ملک میں موجودہ ہنگامی حالات کا ہر شعبہ زندگی پر اثر پڑا ہے اور نئے نئے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے.اگر دیکھا جائے تو صدر انجمن کی ذمہ داری ایک ملک کو بھی سنبھالنے سے زیادہ ہے کجا ایک ملک کو سنبھالنا اور کجا یہ حالت کہ ایک ملک نہیں دو ملک نہیں ایک زبان بولنے والے ملک نہیں دوز با نیں بولنے والے ملک نہیں ایک قسم کی عادات والے ملک نہیں دو قسم کی عادات واطوار والے ملک نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں زبانیں بولنے والے اور قسم ہا قسم کی عادات واطوار رکھنے والے ملک ہیں جن

Page 101

94 حضرت علایقت اسیح الثالث میں سے ہر ایک کی طبیعت ، عقل اور زبان کے مطابق ہمیں ان کو اسلام کا پیغام سمجھانا اور اسلام سکھانا ہے.خدا کہتا ہے ساری دنیا کے سارے ملکوں میں جا کر ایک روحانی انقلاب عظیم برپا کر دو.اس کے لئے تدابیر سوچنا منصوبے بنانا ان کو عملی جامہ پہنانے کے وسائل تلاش کرنا ہمارا کام ہے.اتنا بڑا کام اتنی چھوٹی سی جماعت پر ڈال دیا گیا ہے.یہ کام ہوگا اور ضرور ہو گا.یہ خدا کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کو پورا کرے گا اور ضرور کرے گا لیکن وہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ جس حد تک ہمارے بس میں ہے ہم یہ کام انجام دیں اور پھر اسی سے کہیں کہ اے خدا ! اپنی طاقت اور بساط کے مطابق ہم نے اپنا سب کچھ تیرے قدموں میں لا ڈالا ہے اب تو ہماری مدد کر اور اس کام کو خود انجام دے کر ہمارے بار کو ہلکا کر دے.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انجمن پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.یہ دوسری بات ہے کہ جو کام خلیفہ وقت کر سکتا ہے وہ انجمن نہیں کر سکتی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جماعت نے انجمن کی آواز پر کما حقہ لبیک نہیں کہا لیکن جب خلیفہ نے جماعت کو قربانیوں کے لئے پکارا تو جماعت کے افراد نے اپنا سب کچھ لا حاضر کر دیا.اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صدرانجمن کچھ نہ کرے بہر حال جو کچھ انجمن کے بس میں ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور پھر بقیہ کام کو جو اس کی طاقت سے باہر ہو خدا پر چھوڑ دے.وہ اس حال میں کہ انجمن نے اپنی طاقت کے مطابق کام کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی.اصل کام کو خودسرانجام دے دے گا.اسی طرح احباب کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں انجمن کے چندوں کا بقایا ۳۰لاکھ روپے ہے.اگر احباب یہ کل بقایا ادا کر دیں تو انجمن کا کام کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے تحریک جدید اور اس کے قیام کی غرض صدر انجمن کے علاوہ ہمارا دوسرا برا تخلیمی ادارہ تحریک جدید " ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اسے 1934ء میں شروع کیا تھا.اس سے بڑی غرض یہ تھی کہ دنیا کے دور دراز ممالک میں اشاعتِ اسلام کا بندو بست کیا جائے.چنانچہ اس تحریک کے ذریعہ ایک بڑی حد تک یہ غرض پوری ہوئی.آج خدا کے فضل سے بعض ایسے ملک بھی ہیں جن کے چندہ دہندگان کی تعداد پاکستان کے چندہ دہندگان کے قریب قریب پہنچ رہی ہے.افریقہ میں خاص طور پر بڑی ترقی ہوئی ہے.بڑا ہی اخلاص رکھنے والے، دعائیں کرنے والے اور قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں جو وہاں جماعت میں داخل ہیں اور داخل ہورہے ہیں.یہ روحانی انقلاب ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ رونما ہوا ہے.دلوں کو فتح کرنے کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا گیا تھا یہ غرض ابھی ایک حد تک ہی پوری ہوئی ہے.دنیا صداقت کی پیاسی ہے.ان کی پیاس

Page 102

95 حضرت خلیل لمسیح الثالث بجھانے کا ابھی پورا پورا انتظام نہیں ہوا.تحریک جدید کے سلسلہ میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے.ہمیں مبلغ بھی چاہئیں اور روپیہ بھی چاہیے.الغرض ایک ضرورت ہمارے سامنے ہے اور وہ ضرورت ہمیں پکار رہی ہے.جماعت کے قیام کی اصل غرض کو ہمیں تحریک جدید کے ذریعے پورا کرنا ہے.وقف جدید اور اس کی اہمیت امام کا کام تجویز میں جماعت کے سامنے رکھنا ہے اور ان تجویزوں کو عملی جامہ پہنانا جماعت کا کام ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دماغ ہر وقت سوچتا رہتا تھا.حضور نے کام کو خوش اسلوبی سے چلانے اور اسے آگے بڑھانے کے لئے نئے نئے خیالات جماعت کے سامنے رکھے اور جماعت کو انھیں عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار کیا.جب حضور نے دیکھا کہ جماعت نے تعلیم و تربیت اور اشاعت کے ضمن میں اپنے فرض کو پورے طور پر انجام نہیں دیا ہے تو حضور نے اس خیال کے پیش نظر کہ اگر میں پردہ پوشی کروں گا تو خدا بھی پردہ پوشی سے کام لے گا.جماعت کو اس کی غفلت پر تنبیہ کرنے کی بجائے ”وقف جدید کے نام سے ایک نئی تحریک چلا دی.اس کے بہت خوشکن نتائج ظاہر ہوئے.چنانچہ وقف جدید کے کارکن بہت اچھا کام کر رہے ہیں.اشاعت اسلام کے کام کے لئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے جذبہ.وقف جدید والوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے اتنی علم کی ضرورت نہیں جتنا یہ امرضروری ہے کہ انسان میں جذبہ موجود ہو.حقیقت یہ ہے کہ وہ اس بارہ میں بعض مبلغوں سے بھی بڑھ گئے ہیں.جذبہ کے بعد دوسری چیز دُعا ہے.جذبہ سے خدمتِ اسلام کی توفیق ملتی ہے اور دُعا سے کشش پیدا ہوتی ہے جس سے کوشش بار آور ہو کر نتیجہ پیدا کر دکھاتی ہے اس میں شک نہیں کہ وقف جدید کی تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہی ہے.لیکن اس میں وسعت کی ابھی بہت گنجائش ہے.سوال یہ ہے کہ کام کو پھیلانے اور اسے وسعت دینے کے لئے آدمی کہاں سے آئیں گے.وہ آپ نے ہی مہیا کرنے ہیں.مٹی کے بت بنا کر تو ہم ان سے کام نہیں لے سکتے اگر آپ تحریک جدید، وقف جدید اور صدرانجمن کے لئے حسب ضرورت مبلغین مہیا کرنے کی ذمہ داری اٹھالیں تو خدا تعالیٰ تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دے گا اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، خلیفتہ اسیح الثالث زندہ باد کے نعرے) جماعت کی ذیلی تنظیمیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی

Page 103

96 حضرت خلیفة المسیح الثالث تنظیمیں بھی قائم فرما ئیں جو بفضلہ تعالیٰ اپنی اپنی جگہ مفید کام کر رہی ہیں ان تنظیموں کی حیثیت جماعت میں ذیلی تنظیموں کی ہے ان کے کام تین قسم کے ہیں.نمبر 1 : ایک وہ کام ہیں جو مرکزی نظام کے دائرہ کار سے تعلق رکھتے ہیں اور رضا کارانہ طور پر ان کے سپرد کئے گئے ہیں.نمبر 2: کچھ کام مقامی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور رضا کارانہ حیثیت میں ان کے سپرد ہیں.نمبر 3: کچھ نفلی کام ہیں اور وہ ان تنظیموں کے اپنے کام ہیں ، مثال کے طور پر تربیت کا جو کام خدام الاحمدیہ کے سپر د ہے وہ فی الاصل جماعت کا کام ہے اور جماعت کے رضا کاروں کی حیثیت سے ان کے سپرد کیا گیا ہے.جہاں تک خدام الاحمدیہ کا تعلق ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام انھیں ماٹو کے طور پر دیتا ہوں ، وہ الہام یہ ہے.تیری عاجزانہ را ہیں اس کو پسند آئیں ( تذکره صفحه 595) خدام الاحمدیہ کو بجز وانکسار تذلل اور تواضع کا نمونہ ہونا چاہئے.یہ کوئی دنیوی جماعت نہیں یہ ایک دینی جماعت ہے اس کے ہر فرد کا عجز و انکسار، تذلل اور تواضع کے اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے.جب خدا کے مسیح کو عاجزانہ را ہیں اختیار کرنے کی ضرورت تھی تو ہم متبعین کو بدرجہ اولیٰ عاجزانہ راہوں کی ضرورت ہونی چاہئے اور ہے.میں انصار اللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ، ناصرات الاحمدیہ اور اطفال الاحمد یہ ساری ذیلی تنظیموں کو ایک بنیادی کمزوری کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں یہ کمزوری اتنی نمایاں ہے کہ صاف نظر آ رہی ہے.اس میں شک نہیں کہ اکثر بڑی بڑی جماعتوں میں ذیلی تنظیمیں قائم ہیں لیکن ابھی ہماری آٹھ سوایسی مقامی جماعتیں ہیں جن میں یہ ذیلی تنظیمیں فعال حیثیت میں موجود نہیں ہیں.ہمیں سارے خدام کو ، ساری مستورات کو ، سارے انصار کو کم سے کم معیار تک جلد سے جلد لانا ہے.آئندہ سال تمام تنظیموں کو توجہ دینی چاہیے کہ وہ اپنی اپنی مجالس کو منظم کرلیں اور انھیں فعال بنائیں.آٹھ ، دس پندرہ ، ہیں یا چالیس پچاس تنظیموں کا فعال ہونا ہمارا مقصود نہیں.ہر جگہ یہ تنظیمیں فعال حیثیت میں موجود ہونی چاہئیں.6 الفضل ربوہ 16 جنوری 1966 ءص4)

Page 104

97 حضرت خلیفہ امسح الثالث وقف جدید کے سال نہم کے آغاز پر پیغام فرمودہ 4 جنوری 1966ء) سیدنا حضرت مصلح موعود نے خدائی تحریک کے ماتحت 27 دسمبر 1957ء کو وقف جدید کے آغاز کا اعلان فرمایا اور پھر 3 جنوری کو خطبہ جمعہ میں وقف جدید کی ضرورت اور جماعت کی تربیت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اگر وہ ( یعنی جماعت ) ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا.یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو.الفضل 11 جنوری 1958ء) وقف جدید ابھی آٹھ سالہ بچہ ہی ہے مگر اس قلیل عرصہ میں بھی بہت بابرکت تحریک ثابت ہوئی ہے.وقف جدید کے ماتحت جہاں جہاں بھی کام شروع کیا گیا ہے بہت مفید نتائج نکلے ہیں لیکن بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جہاں کام کرنا ابھی باقی ہے جس کے لئے مخلصانہ اور دعاؤں سے بھر پور جدو جہد کی ضرورت ہے.پس اس اعلان کے ذریعہ مخلصین جماعت سے درخواست ہے کہ وہ سیدنا حضرت مصلح موعود کی جاری کردہ اس مبارک تحریک پر اس نئے سال میں جو یکم جنوری سے شروع ہو چکا ہے ایک نئے جوش اور مخلصانہ عزم کے ساتھ لبیک کہیں.وقف جدید کے کام کو مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں حصوں میں وسعت دینے کی ضرورت ہے جس کے لئے پہلے سے زیادہ آمد چاہیے اور زیادہ تعداد میں مخلص واقفین چاہئیں.وقف جدید کے چندہ کے متعلق دوست یا درکھیں کہ چھ روپے سالانہ اس چندہ کی انتہائی حد نہیں ہے.اس لئے دوست حسب توفیق وقف جدید کی امداد کریں.جس دوست کو 12 روپے سالانہ دینے کی توفیق ہو وہ 12 روپے سالانہ دے اور جس دوست کو خدا نے 12 صد روپے دینے کی توفیق دی ہو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے 12 صد روپیہ دے.خاکسار نے اپنے حالات کے مطابق چھ صد روپے کا اپنی طرف سے اور چار صد روپے کا حضرت مصلح موعود کی طرف سے وعدہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ادائیگی کی تو فیق عطا فرمائے.ا

Page 105

98 حضرت خلیفة المسیح الثالث میں اپنے خدا سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ احباب جماعت کو اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا کرے گا اور جماعتی ضرورتوں کے مطابق ہم وقف جدید کے کام میں وسعت پیدا کرسکیں گے.اِنْ شَاءَ اللَّهُ وَ مَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ (روزنامه الفضل ربوہ 6 جنوری 1966ء)

Page 106

99 99 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبہ جمعہ فرموده 7 / جنوری 1966 ء بیت المبارک ربوہ وقف جدید انجمن احمدیہ کا کام بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ علاقہ کے لحاظ سے ان کی معلومات ابھی ناقص ہیں اس لئے انہیں اور زیادہ مطالعہ کی ضرورت ہے.اس وقت میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں صرف کچھ اشارے کر رہا ہوں تفاصیل میں اداروں کو خود جانا چاہیے.مثلاً وقف جدید انجمن احمدیہ نے مختلف جگہوں پر تربیت کی غرض سے اپنے معلم بٹھائے ہوئے ہیں اور وہ کام بھی کر رہے ہیں لیکن بعض رپورٹوں سے جو مجھے ملی ہیں معلوم ہوا ہے کہ ان کے اندر بھی لکیر کے فقیر ہونے کی عادت پیدا ہورہی ہے.اس لئے کہ کام چلانے کیلئے بعض قواعد وضع کرنے پڑتے ہیں اور ان کی وجہ سے کام میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے.لیکن بعد میں ان قواعد کو اصل کام سمجھ لیا جاتا ہے.حالانکہ قواعد ہمارے ماتحت ہیں ہم قواعد کے ماتحت نہیں.اگر قواعد کے اندر لچک نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچانے کی بجائے بعض جگہ نقصان بھی پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل عطا کی ہے تاہم اپنے وضع کردہ قواعد سے نقصان نہ اُٹھا ئیں ہمیں فراست سے کام لینا چاہیے اور ضرورت کے مطابق اپنا منصوبہ بنانا چاہیے.پھر منصوبہ صرف آئیڈیل (Ideal) نہیں ہونا چاہیے.یعنی اگر اب ہم ایک ارب کا منصوبہ بنالیں تو اس منصو بہ اور ہماری آمد کے درمیان اتنا تفاوت ہوگا کہ کوئی عقل اسے صحیح تسلیم نہیں کرے گی اور یہ ایک جنسی کی بات بن جائے گی لیکن اگر ہماری آمد پچاس لاکھ روپیہ ہے اور ہم ساٹھ لاکھ روپیہ کا منصوبہ بنا لیتے ہیں تو یہ کوئی اتنا بڑا فرق نہیں جسے عقل تسلیم نہ کرے ہاں اس کیلئے ہمیں جدو جہد کرنا پڑے گی اور منصوبہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ موجودہ وقت میں جو طاقت اور وسائل ہمیں حاصل ہیں اس سے زیادہ ہم چاہتے ہیں اور اس زیادہ “ کو مد نظر رکھ کر ہم اپنی عقل سمجھ اور حالات کے مطابق ایک سکیم بناتے ہیں اور اس کے پورا کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ہم اگلے سال کے لئے بھی پچاس لاکھ روپیہ کا منصوبہ بناتے ہیں تو گویا ہم رک گئے اور رک جانا قوم کیلئے نہایت مہلک ہے.بہر حال وقف جدید انجمن احمدیہ کو سینکڑوں معلم اور چاہئیں اس لئے ہمیں سینکڑوں نوجوان جو وقف جدید کے معلم ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں ملنے چاہئیں اور جلد تر ملنے چاہئیں یہ میچ ہے کہ بعض جگہ وقف جدید کے معلمی کا کام تسلی بخش نہیں لیکن بعض جگہوں پر انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے اس لئے یہ تو کام

Page 107

100 حضرت خلیفتہ امسح الثالث دیکھ کر ہی بتایا جاسکتا ہے کہ کون سا معلم اہل ہے اور کون سا نا اہل.جواہل ہوا سے رکھ لیا جائے اور جو نا اہل ثابت ہوا سے فارغ کر دیا جائے اور اس کی جگہ اور رکھ لیا جائے اور ہمیں اس وقت تک ایسا کرنا پڑے گا جب تک ہماری ضرورت پوری نہ ہو جائے.پھر جماعت کی ذیلی تنظیموں انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی اپنے منصوبے اور پلان (Plan ) ریوائز (Revise) کرنے چاہئیں انہیں مزید غور کے بعد ان میں کچھ تبدیلیاں کر لینی چاہئیں اور اس اصول کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہ دیں جو ان کے سپرد نہیں کئے گئے اور ان کاموں کو نظر انداز نہ کریں جو ان کے سپرد کئے گئے ہیں کیونکہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ ہونا کوئی نیکی نہیں اور نہ ہی اس کے اچھے نتائج نکلتے ہیں.پس جماعت کی ان ذیلی تنظیموں کو اپنے مفوضہ فرائض احسن طور پر بجا لانے کی کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت دے کہ وہ جماعت کی مضبوطی کے لئے قائم کی گئی ہیں اور اگر یہ تنظیمیں اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کریں تو یہ جماعت کے لئے بہت برکت کا موجب بن سکتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.آخر میں میں پھر آپ سب دوستوں کو جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں انہیں بھی جو یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں اور انہیں بھی جو دنیا کے مختلف ممالک میں رہتے ہیں اپنے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ پر اپنا فضل نازل کرتا رہے.اور اس سال جو اب شروع ہوا ہے خدا تعالیٰ کے فضل، اس کی رحمتیں اور برکتیں پچھلے سالوں سے زیادہ آپ پر نازل ہوں اور اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو روحانی میدان جنگ میں ثبات قدم عطا فرمائے اور آپ طاغوتی طاقتوں کو دنیا کے کناروں تک دھکیلتے ہوئے جہنم میں جلد تر پھینکنے والے بن جائیں اور پھر میں آپ کو اس معنی میں بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکتیں زیادہ سے زیادہ نازل کرے اور آپ کو اور مجھے اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جو وسائل اور اسباب اس نے ہمیں دیئے ہیں ہم ان کا استعمال بہترین طور پر اور کسی منصوبہ بندی کے ماتحت اور منظم طریقہ سے کریں.آمین.وَمَا تَوْفِيْقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ الفضل مورخہ 15 /جنوری 1966 ء)

Page 108

101 حضرت خلیفہ امسح الثالث پیغام فرمودہ 23 را پریل 1966ء میں اس اعلان کے ذریعہ احباب جماعت کو تحر یک کرتا ہوں کہ وہ حضرت مصلح موعود علیہ اسے الثانی رضی اللہ عنہ کی خواہش کے احترام میں اس سال وقف جدید کے وعدے کم از کم چھ لاکھ تک پہنچادیں.جماعت کے اخلاص اور دین کی خاطر قربانی کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے یہ امر مشکل نہیں ہے.پس ہر دوست جو وقف جدید کی تحریک میں حصہ لے رہا ہے.اپنا چندہ وقف جدید اس سال حتی الوسع دو گنا کر دے اور جو دوست اس تحریک میں شامل نہیں ہیں وہ اس سال اس تحریک میں شمولیت کی سعادت ضرور حاصل کریں تا وقف جدید کا بجٹ اس سال چھ لاکھ تک پہنچ جائے.اللہ تعالیٰ جملہ احباب کے اخلاص اور اموال اور جذبہ قربانی میں برکت دے اور انہیں اس تحریک میں بیش از بیش حصہ لینے کی توفیق عطاء فرمائے.آمین

Page 109

102 حضرت خلیفہ مسیح الثالث خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 1966 ء بیت المبارک ربوہ ) سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں وقف جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جولائی 1957ء میں حضرت مصلح موعود نے اس مبارک الہی تحریک کے متعلق بعض ابتدائی باتیں جماعت کے سامنے رکھی تھیں.پھر 1957ء ہی میں جلسہ سالانہ کی ایک تقریر میں حضور نے اس کی بعض تفاصیل بیان فرمائیں.حضور نے یہ تحریک بیان کرنے کے بعد جماعت کے سامنے ابتداء یہ بات رکھی تھی کہ میں فی الحال دس واقفین لینا چاہتا ہوں اور اسی کے مطابق اندازہ خرچ بھی کم و بیش آٹھ دس ہزار روپے کا تھا لیکن آپ کی یہ خواہش تھی کہ یہ الہی تحریک درجہ بدرجہ ترقی کرتی چلی جائے اور جلد ہی ایک وقت ایسا آ جائے جب دس کی بجائے ہزاروں واقفین اس تحریک میں کام کر رہے ہوں.پھر یہ واقفین صرف پاکستان سے ہی نہ ہوں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی ، افریقہ کے ممالک سے بھی ،امریکہ کے ممالک سے بھی اور ان کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی اور پھر جوں جوں واقفین کی تعداد بڑھتی چلی جائے اور خرچ میں اضافہ ہوتا چلا جائے اسی کے مطابق جماعت اپنی مالی قربانیاں بھی تیز سے تیز تر کرتی چلی جائے تا کہ ہم وہ مقصد جو اس الہی تحریک کا ہے وقت قریب میں حاصل کرلیں.جیسا کہ میں نے ابھی مختصر ابتایا ہے وقف جدید کی تحریک کی ابتدا ء دس واقفین سے ہوئی تھی اور اس وقت جب کہ اس تحریک پر قریباً 9 سال کا عرصہ گذر چکا ہے یہ تعدا دصرف اکاسی واقفین تک پہنچی ہے جن میں سے سترہ کے قریب زیر تعلیم ہیں اور صرف چونسٹھ مختلف جماعتوں میں کام کر رہے ہیں.حالانکہ حضور کا منشاء یہ تھا کہ دنیا بھر کی جماعتیں ہزاروں کی تعداد میں واقفین ہمیں دیں اور ہم اول تو ہر جماعت میں اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم دس دس پندرہ پندرہ میل کے حلقہ میں ایک ایک ایسے واقف ( وقف جدید ) کو مقرر کریں جس نے قربانی کے جذبہ سے خلوص کے ساتھ اور خدمتِ اسلام کی نیت سے اپنی زندگی وقف کی ہو اس واقف کو معمولی گزارہ دیا جائے مثلاً پچاس یا ساٹھ روپے ماہوار اور اس کے باقی اخراجات کے لئے آمد کے بعض اور ذرائع مہیا کئے جائیں مثلاً ایسا انتظام کیا جائے کہ جس جماعت میں اسے مقرر کیا جائے وہ جماعت یا تو دس ایکڑ زمین اس تحریک کے لئے وقف کرے اور اس زمین کی آمد اس

Page 110

103 حضرت خلیفہ اسیح الثالث واقف کو دی جائے اور یا پھر اس واقف کے ذریعہ پرائمری تک ایک سکول کھول دیا جائے جہاں وہ احمدی بچوں کو ( اور دوسرے بچوں کو بھی جو وہاں تعلیم حاصل کرنا چاہیں ) قرآن کریم پڑھائے اور دوسری مروجہ تعلیم بھی دے اور یا پھر اسے کمپاؤنڈری یا حکمت کی ابتدائی تعلیم دلائی جائے تا وہ ایسی جگہوں پر جہاں ابتدائی طبی امداد بھی مہیا ہونا مشکل ہے وہاں کے رہنے والوں کو ابتدائی طبی امداد مہیا کرے اور اس طرح پر جو آمد ہو وہ بھی مرکز وصول نہ کرے بلکہ اس ذریعہ سے جو آمد بھی ہو وہ اس واقف کو دے دی جائے.سکول کی صورت میں اگر اساتذہ ایک سے زائد ہوں تو فیس کے ذریعہ جو آمد ہو وہ سب اساتذہ میں تقسیم کر دی جائے.بہر حال اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو یہ نظر آرہا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک معلم ضرور بٹھا دیا جائے لیکن چونکہ حضور ایک لمبا عرصہ علیل رہے اور اس عرصہ میں جماعت حضور کے خطبات سے محروم رہی اور چونکہ جب تک بار بار جگایا نہ جاتا رہے انسان عادتاً کمزوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس لئے وقف جدید کی اہمیت اور افادیت آہستہ آہستہ جماعت کے افراد کی نظروں سے اوجھل ہوتی چلی گئی اور اس تحریک کا وہ نتیجہ نہ نکلا جو میرے نزدیک نو سالوں میں نکلنا چاہئے تھا اور اس کی ذمہ داری ساری جماعت پر بحیثیت جماعت عائد ہوتی ہے.وقف عارضی کے جو وفود مختلف علاقوں میں گئے ہیں ان میں سے کم از کم 60، 70 فیصدی وفود ایسے ہونگے جنھوں نے اپنا وقف عارضی کا زمانہ ختم کرنے کے بعد جو آخری رپورٹ ہمیں بھجوائی اس میں بڑی شدت سے یہ مطالبہ کیا کہ اس جماعت کو کوئی مربی یا معلم ضرور دیا جائے اور یہ بھی لکھا کہ جماعت خود بھی یہ احساس رکھتی ہے کہ جب تک اسے کوئی معلم نہ دیا جائے وہ ان ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کر سکتی جو تر بیت کے لحاظ سے اس پر عائد ہوتی ہیں.لیکن اگر میرے پاس واقفین ہی نہ ہوں تو میں انھیں کہاں سے معلم مہیا کروں.پھر اگر جماعت اپنی ہمت اور جماعتی ضرورت کے مطابق مالی قربانیاں پیش نہ کرے تو ان معلمین کو گزارہ کہاں سے دیا جائے.پس پہلی بات تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ واقفین اس تحریک میں شمولیت کے لئے اپنے نام پیش کریں.میں نے بتایا ہے کہ اس وقت زیر تعلیم واقفین کو شامل کر کے قریباً1 8 واقف ہمارے پاس ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس تحریک کو ابتداء دس کی تعداد سے شروع کیا اگر ہم ہر سال اس میں دس دس کا اضافہ کرتے تب بھی اس وقت ہمارے پاس 90 واقفین ہونے چاہیے تھے لیکن اگر ہم اس تعداد میں ہر سال صرف دس دس کی زیادتی ہی کریں تو چونکہ ہم نے ہزاروں تک پہنچنا ہے اس لئے جب ہم پہلے ہزار تک پہنچیں گے تو ایک صدی گذر چکی ہوگی اور ہم اتنا لمبا عرصہ انتظار نہیں کر سکتے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس طرف توجہ دے تو ہر سال پہلے سال کی نسبت دگنی تعداد میں

Page 111

104 حضرت خلیفقه لمسیح الثالث واقف آسکتے ہیں اگر ایسا ہوتا رہتا تو اس وقت واقفین کی تعداد پانچ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہوتی.یعنی اگر پہلے سال دس واقفین تھے تو دوسرے سال ہیں واقفین رکھے جاتے.تیسرے سال چالیس رکھے جاتے اور چوتھے سال اسی تک ان کی تعداد پہنچ جاتی اور اس طرح نو سال میں ان کی تعداد 5110 تک جا پہنچتی.اگر ہم پہلے سال کی نسبت واقفین کی تعداد میں ڈیڑھ گنا اضافہ بھی کرتے رہتے تب بھی ہماری ضرورت ایک حد تک پوری ہو جاتی بشر طیکہ ہم اسی تناسب سے اپنے چندوں میں بھی اضافہ کرتے چلے جاتے لیکن اس نسبت یعنی ڈیوڑھی نسبت کے ساتھ بھی واقفین نہیں آئے بلکہ سوائی نسبت کے ساتھ یا ہر سال 1/5 یا 1/6 کی زیادتی کے ساتھ بھی واقفین اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے ورنہ وہ فوری ضرورتیں پوری ہو جاتیں جو اس وقت ہمارے سامنے آرہی ہیں اور جنھیں پورا ہوتے نہ دیکھ کر ہمیں دکھ اور اذیت اور تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے.اگر ہماری فوری ضرورتیں پوری ہو جاتیں تو ہم اس دکھ تکلیف اور اذیت سے بچے رہتے ، جماعتیں پکار رہی ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ ہم میں احمدیت قائم رہے تو ہمیں مستقل واقف دو.وقف عارضی والے آپ سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ جماعتوں میں واقفین بھیجے جائیں اور جماعت کو کہہ رہے ہیں کہ ان واقفین کو سنبھالنے کے لئے جس قدر رقم کی ضرورت ہے وہ مہیا کرے لیکن آپ نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور یہ بڑا ظلم ہوا ہے اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو جگاؤں اور بیدار کروں اور اس تحریک کی اہمیت آپ کے ذہن نشین کرانے کے بعد آپ سے یہ مطالبہ کروں کہ آئندہ سال مجھے کم از کم ایک سو نئے واقفین چاہئیں مجھے بتایا گیا ہے کہ وقف جدید کی تربیتی کلاس جنوری سے شروع ہوتی ہے اور دسمبر تک رہتی ہے.پس میرا مطالبہ یہ ہے کہ جنوری 1967ء میں جونئی تربیتی کلاس شروع ہوگی اس میں کم از کم سو واقفین شامل ہونے چاہئیں.اگر جماعت نے میرا یہ مطالبہ پورا کر دیا تب بھی ہمیں ایک سال تک انتظار کرنا پڑے گا کیوں کہ کلاس کا نصاب ایک سال کا ہے اور نئے واقفین جو آئیں گے وہ ایک سال تک تربیت حاصل کریں گے اور اگر وہ سارے کامیاب بھی ہو جائیں تب بھی ایک سال کے بعد ہی ہم ان سونئے واقفین سے جماعت کی تربیت کا کام لے سکیں گے.بہر حال اگر یکصد نئے واقفین آجائیں تو ہمیں یہ تسلی اور اطمینان تو ہوگا کہ ایک سال کے بعد کم از کم سونئی جماعتوں میں واقفین وقف جدید پہنچ جائیں گے اور وہ وہاں مستقل طور پر رہیں گے.ہم ایک سال اور انتظار کر لیں گے اس عرصہ میں ہم وقف عارضی کے انتظام کے ماتحت خوابیدہ جماعتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور جب واقفین مستقل طور پر جماعتوں میں پہنچ جائیں گے تو وہ قرآن کریم پڑھانے اور جماعت کی تربیت اور دیگر ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہیں گے اور اس طرح جماعت سنبھل جائے گی اور بیدار ہو جائے گی اور اس میں زندگی کی ایک نئی

Page 112

105 حضرت خلیل لمسیح الثالث روح پیدا ہو جائے گی.لیکن اگر آپ حسب سابق ہر سال اس تعداد میں صرف دس کا ہی اضافہ کریں تو یہ ہمارے لئے کافی نہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ اگلے سال واقفین وقف جدید کی کلاس میں جو جنوری 1967ء سے شروع ہو گی کم از کم ایک سو واقفین ہو جائیں اور جماعت کو چاہئے کہ وہ اس طرف متوجہ ہو.اساتذہ کی ایک تعداد ہر سال ریٹائر ہوتی ہے اگر وہ خاص طور پر اس طرف توجہ دیں تو وہ بہت مفید ہو سکتے ہیں.اگر پنشن یافتہ اساتذہ اپنی بقیہ عمر وقف جدید میں وقف کریں تو ہمیں زیادہ اچھے اور تجربہ کار واقفین مل سکتے ہیں بشرطیکہ وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں اپنے اندر قربانی کا مادہ رکھنے والے ہوں.دنیا کی محبت ان کے دلوں میں سرد ہو چکی ہو.وہ خدا تعالیٰ کی طرف منہ کر کے اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے متمنی اور خواہاں ہوں اور دنیا، شیطان اور دنیوی آرام اور آسائشوں کی طرف پیٹھ کر کے اپنی بقیہ زندگی کے دن گزارنے کے لئے تیار ہوں.وہ باپ کی طرح تربیت کرنے والے ہوں یعنی محبت ، پیار، اخلاص ، ہمدردی اور غم خواری کے ساتھ تربیت کرنے والے ہوں.ایسے اساتذہ اگر ہمیں مل جائیں تو ممکن ہے ہم انھیں یہاں ایک سال کی بجائے چند ماہ تعلیم دے کر جماعتوں میں کام کرنے کے لئے بھجواسکیں.اگر ہمیں واقفین زیادہ تعداد میں مل جائیں اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ جماعت کو یہ توفیق عطا کرے گا کہ جس تعداد میں واقفین کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس تعداد میں واقفین مہیا کر دے تو پھر ان کے خرچ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے گذشتہ سال مجلس شوریٰ کے موقع پر وقف جدید کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے کا منظور ہوا تھا.لیکن اس وقت تک دفتر وقف جدید میں جو وعدے وصول ہوئے ہیں وہ صرف ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کے قریب کے ہیں یعنی وقف جدید کے منظور شدہ بجٹ کے مطابق بھی ابھی وعدے موصول نہیں ہوئے.پھر بعض جائز اور نا جائز وجوہ کی بناء پر سارے وعدے عملاً پورے بھی نہیں ہوا کرتے یعنی اتنی رقم وصول نہیں ہوتی جتنی رقم کے وعدے ہوتے ہیں.سال کے شروع میں ایک شخص خوب کمارہا ہوتا ہے اور اپنی آمد کے مطابق وہ اپنا وعدہ لکھواتا ہے لیکن بعد میں وہ حوادث زمانہ کی لپیٹ میں آجاتا ہے.اس کی آمد کم ہو جاتی ہے اور وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنے وعدہ کوملتوی کر دے کیونکہ مومن اپنے وعدہ کو منسوخ نہیں کرتا ہاں جب اُسے حالات مجبور کر دیتے ہیں تو وہ اپنے وعدہ کوملتوی کر دیتا ہے.اس نیت کے ساتھ کہ جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے گا تو وہ اپنے وعدہ کو ضرور پورا کر دے گا.ایسے ہی لوگوں کو بعد میں اللہ تعالیٰ توفیق بھی عطا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کر دیں.لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک لاکھ ستنتر ہزار روپے کا بجٹ تھا اور وعدے ابھی تک ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کے وصول ہوئے ہیں اور اس کے مقابلہ میں اس وقت تک صرف پچانوے ہزار روپے کی وصولی ہوئی ہے حالانکہ سالِ رواں میں وقف جدید

Page 113

106 حضرت خلیفة المسیح الثالث کے لئے ہمیں دو لاکھ یا اس سے زیادہ روپے کی ضرورت ہے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک لاکھ ستر ہزار روپے میں ہمارا کام نہیں چلے گا.ہمیں کم از کم دولا کھ سوا دولاکھ روپے کی ضرورت ہوگی اور اس قد ر تم ہمیں ملنی چاہئے تا وہ عظیم اور نہایت ہی ضروری اور مفید کام جو وقف جدید کے سپر د کیا گیا ہے کماحقہ پورا کیا جا سکے.پس بجٹ جو مجلس شوری نے پاس کیا تھا اگر چہ وہ ایک لاکھ ستر ہزار روپے کا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کم از کم دولاکھ روپیہ وصول ہونا چاہئے لیکن اس وقت جو وعدے وصول ہوئے ہیں وہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کے ہیں.اس لئے ایک تو یہ ہونا چاہئے کہ جو دوست اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں وہ اپنے وعدوں پر دوبارہ غور کریں اور جماعت کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں اضافہ کریں اور پھر دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انھیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرے وہ دوست جنھوں نے ابھی تک وقف جدید کی مالی تحریک میں حصہ نہیں لیا انھیں اس تحریک کی اہمیت ذہن نشین کرنی چاہئے اور انھیں اس میں شامل ہونا چاہئے.تیسرے میں آج احمدی بچوں ( لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول کے بچو! اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہو گئی ہے.کل سے میں اس مسئلہ پر سوچ رہا تھا.میرا دل چاہا کہ جس طرح ہماری بہنیں بعض مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرتی ہیں اور سارا ثواب مردوں سے چھین کر اپنی جھولیوں میں بھر لیتی ہیں.وہ اپنے باپوں ، اپنے بھائیوں ، اپنے خاوندوں ، اپنے دوسرے رشتہ داروں یا دوسرے احمدی بھائیوں کو اس بات سے محروم کر دیتی ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کر کے ثواب حاصل کر سکیں.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا لیں لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزر چکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں اطفال الاحمدیہ سے صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا بار تم اٹھا لو اور پچاس ہزار روپیہ اس تحریک کے لئے جمع کرو.یہ صحیح ہے کہ بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں.جنکے بچوں کو مہینہ میں ایک لے دو آنے سے زیادہ رقم نہیں ماتی لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہماری جماعت میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں جن کے بچے کم و بیش آٹھ آنے ما ہوار یا شاید اس سے بھی زیادہ رقم ضائع کر دیتے ہیں.چھوٹا بچہ شوق سے پیسے لے لیتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی قیمت کیا ہے.وہ پیسے مانگتا ہے اور اس کی ماں یا اس کا باپ اس کے ہاتھ میں پیسہ، آنہ،

Page 114

107 حضرت خلیل لمسیح الثالث دونی یا چونی دے دیتا ہے اور پھر وہ بچہ اسے کہیں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے.اگر مائیں ایسے چھوٹے بچوں کو وقتی خوشی کے سامان پہنچانے کے لئے پیسہ، آنہ، دونی یا چونی دے دیں اور پھر انھیں ثواب پہنچانے کی خاطر تھوڑی دیر کے بعد ان سے وہی پیسہ، آنہ، دونی یا چونی وصول کر کے وقف جدید میں دیں اور اس طرح ان کے لئے ابدی خوشیوں کے حصول کے سامان پیدا کر دیں تو وہ بڑی ہی اچھی مائیں ہونگی اپنی اولاد کے حق میں لیکن یہ تو چھوٹے بچے ہیں جو اپنی عمر کے لحاظ سے ابھی اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوئے وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں یعنی ان کی عمریں سات سے پندرہ سال تک کی ہیں اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی وقف جدید میں دیں تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا کہ وہ بھو کے رہنے لگ جائیں.رہے وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہولیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک میں ایک اٹھنی ماہوار دے سکے تو ان لوگوں کی خواہش کے مد نظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں کہ ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں.اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور بہنیں ثواب میں شریک ہو جائیں گی لیکن یہ رعایت صرف ان خاندانوں کے لئے ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن باطنی اور ایمانی لحاظ سے ان کے دل روشن اور مضبوط ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں یہ خواہش ہے کہ کاش ہماری مالی حالت ایسی ہوتی کہ ہم میں سے ہر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دے سکتا اور ہم ثواب سے محروم نہ رہتے.ان کی ایسی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ سب بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک الله میں دیں.اب سال کا بہت تھوڑا حصہ باقی رہ گیا ہے اگر احمدی بچے اس موقع پر پچاس ہزار روپیہ پیش کر دیں تو وہ دنیا میں ایک بہترین نمونہ قائم کرنے والے ہونگے.اور اس طرح ہماری وہ ضرورت پوری ہو جائے گی جو اس وقت اعلاء کلمۃ اللہ اور جماعت کی مضبوطی اس کی تربیت اور تعلیم کے نظام کو مستحکم کرنے کے لئے ہمارے سامنے ہے اور جس طرح آنحضرت ﷺ نے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ان کی نماز کی بلوغت سے پہلے نماز پڑھانے کی ہمیں تلقین کی ہے اسی طرح ان مالی قربانیوں کے لئے جو فرض کے طور پر ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں، اس فرض کے عائد ہونے سے پہلے ہمارے بچوں کی تربیت ہو جائے گی اور جب وہ فرض ان پر عائد ہو گا تو وہ خوشی اور بشاشت سے مالی جہاد میں شامل ہوں گے اور اس فرض کے ادا کرنے میں وہ کوئی کمزوری نہ دکھائیں گے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں بچپن سے ہی یہ بات راسخ ہو چکی ہوگی

Page 115

108 حضرت خلیفة المسیح الثالث کہ جہاں ہم نے خدا اور رسول کے لئے دوسری قربانیاں کرنی ہیں وہاں ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے مالی قربانیاں بھی دینی ہیں.غرض ایک بچہ جب اٹھنی دے رہا ہوگا یا جب بعض خاندانوں کے سب بچے با ہم مل کر ایک اٹھنی ماہوار وقف جدید میں دے رہے ہوں گے تو یہ ایک لحاظ سے ان کی تربیت ہوگی اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہونگے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے بشاشت سے اسی کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا د نیا میں اور کوئی نہیں.پس اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق وصفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.تم اپنی زندگی میں ثواب لوٹتے رہے ہو اور ہم بچے اس سے محروم رہے ہیں.آج ثواب حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہے ہمیں چند پیسے دو کہ ہم اس دروازہ میں سے داخل ہو کر ثواب کو حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کی فوج کے تھے منے سپاہی بن جائیں اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے ( آمین ).(روز نامہ الفضل 12 اکتوبر 1966ء ص3-5) لے ایک روپیہ کے سولہ آنے ، ایک آنے کے چار پیسے ہوتے تھے، دو آنے کی دونی، چار آنے کی چونی ، آٹھ آنے کی اٹھنی.

Page 116

109 حضرت خلیفہ المسح الثالث خطاب اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ فرموده 22 /اکتوبر 1966ء صلى الله تشہد ،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے چند دنوں سے بخار کی تکلیف ہے لیکن اس خیال سے کہ ایک طرف خدام واطفال اور دوسری طرف لجنہ اماءاللہ کی بہنیں سفر کی صعوبت اور تکلیف اٹھا کر خدا کے نام پر یہاں جمع ہوئی ہیں مجھے بھی بخار کے باوجود یہاں حاضر ہو کر بعض باتیں اپنی بہنوں کو کہنی چاہئیں اور خدام واطفال کے جلسہ میں چھوٹے بھائیوں اور بچوں کو کچھ کہنا چاہئے.اطفال کے جلسہ میں تو میں ابھی تک نہیں جا سکا لیکن خدام الاحمدیہ کی افتتاحی تقریب کے وقت میں چلا گیا تھا.نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عورت اگر چاہے تو اس طرح بھی اپنی زندگی کے دن گزار سکتی ہے کہ اس کے قدم ہر لحظہ اور ہر گھڑی جنت کی زمین پر رہیں اور اگر وہ یہ نہ چاہے تو ایسی بد قسمت عورت اپنی زندگی کے دن اس طرح بھی گزار سکتی ہے کہ اس کے قدم جہنم کی زمین کے اوپر ساری عمر ر ہیں.یہ بھی ایک معنی ہیں اس حدیث کے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ماؤں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.اسی سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ ماؤں کے پاؤں کے نیچے جہنم بھی ہے.اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے جہاں ایک طرف تربیت اولاد کی طرف بڑے حسین پیرایہ میں ہمیں متوجہ کیا ہے وہاں دوسری طرف ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اگر تم امن اور سکون کی زندگی حاصل کرنا چاہتی ہو.اگر تمہاری یہ خواہش ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے لئے خوشی کا موجب بنے وہ تمہاری آنکھ کی ٹھنڈک ہو ، وہ تمہارے دل کی راحت اور سکون ہو اور دوسری طرف وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ذریت طیبہ بھی ہو تو اس کے لئے ضروری ہے تم ان احکام کی روشنی میں جو اسلام نے قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی کے ہرلمحہ میں ہمارے سامنے پیش کئے ہیں، عمل کرو.لجنہ اماءاللہ کا قیام اس غرض سے ہے کہ تا احمدی مستورات اور احمدی بہنیں اپنی زندگی منظم ہو کر اس طرح گزاریں کہ ان کے قدم ہمیشہ جنت کی زمین کو چھونے والے ہوں اور جہنم کی زمین اور جہنم کی آگ اور اس کی تپش اور اس کی تکالیف کا جھونکا تک بھی ان تک نہ پہنچنے پائے.میں آج بوجہ اپنی بیماری اور ضعف کے زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا تاہم میں سمجھتا ہوں کہ مجھے بعض ضروری باتیں یہاں بیان کرنی چاہئیں.جہاں تک مالی قربانیوں کا تعلق ہے احمدی بہنیں اس میں بہت تربیت یافتہ ہیں اور اس میدان میں اللہ تعالیٰ

Page 117

110 حضرت خلیفہ امسح الثالث نے انھیں بہت بلند اور ارفع مقام عطا کیا ہے.خدا کرے کہ وہ نا صرف ہمیشہ اس بلند مقام پر قائم رہیں بلکہ اس مقام کی رفعتوں میں ہمیشہ اضافہ ہوتا چلا جائے کیونکہ مالی قربانیوں کے لحاظ سے ایک ذمہ داری ہم پر یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم اسلام کی ضرورتوں کی خاطر اور خدا کے نام کو بلند کرنے کے لئے مالی جہاد میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں اور اس سلسلہ میں مستورات کا ایک بڑا نمایاں حصہ مساجد کے لئے چندہ ہے اور مساجد وہ جگہ ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جاتا ہے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی صدا بلند ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ جو تربیتی ذمہ داری احمدی بہنوں پر عائد ہوتی ہے اس کی طرف ابھی تک پوری توجہ نہیں دی گئی.شاید اس کا موقع ہی ان کو بہم نہ پہنچایا گیا ہو یا شاید انھوں نے اس طرف توجہ دینا ضروری خیال نہ کیا الله ہو.لیکن ہمیں یہ غور کرنا چاہئے کہ نبی کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ بچے پر دس سال کی عمر میں نماز فرض ہو جاتی ہے لیکن اس فرض کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے اگر اس سے بھی پہلے نہیں تو کم از کم سات سال کی عمر کو جب وہ پہنچے تو اس کو نماز کی طرف متوجہ کرتے رہنا چاہئے.تا جب نماز فرض ہو تو وہ نماز کا عادی ہو چکا ہو اور نماز سے پیار کرنے لگ چکا ہو اور نماز کی محبت اس کے دل میں گڑ چکی ہو اور وہ ذہنی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہو کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے اس سے دعا ئیں نہیں مانگتے ہمیں اس دنیا میں بھی فلاح حاصل نہیں ہو سکتی اور اخروی زندگی میں بھی ہم اس کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے.اسلام میں صرف نماز کو ہی مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فرائض ہیں جن میں سے ایک حصہ مالی قربانیوں اور مالی جہاد کا ہے.اس لئے جس طرح نماز فرض ہونے سے پہلے بچے کو وہ نماز پڑھائی جاتی ہے کہ جو ابھی اس پر فرض نہیں ہوئی، سات سال کے بچے پر ظہر کی نماز عصر کی نماز مغرب، عشا اور فجر کی نمازیں فرض نہیں.جب ہم ان کو یہ نماز میں پڑھاتے ہیں تو وہ فرض تو نہیں پڑھ رہے ہوتے.اللہ تعالیٰ نے ان پر ان نمازوں کو ابھی فرض ہی نہیں کیا.اسی طرح مالی میدان میں بھی بچوں کو اس کی عادت ڈالنی چاہئے تا وہ ان قربانیوں میں جو خدا کی توحید کے قیام اور اشاعت اسلام اور نبی کریم ﷺ کی محبت دلوں میں ڈالنے کے لئے دی جارہی ہیں.ان میں بچپن ہی میں طوعی اور نفلی طور پر حصہ لینے لگ جائیں.ہماری جماعت میں جماعتی نظام کے لحاظ سے مالی قربانی بطور فرض اس وقت عائد ہوتی ہے جب کوئی شخص کمانے لگ جاتا ہے یا بلوغت کے بعد جیب خرچ کی شکل میں اس کے پاس کوئی رقم ہوتی ہے.بعض خاندانوں میں یہ رواج ہے کہ وہ پڑھنے والے بچوں کو جیب خرچ کے طور پر کچھ رقم دیتے ہیں ، اگر وہ بچے ہوش سنبھال چکے ہوتے ہیں یا ذہنی بلوغت کو پہنچ چکے ہوتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مالی قربانی ایک فرض ہے اور اس فرض میں ہمیں بھی حصہ لینا چاہئے.ہمارے ملک میں اور اسلامی

Page 118

111 حضرت خلیفتہ امسح الثالث معاشرہ میں عورت زیادہ تر کمانے والے میدان میں داخل نہیں ہوتی الا ماشاء اللہ.اب بعض ضرورتوں کے مطابق اور بعض غلط قسم کی نقلوں کی وجہ سے ہماری عورتیں بھی نوکری کی طرف ضرورت سے زیادہ متوجہ اور مائل ہو رہی ہیں.میں اس بات کے متعلق اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتا.میں اس وقت صرف یہ بتا رہا ہوں کہ مرد یا عورت جب کمانے لگ جاتی ہے تو اس پر اپنی آمد کا سولہواں حصہ (اگر اس نے وصیت نہیں کی ) یا کم از کم دسواں حصہ (اگر اس نے وصیت کی ہے ) بطور چندہ دینالازمی ہے.جس طرح نماز اور دوسرے فرائض ہیں اسی طرح ایک احمدی پر مالی قربانی بھی بطور فرض کے عائد ہے اس پر فرض ہے کہ وہ اگر موصی یا موصیہ نہیں تو اپنی آمد کا سولہواں حصہ اور اگر موصی یا موصیہ ہے تو اپنی آمد کا کم از کم دسواں اور زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ اشاعتِ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جماعت کے بیت المال میں جمع کرائے.پھر نظام کے مطابق ایک مجلس شوری کے موقع پر جماعت کے نمائندے خرچ کرنے کے متعلق کچھ سفارشات کرتے ہیں اور ان نمائندوں کے فیصلوں کے مطابق وہ رقم خرچ کی جاتی ہے.چونکہ اسلام کا یہ بنیادی حکم ہے کہ فرائض سے کچھ زیادہ خرچ کرو تا تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکو.اس لئے ہماری جماعت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علاوہ فرض چندوں کے بہت سے نفلی چندوں کی بھی تحریک کی ہوئی ہے ان میں سے ایک چندہ یعنی چندہ تحریک جدید گونفلی ہے لیکن ضرورت کے مطابق شاید وہ فرض کے قریب قریب پہنچا ہوا ہے.اس کی مثال سنتوں کی سی ہے جو ہیں تو نوافل لیکن وہ فضل کی نسبت فرض کے زیادہ قریب ہمیں نظر آتی ہیں کیونکہ انھیں ادا کرنے کی صلى الله نبی کریم ﷺ نے بڑی تاکید فرمائی ہوئی ہے.پھر چندہ تحریک جدید کے علاوہ چندہ وقف جدید ہے.ان کے علاوہ آپ بہنوں کو ان چندوں میں بھی حصہ لینا پڑتا ہے جو خاص طور پر لجنہ اماءاللہ کی تحریک پر جمع کئے جاتے ہیں جیسا کہ مختلف مساجد کے بنانے میں آپ بہنوں نے قابلِ رشک حصہ لیا ہے.قابلِ رشک اس معنی میں کہ ہم جو مرد ہیں ہمارے دلوں میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس ثواب سے کیوں محروم رہے کہ فلاں جگہ پر ایک مسجد بن رہی تھی کہ جس کے میناروں سے خدائے واحد و یگانہ کا نام بلند ہونا تھا اور نبی کریم ﷺ کی افضل ترین اور ارفع نبوت کا اعلان ہونا تھا ، ہم نے اس کے بنانے میں حصہ نہ لیا ہم ثواب سے محروم رہے اور سارا ثواب آپ نے اپنی جھولیوں میں سمیٹ لیا.بہر حال اس قسم کے قابلِ رشک چندے بھی آپ بہنیں ادا کر رہی ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک جہت ایسی ہے جس کی طرف آپ نے ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی اور وہ یہ ہے کہ جس طرح سات سال کی عمر میں بچوں کو ( جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ) نفلی نماز اس لئے صلى الله

Page 119

112 حضرت خلیفہ امسح الثالث پڑھائی جاتی ہے یا پڑھائی جانی چاہئے تا کہ جب نماز بطور فرض ان پر عائد ہو تو وہ بشاشت کے ساتھ اور دلجمعی کے ساتھ اور دلی لگاؤ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس نماز کو ادا کر یں.اسی طرح بچوں کو مالی تحریکوں کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہئے.اس میں شک نہیں کہ بعض خاندان اپنے بچوں کی طرف سے بھی چنده وقف جدید یا چندہ تحریک جدید لکھواتے ہیں اور بعض خاندان ایسے بھی ہیں کہ جو اپنے بچوں کو تحریک کرتے رہتے ہیں کہ ہماری طرف سے جو جیب خرچ تمہیں ملتا ہے اس میں سے تم خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی کچھ دیا کرو.لیکن عام طور پر اس طرف ابھی توجہ نہیں کی جاتی.میں نے اس سلسلہ میں حال ہی میں اپنے بچوں سے اپیل کی ہے کہ وہ وقف جدید کا بوجھ اٹھا ئیں اور ہر بچہ کم از کم اٹھتی ماہوار وقف جدید میں دے.چونکہ اس وقت وقف جدید کے سال کا اختتام ہے اس لئے میں نے سال رواں میں پچاس ہزار روپیہ لڑکوں اور لڑکیوں پر مقرر کیا ہے.میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ پچاس ہزار روپیہ کی رقم جمع کریں تا ہم وقف جدید کے کام کو پھیلا سکیں اور اسے وسعت دے سکیں.اگر تمام احمدی بچے جو آ پکی گودوں میں پلتے ہیں ،تمام احمدی بچے جن کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس طرف متوجہ ہوں.اگر آپ ان کی ذہنی تربیت اس رنگ میں کردیں کہ وہ کم از کم اٹھنی ماہوار خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف جدید کے کاموں کے لئے خود جماعت کو پیش کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ وقف جدید کا سارا بجٹ ان بچوں کے چندوں سے پورا ہوسکتا ہے.لیکن اس طرف پوری توجہ کی ضرورت ہے اور بچوں کے ذہنوں میں اس کام کی اہمیت بٹھانے کی ضرورت ہے اور بچوں کے ذہنوں میں آپ وقف جدید کی اہمیت بٹھا نہیں سکتیں جب تک خود آپ کے ذہن میں وقف جدید کی اہمیت نہ بیٹھی ہو.حضرت مصلح موعود نے اپنی بیماری سے کچھ ہی عرصہ قبل وقف جدید کی تحریک کو شروع کیا تھا.اور پھر بوجہ بیماری حضور اپنی زندگی میں اس طرف زیادہ ذاتی توجہ نہیں دے سکے.جیسے حضور نے تحریک جدید کی طرف توجہ فرمائی.تحریک جدید کو حضور نے بڑی توجہ اور محنت اور وقت دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا تو پھر اسے نظام کے سپر د کیا اور نظام کو کہا کہ اسے سنبھالو اور اس کام کو چلاؤ اور چونکہ یہ بنی بنائی چیز تھی اور انتظامی لحاظ سے اپنی بلوغت کو پہنچ چکی تھی اور اپنی مضبوطی کو حاصل کر چکی تھی.اس لئے اس کے چلانے میں نظام کو کوئی دقت پیش نہیں آئی.پھر آپ نے وقف جدید کے کام کو شروع کیا اور اس کی تحریک جماعت میں کی.جماعت سے آپ نے واقفین بھی مانگے اور پھر واقفین اور دیگر اخراجات کے لئے روپیہ بھی مانگا.اور آپ کا خیال تھا کہ آپ اس سکیم اور اس منصوبہ میں آہستہ آہستہ وسعت دیتے چلے جائیں گے اور اس طرح اس

Page 120

113 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کام کو پورا کر دیں گے جو اس وقت حضور کو نظر آ رہا تھا اور حضور چاہتے تھے کہ اسے پورا کر دیں.بہر حال آپ نے شروع میں دس ہزار روپیہ کی جماعت سے اپیل کی لیکن بعد میں جلد ہی حضور بیمار ہو گئے اور اس وجہ سے حضور اس سکیم کی ذاتی طور سے نگرانی نہ فرما سکے لیکن یہ کام خود بخود جاری رہا اور اب اس کا سال رواں کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے کے قریب ہے اور اگر حضور بیمار نہ ہوتے اور اس سکیم کی طرف حضور ذاتی توجہ دیتے رہتے تو مجھے یقین ہے کہ سات آٹھ سال کے اندر ہی یہ تحریک اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی اور جس طرح حضور نے تحریک جدید کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد اسے تحریک جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کیا اسی طرح اس تحریک کو بھی حضور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد وقف جدید انجمن احمدیہ کے سپر د کرتے اور جیسا کہ تحریک جدید کے سلسلہ میں ہوا آپ بطور خلیفہ عام نگرانی اس کی کرتے رہتے ( عام نگرانی خلیفہ کے فرائض میں سے ہے اور حضور تفاصیل میں گئے بغیر اس کی نگرانی فرماتے رہے لیکن جیسا کہ تحریک جدید کے شروع میں یہ دستور تھا کہ حضور اس کے متعلق چھوٹے چھوٹے فیصلے بھی خود ہی فرمایا کرتے تھے.وقف جدید کے سلسلہ میں اپنی بیماری کی وجہ سے حضور ایسانہ کر سکے ) لیکن چونکہ وقف جدید شروع میں ہی حضور کی ذاتی نگرانی اور توجہ سے محروم ہو گئی اس لئے اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ جو عظیم کام اس تحریک نے کرنا تھا وہ پورا نہیں ہو سکا.اور اب اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اس کے اشارہ سے میں نے وقف عارضی کی تحریک کو جاری کیا اور سینکڑوں مقامات پر واقفین عارضی کے وفود پہنچے اور انھوں نے مرکز میں رپورٹیں بھجوا ئیں تو پتہ چلا کہ وقف جدید کی تحریک کس غرض سے جاری کی گئی تھی اور یہ کہ نگرانی میں غفلت کے نتیجہ میں جماعت کو کس قدر نقصان اٹھانا پڑا ہے.کیونکہ سینکڑوں جماعتیں اس وقت ایسی ہیں کہ جہاں تربیت کے لحاظ سے بہت کمزوری اور کمی اور نقص پایا جاتا ہے اور ان کی طرف فوری توجہ دینا ضروری ہے اور تربیت زیادہ تر علاوہ بڑوں کے ) بچوں کو ہی دی جاتی ہے.بڑے جو ہیں وہ تو مختلف جلسوں میں اور ذیلی تنظیموں کے کاموں میں شامل ہو کر ایک حد تک تربیت حاصل کرتے رہتے ہیں اور ان خطوط پر تربیت حاصل کرتے رہتے ہیں جن خطوط پر جماعت احمد یہ اپنی نسلوں کی تربیت کرنا چاہتی ہے لیکن وقف عارضی کے وفود کی رپورٹوں کے نتیجہ میں بعض ایسی جماعتیں بھی میرے علم میں آئیں جہاں ایک شخص بھی ایسا موجود نہیں جو آگے کھڑا ہو کر نماز با جماعت پڑھا سکے.ایک جماعت کے متعلق وفد نے بتایا کہ پہلے وہاں پڑھے لکھے لوگ بھی موجود تھے ( بعض مقامات پر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام میں سے بعض بزرگ موجود تھے ) جو تر بیت کی طرف کافی توجہ دیتے رہے لیکن بعد میں یوں ہوا کہ جو صحابہ تھے وہ تو وفات پاگئے اور جو پڑھے لکھے لوگ تھے وہ اپنی نوکریوں کے سلسلہ میں گاؤں سے باہر چلے گئے اور اب اس جماعت میں ایک بھی ایسا آدمی موجود نہیں جو

Page 121

114 حضرت خلیفة المسیح الثالث الله نماز با جماعت پڑھا سکے اور امام بن سکے.کیونکہ اس جماعت کے کسی آدمی کو قرآن کریم کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی یاد نہیں ، نہ انھیں سورۃ فاتحہ آتی ہے نہ دوسری دعائیں آتی ہیں نماز سے وہ بالکل بے بہرہ ہیں ، قرآن کریم کا وہ علم نہیں رکھتے اور اس طرح وہ جماعت جو ایک وقت میں کافی متحد ، کافی قربانی دینے والی ، خدا تعالیٰ کے لئے غیرت رکھنے والی اور محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت اور پیار رکھنے والی تھی آج اس حالت میں ہے کہ اگر اس کو فور اسنبھالا نہ گیا تو حقیقتاً وہ ہلاکت اور موت کا منہ دیکھے گی.پس علاوہ اور بہت سے مقاصد کے اس مقصد کے لئے بھی وقف جدید کو جاری کیا گیا تھا لیکن یہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ حضور بیمار ہو گئے اور اس طرف زیادہ ذاتی توجہ نہ دے سکے نتیجہ یہ ہوا کہ وقف جدیدا بھی تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوئی.اس کے لئے ہمارے پاس کم از کم ایک ہزار واقف ہونے چاہئیں کیونکہ ہماری رجسٹرڈ جماعتوں کی تعداد اس وقت ایک ہزار ہے.ویسے تو میں نے ابھی پورا جائزہ نہیں لیا لیکن صرف منٹگمری کے ضلع میں چالیس کے قریب ایسی جگہیں ہیں ، قصبے بھی اور دیہات بھی جہاں احمدی موجود ہیں لیکن وہاں جماعتی تنظیم موجود نہیں.میں ان چیزوں کا ابھی آہستہ آہستہ پتہ لگا رہا ہوں.لیکن اگر ہم فی الحال ان کو نظر انداز بھی کر دیں تب بھی ایک ہزار واقف ہونے چاہئیں لیکن اس وقت کم و بیش اسی (80) واقف ہیں جو ہمارے پاس ہیں.نوسو میں واقف ہمیں اور چاہئیں.یہ واقفین اللہ تعالیٰ آسمان سے تو نہیں اتارے گا بلکہ یہ واقف وہ ہونگے جو آ پکی گودوں میں پلتے رہے ہیں یا اب پل رہے ہیں اگر آپ نے اس طرف توجہ نہ کی اور اپنے بچوں کو وقف جدید کے میدان میں زندگیاں وقف کرنے کی تحریک نہ کی تو یہ اہم اور ضروری تحریک ناکامی کا منہ دیکھے گی، خدا نہ کرے.اللہ تعالیٰ نے آج تک ہمیں ناکامیوں سے بچایا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس موقع پر بھی ہمیں ناکامیوں سے بچائے گالیکن پھر وہ کوئی اور مائیں ہونگی جن کی گودوں کے پالے آئیں گے اور وقف جدید کو سنبھالیں گے.اور آپ بہنیں اس سے محروم ہو جائیں گی پس اس طرف لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو بھی اور ہر احمدی بہن کو بھی ذاتی طور پر توجہ کرنی چاہئے اور اپنے اپنے مقامات پر تحریک کرنی چاہئے کہ وقف جدید کے لئے نو جوان یا بڑی عمر کے یا ریٹائرڈ آدمی اپنے نام پیش کریں.میں نے ایک تحریک یہ بھی کی تھی کہ ریٹائر ڈ آدمی جن کی صحتیں اچھی ہیں اور پانچ یا دس سال تک اپنی صحت کے لحاظ سے وہ مزید کام کرنے کے قابل ہوں وہ بھی وقف جدید میں کام کریں تاہم ایسے لوگوں سے وقتی ضرورت کو پورا کر لیں اور بعد میں آہستہ آہستہ ہمیں مستقل زندگی وقف کرنے والے وقف جدید میں ملتے رہیں اور ہمارے اس کام میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو.اس تحریک کے نتیجہ میں کچھ خطوط تو مجھے ملے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں نے بھی ابھی اس

Page 122

115 حضرت خلیفقه لمسیح الثالث طرف پوری توجہ نہیں کی.آپ گھر کی مالکہ ہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی کہ گھر کے نظام کی ذمہ داری خدا تعالی نے آپ پر ڈالی ہے اور دنیا کی نگاہ بھی آپ کو گھر کی مالکہ بجھتی ہے.پھر آپ اپنے گھر کی فضا کو اس طرح کیوں نہیں بنا تیں کہ اس وقت سلسلہ حقہ کو جس قدر واقفین کی ضرورت ہے وہ وقف جدید کے لئے مل جائیں.اگر واپس جا کر آپ اس کا چرچہ کریں اپنے گھر میں بھی اپنے ہمسائے کے گھر میں بھی ، اپنی جماعت کے گھروں میں بھی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ تعداد میں واقفین وقف جدید نہ مل جائیں.دوسری ضرورت پیسہ کی ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میری دلی خواہش یہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے دل میں بھی یہ تڑپ پیدا ہوگی کہ دنیا کس شان سے یہ نظارہ دیکھے گی اور کس رشک کے ساتھ یہ نظارہ دیکھے گی کہ احمدی مستورات نے عیسائیت کے گڑھ میں وہاں جہاں توحید کے خلاف اس قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ اس کے نتیجہ میں آسمان اپنی جگہ کو چھوڑ دے اور زمین پر آپڑے اور اس طرح زمین و آسمان تباہ ہو جائیں.کیونکہ ان قوموں کے نظریات اس غرض کے بالکل مخالف اور اس کی ضد ہیں جو ان کی پیدائش کی تھی ان کا ایک حصہ تو خدا تعالیٰ کا منکر ہو چکا ہے اور دہریت ان کا مذہب ہے اور ایک حصہ وہ ہے جو ابھی دہر یہ تو نہیں ہوا لیکن انھوں نے ایک ماں جائے کو اپنا خدا بنا لیا ہے اور وہ اس کے آگے اپنی ناک رگڑتے اور دعائیں کرتے اور حاجت براری کی اس سے امید رکھتے ہیں.ان جگہوں پر آپ نے قربانی دے کر جو مساجد بنائی ہیں ان مساجد کو آباد کرنے کے لئے ہمیں تحریک جدید کے واقف چاہئیں.پھر یہاں ملک میں کام کرنے کے لئے وقف جدید کے واقف چاہئیں.بر پس آپ کوشش کریں کہ آپ کی گود میں پلنے والے اسلام کے ہر میدان میں مجاہد بنیں.اگر میں جہاد کہوں تو کئی بیوقوف اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.کہ پتہ نہیں جہاد سے ان کا کیا مطلب ہے ایک طرف وہ ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تلوار کے جہاد کے منکر ہیں اور کافر ہیں اور دوسری طرف جب ہم قرآن کریم کے جہاد کا نام لیتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں، دیکھو یہ کوئی سیاسی جماعت ہے جو سازش کر رہی ہے، پتہ نہیں کہ یہ حکومت کا تختہ کب الٹ دے.ہمیں دنیوی حکومتوں سے کیا غرض اور واسطہ.ہمیں تو خدا تعالیٰ کی حکومت کا قیام مدنظر ہے تازمین کے چپہ چپہ پر زمین کے بسنے والوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول محمد اللہ کی محبت قائم ہو جائے ، دنیا والوں اور دنیا داروں کو مبارک ہو.ہمارے دل میں تو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی محبت ٹھنڈی کر دی ہے.ہمیں دنیا سے کوئی غرض نہیں.ہمیں دنیا کا کوئی لالچ نہیں ہمیں

Page 123

116 حضرت خلیفہ المسح الثالث دنیا کی وجاہتوں اس کے اقتدار اور عزتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے قیام میں دلچسپی ہے.ہمیں تو قرآن کریم کی اشاعت میں دلچسپی ہے، ہمیں تو محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو، اس پیارے وجود کی محبت کو دنیا کے دلوں میں قائم کرنے سے محبت ہے.دنیا کے ساتھ ہماری کوئی دلچپسی نہیں.تو میں ہر میدان میں مجاہد بنیں“ کے الفاظ بول رہا ہوں جہاد کا لفظ نہیں بول رہا تا کوئی بیوقوف یا کوئی شرارتی اس فقرہ پر اعتراض نہ کرے.جیسا کہ مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ لجنہ اماءاللہ کے جلسہ میں صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جو تقریر کی تھی اس میں انھوں نے اس قسم کے مضمون کو بیان کر کے جہاد کا لفظ استعمال کیا تو اب بعض لوگ یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ لجنہ اماءاللہ کی تحریک کا وہ کون سا حصہ ہے جو اس وقت ایٹم بم بنا رہا ہے.لجنہ اماءاللہ اس دنیا کو تباہ کر رہی ہے حالانکہ ہم اس دنیا کو تباہ کرنے کے لئے پیدا ہی نہیں ہوئے.ہم تو دنیا کو زندہ کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم تو مردہ روحوں کو جلا دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم تو ان لوگوں کو جنھوں نے ابھی اپنی زندگی کا مقصد نہیں پایا ان راستوں کی نشان دہی کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں کہ جو راستے انھیں خدا تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والے ہیں.بہر حال جماعت احمدیہ کے لئے اشاعت اسلام کیلئے مجاہدہ اور قرآن کریم کی اشاعت کے لئے مجاہدہ کے بہت سے میدان ہیں اور ہر میدان کے لئے ہم ہر احمدی مرد اور عورت سے وقف کی قربانی مانگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں ہر میدان مجاہدہ میں کچھ ایسے فدائی اور جان نثار مہیا کریں جن کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے اور جو خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کے رسول علیہ کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کرنے ے کے والے ہوں.یہ وقف کرنے والے آپ کی گودوں کے پالے ہیں.آپ ان کو ایسے رنگ میں پالیں اور تربیت دیں کہ وہ میدانِ مجاہدہ میں بشاشت کے ساتھ ، میدانِ مجاہدہ میں بے نفسی کے ساتھ ، میدان مجاہدہ میں فدائیت اور ایثار کے ساتھ ، خدا تعالیٰ کی محبت کے جنون کے ساتھ کو دیں اور اسلام کے نام کو اکناف عالم تک پہنچانے کی جو مہم اللہ تعالیٰ نے شروع کی ہے اس کی کامیابی اور فتح کے دن اپنی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں قریب سے قریب تر لاتے چلے جائیں.غرض اپنے بچوں کو وقف جدید میں اٹھتی ماہوار دینے کی طرف بھی توجہ دلائیں.بہتر یہی ہے کہ جو خرچ آپ انھیں دیں انھیں اس طرف متوجہ کریں اور مائل کریں اور اس کے لئے تیار کریں کہ وہ اپنے اس جیب خرچ میں سے اٹھنی ماہوار وقف جدید کے چندہ میں دیا کریں.لیکن جیسا کہ میں نے اپنے کسی خطبہ میں یا اپنی کسی تقریر میں کہا تھا کہ اگر بعض گھرانے مالی یا اقتصادی لحاظ سے کمزور ہوں مثلاً آٹھ دس بچے ہوں اور ہر بچہ اٹھنی ماہوار نہ دے سکتا ہو تو صرف ایسے خاندانوں کو ثواب میں شامل کرنے کے لئے یہ اجازت دی

Page 124

117 حضرت خلیفہ امسیح الثالث گئی ہے کہ اس قسم کے خاندان کے سارے بہن بھائی مل کر اٹھتی ماہوار وقف جدید کے لئے دیا کریں جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ میرے دل میں شدید تڑپ پائی جاتی ہے اس بات کی کہ ہمارے احمدی بچے (لڑکے اور لڑکیاں ) مل کر وقف جدید کے مالی بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیں اور دنیا کو بتائیں کہ آنحضرت اللہ کے زمانہ میں چھوٹے مسلمان بچوں نے باوجود چھوٹی عمر ہونے کے میدانِ جہاد میں حصہ لیا.جب کافروں نے تلوار سے مسلمانوں کو اور اسلام کو مٹانا چاہا تو وہ بچے تلوار لے کر میدان میں کو دے اور انھوں نے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں تو اب جبکہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں بلکہ قلم اور تقریر کے جہاد کا زمانہ ہے اور مخالف اپنے وعظوں میں اور اپنی تقاریر میں اور اپنی تحریروں میں اسلام پر ہر نا جائز اور ہرکمینہ جملہ کر رہا ہے ہم ( احمدی بچے ) بھی پیچھے نہیں رہے بلکہ اس جہاد میں اپنے بڑوں کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں.اس وقت ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے اور کہا ہے کہ تم اٹھو اور دنیا کا مقابلہ کرو اور اسلام کو دنیا میں دوبارہ غالب کرو.غرض ہمارے بچوں کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس طرح ہمارے پہلوں نے اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کر دیا اسی طرح ہم بچے بھی اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں.ہم رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے بچوں سے پیچھے نہیں رہے ہم اپنا سب کچھ ( جب بھی مطالبہ کیا جائے ) خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر آپ اپنے بچوں کو اس قسم کی تربیت دے دیں گی تو ایک طرف جماعت کی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی مزید رحمتوں اور فضلوں اور برکتوں کی آپ وارث ہوں گی.پھر ان بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اچھی تربیت ہو جائے گی.یہ بچے اس دنیا میں آپ کے لئے ایک ایسی زمین اور ایسا آسمان پیدا کریں گے کہ جن میں جب آپ زندگی گزاریں گی تو آپ کہہ سکیں گی کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے سچ کہا ہے کہ اگرتم چاہو تو ایسی زندگی گذار سکت ہو کہ تمہارے قدم ہمیشہ جنت میں رہیں وہ جہنم کی طرف بڑھنے والے نہ ہوں.الله ایک اور بات جو میں اس وقت اپنی بہنوں سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے قرآنِ کریم سیکھنے، قرآن کریم سکھانے ، قرآنِ کریم سمجھنے اور لوگوں کو اس قابل بنانے کہ قرآن کریم سمجھنے لگیں اور قرآنِ کریم کے معارف اور اس کے دلائل اور اس کے براہین پر عبور حاصل کرنے کے لئے ایک مہم تعلیم القرآن کے نام سے جاری کی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہ جن کی طرف ہم میں ہر ایک بڑے فخر کے ساتھ منسوب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے فرمایا کہ ہر قسم کی برکت قرآن میں ہے اَلْخَيْرُ كُلُّهُ

Page 125

118 حضرت خلیفتہ امسح الثالث القُرآن ہر قسم کی بھلائی اور برکت اور نیکی اور رحمت اور فضل جس کو تم حاصل کرنا چا ہوا گر تم قرآن کے علاوہ کسی اور جگہ ڈھونڈو تو تم ہر گز حاصل نہیں کر سکتیں.آج جو بھلائی بھی تم لینا چا ہو، خدا تعالیٰ کی جس رحمت کے بھی تم وارث بننا چا ہو اس کی تلاش تمہیں قرآن کریم میں کرنی چاہئے کہ قرآن کریم کے باہر کوئی ایسی خیر نہیں جو قرآن کریم میں نہ مل سکتی ہو اور قرآن کریم میں جو خیر ملتی ہے وہ قرآنِ کریم سے باہر کہیں سے بھی نہیں مل سکتی.غرض تعلیم القرآن کی جو مہم ہے اس میں مجھے یہ دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی ہوئی کہ بہت سی ہماری جماعتیں ایسی تھیں جہاں ہماری بہنیں اور ہماری بچیاں قرآنِ کریم ناظرہ یا با ترجمه فیصدی کے لحاظ سے مردوں کے مقابلہ میں زیادہ جاننے والی تھیں.یعنی بعض جگہیں ایسی بھی ہیں کہ جہاں ہماری ناصرات ( ہماری بچیاں) اور لجنہ اماءاللہ کی ممبر یعنی ہماری بہنیں سو فیصدی قرآن کریم ناظرہ پڑھنا جانتی ہیں بعض جگہ اسی فیصدی اور بعض جگہ ستر فیصدی قرآن کریم ناظرہ پڑھنا جانتی ہیں.ان مقامات پر مرد اس نسبت سے قرآن کریم ناظرہ یا با ترجمہ پڑھے ہوئے نہیں.پس ایک لحاظ سے تو یہ ہمارے لئے بڑی ہی خوشی کی بات ہے کیونکہ اگر ہماری بہنوں میں قرآنِ کریم پڑھنے اور قرآن کریم سیکھنے کا اسی طرح رواج ہو جائے تو ہمیں ایک قسم کی تسلی اور تسکین ہوتی ہے کہ ان کی گودوں میں احمدی بچے پلیں گے ان کے دلوں میں بھی قرآن کریم کی محبت پیدا ہو چکی ہوگی لیکن اس کے باوجود میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں کی لجنہ اماءاللہ نے اس تعلیم القرآن کی مہم کی طرف پوری توجہ نہیں دی.جب تک پورے کا پورا جسم مضبوط نہ ہو کسی فرد کو صحت مند نہیں کہا جا سکتا.مثلاً اگر کوئی شخص ہر لحاظ سے مضبوط اور صحت والے جسم کا ہولیکن اس کا دایاں ہاتھ جو شاید اس کے جسم کا پچاسواں حصہ ہو، مفلوج ہو تو ہم اس کو صحت مند نہیں کہہ سکتے یہی حال جماعتوں کا اور الہی سلسلوں کا ہے الہی سلسلہ کو سوفیصدی صحت مند ہونا چاہئے صرف ایک بیماری ہے جو الہی سلسلوں کے ساتھ ہمیشہ لگی رہتی ہے اور جس سے وہ چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے اور یہ للہ تعالیٰ کی سنت ہے اور اس میں بہت سی حکمتیں ہیں اور وہ نفاق کی بیماری ہے غرض نفاق ایک ایسی بیماری ہے جس میں الہی سلسلوں کے بعض افراد ہمیشہ مبتلا رہے ہیں اور اس بیماری کی وجہ سے انھوں نے اپنے لئے جہنم کی راہیں اختیار کیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیا.رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر روحانی جذب اور روحانی تاثیر رکھنے والی کوئی ہستی دنیا میں پیدا نہیں ہوئی لیکن اس عظیم روحانی تاثیر کے باوجود ہمیں نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں بھی منافقوں کا وجود نظر آتا ہے اور اس میں علاوہ اور حکمتوں کے جو ہم جانتے ہیں یا جو ہم نہیں جانتے اور وہ ہمارا رب جانتا ہے ایک حکمت یہ ہے کہ جب الہی سلسلوں پر بیرونی حملے بھی ہور ہے ہوں اور اندرونی حملے بھی ہورہے ہوں تو ان الہی سلسلوں پر نیند صلى الله

Page 126

119 حضرت خلیل لمسیح الثالث کا غلبہ نہیں ہوتا وہ ہمیشہ چوکس اور بیدار رہتے ہیں اس بیداری کے لئے جہاں اللہ تعالیٰ ان پر بیرونی حملے کرواتا ہے وہاں ان میں اندرونی طور پر کچھ منافق بھی پیدا کر دیتا ہے جو اسے اندر سے جھنجھوڑتے رہتے ہیں اور اسے بیدار رکھتے ہیں.اس کے علاوہ کوئی ایسی بیماری ( روحانی اور اخلاقی ) ایسی نہیں جس سے ہم نجات حاصل کر کے ایک صحت مند معاشرہ اور ایک صحت مند حزب اللہ کی بنیاد نہ رکھ سکیں.قرآنِ کریم سے محرومی کوئی ایسی محرومی نہیں جس کا کوئی علاج نہ ہو.یہ محرومی نفاق کی طرح کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا وجود الہی سلسلہ میں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہو موجودر ہے.پس اگر کوئی ایک آدمی بھی (سوائے منافقوں کے ) قرآن کریم سے غفلت کرتا ہے تو وہ ہمارے لئے تشویش پیدا کرنے والی چیز ہے اور ہمیں فوراً اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.لیکن اس وقت ایک یا دو افراد کا سوال نہیں بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جہاں جماعت کے افراد نے پورے طور پر قرآن کریم سیکھنے کی طرف توجہ نہیں کی جیسا کہ میں نے بتایا ہے بہت سے مقامات ایسے ہیں (میں ان کی تفصیل میں نہیں جاتا اور میں یہ نہیں کہتا کہ وہاں ایک شخص یا دو اشخاص قرآن کریم نہیں جانتے ، ایک شخص بھی ایسا کیوں ہو جو قرآنِ کریم نہ جانتا ہو ) جہاں ہیں فیصدی یا تمیں فیصدی یا چالیس فیصدی افراد جماعت مرد اور عورتیں خدام اور انصار ناصرات اور اطفال ایسے ہیں جو قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنا نہیں جانتے اور نہ وہ ابھی قرآن کریم پڑھنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں یا وہ شروع شروع میں متوجہ ہوئے تھے تو اب ان میں سستی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں سو فیصدی بچوں اور بڑوں ، عورتوں اور مردوں نے قرآنِ کریم پڑھنا شروع کر دیا تھا لیکن مہینہ یا دو مہینہ کے بعد ہمیں یہ اطلاع ملی کہ ان پڑھنے والوں میں سے بعض عدم توجہ سے کام لے رہے ہیں اور وہ شوق سے کلاسوں میں نہیں آتے.میں نے اپنے رب سے یہ عہد کیا ہوا ہے اور اسی سے میری دعا ہے کہ وہ مجھے اس کی توفیق عطا کرے کہ تین سال کے اندر اندر ہر احمدی کو جو اس قابل ہے (میں یہ فقرہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض استی نوے سال کے بوڑھے ایسے ہیں کہ وہ اس قابل ہی نہیں کہ ان کو اس عمر میں قرآنِ کریم پڑھایا جا سکے گوان میں سے بعض شوق سے قرآنِ کریم پڑھ رہے ہیں لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ وہ ہر وقت ایک ہی سبق دہراتے ہیں اور بعض معذور بھی ہوتے ہیں ) وہ مرد ہو یا عورت قرآن کریم ضرور پڑھا دوں گا.کیونکہ اس کے بغیر ہمیں وہ چیز نہیں مل سکتی جس کے حصول کے لئے جماعت احمدیہ کا قیام کیا گیا ہے لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میں اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا.اگر آپ قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے میں میرے ممد و معاون ہوں تو یہ کام ہو جائے گا لیکن اگر آپ اس طرف توجہ نہیں دیں گی تو میں اپنے رب سے امید کرتا ہوں کہ وہ ان

Page 127

120 حضرت خلیفہ المسح الثالث لوگوں کو جماعت احمدیہ میں داخل کرے گا جو گو بعد میں آئیں گے لیکن آپ سے ان باتوں میں آگے نکل جائیں گے اور آپ کے لئے ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب آپ چاہیں گی کہ قرآنِ کریم پڑھیں اور پڑھائیں لیکن وقت ہاتھ سے گذر چکا ہوگا.اس لئے آپ اپنی تمام ضرورتوں کو پیچھے چھوڑ کر قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے گھروں میں قرآن کریم کا چرچا کریں اور ہر اس بچہ کو جو پڑھنے لکھنے کی عمر کا ہو چکا ہو قرآن کریم پڑھانا شروع کر دیں قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنے میں بھی بڑی برکت ہے گو یہ کوئی تعویذ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی تاثیر اس کے اندر پیدا کر دی ہے کہ جو کوئی خلوص نیت سے اسے پڑھتا ہے اسے ترجمہ نہ بھی آتا ہو تب بھی وہ ایک حد تک اس برکت کو حاصل کرتا ہے اور اس برکت کا ظہور اس صورت میں بھی ہوتا ہے کہ اسے ترجمہ پڑھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے، پھر وہ مزید برکت حاصل کرتا ہے تو اس کا ظہور اس رنگ میں بھی ہوتا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی تفسیر پڑھنے کا شوق اپنے دل میں پاتا ہے اور وہ اس شوق کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کی تفسیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی صورت میں اور تفسیر کبیر کی صورت میں اس قدر اعلیٰ اور اس قدر اچھی اور دلوں کو موہ لینے والی تفسیر دی ہے کہ آج سے پہلے دنیائے اسلام کو قرآن کریم کی ایسی تفسیر عطا نہیں کی گئی تھی آپ میں سے جو بہنیں عربی جانتی ہیں اگر کبھی ان کو موقع ملے تو وہ کسی پرانی مستند بڑی مضبوط اور بڑے پا یہ کی تفسیر کو لے لیں اور اس کو پڑھیں اور ساتھ ساتھ اس کا اس تفسیر کے ساتھ موازنہ کرتی چلی جائیں جو ان آیات کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے یا جو تفسیر ان آیات کی تفسیر کبیر میں پائی جاتی ہے تو وہ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گی کہ بغیر آپ کی کسی خوبی کے اور بغیر کسی قربانی کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس نعمت سے نوازا ہے کہ اس وقت تک دنیا کی بہترین تفسیر جوممکن ہو سکتی تھی اس کے دروازے آپ کے لئے کھولے اور وہ دروازے کھلے ہیں اور بڑی بد بخت ہے وہ بہن اور بڑا بد بخت ہے وہ بھائی جو ان کھلے دروازوں کے اندر داخل ہونے کی خواہش نہیں رکھتا اور عملاً ان دروازوں کے اندر داخل نہیں ہو جاتا کیونکہ اس کے بغیر الخَيْرُ كُلُّهُ فِي القُرآن ہر قسم کی بھلائی اور نیکی جو قرآن کریم سے حاصل کی جاسکتی ہے ہم حاصل نہیں کر سکتے.بس قرآنِ کریم کی تعلیم کی جو مہم میں نے جاری کی ہے اس کے سلسلہ میں میں آپ بہنوں کو ملک کے دور دراز علاقوں سے یہاں تشریف لائی ہیں اور سفر کی صعوبت اٹھا کر محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ( دنیا کی خواہش ، دنیا کا کوئی رتبہ یا وجاہت آپ کا مقصود نہیں ) یہاں آئی ہیں قرآنِ کریم کا واسطہ دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ آپ جب گھروں کو واپس جائیں تو قرآن کریم کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دیں اور اپنے گھروں میں قرآن کریم

Page 128

121 حضرت خلیفہ امسح الثالث کے پڑھنے اور پڑھانے کو رائج کریں اسی طرح اپنی لجنہ میں بھی اور اپنے محلہ میں بھی یہ کوشش کریں.آپ کی ذمہ داری ان بچوں کی ہے جو آپ کے گھروں میں ہیں خواہ وہ اطفال ہوں یا نا صرات ہوں کیونکہ جو بچے بڑے ہو جاتے ہیں انکو خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ یا جماعتی نظام سنبھال لیتا ہے اگر وہ ستی کریں تو آپ پر کوئی الزام عائد نہیں ہو گا لیکن اگر آپ ستی کریں تو پھر یقیناً میرے دل میں بھی یہ شکایت پیدا ہوگی کہ ہماری بہنوں نے اپنی اس ذمہ داری کو جو قرآن کریم کے علوم کی اشاعت اور رواج کے سلسلہ میں ان پر عائد ہوتی تھی نہیں نبھایا.سو فیصدی نہیں نبھایا یا صحیح معنوں میں نہیں نبھایا اور اللہ تعالیٰ بھی آپ سے پوچھے گا کہ دیکھو میں نے تمہارے ہاتھ میں قرآن کریم دیا تھا میں نے تم پر اپنے فضل سے اور اپنی رحمت سے اس کی تفسیر کے دروازے کھولے تھے تم کیوں اس گھر میں داخل نہ ہوئیں.تم نے کیوں اس گھر میں قدم نہ رکھا.تم کیوں اس شہر میں داخل نہ ہوئیں.جس شہر سے بہتر ، جس شہر سے خوبصورت اور جس شہر سے حسین اور کوئی شہر نہ تھا.اس شہر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جو راہیں تھیں وہ راہیں کسی اور شہر میں نہ تھیں.تم نے ان راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل نہ کیا.اور ان راستوں پر گامزن نہیں ہوئیں جو اس جگہ تک پہنچا دیتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ بڑے پیار سے اپنے بندہ کو کہتا ہے کہ تیرے اعمال میں بڑے رخنے رہ گئے ہیں لیکن میں اپنی رحمت سے تجھے نوازتا ہوں اور تجھے اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہوں اور تجھے اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرتا ہوں.آاور میری جنت میں داخل ہو جا.پس آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی عجیب موقع بہم پہنچایا ہے آپ اس موقع سے فائدہ اٹھا ئیں اور اپنی نسلوں میں قرآن کریم کا عشق اس طرح بھر دیں کہ دنیا کی کوئی لذت اور کوئی سرور انھیں اپنی طرف متوجہ نہ کرے.وہ ساری توجہ کے ساتھ قرآنِ کریم کے عاشق ہو جائیں اور وہ ہر چیز اس سے حاصل کرنے والے ہوں اور وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں تا قیامت تک آپ کے نام زندہ رہیں اور آنے والی نسلیں حیران ہو کر آپ کی تاریخ کو پڑھیں اور کہیں کہ کیسی عورتیں تھیں اس زمانہ کی کہ جنھوں نے دنیا کے تمام لالچوں کے باوجود دنیا کے تمام بداثرات کے باوجود دنیا کو ٹھکرا دیا اور دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نور کو اپنے گرد اس طرح لپیٹا کہ وہ جہاں بھی رہیں اور جہاں بھی گئیں وہ اور ان کا ماحول اس نور سے منور ہا اور جگمگاتا رہا.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور ہم کو بھی ہمیشہ اس کی تو فیق عطا کرتا رہے.گو وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے اور میں کچھ ضعف بھی محسوس کر رہا ہوں لیکن میں ایک اور بات بھی اس وقت کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت میں اور خصوصاً جماعت کی مستورات میں ایک مہم جاری کی تھی اور اس نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور وہ مہم یہ تھی کہ

Page 129

ہے.122 حضرت خلیل لمسیح الثالث جماعت بد رسوم اور بُری عادتوں کو چھوڑ دے اور بے تکلف زندگی اور اسلامی زندگی گزارنے کی عادی ہو جائے.ایک وقت جماعت پر ایسا آیا کہ حضور اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے اور جماعت بد رسموں سے اور بدرسموں کے بدنتائج سے محفوظ ہوگئی لیکن اب پھر جماعت کا ایک حصہ اس طرف سے غفلت برت رہا خصوصاً وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیوی مال یا دنیوی وجاہتیں عطا کی ہیں وہ بجائے اس کے اپنے رب کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزارتے لوگوں کی خوشنودی کے حصول کی خاطر اور اس عزت کے لئے جو حقیقت میں ذلت سے بھی زیادہ ذلیل ہے.اس دنیا کی عزت اور بد رسوم کی طرف ایک حد تک مائل ہورہے ہیں.یہ بد رسوم شادی بیاہ کے موقع پر بھی کی جاتی ہیں اور موت فوت کے موقع پر بھی ہوتی ہیں.ہمیں کلیہ ان کو چھوڑنا پڑے گا ورنہ رسوم کے وہ طوق جو پہلے ہمارے گلوں میں پڑے ہوئے تھے ، بد رسوم اور بد عادتوں کی وہ بیڑیاں جو پہلے ہمارے پاؤں اور ہاتھوں میں تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالأغْلَلَ الَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ (اعراف:158) وہ ہم اپنے ہاتھوں سے پھر واپس لا کر اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ان میں باندھ دیں گے اور ان طوقوں کو اپنے گلوں میں دوبارہ ڈال دیں گے.پھر ہم ان راہوں پر کیسے دوڑیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی ہم پر کھولی ہیں.مختصر امیں بڑی تاکید کے ساتھ آپ میں سے ہر ایک کو کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے تعلیمی لحاظ سے قرآن کریم کے اس اعلان کے ذریعہ ان رسوم کو یک قلم ہٹا دیا ہے آپ اپنے گھروں سے اور اپنی زندگیوں سے ان رسوم کو اور بدعات کو یکسر اور یک قلم فوری طور پر ہٹا دیں اور دنیا اور دنیا داروں کی پرواہ نہ کریں اور اپنے رب کی رضا کی پرواہ کریں.آپ یا تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتی ہیں یا دنیا داروں کی خوشنودی حاصل کر سکتی ہیں.اب آپ کی مرضی ہے کہ دنیا کی رسوم کی طرف جھکیں اور دنیا کی عارضی خوشی اور دنیا والوں کی عارضی عزت حاصل کر لیں یا یہ کہ آپ دنیا اور دنیا والوں کی پرواہ نہ کریں اور جو آپ کا رب آپ سے چاہتا ہے وہ آپ کریں.مجھے تو ساری رسوم کے نام بھی نہیں آتے.بعض رسوم یہ ہیں کہ لوگ قل پڑھتے ہیں، چالیسواں منایا جاتا ہے انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ہم آنحضرت ﷺ اور آپکے صحابہ پر درود بھیجتے ہیں.ہم میں سے جو شخص آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ پر زیادہ درود بھیجنے والا ہے وہی اللہ تعالی سے زیادہ برکتیں اور صلوٰۃ حاصل کرتا ہے.ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کر کے یہ چاہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ہماری طرف سے پہنچیں.جب اللہ تعالیٰ ہماری ان دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے وہ صلوۃ جو ہم صل میں مانگتے ہیں آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کو پہنچاتا ہے تو وہ ہمیں بھی نظر انداز نہیں کرتا وہ ہمیں کہتا ہے کہ تم نے مجھ سے میرے اس محبوب کے حق میں دعا کی ہے اور ان لوگوں کے الله الله

Page 130

123 حضرت خلیفة المسیح الثالث حق میں دعا کی جنھوں نے اپنی زندگیوں کو میری خاطر اور میری راہ میں قربان کر دیا تھا، ہمیں تمہاری اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اپنے اس محبوب کو پہلے سے بھی زیادہ صلوۃ پہنچا تا ہوں (میں جانتے ہوئے صلوٰۃ کا لفظ بول رہا ہوں میں اس وقت اس لفظ کے معنوں اور اس کی تفصیل میں نہیں جا سکتا دیر ہوگئی ہے ) اور تمہیں بھی ان میں سے حصہ دیتا ہوں.یہ قتل اور فاتحہ بڑے عجیب طریق سے پڑھے جاتے ہیں.میں ایک دفعہ اپنے ایک غیر احمدی رشتہ دار کے فوت ہونے پر افسوس کے لئے ان کے بچوں کے پاس گیا تو میرے سامنے ایک دوست آئے اور انھوں نے آتے ہی کہا فاتحہ پڑھ لیں.انھوں نے ہاتھوں کو اٹھایا اور یوں حرکت دی ( حضور نے اس موقع پر ہاتھ اٹھا کر بتایا کہ اس طرح حرکت دی ) اور اتنے عرصہ میں فاتحہ پڑھی گئی شاید اتنی دیر میں لفظ فاتحہ بھی نہ بولا جا سکے.اس سے اس مُردے کو کیا ثواب پہنچ سکتا ہے یہ صرف گندی عادتیں ہیں جن میں ہماری قوم ملوث ہو چکی ہے اور یہ وہ گندی عادتیں ہیں جن میں ہم نے ملوث نہیں ہونا اور ان سے بچتے رہنا ہے جن چیزوں کی نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ضرورت نہیں تھی ہمیں بھی ان کی ضرورت نہیں اور جنھوں نے ان بد رسوم کو اختیار کرنا ہے وہ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور ان رسوم کو اختیار کریں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہم نے ان گھروں کو چھوڑ کر احمدیت کے قلعہ میں اس لئے داخل ہونا قبول کیا ہے کہ ہمیں یہ چیزیں نہیں بھاتیں.ہمیں خدا تعالیٰ کی صلوۃ ، خدا تعالیٰ کی برکتیں ، خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کافی ہیں.ان کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے ہم ان بد رسوم کو کیوں اختیار کریں.اس سال بعض واقعات ( گو وہ تھوڑے ہیں ) جماعت میں ہوئے ہیں جن کی وجہ سے میرے لئے ضروری ہے کہ میں آپ میں سے ہر ایک کو تنبیہ کر دوں.شادی بیٹے کی تھی یا بیٹی کی بعض افراد نے خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف نمائش اور رسوم کو اختیار کیا اور اتنا قرض اٹھا لیا کہ بعد میں انھیں یہ کہنا پڑا کہ ہمارے چندوں میں تخفیف کی جائے.اگر یہ صورت تھی تو تم نے ان بد رسوم اور نمائش کو اختیار ہی کیوں کیا تھا کہ اس کی وجہ سے آج تم ثواب سے محروم ہو رہے ہو.اس کے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں صرف وقتی طور پر ہی ان کی وجہ سے نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس سے نقصانات کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے جس میں سے انسان کو گذرنا پڑتا ہے تمہاری زندگی میں کوئی اسراف نہیں ہونا چاہئے ،تمہاری زندگی میں کوئی رسم نہیں ہونی چاہئے ،خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے علاوہ ہماری عزت کے لئے اور کوئی راہ نہیں.خدا تعالیٰ کے اس مقام عزت کے علاوہ کہ جس میں وہ ہمیں کھڑا کرنا چاہتا ہے ہمارے لئے اور کوئی مقام عزت نہیں.دنیا نے جن مقامات کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ کوئی سروکار ہے.یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کروتا خدا تعالیٰ کے

Page 131

124 حضرت خلیقه لمسیح الثالث فضلوں کی زیادہ سے زیادہ وارث ہوتی چلی جاؤ تا تمہارا انجام بخیر ہو، تاہم جب اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہنچیں (جہاں ساری دنیا مل کر بھی ہمیں کوئی مدد یا فائدہ نہیں پہنچا سکتی ) تو وہ اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں رکھے وہ ہم سے ناراض ہو کر ہمیں اپنے قہر اور اپنی لعنت کی جہنم میں نہ پھینک دے.خدا کرے کہ اس کی رضا ہمارے استقبال کو آئے اور جہنم کے فرشتے ہماری راہ نہ دیکھ رہے ہوں مگر یہ مقام آپ اس وقت حاصل کر سکتیں ہیں جب آپ اس قسم کی بد رسوم اور بد عادتوں کو کلیہ اور پورے طور پر اور انتہائی نفرت کے ساتھ چھوڑ دیں.ان رسوم اور بد عادات سے جماعت کو نفرت کرنی چاہئے.جولوگ ان بد رسوم اور بد عادات میں مبتلا ہیں ان پر رحم کرنا چاہئے اور ان میں تبلیغ کرنی چاہئے کہ خدا کے لئے وہ رسوم چھوڑ دو جو خدا نے نہیں بنائیں اور ان باتوں اور ان راہوں کو اختیار کرو جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کی ہیں اور اس سلسلہ میں ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم قرآن کریم کی ساری کی ساری تعلیم اور ہدایت کی طرف ان لوگوں کو متوجہ کریں جو قرآن کریم کی طرف منسوب تو ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم ان کے گھروں کی حقیقی زینت نہیں، قرآن کریم ان کے ذہنوں کی جلا نہیں ، قرآن کریم ان کی پیشانی کا نور نہیں ، قرآن کریم ان کی زبان اور ان کے کانوں اور ان کے دوسرے حواس کا نور نہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کو بتائیں کہ دنیا کی کوئی زینت قرآن کی بخشی ہوئی زینت سے بڑھ کر نہیں ، دنیا کی کوئی روشنی قرآن کریم کے نور سے زیادہ منور نہیں ، دنیا کی کوئی عزت ان عزتوں سے بڑھ کر نہیں جو قرآن ہمیں دیتا ہے، بزرگی کا کوئی سامان ، اس بزرگی کے سامان سے بڑھ کر نہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.پس ان دنیوی عزتوں کو چھوڑو، ان تمام بُرائیوں سے قطع تعلق کرو اور قرآن کریم کی طرف آؤ.پس اپنے شہروں میں واپس جا کر قرآن کریم کی تبلیغ شروع کر دو.ہماری یہی تبلیغ ہے ہمیں دوسرے لوگ فروعی اختلافی مسائل میں الجھا لیتے ہیں لیکن ہم میں اور ہمارے غیروں میں جو احمدی نہیں چاہے وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہوں بنیادی اصلی اور حقیقی امتیاز اور فرق یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر نے قرآن کریم کا جُوا اپنی گردنوں پر رکھا ہے اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اس کوشش میں اپنی حسب استعداد اور اس قوت کے مطابق جو اللہ تعالیٰ ہمیں عطا کرتا ہے لگے رہتے ہیں لیکن ان میں سے بہت قرآن کریم کا نام تو لیتے ہیں لیکن قرآن کریم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں.قرآن کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا.موٹی مثال ہے قرآن کریم کا نزول اس لئے ہوا تھا کہ دنیا میں خالص تو حید کو قائم کیا جائے.نبی اکرم ﷺ کو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس کا اتنا خیال تھا کہ آپ ہر وقت اپنی امت کو یاد دلاتے رہتے تھے کہ اس میں شک نہیں کہ

Page 132

125 حضرت خلیفت مسیح الثالث میں خاتم النبیین ہوں اور میں سب انبیا سے اعلیٰ ارفع اور افضل ہوں اور میرے مقام تک نہ آج تک کوئی انسان پہنچا ہے اور نہ قیامت تک پہنچ سکتا ہے اور قرآن کریم کی شریعت جو مجھے عطا کی گئی ہے وہ بھی ہمیشہ رہنے والی ہے اور ہر نسل کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی اور ہر نسل کے گند کو دھونے والی اور ہر نسل کو اس کی قوت اور استعداد اور ماحول کے مطابق نور عطا کرنے والی ہے لیکن ہوں میں خدا کا بندہ ، عبودیت کے اس مقام کو جس پر مجھے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے کبھی نہ بھولنا اور ہمیشہ مجھے خدا کا ایک بندہ ہی سمجھتے رہنا.اس لئے کلمہ میں اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهُ إِلَّا الله کے ساتھ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کے الفاظ رکھ کر ہمیں یہ مقام ہر وقت یاد دلایا اور بلند و پست سے اس آواز کو اونچا کیا تا کہ خالص توحید میں کوئی رخنہ نہ پڑ جائے لیکن ہمارے ان بھائیوں میں سے بعض قرآن کریم کو بھی مانتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ جس مقام توحید پر ہمیں قرآن کریم کھڑا کرنا چاہتا ہے ہم اس پر کھڑے ہیں لیکن ان کی جبینیں قبروں پر بھی جا کر جھکتی ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی احساس ندامت کے اپنی مجلسوں میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ جب ہم اپنے کسی وفات یافتہ پیر سے دعا کرتے ہیں تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہی پیر صاحب اس وقت ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور وہ ہماری دعاؤں کو سنتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو دنیوی اسباب کی طرف جھکتے اور ان مادی اسباب پر اس قدر بھروسہ اور تو کل رکھتے ہیں جتنا صرف خدائے قادر و توانا پر رکھنا چاہئے.غرض میں نے بتایا ہے کہ ہم نے قرآنِ کریم کا جُوا اپنی گردنوں پر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے ہمیں یہ معرفت عطا کی ہے کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کہنے کے بعد کسی قبر کی پرستش جائز نہیں ،کسی دنیوی طاقت اور وجاہت کی پرستش جائز نہیں، کسی شخصی اقتدار کی پرستش جائز نہیں ، رشوت ، جھوٹ اور حرام خوری پر وہ تو کل جائز نہیں جو تو کل کہ محض خدا پر کرنا چاہئے اور دنیا کی کسی طاقت کو ہم ایسا نہیں سمجھتے کہ وہ خدا کے اذن اور اس کے منشاء کے بغیر ہمیں کوئی بھی عزت یا فائدہ پہنچا سکے پس ہمارے نزدیک لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ کے یہ معنی ہیں جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں لیکن بعض کے نزدیک لَا إِلهَ إِلَّا الله کے اعلان کے باوجود قبر کی پرستش بھی جائز ہے، ان لوگوں کے نزدیک لَا إِلهَ إِلَّا الله کے اعلان کے باوجود پیروں کی پرستش بھی جائز ہے، لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود جھوٹ کی اور رشوت کی اور اپنے مال و اسباب کی پرستش بھی جائز ہے.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی سچی اور خالص تو حید کو بھلا چکے ہیں.اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے اور حقیقی تو حید اور معرفت اور عرفان کا حصول ان کے لئے آسان کرے اور محض اپنے فضل سے ہمیں بھی جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں حقیقی طور پر ایک پکا اور سچا احمدی بنادے کہ محض احمدیت کی

Page 133

126 حضرت خلیفتہ امسیح الثالث طرف منسوب ہونا کافی نہیں اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم ایسے بن جائیں کہ وہ اپنے فضل سے ہم پر خوش ہو جائے اور اس زندگی میں وہ ہمیشہ ہم سے وہ کام کروائے جن کاموں سے وہ ہم سے راضی ہو.ہم سے کبھی وہ افعال سرزدنہ ہوں ، وہ اعمال سرزد نہ ہوں جن کے نتیجہ میں وہ ہم سے ناراض ہو جائے.اللہ تعالیٰ تمام دنیا کے مسلمانوں کو بھی قرآنِ کریم کے سمجھنے اور اس کے علوم اور اس کی معرفت کی باتیں اور اس کی ہدایتوں کی معرفت اور عرفان حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو بھی حقیقی معنی میں اور بچے طور پر مسلمان بنا دے.وہ صرف خدا کی طرف منسوب ہونے والے ہوں، صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں ساری عزتوں کو دیکھنے والے ہوں بلکہ نہ صرف ان کو بلکہ دنیا میں جو عیسائی اور دہریہ، یہودی اور دوسرے مذاہب کے پیرو یا لا مذہب یا بد مذہب اقوام ہیں خدا کرے کہ ان کے سینے اور دل بھی قرآن اور اس کی تعلیم اور اس کے نور کے لئے کھل جائیں ، خدا کرے کہ ہم ہمیشہ اس بات کی تو فیق اس کے فضل سے پاتے رہیں کہ خدا کی توحید کے قیام اور اسلام کی اشاعت کے لئے ہم ہر اس قربانی کو بشاشت کے ساتھ کرنے کے لئے تیار ہوں جو قربانی خدا اور اس کا سلسلہ ہم سے چاہے اور اس کا مطالبہ کرے.اللهُمَّ آمین.ہمیں اپنے لئے بھی اور اپنوں کے لئے دعا کرنی چاہئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی ضرورت ہو تو تم یہ نہ سمجھنا کہ تم اسے خود حاصل کر سکتے ہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو.اگر کسی نے گھڑے میں سے پانی نکال کر پینا ہو تو آپ میں سے کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آنی چاہئے کہ گھڑا ہے ، گھڑے میں پانی بھی موجود ہے، میں ہوں صحت بھی ہے.میں اٹھ کر اپنے طور پر خدا تعالیٰ کی توفیق کے بغیر اس گھڑے میں سے پانی نکال کر پی سکتی ہوں.ایسی بات دماغ میں نہیں آسکتی اگر حقیقی عرفان دل میں ہو کیونکہ سینکڑوں ہزاروں لوگ اس دنیا سے اس وقت گذر گئے کہ جب انھوں نے گھڑے سے پانی پینے کے لئے قدم اٹھایا اور ابھی گھڑے تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ موت کے فرشتے نے انھیں آدبوچا اور ان کا یہ خیال اور یہ وہم کہ ہم اپنے زور اور اپنی طاقت اور قوت سے اُٹھ کر اس گھڑے سے پانی پی سکتے ہیں غلط ثابت ہوا.نبی اکرم ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی خدا تعالیٰ سے مانگو.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ تمہ پیسہ یا دو پیسہ کی چیز ہے.تمہارے گھر پیسہ بھی ہے پھر گھر میں تمہارا خاوند یا تمہارا بھائی یا تمہارا بیٹا بھی ہے جو بازار جا سکتا ہے اور بازار میں تسمہ موجود ہے اور وہ خرید کر لا سکتا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ تمہاری جان نکال لے جیسا کہ وہ اس سے پہلے بہتوں کی جان نکال چکا ہے.پس اپنے لئے بھی اور اپنے ہر کام کے لئے بھی چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہر وقت دعا کرتے رہنا

Page 134

127 حضرت خلیفة المسیح الثالث چاہئے.مومن پر اللہ تعالیٰ نے یہ بڑا فضل کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی زندگی کا ہرلمحہ خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزار سکتا ہے کیونکہ جب وہ سونے لگتا ہے تو اس وقت بھی آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق وہ بعض دعائیں مانگ لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی نیند کے لمحات بھی ایک طرح عبادت ہی میں گذرتے ہیں.پھر بیدارزندگی میں ہرلحہ وہ کچھ نہ کچھ کر رہا ہوتا ہے اور اگر اس کچھ نہ کچھ کرنے کے وقت وہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہے تو اس کی بیدار زندگی کا ہر لحہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزرے گا.اس کے بعد ہم اپنے رب پر یہ توقع اور امید اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے اعمال اور ہماری دعاؤں کے ان ہزاروں رخنوں کو اپنے فضل سے دور کر دے گا جو ہماری کوشش اور دعا کے باوجو د رہ جاتے ہیں.شیطان کے ہزاروں وساوس ہیں جو ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہیں بعض کو ہم پہچان لیتے ہیں اور دعاؤں کے ذریعہ انھیں اپنے دل سے نکال لیتے ہیں اور بعض ہمارے علم میں ہی نہیں آتے.شیطان خفیہ طور پر ہمارے دل میں وسوسہ پیدا کرتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم اس حالت میں میرے پاس آئے ہو کہ نہ تو تمہاری دعائیں کامل اور مکمل اور رخنہ کے بغیر ہیں اور نہ تمہارے اعمال کمزوریوں اور فساد کے بغیر ہیں لیکن چونکہ تم مجھ پر یقین رکھتے رہے ہو اس لئے میں اس یقین کے صدقے اور اپنی قوتوں کے طفیل اور اپنی اس رحمت کی وجہ سے جس کے عام ہونے کا میں نے قرآنِ کریم میں اعلان کیا ہوا ہے، تمہاری دعاؤں کو سنتا ہوں میں اس زندگی میں بھی تمہیں اپنی رحمتوں سے نوازتا رہوں گا اور تمہارا انجام بخیر کروں گا اور اُخروی زندگی میں بھی تمہیں اپنی رحمتوں نوازوں گا اور تم ابد الآباد تک میری رحمتوں اور رضا کو حاصل کرتے رہو گے.غرض اپنے لئے بھی دعا کرنی ضروری ہے.کام چھوٹا ہو یا بڑا ہمیں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے دعا میں اپنا وقت گذارنا چاہئے.اس پر نہ کوئی پیسہ خرچ آتا ہے اور نہ کوئی تکلیف تمہیں اٹھانی پڑتی ہے نہ کوئی صعوبت برداشت کرنی پڑتی ہے مفت کا سودا ہے.آسان راہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے کھولی ہے.اگر ہم اس آسان راہ سے بھی فائدہ نہ اٹھائیں تو ہمارے جیسا بد بخت کوئی نہیں ہو گا.پھر اپنوں کے متعلق مثلاً اپنے بچے ہیں ، اپنے خاوند ہیں، اپنے باپ دادا اور دوسرے بزرگ رشتہ دار ہیں، اپنے ہمسائے ہیں، اپنے محلہ والے ہیں ، اپنے قصبہ اور شہر والے ہیں یا گاؤں والے ہیں ، اپنے ملک میں بسنے والے ہیں ، اپنی دنیا میں رہائش پذیر ہونے والے ہیں، اپنی دنیا سے تعلق قائم کر کے اس دنیا سے جدا ہو جانے والے یا اپنی دنیا سے آئندہ تعلق قائم کرنے والے ہیں.آدم سے لے کر اب تک جو بنی آدم پیدا ہوئے اور جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے سب کو اپنی دعا کی سخاوت میں شامل کرو تا جب اللہ تعالیٰ سخاوت پر آوے تو وہ سب حدود کوتو ڑتا ہوا ہم سے رحمت کا سلوک کرنے والا ہو.پس دعاؤں میں خود کو بھی اپنوں کو بھی اور جو ابھی پیدا نہیں ہوئے انھیں بھی یاد

Page 135

128 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رکھو.خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھو.اس سے بھی نا اُمید مت ہو ہر دکھ میں اسے یاد کرو اور سکھ میں اسے بھولو نہیں اور خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے اور بندیاں بن کر اپنی زندگی کے دن گزارو.اگر یہ کرو گے تو دنیا وہی معجزانہ نظارے آج پھر دیکھے گی جو معجزانہ نظارے اس نے آج سے چودہ سو سال پہلے دیکھے اور آج تک وہ حیران ہے کہ یہ کیا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ ہمیں انہی صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور انہی صحابیات کے نورانی لباسوں میں اپنی زندگی کے یہ دن گزارنے کی توفیق عطا کرے.آمین الفضل 11 فروری 1968 ، ص 2) *****

Page 136

129 حضرت خلیفہ المسح الثالث خطبه جمعه فرموده 4 / نومبر 1966 ء بیت المبارک، ربوه) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس میں شک نہیں کہ دینی معاملات میں سب سے پہلا حق انسان پر اس کے اپنے نفس کا ہی ہے اور ہرنفس انسانی کو ہمیشہ اس طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ وہ ایسے اعمال بجالا تا ر ہے کہ ان کی وجہ سے اس کا رب راضی ہو جائے اور وہ اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کر لے.اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَضُرُّكُم مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائده : 106) کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ سمجھے جاؤ تو تمہیں دوسروں کا گمراہ ہو جانا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا یعنی اگر باوجود اپنی دلی تڑپ اور اپنی انتہائی کوشش اور جدو جہد کے وہ لوگ جنھیں تم ہدایت کی طرف بلا ؤ اور اس بات کی تلقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قرآن کریم کے جوئے کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دیں پھر بھی وہ ایسانہ کریں اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیں تو ان کا ایسا کرنا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اہل وعیال کو نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں اور ہمیشہ اس طرف متوجہ ہوں کہ جس طرح ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم پر اللہ تعالی کے فضل ہوتے رہیں اور وہ ہم سے خوش ہو جائے اسی طرح وہ لوگ بھی جو ہمارے اہل میں شمار ہوتے ہیں ان کے متعلق بھی ہماری یہ خواہش ہونی چاہیئے کہ ان پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم نازل ہو اور اس زندگی میں (جس کے متعلق ہمیں بہت کم علم دیا گیا ہے اور جہاں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لحظہ کی ناراضگی ایسی ہے کہ اس دنیا کی ہزاروں زندگیوں کی خوشیاں اس ناراضگی سے بچنے کے لئے قربان کی جاسکتی ہیں ) وہ لوگ ( بیوی بچے اور دوسرے رشتہ دار ) جو یہاں ہمارے اہل کہلاتے ہیں وہاں بھی ہمارے ساتھ ہی رہیں اور خاندان روحانی طور پر بکھر نہ جائے اور منتشر نہ ہونے پائے.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ مَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 7) کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہو جنھوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی آواز پر لبیک کہا ہے یا درکھو کہ صرف اپنے نفس کو روحانی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرنے کی ہی ذمہ داری تم پر عائد نہیں ہوتی بلکہ تم پر یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ جہاں تم اپنے نفسوں کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے قہر اور اس کے غضب کی آگ سے بچاؤ صلى الله

Page 137

130 حضرت خلیفة المسح الثالث وہاں اپنے اہل کو اور ان لوگوں کو بھی جو تمہارے رشتہ دار ہیں (بیوی بچے ہیں ) خدا تعالیٰ کے قہر کی آگ سے بچاؤ.دوسری جگہ فرمایاقُلْ إِنَّ الْخَسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (الزمر:16 حقیقی طور پر گھاٹا پانے والے وہی لوگ ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ اور ان کے اہل گھانا پانے والے قرار دئے جائیں.دیکھ مائیں اور بعض دفعہ باپ اور دوسرے رشتہ دار بھی چند دنوں یا چند مہینوں یا چند سالوں کی جدائی اپنے بچوں سے برداشت نہیں کر سکتے ، بہت سے بچے غیر ملکوں کی اعلیٰ تعلیم سے اس لئے محروم ہو جاتے ہیں کہ ان کی مائیں یا دوسرے عزیز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ چند سال کے لئے وہ اپنے اس عزیز سے جدا ہوں.بہت سے بچے اس لئے تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں کہ جہاں وہ پیدا ہوئے اور جہاں وہ پہلے اور بڑھے اور جہاں انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی وہاں کوئی کالج نہیں تھا اور ماں باپ نے پسند نہ کیا کہ وہ اپنے بچے کو اپنے سے جدا کر کے کسی ایسے بڑے شہر میں بھجوائیں جہاں کالج موجود ہے.تو اس دنیا میں بعض دفعہ تو ہم غیر معقول رویہ اختیار کر کے بھی اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان کی جدائی ہم پر بہت شاق گزرتی ہے تو وہ دنیا جس کے عذاب کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اتنا لمبا ہے کہ اس پر ہمیشہ رہنے والے عذاب کا فقرہ چسپاں ہوسکتا ہے.اس میں ہم کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے اہل اور ہمارے دوسرے رشتہ دار ہم سے جدا ہوں.اگر چہ پورے طور پر تو یہ درست نہیں بلکہ قرآن کریم کی دوسری آیات کے خلاف ہے کہ جہنم کا عذاب ہمیشہ ہمیش تک چلتا چلا جائے گا لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی اور وسعت کو بیان کرنے کے لئے قرآن کریم خــلـدین کا لفظ استعمال کرتا ہے.تو ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ایک معنی کے لحاظ سے ہمارے بچے اُس دنیا میں ابدالآباد تک ہم سے جدا ر ہیں جبکہ ہم یہاں چند گھڑیوں یا چند دنوں یا چند مہینوں یا چند سالوں کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصل گھاٹا پانے والے تو وہ ہیں جو اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ اپنے خاندان کو جس طرح جسمانی طور پر یہاں اکٹھا کئے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان میں انتشار اور تفرقہ پیدا ہو اور وہ بگڑ جائیں اسی طرح ان کا خاندان دوسری دنیا (اخروی زندگی میں بھی منتشر نہ ہو جائے.چونکہ وہ ایسی کوشش نہیں کرتے اس لئے حقیقی معنے میں یہی لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ گھانا پانے والے ہیں.اسی لئے اسلام نے مختلف پہلوؤں سے اس بات کی تلقین کی ہے کہ اپنے بچوں کی پہلے دن سے ہی تربیت شروع کر دی جائے.دراصل پیدائش سے پہلے بھی جب بچہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے بعض لحاظ سے اور بعض طریقوں سے اس کی تربیت کی جاتی ہے.بچے کی پیدائش پر نیک کلمات اس کے دائیں کان میں بھی اور اس کے بائیں کان میں بھی کہے جاتے

Page 138

131 حضرت خلیفه لمسیح الثالث ہیں اور اس طرح ہمیں اس راستے پر لگایا جاتا ہے کہ بچوں کے سامنے ہمیشہ نیکی کی اور ہمیشہ عدل کی اور ہمیشہ احسان کی اور ہمیشہ جذ بہ ایتَاءِ ذِی القربی کے پیدا کرنے والی باتیں کیا کرو اور انھیں تلقین کیا کرو کہ علمی لحاظ سے بھی اور ذہنی لحاظ سے بھی وہ ایک سچے مسلمان کی سی زندگی گزارنے لگیں.اعمال میں جہاں تک نماز کا تعلق ہے (جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں کہا تھا ) نبی کریم نے فرمایا ہے کہ دس سال کی عمر میں بچے پر نماز و نہ کیا کہ وہ اپنے بچے کو اپنے سے جدا کر کے کسی صلى الله ایسے بڑے شہر میں بھجوائیں جہاں کا لج موجود ہے.تو اس دنیا میں بعض دفعہ تو ہم غیر معقول رویہ اختیار کرک ے بھی اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان کی جدائی ہم پر بہت شاق گذرتی ہے تو وہ دنیا جس کے عذاب کے وتو اسے نماز کی طرف مائل کرو اور متوجہ کرو اور اگر وہ لڑکا ہے تو اسے اپنے ساتھ مسجد میں لے جانا شروع کر دو اور مسجد کے آداب بھی سکھاؤ.اس طرح عبادت کے عملی کام جو ہیں ان میں حصہ لینے کی طرف اسے متوجہ کرو اور اس رنگ میں ان کی تربیت کرو کہ عملی روحانی کاموں کے فرض ہوتے وقت اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے وہ پورے طور پر تیار ہوں.نماز کے بعد دوسرا بڑا کام جو ایک مسلمان پر بطور فرض کے عائد ہوتا ہے وہ مال کی قربانی ہے.نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اتنی شاندار قربانیاں دیں کہ اگر وہ ثقہ راویوں سے بیان نہ ہوتیں تو شاید ہماری عقلیں ان کی صحت کو قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے پاس چالیس ہزار اشرفیاں جمع تھیں آجکل تو اشرفی ملتی ہی نہیں میرے خیال میں جو دوست یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے ایک فیصدی نے بھی سونے کی اشرفی نہ دیکھی ہوگی اس وقت قوت خرید کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق ایک اشرفی کی قیمت سوسوا سو ہے.کیونکہ سوسواسو میں ایک اشرفی ملتی ہے تو چالیس ہزار اشرفی تقریبا پچاس لاکھ روپیہ بنتا ہے.جب وہ مسلمان ہوئے تو انھوں نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ یہ ساری رقم میں اسلام کے لئے خرچ کروں گا چنانچہ جو کچھ انھوں نے جوڑا ہوا تھا اور ریز رو کے طور پر رکھا ہوا تھا ( تجارت میں جوان کا مال لگا ہوا تھا وہ اس کے علاوہ تھا ) وہ اسلام پر خرچ کرتے رہے اور جب ہجرت کا وقت آیا تو چالیس ہزار اشرفیوں میں سے صرف پانچ سو اشرفی ان کے پاس باقی تھی.انتالیس ہزار پانچ سو اشرفی وہ خرچ کر چکے تھے.یہ پانچ سو اشرفیاں بھی انھوں نے اپنے گھر والوں کے لئے نہیں چھوڑیں بلکہ ہجرت کے وقت وہ بھی ساتھ اٹھا لیں تا کہ دین کی راہ میں ہی خرچ ہوں.تو انھوں نے بڑی مالی قربانیاں دی ہیں.دوست یہ نہ سمجھیں کہ ہم وصیت میں 1/10 دے کر یا بعض دوسرے چندوں کو ملا لیا جائے تو

Page 139

132 حضرت خلیفة المسیح الثالث 1/8 یا1/7 دے کر ایسی قربانی دے رہے ہیں کہ گویا ہم صحابہ رضی اللہ عنہم سے آگے نکل گئے یا ان کے برابر کھڑے ہوگئے ہیں.کیونکہ صحابہ میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے تھے جو بہر حال 1/5 سے زیادہ قربانی دے رہے تھے مثلاً انصار کو ہی دیکھیں.انھوں نے آدھے آدھے مال مہاجرین کو پیش کر دئے تھے یہ علیحدہ بات ہے کہ مہاجرین میں سے بہتوں نے نہیں لئے.جنھوں نے لئے بھی قرض کے طور پر لئے لیکن انصار کی طرف سے پیشکش ہوگئی تھی کہ تم سب کچھ چھوڑ کر آئے ہو آؤ یہ مال بانٹ لیں اور آدھا آدھا کر لیں.اللہ تعالیٰ نے ان مہاجرین کو عقل دی تھی وہ تجارت کے میدان میں بڑا کچھ کماتے تھے.پھر اس نے انھیں ایمان بھی دیا تھا اس لئے وہ دین کی راہ میں خرچ بھی بڑا کرتے تھے.اس حد تک کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر ان روایات کے راوی ثقہ نہ ہوں تو ہم شاید ان کو محض قصہ سمجھیں لیکن تاریخ اس کثرت سے ان باتوں کی تائید کر رہی ہے کہ ہماری عقل انھیں جھٹلا نہیں سکتی.تو جہاں تک اموال کی قربانی کا تعلق ہے صحابہ نبی اکرم نے بے مثال قربانیاں دیں ہیں اور جہاں تک مالی قربانیوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بھی تو فیق دی ہے کہ اس لامذہبیت اور دہریت کے زمانہ میں اپنے اموال کو بے دریغ خرچ کرے.اور ایک حصہ جماعت کا اور بڑا حصہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے اپنے وقت میں ایسی روحانی تربیت حاصل کر چکا تھا کہ ان کی جانی اور مالی قربانیاں صحابہ نبی اکرمﷺ سے اتنی مشابہ ہوگئیں تھیں کہ ان کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے علاوہ کسی اور گروہ سے تعلق رکھنے والے ہیں.بعد کی جو نسلیں ہیں ان میں بھی بڑی حد تک خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ روح قائم ہے لیکن ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ نئی نسلوں کو بھی قربانیوں کی ان راہوں پر چلنے کی عادت ڈالیں.اسی لئے میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وقف جدید کا مالی بوجھ اگر ہمارے بچے اور بچیاں جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے اٹھا لیں تو جماعت کے ارفع مقام کا مظاہرہ بھی ہوگا کہ جماعت کے بچے بھی اس قسم کی قربانیاں دیتے ہیں کہ اس پوری تحریک ( وقف جدید ) کا مالی بوجھ انھوں نے اٹھالیا ہے اور خود ان کے لئے بھی بڑے ثواب کا موجب ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو کام انھوں نے آئندہ کرنے ہیں.اس کے لئے تربیت کا موقع بھی مل جائے گا.اس کی طرف جماعت نے اتنی توجہ نہیں دی جتنی دینی چاہئے تھی.میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے بچے جن کی عمر ایک دن سے پندرہ سال کے درمیان ہے وہ تین مختلف تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں.سات سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کا تعلق اطفال الاحمد یہ خدام الاحمدیہ سے ہے اور سات سے پندرہ سال کی بچیوں کا تعلق ناصرات الاحمدیہ لجنہ اماءاللہ سے ہے اورسات سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کا تعلق نظام جماعت سے ہے.تو بچوں کی یہ نھی منی فوج تین حصوں میں

Page 140

133 حضرت خلیفة المسیح الثالث بٹ گئی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض جماعتوں میں تو ہر تنظیم نے سمجھا کہ شاید دوسرا کام کر رہا ہو اور بعض جگہ ایک دوسرے کے کام میں دخل دینا شروع کر دیا.یعنی خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ والے جو تھے انھوں نے کم عمر والے بچوں کی فہرستیں بنانا شروع کر دیں جماعتی نظام والے جو تھے انھوں نے سات سال سے کم عمر والے بچوں کی ہی فہرستیں نہیں بنا ئیں بلکہ اطفال کی فہرستیں بھی بنانے لگ گئے.اس طرح انھوں نے ایک دوسرے کے کام میں دخل دینا شروع کر دیا.بہر حال جو سستی ہو چکی ہے اسے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے لیکن آئندہ کے لئے میں چاہتا ہوں کہ اس خطبہ کے شائع ہونے کے بعد پندرہ دن کے اندراندر ہر جماعت مجھے بچوں کی ان تین مختلف قسم کے لحاظ سے یعنی اطفال الاحمدیہ سے تعلق رکھنے والے بچے ، ناصرات الاحمدیہ سے تعلق رکھنے والی بچیاں اور سات سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کی فہرست علیحدہ علیحدہ ( نام کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف تعداد کے لحاظ سے مجھے پہنچ جانی چاہئے.مثلاً لا ہور لکھے کہ ہمارے ہاں اطفال ڈیڑھ ہزار ہیں ، ناصرات ڈیڑھ ہزار ہیں اور کم عمر کے بچے تین ہزار ہیں.جو صورت بھی ہو مجھے صرف تعداد چاہئے اور دوسرے یہ لکھا جائے کہ ان میں سے وقف جدید کا اس رنگ میں کس کس نے وعدہ کیا ہے.وعدوں کے متعلق اعلان کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ ہمارے ہزاروں بچے ایسے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے خاندانوں میں پیدا کیا ہے کہ جنھیں اتن رزق دیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بچہ ایک ٹھنی ماہوار یا اس سے بھی زائد دے کر وقف جدید کا مستقل مجاہد بن سکتا ہے.لیکن بعض ایسے مخلص اور قربانی کا جذبہ رکھنے والے احمدی خاندان بھی ہیں جو مالی استطاعت نہیں رکھتے مثلاً اگر ان میں سے کسی خاندان کے چھ بچے ہوں تو اٹھنی ماہوار کے حساب سے تین روپے ماہوار یا چھتیں روپے سالانہ انھیں ادا کرنے چاہئیں.حالانکہ غربت کی وجہ سے اس خاندان کے بڑوں کے چندے بھی کم و بیش اتنے ہی ہوتے ہیں.پس اگر ایسے خاندان کا ہر ایک بچہ ٹھتی ماہوا را دانہ کر سکے تو سارے خاندان کے بچے مل کر ایک یونٹ بنالیں اور ملکر اٹھتی ماہوار دے دیا کریں.بہر حال اس صورت میں وقف جدید کے چندے کا جو وعدہ کیا گیا ہو الگ الگ ہر بچہ نے جو وعدہ کیا ہو اس کی اطلاع پندرہ دن کے اندر آجانی چاہئے.واللہ اعلم بچوں کی صحیح تعداد کتنی ہے؟ رپورٹیں آئیں گی تو پتہ چلے گا لیکن یہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے وہ بچے جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے ان کی تعداد کم از کم پچاس ہزار ہوگی.اگر پچاس ہزار بچے الگ الگ پوری شرح سے چندہ ادا کریں تو ان کا چندہ چھ روپے سالانہ کے حساب سے تین لاکھ روپے بن جاتا ہے جو وقف جدید کے سالِ رواں کے وعدوں سے ڈیڑھ گنا ہے.(لیکن بعض دوستوں نے تو اپنے

Page 141

134 حضرت خلیل لمسیح الثالث پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے بھی چندہ بھجوا دیا ہے ) لیکن چونکہ وقف جدید کے کام کو پوری طرح چلانے کے لئے یہ نا کافی ہے.اس لئے امید ہے کہ (جیسا کہ دوست پہلے بھی کیا کرتے ہیں ) اس میں بچوں کے علاوہ دوسرے دوست بھی شامل ہوں گے اور پھر چھ روپے سے زیادہ چندہ دینے والے بھی ہونگے.حضرت مصلح موعود وقف جدید کا چندہ چھ روپے نہیں بلکہ سات سو یا ہزار دیا کرتے تھے (اس وقت مجھے اچھی طرح یاد نہیں).اسی طرح دوسرے بھی بہت سے لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالی زیادہ دینے کی توفیق عطا کرتا ہے وہ چھ روپے تک نہیں رکھتے.یہ زائد دینے والے جو ہیں ان کی رقمیں تین لاکھ کے علاوہ ہونگی.اس طرح وقف جدید کے لئے تین لاکھ سے زیادہ رقم ہمیں مل جائے گی.جب ہمیں تین لاکھ سے زیادہ رقمیں وصول ہو جائیں گی تب ہم صحیح طور پر کام کر سکیں گے ورنہ ہمارے سال رواں کا کام بھی ٹھیک طرح نہ ہو سکے گا.سو اللہ تعالی آپ میں سے ہر ماں اور آپ میں سے ہر باپ کو یہ کہ رہا ہے کہ صرف اپنی فکر ہی نہ کرتا.قُوا أَنْفُسَكُمْ ہی نہیں بلکہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ تم پر یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کرو کہ اخروی زندگی میں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ میں نہ پھینکے جائیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کھول کر آپ کے سامنے بیان کر رہا ہے کہ حقیقی معنے میں گھانا پانے والے وہ لوگ ہیں کہ جو قیامت کے روز خود بھی گھانا پائیں گے اور اپنے اہل کو بھی گھاٹا پانے والا بنا دیا ہو گا.ان کی تربیت صحیح رنگ میں نہ کی ہوگی اور بہت سی آیات بھی ہیں جو اس طرف متوجہ کر رہی ہیں.تو قرآنی تعلیم کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کو اپنی نسل کی تربیت اس رنگ میں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو نارِ جہنم سے بچائے اور ان پر اس رنگ میں اپنا فضل کرے کہ اس کی نگاہ میں وہ خاسرین کے گروہ میں شامل نہ ہوں.پس اپنے نفس کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے بڑی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ عائد کی ہے صلى الله کہ اپنے خاندان کو سمجھائیں اس کو اسلام کا شیدائی بنائیں اور اس کے ہر فرد کے دل میں محمد رسول اللہ علی کی محبت پیدا کریں حتی کہ ان کے دل اس جذبہ سے معمور ہو جائیں کہ اسلام کی راہ میں ہر وقت ہم ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اور دنیا سے نہ کسی شکریہ کی امید رکھیں گے اور نہ واہ واہ کی توقع رکھیں گے اور محض عاجزانہ طور پر اپنے رب کی راہ میں زندگی گزارنے والے ہونگے.سو تمام احمدی اپنے اس فرض کو پہچانیں.والدین ہوں یا ولی ، وہ بچوں کو اس طرف متوجہ کریں کہ وہ خدا کے دین کے سپاہی ہیں.آج اسلام کے مقابلہ کے لئے دشمنوں کی طرف سے تلوار میں میان سے نہیں نکالی جارہی ہیں اس

Page 142

135 حضرت خلیفة المسیح الثالث لئے ہمارے یہ سپاہی بھی تلوار کے سپاہی نہیں.یہ وہ سپاہی ہیں جو اپنے دلوں کو قرآن کریم کے نور سے منور کرنے کے بعد قرآنی نور سے دنیا کو منور کرنے میں پورا پورا مجاہدہ کرتے ہیں.ہر احمدی بچے کو اسلام کا سپاہی اور احمدی سپاہی بنانا والدین اور ولی کا فرض ہے.پس آپ کو چاہئے کہ اس ضروری اور اہم فرض کی طرف متوجہ ہوں اور وقف جدید کے مالی جہاد میں ہر بچے کو شامل کریں تا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں اور تا وہ مقصد حاصل ہو جس کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلس وقف جدید کو قائم کیا تھا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ***** روزنامه الفضل ربوه 9 نومبر 1966ء)

Page 143

136 حضرت خلیفہ المسح الثالث خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1966 ء بیت المبارک ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے آیات نَبِّي عِبَادِى إِنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ، وَ أَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ (الحجر: 51،50) پڑھیں، پھر فرمایا: ان دو مختصر آیات قرآنی سے قبل اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ میری طرف آنے کا یہی ایک سیدھا راستہ یہی ایک صراط مستقیم ہے یعنی وہ راستہ جسے اسلامی شریعت دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے، جسے قرآن کریم کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اور جو شریعت تا قیامت دنیا میں رکھی جائے گی اور اس کی حفاظت کی جائے گی.پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ فرمایا کہ جولوگ حقیقتا میرے بندے ہیں ان پر شیطان کا کسی قسم کا کوئی تسلط نہیں ہوگا کیونکہ وہ میری پناہ میں ہیں میں انھیں شیطان سے دور رکھتا ہوں اور نیکیوں کی انھیں توفیق عطا کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی انسان کو آزادی ضمیر بھی عطا کی گئی ہے اس لئے وہ جو میری بندگی سے باہر نکلنا چاہیں وہ ایسا کر سکتے ہیں اور ایسے گمراہ لوگوں پر ہی شیطان اپنا تسلط جماتا ہے.فرمایا کہ وہ لوگ جو اپنی مرضی سے صداقت اور ہدایت کی راہوں کو چھوڑ کر گمراہی اور ضلالت کی راہوں کو جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہیں اختیار کریں گے تو وہ جہنم میں ہی گریں گے.وہ جہنم جسے خدا کے غضب اور قہر نے بھڑ کا یا ہے اسی جہنم سے قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (البروج: 13) جب خدا کسی پر اس کی غفلت ، کوتاہی یا گناہ یا ظلم کی وجہ سے گرفت کرتا ہے تو خدا کی وہ گرفت بڑی ہی سخت ہوا کرتی ہے اس لئے انھیں خدا سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے دن گزار نے چاہئیں اور انھیں چاہئے کہ تقویٰ کی سب راہوں کو اختیار کریں تا جہنم کا کوئی دروازہ بھی ان کے لئے کھلانہ رہے جہنم کے سب دروازے ان کے لئے بند ہو جائیں اس لئے کہ تقوی کی سب راہوں کو انھوں نے اختیار کیا تھا.پھر فرمایا کہ جولوگ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں انھیں جان لینا چاہئے کہ تقویٰ کی یہ راہیں انھیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے باغوں اور اس کی رحمت کے چشموں تک لے جاتی ہیں جہاں وہ بے خوف وخطر سلامتی کی فضا میں سانس لیں گے ان کے سینوں میں سے سب کینے نکال باہر پھینکے جائیں گے اور ان کے

Page 144

137 حضرت خلیفة المسیح الثالث مقامات رفعت اور مقامات قرب ، اخوت کا باعث بنیں گے باہمی جھگڑے اور فساد کا باعث نہیں بنیں گے ان مقامات رفعت اور ان مقامات قرب میں مزید رفعتوں کے حصول کے لئے ان کی جو بھی جد و جہد ہوگی وہ ایک عظیم جدو جہد ہوگی انھیں تھکائے گی نہیں بلکہ مزید روحانی سرور کے حصول کا ذریعہ ان کے لئے بنے گی.اس مضمون کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ میرے بندوں کو کھول کر یہ بات بتا دو کہ میری صفات میں سے دوصفات یہ بھی ہیں کہ میں غفور بھی ہوں اور میں رحیم بھی ہوں اگر وہ میری طرف رجوع کریں گے ، اگر وہ میری طرف آئیں گے ، اگر وہ میری طرف جھکیں گے، اگر وہ تو بہ کی راہوں کو اختیار کرینگے ، اگر وہ استغفار کو اپنا شعار بنائیں گے، اگر وہ مجھ سے معاملہ چاہیں گے تو اپنی تمام کو تاہیوں کے نتیجہ میں اور غفلتوں کے نتیجہ میں اور گناہوں کے نتیجہ میں وہ جس سزا کے مستحق اور سزاوار بنے تھے میں اس سزا سے انھیں محفوظ کر لوں گا اور بچالوں گا اور انھیں اپنی حفاظت میں لے لوں گا کیونکہ میں خدائے غفور ہوں نیز میری رضا کے حصول کے لئے اگر وہ جد و جہد کریں گے میرے بتائے ہوئے راستوں پر اگر وہ اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ چلیں گے اگر ان کے دلوں میں اور ان کی روحوں میں مجھ سے ملنے اور میرا قرب حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوگی اور اگر اس کے لئے وہ اعمالِ صالحہ بجالائیں گے، اس کے لئے وہ قربانیاں دیں گے، اس کے لئے وہ اخلاص کا نمونہ میرے اور دنیا کے سامنے پیش کریں گے تو انھیں تم یہ بھی بتا دو کہ میں خدائے رحیم ہوں ، ہمیں بار بار رحم کرنے والا خدا ہوں اور نیک اعمال کی بہتر اور احسن جزا دینے والا خدا ہوں.لیکن اس کے ساتھ میرے بندوں کو تم یہ بھی بتا دو.اَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ اگر کوئی عذاب عذاب کہلانے کا مستحق ہے، اگر کوئی عذاب اس بات کا مستحق ہے کہ کہا جائے کہ یہ بڑا دکھ دینے والا ، بڑا تکلیف دینے والا ، زندگی سے بیزار کر دینے والا ، موت کی خواہش دلوں میں پیدا کر دینے والا یہ عذاب ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے قہر کا ہی عذاب ہے.یہ ایسا عذاب ہے کہ جن پر وارد ہوتا ہے وہ نہ زندوں میں شمار کئے جاسکتے ہیں کیونکہ حقیقی زندگی کی کوئی رمق ان کے اندر باقی نہیں چھوڑتا اور نہ وہ مردوں کے اندر شمار کئے جاسکتے ہیں کیونکہ اس عذاب کے چکھنے کے لئے خدا کی طرف سے انھیں زندہ رکھا جاتا ہے.ورنہ ان کے دل تو یہی چاہتے ہیں کہ اس عذاب سے نجات اور چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ان پر موت وارد ہو جائے مگر خدا کہتا ہے کہ نہیں مرد نہیں بلکہ میرے عذاب کو چکھو.تو فرمایا کہ میرے بندوں کو یہ بھی بتا دو اور کھول کر بتا دو کہ میرا عذاب بھی بڑا سخت عذاب ، بڑا دکھ دینے والا عذاب ہے.اللہ تعالیٰ نے رمضان کے اس مہینہ میں اپنی مغفرت اور اپنی رحمت کے دروازے کھولے ہیں

Page 145

138 حضرت خلیفه لمسیح الثالث جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی احادیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں آسمانی رحمتوں کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور آسمانی غضب اور آسمانی ناراضگیوں اور آسمانی لعنتوں کے دروازے بھیڑ دئے جاتے ہیں.اگر خدا کے بندے خدا کی خاطر خدا کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کریں تو وہ ہنسی خوشی بشاشت کے ساتھ چھلانگیں لگاتے ہوئے خدا کی جنت میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں اور خود اپنے ہاتھوں سے جہنم کے ان دروازوں کو کھولیں جن کو خدا تعالیٰ نے بھیڑ دیا تھا تو پھر ان کی بد قسمتی ہے کہ وہ مغفرت اور رحمت کی بجائے خدا کی لعنت کو اختیار کرتے ہیں.نبی کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صرف بھوکا رہنے سے خدا خوش نہیں ہوتا، نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صرف راتوں کو جاگنے سے صرف قیام لیل یا احیاء لیل سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا.بہت سے وہ بھی ہیں جو بھوکے رہتے ہیں مگر روزے کا ثواب حاصل نہیں کر سکتے ، بہت سے ایسے بھی ہیں جو راتوں کو جاگتے ہیں مگر ان پر ملائکہ کا نزول نہیں ہوتا جو نزول ان بندوں پر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے اخلاص کے ساتھ ، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ راتوں کو جاگ کر اس کے حضور جھک کر اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسے وہ یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم تہی دست ہیں کیونکہ جو کچھ ہم تیرے سامنے پیش کر رہے ہیں اس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کے اندر کوئی ایسا کیڑا تو نہیں جو تیری ناراضگی کا موجب ہو ، پس بجائے اس کے کہ ہم یہ کہیں کہ ہم تیرے حضور اپنے اس عمل کا تحفہ پیش کرتے ہیں ہم آج تجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ پیش کر رہے ہیں اسے نظر انداز کر دے.ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، ہمیں اپنی مغفرت اور اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے ہمیں نہ کسی عمل کا دعویٰ ، نہ ہم اس کا انعام تجھ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ تو نے اپنی ذات کو غفور بھی کہا ہے اور رحیم بھی کہا ہے پس تجھے تیرے غفور ہونے کا واسطہ، تجھے تیرے رحیم ہونے کا واسطہ، ہمیں اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے چھپالے اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نواز کہ اگر تو ہمیں محض اپنے فضل سے اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اگر تو اپنی صفت رحیم کو جوش میں لا کر ہم پر اپنی رحمت کا سایہ کر دے تو یہ ناقص عمل ہم نے کیا کرنے ہیں اور ان کا ہمیں کیا فائدہ ؟ عمل تو ہم نے اس لئے کئے تھے کہ ہم تیری خوشنودی ، تیری رضا کو حاصل کر لیں جب تیری مغفرت کے ذریعہ جب تیری رحمت کے ذریعہ وہ ہمیں مل گئی تو ہم یہ کیوں کہیں کہ اے خدا ہم نے کچھ نیک کام کئے تھے ان کی جزاء ہمیں دے.اس کے ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص خدا کی راہ میں اعمالِ صالحہ بجالانے سے گریز کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں بغیر کسی عمل کے اس کی خوشنودی کو حاصل کر لوں گا وہ بھی غلطی پر ہے ، وہ بھی خدا کو ناراض کرنے والا ہے تو درمیانہ راستہ جو نبی کریم ﷺ نے ہمارے

Page 146

139 حضرت خلیق اصبح الثالث سامنے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ اعمال میں کوتاہی نہ کرو اور نیک اعمال بجالانے میں غفلت نہ برتو ، جس حد تک ممکن ہو سکے دن اور رات اعمالِ صالحہ بجالاتے ہوئے اپنی زندگی کی گھڑیوں کو گذار ولیکن اس کے ساتھ ہی یہ نہ سمجھو کہ تم اپنے عمل کے نتیجہ میں کچھ بن گئے یا تمہارے عمل کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ تم سے خوش ہو جائے گا اور راضی ہو جائے گا کیونکہ تم نہیں کہہ سکتے کہ تمہارے اعمال میں ریاء کے ، تمہارے اعمال میں تکبر کے، تمہارے اعمال میں خود نمائی اور خود پسندی کے ، تمہارے اعمال میں دوسروں کے لئے حقارت کے ایسے جراثیم نہیں پائے جاتے جو خدا کو ناراض کر دیتے ہیں، پس عمل کر وہ عمل کرو اور عمل کرو.لیکن سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھو کہ تم خالی ہاتھ اور تہی دست ہو جب تک خدا کی مغفرت ، جب تک خدا کی رحمت تمہیں حاصل نہ ہو تم خدا کے قہر اور اس کے غضب اور اس کی لعنت سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے.تو میں آج اپنے دوستوں سے کہوں گا کہ اے میرے پیارے بھائیو ! یہ مہینہ رحمتوں کے لٹانے کا ہے.خدا آسمان سے زمین پر اس لئے آیا ہے کہ اس کے بندے اس کے سامنے جھولیاں پھیلائیں اور اس کی رحمت کو ، اس کی مغفرت کو ، اس کے فضلوں کو ، اس کی برکتوں کو اور اس کی رضا کو پائیں، اس کی خوشنودی حاصل کریں، اس کے نور سے اپنے سینہ و دل کو منور کریں پس اس مہینہ سے جتنا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ.اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی جتنی رضا تم پا سکتے ہو اس کے پانے کی کوشش کرو اپنے دنوں کو بھی اپنی راتوں کو بھی ایسے دن اور ایسی راتیں بناؤ کہ جو دن اور جو راتیں تمہارے خدا کو محبوب بن جائیں پھر عاجزی کے ساتھ دعائیں کرتے رہو کہ اے خدا ان کاموں کی ہمیں توفیق دے جن کے نتیجہ میں تو خوش ہو جائے اور ان کاموں سے ہمیں بچا جن کاموں کے نتیجہ میں تو ہم سے ناراض ہوتا ہے.شیطان تیرے در کا کتا ہے تو خود اس کوز نخجیر ڈال کہ وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو اور ہمیں نقصان نہ پہنچائے کہ اپنی طاقت اور اپنے زور کے ساتھ ہم اس کے حملوں سے اپنے کو محفوظ نہیں رکھ سکتے.خدا تعالیٰ کی رحمت کے بہت سے دروازوں میں سے رحمت کا ایک دروازہ جو ہم پرکھ گیا ہے وہ وقف جدید کا دروازہ ہے اس نظام کے ذریعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہمارے لئے نیکیاں کرنے اور رحمتیں کمانے کا سامان پیدا کر دیا ہے.رکھولا وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے آج تمیں دسمبر ہے کل کا ایک دن بیچ میں رہ گیا ہے اس طرح نیا سال پرسوں شروع ہو گا ہر نیا سال جو چڑھتا ہے وہ کچھ نئی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے اور کچھ نئی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے یا قربانیوں میں کچھ زیادتی کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں خدا کی نئی رحمتوں کے دروازے بھی وہ کھولتا ہے.ہر تحریک جو اعلائے کلمۃ اللہ اور غلبہ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ

Page 147

140 حضرت خلیفہ المسح الثالث میں جاری کی گئی ہے وہ اس آیت کے ماتحت جاری کی گئی ہے کہ نببِّي عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ کہ کسی طرح افراد جماعت اور ہماری آئندہ نسلیں بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحمت کو حاصل کرنے والی بہنیں پس ہمیں چاہئے کہ اپنی طرف سے زیادہ سے زیادہ جد و جہد یا اجتہاد یا مجاہدہ ہم کریں تا کہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں اور پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک مومن بندہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو تہی دست پا تا اور تہی دست سمجھتا اور یقین رکھتا ہے.وقف جدید کی تنظیم جماعت کی تربیت کے لئے بڑی اہم تنظیم ہے.اس کی اہمیت کو پوری طرح ابھی تک جماعت نے نہیں سمجھا کیونکہ اگر وہ سمجھتے تو اس سے وہ بے اعتنائی نہ برتتے جو آج برت رہے ہیں وقف جدید کو جاری ہوئے آٹھ نو سال گذر چکے ہیں اور ابھی تک اس کا چندہ ڈیڑھ لاکھ تک بھی نہیں پہنچا.حالانکہ تربیت کے جو کام اس تنظیم کے سپرد کئے گئے ہیں وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کاموں کے کرنے کے لئے ڈیڑھ لاکھ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے.پھر اس کے لئے جس تعداد میں واقفین آئے ہیں وہ تعداد بھی (جیسا کہ میں نے پہلے بھی اپنے ایک خطبہ میں بتایا تھا ) نا کافی ہے.میں نے کہا تھا کہ آئندہ سال جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کم از کم ایک سو واقف وقف جدید کے انتظام میں پیش کرے.مجھے بتایا گیا ہے اور رالفضل میں بھی بعض نوٹ چھپے ہیں کہ ابھی تک بہت کم نو جوانوں نے یا جوان دل ادھیڑ عمر کے احمدیوں نے اس کلاس کے لئے وقف جدید میں نام پیش کئے ہیں جو یکم جنوری سے یا جنوری کے پہلے ہفتہ میں شروع ہو رہی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا.میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرف متوجہ کرنے کے لئے کہ وقف جدید کی تنظیم بڑی اہم ہے اور اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور جماعت کو بھی متوجہ کرنا چاہئے میرے دل میں یہ القا کیا کہ میں وقف عارضی کی تحریک جاری کروں کیونکہ وقف عارضی کے جواچھے اور خوشکن نتائج نکل رہے ہیں اور جو فوائد ہم اس سے حاصل کر رہے ہیں ان میں سے ایک فائدہ جو ہمیں وقف عارضی سے حاصل ہوا ، وہ یہ ہے کہ جو رپورٹیں سینکڑوں جماعتوں میں وقف عارضی کے واقفین نے کام کرنے کے بعد ہمیں دیں ان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جماعتوں میں وقف جدید کے معلمین کی اشد ضرورت ہے.اخبارا تو جو چیز چھپی ہوئی تھی اور وقف جدید کی جو اہمیت ہماری نظروں سے اوجھل تھی وہ وقف عارضی کے واقفین کی رپورٹوں سے ہماری آنکھوں کے سامنے آگئی اور ہم میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوا ہے کہ ہم نے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وقف جدید کے مطالبات پورا کرنے میں اتنی کوشش اور محنت نہیں کی جتنی ہمیں کرنی چاہئے تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو مقصد وقف جدید کے قیام کا

Page 148

141 حضرت خلیفة المسیح الثالث تھا وہ پوری طرح حاصل نہیں کیا جا سکا.پس ایک تو آج میں وقف جدید کے سالِ نو کا اعلان کرتا ہوں اور دوسرے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس اعلان کا یہ مطلب نہیں کہ بس میں نے ایک آواز اٹھائی اور وہ آواز اخبار میں چھپ گئی لوگ خاموش ہو گئے اور سو گئے بلکہ سالِ نو کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ نیا سال آ رہا ہے مختلف زاویوں پہلوؤں سے نئی ذمہ داریوں اور نئی قربانیوں کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے لا سکتے ہیں.ان میں سے ایک ذمہ داری وقف جدید کی ہے اس ذمہ داری کو اپنے سامنے رکھیں جتنے روپے کی ہمیں ضرورت ہے وہ مہیا کریں اور بطور معلمین جتنے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہے ہمیں دیں اور مخلص واقف دیں.خدا تعالیٰ کی محبت رکھنے والے اور اس کی خاطر تکالیف برداشت کرنے والے، اس کے عشق میں سرشار ہو کر اس کے نام کو بلند کرنے والے مسیح موعود علیہ السلام پر حقیقی ایمان لانے کے بعد اور آپ کے مقام کو پوری طرح سمجھنے کے بعد جو ایک احمدی کے دل میں ایک تڑپ پیدا ہونی چاہئے کہ تمام احمدی اس روحانی مقام تک پہنچیں جس مقام تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام انھیں لے جانا چاہتے تھے.اس تڑپ والے واقفین ہمیں وقف جدید میں چاہئیں.تو ایک تو وقف جدید کے چندوں کی طرف متوجہ ہوں دوسرے وقف جدید کے لئے جتنے اور جس قسم کے احمدیوں کی ضرورت ہے بطور معلم کے وہ آدمی اتنی تعداد میں مہیا کرنے کی کوشش کریں.ہماری جماعت میں سے سو آدمی کا مہیا ہو جانا کوئی مشکل نہیں ہے بشرطیکہ ہم اس طرف توجہ کریں بعض جماعتوں کے عہدیداروں نے جیسا کہ رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے، جماعتوں کو بتایا نہیں کہ مرکز سے کیا آواز اٹھ رہی ہے، کیا مطالبہ ہو رہا ہے اور کیا ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں.اور اس کے مقابلہ پر اللہ تعالیٰ کی کس قدر اور کس شان کے ساتھ رحمتیں نازل ہو رہی ہیں.ایسی جماعت کے دوست نیم بے ہوشی کی سی حالت میں یہ سمجھتے ہیں (ایمان تو ہے، ایمان کی چنگاری تو سُلگ رہی ہے ) کہ ہم اس طرف چل رہے ہیں جس طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلانا چاہتے تھے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اس رفتار سے نہیں چل رہے جس رفتار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں چلانا چاہتے تھے.نہ اس بشاشت کے ساتھ ان راہوں پر چل رہے ہیں نہ اتنے اخلاص کے ساتھ ان راہوں پر چل رہے ہیں.نہ اتنی قربانیوں کے ساتھ ان راہوں پر چل رہے ہیں جس بشاشت ، جس اخلاص اور جن قربانیوں کا ہمارا بیعت کا عہد ہم سے مطالبہ کرتا ہے.پس چست ہونے کی ضرورت ہے ، اخلاص میں برتر ہونے کی ضرورت ہے، قربانیوں میں تیز تر ہونے کی ضرورت ہے جس مقصد کے لئے ہمیں قائم کیا گیا اور زندہ کیا گیا اور منظم کیا گیا ہے اس مقصد کے

Page 149

142 حضرت خلیفقه لمسیح الثالث قریب تر ہونے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا کرے.صلى الله - علوسام نَى عِبَادِي إِنِّي اَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ میں جس بشارت کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے.وَاَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ میں جس شدید عذاب سے بچنے کے لئے ہمیں تلقین کی گئی ہے اس کے پیش نظر میری توجہ اس طرف بھی پھری کہ یہ سال وہ ہے کہ جو رمضان کے مہینہ میں ختم ہورہا ہے اور رمضان کے مہینہ سے ہی نیا سال شروع ہو رہا ہے تو اس میں شاید اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ تمہاری قربانیوں کا زمانہ خدا کے لئے ، خدا کی خاطر بھوکے رہنے کا زمانہ ، خدا کی رضا کی خاطر راتوں کے آرام کو قربان کرنے کا زمانہ مسلسل چلنے والا ہے کہ ایک سال انہی قربانیوں پرختم ہو رہا ہے اور دوسرا سال انہی قربانیوں سے شروع ہو رہا ہے لیکن اس میں خوشی کی بات یہ ہے کہ جن قربانیوں سے ہمارا سال شروع ہورہا ہے یہ وہ قربانیاں ہیں جن میں رمضان کا آخری عشرہ بھی ہے جس میں لیلۃ القدر پائی جاتی ہے.تو خدا کرے کہ نیا سال جو ہم پر چڑھ رہا ہے وہ ہمارے لئے لیلۃ القدر لانے کا موجب بھی بنے.وہ وعدے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہمیں دئے گئے.( غلبہ اسلام کے وعدے اور محمد رسول اللہ للہ کی محبت تمام بنی نوع انسان کے دلوں میں پیدا ہو جانے کے وعدے اور توحید خالص کے قیام کے وعدے ) ان وعدوں کے پورا ہونے کا ان وعدوں کے متعلق قضا و قدر کے نزول کا زمانہ خدا کرے اس نئے سال سے شروع ہو جائے اور خدا کرے کہ اتنی عظیم بشارتوں کے نتیجہ میں جو اہم ذمہ داریاں خدا کے نیک بندوں پر عائد ہوتی ہیں وہ ہمیں محض اپنے فضل اور رحم سے توفیق دے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو نبھانے والے ہوں اور فرشتے تمام عالمین میں یک زبان ہو کر اس صدا کو بلند کریں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برگزیدہ جماعت ہے جن پر خدا کی ابدی شریعت کی یہ آیت پوری ہوتی ہے نبی عِبَادِي انـــى نَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ اور خدا کی مغفرت اور خدا کی رحمت کے یہ لوگ وارث ہوئے ہیں.خدا کرے کہ خدا کے فضل سے ایسا ہو ورنہ ہم انفرادی طور پر اور جماعتی لحاظ سے بھی بڑے کمزور ہیں ہم جب اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں تو شرمندگی کے آنسوؤں سے ہمارے دامن تر ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی راہ میں جو ہمیں کرنا چاہیئے تھا وہ ہم نے نہیں کیا اور تہی دست ہی خدا کے سامنے پیش ہو رہے ہیں دعائیں کرتے ہوئے کہ اے خدا ! ہم کمزور ہی سہی مگر تیری صفات تو کمزور نہیں ، تو تمام قد رتوں والا ، تو تمام طاقتوں والا ، تو ہر قسم کی رحمتوں والا ہے ، تمام رحمتوں اور برکات کا سرچشمہ اور منبع تو ہے.ہم بنجر زمین ہی سہی مگر جس بنجر زمین پر تیری رحمتوں کے چشمے ہیں گے وہ یقیناً یقیناً جنت کے باغات بن جائیں گے.

Page 150

143 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث پس اے خدا ! اپنی رحمت کے چشموں سے ہماری بنجر زمین کو سیراب کر ،اے خدا! ہمارے ذریعہ سے ان وعدوں کو پورا کر جو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دئے تھے اے خدا ہمیں یہ توفیق عطا کر کہ ہم ان قربانیوں کو تیرے حضور پیش کریں جو تو اپنی اس جماعت سے چاہتا ہے اور اے خدا! ہماری زندگیوں میں وہ دن لا جب ہم یہ دیکھیں کہ تیری توحید دنیا میں قائم ہو چکی ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے اسلام نے تمام ادیان باطلہ کو شکست دے دی ہے.اے خدا ! تیرے نور سے یہ دنیا بھر جائے اور تیری نورانی تجلی سے ہمارے سینے منور ہو جائیں.آمین صلى الله ***** الفضل ربوہ مؤرخہ 4 جنوری 1967ء)

Page 151

144 حضرت خلیفہ المسح الثالث خطبه جمعه فرموده 30 جون 1967 ء بیت المبارک ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وہ سکیم جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا تھا اور جو جماعت میں جاری کرنا چاہتا ہوں وہ قریباً ساٹھ ستر حصوں پر منقسم ہے.اگر میں اس مضمون کو آج کے خطبہ میں شروع کروں تو پہلے حصے اور بعد کے حصوں میں کئی ہفتوں کا فرق پڑ جائے گا اس لئے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یورپ کے سفر سے واپسی پر جماعت کے سامنے میں اپنی سکیم کو رکھوں گا.وبالله التوفیق.اس وقت میں بعض دیگر نہایت ضروری امور کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہیں.میں نے جماعت کی توجہ اس طرف پھیری تھی اور تلقین کی تھی کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کی طرف بہت توجہ کریں جماعت کو یہ یا درکھنا چاہیے کہ احمدیت کی ترقی اور اسلام کا غلبہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم خود کو بھی اور اپنے ماحول کو بھی قرآن کریم کے انوار سے منور کریں اور منور رکھیں.اگر ہم ایسا کریں تو ایک طرف ہم اپنے نفسوں پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہونگے اور دوسری طرف ہم عملاً اس بات میں شیطان کے محمد بن رہے ہوں گے کہ اسلام کے غلبہ میں التو اپڑ جائے.پس یہ ایک نہایت ہی اہم فریضہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک نے ادا کرنا ہے.باہر سے جو اطلاعات آرہی ہیں ان سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ بعض جماعتیں اور بہت سی جماعتوں کے بعض افراد قرآن کریم کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں اور قرآن کریم کی عملاً وہ قدر کر رہے ہیں جو قرآن کریم کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بعض جماعتوں کے متعلق یہ رپورٹ ہے کہ وہ اس اہم فریضہ کی طرف متوجہ نہیں ہور ہے اور قریباً ہر جماعت کے بعض افراد کے متعلق یہ اطلاع ہے کہ وہ اس فریضہ کی اہمیت کو ابھی تک سمجھ نہیں رہے.اس لئے میں آج مختصر الفاظ میں پھر اپنے بھائیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اس بات کی طرف کہ یہ کوئی معمولی چیز نہیں، یہ کوئی معمولی کام نہیں ، یہ کوئی معمولی فریضہ نہیں جومیں نے آپ کے سامنے رکھا ہے اور جس کی طرف آپ کو میں نے توجہ دلائی ہے بلکہ فرائض میں سے ایک بنیادی فریضہ ہے اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی شریعت آخری شریعت ہے ، ایک کامل اور مکمل شریعت ہے جس کے بعد کسی دوسری شریعت کی ضرورت ہمارے لئے باقی نہیں رہتی تو پھر ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں.جو

Page 152

145 حضرت خلیفہ امسح الثالث ہمیں اپنے رب کی طرف سے ملنا تھا وہ مل چکا.اگر ہم خدا کے اس عطیہ کی قدر نہ کریں تو ہم بڑے ہی ظالم ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر وار دکرنے والے ہوں گے.پس اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے خود بھی قرآن پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی قرآن پڑھائیں.خود بھی قرآن کریم کے معنی سیکھیں اور آئندہ نسل کو بھی قرآن کریم کے معنی سکھائیں.خود بھی قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کریں اور بہترین تفسیر اس وقت ہمارے ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تفسیر ہے تو خود بھی قرآن شریف کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کریں اور اپنے بچوں کے دل میں بھی یہ محبت پیدا کریں کہ وہ قرآن کے علوم اور اس کے معارف اور اس کے دلائل اور اس کی برکات سے آگاہ ہوں اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اس سلسلہ میں میں سمجھتا ہوں کہ احمدی مستورات پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ چھوٹے بچوں کی نگرانی کا کام ان کے ذمہ ہے.پھر وہ ماں جو قرآن کریم پڑھنا جانتی ہے مگر اپنے بچے کو پڑھاتی نہیں وہ ایک ظالم ماں ہے اور ہر وہ ماں جو قرآن کریم کے معنی جانتی ہے مگر اپنے بچوں کو وہ معانی نہیں سکھاتی وہ قرآن کریم کی قدر نہیں کر رہی.قرآن کی قدر کو پہچانتی نہیں اور ان روحانی نعمتوں اور برکات سے خود کو بھی محروم کر رہی ہے اور اپنی نسل کو بھی آگے محروم کر رہی ہے اور ہر وہ ماں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ا قرآن کریم کے اسرار روحانی سمجھنے کی توفیق عطاء کی ہے.اگر وہ ان اسرار روحانی کو اپنی نسل میں آگے نہیں چلاتی اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والی کوئی ماں نہیں ہے.دوسری اور تیسری چیز جس کی طرف آج میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ تحریک جدید کا دفتر سوم اور وقف جدید میں جو بچوں میں تحریک کی گئی تھی یہ دو باتیں ہیں.دفتر سوم کی طرف بھی جماعت نے ابھی پوری توجہ نہیں دی.ہزاروں احمدی ایسے ہیں جو تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے اور ان میں سے بڑی بھاری اکثریت ہماری احمدی مستورات کی ہے.جیسا کہ دفتر کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعت میں ہزاروں احمدی بہنیں ایسی ہیں اور ہزاروں احمدی بچے اور نوجوان ایسے ہیں اور ہزاروں احمدی بالغ مرد ایسے ہیں جنہوں نے ابھی تک تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں اور اس کی برکات سے وہ واقف ہی نہیں، اسلام کی ضرورتوں.سے وہ آگاہ ہی نہیں.ان ضرورتوں کے پیش نظر ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اس سے غافل ہیں.پس تحریک جدید کے دفتر سوم کی طرف خصوصاً احمدی مستورات اور عموماً وہ تمام احمدی مرد اور بچے اور نوجوان جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی وہ اس طرف متوجہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے

Page 153

کی کوشش کریں.146 حضرت خلیفہ مسیح الثالث میں نے یہ کہا تھا کہ وقف جدید میں اگر ہمارے بچے دلچسپی لینے لگیں اور صحیح معنی میں دلچسپی لینے لگیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وقف جدید کا سارا مالی بار ہمارے بچے بڑی آسانی سے اپنے کندھوں پر اُٹھا سکتے ہیں لیکن بچے اپنی ناسمجھی کی وجہ سے کیونکہ ان میں سے بہتوں کی عمر ہی ایسی ہے جو اس ذمہ داری کو سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن بہت سی مائیں اپنی جہالت کی وجہ سے بچوں کو اس طرف متوجہ نہیں کرر ہیں.لجنہ کی یہ رپورٹ ہے کہ بہت سی مائیں ربوہ میں بھی ایسی پائی جاتی ہیں جن کو احساس ہی نہیں ہے کہ ان کے بچوں کو وقف جدید کے مالی بار کے اٹھانے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے.جو بچہ روپیہ یا ڈیڑھ روپیہ یا اٹھتی یا چوٹی گندی چیزوں کے کھانے پر صرف کرتا اور صحت کو خطرہ میں ڈالتا ہے اگر اس کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ یہ چند آنے تم وقف جدید میں دو اور اس طرح اپنی روحانی صحت کے بنانے کی کوشش کرو اور وقف جدید کی اہمیت ان پر واضح کی جائے اور احمدی بچے کی جو شان ہے اور اللہ تعالیٰ اسے جس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے وہ شان اور وہ مقام اسے اچھی طرح سمجھایا جائے اس زبان میں جس زبان میں کہ بچہ سمجھ سکتا ہے.چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اگر اس کی زبان میں بات کی جائے تو بڑی گہری باتوں کو بھی سمجھنے کے قابل ہوتا ہے.شرط صرف یہ ہے کہ اس کی زبان میں بات کی جائے سادہ طریقہ سے اس کو سمجھایا جائے تو وہ سمجھ سکتا ہے بلکہ بعض بوڑھوں سے بعض دفعہ بعض بچے زیادہ جلدی سمجھ جاتے ہیں اور زیادہ شوق سے اپنی ذمہ داری کو نباہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نہ مائیں اس طرف متوجہ ہیں اور نہ باپوں کو کچھ خیال ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو نبا ہیں.اس وقت تک میں سمجھتا ہوں کہ جو ذمہ داری میں نے وقف جدید کے سلسلہ میں احمدی بچوں پر ڈالی تھی جماعت کے احمدی بچوں میں سے ابھی بیس (20) فیصدی بمشکل ایسے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہے اور اس کی ادائیگی کی کوشش کر رہے ہیں باقی استی (80) فیصدی بچے جماعت کے ایسے ہیں کہ جو اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اس کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے اسی (80) فیصدی باپ اور جماعت کی اسی (80) فیصدی مائیں ایسی ہیں جنہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے خدا کی رضا کی جنت کو کس طرح پیدا کرنا ہے.کیا آپ اس بات کو پسند کریں گی اے احمدی بہنو! اور کیا آپ اس بات کو پسند کریں گے اے احمدی بھائیو! کہ آپ کو تو خدا کی رضا کی جنت نصیب ہو جائے لیکن آپ کے بچے اس جنت کے دروازے سے دھتکارے جائیں اور دوزخ کی طرف ان کو بھیج دیا جائے یقیناً آپ میں سے کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں

Page 154

147 حضرت خلیفہ امسیح الثالث کرے گا.جب آپ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تو پھر آپ ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بچوں کے دلوں میں دین کی راہ میں قربانیاں دینے کا شوق پیدا کریں.ہماری جماعت میں امیر بھی ہیں اور غریب بھی ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر بچہ ٹھتی دے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر بچہ جتنا دے سکتا ہے ضرور دے اگر وہ دھیلا دے سکتا ہے،اگر وہ ایک پیسہ دے سکتا ہے اگر وہ ایک آنہ دے سکتا ہے دوقی دے سکتا ہے، چوقی دے سکتا ہے تو اتنا اس کو ضرور دینا چاہیے ورنہ آج اس کے دل میں اسلام کی محبت کا وہ بیچ نہیں بویا جائے گا جو بڑے ہوکر درخت بنتا اور شیریں پھل لاتا ہے.پس اپنی نسلوں پر رحم کرو اور اپنے بچوں سے اس محبت کا اظہار کرو جو ایک مسلمان ماں اپنے بچے سے کرتی ہے اور اس پیار کا اس سے سلوک کرو جو ایک مسلمان باپ اپنے بچے سے کرتا ہے اور ان بچوں کے دل میں سلسلہ کے لئے قربانیوں کا شوق پیدا کرو اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا کرو کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان کو بہر حال جدو جہد اور کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی.اگر انسان خدا کی راہ میں قربانیاں نہ دے تو اس کے نتیجہ میں شیطان تو خوش ہو سکتا ہے مگر خدا خوش نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.الفضل 9 جولائی 1967 ، صفحہ 2 ،3) نوٹ: ایک روپیہ کے 16 آنے ہوتے تھے اور ایک آنے کے 4 پیسے، ایک پیسہ کے دودھیلے، دو آنے کی دوقی 4 آنے کی چوٹی اور 8 آنے کی اٹھتی.

Page 155

148 حضرت خلیفہ المسح الثالث خطبہ جمعہ فرموده 29 ستمبر 1967 ء بیت المبارک ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جماعت میں یہ احساس زندہ اور بیدار رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام سے توحید خالص کے قیام اور غلبہ اسلام کی ایک عظیم مہم جاری کی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا اور صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کے جوئے تلے دنیا کی ہر قوم کی گردن کو لے آئے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ مخالف کی تدبیریں اگر اس حد تک بھی پہنچ جائیں کہ ان کے نتیجہ میں پہاڑ اپنی جگہوں سے ہلا دیئے جائیں تب بھی وہ کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ نا کام ہی رہیں گے.کامیابی اللہ تعالیٰ کی اس خادمِ اسلام جماعت کو ہی نصیب ہوگی.اس مہم کے اجرا سے جماعت پر بڑی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس احساس کو زندہ اور بیدار رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی اور ایثار کا نمونہ ہمیں دکھانا پڑتا ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی اس احساس کو بیدار رکھنا ضروری ہے کیونکہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ ایک نسل کا کام نہیں.اس وقت بھی ہماری اکثریت تابعین کی ہے یعنی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا نہیں.دیکھنے والے تو بہت تھوڑے رہ گئے ہیں لیکن صحابہ حضرت مسیح موعود کو دیکھنے والے کثرت کے ساتھ اس وقت جماعت احمدیہ میں ہیں.تو احمدیت کے لحاظ سے آئندہ نسل احمدیت کی تیسری نسل ہے اور ابھی ہم کامیابی کی راہوں پر چل رہے ہیں.اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچے اور نہیں کہا جا سکتا کہ کب ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچیں گے.میں نے بڑا غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہم پر جو دوسری نسل احمدیت کی اس وقت ہے اور ہماری اگلی نسل پر جو اس وقت بچے ہیں ان دو نسلوں پر قربانیاں دینے کی انتہائی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں جس میں ترقی اسلام کے لئے جو ہم جاری کی گئی ہے وہ اپنے انتہائی نازک دور میں داخل ہو چکی ہے اور ہمیں اور آنے والی نسل کو انتہائی قربانیاں دینی پڑیں گی تب ہمیں اللہ تعالیٰ وہ عظیم فتوحات عطا کرے گا جس کا اس نے ہم سے وعدہ کیا ہے.پس ضروری کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں بھی اس احساس کو زندہ کریں اور زندہ رکھیں کہ عظیم فتوحات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے

Page 156

149 حضرت خلیفہ امسح الثالث ان کیلئے کھول رکھے ہیں اور ان دروازوں میں داخل ہونے کیلئے عظیم قربانیاں انہیں دینی پڑیں گی اور ان سے ہم ایسے کام کرواتے رہیں کہ ان کو ہر آن اور ہر وقت یہ احساس رہے کہ غلبہ اسلام کی جو مہم اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے اس میں ہمارا بھی حصہ ہے ہم نے بھی کچھ کنٹری بیوٹ (Contribute) کیا ہے ہم نے بھی اس کے لئے کچھ قربانیاں دی ہیں.ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ویسے ہی امیدوار ہیں جیسا کہ ہمارے بڑے ہیں اس کے لئے میں نے علاوہ اور تدابیر کے جو ذہن میں آتی رہیں یا جو پہلے سے ہماری جماعت میں جاری ہیں یہ تحریک کی تھی کہ ہمارے بچے وقف جدید کا مالی بوجھ اٹھا ئیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت کے سارے بچے اور وہ ماں باپ جن کا ان بچوں سے تعلق ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس بات کو اچھی طرح جانے لگیں کہ جب تک بچے کو عملی تربیت نہیں دی جائے گی اللہ تعالیٰ کی فوج کا وہ سپاہی نہیں بن سکے گا اگر وہ دین کیلئے ابھی سے ان سے قربانیاں لیں تو یہ نسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح تربیت یافتہ ہوگی اور جب ان کے کندھوں پر جماعت کے کاموں کا بوجھ پڑے گا تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور ان کو نباہنے کیلئے کوشاں رہیں گے.میرے دل میں یہ احساس ہے کہ جماعت نے بحیثیت مجموعی اس کی طرف وہ توجہ نہیں دی جو اس کو دینی چاہئے.بڑے نیک نمونے بھی ہیں ہماری جماعت میں.ایسے بچے جن کو تحریک نہیں کی گئی اور پھر بھی ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمارے بڑوں پہ ہی نہیں ہم پر بھی قربانیوں کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ قربانیاں دیتے ہیں.افریقہ کے ایک بچے کی مثال میں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.افریقہ میں ہمارے ایک احمدی بھائی ہیں لئیق احمد ان کا نام ہے بڑے مخلص دعا گو ہیں اور ہر وقت ان کو یہ احساس رہتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہم پر فضل کر رہا ہے ہمیں اپنی راہ میں قربانیاں دینے کی توفیق عطا کرتا ہے.ہمارے بچے بھی اس کے فضلوں کے وارث بنیں اور اس کی راہ میں قربانیاں دیں.چند دن ہوئے انہوں نے مجھے خط لکھا جو کل ہی مجھے ملا ہے.انہوں نے اپنے بچوں سے کہا ( ایک بچہ بہت چھوٹا ہے ) بڑے بچے جو ہیں ان کو انہوں نے کہا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قصیدہ تم حفظ کر لو جو نعتیہ قصیدہ ہے يَا عَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظَّـمان تو میں تمہیں پچاس شلنگ انعام دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص اس قصیدہ کو زبانی یاد کرے اور دہراتا رہے اللہ تعالیٰ اس کا حافظہ تیز کر دیتا ہے تو بچوں کو یہ قصیدہ حفظ کروانے

Page 157

150 حضرت خلیفتہ امسح الثالث میں ان کا دنیوی فائدہ بھی ہے کیونکہ بچپن کی عمر حافظہ سے فائدہ اٹھانے کی عمر ہے.جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو پھر ذہن سے فائدہ اٹھانے کی عمر میں وہ داخل ہو جاتے ہیں بہر حال انہوں نے اپنے بچوں کو 50 شلنگ انعام کا وعدہ دے کر انہیں اس طرف متوجہ کیا اور شوق ان میں پیدا کیا اور انہوں نے یاد کرنا شروع کر دیا.بڑے بچے نے سارا قصیدہ حفظ کر لیا تو انہوں نے اسے 50 شلنگ انعام دیا.وہ لکھتے ہیں کہ میری اور میری بیوی کی یہ خواہش تھی کہ ہم اسے ترغیب دیں کہ جب اسے یہ انعام ملے تو اس کا ایک حصہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے اور ایک حصہ وہ اپنے بھائیوں کو دے تا کہ وہ اس کی خوشی میں شریک ہوں اور ایک حصہ وہ اپنے پر خرچ کرے.چنانچہ ان کے والد صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں:.وو صلى الله یہ قصیدہ حفظ کرنے کے دوران میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے عزیز کو خوابوں میں سید الانبیاء حضرت رسول کریم ، حضرت مصلح موعود اور حضور پر نور اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت کا شرف بخشا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.پھر وہ لکھتے ہیں: عزیز فرید احمد کی امی کا اور میرا خیال تھا کہ انعام دینے سے قبل بچے کو تربیت کے طور پر کسی رنگ میں کبھی ترغیب دلائیں گے کہ اس رقم میں سے کچھ چندہ دے دے اور کچھ حصہ اپنے بھائیوں اور بہن کو دے اور بقیہ رقم اپنے استعمال میں لے آئے لیکن قصیدہ حفظ کرنے سے پہلے ہی ایک دفعہ عزیز نے ہماری تحریک کے بغیر خود اپنا عندیہ یہ ظاہر کر دیا کہ وہ انعام کی ساری رقم حضور انور کی خدمت اقدس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاری کردہ تحریک وقف جدید کے چندہ کے طور پر پیش کر دے گا کیونکہ حضور اقدس اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عظیم الشان تحریک کی مالی مضبوطی کا کام اپنے بچوں کے سپرد کیا ہے.پس عزیز کے منشاء کے مطابق میں پچاس شلنگ کا چیک حضور پر نور کو بھجوا رہا ہوں.“ اور عزیز فرید احمد اپنے خط میں لکھتا ہے: 66 "Waleed, Amatul Naseer and I were Promised by our father gift of sh.50/- each for memorising the Qasida,and I am first to have received this gift, Al-Hamdulillah!!! On my part, I have undertaken to present the whole of this amount to your holiness for the purpose of Waqf-e-Jadid.This is because you have kindly made the children of Ahmadiyyat responsible for the finance of the Waqf-e-Jadid and I fully realize that your needs for the spreading of

Page 158

151 حضرت خلیفتہ امسح الثالث Islam must have priority over my personal needs.Please, therefore,accept the enclosed cheque for sh.50/- and grant me the opportunity of earning swab.I may assure youholiness that your children, though young, are as willing to serve Islam as the grown-ups".یہ اس بچے کا خط ہے تو اس قسم کی نہایت حسین مثالیں بھی ہیں جو ہمارے بچوں میں پائی جاتی ہیں لیکن بچے کا ذہن اس قسم کے خیالات کا اظہار صرف اس وقت کر سکتا ہے جب وہ یہ دیکھے کہ اس کے ماحول میں ایسی باتیں ہورہی ہیں اگر اس کے ماں باپ کو اسلام کی ضرورت کا خیال ہی نہ ہو اگر اس کے ماں باپ اسلام کی ضرورتوں کے متعلق اپنے گھر میں باتیں ہی نہ کرتے ہوں اگر اس کے ماں باپ اس کا تذکرہ گھر میں نہ کرتے ہوں کہ ہمیں اپنی ضرورتیں چھوڑ دینی چاہئیں اور آج اسلام کی ضرورت کو مقدم رکھنا چاہیئے اگر یہ نہ ہوگھر کا ماحول تو گھر کے بچوں کی تربیت ایسی ہو ہی نہیں سکتی جیسا کہ آپ نے ابھی سنا کہ کس قسم کی تربیت اس بچے کی ہے.چھوٹا بچہ ہے اور وہ اس قسم کا خط نہیں لکھ سکتا دلی جذبات سے ، جب تک ایک پاک ماحول میں اس کی تربیت نہ ہوئی ہو.یہ احساس کہ میری ضرورتیں اسلام کی ضرورتوں پر قربان ہو جانی چاہئیں اگر ہر بچہ کے دل میں پیدا ہو جائے تو ہمیں کل کی فکر نہ رہے.ہم اس یقین سے پُر ہو جائیں کہ جب آئندہ کسی وقت ہمارے بچوں کے کندھوں پر جماعت احمدیہ کا بوجھ پڑے گا وہ اسے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اور اس بوجھ کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو ادا کریں گے.اس خطبہ کے ذریعہ میں اپنے تمام بچوں کو جو احمدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین اور گارڈ بینز (سر پرستوں ) کو اس طرف توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ اگر آپ یہ پسند کرتے ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ پر نازل ہورہی ہیں اسی طرح آپ کی اولا داور نسل پر بھی نازل ہوں تو آپ اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس رنگ میں کریں کہ ہر ایک کے دل میں یہ احساس زندہ ہو جائے اور ہمیشہ بیدار رہے کہ ایک عظیم مہم اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جاری کی ہے احمدیت کی شکل میں اور اب ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر کے اس مہم میں حصہ لینا اور اسے کامیاب کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان انتہائی فضلوں اور رحمتوں کا وارث بننا ہے جن کا وعدہ اس نے ہم سے کیا ہے.....روزنامه الفضل ربوه 17 نومبر 1967ء)

Page 159

152 حضرت خلیفہ المسح الثالث خطبہ جمعہ فرموده 3 نومبر 1967 تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت اسلام کسمپرسی کی حالت میں تھا اور دنیائے اسلام، اسلام کی ضرورت ، اسلام کے نام پر اور غلبہ اسلام کے لئے اپنے اموال قربان کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نشاۃ ثانیہ کے سامان پیدا کئے اور آپ کو مخلصین کی ایک جماعت دی گئی جو اپنے نفوس اور اپنے مال کی قربانی خدا کی راہ میں دینے والی تھی.اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں سے قربانیاں لیتا ہے تو اس دنیا میں بھی اپنے فضلوں کا انہیں وارث بناتا ہے چنانچہ جب اس زمانہ میں نشاۃ ثانیہ کی ابتداء میں مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہوئی اور انھوں نے اپنے وقتوں اور اپنی زندگیوں اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک وعدہ کیا اور وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ( جماعت کے متعلق ) کہ میں ان کے نفوس اور ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا.آؤ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کس رنگ اور کس شان کے ساتھ پورا ہوا.میں اس وقت جماعت احمدیہ کی تاریخ کے پچھتر سالوں پر طائرانہ نگاہ ڈالوں گا.یہ 1967ء ہے.اس میں سے پچھتر ہم نکال دیں تو 1892ء کا سال بنتا ہے جب ہم 1892ء اور 1967ء کے درمیانہ پچھتر سالہ عرصہ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور مجموعی ترقی نفوس میں اور اموال میں مشاہدہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو قدرت کاملہ کا مالک ہے اپنے بندوں پر کس طرح فضل کرتا ہے 1892ء میں نفوس کے لحاظ سے (1892 ء کے صحیح اعداد و شمار تو غالباً ہمارے ریکارڈ میں نہیں ہیں کیونکہ ہماری سینسر ( مردم شماری) کبھی نہیں ہوئی لیکن ایک عام اندازہ کیا جا سکتا ہے.جلسہ سالانہ (1892ء میں حاضری جلسہ 337 تھی) کی حاضری دیکھ کر وغیرہ وغیرہ کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ یا اگر بہت ہی کھلا اندازہ کیا جائے تو ایک سے تین ہزار کے درمیان تھی عام اندازے کے مطابق 1967ء کی یہ تعداد اس چھوٹی سی تعداد سے بڑھ کر کم و بیش تمہیں لاکھ کے لگ بھگ ہو گئی ہے.میرے اندازے کے مطابق تمیں لاکھ سے کچھ اوپر ہے.اس زیادتی میں دو چیزیں اثر انداز ہوئیں ، ایک پیدائش دوسرا تبلیغ ، ہرد ، ہر دوراہوں سے اللہ تعالیٰ نے

Page 160

153 حضرت خلیفہ المسح الثالث جماعت احمدیہ کے نفوس میں برکت ڈالی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا تو یہ فرمائی تھی کہ اک سے ہزار ہو دیں لیکن جب اس تعداد کا جو 1967ء کی ہے 1892ء کی تعداد سے ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کے نتیجہ میں عملاً یہ کیا کہ تم اک سے ہزار مانگتے ہوئیں اک سے تین ہزار کرتا ہوں چنانچہ جب ہم ان دو اعداد وشمار کا آپس میں مقابلہ کرتے ہیں گو ( اگر اس وقت ایک ہزار احمدی سمجھے جائیں ) ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو تین ہزار کر دیا ہے.ایک کو ہزار نہیں، ایک کو تین ہزار بنا دیا.کیونکہ تین ہزار کو ہزار کے ساتھ ضرب دیں تب یہ موجودہ شکل ہمارے سامنے آتی ہے اور اگر 1892ء کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے.جو میرے نزدیک بہت زیادہ اندازہ ہے تو پھر بھی اس سے اک سے ہزار ہو دیں والی دعا اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی اور 75 سال کے عرصہ میں اس نے جماعت کے نفوس کو ایک ہزار گنا زیادہ کر دیا.یہ معمولی زیادتی نہیں، حیرت انگیز زیادتی ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا جہاں اظہار ہوتا ہے وہاں عقل کی رسائی نہیں.اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت اپنے بندوں پر جلوہ گر ہوتی ہے تمام اندازوں کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے.اگر یہ امید رکھیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالی مستقبل میں بھی اس جماعت کو اسی رنگ میں اور اسی حد تک قربانیاں دینے کی توفیق دے گا.جس طرح گذشتہ 75 سال وہ دیتا رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں تم پر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی اسی رنگ میں ہوتے رہیں گے یہ تعدادا گر اسی نسبت سے بڑھتی رہے تو آج سے 75 سال کے بعد تین ارب اور نو ارب کے درمیان ہو جائے گی.جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنی دعاؤں سے اور اپنی تدبیر سے اور اپنی قربانیوں سے اور اپنی فدائیت اور جاشاری سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرتے رہے.جس طرح گذشتہ 75 سال میں ہم نے جذب کیا تھا تو اگلے 75 سال میں اسلام دنیا پر غالب آجائے گا اور نشاۃ ثانیہ کی جو ہم ہے وہ پوری کامیابی کے ساتھ دنیا میں ظاہر ہو جائے گی.خدا کرے کہ جماعت کو اسی طرح قربانیاں دینے کی توفیق ملتی رہے.یہ بھی کہا گیا تھا کہ میں ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا.اب اموال کو ہم دیکھتے ہیں.1892ء کے جلسہ سالانہ میں 1893 ء کے لئے چندوں کے وعدے دیئے گئے ( وہ انتظام اس وقت قائم نہیں تھا جو آج قائم ہے ) اور وہ وعدے ساری جماعت کے سمجھے جانے چاہئیں کیونکہ تمام مخلصین جلسہ سالانہ پر جمع ہو جاتے تھے.تو 1893 ء کے لئے 1892ء کے جلسہ سالانہ پر جماعت نے جو وعدے دئے ان کی رقم سات سو کچھ روپے تھی اور آج پچھتر سال گذرنے کے بعد عملاً جماعت جو مالی قربانیاں خدا کی راہ میں پیش کر رہی ہے اس کی رقم ایک کروڑ سے اوپر نکل گئی ہے ہم سات سو کی بجائے اگر ایک ہزار لیس

Page 161

154 حضرت خلیفہ مسیح الثالث کیونکہ ان وعدوں کے علاوہ وہ دوست جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں انھوں نے بعد میں وعدے کئے ہونگے اور رقمیں بھجوائی ہونگی ) تو اگر 1892 ء کی آمد ایک ہزار روپیہ سمجھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں 1967ء کی آمد ایک کروڑ سے اوپر نکل گئی.تحریک جدید کے چندے، صدر انجمن کے چندے، وقف جدید کے چندے، وقف عارضی کا جو خرچ ہوتا ہے اگر چہ وہ ہمارے رجسٹروں میں درج نہیں ہوتا لیکن وہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہوتا ہے جو ایک احمدی کر رہا ہے، اپنے خرچ پر باہر جاتا ہے، کرایہ خرچ کرتا ہے ، وہاں اپنے گھر سے زائد خرچ کرنا پڑتا ہے.ان سب کو اگر اکٹھا کیا جائے تو یہ رقم ایک کروڑ سے کہیں اوپر نکل جاتی ہے.میں ایک کروڑ کی رقم اس وقت لے لیتا ہوں تو ایک ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ تک ہماری مالی قربانیاں پہنچ گئیں.یہ بھی دس ہزار گنار تم بن جاتی ہے.گویا ایک روپے کے مقابلہ میں دس ہزار روپے کے چندے بنتے ہیں.یعنی 1892ء میں اگر جماعت نے ایک روپیہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق اپنے رب سے حاصل کی تو اسی برگزیدہ جماعت نے 1967ء میں دس ہزار روپیہ اس ایک روپیہ کے مقابلہ میں خرچ کرنے کی اپنے رب سے توفیق پائی.یہ تو چندوں کی نسبت ہے.مگر وعدہ کیا گیا ہے کہ اموال میں برکت دی جائے گی اب جس نسبت سے جماعت کے اموال بڑھے ہیں وہ دس ہزار گنا سے زیادہ ہے.کیونکہ 1892ء میں قریباً سو فیصدی مخلص تھے اور پوری قربانی دے رہے تھے خدا کی راہ میں لیکن 1967ء میں تعداد چونکہ بڑھ گئی ہے بہت سے ہم میں سے ایسے ہیں جو تربیت کے محتاج ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آج سے ایک سال یا دو سال یا چار سال یا پانچ سال کے بعد اس ارفع مقام پر پہنچ جائیں گے.جس پر اللہ تعالیٰ انھیں دیکھنا چاہتا ہے اور ان کے چندوں کی شرح اس شرح کے مطابق ہو جائے گی جو 1892ء میں مخلصین دیا کرتے تھے اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جواموال منقولہ اور غیر منقولہ 1892ء کے احمدیوں کے پاس تھے آج اس کے مقابلہ میں جماعت کے مجموعی اموال منقولہ یا غیر منقولہ کی قیمت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ دس ہزار گنا سے زیادہ برکت ڈال دی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل ہم پر نازل ہو رہے ہیں.جس نقطہ نگاہ سے بھی ہم دیکھتے ہیں عقلیں حیران رہ جاتی ہیں اب 75 سالہ عرصہ قوموں اور جماعتوں کی زندگی میں کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے اس چھوٹے سے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر اپنے ایسے فضل کئے کہ ان کی تعداد اک سے ہزار ہوویں والی دعا سے بھی بڑھ گئی اور ان کے اموال میں جو برکت اللہ تعالیٰ نے ڈالی وہ اک سے دس ہزار کی نسبت سے بڑھ گئی.اس سے ہم اس صداقت تک پہنچتے ہیں کہ جماعت احمد یہ خدا کی راہ میں جو مالی قربانیاں دیتی ہے وہ ضائع نہیں جاتیں.اس دنیا میں بھی خدا کی راہ میں دی گئی رقم تمہیں واپس مل جاتی ہے اور صرف اتنی

Page 162

155 صلى الله صلى الله حضرت خلیفہ امسح الثالث ہی نہیں ملتی ، دگنی ہی نہیں ملتی ، دس گنے یا سو گنے ہی زیادہ نہیں ملتی جیسا کہ میں نے ابھی اعداد و شمار سے بتایا ہے بلکہ دس ہزار گنے سے زیادہ ملتی ہے.ایسے خاندان بھی ہیں جماعت کے کہ ان کے والد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جتنی قربانی دی ان کے بچوں میں سے ایک ایک کی ماہوار آمدنی ان کی ساری زندگی کی مالی قربانی سے زیادہ تھی تو اللہ تعالیٰ بڑے فضلوں کا مالک ہے اور بڑے فضل کر رہا ہے اور کرنا چاہتا ہے اور اس لحاظ سے اگر ہم اندازہ لگائیں کہ اگلے پچھتر سال میں ہمارے مالوں میں کس قدر برکت پیدا ہو جائے گی ( مجموعی طور پر جماعت کے مالوں میں ) تو بے شمار رقم بن جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دنیا میں ہی ایک فوقیت عطا کرے گا اور یہ ڈیڑھ سوسال کا عرصہ کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے ایک آواز جوا کیلی اور تنہا آواز اور ایک غریب انسان کی آواز ایک ایسے انسان کی آواز تھی جو دنیوی لحاظ سے کوئی وجاہت یا اقتدار نہیں رکھتا تھا لیکن اپنے رب سے انتہائی پیار کرنے والا اورمحمد رسول اللہ لے کے عشق میں اس طرح وہ محو تھا کہ امت مسلمہ میں ویسی محبت اور عشق کسی امتی نے اپنے امام ، اپنے محمد علی سے کبھی نہیں کی اس کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا اور کہا کہ میں دنیا میں تیرے ذریعہ سے اسلام کو پھر غالب کرنا چاہتا ہوں اور ایک ایسی جماعت تمہیں دوں گا يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ ( تذکرہ: صفحہ 39) کہ آسمان سے فرشتے نازل ہونگے اور انھیں وحی کریں گے کہ وہ اٹھیں اور تیری خدمت میں لگ جائیں پھر یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی 1892ء میں مگر وہ بڑھتی چلی گئی اپنی تعداد میں جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے ایک ہزار گنا زیادہ نہیں تین ہزار گنا زیادہ وہ ہوگئی.اور کہا گیا تھا کہ ان کے اموال میں برکت دی جائے گی چونکہ انھوں نے خدا کی راہ میں ایسے وقت میں قربانیاں دیں جب مسلمان کہلانے والے اسلام کی خاطر مالی قربانیاں دینے میں بڑی ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے اور عملاً کوئی قربانی نہیں دے رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ ان کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں جو ایک روپیہ انھوں نے دیا اس کے بدلہ میں ان کو اور ان کے خاندانوں کو دس ہزار روپیہ سے بھی زائد خدا نے دیا.اللہ تعالیٰ نے دس ہزار گنا سے بھی زیادہ ان کے اموال کر دئیے.پس جو کچھ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں یہ نہیں کہ سکتے کہ وہ اموال ضائع ہو گئے.ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اتنا ہی ہمیں مل جاتا ہے، پھر تمہیں ڈرکس بات کا ہے جتنا تم نے دیا تھاوہ تمہیں واپس مل گیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل بڑی وضاحت سے یہ شہادت دے رہا ہے کہ تم ایک روپیہ میری راہ میں خرچ کرومیں دس ہزار روپیہ تمہیں لوٹا دوں گا.اس دنیا میں اور جو بدلہ اس کی محبت کا اور اس کی رضا کا اور اس کی جنت کا اُخروی زندگی میں ملنا ہے وہ اس کے علاوہ ہے.پس بڑا سستا سودا ہے اور اس پس منظر میں میں آج آپ

Page 163

156 حضرت خلیفة المسیح الثالث دوستوں کو یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وقف جدید کی طرف آپ توجہ کریں.میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور یہ امید ظاہر کی تھی کہ اگر ہمارے اطفال اور ناصرات اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کے والدین اپنے بچوں کی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کی برکت کا سامان پیدا کرنا چاہیں تو جو چھوٹے بچے ابھی نا سمجھ ہیں ان کی طرف سے بھی وقف جدید کے چھ روپے دیں تو اللہ تعالیٰ بڑی برکت ڈالے گا اور جن کو تھوڑا بہت شعور حاصل ہو گیا ہے ان کے سامنے والدین یہ بات رکھیں کہ خدا تعالیٰ ایک فقیر اور بھکاری کے رنگ میں تمہارے سامنے نہیں آتا ( نعوذ باللہ ) بلکہ ایک دیالو، ایک محسن فضل کرنے والی ہستی کے طور پر تمہارے سامنے آتا ہے اور تمہیں کہتا ہے کہ میری راہ میں اموال خرچ کرو اگر تم اس دنیا میں بھی دس ہیں ہزار گنا زیادہ اموال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو اگر سارے کے سارے اطفال و ناصرات اس طرف توجہ کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ سارا بوجھ قریباً ہمارے اطفال اور ناصرات اٹھا سکتی ہیں یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ جماعت کے وہ بچے جن کی عمر ابھی پندرہ سال کی نہیں ہوئی ایک منٹ کی عمر سے لے کے پندرہ سال کی عمر تک جتنے بچے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دئے ہیں اگر ان کی طرف سے یا وہ خود اگر وہ کچھ شعور رکھتے ہیں، وقف جدید کے لئے کم از کم چھ روپے سالانہ دیں جو کوئی ایسی بڑی رقم نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے بچپن سے ہی برکات کے سامان پیدا کرنے شروع کر دے گا.بعض خاندان بچوں کی طرف سے بنک میں رقم جمع کرنی شروع کر دیتے ہیں پہلے مہینہ سے ہی بعض دوسرے تیسرے سال سے کہ جب یہ بڑے ہونگے تو ان کے یہ کام آئے گی تو بنکوں کی رقموں نے کیا بڑھنا ہے ضائع ہونے کا تو اندیشہ ہے لیکن اس قدر بڑھوتی کا وہاں کوئی سامان نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں تو ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں اور بڑھوتی کے اتنے سامان ہیں کہ ایک روپیہ آپ کی طرف سے خدا تعالیٰ کے بنک میں جمع کرائیں گے ریزرو کے طور پر تو جس وقت وہ بڑے ہونگے اللہ تعالیٰ ان کو ایک کی بجائے دس ہزار یا شاید اس سے بھی زیادہ دے گا.بچوں کی طرف سے چونتیس ہزار آٹھ سو کے وعدے سال رواں کے ہوئے تھے.جس کا یہ مطلب ہے کہ تمام احمدی بچوں کو اس طرف توجہ نہیں دلائی گئی اور تمام احمدی ماں باپ نے اپنے بچوں کی بہبود کی طرف توجہ نہیں دی.لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں اطفال و ناصرات اور چھوٹے بچے ایسے تھے جنھوں نے اس مد میں حصہ لیا لیکن اس وقت تک کہ دس مہینے سال کے گزر چکے ہیں وعدوں کے مقابل آمد بڑی کم ہے اور یہ بڑی فکر کی بات ہے.آپ نے بچپن میں بچے کو یہ عادت نہیں ڈالنی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ تو کرے مگر پورا نہ کرے.آپ نے تو اس کو یہ عادت ڈالنی ہے کہ جب وہ خدا سے وعدہ کرے تو زمین و آسمان ٹل جائیں اس کا وعدہ پورا ہو.اور آپ

Page 164

157 حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے اس کے دل میں یہ احساس بیدار رکھنا ہے کہ جو خدا کی راہ میں جو مال دیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا جیسا کہ ہماری تاریخ اس پر شاہد ہے.ایک سے دس ہزار گنا زیادہ ہو کر وہ واپس ملتا ہے ( اس دنیا میں ) اب سال کے دو مہینے باقی رہ گئے ہیں میں یہ درخواست کرتا ہوں اور میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ جماعت اس کی طرف فوری توجہ دے گی اور پندرہ دسمبر سے پہلے پہلے تمام وعدے پورے ہو جائیں گے، اطفال کے بھی اور جو بڑوں کے وعدے ہیں وہ بھی.اس میں بھی کافی کمی ہے.ہمارا بجٹ تو دو لاکھ سترہ ہزار کے قریب، ہمارے وعدے تھے ایک لاکھ پچانوے ہزار نو سو کے قریب.ہماری آمد دس مہینے کی ہے ایک لاکھ سینتیس ہزار.اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم ساٹھ ہزار کے قریب ان دو مہینوں میں آمد ہونی چاہئے اور بچوں کی طرف سے کم از کم بائیس ہزار آٹھ سو روپیہ آمد ہونی چاہئے.یہ بائیس ہزار اس ساٹھ ہزار میں شامل ہیں.لیکن اس سے بھی وقف جدید کی ضرورت پوری نہیں ہوتی کیونکہ مشاورت کے موقع پر دوستوں نے اس چیز کو محسوس کیا کہ ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ مربی ہونے چاہئیں اور جو دوست وقف عارضی کے سلسلہ میں باہر جماعتوں میں جاتے ہیں ان میں سے بیسیوں نے مجھے خطوط لکھے کہ اس جماعت کو ضرورت ہے آپ کسی معلم کو یہاں بھجوائیں اور ہر خط کے اوپر میں فکرمند ہو جاتا ہوں کہ ضرورت ہے مگر معلم نہیں میں آدمی کہاں سے لاؤں؟ اور میں نے پہلے بھی متعدد بار تحریک کی ہے اور اب بھی تحریک کرتا ہوں کہ وقف جدید کو معلم بھی دیں ایسے معلم جو واقع میں اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کرنا چاہیں ایسے معلم نہیں جو یہ سمجھیں کہ دنیا میں کسی اور جگہ ان کا ٹھکانہ نہیں ، چلو وقف جدید میں جا کے معلم بن جائیں.سمجھدار، دعا کرنے والے، خدا اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تفسیر قرآن بیان کی ہے اس سے دلی لگاؤ رکھنے والے، اسے پڑھنے والے، یا درکھنے والے اور خدمت کا بے انتہا جذ بہ رکھنے والے.جس کے دل میں خدمت خلق کا جذبہ نہیں وہ معلم نہیں بن سکتا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ دنیوی لحاظ سے یا دینی لحاظ سے ہم اپنے بھائی کو جو کچھ بھی دیتے ہیں وہ خدمت کے جذبہ کے نتیجہ میں دیتے ہیں اس کے بغیر ہم دے ہی نہیں سکتے.اپنا وقت اس کو دیں، اپنا مال اس کو دیں، اپنی زندگی اس کو دیں دنیا کی کسی بہبود کے لئے یا آخرت کی کسی بہبود کے لئے.جب ہم قرآن کریم اس کو سکھا رہے ہوتے ہیں ، جب ہم نبی کریم علی کے ارشاداس کے سامنے رکھ رہے ہوتے ہیں یا ہم اس کی خاطر اس کا کوئی دنیوی کام کرانے کے لئے اس کے ساتھ باہر نکلتے ہیں ہر دو صورتیں جو ہیں وہ اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ ہمارے دل میں خدمت خلق کا جذبہ ہے.اگر خدمت خلق کا جذبہ نہ ہو نہ دینی لحاظ سے نہ دنیوی لحاظ سے تو ہم اس کی خدمت کے لئے باہر نہیں نکل سکتے.پس ہمیں ایسے بے نفس خدمت گذار معلم چاہئیں.صلى الله

Page 165

158 حضرت خلیفة المسح الثالث منصوبہ یہ ہے کہ آئندہ جنوری میں پہلے سال کی نسبت زیادہ تعداد میں آدمی لئے جائیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سالوں کی نسبت ان پر زیادہ خرچ کیا جائے اور جو منصوبہ تھا اس کے مطابق ان کو دو لاکھ سترہ ہزار روپیہ چاہیے.وعدے اس سے تقریبآبائیس ہزار کے کم آئے ہیں.پس میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور اپنے وعدوں کی حدود کو پھلانگتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائیں جو جماعت کی ضرورت کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه 10 نومبر 1967 ص 2 تا 4 ) *****

Page 166

159 حضرت خلیفہ المسح الثالث اقتباس از خطاب جلسه سالانه فرموده 27 / دسمبر 1968 وقف جدید کا سال نو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اور اس سال نو کے افتتاح کی ایک رسم بنی ہوئی ہے بہر حال میں اس کا اعلان کرتا ہوں.یکم جنوری سے جو سال نو شروع ہوگا اس کیلئے احباب نئی ہمت اور نئے ولولہ کے ساتھ اپنی قربانیاں پیش کریں.پہلے بھی میں کئی بار کہہ چکا ہوں اور میں اس چیز کو دُہراتے ہوئے تھکوں گا نہیں کہ ہمارے اطفال اور ناصرات اور بچے ( یعنی وہ بچے جو ابھی اس عمر کے نہیں جو اطفال اور ناصرات کی تنظیم میں شامل ہوتے ہیں ) اس بوجھ کو اٹھائیں اور دوسری بات یہ کہ بچے اطفال اور ناصرات ایسی عمر کے بھی ہیں جو خود اتنی سمجھ نہیں رکھتے.آپ جو ان کے ماں باپ یا مربی ہیں ان کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا ئیں.میں سمجھتا ہوں کہ آج جماعت احمدیہ کی حالت مالی لحاظ سے اتنی مضبوط یقینا ہے کہ اگر ہم اس طرف پوری توجہ دیں تو ہمارے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں جن فضلوں کے وارث اس حصہ جماعت میں ہیں جو وقف جدید کے میدان میں قربانیاں پیش کرتے ہیں.آپ وقف جدید سے تعلق رکھنے والے سارے فضل اپنے بچوں کیلئے روحانی زینت کا ہار بنا کر ان کے سروں پر ڈال دیں اور پھر اپنے رب کے حضور واپس آئیں اور کہیں کہ ایک نعمت جو تو نے ہمیں دی تھی وہ ہم نے تیرے بچوں ( یہ بچے جو ہمارے کہلاتے ہیں یہ ہمارے کہاں ہیں یہ سب اللہ کے بچے ہیں) کے سپر د کر دی ہے اب تو ہمارے لئے اور فضلوں اور رحمتوں کے دروازے کھول تا جتنا ہم نے تیرے فضل سے ان بچوں کو دیا ہے اور خود اس میں حصہ دار نہیں بنے اس میں سے بھی ہمیں حصہ دے( کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے ) اور دوسری قربانیوں کے رستے بھی ہمارے لئے کھول تاہم تیرے فضلوں کے پہلے سے زیادہ وارث بنیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال کی نسبت مالی میدان میں زیادہ رقم جمع ہوئی ہے اور یہ ایک بالکل ذیلی چیز ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال کی نسبت وقف جدید کا ہر جہت سے زیادہ کام ہوا ہے (اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا) اور جو واقفین وقف جدید ہیں ان کی تعداد بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے.

Page 167

160 حضرت خلیفتہ امسح الثالث لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ابھی اتنی تعداد نہیں ہوئی جتنی کی ہمیں ضرورت ہے یا جتنی تعداد کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خواہش کی تھی یعنی یہ کہ ہر گاؤں میں ایک واقف وقف جدید بٹھا دیا جائے.جو عام تربیت کرے.گو علمی لحاظ سے ان کا معیار بلند نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایک حد تک وہ روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں یعنی ان کی روحانی دوکان سے نمک تیل اور آٹامل جاتا ہے پلاؤ اور زردہ پکانا ہو تو اور جگہ سے سودا لے لو.دوسرے مربی بھی تو ہیں.بہر حال واقفین وقف جدید روحانی لحاظ سے جماعت کی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کر دیتے ہیں اور وہ ہر جگہ ہونے چاہئیں ورنہ جہاں وہ نہیں وہاں روز مرہ کی ضرورتیں پوری نہیں ہور ہیں الا ماشاء اللہ.بعض جگہ گاؤں کے رہنے والوں میں سے ایک سے زائد واقف وقف جدید سے بھی زیادہ علم اور تجربہ رکھنے والے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لیکن بہت سے ایسے دیہات ہیں جہاں اس وقت اس قسم کے احمدی موجود نہیں اور نہ ہمارا واقف وقف جدید موجود ہے اور اس وجہ سے جماعت ان فضلوں سے محروم رہ رہی ہے جو فضل ان کے بھائیوں پر دوسرے مقامات میں نازل ہورہے ہیں.00000 (غیر مطبوعہ )

Page 168

161 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبه جمعه فرموده 2 راگست 1969 ء بیت المبارک ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَ هُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيُهِنَّ بَلْ آتَيْنَهُمُ بِذِكْرِ هِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ.(المومنون : 72) اس کے بعد فرمایا: اس وقت میں دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے اس وقت تک پچھلے سال سے بھی کم وصول ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء کی ایک آیت میں فرمایا ہے کہ جو لوگ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اعمالِ صالحہ بجالائیں گے یعنی ایک تو جن کے اعمال میں کوئی فساد نہیں ہوگا دوسرے حالات کے تقاضوں کو وہ پورا کرنے والے ہونگے.اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش کو رد نہیں کرے گا فلا كُفْرَانَ لِسَعیه (الانبیاء: 95) اس میں ہمیں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ بجالانے سے اللہ تعالیٰ کے پچھلے انعامات کا بھی پوری طرح شکر ادا نہیں ہو سکتا.اس پر اجر کاحق نہیں بنتا دوسرے فَلا كُفْرَانَ لسعيه (الانبیاء: 195 ہمیں بتاتا ہے کہ گوحق تو انسان کا نہیں بنتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور فساد سے بچو گے اور ہر جہت سے تمہارے اعمال اعمالِ صالحہ ہونگے تو پھر تمہاری یہ کوشش اور تمہاری یہ جد و جہد رد نہیں کی جائے گی بلکہ اس پر تمہیں مزید انعامات ملیں گے.مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ہر قدم پہلے سے آگے پڑتا ہے وہ ترقی کی راہ اور رفعتوں کے حصول میں ہر دم آگے سے آگے اور بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قربانیاں ہر آن پہلی قربانیوں سے آگے بڑھ رہی ہوتی ہیں.اس کی فدائیت اور اس کا ایثار اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جستجو میں اس کی کوشش اور مجاہدہ پہلے سے بڑا ہوتا ہے.مومن ایک جگہ ٹکتا نہیں اس سے اس کے دل، اس کے دماغ ، اس کے سینہ اور اس کی روح کو تسلی نہیں ہوتی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ یہ جماعت مخلصین کی جماعت ہے ( الا ماشاء اللہ ہر الہی جماعت میں منافق بھی ہوتے

Page 169

162 حضرت خلیفة المسیح الثالث ہیں ) اور ایک ایسی فدائی اور ایثار پیشہ جماعت ہے کہ جس کا قدم ہر وقت ترقی کی طرف ہی ہے.پھر یہ غفلت کیوں؟ اس ستی کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جماعت نے رضا کارانہ طور پر ایک مزید بوجھ قربانی کا اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا اور وہ بوجود فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندوں کا تھا اور پچھلے چند مہینے ان وعدوں کو پورا کرنے کی طرف جماعت کے بہت سے احباب کی توجہ تھی اس لئے شاید کچھ کی واقع ہو گئی ہو.اب اس کا زمانہ تو گذرگیا، استثنائی طور پر بعض احباب کو اجازت دی جارہی ہے.اس لئے جماعت کو چاہیئے کہ عارضی طور پر جو داغ ان کے کردار پر لگ گیا ہے یعنی وہ پچھلے سال سے بھی ان چندوں کی ادائیگی میں کچھ پیچھے رہ گئے ہیں اس کو جلد سے جلد دھو ڈالیں اور دو مہینوں کے اندر اندر ان کی قربانیاں پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ نظر آنی شروع ہو جائیں.امید ہے (اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ) کہ جماعت اس بات کی توفیق پائے گی.دوسری بات میں اختصار کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون کی اس آیت میں جو ابھی میں نے پڑھی ہے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے اور حسنات کے حصول کے سامان پیدا کرنے کے لئے ”حق“ کو اتارا ہے یعنی ایک قائم رہنے والی اور دائی شریعت اور صداقت اور حق اور حکمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اسی نزول حق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حدود مقرر کر دیئے ہیں.ہر انسان ایک انفرادیت اپنے اندر رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے اسی کے مد نظر اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک ڈھیل بھی دی ہے.اسی لئے فرمایا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہونگے سات دروازے ایثار اور قربانی کی مختلف راہوں کو اختیار کرنے والوں کے لئے کھلیں گے.کوئی ایک طرف سے خدا کی رضا کی جنت میں آرہا ہے اور کوئی دوسری طرف سے لیکن کچھ وہ بھی ہونگے جن پر اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور فضل کا خاص دروازہ ان کے لئے کھولا جائے گا.خواہش تو ہر ایک کی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ خاص دروازہ جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھولا جائے گا وہی اس کے لئے کھلے کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص اپنی عاجزی کی انتہاء کو پہنچ گیا اور اس نے اپنا کچھ نہ سمجھا اور ہر چیز کواللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر رکھا.دیکھو نبی اکرم ﷺ کی افضل اور بلند تر ہستی ہے کہ جس نے خدا کی راہ میں وہ قربانیاں دیں کہ کسی ماں جائے کو یہ توفیق نہ ملی اور نہ ملے گی کہ اس قسم کی قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کرے لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنا یہی مقام سمجھا اور آپ اسی مقام پر قائم رہے کہ میں کچھ نہیں.ہر چیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو لتی ہے، میرا اللہ کے اس ارفع قرب کو پالینا بھی محض اسی کے فضل کا نتیجہ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق نازل ہوا ہے اب حق تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کرے گا.اس حق نے کچھ حدود مقرر کی ہیں اور تمہاری خواہشات اور ہوائے نفس ان حدود سے باہر نکلنا چاہتے ہیں.اس

Page 170

163 حضرت خلیفہ المسح الثالث کی تمہیں اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو لَفَسَدَتِ السَّمواتُ وَالْأَرْضُ وَ مَنْ فِيُهِنَّط زمین و آسمان کو جس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور انسان کو جس مقصد کے لئے اس زمین میں بسایا گیا ہے، وہ مقصد حاصل نہ ہوتا اور اس طرح صالح معاشرہ کی بجائے فاسد معاشرہ کی بنارکھی جاتی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے اسی غرض کے لئے اس نے حق کو اتارا ہے.اس لئے ہر وہ چیز جو اس غرض کے منافی ہے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی اس لئے حق تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کرے گا.یہ بڑا گہرا اور اہم مضمون ہے میں نے سوچا ہے کہ تمام بدعات کا سرچشمہ ہوائے نفس اور یہ اعلان ہے کہ آزادی ضمیر ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غلط قسم کی آزادی ضمیر سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آزادی ضمیر تمہیں نہیں مل سکتی اور یہ فاسد آزادی ضمیر وہ ہے جب آزادی ضمیر کا نعرہ لگا کر انسان خدا کی مقرر کردہ حدود کو پھلانگتا اور ان سے باہر چلا جاتا ہے ہاں ان حدود کے اندر آزادی ضمیر ہے.کسی کی طبیعت کسی نیکی کی طرف زیادہ مائل ہے.ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق خدا کی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگا رہتا ہے اور اسی کے فضل سے وہ اس کی رضا کو حاصل بھی کر لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو حدود ہم نے قائم کی ہیں انہی میں تمہاری بزرگی اور عزت ہے.تم آزادی کا ، اظہار رائے کی آزادی کا ، اور آزادی ضمیر کا نعرہ لگا کر اگر ہماری قائم کردہ حدود کو پھلانگ کر پرے چلے جاؤ گے تو اس کے نتیجہ میں تمہاری سر بلندی کے سامان پیدا نہیں ہونگے تمہیں عزت نہیں ملے گی تمہارا رتبہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اور بندوں کی نگاہ میں بھی بڑھے گا نہیں بلکہ گھٹ جائے گا کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی انگلی کو چھوڑ کر اپنے نفس پر بھروسہ رکھا فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ مگر انسان جب بہکتا ہے تو اسکی عجیب حالت ہو جاتی ہے.خدا اپنا ہاتھ آگے کرتا ہے اور کہتا ہے اس ہاتھ کو پکڑ اور میری گود میں آبیٹھ اور وہ کہتا ہے نہیں میں تو اپنی مرضی چلاؤں گا اگر میری مرضی ہو گی تو تیری حدود کو توڑوں گا اور اس طرح وہ اس مقامِ عزت اور اس مقام احترام سے گر جاتا ہے جو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہے.اس آیت میں ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ ہم حدود کی نگرانی کے لئے محافظ کھڑے کریں تا کہ خدا کی مخلوق کو خدا کی ناراضگی اور خدا کے قہر کے جہنم سے بچانے کی کوشش کر سکیں.اللہ تعالی کی حدود پر کھڑے ہونے والے مجاہدوں میں وقف عارضی کے مجاہدین بھی ہیں.سال رواں میں اس وقت تک ( تین مہینوں میں ) ایک ہزار سے زائد وفود باہر جاچکے ہیں گو بعض وفود اپنی جائز مجبوریوں کی وجہ سے اپنی مقررہ جگہوں پر پہنچتے نہیں لیکن بہر حال اتنے وفود یہاں سے منظم کئے گئے اور ان کو باہر بھجوایا گیا ہے.حسابی لحاظ سے میرا سات ہزار کا مطالبہ پورا ہو جاتا ہے بشرطیکہ ہر سہ ماہی میں اتنے ہی وفود منظم کئے جائیں لیکن سہ ماہی سہ ماہی میں بڑا فرق

Page 171

164 حضرت خلیفة المسیح الثالث ہے مثلاً ایک فرق تو یہی ہے کہ بعض سہ ماہیوں میں کالج اور سکول کے طلبا وقف عارضی میں باہر جاسکتے ہیں کیونکہ انھیں چھٹیاں ہوتی ہیں لیکن بعض سہ ماہیاں ایسی آتی ہیں جن میں کالج اور سکول کے طلباء باہر نہیں جا سکتے.پھر بعض سہ ماہیوں میں زمیندار لوگ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کی حفاظت کے لئے باہر نکل سکتے ہیں اور بعض ایسے زمانے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دنیوی کاموں میں لگے رہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی دنیاوی کام بھی خدا تعالیٰ ہی کے لئے کرتا ہے وہ دنیوی کاموں میں خدا کی راہ میں چندہ دینے کی نیت سے یا اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے خیال سے محنت کر رہے ہوتے ہیں وہ انھیں چھوڑ نہیں سکتے.یہ طبقہ اس زمانہ میں وقف عارضی کے لئے نہیں آسکتا.یہ سہ ماہی جو گزر چکی ہے ایسی تھی جس میں طالب علم وقف عارضی کے غرض سے باہر جاسکتے تھے اور میرے خیال میں بہت سے طالب علم گئے ہونگے.آئندہ سہ ماہیوں میں ایسے نوجوان جو کالج و سکول میں پڑھنے والے ہیں کم ملیں گے لیکن کم از کم اس تعداد کو جو گزشتہ سہ ماہی میں وقف عارضی میں جا چکی ہے پورا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے گو یہ تعداد بھی ہماری ضرورت کے لحاظ سے کم ہے لیکن ابھی ابتدا ہے اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے گا اور وہ اور ترقی کرے گی انشاء اللہ.غرض جماعت کے عام عہدہ دار اور مربی صاحبان وقف عارضی کی طرف زیادہ توجہ دیں.میں جب مربیوں کی رپورٹیں دیکھتا ہوں ان کے کام کا جائزہ لیتا ہوں ، وہ مجھے ملتے ہیں یا ان کے حق میں بعض تعریفی کلمات آتے ہیں یا ان کے خلاف شکایات مجھے پہنچتی ہیں تو میرے ذہن میں ایک مجموعی تاثر قائم ہوتا ہے اور بہت سے مربیوں کے متعلق میرے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان خوش بختوں نے اپنے مقام کو پہچانا نہیں اور جو خوش بختی ان کے مقدر میں لکھی جاسکتی تھی اس پر وہ اپنے ہاتھ سے چرخیاں ڈال رہے ہیں.مربی کو ایک نمونہ بن کر دنیا کے سامنے آنا چاہئے اور وہ نمونہ آنحضرت ﷺ کا نمونہ ہے مگر وہ اسکی طرف توجہ نہیں کرتے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ حقیقتا جتنے مربی ہمارے پاس ہیں وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں لیکن ان کی تعداد کے لحاظ سے بھی ایک چوتھائی کام ہورہا ہے اور تین چوتھائی کام ان کی غفلتوں کے نتیجہ میں نہیں ہوتا وہ گھر بیٹھے رہتے ہیں اور اپنے کام کی طرف توجہ نہیں کرتے ان کے اندر قربانی کی روح جوش اور جنوں کی کیفیت نہیں.مجھے یہ دیکھ کر بڑا رنج ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنی رحمتوں کے اس قدر وسیع دروازے کھولے تھے مگر وہ ان کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو گئے ہیں اور اس طرف قدم بڑھانے کا نام نہیں لیتے ان کو دعا کرنی چاہئے اور میں تو دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے اور ان کی بصیرت اور بصارت کو تیز کرے اور انکے دل میں اس محبت کے شعلہ میں اور بھی شدت پیدا کرے جو ایک مربی کے دل میں اپنے رب کریم و رحیم کے لئے ہونی چاہئے.پس مربیوں کو بھی چاہئے اور عام عہد یداروں کو بھی الله

Page 172

165 حضرت خلیفة المسح الثالث چاہئے بلکہ ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو بھی اور اپنے بھائی کو بھی یہ تلقین کرے کہ وہ وقف عارضی میں شامل ہو.اس میں شک نہیں کہ یہ ایک قربانی کی راہ ہے اور یہ راہ تنگ ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ قربانی کی راہوں پر چلے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو نبھانے کی توفیق عطا کرے.آمین الفضل 27 اگست 1969 صفحه 3 تا 5) 00000

Page 173

166 حضرت خلیفہ المسح الثالث اقتباس از خطاب جلسه سالانه فرموده 27 / دسمبر 1969...اس کے بعد میں وقف جدید کو لیتا ہوں صدر انجمن احمدیہ کو آخر میں بیان کروں گا.وقف جدید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اصلاح وارشاد کا بڑا ہی اچھا کام ہورہا ہے.تربیت بھی ہے، پیغام کا صحیح طور پر پہنچانا بھی ہے.پس یہ تو ہے کہ کام ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ برکت دیتا ہے.لیکن میرے لئے اور آپ کیلئے بہت ہی خوشی کا باعث یہ ہے کہ سال رواں میں نگر پار کر کے علاقہ میں 236 ہندو اسلام قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.الحمد للہ.یہ گزشتہ سال کی نسبت تعداد کے لحاظ سے 35 فیصد اضافہ ہے یعنی اس کے پہلے سال میں جو ہند و احمدی ہوئے تھے وہاں اس سال 35 فیصد زائد احمدی ہوئے ہیں.اور اس علاقہ میں کل 570 ہندو مسلمان ہو چکے ہیں وہاں مختلف نوعیت کے کام ہیں ، وہ ہور ہے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے ہم ان کو سنبھال سکیں اور ان کی تربیت کر سکیں اور یہ جو میں نے تعداد بتائی ہے یہ بالغوں کی ہے بچے جو ساتھ ہی مسلمان ہوئے ہیں وہ اس میں شامل نہیں کیونکہ اس علاقے میں 9 معلم وقف جدید ایک ہزار کو قرآن کریم اور اسلامی تعلیم سکھا رہے ہیں.وقف جدید کے چندے کی وصولی سال رواں میں پہلے سال کی نسبت تو زیادہ ہے.لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ اس پر ہم خوش ہوں.دوسرے یہ کہ چندہ بالغاں میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہے.اگر آپ کے بچے آپ کی عزت کی حفاظت کے لئے آگے نہ بڑھتے تو جو 67 روپے کی کمی آپ بالغوں کے چندے میں رہ گئی تھی وہ آپ کی زائد قربانی (پچھلے سال کے مقابلہ میں زائد قربانی ) جو 4577 روپے ہے اس قربانی کے پردہ میں یہ 67 روپے کی غفلت چھپ نہ سکتی لیکن آپ کے بچوں نے آپ کی عزت رکھ لی.آپ اپنے بچوں کی غیرت کے جو تقاضے ہیں ان کو ایسا پورا کریں.(غیر مطبوعہ )

Page 174

167 حضرت خلیفہ امسح الثالث راقتباس از اختتامی خطاب جلسه سالانه فرموده 28 / دسمبر 1969 سید نا حضرت خلیفہ لمح الثالث نے اختتامی خطاب سے قبل وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: اصل مضمون شروع کرنے سے قبل میں دو باتیں دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں ایک تو یہ کہ اگلے ماہ کی یکم تاریخ سے وقف جدید کا سال نو شروع ہو رہا ہے.دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس نئے سال میں آپ کو اور ہمیں پہلے سب سالوں کی نسبت قربانیوں اور ایثار کی زیادہ تو فیق عطا کرے اور انہیں قبول کرتے ہوئے ہمیں بہتر اور احسن ثمرات عطا کرے اور وہ ہمارے نصیب میں کرے.دوسرے یہ کہ وقف جدید کے لئے بہت سے نئے معلمین کی ضرورت ہے جو کلاس اگلے ماہ شروع ہو رہی ہے ابھی تک اس کے لئے بہت کم نام دفتر میں پہنچے ہیں دوست اس طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کلاس میں پچاس اور سو کے درمیان واقفین ہونے چاہئیں ورنہ ہم اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکیں گے.ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکیں گے.دوست اس طرف متوجہ ہوں اور اہل اور قابل معلم وقف جدید کے نظام کے لئے جلد سے جلد مہیا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو جزا دے.(غیر مطبوعہ )

Page 175

168 حضرت خلیفہ المسح الثالث خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1971 ء بیت المبارک ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج سال کا پہلا دن ہے.نیا سال آپ سب کو مبارک ہو.نیا سال محمد رسول اللہ ﷺ کے سارے غلاموں کومبارک ہو.نیا سال انسانیت کو مبارک ہو.جو سال گذر چکا ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے اندرون پاکستان بھی اور بیرون پاکستان بھی بڑی ہی برکتوں کا موجب تھا.اللہ تعالیٰ کی رحمت اور پیار کے بڑے حسین نظارے ہم نے گذشتہ سال دیکھے ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں.سالِ نو ایک عید سے شروع ہورہا ہے.نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ بھی تمہارے لئے ایک عید ہے.جمعہ کا ایک پہلو اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اجتماعی برکات اور رحمتوں کا موجب بن جاتا ہے.حسن و احسان کے جو جلوے ہم اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے دیکھتے ہیں اس کے نتیجہ میں حسد و عناد کا پیدا ہونا ضروری ہے اور حسد و عناد کا بڑا ہتھیار دروغ گوئی اور کذب بیانی ہے.اس کا دفاع جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے وہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا اور ماسوا اللہ کی چیز پر بھروسہ نہ رکھنا اور سب کچھ اور سب خیر و برکت اپنے رب کریم سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے.اسلام کے عظیم دور کے ساتھ ہی حسد کا دور ، عناد کا دور مخالفت کا دور اور ظلم کا دور شروع ہوا تھا.قرآن کریم نے ابتدا ہی سے ہمیں تعلیم دی تھی کہ حاسد کے حسد کے شر سے بچنے کیلئے تم اپنے رب کی طرف رجوع کرنا اور اپنی حفاظت اسی سے چاہنا.انعام جب بے شمار ہوں ، انعام جب معمول سے زیادہ ہوں، پیار جب ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جائے تو حسد اور مخالفت اور عناد میں بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے.لیکن مظلوم ہونے کے باوجود اور حسد کا نشانہ بنے اور ظلم کا ہدف ہونے کے باوجود ہم پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کو دُکھ نہیں پہنچانا، کسی کی جان پر حملہ نہیں کرنا کسی کا مال غصب نہیں کرنا کسی کو بے عزت نہیں کرنا اور کسی پر حقارت کی نگاہ نہیں ڈالنا بلکہ جب انسان اللہ کی گود میں اس کے فضل سے آئے تو اس کے دستِ قدرت نے جو پیدا

Page 176

169 حضرت خلیق لمسیح الثالث کیا ، اس سے وہ محبت کرتا ہے ، اس سے پیار کرنے لگتا ہے ، اس کا بہی خواہ بن جاتا ہے اس سے ہمدردی و غمخواری کرتا ہے.دنیا اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ہمارے ساتھ جو بھی سلوک کرے ، ہمیں غصہ نہیں آنا چاہیے.ہمیں بدلہ لینے کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے اور ایسوں کیلئے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ہر اس شخص کیلئے دعائیں کرتا ر ہے جو اس احمدی کیلئے دشمنی کے جذبات رکھتا ہے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو حقیقی مسلمان کی ایک صفت سے محروم ہو جاتا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ایک دروازہ اپنے پر کھول لیتا ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور محبت و اخوت اور ہمدردی و غمخواری کے جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بٹھایا ہے ،اس مقام پر ہی وہ ہمیں قائم رکھے اور اسی پر استقامت بخشے تا کہ اس کے فضلوں کے ہم زیادہ سے زیادہ وارث بنتے چلے جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.“ (روز نامه الفضل ربوہ 6 جنوری1971ء) *****

Page 177

170 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 1972 ء بیت المبارک ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت کریمہ بھی تلاوت فرمائی: ط وَمَالَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَ قَدْ هَدَنَا سُبُلَنَا ، وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا اذَيْتُمُوْنَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ.(ابراہیم : 13) اور پھر فرمایا: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین اصولی باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ عقلاً صرف ایسی ہستی پر تو کل کیا جا سکتا ہے جس کے بغیر کوئی سہارا نہیں اور اس کی مدد سے کامیابی اور فلاح حاصل ہو گی.اور عمل کے نتائج اچھے نکلیں گے جو ہمیں عمل کی راہیں بھی بتائے یعنی وہ شروع سے ہماری انگلی پکڑے فرمایا وَ مَالَنَا إِلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَ قَدْ هَدَنَا سُبُلَنَا اللہ تعالیٰ جس نے ہماری انگلی پکڑی اور ہمیں ہدایت کی راہ یعنی صراط مستقیم پر چلایا اس پر ہم کیسے تو کل نہ کریں.دوسری بات اس آیت میں یہ بتائی کہ مخالف اور دشمن کی ایذارسانی پر صبر اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان نے کسی قادر ہستی کی انگلی پکڑی ہوئی ہوا گر کوئی ایسا قابل اعتماد بھروسہ ہی نہ ہوتو انسان بے صبرا ہو جائے گا کیونکہ انتہائی دکھوں میں ڈالے جانے کے بعد انتہائی تو کل وہی انسان کرسکتا ہے اور پھر تو کل ہی کے نتیجہ میں صبر پیدا ہوتا ہے جسے یہ معلوم ہو اور جس کا یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ہستی ہے جس نے شروع ہی سے ہماری رہنمائی اور کامیابی کے سامان پیدا کر رکھے ہیں ہماری استطاعت کے مطابق اور ہمارے ماحول کے لحاظ سے اور جو وقت کا تقاضا تھا اسے سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اگر ہم اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں گے،اس کی ہدایتوں پر عمل کریں گے، تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم ناکام ہوں.غرض جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنی کمزوری اور اپنے گناہ اور اپنی بے مائیگی کا احساس انتہا تک پہنچتے ہوئے بھی ایک انتہائی قادر مطلق خدا پر اس کا ایمان ہوتا ہے.اس کی صفات کی معرفت اسے حاصل ہوتی ہے.پھر جب وہ خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتا ہے تو غیر کی قائم کردہ روکیں اسے ڈراتی نہیں.وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا اذَيْتُمُونَاط میں مومنوں کی یہی صفات بتائی گئی ہیں.اس آیت میں تیسری بات وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ہے اس میں یہ بات بتائی گئی

Page 178

171 حضرت خلیفه لمسیح الثالث ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے نہ عقلاً ، نہ فطرتا، نہ شرعاً اور نہ مشاہدہ کے لحاظ سے کسی اور پر تو کل ہو سکتا ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ایک یہی صداقت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا.تو کل اسی پر کیا جاسکتا ہے.کیونکہ وہی حقیقی سہارا ہے.پس وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ کی رُو سے جس آدمی نے تو کل کرنا ہو خواہ وہ ایک فرد ہو یا قوم ، جس کو بھی یہ احساس ہو کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا.مجھے کسی سہارے کی ضرورت ہے تو اس کی عقل بھی اسے یہ مشورہ دے گی ، اس کی فطرت کا بھی یہی تقاضا ہوگا اور بنی نوع انسان کی تاریخ کا بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ ایک ہی ہستی ہے جس پر تو کل کیا جا سکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے.ہم زندہ خدا کی زندہ تجلیات کو دیکھنے والے اور اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ نے لیا ہے.جس طرح بحیثیت فرد اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی طرح بحیثیت جماعت اس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن اغراض کے لئے اس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن راہوں پر وہ ہمیں چلانا چاہتا تھا وہ قد هَدَنَا سُبُلَنَا کی رو سے واضح ہیں.اس نے ہمیں اپنے راستے دکھائے ہیں.انسانی فطرت کے نئے تقاضے ہوتے ہیں.البتہ فطرت کے نئے تقاضا کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسانی فطرت ہی بدل گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جو کچھ رکھا گیا تھا اس کا استعمال بدل گیا کیونکہ انسان کی فطرت میں تھا دوسرے آدمی سے ہمدردی کرنا اور اس کے دُکھوں کا مداوا کرنا.اگر دنیا کے دُکھ بدل جائیں تو گویا فطرت کے تقاضے نہیں بدل گئے.پھر ایک نئے طریقے پر نئے دُکھوں کا نیا علاج سوچنا پڑے گا.پھر وقت کا تقاضا ہے.بدلے ہوئے حالات میں ہماری قربانیاں اور ہمارے خدمت کے طریق بدل جاتے ہیں.تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اور اپنی محبوب جماعتوں کو نئی راہیں بتاتا ہے اور انہیں نئے طریقے سکھاتا ہے.نئے نئے طریقوں سے انہیں ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ایک طریقہ یا ایک سبیل یا ایک راہ یا ایک صراط مستقیم ” وقف جدید کی شکل میں ہمارے سامنے رکھی ہے اور وقف جدید کی روح یہ ہے کہ وقف کی روح کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت میں وسعت پیدا کی جائے.چنانچہ حضرت مصلح موعود کا دراصل یہی منشا تھا کیونکہ اس سے پہلے جماعتی نظام تو موجود تھا.تحریک جدید بھی قائم تھی اور وہ اپنے کاموں میں لگی ہوئی تھی جماعت کی ہر ایک تن کا اپنا انتظام تھا اور وہ اپنے کام میں لگی ہوئی تھی لیکن میں نے جہاں تک غور کیا اور میں سمجھتا ہوں یہ میرا اپنا تجزیہ اور استدلال ہے کہ حضرت مصلح موعود کے سامنے ایک طرف تو یہ بات تھی کہ تحریک جدید کا اپنا ایک

Page 179

172 حضرت خلیق لمسیح الثالث طریق متعین ہو گیا ہے اور تحریک جدید کے کام کا تقاضا یہ ہے کہ بہت بڑے عالم ہوں ( خدا کرے ہمیں ایسے عالم میں اور ہمیشہ ملتے رہیں) کیونکہ انہیں باہر بھی جانا پڑتا ہے جہاں انہیں بڑے بڑے پادریوں سے جو اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں.خواہ وہ معلم ہوں یا نہ ہوں.بہر حال وہ اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں ان کے ساتھ باتیں کرنی پڑتی ہیں.اس غرض کے لئے جامعہ احمدیہ قائم ہے.جامعہ احمدیہ کو بھی اپنی ترقی کیلئے سوچنا چاہیے اور بہتری کیلئے سامان کرنا چاہیے.جامعہ احمدیہ سے شاہد کرنے کے بعد پھر ہم ان کو ریفریشر کورسز کرواتے ہیں.پھر بعض کو زبا نہیں سکھاتے ہیں.اس کے اوپر بڑا خرچ آتا ہے.ہمیں اس وقت جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق ہمارے پاس وسائل نہیں.ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں حالانکہ کام بڑھ گیا ہے.مبلغین کے علاوہ ہمارے پاس پاکستان میں جو شاہد اور معلم ہیں جو پرانے اصلاح کرنے والے ہیں وہ بھی اسی طرح بڑے پایہ کے ہونے چاہیں.یہ سارے اس پایہ کے نہیں جس پایہ کے ان کو ہونا چاہیے.اس لئے انہیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اعلیٰ پایہ کے مربیان و معلمین بن جائیں اور وہ بن سکتے ہیں.اگر چہ جامعہ احمدیہ کی پڑھائی کے نتیجہ میں تو نہیں بنتے.لیکن وہ اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں پایہ کے مبلغ ضرور بن سکتے ہیں.کیونکہ دعاؤں کے نتیجہ میں اگر چیز حسب منشاء بن سکتی ہے تو اس لحاظ سے ہر شخص پایہ کا مبلغ بھی بن سکتا ہے.جو شخص خدا تعالیٰ سے پیار کا تعلق پیدا کرے گا اور دعائیں کرے گا تو خدا تعالیٰ خود اسے سکھائے گا اور اس کا معلم بنے گا.پس جہاں انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے وہاں ہر شاہد کو بھی اپنی ذات کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے.ورنہ اگر دوسرے عریبک ٹیچرز کی طرح زندگی گزارنی ہے (میں شاہدین سے کہہ رہا ہوں ) تو پھر آپ نے کیا زندگی گزاری.اگر آپ نے سکولوں کے عام عربی معلم اور مدرس کی طرح زندگی گذاری تو پھر آپ نے یہ تو بڑا ظلم کیا.اس معلم کوتو علم ہی نہیں کہ وہ خدا کو پیار کس طرح کر سکتا ہے اور کتنا حاصل کر سکتا ہے.پس شاہدین کو یہ علم ہوتے ہوئے اور دوسروں کو دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ہے اور یہ کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتے ہیں پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے پیار سے محروم رہیں تو میرے نزدیک اس سے زیادہ بد قسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی.بہر حال جامعہ احمدیہ پر بھی بڑے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں.میٹرک پاس طلبا لیتے ہیں اور پھر ان کو آگے پڑھاتے ہیں.پھر جس طرح ہر زندہ اور ہرے بھرے درخت کی ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں.اسی

Page 180

173 حضرت خلیفه لمسیح الثالث طرح شاہدین میں سے بھی کچھ کاٹنے پڑتے ہیں ہر سال کچھ چھانٹی کرنی پڑتی ہے.نتیجہ بہت تھوڑا نکلتا ہے خرچ بڑا ہوتا ہے.ہمارے وسائل محدود تھے اور جو مبلغین ہم تیار کر رہے تھے ان پر فی کس خرج بہت زیادہ تھا لیکن یہ کام اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑا اہم ہے اس لئے اسے جاری رکھنا ضروری تھا.پس ایک طرف یہ چیز تھی اور دوسری طرف وسعت پیدا کرنی تھی.اب میں سوچتا ہوں کہ جس طرح میرے دماغ میں آیا ہے حضرت مصلح موعودؓ کے دماغ میں بھی یہی بات آئی تھی کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کام میں وسعت پیدا کریں اور وسعت پیدا کریں ان لوگوں کے ذریعہ جو تھوڑا گزارہ لیں اور وقف کی روح کے ساتھ آئیں.چنانچہ آپ نے ایک خطبہ میں ہزاروں کی سکیم بنادی.آپ نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا اب وہ ہیں سال کے بعد پوری ہوتی ہے یا پچاس سال کے بعد پوری ہوتی ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے.لیکن آپ نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کر دیا 72 لاکھ روپے آمد ہوسکتی ہے اور اس کے مطابق ساٹھ روپے ماہوار پر کئی ہزار آدمی رکھے جا سکتے ہیں.ویسے اب تو حالات بدل گئے ہیں میرے خیال میں اب ساٹھ روپے کی بجائے نوے روپے دیئے جا رہے ہیں.بایں ہمہ آدمی کم آرہے ہیں.انسان سوچتا ہے، فکر و تدبر کرنے والا انسان بالعموم ایک منصوبہ بناتا ہے کہ اگر وہ اسطرح کام کرے تو اپنے وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے.مگر وقف جدید کے کام کے لحاظ سے جماعت کو اس طرف توجہ نہیں.کچھ تو توجہ ہے میں یہ نہیں کہتا کہ بالکل توجہ نہیں ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ جتنی اس حصے کی طرف توجہ کرنی چاہیے تھی اس کا دسواں حصہ توجہ ہے نوے فی صد توجہ نہیں ہے.معلمین اصلاح وارشاد جماعتی تنظیم کے ماتحت کام کر رہے ہیں.ان سے زیادہ پڑھے لکھے شاہدین بھی کام کر رہے ہیں.مگر پچاس ساٹھ شاہدین کے علاوہ صرف ساٹھ ستر نیم پڑھے معلمین وقف جدید ر کھنے سے کیا فائدہ ہے کیونکہ جو اصل غرض تھی وہ تو ان کے ذریعہ پوری نہیں ہوئی.اصل تخیل تو یہ تھا کہ کام میں یک دم وسعت پیدا کر و.اب جو معلم بنتے ہیں وہ آٹھویں جماعت تک پڑھے ہوتے ہیں.انہیں ایک سال کا یہاں کورس کراتے ہیں ان کی حالت تو نیکی سی شاخ کے مانند ہے جس طرح آم کی ٹہنی جب نکلتی ہے تو بڑی کمزور ہوتی ہے تاہم یہ بیج لگانا ہمارا مقصد ہے تنا تو بعد میں بنے گا پھل تو بعد میں آئیں گے لیکن آپ نے تو وہ بیچ بھی نہیں لگایا 70-80 کے اوپر آکر ٹھہر گئے.ستر اسی معلمین وقف جدید کی تعداد اس وسیع منصوبے کے لحاظ سے جو حضرت مصلح موعودؓ نے بتایا تھا ایک ضلع کیلئے بھی کافی نہیں ہے ایک تحصیل کیلئے شاید کافی ہو.وہ بھی شاید ہی ایسا ہو.تاہم سمجھتے ہیں کہ ایک تحصیل کیلئے کافی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ کوشش اور جدو جہد اور منصوبہ ہے اس میں اگر ہم مغربی پاکستان ہی کو لے لیں کیونکہ اس وقت مشرقی

Page 181

174 حضرت خلیل لمسیح الثالث پاکستان میں ہم نہیں جا سکتے.ہم نے مسلم بنگال کو نہ ذہنی لحاظ سے چھوڑا ہے اور نہ عملی لحاظ سے لیکن موجودہ حالات ایسے رونما ہوئے ہیں کہ ہم وہاں جا نہیں سکتے اس لئے اگر ہم وقتی طور پر مغربی پاکستان ہی کو لے لیں تب بھی اس سے 152 گنا زیادہ ہماری کوشش ہونی چاہیے تھی.کیونکہ پاکستان کے اس مغربی حصے کی کم و بیش 152 تحصیلیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے کام کا ایک فی صد بھی نہیں کیا.بلکہ ہم نے اپنا کام 6 فی صد کیا ہے یہ تو کوئی کام نہ ہوا.جماعت کو اس وقت میں دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اس اعلان کے بعد کہ یکم جنوری سے وقف جدید کا نیا سال شروع ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہمارے عمل میں برکت ڈالے.جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اس اعلان کے بعد میں جماعت کو دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ وقف جدید کیلئے جماعت زیادہ آدمی دے اور اسے جماعت محض وعظ تصور نہ کرے.بلکہ وہ ایک سکیم بنائے کہ ہر سال موجودہ معلمین کا دس یا میں فیصد دے گی.مثلاً اگر فرض کرو اس وقت اسی معلمین وقف جدید ہوں تو جماعت ہر سال آٹھ مزید دیگی.یہ میں نہیں کہہ رہا کہ جماعت دس فی صد دے.یہ تو جو منصوبہ بندی کمیٹی ہے وہ سوچے گی لیکن میں مثال دے رہا ہوں.شاید اس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے.چلیں ہیں فی صد کر دیتے ہیں.چنانچہ اس لحاظ سے موجودہ اسی معلمین کی تعداد پر بیس فیصد کے حساب سے سولہ مزید دینے پڑیں گے پھر اگلے سال 96 کا بیس فیصد ہوگا.اور پھر اس سے اگلے سال 110 کا ہیں فیصد ہوگا اور پھر اسی طرح تعداد بڑھتی چلی جائیگی.تب آپ کام کر سکتے ہیں.لیکن اگر آپ کھڑے رہیں تو پھر کام نہیں کر سکتے.اس نسبت سے آپ آگے بڑھیں تب بھی کم ہے لیکن اگر آپ ہیں کی بجائے تمیں یا چالیس فی صد کر دیں تو پھر ٹھیک ہے.اگر آپ دگنا کرتے جائیں تو پھر یہ تو بہت ہی اچھا ہے.اس طرح تو پھر ہم دس سال میں اپنا مقصد حاصل کر لیں گے یعنی 80 سے 160 اور اس سے اگلے سال 320 اور پھر اگلے سال 640 اور پھر اس سے اگلے سال 1280 علی ہذالقیاس اس طرح ہم بڑی جلدی آگے نکل جائیں گے.یہ تو ( یعنی وہ پہلی بات ) ہے جو میں جماعت سے کہنا چاہتا ہوں.(ب) یہ ہے کہ آپ جو آدمی دیں ان میں کچھ تو صلاحیت ہونی چاہیے.اس وقت معلمین کا ایک حصہ ایسا ہے، سب کے متعلق میں تو یہ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک حصہ ضرور ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہماری کہیں اور جگہ کھپت نہیں ہوسکتی اسلئے یہاں آ جاؤ.اگر اس طرح کے آدمی آجائیں تو ہمارا کام کیسے ہو گا ہم نے ان سے کام تو یہ لینا ہے کہ جب کسی کو

Page 182

175 حضرت خلیفة اصبح الثالث کہیں سے بھی کامیابی نصیب نہ ہو تو وہ ان سے حاصل کرے لیکن وہ آدمی جو اس ذہنیت سے آیا ہے اس کی کہیں کھپت نہیں ہوسکتی اسلئے وہ یہاں آ جائے اس نے کام کیا کرنا ہے.وہ آدمی جو ساری دنیا کی ناکامیاں دیکھ کر آتا ہے وہ دنیا کی ہدایت کا سامان کیسے پیدا کر سکتا ہے.یہ ایک سرے پر ہے اور جس کی اس نے ہدایت کرنی ہے وہ دوسرے سرے پر ہے یا مجھے یوں کہنا چاہیے یہ بائیں سرے پر ہے اور دوسرے آدمی کی ضرورت دائیں سرے پر ہے یعنی دو چیزوں میں جو زیادہ سے زیادہ بعد ہوسکتا ہے وہ ان میں پایا جاتا ہے.پس جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ جو آدمی وقف جدید کیلئے دیں وہ قابل اور اہل ہونا چاہیے اور پھر جب آدمی دیں تو ان کو خرچ بھی دیں جتنے زیادہ آدمی دیں گے ان پر اتنا زیادہ خرچ بھی آئے گا اس کے مطابق آپ کو چندہ دینا چاہیے.اب پچھلے سال وقف جدید کا دولاکھ چالیس ہزار روپے کا بجٹ تھا اور دسمبر کے آخر تک ایک لاکھ بہتر ہزار روپے آمد ہوئی ہے اور اب نیا سال شروع ہو گیا ہے گذشتہ جو کام آپ نے اپنے تجویز کئے تھے آپ ان کو پورا نہیں کر سکتے.وقف جدید کے متعلق منصو بہ بنانے والے دماغ میں جو کام تھا وہ تو یہ نہیں تھا وہ تو اس سے کہیں زیادہ کام تھا.پس وہ پیارا وجود جس کے ساتھ آپ کو پیار اور عشق کا دعویٰ ہے اس نے آپ کو جو کام دیا تھا اس سے کہیں تھوڑے کام کا آپ نے منصوبہ بنایا اور وہ بھی پورا نہیں کیا یہ تو بڑے شرم کی بات ہے اس لئے جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.دوسری طرف میں یہ بھی کہتا ہوں جو ہمارا وقف جدید کا دفتر ہے اس کو اپنا حساب درست رکھنا چاہیے.گذشتہ دو چار دن میں ہی میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ جور میں وصول ہو چکی ہیں ان کا بھی ٹھیک طرح سے حساب نہیں رکھا گیا ( پیسوں کا ضیاع تو نہیں ہوا) لیکن اگر ایک شخص تین مہینے کے بعد اپنا چندہ دے دیتا ہے اور اپنا وعدہ پورا کر دیتا ہے اور آپ چھ مہینے کے بعد اسے کہیں کہ تم نے کوئی چندہ نہیں دیا تو آپ نے اس کا وقت ضائع کیا.آپ کو یہ کس نے حق دیا ہے.پس میں دفتر سے کہتا ہوں کہ آپ مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والوں کا وقت ضائع نہ کریں.یہ سننے کے بعد اور اس بات کو تقریروں میں دہرانے کے بعد کہ آپ کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے.اَنْتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه ( تذكره ص 318) کہ تیرا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.آپ خود اس مسیح کیطرف منسوب ہونے والوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں اور ان کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں اس لئے اپنے گھر کو درست کریں اور اس کی صفائی

Page 183

176 حضرت خلیفة اصبح الثالث کریں اور اہلیت کو بڑھا ئیں.مرکزی دفتر کو کسی ایک آدمی کیلئے پریشانی کا موجب نہیں ہونا چاہیے.وقف جدید والوں نے رسالے اور کچھ کتب اور پمفلٹ وغیرہ شائع کروانے کی بھی ایک سکیم بنائی ہوئی ہے اور غالباً وہ اس سلسلہ میں کچھ کام بھی کرتے ہیں وہ تسلی بخش نہیں ہے.دراصل کسی کا کام بھی تسلی بخش نہیں ہے.اس وقت مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہم کتب وغیرہ شائع تو کر دیتے ہیں مگر اس کی تقسیم کا کوئی معقول اور مناسب اور حسب ضرورت انتظام نہیں ہے.تا ہم اس کام کیلئے تو میں شاید ایک کمیٹی بناؤں ہماری اس وقت جو مختلف انجمنیں ہیں وہ کمیٹی ان کے متعلق غور کرے گی لیکن اس کی طرف فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور فوری سے میری مراد یہ ہے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر ہماری آبادی کے ایک فیصد کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہو جائے گا.شاید آپ حیران ہوں کہ اتنی معمولی سی سکیم کیوں بنادی.دراصل میں یہ چاہتا ہوں کہ چھ لاکھ ایسے بھائیوں کے ساتھ ہمارا تعلق پیدا ہو جائے کہ جب اور جو چیز ہم ان تک پہنچانا چاہیں وہ ایک ہفتہ کے اندر اندر ان تک پہنچ جائے.آپ یہ سنکر حیران ہونگے کہ ہم اس وقت چھ لاکھ تو کجا چھ ہزار تک بھی اپنی بات ایک ہفتہ کے اندر اندر نہیں پہنچا سکتے اور یہ بڑی خامی ہے اس طرف پہلے کسی نے توجہ نہیں کی.ہمارے جو مبلغ ہیں ان کا یہ حال ہے کہ دیر کی بات ہے خلافت سے پہلے میں ایک دفعہ مری گیا.حضرت صاحب کے نام خیبر لاج الاٹ ہوئی ہوئی ہے اس کا جھگڑا چل رہا ہے ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا.جو فیصلہ ہوگا ٹھیک ہوگا.وہ ہمیں ملے یا نہ ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.بہر حال وہ اس وقت بھی ہمارے پاس تھی اور وہاں ہمارے مربی صاحب رہ رہے تھے کیونکہ وہ خالی پڑی ہوئی تھی.ہم یعنی حضرت صاحب کے بچوں میں سے بہت سارے وہاں جانا چاہتے تھے یا شاید حضرت صاحب خود تشریف لے جانے والے تھے یہ تفصیل مجھے یاد نہیں رہی.چنانچہ اس کو خالی کروانے کے لئے جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک کمرہ قریباً چھت تک بھرا ہوا تھا ان کتب اور رسائل سے جو پہلے چار پانچ سال سے اصلاح وارشاد والے اس مبلغ کو تقسیم کرنے کیلئے بھجواتے رہے تھے.یہ دیکھ کر میرے ہوش گم ہو گئے کہ اتنا ظلم ! ہماری ایک غریب جماعت ہے پھر اس پر ظلم یہ کہ ہم سے سستیاں، غفلتیں اور گناہ ہو جاتے ہیں.جتنا ہم شائع کرنا چاہتے تھے وہ بھی نہیں شائع ہوا اور جو شائع ہوا ہے اس کا یہ حشر کہ کئی سالوں کا اکٹھا کیا ہو لٹریچر جس کو اٹھانا مشکل ہو گیا.پس ہمیں اس طرف فوری توجہ کرنی چاہیے.اب مثلاً ہم ایک رسالہ شائع کرنا چاہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور عشق حضرت

Page 184

صلى الله 177 حضرت خلیفة المسیح الثالث محمد مصطفی کے ساتھ.چنانچہ قاضی محمد نذیر صاحب یا عبدالمالک خان صاحب میرے پاس بڑے فخر سے یہ رپورٹ کر دیں گے کہ انہوں نے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کر دیا ہے.اول تو یہ ہے کہ 12 کروڑ آبادی کے ملک میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کر دینا تو ویسے ہی بڑے شرم کی بات ہے اور دوم اس سے بھی بڑے شرم کی بات یہ ہے کہ پانچ ہزار جو شائع کیا اس میں سے پانچ صد تقسیم ہوا اور باقی چار ہزار پانچ صد اصلاح وارشاد کے گودام میں یا مبلغین کے چولہوں کے پاس پڑا ہوا ہے.ہمارا اس طرح تو کام نہیں چلے گا.یہ تو کوئی کام نہیں کہ 12 کروڑ کی آبادی کے ملک میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والی کتاب صرف پانچ صد کی تعداد میں تقسیم ہو.کیا ہم اپنی عزت کے لئے زندہ ہیں؟ کیا ہم اسلئے زندہ ہیں کہ ساری دنیا کی دولتیں ہمارے قدموں میں آکر جمع ہو جائیں.اگر یہ نہیں اور یقینا نہیں کیونکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پائی پائی دنیا کے قدموں میں جا کر پڑ جائے اور لوگوں کے فائدے کا موجب بنے تو پھر دنیا کی بھلائی کیلئے تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ تم کرو ورنہ تم اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤ گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (روزنامہ الفضل6 فروری 1972ء).....

Page 185

178 حضرت خلیفہ امسح الثالث خلاصہ خطبہ جمعہ فرموده 29 / دسمبر 1972 ء بیت اقصیٰ ربوہ) سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ فاتحہ کی حسب ذیل آیات دوبارہ پڑھیں :.الْحَمْدُ لِلَّهِ ، إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پھر فرمایا: اللہ تعالی ہی ہر قسم کی تعریف اور حمد کا مستحق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی اس جماعت کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اس کی خدمت میں سال کے دن رات گزار کے جلسہ سالانہ میں شمولیت بالواسطہ یا بلا واسطہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تفسیر میں یہ مضمون بیان کیا ہے اور بڑا حسین نکتہ نکالا ہے کہ خدا کے کسی بندے کو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کا حق تبھی حاصل ہوتا ہے جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہنے کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے معنی ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہمیں اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا اور تو نے ہمیں روحانی قوتیں عطا کرنے کے بعد ایسی تمام مادی اشیاء بھی عطا کیں جن کی ضرورت ان قوتوں کی نشو و نما کیلئے تھی اور ہم نے تیری توفیق سے تیری عطا کردہ قوتوں کو انتہائی طور پر استعمال کر کے تیرے حضور اپنی پیشکش کی.جب تک ان قوتوں سے انسان فائدہ نہ اٹھائے جواللہ تعالی نے عطا کی ہیں ، اس وقت تک وہ حقیقی معنی میں ایساک نَعْبُدُ نہیں کہہ سکتا.جب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب قوتوں سے انتہائی فائدہ حاصل کر لے تب وہ کہہ سکتا ہے کہ تو نے اپنا بندہ اور عبد بننے کیلئے جو طاقتیں ہمیں دی تھیں ہم نے ان کا صحیح اور انتہائی استعمال کر لیا اور چونکہ تو نے ہمارے اندر آ گے ہی آگے بڑھنے کا جذبہ اور جوش پیدا کیا ہے.اسلئے اس مقام پر ہمارے دل تسلی نہیں پکڑتے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہم یہیں کھڑے رہیں.اسلئے جو قوتیں تو نے ہمیں عطا کیں انکے مطابق ہم نے اپنی طرف سے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی ، اب آگے بڑھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہماری قوت میں اضافہ ہو ،اس واسطے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.ہم تیری مدد مانگتے ہیں تجھ سے استعانت چاہتے ہیں کہ تو ہمیں مزید طاقت دے تا کہ تیری راہ میں ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.کئی فقیر آپ کو نظر آئیں گے یا بعض ہنگامی حالات میں ان کی یہ حالت آپ کے سامنے آئیگی کہ

Page 186

179 حضرت خلیفة المسیح الثالث دس دس ہزار ہیں ہیں ہزار پچاس پچاس ہزار روپیہ ان کے پاس جمع بھی ہے اور گلیوں اور بازاروں میں اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے مانگنے والا ہاتھ انہوں نے آگے بھی کیا ہوا ہے.اس طرح کئی لوگ ایسے ہیں کہ جو انکے پاس ہے اسے خرچ نہیں کرتے اور خدا کو کہتے ہیں کہ اور دے.فقیر جس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اسے تو معلوم نہیں کہ اسکے گھر میں رات کی روٹی ہے یا نہیں.نہ اسے یہ علم ہے کہ اسی تجوری یا تھیلی میں پانچ دس میں پچاس لاکھ روپیہ ہے.جب نوٹ کینسل ہوئے اور کہا گیا کہ پرانے نوٹ لاؤ تو بعض ایسے فقیروں کا ذکر بھی اخباروں میں آیا) واللہ اعلم کہاں تک یہ درست ہے ) جن کے پاس لاکھوں روپیہ تھا اور پھر بھی وہ بھیک مانگ رہے تھے اور دینے والا انکو دے رہا تھا اور اسکے بھائی کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ بے چارا! اسکے پاس کھانے کو کچھ نہیں.پیسہ اس کے پاس نہیں کہیں رات کو بھوکا نہ سو جائے اس کو دے دو.لیکن جو ہاتھ خدا تعالیٰ کے سامنے پھیلایا جاتا ہے وہ ایک ایسی ہستی کے سامنے پھیلایا جاتا ہے جس سے کوئی چیز غائب نہیں.خدا تعالیٰ کہتا ہے میں نے تجھے دیا اور تو نے میری راہ میں خرچ نہیں کیا.اب میرے سامنے ہاتھ کیوں پھیلا رہا ہے.آگے ایاک نَعْبُدُ کا مقام جو آج کے دن کا مقام ہے اسے حاصل کر.جو کچھ میں نے تجھے دیا قوت اور طاقت اور استعداد کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا عقل اور فراست کے لحاظ سے ، جو کچھ میں نے تجھے دیا قرآن عظیم جیسی ہدایت اور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ کے لحاظ سے.یہ جو تجھے چیزیں ملیں پہلے ان سے انتہائی فائدہ اٹھا.پھر میرے پاس آ.میرے خزانے خالی نہیں ہیں لیکن تیری ساری قوتیں میری راہ میں خرچ ہونے کے بعد میرے سامنے تیرا دستِ سوال پھیلنا چاہیے.پھر انسان خرچ کرنے کے بعد یعنی ”جو کچھ ہے پورے کا پورا خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دینے کے بعد خدا سے کہتا ہے کہ جہاں تو نے مجھے اتنا کچھ دیا اور مجھے یہ توفیق بھی دی کہ میں تیری راہ میں سارا کچھ خرچ کر دوں وہاں تو نے مجھے یہ جذبہ اور جوش بھی دیا ہے کہ میں کسی مقام سے تسلی نہ پکڑوں کیونکہ تیرے قرب کے مقامات کی کوئی انتہا نہیں آگے بڑھنے کیلئے میرے رب مجھے اور دے.،، صلى الله پھر جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد مخلصانہ دعا اِيَّاكَ نَسْتَعِینُ کی ہوتی ہے تب خدا تعالیٰ اسے اور قوت دیتا ہے اور تب خدا تعالیٰ اسے جو قوت دیتا ہے اسے لیکر وہ اور آگے بڑھتا ہے پھر ایک اعلیٰ مقام پر کھڑا ہوتا ہے پھر کہتا ہے.اے خدا تو نے مجھے جو طاقتیں دیں وہ تیری راہ میں خرچ ہو گئیں اب مجھے اور دے کیونکہ جو طاقتیں ملیں ان کے خرچ کرنے پر تو ایک جیسا ثواب ملتا رہے گا.اگر مجھے مزید ثواب ملتا ہے اور ترقی کی مزید راہیں کھلتی ہیں تو ضروری ہے کہ تو مجھے اور طاقتیں دے پھر ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے کہ اے خدا میری مددکو آ.میں یہاں کھڑا ہو گیا ہوں جو کچھ تو نے دیا تھا وہ اب استعمال کر چکا.یہ سلسلہ چند گھنٹوں کا

Page 187

180 حضرت خلیفة المسیح الثالث بھی ہے چند گھنٹے انسان خدا کی راہ میں کام کرتا ہے.پھر ہر نماز میں کہتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِینُ یعنی جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے میں نے وہ تیری راہ میں خرچ کر دیا.کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس دو گھنٹے کے وقفہ میں مثلاً جو آج کل ظہر اور عصر کے درمیان ہوتا ہے اس میں خدا نے کچھ نہیں دیا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے بندے تو ہر وقت خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس سے مزید حاصل کر رہے ہوتے ہیں.عصر کے وقت حقیقتاً مبالغہ کے طور پر نہیں ) بندے کا ايَّاكَ نَعْبُدُ کا مقام ظہر کے مقابلہ میں آگے ہوتا ہے اور پھر کہتا ہے اے خدا مغرب کے وقت تک مجھے اور آگے لے جا.یہ حرکت روحانی جو لازمی قرار دی گئی ہے ( یعنی نمازوں کی ادائیگی حرکت روحانی ہے ) اس میں دو گھنٹے کا وقفہ ہے اور ہر نماز میں سورۃ فاتحہ کو پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز میں ہمیں کہا گیا ہے کہ خدا سے یہ دعا کرو کہ جو تو نے ہمیں اس عرصے میں بھی دیا اسے بھی ہم نے تیری راہ میں خرچ کر دیا تیرا ہی عطا کردہ ابدی ترقیات کا جو جذبہ ہے اس کی وجہ سے ہم ایک جگہ کھڑے نہیں رہ سکتے.پھر مغرب کی نماز میں پھر عشا کی نماز میں ( نوافل میں چھوڑ رہا ہوں ) پھر صبح کی نماز میں نوافل کی توفیق ملتی ہے.نوافل کی توفیق مغرب اور صبح کے درمیان اس لئے ملتی ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ عشا کے وقت کہنے کے بعد اس نے ایساک نَسْتَعِينُ کی بھی دعا کی تھی.تو یہ چھوٹے سے چھوٹا جو وقفہ ہمارے سامنے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے تسلسل کو قائم رکھنے اور جاری رکھنے کا آتا ہے.نمازوں کے درمیان ہے.جیسا کہ میں نے بتایا یہ چھوٹے سے چھوٹا وقفہ ہے پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ خدا نے تمہارے لیے عید بنا دیا ہے، ایک دوسری اکائی ہے یعنی جمعہ سے جمعہ تک ہر روز لازمی طور پر پانچ دفعہ توفیق دیتا ہے.اس کا مطلب ہے کہ ہر ہفتہ 35 دفعہ لازمی طور پر اس نے ایاک نَعْبُدُ بھی کہا اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بھی کہا.پھر جمعہ آتا ہے اور اس کی عبادت کرتے ہیں.پھر ایساک نَعْبُدُ کہتے ہیں اور خدا سے کہتے ہیں.اے خدا پچھلے جمعہ ہم نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ اور ہم نے کہا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ تُو نے ہماری دعا کو قبول فرمایا (جمعہ کی نماز ایسی ہے کہ جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہے) میں اس گھڑی کو لیتا ہوں.میں جماعت کی اجتماعی زندگی کے متعلق بات کر رہا ہوں.کوئی ہم میں سے کمزور ہے، کوئی بزرگ ہے اجتماعی زندگی کے لحاظ سے میں یہ لے رہا ہوں کہ جمعہ کو وہ دعا کی گھڑی آئی تو بعض احمد یوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ( جو نہیں اٹھا سکے انہیں اللہ تعالیٰ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے) اور اس گھڑی میں خدا تعالیٰ کے مومن بندے نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.یعنی جو قو تیں اور طاقتیں تو نے دیں ان کے مطابق میں نے تیری عبادت کی اور پرستش کی اور میں نے آگے بڑھنا ہے اس

Page 188

181 حضرت خلیفة المسیح الثالث واسطے مجھے اور قو تیں عطا کر میری قوتوں میں اور مضبوطی اور استحکام پیدا کر.اور خدا نے اس گھڑی میں وہ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا قبول کی اور اس کا ایک قدم اگلے جمعہ کو اور آگے بڑھ گیا.پھر اگلا جمعہ آیا پھر اگلا جمعہ، پھرا گلا جمعہ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کا انجام بخیر ہو جائے.یہ ایک دوسری اکائی ہے جمعہ سے جمعہ آٹھ دن اور معنی میں ثواب کی اکائی ہے.ہمارے لئے سارے معانی برکت کے معانی ہیں.پھر اس کے بعد سال آجاتا ہے کیونکہ جو اگلی عید ہے وہ ایک سال کے بعد آتی ہے بعض عبادتوں کے لحاظ سے ایک وقت میں عید آ جاتی ہے اور بعض دوسری عبادتوں کے لحاظ سے دوسرے وقت میں اور ہمارے لئے جلسہ سالانہ ہے.جو سال کے بعد آتا ہے آج کے جلسہ پر ہم نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ لیکن ساتھ ہی ہم نے کہا إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ آئنده جلسه پراے خدا ہم تیری رحمتوں کے زیادہ وارث بننے والے ہوں بوجہ اس دعا کے جو تو نے ہمیں سکھلائی اور جو تو نے ہمارے منہ سے بار بار کہلوائی.ہم تجھ سے زیادہ طاقتیں حاصل کرنے کے بعد تیرے حضور زیادہ حسین قربانیاں پیش کرنے والے ہوں.جلسہ آیا اور جیسا کہ آپ میں سے ہر ایک کی آنکھ نے دیکھا اور دل نے محسوس کیا بڑی برکتوں سے معمور ہو کر آیا وہ گذر گیا.لیکن یہ تو ہماری ایک منزل ہے یہ ہمارے سفر کی انتہا تو نہیں ہے.پھر اگلا جلسہ آئے گا لیکن میں اس وقت اگلے جلسے کی بات کرتا ہوں.آج ہم اجتماعی طور پر جماعت کی طرف سے یہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب إِيَّاكَ نَعْبُدُ ہم نے اپنی استعداد کے مطابق اپنی قوتوں اور طاقتوں کو تیرے حضور پیش کیا اور تجھ سے وہ رحمتیں اور برکتیں حاصل کیں جن کا شمار کوئی نہیں اور جن کے متعلق جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے ہر مومن کا دل اور ہر مومن کی آنکھ گواہی دے رہی ہے مگر اے خدا یہاں بس نہیں کیونکہ ہم تیرے زیادہ قریب ہونا چاہتے ہیں.ہم تیری زیادہ برکتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں.اس لئے ہماری آج یہ دعا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُد اور پھر اگلے جلسہ تک کیلئے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہماری دعا ہے ہمیں اور دے تا کہ ہم اور زیادہ تیرے حضور پیش کرسکیں اور تیری نگاہ میں پہلے سے زیادہ برکتوں کے حصول کے حقدار بھی قرار دیئے جائیں اور انہیں حاصل بھی کریں.جلسے کے ساتھ ہی ہمارا وقف جدید کا سال بھی ختم ہو گیا ہے اور نیا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے.یہ بھی ہم یا در کھتے ہیں.ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ ہر سال ہمارا قدم آگے ہے.یہ ایک حقیقت ہے اور ہر سال ہمارا قدم آگے اسلئے ہے کہ ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ بھی کہتے ہیں اور ايَّاكَ نَسْتَعِينُ بھی کہتے ہیں یعنی اپنی توفیق کے مطابق کچھ پیش بھی کرتے ہیں اور خدا کے فضل سے نئی قوتیں بھی حاصل کرتے ہیں.اب جلسہ کی آخری تعداد جو یہاں جلسہ گاہ کے اندر گئی گئی وہ قریباً 72 ہزار ہے یعنی 72 ہزار احمدی خدا کے فضل سے جلسہ گاہ کے اندر بیٹھے تھے اور اندازہ یہ ہے کہ جلسہ گاہ جب بھر چکی تھی تو پانچ چھ ہزار جلسہ گاہ کے باہر اردگرد پھر

Page 189

182 حضرت خلیفه لمسیح الثالث رہے تھے.کچھ ہمارے کارکن جو اپنی اپنی جگہوں پر کام کر رہے تھے وہاں لاؤڈ سپیکر کی آواز چونکہ چلی گئی اسلئے وہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے ویسے بھی وہ شامل ہیں کیونکہ وہ خدمت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جو ہماری مستورات اور بہنیں اس جلسہ میں شامل ہوئیں انکا تو شمار نہیں ہو سکا اور نہ ہوسکتا تھا کیونکہ اتنی تھیں کہ گفتی کیلئے جو ماحول پیدا ہونا چاہیے وہ نہیں ہوسکا.ہمارا اندازہ ہے کہ چالیس ہزار کے قریب ہوں گی کیونکہ ہر عارضی حد جو جلسہ گاہ بناتی ہے اس کو پھلانگ کر سینکڑوں گز دور تک پہنچی ہوئی تھیں اور پہاڑیوں کے اوپر چڑھی ہوئی تھیں اور ارد گرد کے کھیتوں کے اندر پھر رہی تھیں اور الامہ آ گیا کہ اپنی مستورات کو سنبھال لو ہماری کھیتیوں میں پھر رہی ہیں اور ہماری کھیتیاں خراب کر رہی ہیں لیکن ہمارے ہمسایہ شریف کسانوں سے شریفانہ تعلقات ہیں.انہوں نے ان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ہمارے تک یہ پیغام پہنچا دیا تو اندازہ ہے کہ چالیس ہزار خواتین اور اسی ہزار مرد یقینی طور پر جلسہ میں شامل ہوئے.اس سے زائد ہونگے کم نہیں.یعنی ایک لاکھ بیس ہزار کا مجمع جلسہ گاہ میں تھا.یہ پہلے جلسہ کی نسبت بہت زیادہ ہے اور ہمارے دل خدا تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ اَلحَمدُ لِلَّهِ کے مقابل إِيَّاكَ نَعْبُدُ کو رکھا گیا ہے.اسی واسطے میں نے اس طرح اس حصہ سورۃ کو پڑھا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ.جو کچھ ہمیں اس کے عبد بنے میں ملا.اس پر ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں اور ہم اس کے ممنون ہیں اور ہماری زبانیں اس کی حمد کرتے ہوئے تھکتی نہیں ہمارے گلے خشک ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے دل کی دھڑکنوں اور روح کی امواج خدا تعالیٰ کی حمد کر رہی ہوتی ہیں اس اتنے بڑے اجتماع کی برکتیں ہمارے دوسرے کاموں پر بھی اثر انداز ہونگی اور ان کا ایک عکس پڑے گا ، روشنی پڑے گی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت وقف جدید کے کام میں بھی جس کی ابتدا یکم جنوری اور جس کی انتہا 31 دسمبر کو ہوتی ہے سال رواں کے مقابلہ میں آئندہ سال بہت زیادہ حصہ لے گی.اپنی بساط کے مطابق بہت زیادہ کہنے کے بعد میں رُک گیا تھا کہ جماعت تو پہلے ہی ہر کام میں بہت زیادہ حصہ لے رہی ہے اس واسطے میرا دماغ کھڑا ہو گیا کہ کہیں ضرورت سے زیادہ تو مطالبہ نہیں کر رہا بہر حال خدا تعالیٰ نے زیادہ دیا ہے.آپ کو پتہ بھی نہیں لگے گا اور نتیجہ زیادہ نکل آئے گا.انشاء اللہ تعالیٰ اور نتیجہ اس لئے زیادہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ نے إِيَّاكَ نَسْتَعِینُ کی ہماری آج کی دعا کو قبول کیا اس جلسہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ جس نئے نئے رنگ میں کہنے کے ہم قابل ہوئے ہیں ہم اپنی طرف سے اپنے زور سے تو اس قابل نہیں ہوئے پچھلے جلسہ کے مقابلہ میں جو زیادتی ہے وہ ہماری کسی خوبی کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے.

Page 190

183 حضرت خلیفة المسح الثالث ہم نے پچھلے جلسہ پر ( دو سال قبل) کہا تھا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا اس مقام پر ہمیں کھڑے نہ رہنے دینا ہم تیرے عاجز بندے ہیں.اپنی طرف سے کچھ اور دے تا کہ ہمارا قدم اگلے جلسہ کے موقع پر آگے ہی آگے بڑھا ہوا ہر ایک کو نظر آئے یعنی آپ کو بھی نظر آئے اور جو آپ کے کام کے لحاظ سے دوست اور ساتھی ہیں جو جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور جو ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے ان کو بھی نظر آئے کہ جماعت کہاں سے کہاں پہنچ گئی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل.ہے.جیسا کہ میں نے جلسہ میں بھی بتایا تھا کہ تحریک جدید اس سال نامساعد حالات کے باوجود آگے نکلی.اگلے سال انشاء اللہ پھر آگے نکلے گی.پس یہی وقف جدید کا حال ہے.یہ ایک طریق ہے کہ نئے سال کا اعلان باضابطہ بھی کر دیا جاتا ہے.پس میں نے اعلان کر دیا میں آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ بیس ہزار اس سال کی نسبت زیادہ دیں.میں نے یہ اعلان کیا ہے کہ آپ کی دعا ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ والی پہلے موقعوں پر جو قبول ہوئی آج بھی آپ کی دعا ايَّاكَ نَسْتَعِینُ خدا تعالیٰ کے فضل سے قبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ آپ کی طاقتوں اور استعدادوں اور قوتوں میں اضافہ کرے گا اور اس اضافے کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ آپ کی ساری زندگی سے بڑھ کر ہوگی.اب نصرت جہاں ریز روفنڈ میں جو ہم نے کام کئے ہر وقت جائزہ تو لیتے.کام کر رہے تھے.دعائیں کر رہے تھے.جب نوٹ لئے تو پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کے فضل نے اتنی برکتیں نازل کر دیں.پس گنا ہمارا کام نہں یہ بھی یادرکھیں ( اپنی اپنی طبیعت ہے میں اس سے منع نہیں کرتا نہ روکتا ہوں) لیکن میری اپنی طبیعت یہ ہے کہ تسبیح کے دانوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے اور خیال آتا ہے کہ کیا میں گن کے دوں گا اور خدا سے یہ کہوں گا کہ تو مجھے محدود اور گن کے دے؟ پس ہماری کوشش محدود ہے لیکن ہم اپنی یاد میں اسکو غیر محدود بنادیتے ہیں.اگر تسبیح کے دانوں کو گنیں گے تو وہ محدود ہوں گے اور آپ کے حافظہ میں بھی وہ محدود تعداد ہوگی.آپ نے کہا سو دفعہ ہم نے پڑھا لیکن ایک شخص کہتا ہے میں گن کر نہیں دوں گا میں تو اپنے عاجزانہ مقام سے بغیر گنے کے تجھے دوں گا اور میرا حافظہ کہے گا کہ وہ غیر محدود اور غیر معین ہے.مثلاً میں ستر دفعہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیم کہوں یا سات سو دفعہ کہوں یا سات ہزار دفعہ گن کر کہوں مجھے پتہ نہیں ہونا چاہیے.یعنی اپنی طبیعت بتارہا ہوں کیونکہ میری خواہش یہ ہے کہ میں خدا سے گنتی کر کے کوئی سودا نہ کروں بلکہ حافظے کے لحاظ سے انسان کی ہر کوشش محدود ہے لیکن اس کا حافظہ بھی محدود ہے میں غیر محدود اس کے حضور پیش کر دوں اور اس سے کہوں کہ تو اپنے فضل کے لحاظ سے اور اپنے مقام کی الوہیت کے لحاظ اور اللہ کے مقام کے لحاظ سے مجھے غیر محدود دے.پس ہم گنا نہیں کرتے میں تو بالکل نہیں گنتا اور بغیر گننے کے جماعت آگے بڑھ

Page 191

184 حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رہی ہے جیسے کہ نوٹ تیار ہوتے ہیں مختلف موقع پر کچھ کہنا ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی کچھ نعمتیں شمار ہو جاتی ہیں اور ایک حد تک ہمارے سامنے آجاتی ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کے فضلوں کو شمار نہیں کر سکتے بے حد و بے حساب اس کی نعمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں.ایک مخلوق ہونے کے لحاظ سے بھی جس میں پتھر بھی شامل ہیں ایک جاندار ہونے کے لحاظ سے جس میں بکرا اور اونٹ بھی شامل ہیں اور ایک انسان ہونے کی حیثیت میں بھی جس پر پہلے رحیمیت کے جلوے اور پھر مالکیت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ میری نعمتوں کو تم گن نہیں سکتے اور یہ بڑے بڑے حساب دان اور سائنس دان اور سائنس میں بہت آگے نکلے ہوئے اور کمپیوٹر بنانے والے ان کو ہم چیلنج کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو سارے انسانوں پر نہیں کسی ایک انسان پر جو ہوئی ہے ان کو گن کے دکھاؤ گن ہی نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ کو اس طرح نہیں پیش کیا آپ نے کہا ساری دنیا قیامت تک رائی کے ایک دانہ کی صفات معلوم کرتی رہے اس کی صفات ختم نہیں ہونگی یعنی رائی کے ایک دانے کی ،سونف کے ایک دانے ، گندم کے ایک دانے ، چاول کے ایک دانے کے اندر خدا تعالیٰ کے جلووں نے جو صفات پیش کی ہیں وہ شمار میں نہیں آسکتیں.ایک وقت میں سائنس دان کہتا ہے جو کچھ تھا ہم نے پا لیا.اگلی نسل میں ایک اور سائنس دان پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے اس نے غلط کہا تھا اس مخلوق کی اور بہت سی صفات ہم نے دریافت کی ہیں.یہ دونوں طرح ہے ایک تو زمانہ ماضی کے جلووں کی تاثیریں دوسرے یہ کہ تازہ بہ تازہ نو بہ نو جلوے اللہ تعالیٰ کی صفات کے ہر چیز پر ظاہر ہورہے ہیں اور ان کی صفات بڑھ رہی ہیں.بہر حال خدا کا بڑا فضل ہے اور ان کی وجہ سے اِيَّاكَ نَعْبُدُ ( یعنی یہ حصہ ) کہ تو نے ہمیں دیا ہے جو ہم نے تیرے حضور پیش کر دیا اپنی بساط کے مطابق الْحَمدُ لِلهِ "گھر سے تو کچھ نہ لائے“ جو ہم نے دیاوہ بھی ہمارا نہیں ہے وہ بھی تیرا ہے اور وہ ہے بے شمار.ہم محدود ہونے کے لحاظ سے اور کمزور ہونے کے لحاظ سے اسے کچھ دیتے ہیں لیکن یہ ہمیں احساس ہے کہ اَلحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حمد کے ہم مستحق نہیں، حمد کا اے ہمارے رب تو ہی مستحق ہے اور صرف تو ہی مستحق ہے.پس دعائیں کرو اور جو کچھ خدا نے دیا اس پر بس نہ کرو اور تسلی نہ پکڑو بلکہ اپنے رب کریم سے کہو کہ اے ہمارے رب ہمیں اور دے تا کہ تیری نعمتوں کو ہم پہلے سے زیادہ حاصل کر سکیں ہمیں اور دے ہر قدم پر.نمازوں کے درمیان ہمیں اور دے.ہر جمعہ جمعہ کے درمیان ہمیں اور دے.سال سال کے بعد ہمیں اور دے یہاں تک کہ ہم اس امتحان کی دنیا سے نکل کر اس دنیا میں داخل ہو جائیں جہاں تیری حمد کے جلوے تو ہمارے دلوں میں موجود ہونگے لیکن وہ دار الامتحان نہیں ہو گا.امتحان کا تصور یہ ہے کہ پاس ہونے کا

Page 192

185 حضرت خلیفتہ امسح الثالث امکان ہے اور فیل ہونے کا بھی امکان ہے لیکن دوسری زندگی میں ترقیات کے امکانات تو ہیں مگر نا کامی کا کوئی امکان نہیں اس لئے ہم اسے دار الابتلاء یا امتحان کی دنیا نہیں کہہ سکتے وہاں بھی ترقیات ہوں گی.بہر حال ایک سال گزرا خدا کے فضل سے اور اسکی رحمتوں سے نزول بارش کی طرح اسکی نعمتوں کے نزول کے ہم نے نظارے دیکھے.ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں اور ہم نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ تو نے ہمارے دل میں جو آگے ہی آگے بڑھنے کی خواہش پیدا کی ہے اس کیلئے تو نے ہمیں یہ دعا سکھائی إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تجھ سے عاجزانہ دعا کرتے ہیں.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے ہمارے خدا تو ہماری دعا کو قبول کر اور کسی منزل کو ہماری اس دنیوی زندگی میں ہماری آخری منزل نہ بنادے.ہماری آخری منزل تو موت کا دن ہے جب اس دنیا سے ہم دوسری دنیا میں داخل ہو جائیں گے.جب پردہ نہیں رہے گا کیونکہ تیرے جلوے ظاہر ہو کر ہمنور ہو کر ، روشن ہو کر اور حجابات سے مبرا ہو کر ہمارے سامنے آئیں گے.اس وقت تک تو ہماری طاقتوں میں اضافہ کرتا چلا جا اور اپنے فضلوں میں جو ہم پر تیری طرف سے نازل ہوں اضافہ کرتا چلا جا.ہر دن جو ہم پر چڑھے پہلے دن سے زیادہ مبارک ہو.ہر جمعہ جو ہماری زندگیوں میں آئے اس میں ہمیں پہلے جمعہ سے زیادہ رحمتوں کے سمیٹنے کی توفیق ملے اور ہر جلسہ جو پہلے جلسہ کے بعد آئے اس میں ہم تیرے فضلوں اور تیری رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ دیکھنے والے ہوں.إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی ایک بنیاد بھی قائم ہورہی ہو کہ مزید طاقتیں ملیں گی.مزید قربانیوں کی توفیق ملے گی.اللہ تعالیٰ کے پہلے سے بھی بڑھ کر فضل نازل ہوں گے اور رحمتیں نازل ہوں گی سب کچھ اس کی منشا اور اسی کے حکم سے ہو سکتا ہے.ہم عاجز بندے عاجزانہ اُسی کے حضور جھکتے اور ہمارے دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے.إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ، إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ، إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ، خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ایک اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں جمعہ کے روز بہت سے دوستوں کی سہولت کے مد نظر میں خطبہ اور نماز کے علاوہ کسی اور کام کیلئے اپنے بھائیوں کو مسجد میں رو کے نہیں رکھتا.سوائے اس کے کہ کوئی بہت ضروری بات ہو اس لئے جمعہ کے دن میں نماز کے بعد نکاحوں کا اعلان نہیں کیا کرتا چونکہ آج ایسا جمعہ ہے کہ ضرورت حلقہ کی وجہ سے ہم نے نمازیں جمع کرنی ہیں اسلئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو نکاحوں کے اعلانات ہونے ہیں ( بہت سے فارم نکاح کے اعلان کیلئے دفتر میں آئے ہوئے ہیں ) ان نکاحوں کا اعلان میں گھڑی کے وقت کے مطابق چار بجے مسجد مبارک میں کروں گا جن

Page 193

186 حضرت خلیل لمسیح الثالث دوستوں کی یہ خواہش تھی کہ اس موقع پر ان کے بچوں اور عزیزوں کے نکاح کا اعلان کر دیا جائے وہ چار بجے مسجد مبارک میں جمع ہو جائیں انشاء اللہ تعالیٰ اس کی توفیق سے ہم بہت سی شادی کی خوشیاں بھی دیکھ لیں گے.اب میں نمازیں جمع کروں گا اور پھر جو دوسرے کام ہیں ان کی طرف توجہ دینی ہے.چار بجے انشاء اللہ مسجد مبارک میں نکاحوں کا اعلان ہوگا.چالیس سے زائد نکاح ہیں.اسلئے بہت سے دوست اکٹھے ہو جائیں گے.(ماشاء اللہ ) اور بڑی دعائیں بھی ان رشتوں کے لئے مل جائیں گی.(روز نامه الفضل ربوہ 16 جنوری 1973 ء) *****

Page 194

187 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبه جمعه فرمودہ 18 جنوری 1974 ء بیت اقصیٰ ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہے.اس نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہمارے جلسہ کو بہت ہی بابرکت بنایا اور اس کی برکتوں سے نہ صرف اہل پاکستان کے لیے بلکہ دنیا میں بسنے والوں کے لئے رحمت کے سامان پیدا کئے.جو دوست یہاں بیرونی وفود کی صورت میں یا جو دوست بیرونی ممالک میں بسنے والے احمدیوں کی نمائندگی میں یہاں پہنچے اور جلسہ میں شامل ہوئے تھے ان میں سے تقریباً سب واپس پہنچ چکے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حُسن اور اس کے احسان کے جو جلوے اُنہوں جلسہ کے ایام میں یہاں دیکھے تھے اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں میں ان کے متعلق وہاں بسنے والے احمدیوں اور ان کے دوستوں کو حالات بتانے شروع کر دیئے ہیں.یہاں جو تاثر اُنہوں نے ظاہر کیا وہ تو یہ تھا کہ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ اس تحریک کا یہ سالانہ جلسہ اس قدرشان اور عظمت کا حامل اور اس قدر برکتوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے.بہر حال ہر ایک نے اپنی فطرت اور طبیعت کے مطابق اثرات قبول کیسے اور اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق ان تأثرات کو اپنے اپنے ملکوں میں پھیلائیں گے.میں نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جماعت کو یہ بتایا تھا کہ یہ عظیم منصوبہ جس کا میں اعلان کر رہا ہوں اس کا ماٹو (MOTTO) دو بنیادی حقیقتیں ہیں جن کو ہم حمد اور عزم کے دو لفظوں سے پکار سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں پر مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ بڑی ہی رحمتیں نازل کرنا شروع کی ہیں اور ہم حمد کے ترانے گاتے ہوئے پختہ عزم کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہیں جس کی تعیین غلبہ اسلام کے لئے آسمانوں سے ہوئی اور ہمارا ہر قدم اس شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے وہ دن آنے والا ہے جب اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا اور تمام ماتیں مٹ جائیں گی سوائے اسلام کے.جس کا گھر ہر انسان کا سینہ ہوگا اور جس خدا کو اس نے پیش کیا اس کی محبت میں ہر دل مستانہ وار اپنی زندگی گزار رہا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ جب وہ انسان کے لئے برکات اور رحمتوں کے سامان پیدا کرتا ہے اور انسان کی عاجز قربانیوں کو قبول کرتا ہے تو وہ لوگ جو زمین کی پستیوں کی طرف جھکنے والے اور

Page 195

188 حضرت خلیفتہ مسیح الثالث آسمانی رفعتوں سے بے خبر ہیں وہ حسد کی آگ بھڑکاتے ہیں اور حسد کی یہ آگ ایک عقلمند مومن مسلم کے لئے یہ دلیل مہیا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول کیا.بنیادی صداقت تو توحید باری ہی ہے باقی سب فروعات ہیں.بہر حال بنیادی صداقت اور اس بنیادی صداقت کی فروعات کو ( جو صداقتوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہیں) جھوٹ کے سہارے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی.نہ بنیادی صداقت کو تضاد یا اختلاف کا سہارا لینا پڑا.جب کسی دعوی کے خلاف جب کسی حقیقت کو نا کام بنانے کے لئے جھوٹ اور افترا کا سہارا لیا جائے اور ایک ایک بیان میں انسان کو دس دس تضاد نظر آئیں تو محض یہ فعل ہی کہ جھوٹ کا سہارا لیا گیا اور متضاد باتیں بیان کر کے صداقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی اس بات کی بتین دلیل ہوتی ہے کہ جس چیز کے خلاف یہ مہم جاری کی گئی ، جس کے خلاف جھوٹ باندھا گیا اور افتر ا سے کام لیا گیا، متضاد باتیں بیان کر کے سننے والے کے دماغ میں خبط اور الجھاؤ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی وہ یقیناً صداقت ہے اور صداقت کو کسی جھوٹ کے سہارے کی ضرورت نہیں.صداقت یا صراط مستقیم کے ساتھ تضاد کا تخیل اکٹھا ہوہی نہیں سکتا.صداقت تو ایک سیدھی راہ ہے اور تضاد ایک ٹیڑھا راستہ ہے کبھی دائیں طرف نکلتا ہے اور کبھی بائیں طرف نکلتا ہے.اور جو سیدھی راہ اور درمیانی راہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والی راہ جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی راہ ہے اُس سے بھٹکتا ہے.کبھی دائیں طرف بھٹکتا ہے اور کبھی بائیں طرف بھٹکتا ہے.بہر حال صداقت کو، صراط مستقیم کو ، نہ تضاد کی ضرورت کبھی پیدا ہوئی نہ جھوٹ کا سہارا لینے کی خواہش کبھی پیدا ہوئی.ہمیں اللہ تعالیٰ نے حقیقی اسلام کی ابدی صداقت پر قائم کیا.اُس نے محض اپنے ہی فضل اور رحمت سے اپنی صفات کی معرفت ہمیں عطا کی ہے.ہم اس کی عظمتوں کو پہچانتے ہیں.وہ خدا جو جھوٹ کا دشمن ہے اس کی عظمتوں کے پہچاننے کے بعد ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس عظیم ہستی کی محبت اور عظمت کو قائم کرنے کے لیے کبھی ہمیں جھوٹ بولنے کی بھی ضرورت پڑے گی.صداقت اور سچائی سے اس حقیقی صداقت اور سچائی کی طرف حسین اعمال سے حسن کے سرچشمہ کی طرف، نوع انسانی پر ہمیشہ احسان کرتے ہوئے محسن حقیقی کی طرف بلانا ہمارا کام ہے.اور وہ جھوٹ کی طرف جھکتے ہیں تا کہ اس صداقت کو مٹا دیں.وہ جو ایک ہی سانس میں متضاد باتیں بیان کرتے ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھی ہدایت اور رحمت کے سامان پیدا کرے اور اس حقیقت کو وہ سمجھے لگیں کہ جو سچ ہے وہ جھوٹ کی طرف مائل نہیں ہو سکتا اور جو سیدھی راہ ہے اُس میں تضاد نہیں پائے جاتے ، ٹیڑھا پن نہیں پایا جا تا.جوابھی میں نے اصولی باتیں بیان کیں ان کے پس منظر میں کچھ واقعات ہیں جن کا ذکر کرنا میں مناسب نہیں

Page 196

189 حضرت خلیفتہ امسح الثالث سمجھتا.چونکہ ہمیں یہ نظر آیا کہ جس صداقت پر ہمیں اللہ تعالیٰ نے قائم کیا اور جس صداقت کو بھی نہ تضاد نہ کذب و افترا کی ضرورت پیش آئی اس کے خلاف کذب و افترا اور متضاد بیانات کا جاری ہو جانا ہمیں خدا تعالیٰ کی حمد سے معمور کر دیتا ہے.کیونکہ اس نے ہمیں بتایا تھا کہ جب وہ کسی کوشش کو قبول کرتا ہے، کسی قربانی کو قبول کرتا ہے تو دنیا میں حاسدوں کا ایک گروہ پیدا کر دیتا ہے جو حسد کی آگ کو بھڑکاتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ آگ اس صداقت کو بھسم کر دے گی ، جلا کر راکھ کر دے گی.حالانکہ حسد کی آگ مومنوں کے وجود میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے والی ہوتی ہے جس سے دعا ئیں گریہ وزاری کے ساتھ نکلتی ہیں.غلبہ اسلام کے لیے بھی اور ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھی.اس لیے ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں اور اسی کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ معمور رہیں گے.جب تک کہ اس دنیا کا خاتمہ نہ ہو جائے اور اسلام ساری دنیا پر غالب آ کر نوع انسانی میں سے ہر فرد کو اپنے احاطہ میں لے کر اُس کی زندگی کو حقیقی انسان کی زندگی بنا کر کامیاب نہیں ہو جاتا اور پھر نسلاً بعد نسل انسانی تربیت کو کمال تک نہیں پہنچا دیتا.انشاء اللہ تعالیٰ یہ اس کی بشارتیں ہیں یہ اس کے وعدے ہیں اور وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے.یہ تو حمد کا حصہ ہے.عزم کا جو حصہ ہے اس کا زیادہ تر تعلق ہمارے نفوس کے ساتھ ، ہماری جماعت کی کوششوں کے ساتھ ، ہماری والہانہ حرکت کے ساتھ ، ہمارے مستانہ وار نعروں کے ساتھ ہے.اس یقین کی بنا پر کہ دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے اس منشا اور تحریک کو نا کام نہیں کر سکتی.عزم کے محل استوار کرنا ہماری صفت ہے اور اس سے ہی عظیم جدو جہد اور کوشش کے حسین اور صاحب احسان دھارے پھوٹ نکلتے ہیں جو راہ کے ہرخس و خاشاک کو بہالے جاتے ہیں اور مرد مومن ، مسلم مجاہد اپنے مقصود کو پالیتا ہے.اور جس وقت یہ حقیقت انسان کے سامنے آتی ہے تو کمزور انسان بھی ایک پختہ اور مضبوط مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے.اسی کو ہم عزم کہتے ہیں.اس کے لیے ہم نے ایک اور منصوبہ بنایا ہے جو دعاؤں کے نتیجہ میں اور ہماری قربانیوں کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کے نتیجہ میں اور سچ تو یہ ہے کہ اسی کی رحمتوں کو جذب کرنے کے نتیجہ میں انشاء اللہ کا میاب ہوگا.پس یہ حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو (motto) ہیں.یہ دو چیزیں ہیں جن کی برکت سے ہم نے اسلام کو غالب کرنا اور نوع انسانی کے دل خدائے واحد و یگانہ کے لیے جیتنا ہے.دوسری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وقف جدید کا نیا سال یکم جنوری سے شروع ہو چکا ہے.وقف جدید حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک خاص تحریک ہے.اس کے کام میں اتنی وسعت نہیں لیکن اس کے نتائج بڑے خوشکن نکل رہے ہیں.پاکستان میں لاکھوں ہندو بھی بستے ہیں اور ان کا یہ حق ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کو سچا سمجھتے اور اس میں حقیقی صداقت پاتے ہیں اور اپنی زندگیوں

Page 197

190 حضرت خلیفقه لمسیح الثالث میں اس کی برکات کو محسوس کرتے ہیں وہ ان لوگوں کو بھی حلقہ اسلام میں لانے کی کوشش کریں جو اس دائرہ سے باہر اوران برکات سے محروم ہیں.لیکن کم ہیں جو اس طرف توجہ کرتے ہیں.بہر حال جماعت احمد یہ پر یہ بھی فرض ہے اور یہی بہت بڑا فرض ہے کہ وہ لوگ جو خدائے واحد و یگانہ اور ہمارے رب کریم سے بعد کی وجہ سے اس کی رحمتوں سے محروم ہیں ، ان کو خدائے واحد و یگانہ کی معرفت کے حصول میں مدد دی جائے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانے لگیں.اور ایک خوشحال اور مسر در زندگی دینی و دنیاوی ہر دولحاظ سے گزار نے لگیں.بہر حال یہ ہمارا فرض ہے اور حتی الوسع ہم اس کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں.اس وقت وقف جدید کے نظام کے ماتحت بعض ایسے علاقوں میں بھی اسلام کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں ہندو بستے ہیں.یہ تو ایک حقیر سی کوشش ہے لیکن اس کے مقابلہ میں جو حقیر سی کوشش کی قبولیت کی علامات ہیں وہ یہ ہیں کہ اُس علاقہ کے ہندوؤں کی توجہ بڑی شدت کے ساتھ اسلام کی طرف ہو رہی ہے اور وہاں کے سینکڑوں ہندو خاندان کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور خدائے واحد و یگانہ سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں.چنانچہ دو سال ہوئے وہاں ایک مقام پر ان میں سے بعض کو بعض شر پسند ہندوؤں کی طرف سے انکے سامان پر بٹھا کر سامان کو آگ لگا کر جلانے کی کوشش کی گئی اس وعدے کے ساتھ کہ اگر وہ اسلام کو چھوڑ دیں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بند کر دیں گے تو یہ آگ بجھا دی جائے گی اور ان کو آگ میں جلایا نہیں جائے گا لیکن وہ نو مسلم اسلام کی لذت سے اس طرح بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے دشمنان اسلام کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس جرات کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے ان کو جلایا نہیں کیونکہ ایک کو جب جلانے لگے تو بہت سے اور آگے آگئے کہ ہم بھی ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں اور اگر جلانا ہے تو ہم سب تیار ہیں ہم سب کو جلاؤ.پس اللہ تعالی اس رنگ میں اس علاقہ کے ہندوؤں پر بڑا فضل کر رہا ہے اور اسلام کی طرف وہ مائل ہورہے ہیں اور یہ انتظام اس وقت وقف جدید کے ماتحت ہے اور معلمین وقف جدید وہاں کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اچھے نتائج پیدا ہورہے ہیں.اس کے علاوہ جو مختلف مقامات پر وقف جدید کے معلمین ہیں انکے ذریعہ سے انکی اپنی لیاقت کے مطابق کام لیا جا رہا ہے.وہ تربیت کا کام کر رہے ہیں وہ بچوں کو قاعدہ (یتر نا القرآن ) پڑھا رہے ہیں.نو عمر نو جوانوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھا رہے ہیں.جن کو تر جمہ نہیں آتا انہیں ترجمہ پڑھا رہے ہیں.ہزاروں احمدی تربیت کے لحاظ سے ان سے مختلف

Page 198

191 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث مقامات پر استفادہ کر رہے ہیں.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم تھوڑا سا زور اُس ہند و علاقہ میں اور لگائیں تو بظاہر ایسے حالات نظر آ رہے ہیں کہ شاید عنقریب ہزاروں کی تعداد میں وہ ہندو مسلمان ہو جائیں.اس وقت اُن پر اسلام میں داخل ہونے کے خلاف دو طرف سے زور پڑرہا ہے.ایک تو اندرونی مخالفت ہے اور دوسرے بڑے بڑے امیر اور تاجر پیشہ ہندو جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اُونچی ذات ہے وہ اُن پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ان کے دباؤ کے نیچے ویسے تو ہمیشہ سے غلاموں کی طرح تھے.وہ ان کو قرض دیتے تھے اور سُو دوصول کرتے تھے.بظاہر اُن پر احسان کرتے تھے اور اندر سے اُن کا خون چوستے تھے اور اُن کا دباؤ بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات ایسے پیدا ہور ہے ہیں کہ یہ لوگ اس دباؤ کو قبول نہیں کر رہے.پس اُس جگہ کام میں اضافہ ہونا چاہیے جس کے لیے پیسے کی بھی ضرورت ہے اور جس کے لیے مخلصین معلمین واقفین زندگی کی بھی ضرورت ہے جو وقف جدید میں کام کرنے والے ہوں.کام میں وسعت پیدا ہورہی ہے اور نتائج میں برکت پیدا ہو رہی ہے.اس لیے ہمارے نوجوان اور وہ لوگ جو ہمت اور عزم کے لحاظ سے جوان ہیں انہیں آگے آنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھانا چاہیے.گذشته سال وقف جدید کے چندہ میں پچاس ہزار کچھ سوروپے کا اضافہ تھا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت ہمت کرے اور اس سال یعنی سال رواں میں جو یکم جنوری سے شروع ہوا ہے جس کا اس وقت میں اعلان کر رہا ہوں ایک لاکھ روپیہ مزید دیدے اور وقف جدید کو میں کہوں گا کہ جو آپ کی زائد آمدنی ہوا سے کوئیں اس علاقہ میں خرچ کریں جہاں ہندو مسلمان ہو رہے ہیں تو آپ کے لیے بڑی برکت کا باعث ہے اور اسلام کے لیے بڑی خوشی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے.وہ جو اس سے دور چلے گئے تھے ، وہ جو اسے چھوڑ کر مورتیوں کی پرستش کرنے لگ گئے تھے وہ اسکی طرف آئیں گے تو اس کا پیار ان لوگوں کے لیے جلوہ گر ہوگا.اگر چہ یہ الفاظ اس عظیم ہستی جو ہمارا رب اور خالق و مالک ہے کے لیے اس معنی میں استعمال نہیں ہو سکتے جس معنی میں ہمارے اپنے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ہم تمثیلی زبان میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ لیے بھی استعمال کر دیتے ہیں کہ ہمارا رب بھی بڑا خوش ہوگا کہ اس کے بھٹکے ہوئے بندے اس کی طرف واپس آگئے.پس اس اعلان کے ساتھ میں وقف جدید کے نئے سال کی ابتدا کا اعلان کرتا ہوں اور اس امید پر کہ جماعت ایک لاکھ روپیہ زائد چندہ اس وقف جدید کے انتظام کو دے گی اور اس ہدایت کے ساتھ کہ وقف جدید والے اس کا بڑا حصہ اس علاقے میں خرچ کریں گے جہاں ہندو بستے ہیں اور اس وقت ان کی

Page 199

192 حضرت خلیفة المسیح الثالث توجہ اسلام کی طرف ہے اور اس تو کل اور اُمید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول کرے گا اور ان اچھوتوں پر رحم کرے گا جن کو ان کے اپنے مذہب والوں نے دھتکار دیا اور جن کو اپنی آغوش میں لینے کے لیے اسلام اپنے بازو پھیلائے ان کی طرف بڑھ رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے کے نیچے انہیں یہ جماعت لانا چاہتی ہے.خدا کرے کہ ہمیں اس کی راہ میں اس مد میں خرچ کرنے کی توفیق ملے اور خدا کرے کہ ہماری یہ حقیر کوشش اس کے حضور قبول ہو اور خدا کرے کہ اس کے نتائج بہت ہی شاندار نکل آئیں ، اس سے زیادہ شاندار جتنی ہماری قربانیاں ہیں جیسا کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک رہا ہے.الفضل ربوہ 27 /جنوری 1974ء)

Page 200

193 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبه جمعه فرموده 3 جنوری 1975 ء بیت اقصیٰ ربوه سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحمت سے ہمارے جلسہ سالانہ کو بہت بابرکت بنایا اور اسے جماعت احمدیہ کی بشاشت میں زیادتی کا موجب بنایا اور ہمارے فکروں کو دور کرنے کا ذریعہ بنایا اور آسمان سے بارش کے قطروں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ رحمت کے آثار پیدا کیے اور اپنی بے شمار نعمتوں سے ہمیں نوازا.اس پر خدا تعالیٰ کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے.شکر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کرے ہر اُس رنگ میں جس میں شکر ادا کرنے کی ذمہ داری بندہ پر ڈالی گئی ہے تو پہلی نعمتوں سے زیادہ نعمتوں کے سامان پیدا نہیں ہوتے بلکہ پہلی نعمتوں کے بھی ضیاع کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ضیاع سے محفوظ رکھے اور مزید نعمتوں کے سامان پیدا کرے اور ان کے شکر کی ہمیں توفیق عطاء کرے.ایک سال آیا اور گزر گیا.ایک نئے سال میں ہم داخل ہو رہے ہیں.مومن کا قدم ہمیشہ آگے پڑتا ہے وہ نہ پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور نہ ایک جگہ پر ٹھہرتا ہے.پچھلا سال کچھ تلخیاں لے کر آیا مگر بہت سے فضلوں، رحمتوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے سامان بھی لے کر آیا.خدا تعالیٰ کی جو رحمتیں عالمگیر اور بین الاقوامی حیثیت کی تھیں اور بہت سے احمدیوں کی نظر سے بھی اوجھل تھیں، پچھلا سال انہیں نمایاں کر کے ہمارے سامنے لے کر آیا.پچھلا سال صد سالہ جوبلی تحریک کا پہلا سال تھا.جماعت احمدیہ نے پہلی بار اشاعت اسلام کے بین الاقوامی منصوبوں کی ابتدا کی تھی.بعض ملکوں کو اکٹھا کر کے اُن میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کریم کے منصوبے بنائے گئے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں نے انہیں کامیاب بھی کیا.گویا اشاعت اسلام کی عالمگیر اور بین الاقوامی منصوبے کی ابتدا گذشتہ سال یعنی 1973ء کے جلسہ سالانہ پر ہوئی تھی.جس کے نتیجہ میں ایک عالمگیر بین الاقوامی مخالفت کی بھی ابتدا ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی کیونکہ حاسدوں کا حسد ہمیں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پیار دیکھنے کے مواقع میسر کرتا ہے.غرض صد سالہ جوبلی منصوبہ کی ابتدا ہو چکی ہے.یہ اس منصو بہ کا دوسرا سال ہے.بالفاظ دیگر ایک اور سال ہے ہماری اور جماعت احمدیہ کی زندگی کا جس میں ہم داخل ہورہے ہیں.انفرادی حیثیت سے ہم

Page 201

194 حضرت خلیفتہ امسح الثالث میں سے ہر شخص بچہ، جوان اور بوڑھا، مرد اور عورت اپنے بڑھاپے کی طرف حرکت کر رہا ہے مگر جماعتی حیثیت سے ہم ہر سال اپنی جوانی کی طرف اور اپنی کامیابیوں کی طرف حرکت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک خاص مقصد کے لیے قائم کیا ہے اس درخت کو ایک خاص قسم کے پھلوں کے لیے اور خاص قسم کی برکتوں کو بنی نوع انسان تک پہنچانے کے لیے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے کہ نوع انسانی سوائے استثنائی طور پر چند محروموں کے ، اسلام کے اس درخت کے سایہ سے اور اس کے پھلوں سے فائدہ حاصل کرے گی لیکن آج کا زمانہ اس درخت کی نشو نما کا زمانہ ہے.کچھ خوش نصیب لوگ ہیں جو اس کی شاخوں پر بسیرا کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ مستقبل ان کو خدا کے پیار کے نتیجہ میں اس طرف لے آئے گا اور وہ اس کی شاخوں پر بسیرا کریں گے.ایک دن نوع انسانی ساری کی ساری اس درخت کی شاخوں پر بسیرا کر رہی ہوگی اور وہ منصوبہ جو آسمانوں پر بنایا گیا ہے اور جس کی بشارت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمتِ محمدیہ کو دی تھی ، وہی منصوبہ کامیاب ہوگا اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے رب کی معرفت حاصل کر چکی ہوگی اور اس کی رحمتوں سے حصہ لینے والی ہوگی.یہ ذمہ داری جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہیں اور اس کے شکر کے ترانے بھی پڑھنے والے ہیں اور اس کے حضور عاجزانہ طور پر یہ دعا بھی کرنے والے ہیں کہ: اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہ اے خدا ! جو قوتیں اور استعداد میں انفرادی اور اجتماعی طور پر تو نے ہمیں دی ہیں ہم حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ اُن سے فائدہ اٹھائیں لیکن ہم یہ احساس رکھتے ہیں کہ جب تک مزید قو تیں اور طاقتیں اجتماعی طور پر ہمیں نہیں ملیں گئی اشاعت اسلام کا وہ عالمگیر منصوبہ جو ہمارے سپرد ہوا ہے اس کو ہم کامیاب نہیں کر سکتے اس لیے خدا تعالیٰ سے استعانت کرتے اور اس کی مدد و نصرت کے ہم ہر آن طالب ہیں اور عاجزانہ دعاؤں میں اس نصرت کے حصول کے لئے لگے ہوئے ہیں اور یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ زندگی کے ہر مرحلہ میں اور اس اجتماعی جدو جہد کے ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کرنے والا ہو اور ہمیں راہِ ہدایت اور صراط مستقیم دکھانے والا ہو اور جماعت کو اجتماعی طور پر بھی صراط مستقیم پر قائم رکھے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے خود ہمارا ہاتھ پکڑے اور ہمیں شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے لے جاتا چلا جائے.پس ہمارا ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سال، برکتوں کا سال اور رحمتوں کا سال ہوتا ہے بلکہ ہمارا ہر سال پہلے سے زیادہ برکتوں، پہلے سے زیادہ رحمتوں اور پہلے سے زیادہ فضلوں کا سال ہوتا ہے اس لیے اس نئے سال کو بھی ہم ان عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ کہیں ہماری کوئی کمزوری ان برکتوں کے حصول کے راستے میں حائل نہ ہو جائے بلکہ جیسے پہلے ہوتا چلا آیا ہے اسی طرح اب بھی یہ نیا سال آیا

Page 202

195 حضرت خلیفہ امسح الثالث پہلے سے زیادہ رحمتوں، برکتوں اور فضلوں کو لانے والا ہو.اور تیسری بات یہ ہے کہ دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتا ہوں.ایک عرب شاعر نے کہا ہے..عَينُ الرَّضَا عَنْ كُلَّ عَيْبٍ كَلِيْلَةٌ كَمَا أَنَّ عَيْنَ السَّخْطِ تُبْدِى الْمَسَاوِيَا یہ شاعرانہ بیان ہے ایک حقیقت کا.شاعر کہتا ہے کہ انسان کو دنیوی لحاظ سے دو قسم کی آنکھیں دی گئی ہیں ایک وہ آنکھ ہے جو دنیوی محبت اور پیار کی آنکھ ہے اور یہ آنکھ کوئی عیب نہیں دیکھتی یعنی جس آدمی سے پیار ہو اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں دیکھتی.یہ اپنے محبوب کا محاسبہ نہیں کرتی.”لیلة “ کا لفظ گل “ سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں کہ چیز موجود تو ہے مگر آنکھ نے اسے دیکھا نہیں.انسان کے ساتھ کمزوریاں لگی ہوئی ہیں لیکن پیار کی آنکھ ان کمزوریوں کو دیکھتی نہیں اور دوسری آنکھ ہے دشمنی اور غصے کی آنکھ اور یہ آنکھ عیب ہی عیب دیکھتی ہے کوئی خوبی نہیں دیکھتی.گویا ایک وہ آنکھ ہے جو خوبی ہی خوبی دیکھتی ہے اور کوئی عیب دیکھتی ہی نہیں اور دوسری وہ آنکھ ہے جو عیب ہی عیب دیکھتی ہے اور کوئی خوبی اسے نظر نہیں آتی.یہ ہر دو آنکھیں حقیقت کی نگاہ نہیں، حقیقت کو دیکھنے والی نہیں.یہ دنیا داروں کی نگاہیں ہیں یعنی ایک وہ نگاہ ہے جو عیب نہیں دیکھتی اور محاسبہ نہیں کرسکتی اور ترقیات کے دروازے بند کر دیتی ہے ) اور ایک وہ جوخوبی نہیں دیکھتی اور مایوس ہو جاتی ہے یا مایوس کر دیتی ہے.انسان کی ترقی کے لیے محاسبہ بڑا ضروری ہے اس کے بغیر خدا تعالیٰ کے بندوں کا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا.نیز زندگی کے مقاصد کے حصول کے لیے مایوسی سے بچنا بڑا ضروری ہے.جو شخص عیب ہی عیب دیکھتا ہے اور خوبی نہیں دیکھتا وہ ہلاک ہو گیا.اور یہ نگاہ دو قسم کی ہوتی ہے، ایک اجتماعی زندگی پر نظر رکھنے والی اور دوسری اپنے نفس پر ، ہر دو کے متعلق میں بات کر رہا ہوں.یہ ہر دو عیون ، یہ ہر دو آنکھیں یا نگاہیں ، ایک مومن کی نگاہ نہیں ہیں.مومن کی جو نگاہ ہے وہ حق اور صداقت کو دیکھنے والی نگاہ ہے.یہ نگاہ جہاں انفرادی یا اجتماعی وجود میں بے شمار خوبیاں دیکھتی ہے وہاں اسی وجود میں جو غفلت یا خامی یا نقص ہوتا ہے اس پر بھی نگاہ ڈالتی ہے.اسی طرح یہ آنکھ جہاں ہزار ہا عیوب پاتی ہے وہاں خوبیوں کو نظر انداز نہیں کرتی اور ایسے لوگوں کی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں مایوسی کے سامان پیدا نہیں ہوتے.پس یہ جو حقیقت کو اور صداقت کو دیکھنے والی آنکھ ہوتی ہے جس کو ہم نور ایمان کہتے ہیں یا جسے مومن کی فراست کہا جاتا ہے، یہ آنکھ جہاں ہزار ہا خو بیوں کو دیکھتی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور جن پر

Page 203

196 حضرت خلیقہ مسیح الثالث رحمتوں کا نزول ہوا وہاں یہ آنکھ کمزوریوں کو بھی دیکھتی ہے اُن کا جائزہ لیتی اور ان کا محاسبہ بھی کرتی ہے اور مستقبل میں ان کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی اور ہر آنے والی گھڑی کو پہلے سے بہتر بنانے کے سامان پیدا کرتی ہے.اسی طرح جب یہ آنکھ اپنے نفس میں یا اجتماعی زندگی میں عیب دیکھتی ہے تو مایوسی پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ اعلان کرتی ہے.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ.اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونے کی ضرورت نہیں.تم دیکھتے نہیں کہ جہاں اتنے عیب اکٹھے ہو گئے ہیں وہاں یہ خوبیاں بھی تو پائی جاتی ہیں اس لیے نگاہ مومنانہ یا مومنانہ فراست سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اُن کے لیے بھی دعائیں کرے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سامان مانگے جو اللہ تعالیٰ سے دُور چلے گئے ہیں یہ مومنانہ فراست کی نگاہ نہ ترقیات کے دروازے بند دیکھتی ہے اور نہ مایوسی کے حالات پیدا کرتی ہے بلکہ یہ وہ نگاہ ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول میں وسعت پیدا کرتی ہے لیکن وہ جو خو بیوں کے ساتھ عیبوں کو دیکھنے والی اور عیبوں کو دور کرنے کے لیے کوشش کرنے والی ہے وہ آسمانوں سے نازل ہونے والے فضلوں میں رفعتیں بھی پیدا کرتی ہے کیونکہ وہ ایک جگہ کھڑی نہیں ہو جاتی اور یہ نہیں کہتی کہ جو کچھ حاصل ہونا تھا وہ سب کچھ حاصل ہو گیا.نیکی ہی نیکی ہے اور کوئی کمزوری نہیں اگر کوئی کمزوری نہیں تو اس کا مطلب ہے اس سے زیادہ آگے ترقی نہیں ہو سکتی اگر کمزوری نظر آتی ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے تبھی مزید ترقیات کا امکان ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل ہر آن پہلے سے زیادہ نازل ہونے کا امکان ہے.پس یہ آنکھ محاسبہ کرتی ہے یہ آنکھ محروم کی محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش ہے.انہی کوششوں میں ایک چھوٹا سا حصہ وقف جدید کا ہے.گذشتہ سال وقف جدید کے کام میں تقریباً25 فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہ بھی ایسے تلخی کے زمانہ میں جبکہ توجہ مرکز کی بھی اور جماعتوں کی بھی ایک حد تک بعض ایسے عارضی کاموں اور ضروریات کی طرف تھی جو بظاہر بڑی پریشان کرنے والی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھو کہ ان تمام باتوں کے باوجود ہماری اس چھوٹی سی کوشش میں بھی جس کا میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں کم و بیش 25 فیصد اضافہ ہوا.میں اس وقت جماعت احمدیہ کے مالی جہاد کی بات کر رہا ہوں یعنی جماعت احمدیہ کی طرف سے جو مالی قربانی اور ایثار پیش کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر وقف جدید کی مالی قربانیوں کی بات کر رہا ہوں.پچھلے سال کے مقابلہ میں اس سال وقف جدید کے خرچ میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ہم نے یہاں رُک تو نہیں جانا.25 فیصد اضافہ کی نسبت پچھلے سال کے مقابلہ میں ہے.یہ نسبت ہماری اصل ضرورت کا تو شاید ہزارواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ شاید لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے.پس جہاں ہم خوش ہیں کہ جماعت

Page 204

197 حضرت خلیفہ امسح الثالث احمدیہ نے اس قسم کے حالات میں بھی اپنے کام کے ایک حصہ کو 25 فیصد آگے بڑھانے کی توفیق پائی وہاں ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس سے ہم راضی نہیں.ہماری نگاہ مومنانہ راضی نہیں ، ہماری فراست راضی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سمندر موجزن ہیں.ہم ان میں سے اپنی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں اپنا حصہ پاتے ہیں مگر اس میں بہت زیادہ حصہ ہمارے لیے قابل حصول ہے جس کے لیے ہمیں اپنی کوششوں کو بڑھانا ہے.اس لیے جہاں آج میں وقف جدید انجمن احمدیہ کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں وہاں میں جماعت احمدیہ کو اس طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی تدبیر کو اور تیز کرو اور اپنی دعاؤں کو اور زیادہ بڑھاؤ.تضرع اور عاجزی پیدا کرو.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرو تا کہ ہمیں وہ مقصد حاصل ہو جائے جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے.ہماری دائیں طرف سے بھی ہمارے کانوں میں (غیر اللہ کی ) آواز پڑتی ہے اور بائیں طرف سے بھی ہمارے کانوں میں (غیر اللہ کی ) آواز پڑتی ہے لیکن ہمیں حکم یہ ہے کہ نہ تم دائیں طرف سے آنے والی آوازوں کی طرف متوجہ ہو کر اپنے اوقات اور کوششوں کو ضائع کرو اور نہ اپنی بائیں طرف سے آنے والی آوازوں کی طرف متوجہ ہو کر اپنی کوششوں اور تدبیروں کو ضائع کرو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ایک سیدھی راہ بتائی ہے شاہراہ غلبہ اسلام کی تمہیں معرفت عطا کی ہے اور تمہیں اس پر کھڑا کیا ہے اور تمہیں اپنے فضل سے اُس پر چلایا ہے تم سید ھے اس شاہراہ اسلام پر چلتے چلے جاؤ نہ دائیں طرف جھکو اور نہ بائیں طرف بھٹکو بلکہ سیدھے چلتے چلے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرتے چلے جاؤ.اس نئے سال میں ہماری یہ انتہائی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے جائیں.حالات خواہ کچھ بھی ہوں وہ ہمارے راستے میں روک نہیں بنتے نہ وہ ہماری رفتار کوست کرتے ہیں بلکہ جیسا کہ پہلے ہوتا چلا آیا ہے وہ ہماری رفتار کو اور تیز کرتے ہیں.خدا کرے یہ آنے والا سال نہ صرف وقف جدید کی اس کوشش میں بلکہ جماعت احمدیہ کی ہر کوشش میں پہلے سے زیادہ برکت بخشے اور ہمارا ہر قدم پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو جذب کرنے والا ہو اور پہلے سے زیادہ اسلام کی ترقی کے سامان پیدا کرنے والا ہو.آمین.کھانسی پھر شروع ہوگئی ہے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر بیماری سے محفوظ رکھے.الفضل ربوه 17 جنوری 1975ء)......

Page 205

198 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 1976 ء بیت اقصیٰ ربوہ ) سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَءُ وُفٌ بِالْعِبَادِ.(البقره:208) اس کے بعد فرمایا: جب کسی جماعت پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے تو ان کی دلی اور روحانی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ گویا وہ اپنے نفسوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور اس کے پیار کے حصول کے لئے بیچ ہی ڈالتے ہیں.ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کا پیار جلوہ گر ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے بندوں کے وجود میں اور ان کے نفوس میں اور ان کی روح میں عشق اور پیار کی کچھ اس قسم کی کیفیت ہوتی ہے کہ جسے الفاظ بیان نہیں کر سکتے.قرآن کریم کی اس آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کا شکر ادا کرسکیں اور اس کی حمد بجالا سکیں.اس نے اپنی رحمت سے ہمارے گذشتہ جلسہ کو کامیاب کیا اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ حالات میں شاید جماعت کا ایک حصہ کمزوری دکھائے گا اور اللہ کیلئے ان کے پیار میں کمی پیدا ہو جائے گی اور وہ مہدی معہود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مرکز سلسلہ کی طرف نہیں آئینگے ان کے اس خیال کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار اور اپنی رحمت سے اس قسم کے سامان پیدا کئے کہ اس جلسہ پر پچھلے تمام جلسوں سے زیادہ احباب آئے اور ہر قسم کی صعوبتیں اٹھا کر اور روکوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اور یہاں پر بھی بڑے سکون کے ساتھ اور بڑی توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سنا کیونکہ یہاں ہمارے جلسہ میں خدائے واحد و یگانہ کا ذکر ہی ہوتا ہے اور انہوں نے بظاہر خدا تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ حاصل کرنے کے سامان پیدا کئے اور ہم سب کی ساری جماعت کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور اپنے پیار کے جلوے ہمیشہ پہلے سے ا زیادہ دکھاتا چلا جائے.دو چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں.ایک یہ کہ وہ انتظامیہ جس کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ قومی ترقی کیلئے منصوبے بنائے اور جس نے ملک کے تعلیمی اداروں کو قو میایا اور نیشنلائز کیا جماعت کا سب سے

Page 206

199 حضرت خلیفتہ امسح الثالث پہلے یہ فرض تھا کہ وہ اس سے تعاون کرتی.اور میں سمجھتا ہوں کہ سارے پاکستان میں سب سے زیادہ بشاشت کے ساتھ اور تعاون کرتے ہوئے اور دل میں بھی کوئی بات نہ رکھتے ہوئے جماعت نے موجودہ نرخ کے لحاظ سے قریب پانچ کروڑ روپے کی جائیداد حکومت کے حوالے کر دی کیونکہ آخر یہ ملک ہمارا ہی ہے اور آئندہ پڑھ کر اور علم حاصل کر کے عمل کے میدان میں جانے والی نسلیں ہماری ہی ہیں.پس ہم نے بڑی خوشی سے اس جائیداد کو قوم کے سپرد کر دیا لیکن جب جلسہ قریب آیا تو اسی انتظامیہ کے بعض افراد نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ عمارتیں جنہیں جماعت نے بنایا اور انہیں بشاشت کے ساتھ قوم کے سپر د کر دیا ہم قوم کے نمائندے تو ہیں لیکن ہم بشاشت کے ساتھ آپ لوگوں کو وہ عمارتیں نہیں دیں گے کہ آپ وہاں اپنے بھائیوں کو ٹھہرائیں.پھر انہیں کچھ غیرت دلائی گئی اور سمجھایا گیا.اللہ نے فضل کیا اور ان کو سمجھ آگئی.لیکن ہمارے لئے آئندہ کیلئے ایک انتباہ کا سامان بھی پیدا ہو گیا ہے.لیکن اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ہمیں ایک توجہ دلائی گئی ہے.وہ اس طرح پر کہ اس دفعہ بڑی کثرت سے مہمان آئے ہیں.میں افسر جلسہ سالانہ بھی رہا ہوں وہ بھی ایک خدمت ہے لیکن جلسے کی ہر خدمت ہی بڑی پیاری خدمت ہے اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں جلسے کے دنوں میں جلسے کی خدمت سے فائدہ اٹھاتا رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا رہا ہوں کہ اس نے مجھے اس کی توفیق دی.ہم نے وَسِعُ مَكَانَگ کا یہ نظارہ تو دیکھا ہے کہ ہمارے مکان کبھی بھی ہمارے مہمانوں کیلئے پورے نہیں ہوئے بلکہ ان کو تنگی سے گزارہ کرنا پڑتا رہا ہے لیکن یہ نہیں ہوا کہ بالکل ہی کم ہو جائیں اور پہلے برآمدوں کو قناتیں لگا کر رہائش کیلئے استعمال کیا جائے اور پھر چھولداریاں اور شامیانے لگا کر رہنے کیلئے گنجائش پیدا کی جائے.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو جلسہ کے مہمانوں کیلئے آئندہ جلسہ سے پہلے کئی ہزار مربع فٹ جگہ شاید 50-40 ہزار مربع فٹ جگہ تعمیر کرنی پڑے گی خواہ وہ عارضی بیرکوں کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو.اس سلسلہ میں ابھی سے سوچ کر اور جو سکیم بھی بنے اسکے مطابق جلسے سے قبل اس کو تیار کر دینا چاہیے کیونکہ اس سال مہمان جو کہ اہلِ ربوہ کیلئے برکتوں اور رحمتوں کی یاد دلانے والے ہیں وہ اپنے کناروں سے اس طرح چھلکے ہیں کہ سال میں عام طور پر جس شرح سے مکان بنتے ہیں اور جتنے مکان بنتے ہیں وہ ان کو نہیں سنبھال سکے.مرکز کے مکانوں میں ہمیشہ ہی وسعت پیدا ہوتی ہے لیکن اس سال اتنی کثرت کے ساتھ مہمان آئے کہ سال بھر میں جو وسعتیں پیدا ہوئی تھیں ان کو تو ہم بھول ہی گئے اور ہمیں مہمانوں کو ٹھہرانے کی فکر رہی جن کی قربانی کو ہم کبھی بھول نہیں سکتے.آنے والے بھی خدا تعالیٰ کی مرضات کے حصول کیلئے آتے ہیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں

Page 207

الله 200 حضرت خلیفة المسیح الثالث لیکن سردی کے ان ایام میں جب کہ کبھی بارش بھی ہو جاتی ہے ان کو آسمان کے نیچے تو بہر حال نہیں رکھا جا سکتا.چونکہ اس سلسلہ میں بھی یہاں بعض روکیں اور وقتیں ہیں اس لئے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری راہ سے ان روکوں کو دور کر دے اور ہمارے ملک میں پیار کی فضا پیدا کرے اور جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ آنے والوں کیلئے مکانیت کی جو کم سے کم ضرورت ہے اس حد تک تو تعمیر کریں خواہ وہ ہٹس (Huts) ہوں یا بیر کس ہوں یا جو مرضی ان کا نام رکھ لیں.بڑی بڑی عمارتیں اور لنٹر کی چھتیں نہ ہوں شروع میں یہاں ساری قیام گاہیں ہی گھاس پھونس کی چھتوں ہی کی بنائی جاتی تھیں اور بعض دفعہ بارش بھی ہو جاتی تھی لیکن اگر بامر مجبوری ان کو کوئی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی (یعنی ہماری منتظمین کی مجبوری کی وجہ سے ) تو وہ جو خدا تعالی کی آواز پراور محمد ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا کی اور محمد ﷺ کی باتیں سنے کیلئے مرکز میں آتے تھے وہ تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جماعت جتنا کر سکتی ہے اتنا کر دیا ہے اور باقی جو ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا امتحان لیا ہے اور ہمیں نا کام نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوشی اور بشاشت کے ساتھ اس امتحان کو قبول کر لینا چاہیے.بہر حال جماعت کو مکانیت کی طرف توجہ دینی چاہیے (صدرانجمن اس طرف فوری توجہ دے).اس طرح روٹی پکانے کی مشینوں کا بھی از سرنو جائزہ لینا چاہیے اور اگر ضرورت محسوس ہو کہ آئندہ جلسہ کے لئے نئی مشینیں بھی چاہئے ہوں گی تو ابھی سے اس کا انتظام شروع کر دینا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور اہل ربوہ پر بھی رحمتیں برستی رہیں اور اللہ کی باتیں اورمحمد ﷺ کی باتیں سننے کے لئے یہاں آنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے.دوسری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وقف جدید کا نیا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے میں نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.گذشتہ سال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وقف جدید کیلئے جماعت کو جتنی رقم کی ضرورت تھی اور جو اس کا بجٹ تھا جماعت نے اپنے وعدے پورے کر کے اس کے لگ بھگ رقمیں ادا کر دی ہیں.چندہ بالغان کا 2,62,000 روپے کا وعدہ تھا اور 2,53,000 روپے اس یر پورٹ تک وصول ہو چکے ہیں اور اس کے سامنے یہ نوٹ ہے کہ گذشتہ سال 15 جنوری تک رقوم آتی رہی تھیں اس لئے اس سال بھی رقمیں آئیں گی کیونکہ بعض رقمیں چلی ہوتی ہیں لیکن وقت پر نہیں پہنچ سکتیں اور بعض دوست جلسے کے بعد یہاں سے جا کر بھجواتے ہیں اسلئے امید ہے کہ یہ بجٹ پورا ہو جائے گا.وقف جدید کا ایک دفتر اطفال ہے اس میں ان کے اندازے کے مطابق رقم جمع نہیں ہوئی.وقف جدید کی انتظامیہ نے ان کا 50 ہزار کا بجٹ تجویز کیا تھا لیکن 50 ہزار کے مقابلہ میں وصولی 240, 23 روپے ہوئی ہے.گو

Page 208

201 حضرت خلیفه لمسیح الثالث 1974ء کے مقابلہ میں 1975ء میں چندر قوم کی زیادتی تو ہے کیونکہ اس سے پہلے سال 23,135 روپے وصولی ہوئی تھی اور 1975ء میں 23,240 روپے وصولی ہوئی ہے جو کہ گذشتہ سال سے زیادہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اطفال ہزاروں کی تعداد میں ہر سال بڑھ جاتے ہیں ان کو اسی نسبت سے اس طرف توجہ کرنی چاہیے.وہ کچھ طفلانہ شعور بھی پیدا کر لیتے ہیں اس لئے ان کو توجہ دلا کر تیار کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں سے پیچھے رہنے والے نہ ہوں بلکہ ان سے آگے بڑھنے والے ہوں.یہ تو چندوں کی شکل ہے اور اللہ تعالیٰ پر جو مجھے تو کل ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو مجھ سے سلوک ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے رقم کے متعلق گھبراہٹ نہیں ہوتی لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے جب تک ہم اس کو پوری طرح ادا نہ کریں ہم اللہ تعالیٰ کے پورے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے اس کی مجھے بھی اور آپ کو بھی فکر الله ہونی چاہیے.جیسا کہ آپ نے جلسہ سالانہ کی تقاریر سے اندازہ لگایا ہوگا ہمیں تربیت کی طرف خاص زور دینے کی ضرورت ہے اور مختلف شکلوں میں نبی کریم ﷺ کی فرمودہ تفسیر قرآنی اور وہ تعلیم جو آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کی تفسیر کے رنگ میں بیان فرمائی اور آداب اور اخلاق اور روحانیت کے حصول کی طرف توجہ کرنا.یہ باتیں اب آپ کے سامنے پہلے کی نسبت زیادہ آئیں گی اور آپ کو اپنے بچوں کے دلوں میں ان باتوں کی اہمیت پیدا کرنی ہوگی اور ان کو آہستہ آہستہ عادت ڈال کر و یا بنانے کی کوشش کرنی ہوگی جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی تربیت کے نیچے آکر پہلے زمانہ میں ایک جماعت پیدا ہو چکی ہے.اس میں شک نہیں کہ نبی صلى الله کریم ﷺ کی تربیت جیسی تربیت آج کوئی نہیں کر سکتا لیکن نبی کریم ﷺے تو روحانی طور پر آج بھی اسی طرح زندہ ہیں جس طرح کہ آج سے چودہ سو سال پہلے زندہ تھے اور آپ کی دعائیں قیامت تک مخلصین امت محمد یہ کیلئے جاری ہیں.آپ نے ہر زمانہ کے لوگوں کیلئے اور ساری امت کے لئے بڑی کثرت سے دعائیں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی بشارتیں دی ہیں.اور وہ نظام جو آپ کی اتباع کر کے اور آپ کے اسوہ پر چل کر اور قرآنی تعلیم کی اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا نظام ہے جسے ہم آپ کی قوت قدسیہ کہتے ہیں.وہ نظام تو مردہ نہیں ہوا وہ آج بھی زندہ ہے کیونکہ قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله - ( آل عمران : 32) کی آواز جس طرح اس وقت کے لوگوں نے سنی تھی اور ا سکے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر اور یہ حکم بجالا کر خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا تھا.یہ آیت قرآنی منسوخ تو نہیں ہوگئی بلکہ آج بھی یہ آواز اسی طرح آرہی ہے آج بھی یہ ہمارے لئے ایک عمل کا پیغام دے رہی ہے اور آج بھی ہمارے لئے ایک بشارت دے رہی ہے.

Page 209

202 حضرت خلیفه لمسیح الثالث خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے دروازے آج بھی اس طرح کھلے ہیں جس طرح پہلے کھلے تھے.مگر اس کے لئے اُن قربانیوں کی ضرورت ہے جو پہلوں نے دیں اور پہلوں نے جو قربانیاں دیں جب ہم سوچتے ہیں تو ایک طرف تو اُن پر رشک پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف دل سے ان کے لئے بے حد دعائیں نکلتی ہیں وہی لوگ تھے جن کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آیت پوری ہو چکی ہے اور اپنے متعلق تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.انسان کو ہمیشہ خائف اور ترساں رہنا چاہیے.لیکن انہوں نے واقع میں خدا تعالیٰ کی مرضات کے حصول کے لئے خدا کے حضور اپنی جانیں بیچ دی تھیں.اللہ تعالیٰ سے ایک سودا کیا تھا اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دیا تھا اور وہ خدا تعالیٰ کی ساری ہی رحمتوں کے وارث بن گئے تھے جن کا انسان اس دنیا میں وارث بن سکتا ہے.جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور نئی جماعتیں قائم ہورہی ہیں.ابھی ہم پرانی جماعتوں کو بھی ان کی تعداد کے لحاظ سے پورے معلم نہیں دے سکے.اس وقت جتنے معلم ہیں اور ان پر جو خرچ ہو رہا ہے اگر ہمارے معلموں کی تعداد بڑھ جائے اور اسی نسبت سے ان پر خرچ ہو یعنی ضرورت کے مطابق اگر ہم ہر جماعت میں ایک معلم رکھیں تو اس کام پر ہمیں 30،25 لاکھ روپیہ خرچ کرنا پڑے گا.موجودہ حالات میں وقف جدید اس بار کی متحمل نہیں ہو سکتی.اسلئے آج میں وقف جدید کا ایک نیا دفتر ایک نیا باب کھولتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں.ہر جماعت کا ایک یا ایک سے زائد فرد جو کہ کچھ لکھا پڑھا ہوا اپنے آپ کو پیش کرے اور جو گزارہ ہم معلمین کو دیتے ہیں وہ گزارہ بھی وہ نہ لیں.میں تنخواہ کہنے لگا تھا.تنخواہ تو ہم دیتے نہیں جو لوگ وقف جدید کیلئے وقف کرتے ہیں ان کو ہم گذارہ دیتے ہیں.بہر حال وہ گزارہ بھی نہ لیں بلکہ اپنا کام کریں اور اپنے گاؤں میں رہ کر اپنی جماعت کو علمی معلومات بہم پہنچائیں.وہ شاید اکٹھا ایک سال مرکز میں رہ کر تعلیم حاصل نہ کر سکیں لیکن وہ ایسے واقفین رضا کار تین مہینے کیلئے یہاں آئیں اور تین مہینے کا ایک کورس کر کے واپس چلے جائیں پھر دوبارہ تین مہینے کیلئے آئیں اور ایک اور کورس کر لیں.اور اس طرح ہم ان کو کم از کم اس معیار پر لے آئیں جس معیار پر آج وقف جدید کا معلم پہنچا ہوا ہے اور میرے نزد یک وقف جدید کا معلم بھی اس معیار پر نہیں ہے جس معیار پر جماعت احمدیہ کے معلم کو ہونا چاہیے.بہر حال ہر گاؤں سے اور ہر جماعت سے اس قسم کے آدمی نکلیں اور اگر بعض جماعتیں چھوٹی ہیں تو ان کے گرد جو بڑی جماعتیں ہیں وہ ایک سے زائد آدمی دیں اور اُن کے ذمہ یہ لگایا جائے تم ہفتے میں کم از کم ایک دن ساتھ والی جماعت میں جاؤ وہ کوئی دن مقرر کرلیں بہر حال ساتواں دن وہ ساتھ والی جماعت میں دیں اور اگر ان کو اس قسم کی تربیت ہو تو اپنے گاؤں

Page 210

203 حضرت خلیفة المسیح الثالث میں تو وہ ہر وقت ہی پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے حسن واحسان کی باتیں بڑوں اور صلى الله بچوں اور مردوں اور عورتوں کے سامنے کریں اور ان کے دل میں نبی اکرم ﷺ کا پیار پیدا کر کے انکو یہ کنونس (CONVINCE) کرا دیں انہیں یہ باور کرا دیں اور انکو پختہ طور پر یہ بات سمجھا دیں کہ نبی اکرم صلى الله - کی پیروی کرنا اور آپ کے اسوہ پر چلنا اور آپ کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لینا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے بلکہ بہت ہی سستا سودا ہے اور اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کو جس کی کہ ہم پیروی کرنے والے ہیں اس قسم کا مذہب نہیں بنایا جس میں یہ دعا کی گئی ہو کہ اے خدا ہمیں صرف اُخروی نعماء سے نواز بلکہ ہمیں تو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.(البقرہ:202) اور دنیا کی تمام حسنات کے حقیقی وارث در اصل محمد اللہ کے طفیل آپ کے متبعین ہی ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ دنیا کی حسنات کا استعمال اس طرح پر ہونا چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہو.وقف جدید کے اس نئے دفتر کیلئے جماعت میں تحریک بھی ہونی چاہیے.صرف میرا یہ خطبہ کافی نہیں ہے ہمارے مبلغ اور مبشر اور معلم جماعتوں میں اس کی تحریک کریں کہ اس کیلئے دوست آگے آئیں اس دفتر کی تفصیل میں اس وقت معین نہیں کر سکتا بعد میں حالات کو دیکھ کر معین کی جائے گی.بعض ایسے دوست بھی ہو سکتے ہیں جو یہ کہیں کہ ہم پہلے صرف ایک مہینے کیلئے آسکتے ہیں تو ان کیلئے ایسے دینی نصاب ہونے چاہیں کہ ہم ان کو کم از کم اتنا نصاب سکھا دیں کہ جب وہ دوسری دفعہ ایک مہینے کے لئے آئیں تو اس عرصہ تک وہ گزارہ کر لیں.کیونکہ آداب اسلامی اور اخلاق اسلامی سکھانے کی جس مہم کا اور جس عظیم علمی جہاد کا میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا ہے اس کو ہم ایک دو دن میں تو پورا نہیں کر سکتے.اس کی تو تیاری کیلئے بھی وقت لگے گا.اور پھر چوکس رہ کر اس کے لئے محنت کرنی پڑے گی.بعض اچھی باتیں شروع کی جاتی ہیں.پھر انکی طرف توجہ نہیں رہتی.جب ہم بچے تھے تو قادیان احمد یہ چوک میں جو سیمنٹ کا ایک بورڈ تھا حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے اوپر آداب اور اخلاق کی باتیں نبی اکرم ﷺ کی احادیث لکھتے رہتے تھے اور ہر مردوزن کے علم میں آجاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہے اور آپ اپنی امت سے چاہتے ہیں کہ اسی طرح کھانا کھایا جائے ، اسی طرح لباس پہنا جائے ، اسی طرح بات کی جائے.کئی دوست یا بچے بعض دفعہ ایسی بات کہتے ہیں کہ بڑی کوفت ہوتی ہے چنانچہ مجھے جلسہ پر کہنا پڑا کہ دوبارہ ”اوئے کی آواز نہ آئے میں نے لفظ سنا تو مجھے سخت تکلیف ہوئی.مجھے اس طرح بیچ میں بولنے کی عادت نہیں ہے لیکن میں رہ نہیں سکا.ہمارا جلسہ ہو رہا ہو اور جلسے میں کوئی احمدی کسی اور کو اوئے“ کر کے آواز

Page 211

204 حضرت خلیل لمسیح الثالث دے اور اونچی آواز سے پکارے یہ تو بڑی بد تہذیبی ہے لیکن یہ اس کا قصور نہیں ہے میں نے تو استغفار کیا میں سمجھا کہ یہ میرا قصور ہے کہ کیوں میں ساری جماعت کی صحیح تربیت نہیں کر سکا پھر یہ ساری جماعت کا قصور ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دی اگر ان کو بتایا جائے تو وہ ایسا نہیں کریں گے.چنانچہ اس کے بعد آواز نہیں آئی البتہ ایک دفعہ باہر سے آواز آئی تو میں نے باہر آدمی بھیجا.کیونکہ یہاں جلسے کے دنوں میں جو دکاندار ہوتے ہیں ان کی اکثریت ادھر اُدھر کے علاقوں کے غیر احمدیوں کی ہوتی ہے جو یہاں آکر دوکانیں کھولتے ہیں.وہ اپنی عادتیں لیکر آجاتے ہیں.وہ بیچارے تو قابل رحم ہیں، ان کو تو بتانے والا بھی کوئی نہیں ہے.شاید اُن کی نقل کسی نے یہاں اتاری تھی یاوہ باہر سے ہی ایسی عادت لے کر آیا تھا.مسجد میں شور مچانے کی اجازت نہیں ہے جب خطبہ ہورہا ہو تو اس میں بولنے کی اجازت نہیں ہے.اسلام نے اُٹھنے بیٹھنے اور مجالس میں آنے کے آداب سکھائے ہیں یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں مگران چھوٹی چھوٹی چیزوں نے ہی اسلامی معاشرہ کو ایک فرقان بنادیا ہے اسلامی معاشرہ اور غیر اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی تمیز پیدا کر دی ہے کہ یہ بظاہر چھوٹی چیزیں نتائج کے لحاظ سے چھوٹی نہیں رہتیں بلکہ زبر دست چیزیں بن جاتی ہیں جس پر ایک مسلمان کو ایک احمدی کو فخر کرنا چاہیے کہ کس طرح نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعاؤں سے اور اپنی قوت قدسیہ سے اور خدا تعالیٰ سے اس عظیم تعلیم کو حاصل کر کے ہمیں وحشی سے انسان بنا دیا.پھر انسانوں سے بہتوں کو با اخلاق بنایا اور بنارہے ہیں اور پھر با اخلاق انسانوں میں سے بہتوں کو خدا رسیدہ انسان بنایا اور اس تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے.انسان ایک دن میں تو خدا تعالیٰ کا محبوب نہیں بن جاتا.اس کے لئے بڑی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں.بڑے مجاہدے کرنے پڑتے ہیں ، بڑا محاسبہ نفس کرنا پڑتا ہے اور اپنی حرکت و سکون کو بیدار ضمیر اور عزم صمیم کے ساتھ ایک خاص نہج پر صلى الله ڈھالنا پڑتا ہے تب انسان وہ انسان بنتا ہے جس کے متعلق محمد علیہ فرماتے ہیں کہ اس رنگ میں میری پیروی کر کے خدا تعالیٰ بھی تم سے پیار کرنے لگ جاتا ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے جو ہمیں ملتی ہے باقی تو میں نے بتایا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں لیکن ان کا مجموعہ معاشروں میں ایک فرقان کی اور امتیاز کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی ضرورتوں کے مطابق آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو پیش کر کے پہلے اپنے گھر کوٹھیک کریں تا کہ ہم ساری دنیا کے لئے نمونہ بنیں اور وہ خواہش جو ہم میں سے اکثر کے دل میں ہوگی ، ایک ایسی تڑپ جس کو بعض دفعہ دبانا مشکل ہو جاتا ہے خدا کرے کہ وہ جلد پوری ہو یعنی یہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا ہے کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام ساری دنیا میں تمام

Page 212

205 حضرت خلیفہ امسیح الثالث دیگر ادیان پر غالب آئے گا اور گو آج محمد ﷺ کو برا بھلا کہنے والی دنیا کی اکثریت ہے لیکن ان میں سے اکثریت نہیں بلکہ یہ سارے ہی یعنی تمام نوع انسانی (سوائے چند استثناء کے محمد ﷺ کے پیار کو حاصل کرے گی اور آپ کے پیار میں مست ہوگی.ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم یہ دن دیکھیں.خدا تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے کہ اس خواہش کو پورا ہوتے دیکھنے کیلئے جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ہم ان کو پورا کرنے والے ہوں.صلى الله وقف جدید کے لئے جو میں نے اب ایک نیا باب کھولا ہے وقف جدید اس کیلئے کوشش کرے اور جماعت کیلئے میں دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں کہ آپ کو یہ توفیق ملے کہ ہر جماعت اس قسم کے آدمی بھیجے یہ سنت نبوی بھی ہے کہ اس قسم کے وفود کو آپ تربیت دیا کرتے تھے.یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے.میں کوئی نئی چیز آپ کے سامنے نہیں رکھ رہا.نبی کریم ہے کے وقت میں ہر علاقے اور ہر قبیلے کے لوگ آکر دین سیکھتے ، قرآن کریم کا علم حاصل کرتے اور واپس جا کر دوسروں کو سکھاتے تھے ہم اسے کیوں بھول گئے؟ بڑے افسوس کی بات ہے.بہر حال دنیا کی ضرورت نے مجبور کیا اور یہ چیز نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آگئی ہے اور دعاؤں کے بغیر ہمیں اس کی توفیق نہیں مل سکتی.پس بہت دعائیں کریں کہ اس مہم کو سر کرنے کی اور پیار اور محبت کے ساتھ دنیا کو آداب اور اخلاق سکھانے کی اور روحانی میدانوں میں آگے بڑھا کر خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی مرضات کو حاصل کرنے کی اللہ تعالیٰ جماعت کو جلد توفیق عطا کرے.الفضل ربوہ 28 فروری 1976ء)

Page 213

206 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبہ جمعہ فرموده 7 جنوری 1977 ء بیت اقصیٰ ربوہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: وقف جدید کے انیس سال 1976ء کے آخر میں ختم ہو گئے اور یکم جنوری 1977ء سے وقف جدید کا بیسواں سال شروع ہوتا ہے.اس سے قبل میں اسکے آغاز کا دعا کے ساتھ اعلان نہیں کر سکا.دراصل ہماری زندگی کا ہر مرحلہ دعا سے شروع ہوتا ہے اور حمد ودعا پر ختم ہوتا ہے اور وہ مرحلہ اپنے دور میں دعاؤں کے ساتھ ہی کامیابی کی راہیں دیکھتا ہے.غرض آج میں وقف جدید کے بیسویں سال کا آغاز کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی دوستوں کو اختصار سے بتایا تھا وقف جدید کا قیام میں سمجھتا ہوں اس لئے کیا گیا تھا کہ ایک مسلمان کا جو کم سے کم دینی معیار ہے اس کو قائم رکھا جاسکے.اگر چہ معلمین جو وقف جدید میں کام کرتے ہیں ان کا علمی معیار جامعہ احمدیہ سے پاس ہونے والے شاہدین سے بہت کم ہوتا ہے لیکن البہی سلسلوں میں صرف علمی معیار ہی کوئی چیز نہیں ہوتا اس سے زیادہ اہم روحانی معیار ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے.دعاؤں کی عادت، خدائے واحد و یگانہ پر کامل تو کل، اسلام کا فدائی ہونا ،نوع انسانی کی خدمت کی تڑپ دل میں پیدا ہونا اور اسی طرح کسی انسان کی جسمانی یا اخلاقی یا روحانی تکلیف کا نا قابل برداشت ہو جانا اصل چیز ہے.اس قسم کا احساس دل میں پیدا ہو جانا زیادہ اہم ہے علمی معیار سے.اس معیار کو ہم تقویٰ کا معیار کہہ سکتے ہیں.اس معیار کے پیدا کرنے کے لئے اور اس کے حصول کے لئے اور اسکے قیام کیلئے اور اس میں آگے بڑھنے کیلئے کسی ” جامعہ" کی ضرورت نہیں ہے.ہر مسلمان کو ہی اس میدان میں ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے کہ وہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے لیکن جن لوگوں پر دینی اور روحانی ذمہ داریاں زائد آپڑتی ہیں ان کو اس طرف زیادہ توجہ دینی ضروری ہو جاتی ہے اس لئے ہمیں عملاً یہ نظر آتا ہے کہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل بعض شاہد ایسے ہیں کہ حصول علم کے بعد یعنی دینی علمی معیار کافی بلند ہو جانے کے بعد بھی وہ دوسرے کاموں میں لگ جاتے ہیں.یہاں بھی اور انڈونیشیا کے بھی بعض نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے اس معیار کو قائم کیا اور پھر وہ دوسرے کاموں میں لگ گئے.جو شاہد دین کی خدمت پر ہی لگے رہے ان کا جب ہم موازنہ کرتے ہیں تو جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل وہ بھی ہیں کہ ان کی زندگی ہمہ وقت اسلام کی خدمت میں مصروف رہنے والی زندگی ہے اور قوم کو ان پر فخر کرنا چاہیے کہ وہ بہتوں کی بھلائی وو

Page 214

207 حضرت خلیفتہ مسیح الثالث کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں اور خدا کی نگاہ میں ان کی کوشش مقبول ہوتی ہے ،سعی مشکور ہوتی ہے کیونکہ ان کی کوشش کا نتیجہ ان کی کوشش سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بھی اور دنیا کو بھی ملتا ہے.یہ ہماری نگاہ دیکھتی ہے اور کئی ایسے ہیں جو کوشش تو بظاہر دین کی راہ میں کر رہے ہیں لیکن بے ثمر کوشش جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور ہیں وہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل.اس کے مقابلے میں جس نے شاید ایک سال میں دینی تعلیم لی وقف جدید کے ماتحت اور جسے ہماری اصطلاح میں معلم کہا جاتا ہے ان میں ایسے ہیں جوان شاہدین سے بہتر کام کر رہے ہیں جنہوں نے جامعہ احمدیہ سے تعلیم حاصل کی اور انہوں نے 7,6 سال لگائے اور ان پر بڑی محنت کی گئی.خود انہوں نے بھی محنت کی لیکن ان کی کوشش بے نتیجہ ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی سعی ہمشکور سعی نہیں ہوتی.ہماری جماعت میں صرف ان دوگروہوں کے درمیان ہی موازنہ اور روزمرہ کا ایسا مشاہدہ نہیں جو کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ لوگ جنہوں نے نہ جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی نہ انہوں نے وقف جدید میں کم و بیش ایک سال تک تعلیم حاصل کی بلکہ اپنے طور پر ایک طرف انہوں نے تقویٰ میں آگے بڑھنے کی کوشش کی اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا کثرت سے مطالعہ کیا اور تدریس بھی کی اور انہوں نے لوگوں کو بھی کتب کے معانی بتانے کی کوشش کی وہ بعض دفعہ جامعہ کے فارغ التحصیل اچھے اچھے طلباء سے بھی آگے نکل جاتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قبولیت کے حصول کے متعلق کہیں بھی ہمیں یہ شرط نظر نہیں آتی کہ جو جامعہ احمدیہ سے نکلے گا خدا تعالیٰ صرف اسے ہی قبول کرے گا اور نیکی کی دیگر کوششیں خدا کے حضور قبول نہیں کی جائیں گی.یہ کہیں نہیں لکھا ہوا اور نہ عقل اسے باور کرتی ہے.اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کے مطابق زندگی گزاری جائے اور خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جس وقت ہم خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کے عرفان کا ذکر کرتے ہیں تو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ روحانی ترقیات کا گویا ایک نہ ختم ہونے والا میدان ان کے سامنے کھل گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات کو اور نہ صفات کو ہم محدود ہستیاں اپنے احاطہ میں لاسکتی ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات کے غیر محدود جلوے انسان کی محدود کوشش بہر حال اپنے احاطہ میں نہیں لاسکی.اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کا موقع دیا ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے اور حدیث میں بڑی وضاحت سے آیا ہے کہ جتنا جتنا کوئی خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو زیادہ پالیتا ہے اور ان کو ڈھونڈ لیتا ہے اور پہلے کی نسبت اسکے اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے اتناہی زیادہ اللہ تعالیٰ ایک بہت ہی بہتر اور پہلے سے اچھے پیار کا جلوہ اس کے اوپر ظاہر کرتا ہے.یہ ایک ایسی کیفیت ہے جسے الفاظ بیان نہیں کر سکتے.لیکن جو لوگ مشاہدہ کرتے ہیں اور اس کو محسوس کرتے ہیں اور جن

Page 215

208 حضرت خلیت مسیح الثالث کے تجربے میں یہ باتیں آتی ہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کے پیار اور رضا کے حصول کیلئے انسان جو کوشش کرتا ہے وہ کسی ایک مقام پر کھڑی نہیں ہو جاتی بلکہ ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد ایک ارفع مقام اسے نظر آتا ہے.صرف اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد جنت یعنی اخروی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر دن اور ( چونکہ وہاں کے دنوں کا تو ہم تصور نہیں کر سکتے کہ کیسے ہیں اس لئے کہنا چاہیے ) ہر گھڑی ایک نیا دروازہ کھلتا ہے ترقیات کا جنتیوں کیلئے اور وہ خدا تعالیٰ کے حسن کو اور زیادہ حسین شکل میں دیکھتے ہیں.آنے والے دن پچھلے دن کے مقابلہ میں زیادہ حسین ہوتے ہیں اور ہم اپنے محاورہ میں کہہ سکتے ہیں کہ جنت میں ان کا مقام کچھ اور بلند ہو جاتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو کچھ اور زیادہ حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حسن کے جلوے کچھ اور ہی شان کے ساتھ انکے او پر جلوہ گر ہوتے ہیں.پس یہ جو تقویٰ والا حصہ ہے یعنی روحانی ترقیات کا یہ ظاہری دینی معیار کے مقابلہ میں بہت زیادہ اہم ہے لیکن جو دینی معیار ہے اس کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.اس کے لئے بھی قوم کو ہمیشہ چوکس اور بیداررہ کر کوشش کرنی پڑتی ہے کہ وہ صراط مستقیم پالینے کے بعد بے راہ رو نہ ہو جائیں.اسلام کی گزشتہ چودہ سو سال کی تاریخ میں یہ نظر آتا ہے کہ جگہ جگہ اور ملک ملک مسلمانوں میں بدعات پیدا ہو گئیں اور پھر ان کو دور کرنے کیلئے خدا نے اپنے نیک بندوں کو کھڑا کیا اور وہ کامیاب ہوئے.پھر کچھ عرصہ گزرا تو کسی اور طرف سے شیطان نے حملہ کیا اورنئی قسم کی بدعات پیدا ہوگئیں.تاریخ کا یہ حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ امت محمدیہ کا زندہ رہنے والا حصہ ایک حصہ ہمیشہ زندہ رہا ہے ) اور وہ ، وہ حصہ ہے جو ہمیشہ چوکس اور بیدار رہا ہے یعنی چودہ سو سال میں جہاں بدعات پیدا ہوئیں وہاں لاکھوں کروڑوں بزرگ بندے خدا سے پیار کرنے والے اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے بھی تو پیدا ہوئے.پس دریا کا ایک وہ دھارا ہے جو اپنے راستے سے ہٹا نہیں اور اپنے بہاؤ پر جارہاہے اور وہ جس کی نہ گہرائی کا پتہ ہے اور نہ اس کی وسعتوں کا ہمیں علم حاصل ہو سکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی ذات وصفات جسے تمثیلی زبان میں سمندر کہہ سکتے ہیں وہ اسکے قریب ہورہے ہیں اور صراط مستقیم پر بحیثیت امت مسلمہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں.غرض انہوں نے صراط مستقیم کو نہیں چھوڑا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے بدعات بھی پیدا ہوئیں اور عجیب وغریب بدعات پیدا ہوئیں.جس جگہ اسلام پھیلا وہاں کے پرانے مکینوں کی کچھ بدعات بھی آہستہ آہستہ واپس ان کے اندر لوٹ آئیں اس لئے مثلا افریقہ کی تاریخ ہے جسے دنیا نے تو یہ کہا کہ یہ ظلمات میں گھرا ہوا خطہ ارض ہے مگر وہاں مسلمانوں کے اندر کچھ اس قسم کے نور نظر آتے ہیں کہ اسلامی تاریخ بتاتی

Page 216

209 حضرت خلیفة امسح الثالث ہے کہ وہاں بھی مجددین اور اولیاء اللہ پیدا ہوئے مثلاً حضرت عثمان فودی جنکا میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے قریباً سو سال پہلے ان کا زمانہ ہے.انہوں نے اعلان ہی یہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے ان بدعات کو دور کر دیں جنہوں نے اسلام کے چہرے کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے.ان کو تکالیف بھی برداشت کرنی پڑیں، انکولڑائیاں بھی لڑنی پڑیں، ان کو ہلاک کرنے کے منصوبے بھی بنائے گئے لیکن جس غرض کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص علاقے کا مجدد بنایا تھا اس میں وہ کامیاب ہوئے اور بدعات کو دور کر دیا لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد پھر ان کے ماننے والوں میں بھی دوسری قسم کی بدعات پیدا ہوگئیں.ایک وقت آئے گا انشاء اللہ جب لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں علم رکھنے والے بھی اور صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بھی جماعت احمدیہ میں پیدا ہوں گے اور جوں جوں جماعت میں وسعت پیدا ہوتی جائیگی وہ کام کو سنبھالتے چلے جائیں گے لیکن اس وقت ہمارے شاہدین بھی ضرورت سے کم ہیں اور وقف جدید کے معلمین بھی تعداد سے کم ہیں اس لئے گزشتہ سال میں نے رضا کار معلمین کی ایک تحریک کی تھی.میں اس کام کیلئے اعزازی معلمین“ کی اصطلاح پسند نہیں کرتا (ممکن ہے میری زبان سے غلطی سے نکل گیا ہو بہر حال مجھے یاد نہیں رہا) میری مراد رضا کار معلم ہیں.یعنی وہ وقف جدید کے معلم جنہیں تھوڑا بہت معاوضہ بھی ملتا ہے اور وہ وقف جدید کے انتظام کے ماتحت کام کر رہے ہیں ان کے علاوہ رضا کار معلمین کی ضرورت ہے وقف جدید کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان کی تحریک کی گئی تھی لیکن جماعت کو اس کام کی اہمیت بتانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ منصوبہ یہ ہے کہ ہر گاؤں اور قصبہ اور آبادی کے کچھ لوگ یہاں مرکز میں آکر ٹھہریں اور چند ماہ میں ان کو کچھ بنیادی باتیں بتائی جائیں اور چونکہ سارا دن انہوں نے یہی کام کرنا ہے اس لئے کچھ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا سہولت کے ساتھ مطالعہ کریں اور پھر وہ اپنے اپنے گاؤں یا قصبہ یا آبادی میں جا کر دوستوں کے کم سے کم دینی معیار کو قائم کرنے کی کوشش کریں.جیسا کہ میں نے کہا ہے معلم بھی اور شاہد بھی.ان میں بہت اچھے بھی ہیں، اچھے بھی ہیں اور بالکل نچلے درجے کے بھی ہیں.بعض کو فارغ بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ان کی بڑی مانگ ہے جس کا مطلب ہے کہ جماعت میں ضرورت کا احساس ہے کہ انہیں معلم چاہیے.جماعت میں ضرورت کا احساس موجود ہے کہ انہیں شاہد مبلغ چاہیے لیکن ضرورت کے اس احساس کے مطابق جتنا احساسِ ذمہ داری ہونا چاہیے وہ جماعت میں نہیں ہے.نہ شاہد کیلئے جامعہ احمدیہ میں اتنے میٹرک پاس نوجوان آتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورت پوری کر دیں اور نہ وقف جدید کو اتنے معلم ملتے ہیں کہ وقف جدید جو کام کر رہی ہے یعنی یہ کہ جو کم

Page 217

210 حضرت خلیفتہ امسح الثالث سے کم معیار ہے قوم کو اس سے نیچے نہ گرنے دیا جائے.اس ضرورت کو پورا کر دیں اور جو انہی کا کام ایک اور رنگ میں کرنے والے رضا کار معلم ہیں ان کے بارہ میں بھی ذمہ داری کا احساس نہیں.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس طرف توجہ کرے تو ایک وقت میں سینکڑوں رضا کار معلم یہاں آجائیں.اس طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہیے.ہر گاؤں اور ہر آبادی سے آنے چاہئیں.شہروں کو نسبتا زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے عام دیہات جو ہیں ان میں سے ایک یا دو آدمی آجائیں.ایک وقت میں ایک آجائے پھر دو ہو جائیں پھر تین ہو جائیں.پانچ دس ایسے ہوں جن کو دین اسلام کے بنیادی اعتقادات اور ابتدائی اصول از بر یاد ہوں کچھ احادیث ان کو یاد ہوں.قرآن کریم کے کچھ حصے ان کو یاد ہوں.جو اخلاقی مسائل ہیں وہ ان کو یاد ہوں اور ایک دو سال کے بعد پھر وہ دو تین مہینے کیلئے آجائیں تا کہ ان کا علمی معیار اور بلند ہو جائے.جماعت کو جہاں ضرورت کا احساس ہے وہاں جماعت کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اس کے مطابق اپنے اندر ذمہ داری کا احساس بھی پیدا کریں تا کہ ان کی ضرورت پوری ہو جائے.اگر ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا نہ ہوتو ضرورت کیسے پوری ہو جائے گی.مرکز کی طرف سے آٹے کے مجسمے بنا کر تو ان کے پاس نہیں بھجوائے جاسکتے اور نہ پتھر کے بت اس کام کیلئے تراشے جاسکتے ہیں.بتوں کو اور غیر اللہ کے جو دوسرے مظاہر ہیں کسی رنگ میں لکڑی کے یا بتوں کے یا تو ہمات کے ، ان کو توڑنے کیلئے اور ان کو جلانے کیلئے اسلام آیا اور اب اس زمانے میں اسلام کے اندر احمدیت قائم ہوئی ہے.اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کیلئے انسان نے جو کام کرنا ہے وہ تو انسان ہی نے کرنا ہے.جو کام ایک جذبہ رکھنے والے اور ایثار پیشہ اور خدا اور رسول سے محبت رکھنے والے دل نے کرنا ہے وہ تو ایسے دل نے ہی کام کرنا ہے.جس کام کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے واقفیت کی ضرورت ہے وہ کام تعلیم اور واقفیت کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتا ، اس کے لئے تو علم پھیلانا پڑے گا، اعتقادات بتانے پڑیں گے.بعض ایسی باتیں ہیں جن کا حافظہ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور ان میں سے ایک نماز جنازہ ہے.زندگی اور موت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسلئے ہر جگہ ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو نماز جنازہ پڑھاسکیں.ہماری جماعت میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کی تعلیم کافی ہے لیکن جماعت سے باہر دنیا میں مسلمان پھیلے ہوئے ہیں.بعض دفعہ یہ اطلاع بھی آجاتی ہے کہ ایک آبادی کا جو معلم یا ملا ہے اسے نماز جنازہ کے الفاظ کا بھی پتہ نہیں.یا نکاح کیلئے آیات ہیں.کیونکہ ایک دوست نے بتایا کہ ایک جگہ ایک مولوی صاحب تھے ان کو نماز جنازہ میں جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ آتی تھی تو انہوں نے وہی دعا جو جنازہ میں پڑھی جاتی ہے پڑھ کر اعلان نکاح کر دیا.غرض جو نکاح کے وقت پڑھنا چاہیے اس کا بھی پتہ نہیں تھا.اسلئے اگر ہم نے جگ ہنسائی نہیں کروانی ، جس

Page 218

211 حضرت خلیفة امسح الثالث طرح اس وقت بہتوں کے چہرے پر ہنسی آگئی ہے کیونکہ بات ہی ایسی ہے تو ہمیں یہ بات سوچنی پڑے گی اور اس قسم کی بنیادی باتیں یاد کرنی پڑیں گی.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ سود دوسوسال کے بعد ہمارے متعلق بھی اس قسم کی باتیں مشہور ہونے لگ جائیں.بعض چیزیں ہر وقت ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں ان سے متعلقہ مسائل یا د ہونے چاہئیں.مثلاً نکاح ہے، ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے صحت اور عمر دے تو اس کو یہ تجر بہ بھی کرنا پڑتا ہے اور ایسے لوگ چاہئیں جو نکاح کے اعلان کے وقت اور اس جوڑ کے وقت جو بڑا اہم بھی ہے اور بڑا نازک بھی ہے دعاؤں کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ یہ جوڑ قائم ہو گیا ہے لیکن اگر اعلان کرنے والے اس کی اہمیت ہی نہ سمجھیں اور اس مسئلہ ہی کو نہ جانیں تو پھر بہت سی برکات اور دعاؤں سے ایسے لوگ محروم ہو جائیں گے.یہ تو ہم پسند نہیں کرتے.وقف جدید کا سارا کام چلانے کیلئے پیسے کی بھی ضرورت ہے تاہم پیسے کی اہمیت سب سے آخر میں ہے اصل تو وہ دل ہے جس کے اندر خدا تعالیٰ کا پیار اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت شعلہ زن ہے.کئی دفعہ غیر پوچھتے ہیں کہ آپ کو اتنے پیسے کہاں سے آجاتے ہیں؟ میں ان کو جواب دیا کرتا ہوں کہ ہماری دولت سکہ اور روپیہ وغیرہ نہیں ہے ہماری دولت تو وہ دل ہیں ، وہ مخلص دل جو منور سینوں کے اندر دھڑک رہے ہیں.پھر کسی اور جگہ ہمیں جانے کی ضرورت نہیں خدا کے در پر جانے کی ضرورت ہے.ہمارے لئے ایک ہی در ہے.خدا کرے کہ یہ منور سینے ہمیشہ جماعت کے اندر رہیں اور ان میں دھڑ کنے والے دل ہمیشہ ہی مخلص اور ایثار پیشہ دل بنے رہیں.غرض وقف جدید کے بجٹ میں بڑی تھوڑی رقم ہوتی ہے.جماعت یہ کوشش کرے کہ ان کی ضرورت پوری ہوتا کہ جو جماعت کی ضرورت ہے وہ پوری ہو اور ضرورت کے احساس اور ذمہ داریوں کے فقدان کے نتیجہ میں جو خرابی پیدا ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے اور محفوظ رکھے.اس سلسلہ میں صرف وقف جدید نہیں بلکہ ساری جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے رسائل شائع کرے.اول تو یہ ضروری ہے کہ ہمارے ہر بچے کو پڑھنا آتا ہو.اردو کی عبارت پڑھنی آتی ہو.ویسے ہمارے بہت سے ایسے احمدی دوست ہیں جو اپنے دستخط بھی نہیں کر سکتے لیکن ہیں وہ عالم.اس لئے دوسری چیز ” پڑھنا آتا کے ساتھ میں یہ کہوں گا کہ ”سننا بھی آتا ہو، یعنی دین کی باتیں سننے کا شوق پیدا ہو اور سنانے والے بھی موجود ہوں.مثلاً جو دوست ہماری مساجد میں خطبہ جمعہ سنتے رہتے ہیں ان کا علم دوسروں کی نسبت بہت بڑھ جاتا ہے کیونکہ مختلف مسائل کے متعلق باتیں ہوتی رہتی ہیں.پس بنیادی باتوں کے متعلق جو رسائل ہیں وہ بچوں کے ہاتھوں میں دیئے جائیں.ایسے رسائل کا کثرت سے شائع ہونا بھی بڑا ضروری ہے.ایک تو ہو 66

Page 219

212 حضرت خلیفتہ امسح الثالث بنیادی علمی باتیں ہیں یا آئندہ کی خبریں ہیں یا روحانیت کے بلند مقام تک پہنچانے کیلئے جو کوشش ہے وہ تو اپنی جگہ بہت ضروری ہے مگر وہ تو انتہا ہے اور انتہا بہر حال بلند بھی ہے اور اہم بھی ہے ابتدا سے.لیکن اگر ابتدا ہی نہیں تو انتہا کا تصور ہی نہیں ہو سکتا.ابتدا سے دینی تعلیم کا خیال رکھنا چاہیے یعنی جب بچہ سننے کے قابل ہوتا ہے اس وقت سے دینی تعلیم سکھانا شروع کرنا چاہیے.میں نے اکثر دیکھا ہے اور بڑا نمایاں فرق محسوس کیا ہے مثلاً ایک خاندان ہے اس کا بچہ جب سننے کے قابل ہوتا ہے یعنی بات سن کر سمجھ لیتا ہے تو والدین اس کے کان میں نیکی کی باتیں ڈالتے ہیں.چنانچہ جن بچوں کے کانوں میں بچپن میں دین کی باتوں کی آواز پڑتی ہے وہ بڑے ہو کر ان بچوں کے مقابلہ میں ہزار گنا، لاکھ گنا بلکہ کروڑ گنا اچھے ہوتے ہیں جن کے ماں باپ کہتے ہیں بچہ آپ ہی پڑھ جائیگا آپ ہی سیکھ جائیگا اسلئے وہ ان کے کانوں میں کوئی نیکی کی بات نہیں ڈالتے.پس دوست اپنے بچوں میں سننے کی خواہش پیدا کریں اور ان کو سنانے اور پڑھانے کی خود اپنے اندربھی عادت پیدا کریں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو بیان سکھا یا تھا وہ بنیادی علم ہے جس میں سارے علوم آجاتے ہیں وہ اس زمانے میں ہر پہلو سے عروج کو پہنچ گیا ہے اسلئے اس زمانہ میں ترقی اس آدمی کے مقدر میں ہے جو علم کی طرف توجہ کرتا ہے.میں اس وقت علمہ البیان کی تفسیر میں تو نہیں جاؤں گا.یہ اپنی ذات میں ایک بڑا لمبا مضمون ہے.اس وقت میں بتا یہ رہا ہوں کہ وقف جدید نے جن چھوٹے چھوٹے دیہات میں معلم بھیجے ہیں وہاں جو دوسری ضروریات ہیں وہ بھی پوری ہونی چاہئیں.ان کے پاس لٹریچر ہونا چاہیے.لوگوں کے اندر سننے کی اور خود ان کو سنانے کی عادت ڈالنی چاہیے تا کہ وہ اسلام کی ابتدائی تعلیم کو بھولیں نہیں.جو رضا کار معلم ہیں وہ بھی ہمیں ملنے چاہئیں.تین مہینے کا یہاں کورس ہے وہ یہاں تین مہینے رہیں.دینی کتب پڑھیں اور مسائل سیکھیں، ان کو یاد رکھیں.بعض باتیں ان کو یاد کروائی جائیں.ہماری کم سے کم جو ضرورت ہے وہ تو ہر جگہ بہر حال پوری ہو جانی چاہیے.اس میں تو کوئی کوتا ہی نہیں ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی تو فیق عطا فرمائے اور جو کچھ میں نے کہا ہے وہ دراصل وقف جدید کے بیسیویں سال کے آغاز کا اعلان ہے.خدا کرے ہر نیا سال پہلے سال سے زیادہ برکتوں والا ہو ہمارے لئے بھی اور دنیا کے لئے بھی.آج صبح ہمارے ایک مخلص بزرگ اور بھائی محترم ملک غلام فرید صاحب کی وفات ہوگئی اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ملک صاحب کی ساری زندگی ہی حقیقی جذبہ کے ساتھ گذری ( جس کا میں نے ابھی ذکر کیا تھا ) آپ نے غیر ممالک میں ہمارا جو تبلیغی پروگرام ہے اس میں بھی حصہ لیا.جرمنی میں بھی مبلغ رہے انگلستان میں بھی رہے جو تعلیم کی کوششیں ہیں جماعت کی اس میں بھی حصہ لیا.مجلس تعلیم میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کام کیا.ریویو آف ریلیجنز میں بھی بڑے لمبے عرصہ تک کام کرتے

Page 220

213 حضرت خلیل لمسیح الثالث رہے اور پھر آخر میں بہت ہی اچھا سب سے اچھا کام کرنے کی توفیق ملی ویسے پہلے کام بھی اسی سلسلہ میں تھے لیکن نمایاں ہو کر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور قرآن کریم کے تفسیری نوٹ انگریزی میں تیار کرنے کا کام ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شروع میں اس غرض کے لئے ایک کمیٹی بنادی تھی جس کے ممبر محترم ملک صاحب بھی رہے ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے تین آدمیوں پر مشتمل کمیٹی بنی تھی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ، حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت ملک غلام فرید صاحب رضی اللہ عنہ تینوں کی ایک کمیٹی تھی جس نے انگریزی ترجمہ کا کام کیا اور جو مختصر تفسیری نوٹوں والا کام تھا اور کچھ ترجمہ کو REVISE کرنے کا کام تھا اسے ملک صاحب مرحوم نے اپنی آخری عمر میں بڑی محنت کے ساتھ ایک ایک لفظ کی تحقیق کر کے مکمل کیا جو انگریزوں کے لئے بھی حیرانی کا باعث بنا یعنی اگر وہ غیر مسلم تھے اور انہوں نے قرآن کریم سیکھنے کی کوشش کی تو ان کے لئے بھی حیرانی کا باعث تھا اور باعث برکت تھا ان احمدیوں کیلئے بھی جو قریباً ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ انگریزی دان بھی ہے.تفسیری نوٹ فٹ نوٹ کی شکل میں ہیں.جس طرح حضرت مصلح موعود کے تفسیر صغیر کے نوٹ اردو میں ہیں انہیں کے او پر بنیا در کھ کر ملک صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ نے تفسیری نوٹ تیار کئے ہیں.الہی تقدیر تو اپنا کام کرتی ہے.جو شخص اس دنیا میں آتا ہے اسے ایک دن جانا بھی ہوتا ہے اسی لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ جب ایک دن جانا ہی ہے اور ہمیشہ کی زندگی ہے جس کے اندر تمہیں داخل ہونا ہے تو اسکے لئے زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے.حضرت ملک غلام فرید صاحب رضی اللہ عنہ نے بڑی پیاری زندگی گزاری ہے.ان میں دینی غیرت بھی بڑی تھی اور اطاعت بھی بڑی تھی یعنی خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت.ایک چھوٹا سا واقعہ مجھے یاد آ گیا.ہم قادیان میں خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام وقار عمل منایا کرتے تھے.یہاں اس شکل میں اب وقار عمل نہیں ہوتے وہاں تقریباً سارے خدام اور انصار شامل ہوا کرتے تھے.اور ان کے گرد رضا کار پہرہ دے رہے ہوتے تھے.اور روایت یہ بن گئی تھی کہ ہر شخص وہاں آئے اور کوئی شخص اجازت کے بغیر اس علاقے سے باہر نہ نکلے.ایک دن کوئی ایک تہائی وقت گذرا تھا ایک رضا کار نے آکر مجھے کہا.(میں ان دنوں صدر مجلس خدام الاحمد یہ تھا کہ ملک غلام فرید صاحب آئے اور تھوڑی دیر بعد ہی چلے گئے.میں نے ان کو روکا اور انہوں نے بازو سے پکڑ کر پرے دھکیل دیا اور چلے گئے.اس نے اپنی طرف سے شکایت کی.میں چونکہ ملک صاحب کو جانتا تھا اس لئے میں نے ان کی بات سن لی.میرا خیال تھا کہ میں خود ہی بات کرلوں گا ان سے کہ کیا قصہ ہے میں جانتا تھا کہ وہ بغیر اجازت کے اس طرح جانے والے نہیں.دوسری طرف ملک صاحب کو کسی نے کہا، یا کہ شاید میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے

Page 221

.....214 حضرت خلیفتہ امسح الثالث پاس ان کی شکایت کر دی ہے اس لئے خلافت سے ان کو جو پیار اور محبت تھی اس کی وجہ سے وہ سخت گھبرائے کہ یہ کیا ہو گیا ہے.چنانچہ ان کا میرے پاس خط آگیا کہ آپ نے کیوں میری شکایت کر دی.مجھ سے تو بات کر لینی تھی میں آپکو اصل وجہ بتادیتا.خیر میں نے ان کو بتایا کہ میں نے کوئی شکایت نہیں کی وہ کہنے لگے کہ بات یہ تھی کہ ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت کے سلسلہ میں میں نے گاڑی پکڑنی تھی.اسی دن جس دن وقاری عمل تھا لیکن مجھ سے یہ رہا نہیں گیا اور میں نے کہا وقار عمل میں شامل ہونا ثواب کا موقع ہے تو میں تھوڑی دیر کیلئے آکر شامل ہو جاتا ہوں کیونکہ گاڑی کا جو وقت تھا اس سے پہلے مجھے تھوڑا سا وقت مل جاتا تھا کہ میں وقار عمل میں بھی شامل ہو جاؤں اور گاڑی بھی پکڑ لوں (غالبا وہ لاہور جارہے تھے ) تو اس عرصہ کے لئے میں وقار عمل میں شامل ہوا اور مجھے جتنا وقت میسر تھا میں نے وقار عمل میں حصہ لیا اور اسکے بعد میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ میں اجازت لیتا.میں نے کہا کہ میں بعد میں بات کر لونگا سو میں چلا گیا.میں نے ان سے کہا آپ نے بڑا اچھا کیا.گو یہ ہے تو ایک چھوٹا سا واقعہ لیکن اس میں ان کو جو پیار اور تعلق تھا خلافت سے وہ بھی ظاہر ہوتا ہے اور جو ان کا تعلق تھا نظام جماعت سے وہ بھی ظاہر ہوتا ہے اور جو ان کا احساس تھا اپنی ذمہ داری کو نباہنے کا، وقت پر ریویو شائع ہو جائے وہ بھی ظاہر ہوتا ہے اور جو تھوڑا سا وقت ایک نیکی کے کرنے کا ان کو ملا اور جسے وہ پورا ثواب سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ ثواب دے ہی دیتا ہے ایسے نیت والے آدمیوں کو تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ تین گھنٹے وقار عمل میں شامل نہیں ہو سکتے تو چلو ایک گھنٹہ ہی شامل ہو جائیں.پس ایک ایسا وجود ہم سے جدا ہوا ہے ایک تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی جواولاد ہے اور دوسرے عزیز واقارب جو وہ پیچھے چھوڑ گئے ہیں ان پر بھی رحمت نازل کرتا رہے اور ان کا بھی خاتمہ بالخیر کرے.ہم سب کا خاتمہ بالخیر کرے.اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے وجود کثرت سے جماعت میں پیدا ہوتے رہیں اخلاص کے لحاظ سے بھی علم کے لحاظ سے بھی اور ہر وقت فدائیت کے ساتھ خدمت اسلام کا جو جذبہ ہے اس لحاظ سے بھی اور ہماری علمی میدان کی جو ضرورتیں ہیں اللہ کرے کہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو ان ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں.ملک صاحب مرحوم کی نماز جنازہ عصر کی نماز کے بعد چار بجے بہشتی مقبرہ کے میدان میں پڑھی جائیگی.دوستوں کو چاہیے کہ احمدیت کے ایسے بزرگ اور فدائی کی نماز جنازہ میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوں.جہاں ہمیں اپنے لئے بھی دعا کا خاص موقع ملتا ہے اور جانے والے بھائی کیلئے بھی دعا کا خاص موقع ملتا ہے.(روز نامه افضل 5 مارچ 1977ء)

Page 222

215 حضرت خلیفہ المسح الثالث اقتباس از خطاب جلسه سالانه فرموده 27 / دسمبر 1977 وقف جدید کے کام میں سب سے بڑی روک خود جماعتوں کی طرف سے واقع ہوتی ہے وہ معلمین کا مطالبہ تو کرتی ہیں لیکن معلمین تیار کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتیں اور نہ ہی احباب حسب ضرورت بطور معلم کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اب اگر دوسو معلمین کی ضرورت ہو اور آپ صرف سو معلم دیں تو باقی کہاں سے آئیں گے؟ پس جماعتوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایسے لوگ پیش کرنے چاہئیں جو بطور معلم خدمات بجالا سکیں اس کے بغیر وقف جدید کے کام میں وسعت پیدا نہیں ہو سکتی.پھر وقف جدید کے لئے ایک خاص قسم کا لٹریچر چاہئے ، گہرے اور ادق مسائل کی معلمین کو ضرورت نہیں.ان کے لئے تو ایسی کتابیں تیار ہونی چاہئیں جن میں موٹے موٹے مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہو.پھر معلمین کے لئے ایک عام فہم انداز میں لکھی ہوئی تبلیغی پاکٹ بک بھی ہونی چاہئے جو ضروری حوالہ جات پر مشتمل ہو.میں نے 2/جنوری1976 ء کو خطبہ جمعہ میں رضا کار معلمین سے متعلق ایک تحریک پیش کی تھی اس کی طرف جماعت پوری توجہ نہیں کر رہی.جماعت نے ابھی اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھا.میں نے تحریک یہ پیش کی تھی کہ جماعتیں مرکز میں رضا کار معلم بھجوائیں.مرکز ان کے لئے دوماہ کی کلاس جاری کر کے تعلیم و تربیت کا انتظام کرے گا اور انھیں اس قابل بنائے گا کہ وہ رضا کارانہ طور پر بطور معلم خدمت بجا لا سکیں.انھیں مختلف مسائل کے چیدہ چیدہ دلائل سکھا دئے جائیں گے اور ان میں اتنی استعداد پیدا کر دی جائے گی کہ وہ با آسانی کام کر سکیں گے.رضا کار معلمین کے منصوبہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی آتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً طَ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبہ: 122 ) یعنی مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر تعلیم دین کے لئے ) نکل پڑیں پس کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین سیکھتے اور اپنی قوم کو واپس لوٹ کر (بے دینی سے ) ہوشیار کرتے تا کہ وہ گمراہی سے ڈرنے لگیں.اس آیت میں اس امر کا ہی ذکر ہے کہ بعض لوگوں کو رضا کارانہ طور پر آگے آنا چاہئے اور مرکز میں رہ کر دین سیکھنا چاہئے اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا چاہئے.اب

Page 223

216 حضرت خلیفة المسیح الثالث تک معلمین وقف جدید کی مساعی کے نتیجہ میں چارسو پندرہ غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ہے.اگر رضا کار معلمین میسر آتے رہیں تو وقف جدید کے کام میں بہت وسعت پیدا ہوسکتی ہے.جماعت کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.(الفضل 18 جنوری1978ء)

Page 224

217 حضرت خلیفہ المسح الثالث خلاصہ خطبہ جمعہ فرموده 31 جنوری 1978 ء بمقام ربوہ) حضور نے فرمایا انسان اسی ذات پر صحیح معنوں میں اور پورے اطمینان کے ساتھ تو کل کرسکتا ہے جو عزیز بھی ہو اور رحیم بھی.یعنی ہر ھے پر قادر بھی ہو اور پھر اپنی عظیم قدرت سے اپنے بندوں پر بار بار رحم کرنے والا بھی ہو.انسان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اس امر کا محتاج ہے کہ وہ بار بار تو بہ اور استغفار کے ذریعہ اپنے رب کی طرف جھکے اور اس کا یہ جھکنا محض زبان سے نہ ہو بلکہ عمل سے بھی ہو.یعنی قرآن کریم نے جو احکام دئے ہیں ہمارے اعمال ان کے مطابق ہوں مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) اس میں اموال کو اور پھر اپنے اوقات کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا بھی مراد ہے اور اس بارہ میں رسول اکرم ﷺ کے صحابہ " کا عظیم نمونہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے.صلى الله حضور نے فرمایا ہماری جماعت میں جتنی تحریکیں بھی کی جاتی ہیں ان سب کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول اور رسول کریم ﷺ کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنا ہے انہی تحریکوں میں سے ایک تحریک وقف جدید بھی ہے جس کے نئے سال کے آغاز کا میں آج اعلان کرتا ہوں.اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہماری جماعتوں میں ہر جگہ ایسے معلم موجود ہوں جو روز مرہ کی باتوں میں قرآن کریم کے احکام بتائیں اور لوگوں کی تربیت کریں.حضور نے فرمایا وقف جدید کے معلم ہمیں مناسب تعداد میں نہیں مل رہے ہمیں ایسے بہت سے مخلص احمدی معلم ملنے چاہئیں جن کے دل میں قرآنی احکام پر عمل کرنے اور کرانے کی تڑپ ہو اور پھر ان معلمین کے اخراجات پورا کرنے کیلئے ہمیں چندہ بھی دینا چاہیے.اس چندہ کا ایک حصہ میں نے احمدی بچوں اور بچیوں کی تربیت کی غرض سے ان کے ذمہ لگایا تھا.میں چاہتا ہوں کہ کوئی احمدی بچہ اور بچی ایسی نہ رہے جو اپنی خوشی سے رضا کارانہ طور پر اپنے جیب خرچ میں سے تھوڑی بہت رقم بچا کر اس تحریک میں پیش نہ کرے.ان کے علاوہ بڑوں کو بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چندہ وقف جدید میں ضرور حصہ لینا چاہیے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں بڑی برکت ڈالے آپ کی قربانی کو قبول کرے اور اس کے فضلوں کے آپ وارث بنیں.آمین (روز نامه الفضل ربوہ 14 جنوری 1978ء)

Page 225

218 حضرت خلیفہ المسح الثالث اقتباس از خطاب جلسه سالانه فرمودہ 27 دسمبر 1978ء) حضور انور اپنے خطاب میں وقف جدید کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وقف جدید اللہ کا فضل ہے، بڑا اچھا کام کر رہی ہے.ایک کام جو بڑا پیا را وہ کر رہے ہیں وہ ہندوؤں میں اور بت پرستوں میں تبلیغ کا ہے اور آہستہ آہستہ یہ بت پرست اور خدائے واحد و یگانہ کو نہ ماننے والے جو قبیلے ہیں یہ خدائے واحد و یگانہ کی طرف توجہ کر رہے ہیں.اور سینکڑوں کی تعداد میں اسلام لا چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں صداقت اسلام کے متعلق تحقیق میں مشغول ہیں.دوست دعا کریں اللہ کرے انکو بھی اسلام کا نور حاصل ہو.وقف جدید کی ایک فری ڈسپنسری ہے وہ بھی بڑا اچھا کام کر رہی ہے.(غیر مطبوعه )

Page 226

219 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبہ جمعہ فرمودہ 5 جنوری 1979 ء بیت اقصیٰ ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میرا ارادہ بعض ضروری اور اہم اور بنیادی باتیں کرنے کا تھا لیکن دو ایک روز سے مجھے انفلوئنیزا کی ہلکی سی شکایت شروع ہو گئی تھی جس میں آج شدت پیدا ہوگئی ہے اور آج صبح میں نے محسوس کیا کہ مجھے بخار کی سی کیفیت بھی ہے.تھرما میٹر لگایا تو بخار تو نہیں تھا لیکن حرارت 4.99 تھی اور وہ کیفیت اب زیادہ ہورہی ہے اس لئے وہ باتیں جن پر کافی وقت لگتا تھا وہ میں اس وقت بیان نہیں کروں گا.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انشاء اللہ آئندہ جمعہ پر بیان کروں گا لیکن توفیق دینے والا اللہ ہی ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے اور کام کرنے کی توفیق دے.ویسے یہ جلسہ کے بعد کا انفلوئنیز تو ایک چھوٹا سا تحفہ ہی ہے کیونکہ وہ دوست جن کو جلسے کے ایام میں انفلوئنیز ا ہوتا ہے وہ بڑے پیار سے بہت قریب آ کر باتیں کرتے ہیں اور ا سکے وائرس ایک دوسرے کو لگنے والے ہیں وہ مجھے بھی لگ جاتے ہیں اور یہ تحفہ ہم خوشی سے قبول کرتے ہیں اور ہمیں دعاؤں کی توفیق ملتی ہے اپنی صحت کیلئے بھی اور ان لوگوں کی صحت کے لئے بھی جن لوگوں کی طرف سے یہ تحفہ ملتا ہے.اس وقت ایک تو میں اسلئے آیا ہوں کہ یہ ہجری شمسی سال کا پہلا جمعہ ہے اور وقت کی ہر تبدیلی دعاؤں کا مطالبہ کرتی ہے.ہماری زندگی کی صبح مطالبہ کرتی ہے کہ ہم دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ دن صلى الله ہمارے لئے مبارک کرے اور آسمانی برکتوں کا نزول اس میں پہلے دنوں سے زیادہ ہو.آنحضرت ﷺ نے صبح اٹھنے کی دعائیں بھی سکھائی ہیں اور ہر رات ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم دعائیں کریں کہ اے خداوہ لوگ جو اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ان کے لئے بھی روشنی کا سامان پیدا کر.خدا تعالیٰ نے زمانے کو اس طرح تقسیم کر کے ہماری زندگی سے یکسانیت کو دور کر دیا ہے اور دنوں کو ہفتوں میں باندھ کر اور ہفتوں کو مہینوں میں باندھ کر اور مہینوں کو سالوں میں باندھ کر اور پھر سالوں کو صدیوں میں باندھ کر اوراس طرح زمانے کے ٹکڑے کئے ہیں ورنہ ہمیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کب ہماری زندگی کی ابتداء ہوئی اور بسا اوقات ہم سی بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگی کی کوئی انتہا بھی ہے اور آخر ہم نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے.ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے.نیا سال میری طرف سے آپ سب احمدیوں کو بھی اور نوع انسان

Page 227

220 حضرت خلیق اصبح الثالث کو بھی مبارک ہو.خدا کرے کہ یہ سال انسانیت کے لئے خیر و برکت کا سال ہو.دنیوی لحاظ سے بھی اور بین الاقوامی رشتوں کے لحاظ سے بھی اور امن عامہ کے لحاظ سے بھی اور غلبہ اسلام کے لحاظ سے بھی.دوسری بات جو میں اس وقت مختصراً کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ وقف جدید کے نئے سال کا اعلان میں عام طور پر سال کے پہلے جمعہ کے خطبہ میں کیا کرتا ہوں چنانچہ آج میں وقف جدید کے بائیسویں اور دفتر اطفال وقف جدید کے چودھویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.وقف جدید ہماری جماعت کا ایک چھوٹا سا شعبہ ہے جسے حضرت مصلح موعود نے جماعت کی تربیت کے لئے قائم کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور جماعت کو اس میدان میں کام شروع کرنے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کی توفیق دی لیکن جیسا کہ آپ اکثر میری زبان سے سن چکے ہیں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کا زمانہ آہستہ آہستہ پیچھے رہ گیا اور تیزی سے آگے بڑھنے کا زمانہ شروع ہو گیا.اس میں شک نہیں کہ وقف جدید کا کام بہت محدود ہے لیکن ہر کام کیلئے کام کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر کام کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے جس نے سفر کرنا ہے اس نے چوری کر کے اور ٹکٹ خریدے بغیر تو سفر نہیں کرنا یہ تو جماعت احمدیہ کی ریت ہی نہیں ہے.معلمین کے سفروں پر خرچ آتا ہے جو کہ دیہات میں جاتے ہیں اور پھرتے ہیں اور قرآن کریم ناظرہ پڑھاتے ہیں اور بعض کو ترجمہ سے پڑھاتے ہیں اور عام مسائل بتاتے ہیں.یہ چھوٹی سطح پر بچوں کی ابتدائی تربیت ہے جنہوں نے کہ پہلے اپنی بدقسمتی سے اسلامی تعلیم حاصل نہیں کی ان کو وہ ابتدائی مسائل سکھاتے ہیں.یہ تدبیر کی دنیا ہے اور تدبیر کی دنیالا زمی طور پر تدریجی ارتقا کی دنیا ہوتی ہے اور تدریجی ارتقالا ز ما ابتدائی باتوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنی کہ بہت آگے نکلنے کے بعد ضروری باتوں کو دی جاتی ہے اس لئے معلمین وقف جدید اگر چہ ابتدائی مسائل کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ابتدائی مسائل کی تعلیم دینا بھی بہت ضروری ہے.مثلاً یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ بازار کے جو آداب محمد نے سکھائے ہیں ربوہ میں بھی بہت کم لوگ ان سے واقفیت رکھتے ہیں.ربوہ کے نظام کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور معلمین وقف جدید کوتو بہت سی کتابیں چھپوا کر یا نوٹ لکھوا کر یہ مسائل بتانے چاہئیں تا کہ ہر ایک کے دماغ میں یہ ڈالا جائے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اسلام وحشی کو مہذب انسان بنانے کے لئے اور مہذب انسان کو با اخلاق انسان بنانے کے لئے اور با اخلاق انسان کو با خدا انسان بنانے کے لئے آیا ہے.اس کا پہلا مرحلہ تادیب ہے یعنی ادب سکھانا اور انسان کے لئے ہر مرحلے میں سے گزرنا، اس کے مسائل کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے.اسلام کی تعلیم میں کوئی بھی ایسی چھوٹی بات نہیں اور اسلام کے احکام میں سے کوئی بھی ایسا چھوٹا حکم نہیں جسے چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکے

Page 228

221 حضرت خلیفقه لمسیح الثالث اور اس کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والا ہو.پس وقف جدید اچھا کام کر رہی ہے لیکن اس کے کام میں بھی زیادہ حسن پیدا ہونا چاہیے اور جماعت کو کام کرنے والوں کی تعداد بڑھانی چاہیے اور کام کرنے کے لئے جس سرمائے کی ضرورت ہے وہ مہیا ہونا چاہیے.یہ ترقی کر رہے ہیں لیکن میرے پاس بعض دفعہ بعض دیہاتی جماعتوں کی طرف سے بڑے غصے کے خطوط آجاتے ہیں کہ ہم نے کئی بار وقف جدید کو لکھا ہے مگر وہ ہمارے پاس معلم نہیں بھیجتے.جب آپ نے ان کو اتنے معلم دئے ہی نہیں کہ وہ ساری ضرورتوں کو پورا کرسکیں تو وہ کیسے ساری ضرورتوں کو پورا کریں.پس اس طرف آپ توجہ دیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اہم اور عظیم ذمہ داریاں اس زمانہ میں اس کمزور جماعت کے کندھوں پر ڈالی ہے.ان کو وہ اپنے فضل سے پورا کرنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے علم سے انہیں علم سکھائے اور اپنی طاقت سے انہیں طاقت بخشے اور دنیا تک اسلام کے نور کو پہنچانے کی اور اسلام کے حسن کو چمکتے ہوئے اور بغیر گردو غبار کے صحیح اور منور حسن کو ان کی آنکھوں کے سامنے رکھنے کی توفیق عطا کرے اور ہر میدان اور ہر شعبہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب کرے اور آپ کو بھی اور مجھے بھی صحت دے اور صحت سے رکھے.اس کے بعد فرمایا: جیسا کہ میں نے کہا جو بہت اہم باتیں میں آج کہنا چاہتا تھا اگر صحت رہی تو انشاء اللہ وہ اگلے جمعہ کے خطبہ میں آپ سے گفتگو میں بیان کروں گا.روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 4 فروری 1979ء)

Page 229

222 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 1980 ء بیت اقصیٰ ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ہر سال پہلے مہینہ میں میں وقف جدید کے سال نو کے آغاز کا اعلان کیا کرتا ہوں سو میں آج کر رہا ہوں.وقف جدید بنیادی طور پر خالصہ تربیتی ادارہ ہے اور اس کے سپرد یہ کام ہے کہ انسانیت کے آداب جماعتوں میں جو معلم ہیں وہ سکھائیں اور جو اسلام نے بلند اخلاق ہمیں سکھائے جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے اس تعلیم کے مطابق اسلامی اخلاق کے بلند معیار پر جماعت کو لیجانے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام وحشی کو انسان بناتا ہے ،انسان کو با اخلاق بناتا ہے ، با اخلاق کو روحانی رفعتیں عطا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار تک لے کے جاتا ہے.اگر انسانیت نہ ہوتو روحانیت کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.انسان دوسرے جانوروں سے مختلف ہے بنیادی طور پر.دوسرے جانوروں میں بھی ایک حد تک سیکھنے کی قوت اور استعداد ہے.انسان میں سیکھنے کی بہت حد تک قوت و استعداد ہے.اسلام وحشی کو، کرختگی کو، کرختگی والے انسان کو ، وحشت دور کر کے نرمی اور رفق پیدا کر کے اور پالش کر کے اور حسن پیدا کر کے ابتدائی طور پر اسے صحیح معنی میں انسان بناتا ہے.چھوٹی سی چیز ہے کھانا کھاتے وقت دوسرے کے احساس کا خیال رکھو.اس کا بلاواسطہ روحانی بلندیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن بالواسطہ ہے کیونکہ جب تک انسان انسان نہ بنے روحانی ترقیات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بیچ میں مدارج ہیں اور ان کا میں جان کے ذکر نہیں کر رہا.ضرورت نہیں.کھانا کھاتے وقت دوسروں کا خیال رکھو.یہ وحشت جو انسان کی ہے اس کو دور کرتا ہے.جانور کھاتے وقت دوسرے کا خیال نہیں رکھتا.میں نے دیکھا ہے کہ گھوڑی اپنے بچے کا بھی خیال نہیں رکھتی.میں بعض دفعہ باہر نکلتا ہوں تو اپنے ہاتھ سے برسیم ان کو دیتا ہوں.تو اگر ساتھ گھوڑی کا بچہ ہوتو حالانکہ گھوڑی کے منہ میں لقمہ ہوتا ہے.میرے ہاتھ سے جو اس نے لیا، جب بچے کی طرف کرتا ہوں تو وہ منہ مار کے اور اسکو بھی چھیننے کی کوشش کرتی ہے.انسان کو جہاں یہ کہا کہ دائیں ہاتھ سے کھا وہاں یہ کہا کہ اگر اکٹھے کھا رہے ہو یا ویسے بھی تو مِمَّا یلیک جو تیرے سامنے ہے، اسے کھا.یہ نہیں کہ ادھر ادھر ہاتھ مار کے اور پسند کی بوٹیاں ، اگر پلاؤ کا تھال ہے تو چن کے ایک شخص کھانا شروع کر دے اور دوسرا شخص جو ہے وہ ہاتھ ہی پھیچ لے.

Page 230

223 حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایک ہماری عربی کتابوں میں واقعہ آتا ہے وہ اس وقت مجھے یاد آیا.ایک شخص نے لکھا ہے.بدو سردار تھا اس نے لکھا کہ میری بیوی سامنے میرے کھانا رکھتی تھی تو میری بیٹی ساتھ میرے کھایا کرتی تھی.وہ کہتا ہے اتنی ذہانت اس میں اور اتنی شرافت اس میں اور ادب انسانی سے واقف اور باپ کا خیال رکھنے والی کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس لقسمہ کی طرف میری نگاہ اٹھی ہو اس کا ہاتھ اس طرف اٹھ گیا ہو.پھر وہ بڑی ہوئی بیاہی گئی اپنے سسرال چلی گئی اور اس کی بجائے اس کا چھوٹا بھائی میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا تو اس کا یہ حال تھا وہ کہتا ہے کہ جس لقے کی طرف میری نظر اٹھتی تھی اس لقمے کی طرف اسکا ہا تھ اٹھتا تھا.یہ مثال بتاتی ہے کہ جب پالش ہو جائے ایک حسن ، آداب کہتے ہیں اسکو ، آداب آجائیں، صحیح تو فرق پڑ جاتا ہے انسان انسان میں.ایک حسن پیدا ہو جاتا ہے.وہ تیار ہو جاتا ہےاخلاقی میدانوں میں آگے بڑھنے کے لئے.جس نے آداب نہیں سیکھے وہ اخلاق نہیں سیکھ سکتا ، جس نے اسلامی اخلاق نہیں سیکھے وہ اسلام کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق روحانی میدانوں میں آگے نہیں بڑھ سکتا، آسمانی رفعتوں کو حاصل نہیں کرسکتا.عام طور پر ہمارا جو شاہد مبلغ ہے وہ گہرے فلسفوں میں تو جاتا ہے، اسلام پر اگر اعتراض کوئی کرے غیر مسلم، تو بڑے اچھے جواب دیتا ہے.کچھ اس نے سیکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ اس میدان میں اللہ تعالیٰ سے وہ سیکھتا ہے عین اس وقت جب وہ اعتراض کو سنتا ہے.لیکن بہت کم ہیں جو اس طرف توجہ کرتے ہیں کہ ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ جماعت کو اسلام کے بتائے ہوئے جو آداب ہیں وہ سکھائیں.مثلاً مسجد ہے اس کے آداب ہیں.ان کا اخلاق کے ساتھ تعلق نہیں.آداب ہیں مسجد کے.وہ آنے چاہئیں.آداب ہیں مجلس کے وہ آنے چاہئیں.آداب ہیں اس مجلس کے جس میں امام وقت بیٹھا ہوا ہو وہ آنے چاہئیں.آداب ہیں کھانے پینے کے وہ آنے چاہئیں.آداب ہیں کپڑا پہننے کے وہ آنے چاہئیں.اب یہ کہ پہلے دایاں پاؤں جوتے میں ڈالو اور بعد میں بایاں ان کا اخلاق کے ساتھ تعلق نہیں ، آداب کے ساتھ تعلق ہے.حقیقت بڑی پیاری ہے اس کے پیچھے لیکن تعلق اس کا آداب کے ساتھ ہے.کپڑا پہنے کپڑا اتارنے کے آداب ہیں.ہزار قسم کے آداب اسلام نے سکھائے.ایک تو وقف جدید والوں کو چاہیے کہ وہ آداب کے او پر بھی کتابیں لکھنی شروع کریں اور میں بتایہ رہا ہوں کہ زیادہ ذمہ داری معلمین کی آداب سکھانے پر ہے.کیونکہ علمی لحاظ سے ان کو ہم نے اس طرح تعلیم نہیں دی.اسلام کی قرآن کریم کی تفسیر کی جس طرح مبلغین کو ہم دیتے ہیں یا جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو بار بار پڑھنے والے ہیں خواہ وہ شاہد نہیں ان کو جو علم ہے وہ وقف جدید کے معلم کو نہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وقف جدید کے معلم کی

Page 231

224 حضرت خلیفة المسیح الثالث افادیت نہیں.وہ عام موٹے موٹے مسائل بھی بتاتا ہے لیکن بنیادی طور پر اس نے پالش کر کے ان کو انسان بنانا ہے.وہ انسان جو مسلمان کی حیثیت سے جب دوسروں کے سامنے آتا ہے تو دیکھنے والی نگاہ اس میں اور غیر مسلم میں ایک فرق پاتی اور محسوس کرتی ہے، لیکن وضو کا طریق نماز میں کھڑے ہونے کا طریق.ایک نماز پڑھنے کی جو سنت نبوی ہے ایک بڑی لمبی حدیث ہے غالباً بخاری میں ہے جہاں تک مجھے یاد ہے بچپن میں میں نے پڑھی تھی.نبی کریم ﷺ نے جو تقسیم اوقات کیا ہے قیام میں ، رکوع ، سجدہ ، قعدہ بین السجدتین جو ہیں اس میں ،اس میں بڑا تفصیل سے ذکر ہے کہ وقفوں کی نسبتیں کیا تھیں.وقت کے لحاظ سے جہاں ضرورت ہے اس کی وہ ہمیں بتادی.ایک تو جو تلاوت کی جاتی ہے یا جس کی اجازت دی گئی ہے جتنی لمبی تلاوت کی اس نے وقت بتایا.جو دعائیں ہیں انہوں نے وقت بتایا.اس کا ایک حصہ تصوف کا رنگ عشق کا رنگ ہستی کا رنگ بھی اختیار کرتا ہے.ایک ہے دین العجائز.موٹی موٹی باتیں ہیں.موٹی موٹی سمجھ والے آدمی جو ایک عام مسلمان کا معیار ہے لیکن جب میں ایک عام مسلمان کا معیار کہتا ہوں تو میں کوئی گری ہوئی چیز کا ذکر نہیں کر رہا.وہ عام مسلمان کا معیار بھی آسمانوں کی رفعتوں پر ہمیں نظر آتا ہے.کوئی غیر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تو یہ مسائل بھی وہ بتاتے ہیں آداب بھی انہیں بتانے چاہئیں.اور ان کا میں نے بتایا کہ اصل کام تو آداب سکھانا موٹے موٹے پھر مسائل بتانا ہے اور ضرورت اور اہمیت بڑی ہے.میرے پاس خط آتے ہیں، جی ! ہمارے پاس ایک سال معلم رہا اب کہیں اور بھیج دیا گیا ہے ہمیں اس کی ضرورت ہے.یہ تو درست ہے کہ ایک سال آپ کے پاس رہنے کے بعد بھی آپ کو ضرورت ہے ، ہر وقت وہاں رہنا چاہیے لیکن اس میں بھی کوئی شک اور شبہ نہیں کہ آپ کے پاس ایک سال رہنے کے بعد جو آپ کی ضرورت ہے اس سے زیادہ اس دیہاتی جماعت کی ضرورت ہے جہاں ایک سال بھی نہیں رہا، وہ رہ ہی نہیں ایک دن بھی.اس واسطے وہ بدل کے بھیجنے پڑتے ہیں.اگر جتنی جماعتیں پاکستان میں ہیں اتنے معلمین ہوں یا اس سے دگنے ہوں کیونکہ ایک بھی بعض دفعہ نہیں سنبھال سکتا گاؤں کو.کام کی زیادتی کی وجہ سے، تو پھر تو ٹھیک ہے.پھر آپ کہیں کہ جی ! ہم سے لے لیا گیا.ہمیں دیں.لیکن اگر وقف جدید کے معلم اپنی تعداد میں تھوڑے اور یہ خدا کے فضل سے بڑھتی ہوئی جماعت اپنی تعداد میں اس کے مقابلے میں بہت بڑی اور ہر آن بڑھنے والی ہو تو معلمین کی تعداد بھی ہر آن بڑھنے والی چاہیے.اگر ان کی تعداد نہ بڑھے.ان کی تعداد تو اس نسبت سے زیادہ بڑھنی چاہیے کیونکہ وقفہ بڑا ہے یعنی اگر نوسو جماعتیں فرض کریں ہیں یا ایک ہزار جماعت ہو اور دو سو معلم ہو تو ان کی تعداد تو اس نسبت سے بڑھنی چاہیے کہ ایک ہزار بن جائے ، اس سے قبل کہ جماعتوں کی تعداد ہزار کی بجائے گیارہ سو بن جائے.تو ویسے تو جب وہ گیارہ سو

Page 232

225 حضرت خلیفة المسیح الثالث ہو جائے تو پھر گیارہ سو ہونے چاہئیں.جب دو ہزار بن جائے تو دو ہزار بننے چاہئیں جب ایک لاکھ بن جائے تو ایک لاکھ معلم ہونا چاہیے آپ کے پاس.اس وقت کے پیش نظر میں نے ایک آنریری معلم عام کی اصطلاح وضع کر کے کام شروع کروایا تھا لیکن اس کے اندر بعض قباحتیں بھی پیدا ہو گئیں اور ضرورت بھی پوری نہیں ہوئی.اس واسطے آج میں یہ اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جن کو ہم اعزازی معلم کہتے رہے ہیں ان کو آئندہ سے اعزازی معلم نہیں کہیں گے.بلکہ معلم درجہ دوئم ان کو ہم کہیں گے.معلم درجہ اول اور معلم درجہ دوم ان کا ہوگا.لیکن اس کی طرف جماعت نے توجہ نہیں کی.میں نے یہ کہا تھا کہ معلمین کا کافی تعداد میں فوری طور پر حاصل ہونا قریباً ناممکن ہے اس واسطے جو پرانا طریقہ تھا شروع اسلام میں رائج ہوا کہ ہر علاقے سے علاقے کو سنبھالنے کیلئے اور ہر شہر اور قصبہ سے اس کو سنبھالنے کے لئے آدمی ملیں اسی سے یہ نتیجہ عقل نکالتی ہے اس شہر اور قصبہ کو سنبھالنے کیلئے آدمی آنے چاہئیں تا کہ تفقہ فی الدین حاصل کریں اور جو کام معلم کا ہے وہ جا کے کریں.یہاں ان کا تین مہینے کا غالبا نصاب تھا لیکن کتابی نصاب کی طرف توجہ دی گئی اور خود انکی اپنی تربیت اور ان کے اپنے مزاج کو بدل دینے کیلئے کوشش نہیں کی گئی.جو آتا ہے جس کو درجہ دوم کا اب ہم معلم کہیں گے وہ اس کی ذہنیت ایک معلم کی ہونی چاہیے.وہ اتنخواہ نہیں ہے وہ جا کے اپنے کام کرے گا لیکن خالی وقت میں جب مسجد میں آئے گا اس کو ابتدائی آداب اسلام موٹے موٹے مسائل جو ہیں وضو کس طرح کرنا ہے اور نماز کس طرح ادا کرنی ہے وغیرہ وغیرہ موٹے موٹے مسائل سے اس کو آگاہی ہوگی لیکن اس کے اندر یہ جذ بہ اگر ہم پیدا نہیں کرتے کہ اس نے جاکے سکھانا ہے اور جہاں علم کی کمی کے نتیجہ میں عمل صالح پر دھبہ لگ رہا ہے اس کو دور کرنا ہے.علم نہ ہو تو دھبہ لگ جاتا ہے نا.وہ مثال تو صادق پوری نہیں آتی لیکن جب 1967ء میں میں نے اعلان کیا کہ مسجد تو خدا کا گھر ہے اس کے دروازے ہر موحد کے لئے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے کیلئے کھلے ہیں تو افتتاح کے معابعد جمعہ تھا تو بتانے والوں نے بتایا کہ ویسے مسجد میں بھی کافی تھے شاید کئی سو آدمی ہوں ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا.لیکن ان کو علم نہیں تھا کہ نماز پڑھتے کس طرح ہیں.اس واسطے جب ہم رکوع میں گئے تو انہوں نے اِدھر اُدھر بھی دیکھا اور معلوم کر لیا کہ یہ کس طرح رکوع کر رہے ہیں اس طرح ادھر اُدھر دیکھتے رہے وہ.لیکن ہم تو نماز میں جب داخل ہو جائیں یعنی نماز شروع ہو جائے تو اس وقت ادھر ادھر نہیں دیکھتے.وہ جو ان کی غلطی تھی وہ عدم علم کی وجہ سے تھی.بہت ساری ایسی چھوٹی یا بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں اس لئے نہیں کہ نیت میں فتور ہے، اس لئے کہ علم میں نقص پایا جاتا ہے.غلطی ہو جاتی ہے.انکو اگر یہ جذبہ ہی نہیں کہ ہم نے جائزہ لیتے رہنا ہے کہ لاعلمی میں جہالت کے نتیجہ میں

Page 233

226 حضرت خلیفہ امسح الثالث کوئی ایسی بات کوئی احمدی مسلمان تو نہیں کر رہا جو اسے نہیں کرنی چاہیے تب تو فائدہ ہے انکا جو میں نے کہا کہ خرابی پیدا ہوگئی وہ میری طبیعت پہ یہ اثر ہے سارے نہیں شاید سو میں سے ایک ہوگا اعزازی معلمین میں سے جن کو پہلے اعزازی کہتے تھے جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ آنریری معلم تو لکھنا شروع کر دیا لیکن اپنے کام کے ساتھ آنریری معلم کے کام کا سو میں سے ایک حصہ بھی نہیں لگایا.تو وہ یہ کوئی آنریری ڈگری اعزازی ڈگری نہیں تھی جو ان کو دی گئی تھی بلکہ یہ اعزاز ان کو جماعت کی طرف سے ملا تھا کہ وہ معلمین کی طرح اپنی جماعت میں اپنے گاؤں میں کام کریں اور دین کی واقفیت لوگوں میں پیدا کریں اور خدمت کا جذبہ ان کے اندر ہواور جو اسلام کے اصول ہیں ان پر اپنی جماعت کو چلائیں.یہ آداب جو ہیں انسانیت کے اور اخلاق جو ہیں اسلامی ، اس سے پہلے صفائی ضروری ہے.عقیدہ کی صفائی یعنی بد عقائد کو دور کر کے عقائد صحیحہ سے واقفیت حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنے کی یا ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنا اور عزم کرنا بدعات کے خلاف جہاد بڑا ضروری ہے اس کے بغیر تو شاید کچھ معجون مرکب بن جائے بدعات کا اور اسلامی اخلاق کا لیکن اسلامی اخلاق صحیح معنی میں قائم نہیں ہو سکتے.بدعات کے خلاف جہاد جو ہے اس کی بھی بڑی ذمہ داری، اصل ذمہ داری تو ہماری جماعت پر ہے لیکن کافی حد تک یہ ذمہ دار ہیں معلم وقف جدید کے.انکوایسی باتوں سے بھی آگاہ ہونا چاہیے.بڑے بڑے آدمی بھی غلطی کر جاتے ہیں.ایک غیر ملک میں ہمارے ہیں نمائندہ انہوں نے تعویذ گنڈ ا وہاں شروع کر دیا.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون لیکن جب جماعت کو علم ہوا تو ان کو سمجھانے کے لئے انتظام کیا گیا ہے.تو بدعات کو دور کر کے اخلاق شنیعہ کو دور کر کے اخلاق فاضلہ قائم کرنا اور بلند اسلامی اخلاق جماعت میں پیدا کرنا یہ ساری جماعت کا فرض ہے وقف جدید کا بھی فرض ہے.جو بدیاں ہیں اور جن کی طرف اس لئے توجہ نہیں دی جاتی کہ شاید چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں کوئی حرج نہیں.اول تو کوئی بدی بھی چھوٹی نہیں.اگر ایک چھوٹا ساعمل مقبول ہو جائے وہ انسان کو جنت میں لے جاسکتا ہے تو ایک چھوٹا سا گناہ جو خدا تعالیٰ کے قہر کو بھڑ کا دے وہ جہنم میں بھی لے جا سکتا ہے.ہمیں اپنی عقل سے کام لینا چاہیے.چونکہ وقف جدید کے کام کے متعلق میں اس وقت بات کر رہا ہوں بعض باتیں جو میرے علم میں آئیں ان میں سے ایک کو میں اس وقت لیتا ہوں اور وہ ہے بعض لوگوں میں گالی دینے ، سب وشتم کرنے اور لعنت بھیجنے کی بدعت.اور سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ.نعوذ باللہ الہ تعالیٰ کو اور تو کوئی کام نہیں ہے صرف اس انتظار میں بیٹھتا ہے کہ ہم کسی کے خلاف بد دعا کریں اور وہ فوراً اس کے مطابق دنیا میں اپنی تقدیر کو حرکت میں لائے اور اس کے اوپر اس کا غضب نازل ہو جائے.اس کے متعلق میں مختصراً

Page 234

227 حضرت خلیفة المسیح الثالث کہنا چاہتا ہوں کہ ساری جماعت یہ عہد کرے کہ کسی پر لعنت کوئی شخص نہیں بھیجے گا.نہ غیر انسان پر نہ انسان پر.زمیندار جو ہیں وہ اپنے بیلوں کو گالیاں دیتے ہیں.مر جائیں.توں ایہہ ہو جائیں.تیرے اوپر خدا دا غضب.خواہ مخواہ غصہ ایک بے زبان حیوان کے اوپر.اس کو تو نقصان نہیں پہنچے گا لیکن تمہیں گناہ گار کر گیا وہ تمہارا بیل.یہ اتنی اہمیت دی اس چیز کو نبی اکرم ﷺ نے کہ ایک سفر میں ایک اونٹ پر قومی سامان لدا ہوا تھا.تو ایک دو حدیثیں ہیں ایک میں مالک کا ذکر ہے ایک میں مالکہ کا ذکر ہے.اسکے منہ سے نکلا یہ کہ خدا کی لعنت ہو تجھ پر.نبی کریم ﷺ کے کان میں آواز پڑی آپ نے کہا اس اونٹ سے اس سامان کو اتار دو.اور یہ اونٹ جو ہے یہاں سے نکال دو میرے قافلے سے.اور آگے کبھی اس کے اوپر مسلمان کا سامان نہیں لا دا صلى الله جائے گا.ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسی طرح آوارہ پھرتا رہا یہ اونٹ ، اور محمد ﷺ کی یہ جو آواز تھی اس کو اس وقت کی امت مسلمہ نے اس طرح یا د رکھا کہ کسی نے بھی اسکو پکڑ کے اس کے اوپر پھر اپنا سامان نہیں لا دا.آپ نے کہا پھر اگر تم ملعون اسکو کہتے ہو تو امت مسلمہ میں کسی ملعون کی گنجائش نہیں ہے ، چاہے وہ انسان ہو چاہے وہ حیوان ہو.تو یہ معمولی چیز نہیں ہے.ابو ہریرہ سے روایت ہے.صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے.نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور فرمایا.اس کے جواب میں کہ بعض لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! مشرکین پر بددعا کریں.اُدْعُ عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ.تو آپ نے جواب دیا انِّی لَم اُبعث لَعَانَاً میں دنیا کی طرف لعنتیں بھیجنے کے لئے مبعوث نہیں ہواوَ إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً میں تو رحمتوں کے ڈھیروں ڈھیر لے کے انسان کی طرف آرہا ہوں لعنت کا لفظ ویسے بھی بڑا ہی بھیا نک معنی رکھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف جو بعض لوگ لعنت کو منسوب کرتے ہیں اس سلسلہ میں لعنت کے عربی لغت کے لحاظ سے جو معانی اور مفہوم ہیں انکو بڑی بسط سے کھول کے شرح کے ساتھ بیان کیا ہے.بہت لمبا ہے میں اس وسعت کے ساتھ یہاں نہیں بتاؤں گا آپ کو لعنت کے معنی ہیں دھت کارنا.ناراض ہو کر دور کر دینا.آخرت میں سزادینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بھی لعنت ہے.اور دنیا میں جو شخص ملعون ہو خدا کی نگاہ میں رحمت سے محروم کیا جانا اور مقبول اعمال کی توفیق اسے نہ ملنا.اور آرام سے کہہ دیا کہ خدا کی لعنت ہو تم پر.جس کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ صلى الله اس دنیا میں خدا کی رحمت سے تم محروم رہو ہمیشہ اور تمہیں کبھی مقبول اعمال کی توفیق نہ ملے.نبی کریم ہے نے فرمایا میں لعنتیں بھیجنے کیلئے نہیں آیا.میں رحمتوں کے سامان پیدا کرنے کے لئے آیا ہوں تو جو نبی کریم صلى الله نے فرمایا اور کیا اسی کی اتباع ہم نے کرنی ہے جو آپ کے ماننے والے اور متبعین کہلاتے ہیں.یہ تو آنحضرت ﷺ کا قول اپنے متعلق ہے اور یہ اسوہ ہیں ہمارے لئے محمد نے مومن کے لئے

Page 235

228 حضرت خلیفہ المسح الثالث بھی آپ کا ارشاد ہے.ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: قَالَ رَسُولُ الله الله لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لَعَّانًا - (ترمذی ابواب البرو الصلة باب ماجاء في اللعن والطعن) ترمذی کی حدیث ہے کہ مومن جو ہے وہ لعنتیں بھیجنے والا نہیں ہوتا.وہ تو نبی کریم اللہ کے فیض سے رحمتوں کو اکٹھا کرتا کچھ اپنے لئے کچھ اپنے ماحول کیلئے اور اس فیضان کو وہ پھیلاتا ہے.پھر ترمندی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لَيْسَ الْمُؤمِنُ بِالطَّعَانِ وَلَا اللَّعَانِ وَلَا الْفَا حِشِ وَلَا البَذِي.(ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في اللعنة) کہ مومن جو ہے وہ.طعان جو ہے اس کے معنی ہیں عیب جو عیب گیر عیب لگانے والا.مومن جو ہے وہ دوسروں کے عیب کی تلاش میں نہیں رہتا عیب پکڑتا نہیں دوسروں کے، اپنی فکر رہتی ہے اسکو.اور عیب لگانے والا نہیں ہے وہ.یہ تینوں معنے اس لفظ کے اندر آتے ہیں ، طعان کے معنی میں تو مومن آپ نے کہا ایسا نہیں ہوتا کہ دوسروں کے عیب دیکھے.اپنے عیب دیکھو، اپنا محاسبہ کرو اور استغفار کرو اور خدا کی پناہ مانگو اس سے مدد چاہو کہ تمہارے عیب دور ہو جائیں.دوسروں کے عیب دیکھ کے تمہیں کیا خوشی حاصل ہوتی ہے.آپ نے فرمایا لعنت نہیں کرتا ایک مومن.جس کے معنے میں ابھی بتا چکا ہوں.وہ بددعائیں دینے والا ، وہ کو سنے دینے والا ، وہ خیر کی بجائے بدی چاہنے والا ، وہ سنتِ نبوی سے احتراز کرنے والا ، اسکا عمل نہ کرنے والا نہیں ہے مومن.صلى الله نبی کریم ﷺ تو خیر ہی خیر تھے.نبی کریم ﷺ نے مکی زندگی میں ایک وقت میں یہ ارادہ کیا کہ طائف شہر جو چالیس میل پر مکے سے ہے وہاں جا کے تبلیغ کریں انکو.شاید وہاں کوئی رجل رشید مل جائے جس پر اثر ہو آپ کی تبلیغ کا.قریباً دس دن وہاں ٹھہرے.اور جہاں جاتے تھے بات سننے سے انکار کر دیتے تھے.ایک بہت بڑے رئیس کے پاس گئے اس نے بات سننے سے انکار کیا اور اس نے کہا کہ میرا مشورہ آپ کو یہ ہے کہ آپ ہمارا شہر چھوڑ کے چلے جائیں.وہ مشورہ نہیں تھا وہ دھمکی تھی.جب آپ نے دیکھا یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں آپ باہر نکلے تو شہر کے اوباش اور غنڈے جو تھے وہ ان رؤسائے طائف نے صلى الله آنحضرت کے پیچھے لگا دئیے.جو زبان سے ایذاء بھی دے رہے تھے اور جو ہاتھ سے ایذاء بھی دے رہے تھے پتھر بھی پھینک رہے تھے.آپ زخمی بھی ہوئے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ انہوں نے کوئی سوال کئے تو آپ نے فرمایا کہ اس موقع پر ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے یہ کہا کہ مجھے خدا

Page 236

229 حضرت خلیفہ امسح الثالث تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ جو آپ کو پہاڑ نظر آرہے ہیں میں ان کے اوپر ہوں متعین فرشتہ ، کہ اگر آپ طائف کیلئے بد دعا کریں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو یوں اکٹھا کر دوں ، ان کے اوپر ، اور یہ پس جائیں جس طرح چکی میں چیز پیسی جاتی ہے.آپ نے کہا نہیں میں بددعا نہیں کروں گا ان کے لئے.اس لئے کہ یہ نسل آگے چلانے والی جنس ہے ، نوع ہے.یہ نسل ہے، اس کے بعد ایک اگلی نسل پیدا ہوگی اور ان میں بڑے فدائی اسلام کے پیدا ہوں گے.تو آنے والی نسلوں نے اس ظالم نسل کی حفاظت کر لی اس وقت.اور نبی کریم ہی ہے کو خدا تعالیٰ نے اذن دیا کہ بددعا کریں اور میں قبول کروں گا حکم نہیں دیا.اذن دیا کہ بددعا کرومیں قبول کروں گا.اِس اِذن کے باوجود نبی کریم اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کی کہ اے خدا تیرے بندوں کے خلاف میں بددعا نہیں کروں گا.تو جس کو اذن ہی نہیں جس کو انذار ہے جو ابھی ہم دیکھیں گے وہ کیسے جرات کر سکتا ہے.یعنی عقل نہیں کر سکتا، کر جاتے ہیں کئی لوگ.جس کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچی اور میں یہ صلى الله باتیں کر رہا ہوں آپ کے ساتھ.خدا کے بندوں پر لعنت بھیجنا شروع کر دیا کو سنا شروع کر دیا انہیں.طبرانی میں بحوالہ الترغیب والترہیب یہ روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ماحول ایسا تھا کہ اگر کسی شخص کے متعلق ہمیں یہ علم ہو جاتا کہ اس نے اپنے کسی دوسرے بھائی پر مسلمان مومن پر لعنت بھیجی ہے کلمہ اس کے منہ سے نکلا ہے رَأَيْنَا أَنْ قَدْ آتَى بَاباً مِنَ الْكَبَائِرِ تو ا سے ہم چھوٹا گناہ نہیں سمجھتے تھے کبیرہ گناہ سمجھتے تھے لعنت کرنا گالی دینا کو سنا کہ خدا تجھ پر لعنت کرے تجھ پر عذاب نازل کرے یہ کرے وہ کرے.یہ کبائر میں سے ہے معمولی بات نہیں ہے.اسی طرح نبی کریم ﷺ سے روایت ہے.سنن ابی داؤد میں یہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوسروں پر لعنت نہ بھیجا کرو یہ کہ کر کہ تجھ پر اللہ کی لعنت پڑے یا یہ کہہ کر کہ خدا کا غضب تجھ پر نازل ہو یعنی وہ بھی لعنت میں ہی شامل کیا ہے اسکو.یا یہ کہہ کر کہ تو جہنم میں جائے.ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص دوسرے پر لعنت بھیجتا ہے تو وہ لعنت جو ہے تمثیلی زبان میں آپ نے بات کی ، وہ جاتی ہے اس شخص کے پاس جس پر لعنت بھیجی گئی ہے اور اگر اس شخص میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے پہلے ہی کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ملعون ہے تو یہ لعنت بھی اس کو پہنچ جاتی ہے لیکن اگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تو وہ لعنت خدا سے یہ کہتی ہے کہ اے میرے رب وُجهت إلى فلان مجھے فلاں کی طرف بھیجا گیا ہے لعنت کہتی ہے زبان حال سے فَلَمُ اَجِدُفِيهِ مَسْلَگا لیکن وہ تو لعنت کا مستحق نہیں مجھے تو کوئی رستہ نظر نہیں آتا کہ لعنتیں وہاں اس کے اوپر چمٹ جائیں وَلَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ سَبِيلًا فَيُقَالُ لَهَا تو اس لعنت کو کہا جاتا ہے اِرْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِنتِ کہ جو لعنت بھیجنے والا ہے اسی کو جا کے چمٹ جا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے : ”کسی کی نسبت لعنت میں

Page 237

230 حضرت خلیفہ المسح الثالث جلدی نہ کرو.“ یہ فقرہ اس لئے کہا ہے کہ پیچھے سے مضمون ہی ایک ایسا آرہا ہے ضروری تھا یہ فقرہ کہنا.و کسی کی نسبت لعنت میں جلدی نہ کرو کہ بہتیری بدظنیاں جھوٹی ہیں اور بہتری لعنتیں اپنے ہی پر پڑتی ہیں.سنبھل کر قدم رکھو اور خوب پڑتال کر کے کوئی کام کرو اور خدا سے مدد مانگو کیونکہ تم اندھے ہو.ایسا نہ ہو کہ عادل کو ظالم ٹھیراؤ اور صادق کو کا ذب خیال کرو.اس طرح تم اپنے خدا کو ناراض کر دو اور تمہارے سب نیک اعمال حبط ہو جاویں.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد نمبر 19 ص31) اور اسی کو لعنت کہتے ہیں سب اعمال نیک اعمال جو ہیں وہ حبط ہو جائیں.تو وقف جدید کا جو کام ہے وہ تربیت کرنا ہے.اور تربیت میں آداب سکھلانا بھی ہے اور اخلاق سکھانا بھی ہے.اور آداب و اخلاق سکھانے کیلئے بُری عادتوں کو چھڑوانا بد عقائد کو مٹاکر صحیح عقائد کا قائم کرنا ہے اور بدخلقی کو مٹا کر اخلاق فاضلہ قائم کرنا ہے.یہ ایک تنظیم ہے اس کو پیسے کی بھی ضرورت ہے جو گوشوارہ مجھے دیا گیا وقف جدید کے آمد وخرچ کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ چار مدیں ہیں ان کی.دو چھوٹی سی ہیں انکومیں چھوڑ رہا ہوں وہ ہیں بھی ہنگامی نوعیت کی.مستقل مدیں ہیں ایک تو چندہ جماعت بالغان.بالغان کا نام اس لئے رکھا گیا کہ ایک وقت میں اطفال کیلئے علیحدہ دفتر کھول دیا گیا.اس میں قریباً پچاس ہزار کی زیادتی ہے جو اس سال میں جو 31 دسمبر 1979ء کوختم ہوا.کل آمد چندہ بالغان میں 4,63,171 ہے اور دفتر اطفال میں 8,921 کی زیادتی ہے.تھوڑی تھوڑی زیادتیاں ہیں.لیکن میں نے بتایا کہ معلموں کی بہت ضرورت ہے اور ایک زائد چیز اب میں جو پہلے میں نے بات کرتے ہوئے نہیں بتائی وہ یہ کہ جب میں نے یہ کہا کہ ہر احمدی بچہ جو ہے وہ کم از کم میٹرک تک پڑھا ہوا ہونا چاہیے تو پہلے جو شرط معلمین کیلئے ، وقف جدید کے معلمین کے لئے غالبا نہیں تھی، مجھے صحیح نہیں پتہ لیکن میرا خیال ہے کہ نہیں تھی.اگر نہیں تھی تو اب یہ شرط ضرور لگا دیں کہ آئندہ جو لئے جائیں وہ کم از کم میٹرک پاس ہوں.اور اگر پہلے سے ہی ہے تو ٹھیک ہے..اور دوسری بات اس ضمن میں یہ ہے کہ خالی میٹرک نہ ہو بلکہ تھرڈ ڈویژن میٹرک نہ ہوسیکنڈ ڈویژن کا کم از کم ہو.اور اس کے اندر یہ قوت اور یہ استعداد ہو کہ جب وقف جدید کا نظام اس کے اخلاص کی چھپی ہوئی تاروں کو حرکت میں لائے اسکی جو خوابیدہ قوتیں ہیں وہ بیدار ہونے والی ہوں یعنی نکھد نہ ہو.کر دینا چاہیے فارغ کر دینا چاہیے.کہیں اور جاکے اپنے پیسے کمائے اور خدمت خلق کا جذبہ اور خدمت خلق کرنے کا جوش اس میں یا موجود ہو یا پیدا کیا جاسکے.جس معلم میں خدمت خلق کا جذ بہ نہیں اور اس کے لئے ہر وقت

Page 238

الله 231 حضرت خلیفہ امسیح الثالث وہ بے چین نہیں اور تڑپ نہیں ہے اس میں کہ جہاں دکھ نظر آتا ہے اسکو حتی الوسع دور کرنے کی کوشش کرے وہ ہمارے کام کا نہیں.اس کو اللہ تعالیٰ نے کسی اور کام کیلئے بنایا ہے.تو اچھے معلم زیادہ معلم دیں.جب معلم زیادہ ہوں تو جتنی رقم کی ضرورت پڑے اس کے مطابق رقم دیں.جو معلم ہیں وہ نیک نیتی اخلاص اور جذبہ کے ساتھ آئیں.جو منتظمین ہیں وہ ان کو ابھار میں اور ان کے لئے ایسا نصاب اور ان کی ہدایت کے لئے ایسی چھوٹی چھوٹی کتا بیں آداب کے متعلق اور اخلاق کے متعلق شائع کریں اور انکی ایک نوٹ بک بنادیں سو صفحے کی.اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں.ڈیڑھ سو صفحہ ہو زیادہ سے زیادہ جس میں اسلام نے جو آداب سکھائے ، اسلام نے جو اخلاق ہمیں بتائے ان کے اوپر ایک ایک فقرہ ہو باقی تفصیل ان کو زبانی بتادی جائے.عثمان فودی جو ایک مجدد گزرے ہیں پچھلی صدی میں شمالی نائیجریا میں اس وقت کا جغرافیہ اور تھا ویسے کچھ اور علاقے بھی تھے بیچ میں.انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے بدعت اور سنت پر اور بڑی اچھی ہے، حوالے دے کر نبی کریم حملے کے ارشادات اور آپ کی سنت کے حوالے دے کر مختصر بھی ہے اور اس سے استفادہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے.آپ نے کہیں نہ کہیں تو حدیث سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد لینا ہے.انہوں نے اپنا استدلال کیا ہے.ہو سکتا ہے کہ انکے زمانے میں جو استدلال درست تھا اب اس کے اندر کوئی اور بطن چھپا ہوا ،سامنے ہمارے نظر آجائے تو اس کو شامل کر لیں بڑی اچھی کتاب ہے.مثلاً انہوں نے کپڑے کے متعلق کہا.ایک میں بات بتادوں اگر اسلام ساری دنیا کیلئے ہے اور یقیناً اسلام ساری دنیا کیلئے ہے تو پھر ہر ملک کا لباس اسلامی لباس ہے یہ اس میں خشکی جب دماغ میں ہو یہ چیز نہیں لیتا.ہر ملک کا لباس اسلامی لباس ہے.اگر کسی ملک کا لباس اس قسم کا ہے کہ اس جنگ کو وہ صحیح طور پر ڈھانپتا نہیں جو اسلام نے کہا ہے ڈھانپوتو اتنی تبدیلی اس لباس میں ہو جانی چاہیے کیونکہ ایک اور حکم ہے جسکی خلاف ورزی کر رہا ہے وہ.لیکن یہ کہنا کہ مغربی افریقہ کا لباس اسلامی نہیں باوجود اس کے کہ وہ یہ شرائط پوری کر رہا ہے کہ ستر جو ہے اس کو ڈھانک رہا ہے اور پنجاب کا جو لباس ہے وہ اسلامی ہے یا عرب کا لباس جو ہے وہ اسلامی ہے اور یورپ کا لباس اسلامی نہیں.یہ بات ہی غلط ہے.ساری دنیا کا وہ لباس جو ان شرائط کو پورا کرنے والا ہے وہ اسلامی ہے.ہم نے اپنے پورے لباس میں نماز پڑھنی ہے.اگر کسی ملک میں ایسا لباس ہے جو نماز پڑھنے میں دقت پیدا کرتا ہے تو اتنا حصہ درستی کے قابل ہے اس کی اصلاح ہو جانی چاہیے.انہوں نے لباس پر لکھا ہے.اصل میں یہ مثال دینے لگا ہوں.انہوں نے لکھا ہے پورے حوالے دے کر سر کا لباس اوپر کے دھڑ کا لباس.نچلے دھڑ کا لباس.تینوں کو علیحدہ علیحدہ لیا ہے.چھوٹا سا ایک صفحہ پونا صفحہ ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ٹوپی بھی پہنی سر پر رومال بھی باندھا سر پر اور اس قسم کا جواب رواج ہے جس طرح

Page 239

232 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث عمامہ عرب کا وہ بھی پہنا اور بڑا عمامہ بھی پہنا اور قمیص جتنی قمیصوں کی قسمیں اس وقت رائج تھیں ساری استعمال کیں اور دھوتی بھی پہنی اور پاجامہ بھی پہنا اور شلوار بھی پہنی.سارے حوالوں کا ذکر کر کے پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نبی کرم ﷺ کی سنت یہ ہے کہ جو لباس میسر آئے وہ استعمال کروں.بڑا صحیح نتیجہ نکالا ہے اور ساری دنیا کیلئے بڑی عجیب گائیڈنس GUIDANCE دے دی.جو میسر آتا ہے وہ پہنو ٹھیک ہے.اسلام نے کہا ہے بعض ننگ ہیں جن کو اسلام کہتا ہے ڈھانکو وہ ڈھانکنے چاہئیں اور اگر کوئی ضرورتیں ہیں وہ پوری ہونی چاہئیں.اسلام کہتا ہے کہ ایسی طرز نہ ہو کہ نمائش کے خیال سے پہنا جائے.ضرورت کیلئے نہ ہو بلکہ نمائش کیلئے ہو.اسلام کہتا ہے کہ نمائش نہیں کرنی.اس حد تک وہ ٹھیک ہونا چاہیے.تو یہ جو آداب ہیں جو اخلاق ہیں معلم کو موٹے موٹے ہی بتانے پڑیں گے اس کے لئے ایک چھوٹی سی نوٹ بک ان کیلئے تیار کریں اور نوٹ بک کی تیاری میں بھی نمائش نہ ہو سادہ زبان میں ہر بات کو COVER کرنے والی ہو وہ.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور جس رنگ میں ،جس لباس میں جس ذہن کا ، جس اخلاق کا، جس روحانیت کا انسان خدا تعالیٰ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے ہم وہی بن جائیں.پھر حضور نے فرمایا: کھانسی آرہی ہے ) ایک خیال آ گیا.ہمارے جلسہ سالانہ کی حسین یادیں اور گہرے اثرات تو چلتے ہیں ،سالوں چلتے ہیں اگلے جلسہ تک ان کے اندر اور شامل ہو جاتے ہیں کچھ اس قسم کی چیزیں بھی ہیں.مثلاً کھانسی ہو گئی.اب جلسے کی کھانسی ہے وہ ابھی تھوڑی سی چل رہی ہے خطبے میں نہیں آئی بعد میں آگئی.میرے بھی کافی فرق پڑ گیا ہے.رستے میں میں نے دیکھا کہ دکانیں ، جلسے میں ایک ان کا فائدہ تھا ضرورت مندوں کیلئے وہ چیزیں مہیا کر رہی تھیں.کھانے پینے کی ، دوسری ، اب وہ چلی گئیں.ان کے اثرات پڑے ہوئے ہیں کھنڈر نظر آرہا ہے کھنڈر نہیں رہنا چاہیے اگلے جمعہ تک کہیں بھی.ان ملبوں کو خدام الاحمدیہ اٹھا دے اور جس طرح میں نے کہا تھا کہ غریب دلہن کی طرح ربوہ کو سجا دو جلسہ کے استقبال کیلئے.اب میں کہتا ہوں کہ اس غریب دلہن نے جلسہ کی خدمت کی ہے.کچھ خدمت میں دھبے پڑ جاتے ہیں کہیں داغ پڑ گیا.سالن گر گیا کہیں مٹی کا داغ لگ گیا.پھر اس کو دوبارہ غریب دلہن کی طرح سجاد و تا کہ اس کو یہ شکوہ نہ رہے کہ مجھ سے کام لے لیا اور پھر مجھے بھول گئے آپ.روزنامه الفضل ربوہ 18 ستمبر 1982ء)

Page 240

233 حضرت خلیفہ المسح الثالث اقتباس از خطاب جلسه سالانه فرموده 27 / دسمبر 1980 حضور انور نے وقف جدید انجمن احمدیہ کی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وقف جدید کے 66 معلمین کام کر رہے ہیں.لیکن آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں آپ کی مانگ کئی سو معلمین کی ہے.آپ بتائیں کہ میں 66 معلمین میں سے کئی سو کیسے پورے کر دوں.تو بن کیونکہ معلم بچے دے کر تو اپنی تعداد نہیں بڑھاتا.حضور نے فرمایا کہ آپ کو معلم بنانے کیلئے اپنے بچے دینے پڑیں گئے.روزنامه الفضل 13 جنوری 1981 ء)

Page 241

234 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبه جمعه فرموده 2 /جنوری 1981 ء بیت اقصیٰ ربوہ تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: وَ مَنْ يَشْكُرُ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ، وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (لقمان:13) پھر فرمایا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ذات کی طرف تو ساری حمد رجوع کرتی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.وہ اس بات کا محتاج نہیں کہ اس کے بندے اس کا شکر ادا کریں.بندے اس بات کے محتاج ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پائیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں.اگر اللہ تعالیٰ کے بندے اللہ تعالیٰ کی جس قدر نعمتیں ہوں اسی قدر اس کا شکر ادا کرتے چلے جائیں فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ جو اس شخص یا اس جماعت کے فائدہ ہی کیلئے ہے.اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں.شکر زبان سے بھی ہے اس کی حمد بہت کرنی چاہیے.شکر کا ایک جذبہ بھی ہے جو انسان کے دل اور اس کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور ہر وقت اس کی کیفیت ایک ایسے شخص کی ہوتی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے نتیجہ میں سوائے حمد کے اس کے وجود میں کچھ باقی نہیں رہتا.ہمارا جلسہ آیا اور گزر گیا.پہلے جلسے سے زیادہ شان میں آیا.زیادہ برکتیں لے کر آیا کثرت نفوس سے آیا.زیادہ تعداد میں شامل ہونے والے آئے اس میں.دلوں کی کیفیت زیادہ بدلنے والے آثار لے کر آیا.سننے والوں نے سنا.محسوس کرنے والوں نے محسوس کیا.اور بہتوں نے جو ہم میں شامل نہیں ابھی یا شامل نہیں تھے، اس سے فائدہ اٹھایا.اللہ تعالیٰ کی اس آیت میں جو ہدایت ہے اسکی روشنی میں ہمیں پہلے سے زیادہ اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگی گزارنی چاہیے.اس لئے کہ آنے والا جلسہ جانے والے جلسہ کے مقابلہ میں زیادہ برکات لے کر آئے.اللہ تعالیٰ کے فضل زیادہ ہوں.زیادہ تعداد میں دوست اس میں شریک ہوں.انتظام پہلے سے بھی بہتر ہو.دُکھوں کو پہلے سے زیادہ دور کرنے والا ہو.دنیا پر احسان کی زیادہ تدابیر سوچی جائیں.اس کے لئے زیادہ تربیت کی جاسکے.اور صرف آنے والا جلسہ ہی نہیں.خدا کرے کہ ہماری زندگی کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے اللہ تعالیٰ کی برکات سے زیادہ معمور ہو اور ہر آنے والے دن میں ہمارا دل

Page 242

235 حضرت خلیفة المسیح الثالث اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر میں پہلے سے زیادہ بھرا ہوا ہو.اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہر روز اعمال مقبول، اعمال مشکور کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ دنیا پر رحم کرے اور جس عذاب اور ہلاکت کی طرف آج کی دنیا بڑھتی چلی جارہی ہے اس کے بچاؤ کےاس کیلئے سامان پیدا کرے.یکم جنوری سے وقف جدید کا سال شروع ہوتا ہے اور جو کل یکم تھی اس سال کی ہجری تشسی کے لحاظ سے 1360 واں سال ہے.اور وقف جدید کا جو نیا سال شروع ہے وہ چوبیسواں سال ہے.ان چو ہمیں سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید نے آہستہ آہستہ اور بتدریج ترقی کی طرف قدم بڑھایا ہے.وقف جدید کی اصل ذمہ داری تو یہ ہے کہ جگہ جگہ پہ ہمارے واقفین وقف جدید بیٹھیں اور جماعت کی تربیت کریں، نئے داخل ہونے والوں کی بھی اور نئے شعور اور بلوغت کو پہنچنے والوں کی بھی.جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی میں نے جماعت سے کہا تھا کہ اگر ہر جماعت میں ایک واقف وقف جدید ہم نے بٹھانا ہے تو جتنی جماعتیں ہیں اس تعداد میں ہمارے پاس واقفین ہونے چاہئیں اور چونکہ یہ واقفین آٹے کے بنا کر یا موم کے بنا کر بھیج نہیں جا سکتے.بہر حال انسان ہوں گے.اس واسطے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچے کو اس تحریک میں بھی وقف کرے.اور اگر چہ تعلیم کا معیار اس کے لئے کم ہے.آٹھویں جماعت کا بھی بعض دفعہ لے لیتے ہیں اگر ہوشیار ہو اور دسویں جماعت غالباً شرط ہے ان کی ( اس وقت میرے ذہن میں نہیں ) لیکن تعلیم کا معیار جو کم ہے اس سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ ذہانت کا معیار بھی کم ہے.اس سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ اخلاص اور ایثار کا معیار بھی کم ہے.ہمارے بہت سے واقفین وقف جدیدا ایسے بھی ہیں جو بعض شاہدین سے زیادہ اخلاص اور جوش اور جذبہ اور ایثار کے ساتھ کام کرنے والے ہیں ہمیں تو ہر شخص ، ہمیں تو ہر احمدی ” ایک واقف چاہیے یعنی اپنے کاموں کی ، دنیوی کاموں کی ذمہ داریاں بھی نباہ رہا ہو اور اپنی اُخروی زندگی کی ذمہ داریاں بھی اس سے زیادہ جوش اور جذ بہ کے ساتھ نباہنے والا ہو.ایک تحریک میں نے کی تھی کہ ایسے واقفین ہوں جو اپنے گاؤں سے آویں اور چند ہفتوں کا نصاب اُن سے کروایا جائے اور وہ واپس جا کے اس معیار پر لیڈر بنیں ، قیادت سنبھالیں ، اپنے اپنے معیار پر قیادت سنبھالنی ہوتی ہے.مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی اور مجھے افسوس ہے کہ یہاں سے جو نصاب ختم کر کے گئے ، ان میں سے بہت نے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھا.اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے وہ بھی وقف جدید کا ہی حصہ ہے.چونکہ وقف جدید زیادہ تر توجہ تربیت کی طرف دیتی ہے اسلئے ایک خاص قسم کی کتب یہ شائع کرتے ہیں.چونکہ ان کے واقفین سندھ کی جماعتوں میں بھی بیٹھے ہیں اس لئے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ

Page 243

236 حضرت خلیفہ امسح الثالث ہمیں سندھی زبان میں بھی کتب مہیا کی جائیں.چنانچہ بعض کتب سندھی زبان میں بھی وقف جدید کی طرف سے شائع ہوئیں.بعض واقفین وقف جدید صوبہ سرحد میں بھی کام کر رہے ہیں.ان کا مطالبہ ہے کہ ہمیں پشتو زبان میں کتب دی جائیں.اس کی طرف بھی انہوں نے توجہ دی ہے.ابھی ابتداء ہے اور کچھ کتب تیار ہو کے شائع ہو چکی ہیں پشتو زبان میں بھی.فارسی کی طرف بھی ہمیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ بعض لوگوں کی رؤیا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں سے جن علاقوں میں پشتو اور فارسی بولی جاتی ہے.فارسی بولنے والے علاقوں میں احمدیت جلد پھیلے گی.خدا کرے کہ جو تعبیر ہمارے ذہن میں آئی ہے وہ پوری ہو.اور جس وقت ان میں احمدیت پھیلے گی تو فارسی کتب کا وہ مطالبہ کریں گے.اس کے لئے جماعت کو ابھی سے تیاری کرنی چاہیے.مگر یہ کام وقف جدید کا اتنا نہیں جتنا جماعت کا ہے.جماعت احمدیہ کو بحیثیت جماعت یہ ذمہ داری سنبھالنی چاہیے.اب تو یہ حال ہے کہ چونکہ ضرورت شدید نہیں تھی اس واسطہ توجہ بھی نہیں کی گئی حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی اپنی بہت سی فارسی کی کتب ہیں جن کی اشاعت کی طرف توجہ نہیں کی گئی منظوم کلام ہے اس کی اشاعت کی طرف توجہ نہیں کی گئی.پہل میں کر رہا ہوں منظوم کلام سے اللہ تعالیٰ جزا دے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو ان کے سپر دمیں نے کام کیا تھا وہ بڑے اچھے فارسی دان ہیں کہ جو پہلی درشین فارسی شائع ہوئی ہے اس میں کتابت کی اور اعراب کی بہت سی غلطیاں ہیں.انہیں میں نے کہا کہ مجھے لکھ کے دیں صحیح اور حسب ضرورت اعراب کے ساتھ.یہ میرے سفر سے پہلے کی بات ہے.انہوں نے وعدہ کیا تھا جلسے تک میں یہ کام ختم کر دوں گا.انہوں نے وہ مسودہ تیار کر کے مجھے دے دیا ہے اب اس کی کتابت اور طباعت کا کام ہے.اللہ تعالیٰ وہ بھی کر دے گا.میں چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا جہاں تک تعلق ہے بہترین کتابت ہو ان کی اور بہترین طباعت ہو ان کی اور بہترین کا غذ استعمال کیا جائے.ایک نہایت اچھی شکل میں دنیا کے ہاتھ میں یہ روحانی خزانہ دیا جائے کیونکہ جوشان ہے اس کلام کی نظم ہو یا نثر اس کے مطابق اس کو لباس پہنانا چاہیے.یہ نہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی کتاب لکھے تو وہ تو پسند کرے کہ جو اس نے لکھا ہے وہ بہترین ہو لیکن حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے.ایک وقت میں یہ بیماری لندن میں بھی پیدا ہوئی اور مجھے انہیں سمجھانا پڑا.میں نے کہا کوئی کتاب لنڈن مشن نہیں شائع کرے گا حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کے علاوہ جس کی طباعت اور جس کا GET UP حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے اچھا ہو.بہترین شکل میں ، بہترین کاغذ پر ، بہترین مطبع سے ، بہترین پبلشنگ ہاؤس سے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب شائع ہونی چاہئیں چنانچہ وہاں سے اس وقت

Page 244

237 حضرت خلیفہ امسیح الثالث تک صد سالہ جوبلی کے خرچ پر تین کتب شائع ہو چکی ہیں.ایک تو ESSENCE OF ISLAM" کی سیریز میں پہلی کتاب حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے اقتباسات ، چار مضامین پر اللہ جل شانہ اور اسلام اور محمد اللہ اور قرآن عظیم.یہ کوئی تین سو اٹھائیس صفحے کی کتاب بن گئی.2 ESSENCE OF ISLAM VOL" اس کی دوسری جلد اس وقت پریس میں ہے بی بھی انگریزی ترجمہ ہے.دنیا میں بڑی کثرت سے انگریزی بولی جاتی ہے اس میں بعض دوسرے مضامین ہیں اور اس کے بعد "VOL: 3: ESSENCE OF ISLAM اور4 VOLUME ( جلد سوم اور چہارم) کا مسودہ تیار ہے انشاء اللہ آگے پیچھے وہ آجائیں گی.اس کے علاوہ فرانسیسی بولنے والوں کے لئے ہمارے پاس لٹریچر نہیں تھا.دنیا میں ایک وقت میں تو (چین اور روس کو چھوڑ کے ) سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں دو تھیں.یا انگریز کی زبان انگریزی.کیونکہ انہوں نے بہت زیادہ COLONISATION ( کالونائزیشن) کی اور یا فرانسیسی جو اس کے بعد نمبر 2 پہ آئی.پھر سپینش SPANISH اور پور چوگیز PORTUGEES کیونکہ ساؤتھ امریکہ میں آباد ہوئے اور ہالینڈ کی زبان.اسلئے یہ بھی ایک وقت میں COLONIAL POWER ( کالونیل پاور ) بنے.اپنی زبان دنیا کے بعض حصوں میں انہوں نے رائج کی.ہالینڈ کی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی ہے.بعض دوسری کتب بھی ہیں.فرانسیسی میں ابھی تک نہ قرآن کریم کا ترجمہ تھانہ کوئی اور لٹریچر تھا.چھوٹے چھوٹے رسالے بہت سارے شائع ہوتے رہتے ہیں ضرورت کے مطابق لیکن پہلی دفعہ INTRODUCTION TO THE HOLY QURAN دیپا چہ تفسیر القرآن جو حضرت مصلح موعودؓ کا لکھا ہوا ہے ) یہ بذات خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت بھی رکھتا ہے کیونکہ اس میں دو مضمون لمبے اور تفصیلی ہیں.ایک تو نبی کریم ﷺ کی سیرت اور دوسرے اسلام اور عیسائیت کا موازنہ.اس کے علاوہ اور مضامین بھی ہیں.یہ بھی کوئی تین سو میں چالیس صفحے کی ہے.یہ بھی چھپ چکی صد سالہ جوبلی کے انتظام کے ماتحت.ہمیں اس کی اس لئے خاص طور پر ضرورت پڑی کہ ایک تو ساری دنیا میں اسلامی تعلیم پھیلانے کے لئے فرانسیسی کو بھی بیچ میں لانا ضروری تھا کیونکہ بڑی کثرت سے بولی جانے والی سمجھی جانے والی زبان ہے.دوسرے اس لئے ضرورت پڑ گئی کہ افریقہ کے بہت سے ممالک کی زبان فرانسیسی ہے جہاں یہ حاکم رہے ہیں.مثلاً نیگر (NIGER) جس کو یہاں نائیجر کہتے ہیں.پیرس میں وفد ملنے آیا تھا میں نے کہا میں شاگر د بنتا ہوں تو بتاؤ کہ تمہارے ملک کاPRONUNCIATION کیا ہے.کیونکہ کوئی اس کو نا بیجر کہتا ہے کوئی نا ئیگر کہتا ہے.انہوں نے کہا نہ ٹائیگر.نہ نائیجر.ہم اپنے ملک میں اپنے ملک کا نام جو بولتے ہیں اس کی

Page 245

238 حضرت خلیفہ لمسیح الثالث (SOUND) آواز ہے نیگیر.وہاں ہمارا مشن نہیں.لیکن نائیجریا کی سرحدوں پر ہے.وہ لوگ نائیجریا میں آتے ہیں.وہاں ان کو تبلیغ ہوئی اور وہاں جماعت قائم ہوگئی اور ہمارا ایک نو جوان معلم وہاں کا م کرتا رہا کچھ عرصہ، وہ مزید تعلیم کیلئے اسی جلسے پہ یہاں آگیا ہے.مخلص ہے ، ذہین ہے بظاہر.اس کے لئے بھی دعا کریں.کچھ فرانسیسی تھوڑی سی جانتا ہے.زیادہ نہیں.میرا خیال تھا کہ اس کو پوری طرح فرانسیسی کا ماہر بنایا جائے.نیز علوم قرآنی کا بھی ایک حد تک اس کو علم سکھایا جائے یہاں.تا کہ وہ ان علاقوں میں کام کر سکے کیونکہ وہاں جماعت قائم ہوگئی ہے یا شاید ایک سے زیادہ جماعتیں.ٹوگو لینڈ فرانسیسی بولتا ہے.وہاں جماعتیں قائم ہوگئیں.ہین“ ایک ملک کا نام ہے.وہاں جماعتیں قائم ہوگئیں.سینیگال فرانسیسی بولتا ہے.بہت بڑا ملک ہے بیچ میں گھسا ہوا ہے اس میں ہما را گیمبیا جس کو بانجول کہتے ہیں.اب بانجول اندر گھسا ہوا ہے.اس کے بیچ میں سے رستہ نکلتا ہے جو آر پار جاتا ہے ملانے کیلئے ان کے دو علاقوں کو.اس حصہ میں بھی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.وہ فرانسیسی بولنے والے ہیں.اس لئے فرانسیسی لٹریچر کی بہت ضرورت تھی.اس ضرورت کو ایک حد تک INTRODUCTION) (TO THE HOLY QURAN دیباچہ فرانسیسی انشاء اللہ پوری کرے گا.اس میں سے پمفلٹ بھی بہت سارے مضامین پہ نکالے جاسکتے ہیں.علیحدہ شائع کرنے کیلئے دو دو صفحے کے.آنحضرت ﷺ کی صلى الله عل وسام سیرت ہے.اسلام کی خوبیاں ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ بیچ میں بات آگئی میں وقف جدید جولٹریچر شائع کر رہی ہے اس کے متعلق بات کر رہا تھا.میری یہ خواہش ہے اور آپ کی بھی ہونی چاہیے.کیونکہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.کہ دس سال کے اندر اندر یعنی قبیل اس کے ہماری زندگی کی دوسری صدی شروع ہو ہم قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ شائع کر سکیں.ترجمہ ہو چکا ہےREVISION نظر ثانی کی ضرورت ہے وہ ہو رہی ہے ITALIAN زبان میں ترجمہ حضرت مصلح موعودؓ نے کروا کے مسودہ رکھا ہوا تھا لیکن REVISION نہیں ہوسکی.اس وقت اور REVISION دو وجہ سے ضروری ہے ایک یہ کہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے کی زبان میں جو ترجمہ ہوا ہے.زبان بھی کچھ بدل گئی ہے.محاورات بھی بدل گئے.REVISION ہونا چاہیے زبان کے لحاظ سے.دوسرے یہ کہ جو تر جمہ کسی غیر مسلم ، غیر احمدی نے کیا ہے اس کو شائع کرنے کی ذمہ داری نہیں لی جا سکتی.جب تک ہمارا آدمی نہ دیکھے کہ مضمون کے لحاظ سے کوئی غلط بات تو نہیں آگئی.اس کیلئے بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زبانیں ہمارے شاہدین سیکھیں.فرانسیسی جاننے والے تو ہمارے شاہدین پیدا ہو گئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم اچھی زبان میں لکھ نہیں سکتے لیکن یہ ہم معلوم کر

Page 246

239 حضرت خلیفہ امسح الثالث سکتے ہیں کہ جو تر جمہ ہوا ہے اس میں مضمون کے لحاظ سے غلطی تو نہیں.میرا خیال ہے کہ فرانسیسی ترجمہ ان تراجم میں سب سے پہلے آجائے گا.اٹالین زبان میں آجائے گا.پھر پور چوگیز زبان میں آجائے گا.رشین زبان میں بھی ٹرانسلیشن TRANSLATION ہے.جس کی REVISION ہونے والی ہے اس کے لئے انتظام میں کر رہا ہوں.میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ شدید تڑپ پیدا کی ہے کہ دس سال کے اندراندر ہم فرانسیسی اور اٹالین اور سپینش زبان میں اور رشین زبان میں اور چائینیز زبان میں قرآن کریم کے ترجمے شائع کر دیں.اگر ہم ایسا کر سکیں تو دنیا کی آبادی کے قریباً اسی فیصد سے زیادہ لوگوں کو قرآن کریم ان کی زبان میں دے سکتے ہیں.تو دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو خواہش پیدا کی ہے اس کے پورے کرنے کے بھی سامان پیدا کرے.وقف جدید کو اپنے کام چلانے کے لئے پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور دوست اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزاء دے.ان کی رپورٹ کے مطابق 80-1979ء میں قریباً 99 ہزار کی بیشی ہے.لیکن جو دفتر اطفال کہلاتا ہے یعنی چھوٹے بچوں کا رجسٹر ، بچے تو تعداد میں بڑھ گئے خدا کے فضل سے لیکن ان کی جو آمد ہے اس میں 6,575 کی کمی ہے یہ تو درست ہے کہ بعض بچے اپنی عمر کے لحاظ سے بالغان کے گروہ میں شامل ہو گئے اور ان کی وجہ سے بھی کچھ زیادتی ہوئی ہوگی لیکن یہ درست نہیں کہ کوئی بچہ اطفال کے گروہ میں شامل نہیں ہوا.صرف نکلے ہیں اور اس وجہ سے پیچھے رہ گئے.اس واسطے اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.جماعت اس طرف توجہ کرے.مجموعی طور پر تو قریباً کم و بیش ایک لاکھ کی زیادتی ہے.لیکن جو آدمی دوڑ رہا ہو اس کا ہر قدم درست اٹھنا چاہیے.ہر پہلو سے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کو تو فیق عطا کرے.ابھی جلسے کی کوفت دور نہیں ہوئی دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت دے.کام کے لحاظ سے جلسے کے بعد بھی دو تین ہفتے ( بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ) کام معمول سے زیادہ کام میں وقت گزرتا ہے.کچھ دوست ٹھہرے ہوتے ہیں.ملاقات کیلئے پھر جلسے کے دنوں میں بعض کام میں نہیں کر سکتا.مثلاً ڈاک میں نے نہیں دیکھی دس بارہ دن کی.جس کا مطلب ہے کہ کم از کم آٹھ دس ہزار خط ہوگا جوئیں اگلے ایک ہفتہ میں دیکھوں گا.ہر روز خط آتے رہتے ہیں.اللہ تعالی توفیق بھی دیتا رہتا ہے.میں نہ کام سے گھبراتا ہوں نہ ڈرتا ہوں کہ نہیں ختم ہو گا.کرتا ہوں ختم جس طرح بھی ہو.لیکن یہ مجھے پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر میں اس قدر کام نہیں کر سکتا.اور یہ بھی میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کو صرف دعا کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس حقیقت پر بھی میں قائم ہوں کہ خلیفہ وقت کے ساتھ ساری جماعت کی دعائیں شامل ہونی

Page 247

240 حضرت خلیفتہ امسح الثالث چاہئیں.تب کام ہوسکتا ہے.اس لئے میں نے یہ بات کی ہے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت سے کام کرنے کی زیادہ سے زیادہ تو فیق دیتا چلا جائے.روزنامه الفضل یکم فروری 1981ء)

Page 248

241 حضرت خلیفہ امسح الثالث خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1982 ء بیت اقصی ربود تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: کھانسی ہوگئی ہے دعا کریں اللہ فضل کرے.آمین آج عیسوی کیلنڈر کا نیا سال شروع ہوتا ہے یعنی 1982 ء کا یہ پہلا دن ہے اور جمعہ سے شروع ہو رہا ہے.نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جمعہ بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے.خدا کرے کہ سارا سال ہی ہمارے لئے عید کا سماں رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں عید کے سامان ہمارے لئے پیدا کرتی رہیں.آپ سب کو اور جہاں جہاں احمدی ہیں انھیں اللہ تعالیٰ یہ نیا سال مبارک کرے اور ان سب کے لئے بھی برکتوں کے سامان پیدا کرے جو جمعہ کو عید کا دن آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق سمجھتے ہیں.وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اور جنوری کے پہلے جمعہ کے موقع پر میں نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.اتفاقاًیہ جمعہ سال کا پہلا دن بھی ہے.یہ نیا سال جو ہے جہاں تک بالغان احمدیت کا سوال ہے ہمارے مجاہدہ کا اس دائرہ میں پچیسواں سال ہے اور دفتر اطفال کا سترھواں سال.بالغان کے پچیسویں اور اطفال کے سترھویں سال کے آغاز کا آج میں اعلان کر رہا ہوں.دو قسم کی قربانیاں ہماری ذیلی تنظیمیں بھی خدا کے حضور پیش کر رہی ہیں.ایک مالی اور ایک ان تمام قربانیوں کا مجموعہ جن کے ساتھ مالی قربانی کا تعلق نہیں.جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے جو بجٹ اپنے جائزہ کے مطابق وقف جدید بناتی ہے ابھی وہ بجٹ عملاً ہم نے پورا کرنا شروع نہیں کیا.اس لئے جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے میں امید رکھوں گا کہ سالِ رواں میں جماعت احمد یہ اپنے بجٹ کو پورا کر دے گی.انشاء اللہ وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے قیام کا بڑا مقصد دیہات کی تربیت تھا اور ہے.احمدی دیہات ( یعنی وہ گاؤں پاکستان کے جہاں احمدی بستے ہیں ، دوسرے بھی بستے ہیں لیکن جہاں احمدی بستے ہیں ان کو اس وقت میں احمدی دیہات کہتا ہوں.احمدی دیہات ) کی تعداد سال بہ سال بڑھتی چلی جارہی ہے.چوبیس سال قبل جب یہ تحریک شروع ہوئی حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ سے تو اس وقت جتنے گاؤں اس نظام کی تربیت کے ماتحت آتے تھے ان کی تعداد واقفین وقف جدید سے کہیں زیادہ تھی.واقفین کی تعداد

Page 249

242 حضرت خلیفة المسیح الثالث اور احمدی دیہات کی نسبت کم نہیں ہوئی بڑھتی چلی جاتی رہی ہے.ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ صلى الله انسانوں کو اپنے قرب کی راہیں دکھلا رہا ہے اور وہ نور جو محمدیہ نوع انسان کے لئے لے کر آئے تھے زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ، ہر سال اس میں زیادتی ہو رہی ہے لیکن تربیت کرنے والوں کی تعدا د نسبتا کم ہو رہی ہے.دیہات کی تعداد بڑھنے کے نتیجہ میں.اس لئے اس وقت اشد ضرورت وقف جدید کو وقف جدید کے واقفین کی ہے.وقف جدید کے واقفین کی علمی قابلیت کا معیار اور ہے.وہ جامعہ کے پڑھے ہوئے شاہدین نہیں.واقفین وقف جدید کی اپنی تربیت اور تعلیم کا ایک علیحدہ نظام ہے.واقفین وقف جدید جو ہیں عمروں کے لحاظ سے چھوٹی عمر کے اور تجربہ کے لحاظ سے کم تجربہ ہیں.اس لئے ایک تو میں نصیحت کروں گا انجمن وقف جدید کو کہ جو واقفین وقف جدید ان کے پاس ہیں ان کی علمی اور علم کی بنیاد پر اخلاقی اور روحانی تربیت میں زیادتی کرنے کا ایک منصوبہ بنائیں اور وہ منصوبہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات کے پڑھنے، سمجھنے اور اس کے نتیجہ میں وہ اثر قبول کرنے کا ہو جو ایک متقی دل ان کتب کو پڑھ کے اثر قبول کرتا ہے.اگر ہر واقف وقف جدید کے ذمے یہ لگایا جائے کہ ہفتے کے سات دنوں میں ہر روز وہ کم از کم پندرہ صفحات کتب ( حضرت اقدس) کے پڑھے گا تو اس کے نتیجہ میں ان کا علم بھی بڑھے گا اور ان کی توجہ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف بھی زیادہ ہوگی اور دوسروں کی تربیت کرنے کی قابلیت بھی بڑھ جائے گی اور جیسا بھی وہ لکھنا جانتے ہیں میں صفحے پڑھ کر کم ازکم پانچ باتیں وہ اپنی کا پی پرلکھیں کہ ہم نے ان صفحوں میں یہ باتیں خاص طور پر پڑھیں جو ہمارے کام آنے والی ہیں تربیت وغیرہ کے لحاظ سے.جماعت سے میں یہ کہوں گا کہ اس وقت سو سے بھی کم واقفین وقف جدید ہیں.یہ ہماری ضرورت کا بیسواں حصہ بھی پورا نہیں کرتے.اس واسطے ایسے نوجوان جو سکول کی قابلیت کے لحاظ سے ان کے قواعد پر پورے اترتے ہوں اور دل میں جذبہ رکھتے ہوں خدمت اسلام اور تربیت کی قابلیت بھی رکھتے ہوں یعنی ان کی اپنی بھی تربیت ہو چکی ہو، یہ نہ ہو کہ اپنے گھر میں آنکھیں بند کر کے گالیاں دینے کی عادت لے کر وہ وقف جدید میں آجائیں.جو ظاہر کی چیزیں ہیں موٹی موٹی ، کم از کم اس لحاظ سے وہ مہذب اور تربیت یافتہ ہونے چاہئیں.اور دل کا تقویٰ جسے اللہ بہتر جانتا ہے نہ میں فیصلہ کر سکتا ہوں نہ آپ ،لیکن روح کا جذ بہ جو ظاہر ہوتا ہے اور جس کا ہم بھی فیصلہ کر سکتے ہیں وہ ہونا چاہئے اور اس کے لئے ہر ہفتے میرا یہ پیغام ہر گاؤں میں پہنچایا جائے کہ ہمیں بچے دو.ہمیں بچے دوتا کہ بڑوں کی ہم تربیت کر سکیں.ہمیں بچے دو تا کہ ہم آئندہ آنے والی نسل کی ابتدائی تربیت کر سکیں.

Page 250

243 حضرت خلیفتہ امسح الثالث واقفین وقف جدید کے ذمے، جب میں نے کہا تربیت کا کام ہے تو وہ انتہائی تربیت نہیں تھی میری مرا تھی کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں جو تربیت ہونی چاہئے کم سے کم معیار ایک احمدی کا جو ہے اس تک تو پہنچنا چاہئے نا.گالی نہیں دینی ، اوئے کر کے نہیں پکارنا تو نہیں کہنا ، اپنے چھوٹے کو بھی.میں بڑوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں، اپنے بچوں کو بھی آپ کہیں.اگر آپ اپنے بچوں کو آپ نہیں کہیں گے تو وہ بڑوں کو بھی آپ نہیں کہے گا.اگر آپ اپنے بچے کو آپ کہہ کر پکاریں گے تو اس کو عادت پڑ جائے گی ” آپ“ کہہ کے پکارنے کی وہ بڑوں اور چھوٹوں ہر دو کو آپ کہہ کے پکارے گا اور بڑا لطف اٹھائیں گے وہ لوگ جو آپ کے ماحول میں آکے آپ کے بچوں کو تو کی بجائے ہر ایک سے آپ کہہ کر باتیں کرتے سنیں گے.کچھ حصے ہیں جن کا تعلق انجمن وقف جدید سے ہے جو میں نے اب بیان کئے اور کچھ حصے ایسے ہیں جن کا تعلق جماعت سے ہے.ہر دو کو اپنی ذمہ داریاں پوری تندہی اور توجہ سے نباہنی چاہئیں.اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے مکان تعمیر ہورہا ہو تو بنیاد میں کھود کر روڑی کوئی جاتی ہے اور اس پر اینٹوں سے دیوار میں اٹھائی جاتی ہیں.واقفین وقف جدید کا کام روڑی کوٹنا ہے چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ٹکڑوں کو یکجان کر دینا ہے اس قابل بنادینا کہ جب اعلیٰ درجے کی تعلیم اور تہذیب ان کو سکھائی جائے تو وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور بوجھ نہ سمجھیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے آمین.کھانسی مجھے بڑا تنگ کر رہی ہے لیکن اس اعلان کی وجہ سے میں نے جمعہ کا خطبہ چھوڑنا پسند نہیں کیا.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ صحت سے رکھے اور دعا کریں کہ مجھے بھی صحت دے اور صحت سے رکھے.آمین.( الفضل 6 جنوری 1982ء)

Page 251

Page 252

245 حضرت خلیفة المسیح الرابع اقتباس از خطاب جلسه سالانه فرمودہ 27 دسمبر 1982 حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقف جدید کے متعلق درج ذیل ارشادفرمایا: جیسا کہ ہر سال ہوتا چلا آرہا ہے امسال بھی وقف جدید نے نمایاں اضافہ کے ساتھ 9لاکھ تراسی ہزا ر وپے کا بجٹ پیش کیا ہے.جہاں تک معلمین وقف جدید کا تعلق ہے وہ بڑی قربانی اور ہمت کے ساتھ کام کر رہے ہیں.معلم کو بہت معمولی وظیفہ ملتا ہے بعض دفعہ انہیں بڑے سخت حالات در پیش ہوتے ہیں.بعض اوقات ان کیلئے بیک وقت عزت نفس کو قائم رکھنا اور معمول کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.مثلاً ان کے گھر والے کہیں اور رہتے ہیں اور وہ خود کہیں اور اب یہ ناممکن ہے کہ تھوڑے سے روپے میں جوان کو ملتا ہے اس کو تقسیم کر کے وہ دونوں زندہ رہ سکیں.اس کے باوجود معلمین یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور جماعت پر ان کا انحصار نہ ہو کیونکہ گزشتہ تجربہ بتا تا ہے کہ اگر گاؤں کی روٹیوں پر پلنے والا کوئی ملاں بن جائے تو اس میں تربیت کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اس لئے ان کو بعض اوقات ان حالات میں بڑی مشکل سے گزارہ کرنا پڑتا ہے.ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ بعض دفعہ معلمین مجبور ہو کر جماعت کے اخلاص کے نتیجہ میں اس کی خدمت کو قبول کر لیتے ہیں لیکن دو چار ماہ بعد انہوں نے جماعت سے کہا کہ اب ہم سے یہ چیز برداشت نہیں ہو سکتی.آپ اس قصے کو بند کریں.جیسے بھی ہوا، ہم گزارہ کرتے رہیں گے.اب میں پھر وقف جدید کی طرف لوٹتا ہوں.اس سلسلے میں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوؤں میں جو تبلیغ ہو رہی ہے وہ اللہ کے فضل سے بہت خوشکن نتائج پیدا کر رہی ہے.اسکے علاوہ خیراتی ہومیو پیتھی ادارہ بھی ہے.پھر اپنی توفیق کے مطابق سندھی پشتو وغیرہ میں چھوٹے چھوٹے رسائل بھی شائع کرتے ہیں لیکن وقف جدید کی اصل خدمت ہندوؤں میں تبلیغ کرنا ہے جن کو پاکستان میں پہلے کلیۂ نظر انداز کیا گیا تھا.میرے خیال میں پاکستان بننے کے بعد کی جماعت کی تاریخ میں پہلا پھل جو ہندوؤں میں سے ملا ہے وہ وقف جدید کو ملا ہے اور اب تو یہ کیفیت ہے کہ ہر سال ہزار، گیارہ سو ہندو شرک سے تو بہ کر کے توحید میں داخل ہورہے ہیں.

Page 253

246 حضرت خلیفہ مسیح الرابع لطف کی بات یہ ہے کہ بعض پہلوؤں سے ہندوؤں کا معیار بہت بلند ہے.جب شروع میں ہم نے ہندو علاقے میں کام کا آغاز کیا تو ہمارے سامنے ایک بڑی دقت یہ تھی کہ عیسائی مناد اور عیسائی پادری وغیرہ وہاں بے شمار خرچ کر رہے تھے.ان دنوں باہر سے جو امداد آتی تھی وہ امریکہ خاص طور پر پا در یوں کے ذریعہ تقسیم کرواتا تھا.میں اس وقت وقف جدید میں تھا.چنانچہ مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا کہ ہمیں بھی کوئی امدادی سکیم چلانی پڑے گی ورنہ ہم ناکام ہو جائیں گے.مجھے اس علاقے کا دورہ کرنے کا بھی موقع ملا.میں نے معلمین کو بھی اور دوسرے دوستوں کو بھی سمجھایا کہ یہ ایک گری پڑی قوم ہے جس کی عزت نفس کو صدیوں سے کچلا جارہا ہے.ہم تو ان کو اعلیٰ انسان بنانے آئے ہیں.اسے ادنیٰ درجے پر پہنچانے کیلئے نہیں آئے جس پر یہ اس وقت قائم ہیں.اس ساری تذلیل اور انتہائی بدسلوک کے باوجود اس قوم میں بعض خوبیاں پائی جاتی ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لین دین کے معاملے میں صاف ستھرے ہیں اور دوسری یہ کہ یہ بھیک نہیں مانگتے.محنت کر کے کماتے ہیں.میں نے کہا یہ ایک قدر اور خوبی جسے زمانے نے نہیں کچلا تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ اس کو بھی کچل دیا جائے.ہرگز ایسا نہیں ہوگا.اسلام شرف انسانیت کو قائم کرنے کے لئے آیا ہے.شرف انسانیت کو مٹانے کیلئے نہیں آیا.میں نے ان سے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ پر تو کل کرو.نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں روپے کی امدا دان ہندوؤں کو عیسائی بنانے میں نا کام ہوگئی اور ہم ساتھ جو چندہ بھی مانگتے تھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کامیاب ہو گئے اور آج وہاں 143 ایسے گاؤں ہیں جہاں خدا کے فضل سے اسلام نافذ ہو چکا ہے.ایک نواحمدی کے اخلاص اور ایمان کا واقعہ بھی آپ کو سنا دوں.جب 1965ء کی جنگ ہوئی تو وقتی طور پر جس طرح جنگ کے دوران فوجیں کسی بارڈر پر آگے بڑھ جاتی ہیں اور کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں.اسی طرح پاکستان کے اس بارڈر میں جہاں نو مسلم احمدی زیادہ ہورہے تھے ، وہاں ایک حصے میں ہندوستانی فوج آگے بڑھ رہی تھی.ہندوستانی فوجیوں نے بعض نومسلموں کو زدوکوب کیا اور بہت دباؤ ڈالا کہ کسی طرح وہ ارتداد اختیار کر جائیں، بعض شدھ ہو جائیں.ان میں سے ایک نو مسلم کو چار پائی پر باندھ دیا گیا اور پتے اکٹھے کر کے اس کے نیچے آگ لگادی گئی اور اس سے کہا کہ اگر آج تم نے اسلام سے تو بہ نہ کی تو جل کر یہیں خاک ہو جاؤ گے.اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ہاں میں جل کر خاک ہو جاؤں گا لیکن اس مذہب میں واپس نہیں جاؤں گا جس سے نکل کر میں اسلام میں داخل ہوا تھا.اس نو مسلم احمدی کی اس بات میں ایسا عزم تھا کہ بھارتی فوجی افسر نے اپنے فیصلے کو بدل دیا اور کہا کہ اس آگ کو یہاں سے ہٹا دو.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام ظاہری نشان میں بھی پورا ہوا کہ

Page 254

247 حضرت خلیلتہ امسیح الرابع آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ( تذکرہ طبع سوم ص 397) یہ آگ اس دن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کی غلام بنائی گئی تھی.جب میں نے یہ واقعہ سنا تو مجھے ایک ہندی دوہا یا د آ گیا.دوہوں میں بعض سبق سکھائے جاتے ہیں.بعض بڑے پیارے دو ہے ہوتے ہیں.دو ہا یہ کہتا ہے کہ کسی درخت پر ایک پرندہ بیٹھا تھا تو کسی نے اس درخت کو آگ لگا دی اور وہ جلنے لگا.دوسرے پرندے نے اس سے کہا کہ آگ پھیل رہی ہے اور تم بھی جلنے کو ہو.اب وقت ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ تو اس پرندے نے جواب دیا کہ اس درخت کی شاخوں پر میں نے بسیرا کیا ، اس کے پھل سے میں نے غذا حاصل کی.اس نے مجھے سایہ بھی پہنچایا اور گرمی اور سردی سے بھی بچایا.میر ادھرم یہی ہے کہ اب میں اس کے ساتھ جل جاؤں.دراصل یہ نو مسلم بھی یہ دوہا پڑھ رہا تھا کہ اسلام نے مجھے عزت عطا کی.اسلام نے مجھے شرف انسانیت سے آگاہ کیا.زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچایا.اس لئے اگر تم اس اسلام کو جلانا چاہتے ہو تو میرا دھرم یہی ہے کہ میں اس اسلام کے ساتھ جل جاؤں.جلالواگر تم جلانا چاہتے ہو.(روز نامه الفضل 22 مئی 1983 ء )

Page 255

248 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خطبہ جمعہ فرمودہ 31 دسمبر 1982 ء بیت اقصیٰ ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان اور فضل اور کرم ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ ہر پہلو سے انتہائی کامیابی کیساتھ اپنے اختتام کو پہنچا.کارکنان نے بھی مثالی خدمت کا حق ادا کیا.چھوٹے کیا اور بڑے کیا ، مرد کیا اور عورتیں کیا ، سب نے ہی دن رات پورے انہماک اور پورے خلوص کے ساتھ اور دعائیں کرتے ہوئے جو کچھ ان کے بس میں تھا اپنے رب کے حضور پیش کیا.کارکنان کی حاضری کی رپورٹ دیکھ کر میرا دل حمد سے بھر جاتا رہا کہ ان کی حاضری غیر معمولی طور پر بہتر رہی اور باوجود اسکے کہ کچھ موسم کی دشواریاں در پیش تھیں اور کچھ ایسے مسائل جو ہمیشہ جلسے کے ساتھ لگے رہتے ہیں، وہ اس دفعہ بھی لگے رہے.بالعموم انتظام بہت اچھا تھا.اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو جزائے خیر عطاء فرمائے.مہمانوں نے بھی بہت تکلیف اٹھانے کے باوجود نہایت ہی صبر کا مظاہرہ کیا جیسا کہ آپ جانتے ہیں اب انتظامات اتنے پھیل گئے ہیں کہ خصوصیت کے ساتھ اچھے معیار کی روٹی پیش کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے.کام تنوروں کی حد سے بہت آگے نکل گیا ہے.اور جہاں تک مشینوں کا تعلق ہے اگر چہ احمدی انجینئر ز بہت محنت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک مشین کے ذریعے اعلیٰ معیار کی روٹی تیار کرناممکن نہیں ہو سکا.اگر چہ روز مرہ کے استعمال کیلئے تو ممکن ہے لیکن اتنے بڑے کام میں جہاں ضرورت فیصلہ کرتی ہے کہ رفتار کتنی تیز ہونی چاہیے وہاں ہم بعض دفعہ معیاری روئی پیش نہیں کر سکتے.بعض انجینئر زایسے ہیں جنہوں نے اس کام پر سارا سال محنت کی ہے اور بہتری کے کچھ ذرائع بھی تجویز کئے.جن پر اس دفعہ عمل بھی ہوا.اور جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ خدا کے فضل کے ساتھ ان ذرائع سے بہت اچھے نتائج پیدا ہوئے ہیں لیکن ان سب ذرائع کو ابھی زیر نظر رکھنا پڑے گا.پھر ان کو آہستہ آہستہ باقی انتظامات پر بھی ممند کرنا پڑے گا.اسلئے میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ صورت حال دن بدن بہتر ہوتی چلی جائے گی.مگر جہاں تک مہمانوں کا تعلق ہے وہ کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے اور جو کچھ بھی ان کو میسر ہوا، انہوں نے بڑے صبر اور شکر کے ساتھ ، راضی برضا رہتے ہوئے اسی پر کفایت کی.اسی طرح آخری دن جلسے کے دوسرے حصے میں اگر چہ موسم بہت خراب تھا اسکے باوجود مہمانوں نے حیرت انگیز صبر کے ساتھ تقریر کو سنا.ہم تو مسجد

Page 256

249 حضرت خلیفة المسیح الرابع کے اندر تھے اسلئے پوری طرح احساس نہیں ہوسکتا تھا کہ جو دوست باہر بیٹھے ہوئے ہیں وہ کتنی سردی کی تکلیف برداشت کر رہے ہیں.اور بولنے والے کا جسم تو ویسے ہی بولتے بولتے گرم ہو چکا ہوتا ہے اس لئے گرمی کا احساس تو اس کو ہوسکتا ہے، سردی کا احساس نہیں رہتا.ی تو اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی اور اچھا ہی ہوا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے مجبوراً جلسہ ختم کرنا پڑا.بعد میں پتہ چلا کہ ساری جلسہ گاہ بھری پڑی تھی اور خصوصاً دیہاتی جماعتوں کے دوست گیلی پرالی کے اوپر بڑے صبر کیساتھ مسلسل کئی گھنٹے بیٹھے رہے ہیں اور ایک آدمی بھی اٹھ کر باہر نہیں گیا.جماعت احمدیہ کے صبر اور اخلاص کا یہ جو حیرت انگیز مظاہرہ ہے ، اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے.بات وہیں آتی ہے کہ اس جماعت کے تو اخلاص سے ڈر لگتا ہے.خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو حیرت انگیز اخلاص بخشا ہے جس کی مثال تو کیا اس کا عشر عشیر بھی دنیا کی دوسری تنظیموں میں آپ کو نہیں مل سکتا.طوعی نظام ہو اور اس قد را خلاص اور محبت کیساتھ انسان اپنے وجود کو پیش کر دے اسکی کوئی مثال آپ کو جماعت سے باہر نہیں مل سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا یہ ایک زندہ ثبوت ہمیشہ کیلئے قائم ودائم رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ اس موقع پر خدا تعالیٰ کی حمد کرنا ہم پر فرض ہی نہیں بلکہ یہ خود بخو دل سے نکلتی ہے.فرض والی بات سے تو ہم بہت آگے نکل چکے ہیں اب تو کیفیت یہ ہے کہ خدا کے احسانات دل میں پہنچتے ہوئے از خود حمد میں تبدیل ہو جاتے ہیں.اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جوں جوں ہم شکر کا حق ادا کر رہے ہیں لَا زِيدَنَّكُمْ کا قانون بھی برسر عمل رہتا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے مسلسل بڑھتے ہوئے فضلوں کو آسمان سے اترتا دیکھتے ہیں.اسلام ایک بہت ہی پیار امذ ہب ہے.یہ ایسا حیرت انگیز مذہب ہے اس کے ایک ایک جزو میں ڈوب کر انسان جنت حاصل کر سکتا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَ نَّكُمُ (ابراہیم : 8 ) والا ایک ایسا جاری اور مسلسل عمل ہے کہ جو اس عمل میں ایک دفعہ داخل ہو جائے اسکے لئے جہنم کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا.وہ ایک حمد سے دوسری حمد میں داخل ہوتا چلا جاتا ہے.ایک منزل سے دوسری منزل میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کا لامتناہی سلسلہ ہے جس سے دل بھرتے اور چھلکتے رہتے ہیں اور پھر بھرتے اور پھر چھلکتے رہتے ہیں لیکن یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا.اس جلسہ سالانہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو نظارے دیکھنے میں آئے ان میں سے ایک کا میں خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں.مستورات کی تقریر میں میں نے ” پر دے“ کو موضوع کے طور پر اختیار کیا کیونکہ میں محسوس کر رہا تھا کہ دنیا میں اکثر جگہ سے پردہ اس طرح غائب ہو رہا ہے کہ گویا اس کا وجود ہی

Page 257

250 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کوئی نہیں اور اس کے نتیجے میں جو انتہائی خوفناک ہلاکتیں سامنے کھڑی قوم کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی ہیں ان ہلاکتوں کا کوئی احساس نہیں ہے.ماں باپ اپنی بے عملی اور غفلتوں کے نتیجے میں اپنی نئی نسلوں کو ایک معاشرتی جہنم میں جھونک رہے ہیں.اور کوئی نہیں جو اسکی پرواہ کرے یہ صورت حال ساری دنیا میں اتنی سنگین ہوتی جارہی ہے کہ مجھے خیال آیا کہ اگر احمدیوں نے فوری طور پر اسلام کے دفاع کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو معاملہ حد سے آگے بڑھ جائیگا چنانچہ جب جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ احمدی مستورات میں بھی یہ کمزوریاں داخل ہوگئی تھیں اور مجھے اس بات کی بہت فکر لاحق ہوئی.اسلئے جلسہ کے دوسرے روز میں نے مستورات میں اپنی تقریر میں اپنی بچیوں کو سمجھایا اور انتظامی لحاظ سے بعض سختیاں بھی کیں مثلاً اگر پہلے بے پردہ مستورات کو سنیچ کا ٹکٹ مل جاتا تو اس دفعہ اس بارے میں خاص طور پر سختی کی گئی.چنانچہ کچھ شکوے بھی پیدا ہوئے.لیکن تقریر کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس قسم کے خط مجھے اپنی بچیوں کی طرف سے موصول ہوئے ہیں ان سے یوں محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر زخم کے اوپر اپنے فضل کا پھاہا رکھ رہا ہے اور اپنے رحم و کرم کی مرہم لگا رہا ہے اور اس نے کوئی دکھ بھی باقی نہیں رہنے دیا.ان انتظامات سے پہلے اور اس تقریر سے قبل بعض لوگوں نے کچھ اندازہ لگالیا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں اور کیا کہنا چاہتا ہوں.بعض ڈرانے والوں نے مجھے ڈرایا کہ دیکھو! اتنی جلدی ایسی سختی نہ کرنا.خطرہ ہے کہ بہت سی بچیاں اس سختی کو برداشت نہ کر کے ضائع ہو جائیں گی.اس لئے دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ ، آہستہ آہستہ قدم اٹھاؤ.میں نے ان سے کہا کہ اب آہستگی کا وقت نہیں رہا کیونکہ معاملہ حد سے بڑھ چکا ہے.آج فوری اقدام کی ضرورت ہے اور دوسرے یہ کہ تم جو یہ مشورہ مجھے دیتے ہو تم مجھ پر بھی بدظنی کر رہے ہو اور احمدی بیٹیوں پر بھی بدظنی کر رہے ہو.میں تو اس آقا کا غلام ہوں جس نے کھوئی ہوئی بازیاں جیتی ہیں اور دعا کی تقدیر سے تدبیر کے پانسے پلٹے ہیں اور یہ بچیاں بھی اسی آقا کی غلام ہیں جس کی آواز پر اس کے غلاموں نے جاں نثاری کے ایسے نمونے دکھائے کہ دنیا انکو دیکھتی ہے تو باور نہیں کر سکتی کہ دنیا میں ایسی جاں نثار قوم بھی کبھی پیدا ہوسکتی ہے.اس وقت میرا ذ ہن جنگ حنین کی طرف منتقل ہوا اور میں نے سوچا کہ کس طرح مسلمان فوج کے پاؤں اکھڑ گئے تھے اور سواریاں بے قابو ہوئی جاتی تھیں یہاں تک کہ آنحضور ﷺ صرف چند غلاموں کے درمیان تنہا رہ گئے.آپ اُس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے.سب سے پہلا رد عمل تو آپ کا یہ ہوا کہ وہ دشمن جو صحابہ کے پیچھے دوڑ رہا تھا اس کو اپنی طرف متوجہ کیا ایک حیرت انگیز کردار ہے حضور اکرم ﷺ کا جس کو دیکھ کر روح سجدہ ریز ہو جاتی ہے.خدا نے ہمیں کتنا عظیم الشان آقا عطاء فرمایا ہے.یعنی سب سے صلى الله

Page 258

251 حضرت خلیفہ امسیح الرابع پہلے اس توجہ کو مسلمانوں سے ہٹا کر اپنی طرف منتقل فرمایا اور ایک شعر کی صورت میں یہ اعلان شروع کر دیا کہ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ اے کفار ! تم کدھر بھاگ رہے ہو.اسلام کی جان تو میں ہوں.اگر نبی کی دشمنی تمہیں ان لوگوں کو ہلاک کرنے پر آمادہ کر رہی ہے تو ادھر آؤ.یہ نبی یہاں ہے.اور اگر کسی کو عبد المطلب کے خاندان سے دشمنی ہے یا کوئی اور وجہ ہے تو عبدالمطلب کی اولاد کا سر براہ یا عبدالمطلب کی اولاد کی جان یہاں موجود ہے ان کو چھوڑو اور میری طرف آؤ.ایسے خطرناک وقت میں دشمن کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا سپہ سالار آپ نے دنیا کے پردے پر کہیں اور نہیں دیکھا ہو گا.یہ اعلان فرمانے کے بعد آپ نے صحابہ کو بلایا اور بلانے کا انداز یہ تھا کہ اعلان کروایا اسے انصار ! خدا کا رسول تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے اور اے مہاجرین ! خدا کا رسول تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے.روایتوں میں آتا ہے کہ اس وقت حالت یہ تھی کہ پاؤں اس شدت سے اکھڑ چکے تھے کہ کوشش کے باوجود بھی سواریاں نہیں مڑتی تھیں.جن جن کے کانوں میں یہ آواز پہنچی اگر وہ پیدل تھے تو وہ اسی طرح پلٹ آئے اور جو سوار تھے انکے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے پوری قوت کے ساتھ سواریوں کو موڑنے کی کوشش کی ان سواریوں کی گردنیں ان کی چھاتیوں کے ساتھ لگ گئیں لیکن وہ مڑنے کا نام نہیں لیتی تھیں.تب انہوں نے تلواروں سے اپنی سواریوں کی گردنیں کاٹیں اور لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ لَبَّیک کہتے ہوئے پا پیادہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے کیوں گردنیں کاٹیں؟ اپنی گردنیں بچانے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے سواریوں کی گردنیں کاٹیں کہ خودان کے سرتن سے جدا کئے جائیں.میں نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ وہ قوم تھی جو حضرت محمد مصطفے ﷺ کو عطاء ہوئی اور ہم بھی تو اسی آقا کے غلام ہیں اور اسی کے تربیت یافتہ ہیں.اسلئے تم کتنی بدظنی سے کام لیتے ہو، یہ کہتے ہو کہ جب میں احمدی بچیوں کو آنحضور ﷺ کی عزت اور ناموس کے نام پر بلاؤں گا تو وہ نہیں آئیں گی.مجھے یقین ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا اور یہ بات جو تم کہتے ہو، ناممکن ہے.تم دیکھو گے کہ وہ ساری کی ساری انشاء اللہ ادھر پلیٹیں گی اور خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹیوں کو ضائع نہیں کرے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا مجھے ایسے ایسے دردناک خط ملے کہ میں وہ پڑھتا تھا اور میرا دل حمد سے بھر جاتا تھا.اور مومن کی حمد خود بخود دعا میں تبدیل ہوتی رہتی ہے.ان بیٹیوں کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعا ئیں نکلتی تھیں کہ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور انہوں نے اپنے عہد کو سچا ثابت کر دکھایا.پس یہ وہ جماعت ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوئی ہے کوئی ہے دنیا میں طاقت جو خدا کی ایسی جماعت کو

Page 259

252 حضرت خلیفہ امسیح الرابع مٹا سکے.جس میں اسوہ محمدی زندہ ہو، اسکو دنیا کی کون سی طاقت مٹاسکتی ہے.آپ کی ساری ضمانت، آپ کی ساری حفاظت اسوہ محمدی میں مضمر ہے.اس اسوہ کو حرز جان بنالیں اس کو اپنی رگ و پے میں رچالیں.پھر آپ ہمیشہ کی زندگی پا جائیں گے.ایسی زندگی پائیں گے جس کے او پر موت کوکوئی دخل نہیں رہتا.پس یہ بھی حمد کے اظہار کی بات تھی اور شکر کے اظہار کی بات تھی.اور جیسا کہ میں نے کہا ہمارا شکر از خودحمد میں بدل جاتا ہے.ایک ہی چیز کے دو نام معلوم ہوتے ہیں اسلئے میں نے سوچا کہ جماعت کو مطلع کروں کہ وہ خطرات جو منڈلا رہے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مل رہے ہیں اور ٹل جائیں گے اور ساری دنیا میں اسلامی پردے کی حفاظت کا سہرا احمدی بچیوں کے سر رہے گا انشاء اللہ.ہم نے سب کھوئی ہوئی اقدار کو واپس حاصل کرنا ہے.ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک حضرت محمد مصطفی امی ہے صلى الله کے معاشرے کی حفاظت نہیں کریں گے اور اسے دوبارہ دنیا میں قائم اور نا فذ نہیں کر دیں گے.پردے کے سلسلے میں کچھ معمولی شکایات بھی پیدا ہوئیں کہ بعض باتوں میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا.لیکن جب ان بچیوں کو سمجھایا گیا تو وہ سب سمجھ گئیں.بات یہ ہے کہ صرف سلیچ کے ٹکٹ سے روکا گیا تھا ناراضگی کے اظہار کے طور پر.یہ تو کوئی نا انصافی نہیں ہے.سٹیج تو کسی کا حق نہیں ہے.نا انصافی تو حق تلفی کے نتیجہ میں ہوتی ہے.اسلئے اگر بعض پردہ دار بچیوں کو بھی سٹیج ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا تو انہیں اس کا برانہیں منانا چاہیے تھا.مثلاً بعض ایسی خواتین ہیں جو ایسے علاقوں سے آتی ہیں جہاں چادر کا پردہ بڑی سختی کے ساتھ رائج ہے اور اس پر دے پر کوئی مسلمان اعتراض نہیں کر سکتا.صرف اسلئے کہ چونکہ انہوں نے برقع نہیں پہنا اگر ان کو ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا تو یہ ایک غلطی ہو سکتی ہے لیکن نا انصافی نہیں کیونکہ انصاف کا معاملہ تو حقوق میں شروع ہوتا ہے سینج ٹکٹ تو احسان کا معاملہ ہے ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے تھا کہ انتظام میں غلطی ہوگئی ہے، کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ معاف کرے، ہمارا بھی کون ساحق تھا، جماعت کا یہ احسان تھا کہ ہمیں ٹکٹ ملا کرتا تھا ، اب احسان نہیں ہے تو ہم اس پر راضی رہیں گی.اگر وہ یہ ردعمل دکھاتیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات اور بھی بڑھا دیتا.اسی طرح بعض اور بھی اس قسم کی مثالیں ہیں.لیڈی ڈاکٹر ہیں.مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین ہیں.اسلام کی تعلیم کے مطابق ان کے پردے کا معیار نسبتا مختلف اور نرم ہے ، ہاں جب وہ ان کاموں سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کی عام زندگی میں لوٹتی ہیں تو ان کا فرض ہے کہ نسبت زیادہ بختی سے پردہ اختیار کریں.آپ نے دیکھا ہوگا کام کے کپڑے اور ہوتے ہیں اور جب انسان گھر میں آکر روز مرہ کی زندگی اختیار کرتا ہے تو وہ کام کے کپڑے اتار دیتا ہے اور دوسرے کپڑے پہن لیتا ہے.پس اسلام میں بھی

Page 260

253 حضرت خلیفہ امسیح الرابع تو یہی طریق جاری رہنا چاہیے.اگر کام کے تقاضے اور کام کے کپڑے آپ کو نسبتا نرم پردہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ آپ حیا کی چادر میں لپٹی ہوئی ہوں.لیکن اس کے بعد روز مرہ کی زندگی میں یہی طریق اختیار کرنا درست نہیں ہے.انگلستان اور امریکہ وغیرہ میں ہم نے دیکھا ہے مزدور بالکل اور کپڑے پہن کر کام پر جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو صاف ستھرے،کوٹ پتلون پہنے اور نکٹائی لگائے باہر نکلتے ہیں اور پہچانے نہیں جاتے کہ یہ وہی لوگ ہیں اسلئے آپ بھی اپنے معاشرے میں اسی قسم کی مناسب حال تبدیلیاں پیدا کیا کریں.پھر آپ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.اسی طرح بڑی عمر کی عورتیں ہیں.اگر وہ اس عمر سے تجاوز کر گئی ہیں جہاں نا پاک لوگوں کی گندی نظریں ان پر پڑیں تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان پر کوئی حرف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی حرج ہے.ایسی عورتیں اگر عام شریفانہ طریق پر چادر لے لیں جو ہمارے ہاں رائج ہے خواہ چہرہ نہ بھی ڈھکا ہوا ہو ، تو یہ ان کے لئے جائز ہے.کیونکہ جس چیز کی قرآن کریم اجازت دیتا ہے اس کو دنیا میں کون روک سکتا ہے.اور قرآن کریم کے تقاضوں کو ہمیں بہر حال پورا کرنا چاہیے.اگر سٹیج ٹکٹ کے معاملے میں ان پر بھی کسی قدر سختی ہو گئی ہو جس کی وجہ سے انکی دل آزاری ہوئی ہے تو انہیں حلم سے اور درگزر سے کام لینا چاہیے ویسے انتظام کی طرف سے عمداً ایسا نہیں ہوا.لیکن آئندہ کے لئے جماعت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پردہ کے متعلق انفرادی طور پر ایسے فیصلوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی.ورنہ اس کا ناجائز استعمال ہوگا اور از خود لوگ بعض اجازتیں اپنے لئے لینی شروع کر دیں گے.اگر اجازت کا غلط استعمال کریں گے تو پھر ہم اسی مصیبت میں مبتلا ہو جائیں گے جس مصیبت سے نکل کے آئے ہیں اس لئے اس قسم کی چیزیں جماعتی انتظام کے تحت ہونی چاہئیں جن خواتین کو جس قسم کے اسلامی پردے کی ضرورت ہے وہ اپنے انتظام کو بتائیں کہ میرے یہ حالات ہیں اور میرے متعلق قرآن کریم کا یہ حکم ہے اور میں اس کے مطابق عمل کر رہی ہوں.پھر ا نتظام کو کوئی شکوہ نہیں ہوگا.لیکن بچیاں خصوصاً ایسے طبقے کی بچیاں جو ناز و نعمت میں پلی ہوتی ہیں اور جن کے لئے خطرات زیادہ ہیں ان کے بارہ میں نظام جماعت کو اجازت دیتے وقت بہت احتیاط کرنی چاہیے.پھر ایسی خواتین ہیں جن کو باہر تو نکلنا پڑتا ہے لیکن وہ سنگھار پٹار کر کے نکلتی ہیں اب کام کا سنگھار پٹار سے کیا تعلق ہے.سنگھار پٹار ان کے اس فعل کو جھٹلا دیتا ہے کہ اگر تم فلاں کام کے سلسلے میں نرم پردہ کرنے پر مجبور ہو تو کم از کم پر دے کے جو دوسرے تقاضے ہیں ان کو تو پورا کرو.پورے سنگھار پٹار اور زمینوں کے ساتھ باہر نکلو اور پھر کہو کہ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ یہاں نسبتا نرم پردہ کر لیں ، یہ غلط بات ہے،

Page 261

254 حضرت خلیفہ المسح الرابع اسلام کے نام کو غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.الغرض اس قسم کی کچھ بالکل معمولی انتظامی سختیاں تھیں جو کی گئیں.لیکن بہر حال میرا یہ فیصلہ تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو رفتہ رفتہ مزید سختی کی جائے گی اور اس سختی کے لئے سب سے پہلے میں نے اپنے آپ کو چنا.میرا فیصلہ یہ تھا کہ پیشتر اس کے کسی احمدی بچی کو نعوذ باللہ من ذالک بے پردگی کی وجہ سے جماعت سے نکالنا پڑے، پہلے میں اپنے دل پر سختی کروں گا.ان کیلئے راتوں کو اٹھ کر روؤں گا اپنے رب کے حضور عاجزانہ عرض کروں گا کہ اے اللہ ! ان بچیوں کو بچا اور مجھے توفیق دے کہ میں پہلے تنبیہ کے تقاضے پورے کروں.اس کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھاؤں ، نرمی محبت اور پیار سے ، جس طرح بھی بن پڑے میں ان کو سمجھاؤں اور واپس لانے کی کوشش کروں.ان کی ذمہ داریاں انکو بتاؤں جب یہ سارے نقاضے پورے ہو جائیں اور ہر قسم کی حجت تمام ہو جائے، پھر تو ایسا فضل کر کہ سختی کا موقع پیش ہی نہ آئے.یہ میرا فیصلہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور اس کے احسانات کو آدمی گن نہیں سکتا کہ اس چیز کا موقع ہی نہیں آنے دیا.احمدی عورت نے حسن و احسان کا اتنا حیرت انگیز ردعمل دکھایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے سامنے سر جھک جاتا ہے.اب میں مردوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اگر انکی بچیوں نے اسلام کی خاطر کچھ فیصلے اور عزم کئے ہیں تو ان کی راہ میں روک نہ ڈالیں.اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ خدا کے سامنے دوہرے طور پر جوابدہ ہوں گے اور پھر وہ خودان نتائج کے ذمہ دار ہوں گے جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوں اور ظاہر ہوں.اس مختصرسی تنبیہ پر ہی میں اکتفا کرتا ہوں اور سمجھنے والے سمجھیں گے کہ اگر کوئی احمدی بچی خدا کی خاطر ایک پاکیزہ اور عصمت والی زندگی اور حفاظت والی زندگی اور قناعت والی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو کسی مرد کو ہرگز اس کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہئے یہ چیز خود ان کے لئے اور ان کے گھروں کے لئے بہتر ہے ان کے گھروں کو جنت بنانے کیلئے یہ ضروری ہے.بعض لوگ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اس بات کو نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی فیشن میں ہے.حالانکہ فیشن میں کوئی زندگی نہیں اصل زندگی تو اس فیشن میں ہے جو دین کا فیشن ہے.اس میں نہیں ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوفرمایا کہ یہ زندگی کے فیشن سے دور جاپڑے ہیں.پس زندگی کا فیشن تو ہم آنحضرت ﷺ سے سیکھیں گے نہ کہ کسی اور سے.ایک چیز جو بعض دفعہ بچیوں کو بھی پریشان کرتی ہے اور بعض دفعہ مردوں کو بھی ، وہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پردہ اختیار کرنے کی وجہ سے سوسائٹی ہمیں ادنیٰ اور حقیر سمجھے گی.وہ کہے گی یہ اگلے وقتوں کے لوگ

Page 262

255 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہیں چنانچہ جن احمدی عورتوں نے اس معاملے میں کمزوری دکھائی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کیسا تھ مجھے یقین ہے کہ ان میں بے حیائی کا کوئی عصر نہیں تھا.دراصل نفسیاتی کمزوری نے اس میں ایک بہت ہولناک کردارادا کیا ہے.عورتیں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم اس دنیا میں جہاں سے پردے اٹھ رہے ہیں اپنی سہیلیوں کے سامنے برقعہ پہن کر جائیں گی تو وہ کہیں گی کہ یہ اگلے وقتوں کی ہیں ، پگلی ہیں ، پاگل ہوگئی ہیں، یہ کوئی برقعوں کا زمانہ ہے اور یہی بات مردوں کو بھی تکلیف دیتی ہے حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ عزت نفس اور دوسرے کا کسی کی عزت کرنا انسان کے اپنے کردار سے پیدا ہوتا ہے، دنیا کی نظر میں لباس کی کوئی بھی حیثیت نہیں رہتی.اگر کوئی آدمی صاحب کردار ہو تو اس کی عزت پیدا ہوتی ہے اور یہ عزت سب سے پہلے اپنے نفس میں پیدا ہونی چاہیے، عظمت کر دارا اپنے نفس سے شروع ہوتی ہے اور جب اپنے نفس میں عزت پیدا ہو جائے تو پھر دوسروں کی دی ہوئی عزتیں بے معنی رہ جاتی ہیں.بہر حال یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کی طرف میں آپکو توجہ دلانی چاہتا ہوں.آپ اپنے کردار کے اندر ایک عظمت پیدا کریں اور اس کا احساس پیدا کریں.اسکے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا قانون از وہ خود آپ کو آپ کے وجود کے اندر معزز بنادے گا.اور ایسے معززین کو پھر دنیا کی قطعا کوئی پروا نہیں رہتی ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کرتے.ہاں دنیا ان کی پرواہ کرتی ہے.دنیا ان کو پہلے سے زیادہ عزت دیتی ہے.گھٹیا نظر سے نہیں دیکھتی بلکہ رفعتوں کی نظر سے دیکھتی ہے.یہ فطرت کا ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ جس نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے وہ گواہ ہوگا کہ یہ قانون کبھی نہیں بدلتا.پس جن بچیوں کے دل میں یہ خوف ہوں ان کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہیں.آپ نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کرنا ہے.آپ دنیا والوں سے مختلف ہیں.اس لئے اپنی ذات میں خوش رہنے کی عادت ڈالیں.چونکہ ہر کام آپ محض اللہ کر رہی ہونگی اس لئے اپنے متعلق محسوس کریں کہ خدا نے آپ کو عزت بخشی ہے اور آپ کو ایک اکرام بخشا ہے اور جو دُختِ کرام ہو.اسے دنیا کی عزتوں کی کیا ضرورت ہے.اس کے باوجود بھی اگر آپ کو کوئی کہتا ہے.کہ یہ اگلے وقتوں کی ہیں تو آپ کہیں کہ ہاں ہاں.ہم اگلے وقتوں کی ہیں لیکن ان اگلے وقتوں کی جو حضرت محمد مصطفیٰ صلى الله کے وقت تھے اور وہ اگلے وقت ایسے وقت تھے کہ جن کے سامنے ماضی بھی گزشتہ وقت تھا.اور مستقبل بھی گزشتہ وقت ٹھہرتا ہے.محمد مصطفی ﷺ کے وقت میں ہی تو وقت نے رفعت اختیار کی تھی اور زمانی قیود سے آزاد کر دیا گیا تھا.وہی وقت تھا جو سب سے آگے تھا اور ہمیشہ آگے رہے گا اور انسان کا مستقبل کروڑہا کروڑ سال تک آگے چلتا چلا جائے گا تب بھی مستقبل کا انسان کبھی بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ سے آگے

Page 263

عروسة.عروسة 256 حضرت خلیفہ مسیح الرابع نہیں بڑھ سکے گا.پس کہو اور جرات سے کہو کہ ہم اگلے وقتوں کی ہیں لیکن اُن اگلے وقتوں کی جو محمد مصطفیٰ کے وقت تھے.وہ کہتے ہیں پگلیاں ہو گئی ہو تو کہو کہ ہاں ہم پگلیاں ہیں دیوانیاں ہیں لیکن محمد مصطفیٰ کی پگلیاں ہیں اور دنیا کی فرزانگیوں سے ہماری کوئی بھی نسبت نہیں ہے نہ ہی ہم اس فرزانگی کو حرص کی نظر سے دیکھتی ہیں.ہماری دیوانگی جو آنحضور ﷺ کی محبت اور پیار کی دیوانگی ہے تمہاری فرزانگی سے کروڑوں گنا افضل اور زیادہ پیاری ہے.اگر یہ احساس پوری طرح بیدار ہو تو یہ پر دے تکلیف کی بجائے لطف کا موجب بن جاتے ہیں اور معاشرے کو ایک عجیب جنت عطاء ہوتی ہے پس قربانی تو دراصل ہے ہی کوئی نہیں یہ تو نعمت ہی نعمت ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ نعمت پہلے بھی عطاء فرمائی تھی اور اب دوبارہ اس نعمت پر پوری شان کے ساتھ قائم ہونے کی توفیق عطاء فرمائی ہے.پس دعا کرتے رہیں اور کوشش کرتے رہیں اور اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے نصیحت جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح سے اسلامی معاشرے کی تمام قدروں کو زندہ اور اعلیٰ اور ارفع طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے.اب میں صرف چند لفظوں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.جمعہ پر آنے سے قبل مجھے وقف جدید والوں کی طرف سے ایک ارجنٹ URGENT یعنی فوری چٹھی ملی کہ وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے اور گزشتہ طریق یہی ہے کہ یہ اعلان جلسہ سالانہ کے بعد پہلے خطبہ جمعہ میں کیا جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے کسی خاص تحریک کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں ہمیشہ پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور آئندہ بھی اسی طرح حصہ لیتی رہے گی.چونکہ اس تحریک کو بہت اچھی خدمت کی توفیق مل رہی ہے اسلئے اس کی ضرورتوں کو جو دراصل جماعت کی ضرورتیں ہیں جماعت نے بہر حال پورا کرنا ہے اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ پوری کریگا.ان چند الفاظ کے ساتھ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.سب دوست یہی کوشش کریں کہ جہاں تک توفیق ہو پہلے سے بڑھ کر اس میں حصہ لیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطاء فرمائے آمین.الفضل مورخہ 24 مارچ 1983ء)

Page 264

257 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اقتباس از خطاب جلسه سالانه فرموده 27 / دسمبر 1983 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعایٰ نے فرمایا: وقف جدید کی تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیماری کے آخری ایام کی تحریک تھی اور اس تحریک کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کے رنگ لگائے اور بڑی تیزی کے ساتھ یہ ترقی کر رہی ہے.خصوصاً نومسلموں کی خدمت میں اس تحریک نے نمایاں کارنامے سرانجام دیئے ہیں.آج بھی اس جلسہ میں دور دور کے علاقوں سے 150 نو مسلم آئے ہوئے ہیں جو اس تحریک کے تابع یہاں اکٹھے ہیں اور اب اسلام کی طرف ہندوؤں کا اس کثرت کے ساتھ رجحان ہو چکا ہے کہ سینکڑوں دیہات میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسلام کا پودا لگ چکا ہے اور جہاں احمدی نہیں پہنچ سکتا وہاں اللہ کے فرشتے پہنچ جاتے ہیں اور وہ خوابوں کے ذریعہ بھی تبلیغ کرنے لگتے ہیں.چنانچہ ایک ہندو بھگت کا واقعہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک ہندو بھگت نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ گھوڑے پر آتے ہیں اور ان کی شکل سے ایسا نور برستا ہے کہ یہ چاہتا ہے کہ میں کچھ پیش کروں اس کے پاس چونکہ کچھ نہیں تو وہاں جنگل کے رواج کے مطابق ڈیلے تلاش کرتا ہے کہ پکے ہوئے ڈیلے ہوں تو میں وہی پیش کروں تو ڈیلے سوکھے اور خراب سے نظر آتے ہیں اتنے میں وہ بزرگ کہتے ہیں یہ لو ڈیلے تو آسمان سے ان کے لئے نہایت تر و تازہ خوبصورت اور سرخ ڈیلے اترتے ہیں اور وہ مجھے دے دیتے ہیں.یہ خواب دیکھ کر وہ شخص بھول گیا.پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اسے ایک احمدی سے ملایا اور یہ چونکہ بیمار تھا اس کی معرفت یہ ہمارے امیر صاحب ضلع تھر پار کر کے پاس دوا لینے آیا.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تصویر لٹکی ہوئی دیکھی تو بے اختیار بول اٹھا کہ یہی تو وہ بزرگ تھے جس پر آسمان سے تازہ سرخ رنگ کے پکے ہوئے ڈیلے اترے تھے اور انہوں نے مجھے دیئے تھے.(روز نامه الفضل 14 / اپریل 1984ء)

Page 265

258 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 6 جنوری 1984 ء بیت اقصی ربوہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: 1984 عیسوی یا 1363 ہجری شمسی کا یہ پہلا جمعہ ہے.سب سے پہلے تو میں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے یہ سال تمام احمدیوں کیلئے تمام مسلمانوں کیلئے اور تمام بنی نوع انسان کیلئے مبارک فرمائے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کیلئے یہ سال بے انتہا برکتیں لے کر آئے.دوسرے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ ہر سال پہلے جمعہ میں وقف جدید انجمن احمدیہ کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے.اسلئے اس موقع پر میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.گزشتہ سال جس طرح خدا تعالیٰ نے ہر شعبہ پر ہر انجمن پر اور ہر ذیلی تنظیم پر بے انتہا فضل فرمائے اور ہر پہلو سے جماعت کا قدم نمایاں ترقی کی طرف اٹھا وہاں وقف جدید بھی اللہ کے فضلوں کی وارث بنی.اور خدا تعالیٰ نے چندوں میں غیر معمولی برکت بخشی اور اس کے کام میں بھی برکت عطاء فرمائی.چنانچہ چندہ بالغان جو 1982ء میں نو لاکھ کے بجٹ کے مقابل پر 7,08,392 روپے وصول ہوا تھا 1983ء میں 10,07,775 روپے تک پہنچ گیا.گویا گزشتہ سال کے مقابل پر 2,99,383 روپے کا اضافہ ہوا جبکہ باقی چندوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا تھا.اور وقف جدید کی تحریک کیطرف نسبتاً کم توجہ ہوتی ہے.انجمنوں میں سے اسے تیسرے درجے کی انجمن سمجھا جاتا ہے.اسلئے عموماً بچا ہوا مال وقف جدید کی طرف منتقل ہوتا ہے پس یہ اللہ تعالیٰ کی بے حد رحمت ہے اور اس کا کرم ہے کہ غیر معمولی کوشش اور غیر معمولی تحریک کے بغیر بھی خدا تعالیٰ نے اس تحریک کی جیب بھی بھر دی اور توقع سے بڑھکر وصولی ہوئی.دفتر اطفال کا بجٹ 15,000, 2 روپے کا تھا.1982ء میں اس کی وصولی 1,41,000 تھی لیکن گزشتہ 1983 ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ وصولی بھی بڑھ کر 2,20,000 تک پہنچ گئی.اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی نمایاں ترقی ہوئی اور کل اضافہ جو گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابل پر ہوا ہے وہ 3,94,523 روپے کا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ جماعت امسال بھی اسی طرح قربانی کی روح کا مظاہرہ کریگی اور وقف جدید کو بھی مالی قربانی میں محض اللہ شامل کرتی رہے گی.وقف جدید کے سلسلہ میں یہ

Page 266

259 حضرت خلیلتہ امسیح الرابع بات ضروری ہے کہ معلمین کی کمی محسوس ہو رہی ہے.بعض علاقوں میں ہندؤوں کا کثرت سے اسلام کی طرف رجحان پایا جاتا ہے اور وہاں خاص وقف کی روح کے ساتھ آگے بڑھنے والے واقفین کی ضرورت صلى الله.ہے ہمارے رہن سہن سے ان کا رہن سہن مختلف ہے.ہمارے حالات اور موسموں سے ان علاقوں کا رہن سہن اور موسم مختلف ہیں.اور خاصی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.بعض دفعہ تو وہاں کا پانی اتنا گندا اور کسیلا اور دل کو متلا دینے والا ملتا ہے کہ وہ پانی پینا ہی ایک بہت بڑی قربانی ہے.پھر اس علاقے میں سانپ اور بچھو بھی ہیں.خوراک کی بڑی کمی پائی جاتی ہے.بعض دفعہ کئی کئی ماہ تک بارش نہیں ہوتی.تو اسکی وجہ سے پانی اور بھی زیادہ گہرا چلا جاتا ہے اور مہنگاملتا ہے اسلئے بہت قیمت دے کر پانی لینا پڑتا ہے.تو ان حالات میں وقف جدید کے معلمین محض اللہ اسلام کی بہت بڑی خدمت سرانجام دے رہے ہیں.اور خدا کے فضل سے اس وقت تک دوسو سے اوپر گاؤں ایسے ہیں جہاں اسلام داخل ہو گیا ہے.اس سے پہلے وہاں اسلام کا نام ونشان نہیں تھا.جہاں پہلے بت پرستی ہوتی تھی اب وہاں خدائے واحد کی عبادت ہونے لگی ہے.جہاں پہلے آنحضرت یہ سے کدورت پائی جاتی تھی وہاں اب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا نام لیتے ہوئے اور آپ پر درود بھیجتے ہوئے ان لوگوں کی آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں.پس یہ بہت عظیم الشان خدمت ہے جو وقف جدید نے سرانجام دی ہے اور دے رہی ہے.اسکے لئے صرف روپیہ کافی نہیں بلکہ وقف کی روح رکھنے والے واقفین کی بہت ضرورت ہے.اسی طرح وقف عارضی والے بھی ایسے دوست چاہئیں جو کسی نہ کسی فن میں مہارت رکھتے ہوں اور خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں اور غریبوں کی ہمدردی رکھتے ہوں.ڈاکٹر ہیں اور مختلف قسم کے تاجر ہیں.وہ موقع پر جائیں اور دیکھیں کہ ان لوگوں کی کیا مدد ہوسکتی ہے اور کس طرح ان کی دلداری کی جاسکتی ہے.اور مُؤلَّفَةُ الْقُلُوبِ کے حکم کی پیروی میں ان کے دلوں کی تالیف کے نئے رستے کونسے ڈھونڈے جاسکتے ہیں.کراچی کے کچھ دوستوں نے دو چار سال پہلے عارضی وقف کیا تھا.ان میں بعض سابق حج بھی تھے، بعض ڈاکٹر بھی تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے دورے کا بہت ہی اچھا اثر پڑا.ان لوگوں میں نیا حوصلہ پیدا ہوا.وہ حیران ہوئے کہ دنیا کے لحاظ سے اتنے بڑے بڑے مقام رکھنے والے لوگ ان سے کس طرح محبت کا سلوک کر رہے ہیں.ان کے برتنوں میں پانی پیتے ہیں جبکہ باقی دنیا ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.پس اسلام کی خدمت کے لئے یہ ایک بہت بڑا موقع ہے.وقف عارضی کے لحاظ سے بھی یہ مسئلہ مزید توجہ کا متقاضی ہے.اسلئے میں امید رکھتا ہوں کہ جو واقفین اپنے خرچ پر تنگی ترشی سے گزارا کرتے ہوئے اور مخالف حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے وہاں خدمت سرانجام دینا چاہیں وہ یہ کہہ کر وقف کریں کہ

Page 267

260 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہمیں اس علاقے میں بھجوایا جائے.ایک روچلی ہے امید ہے کہ اگر اسے اور تقویت دی جائے تو بہت جلد سارے ہندو علاقے میں اسلام پھیل سکتا ہے.تیسری بات جو سب سے اہم ہے وہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج کل عالم اسلام پر ایک بہت بڑا ابتلا ء آیا ہوا ہے اور خاص طور پر ہمارے عرب ممالک بڑے دکھ کا شکار ہیں.ان پر ہر طرف سے مظالم توڑے جارہے ہیں.اور کوشش کی جارہی ہے کہ عربوں کو دنیا سے بالکل نیست و نابود کر دیا جائے.اسرائیل کیا اور مغربی طاقتیں کیا اور مشرقی طاقتیں کیا ، سب کی سب عربوں کو مظالم کا نشانہ بنارہی ہیں اور ان سے کھیل کھیل رہی ہیں.ہتھیار اس غرض سے دیئے جارہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہائیں اور جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس کے مقابل پر دنیا کی کوئی طاقت بھی سنجیدگی سے عربوں کی مدد کرنے کیلئے آمادہ ہی نہیں.معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ ان کے فیصلے ہیں کہ عربوں کو ایسی حالت میں رکھا جائے کہ ان کا تیل اپنے بچے کھچے ہتھیاروں کے بدلے لوٹ لیا جائے.ان کی دوستیں سمیٹ لی جائیں.اور ان کو ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا جائے.غرض انتہائی تکلیف دہ اور دکھ کا حال ہے جو ایک مسلمان کیلئے نا قابل برداشت ہے.عت احمدیہ کو میں آج خاص طور پر تاکید کرتا ہوں کہ بے حد درد اور کرب کے ساتھ اور باقاعدگی کے ساتھ اپنے عرب بھائیوں کیلئے دعائیں کریں ! یعنی ایک دفعہ کی یا دو دفعہ کی دعا کا سوال نہیں.بلکہ اس دعا کو التزام کیسا تھ جاری رکھیں.ہر نماز میں ہر تہجد کی نماز میں جہاں تک توفیق ملے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عرب قوم پر فضل فرمائے اور رحم فرمائے اور دکھوں اور مصیبتوں سے نجات بخشے اور ہدایت دے اور اگر ان کے کسی فعل سے خدا ناراض ہے تو ان کی مغفرت فرمائے اور عفو کا سلوک کرے اور وہ نور جو پہلے ان سے پھوٹا تھا وہ دوبارہ ان میں بڑی شدت کیسا تھ اور بڑی قوت کے ساتھ داخل ہو.نور مصطفوی کو ساری دنیا میں پھیلانے کا موجب بنیں اور جس طرح پہلے انہوں نے دین اسلام کے لئے صف اول کی قربانی دی تھی آئندہ بھی ان کو دین اسلام کی صف اول میں ہی اللہ تعالیٰ رکھے ، پیچھے رہ جانے والوں میں شامل نہ کرے.آنحضرت ﷺ کا عربوں میں سے ہونا عربوں کا ساری دنیا پر ایک بہت بڑا احسان ہے.الله صلى الله رچہ بالا رادہ تو نہیں لیکن عرب قوم کا احسان ہے کہ اس میں حضرت محمد مصطفی امیہ ظاہر ہوئے اور پھر اس قوم نے اسلام کیلئے حیرت انگیز قربانی کی ہے جس کی دنیا میں کوئی نظیر نظر نہیں آتی.غرض آنحضرت ﷺ کی بعثت عربوں میں سے اگر چہ بالا رادہ عرب کا احسان نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ضرور کوئی نیکی اور غیر معمولی خوبی دیکھی تھی جو سید الانبیاء کو عربوں میں مبعوث فرمایا اور بعد میں ان کے عمل نے ثابت

Page 268

261 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کر دکھایا کہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ایک بہترین انتخاب تھا.پس یہ براہ راست ہمارے محسن بنے جبکہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے پیغام کی تائید کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے لیکن پیچھے نہیں ہے.اور تمام دنیا کو دیکھتے دیکھتے چند سالوں میں نور اسلام سے منور کر دیا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:.إِنِّي دَعَوْتُ لِلْعَرَبِ فَقُلْتُ اللَّهُمَّ مَنْ لَقِيَكَ مِنْهُمْ مُؤْمِنًا مُوقِنًا بِكَ مُصَدِّقًا بِلِقَاءِ كَ فَاغْفِرْ لَهُ أَيَّامَ حَيَاتِهِ وَهِيَ دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَإِنَّ لِوَآءَ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بيَدِى وَإِنَّ أَقْرَبَ الْخَلْقِ مِنْ لِوَانِى يَوْمَئِذٍ اَلْعَرَبُ.( کنز العمال جلد 6 صفحه 204) فرمایا: میں نے عربوں کیلئے دعا کی اور عرض کیا اے میرے اللہ ! جوان (عربوں ) میں سے تیرے حضور حاضر ہو اس حال میں کہ وہ مومن ہے تیری لقاء کو مانتا ہے تو تو تمام عمر اس سے بخشش کا سلوک فرما.اور یہی دعا حضرت ابراہیم نے کی ، اسماعیل نے کی اور حمد کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہاتھ میں ہوگا.اور تمام مخلوقات میں سے میرے جھنڈے کے قریب ترین اس روز عرب ہوں گے.پھر فرمایا: الْعَرَبُ نُورُ اللهِ فِى الْاَرْضِ وَفَنَاءُ هُمْ ظُلُمَةٌ فَإِذَا فَنِيَتِ الْعَرَبُ أَظْلِمَتِ الْأَرْضُ وَ.ذَهَبَ النُّورُ (کنز العمال جلد6 صفحه 204 ) عرب اللہ تعالیٰ کا نور ہیں اس زمین میں اور ان کی ہلاکت تاریکی کا باعث ہوگی.جب عرب ہلاک ہوں گے تو زمین تاریک ہو جائے گی.اور نور جاتا رہے گا.پس معنوی لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ عربوں کو ہلاکتوں سے بچائے اور ظاہری اور جسمانی لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ عربوں کو ہلاکت سے بچائے.الله پھر حضوراکرم ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی: احِبُّوا الْعَرَبَ بِثَلاثِ لِأَنِّى عَرَبِيٌّ وَالْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ وَكَلَامُ أَهْلِ الْجَنَّةِ عَرَبِيٌّ.(کنز العمال جلد 6 صفحه 204) عربوں سے تین وجوہ سے محبت کرو.اول یہ کہ میں عربی ہوں.دوم یہ کہ قرآن کریم عربی میں نازل ہوا.سوم یہ کہ اہل جنت کی زبان بھی عربی ہوگی.پھر آنحضور ﷺ فرماتے ہیں: احِبُّوا الْعَرَبَ وَ بَقَاءَ هُمْ فَإِنَّ بَقَاءَ هُمْ نُورٌ فِي الْإِسْلَامِ وَ إِنَّ فَنَانَهُمْ ظُلُمَةٌ فِي

Page 269

الْإِسْلَام 262 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ( كنزا لعمال جلد 6 صفحه 203) فرمایا عربوں سے بہت محبت کرو.اور ان کی بقاء چا ہو.یعنی کوشش کرو کہ وہ ہر حال میں باقی رہیں اور زندہ رہیں اور دنیا میں ہمیشہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے رہیں کیونکہ اگر یہ قوم باقی رہے گی تو اسلام کا نور باقی رہے گا اور ان کے فناء ہونے سے اسلام میں تاریکی آجائے گی.پھر فرمایا: حُبُّ الْعَرَبِ اِيْمَانٌ وَبُغْضُهُمْ نِفَاقٌ (كنز العمال جلد 12 صفحه44) عربوں سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے، ایمان کی علامت ہے اور یہ بات نفاق کی علامت ہے کہ عربوں سے بغض کیا جائے.جس کے دل میں منافقت کی آگ ہو صرف وہی عربوں سے دشمنی یا بغض رکھ سکتا ہے.گی.پھر آنحضور اللہ نے فرمایا: مَنْ غَشَ الْعَرَبَ لَمْ يَدْخُلُ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلُهُ مَوَدَّتِي.تر مندی ابواب المناقب باب مناقب في فضل العرب صفحہ 630) جس نے عربوں کو دھوکا دیا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا.اور اسکو میری محبت نہیں پہنچے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے آقا کی پیروی میں عربوں سے غیر معمولی محبت کی اور محبت کی تعلیم دی اور ان کیلئے بے انتہا دعائیں کیں.چنانچہ میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریریں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.تا کہ آپ کے دل میں بھی وہی جذبہ جوش مارے.اسی طرح دل عربوں کی محبت میں گرمائے جائیں.اور اسی طرح عاجزی اور انکسار اور بے حد خلوص اور جذبہ کے ساتھ آپ اپنے عرب بھائیوں کو دعاؤں میں یا درکھیں.پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عربوں میں بعض لوگ بہت ہی نیک دل اور پاک فطرت اور صلحاء ایسے ہیں جنہوں نے مخالف حالات کے باوجوداسلام قبول کیا ہے.اور وہ صدق وصفا میں بہت بڑھ گئے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا:...صَرَفَ إِلَيَّ نَفَرًا مِّنَ الْعَرَبِ الْعُرُبَاءِ فَبَايَعُونِي بِالصِّدْقِ وَ الصَّفَاءِ وَرَأَيْتُ فِيهِـ نُورَ الْإِخْلَاصِ وَسِمَتَ الصِّدْقِ وَحَقِيْقَةً جَامِعَةً لِانْوَاعِ السَّعَادَةِ وَكَانُوا مُتَّصِفِيْنَ بِحُسْنِ الْمَعْرِفَةِ بَلْ بَعْضُهُمُ كَانُوا فَائِضِينَ فِى الْعِلْمِ وَالاَ دَبِ وَفِي الْقَوْمِ مِنَ الْمَشْهُورِينَ

Page 270

263 حضرت خلیفتہ مسیح الرابع وَإِنِّي مَعَكُمْ يَانُجَبَاءَ الْعَرَبِ بِالْقَلْبِ وَالرُّوحِ، وَإِنَّ رَبِّي قَدْ بَشَّرَنِي فِي الْعَرَبِ وَالْهَمَنِى أَنْ أُمَوِّنَهُمْ وَارِيَهُمْ طَرِيقَهُمْ وَأَصْلِحَ لَهُمْ شُئُونَهُمْ وَسَتَجِدُونَنِي فِي هَذَا الْأَمْرِانُ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِينَ أَيُّهَا الْاعِزَّةُ : إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ تَجَلَّى عَلَيَّ لِتَابِيْدِ الْإِسْلَامِ وَ تَجْدِيدِهِ بِأَخَصَّ التَّجَلِيَّاتِ وَ مَنَحَ عَلَيَّ وَابِلَ الْبَرَكَاتِ وَأَنْعَمَ عَلَيَّ بِأَنْوَاعِ الاِ نْعَامَاتِ، بَشَّرَ نِي فِي وَقْتِ عَبُوسِ لِلَّا سَلَامٍ وَعَيْشِ بُؤْسِ لَا مَّةِ خَيْرِ الْآنَامِ بِالتَّفَضُّلَاتِ وَالْفُتُوحَاتِ وَ التَّابِيدَاتِ فَصَبَوْتُ إِلَى اَشْرَاكِكُمُ يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ فِي هَدَ النِّعَمِ وَكُنْتُ لِهَذَا الْيَوْمِ مِنَ الْمُتَشَرِّفِينَ فَهَلْ تَرْغَبُونَ اَنْ تَلْحَقُوا بِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ؟ ( حمامة البشر گی.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 181 تا 183) فرماتے ہیں کہ خالص عربوں میں سے کچھ لوگ میری طرف مائل ہوئے اور انہوں نے سچائی وصدق وصفا سے میری بیعت کی.میں نے ان میں اخلاص کا نور اور صدق کی علامت دیکھی اور ایسی حقیقت دیکھی جو مختلف قسم کی سعادتوں کی جامع ہے.اور وہ عمدہ معرفت سے متصف ہیں.بلکہ بعض علم و ادب میں فیض یافتہ ہیں.اور قوم کے مشہور لوگ ہیں اور اسے نجباء عرب ! میں قلب اور روح کے ساتھ تمہارے ساتھ ہوں اور میرے رب نے مجھے عربوں کے بارہ میں بشارت دی ہے اور مجھے الہام کیا کہ میں ان کی روحانی خوراک کا سامان کروں.اور انہیں ان کا صحیح راستہ بتاؤں اور ان کے حالات ٹھیک کروں اور انشاء اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں تو مجھے کامیاب ہوتا پائے گا.اے میرے عزیزو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھ پر تائید اسلام اور اس کی تجدید کیلئے تجلی فرمائی اور یہ خاص قسم کی تجلی تھی.اور مجھے برکات کی بارش عطا کی.اور مختلف قسم کے انعامات سے مجھے نوازا.اور سخت پریشانی کے وقت میں مجھے اسلام کے لئے بشارت دی گئی.جبکہ خیر الا نام کی امت سخت تنگ حالات میں زندگی بسر کر رہی تھی.یہ بشارات مختلف قسم کے فضلوں اور فتوحات اور تائیدات پر مشتمل تھیں پس میں نے چاہا کہ اے معشر العرب ! تم کو بھی ان نعمتوں میں شریک کروں اور میں اس دن کا منتظر ہوں.پس کیا تم پسند کرو گے کہ مجھ سے اللہ رب العالمین کی خاطر مل جاؤ ؟ پھر آپ فرماتے ہیں: وَإِنِّي أَرى أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَدْخُلُونَ أَفْوَاجًا فِى حِزْبِ اللَّهِ الْقَادِرِ الْمُخْتَارِ وَ هَذَا مِنْ رَّبِّ السَّمَاءِ وَعَجِيْبٌ فِي أَعْيُنِ أَهْلِ الْأَرْضِينَ.نور الحق حصه دوم صفحه (11) اور میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے اور یہ

Page 271

264 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب ہے.پس دوست دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ اس مبشر پیشگوئی کوجلد پورا فرمائے اور ہم اپنی آنکھوں سے جلد وہ بات دیکھیں جو دنیا کی نظر میں عجیب ہے لیکن خدا کی نظر میں مقدر ہے اور لازما ایسا ہوکر رہے گا.پھر فرماتے ہیں: إِنِّي رَأَيْتُ فِي مُبَشِّرة يُرِيْتُهَا جَمَاعَةً مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ الْمُخْلِصِينَ وَالْمُلُوكِ الْعَادِلِينَ الصَّالِحِينَ بَعْضُهُمُ مِنْ هَذَا الْمُلْكِ وَ بَعْضُهُمُ مِنَ الْعَرَبِ وَ بَعْضُهُمْ مِنْ فَارِسِ وَبَعْضُهُمْ مِنْ بِلَادِ الشَّامِ وَبَعْضُهُمْ مِنْ اَرْضِ الرُّوْمِ وَبَعْضُهُمْ مِنْ بِلَادٍ لَّا أَعْرِفُهَا ثُمَّ قِيْلَ لِي مِنْ حَضْرَةِ الْغَيْبِ إِنَّ هَؤُلَاءِ يُصَدِّقُونَكَ وَيُؤْمِنُونَ بِكَ وَ يُصَلُّوْنَ عَلَيْكَ وَيَدْعُونَ لَكَ وَأُعْطِئْ لَكَ بَرَكَاتٍ حَتَّى يَتَبَرَّكَ الْمُلُوكَ بِثِيَابِكَ وَأُدْخِلُهُمْ فِي الْمُخْلِصِينَ هدَارَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ وَالْهمُتُ مِنَ اللهِ الْعَلَّام.) لُجَّةُ النُّور ، روحانی خزائن جلد 16 صفحه 340,339) فرمایا: میں نے ایک مبشر خواب میں مؤمنوں اور عادل اور نیکو کار بادشاہوں کی ایک جماعت دیکھی جن میں سے بعض اسی ملک (ہند) کے تھے اور بعض عرب کے ، بعض فارس کے اور بعض شام کے، بعض روم کے اور بعض دوسرے بلاد کے تھے جن کو میں نہیں جانتا.اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا.یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علام کی طرف سے مجھے ہوا.وہ لوگ جو دعائیں کریں گے ان میں سے بعض کے متعلق آپ کو خبر دی گئی کہ وہ کون لوگ ہیں.چنانچہ آپ کو یہ الہام ہوا: ہیں.يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللَّهِ مِنَ الْعَرَبِ ( تذکره صفحه 100 ) یعنی تیرے لئے شام کے ابدال دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام میں عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

Page 272

265 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيُّهَا الْانْقِيَاءُ الْأَصْفِيَاءُ مِنَ الْعَرَبِ الْعُرَبَاءِ - اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ اَرْضِ النُّبُوَّةِ وَحِيْرَانَ بَيْتِ اللَّهِ الْعُظمى أَنْتُمْ خَيْرُهُ مَمِ الْإِسْلَامِ وَخَيْرُ حِزْبِ اللَّهِ الْأَعْلَى مَا كَانَ لِقَوْمٍ أَنْ يَبْلُغَ شَانَكُمْ قَدْزِدْتُّمْ شَرَفَا وَ مَجْدَا وَّ مَنزِلًا وَكَافِيُكُمْ مِّنْ فَخْرِاَنَّ اللَّهَ افْتَتَحَ وَحْيَهُ مِنْ آدَمَ وَخَتَمَ عَلَى نَبِي كَانَ مِنْكُمْ وَمِنْ اَرْضِكُمْ وَطَنَا وَمَاوًى وَّ مَوْلِدًا وَمَا أَدْرَاكُمْ مِنْ ذَلِكَ النَّبِيِّ مُحَمَّدِ الْمُصْطَفَى سَيّدِ إِلَّا صَفِيَاءِ وَفَخْرِ الْأَنْبِيَاءِ وَخَاتَمِ الرُّسُلِ وَاِمَامِ الْوَرى......اللَّهُمَّ فَصَلِّ وَ سَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ بِعَدَدِ كُلِّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنَ الْقَطَرَا وَالدَّرَّاتِ وَالْاَحْيَاءِ وَالْاَمْوَاتِ وَبِعَدَدِ كُلِّ مَا فِي السَّمواتِ وَبِعَدَدِ كُلِّ مَاظَهَرَ وَاخْتَفَى وَ بَلغُهُ مِنَّا سَلَامًا يَمُلا اَرْجَاءَ السَّمَاءِ طُوبَى لِقَوْمٍ يَحْمِلُ نِيرَ مُحَمَّدٍ عَلَى رَقَبَتِهِ.وَطُوبَى لِقَلْبِ أَفضَى إِلَيْهِ وَخَالَطَهُ وَ فِي حُبِّهِ فَنى - يَا سُكَانَ اَرْضِ أَوْطَأَ تْهُ قَدَمُ الْمُصْطَفَى رَحِمَكُمُ اللَّهُ وَرَضِيَ عَنْكُمْ وَ اَرْضَى إِنَّ ظَنِّى فِيكُمْ جَلِيلٌ وَ فِي رُوْحِي لِلقَاءِ كُمْ غَلِيلٌ يَا عِبَادَ اللَّهِ - وَإِنِّي أُحِنُّ إِلى عِيَان بِلَادِكُمْ وَبَرَكَاتِ سَوَادِكُمْ لَا زُورَمَوْطِيءَ أَقْدَامِ خَيْرِ الْوَرى - وَاَجْعَلَ كُحْلَ عَيْنِى تِلْكَ الشَّرَى وَلَا نُورَ صَلَاحَهَا وَصُلَحَاءَ هَا وَمَعَالِمَهَا وَعُلَمَاءَ هَا وَتُقِرُّ عَيْنِي بِرُؤْيَةِ اَوْلِيَائِهَا وَ مَشَاهِدِهَا الْكُبْرَى فَا سُئَلُ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يَرْزُقَنِي رُؤْيَةً ثَرَاكُمْ وَيَسَّ وَيَسَّرَ نِي بَسَمَرُآ كُمْ بِعِنَايَتِةِ الْعُظُمَى يَا إِخْوَانُ إِنِّي أُحِبُّكُمْ وَأُحِبُّ بِلَادَكُمْ وَأُحِبُّ رَمْلَ طُرُقِكُمْ وَاَحْجَارَ سِكَكِكُمْ وَأَوْثِرُكُمْ عَلَى كُلِّ مَا فِي الدُّنْيَا يَا اكْبَادَ الْعَرَبِ.قَدْ خَصَّكُمُ اللهُ بِبَرَكَاتٍ اَثِيرَةٍ وَمَزَايَا كَثِيرَةٍ وَمَرَا حِمِهِ الْكُبْرَى فِيْكُمْ بَيْتُ اللَّهِ الَّتِي بُوْرِكَ بِهَا أُمُّ الْقُرَى وَفِيَكُمْ رَوْضَةُ النَّبِيِّ الْمُبَارَكِ الَّذِي أَشَاعَ التَّوْحِيْدَ فِي أَقْطَارِ الْعَالَمِ وَأَظْهَرَ جَلَالَ اللَّهِ وَجَلَّى وَكَانَ مِنْكُمْ قَوْمٌ نَصَرُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ بِكُلِّ الْقَلْبِ وَ بِكُلِّ الرُّوح وَ بِكُلِّ النُّهَى وَبَدَّلُوا أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ لا شَاعَةِ دِينِ اللَّهِ وَكِتَابِهِ إِلَّا زُكَى فَانْتُمُ الْمَخْصُوصُونَ بِتِلْكَ الْفَضَائِلِ وَمَنْ لَّمْ يُكْرِمُكُمْ فَقَدْ جَارَ وَاعْتَدَى ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 419-422) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے خالص عربوں کے اصفیاء واتقیاء تم پر سلام ہو.اے ارض نبوت کے رہنے والو اور عظیم بیت اللہ کے پڑوسیو! تم پر سلام ہو.تم اسلام کی امتوں میں سے بہترین ہو اور اللہ عز وجل کی جماعت کے بہترین لوگ ہو.کوئی قوم تمہاری شان تک نہیں پہنچ سکتی.تم شرف ، بزرگی اور مرتبہ میں بڑھے ہوئے ہو اور تمہارے لئے یہ فخر ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم سے وحی شروع کی اور اس نبی پر ختم کی

Page 273

266 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع جو تم میں سے تھا.اور تمہاری زمین اس کا وطن تھا اور اس کا ماویٰ اور مولد تھا.اور تمہارے لئے یہ فخر کافی ہے جو تمہیں اس نبی محمد مصطفیٰ سید الاصفیاء اور فخر الانبیاء اور خاتم المرسلین اور امام الوریٰ کی وجہ سے صلى الله میرے اللہ ! زمین کے قطرات اور ذرات اور زندوں اور مردوں اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور ہر ظاہر و باطن کے شمار کے مطابق رحمت اور سلامتی اور برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفی ﷺ پر.اور ہماری طرف ع سے ایسی سلامتی بھیج جو آسمان کی اطراف کو بھر دے خوشخبری ہے اس قوم کیلئے جومحمد ﷺ کی غلامی کا طوق اپنی گردن پر اٹھاتی ہے اور خوشخبری ہے اس دل کیلئے جو اس کے حضور تک پہنچ گیا اور اس سے جاملا.اور اس کی محبت میں فنا ہو گیا.اے اس زمین کے رہنے والو! جس پر محمد مصطفی ﷺ کے قدم پڑے، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تم سے راضی ہو اور تمہیں خوش رکھے.تمہارے بارہ میں میری رائے بہت بلند ہے اور میری روح میں تم سے ملاقات کیلئے پیاس ہے.اے اللہ کے بندو! میں تمہارے ملک اور تم لوگوں کی برکات کے دیکھنے کا بہت شوق رکھتا ہوں تا کہ میں خیر الوری لے کے قدم پڑنے کی جگہ کی زیارت کروں اور اس مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناؤں اور اسکی بھلائی اور اسکے اچھے لوگوں کو دیکھوں اور اس کے نشانات اور علماء سے ملوں اور میری آنکھیں اس ملک کے اولیاء اور بڑے بڑے غزوات کے مقامات کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوں.میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے تمہاری زمین کا دیکھنا نصیب کرے.اور مجھے اپنی بڑی مہربانی کی بناء پر تمہارے دیکھنے سے خوشی پہنچائے.اے میرے بھائیو! میں تم سے محبت کرتا ہوں تمہارے ملک سے محبت کرتا ہوں تمہارے راستوں کی ریت اور تمہاری گلیوں کے پتھروں سے محبت کرتا ہوں اور تمہیں دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتا ہوں.اے عرب کے جگر گوشو! اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت بڑی بڑی برکات اور بہت سے فضلوں سے سرفراز فرمایا ہے اور بڑی رحمتوں کا مرجع بنایا ہے.تم میں اللہ کا وہ گھر ہے جس کی وجہ سے ام القری کو برکت دی گئی ہے.اور تم میں نبی کریم ﷺ کا روضہ ہے جس نے دنیا بھر میں توحید کی اشاعت کی ، اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کیا.اور تم سے وہ قوم نکلی جس نے اللہ اور رسول سے پورے دل اور پوری روح اور پوری عقل کیساتھ محبت کی اور اپنے مال اور اپنی جانیں اللہ کے دین اور اسکی پاکیزہ ترین کتاب کی اشاعت کے لئے خرچ کر دیں.پس تم ان فضائل کے ساتھ مخصوص ہو اور جس نے تمہاری عزت نہیں کی وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام " حمامة البشرى “ کے سرورق پر اپنا یہ شعر درج الله 66 فرماتے ہیں.حَمَامَتُنَا تَطِيـ ا تَطِيرُ بِرِيشِ شَوْقٍ وَفِي مِنْقَارِهَا تُحَفُ السَّلَامِ

Page 274

267 حضرت خلیفہ مسیح الرابع إِلى وَطَنِ النَّبِيِّ حَبِيبِ رَبِّي وَسَيّدِرُسُلِ هِ خَيْرِ الانام (حمامۃ البشری ٹائٹل پہنچ روحانی خزائن جلد 7) ہماری حمامہ ( کبوتری) شوق کے پروں پر اڑتی ہے اور اس کی منقار میں سلام کے تحفے ہیں.وہ اڑ رہی ہے میرے رب کے محبوب نبی ﷺ اور اسکے رسولوں کے سردار خیر الا نام کے وطن کی طرف.پس یہ ہے وہ عرب قوم جو سب دنیا کی محسن ہے اور عربوں ہی کا احسان ہے کہ اسلام ہم تک پہنچا اور نبی امی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عرب تھے، اگر کوئی اور وجہ نہ ہوتی تو یہی ایک وجہ کافی تھی کہ ہم اس قوم سے محبت کریں اور اسکے لئے دعائیں کریں.اور جس روح اور جذبہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو سلام بھیجے ہیں اور دعائیں دی ہیں اسی روح اور اسی جذبہ اور اسی تڑپ کے ساتھ ہم ان کو سلام بھیجیں.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حمامہ بڑے شوق اور محبت سے سلام کے تحفے اپنی منقار میں لئے ہوئے اس طرف روانہ ہوئی تھی.آج ہر احمدی دل سے دعائیں اٹھیں اور عرب کی سرزمین پر رحمتوں کی بارشیں بن کر برسنے لگیں.اللہ تعالیٰ اس قوم کو ہرا ابتلاء سے محفوظ رکھے.اسے نور ہدایت سے منور کرے ، ان کے دکھ دور فرمائے ، ان سے بخشش اور عفو کا سلوک فرمائے اور حضرت محمد مصطفی مے کے صدقے ان پر رحمتوں کی بارش برسائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.“ الفضل 26 فروری 1984 ء).....

Page 275

268 حضرت خلیفہ المسح الرابع اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 نومبر 1984 صلى الله....ایک دفعہ سندھ میں جہاں ہم ہندؤوں میں تبلیغ کرتے ہیں وہاں کا ایک واقعہ مجھے یاد آگیا.ایک علاقے میں جہاں خدا کے فضل سے بکثرت ہندو مسلمان ہونے شروع ہوئے کلمہ پڑھنے لگے، شرک چھوڑا ، علما کو پتہ چلا تو انہیں بہت غصہ آیا انہوں نے کہا یہ احمدی ہوتے کون ہیں کہ ہندؤوں میں تبلیغ شروع کر دی ہے اور ہندؤوں کو کلمہ پڑھا رہے ہیں.چنانچہ ایک جماعت اسلامی کے مولوی صاحب ایک گاؤں میں جا پہنچے جس کا نام پھولپورہ ہے اور وہاں کی آدھے سے زیادہ آبادی احمدی ہو چکی تھی اللہ کے فضل سے اور نمازیں پڑھنے لگ گئے تھے اور درود بھیجتے تھے آنحضور ﷺ پر اور بچے بھی کلمہ پڑھتے تھے نہایت ہی پیاری آواز میں.تو مولوی صاحب وہاں پہنچے اور احمدیوں کے خلاف گندہ دینی شروع کر دی سٹیج لگایا اور اتنی گالیاں دیں کہ وہ حیران ہو کر تعجب سے دیکھتے رہے کہ ہوا کیا ہے مولوی صاحب کو ہم تو سمجھے تھے کہ اسلام کی باتیں بتائیں گے کچھ اپنے مذہب میں آنے کی دعوت دیں گے.یہ تو ان کو گالیاں دے رہے ہیں چنانچہ گاؤں کا نمبر دار تھا وہ بھی ہندو ہی تھا وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا.اس نے کہا مولوی صاحب! پہلے میری ایک بات سن لیں اس کے بعد باقی باتیں.بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب یہ لوگ یہاں آئے تھے ہمیں مسلمان بنانے کیلئے تو انہوں نے ہمیں بہت پیاری پیاری باتیں بتائی تھیں، اللہ کا ذکر کرتے تھے محبت سے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، خدا کے پیار کی باتیں کرتے تھے ، اپنے نبی کی پیار کی باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے خدا کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کا بندہ اور رسول ہے اور سب نبیوں سے افضل ہے اور پھر اسلام کے اخلاق کی باتیں کرتے تھے کہتے تھے سب بھائی بھائی ہیں ، کوئی دشمنی نہیں، کوئی نفرت نہیں.تو ان باتوں نے ہمارے دل جیتنے شروع کئے.اگر چہ میں ابھی تک مسلمان نہیں ہوا لیکن میرا گاؤں میری آنکھوں کے سامنے مسلمان ہورہا ہے اور میں نے کبھی نہیں روکا کسی کو کیونکہ کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں جس پر مجھے اعتراض ہو اس لئے میں نے کوئی دخل نہیں دیا لیکن آج آپ ایک اسلام کا تصور لے کر آئے ہیں اور اس میں آپ گندی گالیاں دے رہے ہیں تو اگر سچائی کی یہی دلیل ہے تو اس نے کہا کہ میرالر کا میرے پاس ہے میں اس کا دوسری طرف سٹیج لگوا دیتا ہوں اور گالیوں میں اس سے مقابلہ آپ کر لیں لیکن شرط یہ ہے کہ اگر میرا بیٹا جیت گیا تو آپ پھر ہندو ہو جائیں اور اگر آپ جیت گئے تو میں اور میرا بیٹا مسلمان ہو جائیں صلى الله

Page 276

269 حضرت خلیفہ مسیح الرابع گے.کیونکہ گالیوں کے سوا دلیل ہی کوئی نہیں دے رہے آپ.یہ بھی اس کی خوش قسمتی تھی کہ مولوی صاحب نہیں مانے یہ بات ، ورنہ جس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں بیٹے نے ہار جانا تھا.(خطبات طاہر جلد سوم صفحہ 631-630)

Page 277

270 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 1985 ء بیت الفضل لندن تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت فرمائیں.أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَاجُرُفٍ هَارٍ فَانُهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ، وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ o لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوُا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ، وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ هِ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ، يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ قَف وَعْدَا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآن وَ مَنْ اَوْ فِى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا ببَيْعِكُمُ الَّذِى بَايَعْتُمُ به « وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ط b ( سورة التوبة آیت 109 تا 111) اور پھر فرمایا: جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں یہ سورہ تو بہ سے لی گئی ہیں ان میں اللہ تعالی یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے کاموں کی بنیاد میں خدا کے تقویٰ پر استوار کرتے ہیں جنکی تمام عمارات ، تمام منصوبے اور سارے کاروبار اللہ کے تقویٰ پر قائم ہوتے ہیں اور وہ خدا کی رضا سے طاقت حاصل کر کے آگے بڑھتے ہیں کیا ایسے لوگ بہتر ہیں یا وہ جن کی بنیادیں ریت کے ایک ایسے کنارے پر قائم کی گئی ہوں جو آگ کا کنارہ ہو.پس ایسے کنارے پر قائم کردہ بنیادیں اپنے اوپر قائم ہو نیوالی عمارتوں اور انکے مکینوں سمیت جہنم میں جا پڑتی ہیں.وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ اور اللہ تعالیٰ ظالموں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا.یہاں خدا تعالیٰ نے اسس بُنيَانَهُ عَلى تَقُوی نہیں فرمایا بلکہ تَقُواى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَان فرمایا ہے جو عام قرآنی اسلوب سے ایک مختلف اسلوب ہے اور اس میں ایک بڑی گہری حکمت ہے.یہاں یہ مراد نہیں کہ انسان اس تقویٰ پر بنیاد میں قائم کرتا ہے جو کسی حد تک اس کے اختیار اور بس میں ہے بلکہ یہاں ایک خوشخبری کے رنگ میں مومنوں کا نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ عـلـى تـقـوى مِنَ الله انکی عمارتیں ایسے تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا ہوتا ہے یعنی اس میں انسانی کسب کا اتنا حصہ نہیں ہوتا جتنا حصہ خدا تعالیٰ کی عطا اور رحمت کا ہوتا ہے.اس مضمون پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قوموں پر دو قسم کے حالات آتے ہیں ایک وہ جس میں

Page 278

271 حضرت خلیفہ مسیح الرابع تقومی محنت اور کسب سے کمایا جاتا ہے اور ایک وہ حالات جبکہ تقویٰ خدا تعالیٰ کے فضل اور اسکی رحمت کی بارش کی طرح آسمان سے برستا ہے.چنانچہ جماعت احمد یہ اس وقت ایسے ہی دور میں داخل ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کے احسانات کے جو کرشمے ہم دیکھ رہے ہیں اور جو نیکیاں دلوں کو عطا ہورہی ہیں ، اللہ تعالیٰ کے رضوان کی جو محبت دلوں میں بڑھ رہی ہے، جو عبادات کا ذوق و شوق پیدا ہورہا ہے اور جماعت میں جو حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں ان میں جماعت کے کسب کا کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی اس میں کسی انتظامی کوشش یا جدو جہد کا کوئی حصہ ہے بلکہ یہ تقولى مِنَ اللہ ہی ہے جو خدا تعالیٰ کے فرشتے خالصاً قلوب پر نازل فرما رہے ہیں اور جس کے نتیجہ میں خدا تعالی نی نئی عظیم الشان عمارتوں کی خوشخبری دے رہا ہے اور اس تقوای پر ایسے عظیم الشان کاموں کی بنیادیں قائم کر رہا ہے کہ جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایک بالکل نئے انقلابی دور میں داخل ہو جائے گی.پس تقوى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانِ ان دونوں کوا س طرح اکٹھا بیان کرنا صاف ظاہر فرماتا ہے کہ جب یہ دور قوموں پر آتا ہے کہ ان پر تقویٰ بارش کی طرح برسنے لگتا ہے اور خدا کی رضا نازل ہورہی ہوتی ہے تو ایسے دور میں بعض ایسے بدقسمت بھی پیدا ہور ہے ہوتے ہیں جو خدا کے ان پاک بندوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں.پس ایک طرف یہ جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تقویٰ پر اپنے سارے منصوبوں کی بنیا د رکھتی ہے اور دوسری طرف انہیں مٹانے کے ناپاک منصوبے اس حسد کی آگ پر مبنی ہوتے ہیں جو ان کی ترقی کو دیکھ کر دلوں میں بھڑک رہی ہوتی ہے اور پھر اسی آگ میں ہی وہ حاسدین جاپڑتے ہیں اور بالآخر اسی آگ کا ایندھن بنا دیئے جاتے ہیں فرمایا ! تم ان دونوں حالتوں میں سے کونسی قبول کرو گے کیونکہ یہ تو انسان کے بس میں ہے کہ جب اسے دو راستے دکھا دیئے جائیں تو ان میں سے جو بھی وہ اپنے لیے پسند کرے اسے اختیار ہے.ان آیات میں آجکل کے حالات کا اتنا کھلم کھلا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے کہ ایک انسان جس میں کچھ بھی بصیرت ہوا اسکے لیے اپنی نجات کا رستہ اختیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا لیکن جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے جب قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں تو ان کی آنکھوں کا نور زائل ہو جاتا ہے اور وہ آگ کی تپش ان کے دل و دماغ کی طاقتوں کو بھسم کر دیتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْارِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ کہ پھر وہ لوگ جوحسد کی آگ پر منصوبے بناتے اور عمارتیں تعمیر کرتے ہیں ان میں اندرونی طور پر رخنے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور دراڑیں آنے لگ جاتی ہیں اور ان کے اندر سے ہی شکوک جنم لینے لگتے ہیں اور ان کے یقین کی حالت شک و شبہ میں تبدیل ہونے لگتی ہے.اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے

Page 279

272 حضرت خلیفة المسیح الرابع کہ وہ سمجھتے ہیں کہ غالباً اب ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے.اور یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے اندرونی طور پر اتنا خوفناک دبا ؤ اختیار کرلیتی ہے کہ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمُ قریب ہوتا ہے کہ پھر ان کے دل اس اندرونی دباؤ سے پھٹ پڑیں.پس ان کے لیے محض آسمان سے نازل ہونے والی آفات ہی نہیں بلکہ قلبی حالتوں سے پیدا ہونے والی آفات بھی ہیں ان کا ظاہر بھی بدنصیب ہے اور انکا باطن بھی بدنصیب ہے.اور جو بظاہر یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کامیابی کی طرف جارہے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باطن پر نظر ہے اور وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ ان مخالفین کو جو بظاہر تمہیں خوش و خرم نظر آ رہے ہیں اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی کامیابی پر یقین رکھتے ہیں مگر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ انہیں اپنی کامیابی کا کوئی یقین نہیں ، انکے دلوں میں ایسے شکوک پیدا ہو چکے ہیں جو بڑھتے چلے جائیں گے اور اپنی ناکامیوں کا دبا ؤ اندرونی طور پر اتنی شدت اختیار کر جائے گا کہ قریب ہے کہ یہ دل پھٹ جائیں.وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ تمہیں علم نہیں ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے وہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ، اس کی حکمتیں در پردہ کار فرما ہوتی ہیں مگر وہ ظاہری آنکھ کو نظر نہیں آرہی ہوتیں لیکن اندرونی طور پر وہ نئے نئے کام دکھا رہی ہوتی ہیں.ان حالات پر اگر غور کیا جائے جو ان آیات میں بیان ہوئے ہیں تو مومنوں کے لئے اس میں عظیم الشان خوشخبریاں ہیں.اور ایسے وقت میں بھی تسکین کے سامان ہیں جب کہ ایک مومن کیلئے بظاہر اندھیرا ہوتا ہے اور اس کے مخالف کے لئے روشنی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے لئے اندھیرے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ تم خدا کے نور میں پلنے والے لوگ ہو، خدا کی رحمتوں کا سایہ تمہارے اوپر ہے، تم اپنے دلوں کو دیکھ لو کہ ہر روز ان پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں تقویٰ و طہارت اور پاکیزگی کی صورت میں نازل ہوتی ہیں تم نئے نئے روحانی سفر کر رہے ہو ، نئی روحانی فضاؤں میں پرواز کرنے لگے ہو ، اگر تم ذرا سا بھی غور کرو تو تم جان لو گے کہ اس میں تمہاری کوشش کا کوئی دخل نہیں محض خدا کا فضل ہے جو تم پر نازل ہو رہا ہے.اسکے بعد تمہارے لیے مایوسی کی کونسی گنجائش ہے اور جنہیں تم خوش سمجھ رہے ہو اور فخر کرتا ہوا دیکھتے ہو ان کے دل کی حالت ہم تمہیں بتاتے ہیں انکا حال یہ ہے کہ وہ دن بدن اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں.گذشتہ سال کے حالات اور واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جہت میں جماعت احمدیہ کا قدم آگے بڑھایا ہے.کوئی ایک بھی شعبہ زندگی ایسا نہیں جس میں جماعت احمدیہ نے گذشتہ سال کی نسبت نمایاں ترقی نہ کی ہو اور کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس میں جماعت احمدیہ کے قدم ہر لحاظ سے آگے نہ بڑھے ہوں.پاکستان جیسے ملک میں جہاں جماعت کی ہر آزادی پر پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں وہاں بھی جماعت کی ہر تحریک نشو و نما پارہی ہے اور پہلے سے آگے بڑھ رہی

Page 280

273 حضرت خلیفہ امسیح الرابع چنانچہ وقف جدید بھی ان غریبانہ تحریکوں میں سے ایک ہے جو جماعت احمدیہ میں اسلام کے احیائے نو کی خاطر جاری کی گئیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دیہاتی جماعتوں میں ایک روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی خاطر اس کی بنیا د رکھی.پس یہ ایک بہت ہی غریبانہ اور درویشانہ ہی انجمن ہے جس کا بجٹ بہت معمولی سا ہے لیکن گذشتہ سال اللہ تعالیٰ کے فضل کیساتھ جہاں دیگر انجمنوں نے ترقی کی وہاں خدا تعالیٰ نے اس غریبانہ انجمن کو بھی نمایاں ترقی کی توفیق بخشی اور توقع سے بہت بڑھ کر بجٹ پورا ہوا بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے 83ء میں 82ء کی نسبت تین لاکھ روپے زائد وصولی ہوئی جو کہ نسبت کے لحاظ سے ایک بہت نمایاں ترقی ہے اور اس دفعہ بھی 84ء میں وقف جدید کا بجٹ سترہ لاکھ روپے تھا.اور جور پورٹیں آ رہی ہیں وہ خدا کے فضل سے بہت خوشکن ہیں اور ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بجٹ بھی حسب سابق توقع سے بہت بڑھ کر پورا ہو گا.تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف تو دشمن جماعت کی آمد کے ذرائع پر ہاتھ ڈال رہا ہے ، احمدی ملازمتوں سے سبک دوش کئے جارہے ہیں، ان کی تجارتوں میں رخنے ڈالے جا رہے ہیں، ان پر انکم ٹیکس کے جھوٹے مقدمے بنائے جارہے ہیں ، الغرض کوئی ایک بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس سے جماعت کو تنگ نہ کیا جارہا ہو اور جماعت کی اقتصادی حیثیت کو نقصان نہ پہنچایا جارہا ہو،مگر اس کے باوجود جماعت ہر جہت سے خدا کی راہ میں مالی قربانی میں آگے سے آگے قدم بڑھا رہی ہے.جہاں تک وقف جدید کے کاموں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ پاک تبدیلی جو دیہات میں نظر آتی ہے اس میں ان کارکنان کی دعاؤں کا بھی دخل ہے اور ان کی محنتوں کا بھی اس لحاظ سے دخل ہے کہ وہ نہایت غریبانہ گزاروں میں رہ کر بھی بڑی محنت کے ساتھ بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے ، نمازوں کی طرف توجہ دلاتے اور بڑے مشکل حالات میں صبر اور شکر کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تحریک کو اور بھی ترقی دے.چونکہ ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جلسہ سالانہ کی اٹھائیسویں تاریخ یا نئے سال کے پہلے جمعہ کو وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کیا جائے.اس لئے میں آج کے جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور جماعت کو دعا کی تحریک کرتا ہوں کہ یہ دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جہت سے اس تحریک کو بھی غیر معمولی نشو ونما عطا فرماتا رہے اور وہ عظیم الشان کام جو خدا تعالیٰ نے ان عاجز بندوں کے سپر دفرمائے ہیں ان میں اس تحریک کے کارندے بھی حتی المقدور کوشش کرتے رہیں.اس کے ساتھ ہی میں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد بھی دیتا ہوں اور نئے سال کی مبارک باد کے طور پر کچھ اچھی خبریں بھی آپکو سناتا ہوں جو بیرون پاکستان سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور اندرون

Page 281

پاکستان سے بھی.274 حضرت خلیفہ امسیح الرابع جہاں تک جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اور رحمتوں کا تعلق ہے ان کا تو شمار ممکن نہیں ہے اور جماعت کے جتنے شعبے کام کر رہے ہیں ان سب کا ذکر کر کے اگر خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک خطبہ جمعہ میں تو ممکن ہی نہیں.اس سے پہلے جب جلسہ سالانہ کی اجازت ہوتی تھی تو دوسرے دن کی تقریر میں جماعت کی مختلف جہات میں ترقیات کا ذکر ہوا کرتا تھا اور اس میں بھی پچھلے دو سال کا تجربہ تو یہی ہے کہ انتہائی کوشش کی باوجود بھی نوٹس کے مطابق پورے واقعات میں بیان نہیں کر سکا حالانکہ دو تین گھنٹے کی تقریر ہوتی ہے.جسے بڑھایا بھی جاسکتا ہے لیکن بار بار نوٹس چھوڑ کر اور بعض جگہوں سے آگے گزر کر جلدی میں ہی یہ باتیں بیان کرنی پڑتی تھیں تا کہ بعض اور اہم نکتے جو بعد میں آنے والے ہوتے ہیں وہ رہ نہ جائیں.پس یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ خطبہ جمعہ کے محدود وقت میں میں یہ ساری باتیں بیان کر سکوں تا ہم بعض پہلوؤں سے میں نے صرف چند چیزیں اخذ کی ہیں تا کہ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ سے خوشخبریاں سننے کا جو شوق ہے اللہ تعالیٰ اسے پورا کرے اور انکے دل راضی ہوں اور میں انہیں بتاؤں کہ گذشتہ سال کسی لحاظ سے بھی پہلے سالوں سے کم نہیں رہا بلکہ بہت ہی زیادہ برکتیں لے کر آیا ہے.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پچھلے سال سے تبلیغ کے معاملہ میں جماعت میں ایک عظیم الشان ولولہ پیدا ہو گیا ہے اور کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں نئے نئے داعی الی اللہ پیدا نہیں ہور ہے اور انکی کوششوں کو کثرت سے پھل لگنے لگے ہیں اور خدا تعالیٰ نے نئی نئی جماعتیں عطا فرمائی ہیں اور نئے نئے ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کا پودا لگایا ہے.اور بعض ملکوں میں تو لوگ اس طرح احمدیت میں داخل ہوئے ہیں جس کو فوج در فوج کہتے ہیں.چونکہ یہ صورت حال یعنی تبلیغ میں ایک نیا ولولہ اور نیا جوش ساری دنیا میں ہی نمایاں ہے اسلئے کسی ایک ملک کا نام تو نہیں لیا جا سکتا لیکن آپ چونکہ یورپ کے رہنے والے ہیں اور اس وقت آپ ہی میرے اولین مخاطب ہیں اس لئے میں آپ کو آپ کے ہی ملکوں سے متعلق بتاتا ہوں.انگلستان اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی یہ پاک تبدیلی بڑے نمایاں طور پر سامنے آرہی ہے.میرا یہ ارادہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق کوشش کروں کہ گذشتہ سالوں کے مقابل پر اس سال تبلیغ کی رفتار ہر جہت سے دس گنا ہو جائے تو جہاں تک یورپ کا تعلق ہے وہاں تو اللہ تعالیٰ نے حساب سے بھی بڑھ کر یہ فضل فرما دیا ہے.انگلستان میں بھی گذشتہ سال کی نسبت دس گنا سے زیادہ تبلیغ میں اضافہ ہوا ہے اور جرمنی میں بھی گزشتہ سال کے مقابل پر دس گنا زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور دیگر ملکوں کی تمام تفاصیل تو میرے سامنے

Page 282

275 حضرت خلیفة المسیح الرابع نہیں ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ میں ابھی یورپ کے سفر سے آیا ہوں وہاں بھی نوجوانوں میں تبلیغ کی لگن اور جوش حیرت انگیز طور پر ہے.اور اس طرف طبیعتیں مائل ہو رہی ہیں اس لئے میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ یہ جس کام کی بنیاد پڑگئی ہے کہ ہر احمدی تبلیغ کرے اس کے نتائج اب انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح آگے نہیں بڑھیں گے کہ ایک سے دو، دو سے تین اور تین سے چار بلکہ جیسا کہ میری دلی تمنا اور دعا ہے یہ آپس میں ضرب کھانے لگ جائیں.یعنی دو سے چار اور چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ اس رفتار سے ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اس کے بغیر ہمارا چارہ نہیں ہے.امر واقع یہ ہے کہ رفتار خواہ کتنی بھی تیز ہو اس کے ذریعہ دنیا میں انقلاب بر پا نہیں ہوا کرتے بلکہ Acceleration کے ذریعہ انقلاب ہوا کرتے ہیں ایک ایکسیلیریشن (Acceleration) ترقی پذیر رفتار کو کہتے ہیں یعنی اگر آپ آج دس میل کی رفتار سے چل رہے ہیں تو کل دس میل نہیں بلکہ دس میل جمع دس میل یعنی بیس میل کی رفتار سے چل رہے ہوں گے اور اس سے اگلے سال ہیں کی رفتار سے نہیں بلکہ ہیں + بیس میل.تو اس تدریجی رفتار کو انگریزی میں Acceleration کہتے ہیں.اور دنیا میں جتنا بھی کارخانہ قدرت چل رہا ہے اس کی بنیاد خدا تعالیٰ نے Acceleration پر رکھی ہے کیونکہ بنیادی طور پر انرجی کی صورت Gravitation یعنی زمین یا مادہ کی قوت جاذبہ ہے جسے کشش ثقل بھی کہا جاتا ہے.اسی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ Acceleration پیدا کرتا ہے اور Energies کی جتنی مختلف شکلیں ہیں خواہ بجلی ہو یا متقناطیس یا کوئی اور شکل وہ بالآخر اسی آخری شکل کی مرہون منت ہے اور دراصل اسی کی بدلی ہوئی مختلف صورتیں ہیں.تو خدا تعالیٰ نے اپنے نقشہ کی بنیاد Acceleration پر رکھی ہے اور ہمیں متوجہ فرمایا ہے کہ تم قانون قدرت پر غور کرو اور اس سے نصیحت پکڑو اور میری سنت کے راز معلوم کرو اور میرے طریق سیکھو.پس روحانی دنیا میں بھی نئی عظیم الشان تخلیقات اور نئے نئے کارخانے جاری کرنے کیلئے لازم ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی جاری کردہ اس سنت پر غور کریں اور اسی کو اپنائیں.پس آئندہ سال کے لئے اگر یہاں انگلستان میں مثلاً ایک سال میں ساٹھ بیعتیں ہوں اور جرمنی میں ایک سو دس یا ایک سو بیس اور ہو جائیں.تو یہ Stagnation ( یعنی ایک مقام پر کھڑے ہو جانا ) کی علامت ہو گی.اگر یہاں اس سال دس داعی الی اللہ پیدا ہوئے ہیں تو اگلے سال کم سے کم نہیں ہونے چاہیں یا اس سے بھی زیادہ اور اگر جرمنی میں پچاس احمدی ہوئے تھے تو اگلے سال سو یا اس سے بھی زیادہ ہونے چاہیں.اسی طرح باقی ملکوں کو بھی میں یہی پیغام دیتا ہوں کہ نئے سال میں اپنے رب سے یہ عہد کریں کہ اے خدا تو نے محض اپنے فضل سے ہمیں جو تیز ! رفتاری بخشی ہے اسے Acceleration میں تبدیل فرما دے، ہمارے ہر کام میں غیر معمولی سرعت ہی نہ

Page 283

276 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ہو بلکہ بڑھتی رہنے والی سرعت عطا ہو اور دنیا ہمیں ہر سال ایک نئے دور میں داخل ہوتا دیکھے، تیری راہ میں قدم بڑھانے کی ہمیں مزید توانائی نصیب ہو اور تیری طرف حرکت کرنے کیلئے نئے نئے پر ہمیں عطا ہوتے رہیں.پس ان دعاؤں کے ساتھ ہمیں نئے سال کا آغاز کرنا چاہیے.جہاں تک اس تبلیغ کے نتائج اور اس امر کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں روحانی طور پر تقویٰ عطا فرمایا ہے اور ہمیں اپنی رضا بخشی ہے تو اس کے نتیجہ میں ظاہری لحاظ سے کچھ مشکلات بھی دکھائی دیتی ہیں اگر چہ وہ مشکلات بھی دراصل اللہ کا فضل ہی ہیں اور وہ یہ کہ وہ مساجد جو پہلے ہمارے لئے کافی ہوا کرتی تھیں اب کافی نہیں رہیں کچھ نئے آنے والے آئے ہیں اور کچھ پرانے جو غافل تھے وہ بڑی تیزی کے ساتھ جماعت کی طرف دوبارہ پلٹے ہیں اور ان کا رخ باہر کی بجائے اندر کی طرف ہو گیا ہے چنانچہ وہ مساجد جو گزشتہ دوروں میں مجھے کافی محسوس ہوتی تھیں اب تو اتنی چھوٹی دکھائی دی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان سے ہمارے کام کیسے چل سکیں گے.چنانچہ میں نے تو دو یوروپین مشنز کی تحریک کی تھی لیکن اب معلوم ہو رہا ہے کہ صرف دو نہیں یہ تو ایک وسیع سلسلہ چلنے والا ہے.جہاں تک انگلستان کا تعلق ہے خدا تعالیٰ نے آپکو ایک بڑا وسیع مشن عطاء فرما دیا ہے لیکن پھر بھی دوسری ضروریات تو اس سے پوری نہیں ہو سکتیں.لہذا ہمیں یہاں بھی نئی جگہیں خریدنا پڑیں گی.اور اس کا ہم جائزہ بھی لے رہے ہیں.ایک اور خوشخبری یہ ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے گلاسگو میں ایک بہت عظیم الشان عمارت خریدنے کی توفیق مل گئی ہے جس کے بارے میں وہاں کی جماعت کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ اس سے ہماری ضروریات بہت دیر تک پوری ہوتی رہیں گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے رب پر بدظنی کر رہے ہیں.اگر بہت دیر تک ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں گی تو پھر وہ بڑھ نہیں رہے.اس لئے میری تو دعا ہے کہ ان کی گل ضروریات پوری نہ ہو سکیں.اتنی جلدی وہ پھیلیں اور نشو نما پائیں اور وہ اس تیزی سے قدم آگے بڑھا ئیں کہ ہم دیکھتے رہ جائیں کہ یہ عمارت چھوٹی ہوگئی اور جماعت اس سے بڑی ہوگئی ہے.اس لئے اب گلاسگو کی جماعت کو میری خاص نصیحت یہ ہے کہ خدا کی اس نعمت کا شکر اس رنگ میں ادا کریں کہ اس عمارت کو جلد سے جلد بھرنے کی کوشش کریں اور خدا کی رحمت پر توقع رکھیں کہ جب وہ بڑھیں گے تو وہ اور عمارتیں بھی عطا کر دے گا.خدا تعالیٰ نے اس لحاظ سے کبھی بھی جماعت کو محروم نہیں رکھا.میرا جرمنی کا سفر خصوصیت کے ساتھ اس لئے تھا کہ وہاں دوسرا ایوروپین مشن خرید نے کیلئے جائزہ لیا جائے لیکن جب ہم ہالینڈ میں اترے تو وہاں کی مسجد کو دیکھ کر ہمیں تعجب ہوا کہ وہ بھی چھوٹی ہوگئی ہے بہت سے لوگ جو پہلے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ کثرت کے ساتھ تعلق رکھنے لگے ہیں اور نئے نئے احمدی ان میں

Page 284

277 حضرت خلیفہ مسیح الرابع داخل ہوئے ہیں اور اللہ کے فضل سے وہ جگہ جو پہلے بڑی کھلی دکھائی دیا کرتی تھی وہ بالکل چھوٹی ہو کر رہ گئی ہے.چنانچہ وہاں بھی خدا تعالیٰ نے توفیق دی.اگر چہ دو، تین دن قیام تھا لیکن پھر بھی جماعت نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور نئی جگہیں تلاش کیں اور پہلی جگہ کو بھی نئی وسعت دینے کیلئے آرکیٹکٹ بلا کر ان سے معاملات طے ہوئے.تو ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہالینڈ میں بھی ہمارے مشن دو طرح سے جلد وسعت پذیر ہوں گے ایک تو موجودہ عمارت کی توسیع کی جائے گی اور دوسرے وہاں ایک نیا مشن قائم کرنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ جرمنی پہنچنے پر پتہ چلا کہ وہاں تو ہیمبرگ میں بھی ضرورت ہے، کولن ایک جگہ ہے وہاں بھی ضرورت ہے اور میونخ میں بھی ضرورت ہے.وہاں تو جماعتیں شور مچا رہی تھیں کہ ہماری ضرورتیں پوری کرو، آپ ایک مشن کی بات کر رہے ہیں یہاں تو جگہ جگہ خدا کے فضل نے مشوں کے تقاضے کر رہے ہیں چنانچہ ہمیں فیصلہ کرنا پڑا کہ ایک تو فرینکفرٹ کے قریب بڑا مرکز قائم کیا جائے چنانچہ اس کے لئے وہاں خدا کے فضل سے ایک بہت اچھی اور با موقع جگہ پسند کر لی گئی ہے اور میں نے Negotiation کے لئے کہہ دیا ہے.بہر حال اس کی جو قیمت بھی طے ہو گی ہم انشاء اللہ دیں گے.ہمبرگ مشن کو بھی ہدایت کر دی گئی ہے.ان کی دو تین تجاویز بھی سامنے آئیں لیکن وہ ابھی پوری نہیں تھیں.ان سے میں نے کہا تھا کہ وسیع جگہ خریدیں مگر ان کے حوصلہ کی چھلانگ ( شاید اس وجہ سے کہ اس سے اگلے پانچ یا دس سال کی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی ) یہ تھی کہ انہوں نے چھوٹی جگہ تجویز کی تو ان سے میں نے کہا کہ آپ گذشتہ لوگوں کی محنت کا پھل کتنے سال تک کھاتے رہے ہیں، اب ان کا شکر یہ ادا کرنے کا تو یہ طریق ہے کہ آپ یہ ارادہ کریں کہ آئندہ ہیں یا تمہیں سال تک کی ضروریات کیلئے آپ نے ایک کشادہ جگہ لینی ہے اور پھر دعا یہ کریں کہ خدا کرے کہ اگلے سال ہی ہمیں اور جگہ لینی پڑے.پس یہ ڈھنگ قدرت نے ہمیں سکھائے ہیں اور اسی طریق پر خدا تعالیٰ نے دنیا میں نشو و نما جاری فرمائی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے یہ جاری قوانین ہیں جن کے نتیجہ میں تمام کائنات ترقی پذیر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی اس سنت مستمرہ کو دیکھ کر جب ہم اس سے زندہ رہنے کے اسلوب سیکھتے ہیں تو پھر یہی نتائج سامنے آتے ہیں جو میں آپ کے سامنے سنا رہا ہوں.جب ہم سوئٹزر لینڈ گئے تو وہاں بھی مسجد اور مشن ہاؤس کی جگہ بہت چھوٹی نظر آئی.اگر چہ وہاں بہت زیادہ مہنگائی ہے لیکن پھر بھی ہمیں اپنی فوری ضروریات تو بہر حال پوری کرنی ہیں.سوئٹزر لینڈ میں انگلستان کے مقابل پر جائیدادوں کی قیمتیں دس گنا سے بھی زیادہ ہیں بہر حال ایک جگہ سے متعلق تو انکا مطالبہ تھا کہ ہمیں وہ جگہ جلد لے کر دی جائے مگر ان سے میں نے کہا ہے کہ آپ لوگ چونکہ تبلیغ میں ست ہیں

Page 285

278 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اس لئے ابھی آپ کا حق نہیں ہے، آپ پہلے اپنا حق قائم کریں ، ہر احمدی میں تبلیغ کا ایک نیا جذ بہ اور جوش پیدا ہو تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ جہاں سے مرضی روپیہ لانا پڑے ہم آپکی ضرورت پوری کر دیں گے.حق قائم کرنے کیلئے میں نے انہیں ایک سال کی مہلت دی ہے اس لئے فی الحال سوئٹزر لینڈ میں سوائے پرانے مشن کی توسیع کے اور کوئی پروگرام نہیں ہے.ہم جب فرانس آئے تو وہاں بھی جماعت میں ایک حیرت انگیز تبدیلی مشاہدہ میں آئی ہے.ہم تو سمجھا کرتے تھے کہ کہ وہاں دس یا پندرہ افراد پر مشتمل ایک کمزور سی جماعت ہوگی لیکن جب ہم جمعہ کیلئے اکٹھے ہوئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف مرد ہی پینسٹھ تھے اور عورتیں بھی اس کے علاوہ تھیں.خدمت کرنے والی خواتین ( جو سب مہمانوں کا خیال رکھتیں اور ان کے لئے کھانا وغیرہ پکاتی تھیں ) میں ایک یوروپین خاتون بھی تھیں جو حیرت انگیز اخلاص سے دن رات وہاں محنت کر رہی تھیں.پس وہاں تو جماعت کا بالکل ایک نیا نقشہ نظر آیا.چنانچہ پیرس کے ایک بہت اچھے علاقے میں جو معاشرہ کے لحاظ سے بھی صاف ستھرا اور صحت مند علاقہ ہے وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت اچھا مشن خرید لیا گیا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو یہ مبارک فرمائے.اس کی قانونی Transaction بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک یا دو مہینہ کے اندر ہو جائے گی بہر حال سودا پختہ ہو چکا ہے اور رقم کا ایک حصہ ادا کر دیا گیا ہے اور دوسرا موجود ہے اسی طرح وہاں ایک اور جگہ کا جائزہ لینے کی بھی ہدایت کر دی گئی ہے تا کہ فرانس میں ایک نہیں بلکہ دومشن قائم کئے جائیں.پس جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے اخلاص کا حال دیکھیں یا تبلیغ کا ذوق وشوق ، عبادتوں میں شغف دیکھیں یا نئے نئے مشنز کا قیام، کس لحاظ سے یہ سال بُرا گزرا ہے؟ امر واقع یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنے غیر معمولی فضل ہر سمت سے ہوئے ہیں کہ ان کا شکر ادا کرنے کی طاقت ہم نہیں رکھتے ، یہ حق ادا نہیں ہو سکتا اس لئے خدا کی رحمت کے سامنے سر جھکاتے ہوئے پرانے سال کی دہلیز سے گزریں اور نئے سال میں داخل ہوں اور خدا کی رحمت کے حضور یہ بلندسر پھر بھی نہا ھے کیونکہ جولوگ خدا کے حضور شکرانہ کے طور پر اپنے سر جھکاتے ہیں انہی کو ہمیشہ سر بلندیاں عطا ہوتی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا کے فضلوں میں بھی اسی طرح Acceleration آئے گی جس طرح آپ اپنی کوششوں میں ایکسیلیریشن Acceleration کریں گے.اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی تقدیر جاری ہے کہ بندے کی تھوڑی سے محنت کے مقابل پر وہ بہت زیادہ پھل دیتا ہے.جب ایک غریب آدمی کسی امیر کو کچھ تھوڑا سا پیش کیا کرتا ہے تو وہ اتنا تو نہیں لوٹایا کرتا.اگر وہ اتناہی لوٹائے تو یہ بہت ہی گھٹیا اور حقیر بات سمجھی جاتی ہے.

Page 286

279 حضرت خلیفہ امسیح الرابع پس اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ فطرت عطا فرمائی ہے تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کا رد عمل کس قسم کا ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے مختلف طریق پر ہمیں سمجھایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ایک معمولی سی حرکت کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ اسے ایک لامتناہی حرکت میں تبدیل فرما دیتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں اپنے فضل جاری فرماتا ہے کہ آپ نہ تو گن سکتے اور نہ ہی انہیں سمیٹ سکتے ہیں.جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے ان کے فیض سے ہی آپ میں روحانی تبدیلیاں ہو رہی ہیں یعنی اگر آپ غور کریں تو ان ساری ترقیات کا منبع اور مرکز پاکستان میں پیدا ہونے والا دکھ ہے.اسل عَشَى اَنْ تَكْرَهُوا شَيْاَوَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرہ: 217 ) کا ایک عجیب منظر ہم دیکھ رہے ہیں.جس طرح تمام دنیا کی توانائی اس نظام شمسی یعنی سورج سے نازل ہورہی ہے اسی طرح ہر قسم کی توانائی کے بعض مراکز ہوا کرتے ہیں.اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام دنیا کی جماعت احمدیہ میں جو توانائی پھیل رہی ہے اس کا مرکز پاکستانی احمد یوں کے دکھوں میں ہے.فرانس کے ایک مقامی باشندے جو خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہیں انہوں نے ایک سوال کیا جس کے جواب میں میں انہیں سمجھا رہا تھا کہ اس دور میں خدا تعالیٰ نے کس کس قسم کے فضل فرمائے ہیں.تو میں چند نمونے انہیں بتا رہا تھا تو میں نے انہیں یہ بتایا کہ خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، اور دیگر تنظیموں کی طرف سے بہت کوششیں کی گئیں لیکن کئی نو جوان بیچارے ایسے تھے جو اپنی طبیعت کے لحاظ سے قابو ہی نہیں آتے تھے اور وہ کبھی نماز کے قریب نہیں پھٹکا کرتے تھے.آخر ہر قوم میں کمزور ہوتے ہیں ہمارے اندر بھی کمزور تھے لیکن کوشش کے باوجود ہماری پیش نہیں جاتی تھی.میں نے انہیں بتایا کہ اب خدا تعالیٰ کا یہ فضل دیکھیں کہ ہم نوجوانوں میں ایسی تبدیلی کیسے پیدا کر سکتے تھے ہمارا تو اختیار ہی نہیں تھا، مگر اب ایسے نو جوانوں کے خطوط کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے جنہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ ہم جو نماز کے قریب بھی نہیں پھٹکا کرتے تھے اب تہجد گزار ہو گئے ہیں.جب میں یہ واقعہ انہیں بتا رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے انکے از دیا دایمان کیلئے یہ سامان پیدا فرما دیا کہ میرے پہلو میں دائیں طرف بیٹھا ہوا ایک نو جوان یک دم بول پڑا کہ میں بھی ان میں سے ہی ہوں، میرا بھی یہی حال تھا، مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں تہجد پڑھتا ہوں اور چندوں میں آگے آگیا ہوں ، قربانیوں میں آگے بڑھنے لگا ہوں تبلیغ کا شوق مجھ میں پیدا ہو گیا ہے.اس پر وہ فرانسیسی احمدی نوجوان یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خدا تعالیٰ کس طرح گواہ بھی فوراً پیدا فرما دیتا ہے.پاکستان میں اس قسم کی تبدیلیاں بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہ اس توانائی کے مرکز کے قریب تر بسنے والے لوگ ہیں غموں کی جو شدت وہ محسوس کرتے ہیں ، جو تمازت ان کے دلوں پر پڑ رہی ہے، آپ تو دور

Page 287

280 حضرت خلیفہ المسح الرابع سے اس کا نظارہ کر کے اپنے اندر یہ تبدیلیاں محسوس کر رہے ہیں اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ پاکستانی احمدیوں کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے اور کس طرح یہ آگ ان کے قلبی جو ہروں کو گندن بناتی چلی جارہی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ آسمان سے کثرت کے ساتھ فضل نازل ہوکر ہر جگہ ان کے ایمان کو بڑھانے کا موجب ہورہے ہیں.صرف کردار کی پاک تبدیلی نہیں ہے بلکہ نشانات بھی ان پر نازل ہورہے ہیں.عزم کے نئے نئے پہاڑ سر کر رہے ہیں اور ہر پہاڑ پر خدا کی رحمت اور اسکی رضا کی تجلیات بھی دیکھ رہے ہیں.بے شمار ایسے واقعات ہیں جن میں سے کچھ میں بیان کر چکا ہوں.ان سب کا بیان کرنا تو بہر حال ممکن نہیں ہے اس لئے میں نے آج کے خطبہ کیلئے صرف چند واقعات نمونہ چھٹے ہیں.جہاں تک احمدی مردوں کے کردار کا تعلق ہے پاکستان کے ایک ایسے ضلع میں جہاں جہالت بہت زیادہ ہے وہاں چند نوجوانوں کو محض اس جرم میں پکڑا گیا کہ انہوں نے اذانیں دیں یا انہوں نے السلام علیکم کہا یا مسلمانوں کی طرح Behave کیا یا تبلیغ کی.یعنی پاکستان میں جرائم کی اب یہ فہرست ہے.اور قتل و غارت ، زنا، بدکاریاں ظلم ، سفا کی ، آنکھیں نکال لینا، اعضاء کاٹ دینا محرموں کے ساتھ نامحرمانہ تعلقات ، یہ تو اب ادنی ادنی با تیں ہو گئی ہیں.بڑے بڑے جرائم جو پاکستان کی کورٹ میں اس وقت نمایاں حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور جن کے متعلق صدارتی آرڈینینس جاری ہورہے ہیں، گورنروں کو احکام دیئے جا رہے ہیں کہ خبر داراتنے سنگین جرائم کو کبھی معاف نہیں کرنا.وہ احمدی بیچارے ان جرائم کے مرتکب ہو گئے تھے ، وہ کھلے عام خدا کا نام لے رہے تھے اور اپنے دشمنوں کو السلام علیکم کہہ رہے تھے، ان کیلئے دعائیں کر رہے تھے اور مسلمانوں کی طرح Behave کر رہے تھے.یہ جرم بھلا کیسے معاف ہوسکتا تھا.چنانچہ انہیں پکڑ کر جیل میں پھینک دیا گیا.ان کے گھر کی حالت کا ذکر میں بعد میں کروں گا، اس وقت میں یہ بتاتا ہوں کہ جب انہیں جیل میں پھینکا گیا تو ان کے کردار میں ایک نئی چمک آگئی.وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے اندرایسی پاک تبدیلیاں ہو رہی تھیں اور خدا کی خاطر قید ہونے میں ایسا لطف آرہا تھا کہ اردگرد جتنے قیدی تھے ان میں بھی تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور انہیں احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوئی ، انہوں نے انکے ساتھ عزت واحترام کے ساتھ سلوک کرنا شروع کیا.خدا تعالیٰ نے ان میں بعض ایسی روحانی تبدیلیاں پیدا کر دیں کہ اگر یہ واقعات نہ ہوتے اور ان کو احمدیوں سے اتنا قریب کا واسطہ نہ پڑتا تو شاید وہ بدقسمتی سے جہالت کی موت ہی مرجاتے.چنانچہ ان غیر احمدی قیدیوں میں سے ایک قیدی جو ساٹھ سالہ عمر کو پہنچے ہوئے تھے اور جن پر نہایت سفا کا نہ جرائم کے نتیجہ میں مقدمہ چل رہا تھا، تو جس شخص میں ساٹھ سال میں تبدیلی نہیں پیدا ہوئی خدا

Page 288

281 حضرت خلیفہ المسح الرابع کے ان بندوں کی چند روزہ صحبت کے نتیجہ میں اس میں تبدیلی پیدا ہوگئی اور اس نے خودان احمد یوں کو بتایا کہ ایک دن میں نے اپنے رب سے بہت دعا کی کہ اے خدا مجھے تو یہ احمدی تیرے اچھے بندے نظر آ رہے ہیں اگر یہ حق پر ہیں اور واقعہ تیرا ان سے تعلق ہے تو مجھے بھی ایک نشان دکھا کہ یہ دو مظلوم سید بھائی جو قید میں ہیں انہیں کل رہا کروا دے تو پھر میں مانوں گا کہ ان کا بھی کوئی خدا ہے اور پھر مجھے یقین ہوگا کہ واقعی یہ تیرے مقرب بندے ہیں.چنانچہ وہ غیر احمدی قیدی رات دعا کر کے سوئے اور صبح ساڑھے پانچ بجے احمدیوں کو جا کر یہ خوشخبری دی کہ آج تم آزاد ہو جاؤ گے.چنانچہ عین اسی دن جیل کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ جیل سے باہر جارہے تھے.اس پر وہ احمدی جو قید تھا کہتا ہے کہ ان کے پاس گیا اور سوال کیا کہ یہ کیا عجیب واقعہ ہوا ہے؟ تو اس غیر احمدی قیدی نے بتایا کہ رات مجھے خدا تعالیٰ نے خواب میں خبر دے دی تھی کہ ہم نے تیری دعاؤں کو قبول کر لیا ہے اور صبح تو یہ رحمت کا نشان دیکھے گا لہذا مجھے کامل یقین تھا اور میں نے صبح ساڑھے پانچ بجے جا کر خبر دی تو خدا تعالیٰ کی اطلاع کے نتیجہ میں خبر دی تھی نہ کہ اپنی طرف سے.پس ان لوگوں کا عجیب حال ہے جو بیچارے قطبوں کو چور بنا کر جیلوں میں پھینک رہے ہیں اور وہ جیلوں میں جانے والے معصوم ان کے چوروں کو بھی قطب بنا رہے ہیں یہ ہے عظیم الشان روحانی انقلاب جو اس ملک میں برپا ہو رہا ہے.جو احمدی دوست قید میں تھے وہ بتاتے ہیں کہ ہم چار بھائی ہیں تین بالغ اور ایک چھوٹا ہے.ہم تینوں کو اسی قسم کے الزامات کے نتیجہ میں پکڑ کر جیل بھیج دیا گیا اور ہمارے ماموں کو بھی ساتھ ہی جیل بھیج دیا گیا.چنانچہ وہ رستا بستا گھر اچانک خالی ہو گیا اور سوائے ماں اور ایک نابالغ بچے کے اس گھر میں کوئی مرد ایسا نہیں رہا جو ان کی دیکھ بھال کر سکتا.ان کا بیان ہے کہ آخر خدا تعالیٰ نے جب ہمیں نجات بخشی تو ہم ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوئے کہ پتہ نہیں ماں کو کس حال میں دیکھیں گے.جب گھر گئے تو دیکھا کہ ماں تو پہلے سے بھی زیادہ خوش تھی اور بڑی اچھی صحت اور بڑے حوصلہ میں تھی تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ تیرے تین جوان بیٹے اور ایک بھائی قید ہو گیا مگر تمہارے چہرہ پر کوئی اثر ہی نہیں تو عجیب ماں ہے.اس پر انکی ماں نے کہا کہ بیٹا تجھے علم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے.جس روز تمہیں پکڑ کر لے گئے تو اس پہلی رات کا اول حصہ ایسا دردناک عذاب تھا کہ تم تصور نہیں کر سکتے میں رو رو کر ہلاک ہورہی تھی گریہ وزاری اور واویلا کر رہی تھی کہ اس گھر کے ساتھ کیا ہو گیا ہے اور اسی طرح روتے روتے میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں اللہ تعالیٰ نے ایک بزرگ صورت انسان کو دیکھایا جس نے پیار اور دلجوئی کا سلوک نہیں کیا بلکہ اس نے آتے ہی بڑی سختی سے مجھے ڈانٹا کہ اے عورت تو کیا کر رہی ہے خبردار! جو آئندہ ایک بھی آنسو بہایا تو مجاہدوں کی ماں ہے اور تیرے ساتھ خدا ہے پھر یہ حرکتیں؟

Page 289

282 حضرت خلیفہ مسیح الرابع وہ کہتی ہیں کہ خواب نہیں تھی کوئی ایسی طاقت تھی جس نے میرے دل پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد تو ایک لمحہ کیلئے بھی نہ مجھ پر اداسی آئی نہ خوف پاس پھٹکا، میں تو مزے کی زندگی گزارتی رہی ہوں تم مجھے کس حال میں دیکھنا چاہتے تھے.پس جس قوم کے مردوں کا یہ حال ہو اور خدا اس طرح انکے لئے رحمت کے نشان دکھا رہا ہو اور جن کے عورتوں کا یہ حال ہو اور خدا اس طرح ان کیلئے رحمت کے نشان دکھا رہا ہو ان کیلئے کو نسے نقصان کا سودا ہے اور بچوں کا حال بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا، ان میں بھی عجیب و غریب معصوم تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں جن میں نہ ماں باپ کا دخل ہے نہ میرا نہ آپ کا اور نہ کسی اور تنظیم کا محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے دلوں پر تقویٰ برس رہا ہے اور خدا کی رضا نازل ہو رہی ہے.ایک احمدی ماں نے اپنے بچوں کی کھیلوں کا قصہ سنایا جس سے مجھے بڑا لطف آیا اور میں نے کہا کہ دیکھو ہمارے بچوں کی کھیلیں بھی باقی سب بچوں سے مختلف ہوگئی ہیں.وہ احمدی خاتون کہتی ہیں کہ ہمارے بچے کھیل رہے تھے اور انہوں نے جمعہ کے لئے کاروں کا ایک قافلہ بنایا ہوا تھا جس طرح قافلہ جایا کرتا تھا اور سارے متحد ہوکر کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ کب جمعہ کے لئے خلیفہ وقت آئیں اور پھر آذان کی آواز بلند ہو.انکی ماں کہتی ہیں کہ ان بچوں کے چہروں پر اتنا انہماک تھا اتنی سنجیدگی اور احترام تھا کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور میں حیران تھی کہ اللہ نے میرے بچوں کو کیا کر دیا ہے.پھر وہ احمدی خاتون کھتی ہیں کہ ایک دفعہ میری بیٹی ہمسائیوں کی بچیوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیل رہی تھی.اچانک بچی (جس کی عمر تین سال ہے ) کو کچھ خیال آیا اور اس نے دوسری بچیوں سے کہا کہ اب ٹھہر جاؤ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ابتلا دور کرے اور فتوحات نازل فرمائے اور ہمارا امام واپس آجائے.اس چھوٹی سے بچی نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو سارے بچوں نے دعائیں شروع کر دیں.احمدی خاتون کہتی ہیں کہ میں حیران تھی کہ اس گھر میں کیا واقعہ ہورہا ہے.میں نے بچوں کو نہیں سکھایا نہ میرے خاوند نے سکھایا یہ تو آسمان سے ہی تربیت ہورہی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہو سکا میں روتے روتے اپنے رب کے حضور سجدے میں گرگئی کہ اے اللہ تیرے کیسے فضلوں کی بارش ہو رہی ہے ہم میں کہاں طاقت تھی کہ ہم اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کرسکیں ، ان کے دلوں میں تو گھس گیا ہے ، ان کے سینوں میں تو بیٹھ گیا ہے اور تو اپنے فضل سے خود انکی تربیت کر رہا ہے.علاوہ ازیں ایک احمدی بچے کا ایک عجیب واقعہ ہے اور اسکے ساتھ بھی رحمت کا ایک عجیب نشان وابستہ ہے.ایک صاحب کہتے ہیں کہ مجھے محض احمدیت کی بناء پر گھر کے مالک نے نکلنے کا نوٹس دے دیا.

Page 290

283 حضرت خلیفة المسح الرابع میں نے بہت منتیں کیں سمجھایا مگر وہ کسی طرح نہیں مانا اور جب ہم نے مکان تلاش کئے تو کوئی مکان نہیں ملتا تھا ایک دن میں نے اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ دیکھو! یہ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ” تم احمدیت کو چھوڑ دو تو ہم تمہیں اچھے مکان دیں گے تمہیں محل عطا کریں گے اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو پھر جھونپڑیوں میں جا کر رہو تمہارے لئے گھروں میں کوئی جگہ نہیں.وہ احمدی دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی سنجیدگی سے بچوں کو مخاطب کر کے یہ سوال کیا کہ اب میں تم پر فیصلہ چھوڑتا ہوں کہ احمدیت کو چھوڑ کر اچھے حل چاہئیں یا تم میرے اور اپنی اماں کے ساتھ جھونپڑیوں میں رہنا پسند کرو گے.وہ کہتے ہیں کہ ابھی منہ سے بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ بچے چیخ اٹھے کہ ہم جھونپڑیوں میں رہیں گے ، خدا کی قسم ہم جھونپڑیوں میں رہیں گے ، ہم احمدیت کو کبھی نہیں چھوڑیں گے.وہ احمدی دوست کہتے ہیں کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ایسا یقین پیدا کر دیا کہ میں انکی ماں کے پاس گیا اور کہا کہ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ تمہارا مکان کے بارے میں سارا فکر ختم ہو گیا.آج ان بچوں کے دلوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جسے آسمان نے قبول کر لیا ہے اور تم دیکھنا کہ خدا انہیں کبھی جھونپڑیوں میں نہیں جانے دے گا.اسکے بعد ایک اور عجیب واقعہ ہوا جو اپنی ذات میں خود ایک نشان ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ پھر مکان کا حاصل ہونا کوئی حادثاتی چیز نہیں تھی بلکہ خالصہ اللہ تعالیٰ کے تصرف کے نتیجہ میں ایک اور نشان پر بناء کرتے ہوئے انہیں وہ مکان ملا.وہ کہتے ہیں کہ ایک دو دن کے اندر ہمارے ہمسائیوں کا ایک بچہ اغوا ہو گیا اور اسکی ماں کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی وہ ہمارے گھر آئی اور خوب روئی اور گریہ وزاری کی ، وہ بڑی سخت پریشان تھی چنانچہ وہ احمدی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں ایک تجربہ بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ ہمیں جب بھی مشکل پڑتی ہے تو ہم خلیفہ وقت کو دعا کیلئے خط لکھتے ہیں، خود بھی دعا کرتے ہیں اور وہاں سے بھی دعا کی امید رکھتے ہیں، تو بسا اوقات اللہ تعالیٰ ہمارے مشکل کام نکال دیتا ہے.اگر چہ تمہیں تو یقین نہیں ہے لیکن ایک دفعہ تجربہ کر کے دیکھ لو ، غم تو تمہارا ہے مگر منت میں کرتا ہوں اور مجھے تکلیف ہے.وہ احمدی دوست کہتے ہیں کہ میں نے اس عورت سے اتنی سنجیدگی سے کہا کہ اس کے دل میں یقین پیدا ہو گیا اور اسنے کہا کہ ٹھیک ہے ابھی خط لکھو اور میں دستخط کرتی ہوں.چنانچہ میں نے وہ خط لکھا اور اس نے دستخط کئے لیکن اس دن ڈاک نکل چکی تھی اسلئے وہ پوسٹ نہیں کر سکے.دوسرے روز بارہ یا ایک بجے کے قریب انہوں نے خط ڈاک میں بجھوایا.وہ احمدی دوست کہتے ہیں کہ مجھے یقین تھا کہ دعا تو اللہ تعالیٰ نے قبول کرنی ہے اسکے لئے ماضی کیا اور مستقبل کیا، خط اب چلا گیا ہے اسلئے ضرور خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا کوئی نشان دکھائے گا.چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ کے اندر اندر ان کے گھر سے فون پر اطلاع آئی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے فلاں شہر سے بچہ مل گیا ہے.اب اس کا نتیجہ دیکھیں کہ بچہ تو

Page 291

284 حضرت خلیفة المسیح الرابع انہیں مل گیا اور خدا تعالی نے انہیں جماعت احمدیہ کے لئے اپنے قرب کا نشان دکھایا لیکن اس بچہ کے والد صاحب کا ( جو کسی اور جگہ باہر رہتے تھے ) اس جگہ سے اطمینان اٹھ گیا اور انہوں نے وہاں سے اپنے گھر والوں کو یہ آرڈر دیا کہ فورا یہ گھر خالی کر دو اور میرے پاس آجاؤ ، اب میں تمہیں اس گھر میں نہیں چھوڑ سکتا.لہذا اس بچہ کی امی اپنے گھر کی چابی لے کر ان کے گھر آئی اور کہا کہ یہ مکان آپ نے رکھنا ہے تو لے لیں.وہ مکان بہت عمدہ اور کافی کھلا تھا.پھر ایک اور عجیب واقعہ یہ ہوا کہ جھونپڑے والی بات کے بعد انکی چھوٹی سی بچی جو تو تلی زبان میں بولتی ہے اس نے دعا کی کہ اے خدا مجھے ایسا مکان عطا فرما جس کے کو ٹھے پر صحن ہوں اور صحن بھی اس طرح کہ دو نیچے اور دواو پر ہوں.کچھ اس قسم کا نقشہ بنا کر اسنے دعائیں شروع کر دیں.وہ احمدی دوست کہتے ہیں کہ جب ہم اس گھر میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے.اور میری بیوی اور میری تو خدا کے حضور جذبات تشکر اور حمد سے روتے روتے چیچنیں نکل گئیں کہ جن لفظوں میں ہماری بچی دعائیں مانگ رہی تھی بالکل اس نقشہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہمیں مکان عطا فر ما دیا.پس جماعت احمد یہ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے سائے تلے آگے بڑھنے والی جماعت ہے.تم ایک جگہ ظلم کا سایہ ڈالتے ہو تو چاروں طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ روشنی کر دیتا ہے تم ہمارے لئے ایک جگہ آگ بھڑکاتے ہو تو خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں ہر طرف ہمیں عطا ہونے لگتی ہیں، تمہاری تلواروں کے سائے تلے بھی ہمارے لئے تسکین قلب رکھ دی گئی ہے.تم کون ہوتے ہو ہمیں مٹانے والے تمہاری حیثیت ہی کیا ہے.خدا تعالیٰ کے کاروبار تو کبھی بھی بندوں سے رکے نہیں اور نہ رک سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے ( جماعت کو مبارک ہو کہ آج جماعت اس دور میں داخل ہو رہی ہے کہ واقعی ان الفاظ کو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو دیکھ کر آپ کے متعلق ہی یہ الفاظ فرمائے ہیں ) فرماتے ہیں کہ: ”اے میرے عزیز و! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی اپنا آرام، اپنا 66 مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.کیسا سچا اور پاکیزہ کلام ہے اور کیسا محبت میں ڈوبا ہوا ہے اور آج جماعت احمدیہ کے افراد پر کس شان کے ساتھ یہ پورا ہورہا ہے کہ ”اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی

Page 292

285 حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو.“ تقویٰ من اللہ کا کیسا اچھا نقشہ کھینچا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت جو تم پر ہے اسکی وجہ سے تم سلا بیعت میں داخل ہو اور اسکی وجہ سے تمہیں یہ قربانیوں کی توفیق مل رہی ہے.پھر فرمایا: ”اور اپنی زندگی ، اپنا آرام اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہوا گر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کیلئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں میرا دوست کون ہے اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے مجھےکون پہچانتا ہے صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کیے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص و ہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں.جو مجھ میں داخل ہوتا ہے.وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے! اور اسکی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی“.پھر آپ فرماتے ہیں: ( فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفه ۳۴۰) ”اے مسلمانو! جو اولوالعزم مومنوں کے آثار باقیہ ہو اور نیک لوگوں کی ذریت ہو انکار اور بدظنی کی طرف جلدی نہ کرو اور اس خوفناک وبا سے ڈرو جو تمہارے اردگرد پھیل رہی ہے.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۱) 66 اس سے بھی بالکل یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آج اہل پاکستان کو مخاطب کر کے ان کے شرفاء کو

Page 293

286 حضرت خلیفہ امسیح الرابع بچانے کی کوشش کی جارہی ہے.بہر حال ہم نے تو ہمیشہ سے دیکھا اور اس دور میں پہلے سے بھی بڑھ کر دیکھا کہ ہر مصیبت اور ہر آفت کے وقت خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں کو نئی تقویت، نیا ثبات قدم عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ہر بلا سے ہمیں محفوظ رکھا اور ہر روک راستہ سے دور کر دی اور ہمارے قدم پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کیساتھ آگے پڑھتے رہے.جہاں تک ہمارے مخالفین کا تعلق ہے انہیں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں مخاطب کر کے یہ کہتا ہوں کہ : 66 آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.“ روک سکتے ہو تو روک کر دیکھ لوتمہاری کچھ پیش نہیں جائے گی.وہ سعید روحیں جو خدا کے فضل سے اس کے فرشتوں کی تحریک پر جماعت کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور پہلے سے بڑھ کر مائل ہو رہی ہیں وہ جوق در جوق اس راہ میں آتی چلی جائیں گی اور کوئی نہیں ہے جو ان کے قدم روک سکے.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر و فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو.“ (ضمیمه اربعین ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 473) خدا کی قسم تم کچھ بھی جماعت احمدیہ کا نہیں بگاڑ سکتے تمہاری نسلیں مخالفتوں پر ایک دوسرے کے بعد ناکامی کی موت مرتی رہیں گی لیکن جماعت احمد یہ ہمیشہ اللہ کے فضلوں اور رحمتوں کے سائے کے نیچے آگے سے آگے ، آگے سے آگے ، آگے سے آگے بڑھتی رہے گی.انشاء اللہ

Page 294

287 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرمودہ 27 دسمبر 1985 ء بیت الفضل لندن تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.آج سے اٹھائیس برس پہلے 1957 ء میں حضرت فضل عمر نے وقف جدید انجمن احمدیہ کی بنیاد ڈالی.یہ تحریک بنیادی طور پر دو اغراض سے جاری کی گئی تھی.پہلی غرض کا تعلق دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت سے تھا.پہلی بات یہ تھی کہ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں چونکہ یہ ممکن نہیں تھا ہر جگہ ایک مربی کو تعینات کیا جائے اس لئے وہاں خصوصانئی نسلوں میں تربیت کی کمزوری کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے نہ صرف نئی نسلوں میں بلکہ تقسیم ہند کے بعد جو لوگ جوان تھے وہ بھی کئی قسم کی معاشرتی خرابیوں کا شکار ہوئے اور بنیادی طور پر دین کے مبادیات سے بھی بعض صورتوں میں وہ غافل ہو گئے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے بشدت یہ محسوس کیا کہ جب تک ایسی کوئی تحریک نہ جاری کی جائے جس کا تعلق خالصتا دیہاتی تربیت سے ہو اس وقت تک ہم دیہاتی علاقوں میں احمدیت کے مستقبل کے متعلق بے فکر نہیں ہو سکتے.چنانچہ حضور نے اس تحریک یعنی تحریک وقف جدید کا آغاز فرمایا.حضور نے اولین ممبران وقف جدید میں خاکسار کو بھی مقرر فرمایا حضور ان دنوں بیمار تھے لیکن بیماری کے باوجود ذہن ہر وقت اسلام کی ترقیات کے متعلق سوچتا رہتا تھا.ابتدائی نصیحتیں جو مجھے کیں ان میں ایک تو یہی دیہاتی تربیت کی طرف توجہ دینے کے متعلق ہدایت تھی اور دوسرے ہندؤوں میں خاص طور پر تبلیغ کرنے کی تاکید کی گئی تھی.تو بہر حال پہلا مقصد دیہاتی تربیت کا تھا اور دوسرا مقصد پاکستان میں بسنے والے ہندؤوں کو مسلمان بنانا تھا.جب آغاز میں ہی میں نے دیہاتی تربیت کا جائزہ لیا تو ابتدائی جائزہ کے کوائف غیر تسلی بخش تھے بعض صورتوں میں تو نہایت ہی خوفناک کوائف سامنے آئے.مختلف اضلاع کے بعض دیہات کو نمونہ بنا کر وہاں معلمین کو اور بعض دفعہ غیر معلمین کو جو اپنے آپ کو اس کام کیلئے پیش کرتے تھے بھجوا کر با قاعدہ ایک فارم بھروایا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ بعض جگہ باجماعت نماز پڑھنے والوں کی تعداد ایسی گرگئی ہے کہ پوری جماعت میں جتنے باجماعت نمازی ہونے چاہئیں اس کے مقابل پر دس فیصدی بھی نہیں رہے.بعض دیہات میں بہت بڑی تعداد میں بچے ایسے نظر آئے جن کو نماز ( بلا ترجمہ ) بھی نہیں آتی تھی اور تلفظ کی غلطیاں تو اتنی عام تھیں کہ وہ کلمہ بھی صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے تھے.الغرض بہت ہی خوفناک اعداد و شمار سامنے آئے اور اس وقت یہ محسوس

Page 295

288 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو خدا نے مصلح موعود کا وعدہ فرمایا تھا یہ تحر یک وقف جدید بھی اسی وعدے کا ایک حصہ ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑی گہری بصیرت حضرت مصلح موعود کو عطا فرمائی تھی نیز وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ ایسے بنیادی اقدامات کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا رہا جو جماعت کی اصلاح میں نمایاں سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے اور ہمیشہ سنگ میل کی حیثیت رکھیں گے.چنانچہ وقف جدید کی تحریک ان کو ائف اور اعداد و شمار کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنے لئے خود ہی لائحہ عمل ڈھالتی رہی اور متعدد ایسے طریق اختیار کئے گئے جن سے دیہی جماعتوں کی حالت سنبھلنی شروع ہو، ان کو اپنے فرائض کا احساس ہو، اپنے مقام کا احساس ہو اور جس حد تک ممکن ہو وہ دنیا کے سامنے ایک اچھا نمونہ پیش کر سکیں.دیہاتی جماعتوں میں اگر چہ علم کی کمی کی وجہ سے تربیتی لحاظ سے کمزوری بھی جلدی پیدا ہو جاتی ہے لیکن عام طور پر انکے اخلاص کا معیار اور اطاعت کا معیار بلند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کمزوری جتنی جلدی پیدا ہوتی ہے اتنی جلدی دور کرنے کیلئے بھی وہ تیار ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس تحریک کے نتیجے میں عملاً یہ بات سامنے آئی کہ بعض جماعتوں میں جہاں نمازی دس فیصد بھی نہیں تھے وہاں چند مہینے کی کوششوں میں خدا کے فضل سے تمہیں چالیس فیصد تک لوگ تہجد گزار پیدا ہونے شروع ہو گئے.بچے اور بوڑھے اور عورتیں سبھی نے نیک کاموں میں حیرت انگیز تعاون کا نمونہ دکھایا.معلمین کی کمی کی وجہ سے پھر ہمیں انہیں بار بار مختلف اضلاع میں بدل بدل کر مقرر کرنا پڑا.روپے کی شروع میں بہت کمی محسوس ہوتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں بھی برکت ڈالی اور رفتہ رفتہ یہ تحریک اس پہلو سے خوب اچھی طرح اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی.جہاں تک ہندؤوں میں تبلیغ کا تعلق ہے شروع کے چند سالوں میں باوجود کوشش کے کوئی پھل نہیں ملا.خصوصاً وہ علاقے جہاں ہندو قو میں زیادہ آباد ہیں وہاں کئی قسم کے ایسے مسائل تھے جن سے نبٹنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی اور پھر اجنبیت بھی بہت تھی نیز ان پسماندہ اقوام میں جہاں زیادہ تر ہندو ملتے ہیں اسلام سے دُوری اس وجہ سے بھی پائی جاتی تھی کہ ان علاقوں کے مسلمانوں کا سلوک ان سے اچھا نہیں تھا.مثلاً زیادہ تر سندھ میں یہ پسماندہ قومیں آباد ہیں جن کی بھاری اکثریت ہندو ہے.یہ مزدور پیشہ لوگ ہیں اور سندھ کے مختلف علاقوں میں موسم کے لحاظ سے آتے اور جاتے رہتے ہیں.ان کا اصل بنیادی ٹھکانہ تھر ہے یعنی وہ ریگستانی علاقہ جو سندھ اور ہندوستان کے درمیان واقع ہے.کہیں بارڈر سے پچاس میل تک تھر کا ریگستانی علاقہ اندر آ گیا ہے اور کہیں کم ہو گیا ہے بہر حال ایک بہت چوڑی Belt ( بیلٹ ) ہے جو پاکستان کے زرخیر علاقے کو ہندوستان کے بارڈر سے الگ کرتی ہے.اور اس ساری Belt میں اگر چہ ایک حصہ میں مسلمان بھی آباد ہیں مگر بھاری اکثریت ان پسماندہ ہندو اقوام کی ہے.انکے ساتھ دو

Page 296

289 حضرت خلیفہ امسیح الرابع طرح سے بدسلوکی ہوئی ایک تو یہ کہ جب یہ لوگ مزدوری کے لئے زمینداروں کے پاس جاتے تھے تو انکے ساتھ اچھا معاملہ نہیں ہوتا تھا اور جہاں بھی بس چلا ان کی مزدوریاں دبائی گئیں.جہاں بھی کسی کی پیش گئی ان کے اوپر بعض جھوٹے مقدمے بھی بنائے گئے ، پولیس سے سزائیں بھی دلوائی گئیں اور حتی الامکان بیگار لینے کی کوشش بھی کی گئی.اس لئے ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف ایک منتظر پایا جاتا تھا.دوسرے ہندؤوں سے بڑھکر مسلمان ان سے چھوت چھات کرتے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کسی اچھوت کو یعنی ان اقوام کے کسی انسان کو اپنے برابر بٹھائیں یا ان برتنوں میں یہ بھی پانی پئیں جن میں وہ پانی پیتے تھے یا اپنے برتنوں میں انکو پانی دیں یعنی پوری طرح چھوت چھات کا سلوک ان سے کیا جار ہا تھا.اس لئے جب ہم نے وہاں معلمین بھجوائے تو یہ ہندو لوگ اسلام سے بہت ہی بد کتے تھے اسلام سے گھبراتے تھے اور نتیجہ کئی سال کی کوششوں کے باوجود کوئی ایک بھی پھل نہیں لگا.بہر حال حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے بار بار تاکید تھی کہ اس کام کو چھوڑنا نہیں.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بالآخر انکا یہ جمود ٹوٹا اور نفرت دُور ہوئی.جب انکو محبت اور پیار کے ساتھ اسلام کی تعلیم دی گئی تو توجہ پیدا ہونی شروع ہوئی اور تیزی سے اسلام پھیلنے لگا اور پھر انہیں میں سے واقفین بھی پیدا ہوئے جنہوں نے بہت جلدی جلدی اخلاق میں ترقی کی اور اپنے آپ کو وقف کیا.اس کے علاوہ ایک اور بڑی اہم مشکل یہ تھی کہ ان قوموں کے خصوصی حالات کی وجہ سے عیسائی ان کو اپنا شکار سمجھتے تھے.وہ خصوصی حالات اپنی جگہ بہت ہی درد ناک ہیں.ان کی پسماندگی میں ان حالات نے اور زیادہ دُکھوں کا اضافہ کر دیا تھا.اس ہندو علاقے میں صرف پسماندہ قومیں ہی نہیں بلکہ ہندو مہاجن بھی آباد ہیں.بعض قصبات میں سو فیصدی ہندوؤں کی آبادی ہے ایک بھی مسلمان قصبے کے اندر موجود نہیں اور ان کی ساری معیشت اور ساری اقتصادیات مہاجن کے ہاتھ میں ہیں.چنانچہ ان کی غربت سے استفادہ کرتے ہوئے اور موسمی مصائب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رفتہ رفتہ ہندومہاجن نے ان کی ساری زمینیں گروی رکھ لیں.اور جب ایک موقع پر وہاں سے خود جائزہ لینے کی توفیق ملی تو اس وقت یہ کوائف سامنے آئے کہ سارے علاقے میں سو فیصدی زمین تو ان پسماندہ لوگوں کی ہے لیکن عملاً سو فیصدی فصل ہندو مہاجن کی ہے.طریق کار یہ جاری تھا کہ جب موسم مثلاً خراب ہو.بارش وقت پر نہ ہو تو اگلے سال کیلئے انکے پاس پیج کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے مہاجن ستے زمانے کا بیج لے کر سنبھال کے رکھ لیتا تھا اور اول تو زیادہ قیمت پر انکو دیتا تھا اور پھر سود پر دیتا تھا وہاں کا جوسود ہے وہ بھی عام سود سے مختلف ہے.وہ مہینے کے حساب سے ہے مثلاً 5 روپے مہینہ سوروپے پر اور یہ سود بھی رعایت سمجھی جاتی ہے یعنی بڑی نرمی کا سلوک کیا

Page 297

290 حضرت خلیفہ مسیح الرابع گیا ہے.سال پر وہ عمداً اس لئے شمار نہیں کرتے کہ اس سے زیادہ نظر آئے گا.ساٹھ روپے سوپر سال میں تو بہت بڑی رقم نظر آتی ہے پانچ روپے مہینہ چھ روپے مہینہ دس روپے مہینہ اسطرح وہ سود چلتا ہے اور سود پر دیا ہوا جو بیج ہے اگر وہ کاشت کر لیا جائے اور پھر وقت پر بارش نہ ہو تو سارا سال پانچ روپے مہینہ وہ سود بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اگلی فصل کیلئے بعض دفعہ ان کو دوبارہ قرض لینا پڑتا ہے اور اس دوران مہاجن سے پھر اور لے کر کھاتے بھی ہیں.ان سے میں نے براہ راست سوال کیا تو پتہ چلا کہ رفتہ رفتہ چند سالوں کے اندر یہ کیفیت ہوگئی کہ بعض علاقوں میں آئندہ دس دس سال کی فصلوں کی آمد ان پر قرض ہے اور کسی طور پر اس چکر سے انکے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یعنی مزارعت کی جو بدترین اور ذلیل ترین قسم ایک انسان سوچ سکتا ہے وہ وہاں رائج تھی اور ابھی تک رائج ہے.زمیندار جب اپنی زمین مزارعت پر کسی کو دیتا ہے تو زمین محنت کرنے والے کی نہیں ہوتی زمین اسکی ہوتی ہے اور محنت کرنے والا اور ہوتا ہے اور فصل کو دونوں نصف نصف یا جس طرح بھی طے ہو آپس میں بانٹتے ہیں.مگر یہاں زمین محنت کرنے والے کی ہے مزارعت کا حصہ بٹانے والے کی نہیں.محنت بھی اسکی ہے زمین بھی اس کی ہے اسکے باوجود اسکی ساری فصل غیر کی ہے اور اس فصل میں سے وہ زیادہ قیمت کے حساب سے سود پر خود اپنی ہی ہوئی ہوئی فصل کا پھل اس سے منت کر کے مانگتا ہے اور پھر اسی پر وہ گزارہ کرتا ہے.اگر یہ لوگ مزدوری کیلئے سندھ کے علاقوں میں نہ جاتے تو یہ صورتحال بہت ہی زیادہ خوفناک ہو جاتی.اسلئے جب یہ مزدوری کیلئے سندھ کے علاقے میں جاتے ہیں تو وہاں سے کچھ نہ کچھ کما کر لے آتے ہیں جس سے ان کی بسر اوقات چلتی رہتی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہاں جا کر ان کا زیادہ تر مسلمان زمینداروں سے واسطہ پڑتا ہے اور بسا اوقات انہیں وہاں بھی الا ماشاء اللہ اکثر زمینداروں کے ظلم کا نشانہ بنا پڑتا ہے.وہاں سکول نہیں ہیں کوئی شفا خانے نہیں ہیں سوائے چند ایک قصبات کے جہاں ملتے ہیں اس لئے پسماندگی میں جہالت کا بھی حصہ ہے اور صحت کی خرابی کا بھی لیکن اس کے باوجود یہ لوگ محنتی ہیں.بڑی کثرت کے ساتھ ان میں سل کی بیماری پائی جاتی ہے اور دانتوں کی بیماری بھی عام ہے.کوئی اور قوم ہوتی تو بالکل ہی ہاتھ پاؤں توڑ کے بیٹھ جاتی لیکن یہ بڑی ہمت والے لوگ ہیں.ان تکلیفوں کے باوجود بہت محنتی قوم ہیں سندھ میں جو عموماً زمینداروں میں محنت کی عادت ہے یہ اس سے کئی گنا زیادہ محنت کر سکتے ہیں اور ہیں بھی دیانت دار.لین دین میں صاف ہیں یہ ایک اور خوبی ہے جو ان میں حیرت انگیز طور پر پائی جاتی ہے.ان حالات کو دیکھ کر عیسائی قوموں کیلئے تو یہ تر لقمہ تھے چنانچہ پیشتر اس کے کہ وقف جدید وہاں کام شروع کرتی عیسائیوں نے وہاں جال پھیلا دیئے تھے یہ وہ زمانہ تھا جبکہ پی.ایل 480 کی وجہ سے بہت سی رقم عیسائی مشنریوں کو

Page 298

291 حضرت خلیفة المسیح الرابع امریکہ کی طرف سے گندم کی مدد کے طور پر ملتی تھی خشک دودھ ملتا تھا اور اسی طرح کئی قسم کی سہولتیں تھیں مثلاً دوائیاں مفت تقسیم کرنے کیلئے ملتی تھی.ان کے گشتی شفا خانے رائج تھے.ان حالات میں وقف جدید نے وہاں کام کا آغاز کیا.یعنی ہر سمت سے بظاہر یوں لگتا تھا کہ سامنے ٹھوس دیوار حائل ہے وہ راستہ روکے کھڑی ہے کہ آگے نہیں بڑھنا لیکن اللہ تعالی نے حیرت انگیز فضل فرمایا جس کے نتیجہ میں ساری دیوار میں ٹوٹ گئیں.اس نے ہمیں اس قوم میں نفوذ کی غیر معمولی طور پرنتی را ہیں عطا کیں اور رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اسلام پھیلتا چلا گیا.جب میں وقف جدید میں تھا تو اسوقت آخری اعداد و شمار کے مطابق 143 دیہات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام قائم ہو چکا تھا اور عیسائیوں کے کلیہ وہاں سے پاؤں اکھڑ گئے تھے.شروع ہی میں جب معلمین وقف جدید کی طرف سے یہ تقاضے ہوئے کہ ہمیں بھی ان لوگوں کی مدد کے لئے روپیہ دیا جائے ورنہ یہ لوگ عیسائیوں کی جھولی میں چلے جائیں گے تو میں نے بہت ہی اصرار کے ساتھ انکو اس بات سے روکے رکھا میں نے کہا کہ اگر دولت تقسیم کرنے کا مقابلہ ہوا تو ہم عیسائیوں کے مقابل پر ہزارواں لاکھواں حصہ بھی خرچ نہیں کر سکتے دوسرے یہ کیسے ممکن ہے کہ جس قوم کو ہم نئی زندگی عطا کرنا چاہتے ہیں اس کے اچھے اخلاق کو گناہ میں تبدیل کر دیں.ان میں خود داری ہے.ان میں لین دین کے اچھے معاملات کی عادت ہے محنت کی عادت پائی جاتی ہے.اگر ہم ان کو بھکاری بنا دیں تو اس اسلام کا ان کو کیا فائدہ؟ ہم تو پسماندہ اقوام کو اٹھا کر انسانی سطح پر بلند کرنا چاہتے ہیں جس پہلو سے بھی دیکھا جائے مالی امداد کی تجویز غلط ہے.چنانچہ وقف جدید نے شروع سے ہی یہ مصمم ارادہ کیا ہوا تھا اور اس پر آخری وقت تک عمل رہا اور اب بھی اسی پر عمل ہے کہ ان کو بھیک منگا نہیں بنانا ہاں بعض دوسری صورتوں میں جب ممکن ہو ان کی مدد اس رنگ میں کی جائے کہ انکو سود کی لعنت سے بچایا جائے.چنانچہ ہم نے فصلوں کی کاشت کے وقت انکو قرضے دینے شروع کئے خصوصاً ان سالوں میں جبکہ بہت زیادہ حالات خراب ہوتے تھے ہم نے انہیں قرضے دیئے.مالی اعتبار سے وقف جدید کی بہت معمولی حیثیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کاموں میں برکت ڈال دیتا ہے.ہم نے پیج پہلے سے لے کر رکھنا شروع کر دیا.وقت آنے پر ہم ان کو گندم یا با جرے کا بیج اصل قیمت پر دیتے تھے نہ صرف یہ کہ انہیں سود نہیں دینا پڑتا تھا بلکہ منافع بھی ہمارا کوئی نہیں ہوتا تھا.بیج مہیا کرتے وقت کوئی تحریر بھی نہیں لی جاتی تھی.اگر وہ لے کر بھا گنا چاہتے تو سب کچھ لیکر بھاگ جاتے.لیکن خدا کے فضل کے ساتھ ایک آنہ بھی ضائع نہیں ہوا.اس سے آپ اندازہ کریں کہ ان کا قومی کردار کتنا بلند ہے.پاکستان کے کسی اور علاقے میں کتنی لکھت پڑھت کریں، روپے کی حفاظت کا کتنا انتظام کر لیں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سارا روپیہ واپس آجائے اور اگر بے احتیاطی

Page 299

292 حضرت خلیفة المسیح الرابع کریں تو یہ ممکن ہے کہ سارے کا سارا روپیہ ضائع ہو جائے.ایک پیسہ بھی واپس نہ آئے لیکن اس ہندو پسماندہ علاقے میں آج تک وقف جدید کا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہوا.بڑی دیانت داری کے ساتھ وہ واپس کرتے رہے یہاں تک کہ ابھی پچھلے دو سال کی بات ہے باوجود اسکے کہ ان لوگوں پر حکومت کا شدید دباؤ تھا اور علماء کی طرف سے انہیں ترغیب دی جارہی تھی کہ تم احمدیت سے پھر کر اپنے مذہب میں واپس چلے جاؤ یعنی پھر مشرک بن جاؤ ، رسول اکرم ﷺ کی صداقت اور اللہ کی توحید کے گن گانے چھوڑ دو اور از سر نو بتوں کی پرستش شروع کر دو، تمہارا مشرک بن جانا ہمارے لئے زیادہ قابل قبول ہے بہ نسبت اسکے کہ تم احمدی مسلمان کہلاؤ.اسلام سے منحرف کرنے کے معاملے میں ان کو ہرقسم کی مدددی جاتی تھی ان سے کہا جاتا تھا کہ اگر وہ احمدیوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہیں تو پوری طرح ان کو ہر قسم کی اعانت حاصل ہوگی.مگر ایسے زمانے میں بھی ان کو جور تم بیج کے طور پر دی گئی وہ ساری کی ساری انہوں نے واپس کر دی.یہ وہ قوم ہے جس میں خدا تعالیٰ فضل کے ساتھ اور اس پر فضل کرتے ہوئے وقف جدید نے کام شروع کیا اور عیسائیوں کے پاؤں وہاں سے اکھیڑے کسی پیسے کے زور پر نہیں بلکہ دلائل کے زور پر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام اتنا مضبوط ہے، اتنا قوی ہے کہ اس کے سامنے عیسائی کے پاؤں ٹھہر ہی نہیں سکتے.بالکل تھوڑی تعلیم والے معلمین جب واقعات لکھا کرتے تھے تو حیرت ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کو جواب سمجھاتا ہے.عیسائی پادریوں کی بڑی بڑی مجالس لگی ہوتی تھیں اور وہاں ایک معلم اٹھ کر سوال شروع کر دیتا تھا اور کچھ دیر کے بعد وہ اپنی صف لپیٹ کر وہاں سے غائب ہو جایا کرتے تھے وہاں یہ چرچا عام ہو گیا کہ یہ عیسائیوں کے پاؤں نہیں جمنے دیتے.واقعہ کچھ عرصہ کے بعد وہاں سے عیسائیت کی تبلیغ ختم ہوگئی.لیکن اب کچھ عرصہ سے بدلے ہوئے ماحول سے فائدہ اٹھا کر یہ سمجھتے ہوئے کہ حکومت کی ساری طاقت اور علماء کی ساری طاقت احمدیوں کے مقابل پر عیسائیوں کے ساتھ ہوگی انہوں نے دوبارہ وہاں پر پرزے نکالنے شروع کئے ہیں.سکول جاری کئے ہیں، شفا خانے کھولے ہیں، دوبارہ امداد دینی شروع کی ہے جہاں تک میں نے تخمینہ لگایا ہے کر وڑ ہا روپیہ اس علاقے میں خرچ کر کے ان کو عیسائی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس لئے جوابی کارروائی کے طور پر جماعت احمد یہ بھی کم سے کم اتنی مؤثر کاروائی کرے گی کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوں لیکن یہ کم سے کم کا رروائی ہے.مومن کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جب مخالفانہ کوشش شروع ہو تو صرف اس کوشش کو نا کام نہیں بنانا بلکہ ترقی کی رفتار کو پہلے سے کئی گنا تیز کر کے دکھانا ہے تا کہ ایسی کوشش کرنے والوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں ان کو کبھی و ہم بھی نہ آئے کہ الہی جماعتوں پر ہاتھ ڈال کر ہم کسی طرح کی بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.لہذا نہ صرف یہ کہ ہم

Page 300

293 حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے عیسائیوں کی طاقت کو وہاں سے توڑنا ہے، انکی کوششوں کو ناکام بنانا ہے بلکہ اسلام کی ترقی کی رفتار کو پہلے سے زیادہ تیز کرنا ہے.یہ وہ مقاصد ہیں جن کے آئندہ چند سالوں کے اندر اندر حصول کو میں وقف جدید کے لئے بطور ٹارگٹ متعین کرتا ہوں.اس ضمن میں ایک نائب ناظم وقف جدید کو ربوہ کی بجائے ان علاقوں میں منتقل کر دیا گیا.وہ مستقلاً وہیں رہ کر اپنا اڈا جمائیں گے اور وہیں بیٹھ کے کام کریں گے.ان کو ہدایت دے دی گئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے مدر سے قائم کریں، چھوٹے چھوٹے شفا خانے قائم کریں، دعا کے ساتھ جب وہ کوشش بھی کریں تو عیسائیوں کے بڑے شفا خانے بھی ان چھوٹے شفا خانوں کے مقابل پر نا کام ہو جائیں گے.انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ ایلو پیتھک کی توفیق نہیں تو ہومیو پیتھک علاج شروع کر دیں.پہلے بھی اس علاقے میں یہ طریق علاج کافی حد تک متعارف ہے.ہم نے جب شروع میں کام کیا تو شفا خانے تو کھول نہیں سکتے تھے اس لئے معلمین کو ہومیو پیتھک سکھا کر اور کچھ نسخے رٹا کر جو روز مرہ کے استعمال میں آچکے تھے ہم نے ان کو بھیج دیا کہ اسی سے علاج شروع کرو.اور اللہ تعالیٰ نے انکے کام میں برکت ڈالی اور انکی علاقے میں اچھی خاصی شہرت ہوگئی.پھر بعض ذہین معلمین نے نئے نئے تجربوں سے خود اپنے نسخے بھی ایجاد کئے بعض بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں تو سارے تھر میں احمدی ڈاکٹر مشہور ہو گئے تھے.جب کوئی خاص بیماری ایسی ہوتی تھی تو وہ لوگ دُور دُور کے علاقے سے سو سو میل کا سفر کر کے بھی احمدی ڈاکٹر کی تلاش میں پہنچا کرتے تھے.مثال کے طور پر بیماری ہے جو دوسری جگہوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن وہاں خاص طور پر پائی جاتی ہے کہ ایک بار یک سا کیڑا پاؤں میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ بڑھتارہتا ہے اور سینکڑوں گز تک وہ بڑھ جاتا ہے اور پکڑ کر اس کو نکالیں تو ٹوٹ جاتا ہے اور پھر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے بظاہر اس کا کوئی علاج نہیں ایلو پیتھک علاج تو ہوں گے لیکن اس علاقے تک تو بہر حال وہ علاج نہیں پہنچے تھے.نہایت ہی خوفناک بیماری ہے جس سے مریض بڑی تکلیف کے ساتھ مرتا ہے.اور ہمارے ایک نو مسلم ڈاکٹر نثار احمد نے اپنے طور پر ہی ایک ہومیو پیتھک دوا سلیشیا دینی شروع کر دی.اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ سلیشیا کھانے سے وہ کیڑا سارے کا سارا اندر ہی پکھل جاتا تھا.سارے علاقے میں شور پڑ گیا کہ احمدی ڈاکٹر کے پاس اس مرض کا علاج ہے.چنانچہ دور دور سے لوگ آنے شروع ہو گئے.غریبانہ علاج ہے.اب اس علاج کی مزید سہولت کو وہاں پھیلا دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید برکتیں ڈالے گا.انشاء اللہ.غریبانہ علاج کی بحث نہیں ہے.بحث یہ ہے کہ شافی مطلق خدا کس کے ساتھ ہے.اگر وہ بڑے بڑے شفاخانوں کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں آجائے تو شفا بھی ان جھونپڑیوں کی طرف منتقل ہو جائے

Page 301

294 حضرت خلیفہ امسیح الرابع گی ، وہ شفا خانوں کو چھوڑ دے گی.اسلئے میں امید رکھتا ہوں کہ وقف جدید کو جو بفضل اللہ تعالیٰ یہ امتیاز حاصل ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے، اسی کی بدولت وہاں عیسائیوں کی کارروائی کا مؤثر جواب دیا جائے گا.انشاء اللہ.اسکے علاوہ سندھ میں جو زمیندار توفیق رکھتے ہیں ان کو میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس علاقے میں زیادہ وقف عارضی کے طور پر جانا شروع کریں شہروں کے لوگ بھی مثلاً کراچی ، حیدر آباد وغیرہ اور خصوصاً سندھ کے علاقے کے لوگ جو کسی پہلو سے بھی ان قوموں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہوں ( مثلاً ڈاکٹر ہوں ، وکیل ہوں تعلیم کے ماہر ہوں یا کسی اور پہلو سے دوسروں کے کام آنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہوں انہیں چاہیے کہ وہ وقف عارضی کریں اور زیادہ سے زیادہ وہاں جا کر ذاتی تعلق قائم کریں.ایک زمانے میں امیر صاحب کراچی نے اس طرف توجہ دی تھی تو ہر طبقہ زندگی کے بعض واقفین وہاں پہنچنے شروع ہوئے.وہاں سے جو چٹھیاں آتی تھیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ غیر معمولی فائدہ پہنچ رہا ہے.مثلاً کوئی فوجی ریٹائر ڈ ہیں وہ وہاں گئے اور وہاں پتہ لگا کہ بعض فوجی بلا وجہ ان لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں.ایک ہی پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو با ہم ایک دوسرے کی شرم ہوتی ہے وہ ان سے ملے ان سے جا کر رابطہ قائم کیا تو پتہ لگا کہ بعض غلط فہمیوں کی بناء پر بلا وجہ انہیں ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا.ہمارے ایسے آدمیوں کی مساعی سے ان کیلئے سہولتیں پیدا ہوگئیں اس علاقے میں اسکا بڑا رعب پڑا.لوگوں نے محسوس کیا کہ اللہ کے فضل سے جماعت احمد یہ بہت بااثر ہے ان کے بڑے بڑے افسر بھی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور منکسر المزاج ہیں.وہ ان کے ساتھ مل کر ان کے برتنوں میں کھاتے پیتے تھے.اس کا بھی ان پر بڑا اثر پڑتا تھا.کئی حکومت کے افسر اور غیر افسر اور اسی طرح بڑے بڑے چوٹی کے ڈاکٹر جب وہاں گئے تو اس علاقے میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہوگئی.اب پھر اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.سندھی احمدی زمیندار اپنے علاقے میں آنے والے پسماندہ قوموں کے ہندوؤں سے حسن سلوک کریں.افسوس ہے کہ اس پہلو سے سندھ کے اکثر علاقوں میں شعور بیدار نہیں ہوا اور بجائے اس کے کہ ایسے موقع سے فائدہ اٹھا کر ان لوگوں کے دل جیتے جائیں ، ان سے حسن سلوک کیا جائے ، تالیف قلب کے نمونے دکھائے جائیں، وہی عمومی رواج جو زمینداروں میں چلتا ہے وہ احمدی زمینداروں میں بھی جاری ہے.مگر اتنا زیادہ سخت نہیں ہے، جان بوجھ کر کسی کا پیسہ دبانے کی روح نہیں ہے لیکن جہاں بس چلتا ہے ان سے بیگار ضرور لے لی جاتی ہے.جہاں بس چلے کچھ نا انصافی کی طرف میلان پایا جاتا ہے.غریب قومیں ہیں آگے سے کچھ کر نہیں سکتیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا جب سارے معاشرے میں اس سے استفادہ کیا جارہا ہے تو کبھی کبھار ہم بھی

Page 302

295 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع استفادہ کر لیں تو کیا مضائقہ ہے.بعض صورتوں میں تو بد دیانتی کی بھی شکایتیں ملی ہیں.حیرت کے ساتھ اور نہایت افسوس کے ساتھ مجھے بیان کرنا پڑتا ہے کہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ بعض احمدی زمینداروں کے خلاف غریب ہندوؤں نے مجھے خط لکھے کہ ہماری محنت کھا گئے ہیں.جب میں نے آدمی بھجوا کر تحقیق کرائی تو پتہ لگا کہ بات ٹھیک تھی.چنانچہ ان کی محنت ان کو دلوائی گئی.ایسے واقعات ایک دو سے زیادہ نہیں ہیں کہ واضح طور پر بددیانتی سے محنت کھائی گئی ہو لیکن احمدیت کی سفید چادر پر تو ایک یا دو واقعات کا ہونا بھی بہت ہی بد نما داغ ہے.احمدی زمیندار اس بات کا خیال رکھیں کہ انہیں نہ صرف یہ کہ ان کے حق دینے ہیں بلکہ حق سے زیادہ دینا ہے اور ان سے حسن سلوک کرتا ہے.یہ ریگستانوں کے جگر گوشے خود آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں.جب یہ احمدی ماحول میں جاتے ہیں تو اس وقت اگر آپ ان کو پیار کے ساتھ تبلیغ کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے معاملہ کریں اور توحید کا پیغام دیں تو ہر گز بعید نہیں کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک دو سال کی کوششوں میں مسلمان ہونا شروع ہو جائیں گے.اور اب تو ان میں اسلام سے وہ تنفر باقی نہیں رہا.ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی بستی ایسی ہے جہاں خدا کے فضل سے اسلام کا پودا لگ چکا ہے اس لئے آجکل کے ماحول میں احمدی زمینداروں کیلئے تبلیغ کا کام بہت ہی آسان ہو گیا ہے.اس لئے میں سندھی احمدی زمینداروں کو یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ حسن سلوک اور محبت کے ساتھ اپنے ان آنے والے مزدوروں کو مسلمان بنانے کی کوشش کریں.یہ لوگ سندھ کی جان ہیں.سندھ کی ساری دولت ان کی مرہون منت ہے کیونکہ سندھ کا زمیندارہ ان قوموں کی محنت کے بغیر چل ہی نہیں سکتا.جس زمانے میں تھر کے علاقہ میں اچھی خوشحالی ہو جائے یعنی اچھی بارشیں ہوں.موسمی حالات اچھے ہوں تو سندھ بدحال ہو جاتا ہے کیونکہ فصلیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہاں کے مقامی لوگ اپنی محنت سے انکو سنبھال ہی نہیں سکتے.تو تھر کی خوشحالی پر سندھ کا زرخیز علاقہ روتا ہے کہ وہ علاقہ خوشحال کیوں ہو گیا ہے.جب وہ بد حال ہو اور وہاں لوگ محنت کے لئے آئیں تو یہ ان کو اور زیادہ بدحال بنانے کی کوشش کرتے ہیں.یہ قوم کئی پہلوؤں سے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے اور چونکہ یہی قو میں ہندوستان میں بھی پر لی طرف اسی قسم کے علاقے میں آباد ہیں اسلئے ہندوستان میں بھی تبلیغ کے نئے رستے کھل جاتے ہیں ہمارے نقطہ نگاہ سے کہ ہم ایک مبلغ جماعت ہیں.یہ لوگ بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اس کی طرف بھی توجہ کی جائے گی ، انشاء اللہ.ہندوستان میں بھی وقف جدید قائم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہی ہے.حیدرآباد دکن کے علاقے میں جہاں کثرت کے ساتھ نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں یا پنجاب کے علاقوں میں قادیان کے اردگرد جہاں خدا تعالیٰ کے فضل

Page 303

296 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ساتھ بیسوں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں وہاں زیادہ تر خدمت کی توفیق وقف جدید ہی کو ملی ہے.لیکن ایک حصہ ابھی تک تشنہ ہے.اس علاقے میں ایک اندرونی طلب پائی جاتی ہے کہ ہم تک بھی کوئی پہنچے لیکن ابھی تک ہم وہاں نہیں پہنچ سکے.پرانے کارزار کا وہ علاقہ جہاں کسی زمانے میں شدھی کی تحریک چلی تھی اور اسکے جواب میں جماعت احمدیہ نے نہایت ہی موثر کارروائی کی تھی یہاں تک کہ سارے ہندوستان میں احمدیت کی عظمت کا ڈنکا بجنے لگا تھا اس علاقہ میں ہمارے ایک معلم گئے ان کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پھر ان کے حالات قابل فکر ہیں.اگر چہ فی الحال حالت اتنی خراب نہیں ہوئی مگر قابل فکر ضرور ہے کیونکہ انہیں قوموں میں دوبارہ شدھی کی تحریک مخفی طور پر چلا دی گئی ہے اور بعض جگہ اسکے اثرات نظر آنے شروع ہو گئے ہیں.چنانچہ ہمارے احمدی معلم جو وہاں دورے پر گئے انہوں نے لکھا کہ جب میرا ان سے رابطہ قائم ہوا اور ان کو بتانا شروع کیا تو یہ محسوس ہوا کہ وہ خود نہیں چاہتے کہ ہندوؤں میں واپس چلے جائیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں کوئی انکو سنبھالنے والا نہیں.اسلئے میں ہندوستان کی وقف جدید کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ باقی علاقوں کے علاوہ پرانے شدھی کے علاقوں کی طرف بھی توجہ کریں.ہندوستان کے لئے مشکل یہ ہے کہ ایک تو وہاں واقفین کی تعداد بہت تھوڑی ہے کیونکہ وہ نسبت کے لحاظ سے جماعت کی تعداد ہندوستان کے مقابل پر بہت تھوڑی ہے.پچھلے دنوں وہاں سے ایک صحافی دوست آئے تھے.انہوں نے بتایا کہ ہمارے اندازے کے مطابق تین لاکھ احمدی ہیں.تو تین لاکھ ہندوستان کے ستر اسی کروڑ کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے.دوسرے جماعت میں جو متمول طبقہ ہے الا ماشاء اللہ اس میں چندوں کے اعتبار سے کچھ کمزوری پائی جاتی ہے وہاں کے بعض علاقے جن کے نام لینے مناسب نہیں پہلے چندوں میں بہت آگے تھے اب بالکل ست پڑ چکے ہیں تو مالی لحاظ سے بھی وہاں کمزوری ہے اور کارکنان کے لحاظ سے بھی کمزوری ہے.مالی اعتبار سے تو میں نے پیغام بھیجا ہے کہ آپ تبلیغ کا پروگرام بنائیں اور اس میں کسی قسم کی کنجوسی نہ دکھا ئیں.اپنے ارادے بلند رکھیں ، اپنے پروگرام کو وسیع کریں.جہاں تک روپے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ روپیہ آپ کو باہر سے ملنا شروع ہو جائے گا، جو بھی سلسلے کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ وہ خود پوری کر دیتا ہے.اور جہاں تک کارکنان کا تعلق ہے یہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہندوستان کو بھی نئے کارکنان پیدا کرنے پڑیں گے اس کیلئے ان کو چاہیے کہ وہ دورے کریں ، قادیان کے ناظر صاحبان دورے کریں، ضروری نہیں کہ وقف جدید ہی پر انحصار ہو.نوجوانوں کو توجہ دلائیں اور وقف کی تحریک کریں.ڈاکٹرز، ٹیچرز یعنی اسا تذہ اور خاص طور پر جو لوگ ریٹائر ہو چکے ہیں ان کو اس تحریک میں شامل کریں.امید ہے کہ عام لوگوں میں تبلیغ کے لئے جتنا علم ضروری ہے اللہ تعالیٰ اس علم کے اچھے کارکنان مہیا کر دے گا.

Page 304

297 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع اس غرض سے ہندوستان میں بھی وقف جدید کی تحریک کو مضبوط کیا جائے نیز اس غرض سے کہ پاکستان میں بھی جہاں کام پھیل رہا ہے اور نئی ضرورتیں پیدا ہوئی ہیں اس کام کو تقویت دی جائے.میں اس سال وقف جدید کی مالی تحریک کو پاکستان اور ہندوستان میں محدود رکھنے کی بجائے ساری دنیا پر وسیع کرنے کا اعلان کرتا ہوں.اس سے پہلے وقف جدید صرف پاکستان تک محدود تھی اور باہر سے اگر کوئی شوقیہ حصہ لینا چاہے تو اس سے چندہ لے لیا جاتا تھا لیکن کبھی تحریک نہیں کی گئی.اسکا چندہ اتنا تھوڑا ہے یعنی چندے کا جو آغاز ہے وہ اتنا معمولی ہے کہ باہر کی دنیا کے احمدیوں کی بھاری تعداد بسہولت آسمیں شامل ہو سکتی ہے ان کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کوئی مالی قربانی میں اضافہ کر رہے ہیں.اور اجتماعی طور پر اس کا فائدہ ہندوستان اور پاکستان کی وقف جدید کو نمایاں طور پر پہنچے گا.خصوصاً ہندوستان میں تو اتنی زیادہ طلب پیدا ہورہی ہے احمدیت کے لٹریچر کی اور احمدی معلمین کی کہ ایک ایک علاقے کیلئے بھی اگر موجودہ وقف جدید کے سارے وسائل کام میں لائے جائیں تو وہ پورے نہیں اترتے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آندھرا پردیش میں حیدرآباد کے اردگرد کے علاقے میں ضرورت کے پیش نظر ان کا مطالبہ تو یہ ہے کہ ساری وقف جدید ہمیں دے دی جائے ادھر کشمیر کا مطالبہ یہ ہے کہ ساری وقف جدید ہمیں دے دی جائے.اسی طرح ماحول قادیان کا مطالبہ یہ ہے کہ ساری وقف جدید کو مزید کئی گنا زیادہ وسعت دی جائے اور پھر یہ ہمارے لئے مخصوص کر دی جائے.یعنی اتنی زیادہ ضرورت ہے کہ کئی گنا بھی وقف جدید کو بڑھا دیا جائے تو وہ ضرورت پوری نہیں ہو سکتی.اسلئے لازما ہمیں ان ضرورتوں کو کسی طریق پر پورا کرنا ہے.اور اگر ہم فوری طور پر معلم پیدا نہیں کر سکتے تو لٹر پر بھجوا کے پیسٹس بھجوا کے اس ضرورت کو پورا کیا جانا چاہیے.اس کے لئے اب ایک نیا نظام جاری کرنا پڑے گا.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ اگر باہر کی دنیا کو موقع دیا جائے تو یہ وقت کی ایک عظیم الشان ضرورت ہے انہیں اسے پورا کرنے کی توفیق ملے گی.اور دوسرے یہ کہ کوئی وجہ نہیں کہ باہر کے احمدی پاکستان اور ہندوستان کی دینی خدمتوں سے محروم رہیں جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے احمدی کبھی بھی بیرونی خدمتوں سے محروم نہیں رہے بلکہ ساری دنیا میں خدا کے فضل سے جو احمدیت قائم ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا کردار سب سے نمایاں کردار پہلے ہندوستان کے احمدیوں نے اور پھر ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے ادا کیا.باقی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو بھی طبعاً یہ طلب ہونی چاہیے کہ ہم کیوں ان علاقوں کی خدمت سے محروم رہ جائیں جنہوں نے ایک زمانہ میں عظیم الشان قربانیاں کر کے ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کیا ہے.اس قدرتی جذبے کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ان تحریکوں کو ساری دنیا پر پھیلا دیا جائے.قربانی کے لحاظ سے باہر والوں کے لئے بہت معمولی رقم ہوگی.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ

Page 305

298 حضرت خلیفة المسیح الرابع انگلستان کے احباب کے لئے ایک پونڈ فی آدمی سال بھر میں دینا کوئی مشکل کام نہیں.یہ جو کم سے کم معیار ہے اس میں بچے ایک ایک پونڈ دے کر شامل ہو سکتے ہیں اور بڑے اپنے شوق سے اس سے زیادہ دے سکتے ہیں.پاکستان میں عموماً 12 روپے دے کر انسان وقف جدید میں شامل ہو جاتا ہے.12 روپے آخری حد نہیں ہیں بلکہ یہ پہلی اور ابتدائی حد ہے.اگر چہ ایک بڑی تعداد غرباء کی ہے جو 12 روپے کی حد تک ٹھہرتی ہے لیکن بعض امراء ایسے بھی ہیں جو اس سے بہت زیادہ دیتے ہیں بلکہ ہزار ہا روپیہ بھی دیتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ ایک پونڈ والے تو بکثرت باہر کی جماعتوں میں پیدا ہو جائیں گے انشاء اللہ.اور ایسے خاندان بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے ہر بچے کو اس تحریک میں شامل کر لیں اور جن ملکوں میں پونڈ کی کرنسی رائج نہیں ہے وہ اپنے حالات کے مطابق تخمینہ لگا کر پونڈ کے لگ بھگ کوئی رقم مقرر کر سکتے ہیں.مثلاً امریکہ ہے وہ اگر 2 ڈالر مقرر کر لے تو ایک پونڈ سے تو کچھ ہی زیادہ رقم بنتی ہے.لیکن وہاں کی معیشت اور اقتصادی حالت کے تقاضے ایسے ہیں کہ 2 ڈالر بھی ان کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اسی طرح جرمنی والے مارک میں مقرر کر لیں.دوسرے ملکوں کے احمدی اپنے اپنے ملک کے مطابق تخمینہ لگائیں اور اس کے مطابق وہ فیصلہ کرلیں.کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ شامل ہوں ، کثرت کے ساتھ احمدی بچے اور بوڑھے مرد اور عورتیں اس میں شامل ہوں اور وعدہ کی رقم اتنی رہے کہ عام چندے کے لحاظ سے خاندانوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑے.اس لحاظ سے میں امید کرتا ہوں کہ جن ضرورتوں کا میں نے ذکر کیا ہے انہیں ہم ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہوں میں فوری طور پر پورا کر سکیں گے.جہاں تک پاکستان کی جماعتوں کا تعلق ہے یہ عجیب بات ہے کہ جن علاقوں میں زیادہ سخت ابتلاء آئے ہیں اور احمدیوں کو غیر معمولی قربانی کی توفیق ملی ہے ان علاقوں میں چندے کا معیار پہلے سے بلند ہو گیا ہے.مثلاً تھر پارکر ہے اس دور میں کلمہ طیبہ کیلئے سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر تھر پار کرنے قربانی دی ہے، سینکڑوں کی تعداد میں کام کرنے والے نوجوان جیلوں میں گئے.اور بعض ایسے بڑے بڑے زمیندار تھے جہاں مینیجر اور منشی وغیرہ جیلوں میں چلے گئے اس سے کام کو بہت نقصان پہنچا.بعض جائزے میں نے منگوائے تو پتہ چلا کہ محض خاص وقت پر ان کے اچھے کارندوں کے جیل میں جانے کے نتیجہ میں فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے.اس پہلو سے دنیا کے لحاظ سے انسان یہی سوچتا ہے کہ وہاں چندوں میں کمی آئی ہوگی.مگر سارے پاکستان میں گذشتہ سال کے مقابل پر چندوں میں سب سے زیادہ اضافہ ضلع تھر پارکر میں ہوا ہے.بائیس ہزار کے مقابل پر چالیس ہزار سے زائد رقم انہوں نے سترہ دسمبر تک ادا کر دی تھی اور ابھی یہ وصولیاں جاری ہیں.یہ بات بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ جہاں قربانی کی توفیق عطا فرماتا ہے وہاں نیکی کی

Page 306

299 حضرت خلیفہ امسیح الرابع توفیق بھی بڑھا دیتا ہے اور پھر وہ توفیق ہر جہت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جاتی ہے.اور تھر پارکر ہی کو اس دفعہ سب سے زیادہ وقف جدید کی ضرورت بھی ہے.یہ وہی علاقہ ہے جہاں زیادہ تر وقف جدید کا کام ہورہا ہے اور جہاں ہندو زیادہ تعداد میں آباد ہیں.بیرونی دنیا سے بھی انکی مدد ہو تو یہ بہت اچھا اقدام ہو گا.اس میں برکت پڑے گی اور سلسلے کی ساری ضرورتیں بسہولت پوری ہو جائیں گی.انشاء اللہ.اس تحریک کیسا تھ میں نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.اس اعلان کیساتھ میں اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جماعت کی دیگر مالی ذمہ داریوں پر اس کا اثر نہیں پڑنا چاہیے.اس شرط کیساتھ یہ تحریک کی جارہی ہے کہ کسی جگہ سے یہ شکوہ نہیں آنا چاہیے کہ آپ نے ایک اور تحریک کر دی تھی اسلئے ہمارے فلاں چندے میں کسی قسم کی کمی آگئی ہے یا Diversion (ایک خاص سمت میں توجہ زیادہ ) ہوگئی یا کسی اور طرف اس کے نتیجے میں کمی آگئی ہے.ہر چندے میں ہر پہلو سے ہر سال ہمارا قدم خدا کے فضل سے آگے بڑھنا چاہیے اور یہ تحریک بھی اگر آپ اس روح کے ساتھ جاری کریں گے اور اس روح کیساتھ اپنائیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان میں آپ کے اخلاص میں برکت ہی نہیں ڈالے گا بلکہ آپکی مالی وسعتیں بھی بڑھائے گا اور آپ پہلے سے زیادہ بہتر حال میں اپنے آپ کو پائیں گے.خدا کی راہ میں خرچ کرتے وقت خوف محسوس نہیں کرنا چاہیے.بیوی بچوں کا حق ضرور رکھنا چاہیے.آنحضرت نے ایسی قربانی سے منع فرمایا ہے جس سے اہل و عیال کا حق مارا جائے اور ان کے دل میں رد عمل اس کے خلاف پیدا ہو جائے.اس حد تک قربانی سے آنحضرت ﷺ نے اجتناب کا حکم فرمایا ہے بعض دفعہ یہ کہہ کر چندے واپس کئے کہ تم اپنے بیوی بچوں کو غریب چھوڑنا چاہتے ہو.اور انہیں اس حال میں چھوڑنا چاہتے ہو کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں یہ نہیں ہو گا.اس لئے عفو کے دائرے میں رہیں جو قرآن کریم کی کھلی تعلیم ہے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تو ان کو جواب دے کہ عفو خرچ کرو.عفو سے مراد یہ ہے کہ اپنی بنیادی ضرورتوں سے جو زائد ہے اس میں سے جتنا چاہو دو.بنیادی ضرورتیں نہ کاٹو سوائے اس کہ بعض مواقع پر دین کی بنیادی ضرورتیں تقاضا کرتی ہیں ایسی صورت میں تو پھر سب کچھ پیش کرنے کا حکم ہو جایا کرتا ہے.لیکن وہ امتیازی حالات ہیں.وقف جدید کے چندے میں زیادہ سے زیادہ شمولیت اختیار کریں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ نہ دیگر چندے متاثر ہوں نہ بنیادی ضرورتوں پر اثر پڑے جہاں تک بھی ممکن ہے زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور کوشش کریں کہ عفو کا ایک بڑا دور اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش ہو یعنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ خدا کی راہ میں پیش کریں.اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر آن آگے کی طرف بڑھاتا چلا جائے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت

Page 307

300 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہر آن آگے کی طرف بڑھ رہی ہے.ایک بھی دن ایسا نہیں آیا اس ابتلاء میں جبکہ کسی جگہ سے یہ بُری خبر آئے کہ جماعت کا قدم پیچھے ہٹ گیا ہے.وقف جدید کی یہ رپورٹ بہت تفصیلی ہے.اس کے پڑھنے کا تو وقت نہیں.میں نے عمومی باتیں آپ کے سامنے بیان کر دی ہیں.اس رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سارے پاکستان میں بفضلہ تعالیٰ ہر جہت سے وقف جدید کا قدم آگے ہی بڑھا ہے.17 دسمبر تک کل وصولی میں قریباً سوالاکھ روپے کا اضافہ ہو چکا ہے جیسا کہ گزشتہ دستور چلا آ رہا ہے اس کی رُو سے جنوری تک یہ وصولیاں ہوں گی اور لکھوکھہا روپیہ جنوری تک مزید وصولی ہونے کی توقع ہے.زائد جتنا بھی وصول ہوگا وہ گزشتہ سال سے بڑھ کر ہے مجھے امید ہے کہ ہر میدان میں جماعت حسب دستور حسب روایات آگے ہی قدم بڑھائے گی ، دعاؤں سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس پر تو کل کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں.دشمن کو ہمارا یہی جواب ہے کہ تم جتنا چاہو زور لگا لو، ایڑی چوٹی کا زور لگاؤ ، جو کچھ تمہاری بساط میں ہے خرچ کر ڈالو ، اپنے گھوڑے، اپنے مال مویشی ، اپنی قو تیں، اپنے لشکر سب جھونک دو مگر آگے ہی آگے بڑھنے سے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ جماعت احمدیہ کے حق میں ہمیشہ پورا ہوتے دیکھو گے.تمہارے دل جلتے ہیں تو اس کا کوئی علاج نہیں.ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے.ایک دن بھی ہم تم سے رکنے والے نہیں ہیں.ہم نہ رکیں گے نہ رک سکتے ہیں اور نہ کبھی یہ ممکن ہے کہ خدا کی جماعتیں کسی میدان میں بھی آکر مات کھا جائیں یا پیچھے ہٹ جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ آگے ہی بڑھاتا چلا جائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: کچھ جنازہ غائب کے متعلق درخواستیں آئی ہیں.خاص طور پر ایک دو فوت شدگان کے لئے مجھے بھی تحریک ہوئی کہ جمعہ پر ہی ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے اور ان کے ساتھ باقی بھی شامل ہو جائیں گے.سب سے پہلے مکرم چوہدری غلام حید رصاحب صدر جماعت چک 56 ضلع بہاولپور کی وفات کا اعلان کرتا ہوں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انکو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے دو بیٹے مربی ہیں.ایک پاکستان میں کام کر رہا ہے اور ایک گھانا میں کام کر رہا ہے.وہ بہت ہی غیر معمولی اخلاص کا جذبہ رکھنے والے بزرگ تھے بہت سادہ طبیعت رکھتے تھے لیکن نہایت اچھے مبلغ تھے.خدا کے فضل سے وہ اپنے سارے رشتہ داروں میں احمدیت پھیلانے کا موجب بنے.ان کے ایک بیٹے ہیں مکرم ناصر احمد صاحب ماہی ، وہ گھانا میں ہیں وہ بھی جنازے میں شامل نہیں ہو سکے.اسلئے ان کے لئے خاص طور پر تحریک ہوئی کہ نماز جمعہ کے ساتھ ہی ان کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے.دوسرا جنازہ مکرم بشارت احمد محمود مبلغ سلسلہ مغربی جرمنی کے چھوٹے بھائی کا ہے یہ عین جوانی کے عالم میں ایک حادثے کا

Page 308

301 حضرت خلیفہ مسیح الرابع شکار ہوگئے.تیسرا جنازہ مکرم چوہدری محمد صادق صاحب جھنگ کا ہے اور چوتھا مکر مہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری بشیر احمد خاں صاحب کا ہے.وہ ہمارے صلاح الدین شمس ( جو منیر الدین صاحب شمس کے بھائی ہیں ) کی خوشدامن تھیں.بشری صاحبہ بنت مکرم نذیر احمد صاحب جنگلی بھی عین جوانی کے عالم میں ایک بچی چھوڑ کر وفات پاگئیں.نیز مکرمہ اہلیہ صاحب مکرم حکیم محمد دین صاحب قادیان اور مکرم ماسٹر امیر عالم صاحب شیخو پورہ ہیں (انکے الفضل میں بہت سے مضمون شائع ہوتے رہے ہیں.جماعت کے بہت سے لوگ ان سے واقف ہوں گے ) وفات پاگئے ہیں.محمد سرور صاحب وہاڑی کی والدہ بھی فوت ہوگئی ہیں.مکرم و محترم صاحبزادہ احمد لطیف صاحب ابن مکرم صاحبزادہ محمد طیب صاحب بھی وفات پاگئے ہیں.وہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے پوتے تھے اور بہت ہی فدائی اور مخلص تھے.جماعتی کاموں میں پیش پیش رہنے والے تھے سارے خاندان میں نمونے کے احمدی تھے.ایک لمبا عرصہ تک بیچارے بیمار اور صاحب فراش رہے اور بڑی تکلیف میں وقت گزارا لیکن بڑے صبر کے ساتھ.یہ جنازے ہیں.ان سب کیلئے خصوصیت کے ساتھ مغفرت کی دعا کی جائے.نماز جنازہ عصر کی نماز کے بعد جو جمعہ کے ساتھ جمع ہوگی ، ادا کی جائے گی.

Page 309

302 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 1987 ء بیت الفضل لندن تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ تَبَوَّوُ الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أَوْتُوْاوَ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ فَفَ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 8 (الحشر : آیت 10 ) اور پھر فرمایا: اس آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے جو مضمون بیان ہوا ہے اس کا آج کے خطبہ سے ایک گہرا تعلق ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں خطبہ کے اس مرکزی حصہ کی طرف آؤں آج وقت سے تعلق رکھنے والی چند ابتدائی با تیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.وقت کیا ہے؟ یہ تو ایک گزرتی ہوئی قدر ہے جس پہ کہیں ہاتھ نہیں رکھا جاسکتا، کہیں انگلی اس پہ نکائی نہیں جاسکتی.ماضی، حال میں اور حال مستقبل میں مسلسل اس طرح بدلتے چلے جارہے ہیں کہ ان کے وقت کا کوئی حصہ بھی کس لمحے کے کروڑویں حصہ میں بھی معین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پیشتر اس کے کہ آپ اسے کہیں معین کریں وہ وقت ماضی بن چکا ہوگا یا ابھی آیا ہی نہیں ہو گا.آپ کو انتظار کرنا پڑے گا اور جب آئے گا تو پیشتر اس کے کہ آپ کا ذہن اس کا تصور بھی کر سکے وہ ماضی میں گزر جاتا ہے.ہم ہر گزرتے ہوئے وقت کو حال سمجھ رہے ہوتے ہیں.نہ ماضی سے ہمارا تعلق ہے کیونکہ در حقیقت وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور نہ مستقبل سے کوئی تعلق ہے کیونکہ اس کا ایک مبہم انتظار ہی ہوتا ہے اور مستقبل کا جو حصہ آتا ہے وہ ہمیں حال دکھائی دیتا ہے حالانکہ وہ دراصل حال ہے ہی نہیں خدا تعالیٰ نے اس کا ئنات کو عجیب بنایا ہے یہ ہمارے لئے بظاہر نہایت ٹھوس بھی ہے اور سوچنے والوں کیلئے اس میں یہ پیغام بھی رکھ دیا ہے کہ اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں یہ تو صرف خالق کا ئنات ہے جو وقت کا مالک بھی ہے.ماضی بھی اس کے علم میں ہے.حال کو بھی وہ جانتا ہے اور مستقبل بھی اس کے احاطہ اختیار میں ہے.پس خدا کے سوا کوئی بھی مالک نہیں.لیکن اس کے باجود انسان کچھ پیمانے گھڑ لیتا ہے.اور یہ پیمانے بھی درحقیقت اس کے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ہوتے قدرت نے انسان کی ذہنی سوچوں کو آسان کرنے کیلئے اور اسے اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لئے وقت کو مختلف ادوار

Page 310

303 حضرت خلیفة المسیح الرابع سے باندھ رکھا ہے.چنانچہ ان ادوار کے حوالہ سے انسان وقت کا ایک تصور قائم کر لیتا ہے.ویسے ساری کائنات میں ایک وقت نہیں ہوتا.وقت کا تصور اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی دور سے باندھ رکھا ہے.مثلاً چومیں گھنٹے کا ایک دن کہلاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین گردش کر کے خاص اس مقام پر واپس آجائے جہاں سے کسی لمحے چلی تھی.لیکن اس مقام کی آپ تعین کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ایک مسلسل گزرتا ہوا وقت ہے.لیکن جائزے کے بعد یہ اندازہ ہو گیا کہ تئیس گھنٹے اور کچھ منٹ بعد یعنی چوبیس گھنٹوں کے لگ بھگ یہ زمین لازماً پھر وہیں پہنچے گی.اس نسبت سے ہر وقت جب یہ زمین چکر لگاتی ہے تو ہمارے وقت کا پیمانہ کم و بیش چوبیس گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے.اور جب سال کا چکر لگاتی ہے تو تین سو پینسٹھ دن میں سے چند سیکنڈ کم یعنی ایک سال کا یہ چکر بنتا ہے.اپنی ذات میں اس کی کچھ بھی قیمت نہیں ہزار دفعہ زمین گردش کر جائے اس سے انسان کو کیا فرق پڑتا ہے.ایک گردش کے بعد دوسری گردش پہلی سے کیوں بہتر ہو.اسکا جغرافیہ سے کوئی تعلق نہیں.یہ انسان ہے جس کو خدا تعالیٰ موقعہ دیتا ہے کہ ہر گردش میں اپنی حالت بدلے اور اپنے وقت کا (جو اس دوران میں اس کو ملا ہے اس کا ) ایسا استعمال کرے کہ جب دوبارہ اس کا سر وہاں ابھرے جہاں وہ ڈوبا تھا جہاں وہ نشان لگا چکا ہے اس وقت میرا ایک دور پورا ہوگا تو پہلے سے بہتر حالت میں ابھرے.اسکے سوا اس دورانی گردش کا اور کوئی بھی مفہوم نہیں.پس جو کچھ بدلتا ہے وہ انسان یا اس کا گردو پیش ہے وقت ایک بظاہر گھومتی ہوئی چیز ہے لیکن فی الحقیقت یہ کچھ بھی نہیں ہے محض ایک تصویر ہے.جو چیز گھوم رہی ہے جو چیز حرکت میں ہے وہ اس پیمانے کے اندر پڑی ہوئی کوئی چیز ہے جو مختلف شکلوں میں ڈھل رہی ہے.اگر وہ بہتر نہ ہو تو محض وقت کے گزرنے کا کچھ بھی پیغام نہیں.کوئی بھی اس کا معنی نہیں.لیکن انسان عجیب خود فراموش چیز ہے کہ جو اصلیت ہے اور جو حقیقت ہے اس کو تو فراموش کر دیتا ہے اور وقت کے ظاہری پیمانے کو پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ اپنی خوشیاں وابستہ کر لیتا ہے.چنانچہ اب یہ جمعہ اس نئے سال کا جمعہ ہے جس میں اب ہم داخل ہو چکے ہیں.اس سے پہلے مغرب نے اپنی خوشیاں اس نئے سال کے دور سے اس طرح وابستہ کیں کہ اتنی شراب پی ، اتنا غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا کہ سارے یورپین ممالک اور دوسرے مغربی ممالک میں پولیس کو کبھی بھی اتنا مصروف نہیں ہونا پڑا جتنا اس نئے سال کے آغاز پر مصروف ہونا پڑا.ان کو مصیبت پڑی ہوئی تھی کہ کس طرح ان لوگوں کو سنبھالیں.ان کا خوشی منانے کا طریق یہ ہے کہ نیا سال چڑھا ہے خوشیوں کا وقت ہے اس لئے ان خوشیوں کا اظہار گناہوں کے ذریعہ کیا جائے.غیر ذمہ داری کے ذریعہ کیا جائے اور کروڑ ہا رو پیڈالرز اور پونڈ ز کی شکل میں ایک دوسرے کو مبارک باد کے پیغام دینے پر خرچ کیا جائے.سوال یہ ہے کس چیز کی مبارکباد

Page 311

304 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ہے؟ وقت کے پہیئے کے گھومنے میں تمہارا ایک ذرہ بھی دخل نہیں ہے.کسی محنت سے یہ پھنسا ہوا پہیہ تم نے نکالا تھا کہ جسے دوبارہ چلانے کی خوشی میں تم ایک دوسرے کو مبارک بادیں دے رہے ہو.کیا واقعہ گزرا ہے جس کے نتیجہ میں مبارکباد کا انسان مستحق ہوا ہے اس لئے اس پہلو سے اگر آپ اس رسم کا جائزہ لیں تو ایک بالکل بے معنی اور کھوکھلی رسم ہے اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں جہاں تک ایک مومن کا تعلق ہے اس کے اوپر بھی یہ دور آتا ہے.مومن بھی ہر دفعہ اس دور کے ایک خاص مقام میں سے گزرتا ہے جہاں وقت کے لحاظ سے اس نے ایک نشان لگا رکھا ہے.یہ 1946ء کا نشان ہے.یہ 47ء کا یہ 48 ء یہ 49ء کا یہ 50ء کا اور اس طرح یہ نشان آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.اس کے دل میں بھی خیال آتا ہے کہ میں بھی مبارک باد دوں.وہ بھی خوشیوں کا اظہار کرتا ہے لیکن اگر وہ حقیقی طور پر عارف ہے تو اس خوشی کے اظہار کی اس کو قیمت دینی پڑے گی بے قیمت اور بے مقصد اور بے وجہ اس کی خوشی کا اظہار اس کے لئے اس پر پھبتا نہیں، اسکے لئے جائز نہیں کیونکہ ایک مومن کا رد عمل ایک کافر کے رد عمل سے بالکل مختلف اور معنی خیز ہونا چاہئے اس کی زندگی کا کوئی حصہ لغوشمار نہیں ہونا چاہئے سو مبارک باد تو دینے کا مومن کو بھی دل چاہتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے بلکہ اگر غور کریں تو صرف اسی کا حق ہے لیکن اس مبارکباد کی اس کو قیمت دینی ہوگی.مبارکبا دان معنوں میں وہ دے سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذمہ جو دنیا کے حالات بدلنے کی اہم ذمہ داری ڈالی ہے اے میرے بھائیو! میری بہنو! میرے بچو! میرے بڑو! اور میرے چھوٹو ! اے مسلمانو! اور اے غیر مسلمانو! میں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں کہ میں ایک نئے عزم کے ساتھ اس سال میں داخل ہورہا ہوں کہ مجھ سے بھلائی پہلے سے زیادہ قوت اور شدت کے ساتھ پھوٹ کر تم تک پہنچے گی.اور میں بالا رادہ یہ کوشش کروں گا کہ میرا فیض نسبتاً زیادہ عام ہو ، اس میں پہلے سے زیادہ قوت ہو اور اس میں کم تعصبات پائے جائیں.میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کروں گا کہ سب سے بڑا فیضان رساں وجود یعنی حضرت محمد مصطفی عملہ کا فیض جس طرح ہر خاص و عام کے لئے عام تھا، ہر شرق و غرب میں بسنے والے کے لئے عام تھا، انسانوں کے لئے بھی تھا اور جانوروں کیلئے بھی تھا، جانداروں کیلئے بھی تھا اور بے جانوں کے لئے بھی تھا، اسی طرح میں بھی اپنے فیض کو ہر اس سمت میں آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا جس سمت میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا فیض موجیں مارتا ہوا بڑھتا رہا.یہ عہد لے کر جب ایک مومن ایک وقت کے نئے دور میں داخل ہوتا ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ دوسروں کو مبارک باد دے اور وہ مستحق ہے کہ اسے مبارکباد دی جائے کیونکہ اس کے اوپر قرآن کریم کی اس آیت کا بھی اطلاق ہوگا ولَلَا خِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأولى (الضحی : 5) خدا کی تقدیر سے مخاطب کر کے یہ کہے گی کہ تم نے میرے اس بندے کی متابعت کی ہے، میرے اس بندے کی پیروی کی ہے

Page 312

305 حضرت خلیفہ مسیح الرابع جس کے متعلق میرا یہ اعلان ہے وَلَلَا خِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الأولی کہ تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہوتا چلا جائیگا.پس اسکی پیروی کے صدقے ہم تجھ سے بھی وعدہ کرتے ہیں کہ تیرا بھی ہر آنے والالمحہ تیرے ہر گزرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہوتا چلا جائے گا.ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اور یہ امید رکھتے ہوئے کہ وہ میرے نیک ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی مجھے توفیق بخشے گا اور آپ کے نیک ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی آپ کو توفیق بخشے گا.میں آپ کو یعنی ساری جماعت احمد یہ عالمگیر کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور تمام جماعت احمد یہ عالمگیر کی نمائندگی میں تمام بنی نوع انسان کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ہمارا فیض تم تک پہلے سے زیادہ سمتوں سے زیادہ بھر پور طور پر پہنچتا ہے.اللہ کرے کہ ہمیں اس عہد کو نبھانے کی توفیق ملے اور ہمارا یہ سال اس طرح ختم ہو کہ گذرتا ہوا وقت ہمیں مبارکباد دے رہا ہو کہ تم نے اپنے ایک مبارک عہد کو خوب نبھایا.اس مضمون کا دوسرا حصہ اس آیت کریمہ سے تعلق رکھتا ہے جس کی میں نے شروع میں تلاوت کی تھی جس میں مومنوں کی بعض صفات بیان کی گئی ہیں جہاں تک مفسرین کا تعلق ہے وہ اس ضمن میں مدینہ میں ہونے والے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ اس آیت کی شان نزول وہ واقعہ ہے.وہ واقعہ بہت خوبصورت اور بڑا دلکش ہے ، بہت اثر پذیر ہے لیکن قرآن کی کسی آیت کا ماضی کے کسی واقعہ سے اس طرح تعلق باندھا نہیں جاسکتا کہ یہ آیت ماضی کی ہو کر رہ جائے.یہ بھی وقت کی طرح قرآن کریم کا ایسا جاری مضمون ہے کہ ہمیشہ کسی ایک لمحہ کا کروڑویں حصہ میں بھی اس کے کسی مضمون کو اس طرح قرار نہیں آیا کہ وہ وہاں ٹھہر جائے.وقت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا ہر مضمون ہر جہت میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہرنئی صورتحال پر نئے رنگ میں اثر انداز بھی ہوتا جاتا ہے اور اس پر اطلاق بھی پاتا چلا جاتا ہے.اس لئے جب بھی شان نزول کا کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس سے یہ مراد نہیں لینی چاہیے کہ صرف اس واقعہ کی خاطر یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مراد یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو نازل ہونا تھا بہر حال اس کے نزول میں بھی یہ ایک عجیب شان ہے کہ برمحل نزول ہوا ہے.قرآن کریم کے دور میں جب کوئی ایسا واقعہ نمودار ہوا جس کے ساتھ کوئی آیت قریب تر تعلق رکھتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا نزول اس وقت کے لئے اٹھا رکھا جب وہ واقعہ رونما ہو اور اس کے ساتھ اس کا تعلق باندھ دیا تا کہ اس کے نزول کے ساتھ ساتھ اس کی تفہیم بھی ہوتی رہے کہ کس قسم کے مضامین ہیں جن کا ان آیات سے تعلق ہے.پس شان نزول سے صرف اتنی مراد ہے.لیکن اس واقعہ کو بیان کرنے سے قبل اس آیت کا ترجمہ کردینا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارے بہت سے

Page 313

306 حضرت خلیفہ مسیح الرابع نوجوان ایسے ہونگے جن کو اس کا ترجمہ نہ آتا ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ تَبَوَّوُا لدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِن قَبْلِهِمْ یعنی انصار جو مدینہ کے بسنے والے ہیں یہ مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی ان گھروں میں بستے تھے مدینہ کو آباد در کھے ہوئے تھے اور ان کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان قبول کر چکے تھے چنانچہ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ اليهم جو لوگ بھی ہجرت کر کے ان کی طرف آتے تھے یہ ان سے گھبراتے نہیں تھے بلکہ بہت محبت کرتے تھے.ان کے گھر تھے جن کو باہر سے آنے والوں نے آبادان معنوں میں کرنا تھا کہ ان کے گھر سے حصہ پانا تھا.ان کے اموال میں شریک ہونا تھا ان کے اوپر دنیا کی زبان میں ایک بوجھ بننا تھا.مگر یہ ایسے عجیب لوگ ہیں کہ ان کے آنے سے ان کے دل میں تنگی محسوس نہیں ہوئی بلکہ یہ آنے والوں سے بہت ہی محبت کرتے تھے.وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا اُوْتُوا اور اللہ اور اس کے رسول جو کچھ بھی ان آنے والوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دیئے ہوئے اموال میں سے کچھ دیتے تھے اس پر ان کے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہیں ہوتی تھی کہ ہم خرچ کر رہے ہیں.ہم قربانیاں کر رہے ہیں جب اللہ تعالیٰ غنیمت کا مال عطا کرتا ہے تو یہ مہاجرین کو دے دیتے ہیں اور انصار جن پر ان کا بے حد قرضہ ہو چکا ہے جو اپنے اموال میں شریک کر کے ان کے سارے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس قسم کا کوئی وہمہ بھی ان کے دل میں نہیں آتا تھا بلکہ وہ خوشی محسوس کرتے تھے کہ ہمارے محبوبوں کو خدا تعالیٰ کچھ اور عطا فرما رہا ہے.اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب ان کو کچھ دیا جاتا تھا تو اس کے لئے کوئی حاجت محسوس نہیں کرتے تھے یعنی ان کی نظر میں کوئی حرص نہیں تھی کوئی لالچ نہیں تھا.یہ نہیں تھا کہ اپنے جذبے دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں ، منہ سے تو نہیں مانگتے لیکن دل میں بے قرار تمنا ہے کہ کسی طرح ہمیں بھی کچھیل جائے بلکہ اگر مانتا بھی تھا تب بھی اس کے لئے اپنے آپ میں ایسی کوئی رغبت محسوس نہیں کرتے تھے کہ گویا تمنا کے بعد کوئی چیز ملی ہے.مگرا انکار بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھوں سے ایک تنکا بھی کسی کو ملتا تھا تو وہ عزت افزائی سمجھتا تھا.پھر فرماتا ہے.وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ بِهِ عجيب لوگ ہیں کہ ان کے اندر یہ ایثار کی حسین عادتیں یہ دلکش اطوار اس لئے نہیں ہیں کہ یہ بہت امیر ہیں اور امارت کی وجہ سے اموال کی کثرت کی وجہ سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا.فرمایا وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ یہ اپنے نفسوں پر اللہ کی راہ میں آنے والوں کو اور دوسروں کی ضروریات کو اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں باوجود اس کے کہ خود سخت تنگی میں مبتلا ہوتے ہیں.یعنی ان میں ایسے بھی ہیں جو خود شدید غربت کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے اوپر اسلام کی ضرورتوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں لذت پارہے ہیں.وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ

Page 314

307 حضرت خلیفہ مسیح الرابع فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.وہ شخص یا وہ لوگ جن کو دل کے بخل سے بچالیا گیا ہے جن کے دل کو خدا نے کشادگی عطا فرما دی ہے ، یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں.اس آیت کے نزول کے وقت جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس محمد صلى الله صلى الله مصطفی ﷺ کے پاس ایسے مہمان پہنچے جن کو ٹھہرانے کیلئے آنحضور ﷺ کے پاس کوئی خاص جگہ نہیں تھی آپ نے اس پر اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے مہمانوں کو اپنے گھر لے جائے.وہ بڑی غربت کا دور تھا اور اس آیت کریمہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ دن خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں پر انتہائی غربت کے تھے.اس وقت انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں آپ کا مہمان میرا مہمان ہے.میں اپنے گھر لے جاؤں گا.چنانچہ آپ نے اس کو اس بات کی اجازت دی اور آنحضرت ﷺ نے اس مہمان کو اپنے ایک نہایت ہی عاشق غلام کے سپر د کر دیا.انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی سے کہا کہ کھانا تو صرف اتنا ہی ہے جتنا کہ تمہارے لئے اور میرے لئے اور بچوں کیلئے مشکل سے پورا آسکتا ہے بلکہ اتنا بھی نہیں.ہم تو گزارہ کر لیتے مگر میں ایک بہت ہی معزز مہمان لے کر آیا ہوں جو اللہ اور رسول کا مہمان ہے اس لئے میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح بھی ہو سکے بچوں کو لوریاں دے کر سلا دو اور جب ہم کھانے پر بیٹھیں تو تم پلہ مار کے دیا بجھا دینا.پھر ہم منہ سے ایسی آوازیں نکالیں گے کہ جس طرح کوئی کھا رہا ہوتا ہے اور مہمان اس اطمینان سے کہ میرے میزبان بھی ساتھ کھا رہے ہیں خوب پیٹ بھر کے کھانا کھائے گا اور وہ کھانا صرف اسی کو کافی ہو گا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.جس وقت یہ واقعہ گزر رہا تھا اس وقت حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر دی اور یہ آیت کریمہ اس واقعہ کی شان میں نازل فرمائی.صبح نماز کے وقت آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان کیا کہ رات اس مدینہ میں ایک ایسا حسین واقعہ گزرا ہے ایک ایسا دلکش واقعہ گزرا ہے اس واقعہ کو دیکھ کر آسمان پر خدا ہنس رہا تھا اور لذت پار ہا تھا.عجیب واقعہ ہے کہ وہ کھانا جس کی لذت سے وہ تو محروم تھے جو کھانا پیش کر رہے تھے لیکن اس کی لذت آسمان پر خدا حاصل کر رہا تھا.اس وقت وہ روحانی لذت جوان کو محسوس ہوئی یہ اسی لذت کی طرف اشارہ ہے ایسا ہی انہوں نے کیا اور مہمان نے خوب پیٹ بھر کے کھانا کھایا.اپنی طرف سے اس اندھیرے میں جس میں مہمان بھی ان کو دیکھ نہیں رہا تھا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم پوری طرح دنیا کی ہر دوسری چیز کی نظر سے غائب ہیں ، اوجھل ہیں.اللہ تعالیٰ اس چیز کو دیکھ بھی رہا تھا، اس چیز سے لطف بھی اٹھا رہا تھا کہ میرے بندے محمد ﷺ نے ان عربوں کو کس قعر مذلت سے اٹھا کر کس شان کے ساتھ آسمان تک بلند کر دیا ہے ان کو کہاں پہنچا دیا ہے.اور پھر اس واقعہ کی خبر بھی وہ دے رہا تھا.خدا تعالیٰ کی ستاری کا معاملہ بھی عجیب ہے

Page 315

308 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اپنے پیاروں کی کمزوریوں اور گناہوں میں ان کی ستاری فرماتا ہے اور جس چیز کو وہ چھپا رہے ہیں اور جن نیکیوں کو وہ ڈھانپ رہے ہیں کہ دنیا کی نظر میں نہ آجائیں بعض دفعہ خودان کی تشہیر فرما دیتا ہے خود ساری دنیا کو اس سے مطلع فرما دیتا ہے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جس دور سے گزر رہی ہے اس پر بھی اس آیت کریمہ کا عجیب شان سے اطلاق ہو رہا ہے.انتہائی تکلیفوں کے دور میں بھی انتہائی مشکلات کے دور میں بھی خدا کی راہ میں قربانی دینے میں اس جماعت کا قدم نہ صرف یہ کہ آگے بڑھ رہا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، نہ صرف یہ کہ ان علاقوں میں آگے بڑھ رہا ہے جہاں مصائب اور مشکلات نہیں ہیں بلکہ ان علاقوں میں آگے بڑھ رہا ہے جہاں حد سے زیادہ مصائب اور مشکلات ہیں.خدا کی راہ میں قربانی کرنے کا کوئی ایک بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں پاکستان کی جماعتیں ایک لمحہ کیلئے بھی پیچھے ہٹی ہوں.ہر نیکی کے میدان میں وہ خدا کے فضل سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہیں.آج میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرنے کیلئے کھڑا ہوا ہوں.اس سال میں بھی خدا کے فضل سے ساری عالمگیر جماعت کو جہاں دیگر مالی و جسمانی اور روحانی قربانیوں میں آگے قدم بڑھانے کی توفیق ملی وہاں وقف جدید نے بھی خدا کے فضل سے ہر پہلو سے، ہر جہت سے، اللہ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی ترقی کی ہے.اور وقف جدید کی جو اجتماعی رپورٹ ناظم صاحب وقف جدید مکرم اللہ بخش صادق صاحب نے بھجوائی ہے اس کی رو سے گذشتہ سارے سال کی کل وصولی چودہ لاکھ ستاسی ہزار روپے تھی اور امسال تاریخ رپورٹ تک جس کے بعد بھی لاکھوں روپیہ وصول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اٹھارہ لاکھ ستر ہزار روپے وصولی ہو چکی تھی یعنی گذشتہ سال کے مقابل پر تین لاکھ تر اسی ہزار روپے زیادہ ہیں.اور ہمیں جو خوشکن پہلو ہے جو میں نے تفصیلی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد معلوم کیا وہ یہ تھا کہ بعض ایسے علاقے جہاں جماعت احمدیہ کو خاص طور پر انتہائی تکلیفوں اور مصیبتوں کا نشانہ بنایا گیا وہاں بھی اللہ کے فضل سے نہ صرف گذشتہ سال کی نسبت دیگر چندوں اور وقف جدید کے چندے میں بھی ترقی ہوئی بلکہ بعض ایسی جگہوں میں باقی سب جماعتوں سے زیادہ ترقی ہوئی.مثلاً کوئٹہ ہے جو گزشتہ سال بڑے بھاری ابتلاء میں سے گزرا ہے اور اسکی مسجد بھی منہدم کر دی گئی اور ہر طرح سے جماعت کو وہاں تکلیفیں پہنچائی گئیں اور ابھی بھی وہ سردیوں میں بڑی مشکل کے ساتھ کہیں جمعہ کا اجتماع کرتے ہیں اسکے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسی کے انعام کے طور پر اس ابتلاء کے فیض کے طور پر اللہ تعالیٰ نے کوئٹہ کوگزشتہ سال سے کئی گنا زیادہ مالی قربانی میں آگے قدم بڑھانے کی توفیق بخشی.اسی طرح دیگر جماعتیں ہیں جن کی تفصیل لمبی ہے ان پر میں نے نشان لگائے یہ دیکھنے کیلئے کہ جہاں جہاں ابتلاء آئے ہیں وہاں کیا حال ہے تو میں یہ دیکھ

Page 316

309 حضرت خلیقہ امسیح الرابع کر حیران ہوا کہ خدا کے فضل کے ساتھ جہاں جہاں ابتلا آئے ہیں وہاں اللہ کے فضل سے نہ صرف قدم آگے بڑھا ہے بلکہ بعض جگہ کئی گنا آگے بڑھا ہے.کوئٹہ کی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے ساہیوال کی اب رکھتا ہوں.ساہیوال میں سارے سال کا وقف جدید کا چندہ تین ہزار آٹھ سو پچھتر روپے تھا اس سے پچھلے سال اور ابتلا کے بعد دس ہزار ایک سو ننانوے ہو گیا یعنی تقریباً دگنا اور باقی سب جماعتوں کی لمبی تفصیل ہے.کہیں اگر د گنا نہیں ہوا تو بہر حال پہلے سے بڑھا ضرور ہے.خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں مالی تنگی بھی بہت دی گئی جہاں تجارتوں کو نقصان پہنچا اور بظاہر یہ خطرہ تھا کہ ان سب جگہوں میں مجبور ہو کر احمدی اپنے چندوں میں کمی کریں گے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کیسا تھ ان کے اندر خدا کی راہ میں قربانی کرنے کا جو جذبہ تھاوہ پہلے سے کئی گنا زیادہ قوت پکڑ گیا اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قربانی کے پیچھے انہوں نے اپنی کیا کیا ذاتی ضروریات نظر انداز کی ہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے بچوں پر خرچ کرنے میں کیا تنگی کی ، اپنے گھر پر خرچ کرنے میں کیا تنگی کی ، اپنے رہن سہن کے معیار کو کس حد تک گر ایا ، مگر عمومی نظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ بہت سی جماعتوں کے حالات میں جانتا ہوں اس ایک دو سال کے اندر انکے مالی ذرائع غیر معمولی طور پر آگے نہیں بڑھے اور جو تجارت پیشہ احمدی ہے اس کی اطلاعات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ان جگہوں میں بہت سی جگہوں پر بڑی کثرت کے ساتھ منظم طریق پر ان کے بائیکاٹ بھی کئے گئے ہیں اور وہاں سے جو دعاؤں کے خط آتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے ہونہار طالب علموں کو بھی جنہوں نے بڑی نمایاں کامیابی کے ساتھ تعلیم سے فراغت حاصل کی ہے ان کو بھی نوکریوں سے محروم کیا گیا، ان جگہوں میں بعض لوگ اچھی ملازمتوں پر تھے ان کو فارغ کیا گیا ، جن کو ترقیات ملنی چاہیے تھیں ترقیات دینے کی بجائے ان کو پہلے مقام سے بھی نیچے اتار دیا گیا.کئی قسم کی مصیبتیں مشکلات ایسی ہیں جن کا ان جماعتوں پر براہ راست اقتصادی اثر پڑا ہے اس لئے میں نے جب یہ جائزہ لیا تو خصوصیت سے اسی خیال سے جائزہ لیا کہ ان کے چندے کم ہوئے ہوں گے ان میں کچھ کمزوری کے آثار ایسے ظاہر ہوئے ہوں گے کہ جہاں نظر پڑے گی تو انکے لئے دعا کی توفیق ملے گی کہ یا خدا ان کی مجبوریاں دور فرمادے تا کہ کھل کر تیری راہ میں یہ آگے بڑھ کر قدم اٹھائیں اور آگے سے زیادہ قربانیاں دیں.لیکن جب میں نے دیکھا تو میرے دل کا عجیب حال ہوا کہ قربانیوں کے معاملہ میں یہ تو میری دعاؤں کے محتاج نہیں.ان کی قربانیاں دعائیں اور رنگ میں مانگ رہی ہیں ،تحسین کے رنگ میں، شکر کے رنگ میں خدا کی حمد بیان کرنے کی طرف توجہ دلا رہی ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ تم پر انکا حق ہے ان صلى الله کے لئے خوب دعائیں کرو.یہ خدا کے وہ بندے ہیں جو محمد مصطفی ﷺ کے سوا کوئی دنیا کا سردار تیار نہیں کر

Page 317

310 حضرت خلیفة المسیح الرابع سکتا انہوں نے اپنے اخلاق سے اپنے اطوار سے اپنی قربانیوں سے ثابت کر دیا ہے کہ محمد کے سوا کسی کو یہ آقا نہیں مانتے اسی کے غلام ہیں اسی کے گھڑے ہوئے جو ہر ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے دن بدن اور زیادہ صیقل ہوتے چلے جارہے ہیں.پس اس لحاظ سے جہاں میرے دل میں ان کے لئے دعاؤں کی تحریک پیدا ہوئی وہاں میں باقی دنیا کی جماعتوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی ان پیارے مظلوم بھائیوں کو بہت دعاؤں میں یاد رکھیں یہ بڑے بہادر جوان ہیں خدا کی راہ کے شیر ہیں انتہائی خوفناک مظالم کا شکا رہونے کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی بلکہ ان کا عزم اور زیادہ بلند ہوا ہے اور زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ گہرے عزم کے ساتھ پختہ ارادوں کے ساتھ یہ خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.اس لئے آپ جو نسبتا آسان زندگی گزرا رہے ہیں یعنی باہر بسنے والے احمدی ان پر فرض ہے کہ ان کو خاص طور پر اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور محبت بھری دعاؤں میں یا درکھیں دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی دعاؤں میں یا درکھیں.جہاں تک باقی دنیا کی جماعت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی یہی منظر دکھائی دے رہا ہے اور کوئی بھی ایسی دنیا کی جماعت نہیں ہے جہاں کسی بھی چندے کے لحاظ سے کسی قسم کی کمزوری آئی ہو بلکہ بعض جگہ چند سالوں کے اندر مجموعی چندہ کئی گنا آگے بڑھ چکا ہے.جب سے میں انگلستان آیا ہوں یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے انگلستان کی جماعت کو انصار کے بعض رنگ دکھانے کی توفیق بخشی ہے اور اگر آپ چھپ کے بھی خدمات کر رہے ہوں رات کے اندھیروں میں بھی کر رہے ہوں تو جس خدا نے اس گھر میں ہونے والے واقعہ پر نظر فرمائی تھی اس کی نظر سے آپ کی نیکیاں بھی اوجھل نہیں ہیں اور وہ ان انصار کی نیکیوں کو بھی بڑی محبت اور پیار کی نظر سے نوازتا چلا جارہا ہے اور اس کے کئی نیک اثرات اپنے گردو پیش میں اپنے ماحول میں اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی نیکیوں میں ان کے دل میں زیادہ سے زیادہ دین کی محبت پیدا ہونے کے نتیجہ میں آپ کو نظر آرہے ہونگے.جہاں تک مالی قربانی کا پیمانہ ہے اس پیمانہ کے ذریعہ اگر جانچا جائے تو جماعت انگلستان اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں کسی دوسری جماعت سے پیچھے نہیں ہے بلکہ بہت سی چیزوں میں خدا کے فضل سے ساری دنیا کے لئے نمونہ بن رہی ہے.وقت کی مسلسل قربانی کے لحاظ سے بھی اور اموال کی قربانی میں بھی آگے قدم بڑھانے کے لحاظ سے ماشاء اللہ انگلستان کو غیر معمولی توفیق مل رہی ہے مجھے یقین ہے کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ صرف روحانی نہیں بلکہ دنیاوی فضل بھی آپ پر بہت فرمائے گا.تحریک جدید کا جو گذشتہ سال کا وعدہ تھا خدا کے فضل سے جماعت انگلستان کو اس سے آگے قدم بڑھانے کی توفیق ملی.

Page 318

311 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پچھلے سال میں نے وقف جدید کو بھی عالمگیر تحریک کر دیا تھا اور خدا تعالیٰ نے جماعت کو اس کا بہت ہی فائدہ پہنچایا.معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر تسلط تھا جس کے نتیجہ میں اس تحریک کو عالمگیر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ضرورت سے بڑھ کر دل میں بڑے زور سے ایک خواہش اٹھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسے عالمگیر کیا جائے کیونکہ اس کے بعد جب ہندوستان کے حالات پر میری نظر پڑی تو شدھی کی وجہ سے جماعت کو وہاں بہت روپے کی ضرورت تھی اور ہندوستان کی جماعتوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر وہاں شدھی کی طرف توجہ کر سکیں.اور اس کے علاوہ بھی ہندوستان میں جو تبلیغ کے میدان کھل رہے ہیں وہ غیر معمولی ہیں.نئی نئی قوموں میں نئے نئے علاقوں میں خدا کے فضل سے ترقیات کے بڑے بڑے دروازے کھل رہے ہیں.جو سوئی ہوئی جماعتیں تھی وہ جاگ اٹھی ہیں ان کے اندر نئے ارادے پیدا ہور ہے ہیں.اس پہلو سے ہندوستان ذہن میں تھا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اتنی شدت سے شدھی کے سلسلہ میں روپے کی ضرورت پڑے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر کی جماعتوں کو نمایاں طور پر وقف جدید میں حصہ لینے کا موقعہ ملا اور انگلستان کی جماعت نے بھی ماشاء اللہ دس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا.جس میں سے اس وقت تک چھ ہزار سات سو تک وصول ہو چکا ہے.باقی امید ہے انشاء اللہ آئندہ مہینے کے اندر اندر یعنی اسی ماہ کے اندر وصول ہو جائے گا اور آئندہ سال کے لئے امیر صاحب انگلستان نے اس وعدہ کو بڑھا کر گیارہ ہزار پاؤنڈ کر دیا ہے یعنی یہ انگلستان کا پہلے سال کا وعدہ ہی اتنا ہے جو وقف جدید کے آغاز کے وقت دو تین سال تک نہیں ہو سکا تھا یعنی پاکستانی کرنسی میں اگر اس کو تبدیل کریں تو دو لاکھ پچاس ہزار کے قریب وعدہ بنتا ہے اور وقف جدید کیساتھ میں پہلے سال بلکہ پہلے دن سے ہی منسلک رہا ہوں اس لئے مجھے پتہ ہے کہ شروع کے دو تین سال تک ہم دو لاکھ سے اوپر نہیں تھے نیچے تھے تو اللہ تعالیٰ جہاں ضرورتیں بڑھا رہا ہے وہاں خدا کے فضل سے جماعت کی طاقتیں بھی بڑھاتا چلا جارہا ہے اس کا دل کھولتا چلا جارہا ہے.کسی مقام پر بھی ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ کام آپڑا ہے اور روپیہ نہیں ہے.ایسی والہانہ محبت کیساتھ خدا کی راہ میں جماعت خرچ کرتی ہے کہ بلاشبہ فی زمانہ جس کی کہیں اور کوئی مثال نہیں ملتی اس میں کوئی شک نہیں ہے.دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے میں جماعت احمدیہ کی پاتال کو بھی پہنچ سکے اور اس کیلئے حضرت مصلح موعودؓ نے بڑے لمبے عرصہ تک محنت کی ہے اس محنت کو بھی بھلانا نہیں چاہیے.آج ہمارے دل کھلے ہیں آج ہمارے ہاتھ بندشوں سے آزاد ہوئے ہیں اور کھل کر بڑی قوت کے ساتھ خدا کی راہ میں جوش کیساتھ اپنی جیبیں خالی کرتے ہیں.تو یہ چیز اچانک پیدا نہیں ہوئی ایک لمبے عرصہ (باون سال) تک حضرت مصلح موعود

Page 319

312 حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے اس معاملہ میں جماعت پر محنت کی ہے بے انتہا ایسے خطبات دیئے ایسی تقاریر کیں ایسے قرآن کریم کے نکتے بیان کئے قربانیوں کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ رفتہ رفتہ جماعت کو ایک بہت ہی بلند مقام پر پہنچا دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس مقام پر جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک قائم رکھے اور اس روپے کی حفاظت کرنے والے متقی فرمانبردار کارکن عطاء کرتا رہے.مجھے تو یہی فکر گی رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہی فکر تھی آپ کو اللہ تعالیٰ نے جب کشفی نظاروں میں بتایا کہ بے انتہا اموال ہیں جو اللہ تعالیٰ جماعت کے قدموں میں ڈالے گا تو آپ کو یہ فکر لگی ہوئی تھی کاش ان اموال کو سنبھالنے والے متقی نیک دل لوگ مالوں سے مستغنی خدا کی راہ میں خود بڑھ کر قربانی کرنے والے اور امین مجھے ملیں جوان اموال کی حفاظت کریں.اب خدا کے فضل سے اب ان وعدوں کے پورا ہونے کا دور آ رہا ہے.صرف امانت کیلئے دعا کرنے کا وقت نہیں بلکہ تقویٰ کے لئے بھی دعا کرنے کا وقت ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ تقویٰ سے یہ روپیہ پھوٹتا ہے لیکن جب پھوٹتا ہے تو بعض لوگوں کے تقوی کو ڈگمگا بھی دیتا ہے ان کیلئے ابتلا بھی بن جاتا ہے مگر خدا نہ کرے کہ جماعت کسی ایسے دور میں داخل ہو.ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا لیکن دعا ضرور کرنی چاہیے.آج ہی سے دعا شروع کرنی چاہیے.آج کیلئے بھی کل کے لئے بھی پرسوں کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں دل اتنے کھول دیئے ہیں ظرف بڑھا دیئے ہیں ،اموال میں برکتیں دے رہا ہے ضرورتیں پوری فرما رہا ہے تو وہاں پھر اپنے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کا تقویٰ رکھنے والے امین خدا کی راہ میں پیسہ پیسہ مناسب جگہوں پر خرچ کرنے والے متقی خادم دین بھی عطا فر ما تا رہے.وقف جدید کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کثرت سے ایسے خادم دین میسر ہیں جو نہایت قربانی کیساتھ بے نفسی کے ساتھ بڑے مشکل حالات میں جماعت کی خدمت کر رہے ہیں اور سارے پاکستان میں بڑی غریبانہ زندگی بسر کرتے ہوئے بغیر شکوہ زبان پر لائے ہوئے دیہاتی جماعتوں کی حالت سدھارنے میں مصروف ہیں.اسی طرح ہندوؤں کے علاقہ میں انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے.اس سال کی جور پورٹ ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب اس علاقہ میں قحط کے باعث فاقہ کشی تھی تو اس وقت جماعت کی طرف سے ان ہندوؤں اور نو مسلموں کی خاص طور پر بہت خدمت کی گئی ہے.مگر غربت اور قحط کے بعض ایسے دور وہاں آئے کہ جن میں پھر جماعت نے ہندو اور مسلمان میں فرق نہیں کیا.خدا کے بندوں کو ایسے موقع میں ایک ہی نظر سے دیکھنا پڑتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کو یہ توفیق ملی کہ ان کی بھوک کی شدت کو کم کیا.ان کو زندہ رکھنے کیلئے کم سے کم زندگی کا گزارہ مہیا کیا.اگر چہ پوری طرح پیٹ

Page 320

313 حضرت خلیفہ امسیح الرابع بھرنے کی جماعت میں استطاعت ہی نہیں تھی لیکن ان کی مدد کی ان کو وقت کے اوپر وقف جدید کے کارکنان نے سندھ کی ایسی جماعتوں میں پہنچا دیا جہاں خدا کے فضل سے ان کیلئے دیکھنے والے ان کا خوردونوش کا انتظام کرنے والے بھی اور ذریعہ روزگار مہیا کرنے والے لوگ بھی موجود تھے جماعتوں نے وقت کے اوپر ان کو سنبھالا یہ بھی بڑی خدمت ہے.اس دفعہ کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی نقالی میں جماعت مودودی بھی اس میدان میں کو دی ہے اور ظاہر بات ہے کہ ان کو کہیں سے روپیہ ملا ہوگا تو انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ورنہ بغیر روپیہ ٹپکے ہوئے وہ تو اس میدان میں نہیں ٹپکا کرتے اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے یہ روپیہ عموماً امریکہ کا ہوتا ہے.ایک دفعہ پہلے پاکستان میں پی ایل اونمبر 80 سکیم چلی تھی کہ امریکہ پاکستان کو گندم کی امداد دے گا اور اس کی آمد امریکہ باہر نہیں لے جائے گا بلکہ پاکستان میں خرچ کرے گا.ان دنوں انہوں نے عیسائی مشنز کے ذریعہ ان علاقوں میں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں بہت روپیہ تقسیم کرایا تھا ، بہت خوراک بھیجی تھی اور اس ذریعہ سے ان کو عیسائی بنانے کی کوشش کی تھی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کو خدا نے یہ توفیق بخشی کہ اس نے ان کی اس ساری تحریک کو بالکل ناکام بنا کے رکھ دیا.ایک آنہ بھی خیرات کا ان کو نہیں دیا.بغیر پیسے کے پیسوں والوں سے مقابلہ کیا اور ان کے ایمان کو بچایا اور عیسائی ہونے کی بجائے خدا تعالیٰ نے انکو مسلمان بننے کی توفیق بخشی اور وقف جدید کو اس خدمت کا موقع عطا فرمایا.اب وہاں غالبا وہی روپیہ میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن جو حالات نظر آ رہے ہیں امریکہ جس طرح ہمیشہ سے ان جگہوں پر روپیہ خرچ کرتا ہے وہ مودودی جماعت کے ذریعہ ) تقسیم ہوا ہوگا امریکہ نے نہیں دیا تو زکوۃ میں سے انکو کچھ ملا ہوگا.بہر حال جو بھی ہے انفرادی مالی قربانی کا اس میں دخل نہیں.کہیں سے روپیہ آتا ہے خرچ کرنے کیلئے تو ایسے لوگ ایسے کاموں کیلئے آمادہ ہوتے ہیں جنہیں اس میں سے حصہ بھی ملتا ہے جس میں سے ان کو کئی قسم کی سہولتیں مہیا ہوتی ہیں.بہر حال وقف جدید کی رپورٹ تھی کہ وہ بھی میدان میں کو دے ہیں اور انہوں نے اس دفعہ خاص قحط کے زمانہ میں خرچ کیا ہے.جہاں تک اس بات کی فی ذاتہ نیکی کا تعلق ہے اس سے جماعت احمدیہ کو ان سے کوئی حسد نہیں.اگر جماعت احمدیہ کی شدید ترین دشمن جماعتیں بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی میں کوئی نیک کام کریں تو بڑی اچھی بات ہے نیک کام انکو بھی کرنا چاہیے.خدا کے بندوں کے دُکھ دور ہونے چاہیں.یہی ہمارا مقصد حیات ہے.لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس ذریعہ سے وہ صداقت کو نقصان پہنچائیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو نقصان پہنچائیں اور یہ کوشش کریں کہ لوگوں کے دل احمدیت سے ہٹ جائیں اور وہ پھر یا واپس ہندو ہونا شروع ہو

Page 321

314 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع جائیں یا کم سے کم احمدیت سے ارتداد اختیار کر کے کوئی اور فرقہ اختیار کر لیں ، اگر یہ ان کی نیت ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس میں وہ یقینا نا کام رہیں گے.پہلے بھی ایسی کوششیں ہو چکی ہیں پہلے بھی وہ ناکام رہے ہیں.جن لوگوں کو ہم نے لالچ دے کے احمدی بنایا ہی نہیں وہ لالچ سے ان کے ہاتھ آنے والے بھی نہیں.اگر پیسہ دے کے بنایا ہوا ہوتا تو پیسہ ان کو کھینچ کر لے جاتا.لیکن ان کو تو ہم نے اس طرح بنایا ہے کہ اسلام کی محبت ان کے دل میں پیدا کی ہے ، خدائے واحد و یگانہ پر ایمان اور یقین ان کے دلوں میں پیدا کیا ہے ان کے اوپر بھی اس رنگ میں یہ آیت اطلاق پاتی ہے کہ انتہائی غریب لوگ ہونے کے باوجود ہم نے ان کو دین کی راہ میں چندوں پر آمادہ کیا اور انہوں نے چندوں میں شامل ہونا شروع کر دیا.میں نے خود بھی اس علاقے کا دورہ کیا اور ان کو میں نے یہ پیغام دیا کہ دیکھو ہم تمہیں انسان بنانے کیلئے آئے ہیں.انسان سے جانور بنانے کیلئے نہیں آئے تمہارے اندر بعض خوبیاں پائی جاتی ہیں.ہم ان کو تباہ کرنے کیلئے نہیں آئے ، اس لئے اگر تم نے روٹی امریکہ سے مانگنی ہے تو بے شک مانگومگر اخلاق حسنہ ہم تمہیں دیں گے.خدا کی راہ میں ایثار کے آداب اور طریق ہم تمہیں سکھائیں گے.اس لئے جماعت احمد یہ تو بجائے تمہیں دینے کے یہ کہنے آئی ہے کہ خدا کی راہ میں تم بھی چندے دینے شروع کرو تمہیں بھی اپنے اندر ایک عزت کا احساس پیدا ہو گا چنانچہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے نو مسلموں نے چندے دینے شروع کئے اگر چہ وہ چندے تھوڑے تھے مگر انہوں نے اپنی غربت کے حالات کے مطابق دینے ضرور شروع کئے.وقف جدید کو میں اس سال اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ان کی ضرورتیں پورا کرنے کیلئے خواہ لاکھوں روپے بھی خرچ کرنا پڑیں خرچ کرنا چاہیے.اور جس طرح ہم پہلے کرتے تھے کہ قرض دیتے تھے تا کہ بھیک مانگنے کی عادت نہ پڑے عمومی طور پر قرض کا طریق ہی رکھیں اور ان کو سہولت دیں.جب خدا ان کو توفیق دے تو وہ اس قرض کو واپس کریں.لیکن جہاں احتیاج کے رنگ میں انفرادی ضرورت ہے وہ ان کے حق کے طور پر ان کو ملنا چاہیے جس طرح کہ دوسرے علاقوں میں جماعت کی طرف سے قرض کی بجائے صدقات اور زکوۃ میں سے دیا جاتا ہے.لیکن ساتھ ہی اس بنیادی نکتہ کو نہیں بھولنا چاہیے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ان کو ضرور ڈالنی ہے اس کے بغیر ان کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا.اس کے بغیر اسلام کا پودا نمو پکڑتا ہی نہیں ہے جس طرح ایک آدمی ایک ٹانگ کے بغیر بھی انسان کہلا سکتا ہے مگر اس کے بغیر اس کا وجود مکمل نہیں بنتا مگر پورا وجود نہیں بنتا اسی طرح خدا کی راہ میں مالی قربانی کیے بغیر مومن کا وجود پورا بنتا ہی نہیں.اس لئے ان پر رحم کریں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ جتنے نو مسلم پہلے آئے تھے وہ بھی اور جتنے نئے شامل ہوں وہ بھی ضرور

Page 322

315 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خدا کی راہ میں کچھ نہ کچھ دیں.جب وقت آئے گا ان کی امداد بھی ہو گی لیکن امداد کے وقت بھی ان کو قربانی کا ایسا چسکا ڈال دینا چاہیے کہ اس امداد میں سے بھی وہ کچھ خدا کی راہ میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں.قادیان میں ایسے بڑے بڑے خوبصورت واقعات رونما ہوتے رہے ہیں کہ غریب مہاجر جو خالصہ جماعت کے عطا کردہ چندے پر پل رہا تھا جب حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ تحریکات کرتے تھے تو وہ اسی عطیہ سے بچا کر چندہ دیا کرتا تھا.ایک خاتون کے متعلق واقعہ پہلے بھی سنا چکا ہوں اس نے دو آنے پیش کئے شدھی کی تحریک کے وقت اس حالت میں کہ اس کی آنکھ سے آنسو جاری تھے اور کہ رہی تھی یہ شلوار بھی جماعت کی ہے یہ میض بھی جماعت کی ہے یہ دوپٹہ بھی جماعت کا ہے یعنی جماعت نے مجھے دیا ہے اور یہ دو آنے جو پیش کر رہی ہوں یہ بھی جماعت نے مجھے دیئے تھے.اس نے اس رنگ میں قربانی کی کہ اس کا حسن حضرت مصلح موعودؓ کے دل پر اس طرح ثبت ہو گیا کہ بارہا اس کو بیان فرماتے رہے کہ اس وقت اتنا عظیم الشان واقعہ رونما ہوا تھا.بعض لوگ شاید اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہ واقعہ جو ہے یہ عملاً ہم سب کی زندگی میں روزانہ رونما ہوتا ہے.جب ہم خدا کو دیتے ہیں تو یہ سمجھ کے دینا چاہیے کہ جو کچھ ہم دے رہے ہیں وہ خدا کا ہی دیا ہوا ہے.اگر دیں گے کہ اے خدا یہ جو میں تیرے حضور پیش کر رہا ہوں یہ تیرا ہی دیا ہوا ہے تو نے ہی تو دیا تھا میرا سارا وجود تیرا ہی ہے میرا گھر میرے بچے میرے اہل وعیال میرے رشتہ دار غرضیکہ تمام چیزیں جن سے میں فائدہ اٹھاتا ہوں جن سے لطف اٹھاتا ہوں سب کچھ تو نے دیا ہے.مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں تیرے حضور کچھ پیش کر رہا ہوں مگر دل کی تمنا ہے کہ پیش کروں اس لئے تیرا ہی دیا ہو اپیش کر رہا ہوں اس کو قبول فرما تو اس طرح ہر ایک قربانی حسین ہو جائے گی.روزانہ ہم یہی کرتے ہیں لیکن خیال نہیں آتا اور اکثر لوگ یہ بھول کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کو کچھ دے رہے ہیں.حالانکہ خدا کو کون دے سکتا ہے.ہماری مثال بے بضاعتی کے لحاظ سے اس غریب پٹھان مہاجر عورت سے بھی کئی گنا آگے ہے.اس کو تو جو کچھ جماعت نے دیا تھا اس میں سے بچا کر وہ خدا کی راہ میں پیش کر رہی تھی.اس کے علاوہ وہ سوت کات کے کچھ خود بھی کمالیتی تھی ہمارا جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے، ایسے کسی مال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو خدا کے سوا کسی اور طرف سے نہیں ملتا.ہم جو کماتے ہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے ہی کماتے ہیں.اگر اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ وقف جدید کی قربانیوں میں یا دوسری قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیار کا سلوک فرماتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دل پر مہاجر عورت کی قربانی کا واقعہ ہمیشہ کیلئے ثبت ہو گیا تھا.

Page 323

316 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اس سے ہی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں مومن کی ہر ادا خدا کے قلب صافی پر کیسے حسین نقش پیدا کرتی ہے.میں قلب صافی کا لفظ محاورے کے طور پر استعمال کر رہا ہوں ورنہ خدا کا تو کوئی قلب نہیں.عرش ہے مگر اس کا بھی ظاہری وجود نہیں.پس ان معنوں میں بندہ خدا کیلئے وہ لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہے جو خدا کی ذات کے متعلق استعمال نہیں ہو سکتے.مگر بات کو قابل فہم بنانے کیلئے اس کے سوا چارہ بھی نہیں.جماعت احمد یہ عالمگیر اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ اس عورت کے جذبہ قربانی نے وقت کے امام کے دل پر گہرا اثر کیا تھا اپنے خدا کے حضور اس رنگ میں قربانیاں پیش کرتی رہے کہ خدا کے قلب صافی پر جماعت کی قربانیوں کے حسین نقش جمتے رہیں اور جس طرح اس اندھیرے میں ہونے والے مچاکوں کا مزہ خدا آسمان پر اٹھا رہا تھا اس طرح ہمارے سب کے دل میں گزرنے والے جذبات کا مزہ عرش پر خدا اٹھانے لگے اور وہ کہے کہ اے میرے بندو ! میری تم پر تحسین اور پیار کی نظر ہے اور جو کچھ تم دے رہے ہومیں سب کچھ قبول کرتا ہوں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جنازہ غائب کے چند اعلانات ہیں.سب سے پہلے تو جماعت کو یہ خبر افسوس سے سناتا ہوں کہ ہمارے ایک بہت ہی مخلص خادم دین سالکین صاحب جو جماعت احمد یہ سنگا پور کے امیر تھے کل صبح وفات پاگئے ہیں.وہ دل کے مریض تھے اسکے باوجود جماعت کا کام کرتے رہے دوبارہ دل کا ہی دورہ ہوا یعنی بڑی دیر سے دل کی حالت زخمی تھی اور کسی وقت بھی ان کو خطرہ تھا لیکن وہ کبھی بھی کام سے نہیں رکے.ایک دفعہ ان کی بچی کا ربوہ میں بھی خط آیا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کا حال کیا ہے؟ اور کئی دفعہ ہم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کام چھوڑ نہیں سکتے تو اپنے پر سے بوجھ ذرا ہلکا کر لیں انہوں نے لکھا کہ وہ کسی قیمت پر بھی کام میں تخفیف کرنے پر تیار نہیں ہوتے.وہ کہتے ہیں جماعت کا کام میں نہیں چھوڑ سکتا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ توفیق دی کہ جس مسجد کے بنانے کی بڑے دیر سے تمنا تھی وہ مکمل ہوئی اور بڑی خوبصورت مسجد تیار ہوئی.پھر اس کو دیکھا پھر اس میں نمازیں ادا کیں.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اور برکتیں دیں تبلیغ کا سلسلہ شروع ہو گیا جو بڑی دیر سے رُکا ہوا تھا.لیکن اگر دل کی بیماری نہ ہوتی تو اتنی عمر نہیں تھی کہ انسان سمجھے کہ رخصت ہونے کی عمر آگئی تھی.ہم یہی کہہ سکتے ہیں اور کہنا چاہئے کہ خدا کی تقدیر ہی تھی جو پوری ہوئی.بہر حال وہ ہمارے دل کو حزیں بنا کر جدا ہوئے ہیں.ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.مکرم فقیر محمد صاحب موہی جو کنری سندھ کے رہنے والے تھے فوت ہو گئے ہیں یہ وہ دوست ہیں جن کا میں نے ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی لمبی عمر عطا فرمائی تھی.جب میں پہلی دفعہ ان سے ملا ہوں اس وقت بیان

Page 324

317 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کیا جاتا تھا کہ ان کی ایک سو پندرہ سال کی عمر ہے اگر عمر اتنی نہ بھی تھی تو یہ تو پتہ لگتا تھا کہ سوسال سے اوپر ہے.بہر حال اس واقعہ کو بھی پندرہ بیس سال ہو چکے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کا دماغ بالکل صاف رکھا.جو رپورٹ آئی ہے اس میں بھی لکھا ہوا ہے کہ آخر وقت تک دماغ بالکل صاف تھا اور میرے بارہ میں پوچھتے تھے کہ وہ کب واپس آئے گا.ان کے دل میں بڑی تمنا تھی کہ میں انکی نماز جنازہ پڑھاؤں.دوسرے ان کی ایک خاص دلچسپ ادا یہ تھی کہ اپنا کفن بنوا کے اور بعض دفعہ آب زم زم میں ڈبو کر اور اسی طرح اپنا تابوت بنوا کے رکھا کرتے تھے.کفن اور تابوت کو پڑے ہوئے اتنی دیر ہو جاتی تھی کہ کئی دوسرے فوت ہو جاتے تھے اور یہ زندہ رہتے تھے تو بعض دفعہ اچانک ضرورت کے وقت انکے عزیز انکا بنایا ہوا تابوت اور کفن دوسروں کو دے دیا کرتے تھے.ان کے بچے بڑے خدمت گزار ہیں ایک دفعہ مجھ سے شکایت کی کہ ان کو ذرا سمجھائیں میرا کفن لوگوں کو دے دیتے ہیں میں نے کہا آپ کا کفن کس طرح دے سکتے ہیں کیا مطلب؟ تو پھر انہوں نے واقعہ بتایا کہ کہ کس طرح میں کفن اور تابوت بنواتا ہوں اور یہ لوگوں کو دے دیتے ہیں.یہ نہ ہو کہ میری موت آئے اور اس وقت کچھ بھی تیار نہ ہو.کئی کفن ان کے تیار ہوئے کئی تابوت بنے.بالآخر اللہ کی تقدیر آئی اور ان کو لے گئی.اللہ ان کو جنت میں اعلیٰ جگہ دے.ان کی نماز جنازہ بھی ابھی ہوگی.مکرم عزیز بوگیلو صاحب انکے متعلق ماریشس کی جماعت کے دوستوں نے درخواست کی ہے.مکرمہ کریم بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری چراغدین صاحب یہ ہمارے چوہدری عبدالغفور صاحب صدر حلقہ Lemingtonspa کی والدہ محترمہ تھیں.مکرمہ محمد بی بی صاحبہ موصیبہ مکرم چوہدری وحید سلیم صاحب آف لا ہور کی والدہ تھیں.( چوہدری وحید سلیم صاحب کو خدا تعالیٰ ما شاء اللہ جماعت کی اچھی خدمت کی توفیق عطا فرماتا ہے بہت اچھے وکیل ہیں ) اور ہادی علی کے والد فرزند علی صاحب کی ہمشیرہ تھیں یعنی ہادی علی کی پھوپھی تھیں ان سب کی نماز جنازہ غائب نماز عصر کے بعد ہوگی......

Page 325

318 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 25 دسمبر 1987 ء بیت الفضل لندن) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: سال 1987 ء اب قریب الاختتام ہے، چند دن باقی رہ گئے ہیں.ہم اُن دنوں میں داخل ہو رہے ہیں جن دنوں میں ہمارا جلسہ سالانہ مرکز میں ہوا کرتا تھا یعنی پہلے قادیان میں اور پھر ربوہ میں.قادیان میں تو اب بھی اسی تاریخ پر جلسہ منعقد کیا جاتا ہے چنانچہ حال ہی میں وہاں سے جو اطلاع ملی ہے باوجود اس کے کہ پنجاب کے عمومی حالات بہت قابل فکر ہیں اور امن وامان کی صورت تسلی بخش نہیں اور باوجود اس کے کہ حکومت ہندوستان ، ان حالات کے پیش نظر نہ کہ کسی مذہبی جماعت کو دبانے کی خاطر ان علاقوں میں لوگوں کو جانے کی عموماً اجازت نہیں دیتی خدا تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ قادیان نہایت ہی کامیاب رہا.دُور دُور سے لوگ وہاں تشریف لائے اور چند دن نہایت ہی اعلیٰ پاکیزہ روحانی ماحول میں تربیت پاتے ہوئے اور تربیت کرتے ہوئے وقت گزارا اور غیر معمولی طور پر وہاں دعاؤں کی بھی توفیق ملی جہاں تک پاکستان میں ہونے والے جلسہ سالانہ کا تعلق ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کچھ عرصہ سے حکومت پاکستان نے اس جلسہ کی اجازت روک رکھی ہے.طبعی بات ہے کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ پاکستان کے دل غیر معمولی طور پر درد سے بھر جاتے ہیں.جوں جوں جلسہ کا وقت قریب آتا ہے ان کے خطوط میں یہ پہلو نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے ، بے چینی اور بے قراری بڑھتی چلی جاتی ہے.چنانچہ امسال بھی دسمبر بلکہ اس سے پہلے سے ہی خطوط میں یہ پہلو بڑا نمایاں طور پر اُبھرنا شروع ہوا کہ جلسہ کے دن قریب آرہے ہیں جلسہ سالانہ یہاں منعقد نہ ہونے کی ہمیں بہت تکلیف ہے بعض دوستوں نے تو بہت ہی دردناک خطوط لکھے.عمو ماساری دنیا میں بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایک بہت ہی اہم بنیادی حق سے محروم کئے گئے ہیں.جہاں تک غم کے پیدا ہونے کا تعلق ہے یہ تو ایک طبعی بات ہے اس سے روکا نہیں جاسکتا.حضرت اقدس محمد مصطفی سے بھی طبعی حالات کے تابع غم کے اثر کے نیچے آتے تھے لیکن غم آپ پر قبضہ نہیں کیا کرتا تھا.غم آپ کی ہمت میں کمی پیدا نہیں کیا کرتا تھا.پس غم کا پیدا ہونا یا آنکھوں کا غمناک ہو جانا یا آنسوؤں کا بہنا اس وقت تک اچھی علامت ہے جبتک اس کے نتیجہ میں ہمت میں کمی نہ آئے اور حوصلوں کا سر نہ جھکے اس لئے جس چیز کو عورتوں کا رونا کہا جاتا ہے اس رونے میں اور باہمت مردوں کے رونے میں بڑا فرق ہے..

Page 326

319 حضرت خلیفتہ المسح الرابع عورتوں کا رونا ایک محاورہ ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ عورتوں میں بھی بعض بہت بڑی بڑی ہمت والی عورتیں ہوا کرتی ہیں جن کے رونے میں کمزوری اور شکست کی کوئی علامت نہیں ہوتی اور بعض ایسے ایسے مرد بھی ہوا کرتے ہیں جن کا رونا واقعہ عورتوں کا رونا ہوتا ہے.چنانچہ پین کا آخری بد نصیب مسلمان بادشاہ جب سپین سے جدا ہور ہا تھا اور سپین میں اس کی اور مسلمانوں کی شکست زیادہ تر اسی کی وجہ سے ہوئی تھی ، وہ اس کا ذمہ دار تھا تو جب اس نے پہاڑی کی آخری چوٹی سے مڑ کر غرناطہ کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.اس وقت اس کی ماں نے اسے کہا کہ جس چیز کو تمہاری تلوار روک نہیں سکی اب آنسو بہا کر اپنی ذلت کا اظہار کیوں کر رہے ہو.تمہارے آنسو تمہیں وہ چیز واپس نہیں دے سکیں گے.وہ عورت تھی اور اس کا رونا اور نوعیت کا رونا تھا وہ مرد تھا مگر اس کا رونا اور نوعیت کا رونا تھا.پس مومن کا غم اس کے ارادوں اور حوصلوں میں کمی پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا کرتا بلکہ نئی مہمیز لگاتا ہے.جس طرح گھوڑا جب تھکنے لگے تو سوار اسے مہمیز لگاتا ہے تو وہ اچانک پھر دوبارہ مستعدی کے ساتھ اپنا سفر پہلے کی سی شان اور تیز رفتاری کے ساتھ شروع کر دیتا ہے اسی طرح غم کے مواقع مومن کے لئے مہمیز لگانے کیلئے آیا کرتے ہیں.اور اسی پہلو سے جماعت سے توقع ہے اور اب تک جماعت نے خدا کے فضل سے جس رنگ میں بُرے حالات کا مقابلہ کیا ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جماعت اسی نوع کی جماعت ہے جس کا قرآن کریم نے رجال کے لفظ سے اظہار فرمایا ہے رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ ( النور : 38) یہ مرد ہیں جو کسی چیز کے نتیجہ میں بھی خدا کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے.ان کو بھی دنیا کی مصروفیات ہیں لیکن مصروفیت میں ان پر غالب نہیں آتیں.دوسری اور بھی کئی جگہوں پر قرآن کریم نے مومنوں کی شان رجال کے لفظ کے نیچے بیان فرمائی ہے.پس جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رجال کی جماعت ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے.پس وہ لوگ جو غم کا اظہار کرتے ہیں ان میں سے بعض اگر غم سے مغلوب ہیں یا طبیعت میں کمزوری پیدا ہوتی ہے تو میں ان کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہر گز یہ مومن کی شان نہیں ہے.مومن کی آنکھوں کا پانی تو فولاد کی آپ کی طرح ہوا کرتا ہے.وہ کیچڑ پر برس کر کیچڑ کو نرم کرنے کی طرح نہیں بلکہ وہ آب جسے فولاد کی آب کہا جاتا ہے اُسے اور زیادہ قوت بخشنے والا پانی ہوا کرتا ہے.پہلے کی نسبت اس میں اور زیادہ طاقت اور مقابلے کی شدت پیدا کر دیتا ہے.جہاں تک وقت کے بدلنے کا تعلق ہے سالوں کے بدلنے کا تعلق ہے یہ ایک جاری وساری نظام ہے.اگر چہ ہم نے مختلف جگہوں پر سنگ ہائے میل لگا دیتے ہیں یا خدا تعالیٰ نے ہماری خاطر یہ سنگ ہائے

Page 327

320 حضرت خلیفہ امسیح الرابع میل لگائے ہیں تا کہ ہم اپنے اوقات کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے اپنے حالات کا تقابلی جائزہ لیتے رہیں یہ معلوم کرتے رہیں کہ ہم کل کہاں تھے آج کہاں ہیں اس مقصد سے دنیا کی سڑکوں پر بھی میل لگائے جاتے ہیں اسی مقصد سے قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے وقت کی راہ پر بھی میل لگا دیئے ہیں اور یہ علامتیں کھڑی کر دی ہیں جس کو ہم سال کا آنا اور جانا کہتے ہیں مہینوں کا گزرنا کہتے ہیں یا ہفتوں کا یا روز شب کا اولنا بدلنا کہتے ہیں.اس لحاظ سے اگر چہ یہ سال ختم ہو رہا ہے لیکن سفر تو بلا روک ٹوک جاری رہیگا اور جس مقصد کی خاطر یہ حد بندیاں لگائی گئی ہیں اس کے پیش نظر ہمیں جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ کس حد تک ہمارا سال گزرا اور کس حد تک ہم اگلے سال میں داخل ہونے سے پہلے اس سال سے سبق حاصل کر سکے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے سال اچھے بھی آیا کرتے ہیں اور بُرے بھی آیا کرتے ہیں.آسانی والے بھی اور سختی والے بھی آتے ہیں.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ مصر میں سات سال بہت ہی آسانی کے آئے پھر سات سال بہت سختی کے آئے پھر خدا تعالیٰ نے اس سختی کو بدل دیا اور آسانی کا ایک ایسا سال پیدا فرمایا جس نے گزشتہ سارے غم بھلا دیئے.اُس وقت بُرے سالوں کے وقت مومن اور غیر مومن میں ایک فرق دکھایا گیا ہے.بُڑے سال آنے سے پہلے ہی خدا کے ایک مومن اور مقدس بندے کو یہ بتا دیا گیا کہ بُرے سالوں کا مومنوں پر کوئی غلبہ عطا نہیں کیا جاتا بلکہ مومنوں کی برکت سے بُرے سال اچھے سالوں میں تبدیل کئے جاتے ہیں.اسلئے بجائے اس کے کہ تم رویا سے ڈرو اور یہ محسوس کرو کہ بہت سخت دن آنے والے ہیں تم اپنی کمر ہمت کسو کیونکہ تمہارے ذریعہ دنیا کے حالات تبدیل کئے جائیں گے اور ڈوبتوں کو بچایا جائے گا اور فاقہ کشوں کیلئے رزق کا سامان کیا جائیگا.چنانچہ اگر حضرت یوسف علیہ السلام نہ ہوتے یا خدا آپ کو اس غرض سے استعمال نہ فرماتا تو سختی کے یہ سال مصر اور اس کے گردو پیش جہاں مصر کا قبضہ تھا ان کیلئے انتہائی ہلاکت کے سال بن جاتے.خدا کا یہی سلوک ہر حال میں ہر تبدیلی میں مومن کے ساتھ ہوا کرتا ہے.مومن پر دن بھی آتا ہے اور رات بھی آتی ہے لیکن راتیں اس کے پاؤں روک نہیں لیا کرتیں ہاں رفتار میں ضرور فرق پڑ جاتا ہے لیکن وہ رفتار رک کر ایک مقام پر کھڑی نہیں ہو جاتی یا واپس نہیں لوٹتی ، تو یہ نمایاں فرق ہے جو قرآن کریم نے خوب کھول کر اچھی طرح مومن اور منافق اور کافر میں ظاہر فرما دیا.جہاں تک منافقین کا تعلق ہے منافق کا لفظ قرآنی محاورے کے مطابق ان معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جن معنے میں ہم اردو میں منافق کہتے ہیں اور کافروں کیلئے بھی لفظ منافق استعمال ہوا ہے کیونکہ منافق در حقیقت کا فر ہوتا ہے اور ظاہر اُ مسلمان بن رہا ہوتا ہے.تو منافقوں کے متعلق فرمایا إذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمُ قَامُوا (البقرة: 21) کہ مومن کا سفر دن کو بھی جاری رہتا ہے اور رات کو بھی جاری رہتا ہے

Page 328

321 حضرت خلیفة المسیح الرابع لیکن منافقوں کا یہ حال ہے کہ جب رات آتی ہے تو رک جاتے ہیں جب روشنی ہوتی ہے تو چل پڑتے ہیں یعنی وہ وقت کے غلام ہوا کرتے ہیں وقت کے آقا نہیں ہوا کرتے چنانچہ مومن کو خدا تعالیٰ ابوالوقت کے طور پر پیش کرتا ہے اور کا فرکو ابن الوقت کے طور پر پیش کرتا ہے.مومن اپنے وقت کو اپنی غلامی میں تبدیل کرتا ہے اس سے فائدے اٹھاتا ہے اور کافر وقت کے دھارے پر خود بخود بہتا چلا جاتا ہے.اُس کے مقدر میں وقت کے دھارے کا رخ بدلنا نہیں ہوا کرتا اس لئے جب کافروں پر اچھے وقت آتے ہیں یا خدا کے دشمنوں پر آتے ہیں تو آپ ان کو بڑے زور سے شور مچاتے ہوئے ، بڑی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بڑ ھتا ہوا دیکھتے ہیں گویا ایک سیلاب آ گیا ہے.جب راتیں آتی ہیں تو ان کی آواز میں منظر سے غائب ہو جاتی ہیں.ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہاں کوئی سیلاب تھا ہی نہیں جیسے افریقہ کے ایک حصہ میں جب تپش کے سخت دن آتے ہیں گرمی کا موسم آتا ہے تو ہر طرف پانی سوکھ جاتا ہے اس وقت جب جان منظر سے غائب ہونے لگتی ہے یعنی یوں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی ختم ہو جائے گی اس وقت بڑی دُور سے ایک سیلاب آتا ہے جو اچانک دیکھتے ہی دیکھتے صحرا کے منظر تبدیل کر دیتا ہے.صحرائے کا لاہاری کے جنوب کی طرف غالبا یہ علاقہ ہے جہاں اس قسم کا واقعہ ہر سال ہوتا ہے اور دُور دُور سے جانور اپنی پیاس بجھانے کے لئے اور زندگی بچانے کی خاطر ایک طبعی ، فطری اشارے کے طور پر اس طرف بھاگتے ہیں.سیلاب تو ہر جگہ آ جاتے ہیں صحراؤں میں بھی سیلاب آجایا کرتے ہیں لیکن صحراؤں کے سیلاب ہمیشہ کے لئے صحرا کے منظر نہیں بدل سکتے.وہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.زندگی اُن کے ساتھ آتی ہے اور ان کے ساتھ ہی لوٹ جایا کرتی ہے لیکن مومنوں کی مثال خدا تعالیٰ نے اور طرح سے دی ہے.فرمایا مومنوں کا تو یہ حال ہے کہ جیسے ایک ایسی زمین ہو جو نہایت ہی شادابی کی طاقت رکھنے والی نہایت طاقتور زمین ہو اور پانی کو اپنے اندر روکنا جانتی ہو اس کے اوپر اگر موسلا دھار بارش ہی بر سے تو وہ زمین کو بہا کر نہیں لے جاتی بلکہ اس زمین کی روئیدگی میں نئی شان پیدا کر دیتی ہے نئی قوت پیدا کر دیتی ہے.اس کے مقابل پر کافر کی روئیدگی سطحی ہوا کرتی ہے.دیکھنے میں نظر آتی ہے لیکن وہ وقتی اور عارضی ہوتی ہے.جب تیزی کے ساتھ اس پر بارش برستی ہے تو بسا اوقات اس کی بناوٹ کی ظاہری روئیدگی اس کی سرسبزی اور شادابی بارش کے ساتھ بہہ جاتی ہے اور پھر جب خشک موسم آتا ہے تو پھر اس کے مقدر میں رہتا ہی کچھ نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مومنوں کی مثال ایسی زمین سے ہے کہ جب اس پر بارش برستی ہے تو وہ بہت زیادہ اُگاتی ہے اور جب نہیں برستی تو خدا ان کو شبنم سے محروم نہیں کیا کرتا.پس شبنم ہی اُن کیلئے کافی ہو جایا کرتی ہے اور اس حالت میں بھی وہ زمین ویرانوں میں تبدیل نہیں ہو جایا کرتی بلکہ سرسبز و شاداب رہتی

Page 329

322 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ہے اس کی زندگی قائم رہتی ہے.پس جماعت احمدیہ کی سوسالہ ( یا تقریباً سو سالہ ) تاریخ ہمیں یہی بتا رہی ہے کہ جس طرح دور اول میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کے حالات کو جن کو رجال فرمایا گیا ان پر روشنیوں کے وقت بھی آئے اور اندھیروں کے وقت بھی آئے ، ان پر نرمی کے وقت بھی آئے ان پر سختی کے وقت بھی آئے لیکن ہر حال میں وہ ہمیشہ آگے بڑھتے رہے کبھی کچھ تکلیف اور دُکھ کے ساتھ چھوٹے قدموں سے کبھی بڑی شان کے ساتھ تیز قدموں کے ساتھ دوڑتے ہوئے آگے بڑھے لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں کی زندگی میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا کہ جب آپ کے قدم رک گئے ہوں یا روک دیئے گئے ہوں اور آپ کو پیچھے ہٹنا پڑا ہو، ایک رات بھی ایسی نہیں آئی جس نے آپ کی زندگیوں کو نور سے محروم کر دیا.بارش کی مثال میں شبنم فرمایا گیا ہے رات کی مثال میں ستاروں کو قرآن کریم پیش فرماتا ہے کہ اگر سورج کی روشنی سے محروم ہو جائیں یا چاند کی روشنی سے بھی محروم ہو جائیں تو ستارے ان کی راہنمائی فرماتے رہیں چنانچہ صلى الله آنحضرت ﷺ نے بھی قرآن کریم میں ستاروں کی روشنی کے ذکر کو روحانی معنوں میں پیش فرمایا ہے چنانچہ فرمایا اَصْحَابِی كَا لَنُّجُومِ بِأَتِهِم اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ.میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں اگر میں بھی نہ ہوں اور مجھ سے نور پانے والے چاند بھی باقی نہ رہیں.کسی ایک جگہ میرا کوئی صحابی موجود ہوتو وہ تمہارے لئے ستاروں کی طرح روشنی پیدا کرنے والا ہوگا.چنانچہ مومنوں کی عجیب حالت ہے عجیب شان ہے کہ خشک سالی میں خدا ان کیلئے شبنم برسا دیتا ہے وہ اسی پر زندہ رہتے ہیں اسی پہ آگے بڑھنے کی طاقت پا جاتے ہیں.اندھیروں کے وقت ان کو ستاروں کی روشنی میسر آجاتی ہے کسی حالت میں بھی کلیہ یہ فوائد سے اور ترقیات سے محروم نہیں کئے جاتے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ جماعت کی تاریخ کے نشیب و فراز کا مطالعہ کریں کئی دفعہ بڑے بڑے خطر ناک وقت آئے ہیں جبکہ دشمن سمجھتا تھا کہ یہ جماعت کو ہلاک کر دے گا صفحہ ہستی سے اس کی صف لپیٹ دے گا اس وقت بھی جماعت ترقی کرتی گئی مقابلہ چند سختی کے دنوں میں کچھ رفتار میں کمی ضرور دکھائی دی لیکن خدا تعالیٰ نے اس کمی کو ہمیشہ دوطریق سے پورا کیا کیونکہ وہ کمی ایک طبعی فطری کمزوری کے نتیجہ میں نہیں تھی بلکہ ایسے حالات کی بناء پر تھی جن پر براہ راست وہ عبور حاصل نہیں کر سکتے تھے اسلئے اس عرصہ میں ان کی بڑھنے کی قوت جمع ہوتی رہی چنانچہ جیسا کہ کسی نے کہا ہے: پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

Page 330

323 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خدا کے بندوں کی طبیعتیں جب روک دی جاتی ہیں تو نالے پیدا ہونے بند نہیں ہوا کرتے.خدا تعالیٰ نے مومنوں کو طبعی قو تیں عطاء فرمائی ہیں وہ تو مر نہیں جایا کرتیں اس لئے کچھ نہ کچھ زور لگا کر وہ اندرونی سیلاب کہیں سے رستہ نکالتا ہی رہتا ہے یعنی پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ساری روکیں تو ڑ دی جاتی ہیں اور وہ پہلی کمی کو بڑی شان کے ساتھ پورا کرتے ہوئے بڑی قوت کے ساتھ پھر آگے بڑھتے ہیں.دوسرا ان کے ساتھ خدا تعالیٰ یہ سلوک فرماتا ہے کہ ساری دنیا میں ہر جگہ ان کیلئے ایک جیسا وقت نہیں رہتا اسی کے ساتھ ہجرت کے مضمون کا تعلق ہے.بعض جگہ ان کیلئے نسبتاً کمزوری کا وقت آتا ہے تو بعض دوسری جگہوں پر غیر معمولی طور پر ان کیلئے آگے بڑھنے اور نشو ونما کے وقت آ جاتے ہیں اور ایک جگہ کی جو کمی ہے وہ سینکڑوں دوسری جگہوں سے پوری کر دی جاتی ہے اور مجموعی طور پر خزاں میں بھی وہ بہار کا منظر دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر مجھے بہت ہی پیارا ہے اور بار ہا میں اسے آپ کے سامنے پڑھ چکا ہوں اسکا ایک مفہوم یہ ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہیے.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں بعض مقامات پر وقتی طور پر آپ یہ شعر صادق ہوتا نہیں دیکھیں گے لیکن اس مضمون کو کلیۂ عالمی سطح پر آپ سمجھیں تو پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ مومن کے اوپر خزاں آہی نہیں سکتی.جب خزاں آتی بھی ہے تو ہزار دوسری جگہوں پر خدا تعالیٰ بہار کے مناظر پیدا کر کے اس خزاں کے اثر کو زائل فرما دیا کرتا ہے اس کی تلافی فرما دیتا ہے اور جہاں خزاں آتی ہے وہاں بھی نئی نئی کونپلیں پھوٹا کرتی ہیں.چنانچہ پاکستان میں ان دنوں جس قسم کے حالات ہیں یا جماعت کی ترقی کو روکنے کیلئے جس قسم کی ظالمانہ کا روائیاں ہو رہی ہیں ان میں جلسہ کا روکنا بھی ایک کارروائی ہے.ہمارے لٹریچر کو کلیۂ بند کر دینا بھی ایک کارروائی ہے.ہمارے تمام اخبارات اور رسائل کا گلا گھونٹ دینا بھی ایک کارروائی ہے.ہمیں تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دینا یہاں تک کہ کلمہ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھنے سے روک دینا یعنی بنیادی انسانی حق سے بھی محروم کر دینے کی کوشش کرنا بھی ایک کا روائی ہے.ان حالات میں جبکہ اس کے علاوہ بھی دنیاوی ظالمانہ کاروائیاں کی جا رہی ہیں قتل و غارت کرنا ، بنیادی حقوق یعنی نوکریوں کے حقوق سے محروم کرنا، طلبا کو انکے حقوق سے محروم کر دینا، عام روز مرہ زندگی کو اجیرن بناد بنا یہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے.کون سوچ سکتا ہے ایسی جماعت ایسے خطر ناک حالات میں ترقی کر سکتی ہے.اگر یہ جماعت جھوٹ اور فریب ہو تو ناممکن ہے کہ ایسے خطر ناک حالات میں کوئی جماعت بھی پنپ سکے گجا یہ کہ ترقی کرتی رہے.کوئی جماعت سانس لے سکے اور زندہ رہے یہ تعجب کی بات ہے اور اس جماعت کو مارنے کی خاطر تباہ

Page 331

324 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کرنے کیلئے کل یہ صفحہ ہستی سے مٹادینے کے لئے یہ کارروائیاں کی گئیں اور اب بھی کی جارہی ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جماعت اپنے اخلاص میں پہلے سے زیادہ ترقی کر چکی ہے، اپنی عبادتوں میں پہلے سے زیادہ ترقی کر چکی ہے، اپنے حوصلوں میں پہلے سے زیادہ ترقی کر چکی ہے، ہر قربانی کے میدان میں جس قربانی کے میدان کی طرف اس کو بلایا جاتا ہے وہ پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پہلے سے زیادہ سعادت قلبی کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتی ہے، ایسی زندہ جماعت کو جسے قرآن کریم دجال کی جماعت فرماتا ہے کون ہے جو انہیں مار سکے، ناممکن ہے.پھر باقی تمام دنیا کی جماعتوں پر جور وفق آئی ہے جو غیر معمولی طور پر ترقیات ہورہی ہیں وہ اسی خزاں کی برکت ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہی وعدوں کے متعلق فرمایا تھا.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں ساری دنیا میں اس خزاں کے صدقے آپ بہار کے مناظر دیکھ رہے ہیں.یہ زندہ جماعتوں کی علامت ہے پس جن کو خدا سے زندگی ملتی ہے ، جن کو آسمانی پانی کے ذریعہ زندہ کیا جاتا ہے ان کو دنیا کی خشیاں مار نہیں سکتیں.یہ ایسا اٹل قانون ہے جسے آپ کبھی تبدیل ہوتا نہیں دیکھیں گے.چنانچہ سال کے آخری خطبہ جمعہ میں یا بعض دفعہ نئے سال کے پہلے خطبہ جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا رہا ہے.پس اس تمہید کے بعد اب میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں.اور جیسا کہ وقف جدید کے کوائف خود ہی آپ کو بتائیں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن حالات میں سے یہ تحریک گزر رہی ہے اور اس وقت جس مقام پر پہنچی ہے اس سب حالات کا جائزہ لینے سے قطعی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بھی ایک زندہ جماعت کی زندہ سرسبز شاخ ہے اور اس کی طرف بد نیتی کا تب نہیں چلایا جاسکتا.یہ بھی ہر حال میں نشو و نما پائے گی اور پاتی رہی ہے اور آگے بڑھتی رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ.چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں وقف جدید پاکستان کا بجٹ اور وصولی کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے رہے ہیں.جب میں نے وقف جدید کو چھوڑا تھا اس وقت مجھے صحیح یاد نہیں غالباً تیرہ یا چودہ لاکھ کے قریب اسکا بجٹ تھا.اب اس تھوڑے سے عرصہ میں جو ابتلاؤں کا دور ہے خدا کے فضل سے بجٹ تقریباً ڈ گنا ہو چکا ہے اور 87ء کا بجٹ 27,45000 روپے تھا.اس وقت تک کی جو وصولی ہے اس میں بھی خدا کے فضل سے نمایاں اضافہ ہے گزشتہ سال اس وقت تک -/17,44000 روپے وصولی تھی اور امسال اس وقت تک -/87000, 20 روپے وصولی ہے.چونکہ پرانی روایات بھی اسی طرح قائم ہو چکی ہیں کہ سال کے آخر پر وصولی اکٹھی ملتی ہے یعنی اس کی یہ نسبت نہیں ہوا کرتی کہ ہر مہینہ جتنی وصولی ہورہی ہے سال کے

Page 332

.325 حضرت خلیفہ المسح الرابع آخری مہینہ میں بھی اسی طرح ہوگی بلکہ بسا اوقات سال کے آخری ہفتہ میں اتنی وصولی ہوتی ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں کی وصولی سے بھی بڑھ جاتی ہے.پھر وصولی کی اطلاعیں بعد میں بھی آتی رہتی ہیں اور کچھ بعد میں وصولیاں ہوتی ہیں.وہ ملا کر مارچ تک تقریباً یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور بالعموم میں نے دیکھا ہے کہ کم از کم ایک چوتھائی ان آخری دنوں میں وصول ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ بجٹ 27 لاکھ کا نہ صرف پورا ہوگا بلکہ بفضلہ تعالیٰ یہ وعدوں سے بھی آگے بڑھ جائیگا.واقعہ ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ ہمارے وعدوں کا نظام ایسا ہے کہ بہت سارے ایسے چندہ ادا کرنے والے ہیں جو وعدوں میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن بعد میں وہ چندہ ادا کر دیتے ہیں اور وعدوں میں شامل نہ ہونا بسا اوقات ایک یقین کے نتیجہ میں بھی ہوتا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں ہم نے تو دینا ہی دینا ہے کیا فرق پڑتا ہے وعدہ لکھوائیں یا نہ لکھوائیں.بیشک وہ وعدوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں ، بعض دفعہ وہ لکھواتے نہیں لیکن ان کے ذہن میں ایک معین رقم ہوتی ہے کہ ہم نے اتنی رقم ضرور خدا کے حضور پیش کرنی ہے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ رقم ضرور پیش کرتے ہیں اس لئے وعدوں سے عموماً وصولیاں بڑھ جایا کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جماعت کی وصولی ہمیشہ، الا ما شاء اللہ ، ہر سال وعدوں سے آگے بڑھتی رہی ہے اور بجٹ سے آگے بڑھتی رہی ہے.اس پہلو سے بڑے امید افزا حالات ہیں.جہاں تک وقف جدید کی کوششوں اور خدمت کا تعلق ہے اس پہلو سے بھی یہ تحریک اپنے فرائض منصبی اچھی طرح ادا کر رہی ہے.بڑے سخت مخالف حالات میں بھی اللہ تعالیٰ اس انجمن کوتو فیق عطا فرمارہا ہے اس کی تفاصیل بیان کرنے کی اس وقت ضرورت نہیں ہے.بسا اوقات یہ باتیں جلسہ سالانہ پر بیان ہوتی رہی ہیں لیکن اب کچھ عرصہ سے میں نے صدر انجمن اور وقف جدید نیز پاکستان کی بعض دیگر مجانس کی خدمات کا تفصیل سے ذکر کر نا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس سے بعض لوگوں کو بہت ہی زیادہ تکلیف ہوتی ہے اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ جل بھن جاتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ ہر نیک کام کی راہ میں وہ روڑے اٹکائیں اور نیک راہ پر چلنے والوں پر روڑے برسائیں.خواہ مخواہ اس کے نتیجہ بھی بے وجہ بیچارے انسانوں کو تکلیف پہنچانا اور بعض معصوموں کی تکلیف کا موجب بننا یہ کوئی حکمت کی بات نہیں ہے اس لئے جہاں بعض بے بسی کے سے حالات ہیں وہاں میں عمد أخدا تعالیٰ کے ان فضلوں کا بہت تفصیل سے ذکر نہیں کرتا بلکہ عموماً خدا کے فضلوں کا ذکر کر دیتا ہوں، مجموعی فضل تو ہوتے رہیں گے وہ کسی کو تکلیف ہو یا نہ ہو وہ روک نہیں سکتا.خدا کا وعدہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ ترقی کرنی ہے اور دشمن نے ہمیشہ اس میں ناکام رہنا ہے تو پھر بھی کوئی تبدیلی نہیں نہ میرے تفصیل بیان کرنے سے کوئی تبدیلی پیدا ہو گی لیکن آنحضرت ﷺ کی سنت ہے

Page 333

326 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کہ جب مقابلے کے خاص حالات ہوں تو احتیاطی کارروائیاں اور حکمت کے تقاضے پورے کرنے ضروری ہوا کرتے ہیں.جہاں تک بیرونی جماعتوں کا وعدہ جات بالغان کا تعلق ہے ان کا ذکر میں بعد میں کروں گا.پہلے ذرا نسبتاً ایک عمومی جائزہ لے لوں جہاں تک چندے کی آمد کا تعلق ہے پاکستان میں جن جماعتوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے چندہ کے سلسلہ میں غیر معمولی طور پر ترقی کی ہے یعنی با وجود اقتصادی حالات کے خراب ہونے کے پہلے سے قدم آگے بڑھتے ہیں ان میں ربوہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نمایاں آگے بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے.گزشتہ سال ربوہ کی وصولی 2,80,000 روپے تھی اور امسال رپورٹ لکھنے کی تاریخ تک ( جس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک بڑا حصہ جمع ہونے والا ہے) 2,86,000 روپے وصولی ہو چکی تھی.یہ ایک نمایاں فرق ہے.پہلے سے آگے کی طرف قدم ہے جس میں ابھی اور وصولی جمع ہونے والی ہے.پھر کراچی کی جماعت ہے جو خدا کے فضل سے ہمیشہ آگے بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے اس نے گزشتہ سال کی وصولی میں 3,82,000 روپے کے مقابل پر جو سارے سال کی وصولی تھی.اب تک 4لاکھ روپے وصول ہو چکے ہیں پھر کوئٹہ جن حالات میں سے گزر رہا ہے اس کے با وجود خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئٹہ کے چندہ میں بھی اضافہ ہوا ہے.ضلع مظفر گڑھ کے چندہ میں بھی نمایاں اضافہ ہے ضلع لیہ کے چندہ میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.ضلع خانیوال ضلع وہاڑی کے چندہ میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.اسی طرح سکھر جہاں بہت ہی سختی کے حالات رہے ہیں اور ابھی تک جاری ہیں وہاں بھی خدا کے فضل سے نمایاں اضافہ ہوا ہے.اسی طرح خیر پور، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، جہلم اور اٹک کے چندہ میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.خوشی کی خبر یہ ہے کہ پشاور کو ہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خاں میں بھی نمایاں اضافہ ہو اہے.جب سے یہاں امارت بدلی ہے خدا کے فضل سے بڑی نمایاں اور پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں.باوجود اسکے کہ حالات تو وہی ہیں جو پہلے تھے لیکن جماعتیں بیدار ہو رہی ہیں اور احباب جماعت نے بڑی ہمت کے ساتھ نیکیوں کے کاموں میں آگے بڑھنے کی دوبارہ کوشش شروع کر دی ہے ورنہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ ان پر ایک غنودگی کی سی کیفیت طاری تھی.اس جائزہ میں میں آپ کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں اور اس سلسلہ میں میں نے بڑی تفصیل سے غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا جیسا کہ خدا کا وعدہ ہے جماعت نے بہر حال ترقی کرنی ہے اور کرتی بھی ہے.یہ جو عمومی وعدہ ہے یہ Potential کے طور پر جماعت کے مقدر میں ہے.ایک تو ساری جماعت کا عمومی جائزہ ہے ایک مقامی جماعتوں یا اضلاع کی جماعتوں کا جائزہ.ان دونوں جائزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے

Page 334

327 حضرت خلیفہ امسیح الرابع میں آپ کو یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں جس طرح پاکستان کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے ترقی کا وعدہ دیا ہے اسی طرح دنیا کی جماعتوں سے بھی ایک عمومی وعدہ ہے اضلاع کی جماعتوں سے بھی وعدہ ہے.شہروں اور قصبات اور دیہات کی جماعتوں سے بھی وعدہ ہے لیکن یہ وعدہ ایک Potential کی حیثیت رکھتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی تقدیر مدد کے لئے تیار ہے وہ جماعت کو ضرور آگے بڑھائے گی اگر تم لوگ اس سے استفادہ کرو گے.بالعموم استفادہ کی طاقت، چونکہ جماعت میں نہ استفادہ کرنے کی طاقت کے مقابل پر غالب رہتی ہے اسلئے عمومی طور پر آپ جماعت کو ہمیشہ آگے بڑھتا دیکھتے ہیں.تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جتنا بڑھ سکتی تھی اتنا بڑھی ہے بلکہ بعض جگہ جہاں خدا کی نعمتوں کی تکذیب کی جائے یعنی ان معنوں میں کہ ان نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جائے ، نظام کمزوری دکھائے ، مقامی عہدیدران ذمہ داریاں ادا نہ کریں تو بعض جگہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے بھی قدم چلے جاتے ہیں لیکن یہ پیچھے جانے والے قدم چند ہیں.قافلے کے قدم بحیثیت مجموعی آگے ہی بڑھتے ہیں اور جہاں قدم پیچھے جائیں وہاں لازم ہے کہ بعض انسانوں کا قصور ہے خدا کی تقدیر کا کوئی قصور نہیں اس سے وعدے کی عمومی شکل میں کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن کچھ جگہ جماعتوں نے توجہ دی ہے کچھ جگہ نہیں دی چنانچہ سندھ کے بعض اضلاع میں مثلا سکھر خیر پور وغیرہ جہاں سخت حالات کے پیش نظر ایک نوجوان امیر کو خاص طور پر مقرر کیا گیا تھا وہاں حالات اسی طرح بد ہیں اور خطرناک ہیں اور ہر قسم کی مشکلات بھی موجود ہیں کئی لوگوں کو وہ علاقہ بھی چھوڑنا پڑا لیکن وقف جدید کے چندے کا موازنہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا قدم نمایاں آگے کی طرف ہے.بعض دوسرے اضلاع ہیں جہاں خدا کے فضل سے امن کے حالات ہیں الا ماشاء اللہ.ایک دو جگہ ابتلا کی حالتیں پیدا ہوئیں ہیں مگر خدا تعالیٰ کے دنیاوی فضل بھی نسبتاً بہت زیادہ ہیں وہاں قدم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے چلا گیا ہے.تھر پارکر اور سانگھڑ وغیرہ کے علاقے جو ہیں انکی امارتوں اور عہدیداروں کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ یہ عجیب حالت ہے کہ جہاں بارش برس رہی ہے وہاں روئیدگی زیادہ نہیں ہو رہی اور جہاں شبنم پڑ رہی ہے وہاں روئیدگی بہت زیادہ ہو رہی ہے.خدا تعالیٰ کی جماعت بنتے ہیں تو جب بارش پڑے تو بارش والے حالات دکھایا کریں کم سے کم شبنم پڑنے والوں سے تو پیچھے نہ رہا کریں.اسی طرح بعض اضلاع ہیں جو پہلے پیچھے رہنے والوں میں سے تھے مثلاً مظفر گڑھ ، وہاڑی ، خانیوال اور لیہ ہیں یہ کمزور اضلاع میں سے تھے لیکن اللہ کے فضل سے ان میں ترقی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض اضلاع میں بہت نمایاں ترقی کے آثار ہیں مثلاً مظفر گڑھ ، گوجرانوالہ، اوکاڑہ ، جہلم ،اٹک ، پشاور ، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خاں، نواب شاہ ، اور خیر پور وغیرہ شامل ہیں.دوسری جگہیں ہیں جہاں کمی آگئی ہے ان کی تفصیل میں یہاں لایا ہوا ہوں لیکن پڑھ کر نہیں سنا تا تا کہ ان لوگوں کی

Page 335

328 حضرت خلیفة المسیح الرابع پردہ دری نہ ہو ان پر خدا کی ستاری کا پردہ پڑا رہے لیکن بعض اضلاع ایسے ہیں جن سے ہر گز توقع نہیں تھی کہ وہ پہلی رفتار پر رہیں گے یا ان کا قدم پیچھے رہ جائے گا ان میں پنجاب کے بعض بڑے بڑے اضلاع ہیں جنہوں نے اس لحاظ سے بہت مایوس کیا ہے.یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ ان کی کمزوری کے باوجود پھر بھی وقف جدید کا قدم نمایاں طور پر پچھلے سالوں کی طرح آگے ہی بڑھا ہے.اگر یہ اضلاع کمزوری نہ دکھاتے تو اس وقت تصویر بہت ہی بہتر شکل میں ابھرتی.ان سب جائزوں سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ بعض جگہ امراء اضلاع تقریریں تو بہت کرتے ہوں گے یار پورٹیں بھی بھجواتے ہوں گے لیکن ٹھوس کام کی اہلیت نہیں رکھتے یعنی ایک ایک جماعت کی طرف توجہ کرنا.ایک ایک جماعت کا حوصلہ بڑھانا عمومی طور پر جائزے لیتے رہنا.ہر جہت سے جائزے لیتے رہنا.بعض امراء ہیں جن میں بڑی محنت کی عادت بھی ہے صرف تقریریں نہیں کرتے بلکہ کام بھی بڑا کرتے ہیں لیکن یہ کمزوری ہے کہ ایک دو جہتوں میں کام کرتے ہیں تو با قی جہتوں کو بھلا دیتے ہیں ان کی طرف توجہ ہوئی تو پہلی جو صورتیں تھیں وہ نظر سے اوجھل ہو گئیں اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے توازن پر زور دیا گیا ہے.مومن کی شخصیت جو قرآن کریم میں بیان فرمائی گئی ہے وہ متوازن شخصیت ہے، امت محمدیہ کو بھی اُمَّةً وَسَطًا قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کو بھی ایک انتہائی کامل طور پر متوازن وجود کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے.قیم ہیں لَا عِوَجَ لَهُ آسمیں کوئی کمی بیشی نہیں کوئی ٹیڑھا پن نہیں بلکہ پوری مکمل ہے.مومن کی شکل کے ساتھ توازن کا بڑا گہرا تعلق ہے بعض خوبیوں میں بہت آگے بڑھ جانا اچھی بات ہے لیکن یہ مطلب نہیں کہ بعض دوسری خوبیوں کا خون چوس کر بعض خوبیوں میں آگے بڑھیں.ہر انسان کے اپنے اپنے رجحان ہیں اسی طرح امراء اضلاع ہیں میں نے دیکھا ہے کہ ان کے اپنے اپنے رجحان ہیں.بعضوں کو تبلیغ کا بڑا شوق ہے.بعضوں کو تربیت کا ملکہ دیا گیا ہے بعضوں کو دوسری بعض خوبیاں عطا فرمائی گئی ہیں.ان میں وہ نمایاں امتیاز رکھتے ہیں لیکن نمایاں امتیاز کا یہ مطلب اسلامی تاریخ میں بہر حال نہیں کہ باقی چیزوں میں تم منفی ہو جاؤ اور پھر نمایاں امتیاز حاصل کرو.دنیا کی تاریخ میں بھی نہیں کیونکہ ایسے طالب علم کو فیل کہا جاتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک مضمون میں میں فسٹ ڈویژن لی ہے اس لئے مجھ پر کسی قسم کی قدغن نہ لگائی جائے کہ میں پانچ مضامین میں فیل ہو گیا ہوں جو کم سے کم معیار سے نیچے اترتا ہے وہ نا کاموں میں داخل ہو جاتا ہے اس لئے کم سے کم اتنا توازن تو ضرور رکھنا چاہیے کہ کسی جگہ آپ ترقی معکوس نہ دکھائیں، واپسی کی طرف لوٹنے والے نہ ہوں.پس امید ہے ان چیزوں کی طرف با قاعدہ دانشوری کے ساتھ نظر رکھی جائے گی اور اس کا طریق

Page 336

329 حضرت خلیفہ امسیح الرابع یہی ہے کہ مجلس عاملہ کے دستور مقرر ہونے چاہئیں.ان میں وقتا فوقتا بعض جائزے پیش ہوتے رہنے چاہئیں.جن لوگوں کو اس قسم کے کام کی عادت ہو جیسے سائنس دان اور حساب دان کرتے ہیں ان کی اپنی کمزوریوں پر پردے پڑ جاتے ہیں کیونکہ اجتماعی طاقت کے ساتھ ان کی شخصیت کو بھی طاقت ملتی ہے جن کے اندر اپنی خوبیاں نمایاں ہوں لیکن وہ حسابی رنگ میں سائنسی رنگ میں ، کام کرنے کے عادی نہ ہوں ان کی کمزوریاں باقی جماعت کی کمزوریاں بن جاتی ہیں.آپ کو ایک دانشور باشعور جماعت کی طرح کام کرنا چاہیے اور ایسا نظام بنانا چاہیے جس میں خلا کے احتمالات باقی نہ رہیں.ہر شعبہ زندگی جس میں ایک منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا گیا ہے یا جماعت کے مستقل منصوبوں میں داخل ہو چکا ہے.ہر تحریک جو کی جاتی ہے اس کے تقاضوں سے کس طرح نپٹنا ہے، اس کام کو کیسے سمیٹنا ہے، وقتاً فوقتاً کس طریق پر جائزہ لینا ہے کہ ہماری بھول چوک جماعت کی بھول چوک نہ بن جائے ، ہماری غفلت جماعت کی غفلت نہ بن جائے.یہ ہے ایک اچھے منتظم کا کام اور اس پہلو سے انجمنوں کو بھی اپنی ماتحت انجمنوں کی مدد کرنی چاہیے.انجمنوں کا کام صرف یہ نہیں کہ جو ریز ولیوشن سامنے آجائے یا کسی کی ترقی کی درخواست آجائے اسی پر غور کر کے معاملہ کوختم کردیں ان کو تو فعال سوچ کا حامل ہونا چاہیے.ذہن اور عقل کا کام صرف یہ تو نہیں ہے کہ جو تاثرات اس کے بدن کے مختلف حصوں سے اس کو ملتے ہیں انہی کا وہ جواب دے بلکہ وہ فکرمند رہتا ہے اور مختلف حالات کا جائزہ لے کر ہر وقت سوچوں میں مبتلا رہتا ہے کہ کس وقت کیا کرنا ہے، کونسے حصے کی طرف کیا ضرورت ہے، کہاں قدم کس رنگ میں آگے بڑھانا ہے، کس کمی کو کس طرح پورا کرنا ہے.وہ اتنا کام کرتا ہے کہ بدن سو جاتا ہے ذہن نہیں سوتا بلکہ بدن کے مقابل پر بہت کم سوتا ہے اور خدا نے اسی لئے اس کو استطاعت بھی ایسی بخشی ہے کہ انجمنوں کو بھی اپنے دماغوں کو اسی طرح استعمال کرنا چاہیے جس طرح خدا تعالیٰ نے قدرت کے نمونے بنا کے دکھا دیئے ہیں اور ان نمونوں سے استفادہ کرنا چاہیے تو میں امید رکھتا ہوں کہ انجمنوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً ایسا جائزہ لیا جایا کریگا.وقف جدید کی انجمن کا وقف جدید کے معاملہ میں اور عموما مجھے یاد ہے وہ ( جائزہ لیتے بھی ہیں لیکن اس رنگ میں غالبا وہ نہیں لیتے کہ ہر ضلع کی مجلس آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو بتا ئیں کہ آپ جو کر رہے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو یوں کرنا چاہیے.تحریکوں کی چٹھیاں تو پہنچتی ہیں یہ تو مجھے پتہ ہے لیکن مدد نہیں کی جاتی.ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.آپ کسی کو یاد دہانی کروادیں کہ یہ کام ہونا چاہیے جس طرح کہ یہاں سے بھی ہر وقت مختلف دنیا کی جماعتوں کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے.یہ تو کم سے کم ذمہ داری ہے جو مرکز کو ادا کرنی چاہیے لیکن ایک ذمہ داری ہے کمزوروں کی مددکرنا.ایسے لوگ جو خود

Page 337

330 حضرت خلیفہ مسیح الرابع نیک نیت رکھنے کے باوجود اپنی کمزوریوں کی اصلاح نہیں کر سکتے ، اپنے حالات کو بہتر نہیں بنا سکتے ،انکا ہاتھ پکڑ کر آگے چلانا ان کو سمجھانا کہ آپ یوں کریں گے تو آپ کام بہتر کریں گے ان دو چیزوں میں فرق ہے.اس لئے جو افسران اپنے ماتحتوں سے اس رنگ میں رحمت کی یا شفقت کی نظر رکھتے ہوں کہ جہاں وہ دیکھیں کہ وہ نصیحت کے مطابق عمل نہیں کر رہے ان کو سمجھائیں کہ اس طرح آپ کام کریں تو آپ کا کام بہتر ہو جائیگا.ہر رنگ میں جہاں تک مدد ممکن ہے ان کی مدد کریں.ان کے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے عام انجمنوں کے کاموں کی نسبت یا عام افسروں کے کاموں کی نسبت بہت بہتر ہو جاتے ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ مجالس بھی اس طرف توجہ کریں گی.بالعموم جماعت جس رفتار سے آگے بڑھ سکتی ہے اس رفتار سے بڑھے.جس رفتار سے بڑھ سکتی ہے اس میں اور جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس میں بہت بڑا فرق ہے بعض جماعتوں میں تو بہت ہی زیادہ فرق رہ گیا ہے ، بعض ضلعوں میں تو افسوسناک فرق پیدا ہوا ہے اس لئے میں ان کا نام لئے بغیر بار بار تا کید کر رہا ہوں.اطفال الاحمدیہ کے چندہ میں بھی (جو اطفال کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اس میں ) عمومی طور پر کوئی فرق نہیں ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اطفال الاحمدیہ کا چندہ جس انجمن کے سپر د ہے انہوں نے ستی دکھائی ہے کیونکہ گزشتہ سال سے بعض جماعتوں میں اطفال کے چندوں میں نمایاں کمی ہے جبکہ بالغوں کے چندے میں نمایاں ترقی ہے اس کا مطلب ہے کہ جماعت کا کوئی قصور نہیں.جن انجمنوں کے سپرد یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلاں چندے کو سنبھالیں، فلاں چندے میں جماعتوں کو آگے لیکر بڑھیں، ان انجمنوں کی غلطی ہے، ان مجالس کی غلطی ہے.اس لئے جو ذیلی تنظیمیں ہیں انکو بھی جماعت کی انجمنوں کے ساتھ قدم ملا کر آگے چلنا چاہیے جب تک وہ قدم ملا کر آگے بڑھتی ہیں آگے بڑھیں اگر وہ پیچھے رہیں تو بیشک آگے نکل جائیں لیکن پیچھے رہنے کا بہر حال حق نہیں ہے.اسلئے میں امید رکھتا ہوں کہ ذیلی انجمنیں جن کے سپر دالگ الگ خدمت کے کام کئے گئے ہیں ان کی طرف نظر رکھیں گی پہلے کی نسبت بہتر کام کریں گی.اسی جائزے سے یہ بھی پتہ چلا کہ بعض جماعتیں جو بعض پہلوؤں سے کمزور ہیں بعض پہلوؤں سے نمایاں طور پر آگے ہیں اس سے بھی مجھے کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کوئی انجمن کس رنگ میں کام کر رہی ہے کیونکہ بعض اضلاع باقی باتوں میں مثلاً اصلاح وارشاد کے کام میں اگر سکتے نکل رہے ہوں اور انہیں علم ہو کہ وہ مسلسل پیچھے ہیں اگر وقف جدید کے کام میں نمایاں طور پر آگے ہوں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ خدا کے فضل سے جماعت کے اندر قربانی کی استطاعت موجود ہے.جماعت کے اندر طاقت بہر حال ہے جس انجمن نے فائدہ اٹھایا اس نے اٹھا لیا اور جس انجمن نے یا جس شعبہ نے اپنے کام کی طرف پوری توجہ نہیں کی اس لحاظ سے ان کے حصہ

Page 338

331 حضرت خلیفہ المسح الرابع میں کم پھل ملا.پس یہ جو اعداد و شمار کے جائزے ہیں یہ بہت سی باتوں میں راہنمائی کرتے ہیں.راہنمائی اسلئے کرتے ہیں کہ ہم ان سے استفادہ کریں.جہاں تک بیرونی جماعتوں کا تعلق ہے اس کا مختصر جائزہ بھی پیش کر دیتا ہوں.یہ ابتلاء کے زمانے کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے کہ وقف جدید جو پہلے پاکستان تک ہی محدود تھی اس کا قربانی کا دائرہ ساری دنیا تک پھیلا دیا گیا لیکن اس سے استفادے کا دائرہ ساری دنیا میں اس رنگ میں نہیں پھیلایا گیا.استفادہ دو طرح سے ہے ایک تو یہ کہ جو قربانی کرتے ہیں ان کو روحانی ترقی ملتی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں حمتیں نصیب ہوتی ہیں یہ دائرہ بہر حال ساری دنیا پہ پھیل چکا ہے لیکن اس کی آمد کہاں خرچ کی جائے گی.یہ دائرہ ہند و پاک تک محدود ہے چنانچہ ہندوستان میں میں نے محسوس کیا کہ کئی لحاظ سے بہت کمی رہ گئی ہے اور ان کو بیرونی امداد کی ضرورت ہے.ایک وقت تھا کہ جب ہندوستان دینی معاملات میں تنہا ساری دنیا کی امداد کر رہا تھا کوئی بھی دنیا کا مشن نہیں تھا جو آزاد ہو.ہندوستان کی غریب احمدی جماعتیں ساری دنیا کی مدد کر رہی تھیں انہوں نے کبھی وہم بھی نہیں کیا کہ ہمارا روپیہ کہاں جا رہا ہے.اب وقت ہے کہ تمام دنیا کی جماعتیں ہر معاملے میں نہ سہی بعض معاملات میں اس قرضہ حسنہ کو چکانے کی کوشش کریں اور نیک کاموں میں ہندوستان کی جماعتوں کی مدد کریں.اس کی خصوصیت کے ساتھ اسلئے ضرورت پیش آرہی ہے کہ جب میں نے پاکستان کے بننے کے بعد سے اب تک کے حالات کا تفصیلی جائزہ لیا تو مجھے ایک چیز میں صدمہ پہنچا یا میری توقعات کو ٹھوکر لگی.میرا یہ خیال تھا کہ پاکستان بننے کے وقت ہندوستان کے جتنے احمدی ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور ہندوستان میں جتنی جماعت کی کمی آئی تھی اب تک اتنا وقت گزر چکا ہے کہ وہ کی تبلیغ کے ذریعہ اور عام دنیاوی قدرتی نشو ونما کے ذریعہ پوری ہو چکی ہوگی لیکن ابھی ہم اس سے بہت پیچھے ہیں.ہندوستان سے جتنے احمدی ہجرت کر کے نکلے ہیں ابھی تک اتنے عرصہ کے باوجود وہاں کی جماعتیں اس معیار تک نہیں پہنچ سکیں نہ عددی لحاظ سے نہ مالی استطاعت کے لحاظ سے نہ قربانی کے معیار کے لحاظ سے اور نہ تبلیغ و اشاعت کے لحاظ سے بھی جہاں پہلے بہت تیزی کے ساتھ جماعتیں ترقی کر رہی تھیں وہاں خاموشی پیدا ہوگئی ہے تو اس وجہ سے جب ہندوستان کی جماعت کو تیز کیا گیا انکو سمجھایا گیا کہ کہاں کہاں ہم نے کس کس رنگ میں کام کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا کی رحمت سے Potentioal موجود رہتا ہے صرف چھیڑنے کی بات ہے جیسے اقبال نے کہا: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی تو واقعہ یہ ہے کہ ہماری مٹی زرخیز ہی رہتی ہے خواہ خشک سالی کا وقت ہو یا تر سالی کا وقت ہو

Page 339

332 حضرت خلیفة المسیح الرابع بہر حال بڑی تیزی کے ساتھ جماعت ہندوستان نے Respond کیا ہے نیک کاموں کی تحریک میں لبیک کہا ہے یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ اب ان کے اندر کام کا جذبہ تو ہے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن پیسے پورے نہیں اور جو قربانی کے معاملہ میں بعض جگہوں میں سستی تھی اسکی طرف انجمن قادیان ابھی تک توجہ نہیں کرسکی.با وجود اسکے کہ یہاں سے بڑھانے کی کچھ کوشش کی گئی ہے لیکن خدا نے ہندوستان کو جتنی استطاعت بخشی ہے اتنا قربانی میں حصہ نہیں لے رہا اس لئے کام تو بہر حال نہیں روکنا وقت پہ خدا توفیق دے گا پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے لیکن اس عرصہ میں ہم نے باہر سے مدد کرنی ہے.چنانچہ وقف جدید کی جو بیرونی تحریک ہے اسکا ایک بڑا مقصد یہی تھا اس کے فوائد اللہ کے فضل سے اتنے زیادہ ہیں اسکے نتیجہ میں جو نتائج ظاہر ہوئے ہیں وہ اتنے زیادہ ہیں کہ بعض ممالک میں اگر ہم ہیں روپے صرف کریں تو جو نتیجہ نکل رہا ہے ہندوستان میں ایک روپیہ خرچ کرنے سے بھی وہی نتیجہ نکل رہا ہے یعنی بعض جگہ بیسیوں گنا زیادہ خرچ کے مقابل پر پھل مل رہا ہے.افریقہ میں بھی بعض ایسے حالات ہیں.مختلف ممالک کے مختلف حالات ہوتے ہیں.جہاں خدا کی تقدیر آپ کو پھل زیادہ دے رہی ہو وہاں اس واقعہ کو نظر انداز کر دینا اور اس سے استفادہ نہ کرنا یہ خدا کی تقدیر کی ناشکری ہے.پس تمام دنیا میں جو وقف جدید کے نام پر خدا کی راہ میں آپ سے رقم لی جاتی ہے اسکا یہ مصرف ہے اور شدھی کی تحریک کے مقابل پر جو جماعت احمدیہ نے تحریک شروع کی اور خدا کے فضل کے ساتھ انتہائی کامیابی کے ساتھ کی اس میں بھی وقف جدید نمایاں طور پر حصہ لے رہی ہے.بعض علاقوں میں جہاں غیروں نے سکول بنائے تھے ہسپتال شفا خانے بنائے تھے، اس طرح وہ مقامی طور پر اپنے اثرات پیدا کر رہے تھے مثلاً عیسائی ہیں جو مسلمانوں کو مرعوب کر رہے تھے یا شیڈول کاسٹ کے لوگوں کو بھینچ رہے تھے وہاں بھی وقف جدید کی طرف سے جوابی کارروائی کسی رنگ میں شروع ہوگئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح نصرت جہاں نے افریقہ میں کام کیا ہے اسی طرح ایک نصرت جہانِ نو تحریک ہندوستان کے لئے ہونی چاہیے.وہاں بھی انہیں خطوط پر کام کو آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ وہاں اللہ کے فضل سے پھل کی غیر معمولی توقع ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ جس رفتار سے ہم آگے چل پڑے ہیں ہم بہت جلد انشاء اللہ کامیاب ہونگے.ہماری پہلی منزل تو یہ ہے کہ پارٹیشن کے وقت تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں جماعت احمدیہ کا جو مقام اور مرتبہ تھا اسکو پہلے حاصل کریں گے.اس کے بعد اگلا قدم یہ ہو گا کہ اس کو بنیاد بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان مبشر الہامات کی تعبیر کی طرف آگے بڑھیں گے جو ہندوستان میں اسلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کی ترقی سے وابستہ ہیں ان کے متعلق جو الہامات نازل

Page 340

333 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرمائے گئے اس لحاظ سے وقف جدید کی تحریک کو آپ بالکل معمولی اور عام تحریک نہ سمجھیں اس کا ہندوستان کے روحانی مستقبل کے ساتھ ایک گہر اواسطہ ہے اور ساری دنیا کی جماعتوں کو اس میں حصہ لینا چاہیے.اب تک جو صورت حال سامنے آئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک وعدوں کا تعلق ہے سال 1986ء میں بیرونی جماعتوں نے جتنے وعدے پیش کئے 1987ء میں اس سے تقریباً نصف وعدے پیش کئے یعنی آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ عمومی طور پر تو ہو نہیں سکتا اسلئے ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.جہاں تک وصولی کا تعلق ہے وہ کم و بیش اتنی ہے.اسلئے یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا مرکزی نظام کی طرف سے پوری توجہ نہیں دلائی جاسکی، کچھ ہوا ضرور ہے یا اعداد و شمار بگڑے ہیں کیونکہ اگر وعدوں میں اتنی کمی تھی تو وصولی میں اسی نسبت سے اتنی کمی ہونی چاہیے تھی وہ نظر نہیں آئی.جب میں نے تفصیلی جائزہ لیا تو جو بڑے بڑے ممالک ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قدم پیچھے نہیں گیا.اس لئے معلوم ہوتا ہے کوئی حسابی غلطی ہوئی ہے یا لوگوں نے سمجھا کہ وعدے لکھوانے کی ضرورت ہی کوئی نہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا برطانیہ کا گزشتہ سال 3600 پونڈز کا وعدہ تھا اس دفعہ خدا کے فضل سے 11419 کا ہے.بیرونی دنیا کی جماعتوں میں برطانیہ کا چندہ ایک بڑا نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے اسلئے جہاں تقریباً چار گنا اضافہ ہورہا ہو وہاں پیچھے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے.دوسری امریکہ کی جماعت ہے.امریکہ کی جماعت اگر چہ برطانیہ سے بہت پیچھے رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود پچھلے سال وصولی صرف 893 پونڈ تھی (یعنی اگر ڈالر کو پونڈ میں تبدیل کیا جائے ).اس سال 4,473 ہے یعنی پانچ گنا زیادہ.پھر سوئٹزر لینڈ ہے، وہاں بھی ڈیڑھ گنا اضافہ ہوا ہے.پھر جرمنی ہے، وہاں بھی ڈیڑھ گنا اضافہ ہوا ہے.پھر کینیڈا ہے، وہاں بھی 1075 اضافہ ہوا ہے.تو جو بڑے بڑے ممالک ہیں جو چندے کی Backbone بناتے ہیں باہر کی دنیا میں یعنی اس چندے کو جس کو ہم دوسرے ملکوں میں منتقل کر سکتے ہیں.افریقہ میں نے اس لئے شمار نہیں کیا کہ وہاں اکثر ہم روپیہ باہر منتقل نہیں کر سکتے.ایسے ممالک میں جو چندے کی ریڑھ کی ہڈی بنا رہے ہیں ان میں تو نمایاں اضافہ ہوا ہے اس لئے ہمارا جو شعبہ ہے اسکو اپنے اعداد وشمار بھی درست کرنے چاہیں اور توجہ دلانے سے کام کو تیز کرنا چاہیے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ بہت جلد یہ رقم کم سے کم ایک لاکھ تک تو ضرور پانچ جائے گی کیونکہ پاکستان کے حالات میں اگر وہ 27 لاکھ سے زائد جیسا کہ دینے والے ہیں امید ہے انشاء اللہ 30 لاکھ تک وہ دے دیں گے.پاکستان کے حالات میں اگر وہ اتنی قربانی دے سکتے ہیں تو بیرونی حالات میں کم سے کم پاکستان جتنی قربانی ساری دنیا کو دینی چاہیے یہ کم سے کم معیار ہے اسکی طرف نسبتا زیادہ توجہ کریں.اور آخری بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کریں اور ان کے ذریعہ چندے

Page 341

334 حضرت خلیفہ امسیح الرابع دلوائیں.میرے پیش نظر صرف روپیہ نہیں ہے بلکہ جس مقصد کی خاطر روپیہ حاصل کیا جاتا ہے وہ مقصد بہر حال اولیت رکھتا ہے یعنی تربیت اور اللہ سے تعلق.چندہ دینے والے کا سب سے بڑا پھل ، سب سے بڑا اجر اس دنیا میں یہ ہے کہ وہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے اور جو بچوں سے چندے دلوائے جاتے ہیں ان کے اوپر اس قربت کا اثر ساری زندگی رہتا ہے بچپن کی نیکی ایسی چھاپ ہے جو ان کے بڑھنے کیساتھ خود ہی بڑھتی رہتی ہے اس کا نقش مٹنے کی بجائے اور زیادہ زندگی میں گہرا جمتا چلا جاتا ہے.اس لئے اپنے بچوں کو باشعور طور پر وقف جدید میں شامل کریں یعنی وہ بچے جو باشعور طور پر داخل ہو سکتے ہیں ورنہ تو پہلے دن کے بچے کو بھی مائیں شامل کر دیتی ہیں.بعض مائیں تو پیدا ہونے والے بچے کو بھی شامل کر دیتی ہیں جو ان کے پیٹ میں ہے اور وعدے لکھوا دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ اس روح کو اور بڑھائے لیکن جو باشعور بچے ہیں ان کے ہاتھ سے دلوانا انکی تعداد میں اضافہ کرنا آپ کیلئے دوہرے اجر کا موجب بنے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 342

335 حضرت خلیفة المسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 6 جنوری 1989 ء بیت الفضل لندن) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُصْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ ص وَيَبْصُطُ وَ إِلَيْهِ ُترْجَعُونَ O اور پھر فرمایا: (البقرة : 246) یہ جمعہ 1989ء کا پہلا جمعہ ہے اور سابقہ روایات کے مطابق نئے سال کے پہلے جمعہ یا اس سے گزرے ہوئے سال کے آخری جمعہ میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان ہوا کرتا ہے.لیکن اس سے پہلے کہ میں وقف جدید کے متعلق کچھ کہوں میں تمام دنیا کی جماعتوں کے تمام احباب اور خواتین اور بچوں کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتا ہوں.میہ سال ہمارے لئے ایک خاص اہمیت کا سال ہے کیونکہ تقریباً دو مہینے اور سترہ دن کے بعد احمدیت کی نئی صدی کا سورج طلوع ہونے والا ہے اور احمدیت کی پہلی صدی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پوری شان کے ساتھ برکتیں پیچھے چھوڑتی ہوئی رخصت ہونے والی ہے.تو اس پہلو سے یہ سال جدائی کا سال بھی ہے اور وصل کا سال بھی ہے.ایک ایسا دن جدا ہونے والا ہے جو اپنی روشنی میں ہمیشہ آئندہ ہر صدی سے بڑھ کر چھکے گا یعنی پہلی صدی کا دن کیونکہ اس کے سر پر وہ امام ظاہر ہوئے جن کی خوشخبری حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے خود عطا فرمائی اور جس کی تیرہ صدیوں تک اُمت انتظار کرتی رہی.پس اگر چہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت آئندہ صدی میں سینکڑوں ہزاروں گنا ترقی کرے گی لیکن وہ ساری ترقیاں مرہون منت ہیں ان قربانیوں کی جو اس پہلی صدی میں کی گئیں.آئندہ صدی بھی قربانیاں مانگے گی، آئندہ صدی میں بھی قربانیاں پیش کی جائیں گی مگر جو آغاز کا نور ہے اسکو کسی طرح آئندہ آنے والی روشنیاں دھندلا نہیں سکتیں.اب دراصل اسی نور کی برکت ہے جو پھیلتی چلی جائے گی اور یہ دن روشن سے روشن تر ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ تمام دنیا پر اسلام کے کامل غلبہ کی صدی طلوع ہوگی.اس پہلو سے یہ جو پہلی صدی پر شام آئی ہے یہ کچھ اداسی کی بھی کیفیت پیدا کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی تیز قدم بڑھانے کی طرف بھی ہمیں اُبھارتی ہے اور جیسے جیسے سورج غروب ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے یہ

Page 343

336 حضرت خلیفہ امسیح الرابع احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ کاموں کے لحاظ سے ابھی ہم پیچھے رہ گئے ہیں.بہت سے پروگرام تھے جن کی طرف میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی.بہت سے پروگرام ہیں جو اس وقت زیر عمل ہیں اور جماعت دنیا میں کوشش کر رہی ہے کہ اگلی صدی کے طلوع سے پہلے پہلے ہم ان پروگراموں کو پائیہ تکمیل تک پہنچا دیں لیکن یہ کام اتنا زیادہ ہے اور کئی جگہ ایسے خلا دکھائی دے رہے ہیں کہ سال کے آغاز پر میں سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ دعاؤں کے ذریعہ مدد مانگیں.میں نے بارہا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور اگر چہ مایوس کسی قیمت پر کسی صورت میں بھی نہیں لیکن پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جتنی تیاری ہمیں کرنی چاہیے تھی ویسی تیاری ہم نہیں کر سکے اور اس وقت ہمیشہ طبیعت دعا کی طرف متوجہ ہوتی ہے.دعا دو طرح سے کرشمے دکھایا کرتی ہے.اول یہ کہ جو کام ہم نہیں کر سکتے وقت کے لحاظ سے دعا کی برکت سے تھوڑے وقت میں اس سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے جتنی عام حالات میں انسانی عقل توقع رکھتی ہے.دوسرے دعا کی برکت سے ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی گزشتہ کوتاہیوں پر بھی پردہ ڈالتے ہوئے اپنے فضل کے ساتھ ایسے ثمرات ، ایسے پھل عطا فرما دیتا ہے جن کے ہم حقدار نہیں تھے جن کیلئے ہم نے محنت نہیں کی تھی کوشش نہیں کی تھی.محض اللہ کے فضل کے ساتھ وہ سارے پھل عطاء ہوتے ہیں جن کی عام حالات میں توقع بھی نہیں کی جاسکتی.تھوڑے کو وہ قبول کرتا ہے اور بہت زیادہ کر دیتا ہے یہی وہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے چونکہ اس کا مالی قربانی سے تعلق ہے اس لئے وقف جدید کے سال نو کے آغاز کا اعلان کرنے سے پہلے میں نے اس آیت کی تلاوت کرنا مناسب سمجھا کہ اب اسکے متعلق میں کچھ بیان کروں.اس کا تعلق چونکہ ایک عمومی اصول سے ہے جس کا اطلاق ہماری موجودہ حالت پر نئی صدی کے طلوع سے پہلے کے حالات پر بھی ہوتا ہے.اس لئے یہ آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے اس تمام صورت حال پر یکساں روشنی ڈالے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً کون ہے جو خدا کو قرضہ حسنہ دے تا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کیلئے بہت بڑھا دے.وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ اور اللہ تعالیٰ چیزیں وصول بھی کرتا ہے قبض بھی کرتا ہے، ان کو کھینچتا بھی ہے اور تبصط ان کو پھیلا بھی دیتا ہے.قبض کا مضمون ایسا ہے جیسے انسان مٹھی میں کوئی چیز سمیٹ لے اور پھر مٹھی کھول کر اس کو پھیلا دے اسکو بضط کہتے ہیں تو وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَنصُطُ خدا تعالیٰ چیزیں سمیٹتا بھی ہے اور ان کو بڑھا کر پھیلا کر واپس بھی کیا کرتا ہے وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اور اسکی طرف تم لوٹائے جاؤ گے.اس آیت میں ایک الجھے ہوئے مضمون کو سلجھایا گیا ہے جو بسا اوقات انسانی ذہن کو پریشان کرتا

Page 344

337 حضرت خلیفة المسیح الرابع ہے جب مومن سے خدا کی راہ میں چندہ مانگا جاتا ہے تو اپنے ایمان اور تقویٰ اور خلوص کی وجہ سے خواہ اس مضمون کی سمجھ آئے یا نہ آئے کہ خدا کو کیا ضرورت ہے.مومن خدا کی راہ میں مالی قربانی کرتے تو ہیں لیکن بسا اوقات یہ سوال اٹھتے ہیں اور قرآن کریم نے ان سوالات کا مختلف جگہ ذکر فرمایا ہے کہ کیا خدا غریب ہے؟ خدا کو کیا ضرورت ہے کہ مومنوں سے قربانی لے؟ ساری کائنات اسکی ہے اور وہ کیوں ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ تکلیف اٹھا کر تنگی ترشی میں بھی ہم اسکی راہ میں کچھ خرچ کریں.اس سوال کے مختلف جوابات قرآن کریم میں ملتے ہیں.یہاں جو مضمون ہے اسے قانون قدرت کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے.فرمایا تم دنیا پر، کائنات پر غور کر و تمام کائنات خدا نے اس طرح پیدا کی ہے کہ وہ چیزوں کو پہلے سمیٹتا ہے پھر بڑھا کر واپس کرتا ہے.زمیندارے پر آپ غور کریں تو آپ کو یہ سارا مسئلہ سمجھ آجائے گا.آپ اگر زمیندارہ جانتے ہیں یا تجربہ ہے تب بھی ورنہ سنا تو سب نے ہوا ہے کہ زمیندار اس وقت اپنا بیج زمین میں ڈالتا ہے جب اس کو اس بیچ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے جب اس کی فصل کا پھل اختتام تک پہنچ رہا ہوتا ہے جب اس کو کھانے کیلئے اپنی دیگر ضروریات کے لئے اس پیج کی براہ راست یا اس کو بیچ کر اس کی قیمت کی بہت ضرورت پڑتی ہے.وہ وقت ہے نئی فصل بونے کا.تو انتہائی ضرورت کے وقت جو دانے اس کے گھر بچتے ہیں ان کو وہ مٹی میں ملا دیتا ہے.یہ ہے قبض کا مضمون اور کامل یقین رکھتا ہے کہ اس کے بغیر اسکی آئندہ سال کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں.وہ کامل یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ جو قبض کرتا ہے وہ بضط بھی کرتا ہے اور بضط کے مضمون پر یقین رکھے بغیر کوئی زمیندار بھی اپنا قیمتی بیج مٹی میں نہیں ملا سکتا.آپ دیکھتے ہیں کہ جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے خدا تعالیٰ اسی مضمون کو ہر سال مختلف شکلوں میں عملی صورت میں دنیا پر ظاہر کرتا چلا جارہا ہے.انسان تو بالا رادہ اپنے بیچ کومٹی میں ملاتا ہے لیکن اس سے پہلے ارب ہا ارب سال سے جب سے نباتات پیدا ہوئی ہے یہی مضمون ہے جو رو کشائی کر رہا ہے، جو ایک چلتی ہوئی فلم کی طرح ہر سال سینکڑوں، ہزاروں ،لاکھوں کروڑوں صورتوں میں ظاہر ہوتا چلا جا رہا ہے.درخت جب پھلوں سے بھر جاتے ہیں تو پھر وہ اپنے پھلوں کو مٹی میں ملا دیتے ہیں ہوائیں ان کو بکھیر دیتی ہیں اور بظاہر سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے لیکن انہی دانوں سے پھر اور پھل پیدا ہوتے ہیں اور درخت اگتے ہیں اور سارا نظام کائنات اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے تو جب خدا تعالیٰ نے کائنات کو اس طرح بنایا اور اسی اصول اور اسی مضمون پر کائنات نے ارتقا اختیار کیا ہے اور مجموعی طور پر انسان کی دولت یا حیوانات کی دولت بڑھتی چلی گئی ہے کم نہیں ہوئی.تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ روحانی نظام میں اس

Page 345

338 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع آزمودہ نسخے کو بھلا دے یا رد فرما دے.پس روحانی دنیا میں بھی مالی قربانی کے جو مطالبے ہیں وہ دراصل اسی خدا کے مطالبے ہیں جس نے آپ کو دنیا میں مٹی میں بیچ ملانا اور پھر فصلیں کاٹنے کا گر سکھایا ہے.فرمایا: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَنصُطُ تم کیوں اس بات کو نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ قانون جاری فرمایا ہوا ہے کہ جولوگ اپنا ماحصل یعنی اپنی دولت کو خدا کے سپر د کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بڑھا کر واپس کیا کرتا ہے فرمایا پھر جس کے لئے وہ چاہتا ہے اسکو بہت بڑھا کر عطاء فرماتا ہے.وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ تم اس کی طرف لو ٹ کر جانے والے ہو.اسکا پہلے مضمون سے کیا تعلق ہے؟ اس کا پہلے مضمون سے دو طرح کا تعلق ہے.اول یہ کہ ہم سب کچھ اپنا جو خدا کی کائنات کو واپس کرتے ہیں یا ہم سے واپس کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں ہوا کرتا بلکہ دوبارہ نئی صورتوں میں اٹھتا ہے، نئی صورتوں میں نکلتا ہے تو فرمایا تم بھی جو مٹی میں ملائے جاؤ گے یہ تمہارے لئے کوئی انجام نہیں ہے یہ تمہارے لئے نئی پیدائش کا دن ہو گا تم خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور جس طرح خدا تعالیٰ اپنی طرف لوٹائی جانے والی چیزوں کو بڑھایا کرتا ہے تمہیں بھی نئی خلق عطا ہوگی جو پہلے سے زیادہ وسیع ہوگی ہر پہلو سے وہ زیادہ شاندار اور زیادہ لطیف ہوگی اور جو کچھ تم قانون قدرت کو اپنے وجود کے طور پر واپس کرو گے اسے خدا تعالیٰ بہت بڑھا کر اور نشو ونما دیکر پھر ظاہر فرمائیگا.دوسرا معنی اس آیت کے اس حصے کا یہ ہے کہ جو کچھ تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو یہ نہ سمجھو کہ ساری جزا تمہیں اس دنیا میں مل جاتی ہے اس دنیا میں بھی ضرور جزا ملتی ہے اور خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والوں کو بہت بڑھا کر عطا کیا جاتا ہے.لیکن اگلی دنیا میں بھی تمہارے لئے یہ خزا نے جمع ہورہے ہیں اگر انسان کسی ایسی جگہ خزانے بھجوا دے جہاں خود نہ پہنچ سکتا ہو تو وہ خزا نے گویا اس کے ہاتھ سے ضائع ہو گئے ، وہ ہمیشہ کے لئے کھوئے گئے تو آیت کا یہ حصہ انسان کو یقین دلاتا ہے کہ تمہاری امانت جہاں پہنچ رہی ہے وہاں تم بھی جانے والے ہو اور جو کچھ تم بھیجو گے اسکو بھیجے ہوئے کی نسبت ہزاروں لاکھوں کروڑوں بلکہ ان گنت گنا زیادہ اس دنیا میں پاؤ گے جس میں آخر تم نے لوٹ کر جاتا ہے.پس یہ چھوٹی سی آیت بہت وسیع مطالب اپنے اند رکھتی ہے اور مالی قربانی کا فلسفہ ہمیں سمجھاتی ہے صرف مالی قربانی کا نہیں بلکہ دیگر قربانیوں کا فلسفہ بھی سمجھاتی ہے ہم خدا کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں یقین کریں کہ ہر وہ چیز جو ہم خرچ کرتے ہیں اسے برکت دی جائے گی ، اسے بڑھایا جائے گا اور واپس ہمیں لوٹایا جائیگا یعنی ہم تو خدا کی طرف لوٹیں گے مگر خدا ہر وہ چیز جو ہم خدا کی طرف بھیجتے ہیں اسے ہماری طرف لوٹا تا چلا جائیگا.اس پہلو سے نئی صدی کے حالات کے ساتھ بھی اس مضمون کا تعلق ہے.جو کچھ خدا نے ہمیں دیا

Page 346

339 حضرت خلیفہ مسیح الرابع عزتیں دیں اموال دیئے جائیں عطافرما ئیں.کئی قسم کی سہولتیں ہمیں بخشیں.آغاز میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت باوجود اسکے کہ جماعت بہت چھوٹی اور بہت کمزور تھی اور بہت غریب تھی اور ان کے پاس بچت کی نسبت بہت تھوڑی تھی ایسے حالات تھے کہ اکثر احمدی بمشکل زندہ رہنے کے لئے گزارے پا رہے تھے بہت کم تھے جو ان میں غیر معمولی طور پر متمول شمار ہو سکتے ہوں لیکن انہوں نے خدا کی راہ میں اپنے اموال بھی دیئے.اپنی عزتیں بھی قربان کیں اپنے تعلقات اپنی دوستیاں اپنی رشتہ داریاں.کوئی ایسی چیز جس کی انسان قدر کر سکتا ہے ایسی نہیں جو اس دور میں جماعت احمدیہ نے خدا کی راہ میں قربان نہ کر دی ہو.جو کچھ ان کو حاصل تھا وہ سب کچھ دے دیا ایسے خطر ناک حالات تھے کہ اس زمانے میں بعض علاقوں کے متعلق انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہاں کے معزز لوگ تمام عزتوں کو اپنے ہاتھ سے تج کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہہ دیں گے یہ ایک لمبی کہانی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا جو کچھ انہوں نے خدا کی راہ میں پیش کیا اس کو بہت بڑھا کر اللہ تعالیٰ نے انکی آئندہ نسلوں اور ان کے خاندانوں کو عطا فرمایا.آج دنیا کے کونے کونے میں احمدی نسلیں جو ان بزرگوں کی نسلیں ہیں پھیلی پڑی ہیں وہ گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی ایک چیز کو بھی ان کے لئے اپنے پاس رکھا نہیں بلکہ یقبضُ وَيَبصُط کے مضمون کو بڑی شان کے ساتھ پورا فرمایا ہے ان کو وسعتیں عطا کیں ان کی عزتیں بڑھائیں ان کے اموال بڑھائے ان کی طاقتیں بڑھائیں ان کے اثر ورسوخ بڑھائے انکی جانوں کو برکت دی انکے خاندانوں اور ان کی نسلوں کو برکت عطاء فرمائی غرضیکہ ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑھا چڑھا کر ان کو وا پس فرمایا.آج ایک سو سال کا عرصہ گزرنے کو ہے اور اس ایک سو سال میں ہم مسلسل اللہ تعالیٰ کے بڑھتے ہوئے ، وسیع تر ہوتے ہوئے فضلوں کا نظارہ کرتے چلے آئے ہیں اس لحاظ سے آج جو ہمیں قربانی کی توفیق مل رہی ہے اس پر اگر آپ غور کریں تو یہ بھی انہی قربانیوں کے بچے ہیں.جو قربانیاں اس وقت تھوڑی نظر آتی تھیں آج زیادہ ہو کر دکھائی دے رہی ہیں تو یہ بھی دراصل يقبضُ وَيَبْصُطُ کے مضمون سے تعلق رکھنے والی بات ہے.قربانیوں کی طاقت کو بھی خدا تعالیٰ بڑھاتا ہے قربانیوں کے مظاہروں کو بھی اللہ تعالیٰ برکت عطا فرماتا ہے اور ایک نسل جو اس بات کا عرفان نہ رکھتی ہو بعض دفعہ بیوقوفی میں یہ کہ سکتی ہے کہ ہم زیادہ قربانیاں دے رہے ہیں ہم زیادہ وقت دے رہے ہیں ہم منتظم طور پر زیادہ کام کر رہے ہیں لیکن اس بات کو وہ بھول جاتے ہیں کہ در اصل ان کے آباء کی قربانیاں ہیں جو بحیثیت قربانی برکت پارہی ہیں.پس جو کچھ آج ہم روحانی لحاظ سے مٹی میں ملا رہے ہیں یامٹی میں ملانے کی توفیق پارہے ہیں، مٹی میں ملانے کی سعادت پارہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ صدی ان قربانیوں کے بکثرت

Page 347

340 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فیض پائے گی اور اگر ہم دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتا ہیوں اور غفلتوں کی معافی چاہتے ہوئے ،استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کرتے رہیں گے کہ جو کچھ ہم نے خدا کے حضور قربانیوں کی صورت میں پیش کیا ہے ہم جانتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ کر سکتے تھے یہ تو بہت تھوڑا ہے جو ہم نے پیش کیا ہے لیکن اے خدا تو بڑھانے والا ہے، تو تھوڑے کو بہت کرنے والا ہے، تیری طاقتوں کی کوئی حد نہیں ہے کوئی شمار نہیں ہے اس لئے قطع نظر اس کے کہ ہم نے تیری راہ میں کیا پیش کیا تو اسے بہت بڑھا دے.اس مضمون کو سمجھنا ہو تو پھر اسی مثال کی طرف واپس لوٹتے ہیں جو میں نے پہلے بیان کی ہے ہر زمیندار جو دانے مٹی میں ملاتا ہے اس کے ساتھ مٹی ایک جیسا سلوک نہیں کیا کرتی.حالات مختلف ہیں زمینیں مختلف ہیں چنانچہ قرآن کریم نے اس مثال کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض ایسی قربانیاں ہیں جو خالصہ للہ کی جاتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو دکھاوے کی خاطر کی جاتی ہیں.جو خالصہ اللہ کی جاتی ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے زمیندار کا دانہ کسی ایسی زرخیز زمین میں پڑے جو غیر معمولی طور پر اس دانے کو بڑھانے کی طاقت رکھتی ہو.اگر تیز بارش ہو تب بھی وہ زمین بڑی کثرت کے ساتھ اس پیج کو اُ گائے اور نشو و نما عطا کرے اور اگر بارش نہ بھی ہو تو رات کی شبنم سے بھی وہ استفادہ کر سکے اور اسی تھوڑی سی شبنم کے ذریعہ ہی وہ اس پیج کو بڑھا دے اور بعض قربانیاں ایسی ہیں جو سطحی ہوا کرتی ہیں جن کو خدا تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایسی سخت چٹان پر وہ بیج پڑے جس کی سطح پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی ہے وہ تھوڑی دیر کے لئے روئیدگی ظاہر کرتی ہے سبزہ دکھائی دیتا ہے لیکن جب بھی بارش آتی ہے وہ سب کچھ کو بہالے جاتی ہے.پھر اسی مثال میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اپنی قربانیوں کا تتبع کرتے ہیں ان کے پیچھے چلتے ہیں اور ان کی آبیاری کرتے ہیں ان کو بہت زیادہ دیا جاتا ہے بہ نسبت ان زمینداروں کے جو بیچ پھینک کر خواہ اچھی زمین پر پھینکا ہو پھر اس سے غافل ہو جاتے ہیں.تو صرف قربانی کر دینا کافی نہیں ہے.قربانی کیسی ہے اور کس حد تک وہ نشو ونما پانے کی توفیق رکھتی ہے.یہ ایک بہت ہی وسیع مضمون ہے اس لئے دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے.وہ حال کا بھی خدا ہے مستقبل کا بھی ہے اور ماضی کا بھی ہے، یہ التجا کرنی چاہیے کہ اگر ہماری قربانیوں میں، ہماری نیتوں میں کچھ فتور بھی رہ گیا ہو اور خالصہ تیرے لئے نہ بھی کی گئیں ہوں تو آج ہم التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بخش دے.ہمیں معاف فرما ہماری قربانیوں کو کامل سچائی عطا کر، تو جیسے مستقبل کا خدا ہے ویسے ماضی کا بھی ہے تو زمانے کا مالک ہے تو چاہے تو ہماری گزری ہوئی کوتا ہیوں کی بھی پردہ پوشی فرما سکتا ہے اور ان کوتاہیوں کی زد سے ہماری قربانیوں کو بچا سکتا ہے اسلئے آئندہ کے لئے ہمیں خلوص کی توفیق عطا فرما اور سابقہ کوتاہیوں کو بخش دے اور پھر فضلوں کی ایسی موسلا دھار بارش

Page 348

341 حضرت خلیفہ المسیح الرابع برسا کہ ہماری تھوڑی قربانیاں بھی بہت زیادہ نشو و نما پا جائیں اور ہر زمانے میں نشو و نما پاتی رہیں.یہ مضمون جو ہے اس کو پھر خدا تعالیٰ اور بڑھاتا ہے فرماتا ہے کہ عام قانون قدرت میں جب بہت دیا جائے تو ایک دانہ سات بالیوں میں تبدیل ہو سکتا ہے اور ہر بالی میں سوسو دانے ہوں تو ایک دانہ سات سو گنا ترقی کر سکتا ہے لیکن فرمایا کہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی یہ تو تمہارے اخلاص کے کمال اور خدا تعالیٰ کے حضور اس اخلاص کو قبول کئے جانے کا مضمون ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل کا مضمون (جس کا قربانیوں سے کوئی تعلق نہیں یعنی براہ راست تعلق نہیں وہ ) اس کے علاوہ ہے.فرمایا اگر تم بہترین رنگ میں خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرو گے تو عام قانون جو روحانی دنیا میں چل رہا ہے جس کا اطلاق بعض شکلوں میں مادی دنیا میں بھی تم ہوتا ہوا دیکھتے ہو وہ یہ ہے کہ ایک قربانی سات سو گنا زیادہ پھل پیدا کر سکتی ہے لیکن کچھا ایسے بھی لوگ ہیں جن کی خاطر يُضعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ کے مطابق خدا الا محدود طور پر ان قربانیوں کے پھلوں کو بڑھا بھی سکتا ہے.جس کے لئے وہ چاہے، جس کیلئے وہ فیصلہ کرے وہ ان قوانین کی حد سے بالا سمجھا جائیگا اور ان حدود کے دائرہ کے اندر اس سے سلوک نہیں کیا جائے گا بلکہ لامحدود سلوک کیا جائے گا تو ہمارا جس خدا سے تعلق ہے اس کے ساتھ یہ جو حسابی معاملات ہیں یہ ہمیں درست کرنے ہونگے اور بے حساب کی توقع اس سے ہم رکھیں تو وہ بے حساب دے سکتا ہے.پس جہاں تک انسان کا تعلق ہے اسے اپنا حساب ضرور درست کرنا چاہیے اور اپنا حساب درست کرنے کے بعد اس کیساتھ خدا پر توکل رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو حساب کے مطابق بہت دے یا بے حساب عطا کرے.اس بے حساب عطا کرنے کے مضمون میں بظاہر کوئی منطق نہیں.وہ کون لوگ ہیں جن کیساتھ خدا تعالیٰ بے حساب سلوک فرماتا ہے؟ اس مضمون کو اگر آپ سمجھ لیں تو پھر ہم میں سے ہر شخص اللہ تعالیٰ سے لامحدود عنایات کی توقع رکھ سکتا ہے.خدا تعالیٰ کے ہاں احسان میں بھی ایک عدل پایا جاتا ہے اور کلیۂ بے وجہ اس کا کوئی سلوک بھی نہیں ہوتا.جہاں تک میں نے غور کیا ہے بے حساب عطا کرنے کا مضمون اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ آپ اپنی حد تک پہنچ جائیں اور اس سے آگے بڑھنا آپ کے لئے اس لئے ممکن نہ ہو کہ آپ کی استعدادوں سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے وہاں سے فضل کا مضمون شروع ہوتا ہے اور وہاں سے بے حساب کا مضمون شروع ہوتا ہے اس لئے میں نے کہا تھا کہ آپ اپنا حساب پورا کریں جتنی توفیق ہے جتنی استطاعت ہے وہ سب کچھ اگر آپ خدا کی راہ میں پیش کر دیں اور ایک ایسا مقام دیکھیں جہاں اس سے آگے آپ بڑھ نہیں سکتے وہاں پھر آپ کی نیکیوں کی حسرتیں باقی رہ جائیں گی وہاں خواہشیں ہیں جو دل میں کلبلا ئیں گی اور بے چین کریں گی کہ کاش ہم اس سے بھی زیادہ کر سکتے.اس حد سے آگے پھر آپ کے عمل کی حد ختم ہو جاتی ہے اور

Page 349

خدا کے لامحدود فضلوں کی حد شروع ہو جاتی ہے.342 حضرت خلیفہ امسیح الرابع حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ سے اللہ تعالیٰ نے جو لا محدود فضلوں کا سلوک فرمایا ہے ایک جاہل اعلية دنیا دار یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی مرضی تھی اس نے جس طرح چاہا انکو بڑھا دیا اور اس میں اس کا ARBITRARY فیصلہ ہے یعنی بغیر کسی RY ARBITRARY کے، بغیر کسی وجہ کے، دنیا کے لحاظ سے یہی بات درست نظر آتی ہے مگر امر واقعہ اس سے مختلف ہے.خدا تعالیٰ کے ہر احسان کے اندر عدل کا مضمون پایا جاتا ہے اور اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے یا آپ کی غلامی میں کسی اور شخص سے جب آپ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا لامحدود سلوک دیکھتے ہیں تو یقین کریں کہ اس شخص کی قربانیوں کی ایک ایسی حد پہنچی تھی جس سے آگے اس کی تمنا ئیں رہ گئی تھیں اور حسرتیں رہ گئی تھیں اور خدا نے اس کو جو استعداد میں عطا کی تھیں اُن میں توفیق نہیں تھی کہ اس سے آگے بڑھ سکیں تب خدا کے فضل نے وہاں سے اس کا ہاتھ پکڑا ہے.اور پھر اسکولا محدود فضلوں کی دنیا میں پہنچا دیا ہے.معراج محمد مصطفی ﷺ میں ہمیں یہی مضمون ملتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بشریت کی حدود کے آخری مقام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اس سے بالا بشریت کا کوئی مقام نہیں ہے جس حد تک ممکن تھا سب کچھ خدا کی راہ میں پیش کر دیا ہے یہاں تک کہ اس کے بعد پھر خدا باقی رہ جاتا ہے اور بشریت کی تمام طاقتیں ختم ہو جاتی اور کوتاہ ہو جاتی ہیں مگر وہاں آپ ٹھہرے نہیں ہیں وہاں تعلق باللہ کا ایک نیا مضمون شروع ہوا ہے جولا محدود ہے.اس تک عام انسان کی نظر اور اس کا فہم اور اس کا ادراک پہنچ ہی نہیں سکتے لیکن روز مرہ کی زندگی میں ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے یہ تجربے ہو سکتے ہیں اس لئے جماعت احمدیہ کو اپنے ایسے خدا سے تعلق جوڑتے ہوئے اس تعلق کو محدود نہیں رکھنا چاہیے.بڑا ظلم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تو لا محدود فضل کرنے والا ہو اور ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اس کے فضلوں کے ہاتھ روک رہے ہوں اور ان کو محدود کر رہے ہوں اس لئے اب یہ دعا کرنی چاہیے کہ جو کوتا ہیاں ہم سے ہوگئیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے اوپرستاری کا پردہ ڈال دے اور ہماری غفلتوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے نیکیوں کے طور پر شمار کر لے اور ہماری استعدادوں کو بھی بڑھائے اور ہمیں اپنی استعدادوں تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے یہاں تک کہ نیکی کے ہر میدان میں ہم اس کنارے تک پہنچ جائیں جس سے آگے ہماری بشریت کی حد کے لحاظ سے بڑھناممکن نہ رہے اور پھر ہم خدا کے لا انتہا فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں اور آئندہ صدیاں ہماری ان قربانیوں کے لا انتہا پھل کھاتی چلی جائیں.اس بات کو یا درکھیں کہ ہم نے پہلوں کی محنت کے پھل کھائے ہیں اس لئے ان کو بھی اپنی دعاؤں میں بھولیں نہیں اور ہماری محنت کے پھل آئندہ نسلیں کھائیں گی اور اگر آپ پہلی نسلوں سے یہ سلوک کریں گے کہ ان

Page 350

343 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے سامنے نیک نمونہ پیش کریں گے اور اپنے دل میں سوز و گداز کے ساتھ اپنی دلی دعاؤں میں ان کو یا درکھیں گے تو یا درکھیں کہ پھر آئندہ نسلیں بھی آپ سے ایسا ہی سلوک کریں گی.پس یہ جو دو ماہ سترہ دن اس صدی کے باقی ہیں ان کو خصوصیت کے ساتھ ان دعاؤں میں وقف کریں اپنے حالات کا جائزہ لیں اور اپنے دلوں کو ٹولیں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں اور کس حد تک اصلاح نفس کے لحاظ سے، تربیت کا جو مجاہدہ ہم کر رہے ہیں اسکے لحاظ سے ، اور خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کے لحاظ سے کمی رہ گئی ہے اور دعا یہ کریں کہ ان دو ماہ سترہ دن میں خدا تعالیٰ اتنی برکت ڈال دے کہ وقت کے پیمانے کے لحاظ سے نہیں بلکہ فضل کے پیمانے کے لحاظ سے ہمیں عمل کی توفیق عطا ہو اور اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول کرتے ہوئے ہماری جزاؤں کو لا انتہا کر دے.اس مختصر تعارف کے بعد اب اسی مضمون کی روشنی میں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.جیسا کہ آپ کو معلوم ہے وقف جدید کی تحریک پہلے صرف پاکستان اور ہندوستان تک محدود تھی لیکن تقریباً تین سال کا عرصہ ہوا اسے ساری دنیا میں پھیلا دیا گیا ہے اور اگر چہ بعض ممالک ایسے ہیں جہاں وقف جدید کا چندہ و ہیں انہی ممالک میں خرچ کیا جاتا ہے مثلاً افریقہ کے ممالک اور بعض دوسرے ممالک ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک میں جماعتیں وقف جدید کا جو چندہ ادا کرتی ہیں وہ زیادہ تر ہندوستان میں خرچ کے لئے وقف ہے.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت وقف جدید کے لحاظ سے قربانی میں مسلسل آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.1984ء میں، وعدوں کے متعلق تو یہاں ذکر نہیں لیکن، وصولی سترہ لاکھ پندرہ ہزار بہتر روپے تھی.1985ء میں ہیں لاکھ چوالیس ہزار ہوگئی.1986ء میں تیئیس لاکھ بانوے ہزار اور 1987ء میں اٹھائیس لاکھ اکسٹھ ہزار تک جا پہنچی اور اب 1988ء میں خیال ہے کہ بجٹ انشاء اللہ اکتیس لاکھ سے بڑھ جائے گا یعنی کل آمد بڑھ جائے گی لیکن اس تاریخ تک جب یہ رپورٹ بھجوائی گئی پچیس لاکھ پچاسی ہزار روپے وصولی تھی.وقف جدید کا سال اگر چہ دسمبر میں ختم ہوتا ہے لیکن وصولی جو گزشتہ سال کی ہے وہ اگلے ایک دو ماہ تک آتی چلی جاتی ہے.اور پہلے کیونکہ جلسہ سالا نہ ہوا کرتا تھا اس لئے دسمبر کے آخر پر سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی اب یہ Peak یعنی سب سے زیادہ وصولی وہاں سے تبدیل ہو کر جنوری میں داخل ہوگئی ہے.کیونکہ اب ڈاک کے ذریعہ آتی ہے اس لئے عموماً سال کے آخر پر جب جماعتیں حساب سمیٹتی ہیں تو زیادہ تر رقمیں جنوری میں داخل کرتی ہیں.مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے تقریباً 24 سال وقف جدید میں خدمت کی توفیق ملی ہے میرا گزشتہ تجربہ یہی ہے کہ بعض دفعہ ہیں فیصد تک یا

Page 351

344 حضرت خلیفة المسیح الرابع پچیس فیصد تک بھی آخری ایک دو ماہ میں گزشتہ سال کا چندہ موصول ہوتا ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ جس رفتار سے اللہ تعالیٰ پاکستان کی جماعتوں کو آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے اس سال بھی ویسا ہی سلوک فرمائیگا اور ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرما تا رہے گا.دعا کی تحریک کے طور پر عموماً ان جماعتوں کے نام سنائے جاتے ہیں جنہوں نے مالی قربانی میں غیر معمولی حصہ لیا ہے.دفتر اطفال کا جہاں تک تعلق ہے جس ترتیب سے میں یہ نام سناؤں گا اسی ترتیب سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اطفال کے چندے کے سلسلہ میں ان جماعتوں کو غیر معمولی قربانی کی توفیق ملی ہے.ربوہ سرفہرست ہے پھر بدین، سانگھڑ، سکھر ، خیر پور، رحیم یار خاں ،مظفر گڑھ ، راجن پور، گوجرانوالہ، لاہور ، سیالکوٹ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، سرگودہا ، چکوال، راولپنڈی، اسلام آبا دا ور ا ٹک ہیں.جہاں تک عام چندہ وقف جدید کا تعلق ہے اسمیں اس فہرست کی ترتیب حسب ذیل ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ آسمیں بھی سر فہرست ہے پھر کراچی ، حیدرآباد، تھر پارکر ، سانگھڑ ، خیر پور، رحیم یار خاں، ڈیرہ غازی خاں ، راجن پور، بہاولنگر ، ملتان، گوجرانوالہ، لاہور ، سیالکوٹ ،فیصل آباد، شیخو پورہ، جھنگ ، اوکاڑہ، گجرات، چکوال، راولپنڈی اور ایبٹ آباد ہیں.یہ میں نہیں جانتا کہ وقف جدید کے دفتر والوں نے یہ ترتیب کیسے قائم کی ہے.جب میں وقف جدید میں ہوا کرتا تھا تو بڑی احتیاط سے مختلف پہلوؤں سے جائزے لیکر یہ ترتیب قائم کیا کرتا تھا.جہاں تک کل چندے کا تعلق ہے ظاہر بات ہے کہ یہ ترتیب درست نہیں ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ سانگھڑ کو لاہور سے زیادہ یا رحیم یار خاں یا ڈیرہ غازی خاں کولا ہور سے زیادہ چندہ پیش کرنے کی توفیق ملی ہو.اس لئے یا تو غلطی ہوئی ہے اور اس دفعہ انہوں نے یہ جو فہرست بھجوائی ہے یہ بے ترتیب بھیج دی ہے مگر چونکہ ہمیشہ گزشتہ سالوں میں ایک ترتیب قائم کی جاتی تھی اور اول جماعتوں کا اول ذکر کیا جاتا تھا اس لحاظ سے میں نے یہی سمجھا کہ اسی ترتیب سے ان جماعتوں نے قربانی میں حصہ لیا ہو گا.اگر انہوں نے یعنی وقف جدید کے دفتر والوں نے کسی اور پہلو سے یہ ترتیب قائم کی ہے مثلاً گزشتہ سال کے مقابل پر فی کس چندہ دہندہ کے اضافے کا جہاں تک تعلق ہے تو ہوسکتا ہے یہ ترتیب بدل چکی ہواور بعض چھوٹی جماعتیں اس پہلو سے زیادہ آگے آجائیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے بعض دفعہ ترتیب قائم کی جاتی ہے کہ وعدوں کے مقابل پر وصولی کی نسبت کے لحاظ سے کون آگے ہے کیونکہ ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے یا بھیجی گئی ہے تو اتنی تاخیر سے بھیجی گئی ہے کہ ابھی میں اس کا مطالعہ نہیں کر سکا اسلئے میں نے احیتا کا ساتھ یہ وضاحت کر دی ہے.یہ نہ ہو کہ بعد میں جماعتیں پھر احتجاج شروع کر دیں کہ ہم نے زیادہ دیا تھا آپ نے ہمارا نام پیچھے پڑھ دیا کیونکہ اکثر جماعتیں پھر یہ کہا کرتی ہیں بہر حال جو بھی اللہ

Page 352

345 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے نزدیک قربانی کے لحاظ سے آگے ہے اسے اللہ اپنی جزا میں بھی آگے رکھے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کو آگے بڑھائے اور صف اول کی قربانی کرنے والوں میں شامل فرمائے.جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے جماعتوں کی طرف سے اطلاعات ہمیں ملی ہیں اس کیمطابق جس ترتیب سے میں اب یہ نام پڑھوں گا یہ درست ہے.صرف ایک شکوے کی بات یہ ہے کہ بیرونی جماعتوں نے بار بار توجہ دلانے کے باوجود کوائف بھیجوانے میں بہت سستی کی ہے اور اب یہ فہرست بھی جو میں پڑھ کر سناؤں گا اس میں بھی کئی خامیاں ہوں گی کیونکہ ہمیں بر وقت اطلاع نہیں مل سکی تو اگر کوئی جماعت زیادہ قربانی کرنے والی تھی اور فہرست کے لحاظ سے پیچھے رہ گئی ہے تو اسمیں ان کے اپنے نظام کا قصور ہے انہوں نے بروقت اطلاع کیوں نہیں دی.بہر حال جو اطلاعیں ملی ہیں ان کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ کی جماعت سر فہرست ہے جس نے سال گزشتہ میں گیارہ ہزار پونڈ وقف جدید میں ادا کیسے دوسرے درجہ پر جرمنی کی جماعت ہے جس نے نو ہزار آٹھ سو ایک پونڈ زادا کئے تیسرے درجہ پر امریکہ کی جماعت ہے جس نے چھ ہزار پانچ سو بائیس پونڈ زاد کئے پھر ماریشس کا نمبر آتا ہے جس نے دو ہزار ایک سو اٹھانوے پونڈز ادا کئے اور پھر کینیڈا ہے جس نے دو ہزار تیئیس پونڈز ادا کئے.کینیڈا کی کچھ سمجھ نہیں آئی یہ کیسے ہوا کیونکہ عام طور پر وہ مالی قربانی میں امریکہ سے پیچھے نہیں ہے اور ہر دوسری تحریک میں خدا کے فضل سے نہ صرف یہ کہ امریکہ سے پیچھے قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ آگے بڑھنے کا رجحان پایا جارہا ہے اس لئے ہو سکتا ہے انکی انتظامیہ کا قصور ہو یا وقف جدید کے سیکرٹری کا قصور ہو وہ سارا سال غافل رہا ہولیکن جیسا تاثر کینیڈا کا یہاں پیدا ہو رہا ہے ویسا نہیں ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرف وہ مزید توجہ کریں گے.انڈو نیشیا ایک ہزار پانچ صد بائیس پونڈ ز، ناروے ایک ہزار تین سو چھیانوے پونڈ ز ، وہ چھوٹی جماعتیں ہیں جو بعد میں آکر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں ان میں ناروے بھی خدا کے فضل سے شامل ہے.ناروے ہر جہت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہا ہے لیکن اس پہلو سے سوئٹزر لینڈ ، ناروے کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے کیونکہ سوئٹزر لینڈ کی جماعت ناروے کی جماعت کے مقابل پر تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے لیکن وقف جدید کے چندے میں انہوں نے رپورٹ کے مطابق ایک ہزار دوسو پونڈز ادا کئے تھے.ڈنمارک نے ایک ہزارستاون پونڈ ز اس مد میں ادا کئے ہیں.بہر حال یہ مختصر رپورٹ بھی نامکمل ہے لیکن ایک تھوڑی سی تصویر آپ کے سامنے رکھ دی ہے کہ وقف جدید کے چندوں کی طرف بیرونی دنیا میں کس قد رتوجہ ہورہی ہے پہلے بھی میں نے یہ بات سمجھائی تھی کہ بیرونی دنیا میں وقف جدید کی جو تحریک ہے اسکی دو وجوہات ہیں اول یہ کہ ہر نیکی میں حصہ لینے اور شامل ہونے کا موقعہ پانے کی انسان کے دل میں تمنا ہوتی

Page 353

346 حضرت خلیفہ المسح الرابع ہے اور یہ وہ تحریک تھی جو بے وجہ تو نہیں کہہ سکتے، لیکن بعض خاص مصلحتوں کی وجہ سے آغاز میں صرف پاکستان اور ہندوستان میں محدود کی گئی تھی.اس عرصہ میں میں نے ایکد فعہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں تحریک کر کے یہ اجازت لی تھی چنانچہ تحریک نے اس پر پھر عمل بھی کیا کہ باہر کی دنیا کو بھی وقف جدید میں شامل کیا جائے خواہ وہ اپنا رو پید اپنے پاس ہی رکھیں چنانچہ کچھ نیم دلی کے ساتھ یہ تحریک آج سے ت پہلے جاری ہو گئی تھی اور مختلف رپورٹوں میں ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ افریقہ کے بعض ممالک نے ، یورپ نے یا امریکہ، کچھ کچھ روپیہ وقف جدید میں بھی ادا کیا ہے جو ان کے مقامی فنڈز میں شامل کر لیا گیا.آج سے غالباً تین سال پہلے کی بات ہے جب میں نے شدھی کے خلاف جہاد کی تحریک کی تھی تو اس وقت شدھی کیلئے وقتی طور پر روپے کی کچھ ضرورت تھی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے پورا ہو گیا لیکن یہ ایک ایسا کام نہیں تھا جسے ہم تھوڑی دیر کرنے کے بعد بھلا دیں.ہندوستان میں وسیع پیمانے پر مختلف صوبوں میں مسلمانوں کو مرتد کر کے دوبارہ ہندو بنانے کی منتظم کوششیں جاری ہیں اور جتنی زیادہ میں تحقیق کروا رہا ہوں اتنا ہی زیادہ ہولناک منظر سامنے آرہا ہے.علی گڑھ جو مسلم یونیورسٹی کا مرکز ہے اور ہندوستان میں اسلامی تعلیم کا ایسا مرکز ہے کہ گویا وہاں ایک روشنی کا مینار ہے.اسکے اردگرد ہزاروں گاؤں ایسے ہیں جو چند نسلیں پہلے مسلمان تھے اور اب دوبارہ ہندو بنالئے گئے ہیں.یوپی میں مسلمان مراکز کے اردگرد مشہور شہروں مثلاً لکھنو کے اردگردشاہجہان پور کے ارد گر دمختلف جگہوں میں یہی قصہ جاری ہے.آندھرا پر دیش میں کوئی حصہ ایسا نہیں ہے، راجستھان کو لے لیں، جہاں منظم طریق پر ی تحریک جاری نہ ہو اور پنجاب میں بھی اب یہ ممتد کر دی گئی ہے.قادیان سے باہر ہم نے یہ تحریک چلائی تھی کہ گرتے ہوئے مسلمانوں کو سنبھالیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی مسجدیں واگزار کروائی گئیں جہاں اذانیں نہیں ہوتی تھیں وہاں اذانیں دلوائی گئیں یا با قاعدہ نمازیں شروع کی گئیں اور مسجدوں کو آبا دکیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت بھاری کام ہوا ہے.پچھلے دنوں چونکہ سیاسی حالات بگڑے ہیں اسلئے اس کام میں ویسی تیزی نہیں رہی لیکن جہاں تک مخالفانہ کوششوں کا تعلق ہے وہ بھی اسی طرح جاری ہیں اور پنجاب میں گزشتہ ایک دوسال کے اندر خصوصیت کے ساتھ شدھی کی تحریک منظم طور پر داخل ہوئی ہے.تو ان سب تحریکات کے مقابلہ کے لئے ہندوستان کی جو وقف جدید ہے مالی لحاظ سے اس کی یہ استطاعت نہیں ہے کہ جتنی ضرورت ہے وہ اسکو پورا کر سکے.ہندوستان کی جماعتیں چونکہ چھوٹی رہ گئی ہیں ان میں یہ طاقت نہیں ہے.اسی مقصد کے پیش نظر میں نے وقف جدید کو مستقلاً تمام دنیا میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا اس کا مقصد یہی تھا کہ یہ سارا روپیہ جب تک ضرورت پیش آتی ہے ہندوستان کے لئے وقف کیا جائے او راگر یہ ضرورت پوری ہوگئی یعنی

Page 354

347 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ضرورتیں تو ویسے دین کی کبھی بھی پوری نہیں ہوا کرتیں مگر اگر ایسا وقت آیا کہ ہندوستان کی جماعتیں اپنی کوششوں کے ذریعہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں اور اللہ کرے کہ جلد وہ وقت آئے تو پھر اسی روپے کو آپ کے بچوں کی تربیت کے لئے استعمال کیا جائے گا اور جس طرح معلمین تیار کئے جاتے ہیں مدرس کے طور پر من جگہ جگہ بیٹھ کر چھوٹی جماعتوں ، میں پورے مربی کی تعلیم تو نہیں پاتے لیکن اتنا علم ضرور رکھتے ہیں کہ ابتدائی قرآن کی تعلیم ، نماز ، روزے کی تعلیم دے سکیں ، تو اس قسم کے معلم پھر غیر ملکوں میں بھی رکھے جاسکتے ہیں.تو یہ تحریک انشاء اللہ تعالیٰ ایک لمبی چلنے والی تحریک ہے اور بہت ہی نتیجہ خیز ثابت ہو گی لیکن سر دست تو فوری ضرورت ہمیں ہندوستان کیلئے ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ جماعتیں بھی جواب تک اس تحریک کے فوائد سے غافل رہنے کی وجہ سے اس میں ہل کا حصہ لیتی رہی ہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب جماعت کو احساس ہو جائے کہ کسی چیز کی ضرورت ہے تو پھر وہ ہلکا حصہ نہیں لیا کرتی بلکہ بعض دفعہ تو روکنا پڑتا ہے سمجھا کر کہنا پڑتا ہے کہ بھٹی اس سے زیادہ نہ دو.اس لئے یہ تو ناممکن ہے کہ جماعت نے وقف جدید کی طرف اس لئے توجہ نہ دی ہو کہ انکے اندرا خلاص میں کمی آگئی ہے نعوذ باللہ من ذلک.لیکن یہ یقینی بات ہے کہ وقف جدید کے فوائد اور اس کے عالمی اثرات سے ناواقفیت کے نتیجہ میں جماعت کا رد عمل نسبتا نرم ہوا ہو.اسلئے میں آپ کو یاد کروا رہا ہوں کہ اس تحریک کے یہ مقاصد ہیں یہ اس کے فوائد ہیں یہ اس کی ضروریات ہیں اس لئے جہاں تک تو فیق ہو آپ اس تحریک میں پہلے سے بڑھ کر حصہ لیں.اور آخر پر یہ بات یاددہانی کے طور پر کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو کثرت سے اس میں شامل کریں.جو تعداد مجھے ملی ہے مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ اعداد و شمار درست ہوں گے.بتایا گیا ہے کہ بیرون پاکستان صرف چھ ہزار احباب ہیں جو وقف جدید میں اب تک شامل ہوئے ہیں.یہ ماننے والی بات نہیں اعدادو شمار بھجوانے میں ضرور غلطی ہوئی ہے مگر کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کوئی احمدی بچہ بھی ایسا نہ رہے جو وقف جدید میں شامل نہ ہو.اور باہر کے لحاظ سے اگر آپ ایک پونڈ مثلاً انگلستان میں ایک بچے کیلئے پیش کر دیں تو میرے خیال میں تو کوئی ایسی مشکل نہیں ہے اور اگر نسبتاً بڑے بچوں کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے پیش کریں اور اپنے جیب خرچ میں سے پیش کریں تو پھر اس کا بہت فائدہ پہنچے گا اور روحانی لحاظ سے ان بچوں کے دل میں ہمیشہ کیلئے ایک عزم پیدا ہو جائے گا ایک خواہش پیدا ہو جائے گی کہ ہم دینی خدمات میں حصہ لیتے رہیں.ایک بیج بویا جائے گا جسے خدا تعالیٰ پھر بڑھائے گا تو اس پہلو سے اس طرف بہت توجہ دینی چاہیے.باہر کی دنیا میں تعداد بڑھانے کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائے اور میں سمجھتا ہوں اگر تعداد بڑھائی جائے اور تھوڑا تھوڑا چندہ بچے بھی دیں اور بعض نئے شامل ہونے والے بھی پیش کریں تو سر دست

Page 355

348 حضرت خلیفہ مسیح الرابع جو فوری ضروریات ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہو جائیں گی.میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ اس پہلو سے بھی ہمیں آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطاء فرمائے گا.دعاؤں میں بھی اس تحریک کو یا درکھیں ہندوستان کے حالات ایسے ہیں کہ ہماری جماعت تناسب کے لحاظ سے بہت ہی تھوڑی ہے اور خدمت کے میدان بے انتہا ہیں اور چونکہ ہندوستان کو خدا تعالیٰ نے آئندہ اسلام کا قلعہ بنانے کے لئے چنا تھا اور ہندوستان ہی میں امام پیدا فرمایا تھا اس لئے اس ملک کی بہت غیر معمولی اہمیت ہے جسے ہم وقتی حالات کی تبدیلی سے نظر انداز نہیں کر سکتے.اگر ہندوستان مسلمان ہو جائے تو دنیا کی عظیم ترین اسلامی مملکت بنے گا اور اگر احمدی تربیت کے تابع مسلمان ہو تو اسلامی کا سوال نہیں ساری دنیا میں سب سے زیادہ عظیم طاقت بن سکتا ہے کیونکہ احمدیت جس طرح اسلامی اخلاق پر زور دیتی ہے اور اسلامی اخلاق کو نظریاتی طور پر نہیں بلکہ عملی دنیا میں انسانوں کی زندگی میں ڈھالتی ہے اس سے طاقت پیدا ہوا کرتی ہے اور اگر ہندوستان مسلمان ہو جائے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تمام دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بن جائے گا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ ساری دنیا کے مسلمان ہونے کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے اسلئے پاکستان کا اپنا ایک مقام ہے اس مقام کو میں نظر انداز نہیں کر رہا لیکن ہندوستان کو بھی اس کا حق ملنا چاہیے اور ہمیں ہندوستان کے حق سے غافل نہیں رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی تو فیق عطاء فرمائے اور ہمارے تھوڑے کو قبول فرمائے اور اس کے نیک اثرات کو بہت بڑھا کر ظاہر فرمائے.آمین.....

Page 356

349 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 29 دسمبر 1989 ء بیت الفضل لندن تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ جمعہ جس کی ادائیگی کیلئے آج ہم اکٹھے ہوئے ہیں سال 1989 ء کا آخری جمعہ ہے اور دوروز تک یہ سال اختتام پذیر ہونے والا ہے.یہ سال نہ صرف یہ کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک غیر معمولی سال ہے بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی یہ سال ایک غیر معمولی سال بن کر اُبھرا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں.آپ کو یاد ہو گا جب ہم ربوہ میں 23 مارچ کا دن خوشی کے دن کے طور پر منانا چاہتے تھے تو جماعت کے دشمنوں نے پورا زور لگایا کہ وہ ربوہ میں یا دوسری جگہوں پر بھی جماعت احمدیہ کو اس دن کی خوشی نہ منانے دیں لیکن خدا کی تقدیر نے ان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ سارے ملک میں وہ دن خوشیوں کے دن کے طور پر منائیں اور 23 تاریخ یوم پاکستان کی ایسی تاریخ ہے جسے پاکستان کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا.تو بہت لمبا عرصہ پہلے جب 23 / مارچ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لدھیانہ میں بیعت لی ، اس بات کو پاکستان بنانے والوں نے یا پاکستان کی راہ میں خدمتیں کرنے والوں نے تو کبھی سوچا بھی نہ ہوگا اور 23 مارچ کا دن یوم پاکستان مقرر ہونا ایک ایسا فعل ہے جس میں پاکستان کی تحریک سے تعلق رکھنے والوں کا کوئی بھی عمل دخل نہیں.تقدیر نے یہ دن ان پر مسلط کر دیا ، ان پر ٹھونس دیا.جب تک وہ اس دن کو جماعت احمدیہ کی خوشیوں کے طور پر نہیں مناتے یہ دن ان پر مسلط ہو چکا ہے اور جب وہ اس کو پہچان جائیں گے تو پھر وہ اصلی خوشیوں کا دن اُبھرے گا ، جب 23 / مارچ کو پاکستان کے قیام کا دن بھی ہوگا اور احمدیت کے قیام کا دن بھی ہوگا اور یہ دونوں خوشیاں مل کر عیدین بن جایا کریں گی.اسی طرح کی ایک حکمت اس سال میں بھی پوشیدہ ہے.اس سال میں ایسے حیرت انگیز تغیرات برپا ہوئے ہیں کہ دنیا کے دانشوروں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا، یورپ میں جو کچھ ہوا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے اور اسی طرح دنیا کے دیگر بعض ممالک میں تبدیلیوں کے جو آثار ظاہر ہورہے ہیں یہ وہ سب تبدیلیاں ایسی ہیں جن میں سیاست دانوں کا کوئی عمل دخل نہیں.ان کے لئے یورپ میں ہونے والی عظیم تبدیلیاں اور اشتراکی ممالک میں ہونے والے انقلابات اسی طرح تعجب انگیز تھے جس طرح باقی دنیا کے لئے تعجب انگیز تھے.ان کی کوششوں کا جہاں تک دخل ہے وہ کوششیں تو چین میں کی گئیں تھیں اور انسانی کوششیں نا کام

Page 357

350 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ثابت ہوئیں اور ساری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے مل کر چین میں جو انقلاب بر پا کرنے کے لئے کوشش کی تھی اس میں وہ کلیہ نا کام رہے.وہاں انقلابات ہوئے جہاں محض خدا کی تقدیر کو دخل تھا جہاں انسانی کوششوں کا کوئی بھی ہاتھ نہیں تھا اس لئے ابھی سے دانشور یہ لکھنے لگے ہیں اور مختلف مواقع پر یہ بیان دینے لگے ہیں کہ یہ سال جو 1989ء کا سال ہے یہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا بلند اور ممتاز سال بن کر ابھرا ہے کہ اسے قیامت تک مورخ بھلا نہیں سکے گا.ایک غیر معمولی شان ہے اس سال میں اور آئندہ کیلئے بنیادیں ڈالنے والا سال ہے.پس اس کی بلندی محض اپنی ذات کی بلندی نہیں بلکہ آئندہ دنیا کی سر بلندی کے لئے اس سال میں بنیادیں قائم کی گئیں ہیں اور یہ وہی سال ہے جس کو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا عالمی جشن تشکر قرار دیا.اب اس میں ہماری اور آپ کی انسانوں کی کوششوں کا ظاہر ہے کوئی ادنی سا بھی دخل نہیں.اللہ تقدیر بنا رہاہے اور تم دنیا کو جور کردیا گیا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کے سال کو بھی نہ بھلا سکے اور ہمیشہ اس سال کو سنہری حروف سے لکھتی چلی جائے.پس خدا کی بہت سی تقدیر میں مخفی طور پر ایسے کام کر رہی ہوتی ہیں کہ سطح پر ان کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوتے.اچانک جس طرح سمندروں میں جزیرے ابھر آتے ہیں اس طرح جب وہ خدا کی تقدیر آخری صورت میں اُبھرتی ہے تو دنیا حیرت سے اس کو دیکھنے لگتی ہے پس ان دونوں باتوں میں حکمت ہے.یہ دونوں باتیں اتفاقی نہیں ہیں 23 مارچ کے دن کو پاکستان کی خوشیوں کا دن قرار دے دینا اور صد سالہ جشنِ تشکر کے دن کو سارے عالم کی خوشیوں کا دن قرار دے دینا اور اس سال میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرنا اور حیرت انگیز تبدیلیوں کی بنیاد میں قائم کرنا یہ ایسی باتیں تو نہیں ہیں جو اتفاقاً اکٹھی ہو گئی ہیں.ان کے اندر خدا کی تقدیر کارفرما دکھائی دیتی ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس کثرت کے ساتھ فضل کبھی نازل نہیں ہوئے جتنے اس سال نازل ہوئے ہیں اور اس میں کسی حد تک تو آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم نے جشنِ تشکر کی تیاریاں کی تھیں ان کے نتیجہ میں کچھ نہ کچھ تو ہونا ہی تھا لیکن خدا کے جن فضلوں کا میں پہلے ذکر کرتا چلا آیا ہوں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا ہماری تیاری سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا خدا کی طرف سے آسمان سے فضل نازل ہوئے ہیں اور ان کو ہم نے نازل ہوتے دیکھا ہے اور ہر پہلو سے اس سال میں جماعت کو غیر معمولی عظمت عطا ہوئی، غیر معمولی تقویت نصیب ہوئی اور ہمارے دشمنوں کو غیر معمولی ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا.یہ سب باتیں اتفاقی تو نہیں ہو سکتیں.بہت ہی جاہل ہو گا جو اس ساری تصویر کو اکٹھی دیکھے اور پھر کہے کہ اتفاقاًیہ نقوش بنتے چلے گئے یہاں تک کہ ایک معنی خیز تصویر ابھر آئی.

Page 358

351 حضرت خلیفہ مسیح الرابع یہ وہ سال ہے کہ جب بیعتوں کے لحاظ سے بھی اس کثرت سے لوگوں کو جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ جب آپ اس کا گراف دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے یوں لگتا ہے جیسے ایک بلند ہوتی ہوئی سڑک پر اچانک مینار بنا دیا گیا ہو اور مینار کے ساتھ وہ سڑک اٹھنی شروع ہو جائے لیکن یہ بھی مجھے یقین ہے میں خدا کے فضل سے یہ امید رکھتا ہوں کہ چونکہ یہ اتفاقی واقعہ نہیں اس لئے یہ ترقی کی جورو ہے یہ آگے بڑھے گی اور پیچھے نہیں ہٹے گی.دنیا کی تاریخ میں تو یہ سال اُبھرا ہے اور ابھر کر پھر کسی حد تک نیچے گرنے والا ہے مگر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں اور اسی کے لئے آپ کو دعا کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ دعا یہ کریں کہ مڑکر دیکھیں تو اس سال کے پیچھے گہرائی دکھائی دے مگر آگے دیکھیں تو پھر اور اٹھتے ہوئے بلند تر مینار دکھائی دیں اور یہ سال آئندہ ترقی کے لئے رفتاریں سیٹ کرنے والا پیس میکر (Pace Maker) بنے جس طرح دوڑوں میں سب سے اگلا کھلاڑی جو سب سے زیادہ تو انا ہوتا ہے اور چست و چالاک ہوتا ہے اور رفتار میں سب سے زیادہ نمایاں طور پر آگے بڑھنے کی توفیق پاتا ہے ایسے کھلاڑی کو کہتے ہیں اس نے پیس (Pace) سیٹ کر دی یعنی اس نے باقی کھلاڑیوں کے لئے رفتار معین کر دی اب وہ اس کا ساتھ دے سکیں گے تو ساتھ چلیں گے ورنہ پیچھے رہ جائیں گے.تو خدا کرے کہ یہ سال آئندہ سالوں کے لئے پیس (Pace) سیٹ کرنے والا سال ثابت ہو اور اس سال کے بعد میں آنیوالے سال گویا اس سال سے سبق سیکھتے ہوئے اسی رفتار سے آگے بڑھیں جس رفتار سے یہ سال اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ آگے بڑھا ہے.اس موقع پر ہمیں خاص طور پر دعا کرنی چاہئے کہ یہ جو عالمی تغیرات ظاہر ہوئے ہیں جن کے متعلق ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے نئی بنیادیں قائم کی ہیں یا نیا موڑ موڑا ہے اس موڑ پر کھڑے ہو کر جو آئندہ دنیا ہمیں دکھائی دیتی ہے اس کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور ان دعاؤں کی ضرورت ہے کہ خدا کی تقدیر نے ترقی کے یہ جو آثار باندھے ہیں، ہم اس بات کے اہل ہوں کہ ان سے پوری طرح استفادہ کر سکیں.ہم اس بات کے اہل ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے جو نئے دروازے کھولے ہیں نئے ایونیو (Avenue) نئے ایوان ہمارے لئے ہم پر روشن کئے ہیں اُن تک پہنچنا ہم پر آسان فرما دیا ہے ان سے بھر پور استفادے کی ہمیں توفیق ملے اور جس جس طرف سے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیں آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے، جس طرح تیز ہوائیں پیچھے سے دھکیلتی ہیں تو جس کو دھکیلا جا رہا ہے اس کی کوشش کا بھی کوئی دخل ہوا کرتا ہے.یہ تو درست ہے کہ بعض دفعہ آندھیاں اتنی تیز بھی چلتی ہیں کوئی جانا چاہے یا نہ چاہے اس سمت میں اس شخص کو دھکیلتی ہوئی لے جاتی ہیں لیکن اگر دوڑنے والا اسی سمت میں دوڑنا

Page 359

352 حضرت خلیفہ امسیح الرابع چاہے اور دوڑنے کی پوری کوشش بھی کرے تو پیچھے سے آنے والی ہوائیں اس کو بہت تیزی سے آگے بڑھاتی ہیں.پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ تبدیلیاں اس قسم کی ہواؤں کا حکم رکھتی ہیں جو خاص سمتوں میں چلائی جا رہی ہیں.اگر آپ دوڑنے کی نیت رکھتے ہیں تو دوڑنے کے لئے کمر کسیں اور تیار ہو جائیں کیونکہ اب یہ وقت چلنے کا وقت نہیں رہا بلکہ تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے آگے بڑھنے کا وقت ہے اور اپنی سابقہ ستیوں کا ازالہ کرنے کا وقت ہے.جو کچھ ہم سے غفلتیں ہوئیں ان پر استغفار کا وقت ہے اور خدا کی طرف سے چلنے والی ان ہواؤں سے پورے استفادے کا وقت ہے.بادبانی کشتیاں جس طرح ہواؤں کے رخ پر بڑھا کرتی ہیں اسی طرح آپ کی رفتار بھی اس تیزی سے بڑھنی چاہئے جس طرح بغیر ہوا کے بادبانی کشتیاں چپو سے چل رہی ہوں اور اچانک ایک پاکیزہ ہوا ، عمدہ ہوا جس میں خطرات نہ ہوں بلکہ مبشرات ہوائیں ہوں ایسی ہوا چلنی لگ پڑے اور بادبانی کشتیاں تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف آگے بڑھنے لگیں.قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے متعلق یہ مثال دی گئی ہے کہ ان کا بڑھنا اس طرح تھا جیسے ہوا کے گھوڑوں پر کوئی سوار ہو.اور تیز ہوائیں ان کے دن کے سفر کو بھی مہینے کا سفر بنا دیا کرتی تھیں اور ان کے رات کے سفر کو بھی مہینے کا سفر بنا دیا کرتی تھیں.یہ تو پرانے زمانوں کی باتیں ہیں ہم تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں یہ دعائیں کریں کہ ہمارے لئے خدا ایسی ہوائیں چلائے کہ ہمارے دن کا سفر بھی ایک سال کے سفر کے برابر ہو جائے اور ہماری راتوں کا سفر بھی ایک سال کے برابر ہو جائے اور اس تیزی کے ساتھ ہم دنیا میں ترقی کرتے ہوئے خدا کی توحید کا پیغام تمام عالم کو پہنچائیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی کے حسن سے کل عالم کو خیرہ کر دیں.دعاؤں کے ساتھ کوشش کے ساتھ محکم عزم کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اب ہمیں بہت تیز رفتار سے آگے بڑھنا ہے اور خدا کرے کہ ہمارا اگلا سال یہ ثابت کرنے والا ہو کہ ہم 1989 ء کے سال کو مڑکر ایک بلندی کے سال کے طور پر نہیں بلکہ بلندیاں پیدا کرنے والے سال کے طور پر دیکھا کریں گے.اس کے بعد میں اسی خطبہ میں آئندہ سال کی جماعت احمدیہ کو مبارکباد بھی دیتا ہوں ، جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کی ترقی کی رفتاروں کے پیمانے بدل چکے ہیں اب یہ بات نہیں رہی کہ پچھلے سال سے اتنے فیصد زیادہ یا اتنے فیصد زیادہ پیمانے تبدیل کئے گئے ہیں.اس لئے آپ دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اللہ آپ کے ساتھ ہواللہ حفاظت فرمائے ، ہماری بلاؤں کو ٹال دے اور بلاؤں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جو اجر کے وعدے ہیں انکو ہماری توقعات سے بھی

Page 360

353 حضرت خلیفہ مسیح الرابع بہت زیادہ پورا کرے.جو ہم میں سے دُکھی ہیں ان کے دُکھ دور فرمائے جن کے سروں پر خطرات منڈلا رہے ہیں ان خطرات کو دُور کر دے اور باطل ثابت کر دے.ہمارے نقصانوں کو اپنے فضل سے پورا کرے اور ہمارے نفعوں کو بڑھا دے اور ہر پہلو سے جماعت کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت کے لحاظ سے بھی یہ آنے والا سال پہلے سال سے بہت بہتر ثابت ہو.یہ چونکہ سال کا آخری خطبہ ہے اس لئے روایات کے مطابق میں اسی خطبے میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان بھی کرتا ہوں.جیسا کہ آپ کو معلوم ہے وقف جدید کی تحریک پہلے پاکستان اور ہندوستان میں کال یا محدود تھی ان معنوں میں کہ چندہ بھی انہی دوملکوں سے وصول کیا جاتا تھا اور خرچ بھی انہی دو ملکوں پر کیا جاتا تھا.گذشتہ چند سال سے میں نے یہ تحریک کی کہ تمام دنیا پر ہند اور پاکستان کے احسانات ہیں اور ایک لمبا عرصہ گذر گیا، تقریباً ایک صدی ہوگئی کہ ہندوستان اور پاکستان سے خدا کی راہ میں عظیم مالی قربانی کرنے والوں نے تمام دنیا میں پیغام حق کا بوجھ اٹھایا تو جذبہ تشکر کے طور پر ایک تھوڑ اسا ٹوکن اس بات کا انکے حضور پیش کریں.یعنی ٹوکن سے مراد ہے کہ ایک مثال کے طور پر کچھ قربانی کا نمونہ ان کے سامنے پیش کریں اور باقی دنیا کی جماعتیں یہ کہیں کہ ہم بھی تمہارے لئے کچھ چندہ اکٹھا کرتے ہیں جو تم پر خرچ ہوگا.اس پہلو سے وقف جدید کی مالی تحریک کو سارے عالم پر ہم نے محیط کر دیا تھا سارے عالم پر اس کا اطلاق کر دیا تھا اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ سب جماعتیں کچھ نہ کچھ ہندوستان اور پاکستان میں چلنے والی اس تحریک کی مدد کریں.اس تحریک کے بعض خاص ایسے پہلو ہیں جن کو جماعت کو پیش نظر رکھتے رہنا چاہئے.یہ تحریک غیر معمولی چندے طلب نہیں کرتی لیکن اس کا زور اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی حسب توفیق بشاشت کے ساتھ خوشی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور خدا کی راہ میں پیش کریں.باقی تحریکات میں زیادہ تر مقابلے اس بات کے ہوتے ہیں کہ کون آگے بڑھتا ہے اور کون زیادہ خدا کی راہ میں لٹاتا ہے.اس تحریک میں ملکوں کے مقابلے ہیں کہ کتنے زیادہ افراد خدا کی راہ میں مالی قربانی میں شامل ہوتے ہیں بچے بھی ، عورتیں بھی ،مرد بھی ، بڑے بھی ، چھوٹے بھی سب مل کر اور جہاں تک شمولیت کا تعلق ہے جتنی بھی کوئی تو فیق پاتا ہے اس کی دی ہوئی رقم کو خوشی سے قبول کیا جاتا ہے.وقف جدید کے لئے جو کم سے کم معیار پاکستان میں مقرر تھا وہ چھ روپے کا تھا.لیکن اس چھ روپے کے متعلق بھی ہم نے یہ اجازت دی تھی کہ اگر ایک غریب خاندان ہے جو سال میں چھ روپے بھی نہیں دے سکتا مثلاً ایسے خاندان میں چھ افراد ہیں ان میں سے ہر شخص چھ روپے نہیں دے سکتا تو وہ سارے مل کر ایک ایک روپیہ سال کا دے دیں اور مشترکہ طور پر کم سے کم معیار کو

Page 361

354 حضرت خلیفہ امسیح الرابع پورا کر دیا کریں.باہر کی دنیا کے لئے کم سے کم کوئی معیار با قاعدہ تو مقرر نہیں لیکن مال کے شعبہ کی طرف سے مشورةُ یہ کہا جاتا ہے کہ دو پونڈ مثلاً انگلستان کے لئے یا اس کے متبادل رقم یورپین امیر ملکوں کے لئے اگر ہو جائے تو یہ کم سے کم معیار سمجھنا چاہئے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے با قاعدہ کوئی فیصلہ نہیں ہے.اگر آپ اپنے بچوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیں اور مالی مشکلات راہ میں حائل ہوں تو اگر پچاس پینس بھی ایک بچے کی 66 طرف سے ادا ہوگا تو اس کا نام ”مجاہد وقف جدید “ کے طور پر لکھا جانا چاہئے اور آپ جماعتی لحاظ سے چھوٹی رقم دیکھ کر انکار نہ کریں.سب سے بڑی برکت چندہ دینے والے کو اس کے رجحان کے نتیجہ میں ملتی ہے.چندے کی مقدار بھی اہمیت رکھتی ہے جماعت کو اس وقت بہت بڑے بڑے خر چوں کی ضرورت ہے اس میں شک نہیں لیکن جہاں تک چندہ دینے والے کا تعلق ہے اس کے رجحان ، اس کے خلوص کا ، اس کے ثواب سے بہت زیادہ تعلق ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ کتنی رقم پیش کر سکتا ہے.ایک غریب آدمی جو خدا کی محبت میں محض اللہ اپنی کسی ضرورت کو کاٹ کر چند پیسے بھی خدا کے حضور پیش کرتا ہے تو اس کا ایک خاص مرتبہ ہے جس مرتبے کو خدا پہچانتا ہے بندے اس کو پہچانیں یا نہ پہچانیں اور اس پہچان کے مطابق وہ اس سے سلوک فرماتا ہے.اس لئے وقف جدید میں خصوصیت کے ساتھ میر از ور ہمیشہ اس بات پر رہا ہے کہ تعداد بڑھائیں اور کثرت کے ساتھ دوستوں کو اس میں شامل کریں کیونکہ بہت سے ایسے احمدی ہونگے جو کسی چندے میں شامل نہیں ہیں اگر ان کو کسی ایک چندے میں بھی شمولیت کی معمولی توفیق مل جائے تو میرا یہ تجربہ ہے کہ پھر وہ توفیق اپنی توفیق کو خود بڑھاتی رہتی ہے اور توفیق سے اور توفیق پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.نیکی میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے اور بدی میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے.ایک قدم آپ بدی کی طرف بڑھائیں تو بدی کی ڈھلوان آپ کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتی ہے.ایک قدم آپ نیکی کی طرف بڑھا ئیں تو بلندی کے باوجود آپ میں مزید توانائی پیدا ہوتی ہے اور مزید اوپر چڑھنے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا شوق پیدا ہو جاتا ہے پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے مجھے بارہا یہ محسوس ہوا کہ شروع میں جب دیکھا کہ بہت ہی بلند چوٹیاں ہیں تو ہمت جواب دیتی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی بلندی تک ہم اتنے وقت میں پہنچ جائیں گے لیکن جب انسان قدم اٹھانے شروع کر دے تو پھر اس کو پتہ چلتا ہے کہ ہر قدم اگلے قدم کے لئے ایک طاقت کا ذریعہ بن جاتا ہے حوصلہ پیدا کرتا ہے اور جوں جوں آپ آگے قدم بڑھاتے جاتے ہیں اور مڑ کر دیکھتے ہیں کہ کن نچلی سطحوں سے آپ کوشش کر کے اوپر ابھرے ہیں تو نیچے دیکھنا بھی آپ کے لئے تقویت کا موجب بنتا ہے اور اوپر دیکھنا بھی حوصلوں کو نگیخت کرتا ہے بجائے بجھانے کے سفر شرط ہے.

Page 362

355 حضرت خلیفہ المسح الرابع پس چندوں میں بھی میرا یہ وسیع تجربہ ہے، اپنے متعلق بھی اور دوسروں کے متعلق بھی کہ جب بھی آپ خدا کی راہ میں کچھ پیش کرنے کی توفیق پاتے ہیں تو وہ توفیق آپ کی توفیق بڑھاتی ہے اور اس کے علاوہ ایک اور خدا کا فضل ہے جو ہمیشہ چندے دینے والوں پر نازل ہوتا ہے کہ ان کی مالی حیثیت بھی پہلے سے بہتر ہونی شروع ہو جاتی ہے ان کے قرضوں کے بوجھ کم ہونے شروع ہو جاتے ہیں.ان کو جو روز مرہ کی چٹیاں پڑتی رہتی ہیں اس میں کمی آجاتی ہے کئی قسم کی مصیبتوں سے وہ بچائے جاتے ہیں.پس میرے علم میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چندہ دینے والا چندہ دینے کی وجہ سے نقصان میں رہا ہو یعنی جزاء کا وہ مفہوم جو خدا کی رضا سے تعلق رکھتا ہے یا آخرت سے تعلق رکھتا ہے اس کے علاوہ بات کر رہا ہوں وہ تو اپنی جگہ ہے.انسان جب خدا کی راہ میں کچھ پیش کرتا ہے تو رضا کی خاطر کرتا ہے اور وہی چندہ ہے جو مقبول ہوتا ہے اور اسی کے نتیجے میں دنیا بھی سنورتی ہے.پس جہاں تک نیتوں کا تعلق ہے نیت یہ ہونی چاہئے کہ محض اللہ خدا کی رضا کی خاطر ہم یہ دے رہے ہیں اور جب آپ اس نیت کے ساتھ دیتے ہیں تو اللہ کی رضا صرف آخرت کی جزا نہیں دیتی بلکہ دنیا میں بھی آپکو جزاء دیتی ہے اور چندہ دینے والا جانتا ہے یقینی طور پر اس کو علم ہو جاتا ہے کہ بہت سی ایسی برکتیں اس کو نصیب ہوتی ہیں جو پہلے حاصل نہیں تھیں.اس لئے دنیا میں لکھوکھہا احمدی ذاتی طور پر اس بات کے گواہ ہیں بچے بھی گواہ ہیں مرد بھی گواہ ہیں ، عورتیں بھی ،سب دنیا میں جماعت کے ساتھ خدا تعالیٰ یہی سلوک کرتا ہے کہ اخلاص کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ پیش کرنے والے کی قربانی کی توفیق بھی بڑھتی ہے اور مالی وسعت بھی اس کو عطا ہوتی ہے.پس وقف جدید میں جب ہم افراد کی تعداد میں اضافے پر زور دیتے ہیں تو میری نیت اس میں ہمیشہ یہی ہوتی ہے تا کہ وہ احمدی بھی جواب تک مالی قربانی کی لذت سے محروم ہیں اور اس کی برکتوں سے محروم ہیں انکو اس بہانے ایک موقع میسر آجائے اور پھر خدا کے فضل کے ساتھ وہ ہر دوسری تحریک میں بھی خود بخود آگے بڑھنے لگے اس پہلو سے بہت سا کام ابھی ہونا باقی ہے اگر چہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس سال خدا کے فضل کے ساتھ ہر پہلو سے جماعت میں اضافہ ہوا ہے، وقف جدید کے چندے میں بھی اضافہ ہوا ہے.وقف جدید کی قربانی کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن گنجائش ابھی بہت موجود ہے.افریقہ کے ممالک میں خصوصیت کے ساتھ بہت بڑی گنجائش موجود ہے افریقہ کے ممالک میں جو اُمراء یا مربیان کام کرتے ہیں وہ بعض دفعہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی غریب ہے ملک اس میں قربانی کی توفیق اتنی نہیں مگر جہاں تک میرا جائزہ ہے میں ان ملکوں میں پھر کے آیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ غربت کے با وجود افریقہ میں مالی قربانی کی روح بڑی نمایاں ہے اور قربانی کے لحاظ سے افریقن قوم دنیا کی کسی قوم سے

Page 363

356 حضرت خلیفہ المسیح الرابع پیچھے نہیں بلکہ بعض پہلو سے بہت آگے ہے یعنی بعض دفعہ میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نہایت غریب لوگ جن کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی تھی جن کو 24 گھنٹے میں صرف ایک کھانا ملتا تھا تو وہ غنیمت سمجھتے تھے.وہ بھی جماعت کے لئے مالی قربانی کا جذبہ رکھتے تھے اور ہمیشہ چندے میں شوق سے شامل ہوتے تھے.غریب غریب نہایت ہی غریب گاؤں میں میں نے دیکھا کہ بڑے ذوق شوق سے مسجد میں بنارہے ہیں بغیر کسی سے کچھ مانگے سالہا سال مسلسل محنت کرتے چلے جا رہے ہیں جو کسی کو تو فیق ملتی ہے وہ مسجد کے لئے پیش کر دیتا ہے.پس جماعت افریقہ پر جماعت کے منتظمین کو بدظنی کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ بدظنی ان کو نقصان پہنچائے گی اور یہ بدظنی آئندہ نسلوں کو بھی نقصان پہنچائے گی.افریقہ میں جس تیزی کے ساتھ احمدیت پھیل رہی ہے اسی تیزی کے ساتھ افریقہ کی نئی آنے والی نسلوں کو یا نئی پیدا ہونے والی نسلوں کو بھی اور نئے آنے والے افراد کو بھی فوری طور پر بلا تاخیر مالی قربانی کا چسکا ڈال دینا چاہئے.مالی قربانی کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے واقعی ایک چسکا ہے دنیا والے جس طرح آجکل منشیات کی عادت Drug Addiction میں مبتلا ہورہے ہیں میں نے دیکھا ہے جماعت احمدیہ میں بہت سارے احمدی ایسے ہیں جن کو چندے کی Addiction ہو گئی ہے اور یہ ایڈکشن پھر اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ان کو سنبھالنا پڑتا ہے.روکنا پڑتا ہے کہ بھئی ابھہر وزرا بس کرو تمہارے اپنے عزیز ہیں قریبی ہیں ان کا بھی کچھ خیال کرو اور خلیفہ وقت کو یہ بھی نظر رکھنی پڑتی ہے کہ کون توفیق سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن یہ ایسا نشہ ہے کہ جن کو پڑ جاتا ہے واقعی نشہ بن کے چمٹ جاتا ہے اس لئے بجائے اس کے کہ ہم اپنی نسلوں کو دنیا کے نشوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ مول لیں انکو یہ اچھے نشے لگا دیں، یہ ایسے نشے ہیں جو پھر ان کو سنبھال لیں گے.آئندہ نسلوں کو سنبھال لیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ایک نیکی کا قدم دوسری نیکیوں کے قدم اٹھانے کی توفیق دیتا چلا جائے گا.اس وقت جور پورٹ میرے سامنے ہے جو اعدادو شمار میرے سامنے ہیں ان کی رو سے جو اوّل دوم سوم ممالک کے متعلق میں اعلان کروں گا غالبا یہ ترتیب تو الا ماشاء اللہ قائم رہے گی لیکن ہو سکتا ہے کچھ حصوں میں کچھ تبدیلی بھی ہو جائے کیونکہ بہت سے کوائف ابھی تک موصول نہیں ہوئے.یہ جو کوائف میں آپ کے سامنے پیش کرنے والا ہوں یہ نامکمل ہیں کیونکہ ابھی تک وقف جدید کے معاملے میں پوری تندہی کے ساتھ مستعدی کے ساتھ جماعتیں رپورٹ نہیں بھجواتیں.اس وقت تک جو کوائف ہیں ، پاکستان کے کوائف کا جہاں تک تعلق ہے حسب سابق خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی سر فہرست ہے.پچھلے سال بھی سر فہرست تھا اور امسال بھی سر فہرست ہے اور پچھلے سال سے خدا کے فضل سے نمایاں طور پر بڑھ کر کراچی نے

Page 364

357 حضرت خلیفہ امسیح الرابع حصہ لیا.ربوہ مجھے یاد نہیں کہ پچھلے سال دوئم تھایا نہیں.لیکن اس سال دوسرے نمبر پر ہے اور ربوہ میں چونکہ اکثر آبادی غرباء پر مشتمل ہے اس لئے ربوہ کا سارے پاکستان میں دوسرے نمبر پر آنا خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک خاص اعزاز ہے جو اہل ربوہ کونصیب ہوا.لاہور خدا کے فضل سے چندوں میں بہت اچھا ہے لیکن وقف جدید میں تیسرے نمبر پر ہے.کراچی کا قدم بہت نمایاں طور پر آگے ہے ربوہ اس سے کئی قدم پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود دوئم پوزیشن حاصل ہے اور لاہور کراچی سے یوں کہہ لینا چاہئے کہ اگر کراچی نے تین قدم اٹھائے ہیں تو لاہور نے دو اٹھائے ہیں یہ نسبت ہے ان کی آپس میں اور فیصل آباد امسال سیالکوٹ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے سمجھ نہیں آئی کہ سیالکوٹ اپنے گذشتہ سال کے مقابل پر کیوں پیچھے ہٹا ہے اور یہ ایک استثنائی مثال ہے ورنہ بالعموم ہر ضلع آگے بڑھتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہاں سے رپورٹیں آنے میں کچھ کمی رہ گئی ہے ورنہ مجھے سیالکوٹ پر حسن ظن ہے.خدا تعالیٰ نے اس کو جو یہ تقدم عطا فرمایا تھا او لیت عطا فرمائی تھی اس کو یہ انشاء اللہ قائم رکھے گا اور امیر صاحب سیالکوٹ کو یہ خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے کہ کسی قیمت پر بھی اپنے اس سال کو گزشتہ سال سے ہارنے نہ دیں ابھی وصولی کے کچھ دن باقی ہیں کیونکہ وقف جدید کی وصولی دسمبر میں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ عموماً جنوری کا پورا مہینہ اور فروری کا کچھ حصہ سالِ گذشتہ کی وصولی میں شمار ہوتا رہتا ہے.اس لئے ویسے بھی مومن کو چاہئے کہ اس کا ہر قدم آگے بڑھے لیکن یہ سال چونکہ غیر معمولی خصوصیت کا سال ہے اس سال دنیا کی کسی جماعت کو بھی اپنے اخلاص پر داغ نہیں لگنے دینا چاہئے کہ جب ساری دنیا میں 1989 ء کا سال نمایاں شان سے آگے بڑھ رہا تھا تو ہمارے پاس سے جب یہ سال گزرا تو اس کے قدم ڈھیلے پڑ گئے اور پچھلے سال سے بھی پیچھے رہ گیا.پس اس مسابقت کی روح کے ساتھ جو سالوں کے درمیان بھی چلنی چاہئے آپ اپنے اس سال کو پیچھے نہ ہٹنے دیں.دفتر اطفال بھی وقف جدید کا ایک دفتر ہے یعنی بڑوں کے چندوں کے علاوہ اطفال کے چندے بھی الگ وصول کئے جاتے ہیں.اس پہلو سے بھی خدا کے فضل کے ساتھ کراچی اوّل ہے لیکن لاہور ربوہ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور اگر چہ بہت معمولی فرق ہے جس کو گھڑ دوڑ کی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ گردن کا فرق رہ گیا یا سر کا فرق رہ گیا تو اتنا تھوڑا سا فرق ہے آگے جا کر ممکن ہے یہ بدل جائے کیونکہ ابھی آخری لائن نہیں آئی جہاں سے گزرنا ہے تو بہر حال لاہور ، ربوہ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور راولپنڈی چوتھے درجے پر اور سیالکوٹ اس پہلو سے فیصل آباد کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور آگے نکل گیا الحمد للہ اور اس نے پچھلے سال سے بھی نمایاں ترقی کی ہے اس لئے مجھے خیال ہے کہ غالباً اعدادوشمار کی غلطی ہو گی ورنہ وقف جدید کے لحاظ سے دفتر اطفال میں سیالکوٹ کا قدم آگے ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ بالغان میں بھی وہ قدم آگے نہ بڑھے، ہاں تعداد

Page 365

358 حضرت خلیفة المسیح الرابع کے لحاظ سے پاکستان کی رپورٹیں نہیں موصول ہوئیں.بعض جگہ تعداد کا ذکر ہے بعض جگہ نہیں ہے اس لئے میں نے پاکستان میں شامل ہونے والوں کے اعدادو شمار آپ کے سامنے پیش نہیں کئے.وقف جدید کو چاہئے کہ وہ بعد میں گزشتہ سال کے موازنے کے ساتھ تیار کر کے مجھے بھجوائے.جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے، اس میں امسال خدا کے فضل سے شمولیت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ یہ تحریک بیرونی دنیا کے لحاظ سے ابھی نئی ہے کچھ اجنبیت رکھتی ہے اور اس کو پوری طرح متعارف کرانے میں ابھی جماعتوں کو بہت محنت کرنا ہوگی لیکن اس کے باوجود نمایاں فرق ہے یعنی گزشتہ سال بیرونِ پاکستان اور بیرونِ ہند شمولیت کرنے والوں کی تعداد سات ہزار ایک سو چوالیس (7144) تھی اور امسال 11,849 ہوگئی ہے لیکن گیارہ ہزار کی یہ تعداد بھی اور گزشتہ سات ہزار کی تعداد بھی یقیناً آخری نہیں کیونکہ یہ چند جماعتوں کے ، چند ملکوں کے اعداد و شمار سے خلاصہ تیار کیا گیا ہے جو گزشتہ سال بھی نامکمل تھا اور امسال بھی نامکمل ہے لیکن جہاں تک عمومی موازنہ کا تعلق ہے وہ ہم کر سکتے ہیں کم و بیش اتنی ہی رپورٹوں پر گزشتہ سال یہ تعداد 7,144 تھی اور امسال 11,849 ہے گویا خدا کے فضل سے 65 فیصداضافہ ہے.آمده رپورٹس میں میں ممالک ایسے ہیں جنھوں نے اپنے اپنے ملک میں شامل ہونے والے بچوں کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں کیا.اس کو الگ ظاہر کرنا چاہئے صرف 6 ایسے ممالک ہیں جنھوں نے بچوں کی شمولیت کا علیحدہ ذکر کیا ہے صرف 20 ممالک ایسے ہیں جن کی آخری شکل میں رپورٹ اب تک موصول ہوئی ہے اور باقی ممالک کی رپورٹیں یا تو ابھی ڈاک میں ہی چل رہی ہوں گی کرسمس کی وجہ سے بھی بعض دفعہ دیر ہو جاتی ہے اور یا ممکن ہے کہ وہاں سے چلی ہی نہ ہوں.اس لئے اگلے مہینے تک شاید آجائیں اس اطلاع کے مطابق حسب ذیل 20 ممالک ہیں جنھوں نے رپورٹ اب تک کی مکمل بھجوائی ہے.جرمنی ، ہالینڈ، سیرالیون، مسقط، پین، کینیڈا، انڈونیشیا، گی آنا، تنزانیہ، ناروے، جاپان، آئرلینڈ، گوئٹے مالا ، زائر ، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ساؤتھ افریقہ، کویت،امریکہ اور برطانیہ.اب اس میں چھوٹے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں بعض بڑے بڑے بھی ہیں بعض بڑے بڑے نہیں ہیں.اور اسی طرح چھوٹے بھی بہت سی تعداد میں ہیں جو ابھی تک ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہو سکے.وعدہ جات کے لحاظ سے 1989ء میں 1988 ء کے مقابل پر نمایاں فرق ہے.1988ء میں 42,273 سٹرلنگ پونڈ کے وعدے موصول ہوئے تھے.اور 1989ء میں 60,388 سٹرلنگ پونڈز کے وعدے موصول ہوئے ہیں.یہ اضافہ بھی خدا کے فضل سے نمایاں ہے.یعنی 43 فیصد.

Page 366

359 حضرت خلیفة المسیح الرابع وصولی میں بھی کم و بیش یہی شکل ہے وصولی گزشتہ سال 42,273 کے مقابل پر 42,432 تھی.باوجود اس کے کہ بعض ممالک نے وعدے کے مطابق ادا ئیگی نہیں کی پھر بھی وصولی وعدے سے کچھ بڑھ گئی ہے جس کا مطلب یہ کہ بعض ممالک نے یا تو وعدہ نہیں بھجوایا تھا صرف وصولی بھجوائی ہے یا وعدے سے بڑھ کر وصولی کی.1988ء میں وصولی 42,432 تھی اور 1989ء میں 61,552 یعنی 60,388 کے وعدے سے بھی زیادہ 61,552 وصولی ہوئی ہے اور یہاں اضافے کی شرح تھوڑی سی بڑھ گئی ہے وعدوں کے مقابل پر یعنی وصولی کے اعتبار سے گزشتہ سال پر 45 فیصد اضافہ ہوا ہے.ممالک کی جو باہمی دوڑ ہے اس میں اوّل پوزیشن پہ جرمنی ہے اور گزشتہ چند سال سے جرمنی ساری دنیا کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھر رہا ہے اور وہ بعض بڑے بڑے امیر ممالک جو پہلے جرمنی کو بہت پیچھے دیکھا کرتے تھے ان کو میں نے متنبہ کرنا شروع کیا تھا کہ ” آیا ای آیا اور اب یہ بڑھنے لگا ہے لیکن باوجود اس وارننگ (Warning) کے ، اس تنبیہ کے وہ اس آگے بڑھنے والے کو پیچھے نہیں ہٹا سکے اور وقف جدید میں بھی خدا کے فضل سے جرمنی اول آیا ہے برطانیہ دوم، کینیڈا بھی ایک نئی ابھرنے والی جماعت ہے جس نے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے وہ سوم نمبر پر آیا ہے اور امریکہ چہارم ہے، انڈو نیشیا پنجم ، ناروے ششم ، سوئٹزر لینڈ ہفتم، ڈنمارک ہشتم ، اور ماریشس نہم ، اور مسقط دہم ، ماریشس کے متعلق میرا یہ خیال ہے کہ رپورٹ درست نہیں کیونکہ اس رپورٹ کے جو اعد و دوشمار ہیں وہ ماریشس کے لحاظ سے نا قابلِ یقین ہیں.میں جانتا ہوں کہ ماریشس کی جماعت میں امسال ہر پہلو سے غیر معمولی ترقی ہوئی ہے اور اخلاص کے لحاظ سے، جذ بہ قربانی کے لحاظ سے تبلیغ کے لحاظ سے، چندوں کے لحاظ سے ، ملک میں وقار اور عظمت اور عزت کے لحاظ سے بہت غیر معمولی طور پر ماریشس کی جماعت آگے بڑھی ہے لیکن یہ اعداد و شمار مجھے یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وقف جدید میں پچھلے سال سے بہت پیچھے رہ گئی ہے.گزشتہ سال ان کا وعدہ 1873 سٹرلنگ تھا اور اس کے مقابل پر ادائیگی انھوں نے 2122 کی تھی اور امسال بیہ اعدادوشمار بتار ہے کہ وعدہ 2558 اور وصولی صرف 1194.تو یقینا کوئی غلطی ہوگئی ہے یا کوئی سیکرٹری صاحب وہاں ایسے آگئے ہیں جو سارا سال سوئے رہے ہیں بہر حال میں امید رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ماریشس یہ داغ اپنے او پر نہیں لگنے دے گا اور وعدے سے بڑھ کر وصولی کر کے اپنی پوزیشن کو بحال کرے گا.مشرق وسطی کے بعض ممالک میں سے بھی بعض ممالک کو خدا کے فضل سے بڑی نمایاں طور پر قربانی کی توفیق ملی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.پس اس اعلان کے ساتھ کہ وقف جدید کا نیا سال شروع ہورہا ہے میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت

Page 367

360 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع جس طرح باقی چندوں میں ہمیشہ مسلسل آگے بڑھنے والی رفتار کے ساتھ قربانیاں کرتی چلی آرہی ہے اور اس کی نیک جزا ئیں اس دنیا میں بھی پاتی ہے اور آخرت پر اس سے بڑھ کر تو قعات رکھتی ہے اسی جذبے کے ساتھ وقف جدید کے اس نئے سال میں بھی ہم پہلے سے بڑھ کر قربانیوں میں حصہ لیں گے.اللہ تعالیٰ یہ نیا سال ساری دنیا کے لئے مبارک کرے.جماعت احمدیہ کے لئے خصوصیت کے ساتھ مبارک کرے کیونکہ ساری دنیا کی برکتیں آج جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہوچکی ہیں.

Page 368

361 حضرت خلیفة المسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 4 / جنوری 1991 ء بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 1957ء کا سال میری زندگی میں ایک لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سال مجھے دو طرح سے نئی زندگی میں داخل ہونے کا موقعہ ملا ایک تو میری ازدواجی زندگی کا آغاز 1957ء کے آخر پر دسمبر کے مہینے میں ہوا اور دوسرے اسی سال کے آخر پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف جدید کی تحریک کا آغاز فرمایا اور مجھے وقف جدید کی مجلس کا سب سے پہلا ممبر مقرر فرمایا اور اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مجھے وقف جدید میں خدمت کا موقع ملا اس لحاظ سے میری باقاعدہ جماعتی خدمت کا آغاز 1957ء میں ہوا.اس واقعہ کو 33 سال گذر چکے ہیں اور آج میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرنے والا ہوں یہ نیا سال 34 واں سال ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ اس عرصے میں وقف جدید کو غیر معمولی ترقی کی توفیق عطا فرمائی.شروع شروع میں یہ تحریک بہت معمولی دکھائی دیتی تھی.آغاز بھی غریب نہ تھا اور چال چلن بھی غریبانہ.دیہات کے ساتھ اس کا تعلق تھا اور دیہاتی معلمین جو اس تحریک کے تابع خدمت پر مامور تھے ان کا ماہانہ گزارا بھی بہت ہی معمولی بلکہ اتنا معمولی کہ ایک عام مزدور سے بھی بہت کم تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قناعت کے ساتھ اور بڑی خوش خلقی کے ساتھ انھوں نے ہر گزارے پر گزارا کیا اور خدمت دین میں بہت جلد جلد آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصے کے اندر وقف جدید کا سالانہ بیعتوں کا ریکارڈ باقی اس قسم کی دوسری تمام انجمنوں کے اداروں یا تحریکات سے آگے نکل گیا اور لمبے عرصے تک وقف جدید بیعتیں کروانے کے میدان میں اول رہی.اسی طرح وقف جدید کو ایک بہت ہی عظیم الشان خدمت کا تھر کے علاقے میں موقع ملا.یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہندو بکثرت آباد ہیں اور یہی ایک وہ علاقہ ہے جہاں آج بھی مسلمانوں کے مقابل پر ہندوؤں کی اکثریت ہے لیکن اکثر ہندو اچھوت کہلانے والے ہیں یعنی ہندوؤں کی طبقاتی تقسیم کے لحاظ سے سب سے نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں.وقف جدید کا جس سال آغاز ہوا ہے اسی دوران عیسائیوں نے جو امریکہ سے غیر معمولی طور پر مدد حاصل کر رہے تھے تھر کے علاقے پر وہاں کے باشندوں کو عیسائی بنانے کے لئے یلغار کی اور اس لحاظ سے یہ الہی تحریک خاص طور پر اہمیت اختیار کر جاتی ہے.کہ اگر وقف

Page 369

362 حضرت خلیفہ امسیح الرابع جدید کی تحریک جاری نہ ہوئی ہوتی اور جماعت احمدیہ کو تھر کے علاقے میں اس طرح خدمت کا موقع نہ ملتا تو بعید نہیں کہ وہاں بہت تیزی کے ساتھ عیسائیت پھیل جاتی لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بر وقت تحریک کے نتیجے میں جب ہم نے معلمین تقسیم کرنے کے لئے مختلف علاقوں کے جائزے لئے تو معلوم ہوا کہ تھر کے علاقے میں بڑی شدید ضروت ہے ایک تو ویسے بھی ہندوؤں میں تبلیغ کی خاطر وہی علاقہ موزوں تھا دوسرے علم ہوا کہ عیسائیوں نے بہت بڑی یلغار کر رکھی ہے اور امریکن غذائی امداد کا ایک بہت بڑا حصہ اس علاقے کی طرف منتقل کیا جارہا ہے.چنانچہ جب میں نے وہاں دورہ کیا اور حالات کا جائزہ لیا تو عموماً یہی مشورہ دیا گیا کہ جماعت کی طرف سے بھی کوئی امدادی پروگرام مقابل پر جاری ہونا چاہئے ورنہ یہاں کامیابی مشکل ہے.اس پر میں نے اس تجویز کو نہ صرف سختی سے رد کیا بلکہ آئندہ بھی ہمیشہ اس تجویز کی سوچ کے دروازے بھی سب پر بند کر دیئے اور میرا استدلال یہ تھا کہ جہاں تک دولت کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے کا تعلق ہے نہ ہم اس میدان کے کھلاڑی ہیں نہ ہم اس بات کے قائل ہیں ، نہ ہمیں توفیق ہے کہ ہم دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا اس میدان میں مقابلہ کر سکیں.اگر ہم ایک روپیہ خرچ کریں تو امریکہ دس لاکھ روپیہ خرچ کر سکتا ہے اور اگر روپیہ کی لالچ میں یا لالچ نہ بھی کہیں ضرورت مند کی مدد پوری کر کے اسے اپنی طرف متوجہ کرنا ہے تو ضرورت بے انتہاء ہے اُسے آپ پورا نہیں کر سکتے.ایک پیاس بھڑ کا دیں گے اور جس قسم کی پیاس بھڑ کا ئیں گے اس قسم کا پانی آپ کے پاس نہیں ہو گا اس لئے نہایت ہی جاہلانہ حرکت ہوگی اگر ہم مالی امداد کے ذریعے امریکن طاقتوں کا یا مغربی طاقتوں کا مقابلہ کریں.دوسرا پہلو یہ تھا کہ یہ لوگ غریب ہیں اور بہت ہی لمبے عرصے سے خود اپنے ہم مذہب لوگوں کی حقارت کا نشانہ بنے رہے ہیں یعنی ہزار ہا سال سے انسانی طبقات میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھے جانے والے لوگ تھے.ان سے میں نے کہا کہ آپ انکی ذلتوں میں اضافہ کرنے کا سوچ کس طرح سکتے ہیں.یہ غریب عزت دار ہیں غربت میں بھی ان کو ابھی ہاتھ پھیلانے کی عادت نہیں.ان میں کوئی بھکاری آپ کو نظر نہیں آئے گا غریب فاقہ کش مزدور کثرت سے دیکھیں گے لیکن کوئی فقیران میں دکھائی نہیں دے گا بڑی محنت کش قوم ہے تو میں نے کہا کہ ایک ایسی باعزت قوم کو جس کا نفس معزز ہے اگر چہ بدن غریب ہے اس کے اندر خدا کی ایک ہی نعمت ہے اور وہ اس کی عزت نفس ہے آپ اسے بھکاری بنا کر وہ ایک دولت بھی اس کے ہاتھ سے چھین لیں.چنانچہ اس استدلال کا خدا کے فضل سے اثر پڑا اور وقف جدید کے معلمین بھی پورے عزم کے ساتھ اس علاقے میں یہ سمجھتے ہوئے گئے کہ ہم نے ان کو عزت نفس عطا کرنے کے لئے جانا ہے اور یہی پیغام ان کو دیا چنانچہ مقابلہ ایک طرف دولت کا تھا اور ایک طرف اخلاقی عظمت کا.

Page 370

363 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اور معلمین وہاں جا کر عیسائیوں کے مقابل پر یہی پیغام دیتے تھے کہ کچھ لوگ تمہاری بھوک مٹانے کے لئے آئے ہیں بہت اچھی بات ہے ،تمہیں کپڑے پہنانے کے لئے آئے ہیں یہ بھی بہت اچھی بات ہے لیکن ساتھ ہی تمہیں بھکاری بنانے کے لئے بھی آئے ہیں اور پیسہ دے کر تمہارا مذہب تبدیل کرنے کے لئے آئے ہیں اور یہ اچھی بات نہیں ہم تمہیں مزید عزت نفس عطا کریں گے، ہم تمہیں اسلام بھی دیں گے اور اس کے ساتھ تم سے مالی قربانی کے مطالبے بھی کریں گے اور تمہیں یہ کہیں گے کہ انتہائی غربت کے باوجود کچھ نہ کچھ نیک کاموں میں خرچ کرنے کی عادت ڈالو.یہ پیغام بظاہر کڑوا ہے لیکن درحقیقت تمہیں تحت الٹر کی سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک لے جائے گا اور یہ سادہ پیغام ان کے دل پر اتنا اثر انداز ہوا اور اتنا اس نے ان کے دلوں کو لبھایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عیسائیت کے مقابل پر احمدیت کو وہاں بڑی کثرت کے ساتھ ہندو غریب اقوام کو اسلام میں داخل کرنے کی توفیق ملی اور اس کے ساتھ ہی پھر ان کو نچلے طبقے سے اٹھا کر ایک بغیر طبقات کے سوسائٹی میں عزت کا مقام عطا کیا گیا.چنانچہ اس کے خلاف سب سے زیادہ ردّ عمل دیگر مسلمان تھری“ لوگوں نے دکھایا.جب ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے تھے یا کھانا کھاتے تھے تو شدید نفرت کا اظہار دوسرے مسلمانوں کی طرف سے کیا جاتا تھا جن کے مذہب میں طبقاتی تقسیم کا تصور ہی کوئی نہیں اور ہندو اس نفرت سے ہمیں نہیں دیکھتے تھے بلکہ وہ حیرت سے دیکھتے تھے کہ یہ عجیب لوگ ہیں جنھوں نے اپنی ظاہری عزت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور مذہب کے تبادلے کے نتیجے میں ان کے ساتھ برابر ہو گئے ہیں.بہر حال ایک لمبا عرصہ اس جد و جہد میں گزرا یہاں تک کہ خدا کے فضل سے وہاں کی را ئیں تبدیل ہو ئیں سوچیں بدلی گئیں اور بہت بڑا انقلاب بر پا ہوا.مشکل صرف یہ در پیش تھی کہ ان کے اندر گہرا اسلام جذب کرانے کے لئے بہت محنت درکار تھی.سادہ محبت کا پیغام تو حید کا پیغام بڑی آسانی سے سمجھ جاتے تھے اور قبول بھی کر لیتے تھے لیکن اس بات کی راہ میں بہت بڑی دقتیں حائل تھیں کہ با قاعدہ نماز سکھائی جائے اور پھر نماز کا عادی بنایا جائے.روزے سکھائے جائیں اور پھر روزے رکھنے کی عادت ڈالی جائے اور اسلام کے پر ہیزوں کے متعلق تلقین کی جائے پاکیزگی کے متعلق تلقین کی جائے ، پھر اس پر عمل پیرا کرنے کے لئے ان پر انکی مدد ہو.انکی نگرانی کی جائے وغیرہ وغیرہ.اس عرصے میں یعنی اس گذشتہ تمام عرصے میں مسلسل وقف جدید کے معلمین وہاں یہی کام کر رہے ہیں اور اگر چہ حالات بہت ہی ناسازگار ہیں اتنے ناسازگار ہیں کہ آپ جب تک وہاں جائیں نہ اس وقت تک آپ کو تصور ہی نہیں ہو سکتا کہ کن مشکلات میں وہاں وقف جدید کے معلمین نے پہلے کام کیا اور اب بھی اگر چه مشکلات نسبتا کم ہیں لیکن پھر بھی بہت مشکل حالات ہیں میں جب پہلی دفعہ وہاں گیا تو پہلی

Page 371

364 حضرت خلیفہ مسیح الرابع تکلیف جو شدت سے محسوس ہوئی وہ پانی کا فقدان تھا یعنی پانی میسر تو تھا لیکن ایسا خوفناک کہ اس کے پینے سے بجائے اس کے کہ پیاس بجھے الٹی آتی تھی اور طبیعت متلانے لگتی تھی.تیل کی طرح کا پانی مٹھی کے علاقے میں اور وہ بھی قیمت دے کر خرید نا پڑتا تھا اور دنیا کی کوئی سہولت وہاں میسر نہیں تھی.وہ تو خیر کوئی ایسی معمولی بات ہے عام دنیا کی جو موجودہ زمانے کی بڑی سہولتیں ہیں اس کے بغیر بھی انسان بہت اچھی طرح گزارا کر سکتا ہے زندگی کے انداز بدلنے پڑتے ہیں لیکن پانی اچھا میسر نہ ہو تو زندگی بہت ہی تکلیف میں کٹتی ہے.بہر حال معلمین وہاں اس حالت میں مستقل رہتے تھے جس حالت میں مجھ سے ایک دو دن رہنا مشکل تھا اور میں نے محسوس کیا کہ کسی تکلیف میں یہاں گزارا کرتے ہیں.چنانچہ بعد میں کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح ان کے پانی کے مسائل حل ہوں اور خدا کے فضل سے بعد میں حل بھی ہوئے لیکن اور آگے بڑھ کر ایک اور نئی مصیبت کا سامنا ہوا.وہاں پتہ چلا کہ بعض ایسے سانپ ہیں جن کو پین کہتے ہیں سندھی تلفظ میں پیٹ کہیں گئے نون اورڑ کے درمیان کا کوئی لفظ ہے یعنی پی جانے والا سانپ اور وہ سانپ ڈستا نہیں بلکہ وہ کہتے تھے منہ پر منہ رکھ کر سانس پی جاتا ہے.دراصل وہ زہر تھوکتا ہے اور اس کے زہر کا اثر گلے پر پڑتا ہے اور گلے سے براہ راست آنکھوں پر حملہ کرتا ہے اور اس کا مریض اگر بچ جائے تو اندھا ہو جاتا ہے اور خود اس سانپ کی بھی یہ کیفیت ہے کہ اگر دن کی روشنی میں اس کی آنکھیں کھل جائیں تو وہ خود اندھا ہو جاتا ہے.اس لئے دن کے وقت بلوں میں سوراخوں میں مختلف اندھیری جگہوں میں، اینٹوں کے نیچے سر دے کر یہ سانپ سو جاتا ہے.اور دن کے وقت بچے اس سے کھیلتے ہیں جس طرح بٹی ہوئی رسی سے کھیلتے ہیں اس طرح اس کو اپنے اردگرد لپیٹتے اور ایک دوسرے کو اس سے سانٹے مارتے اوراس سانپ کا کوئی خوف نہیں لیکن جونہی اندھیرا ہوتا ہے تو یہ باہر نکل کر مختلف جانداروں کے ساتھ لیٹ کر ان کے منہ پر منہ رکھ کر اس میں تھوکتا ہے اور اس کو اس میں کیا مزہ ہے.کیا وہ اس سے لذت حاصل کرتا ہے.کوئی نہیں جانتا لیکن یہ عادت بہر حال اسی طرح ہی ہے چنانچہ وہاں مجھے یہ بتایا گیا کہ یہ سانپ ہیں اور ہم نے دیکھے بھی.رات کو سفر کر رہے تھے تو ایسی طبیعت میں کراہت پیدا ہوئی کہ ساری رات نیند نہیں آئی.آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کے ساتھ کوئی سانپ آکر لیٹ جائے اور پھر منہ پر منہ رکھ دے تو وہ جو مختلف نظارے وہاں دیکھے جس طرح معلم وہاں کام کر رہے ہیں تو طبیعت پر بڑا گہرا اثر پڑا اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ واپس جا کر انکی زندگی کونسبتا بہتر بنانے کے لئے وقف جدید میں جو غریبانہ طاقت تھی وہ استعمال کی گئی اور ان کے مسائل کو سمجھ کر پھر ان سے کام لئے گئے بہر حال ان حالات میں وقف جدید نے وہاں کام کیا اور کر رہی ہے.اور عجیب حسنِ اتفاق ہے یا خدا کی تقدیر ہے یعنی دونوں چیزیں اکٹھی ہوں گی کہ ہندوستان میں جب وقفِ

Page 372

365 حضرت خلیفتہ المسح الرابع جدید کا اجراء ہوا ہے اور خاص طور پر یہاں آنے کے بعد جب میں نے بیرونی دنیا میں بھی وقف جدید کی تحریک کی تا کہ ہندوستان میں وقف جدید کے کام کو پھیلایا جائے تو وہاں بھی سب سے زیادہ کامیابی راجستھان کے علاقے میں ہی ہوئی ہے اور یہ وہی علاقہ ہے جو ہندوستان کا تھر سمجھ لیں یعنی سرحد کے اس طرف اگر سندھ کا تھر کا علاقہ ہے تو اس کی پرلی طرف راجستھان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے اور وہاں بھی معلمین خدا کے فضل سے بڑی ہمت سے کام کر رہے ہیں بلکہ بعض لحاظ سے نا مساعد حالات زیادہ ہیں کیونکہ وہاں خطرات بھی در پیش ہیں یہاں کام کرتے ہوئے ہندوؤں سے احمدیوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن وہاں چونکہ ہندو مسلم مناقشتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور بعض دفعہ بہت بڑھ جاتی ہیں یعنی ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے لئے باقاعدہ منظم کوششیں ہوتی ہیں ملک میں کہیں فساد ہو اس کا اثر ہر دوسری جگہ پڑتا ہے.تو راجستھان کے علاقے میں بھی کیونکہ ہندو اکثریت سے ہیں وہاں مسلمانوں کے لئے یہ بھی ایک بڑی مشکل ہے کہ ہندوستان میں کسی جگہ فساد ہو راجستھان پر اثر پڑ جاتا ہے اور احمدی مبلغین پر بھی اثر پڑتا ہے.نئی جماعتیں جو قائم ہو رہی ہیں ان پر بھی اثر پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی نڈر مبلغین ہیں اور ان کے حسن خلق کا اثر بھی بہت ہے چنانچہ ابھی تازہ فسادات کے بعد جور پورٹیں ملی ہیں ان سے یہ معلوم کر کے اللہ تعالیٰ کا بہت ہی شکر ادا کرنے کی توفیق ملی کہ کسی احمدی کو نقصان نہیں ہوا بلکہ بعض فساد زدہ علاقوں کے ہندوؤں نے احمدیوں کی تائید کی اور اس علاقے کے مسلمان اس وجہ سے بچ گئے کہ احمدیوں نے اسلام کی جو صورت وہاں پیش کی تھی اس میں کوئی قابل نفرت بات نہیں تھی بلکہ دل موہ لینے والی باتیں تھیں.تو وہاں بھی خدا کے فضل سے اب وقف جدید کو اچھی خدمت کی توفیق مل رہی ہے.اور اس کے علاوہ دیہات میں جو روز مرہ کی تربیت کا کام ہے وہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور عموماً اس کی طرف نظر نہ رہنے کے نتیجے میں بڑے گہرے نقصان قوم کو پہنچ جایا کرتے ہیں.ہم نے جب ہوش سنبھالی تو یہی دیکھا کہ دیہاتی احمدی جماعتیں بڑی مخلص ہیں.قربانی کے میدانوں میں بھی آگے اور بہت ہی جوش کے ساتھ ہر پروگرام میں حصہ لینے والی اور جلسوں میں سب سے زیادہ بلند آواز میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کر نیوالی جماعتیں.اس زمانے میں یہ خیال بھی نہیں ہوا کہ اندرونی لحاظ سے علمی تربیت کی ان لوگوں میں کمی ہوگی.اور یہ کی پھر آئندہ نسلوں پر اثر انداز ہو گی.چنانچہ ایک لمبے عرصے تک یہی تصور تھا کہ شہری جماعتوں کے مقابل پر دیہاتی جماعتیں ہر لحاظ سے زیادہ بہتر اور مخلص ہیں لیکن جب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف جدید کی تحریک جاری فرمائی اور یہ نصیحت کی کہ دیہاتی علاقوں میں کام کرنا ہے، شہری علاقوں میں نہیں اور وہاں تمہاری سب سے زیادہ ضرورت ہے تو اس کے پیچھے کوئی خاص الہی تقدیر کام کر

Page 373

شاید 366 حضرت خلیفہ المسیح الرابع رہی تھی.چنانچہ میں نے جب کام کا آغاز کیا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ منظم جائزہ لیا کہ ہمارے دیہات میں کتنے فیصد نوجوان اسلام کی اس ابتدائی تعلیم سے اچھی طرح واقف ہیں جس کے بغیر انسان مسلمان بن نہیں سکتا اور مسلمان کی تصویر ابھرتی نہیں ہے.معمولی سا خاکہ سا دکھائی دے دے گا ایک ہیولہ سا کہ ہاں یہ مسلمان ہیں مگر نقوش بھرنے چاہئیں بغیر نقوش کے تو کوئی چیز اپنی مکمل صورت میں ظاہر نہیں ہوا کرتی.چنانچہ جب ہم نے جائزے لئے تو یہ تعجب ہوا کہ بہت سے ایسے نوجوان دیہات میں ہیں جن کو صحیح لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله بھی نہیں پڑھنا آتا اور جب اس پر تعجب ہوا تو پتہ لگا کہ باقی غیر احمدی مسلمانوں میں تو اس سے بہت بڑی تعداد ایسی ہے.کلمہ کا لفظ جانتے ہیں لیکن صحیح تلفظ کے ساتھ اور معانی کو سمجھتے ہوئے کلمہ کس طرح ادا کیا جاتا ہے اس سے نا واقف اور جب مزید جائزہ لیا گیا نمازوں سے متعلق تو پتہ چلا کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے معمولی نہیں جس کو ساری نماز با ترجمہ نہیں آتی یعنی نماز تو اکثر احمدی نو جوانوں کو کچھ نہ کچھ آتی تھی مگر تلفظ کی خامیاں آپ نظر انداز بھی کر دیں تو ترجمے سے ناواقف اور اگر نماز کا ترجمہ ہی نہ آتا ہو تو پھر نماز سے استفادہ کا کیا سوال رہتا ہے یعنی حکم کی اطاعت تو ہو جاتی ہے مگر روز مرہ جو نماز آپ کے اندر زندگی کی نئی لہریں دوڑاتی ہے نیا روحانی خون عطا کرتی ہے نشو و نما کرتی ہے اس سے انسان محروم رہتا ہے.اب ماں کے پیٹ میں جنین تو ہوتا ہی ہے لیکن بعض دفعہ مردہ جنین ہوتا ہے اس کا بھی تعلق رہتا ہے اس خون کی نالی کے ذریعے جو پلیسیٹا سے بچے تک منتقل ہوتی ہے لیکن وہ نالی بند ہو جاتی ہے یا کسی اور نقص کی وجہ سے وہ خون پہنچنا بند ہو جاتا ہے.تو ماں کے پیٹ میں جنین تو ہے لیکن مردہ جنین ہے اس طرح وہ لوگ جو نماز پڑھتے تو ہیں لیکن نماز کے مطالب نہیں سمجھتے اس کے آداب نہیں جانتے ، اس کا فلسفہ نہیں سمجھتے ، روزمرہ اس کے ذریعے خدا سے تعلق نہیں پیدا کرتے ان کی نماز ایسی ہی ہے جیسے ایک جنین ہے جو پڑا ہوا ہے جب تک پیٹ میں ہے اس وقت تک اس کی حالت مخفی ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ زندہ ہے یا نہیں ہے لیکن موت کے بعد جب اس نے بچے کی طرح باہر آنا ہے اس وقت پتہ چلے گا کہ اس تی پیدائش میں اس میں جان پڑی تھی کہ نہیں پڑی تھی.پس اسی پہلو سے میں گذشتہ کچھ عرصے سے خطبات دے رہا ہوں کہ جب نمازیں پڑھتے ہیں تو زندگی حاصل کرنے کے لئے پڑھیں اور اس کے لئے نماز کا ترجمہ آنا ضروری ہے اس کے مطالب کا سمجھنا ضروری ہے اور مختلف پہلوؤں سے نماز کی دنیا کی سیر کرنی ضروری ہے.ایک بہت بڑا جہان ہے جو روزانہ آپ پر گھلتا ہے جہاں آپ کو لے جایا جاتا ہے اور سیر کرنے کے موقعے دئے جاتے ہیں اور بار بار یہ موقعے میسر آتے ہیں.بہر حال یہ وہ مصالح ہیں جن کے پیش نظر اس وقت ہم نے یہ جائزہ لیا کہ وقف

Page 374

367 حضرت خلیفة المسیح الرابع جدید کے معلم کن دیہات میں پہلے کام کریں اور یہ جائزہ لینے کا مقصد یہ تھا کہ جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہوگی جہاں سب سے زیادہ لوگ نماز کے معانی سے غافل ہونگے ، دیگر روز مرہ کے مسائل سے ناواقف ہونگے وہاں وقف جدید کے معلمین کو پہلے بھیجا جائے گا تو اس وقت جب سارے ملک کا جائزہ لیا گیا تو بغیر کسی ارادے کے، مجھے پہلے یہعلم نہیں تھا کہ یہ حالات ظاہر ہونگے بغیر کسی ارادے کے مزید جستجو کا موقع ملا تو ایسی ایسی باتیں دریافت ہوئیں کہ جن سے توجہ اس طرف منتقل ہوئی کہ دیہات کے علاقے بعض پہلوؤں سے اخلاص میں بہت بہتر ہوتے ہیں لیکن بعض پہلوؤں سے دین کے علم میں اتنا پیچھے رہ جاتے ہیں کہ وہ آئندہ زمانوں میں نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتے ہیں آپ کی آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے ایک نسل آپ کے ہاتھ سے نکلتی چلی جارہی ہے اور آپ کو پتہ نہیں لگ رہا یہاں تک کہ دین کے علم سے بے بہرہ خالی اخلاص اندھی تقلید پیدا کیا کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر ملائیت اُبھرتی ہے اور گدھوں کی طرح جس طرف چاہیں ایسے لوگوں کو ہانک کر لے جائیں.جو چاہیں ان کا دین بنا کر ان کو بتا دیں کہ یہ تمہارا دین ہے جو مسلک آپ کا ہو آپ انکے ذمہ لگا دیں کہ یہی تمہارا مسلک ہے بغیر سوال کئے، بغیر سوچے بغیر کسی فکر اور تدبر کے یہ آنکھیں بند کر کے پیچھے لگ جانے والے لوگ بن جاتے ہیں.تو اس پہلو سے جب میں نے اسلامی تاریخ کا جائزہ لیا تو وقف جدید کے ذریعے حاصل ہونے والے اعداد و شمار نے مجھے اسلامی تاریخ کے ایک پہلو سے المیہ کو سمجھنے کا موقع ملا اور قرآنِ کریم کی اس آیت کریمہ کو سمجھنے کا موقع ملا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سے پہلے ایسی قو میں گذری ہیں یعنی یہود جن کا دین بالآخر ایسے ہو گیا تھا جیسے گدھوں پر کتابیں لا د دی گئی ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان لوگوں کی طرح نہ بن جانا جن کے علماء کا یہ حال تھا جیسے گدھوں پر کتابیں لا د دی گئی ہوں اور اس سے وہ صحیح استفادہ نہ کر سکتے ہوں.اس تمثیل میں بہت ہی گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں اور پہلی بار اس کی گہرائی کا علم مجھے اسی زمانے میں ہوا جب میں وقف جدید کے سلسلے میں علاقوں کے جائزے لے رہا تھا اور دیہاتی جماعتوں کے حالات کو اعدادوشمار کی صورت میں دیکھ رہا تھا، اس وقت پتہ چلا کہ قو میں جب دین سے بے بہرہ ہونے لگتی ہیں تو ایسے علماء کے سپر ددین کا بوجھ کر دیتیں ہیں جن کی اپنی حالت گدھوں کی طرح ہوتی ہے اور یہ مثال بہت ہی حسین مثال ہے.انسان گدھے کی پیٹھ پر وہی بوجھ لا دتا ہے جو اس کو اٹھانا مصیبت لگتا ہے اور محض اٹھانے سے اس کو کوئی لذت محسوس نہیں ہو رہی ہوتی اور فائدہ نہیں ہوتا.اب کتا ہیں تو پڑھنے سے فائدہ دیتی ہیں اور پڑھنے سے ہی لذت دیتی ہیں صرف کتابیں اٹھائے پھرنے کا تو کوئی مزہ نہیں تو جب دین کی باتیں ایسی ہو جائیں کہ وہ بوجھ ہی بن جائیں نہ ان کا ذاتی علم رہے، نہ ان کے پڑھنے کا شوق رہے تو انسان جس طرح

Page 375

368 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کتابوں کا ایک انبار گدھے کی پیٹھ پر لاد دیتا ہے اس طرح تو میں اپنی دینی ذمہ داریاں ان علماء کی پیٹھ پر لاد دیتی ہیں جن کی اپنی حالت اس زمانے تک گدھے جیسی ہی ہو چکی ہوتی ہے یعنی کتابوں کا بوجھ اٹھانے کے باوجود ان کے علم سے بے بہرہ اور انکی معرفت سے عاری ہوتے ہیں تو قرآنِ کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یہود پر ایسا ہی ایک وقت آیا تھا کہ جب قوم نے اپنے دین کو بوجھ سمجھ لیا تھا اور بوجھ سمجھ کر انھوں نے بوجھ اٹھانے والے مزدور ڈھونڈے اور وہ کثرت سے ایسے علماء موجود تھے جنھوں نے اس بوجھ کو اٹھا لیا لیکن دینی لحاظ سے ان کے راہنما بھی وہ گدھے بن گئے اور جب گدھے قوم کے راہنما بن جائیں تو اس قوم کا ہلاک ہو جانا ایک منطقی نتیجہ ہے.پس قرآن کریم نے یہ بہت ہی گہری مثال بیان فرمائی اور ہمیں نصیحت فرمائی کہ دیکھو پہلے ایک ایسا زمانہ گذر چکا ہے جب کہ ایک مذہبی قوم دین کے علم میں دلچسپی چھوڑنے کے نتیجے میں اس علم کو بوجھ سمجھنے لگی تھی اور جب قوم کی یہ نفسیاتی حالت ہو جائے تو جن لوگوں پر وہ بوجھ ڈالا جاتا ہے وہ خود بھی اس نفسیاتی حالت کا پھل ہوا کرتے ہیں اور قوم سے الگ نہیں ہوا کرتے.چنانچہ بوجھ تو اٹھا لیتے ہیں لیکن علم وہ بھی حاصل نہیں کرتے اور ایسے لوگ گدھوں کی طرح ہوتے ہیں.وہ آیت جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں یہ ہے: مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْ هَا كَمَثَلِ الْحِمَارِيَحْمِلُ أَسْفَارًا (الجمعي:6) مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَاةَ ان لوگوں کی مثال جن کو تو رات عطا کی گئی تھی تو رات کی ذمہ داریاں جن پر ڈالی گئیں تھیں ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا پھر وہ ذمہ داریاں ادا کرنے سے کترانے لگے اور ان ذمہ داریوں سے پیٹھ پھیر لى كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ایک ایسے گدھے کی سی مثال ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اب اس میں ایک طرف یہ ہے کہ انھوں نے بوجھ اٹھانا چھوڑ دیا.دوسری طرف ہے کہ گدھے کی سی مثال ہے جس نے بوجھ اٹھایا ہوا ہے تو کیا مطلب بنتا ہے ، وہی مطلب بنتا ہے جو میں پہلے تفصیل سے آپکے سامنے رکھ چکا ہوں کہ قوم کو خدا تعالیٰ ذمہ داریوں کے طور پر شریعت عطا کرتا ہے وہ بوجھ مجھے لگتی ہے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے انکار کرتی ہے تو وہ بوجھ قوم کا ایک حصہ ضرور اٹھاتا ہے لیکن ایسے ہی اٹھاتا ہے جیسے گدھے کتا بیں اٹھانے والے ہوں.بہر حال میں بتا رہا ہوں کہ اس زمانے میں جب وقفِ جدید سے منسلک ہو کر میں نے سارے پاکستان میں اور مشرقی پاکستان میں بھی ، اس وقت ہمارے ملک کا حصہ تھا، جائزے لئے تو اس قسم کے ہولناک کوائف نظر کے سامنے آئے.اس وقت خیال آیا کہ اگر آغاز اسلام سے ہی دیہات کی طرف نظر رکھنے کے کوئی انتظام کئے جاتے تو جس طرح بعد میں اسلام فرقوں میں بٹ گیا ہے کوئی بعید نہیں تھا کہ اس کی اس ہلاکت سے مسلمانوں کو بچایا جا سکتا.شہروں پر عموما لوگوں کی نظر

Page 376

369 حضرت خلیفہ مسیح الرابع رہتی ہے اور دیہات کو گہری نظر سے نہیں دیکھتے اور دیہات میں ہی پہلے علمی لحاظ سے کمی محسوس ہوتی ہے اور دیہات میں ہی جہالت کے نتیجے میں چند علماء پر اعتماد پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ جو کچھ یہ ہیں وہی ٹھیک ہے.اور قرآن فرماتا ہے کہ اس دور کے علماء جبکہ عمو مدین میں دلچسپی کم ہو جائے خود بھی گدھوں کی طرح ہو جایا کرتے ہیں.پس یہ وہ المیہ تھا جس سے بچنے کے لئے وقف جدید کا آغاز ہوا چنانچہ جب ہم نے دیہات کے جائزے لینے کے بعد مریضوں پر نظر ڈالی ، انکی تعداد دیکھی تو اس خیال سے وحشت ہوتی تھی کہ اتنی جائز ضرورتیں اس کثرت کے ساتھ ہیں اور ہم ان کو پورا نہیں کر سکتے ویسی ہی مثال ہے کہ: کون ہے جو نہیں ہے حاجتمند کس کی حاجت روا کرے کوئی سینکڑوں ہزاروں مطالبے تھے ، جس گاؤں کا بھی جائزہ لیا گیا جس علاقے کا جائزہ لیا گیا ہر علاقہ پیاسا تھا ہر جگہ علم کی بھوک تھی اور ایک طلب تھی کہ ہمارے پاس آدمی بھیجو، ہمارے پاس آدمی بھیجو اور گنتی کے کل (معلم) غالباً جو پہلی کھیپ تھی وہ 53 تھے، پھر وہ 70 ہوئے پھر آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھنے لگی تو وقف جدید نے ایک بہت ہی اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی اور وہ ضرورت ابھی تک باقی ہے اور اس ضرورت کا اسے احساس ہے جو بعض علاقوں میں نہیں ہے لیکن رفتہ رفتہ ہوتا چلا جائے گا اور یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو دائمی ضرورت ہے اس لئے وقف جدید کی تحریک بھی عارضی تحریک نہیں بلکہ ایک دائمی تحریک ہے.ابھی پاکستان تک میں وقف جدید کے جتنے معلمین کی ضرورت ہے اس کا دسواں حصہ بھی ہم پورا نہیں کر سکے.مشرقی پاکستان جو پہلے کہلاتا تھا اب بنگلہ دیش ہے وہاں کی بھی ضرورت ہماری طاقت سے اس وقت بہت زیادہ ہے.ہندوستان میں تو بہت ہی تکلیف دہ حالت ہے کیونکہ مالی لحاظ سے جماعت نسبتاً غریب ہے اور کچھ عرصے عدم تو جہگی کے نتیجہ میں وہاں کی مالی قربانی کا معیار بھی گر گیا تھا اب خدا کے فضل سے پھر بہتر ہورہا ہے تو اس لحاظ سے جتنی ضرورت ہے اس کے مقابل پر ہم ضرورت پورا کرنے کے لئے بہت کم موادر کھتے ہیں (معلمین ) کے لحاظ سے بھی بہت کم تعداد ہے اور اموال کی ضرورت کے لحاظ سے بھی ایک عرصہ تک بہت کمی محسوس ہوتی رہی ہے.افریقہ جا کر آپ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا کے فضل سے بعض علاقوں میں بہت تیزی کے ساتھ جماعتیں پھیل رہی ہیں لیکن جماعتوں کے پھیلنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا.مقصد کا آغاز تو پھیلنے کے بعد ہوتا ہے جب کوئی علاقہ احمدیت کو قبول کر لیتا ہے تو اس علاقے میں روحانی انقلاب بر پا کرنا احمدیت کا کام ہے.اگر قبول نہیں

Page 377

370 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کرتا تو وہ کام ہی شروع نہیں ہوتا اس لئے بیعتیں کروانا آخری مقصود نہیں ہے بلکہ بیعتیں کروانا آخری مقصود کی طرف پہلا قدم اٹھانے کا ایک ذریعہ ہے.پس یہ سارے افریقہ کے علاقے جہاں کثرت کے ساتھ جماعتیں پھیلی ہیں وہاں اب وقف جدید کی قسم کی تحریکوں کے خاموش مطالبے ہور ہے ہیں یعنی بزبانِ حال وہ علاقے کہ رہے ہیں کہ یہاں بھی وقف جدید جاری کی جائے.انشاء اللہ وقت آئے گا کہ دنیا کے رملک میں یہ تحریکیں جاری ہونگی اور وقف جدید کے ذریعے دیہاتی جماعتوں کی علمی ، روحانی ضرورتیں پوری کی جائیں گی.اب میں آپ کے سامنے مختصر گزشتہ سال کے یا سالِ رواں کے مالی کوائف رکھتا ہوں اس ضمن میں میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ چند سال پہلے غالباً پانچ سال پہلے میں نے باہر کی دنیا کے لئے بھی وقف جدید کے چندے میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی اور یہ گذارش کی تھی کہ اگر چہ اب تک یہ تحریک پاکستان تک محدود رہی ہے اور بعد میں بنگلہ دیش بھی اس میں شامل سمجھا جانا چاہئے ، کیونکہ پہلے وہ پاکستان ہی تھا اور ہاں ہندوستان میں بھی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جتنی ضرورت ہے اتنا روپیہ ہندوستان نہیں دے سکتا اس لئے باہر کی جماعتیں چندوں میں شامل ہو جائیں.اگر چہ ان کے اپنے اپنے ملکوں میں وقف جدید کا کام بے شک شروع نہ ہو مگر چندوں کی برکت میں وہ شامل ہو جا ئیں.اس سعادت میں شامل ہو جائیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت نے بہت ہی مثبت جواب دیا اور تقریباً52 ملک ایسے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے باقاعدہ وقف جدید کا چندہ آنا شروع ہو گیا.اس سال جب ہم نے جائزہ لے کر پہلے 10 ممالک کی فہرست تیار کی کہ جو وقف جدید کی قربانی میں اوّل ، دوم، سوم ، دس نمبر تک آئے ہیں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جرمنی کی جماعت جو تحریک جدید میں بھی اول تھی وقف جدید میں بھی اول رہی ہے اور پاکستان کو میں اس میں شامل نہیں کر رہا.پاکستان تو خدا کے فضل سے اپنی اولیت کو ہر پہلو سے برقرار رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو ثبات قدم کے لحاظ سے یا آزمائشوں پر رضا اور صبر کے ساتھ پورا اترنے کے لحاظ سے، قربانیوں کے لحاظ سے اور کثرت کے ساتھ باخدا انسان پیدا کرنے کے لحاظ سے پاکستان کے مقابل پر ہو.پاکستان کی وہ اولیت جو ہندوستان سے ہجرت کے بعد اس کو عطا ہوئی وہ بفضلہ تعالیٰ ابھی تک قائم ہے تو آئندہ جو میں اعداد وشمار آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس میں آپ پاکستان کو شامل نہ سمجھیں اس کے علاوہ کے اعدادو شمار ہیں.جرمنی اول رہا ہے اور تحریک جدید میں بھی اوّل تھا اور خوشی والا تعجب اس بات پر ہے کہ ہندوستان دوسرے نمبر پر آ گیا ہے.گو باقی امور میں مختلف قسم کے جو چندے ہیں ان میں ہندوستان کا نمبر بہت پیچھے ہے لیکن وقف جدید میں خدا کے فضل سے

Page 378

371 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہندوستان اس وقت دنیا کی جماعتوں میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے تحریک جدید میں ہندوستان کی پوزیشن چھٹے نمبر پر تھی، برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے اور امریکہ چوتھے نمبر پر.برطانیہ تحریک جدید میں دوسرے نمبر پر تھا تو ایک سیڑھی نیچے اترا ہے وقف جدید کے معاملے میں اور اسی طرح امریکہ نے بھی اور کینیڈا نے بھی یہی نمونہ دکھایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر اس کا برعکس مضمون دکھاتا ہے: آپ آنحضرت کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں.ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے لیکن یہاں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور کینیڈا برطانیہ کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ تیرے گھٹنے سے قدم آگے گھٹایا ہم نے.ایک قدم تو اترا ہے تو ہم بھی ایک ہی قدم اترے ہیں تو تحریک جدید کے مقابل پر وقف جدید میں جو مثال برطانیہ نے قائم کی وہی امریکہ نے اختیار کی اور کینیڈا نے بھی اور انڈونیشیا نے بھی.کافی دور دور تک آپ کے نمونے کے اثر پہنچے ہیں اور ماریشس بھی اسی طرح اسی نمونے پر ہے.یعنی سارے ایک ایک سیڑھی نیچے اتر گئے ہیں لیکن ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ ناروے جو آٹھویں نمبر پر ہے اس کا پہلے تحریک جدید میں کہیں کوئی شمار ہی نہیں تھا.یہ بھی جس طرح Dark Horse ہوتا ہے گھڑ دوڑ میں ایک نامعلوم Unseeded Player کی طرح اچانک وقف جدید میں ایک پوزیشن حاصل کر گیا ہے اور ڈنمارک بھی اسی طرح تحریک جدید کے مقابلے میں شامل نہیں ہو سکا تھا لیکن نویں نمبر پر آ گیا ہے اور ہالینڈ دسویں نمبر پر ہے پہلے بھی دسویں نمبر پر تھا اس نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے.جہاں تک فی کس چندہ دینے کا تعلق ہے تحریک جدید میں جاپان خدا کے فضل سے دنیا کے سب ممالک میں آگے تھا اب سوئٹزر لینڈ نے یہ پوزیشن حاصل کر لی ہے یعنی وقف جدید کا فی کس چندہ دینے کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ نمبر ایک ہے.پھر امریکہ ، پھر ایران پھر جاپان پھر ہالینڈ اور فرانس اکٹھے اور پھر نبی ، پھر کینیڈا پھر جرمنی اور دسویں نمبر پر UK ہے.اس پہلو سے امریکہ نے اور کینیڈا نے UK کی پیروی نہیں کی اور بچ گئے.کل وعدوں کا جہاں تک تعلق ہے یہ بھی میں پاکستان کے وعدے اور وصولیوں کا ذکر چھوڑ کر صرف بیرون کا کر رہا ہوں سال 1989ء میں وعدے 63,552 پونڈ کے تھے.ان وعدوں میں بہت سے ایسے ممالک شامل نہیں ہیں جن سے روپیہ منتقل نہیں ہو سکتا یا جو اپنے اعدادوشمار بہت تاخیر سے بھجواتے ہوسکتا یا جواپنے ہیں.اس ضمن میں میں آپ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ ہمارا شعبہ مال خدا کے فضل سے بڑی مستعدی سے کام کرتا ہے.اگر چہ یہاں ہمارے شعبہ مال تحریک جدید میں کوئی بھی مستقل تنخواہ دار یا تنخواہ تو ہمارے چلتی ہی

Page 379

372 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نہیں ، گزارہ الاؤنس سمجھ لیں گزارہ الاؤنس پانے والا کار کن نہیں ہے اور صرف دو کارکن ایسے ہیں جو طوعی طور پر اور وقف کی طرح ایک خدمت بجالا رہے ہیں مگر طوعی طور پر، ان میں ہمارے وکیل المال یا ایڈیشنل وکیل المال کہنا چاہئے کیونکہ اصل وکیل المال تو ربوہ میں ہیں ، ایڈیشنل وکیل المال محمد شریف صاحب اشرف ہیں اور ان کے ساتھ چوہدری محمد رفیق صاحب خدمت سرانجام دیتے ہیں.دونوں ہی خدا کے فضل سے رضا کارانہ خدمت کرنے والے ہیں لیکن ایسا عمدہ کام سنبھالا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک پورا بڑا دفتر کام کر رہا ہے اور گھڑی کی طرح باقاعدگی کے ساتھ اپنے اپنے وقت پر جو کام ہونے چاہئیں وہ شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ ان کا طریق یہ ہے کہ دسمبر کے آغاز سے دو ڈیڑھ مہینے پہلے سے باقاعدہ تمام جماعتوں کو یہ خط لکھنے شروع کر دیتے ہیں کہ وقف جدید کا سال اختتام پذیر ہے آپ فورار پورٹیں تیار کریں اور دسمبر کے آغاز سے پہلے پہلے اس دفتر تک پہنچ جانی چاہئیں.اس پہلو سے جماعتوں کا جور د عمل ہے وہ کوئی اتنا خوشکن نہیں ہے لیکن گذشتہ سال کے مقابل پر پھر بھی کچھ بہتر Response ہے یا جواب ہے.گذشتہ سال بھی 20 جماعتوں نے بروقت رپورٹ بھجوائی تھی امسال 26 جماعتوں سے بروقت رپورٹیں موصول ہوئی ہیں اور جہاں تک رپورٹوں کے با قاعدہ آنے کا تعلق ہے خواہ وہ وقت پر آئی ہوں یا بعد میں تو خدا کے فضل سے 52 مختلف ممالک سے گذشتہ سال رپورٹیں آئیں تھیں ان 52 کے اعداد و شمار پر انحصار کرتے ہوئے یہ اعداد و شمار جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں بنائے گئے ہیں اس لئے ان کے متعلق ایک بات یا درکھنی چاہئے کہ کچھ اندازے ان میں شامل ہیں رپورٹیں اب تک 52 میں سے صرف 26 کی ملی ہیں اور باقی جو رپورٹیں ہیں وہ ہم نے گذشتہ سال کے اعداد وشمار کو شامل کر لیا ہے اس پہلو سے جو اعدادوشمار بنیں گے ان میں خدا کے فضل سے بہتری تو ہو سکتی ہے کی نہیں آئے گی یعنی 26 ممالک کے اعداد و شمار من وعن وہی ہیں جو واقعتہ ہیں اور باقی کے متعلق اندازہ ہے کہ پچھلے سال جیسی بھی قربانی اگر وہ کریں تو اتنی وصولی انکی طرف سے ہو جانی چاہئے.اس تمہید اور تعارف کے بعد اب میں اعدادوشمار پھر دوبارہ پڑھتا ہوں: سال گذشتہ کل وعدے 63,552 پونڈ کے تھے اور کل وصولی 69012 پونڈ کی تھی.سال 1990 ء میں خدا کے فضل سے وعدوں میں بھی ترقی ہوئی اور 86867 کے وعدے ہوئے اور وصولی میں بھی ترقی ہوئی اور 87255 کی وصولی ہوئی.جہاں تک شامل ہونے والوں کا تعلق ہے گذشتہ سال یہ تعداد 23227 تھی یعنی پاکستان سے باہر کے سارے دنیا کے ممالک میں 23227 ایسے خوش نصیب تھے جنھوں نے وقف جدید کی تحریک میں حصہ لیا.امسال 721, 29 ہیں یعنی کسی قدر اضافہ ہے.پچھلے سال بچگان کی تعداد صرف 6 ممالک سے موصول

Page 380

373 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ہوئی تھی حالانکہ بچوں کے متعلق تو شروع سے ہی یہ تحریک بہت زور دے رہی ہے اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرف بہت توجہ دلائی کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس میں شامل کرنا چاہئے.چنانچہ حضرت خلیفہ صیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ تو خلافت کے اپنے تمام عرصے میں وقف جدید کی تحریک سے متعلق بڑوں کے چندوں کے مقابل پر بچوں کے چندوں میں زیادہ دلچسپی لیا کرتے تھے اور جب میں اعدادوشمار پیش کیا کرتا تھا تو پوچھا کرتے تھے کہ بچوں میں بتاؤ کتنا اضافہ ہوا.اس میں ایک حکمت ی تھی اور بہت بڑی حکمت ہے کہ چندے سے زیادہ ہمیں اگلی نسل کے اخلاص میں دلچسپی ہونی چاہئے.اگر ہم بچوں کو شروع ہی سے خدا کی راہ میں مالی قربانی کا مزہ ڈال دیں اور اس کا چسکا ان کو پڑ جائے تو آئندہ ساری زندگی یہ بات انکی تربیت کے دوسرے معاملات پر بھی اثر انداز رہے گی اور جس کو مالی قربانی کی عادت ہو وہ خدا کے فضل سے عبادتوں میں بھی بہتر ہو جاتا ہے جماعت سے عمومی تعلق میں بھی اچھا ہو جاتا ہے اور یہ اس کی روحانی زندگی کی ضمانت کا بہت ہی اہم ذریعہ ہے.تو حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ بچوں کے متعلق زیادہ تاکید کیا کرتے تھے اور سوال بھی یہی ہوا کرتا تھا کہ بتاؤ بچوں میں کتوں نے حصہ لیا ہے.بعض دفعہ ہم اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے بعض دوستوں سے بڑے بڑے وعدے لے لیا کرتے تھے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کو میں نے کبھی اس پر زیادہ راضی ہوتے نہیں دیکھا وہ یہی کہا کرتے تھے کہ بجائے اس کے کہ بعض لوگوں سے زیادہ لو، زیادہ لوگوں سے کم بے شک لو لیکن زیادہ لوگوں سے لو.چنانچہ اسی لئے میں نے بھی ہمیشہ یہی زور دیا ہے کہ زیادہ تعداد میں احمدی شامل ہوں اور خصوصیت سے بچے.تو امسال میں یہی توجہ دلاتے ہوئے اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے اگر چہ بیرونی جماعتیں بغیر کسی مرکزی محنت کے از خود وقف جدید کے چندے میں دلچسپی لے رہی ہیں اور دن بدن آگے بڑھ رہی ہیں لیکن اس سال اس بات پر بہت زور دیں کہ شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھائی جائے اور اگلی نسل کے زیادہ سے زیادہ بچے ، بے شک کم سے کم دیں مگر وقف جدید میں ضرور شامل کر لئے جائیں، اس سے انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ نسلوں کے دین کی ، ان کے اخلاص کی بھی حفاظت ہوگی اور انکی ضمانت ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ تمام دنیا میں پھیلے ہوئے اور بڑھتے ہوئے اور مزید اُبھر کر نظر کے سامنے آتے ہوئے دینی تقاضوں کو پورا کریں اور خدا کی رضا کے مطابق ان کو پورا کرسکیں.اس وقت تک وقف جدید کی کل آمد 72 لاکھ روپے یا اس سے کچھ زائد ہو چکی ہے اور یہ 33 واں سال ہے تحریک جدید کے 33 ویں سال میں کل آمد کیا تھی.اس کا ابھی ہمیں علم نہیں لیکن غالب خیال یہی

Page 381

374 حضرت خلیفة المسیح الرابع ہے کہ تحریک جدید کے 33 ویں سال میں کل آمد اس سے کم تھی.اس لحاظ سے اگر چہ شروع میں یہ تحریک بہت پیچھے تھی تحریک جدید کے مقابل لیکن بعد میں اس کا قدم تیز تر ہو گیا ہے.تو جب اعداد و شمار آئیں گے تو پھر آئندہ میں آپ کو بتا دوں گا کہ وہ موازنہ کیا ہے لیکن بہر حال ایک کروڑ کا ٹارگٹ اب ہمیں اپنے سامنے نظر آ رہا ہے.اگر ہم افراد کی تعداد بڑھا کر ایک کروڑ کا ٹارگٹ حاصل کر لیں تو ایک دل کو بہت ہی مطمئن کرنے والی بات ہوگی اور ایمان افروز بات ہوگی کہ وقف جدید کی تحریک جو بظاہر معمولی سی تحریک کے طور پر جاری ہوئی تھی وہ خدا کے فضل سے اس تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے کہ صرف اسی تحریک کا سالانہ وعدہ ایک کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.دعاؤں کے ذریعے بھی مدد کریں کیونکہ دنیا میں کوئی دینی تحریک صحیح معنوں میں پنپ نہیں سکتی اور بار آور نہیں ثابت ہو سکتی جب تک آسمان سے اسکو پھل نہ لگیں اور آسمان سے پھل دعاؤں کے ذریعے ہی حاصل کئے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 382

375 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرمودہ 27 دسمبر 1991ء بمقام جلسہ گاہ قادیان) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج سے 34 سال پہلے دسمبر کی 27 / تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا جب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلی بار وقف جدید کی بناء ڈالی.اور اس کا اس خطبہ میں اعلان کیا.آج 34 سال کے بعد پھر دسمبر کی 27 / تاریخ ہے اور جمعہ کا دن ہے اور مجھے وقف جدید کے نئے سال کے اعلان کی توفیق مل رہی ہے.یہ بھی ان اتفاقات کے سلسلہ میں سے ایک حسن اتفاق ہے جو اس سال بہت اکٹھے ہو گئے ہیں اتنے کہ اتفاقات پر ایمان اٹھ گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اتفاق کی بات نہیں یہ تقدیر الہی ہے جو جاری ہے ور نہ اتفاق سے، ایک اتفاق ہو جائے ، دو ہو جائیں ، تین ہو جائیں ، یہ کیا کہ اتفاقات کا مسلسل سلسلہ جاری ہو اور ہر اتفاق حسن اتفاق ہو.پس میں سمجھتا ہوں کہ اس سال کی خصوصیات میں سے حسن اتفاق کے ایک مجموعہ کا اس طرح ظہور ہونا بھی شامل ہے.یعنی ہر اتفاق اپنی ذات میں ایمان افروز لیکن ان کا گلدستہ بہت ہی دیدہ زیب دکھائی دیتا ہے.وقف جدید سے متعلق جب حضرت مصلح موعودؓ نے پہلا اعلان کیا تو بہت ہی احتیاط کے ساتھ بہت معمولی چندے کی تحریک فرمائی اور اسے بہت آسان کر کے جماعت کو دکھایا.چند ہزار روپے کی تحریک تھی اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اس سلسلہ میں چونکہ بہت سے زمیندار زمین کے کچھ ٹکڑے وقف کریں گے اور معلمین کو جن کو ہم بہت تھوڑا گزارہ دیں گے ان زمینوں سے کچھ زائد آمدنی کی صورت پیدا ہو جائے گی اس لئے مالی لحاظ سے اتنے فکر کی بات نہیں.اس تحریک کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جتنی توقع حضرت مصلح موعودؓ نے ظاہر فرمائی تھی ، اس سے زیادہ کے وعدے جماعت نے پیش کئے اور جتنے مراکز کا شروع میں اعلان فرمایا تھا کہ وقف جدید کے معلم وہاں جا کر بیٹھیں گے اس سے زیادہ مراکز کا سامان مہیا ہو گیا.اس تحریک کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسی بات کہی جس کو میری ایک والدہ نے بڑے تعجب سے دیکھا اور بعد میں مجھے بتایا، انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے اس تحریک کے اعلان کا فیصلہ کیا تو ساتھ مجھے بتایا کہ اس میں مجلس کے ممبر کے طور پر میں نے سب سے پہلا نام طاہر کا لکھا ہے.

Page 383

376 حضرت خلیفہ مسیح الرابع پس آج جب میں اس خطبہ کے لئے آرہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ یہ بھی شاید اللہ کی کسی تقدیر کے نتیجہ میں تھا کہ وقف جدید کی مجلس میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو پہلا نام اپنے ہاتھ سے لکھا تو وقف جدید کے 34 سال کے بعد لیکن تقسیم کے بعد خلیفہ وقت کے تعلق سے یہاں خطبات کا جو انقطاع ہوا تھا،اسکے 45 سال کے بعد آج قادیان میں ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ کے جمعہ میں مجھے ہی وقف جدید کے نئے سال کے اعلان کی توفیق مل رہی ہے.ہندوستان میں وقف جدید کی تحریک کچھ کمزور حالت میں پائی جاتی تھی.کیونکہ وقف جدید کے چندے کی طرف ہندوستان کی جماعتوں میں دلچسپی دکھائی نہیں دیتی تھی.ابھی تک وہ کمزوری جاری ہے اور بمشکل پانچ لاکھ کے قریب یا کم و بیش اتنی ہی وصولی ہوتی ہے حالانکہ ہندوستان میں وقف جدید کی غیر معمولی اہمیت سمجھی جانی چاہیے.یہ وہ تحریک ہے جس کے ذریعہ تمام ہندوستان کے علاقوں میں کم سے کم خرچ پر جماعت احمدیہ کا مؤثر رنگ میں پیغام پہنچایا جاسکتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جو نقشہ تھا وہ کچھ اسی قسم کا تھا جیسا کہ میں نے اپنی کل کی تقریر میں ذکر کیا تھا کہ کچھ درویش صفت لوگ جن کی ضروریات زیادہ نہ ہوں ، خدا کے نام پر کسی ایک جگہ جا کر بیٹھ رہیں اور وہاں دھونی رمالیں اور اردگرد اصلاح وارشاد کا کام کریں اور جماعتیں ہوں تو وہاں ان کی تربیت کا کام بھی سنبھالیں.یہ وہ طریق کار ہے جس کے ذریعہ ہم آسانی کے ساتھ ملک کے گوشے گوشے میں تبلیغ ہدایت کا سامان مہیا کر سکتے ہیں.ہندوستان میں جماعت کی عمومی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ اگر ہم بڑے بڑے علماء تیار کر کے ہندوستان کو پیغام دینا چاہیں تو اس کے لئے بہت لمبے انتظار کی ضرورت ہوگی.وقف جدید کی طرف سے اگر چہ ہم معلمین کو با قاعدہ تعلیم بھی دیتے ہیں لیکن اس جدید تحریک کی روایات یہ ہیں کہ اگر ضرورت پیش آئے تو تعلیم کے فقدان کی پرواہ نہ کی جائے اخلاص کو دیکھا جائے اور اگر واقعہ کوئی معمولی تعلیم والا شخص بھی اخلاص میں بڑھا ہوا ہو، تقویٰ کے لحاظ سے اس کا معیار اونچا ہوتو اس کو بھی وقف جدید میں شامل کر لیا جائے.شروع میں یہی طریق تھا لیکن رفتہ رفتہ پھر معیار تعلیم کو بڑھایا جانے لگا اور وقف جدید میں داخلہ کیلئے کم سے کم میٹرک کو معیار قرار دیا گیا.رفتہ رفتہ تعلیم میں اور بھی اضافے ہوئے اور اب پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ خدا کے فضل سے جتنے بھی معلمین ہیں ان کی ٹھوس تعلیم کا اگر مکمل نہیں تو کسی حد تک انتظام کیا جاتا ہے.یہی صورت اس وقت ہندوستان میں رائج ہے لیکن آغاز میں وقف جدید کی جو روح تھی وہ وہی تھی جس کو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ اگر وقت کا تقاضا ہو تو تعلیم کو بے شک نظر انداز کر دو.اخلاص اور تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے واقفین کا انتخاب کرو.

Page 384

377 حضرت خلیفہ المسح الرابع اور جہاں ضرورت ہے اس ضرورت کو پورا کرو.میں سمجھتا ہوں کہ آج ایسا ہی وقت ہے کہ ہمیں تعلیم کے لمبے جھگڑوں کو نظر انداز کرنا ہوگا اور جب تم یہ کہتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں معا وقف جدید کے معلمین کی دو شکلیں سامنے آتی ہیں.اول وہ جو محض تبلیغ حق کیلئے تبلیغ ہدایت کیلئے دنیا میں نکل کھڑے ہوں اور ان کی تعلیم خواہ کیسی بھی کیوں نہ ہو وہ تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہوں ، تقویٰ کا زادِ راہ رکھتے ہوں تو ہم امید رکھتے ہیں کہ خدا کے فضل سے ان کی تبلیغ کو بہت پھل لگیں گے.ایک دوسری نوع کے معلمین وہ ہوں گے جن کو لا ز ما کم سے کم بنیادی تعلیم دینی ہوگی.کیونکہ ان کا زیادہ تر کام جماعتوں کی تربیت ہوگا.پس دو قسم کے معلمین کی ہمیں اس وقت ہندوستان میں شدید ضرورت ہے.ایک وہ جو پیغام حق پہنچا ئیں خواہ کسی تعلیم کے ہوں.کسی طبقہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں.شرط صرف یہ ہے کہ وقف کی روح رکھتے ہوں، ایک ولولہ رکھتے ہوں، ایک جوش رکھتے ہوں کہ آج میدان خدمت نے ہمیں آواز دی ہے ہم ضرور لبیک کہیں گے.اس جذبہ کے ساتھ وہ میدان میں نکل کھڑے ہوں اور ہر میدان کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں سرکرنے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرے معلمین تربیت کی خاطر تیار ہونے ضروری ہیں.اور انہیں کچھ علمی ہتھیار سے مرصع کرنا اس لئے ضروری ہے کہ بعض اوقات بعض علماء ان جگہوں پر جہاں جماعت احمد یہ ترقی کر رہی ہے اپنے لاؤلشکر کے ساتھ جا پہنچتے ہیں اور چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ ہم سے علمی مقابلہ کرو، ایسی صورت میں اگر وہاں نہیں تو قرب وجوار میں ضرور ایسے معلم مہیا ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ علمی میدان میں بھی ان کو شکست دے یمیں.ہندوستان میں ضروریات اس تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی جماعتوں سے شاید اتنے احباب نہ مل سکیں.اس ضرورت کے پیش نظر میں نے قادیان کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہندوستان کی حکومت سے درخواست کریں کہ جس طرح دوسرے ممالک میں جماعت احمدیہ کو اپنے مبلغین بھجوانے کی اجازت ہوتی ہے اس طرح ہندوستان بھی ہمیں باہر سے مبلغین بھجوانے کی اجازت دے.اس سلسلہ میں گفت و شنیدا بھی کسی آخری مرحلے پر نہیں پہنچی لیکن اگر ہندوستان کی حکومت وسیع حوصلہ دکھائے اور جیسا کہ دنیا کے تمام ممالک خدمت دین کرنے کیلئے آنے والوں کی درخواستوں پر ہمدردی سے غور کرتے ہیں اور انہیں اجازت دیتے ہیں جیسے ہندوستان میں کثرت سے یورپ اور امریکہ سے عیسائی مبلغ اور مناد پہنچتے رہے اور آج بھی شاید ان کو اجازت دی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان مبلغین کو جو خالصہ اللہ کی خاطر قربانی کرتے ہوئے امن کو پھیلانے کے لئے ، خدا کی محبت کو فروغ دینے کیلئے سچائی کا پیغام

Page 385

378 حضرت خلیفہ امسیح الرابع لے کر یہاں پہنچیں ان کی راہ روک دی جائے.بہر حال اگر حکومت ہندوستان نے ہمدردانہ غور کرتے ہوئے جماعت کو اجازت دی تو میں ہندوستان کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایک عالمی وقف کی تحریک کروں گا تا کہ دوسرے ملکوں سے بھی لوگ یہاں پہنچیں اور آپ کے وقت کے تقاضوں پر لبیک کہیں.اگر یہ اجازت نہ مل سکی تو پھر آپ کو لازما اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرنا ہوگی.اس وقت جو میدان ہمارے سامنے ہیں ان میں بعض نئے ممالک بھی ہیں جن کا بظاہر تحریک جدید سے تعلق ہے لیکن کام کی نوعیت وقف جدید والی ہی ہے.مثلاً سکم ہے، بھوٹان ہے ، نیپال ہے وہاں جہاں جہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے مبلغین پہنچے ہیں انہوں نے زمین کو پیاسی دیکھا جو پیاسی بھی تھی اور سیراب ہونے کی خواہش بھی رکھتی تھی.ورنہ انسانی تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ جب تمثیلی طور پر انسان کا ذکر زمینوں کی صورت میں کیا جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ پیاسی زمینیں پانی کی طلب بھی رکھتی ہوں.پانی آئے تو اسے رد بھی کر دیتی ہیں لیکن بھوٹان سکم اور نیپال میں اللہ تعالیٰ کے فضل کیساتھ طبعی فطری رجحانات پائے جاتے ہیں اور صرف ایک مذہب کی طرف سے پیاس کا اظہار نہیں بلکہ وہاں جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں ، ان سب میں ہی ایک طلب ہے اور ایک تلاش ہے چنانچہ اب تک ہمارے معمولی تعلیم یافتہ معلمین نے جتنا بھی کام کیا ہے خدا کے فضل سے اس کے توقع سے بہت بہتر نتائج ظاہر ہوئے ہیں.اس لئے ہمیں پھر لازماً ان ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے آپ سے مزید واقفین طلب کرنے ہوں گے.جہاں تک اعلی تعلیم یافتہ واقفین کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب قادیان میں جگہ کی اتنی سہولت مہیا ہو چکی ہے اور اس جلسہ کے اثر سے بعض دوسری جماعتوں نے بھی مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خرچ پر ان کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ ان کے علاقوں سے آنے والوں کے لئے بھی یہاں مہمان خانے تعمیر کئے جائیں.پس وہ جو دقت تھی کہ طلباء کو کہاں پڑھایا جائے ، کہاں جامعہ بنایا جائے ، یہ دقت تو عملاً دور ہو چکی ہے اور باقی مزید دور ہو جائے گی.اساتذہ کا جہاں تک تعلق ہے، میں نے غیر ممالک سے جائزہ لیا ہے اور بہت مثبت جواب پایا ہے کہ عرب جو عربی زبان کی مہارت رکھتے ہوں ، ویسے تو ہر عرب کو عربی آتی ہے لیکن ہر مادری زبان بولنے والے کو اس زبان پر قدرت نہیں ہوا کرتی اس لئے مزید چھان بین کرنی پڑتی ہے کہ کون فصیح و بلیغ زبان جانتا ہے ، پس ایسے عرب احمدیوں میں سے جو زبان پر خدا تعالیٰ کے فضل سے قدرت رکھتے ہیں.جب میں نے یہ سوال کیا کہ کیا آپ اپنے آپ کو وقف کر کے قادیان کے جامعہ میں پڑھانے کے لئے تیار

Page 386

379 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ہوں گے تو انہوں نے خوشی سے اثبات میں جواب دیا بلکہ بہت ہی پر خلوص جذبے کے ساتھ لیک ہی.اسی طرح ایسے انگریزی دان بھی میسر ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قادیان میں آ کر خدمت کے لئے تیار ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے اور زبانوں میں بھی زبان سکھانے والے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں.اس پہلو سے یہاں کے جامعہ کا معیار خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت بلند کیا جاسکتا ہے.اہل زبان اپنی اپنی زبان یہاں کے طالب علموں کو سکھائیں اور قابل علماء جو یہاں میسر نہ ہوں تو باہر سے منگوائے جائیں.وہ اپنے اپنے مضمون کو اعلی پیمانہ پر ذہن نشین اور دلنشین کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جامعہ کا معیار بہت بلند ہو سکتا ہے اور جو روکیں اس وقت پاکستان میں ہمیں زچ کر رہی ہیں اور دل کو تنگ کرتی ہیں میں امید رکھتا ہوں کہ وہ روکیں یہاں نہیں ہوں گی.پس اگر یہ ہو تو میرے ذہن میں یہ نقشہ ہے کہ ایک وسیع جامعہ بنایا جائے جس کا کام صرف اعلیٰ درجہ کے مولوی فاضل پیدا کرنا یا مولوی فاضل کے معیار سے بلند مبلغ پیدا کرنا نہ ہو بلکہ وقف جدید کے لئے بھی وہی کام کرے گویا شروع کے دو یا تین سال جتنی دیر میں ہم سمجھتے ہیں کہ وقف جدید کے مبلغ اس حد تک تیار ہو سکتے ہیں کہ وہ حو صلے اور اعتماد کے ساتھ میدان عمل میں جا کر خدمت بجالا سکیں اسوقت تک ان سب کی کلاسیں اکٹھی بھی ہوسکتی ہیں.بعد میں جو مزید ماہر علماء تیار کرنے ہوں وہ تین یا چار سال کے لئے مزید اس جامعہ میں ٹھہر کر اپنی آخری ڈگری حاصل کر سکتے ہیں.پھر ان میں سے جو خلصین فوری طور پر اپنے آپ کو میدان عمل کیلئے پیش کریں اسی جامعہ میں کچھ نہ کچھ ابتدائی تربیت کیلئے ان کو چند مہینے روکنا ہوگا اور خدا کے فضل سے اسی جامعہ میں اس کا بھی بہت عمدہ انتظام ہو سکتا ہے.تو تین قسم کے معلمین اور مبلغین یہ جامعہ تیار کریگا.ایک وہ مخلصین جو فوری طور پر اپنے آپ کو میدان عمل میں پیش کرنے کے لئے حاضر ہوں آسمیں نہ کوئی عمر کی شرط ہوگی نہ کوئی تعلیم کی شرط ہوگی ،تقویٰ اور خلوص اور قربانی کا مادہ، یہ دیکھے جائینگے.ابتدائی طور پر ان کو نظام جماعت سمجھانے کیلئے تبلیغ کے میدان میں حکمتوں کے معاملات سمجھانے کیلئے اور عمومی طور پر ان علاقوں کے متعلق کچھ معلومات بہم پہنچانے کے لئے جن میں ان کو بھجوانا مقصود ہو.پھر اسلام کی کم از کم وہ تعلیم عمدگی کے ساتھ ان کے ذہن نشین اور دلنشین کرنے کی خاطر جس تعلیم کے بغیر کوئی مسلمان روز مرہ کی زندگی میں اپنے مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتا.وہ بھی ان کو لاز ما سکھانی ہوگی مثلا نماز ہے، اگر کوئی بہت ہی مخلص آدمی اپنے آپ کو پیش کرے کہ میں حاضر ہوں.مجھے میدان عمل میں جھونک دیا جائے لیکن نماز صحیح نہ جانتا ہو، اس کا تلفظ درست نہ ہو، اس کا ترجمہ اسے نہ آتا ہوں، نماز کے متعلق اس کے اردگر دجو مسائل گھومتے ہیں ان سے نا آشنا ہو.وضو کے مسائل کا نہ پتہ ہو.دیگر آداب صلوۃ سے نا واقف ہو تو یہ کہنا

Page 387

380 حضرت خلیفة المسیح الرابع کافی نہیں ہے کہ یہ متقی ہے.کیونکہ تقویٰ کی کچھ ظاہری علامتیں ہونی بھی تو ضروری ہیں.تقویٰ اگر کسی دل میں ہو تو وہ نماز سے محبت کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک سچا متقی ہو اور نماز کیلئے اس کے دل میں جستجو اور تڑپ نہ ہو.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ اسی قادیان کی بستی میں جب بچپن میں ہم یہاں گلیوں میں گھوما کرتے تھے تو عام سے عام انسان جسے دنیا کی زندگی میں عام کہا جاتا ہے ایک مزدور ، ایک فقیر ، وہ بھی نماز کو نہ صرف اچھے تلفظ کے ساتھ ادا کر سکتا تھا بلکہ اس کے مطالب سے آگاہ تھا اور روز مرہ کے دینی مسائل سے واقف ہوا کرتا تھا.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں قادیان کے لوگ کچھ اور ہی مخلوق دکھائی دیتے تھے.جن کا اردگرد کی دنیا سے گویا کوئی تعلق نہیں تھا.یہ وہ بستی تھی جہاں لوگ فقیروں کو ، مانگنے والوں کو جھک کر سلام کیا کرتے تھے، ان کی عزت کیا کرتے تھے اور ان کے سامنے دعا کی درخواستیں پیش کیا کرتے تھے.یہ وہ بہتی تھی جہاں مزدور جوٹیشن پر مزدوری کرتے تھے پانچ وقت اپنی مزدوری کو چھوڑ کر مسجد مبارک میں حضرت مصلح موعود کے پیچھے نماز پڑھنے کے شوق میں حاضر ہوا کرتے تھے.وہ اعتکاف بھی بیٹھا کرتے تھے.ذکر الہی میں بھی مصروف ہوا کرتے تھے اور دیکھنے میں ریلوے کے ایک قلی ہی تھے.یہ وہ لوگ تھے جن کو لوگ دعاؤں کیلئے بھی کہتے تھے.ان سے استخارے بھی کروایا کرتے تھے.ان کی مجالس میں بیٹھنا باعث فخر اور باعث عزت سمجھتے تھے.یہ وہ معاشرہ تھا جس میں تقویٰ کی تعریف اپنے پورے جو بن کے ساتھ جلوے دکھا رہی تھی.پس جب میں نے یہ کہا کہ تقویٰ موجود ہو اور سچا اخلاص ہو تو ہم تعلیم کی مزید پروا نہیں کریں گے تو ہرگز یہ مراد نہیں کہ سطحی طور پر تقوی کو دیکھا جائے گا.امر واقعہ تو یہی ہے کہ تقویٰ کی گہرائی میں اتر ناصرف خدا کا کام ہے لیکن کسی حد تک انسانی نظر کو بھی تو جانچ کرنی پڑتی ہے.جس حد تک انسان کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے اس وقت تقویٰ کی ظاہری شرائط کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ عارضی طور پر وقف کرنے والوں کو بھی ہم فوراً بغیر کسی تحقیق کے میدانِ عمل میں نہیں جھونک سکتے.یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ اسے مسلمان کی روزمرہ کی زندگی کے ابتدائی فرائض ادا کرنے آتے ہیں کہ نہیں.بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے لئے علم کی ضرورت نہیں.از خود ہر مسلمان کو معلوم ہونے چاہئیں اور ایک متقی کولاز ما معلوم ہوتے ہیں.پس ان ابتدائی مسائل سے آگاہی کی خاطر اسے ان باتوں سے بہت اچھی طرح مسلح کرنے کی ضرورت ہے جو میدان عمل میں اس کے سامنے روز مرہ پیش ہوگی اور ان سے لاعلمی کے نتیجہ میں وہ اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہیں کر سکے گا.جب وہ کسی کو اسلام کی طرف بلائے گا تو وہ پوچھے گا ناں کہ بتاؤ اسلام کیا ہے؟ اگر محض اخلاص ہی اخلاص ہو تو وہ اسے کیا بتائے گا.اسکی تو ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک پٹھان نے جب فساد کے زمانے تھے کسی

Page 388

381 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع غیر مذہب والے کو تلوار کے زور سے ڈرا کر مسلمان بننے پر آمادہ کر لیا.جب وہ آمادہ ہو گیا تو اس نے کہا: خانصاحب ! اب آپ فرمائیے کیسے مسلمان بنوں؟ اسنے کہا: کلمہ پڑھو.اسنے کہا پھر پڑھائے تو کہا کہ تمہاری قسمت اچھی ہے.کلمہ مجھے بھی نہیں آتا.یہ لطیفہ ہے.میں نہیں سمجھتا کہ پٹھانوں میں جو دین سے بڑی محبت رکھتے ہیں ایسے لوگ ہوں گے.مگر پرانے زمانوں میں یہ جاہلانہ رواج تھے کہ قوموں کے اوپر لطیفے بنائے جاتے تھے.پس کسی نے یہ لطیفہ گھڑا ہوگا.لیکن یہ فرضی لطیفہ ایسے معلم پر ضرور صادق آئے گا جو مسلمان بنانے کیلئے نکل کھڑا ہو اور اسے صحیح طریق پر کلمہ بھی پڑھنانہ آتا ہو.نماز بھی پڑھنی نہ آتی ہو، قرآن کریم کی تلاوت نہ جانتا ہواور مسائل کی شدھ بدھ نہ رکھتا ہو.اس قسم کی تعلیم کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ آغاز میں ہم تین مہینے کا تجربہ کر سکتے ہیں.اس کے بعد اگر اساتذہ مشورہ دیں تو تین مہینے کو چھ مہینے میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے.یہ چھ مہینے جو ابتداء میں ہمیں کم از کم ضرورت کے معلم پیدا کرنے کیلئے درکار ہوں گے وہ ضائع نہیں جائیں گے کیونکہ اس عرصہ میں ہمیں بہت سے انتظامی کام بھی کرنے ہیں.بہت سے جائزے لینے ہیں اور میدان عمل میں دیگر ضرورتوں کی طرف بھی توجہ کرنی ہے.بعض مقامی قوانین کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں.مثلاً جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سکم، بھوٹان، نیپال وغیرہ میں خدا کے فضل سے ایک رجحان پایا جاتا ہے لیکن وہاں پر جب تک جماعت رجسٹر نہ ہو اس وقت تک تبلیغ کی کھلے بندوں اجازت نہیں اور معلمین کو کافی وقت پیش آتی ہے.پس جب تک ہم وہاں با قاعدہ قانون کے تقاضے پورے نہ کر لیں اس وقت تک کھلی آزادی کے ساتھ اور پورے ولولے کیساتھ وہاں کام نہیں ہو سکتا.تو اگر آج کے بعد ہم ایک مہینہ آپ کی جماعتوں تک اس پیغام کے پہنچنے اور وہاں سے جواب آنے کا رکھ لیں اور ایک دو مہینے ان خواہشمند احباب کی درخواستوں پر غور کرنے کے ،انکے حالات کی چھان بین کرنے کے اور وہاں کی جماعتوں سے رپورٹیں حاصل کرنے کے رکھ لیں تو پہلے تین مہینے تو اسی قسم کی ابتدائی تیاری کے لئے درکار ہوں گے.ان کے بعد پھر دوسری تیاریاں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کرنی ہوں گی.جامعہ کی تیاریاں ،اساتذہ کو حاصل کرنا ،اس کے سلیپس تیار کروانا.نئے طرز پر جامعہ کی تعمیر کیلئے بڑی محنت درکار ہوگی اس کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم تین مہینے اور چاہیں ہونگے تو جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھ مہینے کے لیے بعد میں ، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے تعلیم شروع کریں تو ایک سال کے بعد پہلا پھل لگے گا.اگر چہ ہماری خواہش کے مطالبے اور ہیں اور صبر کے تقاضے اور ہیں لیکن لازماً آخر صبر کے تقاضے جیت ہی جاتے ہیں.ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا ایک سال کا انتظار تو ہمارے لئے بہر حال مقدر ہے.اس لئے پہلے سال کے بعد انشاء اللہ پھر ہر سال یا اگر چھوٹی

Page 389

382 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کلاس ہو تو تین تین.چھ چھ مہینے کے بعد معلمین کے نئے وفود تیار ہوتے چلے جائیں گے.نئے گروہ تیار ہوں گے جن کو ہم حسب حالات اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے شمال و جنوب میں پھیلا سکتے ہیں.وقف جدید کی تحریک کا اس طرز تبلیغ سے گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جوطرز تبلیغ تھی یا طر ز تربیت تھی یہ وہی ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.آپ کے پیش نظر کوئی بہت زیادہ رسمی سخت مزاج کی تنظیم نہیں تھی.ایسی تنظیم تھی جس میں لوچ ہو ، جس میں تقاضوں کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت ہو، اونچ نیچ کیلئے اس میں گنجائش موجود ہو.پس ہندوستان کی وقف جدید کو بھی اسی نہج پر کام کرنا ہوگا اور اللہ کے فضل سے کسی حد تک یہ کام ہو رہا ہے.لیکن جہاں تک مقامی ضروریات کا تعلق ہے پانچ لاکھ کی رقم تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی.چنانچہ چند سال پہلے میں نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پہلی مرتبہ وقف جدید کے چندہ کے نظام کو بین الاقوامی یا کل عالمی بنا دیا.پہلے وقف جدید کے متعلق یہ خیال تھا کہ برصغیر ہند و پاکستان کی حدود میں محدود ہے اور صرف پاکستان ہی سے چندہ وصول کیا جائے یا صرف ہندوستان ہی سے چندہ وصول کیا جائے.اور اس میں ایک اضافہ بنگلہ دیش کا بھی کرلیں.ان دنوں میں وہ چونکہ مشرقی پاکستان تھا اس لئے اس وقت دو ہی ملک پیش نظر تھے مگر بنگلہ دیش بھی اس گروہ میں شامل ہے چند سال پہلے خصوصیت سے ہندوستان کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے وقف جدید کے چندہ کی عالمی تحریک کی اور تمام دنیا کی جماعتوں سے یہ درخواست کی کہ پاکستان اور ہندوستان کی سرزمین وہ ہے جہاں سے کبھی خالصہ آپ تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے وہاں کے باشندگان مسلسل قربانی کیا کرتے تھے اور کبھی کسی ذہن میں یا ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ چندہ تو ہم اکٹھا کر رہے ہیں لیکن خرچ دوسرے ملکوں میں ہو رہا ہے.ہندوستان اور پاکستان کے باشندوں نے ایک لمبے عرصہ تک کلیۃ اللہ کی خاطر اور تمام نفسانی اغراض سے پاک ہو کر تمام دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے مالی قربانیاں بھی دیں اور جانی قربانیاں بھی دیں.چنانچہ میں نے باقی ملکوں کو سمجھایا کہ یہ تو ایک ایسا احسان ہے جو آپ عمر بھر اور نسلاً بعد نسل بھی اتارنے کی کوشش کرتے رہیں تو دعا کے سوا اُتر نہیں سکتا.مگر ظاہری طور پر اگر یہ احسان اُتارنا چاہتے ہیں تو ایک صورت یہ ہے کہ آپ ایک ایسی تحریک میں شامل ہو جائیں جس کا خرچ آپ کے ملک میں نہیں ہوگا بلکہ ہندوستان اور پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہوا کرے گا چنانچہ اس طرح آپ اظہار تشکر بھی کر سکتے ہیں اور آپ کے دل احسان کے بوجھ سے ہلکا محسوس کریں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک پر بہت ہی شاندار لبیک کہا گیا اور بڑے بڑے ممالک نے جن

Page 390

383 حضرت خلیفة المسیح الرابع میں یورپ کے ممالک میں سے جرمنی ہے اور UNITED KINGDOM ہے اور دوسرے مغرب کے ممالک میں سے کینیڈا ہے اور امریکہ ہے اسی طرح انڈونیشیا اور دیگر مشرقی ممالک نے بھی بڑی ہی خوشدلی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ لبیک کہا.اور اس کے نتیجہ میں ہماری بہت سی مالی وقتیں دور ہوگئیں.اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دیگر ممالک تو مسلسل قربانی میں آگے بڑھ رہے ہیں اور آغاز میں جتنے انہوں نے وعدے کیے تھے اور جتنی ادائیگی کی تھی اس کے مقابل پر اب انکے وعدے اور ادا ئیگی کئی گنا بڑھ چکی ہے.لیکن ہندوستان کی وقف جدید کا وہی حال ہے جس رفتار سے پہلے قدم اٹھا رہی تھی بعینہ اسی رفتار سے اب قدم اٹھا رہی ہے.شاید اس میں کچھ قصور بیرونی قربانی کرنے والوں کا ان معنوں میں ہو کہ یہاں کے کارکنوں نے سمجھ لیا کہ خدا کے فضل سے پیسے تو باہر سے آہی جانے ہیں ،ضرورتیں تو پوری ہو ہی جانی ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ کوشش کریں اور مصیبت میں مبتلا ہوں اور چٹھیاں لکھیں اور جماعتوں کو احساس دلائیں کہ تم نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے.بعض دفعہ بیرونی مدد اس قسم کی کمزوری بھی پیدا کر دیا ا کرتی ہے.تو ایک بات تو میں آج آپ سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ دین کی خاطر قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی پر ذاتی احسان نہیں ہے.یہ نہیں میں کہہ رہا کہ واقعہ آپ پر وہ قومیں احسان کر رہی ہیں.یہ لفظ تو محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے.عملاً جو بھی چندہ دیتا ہے اللہ دیتا ہے.اللہ کی رضا کی خاطر دیتا ہے اس لئے احسان کے مضمون کو کچھ دیر بھول جائیے.لیکن انسانی غیرت اور حمیت کے مضمون کو ضرور یا درکھیں.ایک مومن حتی المقدور ضرور یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو.ایک مومن حتی المقدور ضرور یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی اور اپنی علاقائی ضرورتوں کو وہ خود پورا کر سکے اور ہر معنی میں یعنی لطیف تر معنی بھی فیض رساں ہو فیض قبول کرنے والا نہ ہو.پس ذاتی طور تو ہندوستان کو جہاں بیرونی دنیا سے کوئی بھی زیرا احسان نہیں کرتا جب وہ خلیفہ وقت کی تحریک پر وقف جدید کی مد میں قربانی کرتا ہے.لیکن ہندوستان میں یا احساس پیدا ہونا ضروری ہے کہ ہم وہ ملک ہیں جہاں احمدیت کا سوتا پھوٹا ہے.جہاں آسمان سے احمدیت کا نور نازل ہوا ہے.ایک لمبے عرصہ تک ہمیں یہ سعادت ملی کہ ہمارا فیض ساری دنیا کو پہنچتا رہا.مشرق کو بھی پہنچا، مغرب کو بھی پہنچا، کالوں کو بھی پہنچا، گوروں کو بھی پہنچا.ایک ہندوستان ہی تھا جو افریقہ کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا، امریکہ کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا، یورپ کے ممالک کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا اور مشرق بعید کے ممالک کی ضرورتیں بھی پوری کر رہا تھا.کبھی کسی ہندوستانی احمدی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ دوسروں پر احسان کرتا ہے.اسکے لئے یہ سعادت تھی اور اس سعادت کے نتیجہ میں، تکبر کے نتیجہ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احسان کو یا در کھتے ہوئے اس کا سر اونچا ہوتا تھا سر کا اُونچا ہونا بھی مختلف وجوہ سے ہو

Page 391

384 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع سکتا ہے یا درکھیں کہ سر کا اونچا ہونا لازماً تکبر کی علامت نہیں ہے.بعض دفعہ نیک مقاصد کیلئے بھی سر بلند کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احسان کے تابع جہاں سر جھکتے ہیں وہاں سر بلند بھی ہوا کرتے ہیں.پس ان معنوں میں ہندوستان کی جماعتوں کا سر بہت بلند تھا لیکن رفتہ رفتہ تقسیم کے بعد جو کمزوریاں پیدا ہونی شروع ہوئیں ان میں ایک مصیبت یہ آپڑی کہ دوسروں پر انحصار کا رجحان پیدا ہو گیا اور ہندوستان یہ بھول گیا کہ وہ تو ایک فیض رساں ملک تھا اور فیض رساں ملک کے طور پر بنایا گیا تھا.اس مقصد کیلئے خدا نے اسے چنا تھا کہ اس کا فیض ساری دنیا میں پھیلے.پس اس نقطہ نگاہ سے ہندوستان کی جماعتوں کو اپنے حالات کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے.میں یہ نہیں کہتا کہ فلاں جماعت کے لوگ مالی قربانی میں پیچھے ہیں اور فلاں کے آگے ہیں لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی ضروریات کے لئے استطاعت ضرور بخشی ہے.آپ میں جتنے مخلصین کام کیلئے آگے آسکتے ہیں ان کا آپ کی تعداد سے ایک تناسب ہے اور ہر قوم میں یہ تناسب موجود ہوتا ہے پس جتنے مخلصین آپ پیدا کر سکتے ہیں ان مخلصین کی ضروریات کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ضرور توفیق بخشی ہے.پس اگر وہ ضروریات پوری نہ ہوں اور باہر سے مدد کی ضرورت پیش آئے تو یہ تکلیف دہ صورت اُبھرتی ہے کہ ہندوستان کی جماعتیں اپنے فرائض کو پورا ادا نہیں کر رہیں.پس میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے حالات کا جائزہ لیں.آپ میں سے وہ خوش نصیب جن کو خدا تعالیٰ نے کثرت سے دولت عطاء فرمائی ہے اور ایسے ضرور ہیں.وہ یہ جائزہ لیں کہ کیا وہ اس نسبت سے جس نسبت سے اللہ نے ان پر فضل فرمایا ہے، خدا کے حضور مالی قربانی میں لبیک کہتے ہیں کہ نہیں.یہ خیال کہ جماعت کے عہدیداران کو کیا پتہ کہ ہمارے پاس کیا ہے، ہمیں کتنا ملتا ہے ، یہ ایک بے تعلق اور بے معنی خیال ہے.جماعت کے عہدیداران کو خوش کرنے کیلئے تو آپ نے دینا ہی نہیں ہے.جس کے حضور پیش کرتے ہیں اسے سب کچھ پتہ ہے کیونکہ دینے والا ہاتھ وہ ہے.عطا کرنے والے کو کیسے آپ دھوکہ دے سکتے ہیں.جس نے خود آپ کو کچھ دیا ہو آپ کیسے یہ سوچ سکتے ہیں کہ اسے آپ کے حالات کا علم نہیں ہے.پس ان عذر کے قصوں کو بھلا دیجئے چھوڑ دیں ان باتوں کو کہ آپ کے اوپر کتنی ذمہ داری ہے اور مالی لحاظ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ اچھے ہیں لیکن عملاً یہ حال نہیں ہے.اس قسم کی باتیں عموماً کم چندہ دینے والے کیا کرتے ہیں.ان کو بھلادیجئے اور یہ بات دیکھئے کہ جس خدا نے آپ کو عطا کیا ہے اگر اس کی محبت اور پیار کے اظہار کیلئے آپ اس کے حضور کچھ پیش کرتے ہیں تو وہ اسے رکھ نہیں لے گا وہ اسے واپس لوٹائے گا اور وہ چند کر کے واپس لوٹائے گا.اور دس گنا زیادہ

Page 392

385 حضرت خلیفتہ المسح الرابع کر کے واپس لوٹا نا اس نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے.وہ کیسے یہ کام کرتا ہے ہم ان اسرار کو نہیں جانتے مگر روز مرہ کی زندگی میں ان کاموں کو ہوتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اخلاص کے اعلیٰ معیار پر قائم ہیں ان کیلئے اللہ تعالیٰ نے کوئی حد قائم نہیں فرمائی.فرمایا: پھر جسے وہ چاہے اسے جتنا چاہے بڑھا کر دیتا چلا جائے اسکی کوئی حد نہیں ہے.تو پہلے تو یہ دیکھیں کہ خدا کے معاملے میں کنجوسی کرنا کوئی عقل کا سودا ہے؟ کوئی نفع کا سودا ہے یا گھاٹے کا سودا ہے.اللہ تعالیٰ بہت ہی حلیم ہے اور ضروری نہیں کہ ہر کنجوسی کرنے والے کو اسکی کنجوسی کی فور سزا دے.وہ مستغنی بھی ہے.وہ بعض دفعہ پر واہ بھی نہیں کرتا اور خصوصاً ان لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا جن سے توقعات نہ ہوں.پس خدا کی طرف سے اس معاملہ میں پکڑ کا نہ آنا ایک خطر ناک علامت ہے.میرا ساری زندگی کا تجربہ ہے کہ نیک لوگوں پر غفلت کے نتیجہ میں احساس دلانے والی پکڑ ضرور جلد ہی آیا کرتی ہے.خدا کی پکڑ کی صرف ایک ہی قسم نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی عقوبت کی بھی اور پکڑ کی بھی بہت سی قسمیں ہیں.بعض دفعہ پکڑا ایسی ہوتی ہے جو صرف احساس دلانے کیلئے ہوتی ہے کہ ہیں ہیں ! تم سے یہ توقع نہیں تھی.یہ کام نہیں کرنا ورنہ میں غالب ہوں.مجھ سے بھاگ کر تم الگ نہیں جاسکتے.یہ ایک ایسی پکڑ ہے جسے مومن اور مخلص مومن ہی جانتا ہے.غیروں کو اندازہ ہی نہیں کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے.اس کا نام ابتلاء نہیں ہے اس کا نام سوائے محبت کی دنیا کے کسی اور دنیا کو معلوم ہی نہیں ہوسکتا.ایک ماں جو اپنے بیٹے سے محبت رکھتی ہے اور اعلی توقع رکھتی ہے جب وہ غفلت کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے سزا دے.لیکن اسکی آنکھ میں ہلکی سی جو مایوسی ظاہر ہوتی ہے وہی اس پیارے بچے کے لئے سزا بن جاتی ہے.اگر نسبتا کم لطیف مزاج کا بچہ ہو تو اس کے لئے اظہار ناراضگی یا اظہار مایوسی ذرا اور رنگ میں ظاہر ہوگا.نسبتا زیادہ کھل کر ظاہر ہوگا.مگر وہ بھی عام دنیاوی معنوں میں عقوبت یا سزا نہیں کہلاتی.وہ محض ایک یاد دہانی ہے.پس میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالٰی مومنوں کو جن سے توقعات رکھتا ہے جن کو آگے بڑھانا چاہتا ہے ان کی بعض ایسی غفلتوں پر ضرور پکڑتا ہے اور جلدی پکڑتا ہے.اور اس پکڑ کا نتیجہ انکی اصلاح ہوتی ہے اور ان کے اور خدا کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ تجربے کے بعد جان لیتے ہیں ، خوب اچھی طرح پہچان لیتے ہیں کہ خدا سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے.جہاں ہم نے غلطی کی ہم اپنی غلطی میں کامیاب نہیں ہوں گے.ہم اپنے غلط مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے.پس وہ خوش نصیب ہیں جو غفلت کے نتیجہ میں ان معنوں میں پکڑے جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اپنے حال پر تو راضی ہو جائیں جن کی تجوریاں بھرتی رہیں ، جن کے رزقوں میں ترقی ہوتی چلی جائے وہ یہ مجھے لگیں کہ خدا ہم سے تو راضی ہے اگر ہم اس کے حضور پیش کرنے میں کمی بھی دکھاتے ہیں تو اس نے کبھی بھی ناراضگی کا ظاہری اظہار نہیں کیا.یہ بہت بڑی بیوقوفی ہے.خدا استغنی ہے.وہ عطاء

Page 393

386 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کرنے والا ہے ایسے موقع پر اس کی ناراضگی کا ظاہری اظہار کوئی نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ کوئی شخص اتنا دور چلا جائے کہ وہ دین کا دشمن ہو پھر بعض دفعہ اسکو دنیا میں عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے لیکن یہ تو بہت ہی بعید کی بات ہے.میں کسی احمدی کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ نعوذ باللہ اس حال کو پہنچ جائے پس وہ لوگ جن کو خدا نے زیادہ دیا ہے خواہ وہ کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں ، خواہ ان تک مال کے انسپکٹر ان کی آواز پہنچتی ہو یا نہیں یا مرکز کے ناظر ان کے خطوط پہنچتے ہوں یا نہیں.انکو یا درکھنا چاہیے کہ خدا جانتا ہے اور خواہ آپ ظاہری قربانی کریں، اعلانیہ قربانی کریں یا مخفی قربانی کریں خدا کے علم میں ہے کہ کون میرا بندہ مجھ سے محبت رکھتا ہے.میرے پیار کے نتیجہ میں وہ میرے حضور کچھ پیش کرتا رہتا ہے.اس علم کو آپ اپنے کانشنس ، دماغ میں اگر محسوس کریں یعنی با شعور طور پر ہر قربانی کرنے والا قربانی کرتے وقت یہ جانتا ہو کہ میرے مولیٰ کی مجھ پر نظر ہے تو اس کی قربانی کا معیار یکدفعہ بدل جائے گا.اس میں ایک انقلاب بر پا ہو جائے گا.کیونکہ وہ شخص جسے کوئی دیکھ رہا ہو اور خصوصا وہ دیکھنے والا ہو جو اُس سے بلند تو قعات رکھتا ہو جس کا اس شخص کے دل میں احترام ہو.جسے دیکھا جا رہا ہے تو اس وقت اُس کا رد عمل بالکل مختلف ہوتا ہے اس کی ادائیں بدل جاتی ہیں.بچے ، دیکھا ہے کہ ان لوگوں کے سامنے جن کی عزت کرتے ہیں کتنے مہذب اور بن ٹھن کر تیار بیٹھے ہوتے ہیں.گفتگو کا سلیقہ بھی بالکل مختلف لیکن اُدھر استاد کمرے سے باہر نکلا یا ماں چلی گئی تو اچانک شور شرابا بر پا ہو جاتا ہے.دیکھنے کا جو مضمون ہے یہ ایک بہت ہی اہم مضمون ہے.اسے سمجھے بغیر اخلاص میں بچی ترقی ہو نہیں سکتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک بہت ہی پاکیزہ اور عظیم الشان کلام میں بار بار جو یہ فرمایا کہ سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِی تو اس میں صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا میری نگہداشت کر رہا ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ میں ہر آن اس کے سامنے کھلا پڑا ہوں.میری زندگی کا کوئی شعبہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں ہے.چھپا ہوا نہیں ہے.میں کیسے غلطی کر سکتا ہوں مجھے تو تو فیق ہی نہیں ہے میں تو ہر وقت دھوپ میں بیٹھا رہتا ہوں.میرا زندگی کا کوئی حصہ چھپا ہوا مخفی ، پر اسرار نہیں ہے.ہر وقت میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے.پس ان معنوں میں جب خداد یکھتا ہے تو انسان کے طرز عمل میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اسکے نتیجہ میں.پھر دوسرے معنے میں بھی دیکھتا ہے یعنی ہر وقت اس کی پیار کی نظر اپنے ایسے بندے پر رہتی ہے، نگہداشت کی نظر اس پر رہتی ہے اور اس کے دشمن اس پر وار نہیں کر سکتے.مگر خدا کی حفاظت ان کے واروں کو نا کام اور نا مراد کر دیتی ہے.یہ نگہداشت کی نظر اس پہلی نظر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.اسکی کوکھ سے پھوٹتی ہے اور لوگ اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں کتنی سعادتوں سے محروم رہ جاتے ہیں.پس اس کا

Page 394

387 حضرت خلیفتہ مسیح الرابع تجربہ ہر جماعت کا چندہ دینے والا اپنے روز مرہ کے چندوں میں کر کے دیکھے تو وہ محسوس کرے گا کہ مالی قربانی سے اسے نبی عظمتیں اور نئی رفعتیں نصیب ہو رہی ہیں.اور خدا سے اس کا تعلق دن بدن بڑھتا جارہا ہے.پس ایسی مالی قربانی نہ کریں جس کے نتیجہ میں خدا سے تعلق کم ہو.ایسی مالی قربانی کریں جس کے نتیجہ میں آپ خدا کے پیارے بنتے چلے جائیں.اور وہ آپ کا نگہدار ہو جائے آپکی ہر ضرورت کا کفیل ہو جائے.وہ اپنے ذمہ یہ لے لے کہ اس بندے کی ہر ضرورت میں پوری کروں گا.کیونکہ اس نے میری خاطر اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کر کے میرے حضور کچھ مالی قربانی پیش کی ہے.خدا سے زیادہ شکر گزار اور کوئی نہیں ہے.اسی لئے اس کا نام شکور رکھا گیا ہے.حالانکہ اگر آپ گہرائی سے دیکھیں تو شکر کے مضمون کا خدا پر اطلاق ہو ہی نہیں سکتا.اور ظاہری نظر سے ہم اس معاملہ پر غور نہیں کرتے.شکر تو اس کا ادا کیا جاتا جس نے کوئی احسان کیا ہو.خدا پر تو کوئی احسان ہو نہیں سکتا.جو کچھ ہے اس نے عطا کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.سب کچھ تری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے پھر وہ شکور“ کیوں ہے؟ ”شکور‘ ایک محسن کے طور پر ہے.اس کا شکر بھی احسان کی ایک بہت ہی اعلی درجہ کی قسم ہے.اس شکر کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی.اپنے بندے پر احسان فرماتا ہے کہ اسے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بخشے اور پاک جذبوں سے خرچ کرنے کی توفیق بخشے.پھر شکر کے ساتھ اسے قبول فرماتا ہے.اور اس کی ضروریات کا کفیل بنا اس کی ذمہ داری ہو جاتی ہے.خدا تعالی کے شکور ہونے کا یہ جو مضمون ہے یہ اتنا لطیف ہے کہ اسپر آپ جتنا غور کریں اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی محبت آپ کے دل میں اچھلتی چلی جائے گی.پس چندے دیں تو اس ادا سے دیں کہ ہر چندہ آپ کے طرز فکر کو خدا کی محبت کی سمت رواں کر دے.آپ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات کے مضمون پر مزید غور کیا کریں اور آپ کی مالی قربانی آپ کو وہ کچھ عطا کر جائے جسے دنیا کی ساری دولتیں بھی خرید نہ سکتی ہوں ایک شخص چند کوڑی خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے.ایک ہے جو چند لا کھ پیش کر دیتا ہے.لیکن خدا تو نہ چند کوڑی میں خریدا جا سکتا ہے نہ چند لاکھ میں خریدا جاسکتا ہے.تمام دنیا کی دولتیں خود اسی نے عطاء کر رکھی ہیں.ساری دنیا کی دولتیں بھی اس کے حضور پیش کر دیں تو خدا خریدا نہیں جاسکتا.مگر یوسف تو سوت کی ایک آئی پر بک گیا اور آج تک دنیا اس کے قصے سناتی ہے.لیکن یوسف کو خدا سے کیا نسبت ہے ، خدا تو ایک آئی سے کم رزق کے ایک دانے پر بھی بکنے کیلئے تیار بیٹھا ہے.اگر وہ محبت اور خلوص کے ساتھ اس کے حضور پیش

Page 395

388 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کیا جائے.تو اپنی عظیم پر رفعت قربانیوں کو اس طرح ضائع نہ کریں.جب خدا کے نام پر آپ سے مانگا جائے تو خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے حالات پر غور کر کے اس سے تعلق بڑھانے کیلئے ، اس سے پیار کے رشتے قائم کرنے کیلئے پیش کیا کریں.پھر دیکھیں آپ کی تنگ دستیاں بھی دور ہونی شروع ہو جائیں گی اور آپ کے رزق میں غیر معمولی وسعت ملی گی اور ایسی وسعت نہیں ملے گی جو آپ کے لئے ابتلاء لیکر آئے.ایسی وسعت ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بدلیاں آپ کیلئے اٹھا لائے گی اور آپ ہمیشہ خدا کی رحمت کے سائباں تلے رہیں گے.آپ پر خدا کی برکتیں برسا کریں گی.آپ کی مصیبتیں کم ہوتی چلی جائیں گی.آپ کی راحت کے سامان بڑھتے چلے جائیں گے اور کچھ عرصہ کے بعد آپ اپنے آپ کو ایک محفوظ انسان سمجھیں گے.جہاں بھی رہیں گے وہ آپ کے لئے دارالامان ہو گا.قادیان دارالامان میں آپ کیلئے ایک یہ بھی پیغام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان قربانیوں اور قربانیوں کی ان اداؤں کے ساتھ اپنے گرد ایک دارالامان خدا سے طلب فرمایا.یعنی زبان حال سے اور اللہ تعالیٰ نے اس دارالامان کو پہلے الدائر کی صورت میں عطا فر مایا پھر اس کا درجہ بڑھاتا چلا گیا.یہاں تک کہ یہ وعدہ فرمایا کہ جو تیرا روحانی فرزند ہے، تجھ سے روحانی تعلق بھی رکھتا ہے، وہ بھی تیرے گھر کی امان میں ہے.پس قادیان کی امان کو آپ سارے ہندوستان پر پھیلا سکتے ہیں.یہ امان ایسی نہیں جو یہاں جڑ پکڑ کر یہیں کی ہورہی ہے.یہ ایسا پودا ہے جو آپ کے گھروں میں لگ سکتا ہے.اور ہراحمدی ہر ایک گھر کو دارالامان بنا سکتا ہے.مگر اس کا طریق وہی ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ سے جب ایسا تعلق قائم کرلیا جائے کہ آپ پیار کے نتیجہ میں اس کی خاطر اٹھتے بیٹھتے اور قربانیاں کرتے ہوں محض رسمی طور پر نہیں محض ظاہری اطاعت کے طور پر نہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو امان دی جاتی ہے ہر قسم کے مصائب سے امان دی جاتی ہے، ہر قسم کی مشکلات سے امان دی جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کا ایک پیار کرنے والا ، آپ کی نگہداشت کرنے والا ایک موجود ہے.ہمیشہ وہ آپ کے سر پر کھڑا ہے اور آپ کا ساتھ دینے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص ایسا خدا کا ہو جائے وہ جب سوتا ہے تو خدا اس کیلئے جاگتا ہے، جب اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس کا دشمن اس کیلئے کیا تیاری کر رہا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے دشمن کی شرارتوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کے توڑ کے منصوبے بنارہا ہوتا ہے اور دشمن کے ہر وار کو اس کے پڑنے سے پہلے ہی معطل اور نا کام کر دیتا ہے.پس اس خدا سے ہم نے تعلق باندھا ہے ، اسی خدا سے پنے تعلق کو استوار کرنا ہے.وقف جدید کے سلسلہ میں بھی اور دیگر چندوں کے سلسلہ میں بھی میں

Page 396

389 حضرت خلیفتہ مسیح الرابع ہندوستان کی جماعتوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ باہر کی دنیا کے لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں بہت آگے نکل چکے ہیں اور بڑی تیزی سے آگے نکل رہے ہیں.اس لیے آپ اپنے پہلے اعزاز کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.وہ جھنڈا جو خدا نے خود آپ کے ہاتھ میں تھمایا تھا یعنی عظیم مالی قربانیوں کا جھنڈا، اسے اپنے سینے سے چمٹارکھیں.اسے بلند رکھیں اور اگر چہ سب آپ کے بھائی ہیں اُن سے حسد اور رقابت کوئی نہیں مگر نیکیوں میں خدا تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو.پس اس روحانی رقابت کو تو بہر حال آپ کو محسوس کرنا ہوگا.یہ عہد کریں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ دن جلد آئیں جب نہ صرف یہ کہ آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں بلکہ از سرنو ساری دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے آپ خدا کے حضور مالی قربانیاں کرنی شروع کر دیں اور ایک دفعہ پھر آپ کا سر اس فخر کے ساتھ بلند ہو جو بجز اور شکر کا جذ بہ اپنے اندر رکھتا ہے کہ اَلحَمدُ لِلهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلَّه، اپنی توفیق سے نہیں بلکہ خدا کے فضل اور رحم کیساتھ ہمیں یہ توفیق ملی ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قربانی کے جو اسلوب اور قربانی کی جو ادائیں ہمیں سکھائی تھیں از سر نو ہم نے ان کو اپنا لیا ہے.اب اس پہلو سے ہم دنیا کے حسین ترین وجود بن کے ابھر رہے ہیں.خدا کرے ایسا ہی ہو اور جلد تر آپ کو اسکی تو فیق ملے.جماعتوں کی طرف سے قربانیوں کے مقابلے کی جو فہرست پیش کی جاتی ہے تاکہ دوسروں کو تحریک ہو وہ تو بہت لمبی ہے.صرف دو باتیں کر کے اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.پہلے تو پاکستان اور ہندوستان کو چھوڑ کر دنیا کے دیگر ممالک میں جو پہلے دس ملک ہیں ان کا ترتیب وار اعلان کرنا چاہتا ہوں تا کہ جو ملک خدا کے فضل سے اس مقابلے میں نمایاں حیثیت حاصل کر سکے ہیں ان کو طمانیت نصیب ہو اور وہ ملک جوان سے پیچھے رہ گئے ہیں انکے اندر یہ جذبہ پیدا ہو کہ ہم بھی آگے بڑھیں اور ان کا مقابلہ کریں.اس لئے میں وہ فہرست پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں.اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ پہلی تحریک پر بیرون ہندو پاکستان اور بیرون بنگلہ دیش ممالک نے جو مالی قربانی وقف جدید کے لئے پیش کی تھی وہ چند ہزار کی تھی لیکن 1991ء میں جو وقف جدید کے لحاظ سے آج ختم ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر ایک لاکھ پانچ ہزار 963 پاؤنڈ بن چکی ہے اور اس کو اگر روپوں میں ڈھالا جائے اور ہندوستان اور پاکستان کی مالی قربانی کو بھی روپوں کے ایک ہی معیار پر اکٹھا کر دیا جائے تو یہ پہلا سال ہے کہ خدا کے فضل سے وقف جدید کی سالانہ آمد ایک کروڑ روپے ہو چکی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی عظیم احسان ہے اور یہ حسن اتفاق بھی اسی سال کو نصیب ہوا ہے.دوسری بات اول اور دوم کے لحاظ سے یہ ہے کہ ساری دنیا پر جرمنی کی جماعت وقف جدید کی مالی

Page 397

390 حضرت خلیفة المسح الرابع قربانی میں سبقت لے جاچکی ہے.اور پچھلے سال بھی خدا کے فضل سے انہوں نے اس سبقت کو قائم رکھا تھا اور اس سال بھی باوجود اسکے کہ بعض دیگر رشک رکھنے والے لوگوں نے زور بھی مارے مگر جرمنی نے ان کو آگے نہیں نکلنے دیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ وعدہ تو 24 ہزار 648 سٹرلنگ پاؤنڈز کا تھا لیکن ادائیگی 32 ہزار 446 کی ہے خدا کے فضل سے وعدوں سے بہت بڑھ کر انہوں نے ادائیگی کی توفیق پائی اور یہ بھی خدا کا ایک خاص اعزاز ہے.امریکہ نمبر 2 ہے.21 ہزار 47 ادا ئیگی ہے لیکن وعدے سے کچھ پیچھے رہا ہے.پس دونوں لحاظ سے یہ جرمنی سے پیچھے ہے.کینیڈا نمبر 3 ہے جسکی 13 ہزار 277 پاؤنڈ کی ادائیگی ہے اور اللہ کے فضل سے وعدے سے کچھ زیادہ دیا ہے.برطانیہ نمبر 4 ہے.12,500 کے وعدے کے مقابل پر 13,051 پیش کیا اس کے بعد انڈونیشیا، جاپان، ناروے، ماریشس، ہالینڈ اور بنگلہ دیش آتے ہیں.جاپان کو دنیا میں ایک خصوصیت حاصل ہے جو وہ آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہے اور مالی قربانی کے ہر شعبہ میں اسے یہ خصوصیت حاصل ہے کہ فی چندہ دہندہ ) کے حساب سے ) جاپان ساری دنیا میں سب سے زیادہ اور سب سے آگے ہے اور اتنا نمایاں آگے ہے کہ کسی اور ملک کو ابھی مستقبل قریب میں بظاہر یہ توفیق نہیں ملے گی کہ وہ اس کو پکڑ سکے.جاپان کا جو میں جائزہ لیا تھا تو اس سے پتہ چلتا تھا کہ فی کس مالی قربانی میں بعض ممالک سے تقریباً 3 گنا زیادہ بعض ممالک سے 4 گنا زیادہ یعنی بہت ہی آگے ہے.تو اللہ تعالیٰ آپ کو بھی یعنی اہل ہندوستان کو بھی یہ توفیق عطا فرمائے کہ نہ صرف وقف جدید کے میدان میں بلکہ دیگر سب میدانوں میں بھی ، مالی قربانی میں بھی پورے جوش اور خلوص کیساتھ آگے بڑھیں اور اللہ تعالی کی رضا کے لطف اٹھائیں اور اللہ آپ کے اموال میں بھی اس کے نتیجہ میں بہت ہی برکت دے.اور آپ کی مالی کمزوریاں دور فرمائے اور جہاں تک زندگیاں پیش کرنے کا تعلق ہے خدا تعالیٰ آپ کو یہ بھی تو فیق عطاء فرمائے کہ آپ اپنے ملک کی ضرورتیں خود پوری کر سکیں.اس توقع کے بعد کہ ہندوستان میری آواز پر اسی طرح نمایاں شان سے لبیک کہے گا جس طرح آج کا جلسہ ایک نمایاں شان رکھتا ہے، اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.ہفت روزہ بدر قادیان 27 فروری 1992ء)

Page 398

391 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 24 / جنوری 1992 ء بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ : تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَهُمْ : لَا يَسْتَلُوْنَ النَّاسَ الْحَافًا ۖ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ ج خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ه اور پھر حضور انور نے فرمایا: (البقرة : 274) پیشتر اس سے کہ میں خطبہ کا مضمون شروع کروں جو دوست مسجد میں حاضر ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ مہربانی فرما کر ذرا آگے کو کھسک آئیں کیونکہ باہر سردی زیادہ ہے اور بہت سے دوست باہر سردی میں بیٹھے ہوں گے نماز کے لئے.اگر ان کو باہر جانا پڑے تو دوبارہ جاسکتے ہیں.باہر اعلان کروا دیا جائے یا دوست سن ہی رہے ہوں گے بہر حال جو بھی باہر سردی میں مشکل محسوس کرتے ہوں گے وہ اندر تشریف لے آئیں.امید ہے کچھ نہ کچھ جگہ نکل آئے گی.(حضورانور نے حاضرین کو آگے آگے ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ) اور آگے آجائیے.آپ ذرا آگے کی طرف سرکیں قریب آجائیں.مسجد میں گنجائش نکل آئی ہے.نماز کے لئے ضرورت ہوگی تو چند منٹوں کیلئے وہ نماز کیلئے باہر تشریف لے جائیں.باقی خطبہ اندر آکرسن سکتے ہیں.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ البقرہ کی آیت 274 ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان فقراء کیلئے یہ خدمتیں اور یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے جو خدا کی راہ میں گھیرے میں آگئے اور ایسے گھیرے میں ہیں کہ جس کے نتیجہ میں باہر نکل کر کسب معاش ان کیلئے ممکن نہیں اور وہ زمین میں کھلا پھر نہیں سکتے.اپنی مرضی سے جہاں چاہیں جانہیں سکتے.يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ جاہل ان کو امیر سمجھتا ہے.بے ضرورت سمجھتا ہے.مِنَ التَّعَفُّفِ کیونکہ انہیں مانگنے کی عادت نہیں کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے.تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَهُم یعنی اے محمد ﷺ ! تو ان کی علامتوں سے جو ان کے چہرے پر ظاہر ہیں ،ان کی پیشانیوں پر ظاہر ہیں، ان سے ان کو پہچانتا ہے.لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا وہ پیچھے پڑکر لوگوں سے مانگتے نہیں ہیں.وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِہ عَلِیمٌ.اور جو کچھ بھی تم خدا کی راہ میں

Page 399

392 حضرت خلیفہ المسیح الرابع خرچ کرتے ہو، مال دیتے ہو، خیر سے مراد یہاں مال ہے ، فَاِنَّ اللهَ بهِ عَلِیمٌ ، اللہ تعالیٰ اسے بہت جانتا ہے.یہ آیت اور اس سے پہلے کی جو آیات ہیں جن میں صدقات کا مضمون بیان ہوا ہے، تمام اہل تفسیر کے نزدیک اصحاب الصفہ پر اطلاق پانے والی آیات ہیں.اصحاب الصفہ وہ مہاجرین تھے جو مسجد نبوی میں ایک تھڑے پر زندگی بسر کر رہے تھے.ان کے متعلق مختلف روایات ہیں.اصحاب الصفہ کی جو تعداد ہے اس میں بھی اختلافات ہیں لیکن بالعموم جومستند روایات ہیں مثلاً بخاری میں بھی ستر کا ذکر ہے کہ کم و بیش ستر اصحاب الصفہ تھے جو دن رات مسجد نبوی میں ہی رہائش پذیر تھے.ان کا پس منظر یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف آنا شروع ہوئے تو ان کیلئے گزراوقات کی کوئی صورت نہیں تھی.مسجد نبوی میں جب ایک گروہ اکٹھا ہو جاتا تھا تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ یہ اعلان فرمایا کرتے تھے کہ جس کے گھر دو کا کھانا ہو وہ تیسرے کو ساتھ لیجائے.اس طرح یہ مہاجرین مختلف گھروں میں بٹتے رہے لیکن کچھ ایسے تھے جن کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی وہ رفتہ رفتہ اسی مسجد میں ہی بسیرا کر گئے.اور ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے ستر یا بعض کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہو گئی.شان نزول تو اصحاب الصفہ ہی ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کو کسی شان نزول کی حدود میں محصور نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ یہ دائمی کلام ہے اور تمام عالم پر اثر انداز ہے.اس لئے شان نزول تک قرآن کریم کی آیات کے مضامین کو محدود کرنا یہ خود محدود عقل کی علامت ہے اور قرآن کریم کی شان کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض لوگ یہ رجحان رکھتے ہیں کہ شان نزول بیان کی اور معاملے کو وہیں ختم کر دیا.گویا کہ ہر آیت اپنی شان نزول کے ساتھ مقید ہو کر ماضی کا حصہ بن چکی ہے یہ درست نہیں ہے.شان نزول کچھ بھی ہو آیات اپنے اندر اس بات کی قوی گواہی رکھتی ہیں کہ ان کا اطلاق وسیع تر ہے.اور آئندہ آنے والے زمانوں پر بھی ہوتا چلا جائے گا.مثلاً یہی آیت جس میں یہ ذکر ہے کہ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ کہ جاہل ان کو تعفف کی وجہ سے غنی شمار کرتا ہے.اب جہاں تک اصحاب الصفہ کا تعلق ہے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں ہوسکتا تھا جو اصحاب الصفہ کوغنی شمار کرتا ہو کیونکہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ہم میں سے اکثر کے پاس تو چادر بھی نہیں تھی جس کو اوڑھ لیتے اور کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا، رات کو کوئی دوست کھانا پیش کر دیتے تھے، صبح آنحضور ﷺ آ کر ہمارا حال دریافت فرماتے اور پوچھا کرتے کہ کچھ کھانے کو ملایا نہیں.اور اس پر ہم عرض کرتے کہ یا رسول اللہ کچھ ملا تو بہت خوش ہوتے.خدا کا شکر ادا کرتے کہ الحمد للہ خدا کی راہ میں فقیروں کو کچھ کھانے کومل گیا.یہ کیفیت جن لوگوں کی ہو ان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ کوئی بھی جاہل خواہ کیسا بھی جاہل کیوں نہ صل الله

Page 400

393 صلى الله حضرت خلیفہ امسیح الرابع ہو، ان کو امیر سمجھتا تھا اور حاجتمند نہیں سمجھتا تھا یہ ایک بالکل غلط بات ہے.اسکا حقیقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.پھر اگلی بات یہ کہ آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا کہ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَهُم تو ان کے چہروں کی علامتوں سے ان کو پہچانتا ہے.اصحاب الصفہ کو تو چہروں کی علامتوں سے پہچاننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی وہ سب سامنے تھے ان کا حال ظاہر و باہر تھا.آنحضرت ﷺ دن رات ان کی فکر میں غلطاں رہا کرتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کو پہچاننے کی ضرورت ہو.یہ شان نزول تو یقیناً اصحاب الصفہ ہی ہوں گے جیسا کہ روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تمام مسلمان سوسائٹی میں خدا کے ایسے بہت سے بندے تھے جن کے رزق کی را ہیں تنگ ہو چکی تھیں اور جو عام روز مرہ کی زندگی میں اپنی غربت کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے.انہی کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جس کو دو تین کھجوریں میسر آجائیں یا دو لقے میسر آجائیں بلکہ مسکین وہ ہے جو خدا کی راہ میں صبر کے ساتھ گزارا کرتا ہے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا، اپنی ضرورتوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا ، پس اصحاب الصفہ تو اپنے حالات کی وجہ سے ظاہر ہو کر سامنے آچکے تھے کچھ آیات کا مضمون ان پر ان معنوں میں ضرور صادق آتا ہے کہ شدید غربت کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے اور فاقوں کے باوجود کسی سے مانگتے نہیں تھے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ روایت بارہا آپ نے سنی ہوگی اور بار ہا سنائی بھی جائے تو وہ کبھی پرانی نہیں ہوتی کہ ایک دفعہ فاقوں سے بے ہوش ہو گئے اور لوگ سمجھے کہ مرگی کا دورہ ہے چنانچہ جو تیاں سنگھانے لگے.بعض روایات میں آیا ہے کہ ان کو ہوش میں لانے کے لئے تھپڑ بھی مارے گئے اور لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا دورہ ہے.حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ میں فاقوں کی وجہ سے بے ہوش ہوا تھا.تو جن کی یہ کیفیت ہے ، ان کا خواہ وہ اصحاب الصفہ میں تھے یا باہر تھے.اسوقت تھے یا آئندہ آنے والے تھے ان سب پر ان آیات کا مضمون اطلاق پاتا ہے پھر فرمایا اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی راہ میں گھیرے میں آگئے اور ان کا باہر جانا ممکن نہیں تھا.بعض مفسرین مثلا قرطبی نے یہ لکھا ہے کہ مراد یہ تھی کہ وہ روزی کمانے کیلئے باہر نہیں جا سکتے تھے کیونکہ اردگر د حالات خراب تھے.یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اصحاب الصفہ کے علاوہ اور مسلمان بھی سارے مدینہ میں بس رہے تھے.وہ جب باہر جاسکتے تھے اور کما سکتے تھے تو صرف اصحاب الصفہ پر ہی کیا قیامت آپڑی تھی کہ وہ باہر نہیں جاسکتے تھے تو ضــربـــا فـــى الاَرضِ سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی لحاظ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے کیونکہ ایک اور روایت بھی اس تفسیر کو غلط قرار دیتی ہے.جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی کہ جو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ بہتر ہے.جس کو دیا جائے اس کی نسبت جو ہاتھ دینے والا ہے وہ بہتر ہے.اس قسم کی

Page 401

394 حضرت خلیفہ امسیح الرابع نصائح کے اثر کے نتیجہ میں اصحاب الصفہ کے متعلق آتا ہے کہ یہ جنگلوں میں لکڑیاں کاٹنے کیلئے چلے جایا کرتے تھے اور جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور وہاں بیچ کر جو کچھ ملتا خود غربت کے باوجود خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے.تو اسلئے یہ خیال کہ باہر کا ماحول ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا یہ درست نہیں الله ہے.ان پر کچھ اور قیود تھیں اور وہ قیود حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کی قیود تھیں.یہ آنحضرت ﷺ کا دامن چھوڑ کر باہر جانا نہیں چاہتے تھے.بعض روایات میں آتا ہے کہ ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا الله نہیں.ہم تو یہیں رہیں گے.اسی مسجد میں رہیں گے.ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے گزارش کی کہ یا رسول اللہ ان کو حکم دیں کہ یہ بھی باہر نکل کر کام کریں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ان کا حال معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں.کیوں بیٹھے ہوئے ہیں.ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ سے سوال کیا گیا کہ تم کیوں نہیں باہر نکلتے تو انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میری بہت سی عمر عمر کا ایک بڑا حصہ جہالت میں ضائع ہو گیا.اب زندگی کے باقی دن ہیں میں نہیں چاہتا کہ ایک لمحہ بھی ایسا آئے کہ آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائیں اور میں دیکھ نہ سکوں یا آپ کی باتیں نہ سن سکوں.تو یہ محبت کے قیدی تھے اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ سے مراد یہ ہے کہ بہت اعلیٰ مقصد کے لئے اللہ کی راہ میں خود قیدی بن کر بیٹھ رہے تھے ورنہ جس طرح مدینہ میں بسنے والے باقی انصار اور مہاجرین کے لئے زمین کھلی تھی وہ اپنی کمائی کی خاطر جب چاہیں جہاں چاہیں جاسکتے تھے.اس طرح ان پر بھی تو کوئی قید نہیں تھی.یہ جو مضمون ہے یہ اس زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ قادیان کے احمدی باشندوں پر صادق آتا ہے ان کے متعلق بھی جو مضمون میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ غربت اور تنگی اور مشکلات کا دور گزرا ہے.یہ جسمانی قید تو کوئی نہیں تھی کہ جس کے نتیجہ میں وہ ان مشکلات کے دور میں سے گزرے اور آج تک گزر رہے ہیں.بلکہ محض ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر خود اپنے آپ کو انہوں نے محصور کر رکھا ہے.اور وہ مقامات مقدسہ کی حفاظت ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دار کی حفاظت ہے اور قادیان کی مقدس بستی کو ہمیشہ آباد در کھنے کا عزم ہے.پس ایک اصحاب الصفہ وہ تھے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں تھے کچھ وہ تھے جو مدینہ میں بستے تھے.محمد رسول اللہ ان کو پہچانتے تھے اور باقی سب کو دکھائی نہیں بھی دیتے تھے کیونکہ وہ سائل نہیں تھے مانگنے کے عادی نہیں تھے عزت دار لوگ تھے.اور ایک وہ بھی ہیں جو آخرین میں پیدا ہوئے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں پیدا ہوئے.اور اصحاب الصفہ خاص طور پر آج قادیان میں بسنے والے درویش ہیں.درویش کی اصطلاح تو اب انہوں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر لی ہے جو قادیان سے ہجرت کے دوران وہاں ٹھہرے تھے لیکن میں جب درویش کہتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ وہ سارے

Page 402

395 حضرت خلیفہ امسیح الرابع جو قادیان کی عزت اور اس کے تقدس کی خاطر قربانی کی روح کیسا تھ قادیان آبسے.یہ سارے درویشاں قادیان ہی ہیں.اور ان پر اصحاب الصفہ کا اور ان آیات کا مضمون بہت عمدگی سے صادق آتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے فیوض میں سے ایک فیض قرآن کریم میں یہ بھی بیان ہوا کہ وہ آخرین کو اولین سے علیسا ملانے والا ہے.یعنی ان کے غلاموں میں سے ایک ایسا پیدا ہوگا جو دور آخر میں بسنے والے محمد مصطفی کے غلاموں کو اول دور میں پیدا ہونے والے غلاموں کا ہم عصر کر دے گا ، ان کا ساتھی بنادے گا.پس قادیان کے درویش بھی انہی ساتھیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 1300 سے لیکر 1400 سال تک کے زمانے کی فصیل پاٹ دی اور خدا کے فضل سے اولین میں شمار ہوئے.ان کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بہت سی ایسی تجویزیں ہیں جو میرے زیر غور ہیں اور جن کے متعلق مختصراً مختلف وقتوں میں قادیان میں بھی جماعت کے سامنے گزارش کرتا رہا ہوں.پچھلے خطبہ میں بھی میں نے کچھ بیان کیا تھا.اب اسی مضمون کو کچھ اور آگے بڑھا کر جماعت کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ کس رنگ میں ہمیں قادیان کے ان درویشوں کے حقوق ادا کرنے ہیں کیونکہ ان کا ہم پر احسان ہے.ہمارا ان پر احسان نہیں ہو گا اگر ہم ان کی خاطر کچھ کریں.وہ صحابی جس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! آپ اصحاب الصفہ کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ یہ باہر نکل جائیں.اس کا ایک بھائی اصحاب الصفہ میں شامل تھا خود باہر نکلتا تھا اور کماتا تھا اور اچھا کھاتا پیتا تھا.اسکے ذہن میں دراصل خاص طور پر اپنا بھائی تھا کہ یہ بھی ہاتھ پاؤں کا ٹھیک ٹھاک ہے.یہ کیوں پاگلوں کی طرح یہاں بیٹھ رہا ہے.نکتا ہے ، آنحضور ﷺہ اس کو حکم دیں تو یہ بھی باہر نکلے.اسکے جواب میں جو بات حضور ا کرم علیہ نے بیان فرمائی جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ تم نہیں اس کا حال جانتے، وہ یہ بات تھی کہ بعض دفعہ خدا بعضوں کی وجہ سے دوسروں کو رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں کیا پتہ کہ تمہیں جو رزق مل رہا ہے وہ اس کی برکت سے مل رہا ہو.یہ ان کے وہ چھپے ہوئے حال تھے جن کا ایک ذکر آنحضرت ﷺ نے اس جواب میں کیا.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قادیان کے درویشوں کی برکت بھی اسی طرح سب دنیا کی جماعتوں کے اموال میں شامل ہو چکی ہے.ان کی سہولتوں اور ان کی آسائشوں میں شامل ہو چکی ہے.وہ لوگ جو شعائر اللہ کی حفاظت کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیں ان کی برکتیں پھیلتی ہیں اور ہم اگر ان کی خاطر کچھ کریں گے تو ان پر احسان کے طور پر نہیں بلکہ ان کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش میں کچھ کریں گے.اگر ان کی برکت سے خدا تعالیٰ نے ہمیں مثلاً وسیع رزق عطا نہ بھی کیا ہوتب بھی ان کا حق ہے کہ وہ ساری جماعت کی خاطر ایک فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے قادیان میں بیٹھ رہے اور انہوں نے بہت ہی عظیم خدمت سرانجام دی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے

Page 403

396 حضرت خلیفة المسیح الرابع تﷺ کی حدیث بیان کی ہے اس میں ادنی سا بھی شک نہیں کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی خاطر اسیر ہو جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں اسیر ہیں جن کو باہر نکلنے کی اس لئے طاقت نہیں کہ زنجیروں نے باندھ رکھا ہے یا جیل خانے کی دیوار میں حائل ہیں.یا وہ گیٹ حائل ہیں جن میں سلاخیں جڑی ہوئی ہیں.وہ بھی اصحاب الصفہ کی ایک قسم ہیں اور قادیان کے وہ درویش خصوصیت کے ساتھ جن پر ظاہری پابندیاں کوئی نہیں ہیں.کوئی زنجیریں ان کے پاؤں باندھنے والی نہیں.کوئی ہتھکڑیاں ان کے ہاتھوں کو جکڑ نے والی نہیں.لیکن ایک فرض کی ادائیگی کے طور پر ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر قربانی کرتے ہوئے وہ نسلاً بعد نسل قادیان کے ہو رہے ہیں.ان کا حق ہے اور ان کے حقوق ہمارے اموال میں داخل ہیں اور ہماری سہولتوں میں داخل ہو چکے ہیں.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ بیان فرمایا ہے.جہاں فرمایا وَ فِى أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوم کہ جو لوگ امیر ہیں کھاتے پیتے ہیں جن کو آسائشیں عطاء ہوئی ہیں ان کے اموال میں سائل کے حق بھی ہیں اور محروم کے حق بھی ہیں.محروم سے یہاں مراد وہ مسکین ہے جس کی تعریف آنحضرت ﷺ نے فرمائی اور یہ تعریف اصحاب الصفہ کے ضمن میں بیان ہوئی تھی پس قادیان والے سائل تو نہیں ہیں لیکن بہت سے خاندان محرومین میں داخل ہیں.ان کے لئے جو تحائف جماعت نے بھجوائے ، بہت ہی اچھا کام کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سے بہت فوائد حاصل ہوئے.لیکن یہ ایسا کام ہے جو مستقلاً با قاعدہ منصوبے کے تحت کرنے والا کام ہے.وقف جدید کا میں نے جو نیا اعلان کیا تھا کہ وقف جدید کو باہر کی دنیا میں بھی عام کر دیا جائے صرف پاکستان تک محدود نہ کیا جائے اس سے اب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت اس میں اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر تھی کہ قادیان اور ہندوستان کی محصور جماعتوں کیلئے ہمیں باہر سے بہت کچھ کرنا تھا اور اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو بہت سے ایسے اہم کام جو سرانجام دینے کی توفیق ملی ہے ان سے ہم محروم رہتے.پس اس کے لئے جہاں تک چندوں کا تعلق ہے میں کوئی اور خصوصی تحریک نہیں کرنا چاہتا.وقف جدید کی تحریک کو آپ مزید تقویت دیں.اس وقت تک وقف جدید بیرون میں تقریبا ایک لاکھ کے وعدے ہو چکے ہیں اور وقف جدید کا قادیان سے یا ہندوستان کی جماعتوں سے جو گہرا تعلق ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی صورت میں اس طرح بھی ظاہر ہوا کہ میں نے قادیان میں جلسہ کے دوران پڑھائے جانے والے جمعہ میں یہ بیان کیا تھا کہ جب وقف جدید کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ میں پہلا خطبہ دیا ہے تو وہ 27 / دسمبر تھی اور جلسہ کا درمیانی دن تھا.اور قادیان میں اب جب میں حاضر ہوا تو جلسہ کے عین درمیان میں جمعہ آیا اور وہ 27 دسمبر کا دن تھا اور اسی دن وقف جدید کا مجھے بھی اعلان کرنا تھا کیونکہ دستور یہی ہے کہ سال کے

Page 404

397 حضرت خلیفة المسیح الرابع آخری جمعہ میں اعلان کیا جاتا ہے.تو اس وقت میری توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی کہ یہ تو ارد کوئی خاص معنی رکھتا ہے.پس یقیناً یہ توار د اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ وقف جدید کا ایک تعلق تو پاکستان سے تھا جس کا آغاز پاکستان سے کیا گیا لیکن وہ دوسرا تعلق جس کے لئے میں نے تحریک کی تھی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا یافتہ فعل ہے اور خدا کے منشاء اور تائید کے مطابق ہی ایسا ہوا ہے اور قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کو بھی تمام بیرونی دنیا کی احمدیوں کی غیر معمولی مالی امداد اور قربانی کی ضرورت ہے.اور وہ وقف جدید کے راستے سے کی جائے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس وقت تک ایک لاکھ پاؤنڈ سالانہ کے وعدے ہو چکے ہیں لیکن جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے ہمیں قادیان اور ہندوستان پر سالانہ کم از کم ایک کروڑ خرچ کرنا ہوگا اور آئندہ کئی سالوں تک اس کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ جو تفصیلی منصوبے قادیان کی عزت اور احترام کو بحال کرنے کیلئے میں نے بنائے ہیں اور جو تفصیلی منصوبے ہندوستان میں جماعت کے وقار جماعت کی تعداد اور رعب اور عظمت کو بڑھانے کیلئے بنائے ہیں وہ کروڑہا روپے کا مطالبہ کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے جلسہ قادیان میں بھی بیان کیا تھا کہ میرا یہ تجربہ ہے کہ جب بھی ہم کوئی نیک کام خدا کی خاطر اس کی رضا کی خاطر شروع کرتے ہیں تو خواہ کتنے بڑے اموال کی ضرورت ہو اللہ تعالیٰ رستے کی سب روکیں دور فرما دیتا ہے.اور وہ اموال مہیا ہو جاتے ہیں اور اگر کم بھی ہوں تو ان میں برکت بہت پڑتی ہے.اور کبھی بھی میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کوئی منصوبہ خالصتہ للہ بنایا گیا ہو اور جب اس پر عمل کرنا ہو تو روپے کی کمی یا دیگر ایسی مجبوریاں حائل ہو جائیں اور ہم اس پر عملدرآمد کرنے سے محروم رہ جائیں.ایسا کبھی نہیں ہوانہ آئندہ کبھی انشاء اللہ ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے خاص سلوک ہے.یہ ایک زندہ خدا کا تعلق ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا.جب تک جماعت خدا تعالیٰ سے تعلق قائم رکھے گی.پس فکر کے طور پر میں عرض نہیں کر رہا بلکہ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ آئندہ قادیان اور ہندوستان کی محصور جماعتوں کے لئے جو بھی خدمتیں کرنی ہوں ان کیلئے رُخ رستہ وقف جدید کے چندے کا رستہ ہے.اس راہ سے با قاعدہ مسلسل قربانی پیش کرتے رہیں.جو وقتی طور پر تحریکیں ہیں وہ ایک دو سال کے کام تو کر دیتی ہیں لیکن مستقل ضرورتیں پوری نہیں کر سکتیں.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قادیان اور ہندوستان کی ضرورتیں لمبے عرصہ کی ضرورتیں ہیں اور جماعت کے بہت بڑے مفادات ان سے وابستہ ہیں.ہندوستان میں جماعت کی خدمت کرنے میں اتنے عظیم الشان عالمی مفادات ہیں کہ اگر آپ کو ان کا تصور ہو تو دل میں غیر معمولی جوش پیدا ہو اور کبھی بھی اس خدمت سے نہ تھکیں.جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے ساتھ ہندوستان کی جماعتوں کے بیدار

Page 405

398 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہونے ، قادیان کی عظمت کے بحال ہونے اور وہاں کثرت سے جماعت کے پھیلنے کا ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے.اور یہ تعلق مقدر ہے.اس کے نتیجہ میں عظیم انقلابات برپا ہوں گے.اسلئے اس بات کو معمولی اور چھوٹا نہ سمجھیں جب خدا آپ کو غور کی توفیق عطاء فرمائے گا تو آپ اندازہ کریں گے کہ کتنے بڑے بڑے عظیم مقاصد اس منصوبے کے ساتھ وابستہ ہیں.جہاں تک قادیان کے اندر بعض منصوبوں پر عملدرآمد کا تعلق ہے ہسپتال بھی ان منصوبوں میں سے ایک تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل کیساتھ ہسپتال کو بہت بہتر حال تک پہنچانے کی توفیق مل چکی ہے گزشتہ دو تین سال سے ہم یہ کوشش کر رہے تھے کہ بجائے اس کے کہ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری جہاں ایک ان کوالیفائیڈ (UNQUALIFIED) غیر تعلیم یافتہ ڈاکٹر بیٹھا ہو اور آنے والے کی مرہم پٹی کرے یا پیٹ درد کیلئے کوئی مکسچر (MIXTURE) بنا کر دیدے.قادیان کا ہسپتال تو چوٹی کا ہسپتال ہونا چاہیے.اس میں ہر قسم کی جراحی کے سامان ہونے چاہئیں.ہر قسم کے جدید سامان اور آلات مہیا ہونے چاہئیں.اس ہسپتال کا نام روشن ہونا چاہیے.بجائے اس کے کہ قادیان کے ہر مریض کو کھٹیوں میں ڈال کر بٹالہ یا امرتسر یا جالندھر بھجوایا جائے ، بٹالہ یا امرتسر یا جالندھر یا دیگر علاقوں سے لوگ قادیان کے ہسپتال میں شفا کیلئے آئیں کیونکہ جو شفا خدا نے قادیان کیساتھ وابستہ کر رکھی ہے اس سے اردگرد کا علاقہ فی الواقعہ ہی محروم ہے کیونکہ اس شفا کے ساتھ دعاؤں کا بھی تعلق ہے اس شفا کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیئے گئے وعدوں کا تعلق ہے.پس اگر ہسپتال کی ظاہری حالت بہتر بنائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ جو شفا اس ہسپتال میں تمام پنجاب کے باشندوں کو یا باہر سے آنیوالوں کو نصیب ہوگی اس کا عشر عشیر بھی وہ باہر نہیں دیکھیں گے.چنانچہ ابھی سے یہ محسوس ہونا شروع ہوا ہے کہ اگر چہ ابھی پوری طرح قادیان کے ہسپتال کے وقار کو بحال نہیں کیا جا سکا لیکن جو کچھ بھی کیا جا چکا ہے اس کے نتیجہ میں مریضوں کا غیر معمولی رخ ہو چکا ہے اور بہت سے مریض دور دور سے آتے ہیں.جن کو توفیق ہے کہ بہت بڑے ہسپتالوں میں جا کر زیادہ سے زیادہ اخراجات کر سکیں وہ بھی قادیان یہ کہ کر اس نیت کے ساتھ آتے ہیں کہ جو شفاء یہاں میسر ہے وہ باہر نہیں مل سکتی.پس اس ضمن میں ابھی آنے سے پہلے ان کی بعض ضروریات کے سامان مہیا کر کے آیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے جو کچھ پیش کیا تھا اسی میں وہ خرچ بھی کیا گیا.بہترین ایکسرے کی مشینیں وہاں لگ چکی ہیں.تجزیات کی بہترین مشینیں کچھ وہاں لگ چکی ہیں کچھ مہیا کی جارہی ہیں.ہر قسم کے جدید آلات جو مریضوں کی سہولت کیلئے ضروری ہیں ان کیلئے اخراجات مہیا کر دیئے گئے ہیں اور موجودہ ہسپتال کے ساتھ قادیان کا جو رہائشی علاقہ تھا سر دست اس میں سے ایک حصہ ہسپتال کے

Page 406

399 حضرت خلیفة المسیح الرابع لئے وقف کر دیا گیا ہے.اس سے پہلے خدا تعالیٰ نے جو توفیق بخشی تھی کہ مکانات بنائے جائیں اور ان میں سے کچھ تقسیم کیلئے بھی ہوں.یہ سکیم تھی جو بیوت الحمد کے نام سے جاری کی گئی تھی اس میں تقسیم کیلئے جو مکانات تھے وہ نہیں تھے لیکن 32 مکانات بنائے گئے تھے.اب ان کا یہ فائدہ پہنچ رہا ہے کہ قادیان کے مرکزی علاقے سے بعض درویش خاندانوں کو دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری ہو تو بڑی سہولت سے ایسا ہوسکتا ہے.چنانچہ یہ تجویز مکمل ہوگئی ہے.مکانوں کی نشاندہی ہوگئی ہے.اب دوسرے دور میں یہاں سے انشاءاللہ عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ وہاں جا کر مکانوں کو ہسپتال کے اندر جذب کرنے کیلئے نہایت جدید طریق پر ایک ایسا منصوبہ پیش کریں گے کہ جس سے یہ نہیں لگے گا کہ گویا پرانے مکان ساتھ مدغم کئے گئے ہیں بلکہ ایک ہی رنگ کا مکمل ہسپتال رونما ہوگا تو آئندہ چھ سات مہینے کے اندر انشاء اللہ وہاں کے ہسپتال کے اندر ایک نئی شان شوکت پیدا ہوگی اور یہ ساری عالمی جماعت کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی جماعت قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے گی.ہسپتال کے سلسلہ میں ایک یہ بھی منصوبہ بنایا گیا ہے کہ بیرونی ڈاکٹر جو کسی نہ کسی فن میں غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں یا ملکہ انکو عطا ہوا ہے وہ جب بھی ان کو توفیق ملے قادیان کے ہسپتال کیلئے وقف کریں اور اس صورت میں ہم وہاں کیمپ لگایا کریں گے.مثلاً کوئی آنکھوں کے آپریشن کا ماہر ہے اور وہ ایک مہینہ دو مہینے وقف کرتا ہے تو دور دور کے علاقے سے لوگوں کو یہ دعوت دی جائے گی کہ آئیں اور قادیان سے مفت فیض حاصل کریں.اور ان آپریشنوں ں کی کوئی فیس نہیں لی جائے گی یا اگر لی گئی تو اس رنگ میں کہ صاحب حیثیت امراء سے کچھ لے لیا جائے گا.اور غرباء کا محض مفت علاج ہوگا.اسی طرح دل کے ماہرین ہیں، پھیپھڑوں کے ماہرین ہیں اور انتڑیوں وغیرہ کی بیماریوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ہیں، اعصابی امراض کے ماہرین ہیں ،سرجری میں ہڈیوں کی سرجری کے سپیشلسٹ ، دل کی سرجری کے سپیشلسٹ وغیرہ وغیرہ.جہاں تک میں نظر ڈال کر دیکھ رہا ہوں خدا کے فضل سے ہر مرض کے علاج میں اس وقت احمدی ماہرین مہیا ہو چکے ہیں اور خدا کے فضل سے اپنے اپنے دائرے میں بہت شہرت یافتہ لوگ ہیں.ہر قسم کی جراحی کا کام اگر چہ اس وقت وہاں نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کیلئے ایک سپورٹ کمپلیکس کی ضرورت ہوا کرتی ہے.مثلاً دل کا سر جن یعنی جو دل کا ماہر جراح ہے وہ ہر جگہ تو ہسپتال میں جا کر آپریشن نہیں کر سکتا.اس کیلئے بہت سے ایسے متعلقہ سامان چاہئیں ، بہت سے ایسے ماہرین چاہئیں جو سب ملکر وہ فضا قائم کرتے ہیں جس میں جراحی کا وہ درخت لگتا ہے.تو امید یہی ہے کہ انشاء اللہ رفتہ رفتہ اس ہسپتال کو بڑھاتے بڑھاتے اس مقام تک پہنچا دیں گے کہ جس میں دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں اس کا شمار ہو اور خدا

Page 407

400 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے فضل سے آغاز ہو چکا ہے.ایک اور پہلو تعلیم کا ہے.اس حصہ میں میں جماعت کو دعاؤں کی تحریک کرتا ہوں کہ ابھی بہت سی روکیں ہیں.جہاں تک جماعت احمدیہ کے سکول اور کالج کا تعلق ہے اگر چہ حکومت نے صدرانجمن کے نام یہ جائیدادیں بحال کر دی ہیں اور اس میں ہم ہندوستان کی عدلیہ کے بڑے ممنون ہیں جنہوں نے بہت ہی اعلی انصاف کیساتھ کا روائی کی.کسی تعصب کو انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا اور اس ثبوت کے مہیا کرنے پر کہ وہ صدر انجمن احمد یہ جو ان چیزوں کی مالک تھی بلا انقطاع قادیان میں موجود رہی ہے اور وہی مالک ہے اس لئے اس کو مہاجر قرار دے کر تمہیں ان جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں.اس دلیل پر ہندوستان کی عدلیہ نے انصاف کا بہت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور یہ جائیدادیں بحال کر دیں.لیکن جب تک یہ جائیدادیں بحال ہوئیں اس وقت تک بہت سے اداروں پر دوسرے قابض ہو چکے تھے.مثلاً تعلیم الاسلام کالج جو پہلے تعلیم الاسلام سکول ہوا کرتا تھا اسے اس وقت سکھوں کا ایک ادارہ ہے جو چلا رہا ہے.نام اسکا مجھے یاد نہیں.غالباً خالصہ نام سے کوئی ادارہ ہے اور وہ انہی کے قبضہ میں ہے.مگر صورت حال یہ ہے کہ اس کا اتنا معیار گر چکا ہے کہ دیکھ کر رونا آتا ہے.جس حال میں ہم نے تقسیم کے وقت اس عمارت کو چھوڑا تھا اس حال سے بہت زیادہ بدتر ہو چکی ہے.لیکن اس کو بحال کرنے کیلئے یا اس میں مزید اضافے کی خاطر کوئی بھی خرچ نہیں گیا.یہاں تک کہ جو کرہ زیر تعمیر تھا جس کی چھت پڑنے والی تھی ، جس حالت میں اینٹیں پڑی تھیں اسی طرح آج بھی پڑی ہیں.اور وہ تالاب جسے پیچھے چھوڑ کر آئے تھے جو سکول کا سوئمنگ پول (SWIMMING POOL) تھا بعد میں کالج کا بن گیا اسے اس زمانہ میں ٹینک ( TANK) کہا کرتے تھے اور اس کی حالت یہ ہے کہ اس میں اب گندا پانی جمع ہے کوئی دیکھ بھال کا انتظام نہیں.لیکن وہ وقار عمل سے اور بڑی دعاؤں کے ساتھ تیار کیا گیا تھا.اسکی تعمیر ایسی اعلیٰ اور پختہ ہے کہ میں نے پھر کر دیکھا ہے ایک اینٹ بھی ابھی اپنی جگہ سے نیچے نہیں بیٹھی حالانکہ کھلے آسمان کے نیچے بغیر دیکھ بھال کے پڑا ہوا ہے.تو اصل دعا تو یہی کرنی چاہیے کہ قادیان میں تعلیمی اداروں کو بحال کرنا ہے تو یہ عمارتیں جماعت کو واپس ملیں.اس سلسلہ میں کچھ گفت و شنید کا میں وہاں آغاز کر آیا ہوں.کچھ یہاں سے سکھوں کی اس لیڈرشپ سے بھی بات کریں گے جو باہر ہے اور پنجاب میں بھی اس تحریک کو چلایا جائے گا.اگر وہ ہمیں یہ ادارہ واپس کر دیں تو بہت وسیع کھیل کے میدان بھی اس کے ساتھ ہیں اور ایسا شاندار کالج دوبارہ وہاں قائم کیا جاسکتا ہے جو تمام پنجاب بلکہ ہندوستان میں ایک شہرت اختیار کر جائے.دور دور سے طلباء وہاں آئیں، بہترین اس کے معیار ہوں.اور اسکے ساتھ ہی سکول کا قیام بھی تعلق رکھتا ہے.پہلے خیال تھا کہ کالج کے

Page 408

401 حضرت خلیفہ مسیح الرابع قریب میں الگ سکول تعمیر کیا جائے جو بہترین معیار کا ہو.مگر یہ سوال ہے کہ اگر سکول بہترین معیار کا بنا دیا جائے اور کالج جس حال میں ہے اسی حال میں ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.سکول کے چند سالوں کے بعد بچوں کو پھر باہر نکلنا پڑے گا اور پھر غیر فضا سے بداثرات قبول کرنے کے احتمال باقی رہیں گے اور محض سکول سے کسی مقام کی شان نہیں بڑھا کرتی اس کے ساتھ ایک تعلیمی تسلسل ہونا چاہیے.آئندہ تعلیم کا انتظام ، اس سے آگے تعلیم حتی کہ اس معیار کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے اور پھر وسیع کیا جائے.یہ مقاصد ہیں جن کے پیش نظر ہمیں قادیان میں تعلیمی سہولتیں مہیا کرنی ہیں اور بہت اعلی پیمانے کی تعلیمی سہولتیں مہیا کرنی ہیں.میرے ذہن میں جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ زبانوں کے لحاظ سے بھی یہ بہترین سکول اور بہترین کالج ہو جا ئیں.اگر جرمن زبان پڑھانی ہے تو باہر سے جرمن قوم کے لوگ وہاں جا کر ٹھہریں.اور خدا کے فضل سے ایسے موجود ہیں جو میری تحریک پر اپنے آپ کو پیش کر دیں گے.انگریز انگریزی پڑھائیں.عرب عربی مائیں.اور اسی طرح مختلف زبانوں کے ماہرین جو اپنے ہاں اہل زبان کہلاتے ہیں وہ جا کر ان بچوں کو تعلیم دیں تو اس پہلو سے پنجاب میں خصوصیت کے ساتھ اتنا بڑا خلاء ہے کہ اگر ہمیں یہ توفیق ملے تو انشاء اللہ تعالی بڑی دور دور تک اس تعلیمی ادارے کا شہرہ ہوگا کیونکہ بدنصیبی سے سکھوں نے قوم پرستی کے تابع ہوکر پنجابی پر اتنا زور دے دیا ہے کہ اب وہاں تقریباً تمام اداروں میں پنجابی میں ہی تعلیم دی جارہی ہے اور باقی زبانیں عملاً کالعدم ہیں.یا انہیں کالجوں سے اگر با قاعدہ دیس نکالا نہیں ملا تو ان کی حوصلہ افزائی کا کوئی انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے باقی زبانیں عملاً مر چکی ہیں یا محض رسمی طور پر پڑھائی جاتی ہیں.اور اس کا شدید نقصان سکھ قوم کو پہنچے گا.میں نے ان کے لیڈروں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تم لوگ بہت ہی غلط فیصلہ کر چکے ہو.پنجابی کو مقام دو بے شک، اسکی خدمت کرو، یہ تمہارے لئے جائز ہے.قومی لحاظ سے ضروری بھی ہو گا لیکن بین الاقوامی زبانوں کو چھوڑ کر اگر صرف پنجابی میں تعلیم دی تو باہر نکل کر یعنی پنجاب سے باہر جا کر یا تم جتنی تعلیم دے سکتے ہو ان حدود سے اوپر جا کر یہ بچے کیا کریں گے.دنیا میں سائنس کی ساری کتابیں یا انگریزی میں ملیں گی یا جرمن میں ملیں گی یا فرنچ میں ملیں گی یا JAPANIES ملیں گی اور پنجابی میں تو کوئی کتاب نظر نہیں آئے گی.اور دنیا کے دوسرے ادارے ان کو قبول ہی نہیں کریں گے تو یہ دراصل ایک وسیع پیمانے پر علمی خود کشی ہے.مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہندوستان کی حکومت کا ایک قانون یہ ہے کہ کسی صوبے میں جومرکزی تعلیمی پالیسی ہے اس صوبے سے متعلق ادارے اس تعلیمی پالیسی کے اختیار کرنے کے پابند ہیں لیکن ہر صوبے میں تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے کے امکانات ہیں.اسلئے پنجاب میں اگر کوئی تعلیمی ادارہ دہلی کے تعلیمی نظام سے متعلق ہونا چاہے تو وہ ہوسکتا ہے.علی گڑھ کے تعلیمی نظام

Page 409

402 حضرت خلیفہ امسیح الرابع سے متعلق ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے.اور اس پر پھر اسی ادارے کا قانون صادر ہوگا جس سے وہ متعلق ہے.تو اسلئے جماعت احمدیہ کی راہ میں ایک نہایت اعلیٰ پیمانے کا تعلیم اور تدریس کا نظام جاری کرنا مشکل نہیں ہے اور قانو نا کوئی روک نہیں ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ نمونہ جب قائم ہوگا تو باقی سکھ اداروں کو بھی ہوش آئے گی اور وہ بھی ہماری تقلید کی کوشش کریں گے اور قومی فائدہ پہنچے گا.تو اس ضمن میں جب باہر سے اساتذہ بلانے کا یا اور خدمات کا وقت آئے گا تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ساری دنیا کی جماعتیں اس میں حصہ لیں گی.سردست تو میں دعا کی تحریک کر رہا ہوں کہ بہت با قاعدگی سے سنجیدگی سے دل لگا کر دعا کریں کہ قادیان کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کیلئے خدا پھر ہمیں توفیق بخشے کہ پرانے تعلیمی اداروں کی روایات کو زندہ کر سکیں اور جو کر دار وہ پہلے ادا کرتے رہے ہیں از سر نو پھر وہ یہ کردار ادا کرسکیں.قادیان کو تو ساری دنیا میں علم کا مرکز بننا ہے اور خدا نے اس کام کیلئے اسے چن رکھا ہے.پارٹیشن سے پہلے کی بات کر رہا ہوں کہ جن دنوں میں قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھا مگر علمی لحاظ سے اس کی بڑی شان تھی اور پنجاب میں دور دور تک قادیان کے سکول سے نکلے ہوئے طلباء کی عزت کی جاتی تھی.احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ کالجوں میں داخل کرنے کی راہ میں کوئی روک نہیں ہوا کرتی تھی.انگریزی زبان کا معیاراتنا بلند تھا اور کھیلوں کا معیار اتنا بلند تھا کہ ان دو غیر معمولی استثنائی امتیازات کی وجہ سے قادیان کے طلباء جب چاہیں گورنمنٹ کالج میں ، ایف سی کالج میں کسی بہترین ادارے میں داخل ہونا چاہیں تو ان کو عزت کے ساتھ لیا جاتا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا کے فضل سے یہ دونوں امتیاز حاصل تھے کہ انگریزی زبان میں بھی غیر معمولی ملکہ اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمایا تھا، ایک قدرت حاصل تھی اور فٹ بال کے بھی بہترین کھلاڑی تھے یہاں تک کہ جب میں گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا ہوں تو اس وقت تک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تصویران طلباء کی صف میں لٹکی ہوئی تھی جنہوں نے گورنمنٹ کالج سے غیر معمولی اعزازی نشانات حاصل کئے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے انگریز پروفیسر (غالبا سٹیفنس نام تھا مجھے پوری طرح یاد نہیں ) اس نے ایک دفعہ ان سے کہا کہ قادیان میں تم لوگ کیا کرتے ہو وہاں تو میں نے دیکھا ہے کہ دو چیزوں کے کارخانے لگے ہوئے ہیں.اچھے انگریزی دان اور اچھے کھلاڑی.جو بھی قادیان کا طالب علم آتا ہے اس کا زبان کا معیار بہت بلند ہے اور کھیلوں کا معیار بہت بلند ہے.اور کھیلوں کا معیار واقعہ اتنا بلند تھا کہ قادیان کی سکول کی ٹیم پنجاب کے چوٹی کے کالجوں سے ٹکرایا کرتی تھی اور اکثر ان کو شکست دے دیتی تھی.قادیان کی کبڈی کی ٹیم سارے پنجاب میں اول درجے کی ٹیم تھی.تو کھیلوں کا معیار بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ بلند تھا اور ان دونوں

Page 410

403 حضرت خلیفہ المسح الرابع چیزوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے.اچھے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ اچھے کھلاڑی بھی پیدا ہوتے ہیں.اور لازما عقل اور ذہن کی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کی طرف بھی یہ ادارے توجہ دیتے ہیں.اب قادیان میں دوسری مشکل یہ در پیش ہے کہ ان کیلئے کھیلوں کا کوئی بھی انتظام نہیں ہے.میں نے سکول کے بچوں سے بچیوں سے سوالات کئے (لجنہ سے ، خدام الاحمدیہ سے ) وہاں جائزے لئے تو یہ دیکھ کر بہت ہی تکلیف ہوئی کہ غیروں نے تو تعلیم کی طرح کھیلوں کی طرف بھی توجہ چھوڑ دی ہے اور قادیان کے سکولوں کالجوں میں کوئی بھی معیار نہیں رہا.نہ تعلیم کا نہ کھیل کا ہر لحاظ سے پیچھے جاپڑے ہیں.حالانکہ اللہ کے فضل سے علاقے میں صحت کا معیار بہت بلند ہے.اور اگر جذ بہ ہوتا ، ایک انتظام کے تحت علم اور صحت دونوں کی طرف توجہ کی جاتی تو قادیان ابھی بھی خدا کے فضل سے یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ پنجاب میں اسی طرح چھکے جس طرح پہلے چمک کر دکھا چکا ہے تو کھیلوں کی طرف ہمارے اندرون میں یعنی قادیان کے اس حصہ میں بھی کوئی توجہ نہیں جس میں درویش بستے ہیں.اور اس طرح بچوں کی زندگیاں ضائع ہو رہی ہیں.لڑکیوں کے لئے کھیلنے کا کوئی انتظام نہیں محدود علاقے میں قید ہیں.پس تعلیمی منصوبے کے علاوہ ایک منصو بہ یہ بنایا گیا ہے کہ ان کیلئے ہر قسم کی صحت جسمانی کے سامان مہیا کئے جائیں.بہترین جمنیزیم بنائے جائیں.لجنہ کیلئے ایک کھلی زمین خرید کر یا اگر کوئی موجودہ زمین اس کام کیلئے مل سکتی ہو تو اسے احاطہ کر کے لڑکیوں اور عورتوں اور طالبات وغیرہ کیلئے وقف کر دیا جائے.وہاں ہر قسم کی جدید کھیلوں کے انتظام ہونے چاہئیں.اور باہر سے کوئی احمدی بچیاں کسی فن میں مہارت رکھتی ہیں ، ہندوستان میں بھی کئی کھیلوں کی اچھی اچھی ماہر بچیاں ہیں تو وہ وہاں اپنا وقت لگائیں، وہاں جا کر ان کو تعلیم و تربیت دیں تو ان کیلئے کچھ تو ایسا سامان ہونا چاہیے جس سے وہ دل کی فرحت اور سکینت محسوس کریں.محض ایک سنجیدہ ماحول میں جو روحانی سہی لیکن اتنا تنگ ماحول ہے کہ اس میں زندگی گھٹی گھٹی محسوس ہوتی ہے.ایسے ماحول میں ان بچیوں کو اور لڑکوں اور بڑوں کو زندگی بسر کرنے پر مجبور رکھنا یہ ظلم ہے اس لئے عالمی جماعت کا یہ فرض ہے کہ ان کی اس قسم کی علمی اور صحت جسمانی کی ضرورتیں ضرور پوری کریں اور اس شان سے پوری کریں کہ علاقے میں اس کی کوئی مثال نہ ہو.پس اس بارہ میں میں ہدایات دے آیا ہوں کہ اب تفصیلی منصوبے بنانا تمہارا کام ہے.بناؤ اور جو بھی بناؤ گے،انشاء اللہ عالمی جماعت فراخدلی کے ساتھ ان پر عملدرآمد کرنے میں تمہاری مدد کرے گی.اور میری خواہش ہے کہ آئندہ جلسہ سے پہلے پہلے عورتوں اور مردوں کیلئے یہ سپورٹس کمپلیکس مکمل ہو چکے ہوں یا مکمل نہ پیج تو نظر آنے شروع ہوں.اور ان کا فیض دکھائی دینے لگے.ہمارے احمدی بچوں کے چہروں پر صحت دکھائی دے.اس لئے یہ بھی وہ

Page 411

404 حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایک ضروری منصوبہ ہے جو شروع کیا جا چکا ہے.لیکن یہ قادیان تک محدود نہیں رکھنا.علمی اور صحت کے یہ دونوں منصوبے ہندوستان کی باقی جماعتوں میں بھی ممتد ہوں گے.کیونکہ ان کی بھی محصور کی سی ایک کیفیت ہے.بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمان بعض راہنماؤں کی غلطیوں کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھے جا رہے ہیں.ان میں جماعت احمد یہ بھی ان تکلیفوں میں حصہ دار بنی ہوئی ہے.اگر چہ غلط پالیسیوں کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کوئی تعلق نہیں لیکن دوسری مصیبت یہ ہے کہ پاکستان کی طرح کے ملاں وہاں بھی جماعت کے خلاف نفرت کی تحریکات چلاتے اور بھڑ کاتے ہیں.اور کوئی ہوش نہیں کر رہے کہ باہر کی دنیا میں کیا گندا اثر پیدا کر رہے ہیں.اسلئے احمدیوں کے لئے دوہری مشکلات ہیں اور وہ ان مخالفتوں میں محصور ہو چکے ہیں.چنانچہ بعض جماعتوں کے ساتھ جب تفصیلی انٹرویو ہوئے تو پتہ لگا کہ واقعہ ان کی محصور کی سی کیفیت ہے وہ عام روز مرہ کے اپنی زندگی کے حقوق سے کل یہ محروم ہیں.مسلمان ان سے کتنی کتراتے ہیں.ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نہیں رکھتے کیونکہ ان کو نفرتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ہندو ویسے ہی دور ہٹتے چلے جارہے ہیں اور دن بدن ہندو قوم پرستی یا تشدد پرستی کی جو تحریکات ہیں وہ زیادہ قوی ہوتی جا رہی ہیں اور یہ دراصل پاکستان اور بعض دوسرے مسلمان ممالک کی جہالت کا طبعی نتیجہ ہے.سو رنگ میں ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اسے قومیائی حدود میں جکڑو نہیں اور غیروں کے مقابل پر ایسے ذرائع اختیار نہ کرو کہ وہ سمجھیں کہ تم اپنے مذہب کو زبردستی ان پر ٹھونستے اور ان کے حقوق سے محروم کرتے ہو.اگر ایسا کرو گے تو اس کا رد عمل پیدا ہوگا اور اگر اس کے بعد ہندو منوسمرتی کی تعلیم کی طرف رخ کریں اور یہ اعلان کریں کہ اگر پاکستان میں مسلمانوں کو حق ہے کہ قرآن کی تعلیم کو ساری قوم پر ٹھونس دیں خواہ کوئی اسے قبول کرے نہ کرے تو ہمارا کیوں حق نہیں کہ ہم منوسمرتی کی تعلیم کو ساری ہندو ستانی قوم پر ٹھونسیں خواہ کوئی قبول کرے یا نہ قبول کرے، پس غلطیوں کے یہ جو دور رس نتائج ہیں ان سے آنکھیں بند ہیں ، دو قدم سے زیادہ دیکھ نہیں سکتے ، اور یہ جو نظر کی کمزروی کی بیماری ہے یہ جب راہنماؤں میں ہو جائے تو ساری قوم کے لئے ہلاکت کا موجب بنتی ہے.بہر حال ہندوستان میں جو یہ شدید رو چل پڑی ہے یہ بہت ہی خطرناک عزائم کو ظاہر کر رہی ہے اور دن بدن مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ رواسی طرح چلتی رہی تو سارے مسلمان وہاں محصور ہوکر رہ جائیں گے.اور احمدیوں پر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوہری حصار ہے.ایک حصار غیروں کی غلطی کی وجہ سے ہے اور ایک حصار دل کی مجبوری کی وجہ سے خدا کی خاطر جو بھی مخالفت ہو انہوں نے بہر حال قبول کرنی ہے اور بڑی وفا کے ساتھ احمدیت سے وابستہ رہنا ہے.یہ وہ اصحاب الصفہ ہیں جو وسیع تر دائرے سے تعلق رکھنے

Page 412

405 حضرت خلیفہ المسح الرابع والے اصحاب الصفہ ہیں.پس قادیان کے لئے بہبود کی جو سکیمیں ہیں ان سے ہندوستان کی باقی جماعتوں کو محروم نہیں رکھا جائے گا.اور وہاں بھی صوبائی امار تیں قائم کر کے ( جہاں نہیں تھیں وہاں قائم کر دی گئی ہیں اور جہاں تھیں ان کو بیدار کیا گیا) یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ جہاں اقتصادی ترقی کے منصوبے بناؤ وہاں تعلیمی ترقی کے بھی منصوبے بناؤ.چنانچہ کشمیر میں خدا کے فضل سے پہلے ہی بہت سے سکول بڑی اعلیٰ روایات کے ساتھ چل رہے ہیں.باقی صوبوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اسی طرح مدارس قائم کریں اور جہاں جہاں ممکن ہوگا کالجز قائم کریں.ٹیکنیکل کالجز کی وہاں بڑی ضرورت ہے.اور قادیان میں بھی انشاء اللہ خیال ہے کہ اعلیٰ پائے کا ٹیکنیکل کالج بھی قائم کیا جائے گا.تو سارے ہندوستان کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ایک کروڑ سالانہ کی رقم بھی کوئی چیز نہیں ہے.لیکن اگر وقف جدید کے ذریعہ ایک سال کے اندر اندر ایک کروڑ کی رقم بھی مہیا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ شروع کرنے کے لحاظ سے خدا کے فضل سے کچھ نہ کچھ سرمایہ میسر آجائے گا.اور باقی اللہ تعالیٰ اور رستے عطا کرتا رہتا ہے.جماعت احمدیہ کی عالمی قربانیوں کا جو مجموعہ ہے اس میں سے جہاں مرکزی منصوبوں پر خرچ ہو رہے ہیں ، مختلف ممالک پر خرچ ہو رہے ہیں ایک حصہ اس میں سے بھی قادیان اور ہندوستان کی احمدی جماعتوں کیلئے مزید مخصوص کیا جا سکتا ہے.تو آپ دعاؤں میں یا درکھیں.اور مالی قربانیوں کی جہاں تک توفیق ملے اسے بڑھانے کی کوشش کریں.وقف جدید کی مالی قربانی پر نظر ثانی کریں.بہت سے احمدی ہیں جو غربت اور تنگی کی حالت میں بھی ہر چندے میں شامل ہیں.وہ تقریباً اپنی استطاعت کی حد کو پہنچے ہوئے ہیں.لیکن میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی خاطر وہ جو قربانیاں پیش کرتے ہیں یا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں برکت دے گا اور ان کی حدود وسیع تر کرتا چلا جائے گا.وہ آیت جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی اس سے پہلے اس مضمون کی آیات ہیں جو میں اب آپ کے سامنے رکھ کر اس خطبہ کو ختم کروں گا.جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کیلئے جو خدا کی خاطر خود محصور ہو گئے اور جن کے رزق کی راہیں تنگ ہو گئیں یا بند ہوگئیں جولوگ قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دین اور دنیا دونوں جگہ جزاء دینے والا ہے.اور انکے اموال کو رکھتا نہیں بلکہ ان میں بہت برکت دیتا ہے.پس وہ برکت جو درویشوں کے ذریعے دوسروں کو پہنچتی ہے اس مضمون کو قرآن کریم نے یہاں ایک خاص رنگ میں کھول کر بیان فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اس نصیحت کا اس آیت سے ہی تعلق ہے جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا تمہیں کیا پتہ کہ کن لوگوں کی وجہ سے تمہارے اموال میں برکت پڑ رہی ہے.پس جو لوگ ان غریبوں پر خرچ کرتے ہیں جو خدا کی خاطر

Page 413

406 حضرت خلیفہ مسیح الرابع محصور ہوئے خدا کا واضح وعدہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں بہت برکت دے گا.اور فصاحت اور بلاغت کا عجیب انداز ہے کہ پہلے یہ مضمون بیان فرمایا اور پھر بعد میں ان لوگوں کا ذکر کیا جن کی خاطر ان لوگوں کو برکت ملنے والی ہے.فرمایا: اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِی اگر تم خدا کی راہ میں اپنے اخراجات کو، قربانیوں کو کھول کر پیش کرو، اعلانیہ کر دوتا کہ دوسروں کو تحریک ہو تو فَنِعِمَّا هِی یہ بھی اچھی بات ہے.اس میں کوئی برائی نہیں وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَراءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لیکن اگر تم ان کو خفی رکھو اور خدا کی راہ کے فقیروں پر خرچ کرو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيَاتِكُمْ ان غریبوں کی خدمت کا جو سب سے بڑا فیض تمہیں پہنچے گا وہ یہ ہے کہ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيَاتِكُمُ الله تعالیٰ تمہاری بدیاں دور کرے گا.تمہاری کمزوریاں دور فرمائے گا.پس تمام دنیا میں ہمیں تربیت کے جو مسائل درپیش ہیں خاص طور پر ترقی یافتہ آزاد منش ممالک میں ان کا ایک حل قرآن کریم نے یہ بھی پیش فرمایا ہے کہ خدا کی راہ میں محصور اور غرباء پر خرچ کرو، اسکے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کی کمزوریاں دور فرمائے گا اور خود تمہاری اصلاح کے سامان مہیا فرمائے گا.پھر فرمایا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.یادرکھو کہ تم جہاں بھی جو کچھ بھی خدا کی راہ میں کرتے ہو تمہارے اعمال سے خدا خوب واقف ہے.ہر چیز پر اسکی نظر ہے.تمہارا کوئی عمل بھی ایسا نہیں جو خدا کی نظر میں نہ ہو.پھر فرمایا: لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ اے محمد ! تجھ پر ان کی ہدایت فرض نہیں ہے.تو نے پیغام پہنچانا ہے.نصیحت کرنی ہے اور تو بہترین نصیحت کرنے والا ہے.وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يشَاء.ہاں اللہ ہی ہے جس کو چاہے گا ہدایت بخشے گا.جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے.پھر اس جملہ معترضہ کے بعد واپس اس مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَا نفُسِكُمْ ط یا درکھو خدا کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرتے ہو.فَلَا نُفُسِكُم ط وہ دراصل اپنی جانوں پر خرچ کر رہے ہو.یہ نہ سمجھو کہ دوسروں پر کوئی احسان کر رہے ہو.تمہارا خرچ اپنے فوائد کے لحاظ سے اور برکتوں صلى الله کے لحاظ سے خود تم پر ہورہا ہے.وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مد مصطفی می تے کے تربیت یافتہ ساتھی اپنے نفوس میں برکت کی خاطر خرچ نہیں کر رہے بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کر رہے ہیں.پس یہ مراد نہ سمجھی جائے.کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ یہ تعلیم دے رہا ہے کہ اپنے نفس پر خرچ کرنے کی خاطر خرچ کرو.فرمایا ہم جانتے ہیں کہ تمہارا اعلیٰ مقصد خدا کی رضا ہے مگر جب خدا کی رضا حاصل ہو جاتی ہے تو محض دین میں نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں بھی رضامل جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا ایک نتیجہ ہے کہ جو یہ فرمایا گیا کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اپنی جانوں پر خرچ کرتے ہو.ان

Page 414

407 حضرت خلیفة المسیح الرابع دونوں آیات کے ٹکڑوں کو ملا کر پڑھا جائے تو مضمون یہ بنے گا کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ تم جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو محض اللہ کے پیار کی خاطر اسکی محبت جیتنے کیلئے ، اسکی رضا حاصل کرنے کیلئے کرتے ہو لیکن اس رضا کا ایک ظاہری نتیجہ بھی ضرور نکلے گا اور وہ یہ کہ تمہارے اموال میں ایسی برکت ملے گی کہ گویا تم دوسروں پر نہیں بلکہ خود اپنی جانوں پر خرچ کرنے والے تھے.اور اس کی مزید تفسیر یہ فرمائی کہ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقره: 273) اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے یقین جانو وہ تمہیں خوب لوٹا یا جائے گا.يُوَفَّ إِلَيْكُمُ میں صرف لوٹانے کا مضمون نہیں بلکہ بھر پور طور پر لوٹایا جائے گا اور تم سے کوئی ظلم نہیں کیا جائیگا.یہ ایک محاورہ ہے ، طرز بیان ہے.جب کہا جائے کہ کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ محض عدل کیا جائے گا بلکہ بالکل بر عکس مضمون ہوتا ہے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ.ان سے ظلم نہیں کیا جائے گا تو مراد یہ ہوتی ہے کہ انہیں بہت زیادہ دیا جائے گا.ظلم تو در کنارا تنا عطاء ہوگا کہ احسانات ہی احسانات ہوں گے.یہ ایک طرز بیان ہے جو مختلف زبانوں میں عربی میں اور خصوصیت کے ساتھ قرآن کریم میں اس طرز بیان کو اختیار فرمایا گیا تو لَا تُظْلَمُونَ وَلَا يُظْلَمُونَ کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ظلم نہیں کرے گا.جتنا دیا اتنا واپس کر دے گا.مراد یہ ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی کمی واقع نہیں ہوگی.اتنا دے گا کہ تمہارے پیٹ بھر جائیں گے.تم کانوں تک راضی ہو جاؤ گے یہ معنیٰ ہے اس آیت کا.یہ سب بیان کرنے کے بعد فرمایا لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ.اس وقت جو ہم خرچ کرنے کی تاکید کر رہے ہیں تو یہ عام خرچ نہیں بلکہ خصوصیت سے ان فقراء کی خاطر خرچ ہے جو خدا کے رستے میں گھیرے میں آگئے اور ان میں زمین پر چل کر اپنے کمانے کے لئے گنجائش نہیں رہی.وہ محبت کی رسیوں میں باندھے گئے اور ہمیشہ کے لئے محمد مصطفی میل کے قرب میں انہوں نے ڈیرے ڈال دیئے حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں.کھانے کے بھی وہ محتاج ہیں.پہننے کے بھی ، اوڑھنے کے بھی محتاج ہیں.ان کی ساری ضرورتیں خدا پر چھوڑ دی گئی ہیں.اسلئے اللہ تعالیٰ تمہیں فرماتا ہے کہ تم ان کی ضرورتیں پوری کرو، خدا تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا اور تمہاری ضرورتیں پوری کرنے میں کوئی کمی نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو بھی انہی معنوں میں اصحاب الصفہ کی خدمت کی توفیق عطاء فرمائے.وہ جس رنگ میں بھی ہوں.جہاں بھی ہوں، خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ان کی خدمت کی توفیق بخشے اور ان کا فیض خدا تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں ساری دنیا کی جماعت پر نازل ہوتا رہے.ہفت روزہ بدر قادیان 12 / مارچ 1992ء)

Page 415

408 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 25 دسمبر 1992 ء بیت الفضل لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ سال ان دنوں جمعہ کے روز قادیان میں وقف جدید کے سالِ نو کا اعلان کرنے کی توفیق عطا ہوئی تھی اور آج بھی وہاں جمعہ کا دن جلسہ کی طرح منایا جا رہا ہوگا اور خدا کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے مخلصین اس وقت قادیان میں جمع ہو چکے ہیں اور اگر چہ جلسہ کل سے شروع ہوگا لیکن آج کا جمعہ بھی عملاً جلسہ کا ہی حصہ بن جائے گا اس لئے سب سے پہلے تو میں اپنی طرف سے، جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف سے اور تمام دنیا کی جماعتوں کی طرف سے حاضرین جلسہ قادیان کو محبت بھرا سلام اور مبارکباد پیش کرتا ہوں اور پھر اہل پاکستان کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ.ہزار ہا احمدی پاکستان سے بھی اس جلسہ میں شریک ہورہے ہیں.اس جلسہ کی افتتاحی تقریر کی متبادل تقریر کل صبح انشاء اللہ یہاں کے وقت کے مطابق دس بجے شروع ہوگی بلکہ دس بجے سے کچھ پہلے ہی یہ کاروائی شروع ہو جائے گی اسے با قاعدہ افتتاحی کاروائی تو نہیں کہنا چاہئے کیونکہ غالباً جس وقت میں یہاں خطاب کروں گا اس سے پہلے وہاں افتتاح ہو چکا ہوگا.بہر حال جو احباب یہاں پہنچ سکتے ہوں وہ انتظام سے یہ پوچھ کر کہ اگر اتنی گنجائش ہو کہ لنڈن کے سب لوگ یہاں سما سکیں تو وہ یہاں آجائیں ورنہ پھر اپنی اپنی جگہ ٹیلی ویژن پر دیکھیں اور اس طرح کل کا جلسہ در حقیقت ایک بہت ہی وسیع عالمگیر جلسہ بن جائے گا.قادیان سے جلسوں کا آغاز ہوا اور قادیان ہی کی طرف واپسی کے آثار نظر آرہے ہیں.ایک سو سال کے لمبے چکر کے بعد لمبے سفر کے بعد اب قادیان ہی مجمع اقوام عالم بنتا جا رہا ہے اور کل انشاء اللہ تعالیٰ جو جلسہ وہاں شروع ہوگا اس کا ایک حصہ یعنی میری تقریر تمام دنیا کی جماعتیں سن بھی رہی ہوگی اور دیکھ بھی رہی ہونگی اور کچھ جماعتیں اس طرح شریک ہونگی کہ ان کے کوئی نہ کوئی نمائندے وہاں پہنچے ہوئے ہونگے تو ایک بہت ہی عظیم الشان اور خوشیوں کا دن ہے جو کل طلوع ہوگا لیکن آج کا جمعہ بھی درحقیقت اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس وقت بھی خدا کے فضل سے تمام دنیا کی جماعتیں اس جمعہ میں ان معنوں میں شامل ہیں کہ دیکھ رہی ہیں اور سن رہی ہیں اور ہرا ایسے موقعہ پر جو اطلاعیں ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بالکل نئے اور تازہ ولولے پیدا ہوتے ہیں.سب سے زیادہ خوشی تو اس بات کی پہنچتی ہے کہ جماعت خدا کے فضل سے بہت ہی زرخیز مٹی ہے.جو بات کہی جائے

Page 416

409 حضرت خلیفہ المسیح الرابع وہ اس زرخیز مٹی پر پڑتی ہے جو اسے قبول کرتی ہے اور پھر بڑی تیزی سے نیکی کے بیج نشو و نما پاتے ہیں.اب تو روزانہ ڈاک میں بکثرت ایسے خط ملنے لگے ہیں کہ ہم فلاں معاملے میں کمزور تھے، فلاں معاملے میں کمزور تھے.دیانتدار اپنے آپ کو سمجھتے تھے لیکن حقیقت میں دیانت کا تصور نہیں تھا.خیانت سے پاک سمجھتے تھے مگر اب پتہ چلا ہے کہ خیانت ہوتی کیا ہے اور ہم یہ یہ عہد کر چکے ہیں اور خدا کے فضل سے نئی زندگیوں کا آغاز کر رہے ہیں.اس طرح عبادات کے سلسلہ میں بھی جو خطوط ملتے ہیں ان سے روح تازہ ہو جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی عالمی تربیت کے ایسے عمدہ انتظام فرما دئیے ورنہ ایک خلیفہ کے لئے ناممکن تھا کہ ساری دنیا کی جماعتوں پر نظر رکھتا، ان تک پہنچ سکتا اور براہ راست ان سے مخاطب ہو کر ان کے دلوں میں نئے ولولے پیدا کر سکتا لیکن اب خدا نے یہ ایسے عجیب انتظام فرما دیئے ہیں کہ جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اب میں وقف جدید کے سالِ نو کے اعلان کی طرف آتا ہوں.اس وقت تک وقف جدید پر پینتیس سال گزر چکے ہیں اور آج چھتیسویں سال کے آغاز کا اعلان کیا جائے گا سب سے پہلے جب 1957ء کے آخر پر وقف جدید جاری ہوئی تو حضرت اقدس مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود اپنے ہاتھ سے وقف جدید کی مجلس میں پہلا نام میرا لکھا.اگر چہ حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کو ہر لحاظ سے مجھ پر فوقیت حاصل تھی عمر کے لحاظ سے بھی بزرگ تھے صحابی بھی تھے اس لئے میری حیاء کا تقاضا تو یہ تھا کہ میں کبھی بھی اس بات پر اصرار نہ کرتا کہ میرا نام پہلے لکھا گیا ہے لیکن حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کی ایسی حرص تھی ، ایسی لالچ تھی کہ ایک موقع پر جبکہ وہ صدر مقرر ہوئے تھے ان کا لسٹ میں پہلے نام آنے لگا تو میں نے عاجزانہ طور پر درخواست کی کہ کیونکہ یہ حضرت مصلح موعودؓ کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اس لئے اگر چہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا مگر مجھے اسی نمبر پر رہنے دیا جائے.اس میں ایک پیشگوئی بھی تھی کہ خدا مجھے وقف جدید کے سلسلہ میں غیر معمولی خدمت کی توفیق بخشے گا اور اب وقف جدید کا نیا دور شروع ہوا ہے تو اب مجھے مجھ آرہی ہے کہ کیوں حضرت مصلح موعودؓ نے میرا نام پہلے لکھا تھا کیونکہ اس وقت تو تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے خلافت کے منصب پر فائز فرمائے گا اور وقف جدید کی تحریک کو عالمی بنانے کا خیال دل میں پیدا فرمائے گا اور پھر اس کی توفیق بخشے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ہمیں خوشیوں کے یہ دن دکھائے کہ وہ تحریک جو صرف پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش تک محدود تھی اسے عالمی تحریک بنانے کی توفیق ملی اور جماعت احمدیہ کو بڑی ہی محبت اور خلوص کے ساتھ اس آواز پر لبیک کہنے کی توفیق ملی.جماعت احمدیہ کا جو یہ پہلو ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک ایسا

Page 417

410 حضرت خلیفہ امسیح الرابع عظیم الشان ثبوت ہے کہ ساری دنیا ز ور مار لے، گالیاں دے یا کوششیں کرے اور منصوبے بنائے تو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی یہ نمایاں اور عظیم الشان اور امتیازی خوبی ان سے چھین نہیں سکتی.اس پیغام کو سو سال ہو چکے ہیں سو سال میں کتنی ہی نسلیں ایک دوسرے کے بعد آتی ہیں اور تھک ہار کر بیٹھ رہا کرتی ہیں اور مالی نظام تو خصوصیت کے ساتھ بہت ہی زیادہ ابتلاء میں ڈالے جاتے ہیں.ابتلاء ان معنوں میں کہ مالی لحاظ سے 100 سال کے اندر کام کرنے والوں کی دیانتیں بدل جاتی ہیں ان کے اخلاص بدل جاتے ہیں.قربانی کرنے والوں کا معیار بدل جایا کرتا ہے اور اس پہلو سے وہ مالی نظام جو خالصہ طوعی تحریک پر مبنی ہو اس کے لئے ایک سو سال تک کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا اس جماعت کے بانی کی صداقت کی ایک بہت ہی عظیم الشان دلیل ہے.خاص طور پر جبکہ دنیا کے رجحان اس کے برعکس چل رہے ہوں.جبکہ مالی قربانی کا تصور عملاً مٹتا چلا جارہا ہو.جبکہ حکومتوں کی دولت پر کام چلائے جاتے ہوں اور انفرادی کوشش اور محنت اور اخلاص کے ساتھ اعلیٰ مقاصد کے لئے روپے پیش کرنے کا تصور اگر پہلے بعض قوموں میں تھا بھی تو کم ہوتا چلا جائے.دنیا میں جتنی بھی تو میں نیکی کے نام پر خرچ کرتی ہیں ان کے متعلق بلاخوف اختلاف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر آنے والے سال میں لوگوں کے جذبے میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ نیک کاموں پر از خود خرچ کرنے کا رجحان کم ہوتا چلا جارہا ہے.جماعت احمدیہ کا گراف اس سے بالکل مختلف ہے اور حیرت انگیز وفا کے ساتھ اپنے اس اسلوب کو قائم رکھے ہوئے ہے کہ ہر آنے والا سال جماعت کی مالی قربانی کی روح کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے.یہ اعجاز خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ایک بچے فرستادہ کے سوا کوئی دنیا میں دکھا نہیں سکتا.ساری دنیا کی طاقتوں کو میں کہتا ہوں کہ مل کر زور لگا کر دیکھ لیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسی کوئی مالی قربانی کرنے والی جماعت کہیں ہو تو لا کر دکھا ئیں.دنیا کے سامنے وہ چہرے تو پیش کریں وہ کون لوگ ہیں جو اس طرح اخلاص اور وفا کے ساتھ اور بڑھتی ہوئی قربانی کی روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنے اموال پیش کرتے چلے جاتے ہیں.یہ چونکہ اموال کی باتیں ہیں اس لئے میں اموال کی بات کر رہا ہوں ورنہ خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ نیکیوں کے ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہے.کسی میدان میں بھی پیچھے نہیں رہ رہی.وقتی طور پر جہاں بعض دفعہ اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں جب بھی توجہ دلائی جائے تو فوری طور پر اس کا رد عمل پیدا ہوتا ہے اور غلط راہوں پر جانے والے لوٹ آتے ہیں اور پھر صحیح راستے پر قافلے کے ساتھ مل کر چلنے لگتے ہیں.پاکستان میں بھی بعض خرابیاں مثلاً ویڈیو کیسٹ کے غلط استعمال سے متعلق شروع ہوئیں.میں

Page 418

411 حضرت خلیفة المسیح الرابع نے ایک خطبے میں اعلان کیا تھا کہ بعض گندی رسمیں راہ پارہی ہیں اس سے قومی اخلاق تباہ ہو جائیں گے اور گھروں کے امن اٹھ جائیں گے اور میاں بیوی کے وفا کے سلسلے ٹوٹ جائیں گے اور ان کے تعلقات میں رخنے پڑ جائیں گے دراڑیں پڑ جائیں گی.ہر گز اس رجحان کو پنپنے نہ دیں چنانچہ مجھے پاکستان سے جو خطوط ملے ان سے میرا دل خدا کے حضور سجدہ ریز ہوا اور بار بار ہوا کہ وہ لوگ جو بعض بدیوں میں مبتلا تھے انھوں نے صاف لکھا کہ ہم ان غلط کاموں میں پڑ گئے تھے.اللہ کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت سے وابستہ ہیں اور براہ راست جب آپ کی آواز ہم تک پہنچی ہے تو یہ سارے جھوٹے بت تو ڑ کر ہم نے اپنے دلوں سے باہر پھینک دیئے تو جماعت میں نیکی کی آواز پر لبیک کہنے کا جو مادہ ہے یہ صداقت کی اصل روح ہے.اور یہ صداقت کی روح کبھی کوئی جھوٹا دنیا میں نہیں بنا سکتا.جن لوگوں کو عقل ہے، جن کو ہوش ہے، جن کو نفسیات کا کچھ ادنی سا بھی علم ہے وہ یقیناً جانتے ہیں کہ یہ چیز بنانی کسی جھوٹے کا کام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے تزکیہ عطا ہوتا ہے تو تزکیہ نصیب ہوتا ہے ورنہ اپنی طاقت سے تزکیہ حاصل نہیں ہوسکتا، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کرنے والی ، پیار کرنے والی، آپ کی عاشق یہ جماعت اللہ کے فضل کے ساتھ نیکی کے ہر میدان میں آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اس عاشق نے اپنا سب کچھ اور اپنی اولاد کا سب کچھ اور اپنی جماعت کا سب کچھ جو محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا ڈالا تھا اس میں برکت پڑ رہی ہے وہ مال بڑھتا چلا جا رہا ہے ان قربانیوں کے معیار اونچے ہورہے ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں پہاڑوں میں تبدیل ہو رہی ہیں.یہ سلسلہ ہائے کوہ بننے والے ہیں اس لئے نیکی کے ان رجحانات کو ہمیشہ زندہ رکھیں قائم رکھیں اور آگے بڑھاتے چلے جائیں.وقف جدید کے سلسلہ میں جب پہلے سال اعلان ہوا تھا تو مجھے یاد ہے کہ ساٹھ یا ستر ہزار روپے کا وعدہ تھا اور پھر ہم کوشش کرتے رہے زور لگاتے رہے اور خدا کے فضل سے ہر سال تحریک آگے بڑھتی رہی پھر جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلافت کے منصب پر فائز فرمایا تو اللہ بخش صادق صاحب کو وقف جدید کا ناظم مقرر کیا گیا اور ان کے دور میں بھی نہ صرف تحریک آگے بڑھی بلکہ جس وقت تک میں تھا اس کی نسبت مالی قربانی میں پہلے سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آگے بڑھی اور اللہ کا بڑا احسان ہے کہ کسی پہلو سے بھی مجھے یہ شکوہ نہیں ہوا کہ اس میں یہ کمزوری آگئی ہے اور یہ بتاتے ہوئے مجھے خوشی ہے، کوئی غم نہیں ہے ،اگر میری کمزوریوں کی وجہ سے پہلے کوئی کمزوری تھی تو اللہ نے احسان فرمایا کہ ان کمزوریوں کو دور کر دیا اور اب جب باہر آ کر عالمی تحریک کی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے یکدم انقلاب برپا ہو گیا ہو.مثلاً جو مواز نے میرے سامنے ہیں وہ بھی بہت خوشکن ہیں اور بہت ہی عمدہ تصویر پیش کرتے ہیں مجھے یاد ہے کہ میں نے کسی جگہ بعض

Page 419

412 حضرت خلیفہ المسیح الرابع کوائف پڑھے تھے اس میں گزشتہ سالوں کے مقابل پر کچھ موجودہ کو ائف بھی پیش ہونگے.سر دست میں 1991-1992ء کا موازنہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.1991ء میں 191076 پاؤنڈز کے وعدہ جات تھے جو 1992 ء میں بڑھ کر 257259 پاؤنڈ بن گئے.یہ خدا کے فضل سے ایک بہت بڑا اضافہ ہے جو 34.64 فیصد بنتا ہے.وقف جدید ابھی بھی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے یہ حیرت انگیز ہے ورنہ اتنے لمبے عرصے کے بعد عموماً تحریکوں کے قدم آگے بڑھنے کی رفتار کے لحاظ سے یا موازنے کی رفتار کے لحاظ سے مدھم پڑ جایا کرتے ہیں.لیکن جب آپ وصولی کی بات سنیں گے تو مزید حیران رہ جائیں گے.1991ء میں وعدہ 191076 تھا اور وصولی 220695 پاؤنڈ تھی جبکہ 1992ء میں وعدہ 257259 تھا اور یہ وہم سا ہوتا تھا کہ اتنے بڑے اضافے کی وجہ سے شاید پوری وصولی نہ ہو سکے لیکن وصولی اس کے مقابل پر 334688 پاؤنڈز ہے.تو آپ دیکھیں کہ وقف جدید کی تحریک اب کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.کروڑوں میں داخل ہوگئی ہے یعنی اس کو پاکستانی روپوؤں میں تبدیل کر کے دیکھیں تو چند ہزار سے جو تحریک شروع ہوئی تھی اس کو خدا نے اس نئی صدی میں کروڑوں تک پہنچا دیا ہے اور یہ سلسلہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اس سے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بہت ہی عظیم الشان نتائج ظاہر ہوں گے.پاکستان اور بنگلہ دیش اور ہندوستان کے علاوہ بیرونی دنیا میں کام کے لحاظ سے دراصل وقف جدید کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی چندے کے لحاظ سے ضرورت تھی کیونکہ وقف جدید کا زیادہ تر کام پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ایک نہج پر چل پڑا ہے.اس لئے میں نے یہ تحریک کی کہ باہر کے ممالک چندے میں شامل ہوں تا کہ ان کا موں کو آگے بڑھایا جائے لیکن افریقہ کے لئے یہ استثناء رکھا گیا ہے کہ افریقہ کا وقف جدید کا چندہ وہیں خرچ ہوگا کیونکہ افریقہ کے متعلق پالیسی یہی ہے کہ اس غریب خطہ ارض کو دنیا کی امیر قوموں نے بہت لوٹا ہے ان کا خون چوسا گیا ہے اور اب تو اکثر ممالک خوفناک اینیمیا ( خون کی کمی ) کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے میں نے چند سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ جماعت احمد یہ اس رخ کو پلٹائے گی یعنی آئندہ کبھی افریقہ کا پیسہ باہر نہیں جائے گا بلکہ باہر سے پیسہ افریقہ بھیجا جائے گا.چندوں کے سلسلہ میں بھی یہی پالیسی ہے اور اسی لئے وقف جدید افریقہ کی جو بھی رقم ہے وہ افریقہ پر ہی خرچ ہوتی ہے بلکہ باہر کی بھی انشاء اللہ افریقہ پر خرچ کی جائے گی.پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان کے علاوہ جو درمیانی حصہ ہے اس میں زیادہ تر یورپین اور مغربی ممالک ہیں اور پھر انڈونیشیا اور جاپان وغیرہ بھی ہیں جن کے چندے سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اب

Page 420

413 حضرت خلیفہ المسیح الرابع خاص طور پر ہندوستان میں اور پھر بعض دوسری جگہوں پر بھی کام کو آگے بڑھایا جائے گا.سب سے زیادہ نمایاں آگے قدم بڑھانے والے ملکوں میں سے اس وقت امریکہ قابل ذکر ہے.امریکہ کے امیر صاحب نے گذشتہ سال مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہم نے اپنی مجلس عاملہ میں غور کرتے ہوئے یہ سوچا ہے کہ کم سے کم کسی نیکی کے میدان میں تو امریکہ سب دنیا سے آگے بڑھ جائے.جرمنی کا نام بار بار سنتے ہیں وہ ہر میدان میں آگے چلا جاتا ہے تو اس سے بھی رشک پیدا ہوتا ہے پس ہم نے اپنے لئے چھوٹی سی تحریک وقف جدید چن لی کیونکہ باقی جگہ تو وہ صاف ہتھیار ڈال چکے تھے.صاف نظر آرہا تھا کہ خدمت کے دوسرے وسیع میدانوں میں تو ہم سے آگے نہیں نکلا جائے گا.اس لئے کم سے کم وقف جدید کو ہی چن لیں چنانچہ وقف جدید کو چن کر انھوں نے محنت کی اور دو دن ہوئے مجھے فون پر ان کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ ہم نے خدا کے فضل سے غیر معمولی محنت سے کام لیا.( انکی اس رپورٹ کا کچھ حصہ میں پڑھ کر بھی سناؤں گا ) اور اب ہمیں یقین ہے کہ ہم جرمنی سے بہت آگے نکل چکے ہیں میں نے کہا کس طرح یقین ہے.انھوں نے بتایا کہ ان کا اتنا وعدہ تھا جو 30-35 ہزار پاؤنڈ کے قریب بنتا تھا اور ہم نے جو وصولی اب تک کر لی ہے وہ 50 ہزار سے اوپر ہے.اس لئے جرمنی کے قریب آنے کا بھی کوئی سوال نہیں رہا.ہم تقریباً دگنے سے آگے بڑھ گئے ہیں لیکن جرمنی کی جب رپورٹ ملی تو جرمنی کی وصولی 52 ہزار 460 پاؤنڈ تھی.یعنی وعدے سے دو گنے سے بھی زیادہ وصولی ہو چکی تھی.مجھے اس وقت کسی نے کہا کہ صرف تین ہزار کا فرق رہ گیا ہے اگر آپ جرمنی کو بتا دیں تو جرمنی آسانی سے اس کو پورا کر کے پھر آگے بڑھ جائے گا.میں نے کہا دونوں میرے ہی گھوڑے ہیں ایک گھوڑے بیچارے نے زور مارا ہے ،کوشش کی ہے.آگے بڑھنے والا ہے میں کیوں خواہ مخواہ اس کو اس نیکی سے محروم کر دوں.بڑی تمنا کے ساتھ انھوں نے کام کیا ہے اور واقعی بڑی محنت کی ہے انور خاں صاحب ان کے سیکریٹری وقف جدید تھے انھوں نے سارے ملک میں دورے کئے یا خطوط لکھے اور کوششیں کیں.آگے جب اعداد و شمار آئیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ خدا کے فضل سے تعداد کے لحاظ سے بھی بہت اچھا کام کیا گیا ہے.ساری دنیا میں چند چھوٹے ممالک کو چھوڑ کر جن میں گنتی کی تعداد ہے غالباً امریکہ نے تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے.پاکستان کو ہم مقابلے میں شامل نہیں کرتے وہ تو خدا کے فضل سے بہر حال نمبر ایک ہی ہے اور باہر بھی جو قربانی کرنے والے ہیں ان میں بھی بھاری تعداد ماشاء اللہ ان لوگوں کی ہے جن کا پہلے پاکستان سے تعلق تھا تو اس لحاظ سے بھی پاکستانی ، پاکستانیوں کا غیر پاکستانی، پاکستانیوں کے ساتھ مقابلہ ہورہا ہے لیکن بہر حال دوسرے بھی خدا کے فضل سے بڑھ رہے ہیں.میری تو

Page 421

414 حضرت خلیفة المسیح الرابع اب کوشش یہ ہے اور میں بار بار دوسرے ممالک کو توجہ بھی دلا رہا ہوں کہ پاکستان یا ہندوستان والوں نے پیغام کا ابتدائی حق ادا کیا ہے.آپ کے ملک تک پیغام پہنچائے.نیکیاں رائج کیں ، کام کرنے کے اسلوب سکھائے اور اب کب تک آپ اسی طرح انکے پیچھے پیچھے چلیں گے.اب وقت آ رہا ہے کہ غیر پاکستانی احمدی بھی دنیا کے ہر ملک میں چیلنج کو قبول کریں اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کریں تو انشاء اللہ وہ وقت بھی آئیں گے اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ کرے ہماری اس نسل کی زندگی میں یہ وقت آئیں کہ بڑی بڑی عظیم الشان قو میں خدمت دین میں آگے بڑھیں اور پاکستان کے احمدیوں سے یا ہندوستان کے احمدیوں سے کسی ملک میں بھی بستے ہوں نیکیوں میں آگے بڑھنے کا مقابلہ کریں اور پھر بعض میدانوں میں آگے بڑھ کر دکھائیں.جرمنی کے بعد کینیڈا نمبر 4 ہے اور کینیڈا نے بھی اس دفعہ خدا کے فضل سے بہت محنت کی ہے.بہت اچھا کام ہے.اس کے کام کے چند نمونے میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا.برطانیہ کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ثابت قدم ہے جہاں تھا اس سے نیچے نہیں گرا اور جیسا کہ 18 ہزار پا ں سے نیچے نہیں گرا اور جیسا کہ 18 ہزار پاؤنڈ کا وعدہ تھا وہ انھوں نے پورا کر دیا ہے.ہندوستان میں اس دفعہ کچھ کمی آئی ہے اور اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ آخری دنوں یعنی نومبر دسمبر کے ہی دو مہینے خصوصیت کے ساتھ ہیں جن میں وصولی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے لیکن وہاں کے حالات بہت بگڑ گئے اور وقف جدید قادیان کے لئے دورے کا تو سوال نہیں تھا خط و کتابت کے ذریعے بھی جماعتوں تک پہنچنا مشکل ہو گیا اور بہت ہی بگڑے ہوئے حالات تھے.کچھ مزاج بگڑے.نقصانات میں جماعت کے بھی بعض نقصانات ہوئے ہیں لیکن خدا کے فضل سے نسبتاً بہت کم ہیں تو میں امید رکھتا ہوں کہ ہندوستان کی جماعتیں بھی جہاں یہ آواز پہنچ رہی ہو اپنے طور پر کوشش کریں.نیکی تو وہی ہوتی ہے جو اپنی ذات میں قائم ہو جائے اور جڑیں قائم کر لے اس پہلو سے ہمیں بڑ کا نمونہ اختیار کرنا چاہئے.درخت بعض دفعہ بڑے بڑے تناور ہو جاتے ہیں اور بہت دور دور تک پھیلتے ہیں لیکن وہ درخت جو ہمیشہ ایک ہی جڑ سے تعلق رکھ کر اس سے خوراک حاصل کرتے ہیں انکے پھیلاؤ کے دائرے محدود رہتے ہیں اور ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے لیکن بڑ کے درخت میں یہ خوبی ہے کہ جوں جوں پھیلتا ہے نئی شاخیں زمین کی طرف جھکاتا ہے جو زمین تک پہنچ کر جڑیں بن جاتی ہیں اور پھر ان جڑوں سے گویا اسی درخت کے نئے بچے پیدا ہوتے ہیں جو نئے درخت کے طور پر نہیں بلکہ پہلے درخت کے مددگار بن کر تعلق کاٹے بغیر اس کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے.ہندوستان میں میں نے بڑ کا ایک ایسا درخت دیکھا تھا جو غالباً ہزار سال سے بھی زائد کا تھا.کہا جاتا

Page 422

415 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ہے کہ حضرت بدھ کے زمانے کا ہے بہر حال جو بھی اس کا زمانہ تھا لیکن یہ میں نے دیکھا کہ اتنا پھیل چکا تھا کہ ہمارا بڑے سے بڑا جلسہ سالانہ یعنی اڑھائی لاکھ والا جو جلسہ سالانہ تھا وہ اس کے اندر سما سکتا تھا.پارکنگ Lots بھی بن سکتی تھیں.پھر بھی جگہ باقی رہ جاتی تھی.تو جماعت احمدیہ کو جو درخت کے مشابہ قرار دیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ”میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو“ تو میں سمجھتا ہوں کہ ان شاخوں میں بھی از سر نو درخت بننے کی صلاحیت رکھی گئی ہے.اس لئے جہاں جہاں بھی جماعتیں پھیلتیں ہیں وہ وہاں زمین میں اپنی جڑیں پیوست کریں اور خود نشو و نما حاصل کرنا شروع کریں محض پرانی جڑوں پر انحصار نہ کریں.اس پہلو سے ہر ملک کے باشندوں کو چاہئے کہ وہ پاکستانی یا ہندوستانی نسل کے لوگوں سے جن پر سب سے پہلے احمدیت کی ذمہ داری ڈالی گئی ان پر اپنا انحصار ان معنوں میں نہ رکھیں کہ وہی جڑیں بنی رہیں اور یہ شاخیں بن کر ان سے رس چوستے رہیں بلکہ خود اپنے اپنے ملک میں جڑیں قائم کریں لیکن بڑ کی شان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ اپنی جڑیں قائم کر کے اصل درخت سے الگ نہ ہوں بلکہ اس کا وجود بنے رہیں تب ان پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ توقع صادق ہوگی کہ اے میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو اگر انھوں نے جڑیں الگ کر لیں اور اپنے درخت بھی الگ کر لئے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود کی سرسبز شاخیں نہیں رہیں گی بلکہ کسی اور شیطانی وجود کی شاخیں بن جائیں گی یعنی سابق تعلق کٹ جائے گا اور ایک الگ شخصیت ابھر کر باہر نکلے گی جس کا اللہ کے قائم کردہ مامور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.پس اسی وجہ سے میں نے باقاعدہ سوچ کر انتخاب کر کے بڑ کے درخت کی مثال آپ کے سامنے رکھی ہے جڑیں ضرور بنائیں مگر اصل کے ساتھ ہمیشہ وابستہ اور پیوستہ رہیں اسی میں آپ کی امید بہار ہے اسی سے آپ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیش کے لئے نیکی کے کاموں میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے.جاپان کا نمبر ساتواں ہے اور ناروے کا آٹھواں اور ماریشس کا نواں اور سوئٹزر لینڈ کا دسواں یعنی چندہ کی ادائیگی کے لحاظ سے خدا کے فضل سے یہ پہلی دس جماعتیں ہیں جنھوں نے نمایاں طور پر وقف جدید کا چندہ ادا کیا ہے.جن جماعتوں نے وعدہ کے مقابل پر غیر معمولی طور پر زائد وصولی کی ہے ان میں امریکہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا سب سے اول ہے.ان کا وعدہ 29829 پاؤنڈ تھا اور وصولی 55801 ہوئی ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کو اپنے وعدے پر 87.06 فیصد زائد ادا کرنے کی توفیق ملی یہ ایک

Page 423

416 حضرت خلیفہ مسیح الرابع بہت بڑی بات ہے.مالی قربانی کا وعدہ کرنا عموماً اس کی نسبت آسان ہوا کرتا ہے کہ پھر ادا ئیگی بھی کی جائے اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب سال ختم ہونے کا وقت آتا ہے تو جماعتوں کو اور کارکنوں کو یہی خطرہ ہوتا ہے کہ ہم وعدہ پورا کرسکیں گے کہ نہیں.اس پہلو سے امریکہ دنیا کی ساری جماعتوں سے آگے بڑھا ہے.اور پاکستان اس میں شامل ہے پاکستان بھی اپنے وعدے کے مطابق اس طرح وصولی نہیں کر سکا جس طرح امریکہ نے کی ہے اور غیر معمولی طور پر زیادہ کی ہے.دوسرے نمبر پر کینیڈا کی باری ہے.ان کا وعدہ پندرہ ہزار تھا اور 24238 وصولی ہوئی گویا کہ 61.58 فیصد اضافہ وعدے کے مقابل پر وصولی میں ہوا.اور پھر جرمنی کی باری نمبر تین پر ہے 32653 وعدہ تھا یہ وہی وعدہ ہے جس پر نظر کر کے امیر صاحب امریکہ سمجھتے تھے کہ اب تو جرمنی کو ہم نے وہ مارا اور وہ مارا، بہت پیچھے رہ جائے گا لیکن ان کو بھی خدا نے اپنے فضل سے توفیق بخشی اور 32 ہزار کے وعدے کے مقابل پر 52460 کی وصولی ہوئی.اس طرح انھوں نے وعدے میں 60.65 فیصد اضافے کے ساتھ چندہ ادا کیا.جہاں تک چندہ دہندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کا تعلق ہے اس میں اول ، دوم، سوم چہارم وغیرہ آنے والے ممالک کے نام پڑھ کر میں سناتا ہوں مگر یہ یا درکھیں کہ جو بہت چھوٹے ممالک ہیں جن میں تعداد بہت تھوڑی ہے ان کا نام اگر چہ پہلے آجائے گا لیکن خدمت کا جو معیار ہے یہ اس سے ظاہر نہیں ہوگا خدمت کا معیار ان جماعتوں میں ظاہر ہو گا جن جماعتوں میں نسبتاً بہت بڑی تعداد ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اضافے کئے گئے ہیں یا کم از کم سینکڑوں کی تعداد میں اضافے کئے گئے ہیں.پس چھوٹی جماعت ہونے کے لحاظ سے ان کو یہ فائدہ تو پہنچ گیا ہے کہ تھوڑی سی کوشش سے وہ اول دوم سوم میں شمار ہونے لگے ہیں لیکن فی الحقیقت کام کی نوعیت اور بوجھ اٹھا کر چلنے کے اعتبار سے بعض بعد میں آنے والے خدمت کے میدان میں ان سے آگے سمجھے جانے چاہئیں.بہر حال اس لحاظ سے سہرا سوئٹزر لینڈ کے سر ہے.گزشتہ سال 26 تعداد تھی.اس سال 83 ہوگئی ہے جبکہ 219 فیصد اضافہ ہے اس کے بعد تھیم کی باری آتی ہے تعداد 17 سے بڑھ کر 54 ہوگئی ہے اور 217 فیصد اضافہ.پھر گی آنا (GUYANA) کی باری ہے 13 تعداد تھی جو 28 ہو گئی اب دیکھ لیں کہ اعداد و شمار بعض دفعہ سچ بولنے کے باوجود جھوٹ بول جاتے ہیں یعنی بظاہر ایک سچی بات ہے لیکن جو تا ثر ہے وہ جھوٹا ہے.گی آنا میں جماعت احمدیہ کی تعداد خدا کے فضل سے کافی ہے اور ان کے لئے 13 ہونا بھی قابل شرم ہے اور 28 ہونا بھی قابلِ شرم ہے.اسلئے محض اعداد وشمار کافی نہیں ہوا کرتے.اعداد و شمار کے ساتھ اس کے ماحول کی کچھ باتیں ہیں.ان کو دیکھنے کے بعد اعداد و شمر کا پیغام صحیح پہنچا کرتا ہے ورنہ Juggling with figures محاورہ ہے.یہ کر کے حکومتیں بعض

Page 424

417 حضرت خلیفہ امسیح الرابع دفعہ اپنے بجٹ کے بالکل مختلف حالات پیش کر دیتی ہیں حالانکہ اعداد و شمار درست ہوتے ہیں اپنی مرضی کی بات ہے کہ کس قسم کے اعداد وشمار کو کس طرح پیش کیا جائے.اب دیکھیں نا! جب ہم بھی مختلف زاویوں سے پہلو بدل بدل کر اعداد وشمار آپ کے سامنے رکھتے ہیں جیسا کہ گوئٹے مالا کی تعداد 7 تھی 13 ہوگئی لیکن یہاں واقعی گوئٹے مالا نسبتاً زیادہ قابل داد ہے کیونکہ گی آنا کے مقابل پر گوئٹے مالا کے احمدیوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی ہے کیونکہ ابھی نیا مشن قائم ہوا ہے اس پہلو سے 7 کا 13 ہونا اللہ کے فضل کے ساتھ یقیناًا معنی رکھتا ہے اور انشاءاللہ تعالیٰ اس میں اور بھی اضافے ہونگے.اب ہم امریکہ اور جرمنی کی طرف آتے ہیں.امریکہ کے چندہ دہندگان کی تعداد گزشتہ سال 1623 تھی امسال یہ بڑھ کر خدا کے فضل سے 2548 ہوئی ہے.1623 کو 2548 میں بدلنا یقیناً محنت طلب کام ہے کافی وسیع پیمانے پر لمبے عرصہ تک محنت کی گئی ہوگی.جرمنی میں 3570 تعداد تھی جو بڑھ کر 5560 ہوئی ہے تقریباً دو ہزار نئے چندہ دہندگان شامل کئے گئے ہیں یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے.بہت عظیم اور مسلسل محنت کی مظہر کا میابی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ آگے سے آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرما تار ہے.کینیڈا نے بھی تعداد بڑھانے میں غیر معمولی ترقی کی ہے.ان کی رپورٹ جب میں آپ کے سامنے رکھوں گا تو اس میں اس کا ذکر ملتا ہے.جماعت احمد یہ عالمگیر کی پہلی دس جماعتیں جو فی کس چندے کے لحاظ سے سب سے آگے ہیں اب میں انکی فہرست آپکے سامنے پیش کرتا ہوں.جن جماعتوں کو بہت اعلیٰ کارکردگی دکھانے کی توفیق ملی ہے ان کے نام صرف فخریہ طور پر نہیں پڑھے جاتے بلکہ ایک تو مسابقت کی روح آگے بڑھانے کے لئے پڑھے جاتے ہیں تا کہ جن جماعتوں میں یہ روح کچھ مدھم ہے وہ جاگ اٹھے، کچھ چمک اٹھے، نئے ولولے پیدا ہوں.دوسرا بڑا مقصد ان جماعتوں کے لئے دعا کی تحریک کرنا ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمد یہ کی ہر بات کی تان بالآخر دعا پر ٹوٹتی ہے.پس جب ان جماعتوں کے لئے آپ دعا کریں تو ان کمزور جماعتوں کے لئے بھی دعا کریں جن کو ابھی تک قربانی کے میدان میں آگے آنے کی توفیق نہیں ملی تا کہ ہمارے مقابلے صرف دو یا تین گھوڑوں میں نہ رہیں بلکہ چالیس پچاس ساٹھ گھوڑے گردن کے ساتھ گردن ملا کر دوڑ رہے ہوں اور کچھ پتہ نہ ہو کہ کون آگے نکلے گا.یہ وہ جذبہ ہے جو قرآنِ کریم کی اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ لِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کہ خدا تعالیٰ نے ہر قوم کے لئے ایک نصب العین مقرر فرما دیا ہے اور اسے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! تمہارے لئے نصب العین یہ ہے کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے مسابقت کرو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو مسلسل دوڑتے ہوئے.

Page 425

418 علوس حضرت خلیفہ امسیح الرابع نیکیوں کے میدان میں دوسرے بھائیوں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرو.جس ملک میں ہم رہتے ہیں یہاں لوگ گھوڑ دوڑ کے بہت شوقین ہوتے ہیں ان کے ذہن میں یہ بات خوب اچھی طرح جاگزین ہو چکی ہے کہ جب ایک سے زیادہ صلاحیت والے گھوڑے اکٹھا دوڑتے ہیں تو کیسا خوبصورت منظر سامنے آتا ہے اور کس طرح جوئے باز جو ہیں وہ اپنے آپ کو بے بس اور بے طاقت محسوس کرتے ہیں نہیں کہہ سکتے کہ کون سا گھوڑا آگے نکل آئے گا بعض دفعہ پانچ پانچ ، چھ چھ ، سات سات الله گھوڑوں میں یہ مقابلہ ہورہا ہوتا ہے.لیکن حضرت محمد مصطفی حملہ کے غلاموں کے گھوڑے اور شان کے گھوڑے ہیں یہ نیکیوں کے میدان میں دوڑنے والے ہیں.یہاں شیطانی شرطیں نہیں پڑھی جاتیں لیکن نیک توقعات رکھی جاتی ہیں اور دعاؤں کے مقابلے ساتھ ساتھ ہو رہے ہوتے ہیں.پس یہ جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس کے مضمون کو دعاؤں کے ساتھ باندھنا ضروری ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر ساری جماعت یہ دعا کرے کہ اللہ کرے کہ نیکیوں کے میدان میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے گھوڑے کثرت کے ساتھ اس تیزی سے ایک دوسرے کے شریک ہو جائیں کہ آخر وقت تک دل دھڑکتے رہیں پتہ نہ چلے کہ کون آگے بڑھ جائے گا.پھر خدا کی عطا کردہ توفیق سے کچھ گھوڑے باہر نکلیں اور آگے بڑھیں تو ایک بہت ہی عظیم روحانی لطف پیدا کرنے والا منظر ہوگا جو اپنی شان میں نرالا ہوگا.ایسی کوئی اور چیز دنیا میں دکھائی نہیں دے گی.یہ منظر یکتا ہوگا اور یہ منظر پیدا ہورہا ہے اللہ کے فضل سے جماعتیں اس طرف آگے قدم بڑھا رہی ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اگر جماعت یہ دعائیں کرے کہ اے خدا! کثرت سے ساری جماعتیں نیکی کے میدان میں قدم سے قدم ملا کر دوڑیں اور خوب آگے نکلنے کی کوشش کریں تو اللہ کے فضل سے دعاؤں کے ذریعہ ساری دنیا کی دوسری قو میں ہم سے بہت پیچھے رہ جائیں گی.ساری جماعت اگر نیکیوں میں آگے قدم بڑھانے لگے تو انقلاب بہت تیزی سے برپا ہوسکتا ہے.دعوت الی اللہ کے سلسلے میں میں بار ہا آپ کو بتا چکا ہوں کہ جماعت کا سواں حصہ بھی نہیں ہے جو فی الحقیقت دعاؤں اور حکمت کے ساتھ ارادے باندھ کر ، اپنے کام پر نظر رکھتے ہوئے ، اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھتے ہوئے ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں.اگر نانوے باقی حصے بھی ساتھ شامل ہو جائیں تو رفتار سو گنا ہو جائے گی ، کیفیت ہی بدل جائے گی ، جماعت چند سالوں میں دیکھتے دیکھتے کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی.ابھی بھی جو ہمارا تعاقب کر رہے ہیں وہ ہماری گرد کو بھی نہیں پاسکتے پھر تو ان کو گرد بھی دکھائی نہیں دے گی.اندھوں کی طرح تلاش کریں گے کہ گئے کہاں.ابھی یہ بجلی کا کوند یہاں سے گذرا ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ گیا تو تیز رفتاری میں اس طرح آپ

Page 426

419 حضرت خلیفہ مسیح الرابع آگے بڑھ سکتے ہیں آپ کو خدا تعالیٰ نے صلاحیت بخشی ہے.نیکی کے میدانوں میں آگے بڑھنے کے لئے آپ کو اس زمانے میں بنایا گیا ہے.اس وجہ سے آپ کی تعمیر کی گئی ہے کہ آپ قرآن کریم میں پیش کردہ نقشوں کو اپنی ذات میں پورا کر کے دکھائیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ صرف چندوں کی بات میں نہیں ہر نیکی میں انشاء اللہ تعالیٰ جماعت انفرادی طور پر بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی اور جماعتی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی.فی کس قربانی میں جاپان حسب سابق نمبر ایک ہے.یہ وہ میدان ہے جس میں وہ ماشاء اللہ کسی کو آگے نہیں نکلنے دیتے.اس وقت وہ میری بات سن رہے ہونگے اور ضرور فنس رہے ہونگے کہ الحمد للہ پھر بھی ہمارا نام آیا ہے.اللہ کرے کہ آپ کا نام آگے رہے مگر دوسروں کو بھی میں کہتا ہوں کہ جاپان کو ہرانے کی کوشش تو کریں.اس کے ہارنے سے مجھے خوشی نہیں ہوگی ، آپ کے جیتنے سے خوشی ہوگی ، خوشی تو پھر بھی خوشی رہے گی.اس پہلو سے گوئٹے مالا دیکھیں ماشاء اللہ نمبر دو آ گیا ہے.جاپان میں وقف جدید کافی کس چندہ 36.20 پاؤنڈ ہے اور گوئٹے مالا میں 34.20 پاؤنڈ ہے.یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو انھوں نے حاصل کیا ہے کیونکہ گوئٹے مالا نسبتا ایک بہت غریب ملک ہے اور وہاں فی کس احمدی کی آمد دنیا کی دوسری جماعتوں سے بہت کم ہے لیکن اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ان کو اس میدان میں بہت آگے بڑھنے کی تو فیق عطا ہوئی.حکیم نمبر تین ہے.حکیم بھی ان جماعتوں میں سے ہے جو خدا کے فضل سے تیزی سے ترقی کر رہی ہیں.جماعت پنجم آگے بڑھ رہی ہے.تبلیغ میں بھی بیدار ہو رہی ہے چندوں میں بھی آگے نکل رہی ہے.کیپٹن شمیم خالد صاحب جو پہلے نیوی میں ہوا کرتے تھے، وقف کر کے بڑے ولولے اور بڑی قربانی کی روح کے ساتھ انھوں نے اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا.کافی لمبا عرصہ فرانسیسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اور مرکزی دفتروں میں تجربے حاصل کرنے کے بعداب تحکیم میں امیر جماعت ہیں اور مبلغ انچارج بھی.تو جب سے یہ تشریف لائے ہیں خدا کے فضل سے جماعت بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے.ان کی فی کس اوسط 34.88 پاؤنڈ ہے.اور تحکیم کے احمدیوں کے حالات میں جانتا ہوں معمولی آمد کے لوگ ہیں کوئی غیر معمولی کمائی والے میں نے وہاں نہیں دیکھے اس لحاظ سے خدا کے فضل سے بہت اعلیٰ پائے کی قربانی ہے.سوئٹزر لینڈ 24 پاؤنڈ فی کس کے حساب سے نمبر چار بنتا ہے.سوئٹزرلینڈ کے سلسلہ میں ایک تصحیح بھی ضروری ہے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے وقت فی کس نمایاں قربانی کرنے والی جماعتوں میں سوئٹزر لینڈ کا نام شامل ہونے سے رہ گیا تھا.انکا معیار قربانی دراصل 121 پاؤنڈ فی چندہ دہندہ تھا جبکہ

Page 427

420 حضرت خلیفہ مسیح الرابع غلطی سے 12 پاؤنڈ لکھا گیا یعنی 121 میں سے آخری ایک لکھنے سے رہ گیا تو میں نے جب 12 پاؤنڈ اعلان کیا تو وہاں سے بہت دردناک احتجاج کا خط آیا کہ ہم تو چندے اکٹھے کرتے کرتے رہ گئے اور اس طرح لوگوں نے قربانیاں دیں اور آپ نے 121 کو 12 بنا دیا تو اب میں بڑی معذرت کے ساتھ اور شرمندگی کے ساتھ اس غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ان کا چندہ تحریک جدید 121 فی کس تھا لیکن جاپان کو پھر بھی پیچھے نہیں چھوڑ سکے وہ پھر بھی آگے ہی رہتا ہے الحمد للہ بہر حال یہ اب بھی چوتھے نمبر پر ہیں امریکہ 21.89 فی کس تک پہنچ گیا ہے ساؤتھ افریقہ 18.90 اور کوریا 13 پاؤنڈ اور ڈنمارک 11.03 پاؤنڈ اور فرانس 10.47 پاؤنڈ اور جرمنی 9.43 پاؤنڈ.جرمنی بظاہر بہت پیچھے دکھائی دے رہا ہے لیکن جرمنی میں احمدی کی فی کس آمد اتنی زیادہ نہیں ہے جتنا ان کے چندوں سے معلوم ہوتا ہے.بچوں وغیرہ کی بہت بڑی تعداد ہے جو بغیر کسی آمد کے ہیں اور جرمنی میں باقی سب تحریکوں میں بھی چونکہ بہت محنت کے ساتھ ہر احمدی کو شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس لئے جرمنی کو اتنا پیچھے نہ سمجھیں.یہ اعداد و شمار کے قصے ہیں یہ ان کے کرشمے ہیں.بعض اچھے کام کرنے والوں کو پیچھے دکھاتے ہیں بعض کمزور کام کرنے والوں کو آگے دکھا دیتے ہیں اصل دعا تو یہ کرنی چاہئے کہ اعداد و شمار کی زبان میں نہیں بلکہ خدا کے ہاں ہم آگے لکھے جائیں اللہ کی نظر میں ہمارا مقام بلند ہو.اگر یہ نصیب ہو جائے تو اعداد و شمار کی زبان کچھ بھی کہتی رہے اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی مگر انسانی کمزوریاں ہیں، مجبوریاں ہیں.بات سمجھانے کے لئے اعداد و شمار کی زبان بھی ضرور استعمال کرنی پڑتی ہے.اسکے فائدے بھی پہنچتے ہیں.بیرون پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش کی جو مجموعی شکل ہے وہ یہ بنتی ہے ( یہ وہ تین ملک ہیں جہاں آغا ز ہی سے یہ تحریک جاری تھی) نئے دور میں جو تحریک ان کے علاوہ باقی ممالک میں جاری ہوئی ہے انکی مجموعی وصولی 192411 پاؤنڈ بنتی ہے اور تعداد مجاہدین 22682 ہے سالِ گذشتہ سے موازنہ کے لحاظ سے آپ دیکھیں کہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش کے علاوہ جماعتوں نے واقعہ بہت ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ فرمایا ہے.1991ء میں وعدہ جات 96598 تھے ، وصولی 105963 تھی.1992ء میں وعدہ جات 131674 تھے جبکہ وصولی 192411 ہے.گویا کہ وعدوں کے مقابل پر وصولی میں بھی نہ صرف اضافہ ہے بلکہ اضافے کی رفتار میں بھی اضافہ ہے یعنی پچھلے سال 38.38 فیصد اضافہ تھا.امسال 81.58 فیصد اضافہ ہے تو اللہ کرے کہ یہ رفتار اسی طرح آگے بڑھتی رہے تو تعداد مجاہدین کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے نمایاں فرق ہے 18000 کے مقابل پر 22682 تعداد بنی ہے.جو 4499 کے

Page 428

421 حضرت خلیفة المسیح الرابع اضافے کی مظہر ہے.گذشتہ سال 1990 ء کے آخر پر جب یہ رپورٹ مجھے پیش کی گئی تو میں نے مال والوں سے اس توقع کا اظہار کیا یا شاید خطبہ میں کہا ہوگا کہ بیرونِ پاکستان عنقریب چندہ وقف جدید میں انشاء اللہ ایک کروڑ تک پہنچ سکتا ہے.اب تک جو وصولیاں ہوئی ہیں اس کو اگر ہم پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو تین ممالک کو چھوڑ کر باقی ممالک کی کل وصولی 76لاکھ 96 ہزار روپے ہوگئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عنقریب اگلے سال یا اس سے اگلے سال انشاء اللہ یہ کروڑ سے اوپر نکل جائے گی.افریقہ کے ممالک میں بہت ہی زیادہ غربت ہے اور جب میں ان کے اعداد و شمار پڑھ کر سناتا ہوں تو ان کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں، رحم کی نظر سے بھی دیکھیں اور دعا کی نظر سے دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ انکی توفیق بڑھائے ورنہ مجھے علم ہے کہ افریقہ کے ممالک میں خدا کے فضل سے اخلاص کے لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہے لیکن صرف ایک وجہ نہیں ہے کہ وہ وقف جدید کی تحریک میں اتنا پیچھے رہ گئے ہیں ایک اور وجہ یہ ہے کہ وقف جدید کے سیکر یٹریان کا قصور معلوم ہوتا ہے ورنہ بعض دوسری مالی تحریکات میں وہ تصویر جو وقف جدید نے پیش کی ہے اس سے بہت بہتر تصویر ابھرتی ہے تو یہ اعدادو شمار بتارہے ہیں کہ انتظامیہ کا قصور ہے وقفِ جدید کو اہمیت نہیں دی گئی حالانکہ وقف جدید کا نظام وہاں واقعہ جاری ہو چکا ہے.دیہاتی معلمین جگہ جگہ کام کر رہے ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ ہمارے مرکزی مبلغین جو ہیں وہ دیہاتی معلمین کے محتاج رہتے ہیں کیونکہ افریقہ کے دیہاتی معلمین میں تقریر کا ایک ایسا ملکہ ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ ان کا کوئی روایتی فن ہے جو ان کے خون میں چلا آ رہا ہے اس لئے معمولی تعلیم والے بھی جب کسی صاحب علم کا ساتھ دیتے ہیں تو اس کی ہر بات کو ایسی عمدگی سے پیش کرتے ہیں کہ ایک تموج سننے والوں میں پیدا ہو جاتا ہے.بعض دفعہ یوں لگتا ہے جیسے آواز کی لہریں آپ دیکھنے لگ گئے ہیں.ان کے اندر عجیب قسم کی سنسناہٹ سی دوڑ نے لگتی ہے.میں جب دورے پر وہاں گیا تھا تو بڑے بڑے عالم میری تقریر کے ترجمے ایسے نہیں کرتے تھے جتنا یہ دیہاتی معلم کرتے تھے.بہت غریبانہ حالت میں یہ بیچارے کام کر رہے ہیں.اگر افریقہ کے ممالک وقف جدید کی طرف توجہ کریں تو یہ سارا رو پید انھیں معلمین کی فلاح و بہبود پر استعمال ہوگا اور اب ہم باہر کی جگہوں سے جورو پسی لا کر ان پر خرچ کرتے ہیں پھر انشاء اللہ تعالیٰ مقامی طور پر افریقہ خود اس کام کو سنبھال لے گا.بہر حال ماریشس صف اول پر ہے وہ ظاہر بات ہے کیونکہ ماریشس کا معیار زندگی باقی افریقہ سے

Page 429

422 حضرت خلیفتہ المسح الرابع بہت اونچا ہے.نائیجریا کی وصولی صرف 536 پاؤنڈ ہے اور یہ ماننے والی بات نظر نہیں آتی جتنا مرضی غربت کو آپ اسکا ذمہ دار قرار دیں اوّل تو نائیجیریا اتنا غریب ہے ہی نہیں جتنا باقی افریقہ کے دوسرے ممالک ہو چکے ہیں اور دوسرے وہاں کی جماعت کو میں جانتا ہوں بڑے بڑے مخلص قربانی کرنے والے ایسے بھی ہیں جنھوں نے بڑی بڑی جائیدادیں جماعت کے سامنے پیش کی ہیں کافی صاحب حیثیت لوگ ہیں.تو یہ قصور جو بھی ہے یا امارت کا قصور ہے یا سیکریٹری وقف جدید کا قصور ہے اور الگ الگ بھی نہیں کہنا چاہئے ، دونوں کامل کر ہے.بہر حال امیر بھی ذمہ دار ہے اور سیکریٹری بھی ذمہ دار ہے.بینن صرف 478 پاؤنڈ ہے.ساؤتھ افریقہ صرف 416 پاؤنڈ ہے، گیمبیا صرف 370 پاؤنڈ ہے مگر گیمبیا کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں واقعہ بہت غربت ہے اور جوروزمرہ کے چندے ہیں ان میں وہ اللہ کے فضل سے ذمہ داری سے ادا ئیگی کرتے ہیں اور جتنی مجھے توقع تھی اس سے زیادہ ذمہ داری سے وہ ماہانہ چندےادا کرنے والے ہیں اور یہ رجحان اب خدا کے فضل سے بڑھتا چلا جا رہا ہے.سیرالیون 317 پاؤنڈ ہے.کینیا 248 ہے یہ تو کسی طرح بھی قابلِ فہم نہیں ہے.کینیا میں ایک بڑی تعداد ایسے متمول پاکستانی دوستوں کی بھی ہے اور درمیانی طبقے کی بھی ہے کہ اگر وہی وقف جدید میں مسابقت کی روح سے حصہ لیں تو سینکڑوں کی بجائے ہزاروں تک تو آسانی سے پہنچ سکتے ہیں اور اب تو کینیا میں تیزی سے افریقن لوگوں میں بھی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ پھیل رہی ہے.اس سے پہلے یہ کمزوری تھی کہ افریقن قوموں میں جماعت کا نفوذ کم تھا لیکن اب یہ کمزوری ختم ہو چکی ہے اور بڑی تیزی سے افریقن قوموں میں نفوذ ہو رہا ہے اور وہ بھی خدا کے فضل سے چندے کے معاملے میں پیچھے رہنے والے لوگ نہیں ہیں، غریب ہیں مگر دل کے امیر ہیں.پس یہ جو تصویر ہے یہ بھی جماعت کے انتظام کی کمزوری کی تصویر ہے نہ کہ ان لوگوں کی اقتصادی یا دینی حالت کی تصویر تنزانیہ بھی اسی پہلو سے قابل توجہ ہے.اس کی وصولی صرف 231 ہے آئیوری کوسٹ 174 اور یوگنڈا 83 پاؤنڈ ، حالانکہ یوگنڈا میں میں خود جانتا ہوں کہ بعض یوگنڈن احمدی ایسے ہیں کہ وہ اکیلے بھی باقی چندوں کے علاوہ سینکڑوں پاؤنڈ دے سکتے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جنھوں نے تحریک کرنی تھی جنھوں نے اہمیت سمجھانی تھی وہ افسوس ہے کہ اس معاملے میں ناکام رہے ہیں.مشرق بعید کے ممالک میں کل ادائیگی کے لحاظ سے انڈونیشیا نمبر 1 ہے ، جاپان نمبر 2 ، آسٹریلیا نمبر 3، سنگا پور نمبر 4 نفی نمبر 5 ، اور پہلی تین پوزیشنوں میں فی کس قربانی کے لحاظ سے جاپان کوریا اور سنگا پور آتے ہیں.پاکستان میں کراچی نمبر 1 ہے ، ربوہ نمبر 2 ، لاہور نمبر 3 ، فیصل آباد نمبر 4 ، سیالکوٹ نمبر 5 ،

Page 430

423 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع راولپنڈی 6، گجرات نمبر 7، سرگودھا نمبر 8، اسلام آباد نمبر 9 اور گوجرانوالہ نمبر 10 پر ہے.اب میں خلاصہ رپورٹ مکرم امیر صاحب USA پڑھ کر سناتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کے سلسلہ میں جو خصوصی مساعی کی گئی ہیں ان میں 300 فیملیز کو دسمبر 1991ء کے خطبہ کی کیسیٹس بھجوائی گئیں اس تاکید کے ساتھ کے سارے مل کر سنیں اور پھر بتائیں کہ کیا ارادے ہیں.بہت عمدہ تجویز تھی اور یقیناً بڑی محنت سے یہ کام کیا گیا ہے وقف جدید کے سلسلہ میں 6 سال کے خطبات جمعہ کے متن تمام مربیان کو بھجوائے گئے تا کہ وہ اس کی روشنی میں احباب کو توجہ دلائیں.14 جماعتوں نے ہفتہ وقف جدید منایا.مکرم انور محمود خاں صاحب جو نیشنل سیکریٹری ہیں انھوں نے ایسٹ اور ویسٹ کوسٹ کی جماعتوں کا دورہ کر کے احباب کو تقاریر کے ذریعے خصوصی توجہ دلائی.20 افراد جماعت نے کم از کم ایک ہزار ڈالر پیش کرنے کا وعدہ کیا اور ادا کر دئے اور لجنہ نے بھی غیر معمولی تعاون کیا اور بارہ سال سے کم عمر کے 561 بچوں کو لجنہ کی کوششوں سے داخل کیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے وصولی 87051 ڈالر ہوئی جو 1991ء کے وصولی کے مقابل پر 216 فیصد اضافے کے ساتھ ہوئی ہے.اب آخر پر کینیڈا کی رپورٹ کا خلاصہ سنا دیتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا نے وقف جدید میں مجموعی وصولی 25 ہزار 666 کے مقابل پر امسال 48 ہزار 234 ڈالر کی وصولی پیش کی ہے.گزشتہ سال 2500 افراد شامل تھے امسال 3480 شامل ہوئے ہیں اور بعض جماعتوں کے 100 فیصد افراد اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں اور یہ بہت بڑی چیز ہے ، 100 فیصد افراد کے شامل ہونے کے لحاظ سے میرا خیال ہے دنیا بھر میں کینیڈا کے مقابل پر اور کوئی ملک نہیں ہے.100 فیصد افراد شامل کرنے والی جماعتوں میں کیلگری، وینکوور، رجائنہ ،لنڈن ( اونٹاریو ) ، مارکھم، سکار برو، مالٹن ،ایڈمنٹن، سکاٹون سنٹرل ٹورانٹو ہمس سا گا اور وان کی جماعتیں شامل ہیں.ہمارے مبارک احمد صاحب نذیر جو نذیر احمد علی صاحب کے صاحبزادے ہیں اور وقف کیا ہوا ہے.باقاعدہ جامعہ احمدیہ میں تعلیم تو نہیں حاصل کی لیکن دینی علم چونکہ کافی تھا اس لئے ان کو جامعہ کی تعلیم کے بغیر ہی میدان میں بھیج دیا گیا انھوں نے بہت محنت کی ہے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بعض جگہ منفی 30 درجے ٹمپریچر تھا اور یہ اپنی ایک ٹیم بنا کر ایک ایک گھر گھر پہنچے اور دروازے کھٹکھٹائے اور ان کو بیدار کیا اور وصولیاں لے کر آئے اس وجہ سے اس سارے علاقہ میں خدا کے فضل سے اکثر جماعتیں اب یہ کہہ سکتی ہیں کہ ہمارے 100 فیصد افراد وقف جدید میں شامل ہو گئے ہیں.تو یہ ایک بہت ہی بڑی کامیابی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی.اب چونکہ وقت ختم ہو چکا ہے اس لئے باقی باتیں میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ

Page 431

جمعہ میں پیش کروں گا.424 حضرت خلیفہ المسح الرابع یا درکھیں کل صبح یہاں کے وقت کے مطابق 10 بجے قادیان کے جلسہ میں ہماری شمولیت ہوگی اور پرسوں ناغہ ہے.پھر آخری دن انشاء اللہ پیر کے روز 10 بجے قادیان کے جلسے میں شمولیت ہو گی.ابھی اطلاع ملی ہے کہ اس وقت وہاں جلسہ کے 5 ہزار شر کا ء ہمارے ساتھ اللہ کے فضل کے ساتھ جمعہ میں شامل ہیں اور کل انشاء اللہ یہ تعداد اور بھی بڑھ جائے گی اب میں اجازت چاہتا ہوں پھر انشاء اللہ کل دوبارہ حاضر ہوں گا.پرسوں ناغہ، پیر کو پھر انشاء اللہ اسی وقت ، ایک گھنٹے کے لئے اختتامی خطاب ہوگا اور آئندہ جمعہ یکم کو آئے گا یعنی اگلے سال کا آغاز جمعہ کے روز ہورہا ہو گا تو ساری دنیا کو نئے سال کی مبارک بادانشاء اللہ اگلے جمعہ میں پیش کی جائے گی.السلام علیکم

Page 432

425 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1993 ء بیت الفضل لندن وو گزشتہ خطبہ میں وقف جدید کا جو اعلان ہوا تھا اس میں دو باتیں تو غلطی سے ایسی بیان ہوئیں جن کی تصحیح ضروری ہے اور ایک پہلو وقف جدید اطفال نو کا ذکر رہ گیا تھا وہ میں اب کروں گا.سب سے پہلے تو ایک عددی غلطی ہے یعنی جب میں نے پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی جماعتوں کے علاوہ باقی دنیا میں وقف جدید کے وعدوں اور وصولی کے لحاظ سے 1991ء اور 1992ء کا موازنہ کیا تو غلطی سے یہ کہہ دیا کہ 66 فیصد اضافہ ہوا ہے حالانکہ جو فقرہ نیچے لکھا ہوا تھا وہ 66 ہزار کا تھا اور باقی جگہ فیصد چل رہی تھی اس لئے میرے منہ سے بھی 66 ہزار کی بجائے 66 فیصد نکل گیا یہ درستی ہو جانی چاہئے.34.64 فیصد اضافہ ہوا تھا.دوسرے میں نے حضرت شیخ محمد احمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ان کو صحابی بیان کر دیا تھا.آپکی پیدائش در اصل 14 نومبر 1896 ء کی ہے جبکہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب جو ان کے بزرگ صحابی والد تھے وہ اس سے پہلے احمدی ہو چکے تھے اور یہ پیدائشی احمدی تھے تو مجھے چونکہ یاد تھا کہ یہ پچھلی صدی میں پیدا ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا ایک بڑا حصہ انھوں نے پایا ہے اس لئے میں نے صحابی کہہ دیا.اس سلسلہ میں ایک خط کا اقتباس میرے سامنے ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شیخ محمد احمد صاحب کی پیدائش پر ان کے والد کے نام مبارکباد کا خط لکھا.وہ خط یہ ہے: د محبی اخویم منشی ظفر احمد صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته لڑکا نوزاد مبارک ہو اس کا نام محمد احمد رکھ دیں.خدا تعالی با عمر کرے“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے تو اس زمانے میں کوئی سیکرٹری تو ہوا نہیں کرتے تھے اور کتا بیں بھی لکھنا، بڑے بڑے مضامین لکھنا.پھر بے شمار اور دوسرے کام تھے کہ یقین نہیں آتا کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اتنے کام ممکن ہیں.پھر اپنے صحابہ کی دلداری کے لئے اپنے ہاتھ سے آپ انھیں خط بھی لکھا کرتے تھے مگر تحریر مختصر اور بہت سے مضامین کو چند الفاظ میں سمیٹتے ہوئے.اس خط میں یہ "با عمر کرنے والی جو بات ہے یہ ہر خط میں آپ نہیں لکھا کرتے تھے کسی خط میں

Page 433

426 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کوئی دعا ہوتی تھی کسی خط میں کوئی دعا ہوتی تھی.اور یہ پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ جماعت کو بھی اپنے ان جذبات میں شریک کروں.حضرت شیخ محمد احمد صاحب کی عمر غیر معمولی حالات میں بہت سخت بیماریوں کا شکار رہنے کے باوجود خدا کے فضل سے لمبی سے بھی ہوتی چلی گئی ہے اور دعا کا ایک چھوٹا سا فقرہ یہ تھا کہ 66 ” خدا تعالی با عمر کرے “ تو با عمر تو ہو گئے اب سوسال پورے ہونے میں چارسال رہتے ہیں.اللہ کرے کہ یہ اگلی صدی بھی دیکھیں عمر کی اگلی صدی بھی اور دوسری بھی ، یہ تو ہماری ایک خواہش اور تمنا ہے لیکن یہ دعا ضرور ساتھ کرنی چاہئے کہ صحت و عافیت کی شرط کے ساتھ ، باہوش با مرا درہتے ہوئے.ایسی حالت میں لمبی زندگی کی دعا کرنا مناسب نہیں کہ انسان صاحب فراش ہو چکا ہو دوسروں پر بوجھ بن چکا ہو اور حضرت شیخ صاحب کے متعلق تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بڑے خود دار انسان ہیں اور ادنی سا بوجھ بھی کسی پر ڈالنا پسند نہیں کرتے اس لئے ہماری تمنا اور خواہش ہے البتہ اللہ کے ہاں جو بھی منظور ہو اسی پر ہم راضی ہیں.پس ان کو جو صحابی کہا گیا تو اس لئے کہ خیال تھا کہ اس زمانے میں ضرور کسی وقت گئے ہوں گے لیکن یہ معلوم کر کے تعجب ہوا ہے کہ کبھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں خود حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا اور اس زمانے میں جو بعض عشاق صحابہ تھے ان کی عشق کی عجلت نے بھی ایسا کیا ہے.بعض دفعہ انسان ایک خیال میں ایسا مگن ہو جاتا ہے کہ اپنے گردو پیش، اپنے ماحول اپنے بچوں تک کی فکر نہیں رہتی تو وہ اس شدت کے جذبے سے قادیان کی طرف کھینچے جایا کرتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی ہوش نہیں تھی کہ میں اپنے بچے کو بھی لے جاؤں اور اس کو بھی صحابی بنالوں مگر میں نے جو صحابی کہا ہے تو صرف عمر کی وجہ سے نہیں.ان کی ادائیں بھی صحابہ والی ہیں.پس میری غلطی تو اپنی جگہ لیکن ان سے بھی تو پوچھئے کہ وہ کیوں اتنے پیارے ہوئے.جنہوں نے اپنی ساری زندگی صحابہ کی طرح صرف کی ہواُن کو اگر غلطی سے صحابہ میں شمار کر لیا جائے تو انسانی نقطہ نگاہ سے تو غلطی ہے مگر خدا تو بغیر غلطی کے شامل کر سکتا ہے.پس آخری دعا جو میں کرتا ہوں اور آپ سے بھی اس کی گزارش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب کے لئے یہ دعا کریں کہ میرے منہ سے جو غلطی سے نکلا تھا خدا کی تقدیر میں واقعہ لکھا جائے اور اللہ کے رجسٹر میں ان کا شمار صحابہ میں ہو.آب مختصر وقف جدید کے اطفال کے دفتر کا ذکر کرتا ہوں.1966ء میں دفتر اطفال کا اجرا ہوا تھا پہلے سال 3 ہزار 365 روپے وصولی تھی اور 1991ء میں خدا کے فضل سے یہ وصولی بڑھ کر 6 لاکھ 22

Page 434

427 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہزار 6 59 ہو چکی ہے لیکن یہ وصولی دراصل صحیح حقیقت پیش نہیں کر رہی کیونکہ بیرونی دنیا میں اکثر ممالک میں دفتر اطفال کا الگ طور پر ریکارڈ نہیں رکھا جاتا.اس لئے آئندہ سے اگر تمام دنیا کی جماعتیں دفتر اطفال کا حساب الگ رکھنا شروع کر دیں تو اُس سے صحیح شکل سامنے آئے گی اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بہت سی مائیں اپنے بچوں کی طرف سے چندے دیتی ہیں اور بچوں کو پتہ ہی نہیں لگتا اور دفتر اطفال کے قیام کے لئے بہت حد تک یہ غرض پیش نظر تھی کہ بچوں کو علم ہو کہ وہ بھی چندہ دے رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں سے چندے نکلیں اور انہیں چندوں کا شوق پیدا ہو اور بچپن کی چندوں کی یا دیں آئندہ ان کے چندے دینے کے لئے ضمانت بن جائیں یا ممد ثابت ہوں.میں نے اس سلسلہ میں اپنی ان دو بچیوں سے سوال کیا جو شادی شدہ ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہاں وہ سب بچوں کی طرف سے چندے دے رہی ہیں لیکن جب پوچھا کہ ان کو علم ہے تو پتہ لگا کہ نہیں.یہ غلطی ہے.ہماری والدہ تو ہمیں بتا کر بلکہ پیسے دے کر پھر واپس لیا کرتی تھیں یہ سمجھا کر کہ تم چندہ دے رہے ہو میں نہیں دے رہی.اس کا دل پر بڑا گہرا نقش مثبت رہا اور ہمیشہ رہے گا.اس لئے اطفال کی تحریک کے سلسلہ میں تمام دنیا کی جماعتوں کو میں متوجہ کرتا ہوں کہ بچوں کے دفاتر اپنے ہاں قائم کریں اور آئندہ سے جو ماں باپ بچوں کی طرف سے چندہ دیں ان کو بتا کر دکھا کر دیں بلکہ ان کو دے کر پھر واپس لیں اور کہیں کہ یہ تمہاری طرف سے چندہ ہے.اگر ایسا کریں گے تو بچوں کے چندوں میں بھی ایک فرق آنا شروع ہو جائے گا.بچوں کے وہ چندے جو ماں باپ کی طرف سے لکھائے جاتے ہیں مثلاً پاکستان میں اگر چھ روپے مقرر ہے تو اکثر صورتوں میں چھ روپے ہی رہتے ہیں لیکن جہاں بچے شامل ہو جائیں اور اپنے مزاج اور اپنے شوق کے مطابق لکھوائیں تو وہاں اونچ نیچ پیدا ہو جاتی ہے.کوئی بچہ چھدے رہا ہے کوئی دس دے رہا ہے.کوئی پندرہ دے رہا ہے.بعض بچے اپنے جیب خرچ اکٹھے کرتے ہیں اور پھر وہ ساری کی ساری جمع شدہ رقم دے دیتے ہیں.تو دراصل یہی وہ مقصد ہے جس کی خاطر دفتر اطفال کو الگ کیا گیا تھا.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ باقی دنیا میں بھی دفتر اطفال الگ ہوگا تو آئندہ نسلوں کی تربیت کی بہت توفیق ملے گی.پاکستان میں دفتر اطفال میں جو اول دوم، سوم آئے ہیں اب اُن کا اعلان کرتا ہوں.سب سے پہلے تو اہل ربوہ خوشخبری سننے کے لئے تیار ہو جائیں.سارے پاکستان میں دفتر اطفال میں سب سے زیادہ ربوہ کے بچوں نے حصہ لیا ہے اور کمیت کے لحاظ سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی.خدا کے فضل سے ربوہ کے بچوں نے 88538 روپے اس مد میں ادا کئے.دوسرے نمبر پر لاہور کی باری ہے اور تیسرے نمبر پر کراچی کی لیکن مجھے یہ خیال ہے کہ کراچی زیادہ دیر تک تیسرے نمبر پر نہیں رہے گا.وہ یہ سن کر کافی شرمندہ

Page 435

428 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہونگے کہ لاہور سے تقریباً تیسرا حصہ پیچھے رہ گئے ہیں یعنی لاہور ان سے تین حصے آگے بڑھ گیا ہے.اب میں زیادہ اعدادوشمار نہیں بتاتا کیونکہ شرمندہ کرنا مقصود نہیں بلکہ محض مہمیز دینا میرے پیش نظر ہے کہ ذرا ولولے پیدا ہوں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.راولپنڈی چوتھے نمبر پر آتا ہے.گوجرانوالہ پانچویں نمبر پر، سیالکوٹ چھٹے پر، سرگودھا ساتویں پر، فیصل آباد آٹھویں نمبر پر، شیخو پورہ نویں پر اور تھر پارکر دسویں نمبر پر.فت روزہ بدر قادیان - 11 فروری 1993ء)

Page 436

429 حضرت خلیفة المسیح الرابع خطبہ جمعہ فرمودہ 31 دسمبر 1993ء بمقام ماریشس تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 1993ء کا سال جمعہ کے روز ہی شروع ہوا تھا اور جمعہ کے روز ہی ختم ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی برکتیں جماعت کے لئے لایا ہے جو آئندہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سال اس حال میں اختتام پذیر ہو رہا ہے کہ اگلے سال کے لئے بھی بہت سی خوشخبریاں پیچھے چھوڑ کر جا رہا ہے.جن کا ذکر میں انشاء الله وقف جدید کے اعلان کے بعد دوسرے حصے میں کروں گا.جیسا کہ سابقہ روایات رہی ہیں ہر سال کے آخر پر جو آخری خطبہ ہو اس میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.وقف جدید کا آغاز 1957 ء کے آخر میں ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب تک خدا تعالیٰ نے مجھے منصب خلافت پر فائز نہیں فرمایا میں اس وقت سے لے کر آخر تک وقف جدید میں ایک خادم کی حیثیت سے کام کرتا رہا.اس پہلو سے اس تحریک سے مجھے ایک زائد قلبی وابستگی بھی ہے اور یہ اعلان کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ یہ تحریک اللہ کے فضل کے ساتھ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی چلی جا رہی ہے اور اس کا فیض زیادہ وسیع ممالک پر محیط ہو رہا ہے.جب میں نے 1993ء کے سال کا اعلان کیا تو مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وقف جدید کا جو بیرون کا حصہ ہے یعنی وقف جدید کا ایک تعلق تو پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان سے ہے اور شروع میں وقف جدیدا نہی ممالک سے مخصوص رہی چندوں کے اعتبار سے بھی اور خدمت کے اعتبار سے بھی.چند سال پہلے میں نے یہ اعلان کیا کہ جہاں تک چندوں کا تعلق ہے سب دنیا کو وقف جدید کی تحریک میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ جب تحریک جدید کا آغاز ہوا تھا تو ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں چندے جمع کئے جاتے تھےاوراسے ساری دنیا پر خرچ کیا جاتا تھا اب جبکہ ساری دنیا میں جماعتیں مستحکم ہو چکی ہیں تو اسی اصول کے تابع که هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلَّا الإِحْسَانُ کوشش کرنی چاہئے کہ باہر سے چندہ اکٹھا کر کے اب ان ممالک میں وقف جدید کے مقاصد پر خرچ کریں.اس پہلو سے جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی اخلاص کے ساتھ لبیک کہا گذشتہ سال کے آغاز پر میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیرونِ پاکستان کا چندہ اب کروڑ کے قریب پہنچ چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت ذرا مزید کوشش کرے تو اس سال کے اختتام تک انشاء اللہ

Page 437

430 حضرت خلیفہ مسیح الرابع بیرون کا چندہ ایک کروڑ سے زائد ہو سکتا ہے.جس وقت میں نے یہ اعلان کیا اس وقت پاکستان سمیت کل وعدہ جات ایک کروڑ باون لاکھ چھیالیس ہزار آٹھ سو چھیاسٹھ روپے کے تھے اور بہت بڑی رقم جو درمیان میں رہ گئی تھی وہ وصولی میں کی تھی.پھر بھی مجھے یہ یقین تھا اور یہ میرا لمبا تجربہ ہے کہ یہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے ، ایک اعجازی جماعت ہے اس جماعت سے جتنی بھی بڑی توقعات کی جائیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انھیں پورا کرتا چلا جاتا ہے اور حیرت انگیز طور پر بعض دفعہ ایک ناممکن بات بھی ممکن ہوتی دکھائی دیتی ہے پس اسی امید پر میں نے یہ اعلان کیا تھا.آج مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ 1993ء میں وقف جدید کی مجموعی وصولی ایک کروڑا کا نوے لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے اس میں سے اگر پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ کا وعدہ نکال دیا جائے تب بھی ایک کروڑ بیس لاکھ روپے باہر کی وصولی ہے اور پاکستان، بنگلہ دیش اور بیرونِ ممالک کی وصولی ملا کر ایک کروڑا کا نوے لاکھ اڑسٹھ ہزار باسٹھ روپے ہوئی ہے.جہاں تک بیرون کے وعدوں کا تعلق ہے وہ ترانوے لاکھ انتیس ہزار تین سو بہتر روپے کے تھے جبکہ وصولی ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ اکتیس ہزار تین سو پانچ روپے تک پہنچ گئی.پس خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت نے اس توقع کو بہت نمایاں طور پر پورا کیا اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی اسی طرح آئندہ بھی جماعت کا قدم ترقی کی طرف رواں دواں رہے گا.جہاں تک جماعتوں کی آپس کی دوڑ کا تعلق ہے میں نمونہ چند جماعتوں کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں.آج بھی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھنے کے لئے نکالی ہیں.مجموعی طور پہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کو دنیا بھر کی جماعتوں پر وقف جدید کے چندے کے لحاظ سے سبقت حاصل ہوئی ہے اور وہ باقی ممالک سے نمایاں طور پر آگے ہے.گزشتہ سال جب جماعتوں کے عام چندوں اور چندہ وصیت وغیرہ کے متعلق میں نے موازنہ پیش کیا تھا اور یہ بتایا تھا جرمنی نے اس سال جماعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.اس پر مجھے پاکستان سے بہت سے احتجاج کے خطوط ملے، شکووں کے خط ملے، جیسے میں نے جرمنی کو زبر دستی آگے کر دیا ہو اور یہ پڑھ کر مجھے لطف آتا تھا کہ ساتھ جوش کا اظہار تھا کہ بس ایک دفعہ غلطی ہوگئی.اب ہم نے انھیں آگے نہیں نکلنے دینا اور اب ماشاء الله وقف جدید کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے جرمنی کو تیسرے نمبر پر کر دیا ہے.اور تقریباً جرمنی سے دو گنے وعدے ہیں.پس اللہ کے فضل سے ساری جماعتیں سبقت فی الخیر کا ایک ایسا جذبہ رکھتی ہیں کہ اس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم کسی اور جماعت میں نہیں مل سکتی.پاکستان نمبر ایک ہے اور امریکہ چالیس لاکھ تریسٹھ ہزار روپے کی وصولی کے ساتھ دوسرے نمبر پر آتا ہے.تیسرے نمبر پر جرمنی ہے اور جب تک ماریشس کا نام نہیں آتا میں یہ فہرست

Page 438

431 حضرت خلیفہ المسیح الرابع پڑھتا چلا جاؤں گا چوتھے نمبر پر کینیڈا ہے.پانچویں نمبر پر برطانیہ ہے.چھٹے نمبر پر انڈیا ہے.ساتویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے.آٹھویں پر جاپان ہے.نویں پر انڈونیشیا اور دسویں نمبر پر ماشاء اللہ ماریشس ہے.جماعت کی تعداد کے لحاظ سے ماریشس نے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں قربانی کی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک فرمائے.فی کس قربانی کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وقف جدید میں ہم نے دنیا کے کسی اور ملک کو آگے نہیں نکلنے دینا.اس سال بھی خدا کے فضل سے وہ اس عہد پر قائم رہے چنانچہ فی کس وصولی کے لحاظ سے یعنی (80) اسی پونڈ سے کچھ زائد فی کس چندہ وقف جدید ، چندہ دہندگان نے ادا کیا جو خدا کے فضل سے غیر معمولی قربانی ہے کیونکہ بے شمار دوسرے چندے بھی ہیں اور وقف جدید ان میں نسبتاً چھوٹی حیثیت کا چندہ ہے.اس میں انھوں نے نہ صرف یہ کہ نمایاں طور پر غیر معمولی قدم آگے بڑھایا ہے بلکہ جاپان جو بھی ان کے قریب تھا اسے تقریبا نصف فاصلے پر پیچھے چھوڑ گئے ہیں.جاپان کا فی کس وعدہ 47 پونڈ ہے.سیتھیئم ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود خدا کے فضل سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے جماعت میں تبلیغ کے لحاظ سے بھی غیر معمولی جوش ہے ان کی وصولی فی کس کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے اور امریکہ بہت معمولی فرق کے ساتھ چوتھے نمبر پر اور نمبر پانچ پر جرمنی ہے.اگر دسویں نمبر پر ماریشس ہوتا تو میں پوری لسٹ پھر پڑھ جاتا تا کہ آپ کا نام پھر سامنے آجائے.لیکن ایک اور لسٹ ہے.جس کے لحاظ سے آپ کا نام سامنے آنیوالا ہے، ماشاء اللہ.ایک پہلو سے افریقہ کا ایک ملک غانا سب دنیا سے آگے نکل گیا ہے اور وہ پہلو چندہ دہندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرنے کا ہے.یعنی وقف جدید میں جتنے پہلے چندہ دینے والے تھے، ان میں کتنا مزید اضافہ ہوا ہے اس لحاظ سے سب سے زیادہ اضافہ کرنے والا غانا ہے.ان کی تعداد 1992 ء میں صرف 2520 تھی اور اب ماشاء اللہ 70 99 ہوگئی ہے.جماعت غانا بھی ہر پہلو سے بیدار ہو رہی ہے اور ماشاء اللہ نمبر دوپر گیمبیا ہے جہاں پر ابھی بہت زیادہ کام کی گنجائش ہے نمبر تین پر فلسطین ہے جنھوں نے سو فیصد سے بھی زائد چندہ دہندگان کی تعداد بڑھائی، پھر انڈونیشیا ہے پھر پیجم اور چھٹے نمبر پر ماریشس کی باری ہے جہاں 843 وعدہ دہندگان کی تعداد خدا کے فضل سے بڑھ کر 1142 ہو چکی ہے اور جس طرح میں نے یہاں جماعت کو مخلص پایا ہے اور ہر فرد بشر سے ملاقات کر کے میں نے یہاں اندازہ لگایا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ معمولی سی توجہ کرنے سے آئندہ سال تعداد کے لحاظ سے بھی یہاں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے.ساتویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے.

Page 439

432 حضرت خلیفہ امسیح الرابع مختلف جماعتوں کے آگے بڑھنے میں منتظمین کی محنت ، خلوص اور دعاؤں کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے.وہ جماعتیں جو محض صفر کے قریب ہوتی ہیں جب ان میں انتظامیہ میں تبدیلی پیدا کی جائے ،مخلص فدائی کارکن آگے آئیں تو غیر معمولی طور پر وہاں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور صفر کے قریب ہونے کی بجائے وہ سو کے قریب پہنچ جاتی ہیں.یہ عمومی طور پر سب دنیا میں ہمارا تجربہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمدیہ کا اخلاص عالمی طور پر تقریباً یکساں ہی ہے.تمام دنیا کے احمدی قربانی اور فدائیت کے جذبے اور اخلاص میں ایک لحاظ سے برابر کی چوٹ ہیں.لیکن انتظامیہ کمزور ہو جاتی ہے، بعض جگہ انتظام کا تجربہ نہیں ہوتا.نئے نئے ممالک ہیں ان کو سلیقہ نہیں کہ کس طرح کام کرنا ہے، کس طرح دل بڑھانا ہے اور ہر فرد بشر تک پہنچنا ہے.جتنی بھی خامیاں دکھائی دی گئی ہیں وہ کارکنوں کی کمزوری یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے ہیں.یہی غانا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے لمبی چھلانگیں مار کر آگے نکلا ہے ایک زمانے میں بہت پیچھے تھا اب انتظامیہ میں ایک بیداری بھی پیدا ہو رہی ہے.ایک نیا ولولہ پیدا ہو رہا ہے.تجربہ بڑھ رہا ہے.تبلیغ کے میدان میں بھی غانا اب بڑے زور سے آگے بڑھ رہا ہے اور چندوں کے میدان میں بھی اب خدا کے فضل سے بیداری کے آثار نمایاں ہیں.اس لئے تمام دنیا کے امراء کو اپنی انتظامیہ کے معیار پر نگاہ رکھنی چاہئے اور جہاں کہیں کمزوری دیکھیں تو یقین کریں کہ جماعت کے اخلاص کی کمزوری نہیں یہ انتظامیہ کی کمزوری اور نا تجربہ کاری ہے.اس پہلو سے امیر اگر اپنے ہر شعبے پر نظر رکھے اور سال کے آغاز ہی سے کمزور شعبوں کو خاص توجہ دے کر آگے بڑھانے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ سال کے آخر تک یہ ساری کمزوریاں دور نہ ہو جائیں.دنیا کے ہر ملک کے متعلق میرا تجربہ یہی ہے کہ جہاں انتظامیہ کو بہتر بنایا گیا وہاں اللہ کے فضل سے جماعت نے ضرور ساتھ دیا ہے.کبھی شکوہ نہیں ہوا کہ جماعت کمزور ہے، ہمت ہار بیٹھی ہے، اخلاص کے ساتھ جواب نہیں دیتی کیونکہ اس جماعت کی کھٹی میں لبیک اللھم لبیک لکھ دیا گیا ہے.یہ اللہ کی تقدیر ہے جو جاری ہو چکی ہے.اس لئے جماعت کے اخلاص کے بارے میں میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی کبھی کوئی شکوہ پیدا نہیں ہو گا منتظمین کو بیدار رہنا چاہئے اور توجہ کرنی چاہئے.امریکہ نے جو غیر معمولی طور پر وقف جدید میں کامیابی حاصل کی ہے اس کا سہرا بھی ایک حد تک وہاں کے نیشنل سیکریٹری وقف جدید انور محمود خان صاحب کے سر پر ہے اور امیر صاحب USA نے خاص طور پر ان کی محنت کی تفصیل بھیجی ہے تاکہ ان کو دعا میں یا درکھا جائے.اسی طرح باقی سب دنیا میں جو مخلصین خدمت دین پر مامور ہیں ان کو آپ سب اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.وصولی کی اجتماعی حیثیت کے لحاظ سے یعنی وقف جدید کے تمام شعبوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے

Page 440

433 حضرت خلیفہ امسیح الرابع (باہر کی دنیا میں تو زیادہ چندے نہیں ہیں لیکن پاکستان میں وقف جدید کے اور بھی شعبے ہیں مثلاً بالغان کا چندہ ہے، اطفال کا چندہ ہے.اسکے علاوہ وہ مرا کز جہاں وقف جدید کے معلم بھیجے جاتے ہیں.ان کا ایک الگ چندہ ہوتا ہے پھر تھر پارکر کی تحریک کے لئے الگ چندہ ہے تو ان سب چندوں کو عمومی طور پر ملحوظ رکھتے ہوئے ) پاکستان کی جماعتوں کا مقابلہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کراچی سارے پاکستان کی جماعتوں میں اول نمبر پر ہے.ربوہ دوسرے نمبر پر ہے لاہور تیسرے نمبر فیصل آباد چوتھے اور سیالکوٹ پانچویں نمبر پر ہے، اسلام آباد چھٹے نمبر پر ہے، گوجرانوالہ نمبر سات ، راولپنڈی نمبر آٹھ پر ہے.گجرات نمبر نو اور شیخو پورہ دسویں نمبر پر ہے.جہاں تک دفتر اطفال یعنی محض بچوں سے چندہ اکٹھا کرنے کا تعلق ہے اس میں بھی کراچی تمام پاکستان کی جماعتوں میں سبقت لے گیا ہے اور ر بوہ کی بجائے لا ہور دوسرے نمبر پر آیا ہے اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ ربوہ ، پھر فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی ،سیالکوٹ ،شیخوپورہ ،سرگودھا اور پھر کوئٹہ کی باری ہے.یہ مختصر کوائف میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں.تمام دنیا کی جماعتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں لیکن دعا میں صرف اپنے آپ کو یاد نہ رکھیں بلکہ سب دنیا کی جماعتوں کو یاد رکھیں.خصوصیت سے وہ جماعتیں جو غیر معمولی قربانی کر کے آگے بڑھ رہی ہیں ان کے لئے جزاء کی دعا کرنی چاہئے اور جو پیچھے رہنے والی ہیں ان کے لئے آگے بڑھنے کی دعا کرنی چاہئے.ہماری دعاؤں میں اجتماعیت ہونی چاہئے اور یہ نہ ہو کہ ہر جماعت صرف اپنے لئے دعا کرے پس میں تمام دنیا کی جماعتوں کو تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں اور خصوصیت سے جو محنت کرنے والے کارکنان ہیں ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں تا کہ ہمارا آئندہ سال پہلے سے بہت بڑھ کر با برکت ثابت ہو.اس ضمن میں یہ ایک عجیب اتفاق ہے یا اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے کہ ماریشس کی سرزمین سے میں نے وقف جدید کے اگلے سال کا اعلان کرنا تھا اور ماریشس کے ہی ایک مخلص نوجوان جو واقف زندگی ہیں یعنی عبد الغنی جہانگیر ان کو اللہ تعالیٰ نے رویاء میں وقف جدید کے متعلق ہی کچھ دکھایا اور تقریباً مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے انھوں نے بڑے تعجب سے مجھے یہ رویا لکھا جو بہت معنی خیز ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رویا ء دیکھا جس کا دل پر گہرا اثر ہے لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ کیا مطلب ہے؟ میں نے دیکھا کہ جماعت احمدیہ ایک میز کی طرح ہے جس کی ٹانگیں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں لیکن وقف جدید کی اور تحریک جدید کی دو ٹانگیں باقی ٹانگوں سے زیادہ تیز بڑھ رہی ہیں.یہاں تک کہ دیکھتے دیکھتے وقف جدید کی ٹانگ بہت ہی زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھنی شروع ہوگئی.تحریک جدید کی ٹانگ نے پوری کوشش کی کہ ساتھ مقابلہ کرے

Page 441

434 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع لیکن نہ کر سکی تو اچانک میں نے دیکھا کہ تحریک جدید کی ٹانگ میں بولنے کی طاقت پیدا ہوئی اور اس نے کہا بس بس ! اب میں اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی.تم بڑھنا کم کر دو، ہلکا کر دو.وقف جدید کی ٹانگ نے جواب دیا یہ میرے بس کی بات نہیں ہے میں اپنے اختیار سے نہیں بڑھ رہی، مجھے بڑھنا ہی بڑھنا ہے.اس کی تعبیر کچھ تو چندوں کی شکل میں نظر آ رہی ہے.جس تیز رفتاری کے ساتھ وقف جدید کے چندے گزشتہ سال کے مقابل پر بڑھ رہے ہیں اتنا تیز اضافہ تحریک جدید میں نہیں ہے.اس کے علاوہ برکت والی تعبیر کے متعلق امید رکھتا ہوں کہ وہ تعبیر پوری ہوگی اور وہ یہ ہے کہ وقف جدید کے عمل کا میدان ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان ہیں.اس وقت یہ صورت ہے کہ تحریک جدید کے تابع جو دوسری جماعتیں ہیں وہ بہت زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اس لئے مجھے امید ہے اور میری دعا ہے کہ جہانگیر صاحب کی یہ خواب ان معنوں میں پوری ہو کہ اچانک دیکھتے دیکھتے بنگلہ دیش ہندوستان اور پاکستان کی جماعتیں اس تیزی سے آگے بڑھنے لگیں کہ باہر کی جماعتوں سے آگے نکلنے لگیں اور وہ احتجاجاً کہیں کہ تم کچھ بڑھنا کم کر دو اور وہ یہ جواب دیں کہ ہمارے بس کی بات نہیں.یہ ہمارے رب کی تقدیر ہے جسے ہم بدل نہیں سکتیں اور خدا کرے کہ میری یہ تعبیر بچی نکلے اور اس کو سچا ثابت کر کے دکھلانے میں ان جماعتوں کو جو محنت کرنی ہے، جو دعا کرنی ہے، جس اخلاص سے خدمت کرنی ہے ہم سب مل کر ان کے لئے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق بخشے اور واقعہ یہ نظارے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آغاز اس ملک سے ہوا جو آج ان تین ملکوں میں بٹا ہوا ہے یعنی بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان اور جہاں سے آغاز ہوا اس علاقے کا پیچھے رہ جانا ایک رنگ میں تکلیف کا موجب ہے.یہ درست ہے کہ وہاں مخالفت بھی غیر معمولی طور پر زیادہ ہوئی ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی تقدیر فیصلہ فرمائے تو مخالفت کی کوکھ سے تائید کے ایسے دریا بہہ نکلتے ہیں اور اس قد رقوت سے وہ چشمے پھوٹتے ہیں کہ پھر دنیا کی مخالفانہ طاقتوں کی کچھ پیش نہیں جاتی.پس یہ جو آواز عبد الغنی جہانگیر کو سنائی دی گئی ہے کہ وقف جدید کی تحریک کہتی ہے میرا بس کوئی نہیں ، چاہوں بھی تو رک نہیں سکتی اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کا فضل ہے جو مجھے بڑھاتے ہوئے آگے لے جا رہا ہے اس لئے اس معاملہ میں میرا کوئی اختیار نہیں.خدا کرے جن معنوں میں میں نے اس کی تعبیر سوچی ہے اللہ انہی معنوں میں ہماری توقعات سے بڑھ کر اس کی تعبیر کو پورا فرمائے.اب میں جماعت احمد یہ عالمگیر کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں.ماریشس کی سرزمین کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آج اس مبارکباد کے ساتھ جو میں ایک تاریخی تحفہ جماعت احمد یہ عالمگیر کی خدمت میں پیش

Page 442

435 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کرنے والا ہوں.اس کے اعلان کی سعادت اس سرزمین کو حاصل ہو رہی ہے اور وہ تاریخی تحفہ یہ ہے کہ جب ہم نے سیٹلائٹ کے ذریعے سب دنیا سے رابطے کا آغاز کیا تو جمعہ کا ایک گھنٹہ یا کچھ زائد وقت یا کچھ جلسوں اور اجتماعات کے موقعہ پر ایک دو گھنٹے زائد ملا کرتے تھے.احباب جماعت عالمگیر کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار ہوتا تھا کہ آپ نے عادت ڈال دی ہے.اب ایک ہفتہ انتظار نہیں ہوتا کوشش کریں کہ خواہ کچھ بھی خرچ کرنا پڑے، روزانہ یہ پروگرام جاری ہو.آج میں نئے سال کے تحفہ کے طور پر ماریشس کی سرزمین سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ سے ایشیا کے لئے جاپان سے لے کر افریقہ تک اور اس علاقے میں براعظم آسٹریلیا بھی شامل ہے.ہفتہ میں ایک گھنٹہ کی بجائے ہفتہ میں ساتوں دن بارہ گھنٹے روزانہ پروگرام چلا کرے گا اور خدا کے فضل سے یہ پروگرام اب مستقل طور پر اسی سیارے سے جاری رہے گا جس کا جماعت کو علم ہو چکا ہے اور وہ اپنے انٹینا کے رُخ اس طرف کئے بیٹھے ہیں اب بیچ میں تبدیلیاں نہیں ہونگی.پہلے جو بار بار تبدیلی کرنی پڑتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک گھنٹے کی اہمیت کوئی نہیں ہے بڑی بڑی کمپنیاں ایک گھنٹے والے کو سرکا کے کبھی ادھر پھینک دیتی ہیں کبھی اُدھر پھینک دیتی ہیں.جو بڑے گا ہک ہیں ان کی خاطر ایک گھنٹہ والے کو قربان ہونا پڑتا ہے جب ہم اصرار کرتے تھے کہ ہمیں لندن کے ڈیڑھ بجے والا وقت ضرور رکھنا ہے تو کہتے تھے کہ اچھا پھر ہم تمہیں کسی اور سیارے میں پھینک دیتے ہیں.اب ہمارا ان کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ معاہدہ آئندہ سالوں میں بھی جاری رہے گا اور یہ سیارہ جو ہمارے لحاظ سے بہت زیادہ موزوں ہے ، اس کے ذریعے آئندہ تمام ایشیا کی جماعتیں ، تمام افریقہ کی جماعتیں اور خدا کے فضل کے ساتھ شمالی افریقہ کی جماعتیں بھی (جنوبی افریقہ کے متعلق میں ابھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ، غالباً وہ بھی شامل ہونگے ) اور آسٹریلیا بھی ، یہ سارے ممالک جن کا میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ روزانہ بارہ گھنٹے کا پروگرام سن سکیں گے اور دیکھ سکیں گے.جہاں تک یورپ کا تعلق ہے سر دست ہم نے روزانہ ساڑھے تین گھنٹے کا وقت حاصل کر لیا ہے اور اس کے اندر شمالی افریقہ بھی شامل ہے یعنی یورپ کا یہ جو دائرہ ہے، شمالی افریقہ تک بھی محیط ہے یعنی وہ دونوں طرف سے ہمارے پروگرام سن سکے گا اور سارا افریقہ اس کی لپیٹ میں ایشیا اور یورپ کو ملا کر آجاتا ہے.روس کا آخری کنارہ جو مشرق کی طرف ہے وہ بھی اس میں شامل ہے اور مغرب کی طرف اور جنوب کی طرف پرتگال کا ملک شامل ہے شمال میں ناروے کا انتہائی شمالی حصہ شامل ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اب یورپ میں بھی اور ساتھ تعلق رکھنے والے حصہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے یقیناً ساڑھے تین گھنٹے روزانہ کا پروگرام بنایا جایا کرے گا.سب سے بڑی مشکل جو زیادہ وسیع پروگراموں کے سلسلے میں پیش آتی ہے وہ

Page 443

436 حضرت خلیفہ المسیح الرابع سافٹ وئیر Software یعنی پروگراموں کی تیاری ہے.بارہ گھنٹے روزانہ کا پروگرام ویڈیو پر بنانا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا یہی ایک جھجک تھی جس کی وجہ سے میں نے پچھلے سال خواہش کے باوجود اس کو ملتوی کر دیا تھا اب حالات کے تقاضے ایسے ہیں کہ اسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا.غیر معمولی طور پر نئے علاقوں کا نئی قوموں کا نئے مزاج کے لوگوں کا نئی زبانیں بولنے والوں کا احمدیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور طلب اتنی بڑھ چکی ہے کہ ناممکن ہو گیا ہے کہ جماعت احمد یہ محض لٹریچر کے ذریعہ ان پیاسوں کی پیاس بجھا سکے.لازم ہو گیا تھا کہ ہم ایک وسیع پروگرام کے ذریعے دنیا کی اکثر آبادی تک ٹیلی ویژن کے ذریعے پانچ سکیں.خدا کے فضل سے ڈش انٹینا کا رواج دنیا میں اب بہت بڑھ گیا ہے ہم جس دائرے میں کام کریں گے لازماً ایک کروڑ سے زائد آدمی ان پروگراموں کو دیکھنے والے ہونگے.ہم نے جو ڈش انٹینا کاسٹیشن لیا ہے وہ ایسا ہے کہ اس علاقے میں آج جو ہر دلعزیز پروگرام دکھائے جا رہے ہیں ان کے بالکل قریب واقع ہے اس لئے ہندوستان کے لوگ جس ڈش انٹینا کے ذریعے اپنے محبوب پروگرام دیکھتے ہیں اسی پر وہ ہمارے پروگرام بھی سن اور دیکھ سکیں گے.اس پہلو سے جماعت کی تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے.جہاں تک پروگراموں کا تعلق ہے گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے انگلستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ، خواتین اور مرد سینکڑوں کی تعداد میں محنت کر رہے ہیں ان کے گروپ بنا کر میں نے ہدایت کی تھی کہ اس طرح کام کرو تو ابھی مجھے اطلاع ملی ہے کہ اللہ کے فضل سے تقریباً جنوری کے بیس دنوں کا پروگرام یعنی بارہ گھنٹے روزانہ کے حساب سے تو وہ مکمل کر چکے ہیں اور باقی کام ابھی جاری ہے.علاوہ ازیں باقی دنیا کی جماعتوں کو میں نے نصیحت کی تھی اور تفصیل سے ہدایتیں دی تھیں کہ آپ اپنے اپنے ملک کے نقطہ نگاہ سے اور اپنے ہاں بولی جانے والی بولیوں کے نقطہ نگاہ سے خود پروگرام بنائیں.اگر بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعت کا پروگرام عمدگی سے اعلیٰ مقاصد کو پورا کرتے ہوئے دکھایا جائے تو اصل ذمہ داری بنگلہ دیش جماعت کی ہے کہ وہ بہترین پروگرام تیار کریں اور ہمیں بھجواتے جائیں اور ہمارے پاس وقت اتنا ہے کہ ہم انشاء اللہ کھلا وقت ان کو دیتے چلے جائیں گے.اگر افریقہ کے کچھ ممالک مثلاً غانا چاہتا ہے کہ ہماری مقامی زبانوں میں ہمیں ٹیلی ویژن کا پروگرام پہنچایا جائے نائیجریا چاہتا ہے، سیرالیون چاہتا ہے ، گیمبیا چاہتا ہے تو ان سب کا فرض ہے کہ اپنی اپنی زبانوں میں پروگرام بنائیں اور ہمیں بھیجتے چلے جائیں یہاں تک کہ بارہ گھنٹے بھی کم ہو جائیں گے اور زیادہ وقت کی ضرورت پڑے اور اس پہلو سے ہم نے معاہدے میں یہ بات شامل کر لی ہے کہ جہاں بارہ گھنٹے سے زائد ہمیں ضرورت پڑے تم نے کسی اور کے پاس یہ وقت نہیں بیچنا بلکہ پہلے گاہک ہم ہونگے تو انشاء اللہ تعالیٰ جتنے وقت کی ضرورت ہوگی

Page 444

437 حضرت خلیفة المسیح الرابع اتنا وقت لے لیا کریں گے جاپان کو چاہئے کہ اپنے لئے جاپانی پروگرام بنائے ، کوریا کو چاہئے کہ کورین زبان میں پروگرام بنائیں غرضیکہ اب دنیا کی جماعتوں کے لئے ایک صلائے عام ہے، کھلی دعوت ہے آئیے شوق سے آگے بڑھیں، بھر پور حصہ لیں ، اگر پاکستان چاہتا ہے کہ سندھی پروگرام بھی چلیں اور بلوچی پروگرام بھی چلیں اور سرائیکی پروگرام بھی چلیں اور پنجابی پروگرام بھی چلیں ، اردو پروگرام بھی چلیں تو پاکستان کی جماعتوں کو ایسے پروگرام بنا کر ہمیں بھجوانے چاہئیں.جہاں تک مرکزی پروگراموں کا تعلق ہے اس سلسلے میں سب سے اہم اور سب سے عظیم الشان پروگرام یہ بنایا گیا ہے کہ مسلسل خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہترین قرآت کے ساتھ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت ہوا کرے گی اور ہر آیت کے بعد مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ پیش کیا جایا کرے گا اور امید ہے انشاء اللہ ایک دو سال کے اندر ہم دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ترجمہ پیش کرسکیں گے.اب آپ دیکھیں کہ رشین زبان میں جو ترجمہ کیا گیا ہے کتنے ہیں جن تک وہ پہنچ سکتا ہے، کتنے ہیں جو عربی زبان میں اصل متن کو پڑھ بھی سکتے ہیں.لکھوکھا میں سے ایک بھی نہیں لیکن اچھی تلاوت سے سننا تو اور بھی دل پر اثر کرتا ہے اور اگر اچھی آواز میں پڑھ کر وہ ترجمہ سنایا جائے تو دلوں پر حیرت انگیز اثر چھوڑتا ہے.اس لحاظ سے قرآن کریم کو مختلف زبانوں میں متعارف کرانے کے لئے ہمارے ترجمے کافی نہیں تھے ان کو کتابی صورت میں شائع کر کے بیچنا یا دلچسپی لینے والوں تک پہنچانا بہت بڑا کام تھا اور عام طور پر ہر زبان کا ایک بھاری طبقہ ایسا ہے کہ جو خواہش کے باوجود ہر چیز کو حاصل نہیں کر سکتا نہ ان کو ہمارا پتہ نہ ہی ہمیں ان کا پتہ.جن کو خواہش ہے ان کے پاس پیسے نہیں اور پھر بڑی تعداد میں ایسی قو میں بھی ہیں جن کی زبان میں ترجمے تو ہو چکے ہیں مگر ان کو پڑھنا ہی نہیں آتا ، مثلاً یوروبا ہے جو نا یجیریا کے شمال میں بولی جاتی ہے اس میں اگر ترجمہ ہے تو اکثر لوگ پڑھ ہی نہیں سکتے.اسی طرح افریقہ کی دوسری اور بہت سی زبانیں ہیں جن کو پڑھنے والے موجود نہیں ہیں اور ہم ترجمہ کر چکے ہیں.اب ہم جماعت کے ذریعے غیروں کو بھی انکی اپنی زبان میں قرآن کریم کی تعلیم روزانہ دیا کریں گے اور اچھی تلاوت کے ساتھ جب قاری پڑھے گا تو لوگ اس کی نقل بھی اتار سکتے ہیں.وہ تلاوتیں پیش کی جائیں گی جن میں قاری ٹھہر ٹھہر کر پڑھے گا آرام سے سہولت کے ساتھ کسی جلدی کے بغیر.پھر اس کا ترجمہ سمجھا سمجھا کر پڑھا جائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ قرآن کے مطالب اور معانی تمام دنیا کے لئے عام کر دیئے جائیں گے اور حضرت امام مہدی کے آنے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ خزانے لٹائے گا، غیر احمدی علماء تو دنیا کے خزانوں کی انتظار لے کے بیٹھے ہیں کہ امام مہدی آئے تو دنیا کے خزانے لٹائے ان کو کیا علم کے دنیا کا سب سے بڑا خزانہ تو قرآن کریم کا خزانہ ہے جو آسمان سے اترا ہے ایسا

Page 445

438 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خزانہ تو دنیا میں بھی نازل نہیں ہوا تھا اور یہی وہ خزانہ تھا جس کو بانٹنے کے لئے امام مہدی نے تشریف لانا تھا اور آج امام مہدی کے غلاموں کو یہ توفیق مل رہی ہے کہ انشاء اللہ یہ خزانداب گھر گھر بانٹا جائے گا.دوسرا اہم پروگرام زبانیں سکھانے کا ہے.جب وقف نو کی تحریک کی گئی تو اس وقت سے میرے دل میں یہ خلش تھی کہ ہم ہزاروں بچوں کو قبول تو کر بیٹھے ہیں ان کی تربیت کیسے کریں گے، ان کو زبانیں سکھائیں گے، ان کی روزمرہ کی ابتدائی تربیت ان کی اپنی زبانوں میں کیسے کریں گے.ہمارے پاس تو اتنے معلم نہیں ہیں کہ جہاں جہاں بچے ہیں وہاں معلم پہنچا دئے جائیں.ہمارے پاس اتنے زبان دان نہیں ہیں کہ جہاں جہاں زبان کے خواہشمند ہیں ان کو اہلِ زبان سے انکی اپنی زبان سکھائی جائے.اگر اربوں روپیہ بھی ہم خرچ کرتے تو یہ ناممکن تھا.جامعہ احمد یہ ربوہ میں ہی پورے استاد مہیا نہیں کہ جو عرب ہوں اور عربی کی تعلیم دے رہے ہوں ، انگریز ہوں جو انگریزی کی تعلیم دے رہے ہوں، فرانسیسی ہوں جو فرانسیسی کی تعلیم دے رہے ہوں ،غرضیکہ زبانیں سکھانے کا کام بہت ہی مشکل تھا اور سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے کریں گے اور اب تک خدا کے فضل سے پندرہ ہزار سے زائد واقف نو بچے جماعت کو عطا ہو چکے ہیں.جب یہ پروگرام بنا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک ایسا منصوبہ ڈال دیا جس کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی زبانیں ، اہلِ زبان کی زبان میں تمام دنیا کے احمدی بچوں کو اور بڑوں کو بھی ٹیلی ویژن کے ذریعے سکھا رہے ہونگے اور روزانہ یہ پروگرام جاری ہونگے ، انشاء اللہ تعالیٰ.اس سلسلہ میں جو دلچسپ بات ہے وہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کا جو پروگرام دکھایا جارہا ہوگا وہ بغیر کسی ایک زبان کے ہوگا اور اس کے ساتھ مختلف چینل میں مختلف زبانیں سکھائی جا رہی ہونگی.فی الحال وسیع تر ٹیلی ویژن کا جو انتظام ہے یعنی بارہ گھنٹے روزانہ والا اس میں ہمیں صرف دو چینل ملے ہیں یعنی بیک وقت دوز با نہیں اس پر دکھائی جاسکیں گی جبکہ یورپ کے ساڑھے تین گھنٹے ٹیلی ویژن پر ہم بیک وقت آٹھ زبانیں سکھا سکیں گے.لطف کی بات یہ ہے کہ کسی زبان کو سکھانے کے لئے کسی اور زبان کی ضرورت نہیں ہوگی.اگر کر یول Creole سکھانی ہے تو نہ وہ اردو میں سکھائی جائے گی نہ جرمن میں، نہ انگریزی میں، نہ فرنچ میں نہ کسی اور زبان میں سکھائی جائے گی کریول Creole کو کریول Creole میں ہی سکھایا جائے گا اور اس طرح بچے تعلیم پاتے ہیں ، بچوں کے لئے کونسا آپ کوئی دوسری زبان کا سہارا ڈھونڈتے ہیں کہ بچے کو پہلے اردو میں انگریزی سکھائی جائے یا انگریزی میں اردو پڑھائی جائے.ماں باپ کی زبان بچے ان سے سیکھتے ہیں اور بغیر کسی دوسری زبان کے سہارے سے سیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اہلِ زبان بنتے ہیں.جب دوسری زبانوں کا سہارا نہ لیا جائے تو لفظ مضمونوں میں ڈھلتے ڈھلتے دماغ پر اتنا گہرا نقش ہو جاتے ہیں کہ اس مضمون کا کوئی بھی سایہ دکھائی دے تو

Page 446

439 حضرت خلیفة المسیح الرابع وہ لفظ از خود ذہن میں ابھرتا ہے.ایک لفظ کے معنی کے جتنے بھی امکان ہیں وہ معنی کے سائے سمجھ لیں تو ایک لفظ میں جتنے بھی معانی کے سائے پائے جاتے ہیں وہ بچہ جس نے بغیر کسی مدد کے زبان سیکھی ہو لفظ کے ہر شیڈ کو ہر سائے کو براہ راست سیکھا ہو تو جہاں بھی وہ اس سائے کو دیکھتا ہے سایہ سامنے آتے ہی وہ لفظ از خود اس کے ذہن میں ابھرتا ہے، یہ جو کیفیت ہے اس کو اہلِ زبان ہونا کہتے ہیں.ہماری زبان کا ماحول اس سے ذہن میں جذب ہو جاتا ہے اور کسی اور زبان کی مدد سے ذہن میں ترجمہ نہیں کرنا پڑتا ورنہ میں جب آپ سے فرنچ یا کریول زبان میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو میں پہلے انگریزی سے فریج میں ترجمہ کرتا ہوں اور پھر اس کو یاد کر کے آپ کے سامنے رکھتا ہوں یہ بڑی مصیبت ہے اس طرح زبان سیکھتے اور سکھاتے ہوئے کتنی دیر لگے گی.جو زبان کا طریق اب ہم نے اللہ کے فضل سے ایجاد کیا ہے وہ بغیر کسی زبان کے سہارے کے ہوگا.اس ضمن میں ہمارے ایک مخلص دوست ڈاکٹر شمیم صاحب کو کچھ عرصہ پہلے بلا کر میں نے تفصیل سے یہ سکھایا تھا اور اب وہ خدا کے فضل سے خوب سمجھ چکے ہیں اور اس کے علاوہ انھوں نے چونکہ ذہن بہت ہی سائنٹفک پایا ہے اس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی پڑھ لی ہیں اور بہت سے ماہرین سے انٹر ویوز بھی لے لئے ہیں ان کو جس جس چیز کی ضرورت تھی وہ مہیا کر دی گئی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جو نہی وہ تیار ہونگے تمام دنیا میں جو مختلف اہلِ زبان ہیں وہ ان تصویروں کو دیکھ کر اپنے لفظوں میں اس مضمون کو بھریں گے اور تصویر ایک ہی ہوگی.اس طرح اگر سوز با نہیں سکھائیں تو سو سکھا سکتے ہیں.رفتہ رفتہ یورپ کے چینل پر تو ایک وقت میں آٹھ زبانیں سکھائی جارہی ہونگی اور آئندہ مارچ سے انشاء اللہ تعالیٰ ایشیا کے ٹیلی ویژن پر بھی بیک وقت آٹھ زبا نہیں سکھائی جاسکتی ہونگی.نہ صرف چھوٹے بلکہ بڑے بھی بے تکلف زبانیں سیکھیں گے اور دنیا کے سامنے ایک نئی مثبت طرز کے ٹیلی ویژن کا آغاز ہوگا جہاں بے حیائی کی باتیں نہ سکھائی جا رہی ہوگی ، میوزک کے ذریعے اخلاق کو خراب کرنے کی باتیں نہیں ہو رہی ہونگی ، یہ بہت ہی نفیس اور پاکیزہ پروگرام ہونگے جو ایسے ہونگے کہ انسانی ذہن اور دل کو جذب کرنے والے ہونگے اور وہ اب دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں گے.اس ضمن میں میں دوسرے پروگراموں کا بھی ذکر کر دوں.ایک معلوماتی پروگرام ہم نے بچوں کے لئے رکھا،صرف بچوں کے لئے نہیں بلکہ بڑے بھی اس میں شامل ہونگے.تمام دنیا کے ممالک کے متعلق با قاعده پروفیشنل طریق پر بنی ہوئی ویڈیو ملاتی ہیں، ان ملکوں کے جغرافیائی حالات ، ان کی تاریخ کے حالات، ان کے کلچر کے حالات وغیرہ وغیرہ یہ پیش کئے جاتے ہیں.مگر مشکل یہ ہے کہ مغربی دنیا کے لوگ کوئی بات بھی پڑھانا چاہتے ہوں ان سے ناچ گانے کے بغیر پڑھائی نہیں جاتی اور وہ ہم شامل نہیں کرنا

Page 447

440 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع چاہتے اس لئے ہم نے سوچا ہے کہ اکثر پروگرام جہاں تک ممکن ہو ہم خود بنائیں گے اس کے لئے تمام دنیا کی جماعتوں کو ہدایت دی جاچکی ہے اور وہ تیاری کر رہے ہیں.پھر میوزک کے بغیر خوش الحانی سے نظمیں اور دوسرے گانے سنانے کے لئے اور بعض بچوں کو سکھانے کے لئے ہم نے ایسا پروگرام بنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی، فارسی ، اردو قصائد اور ان کے ترجمے مختلف زبانوں میں ترنم کے ساتھ پیش کئے جائیں.بچے کورس پیش کریں اور بڑے مل کر وہ گانے گائیں اور ساری دنیا میں خدا کی حمد کے گیت گائے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام پورا ہو کہ : آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے ہم درود شریف بھی ترنم کے ساتھ پڑھا کریں گے اور اس کے معنی بھی دنیا کو سکھائیں گے.قرآن کریم کی تلاوت کے علاوہ یہ وہ زائد چیزیں ہیں جن میں پاک حمد اور نعت کے گانے اور مختلف زبانوں میں مختلف ملکوں میں بنائی جانے والی نئی نظمیں بھی شامل کی جائیں گی اس لحاظ سے بھی یہ بہت دلچسپ پروگرام ہوگا.پھر کھیلوں کا معاملہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ تمام دنیا کے احمدی بہترین طریق پر کھیلوں کی تربیت حاصل کریں کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ الْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الادْيَانِ وَعِلْمُ الأبدان علم تو دوہی ہیں ایک دین کا علم ہے اور دوسرا جسموں کا علم ہے جسموں کے علم میں ساری دنیا کی سائنس آجاتی ہے.انسانی بدن کا علم بھی اور انسانی صحت کو قائم رکھنا اور اس کو آگے بڑھانے کا علم بھی.کھیلوں کا علم بھی علم الا بدان میں شامل ہے.پس کھیلوں کے اعتبار سے مشرق بہت پیچھے ہے اور کوئی ان کو سکھاتا نہیں ہے کہ کیسے کھیلوں میں آگے بڑھا جا سکتا ہے.ہم انشاء اللہ یہ انتظام کر رہے ہیں کہ اگر فٹ بال سکھانا ہے تو فٹ بال کے بہترین ماہرین فٹ بال سکھائیں اور احمدی بچے ان سے ٹریننگ حاصل کریں اور انکی ویڈیو دکھائی جائے اور پھر بار بار یہ پروگرام دکھائے جائیں تا کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ فٹ بال ہوتا کیا ہے.کس طرح کھیلنا چاہئے کیا کیا احتیاطیں ہیں جو برتنی چاہئیں.کیا داؤ پیچ ہیں جو استعمال ہوتے ہیں.پھر تیرا کی کا مقابلہ ہے اس کے متعلق بھی ہم ان لوگوں سے بہت پیچھے ہیں بلکہ سالوں پیچھے ہیں بلکہ شاید پوری صدی پیچھے ہوں.اتنا پیچھے ہیں کہ جو ابتدائی معیار ہوتے ہیں ان کے ٹیسٹ Test پر بھی ہم پورا نہیں اترتے پس بڑی ضرورت ہے کہ اپنی غیرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان سب قسم کی کھیلوں کو جو اولمپک میں شامل ہیں اور جن میں مقابلے کئے جاتے ہیں ہم تمام دنیا کے احمدیوں اور دوسروں کو بھی جو جماعت سے فیض حاصل کرنا چاہیں سکھانا شروع کریں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا انشاء اللہ تعالیٰ

Page 448

441 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کھیلوں کے پروگرام کے متعلق جو میں نے ٹیم مقرر کی ہے وہ جب یہ کام مکمل کر لے گی تو مختلف کھیلوں کے احمدی پروگرام بھی احمد یہ مسلم انٹرنیشنل ٹیلی ویژن پر آپ کو دکھائے جائیں گے.باہر سے پروگرام مل تو سکتے ہیں مثلاً تیرا کی کا اور بیڈ منٹن وغیرہ کا بھی لیکن ان میں کچھ مشکلات ہیں اول یہ کہ یہ لوگ جب تک بیچ میں ننگے جسم نہ دکھا لیں ان کو چین ہی نہیں پڑتا.فٹ بال سکھانا چاہیں تو پھر بھی بے حیائی ساتھ جائے گی، تیرا کی سکھانا چاہیں تو اور بھی زیادہ بے حیائی ساتھ آئے گی اور پھر میوزک کے بغیر تو رہ ہی نہیں سکتے.ہم نے سوچا ہے کہ اپنے پروگرام بنائیں ماہرین ان کے ہوں ، مزاج ہمارا ہو اور میوزک کی بجائے درود شریف پڑھے جائیں، میوزک کے بغیر خوبصورت آواز میں نغمے ہونگے، حمد وثنا ہوگی وقفہ جو بیچ میں لانا ہے تا کہ ”منا پلی“ (Monopoly) یعنی یکسانیت توڑی جائے وہ وقفہ بھی پاکیزہ باتوں کا وقفہ ہو گا لیکن طبیعت اس سے لذت پائے گی تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ کھیلوں کا پروگرام بھی جاری ہوگا.پھر قاعدہ یسرنا القرآن ہے اس کا تمام زبانوں میں ترجمہ کرنا مشکل کام ہے اگر ترجمہ کر بھی دیا جائے تو قرآن کا صحیح تلفظ سیکھنا قاعدوں کے ذریعے ممکن ہی نہیں ہے.استاد کی لازما ضرورت پڑتی ہے.پس اس سلسلے میں بھی ہم خدا کے فضل سے پروگرام شروع کر چکے ہیں کہ تمام دنیا کی قوموں کو ان کی زبانوں میں قرآن کی تلاوت کرنے کا طریقہ سکھائیں جیسے ہاتھ پکڑ کر بچوں کو کھایا جاتا ہے اس طرح انگلی نقطوں پر رکھ رکھ کر ان کو سکھائیں گے، ہمارے پاس گھلا وقت ہے وقت دے کر ان کو سکھائیں گے.پروفیشنل میں ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ چونکہ انھوں نے کمائی کرنی ہوتی ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ معلومات تھوڑے وقت میں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں.زبانیں بھی آپ ویڈیو کے ذریعے سیکھنے کی کوشش کریں تو تین گھنٹے ، چار گھنٹے، چھ اور نو گھنٹوں سے زیادہ کی ویڈیو نہیں ملے گی اور اس عرصے میں انسان تیزی کے ساتھ ان زبانوں کو جذب کر ہی نہیں سکتا ہم نے جو پروگرام بنایا ہے خواہ وہ زبانوں کا ہو یا قرآن کریم پڑھنے لکھنے کا ہو وہ آرام سے چلے گا ایک سال تک لکھنا پڑھنا سکھائے بغیر مسلسل زبان سکھائی جائے گی، جب زبانوں میں اتنی مہارت حاصل ہو جائے گی جیسے تین چار سال کا بچہ جو لکھنے پڑھنے کے قابل ہوتا ہے اسے مہارت ہو جاتی ہے اور پھر اسی طریق پر جیسے بچے کولکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے مختلف زبا نہیں لکھنی پڑھنی سکھائی جائیں گی اور اسی طرح خدا کے فضل سے پورا وقت لے کر قرآن سکھایا جائے گا.اگر چار گھنٹے یا دس گھنٹے کی بھی فلم ہو تو اسے دیکھ کر اگر ایک آدمی زبان سیکھنا چاہے تو چند ایک ٹکسالی کے فقرے تو جان لے گا لیکن زبان کا فہم اسے نصیب نہیں ہو سکتا اس کے لئے صبر اور تحمل کی ضرورت ہے، سہج پکنا چاہئے اور ہم نے جو پروگرام بنایا ہے وہ ایسا ہی ہوگا.ایک ایک زبان سکھانے کی کئی سو گھنٹے کی ویڈیو ہوگی اور جب وہ آگے بڑھے گی تو سننے والے

Page 449

442 حضرت خلیلتہ امسیح الرابع کے دل پر بوجھ نہیں ہو گا دماغ پر بوجھ نہیں ہوگا کہ میں جلدی سے یاد کرلوں.یہ استاد کا کام ہے اور اس ضمن میں جو نظام ہم نے بنایا ہے وہ خدا کے فضل سے سارے عالم میں یونیق“ ہے، بے مثل ہے.استاد کے دل پر اور دماغ پر بوجھ ہے کہ میں نے پڑھانا ہے اور یاد کروانا ہے آپ آرام سے Relex ہو کر بیٹھیں اور سنیں اور جو بات آپ سمجھتے ہیں کہ میں بھول گیا ہوں وہ دوبارہ پھر آئے گی پھر آپ کو خیال ہو کہ کچھ یاد نہیں ہوا تو تیسری دفعہ پھر آئے گی ، آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک آپ کو یاد نہ ہو جائے.جس طرح مائیں بچوں کو یاد کرواتی ہیں اسی طرح آپ کے ماں باپ بن کر جماعت احمد یہ آپ کی تربیت کرے گی تو یہ ایک عظیم الشان پروگرام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سال ہمیں عطا کیا ہے اور آئندہ جاری رہنے والا اور بڑھتے چلے جانے والا پروگرام ہے.میں جماعت احمد یہ ماریشس کا بھی ممنون ہوں کہ انھوں نے ماریشس سے اس پروگرام کو دنیا بھر میں منتشر کرنے کے لئے مالی قربانی بھی کی اور انتظامی طور پر بھی بہت مدد کی.اس سفر میں بھی ماریشس کی جماعت نے بہت محبت اور اخلاص سے محنت کی ہے جس کا فیض اب ساری دنیا کو پہنچے گا.ساری دنیا کی جماعتوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اب وہ دعاؤں کے ذریعے ہماری مدد کریں، نئے سال کے آغاز پرے جنوری سے انشاء اللہ یہ پروگرام مستقل طور پر جاری ہو چکے ہونگے اور نئے پروگراموں کے لئے ہمیں جماعت کی مدد کی ضرورت ہوگی.دوخوشخبریاں اور بھی ہیں کہ 7 جنوری ہی کو انشاء اللہ تعالیٰ ” الفضل انٹر نیشنل اپنی نئی سج دھج اور شان کے ساتھ مستقلاً جاری ہو جائیگا اور 7 جنوری کو ہی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ریویو آف ریلیجنز بھی دس ہزار کی تعداد میں شائع ہونا شروع ہو جائے گا.اس کے لئے نوجوانوں کے ایک نئے بورڈ کی تشکیل کی گئی ہے جو کہ انگلستان میں پلنے اور بڑھنے والے ہیں، جماعت سے غیر معمولی محبت اور اخلاص رکھتے ہیں ، دینی علم بھی حاصل کر چکے ہیں ، وہ براہ راست مجھ سے مشورہ کر کے اس نئے پروگرام کوکسی حد تک تشکیل دے چکے ہیں اور باقی دیتے رہیں گے.ہرامر میں میں نے انھیں کھلی چھٹی دی ہے جب چاہیں اور مشورے کریں.خدا کے فضل سے یہ نیار یویو تمام عالم میں ایک بہت گہرے رنگ میں اثر انداز ہو گا.آپ کو جتنے چاہئیں ہمیں بتائیں.ماریشس کو اگر انگریزی دان طبقہ یہاں موجود ہو مثلاً 500 ریو یو چا ہئیں تو ابھی سے بک کرالیں.بنگلہ دیش کو ہزار دو ہزار ریویو چاہئیں وہ ابھی سے بک کرا لیں.ہندوستان کو جتنے چاہئیں وہ بک کرائیں لیکن پتہ جات اندھے طریق پر اکٹھے نہ کریں کہ ڈائر یکٹریاں دیکھیں اور پتے اکٹھے کر لئے.ریویوا گر مفت بھی دینا پڑا تو دیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر پتے اکٹھے کریں.بعض ریویو آپ کو بھیج دئے جائیں گے ان کو لے کر

Page 450

443 حضرت خلیفہ المسیح الرابع بعض اہل علم سے ملیں ان کو دکھا ئیں، اگر وہ دلچسپی لیں ان میں شوق پیدا ہو اور وہ پیسے نہ دے سکتے ہوں تو پھر بے شک ان کے پتے ہمیں بھجوائیں بغیر کسی رقم کے وہ ریویو دیا جائے گا لیکن یہ کہ ڈائر یکٹریاں دیکھ کر پتے اکٹھے کر لیں اس سے وقت کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے اور پیسے کا بھی نقصان ہوتا ہے.اہلِ علم اس میں دلچسپی لیں گے کیونکہ اس میں ایسے مضامین ہیں جن سے انشاء اللہ تعالیٰ وہ غیر معمولی طور پر متاثر ہو نگے.پس خدا کے فضل سے یہ جو آج کے سال کا آخری جمعہ ہے اور آج کے سال کا آخری دن ہے یہ آئندہ سال کے لئے اور آنے والے سالوں کے لئے عظیم الشان خوشخبریاں لے کر آیا ہے اور میں ایک دفعہ پھر ماریشس کی جماعت کو یہ مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ خدا نے ان کو اس سعادت کے لئے چن لیا کہ اس سر زمین سے یہ اعلان ہو اور تمام دنیا کی جماعت کو نئے سال کی مبارک کے ساتھ یہ عظیم تحائف پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس لائق بنائے کہ خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے شکر گزار بن سکیں ان سے پوری طرح استفادہ کر سکیں اور وہ انقلاب جو میں فضا میں ظاہر ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں ، جو ہوا میں محسوس کر رہا ہوں میری تو قعات سے بھی بڑھ کر تیزی کے ساتھ آئے اور خدا کے فضلوں کی نئی برساتیں لے کر آئے ، نئی بہاریں لے کر آئے ، نئے نئے پھول گلشن احمد میں کھلتے ہوئے ہم دیکھیں ، نئے نئے رنگوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ تمام عالم میں ہم ان کو سجائیں اور ان کی خوشبو سے ساری دنیا مہک جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.الاسلام عليكم ورحمة الله وبركاته الفضل انٹرنیشنل لندن 21 جنوری 1994ء)

Page 451

444 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خطبه جمعه فرموده /6 / جنوری 1995 ء بیت الفضل لندن تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ، وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُم وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لَّا نُفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ، وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ o (التغابن: 16 تا 18) آج کے خطبہ کا موضوع مالی قربانی ہے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے مگر ان کیلئے جن کو ترجمہ آتا ہو اسلئے میں ابھی ان آیات کا ترجمہ بھی کروں گا.مالی قربانی اس تعلق میں ہے کہ وقف جدید کا سینتیسواں سال خدا تعالیٰ کے فضل کیساتھ بہت کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا ہے اور اڑتیسواں سال شروع ہو رہا ہے.پرانا یہی دستور رہا ہے کہ جس مہینے میں وقف جدید کا آغاز کیا گیا تھا اس مہینے میں یا اس کے بعد دسمبر کے کسی جمعہ میں نئے سال کے افتتاح کا اعلان ہو.چونکہ وقف جدید کا آغاز سن 57ء میں دسمبر کے مہینے میں ہوا تھا.اسلئے پہلی دفعہ جو مالی تحریک ہوئی ہے وہ دسمبر کے جلسہ سالانہ پہ ہوئی.پس اس پہلی دفعہ کی نسبت سے بالعموم یہی دستور رہا ہے کہ جلسہ سالانہ میں جو بھی جمعہ آیا کرتا تھا اس میں اعلان ہوا کرتا تھا کبھی اگر مصروفیت کی وجہ سے وقف جدید کا اعلان نہ ہو سکے تو آئندہ سال جنوری کے پہلے جمعہ میں یہ اعلان ہو جاتا تھا تو امسال بھی چونکہ قادیان کے جلسے کے سلسلے میں بہت سے امور پر گفتگو ہوئی تھی اسلئے یہی فیصلہ ہوا کہ ہم جنوری کے پہلے خطبے میں ہی وقف جدید کا اعلان کریں گے.وقف جدید حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریکات میں سے سب سے آخری تحریک ہے لیکن چونکہ الہی منشاء کے مطابق جاری ہوئی تھی اسلئے اس سے متعلق آپ کو بہت ہی مبشر رویا بھی دکھائی گئیں اور جو ولولہ آپ کے دل میں پیدا کیا گیا اس کا یہ حال تھا کہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ میرے دل میں اتنا جوش ہے اس تحریک کیلئے اگر جماعت میرا ساتھ نہ دے جو دیسے ناممکن بات تھی.مگر احتمالاً ایک فرضی ذکر کے طور پر بعض دفعہ انسان یہ دلیل قائم کرتا ہے، تو اپنے قلبی جوش کے اظہار کے لئے آپ نے فرمایا کہ اگر میرا جماعت ساتھ نہ دے تو مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں اپنے کپڑے بیچنے پڑیں تب بھی میں ضرور اس

Page 452

445 حضرت خلیلة امسیح الرابع تحریک کو جاری کر کے رہوں گا اور یہ بیماری کے ایام کا آپ کا عزم ہے جب کہ بیماری کے ایام میں ارادے کمزور پڑ جایا کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وقف جدید کو جو خدا تعالیٰ نے بعد میں برکتیں عطا فرمائیں وہ اس بات کی مظہر ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں یہ تحریک الہی تحریک ہی تھی اور جو ولولہ اللہ نے ڈالا تھا وہ الہی ولولہ ہی تھا جو ساری جماعت کے دلوں میں منتقل ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ یہ تحریک اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مستحکم ہو چکی ہے.قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ تمہارے اموال اور اولا دیں محض فتنہ ہی تو ہیں إِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ یہ ایک محض فتنہ ہی ہیں تمہارے لئے آزمائش کا ایک ذریعہ بنی ہوئی ہیں ورنہ تم اولا دوں کو چھوڑ کر جب واپس چلے جاتے ہو تو کچھ بھی ساتھ نہیں لے کے جاتے.جب اموال کو چھوڑ کر چلے جاتے ہو تو خالی ہاتھ جاتے ہو.آزمائش میں جو تم پورا اترتے ہو وہی تمہاری دولت ہے یعنی وہی مال تمہارا ہے جو آزمائش میں پورا اترنے کے نتیجے میں نیک راہوں پر خرچ ہو اور اس کا حساب خدا تعالیٰ کے نزدیک دوسری دنیا میں منتقل ہو جائے.وہی اولا د تمہاری اولا د ہے جو تمہارے بعد آنے والے کل میں تمہارے لئے سر بلندی کا موجب بنے تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک کا موجب ہو، تمہارے لئے دعاؤں کا موجب بنے تمہارے درجات کی بلندی کا موجب بنے اور یہ چیزیں آزمائش کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں.تو فتنہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ساری اولا دفتنہ ہی ہوتی ہے.یہ تو بڑا سخت ایک نا پسندیدگی کا کلمہ ہے جو ہمارے ہاں اگر استعمال کیا جائے تو لوگ ناراض ہو جائیں کہ تمہاری اولا د ہے کہ فتنہ ہے.تو ان معنوں میں مراد نہیں ہے.مال بھی فتنہ ہے اولاد بھی فتنہ ہے یعنی آزمائش کا ایک ذریعہ ہے اور اس فتنے سے اللہ کے فضل بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور فتنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کھوئی بھی جاسکتی ہے تو فتنے میں دونوں پہلو ہوتے ہیں.فتنے پر پورا اترنے والا بہت زیادہ فضلوں کا وراث بن جاتا ہے.ہار جانے والا جو ہاتھ میں ہوتا ہے اس کو بھی کھو دیتا ہے.پھر فرمایا وَ اللَّهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِیم اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بڑا اجر ہے.یعنی ان دونوں کو اگر خدا کی راہ میں خرچ کرو گے اولا د کو بھی اور اموال کو بھی تو یا درکھو کہ اجر خدا کے ہاتھ میں ہے اور عظ ظیم اجر ہے.اس کی وسعت اس دنیا پر بھی حاوی ہے اور اُس دنیا پر بھی حاوی ہے عظیم کا ایک تو معنی ہے زیادہ اور ایک عظمت اس چیز کو کہتے ہیں جس کے دائرہ سے کوئی چیز بھی باہر نہ رہے وسیع ہو جائے ہر چیز پر اس کا اثر وسیع ہو جائے تو اس پہلو سے اجر عظیم کا میں یہ ترجمہ کر رہا ہوں کہ بہت بڑا اجر اور ایسا اجر جو دنیا پر بھی اپنی رحمت کا سایہ کئے ہوئے ہے اور آخرت پر بھی اپنی رحمت کا سایہ کئے ہوئے ہے.

Page 453

446 حضرت خلیفہ مسیح الرابع فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُم پہلے بھی میں نے اس کا ذکر کیا تھا یہاں یہ نہیں فرمایا کہ انفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ یہ فرمایا ہے فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُم اور مضمون ہے خرچ کا.یعنی یہ حکمت واضح فرمائی جارہی ہے کہ تمہارے خرچ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس خرج میں دلچسپی ہے جو تقویٰ کی استطاعت بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا.اس خرچ میں دلچسپی ہے جو اللہ کے تقویٰ کی خاطر اسکی رضا کی خاطر تم پیش کرو گے ورنہ محض مال میں تو کوئی دلچسپی نہیں ہے اللہ کو کیونکہ وہ سارا مال اس کے قبضہ قدرت میں ہے.وہی عطا کرتا ہے اسی نے سارا نظام اقتصادیات بنایا اور اسی کے قوانین کے تابع یہ جاری ہے جس کو چاہے عطا فرمائے جس سے چاہے چھین لے.اس لئے مال کی بحث نہیں ہے تقویٰ کی بحث ہے.اس کی وضاحت اس لئے ضروری ہے اور اسی غرض سے میں نے اس آیت کا آج کیلئے انتخاب کیا تھا کہ بعض دوست اپنی نادانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں جو مال مال کا چرچا ہو رہا ہے گویا کہ محض ایک تاجر ذہنیت کی جماعت ہے.ہر وقت مالوں کے مطالبے ہورہے ہیں اور اس خیال کو بعض اپنی طرف سے تو پیش نہیں کرتے اپنے غیر احمدی دوستوں کی طرف منسوب کر کر کے پیش کرتے ہیں اور جو کرتا ہے وہ اپنے دل کا ایک داغ ضرور دکھا جاتا ہے ورنہ جو مالی نظام کو سمجھتا ہو اور خدا کی خاطر قربانی کرنے والا ہواس کا غیر احمدی دوست اگر یہ بات کہے گا تو اس کو ہزار جواب وہ اپنی طرف سے دے سکتا ہے کہ تمہیں پتہ ہی کیا ہے تم لوگ تو خدمت دین کرنے کیلئے بھی بھکاری بنے ہوئے ہو یعنی بڑی بڑی امیر طاقتوں سے پیسے لیتے ہوتو خدمت کرتے ہو.خدمت دین تو وہ ہوتی ہے کہ اپنی جیب سے انسان خرچ کرے اور پھر خدمت بھی کرے اور پھر اللہ تعالیٰ نے تو سارے قرآن میں جگہ جگہ ،صفحہ انہیں تو مالی قربانی کا ذکر ملتا ہے بلکہ خدا کے ساتھ بیعت کی شرط میں اس کو داخل فرما دیا.اِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ط (التوبۃ :111) خدا کواتنی ضرورت تھی مال کی کہ وہ بیعت جو خدا سے ہوتی ہے اس بیعت کی دو شرطیں ہیں.ان کی جانیں بھی خدا نے لے لیں ان کے مال بھی لے لئے.یہ سودا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ان کو جنت نصیب ہوگی.تو مال کی قربانی کو جو تعلق ہے وہ براہ راست مال کی حرص سے نہیں بلکہ مال کی حرص کے فقدان سے ہے.یہ مضمون ہے جس کا تقویٰ میں ذکر بیان فرمایا گیا ہے.وہ قو میں جن کو مال کی حرص ہوتی ہے وہ خرچ کیسے کر سکتی ہیں خدا کی راہ میں ، وہ نظام جو مال کی حرص سے آزادی دلاتا ہے وہی نظام ہے جو مالی قربانی پر چل سکتا ہے.اگر مال کی حرص کی قیمت بڑھانے والا نظام ہو تو کوئی چندے نہیں دے گا.سب کے ہاتھ بند ہو جائیں گے مٹھیاں بند ہو جائیں گی.تو ایسی متضاد بات کرتے ہیں جو اگر ذراسی بھی عقل سے غور کریں تو کسی پہلو سے بھی کچی ثابت نہیں ہو سکتی.اول خدا تعالیٰ جو مالک اور خالق اور

Page 454

447 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع قادر ہے اور رزق عطا فرمانے والا اسکو وسعتیں دینے والا اس میں کمی پیدا کر نیوالا ، ہر طرح کے اختیار رکھتا ہے.وہ کہہ رہا ہے کہ تم سے جو میرا سودا ہے اسمیں مال کی قربانی شامل ہے.دوسرے جگہ جگہ بار بار فرماتا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرو فی سبیل اللہ خرچ کرو اور اسے ایک مومن کی سوچ کا ایک لازمی ابدی جزو بنا دیا گیا ہے.آغا ز ہی میں مومنوں کی تعریف متقیوں کی تعریف ہی یہ فرما دى: الم ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ( البقرة : 2 تا 4 وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو عبادت کو قائم کرتے ہیں اور تیسری بات وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو ہم نے ان کو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.تو قرآن کریم کو جو سمجھتا ہے یا سرسری نظر سے بھی پڑھتا ہے اس کے ذہن میں جماعت کے مالی قربانی کے نظام پر کوئی اعتراض پیدا ہو ہی نہیں سکتا اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا.اور پھر جیسا کہ میں نے واقعات سے ثابت کیا ہے جہاں حرص کا سوال ہو وہاں مالی قربانی طوعی طور پر مانگی جاہی نہیں سکتی.حرص کے برعکس مضمون ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہاں فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم فرمایا ہے تم نے اموال خرچ کرنے ہیں، بڑی بڑی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے لیکن یا درکھنا کہ تقویٰ کا معیار بڑھاؤ گے تو یہ کر سکو گے ورنہ ہمارے تقاضے پورے نہیں کر سکو گے.اللہ سے تقویٰ کی استطاعت مانگو.تقویٰ بڑھے گا تو مال خود بخود پھوٹ پھوٹ کر خدا کی راہ میں نکلیں گے اور یہ ہمارا ساری زندگی کا تجربہ ہے، ساری زندگی کے تجربہ کا نچوڑ ہے کہ جن کا تقویٰ کا معیار بلند ہوتا ہے ان کے دلوں سے پہلے مال پھوٹتے ہیں پھر انکی جیبوں سے نکلتے ہیں.بعض دفعہ ایسا ان میں جوش پایا جاتا ہے کہ زبردستی الله روکنا پڑتا ہے اور یہ آج کے زمانے کی بات نہیں آنحضرت ﷺ کے زمانے ہی میں یہ رسمیں جاری ہو ئیں اور انہی کی آگے یہ شاخیں ہیں یا انہی کا ورثہ ہے جو ہم کھا رہے ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں کسی نے کچھ مال پیش کیا آپ نے فرمایا گھر کے لئے کچھ چھوڑ کے آئے ہو کہ نہیں ؟ اور بعض دفعہ جواب ہوا کہ یا رسول اللہ! اللہ اور رسول کی محبت ، وہی ذکر ہے جو گھر پہ چھوڑ آئے ہیں اور کچھ بھی نہیں.پھر بعضوں سے قبول کیا اور بعضوں سے قبول نہیں کیا بعضوں کو کہا آدھا کر دو.کسی سے تیسرا حصہ لیا اور باقی چھوڑ دیا.اس میں حکمتیں کیا ہیں وہ تو اللہ نے بعض میں از خود ظاہر فرما دیں بعض صورتوں میں مگر مراد یہی ہے کہ یہ جور میں چلیں کہ سب کچھ حاضر کر دو یہ تقویٰ کے معیار سے براہ راست پھوٹی تھیں اور فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُم کی ایسی زندہ مثالیں تھیں جنہوں نے دائمی ہو جانا تھا ان کی نسل سے پھر آگے ایسی مثالوں نے پھوٹنا تھا.

Page 455

448 حضرت خلیلة امسیح الرابع پس جماعت احمدیہ میں جو خدا کے فضل سے یہ عظیم الشان قربانی کے مظاہرے نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے.پس جماعت احمدیہ کی طرف سے اگر مالی قربانیاں بڑھ رہی ہیں تو یہ اس بات کا ایک پیمانہ ہے اللہ کے فضل کے ساتھ ان کے تقویٰ کا معیار بڑھ رہا ہے ، یہ اس بات کا پیمانہ ہے اللہ کے فضل کے ساتھ ان کی حرص کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے.بہت ہی عظیم الشان Tribute جس کو کہتے ہیں ایک خراج تحسین ہے جو جماعت کی قربانیاں عمومی حیثیت سے جماعت کو دے رہی ہیں.دنیا میں کوئی نہیں ہے جو ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا سکے.چیلینج ہے کوئی ہے تو آگے بڑھ کر قبول کر کے دکھائے.بسا اوقات میری گفتگو ہوئی ہے مستشرقین سے اور بعض بڑے بڑے سوچنے والوں سے اور ان سے جب میں نے یہ پہلو کھول کر بیان کیا تو بالکل گنگ ہو گئے.میں نے کہا تم کہتے ہو ایجنٹ کسی کے الزام لگتا ہے تم پر کوئی ایجنٹ بنا کے تو دکھاؤ کہ جو اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے ہوں اور اپنی بقا کیلئے کسی اور کے محتاج نہ ہوں.ایسے ایجنٹ پھر پاگل ہی ہوں گے.تو بہتر ہے پاگل کہا کرو بجائے ایجنٹ کہنے کے.ایجنٹ پیسے کھاتا ہے اور اگر وہ ایجنٹ نہ بھی ہو تو پیسے مانگ مانگ کے کام کرتا ہے لیکن وہ کس قسم کا ایجنٹ ہے جو اپنا سب کچھ فدا کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر دیتا ہے.وقف زندگی کے نظام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے.جب اس کو قبول نہ کیا جائے تو روتا ہوا احتجاج کرتا ہے اور جب اسکی مالی قربانیاں واپس کی جائیں تو بے چین زندگی گزارتا ہے.کئی ایسے احمدی ہیں جن کو بعض کمزوریوں کی وجہ سے یہ سزا دینی پڑی کہ تم سے چندہ وصول نہیں کیا جائے گا اور آئے دن مجھے خط ملتے ہیں ایک کل بھی ملا تھا کہ خدا کے واسطے بس کریں زندگی بے چین ، بے قرار ہوگئی ہے.لطف اٹھ گیا ہے زندگی کا.پہلے ہم چندہ دیتے تھے تو اللہ کے احسان سے لطف اٹھاتے تھے کہ خدا نے ہمیں توفیق دی اور باقی مال کھانے کا مزہ آتا تھا اب تو سارا مال حرام لگتا ہے.تو جس جماعت کا یہ معیار ہو اس کے متعلق کوئی زبان دراز کرتا ہے تو تمہیں کیا فکر ہے اسکی.ایسی جماعت کوئی اور پیدا تو کر کے دکھائے کہ جن کی جانیں واپس کی جائیں تو وہ روتے ہوئے واپس جائیں.یہ بھی تو قرآن کی گواہی کے مطابق وہی پہلی رسم ہے جو دوبارہ زندہ ہوئی ہے.قرآن کریم ایسے لوگوں کا ذکر جانی قربانی کے سلسلے میں فرماتا ہے کہ ایسے لوگ محمد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے جو میدان جنگ میں جہاد کی طرف جا کر اپنی جانیں نثار کرنا چاہتے تھے اور رسول کریم ﷺ نے یہ کہ کر انکار فرما دیا کہ میرے پاس سواریاں نہیں ہیں دور کا سفر ہے میں تمہیں کیسے لے جاؤں؟ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس حال میں لوٹے کہ انکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس اتنا بھی نہیں ہے کہ ہم خدا کے حضور اپنی جان پیش کر سکیں.واقعہ ایسی باتیں آج کے زمانے میں اگر دہرائی

Page 456

449 حضرت خلیفہ مسیح الرابع جارہی ہیں تو جماعت احمدیہ میں دوہرائی جارہی ہیں.وقف کی تحریک ہوئی ایک موقع پر آکے میں نے کہا بس اب وہ مدت گزرگئی ہے اب اور وقف قبول نہیں ہو گا.ایسے بے قرار ، روتے ہوئے خط ملے ہیں عورتوں کے ایسی بچیوں کے جن کی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں بلکہ مشکل سے شادیوں کی عمر کو پہنچی تھیں کہ ہم تو آرزوئیں لئے بیٹھے تھے کہ خدا کبھی ہمیں بڑا کرے گا اور ہمیں توفیق دے گا تو ہمارے بچے بھی اسی طرح وقف نو میں شامل ہوں گے جیسے پہلوں کے ہوئے.آپ نے رستہ بند کر دیا.میں نے کہا میں کون ہوتا ہوں اب تمہارے رستے بند کرنے والا.یہ اللہ کے فضل سے اخلاص کا دریا جاری ہوا ہے اور میری نیت پہلے یہی تھی کہ کچھ وقت کیلئے ہو اب میں اسے ہمیشہ کیلئے جاری سمجھتا رہوں گا اور یہی جماعت کرے گی.تو وہ کون سا دریا تھا؟ ان کے آنسوؤں کا دریا جو اخلاص کی صورت میں پھوٹتا تھا.وہ دعائیں بن گیا.خدا نے میرے دل کو تبدیل فرما دیا.کہا کوئی فیصلہ تمہارا نہیں چلے گا ان کا اخلاص چلے گا اور وہ تحریک جاری ہو گئی.تو یہ وہ مضمون ہے کہ اِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اور مال کی قربانیوں میں بھی میں نے بارہا مثالیں پیش کی ہیں لوگ دیتے ہیں.بعض دفعہ دل پہ بہت بوجھ پڑتا ہے کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے اتنا زیادہ دے رہے ہیں، بعض دفعہ زبردستی واپس کرنا پڑتا ہے اور بسا اوقات تو نہیں لیکن کبھی کبھی میں مجبور ہو جاتا ہوں بالآخر.میں کہتا ہوں اچھا ٹھیک ہے اور پھر خدا ان کو اور برکتیں دیتا ہے کیونکہ اس کی جزا بھی خدا نے دینی ہے.آگے فرماتا ہے اللہ تعالیٰ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا سنوسنو! اور اطاعت کرو یہ بحثوں کا معاملہ نہیں ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ تم سے کیا قربانیاں مانگ رہا ہے اور اسکے کیا نتیجے نکلیں گے.وہ بچہ جس کو اپنے ماں باپ پر اعتماد ہو، یہ ہونہیں سکتا کہ ماں باپ اس کو کہیں تو وہ اگر وہ سچا وفا دار اور حقیقت میں ماں باپ پر اعتماد کرنے والا ہو تو آگے سے بخشیں کرے کہ نہیں یہ میرے لئے ٹھیک نہیں ہوگا.بعض بڑی عمر میں آکر ایسی بحثیں کرتے ہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر بچے تو آنکھیں بند کر کے جو ماں باپ کہتے ہیں یہ اچھا ہے اگر انہیں ماں باپ سے پیار ہے تو وہ چل پڑتے ہیں اس رستے پر اور وہ اچھا ہی ہوتا ہے مگر کبھی غلطی بھی کر جاتے ہیں ماں باپ لیکن اللہ تو غلطی نہیں کرتا.اللہ فرمارہا ہے میں تو اس طرح غلطیوں سے پاک ہوں اور تمہاری ایسی بھلائی میرے پیش نظر ہے کہ تمہارے لئے تو یہی قانون جاری ہونا چاہیے فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمُ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جہاں تک توفیق ملتی ہے وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُو اسنو اور اطاعت کرتے چلے جاؤ.سنو اور اطاعت کرتے چلے جاؤ وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لَا نُفُسِكُم اور انفاق کرو.یہاں یہ نہیں ہے کہ خَيْرًا لا نُفُسِكُم مگر ترجمہ وہی بنتا ہے میں اس کا ہمیشہ یہ ترجمہ کیا کرتا تھا انفِقُو اخَيْرًا لَا نُفُسِكُمْ تم انفاق

Page 457

450 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اللہ کی راہ میں کرو تمہارے نفسوں کیلئے بہتر ہے اور بعض دفعہ کسی کو خیال آتا ہوگا کہ یہ تو گرائمر کے لحاظ سے ٹھیک نہیں بنتی بات.کیونکہ انفِقُوا كا خَيْرًا اگر مفعول به ہو تو انفِقُوا خَيْرًا کا مطلب ہے مال خرچ کرو اور کس کیلئے خرچ کر واپنے نفسوں کیلئے.اپنے نفسوں پر مال خرچ کرو یہ بن جائے گا ترجمہ.میرے ذہن میںا س کے دو تین مختلف معانی تھے جو آج میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کہا کہ جو اہل علم کی پرانی کتا میں ہیں ”سیبویہ وغیرہ ان کو نکالیں اور مجھے یقین ہے کہ بالکل درست ثابت ہوں گے اور وہی ہوا.ہر بات جو امکا ن سوچی تھی ان کے معنوں کی وہ تمام باتیں پرانے مفسرین اور اہل علم کی کتابوں سے نکل آئی ہیں اس کو مختلف معنی دے کر پہلوں کا بھی رجحان اسی طرف گیا تھا کہ اس کا یہ ترجمہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ ”مال خرچ کرو اپنے لئے.اس کا یہ ترجمہ اچھا لگتا ہے کہ خرچ کر و خیرًا لَّا نُفُسِكُم جس میں وہ ایک فعل محذوف مانتے ہیں کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا اور گان کی خبر منصوب آتی ہے.اس میں جوڑ برسی دکھائی دیتی ہے وہ نصب ہے اور یہ گان کی خبر ہوتی ہے چنانچہ اس فعل کی مختلف شکلوں میں محذوف مانا گیا اور بعضوں نے یہ ترکیب کی کہ کوئی اور فعل ہے جیسے ضرور خرچ کر اسی قسم کا معنی کوئی بیچ میں یا انفقوا انفاقا یعنی خرچ کرنا جو ہے یہ مفعول بن جائے گا اور خَيْرًا لا نُفُسِكُم یہ اس کا بدل ہو جائے گا.بدل کا بھی ترجمہ کیا گیا.مفعول لہ بھی ترجمہ کیا گیا.مفعول لاجلہ.تو یہ سارے ترجمے پرانے مختلف بزرگوں نے اسی غرض سے کئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا منطوق یہ ہے.آیت کا منطوق یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر تم خرچ کرو گے تو یہ خرچ تمہارے اپنے نفسوں کیلئے بہتر ہوگا اس لئے یہ دور کا واہمہ بھی نہ آئے دماغ میں کہ خدا پر کوئی احسان کر رہے ہو.اس کا انجام تمہارے لئے بہتر ہے یہ تمام کا تمام فائدہ جو اس خرچ کے ساتھ وابستہ ہے خود تمہیں یعنی تمہاری سوسائٹی کو بھی پہنچے گا تمہارے اپنے نفسوں کو بھی تمہارے اپنے خاندانوں کو بھی پہنچے گا یہ مراد ہے.وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جو شخص اپنے نفس کی بد بختی ، کنجوسی سے بچایا جائے ،جس کو اللہ تعالیٰ نفس کی خساست سے بچالے فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ ہوتے ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں.جن کے نفس خسیس ہوں ان کا علاج کوئی نہیں ہوتا اور انہوں نے کہاں نصیحت کے نتیجے میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے ان کے دل مٹھی ہو جاتے ہیں اور تکلیف پہنچتی ہے اور پھر وہی لوگ یہ آواز اٹھاتے ہیں کہ عجیب آپ کی دنیا دار جماعت بن رہی ہے ہر وقت پیسوں کی باتیں ہو رہی ہیں کوئی کہتا ہے اتنی قسمیں ہوگئی ہیں چندوں کی ، یہ چندہ ، وہ چندہ مگر اعتراض کرنے والے الا ماشاء اللہ بعض ہیں جو اپنی ذہنی ساخت کے لحاظ سے یہ باتیں سوچتے ہیں لیکن قربانیوں میں آگے ہوتے ہیں.اکثر وہ ہیں جو قر بانیوں

Page 458

451 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی توفیق نہیں پاتے لیکن ہر دفعہ جب دروازہ کھٹکتا ہے تو ان کے دل کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہم رہ گئے اور وہ اپنے نفس کیلئے بہانہ بناتے ہیں.یہ تو غلط راستوں پر چل پڑی ہے جماعت اسلئے ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے ہم اس راہ میں خرچ کریں.مگر خدا تعالیٰ نے تو ہر بات کا جواب دے رکھا ہے ہر نفسیاتی پہلو کو چھیڑتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس کا تجزیہ فرماتا ہے کہ اس کے ہر پہلو سے اٹھنے والے سوالات کو اٹھائے بغیر بھی ان کے جواب دیتا چلا جاتا ہے وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جو نفس کی خساست سے بچایا جائے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں.اِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دو يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُم وہ اسے تمہارے لئے بڑھائے گا اور تمہاری بخشش فرمائے گا.یہاں قرضہ حسنہ کی کیا بحث ہے؟ سوال یہ ہے کہ قرض خالی بھی تو کہا جا سکتا ہے لیکن قرضہ حسنہ کی اصطلاح خدا کو قرض دینے کے سلسلے میں کیوں استعمال فرمائی گئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ اللہ جب بھی کوئی انسان اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو بسا اوقات دنیا میں اسکے مال بڑھا دیتا ہے اور بڑھا تا تو ہمیشہ ہے لیکن کبھی جلدی کبھی دیر کے بعد.بعض لوگوں سے یہ سلوک ہوتا ہے کہ وہ ادھر دیا ادھر مال میں برکت پڑگئی ادھر دیا ادھر ایک چٹھی آگئی کہ تمہارا اتناروپیہ پڑا ہوا تھا.تو اس سے یہ حرص پیدا ہوسکتی ہے کہ چندہ دیتے وقت انسان بڑھانے کے خیال کو دل میں جمادے کہ اب میں نے چندہ دینا ہے ضرور بڑھے گا تو اللہ فرماتا ہے کہ دیتے وقت اپنی نیتوں کو صاف رکھا کرو، اسمیں بڑھانے کا تصور نہ رکھا کرو.خدا کی خاطر قربانی اسکی رضا کی خاطر خرچ کیا کرو.یہ قرضہ حسنہ ہے اور جہاں تک اللہ کا تعلق ہے وہ تو بڑھاتا ہے ہی.تم قرضہ حسنہ دو گے تو وہ کون سا اتنا ہی تمہیں واپس کرے گا.خدا کی سنت یہ ہے - يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُم تم قرضہ حسنہ دو گے تو بڑھائے گا اور تمہارے لئے بخشش کا سامان کرے گا.اب اس میں ایک عجیب لطیف شرط داخل فرما دی یعنی بڑھانے کا وعدہ ان سے ہے جو قرضہ حسنہ دیں گے.جو حرص میں دیں گے انکے ساتھ وہ وعدہ نہیں ہے بڑھا دے تو اس کی مرضی ہے مالک ہے لیکن یا درکھنا جو برکت والا وعدہ ہے کہ خدا تم پر فضل فرمائے گا اور بڑھائے گا وہ اسی صورت میں ہے کہ تمہارے دل میں حرص نہ ہو بلکہ اللہ کی محبت اور اسکی رضا کی خاطر قربانی ہو اور یہ قرضہ حسنہ ہے.قرضہ حسنہ میں قرض کا مفہوم بھی داخل فرما دیا اور یہ عجیب بات ہے قرض کے دو ہی پہلو ہیں ایک وہ قرض ہے جس میں آپ ضرور کچھ نہ کچھ حرص رکھتے ہیں اور حرص کی وجہ سے بہت سے لوگ قرض دیتے اور بہت سے لوگوں کے قرض ضائع بھی چلے جاتے ہیں اور ایک وہ پہلو ہے کہ کوئی حرص نہیں بلکہ بعض دفعہ نقصان کا خطرہ ضرور پیش

Page 459

452 حضرت خلیفہ المسح الرابع نظر ہوتا بلکہ اکثر اوقات رہتا ہے اس کے باوجود دیتے ہیں.یہ جو دینا ہے یہ غیر معمولی اعلیٰ نیت کے سوا، پاک نیت کے سوا ممکن ہی نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرض تو دینا ہے تم نے ، یہ تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کی خدا کو ضرورت ہے.ضرورت کا تصور مٹانے کیلئے لفظ قرض استعمال فرما دیا.کیونکہ قرض لینا کسی کی عظمت اور اسکی بڑائی کے خلاف نہیں ہے.آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی سے مد نہیں مانگی مگر قرضے لئے.وقتی طور پر ایک ضرورت پیش آسکتی ہے تو یہ تو نہیں کہ خدا کو ضرورت ہے مگر قرض کا مفہوم دے کر یہ بتایا کہ تم کوئی احسان نہیں کر رہے اپنی جماعت پر یا خدا کا تصور براہ راست اگر نہ داخل کریں تو یہ مضمون بنے گا کہ جماعت مسلمہ پر تم کوئی احسان نہیں کر رہے یہ تو ضرور واپس ہوگا جو اصل ہے اور جہاں تک خدا کے کاموں کا تعلق ہے وہ بڑھایا کرتا ہے مگر بڑھا تا ان کے ہے جن کی نیتیں پاک ہوں جو جذبہ محبت سے خرچ کریں اور قربانی کی روح سے خرچ کریں.پس ایسے لوگ جو اپنے غریب بھائیوں کو قرضہ دیتے ہیں اور اس نیت سے دیتے ہیں کہ ان کی بھلائی ہو اگر ہمیں کچھ نگی پڑتی بھی ہے تو کوئی حرج نہیں ان کا جو جذبہ ہے وہ بہت ہی قابل قدر بن جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو بہت ہی قدردان ہوں اس جذبے سے اگر تم قرض دو گے لالچ کی وجہ سے نہیں کرو گے تو پھر میرا دستور یہ ہے.یہ نہیں فرمایا میں وعدہ کرتا ہوں ، فرمایا اللہ ایسا کرتا ہے اور کرے گا اور اس شرط کے ساتھ کرے گا يُضعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ تمہارے لئے بڑھائے گا بھی اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ تمہاری بخشش کے سامان کرے گا.اب اگر مالی قربانی ایسی ہو کہ اس سے برکت بھی پڑے اور یقین ہو کہ مغفرت ہوگی تو یہ ایک بہت ہی پاکیزہ اور ہر سودے سے اچھا سودا ہے جس خرچ کے نتیجے میں مغفرت ہو جائے وہ اس لئے ضروری ہے کہ انگلی دنیا کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ وہاں کوئی پیسہ کام نہیں آئے گا وہاں مغفرت کا خرچ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا.تو ہمارے دن کتنے ہیں جن میں خدا تعالیٰ سے مغفرت کے سودے کی خاطر اپنا مال خرچ کریں.موت کا کوئی وقت مقرر نہیں اور ایک دفعہ مر گئے تو سارا مال یہیں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور پھر اس دنیا میں کام ہی نہیں آسکتا.تو مغفرت کا تعلق تو ہر شخص کے ساتھ ہے اور مغفرت کی خاطر خرچ کرنا یہ لالچ، حرص نہیں ہے.یہ ایک ایسی طبعی ضرورت ہے جو ہر انسان کو لاحق ہے ہر انسان سے وابستہ ہے.تو حرص کا جہاں تک تعلق ہے ، کوئی غرض کا تعلق ہے اللہ نے فرما دیا کہ مغفرت کی حرص رکھا کرو، یہ سوچا کرو کہ میں اللہ کی خاطر خرچ کرتا ہوں بڑھے یا نہ بڑھے میری بخشش کا سامان ہو جائے اور خداوعدہ فرماتا ہے کہ بخشش کا سامان تو ہوگا لیکن اس سے پہلے میں تمہارے مال بھی بڑھا چکا ہوں گا.کتنا عجیب سودا ہے، يُضعِفَهُ لَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ تم مغفرت کی خاطر کرتے ہو خدا اتنا حسن ہے

Page 460

453 حضرت خلیفة المسیح الرابع تمہارا واپس کرے گا اس سے زیادہ دے گا اور پھر مغفرت کا قرضہ اس پر باقی رہے گا اور اس وقت وہ مغفرت کا قرضہ کام آئے گا جب کہ تمہارے مال دولت کی ویسے ہی کوئی اہمیت نہیں رہی وہاں محض فضل ہی فضل ہوگا.وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ اللہ تعالیٰ بہت ہی شکریہ ادا کرنے والا یعنی شکر گزاروں کی قدر کرنے والا ہے اور حلیم ہے بہت بردباد ہے اسے کوئی جلدی نہیں ہے باوقار ہستی ہے اور جب چاہے تو بڑے بڑے گناہوں کو بھی معاف فرما سکتا ہے ان سے صرف نظر فرما سکتا ہے.پس یہ وہ آیات ہیں جن کا نظام جماعت کے مالی حصے سے ایک اٹوٹ تعلق ہے جو کبھی تو ڑا جاہی نہیں سکتا.وقف جدید کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ نے برکتیں ڈالی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ باوجود اس کے کہ ایک زائد تیسرے درجے کی تحریک تھی جس سے بہت بالا اور مضبوط مالی نظام انجمن کے باقاعدہ مستقل چندوں کی صورت میں قائم تھا ، وصیت کا نظام تھا، چندہ عام کا نظام تھا اور پھر تحریک جدید کو غیر معمولی اہمیت تھی اور تحریک جدید کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں بہت خدمت اسلام ہوئی ہے.تو تیسرے درجے کی تحریک جس کا آغاز میں تعلق محض پاکستان اور بنگال کے دیہات سے تھا لیکن دیکھیں اللہ تعالیٰ برکتیں کتنی ڈالتا ہے.اس سے پہلے کہ میں سیFigures آپ کے سامنے پیش کروں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت کے اندر جو مالی قربانی کا جذبہ ترقی کیا ہے وہ ایک دور ایسا تھا کہ تبلیغ کی رفتار سے بہت زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا.اب وہ دور آ گیا ہے کہ تبلیغ کی رفتار اسکو چیلنج کر رہی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر وہ بہت تیز قدموں کے ساتھ اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلا رہی ہے اور پھر ان کے توازن کا دور آئے گا تو پھر آپ کے جو چندے ہیں ان میں عظیم انقلاب برپا ہو جائے گا.چوٹی سے اور چوٹیاں اٹھیں گی لیکن اس وقت ہم اس دور میں داخل ہوئے ہیں کہ مالی قربانی کا نظام متحکم ہو گیا وہ چل پڑا ، اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہوا اور پھر دوڑ پڑا اور اب تبلیغ کا دعوت الی اللہ کا نظام بیدار ہو کر جیسے دیر سے اس کو ہوش نہ ہو، ہوش میں آ رہا ہے کہ او ہو یہ تو بہت آگے نکل گئے ہیں.وہ دوڑ دوڑ کر پھر آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور مجھے لگ رہا ہے کہ نکل چکا ہے لیکن کچھ عرصہ ہو گا کہ ان لوگوں میں سے پھر مالی قربانی کرنے والے لوگ پیدا ہونا شروع ہوں گے اور اچانک جماعت کے مالی نظام میں غیر معمولی برکتیں پڑیں گی.جو حوالہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا موازنے سے پہلے وہ ایک دلچسپ حوالہ ہے.وہ ہے ایک اخبار احمدیت کی دشمنی میں وقف ایک رسالہ جس کا نام ”المنبر “ ہے وہ فیصل آباد سے جاری تھا.اس

Page 461

454 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پرانے زمانے میں 1953ء کی تحریک میں اس نے جماعت کے خلاف بڑا کر دار ادا کیا.عبدالرحیم اشرف صاحب اس کے ایڈیٹر تھے اور ان کا پاکستان کے دینی طبقوں پر بڑا اثر تھا.1953ء کی تحریک کی ناکامی کے بعد انہوں نے تجزیہ کیا ہے کہ کیا ہوا اور بے اختیار دل سے یہ آواز نکلی کہ ہم نے سب کچھ کر لیا مگر جماعت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اور جو وہ چندوں کی مثال دیتے ہیں جس سے غیر معمولی متاثر ہیں وہ ذرا سن لیں آپ کو اندازہ ہو کہ 1953ء میں جماعت کا حال کیا تھا مالی قربانی کا.وہ کہتے ہیں کہ 53 ء کے عظیم تر ہنگامے کے با وجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ 56-57ء میں اس کا بجٹ پچیس لاکھ روپے تک پہنچ جائے.“ ساری دنیا کی جماعت کا بجٹ پچیس لاکھ روپے تک پہنچ جائے اس کوشش میں ہیں.کہاں وہ دن کہاں آج کا دن.آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سال وقف جدید کا جو وعدہ تھا وہ دو کروڑ اکتالیس لاکھ کا تھا مگر وصولی دو کروڑ تریسٹھ لاکھ ہوئی ہے.تو کہاں وہ اس کے تو ہمات کہ یہ دیکھو کیسی باتیں کر رہے ہیں گویا ستاروں پہ کمند ڈالنے لگ گئے ہیں.پچیس لاکھ کے بجٹ کی سوچ رہے ہیں اور اب وقف جدید ہی کا اکیلا دو کروڑ تریسٹھ لاکھ وصولی کا بجٹ ہے اور جہاں تک کل انجمن کے بجٹوں کا تعلق ہے اس کی برکت کا یہ حال دیکھ لیں.57 ء تک تو وہ کہہ رہا تھا کہ یہ پچیس لاکھ کی باتیں کر رہے ہیں.82-81ء میں یہ ایک کروڑ ستائیس لاکھ سٹرسٹھ ہزار چھ سوستاسی ہو چکا تھا اور 82-83ء میں ایک کروڑ پچپن لاکھ چھیانوے یعنی جس سال خدا تعالیٰ نے مجھے اس خدمت پر مامور فرمایا اس سال ایک کروڑ چھپیں لاکھ چھیانوے تھا اور 83-84ء میں میرے ہجرت کے سال سے ایک سال پہلے گل انجمن کا بجٹ دو کروڑ چھلا کھ چودہ ہزار تھا اور اب صرف وقف جدید کا بجٹ دو کروڑ تریسٹھ لاکھ ہو چکا ہے.تو یہ پیسے حریص جماعت کی طرف سے آرہے ہیں جن کو مال کا فکر ہے اور مال کا حرص ہے؟ یہ تو اس جماعت کی طرف سے آ رہے ہیں جن کو مال کی کوڑی کی بھی پروا نہیں رہی.اپنے مال پیش کرتے ہیں اور قبول ہوں تو خوش ہو کے لوٹتے ہیں.نہ قبول ہوں تو روتے ہوئے واپس جاتے ہیں.پس وقف جدید کے سلسلہ میں بھی خدا تعالیٰ نے وہ عظیم احسانات فرمائے ہیں کہ روح خدا کے حضور ایسے سجدے کرتی ہے کہ سجدے سے سر اٹھانے کو جی نہ چاہے سوائے اس کے کہ مجبوریاں دوسرے کاموں میں لے جائیں مگر ایک ایک شکر اللہ کا ایسا ہے کہ اس میں ساری روح ہمیشہ سجدہ ریز رہے تو اس کے نشے سے باہر نہیں آسکتی.موازنے کے طور پر چند اور باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.گذشتہ سال یعنی جو اس سال سے پہلا سال تھا وعدہ جات 2 کروڑ 26 لاکھ تھے اور وصولی دو کروڑ اڑتالیس لاکھ تریسٹھ ہزار ہوئی امسال جو گزر گیا ہے یعنی امسال سے مراد وہ سال جو ابھی گزرا ہے دو کروڑ اکتالیس کے وعدے تھے دو کروڑ تریسٹھ

Page 462

455 حضرت خلیفہ امسیح الرابع لاکھ کی وصولی ہوئی.اب یہ اللہ کی عجیب شان ہے کہ وقف جدید کی وصولیاں اسکے وعدوں سے بڑھ رہی ہیں.سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا قربانی کرنے والا دم جو ہے وہ سینے سے باہر نکلتا ہے اچھل اچھل کے باہر آرہا ہے اور تفصیلی جہاں تک تعلق ہے ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال بھی جماعت پاکستان کو یہ اعزاز نصیب ہوا ہے کہ سب دنیا کے وقف جدید کے قربانی کرنے والوں کے مقابل پر پاکستان نے سب سے زیادہ قربانی کی ہے.دوسرے نمبر پر امریکہ نے اپنے اس عہد کو پورا بھی کیا اور نبھایا ہوا ہے.امیر صاحب امریکہ نے مجھ سے ایک دفعہ ذکر فرمایا تھا کہ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کسی چندے میں بہت آگے بڑھیں اور سب سے آگے نکل جائیں تو ہم نے غور کیا ہے تو یہی سوچا ہے کہ باقی جگہ تو بہت بہت فاصلے رہ گئے ہیں وقف جدید میں اگر ہم کوشش کریں تو ایسا ہو سکتا ہے.چنانچہ ایک وقت تھا کہ وہ کسی شمار میں ہی نہیں تھے اب وہ دوسرے نمبر پر آچکے ہیں اور گذشتہ سال بھی تھے اور پوزیشن کوMaintain کر رہے ہیں یہاں وہ قائم ہیں اور فاصلہ بھی کچھ کم کر رہے ہیں پاکستان سے.اسلئے بعد میں نہ پاکستان والے کہیں ہمیں بتایا نہیں تھا پہلے.جس طرح جرمنی کی دفعہ شکوے شروع ہو گئے تھے کہ آپ نے اچھا کیا چپ کر کے بتا دیا کہ جرمنی آگے بڑھ گیا ہے اور ہم نے نہیں بڑھنے دینا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ پاکستان کا یہ اعزاز برقرار رہے گا مگر امریکہ نے کوشش ضرور کرنی ہے.جرمنی بہت سی قربانی کے میدانوں میں یا دوسری یا تیسری پوزیشن پر رہتا ہے کبھی کبھی اول بھی آجاتا ہے اور یہاں بھی تیسری حیثیت ہے.اس کے بعد پھر کینیڈا ہے پھر برطانیہ کی باری آتی ہے پھر ہندوستان ہے.ہندوستان نے بھی اچھا معیاری کام دکھایا ہے اور گذشتہ سال کے مقابل پر بہت محنت کر کے کافی آگے بڑھا ہے.پھر سوئٹزرلینڈ کی چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود اس کی باری ہے جو ساتویں نمبر پر ہے.انڈونیشیا نے وقف جدید میں بہت ترقی کی ہے آٹھویں نمبر پر آ گیا ہے.ماریشس نویں نمبر پر ہے اور جاپان دسویں نمبر پر.جاپان کی اس پہ کوئی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے.بہت چھوٹی سے جماعت ہے اور ان کے اقتصادی حالات کچھ اس لئے بھی خراب ہورہے ہیں کہ بہت سے لوگ جو پاکستان سے وہاں آ کے کام کر رہے تھے ان کے لئے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں کچھ کو واپس بھجوا دیا گیا کچھ کو پولیس کی تحویل میں رکھا گیا.کچھ اقتصادی بحران کے نتیجے میں نقصان اُٹھا بیٹھے.تو ان کا چھوٹی سی جماعت کا دسویں نمبر پر رہنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑا اعزاز ہے اللہ اس اعزاز کو قائم رکھے اور اس کی برکت سے ان کے اموال میں بھی ترقیات ہوں ان کی خوشیوں میں بھی ترقیات اور سب کیلئے میری یہی دعا ہے.

Page 463

456 حضرت خلیفہ امسیح الرابع جہاں تک دوسری جماعتوں کا تعلق ہے جو عموماً چھوٹی تھیں اور پیچھے رہ رہی تھیں ان میں اس طرح موازنہ میں نے کیا ہے کہ گذشتہ سال کے مقابل پر غیر معمولی اضافہ پیش کرنے کی کس کو تو فیق ملی ہے کیونکہ عام دوڑ میں تو شامل نہیں ہو سکتی تھیں اس لحاظ سے گی آنا کی جماعت اول آئی ہے اور انہوں نے اس ایک سال میں چندہ دگنے سے بھی کچھ زیادہ کر دیا ہے.بنگلہ دیش نے بہت آگے قدم بڑھایا ہے انہوں نے بھی گیارہ سو کی بجائے دو ہزار تریسٹھ.معاف کرنا یہ چندے کی بات نہیں ہو رہی.چندہ دہندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ.میں نے عنوان نہیں پڑھا تھا اسلئے جب میں نے یہ پڑھا تو میں نے کہا گیارہ سو کیسے ہو سکتا ہے بنگلہ دیش کا بہت زیادہ چندہ ہو گا اس سے.تو جب عنوان دیکھا ہے تو عنوان یہ ہے.” چندہ دہندگان کی تعداد میں اضافہ اور اس پہلو سے گی آنا اضافے کی نسبت سے اول آ گیا ہے اور بنگلہ دیش کو دوئم قرار دیا ہے گیارہ سو کے بدلے میں دو ہزار تریسٹھ ہے، دگنے سے کم ہے اور گی آنا دُگنے سے ذرا زیادہ ہے.ہالینڈ تیسرے نمبر پر ہے.ایک سوستر افراد سے بڑھ کر دوسو انچاس ہو گئے.کینیڈا چوتھے نمبر پر ہے.تین ہزار پینتالیس مجاہدین سے تعداد بڑھ کر چار ہزار چارسو اکتیس ہوگئی اور جرمنی پانچویں نمبر پر ہے.پانچ ہزار چھ سو تینتیس سے بڑھ کر آٹھ ہزار ایک سو چورانوے کی تعداد پہنچ گئی ہے.یہ جو تعداد کا مسئلہ ہے اس کا تعلق مال سے اتنا نہیں ہے جتنا قربانی کی روح کو فروغ دینے کے لئے ہم اس پر زور دیتے ہیں.میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض دفعہ جب زیادہ تعداد بڑھائی جائے تو اس تعداد کے حساب میں بعض دفعہ خرچ زیادہ ہوتا ہے اور اس سے آمد کم ہوتی ہے.مثلاً ایک پورا انتظام کیا جائے انکا حساب رکھا جائے کلرک رکھے جائیں پھر ڈاک کے ذریعے ان کے حساب بھیجے جائیں اور چندے بعض دفعہ اتنے تھوڑے تھوڑے ہوتے ہیں بعض غریبوں کے کہ مالی حساب پر زیادہ خرچ ہو رہا ہوتا ہے ان کی آمد کے مقابل پر.لیکن ہمیں ضرورت ہے اخلاص کی اور مالی قربانی کے بغیر اخلاص بڑھتا نہیں ہے اور مالی قربانی کو اللہ نے تقویٰ کا ایک پیمانہ قرار دیا ہے اور پھر لمبا تجر بہ بتاتا ہے کہ شروع میں جو ایک پیسہ بھی قربانی کرتا ہے خدا تعالیٰ اسکو دو طرح سے بڑھاتا ہے.يُضعفہ کا مطلب یہ صرف نہیں ہے کہ مال اس کا بڑھاتا ہے.اس کے دل کی وسعتیں بڑھا دیتا ہے قربانی کے جذبے بڑھا دیتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت میں ایک نئی ترقی کا دور شروع ہو جاتا ہے.پس اس دفعہ بھی میں تمام دنیا کی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ کتنا ہی معمولی چندہ کیوں نہ ہوئیں پچھلے سال بھی اعلان کر چکا ہوں کہ یہ شرط چھوڑ دیں کہ چھ روپے کم سے کم یا بارہ روپے کم سے کم یا اس کے لگ بھگ دوسری کرنسیوں میں رقم ہوا اگر کوئی ایک آنہ بھی دے سکتا ہو تو اسکو کہیں شامل ہو جائے.اس کا شامل ہونا اس کی مالی دقتوں کا حل ہے اور اس کو یہ نہیں

Page 464

457 حضرت خلیفہ المسیح الرابع کہنا کہ تمہارا پیسہ بڑھے گا اسلئے شامل ہو جاؤ اس کو یہی کہنا ہے کہ تم آنہ بھی دو گے تو جو تمہیں لطف آئے گا اور اللہ کی رضا حاصل ہوگی وہ تو کروڑوں روپے بھی خرچ کر کے حاصل کی جائے تو کچھ بھی چیز نہیں اسلئے قربانی کے جذبے کی خاطر اس سے ایک آنہ بھی وصول کرنا ہو تو کریں اور نومبائعین کو کثرت کے ساتھ اس میں شامل کریں.اب وقت ہے کہ نو مبائعین جس تعدا د سے بڑھ رہے ہیں اسی تعداد سے چندہ دہندگان بھی بڑھیں.پس ان کو مستقل چندے میں بھی سولہویں حصے کی نسبت سے نہیں بلکہ حسب توفیق اور یہ مضمون بھی مَا اسْتَطَعْتُم سے مجھے ملا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم تم اللہ کا تقویٰ اختیار کر جتنی استطاعت ہے تو نئے آنے والوں کی استطاعت کچھ کم ہوتی ہے.بعض دفعہ بہت بڑھ جاتی ہے ایسے بھی آئے ہیں جنہوں نے آتے ہی فوراً قربانیوں میں حصہ لیا ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم برابر کا حصہ لیں گے لیکن عموماً یہی دیکھا گیا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ کیوں کہتا کہ تالیف قلب کی خاطر ان پر خرچ بھی کرو یعنی آغاز میں یہ حال ہوتا ہے بعض دفعہ آنے والوں کا کہ ان کی دلداری کے لئے کچھ نہ کچھ ان کی ضرورتیں اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لئے کئی وجوہات سے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے.جلسوں پر بلاتے ہیں تو کرایہ دے کر بلاتے ہیں پھر وہ وقت آتا ہے کہ وہ چندے لے کر اپنے خرچ پر چندے دینے کیلئے آتے ہیں مگر آغاز میں کچھ قربانی لازم ہے اگر بغیر قربانی کے اسی حال پہ وہ ٹھنڈے ہو گئے تو پھر آپ کیلئے ان کو قربانی کے مزے دینا مشکل ہو جائے گا ان کو پتہ ہی نہیں ہو گا کہ قربانی کا مزہ ہے کیا.پس ان کو بھی وقف جدید میں شامل کریں.اس ضمن میں میں یورپ کی جماعتوں اور مغرب کی جماعتوں سے خصوصاً یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہر ماں باپ اپنی اولاد پر نظر رکھیں اور جہاں وہ کمانے والے بنیں ان کو یہ تحریک کریں کہ پہلے ہفتے کی آمد وہ مسجدوں میں دیں اور یہ نیک روایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے قائم ہے اور جہاں تک میرے سے مشوروں کا تعلق ہے میں ہر ایک کو یہی بتا تا ہوں وہ کہتے ہیں ہمیں خدا نے برکت دی ہے کیا کریں.میں کہتا ہوں پہلے تو پہلے ہفتے کی آمد مسجد کیلئے دے دو.دوسرے فوری طور پر چندہ با قاعدہ دینا شروع کر دو.سولہویں حصے کا حساب کر کے اگر زیادہ کی توفیق نہیں تو یہ ضرور دو.تو اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے تمہاری اولا د بھی فتنہ ہے تو یہ بھی ایک فتنے کا موقع ہوتا ہے.اولا دخوشحال ہوگئی ہے ماں باپ سمجھتے ہیں ان کو کیوں چندوں میں ڈالیں خواہ مخواہ ہم جو دے رہے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی ہار گئے آپ کا دیا ہوا بھی گیا اگر چندے کا شوق ہی نہیں اور سمجھتے ہی نہیں کہ باعث سعادت ہے تو اولاد کو بھی آپ نہیں کریں گئے اور آپ کے چندے کے اوپر بھی ایک اور روشنی پڑ جائے گی جو ایک تلد روشنی ہو گی یعنی آپ پہلے دیتے

Page 465

458 حضرت خلیفہ امسیح الرابع تھے مصیبت سمجھ کر دیتے تھے چٹی سمجھ کے دیتے تھے جو اولا د کو چھٹی سے بچارہے ہیں.پس فتنوں کا مقابلہ کرنا ہے ہر فتنے کا موقع ایسا ہمارے سامنے آنا چاہیے کہ ہم اس کو شکست دے کر خدا کی رضا کم کرنے کی بجائے اس کو بڑھاتے ہوئے آگے بڑھیں.فی کس کے لحاظ سے بھی ہم نے موازنہ کیا ہے اور سوئٹزر لینڈ حسب سابق وقف جدید پیکے فی کس چندے میں اب بھی سب سے آگے ہے امریکہ نمبر دو ہے کوریا اور جاپان تیسرے نمبر پر ہیں اور تحکیم اللہ کے فضل کے ساتھ چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود بھی چوتھے نمبر پر آ گئی ہے حالانکہ مالی لحاظ سے ایک کمزور جماعت ہے.یورپ کی جماعتوں میں تحکیم کی جماعت بہت کمزور ہے.اخلاص میں نہیں مالی لحاظ سے.لیکن اللہ نے توفیق دی ہے کہ چوتھے نمبر پر آچکے ہیں اور بھی قربانیوں میں آگے بڑھ رہے ہیں.چندہ بالغان میں جو پاکستان کے اضلاع کا مقابلہ ہوا کرتا ہے ان میں کراچی اول ، ربوہ دوم، لاہور سوم پھر فیصل آباد، سیالکوٹ، اسلام آباد، گوجرانوالہ شیخوپورہ، کوئٹہ اور سرگودہا آتے ہیں.مجموعی وصولی کے لحاظ سے چندہ اطفال میں کراچی پھر اول لیکن یہاں ربوہ کی بجائے لا ہور دوم اور ربوہ سوم ہے پھر فیصل آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ ، شیخوپورہ ، سرگودہا اور کوئٹہ اسی ترتیب سے آتے ہیں.وقف جدید کی جو تحریک ہے یہ وقف جدید بیرون جب سے شروع ہوئی ہے اگر چہ اس آمد میں سے بہت حد تک انہی علاقوں میں خرچ ہوا ہے جن علاقوں کی خاطر یہ تحریک قائم کی گئی تھی یعنی پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش لیکن حضرت مصلح موعود کی ایک رؤیا نظر سے گزری ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کا منشاء یہ ہے کہ بالآخر اس تحریک کا فیض یعنی جن کاموں پر خرچ کرنا ہے اس اعتبار سے بیرونی دنیا پر بھی پھیلانا ہوگا اور باقی ملکوں میں صرف پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش پر ہی اس کا خرچ نہیں ہوگا بلکہ اور جگہ بھی اسی قسم کا نظام جاری ہو یعنی وقف جدید کے مقاصد کے حصول میں ان کو بھی شامل کرنا پڑے گا صرف چندے کی قربانی میں نہیں.پس اس لحاظ سے اس سال میں نے مال کو ہدایت کر دی ہے کہ آغا ز ہم افریقہ سے کرتے ہیں افریقہ میں ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اور بعض ملکوں میں اقتصادی بدحالی کی وجہ سے چندوں میں کمزوری آرہی ہے تو وقف جدید کا ایک حصہ ہم انشاء اللہ اس سال افریقہ کی طرف منتقل کریں گے اور پھر ایسا وقت آئے گا کہ یورپ میں بھی وقف جدید کے نظام کے تحت ہمیں معلمین مقرر کرنے پڑیں گے اور اس قسم کے کام جاری کرنے ہوں گے جو اسلام کے آخری غلبے کے لئے ضروری ہیں.ایک آخری بات اس وقت ، وقت چونکہ ختم ہو رہا ہے بلکہ ہو چکا ہے وہ حوالہ تو نہیں پڑھ سکتا مگر اس کا خلاصہ میں نے بیان کر دیا ہے پھر کسی وقت وہ حضرت مصلح موعود کا حوالہ بھی پڑھ کے سنا دوں گا.

Page 466

459 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دیگر جماعتوں کو بھی دفتر اطفال کا ریکارڈ رکھنا چاہیے.یہ اس سلسلے میں آخری نصیحت ہے آج کے خطبے میں.وقف جدید کا جو اطفال کا ریکارڈ ہے وہ پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش میں رکھا جاتا ہے مگر دوسرے ملکوں میں نہیں رکھا جاتا اور ہم چاہتے ہیں کہ بچے بہت زیادہ اس میں حصہ لیں.جس طرح نو مبائعین دین میں بچے ہی ہوتے ہیں خواہ عمریں کتنی ہی ہوں.اسی طرح بچوں کا حال ہے.ان کو شروع ہی میں وقف جدید میں شامل کیا جائے تو آئندہ ہر قسم کے دوسرے چندوں میں اللہ تعالیٰ ان کے حوصلے بڑھا دے گا ، انکے دل کھول دے گا.تو ہمیں اب باہر کی جماعتوں سے معین طور پر یہ اطلاع ملنی چاہیے کہ اتنے زیادہ بچے ہم نے بڑھائے ہیں اور بچے کے سلسلے میں پہلے دن کا بچہ بھی نظام میں شامل ہو جاتا ہے.بعض مائیں تو پہلے زمانے جب میں وقف جدید میں کام کیا کرتا تھا تو لکھا کرتی تھیں کہ ہمارے ہونے والے بچے کا بھی چندہ لے لیں اور بعض یہ کہا کرتی تھیں ہم مومن جو ہیں نابیہ اللہ میاں سے کافی ترکیبیں کرتے رہتے ہیں کسی کا بچہ نہیں ہوتا تھا تو اس نے کہا کہ اس کا چندہ جو میرا بچہ نہیں ہورہا نا میں نے وہ لکھوا دیا وقف جدید میں ، اب اللہ آپ ہی سنبھالے معاملہ اور واقعہ ایسے میرے سامنے معین واقعے آئے کہ ڈاکٹروں نے کہا تھا بچہ نہیں ہونا کسی عورت نے یہ ترکیب چلی اور اللہ تعالیٰ نے بچہ عطا فر ما دیا یعنی چندہ دینے والا بعد میں آیا ہے چندہ پہلے آ گیا ہے تو یہ دنیا کے نظام نہیں ہیں یہ اور قسم کے نظام ہیں جو چل رہے ہیں.تو اپنے بچوں کو شامل کریں اگر دل کا جوش اور ولولہ ہو تو بے شک ان کو بھی شامل کر لیں جو پیدا نہیں ہوئے مگر جو پیدا ہوئے ہیں ان کو تو ضرور شامل کریں.اللہ تعالیٰ اس نظام کو ہمیشہ برکت دیتا چلا جائے اور بڑھاتا چلا جائے.ہمارے اموال میں ہمارے اخلاص کے پیچھے پیچھے برکت دے ، آگے نہیں.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم پہلے رکھا ہے اتفاق کا مضمون بعد میں آتا ہے.پس پہلی دعا یہ ہے کہ ہماری تقویٰ کی استطاعت بڑھائے.اس بڑھتی ہوئی استطاعت کے وسیع تر دائرے میں ہمارے اموال میں بھی برکت ہوتی چلی جائے اور ہماری جانی قربانیوں میں بھی برکت ہوتی چلی جائے اور یہ ایسے سلسلے ہیں جو خود اپنی ذات میں ثواب ہیں ، اپنی ذات میں جنتیں ہیں اللہ سب دنیا کو ان جنتوں سے آشنائی عطا فرمائے.السلام علیکم الفضل انٹر نیشنل لندن 17 فروری 1995ء)

Page 467

460 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خطبه جمعه فرموده /5 / جنوری 1996 ء بیت الفضل لندن تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ ص وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِالْخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيْهِ طَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ الشَّيْطنُ يَعِدُ كُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمُ بِالْفَحْشَاءِ ، وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ لا يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًاط وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْألْبَاب 0 (البقرة: 268 تا270) یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ بقرہ کی 268 تا270 ویں آیات ہیں ان آیات میں مالی قربانی کی طرف بہت ہی لطیف انداز میں اس طرح توجہ دلائی ہے کہ انسانی فطرت کی ایک کمزوری کو سامنے رکھ کر متنبہ فرمایا ہے کہ خدا کی راہ میں جب خرچ کرنے ہوں تو اپنی اس کمزوری کو پیش نظر رکھنا اور خرچ کرتے وقت ٹھو کر نہ کھا جانا تمہیں علم ہونا چاہیے کہ تم جو بھی خرچ کرتے ہو کس مقصد سے کر رہے ہو کس کے حضور پیش کر رہے ہو اور اس کے آداب کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا لازم ہے.یہ مضمون اس طرح بیان فرمایا کہ دیکھو جب تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو تو اے ایمان والو طیبات میں سے خرچ کیا کرو مَا كَسَبْتُم “ جو کچھ بھی تم کماتے ہوان میں سے بہترین چیز پیش کیا کرو.کیونکہ جب ایک دوسرے کو تم تحائف پیش کرتے ہو تو جتنا کسی سے زیادہ تعلق ہو، جتنا کسی کی عزت ہو، جتنا کسی کا احترام ہواسی قدر تحفہ چنتے وقت انسان اپنی ملکیت میں سے بہترین چتا ہے.اگر باغوں والا ہے تو پھل وہ چنے گا جو چوٹی کا پھل ہے اور تاجروں کی طرح نہیں کرتا کہ گندہ پھل شامل کر کے تو اوپر دو چار پھل رکھ دے تا کہ اچھی چیز قبول ہو جائے ، قیمت مل جائے خواہ بعد میں پتہ چلے کہ یہ تو نہایت ہی گندی اور غلیظ چیز تھی جس کا سودا کیا گیا ہے تو اللہ سے تو دھو کہ ہو نہیں سکتا.لیکن دنیا میں بھی انسان اپنی محبتوں اور تعلقات کی قدر کرتا ہے اور اپنے پیاروں سے دھو کے نہیں کیا کرتا.تاجر دھو کے کرتا ہے، محبت کے ساتھ پیش کرنے والا دھوکہ نہیں کرتا تو فرمایا تمہارا تو میرے ساتھ ایک محبت کا سودا ہے.اور دوسرے یہ کہ ہم نے تمہیں دیا ہے.اسلئے جب ہم نے دیا ہے تو پھر اگر تم گندی چیز دو گے تو

Page 468

461 حضرت خلیفة المسیح الرابع تمہارا بہت گہرا نقصان ہو گا ایک تو یہ کہ تحفہ نا مقبول دوسرے تم یہ ہمیں نمونہ دکھا رہے ہو گے کہ ہم تو گندی چیزیں دیا کرتے ہیں.ہمیں بھی پھر گندی ملنی چاہیے اور احسان فراموش کو تو حقیقت میں کچھ بھی نہیں ملا کرتا تو خدا نے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے تو نہیں مانگا خدا نے تو ہماری ضرورتیں پوری کرنے کیلئے مانگا ہے اور یہ ضرورتیں دو طرح سے پوری ہوتی ہیں.اول تزکیہ نفس ، دوسرے احسان کا بدلہ اتارنے کی جو تمنا ہے وہ کچھ نہ کچھ پوری ہو جاتی ہے.بسا اوقات عید پر بچے بھی ماں باپ کیلئے تھے لے کر آتے ہیں حالانکہ سب کچھ وہی دیتے ہیں انہی سے وظیفے ملتے ہیں، انہی سے ماہانہ اخراجات عطا ہوتے ہیں انہی کا کھانا کھاتے ہیں انہی کے گھر میں رہتے ہیں مگر جب وہ عید یا کسی اور ایسے موقع پر تحفہ پیش کرتے ہیں تو ماں باپ کا دل خوشیوں سے اچھلنے لگتا ہے.اس تحفے کو جو پیار اور محبت سے سجا کر پیش کرتے ہیں وہ قبول کرتے ہیں جیسے ان کو ایک دنیا جہان کی نعمت مل گئی ہو تو یہ محبت کے سلسلے اور ہیں ان کا نظام اور ہے ان کے قوانین مختلف ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے جب ہم تجھ سے مانگتے ہیں تو ایک پیار کا اظہار ہے تا کہ تمہیں بھی محبت کے سلیقے آئیں تا کہ تمہاری بھی یہ خواہش پوری ہو کہ جس نے ہمیں سب کچھ دیا ہے کبھی ہم بھی تو اسے کچھ دیں.اگر خدا نے یہ نظام نہ قائم کیا ہوتا تو ناممکن تھا کہ انسان اس تمنا کو جو اس کی فطرت میں گھول دی گئی ہے کبھی کسی پہلو سے بھی پوری کر سکتا مگر ماں باپ کے تعلق میں جب انسان یہ کر دیتا ہے اور لذت و خوشی محسوس کرتا ہے تو خدا کے تعلق میں بھی اگر ایسا رشتہ نہ ہو اور ایسی خوشی انفاق سبیل اللہ کے ساتھ وابستہ نہ ہو تو انفاق سبیل اللہ یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنا ضائع ہو جائے گا.خدا کو نہیں پہنچ سکتا.اس مضمون کو یوں اس مثال کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جو تم کماتے ہو اس میں سے بہترین چیز پیش کیا کرووَ مِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ اور اس میں سے جو زمین میں ہم نے تمہارے لئے اُگایا ہے.اب اسکے علاوہ دوسری آیات میں اور اس آیت کی طرز بیان میں ایک تھوڑا سا فرق رکھ دیا گیا ہے جو ابتدائی آیت ہے جس میں انفاق فی سبیل اللہ کا حکم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو کچھ ہم انہیں عطا کرتے ہیں اس میں سے وہ دیتے ہیں اور یہاں فرمایا ہے.مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ جوتم کماتے ہو اس میں سے بہترین دو.یہ اسلئے کہ انسان کے ضمیر کی پیاس بجھے اس کو وقتی طور پر یہ خیال آئے کہ جو میں نے کمایا ہے اس میں سے دے رہا ہوں.مگر اس جاہلانہ خیال کی نفی کرنے کیلئے کہ جو تم نے کمایا ہے گویا تم ہی گھر سے لے کر آئے ہو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ زمین اُگاتی ہے وہ ہم ہی تو اُگاتے ہیں.عطا کا آغا ز ہم سے ہے مگر پھر بھی تم نے محنت میں حصہ لیا ہے محنت کر کے اس میں حصہ ڈال لیا ہے تو ہم کہتے

Page 469

462 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ہیں تم اپنی محنت سمجھو اور اپنی محنت میں سے جو بہتر حصہ ہے وہ ہمارے حضور تحفے کے طور پر پیش کرو اور یہ نہ کرناوَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ جو پلید چیز ہے جو خبیث اور گندی چیز ہے وہ نہ نکالا کرنا ہمارے نام پر.کیونکہ وہ نکالو گے تو تمہارا خبیث باطن ہی نکلے گا اور کوئی خبیث اور پلید چیز خدا کو نہیں پہنچ سکتی.وہ چٹی بھی ہے تو ذلیل قسم کی چھٹی پڑ گئی ہے تم پر.اور اللہ کو ایسی قربانیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور پہچان یہ رکھ دی کہ وہ چیزیں خدا کو مقبول نہیں ہیں جو تم تُنفِقُونَ جب تم خرچ کرتے ہو تو اگر وہ چیزیں تمہیں عطا ہوں تو تمہاری آنکھیں شرم سے جھک جائیں.وَلَا تَيَمَّمُوَ الخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وہ چیزیں پلید نہ پیش کرو جو تم دیتے ہو خرچ کے طور پر.وَلَسْتُمُ باخذیہ لیکن جب لینا پڑے تو ایسی پلید چیز قبول نہیں کرتے إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فیہ سوائے اس کے کہ نظریں جھکا کر ، شرم پیتے ہوئے ، بے چینی کیساتھ ایک مجبوری کے طور پر قبول کر لولیکن با وجود اسکے سخت خفت محسوس کر رہے ہوتے ہو.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ اور جان لوکہ اللہ تو غنی ہے اور قابل تعریف ہے.غنی ہونے کے لحاظ سے اسکو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے.حمید ہونے کے لحاظ سے اسکوخبیث چیز پہنچ ہی نہیں سکتی.جو گندی چیز کسی کو دے گا جو صاحب حمد ہے اس کو گند تو نہیں پہنچ سکتا.ناممکن ہے.اسکو وہی چیز ملے گی جو قابل حمد ہو، تعریف کے لائق ہو.تو تمہارا تعلق خدا سے کٹ جائے گا بجائے اسکے کہ خدا سے تمہارا تعلق قائم ہو.اس کے بعد ایک اور بڑا لطیف مضمون بیان فرمایا کہ تم جب ہاتھ روکتے ہو اچھی چیزیں پیش کرنے سے تو اسکے پیچھے کوئی بات ہے اور بات یہ ہے کہ شیطان تمہیں ایسے رستے پر ڈال رہا ہے جس رستے پر پڑ کے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے تم محروم ہوتے چلے جاؤ گے اور پھر بھی تمہاری آرزوئیں پوری نہیں ہوسکیں گی.تمہارے نفس کی پیاس کبھی بجھ نہیں سکے گی اور تم بد سے بدتر حال میں مبتلا ہوتے چلے جاؤ گے.الشَّيْطنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ خدا کی راہ میں جو کنجوسی کرنے والے ہیں ان کا آغا ز اس بات سے ہوتا ہے کہ شیطان انہیں فقر سے ڈراتا ہے کہ تم غریب ہو جاؤ گے فقیر بن جاؤ گے، جو کچھ آتا ہے تم دیتے چلے جاتے ہو، تمہارے پاس کیا رہے گا، تمہاری تجارتیں کیسے چلیں گی، بیوی بچوں کے حقوق کیسے پورے کرو گے، روزمرہ زندگی میں جو تم نے ایک عزت بنائی ہوئی ہے اسکے تقاضے کیسے پورے کرو گے.تو فقر سے ڈراتا ہے اور جو ڈرنے والا ہے وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ شیطان نے کب دیا تھا جو اسکے تصرفات کے متعلق ہمیں نصیحتیں کر رہا ہے.دیا تو خدا نے تھا اور جس کو ہم دے رہے ہیں وہی ہے جس نے ہمیں دیا تھا تو یہ فقر کا سودا ہوہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے کہ عطا کرنے والا لے اور اس طرح لے کہ اسکوغریب اور فقیر اور منگتا بنا کے چھوڑ دے.اگر یہ تھا تو پھر دینے کی ضرورت ہی کیا تھی.تو ایک ایسی ناممکن بات ہے جو کسی صورت میں بھی عقل میں

Page 470

463 حضرت خلیفتہ مسیح الرابع آنہیں سکتی لیکن پھر بھی ڈر جاتے ہو تم بڑے بیوقوف ہو.شیطان جس کا کوئی تعلق بھی نہیں تمہارے رزق سے ، ہاں بعض صورتوں میں تعلق تم خود بنا لیتے ہو جب نا جائز رزق کماتے ہو تو پھر شیطان کا تم پر دخل ہوتا ہے مگر اللہ نے یہاں نا جائز رزق کی بات ہی نہیں شروع کی.فرمایا ہے جو تم کماتے ہو طیبات میں سے تو یہاں اس گروہ کی بات ہو رہی ہے جو نا جائز نہیں کمار ہے.جو نا جائز کمانے والے ہیں ان سے تو اللہ مانگتا ہی نہیں کبھی.کب خدا نے کہا ہے کہ اپنی حرام کی کمائیوں میں سے مجھے پیش کرو.وہ بحث میں شامل ہی نہیں مضمون.پس جن کو خدا نے دیا ہے شیطان نے نہیں دیا وہ بڑے بے وقوف ہونگے اگر شیطان کے ڈرانے سے ڈر جائیں اور خدا کی راہ میں جس نے انکو عطا فرمایا ہے خرچ کرنے سے پیچھے ہٹ جائیں اور شیطان اسکے ساتھ کیا کہتا ہے.یہ بہت ہی گہر انفسیاتی مضمون ہے کہ فقر سے ڈراتا ہے لیکن فحشا کا حکم دیتا ہے اور فحشا وہ زندگی ہے جس میں انسان کو بے حد خرچ کرنا پڑتا ہے اور شیطان کا جھوٹا ہونا اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ تمہیں فقر سے ڈراتے ہوئے ایسی باتوں کے شوق لگا دیتا ہے ایسی تمناؤں کو بھڑکا دیتا ہے جو بہت مہنگی ہوتی ہیں اور تمہاری زندگی کی عام ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے اس سے زیادہ خرچ کر وتب بھی تمہاری وہ خواہشیں جو فحشا سے تعلق رکھتی ہیں پوری نہیں ہوسکتیں.تو شیطان کی دھوکہ بازی اور اس انسان کی جو اس دھو کے میں آئے ان کی عقل کا پورا پول کھل جاتا ہے اس سے.اگر وہ تمہارا پیسہ بڑھانا چاہتا ہے تو فحشا کی طرف کیوں لگاتا ہے تمہیں.کیوں کہتا ہے کہ بہت مہنگی کاریں خرید و تو پھر تمہیں تسکین ملے گی کیوں کہتا ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ عیاشی کے سامان مہیا کرو یا حاصل کرو تب تمہیں صحیح زندگی کا سکون ملے گا اور ایک دوسرے سے دکھاوے میں آگے بڑھو ، ایسے اخراجات کرو جس سے تمہاری ظاہری طور پر قوم میں یا برادری میں ناک قائم رہ جائے اور اندر سے سب کچھ کٹ جائے اور سب کچھ ختم ہو جائے.یہ تعلیم جو فحشا کی تعلیم ہے یہ ثابت کر رہی ہے کہ شیطان کو تمہارے اموال میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تمہارے حق میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمنوں والے وساوس میں تمہیں مبتلا کر دیتا ہے.اللہ اس کے مقابل پر کیا کہتا ہے شیطان تمہیں فقر کا اور فحشا کا حکم دیتا ہے اور اللہ فرماتا ہے.يَعِدُ كُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا اور اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مغفرت کے وعدے کرتا ہے.پس انفاق فی سبیل اللہ کا تعلق ایک مغفرت سے بھی ہے اور یہ بہت ہی اہم تعلق ہے جس کو آخر پر بیان فرمایا ہے وہ پہلے تعلقات جومیں نے بیان کئے ہیں قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں ان پر یہ مستزاد ہے کہ یا درکھو وہ تمہیں چیزیں تو ملیں گی ہی مگر تم اتنے گنہگار ہو کہ اگر محض نیکیوں اور گناہوں کا آپس میں حساب تکڑی کے تول کیا جائے تو تمہاری بخشش کے سامان بہت مشکل ہیں.اور یہ امر واقعہ ہے کہ اگر با قاعدہ ناپ تول کر

Page 471

464 حضرت خلیفہ مسیح الرابع حساب ہو کہ نیکیاں کتنی ہو ئیں اور بدیاں کتنی تو بھاری اکثریت انسان کی ایسی ہے جن کے بدیوں کے پلڑے بھاری ہونگے اور نیکیوں کے کم ہونگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا ان دونوں کا گہرا تعلق ہے فرمایا مغفرت کے ذریعے تو ہم تمہارے بوجھ کم کر دیں گے جو بدیوں کے بوجھ ہیں وہ شمار میں نہیں لائیں گے اور فضل کے ذریعے نیکیوں کا پلڑا بھاری کر دیں گے.پس دونوں طرف انفاق فی سبیل اللہ کا فائدہ عجیب طریقے سے پہنچے گا کہ گناہوں کا پلڑا تو ہلکا ہوتا چلا جارہا ہے اور نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوتا چلا جارہا ہے اور باقی سب چیزیں اس کے علاوہ ہیں جو پہلے نصیب ہو گئیں.اور فضل کا دوسرا معنی ہے کہ اموال میں بھی برکت دے گا کیونکہ لفظ افضل قرآن کریم میں اموال کی برکت سے بھی تعلق رکھتا ہے.واضح طور پر جابجا اس کو دنیاوی نعمتوں کیلئے بھی استعمال فرمایا گیا ہے تو یہ دوہرا فائدہ بھی نکل آتا ہے کہ تمہارے اموال بڑھیں گے کم نہیں ہونگے.شیطان جھوٹ بول رہا ہے فقر نہیں ہوگا اور شیطان فحشا کی طرف بلاتا ہے جس سے گناہوں کے پلڑے بھاری ہوتے چلے جائیں گے.ہم مغفرت کی طرف بلا رہے ہیں جس سے تمہارے کئے ہوئے گناہ بھی کالعدم ہونے شروع ہو جائیں گے.وہ فقر سے ڈراتا ہے، ہم فضل کے وعدے کرتے ہیں اور ہم اپنے وعدوں میں بچے ہیں ، شیطان اپنے وعدوں میں جھوٹا ہے.اس صفائی اس لطافت کیسا تھ اس تفصیل سے دنیا کی کسی کتاب میں آپ کو انفاق کا مضمون دکھائی نہیں دے گا.انفاق فی سبیل اللہ کا مضمون قرآن کریم میں مختلف جگہ بیان ہوا ہے ہر جگہ ایک عجب انفرادی حسن کے ساتھ بیان ہوا ہے جو دوسری باتوں کے علاوہ کچھ مزید حکمت کی باتیں اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اسکو دیکھیں اس کو غور سے پڑھیں غور سے سنیں اور سمجھیں تو کتنا حسین نظارہ ہے اس تعلیم کا.دنیا کی کوئی تعلیم اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی.پھر فرماتا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ دیکھو خدا کیسی کیسی حکمتیں عطا فرمارہا ہے جس کو چاہتا ہے وہ حکمت عطا کر دیتا ہے.اور فرمایا حکمت تو اموال سے بہت بہتر ہے.اور حکمت ہی ہے جو دراصل اموال کے حصول کا موجب بن جایا کرتی ہے وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا اگر اموال کے بدلے صرف حکمت ہی کسی کو عطا کر دی جائے اسے بہت بڑا مال عطا ہو گیا.اور اموال بھی بڑھائے جائیں اور پھر حکمت بھی بڑھا دی جائے تو بہت بڑی دولت ہے جو نصیب ہوگئی.اور حکمت کی باتیں ہیں ساری جو آپ نے سنی ہیں اور حکمت کے متعلق ایک واضح حقیقت ہے جو آج کے زمانے میں خوب کھل گئی کہ جن کے پاس حکمت ہے وہ امیر ہیں ، جن کے پاس حکمت نہیں وہ غریب ہیں.ساری قومیں جو آج دنیا کے اموال پر قابض ہوئی ہیں اپنی حکمت کے ذریعے قابض ہوئی ہیں ، انہوں نے اسرار علوم کو سیکھا ہے ، وہ

Page 472

465 حضرت خلیفة المسیح الرابع علوم کے پردے میں جو راز تھے ان کو دریافت کرنے والے لوگ ہیں اور اسکے نتیجے میں تمام دولتوں نے اپنے خزانوں کے دروازے ان پر کھول دیئے ہیں اور جو بے چاری قو میں حکمت سے عاری ہیں جاہل قو میں ہیں ان کو اموال بھی نصیب نہیں ہوئے ، جو تھا وہ بھی امیر قومیں لوٹ کر لے گئیں.تو قرآنی تعلیم حکمت کے خزانوں سے بھری پڑی ہے.فرمایا وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا جو بھی تم میں سے حکمت عطا کیا جائے گا اسے گویا بہت مال دولت نصیب ہواؤها يَذَّكَّرُ الَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ لیکن عقل والوں کے سوا سیکھتا کون ہے مصیبت تو یہ ہے.اتنی باتیں کھول کر بیان ہوئی ہیں پھر بھی جب خرچ کے وقت آئیں گے تمہاری مٹھیاں بند ہی ہو جاتی ہیں جن کو کنجوسی کی عادت ہے، پھر تمہیں حوصلہ نہیں پڑے گا.وَمَا يَذَّكَّرُ الَّا أُولُوا الأَلْبَابِ اہل عقل کے سوا کون ہے جو نصیحت پکڑتا ہے جوان نصیحت کی باتوں سے استفادہ کی طاقت رکھتا ہے.یہ جو مضمون ہے آگے آئینوں میں بھی یہ چل رہا ہے لیکن میں آج صرف ان دو آیتوں پر اکتفا کرتے ہوئے وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.وقف جدید کا1995ء میں اڑتیسواں سال غروب ہو رہا ہے اور 96ء میں انتالیسواں سال طلوع ہو رہا ہے.سال 94 سینتیسواں سال تھا، سال 95 ء اڑتیسواں اور اب جس سال میں ہم داخل ہو چکے ہیں یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا انتالیسواں سال ہے.اور جماعت احمد یہ بحیثیت مجموعی جو خدا کی راہ میں خرچ کر رہی ہے اور جس انداز سے خرچ کر رہی ہے اس پہلو سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی یہ ایک ایسی دلیل ہے جو سورج کی طرح روشن ہے.دن کو سورج بن کر چمکتی ہے تو رات کو چاند بن کے نور برساتی ہے.دن رات جماعت احمد یہ جو خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کر رہی ہے ان کے اندر ایسا نور ہے کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.کوئی ہے تو جماعت لا کے دکھائے.ہم نے تو ایسے دیکھے ہیں جو دین کے نام پر جمعیتیں بھی بناتے ہیں ، خدمتیں بھی کرتے ہیں مگر اس وقت تک جب کوئی پیسہ عطا کرنے والا ہاتھ ان کو عطا کرتا رہے.کسی حکومت نے امداد بند کر دی تو ان کی خدمتیں بھی و ہیں ختم ہو جاتی ہیں مگر وہ جماعت جو خدا کے نام پر بنی نوع انسان کی خدمت بھی کر رہی ہو اور مذہب کی خدمت بھی کر رہی ہو یعنی دینی وروحانی اقدار کی بھی.ایک ہی ہے کل عالم میں جو جماعت احمد یہ ہے جو یہ سب کچھ کرتی ہے اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے کرتی ہے.کوئی غیر ہاتھ اسکو عطا نہیں کر رہا ، ہاں اللہ کا ہاتھ ہے جو عطا فرماتا ہے.اور یہ بات کہ خدا کی خاطر کرتے ہیں طیبات دیتے ہیں جو کمایا وہ خدا کی عطا سمجھتے ہوئے اسکے حضور عاجزانہ طور پر پیش کرتے ہیں اور اس میں لذت محسوس کرتے ہیں یہ اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ ہر

Page 473

466 حضرت خلیفة المسیح الرابع سال قربانی کرنے والا آگے بڑھتا جاتا ہے.وہ شخص جسکو قربانی کرتے ہوئے تکلیف محسوس ہو وہ دو چار سال چلے گا اسکے بعد تھک کے رہ جائے گا.کہے گا بس کافی ہوگئی جو دینا تھا دے دیا اب نہ ہمارے دروازے کھٹکھٹائے جائیں.اور جن کو یعنی جماعت احمدیہ کے جن مخلصین کو خدا کی راہ میں قربانی کی عادت ہے اگر سیکرٹری مال ان کے دروازے کھٹکھٹانا چھوڑ دے تو وہ جا جا کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں.کہتے ہیں کیا بات ہوگئی تم ہم سے چندہ لینے نہیں آئے اور دیکھو اگر اس طرح سنتی کی تو پھر ہوسکتا ہے کہ ہم سے غفلت ہو جائے اور پھر یہ روپیہ کہیں اور خرچ ہو جائے.اور جو ان سے بھی آگے سبقت لے جانے والے ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ روپیہ جو خدا کے لئے وقف کیا ہے کسی اور جگہ خرچ ہو جائے گا.وہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ روپیہ جو ہم نے فلاں غرض کے لئے رکھا ہوا تھا کیوں نہ خدا کی راہ میں خرچ کر دیں کیونکہ پھر توفیق ملے نہ ملے.اور ایسے واقعات بڑی کثرت سے ہر سال ہوتے ہیں اور بڑی کثرت سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ جو فضل کی صورت میں ان معنوں میں ہے کہ ہم بڑھانے والے ہیں ، یہ بھی پورا ہوتا چلا جاتا ہے.ایسے حیرت انگیز واقعات آئے دن میرے سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک آدمی نے وعدہ کیا ہے معین طور پر وہ وعدہ کرتے وقت پوری طرح دل کو اطمینان نہیں ہے کہ میں پورا بھی کر سکوں گا مگر اخلاص تھا ہمت تھی وہ وعدہ کر دیا اور پھر دعا کی کہ اللہ اسے پورا کرنے کے سامان فرمائے.پھر جس طرح غیب سے وہ سامان پیدا ہوتے ہیں اور بسا اوقات بعینہ اتنی رقم اچانک ملتی ہے جو وعدہ کی گئی تھی یعنی اگر کسی نے 7572 روپے کا وعدہ کیا تھا تو خدا تعالیٰ یقین دلانے کی خاطر کہ یہ میں نے خصوصیت سے تمہارے اخلاص کو قبول کرتے ہوئے اسلئے دی ہے کہ تم اپنا تحفہ مجھے پیش کر سکو اور جو رقم ملتی ہے 7572 روپے ہی ہوتی ہے.اب یہ جو واقعات ہیں یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک زندہ اور جاری اور ساری حقیقت بن چکے ہیں کوئی ماضی کے قصے نہیں ہیں.جیسے کل تھے ویسے آج بھی ہیں.جیسے آج ہیں ویسے کل بھی ہونگے اور یہ نشان صداقت اور عظمت کا نشان سوائے جماعت احمدیہ کے دنیا میں اور کسی جماعت کو عطا نہیں ہوا.پھر وہ لطف ایسا محسوس کرتے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ وہ ہر سال ہر آنے والے وقت میں قربانی میں پہلے سے بڑھ جاتے ہیں.صاف ثابت ہے کہ وہ محبت ہی کے نتیجے میں خرچ کر رہے ہیں چٹی والے تو ایسا نہیں کیا کرتے.کل جو لقاء مع العرب کا پروگرام تھا اس میں منیر ادبی صاحب نے مجھ سے ایک سوال کیا کہ نئے سال کی باتیں ہو رہی ہیں پرانا سال جارہا ہے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں.جماعت احمدیہ کا کیا موقف ہے.اس میں جومیں نے تفصیل سے ان کو موقف سمجھایا، کل ایک یہ بات بھی ان کو سمجھائی کہ جماعت

Page 474

467 حضرت خلیفہ مسیح الرابع احمدیہ کا ہر آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے لازماً بہتر ہوتا چلا جاتا ہے.یہ ناممکن ہے کہ جماعت احمدیہ پر کوئی ایسا سال طلوع کرے جو پچھلے سالوں سے کسی طرح نیکیوں میں پیچھے رہ جائے ، وہ ضرور آگے صلى الله بڑھتا ہے اور اس کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ سے براہ راست ہے کیونکہ آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور وہ وعدہ ہر اس شخص کے حق میں اور ہر اس جماعت کے حق میں لازماً پورا ہوگا جو صلى الله حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے اپنا ذاتی تعلق پختہ کر لیتا ہے یا کر لیتی ہے.وہ وعدہ ہے وَ لَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى تیرے لئے یہ قانون ہے جو اٹل ہے اسمیں کوئی تبدیلی نہیں، تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے ہوئے لحہ سے بہتر ہوگا.اس کے باوجود آپ کی زندگی میں ابتلا بھی آئے ، کئی قسم کی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے، جسمانی آزار بھی پہنچائے گئے مگر یہ وعدہ پھر بھی پورا ہوتا رہا.کوئی ایذارسانی ، کوئی رستے کی روک آپ کے اور آپ کی جماعت کے قدم آگے بڑھنے سے روک نہیں سکی.پس یہ مراد نہیں ہے کہ وقتی تکلیفیں نہیں آئیں کی مراد یہ ہے کہ دشمن جو چاہے کر لے ناممکن ہے کہ تیرے آنے والے لمحات کو گزرے ہوئے لمحات سے بدتر کر کے دکھا دے.وہ لازماً زیادہ شان سے چمکیں گے ، لازماً ان کو زیادہ رفعتیں عطا ہونگی.پس جماعت احمدیہ (میں نے ان سے مختصر یہ کہا ویسے تو تفصیل سے مضمون بیان کر رہا ہوں مگر اس وقت میں نے ان کو اس معاملے میں کہا کہ اس بات کی ایک زندہ مثال موجود ہے اور یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ ہمارا تعلق اس رسول سے ہے) جس کے حق میں یہ وعدہ فرمایا گیا تھا اور ہمارے حق میں وہ وعدہ پورا ہورہا ہے اور دوسری جماعتوں کے حق میں نہیں ہورہا.اسلئے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کا رسول سے تعلق ہے کس کا نہیں ہے.جب وہ وعدے پورے کرتا ہے تو کھول دیتا ہے اس بات کو کہ جن کا تعلق ہے وہ کوئی لگی چھپی بات نہیں ہے.ان لوگوں میں وہ وعدے پورے ہوتے دیکھو گے جو میں نے اپنے پیارے رسول سے کئے تھے.پس جماعت احمدیہ کی مالی قربانیاں ایک حیرت انگیز صداقت کا نشان ہیں اور اخلاص کے بغیر اور محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے اسلئے لوگ لاکھ طعنے دیں کہ جی یہ تو چندے کی باتیں کرتے ہیں لیکن آپ اس حقیقت پر پوری طرح قائم رہیں.آپ کی سچائی کا قدم ملنا نہیں چاہئے اس حقیقت سے کہ آپ جو خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں وہ چٹی نہیں ہے وہ محبت کے رشتے ہیں ، محبت کے اطوار ہیں جو از خود آپ کو خدمت دین پر یعنی مالی خدمت پر مجبور کرتے چلے جاتے ہیں کوئی بیرونی دباؤ نہیں ہے.ہاں نفس کی اپنی ایک تمنا ہے کہ وہ جس نے سب کچھ دیا ہے ہم بھی تو اسکی راہ میں کوئی تحفہ پیش کریں جسے وہ قبول کرے اور ہماری ادنی پیش کش کے مقابلے پر محبت کا سودا ہو اس کے پیار کی نظریں ہم پر پڑنے لگیں.اس پہلو سے وقف جدید بھی کوئی مستی نہیں.ساری دنیا میں جماعت احمد یہ جو ہر قسم کے چندے

Page 475

468 حضرت خلیفہ امسیح الرابع پیش کر رہی ہے ان میں جب وقف جدید کا اضافہ کیا گیا تو دوسرے چندوں میں کمی نہیں آئی یہ چندہ بڑھنا شروع ہو گیا.یہ عجیب سی چیز ہے کہ جتنا مرضی بوجھ ڈال دو اور بوجھ ڈالوتو رفتار اور بھی تیز ہو جاتی ہے کم نہیں ہوتی کسی قیمت پر.اور اگر بوجھ والی سواریاں ہیں تو جتنی سواریاں بعد میں داخل ہوتی ہیں وہ بھی تیز رفتار اسی طرح اسی شان کیساتھ آگے بڑھنے والی ہیں.جس پہلو سے بھی دیکھو یہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی علامتیں ہیں اور یہ اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک آپ کے اندر روحانیت زندہ رہے گی ، جب تک آپ کے اندر خدا کا تعلق زندہ رہے گا جب تک آپ اپنے خرچ کو اس آیت کے اسلوب کے مطابق ڈھالیں گے جو ہمیں بتاتی ہے کہ تم نے پیار اور محبت کے نتیجے میں خدا کے حضور پیش کرنا ہے اور ڈرنا نہیں.پھر اللہ تعالیٰ تم پر ایسے فضل نازل فرمائے گا کہ تم خود اس کے نتیجے میں حیرت زدہ رہ جاؤ گے.ہر سال جماعت کی مالی قربانیوں میں اضافہ جہاں ایک طرف اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت احمد یہ اخلاص میں آگے بڑھ رہی ہے وہاں اس بات پر بھی گواہ ہے کہ خدا اپنے وعدے پورے کرتا چلا آ رہا ہے اور اتنی قربانیوں کے باوجود جماعت غریب نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بڑھ کر امیر ہوگئی ہے.اب اس پس منظر میں میں آپ کو وقف جدید کے بعض کوائف پڑھ کے سناتا ہوں.وقف جدید کا آغاز تو 1957ء کے آخر میں ہوا غالبا دسمبر میں یا اس کے لگ بھگ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بنیاد ڈالی.جو ابتدائی ممبر مقررفرمائے تھے ان میں اس عاجز کے نام کے علاوہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا نام بھی تھا.رضی اللہ تعالیٰ عنہ.حضرت مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب کا نام بھی تھا جن کا ابھی چند دن ہوئے وصال ہوا ہے اور آج انشاء اللہ انکی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے گی اور حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب کا نام بھی تھا.حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کا نام بھی تھا اور بھی ایک دو نام تھے تو کل سات ممبران تھے جن سے اس تحریک کا آغاز ہوا.اور ابتدائی وعدہ مجھے یاد ہے اس سال کا شاید ستر بہتر ہزا ر وپے تھا اور پھر جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ نے اسے ترقی عطا فرمانی شروع کی تو اب آج کے وقت تک پہنچتے پہنچتے بالکل کا یا پلٹ چکی ہے.جو ابتدائی رقمیں تھیں وہ جو لاکھوں کی رقمیں تھیں کروڑوں میں بدل چکی ہیں جو ہزاروں کی تھیں لاکھوں میں اور لاکھوں کی کروڑوں میں بدل چکی ہیں اور دنیا کی وہ قومیں بھی اب اس قربانی میں شامل ہو گئی ہیں جن کو پہلے وقف جدید کی قربانی میں شامل نہیں کیا جا تا تھا یعنی یورپ اور دیگر مغربی اقوام یعنی یورپ کی اور امریکہ اور کینیڈ اوغیرہ کی اقوام.تو اب میں مختصر آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح محبت اور پیار سے جماعت احمد یہ وقف جدید کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ 73 ممالک کی رپورٹس

Page 476

469 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے مطابق 95ء کے سال میں جماعت احمدیہ کو تین کروڑ چار لاکھ پانچ ہزار کے وعدے پیش کرنے کی توفیق ملی تھی اور وصولی تین کروڑ اڑتالیس لاکھ چھیاسی ہزار ہوئی ہے.یعنی وعدے کم اور وصولی بہت زیادہ اور اس میں سب سے آگے امریکہ نے قدم رکھا ہے ماشاء اللہ.اسکی جب میں تفصیل بیان کروں گا تو انگلستان والوں کے لئے کافی سوچ بچار کے سامان ہیں اس میں.ایک طرف آپ کا امریکہ سے مقابلہ ہے، دوسری طرف ہندوستان سے بھی ہے اور میں آپ کو بر وقت متنبہ کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان دوڑ میں بہت پیچھے سے شروع ہوا اور آپ کے قریب قریب پہنچ چکا ہے.انٹر نیشنل کرنسی میں اگر اس کو تبدیل کر کے پیش کروں تو پانچ لاکھ ستر ہزار سات صد پاؤنڈ کے وعدے تھے یعنی آپ کی کرنسی میں انگلستان کی کرنسی میں اگر ڈھالوں اس کو اور اس کے مقابل پر وصولی خدا کے فضل سے چھ لاکھ ستر ہزار نو صد پاؤنڈ ہوئی.یہ وصولی کی جو خبریں ہیں یہ دراصل ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں کیونکہ وصولی بعد میں بھی ہوتی رہتی ہے.جب رپورٹیں آتی ہیں تو اس وقت تک جور تمیں آچکی ہوتی ہیں سب رپورٹوں میں شامل نہیں ہوسکتیں کیونکہ حساب کتاب میں دفتری انتقالات میں وقت لگتے ہیں اور بعض لوگ اپنی وصولیاں سال ختم ہونے کے بعد بھی پچھلے سال کے حساب میں کرتے رہتے ہیں اور مرکز کو بھیجتے رہتے ہیں تو یہ جو خدا کے فضل سے حیرت انگیز وصولی کی رقمیں آپ نے سنی ہیں ان سے انشاء اللہ تعالی زیادہ ہو گی کم نہیں ہوگی.اب میں بعض سالوں کے مقابلے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یعنی پچھلے دو سالوں کے مقابلے سال سینتیس میں یعنی 1994ء میں چار لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ کے وعدے تھے اور وصولی پانچ لاکھ چھبیس ہزار آٹھ سو چھیاسی کی تھی.تو یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے کہ وعدوں سے وصولی آگے بڑھ گئی ہے.پچھلے دوسالوں کے موازنے میں بھی یہی ہوا تھا.سال 94ء میں چار لاکھ بیاسی ہزار کے وعدے اور وصولی پانچ لاکھ چھیں ہزار کی تھی.سال اڑتیس میں پانچ لاکھ ستر ہزار سات سونوے پاؤنڈ کے وعدے اور چھ لاکھ ستر ہزارنوسوتیرہ پاؤنڈ کی وصولی.اور جہاں تک فیصد اضافے کا تعلق ہے گزشتہ دوسالوں کے موازنے میں اضافہ وعدوں سے بڑھ کر وصولی کی نسبت دی تھی 19.86.اور یہ جو سال ابھی گزرا ہے اس کو پچھلے سال پر اپنے وعدوں اور انکی وصولی کی جو نسبت بنی ہے وہ ہے 95ء میں 27 فیصد وعدوں سے زیادہ وصولی ہوئی ہے جبکہ گزشتہ سال 19.86 فیصد تھی.جہاں تک مجاہدین کی تعداد کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی خدا کے فضل سے یہ سال بہت بہتر رہا ہے.سال سینتیس میں ایک لاکھ کا نوے ہزار تین سو چوہتر چندہ دہندگان نے وقف جدید میں حصہ لیا تھا ایک لاکھ کا نوے ہزار تین سو چوہتر.سال 1995ء میں دولاکھ دس ہزار چھ سو بیالیس افراد نے مخلصین نے

Page 477

470 حضرت خلیفہ المسح الرابع وقف جدید کے چندے میں حصہ لیا.جہاں تک امریکہ کی غیر معمولی خدمات کا اور سبقت کے جوش کا تعلق ہے میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ امریکہ نے ایک فیصلہ کیا.میں جب وہاں گیا تو ایم ایم احمد نے مجھ سے بات کی جو امیر ہیں امریکہ کے کہ ہم نے غور کیا آپس میں کہ جب بھی کسی ملک کے سبقت لے جانے کا ذکر ملتا ہے تو ہمارے دل میں بڑی ایک قسم کی بے چینی سی پیدا ہو جاتی ہے جہاں خوشی بھی ہوتی ہے وہاں بے چینی بھی کہ کاش کسی مد میں تو ہماری سبقت کا بھی ذکر آئے تو بہت غور کے بعد ہم نے سمجھا کہ دوسرے بڑے بڑے چندوں میں تو ہم اپنی تعداد اور حالات کے لحاظ سے دنیا کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے تو وقف جدید کے چندے کو اپنے لئے خاص صح نظر بنا لیں اور یہ فیصلہ کریں کہ سارے مل کر وقف جدید میں بہر حال سب دنیا کی جماعتوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے.اس وعدے کو وہ پھر سال بہ سال پورا کرتے رہے اور مسلسل ان کا قدم ترقی کی طرف بڑھا ہے.چنانچہ اس سے آپ دیکھ لیجئے کہ اس وقت دنیا بھر کی جماعتوں میں پاکستان کے سوا باقی سب جماعتوں سے امریکہ کی جماعت آگے بڑھ گئی ہے.جو چندوں کے لحاظ سے بھی آگے بڑھ گئی ہے.وعدوں کے مقابل پر وصولی حاصل کرنے کی رفتار میں بھی آگے بڑھ گئی ہے اور تعداد چندہ دہندگان بڑھانے میں بھی آگے بڑھ گئی ہے.امریکہ کا اس سال 95 ء والے سال کا وعدہ ایک لاکھ ستر ہزار ڈالر تھا اور بڑی خوشی سے مجھے فون پر بتایا گیا ہے کہ ہم نے بڑی چھلانگ لگائی ہے اور اس دفعہ وعدہ ایک لاکھ ستر ہزارڈالر کا ہے.وصولی پتہ ہے کتنی ہوئی ہے، دولاکھ نوے ہزار ڈالر.مجھے انہوں نے بتایا خود انکو یقین نہیں آرہا تھا کہ عجیب بات ہے اللہ کی شان کہ ہم ایک لاکھ ستر کو زیادہ سمجھ رہے تھے اور خدا نے ایساولولہ پیدا کر دیا ہے دلوں میں کہ وصولی کی جو آخری خبر موصول ہوئی ہے وہ دولاکھ نوے ہزار ڈالر کی ہے اور چندہ دہندگان کے اعتبار سے بھی ماشاء اللہ گزشتہ سال کے مقابل پر انچاس فی صد اضافہ ہوا ہے اور وہی اضافہ غالبا اس وصولی پر بھی اثر انداز ہوا ہے کیونکہ جن کو بعد میں انہوں نے چندہ دہندہ بنایا ہے ان کا پہلے وعدوں میں نام نہیں آیا ہوگا ظاہر بات ہے.ہے.تو اس وجہ سے ان کی پھر وصولی کی رفتار خدا کے فضل سے یا وصولی کی نسبت خدا کے فضل سے بڑھ گئی.ویسے الحمد للہ کہ آج تک پاکستان کو یہ جھنڈ ا سب جھنڈوں سے بلند رکھنے کی توفیق مل رہی ہے تمام دنیا میں سب سے زیادہ وقف جدید کے میدان میں قربانی کرنے کی پاکستان کی جماعتوں کو توفیق ملی ہے.پیچھے سے بہت آگے بڑھنے والی جماعتوں میں سے امریکہ اب نمبر دو پر آ گیا ہے.پاکستان کے بعد ان کا نمبر دو ہے لیکن فرق اب تھوڑارہ گیا ہے.اس لئے بعید نہیں کہ اگلے سال یہ اپنی خواہش کے مطابق دنیا

Page 478

471 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی وقف جدید کی قربانی میں نمبر ایک جماعت بن جائے.جرمنی سب چندوں میں اللہ کے فضل سے اچھا اور مخلص اور متوازن قربانیاں کرنے والا ہے.وقف جدید میں جرمنی کی پوزیشن نمبر تین ہے اور اب آپ انتظار کر رہے ہونگے کہ برطانیہ کی باری آجائے گی.میں بھی یہاں رہتا ہوں آج کل لیکن افسوس کہ کینیڈا نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ کینیڈا باقی چندوں کے لحاظ سے ان سے پیچھے ہے.اسکی مالی استطاعت جماعت برطانیہ کی مالی استطاعت سے کم ہے مگر اسکو خدا نے توفیق بخش دی کہ کینیڈا کے بتیس ہزار پاؤنڈ کے مقابل پر برطانیہ کی طرف سے چھبیس ہزار پاؤنڈ پیش ہوئے ہیں.اور خطرناک بات یہ ہے کہ انڈیا چھٹے نمبر پر آکر اکیس ہزار نو سو تریسٹھ پاؤنڈ کی قربانی پیش کر رہا ہے جب کہ اس سے پہلے چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی.اب ہندوستان اور برطانیہ کے اقتصادی حالات کا موازنہ بھی کریں اور احمدیوں کی تعداد کا موازنہ بھی کریں اور پھر ان کو ملا کر دیکھیں تو پھر صحیح تصویر سامنے آئیگی.تعداد کے لحاظ سے اس وقت ہندوستان کی تعداد جو میں نے اندازہ لگایا ہے وہ تقریباً سات گنا زیادہ ہے.یعنی اگر ایک احمدی ہے یہاں تو وہاں سات احمدی ہیں اور جو بہت سے نو مبایعین اب آ رہے ہیں ان کو میں شمار نہیں کر رہا کیونکہ ابھی ہم نے اس کو سنبھالا نہیں ہے.پچاس ہزار جو گزشتہ سال آئے تھے ان کو تو فوراً اس میدان میں نہیں جھونک سکتے کیونکہ ان کی تربیت پر ابھی کچھ وقت لگے گا.وہ احمدی جو مستحکم ہو چکے ہیں ان میں سے اکثر چندہ دہندگان نکلے ہیں جو پرانے احمدی تھے اور اس طرح نسبت ایک اور سات کی ہے یعنی ان کو عددی فوقیت آپ پر سات گنا کی ہے لیکن اقتصادی نقطہ نگاہ سے اگر دیکھیں تو آپ کو ان کے مقابل پر فی آدمی باره گنا زیادہ آمد ہوتی ہے اور یہ ایک محفوظ اندازہ لگایا گیا ہے جو یونائیٹڈ نیشنز کے چھپے ہوئے اعدادوشمار سے نکالا ہے.کچھ عرصہ پہلے رفیق چانن صاحب نے جو اقتصادیات سے تعلق رکھتے ہیں مجھے یہ رسالہ بھیجا جو تازہ چھپ کے آیا تھا اور کہا کہ آپ نے چندوں کے موازنے کرنے ہوتے ہیں تو اس پہلو کو بھی مدنظر رکھ لیا کریں کہ کسی قوم میں مالی استطاعت کیا ہے اور اقتصادی حالت کیسی ہے.تو جواب تو میں نے انکو یہی دیا تھا یا ا بھی لکھوانا ہے کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ باتیں تو ہم اقتصادی جائزوں کے طور پر پیش کر ہی نہیں رہے یہ تو ذریعے ہیں ایک دوسرے سے مقابلہ پیدا کرنے کے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کے بہانے ملتے ہیں اور اللہ کے فضل سے یہ باتیں کام کر بھی رہی ہیں.اگر میں اقتصادی گہرائیوں میں اتر کر یہ مواز نے شروع کر دوں کہ دراصل کیا بات ہے اصل میں کون آگے ہے تو یہ سارا لطف بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا اور ان باتوں کی اکثر سمجھ بھی نہیں کسی کو آنی تو اسلئے مجھے چلنے دیں اسی طریقے سے.جماعت کو ضرورت ہے اچھی باتوں کی تحریک کی اور تحریک اسی غرض سے کی جاتی ہے اسلئے آپ اپنے نقطہ نظر سے جو مرضی سمجھیں مگر جس انداز سے مجھے

Page 479

472 حضرت خلیفة المسیح الرابع خدا کے فضل سے جماعت کے دلوں میں ایک ہلچل پیدا کرنے کی توفیق مل جاتی ہے وہی میرا مقصد ہے اور وہ پورا ہورہا ہے مگر بہر حال انہوں نے چونکہ بھیجا تھا اسلئے میں نے کہا استعمال ضرور کرنا ہے کیونکہ ان کا پہلا وار ہے وہ خالی نہیں جانا چاہیے.چنانچہ میں نے اسکو استعمال کیا.اب اسی کی رو سے میں آپ کو یہ موازنہ بتارہا ہوں کہ ہندوستان کی مالی استطاعت، اگر دتی کا لنڈن سے مقابلہ کیا جائے تو ایک اور بارہ کی نسبت ہے.ہندوستان اگر ایک روپیہ کماتا ہے تو انگلستان بارہ روپے کماتا ہے.تعداد دیکھی جائے تو آپ کے چندہ دہندگان کے مقابل پر ان کی سات گنا تعداد ہے.اور اس پہلو سے اس موازنے کے بعد آ پکوان سے بہت زیادہ آگے ہونا چاہیے لیکن وہ آپ کے قریب پہنچ گئے ہیں اور بعید نہیں کہ اگلے سال یا اس سے اگلے سال آپ کو پیچھے چھوڑ جائیں.اسلئے پتہ نہیں میں نے یہ کہہ کے آپ کے دلوں کو ہلایا ہے یا آپ الْحَمْدُ لِلهِ کر کے بیٹھ گئے ہیں کہ چلو اچھا ہوا ہمارے بھائی کو فوقیت مل گئی.جہاں مقابلے ہوں وہاں بھائی نہیں دیکھے جاتے.قرآن کریم فرماتا ہے لِكُلِّ وجَهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ بھائی بھائی بنادیا ہے تمہیں لیکن مقابلہ پھر بھی کروانا ہے اور وہ مقابلہ یہ ہے کہ تمہارے لئے ہم نے یہ سمح نظر بنا دیا ہے کہ نیکیوں میں ضرور ایک دوسرے سے آگے بڑھو.اسلئے جب نیکیوں میں مقابلہ ہو پھر بھائی بھائی نہیں دیکھنا پھر ضرور آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.سوئٹزر لینڈ کا نمبر سات ہے اور سوئٹزر لینڈ اس پہلو سے مالی اقتصادی حیثیت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے اونچی قوموں میں سے ہے.جو یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے چارٹ چھپتے ہیں ان کا طریقہ یہ ہے وہ کہتے ہیں فرض کروسوئٹزرلینڈ سو ہے تو امریکہ کتنا ہے انگلستان کتنا ہے یا وہ شہروں کے موازنے کر کے بتاتے ہیں کہ اگر زیورچ اتنا ہے تو لندن کتنا ہے اور کوپن ہیگن کتنا ہے وغیرہ وغیرہ تو اس پہلو سے جو میں موازنہ بتا رہا ہوں سوئٹزر لینڈ کو خدا کے فضل سے تمام دنیا میں اقتصادی برتری اگر سب ملکوں پر نہیں تو اکثر ممالک پر حاصل ہے اس پہلو سے ان کا آگے آنا خوشی کی بات تو ہے مگر اتنی تعجب کی بات نہیں.انڈو نیشیا بھی مالی قربانیوں میں ترقی کر رہا ہے اسکا نمبر آٹھواں ہے.حکیم کا نواں نمبر ہے اور جاپان کا دسواں نمبر ہے.بعض دوسرے چندوں میں جاپان آگے نکل جاتا ہے.یہ ہوتا رہتا ہے کبھی اس دوڑ میں، کوئی کبھی دوسری دوڑ میں کوئی اور تو اس پہ کچھ پڑ مردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے.کوشش کرتے رہیں خدا جب جس کو توفیق دے اسی کو کامیابی نصیب ہو گی.فی کس مالی قربانی کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ نمبر ایک ہے اگر سوئٹزر لینڈ کے یونائیٹڈ نیشنز کے چارٹ کی طرح سو نمبر مقرر کئے جائیں تو دوسرے نمبر پر امریکہ آتا ہے اس کے تہتر نمبر بنیں گے تیسرے نمبر پر پیجیئم آتا ہے جس کے اکٹھ نمبر بنیں گے چوتھے نمبر پر کور یا جس

Page 480

473 حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے انتیس نمبر اور جاپان کو پانچویں نمبر پر یہاں قربانی میں رکھا ہوا ہے لیکن دنیا میں وہ سوئٹزر لینڈ کے بعد نمبر دو ہے.Per Capita Income کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ کے اگر سونمبر ہیں تو جاپان کے چھیاسی نمبر یونائیٹڈ نیشنز نے مقرر کئے ہیں یہاں Per Capita Income سے مراد تجارتی انکم مراد نہیں ہے بلکہ Wages یعنی ایک آدمی جب نوکری کرتا ہے تو اسکو جو تنخواہ ملتی ہے اس کے اعداد و شمار سے یونائیٹڈ نیشنز نے یہ موازنہ شائع کیا ہے.سوئٹزرلینڈ میں سب ملازموں کی اگر اوسط نکالی جائے تو ملازم پیشہ کو اگر سو پاؤنڈ ملتے ہوں تو جاپان کے ملازم پیشہ کو چھیاسی ملتے ہیں.پس اس پہلو سے سوئٹزرلینڈ کی جماعت کا نمبر ایک ہونا نسبت کے لحاظ سے یہ ایک بڑا مبارک قدم ہے اور انہوں نے دنیا کی اقتصادی توقعات کے مطابق جماعتی مالی قربانیوں میں بھی ویسا ہی نمونہ دکھایا ہے.اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے.پاکستان کے موازنے میں صرف اتنا بتا نا کافی ہے لمبی فہرستیں پڑھنے کا وقت تو نہیں ہے کہ الحمدللہ ربوہ کوگزشتہ سالوں میں ہمیشہ اول آنے کی توفیق ملتی رہی ہے اس دفعہ بھی اول آیا ہے اور نمبر دو جہاں تک بالغان کی قربانی کا تعلق ہے دفتر بالغان الگ ہے دفتر اطفال الگ ہے.ربوہ نمبر ایک ہے، کراچی نمبر دو ہے اور لاہور نمبر تین ہے.جہاں تک اضلاع کا تعلق ہے اسلام آباد پھر سیالکوٹ پھر راولپنڈی پھر فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات ،شیخو پورہ سرگودہا ، عمرکوٹ ، کوئٹہ یہ دس اضلاع ہیں جن کو اسی ترتیب سے خدا تعالیٰ نے زیادہ خدمت کی توفیق بخشی ہے.جہاں تک اطفال کا تعلق ہے وہاں بھی ربوہ نمبر ایک ہے اور کراچی کی بجائے لاہور نے دوسری پوزیشن سنبھال لی ہے چنانچہ ربوہ اول، لا ہور دوئم اور کراچی سوئم ہے.جہاں تک اضلاع کا تعلق ہے گوجرانوالہ بہت پیچھے رہ جانے والی جماعتوں میں سے تھا جو آگے بڑھ کر اس میدان میں اول آگیا ہے.اور راولپنڈی اس کے بعد، پھر سیالکوٹ پھر شیخو پورہ پھر فیصل آباد، اسلام آباد، اوکاڑہ.سرگودہا، نارووال اور آخر پر میر پور خاص.یہ ہے خلاصہ اس سال کی مالی قربانیوں کا اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ آئندہ بھی اسی ذوق و شوق کیسا تھ آپ وقف جدید کے میدان میں ہر پہلو سے پہلے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرتے رہیں گے.جماعتوں کو میں پھر دوبارہ یاد دہانی کرواتا ہوں کہ نو مبائعین کو ضرور شامل کریں خواہ معمولی رقم لے کر بھی ان کو شامل کریں.ایک دفعہ جس کو خدا کی راہ میں محبت سے کچھ پیش کرنے کی توفیق مل جائے پھر وہ چسکا پڑ جاتا ہے پھر وہ زندگی بھر اسکا چسکا اترتا نہیں ہے.اسلئے بڑے بڑے بھاری بھاری چندے وصول نہ کریں شروع میں جتنی توفیق ہے اتنا وصول کریں تا کہ وہ جو محبت کا مضمون ہے وہ قائم رہے چٹی کا مضمون نہ آجائے.ایک دفعہ آپ نے نئے آنے والوں پر توفیق سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیا اور اصرار کیا کہ تم سولہواں

Page 481

474 حضرت خلیفہ مسیح الرابع حصہ ضرور دو اور فلاں میں اتنا دو اور فلاں چندے میں اتنا دو تو بعید نہیں کہ وہ چونکہ کمزور ہیں ان کی کمریں ٹوٹ جائیں اور ایمان میں بڑھنے کی بجائے وہ پہلے مقام سے بھی نیچے گر جائیں اس لئے حکمت کے تقاضے پورے کریں.خدا نے جو انفاق فی سبیل اللہ کی روح بیان فرمائی ہے کہ وہ تعلق باللہ ہونی چاہیے اور انسان اپنے شوق سے محبت کے طور پر پیش کرے اس رو سے جتنا کوئی توفیق پاتا ہے اس توفیق کو مدنظر رکھ کر اس سے لیں.لیکن کچھ نہ کچھ کی تو فیق تو ہر ایک رکھتا ہے.اگر ایک معمولی رقم بھی وہ دے دے خوشی سے سے دے دے تو وہ بھی قبول کر لیں اور تعداد بڑھانے کی کوشش کریں.تعدا دتو جماعت میں مالوں کی بھی بڑھ رہی ہے اور اَنفُس کی بھی بڑھ رہی ہے اس کے علاوہ ایک نظام ہے کہ جہاں تعداد کم بھی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ موت کے ذریعے خدا کا قطعی اٹل نظام چلتا ہے کہ نیک ہوں یا بد ہوں سب نے بالآخر خدا کے حضور واپس جانا ہے.جو ترقی کرنے والی قومیں ہیں ان کے زندوں کی تعداد مرنے والوں کے مقابل پر بہت تیزی سے بڑھتی ہے.جو زندہ رہنے والی قومیں ہیں ان کے اندر صاحب ایمان اور پر خلوص اور تعلق باللہ رکھنے والوں کی تعداد ان کے مقابل پر بہت زیادہ بڑھتی ہے جو چھوڑ کر واپس خدا کے حضور حاضر ہورہے ہوتے ہیں.حضرت مولوی ابوالمنیر صاحب کا میں نے ذکر کیا تھا ان کے علاوہ بھی کچھ جنازے ہیں.مولوی امیر احمد صاحب در رویش قادیان پہلی صدیقہ صاحبہ امیر صاحب اسلام آباد علیم الدین صاحب کی بیگم ، چوہدری فضل الہی صاحب ربوہ.منور احمد صاحب لون ہکر مہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ علی محمد صاحب.یہ ہمارے شیر محمد کی بھا وجہ تھیں ،مکرم ناصر احمد صاحب ہم زلف ملک اشفاق احمد صاحب، افسر حفاظت یا نائب افسر حفاظت.ان سات کے جنازے بھی ابھی نماز جمعہ اور عصر کے بعد پڑھے جائیں گے.مولوی صاحب کے متعلق بالکل مختصر تعارف میں کروا دیتا ہوں کہ آپ کی پیدائش 17 / دسمبر 1917ء کی ہے یعنی مجھ سے عمر میں گیارہ سال بڑے تھے.اور اللہ کے فضل کیساتھ بچپن ہی سے خدمت دین کے لئے وقف اور ہمہ تن خدمت دین خصوصاً علمی خدمت میں پیش پیش رہے.آپ کے دادا حضرت حکیم چراغ دین صاحب اور والد حضرت منشی عبدالحق صاحب دونوں صحابی تھے اور منشی صاحب کی اولاد ساری خدا کے فضل سے دیندار.بہت نیک ، خدمت کرنے والی اور ان کی اگلی نسلیں بھی آگے پھر اسی رنگ میں رنگین ہیں.حضرت مصلح موعود کا دست شفقت خصوصیت سے حضرت مولوی صاحب پر ہوا کرتا تھا یہاں تک کہ بہت سے لوگ اس سے کچھ حسد نہیں تو رشک محسوس کرتے تھے مگر دیکھنے والوں کو حسد لگا کرتا تھا.اس حد تک مولوی صاحب سے حضرت مصلح موعودؓ شفقت فرمایا کرتے تھے کہ دوسرے علماء کو بھی تکلیف

Page 482

475 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہوتی تھی کہ اس میں کون سی زیادہ باتیں آگئی ہیں جو اتنا لا ڈلا ہے اور بڑی بات یہ تھی کہ خدمت دین میں خصوصیت سے علمی خدمت میں مولوی صاحب کو ایک بڑے لمبے عرصے تک توفیق ملی ہے کہ مصلح موعودؓ کی مددکریں اور اس کا اظہار مختلف رنگ میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بھی فرمایا کہ قادیان میں 1943ء ہی میں جو تعلیمی کمیٹی انجمن کی قائم فرمائی جس کے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اس میں مولوی صاحب کو بھی اپنی کم عمری کے باوجود اس زمانے کے لحاظ سے اس کا ممبر بنایا اور باقی ممبر جو تھے ان کا اندازہ کریں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ ملک غلام فرید صاحب ، مولانا شمس صاحب.ملک سیف الرحمان صاحب وغیرہ یہ اس کے ممبران تھے.پھر ایک موقع پر آپ کو ناظم انخلا آبادی مقرر فرمایا گیا.جامعۃ المبشرین میں 1949ء میں آپ بطور مدرس مقرر ہوئے اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جماعت میں جو عہدے ہیں ان کی کوئی خاص قیمت نہیں ہے خدمت ہے بس.کسی وقت بھی کسی شخص کو کبھی ناظر بنا دیا جائے کبھی استاد بنا دیا جائے مجال ہے جو کبھی ماتھے پر بل پڑیں کہ میں ناظر تھا اب میں استاد بنا دیا گیا ہوں.اسی طرح شوق اور ولولے سے ہنستے کھیلتے مسکراتے ہوئے خدمت سرانجام دینے کی روح ہے جو جماعت کو زندہ رکھے ہوئے ہے.تو وہاں میرے بھی استاد تھے.قرآن کریم کیلئے ہمارے مولوی نورالحق صاحب بھی استاد ہوا کرتے تھے اور بڑی شفقت کا تعلق تھا بے تکلفی بھی تھی بچے ان کو تعلیم میں چھیڑا بھی کرتے تھے اور یہ مسکرا کر کافی حوصلے کا ثبوت دیا کرتے تھے.یہ عجب قسم کے ہمارے تعلقات ہوتے تھے.ادب بھی ہوتا تھا بے تکلفیاں بھی تھیں.وقف جدید کا قیام ہوا ہے تو آغا ز ہی سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ بھی مجلس وقف جدید کے ممبر رہے اور ہم ہمیشہ مالی معاملات میں حضرت مولوی صاحب کو ضرور مقرر کیا کرتے تھے کیونکہ یہ یقین تھا کہ یہ مالی نگرانی میں بہت اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہیں اور یقین ہوتا تھا کہ کسی غلط خرچ کی اجازت ہی نہیں دیں گے.اسلئے امانتوں پر دستخط کیلئے مولوی صاحب کا نام ضروری تھا اور اکا ؤنٹس کو دیکھنے کے بعد جب تسلی کر لیتے تھے کہ ہر چیز درست خرچ ہو رہی ہے تب دستخط کیا کرتے تھے.پھر اراکین افتاء میں بھی آپ رہے.دارالقضاء کے بورڈ میں بھی رہے اور قرآن پبلیکیشنز ، ناظم بک ڈپو، سیکرٹری نصرت پرنٹرز رہ کر اہم خدمات سرانجام دیں.اب میں جو قرآن کریم کا اردو ترجمہ کر رہا ہوں اس میں بھی حسب سابق جیسا کہ حضرت مصلح موعوداً بعض علماء سے خدمتیں لیا کرتے تھے.میں نے ایک ترجمۃ القرآن کمیٹی بنائی ہے ربوہ میں جو میرے ترجمے پر گہری نظر ڈالتے ہیں کہیں کوئی گرائمر کی غلطی میری لاعلمی کی وجہ سے رہ گئی ہو یا کوئی ایسا نکتہ جو میری توجہ میں لانا ضروری ہو وہ بڑی محنت سے اس پر غور کرتے ہیں تفصیل سے چھان بین کر کے اپنا

Page 483

476 حضرت خلیفہ امسیح الرابع مافی الضمیر میرے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کی بات سے اتفاق کروں یا نہ کروں.بسا اوقات کرتا ہوں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اکثر تجویز میں رد کرنی پڑتی ہیں وہ سمجھتے ہیں تو بڑی خوشی سے پھر قبول کر لیتے ہیں کہ ہاں یہ بات درست ہے تو اس طرح ہم مل جل کر خدمت کر رہے ہیں.مولوی نور الحق صاحب کو بھی اسمیں مقرر کیا گیا تھا اور اسمیں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے.ہر میٹنگ میں شامل ہوتے تھے اور بڑی گہری نظر سے مشورہ بھیجا کرتے تھے جب میں مشورہ رڈ بھی کر دیتا تو خوش ہوتے تھے اور کہتے تھے ہاں میں سمجھ گیا ہوں آپ کی بات درست میری غلط اور جب قبول کرتا تھا تو شاید اور بھی زیادہ خوش ہوتے ہوں مگر اچھے تعلقات رہے ہمیشہ ان سے.اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے.وہ پود جو واقفین کی اس زمانے میں قادیان کی پود ہے وہ عجیب بے نظیر پود تھی.کچھ رہ گئے ہیں بہت سے رخصت ہو گئے.جو رہ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنے پیار اور اپنی رضا کی چادر میں لپیٹ کر یہاں سے لے جائے اور جو چلے گئے ہیں ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.پس نماز جمعہ کے بعد نماز عصر ہوگی کیونکہ آج کل دن چھوٹے ہیں اور اسکے معا بعد انشاء اللہ ان سب کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.الفضل انٹر نیشنل 23 فروری 1996ء)

Page 484

477 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرمائی: خطبه جمعه فرموده 27 دسمبر 1996 ء بیت الفضل لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ الحدید کی درج ذیل آیات کی تلاوت اِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقتِ وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ O وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِةٍ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ ط لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ط وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِايْتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَبُ الْجَحِيمِ 0 (الحدید : 19-20) آج کا خطبہ جیسا کہ میں نے کل ہندوستان کے جلسے کے ابتدائی خطاب میں ذکر کیا تھا وقف جدید کے مضمون کے لئے وقف ہے.پرانا دستور یہی چلا آرہا ہے کہ یا تو سال کے آخری خطبے میں وقف جدید کےسال نو کا آغاز ہوتا ہے یا اس سے آئندہ سال کے آغاز میں پہلے خطبے میں.جب میں ہندوستان گیا تھا تو یہی تاریخ تھی یہی دن جب میں نے وہاں 1991ء میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کیا تھا.اب یہ دونوں جلسے بہت اہمیت رکھتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عجیب تصرف ہے کہ وہی دن ہیں اور وہی تاریخیں ہیں اور جو بھی برکتیں ان میں مضمر ہونگی وہ ہماری وہمی نہیں بلکہ عملاً اللہ تعالیٰ ان برکتوں کو دکھائے گا تو ہمارا یقین اور ایمان خدا تعالیٰ پہ اور بھی زیادہ جلا پائے گا.وقف جدید کی تحریک کا آغاز تو 1958 ء سے ہے یا 57 ء کے آخر سے اور اس پہلو سے ایک لمبے زمانے سے یہ تحریک چلی آرہی ہے مگر بیرونِ پاکستان چندوں کے لحاظ سے اسے ممتد کرنے کا آغاز چند سال پہلے ہوا جب میں نے یہ تحریک کی تو اس وقت میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی ضرورتیں پیدا ہونے والی ہیں کیونکہ تبلیغ جاری تو تھی مگر دھیمی دھیمی اور اس میں وہ نئی حرکت اور نئی سرعت پیدا نہیں ہوئی تھی جواب اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے اور تبلیغ ہی کے تقاضے ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے نئے مالی تقاضے اُبھرے اور اس کی وجہ سے عام چندوں تک محدود رہتے ہوئے وہ ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتی تھیں.مثلاً وقف جدید کے تعلق میں میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کی جماعتیں چونکہ ابھی غریب ہیں اور تقسیم کے بعد ان کو بہت بڑا دھکا لگا تھا جس سے ابھی تک وہ سنبھلی نہیں اس لئے وہاں کی وقف جدید کی

Page 485

478 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ضرورتیں ان کے چندے کی صلاحیت کے مقابل پر بہت زیادہ ہیں.اسی طرح افریقہ کی جماعتیں چونکہ بیشتر غریب ہیں نہ وہ پوری طرح اپنے چندوں میں خود کفیل ہیں نہ وقف جدید کی طرز کا نظام وہاں جاری کرنے سے یا وقف جدید کی نہج پر انکی تعلیم و تربیت کرنے کے لئے ہمارے پاس وہاں کوئی ایسے ذرائع مہیا ہیں کہ ہم ملکی طور پر ہی ان ضرورتوں کو پورا کرسکیں اس لئے میں نے یہ تحریک کی کہ مغربی ممالک بالخصوص اور بیرونی ممالک بالعموم اس تحریک میں شامل ہو جائیں اور محض پاکستان ہی کو یہ اعزاز نہ رہے کہ وہ اکیلا یا ہندوستان اور پاکستان دونوں یا بنگلہ دیش یہ تینوں دراصل کہنے چاہئیں تھے مجھے ، کہ ان تینوں میں یہ اعزاز نہ رہے کہ یہ تو ایک ایسی تحریک میں حصہ لے رہے ہیں جو خالصہ للہ ایک عظیم مقصد کے لئے قائم کی گئی اور باقی جماعتیں دنیا کی محروم رہ گئی ہیں.جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ مجھ پر یہ امر واضح نہیں تھا کہ کوئی حقیقی ضرورت ایسی اُبھری ہے جس کو پورا کرنے کے لئے یہ تحریک کی جائے اور اندازہ تھا کہ یہ ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اس لئے آمد کے ذرائع بھی بڑھنے چاہئیں لیکن بعد کے حالات سے پتہ چلا کہ یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی سے تحریک دل میں ڈالی گئی تھی کیونکہ اچانک تبلیغ میں ایسی سرعت پیدا ہو گئی اور دنیا کا رجحان احمدیت کی طرف اس تیزی سے بڑھنے لگا کہ ان کو تبلیغ کرنے کا تو الگ مسئلہ، ان کی تربیتی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے بہت بڑی مالی ضروریات در پیش تھیں.کیونکہ انہی میں سے مبلغ نکالنا ، ان کی تربیت کے سامان کرنا ، ان کو جگہ جگہ جلسوں کے ذریعہ اور تربیتی کلاسز کے ذریعہ اس دین کی تفصیل سمجھانا جس کو عموماً بغیر سمجھے عامتہ الناس قبول کرتے ہیں اور یہ معاملہ صرف احمدیت کے لئے خاص نہیں دنیا کے ہر مذہب کا یہی حال ہے.عامتہ الناس عموماً ایک عقیدے کو تسلیم کر لیتے ہیں بعض نشانات کو دیکھ کر بعض رجحانات کو دیکھ کر اور بعض دفعہ آسمان سے ایسے تائیدی نشانات ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں جن کو دیکھنے سے وہ یقین کر لیتے ہیں کہ یہ سچا سلسلہ ہے مگر اس کے عقائد کی تفصیل ، اس پر عمل کرنے کے جو طریق ہیں ان سے بسا اوقات نا واقف رہتے ہیں.اسی لئے قرآنِ کریم نے وہ نظام جاری فرمایا کہ اپنے مرکز میں پہلے مختلف قوموں کے نمائندوں کو بلا ؤ جو مسلمان ہو چکے ہیں، ان کو بلاؤ ، ان کو وہاں ٹھہراؤ ، انکی تعلیم و تربیت کرو اور پھر واپس بھیجوتا کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر جا کر خدمت دین کا کام بہتر طریق پر سر انجام دے سکیں.یہ ضروریات تھیں جن کے لئے خدا تعالیٰ نے مغربی جماعتوں کو یعنی آزاد ایسے ملکوں کو جو نسبتاً ترقی یافتہ ہیں ان کو بھی اس تحریک میں شمولیت کی توفیق بخشی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بہت ہی اعلیٰ پھل ہمیں دکھائے اور ایسے جن کا ہمارے ذہن میں کہیں دور کے گوشوں میں بھی کوئی تصور نہیں تھا.لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں قرآن کریم کی ان آیات کا

Page 486

479 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ترجمہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور مختصراً ان مضامین کو آپ کے سامنے کھولنے کی کوشش کروں گا.اِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَتِ یقیناً صدقہ دینے والے اور صدقہ دینے والیاں وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا یعنی وہ لوگ جن کے صدقے سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی خاطر اللہ کو قرضہ حسنہ کے طور پر کچھ دیا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا ی ضعَفُ لَهُمُ ان کے لئے بڑھایا جائے گا کیا بڑھایا جائے گا یہ بات مہم چھوڑ دی گئی ہے.اور یہ مہم چھوڑنا دو طریق پر ہوا کرتا ہے.بعض لوگ جن کی نیتیں خراب ہوں وہ مجمل وعدہ کر دیا کرتے ہیں مبہم سا وعدہ کر لیتے ہیں تا کہ ہم پھر پکڑے نہ جائیں.جب نہ پورا کرنے کو دل چاہے تو کہتے ہیں ہم نے یہی کہا تھا نہ کہ کچھ دیں گے تو کچھ دے دیں گے ، یہ کب کہا تھا کہ کب دیں گے اس لئے کوئی مطالبہ نہ کرو ہم سے.مگر جو کریم ہو جو بے انتہا احسان کرنے والا ہو وہ جب مجمل وعدہ کرتا ہے تو مراد یہ ہے کہ اس سے بہت زیادہ دیں گے جو تم سمجھ رہے ہو اس لئے معین کر کے ہم اپنے ہاتھ نہیں باندھتے.حسب حالات تمہارے اخلاص کے تقاضوں کے مطابق جتنا چاہیں گے اتنا دیتے چلے جائیں گے مگر جو بھی دیں گے تمہاری تو قعات سے بڑھ کر دیں گے.خدا تعالیٰ کے وعدوں میں یہ چیز شامل ہوتی ہے اس کے سوا ایک بھی خدا کا وعدہ نہیں ملتا جو محسنین سے یا اس کی راہ میں خدمت کرنے والوں سے کیا گیا ہو اور اس میں ان توقعات سے بڑھ کر دینے کا مضمون شامل نہ ہو.چنانچہ فرمایا ضعَفُ لَهُمُ ان کے لئے بڑھا دیا جائے گا وَ لَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ اور ان کے لئے معزز اجر بھی ہوگا یعنی اجر کریم سے مراد جیسا کہ ایک اور آیت کے حوالے سے میں نے بیان کیا تھا ان کو اموال ہی میں برکت نہیں دی جائے گی ، ان کی عزتوں میں بھی برکت دی جائے گی ، ان کو معزز بنایا جائے گا اور کریم سے مراد خی بھی ہے وہ شخص جو اعلیٰ اقدار کی خاطر دل کھول کے خرچ کرتا ہے.تو اجر کریم خدا سے متوقع ہے اور وہ اجر کریم ان کو بھی کریم بنانے والا ہوگا.وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِةٍ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ.(الحدید: 20) اب یہاں لفظ صدیق کا استعمال اتفاقی نہیں ہے.دیکھیں نبوت کا یہاں ذکر نہیں ملتا.صدیق اور اس کے بعد شہداء کا ذکر فرمایا اور مصدقین اور مصدقات کا مادہ وہی ہے جو صدیق کا ہے اور مصدقات اور مصدقین میں جو باب استعمال فرمایا گیا ہے اس میں کچھ مبالغے کے معنے ضرور پائے جاتے ہیں.وہ لوگ جو بکثرت صدقہ دینے والے ہیں، جو بکثرت صدقہ دینے والیاں ہیں وہ چونکہ اپنے نیک اعمال میں اور خدا کی خاطر دل کھولنے میں ایک نمایاں منصب پاگئے ، نمایاں صورت اختیار کر گئے اس لئے اللہ کی طرف سے بھی ان سے نمایاں اجر کا وعدہ ہونا چاہئے تھا.پس جہاں اجر کریم فرما دیا اس سے اگلی آیت ہی میں ایک ایسا

Page 487

480 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع مضمون بیان فرمایا ہے جو نبوت سے نیچے سب سے اعلیٰ منصب کا وعدہ کر رہا ہے.چنانچہ فرمایا وَالَّذِينَ ا مَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِہ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے رسولوں پر یعنی یہی لوگ ہیں جن کی ایک مزید تعریف یہ فرما دی گئی ہے کہ ان کا خرچ محض اپنی ذاتی کرامت سے نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول پر ایمان کے نتیجے میں یہ پیدا ہوا ہے.فرمایا هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَ الشُّهَدَاءُ اس معیار کے لوگ وہ ہیں جن کو ہم صدیق شمار فرمائیں گے.اور اس سے بڑا اجر کریم اور کیا ہوسکتا ہے پھر کہ صدیقیت کا مقام پا جائیں اور صدیقیت کا مقام خدا کی راہ میں خرچ بڑھانے کے نتیجے میں اور پھر لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَ نُورُهُمْ.پیچھے جب تحریک جدید کے سال کا آغاز کرتے ہوئے میں نے قرآن کریم کی ایک آیت آپ کے سامنے رکھی تھی اس میں بھی نور کا وعدہ تھا اس آیت میں بھی نور کا وعدہ ہے کہ انھیں صد یقیت کا مقام بھی ملے گا ،شہادت کا مقام بھی ملے گا عِندَ رَبِّهِمُ اپنے رب کے حضور.لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَ نُورُهُمُ ان کے لئے ان کا اجر بھی ہے اور ان کا نور بھی ہے.اب ان کا اجر اور ان کا نور سے کیا مراد ہے؟ یہ مختصر بیان کر کے میں وقف جدید کی طرف واپس لوٹوں گا.اجر جو ہے وہ تو قربانیوں سے تعلق رکھنے والی بات ہے.جس شخص میں جتنی توفیق تھی اس نے اس حد تک قربانی کی اور اللہ تعالیٰ نے اس شرط کے ساتھ کہ میں بڑھاؤں گا اور تمہاری توقعات سے بڑھ کر دوں گا اس کو پورا فر ما دیا یہ تو اجر ہو گیا لیکن نُورُ هُمُ ان کا نور کیا ہے؟ دراصل ان کا نور ہی ہے جوا جر کا فیصلہ کرتا ہے اور نور سے مراد وہ دل کی پاکیزگی اور صفائی ہے جس کے ساتھ انسان ایک قربانی خدا کے حضور پیش کرتا ہے اور اجر کریم کا اس سے گہرا تعلق ہے.جتنا وہ نور بلند ہوگا ، روشن تر ہوگا، خدا کے حضور خالص ہو کر چمکے گا اسی حد تک اس کے اجر کو بڑھا دیا جائے گا اور اجر کو اعزاز بخشا جائے گا.پس صدیقیت کا تعلق نور سے ہے اور شہادت کا بھی تعلق نور سے ہے.صالحیت کا اس تفصیل سے تعلق نہیں ہے نور کے ساتھ جیسا ان دو مراتب کا ہے.اس لئے دیکھیں یہاں صرف دو ہی مراتب کا ذکر ہے.صدیقیت کا اور شہادت کا اور نہ نبوت کا ہے اور نہ صالحیت کا ہے.تو صالحیت جو عام روز مرہ کی نیکیاں ہیں انسان کو اس بلند مقام تک نہیں پہنچایا کرتیں.جس کی پہلی سیڑھی شہادت ہے اور دوسری سیڑھی صدیقیت ہے اور چونکہ نبوت بالعموم اس طرح عطا نہیں ہوا کرتی وہ منصب ہی بالکل الگ ہے اس لئے جہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کی جزا کا تعلق ہے وہاں نبوت کا ذکر سر فہرست فرما دیا لیکن روز مرہ کی مومن کی قربانیوں کا ذکر ہے.اس میں جو اعلیٰ درجے کی قربانیاں کرنے والے ہیں ان کو دو انعامات کا وعدہ فرمایا کہ تم میں صدیق بھی پیدا ہونگے اور شہید بھی پیدا ہوں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا احسان ہوگاوَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِا يَتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَبُ الْجَحِيمِ اور وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ان کے لئے تو جہنم کے عذاب کے سوا اور

Page 488

کچھ نہیں ہے.481 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع مطر پس مالی قربانی کے جو مرتے ہیں ان کو سمجھے بغیر حقیقت میں مالی قربانی کا جذ بہ صیح طریق پر بیدار ہو ہی نہیں سکتا اور ان مراتب کو سمجھنے کے نتیجے میں مالی قربانی میں جو احتیاطیں ضروری ہیں ان سے بھی انسان واقف ہو جاتا ہے.کیونکہ بسا اوقات مالی قربانی دیکھا دیکھی سے بھی ہو جاتی ہے.مالی قربانی میں مسابقت کا جائز شوق بھی شامل ہو جاتا ہے.وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اگر نظران بلند مقامات کی طرف اور مراتب کی طرف ہو جن کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے تو مالی قربانی میں ایک نئی چلا پیدا ہو جائے گی اور مالی قربانی ہمیشہ محفوظ رہے گی.پس اس پہلو سے وقف جدید کے ذکر میں جب میں بعض مثالیں بھی دوں گا.بعض عظیم الشان قربانیوں کا ذکر بھی کروں گا تو ہرگز یہ مراد نہیں کہ اپنی قربانیوں کو محض اس غرض سے بڑھا ئیں کہ آپ کا ذکر چلے.اس غرض سے بڑھا ئیں کہ آپ میں مسابقت کی وہ روح پیدا ہو جو آپ کے لئے صلح نظر بنادی گئی ہے، جو آپ کا ماٹو قرار دے دیا گیا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم فرماتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے بنائی گئی ہو اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ یہ جو آیت تھی یہ میرے ذہن میں تھی ، وہ دوسری آیت کا بھی اس مضمون سے تعلق ہے مگر میرے ذہن میں جو آیت تھی جو میں ڈھونڈ رہا تھا وہ یہ دوسری آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِكُلِ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ہر ایک کے لئے ایک نصب العین ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اس کے لئے وہ پابند ہو جاتا ہے اس کے لئے وہ اپنے آپ کو وقف کر دیتا ہے وہ قبلہ بن جاتا ہے جس کی طرف وہ منہ پھیر لیتا ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ تمہارا نصب العین جس کی طرف تم نے اپنے چہرے پھیر نے ہیں اپنی تو جہات کو مرکوز کرنا ہے وہ ہے ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھو.پس اس جذبے کے ساتھ قرآنِ کریم نے ہمارا مقصد ، ہمارا نصب العین ہی نیکیوں میں آگے بڑھنا قرار دے دیا ہے.اگر ایک انسان اپنے بھائی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ہرگز ریا کاری نہیں کہا جاسکتا، اسے ہرگز معمولی بات سمجھ کر رد نہیں کیا جا سکتا.مگر اس اعلیٰ نیت کے باوجود اس سے بھی بلند تر نیتیں ہیں اور ان میں سے اول یہ ہے کہ اللہ کا تصور ذہن پر حاوی ہو اور کوئی بھی چندہ ایسا ادا نہ کیا جائے جس میں خدا کی محبت کی آمیزش نہ شامل ہو.اگر خدا کی محبت کی آمیزش شامل ہو جائے تو سب کچھ مل گیا پھر آگے بڑھنے کی توفیق بھی ملتی ہے اور غیر معمولی طور پر ملتی ہے اور اس نصب العین سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے بلکہ اس کو بڑھانے والی چیز ہے اور نیکیوں کو نور بنا دینے والا نسخہ یہی ہے کہ ہر نیکی کی نیت میں اللہ تعالیٰ کی محبت اثر انداز ہو یعنی نیکیاں دراصل اللہ کی محبت سے پھوٹیں.وہ چیزیں جو نور سے پھوٹتی ہیں وہ نور ہی رہیں گی اور یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ کثیف ہو جائیں.پس اس

Page 489

.482 حضرت خلیفہ المسیح الرابع پہلو سے آپ کو مختصر النصیحت یہی ہے کہ جب یہ آپ کو الف سنیں گے اور قربانیوں کی دوسری تحریکیں بھی آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی تو ہمیشہ اللہ کی محبت کو اپنے دل میں پہلا مرتبہ دے کر اور اس کے حوالے سے قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.پھر خدا کے فضل سے آپ کی قربانیوں میں کبھی رخنہ نہیں آئے گا اور بے حد ایسی برکتیں شامل ہو جائیں گی جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے یعنی اجر کریم آپ کو عطا کیا جائے گا.وقف جدید کا یہ انتالیسواں (39) سال ہے اور یکم جنوری 1997ء سے چالیسویں سال میں داخل ہونے والے ہیں.رپورٹوں کے معاملے میں گزشتہ سال بھی یہ شکایت تھی کہ بہت سے ممالک ست رفتاری سے رپورٹیں بھجواتے ہیں اور بسا اوقات ایسے ممالک بھی ہوتے ہیں جہاں جدید ترین طریقے رسل و رسائل کے مہیا نہیں ہیں اس لئے جو نسبتاً بعد میں شامل ہونے والے ممالک ہیں ان کی تربیت میں ابھی زیادہ وقت درکار ہے اور ان کے ہاں وقف جدید کا نظام بھی اس طرح جاری نہیں جس طرح پہلے سے شامل ہونے والے ترقی یافتہ ، تربیت یافتہ ممالک میں ہے.تو اگر چہ اس وقت جماعتوں کی تعداد یعنی ممالک کی تعداد غالباً ایک سو باون یا اس سے اوپر ہو چکی ہے تو اتنی بڑی تعداد میں سے صرف چھپن کا رپورٹیں بھجوانا بتاتا ہے کہ کتنا بڑا کام ابھی ہم نے کرنا ہے ان کی تربیت کا اور وقف جدید ہی کا ایک یہ مقصد ہے کہ دیہاتی اور نئے غیر تربیت یافتہ ممالک کی تربیت کی جائے.پس اس پہلو سے یہ جو چالیسواں (40) سال ہے.اس میں ہم اپنے سامنے ایک کام کا پہاڑ کھڑا ہوا دیکھتے ہیں.چھین ممالک نے رپورٹ بھیجی ہے اور اکثر جنھوں نے نہیں بھیجی یا تو کام بہت معمولی ہوا ہے یا ابھی وہ تربیت کے محتاج ہیں تو ان چھپن ممالک نے تقریبا ایک سو چھپن کی تربیت کرنی ہے اور یہ جو چندہ ملے گا یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہی مقاصد پر خرچ ہو گا.وقف جدید میں جو بیرون کا چندہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ زیادہ تر ہندوستان اور افریقہ پر خرچ ہوتا ہے ، اور زیادہ تر کیا تمام تر کہنا چاہئے ا ہندوستان اور افریقہ پر خرچ ہوتا ہے یہاں تک کہ پاکستان سے بھی وقف جدید کے چندوں میں جو بچت ہوتی ہے وہ بیرونی ممالک میں خرچ کیلئے بھیجنے لگے ہیں تو یہ سعادت ان کی ابھی بھی قائم ہے کہ بیرونی دنیا پر خرچ کرنے میں کوئی بار محسوس نہیں کرتے.کوئی کمزوری نہیں پاتے اور بڑے حو صلے اور خوشی کے ساتھ پاکستان سے باہر کی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں.مغربی دنیا میں بھی اب بہت حد تک یہ صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں بہت حو صلے اور وسعت قلب کے ساتھ حصہ لیتے ہیں اور کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا جاتا کہ اتنا چندہ ہم نے دیا تھا ہم پر اتنا کیوں خرچ نہیں ہوا، اتنا بڑا حصہ دوسرے ممالک کو کیوں دیا گیا.یہ

Page 490

483 حضرت خلیفہ مسیح الرابع سوچ ہی بیمار سوچ ہے جو احمدیت میں خدا کے فضل سے پینے کی گنجائش ہی نہیں رکھتی ، توفیق ہی نہیں رکھتی.ایک آدھ ملک میں جب یہ بیماری پیدا ہوئی اور میں نے اسی وقت ان کو پکڑا تو اس کے بعد وہ بالکل اس طرح مٹ گئی جیسے ان کی جڑیں اکھیڑ دی گئی ہوں.پھر کبھی اس وہم نے ان کے خیالات میں پراگندگی پیدا نہیں کی.تو اس کو بھی آپ یا درکھ لیں کہ ہمارے چندے خدا کی خاطر ہیں اور یہ ساری دنیا خدا نے پیدا کی ہے.اسلام عالمگیر مذہب ہے، اسلام کے تقاضے، ضرورت کے تقاضے دنیا میں کہیں بھی پیدا ہوں گے.پس یہ بحث نہیں ہے کہ چندہ کس نے دیا ہے اور کہاں خرچ ہونا چاہئے ،یعنی کس نے دیا ہے کی بحث نہیں ہے اور یہ بحث نہیں ہے کہ جس نے دیا ہے اسی پر خرچ کیا جائے.یہ بحث ضرور رہے گی کہ اس وقت عالمی تقاضوں کے لحاظ سے کس ملک کو زیادہ ضرورت ہے اور کون سا ملک ہے جو تیز رفتاری کے ساتھ سچائی کی طرف متوجہ ہو رہا ہے اور اسی نسبت سے اس کی ضرورتیں بڑھ رہی ہیں.پس خرچ میں ہمیشہ جماعت احمدیہ نے اس بات کو راہنمارکھا ہے اور یہ بات بے تعلق سمجھی ہے اور ہمیشہ بے تعلق سمجھی جائے گی کہ کس نے زیادہ دیا تھا اور کس نے کم دیا تھا ضرورت جہاں زیادہ ہے وہاں زیادہ خرچ کیا جائے گا اور ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے.پس اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بیرونی دنیا کا چندہ پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان کے چندوں سے اب خدا کے فضل سے بہت بڑھ چکا ہے اور عین اس وقت یہ برکت ملی ہے ، جبکہ ضرورت بہت شدید ہوگئی تھی مثلاً ابھی میں نے افریقہ کے ممالک کا دورہ کروایا ہے تو پتہ چلا کہ بہت بڑی بڑی جماعتیں ہیں جن سے ابھی تک ہمارا ڈش انٹینے کے ذریعے بھی رابطہ نہیں ہوسکا اور جو نمائندے میرے گئے انھوں نے محنت کی بہت دور دراز کے گہرے علاقوں میں گئے اور بعض رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دیکھ کر اس طرح ان کے چہرے چمک اٹھے کہ اچھا ہمارا بھی خیال ہے ان کو.لیکن ایک خوشکن بات جو سب جگہ دکھائی دی وہ یہ تھی کہ ایسے علاقے جن میں کثرت سے بیعتیں ہوئی تھیں اور دو تین سال پہلے ہوئی تھیں جب وہاں رابطہ کیا گیا تو تمام تر احمدیت پر قائم تھے اور بڑے خلوص سے قائم تھے اور انھوں نے کھلم کھلا یہ کہا کہ ہم نے تو سچ سمجھ کر قبول کیا ہے اگر آپ ہماری طرف توجہ نہ بھی کرتے تو احمدیت پر ہم نے قائم ہی رہنا تھا مگر ہمیں پورا پتہ ہی نہیں کہ احمد بیت ہے کیا.تفاصیل کا علم نہیں ہے اس لئے آپ کا فرض تھا ہمیں پوچھتے اور ہماری ضروریات پوری کرتے چنانچہ ان سب جگہوں میں ایک تو میں نے یہ ہدایت کی کہ ڈش انٹیناز لگائے جائیں کثرت کے ساتھ اور مرکزی انتظام کے تابع روزانہ اس علاقے کے باشندے ایک جگہ اکٹھے ہوسکیں اور دوسرا یہ کہ وہاں ان کے لئے بڑی مساجد بنی چاہئیں.ایسے مراکز بنے چاہئیں جہاں ان کی تربیت کا انتظام ہو اور انہی میں سے مبلغین بنائے جائیں اور پھر ان کو انہی علاقوں میں مستقل جگہوں پر مقرر کر دیا جائے یہ ضرورتیں جو ہیں

Page 491

484 حضرت خلیفتہ المسح الرابع یہ اتنی زیادہ ہیں کہ جس علاقے میں یعنی افریقہ میں جہاں دس لاکھ سے اوپر احمدی ہوئے ہوں ایک سال میں آپ وہاں اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کی کم سے کم ضرورتیں پوری کرنے پر بھی کتنے خرچ کی ضرورت ہوگی اور چونکہ پچھلے سال یہ خرچ بہت بڑھے اس لئے میرے دل میں یہ فکر تھی میں بار بار ان سے پوچھتا تھا کہ وقف جدید کے چندے میں سے کتنا باقی رہ گیا ہے اور نئی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ہم کہاں کہاں سے روپیہ سمیٹ سکتے ہیں.اب خدا تعالیٰ نے کس طرح مدد فرمائی ہے اور جس ملک کے ذریعے مددفرمائی ہے اس ملک کی انتظامیہ کے بھی خواب و خیال میں نہیں تھا کہ یہ عظیم کا رنامہ خدا ہمارے ہاتھوں سے سرانجام دلوائے گا.چنانچہ سر فہرست آج اس سال کی قربانی میں امریکہ ہے اور اتنی عظیم وقف جدید میں قربانی کی توفیق ملی ہے کہ امیر صاحب جب فون پہ مجھے بتا رہے تھے تو کہتے تھے کہ میں تو حیران ہوں کہ کیا ہوا ہے، میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خاموشی کے ساتھ اتنا رو پیدا کٹھا ہو چکا ہوگا کہ جب وہ رپورٹ پیش ہوئی تو میرے دل میں ایک بہیجان برپا ہو گیا کہ ہوا کیا ہے.اب آپ سوچیں پہلی بات تو یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر چندے میں ہر ملک میں برکت ڈالی ہے اور امسال گزشتہ سال کے مقابل پر بہت زیادہ عطا کیا ہے.وعدہ جات کے لحاظ سے جو 96ء کے وعدہ جات ہیں وہ چار کروڑ بتیس لاکھ اکتالیس ہزار تین سو باون روپے بنتے ہیں.96ء کا یہ جو سال گزرا ہے ابھی وعدہ جات چار کروڑ اور بتیس لاکھ وصولی سات کروڑ بائیس لاکھ ستائیس ہزار آٹھ سو چھپن.اب یہ کیسے ہو گیا کچھ سمجھ نہیں آرہی کیونکہ وقف جدید کے وعدے آگے ہوتے تھے وصولی پیچھے پیچھے جایا کرتی تھی.اور سٹرلنگ میں یہ وعدے چھ لاکھ پچپن ہزار ایک سو بہتر پاؤنڈ تھے جب کہ کل وصولی دس لاکھ چورانوے ہزار تین سو اکسٹھ پاؤنڈ ہے اور ایک نیاسنگ میل جواس سال رکھا گیا ہے وہ امریکہ کی طرف سے ہے.تمام دنیا کی وصولی سارے یورپ کی وصولی ملا کر پاکستان ہندوستان، بنگلہ دیش کی وصولی ملا کر دس لاکھ چورانوے ہزار تین سو اکسٹھ پاؤنڈ ہے.اب یا درکھ لینا اچھی طرح ساری دنیا کی وصولی دس لاکھ چورانوے ہزار تین سو اکسٹھ پاؤنڈ ہے اس میں سے امریکہ کی وصولی اس میں پانچ لاکھ چونسٹھ ہزار ایک سو اکسٹھ پاؤنڈ ہے یعنی تمام دنیا کے چندوں سے وہ اکیلا آگے بڑھ گیا ہے پچھلے سال میں ان کی تعریف کر رہا تھا کہ انھوں جرمنی کو بھی شکست دے دی پاکستان سے بھی کچھ قدم آگے نکل گئے لیکن قریب قریب کی دوڑ تھی.اب وہ اتنا پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ باقی لوگ اب بس ان کے لئے دعائیں ہی کریں گے.اور اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتے.اب اور امریکہ کی اپنی کیفیت یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے یعنی میری ہجرت کے آنے کے دو سال بعد تک بلکہ تقریباً تین

Page 492

485 حضرت خلیفہ مسیح الرابع سال بعد تک ان کا کل چندہ سارے امریکہ کا اتنا ہی تھا جتنا آج وقف جدید کا ہے اور جب انھوں نے بتایا تو میں نے فوراً پوچھا میں نے کہا مجھے تو جہاں تک یاد پڑتا ہے نولا کھ چھتیس ہزار ڈالر آپ کا کل چندہ بھی نہیں تھا تو پھرا میر صاحب نے اس کو باقاعدہ جائزہ لے کر اعداد و شمار کا اس بات کی تائید کی ہے ، اس کی توثیق فرمائی ہے کہ ہمارا کل چندہ دس سال پہلے اتنا نہیں تھا.اور یہ تو فیق کیسے بڑھی.سوال یہ ہے کہ یہی لوگ تھے، اسی قسم کے لوگ تھے جو پہلے بھی امریکہ میں رہا کرتے تھے مالی حالات بعض دفعہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ وقت کے ساتھ آگے بڑھیں بعض دفعہ پیچھے بھی چلے جاتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر جو وہاں سب سے زیادہ امیر طبقہ ہے ان کے مالی حالات پہلے سے خراب ہوئے ہیں ایک زمانے میں تو امریکہ میں ڈاکٹر ہونا سونے کی کان کا مالک ہونا تھا لیکن اب بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ڈاکٹروں کی آمد میں کمی آئی ہے لیکن ان کے چندوں میں اضافہ ہوا ہے تو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عمومی سا وعدہ تھا کہ ہم بڑھائیں گے اب یہ نکتہ بھی سمجھ آیا کہ تمہاری توفیق مالی ہی نہیں بڑھائیں گے بلکہ تمہارے حوصلے بھی بڑھائیں گے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق میں وسعت دیں گے اور کبھی بھی تمہیں پیچھے نہیں جانے دیں گے، جو تم آگے قدم اٹھا چکے ہو اس سے اور آگے بڑھو گے واپسی کی طرف نہیں دھکیلے جاؤ گے اور کوئی ایسے حالات پیدا نہیں ہوں گے جو تمہیں مجبور کر دیں کہ پہلے سے کم ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جو خدا کا سلوک ہے دنیا کی ہر اس جماعت سے ہے جو مالی قربانی میں آگے بڑھتی ہے ، حوصلہ کرتی ہے اور اچانک اسکی تو فیق بڑھ جاتی ہے.اب جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے سب تفاصیل تو اس وقت پیش کرنا پیش نظر نہیں ہے مگر مختصر موازنہ میں عرض کرتا ہوں ، گزشتہ سال 1995ء میں پانچ لاکھ ستر ہزار سات سو نوے پاؤنڈ کا وعدہ تھا امسال 1996ء میں چھ لاکھ پچپن ہزار ایک سو بہتر پاؤنڈ کا وعدہ تھا.وعدہ کے لحاظ سے اضافہ ستر ہزار تین سو بیاسی پاؤنڈ ہوا، وصولی کے لحاظ سے گزشتہ سال چھلا کھ ستر ہزار نوسوتیرہ پاؤنڈ کی وصولی تھی.امسال خدا کے فضل سے دس لاکھ چورانوے ہزار تین سو اکسٹھ پاؤنڈ کی وصولی ہے.جس میں سب سے زیادہ حصہ امریکہ نے لیا.تعداد کے لحاظ سے بھی بہت برکت ملی ہے.میں پہلے بھی بارہا عرض کر چکا ہوں کہ وقف جدید کے تعلق میں تعداد بڑھانے کی طرف توجہ بہت زیادہ دیں.مالی ضرورتیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ثابت بھی کر کے دکھایا ہے اللہ تعالیٰ آپ ہی کچھ کرتا رہتا ہے.ہمیں تو پتہ بھی نہیں لگتا یاد دہانی کراؤ نہ کراؤ اب تو یہ حال ہو گیا ہے از خودہی دلوں میں ایسی تحریک اُٹھ جاتی ہے اور انتظامیہ کو خدا تعالیٰ ایسی ہمت عطا فرما دیتا ہے کہ چندے کی جتنی ضرورت ہے وہ مل ہی

Page 493

486 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع جاتے ہیں اور اب تو بعض دفعہ لگتا ہے ضرورت سے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن جب سال ختم ہوتا ہے تو ضرورت پھر چندوں سے جاملتی ہے.تو یہ بھی ایک مسابقت کی دوڑ ہو رہی ہے جماعت کے چندوں اور جماعت کی ضروریات میں.تو گزشتہ سال وصولی کا جہاں تک تعلق ہے چھ لاکھ ستر ہزارتھی ، دس لاکھ چورانوے ہزار اس دفعہ ہوئی اور تعداد کے لحاظ سے گزشتہ سال ایک لاکھ چھیالیس ہزار چارسو باسٹھ افراد تھے اور امسال ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار چار سوتر انوے افراد ہیں جو شامل ہوئے ہیں.پس خدا تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ بہت بڑی تعداد، ہزارہا کی تعداد میں ایسے دوست پیدا ہوئے ہیں جن کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا چسکا پڑ گیا ہے کیونکہ جو ایک دفعہ خرچ کرے وہ پھر پیچھے نہیں ہٹا کرتا ، اس کو واقعہ چسکا پڑ جاتا ہے.دس سال پہلے میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا، امریکہ کا کل بجٹ آٹھ لاکھ پینتیس ہزار تھا اور اب وقف جدید کا بجٹ نو لاکھ چھتیس ہزار آٹھ سو ڈالر ہو چکا ہے اور انھوں نے اتنی احتیاط سے اعداد و شمار اکٹھے کئے ہیں کہ ساتھ تمیں سینٹ بھی لکھا ہوا ہے، نو لاکھ چھتیس ہزار پانچ سو آٹھ ڈالر میں سینٹ.تو خدا تعالیٰ نے بہت برکت دی ہے جماعت کے اخلاص میں اور کوششوں میں اور صرف ان باتوں ہی میں نہیں باقی بہت سی اور باتوں میں بھی خدا کے فضل سے امریکہ کا قدم ترقی کی طرف ہے اور ہونا بھی ایسا چاہئے تھا کیونکہ امریکہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ہے اور وہاں ابھی بھی ایسے احمدی موجود ہیں جن کو اگر آمادہ کیا جائے تو کچھ اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر تو اللہ تعالیٰ ان کے دل کی توفیق بھی بڑھائے گا اور ان کی مالی توفیق اس وقت بھی ان چندوں سے پیچھے ہے کیونکہ اسی قسم کے حالات کے لوگ بکثرت موجود ہیں اور جب ہم موازنہ کرتے ہیں تو انہی میں سے بعض ایسی حیرت انگیز قربانیاں کرنے والے ابھرے ہیں کہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ توفیق ہوہی نہ اور قربانیاں دے رہے ہوں اور جنھوں نے بھی دیں ان کے مالوں میں کمی کہیں نہیں آئی برکت ہی ہے جو بڑھتی چلی جارہی ہے تو آج امریکہ سب دنیا کی جماعتوں میں صف اوّل پر کھڑا ہے.اگر پاؤنڈوں میں اس کا حساب کیا جائے تو پانچھ لاکھ چونسٹھ ہزار ایک سوا کسٹھ پاؤنڈ ان کا چندہ وصولی ہے جبکہ باقی سب دنیا کی جماعتوں کی اتنی وصولی نہیں.دوسرے قدم پر پاکستان ہے اور تیسرے پر جرمنی ہے.برطانیہ کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے جو غالبا ایک عرصے سے چلی آرہی ہے اور کینیڈا کو پانچویں پوزیشن حاصل ہے.اب برطانیہ اور کینیڈا کا فرق تھوڑا رہ گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس رفتار سے کینیڈا مسلسل برطانیہ کے قریب آرہا ہے بعید نہیں کہ اگلے سال آگے نکل جائے.ہندوستان چوبیس ہزار پانچ سوستائیس پاؤنڈ وصولی ہے جو ہندوستان کے لحاظ سے بہت تعجب انگیز ہے.چودہ لاکھ چونسٹھ ہزار روپے انھوں نے دیئے جو ہندوستان کے پرانے زمانوں کے چندوں کے لحاظ سے جو دس سال پہلے کے جو چندے اس میں اتنے بنتے

Page 494

487 حضرت خلیفہ مسیح الرابع نہیں تھے انکے، تو امریکہ کی طرح ہندوستان کو بھی خدا تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی بہت توفیق عطا فرما رہا ہے.انڈونیشیا میں سمجھتا ہوں ابھی اپنی توفیق سے پیچھے ہے کیونکہ ہندوستان کے مقابل پر انڈونیشیا کے احمدیوں کے مالی حالات بہت بہتر ہیں.تعداد کے لحاظ سے جو فرق پڑا ہے وہ ہندوستان کی تبلیغ کے نتیجے میں فرق پڑا ہے ورنہ پہلے تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ فرق نہیں تھا.تقریباً انڈونیشیا کی جماعتیں ہندوستان کی تعداد کے مقابل پر نصف تھیں بلکہ نصف سے کچھ زیادہ اور چندوں میں اتنا فرق کہ وقف جدید میں ہندوستان نے ساڑھے چوبیس ہزار پاؤنڈ پیش کئے ، انڈونیشیا نے صرف آٹھ ہزار چھ سو نوے.تو یہ صاف پتہ چل رہا ہے کہ وہاں ابھی تک ہمارے نظام جماعت میں پوری بیداری نہیں اور پورا انتظام نہیں ہے ورنہ امریکہ یا ہندوستان کے مقابل پر انڈونیشیا کی جماعت کے اخلاص کی حالت پیچھے نہیں ہے.بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ دنیا میں مخلص ہیں اس قدرسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت اور اسلام سے محبت رکھنے والے لوگ ہیں کہ بہت سے ہیں ان میں جو ذ کر کے ساتھ ہی رونے لگتے ہیں، ان کی آنکھوں سے بے اختیار محبت کے آنسو بہنے لگتے ہیں.تو جہاں اخلاص موجود ہو وہاں اگر قربانی میں لوگ پیچھے رہ رہے ہوں تو یقین جانیں کہ انتظامیہ کی خرابی ہوا کرتی ہے.ایسے علاقوں میں جہاں بھی میں نے انتظامیہ بدلائی ہے اور ان کو توجہ دلائی ہے تو فوری طور پر جماعت نے اپنی قربانیوں کو بہت آگے بڑھا دیا.پس اس پہلو سے امریکہ کی انتظامیہ بھی دعا کی مستحق ہے، اس معنی میں جزا کی مستحق کہ ہم بھی ان کے لئے دعا کریں کہ انھوں نے اپنے انتظام کو بہت بہتر بنالیا اور جماعت کے اخلاص کو جو موجود تھا اس کو اب اس راہ میں گویا جیسے جوت دیا جائے اس طرح اخلاص کو پہلے سے بڑھ کر جوتا جا رہا ہے.ماریشس اپنی تعداد کے لحاظ سے قربانی میں ہمیشہ بہتر ہوتا ہے مگر امسال وقف جدید میں اتنی نمایاں بہتری نظر نہیں آئی کیونکہ یجم جو اس کے مقابل پر ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ابھی نئی نئی بن رہی ہے گویا کہ ماریشس اور جسم کا چندہ تقریباً برابر ہے.ماریشس کا چار ہزار نوسوسترہ اور تجسم کا چار ہزار آٹھ سو سینتیں.ناروے جو چھوٹے ممالک میں سے آگے بڑھنے والا ایک ملک ہے.ناروے خدا کے فضل سے چار ہزار چھ سو بانوے پاؤنڈ چندہ وقف جدید میں دے کر دسویں نمبر پر رہا ہے.فی کس مالی قربانی کے لحاظ سے بھی باوجود اس کے کہ امریکہ میں چندہ دہندگان کی تعداد بہت بڑھائی گئی ہے، بہت بڑھائی گئی ہے اس دفعہ.پھر بھی مالی قربانی کو اگر تقسیم کیا جائے فی چندہ دہندہ تو امریکہ باقی سب ملکوں سے آگے نکل گیا ہے.اس سے پہلے جاپان اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان بات رہا کرتی تھی.

Page 495

488 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع شروع میں جاپان آگے تھا پھر سوئٹزر لینڈ نے وہ جگہ لے لی اور گزشتہ دو چار سال سے سوئٹزر لینڈ نے قبضہ کیا ہوا تھا کہ فی کس چندہ دہندہ قربانی میں ہم دنیا میں کسی کو آگے نکلنے نہیں دیں گے اور اب دیکھیں کتنا فرق پڑ گیا ہے.امریکہ میں فی کس قربانی کا معیار اب ایک سوچو میں پاؤنڈ اور سات پینی بنتا ہے.اور سوئٹزر لینڈ میں ستر پاؤنڈ ستانوے پینی.تو اس پہلو سے بھی بہت آگے بڑھ گیا ہے خدا کے فضل سے امریکہ فی کس چندہ دہندہ کی مالی قربانی کے لحاظ سے.اور جاپان اکتیس پاؤنڈ تھیں پینی کے چندے کے ذریعے نمبر تین پر آیا ہے اور یحکیم اللہ کے فضل کے ساتھ انیس پاؤنڈ تینتالیس پینی دے کر چوتھی پوزیشن حاصل کر گیا ہے اور جرمنی پانچویں پوزیشن پر گیارہ پاؤنڈ پچاس پینی فی کس کے لحاظ سے دیکر اللہ کے فضل سے اعزاز حاصل کر گیا.لیکن جرمنی کے متعلق میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ خدا کے فضل سے انکے چندے اتنے متوازن ہیں اور بالعموم مالی قربانی میں ساری جماعت کثرت سے حصہ لے رہی ہے اس لئے وہاں یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی تحریک میں غیر معمولی طور پر آگے نکل جائیں.جن ممالک نے مثلاً امریکہ نے اپنے لئے یہ ایک ٹارگٹ پہلے سے بنارکھا تھا کہ دنیا میں ایک چندے میں تو ہم نے باقی سب کو لازماً پیچھے چھوڑنا ہے، اس اخلاص کی نیت کو خدا نے یہ پھل دیا ہے کہ وہ اتنا آگے نکل گئے کہ انکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا آگے جاسکتے ہیں.مگر جرمنی کو یہ کہنا کہ تم وقف جدید میں بھی ان سے مقابلہ کر کے آگے نکلنے کی کوشش کرو یہ میرے نزدیک مناسب مطالبہ نہیں ہے کیونکہ عموماً جرمنی کی جماعت اتنی بڑی قربانی دے رہی ہے کہ اس کی وجہ سے خدا کے فضل سے بہت سے دوسرے ممالک کی ضروریات پوری ہورہی ہیں اور جرمنی میں بھی جو بڑھتی ہوئی ضروریات ہیں ان میں جرمنی خود کفیل ہے.بالغان کے چندے کی جو دوڑ ہوا کرتی ہے پاکستان کے اندران میں ربوہ خدا کے فضل سے اول رہا ہے.کراچی دوم اور لاہورسوم.جہاں تک اضلاع کے مقابلے کا تعلق ہے پاکستان کے اضلاع کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی آپس کی دوڑ میں اب ان کی کیا پوزیشن ہے.راولپنڈی فرسٹ ہے جو میرے لئے بہت تعجب کی بات ہے کیونکہ میں سمجھا کرتا تھا کہ راولپنڈی ان باتوں میں کافی پیچھے ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نئی تحریک وہاں اٹھی ہے جس کی وجہ سے خدا کے فضل سے راولپنڈی کی جماعت کو یہ اعزاز مل گیا کہ وہ سارے پاکستان میں ضلعی لحاظ سے اول آئی ہے اور سیالکوٹ نمبر دو یہ بھی تعجب کی بات ہے کیونکہ سیالکوٹ تو کافی نکما ہو گیا تھا بے چارہ.اب معلوم ہوتا ہے اُٹھ رہے ہیں کچھ آگے بڑھ رہے ہیں.جو سیالکوٹی میرے سامنے بیٹھے ہیں مسکرارہے ہیں کہ شکر ہے ہماری بات بھی آگئی کہیں.فیصل آباد نمبر تین پر ہے اور اسلام آباد نمبر چار پہ.اسلام آباد کے لئے قابل شرم ہے کیونکہ بڑی منتظم جماعت اور مالی لحاظ سے بھی اچھی متوسط

Page 496

489 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع جماعت ہے ، فیصل آبادان کو پیچھے چھوڑ جائے ، سیالکوٹ پیچھے چھوڑ جائے یہ تو بڑی عجیب بات ہے.گوجرانوالہ ماشاء اللہ ہمت کر کے آگے آیا ہے پانچویں نمبر پر آ گیا ہے.گجرات چھٹے نمبر پر ہے اور سرگودھا ساتویں نمبر پر اور شیخو پورہ آٹھویں نمبر پر اور کوئٹہ نویں پر اور عمر کوٹ سندھ دسویں نمبر پر.یہ جو اضلاع ہیں نچلے مرتبے کے اضلاع ہیں.ان میں میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بہت گنجائش موجود ہے.سیالکوٹ میں بھی ہے، فیصل آباد میں بھی ہے اسلام آباد میں تو ہے ہی ، گوجرانوالہ، گجرات وغیرہ یہ سارے وہ اضلاع ہیں جو میں نظری طور پر جانتا ہوں کہ جتنی خدا نے ان کو تعداد عطا کی ہے احمدیوں کی اور جو مالی توفیق بخشی ہے عین اس کے مطابق چندے دکھائی نہیں دے رہے.دفتر اطفال میں لاہور خدا کے فضل سے اول آگیا ہے ربوہ دوم ہے اور کراچی سوم.یہ تو ہے وقف جدید کی رپورٹ.میں اس وقت ہندوستان کی جماعتوں کو جو اس وقت جلسے میں بطورِ خاص اس جمعہ میں حاضر ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ جمعہ تو بالخصوص ہمارے لئے وقف ہے ان کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ وقف جدید کے کام کو آپ وہاں بڑی تیزی سے بڑھائیں اور منظم کریں کیونکہ آپ کی اکثر تبلیغ اس وقت وقف جدید کے ذریعے ہو رہی ہے اور بہت سی پھیلتی ہوئی نئی ضرورتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید نے سنبھال رکھا ہے تو اس کو اہمیت دیں اور جن اضلاع میں آپ کی تبلیغ کے لحاظ سے کمزوری ہے انکی فہرست میں پڑھنا نہیں چاہتا اس وقت ان کی طرف متوجہ ہوں اور وقف جدید کے نظام کو جو بیرونی طاقت مل رہی ہے باہر سے ٹیکہ مل رہا ہے یہ کوشش کریں کہ آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اس مدد سے متبرا ہو جائیں اس مدد کے محتاج نہ رہیں.یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ قادیان ہی نے تو سب دنیا کو دینی ضرورتوں کے لحاظ سے پالا ہے ہندوستان ہی کو لمبے عرصے تک یہ فخر حاصل رہا ہے کہ جب باہر کی دنیا چندوں سے تقریب نا آشنا تھی تمام دنیا کی ضرورتیں ہندوستان پوری کرتا تھا.پھر پاکستان نے ہجرت کے بعد یہ عظیم خدمت اپنے ہاتھوں میں لی، خوب سنبھالا ، خوب حق ادا کیا.تو ہندوستان کے تعلق میں چونکہ پرانی غیر تیں ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہندوستان میں پیدا ہونا ہے، اس محبت کے تقاضے کے طور پر میری دلی خواہش یہی رہتی ہے کہ ہندوستان کو پھر وہ پرانی عظمتیں نصیب ہو جائیں.تو اس پہلو سے وقف جدید بھی ایک ذریعہ بن گئی ہے ہندوستان کی پرانی کھوئی ہوئی عظمتوں کو واپس حاصل کرنے کا تو اس کی طرف آپ متوجہ ہوں اور اللہ تعالٰی توفیق عطا فرمائے کہ آپ کے اندر کثرت کے ساتھ وہ ولی پیدا ہو جائیں جن ولیوں کا حضرت مصلح موعودؓ نے وقف جدید کے تصور میں ذکر فرمایا ہے.وقف جدید کا تعلق ولایت سے حضرت مصلح موعودؓ نے

Page 497

490 حضرت خلیفہ امسیح الرابع رکھا اور جو نقشہ کھینچا ہے اپنے اس روحانی خواب کا وہ یہ ہے کہ جگہ جگہ بڑے بڑے اولیاء اور قطب پیدا ہو رہے ہیں.دیہات میں اور گاؤں گاؤں میں رازی پیدا ہور ہے ہیں تو وقف جدید کی تحریک تو بالکل عمومی ، عام سی ایک دنیا کی نہیں دین کے لحاظ سے پسماندہ دیہات کی تحریک تھی مگر جو مقاصد تھے وہ اتنے بلند تھے کہ گاؤں گاؤں میں رازی پیدا ہوں گاؤں گاؤں میں اولیاء اللہ اور قطب پیدا ہونے شروع ہو جائیں اور فرمایا آغاز ہی میں آپ نے جو نقشہ کھینچا اپنے دل کا، فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ وقف جدید کے ذریعے گاؤں گاؤں اولیاء اللہ پیدا ہوں اور اس وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ میں خود نگرانی کروں اور باقی تنظیمیں ہیں انکی طرح نہیں بلکہ براہ راست معلمین پر نظر رکھوں، ان سے رابطہ رکھوں اور جب تک صحت نے توفیق دی آپ بہت حد تک یہ کام کرتے رہے.پھر وہ توفیق نہ رہی کیونکہ بہت بیمار ہو گئے تھے مگر یہ آپ کے ارادے اور قط خواہشات تھیں.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ صدیقیت کا جو ذکر میں نے کیا ہے قرآن کریم کی آیت میں، یہ وہی صدیقیت والا نقشہ ہے جو حضرت مصلح موعود کے ذہن میں پیدا ہوا، وہی خواب ہے جو آپ نے دیکھا تھا.وقف جدید کا ولایت سے تعلق قائم کرنا اور تعلق قائم رکھنا ضروری ہے.آج ہی سوال و جواب کی مجلس میں کسی نے یہ سوال چھیڑا تو میں نے کہا دیکھیں ہم ولی تو نہیں پیدا کر سکتے کیونکہ ولایت تو صرف اللہ عطا کرتا ہے صدیق بھی کوئی زور بازو سے نہیں ہوسکتا، اللہ ہی عطا کرتا ہے مگر لوگوں کو یا ددلاتے رہنا چاہئے یہ کام ہمارا فرض ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وقف جدید کو پہلے سے بڑھ کر اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ اپنے تمام کارکنوں پر نظر رکھیں اور یہ دیکھیں کہ جن جماعتوں میں وقف جدید کا کام ہورہا ہے وہاں اولیاء اللہ پیدا ہورہے ہیں کہ نہیں.پس اگر یہ سب نظر بنار ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ پھر زیادہ بیدار مغزی کے ساتھ اپنے ذہن میں اس مقصد کو حاضر رکھتے ہوئے زیادہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضورا ایسے بندے اس کی نگاہ میں آجائیں اور اس کا وہ قرب حاصل کریں جسے ولایت کہا جاتا ہے.جہاں تک یورپ کی نئی ضرورتوں کا تعلق ہے اس میں وقف جدید کا کوئی خرچ نہیں ہورہا اور نہ ہی تحریک میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ یورپ میں بھی خرچ کیا جائے مگر وہ ضرورتیں بالعموم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چندوں سے پوری ہو رہی ہیں اور جماعت یورپ جو اپنے چندے بڑھا رہی ہے اس کے ساتھ اکثر ان کی بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں مگر مشرقی یورپ میں ابھی تک جو مشن ہاؤسز کا قیام یعنی جماعتی مراکز کا قیام نئی مسجد میں بنانا یہ ایسے کام ہیں جن کے لئے اب ہمیں نئی مالی ضرورت درپیش ہے اور یہ چونکہ ایسی ضرورت نہیں ہے جو مستقل چندے کی شکل میں جماعت سے طلب کی جائے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ کبھی کبھارا اچانک پیدا ہونے

Page 498

491 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع والی ضرورتوں کے لئے کوئی تحریک کی جاسکتی ہے اور وہی کافی ہوگی.اس وقت جو ہمیں زیادہ ضرورت ہے وہ البانیہ میں ہے جہاں بکثرت احمدیت پھیلی ہے.اسی طرح وہ دوسرے مشرقی ممالک جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے توجہ ہورہی ہے ان میں البانین سپیکنگ دوسری قومیں دوسرے ممالک میں بستی ہیں.پھر بوز نینز ہیں ان کی طرف بھی بہت توجہ ہے.اُن کی بھی بہت توجہ ہے.ان سب کا بنیادی حق ہے کہ وہاں مساجد بنائی جائیں وہاں مراکز قائم کئے جائیں وہاں تربیتی اجتماعات کا مستقل انتظام ہو اور انھیں میں سے معلم تیار کئے جائیں.پس اس سال کے لئے میں جماعت کے سامنے پندرہ لاکھ ڈالر کی تحریک کرتا ہوں اور جیسا کہ میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ میں نے یہ نیت کی ہے.اللہ تو یہ تو فیق عطا فرما دیتا ہے کہ جو بھی تحریک کرو اس کا سواں حصہ میں خود دوں.اور یہ بتانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں بتاؤں کہ میں یہ کر رہا ہوں یہ مقصد ہے کہ بعض لوگ بوجھ سمجھتے ہیں کہتے ہیں کہ نئی نئی تحریکیں پیش کی جارہی ہیں ان کے دل کی تسلی کے لئے ان کو بتا رہا ہوں کہ میں شامل ہوتا ہوں تو تحریک کرتا ہوں ورنہ میں یہ سمجھتا کہ مجھے حق نہیں تھا.تو اس پہلو سے میرا تجربہ ہے کہ جب بھی زیادہ تحریکیں کی ہیں خدا نے مالی وسعتیں خود بخو د عطا کر دی ہیں تو اس لئے اس معاملے میں مجھے ذرہ بھی و ہم نہیں کہ میں کوئی ایسا بوجھ ڈال رہا ہوں جس کو جماعت اٹھا نہیں سکتی.یہ جانتا ہوں کہ جب بھی کوئی مزید تحریک کی جاتی ہے اللہ میری وسعت کو بھی بڑھاتا ہے آپ کی وسعت کو بھی بڑھاتا ہے.تو پھر اگر ضرورت حقہ ہے اور جائز ہے تو تحریک میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے مگر چونکہ عام چندوں کی ذمہ داریاں بہت جماعت نے اٹھا رکھی ہے اس لئے میں اس تحریک کو بھی بعض دوسری تحریکات کی طرح اس طرح پیش کر رہا ہوں کہ وہ سب احمدی جو عام چندوں میں حسب توفیق حصہ لے رہے ہیں اور ان کے لئے زیادہ بوجھ اٹھا نا ممکن نہیں ہے وہ محض تبرک کی خاطر کچھ نہ کچھ دے کر اس میں شامل ہو جائیں اور وہ صاحب حیثیت جن کو خدا تعالیٰ نے بڑی توفیق عطا فرمائی ہے وہ اپنی توفیق کے مطابق خود فیصلہ کریں اور وہ زیادہ تر اس کا عمومی بوجھ اٹھانے کے لئے آگے آئیں اور جیسا کہ میرا سابقہ تجربہ ہے یہ انشاء اللہ دیکھتے دیکھتے وعدے وصول ہو جائیں گے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ پہلے سال دو تہائی اور دوسرے سال اس کا ایک تہائی وصولی کی صورت میں ہمیں مل جانا چاہئے کیونکہ فوری ضرورت جو اس سال کی ہے وہ ایک ملین کی تو لازماً ہے اور بعد کی اگلے سال کی ضرورت چندوں سے بچت کے علاوہ پانچ لاکھ کے قریب ہوگی اور جس رفتار سے چندے بڑھ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ آگے وہ ضرورتیں چندوں ہی سے

Page 499

492 حضرت خلیفتہ مسیح الرابع پوری ہوتی رہیں گی کسی نئی تحریک کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور خاص طور پر اس لئے بھی مجھے امید ہے کہ یورپ میں جو نئے احمدی ہونے والے ہیں ان میں خصوصاً البانین نسل کے لوگوں میں مالی قربانی کی روح پائی جاتی ہے اور بعض تو ایسے ہیں جو بڑے زور اور اصرار کے ساتھ پوچھ پوچھ کے کہ باقی کیا دیتے ہیں ہم سے وہ سب کچھ لو خود دینے کے لئے آگے آتے ہیں تو بہت ماشاء اللہ حیرت انگیز قربانی کا جذبہ ہے جو البانین نسل کے لوگوں میں پایا جاتا ہے پس جب یہ لوگ اٹھ کھڑے ہونگے جب ان کی توفیق بڑھے گی تو یہ بعید نہیں کہ آئندہ چند سالوں میں بجائے اس کے کہ باہر سے مددلیس خود باہر کے دوسرے علاقوں کے لئے مددگار بن جائیں.تو ان امیدوں کے ساتھ ان دعاؤں کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے ان توقعات کے ساتھ جو ہمیشہ اپنے دائروں سے بڑھ کر پوری ہوتی ہیں ، توقعات کے جو دائرے ہمارے ہوتے ہیں ان میں ہمیشہ ان سے بڑھ کر پوری ہوتی ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات پر پورا تو کل کرتے ہوئے اس نئے سال میں داخل ہوتے ہیں جو وقف جدید کا چالیسواں سال ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ جیسا کہ شکر کا حق ہے شکر کی طرف بھی توجہ آپ کریں گے کیونکہ جب فضل بڑھیں اور شکر پیچھے رہ جائے تو یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ توازن کا بگڑنا ہے.شکر ساتھ ساتھ بڑھنا چاہئے اور یہ احساس دل پر قبضہ کر لینا چاہئے کہ ایک ایسے حسن سے واسطہ ہے جس کا جتنا بھی شکر کریں اتنازیادہ احسان ہو جاتا ہے کہ سنبھالا نہیں جاتا اس لئے ہمیشہ ہم پیچھے رہتے ہیں، کبھی شکر میں آگے نہیں بڑھ سکتے اور یہ احساس ہی ہے جو شکر کی طاقت بڑھاتا ہے ، ذکر کی طاقت بڑھاتا ہے، خدا کی یاد میں پیار پیدا کر دیتا ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے ساتھ جماعت کو ہمیشہ یہی توفیق بخشے گا کہ وہ جیسا کہ شکر کا حق ہے شکر کا حق ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی یادوں سے دل کو نور عطا کرتے ہوئے اس میدان میں ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جائیں گے.الفضل انٹرنیشنل لندن 14 فروری 1997ء)

Page 500

493 حضرت خلیفة المسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 2 جنوری 1998 ء بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ يُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُولِجُ النَّهَارَ فِى اليْلِ ، وَ هُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوالَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ ط پھر فرمایا: (سورة الحديد: 6 تا 8) آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وقف جدید کے سال نو کا آغاز ہو گا اور پرانی روایات کے مطابق جنوری کے پہلے جمعہ میں ہمیشہ تو نہیں مگر اکثر وقف جدید کا اعلان کیا جاتا ہے.اس اعلان سے پہلے میں ایک دوامور ویسے ضمناً عرض کر رہا ہوں کہ یہاں جمعہ پہ آتے ہوئے رستے میں صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ كاور MTA پر ہورہا تھا اور اس پر میرا دل حمد سے بھر گیا کہ ظالموں نے کوشش کی تھی کہ جماعت احمدیہ کو صَلِّ عَلی کے ورد سے ربوہ میں محروم کر دیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو قید کیا اور پکڑا گیا کہ تم صلّ علی کا ورد نہ کرو آج ساری دنیا صَل علی کے ورد سے گونج رہی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کے رستے میں حائل ہو سکے پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ جسے ہمیں خصوصیت سے یا درکھنا چاہئے کہ ان کی سب روکیں خدا نے خاک کی طرح اڑا دی ہیں آسمان سے جو فضل نازل ہو رہے ہیں ان کی راہ میں ان کی طرف سے کوئی چھتریاں کوئی روکیں حائل نہیں ہو سکتیں.وہ فضل نازل ہوتے چلے جائیں گے اور یہ حسرتوں سے دیکھتے چلے جائیں گے.اگر یہ حقیقت بھی ان کو سمجھ نہیں آرہی تو پھر کیا حقیقت سمجھ آئے گی.اپنی آنکھوں کے سامنے آسمان سے فضلوں کی بارش ہوتی دیکھ رہے ہیں اور شور مچارہے ہیں کہ ہم مباہلہ جیت گئے.خاک جیتے ہو تم.وہ قصے میں بعد میں بتاؤں گا کہ کیا جیتے ہیں اور کیسے جیتے ہیں مگر یہاں ضمنا صرف آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ اس وعدے میں بھی خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کریں اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا.دوسری چیز جو ضمناً کہنی چاہتا ہوں وہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات سے متعلق ملنے والے تعزیت کے پیغام خطوط اور لوگوں کا یہاں تشریف لانا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جتنے بھی خطوط آتے ہیں

Page 501

494 حضرت خلیفہ امسیح الرابع مجھے لازماً پڑھنے پڑتے ہیں اور روز ان کا اتنا بڑا پلندہ بن جاتا ہے کہ اب رمضان کی مصروفیت کی وجہ سے میرے لئے ممکن نہیں رہا کہ سرسری نظر سے بھی ان کو پڑھوں اور جانتا ہوں جنھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ان سب کے متعلق جانتا ہوں جو ان میں سے بہت آگے ہیں ان کو بھی اور جو ذرا پیچھے ہیں ان کو بھی.حقیقت یہ ہے اس خطبے کے بعد جو میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے روحانی مدارج کے متعلق دیا تھا اکثر یہی اظہار ہورہا ہے کہ ہمیں پہلی دفعہ پتہ چلا ہے کہ آپ کیا چیز تھے.مگر پہلی دفعہ چلا یا بعد میں پتہ چلا یہ بحث الگ ہے ساری دنیا کی جماعت ان کے لئے دعا گو ہے اور ان کے اقربا کے لئے دعا گو ہے اور اس حقیقت سے میں باخبر ہوں پس جواب کا تو ویسے بھی سوال نہیں کہ میں سب کو جواب لکھ کے دوں ان سب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے آج تک کثرت سے خطوط لکھے اور بعض یہاں بھی تشریف لائے مگر اب میں ان سے عاجزانہ درخواست کر رہا ہوں کہ یہ سمجھ لیں کہ مجھے علم ہے اور میری دعاؤں میں وہ سب بزرگ شامل ہیں بڑے ہوں یا چھوٹے ، مرد ہوں یا عورتیں ، چھوٹے چھوٹے بچوں نے بھی تعزیت کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ ساری جماعت کو بہترین جزا عطا فرمائے.ہاں اگر کوئی خاص نقطہ کسی نے لکھنا ہو مثلاً بعض خطوں میں صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق بڑے اچھے نکات بیان کئے جاتے ہیں جن کی طرف پہلے میری توجہ یا نہیں گئی ہوتی یا ضرورت ہوتی ہے کہ اس توجہ کو بیدار کیا جائے تو ایسے نکات جو لکھنا چاہیں وہ بے شک لکھیں ان کو روک نہیں ہے اور سختی کے ساتھ مناہی بھی نہیں ہے مگر صورتِ حال میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے اس کے بعد امید ہے کہ جہاں تک ممکن ہو گا آپ اپنے جذبات کو قابو میں لا کر اس موضوع پر میری دلداری نہیں کریں گے، کریں گے تو دعاؤں میں کریں گے اس سے زیادہ نہیں.رمضان اور سالِ نو کی مبارکبادوں کا بھی یہی حال ہے فیکسز اور پیغامات بھیجنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر ایک کو جواب دینا ہر گز ممکن نہیں رہا.اس لئے یہ بھی آپ یقین کریں کہ ان سب کے لئے میرے دل میں جذبات امتنان ہیں ان کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن اب اس سلسلے کو بھی بند ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک رسم تو ہے اور رسم ہی تو ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.سال نو کی مبارکبادوں میں ہم جہاں تک ہوسکتا ہے تکلفات سے اجتناب کرتے ہیں لیکن مبارکباد کی بات تو منہ سے نکل ہی جاتی ہے.یہ گناہ نہیں لیکن ہے پھر بھی تکلف ہی.اس لئے سال نو کے آغاز پر میرے لئے بھی دعائیں کریں، اپنے لئے بھی دعا ئیں کریں، جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں، یہ سالِ نو کا بہترین آغاز ہوگا.اب میں ان آیات سے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں جو وقف جدید کا خطبہ دینے سے پہلے میں نے تلاوت کی ہیں.لۂ مُلكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ إِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ.یہ ایک اعلانِ عام

Page 502

495 حضرت خلیفہ المسیح الرابع ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے کوئی اس بادشاہی میں اس کا شریک نہیں.اس حقیقت کا دل میں گڑ جاتا یہی تو حید ہے.وَ اِلَى اللهِ تُرْجَعُ الأمور نہ صرف یہ کہ بادشاہی ہے بلکہ تمام امور تمام اہم باتیں اسی کی طرف لوٹائی جائیں گی.پس اس سے مفر نہیں.خدا تعالیٰ کی بادشاہی کوئی دنیا کی بادشاہی نہیں جس سے آپ بھاگ کر کہیں منہ چھپا سکیں دنیا میں بھی کوئی مفر نہیں آسمانوں میں بھی کوئی مفر نہیں اور اگر ہوتا بھی تو آخر اسی کی طرف لوٹنا ہے.پس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہونے میں بعض دفعہ دیر بھی ہو جاتی ہے لیکن آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے یقین دلایا تھا کہ دیکھ تیرے مخالفین کی پکڑ اگر یہاں نہ بھی ہوگی تو تو جانتا ہے کہ آخر ضرور ہوگی.آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمانا دراصل ایک گہری حکمت ہم سب کے لئے رکھتا ہے.آنحضور ﷺ کی اس پر پوری تسلی ہو گئی تھی.ایک ذرہ بھی قلق باقی نہیں رہا کیونکہ آپ آخرت پر یقین رکھتے تھے.آپ کے لئے کوئی پکڑ یہاں ہو یا وہاں ہو محض ایک رسمی فاصلہ تھا ورنہ امر واقعہ یہی ہے کہ آپ کے نزدیک تو اس دنیا اور اس دنیا میں فرق ہی کوئی نہیں تھا اور جب یقین ہو تو پھر دشمنوں کی تعلی ، انکی ہنسیاں سب برکار، سب بے معنی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الأمُورُ آخر سب باتوں نے اس کی طرف لوٹنا ہے اس میں گھبراہٹ کی کیا ضرورت ہے.یہ کامل تو کل ہے جو میں جماعت سے چاہتا ہوں اور ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ میری جان اسی تو کل پہ جائے ایک ذرہ بھی خدا سے کسی قسم کا کوئی شکوہ دل میں نہیں پیدا ہونا چاہئے.بیماریاں ہوں ،مصیبتیں ہوں ، دشمن کی تعلیاں ہوں یا دشمن سے قطع نظر زندگی کے مسائل ہوں اگر یہ دین آپ کا دین ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے تو پھر آپ ہمیشہ تسکین کے سانس لیں گے اور مرتے وقت بھی آپ کو ایک ایسی قلبی تسکین حاصل ہوگی جو کسی اور کونصیب نہیں ہوسکتی.اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُولِجُ الَّيْلَ فِی النَّهَارِ وَ يُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ تم دیکھتے نہیں کہ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے.اس میں دن کو رات میں داخل کرنا ایک خاص معنی رکھتا ہے وَيُولِجُ النَّهَارَ فِی الَّيْلِ یہ ایک ایسے دن کی طرف اشارہ ہے جومومنوں کا دن کبھی آکے واپس نہیں جایا کرتا.عام طور پر اچھی بات قرآن کریم میں پہلے بیان کی جاتی ہے اور کچھ بُرائی کی خبر بعد میں بیان کی جاتی ہے لیکن جہاں اس ترتیب کو بدل دیا جائے وہاں لازما گہری حکمت ہوا کرتی ہے اور یہاں یہ حکمت پیشِ نظر ہے کہ مومنوں کی رات میں مومنوں کا دن داخل ہو جائے گا اور جب ہوگا تو پھر دوبارہ وہ رات میں تبدیل نہیں کیا جائے گا وہ ہمیشگی کا دن ہے جو ان پر طلوع ہوگا.اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس مضمون کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں گے اور اس کے بعد پھر ساری با تیں اللہ پر ہیں تمام تر توکل اللہ پر ہے.

Page 503

496 حضرت خلیفہ المسیح الرابع کچھ بھی جھگڑا باقی نہیں رہتا، کوئی مخمصہ باقی نہیں رہتا.یہ ایک تقدیر الہی ہے جس میں بھی کوئی تبدیلی آپ نہیں دیکھیں گے.تاخیر ہو جایا کرتی ہے، دیر تو ہوتی ہے مگر اندھیر نہیں.خدا کا دن لازماً بڑے مضبوط قدموں سے آگے بڑھا کرتا ہے اور جب ایک دفعہ دن پھیلنا شروع ہو جائے تو اس کی روشنی کی راہ میں کوئی دنیا کا اندھیر ا حائل نہیں ہوا کرتا.وَ هُوَ عَلِيمٌ بَذَاتِ الصُّدُور اور وہ دلوں کے حال کو جانتا ہے جولوگ بھی اللہ تعالیٰ پر اس قسم کا تو کل نہ رکھیں جس کی تفصیل ان آیات نے بیان فرمائی ہے تو وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال کو جانتا ہے اور وہ لوگ جن کے دل میں یہی باتیں ہیں ان کو بھی اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں.اللہ دلوں کے حال کو جانتا ہے.وہ ہر تو کل کرنے والے سے وہی سلوک فرمائے گا جو ہمیشہ فرمایا کرتا ہے.امِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيْهِ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور خرچ کرو مِمَّا جَعَلَكُم جو اس نے تمہارے لئے بنایا.جن جائیدادوں کا یعنی جو بھی مال و متاع دنیا کے ہیں یا جو بھی طاقتیں عطا ہوئی ہیں ان کا تمہیں مالک بنادیا ہے استخلاف کا مضمون پہلی قوموں کے ورثے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.وہ چیزیں جو پہلی قوموں کو عطا کی گئیں تھیں وہ اب لاز ما تمہیں عطا کی جائیں گی.اور اس بات پر متنبہ ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ تم سے توقع نہیں رکھتا کہ ان طاقتوں کو ، ان عظمتوں کو جود نیا میں تمہیں عطا کی جائیں گی ان کو اپنے ہاتھ سے ضائع کر دو اور اس دن کو پھر اندھیروں میں تبدیل کر دو.اگر یہ ہوا تو تم ذمہ دار ہو فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ أَنْفَقُوْالَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ پس یا درکھو کہ وہ لوگ تم میں سے جو ایمان لاتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں ، یہاں خرچ سے مراد صرف دنیاوی خرچ نہیں بلکہ روحانی طور پر اپنی تمام طاقتیں ، تمام دل و جان اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لئے اَجْرٌ كَبِيرٌ بہت بڑا اجر مقدر ہے.(سورۃ الحدید : 6 تا8) اب رمضان کا مہینہ ہے اور یہ مضمون جو دراصل تو وقف جدید کے لئے شروع کیا گیا تھا میں اس کو رمضان کے ساتھ ملانا چاہتا ہوں تا کہ رمضان کی برکتوں میں وقف جدید اور وقف جدید کی برکتوں میں صلى الله رمضان کی برکتیں شامل ہو جائیں.حضرت اقدس محمد مصطفی می ﷺ کے متعلق بخاری کتاب الزکوۃ یہ بیان کرتی ہے اور یہ قول حضرت ابو ہریرۃ" سے مروی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے تھی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے اے اللہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاکت دے اور اس کا مال و متاع برباد کر.اس میں سے جو پہلا حصہ ہے وہ تو ظاہر وباہر ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو خرچ کرنے والے ہیں خصوصیت سے رمضان مبارک میں ، ان کے لئے فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے الله

Page 504

497 حضرت خلیفہ امسیح الرابع لئے بھی دعائیں کرتے ہیں پس آپ اپنی نیکیوں میں اپنے بچوں کو بھی شریک کریں اپنے گرد و پیش ، اپنے ماحول کو بھی شریک کریں تا کہ یہ نیکیوں کا مضمون پھولنے اور پھلنے لگے اور تمام دنیا پہ محیط ہو جائے یہ ایک ایسا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی جانے والی ہواؤں کے رخ پر ہوگا ، فرشتے دعائیں کریں گے اور آپ آگے قدم بڑھائیں گے.تو بہت تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے اموال میں برکت دے گا اور اس برکت کے نمونے ہم دیکھ رہے ہیں.تمام دنیا میں ایسے خرچ کرنے والوں کو خدا تعالیٰ مزید عطا فرما رہا ہے اور ان جیسے اور پیدا کر رہا ہے جن کے نتیجے میں احمدیت کے بڑھتے ہوئے بوجھ با آسانی اُٹھائے جارہے ہیں.میں نے پہلے بھی بار ہا ذکر کیا ہے کہ آج تک ایک بھی ضرورت ایسی میرے سامنے نہیں آئی جو ضرورت حقہ ہو، اچانک سامنے پیدا ہو جائے اور اس کی تائید میں الہی ہوا نہ چلی ہو.ہمیشہ بغیر تحریک کے کثرت کے ساتھ عین ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ ضرورت پوری کرنے کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور مبارک ظفر صاحب جن کے سپر د شریف اشرف صاحب کے علاوہ آجکل مالیات کا نظام ہے وہ جب کسی خاص بڑھتی ہوئی ضرورت کے متعلق بات کرنے آتے ہیں تو انکی مسکراہٹ بتا رہی ہوتی ہے کہ پھر وہی واقعہ ہو گیا ہے ان سے برداشت نہیں ہوتی.بے اختیار ہنس پڑتے ہیں کہ وہی بات ہوئی میں ضرورت کا پوچھنے کے لئے آیا تھا اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پورا ہونے کے سامان بھی ساتھ پہنچ گئے ہیں یہ ایسا مسلسل خدا تعالیٰ کا سلوک ہے کہ آج تک کبھی ذرہ بھی اس میں کو تا ہی نہیں ہوئی.پس آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں نہ صرف یہ کہ آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں بلکہ آپ کے دل کی سچائی پر یہ باتیں گواہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچے لوگوں سے ہے جو خدا کی خاطر نہ کہ دنیا کو دکھانے کے لئے اس کی راہ میں اپنی طاقتیں اور اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے ساتھ یہ وعدہ ہے اور ہمارے ساتھ یہ وعدہ پورا ہورہا ہے.تو سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان خرچ کرنے والوں کے دلوں پر نظر رکھی اور ان کی نیکیوں اور ان کے خلوص کو قبول فرما لیا ہے اور یہ قبولیت کے نشان ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں اللہ کرے کہ ہمیشہ اسی طرح یہ قبولیت کے نشان ہمارے حق میں ظاہر ہوتے رہیں.جہاں تک روک رکھنے والے کنجوس کی ہلاکت کی دعا ہے اس سلسلے میں میں بعض وضاحتیں پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ دنیا میں لوگوں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاک نہیں کیا جاتا.کیوں ہلاک نہیں کیا جا تا یہ مضمون میں پہلے بیان کر چکا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں یعنی ایمان لانے والوں کی کسی خوبی پر نظر رکھتے ہوئے یا اپنی عنایت کی وجہ سے ان کو بچانا چاہے اور وہ اموال کے

Page 505

498 حضرت خلیفہ المسح الرابع معاملے میں کنجوسی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے اموال برباد ہونے شروع ہو جاتے ہیں تا کہ ٹھوکر کھا کر ان کو نصیحت آئے اور بسا اوقات ایسے لوگوں نے بالآخر مجھے خط لکھا کہ ہم یہ کیا کرتے تھے لیکن اب ہمیں نصیحت آگئی ہے اور جب سے ہم نے خدا کی راہ میں کنجوسی چھوڑی ہے ہمارے اموال میں دوبارہ برکت پڑنی شروع ہو گئی ہے.لیکن وہ لوگ جن کو خدا تعالی ضائع سمجھتا ہے، بے کارخشک لکڑیاں جانتا ہے ان کو ضرور کاٹ کے الگ پھینک دیا کرتا ہے اور پھر ان کے اموال ترقی کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں لیکن جماعت کو ان کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی وہ اپنے اموال سمیت جہاں چاہیں چلے جائیں جماعت کے خزانے میں ایک آنے کی بھی کمی نہیں کر سکتے اور ان کی جگہ اللہ اور بھیج دیتا ہے.پس یہ وہ سلوک ہے جو ہم سے جاری ہے اور یہ حدیث دراصل اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے.حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے.وہ کون ہیں جن پر رشک کرنے کی اجازت ہے.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا.ایسے شخص پر بیشک رشک کروا گر چہ ایسے اشخاص اپنے اس خرچ کو چھپاتے ہیں، چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ ظاہر ہو بھی جاتا ہے اور اللہ کی تقدیر سے ظاہر کر دیا کرتی ہے بعض دفعہ اس لئے تا کہ دوسروں کو نصیحت ہو.پس جب ان کو دیکھو تو ان پر رشک کرو.دوسرا ایسا شخص جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ ، دانائی اور علم و حکمت دی ہو جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو سکھاتا ہو.تو دانائی اور علم و حکمت کو بنی نوع انسان کے حق میں استعمال کرنا چاہئے اور یہ بھی ایک ایسا خرج ہے جس کے نتیجہ میں دانائی اور علم وحکمت میں ترقی ہوتی ہے یہ خدا کے عطا کردہ مال کی طرح جو ہمیشہ بڑھتا ہے یہ بھی بڑھتی رہتی ہے اور جتنا بھی آپ بنی نوع انسان کی خاطر کچھ خرچ کریں یا جو کچھ آپ نے پایا ہے اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس میں کمی نہیں آنے دے گا.میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا بعض عطائی نسخے والے سینہ بسینہ لوگوں کی بھلائی کے راز لئے پھرتے ہیں اور چھپا کے رکھتے ہیں یہ صرف مشرق کا حصہ نہیں.مغرب میں بھی بہت بڑی بڑی کمپنیاں اسی جرم میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ راز کی باتیں جس کے نتیجہ میں ان کا کوئی مال دنیا میں شہرت پالیتا ہے اسے اتنی مضبوطی سے قفل بندر کھتے ہیں کہ کسی اور میں طاقت ہی نہیں ہوتی کہ اس کو پیش کر سکے حالانکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اور بھی رزق عطا کر دینا تھا.لیکن اس طرف ان کی نظر نہیں جاتی.ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگ ہیں کوئی نسخہ ہی ہاتھ آ گیا تو سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں.مجھے ملنے والے دلچسپ خطوں میں بعض ایسے خط بھی ہوتے ہیں کہ یہ نسخہ اب ہم آپ کو بتارہے ہیں اسے احتیاط

Page 506

499 حضرت خلیفة المسیح الرابع سے استعمال کریں لیکن دنیا کو کان و کان خبر نہ ہو کہ اتنا عظیم الشان نسخہ میرے ہاتھ آگیا ہے.میں ان کے نسخ رد کر دیا کرتا ہوں میں کہتا ہوں اللہ نے مجھے تم سے بہت بہتر نسخے عطا فرمائے ہیں جنھیں میں کھل کر دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوں ، ذرہ بھر بھی کنجوسی نہیں ہے اور اس کے نتیجہ میں میر اعلم کم نہیں ہورہا ، بڑھ رہا ہے.اور ایسے خدا کے بندے جو اپنے علوم کے نتیجے میں بعض راز پا جاتے ہیں وہ مجھے کھل کے لکھتے ہیں اور کہتے ہیں بے شک اس کا اشتہار عام دیں.یہ بنی نوع انسان کی ملکیت ہے.مجھے ایسے احمدی چاہئیں اور انہی کا ذکر ماتا ہے اس حدیث نبوی میں کہ اپنی حکمت کو بے باک لوگوں کے لئے استعمال کر وہ کبھی کم نہیں ہو گی.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرًا وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.(البقرہ:246) یہ الحکم سے میں نے کچھ اقتباسات ایک دو لئے ہیں تا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے مضمون کو آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں سن لیں (رمضان کے روزے کے باعث منہ خشک ہونے کی وجہ سے بعض الفاظ کی صحیح طور پر ادا ئیگی میں دقت پیش آرہی تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ) منہ خشک ہونے کی وجہ سے یہ بولنے میں جو بعض دفعہ دقت ہوتی ہے یہ تو پہلے ہی ہمیشہ میں نے بتایا ہے ہوا کرتی تھی اور اپنے باپ اور بڑے بھائی سے میں نے یہی ورثہ پایا ہے.لیکن اس کا نقصان کوئی نہیں ہے پہلے تو قہوے یا گرم پانی کے ذریعے ہونٹوں کو تر کر دیا جاتا تھا.اب روزے کی وجہ سے ممکن نہیں ہے اس لئے میں کوشش کر رہا ہوں آپ دعا کریں کہ کچھ ایسی دوائیں، جیسے حکمت کی باتیں میں کر رہا تھا خدا مجھے عطا فرمادے جن کے بعد آپ کو درس میں یا جمعہ پر خشک ہونٹوں کی تر باتیں سننے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں مگر باتیں تر ہیں ان میں کہیں ذرہ بھی خشکی کے کوئی آثار آپ نہیں دیکھیں گے.پس دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ اس رمضان کو بہتر سے بہتر حالت میں آگے بڑھاتا رہے اور مجھے اس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو حاجت ہے اور وہ محتاج ہے.ایسا ہم کرنا بھی کفر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزاء کے ساتھ واپس کروں گا.یہ ایک طریق ہے اللہ تعالیٰ جس پر فضل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق اختیار فرمایا ہے.یعنی تمہیں آزماتا ہے ایسی آزمائش میں ڈالتا ہے جو تمہارے لئے بہت بابرکت ہے تم اپنے پیسوں کو جو دنیا میں پھینکتے پھرتے ہو کبھی وہ فائدے کے ساتھ واپس لوٹ آتے ہیں کبھی بلکہ اکثر جوسودخور ہیں ان کے تو ضرور نقصان میں جاتے ہیں.لیکن عام تاجروں کے روپے فائدے کے ساتھ واپس آتے اور بڑھتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ نے تمہیں

Page 507

500 حضرت خلیفة المسیح الرابع ایک ایسی تجارت عطا فرما دی ہے کہ تم اس کو قرضہ دو اور قرضہ حسنہ ہوا کرتا ہے کوئی سود کی شرط نہیں ہوا کرتی جب دو تو اس نیت سے دو کہ اللہ ! ہماری خوشی ہے تو پورا فرما.ہم چاہتے ہیں کہ جو رزق تو نے عطا فر مایا ہے کچھ تیرے قدموں میں ڈال دیں اور اس سے ہمیں بے انتہا طمانیت نصیب ہوگی اگر تو قبول فرما لے.یہ جذبہ ہے جس کے ساتھ قرضہ حسنہ دیا جاتا ہے لیکن جس کو آپ دیتے ہیں اس جذبے کے خلوص کے مطابق وہ جوابی کاروائی کرتا ہے.جتنا سچا یہ جذبہ ہو اس کی قبولیت اس مال کو بڑھا کر واپس کرنے کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے پس جن لوگوں کا تھوڑ دیا بھی بہت برکتیں حاصل کر لیتا ہے.یہ ان کے خلوص کی طرف اشارہ ہے.جن لوگوں کا زیادہ دیا بھی اتنی برکتیں حاصل نہیں کرتا یہ ان کے خلوص کی کمی کی طرف اشارہ ہے.اللہ تعالی بہر حال ان دونوں پر نظر رکھتا ہے اور جتنا چاہے بڑھا دیتا ہے.بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں کہ اس طرح بڑھاتا ہے ، اس طرح بڑھاتا ہے اس طرح بڑھاتا ہے لیکن آخر پر یہی فرماتا ہے کہ جس کے لئے چاہے اس سے بھی زیادہ ، اور زیادہ کی تعیین نہیں، یعنی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ شمار نہیں کر سکتے لیکن جتنا زیادہ ہوتا ہے اللہ کی راہ میں پیش کرنے کی خواہش بھی اسی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے وہ زیادہ جس کے بعد خدا کی خاطر خرچ کرنے کی خواہش مٹ جائے وہ زیادہ ایک بُری آزمائش ہے دعا کریں اللہ تعالیٰ کبھی آپ کو اور مجھے ایسی بُری آزمائش میں نہ ڈالے.الحکم جلد 6 نمبر 17 مورخہ ماہ مئی 1903 سے یہ حوالہ لیا گیا تھا.اب ایک اور حوالہ ہے الحکم جلد 5 صفحہ 21 مورخہ 10 جون 1901 سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایک نادان کہتا ہے مَنُ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ عطا کرے، کون شخص ہے جو اللہ کو قرض دے اس کا مفہوم یہ ہے کہ گویا معاذ اللہ خدا بھوکا ہے.بعض لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں یعنی دشمن اسلام اکثر ، اور بعض مسلمان نادان بھی یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ دیکھو کیسا اعلان ہے مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَنا اللہ کوئی بھوکا ہے جسے قرض کی ضرورت ہے.آپ فرماتے ہیں احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوکا ہونا کہاں سے نکلتا ہے.یہاں قرض کا مفہوم اصل تو یہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے اس کے ساتھ اخلاص اپنی طرف سے لگا لیتا ہے یہاں قرض سے مراد یہ ہے ”کون ہے جو خدا تعالیٰ کو اعمالِ صالحہ دے اللہ تعالیٰ ان کی جزا اس سے کئی گنا کر کے دیتا ہے.اب اخلاص کا رد کرنے کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت نکتے کی بات فرمائی ہے.فرمایا قرضہ حسنہ کو مال سے محدود کیوں کرتے ہو قرضِ حسنہ کا اکثر حصہ تو تمہارے اپنے اعمال سے تعلق رکھتا ہے.تم نیک اعمال اختیار کرو تو اللہ کا پیٹ بھر جائیگا کونسی بھوک مرے گی.اس کی لیکن وہ اس کی جزاء تمہیں ایسی دے گا کہ تمہاری بھوکیں مٹ جائیں گی.پس یہ نکتہ بہت ہی عمدہ اور بہت ہی عظیم

Page 508

501 حضرت خلیفہ امسیح الرابع نکتہ ہے کہ قرضہ حسنہ کو دنیاوی رزق تک محدود نہ کر و قرضہ حسنہ کا زیادہ تعلق تمہارے اعمال کی اصلاح سے ہے.اللہ کے حضور جب تم نمازیں اخلاص سے پڑھتے ہو اللہ کے حضور جب تم روزے اخلاص سے رکھتے ہو، اللہ کے حضور جب دوسری نیکیاں تم اخلاص سے بجالاتے ہو تو یہ قرضہ حسنہ ہے.کیا اس سے خدا کا نَعُوذُ بِالله مِنْ ذَالِک پیٹ بھرے گا.تمہارے اعمال کی وہ پھر جزا دے گا اور پیٹ بھرے گا تو تمہارا پیٹ بھرے گا.پس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نکتے کو جو بیان فرمایا ہے اس میں اعمالِ صالحہ کے ساتھ چندے بھی شامل ہیں وہ بھی تمہیں لوٹائے جائیں گے اور ان کی قبولیت کا فائدہ تمہیں من حیث الجماعت پہنچے گا اور ان چندوں سے جماعت کے نفوس اور اموال میں بہت برکت پڑے گی اور جو تمہاری تمنائیں ہیں کہ تم دنیا میں آخری فتح حاصل کرو یہ سارے نظام اس فتح کو قریب تر کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں پس قرضہ حسنہ کا مضمون بہت وسیع ہو جاتا ہے اور اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اس پر غور کرنا چاہئے.آگے فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی شان کے لائق ہے جو سلسلہ عبودیت کا ربوبیت کے ساتھ ہے اس پر غور کرنے سے اس کا مفہوم صاف سمجھ آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بدوں کسی نیکی ، دعا اور التجا اور بدوں تفرقہ کا فرومومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے اور اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے سب کو فیض پہنچا رہا ہے.پس خدا پر یہ الزام حد سے بڑھی ہوئی جہالت ہے.وہ رب جو بغیر دنیا کی التجاؤں کے، بغیر اس کے مانگنے کے، بغیر اس کی ذات پر یقین کے جو کچھ کھا رہی ہے وہ دنیا اس کے ہاتھوں سے کھا رہی ہے.تم اتنے بیوقوف لوگ ہو کہ چھوٹی سی ضرورت کے بعد سمجھتے ہو کہ تم نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے.اس خدا کو تمہاری حاجت کیا ہو سکتی ہے جو ساری کائنات کا رب ہے.ادنیٰ سے ادنی جانوروں کو رزق عطا فرمارہا ہے.ان انسانوں کو رزق عطا فرما رہا ہے جو اس کے دین کے مخالف ہیں ، ان انسانوں کو رزق عطا فرما رہا ہے جنھوں نے خدا کے بیٹے بنارکھے ہیں ان کو رزق عطا فرمارہا ہے جو اس کی ہستی کا انکار کر رہے ہیں.یہ عالمی رحمت اور ربوبیت کا نزول تمہیں اس آیت کے سمجھنے میں مد ہونا چاہئے نہ کہ اس کے برعکس ترجمہ کرو.اس لئے قرضہ حسنہ کا ہر وہ معنی جو خدا کی اس عالمی ربوبیت کے خلاف کیا جاتا ہے وہ مردود معنی ہے اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.پھر فرماتے ہیں کہ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا اس کی تفسیر اس آیت میں موجود ہے فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ (الزلزال:8 ) یعنی ایک ذرہ برابر بھی تم کوئی کام کرو جو اچھا ہو اللہ کی اس پر نظر ہوتی ہے اور وہ اسے ضرور بڑھاتا ہے پس ایسے خدا پر اس آیت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اعتراض جڑنا اپنی ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں.اب جو تھوڑ اسا وقت رہ گیا ہے اس میں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں اور چند

Page 509

502 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کوائف آپ کے سامنے رکھتا ہوں.الحمد لله وقف جدید کا چالیسواں سال خدا تعالیٰ کے بہت سے فضلوں کو سمیٹ کر 31 دسمبر 1997ء کو اختتام پذیر ہو گیا ہے اور اب ہم وقف جدید کے اکتالیسویں سال میں داخل ہورہے ہیں.پہلے بہت سے کوائف بیان کئے جاتے تھے اعدادو شمار کی صورت میں جن کو اکثر لوگ سمجھتے نہیں تھے اور جو سامنے بیٹھے ہیں ان کی آنکھوں سے یہ میں سمجھ لیتا تھا کہ کچھ نیند کی طرف مائل ہورہے ہیں کیونکہ اعدادو شمر کو جذب کرنا اور سمجھنا یہ اچھے تعلیم یافتہ آدمیوں میں سے بھی سب کو نصیب نہیں ہوا کرتا یہ ایک خاص ملکہ ہے جس کے نتیجے میں آپ اعداد و شمار کو فوراً اخذ کر کے سمجھ لیتے ہیں اور اس لئے اب میں نے ایسے اعدادوشمار کا ذکر کرنا چھوڑ دیا ہے جن کو سمجھانے میں مجھے دقت ہو، جن کو سمجھنے میں آپ کو وقت ہو.آخری فائدہ.کچھ بھی نہیں ہوگا.اب وہ باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن کا تعلق آخری فائدے سے ہے.سب سے پہلے تو نظام میں ایک تبدیلی کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کروڑ سے زیادہ احمدی نئے شامل ہو چکے ہیں اور ان کے متعلق ہماری طرف سے جو تربیت کے نظام جاری ہورہے ہیں ابھی تک پوری طرح ان کی کفالت نہیں کر رہے.اگر ہم نے وقف جدید میں بھی انکی طرف پوری توجہ کی ہوتی تو ان کے ایمان اور اخلاص کو بڑھانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا اس لئے اب ہر جماعت میں نئے آنیوالوں کے لئے وقف جدید کا ایک الگ سیکریٹری مقرر ہو.وہ خالصہ ان پہ کام کرے خواہ ایک آنہ بھی ہو وہ بھی قبول کیا جائے.لیکن کثرت کے ساتھ وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں نئے آنیوالوں میں سے اضافہ ہو.اس کے نتیجے میں ہماری یہ جو فہرست ہے لاکھوں کی بجائے اگلے چند سال میں کروڑ تک پہنچ جائے گی اور وقف جدید کا یہ فیض بہت بڑا فیض ہوگا جو فیض عام ہوگا اور آئندہ رہتے زمانوں تک کے لئے وقف جدید کا یہ احسان بنی نوع انسان کو پہنچتا رہے گا.پس آج سے اپنی جماعت میں ایک پورے سیکریٹری وقف جدید برائے نو مبائعین مقرر کریں اور دوسرے سیکریٹری وقف جدید جو ہیں ان کا تعلق پہلوں کی تعداد بڑھانا ، ان کے بچوں کی فکر کرنا، بڑھتی ہوئی آمدنیوں کے مطابق وقف جدید کے چندے کو بڑھانا یہ کام ہوگا اور یہ کام الگ چلے تو امید ہے اگلے سال انشاء اللہ اس کے بڑے دلچسپ نتائج آپ کے سامنے آئیں گے.رپورٹوں کے مطابق جو اس وقت وقف جدید کی صورت ہے 1997ء کے اختتام تک خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے دس لاکھ بیاسی ہزار تین سو اٹھانوے پاؤنڈ وصولی ہوئی ہے 10,82,398 پاؤنڈ ، روپوں میں میں نے اس لئے بات نہیں کی کہ روپوں میں یہ تعداد بہت بڑھ جائے گی لیکن یہ وہ کرنسی ہے جو سالہا سال سے مستحکم ہے اور کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ پاکستانی روپے کی قیمت گرگئی ہے آپ یونہی

Page 510

503 حضرت خلیفہ مسیح الرابع اضافے کی باتیں کر رہے ہیں.کئی ایسے اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے بھی ہیں جن کی نظر ہمیشہ اعتراض کی خاطر ہوتی ہے اور ہر خوشی کی بات سن کر اسے بدی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے دس لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ کی باتیں کر رہا ہوں اور اگر چہ دنیا کی سب کرنسیوں کے مطابق اس میں بھی کچھ کمی کے پہلو آئے ہیں لیکن نسبتا بہت کم.اب میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ 1982ء میں جب اللہ تعالیٰ نے مجھے منصب خلافت پر نافذ فرمایا اس وقت دنیا کے سارے چندوں کو ملا کر ، پاکستان اور دنیا بھر کی جماعتوں کے پورے چندوں کو ملا کر (اگر یہ انہیں روپوں میں لکھا ہوا ہے تو وہ نہیں مجھے چاہیے.انہوں نے اس وقت کے چندے کا حساب رکھ کر اسے روپوں میں ہی بیان کیا ہے ) یہ مجموعی قربانی کا کل پانچ کروڑ پینتالیس لاکھ بنتا تھا.جب وقف جدید بیرون کا اجرا ہوا اس وقت پہلے سال وقف جدید بیرون کی کل وصولی گیارہ لاکھ چھیالیس ہزار روپے تھی.اب باوجود میرے زور دینے کے کہ پاؤنڈوں میں ہونی چاہیے یہ مبارک ظفر صاحب کا شوق ہے زیادہ دکھانے کا اس لئے وہ ضرور روپوں میں باتیں کر دیتے ہیں.جب داؤ لگے روپے میں تبدیل کر دیتے ہیں.بہر حال اب ہمیں یہی رپورٹ سنی ہوگی جو میرے سامنے ہے.وہ یہ موازنہ دکھانا چاہتے ہیں کہ 85ء میں وقف جدید بیرون کا جب اجرا ہوا تو اس وقت پہلے سال وقف جدید بیرون کی کل وصولی گیارہ لاکھ چھیالیس ہزار روپے تھی.آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید بیرون کا چندہ پانچ کروڑ تر اسی لاکھ روپے ہو چکا ہے.یعنی گیارہ لاکھ کو آپ جو بھی سمجھیں اور پانچ کروڑ میں سے جتنی چاہیں کم کر دیں.پھر بھی اتنا نمایاں اضافہ ہے کہ روپے کی گرتی ہوئی قیمت کو پیش نظر رکھ کے بھی اس کی کوئی توجیہ، دنیا میں کوئی مثال نہیں پیش کر سکتا کہ اضافہ نہیں ہوا کیونکہ روپے کی قیمت گر گئی.جتنی چاہوگر الو مگر گیارہ لاکھ کے مقابل پر پانچ کروڑ تر اسی لاکھ کی تعداد کو تم کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے.جو مجموعی وصولی کے لحاظ سے جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کی پہلی دس جماعتیں ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ امریکہ امسال بھی اول رہا اور امریکہ کے بعد پاکستان نمبر دو ہے اور یہ پاکستان کو بڑا اعزاز ہے.انتہائی مخالفانہ حالات کے باوجود اس چندے میں انہوں نے ایک ذرہ بھی کمی نہیں کی.جرمنی کی تیسری پوزیشن جو پہلے نمبر ایک اور پھر دو اور پھر اب تین ہوا ہے اسی طرح مستحکم ہے اور ان کی مجبوری ہے.اب آپ لوگ زبردستی وقف جدید کا چندہ بڑھانے کی خاطر اپنے باقی چندوں کو کم نہ کریں وہ نظام بگڑ جائے گا.اللہ نے آپ کو تیسری پوزیشن عطا فرمائی ہے بہت بڑی چیز ہے.اس دوڑ میں تیسرا گھوڑا ہونا بھی بڑی بات ہے کیونکہ عام طور پر اول ، دوم، سوم کا اعلان کیا جاتا ہے.چوتھے نمبر پر

Page 511

504 حضرت خلیفہ امسیح الرابع برطانیہ ہے پانچویں پر کینیڈا، چھٹے پر انڈیا.انڈیا کی یہ خاص خوبی ہے کہ وقف جدید کے چندے میں وہ پہلے سے بہت بڑھے ہیں اور اب بڑے بڑے ملکوں کا مقابلہ کرنے لگ گئے ہیں.سوئٹزر لینڈ ساتویں نمبر پر ہے.یہ اب ہندوستان کے بعد چلا گیا ہے.انڈونیشیا آٹھویں نمبر پر ہے.ناروے نویں نمبر پر اور ماریشس دسویں نمبر پر ہے.فی کس قربانی کی لحاظ سے جماعتہائے احمد یہ عالمگیر کی پہلی پانچ جماعتیں یعنی ہر چندہ دہند جس نے حصہ لیا ہے اس کی انفرادی قربانی کو اگر شامل کیا جائے تو دنیا میں کون سی جماعتیں ہیں جن میں ہر چندہ دہندہ اتنا چندہ ادا کر رہا ہے کہ باقی دنیا کی جماعتوں سے آگے بڑھ جائے.اس پہلو سے بھی اللہ کے فضل سے امریکہ سب سے اوپر ہے.فی چندہ دہندہ سب چھوٹے بڑوں کو ملانے کے باوجود، باوجوداس کے کہ انہوں نے چندہ دہندگان کی تعداد میں بہت اضافہ کیا ہے اور اس اضافے کے پیش نظر ان کو یہ خطرہ تھا کہ مجموعی تعداد گر نہ جائے مگر امریکہ کے ہر چندہ دہندہ کو ایک سو پانچ پاؤنڈ فی کس دینے کی توفیق ملی ہے، نمبر دو سوئٹزر لینڈ ہے ان کو تریسٹھ پاؤنڈ فی کس دینے کی توفیق ملی ہے گویا امریکہ اللہ کے فضل سے اب اتنا نمایاں آگے بڑھ گیا ہے کہ اب اس کے لئے دعائیں کریں لیکن آپ میں طاقت نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکیں کیونکہ امریکہ کا نظام ماشاء اللہ دن بدن مستحکم ہوتا چلا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک ایسا امیر عطا فرمایا ہے جو مالیات کا بہت بڑا ماہر ہے.لیکن مالیات سے بڑھ کر انہوں نے اپنی سوچیں اپنے بزرگ باپ سے ورثے میں پائی ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بیٹے صاحبزادہ مظفر احمد صاحب.اور وہ ہر بات بڑے گہرے منصوبے سے کیا کرتے تھے کسی جگہ منصوبہ بندی کی تعلیم نہیں پائی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان کی سرشت میں منصوبہ بندی ڈالی ہوئی تھی.بہت گہری نظر تھی ، بہت گہرے منصوبے سے کام کیا کرتے تھے.یہ خوبی امریکہ کے موجودہ امیر نے بھی اپنے بزرگ باپ سے ورثے میں پائی ہے اور اسے آگے بڑھایا ہے، پیچھے نہیں ہٹنے دیا.اور یہ آگے بڑھنا کوئی پرانے بزرگوں کی گستاخی نہیں.ان کی اپنی دعا ئیں یہی ہوتی تھیں کہ ہماری اولاد ہماری نیکیوں میں ہم سے آگے بڑھ جائے.تو ان کی تمنا پوری ہوئی اس پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں.سوئٹزر لینڈ کے بعد جاپان میں پاؤنڈ.جاپان پر جو مالی مشکلات کا دور آیا ہے اس کے پیش نظران کا تیں پاؤنڈ فی چندہ دہند چندہ دہندہ ہی بہت بڑی بات ہے.کیونکہ بہت سے لوگ نکالے گئے ہیں ، بہت سی تجارتیوں کو نقصان پہنچاہے.نمبر چار حلیم ہے جس کوئی چندہ دہندہ گیارہ پاؤنڈ چونسٹھ فیس دینے کی توفیق علی یجیم کے لحاظ سے واقعی یہ بڑی بات ہے.تحکیم کے احمدی بہت سے بے روزگار ہیں اور وظیفوں پر ہے.

Page 512

505 حضرت خلیفہ مسیح الرابع پل رہے ہیں ان کا اس قربانی میں اتنا نمایاں حصہ لینا اور ہمیشہ بڑے استقلال سے پانچ میں سے ایک پوزیشن حاصل کرنا بہت قابل تحسین ہے.اللہ ان کو بہترین جزا دے.جماعت جرمنی کو انہوں نے چند پنیز (Penies) کے لحاظ سے پیچھے چھوڑا ہے یعنی جماعت جرمنی فی چندہ دہندہ بھی ابھی پانچ میں شامل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی کا بڑاعزاز ہے.جماعت جرمنی کے فی چندہ دہندہ کی قربانی گیارہ پاؤنڈ پچاس پیس ہے اور تحکیم کی فی چندہ دہندہ کی قربانی گیارہ پاؤنڈ چونسٹھ پیس ہے صرف چودہ پنیس کا فرق ہے.اتنی میری طرف سے جرمنی کو اجازت ہے کہ چاہیں تو اس چودہ پنس کو مٹا کر آگے بڑھ جائیں اور تحکیم کو پیچھے چھوڑ جائیں.موازنہ چندہ دہندگان:.1996ء میں چندہ دہندگان کی کل تعداد ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار چارسو ترانوے تھی.(167493).1997ء میں یہ تعداد بڑھ کر دولاکھ بائیس ہزار چھ سو اٹھائیس ہوگئی گویا اس تعداد میں بتیس فیصد اضافہ ہوا ہے.پس میں نے جیسا کہ پہلے زور دیا تھا ہمیں قربانی کرنے والوں کی تعداد بڑھانا ہے کیونکہ جو بھی ایک دفعہ قربانی کرنے والوں کی تعداد میں شامل ہو جائے اللہ تعالیٰ کا قانون قرضہ حسنہ کو بڑھانے والا اس پر لاگو ہو جاتا ہے.اس کی نیکیاں بڑھتی ہیں.اموال میں برکت پڑتی ہے.ایسا بچہ بڑا ہوتا ہے تو جو بھی کمائی کرتا ہے اس میں اللہ کا حصہ ڈالتا ہے.پس وقف جدید کو آئندہ نسلوں کو سنبھالنے کے لئے استعمال کریں اور کثرت سے وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھائیں.خواہ تھوڑی قربانی کریں لیکن ان کو شامل ضرور کریں.الحمد للہ جماعت اس طرف توجہ کر رہی ہے اور اب دولا کھ بائیں ہزار چھ سو اٹھائیس تک تعداد جا پہنچی ہے.اب میں آخر پر پاکستان میں نمایاں وصولی کرنے والی جماعتوں کا ذکر کرتا ہوں.پاکستان میں نمایاں وصولی کرنے والی جماعتوں میں پہلے نمبر پر کراچی ہے.کراچی کے ساتھ گزشتہ سال شاید کچھ زیادتی ہوئی تھی ان کے اعدادوشمار یا ٹھیک پڑھے نہیں گئے یا وہ وقت پر بھجوا نہیں سکے.ان کو پہلی حیثیت سے گرا کر غالبا دوسری میں کر دیا گیا لیکن بعد میں جو انہوں نے مجھے اعدادوشمار بھجوائے کراچی کا پہلا مرتبہ، پہلا مقام اسی طرح قائم تھا.پس اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کراچی جماعت سارے پاکستان کی جماعتوں سے آگے بڑھ گئی ہے.دوسرے نمبر پر ربوہ ہے اور ربوہ کی قربانیوں میں دراصل ساری دنیا کے احمدی مہاجرین کی قربانیاں شامل ہیں اور اکثر ان کا چندہ باہر سے آنے والے روپے کی وجہ سے ہے اس لئے اس میں ساری دنیا حصہ دار بن جاتی ہے مگر وہ ربوہ پہنچ کر پھر ادا ہوتا ہے اس لئے ربوہ کو بہر حال ایک مقام حاصل ہے.تیسرے نمبر پر لاہور ہے.یہ پہلی تین جماعتوں کا ذکر ہے.

Page 513

506 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اب پہلے دس اضلاع کا نام بھی سن لیں تا کہ آپ کی دعاؤں میں وہ شامل رہیں پھر میں اس خطبے کو دعا کے ساتھ ختم کروں گا.اسلام آباد سارے اضلاع میں نمبر ایک پر ہے.راولپنڈی تمام پاکستان کے اضلاع میں نمبر دو ہے.یہ مجھےسمجھ نہیں آتی کہ باقی جو بہت سے اہم تربیتی اور دوسرے کام ہیں ان میں ان دونوں ضلعوں کو اتنی توفیق نہیں ملی.وقف جدید میں کیوں ، کیسے مل گئی.لیکن اللہ کا فضل ہے جس کو بھی نصیب ہو جائے.اللہ تعالیٰ یہ مبارک کرے اور اس کے نتیجے میں دوسرے ترقی کے میدانوں میں بھی ان کو آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا ہو.اب سیالکوٹ ضلع بھی عام طور پر پیچھے رہنے والے ضلعوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے عظیم جھنڈے جو سیالکوٹ کی جماعت نے مسیح موعود کے زمانے میں اٹھائے ہوئے تھے ایک ایک کر کے اپنے گھروں میں رکھ دئے گئے اور آخر یہ ضلع عملاً دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا.بڑی بڑی احمدیت کی مخالفت کی روئیں اس ضلع سے اٹھی ہیں جن کا پہلے زمانوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.تو اب میں اس ضلع کے پیچھے تو پڑا ہوا ہوں دیکھیں کب یہ بیدار ہو کر ہر نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے لیکن اتنا ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وقف جدید میں اس ضلع کو تیسری پوزیشن حاصل ہوگئی ہے.فیصل آباد چوتھے نمبر پر ہے.پانچویں پر گوجرانوالہ ہے اور شیخو پورہ کی باری چھٹے نمبر پر آتی ہے.شیخو پورہ غالباً چوہدری انور حسین صاحب کو یاد کر رہا ہے.ان کے بیٹے سن رہے ہو گے تو یا درکھیں کہ اپنے بزرگ باپ کے مقام کو یا درکھیں اور جن جن نیکی کے میدانوں میں انہوں نے قدم آگے بڑھایا تھا آپ بھی آگے بڑھانے کی کوشش کریں.عمر کوٹ ساتویں نمبر پر ہے.یہ چھوٹا سا سندھ کا ضلع ہے لیکن حیرت ہے کہ کیسے ساتویں نمبر پر آ گیا مگر آ گیا ہے.گجرات آٹھویں نمبر پر ہے اور گجرات کا آٹھویں نمبر پر ہونا بھی غالبا اس وجہ سے ہے کہ وہ سب دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور وہ اپنے پیچھے رہنے والوں کا خیال رکھتے ہیں.سارے گجراتی دنیا بھر سے اپنے خاندانوں کی مالی مدد کرتے ہیں اور اللہ کے فضل سے ان کو پھر یہ خدمت دین کے سلسلے میں استعمال کرنے کی توفیق ملتی ہے.کوئٹہ نویں نمبر پر ہے اور سرگودہا دسویں نمبر پر اور اس کے ساتھ ہی جمعہ کا وقت ختم ہوتا ہے.الفضل انٹر نیشنل 20 فروری 1998ء)

Page 514

507 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1999 ء بیت الفضل لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ وَاَقَامُ الصَّلوةَ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَّةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَةٌ لِيُوَفِّيَهُمْ أَجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ O (فاطر : 30-31) قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے.ان کو اس وجہ سے خاص طور پر آج کے جمعہ کا موضوع بنایا ہے کہ آج وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے اور مالی قربانیوں کے تقاضے جو ہر لحاظ سے جماعت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں وہ تقاضے کس طرح پورے ہو رہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کے اموال میں بھی غیر معمولی برکت عطا فرماتا چلا جا رہا ہے.یہ مضمون ہے جو کچھ میں اس آیت کے حوالے سے بیان کروں گا اور کچھ وقف جدید کے جو اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے بھی مضمون از خود کھل جائے گا میں اس آیت کریمہ کے تعلق میں وقف جدید کے اعداد و شمار تو شروع میں پیش کروں گا لیکن اس آیت کریمہ میں اور اس کے علاوہ بہت سی خوشخبریاں جو اس نئے سال سے ہمارے لئے وابستہ ہو چکی ہیں ان کا ذکر میں بعد میں کروں گاورنہ پھر عموم وقف جدید یا تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کے وقت ان کے کوائف پیش کرنے کا وقت نہیں رہتا اور چونکہ یہ خاص ان کا دن ہے اس لئے ضروری ہے کہ تفصیل کے ساتھ ان کے کوائف کا ذکر کروں اور بعد میں انشاء اللہ یہ جو عمومی مضمون ہیں اور خوشخبریوں کے غیر معمولی مضامین ہیں ان پر میں روشنی ڈالوں گا.تو سب سے پہلے تو تمام دنیا کی جماعتوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانہ اور نیا سال مبارک ہو اور جب میں نیا سال مبارک کہتا ہوں تو سب بنی نوع انسان کے لئے ہی مبارک ہو اگر چہ بظاہر اس کے مبارک ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے لیکن جماعت احمدیہ کے لئے تو بہر صورت مبارک ہے اور یہ برکتیں بڑھتی جارہی ہیں اور بڑھتی چلی جائیں گی اور انشاء اللہ اگلی صدی تک پھیل جائیں گی تفصیلی ذکر میں انشاء اللہ بعد میں کروں گا.اب پہلے رپورٹ ہے.وقف جدید کی چھتر ممالک کی رپورٹوں کے مطابق کل وصولی دس لاکھ 33 ہزار پاؤنڈ ہوئی ہے

Page 515

508 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اب یہ جو وصولی ہے اس میں گذشتہ سال سے یعنی سر دست جو اس وقت صورتِ حال ہے 49 ہزار پاؤنڈ کی کمی نظر آ رہی ہے حالانکہ آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی سال کو مالی آمد کے لحاظ سے پیچھے کر دیا ہو.تو یہ میں صرف آپ کو ذرا ڈرانے کے لئے بتارہا ہوں کہ 49 ہزار پاؤنڈ کی کی تھی مگر اللہ تعالی نے دوسرے رستوں سے مجھے اتنی رقوم مہیا کر دیں اور میرے تابع مرضی کر دیں کہ جن کے نتیجے میں وقف جدید میں جب میں نے ان کو ڈالا تو کمی کی بجائے ہزار ہا پاؤنڈ کا بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا اور سال کے آخر پر اب ہم یقینی طور پر یہ کہ سکتے ہیں اس سال اللہ تعالیٰ نے وقف جدید کو بھی پیچھے نہیں رہنے دیا بلکہ قدم بہت آگے بڑھا دیا ہے پیچھے رہنا جو بظاہر نظر آرہا ہے اس کی اب وجہ بتا تا ہوں آپ کو.اس پیچھے رہنے کی وجہ میں بھی ایک بہت بڑی برکت ہے اور اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جو ہم نیامالی نظام جاری کر رہے ہیں وہ مالی نظام کتنا خوش آئند ہے اور انشاء اللہ اس کی برکتیں آگے کس طرح پھیلیں گی اور پھیلتی چلی جائیں گی.جو کمی نظر آئی ہے یہ اصل میں امریکہ کے وقف جدید کی آمد میں کمی آئی ہے اور وہ کمی میری ہدایات کی اطاعت کرنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہے اور یہ بھی ایک بڑی شان ہے امریکہ کی جماعت کی کہ جو کہا جائے اسی طرح کرتے ہیں بظاہر دنیا کے لحاظ سے ان کو وقف جدید کی آمد کے اعتبار سے بہت پیچھے قدم اٹھانا پڑا ہے لیکن دو باتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کا قدم پیچھے نہیں ہٹنے دیا.ایک یہ کہ باوجود پچھلے سال سے بہت کم ہونے کے آج بھی ساری دنیا میں امریکہ کا وقف جدید کا چندہ سب سے زیادہ ہے.پاکستان نمبر دو پہ ہی تھا دو پہ ہی رہا.امریکہ اس پہلو سے پیچھے نہیں ہٹا اور اللہ نے اسکو پیچھے نہیں ہٹنے دیا.دوسرا اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کمی ہوئی ہے اس کی میں اب کہانی آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کیوں واقع ہوئی اور اس کے نتیجے میں ہمیں ضمنی فائدے کیا پہنچے ہیں.پہلے چند عمومی کوائف آپ کے سامنے رکھ دوں پھر یہ ساری باتیں میں تفصیل سے کھولوں گا اور جوں جوں کھولوں گا آپ کا دل خوشی سے بھرتا چلا جائے گا کہ بظاہر ایک چیز بُری دکھائی دے رہی تھی اس کے دامن میں اللہ تعالیٰ نے کتنے خیر کے سامان پیدا کر دیئے جہاں تک موازنے کا تعلق ہے پہلے میں یہ اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھ دوں.رکھنے تو پڑتے ہیں بہر حال مگر بہت سے لوگ اعداد و شمار سے مناسبت نہیں رکھتے اس لئے کچھ ان میں اُکسانیت سی پیدا ہو جاتی ہے وہ بور ہونے لگتے ہیں اعدادوشمار سے.اس لئے میں نے اب رفتہ رفتہ اعداد و شمار کا حصہ کم کر دیا ہے صرف اسی پہلو سے بیان کر رہا ہوں جس سے عامتہ الناس کو بھی سمجھ آ جائے کہ یہ اعدادوشمار ہمارے لئے بہت خوش کن ہیں.وقف جدید کی آمد جیسے کہ میں نے بیان کیا ہے.دس لاکھ 33 ہزار پاؤنڈ ہوئی ہے اور یہ گذشتہ سال

Page 516

509 حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے کم دکھائی دینے کے باوجود عملاً زیادہ ہے جو نمایاں کمی نظر آ رہی ہے وہ ایک لاکھ پندرہ ہزار پاؤنڈ کی وہ کمی ہے جو امریکہ کی آمد میں ہوئی ہے.ایک لاکھ پندرہ ہزار پاؤنڈ کی کمی ہونی چاہئے مگر ہوئی صرف 49 ہزار ہے.یہ خوش کن پہلو ہے کہ کمی جو زیادہ ہونی چاہئے تھی اس کو خدا نے کم کر دیا اور پھر اس کو پورا کرنے کے لئے دوسرے سامان پیدا کر دیے.باقی سب جماعتوں کو اپنی گزشتہ آمد کے مقابل پر ہر پہلو سے اس سال زیادہ آمد پیش کرنے کی توفیق ملی ہے سب سے زیادہ تعجب انگیز حال پاکستان کا ہے وہاں آپ کو پتہ ہے کہ آج کل روپے سے کیا کھیل کھیلے جا رہے ہیں jugglery ہورہی ہے ایک قسم کی جیسے ایک کرتب دکھانے والا کرتب دکھاتا ہے اس طرح یہ روپوں کے کارڈ جیب میں ڈالتے اور کچھ کا کچھ نکال کے دکھاتے جاتے ہیں اور نیچہ روپے کی قیمت دن بدن گرتی چلی جارہی ہے اس خیال سے مجھے خطرہ تھا کہ پاکستان کی مجموعی وقف جدید کی آمد میں کمی نہ واقع ہو جائے کیونکہ ہم نے اب روپوں میں حساب رکھنے کی بجائے پاؤنڈوں میں حساب رکھنا شروع کیا ہوا ہے.مگر خوشی کی خبر یہ ہے کہ جماعت پاکستان پچھلے سال کے مقابل پر کئی ہزار پاؤنڈ اس دفعہ زیادہ دینے کی توفیق پا چکی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس لحاظ سے ان کو شرمندہ نہیں ہونے دیا.ایک اور پہلو جو اضافے کا ہے وہ بہت ہی خوش کن ہے اور اس کی طرف میں بار ہا توجہ دلا چکا ہوں.چندے میں اضافہ اپنی ذات میں خوش کن ضرور ہے مگر چندہ دینے والوں میں جو اضافہ ہے وہ بہت زیادہ خوشکن ہے.اس کا مطلب ہے زیادہ سے زیادہ اللہ کے بندے خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر تیار ہوتے چلے جارہے ہیں.یہ اضافہ جو ہے اس سال بہت نمایاں ہے.سال 1997 ء میں وقف جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد دولاکھ 22 ہزار 6 سوتھی سال 98 ء میں وقف جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد دو لاکھ 73 ہزار 3 سو ہے اس طرح صرف چندہ دہندگان میں اضافہ پچاس ہزار سے زائد ہے.اب اندازہ کریں کہ کس طرح خدا تعالیٰ جماعت کو ہر پہلو سے برکت پر برکت عطا فرماتا چلا جا رہا ہے.اور یہ چیز وہ ہے جو میں سمجھتا ہوں چندوں کے اعداد و شمار کے بڑھنے کے مقابل پر بہت زیادہ خوشکن ہے.پچاس ہزار ایسے احمدی جو پہلے خدا کی راہ میں مالی قربانی کا لطف نہیں اٹھایا کرتے تھے وہ اب وقف جدید میں شامل ہو کر لطف اٹھا رہے ہیں اور پھر آگے اپنے بچوں کو بھی اس کا عادی کر رہے ہیں.جو پاکستان کا اضافہ ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.امسال روپے کی قیمت گرنے کے باوجود پاکستان کی جماعتوں کوگزشتہ سال کے مقابل پر انیس ہزار پاؤنڈز سے زیادہ دینے کی توفیق ملی ہے.انگلستان کی جماعت نے تو اس دفعہ کمال کر دکھایا ہے پچاس ہزار پاؤنڈ گزشتہ سال انھوں نے پیش کئے تھے اس سال ایک لاکھ پاؤنڈ پیش کر رہے ہیں یعنی دگنا کر دیا ہے.اگر چہ ٹیبل Table میں جوان

Page 517

510 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی پوزیشن ہے اس کو نہیں بدل سکے لیکن قربانی بڑھانے کے لحاظ سے بہت نمایاں کام کیا ہے.اس کے علاوہ انگلستان کی جماعت نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جو آگے وقف جدید ہی کے کام آنے والا ہے.انھوں نے اس دفعہ جماعت کے لئے بہتر ہزار پاؤنڈ کی رقم پیش کی ہے کہ افریقہ کے ممالک میں وقف جدید سے جو ہم خرچ کیا کرتے تھے اس کا بوجھ اس طرح کا بہت کم ہو جائے گا اور غریب ممالک میں آئندہ بہت خرچ پڑنے والے ہیں.عید آنے والی ہے اس کے پیش نظر ہمارا دستور ہے کہ بکثرت غریب ممالک میں خرچ کرتے ہیں تا کہ وہ عید کی اچھی تیاری کر سکیں تو اس میں بھی جماعت انگلستان کا بہتر ہزار پاؤنڈ داخل ہے اس کے علاوہ مجھے کل ہی امیر صاحب کی ایک چٹھی ملی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ میں نے جو یہ ایک خطبے میں بتایا تھا کہ عیسائی ممالک کر سمس منانے کے تعلق میں غریب عیسائی بچوں کے لئے دنیا بھر میں کرسمس کے تحفے بناتے ہیں تو انھوں نے کہا ہے جماعت انگلستان نے بھی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسی سال ابھی سے ہم اس تحریک میں بھی کسی دوسرے سے پیچھے نہیں رہیں گے چنانچہ انہوں نے پیکٹ بنانے شروع کر دیئے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نقد رقم بھی ساتھ رکھی جائے گی اس طریق پر دنیا بھر کے غریب مسلمان ممالک میں جماعت انگلستان کی طرف سے یہ تحفہ پیکٹس کی صورت میں تقسیم ہو جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ.تو یہ بہت بڑی خوشخبریاں ہیں جو اس سال میں چھپی ہوئی تھیں ظاہر نہیں تھیں میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ قدم کسی پہلو سے بھی پیچھے نہیں ہے ہر پہلو سے خدا کے فضل سے قدم آگے بڑھ رہا ہے.اب امریکہ کی کمی کی سرگذشت سناتا ہوں امریکہ میں وقف جدید کے چندے میں بہت پیش قدمی ہوتی رہی یہاں تک کہ نو لاکھ تک پہنچا دیا انھوں نے اور جب میں نے دیکھا تو مجھے ایک چیز یہ بھی محسوس ہوئی کہ اس میں سے چند بہت زیادہ امیر آدمیوں کا حصہ بہت زیادہ ہے اور امریکن عامتہ الناس یعنی عام احمدی جو ہے ان کا حصہ اس میں کم ہے اور بھی بعض وجوہات تھیں جس کی وجہ سے میں نے ان سے کہا اب بس ذرا ٹھہر کے چلیں، عام چندے بڑھانے کی کوشش کریں.عمومی طور پر چندہ عام جب بڑھتا ہے تو اس کو ہم جس مد میں چاہیں ڈال دیں.وقف جدید میں ضرورت ہو ادھر منتقل کر دیں کسی اور طرف ضرورت ہو تو ادھر منتقل کر دیں.اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو بہت بڑی گنجائش ہے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی ،اسی میں سے ہم MTA کے لئے بھی خرچ کر سکتے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ چندہ لازمی چندہ جو ہے اس کو بڑھانے کی کوشش کریں اور اس کے مقابل پر اگر دوسرا وقف جدید یا تحریک جدید کا چندہ کچھ متاثر ہوکمی ہو تو بالکل پرواہ نہ کریں.اللہ تعالیٰ اس کمی کو آئندہ پورا کر دے گا بلکہ اور بھی بڑھا دے گا ایک دفعه قدم مضبوط بنیادوں پر رکھیں پھر آگے یہ سلسلے بڑھتے چلے جاتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس ہدایت پر

Page 518

511 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پوری طرح عمل کیا اور جو سلیٹی رنگ کے بادل کی سلور لائٹنگ ہے ( انگریزی میں محاورہ ہے gray cloud کی سلور لائٹنگ بھی ہوا کرتی ہے دیکھنے میں سلیٹی رنگ کا بادل ہے مگر کناروں پر سورج کی شعائیں چمک رہی ہوتی ہیں تو امریکہ کا بعینہ یہی حال ہے اس gray cloud کے کناروں پر بہت خوبصورت روشنی کی ایک جھالر بچھ گئی ہے ) اور وہ کیا ہے؟ وہ میں آپ کے سامنے اب رکھنے لگا ہوں.نولاکھ ڈالر کا جب مجموعی چندہ وقف جدید کا امریکہ کی طرف سے پیش کیا جارہا تھا تو اس کا پچاسی فیصد صرف پندرہ آدمی دے رہے تھے اب اندازہ کریں نو لاکھ ڈالر کا پچاسی فیصد صرف پندرہ آدمی دے رہے تھے ، یہ خوشخبری بھی سمجھیں مگر اصل میں خوشخبری نہیں ہے.اس کا مطلب ہے کہ چند غیر معمولی طور پر مالدار آدمیوں نے بہت زیادہ قربانی کر دی اور جماعتیں تو عامتہ الناس کی قربانی سے آگے بڑھا کرتی ہیں.عامۃ الناس کی قربانی کے معیار کو بڑھانا لازم ہے.چنانچہ امیر صاحب امریکہ نے یہ دلچسپ خبر دی ہے.موجودہ آمد میں عامتہ الناس کا چندہ پہلے جو پندرہ فیصد تھا اب نوے فیصد ہو گیا ہے.اب دیکھیں کتنی غیر معمولی برکت ہے کجاوہ دن کہ صرف پندرہ فیصد ساری جماعت دے رہی تھی اور چند آدمی پچاسی فیصد دے رہے تھے اب چند آدمی دس فیصد دے رہے اور ساری جماعت اللہ کے فضل سے نوے فیصد دے رہی ہے.یہ بہت بڑی خوشخبری ہے.الحمد للہ کہ اس سال ہمیں خدا نے یہ خوشخبری بھی دکھائی.مجموعی وصولی کے لحاظ سے جو جماعتیں ہیں ان میں الحمد للہ کہ امریکہ نے میری ہدایت پر انھوں نے چندے میں کمی کی قربانی کی تھی اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں امریکہ کی جماعت کو ابھی بھی اوّل رکھا ہے.تین لاکھ دو ہزار پاؤنڈ انھوں نے چندہ وقف جدید میں ادا کیا ہے.پاکستان اس کے مقابل پر بہت مخالف حالات کے باوجود آگے بڑھنے کے باوجود پھر بھی امریکہ سے آگے نہیں بڑھ سکا.دو لاکھ چھیاسٹھ ہزار چھ سو پاؤنڈ پاکستان کا کل چندہ ہے.جرمنی حسب سابق تیسری پوزیشن کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہے ایک لاکھ اٹھتر ہزار پانچ سو پاؤنڈ جرمنی کی جماعتوں نے ادا کیا ہے.برطانیہ نے ایک لاکھ پاؤنڈ ادا کر کے اگر چہ پہلے سال سے دگنا کیا ہے مگر ابھی اپنی چوتھی پوزیشن سے آگے نہیں بڑھ سکے.تو آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے پھر.اور کینیڈا کو پانچویں پوزیشن بہت پسند ہے، وہ بیٹھا رہتا ہے اس کے اوپر اور اس دفعہ اڑتالیس ہزار چھ صد پاؤنڈ دے کر کینیڈا نے اپنی پانچویں پوزیشن کو برقرار رکھا ہے.علاوہ ازیں ہندوستان ، سوئٹزر لینڈ، جاپان، ماریشس ، ناروے، بنگلہ دیش اور برما کی جماعتیں بھی قابل ذکر ہیں.خصوصاً بر مانے بہت زیادہ پہلے سے قربانی کی ہے اور بہت نمایاں فرق ڈال دیا ہے اپنے چندوں میں.مگر یہ ساری جماعتیں ہر لحاظ سے خوشخبری کی بھی مستحق ہیں اور مبارکباد کی مستحق ہیں.خوشخبری تو

Page 519

512 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع یہ دے رہی ہیں.ہم ان کو مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لئے دعا کرتے ہیں.اللہ آئندہ بھی ان کو ہمیشہ نیکیوں میں آگے بڑھاتا چلا جائے.اب چندہ بالغان پاکستان.اوّل کراچی ہے، دوم ربوہ اور سوم لا ہور.یعنی بڑی عمر کے احمدی جو چندہ دیا کرتے ہیں ان کو چندہ بالغان کہا جاتا ہے اور اطفال جو چندہ دیتے ہیں اسے چندہ اطفال کہتے ہیں.اس کے مختلف دفاتر ہیں اس کی تفصیل میں میں آپ کا سر نہ کھپاؤں گا.کیونکہ دفاتر کو سمجھنا ایک دو تین چار یہ عامۃ الناس کے لئے مشکل ہے.سیدھی بات یہ ہے کہ چندہ بالغان ، چندہ اطفال.چندہ بالغان میں جو پاکستان کے اضلاع کی پوزیشن ہے.شہروں میں کراچی تو اوّل ربوہ دوم ، لا ہورسوم.اور اضلاع کے لحاظ سے راولپنڈی ، اسلام آباد، سیالکوٹ، فیصل آباد، شیخو پورہ، بہاولنگر ، گوجرانوالہ، عمرکوٹ ، گجرات اور کوئٹہ یہ اسی ترتیب سے ہیں.چندہ دفتر اطفال میں جماعتوں کی پوزیشن یہ ہے.اوّل ربوہ.اس میں جماعت ربوہ نے کراچی کو پیچھے کر دیا ہے.دوم کراچی اور سوم لاہور.چندہ دفتر اطفال میں اضلاع کی پوزیشن یہ ہے اول گوجرانوالہ، پھر سیالکوٹ ، پھر راولپنڈی ، پھر شیخو پورہ، پھر فیصل آباد ، پھر اسلام آباد، پھر بہاولنگر ، پھر سرگودھا ، پھر عمر کوٹ ، پھر ملتان.اس میں جو پوزیشنوں کا ذکر کیا جارہا ہے اس میں ایک بات یادرکھ لیں کہ یہ پوزیشنیں عملاً مالی قربانی کی تفصیل نہیں بیان کرتیں کیونکہ بعض ان میں سے ضلعے بہت چھوٹے ہیں اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے انھیں دوسرے بڑے اضلاع پر یہ برتری کام کے لحاظ سے حاصل ہے کہ وہ بہت زیادہ محنت کریں تب جا کر معیار اونچا ہوتا ہے اور چند آدمیوں تک پہنچ کر معیار کو اونچا کرنا نسبتا آسمان ہے مگر بہر حال ایک پوزیشن انھوں نے حاصل کی تھی جس کا ذکر ضروری تھا.اب میں چند احادیث نبوی جو مالی قربانی سے تعلق رکھنے والی ہیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.بخاری کتاب الزکوۃ ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی اللہ کی راہ میں دی اور اللہ پاک چیز ہی کو قبول فرمایا کرتا ہے یقیناً اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا.اب دائیں ہاتھ سے کسی چیز کو لینا یا دینا جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت خوشی اور دلی طمانیت کے ساتھ ایک چیز کو آپ کریں تو دایاں ہاتھ بڑھا کر چیز کو وصول کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے جب ہاتھ کی بات ہوتی ہے تو یہ ہر گز ہا تھ مراد نہیں.اللہ تعالیٰ کا رجحان ، اس کا جذبہ ہے اور جب جذ بہ کہتے ہیں تو پھر بھی عام جذبہ انسانی مراد نہیں تو یہ تمہیدیں مجبوراً کرنی پڑتی ہیں کہ اللہ اور انسانی صفات میں بہت فرق ہے لیکن باتیں ہم انسانی صفات کے حوالے سے ہی کرتے ہیں اور آنحضرت علی

Page 520

صلى الله 513 حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پیاری پیاری باتیں انسانی صفات کے حوالے سے کہی ہیں تا کہ انسان ان کو سمجھ بھی تو سکیں ورنہ اللہ کی صفات کی تفصیلات بیان کرتے تو کوئی بھی نہ سمجھ سکتا.اس تمہید کے ساتھ اب پھر دوبارہ سن لیجئے.آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جو ایک کھجور بھی اللہ کے حضور پیش کرے اللہ اسے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر اسے اسکے دینے والے کے لئے بڑھا دیتا ہے جیسا کہ تم میں سے ایک اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے ، اسے بڑا کرتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ اس کھجور کو جو بالکل معمولی ہوتی ہے اس کو بڑھانا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح بڑھاتا ہے جیسے چھوٹا سا بچھڑا تمہیں ملے اور تم اس کی پرورش کرو، اسے بڑھالو، مگر وہ تو ایک حد تک ہی بڑھ سکتا ہے.ایک مضبوط توانا بیل بن جائے گا اس سے زیادہ تو نہیں ہوسکتا مگر جب اللہ پرورش پر آتا ہے تو فرمایا کہ یہاں تک کہ وہ کھجور پہاڑ جتنی ہو جائے گی.(بخارى كتاب الزكواة باب الصدقة من كسب طيب) یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کی نسبت کے لئے کیسی پیاری حدیث ہے.انسانی عطا کے مقابل پر اللہ کی عطا کو دیکھنا ہو تو یہ مضمون ہے.جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور اس پہلو سے سب چندہ دہندگان کو جو بڑھے ہیں خواہ انھوں نے چند روپے ہی وقف جدید میں پیش کئے ہیں بہت بہت مبارک ہو.اللہ تعالیٰ انشاء اللہ ان کے اموال میں بھی برکت ڈالے گا اور روحانی جزاء میں تو لا متناہی برکتیں ہیں.ایک حدیث قدسی ہے صحیح مسلم سے لی گئی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم تو دل کھول کر خرچ کر.حدیث قدسی سے مراد وہ کلام ہے جو رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست سنایا اور قرآن کریم کے علاوہ بھی مسلسل آپ پر وحی ہوا کرتی تھی.وہی قرآن الگ چیز ہے اور وحی کا مسلسل جاری رہنا ایک الگ مضمون ہے.تو ایسی وحی جس کا ذکر آنحضرت ﷺ اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں اس کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے.تو حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابنِ آدم تو دل کھول کر خرچ کر جس کے نتیجے میں اللہ بھی تجھ پر خرچ کرے گا.(صحیح مسلم کتاب الزكواة باب الحث على النفقة وتبشير المنفق بالخلف) اب وہ کتنا خرچ کرے گا.نسبت کی بات ہے آدم جتنا بھی چاہے دل کھول کر خرچ کرے اللہ کو ہرا نہیں سکتا اس لئے جب وہ دل کھول کے خرچ کرے گا تو اسی محاورے کے لحاظ سے اللہ بھی پھر دل کھول کر خرچ کرے گا اور کھجور تو بہر حال بڑھے گی اگر دل کھول کر دیا ہے تو وہ اندازہ کریں کہ کیا کچھ بڑھ جائے گا اور ہمارا تجربہ ہے کہ یہ بڑھنا صرف آخرت سے مقدر نہیں ہے اس دنیا میں بھی بڑھتا ہے کیونکہ اس دنیا میں بڑھنے کے نتیجے میں مومنوں کا آخرت پر ایمان بڑھتا ہے.ان کو کامل یقین ہوتا ہے کہ جس نے دنیا میں

Page 521

514 حضرت خلیفہ مسیح الرابع وعدہ پورا کر دیا ہے وہ آخرت میں کیوں وعدہ پورا نہیں کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: "جو شخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ سلسلے کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوارا دا کرئے“.ی نصیحت کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں: 66 عزیزو ! یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے.“ اور جیسا کہ یہ بات اس وقت جماعت احمدیہ پر سب سے زیادہ اطلاق پاتی تھی آج بھی اسی طرح یہ مضمون جماعت احمدیہ پر اطلاق پاتا ہے کہ محض اللہ کی خاطر خرچ کرنے والی اور جماعت ہے کونسی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: عزیز و ا یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 83) اب بظاہر لگتا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے ساتھ وقت اٹھ جائے گا، یہ مراد نہیں ہے یہ تسلسل جاری ہے اگر ایک دفعہ یہ اُٹھ گیا پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا.اسکو اٹھنے دینا ہی نہیں اپنی جانوں کے ساتھ، اپنی دلی تمناؤں کے ساتھ ، اپنی دعاؤں کے ساتھ اس طرح لٹک جائیں اس کے ساتھ کہ یہ وقت آپ سے کبھی بھی نہ اٹھے اور جب آپ سے نہیں اٹھے گا تو دنیا سے اس وقت کی برکتیں بھی پھر کبھی نہیں اٹھیں گی.چنانچہ فرماتے ہیں: چاہئے کہ زکوۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوۃ بھیجے اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگاوے اور بہر حال صدق دکھاوے تافضل اور روح القدس کا انعام پاوے کیونکہ یہ انعام ان لوگوں کے لئے تیار ہے جو اس سلسلے میں داخل ہوئے ہیں“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 83) یہ آغاز کی باتیں تھیں جب زکوۃ کے متعلق لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہاں خرچ کریں.زکوۃ خرچ کرنا دراصل بیت المال ہی کا کام ہوتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے سب سے اوّل زکوۃ کا ذکر فرمایا ہے جو قرآنی حکم ہے اور یہ مضمون سمجھا رہے ہیں کہ زکوۃ کا خرچ کرنا مرکز کا کام ہوا کرتا

Page 522

515 حضرت خلیفہ مسیح الرابع ہے.اپنی جگہ زکو تیں ادا نہ کرتے پھر و بیت المال کو زکوۃ بھیجو اور اس کے بعد دوسرے جتنے بھی چندے ہیں صدقہ ، خیرات ، چندہ عام ، چنده خاص، وقف جدید وغیرہ ان سب میں روپیہ بچانے کی کوشش کرو.یعنی اپنے فضول خرچوں میں کمی کر دو تا کہ جتنا بھی فضول خرچوں سے بچت ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ اس میں سے پوری کر دے.یہ جو فضول خرچی ہے اس کے متعلق میں ضمناً یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں.رمضان کا مہینہ ہے ، غریبوں کو کھانا کھلانے کے دن ہیں.کھانے میں بھی انسان بہت سی فضول خرچیاں کرتا ہے اور سب سے زیادہ فضول خرچی وہ نہیں کہ اچھا کھانا کھائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اچھے کھانے اپنے بندوں ہی کی خاطر پیدا کئے ہیں.فضول خرچی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اچھا کھانا ہو یا برا کھانا.بچا ہوا چھوڑ دے اور وہ ڈسٹ بن (Dust Bin) میں چلا جائے.خصوصاً امریکہ اور انگلستان اور مغربی ممالک میں جتنے بھی امیر ممالک ہیں ان میں یہ عادت ہے.اور ان کے بچوں میں بھی یہ عادت ہے.میرا تو گھر میں ہر وقت یہ کام رہتا ہے کہ سمیٹتا رہتا ہوں اور ان کی پلیٹیں اور بچا ہوا خود کھا جاؤں تاکہ ڈسٹ بن میں نہ پھینکنا پڑے ،لیکن آجکل ڈائٹنگ پر بھی ہوں آخر کہاں تک کھا سکتا ہوں.پھر میں کچھ فریزر میں بچالیتا ہوں.سارا بچا ہوا سمیٹ کر جہاں تک میری نظر پڑتی ہے اس کو فریزر میں بچاتارہتا ہوں تا کہ یہ کھالوں اور اس طرح فضول خرچی نہ ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فضول خرچی نہ کرنے کی نصیحت فرمائی ہے.یہ بھی فضول خرچی ہے جو یا درکھیں انگلستان کے بچوں کو بہت بیہودہ عادت ہے اس فضول خرچی کی.کھاتے ہیں جو پسند آیا باقی چھوڑ کے پھینک دیا.جہاں تک پلیٹ میں کھانا ڈالنے کا تعلق ہے بچوں کو یہ نصیحت کرنی چاہئے اتنا ہی ڈالیں جتنا وہ ختم کر سکتے ہوں اور اس سے زیادہ نہ ڈالیں اور اگر زیادہ ڈال لیں تو پھر کھانا ہی پڑے گا ختم کرنا ہوگا اس کو.کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی یہ سنت تھی جتنا پلیٹ میں ڈالتے تھے اس پلیٹ کو خالی کر دیا کرتے تھے اور اسی کی نصیحت فرماتے تھے.تو اپنے سامنے کھانے کے برتنوں میں، پلیٹوں میں، اتناہی ڈالیں جوضرورت ہے اور پھر ضائع نہ کریں.ضیاع کو اگر آپ ختم کر دیں اور یہ نیا نظام انگلستان میں لوگوں کو سکھا دیں تو انگلستان میں جو فضول خرچی ہوتی ہے، وہ جو بچت ہوگی اس سے بہت سے غریب ممالک کے پیٹ بھر سکتے ہیں.یہ نہیں آپ لوگ سوچ سکتے اور انگلستان میں جو گندے پانی کی مصیبت ہے یہ بھی اسی فضول خرچی کی عادت کی وجہ سے ہے.اب میں اپنے گھر کی بات بتا رہا ہوں غسل خانے کی بات مگر اتنی بتاؤں گا جو آپ کی بھلائی کے لئے بتانی ضروری ہے.میں کبھی بھی شاور (Shower) کھول کر غافل نہیں ہوتا کہ چلتی رہے اب بیشک اور پھر نہاؤں اور جب تک میں فارغ نہ ہو جاؤں شاور کھلی رہے ہر دفعہ جب

Page 523

516 حضرت خلیفتہ مسیح الرابع شاور کو بدن پر استعمال کرتا ہوں ضرور بند کرتا ہوں پھر اور بند کرنے کے بعد بدن کو تیار کیا نہانے کے لئے جو بھی ضرورتیں ہیں وہ پوری کیں پھر شاور کے سامنے آگئے اور اگر گرم پانی میں خرابی کے خطرے کے پیش نظر شاور کھلی رکھی جائے تو شاور سے پہلے پہلے میں ساری تیاری کر لیتا ہوں تا کہ جب شاور شروع ہو جائے تو پھر مسلسل اس کا جائز اور صحیح استعمال ہو.جتنا پانی میں بچاتا ہوں انگلستان کا اگر سارے انگلستان والے بچانا شروع کر دیں تو پانی کی مصیبت ہی حل ہو جائے.اب یہ جو گندہ پانی پلاتے ہیں آپ کو ، وہ بد روؤں سے نکال نکال کر صاف کرتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا اس میں دوائیاں ڈالتے ہیں اللہ ہی رحم کرے.میں نے تو جب سے اس نظام کے متعلق معلومات حاصل کی ہیں یہ پانی پینا ہی چھوڑ دیا ہے.وہ بوتلیں ہمارے گھر میں استعمال ہوتی ہیں خرچ تھوڑا سا زیادہ ہے مگر یہ تو پتہ ہے جو اللہ نے پاک رزق دیا تھا وہی ہے.یہ انسان کا گند ملا ہوا رزق نہیں ہے.تو آسان ترکیب ہے اس کو اپنے گردو پیش میں عام کریں یہ بھی تو صدقہ ہے رمضان کا.رمضان کے صدقے میں اسکو داخل کریں.سارے امیر ممالک میں احمدی یہ جھنڈا اٹھا لیں کہ ویسٹ (WASTE) نہ کرو ویسٹ (WASTE) نہ کرو اور یہ ویسٹ (WASTE) جو ہے ضیاع یہ امریکہ میں اتنا زیادہ ہے کہ تمام دنیا کے غریب ممالک امریکہ کا ضیاع بچانے کے نتیجے میں پل سکتے ہیں.خوراک کی کمی انسان کا بنایا ہوا مسئلہ ہے.اللہ کا بنایا ہوا نہیں ہے انسان کی خساستیں ایک طرف اور اس کی فضول خرچیاں دوسری طرف.ان دونوں کے درمیان یہ خوراک کے مسائل ہیں.جہاں دل کھول کر خوراک غریبوں کو دینی چاہئے وہاں ہاتھ روک لیتے ہیں.جہاں اپنے اوپر بچت سے خرچ کرنی چاہئے وہاں ہاتھ کھول دیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان میں بنی نوع انسان مارے جا رہے ہیں.تمام بنی نوع انسان کے بھو کے ان مصیبتوں کا شکار ہیں.تو ہمیں ہر رمضان میں ایک مہم چلانی چاہئے جو نیکی اور خیرات کو عام کرنے کی مہم ہو.اس رمضانِ مبارک میں یہ ہم بھی چلائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا فیض پہنچائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہی وقت خدمت گزاری کا ہے.پھر بعد اس کے وہ وقت آتا ہے کہ ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے پیسے کے برابر نہیں ہوگا...خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا“.( مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن جلد 2 صفحہ 613 اشتہار ستمبر 1903ء)

Page 524

517 حضرت خلیفہ امسیح الرابع اب بخل کی جہاں تک بات ہے غریبوں پر یا دوسروں پر بخل کرنا خواہ نیک لفظوں کے ذریعے نصیحت کا بخل ہو یا خرچ کرنے کا بخل ہو ، بخل کی بہت سی مختلف شکلیں ہیں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: د میں یقینا سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے جوشخص بچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا کہ اس کے 66 صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے.اب دیکھیں یہ بات عجیب سی ہے بظاہر.فرمایا بخل اور ایمان اکٹھا نہیں ہوسکتا ایک دل میں اور ایک آدمی کے پاس تھوڑا سا مال ہے وہ بخل کرے گا نا اس کے نتیجے میں فرمایا جو صندوق میں بند ہے تمہارا مال ، وہ مال، وہ تو بہت تھوڑا ہے مگر تم بخل کیوں کرتے ہو کہ اللہ کے خزائن تمہارے خزائن ہیں.اللہ کے خزائن ختم نہیں ہو سکتے اور جب تم یہ یقین رکھتے ہوئے خرچ کرو گے کہ اللہ کے خزائن ختم نہیں ہو سکتے تو اللہ تمہارے خزائن کو ختم نہیں ہونے دیگا.یہ بہت عارفانہ کلام ہے اس کو غور سے سمجھیں تو زندگیاں سنور سکتی ہیں.اور امساک اس سے اس طرح دور ہو جاتا ہے جیسا کہ روشنی سے تاریکی دور ہو جاتی ہے اور یقین سمجھو کہ صرف یہی گناہ نہیں کہ میں ایک کام کے لئے کہوں اور کوئی شخص میری جماعت میں سے اس کی طرف کچھ التفات نہ کرے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی گناہ ہے کہ کوئی کسی قسم کی خدمت کر کے یہ خیال کرے کہ میں نے کچھ کیا ہے“.( مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن جلد 2 صفحہ 614 اشتہار تمبر 1903ء) توان امور کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھیں.اب یہ حصہ میں چھوڑ رہا ہوں یہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ضرورتیں کیوں پڑتی ہیں الہی جماعتوں کو، انبیاء کو جن کے سپر دسب سے زیادہ کام ہو.ان کو سب سے زیادہ ضرورتیں پیش آتی ہیں.یہ بہت گہرا اور لمبا تفصیلی مضمون ہے.ضرورتیں تو پیش آتی ہیں.غریب بھی ہوتے ہیں مگر ان کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہر وقت ان کی ضرورتیں پوری کرتا چلا جاتا ہے.اور چندوں کے ذریعے جو بظاہر ابتلاء ہے غریبوں کے لئے بھی اور امیروں کے لئے بھی ان کے اموال میں بھی برکت ڈالتا ہے اور جماعت کے اموال میں بھی برکت ڈالتا ہے اور جب اللہ کی راہ میں وہ بظاہر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو اس سے پھر جماعت کے اخراجات میں بھی بہت برکت پڑتی ہے یہ لمبا تفصیلی ایک دوسرے سے متعلق مضمون ہے جو کئی جگہ میں ظاہر کر چکا ہوں اس لئے میں اس کو اب یہاں نہیں کھولتا کیونکہ آگے ایک بہت ہی ضروری بات بھی

Page 525

518 حضرت خلیلتہ امسیح الرابع کر نیوالی ہے جواب اس سال نو کی ایک عظیم خوشخبری کے طور پر میں آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ایک بات یا درکھیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا کئی سال متواتر ہوتا رہا اور ہر سال ایک نئی شان سے پورا ہوا ہے اور آج کی جو صدی گزرگئی ہے اس کو ان سالوں کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے سوسال پہلے جو 1897ء میں الہام ہوا تھا 1997ء میں اس نے جماعت کی تبلیغ کو پھیلانے کے نئے انتظام کر دیے.1898ء میں جو الہام ہوا تھا اس نے بھی نئے سامان پیدا کئے ہیں اور انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے ان کو دیکھ کر کہ ہماری طاقت، ہمارے اختیار میں تھا ہی نہیں کہ وہ سامان پیدا کر سکتے الہام کی طرف ذہن کا منتقل ہو نا لا زم ہے.انسان کو سوچنا چاہئے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو خدا نے وعدے کئے تھے ان کو پورا کرنے کے لئے جو سامان آج مہیا ہو رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہی وعدوں کے ایفاء کا ایک اظہار ہے جس کو پیش نظر رکھ کر ہمیں ممنون احسان ہونا چاہئے.اب دیکھیں جہاں تک سیٹلائٹس کے ذریعے دنیا کو تبلیغ اسلام تبلیغ احمدیت پہنچانے کا تعلق ہے یہ سلسلہ پھیلتا جارہا تھا.اس سال کیا واقعہ ہوا ہے.یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اسی سال بڑی شدت سے بہ الہام ہوا تھا.لکھا ہے حضرت اقدس امام الزمان سلمہ الرحمن کو اللہ کریم نے وعدہ دیا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.( تذکرہ صفحہ 260 الہام 1898 ء) اب جلسہ سالانہ کے بعد جو ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا تھا یہ تھا کہ اگر چہ ہم مجبوراً انٹرنیٹ وغیرہ کو استعمال کر کے کسی حد تک دنیا بھر کی جماعتوں کی ضرورت پوری کرتے ہیں مگر عملاً جاپان ، انڈونیشیا کے بہت سے حصے ، ملائشیا اور نجی آئی لینڈ اور نیوزی لینڈ یہ سارے MTA کی نشریات سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتے.اب یہ پریشانی تھی جس کے متعلق مختلف جائزے لینے شروع کئے.تو عجیب بات ہے کہ اگست ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوتا ہے اور اگست ہی میں ہم نے یہ کام شروع کر دیا جو بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اب جو صورت حال نئی ابھری ہے یہ سال ختم ہونے سے پہلے ایسی کمپنیوں سے قطعی معاہدہ ہو چکا ہے، دو طرفہ دستخط ہو گئے ہیں، جتنے روپے کی ضرورت تھی وہ اللہ نے ویسے ہی مہیا کر دیے اس میں کوئی کمی نہیں اور یہ معاہدہ ہوا ہے ایک کمپنی کے ساتھ کہ جو نیا سیٹلائیٹ وہ فروری میں شروع کریں گے، انھوں نے کہا تو نہیں مگر کہنے کی طرز یہ تھی کہ اس سیٹلائیٹ کی کامیابی کی دعا تم کرو اور وعدہ ہم پورا کریں گے، اس میں انھوں نے ایک پوری چینل ہمارے لئے وقف کر رکھی ہے اور اس

Page 526

519 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع چینل کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جاپان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور جو South Pacific کے جزائرNorth Pacific کے جزائر اتنا بڑا دائرہ ہے اس کا ، سارے استفادہ کر سکیں گے اور براہ راست MTA کے پروگرام ان کو میسر آجائیں گے جس کے لئے وہ اب تک ترس رہے تھے تو نئے سال کی اس خوشخبری میں اس کو بھی بہت اہمیت ہے اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک کرے کہ یہ خوشخبریاں اللہ نے پہلے سے ہمارے لئے مقدر کر رکھی تھیں جن کو اب ظاہر فرما رہا ہے.اب ایک اور خوشخبری یہ ہے کہ MTA کا آغاز جو باقاعدہ ٹیلی ویژن کے ذریعے آغاز ہوا ہے، یہ جاری ہوا ہے MTA کا نظام ، یہ سات جنوری 1994 ء کو ہوا تھا اس طرح MTA کے آغاز کو اس سال سات جنوری کو پانچ سال پورے ہو چکے ہونگے تو پانچ سال کا سنگ میل بھی ایک اہمیت رکھتا ہے اس پہلو سے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.اب جہاں تک اگلے سال اور آئندہ صدیوں کی خوشخبریوں کا تعلق ہے اس کے متعلق اب میں 1899 ء کا ایک الہام آپ کے سامنے رکھتا ہوں.1999ء کا سال جواب طلوع ہوا ہے یہ بہت زیادہ برکتوں کا سال ہے اس کی کچھ برکتیں وہ ہیں جو 98 ء کے الہامات کے نتیجے میں اس سال کو حاصل ہوئی ہیں.اس سال نے 98 ء کا ورثہ پایا اور اب 99ء میں یہ برکتیں پھیلیں گی اور 99ء میں جو خو شخبریاں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی تھیں وہ اتنی عظیم الشان ہیں صرف یہ ذکر نہیں ہے کہ تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا وہ تو کایا ہی پلٹ گئی ہے وہ دیکھ کر تو دل بلیوں اچھلتا ہے کہ سبحان اللہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح نئی صدی میں داخل ہونے کے انتظام جماعت کے لئے کر رکھے ہیں اور پہلے ہی سے کیا فیصلے کئے ہوئے تھے.الہامات کی اب شوکت دیکھئے.الہام 1899ء مبشروں کا زوال نہیں ہوتا گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے.مبشروں کا زوال نہیں ہوا کرتا باقی سارے زوال میں چلے جائیں.جماعت احمدیہ سے جو اس مبشر نے وعدے کئے تھے جس کو خدا نے وعدے دیے ، مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام، یہ وہ ذکر ہے.فرمایا مبشروں کا زوال نہیں ہوا کرتا ہی ناممکن ہے، اور اب کیا وقت ہے؟ گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے.حاشیہ میں فرمایا: ”ہمارا نام حکیم عام بھی ہے.حکم عام یعنی عام حکم بنایا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے عام حکم بنا دیا ہے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حکم عدل جو پیشگوئیوں میں نام آیا تھا تو فرمایا حکیم عام ایک نام ہے ہمارا اور انگریزی ترجمہ کیا جائے تو گورنر جنرل ہی ہوتا ہے.تو اس لئے جو الہام کے لفظ ہیں گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے یہ اس حکم عام کی طرف اشارہ ہے یعنی اسی وقت کی تعبیر میں

Page 527

520 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی سمجھا تھا کہ اب میری پیشگوئیاں جو جلال والی پیشگوئیاں ہیں جمال کی ایک نئی شان ابھرنے والی ہے ان کا وقت آگیا ہے یہ 1899 ء کی پیشگوئی تھی.اب 1999 ء ہے اور وہ وقت آگیا ہے.آپ حیران ہوں گے یہ موازنہ کر کے کہ سو سال پہلے جس سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی الہام ہوا بعینہ اسی سال خدا تعالیٰ نے اس صدی میں ہمارے سامنے اس کے پورا ہونے کے عظیم الشان ذرائع مہیا فرما دیئے اور عظیم الشان طریق پر اسے پورا کر دیا.اب یہ کیا ہونے والا ہے اس کے متعلق میں ابھی تفصیل سے آپ کو نہیں بتا سکتا کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کیا ہونے والا ہے لیکن اب وقت کھلے گا اور آپ کو بتا تا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو 99ء کے الہامات ہیں وہ انشاء اللہ اس سال جلسہ سالانہ پر آپ کے سامنے پورے رکھوں گا.کیا ہونے والا ہے کی بہت سی تفصیل ہے ان الہامات پر غور کرنے سے معلوم ہو جائے گی اور جس طرح پہلے الہام لفظاً لفظاً پورے ہوتے رہے ہیں انشاء اللہ 1899 ء کے الہامات بھی لفظاً لفظ پورے ہونگے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس الہام کی طرف توجہ اچانک کس طرح ہوئی حالانکہ یہ میرا طریق ہے کہ ہر سال کے الہامات اس سال کے آخر پر بیان کیا کرتا ہوں 98ء کے الہامات کی بات تھی 99ء کے کیسے ذکر شروع ہو گیا.اس کی طرف بھی توجہ پھیرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اپنے بندے کو ذریعہ بنا دیا اور وہ مسعود احمد دہلوی صاحب ہیں.مسعود دہلوی صاحب کو یہ سارا لکھنے کا موقع اس لئے پیش آیا کہ انھوں نے 1993 ء میں ایک رؤیا دیکھی تھی جب MTA کا آغاز ہوا تھا اور نشریات پھیلنی شروع ہوئی تھیں ، وہ کہتے ہیں اس وقت میں نے رویا دیکھی تھی اور مجھے وہم بھی نہیں تھا کہ اس تفصیل سے پوری ہوگی لیکن یہ الہام میری نظر سے گزرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو فوراً دل نے یہ تعلق جوڑ لیا اور اب میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ رؤیا کیا تھی.وہ رویا بہت مبشر ہے لیکن اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ الہام یعنی رؤیا کے ذریعے احمدیوں کے دل پر بھی نازل ہورہا ہے اور ان کو تیار کیا جارہا ہے کہ ان خوشخبریوں کے پورا ہونے کے دن آگئے ہیں.میں اب ان کی تحریر آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں.مئی 1993 ء میں دیکھا کہ مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے طلب فرمایا ہے.اب لفظ مسعود جو آپ کا نام ہے اس میں بھی مبارک خوشخبری ہے یعنی صرف مسعود دہلوی صاحب کو کیوں طلب کیا گیا اور بھی بڑے مخلص بندے موجود تھے لیکن یہ بھی بہت مخلص ہیں اس میں بھی سند ہوگئی 66

Page 528

521 حضرت خلیفة المسیح الرابع لیکن نام مسعود میں ایک حکمت ہے کہ دور سعید آنے والا ہے.ایک ایسا دور آنے والا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے مسعود دور قرار دیا ہے کہتے ہیں ” طلب فرمایا ، ہمیں خوشی خوشی ایک بہت کشادہ سڑک پر جارہا ہوں.‘اب کشادہ سڑک بھی نمایاں طور پر ذہن نشین ہوئی ہے صاف پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی ترقی کے لئے سڑکیں کشادہ کر دی ہیں یہ ضمنا بات کرتے ہیں مگر خواب میں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی ترقی کے لئے سڑکیں کشادہ کر دی ہیں یہ ضمنا بات کرتے ہیں مگر خواب میں جو باتیں ذہن میں نقش ہو جائیں وہ اہمیت رکھتی ہیں.1993ء کی خواب میں ایک سڑک کی کشادگی ان کے ذہن پر نقش رہی ہے.پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت عظیم الشان عمارت کے وسیع کمرے میں داخل ہوتا ہوں یہ عمارت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہے اور بہت عظیم الشان ہو چکی ہے اور ہوتی چلی جائے گی وہاں.“ ”اس میں ایک بہت بڑی اور نہایت شاندار میز کے ساتھ ایک بہت شاہانہ کرسی پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سربراہ مملکت کی حیثیت سے رونق افروز ہیں.اب وہ گورنر جنرل کی پیشگوئی کو یا درکھیں.یہ سر براہ مملکت کی حیثیت سے ان دونوں باتوں کا آپس میں ایک تعلق واضح اور ٹھوس طور پر قائم ہو جاتا ہے میز پر حضور کے دائیں بائیں فائلیں اور کا غذات“ دستخط کر رہے ہیں یہاں فیصلہ ہو رہا ہے ، اس پر فیصلہ ہو رہا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رویا میں جو مسعود دہلوی صاحب نے دیکھا تھا آجکل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں میں بالکل یہی کرتا ہوں.میز میری فائلوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور ملاقاتیوں کے آنے سے پہلے کافی سمیٹنی پڑتی ہیں ادھر اُدھر.اور جب کوئی نہ ہو تو انبار لگے ہوتے ہیں فائلوں کے کبھی دائیں طرف کے فیصلے ہو رہے ہیں کبھی بائیں طرف کے فیصلے ہو رہے ہیں.کبھی شمال کے کبھی جنوب کے اور عموما میں بعض فائلیں ایک طرف رکھتا جاتا ہوں بعض فائلیں دوسری طرف رکھتا جاتا ہوں جو نسبتاً عام ہیں وہ ایک طرف اور جن کو خصوصیت سے دوبارہ دیکھنا ہے وہ میں الگ رکھتا ہوں تو اسی طرح کا ایک نظارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مسعود دہلوی صاحب کو دکھایا گیا.میں کمال درجہ ادب و احترام سے السلام علیکم عرض کرتا ہوں حضور علیہ الصلوة والسلام وعلیکم السلام فرمانے کے بعد اپنے بائیں ہاتھ رکھے ہوئے کا غذات میں سے ایک فل سکیپ کاغذ اٹھاتے ہیں.یہ لفظ فل سکیپ اصل میں Fool's Cap ہے.اس سے بنا ہوا ہے پرانے زمانے میں پاگلوں کی یہاں جو ہوتے ہیں مسخرے، بچے ان کے لئے ایک مسخری سی کیپ بنایا کرتے تھے کا غذ کی.وہ جتنے کاغذ میں بنتی تھی انھوں نے اسی کو فل سکیپ کہہ دیا ہے اور اب وہ سائز رائج ہی ہو گیا.دنیا میں تو وہ ا

Page 529

522 حضرت خلیفة المسیح الرابع کاغذ جو اس سائز کا ہو جس کی یہ ٹوپیاں بنایا کرتے تھے اس کو آجکل فونز کیپ نہیں کہتے بلکہ فل سکیپ کہہ دیتے ہیں تو یہ ایک فل سکیپ کا غذ ہے جس پر آپ لکھ رہے ہیں ایک کاغذ اٹھاتے ہیں اور اسے کسی قدر بلند آواز سے پڑھنا شروع کرتے ہیں جو تمام تر بشارتوں پر مشتمل ہے“.اب پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے یا درکھیں اور مسعود دہلوی صاحب کو کیا دکھایا گیا تھا جو اتنے کا غذات ہیں ان کا ذکر تو چھوڑیں ایک کا غذ اٹھاتے ہیں جس پر بہت سی پیشگوئیاں ہیں جواب پوری ہونے والی ہیں.حضور پھر مجھے واپس جانے کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں سلام عرض کرنے کے بعد الٹے قدموں دروازے تک واپس آتا ہوں اور اس بارے میں خاص احتیاط کرتا ہوں کہ میری پیٹھ حضور کی طرف نہ ہو.( علیہ السلام) کمرہ سے باہر آکر میں خوشی سے جھوم رہا ہوں کہ مجھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت بھی نصیب ہوئی اور حضور کی زبان مبارک سے بشارتیں سننے کی بھی سعادت میرے حصے میں آئی ہے آنکھ کھلنے پر مجھے وہ بشارتیں یاد نہ رہیں.وہ تو یا درہ بھی نہیں سکتیں تھیں بے شمار بشارتیں ہیں جو پوری ہونے والی ہیں جب وقت آئے گا تو نظر آ جائے گا.یہ لکھتے ہیں ” آنکھ کھلنے پر وہ بشارتیں یاد نہ رہیں.خدا نے چاہا تو 1899 ء کے عربی الہام لَتَنْسِفَنَّ نَسُفًا کو پورا ہوتا دیکھیں گے.یہ انھوں نے اپنی طرف سے ایک توجیہ پیش کی ہے اس کا رویا کے ساتھ اس طرح تعلق نہیں.تو کہتے ہیں کس طرح اللہ دشمنوں کی خاک اڑا دے گا اور جماعت کو غیر معمولی ترقیات عطا فرمائے گا.اس مضمون کو ہم انشاء اللہ 1999ء میں دیکھیں گے اور مجھے کامل یقین ہے ایک ذرہ بھی اس بارے میں تر در نہیں کہ دیکھیں گے اور ضرور دیکھیں گے.اللہ جب فیصلہ کرے گا کہ جماعت کو خوشخبریاں ملیں تو کوئی دنیا کا ہاتھ نہیں جوان خوشخبریوں کو روک سکے.اس کے بعد پھر ایک دفعہ مبارکباد آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو اب پوری طرح علم ہو گیا ہے کہ نیا سال بہت خوشخبریوں والا چڑھا ہے رمضان میں یکم جنوری کا آنا ویسے ہی مبارک ہے اور یہ بھی عجیب شان ہے اللہ کی کہ اس سال 99ء میں جو رمضان ہوگا آخر پہ وہ آخری رمضان ہے جس میں یکم جنوری ہوگی.اب یہ دیکھنے میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر بہت گہری ہیں بہت گہرا تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.تو یہ رمضان 99 ء تک جب بھی آئے گا ہمارے لئے خوشخبریاں لے کے آئے گا.اللہ ایسا ہی کرے.الفضل انٹر نیشنل لندن 19 فروری 1999ء)

Page 530

523 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خطبہ جمعہ فرموده 7 / جنوری 2000ء بیت الفضل لندن تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی.قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّ اوَّ عَلَانِيَةً مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّاتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلَلٌ.(ابراهیم : 32) تو میرے ان بندوں سے کہہ دے کہ جو ایمان لائے ہیں کہ وہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیا ہے اس میں سے مخفی طور پر بھی اور علانیہ طور پر بھی خرچ کریں.پیشتر اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں کوئی خرید وفروخت نہیں ہوگی اور نہ کوئی دوستی ( کام آئے گی ).اس آیت کا انتخاب میں نے اس غرض سے کیا ہے کہ آج کے خطبہ کے موضوع میں دو باتیں اکٹھی شامل ہیں.ایک وقف جدید کا اعلان ہو گا نئے سال کا ، اس کی مالی تحریک ہے اور دوسرے نمازوں کے قیام کے متعلق میں خصوصیت سے تحریک کرنا چاہتا ہوں جو دراصل رمضان کا سبق ہے اور رمضان اپنے پیچھے چھوڑ کے جارہا ہے.اس مختصر تعارف کے بعد آج سب سے پہلے تو میں جمعۃ الوداع کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو آج رمضان کا آخری دن ہے اور جمعتہ الوداع ہے.یہ سال بکثرت غیر معمولی برکات لے کر آیا ہے جس کا تفصیلی ذکر میں آگے چل کر کروں گا.سر دست صرف جمعۃ الوداع کے متعلق کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں.آج کا دن وہ دن ہے کہ تمام دنیا میں مساجد اتنی بھر گئی ہیں کہ کبھی سارا سال بلکہ رمضان مبارک کے دوران بھی مساجد اس طرح نہیں بھری تھیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اور کوئی بھی نیکی نہ ہو تو صرف جمعہ الوداع کو حاضر ہو جانا ہی انکی بخشش کا سامان مہیا کر دے گا.بخشش کے کام تو اللہ کے ہیں وہ جس کو چاہے بخشتا ہے جس کو چاہے نہ بخشے مگر یہ وہم ہے کہ جمعتہ الوداع کو ایک ایسی اہمیت حاصل ہے کہ اس میں شمولیت سے خواہ سارا سال بدیوں میں مبتلا رہے انسان کے سارے گناہ بخشے جاتے ہیں.اس پہلو سے جب میں نے حدیثوں کا مطالعہ کیا تو پتہ لگا کہ حدیث میں کہیں جمعتہ الوداع کا کوئی ذکر نہیں.لیلۃ القدر کی اہمیت کا ذکر ہے مگر جمعتہ الوداع کی اہمیت کا کوئی ذکر کسی حدیث میں نہیں آتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرضی قصے بعد میں گھڑے گئے ہیں اور جب تنزل ہوا ہے مسلمانوں میں تو اس میں کسی وقت جمعۃ الوداع کا خیال آہستہ آہستہ راہ پکڑ گیا اور اس کی وجہ سے بہت سی خرابیاں لاحق ہوئی ہیں.

Page 531

524 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع یہ جمعہ نیکیوں کو وداع کرنے کا جمعہ نہیں ہے.یہ سب سے پہلی اور اہم بات ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.ہر سال جمعۃ الوداع کے موقع پر میں یہی پیغام دیا کرتا ہوں کہ یہ وداع نیکیوں کا وداع نہیں ہے کہ جس طرح بچے ٹاٹا کر دیتے ہیں کہ اچھا نیکیو! چھٹی ہوئی تم سے رخصت ہوئے بلکہ اگر جمعۃ الوداع کی کوئی اہمیت ہے تو صرف یہ اہمیت ہونی چاہئے کہ جمعہ الوداع کے موقع پر اپنے سارے وہ سبق انسان دہرائے جو رمضانِ مبارک میں سیکھے تھے اور ان اسباق کو اپنے نفس پر چسپاں کرے اور پھر اگلے سال کی تیاری کرے.تو یہ وداع کے ساتھ استقبال کا بھی جمعہ ہے جس کے ساتھ اگلے سال کے رمضان کے استقبال کی دینی تیاری ہوتی ہے.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت خصوصیت سے اس اہم بات کو یادر کھے گی کہ جمعتہ الوداع کو محض رخصت کا جمعہ نہیں بلکہ استقبال کا جمعہ بھی قرار دیں گے اور اس استقبال کے جمعہ سے سب سے زیادہ اہم سبق جورمضان مبارک میں ہم نے سیکھا ہے وہ نمازوں کی پابندی ہے.پانچ وقتہ نمازوں کی پابندی تو لازم ہے اس کے بغیر تو روزہ ہوہی نہیں سکتا اور اس کے علاوہ تراویح یا تہجد کی نماز یہ تقریبا فرض کی طرح ہی جھنی چاہئے.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے تہجد کی نماز میں مداومت اختیار فرمائی.پس یہ سبق ہے جو جماعت کو آئندہ سال کے لئے ہمیشہ یادرکھنا چاہیئے تا کہ اللہ تعالی آئندہ سال کے رمضان تک ہماری نیکیوں کو بقا بخشے اور ایک تسلسل عطا فرمائے.اب میں امسال جو خصوصیت سے بعض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے امور رونما ہوئے ہیں جن کو اتفاقی نہیں کہا جاسکتا ان کے اندر ضرور کوئی گہری حکمت ہوگی اور جو حکمتیں بھی لوگوں کی سمجھ میں آئی ہیں ان سے ایک نتیجہ ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سال جماعت کے لئے غیر معمولی برکتوں کا سال ہوگا.کن معنوں میں ہوگا اللہ بہتر جانتا ہے.اب میں اس جمعہ میں جو اس سال کی خصوصیات ہیں ان کا خاص طور پر ذکر کرتا ہوں ان خصوصیات کی طرف میری توجہ تو نہیں گئی تھی مگر امام صاحب نے خصوصیت سے لکھ کر یہ نکات بھیجے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ سال ایک خاص سال ہے، کوئی عام سال نہیں اور ان نکات میں صادق محمد صاحب طاہر نے بھی اپنی طرف سے کچھ چیزیں شامل کر لیں جو درست ہیں مگر اب میں سب اکٹھی آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں.اس سال کا آغاز جمعہ کے دن سے ہوا اور اختتام بھی جمعہ کے مبارک دن سے ہورہا ہے.اس سال کے عین وسط میں دو جولائی کو بھی جمعہ کا مبارک روز تھا.182 روز اس سے پہلے گزر چکے تھے اور 182 روز اس کے بعد آئے.اس سال کے آغاز کے وقت رمضان کا مبارک مہینہ تھا اور سال کا اختتام بھی رمضان کے مبارک مہینہ میں ہو رہا ہے.یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ایک ہی سال میں دو رمضان آئے ہیں.اس سال میں آنے والے رمضان مبارک کا آغاز جمعہ کے دن سے ہوا اور رمضان المبارک کا آخری دن بھی جمعتہ المبارک ہے.اس رمضان المبارک کے عین وسط میں یعنی پندرہ رمضان کو بھی جمعہ تھا.

Page 532

525 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع اس سال میں آنے والے رمضان مبارک میں جمعتہ المبارک کا دن پانچ دفعہ آیا ہے جو بہت شاذ ہوتا ہے.باوجود اس کے کہ میں کا مہینہ نہیں 29 کا ہے مگر اس 29 کے مہینے میں بھی پانچ دفعہ جمعہ آیا ہے اور آخری عشرہ میں جمعۃ المبارک دو بار آیا ہے.اس سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے Friday the 10th یعنی دس تاریخ کا مبارک جمعہ دو بار رونما ہوا ہے.پہلا موقع دس ستمبر کو تھا اور دوسرا دس دسمبر کو تھا جس روز رمضان کے مہینہ کا آغاز ہوا.یہ Friday the 10th نے جو برکتیں ہمارے لئے چھوڑی ہیں اور خاص طور پر میری صحت پر اسکا جو غیر معمولی اثر رونما ہوا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہے.اس سال میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم اور احسان سے ایک کروڑ آٹھ لاکھ بیس ہزار دو سو چھیں افراد کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کا عظیم الشان نشان دکھایا.تاریخ ادیانِ عالم میں اس قسم کا واقعہ پہلے کبھی رونما نہیں ہوا.احمدیت کے دائمی مرکز قادیان میں اس سال منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ میں گل حاضری اکیس ہزار سے زائد تھی جن میں سولہ ہزار نو مبائعین تھے.پس یہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ اکیس ہزار آدمی بھی بہت بڑی بات ہے قادیان کے لئے مگر اس میں سولہ ہزار نو مبائعین ہوں.اس تعداد میں نو مبائعین کی جلسہ سالانہ میں شمولیت فتح و نصرت کا ایک اور سنگ میل ہے.جہاں تک مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ کا تعلق ہے اس سال پہلی بارڈیجیٹل ٹرانسمیشن کو اپنا کر ترقی کے ایک نئے دور میں MTA داخل ہوئی ہے.باقی دنیا میں جو بڑی بڑی ٹیلی وژن کمپنیاں ہیں وہ بھی ڈیجیٹل پر جارہی ہیں اور آئندہ ڈیجیٹل کا زمانہ آنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سال جماعت احمدیہ کو بھی یہ توفیق مل گئی.اور امسال 11 اگست کو مکمل سورج گرہن ہوا جو سائنسی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا.اور اسی سورج گرہن کے موقع پر مجھے بھی پہلی بار نماز خسوف پڑھانے کی توفیق ملی.امسال 22 / دسمبر کو رمضان مبارک کی چودھویں رات کا چاند غیر معمولی طور پر بڑا اور معمول سے بہت زیادہ روشن ہو کر چھکا.اس کے متعلق سائنسدان کہتے ہیں یہ واقعہ ایک سو تینتیس سال کے بعد ہوا اور چاند اتنا روشن تھا کہ اس کا نور کناروں سے چھلک رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی کہ باوجود اس کے کہ یہ بادلوں کا مہینہ ہے اس وقت بالکل کوئی بادل نہیں تھا اور بالکل صاف یہ چاند لوگوں کو دکھائی دے رہا تھا جو نماز تہجد کے لئے اٹھے ہوئے تھے.مطلب ہے کہ جو تہجد پڑھتا تھا اسکو بھی اور جو دوسرے تھے ان کو بھی یہ چاند صاف دکھائی دے رہا تھا.آئندہ ایک سوسال تک سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دوبارہ ایسا بھرا ہوا چاند دکھائی نہیں دے گا.اب میں آنحضور ﷺ کی چند احادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن میں نمازوں پر بھی زور

Page 533

526 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ہے اور غیر معمولی زور ہے اور پھر مالی قربانی پر بھی زور ہے.جس کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ اب وقف جدید کے آئندہ سال کا اعلان بھی ہونے والا ہے.صلى الله حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور ﷺ کو حجۃ الوداع الله کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے سنا.حضور ﷺ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالی سے ڈرو اور پانچوں وقت کی نمازیں پڑھو.تو یہ پانچ وقت کی نماز کا جو سبق ہمیں رمضان نے دیا ہے یہ جمعۃ الوداع نہیں حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضور ﷺ کی آخری نصیحت تھی جو مسلمانوں نے سنی اور اسی نصیحت کے متعلق یہ بھی فرمایا جو صلى الله حاضر ہے وہ غیر حاضر کو آگے پہنچا دے.(ترمذی کتاب الجمعة باب ما ذكر في فضل الصلوة) سوانحضور ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں اس نصیحت کو آپ لوگوں تک اب پہنچارہا ہوں اور بری الذمہ ہو رہا ہوں کہ نمازوں کی حفاظت کریں.یہاں رسول اللہ ﷺ نے تہجد پر زور نہیں دیا کیونکہ اصل پانچ نمازیں ہیں جو فرض ہیں.فرائض کی بات ہو رہی تھی ،تہجد اس کے علاوہ ہے اور حضور اکرم ﷺ کی سنت سے ثابت ہے کہ ہمیشہ بلا ناغہ آپ نے تہجد پڑھی ہے.پھر فرماتے ہیں ”ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے اموال کی زکوۃ دو اور جب میں کوئی حکم دوں اس کی اطاعت کرو اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے.حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خدا کی رضا کی خاطر جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر تمہیں ضرور ملے گا.(بخاری کتاب الایمان باب انما الاعمال بالنيات) حضرت ابو کبشہ انماری سے مروی ہے کہ انھوں نے آنحضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزوں کے بارے میں میں قسم کھا کر تمہیں بتاتا ہوں انھیں اچھی طرح یا درکھوصدقہ بندے کے مال میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرتا.یہ وہم ہے کہ صدقہ سے مال میں کمی آتی ہے.اللہ ہزار طریقے سے صدقہ دینے والوں کیا موال میں برکت ڈال دیتا ہے اور کمی کی بجائے کئی طریقوں سے اس کو بڑھاتا ہے.وہ لوگ جن کو مالی قربانی کی عادت ہے وہ جانتے ہیں کہ کئی قسم کے اخراجات ہی ہیں جو ہونے والے ہوتے ہیں وہ ٹل جاتے ہیں اور مالی قربانی کی برکت سے انسان کے اموال ہمیشہ بڑھتے ہیں کبھی بھی کم نہیں ہوئے.پھر فرمایا جب بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے اور عزت بخشتا ہے پھر فرمایا جس نے سوال کرنے کا دروازہ کھولا اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے.(ترمذی کتاب الزهد باب ماجاء مثل الدنيا مثل اربعة نفر)

Page 534

527 حضرت خلیفہ مسیح الرابع پس یہ جو عادت ہے لوگوں سے مانگنے کی خواہ زبانِ حال سے ایسی شکل بنا کے مانگا جائے کہ بظاہر نہ بھی مانگوتب بھی مانگنا ہی مراد ہو یہ نا پسندیدہ بات ہے اس سے مال میں برکت کبھی نہیں پڑتی.ہمیشہ اس الله سے اموال میں کمی آتی ہے چنانچہ آنحضور ﷺ نے مانگنے کی عادت کی بڑی وضاحت کے ساتھ نہی فرمائی ہے.ہرگز مانگنے کی عادت نہیں ڈالنی چاہئے.بعض صحابہ نے تو آنحضرت ﷺ کے اس طرح زور دے کر مانگنے کے بارہ میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ ایک صحابی گھوڑے پر سوار جارہے تھے ان کے ہاتھ سے سانٹا گر گیا اترے گھوڑے کو ایک جگہ باندھا اور آ کے سانٹا پھر اٹھا لیا.ایک مسافر راہ گیر اور بھی دیکھ رہا تھا اس نے کہا آپ نے یہ کیا کیا ہے مجھے کہتے آرام سے آپ کو گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے آپ کا سانٹا پکڑا دیتا.اس پر آپ دیتا.اس صلى الله نے فرمایا کہ نہیں میں نے آنحضرت ﷺ سے خود یہ سنا ہے کہ مانگا نہ کرو.پس میں اتنی سختی سے اس پر عمل کرتا ہوں کہ میں نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ اپنا گرا ہوا سانٹا کسی سے مانگ لوں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی استطاعت ہو.الله حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ تعالی پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ تعالی اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اور اسے بڑا جانور بنا دیتا ہے.(بخارى كتاب الزكوة باب اتقو النار لو بشق تمرة) (بخارى كتاب الزكواة باب الصدقة من كسب طيب) اب اس میں پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ کوئی کھجور یہ تو نہیں کہ واقعہ بڑھ رہی ہے پہاڑ کی طرح ہو رہی ہے اور جنت میں وہ کھجور کا پہاڑ کسی کو مل جائے گا یہ سارے آنحضرت ﷺ کے نصائح کے طریق ہیں اور مراد یہ ہے کہ ایک کھجور اگر پہاڑ جتنی ہو سکتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی خاطر خلوص کے ساتھ قربانی کرنے والے کو اتنی برکت دے گا جیسے کھجور اور پہاڑ کا فرق ہوتا ہے.اتنی زیادہ برکات اس کو عطا ہونگی.الله حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ دانائی اور علم وحکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو (بخارى كتاب الزكواة باب انفاق المال في حقه) سکھاتا بھی ہے.پس مال کی عطا کے ساتھ علم کی عطا بھی ہے اور قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے اور احادیث نبوی سے

Page 535

528 حضرت خلیفہ المسیح الرابع جو تشریح ملتی ہے کہ خدا کی راہ میں نہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے نہ علم خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے.علم میں جو کی نہیں آتی اس کو دنیا والے بھی سمجھتے ہیں کہ علم کی تقسیم سے علم بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا مگر مال کے متعلق ان کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسے بڑھتا ہے مگر آنحضور ﷺ نے جو کچھ بھی فرمایا ہے برحق ہے اور ہمیں اپنی جماعت کے تجربے سے پتہ ہے کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کے مال کم نہیں ہوا کرتے بڑھا کرتے ہیں.حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.“ (مسلم کتاب البر وصلة باب استجاب العفو و التواضع) یہاں رفع کا ذکر بھی ہے رقعہ اللہ اور اس کو ہم حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے رفع کے متعلق بھی ایک نظیر کے طور پر پیش کیا کرتے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ خدا ایک زنجیر کے ذریعے اپنے متواضع بندے کو اٹھاتا ہے اس کا رفع کرتا ہے اور ساتویں آسمان تک پہنچا دیتا ہے.کبھی یہ تو نہیں دیکھا ہم نے کہ کوئی بندہ سجدے میں گیا ہو اور کوئی زنجیر اترے اور اس کو اٹھا کے لے جائے مراد یہ ہے کہ ساتویں آسمان تک اس کی نیکیوں کی بنائی ہوئی زنجیر ، اس کے تقویٰ کی زنجیر ، اس کی فنافی اللہ کی زنجیر ، جتنا بھی اس کا مرتبہ مقرر کرتی ہے اتنا ہی وہ اٹھ جاتا ہے یہاں تک کہ آخری حد سا تواں آسمان ہے اور اس سے اونچا رفع سوائے آنحضرت ﷺ کے اور کسی کا نہیں ہوا.حضرت خریم بن فاتک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے علوسام میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے.(ترمذی کتاب فضائل الجهاد باب ماجاء في فضل النفقة في سبيل الله) تو یہاں سات سو گنا کے متعلق بھی جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کئی دفعہ یہ بات آپ کو سمجھائی جا چکی ہے کہ سات کا لفظ مراد یہ نہیں کہ سات سو گنا واقعہ ملتا ہے جہاں قرآن کریم نے سات بالیوں کی مثال دی ہے، ایک دانے سے سات بالیاں نکلیں ان میں سات سودانے ہوں وہاں ساتھ یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ جس کے لئے چاہے اس کو بڑھا بھی دیتا ہے.تو پہلی کھجور والی حدیث تھی وہ اور دوسری احادیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے صاف پتہ چلتا ہے کہ سات سو کا لفظ ایک محاورہ بھی ہے اور عرفِ عام میں زمینداروں کے تجربہ میں بھی یہ بات آجاتی ہے کہ ایک دانہ سات سودانوں میں تبدیل ہو جائے لیکن اصل جو بنیادی بات ہے وہ یہی ہے کہ نیکیاں ہیں جو بڑھتی ہیں اور سات سو گنا نہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے

Page 536

529 حضرت خلیفة المسیح الرابع حضور نمو پاتی ہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.فرمایا.”اور یقینا سمجھو کہ صرف یہی گناہ نہیں کہ میں ایک کام کے لئے کہوں اور کوئی شخص میری جماعت میں سے اس کی طرف کچھ التفات نہ کرے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی گناہ ہے کہ کوئی کسی قسم کی خدمت کر کے یہ خیال کرے کہ میں نے کچھ کیا ہے“.( مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن جلد 2 صفحہ 614 اشتہار تمبر 1903ء) اب یہ بھی معرفت کی بات ہے خدمت کی توفیق کسی کومل جائے اور وہ اپنے زعم میں یہ سمجھے کہ میں صلى الله نے کچھ کر دیا ہے یہ بدی بن جاتی ہے اور خدمت نہیں رہتی.پس ہر انسان کو یہی سمجھنا چاہئے کہ جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کی عطا تھی.اس میں سے کچھ میں نے خرچ کر دیا اور بہت سا اپنے لئے بھی رکھ لیا.پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مجھے کچھ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا ہوئی.اور جو خرچ اس دنیا میں انسان خدا کی راہ میں کرتا ہے آنحضور ﷺ کی ایک اور حدیث کے مطابق وہی ہے جو اس کا ہے.جو اس نے بچوں کے لئے پیچھے چھوڑ دیا وہ اس کا نہ رہا.جو اس نے خرچ کر دیا وہ تلف ہو گیا لیکن جو اس کا ہے وہ خدا کے حضور اس کو ملے گا اور بڑھ چڑھ کر ملے گا، بڑھا چڑھا کر دیا جائے گاوہ وہی مال ہے جو انسان خدا کی خاطر خرچ کرتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” صدقات ایسی چیزیں ہیں کہ ان سے دنیوی منازل طے ہو جاتی ہیں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی نیکیوں کی توفیق دی جاتی ہے“.الحکم 24 فروری 1901ء نمبر 7 جلد 5 صفحه (2) اب خرچ کرنے سے صرف یہ مقصد نہیں کہ مال میں برکت پڑتی ہے بلکہ اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ بہت گہری بات ہے کہ جب انسان خدا کی خاطر خرچ کرتا ہے اس کے اخلاق میں بھی ترقی ہوتی ہے اور پھر ایک نیکی اور بڑی بڑی نیکیوں کی توفیق عطا فرماتی چلی جاتی ہے.چنانچہ بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے تھوڑا سا دینا شروع کیا اور رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کو تھوڑے کا ایسا چسکا پڑا کہ اس کے بعد زیادہ پھر اور زیادہ پھر اور زیادہ دینا شروع کر دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات بہت ہی صحیح فرمائی ہے کہ نیکیاں مال خرچ کرنے کے نتیجے میں عطا ہوتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وو چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس عہد کرے کہ میں اتنا چندہ دیا کروں گا.کیونکہ

Page 537

530 حضرت خلیفہ المسح الرابع جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے زرق میں برکت دیتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 360) اب یہ کثرت کے ساتھ نو مبائعین کا دور ہے اور ہم پوری توجہ کر رہے ہیں کہ ہر نو مبائع بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ یہ تحریک کامیاب ہو گی.ابھی تک تو اس کے بہت اچھے نتائج نکل رہے ہیں اور کثرت سے نو مبائعین خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈال رہے ہیں اور وقف جدید کی راہ میں بھی ان نئے آنے والوں کو بکثرت شامل ہونے کی توفیق مل رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ آخری اقتباس میں نے رکھا ہے.”اے عقلمندو! خدا کے راضی کرنے کا یہ وقت ہے کہ پھر نہیں ملے گا....خدا کی راہ میں صدق دل سے خدمت کے لئے حاضر ہو جانا ایک ایسا مبارک امر ہے جو درحقیقت اور تمام مشکلات اور آفات کا علاج ہے.پس جس کو یقین ہے کہ خدا برحق ہے اور دین و دنیا میں اس کی عنایات کی حاجت ہے اس کو چاہئے کہ اس مبارک موقع کو ہاتھ سے نہ دے اور بخل کے دق میں مبتلا ہو کر اس ثواب سے محروم نہ رہے.اس عالمی سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے وہی لائق ہے جو ہمت بھی عالی رکھتا ہو اور نیز آئندہ کے لئے ایک تازہ اور سچا عہد خدا تعالیٰ سے کر لے کہ وہ حتی الوسع بلا ناغہ ہر ایک مہینہ میں اپنی مالی امداد سے ان دینی مشکلات کے رفع کرنے کے لئے سعی کرتا رہے گا“.( مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن جلد 2 صفحہ 314 315 اشتہار 4 اکتوبر 1899 ء) اب میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اس سلسلہ میں جو چندا مور آپ کے سامنے رکھنے کے لئے چنے ہیں لمبی فہرست میں سے اس کو مختصر کر کے آپکے سامنے رکھا جا رہا ہے کیونکہ اعداد و شمار کی بحث میں عموماً لوگ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ وہ ان کو پوری طرح سمجھ نہیں آ سکتے اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ ہر دفعہ کے اعداد و شمار ایسے آسان طریقے پر بیان ہوں کہ سب کو ان کی سمجھ آ سکے.مختصر تعارف یہ ہے کہ وقف جدید کا آغاز 27 دسمبر 1957ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا اور مجیب اتفاق ہے کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ نے خود مجھے بلا کر یہ بات سمجھائی کہ میں نے پہلا نام تمہارا رکھا ہے.اس کی حکمت اس وقت تو مجھے سمجھ نہیں آسکی کیونکہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر بھی ہمارے وقف جدید کے صدر رہے ہیں ان کا نام دو پہ رکھنے کی کیا حکمت تھی شاید یہ مراد ہو کہ میرا وقف جدید سے گہرا تعلق ہونا تھا اور وقف جدید کے سلسلے میں جتنے دورے

Page 538

531 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پاکستان بھر کی دیہاتی جماعتوں کے کرنے کی مجھے توفیق ملی ہے شاید کسی انسپکٹر کو بھی اس طرح دوروں کی توفیق نہ ملی ہو اور اندرونی طور پر سب لوگوں کی کمزوریاں اور برائیاں دیکھنے کا موقع مل گیا کلمہ تک درست کروانے کا موقع ملا.لوگ لا الہ الا اللہ کہ تو دیتے ہیں مگر بعض دفعہ اس کا تلفظ بھی بگڑا ہوا ہوتا ہے اور پھر ان بنیادی چیزوں کے معانی سورۃ فاتحہ کے معنی یہ بیان کرنے کا بھی اس سفر میں مجھے موقع ملتا رہا تو اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی احسان ہے کہ وقف جدید سے میری بچپن ہی سے ایک نسبت قائم ہوئی ہے جو اللہ کے فضل کے ساتھ اس تحریک کے لئے بھی برکت کا موجب بنی ہے.امسال اس لحاظ سے یکم جنوری 2000 ء سے اس تحریک کا تینتالیسواں سال شروع ہو گیا ہے.1966 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجراء فرمایا.تا کہ بچپن ہی سے دلوں میں اس تحریک میں شمولیت کا احساس پیدا ہو اور بڑھتا چلا جائے.27 / دسمبر 1985 ء کو میں نے یہ تحریک پہلی بار پوری دنیا تک وسیع کرنے کا اعلان کیا اس سے پہلے یہ تحریک صرف پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش تک ہی محدود کبھی جاتی تھی یعنی وہاں کے (احمدی ) اس کی مالی قربانی میں حصہ لیا کرتے تھے مجھے خیال آیا کہ ساری دنیا کا حق ہے کہ اس مالی قربانی سے ان کو کیوں محروم کیا جائے چنانچہ پہلی بار سب دنیا میں اس تحریک کو وسعت دینے کا اعلان کیا.اس پندرہ سال کے عرصہ میں اب تک یہ تحریک پورے 100 ممالک میں پھیل چکی ہے.اس پہلو سے یہ سال وقف جدید کے لئے بھی ایک نمایاں سنگ میل بن کر ابھرا ہے اس نئے سال کی برکات میں سے یہ بھی ایک نمایاں برکت ہے الحمد للہ.اس وقت تک موصولہ رپورٹوں کے مطابق وقف جدید کی کل وصولی دس لاکھ چوہتر ہزار پانچ سو پاؤنڈ بنتی ہے 10,74500 پاؤنڈوں میں ہے یعنی روپوؤں کو بھی پاؤنڈوں میں تبدیل کیا ہے یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی سے اکیالیس ہزار پانچ سو پاؤنڈ ز زیادہ ہے اور اسی طرح وقف جدید کے مجاہدین کی تعداد میں بھی اس سال 24,538 ( چوبیس ہزار پانچ صدارتیں ) کا اضافہ ہوا ہے.جن میں سے ایک بڑی تعداد نو مبایعین کی ہے.امریکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال بھی وقف جدید کی مالی قربانی میں دنیا بھر میں اول رہا ہے.جہاں تک نئے مجاہدین کو شامل کرنے کا تعلق ہے اس میں بھی امریکہ کا کام نمایاں ہے انھوں نے امسال پانچ سو نواسی نئے مجاہدین بنائے ہیں جن میں سے انچاس نو مبائعین ہیں یعنی امریکہ میں ہی امسال جنھوں نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی انھوں نے وقف جدید میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا ہے.پاکستان کو جو امریکہ کے بعد امسال بھی دوسرے نمبر پر ہے شدید اقتصادی مشکلات کے باوجود مقررہ

Page 539

532 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ٹارگٹ سے بڑھ کر ادا ئیگی کی توفیق ملی ہے.الحمد للہ جماعت جرمنی حسب سابق دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے.برطانیہ نے امسال جرمنی سے آگے بڑھنے کے لئے بہت زور مارا مگر کچھ پیش نہیں گئی.برطانیہ نے کچھ روند بھی مارے اس میں.وہ اس طرح کہ دوسرے اموال میں سے جو جماعت کی عام کمائی میں سے بچے ہوئے تھے اس میں سے وقف جدید میں بھی ڈال دیئے اور کچھ نہیں تو اس طرح جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیں گے.مگر زندہ با د جرمنی کہ انھوں نے آگے نہیں نکلنے دیا اور اپنی تیسری پوزیشن کو بحال رکھا اس پہلو سے مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتوں کے نام یہ ہیں امریکہ نمبر 1 ، پاکستان نمبر 2 ، جرمنی نمبر 3 ، برطانیہ نمبر 4، کینیڈا نمبر 5، بھارت نمبر 6 سوئٹزرلینڈ نمبر 7 انڈونیشیا نمبر 8، جاپان نمبر 9 ، تجیم نمبر 10.امسال وقف جدید میں نمایاں کام کرنے والوں میں ناروے بھی ہے برما ، ہالینڈ ، فرانس ، ماریشس اور بوسنیا بھی قابل ذکر ہیں.بوسنیا اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال پہلی بار بوسنیا کو وقف جدید میں شمولیت کی توفیق ملی اور یہ آغاز صرف چھ مجاہدین وقف جدید کے ذریعہ ہوا جبکہ اس سال انتیس (29) مجاہدین نے وقف جدید میں شرکت کی.کئی نئی جماعتوں کو بھی پہلی بار وقف جدید میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے.جس کی وجہ سے یہ سال ایک سو تک پہنچا ہے.نئی جماعتیں کل ملا کر ایک سو یہ جماعتیں بن جاتی ہیں مڈغاسکر ، بلغاریہ، چیک ریپبلک ، سلواک، گنی کنا کری ، مالی ، ملاوی ، برونڈی ، مراکش، تیونس، آسٹریا ، یونان ، بھوٹان، نیپال، البانیہ، مقدونیہ اور ایتھوپیا.اس طرح الحمد للہ کہ امسال سترہ نئے ممالک وقف جدید میں شامل ہوئے جن میں آخری شامل ہونے والا ایتھوپیا ہے.حبشہ جسے کہتے ہیں اور یہ صرف دو چار دن پہلے ہی اطلاع ملی ہے کہ ایتھوپیا کو بھی وقف جدید میں شامل ہونے کی توفیق مل گئی ہے.پاکستان کی جماعتوں میں وقف جدید کی مجموعی وصولی کے لحاظ سے ربوہ کو حسب سابق اول مقام حاصل ہے اور ر بوہ وقف جدید دفتر اطفال میں بھی اس سال اول رہا ہے دیگر نمایاں خدمت کرنے والے اضلاع میں یہ اسی ترتیب سے ہے.جس ترتیب سے انھوں نے خدمت میں حصہ لیا ہے اور آگے بڑھے ہیں.کراچی ، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، فیصل آباد، شیخو پورہ، گوجرانوالہ، عمرکوٹ ، بہاولنگر ، گجرات ، سرگودھا، نارووال یہ شامل ہیں.اب اس خطبے کا میں اختتام کرتا ہوں جتنی ساری باتیں متفرق سمیٹنے والی تھیں کوشش کی ہے ان سب کو میں نے سمیٹ لیا ہے.الفضل انٹر نیشنل لندن 18 فروری 2000ء)....

Page 540

533 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 5 جنوری 2001 ء بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.امِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِينَ فِيْهِ طَ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَانْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ - (الحديد: 8) اس کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور خرچ کرو اس میں سے جس میں اس نے تمہیں جانشین بنایا.پس تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور (اللہ تعالیٰ کی راہ میں ) خرچ کیا ان کیلئے بہت بڑا اجر ہے.اسی انفاق فی سبیل اللہ کے سلسلہ میں میں نے کچھ حدیثیں اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات جمع کئے ہیں یہ اس لئے کہ آج وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے اس لئے آیات بھی وہی ہیں جن کا انفاق فی سبیل اللہ سے تعلق ہے، اقتباسات بھی وہی ہیں جن کا انفاق فی سبیل اللہ سے تعلق ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی بھی دن لوگوں پر ایسا نہیں چڑھتا کہ جس میں دو فرشتے نہ اترتے ہوں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے کو مزید دے جبکہ دوسرا کہتا ہے اے اللہ تو روک رکھنے والے کو بربادی دے کیونکہ جو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، روک رکھتے ہیں، انکے مال برباد کر دے.ایک روایت بخاری کتاب الزکوۃ سے حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ہ ہ ہ میں صدقہ کا حکم دیتے تھے.ہم میں سے بعض بازار چلے جاتے اور بار برداری اور مد ( یعنی ماپنے کا پیمانہ ) کے برابر کماتے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور اس کے نتیجہ میں آج یہ حال ہے کہ ان لوگوں میں سے بعضوں کے پاس لاکھوں ہے.تو اللہ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو صرف آخرت میں نہیں ، اس دنیا میں بھی جزا عطا فرماتا ہے اور یہ تو ہم نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر نیوالوں کے اموال میں اس دنیا میں بہت برکت پڑتی ہے.اپنے فارسی منظوم کلام میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اس کا

Page 541

ترجمہ پیش ہے.534 حضرت خلیفہ المسیح الرابع اگر اسلام کی تائید میں تم اپنی سخاوت کا ہاتھ کھول دو تو فوراً تمہارے اپنے لئے بھی قدرت کا ہاتھ نمودار ہو جاتا ہے.اس کی راہ میں خرچ کرنے سے کوئی مفلس نہیں ہو جایا کرتا.اگر ہمت پیدا ہو جائے تو خدا خود ہی مددگار بن جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کے انصار کی طرف دیکھو کہ کس طرح انہوں نے کام کیا تا کہ تمہیں پتہ لگے کہ دین کی مدد کر نے سے دولت کا منبع پیدا ہو جاتا ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں.یہ ایک ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں وہ خدا کا فرستادہ موجود ہے جس کا صد ہا سال سے امتیں انتظار کر رہی تھیں اور ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی تازہ بشارتوں سے بھری ہوئی نازل ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دی ہے کہ واقعی و قطعی طور پر ہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 613 اشتہار ستمبر 1903ء) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزل کی حالت میں ہے.پس اس کی ترقی کیلئے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کی تعمیل ہے اسلئے اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ سمیع و بصیر ہے.یہ وعدے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے دے گا میں اسکو چند گنا برکت دوں گا.دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے.غرض اس وقت میں اس امر کی طرف تم سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کیلئے اپنے مالوں کو خرچ کرو.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 669) اب ان اقتباسات کے بعد وقف جدید کے چند کوائف مختصر پیش کر کے تو پھر نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.27 دسمبر 1957ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے وقف جدید کی تحریک جاری فرمائی احمدی بچوں کے دلوں میں اس تحریک کی محبت بچپن سے ہی پیدا کرنے کی خاطر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے

Page 542

535 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع 1966ء میں وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجراء فرمایا پہلے یہ تحریک پاکستان اور ہندوستان تک ہی محدود تھی.میں ضمناً بتا دیتا ہوں کہ وقف جدید کا سب سے پہلا نام مہر کے طور پر میرا تھا یعنی حضرت مصلح موعود نے میرا نام نمبر ایک پر رکھا تھا.پھر شاید حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر دونمبر پر لیکن جہاں تک وقف جدید کی مجلس کی صدارت کا تعلق ہے ہمیشہ تا حیات حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ہی رہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 1966ء میں وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجرا فر مایا.پہلے یہ تحریک پاکستان اور ہندوستان تک ہی محدود تھی پھر میں نے یعنی اس خاکسار نے 27 دسمبر 1985ء کو یہ تحریک پوری دنیا تک وسیع کر دی اور اب دنیا کے ایک سوسات ممالک میں یہ تحریک جاری ہو چکی ہے.31 دسمبر 2000ء کو وقف جدید کا تینتالیسواں (43 واں ) سال اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوا اور یکم جنوری 2001 ء سے ہم وقف جدید کے چوالیسویں (44 ویں) سال میں داخل ہو چکے ہیں.جو سال اختتام پذیر ہوا ہے یہ صدی کا آخری سال تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس سال جماعت احمدیہ کو وقف جدید کے میدان میں نمایاں قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.رپورٹوں کے مطابق کل وصولی بارہ لاکھ 51 ہزار 782 پاؤنڈ ہے یعنی روپوؤں کو جب پاؤنڈوں میں تبدیل کر لیا جائے مارکس وغیرہ کو بھی تو پھر یہ بنتی ہے.12,51,782 پاؤنڈ ہے جو کہ گزشتہ سال کی وصولی کے مقابل پر ایک لاکھ ستر ہزار (1,77,000) پاؤنڈ زیادہ ہے.الحمد للہ.امریکہ کی جماعت کو بھی حسب سابق وقف جدید میں دنیا بھر میں اول آنے کی توفیق عطا فرمائی گئی ہے.ساری دنیا کی جماعتوں میں امریکہ کی جماعت وقف جدید کے چندہ میں اول ہے.اس کے بعد نمبر دو پاکستان با وجود اس کے کہ آج کل بڑے سخت مالی حالات سے گزر رہا ہے پھر بھی اس سال ٹارگٹ سے بڑھ کر ادا ئیگی کی توفیق پائی اور اپنی دوسری پوزیشن کو قائم رکھا.جرمنی حسب سابق تیسرے نمبر پر ہے اور انگلستان حسب سابق چوتھے نمبر پر اور کینیڈا پانچویں نمبر پر.جہاں تک وقف جدید کے چندہ کا تعلق ہے اس سے بہت زیادہ اہم یہ امر ہے کہ مجاہدین کی تعداد زیادہ بڑھے کیونکہ جن لوگوں کو خصوصاً نو مبائعین کو شروع سے ہی طوعی چندوں کی توفیق عطا ہوتی ہے وہ پھر آگے بہت بڑھ بڑھ کر ، دل کھول کر چندہ دینے کے عادی ہو جاتے ہیں.مجاہدین کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے دولاکھ اٹھانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور گزشتہ سال کے مقابل پر اس میں اکتیس ہزارافراد کا اضافہ ہوا ہے.تعداد میں اضافہ ہندوستان میں زیادہ ہوا ہے.امسال انہوں نے چودہ ہزار سات سو انتیس (14,729) نئے مجاہدین بنائے ہیں اور 14,729 میں سے اکثر جو نئے مجاہدین ہیں وہ نئے احمدی ہوئے

Page 543

536 حضرت خلیفة المسیح الرابع ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ.چندہ بالغان میں پاکستان کی جماعتوں میں اول کراچی ، دوئم ربوہ ، اور سوئم لا ہور ہیں اور چندہ دفتر اطفال میں یہ بالکل الٹ جاتا ہے معاملہ.بالغاں میں اول کراچی ، دوئم ربوہ اور سوم لا ہور ہیں.دفتر اطفال میں اول ربوہ ، دوئم لا ہور اور سوئم کراچی ہیں.اس کے ساتھ ہی ان مختصر کوائف کے بعد میں وقف جدید کے سال نو کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.(خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے گرم پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے فرمایا: مجھے جو دوائی علاج کیلئے مل رہی ہے،اس کے ساتھ منہ کی خشکی بھی شامل ہوتی ہے.یہ ویسے میرے منہ کی خشکی نہیں ، یہ دوا کا اثر ہے ) الفضل انٹر نیشنل لندن 9 فروری 2001ء)

Page 544

537 حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبه جمعه فرموده 4 / جنوری 2002 ء بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.تحریک جدید کے سال نو کے اعلان کے وقت میں نے اللہ تعالیٰ کی صفت رازق اور رزاق کے موضوع پر خطبہ بیان کیا تھا.آج انشاء اللہ تعالیٰ وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے.اس موقع پر میں صفت رزاقیت کے مضمون ہی کو آگے بڑھاؤں گا اور جو حصہ باقی بچے گاوہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کیا جائے گا.پہلی آیت سورۃ الرعد کی 27 ویں آیت ہے اللهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاءُ وَيَقْدِرُ ط وَ فَرِحُوا بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا ، وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ.اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور تنگ بھی کرتا ہے اور وہ لوگ دنیا کی زندگی پر ہی خوش ہو گئے ہیں اور آخرت میں دنیا کی زندگی کی حقیت ایک معمولی سامان عیش کے سوا کچھ نہ ہوگی.دوسرا ہے اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاء وَيَقْدِرُلَهُ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اللَّهِ ی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کیلئے چاہے اس کے لئے رزق تنگ کر دیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے.اب سورۃ الروم کی آیت 38 ویں ہے.اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُه إِنَّ فِي ذَلِكَ لَا يَتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور تنگ بھی کرتا ہے.یقیناً اس میں ایمان لانے والی قوم کیلئے بہت سے نشانات ہیں.پھر سورۃ السبا کی چالیسویں آیت ہے.قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ وَ يَقْدِرُ لَهُ طَ وَمَا انْفَقْتُم مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ، وَ هُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ.تو کہہ دے کہ یقیناً میرا رب ج اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور کبھی اس کیلئے رزق تنگ بھی کر دیتا ہے اور جو چیز بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہی ہے جو اس کا بدلہ دیتا ہے اور وہ رزق عطاء کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں خوراک کی قیمتیں بڑھ گئیں تو لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے لئے قیمتیں مقررفرما دیں.آپ

Page 545

538 حضرت خلیفة المسیح الرابع نے فرمایا یقینا اللہ تعالیٰ ہی قیمتیں مقررفرمانے والا ہے، ہنگی پیدا کرنے والا ہے، فراخی عطا کرنے والا ہے اور رزق دینے والا ہے.اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ میں اپنے رب سے ایسے حال میں ملوں گا کہ تم میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہو گا جو کسی خونی یا مالی جھگڑے کے بارہ میں فلم کا الزام دے کر مجھ سے بدلہ کا مطالبہ کر سکے.(ترمذى كتاب البيوع باب ماجاء في التسعير ) اس حدیث میں خاص طور پر یہ بات قابل ذکر ہے اور آنحضرت ﷺ کا بیان فرمودہ بہت ہی عمدہ اقتصادی اصول ہے.اقتصادی اصولوں کو جبر حکومت کی وجہ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا.اگر کوئی مہنگائی ہو رہی ہے تو زبردستی مہنگائی کم کریں گے تو وہ چیزیں ایک دم غائب ہو جائیں گی جو مارکیٹ سے کم سے کم کچھ مہنگی قیمت پیل تو جاتی تھیں.تو یہ ایسا بنیادی اصول آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جس کے نتیجہ میں یہ سبق ہمیشہ کیلئے ہمیں ملتا ہے کہ اقتصادیات پر جب کوئی نہیں ہوا کرتا.آنحضرت ﷺ نے انکار فرما دیا کہ میں ہرگز اقتصادی جبر نہیں کروں گا.جس قیمت پر جو ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قانون بنایا ہے اسکے مطابق عمل کرو.ابن ماجہ کتاب الادب میں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو استغفار کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہر غم سے رہائی کی راہ نکال دیتا ہے اور ہر تنگی سے سہولت پیدا کر دیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ گمان نہیں کرسکتا.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: الله قبض و بسط رزق کا ستر ایسا ہے کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا.(سمجھ میں نہیں آتا کیوں کسی کا رزق کم کیا گیا ہے ، کیوں کسی کا رزق زیادہ کیا گیا ہے.) ایک طرف مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدے کئے ہیں مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق:4).یعنی جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اسکے لئے اللہ کافی ہے.پھر ہے مَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَّ يَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ الطلاق : 443) جو اللہ تعالیٰ کیلئے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسکوایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا.پھر باوجودان وعدوں کے دیکھا جاتا ہے کہ کئی آدمی ایسے دیکھے جاتے ہیں جو صالح اور متقی اور نیک بخت ہوتے ہیں اور ان کا شعار اسلام صحیح ہوتا ہے مگر وہ رزق سے تنگ ہیں.رات کو ہے تو دن کو نہیں ، دن کو ہے تو رات کو نہیں.اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں مگر تجر بہ دلالت کرتا ہے کہ یہ امور خدا کی طرف منسوب

Page 546

539 حضرت خلیفة المسیح الرابع نہیں ہو سکتے.ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں کہ متقیوں کو خود اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں بیان کیا ہے یہ سب بچے ہیں.اور سلسلہ اہل اللہ کی طرف دیکھا جاوے تو کوئی ابرار میں سے ایسا نہیں ہے کہ بھوکا مرا ہو.مومنوں نے جن پر شہادت دی اور جن کو اتقیاء مان لیا گیا ہے یہی نہیں کہ وہ فقر وفاقہ سے بچے ہوئے تھے گو اعلیٰ درجہ کی خوشحالیاں نہ ہوں مگر اس قسم کا اضطراری فقر وفاقہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ عذاب محسوس کریں.رسول اللہ ﷺ نے فقر اختیار کیا ہوا تھا مگر آپ ﷺ کی سخاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود آپ نے اختیار کیا ہوا تھا نہ کہ بطور سزا تھا.غرض اس راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.بعض ایسے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ بظاہر متقی اور صالح ہوتے ہیں مگر رزق سے تنگ ہوتے ہیں.ان سب حالات کو دیکھ کر آخر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے تو سب بچے ہیں لیکن انسانی کمزوری ہی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 252 253) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں:.معاش کی تنگی اور دوسری سنگیوں سے راہ نجات تقویٰ ہی ہے..کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال و دولت اور املاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش وعشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل دنیا داروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں مگر در حقیقت وہ ایک جلن اور دُکھ میں مبتلا ہوتے ہیں.تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ کرتا ہوں.وہ ایک سعیر اور سلاسل واغلال میں جکڑے ہوئے ہیں.“ الحکم جلد 5 نمبر 11.24 / مارچ1901 ، صفحہ 3) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:."جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا ، اس کو اللہ تعالیٰ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہو گا.رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں اگر وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا خودان کو رزق پہنچاوے.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 374)

Page 547

540 حضرت خلیفہ امسیح الرابع پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اصل رازق خدا تعالیٰ ہے.وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا.وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر تو کل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور تو کل کرے ہمیں اس کیلئے آسمان سے برسا تا اور قدموں سے نکالتا ہوں.پس چاہیے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے.“ ( بدر جلد 6 نمبر 38-19 ستمبر 1907 صفحہ 7) پھر یہ آیت قرآنی قُلْ لَعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنهُمْ سِرًّا وَّ عَلَا نِيَّةٌ مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَّا تِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلَلٌ ( ابراہیم: 32) تو میرے ان بندوں سے کہہ دے جو ایمان لائے ہیں کہ وہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے مخفی طور پر بھی اور علانیہ طور پر بھی خرچ کریں پیشتر اس کے وہ دن آجائے جس میں کوئی خرید و فروخت نہیں ہوگی اور نہ کوئی دوستی ( کام آئے گی ).جو علانیہ ہے یہ بھی دکھاوے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس غرض سے ہے تا کہ دوسروں کو بھی تحریک ہو تو ہر شخص کی نیتوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے.اگر اس نیت سے کوئی علانیہ بھی کرتا ہے کہ میرے علانیہ خرچ کرنے سے دوسروں کو تحریک ہوگی تو اس کی اجازت ہے.اگر کوئی مخفی اس لئے خرچ کرتا ہے کہ میرے نفس میں موٹائی نہ آجائے ، مجھے اپنے نفس کی طرف سے دھو کہ نہ لگ جائے تو یہ اور بھی بہتر ہے.تو ہمارے چندوں کی تحریک میں بھی یہ دونوں طریق جائز ہیں.علامیہ بھی کئے جاتے ہیں.لیکن جو شخص دکھاوے کیلئے کرتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ پھر چندہ ادا نہیں کیا کرتے وہ صرف وعدے بڑے بڑے لکھا دیتے ہیں پھر ان کو کبھی بھی چندہ ادا کرنے کی توفیق نہیں ملتی.پھر سورۃ فاطر کی آیت 30 ہے: اِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَ (سورة فاطر: 30) یقیناً وہ لوگ جو کتاب اللہ پڑھتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اسمیں سے جو ہم نے ان کو عطا کیا ہے پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور اعلانیہ بھی وہ ایسی تجارت کی امید لگائے ہوئے ہیں جو بھی تباہ نہیں ہوگی.دیکھو دنیا کی تجارتیں تو تباہ ہوتی رہتی ہیں اور بڑی بڑی تجارتیں بھی کتنی بڑی بھی ہوں، لاکھوں کروڑوں کی ہوں وہ بھی جب کام ٹوٹتا ہے تو پتہ بھی نہیں لگتا کہ پیسے گئے کہاں.بعض لوگ اپنی حماقت کی

Page 548

541 حضرت خلیفة المسیح الرابع وجہ سے ناجائز تعلقات پر خرچ کرتے ہیں.ابھی تجارت شروع بھی نہیں ہوئی ہوتی ، اس امید پر کہ تجارت کا مال بہت آئے گا وہ اپنے خرچ بڑھا دیتے ہیں.ایسے لوگوں کو ہمیشہ بے برکتی ہوتی ہے.تو رزق کا حال تو اللہ بہتر جانتا ہے وہ دلوں کو جانتا ہے اسلئے اس کے مطابق ان سے سلوک کرتا ہے.اس لئے یہ خیال غلط ہے کہ کوئی کہہ دے کہ نیک اولاد تھی پھر کیوں اس کو ایسا ہوا.اس کے دل کے اوپر اللہ تعالیٰ کی نظر ہے وہ اگر دکھاوے کے لیے بات کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں کبھی برکت نہیں ڈالے گا.حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے ابن آدم ! اگر تو مال خرچ کرے گا تو یہ تیرے لئے بہتر ہوگا اور اگر تو اسے روکے گا تو یہ تیرے لئے بہت بُرا ہوگا.ہاں ایسی حالت میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں کہ جب تو بمشکل گزارہ کر رہا ہو اور تو اس سے شروع کر جس کا نان و نفقہ تیرے ذمہ ہے.اور (یا درکھ ) اوپر کا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے.(مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار ) حضرت حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: صدقہ ( یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ ) کیا کرو کیونکہ تم پر وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک شخص اپنا صدقہ ( یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کیا جانے والا مال ) لئے پھرے گا مگر جس کو وہ دیا جاتا ہے وہ کہے گا کہ اگر تو اسے کل لاتا تو میں قبول کر لیتا مگر میں آج نہیں کروں گا.فرمایا:.(سنن نسائی - كتاب الزكواة باب التحريض على الصدقة ) صلى الله بخاری کتاب التمنی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف دو آدمی ایسے ہیں جن کے بارہ میں حسد ( یعنی رشک) جائز ہے.ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو.(اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے ) کاش مجھے بھی ویسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی ہے تو میں ویسے ہی کرتا جیسے یہ کرتا ہے.اور دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو جس کو وہ وہاں خرچ کرتا ہے جہاں خرچ کرنے کا حق ہے (اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے ) کا ش مجھے بھی ویسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسے یہ کرتا ہے.(بخاری ـ كتاب التمني باب تمنى القرآن والعلم) صلى الله حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے خرچ میں سے کچھ خرچ کرتی ہے، بشرطیکہ اس سے فساد پیدا نہ ہو، تو اس کو اس کے خرچ کرنے

Page 549

542 حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی وجہ سے اجر ملے گا جبکہ اس کے خاوند کو بھی اسکا اجر ملے گا کیونکہ وہ مال وہی کما کر لایا ہے.(بخاری کتاب الزكواة باب اجر المرأة اذا تصدقت او اطمعت من بيت زوجها......) اب شرط اسکی یہی ہے کہ مال خاوند نے کمایا ہو.بعض لوگ بیویوں کی کمائی پر بیٹھے رہتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں اور اس میں جو وہ خرچ کرتے ہیں اور ان کا کوئی خرچ نہیں ہے.اصل خرج وہی ہے جو خاوند کما کر لائے اور اسمیں سے بیوی ہاتھ روک کر کچھ بچائے اور پھر صدقہ و خیرات کرے تو اس کی جزا دونوں کوملتی ہے، خاوند کو بھی اور بیوی کو بھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.”اے ایمان والو! تم ان مالوں میں سے لوگوں کو بطریق سخاوت یا احسان یا صدقہ وغیرہ دو، جو تمہاری پاک کمائی ہے یعنی جس میں چوری یا رشوت یا خیانت یا غبن کا مال یا ظلم کے روپیہ کی آمیزش نہیں.اور یہ قصد تمہارے دل سے دور رہے کہ نا پاک مال لوگوں کو دو اور دوسری بات یہ ہے کہ اپنی خیرات اور مروت کو احسان رکھنے اور دُکھ دینے کے ساتھ باطل مت کرو یعنی اپنے ممنون منت کو کبھی یہ نہ جتلاؤ کہ ہم نے تجھے یہ دیا تھا اور نہ اسکو دکھ دو کہ اس طرح تمہارا احسان باطل ہوگا.اور نہ ایسا طریق پکڑو کہ تم اپنے مالوں کو ریا کاری کے ساتھ خرچ کرو سچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ...وہ تکلیفوں اور کم آمدنی کی حالت میں اور قحط کے دنوں میں سخاوت سے تنگ دل نہیں ہو جاتے بلکہ تنگی کی حالت میں بھی اپنے مقدور کے موافق سخاوت کرتے رہتے ہیں.وہ کبھی پوشیدہ خیرات کرتے ہیں اور کبھی ظاہر.پوشیدہ اسلئے کہ تاریا کاری سے بچیں اور ظاہر اس لئے کہ تا دوسروں کو ترغیب دیں.خیرات اور صدقات وغیرہ پر جو مال دیا جائے اس میں یہ لوظ رہنا چاہیے کہ پہلے جس قدر محتاج ہیں ان کو دیا جائے.ہاں جو خیرات کے مال کا تعہد کریں یا اس کے لئے انتظام و اہتمام کریں ، ان کو خیرات کے مال سے کچھ مال مل سکتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 357،356) مطلب ہے اب خیرات کے مال کا انتظام کرنے والے جولوگ ہیں ان کیلئے خواہ صدقہ اکٹھا کر رہے ہوں اس مال میں سے کچھ اپنی ذات پر خرچ کرنا اپنی ضرورت کے لئے یہ ان کیلئے صدقہ ہر گز نہیں ہے.یہ اپنے کام کی محنت کا اجر ہے.اور نیز کسی کو بدی سے بچانے کیلئے بھی اس مال میں سے دے سکتے ہیں ایسا ہی وہ مال

Page 550

543 حضرت خلیفہ المسح الرابع غلاموں کے آزاد کرنے کیلئے اور محتاج اور قرضداروں اور آفت زدہ لوگوں کی مدد کیلئے بھی اور دوسری راہوں میں جو محض خدا کے لئے ہوں وہ مال خرچ ہوگا تم حقیقی نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال ہے.غریبوں کا حق ادا کرو.مسکینوں کو دو.مسافروں کی خدمت کرو.اور فضولیوں سے اپنے تئیں بچاؤ یعنی بیا ہوں شادیوں میں اور طرح طرح کی عیاشی کی جگہوں میں اور لڑکا پیدا ہونے کی رسوم میں جو اسراف سے مال خرچ کیا جاتا ہے اس الله سے اپنے تئیں بچاؤ ( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 357 ،358) پھر سورۃ المنافقون کی آیت نمبر 11 میں ہے: وَأَنْفِقُوا مِنْ مَّا رَزَقْنَكُمْ مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَّاتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ لا فَأَصَّدَّقَ وَ أَكُن مِّنَ الصَّلِحِينَ اور خرچ کرواس میں سے جو ہم نے تمہیں دیا ہے پیشتر اسکے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہے اے میرے رب ! کاش تو نے مجھے تھوڑی سی مدت تک مہلت دی ہوتی تو میں ضرور صدقات دیتا اور نیکوکاروں میں سے ہو جاتا.حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقینا اللہ تعالٰی مومن کو اس کی کسی نیکی کا اجر کم کر کے نہیں دیتا.اسے اس نیکی کے بدلے میں دنیا میں بھی رزق ملتا ہے اور اس کے علاوہ آخرت میں بھی اس کی جزا اسے ملے گی لیکن کا فر کو اس کے اچھے کاموں کے بدلہ میں بس اس دنیا میں ہی کچھ کھلایا پلایا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوگی جس کی اسے نیک جزا دی جائے.(مسند احمد بن حنبل مند انس بن مالک حدیث نمبر 11855) بخاری کتاب الزکوۃ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو اشخاص کی طرح ہے جنہوں نے لوہے کے ایسے زرہ نما چیتے پہنے ہوں جو صرف چھاتی سے گلے تک ہوں.خرچ کرنے والا جب بھی خرچ کرتا ہے تو اس کا جبہ کھلتا جاتا ہے یا یہ فرمایا کہ وہ جبہ اسکی جلد پر پھیلتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کی پوروں کو بھی ڈھانپ لیتا ہے اور گویا اسکو اپنے اندر بالکل غائب کر لیتا ہے.اور بخیل جب بھی ارادہ کرتا ہے کہ خرچ سے ہاتھ روکے تو اس جیسے کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر اس کے جسم کے ساتھ اور تنگ ہو جاتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ وہ جبہ کھلا ہو جائے مگر کھلا نہیں ہوتا.( بخاری كتاب الزكوة باب مثل البخيل والمتصدق) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.رزق دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ابتلا کے طور پر، دوسرے اصطفا کے طور پر.رزق

Page 551

544 حضرت خلیفة المسیح الرابع ابتلا کے طور پر تو وہ رزق ہے جس کو اللہ تعالیٰ سے کوئی واسطہ نہیں رہتا بلکہ یہ رزق انسان کو خدا سے ڈور ڈالتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ہلاک کر دیتا ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کر کے فرمایا ہے لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ تمہارے مال تم کو ہلاک نہ کر دیں.اور رزق اصطفاء کے طور پر وہ ہوتا ہے جو خدا کے لئے ہو.ایسے لوگوں کا متولی خدا ہو جاتا ہے اور جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ اس کو خدا ہی کا سمجھتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دکھاتے ہیں.صحابہ کی حالت دیکھو ! جب امتحان کا وقت آیا تو جو کچھ کسی کے پاس تھا اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.حضرت ابوبکر صدیق سب سے اول کمبل پہن کر آگئے.پھر اس کمبل کی جزا بھی اللہ تعالیٰ نے کیا دی کہ سب سے اوّل خلیفہ وہی ہوئے.غرض یہ ہے کہ اصلی خوبی ، خیر اور روحانی لذت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہی مال کام آسکتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جاوے.“ الحکم جلد 3 نمبر 22 بتاریخ 23 /جون 1899 ء صفحہ اول) اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک رؤیا بیان کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: میں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا جو ایک اونچے چبوترہ پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا.وہ نان اس نے مجھے دیا اور کہا یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.یہ اس زمانہ کی خواب ہے جب کہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنادیا ہے.اور اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آ آباد ہوئے ہیں اور نان سے میں نے یہ تعبیر کی تھی کہ خدا ہمارا اور ہماری جماعت کا آپ متکفل ہوگا اور رزق کی پریشانگی ہم کو پراگندہ نہیں کرے گی.چنانچہ سال ہائے دراز سے ایسا ہی ظہور میں آرہا ہے.( تذکرہ صفحہ 14) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حقیقۃ الوحی میں جو نشانات تحریر فرماتے ہیں ان میں سے 122 نمبر پر یہ نشان ہے.عرصہ تمہیں برس کے قریب گزرا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک

Page 552

ر 545 حضرت خلیفہ المسیح الرابع بلند چبوترہ ہے جو دوکان کے مشابہ ہے اور شاید اس پر چھت بھی ہے.اس میں ایک نہایت خوبصورت لڑکا بیٹھا ہے جو قریباً سات برس کی عمر کا تھا.میرے دل میں گزرا کہ یہ فرشتہ ہے.اس نے مجھے بلایا یا میں خود گیا یہ یاد نہیں لیکن جب میں اس کے چبوترہ کے پاس جا کر کھڑا ہوا تو اس نے ایک نان جو نہایت لطیف تھا اور چمک رہا تھا اور بہت بڑا تھا گویا چارنان کی مقدار پر تھا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مجھے دیا اور کہا کہ یہ نان لو، یہ تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.سو دس برس کے بعد اس خواب کا ظہور ہو گیا.اگر کوئی دل کی صفائی سے قادیان میں آکر رہے تو اسے معلوم ہوگا کہ وہی روٹی جو فرشتہ نے دی تھی دو وقت ہمیں غیب سے ملتی ہے.کئی عیال دار دو وقت یہاں سے روٹی کھاتے ہیں، کئی نا بینا اور اپاہج اور مسکین دو وقت اس لنگر خانہ سے روٹی لے جاتے ہیں اور ہر ایک طرف سے مہمان آتے ہیں اور اوسط تعداد روٹی کھانے والوں کی ہر روز دوسو اور کبھی تین سو اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو دو وقت اس لنگر سے روٹی کھاتے ہیں اور دوسرے مصارف مہمانداری کے الگ ہیں اور اوسط خرچ بہت کفایت شعاری سے پندرہ سو روپیہ ماہواری ہوتا ہے مگر اور کئی متفرق خرچ ہیں جو اس کے علاوہ ہیں یہ خدا کا معجزہ ہمیں برس سے میں دیکھ رہا ہوں کہ غیب سے ہمیں وہ روٹی ملتی ہے اور نہیں معلوم ہوتا کہ کل کہاں سے آئے گی لیکن آجاتی ہے.حضرت عیسی کے حواریوں کی تو یہ دعا تھی کہ اے خدا ہمیں روز کی روٹی دے لیکن خدائے کریم ہمیں بغیر دعا کے ہر روز کی روٹی دے رہا ہے اور جیسا کہ فرشتہ نے کہا تھا کہ یہ روٹی تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کیلئے ہے اسی طرح خدائے کریم مجھے اور میرے ساتھ کے درویشوں کو ہر روز اپنی طرف سے یہ دعوت بھیجتا ہے.پس ہر روز نئی دعوت اس کی ہمارے لئے ایک نیا نشان ہے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 290) اُس زمانہ میں تین سو مہمان روزانہ لنگر خانہ میں آنا ایک بہت بڑی چیز تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر ہے.لُفَاظَاتُ المَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَصِرْتُ اليَومَ مِطْعَامَ الَا هَالِى ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 596)

Page 553

546 حضرت خلیفة المسیح الرابع یعنی دستر خوانوں کا پس خوردہ میری خوراک ہوا کرتا تھا یعنی آپ کی کوئی دلچسپی نہیں تھی گھر کی چیزوں میں اور کھانے میں.دستر خوان سے ان کے جو بچتا تھا وہ ان کی والدہ یا والد آپ کے لئے بھجوا دیا کرتے تھے اور اس میں سے بھی آپ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے.بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ جیب میں چنے ڈالے ہوئے ہیں روٹی اپنی غریبوں کو دے دی اور وہی چنے کھا کے گزارہ کیا.آج کہتے ہیں دیکھو کتنے گھروں کو میں کھلانے والا بن گیا ہوں.اب سب دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر جاری ہیں ان کا حساب کریں تو بلاشبہ لاکھوں بلکہ اب کروڑوں ایسے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس لنگر سے لقمے کھا رہے ہیں جو خدمت خلق کی وجہ سے آپ نے خدا کی خاطر جاری کیا.الہام نومبر 1881ء.محرم 1299 ہجری کی پہلی یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کیلئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں.“ اب یہ دلچسپ بات ہے کہ اسی رات ایک آریہ (لالہ شرمیت ) صاحب نے بھی ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مدد کتاب کیلئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے.اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اسی وقت ان کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں انیس حصے جھوٹ مل گیا ہے اور یہ اسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دین اسلام سے خارج ہو.شاید ان کو گراں ہی گزرا ہو گا مگر بات سچی تھی جس کی سچائی پانچویں یا چھٹی محرم میں ظہور میں آگئی یعنی پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپیہ، جن کو جونا گڑھ سے شیخ محمد بہاؤ الدین صاحب مدارالمہام ریاست نے کتاب کیلئے بھیجا تھا، کئی لوگوں اور ایک آریہ کے روبرو پہنچ گئے.والحمد للہ علی ذلک.“ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 284،283، حاشیہ در حاشیہ نمبر 1) 3 جون 1903ء کا الہام ہے: " إِنِّى مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِكَ - إِنِّي مَعَ كَثُرَةِ رِزْقِكَ - یقیناً میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.میں تیرے کثرت رزق کے ساتھ ہوں.پھر 3 مارچ 1905ء.( تذکره صفحه 393) وہ رات جس کے بعد جمعہ 3 مارچ 1905 ء ہے ایک بجنے کے بعد 35 منٹ اس

Page 554

547 حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رات میں نے خواب دیکھا کہ کچھ روپیہ کی کمی اور سخت مشکلات پیش ہیں اور بہت فکر دامنگیر ہے.میں کسی کو کہتا ہوں کہ ایک کاغذ بناؤ جس میں لکھا ہو کہ جمع یہ تھا اور خرچ یہ ہوا.کوئی میری بات کی طرف توجہ نہیں کرتا.اور سامنے ایک شخص کچھ حساب کے کا غذات لکھ رہا ہے.میں نے شناخت کیا کہ یہ تو کچھی داس جمع خرچ نویس ہے جو کسی زمانہ میں خزانہ سیالکوٹ میں اسی عہدہ پر نو کر تھا.میں نے اس کو بلانا چاہا.وہ بھی نہ آیا، لا پرواہ رہا.اور میں نے دیکھا کہ روپیہ کی بہت کمی ہے.کسی طرح بات نہیں بنتی اسی اثنا میں ایک صالح مرد سادہ طبع سادہ پوش آیا.اس نے اپنی بھری ہوئی مٹھی روپیہ کی میری جھولی میں ڈال دی اور ایسے جلدی چلا گیا کہ میں اس کا نام بھی نہیں پوچھ سکا.مگر پھر بھی روپیہ کی کمی رہی پھر ایک اور صالح مرد آیا جو محض نورانی شکل سادہ طبع کوٹلہ کے ایک صوفی کی شکل کے مشابہ تھا جس کا نام غالباً کرم الہی یا فضل الہی ہے.جس نے کر نہ بیچ کر ہمیں روپیہ دیا تھا.صورت انسان کی ہے مگر علیحدہ خلقت کا آدمی معلوم ہوتا ہے.اس نے دونوں ہاتھ روپیہ سے بھر کر میری جھولی میں وہ روپیہ ڈال دیا.اور وہ بہت سا روپیہ ہو گیا میں نے پوچھا: آپ کا نام کیا؟ اس نے کہا: نام کیا ہوتا ہے، نام کچھ نہیں.میں نے کہا: کچھ بتلا ؤ نام کیا ہے؟ اس نے کہا: ٹیچی.“ ( تذکره صفحه 444-445) یہ وہ لفظ ہے الہام کا جس پہ غیر احمدی علماء بہت مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ اس کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا ہے: پیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں.یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 346) اور میں اس وقت چشم پر آب ہو گیا کہ ہماری جماعت میں ایسے بھی ہیں جو اس قدر روپیہ دیتے اور نام نہیں بتلاتے اور ساتھ ہی کہتا ہوں کہ یہ تو آدمی نہیں ہے، یہ تو فرشتہ ہے.اور جب بہت سے مال کا نظارہ میرے سامنے آیا.میں نے کہا: میں اس میں سے منظور محمد کی بیوی کو دوں گا کہ وہ حاجتمند ہے اور جب میں نے یہ خواب دیکھا، اس وقت رات کا ایک بج کر اس پر 35 منٹ زیادہ گزر چکے تھے.“ 66 (تذکرہ صفحہ 445)

Page 555

548 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع اب یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہامات کے ذریعہ جو روپیہ ملا ہے یہ اب تو بہت زیادہ ہو گیا ہے.اس وقت تو چند روپے بھیجنے والے کہا کرتے تھے ہمارا نام نہ لینا لیکن اب لکھو کھا روپیہ مجھے بھجوایا جاتا ہے اور اس شرط کے ساتھ کہ ہمارا نام نہ لینا.ایک موقع پر ایک دوست نے پچاس لاکھ روپیہ مجھے بھجوایا اور یہ کہا کہ یہ آپ خرچ کریں خدا کی راہ میں اور میرا نام نہ لیں.تو اب دیکھیں کہیں پانچ پانچ روپے یا دس دس روپے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنی قدر فرمائی تھی اور اب پچاس پچاس لاکھ بھیجنے والے بھی اپنا نام بتانے کی اجازت نہیں دیتے.تو یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انہی تھوڑے سے روپوؤں کی برکت ہے.اس سے نفس کے دھوکہ میں مبتلا نہ ہوں یہ روپے وہی روپے آرہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا گیا تھا.اب اس کے بعد میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں.وقف جدید کا چوالیسواں سال 31 دسمبر 2001ء کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا ہے اور ہم یکم جنوری 2002 ء سے وقف جدید کے پینتالیسویں سال میں داخل ہو گئے ہیں.وقف جدید کی تحریک 27 / دسمبر 1957ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمائی تھی.پھر 1966ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے وقف جدید میں دفتر اطفال جاری فرمایا.آغاز میں تو یہ تحریک صرف پاکستان اور ہندوستان کیلئے ہی تھی پھر میں نے 27 دسمبر 1985ء کو اس تحریک کو پوری دنیا کیلئے وسیع کر دیا اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے 110 ممالک اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں..رپورٹوں کے مطابق 31 دسمبر 2001 ء تک وقف جدید کی کل وصولی 13 لاکھ 82 ہزار پاؤنڈ ہے.یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی سے ایک لاکھ 30 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.الحمد للہ.وقف جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد 3 لاکھ 55 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے.اور صرف گزشتہ ایک سال کے دوران وقف جدید میں 57 ہزار کا اضافہ ہوا ہے.اس اضافہ میں ایک بڑی تعداد ہندوستان سے تعلق رکھتی ہے.اور ہندوستان کے نومبائعین سے تعلق رکھتی ہے.امریکہ کی جماعت نے امسال بھی ہمیشہ کی طرح وقف جدید میں دنیا بھر کی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اپنا اولیت کا اعزاز برقرار رکھا ہے.پاکستان نے حسب سابق اپنی دوسری پوزیشن کو قائم رکھا ہے تا ہم اپنے ٹارگٹ سے بڑھ کر نمایاں قربانی کی توفیق پائی ہے.جرمنی کی جماعت گزشتہ کئی سالوں سے تیسرے نمبر پر آتی رہی ہے لیکن اس سال ما شاء اللہ انگلستان کی جماعت نے جرمنی کو 54 ہزار 200 پاؤنڈ سے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بالآخر دنیا بھر کی جماعتوں میں تیسری پوزیشن حاصل کر لی ہے.

Page 556

549 حضرت خلیفہ المسیح الرابع سیاس سال کا بہت بڑا Upse ہے.اب امید ہے کہ ہمارا یہ جو انگلستان کا آگے قدم ہے اس کو وہ آگے ہی رکھیں گے اور جرمنی کو ملنے نہیں دیں گے.دونوں گھوڑے ہماری جماعت ہی کے ہیں مگر خدا نے جس گھوڑے کو نکنے کی توفیق دی اس کا احسان ہے مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتیں امریکہ، پاکستان، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، بھارت، سوئٹزر لینڈ ، انڈونیشیا، چیئم اور ماریشس.پاکستان کی جماعتوں میں وقف جدید کی مجموعی وصولی کے لحاظ سے کراچی چندہ بالغان اور دفتر اطفال دونوں پہلوؤں سے اول رہا ہے.جبکہ چندہ بالغاں میں دوسرے نمبر پر لا ہور اور تیسرے نمبر پر ربوہ کی جماعتیں آئی ہیں اور دفتر اطفال میں دوسرے نمبر پر ربوہ اور تیسرے نمبر پر لاہور کی جماعتیں آئی ہیں.کراچی دونوں صورتوں میں اول ہے.پاکستان میں چندہ بالغاں میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلے دس اضلاع یہ ہیں: اسلام آباد، فیصل آباد، شیخو پورہ ، گجرات ، راولپنڈی، گوجرانوالہ، سرگودہا، سیالکوٹ ، میر پور خاص اور بہاولنگر.پاکستان میں دفتر اطفال میں مجموعی لحاظ سے بالترتیب پہلے دس اضلاع سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، اسلام آباد ، راولپنڈی، شیخوپورہ، فیصل آباد، میر پور خاص، سرگودہا، نارووال اور پھر حیدرآباد.اب حیرت انگیز ہے، سیالکوٹ کے متعلق توقع نہیں تھی کہ ماشاء اللہ وہ اس میدان میں بہت آگے نکل جائے گا نمبر ایک پر آ گیا ہے.یہ خطبہ اس سال کا پہلا خطبہ تھا اس کے ذریعہ میں تمام عالمگیر جماعت احمدیہ کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس سال کو عالم اسلام اور بالخصوص جماعت احمدیہ کے لئے غیر معمولی ترقیات اور فتوحات کا سال بنادے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدے کئے تھے ان کا فیض ہر احمدی کو پہنچتا ر ہے.الفضل انٹر نیشنل 8 فروری 2002ء)

Page 557

550 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خطبہ جمعہ فرمود 30 جنوری 2003ء بیت الفضل لندن تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ - وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ (التغابن: 18) جو سلسلہ مضمون کا جاری ہے صفات باری تعالیٰ کا اس میں انشاء اللہ اس دفعہ کچھ کمی کی جائے گی کیونکہ تحریک جدید اور وقف جدید کا اعلان بھی کرنا ہے تو اس میں بھی کافی وقت لگ جائے گا.اس وقت جو میں نے پہلی آیت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے.إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ - وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ.( سورة التغابن: 18) اگر تم اللہ کو قرضہ حسنہ دو گے (تو) وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدرشناس ( اور ) بردبار ہے.“ سب سے پہلے تو میں قرضہ حسنہ سے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.آنحضرت ﷺ کا طریق یہ الله تھا جب کسی سے قرضہ حسنہ لیتے تو اس کو ہمیشہ بڑھا کر دیا کرتے تھے.بعض جنگوں میں آنحضور ﷺ نے مثلاً گھوڑا مانگا کسی سے اور واپس آکے پھر دو گھوڑے اس کو دیئے.پس آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق قرضہ صلى الله حسنہ میں بڑھا چڑھا کر دینا بہت ضروری ہے.اس میں شرط تو کوئی نہیں ہوتی مگر انسان بڑھا کر دے اب اگر بندے بڑھا کر دیتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھا کر نہ دے.اللہ تعالیٰ بہت بڑھا کر دیتا ہے.کہتے ہیں وہ دنیا ستر آخرت لیکن آخرت میں يُضعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ بغیر حساب بھی ہے.آخرت کے دن تو بغیر حساب کے بھی خدا بہت بڑھا دیتا ہے اعلان سے پہلے اب میں کچھ احادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے ابن آدم تو خدا کی راہ میں خرچ کر جس کے نتیجے میں میں تجھ پر خرچ کروں گا.(بخاری کتاب النفقات باب فضل النفقة على الاهل حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: خدا کی خاطر جو کچھ تم

Page 558

551 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خرچ کرو گے اس کا اجر تمہیں ملے گا.(بخاری کتاب الایمان باب ما جاء عن الاعمال بالنية والحسبة....حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوالدحداح رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے پاس دو باغ ہیں اگر میں ان میں سے ایک باغ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دوں تو کیا مجھے جنت میں ویسا ہی باغ ملے گا.فرمایا : ہاں.چنانچہ انہوں نے ایک باغ اسی وقت اللہ کی راہ میں دے دیا.اور جب گھر جا کر اپنی بیوی کو بتایا تو اس نیک بخت نے بھی اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا.حضور ﷺ نے فرمایا: ابوالدحداح کے لئے جنت میں کتنے ہی لہلہاتے باغ ہیں.(تفسیر کبیر رازی جلد 6 صفحہ 180 زیر آیت من ذا الذي يقرض الله قرضا (البقرة:246)) حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے بعض بازار جاتے اور محنت مزدوری کر کے تھوڑا سا اناج یا مال حاصل کرتے اور اسے لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیتے.اس وقت غربت کا یہ عالم تھا مگر آج وہ لوگ لاکھوں درہم کے مالک بنے ہوئے ہیں.(بخاری کتاب الزكوة باب اتقوا النار ولو بشق التمرة) امر واقعہ یہ ہے کہ فی سبیل اللہ انفاق کے نتیجے میں بہت لوگ بہت کثرت سے امیر ہو جاتے ہیں میں نے بھی یہ اپنے ذاتی تجربہ میں دیکھا ہے کہ جن لوگوں کو خدمت کی توفیق ملی ہے، خدا کی راہ میں کچھ دینے کی ، ان کا مال بہت بڑھ گیا ہے.اتنا کہ مجھے ایک نوجوان نے ایک کروڑ روپیہ بھجوایا کہ اپنی مرضی سے جس مد میں چاہوں میں دے دوں.یہ اعتماد کا بھی معاملہ ہے.اگر اعتماد ہو کہ کوئی شخص بد دیانتی نہیں کرے گا تو روپیہ زیادہ دیا جاتا ہے.چنانچہ وہ میں نے مسجد فنڈ میں ڈال دیا.پس میں آپ کو بتارہا ہوں کہ انفاق فی سبیل اللہ بہت بڑی چیز ہے.اسکے نتیجے میں خدا تعالیٰ بےحساب عطا کرتا ہے.اب دیکھئے بازار جا کر محنت مزدوری کر کے غریب آدمیوں نے جو کچھ کمایا اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا.مِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ کی ایک یہ بھی تفسیر ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے انہیں دیا ہے یعنی جسمانی طاقت ، مزدوری کی طاقت اسکو بھی خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں ، اب وہ کہتے ہیں کہ اب یہ عالم ہے کہ یہ لوگ لاکھوں درہم کے مالک بن گئے ہیں.حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: پس خوب یا درکھو کہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کیلئے.اللہ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں.ان میں سے یہ بھی ایک راہ ہے جس کا ذکر پہلے شروع سورۃ میں مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4)

Page 559

552 حضرت خلیفہ امسیح الرابع 66 سے کیا.پھرا تَى الْمَالَ عَلَى حُبّه (البقرہ: 178) میں.“ یہ جو آیت ہے.استَى الْمَالَ عَلَى حُبِّہ اس میں دو مضمون ہیں ا تَى الْمَالَ عَلَى حُبّہ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مال خرچ کیا اور ائی الْمَالَ عَلَی حُبِّہ کا مطلب ہے کہ غربت کی وجہ سے مال بہت عزیز تھا اس کے باوجود وہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا.پھر اسی پارہ میں اَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَكُمْ ( البقر 58 25) سے فرمایا ہے.جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو.اب عطا بھی تو اللہ ہی کی ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے حقیقت یہی ہے کہ جو کچھ عطا ہے اللہ کی ہے.اللہ سے کیسے چھپا سکتے ہیں کہ اس نے ہمیں کیا دیا ہوا ہے.جو کچھ بھی دیا ہے اس کو دل کھول کر خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے.انجیل میں ایک فقرہ ہے“ حضرت خلیفہ مسیح الاول فرمار ہے ہیں.وو انجیل میں ایک فقرہ ہے کہ جو کوئی مانگے تو اسے دے.مگر دیکھو قرآن مجید نے اس مضمون کو پانچ رکوع میں ختم کیا ہے.پہلا سوال تو یہ ہے کہ کسی کو کیوں دے؟ سو اس کا بیان فرماتا ہے کہ اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے.خرچ کرنے والے کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جیسے کوئی بیج زمین میں ڈالتا ہے مثل باجرے کے پھر اس میں کئی بالیاں لگتی ہیں.وَاللَّهُ يُضعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ بعض مقام پر ایک کے بدلہ دس اور بعض میں ایک کے بدلہ سات سو کا مذکور ہے.یہ ضرورت، اندازہ ، وقت وموقع کے لحاظ سے فرق ہے“.حقائق الفرقان جلد اول صفحه : 420) اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: صدقات ایسی چیزیں ہیں کہ ان سے دنیا وی منازل طے ہو جاتی ہیں.اخلاق فاضلہ پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر بڑی بڑی نیکیوں کی توفیق دی جاتی ہے.“ الحکم 24 فروری 1901 ء نمبر 7 جلد 5 صفحہ 2) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں.چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے.66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 361) اس چندہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایمان پہلے سے ترقی کر جاتا ہے.جتنا چندہ دو گے اتنا ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایمان بڑھتا جائے گا.حضور نے ایک دفعہ نماز عشاء سے قبل اپنی مجلس میں فرمایا.

Page 560

553 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع اور قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجالا وے.مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کو تا ہی نہیں چاہیے.دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا.رسول کریم ہی ہے، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 358) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 5 جولائی 1903ءکو اپنی مجلس میں مزید فرمایا.بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا.اور نا واقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں.اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ؟ نہایت درجہ کا بخیل اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کیلئے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے.ایک ایک قطرے سے دریا بن جاتا ہے.اگر کوئی چار روٹی کھاتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے اس سلسلہ کے لئے بھی الگ کر رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کیلئے اسی طرح سے نکالا کرے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 360 ، 361) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں.مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانے میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے.ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا.پیغمبر خدا نے فرمایا کہ حسب مقدور کچھ دینا چاہیے اور آپ کی منش تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 361) حضرت ابو بکر نے گھر کا سارا مال آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جا کر پیش کر دیا.حضرت عمرؓ نے آدھا مال آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہی فرق ان دونوں کے مراتب میں ہے ابو بکر کا مرتبہ عمر کے مقابل پر اتنا زیادہ ہے جس طرح مال کی قربانی کا مرتبہ ہے.

Page 561

554 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ایک آج کا زمانہ ہے کہ کوئی جانتا ہی نہیں کہ مدددینی بھی ضروری ہے.حالانکہ اپنی گزران عمدہ رکھتے ہیں.ان کے برخلاف ہندوؤں وغیرہ کو دیکھو کہ کئی کئی لاکھ چندہ جمع کر کے کارخانہ چلاتے ہیں اور بڑی بڑی مذہبی عمارات بناتے اور دیگر موقعوں پر صرف کرتے ہیں حالانکہ یہاں تو بہت ہلکے چندے ہیں.صحابہ کرام کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (ال عمران : 93) اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکید اور اشارہ ہے.یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اسکو نباہنا چاہیے اس کے برخلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 361،358) تو گويا مِمَّا تُحِبُّون میں یہ بات بھی داخل ہے کہ غریب آدمی ہے.غریب آدمی کو مجبور امال سے محبت ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے.میں نے، ایک دفعہ مجھے تجربہ ہے ایک جگہ میں گیا ایک قصبے میں تو وہاں پتہ چلا کہ ایک بہت امیر آدمی نے میری دعوت کی ہوئی ہے اور اس کے مقابل پر ایک غریب آدمی تھا.معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ جو امیر آدمی ہے وہ چندہ نہیں دیتا چندہ کے معاملے میں بہت کنجوس ہے اور جو غریب آدمی ہے وہ اپنی محنت سے کما کر اس میں سے چندہ دیتا تھا.تو میں نے اسے عرض کیا کہ میں اس غریب کا کھانا کھاؤں گا.امیر کی روٹی نہیں کھاؤں گا، چنانچہ ایسا ہی کیا پس اللہ نے اپنے فضل سے مجھے بہت تجربہ اس کا بخشا ہے.جو غریب ہوں محنت سے کمانے والے ہوں ان کی کمائی میں بہت برکت ہوتی ہے.پس اب اس سلسلہ میں یا درکھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صدقہ اور چندہ وغیرہ پاک کمائی میں سے دیا جاتا ہے.اگر کمائی گندی ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا.اس لئے جماعت کو چاہیے کہ اپنے اموال جو کمانے کے ہیں ان کو پاک اور صاف رکھیں.کوئی آلائش نہ ہو گندے زمانے کی.اس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری قربانیاں مقبول ہوں گی.اگر یہ نہیں ہو گا تو جتنا چاہیں مال خرچ کریں وہ قبول نہیں ہوسکتا.اب میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.وقف جدید کی تحریک آج سے 45 سال قبل حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے 27 دسمبر 1957ء کو جاری فرمائی.احمدی بچوں کے دلوں میں اس تحریک کی محبت بچپن سے ہی پیدا کرنے کیلئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1966 ء میں وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجرا فرمایا.شروع میں یہ تحریک صرف پاکستان اور ہندوستان کیلئے محدود تھی.پھر

Page 562

555 حضرت خلیفة المسیح الرابع جماعت میں پیدا ہونے والی غیر معمولی وسعت کے پیش نظر 27 دسمبر 1985 ء کو میں نے اس تحریک کو پوری دنیا کیلئے وسیع کردیا اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے 111 ممالک اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں.وقف جدید کا 45 واں سال 31 دسمبر 2002ء کو اختتام پذیر ہوا اور ہم یکم جنوری 2003 ء سے وقف جدید کے 46 ویں سال میں داخل ہو رہے ہیں.رپورٹوں کے مطابق 31 دسمبر 2002 ء تک خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی کل وصولی 15لاکھ 2 ہزار پاؤنڈ ہے.یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی سے ایک لاکھ 24 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد 3 لاکھ 80 ہزار تک پہنچ چکی ہے.اب تعداد میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں اضافہ ہے اور اس تعداد کے نتیجے میں بہت برکت ملے گی ان لوگوں کو.گزشتہ سال کی نسبت ان مخلصین کی تعداد میں 45 ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے.اختتام پذیر ہونے والے سال میں وقف جدید کے میدان میں دنیا بھر کی جماعتوں میں پاکستان سبقت لے گیا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.اور اس طرح پاکستان اول امریکہ دوسرے نمبر پر آ گیا ہے.جبکہ گزشتہ سالوں سے امریکہ پہلے اور پاکستان دوسرے نمبر پر آیا کرتا تھا.گزشتہ سال انگلستان کی جماعت نے تیسرے نمبر پر آنے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور اب بھی انگلستان ہی نے یہ اعزاز برقرار رکھا ہے اور جرمنی چوتھے نمبر پر ہے.مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتیں : پاکستان نمبر ایک ہے ،امریکہ نمبر دو، برطانیہ نمبر تین.جرمنی چار، کینیڈا پانچویں نمبر پر ، بھارت چھٹے نمبر پر انڈونیشیا ساتویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ آٹھویں نمبر پر جیم نویں نمبر پر اور ماریشس دسویں نمبر پر.اسی طرح ہالینڈ ، ناروے ،فرانس اور سعودی عرب کو بھی پہلے سے بڑھ کر قربانی کی توفیق مل رہی ہے.پاکستان کی جماعتوں میں وقف جدید کی مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی تین جماعتیں یہ ہیں : لا ہور اول ، یہ بھی بڑی بات ہے کہ لاہور اول آیا ہے کراچی اور ر بوہ دونوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے، اللہ تعالیٰ یہ اعزاز مبارک کرے.کراچی دوم ہے اور ر بوہ سوم.پاکستان میں چندہ بالغان میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلے دس اضلاع : اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، میر پور خاص، سرگودہا، گجرات اور بہاولنگر.پاکستان میں دفتر اطفال میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلے دس اضلاع یہ ہیں : سیالکوٹ، حیرت ہوئی ہے یہ بھی.سیالکوٹ دفتر اطفال میں نمبر ایک آگیا ہے.اسلام آباد ، سانگھڑ ، راولپنڈی، گوجرانوالہ، میر پور خاص، شیخو پورہ، فیصل آباد،سرگودہا اور حیدرآباد.

Page 563

556 حضرت خلیفتہ المسح الرابع اب میں تحریک جدید کے نئے سال کا بھی مختصر ذکر کرتا ہوں.تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری ہدایت پر جماعتوں نے نئے سال کے وعدہ جات بھی لینے شروع کر دیئے ہیں.تاہم یہ روایت چونکہ چلی آرہی ہے کہ نیا سال شروع ہونے پر پچھلے سال کا جائزہ بھی پیش کیا جاتا ہے اس لئے وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے آج تحریک جدید کے گزشتہ سال کے اعداد و شمار کا بھی مختصر ذکر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے 126 ممالک نے اس میں شمولیت کی توفیق پائی ہے.موصولہ رپورٹوں کے مطابق 31 اکتوبر 2002 ء تک جماعتہائے احمد یہ عالمگیر کی کل وصولی 24لاکھ 52 ہزار 3 سو پاؤنڈ ہے.یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی سے 3 لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے مالی نظام میں شامل ہونے والوں کی تعداد 3 لاکھ 54 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے.اللہ کے فضل سے پاکستان امسال بھی نمایاں قربانی پیش کرتے ہوئے پوری دنیا کی جماعتوں میں اول آنے کا اعزاز برقرار رکھے ہوئے ہے اور وہاں کی مقامی جماعتوں کے لحاظ سے لا ہوراول ، ربوہ دواور کراچی نمبر تین ہے.پھر بالترتیب راولپنڈی، اسلام آباد، حیدرآباد، میر پور خاص، اوکاڑہ ، سرگودہا اور جہلم کی جماعتیں ہیں.جماعت امریکہ نے بھی امسال اللہ کے فضل سے نمایاں قربانی کی توفیق پائی ہے اور پاکستان کے باہر کے ممالک میں دنیا بھر کی جماعتوں میں اول آنے کا اعزاز برقرار رکھا ہے.مجموعی لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتیں یہ ہیں :.پاکستان ، امریکہ ، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا ،انڈونیشیا ، ہندوستان ، ماریشس ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا اور سعودی عرب.اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ امیر صاحب جرمنی نے ملاقات کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں جرمنی کے چندوں کے متعلق بھی وہ بات کروں.خاص طور پر ایک شخص کے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ چندوں میں بہت ہی وسعت سے خرچ کرنے والا ہے لیکن ایک کمزوری ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کی طرف سے بھی خود ہی چندہ ادا کرتا ہے.اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیوی بچوں کو خود قربانی کی عادت نہیں پڑتی.سارا چندہ وہ باپ دے دیتا ہے تو بچوں کا بھی وہی اور خاوند دیتا ہے تو بیوی کیلئے بھی وہی چندہ ہے.تو وہ یہ بات کہہ رہے تھے اور یہ ٹھیک ہے کہ چندہ کے وقت بیوی اور بچوں سے چندہ لینا چاہیے.جو خرچ ان کو دیا جاتا ہے اس میں سے چندہ وصول کرنا چاہیے.تب بچپن سے ہی ان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت پڑ جائے گی.مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہماری والدہ یہی کیا کرتی تھیں.اس زمانے کے

Page 564

557 حضرت خلیفہ مسیح الرابع لحاظ سے ایک ہفتے کا ایک آنہ ملا کرتا تھا تو مہینے میں چار آنے ملتے تھے تو ہم سے وہ ایک آنہ ایک ہفتے کالے لیا کرتی تھیں کہ یہ فلاں چندہ میں ڈالا جائے گا.اللہ ان کو جزائے خیر عطاء فرمائے.اس وجہ سے مجھے بھی بچپن سے ہی چندہ دینے کی عادت پڑ گئی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے آپ بھی اپنے بچوں کو چندہ دینے کی عادت ڈالیں.ان کو کچھ دیں اور ان سے پھر واپس لیں اور بتائیں کہ یہ اس مد میں ہم تمہاری طرف سے خرچ کریں گے.ہجرت کے نتیجے میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے احمدی خاندانوں کے اموال میں بھی بہت برکت رکھی ہے.پہلے کے حالات اور آج کے حالات میں کوئی نسبت ہی نہیں رہی.وہ کیا سے کیا بن گئے ہیں.اللہ کے بیشمار فضل ہوئے ہیں ہر احمدی خاندان پر اب یہ یادرکھنے کی بات ہے اپنا ماضی دیکھیں اور اب دیکھیں کہ کہاں سے کہاں پہنچے ہوئے ہیں ماشاء اللہ.امریکہ اور جرمنی اور انگلستان.یہ سب لوگ اپنا ماضی دیکھیں تو اکثر کو غربت کا ماضی نظر آئے گا.پس ہجرت میں بھی اللہ تعالیٰ نے بہت برکت رکھی ہے اور اس کے نتیجے کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے کسی صورت میں بھی غافل نہیں رہنا اس کے نتیجے میں ایمان بھی بڑھے گا اور اموال میں بھی ترقی ہوگی.اسلئے میں ایسے خاندانوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خود اپنا جائزہ لیں ، اگر کہیں بھی کمی یا کوئی غفلت واقع ہورہی ہے تو وہ خود اس کو دور کرنیکی کوشش کریں.ایسے لوگوں کے حسب حالات بھی بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ملتے ہیں.ان میں سے بعض میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انحضرت ﷺ نے فرمایا ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے ( سخی ) کو اور دے.اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کا مال و متاع بر باد کردے.(بخاری کتاب الزكواة باب قول الله فاما من اعطى و اتقى) حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ فرما رہے تھے: الهكُمُ التَّكَاثُرُ.ابن آدم کہتا ہے یہ میرا مال ہے، یہ میرا مال ہے.اے آدم کے بیٹے ! تیرا مال تو صرف وہ ہے جو تو نے راہ مولیٰ میں صدقہ کر دیا، وہ اگلے جہان میں تیرے کام آئے گایا وہ جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا اور جو پہن لیا وہ تو اسی دنیا میں ہی ضائع ہو جائے گا.اس کا اگلے جہان سے کوئی تعلق نہیں اور جو مال آگے بھیجنا چاہتے ہو وہ وہی ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے.) جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورة الهكم زکوۃ اور چندہ جات کے معاملے میں بجٹ بناتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے.

Page 565

558 حضرت خلیفہ مسیح الرابع پوری شرح کے ساتھ آمدنی کے مطابق ادا ئیگی ضروری ہے ورنہ دھوکہ دے کر کم آمدنی ظاہر کر کے اس پر چندہ ادا کرنے کا کچھ بھی فائدہ نہیں.اس کا تو سراسر نقصان ہی نقصان ہے.صلى الله آنحضور ﷺ فرماتے ہیں: طہارت اور وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی دھو کے والا مال صدقہ میں قبول ہوتا ہے.(ترمذی ابواب الطهارة باب لاتقبل صلوة بغير طهور) مال کو جمع کر لینا اور خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا اور زکوۃ اور لا زمی چندہ جات سے جان بوجھ کر پہلوتہی اختیار کرنے سے دوسری عبادات بھی کھو کھلی اور سطحی ہو جاتی ہیں چنانچہ آنحضور ﷺ فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس بندہ کی نماز قبول نہیں کرتا جو ز کوۃ ادا نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ ان دونوں حکموں پر عمل کرے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی دونوں کو جمع کیا ہے.پس تم ان کو الگ مت کرو.(كنز العمال كتاب الزكواة من قسم الاقوال باب الاول في الوجوب والترغيب فيها حديث نمبر 15784 ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے کہ اس پر خطر اور پر فتنہ زمانہ میں کہ جو ایمان کے ایک نازک رشتہ کو جو خدا اور اس کے بندے میں ہونا چاہیے بڑے زور وشور کے ساتھ جھٹکے دے کر ہلا رہا ہے.اپنے اپنے حسن خاتمہ کی فکر کریں اور وہ اعمال صالحہ جن پر نجات کا انحصار ہے اپنے پیارے مالوں کو فدا کر نے اور پیارے وقتوں کو خدمت میں لگانے سے حاصل کریں.“ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 37) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں.اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اسکی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ ال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کیلئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہیے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دیگر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خدا تعالیٰ اور اسکے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو، بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس

Page 566

559 حضرت خلیفہ مسیح الرابع خدمت کیلئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائیگی.تم یقینا سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تماری خدمت صرف تمہاری بھلائی کیلئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبیر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے.“ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 613 اشتہار تمبر 1903ء) اب میں آخر پر نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں ساری جماعت کو.میرا دفتر نئے سال کی مبارکباد کی ڈاک سے بھر گیا ہے اور سب کو خیر مبارک لکھنا میرے لئے ممکن نہیں.اسلئے میں اسی خطبہ کے آخر پر یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ جن لوگوں نے نئے سال کی مبارک دی ہے آپ سب کو خیر مبارک ہو اور نیا سال پہلے سال سے ہر پہلو سے بہتر نکلے.ہر پُرانے دُکھ جو اس سال میں ہمیں پہنچے ہیں اگلے سال وہ خوشیوں میں تبدیل ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ نیکیوں میں بھی پچھلے سال کی نسبت بڑھ جائیں.جماعت کو بھی خدا تعالیٰ نے اس بار بہت برکت دی ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ یہ جماعت بڑھتی چلی جائے گی.( الفضل انٹرنیشنل 7 فروری2003ء).....

Page 567

Page 568

561 ا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبه جمعه فرموده 9 جنوری 2004 ء بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ط وَ مَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيْمٌ - (آل عمران:93) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جود و بڑی تحریکات جاری فرمائی تھیں ان میں سے ایک وقف جدید کی تحریک ہے.وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اور 31 دسمبر کو ختم ہوتا ہے اور 31 دسمبر کے بعد کے خطبے میں عموم وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے اور خطبہ جمعہ میں عموماً جماعت نے جو سال کے دوران مالی قربانی کی ہوتی ہے اس کا ذکر ہوتا ہے.1957ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھوں جاری کردہ یہ تحریک زیادہ تر پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتی تھی یا کچھ حد تک ہندوستان میں.1985ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام دنیا میں جاری فرما دیا اور بیرونی جماعتوں نے بھی اس کے بعد بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لینا شروع کیا اور قربانیاں دیں.آج کے جمعہ سے پہلے بھی ایک جمعہ گزر چکا ہے اس مہینہ میں لیکن چونکہ مختلف ممالک سے رپورٹس آنی ہوتی ہیں تا کہ جائزہ پیش کیا جا سکے اس لئے گزشتہ جمعہ میں اس کا اعلان نہیں ہوا آج اس کا اعلان کیا جائے گا انشاء اللہ.لیکن اس جائزے اور اعلان کرنے سے پہلے میں مالی قربانیوں کے ضمن میں کچھ عرض کروں گا.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہرگز نیکی کو پانہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو.اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر بیان کی ہے.فرمایا: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.قرآن کریم میں سورۃ بقرہ میں جہاں پہلا رکوع شروع ہوتا ہے وہاں منتقی کی نسبت فرمایا ہے وَ مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ یعنی جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں.یہ تو پہلے رکوع کا ذکر ہے.پھر اسی سورۃ میں کئی جگہ انفاق فی سبیل اللہ کی بڑی بڑی تاکید میں آئی ہیں.پس تم حقیقی

Page 569

562 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز نیکی کو نہیں پا سکو گے جب تک کہ تم مال سے خرچ نہ کرو.مِمَّاتُحِبُّونَ کے معنے میرے نزدیک مال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (العادیات:9) انسان کو مال بہت پیارا ہے.پس حقیقی نیکی پانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز مال میں سے خرچ کرتے رہو.“ حقائق الفرقان جلد اول صفحه 500) ایک روایت ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے.کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : ”اے آدم کے بیٹے تو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر.میرے پاس رکھا گیا خزانہ میں پورا تجھے دوں گا اس دن جبکہ تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہو گا.(طبرانی) دیکھیں کتنا سستا سودا ہے.آج اس طرح خزا نے جمع کروانے کا کسی کو ادراک ہے شعور ہے تو صرف احمدی کو ہے.وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم کو سمجھتا ہے کہ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقره: (272) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اللہ میاں کے دینے کے بھی کیا طریقے ہیں کہ جو اچھا مال بھی تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا لوٹائے گا.بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ کئی گنا بڑھا کر لوٹایا جائے گا.تم سمجھتے ہو کہ پتہ نہیں اس کا بدلہ ملے بھی کہ نہ ملے.فرمایا اس کا بدلہ تمہیں ضرور ملے گا بلکہ اس وقت ملے گا جب تمہیں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہوگی تم اس کے سب سے زیادہ محتاج ہو گے.اس لئے یہ وہم دل سے نکال دو کہ تم پر کوئی ظلم ہوگا.ہرگز ہرگزتم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا.لوگ دنیا میں رقم رکھنے سے ڈرتے ہیں.بینک میں بھی رکھتے ہیں تو اس سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ بینکوں کی پالیسی بدل نہ جائے.منافع بھی میرا کم نہ ہو جائے.اور بڑی بڑی رقوم ہیں.کہیں یہ تحقیق شروع نہ ہو جائے کہ رقم آئی کہاں سے.اور فکر اور خوف اس لئے دامن گیر رہتا ہے ، اس لئے ہر وقت فکر رہتی ہے کہ یہ جو رقم ہوتی ہے دنیا داروں کی صاف ستھری رقم نہیں ہوتی ، پاک رقم نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس میں یہی ہوتا ہے کہ غلط طریقے سے کمایا ہوا مال ہے.گھروں میں رکھتے ہیں تو فکر کہ کوئی چور چوری نہ کر لے، ڈاکہ نہ پڑ جائے.پھر بعض لوگ سود پر قرض دینے والے ہیں.کئی سو روپے سود پر قرض دے رہے ہوتے ہیں.لیکن چین پھر بھی نہیں ہوتا.سندھ میں ایک ایسے ہی شخص کے بارہ میں مجھے کسی نے بتایا کہ غریب اور بھو کے لوگوں کو جو قحط سالی ہوتی ہے لوگ بیچارے آتے ہیں اپنے ساتھ زیور وغیرہ ، سونا وغیرہ لاتے ہیں، ایسے سودخوروں سے رقم لے لیتے ہیں، اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لئے اور اس پر سود پھر اس حد تک زیادہ ہوتا ہے کہ وہ قرض

Page 570

563 حضرت عليها اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز واپس ہی نہیں کر سکتے.کیونکہ سودا تا رنا ہی مشکل ہوتا ہے، سود در سود چڑھ رہا ہوتا ہے تو اس طرح وہ سونا جو ہے یا زیور جو ہے وہ اس قرض دینے والے کی ملکیت بنتا چلا جاتا ہے.تو ایک ایسا ہی سود خور تھا اور فکر یہ تھی کہ میں نے بینک میں بھی نہیں رکھنا.تو اپنے گھر میں ہی ، اپنے کمرے میں ایک گڑھا کھود کے وہیں اپناسیف رکھ کے، تجوری میں سارا کچھ رکھا کرتا تھا اور چالیس پچاس کلو تک اس کے پاس سونا اکٹھا ہو گیا تھا.اور اس کے اوپر اپنا پلنگ بچھا کر سویا کرتا تھا ، خطرے کے پیش نظر کہ کوئی لے ہی نہ جائے.اور سونا کیا تھا کیونکہ سونے کے اوپر تو چار پائی ہوتی تھی.ساری رات جاگتا ہی رہتا تھا.اسی فکر میں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گیا.تو وہ مال تو اس کے کسی کام نہ آیا.اب اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن ایسے لوگوں کی ضمانت خدا تعالیٰ بہر حال نہیں دے رہا جب کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی ضمانت ہے کہ تمہیں کیا پتہ تم سے کیا کیا اعمال سرزد ہونے ہیں ، کیا کیا غلطیاں اور کوتا ہیاں ہو جاتی ہیں.لیکن اگر تم نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو یہ ضمانت ہے کہ اعمال کے پلڑے میں جو بھی کمی رہ جائے گی تو چونکہ تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوگا تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ تم پر ظلم ہو، اس وقت کمیوں کو اسی طرح پورا کیا جائے گا اور کبھی ظلم نہیں ہوگا.صلى الله اس بارہ میں ایک اور روایت ہے.حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ یہ نے فرمایا : ” قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سایہ میں رہے گا.“ ( مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 148 حدیث نمبر (16882) لیکن شرط یہ ہے کہ یہ خرچ کیا ہوا مال پاک مال ہو ، پاک کمائی میں سے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتنے اجرا گر لینے ہیں اور اپنے مال کے سائے میں رہنا ہے تو گند سے تو اللہ تعالیٰ ایسے اعلیٰ اجر نہیں دیا کرتا اور جن کا مال گندہ ہوا ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے نہیں ہوتے اور اگر کہیں خرچ کر بھی دیں اگر لاکھ روپیہ جیب میں ہے اور ایک روپیہ نکال کر دے بھی دیں گے تو پھر سو آدمیوں کو بتائیں گے کہ میں نے یہ نیکی کی ہے.لیکن نیک لوگ، دین کا در در کھنے والے لوگ ، جن کی کمائی پاک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی بڑی قدر کرتا ہے.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول الله

Page 571

564 حضرت عليه اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز فرمائے گا اور اسے بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی.جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک بڑا جانور بن جاتا ہے.(بخارى كتاب الزكواة بَابُ الصَّدَقَةِ مِنْ كَسْبِ طَيِّبِ) آج جماعت میں ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کے بزرگوں نے تکلیفیں اٹھا کر اپنی پاک کمائی میں سے جو قربانیاں کیسں اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالی.پھر روایت ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے مسجد نبوی کے منبر پر رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا.”اے لوگو! جہنم کی آگ سے بچو اگر چہ تمہارے پاس کھجور کا آدھا ہی ٹکڑا ہو ، وہی دے کر آگ سے بچو.اس لئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا انسان کی کبھی کو درست کرتا ہے.بُری موت مرنے سے بچاتا ہے اور بھوکے کا پیٹ بھرتا ہے.“ (بخارى كتاب الزكوة باب اتقوا النار ولو بشق تمرة) تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کی ہوئی قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس دنیا میں بھی راستے سے بھٹکنے سے بچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے شخص سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جن سے اس کا انجام بھی بخیر ہو.حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہیے.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا.دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ ، دانائی اور علم وحکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے.(بخاری کتاب الزكوة باب انفاق المال في حقه ) ایک اور روایت میں آرتا ہے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: الشح یعنی بخل سے بچو! یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی ( قوموں ) کو ہلاک کیا.الله ( مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 159 مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص حدیث نمبر 6451) الحمد للہ ! کہ آج جماعت میں ایسے لاکھوں افراد مل جاتے ہیں جو بخل تو علیحدہ بات ہے اپنے او پر تنگی وارد کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں.اور بخل کو کبھی بھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے.

Page 572

565 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میں یقینا سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے.جوشخص بچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا کہ اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے اور امساک اس سے اس طرح دُور ہو جاتا ہے ( یعنی کنجوسی اس سے دور ہو جاتی ہے ) جیسا کہ روشنی سے تاریکی دُور ہو جاتی ہے.“ پھر فرمایا.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 614 اشتہار تمبر 1903 ء) قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لا وے.مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتا ہی نہیں چاہیے.دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا.رسول کریم ﷺ ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 358) ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جا تا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مد ( اناج وغیرہ ) ملتا تو وہ اس میں سے صدقہ کرتا ) اور اب ان کا یہ حال ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ہے.(بخاری کتاب الاجاره ، باب من آجر نفسه ليحمل على ظهره ثم تصدق به.......اسی سنت کی پیروی کرتے ہوئے آج بھی جماعت میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے بھی سلائی کڑھائی کر کے یا مرغی کے انڈے بیچ کر اپنے استعمال میں لائے بغیر خلیفہ وقت کی طرف سے کی گئی تحریکات میں حصہ لیا اور اس طرح سے پہلوں سے ملنے کی پیشگوئی کو بھی پورا کیا.حضرت خلیفہ اول کا واقعہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے بارہ میں لکھا ہے لیکن ہر دفعہ پڑھنے سے ایمان میں ایک تازگی پیدا ہوتی ہے اور قربانی کی ایک نئی روح پیدا ہوتی ہے.

Page 573

566 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ فرماتے ہیں کہ.خرچ ہو).”اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.ان کے بعض خطوط کی چند سطر میں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں : " میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیرومرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے تو قف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنی خدمت بجالا ؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کر دوں.حضرت پیر ومرشد نابکا رشرمسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے.میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرج میرے پر ڈال دیا جائے.پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں.دعا فرما دیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو.“ ( فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 36،35) ( یعنی پیسے بھی دے رہے ہیں اور فرمایا کہ اس کے بعد جو آمد ہو وہ بھی اسی کام کو جاری رکھنے کیلئے پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی قربانی کا بھی ایک واقعہ ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کیلئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی.اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی.منشی صاحب کہتے تھے کہ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلا آیا ہوا تھا.حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت در پیش ہے.کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی.میں نے عرض کیا حضرت انشاء اللہ کر سکے گی اور میں جا کر روپے لاتا ہوں.چنانچہ میں فورا کپورتھلہ گیا اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے

Page 574

567 س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت الیه است حال اس د الله: احساس حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لا کر پیش کر دیئے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو ( کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا ہے ) دعا دی.چند دن کے بعد منشی اروڑ ا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ”حضرت کون سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں“ حضرت صاحب نے فرمایا.یہی جو منشی ظفر احمد صاحب جماعت کپورتھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے.منشی صاحب نے کہا ”حضرت ! منشی ظفر احمد نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا.اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا.میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کر دی اس میں آپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے.مگرمنشی صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایا اور پھر منشی اروڑ ا صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے.اللہ ! اللہ ! یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئے.ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگر ایک اکیلا شخص اور غریب شخص اٹھتا ہے اور جماعت سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا زیور فروخت کر کے اس رقم کو پورا کر دیتا ہے اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے ہوئے یہ ذکر تک نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یا کہ جماعت.تا کہ حضرت صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کر کے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا ایسا پیچ و تاب کھاتا ہے کہ اپنے دوست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا.“ الفضل 4 ستمبر 1941 ء بحوالہ اصحاب احمد جلد 4 جدید ایڈیشن صفحہ 98،97)

Page 575

568 حضرت خلیة السیح الخامس ایده س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اب کوئی دنیا دار ہو تو اس بات پر ناراض ہو جائے کہ تم روز روز مجھ سے پیسے مانگنے آجاتے ہو.لیکن یہاں جنھوں نے اگلے جہان کے لئے اور اپنی نسلوں کی بہتری کے سودے کرنے ہیں ان کی سوچ ہی کچھ اور ہے.اس بات پر نہیں ناراض ہور ہے کہ کیوں پیسے مانگ رہے ہو بلکہ اس بات پر ناراض ہورہے ہیں کہ مجھے قربانی کا موقع کیوں نہیں دیا.پھر ایک واقعہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چوہدری رستم علی صاحب آف مدار ضلع جالندھر کے بارہ میں کہ وہ کورٹ انسپکٹر تھے ان کی 80 روپے تنخواہ تھی.حضرت صاحب کو خاص ضرورت دینی تھی.آپ نے ان کو خط لکھا کہ یہ خاص وقت ہے اور چندے کی ضرورت ہے.انہی دنوں گورنمنٹ نے حکم جاری کیا کہ جو کورٹ انسپکٹر ہیں وہ انسپکٹر کر دیے جائیں.جس پر ان کو نیا گریڈ مل گیا اور جھٹ ان کے 80 روپے سے 180 روپے ہو گئے.اس پر انہوں نے حضرت صاحب کو لکھا کہ ادھر آپ کا خط آیا اور ادھر 180 روپے ہو گئے.اس لئے یہ اوپر کے سوروپے میرے نہیں ہیں، یہ حضرت صاحب کے طفیل ملے ہیں اس واسطے وہ ہمیشہ سوروپیہ علیحدہ بھیجا کرتے تھے.“ الفضل 15 مئی 1922 ء صفحہ 2) پھر ایک واقعہ ہے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کا.ان کا تھوڑ اسا تعارف بھی کرا دوں یہ حضرت ام ناصر جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی پہلی بیگم تھیں ، ان کے والد تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے نانا ہوئے.تو ان کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ: ” جب انہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود کا دعویٰ سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعوی کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود کی بیعت کر لی.حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کیلئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جب کہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہورہا تھا اور اس میں روپیہ کی ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں لنگر خانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے.ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہو رہا ہے لہذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں.جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ قریباً چار سو پچاس روپے ملی تھی.وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کیلئے

Page 576

569 حضرت لعليم المس ام اس داد اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کیلئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کیلئے رکھ سکتا ہوں.غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کیلئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.“ ( تقاریر جلسہ سالانہ 1926ء.انوارالعلوم جلد 9 صفحہ 403) اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں کو بھی اسی اخلاص اور وفا کے ساتھ قربانیوں کی توفیق دے.ان کی نسلیں اب دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص اور وفا میں بہت بڑھے ہوئے بھی ہیں، اللہ تعالیٰ مزید بڑھائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صد ہارو پیہ خرچ کریں.اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی الله ضرورت پڑتی ہے.ہمارے نبی ﷺ نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے.جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے...جو ہمیں مدد دیتے ہیں.آخر وہ خدا کی مدددیکھیں گے.“ 66 ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 308 اشتہار 4 اکتوبر 1899 ء) جماعت میں بہت سے خاندان اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے بزرگوں کی ایسی قربانیوں اور مدد کی وجہ سے وہ آج مالی لحاظ سے کہیں کے کہیں پہنچے ہوئے ہیں.اگر ہم اپنی نسلوں کو بھی دینی اور دنیاوی لحاظ سے خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ قربانیوں کے یہ معیار قائم رکھیں اور قائم رکھتے چلے جائیں اور اپنی نسلوں میں بھی اس کی عادت ڈالیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھیرایا ہے یعنی اپنا مال خدائے تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے

Page 577

570 حضرت خلية المسح اساس س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو اور جو کچھ ہم نے عقل اور علم و فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ.جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجالاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں.“ پھر فرمایا.66 اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 418-419) ”میرے پیارے دوستو ! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کیلئے بخشا ہے اور ایک کچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کیلئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سوئیں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کیلئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.فرماتے ہیں:.دو (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 516) چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس ( یعنی ہر شخص ) یہ عہد کرے کہ میں اتنا چندہ دیا کروں گا.کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے.اس دفعہ تبلیغ کے لئے جو بڑا بھاری سفر کیا جاوے تو اس میں ایک رجسٹر بھی ہمراہ رکھا جاوے.جہاں کوئی بیعت کرنا چاہے اس کا نام اور چندے کا عہد درج رجسٹر کیا جاوے.“ ( ملفوظات جلد سوم 360) اب یہ بات پہلے دن سے ہی نو مبائعین کو سمجھا دینی چاہیے.شروع میں اگر وہ با شرح چندہ عام وغیرہ نہیں دیتے یا نہیں دے سکتے تو کسی تحریک میں مثلاً وقف جدید میں یا تحریک جدید میں چندہ لیں ، پھر آہستہ آہستہ ان کو عادت پڑ جائے گی اور پھر ان کو بھی چندوں کی ادائیگی میں مزا آنے لگے گا اور ایک فکر پیدا

Page 578

571 حضرت عليها اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز ہوگی.جیسا کہ ہم میں سے بہت سے ہیں جن کو فکر ہوتی ہے، بہت سارے لوگ خطوں میں لکھتے ہیں کہ بڑی فکر ہے ہم نے اتنا وعدہ کیا ہوا ہے وقف جدید کے چندے کا یا تحریک جدید کے چندے کا اور پورا کرنا ہے، وقت گزر رہا ہے، دعا کریں پورا ہو جائے.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ ہمدردی ہمیں نو مبائعین سے بھی ہونی چاہیے اور ان کو بھی چندوں کی عادت ڈالنی چاہیے.پھر فرمایا کہ بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے.ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور نا واقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں.اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ؟ نہایت درجہ کا بخیل اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کیلئے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے.ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے.اگر کوئی چار روٹی کھاتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے اس سلسلہ کے لئے بھی الگ کر ر کھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لئے اسی طرح سے نکالا کرے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 360-361) پھر آپ اپنی ایک رؤیا اور ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.رویا دیکھا کہ ایک دیوار پر ایک مرغی ہے.وہ کچھ بولتی ہے.سب فقرات یاد نہیں رہے مگر آخری فقرہ جو یا در ہا یہ تھا اِن كُنتُمْ مُسْلِمِینَ (اگر تم مسلمان ہو ) اس کے بعد بیداری ہوئی.یہ خیال تھا کہ مرغی نے یہ کیا الفاظ بولے ہیں.پھر الہام ہوا: أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ كُنتُمْ مُسْلِمِینَ ( اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اگر تم مسلمان ہو ) فرمایا کہ مرغی کا خطاب اور الہام کا خطاب ہر دو جماعت کی طرف تھے.دونوں فقروں میں ہماری جماعت مخاطب ہے.( تذکرہ صفحہ 492 493 الہام 2 دسمبر 1905 ء ) چونکہ آج کل روپیہ کی ضرورت ہے.لنگر میں بھی خرچ بہت ہے اور عمارت پر بھی بہت خرچ ہو رہا ہے اس واسطے جماعت کو چاہیے کہ اس حکم پر توجہ کریں.“

Page 579

پھر فرمایا کہ 572 ا ا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مرغی اپنے عمل سے دکھاتی ہے کہ کس طرح انفاق فی سبیل اللہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ انسان کی خاطر اپنی ساری جان قربان کرتی ہے اور انسان کے کھانے کے واسطے ذبح کی جاتی ہے.اسی طرح مرغی نہایت محنت اور مشقت کے ساتھ ہر روز انسان کے واسطے انڈا دیتی ہے.ایسا ہی ایک پرند کی مہمان نوازی پر ایک حکایت ہے کہ ( دو پرندے تھے درخت پران کا گھونسلہ تھا ) ایک درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آگئی.جنگل کا ویرانہ اور سردی کا موسم.درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا.نر اور مادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ غریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہے.اس کے واسطے ہم کیا کریں؟ سوچ کر ان میں یہ صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیانہ تو ڑکر نیچے پھینک دیں اور وہ اس کو جلا کر آگ تاپے.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے.اس کے واسطے کیا دعوت تیار کی جائے.اور تو کوئی چیز موجود نہ تھی.ان دونوں نے اپنے آپ کو نیچے اس آگ میں گرادیا تا کہ ان کے گوشت کا کباب ان کے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہو جائے.اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی.“ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.سو ہماری جماعت کے مومنین اگر ہماری آواز کو نہیں سنتے تو اس مرغی کی آواز کو سنیں.مگر سب برابر نہیں.کتنے مخلص ایسے ہیں کہ اپنی طاقت سے زیادہ خدمت میں لگے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.“ (الحکم 10 دسمبر 1905 ، صفحہ 1) اب بھی جن لوگوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لیا ہے اور لے رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں

Page 580

573 حضرت خلیقه المسح الخامس ایده س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور ا سے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہیے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کیلئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کیلئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 613 اشتہار تمبر 1903ء) اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسی سوچ والا ہو جو سچائی کی روشنی پا کر پھر اندھیروں میں بھٹکنے والا ہو اور گمراہی کی موت مرے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے.اب گزشتہ سال کے دوران وقف جدید کی مالی قربانیوں کا جائزہ پیش کرتا ہوں.مختصر تعارف تو شروع میں وقف جدید کا کروا دیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1985ء میں اس کو تمام ممالک کیلئے جاری فرمایا اس وقت سے ملکوں کا بھی مقابلہ شروع ہوا ہوا ہے.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے 124 ممالک اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے.اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ 31 دسمبر 2003ء کو وقف جدید کا چھیالیسواں سال ختم ہوا تھا اور یکم جنوری سے سینتالیسواں سال شروع ہو چکا ہے.تو گزشتہ سال کے جواعد دوشمار ہیں ان کے مطابق وقف جدید کی مد میں کل وصولی 18 لاکھ 80 ہزار پاؤنڈ ہے اور یہ وصولی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 3لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے گزشتہ سال کی نسبت.الحمد للہ.اور وقف جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد بھی 4لاکھ 8 ہزار تک پہنچ چکی ہے اور گزشتہ

Page 581

574 سال کی نسبت 28 ہزار افراد زیادہ شامل ہوئے ہیں.الحمد للہ.ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گزشتہ سال میں یعنی 46 ویں سال میں وقف جدید میں دنیا بھر کی جماعتوں میں جماعت امریکہ سب سے آگے رہی ہے.اس طرح امریکہ اول ہے ، پاکستان دوسرے نمبر پر.لیکن گزشتہ سال پاکستان اول تھا اور امریکہ دوسرے نمبر پر تھا اور اس سے ایک سال پہلے بھی امریکہ نمبر ایک تھا اور پاکستان نمبر دو تھا.یہ مقابلہ بڑا آپس میں چل رہا ہے دونوں کا.لیکن امسال امریکہ نے بہت بڑی Lead دی ہے.اللہ تعالیٰ اسے قائم رکھے.امسال انہوں نے قریباً گزشتہ سال کی نسبت 70 فیصد زائد وصولی کی ہے.لیکن بہر حال پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے مقابلہ میں اور اس لحاظ سے انہوں نے بھی ترقی کی ہے 12 فیصد وصولی زائد ہوئی ہے.جبکہ دو سالوں سے یعنی پچھلے سال بھی انگلستان کی جماعت تیسرے نمبر پر تھی اور امسال بھی تیسرے نمبر پر ہی آئی ہے.انہوں نے اسے Maintain رکھا ہوا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اور قدم بڑھانے کی توفیق دے.تو اب مجموعی طور پر پہلی دس جماعتیں جو ہیں دنیا کی ان میں (۱) امریکہ (۲) پاکستان (۳) برطانیہ (۴) جرمنی (۵) کینیڈا (حالانکہ کینیڈا کی جماعتیں کوشش کریں تو یہ اپنی پوزیشن بہت بہتر کر سکتی ہیں).(1) بھارت (۷) انڈونیشیا (۸) تقسیم (۹) سوئٹزرلینڈ اور (۱۰) آسٹریلیا.اب چندہ دینے کے لحاظ سے بھی امریکہ کی پہلی پوزیشن ہی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ باقی جماعتوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے ان کی توجہ اب مساجد کی تعمیر کی طرف بھی ہوئی ہے.اور امریکہ کے ماحول میں مخلصین جماعت میں جو نیکیوں اور قربانیوں میں سبقت لے جانے کی روح پیدا ہوئی ہے خدا کرے کہ یہ قائم رہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان کے سر اللہ تعالیٰ کے حضور اور اس کے آستانے پر جھکے رہیں اور یہ قدم جو آگے بڑھا ہے پیچھے نہ ہٹے.امریکہ کی جماعتوں میں بھی ، بتا دیتا ہوں بعض دفعہ جماعتوں کو بھی شوق ہوتا کہ ہمارا بھی ذکر ہو جائے.تو امریکہ کی جماعتوں میں Silicon Valley اول ہے ، لاس اینجلیس دوم اور میری لینڈ نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے.پھر پاکستان میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے 1966ء میں اطفال کے سپر بھی وقف جدید کا کام کیا تھا کہ وہ بھی چندہ دیا کریں.اور اس وقت سے وقف جدید میں دفتر اطفال علیحدہ چل رہا ہے.تو ان کا علیحدہ علیحدہ موازنہ بھی پیش کر دیتا ہوں.بالغان یعنی بڑوں میں پہلی پوزیشن لاہور کی ہے اور دوسری کراچی اور تیسری ربوہ کی.اور اطفال میں اول کراچی ، دوم لا ہور اور سوئم ربوہ.

Page 582

575 حضرت خلیفة المسح الخامس اید دا س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسی طرح اضلاع کی جو قربانیاں ہیں ان میں پاکستان کے اضلاع میں پہلا نمبر ہے اسلام آباد کا، دوسرا راولپنڈی کا ، راولپنڈی کا مجموعی قربانیوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت تیزی سے قدم آگے بڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور یہ قدم بڑھتا چلا جائے.پھر تیسرے نمبر پر سیالکوٹ ہے چوتھے پر فیصل آباد، پانچویں پر گوجرانوالہ، چھٹے پر میر پور خاص، ساتویں پر شیخو پورہ ، آٹھویں پر سرگودہا ،نویں پر گجرات اور دسویں پر بہاولنگر.اسی طرح دفتر اطفال میں اضلاع میں اسلام آباد نمبر ایک پر ، سیالکوٹ نمبر دو پر، گوجرانوالہ نمبر تین پر، فیصل آباد نمبر چار پر، راولپنڈی نمبر پانچ پر، شیخو پورہ نمبر چھ پر، میر پور خاص نمبر سات پر ، سرگودہا نمبر آٹھ پر، نارووال نمبر نو اور بہاولنگر نمبر دیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکتیں نازل فرمائے اور مالی قربانیوں کے میدان میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.اس کے ساتھ ہی میں وقف جدید کے سینتالیسویں سال کا اعلان کرتا ہوں.اس کے علاوہ آج ایم ٹی اے کے بارہ میں بھی کچھ بتانا چاہتا ہوں.جیسا کہ پروگراموں سے سب کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ 7 جنوری کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کی با قاعدہ نشریات کو شروع ہوئے دس سال پورے ہو گئے ہیں.تو اس عرصہ میں والنٹیئر ز نے اس کام کو خوب چلایا ہے اور دنیا حیران ہوتی ہے کہ یہ سب کام رضا کارانہ طور پر بغیر کسی باقاعدہ ٹرینگ کے کس طرح ہوتا ہے لیکن جو خلوص اور جذبہ اور وفا اور لگن ان نا تجربہ کارلوگوں میں ہے ان دنیا داروں کو کیا پتہ کہ ہزاروں پاؤنڈ خرچ کر کے بھی تم نہیں خرید سکتے.اس کے لئے تو یہ عہد چاہیے کہ میں جان، مال، عزت اور وقت کو قربان کرنے کیلئے ہر دم تیار رہوں گا.تو یہ وہ پیارے لوگ ہیں ، وفاؤں کے پتلے ہیں جو نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات.ان میں لڑکے بھی ہیں ، خواتین بھی ہیں ، لڑکیاں بھی ہیں، مرد بھی ہیں ، کالجوں اور یو نیورسٹیوں کے طلباء بھی ہیں اور اپنی ذاتی ملا زمتوں اور کام کرنے والے لوگ بھی ہیں جو اپنی رخصتیں بھی ایم ٹی اے کیلئے قربان کرتے ہیں اور اس بات سے خوش ہیں کہ ان کو اپنے وفا کے عہد کو نبھانے کی توفیق مل رہی ہے.ان میں سے بہت سوں میں وہ روح بھی ہے جس کی مثال میں نے پہلے دی تھی کہ کیوں ساٹھ روپے اپنی جیب سے خرچ کئے اور ہمیں قربانی کا موقع کیوں نہ دیا.ان میں سے کچھ تو ہمیں سامنے نظر آ جاتے ہیں جیسے کیمرہ مین ہیں جو اس وقت بھی آپ کو نظر آرہے ہیں اور خطبے کو آپ تک پہنچا رہے ہیں.بہت سے ایسے بھی ہیں جو پیچھے رہ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں.اور پروگرام بنا رہے ہیں کچھ ان میں سے ایڈیٹنگ وغیرہ کر رہے ہیں ، کچھ

Page 583

576 حضرت خلیق اس ال اس د الله: مسیح س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ریکارڈنگ کر رہے ہیں.ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہوئے ان نشریات کو پوری دنیا تک پہنچا رہے ہیں.تو یہ یہاں کی مرکزی ٹیم کے لوگ ہیں.پھر مختلف ممالک میں پروگرام بنانے والے ہیں.مختلف ممالک کو اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے ، جماعتوں کو یہ بھی کہہ دوں کہ جس طرح جماعتوں کی طرف سے پروگرام بن کے آنے چاہیے تھے اس طرح نہیں آرہے.افریقن ممالک سے بہت کم ہیں پروگرام.یورپ سے اس طرح نہیں جس طرح آنے چاہئیں.ایشیا کے بہت سے ممالک ہیں جہاں مختلف پروگرام بن سکتے ہیں ، ڈاکومینٹریز بن سکتی ہیں وہاں کے اور بہت سارے پروگرام ہیں اور ان ملکوں میں جو اس چیز کے ماہرین ہیں بہت سی جگہوں پر ایسے لوگ ہیں جو احمدیوں کے واقف ہیں یا بعض جگہوں پر احمدی خود ہیں ، ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، ان سے مشورہ کیا جاسکتا ہے، پروگراموں میں جدت پیدا کی جاسکتی ہے، نئے نئے پروگرام بنائے جاسکتے ہیں.مختلف نوع کے پروگرام بنانے چاہئیں.تو یہاں لندن کی ٹیم جس طرح کام کرتی ہے، اگر دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح ، اس کے علاوہ امریکہ میں بھی ٹیم ہے جو کام کر رہی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے، آگے پہنچانے کی حد تک، پروگرام بنانے کی حد تک نہیں.تو اگر دنیا کے دوسرے ممالک بھی باقاعدہ کام شروع کر دیں تو عین ممکن ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہو اور کام زیادہ ہوں.بہر حال یہ کام تو انشاء اللہ تعالیٰ بڑھے گا اور بڑھنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی اسی میں ہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ نے اُس خلیفتہ اسی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور میں شروع کروایا جس کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکلوائے کہ ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ اور انشاء اللہ یہ تائید رب الوریٰ ہمیشہ کی طرح جماعت کے ساتھ رہے گی اور یہ خدا کا وعدہ ہے جو ہمیشہ پورا ہونا ہے.یہ خدا کا وعدہ اپنے پیارے مسیح الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.تو اب اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.فرمایا کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تم لوگوں نے تو صرف ہاتھ لگا کر ثواب کمانا ہے.وہی لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی تائید کے یہ نظارے ہم ہر وقت دیکھ رہے ہیں اور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک اب یہ پیغام پہنچ رہا ہے.اور جو کمی رہ گئی تھی وہ 3 Asia Sat کے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہے.پہلے ایشیا میں کم تھا پہلے امریکہ میں بھی اسی طرح.پروگرام جن جگہوں پر نہیں پہنچ رہے تھے یا اتنے اچھے سگنل نہیں تھے.گزشتہ دنوں امریکہ میں جو طوفان آیا ہے اس سے وہاں کا سیٹلائٹ

Page 584

577 حضرت علی المسیح الخامس ا د الله تعالى نصر العزيز جس کے ساتھ ہمارا تعلق تھا اس کا نظام درہم برہم ہو گیا.اور چند دن پروگرام نہیں آتے رہے.اس کے بعد اس کمپنی نے تو کہہ دیا کہ ہم اس کام کو نہیں چلا سکتے آپ کہیں اور بات کر دیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نیا معاہدہ ایسی کمپنی کے ساتھ ہوا جن کا پھیلاؤ اس سے زیادہ تھا جو پہلے سیٹلائٹ کا تھا اور ان کے سگنل بھی زیادہ مضبوط تھے اور پھر یہ کہ جو خرچ پہلے ہورہا تھا اس سے کم خرچ پر معاہدہ ہوا.تو یہاں تو وہی مثال صادق آتی ہے کہتے کو لات راس آ گئی کہ ٹھیک ہے چار دن کی تکلیف تو برداشت کرنی پڑی ہے لیکن اس سے ہمارے خرچ میں بھی کمی آئی اور پھیلاؤ میں بھی زیادتی ہوئی تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری پردہ پوشی فرما تار ہے اور تائید و نصرت فرما تا چلا جائے.ایم ٹی اے کے کارکنان جو ہیں یہ اپنے لئے بھی دعا کریں اور جماعت بھی ان کیلئے دعا کرے کہ خدا تعالیٰ ان کو خدمت کا موقع دیتا ر ہے اور ان کے کام کو مزید جلا بخشے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں.اور مرکز کی ٹیم میں مختلف قوموں کے لوگ ہیں.عرب بھی ہیں بوزنین بھی ہیں ، دوسرے یورپ کے لوگ بھی ہیں پاکستانی قومیت کے لوگ جو یہاں آباد ہوئے ہوئے ہیں وہ بھی ہیں، افریقن بھی ہیں.تو اس طرح ہر قوم کے لوگ اسی خدمت کے جذبے سے کام کر رہے ہیں.ایک فکر مندی والی خبر بھی ہے.بنگلہ دیش میں گزشتہ کچھ عرصہ سے مولویوں نے جماعت کے خلاف فتنہ برپا کیا ہوا تھا اور مساجد پر حملہ وغیرہ بھی ہورہے تھے.اسی طرح رمضان میں ایک احمدی کو شہید بھی کر دیا.اب لگتا کہ حکومت بھی ان مولویوں کا ساتھ دینے پر تلی ہوئی ہے اور احمدیوں کے خلاف کچھ قانون پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ تمام احمد یوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ثبات قدم عطا فرمائے اور دشمنوں کی تدبیر انہی پر لوٹا دے.اے اللہ ! تو نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا.آج بھی ہمیں اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھا.بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ صبر ، حوصلہ اور دعا سے کام لیں.ہمارا سہارا صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس کے حضور جھک جائیں اور جھکے رہیں.یہاں تک کہ اس کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آنے شروع ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ابتلا کا یہ دور لمبا نہ کرے اور دشمنوں کی جلد از جلد پکڑ کرے.وہاں کی حکومت کو بھی چاہیے کہ ہمسایوں سے سبق لیں اور جوان کے کام ہیں حکومت چلانے کے وہ چلائیں.کسی کے مذہب میں دخل اندازی نہ کریں.ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے.الفضل انٹر نیشنل 5 مارچ 2004ء)

Page 585

578 ا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرموده 7 / جنوری 2005 ء بیت بشارت سپین تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کی بعد فر مایا:.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَ تَثْبِيتًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أكُلَهَا ضِعْفَيْنِ : فَإِنْ لَّمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلُّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.(البقره:266) یکم جنوری سے وقف جدید کا نیا سال شروع ہوتا ہے اس لئے عموماً جنوری کا پہلا جمعہ اس اعلان کے لئے رکھا جاتا ہے.اس لئے اس طریق پر عمل کرتے ہوئے آج میں وقف جدید کی گزشتہ سال کی مالی قربانی کا جائزہ اور نئے سال کا اعلان کروں گا.اور اس کے ساتھ مالی قربانی کا مضمون بیان کروں گا.مالی قربانی کا مضمون بھی ایک ایسا مضمون ہے جس کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد بار حکم فرمایا ہے، نصیحت فرمائی ہے.اور اس اہمیت کے پیش نظر تحریک جدید اور وقف جدید کے اعلان کے علاوہ بھی جماعت کو سال میں ایک دو مرتبہ اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے.اس مضمون کو اگر کوئی سمجھ لے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو ایک عجیب روحانی تبدیلی بھی انسان کے اندر پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.آج سپین کی جماعت کا جلسہ سالانہ بھی اس خطبے سے شروع ہو رہا ہے اور جلسوں کا مقصد بھی افراد جماعت کے اندر روحانی تبدیلی کے معیار اونچے کرنا ہے.اسلئے کوئی یہاں بیٹھا ہوا یہ نہ سمجھے کہ وقف جدید کے اعلان کی وجہ سے ہمارا جلسے کا مضمون متاثر ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے مضمون کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے ساتھ نمازوں کے ساتھ رکھا ہے.اور یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے، اس کے علاوہ بھی متعد دجگہ اللہ کی راہ میں مال اور نعمتوں کو خرچ کرنے کا ذکر سورۃ بقرہ میں ملتا ہے.تو یقیناً یہ ایک اہم عنصر ہے دین کا ، جو تقوی وروحانیت میں ترقی کا باعث بنتا ہے.اس آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کو ثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہوا اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے.

Page 586

579 حضرت علیه السحب الخمس ايد الدلالی بنصرہ العزیز یعنی جو لوگ چندہ دینے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ان کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا ہے.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے اور اسکی مخلوق کی خاطر جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا باعث بنے گا.اس سے دین کو بھی مضبوطی حاصل ہوگی اور تمہارے دینی بھائیوں کو بھی مضبوطی حاصل ہوگی.پھر ایسے لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جولوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس سرسبز باغ کی طرح ہیں جو اونچی جگہ پر واقع ہو جہاں انہیں تیز بارش یا پانی کی زیادتی بھی فائدہ دیتی ہے.نچلی زمینوں کی طرح اس طرح نہیں ہوتا کہ بارشوں میں فصلیں ڈوب جائیں یا باغ ڈوب جائیں.یہ خراب نہیں ہو جاتے بلکہ وہ ایسے سیلابوں سے محفوظ رہتے ہیں اور زائد پانی نیچے بہہ جاتا ہے اور باغ پھلوں سے لدارہتا ہے ،اس کو نقصان نہیں پہنچتا.جولوگ زمیندار ہیں زمیندارہ جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ اگر پانی میں درخت زیادہ دیر کھڑا ر ہے تو جڑیں گلنی شروع ہو جاتی ہیں ، تنے گل جاتے ہیں اور پودے مرجاتے ہیں اور اسی طرح جو زمینیں پانی روکنے والی ہیں ان میں بھی یہی حال ہوتا ہے.تو بہر حال اس جذ بہ قربانی کی وجہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے.یہ بڑھ چڑھ کر قربانی کرنے کا جذبہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے اور زیادہ پھل لانے کا تمہارے اموال ونفوس میں برکت کا باعث بنتا ہے.اگر کبھی حالات موافق نہ بھی ہوں ، بارشیں نہ بھی ہوں، تو بھی.اگر زیادہ بارشیں ہوں تو بھی نقصان دہ ہوتی ہیں اور کم بارشیں ہوں تو بھی نقصان دہ ہوتی ہیں.لیکن ایک اچھی زرخیز زمین پر جو محفوظ زمین ہو، زیادہ بارشیں نہ بھی ہوں تو تب بھی ان کو ہلکی نمی جو رات کے وقت پہنچتی رہتی ہے یہ بھی فائدہ دیتی ہے.تو فرمایا کہ اگر ایسے حالات بہتر نہیں بھی تو تب بھی اللہ تعالیٰ تمہاری اس قربانی کی وجہ سے جو تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کر رہے ہو تمہاری تھوڑی کوششوں میں بھی اتنی برکت ڈال دیتا ہے کہ پھلوں کی کوئی کمی نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کوئی کمی نہیں رہتی.تمہارا کسی کام کو تھوڑا سا بھی ہاتھ لگانا اس میں برکت ڈال دیتا ہے کیونکہ تمہاری نیت یہ ہوتی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اس کی خاطر خرچ کرنا ہے.جماعتی طور پر بھی اگر دیکھیں تو بڑی بڑی رقمیں چندوں میں دینے والے تو چند ایک ہی ہوتے ہیں.اول تو اگر دنیا کی امارت کا آج کا معیار لیا جائے تو جماعت میں اتنے امیر ہیں ہی نہیں.لیکن پھر بھی جو زیادہ بہتر حالت میں ہیں وہ چند ایک ہی ہوتے ہیں.اور اکثر جماعت کے افراد کی تعدا د درمیانے یا اوسط درجے بلکہ اس سے بھی کم سے تعلق رکھتی ہے.تو ایسے لوگوں کی جو معمولی سی قربانی کی کوشش ہوتی ہے وہ جماعتی اموال کو اتنا پانی لگا دیتی ہے کہ اس نے نمی پہنچ جائے جتنا شبنم کے قطرے سے پودے کو پانی ملتا ہے.

Page 587

580 حضرت عليها اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز لیکن کیونکہ یہ رقم نیک نیتی سے دی گئی ہوتی ہے اس لئے اس میں اتنی برکت پڑتی ہے جو نیا دار تصور بھی نہیں کر سکتا.جماعت کی معمولی سی کوشش و کاوش ایسے حیرت انگیز نتیجے ظاہر کرتی ہے جو ایک بے دین اور دنیا دار کی سینکڑوں سے زیادہ کوشش سے بھی ظاہر نہیں ہوتی.صرف اس لئے کہ غیر مومنوں کے اعمال کی زمین پتھریلی ہے.اور ایک مومن کے دل کی زمین زرخیز اور تقویٰ کے اونچے معیاروں پر قائم ہے.اور اس تقویٰ کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کو انفرادی طور پر بھی نوازتا ہے اور جماعتی طور پر بھی ان کی جیب سے نکلے ہوئے تھوڑی سی رقم کے چندے میں بھی بے انتہا برکت پڑتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تو تمہارے دل پر بھی نظر ہے اور تمہاری گنجائش پر بھی نظر ہے.وہ جب تمہاری قربانی کے معیار دیکھتا ہے تو اپنے وعدوں کے مطابق اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور ان کے پھل کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور یہی جماعت کے پیسے میں برکت کا راز ہے جس کی مخالفین کو کبھی سمجھ نہیں آسکتی.کیونکہ ان کے دل چٹیل چٹانوں کی طرح ہیں، پتھروں کی طرح ہیں جن میں نہ زیادہ بارش نہ کم بارش برکت ڈالتی ہے.برکت ان میں پڑہی نہیں سکتی.پس یہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں کا ہی خاصہ ہے اور آج دنیا میں اس سوچ کے ساتھ قربانی کرنے والی سوائے جماعت احمدیہ کے اور کوئی نہیں اور یقیناً یہی لوگ قابل رشک ہیں اور اللہ کے رسول نے ایسے ہی لوگوں پر رشک کیا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہیے.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا، دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے.(بخاری کتاب الزکواۃ باب انفاق المال في حقه ) تو یہ علم و حکمت بھی ایک نعمت ہے.ہمارے مخالفین جو ہر وقت اس بات پر پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں کہ جماعت کے افراد چندہ کیوں دیتے ہیں.چندہ ہم اپنی جماعت کو دیتے ہیں، تمہیں اس سے کیا ؟ کبھی ی شور ہوتا ہے کہ فلاں دکانداروں کا بائیکاٹ ہو جاتا ہے کہ ان سے چیز نہیں خرید نی کہ وہ جو منافع ہے اس پر چندہ دے دیں گے.تمہارے پیسے سے چندہ جائے گا ! ؟.ہمارے شیزان جوس کے خلاف اکثر بڑا محاذ اٹھتا رہتا ہے کہ یہ چندہ دیتے ہیں اور حکومت کو بھی یہ مشورہ ہوتا ہے اور مخالفین کا یہ مطالبہ ہے کہ جماعت کے تمام فنڈ حکومت اپنے قبضے لے لے.تو یہ بیچارے حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں کیونکہ ان کی چھٹیل زمین میں یہ برکت پڑہی نہیں سکتی.اور پھر سوائے حسد کے ان کے پاس اور کچھ رہ نہیں جاتا.ہم تو اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں اور اس بات سے اللہ کے رسول

Page 588

581 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز نے ہم پر رشک کیا ہے.صحابہ تو ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے کوئی تحریک ہوا اور ہم عمل کریں.امراء تو اپنی کشائش کی وجہ سے خرچ کر دیتے تھے لیکن غرباء بھی پیچھے نہیں رہتے تھے.وہ بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے تھے چاہے وہ شبنم کے قطرے کے برابر ہی ہو.صلى الله حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مداناج وغیرہ یا جو بھی چیز ملتی وہ اسے صدقہ کرتا یہ کوشش ہوتی کہ ہم نے اس میں حصہ لینا ہے اور کما کے حصہ لینا ہے.اور راوی بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے بعضوں کا یہ حال ہے کہ ایک ایک لاکھ درہم ان کے پاس موجود ہیں.جو مزدوری کر کے چندے دیا کرتے تھے.(بخاری کتاب الاجاره باب من آجر نفسه ليحمل على ظهره ثم تصدق به.......تو یہ ہے برکت قربانی کی.اس لئے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بہت غریب ہیں.بعض کہہ دیتے ہیں حالات اجازت نہیں دیتے کہ چندہ دے سکیں اسلئے معذرت.ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ چندہ نہ دے کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور وعدوں سے محروم ہو رہے ہیں.پاکستان میں بھی غربت بہت زیادہ ہے لیکن وہاں اللہ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر ہر تحریک میں حصہ لیتے ہیں چندہ دیتے ہیں.اور عموماً جو انہوں نے مختلف تحریکات اور چندوں میں پہلی دوسری پوزیشن لینے کا اپنا ایک معیار قائم کیا ہوا ہے اس کو قائم رکھتے ہیں اس کی تفصیل تو آگے آخر میں بتاؤں گا.تو مغربی ممالک میں رہنے والے سوائے ان کے جن کو صرف کھانے کے لئے ملتا ہے کئی ایسے ہیں.جو اچھی قربانی کر سکتے ہیں.صرف دل میں حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اگر علم ہو جائے کہ کتنا ثواب ہے، کتنی برکات ہیں، کتنے فضل ہیں تو حوصلہ پیدا ہوتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں ایک کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے بھی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاکت دے اور اس کا مال و متاع بر باد کر دے.(بخاری کتاب الزكواة باب قول ا الله فاما من اعطى واتقى.(......پس فرشتوں کی دعائیں لینے کیلئے ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے کیلئے ، ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جس قدر بھی خرچ کر سکیں کیا جائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت نبی اکرم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت

Page 589

582 حضرت خلیل اس حالا ما ا د الله تعالى بصرہ العزیز ابو بکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا.اپنی روپوں کی تفصیلی کا منہ بند کر کے کنجوسی سے نہ بیٹھ جاؤ ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا فرمایا کہ جتنی طاقت ہے کھول کر خرچ کرو، اللہ پر توکل کرو، اللہ دیتا چلا جائے گا.(بخارى كتاب الزكواة باب الصدقة في ما استطاعة) تو جن احمدیوں کو اس راز کا علم ہے.وہ اتنا بڑھ چڑھکر چندہ دے رہے ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انہیں روکنا پڑتا ہے لیکن ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہماری تھیلیوں کا منہ بند کرنا چاہتے ہیں؟ ہم نے اپنے خدا سے ایک سودا کیا ہوا ہے آپ اس کے بیچ میں حائل نہ ہوں.یہ اظہار دنیا میں ہر جگہ ہر قوم میں نظر آتا ہے.اور احمدی معاشرے میں ہر قوم میں نظر آنا چاہیے.جن میں کی ہے ان کو بھی اس کی طرف توجہ دینی چاہیے.اور اللہ کے فضل سے بڑی تعداد ایسی ہے جو اس رویے کا اظہار کرتی ہے چاہے وہ افریقہ کے غریب ممالک ہوں یا امیر ممالک.یہ نہ کوئی سمجھے کہ افریقہ کے غریب لوگ صرف اپنے پر خرچ ہی کرواتے ہیں ان میں بھی بڑے بڑے اعلیٰ قربانی کرنے کے معیار قائم کرنے والے ہیں اور حسب توفیق دوسرا چندہ دینے والے بھی ہیں.اب گھانا کی مثال میں دیتا ہوں.ہمارے بڑے اعلیٰ قربانی کرنے والے بھی ہیں ،ایک ہمارے یوسف آڈوسٹی صاحب ہیں وہ لوکل مشنری بھی تھے، بلکہ اب بھی ہیں لیکن آنریری.وہ کچھ دوائیاں وغیرہ بھی بنایا کرتے تھے.چھوٹا سا شاید کاروبار تھا.اور وہ بیمار بھی تھے ان کی ٹانگ میں ایک گہرا زخم تھا جو ہڈی تک چلا گیا تھا.بڑی تکلیف میں رہتے تھے.تو حضرت خلیفہ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے علاج اور دعا سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ، زخم ٹھیک ہو گیا.اور اس کے بعد انہوں نے پہلے سے بڑھ کر جماعت کی خدمت کرنا شروع کر دی.اور کاروبار میں بھی کیونکہ ان کو کچھ جڑی بوٹیاں بنانے کا شوق تھا تو ایسی دوائیاں بنیں جن سے کاروبار خوب چمکا اور پیسے کی ایسی فراوانی ہوئی کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ اس پیسے پر بیٹھ نہیں گئے ، بلکہ اپنے وعدے کے مطابق جماعت کے لئے بے انتہا خرچ کیا اور کر رہے ہیں.مختلف عمارات اور مساجد بنوائیں.اور بڑی بڑی شاندار مسجدیں بنوائیں ، چھوٹی چھوٹی مسجد میں نہیں اور اب بھی ہمہ وقت قربانی کے لئے تیار ہیں.گزشتہ سال جب میں دورے پر گیا تھا تو کسی خرج کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا یہ میں نے کرنا ہے کیونکہ آج کل دنیا میں کاروباری حالات کچھ خراب ہیں مجھے اپنے طور پر پتہ لگا تھا کہ ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، کاروبار اب اتنا زیادہ نہیں ہے.ان پر بھی حالات کا اثر ہے.تو میں نے ان کو کہا کہ کسی اور کو بھی ثواب لینے کا موقع دیں.سارے کام خود ہی کرواتے جارہے ہیں.لیکن دینی علم تھا.

Page 590

583 حضرت لعليم المس ام اس داد اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قرآن حدیث کا علم بھی ہے.تو پتہ ہے کہ میں نے تھیلی کا منہ بند کیا تو کہیں مستقل بند ہی نہ ہو جائے اس لئے فوراً کہا کہ یہ تو میں نے کرنا ہے.اور بہت سے دوسرے اخراجات بھی ہیں کسی کو میں نے روکا نہیں ہے.آگے آئیں اور کریں.پھر ایک ابراہیم بونسو صاحب ہیں.یہ بھی بڑی قربانی کرنے والے ہیں.اکرا کے قریب انہوں نے ایک بہت مہنگی جگہ پر جماعت کے لئے قبرستان اور بہشتی مقبرے کے لئے جگہ لے کر دی ہے اور بھی بہت سارے ہیں جو اپنی اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرنے والے ہیں.پھر دوسرے ملکوں میں بھی ہیں انڈونیشیا میں بھی ہیں.یورپ اور امریکہ میں بھی ہیں.اب زلزلہ زدگان کے لئے جب میں نے جماعت کو کہا تھا کہ مدد کریں جو آج کل انڈونیشیا سری لنکا میں زلزلہ کے اثرات ہیں بڑا جانی نقصان ہوا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے ہر جگہ بڑے پرزور طریقے سے اس میں حصہ لیا ہے.لبیک کہا اور آگے آئے.امریکہ میں ایک جماعت نے 35-36 ہزار ڈالرز ا کٹھے کئے تھے تا کہ وہاں بھجوائے جاسکیں.تو و ہیں کے ایک صاحب حیثیت شخص نے کہا کہ اتنی ہی رقم میں دیتا ہوں.چنانچہ انہوں نے اتنی ہی رقم ڈال کر اس کو دو گنا کر دیا.35-36 ہزار ڈالرز فوراً ادا کر دیئے.تو یہ صرف اس لئے کہ جماعت کو قربانی کی عادت ہے اور پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قربانیوں کے پھل دیتا ہے اور اس نے اپنے وعدوں کے مطابق یقیناً پھل دیتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ایک بار نماز عید پڑھائی آپ کھڑے ہوئے نماز سے آغا ز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا ، جب آپ فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی.آپ اس وقت حضرت بلال کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے.اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جا رہی تھیں.(بخاری کتاب العيدين باب موعظة الامام النساء يوم العيد) تو اسلام میں مالی قربانی کی مثالیں صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں.بلکہ اس پیاری تعلیم اور جذبہ ایمان کی وجہ سے عورتیں بھی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں اور لیتی ہیں اور اپناز یورا تار اتار کر پھینکتی رہی ہیں اور آج پہلوں سے ملنی والی جماعت میں یہی نمونے ہمیں نظر آتے ہیں.اور عورتیں اپنے زیور آ آ کر پیش کرتی ہیں.عموماً عورت جو شوق سے زیور بنواتی ہے اس کو چھوڑ نا مشکل ہوتا ہے لیکن احمدی عورت کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز پیش کی جائے.

Page 591

584 حضرت الیه اس ام اس س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گزشتہ دنوں میں جب انگلستان کی مساجد اور پھر تحریک جدید کے بزرگوں کے پرانے کھاتے کھولنے کی میں نے تحریک کی تھی تو احمدی خواتین نے بھی اپنے زیور پیش کیے.اور بعض بڑے بڑے قیمتی سیٹ پیش کئے کہ یہ ہمارے زیوروں میں سے بہترین ہیں.تو یہ ہے احمدی کا اخلاص.اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون ( آل عمران : 93) جوسب سے پسندیدہ چیزیں ہیں وہ ہی پیش کی جارہی ہیں.تو مر دوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی یہی ایمان ہے.ان باتوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ جماعت میں اخلاص کی کمی ہے.ہاں یاد دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ کرواتے رہنا چاہیے.اس کا حکم بھی ہے.تو وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے.اور سوائے استثناء کے الا ماشاء اللہ ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہو ان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا اور اس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں.اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہوگا.اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہوگا.انشاء اللہ.اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پر کوشش ہو تو اس تعداد میں ( جو موجودہ تعداد ہے ) آسانی سے دنیا میں 6 لاکھ کا اضافہ ہوسکتا ہے بغیر کسی دقت کے.اور یہ تعداد آسانی سے 10لاکھ تک پہنچائی جاسکتی ہے.کیونکہ موجودہ تعداد 4 لاکھ کے قریب ہے جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا.عورتیں یا درکھیں کہ جس طرح مرد کی کمائی سے عورت جو صدقہ دیتی ہے اس میں مرد کو بھی ثواب میں حصہ مل جاتا ہے تو آپ کے بچوں کی اس قربانی میں شمولیت کا آپ کو بھی ثواب ہوگا.اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے اور ان کا اجر دیتا ہے.اور جب بچوں کو عادت پڑ جائے گی تو پھر یہ مستقل چندہ دینے والے بچے ہوں گے.اور زندگی کے بعد بھی یہ چندہ دینے کی عادت قائم رہے گی تو یہ ماں باپ کے لئے ایک صدقہ جار یہ ہو گا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی نصائح پر عمل کرنے کے نمونے ، قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے نمونے ہمیں آخرین کی اس جماعت میں بھی ملتے ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم کئے.

Page 592

585 حضرت خلیفة المسح الامس ای الله: س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے جو قربانیوں کے نمونے قائم کئے ہیں ان کے نظارے بھی عجیب ہیں.آج بھی ہمیں جو قربانیوں کے نظارے نظر آتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ بڑوں کی تربیت کا اثر ہوتا ہے ، یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی اپنی اولاد کی تربیت اور ان کے لئے دعاؤں کا نتیجہ ہے اور سب سے بڑھ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے دعاؤں کی وجہ سے ہے.جس درد سے آپ نے اپنی جماعت کی تربیت کرنے کی کوشش کی ہے جن کا ذکر حضور علیہ السلام کی تحریرات میں مختلف جگہ پر ملتا ہے اور جس تڑپ کے ساتھ آپ نے اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے دعائیں کی ہیں، تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے دعائیں کی ہیں.یہ وہی پھل ہیں جو ہم کھا رہے ہیں.مردہ درخت انہیں دعاؤں کے طفیل ہرے ہورہے ہیں جن میں بزرگوں کی اولا دیں بھی شامل ہیں اور نئے آنے والے بھی شامل ہیں.ایک دور دراز علاقے کا آدمی جو عیسائیت سے اسلام قبول کرتا ہے اور پھر قربانیوں میں اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ میں ہر وقت قربانی کرتا رہوں اور اگر بس چلے تو کسی کو آگے آنے ہی نہ دوں.تو یہ سب کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی اور دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے.آپ کے زمانے میں یہ قربانیوں کے معیار قائم ہوئے جن کی آگے جاگ لگتی چلی جارہی ہے.اسلئے اگر یہ معیار قائم کرنے ہیں تو اس زمانے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والوں ، اپنے اندر اس قوت قدسی سے پاک تبدیلی پیدا کرنے والوں کے بھی جو ذکر ہیں ان کا ذکر چلتا رہنا چاہیے تا کہ ان بزرگوں کے لئے بھی دعا کی تحریک ہو اور ہمیں بھی یہ احساس رہے کہ یہ پاک نمونے نہ صرف اپنے اندر قائم رکھنے ہیں، بلکہ اپنی نسلوں کے اندر بھی پیدا کرنے ہیں.اب ان پاک نمونوں میں سے چند ایک کا میں ذکر کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ.” ایسا ہی مباہلہ کے بعد جبی فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے مالی اعانت سے بہت سا بوجھ ہمارے درویش خانہ کا اٹھایا ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ سیٹھ صاحب ( حاجی سیٹھ عبدالرحمن اللہ رکھا صاحب مدراس کے تاجر تھے ) موصوف سے بعد نمبر دوم پر شیخ صاحب ہیں جو محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے ہیں.شیخ صاحب موصوف اس راہ میں دو ہزار سے زیادہ روپیہ دے چکے ہوں گے اور ہر ایک طور سے وہ خدمت میں حاضر ہیں ( اس زمانے میں دو ہزار کی بڑی ویلیوValue تھی) اور اپنی طاقت اور وسعت سے زیادہ خدمت میں سرگرم ہیں.ایسا ہی بعض میرے مخلص دوستوں نے

Page 593

586 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز مباہلہ کے بعد اس درویش خانہ کے کثرت مصارف کو دیکھ کر اپنی تھوڑی تھوڑی تنخواہوں میں سے اس کے لئے حصہ مقرر کر دیا ہے.چنانچہ میرے مخلص دوست منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپور تنخواہ میں سے تیسرا حصہ یعنی 20 روپے ماہوار دیتے ہیں.66 (ضمیمہ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 312-313 بقیہ حاشیہ) اس زمانے میں وہ بڑی چیز تھی.تو دیکھیں اپنے پر تنگی کر کے قربانیاں کرنے کا جو طریق ہے وہ جاری کیا.وہ نمونے قائم کئے جو آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں تھے.پھر ایک اور ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں.( آج انکی اولادمیں لاکھوں میں کھیل رہی ہیں) سرگرمی میں ماہواری چندہ میں شریک ہیں ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا.( یعنی اتنی طاقت نہیں تھی اب کاروبار نہیں تھا.اس کے باوجود کہتے ہیں ایک دن میں مجھے ایک سو روپیہ دے گیا) کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے ( یہ کہنے لگا.“ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا.مگر لہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.“ (ضمیمہ انجام آنقم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 313-314 بقیہ حاشیہ) جب منارة المسح کی تعمیر ہونے لگی تھی اسوقت کا ذکر ہے.فرمایا:.ان دنوں میں میری جماعت میں سے دو ایسے مخلص آدمیوں نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے.جو باقی دوستوں کے لئے درحقیقت جائے رشک ہیں.ایک ان میں سے منشی عبدالعزیز نام ضلع گورداسپور میں پٹواری ہیں ، جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سو روپیہ اس کام کیلئے چندہ دیا ہے.(جن کا پہلے ذکر آیا ہے )

Page 594

587 حضرت الی الست الخامس د الله: س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ سو روپیہ کئی سال کا ان کا اندوختہ ہوگا.( اور فرمایا کہ یہ اس لئے ) اور زیادہ وہ قابل تعریف اس سے بھی ہیں کہ ابھی وہ ایک کام میں سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں اور اب اپنے عیال کی بھی چنداں پرواہ نہ رکھ کر بالکل پرواہ نہیں رکھی ) یہ چندہ پیش کر دیا.( فرمایا ) دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے، میاں شادی خان لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں.ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سور و پیہ چندہ دے چکے ہیں اور اب اس کام کیلئے دوسور و پیہ چندہ بھیج دیا ہے.اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد 50 روپے سے زیادہ نہ ہو ( لیکن 2 سوروپے چندہ دے دیا) انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیاوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں.اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا.(حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ) اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا.“ پھر فرمایا.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 423،422 اشتہار یکم جولائی 1900ء) جسی فی اللہ میاں عبدالحق خلف عبدالسمیع ( صاحب ) یہ ایک اول درجہ کا مخلص اور سچا ہمدرد اور محض اللہ محبت رکھنے والا دوست اور غریب مزاج ہے.دین کو ابتدا سے غریبوں سے مناسبت ہے کیونکہ غریب لوگ تکبر نہیں کرتے اور پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اس سعادت کا عشر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لوگ کامل طور پر حاصل کر لیتے ہیں.( دسواں حصہ بھی ان کے پاس نہیں ہوتا ) فطوبى للغرباء.میاں عبدالحق با وجود اپنے افلاس اور کمی مقدرت کے ایک عاشق صادق کی طرح محض اللہ خدمت کرتا رہتا ہے اور اس کی یہ خدمات اس آیت کا مصداق اس کو ٹھہرا رہی ہیں يُؤْثِرُونَ عَلَى اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر : 10) މ 66 (ازالہ اوبام.روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 537) ( یعنی با وجود تنگی در پیش ہونے کے بھی اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں.)

Page 595

588 س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت خلیل اس ال اس د الله: ها تو یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے ہیں جن کی ان چھوٹی چھوٹی قربانیوں سے ، ان شبنم کے قطروں سے ، درخت پھلوں سے لدے رہتے تھے.ان کے اعمال کے درخت بھی پھلدار رہتے تھے.اور جماعت بھی ان قربانیوں کی وجہ سے پھلوں سے لدی رہتی تھی.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری لکھتے ہیں کہ : جن مخلص احباب نے لنگر خانے کے واسطے فوراً امداد بھیجی ان میں ایک شخص چوہدری عبد العزیز صاحب احمدی پٹواری بھی تھے.( ان کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے ) جوخود آپ گورداسپور آئے اور آریہ کے مکان میں جبکہ حضرت احمد اوپر سے نیچے اتر رہے تھے.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہے ) زینے میں نصف راہ میں ملے اور ہاتھ سے اپنی کمر سے ایک سور و پیہ چاندی کے کھول کر پیش کئے.( یہ وہی واقعہ ہے، اس کی ذرا تفصیل ہے یا پہلے واقعہ کا جہاں حضرت مسیح موعود نے ذکر فرمایا ہے وہ ہو گا.) کہ حضور کا خط آیا اور خاکسار کے پاس یہی رقم موجود تھی جو بطور امداد لنگر پیش کر رہا ہوں.قاضی محمد یوسف صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے ایک پٹواری کے جوان دنوں صرف چھ روپے ماہوار تنخواہ لیتا تھا.ان کی صرف چھ روپے ماہوار تنخواہ تھی.اور سورو پہیہ چندہ دے رہے ہیں.اس ایثار پر رشک آیا.خدا تعالیٰ نے اس کے اخلاص کے عوض اس پر بڑے فضل کئے.(رسالہ ظہور احمد موعود صفحه 72 مطبوعہ 30 جنوری 1955ء) تو یہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے نمونے جو پہلوں سے ملنے کے لئے اپنے پر تنگی وارد کیا کرتے تھے اور تنگی وارد کر کے قربانیاں دیا کرتے تھے.پھر حضرت قاضی یوسف صاحب ایک اور ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : میرے پہلے قیام گورداسپور میں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے حضرت احمد سے ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ) عرض کی حضور لنگری کہتا ہے کہ لنگر کا خرچ ختم ہو گیا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ بعض مخلص احباب کو متوجہ کیا جاوے چند مخلص افراد کو امداد نگر کے واسطے خطوط لکھے گئے اور کئی مخلصوں کے جواب اور رقوم آئیں.کہتے کہ ان میں سے ایک واقعہ خاکسار کو یاد ہے کہ وزیر آباد کے شیخ خاندان نے جو مخلص احمدی تھے ان کا ایک پسر نوجوان خط ملتے وقت طاعون سے فوت ہوا تھا.اس خاندان کا نوجوان لڑکا اس طاعون سے فوت ہوا تھا اور اس کے کفن دفن کے واسطے مبلغ دوسور و پے بغرض اخراجات اس کے پاس موجود تھے.اس نے اسی وقت (اس لڑکے کے باپ نے ) ایک خط حضرت مسیح موعود کو لکھا اور یہ خط ایک سبز کاغذ پر تحریر تھا اور اس کے عنوان میں یہ لکھا کہ اے خوشا مال کہ قربانِ مسیحا

Page 596

589 حضرت خلیق اسم الخامس ید اللہ س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گردد کہ مبارک ہے وہ مال جو خدا کے مسیح کے لئے قربان کر دیا جائے.نیچے خط میں لکھا میرا نوجوان لڑکا طاعون سے فوت ہوا ہے.میں نے اس کی تجہیز و تکفین کے واسطے مبلغ دوسوروپے تجویز کئے تھے.جوارسال خدمت کرتا ہوں وہ دوسو روپے تھے جو اس کے لئے رکھے ہوئے تھے اور لڑکے کو اس کے لباس میں دفن کر دیتا ہوں.یہ ہے وہ اخلاص جو حضرت مسیح موعود نے مریدوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے تھا جماعت کے لئے تھا، اللہ تعالیٰ کی مرضی چاہنے کے لئے تھا.قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ یہی لوگ تھے جن کو آیت وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهُمُ - (الجمع :4) کے ماتحت صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا کا مصداق قرار دیا گیا ہے.( قاضی محمد یوسف فاروقی احمدی.قاضی خیل رسالہ ظہور احمد موعود صفحہ 70-71 مطبوعہ 30 جنوری 1955 ء) اتنی زیادہ قربانی کی کہیں اور مثال آپ کو نظر نہیں آئے گی.اگر آئے گی تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہی نظر آئے گی.اسی کا یہ خاصہ ہے.حافظ معین الدین صاحب کی قربانی کا ذکر آتا ہے کہ ان کی طبیعت میں اس امر کا بڑا جوش تھا کہ وہ سلسلے کی خدمت کیلئے قربانی کریں.خود اپنی حالت ان کی یہ تھی کہ نہایت عسر کے ساتھ گزارا کرتے تھے، نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے تھے.اور معذور بھی تھے ، کام نہیں کر سکتے تھے.حضرت اقدس کا ایک خادم قدیم سمجھ کر بعض لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ کچھ سلوک ان سے کرتے تھے ان کو کچھ رقم پیش کر دیا کرتے تھے لیکن حافظ صاحب کا ہمیشہ یہ اصول تھا کہ وہ اس روپے کو جو اس طرح ملتا تھا کبھی اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ نہیں کرتے بلکہ اس کو سلسلے کی خدمت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کر دیتے.اور کبھی کوئی تحریک سلسلے کی ایسی نہ ہوتی جن میں وہ شریک نہ ہوتے ،خواہ ایک پیسہ ہی دیں.حافظ صاحب کی ذاتی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان کی یہ قربانی معمولی نہ ہوتی تھی.(اصحاب احمد جلد 13 صفحہ 293) تو یہ ان لوگوں کے چند نمونے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو سنا، سمجھا اور عمل کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مالی قربانی کے سلسلہ میں ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ: ”میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک کچی معرفت آپ صاحبوں کی

Page 597

590 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سوئمیں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقتدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے.اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعے سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 516) پس آپ کا یہ سچا جوش اور سچی تڑپ ہے اور اس کے لئے آپ کی دعائیں ہیں جو آج سوسال گزرنے کے بعد بھی اخلاص و وفا کے نمونے دکھا رہی ہیں.کیونکہ اس کے بغیر تزکیہ نفس نہیں ہو سکتا اور دلوں کی پاکیزگی قربانیوں سے ہی پیدا ہوتی ہے.ورنہ اخراجات کی تو آپ کو فکر نہ تھی آپ فرماتے ہیں کہ آخر خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے اس نے اس سلسلے کو قائم کیا ہے وہ خود ہی اس کا حامی و ناصر ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کو ثواب کا مستحق بنا دے.پس اس ثواب کو حاصل کرنے کیلئے یاد دہانی کروائی جاتی ہے.قربانیوں کے یہ معیار قائم کریں.مختلف تحریکات ہیں جماعت میں اللہ تعالیٰ سب کو معیار بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں وقف جدید کا 47 واں سال 31 دسمبر کو جو ختم ہوا ہے اور 48 واں سال شروع ہوا ہے کے کچھ کوائف پیش کروں گا اور یہ جیسا کہ میں نے کہا 48 واں سال شروع ہوا ہے اس سال کا اعلان کروں گا.رپورٹس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی کل وصولی 19لاکھ 76 ہزار پونڈ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر ملکوں کا حساب کریں تو ان میں زیادہ قربانیاں ہوئی ہیں.کیونکہ امریکہ میں بھی اور پاکستان میں بھی اور ملکوں میں بھی پاؤنڈ کے مقابلہ میں شرح میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے اور اس کے باوجود خدا کے فضل سے گزشتہ سال سے وصولی ایک لاکھ پونڈ زیادہ رہی ہے.اور مخلصین کی تعداد چار لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ چکی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس میں اگر کوشش کی جائے تو بچوں کے ذریعے سے ہی میرے خیال میں معمولی کوشش سے پوری دنیا میں چھ لاکھ کی تعداد کا اضافہ کیا جاسکتا ہے تاکہ کم از کم وقف جدید میں دس لاکھ افراد تو شامل ہوں تحریک جدید کی طرح نئے آنے والوں کو بھی اس میں شامل کریں بچوں کو شامل کریں.خاص طور پر بھارت اور افریقہ کے ممالک میں کافی گنجائش ہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.

Page 598

591 حضرت حلال است حال اس ادا الا عالی بنصرہ العزیز ویسے تو میں سمجھتا ہوں اگر کوشش کی جائے تو ایک کروڑ کی تعداد ہوسکتی ہے لیکن بہر حال پہلے قدم پر آپ اتنی کوشش بھی کر لیں تو بہت ہے.کیونکہ 1957ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تحریک شروع کی تھی تو جماعت کی اس تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ خواہش فرمائی تھی کہ ایک لاکھ چندہ دہند ہوں تو اس وقت کوائف تو میرے پاس نہیں ہیں کہ پاکستان میں کتنے شامل ہوئے لیکن یہ صرف تحریک پاکستان کے لئے تھی اور وہاں سے آپ ایک لاکھ مانگ رہے تھے تو اب تو پوری دنیا میں حاوی ہے دنیا بھر میں جو مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے وہ میں بتا دیتا ہوں پہلے نمبر پہ امریکہ ہے دوسرے پر پاکستان، تیسرے پہ، برطانیہ چوتھے پہ، جرمنی پانچویں پر، کینیڈا ( میرا خیال ہے جرمنی نیچے جارہا ہے ) چھٹے نمبر پہ ہندوستان، ساتویں نمبر پر انڈونیشا، آٹھویں پیجیئم ، نویں پر سوئٹزر لینڈ اور دسویں پر آسٹریلیا.اس کے علاوہ فرانس ، ناورے ، ہالینڈ، سویڈن ، جاپان، سعودی عرب اور ابوظہبی وغیرہ کی جماعتیں جو ہیں انہوں نے بھی کافی کوشش کی ہے.اور پاکستان کی جماعتوں کا علیحدہ ذکر ہوتا ہے اس میں اول کراچی ہے، دوئم لا ہور ہے سوئم ربوہ ہے، کراچی اور لاہور کا تو مقابلہ رہتا ہے.کاروباری لوگ بھی ہیں اور ملازم پیشہ بھی ہیں ہوسکتا ہے ان کے کاروباروں میں فرق پڑا ہو لیکن پھر بھی کافی اضافہ ہے لیکن ربوہ میں اکثریت انتہائی کم آمدنی والوں کی ہے لیکن انہوں نے اپنی پوزیشن جو اول دوئم لیتے ہیں وہ برقرار رکھی ہوئی ہے.پھر پاکستان میں بڑوں اور چھوٹوں کا، بچوں کا علیحدہ حساب رکھا جاتا ہے جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا.خلافت ثالثہ میں بچوں کے لئے علیحدہ نظام شروع کیا گیا تھا.اس لحاظ سے جو بڑوں کا چندہ وقف جدید ہے، بالغان کا اس میں راولپنڈی کا ضلع اول ہے.سیالکوٹ ہے، پھر اسلام آباد ہے پھر فیصل آباد ہے، پھر گوجرانوالہ ہے، پھر میر پور خاص ہے، شیخو پورہ ہے ،سرگودھا ہے، گجرات ہے، کوئٹہ ہے.اور بچوں یعنی دفتر اطفال کا ہے.اس میں جو ضلعے ہیں اسلام آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی ، شیخوپورہ، میر پور خاص، گجرات، فیصل آباد، نارووال اور بہاولنگر.اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو جنہوں نے بڑھ چڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لیا انہیں اپنی جناب سے بے انتہا اجر عطا فرمائے.ان کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے.ان کے اعمال کے باغ اور ان کی بیوی بچوں کے اعمال کے باغ ہرے بھرے اور پھولوں سے لدے رہیں اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنے رہیں.آپ فرماتے ہیں کہ اور جو شخص ایسی ضروری مہمات میں مال خرچ کرے گا میں اُمید نہیں رکھتا کہ اس کے مال کے خرچ سے اس کے مال میں کچھ کمی آجائے گی.بلکہ اس کے مال میں

Page 599

592 حضرت علیه السحب الخمس ايد الدلالی بنصرہ العزیز برکت ہوگی پس چاہیئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں.کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے پھر بعد اس کے وہ وقت آتا ہے کہ ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے پیسہ کے برابر نہیں ہوگا ( یہ آپ نے اپنے وقت کی بات کی ہے.فرمایا...خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 613 اشتہار تمبر 1903 ء) تو بڑی قربانیاں کرنے والے جو ہیں ان کو بھی یہی سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک فضل الہی ہے جو ان پر ہوا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جو صحابہ کی بظاہر معمولی قربانیاں تھیں وہ جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ معمولی قربانیاں بھی بہت بڑا درجہ رکھتی ہیں لیکن اس زمانے میں بھی اپنی قربانیاں کرنے کے بعد جیسا کہ ہم اب بھی نمونے دیکھتے ہیں اگر عاجزی سے قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں گے تو ان دعاؤں کے حصہ دار بنیں گے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی جماعت کیلئے کی ہیں.آخر پر میں آپ لوگوں سے جو یہاں پر جلسہ سننے کے لئے آئے ہیں : آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس جلسے میں شمولیت آپ لوگوں کیلئے پاک تبدیلی کا باعث ہونی چاہیے.ایک دوسرے کو سلام کرنا کا رواج دیں اس ماحول میں پیار و محبت سے ملیں یہاں جماعت اتنی چھوٹی ہے کہ ذراسی بھی کمزوری یا اچھائی فوراً پورے ماحول میں پھیل جاتی ہے اس لئے کوشش کریں کہ اگر کسی چیز کو پھیلانا ہے تو نیکیوں کی خیر کی ، اچھی بات کی ، پیار کی محبت کی خوشبو پھیلانی ہے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا ہے، دعاؤں پر زور دینا ہے یہ دو دن آپ کا جلسہ ہے اس میں دنیا داری کی بجائے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے ماحول کو معطر رکھنا ہے اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطاء فرمائے.آج جنوری کی 7 / تاریخ ہے سالِ نو کے حوالے سے بے انتہا خطوط اور فیکسز مبارکباد کی مجھے مل رہی ہیں گزشتہ جمعہ 31 دسمبر کا ہی تھا.اس میں بھی مبارک باد کہی جاسکتی تھی لیکن مجھے یاد نہیں رہی اللہ تعالیٰ تمام جماعت کو یہ سال ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اس ملک کے لئے بھی اور دنیا کے ہر ملک کے لئے یہ سال ہر لحاظ سے مبارک ہو اللہ تعالیٰ تمام دنیا کے ممالک اور لوگوں کو پیار و محبت سے رہنا سکھائے دل کی نفرتیں اور کدورتیں دور ہوں اللہ تعالیٰ ملکوں کے خلاف جنگوں اور ظلموں کو روکنے کے لئے سامان پیدا

Page 600

593 حضرت لعليم المس ام اس داد اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمائے لوگوں کو لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ تعالیٰ ہر آفت سے تمام انسانیت کو بچائے کیونکہ جس طرح آج کل کے حالات ہیں بڑی تیزی سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو آواز دے رہے ہیں اللہ رحم کرے اور سال برکتوں کا سال ہو نہ کہ عذاب کا سال.ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اخلاص و وفا اور قربانی کے نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.خاص طور پر جب آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں سپین میں اپنی تعداد بڑھانے کی خاص کوشش کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ توفیق دے.الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2005ء)

Page 601

594 ا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبه جمعه فرموده 6 جنوری 2006 ء قادیان دارالامان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ الصف کی مندرجہ ذیل آیات 11 تا 13 تلاوت کیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ - ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرَ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَثْتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ اور فرمایا ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی.تم جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے رستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں.یہ بہت بڑی کامیابی ہے.آج کے خطبے میں سب سے پہلے تو میں عالمگیر جماعت احمدیہ کو، جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں.گزشتہ خطبے میں میں نے توجہ دلائی تھی کہ ہر احمدی شکر کے مضمون کو دل میں رکھتے ہوئے آئندہ سال میں داخل ہوتا کہ گزشتہ سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو بے شمار نظارے ہم نے دیکھے ان میں اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اضافہ فرماتا رہے.اللہ تعالیٰ یہ نیا سال ہمارے لئے ہر لحاظ سے با برکت اور مبارک فرمائے.انسان کی تو سوچ بھی اُن انعاموں اور فضلوں اور احسانوں تک نہیں پہنچ سکتی جو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر فرما رہا ہے.لیکن ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یا در کھتے ہوئے اس کے آگے جھکے، اس کے حکموں پر عمل کرے اور ان حکموں پر عمل کرنے کی انتہائی کوشش کرے حتی الوسع جس حد تک جس جس کی استعدادیں ہیں اس کو عمل کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے تا کہ یہ برکتیں اور انعامات ہمیشہ جاری رہیں.اگر ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنے رہے، اس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے نیکیاں بجالاتے

Page 602

595 حضرت خلیة المسح الامس ایه الله: س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رہے، اپنے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے رہے تو پھر یہ وعدہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک سال یا دو سال یا تین سال کی بات نہیں ہے بلکہ ان باتوں کی طرف توجہ اور ان امور کی انجام دہی کے بعد پھر تم ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاؤ گے.ہر سال تمہارے لئے برکتیں لے کر آئے گا اور ہر گزشتہ سال تمہارے لئے برکتوں سے بھری جھولیاں چھوڑ کر جائے گا.اور پھر یہ اعمال جو ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان نعمتوں کا وارث بنائیں گے.ہر سال جنوری کے پہلے جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.اس حوالے سے مالی قربانی کے بارے میں مختصراً کچھ بتاؤں گا اور پھر گزشتہ سال تحریک وقف جدید کے ذریعے ہونے والی مالی قربانیوں کا ذکر ہوگا اور نئے مالی سال کا اعلان بھی.مالی قربانی اصلاح نفس اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مختلف پیرایوں میں اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے.پس جماعت احمدیہ میں جو مختلف مالی قربانی کی تحریکات ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور دلوں کو پاک کرنے کی کڑیاں ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ.....وَمَالَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ (الحديد:11) اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے.پس اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لئے مالی قربانیوں میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے بلکہ یہ بھی تنبیہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں.جیسے کہ فرماتا ہے.وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمُ إِلى التَّهْلُكَةِ (البقرة:196).اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو.پس جیسا کہ میں نے کہا یہ مالی تحریکات جو جماعت میں ہوتی ہیں، یا لازمی چندوں کی طرف جو توجہ دلائی جاتی ہے یہ سب خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہیں.پس ہر احمدی کو اگر وہ اپنے آپ کو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے ، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی ایک بہت بڑی جماعت اس قربانی میں حصہ لیتی ہے لیکن ابھی بھی ہر جگہ بہت زیادہ گنجائش موجود ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی حکم فرمایا ہے کہ اگر آخرت کے عذاب سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننا ہے تو مال و جان کی قربانی کرو.اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر تلوار کا جہاد ختم کر دیا تو یہ مالی قربانیوں کا جہادی ہے جس کو کرنے سے تم اپنے نفس کا بھی اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کر رہے ہوتے ہو.یہ

Page 603

596 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز زمانہ جو مادیت سے پر زمانہ ہے ہر قدم پر روپے پیسے کا لالچ کھڑا ہے.ہر کوئی اس فکر میں ہے کس طرح روپیہ پیسہ کمائے چاہے غلط طریقے بھی استعمال کرنے پڑیں کئے جائیں.پھر کمپنیاں ہیں اور مختلف قسم کے تجارتی ادارے ہیں.باتوں سے اشتہاروں سے ایسی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح مال بکے اور زیادہ سے زیادہ منافع کما لیا جائے.ان اشتہاروں وغیرہ پر بھی لاکھوں خرچ ہوتے ہیں.بچوں تک کو مختلف چیزوں کی طرف راغب کرنے کے لئے ، توجہ پیدا کرنے کے لئے ایسے اشتہار دیئے جاتے ہیں.ٹی وی وغیرہ پر ایسے اشتہار آتے ہیں، کوشش کی جاتی ہے کہ ماں باپ کو جن کو توفیق ہو بچے مجبور کریں کہ ان کو وہ چیز لے کر دی جائیں.اور جن میں توفیق نہیں ان میں پھر بے چینی پیدا ہوتی ہے.اس بے چینی کی وجہ یہی ہے کہ ہر ایک مادیت کی طرف جھک رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہے اور امیر ملکوں میں مغربی ممالک میں یہ بہت زیادہ ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تجارتیں ، یہ خرید و فروخت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے.دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہترین تجارت یہ ہے کہ اس کی راہ میں مالی قربانی کرو.اور اس زمانے میں کیونکہ نئی نئی ایجاد یں بھی ہو گئی ہیں جیسا کہ میں نے کہا ہے اور دنیا ایک ہو جانے کی وجہ سے ترجیحات بھی بدل گئی ہیں تو جہاں جہاں بھی یہ مالی قربانی ہورہی ہے یہ ایک جہاد ہے.اسی طرح ہمارے ملکوں میں ایک کثیر تعداد ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں.افراد جماعت عموماً یا تو مالی لحاظ سے کمزور ہیں یا اوسط درجہ کے ہیں.تو جب بھی ہم میں سے، جماعت کا کوئی فرد مالی قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کا اپنی جان کا بھی جہاد کر رہا ہوتا ہے.بعض اوقات اپنے بچوں کی ضروریات کو بھی پس پشت ڈال کر قربانی کر رہا ہوتا ہے.اس کی کئی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی روایات میں آتی ہیں اور آج کل بھی موجود ہیں.اور اللہ تعالیٰ سے فضل سے مالی قربانی کرنے کی یہ مثالیں سوائے جماعت احمدیہ کے اور کہیں نہیں ملیں گی.حضرت مسیح موعود کے زمانے کی بات ہے قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے ایک روایت کی ہے کہ وزیر آباد کے شیخ خاندان کا ایک نوجوان فوت ہو گیا.اس کے والد نے اس کے کفن دفن کے لئے 200 روپے رکھے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لنگر خانے کے اخراجات کے لئے تحریک فرمائی.ان کو بھی خط گیا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رقم بھجوانے کے بعد لکھا کہ میرا نو جوان لڑکا طاعون سے فوت ہوا ہے میں نے اس کی تجہیز وتدفین کے واسطے مبلغ دوسوروپے تجویز کئے تھے جوار سال خدمت کرتا ہوں اور لڑکے کو اس کے لباس میں دفن کرتا ہوں.) رسالہ ظہور احمد موعود.قاضی محمد یوسف فاروقی احمدی قاضی خیل.صفحہ 70-71 مطبوعہ 30 جنوری 1955ء)

Page 604

597 ا ا ا ا ا س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یہ ہے وہ اخلاص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مریدوں نے دکھایا.وہ ہر وقت اس سوچ میں رہتے تھے، اس انتظار میں رہتے تھے کہ کب کوئی مالی تحریک ہو اور ہم قربانیاں دیں.آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں یہ نظارے نظر آتے ہیں.اس زمانے میں مادیت پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی کا تو براہ راست اثر آپ کے صحابہ پر پڑتا تھا.آج زمانہ اتنا دور ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے کئے ہیں اس کے نظارے ہمیں دکھا رہا ہے.کئی احمدی نوجوان ایسے ہیں جو اپنی خواہشات کو مارتے ہوئے اپنی جمع پونچی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں.گزشتہ سال کی بات ہے پاکستان کی جماعتوں کے لئے جو ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا سال کے آخر میں اس کا پورا ہونے کا وقت آیا تو اس بارے میں مجھے صدر لجنہ لاہور نے ایک رپورٹ دی.انہوں نے بھی اپنی لجنہ کو تحریک کی تو اس وقت ایک بچی نے اپنی جہیز کی رقم میں سے بہت بڑی رقم ادا کر دی اور پرواہ نہیں کی کہ جہیز اچھا بنتا ہے کہ نہیں بنتا یا بنتا بھی ہے کہ نہیں.اور وہ بچی اس جلسے پہ قادیان بھی آئی تھی اور مجھے ملی.تو ایسے لوگ اس زمانے میں بھی ہیں جو اپنے مال اور نفس کا جہاد خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس بچی کی بھی شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے ، بابرکت فرمائے اور اس قربانی کے بدلے میں اسے اتنا دے کہ اس سے سنبھالا نہ جائے اور پھر اس میں برکت کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی طرف راغب ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے بے شمار قربانیاں کرنے والے جماعت کو دیتا چلا جائے.اور وہ فرشتوں کی دعاؤں کے بھی وارث ہوں کہ اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس جیسے اور پیدا کرتا چلا جائے.پس مالی قربانی کرنے والے ہر جگہ سے دعائیں لے رہے ہوتے ہیں.اور یوں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے اور جنت کے وارث بن رہے ہوتے ہیں.اللہ کرے کہ جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بے شمار جگہ مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے.اس کے چند نمونے میں پیش کرتا ہوں.حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی استطاعت ہو“.دو ( بخاری کتاب الزکوة - باب اتقوا النار ولو بشق تمرة ).یعنی اللہ کی راہ میں قربانی کرو چاہے آدھی کھجور کے برابر ہی کرو.

Page 605

598 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز پس یہ جو وقف جدید کا چندہ ہے اس میں تو ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ ضرور اتنی رقم ہونی چاہئے.غریب سے غریب بھی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے سکتا ہے.جب مالی قربانی کریں گے تو پھر دعائیں بھی لے رہے ہوں گے.فرشتوں کی دعائیں بھی لے رہے ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس قربانی کی وجہ سے حالات بہتر فرمائے گا.پس ہر احمدی کو مالی قربانی کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے.نومبائعین کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو اپنے نفس کی اصلاح کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ مالی قربانی کی جائے ، اس میں ضرور شامل ہوا جائے.پھر اس پیغام کو پہنچانے کے لئے مالی اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے نو مبائعین کو بھی شروع میں ہی عادت ڈالنی چاہئے.اپنے آپ کو اس طرح اگر عادت ڈال دی جائے تھوڑی قربانی دے کر وقف جدید میں شامل ہوں پھر عادت یہ بڑھتی چلی جائے گی اور مالی قربانیوں کی توفیق بھی بڑھتی چلی جائے گی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے وقف جدید کی تحریک شروع فرمائی تھی ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ” مجھے امید ہے کہ یہ تحریک جس قدر مضبوط ہوگی اسی قد رخدا تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے چندوں میں بھی اضافہ ہوگا“.(الفضل 5 رجنوری 1962ء) پس جماعت کی انتظامیہ کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ تمام کمزوروں اور نئے آنے والوں کو بھی مالی قربانی کی اہمیت سے آگاہ کرے، ان پر واضح کرے کہ کیا اہمیت ہے.اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ان کو آگاہی کرائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بارے میں جو ارشادات ہیں ان سے لوگوں کو آگاہ کریں.اگر نہیں کرتے تو پھر میرے نزدیک انتظامیہ بھی ذمہ دار ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیکیوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول سے محروم کر رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا اس جہاد سے پھر نفس کے جہاد کی بھی عادت پڑے گی، اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی، عبادتوں کی بھی عادت پڑے گی.ایک روایت میں آتا ہے حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بارنماز عید پڑھائی آپ کھڑے ہوئے اور نماز کا آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا.جب فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی.آپ اس وقت حضرت بلال کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں.(بخاری کتاب العيدين باب موعظة الامام النساء يوم العيد

Page 606

599 حضرت خلیة المسح الامس ایه الله: ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تو یہ تھیں اس زمانے کی عورتوں کی مثالیں.اس زمانے میں بھی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی ایسی عورتیں ہیں جو بے دریغ خرچ کرتی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی کئی مثالیں دی ہیں.خلافت ثالثہ میں بھی کئی مثالیں ہیں.خلافت رابعہ میں بھی کئی مثالیں ملتی ہیں.اب بھی کئی عورتیں ہیں جوقربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، اپنے زیورا تار کر دے دیتی ہیں.تو جب تک عورتوں میں مالی قربانی کا احساس برقرار رہے گا اس وقت تک انشاء اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والی نسلیں بھی جماعت احمدیہ میں پیدا ہوتی رہیں گی.یہ جو میں بار بار زور دیتا ہوں کہ نو مبائعین کو بھی مالی نظام کا حصہ بنا ئیں یہ اگلی نسلوں کو سنبھالنے کے لئے بڑا ضروری ہے کہ جب اس طرح بڑی تعداد میں نو مبائعین آئیں گے تو موجودہ قربانیاں کرنے والے کہیں اس تعداد میں گم ہی نہ ہو جائیں اور بجائے ان کی تربیت کرنے کے ان کے زیر اثر نہ آجائیں.اس لئے نو مبائعین کو بہر حال قربانیوں کی عادت ڈالنی پڑے گی اور نومبائع صرف تین سال کے لئے ہے.تین سال کے بعد بہر حال اسے جماعت کا ایک حصہ بننا چاہئے.خاص طور پر نئی آنے والی عورتوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.پھر ایک روایت میں ہے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا افح یعنی بخل سے بچو.یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا تھا.( مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 159 مطبوعہ بیروت مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص حدیث نمبر 6451) پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں بخل کا بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بڑا ہی انذار ہے اس میں.پہلی قوموں کی ہلاکت اس لئے ہوئی تھی کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تھے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پرانے احمدیوں کی بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیوں کی اہمیت کو بجھتی ہے لیکن اگر نئے آنے والوں کو اس کی عادت نہ ڈالی اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے لیت و لعل سے کام لیتے رہے تو پھر جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوفناک انذار فرمایا ہے.پس اس انعام کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی جو توفیق دی ہے اس کا شکر بجالائیں اور آپ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی کرنے سے کبھی دریغ نہ کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کا پیغام تو پھیلنا ہی ہے یہ تقدیر الہی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں لیکن اگر تم نے کنجوسی کی تو اپنی کنجوسی کی وجہ سے تم لوگ ختم ہو جاؤ گے جس طرح کہ حدیث میں ذکر بھی ہے اور لوگ آجائیں گے.جیسا کہ فرمایا ہے وَمَنْ يُبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهِ (محمد : 39) اور جو کوئی بجل

Page 607

600 حضرت خلیق اس ال اس د الله: اس احساس ا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے کام لے وہ اپنی جان کے متعلق بخل سے کام لیتا ہے.پھر فرمایا وَاِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَـومـ غَيْرَكُم ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمُ (محمد: 39) کہ اگر تم پھر جاؤ تو وہ تمہاری جگہ ایک اور قوم کو بدل کر لے کر آئے گا پھر وہ تمہاری طرح سستی کرنے والی نہیں ہوگی.پس یہ مالی قربانیاں کوئی معمولی چیز نہیں ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے.ایمان مضبوط کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہونے کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے.صحابہ کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پھل لگائے جس کا روایات میں کثرت سے ذکر آتا ہے.شروع میں یہی صحابہ جو تھے بڑے غریب اور کمزور لوگ تھے، مزدوریاں کیا کرتے تھے.لیکن جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی مالی تحریک ہوتی تھی تو مزدوریاں کر کے اس میں چندہ ادا کیا کرتے تھے.حسب توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کیا کرتے تھے تا کہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب پانے والے بنیں، ان برکات سے فیضیاب ہونے والے ہوں جو مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہیں، جن کے وعدے کئے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا وہاں مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مُد اناج وغیرہ ملتا تو اس میں سے صدقہ کرتا.تھوڑی سی بھی کوئی چیز ملتی تو صدقہ کرتا.اور اب ان کا یہ حال ہے انہی لوگوں کا جوسب مزدوری کرتے تھے.کہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ہے.(بخارى كتاب الاجارة ـ باب من آجر نفسه ليحمل على ظهره ثم تصدق به.پس دیکھیں کہ ابتدائی حالت کیا تھی اور آخری حالت کیا ہے اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان پر فضل فرمائے.ان کی قربانیوں کو کس طرح نوازا.چندوں کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صد ہارو پیہ خرچ کریں اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے

Page 608

601 س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے.سومردانہ ہمت سے امداد کے لئے بلا توقف قدم اٹھانا چاہئے.جو ہمیں مدد دیتے ہیں آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گئے.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 308 اشتہار 4 اکتوبر 1899 ء) پس خدا کی مدددیکھنے کے لئے ہر ایک کو اپنی قربانیوں کے معیار بلند کرنے چاہئیں.پھر آپ نے فرمایا: تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اُسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 613 اشتہار ستمبر 1903ء) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام فرماتے ہیں کہ: ” میرے پیارے دوستو ! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک کچی معرفت آپ صاحبوں کی

Page 609

602 حضرت لعليم الي انا ما د الله تعالیٰ بنصرہ العزیز زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے.اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سوئیں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت ومقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے.اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 516) آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، اس ملک میں بھی اور پاکستان میں بھی اس کے پھیلانے کا کام وقف جدید کے سپر د ہے.پس ہر احمدی کو اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانی کا فعال حصہ بننا چاہئے.چاہے نئے آنے والے ہیں یا پرانے احمدی ہیں.اگر مالی قربانیوں کی روح پیدا نہیں ہوتی تو ایمان کی جو مضبوطی ہے وہ پیدا نہیں ہوتی.کوئی یہ نہ دیکھے کہ معمولی توفیق ہے، غریب آدمی ہوں اس رقم سے کیا فائدہ ہوگا.اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے جذبے اور خلوص سے دیئے ہوئے ایک پیسے کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے.ایسے ہی یہ قربانی کا ذکر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس طرح بھی محفوظ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک معذور اور غریب آدمی تھے حضرت حافظ معین الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ روایت میں آتا ہے ان کی طبیعت میں بڑا جوش تھا کہ وہ سلسلے کی خدمت کے لئے قربانی کریں حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ تھی کہ نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے تھے اور بوجہ معذور ہونے کے کوئی کام بھی نہیں کر سکتے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک پرانا خادم سمجھ کر لوگ محبت و اخلاص کے ساتھ کچھ نہ کچھ تحفہ وغیرہ ان کو دے دیا کرتے تھے.لیکن حافظ صاحب کا ہمیشہ یہ اصول تھا کہ وہ اس روپیہ کو جو ان کو اس طرح لوگوں کی طرف سے تحفہ کے طور پر ملتا تھا ، کبھی اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کو سلسلے کی خدمت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کر دیا کرتے تھے.اور کبھی کوئی ایسی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے نہیں ہوئی جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو چاہے وہ ایک پیسہ ڈال کر حصہ لیتے.کیونکہ جو ذاتی حیثیت تھی اس حیثیت سے جو بھی وہ قربانی کرتے تھے یہ کوئی معمولی قربانی نہیں تھی چاہے وہ پیسے کی قربانی تھی.اس وقت حضرت مسیح

Page 610

603 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کئی دفعہ حافظ صاحب کی خدمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا تھا کہ حافظ صاحب بھوکے رہ کر بھی یہ خدمت کیا کرتے تھے.اصحاب احمد.جلد 13 صفحہ 293) پھر ایک اور دو بزرگوں کا نقشہ ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمایا ہے.فرماتے ہیں: دو میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں.وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنے یا چار آنے روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندے میں شریک ہیں.ان کے دوست میاں عبد العزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا مگر یہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.(ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 313-314) جہاں یہ مثالیں غریب اور نئے آنے والے احمدیوں کو توجہ دلانے کے لئے ہیں وہاں جو اچھے کھاتے پیتے احمدی ہیں ان کے لئے بھی سوچ کا مقام ہے، ان کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ کیا وہ جو مالی قربانی کر رہے ہیں کبھی انہیں یہ احساس ہوا کہ واقعی یہ قربانی ہے.غریب آدمی تو بیچارہ اپنا پیٹ کاٹ کر چندہ دیتا ہے لیکن امراء اس نسبت سے دیتے ہیں کہ نہیں.اور اگر چندہ دینے کے بعد بھی کبھی احساس نہیں پیدا ہوا کہ کسی قسم کی قربانی کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان میں بہت گنجائش موجود ہے.جیسے میں نے بتایا کہ وقف جدید کی تحریک حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع فرمائی تھی اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: دومیں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ کریں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگا ئیں اور کوشش کریں کہ کوئی فرد جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندے میں حصہ نہ لئے“.الفضل ربوہ 17 فروری 1960ء) پس گزشتہ چند سالوں میں بھارت اور پاکستان میں، گو تھوڑی تعداد میں نئے آئے ہیں مگر افریقہ

Page 611

604 حضرت عليها اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز میں بڑی بھاری تعداد جماعت میں شامل ہوئی ہے.اگر آپ ان لوگوں کو جماعت کا فعال حصہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ لوگ خود اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جماعت کا فعال حصہ بننا چاہتے ہیں تو پھر کوشش کر کے مالی قربانیوں میں حصہ ڈالیں اور اس کے لئے ابتداء میں وقف جدید میں ہی چاہے حصہ لیں.پھر آہستہ آہستہ دو تین سال میں جب عادت پڑ جائے گی تو باقی مالی نظام میں بھی شامل ہو جائیں گے اور یہ اس لئے ضروری ہے تا کہ ایمان میں بھی مضبوطی پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو.پھر حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جو منصوبہ تھا کہ اس تحریک سے کیا کیا کام لینے ہیں، کس طرح پھیلانا ہے، ایک موقع پر آپ نے اس کا ذکر فرمایا اور وہی پروگرام اب بھارت کو دیا گیا ہے.وقف جدید کے تحت اس وقت تقریباً پونے بارہ سو معلمین اور مبلغین کام کر رہے ہیں.لیکن ابھی بھی میرے نزدیک کافی نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ: پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہماری جماعت کو یا د رکھنا چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا...اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا.اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب میری اس نئی سکیم پر عمل کیا جائے.(الفضل 11 جنوری 1958ء) پھر آپ نے فرمایا کہ: ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیئے جائیں جو اس علاقہ کے لوگوں کے اندرر ہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں ( اور وقف کے کام کرنے والے جو ہیں ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں کہ ایسے مفید کام کریں کہ لوگ متاثر ہوں ) وہ انہیں پڑھائیں بھی اور رشد و اصلاح کا کام بھی کریں.اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلا یا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے.....پس جب تک ہم اس مہا جال کو نہ پھیلائیں گے اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.(الفضل 11 جنوری 1958ء) اگر یہ جال صحیح طرح پھیلا ہوا ہو تو ہم نومبائعین کو بڑی اچھی طرح سنبھال سکتے ہیں.ان کو قربانیوں کا احساس بھی دلا سکتے ہیں اور توجہ بھی دلا سکتے ہیں اور ان کو بڑی آسانی سے نظام کا حصہ بھی بنا سکتے

Page 612

605 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں.پس اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.پھر جہاں لوگ مالی قربانیاں دیں وہاں جو معلمین اور مبلغین ہیں وہ اپنی پوری پوری استعدادوں کو استعمال کریں.یہاں ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی.جیسا کہ میں نے کہا یہ تصور ہماری انتظامیہ کے ذہن میں بھی کئی جگہ پر آ گیا ہے.جماعتی عہد یداران کے اندر بھی موجود ہے کہ ہمارے مربیان کی معلمین کی جو تعداد ہے وہ کافی ہے.یہ بیج نہیں ہے.اب زمانہ ہے کہ ہر گاؤں میں ، ہر قصبہ میں اور ہر شہر میں اور وہاں کی ہر مسجد میں ہمارا مربی اور معلم ہونا چاہئے.اب اس کے لئے بہر حال جماعت کو مالی قربانیاں کرنی پڑیں گی تبھی ہم مہیا کر سکتے ہیں.پھر جماعت کے افراد کو اپنی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اپنے بچوں کی قربانیاں کرنی پڑیں گی کہ ان کو اس کام کے لئے پیش کریں، وقف کریں.اور یہ سب ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر بھی قائم ہوں.ہم نے صرف آدمی نہیں بٹھانے بلکہ تقویٰ پر قائم آدمیوں کی ضرورت ہے.آئندہ سالوں میں انشاء اللہ واقفین نو بھی میدان عمل میں آجائیں گے لیکن جو ان کی تعداد ہے وہ بھی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتے.یہ کام وسیع طور پر ہمیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آدمیوں کی ضرورت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے والے مربیان اور معلمین ہمیں مہیا فرما تار ہے.اب میں کچھ مالی جائزے پیش کرتا ہوں جو گزشتہ سال وقف جدید کی مالی قربانیوں کے تھے.کیونکہ ہم پاؤنڈوں میں Convert کرتے ہیں اور ساری دنیا کے چندے مختلف کرنسیوں میں ہوتے ہیں اس لئے ایک کرنسی بنانے کے لئے کرنسی سٹرلنگ پاؤنڈ میں رکھی جاتی ہے.جور پورٹیں موصول ہوئی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی کل وصولی 21 لاکھ 42 ہزار پاؤنڈ ہوئی جو اللہ کے فضل سے گزشتہ سال کی نسبت دو لاکھ پاؤنڈ زائد ہے.الحمد للہ.اور شامل ہونے والوں کی تعداد 4لاکھ 66 ہزار ہے.میں نے بھارت کو ٹارگٹ دیا تھا کہ اگر وہ کوشش کریں تو پانچ لاکھ شامل کر سکتے ہیں ابھی ان کی یہ کوشش جاری ہے لیکن ابھی تک اسے پورا نہیں کیا.بہر حال اکیاون ہزار نے مخلصین اس وقف جدید کی تحریک میں شامل ہوئے ہیں.پاکستان ، ہندوستان کی تعداد زیادہ قابل ذکر ہے.پھر جرمنی، کینیڈا، نائیجیر یا وغیرہ ہیں.نائیجیریا میں تحریک جدید میں بھی، وقف جدید میں بھی ، مالی قربانیوں کی طرف کافی توجہ پیدا ہو رہی ہے اور ماشاء اللہ کافی آگے بڑھ رہے ہیں.باقی افریقی ممالک کو بھی نیکیوں میں سبقت لے جانے کی روح کے تحت آگے بڑھنا چاہئے خاص طور پر غانا والے بھی اس طرف توجہ کریں.اور اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ ہندوستان میں بھی گو کہ تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن کافی گنجائش موجود ہے کیونکہ ان کی

Page 613

606 حضرت خلیق اس حالا ساید ال تعالى بنصرہ العزیز رپورٹ کے مطابق گو اس وقت جو وقف جدید کی تحریک میں جو شامل ہیں ان کی کل تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار ہے.اور گو اس سال 28 ہزار کا اضافہ ہوا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور پوری طرح کوشش کی جائے تو یہ لاکھوں میں اضافہ ہو سکتا ہے.بہر حال پوری دنیا اس کا بھی انتظار کر رہی ہوتی ہے اب دنیا بھر میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتوں کی رپورٹ یہ ہے.اس میں امریکہ اول ہے پاکستان دوم اور برطانیہ تیسری پوزیشن پر، جرمنی چوتھی پوزیشن پر، کینیڈا پانچویں پر.ہندوستان چھٹی پر ، انڈونیشیا ساتویں پوزیشن پہ حکیم آٹھویں ، آسٹریلیا نویں اور دسویں پر سوئٹزر لینڈ.آسٹریلیا نے بھی اس دفعہ کوشش کی ہے اپنی دسویں پوزیشن سے نویں پر آئے ہیں.پاکستان میں چندہ بالغان اور اطفال کا علیحدہ علیحدہ بھی موازنہ کیا جاتا ہے.اس لحاظ سے بالغان میں اول لاہور، دوم کراچی اور سوئم ربوہ.اور اس میں مجموعی ترتیب کے لحاظ سے جو پہلی دس پوزیشنیں ہیں سیالکوٹ، راولپنڈی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، میر پور خاص، شیخو پورہ، فیصل آباد، سرگودھا، کوئٹہ اور نارووال اضلاع ہیں.پھر اسی طرح دفتر اطفال میں جو پہلی تین پوزیشنیں ہیں.اول کراچی ، دوئم لا ہور ، سوئم ربوہ.اور اس میں بھی جو اضلاع کی پوزیشن یہ ہے اسلام آباد اول، پھر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، شیخو پورہ، راولپنڈی، میر پور خاص، فیصل آباد، سرگودھا، نارووال، کوئٹہ.تو یہ ہے ان کی وصولیوں کی کل پوزیشن.یکم جنوری 2006 ء سے وقف جدید کا نیا سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے شروع ہو چکا ہے.آج اس کا اعلان بھی میں کر رہا ہوں.یہ وقف جدید کا انچاسواں سال ہے.اللہ تعالیٰ اس سال میں پہلے سے بڑھ کر مرات عطا فرمائے.جماعت کے مالی قربانیوں کے معیار بھی بلند ہوں اور واقفین زندگی ، مربیان، معلمین کے تقویٰ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار بھی بلند ہوں اور جماعت کے ہر فرد کو اپنی اہمیت اور ذمہ داری کا احساس بھی ہو اور ہم میں سے ہر ایک، ایک تڑپ کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا پیار سمیٹنے والا ہو اور اس کوشش میں رہے اللہ سب کو اس کی توفیق دے.آج خطبہ لیٹ شروع ہوا تھا.باہر والے لوگ ایم ٹی اے کے انتظار میں بہت جلدی پر یشان ہو جاتے ہیں یہاں کیونکہ بجلی کا مسئلہ رہتا ہے.ایک جزیٹر انہوں نے لگایا تھاوہ خراب ہو گیا تو دوسرا لگایا گیا اس کی صحیح طاقت نہیں تھی.اس وجہ سے ان کے سگنل صحیح نہیں جارہے تھے اس لئے لیٹ ہوا.کیونکہ لوگ مجھے لکھنا شروع کر دیتے ہیں شاید مجھے کچھ ہو گیا ہے.تو یہ میری وجہ نہیں بلکہ بجلی کی خرابی کی وجہ ہے.الفضل انٹر نیشنل لنڈن 27 /جنوری 2006ء)

Page 614

607 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرموده 12 / جنوری 2007 ء بیت الفتوح لندن الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقره:275) آج میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کروں گا.عموماً جنوری کے پہلے ہفتہ میں، پہلے جمعہ میں اس کا اعلان ہوتا ہے، یا بعض دفعہ دسمبر کے آخر میں بھی ہوتا رہا.سفر پر ہونے کی وجہ سے میں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ واپس جا کر انشاء اللہ اعلان ہوگا.اللہ تعالیٰ آج توفیق دے رہا ہے.وقف جدید کی تحریک بھی جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاری کردہ تحریک ہے جس کو 1957ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمایا تھا اور صرف پاکستان کے احمدیوں کے لئے یہ تحریک تھی.پاکستان سے باہر کے احمدیوں میں سے اگر کوئی اپنی مرضی سے اس میں حصہ لینا چاہتا تھا تو لے لیتا تھا.خاص طور پر اس بارے میں تحریک نہیں کی جاتی تھی کہ وقف جدید کا چندہ دیا جائے.اُس وقت جب یہ جاری کی گئی تو حضرت مصلح موعود کی نظر میں پاکستان کی جماعتوں کے لئے دو خاص مقاصد تھے.آپ نے جب یہ وقف جدید کی انجمن بنائی تو اس میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو مبر مقرر فرمایا اور آپ کو جو ہدایات دیں وہ خاص طور دو باتوں پر زور دینے کے لئے تھیں.ایک تو یہ کہ پاکستان کی دیہاتی جماعتوں کی تربیت کی طرف توجہ دی جائے جس میں کافی کمزوری ہے اور دوسرے ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کا کام.خاص طور پر سندھ کے علاقہ میں بہت بڑی تعداد ہندوؤں کی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کو بڑی فکر تھی کہ دیہاتی جماعتوں میں تربیت کی بہت کمی ہے.خاص طور پر بچوں میں اور اکثریت جماعت کے افراد کی دیہاتوں میں رہنے والی ہے اور اگر ان کی تربیت میں کمی ہوگی تو پھر آئندہ بہت ساری خرابیاں پیدا ہوجائیں گی.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب مجھے وقف جدید کامبر مقرر فر مایا اور فرمایا کہ سارا جائزہ لو کہ تربیت کی کیا کیا صورتحال ہے.تو کہتے ہیں کہ جب میں نے جائزہ لیا تو تربیت اور دینی معلومات کے بارے میں انتہائی بھیا نک صورت حال سامنے آئی کہ بچوں کو سادہ نماز بھی نہیں آتی تھی اور تلفظ کی غلطیاں اتنی تھیں کہ کلمہ بھی صحیح طرح نہیں پڑھ

Page 615

608 حضرت عليه اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز سکتے تھے، حالانکہ کلمہ بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مسلمان مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا.بہر حال اُس وقت پاکستان میں ان معلمین کے ذریعہ جن کو معمولی ابتدائی ٹریننگ دے کر میدان عمل میں بھیج دیا جاتا تھا وقف جدید نے ان دوا ہم کاموں کو سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت اور قربانی کے جذبے سے اس کام کو سرانجام دیا.سندھ میں ہندوؤں کے علاقے میں تبلیغ کا کام ہوا.یہ بھی بہت مشکل کام تھا.یہ ہندو جو تھروں میں وہاں کے رہنے والے تھے.وہاں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے مزدوری کے لئے سندھ کے آباد علاقہ میں آیا کرتے تھے تو یہاں آ کر مسلمان زمینداروں کی بدسلوکی کی وجہ سے وہ اسلام کے نام سے بھی گھبراتے تھے.غربت بھی ان کی عروج پر تھی.بڑی بڑی زمینیں تھیں، پانی نہیں تھا اس لئے کچھ کر نہیں سکتے تھے.آمد نہیں تھی اور اسی غربت کی وجہ سے مسلمان زمیندار جن کے پاس یہ کام کرتے تھے انہیں تنگ کیا کرتے تھے اور ان سے بیگار بھی لیتے تھے.یا اتنی معمولی رقم دیتے تھے کہ وہ بیگار کے برابر ہی تھی.اسی طرح عیسائی مشنوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو ان کی غربت کا فائدہ اٹھا کر عیسائیوں نے بھی ان کو امداد دینی شروع کی اور اس کے ساتھ تبلیغ کر کے لالچ دے کر عیسائیت کی طرف ان ہندوؤں کو مائل کرنا شروع کیا تو یہ ایک بہت بڑا کام تھا جو اس زمانے میں وقف جدید نے کیا اور اب تک کر رہی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور بڑے سالوں کی کوششوں کے بعد اس علاقے میں احمدیت کا نفوذ ہونا شروع ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جو اُس وقت وقف جدید کے ناظم ارشاد تھے بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں کامیابیاں ہونی شروع ہوئیں تو مولویوں نے ہندوؤں کے پاس جا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم یہ کیا غضب کر رہے ہو، احمدی ہونے سے تو بہتر ہے ہندو ہی رہو.ایک خدا کا نام پکارنے سے تو بہتر ہے کہ مشرک ہی رہو.یہ مسلمانوں کا حال ہے.تو بہر حال ان سب مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور بڑا فضل فرمایا، تھر کے علاقے مٹھی اور نگر پارکر وغیرہ میں، آگے بھی جماعتیں قائم ہونا شروع ر ہوئیں ، ماشاء اللہ اخلاص میں بھی بڑھیں، ان میں سے واقف زندگی بھی بنے اور اپنے لوگوں میں تبلیغ کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو متعارف کروایا، اس کا پیغام پہنچاتے رہے.جب ربوہ میں جلسے ہوتے تھے تو جلسے پر یہ لوگ ربوہ آیا کرتے تھے.میں نے دیکھا ہے کہ انتہائی مخلص اور بڑے اخلاص و وفا میں ڈوبے ہوئے لوگ تھے.اب تو ماشاء اللہ ان لوگوں کی انگلی نسلیں بھی احمدیت کی گود میں پلی بڑھی ہیں اور اخلاص میں بڑھی ہوئی ہیں، بڑی مخلص ہیں.شروع زمانے میں وسائل کی کمی کی وجہ سے وقف جدید کے

Page 616

معلمین 609 حضرت حلال است حال اس ادا الا عالی بنصرہ العزیز ن جنہوں نے میدان عمل میں کام کیا وہ بڑی تکلیف میں وقت گزارا کرتے تھے.ان علاقوں میں طبی امداد کی ، میڈیکل ایڈ(Medical Aid) کی سہولتیں بھی نہیں تھیں.اس لئے اپنے لئے بھی اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کے لئے بھی کچھ دوائیاں، ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی وغیرہ ساتھ رکھا کرتے تھے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں موبائل ڈسپنسری ہے، دیہاتوں میں جاتی ہے، میڈیکل کیمپ بھی لگتے ہیں.با قاعدہ کوالیفائڈ(Qualified) ڈاکٹر وہاں جاتے ہیں.اسی طرح جماعت نے مٹھی میں ایک بہت بڑا ہسپتال بنایا ہے.اس میں آنکھوں کا ایک ونگ (Wing) بھی ہے.تو وقف جدید کی تحریک میں پاکستان کے احمدیوں نے اپنی تربیت اور تبلیغ کے لئے اُس زمانے میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں اور اللہ کے فضل سے اب تک کر رہے ہیں اور کام میں بھی اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے اور کام بہت آگے بڑھ چکا ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح جماعت پر فضل فرمارہا ہے یہ تو بڑھتا ہی رہنا ہے.یہاں ایک بات جو میں اس خطبہ کے ذریعہ سے سندھ کے علاقے کے احمدی زمینداروں کو کہنا چاہتا ہوں اور اسی بات پہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع " نے بھی توجہ دلائی تھی کہ یہ جو ہندو اس علاقے میں رہنے والے ہیں یا ان میں سے جو مسلمان ہو چکے ہیں، بڑے غریب لوگ ہیں.وہ اس غربت کی وجہ سے سندھ کے آباد علاقے میں جہاں پانی کی سہولت ہے مزدوری کی غرض سے آتے ہیں اور بڑی محنت سے مزدوری کرتے ہیں.ان کے ساتھ یہ جو احمدی زمیندار ہیں یہ حسن سلوک کیا کریں.یہ پیار ہی ہے جو ان لوگوں کو مزید قریب لائے گا اور اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدیوں کی قربانیوں کو انشاء اللہ ، پھل عطا فرمائے گا.اس لئے اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے.بہر حال یہ مختصر پس منظر، یہ حالات میں نے اس لئے بتائے ہیں تا کہ نئی نسل کے لوگوں کو اور نئے آنے والوں کو بھی اس تحریک کا مختصر تعارف ہو جائے کیونکہ اب تو وقف جدید کی یہ تحریک تمام دنیا میں جاری ہے، لوگ اس کے چندے کی ادائیگی کرتے ہیں.جہاں تک پاکستان کا سوال ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستانی احمدیوں نے اپنے اخراجات تو آپ سنبھالے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے.لیکن 1985ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے وقف جدید کی تحریک کو، یعنی مالی قربانی کی تحریک کو ساری دنیا پہ پھیلا دیا ، تا کہ دنیا میں جو احمدی آباد ہیں ، خاص طور پر یورپ اور امریکہ وغیرہ میں، ان کے چندوں سے ہندوستان میں بھی وقف جدید کے نظام کو فعال کیا جائے اور وہاں زیادہ سے زیادہ تربیت و تبلیغ کا کام کیا جائے.اور جس علاقے میں خلافت ثانیہ کے دور میں کسی زمانے میں ٹھندھی کی تحریک چلی تھی اور جس کے توڑ کے لئے جماعت نے اس وقت بڑے عظیم کام کئے تھے، بڑی قربانیاں دی تھیں، اس علاقے میں رہ کر

Page 617

610 حضرت عليها اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز تبلیغ کی تھی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع " نے 1985ء میں فرمایا تھا کہ اس علاقے میں دوبارہ تشویشناک صورتحال ہے اس لئے ہندوستان کی جماعتوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور وسیع منصوبہ بندی کرنی چاہئے.اور اخراجات کے لئے آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ باہر سے رقم آ جائے گی.اس لئے پھر جیسا کہ میں نے کہا باہر کی جماعتوں میں بھی وقف جدید کی یہ تحریک جاری کی گئی تاکہ باہر کی جماعتیں بھی اس نیک کام میں ہندوستان کی جماعتوں کی مدد کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے باہر کی جماعتیں اس تحریک میں بھی مالی قربانی کے لئے لبیک کہنے والی بنیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال وقف جدید میں بھی باقی چندوں کی طرح اضافہ ہو رہا ہے.جوں جوں اللہ تعالیٰ کام میں وسعت دے رہا ہے، جتنا جتنا کام پھیل رہا ہے، اخراجات بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ وسائل بھی مہیا فرما رہا ہے.لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جماعت کے بڑی تیزی سے ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں اور اس لحاظ سے ضروریات بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرما رہا ہے.ضروریات پوری ہوتی ہیں.لیکن ہمیں اس طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم بھی ان مالی قربانیوں میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت پر بھی انفرادی طور پر بہت فضل ہورہے ہیں.اس لئے ہمیشہ کی طرح اپنی قربانیوں کی طرف بھی خاص توجہ رکھیں تا کہ جو کمزور جماعتیں ہیں ہم ان کی مدد کر سکیں.ہندوستان کی نئی جماعتیں بھی ہیں اور افریقہ کی جماعتیں بھی ہیں جو بہت معمولی مالی وسعت رکھتی ہیں.گو کہ قربانی کی کوشش کرتی ہیں لیکن جتنی بھی ان کی وسعت ہے اس کے لحاظ سے، اپنے حالات کے لحاظ سے.تو ان کی مدد کرنے کے لئے تربیت و تبلیغ کے لئے ، ان کی قربانیوں میں جو کمی رہ گئی ہے، اس کو پورا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اس لئے بیرونی جماعتیں یا ان مغربی ملکوں کی جماعتیں جن کی کرنسی مضبوط ہے، انہیں خدمت دین اور دین کی مدد کے جذبے کے تحت ہمیشہ قدم آگے بڑھاتے چلے جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کرنے والوں کو اپنے فضلوں کو حاصل کرنے والا بتایا ہے.جو آیت میں نے تلاوت کی اس میں بھی یہی فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رات اور دن اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا جواجر ہے وہ میرے پاس ہے اور جس کو میں نے اجر دینا ہے اس کو اس بات کا خوف بھی نہیں ہونا چاہئے کہ چندے دے کر ہمارا کیا بنے گا، ہماری اور مالی ضروریات ہیں.یہ خیال بھی تمہیں کبھی نہیں آنا چاہئے کہ مالی قربانیوں سے تمہارے مالوں میں کچھ کی ہوگی.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میری خاطر قربانیاں دیتے ہیں ،سات

Page 618

611 حضرت لعليم الي انا ما د الله تعالیٰ بنصرہ العزیز سو گنا تک بڑھا کر بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر دیتا ہوں.پس کسی غم اور کسی خوف کا تو سوال ہی نہیں ہے، ہمیشہ ہر احمدی کو مالی قربانیوں میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے.پس اللہ تعالیٰ سے محبت اور رسول سے محبت کا تقاضا ہے کہ قربانی میں ہمارے قدم ہمیشہ آگے بڑھتے رہیں.اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہم شامل ہوئے ہیں تو اس محبت اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ اصلاح اور تربیت کے لئے جب مالی قربانی کی ضرورت پڑے تو ہر احمدی ہمیشہ اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے قربانی میں آگے سے آگے بڑھتا ر ہے.اسی طرح جو مختلف ملکوں کے نو مبائعین ہیں انہیں بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہماری ضرورتیں باہر کی جماعتیں پوری کریں گی.ہر جماعت نے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہے تا کہ تربیت و تبلیغ کے دوسرے منصوبوں پر توجہ دی جائے.جماعت کی ترقی کے دوسرے منصوبوں پر توجہ دی جائے جن کے لئے بہت سے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے.آج کل کے اس ترقی یافتہ دور میں جب ایک طرف ایجادات کی ترقی ہے تو ساتھ ہی اخلاقی گراوٹ کی بھی انتہا ہو چکی ہے.اپنی نسلوں کو اس سے بچانے اور دنیا کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے، رقم کی ضرورت ہوتی ہے.جس طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس وقت محسوس کیا تھا کہ تربیت کی بہت ضرورت ہے، آج کل بھی کافی تعداد کے لئے اور جونو مبائعین آرہے ہیں ان کے لئے جس وسیع پیمانے پر ہمیں منصوبہ بندی کرنی چاہئے وہ ہم نہیں کر سکتے.اس میں بہت سی وجوہات ہیں اور ایک بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی بھی ہے.گو کہ ہم جتنا کام پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ کام پورا کرتا ہے.لیکن جب وہاں تک پہنچتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ اس سے زیادہ بھی کر سکتے تھے.اگر ہر جگہ معلم بٹھا ئیں اور بہت سارے افریقین ممالک ہیں ، ہندوستان کی بعض جماعتیں ہیں، جہاں بجلی کا انتظام نہیں ہے وہاں بجلی کا انتظام کر کے ایم ٹی اے مہیا کریں جو ایک تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اسی طرح کی اور منصوبہ بندی کریں تو اس کے لئے بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوشش کرتی ہے کہ کم از کم وسائل کو زیر استعمال لا کر زیادہ سے

Page 619

612 حضرت خلیق اس ال اس د الله: ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز زیادہ استفادہ کیا جائے.یہ معاشیات کا سادہ اصول ہے.اور دوسری دنیا میں تو پتہ نہیں اس پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں لیکن جماعت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے.جو بھی جماعتی عہد یدار منصوبہ بندی کرنے والے یا کام کرنے والے یا رقم خرچ کرنے والے مقرر کئے گئے ہوں ان کو ہمیشہ اس کے مطابق سوچنا چاہئے اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے.بعض دفعہ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ جو ذمہ دار افراد ہیں وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کریں کہ جماعت کا ایک ایک پیسہ با مقصد خرچ ہونا چاہئے.جماعت میں اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے جو بڑی قربانی کرتے ہوئے چندے دیتے ہیں اس لئے ہر سطح پر نظام جماعت کو اخراجات کے بارے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ ہر پیسہ جو خرچ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی پر خرچ ہو.جب تک ہم اس روح کے ساتھ اپنے اخراجات کرتے رہیں گے، ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالتا رہے گا انشاء اللہ تعالی.ابھی تک جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ جہاں کسی کام پر دوسروں کا ایک ہزار خرچ ہو رہا ہو وہاں جماعت کو ایک سو خرچ کر کے وہ مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں.تو جب تک اس طرح جماعت احتیاط کے ساتھ خرچ کرتی رہے گی، برکت بھی پڑتی رہے گی.جہاں قربانیاں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی قربانیاں تمام قسم کی بدظنیوں سے بالا ہوکر پیش کریں گے اور جماعت کے افراد اسی سوچ کے ساتھ کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ خرچ کرنے والے احتیاط سے خرچ کرنے والے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.بعض لوگ ایسے بھی ہیں، چند ایک ہی ہیں، جو مالی لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں لیکن چندے اس معیار کے نہیں دیتے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ جماعت کے پاس تو بہت پیسہ ہے اس لئے جماعت کو چندوں کی ضرورت نہیں ہے، جو ہم دے رہے ہیں ٹھیک ہے.جماعت کے پاس بہت پیسہ ہے یا نہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پیسے میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ برکت بہت زیادہ ہے.اس لئے معترضین اور مخالفین کو بھی یہ بہت نظر آتا ہے.معترضین تو شاید اپنی بچت کے لئے کرتے ہیں اور مخالفین کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی کئی گنا کر کے دکھا رہا ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.برکت ڈالتا ہے اور بے انتہا برکت ڈالتا ہے.میں نے یہاں بعض اپنوں کا ذکر کیا تھا جو کہتے ہیں کہ پیسہ بہت ہے اس لئے یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے اور خودان کے چندوں کے معیار اتنے نہیں ہوتے.عموماً جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منصوبہ بندی سے خرچ کرتی ہے.اس لئے ایسی باتیں کرنے والے بے فکر رہیں اور چندہ نہ دینے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے اپنے فرائض پورے

Page 620

613 حضرت عليها اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز کریں.چندوں کی تحریک تو ہمیشہ جماعت میں ہوگی ہوئی اور ہوتی رہے گی کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہمیں بتایا ہے.دنیا کی تمام منصوبہ بندیوں میں مال کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا بہت زیادہ دخل ہے اور یہ منصوبہ بندی جس میں مال دین کی مضبوطی کے لئے خرچ ہو رہا ہو اور جس کے خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دے رہا ہو کہ تمہارے خوف بھی دور ہوں گے اور تمہارے غم بھی دور ہوں گے اور اجر بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اتنا اجر ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں تو اس سے زیادہ مال کا اور کیا بہتر استعمال ہوسکتا ہے.ہر دینے والا جب اس نیت سے دیتا ہے کہ میں دین کی خاطر دے رہا ہوں تو اس نے اپنا ثواب لے لیا.کس طرح خرچ کیا جارہا ہے، اول تو صحیح طریقے سے خرچ ہوتا ہے.اور اگر کہیں تھوڑی بہت کمزوری ہے بھی تو چندہ دینے والے کو بہر حال ثواب مل گیا.اس لئے ہمیشہ ہر وہ احمدی جس کے دل میں کبھی انقباض پیدا ہو وہ اپنے اس انقباض کو دور کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس لگا کر وصول کرتی ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادے پر چھوڑتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ بندے کی مرضی پر چھوڑ کر پھر اس کا اجر بھی بے حساب دیتا ہے.پابند نہیں کر رہا کہ اتنا ضرور دینا ہے.چھوڑ بھی بندے کی مرضی پر رہا ہے، ساتھ فرما رہا ہے جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر بھی دوں گا.صرف یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیت نیک ہونی چاہئے.اس سے زیادہ سستا اور عمدہ سودا اور کیا ہوسکتا ہے.ہندوستان کی جماعتوں کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو رقمیں تو مہیا ہو جاتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا تربیتی اور تبلیغی پروگراموں میں گنجائش موجود ہے اس لئے جتنا وہاں کام ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہو رہا.اس لئے اس طرف پھر ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ توجہ دیں.گزشتہ سال جب قادیان گئے تو توجہ دلانے پر بہتری کی طرف ہل جل تو پیدا ہوئی ہے.مالی قربانی کے جو انہوں نے اعداد و شمار بھجوائے ہیں ان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تربیت کی طرف توجہ ہے اور اسی وجہ سے پھر مالی قربانی کی طرف بھی لوگوں کی توجہ ہوئی ہے.وقف جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کی تعداد میں اس سال انہوں نے 4 ہزار کا اضافہ کیا ہے.لیکن یہ بات شاید پہلی دفعہ ہے کہ جو بجٹ انہوں نے بنایا تھا اور پچھلے سال سے بڑھ کر بنایا تھا اس بجٹ سے انہوں نے نو مبائعین کے علاقے میں دو لاکھ 30 ہزار زائد وصولی بھی کر لی ہے اور فی کس ادائیگی میں بھی اضافہ ہوا ہے.چاہے معمولی اضافہ ہے لیکن ان کے لحاظ سے یہ معمولی اضافہ بھی بہت

Page 621

614 حضرت خلیق اس ال اس د الله: اساس س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہے.گو پانچ ساڑھے پانچ روپے کے قریب اضافہ ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ چندہ دینے والوں کی اکثریت نومبائعین یا چند سال پہلے کے بیعت کنندگان کی ہے.پس اس طرف مزید توجہ کریں.ہندوستان کی جماعتیں ابھی تک اپنے اخراجات کا یعنی وقف جدید پر ہونے والے اخراجات کا تقریباً تین فیصد اپنے وسائل سے پورا کر رہی ہیں.یہ مختصر کوائف جو میں نے دیئے ہیں یہ ہندوستان کی جماعتوں کو توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں.اس طرح جو بیعتوں کی تعداد ہے اس حساب سے بھی شمولیت میں بہت گنجائش ہے.اگلے سال ہندوستان کو بھی اپنے لئے کم از کم شامل ہونے والوں کا 5 لاکھ کا ٹارگٹ رکھنا چاہئے.مجھے امید ہے انشاء اللہ دعاؤں اور توجہ سے اس کام میں پڑیں گے تو کوئی مشکل نظر نہیں آئے گی.جیسا کہ میں نے بتایا کہ حضرت خلیلہ انبیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے 1985ء میں تحریک تمام دنیا کے لئے کر دی تھی اور مقصد ہندوستان کی جماعتوں کی مدد کرنا تھا.اعداد و شمار سے آپ دیکھ چکے ہیں کہ ہندوستان اپنے وسائل سے فی الحال تین فیصد اخراجات پورے کر رہا ہے اور 97 فیصد اخراجات باہر کی دنیا پورے کرتی ہے اور اس میں یورپ اور امریکہ کے بڑے ممالک ہیں.اس سال یورپ اور امریکہ کے ممالک کی وقف جدید میں کل وصولی بمشکل ہندوستان کے خرچ پورے کر رہی ہے.اور افریقہ کی جماعتوں کے بہت سارے اخراجات دوسری مدات سے پورے کئے جاتے ہیں.تو ان ممالک کو جو مغرب کے ممالک ہیں بھارت اور افریقہ کے وقف جدید کے اخراجات پورے کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے.اس سوچ کے ساتھ قربانی ہونی چاہئے.یہاں گنجائش موجود ہے یہ میں نے جائزہ لیا ہے.میں ایک دفعہ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ عموماً یہاں دوسرے اخراجات اور منصوبوں کا عذر کیا جاتا ہے کہ وہاں زیادہ خرچ ہو گیا ، اور منصوبے شروع ہو گئے اس لئے اس میں اتنی کمی رہ گئی.تو یہ جو منصوبے ہیں یا دوسرے اخراجات ہیں، یہ پاکستان میں بھی ہیں لیکن وہاں قربانی کے معیار بڑھ رہے ہیں.جیسے سپرنگ کو جتنا زیادہ دباؤ اتنازیادہ وہ اچھل کر باہر آتا ہے اور جو چیز اس پر پڑے اس کو اچھال کر پھینکتا ہے.تو احمدیوں کے حالات جتنے بھی وہاں خراب ہوتے ہیں اتنا زیادہ اچھل کر ان کی قربانیوں کے معیار بڑھ رہے ہیں اور باہر آ رہے ہیں.اور دوسری دنیا میں بھی جہاں جہاں بھی کوئی سختی جماعت پر آئی وہاں قربانیوں کے معیار بڑھے ہیں.تو مغربی دنیا اس انتظار میں نہ رہیں کہ ضرور حالات خراب ہوں تو ہم نے قربانیاں بڑھانی ہیں بلکہ اپنے ان بھائیوں کے لئے قربانیوں کی طرف مزید توجہ دیں.

Page 622

615 حضرت علیه مسح الخمس ايد العالی بنصرہ العزیز ہاں تو میں مغربی ممالک کی گنجائش کی بات کر رہا تھا.تو سب سے پہلے میں کینیڈا کو لیتا ہوں.یہاں بھی اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے اور شاید 20-25 ہزار سے زیادہ تعداد ہے.ان پاکستانی احمدیوں کو جو وہاں رہتے ہیں میں کہتا ہوں کہ آپ پر ہندوستان کا بہت حق ہے.اکثر کی جڑیں وہیں سے شروع ہوتی ہیں.کینیڈا میں وقف جدید میں شامل افراد کی تعداد صرف 12,862 ہے اور فی کس 40 کینیڈین ڈالرز ہے جبکہ تعداد اور قربانی کی استعداد دونوں میں یہاں پہ گنجائش موجود ہے تو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.پھر جرمنی ہے، جس کی فی کس قربانی 15 یورو ہے.شاملین ماشاء اللہ اچھی تعداد میں ہیں،22 ہزار 500 کچھ.بہر حال جرمنی میں بھی اکثریت پاکستانی ہے.15 یورو میرے لحاظ سے کم ہے.اس طرف ان کو توجہ کرنی چاہئے.امریکہ ہے ، ان کی ادائیگی ماشاء اللہ اچھی ہے 137 ڈالرز فی کس.لیکن وقف جدید میں چندہ دینے کی تعداد میں جو لوگ شامل ہیں ان میں اضافہ کی گنجائش موجود ہے.اور اب UK والے نہ سمجھیں کہ ان کو بھول گیا ہوں ، پیش کر دیتا ہوں.تحریک جدید کے جو بعض اعداد و شمار میں نے پیش کئے تھے اس کے بعد کچھ ہل جل ہوئی تھی بعض جماعتوں میں بھی اور مرکزی طور پر بھی.تو یہاں بھی وقف جدید کا چندہ فی کس 34 پاؤنڈ ہے.اگر اس طرح لیں تو مہینے کا تقریباً پونے تین پاؤنڈز.اور میرا خیال ہے کہ آپ جو باہر جاتے ہیں تو ایک وقت میں اس سے زیادہ کے چپس وغیرہ اور دوسری چیزیں اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں.اس میں شمولیت کی بھی کافی گنجائش ہے.12024 کی تعداد میں شمولیت.اس سے اور زیادہ تعداد بڑھ سکتی ہے.میں نے جو ریجنز کا جائزہ لیا ہے اس میں سکاٹ لینڈ ریجن کی شمولیت ما شاء اللہ سب سے اچھی ہے تقریباً 81 فیصد.اور اس کے بعد ساؤتھ ویسٹ ریجن ہے جس میں کارنوال وغیرہ شامل ہیں اس کی 80 فیصد شمولیت ہے.نارتھ ایسٹ ریجن کی 78 سے اوپر ہے.لیکن یہاں نارتھ ایسٹ میں باقی تو ٹھیک ہے سلنتھروپ والے اکثر ڈاکٹر ہیں ان کی شمولیت بہت کم ہے.اور سب سے کم ساؤتھ ریجن میں 54 فیصد شمولیت ہے.تو شمولیت کے لحاظ سے کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد وقف جدید میں شامل ہو اور اس میں بچوں کو شامل کریں.آگے کوائف میں دوبارہ بتاؤں گا بلکہ یہاں میں بتا ہی دیتا ہوں اس سے متعلقہ ہی ہیں.تحریک جدید میں میں نے بریڈ فورڈ کو توجہ دلائی ان کے بڑے خط آئے تھے کہ ہم وقف جدید میں اس دفعہ یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے.تو ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی شمولیت

Page 623

616 حضرت خلیة المسح الامس ایه الله: س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میں بھی لندن مسجد کا جو علاقہ ہے وہ فی کس ادائیگی کے لحاظ سے نمبر ایک پر ہی ہے.62 پاؤنڈز سے اوپر تقریباً 63 پاؤنڈز فی کس ہے.اور بریڈ فورڈ جنہوں نے بہت دعوے کئے تھے وہ 38 پاؤنڈز پر ہیں.اسی طرح برمنگھم بہت ہی نیچے ہے وہاں اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں، بہت بڑھ سکتے ہیں، مانچسٹر میں بڑھ سکتے ہیں.دوسری جماعت جو اپنے لحاظ سے اچھی قربانی کرنے والی ہے وہ ووسٹر پارک ہے.تو یہ اور ہندوستان کے کوائف میں نے اس لئے بتائے ہیں کہ آپ لوگوں کو ضرورت کا بھی اندازہ ہو جائے اور اپنی قربانی کا بھی.ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنا بوجھ نہ ڈالو جو برداشت نہ ہو سکے اور عفو پر عمل کرو یعنی اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھو.ان کو پورا کرو.لیکن ضروریات کی بھی کوئی حد مقرر ہونی چاہئے اس کے بھی معیار ہونے چاہئیں.ورنہ اس زمانے میں جتنا دنیاوی چیزوں کی خواہش کرتے جائیں گے، خواہشیں بڑھتی جائیں گی اور قسم قسم کی جو چیزیں بازار میں دیکھتے ہیں وہ آپ کی خواہشات کو مزید بھڑکاتی ہیں تو اس لحاظ سے بھی دیکھنا چاہئے کہ عضو کی تعریف کیا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمانی حالت کی بہتری کے لئے بھی قربانی کی ضرورت ہے.تو اپنے بچوں میں بھی اس قربانی کی عادت ڈالیں تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو ان کی خواہشات کی جو ترجیحات ہیں ان میں اللہ کی خاطر مالی قربانی سب سے اول نمبر پر ہو.اس سے ایک تو شاملین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور جو عفو کے معیار ہیں وہ ترجیحات بدل جانے سے بدل جائیں گے.جو لوگ بچوں کو بھی جب جیب خرچ دیتے ہیں تو ان کو اس میں سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں.عیدی وغیرہ میں سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں ، ان مغربی ممالک میں میں نے اندازہ لگایا ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ بازار سے کھانا برگر وغیرہ جو ہیں اور بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں اور جو مزے کے لئے کھائے جاتے ہیں ، ضرورت نہیں ہے.اگر مہینے میں صرف دو دفعہ یہ بچا کر وقف جدید کے بچوں کے چندے میں دیں تو اسی سے وصولی میں 25 سے 30 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے.تو وقف جدید کو جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پاکستان میں بچوں کے سپرد کیا تھا.میں بھی شاید پہلے کہہ چکا ہوں نہیں تو اب یہ اعلان کرتا ہوں کہ باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں کے سپر دوقف جدید کی تحریک کرے اور اس کی ان کو عادت ڈالے تو بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ بہت بڑے خرچ پورے کر لے گی اور یہ کوئی بوجھ نہیں ہوگا.جب آپ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سے بچت کرنے کی ان کو عادت ڈالیں گے اسی طرح بڑے بھی کریں اور اگر یہ ہو جائے تو ہندوستان کے اخراجات اور کچھ حد تک افریقہ کے اخراجات بھی پورے کئے جاسکتے ہیں.

Page 624

617 حضرت لعليم المس ام اس داد اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بہر حال اس مختصر تاریخ وقف جدید اور کوائف کے بعد میں مجموعی کوائف بھی بتا دیتا ہوں جس میں ملکوں کی پوزیشن ہوگی اور پاکستان کے شہروں کی پوزیشن بھی.مجموعی طور پر اللہ کے فضل سے جماعت نے 22 لاکھ 25 ہزار پونڈ ز کی قربانی پیش کی ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 83 ہزار پاؤنڈ ز زیادہ رہی ہے.اور اس میں گو کہ مقامی ملکوں کے مطابق قربانیوں کے معیار بڑھے ہیں لیکن پاؤنڈز کے مقابلے میں امریکہ اور پاکستان میں بھی کرنسی کا ریٹ بہت کم ہو گیا ہے.یعنی ان کی کرنسیوں کے معیار کم ہو گئے ہیں.دنیا بھر کی جماعتوں میں ریٹ (Rate) گرنے کے باوجود پاکستان نمبر ایک پہ ہے.امریکہ پہلے نمبر ایک پہ ہوتا تھا.ان کو شاید یا حساس ہو کہ ہماری کرنسی شاید گری ہے اس لئے ہم دوسرے نمبر پر چلے گئے لیکن جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں قربانیوں کے معیار بہت بڑھ گئے ہیں.غریبوں کا جذبہ قربانی جیت گیا ہے.پس پاکستان کے احمدیوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ اس جذبے کو جو آپ میں پیدا ہو گیا ہے کبھی مرنے نہ دیں اور ہر مخالفت کی آندھی اس جذبے کو مزید ابھارنے والی ہوتا کہ آپ کی قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جائیں.تو مجموعی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان نمبر ایک پرہ، امریکہ نمبر دو پر، برطانیہ نمبر تین ہیں یہ انہوں نےMaintain رکھا ہوا ہے.جرمنی نمبر چار پہ، کینیڈا پانچ، ہندوستان چھ، انڈونیشیا سات پیجیم آٹھ ، آسٹریلیا نو اور دسویں نمبر پر سوئٹزرلینڈ ہے.لیکن فرانس بھی تقریبا ان کے قریب ہی ہے، معمولی فرق ہے.یورپین ممالک میں فرانس میں دعوت الی اللہ کا کام بہت اچھا ہورہا ہے اور انہوں نے دُور کے فرنچ جزائر میں جا کر وہاں بھی تبلیغ کی ہے اور اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں.فرانس کو چاہئے کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنے نو مبائعین کو چندوں میں بھی شامل کریں اور ان کو مالی قربانی کی بھی عادت ڈالیں.بلجیم کی بھی چندوں کی طرف توجہ ہو رہی ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والے افراد چار لاکھ 92 ہزار سے اوپر ہیں.اور اس سال 26 ہزار 700 کا اضافہ ہوا ہے.اس میں بہت گنجائش ہے.اگر جماعتیں کوشش کریں تو بہت اضافہ ہو سکتا ہے.پاکستان میں کیونکہ اطفال اور بالغان کے دو مقابلے ہوتے ہیں پہلے بڑوں کا ہے.لاہور کی جماعت اول ہے، کراچی دوم ہے اور ربوہ سوئم ہے.اس کے بعد اضلاع میں راولپنڈی اوّل ہے.پھر سیالکوٹ ، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، میر پور خاص، سرگودھا، گجرات اور بہاولنگر.اور دفتر اطفال میں اول لاہور ہے دوم کراچی، سوئم ربوہ کی پوزیشن ہے.اور اضلاع میں اسلام آباد، سیالکوٹ ،

Page 625

618 حضرت حلال است حال اس ادا الالم عالی بنصرہ العزیز گوجرانوالہ ، راولپنڈی، شیخوپورہ ، فیصل آباد، میر پور خاص، سرگودھا، گجرات اور بہاولنگر.تقریباً وہی پوزیشن ہے.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو جنہوں نے اللہ کے دین کی خاطر اپنی ضرورتوں کو قربان کیا اور مالی قربانی کی بہترین جزا دے اور ان کے اموال ونفوس میں برکت دے.دینی ضرورتوں میں تو وسعت پیدا ہوتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ ضرورتیں پوری کرتا رہے گا لیکن ہر احمدی ہمیشہ یادر کھے کہ وہ اللہ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اس کی خاطر مالی قربانیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہے.جماعت میں مختلف منصوبے ہمیشہ جاری رہتے ہیں.یہ نہیں کہ ایک طرف قربانی دی تو دوسری طرف قربانی کے لئے تھک کر بیٹھ گئے.ہمیشہ یا درکھیں جہاں بیٹھے وہاں پھر کمزوریوں پر کمزوریاں آنی شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے کبھی اس سوچ کو ذہن میں نہ آنے دیں کہ فلاں جگہ قربانی کر دی تو کافی ہے.اگلے جہان میں کام آنے والا بہترین مال وہ ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا گیا ہو.آج کل جماعتوں میں، دنیا میں ہر جگہ مسجدوں کی تعمیر کی طرف بہت توجہ ہو رہی ہے.کسی چندے یا کسی تحریک میں ایک طرف تو جہ ہو جائے تو اس توجہ کو مساجد کی تعمیر میں روک نہیں بننا چاہئے بلکہ اس طرف توجہ قائم رہنی چاہئے.برطانیہ میں بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.ہر سال پانچ مساجد بنانے کا انگلستان کی جماعتوں نے وعدہ کیا ہے.بریڈ فورڈ میں تعمیر ہو رہی ہے.دو اور جگہ بھی کارروائی ہورہی ہے انشاء اللہ شروع ہو جائے گی.تو یہ کام ساتھ ساتھ جاری رہنے چاہئیں.کیونکہ مسجد ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت کا بھی اور تبلیغ کا بھی.لجنہ کی ایک میٹنگ میں بڑے زور دار طریقے سے عورتوں نے درخواست کی کہ ہمیں فلاں فلاں جگہ بچوں کی تربیت میں دقت پیدا ہورہی ہے ( یہیں UK کی شوری تھی یا کوئی اور میٹنگ تھی ) تو ہمیں مساجد بنا کے دی جائیں ، بہت ضروری ہیں.تو ان کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ مساجد ضروری ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں.لیکن یہ بنانی آپ نے خود ہیں، کسی نے باہر سے آکے بنا کے نہیں دینی.پھر جب نیشنل شوری ہوئی ہے تو اس وقت جب میں نے توجہ دلائی تو جماعت نے اللہ کے فضل سے جیسا کہ میں نے بتایا ہر سال پانچ مساجد بنانے کا وعدہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق بھی عطا فرمائے کر مکمل کر سکیں.گزشتہ دنوں میں جب میں جرمنی گیا تھا، وہاں بھی زیادہ مقصد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد کی تعمیر کے لئے ، سنگ بنیا دیا افتتاح کے لئے جانا تھا.تین کا افتتاح بھی ہوا ، سنگ بنیاد بھی رکھا گیا.ایک مسجد

Page 626

619 حضرت عليها اسم الفساد العالی بنصرہ العزیز جرمنی ہالینڈ کے بارڈر پر ہے واپس آتے ہوئے اس کا افتتاح ہوا.وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی لیکن ان کی خواہش تھی کہ اس میں نماز پڑھ لی جائے اسی کو ہم افتتاح سمجھیں گے، اس کی تھوڑی سی (Finishing) فنیشنگ رہتی ہے تو وہ انشاء اللہ تعالیٰ جلدی کر لیں گے.وہاں ایک بہت بڑی مسجد مجلس انصاراللہ جرمنی نے بنائی ہے.اس میں تقریباً سات آٹھ سونمازی نماز پڑھ سکتے ہیں اور مسجد کے طور پر جرمنی میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے جو خاص اس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے.ہال وغیرہ نہیں بلکہ زمین پہ خاص طور پر مسجد کے مقصد کے لئے جو مسجد کھڑی کی گئی ہے، وہ ابھی تک جرمنی میں یہی بڑی مسجد ہے.اس کے ساتھ گیسٹ ہاؤس بھی ہے، مشنری ہاؤس بھی ہے، دفتر وغیرہ بھی ہیں.پھر جیسا کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ سب سے بڑا بریک تھرو (Break Through) یا بڑی کامیابی جو ہے وہ مسجد برلن کا سنگ بنیاد تھا.وہاں مخالفت زوروں پر ہے.ابھی بھی مخالفین یہی کہتے ہیں کہ ہم اس مسجد کو بنے نہیں دیں گے اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے.گو کہ انتظامیہ کا خیال ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ قانونی تقاضے پورے ہور ہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہر طرح سے مددفرماتا ہے اور یہ نظارے ہم دیکھتے رہے.پہلے امیر صاحب کا خیال تھا کہ ایک مہینہ پہلے جلدی آ جاؤں تا کہ مسجد کا سنگ بنیا در کھا جائے.لیکن جب دسمبر میں میں نے جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت تک ان کو مسجد کی تحریری اجازت نہیں ملی تھی.تحریری اجازت بھی میرے جانے کے بعد انہیں ملی ہے تو اس کے بعد کوئی قانونی روک نہیں تھی.اس کے بغیر اگر ہم جاتے تو کئی قباحتیں پیدا ہو سکتی تھیں اور بنیا درکھنا بھی ممکن نہیں تھا.پھر وہاں کے میئر اور MP آئے اور انہوں نے بھی جماعت کی تعلیم کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ہمارے لوگوں کی ساری فکر میں دور ہو جائیں گی.جس دن افتتاح تھا جب ہم وہاں گئے ہیں تو چالیس پچاس کے قریب مخالفین تھے جو نعرے لگا رہے تھے.لیکن جرمنی میں ایک دوسرا گروپ بھی ہمیں نظر آیا.جب ہم گئے ہیں انہوں نے بھی بینر اٹھایا ہوا تھا اور وہ جماعت احمدیہ کے حق میں تھا کہ یہاں جماعت ضرور مسجد بنائے اور اس میں کوئی روک نہ ڈالی جائے.جماعت نے ان کو نہیں کہا تھا اور نہ وہ جانتے تھے.خود ہی کھڑے ہو گئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے توڑ کے لئے خود ہی وہاں انتظام فرما دیا.پھر یہ جوان کا چھوٹا سا جلوس تھا اس پر بھی تین چار شہریوں نے ان کے بینز چھینے کی کوشش کی کہ یہ کیوں کر رہے ہو.اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسا سامان پیدا کر دیا کہ مخالفین کو ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی.ان کے اپنے لوگ ہی ان کو روکنے والے تھے.جو مخالفین تھے (لوگ اتنے زیادہ تو تھے نہیں) انہوں نے ایک ٹیپ ریکارڈر میں ایک آواز ریکارڈ

Page 627

620 س ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت خلیق اس ال اس د الله: السی کی ہوئی تھی.کسی ٹنل میں سے کوئی جلوس گزرا اس کی بڑی گونج تھی لگتا یہ تھا کہ بہت بڑا جلوس ہے اور آوازیں نکال رہا ہے.لیکن لگتا ہے ان کو بھی ملاؤں کی ٹریننگ تھی کہ ٹیپ ریکارڈر استعمال کرو.جو وہاں MP آئے ہوئے تھے انہوں نے بڑی حیرت سے اس بات کا اظہار کیا کہ میں تو ایک عرصے سے جماعت کو جانتا ہوں میرے خیال میں بھی نہیں تھا کہ جماعت احمدیہ کی مسجد کی مخالفت ہو رہی ہو گی.یہ تو بڑی امن پسند اور پیار کرنے والی جماعت اور پیار پھیلانے والی جماعت ہے.اخباروں اور ٹی وی نے بھی بڑی اچھی کوریج دی.جیسا کہ میں پہلے بھی جرمنی کے خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برلن میں مسجد کی تعمیر کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا اور آپ کی بڑی شدید خواہش تھی.اور اس وقت ایک ایکڑ رقبہ کا قریباً سودا بھی ہو گیا تھا بلکہ میرا خیال ہے لیا بھی گیا تھا اور آج کل کے حالات میں اتنا بڑا رقبہ ملنا ممکن نہیں ، کافی مشکل ہے کیونکہ زمینیں کافی مہنگی ہیں.جرمنی میں عموماً جو پلاٹ مساجد کے لئے خریدے جارہے ہیں وہ بڑے چھوٹے ہوتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ یہاں تقریباً ایک ایکڑ سے زائد کا رقبہ برلن کی مسجد کے لئے مل گیا ہے اور اللہ میاں نے بڑی سستی قیمت پر دلا دیا.جبکہ باقی مساجد جو وہاں بن رہی ہیں اس سے چوتھے پانچویں حصے میں بن رہی ہیں.پہلے میں یہ بتا دوں کہ حضرت مصلح موعودؓ کا جو اس وقت کا منصوبہ تھا وہ نقشہ دیکھ کے آدمی حیران ہوتا تھا.600 نمازیوں کے لئے ہال کی گنجائش تھی ، مشن ہاؤس، گیسٹ ہاؤس، پھر اس میں 13 کمرے تھے جو سٹوڈنٹس کے لئے ، طلباء کے لئے رکھے گئے تھے، اب جو مسجد بن رہی ہے اس کے نقشے میں بھی تقریباً 500 نمازیوں کے لئے گنجائش ہو گی اسی طرح باقی چیزیں ہیں.اور اگر فوری نہیں تو بعد میں کبھی جب بھی سہولت ہو، انشاء اللہ تعالیٰ اس کو وسعت دی جاسکتی ہے.1923ء میں جب تحریک ہوئی تھی تو لجنہ اماءاللہ نے تعمیر کے لئے رقم جمع کی تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا کہ کیونکہ یورپ میں عورتوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس وقت اس شہر میں جو دین کا مرکز بن رہا ہے اس میں مسلمان عورتوں نے جرمنی کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کروائی ہے تو کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے.تو جرمنی کی لجنہ کو جب یہ علم ہوا کہ پہلی کوشش مسجد کی تعمیر کی تھی اور عورتوں کی قربانیوں سے بنی تھی تو لجنہ جرمنی نے کہا کہ ہم اس مسجد کا خرچ برداشت کریں گی جو تقریباً ڈیڑھ ملین سے 2 ملین یورو کے قریب ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے اور ان کے مال ونفوس میں برکت ڈالے اور جلد سے جلد اپنا یہ وعدہ پورا کر سکیں تا کہ اپنا وعدہ پورا کر کے دوسرے

Page 628

621 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منصوبوں اور قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.اس مسجد کا نام خدیجہ مسجد رکھا گیا ہے.پس لجنہ ہمیشہ یادر کھے کہ یہ مبارک نام اس پاک خاتون کا ہے جو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ پر اپنا سارا مال قربان کر دیا.پس جہاں یہ مسجد احمدی عورت کو قربانی کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والی بنی رہے وہاں دنیا سے بے رغبتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی ہر احمدی کو توجہ دلانے والی بنی رہے تا کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی بنی رہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو ہمیشہ آگے سے آگے بڑھانے والی ہوں.مشرقی جرمنی میں یہ جو برلن میں مسجد بن رہی ہے، یہ ایک مسجد ہی نہیں بلکہ آئندہ نسلیں اور مساجد تعمیر کرنے والی بھی ہوں اور کرتی چلی جائیں اور ان کو آباد کرنے والی بھی ہوں اور خدائے واحد کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے والی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والی ہوں اور اس میں مددگار بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن جلد دکھلائے جب ہم دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر کے خدائے واحد کے حضور جھکتا ہوا دیکھیں.آمین الفضل انٹر نیشنل 2 فروری 2007 ء )

Page 629

اشاریہ مرتبہ: محمد محمود طاہر آیات قرآنیہ احادیث نبویہ کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات 3 6.......9.....31...43 53....

Page 630

Page 631

الفاتح آیات قرآنیہ الحمد لله رب العالمین.ایاک نعبد و ایاک نستعين (42) البقرة 178 الم ه ذلك الكتاب لا ريب فيه (42) 447 ومما رزقنهم ينفقون (4) امةً وســطــاً (144) اذا اظلـم عـلـيـهـم قـامـوا (21) لكل وجهة هو موليها 551.217 328 320 للفقراء الذين احصروا في سبيل ا الله (274) 391 الذين ينفقون اموالهم باليل والنهار ( 275 ) آل عمران ان الدین عندالله الاسلام (20) 607 49.37 قل ان كنتم تحبون الله فاتبعونی (32) 201 لن تنالو البر حتى تنفقوا مما تحبون (93) 584.561.554 فاستبقوا الخيرات (149) 481،472،417،46 كنتم خير امة اخرجت للناس (111) اتي المال على حبّه (178) وانفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بايديكم الى التهلكة (196) ربنا اتنا في الدنيا حسنة و في الآخرة حسنة (202) 552 595 203 المائده تعاونوا على البر والتقوى (3) لا يضر كم من ضل اذا اهتديتم (106) الانعام اولئك الذين هدى ا الله (91) ومن الناس من يشرى نفسه (208)198 قل ان صلوتي ونسکی و محیای (163) الا ان نصر الله قريب (215) 41 الاعراف عسى ان تكرهوا شيئًاو هو خيرالكم (217)279 يضع عنهم اصر هم والاغلال (158) من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا (246) انفقوا مما رزقنكم (255) 499.335 552 التوبه 481 31 129 37 51 122 افمن اسس بنيانه على تقوى (109-111) 270 ومثل الذين ينفقون اموالهم (266)578 واموالهم (111) يا يها الذين امنوا انفقوا من طيبت (268-270) 460 ان الله اشترى من المومنين انفسهم وما كان المومنون لينفروا (122) الرعد 446 215 ومــاتــنــفــقــوا مـن خـيــر يـوف الـيـكـم (272) الله يبسط الرزق لمن يشاء و يقدر (27) 537 562 ابراهیم ان تبدوا الصدقات فنعماهي (272-273) 406 لئن شكر تم لا زيدنكم (8) 249

Page 632

لنا الا نتوكل على الله (13) مثل كلمة طيبة كشجرة طيبة (27) قل لعبادي الذين امنوا يقيموا الصلواة (32) الحجر نبیء عبادي اني انا الغفور (50-51) 170 81 540.523 الانبياء فلا كفران لسعيه (95) المومنون ولو اتبع الحق اهو آهم (72) النور رجال لا تلهيم تجارة ولا بيع من ذكر الله (38) الفرقان وقال الرسول يربّ ان قومي اتخذوا (31) الروم اولم يرو ان الله يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر (38) لقمان ومن يشكر فانما يشكر لنفسه (13) السبا قل ان ربي يبسط الرزق لمن يشاء من عباده (40) فاطر ان الذين يتلون كتاب الله واقاموا الصلواة (31-30) الزمر قل ان الخاسرين الذين خسروا (16) لا تقنطوا من رحمة الله (54) 136 161 161 319 ومن يبخل فانّما يبخل عن : نفسه (39) 600.599 الذاريات وفى اموالهم حق للسائل و المحروم (60) 396 الرحمن هل جزاء الاحسان الا الاحسان (61) الحديد له ملك السموات والارض (86) امنوا بالله ورسوله وانفقوا مما جعلكم مستخلفين فيه (8) ومالكم الا تنفقوا في سبيل الله (11) ان المصدقين والمصدقات (2019) الحشر 56 يو ثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة (10) القف 537 يأيها الذين امنوا هل اذلكم على تجارة (13-11) 234 الجمعة 537 540.507 130 196 429 493 533 595 477 587.302 594 و آخرین منهم لما يلحقوا بهم (4) 589 مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها (6) المنافقون وانفقوا من مارزقنكم (11) التغابن انما اموالكم واولادكم فنتة (16-18) ان تقرضوا الله قرضا حسنا (18) 368 543 444 550

Page 633

وللآخرة خير لك من الاولی (5) 467.305.304 501 562 الزلزال فمن يعمل مثقال ذرة خيراً يره(8) العديت وانه لحُبّ الخير لشديد (9) 538 129 136 الطلاق من يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب (43) التحريم يا أيها الذين امنوا قوا انفسكم (7) البروج ان بطش ربک لشدید (13)

Page 634

يقتل الخنزير ويكسر الصليب انى لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمة ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان لا يكون المومن لعانا احبوا العرب وبقاء هم احبوا العرب بثلاث العرب نور الله في الارض انی دعوت للعرب فقلت اللهم من لقيك منهم مومناً حبّ العرب ايمان احادیث مبارکہ من غش العرب لم يدخل في شفاعتي اصحابی کالنجوم ياتهم اقتديتم اهتديم العلم علمان علم الادیان و علم الابدان ( بلحاظ ترتیب صفحات ) 78 227 228 228 261 261 261 261 262 262 322 440 صرف بھوکا رہنے سے اللہ خوش نہیں ہوتا 138 بغیر عمل صالح کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے والانغلطی پر ہے 138 رمضان میں رحمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں 138 جمعہ بھی تمہارے لئے ایک عید ہے 168 ،180 ،241 جمعہ میں ایک قبولیت دعا کی گھڑی آتی ہے 180 اخروی زندگی میں جنتیوں کیلئے ہر گھڑی ترقیات کا ایک نیا دروازہ کھلتا ہے.208 دائیں ہاتھ سے کھانا اور متمایلیک جو سامنے ہے اسے کھا دوسروں پر لعنت نہ بھیجا کر 222 229 اگر کوئی شخص دوسرے پر لعنت بھیجتا ہے تو وہ تمثیلا اس شخص میں ہو جاتی ہے 229 حدیث بالمعنى اونٹ پر لعنت بھیجنے والے کے اونٹ سے سامان اتروا دیا 2 مسکین وہ ہے جو خدا کی راہ میں صبر کے ساتھ مرض الموت میں مسجد اور گھر کے درمیان پردہ اٹھانے اور ابو بکر کو نماز پڑھنے کا حکم دینا ایک بھائی کو تکلیف پہنچے تو دوسرا بھی ویسی تکلیف محسوس کرتا ہے 37 41 گزارا کرتا ہے دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے خدا تعالی بعض دفعہ بعضوں کی وجہ سے دوسروں کو رزق عطا کرتا ہے آپ کا فرمانا کہ دوزخ سال میں دو دفعہ سانس لیتا ہے 54 تمہیں کیا علم کہ کن لوگوں کی وجہ سے تمہارے اموال گرمی دوزخ کا ایک نمونہ ہے ماؤں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے دس سال کی عمر میں بچے پر نماز کا حکم چھوٹی سی چیز بھی اللہ کی تو فیق اور فضل سے حاصل ہوتی ہے.جوتی کا تسمہ بھی خدا سے مانگو دس سال کے بچے پر نماز واجب ہوتی ہے 55 109 110 126 131 393 393 395 میں برکت پڑ رہی ہے 405 دو اشخاص کے بارہ میں رشک کرنا جائز ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے مالدار پر اور اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے عالم پر 580.564.527.496 ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں جو کہتے ہیں خرچ کرنے

Page 635

والے کو اور دے اور کنجوس کا مال بر باد کر دے 581.557.533.496 جس نے پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی اللہ کی راہ ایک جس کو قرآن عطا ہو وہ تلاوت کرتا ہے دوسرا جسے مال دیا ہو جسے وہ خرچ کرتا ہے 541 جب عورت خرچ کرتی ہے تو خاوند کو بھی ثواب ملتا ہے 541 میں دی اللہ اس کو دائیں ہاتھ سے قبول کرے گا 512 صدقہ کیا کرو.ایک زمانہ آنے والا ہے کہ ایک شخص 597.564.527 حدیث قدسی ہے کہ اللہ نے فرمایا اے ابن آدم تو دل کھول کر خرچ کر جس کے نتیجہ میں اللہ بھی تجھ پر خرچ کرے گا 550.513 526 اللہ سے ڈرو اور پانچوں وقت کی نمازیں پڑھو صدقہ بندے کے مال سے کچھ کم نہیں کرتا، ظلم پر صبر سے عزت ملتی ہے سوال کا دروازہ جو کھولتا ہے اللہ محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے خدا کی خاطر جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر تمہیں ملے گا آپ نے فرمایا مانگانہ کرو آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی 5 26 551.550.526 527 اپنا صدقہ لئے پھرے گا مگر لینے والا نہ ہوگا اے ابن آدم ! اگر تو مال خرچ کر یگا تو تیرے لئے بہتر ہوگا اگر رو کے گا تو برا ہوگا اللہ کسی کی نیکی کے اجر کو کم نہیں کرتا نیکی کے بدلہ دنیا میں رزق دیتا ہے بخیل اور خرچ کرنے والی کی مثال ایسے دو اشخاص کی طرح ہے جنہوں نے لوہے کے زرہ نما چیتے پہنے ہوں ابو الدحداح کیلئے جنت میں کتنے ہی لہلاتے باغ ہیں ابن آدم کا مال صرف وہ ہے جو اس نے راہ مولی میں صدقہ کر دیا 541 541 543 543 551 557 استطاعت ہو تواضع کرنے والے کا اللہ ساتویں آسمان پر رفع کرتا ہے 597.564.527 528 طہارت اور وضو کے بغیر نماز نہیں اور نہ ہی دھو کے والا مال صدقہ میں قبول ہوتا ہے اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرتا جو ز کوۃ نہیں دیتا صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہو تا بندہ معاف کرے تو اللہ اے آدم کے بیٹے تو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے عزت بڑھاتا ہے.تواضع کرے تو اللہ مرتبہ بلند کرتا ہے جو شخص اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے 528 مطمئن ہوجا قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والا اپنے انفاق والے بدلہ میں سات سو گنا ثواب ملتا ہے آپ تصحابہ کو صدقہ کا حکم دیتے تھے 528 533 مال کے سایہ میں رہے گا بخل سے بچو.اس بخل نے پہلی قوموں کو اسماء بنت ابوبکر کو فرمایا کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو اللہ ہی قیمتیں مقرر کرنے والا ہے تنگی پیدا کرنے والا بلاک کر دیا فراخی عطا کرنے والا اور رزق دینے والا ہے جواستغفار کرتا ہے اللہ اس کے لئے ہر غم سے رہائی کی 538 راہ نکالتا سہولت پیدا کرتا اور رزق عطا کرتا ہے دو آدمیوں کے بارہ رشک جائز ہے 538 558 558 562 563 599.564 582.581 خطبہ عید د یا پھر عورتوں کی طرف نصیحت کی.عورتیں بلال کی چادر میں صدقات ڈالتی جاتی تھیں 598،583

Page 636

آ.آداب دیکھئے ادب آداب آخرت کلید مضامین کمزوری صرف انتظامیہ کی ہوتی ہے نو مسلم احمدیوں کا ثابت قدم جل کر خاک ہو جاؤں گا لیکن ارتداد اختیار نہیں کروں گا 432 246 احمدی بچوں کے اخلاص اور روحانی ترقی کا ذکر 282 283 آنحضور کا فرمان کہ اخروی زندگی میں جنتیوں کیلئے ہر روز تر قیات کا نیا دروازہ کھلتا ہے اٹالین زبان اس زبان میں اشاعت قرآن کا ذکر احمدیت / جماعت احمدیہ 208 238 قربانی کے دور میں زیادہ ترقی کی ابتلاء میں احمدی نوجوانوں میں پاک تبدیلی اور روحانی ترقی 279 323 احمدیہ مسجد کوئٹہ کی شہادت کے بعد جماعت کی قربانی واخلاص میں اضافہ 308 298 ہماری جماعت کا نقشہ سورۃ الانفال کی آیت 16 - 17 کلمہ طیبہ کی خاطر احمدیوں کی قربانیاں میں کھینچا گیا ہے جماعت پر ہمیشہ بہار رہتی ہے جماعت خدا کے فضل سے زرخیر مٹی ہے جماعت کے نظام کا ڈھانچہ 23 323 408 93.92 نظام وصیت غلبہ اسلام کا نظام ہے اسی کے تحت خلافت جماعت اور دیگر نظام جماعت ہے 93.92 ساری دنیا کی برکتیں آج جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہوچکی ہیں 360 احمدیوں کی روحانی ترقی کے واقعات روحانی ترقی اور اخلاص 282 خدا کی قسم تم کچھ بھی جماعت احمدیہ کا نہیں بگاڑ سکتے 286 جماعت احمدیہ کے صبر اور اخلاص کا جلسہ سالانہ 82ء پر حیرت انگیز مظاہرہ 249 احمدی نوجوانوں میں ابتلا کے حالات اور قید و بند میں روحانی ترقی 309.308.280 جماعت میں نیکی کی آواز پر لبیک کہنے کا مادہ ہے جو صداقت کی اصل روح ہے جماعت کا اخلاص عالمی طور پر یکساں ہی ہے 411 تاریخ احمدیت 23 مارچ کی تاریخی اہمیت خلیفہ اول نے بتایا تھا کہ مصلح موعود کے زمانہ میں احمدیت پھیلے گی 349 88 جماعتی ترقی کے میں صرف چند سال باقی ہیں حضرت مصلح موعود کا بیان اگر تبلیغ اسلام کرتے چلے جائیں تو یقیناً ایک دن احمدیت دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائیں گی 28 84 ہمارا ہر سال اللہ کے فضلوں اور برکتوں کا سال ہوتا ہے 194 ہمارے مبلغین کی کل تعدادہ ۲۷ ہے اور عیسائیوں کے دو فرقوں کے پادریوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد جماعت اپنے قیام کی سوسالہ جو بلی منائے حضرت مصلح موعود کی ہدایت جماعت پاکستان بننے کے بعد پہلے سے بڑھ گئی ہے عبد الماجد دریا آبادی کا بیان قیام پاکستان کے بعد جماعت کی تاریخ میں پہلا پھل جو ہندوؤں سے ملا وہ وقف جدید کو ملا ہے حضرت مسیح موعود کی وفات کا وقت جماعت کا بجٹ 39 29 40 245

Page 637

تمھیں پنتیس ہزار تھا 58.1957ء میں تیرہ لاکھ رو پے صرف صدر انجمن کا بجٹ ہو گیا 41 مترادف ہے جماعت ہندوستان کوتر بیتی اور تبلیغی پروگراموں میں اللہ کے فضلوں کی بارش.پچھتر سالہ تاریخ کے مختصر کوائف 152 وسعت اور جوش پیدا کرنے کی نصیحت 1892ء سے 1967ء کے عدد اور مالی قربانی کا موازنہ 153 مالی قربانیاں جماعت کی تعداد (۱۹۶۷ء میں ) کم و بیش تمیں لاکھ ہوگی 152 دنیا کی کوئی جماعت مالی قربانی میں جماعت کی پاتال حضرت مسیح موعود کا نام کرشن رکھا جانا بتاتا ہے کہ احمدیت ہندوؤں پر غالب آئے گی پاکستان میں پیدا ہونے والے جماعتی دکھوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ترقیات عطا کر رہا ہے اگلی صدی کی ترقیات جماعت کی پہلی صدی کی قربانیوں کے مرہون منت ہوں گی 1989 ء کا سال غیر معمولی تاریخی اہمیت رکھنے 78 279 335 کو بھی نہیں پہنچ سکتی 331 613 311 مالی قربانی میں جماعت احمدیہ کا گراف ہر سال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے.ایسی دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں 410 ہر سال جماعتی مالی قربانیوں میں اضافہ اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت احمد یہ اخلاص میں آگے بڑھ رہی ہے 468 جماعتی مالی قربانی کاUNO کے اقتصادی جائزے والا سال ہے ہندوستان کے پنجاب اور دکن کے علاقوں میں 349 وقف جدید کے ذریعہ نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہے 295 قربانیاں 143 گاؤں ہندوؤں کے علاقہ سندھ میں اسلام نافذ ہو چکا ہے دنیا بھر میں احمدی مبلغین کی اشاعت دین کی مساعی افریقہ میں احمدیت کا تیزی سے پھیلاؤ امریکہ یورپ میں اسلام کا جھنڈا جماعت احمدیہ گاڑ رہی ہے امریکہ میں مسجد بن رہی.جرمنی میں ایک بن چکی اور ایک بن رہی ہے گلاسکو میں مشن کیلئے وسیع عمارت کی خرید انگلستان میں ایک وسیع مشن کی خرید فرانس مشن کی خرید MTA کی روزانہ نشریات کا اعلان ہندوستان میں جماعتی ترقیات کے نئے میدان کھل رہے ہیں ہندوستان کی جماعتوں کی مدد قرض حسنہ چکانے کے 246 75 356 24 24 276 276 278 435 311 کے ساتھ موازنہ عظیم الشان مالی قربانی کے مظاہرے جماعت کی مالی قربانی کا مختصر جائزہ کروڑوں کی 472.471 448 454 ایمان کی مضبوطی کیلئے جماعت میں ہمیشہ مالی قربانی کی تحریک ہوئی اور ہوتی رہے گی 613 جماعت کی معمولی سی کاوش کو غیر معمولی پھل لگتے ہیں 580 متفرق پاکستان میں جماعت کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا گیا نیشنلائزیشن کے تحت جماعت نے تقریبا پانچ کروڑ 323 روپے کی جائیداد حکومت کے حوالے کر دی 199 ایک صحافی کے مطابق ہندوستان میں تین لاکھ احمدی ہیں 296 جماعت احمدیہ امن پسند اور پیار کرنے والی جماعت ہے جرمنی کے MP کا بیان 620 جماعتی خدمات کا ذکر سے بعض لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے اور وہ جل بھن جاتے ہیں مولوی ظفر علی خان جماعت کی تعداد کو حقارت کی نگاہ سے تحریر کرتے 325 24

Page 638

افریقہ میں ایک احمدی اخبار کو عیسائیوں نے اپنے پریس میں چھاپنا بند کر دیا شامل ہیں 396 ایک احمدی اخبار کو عیسائیوں نے چھاپنا بند کر دیا ادب آداب 2 2 اطفال راحمدی بچے اطفال الاحمدیہ سے چندہ وقف جدیدا دا کرنے کی خلیفہ اسیح الثالث کی اپیل 106 جس نے آداب نہیں سکھئے وہ اخلاق نہیں سیکھ سکتا 223 مربیان جماعت کو اسلام کے بتائے ہوئے احمدی بچے وقف جدید کا بوجھ اٹھا ئیں 112، 117، 159 وقف جدید اور احمدی بچوں کی ذمہ داریاں 146 آداب سیکھا ئیں مختلف آداب کا ذکر اور ان کے سیکھنے کی طرف توجہ 223 223 وقف جدید آداب کے اوپر کتاب لکھنی شروع کرے 223 بچوں میں مالی قربانی کے جذبہ پیدا کرنے کی حکمت 373 بچوں کو کثرت سے وقف جدید میں شامل کریں اور کوئی بچہ شامل ہونے سے نہ رہ جائے 347.333 427 بچوں کے ہاتھ سے چندہ دلوائیں تا انہیں علم ہو کہ وہ قربانی کر رہے ہیں خلیفہ ثالث نے وقف جدید کو بچوں کے ذمہ لگایا تھا 584 616 150 مغربی ممالک بھی وقف جدید کی تحریک بچوں کے سپردکریں احمدی بچوں کی مالی قربانی کی مثال اپنا سارا انعام چندہ میں دے دیا اقوام متحدہ (UNO) 220 222 515 29 29 بازار کے آداب کھانے پینے کے آداب کھانے کا ضیاع نہ کریں.پلیٹ میں اتنا ڈالیں جتنا کھانا ہے اردو زبان حضرت مسیح موعود کی کئی کتا بیں اردو زبان میں ہیں معلمین وقف جدید اردو زبان میں تعلیم دیں گے استا در اساتذہ وقف جدید کے معلمین کے اساتذہ کے اوصاف 105 اقوام متحدہ کے اقتصادی جائزہ اور جماعتی مالی قربانی پنشنز اساتذہ وقف جدید کیلئے وقف کریں اسلام 105 کا موازنہ اللہ تعالیٰ جل جلاله 472.471 غلبہ اسلام کیلئے خلیفہ ثالث کا جماعت کوحمد اور عزم کا ماٹودینا 189 جماعت کی تمام تحریکوں کا مقصد معرفت الہی کا حصول 246 اسلام شرف انسانیت کو قائم کرنے میں ہے اسلام کی کمزور حالت کا حضرت مسیح موعود کے شعر میں ذکر ایسی مالی قربانی کریں جس کے نتیجہ میں آپ اور رسول کریم کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنا ہے 217 اصحاب الصفہ 38.35 خدا کرے پیارے بنتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ کی صفت شکور کا مفہوم ستر کی تعداد میں مسجد نبوی میں رہائش پذیر تھے ان کے صفت الرحیم حالات کا بیان آخرین کے دور میں بھی اصحاب الصفہ پیدا ہوئے 393.392 صفت رازق اور رزاق کا بیان صفت ستاری خاص طور پر قادیان کے درویش اصحاب الصفہ ہیں 394 صفت الغفور پاکستان کے اسیران راہ مولیٰ بھی اصحاب الصفہ میں صفت مالک 387 387 138.137 537 308 138.137 302

Page 639

۱۲ الہام حضرت مسیح موعود کا الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور اس کا MTA کے ذریعہ پورا ہونا 518 صحابه مسیح موعود کی مالی قربانی کے واقعات اور 585.567.566.339 انفاق اور جماعت احمدیہ اخلاص و وفا کا ذکر جماعت کی مالی قربانی کے جذبہ میں حضرت مصلح امیر را مراء اضلاع جماعت امراء کی خوبیاں اور ان کو نصائح انصار مدینہ مہاجرین کے ساتھ جذبہ ایثار اور قربانی کا سلوک بچوں کو بھو کا سلا دیا اور مہمان کو کھانا کھلانے کا واقعہ موعود کی ۵۲ سالہ محنت بھی شامل ہے 312.311 328 ایک احمدی پر مالی قربانی بطور فرض کے عائد ہے 111 ایسی مالی قربانی کریں جس کے نتیجہ میں آپ خدا 306 کے پیارے بنتے چلے جائیں 387 چندوں کی تحریک میں جماعت میں ہمیشہ سے ہوئی اللہ نے اس واقعہ کی اطلاع آنحضور کو دی اللہ تعالیٰ نے جماعت انگلستان کو انصار کے بعض رنگ دکھانے کی توفیق بخشی ہے انفاق فی سبیل اللہ فلسفہ اہمیت اور برکات اسلام میں مالی قربانی کا فریضہ مالی قربانی کا فلسفہ قرآن کریم میں جگہ جگہ مالی قربانی کا ذکر ہے سورۃ البقرہ کی آیات 268 تا 270 میں مالی قربانی 307 اور ہوتی رہے گی یہ ایمان کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے 613 نومسلموں میں خدا کی راہ میں خرچ کی عادت ضرور 310 ڈالیں اس کے بغیر اسلام کا پودا نمو پکڑتا ہی نہیں ہے 314 بچوں میں مالی قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے بچوں کی تربیت کیلئے مالی قربانی کی ضرورت 110 447 446 بچوں میں مالی قربانی پیدا کرنے کی حکمت 110 107 373 جماعت ہندوستان کو جماعتی چندوں میں آگے بڑھنے کی نصیحت 389.388 کا فلسفہ اور حکمت کا بیان انفاق کی اہمیت وفضیلت 460 561.552.354.337 مالی قربانی کی فضیلت و اہمیت کے بارہ میں احادیث مبارکہ 533.526 قادیان میں غریب مہاجروں کے انفاق فی سبیل اللہ 315 کے خوبصورت واقعات رونما ہوتے رہے 1967 ء میں جماعت کی مالی قربانی ایک کروڑ روپے سے زائد ہے جو 1892ء کے لحاظ سے دس ہزار گنا زیادہ ہے 154 جماعت احمدیہ میں بہت سے احمدیوں کو چندے کا انفاق کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے اقتباسات 534 نشہ ہو گیا ہے صحابہ رسول اور صحابہ مسیح موعود کا انفاق مالی قربانی میں جماعت کا گراف ہر سال بڑھتا ہی حضرت ابو بکر کا انفاق اپنی تقریباً ساری دولت اسلام کے لئے خرچ کردی صحابہ رسول کی مالی قربانیاں 131 132.131 چلا جاتا ہے 356 410 597.596 جماعت میں مالی قربانی کی شاندار مثالیں دنیا کی کوئی جماعت مالی قربانی میں جماعت کی پاتال صحابہ رسول کی مالی قربانیاں اور اس کے ثمرات 600،581،565 تک بھی نہیں پہنچ سکتی حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب کی 311 ابتلاء کے دور میں مالی قربانی میں اضافہ 308، 309 بے مثل مالی قربانی 566 جماعت احمدیہ کی طرف سے عظیم الشان مالی

Page 640

قربانی کے مظاہرے 448 472.471 جماعتی مالی قربانی کا UNO کے اقتصادی جائزہ کے ساتھ موازنہ جماعت کی مالی قربانی پر مخالف اخبار المنبر فیصل آباد کا اعتراف احمدی بچوں کی مالی قربانی کی شاندار مثال اپنا سارا انعام چندہ وقف جدید میں دے دیا 454 150 جلسه پر شرکت بہاولپور ڈویژن میں ایک گریجوایٹ کی بیعت 608 44 1989 ء بیعتوں کے لحاظ سے غیر معمولی سال 351 بيوت الحمد سیکیم قادیان میں بیوت سکیم کے تحت ۳۲ مکانات بنائے گئے ہیں 399 پرده تعمیر مساجد میں احمدی عورتوں کی قابل رشک قربانیاں 111 احمدی خواتین کو پردہ کی نصیحت اور اس کے خوشکن نتائج 250 نومسلموں نے چندے دینے شروع کر دیئے 314 تاریخ انگریز رانگریزی زبان 1989 ء کے سال کو مورخ کبھی نہیں بھلا سکے گا یہ انگریز پادری عورت جو تبلیغ کے لئے چین گئی تو وہاں اسے قتل کر دیا گیا اس کی جگہ دو ہزار عورتوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا قادیان میں انگریزی زبان اور کھیل کے کارخانے 34 انقلابات کا سال ہے تبلیغ ردعوت الی اللہ جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے 350 اس وقت تک تبلیغ میں کوتاہی سے کام نہ لیں اگر تبلیغ اسلام کرتے چلے جائیں تو یقیناً احمدیت دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے گی اپنی نسل میں احمدیت کی تبلیغ کا جوش پیدا کرتے 77 84 83 دعوت الی اللہ کی طرف احباب کو توجہ کرنے کی تلقین 418 ہیں انگریز پروفیسر کا بیان 402 ب.پرت بازار ربوہ میں آداب بازار سے کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں 220 چلے جائیں بدعت بدعات عثمان فودی افریقہ کے مجدد نے بدعات کے خلاف جہاد کیا بیعت بیعت کروانا مقصد نہیں بلکہ آخری مقصود کی طرف پہلا قدم ہے چک منگلا اور چنڈ بھروانہ میں بیعتیں وقف جدید کے ذریعہ بیعتیں 1969ء میں نگر پارکر میں 236 بیعتیں لا بینی سندھ مرکز کے ذریعہ چار افراد کا قبول احمدیت ہندوؤں کا قبول احمدیت سندھ کے ہندوؤں کا قبول احمدیت اور ربوہ 209 370 9 69.56 166 48 245 قرآن تبلیغ کا مؤثر ذریعہ ہے تبلیغ میں تفسیر کبیر کو استعمال کریں مؤثر ہوگی 72 71 شیر محمد صاحب یکہ بان کا کامیاب طریق تبلیغ یکہ چلاتے اور الحکم پڑھواتے احمدی مبلغین کی افریقہ میں تبلیغ اور قربانی ایک خاتون کی تبلیغی مساعی کا ذکر جماعت میں تبلیغ کا نیا ولولہ پیدا ہوا ہے 72 3.2 9 274 وقف جدید کے ذریعہ تربیت اور طرز تبلیغ کا منصوبہ 382 وقف جدید نے ہندو علاقے میں دولت اور امداد دینے کی بجائے اخلاقی عظمت کا پیغام دیا 362 سندھ کے ہندو علاقے میں تبلیغ سے ہندوستان میں

Page 641

۱۴ تبلیغ کے مواقع کھلیں گے ہند و علاقے سندھ میں تبلیغ اور جماعت اسلامی کے ایک مولوی کی جماعت کے خلاف گندہ دینی اور ہندو نمبردار کی مداخلت 295 268 ہندوستان میں تبلیغ اسلام کو وسیع کرنا ضروری ہے کیونکہ اس طرح ہم مسیح موعود کو کرشن ثابت کر سکیں گے یورپ میں بھی تبلیغ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے تحریک جدید تحریک جدید کا نظام اور مقاصد 81 274 82.77.69.13.12.6.4 172.171.94 تربیت اولاد نبی کریم کے طریق تربیت کے انداز اپنا کر بچوں کی تربیت کریں 201 تربیت اولاد کی طرف توجہ اور اس کے انداز 134.131.130.129 بچوں سے چندہ دلوائیں یہ تربیت اور تعلق باللہ کا باعث بنے گا 334 تربیت اولاد کا ایک انداز قصیدہ یاد کرو تو انعام دوں گا اور انعام سے چندہ ادا کرو اسلام کے پیغام کو پھیلانے کیلئے تحریک جدید جاری کی 77 بچوں کو ٹو کی بجائے آپ کہہ کر پکاریں تحریک جدید کی برکت سے اللہ کے فضل سے دنیا میں خدمت اسلام ہوئی حضرت مصلح موعود نے بڑی محنت اور توجہ سے اس 453 149 243 غلبہ اسلام کیلئے بچوں میں قربانی کا جذبہ پیدا کریں 151،148 بچوں کی تربیت کیلئے مالی قربانی اور بچت کی عادت ڈالیں 616 بچوں کو بتا کر ان کو پیسے دے کر پھر چندہ کیلئے پیسے لیس 427 تحریک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے نظام کے سپرد کیا 112 بچوں کی تربیت کیلئے احمدی مائیں مالی قربانی چندہ تحریک جدید کی مثال نماز میں سنتوں کی طرح ہے 111 بالخصوص وقف جدید میں شامل کریں تحریک جدید میں چندہ دینے والوں نے اپنا چندہ کم 584 117 نہیں کیا بلکہ بڑھایا تحریک جدید کے وعدے اور بجٹ ایکسچینج حاصل کر کے روپیہ باہر بھیجنا 26 41.40 74 تربیت اولا داور مالی قربانی بچے وقف جدید کی مالی قربانی کا بوجھ اٹھالیں تو آئندہ بڑے کاموں کے لئے یہ تربیت کا موقع بن جائے گا 132 بچوں کو چندہ وقف جدید میں شامل کریں 459 بیرون ممالک مساجد کو آباد کرنے کیلئے واقفین کی ضرورت 115 تصنیف اتصنیفات تحریک جدید کے دفتر سوم کی طرف توجہ دینے کی تلقین 145 جن کو خدا نے توفیق دی ہے انہیں نئی کتب تصنیف وقف جدید کی مضبوطی سے صدر انجمن اور تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ ہوگا وقف جدید اور تحریک جدید کی آپس کی دوڑ کے بارہ میں 86 433 کرنے میں پوری جدو جہد کرنی چاہئے نئی شائع شدہ تصنیفات کا ذکر تعلیم تعلیمی ادارے ہمارے ہر بچے کو پڑھنا آتا ہو ( خلیفہ ثالث ) 92 92 عبدالغنی جہانگیر صاحب کی ایک رویا وقف جدید کے 33 ویں سال میں تحریک جدید کے 33 ویں سال کی نسبت آمدنی زیادہ ہے 31 اکتوبر 2002ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے اعداد و شمار 374 556 وقف جدید کے تحت تعلیم و تدریس کا منصوبہ قادیان کیلئے تعلیمی منصو بہ اور ہندوستان کے تعلیمی 211 29 نظام کا ذکر 401 قادیان میں اعلیٰ پائے کے ٹیکنیکل کالج کے قیام کا منصوبہ 405 تحریک جدید کے مالی سال 03-2002 ء کا اعلان 556 نیشنلائز یشن میں جماعت نے پانچ کروڑ روپے

Page 642

234 ܙ جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ ء کا انعقاد اور اس کی برکات کا ذکر اور شکر کا مضمون جلسہ سالانہ ۸۲ ء کے کامیاب انعقاد جماعت کے اخلاص کا ذکر اور شکر مضمون 249.248 199 117 کی جائیدادحکومت کے حوالے کر دی تعلیم القرآن حضرت خلیفہ ثالث کی تعلیم القرآن کی مہم تفسیر قرآن کتب مسیح موعود اور تفسیر کبیر دل کو موہ لینے والی تفسیر ہے 120 جلسہ 82ء کے جماعت احمدیہ کے صبر اور اخلاص کا ج - چ - ح -ح جامعہ احمدیہ جامعہ کو اپنی ترقی کیلئے سوچنا چاہئے اور بہتری کیلئے سامان کرنا چاہئے قادیان میں ایک وسیع جامعہ بنانے کا منصوبہ حیرت انگیز مظاہرہ 249.248 جلسہ سالانہ 83ء پر 150 نومسلموں کی آمد 257 جامعہ قادیان تین قسم کے معلمین اور مبلغین تیار کرے گا 172 379 379 جلسہ سالانہ قادیان 1987ء کا کامیاب انعقاد 318 جلسہ سالانہ قادیان 1992 ء کے انعقاد کا ذکر 424،408 جلسه سالانه قادیان 1999ء میں اکیس ہزار حاضری جن میں 16 ہزار نو مبائعین تھے 525 جلسہ سالانہ سبین 2005ء کا انعقاد اور حضور انور کی شرکت 578 جامعہ احمدیہ قادیان میں عرب اور انگریز ماہرین وقف خلیفہ ثالث نے بطور افسر جلسہ سالانہ بھی خدمت کی توفیق پائی 199 کر کے پڑھانے کے لئے تیار ہیں جلسه سالانه حصول برکت کا ذریعہ جلہ سالانہ کی برکات جلسه سالانہ میں شمولیت سے پاک تبدیلی پیدا ہونی چاہئے جلسہ سالانہ پر تربیتی امور کا اہتمام کرنا 379.378 181 187 592 204 203 روٹی پکانے کی مشینوں کا از سرنو جائزہ لینے کی ہدایت 200 جماعت کے بنائے ہوئے تعلیمی ادارے جلسہ کیلئے بشاشت سے حکومتی انتظامیہ نے نہ دیئے 199 جلسہ سالانہ کے بعد کا انفلوائنیز اتو ایک چھوٹا سا تحفہ ہے یہ تحفہ ہم خوشی سے قبول کرتے ہیں پاکستان میں جلسہ سالانہ نہ ہونے سے احساس محرومی کے جذبات 219 318 جلسہ سالانہ پروسع مکانک کے نظارے اور مزید جلسہ کے بعد بھی ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں 232 منصوبہ بندی کی ضرورت 199 268 313 168 جماعت احمد یہ دیکھئے احمدیت جماعت اسلامی جماعت مودودی کا جماعت کی نقالی میں تھر پارکر میں قدم رکھنا جمعۃ المبارک جمعہ ایک عید ہے اور ہمیں اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے آنحضور نے فرمایا کہ جمعہ خدا نے تمہارے لئے عید 241.180 بنا دیا ہے 10 200 152 جلسہ سالانہ پر ایک عورت کا اپنے کمسن بھتیجے کو لے کر آنا جس کو لینے اس کا باپ ربوہ آیا اور احمدی ہو گیا جلسہ سالانہ کے مہمانوں کیلئے مکانیت کی ضرورت کے انتظام کی طرف توجہ جلسه سالانه 1892ء کی حاضری 337 افراد تھی جلسہ سالانہ 1972ء کی تعداد 182.181 جلسہ سالانہ 19 ء کا کامیاب انعقاد اور زیادہ تعداد 198 میں احباب کی شرکت

Page 643

213 ۱۶ آنحضور نے فرمایا کہ جمعہ میں ایک قبولیت دعا کی گھڑی آتی ہے 180 قادیان میں خدام الاحمدیہ کے تحت وقار عمل کے خصوصی پروگرام میں جمعہ کے بعد نکاحوں کا اعلان نہیں کرتا (خلیفہ ثالث )185 خدام و قارعمل کے ذریعہ جلسہ سالانہ کے بعد بھی ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں خلیفہ کا کام مامور من اللہ کی نیابت ہے 232 92 خلافت سے محبت اور اطاعت کا حضرت ملک غلام فرید صاحب کا واقعہ 213 خواب دیکھئے رویا خواتین دیکھئے لجنہ اماءاللہ د ذ ر ز درود شریف آنحضور اور آپ کے صحابہ پر درود اور اس کی برکات 122 جماعت کو صل علی کے ورد سے روکنا اور ایم ٹی اے پر ساری دنیا میں صل علی کی آواز میں گونج رہی ہیں در ولیش ر درویشان قادیان درولیش کی تعریف 493 394 قادیان کے درویش دور آخرین کے اصحاب الصفہ ہیں 394 قادیان کے درویشوں کی قربانی اور ان کے حقوق کی ادائیگی ان کے حقوق ہمارے اموال میں داخل ہیں 395 396 دعا قبولیت دعا دعادوطرح کرشمے دکھایا کرتی ہے 336 آنحضور نے فرمایا کہ جمعہ میں ایک قبولیت دعا کی گھڑی آتی ہے عربوں کیلئے آنحضور کی دعا 180 261 حضرت مسیح موعود کی قبولیت دعا کے مظہر حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب عرب بھائیوں کیلئے دعا کی تحریک ہر احمدی دشمن اور مخالف کیلئے دعا کرے احمدی بچوں کی دعا اور اس کی قبولیت کے واقعات 284،283 426 260 169 523 524 27 28 29 239 57 513 168 96 96 96 جمعتہ الوداع کی حقیقت اور تصور یہ نیکیوں کے استقبال کا جمعہ ہے جنگ اُحد صحابہ کی قربانی اور جان نثاری کے شاندار نمونے جنگ تبوک ایک صحابی کی شاندار قربانی کانمونہ جوبلی جماعت اپنی قیام کی سوسالہ جو بلی منائے حضرت مصلح موعود کی ہدایت چائنیز زبان ترجمہ قرآن کا ذکر چندہ (دیکھئے انفاق فی سبیل اللہ ) حديده حدیبیہ کے موقع پر صلح اور اس کی شرائط حدیث ( دیکھئے احادیث کا انڈیکس) حدیث قدسی وہ کلام جو رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست سنایا اور قرآن کے علاوہ وحی ہوا حسد انعامات اور افضال اور پیار زیادہ ہو تو حاسد پیدا ہوتے ہیں خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ کیلئے مائو د تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں خدام کو تذلل اور انکسار کا نمونہ ہونا چاہئے تربیت کا جو کام خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے وہ فی الاصل جماعت کا کام ہے

Page 644

39 63 49 458 رومی حکومت رومیوں نے جب لشکر اسلام پر حملہ کیا تو وہ لاکھوں میں تھے اور اسلامی فوج ہزاروں میں رومیوں کے خلاف جنگ رویا ر خواب کشف حضرت خلیفہ ثانی کے دور ویا حضرت مصلح موعود کی ایک رویا سے وقف جدید کے عالمگیر ہونے کا پتہ لگتا ہے وقف جدید کے بارہ میں ماریشس کے مخلص واقف زندگی عبدالغنی جہانگیر کی رؤیا زبان زبانیں 433 واقفین نو بچوں کو مختلف زبانیں سکھانے کا منصوبہ بذریعہ ایم ٹی اے 438 زراعت وقف جدید اور زراعت 9.8 زكوة زکوة خرچ کرنا دراصل بیت المال کا کام ہے 514 ا زمیندار سندھی احمدی زمیندار پسماندہ ہندوؤں سے حسن سلوک کریں 295.294 سندھ کے احمدی زمینداروں کو غریب تھری لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت 609 زمینوں کا وقف وقف جدید کیلئے زمینوں کا وقف 9 س ش ص سال نو ۱۷ 281 4 5 6 366 96 96 100 330 122 123.122 239 215 215 احمدیوں کی رہائی کیلئے غیر احمدی قیدی کی دعا کی قبولیت کا واقعہ دعوت الی اللہ دیکھئے تبلیغ دیوبند ( اداره) ادارہ دیوبند کا قیام بزرگوں نے کیا حضرت خلیفہ ثانی کادیو بند دیکھنے جانا دیو بند کے بزرگ اپنے زمانہ کیلئے اسوہ حسنہ تھے دیہات ردیہاتی جماعتیں دیہاتی جماعتوں میں عدم تربیت کے مسائل اور دینی امور سے لا علمی کی کیفیت ذیلی تنظیمیں ذیلی تنظیموں کے تین قسم کے کام ذیلی تنظیموں کو مجالس فعال بنانے کی تلقین ایسے کاموں کی طرف توجہ نہ دیں جو ان کے سپرد نہیں کئے گئے.(خلیفہ ثالث ) ذیلی تنظیموں کو جماعت کی انجمنوں کے ساتھ قدم ملا کر آگے چلنا چاہئے رسومات بد رسومات سے بچنے کی طرف توجہ شادی بیاہ اور وفات کے وقت چند بد رسومات کا ذکر رشین زبان ترجمہ قرآن اور اس کی نظر ثانی کا ذکر رضار کار معلمین رضار کار معلمین کی تحریک کی طرف توجہ رضا کار معلمین کا قرآن کریم میں ذکر روزه رمضان رحمتوں کے دروازے اس مہینہ کھول دیئے جاتے ہیں 138 رمضان رحمتیں لٹانے کا مہینہ ہے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں 139 نئے سال کی خوشیاں منانا ایک کھوکھلی رسم ہے 303 304 سانپ تھر میں پانی اور سانپوں کے مسائل تھر میں ایک سانپ جو منہ پر منہ رکھ کر سانس پی 364

Page 645

455 545 576 سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا لفاظات الموائد كان اكلى ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ شوری شوری میں برکت کیلئے دعا شیزان 56 شیزان جوس کے خلاف مولویوں کا محاذ اٹھتا رہتا ہے 580 Ι 364 289 563 جاتا ہے اور زہر اگلتا ہے سود ہندومہاجنوں کا پسماندہ ہندو زمینداروں کے ساتھ سودی کاروبار اور استحصال سود کے مال سے ڈھیروں سونا بنالیا اور سونے کے اوپر چارپائی بچھا کر سونے والا ایک شخص شراب ایک رئیس کا قادیان آ کر حضور سے ملاقات کے بعد شراب ترک کرنے کا واقعہ شدھی کی تحریک شدھی کے خلاف خلیفہ رابع کی تحریک اور اس کے نیک ثمرات شعر راشعار بلحاظ تر تیب صفحات الا اے دشمن نادان و بے راہ 71 296 346 17 صحابه رسول ما صحابہ رسول ستاروں کی مانند 322 غزوہ حنین میں آنحضور کی پکار پر صحابہ کا والہانہ لبیک 251 بے نظیر اطاعت کا نمونہ دیکھ کر ابوسفیان متاثر ہو گیا اور اسلام قبول کر لیا جذبہ جہاد اور جذ بہ تبلیغ ، جس سے اشاعت دور دور پھیل گئی 59 50.49 آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من 23 ، 27 شوق جہاد اور قربانی جنگ احد میں شاندار نمونے دکھائے 27 37 132.131 581 18.17 132 585 321 13.12.4 مرض الموت میں رسول کریم کو دیکھ کر بے تحاشا خوشی کا اظہار صحابہ کی مالی قربانی کی مثالیں آپ کی مالی قربانیاں اور اس کے نتیجہ میں لاکھوں درہم کے مالک بن گئے صحابہ مسیح موعود علیہ السلام صحابہ مسیح موعود کی محبت کے واقعات مالی قربانی کا جذبہ صحابہ مسیح موعود کی قربانیاں، ان کی مثالیں اور نیک ثمرات صحرا صحرائے کالا باری کا ذکر صدر انجمن احمدیہ صدر انجمن احمدیہ، اس کے دائرہ کار اور ذمہ داریاں 94،93 40 صدر انجمن کا بجٹ 24 35 38.35 45 149 195 251 266 322 324.323 331 369 371 387 440 ہر چہ بقامت کہتر بقیمت بہتر بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید کئے آمدی و کئے پیر شدی يا عين فيض الله والعرفان عين الرضا عن كل عيب كليلة انا النبي لا كذب حمامتنا تطير بريش شوق پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی کون ہے جو نہیں ہے حاجتمند ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل سب کچھ تیری عطا ہے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام

Page 646

حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت جماعت کا بجٹ میں پانیس ہزار تھا 58.1957 ء کا بجٹ تیرہ لاکھ روپے ہے صد سالہ جو بلی جماعت اپنے قیام کے سو سال پر جو بلی منائے ( حضرت مصلح موعود ) صد سالہ جوبلی منصوبہ کی تحریک 41 29 193 ۱۹ کی تحریرات 262 عرب ممالک پر ابتلا اور اس کے لئے دعا کی تحریک 260 MTA پر عرب دوستوں کے ساتھ پروگرام لقاء مع العرب میں منیر الجابی صاحب کا سوال اور اس کا جواب 266 عربی زبان کے ماہرین وقف کر کے قادیان جامعہ میں پڑھانے کیلئے تیار ہیں عفو و درگزر اس منصوبہ کے تحت مختلف زبانوں میں اشاعت کتب کا ذکر دشمن کیلئے بھی دعا کرنی ہے بدلہ نہیں لینا صدیق رصد یقیت 237 عید عیدالاضحی ابراہیمی قربانی یاد دلاتی ہے صدیقیت کا ولایت اور وقف جدید سے تعلق 490 آنحضور کا فرمانا کہ جمعہ بھی تمہارے لئے صوفی رصوفیاء ہماری جماعت کیلئے صوفیاء کے طریق پر کام کرنے کا موقع ہے طع_غ طب رطبی امور 6.5 ایک عید ہے عیسائی رعیسائیت 378 169 2 241.180.168 غلط عیسائی عقائد کے رد میں چھوٹی سی کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب فالج کے دوبارہ حملہ کیلئے بے ہوشی ہونی ضروری ہے 36 پاکستان میں معالجین کی کمی 70 میں سینکڑوں دلائل موجود ہیں 91 عیسائی اب تک اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے جاتے ہیں 83 رومن کیتھولک پادریوں کی تعداد اٹھاون ہزار ہے مختلف شعبوں کے ماہر ڈاکٹر قادیان وقف کر کے جائیں 399 پروٹسٹنٹ ملالئے جائیں تو ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے پادری خاتون کے قتل کے بعد اس کی جگہ دو ہزار 39 عالم در علماء مسلمان علماء کی طرف ہندوؤں کو احمدیت چھوڑنے کی ترغیب عبادت دیکھئے نماز عرب قوم عرب ممالک رعربی زبان عرب ہمارے محسن ہیں کہ ابتدائے اسلام میں انہوں نے قربانیاں دیں عربوں کے لئے آنحضور کی دعا عربوں سے محبت کے بارہ آنحضور کے ارشادات اور احادیث عرب قوم سے محبت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود 292 260 261 262.261 خواتین کا بطور مبلغ پیش کرنا لا بینی حیدر آباد جو جنگل سا ہے وہاں امریکی عیسائی آکر تبلیغ کرتے ہیں 34 34 تھر کے علاقے میں امریکی امداد سے عیسائیوں کی یلغار اور وقف جدید کی خدمات 246، 290، 361 وقف جدید کے کام نے سندھ کے علاقے میں عیسائیوں کے قدم اکھیڑ دیئے پادری کا وعظ کہ ابراہیم نے اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر دی افریقہ میں ایک عیسائی پریس نے احمدی اخبار 292 1

Page 647

چھاپنا بند کر دیا عیسائی پادریوں نے کولمبس کے بارہ کہا کہ یہ پاگل ہو گیا ہے 3.2 50 قرآن کریم قرآن کے بارہ حضرت مسیح موعود کا الہام الخير كله في القرآن قرآن دلوں میں نور پیدا کرتی ہے غزوات النبی جنگ حنین اور آنحضور کا حیرت انگیز کردار جنگ اُحد اور تبوک میں صحابہ کی جاں نثاری اور قربانیاں فارسی زبان 250 28.27 ف ق ک گ کی ذمہ داری فارسی کی طرف توجہ اور اس میں جماعتی کتب کی ضرورت 236 کم ہو جائیں گی در نمین فارسی کی بہترین طباعت کر کے شائع کروانے کی ہدایت فرانسیسی زبان 236 تبلیغ کا موثر ذریعہ ہے آیات کے شان نزول سے مراد قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی تحریک اور ماؤں قرآن کو پھیلائیں گے تو احمدیت کی دشمنی خود بخود تعلیم القرآن کے بارہ میں خلیفہ ثالث کی مہم تعلیم القرآن کی طرف احباب کو تلقین اور تین سال میں ہر احمدی کو قرآن پڑھانے کا عزم 117 70 72 305 145 70 118 فرانسیسی زبان میں لٹریچر اور مختلف فرنچ ممالک کا ذکر 237 ،238 مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کا ذکر فری تھنکنگ تحریک فری تھنگنگ تحریک جو امریکہ میں پیدا ہوئی اس کا قبر پرستی 119 238.237 کلمہ شہادت کے بعد کسی قبر کی پرستش جائز نہیں 125 بانی فرانسیسی شخص تھا پادری کا وعظ کہ ابراہیم نے اسماعیل کے گلے پر چھری پھیر دی یہ سننے کے بعد بھاگ گیا فضل عمر فاؤنڈیشن فضل عمر فاؤنڈیشن کیلئے مالی قربانی کی طرف 1 1 162 516.515 احباب کی توجہ فضول خرچی کھانے پینے میں فضول خرچی اور ضیاع سے پر ہیز کریں امریکہ وانگلستان میں کھانے پینے میں ضیاع کارجحان فوج 516.515 قربانی ابراہیمی و اسماعیلی قربانی کی حقیقت 2.1 افریقہ کے مبلغین اسماعیلی قربانی پیش کر رہے ہیں 3،2 مالی قربانی دیکھئے انفاق فی سبیل اللہ قرضہ حسنہ آنحضور جب بھی قرض واپس کرتے تو بڑھا کرواپس دیتے 550 قصیده عربی قصیده در مدح رسول عربی کے بارہ میں حضور نے فرمایا ہے کہ جو یاد کرے گا اس کا حافظہ تیز ہوگا 149 کلمه شهادت 125 کلمہ طیبہ کلمہ کی خاطر احمد یوں کی قربانیاں 298 ہندوستان فوجی جو 1965ء کی جنگ میں پاکستانی علاقے کہانی رحکایت میں آیا اور احمدی نو مسلموں کے ارتداد کی ناکام کوشش کی 246 شیخ سعدی کا ایک قصہ بادشاہ جو اپنے ایک بیٹے سے

Page 648

نفرت کرتا لیکن اس بیٹے کی وجہ سے فتح ہوئی 23 ۲۱ کا خطاب 109 کھیل رکھلاڑی کھیلوں کا علم علم الا بدان میں شامل ہے قادیان میں بہترین کھلاڑی تیار ہوتے تھے.انگریز پروفیسر کا کہنا کہ قادیان میں انگریزی زبان اور کھلاڑیوں کے کارخانے ہیں 440 402 جلسہ سالانہ 82ء کے موقع پر خواتین کو پردہ کی نصیحت 250 تعلیم القرآن کے حوالے سے احمدی مستورات اور ماؤں کی ذمہ داریاں 145.118 تحریک جدید اور وقف جدید کیلئے واقفین کی ضرورت اور احمدی خواتین کی ذمہ داریاں قادیان کبڈی کی ٹیم سارے پنجاب میں اول درجہ کی تھی 402 وقف جدید کے واقفین کی ضرورت اور احمدی ماؤں اب قادیان میں کھیلوں کی سہولیات کا کوئی انتظام نہیں 403 کی ذمہ داری ایم ٹی اے کے ذریعہ مختلف کھیلوں کے سکھانے کا انتظام کا منصوبہ گالی گلوچ سے پر ہیز آنحضور نے اونٹ کو ملعون کہنے والے شخص کے اونٹ سے سامان اتروا دیا 440 227 تحریک جدید کے دفتر سوم کیلئے احمدی مستورات کو خصوصی تلقین احمدی مائیں بچوں کی تربیت کیلئے ان کو چندہ وقف جدید میں شامل کریں وقف جدید میں بچوں کو شامل کرنے کیلئے لجنہ مالی قربانی میں مقام اور ذمہ داریاں عورتوں کی مالی قربانی گالی گلوچ نہ کرنے کے بارے احادیث 228، 229 کی ذمہ داریاں ساری جماعت عہد کرے کہ کوئی شخص کسی پر لعنت نہیں بھیجے گا گورمکھی زبان اس زبان میں بعض کتب کا ترجمہ کروایا تو سکھوں اور ہندوؤں نے کہا ہمیں آسمانی نور ملا ہے لٹریچر ل من 27 30 115 114 145 584.116 146 110 584.583 قادیان کی غریب پٹھان عورت کی مالی قربانی کا جذبہ اور حضرت مصلح موعود کے دل پر اس کا گہرا اثر 315 تعمیر مساجد میں احمدی خواتین کی قابل رشک قربانی 111 بران مسجد جر منی لجنہ جرمنی کے چندہ سے تعمیر ہوگی اس کا نام خدیجہ ہوگا 620 لاہور کی ایک بچی نے اپنے جہیز کی رقم چندہ میں دے دی 597 اشاعت کتب ولٹریچر کی نسبت اس کی تقسیم کی زیادہ منظم ضرورت ہے 176 دنیا کی مختلف زبانوں میں اشاعت کتب ولٹریچر کا ذکر 237 بیعت اور تبلیغی مساعی معلمین کے پاس لٹریچر ہونا چاہئے خیبر لاج مری میں غیر تقسیم شدہ لٹریچر کا ڈھیر دیکھ کراظہارافسوس لجنہ اماء الله احمدی مستورات لجنہ کے قیام کا مقصد اجتماع لجند 1966ء سے حضرت خلیفہ امسح الثالث 212 176 109 چک منگلا جنڈ بھروانہ کے علاقے کی ایک خاتون کی مالی قربانی دیکھئے انفاق فی سبیل اللہ مبلغین امر بیان 9 ہمارے مبلغین کی کل تعداد 270 ہے 39 اعلیٰ پایہ کے مربیان اور مبلغ دعا کے ذریعہ بن سکتے ہیں 172 مربی کو ایک نمونہ بن کر دنیا کے سامنے آنا چاہئے 164 ہرشاہد (مربی) کو اپنی ذات کی اصلاح کی طرف

Page 649

۲۲ توجہ کرنی چاہئے 172 مبلغین کی مساعی سے وزراء اور سفیر متاثر ہوتے تا 7 جنوری 2004ء) ڈیجیٹل دور کا آغاز اور تعریف کرتے ہیں 75 افریقہ کے مبلغین اسماعیلی قربانی پیش کر رہے ہیں 3،2 ایشیا سیٹ ۳ کے ذریعہ MTA کی نشریات مختلف ممالک کو ایم ٹی اے کے پروگرامز بنانے 575 525 577 مربیان مبلغین جماعت کو اسلام کے بتائے ہوئے آداب سکھائیں تحریک وقف عارضی میں شامل کرنے کیلئے تلقین کی ہدایت 576 223 ایم ٹی اے کے رضا کاران کے خلوص اور قربانی کا ذکر 575 رضا کاران کیلئے دعا کی تحریک 577 164 معرفت الہی اور توجہ کریں مجدد حضرت عثمان خودی کو اللہ نے افریقہ کے علاقے کا مجدد بنایا حضرت مسیح موعود کے کلام میں سبحان من یرانی یعنی وہ مجھے دیکھ رہا ہے کا لطیف مضمون 386 مدرسہ احمدیہ 209 12 اللہ کا قرب پانے والوں پر اللہ کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں 207 مدرسہ دیو بند دیکھئے دیوبند معلمین وقف جدید مربی امر بیان کیلئے دیکھئے مبلغین مستورات دیکھئے لجنہ اماءاللہ مسجد / مساجد اصلاح وارشاد کے کام میں وسعت پیدا کرنے کیلئے معلمین کا سلسلہ شروع کیا گیا 173 وقف جدید کے تحت پشاور سے کراچی تک معلمین کا تعمیر مساجد میں احمدی عورتوں کی قابل رشک قربانیاں 111 جال پھیلا دیا جائے اور ان کے کام 13.11.7 انگلستان اور دیگر ممالک میں تین مساجد کا منصوبہ برلن مسجد کی تعمیر کا منصوبہ مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ MTA 618 620 زمینداره کمپاؤڈری سکول کھولنے اور دکانداری کے ذریعہ کام کا آغاز کریں گے 8.7 ایک لاکھ چندہ دہند ہوتو ایک ہزار معلمین رکھے جا سکتے ہیں 8 MTA کے ذریعہ حضور علیہ السلام کا الہام کہ تیری تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچانے کا وعدہ پورا احمد یہ ٹیلی ویژن MTA کی روزانہ کی نشریات کا آغاز کا اعلان روزانہ بارہ گھنٹے نشریات کا آغاز روزانہ کی نشریات کا آغاز اور اس کے پروگرامز بنانے کے بارہ تفصیلی ذکر 518 435 435 436 پاکستان بھر میں معلمین کا جال بچھانا کم از کم ایک ہزار معلم ہو 82 کم از کم ایک ہزار معلمین رکھنے کی خواہش 85 وقف جدید کو سینکڑوں اور معلم چاہئیں 191،99، 217 وقف جدید کے معلمین کی اشد ضرورت ہے (خلیفہ ثالث) 141.140 وقف جدید کو زندگی وقف معلمین کی ضرورت نیز معلمین کی خصوصیات روزانہ کی نشریات کے آغاز پر پروگرامز کی تفصیلات کا بیان 439 جماعت کو معلمین وقف جدید کیلئے آدمی دینے کی تحریک 157 MTA کے آغاز کے پانچ سال با قاعدہ نشریات کے دس سال ( 7 جنوری 1994ء 519 اور معلمین کی صلاحیتوں کا بیان معلمین کے خواص اور ذمہ داریاں 174.167 230

Page 650

۲۳ ہر واقف کم از کم روزانہ پندرہ صفحات کتب حضرت مسیح موعود سے پڑھے معلمین کے پاس لٹریچر ہونا چاہئے 242 212 نصرت جہاں سکیم نماز ر عبادت دس سال کے بچے پر نماز واجب ہو جاتی ہے ضروری حوالہ جات پر مشتمل ایک عام فہم پاکٹ بک نمازیں زندگی حاصل کرنے کیلئے پڑھیں معلمین کے پاس ہونی چاہئے (خلیفہ ثالث) 215 وقف جدید کیلئے رضار معلمین کی ضرورت اور اس کی تحریک جماعتیں احساس ذمہ داری کرتے ہوئے معلمین 210.209 کیلئے لوگ پیش کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر وقف جدید کے کام میں وسعت پیدا نہیں ہو سکتی معلمین کی تعداد میں اضافے کی ضرورت معلمین وقف جدید کے کوائف 1980ء نیز تعداد بڑھانے کی تحریک ہندوستان میں دو قسم کے معلمین کی ضرورت 215 224 233 377 332 131 366 نمازوں کی اہمیت کے بارہ میں احادیث مبارکہ 526 نماز کا ترجمہ آنا ضروری ہے 366 نماز خسوف جو 11 راگست 1999ء کو پڑھی گئی 525 نومبائعين نو مبائعین کو چندہ وقف جدید میں شامل کرنے کیلئے سیکرٹری وقف جدید نو مبائعین قائم کرنے کا اعلان 502 پہلے دن سے ہی چندہ دینے کی عادت ڈالنی چاہئیے 570 چندہ میں ضرور شامل کریں خواہ معمولی رقم لے کر بھی ان کو شامل کریں نو مبائعین کو وقف جدید کی مالی قربانی میں شامل ہونا چاہئے نو مبائعین کی تعداد میں اضافہ سے چندہ دہندگان 473 معلمین وقف جدید کی مساعی کے نتیجہ میں غیر مسلموں کا اسلام 216 599.598 معلمین قربانی اور ہمت سے کام کر رہے ہیں 190 ،245 کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہئے معلمین وقف جدید کی مشکل حالات میں تھر میں خدمات 363 جماعت فرانس کو اپنے نو مبائعین کو چندوں میں شامل اعزازی معلم کو معلم درجہ دوم کہیں گے مکتوب خط 225 کرنے کی نصیحت جلسه سالانه قادیان 1999 ء میں سولہ ہزار نو مبائعین حضور کا شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی پیدائش پر حضرت کی شرکت منشی ظفر احمد صاحب کو مبارکباد کا خط منافق 425 نومسلم سندھ کے علاقے کے نو مسلموں نے چندے دینے قرآن میں منافق کے لفظ کا استعمال اور اس کے مورد شروع کر دیئے 457 617 525 314 مينارة المسيح اس کی تعمیر میں صحابہ کی مالی قربانی ندوة العلماء ادارہ ندوہ نیک لوگوں نے قائم کی نصرت جہاں ریزورفنڈ 320 586 4 183 واقعات و.ہی ایک حافظ صاحب کا واقعہ جو چاول کے چار تھال کھا گئے اور ابھی ہاضمہ کا علاج کروانا چاہتے تھے ایک انگریز پادری خاتون جو چین میں گئی اسے قتل کر دیا گیا 32 34

Page 651

۲۴ خلیفہ ثانی کے کوٹ کی جیب میں جلیبیاں ڈالنے کا واقعہ 44 تحریک وقف جدید کا اعلان اور غرض و غایت ایک رئیس کا قادیان آنا اور حضور سے ملاقات کے پشاور سے کراچی تک معلمین کا جال پھیلا دیا جائے بعد شراب چھور نے کا واقعہ حضرت ملک غلام فرید صاحب کا وقار عمل میں شمولیت کا واقعہ مدینہ کے انصار میں ایک کی مہمان نوازی خود بھوکے 71 یہ کام خدا کا ہے جوضرور پورا ہوکر رہے گا ایک الہی تحریک ہے 7 7 21 445.444 213 وقف جدید کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کو کامیاب کرنے رہے اور مہمان کو کھلایا اس واقعہ کی اطلاع اللہ نے آنحضور کودی واقفین روقف زندگی نوجوان چشتی سہروردی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میرے سامنے زندگیاں وقف کریں حضرت مصلح موعود کی وقف زندگی کی تحریک 307 3 4 کیلئے پور از ورلگائیں وقف جدید کا کام بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے کا دروازہ وقف جدید (خلیفہ ثالث) وقف جدید میں زندگی وقف کرنے کی تحریک 11، 14 تحریک جاری کروں (خلیفہ ثالث ) 7 دس واقفین زندگی سے وقف جدید کا آغاز کیا جائیگا ہمیں ہزاروں واقفین زندگی کی تبلیغ کیلئے ضرورت ہے 77 کام کرنے کا طریق واقفین تفسیر میں لے کر پڑھیں اور تفسیر صغیر کبیر بھی لوگوں میں پھلا ئیں وصیت کا نظام غلبہ اسلام کا نظام ہے وقار عمل قادیان میں تین گھنٹے دورانیہ کے وقار عمل کے خصوصی پروگرام حضرت ملک غلام فرید صاحب کا وقار عمل میں شمولیت کا واقعہ خدام جلسہ کے بعد بھی ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں وقف جدید انجمن احمد یہ 70 92 213 213 232 83 99 یہ دائی ضرورت کو پورا کرنے والی دائی تحریک ہے 369 اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازوں میں سے ایک رحمت 139 وقف جدید کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں القاء کیا کہ میں وقف عارضی کی 140 دس واقفین سے آغا ز کرنے کا اعلان اور ان کے 7 وقف جدید کے قیام کا مقصد اولیاء اور قطب پیدا کرنا 490 بنیادی طور پر دو اغراض سے جاری کی گئی دیہاتی تربیت اور ہندو علاقے میں تبلیغ 287 تعلیمی طبی تجارتی اور دیگر معاشرتی سہولیات پہنچانے کا منصوبہ 14.8.7 وقف جدید کا مقصد.پشاور سے کراچی تک رشد و اصلاح کا جال پھیلانا 25 وقف جدید کا مقصد پورے پاکستان میں معلمین کا جال بچھانا کم از کم ایک ہزار معلم ہوں 82 وقف جدید کی روح کہ وقف کی روح کے ساتھ بنی نوع کی خدمت کی جائے 171 اسلام کے احیاء نو کے لئے جاری کی جانے والی 273 140 وقف جدید کی اہمیت ، مقاصد اور تقاضے غریبانه تحریک وقف جدید کی اہمیت مقاصد اور تقاضے 95،13،7،6،4، جماعت کی تربیت کیلئے وقف جدیدا هم تنظیم ہے (خلیفہ ثالث ) 607.603.376.103.102

Page 652

۲۵ وقف جدید کا تبلیغ سے گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے 382 وقف جدید کی ذمہ داری جگہ جگہ پہ معلمین وقف جدید بیٹھیں اور جماعت کی تربیت کریں قیام کا مقصد دیہاتی جماعتوں کی تربیت وقف جدید کا مقصد دیہاتی علاقوں میں تربیت کا کام کرنا تھا 235 241 366.365 کے خاموش مطالبے بہاولپور ڈویژن میں ایک گریجوایٹ کی بیعت 370 44 لا بینی سنٹر کے ذریعہ چار بیعتیں اور ڈیڑھ سو تیار ہیں 48 وقف جدید کو کثرت سے ایسے خادم دین میسر ہیں جو نہایت قربانی سے جماعت کی خدمت کر رہے ہیں 312 1993 ء میں وقف جدید کی مجموعی وصولی ایک وقف جدید کا کام تربیت کرنا اور آداب سکھانا ہے 230 کروڑ ا کا نولے لاکھ سے تجاوز کر گئی اور ممالک تحریک وقف جدید کا مقصد تعلیم قرآن اور تربیت احباب 217 بیرون کی وصولی ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے حضرت مسیح موعود کا پیغام گاؤں گاؤں قریہ قریہ پھیلانے کا کام وقف جدید کے سپرد ہے وقف جدید کے بارہ میں ماریشس کے ایک مخلص واقف زندگی مکرم عبدالغنی جہانگیر کی رؤیا 602 433 430 سال 2001 تک 110 ممالک اس میں شامل ہو چکے ہیں 548 100 ممالک میں پھیل چکی ہے 531 1985 ء سے 2000ءتک 15 سالوں میں وقف جدید پاکستان میں ہر جہت سے وقف جدید کا قدم آگے ہی بڑھا ہے 300 وقف جدید کے نیک ثمرات وقف جدید کی ابتدائی مساعی کے ثمرات 375،56،45،44 وقف جدید کی طرف سے کتب کی اشاعت اس تحریک کے فوائد اور عالمی اثرات وقف جدید کے قیام کے نیک ثمرات یہ تیسرے درجہ کی تحریک تھی لیکن اللہ نے حیرت انگیز برکتیں ڈالی ہیں وقف جدید کے ذریعہ دیہاتوں کی پاک تبدیلی میں کارکنان کی دعاؤں اور محنتوں کا بھی دخل ہے وقف جدید کے ذریعہ اصلاح وارشاد کا بڑا اچھا کام 347 608 453 273 236 وقف جدید کی اشاعت کتب و پمفلٹ کی سکیم 176 وقف جدید کے ابتدائی واقفین پشاور ملتان، بہاولپور خیر پور اور حیدر آباد ڈویژن میں بجھوائے گئے ہیں وقف جدید کے واقفین علاقے میں تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں وقف جدید خیراتی ہو میو پیتھی ادارہ بھی ہے انتظامی ڈھانچہ اور ہدایات 43 69 245 ہو رہا ہے اور نگر پارکر میں ہندو اسلام قبول کر رہے ہیں 166 وقف جدید کے آغاز 1957 ء کے موقع پر وقف اور مالی تحریک پر لبیک ابتدائی چندہ اور واقفین کے کوائف 25 45 حضرت مصلح موعود نے سب سے پہلا نمبر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو مقرر فرمایا وقف جدید کی مضبوطی سے دوسرے چندے بڑھیں مجلس وقف جدید کے ابتدائی سات ممبران گے حضرت مصلح موعود دسمبر 1958 ء تک چندہ اور واقفین اور بیعتوں کے اعداد و شمار 86.41 69 361 468 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کا فرمانا کہ اس تحریک کے ساتھ مجھے ایک زائد قلبی وابستگی بھی ہے 429 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو وقف جدید کے خلیفہ ثالث سے بیرون ممالک کے لوگوں کو سندھ کے ۱۴۳ دیہاتوں میں اسلام قائم ہو چکا ہے 291 دورہ جات کی غیر معمولی توفیق ملی افریقہ میں احمدیت کا پھیلا ؤ اور وقف جدید 531

Page 653

وقف جدید میں شامل کرنے کی اجازت لی خلیفہ ثالث کی طرف سے نئے دفتر اور باب کا اعلان رضا کاران وقف جدید کیلئے پیش کریں مؤثر کام کیلئے ایک نائب ناظم وقف جدید کور بوہ کی بجائے مستقلاً سندھ نقل کر دیا گیا 346 205.202 293 معلمین اور واقفین زندگی کی تحریک وقف جدید کیلئے زندگی وقف کرنے کی تحریک 11، 14 ایک لاکھ چندہ دہند ہو تو ایک ہزار معلم رکھا جا سکتا ہے 8 معلمین کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات پر پختہ کرنا 48 پنشن یافتہ اساتذہ بقیہ عمر وقف جدید کیلئے وقف کریں جنہیں بطور استاد رکھا جائے (خلیفہ ثالث) 105 وقف جدید دفتر اطفال کا قیام 106، 112 ، 117 وقف جدید کے واقفین پاکستان، افریقہ اور امریکہ یہ تحریک اپنے فرائض منصبی اچھی طرح ادا کر رہی ہے 325 ممالک سے بھی ہوں وقف جدید کو عالمگیر کرنے کی تحریک 298.297 27 دسمبر 1985 ء کو وقف جدید کے عالمگیر ہونے کا اعلان کیا گیا وقف جدید کو عالمگیر کرنے کے مفید نتائج سیکرٹری وقف جدید نو مبائعین کے قیام کا اعلان 531 311 502 زیادہ سے زیادہ واقفین اس تحریک میں شمولیت 102 103 کیلئے اپنا نام پیش کریں (خلیفہ ثالث ) 1967ء کی کلاس میں کم از کم سو واقفین شامل ہوں 104 105 114 114 215 ریٹائر ڈ لوگ اپنے آپ کو وقف جدید کیلئے پیش کریں (خلیفہ ثالث) وقف جدید کیلئے واقفین کی ضرورت اور احمدی ماؤں کی ذمہ داری معلمین کے وقف کے بغیر وقف جدید کے کام میں وسعت پیدا نہیں ہوسکی وقف کی روح رکھنے والے واقفین کی بہت ضرورت ہے وقف جدید کیلئے معلمین دینے کی تحریک اور معلمین کی خصوصیات کا بیان وقف جدید کے مجاہد دنیا میں پھیل جائیں اور اسلام کا جھنڈا ہر جگہ گاڑ دیں 259.242 174 50 واقفین وقف جدید کو علمی سطح بلند کرنے کا منصوبہ 242 43 43 43 46 411 221 ربوہ سے نوابشاہ تک مرکز اور نوابشاہ سے کراچی تک کراچی کا انسپکٹر معلمین کی نگرانی کرے کراچی سے انسپکٹر وقف جدید مقرر کیا جائے جو نواب شاہ تک معلمین کی نگرانی کرے ایک انسپکٹر صوبہ سرحد سے مقرر کر دیا جائے جو معلمین کی نگرانی کرے ڈیڑھ ہزار سنٹر وقف جدید قائم کرنے کی خواہش اللہ بخش صادق صاحب کے دور میں وقف جدید کی ترقی کا ذکر کام میں زیادہ حسن پیدا ہونا چاہئے اور کام کرنے والوں کی تعداد بڑھنی چاہئے دفتر وقف جدید کو حسابات درست رکھنے کی ہدایت (خلیفہ ثالث) آداب کے اوپر کتاب لکھنی شروع کر یں وقف جدید انجمن کو چاہئے کہ وہ ہر ضلع کی مجلس کی 175 223 فروری 1958 ء تک 344 لوگ وقف کر چکے تھے معلمین اردو میں تعلیم دیں گے مالی قربانی کی تحریک اور چندہ کا معیار اخلاق فاضلہ پیدا کرنا وقف جدید کا فرض ہے 226 وقف جدید میں شمولیت کی تحریک 39 29 8 اس میں حصہ لینا تعاونوا علی البر والتقوى ہے 31 آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا جائزہ بتائیں 329 وقف جدید کے چندہ بڑھانے کی تلقین پر مبنی حضرت

Page 654

106 107 وقف جدید اور دفتر اطفال احمدی بچوں کو وقف جدید کے کام میں رخنہ پر کرنے کی تحریک (خلیفہ ثالث ) سال 1966 ء میں احمدی بچوں سے پچاس ہزار دینے کی تحریک احمدی بچے اطفال و ناصرات وقف جدید کا بوجھ اٹھالیں 159.156.149.112 مالی قربانی کا بوجھ بچے اٹھالیں خلیفہ ثالث کی خواہش ہر جماعت تینوں قسم یعنی اطفال ناصرات اور سات سال سے کم عمر والے بچوں کی فہرست ارسال 132.117 ۲۷ 85 88 13 101 158 220 مصلح موعود کا پیغام بہت مبارک تحریک ہے سب دوستوں کو اس میں حصہ لینا چاہئے چندہ کیلئے ابتدائی معیار چھ روپے سالانہ اور ایک چندہ و ہند کی خواہش وقف جدید کے وعدے کم از کم چھ لا کھ کرنے کی تحریک از خلیفه ثالث وقف جدید کے وعدے جماعت کی ضرورت کے مقام تک پہنچائیں تحریک کا مقصد اور چندہ کی طرف توجہ چندہ کی تحریک کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنا ہے چندے کا معیار چندہ وقف جدید میں شامل ہونے کی برکت 353 354.353 355 کرے (خلیفہ ثالث) چندہ وقف جدید تمام احمدی بچے لازماً شامل ہوں 133 217 146 چنده وقف جدید اور احمدی بچوں کی ذمہ داری دفتر اطفال میں شمولیت کیلئے لجنہ کی ذمہ داری 146 احمدی مائیں بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کیلئے وقف جدید میں شامل کریں 584.347 چندہ میں رقم کی مقدار کی شرط نہیں غریب سے غریب بھی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے سکتا ہے وقف جدیدا اور حضرت مصلح موعود وقف جدید کے بارہ میں حضرت خلیفہ ثانی کی دور و یا 598 49 وقف جدید مصلح موعود کے وعدہ کا ایک حصہ ہے 288 عادت پڑ سکے اس کی کامیابی کیلئے حضرت مصلح موعود کا یقین حضرت مصلح موعود کی ایک رویا سے وقف جدید کے عالمگیر ہونے کا پتہ لگتا ہے 27 458 دفتر اطفال اس لئے الگ کیا گیا تا بچوں کو قربانی کی احمدی بچوں کی قربانی کی مثال سارا انعام چندہ وقف جدید میں دے دیا وقف جدید اور ہندوستان حضرت مصلح موعود کی 12 لاکھ تک چندہ پہنچانے کی خواہش معمولی یا عام تحریک نہ سمجھیں اس کا ہندوستان 427 150 333 396 346 382 کے روحانی مستقبل کے ساتھ گہر اواسطہ ہے قادیان یا ہندوستان کی جماعتوں سے وقف جدید کا گہراتعلق 29 21 وقف زندگی اور مالی تحریک میں حصہ لینے کیلئے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا پیغام حضرت مصلح موعود کی نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک 29 ہندوستان کے سارا روپیہ وقف کرنے کیلئے وقف جدید کو عالمگیر کیا حضرت مصلح موعود نے اپنی بیماری سے کچھ عرصہ قبل یہ تحریک ہندوستان کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع فرمائی اس لئے بھر پور نگرانی نہ فرما سکے 112 113 وقف جدید کے عالمگیر ہونے کی تحریک

Page 655

۲۸ ہندوستان میں وقف جدید کو مضبوط کیا جائے 297 سال نو 1969 ء کا اعلان ہندوستان کیلئے نصرت جہاں نو سکیم ہونی چاہئے 332 سال 1969ء کی وصولی کے کوائف قادیان اور ہندوستان کی محصور جماعتوں کی خدمت وقف جدید کے ذریعہ ہوگی ہندوستان میں بھی وقف جدید قائم ہے اور پنجاب و دکن میں نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں ہندوستان کی وقف جدید شدھی کے علاقے کی طرف بھی توجہ کرے ہند و علاقے میں تبلیغ وقف جدید کا مقصد ہندو علاقے میں اشاعت دین اور ہندوؤں کا قبول اسلام 397 295 296 190.189 وقف جدید کے سال نو 1970 ء کا اعلان سال 1971ء کے مالی کوائف وقف جدید کے سال نو 1972 ء کا اعلان سال نو 1973 ء کا اعلان وقف جدید کے سال نو 1974 ء کا اعلان اس امید 159 166 167 175 174 183 191 کے ساتھ کہ ایک لاکھ روپیہا اضافہ ہوگا 1974 ء کے سال میں ایک لاکھ چندے کے اضافے کی امید اور یہ ہدایت کہ زیادہ رقم ہندو علاقے میں خرچ ہوگی 191 سال 1974 ء میں وقف جدید کی قربانی میں 25 فیصد وقف جدید کی اصل خدمت ہندوؤں میں تبلیغ کرنا ہے 245 اضافہ ہوا 196 197 200 206 217 220 230 222 235 241 256 258 343 273 299 308 324 ہندو علاقے میں کام کیا اور وہاں عیسائیوں کے پاؤں اکھیڑ دیئے ہندوؤں کو عیسائی ہونے سے بچایا ہند و علاقے میں غریبوں کی امداد چندہ کے سال بہ سال اعداد و شمار 292 313 313.312 وقف جدید کے سال نو 1975 ء کا اعلان وقف جدید کے نئے سال 1976 ء کا اعلان اور سال گزشتہ کے کوائف سال نو 1977 ء کا اعلان سال نو 1978 ء کا اعلان 17 جنوری 1958 ء تک کے چندہ اور وقف کے کوائف 31 وقف جدید کے سال نو 1979 ء کا اعلان ابتدائی چندہ کے کوائف سال 1979 ء کے کوائف سال نو 1980 ء کا اعلان سال 1981ء کا آغاز نئے سال 1982 ء کا اعلان نئے سال 1983 ء کا اعلان سال نو 1984 ء کا اعلان 1984ء سے 1988 ء کے چندہ وقف جدید پاکستان کے کوائف وقف جدید کے سال نو 1985 ء کا اعلان وقف جدید کا سال نو 1986 ء کا اعلان سال نو 1987 ء کا اعلان چنده وقف جدید سال 1987 ء کے کوائف 45 82 87 88 88 89 89 97 102 141 چندہ اور معلمین کی مساعی جنوری 1960 ء تک وقف جدید کے پانچوں سال کا اعلان ہفتہ وقف جدید ستمبر 1963ء کے موقع پر حضرت مصلح موعود کا پیغام وقف جدید کے چھٹے سال کے آغاز پر حضرت مصلح موعود کا پیغام ساتویں سال کے آغاز پر حضرت مصلح موعود کا پیغام آٹھویں سال کے آغاز پر حضرت مصلح موعود کا پیغام سال نہم کے آغاز پر حضرت خلیفہ ثالث کا پیغام 7 اکتوبر 1966ء کے کوائف وقف جدید سال نو 1967 ء کا اعلان

Page 656

وقف جدید کےسال نو 1988 ء کااعلان سال نو 1989 ء کا اعلان سال 1989 ء کے چندہ کے کوائف اور جماعتوں کی پوزیشن نئے سال 1990 ء کا اعلان سال1990ء کے کوائف ۲۹ 324 343 356 359 370 389 نئے مالی سال 2005 ء کا اعلان 590 مالی سال 2005ء کے اعداد و شمار 605 نئے مالی سال 2006ء کا اعلان بمقام قادیان دارالامان 606 مالی سال 2006ء کے اعداد و شمار متفرق 617 زمینداروں سے زمین کے وقف کے ذریعہ مدد زمینداروں کو وقف زمین کی تحریک 7 22 22 چنده وقف جدید سال 1991ء کے کوائف سال 1991ء، 1992ء کے کوائف و موازنہ 412 جماعت کراچی کے 2500 افراد کی چندہ میں سال نو 1992 ء کا اعلان بمقام قادیان وقف جدید کے سال نو 1993 ء کا اعلان سال نو 1994ء کا اعلان بمقام ماریشس چنده وقف جدید سال 1994ء کے کوائف سال 1995ء کے کوائف سال نو 1996 ء کا اعلان سال 1996 ء کے چندہ کے اعداد و شمار نئے سال 1997 ء کا اعلان سال 1997 ء کے چندہ کے اعدادوشمار نئے سال 1998 ء کا اعلان سال 1998ء کے اعداد و شمار نئے سال 1999 ء کا اعلان نئے مالی سال 2000 ء کا اعلان مالی سال 2000ء کے اعداد و شمار سال نو 2001ء کا اعلان مالی سال 2001 ء کے اعداد و شمار مالی سال 2002ء کا اعلان مالی سال 2002 ء کے اعداد و شمار نئے مالی سال 2003 ء کا اعلان مالی سال 2003ء کے اعداد و شمار 375 409 429 454 469 465 484 477 502 501 507 507 530 535.531 536 548 548 555 554 573 شمولیت فروری 1958 ء تک 40 جماعت کینیڈا امریکہ جرمنی اور انگلستان کو شاملین چندہ اور معیار چندہ فی کس بڑھانے کی نصیحت 615 وقف جدید کی خصوصی مساعی پر مبنی جماعت امریکہ اور کینیڈا کی رپورٹ کا خلاصہ 423 چند و وقف جدید میں امریکہ کی خصوصی مساعی اور نمایاں پوزیشن 413 عالمگیر ہونے کے بعد انگلستان کا پہلے سال کا چندہ 311 وقف زمین وقف جدید کیلئے دس ایکڑ زمین وقف کرنے والوں کا ذکر 25 ،26 وقف عارضی کی تحریک تحریک وقف عارضی میں شمولیت کی تحریک 103 104 وقف عارضی کی رپورٹس سے جماعتی تربیتی مسائل سے آگاہی 114 113 وقف جدید کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اللہ نے القاء کیا کہ میں وقف عارضی کی تحریک جاری کروں (خلیفہ ثالث) 140 تین ماہ میں ایک ہزار وفود کی روانگی 163 جماعت کے عہدے داران اور مربیان وقف عارضی کی طرف توجہ دیں 164 تحریک وقف عارضی میں شمولیت کیلئے عہدے داروں 165.164 وقف جدید کیلئے ڈاکٹر اور تاجروں کو وقف عارضی وقف جدید کے مالی سال 2004ء کا اعلان 575 اور احباب کو توجہ مالی سال 2004ء کے اعداد و شمار 590

Page 657

ہند و علاقے سندھ میں تبلیغ اور وہاں جماعت اسلامی کے مولوی کی طرف سے گالیاں اور ہندو نمبر دار کی مداخلت 268 257 166 288 289 290 295 ایک ہندو بھگت کی بیعت بذریعہ خواب نگر پارکر میں ہندوؤں کا قبول احمدیت 1969 ء تک کے کوائف ہندو زیادہ سندھ میں آباد ہیں اور ان کا تعلق پسماندہ قوم سے ہے ہندو مہاجنوں کی تھر کے غریب ہندو زمینداروں کے ساتھ بدسلوکی پسماندہ اور غریب ہندوؤں کے ساتھ مسلمان زمینداروں کی بدسلوکی سندھ کے پسماندہ ہند وسندھ کی جان ہیں سندھ کے ہندو علاقے تھر میں وقف جدید کی خدمات 361 404 ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کی تحریکات پاکستان اور بعض مسلمان ممالک کی جہالت کا طبعی نتیجہ ہیں سندھ کے ہند و علاقہ میں تبلیغ کا کام بذریعہ وقف جدید 608 70 70 245 293 293 70 367 ہو میو پیتھی طریق علاج ستا علاج ہوتا ہے حضرت مصلح موعود کو ہومیو پیتھی کا شوق 259 294 438 489 209 557 398 30 246 کرنے کی ضرورت تھر پار کر کے علاقے میں احمدی زمیندار، ڈاکٹر وکیل اور ماہرین تعلیم وقف عارضی کریں وقف نو واقفین نو کو مختلف زبانیں سکھانے کا منصوبہ بذریعہ MTA ولی رولایت وقف جدید کا ولایت سے تعلق حضرت مصلح موعود نے رکھا ہے افریقہ میں بھی اولیاء اور مجددین پیدا ہوئے جیسے حضرت عثمان فودی ہجرت احمد یوں کی ہجرت کی برکات ہسپتال قادیان میں چوٹی کا ہسپتال بنانے کا منصوبہ ہندور ہند و منت ہندو پنڈتوں کے مقابلہ کیلئے سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت وغیرہ کتابیں ہیں ہندو بھیک نہیں مانگتے اور لین دین میں صاف ستھرے ہیں وقف جدید کی اصل خدمت ہندوؤں میں تبلیغ کرنا ہے وقف جدید خیراتی ہو میو پیتھی ادارہ بھی ہے قیام پاکستان کے بعد جماعت میں ہندوؤں میں پہلا پھل وقف جدید کو ملا ہے وقف جدید کے ذریعہ ہندوؤں میں اشاعت اسلام کی مساعی اور ہندوؤں کا قبول اسلام 245 245 190 معلمین وقف جدید کے ذریعہ اس طریق علاج کوسندھ میں رواج سندھ کے علاقے میں ایک بیماری کا کامیاب علاج سلیشیا سے احمدی نو مسلم احمدی ڈاکٹر کے ذریعہ ربوہ کے ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر جو معمولی کلکرک ہندو علاقے میں وقف جدید کی مساعی اور ہندوؤں کا اسلام کی تھے لیکن پریکٹس میں بڑی مشق کر لی طرف رجحان جلسه 83 ، پر 150 نومسلموں کی شرکت 257 1983 ء تک ہندو علاقے کے 200 دیہاتوں میں اسلام پھیل چکا ہے 259 یہود یہودی علماء کی دینی حالت اور قرآن کریم کی گدھے پر کتابیں لادنے کی مثال

Page 658

آ.ا.ب آدم ابراہیم علیہ السلام آپ کی رؤیا جس کے مطابق اسماعیل کو بے آب و گیاہ وادی مکہ میں چھوڑ آئے پادری کا وعظ کہ ابراہیم نے اسماعیل کے گلے پر چھری پھیر دی ابراہیم بونسو صاحب آف غانا آپ کی مالی قربانی کا ذکر ابن عباس ابن عربی ، محی الدین آپ کی کتاب فتوحات مکیہ سے کولمبس کو امریکہ دریافت کرنے کی تحریک ہوئی ابن مسعود ابو الدحداح اسماء 171 37.6 1 1 5 8 3 551 50 498 551 468.15 587.569.553 ابو العطاء جالندھری، حضرت مولانا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مرض الموت میں رسول کریم نے آپ کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا اسلام لانے کے وقت چالیس ہزار اشرفی کے مالک تھے.ہجرت کے وقت صرف پانچ سورہ گئی باقی اسلام کے لئے خرچ کر ڈالی اپنے بیٹے کو کہنا کہ اگر حالت کفر میں جنگ میں تو سامنے آتا تو میں تیری بوٹیاں اڑا دیتا ย ابور ویچ ابوسفیان بیعت کرنے کا واقعہ 37 131 61 60 52 59 اہل مکہ کا ابوسفیان کو فتح مکہ سے پہلے معاہدے کے لئے بھیجنا 59.58.57 جو شخص ابوسفیان کے گھر داخل ہو جائے گا اسے امان دی جائے گی فتح مکہ پر آنحضور کا اعلان 60 ابو عبيدة 63.52 ابو مسعود 565.551 ابوھریرة 512.496.394.393.392 احمد بریلوی سید احمد سرہندی، سید احمد لطیف ابن صاحبزادہ محمد طیب اروڑا خان، حضرت منشی 6.5.4 6 301 مالی قربانی میں حصہ نہ ڈلوانے پر آپ کی ناراضگی اسحاق علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام بے آب و گیاہ وادی میں بیٹھ جانا بہت بڑی قربانی تھی اسماعیل شہید، سید اسماء بنت ابو بکر 567 37 37 1 5 آنحضور کی آپ کو نصیحت کہ گن گن کر خرچ نہ کیا کرو 582 اشفاق احمد ملک عمله حفاظت لندن اقبال ے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی اللہ بخش صادق ناظم وقف جدید آپ کے دور میں وقف جدید کی ترقی کا ذکر 474 331 308 411 37 603.586 الیاس علیہ السلام امام الدین کشمیری ام حبیبہ ام المومنین اپنے مشرک باپ ابوسفیان کے نیچے سے رسول اللہ

Page 659

کا گدا جس پر نماز پڑھتے تھے وہ کھینچ لیا امیر احمد مولوی در ولیش قادیان امیرحسین، قاضی سید امیر عالم ماسٹر شیخو پوره انور حسین چوہدری شیخوپورہ انور محمود خان امریکہ سیکرٹری وقف جدید امریکہ.ان کی محنت اور 58 474 15.5 301 506 ۳۲ اکمل صاحب کی تشریح فرماتے ہیں آپ کا جوانی میں گرمیوں میں روزہ رکھ کر گھنٹوں درس قرآن دیا صحابہ اور موصیان کے جنازے پڑھانا تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر کی تاثیرات 49 55.54 74 71 آپ کا مدرسہ دیو بند دیکھنے کے لئے سفر اور شرکا ء سفر 5 علاج کے لئے لندن جانا 67 423.413 مساعی کا ذکر وقف جدید میں امریکہ کی کامیابی کا سہرا ایک حد تک ان کے سر ہے ایوب علیہ السلام برہان الدین مولوی بشارت احمد محمود مربی سلسله بشری بنت نذیر احمد سنگی بشیر احمد ، حضرت مرزا 432 37 15 300 301 475.213.212 انگریزی زبان پر غیر معمولی عبور اور فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے 402 504 آپ کی سرشت میں منصوبہ بندی موجود تھی بشیر الدین محمود احمد حضرت خلیفہ اسیح الثانی 561 حالات و واقعات اللہ نے آپ کو گہری بصیرت عطا فرمائی تھی 288 مجھے ہومیو پیتھک کا شوق ہے اور میں ہیں سال سے مفت علاج کر رہا ہوں میرے کتب خانہ میں اتنی کتب ہیں کہ بڑے حضرت مصلح موعود اور وقف جدید 70 ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں 70 مری میں ایک معمولی کمپاؤنڈر ہو میو پیتھ کے علاج سے فائدہ ہوا 70 خلیفہ اول نے آپ کو مثنوی مولاناروم گلستان و بوستان پڑھائی 23 تحریک وقف جدید کا پس منظر 6.4 تحریک وقف جدید کا اعلان اور اس کی غرض وغایت 14،12،7 تحریک جدید وقف جدید اللہ نے میرے دل میں ڈالی 21 حضرت مسیح موعود کو جو مصلح موعود کا وعدہ فرمایا گیا تھا اس لئے اس کو کامیاب کرے گا آپ کا دماغ ہر وقت سوچتا رہتا تھا آپ نے تحریک جدید وقف جدید اور ذیلی تنظیمیں قائم فرمائیں 95 حضرت خلیفہ اول نے بتایا تھا کہ میرے زمانہ میں احمدیت پھیلے گی جماعت کی مالی قربانی کے جذ بہ میں حضرت مصلح موعود 88 وقف جدید بھی اسی وعدہ کا ایک حصہ ہے آپ کی ایک رویا جس سے وقف جدید کے عالمگیر ہونے کا پتہ لگتا ہے کے ۵۲ سال کی محنت بھی شامل ہے آپ کی ایک رؤیا جس میں آپ احباب جماعت کو تبلیغ کے جہاد کی تلقین فرمارہے ہیں آپ کی ایک رؤیا جس میں آپ قاضی ظہور الدین 312.311 49 288 458 اپنی بیماری سے کچھ عرصہ قبل وقف جدید شروع فرمائی 112 وقف جدید کے آغاز 1957 ء کے موقع پر سب سے پہلا ممبر آپ نے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو مقرر فرمایا 361 آپ نے وقف جدید مجلس کے ممبر کے طور پر پہلا نام طاہر لکھا 375 ہمارے لئے نیکیاں کرنے اور رحمتیں کمانے کے لئے

Page 660

57 603.586 475.15 17 474 25 ۳۳ آپ نے وقف جدید جاری فرمائی وقف جدید کے معلمین کم از کم ایک ہزار اور چندہ بارہ لاکھ تک پہنچانے کی تحریک آپ کی خواہش تھی کہ ہر گاؤں میں ایک واقف وقف جدید بٹھا دیا جائے وقف جدید کے لئے آپ کا چندہ 139 85 160 134 بنو بکر قبیلہ صلح حدیبیہ کے تحت اہل مکہ سے مل گیا جمال الدین میاں سیکھوانی ج - چ - ح - خ جلال الدین شمس ، حضرت مولانا چٹو، میاں وقف جدید کو کامیاب کرنے کے لئے پور از ور لگائیں 83 ایک عرب کو قادیان لانا وقف جدید میں وقف زندگی اور چندہ میں حصہ لینے کے لئے آپ کا پیغام احباب کے نام وقف جدید کے پانچوں سے آٹھویں سال کے آغاز پر حضرت مصلح موعود کے پیغامات وقف جدید کیلئے تھر پار کر یا حیدر آباد میں دس ایکڑ 21 89086 چراغ دین حضرت حکیم حباب عبداللہ ابن ابی بن سلول کا بیٹا تھا محبت رسول میں باپ کومعاف نہ کرنا حسن علی بھاگلپوری، مولوی زمین وقف کرنے کا اعلان تحریکات ونصائح تحریک جدید کو بڑی محنت سے اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے نظام کے سپر د کیا اپنی نسل میں احمدیت کی تبلیغ کا جوش پیدا کرتے چلے جائیں 25 112 83 انگریزی بان میں مہارت اور کتاب تائید حق حسین ، حضرت امام خالد بن ولید برلن مسجد جو کہ لجنہ کے چندہ سے تعمیر ہوگی اس کا خدیجه سندھ کے ہندو آبادی والے علاقے میں تبلیغ کیلئے تاکید خزاعہ قبیلہ احمدی نوجوان افریقہ میں کام کر کے اسماعیل سے مشابہت اختیار کریں نوجوان خواجہ چشتی اور سہروردی کے نقش قدم پر چلنے کے لئے زندگیاں وقف کریں جماعت اور اولاد کو نصیحت کہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں جماعتی ترقی کے صرف چند سال باقی ہیں جماعت اپنے قیام کی صد سالہ جوبلی منائے بدرسومات سے بچنے کی تحریک بلال 289 3 3 77 28 29 121 60 خیر الدین صاحب سیکھوانی نام خدیجہ رکھا گیا ہے صلح حدیبیہ کے تحت یہ قبیلہ آنحضور سے مل گیا و.ڈر.ز داؤد علیہ السلام ڈسمنڈشا رام چندر دلی کے ایک بزرگ کا آپ کور ویا میں دیکھنا رحمت اللہ حضرت شیخ رستم علی صاحب منشی کورٹ انسپکٹر گورداسپور 15 38.35 63.60 621 57 603.586 37 67 20 78 585.20.16 586 رستم علی صاحب مدار حضرت چوہدری، ضلع جالندھر آپ کی مالی قربانی کا اور فدائیت کا واقعہ 568.18

Page 661

213 شیر علی حضرت مولانا شیر محمد یکه بان یکہ چلاتے تبلیغ کرتے اور سواریوں سے الحکم پڑھاتے 72 شیر محمد 474 صادق محمد طاہر سال 1999 ء کی غیر معمولی اہمیت کے بارہ میں ان کے نکات 524 صدرالدین ، مولوی 20 صلاح الدین شمس برادر منیر الدین شمس طح ظمی 301 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اصیح الرابع رحمہ اللہ حالات و واقعات آپ کے بچپن میں قادیان کی روحانی اور روح پرور کیفیات 380 ہماری والدہ ہمیں بتا کر بلکہ پیسے دے کر پھر واپس لیا کرتی تھیں یہ سمجھا کر کہ تم چندہ دے رہو ہو 427 ہماری والدہ ہم سے پیسے لے کر چندہ ادا کرواتی ہیں.اس لئے مجھے بچپن سے چندہ کی عادت پڑ گئی 557،556 امیر کی بجائے غریب آدمی کی دعوت قبول کرنے کا واقعہ 554 515 515 499 525 576 ۳۴ 568 301 471 15.5 23 37 38.35 38 316 474 15.5 26.23 رشیدالدین، حضرت ڈاکٹر خلیفہ آپ کی مالی قربانی کا ذکر رضیہ بیگم اہلیہ چوہدری بشیر احمد خان رفیق چانن صاحب روشن علی صاحب، حضرت حافظ روم حضرت مولانا آپ کی مثنوی خلیفہ اول نے خلیفہ ثانی کو پڑھائی زکریا علیہ السلام زین العابدین ابن حضرت امام حسین زینب بنت علی واقعہ کربلا کے وقت زین العابدین کو واپس خیمہ میں لائیں س ش ص سالکین صاحب آف سنگاپور وفات پر ذکر خیر اور اخلاص کا تذکرہ سردار بیگم اہلیہ علی محمد سرور شاہ ، حضرت سید سعدی، حضرت شیخ آپ کا شعر آں نه من باشم که روز جنگ بینی پشت من 27 سلمی صدیقہ اہلیہ علیم الدین صاحب اسلام آباد 474 بچا ہوا کھانا سمیٹنا ہوں تا ضائع نہ ہو پانی ضائع نہیں کرتا.شاور کھول کر غافل نہیں ہو جاتا سلیمان علیہ السلام سیبویه سیف الرحمن، حضرت ملک شادی خان ، میاں لکڑی فروش شرمیت لالہ، قادیان کا آریہ شمیم احمد ڈاکٹر شمیم خالد کیپٹن 352.37 450 475.468 587 546 439 روزے کی وجہ سے منہ خشک ہونا یہ عادت اپنے والد، بھائی سے ورثہ میں پائی ہے الہام Friday the 10th کی برکت سے صحت پر غیر معمولی اثر رونما ہوا آپ کا شعر ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ حضور اور وقف جدید امیر ومشنری انچارج بیلجیم کی حیثیت سے خدمات کا ذکر 419 وقف جدید کے آغاز پر اولین ممبران وقف جدید میں 409.375.311.287 آپ کو مقر ریا گیا 4.3 شہاب الدین سہروردی

Page 662

۳۵ مصلح موعود نے مجھے بلا کر سمجھایا کہ میں نے تمہارا سندھ کے احمدی زمینداروں کو پسماندہ ہندوؤں نام وقف جدید میں سب سے پہلے رکھا ہے 535،530 سے حسن سلوک کی نصیحت وقف جدید میں پہلا میرا نام لکھنے میں پیشگوئی تھی کہ اللہ سندھ کے احمدی زمینداروں ،ڈاکٹروں ،وکیلوں مجھے وقف جدید کی غیر معمولی خدمت کی توفیق دے گا 409 ماہرین تعلیم کو سندھ کے ہندو علاقے میں وقف وقف جدید کے ساتھ مجھے ایک زائد قلبی وابستگی بھی ہے 429 عارضی کی تحریک 1957 ء کا سال میری زندگی میں خاص اہمیت والا ہے.ازدواجی زندگی کا آغاز اور وقف جدید کے 295.294 پردہ کے بارہ میں خواتین کو ہدایات اور احمدی خواتین سے توقعات 294 254.250 276 ذریعہ باقاعدہ جماعتی خدمات کا آغاز اس سال کیا 361 دورہ یورپ کا ذکر تقریباً 24 سال وقف جدید میں خدمت کی توفیق ملی 343 عرب ممالک اور عرب بھائیوں کیلئے دعا کی تحریک 260 27 دسمبر 1958 ء کو میں نے وقف جدید کے عالمگیر آپ کا سفر ماریشس اور ایم ٹی اے کی مستقل نشریات ہونے کا اعلان کیا 531 کا آغاز نیز الفضل انٹرنیشنل کے آغاز کا اعلان ظفر احمد حضرت منشی ہندوستان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے وقف جدید کے عالمگیر ہونے کی تحریک کی 382 آپ کی مالی قربانی کا واقعہ وقف جدید کے دورہ جات کی بہت زیادہ توفیق ملی 531 ظفر اللہ خان، حضرت چوہدری وقف جدید کے لئے آپ کی خدمات اور تجربات کا تذکرہ خلیفہ ثالث سے بیرون ممالک کو وقف جدید میں شامل کرنے کی اجازت لی 607 346 ٹھٹھہ کی بجائے لا بینی (حیدر آباد ) میں دس ایکڑ زمین قادیان میں 45 سال انقطاع خطبات خلفاء کے بعد وقف جدید ظہور الدین اکمل، حضرت قاضی کے نئے سال کے اعلان کی توفیق آپ کو ملی 376 ہندوستان میں وقف جدید کو مضبوط کرنے کی تحریک 297 تحریکات و نصائح قادیان کی عزت واحترام بحال کرنے کے آپ 442 425 566 33.25 وقف جدید کے لئے وقف کر دی ظفر علی خان ، مولوی جماعت کی تعداد کو حقارت کی نگاہ سے تحریر کرتے تھے 24 خلیفہ اسیح الثانی کا آپ کو رویا میں دیکھنا اور آپ کے نام کی تشریح کرنا 49 ع غ عائشہ رضی اللہ عنها 228 کے منصوبے قادیان میں ایک وسیع جامعہ بنانے کا منصوبہ 397 379 نرم روٹی کا لقمہ ڈالنے سے فرط جذبات سے آنسو نکل آئے 66 عباس قادیان کے لئے اعلیٰ تعلیمی سہولتوں کا منصوبہ 401،400 عبدالحق، حضرت منشی قادیان میں عظیم الشان ہسپتال اور رہائشی تعمیرات کا آپ کا منصوبہ ہندوستان میں شدھی کے خلاف جہاد کی تحریک اور اس کے نیک شمرات 399 346 عبد الحق میاں خلف عبدالسمیع عبدالرحمن بن ابی بکر عبدالرحمن مدراسی ، سیٹھ 59.58 474 587 61 حضرت مسیح موعود سے محبت اور مالی قربانی 18

Page 663

۳۶ عبدالرحمن اللہ رکھا، حاجی سیٹھ آف مدراس 585 عبدالرحمن حاجی رئیس باندھی دس ایکڑ زمین وقف جدید کے لئے وقف کرنا 33 بدعت اور سنت پر آپ نے ایک بڑی اچھی کتاب لکھی ہے 231 عزیز بوگیلو صاحب آف ماریشس 317 عکرمہ عبدالرحیم اشرف ایڈیٹر رسالہ المنبر فیصل آباد 454 مکہ سے چلے جانے کا ارادہ اور پھر واپس آنا رسول کریم عبدالرشید آرکیٹیکٹ عبدالعزیز پٹواری، میاں عبدالغفور چوہدری عبد الغنی جہانگیر 399 603.588.586 317 وقف جدید کے بارہ میں آپ کی ایک رؤیا عبد القادر پروفیسر عبد القادر صاحب صحابی حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی، حضرت مولانا عبدالماجد دریا آبادی، مولانا ان کا اپنے اخبار میں لکھنا کہ پاکستان بننے کے بعد جماعت احمدیہ پہلے سے بڑھ گئی ہے عبدالمالک خان،حضرت مولانا عبدالمطلب عبداللطیف شہید حضرت صاحبزادہ سید حضرت مسیح موعود سے عشق کا ایک واقعہ 433 15 55 588.18 40 177 251 301 18.17 عبداللہ خان چوہدری امیر جماعت کراچی انسپکٹر وقف جدید مقرر کر کے معلمین کی نگرانی کریں 43 عبداللہ صاحب المعروف پروفیسر حضرت مسیح موعود سے محبت کا انداز یو.پی کے رہنے والے اور ہندوستان میں تماشے دکھاتے اور سرکسوں کے مالک تھے عبداللہ بن ابی بن سلول عبید اللہ سندھی ، مولوی عثمان خودی 17.16 18 64 5 کی طرف سے معاف کئے جانا اور قبول اسلام رومیوں کے خلاف جنگ میں شامل عمر بن خطاب علی رضی اللہ عنہ علی محمد برادر شیر محمد علیم الدین صاحب امیر اسلام آباد عیسی علیہ السلام آپ کا رفع رفع روحانی ہے آپ کی تعلیم کہ اگر کوئی ایک شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو 83 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی 62 64.63 553.65.63.59.52 57 474 474 565.553.38.37 528 مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام مقام.سیرت طیبہ.قوت قدسی آپ کو اللہ نے کرشن بھی قرار دیا احادیث میں یقتل الخنز بر اور یکسر الصلیب کے کام بتائے گئے آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی بے انتہا محبت تھی آپ کے الہام اور بزرگ کے کشف سے تائید ہوئی آپ کے پاکیزہ کلام میں سبحان من برانی کا لطیف مضمون کرے گا اس کا حافظہ تیز ہوگا آپ کا فرمانا کہ جو میرا عربی قصیدہ مدح رسول یاد آپ کے عشق رسول پر عبداللہ صاحب عرف پروفیسر کی گواہی عربوں سے محبت کا اظہار افریقہ کے مجد د جن کا عرصہ حضرت مسیح موعود سے ایک سو سال قبل کا ہے انہوں نے بدعات کے خلاف جہاد کیا 209 ہندوستان میں تبلیغ کر کے ہم مسیح موعود کو کرشن ثابت 77 78 78 386 149 17 262

Page 664

۳۷ کر سکتے ہیں ہندوؤں میں آپ کی عزت قائم ہوگی آپ کی تصویر دیکھ کر ہندو بھگت احمدی ہو گیا کہ 81 82 257 یہ بزرگ تو خواب میں آئے تھے آپ کی قوت قدسی کا اثر صحابہ پر کہ وہ مالی قربانی کرتے 597 آپ کی جماعت کا غیر معمولی انفاق فی سبیل اللہ آپ کی صداقت کی روشن دلیل ہے 465 پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا دود فعہ ہم نے رویا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے جھکتے ہیں...تیری عاجزانہ را ہیں اس کو پسند آئیں الخير كله في القرآن 81 82 880 96 120.117 ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء 155 جماعت کی قربانی اور اخلاص آپ کی قوت قدسی کا نتیجہ ہے 585 انت الشيخ المسيح الذي لايضاع وقته جماعت کا اخلاص حضرت مسیح موعود کی صداقت کا 249 وسع مکانک آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے 175 199 زندہ ثبوت آپ کی قبولیت دعا کا زندہ ثبوت حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا با عمر ہونا آج مسیح موعود کے لنگر سے کروڑوں لوگ لقمے کھا رہے ہیں 426 546 زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں 247 254 يدعون لك ابدال الشام و عباد الله من العرب 264 اللہ نے آپ کو کشفی نظاروں میں دکھایا کہ جماعت کو بے انتہا اموال ملنے والے ہیں 312 آپ کے لنگر خانہ کا جاری ہونا اور دو تین سو عیالداروں میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا576،518 کا یہاں سے کھانا ایک نشان ہے آپ کے لنگر سے آپ زندگی میں ہی کئی عیال دار دو وقت کی روٹی کھاتے تھے ایک مخالف نے لاہور آپ کو لات ماری جس سے آپ گر گئے لیکن آپ نے عفو کا سلوک فرمایا 545 545 16 ہمارا نام حکم عام بھی ہے 519 مبشروں کا زوال نہیں ہوتا.گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے 519 آپ کی ایک رؤیا جس میں فرشتہ کو لڑکے کی صورت میں دیکھا جو چبوترہ پر بیٹھا ہے اور ہاتھ میں پاکیزہ نان ہے 544 آپ کے صبر تحمل اور وسعت حوصلہ کی ایک شاندار مثال 18،17 یہ نان تیرے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کیلئے ہے 545 احباب کو دشمنوں کے لئے بھی دعا کی تلقین کی دعوی مسیح موعود کے ساتھ ہی ہر طرف سے مخالفت شروع ہوگئی 169 16 آپ کے الہام نیچی پر اعتراض اور اس کی حقیقت 547 آپ کا حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے نام بیٹے کی ولادت پر مبارکباد کا خط رویا کشوف الہامات انت منى بمنزلة توحيدی و تفریدی 425 67 اے کرشن رو در گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے 77 کسی صاحب نے مدد کتاب کیلئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں 546 انی مع و مع اهلک.انی مع كثرة رزقک 546 آپ کی ایک رؤیا جس میں بیچی نامی فرشتہ آیا اور جھولی میں بہت سا روپیہ ڈال گیا انفقوا في سبيل الله ان كنتم مسلمين آپ کا علم کلام رکتب آپ کے کلام کا اثر آپ کی کتب کے علمی خزانہ میں قیامت تک کے مسائل کا حل موجود ہے 547 571 71 91

Page 665

۳۸ ہر احمدی کو کم از کم تین بار آپ کی کتب کا مطالعہ ضرور فرزند علی صاحب والد ہادی علی چوہدری کرنا چاہئے میں نے آپ کی کتب کو دس پندرہ مرتبہ پڑھا ہے خلیفہ ثالث 91 91 317 فرید احمد ابن لئیق احمد صاحب آف افریقہ 150 فرید الدین شکر گنج فضل الہی چوہدری ، ربوہ آپ کی کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں فضل بن عباس کا جواب میں غلط عقائد عیسائیت کے سینکڑوں دلائل ہیں 91 فقیر محمد موہی آف کسری آپ نے الوصیت میں ایک مالی نظام قائم فرمایا 93 وفات پر ذکر خیر آپ کی کتب کی بہترین کتابت اور طباعت کروانے کرشن علیہ السلام کی ہدایت آپ کے اشعار الا اے دشمن نادان و بے راہ بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید پھیر دے میری طرف اے سارسان جنگ کی مہار يا عين فيض الله والعرفان حمامتناتطير بريش شوق بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل سب کچھ تیری عطا ہے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام لفاظات الموائد كان اكلى غلام احمد صاحب شیخ غلام فرید، حضرت ملک آپ کی وفات اور شمائل کا تذکرہ انگریزی ترجمہ قرآن میں خدمات خلافت اور نظام سے محبت کا واقعہ غلام حیدر چوہدری آف بہاولپور فیک فاطمة فتح محمد حضرت چوہدری 236 17 35 38.35 83 149 266 324.323 371 387 440 545 15 475 212 213 213 300 61 10 4 474 64.63 316 82.81 80.78 آپ کے بارہ میں دلی کے ایک بزرگ کا رویا حضرت مسیح موعود کو اللہ نے الہام میں کرشن بھی قرار دیا 77 قرطبی 393 کریم بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری چراغ دین صاحب 317 کمال الدین صاحب، خواجہ ان کے اخلاص اور قربانی کا ذکر کولمبس 20.17 19 امریکہ دریافت کرنے کی تحریک مسلمان بزرگ ابن عربی کی کتاب فتوحات مکیہ سے ہوئی ل.من 50.49 لال جی سیٹھ سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کے دوست اسی کے دوست کچھی داس لوط علیہ السلام 18 547 37 لیق احمد صاحب آف افریقہ ان کے اخلاص اور بچوں کی تربیت کے خیال کا ذکر 149 لیکھرام اس کی بدزبانیوں کے مقابل پر حضرت مسیح موعود کے انداری اشعار مبارک احمد ظفر لندن 17 503.497 مبارک احمد نذیر صاحب جماعت کینیڈا کی طرف سے وقف جدید چندہ میں

Page 666

۳۹ خصوصی مساعی کا ذکر حضرت محمد مصطفی اعلا 423 آپ وقف جدید کے تاحیات صدر رہے در مشین فارسی میں اعراب وغیرہ لگا کر مسودہ تیار آپ نے عملاً دنیا میں خدا کی حکومت قائم کر کے دکھا دی 51 کرنے کی خدمت اللہ سے آپ کا وعدہ ہے کہ ہر آنے والا دن پہلے سے بہتر ہوگا آپ خیر ہی خیر تھے 467 228 محمد الحق، حضرت میر احمد یہ چوک قادیان کے بورڈ پر اخلاق و آداب پر مبنی احادیث لکھنا 535 236 203 آپ کی قوت قدسیہ کہ وحشیوں کو خدارسیدہ انسان بنا دیا 204 محمد اسماعیل گوڑیانی ڈاکٹر رفیق حضرت مسیح موعود آپ صحیح ناصری سے بڑے تھے.انگریز مصنف ڈسمنڈ شا کا بیان بنادیا 67 حضرت مسیح موعود نے آپ کو اپنے 12 حواریوں میں شامل کیا تھا خدمت اور اشاعت دین کے شوق کی انتہا مرض الموت محمد بہاءالدین شیخ، مدارم المهام ریاست جونا گڑھ میں پردہ اٹھانے کا حکم کہ مسلمانوں کی حالت دیکھ لوں 37 آپ کا سفر طائف اور قوم کی ہدایت کی تڑپ 228 پچاس رو پید آنا عربوں کو قعر مذلت سے اٹھا کر آسمان تک بلند کر دیا 307 آپ کا شعر 32 ان کی طرف سے حضور کو کتاب کی مدد کیلئے 546 محمد بی بی صاحبہ والدہ وحید سلیم صاحب آف لاہور 317 محمد حسین بٹالوی انا النبي لا كذب جو کچھ محمد رسول اللہ کا ہے وہ خدا کا ہے 251 51 حیات د وفات مسیح پر حضرت خلیفہ امسح الاول سے مباحثہ اور حدیث پر اصرار آپ کی صداقت کا زبردست نشان کہ آپ کی زندگی محمد حسین قریشی موجد مفرح عنبری لاہور میں ہندہ جیسی شدید دشمن مسلمان ہوئی اور قربانیاں دیں 52 محمد دین حکیم آف قادیان فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ کیلئے امان کے سامان پیدا کرنے کا اعلان فتح مکہ کے موقع پر آپ کا شاندار عفو اور لا تشريب عليكم اليوم کا اعلان غزوہ حنین میں آپ کا حیرت انگیز کر دار قرض واپس کرتے تو بڑھا کر کرتے تھے محمد احمد مظہر، حضرت شیخ 60 61 250 550 530.468.409 حضرت مسیح موعود کی دعا ” خدا تعالی با عمر کرے“ کی قبولیت کا ثبوت 426 ان کی اہلیہ کے جنازہ کا ذکر محمد رفیق چوہدری لندن محمد سرور آف وہاڑی محمد سعید ( کیپٹن ) محمد شریف اشرف صاحب لندن 80 17 301 372 301 44 497 وکالت مال لندن میں آپ کی عمدہ خدمات کا ذکر 372 محمد صادق چوہدری آف جھنگ 301 محمد طیب صاحبزادہ ابن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید آپ کو صحابی کہنا.آپ کی پیدائش پر حضرت مسیح موعود محمد عمر حکیم 301 15 55 کا آپ کے والد کومکتوب مبارک آپ کی ادائیں صحابہ والی تھیں 425 426 محمد علی ایم اے مولوی قادیان آ کر مالی فائدہ اٹھایا 20 20

Page 667

493 494 474 466 301 313 منصور احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا آپ کی وفات پر تعزیت کے خطوط خطوط میں آپ کی سیرت کے بارہ میں اہم نکات احباب لکھ سکتے ہیں جو پہلے بیان نہیں ہوئے منور احمد لون منیر الجابی صاحب منیر الدین شمس، مولانا مودودی ابوالاعلیٰ موسیٰ علیہ السلام 4 محمد قاسم نانوتوی مدرسہ دیوبند کے بانی آپ کے پوتے کا ذکر جس سے خلیفہ ثانی کی ملاقات دیوبند میں ہوئی 5 177 596.588 محمد نذیر لائکپوری، مولانا قاضی محمد یوسف پشاوری، حضرت قاضی حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کا دورہ قادیان 613 565.553.38.37 آپ خطبہ 6 جنوری 2006ء بمقام قادیان دارالامان حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ المسح الثالث جماعت ہندوستان کو تربیت اور تبلیغی پروگراموں میں وسعت اور جوش پیدا کرنے کی نصیحت سندھ کے احمدی زمینداروں کو غریب تھری لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین ایمان کی مضبوطی کیلئے چندوں کی تحریک جماعت میں ہمیشہ سے ہوئی اور ہوتی رہے گی پاکستان کے احمدیوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ جو جذبہ قربانی آپ میں پیدا ہو گیا ہے کبھی مرنے نہ دیں بلکہ 594 613 609 613 وقف جدید کا وعدہ اپنی طرف سے اور حضرت مصلح موعود کی طرف سے آپ نے 1966ء میں وقف جدید دفتر اطفال کا اعلان فرمایا احمدی بچوں کو وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اس کو پُر کرنے کی تحریک میری شدید تڑپ ہے کہ احمدی بچے (لڑکے، لڑکیاں ) مل کر وقف جدید کے مالی بوجھ کو اٹھا لیں 97 531 106 117 وقف جدید کا مالی بوجھ احمدی بچوں پر ڈالنے کی تحریک 149 373 584 101 وقف جدید میں بڑوں کی نسبت بچوں کے چندوں میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے وقف جدید پاکستان کو احمدی بچوں کے ذمہ لگایا وعدہ جات وقف جدید کم از کم چھ لاکھ کرنے کی تحریک اپریل 1966 ء 617 616 ہر مخالفت کی آندھی ہی مزید ابھاریں مغربی ممالک بھی وقف جدید کی تحریک کو بچوں کے سپرد کریں مسعوداحمد خان صاحب دہلوی آپ کی ایک رؤیا کا ذکر 522.521.520 مظفر احمد حضرت صاحبزادہ مرزا ( ایم.ایم احمد ) پینشن یافتہ اساتذہ اپنی بقیہ عمر وقف جدید کیلئے وقف کریں 105 آپ کے دور امارت میں جماعت امریکہ کے مالی نظام کی ترقی اور استحکام وقف جدید میں امریکہ کو اول لانے کا عزم معین الدین ، حضرت حافظ معین الدین چشتی و 504 470 602.589 4.3 ریٹائر ڈ لوگوں کو وقف جدید کیلئے وقف کرنے کی تحریک 114 وقف جدید کیلئے رضا کاران وقف کرنے کی تحریک 202 ،205 وقف جديد 1967ء کی کلاس میں کم از کم سود اقفین شامل ہوں رضا کار معلمین کی تحریک 104 215

Page 668

آپ کی دعائیں 143.142 ۴۱ حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفہ امسح الاول غلبہ اسلام کیلئے اگلے سوسال کیلئے احباب جماعت کو حمد اور عزم کا ماٹو دیا آپ کی تحریک تعلیم القرآن کی طرف توجہ تعلیم القرآن کے بارہ میں مہم ہر احمدی مرد اور عورت کو تین سال میں قرآن پڑھانے کا عزم 189 145 117 119 561.32 جماعت اور حضرت مسیح موعود کیلئے فدائیت اور بے دریغ مالی قربانی.حضرت مسیح موعود کا خراج تحسین آپ نے خلیفہ ثانی کو مثنوی مولانا روم اور گلستان و بوستان پڑھائی 566 23 آپ کا فرمانا کہ مصلح موعود کے زمانہ میں احمدیت پھیلے گی 88 وقف عارضی کی تحریک اور اس میں شمولیت کی تلقین 104،103 ایک رئیس کو حضرت مسیح موعود سے ملانا جس سے اس کی وقف جدید کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اللہ نے القاء کا یا پلٹ گئی 71 کیا کہ میں وقف عارضی کی تحریک جاری کروں 140 حیات و وفات مسیح پر مولوی محمد حسین بٹالوی سے مباحثہ 79 صد سالہ جوبلی منصوبہ کی تحریک اجتماع لجنه 1966 ء سے حضور کا خطاب گالی گلوچ سے پر ہیز کر نے کی تلقین 193 109 227 و.ہی وحید احمد سلیم چوہدری ایڈووکیٹ آف لاہور 317 ولی اللہ شاہ محدث دہلوی حضرت مسیح موعود کی جماعت کا وقت ضائع نہ کیا جائے 175 ہادی علی چوہدری صاحب 91 میں نے حضور کی کتب کو دس پندرہ مرتبہ پڑھا ہے بطور افسر جلسہ سالانہ بھی خدمت کی توفیق پائی 199 ہندہ ہارون علیہ السلام بیعت کرنے کا واقعہ 6.5 317 37 37 51 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے خلیفہ ثالث سے بیرون ممالک کو وقف جدید میں شامل کرنے کی اجازت لی ناصر احمد ملی مربی سلسله 346 300 مسلمان ہونے کے بعد اسلام کیلئے بہادری اور شجاعت کے جو ہر دکھائے مشرکین کو اسلام کے خلاف ابھارنے والی اسلام ناصر احمد صاحب ہم زلف ملک اشفاق احمد صاحب 474 لانے کے بعد اسلام کی خاطر لوگوں کو ابھارنے لگی شار احمد ، ڈاکٹر نو مسلم احمدی ڈاکٹر کا ہومیو پیتھی طریق علاج کا استعمال 293 نذیر احمد علی صاحب نذیر احمد منگلی نظام الدین صحابی ، حضرت میاں 423 301 یحیی علیه السلام یزید یزید بن ابی سفیان یسعیاہ علیہ السلام یعقوب علیہ السلام حیات مسیح کیلئے آیات قرآنی لانے کے لئےمحمد حسین بٹالوی یوسف علیہ السلام کے پاس جانا اور پھر حضور کی بیعت کر لینا نور الحق ، حضرت مولانا ابوالمنیر آپ کا تعارف، خدمات اور وفات پا ذکر خیر 80.79 474.468 475 یونس علیہ السلام یوسف آڈوسٹی آف غانا آپ کے اخلاص اور مالی قربانی کا ذکر 52 53 37 38.35 52 37 37 387.320.37 37 582

Page 669

Page 670

آسٹریا Li مقامات افغانستان 532 آسٹریلیا 422 ،617،606،591،574،556،435 آندھراپردیش آئیوری کوسٹ ابوظہبی اٹک اٹلی احمد آباد سندھ احمد آباد سٹیٹ 1933ء میں قائم ہوئی اسرائیل 49 532.491 398.البانية امرتسر امریکہ ایوالیس اے 346.82.75-66-51t49.41.38.28.24.15.14 422.377.371.361.359358-346-345-298-253 591 +458.455-430-417415-413-390.383 327.326 +504.503.488t486-485-472.469.468 28 *557.555.548-535-531.515.509.508 617-614-591.590-583-576-574 47 260 اسلام آباد 423 ، 433، 458، 473، 488، 506، 617.591.575.549.532.512 جماعت امریکہ کا مالی نظام دن بدن مستحکم ہوتا چلا جا رہا ہے سال 1987ء میں وقف جدید میں دوسرا نمبر افریقہ 38، 75، 94، 102، 149، 208، 231، جماعت امریکہ کی چند و وقف جدید میں اول آنے 504 333 413 423 کیلئے خصوصی مساعی اور اس میں کامیابی امیر صاحب امریکہ کی وقف جدید میں خصوصی مساعی کی رپورٹ وقف جدید میں کامیابی کا سہرا ایک حد تک انور محمود.369.346.343.333.332.321.237.478.458.456.435 431.421.412.383 603.590.576-510-483-482 افریقہ کے مبلغین اسماعیلی قربانی پیش کر رہے ہیں سفید آدمیوں کی قبر کہا جاتا ہے خوراک، آبادی اور سفر کی مشکلات.افریقہ میں بھی اولیاء اور مجددین پیدا ہوئے جیسے حضرت عثمان خودی 3 208 غربت کے باوجود مالی قربانی کی روح نمایاں ہے 355 افریقہ میں احمدیت کا پھیلاؤ اور وقف جدید کے خان صاحب سیکرٹری وقف جدید کے سر ہے جماعت امریکہ چندہ وقف جدید سال 1995 ء میں دنیا 432 بھر میں پاکستان کے علاوہ سب سے پہلے نمبر پر 470 چندہ وقف جدید میں 1996ء میں تمام دنیا میں سب سے آگے چنده وقف جدید میں زیادہ لوگوں کی شمولیت 484 511 510 جماعت امریکہ کو لازمی چندہ جات بڑھانے کی ہدایت اور اس پر عمل جماعت امریکہ کو شاملین وقف جدید کی تعداد 370 412 خاموش مطالبے افریقہ کا چندہ وقف جدید افریقہ میں ہی خرچ ہوگا بلکہ باہر کا پیسہ افریقہ جائے گا

Page 671

بڑھانے کی طرف توجہ امریکہ کی طرف سے عیسائی مشنریوں کو امداد جو سندھ میں تبلیغ کیلئے استعمال ہوتی پی ایل اونمبر 80 سکیم کے تحت امریکہ کی پاکستان کو 615 291 گندم کی امداد امریکہ میں فری تھنگنگ تحریک کے آغاز کا پس منظر 313 1 امریکہ میں کھانے پینے میں ضیاع.ان کے Waste سے غیر ممالک پل سکتے ہیں 516.515 انڈونیشیا 412-390-383-371-358-345-206-75-38-28.532.519-518-504-487-472-455-431.422 617.606.591.583.574.556.555.549 انگلستان سر برطانیہ 347-310-298-277274-253.75.34.3.431.414 408-391-383-371-359-358.354 510.509.504-486-472-471-469.455.436 591.574.557-555-549-548-535-515-511 هم بم کھانے اور پانی کے ضیاع کارجحان اور عادت 516،515 اوکاڑہ ایبٹ آباد ایتھوپیا ایران ایشیاء 556-473-344-327-326-44 344.44.43 532 371.65.49 602.576.435 بیت.ٹ باندھی (سندھ) بانجل، گیمبیا بٹالہ بدین 33 238 398.79 344 برطانیہ دیکھئے انگلستان بر ما 532.511 برلن، جرمنی حضرت مصلح موعود کی خواہش تھی کہ برلن میں مسجد تعمیر ہو 620 احمدیہ مسجد برلن کا سنگ بنیاد اور اس کے کوائف 619-620 برلن مسجد کا نام خدیجہ رکھا گیا ہے جو بعد کے R BE A سے تعمیر ہوگی 82190-950..اللہ نے جماعت انگلستان کو انصار کے بعض رنگ دکھانے کی توفیق ملی ہے 310 برمنگھم جماعت انگلستان کی غیر معمولی وقت اور مالی قربانی کا ذکر 310 برونڈی عالمگیر ہونے کے بعد انگلستان کا وقف جدید کے پہلے سال کا چندہ 311 بریڈ فورڈ بشیر آباد سندھ چندہ وقف جدید میں شاملین اور فی کس معیار بڑھانے 1939ء میں سٹیٹ قائم ہوئی کی طرف توجہ اور مختلف شہروں کے اعداد و شمار 1988 ء میں ممالک بیرون چندہ وقف جدید میں سر فهرست چنده وقف جدید 1987ء میں سب سے آگے ہر سال پانچ بیوت الذکر کی تعمیر کا وعدہ جماعت انگلستان کی طرف سے افریقہ کے غریب بچوں کیلئے تحائف کے پیکٹس 615 345 333 618 510 بلغاریہ بنگلہ دیش بنگال 532 618-615 47 532 *430-425-420-412-406-390.389-382-174 <478-459-458.456-453-442-436-434 511.484.483 369 وقف جدید کے حوالہ سے وہاں کی ضروریات 46 وقف جدید کی طرف توجہ

Page 672

370 280 279 300 جماعتی قربانیوں اور ثبات قدم کے لحاظ سے پاکستان کے مقابل پر اور کوئی ملک نہیں احمدی نو جوانوں میں پاک تبدیلی جیلوں میں روحانی تبدیلیاں پیدا کی ہیں پاکستان میں پیدا ہونے والے دکھ جماعتی ترقیات کا سبب ہیں پاکستان میں ہر جہت سے وقف جدید کا قدم آگے ہی بڑھا ہے پاکستان میں جماعت کو بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا 323 چند وقف جدید 1984 ، 1988ء کے کوائف 343 احمدی مبلغین غیر ممالک میں پاکستان کی شہرت کا باعث 75 معالجین کی کمی 70 امریکہ کی طرف سے پاکستان کو گندم کی امداد پرتگال پشاور 313 435 327.46.45.44.25.19 11.8.7 ۴۵ 577 جماعتی حالات خراب کرنے کی مولویوں کی سازش اور 532.491 دعا کی تحریک بوسنیا بہاولپور بہاولپور ڈویژن میں وقف جدید کے واقفین بھیجوائے گئے ہیں بہاولپور ڈویژن میں ایک گریجوایٹ کی بیعت 43 44 نها و لنگر بھوٹان 618-617-591-575-555-549-532.512.344 532:381.378 32 <488.487.472-458.431.419.416.405 617.606.591.574.549.532 422-238 بین پاکستان 24،14، 85،81،78،46،30،29، پشاور سے کراچی تک معلمین کا جال بچھانے کا منصوبہ پشاور ڈویژن میں واقفین بھجوائے گئے ہیں پنجاب پھولپورہ ( نگر پارکر) پیرس تبوک تزائیه تھر یار کر 43 402.401.346 268 237 28 422.358.14 608.428.327:25 سندھ اور ہندوستان کے درمیان واقع ریگستانی علاقہ 288 تھر کے ہندو علاقے میں وقف جدید کی خدمات 361 وقف جدید نے تھر میں دولت کی بجائے اخلاقی عظمت کا پیغام دیا کلمہ کی خاطر احمدیوں کی قربانیاں 362 298 <274272 246 245 174 173.168.102.94 +358-353-327-297-291.287.280.279 +420 416.413408-404.389.379 458.455.453 437 434.429.425 488.486-484-483-482-478.470.459 548.535.531-511-509-508-505-503 <605-603-602.597.591.590.556.555 617-614-609-607.606 23 مارچ کی اہمیت.23 مارچ 1989 ء جماعتی خوشیوں پر پابندی لیکن اہل پاکستان اس دن کی تاریخی اہمیت نظر انداز نہیں کر سکتے وقف جدید میں پوری دنیا پر سبقت ہے جماعت پاکستان کو نصیحت که جذ بہ قربانی کو کبھی نہ 349 430 617 مرنے دیں بلکہ مزیدا بھاریں

Page 673

پانی اور سانیوں کے مسائل تونس ٹانگا نیکا ٹرینیڈاد ٹوگو ٹھٹھے 364 532.49 14 15.14 238 25 جونا گڑھ جہلم جھنگ جیکب آباد جنیوا چکوال چنڈ بھروانہ چیچہ وطنی 546 556.327.326 جابه ج - چ - ح - خ 36 جاپان 50 ، 51 ،420،415،412،390،371،358 یہاں کی ایک خاتون نے خلیفہ ثانی کے کوٹ کی 473 472.458.455.436.435.431.422 +591.532.519-511.504 فی کس قربانی میں وقف جدید میں نمبر ایک جیب میں جلیبیاں ڈال دیں چیک ریپبلک چین جالندھر جرمنی 419 568.398 <277.275:274.75.28 <420.417.416-414-383-345-333-300 انگریز پادری خاتون کا چین میں قتل حیدر آباد سندھ 344.301 54 24 344 34 28 گم چه بجھی لا 532 44 556.555.549.294.25.505.503.486.484.471.456.455.430.574.557.555.549-548-535.532.511 618-617-606-605 حیدر آباد ڈویژن میں وقف جدید کے واقفین بھیجوائے گئے ہیں حیدر آباد دکن سال 1989ء میں چندہ وقف جدید ممالک بیرون میں اور وقف جدید کے ذریعہ نئی جماعتوں کا قیام 359 خانیوال سال 1990ء میں جرمنی چندہ وقف جدید میں اول رہا 370 خیر پور 1991ء میں ممالک بیرون میں چندہ وقف جدید میں جرمنی اول رہا تعمیر مساجد کا ذکر 390.389 619.618 43 297.295 327.326 344.327.326 خیر پور ڈویژن میں وقف جدید کے واقفین بھجوائے گئے 43 وہلی وڈرز 472.401.78 جرمنی میں ہمبرگ میں مسجد بن چکی فرینکفورٹ میں بن رہی ہے نے مشن ہاؤسز کی خرید کیلئے کوششیں جماعت جرمنی کو چندہ وقف جدید فی کس کا معیار بڑھانے کی نصیحت بران مسجد کی تعمیر کا ذکر 24 277 615 620-619 دیوبند خلیفہ ثانی کا دیو بند دیکھنے جانا ڈنمارک ڈیرہ اسماعیل خان ڈیرہ غازی خان را جستهان 5 371-359-358.345 327.326 344 365.346 9

Page 674

را جن پور راولپنڈی ۴۷ 344 357.344 44:43 *532.512.506-488-473-433-428-423 618.617-606.591.575.555.549 ساہیوال رفتگری پین.44 593.358.49 جلسہ سالانہ سپین 2005 ء میں حضور انور کی شرکت اور خطبہ جمعہ سے افتتاح ربوه 10 ، 318، 422، 433، 458، 488، 493، آخری بد نصیب مسلمان بادشاہ کی چین سے جدائی 574.556-555-549-536-532.512.505 617-608-606.591 ربوہ میں ابتدائی خیمے لگا کر بیٹھنا سنت اسماعیل کو پورا کیا جا رہا تھا نئے ربوے اور قادیان بسائیں ربوہ گرم مقام ہے چنده وقف جدید 1987ء میں نمایاں ترقی سال 1989ء میں وقف جدید میں دوم 1 4 36 326 357 کے وقت آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے 578 319 +458.433-423 575.556.555.531.512.506.489.473 سرگودها سری لنکا سعودی عرب سکاٹ لینڈ 583 591.556.555.231 615 381.378 344.326 دفتر اطفال میں سال 1992ء میں ربوہ اول رہا 427 نا مساعد سخت حالات میں بھی چندہ وقف جدید وقف جدید سال 1995ء میں اول رہا 23 مارچ 1989ء کور بوہ اور پاکستان میں خوشیاں نہیں منانے دیں لیکن اہل پاکستان اس دن کی تاریخی اہمیت نہیں بھلا سکتے 473 349 میں اضافہ سکیورپ سکینڈے نیویا 327 615 75.562.294.288-268-235-79.74 جلسہ کے استقبال کیلئے اور جلسہ کے بعد بھی ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں 232 احمد یہ اسٹیٹس کا قیام 609-608 47 آداب بازار سے بہت کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں 220 سندھ کے احمدی زمینداروں کو پسماندہ ہندوؤں رحیم یارخان روس روم زائر زیورچ سیش سانگھڑ 344 435.51.50 24 358 24 555.344.327 سے حسن سلوک کی تحریک چند سندھی اقوام کا ذکر جنہیں کما حقہ دعوت الی اللہ کرنی چاہئے تھی تھر کے ہند وسندھ کی جان ہیں سنگاپور 609.295 47 295 422 جماعت سنگا پور کے امیر سالکین صاحب کی وفات کا ذکر 316 سوئٹزرلینڈ ساؤتھ افریقہ ساؤتھ امریکہ 422/358 237.431.419.415.371-359-358.345.333 511.504.488 487 473 472.458<455

Page 675

فرینکفورٹ جرمنی فلسطین 277.24 431 فیصل آباد 344، 357، 422، 428، 437، 458،.591.557.555.549-512-506-488-473 618-617.606 ق یک سگ قادیان دارالامان ، 17، 18، 79، 81، 301، 332 476 414.408-396-395-380.378.346 قادیان کے دارالامان ہونے کا مفہوم قادیان کا حسین اور روح پرور معاشرہ قادیان مجمع اقوام عالم بنتا جارہا ہے 613.597.568-545-489 388 380 408 احمد یہ چوک میں بورڈ پر حضرت میر الحق صاحب آداب و اخلاق پر مبنی احادیث لکھا کرتے تھے 203 نئے ربوے اور قادیان بسائیں 213 36 318 424 ۴۸ 606-591.574.556.555.549.532 277 591 مشن ہاؤس اور مسجد چھوٹا ہو چکا ہے نئی ضروریات پوری کرنی ہوں گی سویڈن سیالکوٹ <506.489.488.473.428.422.357.344 617.606.591.575-555-549.532.512 422-358-15.14 سیرالیون 574 239 346 44 سیلیکون ویلی امریکہ شاہجہان پور شورکوٹ شیخوپوره سینیگال *506.489.473-458-433-428-344-301 617-606.591.575.555.549.532.512 طع غ_ف طائف عراق علی گڑھ.عمرکوٹ 238 71 401-346 532-521-506.473 قادیان میں خدام الاحمدیہ کے تحت وقار عمل کا خصوصی پروگرام جو تین گھنٹے کا ہوتا 22 23 دسمبر کولوگوں کے اثر دہام کی وجہ سے گرمی ہی آجاتی تھی جلسہ سالانہ قادیان 1987ء کا کامیاب انعقاد غانا کھانا 14، 300، 431، 432، 582،436 جلسہ سالانہ قادیان 1992 ء کا ذکر حاضرین جلسہ سالانہ قادیان 1992ء کو محبت غرناطه فنجی فرانس 319 518.422.371 617-591.555.532.371.28 حضور کا دورہ فرانس مشن ہاؤس کی خرید اور جماعت کے اخلاص کا ذکر ایک مخلص مقامی احمد مکی اور اس کے ازدیاد ایمان کا سبب بنے والا جواب جماعت کو تبلیغ کے میدان میں خصوصی مساعی اور 278 279 نو مبائعین کو چندوں میں شامل کرنے کی نصیحت 517 بھر اسلام اور مبارکباد کا تحفہ جلسہ سالانہ 1999ء کی حاضری اکیس ہزار سے زائد رہی جس میں 16 ہزار نو با تعین تھے قادیان دارالامان میں حضرت خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ کا خطبہ جمعہ انگریز پر دفیسر کا بیان کہ قادیان میں انگریزی زبان اور کھلاڑیوں کے کارخانے ہیں 408 525 594 402 قادیان کے درویش دور آخرین کے اصحاب الصفہ ہیں 394

Page 676

درویشان قادیان کی قربانی اور ان کے حقوق اور سہولتوں کیلئے پلان قادیان میں غریب مہاجروں کے انفاق فی سبیل اللہ کے خوبصورت واقعات حکومت ہندوستان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے سکولز اور کالجز کی جائیدادیں صدر انجمن قادیان کے نام 394 315 حضرت خلیفہ ثانی کا خطبہ جمعہ 28 فروری 1958ء بمقام کراچی چند و وقف جدید میں کراچی کے 2500 را فراد فروری 1958 ء تک حصہ لے چکے تھے 43 40 پشاور سے کراچی تک معلمین کا جال بچھانے کا منصوبہ 11،8،7 سال 1987 ء میں چندہ وقف جدید میں نمایاں ترقی 326 بحال کر دی ہیں 400 سال 1989 ء چند و وقف جدید میں پاکستان میں فہرست 356 قادیان کی عزت و احترام بحال کرنے کے منصوبے 397 کربلا قادیان میں چوٹی کا ہسپتال بنانے کا منصوبہ مختلف امراض کے ماہرین وقف کر کے قادیان جائیں 399 398 کوپن ہیگن کوریا قادیان کیلئے اعلیٰ تعلیمی سہولتوں کا منصوبہ قادیان کو ساری دنیا میں علم کا مرکز بنتا ہے اور خدا نے 401.400 کوہاٹ 38 472 472-427-422 327.326 کوئٹہ 433 ، 458 ،473 ،606،591،512،506،489 اس کام کیلئے اسے چن رکھا ہے 402 احمدیہ مسجد کی شہادت کے بعد جماعت کی قربانی اور اعلیٰ پائے کے ٹیکنیکل کالج کے قیام کا منصوبہ 405 اخلاص میں اضافہ کھیلوں کی سہولیات کا نقدان کھیلوں کی سہولیات کیلئے منصوبہ 403 403 ۱۹۸۷ء میں چند و وقف جدید میں اضافہ عربی زبان کے ماہرین عرب اور انگریزی دان کویت کینیا 308 326 358 422.14 قادیان جامعہ میں پڑھانے کیلئے تیار ہیں 379.378 کینیڈا 28 ، 333، 345، 358، 359، 383،371، قادیان کے ناظر صاحبان در دے کریں اور وقف کی تحریک کریں قادیان کی بہبود کی سکیموں سے ہندوستان کی باقی جماعتوں کو محروم نہیں رکھا جائیگا 296 405 ماحول قادیان میں وقف جدید کو وسیع بنانے منصوبہ 297 کارنوال كبير والا کپورتھلہ 615 44 567.566.468.456.455 431 417 416-414-390.555.548-535.532.511.504-486-471 617-606-605.591.574.556 جماعت کینیڈا کو وقف جدید میں توجہ پیدا کرنے کی تلقین 345 جماعت کینیڈا کی وقف جدید میں خصوصی مساعی پر مبنی رپورٹ کا خلاصہ 423 وقف جدید میں سو فیصد افراد کو شامل کرنے والی کراچی 25، 43، 46،44، 427،422،294،259، جماعتوں کا ذکر.549.536.512.505.488.473.458433 617-606.591.574.556.555 423 جماعت کینیڈا کو شاملین وقف جدید بڑھانے کی نصیحت 615 گجرات 473،433،423،344، 506،489، کراچی میں حضرت خلیفہ ثانی کا خطبہ جمعہ 36 618-617-591.555.549-532-512

Page 677

433 435 359 442 532 616 608 609 47 47 گلاسکو مشن ہاؤس کیلئے عظیم الشان عمارت خریدنے کی توفیق ملی ہے 276 ماریشس کے مخلص نوجوان عبد الغنی جہانگیر صاحب کی وقف جدید کے بارہ میں ایک رویا ماریشس سے MTA کی روزانہ کی نشریات کے جماعت کی ترقی اور اخلاص کا ذکر جماعت گلاسکو کو نصیحت کہ نئی عمارت کو بھر کر چھوٹا کر دیں 276 آغاز کا اعلان گنی کنا کری 532 گوجرانوالہ 326، 458،433،423،344،327، جماعت ماریشس کے اخلاص و قربانی کا ذکر مالی مانچسٹر مٹھی جماعت کے ہسپتال کا قیام محمد آباد سندھ 1937ء میں سٹیٹ قائم ہوئی محمود آباد سندھ 618-606.591.575-555-512-506.489 گورداسپور گوئٹے مالا 588-586-568-19 419.417.358 گیانا 456:417.416-358.15-14 گیمبیا 437.431.422-238 ل من لا بینی، حیدر آباد سندھ 34.33 وقف جدید سنٹر کے ذریعہ چار لوگوں کا قبول احمدیت 48 1934ء میں ٹیسٹ قائم ہوئی با وجود یکه جنگل سا ہے لیکن امریکن عیسائی آکر عیسائیت دراس 15 394<393-307-306-305-58-57 مڈغاسکر :.532 مراکش 532.49 مروان مری 44.43 70<44 خلیفہ ثالث کا مری جانا اور خیبر لاج میں غیر تقسیم شدہ لٹریچر کا ڈھیر دیکھ کر اظہار افسوس 176 538.359 320 344.327.326.26 532 263.228:59.58.57 1 60 532 34 574 کی تبلیغ کرتے ہیں لاس اینجلس امریکہ ‹433 427 422-357‹344×66.536-532-512-505-489-488-473-458 617.606.574.555:549 16 خلیفہ ثانی کے ایک سفر لا ہور کا ذکر صدر صاحبہ لجنہ لاہور کی رپورٹ کہ ایک بچی نے ba 597 مصر مظفر گڑ مقدونیه مکره مکرمه 566 346 616.576.472 <408-67-24 327.326 اپنے سامان جہیز کی رقم چندہ میں دے دی لدھیانه لکھنو لندن یہ ماری 345، 359 ، 390، 415، 421، 430، ابراہیم اسماعیل کو وادی مکہ میں چھوڑ آئے 532-511-504-487-455-443 434 431 556.555.549 فتح مکہ کے موقع پر آنحضور کا لوگوں کو امان دینا ملاوی

Page 678

596.588 616 327.326.301 24 ملائیشیا ملتان ۵۱ 519.518 512.344 میں دے دیئے دوسٹر پارک مانتان کی جماعت ایک ہوشیار جماعت ہے معلمین وہاڑی وقف جدید کی نگرانی کے لئے کئی ضلعے سنبھال سکتی ہے 44 ومنس ملتان ڈویژن میں وقف جدید کے واقفین بھجوائے گئے ہیں 43 ہالینڈ 26، 51، 358،237،75، 456،390،371 619.591.555.532 277 277 277.24 ہالینڈ کی مسجد چھوٹی پڑ گئی ہے نے مشن کے قیام کا عزم ہمبرگ جرمنی ہندوستان ربھارت رانڈیا 9 44 منگلا چک میاں چنوں میر پور خاص میری لینڈ نارووال 617.606.591.575.556.555.549.473 574 606.591.575-549-532-473 ناروے 358،345، 359، 371، 390، 415، <591.555.511.504.487.435.296.288.264.8380.78.50.30.29 <371-370-369-365-354-353.318.297 <420-414-412-409.397.388.382.376 459:458.455.442-434.431.429.425 +487.486.484-483-482-477.472.471 47.556-555-549.535.532.511.504.489 47.610.609-606-605.603-591.590.574 327 ناصر آباد سندھ یہ سٹیٹ 1935ء میں قائم ہوئی حضرت خلیفہ ثانی کا ناصر آباد میں خطبہ جمعہ نائیجر نا پیجیریا 14 ، 15 ،23 ، 605،437،436،422،238 نگر پارکر نگر پارکر میں سال 1969ء میں 236 ہندوؤں کا قبول 608 617-616-614-613-611 وقف جدید کا ہندوستان کے روحانی مستقبل سے گہر اواسطہ ہے احمدیت 9 معلمین ایک ہزار کو قرآن پڑھا رہے ہیں 166 وقف جدید کے چندہ سے ہندوستان میں دعوت و تبلیغ 327.43 44.43 532.381.378 24 518 کا منصوبہ ہندوستان کی جماعتوں کی مدد قرضہ حسنہ چکانے 333 609 کے مترادف ہے 331 جماعت کی ترقیات کے نئے دروازے کھل رہے ہیں 311 نواب شاہ نوشہرہ نیپال نیپالیز نیوزی لینڈ وہی جماعت ہندوستان کو جماعتی چندوں میں آگے بڑھنے کی نصیحت وزیر آباد جماعتی ترقی کیلئے کوشش وزیر آباد کے شیخ خاندان کی مالی قربانی کی مثال کفن دفن کے کے اخراجات لنگر کے اخراجات ہندوستان کو چندہ وقف جدید میں حتی المقدور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تلقین 389.388 331 383

Page 679

ہندوستان میں وقف جدید کو مضبوط کیا جائے سال 2007ء میں شامین چندہ کیلئے پانچ لاکھ افراد کا ٹارگٹ پنجاب اور دکن کے علاقے میں وقف جدید کے ذریعہ نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں سندھ کے ہندوؤں میں تبلیغ سے ہندوستان میں تبلیغ کے راستے کھلیں گے ہندوستان میں تبلیغ اسلام کو وسیع کرنا ضروری ہے 297 614 295 295 81 ۵۲ کو عالمگیر کیا جماعت ہندوستان کو تربیتی اور تبلیغی پروگراموں میں 346 وسعت اور جوش پیدا کرنے کی نصیحت 613 ہندو قوم پرستی کی تحریکات سے مسلمان قوم محصور ہو کر رہ سکتی ہے 404 ہندو قوم پرستی کی تحریکات کی رو جو کہ پاکستان اور بعض مسلمان ممالک کی جہالت کا طبعی نتیجہ ہیں ہندوستان کی وقف جدید شدھی کے علاقے کی 404 طرف بھی توجہ کرے 296 حکومت ہندوستان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے قادیان کے وقف جدید کا قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں سے گہراتعلق 396 ہندوستان میں تبلیغ کیلئے دو قسم کے معلمین کی ضرورت 377 سکولز و کالج صدرانجمن احمد یہ کے نام بحال کر دیئے ہیں 400 ہندوستان میں باہر سے مبلغین بھجوانے کیلئے حکومت سے اجازت لینے کیلئے کوشش ہندوستان میں وقف جدید کے چندے سے پیغام احمدیت پہنچانے کا منصوبہ جماعتی حوالے سے ہندوستان کے حق سے غافل نہیں رہنا چاہیئے 377 376 348 ایک ہزار سال پرانا بڑ کا درخت دیکھا 414 24 ہنوور (جرمنی) یورپ 38 : 68،66،41، 144،83،82،70، 231، 457-435-412-383-377-354-346-274 620-614.602.577-576-490-484.468 یورپ میں ہماری تین مساجد بن چکی ہیں (1957 ء ) تک 24 اگر ہندوستان احمد کی ہو جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بن جائے گا ہندوستان کیلئے روپیہ وقف کرنے کے لئے وقف جدید 348 1989 ء یورپ میں انقلابی اہمیت کا سال 340 یوگنڈا یونان 422.14 532

Page 680

آ.کتابیات اسلامی اصول کی فلاسفی آئینہ کمالات اسلام ابن ماجه سنن ابوداؤد سنن احمدیت 545.264 538 229 29 اخبارات ورسائل الحکم، قادیان 552.544.539.529.500.499.72 الفرقان الفضل روز نامه 92 140.92.31 الفضل انٹر نیشنل اصحاب احمد الوصیت بخاری صحیح 543.542 589 93.92.542.541.533.527.496 592.565.564.557.551.550.543 براہین احمدیہ حصہ پنجم بوستان از شیخ سعدی تائید حق از مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری تجلی قدرت تحفة الملوک 7 جنوری 1994 ء سے مستقل جاری کرنے کا اعلان تخفه شهزاده ویلیز المنبر فیصل آباد انصار اللہ ماہنامہ بدر اخبار تشخیذ الاذہان ماہنامہ خالد، ماہنامہ ریویو آف رپیچز نئے بورڈ کا کی تشکیل اور ریویو کے عالمی اثرات 7 جنوری 1994 ء سے حضور کی خواہش کے مطابق دس ہزار کی تعداد میں شائع ہونے کا اعلان صدق جدید جماعت کی تبلیغی اور اشاعت دین کی مساعی کا ذکر فاروق لاہور (مجلہ) لاہور ہفت روزہ ازالہ اوہام 442 454 92 540 92 92 212 442 442 75 92 92 590.30.29 تحفہ گولر ویہ 29 23 15 92 29 29 30.29 تذکرہ مجموعہ الہامات 547،546،544،518 الترغيب والترهيب 229 ترمذی، سنن 228، 558،557،538،528،526 تفسیر صغیر 92.70 40.29 تفسیر صغیر سے تھوڑی سی محنت کے بعد پورا قرآن پڑھا جا سکتا ہے تفسیر کبیر دل کو موہ لینے والی تفسیر تبلیغ اسلام میں استعمال کریں مؤثر طریق ہوگا تفسیر کبیر رازی تفہیمات ربانیہ توضیح مرام 71 70 120 71 551 92 30 چچ چشمه معرفت 30 30

Page 681

حقائق الفرقان حقیقة الوحی حمامة البشرى دیں.ط در تشین در مشین فارسی دعوت الامیر دیباچہ تفسیر القرآن ۵۴ 562.552 547.544 226 فتوحات مکیه از ابن عربی سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب سرمه چشم آریہ سیر روحانی طبرانی ظہوراحم موعود از قاضی محمد یوسف فاروقی 29 236 29 237.29 91 30.29 29 562.229 589 کنز العمال کشتی نوح گلستان از شیخ سعدی مثنوی مولانا روم 50 558.261 514 23 23 مجموعہ اشتہارات 534،530،529،517،516، مسلم صحیح مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے مسند احمد ملفوظات جلد 2 565.559 528.513 92 564.563.543.541 539 ملفوظات جلد 3 530، 539، 552، 554،553 ف رک گ.من نسائی، سنن فتح اسلام 534 ملفوظات جلد 5 541 237 Essence of Islam 566.558.30.29 نام کتاب: ایڈیشن اول سن اشاعت: جون 2008ء تعداد: مطبع: 2000 ضیاء الاسلام پر لیس چناب نگر (ربوہ)

Page 682

Page 682