Khutbat-eTahir Vol 9 1990

Khutbat-eTahir Vol 9 1990

خطبات طاہر (جلد 9۔ 1990ء)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبر ۹ حضرت مرزا طاہراحمد خلیفہ مسیح الرابع رحم الله

Page 2

Page 3

نمبر شمار خطبه فرموده فہرست خطبات عنوان صفحہ نمبر 1 له 2 3 4 5 05 جنوری 1990 ء شہد کی مکھی کی طرح وحی کے تابع بعجز اختیار کریں، اپنی سوچوں کا نچوڑ خلیفہ وقت کو پیش کریں 12 جنوری 1990 ء اپنی آئندہ نسلوں کو دعا گو نسلیں بنادیں،حضور کی تین با برکت رویا صالحہ کا ذکر 19 جنوری 1990 ء رسول کریم ﷺ نور علی نور تھے، اپنے دلوں کے نور کو روشن کریں 26/جنوری 1990 ء | ایمان اور اسلام کے درجوں کی حقیقت ، جماعت کو ٹولیوں میں تقسیم نہ کریں 02 فروری 1990 ء جس قوم میں قربانی کرنیوالے لوگ موجود ہوں اس قوم کو جھوٹا کوئی نہیں کہہ سکتا ہے 1 21 33 49 49 67 85 6 09 فروری 1990 ء محمد مصطفی کا بر پا کردہ انقلاب جماعت کے ذریعہ از سر نو تمام عالم میں بپا کیا جائے گا 16 فروری 1990 ء | لا اله الا اللہ پر قائم ہو جائیں ، پاکستان مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے 8 23 فروری 1990 ء | Friday The 10th کی پیشگوئی کا پورا ہونا ظہور حسین صاحب مجاہد روس کا ذکر خیر | 113 7 9 10 11 12 09 مارچ1990ء پرتگال میں کسی خلیفہ کا پہلا خطبہ جمعہ اور پہلے مشن ہاؤس کا افتتاح 16 / مارچ 1990ء دعائیں کرتے ہوئے تبلیغ کریں تاسپین میں اسلام نئی شان کیساتھ زندہ ہو 99 127 133 145 23 / مارچ 1990ء آئندہ صدی غلبہ احمدیت کی صدی ہے ایک لاکھ ساٹھ ہزار بیعتوں کا اعلان 30 مارچ 1990 ء لقائے باری تعالیٰ کے حصول کیلئے اخلاق کو مزین کریں.حصول لقا کے دیگر ذرائع 159 13 | 06 اپریل 1990 ء | حصول لقاء کے ذرائع، بجز اختیار کریں کیونکہ متکبر کے لئے لقاء کا حصول ناممکن ہے | 179 14 13 اپریل 1990 ء تکبر سے بچیں، عاجزانہ راہیں اختیار کریں محمد ﷺ کے وسیلہ سے لقا باری حاصل کریں 197 15 20 اپریل 1990 ء جمعۃ الوداع کو جمعۃ الوصال بنادیں، رسول کریم عملے کے وسیلہ ہونے کی حقیقت 219 16 | 27 اپریل 1990 ء | سب سے عالیشان دربار جو رات کے وقت لگتا ہے اسے تہجد کا در بار کہا جاتا ہے.241 17 04 مئی 1990 ء عمر کے بعد کیسر نصیب ہوتا ہے.وہ رستے تلاش کریں جس سے خدا مل جائے 243 11 مئی 1990ء تفقه فی الدین کریں، ایسی امت بنیں جو امر معروف اور نہی منکر کا کام کرے 255 18

Page 4

نمبر شمار خطبہ جمعہ 19 20 21 22 23 24 24 عنوان 18 مئی 1990ء پاکستان کے بدترین حالات کا تذکرہ ، ملاؤں کو مسیح موعود کی زبان میں چیلنج 25 مئی 1990 ء مسیح موعود کی اجتماعی تکذیب، پاکستانی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جارہی ہے صفحہ نمبر 271 283 1 جون 1990ء | وجه ربک کو بقا ہے اور اسے کوئی زوال نہیں اس سے مراد خدا کی رضا بھی ہے 295 8 جون 1990ء اسلام اور ایمان کا فرق ، اسلام سے ہی دنیا کا امن وابستہ ہے 15 جون 1990ء مصلح موعود کا روس میں تبلیغ کے متعلق خواہش ، روس کیلئے واقفین زندگی کی تحریک 22 جون 1990ء اخلاق محمد یہی اخلاق حسنہ ہیں، دائین الی اللہ و مبلغین سلسلہ کو نصائح 311 327 347 363 25 29 جون 1990 ء تربیت اولاد میں صرف انسانی کوششیں کام نہیں آسکتیں، دعاؤں سے تربیت کریں 26 06 جولائی 1990 ء گھروں کو جنت نشان بنانے کیلئے بہترین دعا متقیوں کا امام بننے کیلئے خود تقی بہنیں 379 27 13 جولائی 1990ء - للمتقين اماما کی دعا کا ایک پہلو یہ ہے کہ نظام جماعت میں تفرقہ کا باعث نہ بنیں 393 28 20 جولائی 1990 ء جلسہ سالانہ کے میزبانوں اور مہمانوں کو ہدایات ، کارکنان نماز کی حفاظت کریں 411 29 27 جولائی 1990ء مومن اور منافق میں فرق جلسہ پر جانے والے پاکستانیوں کو نصائح 30 03 اگست 1990 ء عالم اسلام کے مسائل کا حل یہ ہے کہ خدا کی قائم کردہ سیادت کے آگے اپنا سر جھکا دیں 443 31 10 اگست 1990 ء اللہ کی محبت سے ہم دنیا پر غالب آ سکتے ہیں، حنیف بنیں اور شیطان کی طرف نہ گریں 451 32 | 17 اگست 1990ء خلیج کے تنازعہ کا حل اسلامی ممالک کو انتباہ اور عراق کی تباہی کی خبر 33 | 24 اگست 1990ء خلیج کے بحران پر تبصرہ ، اسلامی دنیا کی ترقی اور امن مسیح محمدی کی دعاؤں پر منحصر ہے 485 35 429 465 499 34 31 اگست 1990ء اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے ہما جر نیتوں کے مطابق اجر دیئے جائیں گے 07 ستمبر 1990ء ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرنا چاہئے 36 14 ستمبر 1990 ء ہجرت کے معاملہ میں سچائی کے معیار اپنا ئیں اور جھوٹ سے مکمل اجتناب کریں 531 37 21 ستمبر 1990ء تمام کام خدا کے فضل سے ہوں گے.اخلاقی تربیتی ورثہ اپنے بچوں میں بانٹیں 38 28 ستمبر 1990 ء مالی قربانیاں کرنے سے تم امیر ہو گے، اپنی اولاد کو مالی قربانی کی محبت چکھائیں 515 547 567

Page 5

نمبر شمار خطبہ جمعہ عنوان 39 | 05/اکتوبر 1990ء لقائے باری تعالیٰ پر یقین کرنے سے انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے 40 | 12 اکتوبر 1990 ء رسول کریم ﷺ وہ سورج ہیں جنہوں نے تمام پردے ہٹا کر اندر کی راہ دکھائی صفحہ نمبر 579 595 41 19 اکتوبر 1990ء نئی صدی کا چیلنج ، اسلامی معاشرہ جو محمد کے صافی دل پر نازل ہوا اس کو پھیلایا جائے 615 42 26 اکتوبر 1990ء نسل پرستی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں.عراق کی تباہی کا مکمل منصوبہ بنالیا گیا ہے 43 | 02 / نومبر 1990ء | تحریک جدید کے سال نو کا اعلان ، اسکے تحت ابتدائی وقف کرنے والوں کا ذکر 44 45 09 نومبر 1990ء عراق اور بابری مسجد کے معاملہ میں عالم اسلام کی راہنمائی 16 /نومبر 1990ء آج امن عالم کو سب سے زیادہ خطرہ عصبیت اور خود غرضی سے ہے 46 | 23 نومبر 1990ء تقوی سے جبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، جبل اللہ سے مراد خلافت ہے 47 | 30 نومبر 1990ء سورۃ فاتحہ کا عرفان حاصل کریں اور پھر نماز ادا کرنے کے لئے محنت کریں 629 645 661 679 697 711 727 48 | 07 دسمبر 1990ء | ذکر الہی کے مضمون کو سمجھ کر حمد کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے محبت اور تعلق پیدا کریں 14 دسمبر 1990ء نمازوں میں عرفان الہی کے رنگ بھریں سورۃ فاتحہ پر غور کریں تو نماز کا ذوق حاصل ہوگا 747 49 50 50 51 21 دسمبر 1990ء سورۃ فاتحہ میں بیان صفات باری تعالیٰ کا مظہر بننے کی کوشش 28 /دسمبر 1990ء اياك نعبد کی دعا میں اپنے اہل اور اپنے تابع لوگوں کو بھی شامل کریں مورخہ ۲ مارچ ۱۹۹۰ء کا خطبہ جمعہ حضور انور نے سفر یورپ کے دوران بوجوہ ارشاد نہیں فرمایا تھا.763 779

Page 6

خطبات طاہر جلد ۹ 1 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء شہد کی مکھی کی طرح وحی کے تابع عجز وانکساری اختیار کریں اور اپنی سوچوں کا نچوڑ خلیفہ وقت کو پیش کرتے رہیں (خطبه جمعه فرموده ۵/جنوری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات قرآنی تلاوت کیں : وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً تُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ تَبَنَّا خَالِصًا سَا بِنَّا لِلشَّرِبِينَ وَمِنْ ثَمَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا نَا اِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُوْنَ وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا يَعْرِشُونَ ثُمَّ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ اِنَّ فِي ذُلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ پھر فرمایا:.(النحل : ۶۷-۷۰ ) یہ آیات کریمہ جن کا آج کے خطبے کے لئے میں نے انتخاب کیا ہے، ان کو آج کے خطبے کا موضوع بنانے کی طرف ایک دوست کے خط نے توجہ دلائی ہے.کچھ عرصہ پہلے انہوں نے مجھے لکھا

Page 7

خطبات طاہر جلد ۹ 2 خطبه جمعه ۵/جنوری ۱۹۹۰ء کہ اول تو ان آیات میں میرے لئے ایک اشکال پایا جاتا ہے اور اس کا حل چاہتا ہوں.دوسرے ان کی ترتیب میں اور ان کے مضمون کے باہمی تعلق میں مجھے کوئی ایسی بات معلوم ہوتی ہے جو بہت گہری ہے اور جس کی طرف جماعت کو توجہ دلانی چاہئے لیکن میں اس مضمون کو پانہیں سکا.لیکن یہ احساس مجھے ضرور ہوتا ہے کہ اس میں کچھ ایسا اعلیٰ مضمون بیان ہوا ہے جو جماعت کے سامنے پیش ہونا چاہئے.اس لئے میں صرف خط کے ذریعہ اس کا جواب نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ اگر موقع میسر آئے تو کسی خطبے میں ان آیات کو اپنے خطبے کا موضوع بنالیں.دودهد.جو اشکال ان کے ذہن میں تھا، اس کی طرف جب میں ترجمہ کر چکوں گا تو پھر میں آپ کو متوجہ کروں گا.پہلے میں ان آیات کا ترجمہ پیش کرتا ہوں.پھر اس کے بعد جو سوال اٹھایا گیا ہے اس پر روشنی ڈالوں گا.ترجمہ یہ ہے کہ وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً اے بنی نوع انسان !تمہارے لئے ینے والے جانوروں میں یا چوپایوں میں ایک عبرت ہے.ایک ایسی بات ہے جس سے تمہیں سبق حاصل کرنا چاہئے.اِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً تُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِه هم تمہیں پلاتے ہیں اس چیز سے جو ان کے پیٹوں میں ہے.مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنَّا خَالِصًا سَا بِغا للشربينَ جو گوبر اور خون کے درمیان پیدا ہونے والی چیز ہے.جسے دودھ کہا جاتا ہے اور وہ بہت ہی اچھا ہے مزے کے لحاظ سے بھی اور صحت کے لحاظ سے بھی.پھر فرمایا : وَمِنْ ثَمَرَتِ النَّخِيْلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا اور تمہارے لئے اس بات میں بھی ایک عبرت ہے کہ ہم نے جو پھل تمہارے لئے پیدا کئے ہیں مثلاً کھجور اور انگور.ان سے تم شراب بھی بناتے ہو جس سے نشہ پیدا کرتے ہو اور رزق حسنہ بھی اسی سے حاصل کرتے ہو.اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ اس بات میں صاحب عقل لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا نشان ہے.وَاَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی فرمائی.أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا کہ تو اپنا مکان پہاڑوں پر بنایا اپنے مکان تم پہاڑوں پر بناؤ اور درختوں پر اور ان بیلوں پر جن کو اونچی جگہوں پر چڑھایا جاتا ہے.پھر ہر قسم کے پھلوں سے تم رزق حاصل کرو کچھ کھاؤ.فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلا اور خدا کی مقرر کردہ را ہوں پر عاجزانہ حرکت کرو.اطاعت کے ساتھ ان راہوں پر چلو جو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقررفرمائی

Page 8

خطبات طاہر جلد ۹ 3 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء ہیں.يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَاب ایسی صورت میں فرمایا کہ ان کے یعنی ان شہد کی مکھیوں کے پیٹ سے ایک ایسی شراب نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں بنی نوع انسان کے لئے بہت بڑی شفاء ہے.اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ اس بات میں ان لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا نشان ہے جو فکر کرتے ہیں.جو اشکال انھوں نے اٹھا یا وہ یہ تھا کہ قرآن کریم تو شراب کو حرام قرار دیتا ہے اور یہاں پہلی آیت میں نعمت کے طور پر شراب کا ذکر فرمایا ہے.گویا خدا تعالیٰ اپنی نعمتیں بتا رہا ہے اور فرمایا کہ دیکھو کھجور سے اور انگوروں سے تم شراب بھی بناتے ہو.تو ایک حرام چیز کا نعمتوں میں کیسا ذکر آ گیا ؟ اس بات کا جواب جب میں ان آیات کے باہمی رابطے اور ان کے مضمون پر روشنی ڈالوں گا تو اس میں خود بخود آ جائے گا.سب سے پہلی چیز یہ سمجھنے والی ہے کہ یہاں عبرت کا مضمون بیان ہو رہا ہے.عبرت میں ایسی نصیحت پکڑنا مراد ہوتی ہے جس سے فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں نقصان پہنچتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان لوگوں کی تاریخ سامنے آجاتی ہے جن کو ان خاص چیزوں سے استفادہ نہ کرنے کے نتیجے میں بڑے بڑے ضرر پہنچ چکے ہوں، بڑے بڑے نقصانات پہنچ چکے ہوں.مثلاً فرعون کی قوم ایک عبرت کا نشان بن گئی اور دوسری پہلی قومیں جنہوں نے انبیاء کی مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں خدا کے عذاب کا نشانہ بنیں.وہ ساری عبرت کا نشان بن گئیں.پس عبرت کا مضمون چل رہا ہے اور وہ جگہ جہاں شراب بنانے کا ذکر ہے اس کا بھی عبرت کے مضمون سے تعلق ہے.نعمتوں کے گنانے کا مضمون نہیں ہے بلکہ عبرت کا مضمون ہے.در اصل خدا تعالیٰ نے تین مثالوں میں مختلف انسانی حالتیں بیان فرمائی ہیں.پہلی مثال جانوروں کی ہے.ایسے جانوروں کی جو چوپائے کہلاتے ہیں اور جن میں دودھ دینے کا ملکہ اللہ تعالیٰ نے ودیعت کر رکھا ہے ان سب کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے کہ وہ دودھ پیدا کر یں اور جو پہلی غذاوہ استعمال کرتے ہیں وہ حیوانی غذاؤں میں سب سے ادنی درجے کی غذا ہے یعنی وہ نباتات ، گھاس پھوس اور اس قسم کی چیزیں، سبز گھاس نہیں تو خشک گھاس ، درختوں کے پتے ، جتنی بھی چیزیں خدا تعالیٰ نے رزق کے طور پر پیدا فرمائی ہیں ان میں سے سب سے پہلی منزل ان غذاؤں کی ہے اور باقی تمام حیوانی زندگی نسبتا اعلیٰ غذاؤں پر پلتی ہے.تو فرمایا کہ تمہارے لئے عبرت کا نشان یہ ہے کہ وہ اَنْعَامِ

Page 9

خطبات طاہر جلد ۹ 4 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء جو تمہارے نزدیک بالکل بے عقل ہیں اور ان کو کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے دیکھو وہ کس غذا پر پلتے ہیں.جو غذا ئیں بھی ہم نے زندگی کے لئے پیدا کی ہیں.زندگی کو جاری رکھنے کے لئے اور اس کی پرورش کے لئے پیدا کی ہیں، ان میں سب سے ادنیٰ درجہ کی غذا وہ ہے جو یہ اَنْعَامِ کھاتے ہیں.گائے، بھینسیں ، بکریاں، بھیڑیں ، اونٹ.اونٹ تو ایسی ایسی خوفناک غذا یہ بھی منہ مارتا ہے جو دنیا کا کوئی اور جانور نہیں کھا سکتا.کہتے ہیں صرف بکری اس چیز میں اس کا مقابلہ کرتی ہے.اور وہ بھی اَنْعَامِ میں داخل ہے.پس دودھ دینے والے جانور غذا کی سب سے ادنیٰ حالت پر پلتے ہیں اور دیکھو پھر وہ اس غذا سے کیا سلوک کرتے ہیں.ایک طرف اس کی گندگی کو الگ کر دیتے ہیں اور دوسری طرف خون بنانے سے پہلے جو خالصہ ان کے کام آتا ہے، ایک ایسی غذا بھی بناتے ہیں جو پہلی حالت اور آخری حالت کے درمیان ہے.بعض مفسرین ان بحثوں میں الجھ گئے کہ یہ جو فرمایا کہ خون اور فضلہ کے درمیان ، تو غالبا اس سے مراد یہ ہے کہ جسم میں جو دودھ پیدا کرنے والی جگہ ہے وہ ان دونوں کے درمیان ہے اور کئی طریقوں سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ ہرگز یہ بات نہیں.ظاہری مقام کے لحاظ سے فضلہ اور خون جہاں جہاں بنتے ہیں ان کے درمیان دودھ پیدا کرنے والے اعضاء نہیں ہیں بلکہ ان کا الگ مقام ہے.تو یہ معنوی ذکر ہو رہا ہے.یہ فرمایا جارہا ہے کہ غذا کی ادنیٰ حالت اور اعلیٰ حالت یعنی خون بننے تک درمیان میں دودھ بنتا ہے اور دودھ میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ صرف ان جانوروں کے اپنے کام ہی نہیں آتا وہ دوسروں کے بھی کام آتا ہے اور تمہارے بھی کام آتا ہے.چنانچہ وہ غذا کی ادنیٰ حالت جو تمہارے براہ راست کسی کام نہیں آسکتی یعنی گھاس پھوس ، پتے اور تنکے ، خس خاشاک ، جن کے اندر انسان کے لئے براہ راست کوئی بھی غذا موجود نہیں ان چیزوں پر یہ جانور منہ مارتے ہیں.کانٹے دار جھاڑیوں پہ منہ مارتے ہیں، بدمزہ کیلے پتے کھاتے ہیں اور ان میں ایسی شیریں چیز یعنی دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو صرف اپنے لئے نہیں پیدا کرتے بلکہ دوسروں کے فائدے کے لئے بھی پیدا کرتے ہیں.تو بنی نوع انسان کی کتنی عظیم الشان خدمت ہے جو یہ جانور کر رہے ہیں.اس کے مقابل پر عام انسانوں کی مثال دی گئی.فرمایا: عام انسانوں کا یہ حال ہے کہ ہم ان کے لئے اعلیٰ غذا پیدا کرتے ہیں.پھل اور پھلوں میں سے بھی کھجور اور انگور جیسے اعلیٰ درجے کے پھل

Page 10

خطبات طاہر جلد ۹ 5 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء ان سے بعض انسان صحیح استفادہ بھی کرتے ہیں اور رزق حسنہ کے طور پر بھی ان کو استعمال کرتے ہیں.لیکن بہت سے انسان ایسے ہیں جو ان کے غلط استعمال کرتے ہیں اور اعلیٰ اور پاکیزہ چیز کو ایک خبیث اور گندی چیز میں تبدیل کر دیتے ہیں جو بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ان کے شدید نقصانات کا موجب بنتی ہے.پس دیکھو ان جانوروں کے مقابل پر ان انسانوں کی کیا حالت ہے.وہ ارذل المخلوقات میں شمار ہوتے ہیں ، اسفل المخلوقات میں شمار ہوتے ہیں اور انسان اشرف المخلوقات میں شمار ہوتا ہے.وہ نہایت رذیل اور گندی اور ایسی غذا استعمال کرتے ہیں جس سے نیچے درجے کی اور کوئی غذا نہیں اور اس سے نہایت پاکیزہ خوراک پیدا کرتے ہیں اپنے لئے بھی اور اشرف المخلوقات کے لئے بھی اور نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا دودھ جسے پی کر تم لذت حاصل کرتے ہواور بہت سے اس کے فائدے اٹھاتے ہو.وہ یہ جانور گھاس پھوس سے پیدا کر رہے ہیں اور تمہارا یہ حال ہے کہ تمہارے لئے ہم نے پھل پیدا کئے ہیں جو سب غذاؤں میں سب سے اعلیٰ درجے کی غذا ہے اور اس کو تم نہایت رذیل قسم کی غذاؤں میں تبدیل کر دیتے ہو اور جانور تو تمہارے فائدے کے لئے یہ کام کرتے ہیں.تم دوسرے انسانوں کے فائدے کے کام نہیں کرتے بلکہ ان کے لئے نقصان کا موجب بن جاتے ہو.فسق و فجور کا گہرا تعلق شراب سے ہے اور شراب پینے والی قوموں میں لازماً فسق و فجور پایا جاتا ہے.یہ دو ایسی چیزیں ہیں جن کو آپ کبھی الگ نہیں کر سکتے.شراب پینے والی پاکباز قو میں آپ کو کہیں نہیں ملیں گے.اگر شراب کے نشے سے ہٹ کر پاکبازی اختیار بھی کرلیں اور تہذیب کے نمونے بھی دکھا ئیں تب بھی شراب کی حالت میں وہ اپنی اعلیٰ خصلتوں سے محروم رہ جاتے ہیں.اعلیٰ عادات سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کے اندر جو سب سے ارذل ہے اور اسفل ہے وہ باہر نکلتا ہے اور اس کے نتیجے میں بعض ایسے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں کہ خاوند اپنی بیویوں کے سر دیواروں سے ٹکر اٹکرا کر پھوڑ دیتے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو دیواروں کے ساتھ پھنتی ہیں اور جان سے ماردیتی ہیں.یہ عام روز مرہ کے واقعات ہیں.یورپ میں خصوصیت کے ساتھ اور امریکہ میں بھی ظلم اور سفا کی کے جو واقعات ملتے ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق شراب سے ہے.جتنے گھر آپ کو اجڑتے ہوئے دکھائی دیں گے ان میں سے اکثر کا تعلق شراب سے ہے.شراب کے نتیجے میں بدکاریاں اور فسق و فجور کے علاوہ گھر میں ظلم اور بداخلاقی طبعی طور پر پیدا ہوتے ہیں.تو یہ عبرت ہے کہ دیکھو دو قسم

Page 11

خطبات طاہر جلد ۹ 6 خطبه جمعه ۵ /جنوری ۱۹۹۰ء کے جانور ہیں ایک سب سے ادنی نہیں تو عام ادنی جانوروں میں شمار ہوتا ہے اور ایک سب سے اعلیٰ.سب سے نچلے درجے کے جانوروں میں جو شمار ہوتا ہے، اس کو ادنی غذا ملتی ہے اور اس سے وہ کیسی پاکیزہ چیزیں بنا کر تمہارے فائدے کے لئے پیش کرتا ہے اور تم جو اعلیٰ درجے کے شمار ہوتے ہوسب سے اعلیٰ غذائیں کھا کر پھر ان کو ادنیٰ حالتوں میں تبدیل کر دیتے ہو.اس کے بعد شہد کی مکھی کی جو مثال دی ہے وہ دراصل ایک مثال ہے جو اعلیٰ درجے کے انسانوں پر صادق آتی ہے.شہد کی مکھی کا ذکر انسانوں کے بعد رکھنا، انسانوں میں سے اعلیٰ درجے کے انسانوں کی مثال کے طور پر ہے.چنانچہ اس مضمون کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ کہ شہد کی مکھی پر خدا نے وحی نازل فرمائی اور وحی کے نتیجے میں اس میں عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئیں.اس لکھی کے مقابل پر ایک عام لکھی بھی ہے جو وحی سے محروم ہے.ان کی ظاہری شکلیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں ایک ہی طرح اڑتی ہیں دیکھنے میں ایک دوسرے سے کافی مشابہ ہیں مگر ایک وہ ہے جو گندگی پر منہ مارتی ہے اور ایک وہ ہے جو پھولوں کے رس چوستی ہے اور پھولوں میں ایک ایسی بات ہے جو پھلوں سے بھی اعلیٰ درجہ کی ہے.پھول پھلوں کے ماں ہوتے ہیں اور پھولوں میں پھلوں کی روح موجود ہوتی ہے.نہایت ہی اعلیٰ درجے کی روحانی لطیف غذا ہے جس سے اوپر غذا کا کوئی تصور ممکن نہیں.تو اول تو شہد کی مکھی کے ساتھ ہی دوسری مکھی کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے اور فرق ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان دونوں چیزوں میں فرق کیوں پڑا.فرمایا فرق صرف وحی کا ہے تعلق باللہ کا ہے اور اس لئے عام انسانوں کی مثال تو یہ ہے کہ ان کو اچھا رزق ملے تو اس کو گندگی میں بھی تبدیل کر دیتے ہیں اور اتفاقا بعض مواقع پر یا بعض صورتوں میں اچھے رزق کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں لیکن یہ اتفاقی باتیں ہیں.با مقصد طور پر ایک رزق کو اعلی حالت میں تبدیل کر کے بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے اس کو نکالنا یہ عام انسانوں کا کام نہیں ہے لیکن وہ لوگ جو صاحب وحی ہوتے ہیں ، وہ جو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں، وہی بنی نوع انسان جو وحی کے تعلق سے ایک اعلیٰ درجے کا مقام حاصل کر لیتے ہیں ان کی کیفیت بدل جاتی ہے.پس آپ یوں کہیں گے کہ اگر ایک مکھی کو بھی وحی کیا سے کیا بنادیتی ہے اور کیسا عظیم الشان روحانی انقلاب اس میں برپا کر دیتی ہے.

Page 12

خطبات طاہر جلد ۹ 7 خطبه جمعه ۵ /جنوری ۱۹۹۰ء تو سوچو کہ ایک بشر کے اوپر جب وحی نازل ہوئی تو اس کی کیا حالت کر دے گی.تو شہد کی مکھی کی مثال در اصل صاحب وحی انسانوں کی مثال ہے اور ان کا نقشہ شہد کی مکھی کی شکل میں کھینچا گیا ہے اور مومنوں کی جماعت کا بھی پورا نقشہ اس مثال میں آجاتا ہے.فرمایا اس کو ہم نے وحی کی اور وحی یہ کی کہ سب سے پہلے کہ ہم تمہیں جو رزق عطا کرنے والے ہیں اور رزق کو مزید اعلیٰ درجے کے رزق میں تبدیل کرنے کا سلیقہ سکھانے والے ہیں.وہ ایسا رزق ہے جو گندی جگہ پر نہیں رکھنا چاہئے.اچھی چیز کی حفاظت کی جاتی ہے، اچھی چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ہر قسم کے گندے اثرات سے اس کو پاک رکھا جائے.تو فرمایا کہ ہم نے اس سے کہا کہ یا پہاڑوں پر چلو جہاں فضاء پاک ہوتی ہے.مٹی اور گند کم ہوتا ہے اور عموماً پہاڑوں کی فضا سب سے اچھی ہوتی ہے اور زمین کی سطح پر اس کے بعد پھر درختوں کی باری آتی ہے.بڑے بڑے بلند درخت، ان کے اوپر اگر کبھی چڑھ کر آپ نے دیکھا ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ زمین کی طرف نیچے دیکھیں تو درختوں پر چڑھ کر ایک نمایاں لطافت کا احساس پیدا ہوتا ہے.گویا انسان اونچی پاکیزہ فضا میں داخل ہو گیا ہے اور تیسرے درجے پر وہ بیلیں ہیں جو اگر اونچی جگہ چڑھانے کے لئے میسر نہ آئے تو زمین پر پھیلیں گی مگر مِمَّا يَعْرِشُونَ میں یہ نقشہ کھینچا کہ ان بیلیوں میں گھر بناؤ جن کو وہ اونچی عمارتوں پر چڑھاتے ہیں تو تینوں جگہ رفعت کا مضمون شامل ہے اور تینوں جگہ حفاظت کا مضمون شامل ہے کہ ایسی اعلیٰ غذا تمہیں عطا ہونے والی ہے جو نہایت لطیف ،نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اس کی حفاظت کا پورا انتظام کرو اور اونچی جگہوں پر اس کو بناؤ کیونکہ وہ اونچی جگہوں پر رکھنے کے لائق ہے.چنانچہ قرآن کریم کے مضمون کے ساتھ بھی یہی مضمون باندھا گیا ہے رفعت کا مضمون کہ اونچی جگہوں پر پڑھا جانے والا کلام اور یہ مرفوع کلام ہے.پس شہد کی مکھی کے ذکر میں دراصل الہام اور وحی کی روشنی میں پرورش پانے والی قو میں اور ترقی کرنے والی قومیں مراد ہیں.پس فرمایا کہ پہلے تو ہم نے اس کو گھر کے متعلق نصیحت کی کہ یہ بہت ہی مقدس غذا تمہیں عطا ہونے والی ہے اس لئے اس کے لئے ہر قسم کے لوازمات کا اہتمام کرو.اس کی حفاظت کا انتظام کرو.پھر فرمایا.پھر ہم نے اس سے کہا : كَلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جب حفاظت کا انتظام کر لوتو پھر غذا کھانی شروع کرو.اس میں بڑا گہرا معرفت کا نقطہ ہے.وہ لوگ جو اچھی چیزیں اکٹھی کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کا انتظام نہیں کرتے وہ ان کو ضائع کر دیا کرتے ہیں

Page 13

خطبات طاہر جلد ۹ 8 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء اور جب تک پہلے حفاظت کا انتظام نہ ہو اس وقت تک انسان کا حق نہیں ہے کہ ہر اچھی چیز کو اکٹھا کرنا شروع کر دے.ایک طرف سے اکٹھا کر رہا ہو ، دوسری طرف سے ضائع کر رہا ہو.یہ رزق کی بے احترامی ہے تو فرمایا ! ہم نے پہلے اس کو حفاظت کا سلیقہ سکھایا پھر کہا ہاں اب جاؤ اور اچھے اچھے پھلوں پر منہ مارو اور بعینہ یہی چیز ہے جو شہد کی مکھی کرتی ہے.دنیا میں جس طرف آپ نظر دوڑائیں.پہاڑوں کی مکھیوں کو دیکھیں ، درختوں پر چھتے بنانے والیوں کو دیکھیں ، بیلوں میں چھتے بنانے والیوں کو دیکھیں سب کا یہی طریق ہے اور اسی سنت پر وہ عمل پیرا ہیں کہ پہلے شہد کی حفاظت کا انتظام کرتی ہیں.پھر وہ پھلوں کی طرف اور پھولوں کی طرف مائل ہوتی ہیں.پھر فرمایا: فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً اس آیت کے حصے نے اس مضمون کو خوب کھول دیا ہے کہ یہاں دراصل اعلیٰ درجے کے انسان مراد ہیں.یہ انسان ہے جسے صاحب شریعت بنایا گیا اور جس کو اعلیٰ درجے کی چلنے کی راہیں عطا کی گئیں اور سمجھائی گئیں.مذہب کا مطلب ہی راہ ہے، راستہ ہے.صراط مستقیم آپ سورہ فاتحہ میں روزانہ کئی کئی مرتبہ پڑھتے ہیں.تو سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلا سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو تعلیم دی ہے ، اس تعلیم پر عمل کرنا.اگر اس تعلیم پر عمل نہیں کروگی تو پھر یہ جو فائدہ تم اپنے لئے اٹھانے لگی ہو اور غیروں کے لئے فائدے کا موجب بننے والی ہو،اس سے محروم رہ جاؤ گی.صرف پھل کھانا کافی نہیں.اس طریق پر پھل کھانا اور پھولوں کا رس چوسنا ضروری ہے جس طریق پر قرآن کریم نے ہدایت فرمائی ہے.یا الہی کتب ہدایت فرماتی ہیں تو یہ مثال بیک وقت شہد کی مکھی پر بھی اطلاق پاتی چلی جاتی ہے اور مومنوں کی جماعت پر بھی اطلاق پاتی چلی جاتی ہے.يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفُ اَلْوَانهُے.ان کے پیٹوں سے پھر ایسی غذا نکلے گی جس کے رنگ مختلف ہوں گے.یعنی بظاہر وہ ایک ہی جیسے پھول ہوں گے جن کی وہ روح چوس رہی ہوں گی.جن کا رس چوس رہی ہوں گی اور ایک جیسے ہی پھل ہوں گے لیکن ان کے پیٹوں سے انہضام کے بعد جو چیز نکلے گی وہ مختلف رنگوں کی ہوگی.فِيهِ شِفَآءٌ لِلنَّاسِ اس میں بہت ہی عظیم الشان شفاء بنی نوع انسان کے لئے رکھ دی گئی ہے.کلام الہی کو بھی شفاء کہا گیا ہے.کلام الہی کا جو خلاصہ ہے یعنی سورہ فاتحہ اس کا ایک نام شفاء بھی ہے.تو در حقیقت یہ مثال شہد کی مکھی کے نام پر دی گئی لیکن اس کا اعلیٰ اطلاق ان قوموں پر ہوتا ہے جو وحی کی

Page 14

خطبات طاہر جلد ۹ 9 خطبه جمعه ۵/جنوری ۱۹۹۰ء روشنی میں تعمیر کی جاتی ہیں.جن کی پرورش اللہ تعالیٰ کے کلام کی روشنی میں کی جاتی ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی جو جماعت پیدا کی، ان پر شہد کی مکھی کی یہ مثال پوری طرح صادق آتی ہے.پھر فرمایا: اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.اس چیز میں ایک بہت بڑا نشان ہے ان لوگوں کے لئے جو فکر کرنے والے ہیں.پہلی مثال بیان کرتے وقت عقل کا ذکر کیا اور دوسری مثال بیان کرتے وقت فکر کا ذکر کیا.اس میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق بھی میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقل کی تعریف فرمائی اور دو جہتوں سے عقل کی تعریف فرمائی.فرمایا: ما خلق الله خلقا اكرمه عليه من العقل (مرقاة المفاتح شرح مشكاة المصابیح کتاب الادب) که خدا تعالی نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جس کو اس کی عقل کی نسبت سے زیادہ عزت دی ہو.یعنی ہر مخلوق کی عزت کا مقام اس کی عقل سے طے ہو گا.درجہ بدرجہ ہر مخلوق کو خدا تعالیٰ نے عقل کے مختلف مراحل پر قائم فرمایا ہے.یا مختلف حیثیتوں کی عقلیں عطا کی ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں اس عقل کا ذکر فرما رہے ہیں جو فطرت میں ودیعت کی جاتی ہے جس میں انسان کی اپنی کوشش کا کوئی دخل نہیں اور ہر ذی روح کے لئے عقل کا ایک مقام مقرر ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا اور تمام حیوانات میں اس کی عزت کا مقام بھی وہ عقل کا مقام طے کرتا ہے.اس حدیث میں بہت ہی گہری حکمت ہے.آپ تمام بنی نوع انسان پر نظر ڈال کر دیکھیں اور پھر نیچے اتر نا شروع کریں درجہ بدرجہ حیوانات پر نظر ڈال کر دیکھیں.تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ان میں سے حقیقت میں اکرام کا مقام اس کو نصیب ہے نسبتا اور تناسب کے لحاظ سے جو زیادہ صاحب عقل ہے.پس اس پہلو سے جب میں نے ایک دفعہ ماریشس کی یورنیورسٹی میں Evolution پر تقریر کی تو میں نے یہ نقطہ نگاہ پیش کیا کہ سائنس دان تو حیوانات کے درجے اور طرح سے مقرر کرتے ہیں اور درجہ بدرجہ ان کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ ان کے جسموں کی حالت اور ان کے ماحول میں جو ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے، ان کی ظاہری شکل میں ان کو جو ایک خاص مقام حاصل ہے.کسی کی ریڑھ کی ہڈی ہے کسی کی نہیں ہے، کسی کے اندروہ Section بنے ہوئے ہیں جیسا کہ کیڑوں مکوڑوں میں بھی پائے جاتے ہیں، کسی میں نہیں بنے ہوئے.اس طرح مختلف طریق پر

Page 15

خطبات طاہر جلد ۹ 10 خطبه جمعه ۵ /جنوری ۱۹۹۰ء انہوں نے جسمانی لحاظ سے حیوانات کو درجوں میں تقسیم کیا ہے.لیکن قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ دراصل ارتقاء عقل کا ارتقاء ہے اور ہوش کا ارتقاء ہے،شعور کا ارتقاء ہے اور اول سے آخر تک جو چیز ترقی کر رہی ہے وہ شعور ترقی کر رہا ہے.اس لئے حیوانات کی تقسیم ان کے شعور کے لحاظ سے ہونی چاہئے.کیونکہ ارتقاء نام ہی شعور کے ارتقاء کا ہے جسم کا ارتقاء نہ کبھی مقصود تھا، نہ حیوانات کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جسم کا ارتقاء قانون قدرت کے نزدیک کوئی معنی رکھتا تھا.اسی حد تک جسم کا ارتقاء ضروری تھا اور ہوا جس حد تک عقل کو اس کی ضرورت تھی اس کے مطابق جسم ڈھالے گئے.لیکن جسم کو عقل پر کبھی بھی فضیلت عطا نہیں ہوئی.چنانچہ بہت بڑے بڑے جسم رکھنے والے جانور جن کوڈائنو سار Dinosaur کہا جاتا ہے.ان سے زیادہ عظیم جسم کا تصور نہیں ہوسکتا وہ آنا فانا حیوانی تاریخ میں ہلاک کر دیئے گئے.سائنس دان جب آنا فانا کہتے ہیں تو یہ مراد نہیں ہے کہ چند منٹوں میں.حیوانی تاریخ اتنی وسیع ہے کہ کروڑوں سال تک پھیلی ہوئی ہے کروڑہا کروڑ سال تک اس لئے جب وہ آنا فانا کہتے ہیں تو مراد یہ ہے کہ شاید دس لاکھ سال ہو گئے ہوں یا چند لاکھ سال گزرے ہوں مگر یہ عرصہ حیوانی تخلیق اور ارتقاء کے دور میں آنا فانا ہی کہلاتا ہے.پس ان سب کی صف لپیٹ دی گئی اور جسم پر ان کو جو فضیلت حاصل تھی اس کے نتیجے میں ان سے فضیلت کا کوئی سلوک نہیں کیا گیا.پس قرآن کریم اسی مضمون کو یہاں بیان فرماتا ہے کہ یہ عقل کا معاملہ ہے.عقل کے ذریعہ تمہیں اس پر غور کرنا ہوگا اور عقل کی تعریف کیا ہے؟ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انتہائی گہری تعریف فرمائی.فرمایا : ما خلق الله خلقا اكرمه عليه من العقل كه خدا تعالیٰ نے کوئی بھی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جس کو اس کی عقل کی نسبت سے زیادہ عزت بخشی ہو اور یہاں عقل سے مراد کمائی ہوئی عقل نہیں ہے جو علم کے ساتھ مل کر پھر اور ترقی پاتی ہے بلکہ ودیعت شدہ عقل ہے جو فطرت میں ودیعت کی جاتی ہے اور اس پر جانور کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے.دوسری حدیث میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کمائی ہوئی عقل کا بھی ذکر فرماتے ہیں اور لفظ کمانے کا اس پر استعمال فرماتے ہیں.فرمایاما کسب احد شيئا افضل من عقل يهديه الى هدى او يرد عن ردا (مفردات امام راغب کتاب العین ) کہ کبھی کسی شخص نے کسی چیز نے اس سے بہتر کمائی نہیں

Page 16

خطبات طاہر جلد ۹ 11 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء کی کہ اس نے وہ عقل کمائی ہو یعنی پھر سنئے غور سے ! کہ کبھی کسی چیز نے اس سے بہتر سمائی نہیں کی کہ اس نے وہ عقل حاصل کی ہو یا وہ عقل کمائی ہو.جس سے وہ ہدایت کی طرف راہنمائی حاصل کر سکے اور بری چیزوں سے بچ سکے اور بری چیزوں سے پیچھے ہٹ سکے.یہ جو عقل کی تعریف ہے اس کا تقویٰ کی ایک تعریف پر انطباق ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.چنانچہ دو پہلواس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصیت سے بیان فرمائے اول یہ کہ ایک عقل ہے جو محنت سے کمائی جاتی ہے علم کے ذریعے اس کو حاصل کیا جاتا ہے.اور اس عقل کی پہچان یہ ہے کہ ہدایت کی چیز نظر آنی شروع ہو جائے اور صرف نظر نہ آئے بلکہ انسان اس کو حاصل کرے.اگر ہدایت کی چیز کو دیکھ لے، پہچان لے اور حاصل نہ کرے اس کا نام عقل نہیں ہے.بری چیز میں تمیز کر سکے اور پھر اس سے بچ سکے.اس کا نام عقل ہے اور یہی مضمون تقویٰ کا ہے.قرآن کریم نے فرمایا: ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقره:٣) که یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے، ہر قسم کے شکوک سے بالا ہے لیکن یہ علم کافی نہیں محض اس بات کا علم ہو جانا کہ کوئی چیز ہدایت ہے یہ کافی نہیں.تقویٰ وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے اس علم سے استفادہ ہوگا.پس هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ کتاب ہدایت ہے متقیوں کے لئے اور دیکھئے آنحضرت عقل کی یہی تعریف فرمارہے ہیں کہ عقل اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے ہدایت نظر بھی آئے اور انسان اختیار بھی کرلے.دوسری جگہ قرآن کریم میں جو تقویٰ کی تعریف ہے وہ ایک یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ غلط چیزوں سے پر ہیز اور بچنا ، گناہوں کے مقامات سے ہٹنا اور یہی مضمون حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عقل کی دوسری تعریف یہ ہے کہ انسان مضرات سے پر ہیز کرے اور نقصان دہ چیزوں سے بچ جائے.پس یہاں جو پہلے خدا تعالیٰ نے فرمایا.اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس مثال میں جو سادہ سی ہے، صاف نظر آ رہی ہے.اس مثال میں ان لوگوں کے لئے نشان ہیں.ان لوگوں کے لئے فائدے کی چیزیں ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ جب اچھی چیز کو دیکھیں تو اس کو اختیار کر لیں اور بری چیز کو دیکھیں تو اس سے بچ جائیں.پس عقل اس انسانی تمیز کی طاقت کو کہتے ہیں جو ابتدائی حالت میں ذی شعور انسان میں پائی جاتی ہے اور اس پہلو سے جانوروں میں بھی ایک حصہ عقل کا ملتا ہے لیکن جہاں فکر کا ذکر فرمایا وہ فکر کی طاقت

Page 17

خطبات طاہر جلد ۹ 12 خطبه جمعه ۵ /جنوری ۱۹۹۰ء صرف انسان کو نصیب ہے اور جانور کو نصیب نہیں ہے.دوسرے موقعہ پر جہاں شہد کی مکھی کی مثال دی ہے.وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مثال ایسی نہیں ہے جو تمہیں فور اسمجھ آجائے.اب ذرا ٹھہر کر اس پر غور کرنا کیونکہ تنظر اس چیز کو کہتے ہیں کہ ایک انسان کسی چیز کی پیروی کرنا شروع کرے اور تلاش شروع کر دے.چنانچہ تفکر کا جو معنی عربی لغات میں ملتا ہے ، اس میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جیسے عقل کی روشنی لے کر کوئی انسان کسی چیز کی تلاش میں نکل پڑے اور اسے ڈھونڈنا شروع کر دے.کمپیوٹر کا جو آج کل کا تصور ہے وہ تفکر کے تصور کے نزدیک تر ہے.جب آپ کمپیوٹر کو ایک بات کا حکم دیتے ہیں کہ مجھے یہ چیز چاہئے تو بجلی کی رو بڑی تیزی کے ساتھ اس اندرونی نظام میں چکر لگانے لگتی ہے اور ڈھونڈ نے لگ جاتی ہے کہ کہاں یہ چیز ملے گی.پھر جب اس کو وہ چیز ملتی ہے تو وہاں ٹھہر جاتی ہے اور وہاں سے ایک روشنی کا دروازہ کھول دیتی ہے.جو بعض چمکتے ہوئے اعداد و شمار کی صورت میں یا تصویروں کی صورت میں آپ کو پردے پر نظر آنا شروع ہو جاتا ہے.پس تفکر اس بات کو کہتے ہیں.عقل پہلا مقام ہے اور تفکر اوپر کا اور بعد کا مقام ہے.چنانچہ وہ لوگ جو عام باتیں دیکھ کر ان سے ہدایت پانے سے محروم رہیں ان کے متعلق قرآن کریم بار بار یہی فرماتا ہے.أَفَلَا تَعْقِلُونَ پھر ایک موقعہ پر فرمایا صُمٌّ بُكُمْ عَى فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (البقرہ : ۱۷۳) تم عقل نہیں کرتے.عقل نہیں کرتے.بار بار ایسی باتیں بیان فرماتے ہوئے جہاں جہاں توقع کی جاتی ہے کہ عام آدمی دیکھ کر ان کو معلوم کر لے گا.جب کچھ لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ وہ عام سادہ باتیں دیکھ کر پھر بھی ان کو نہیں دیکھتے اور ان سے استفادہ نہیں کرتے تو قرآن کریم ان کو متنبہ کرتا ہے کہ تم عقل کیوں نہیں کرتے.یہ تو صاف نظر آنے والی باتیں ہیں اس میں فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے.غور اور تدبر کا مقام نہیں ہے، تو صاف یہ مضمون سمجھ آ جانا چاہئے تھا.چنانچہ فرمایا کہ جب یہ لوگ بار بار نظر آنے والی چیزوں کو دیکھنے کے باوجود ان کا پیغام سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں.تو ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے.صُمٌّ بُكْمٌ عُنی کہ گونگے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں.گویا حواس خمسہ ہیں تو سہی لیکن اندر کوئی پیغام نہیں پہنچاتے.مختل“ ہو چکے ہوتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں کہ لَا يَعْقِلُونَ عقل نہیں کرتے.تو عقل سے مراد یہ ہے کہ حواس خمسہ سے جو ظاہری دکھائی دینے والی چیزیں ہیں، وہ بظاہر نظر آتے ہوئے بھی پھر آدمی ان سے استفادہ نہ

Page 18

خطبات طاہر جلد ۹ 13 خطبه جمعه ۵ /جنوری ۱۹۹۰ء کرے.فکر کا مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، قرآن کریم نے زیادہ گہرے مضامین کے لئے استعمال فرمایا ہے.اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةِ (الاعراف: ۱۸۵) اگر ان کو ایک نبی کی صداقت کا ظاہری طور پر علم نہیں ہوسکتا تو غور وفکر کیوں نہیں کرتے اور باتوں کے علاوہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اس شخص میں جنون کی علامتیں نہیں پائی جاتیں اور جو باتیں کر رہا ہے ان کے نتیجے میں یہ تمہارے ہاتھوں سے نقصان اٹھا رہا ہے.تم سے ماریں کھاتا ہے ، گالیاں کھاتا ہے.ہر قسم کی ذلتیں برداشت کرتا ہے اور صبر کے ساتھ ان شدید تکلیفوں میں سے گزرتا چلا جارہا ہے اور پھر بھی باتیں کہنے سے باز نہیں آتا.یہ علامت تو جنون کی ہوا کرتی ہے یا پھر بہت ہی صاحب فہم اور صاحب عقل انسان ہوگا جو راستی پر قائم ہے ورنہ اسکو یہ توفیق نہیں مل سکتی.یہ سوچنے کی باتیں ہیں.فرمایا: تم جانتے ہو حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت ہی صاحب عقل و فہم انسان ہیں.پھر ان کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسا جھوٹ بنارہے ہیں جس کے نتیجے میں ان کو مصیبت پر مصیبت پڑتی چلی جاتی ہے.اگر یہ بچے نہ ہوتے تو یہ علامتیں مجنون کی علامتیں ہیں یہ مراد ہے.تو دیکھیں اس پر استدلال کے ذریعے آپ نے ایک نتیجہ نکالا.غور وفکر کے نتیجے میں آپ نے ایک مضمون حاصل کیا.اس لئے قرآن کریم فرماتا ہے.أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةِ ان باتوں پر یہ فکر کیوں نہیں کرتے.پھر فرمایا يبين الله لكم الآیت ( البقرہ:۲۲۰-۲۲۱) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسی آیات ظاہر فرما دی ہیں کہ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ تا کہ تم غوروفکر کرو.کاش کہ تم فکر کرو.فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اب آخرت کا جو مضمون ہے وہ براہ راست انسان کی سمجھ میں نہیں آیا کرتا.کیونکہ ایک ایسی دنیا سے تعلق رکھتا ہے جو نظر سے غائب ہے.وہ صرف اس طرح سمجھ آ سکتا ہے کہ دنیا کے مضمون پر پہلے فکر کرو ،غور کرو اور اس کے نتیجے میں پھر تم آخرت کے مضمون کو سمجھنے لگ جاؤ.تو محض عقل کافی نہیں بلکہ تفکر ضروری ہے.پھر فرمایا: لَوْ اَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ أَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِعَا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (الحشر :۲۳)

Page 19

خطبات طاہر جلد ۹ 14 خطبه جمعه ۵ /جنوری ۱۹۹۰ء اے بنی نوع انسان ! دیکھو یہ کلام الہی کتنا عظیم ہے کہ اگر ہم اس کو پہاڑوں پر بھی نازل کرتے تو پہاڑ خدا کی خشیت اور اس کے رعب سے جھک جاتے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے.تِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ یہ مثالیں ہیں جو لوگوں کے لئے ہم بیان کر ہے ہیں تا کہ وہ فکر کریں.اب یہ مضمون ایسا ہے جو براہ راست نہیں سمجھ آتا کہ قرآن کریم پہاڑوں پر نازل ہو.پہاڑوں پر کیسے نازل ہو؟ اور وہ ٹکڑے ٹکڑے کیسے ہوں؟ یہ مضمون ایسا نہیں ہے جو بالبداہت صاف دکھائی دینے والا مضمون ہو.اس لئے یہاں فکر کا لفظ استعمال فرمایا.تو فرمایا کہ جو دوسری مثال ہے.جو شہد کی مکھی کی مثال ہے.اس کے مضمون کو سمجھنے کے لئے تمہیں صاحب فکر ہونا پڑے گا.اگر تم تفکر کرو گے اور مضامین کی تلاش میں عقل کا چراغ لے کر نکلو گے تو اس آیت میں تمہیں عظیم الشان مضامین ملیں گے اور یہ ہم تمہیں تنبیہ کر رہے ہیں کہ سرسری طور پر اس آیت سے نہ گزر جانا.ٹھہر و،غور کرو فکر کرو اور معلوم کرو کہ اس میں تمہارے لئے کیا پیغام ہے.شہد کی مکھی کے مضمون پر بہت ہی عالمانہ کتب لکھی جاچکی ہیں.پہلے میرا خیال تھا کہ ان کتب کی روشنی میں آپ کو اس لکھی کے حالات کی تفصیل بتاؤں تا کہ تفکر کا حق پورا ہولیکن چونکہ جمعہ کا وقت تھوڑا ہوتا ہے اور تفصیل سے اس مضمون کا حق ادا کر ناممکن نہیں تھا اس لئے سر دست میں نے اس حصے کونظر انداز کر دیا ہے.پھر اگر توفیق ملی تو کسی وقت تفصیل سے اس مضمون پر روشنی ڈالوں گا.یہاں سر دست اتنا بتانا کافی ہے کہ مومنوں کی جماعت جو کہ آپ ہیں.وہ الہی جماعت جو الہام کی روشنی میں پرورش پاتی ہے اور الہام کی تعلیم سے اس کو تعلیم دی جاتی ہے اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پھر اس کو اپنے عمل میں ڈھال دیتی ہے اور تعلیم کا تتبع کرتی ہے اور تکبر کے ساتھ نہیں بلکہ عاجزانہ طور پر بغیر کسی انانیت کے بغیر سوال اٹھائے ان راہوں پر چل پڑتی ہے جو راہیں خدا تعالیٰ ان کے لئے مقرر فرماتا ہے اور پھر وہ اس کے نتیجے میں روحانی رزق حاصل کرتی ہے اور جو بھی اس کو روحانی رزق ملتا ہے.تَتَفَكَّرُونَ فکر اور تدبر کے ذریعے اسے مزید اعلیٰ بناتی چلی جاتی ہے تفکرون کا مضمون اس لحاظ سے اندرونی طور پر بھی اس آیت پر اطلاق پا رہا ہے.یعنی جب مومن کو روحانی غذا ملتی ہے تو وہ ایسی نہیں رہتی.جب وہ تفکر کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس غذا میں ایک جلاء پیدا ہو جاتی ہے اور ایک نئی چیز اس سے پیدا ہو جاتی ہے اور پھر جو کچھ اس کو خدا تعالیٰ عطا کرتا ہے وہ اپنے تک نہیں رکھتا

Page 20

خطبات طاہر جلد ۹ 15 خطبه جمعه ۵ /جنوری ۱۹۹۰ء بلکہ غیروں کے فائدے کے لئے نکالتا ہے اور اس سے اس میں بنی نوع انسان کی روحانی بیماریوں کے لئے عظیم الشان شفاء پیدا ہو جاتی ہے.پس اگر جماعت احمد یہ وہی جماعت ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہے اور ہمیں یقین ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ وہی جماعت ہے.یہ وہی جماعت ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں پیدا کی اور جس کا ”آخرین میں دوبارہ پیدا ہونا مقدر تھا.تو پھر آپ کے لئے ضروری ہے کہ روحانی امور میں تفکر کی عادت ڈالیں اور جو کچھ سوچا کریں اس کو الہام کی روشنی میں سوچا کریں، انانیت کے ساتھ نہیں کیونکہ انانیت کے ساتھ اگر قرآن کریم کی کسی آیت پر آپ غور کریں گے تو آپ کا نفس آپ کو دھوکہ دے دے گا اور اس کے نتیجے میں شیطانی خیالات تو پیدا ہو سکتے ہیں حقیقی معنوں میں قرآن کا عرفان نصیب نہیں ہوسکتا.پس فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبَّكِ ذُلُلا میں بہت ہی گہرا پیغام ہے کہ اپنے نفس پر بلا وجہ اعتماد کرتے ہوئے اور تکبر کا رنگ اختیار کرتے ہوئے تم روحانی مضمونوں کو نہیں پاسکتے.تمہارے لئے ضروری ہے کہ انکسار اختیار کرو عاجزی اختیار کرو اپنے آپ کو لاشی محض سمجھتے ہوئے قرآن اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کی پیروی کرو.اور پھر اس کی جگالی کیا کرو، کیونکہ فکر میں مضمون کی جگالی کا مضمون داخل ہو جاتا ہے.پھر عقل کی روشنی پکڑ و یعنی تقوی کے ساتھ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہاں عقل سے مراد تقویٰ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی تعریف سے یہ بات ثابت ہے.پھر جیسا کہ فکر کا معنی ہے کہ عقل کا چراغ لے کر انسان مضامین کا تتبع شروع کر دے.تو اس مضمون میں یہاں یہ مطلب بنے گا کہ تقویٰ کی روشنی لے کر نکلو اور نئے مضامین حاصل کرنے کی کوشش کرو.پھر ان مضامین سے جو کچھ تم حاصل کرو ، اس کو بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے رائج کر دو اور یقین رکھو کہ اس میں بنی نوع انسان کے لئے عظیم الشان شفاء ہو گی.تم میں سے ہر ایک کے رنگ الگ الگ ہیں ، ہر ایک کی عقلیں الگ الگ ہیں، ہر ایک کی فکریں الگ الگ ہیں.اس لئے بظاہر ایک ہی چیز کا رس چوس رہے ہوں گے یعنی الہی تعلیمات کا لیکن تمہارے اندر سے نئے نئے رنگ کے مضامین نکلیں گے اور ہر رنگ سے مضمون میں ایک شفا ہوگی.

Page 21

خطبات طاہر جلد ۹ 16 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء پس جماعت کی مجموعی طاقت کا راز اس بات میں ہے کہ وہ قرآن کریم کے پھولوں کا رس چوسے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ کلمات کا رس چوسے اور پھر تفکر اختیار کرے اور عاجزی کے ساتھ ایسا کام کرے.تکبر کے ساتھ نہیں، اپنے نفس پر بناء کرتے ہوئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات پر بناء کرتے ہوئے اور وحی کی روشنی میں.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب ہم وحی تک واپس پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پھر عام انسانوں میں سے صاحب وحی انسان یعنی جن کی خاطر وحی نازل ہوئی جنہوں نے وحی پر عمل کیا وہ پیدا ہوتے ہیں اور پھر جب وہ غور وفکر کرتے ہیں تو پھر ان میں سے وہ انسان پیدا ہوتے ہیں جن کو بطور خاص وحی نصیب ہوتی ہے اور جن کو وحی نصیب ہو جائے ان کا علم پھر کامل ہو جاتا ہے.وہ لوگ ہیں پھر جو صحیح معنوں میں شہد پیدا کرتے ہیں.پس آپ دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ بھی تو ماضی میں کتنے بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے.جنہوں نے قرآن پر بھی غور کیا اور حدیث پر بھی غور کیا اور اچھے اچھے مضامین نکالے مگر وہ شفا کا رنگ وہ حسن اور وہ جمال اور وہ خوشبو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں آپ کو ملتی ہے.جو آپ نے وحی پر غور کرنے کے بعد وحی کی روشنی میں مضامین حاصل کئے ہیں ان کا رنگ ہی اور ہے.پس مراد یہ ہے کہ پھر اس مقام کی طرف آگے بڑھو جس میں تم خود بحیثیت ایک ذات کے صاحب وحی بن جاؤ گے اور جب تم صاحب وحی بن جاؤ گے تو پھر یقینی طور پر تمہارے کلام میں شفاء پیدا ہو جائے گی اور تمہارے مضامین بہت اعلیٰ درجے کا رنگ اختیار کر لیں گے.شہد کی مکھی کی مثال میں نے پہلے بھی ایک دفعہ دی تھی.یہ جماعت احمدیہ کے اوپر عمومی طور پر بھی اطلاق پاتی ہے اور ایک سے زیادہ صورتوں میں اطلاق پاتی ہے.شہد کی مکھیاں پھولوں میں گھومتی ہیں، مختلف پھلوں تک پہنچتی ہیں ان کے رس چوستی ہیں اور ایک غذا بناتی ہیں جس کو شہد کہا جاتا ہے اور اس غذا کے رنگ بھی مختلف ہیں ان کی تاثیریں بھی مختلف ہیں.لیکن اس کے علاوہ جب وہ اس غذا کو استعمال کرتی ہیں تو اس میں سے ایک اور اعلیٰ درجے کی غذا بھی نکالتی ہیں.یعنی شہر میں سے ایک شہد کا رس تیار کرتی ہیں اور اس کا نام Royal Jelly ہے.یعنی شاہی جیلی ، وہ اپنے لئے نہیں ا رکھتیں یا ضرور اس سے کچھ استفادہ کرتی ہوں گی وہ اس کو شہد کی مکھی کے حضور پیش کر دیتی ہیں اور وہ شہد کی مکھی دراصل صرف پھولوں کے رس سے پیدا ہونے والے شہد پر نہیں بلکہ اس شہد کے خلاصے پر

Page 22

خطبات طاہر جلد ۹ 17 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء پل رہی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں اس میں غیر معمولی طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں وہ روحانی طور پر بہت زیادہ اولاد پیدا کرنے کی اہلیت اختیار کر جاتی ہے.پس اس پہلو سے بھی میں نے دیکھا کہ جماعت احمد یہ پر یہ مثال بعینہ صادق آتی ہے.مختلف احمدی جب کلام الہی پر غور کرتے ہیں یا دنیا کے پھولوں کے رس چوستے ہیں، ان سے عقل حاصل کرتے ہیں تو ایک شہد بنا رہے ہوتے ہیں جس سے وہ دنیا کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور خود بھی کھاتے ہیں اور پھر اس شہد میں سے جو نہایت اعلیٰ درجے کا نکتہ ان کو سمجھ آتا ہے وہ مجھے لکھ دیتے ہیں یا ملاقات کے وقت پیش کرتے ہیں.تو جو باتیں میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، دراصل یہ آپ سب کے بھیجے ہوئے تھے ہیں جن کا خلاصہ مجھ تک پہنچتا ہے اور پھر میں دوبارہ تقسیم کر رہا ہوتا ہوں اور یہی مثال خلافت احمدیہ کے ہر خلیفہ پر صادق آتی ہے.خلفاء کا جو مقام ہے وہ محض عطا کرنے والے والا مقام نہیں ہے بلکہ وہ حاصل بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اس پہلو سے ان کو وہ مضامین مسلسل مل رہے ہوتے ہیں جو براہ راست آپ تک نہیں پہنچ رہے.ساری دنیا کی جماعت کی عقلوں کا خلاصہ اس تک پہنچ رہا ہوتا ہے.اس لئے جب کوئی دوست مجھے کوئی بات لکھتے ہیں تو میں کبھی یہ نہیں سوچتا اور اس بات کو میں تکبر اور فسق سمجھتا ہوں کہ یہ کہہ کر اس کو رد کر دوں کہ کسی عام آدمی کا کیا کام ہے کہ مجھے سمجھائے.بعض دیہاتی آدمی، بعض قریباً ان پڑھ لوگ ، بعض ایسے احمدی جو خود لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ، اس حد تک کہ خط بھی نہیں لکھ سکتے وہ کسی سے لکھواتے ہیں اور بعض دفعہ معرفت کا ایسا نکتہ لکھ کے بھیجتے ہیں کہ روح عش عش کر اٹھتی ہے اور اس کو میں پکڑتا ہوں اور اس سے میں استفادہ کرتا ہوں.تو ہمیشہ یا درکھیں کہ وہ Royal Jelly جو آپ تیار کریں گے اس سے خلیفہ وقت طاقت پائے گا اور اس سے اس کے اندر روحانی قوتیں پیدا ہوں گی.اس لئے ہمیشہ اپنی سوچوں کا نچوڑ خلیفہ کے سامنے پیش کرتے رہیں.اس سے ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جہاں آپ ایسی غلطی کر رہے ہوں کہ اس سے خطرہ ہو کہ آپ کی یہ سوچ نقصان کا موجب ہو اور خلیفہ وقت محسوس کرے کہ یہ وحی کے تابع ان رستوں کی سوچ نہیں ہے جن کو سُبُل ربک قرار دیا گیا ہے بلکہ ان سے ہٹ کر ہے.تو وہ آپ کو متنبہ کر دے گا کہ اس پھول پر منہ نہ مارنا یہ زہریلا پھول ہے.نہ اس سے خود اپنے لئے کچھ بناؤ نہ کسی اور کے لئے بناؤ اور ضمنا میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ بعض دفعہ شہد کی مکھیاں زہر یلے پھول پر

Page 23

خطبات طاہر جلد ۹ 18 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء بھی منہ مارتی ہیں.یہ نہ سمجھیں کہ وہ صرف اچھے پھول پر ہی منہ مارتی ہیں اور اگر چہ بہت کم ایسا ہوا ہے مگر دنیا کے لئے چونکہ عبرت کا مضمون بیان ہو رہا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں میں یہ تجر بہ بھی ہمیں بتا دیا کہ بعض شہد کی مکھیاں بعض دفعہ زہر یلا شہد بنا لیتی ہیں اور وہ شہد بڑا سخت نقصان دہ ہوسکتا ہے.یہاں تک کہ بعض صورتوں میں مہلک بن جاتا ہے.چنانچہ محققین نے غور کر کے تحقیق کر کے پتا کیا ہے کہ کہاں کہاں کن علاقوں میں ایسے خطرات موجود ہیں مگر بالعموم شہد اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جیسا کہ آپ جانتے ہیں شفاء ہی کا موجب ہے.اس تجربے میں تو یہ بتانا مقصود ہے کہ بعض دفعہ تم شہر کی تلاش کرتے کرتے زہر بھی اکٹھا کر سکتے ہو.تو وحی کے تابع رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت جس کو خدا تعالیٰ نے تم پر نگران مقرر کیا ہے.تم اس کے سامنے Royal Jelly کے طور پر اپنی عقلوں کا نچوڑ پیش کیا کرو اور ہر بات نہیں پیش کرنی یہ بھی اس میں حکمت ہے.ورنہ تو خلیفہ وقت کو کسی بات کے سوچنے کا وقت ہی نہ ملے.اگر کروڑ احمدی اور آگے سے اللہ کے فضل کے ساتھ پتہ نہیں کتنے ارب بننے والے ہیں ، وہ ہر بات لکھیں اور ہر بات کو وہ اپنی عقل کا خلاصہ قرار دیں تو یہ ناممکن ہے کہ ان خطوں کو کوئی خلیفہ سرسری طور پر بھی پڑھ سکے اس لئے Royal Jelly کا مضمون آپ کو یہ ہدایت کر رہا ہے کہ پہلے ان ساری باتوں پر غور کر کے اس کا خلاصہ بنایا کریں اور جب آپ سمجھیں کہ ایک نہایت ہی اعلیٰ اور لطیف معرفت کا نکتہ ہاتھ آگیا ہے جو اس لائق ہے کہ اس کو خلیفہ وقت کے سامنے پیش کیا جائے تو پھر آپ پیش کیا کریں اور پھر وہ آپ کی حفاظت کرے گا، اگر وہ سمجھے گا کہ اس میں غلطی سے عمد انہیں کوئی زہریلی سوچ کا کوئی حصہ داخل ہو گیا ہے تو وہ آپ کو سمجھائے گا چنانچہ میں ایسے ہی کرتا ہوں.بعض دفعہ لوگ اپنی طرف سے بڑا معرفت کا نکتہ بھیجتے ہیں اور مجھے اس میں زہر نظر آرہا ہوتا ہے.میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اس سوچ سے نہیں بچیں گے تو ان کو بھی ہلاک کر دے گی میں ان کو محبت اور پیار سے سمجھاتا ہوں کہ سوچ کی ان راہوں سے باز آجائیں اور الا ماشاء الله اکثر احمدی بہت ہی پیارا رد عمل دکھاتے ہیں.کہتے ہیں جزاک اللہ.ہم سمجھ گئے ہیں کہ ہم کیا غلطی کر رہے تھے اور ہم تو بہ کرتے ہیں تو یہ ہے وہ مضمون جوان آیات میں بیان ہوا ہے، اگر چہ سارا مضمون تو بیان کرنے کا وقت نہیں تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اہم باتیں جو جماعت کے سامنے رکھی جانی چاہئیں تھیں.ان میں سے ایک حصہ میں نے

Page 24

خطبات طاہر جلد ۹ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے.19 خطبہ جمعہ ۵/جنوری ۱۹۹۰ء اللہ تعالیٰ ہمیں ان مضامین پر مزید غور کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک کو وہ شہد کی مکھی بنادے جو خدا کی وحی کے تابع اس کے رستوں پر نہایت عجز وانکساری کے ساتھ چلتی ہے اور روحانی پھلوں پر منہ مارتی ہے اور ان سے وہ شراب نکالتی ہے جو شفاء عطا کرنے والی شراب ہے، بہکانے والی شراب نہیں ہے.آمین.

Page 25

Page 26

خطبات طاہر جلد ۹ 21 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء اپنی آئندہ نسلوں کو دعا گو نسلیں بنادیں حضور کی تین با برکت رویا صالحہ کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: مومن کا اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی دعا کے ساتھ ایک ایسا ہی رشتہ ہے جیسا زندگی کا سانسوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خون کی گردش کا دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہوتا ہے.یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو طبعا خود بخود جاری وساری رہتا ہے اور مومن کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں پڑھا کرتی کہ تم اپنے ہر کام میں، ہر مشکل میں، ہر ضرورت میں دعا کا سہارالو.طبعی طور پر سب سے پہلے خیال دعا ہی کی طرف جاتا ہے خواہ کوئی خوف پیدا ہو یا کوئی امید ہو.کسی چیز کی ضرورت پیش آئے یا کسی خطرے سے بچنے کا خیال ہو، ہر صورت میں ،امید ہو یا بیم، خوف ہو یا رجاء، دعا ہی ہے جو سب سے پہلے مومن کے ذہن میں اولین سہارے کے طور پر ابھرتی ہے.اس سلسلے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ملفوظات میں اور تحریروں میں جو روشنی ڈالی ہے ایک بہت ہی نعیم مضمون ہے اور جماعت کو چاہئے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے تعلق میں تعلیمات کا مطالعہ کیا کریں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ دعا کے مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں سے الگ منتخبہ حصے دعا کے عنوان کے تابع شائع ہو جانے چاہئیں تا کہ بکثرت احباب جماعت بھی اور دوسرے لوگ

Page 27

خطبات طاہر جلد ۹ بھی اس سے استفادہ کر سکیں.22 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء پہلے بھی میں نے بارہا اس بات کا ذکر کیا ہے تمام دوسرے بزرگوں کی کتابوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے جو ماضی میں گزرے ہیں، بڑے بڑے اعلیٰ مقامات تک پہنچے بہت ہی قرب الہی کی منازل انہوں نے طے کیں لیکن ان سب کی کتب میں دعا سے متعلق ایسے عارفانہ نکات آپ کو نہیں ملیں گے جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں وہ میسر آتے ہیں.دعا کا اسباب سے جو رشتہ ہے اس کے متعلق بھی میں بار ہا روشنی ڈال چکا ہوں.دعا مسبب الاسباب ہے اور ہر سبب سے پہلے ہونی چاہئے کیونکہ وہ لوگ جو پہلے سبب کی طرف یعنی دنیا کا ذریعہ اختیار کرنے کی طرف جھکتے ہیں بعد میں دعا کی طرف مائل ہوتے ہیں ان کی دعائیں اسی حد تک بے فیض رہ جاتی ہیں اگر ایک انسان اپنے دوستانہ تعلقات میں اس بات کا مشاہدہ کرے تو اس کو اپنے عام روز مرہ کے تجربے میں بھی یہ بات دکھائی دینے لگے گی اور اس کا جو عارفانہ نکتہ ہے وہ سمجھ آسکتا ہے.ایک دوست جس کو جب ضرورت پیش آتی ہے، پہلے وہ دوسروں کی طرف بھاگتا ہے اور جب ہر طرف سے مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے پھر آپ کی طرف آتا ہے اس کا ایک تعلق آپ سے ضرور ہے لیکن ویسا نہیں جیسا اس شخص کا جو ہر ضرورت کے وقت سب سے پہلے آپ کا دھیان کرتا ہے اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہے.یہی رشتے بچوں اور ماؤں کے درمیان ، بچوں اور باپوں کے درمیان قائم ہوتے ہیں جو دوسرے انسانی رشتوں سے اس تعلق کو ممتاز کر دیتے ہیں.پس سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ امتیازی تعلق قائم ہونا چاہئے کہ ہر ضرورت کے وقت اور ہر خوف سے بچنے کی خاطر سب سے پہلے دھیان خدا تعالیٰ کا ذہن میں آئے اور بعد میں اسباب کی طرف طبیعت متوجہ ہو.اسباب کی طرف طبیعت متوجہ ہونے کے متعلق یہ نکتہ ضرور ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ہمارا خدا تمام کائنات کا خدا ہے روحانی دنیا کا بھی وہی خدا ہے اور جسمانی دنیا کا بھی وہی خدا ہے اس لئے اس سے ہم مستغنی نہیں ہو سکتے.دعا اصل ہے، دعا ہی کے ذریعے ہم خدا سے تعلق جوڑتے اور اس سے مدد چاہتے ہیں مگر جو ذرائع اس نے بنائے ہیں، جو اسباب کی دنیا خود اس نے تخلیق فرمائی ہے، اس دنیا سے مستغنی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا خدائی کا دعوئی ہے.گویا انسان اپنے آپ کو خدا کی تخلیق کے بعض حصوں سے بالا سمجھنے لگ جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی

Page 28

خطبات طاہر جلد ۹ 23 23 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء کائنات اب لازم ہے کہ میرے تابع چلے.مومن کے تابع وہ کائنات چلائی جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن دعا کی وجہ سے اور خدا سے تعلق کی وجہ سے اسباب سے مستغنی ہونے کی وجہ سے نہیں.پس جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان چیزوں سے بالا ہو چکے ہیں اور اب ہمیں ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت نہیں وہ ویسے ہی جاہل اور مشرک ہیں جیسے وہ لوگ جو دعا کی احتیاج سے بے خبر ہیں، دعا کی ضرورت سے بے خبر ہیں، کیونکہ خدا تعالیٰ کی کائنات میں ، اس کی تخلیقات میں کسی ایک حصے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.وہ مالک ہے اور مالک کل ہے اس لئے جیسے روحانی ذرائع اس کی ملکیت ہیں اسی طرح جسمانی ذرائع بھی اسی کی ملکیت ہیں اور دونوں پر انحصار اس رنگ میں کرنا کہ بیک وقت ہوتے ہوئے بھی دعا کو اولیت ہو اور اپنے ایمان اور اپنے یقین میں اصل انحصار دعا پر ہو.یہ ہے وہ مومنانہ شان جس کی قرآن کریم ہمیں تعلیم دیتا ہے اور انبیاء کی مثالیں پیش کرتے ہوئے مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے ہمارے سامنے یہ مضمون کھولتا چلا جاتا ہے کہ دعا کو اولیت ہے مگر اس کے ساتھ ہی اسباب کا اختیار کرنا لازمی ہے.یہاں تک کہ خدا کا کوئی برگزیدہ نبی بھی اسباب کی پیروی سے مستغنی قرار نہیں دیا گیا اور نمونے کے طور پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو بھی عظیم الشان خوشخبریوں کے باوجود اسباب سے استفادہ کرتے ہوئے دکھایا گیا اور کسی ایک موقعہ پر بھی تاریخی لحاظ سے یہ بات نظر نہیں آتی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہو کہ مجھے اسباب کی ضرورت نہیں.ایسے مواقع ممکن ہے بارہا پیش آئے ہوں اور میرا ایمان ہے کہ آئے ہوں گے کہ جب حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے یہ سمجھا ہو گا کہ اسباب کی پیروی کا وقت نہیں ہے.اسباب کی پیروی کچھ فائدہ نہیں پہنچائے گی اور اس وقت کلیۂ انحصار دعا پر ہی کیا ہوگا.ایسے مواقع کی تفاصیل ممکن ہے تاریخ میں تلاش کرنے سے مل بھی جائیں لیکن جہاں تک میرا علم ہے ایسے واقعات اس طرح بیان نہیں ہوئے کہ گویا آنحضرت ﷺ نے خود اس بات کو ظاہر فرمایا ہو کہ فلاں موقعہ پر میں نے اسباب کو اختیار کرنے سے صلى الله اجتناب کیا یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ وقت صرف دعا کا ہے اور اسباب کا نہیں لیکن میں اس لئے یہ اندازہ کر رہا ہوں کہ روز مرہ کی مومن کی زندگی میں بھی ایسے تجربات آتے ہیں کہ جب دعا کے سوا اور کوئی چارہ ہوتا ہی نہیں اور اسباب اگر دکھائی بھی دیں تو بالکل بے حقیقت اور بے معنی اور بے نتیجہ نظر آتے ہیں یا اسباب کی پیروی سے انسان عاجز آچکا ہوتا ہے اور کوئی اور راہ باقی نظر نہیں آتی.اس

Page 29

خطبات طاہر جلد ۹ 24 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء وقت پھر یہ خیال ہوتا ہے کہ اسباب کو کلیہ ترک کر دیا جائے اور خالصہ دعا پر انحصار کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں.ان میں سے ایک مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ جب ایک بیماری نے ایسی شدت اختیار کی اور ایسی ضد کے ساتھ چمٹ گئی کہ ہر قسم کی دوائیں ناکام رہیں اور جس تسکین کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدمت دین کے لئے ضرورت تھی وہ میسر نہیں آرہی تھی.کوئی مضمون لکھنا ہے تو شدید تکلیف کی وجہ سے اس طرف توجہ مائل نہیں ہو رہی اس وقت آپ نے ہر دوسرے ذریعے کو ترک کرتے ہوئے خالصہ دعا پر انحصار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میں اب صرف تجھ سے مانگتا ہوں اور معاً اس بیماری کے ازالے کے اسباب اس طرح پیدا ہوئے جیسے غیب سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کا کوئی ظاہری ذریعہ نظر نہیں آتا.ایسے بعض تجارب مجھے خلافت سے پہلے بھی ہوئے اور اب بھی بعض دفعہ ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ جب اسباب کو اختیار کرنے کا یا وقت نہیں ہوا کرتا یا انسان ویسے ہی اسباب اختیار کرتے تنگ آچکا ہوتا ہے اور آدمی سمجھتا ہے اب ان میں کچھ نہیں ہے.جیسے کہا جاتا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں رہا اب ان سے کسی فیض کی امید بے کار ہے.گزشتہ ہفتے کے اندر کچھ ایسی تکلیف دہ خبریں، خصوصیت کے ساتھ دو ایسے اہم خطرات کی نشاندہی ہوئی جن کا تعلق پاکستان سے تھا اور اگر چہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہوا ہے، ایک عاجزانہ رنگ میں ہم دعا کے ساتھ اسباب کو ضرور اختیار کرتے ہیں، میں عموماً ایسے مواقع پر ساری جماعت کو مطلع کرتا رہا ہوں اور بعض کوششوں کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں مگر ان دو مواقع پر خدا کی نقد ی تھی شاید کہ دل اسباب سے اتر گیا اور اچانک دل اسباب کی پیروی سے بیزار ہو گیا.تب میں نے خدا سے عاجزانہ دعا کی کہ اب تو مجھے معاف فرما لیکن میں اسباب کو اختیار نہیں کروں گا اب خالصیۂ تجھ سے امید ہے اور تجھ سے ہی دعا کرتا ہوں ، اپنے فضل سے دعاؤں کے ذریعے اسباب پیدا فرمادے اور ان حالات کو بدل دے.چنانچہ حیرت انگیز طور پر خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور قطعی طور پر کوئی دنیاوی سبب اختیار کئے بغیر ایسے حیرت انگیز رنگ میں وہ تکلیفوں کا خوف ٹل گیا بلکہ وہ تکلیفیں جو خوف سے آگے نکل کر عملی شکل میں ظاہر ہو چکی تھیں ان کے شر سے جماعت کے احباب محفوظ رہے اور ایسی اس کے نتیجے میں دل کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تسکین نصیب ہوئی کہ جس کی مثال دنیا میں شاذ ہی ملتی ہے.کل بھی

Page 30

خطبات طاہر جلد ۹ 25 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء اسی قسم کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے رات رؤیا میں ایک خوشخبری دی اور وہ خوشخبری میں چاہتا ہوں جماعت کو آج بتا دوں کیونکہ وہ دراصل جماعت کی ہی خوشخبری ہے.میں نے دیکھا کہ کثرت کے ساتھ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی لوگوں میں جماعت کی نصرت کی توجہ پیدا ہو رہی ہے اور جس طرح طوفان میں موج در موج لہریں اٹھتی ہیں، اس طرح لکھوکھا آدمی جن کا جماعت سے تعلق نہیں ہے وہ جماعت کی امداد کے لئے دوڑے چلے آرہے ہیں.یہ نظارہ مسلسل اسی طرح رویا میں دکھائی دیتا رہا اور بعض دفعہ بعض ملکوں کی بھی نشاندہی ہوئی اور اس وقت مجھے تعجب بھی ہوا کہ بظاہر تو ان کے ساتھ ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں مثلاً امریکہ کے مغرب سے بھی جو سان فرانسسکو اور لاس اینجلس وغیرہ کا علاقہ ہے.مغربی ساحل، کیلیفورنیا سٹیٹ ہے جو زیادہ تر مغرب میں شمالاً جنوبا چلتی ہے اس طرف سے بھی لاکھوں آدمی جماعت کی مدد کے لئے دوڑے آ رہے ہیں اور باہر کی دنیا سے بھی.مشرق میں بھی یہی نظر آ رہا ہے اور پاکستان میں بھی یہ لہر میں اٹھ رہی ہیں.اس نظارے کے بعد جو بالعموم ایک تموج کی شکل میں تھا یعنی انسان دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن یوں معلوم ہوتا تھا کہ موج در موج مخلوق خدا جماعت کی مدد کے لئے متوجہ ہورہی ہے.بلکہ ایک دفعہ یوں لگا کہ جیسے میں کہوں کہ بس کا فی ہوگئی بس کرو اتنی ضرورت نہیں.لیکن لہریں پھر اٹھتی ہوئی دوبارہ ساحل سے ٹکرا کر جس طرح چھلک کر باہر آپڑتی ہیں ، اسی طرح میں نے ان کو دیکھا.تو بیک وقت یہ احساس ہونے کے باوجود کہ یہ انسانی مدد ہے، نظارہ وہ موجوں کا سا رہا، جب رویا سے آنکھ کھلی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام تعبیر کے طور پر میری زبان پہ جاری تھا کہ ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء (تذكره: ۳۹) که تیری نصرت خدا کے ایسے مرد میدان بندے کریں گے جن کو اللہ تعالیٰ خود وحی کے ذریعے اس بات پر آمادہ فرمائے گا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس نئی صدی کے پہلے سال میں اس رویا کا دکھایا جانا محض کسی عارضی مفاد سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ آئندہ زمانے میں جماعت کی نصرت کا خیال قوموں میں لہر دراہر، موج در موج اٹھے گا اور مختلف ملکوں میں خدا تعالیٰ غیروں کے دل میں بھی جماعت کی تائید میں اٹھ کھڑے ہونے کے لئے ایک حرکت پیدا کرے گا ایک توجہ پیدا فرمائے گا اور کثرت کے ساتھ انشاء اللہ جماعت کو ایسے انصار ملیں گے جو جماعت سے نہ بھی تعلق رکھتے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی وحی کے

Page 31

خطبات طاہر جلد ۹ 26 26 خطبہ جمعہ ۱۲ / جنوری ۱۹۹۰ء تابع ( یعنی وحی بعض دفعہ نفی بھی ہوتی ہے ضروری نہیں کہ الہام کی شکل میں لفظوں میں وہ ظاہر ہو.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے چلنے والی تحریکات کی روشنی میں) ان کے دل جماعت کی مدد کے لئے متوجہ ہوں گے.اس رؤیا کے بعد میں خصوصیت سے جماعت کو دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور یاد دلاتا خود ہوں کہ جب بھی وہ اپنے متعلق یا اپنے دوستوں کے متعلق یا جماعت کے متعلق کوئی فکر والی باتیں سنیں یا کوئی تو ہمات ان کے دلوں کو گھیر لیں تو اپنے نفس کا یہ پہلا محاسبہ کیا کریں کہ ان کا خیال کس طرف گیا تھا.مدد ڈھونڈنے کے لئے ان کو کوئی انسان یاد آیا تھا کوئی دنیاوی ذریعہ اختیار کرنے کی طرف توجہ مائل ہوئی تھی یا سب سے پہلے توجہ خدا کی طرف گئی تھی.موحد بندے کی شان یہ ہے کہ توجہ کا اولین مرکز خدا ہوتا ہے ورنہ یہ دنیا ایسی ہے کہ جس میں باتیں ایسی مل جل جاتی ہیں کہ تو حید اور شرک کی تفریق آسان نہیں رہتی.خدا کے مومن بندے دعائیں بھی کرتے ہیں اور اسباب کو بھی اختیار کرتے ہیں اور بعض غیر بھی جو تو حید کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں ہوتے وہ اسباب کو بھی اختیار کر لیتے ہیں اور دعاؤں کی طرف بھی متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان ایک فرق ہے اور وہ فرق اولیت کا ہے.مومن کا اول سہارا خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اس تعلق کے قیام کے لئے جو بندے اور خدا کے درمیان سہارے کی شکل میں ظاہر ہوا کرتا ہے دعا ذریعہ بنتی ہے.یعنی سہارا تو خدا تعالیٰ ہر ایک کا ہے ہی لیکن اس خصوصی مدد کے لئے جو انسان کسی خاص مشکل کے وقت محسوس کرتا ہے کہ مجھے اس کی ضرورت ہے اور خدا سے مجھے ملنی چاہیئے اس مدد کے لئے دعا ذریعہ بنا کرتی ہے.پس جب بھی آپ مدد چاہتے ہیں تو مدد کے لئے پیغام بھیجا کرتے ہیں.جب بھی آپ مدد مانگتے ہیں تو مدد کے لئے آواز دیا کرتے ہیں تو پہلی آواز خدا کی جانب اٹھنی چاہئے پہلا پیغام خدا کو بھیجا جانا چاہئے.اگر یہ ہے تو پھر آپ موحد بندے ہیں.پھر آپ اسباب کو اختیار کریں تو یہ شرک نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک بجز کا اظہار ہے اور خدا کی اس مالکیت کی عبادت کرنا ہے جو ہر چیز پر حاوی ہے.پس اس پہلو سے آپ کا ایمان یقیناً خالص بن جاتا ہے.آپ کی توحید کے اوپر ایک گواہی ٹھہرتی ہے جو ہر ضرورت کے وقت آپ کے دل سے اٹھ رہی ہوتی ہے اور خدا کے بعد سب سے بڑا گواہ انسان کا اپنا نفس ہی ہے.پس اس پہلو سے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے دعاؤں پر انحصار بڑھائیں اور سب سے زیادہ تو کل دعا پر ہی رکھیں اور دعا کے ذریعے اولین رابطہ اپنے خدا سے کرنے کی عادت ڈالیں.

Page 32

خطبات طاہر جلد ۹ 27 27 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء آج کل جماعت کو تمام دنیا میں جو ضرورتیں درپیش ہیں اور نئے نئے رستے ترقیات کے کھل رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ نئے خطرات بھی پیدا ہور ہے ہیں.ایک بڑی عظیم عالمی جد و جہد کی کیفیت ہے ، جس میں جماعت اس نئی صدی میں داخل ہوئی ہے اور روز بروز نئے میدان کھلتے رہیں گے اور نئے میدانوں میں ہمارے قدم آگے بڑھتے رہیں گے اس لئے ابھی سے دعاؤں کی عادت خود بھی ڈالیں اور اپنے بچوں کو بھی دعاؤں کی اہمیت سمجھاتے رہیں اور دعائیں کرنے کے سلیقے سکھائیں.اگلی نسل کو دعا پر قائم کرنا بہت ہی ضروری ہے ورنہ ہمارا اگلی نسلوں کے ساتھ سب سے زیادہ اہم پیوند کٹ جائے گا.سب سے زیادہ اہم پیوند جو ہم اپنی اگلی نسلوں کے ساتھ قائم کر سکتے ہیں وہ یہی دعا کرنے کا پیوند ہے.وہ پیوند جو دراصل تو خدا سے لگتا ہے لیکن ہمارا آپس کا تعلق دعا کرنے والی نسل کے طور پر قائم رہنا چاہئے اور ہماری ہر اگلی نسل اسی طرح دعا گو ہونی چاہئے.اسی طرح دعا پر تو کل رکھنے والی اور یقین رکھنے والی ہونی چاہئے جیسے ہمیں ہونا چاہئے یا ہماری پہلی نسلیں تھیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو فیض ہے، اس کا خلاصہ کبھی بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے.آپ کے تمام فیوض کا مخص، آپ کے سارے فیض کا منبع اور روح اور اس کا خلاصہ یہی ہے کہ آپ نے خود بھی دعاؤں کے گر سیکھے اور دعاؤں پر انحصار کیا اور جماعت احمدیہ کو بھی دعاؤں کے ذریعے ایک زندہ خدا کے ساتھ ایک ابدی زندہ تعلق رکھنے کا سلیقہ سکھا دیا.پس یہ اگلی نسل کا ہم پر حق ہے جس طرح ہم نے پچھلی نسلوں کا پھل کھایا اور ان سے یہ تربیت حاصل کی اور ان کے اس فیض کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان رشتہ قائم ہو گیا.اسی طرح اگلی نسلوں کا ہم پر بھی حق ہے.اپنے بچوں پر رحم کریں اور ان کو آغاز ہی سے دعائیں کرنی سکھا ئیں اور ان سے دعائیں کروائیں اور پھر دیکھیں کہ جب دعا کا پھل ان کو ملے گا تو ان کی کیفیت کیسے بدل جائے گی.غیر دنیا میں رہتے ہوئے معصوم بچوں کی حفاظت کا اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں.تربیت کی آپ ہزار ترکیبیں کریں ان کو راہ راست پر رکھنے کے ہزار پاپڑ بیلیں مگر اس جیسا مؤثر اور کوئی ذریعہ نہیں کہ آپ ان کو دعا گو بچے بنادیں خدا تعالیٰ سے ان کا ایک ذاتی تعلق قائم کروا دیں اور بچپن ہی سے وہ اپنی دعاؤں کا پھل کھانے لگ جائیں.پس یہ ایک دوسری نصیحت ہے کہ جہاں ہم جماعت کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں اور اپنے لئے بھی وہاں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی دعا کونسلیں بنائیں.

Page 33

خطبات طاہر جلد ۹ 28 88 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء ایک رؤیا کا میں نے ابھی ذکر کیا تھا.اس ضمن میں میں سمجھتا ہوں ایک دو اور رویا ہیں جن سے مجھے آپ کو مطلع کرنا چاہئے.کچھ عرصہ پہلے کی ہیں لیکن چونکہ خطبات جمعہ کا مضمون ایسا تھا کہ ان کے اندروہ کہیں Fit نہیں بیٹھتے تھے یعنی ان کا براہ راست تعلق نہیں بن رہا تھا اس لئے آہستہ آہستہ وہ نظر سے اوجھل ہو گئے.اب چونکہ یہ مضمون چل پڑا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان مبشر خوابوں سے ، رویا سے جماعت کو مطلع کرنا چاہئے.ایک رویا میں میں نے دیکھا کہ جیسے سیاحوں کی بس ہوتی ہے ویسی ہی کسی بس میں میں اور میرے کچھ ساتھی سفر کرتے ہوئے ایک دریا کو عبور کرنے والے ہیں.اب یہ جو بس کی حالت کا سفر ہے یہ مجھے یاد نہیں لیکن یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ بس پل کے پاس آکر نیچے اس کے دامن میں رک گئی ہے.اور کوئی وجہ ہے کہ وہ بس خود آگے نہیں بڑھ سکتی تو جیسے ایسے موقع پر مسافر اتر کر چہل قدمی شروع کر دیتے ہیں اس طرح اس بس سے میں اترا ہوں اور کچھ اور بھی مسافر اترے ہیں لیکن میرے ذہن میں اس وقت اور کوئی نہیں آرہا.مگر یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مبارک مصلح الدین صاحب ( جو ہمارے واقف زندگی تحریک جدید کے کارکن ہیں) وہ ساتھ ہیں اور جیسے انتظار میں اور کوئی شغل نہ ہو تو انسان کہتا ہے کہ چلیں اب نہا ہی لیتے ہیں.میں اور وہ ہم دونوں دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں.میرے ذہن میں اس وقت یہ خیال ہے کہ ہم تھوڑا سا تیر کے واپس آجائیں گے لیکن مبارک مصلح الدین مجھ سے تھوڑے سے دو ہاتھ آگے ہیں اور وہ مجھے کہتے ہیں کہ چلیں اب اسی طرح ہی دریا پار کرتے ہیں تو میرے ذہن میں یہ خیال ہے کہ دریا تو بھر پور بہہ رہا ہے.جیسے دریائے سندھ طغیانی کے وقت بہا کرتا ہے اگر چہ کناروں سے چھلکا نہیں لیکن لبالب ہے اور بہت ہی بھر پور اور قوت کے ساتھ بہہ رہا ہے.تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پتا نہیں ہم یہ کر بھی سکیں گے کہ نہیں؟ تو مبارک مصلح الدین کہتے ہیں کہ نہیں ہم کر سکتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگر چہ میں کوئی ایسا تیراک نہیں مگر اس وقت تیرا کی کی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے اور چند ہاتھوں میں بڑے بڑے فاصلے طے ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ جب میں مڑ کے دیکھتا ہوں تو وہ پچھلا کنارہ بہت دور رہ جاتا ہے اور پھر دو چار ہاتھ لگانے سے ہی وہ باقی دریا بھی عبور ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ہم کنارے لگتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر چہ مبارک مصلح الدین مجھے رویا میں اپنے آگے دکھائی دیتے ہیں مگر جب کنارے لگتا ہوں تو پہلے میں

Page 34

خطبات طاہر جلد ۹ 29 29 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء لگتا ہوں پھر وہ لگتے ہیں اور اس طرح ہم دوسری طرف پہنچ جاتے ہیں اور پھر یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کس طرح یہاں سے باہر نکل کر دوسری طرف کنارے سے باہر کی عام دنیا میں ابھریں.ید رویا یہاں ختم ہو گئی اور چونکہ یہ ایک ایسی رویا تھی جو عام طور پر دستور کے مطابق انسان کے ذہن میں آتی نہیں اس لئے رویا ختم ہونے کے بعد میرے ذہن پر یہ بڑا بھاری اثر تھا کہ یہ ایک واضح پیغام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کسی نئی منزل فتح کرنے کی خوشخبری دے رہا ہے اور اگر چہ ایک حصہ اس کا ابھی تک مجھ پر واضح نہیں ہوا کہ وہ ساتھی جو ہیں ان کو ہم کیوں پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور ہم دو کیوں آگے نکل جاتے ہیں لیکن بہر حال ذہن پر یہ تاثر ضرور ہے کہ اس میں کوئی اندار نہیں تھا بلکہ خوشخبری تھی کہ دریا کی موجوں نے اگر چہ بس کو روک دیا ہے لیکن ہمارے سفر کی راہ میں وہ حائل نہیں ہوسکیں.تو اللہ تعالیٰ اس رؤیا کو بھی جہاں تک میرا تاثر ہے اور یقین ہے کہ مبشر ہے توقع ہے بڑھ کر مبشر بنائے اور جماعت کے حق میں اس کی اچھی تعبیر ظاہر فرمائے.ایک اور رؤیا جو پچھلے دنوں دیکھی جس کے نتیجے میں میں نے ایک غزل کہی.غزل تو جماعت تک پہنچ چکی ہے لیکن اس کا پس منظر نہیں پہنچا اس لئے میں وہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں.پچھلے دنوں ہم نے سوچا کہ دسمبر میں چونکہ ربوہ میں جلسہ نہیں ہو سکتا اس لئے کثرت کے ساتھ جماعتوں میں جلسے کئے جائیں اور اللہ کے فضل کے ساتھ جور پورٹیں مل رہیں ہیں پاکستان میں بہت ہی بھر پور جلسے ہوئے ہیں اور دوستوں کے بڑے اطمینان کے بہت ہی خط Recieve ہورہے ہیں کہ بڑی مدت کے بعد دل کی یہ خلش دور ہوئی اور جو اس جلسے میں لطف آیا ہے اگر چہ یہ سالانہ جلسہ نہیں تھا اور وہ ربوہ والی کیفیت نہیں تھی مگر چھوٹے پیمانے پر ہونے کے باوجود بہت ہی زیادہ ایمان افروز اور تسکین بخش تھا چونکہ میں عموماً جلسے کے موقع پر کوئی نظم پیش کیا کرتا ہوں میں نے ایک غزل بھجوائی تھی.جس کا عنوان تھا ” غزل آپ کے لئے وہ عام دستور سے کچھ ہٹی ہوئی ہے اور شاید سنے والوں نے تعجب بھی کیا ہو کہ مجھے یہ کیا سو بھی اس طرز پر غزل کہنے کی اور کیا مقصد ہے تو چونکہ ایک خواب کے نتیجے میں یہ کہی گئی تھی اس لئے میں وہ خواب آپ کو بتانا چاہتا ہوں.میں نے رویا میں دیکھا کہ کوئی عزیز ہے وہ میرے لئے ایک مصرعہ پڑھتا ہے اور وہ مصرعہ خواب میں بالکل موزوں ہے یعنی با قاعدہ باوزن مصرعہ ہے لیکن اٹھنے کے بعد پورا یاد نہیں رہا.لیکن

Page 35

خطبات طاہر جلد ۹ 30 30 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء آخری حصہ اس کا یاد رہا جس کے مطابق پھر یہ غزل کہی گئی.مضمون اس کا یہ تھا کہ لوگ آج کل کے زمانے میں ابتلاء کے زمانے میں ایسے ایسے اچھے شعر لکھ کر آپ کو بھجواتے رہتے ہیں نظمیں کہتے رہتے ہیں تو اجازت ہو تو میں بھی کہوں اک غزل آپ کے لئے“." غزل آپ کے لئے “ کے لفظ بعینہ وہی ہیں جو رویا میں دیکھے گئے تھے اور یہ کہوں میں یا کیا الفاظ تھے اس کی تفصیل یاد نہیں رہی.چنانچہ اس ” آپ کے لئے“ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو میں نے غزل کہی اس کے پہلے چند اشعار اور آخری در اصل نعتیہ ہیں.وہ میں نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے کہے ہیں اور بیچ کے چند اشعار دوسرے مضامین کے بھی ہیں.لیکن یہ میں سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ وہ میں اپنے متعلق نہیں کہہ رہا نعوذباللہ من ذالك.میں نے خود اپنے متعلق تو وہ غزل نہیں کہنی تھی اگر چہ کسی اور کے خیال سے بعض دفعہ انسان اپنے متعلق بھی ایک آدھ شعر کہہ لیتا ہے کسی کی زبان میں کہ گویا تم یہ چاہتے ہو کہ مجھے یہ پیغام دو.ایسے بھی ایک دو شعر اس میں ہیں لیکن دراصل اس کے اکثر اشعار نعتیہ ہیں پہلے چند اور آخری خصوصیت کے ساتھ.تو یہ اس کا پس منظر ہے جو امید ہے معلوم ہونے کے بعد اس غزل کی طر ز بھی سمجھ آجائے گی کہ کیا طرز ہے.ایک اور رویا جس میں انذار کا پہلو بھی تھا اور ایک خوشخبری کا رنگ بھی رکھتی تھی.وہ اگر چہ میں اپنے بعض دوستوں کے سامنے بیان کر چکا ہوں لیکن جماعت کے سامنے غالبا ابھی تک پیش نہیں کی.جب حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کا وصال ہوا ہے تو جس دن اس کی اطلاع ملی اس سے پہلی رات میں نے یہ رویا دیکھی کہ اقبال کی ایک مشہور غزل کے دو اشعار میں پڑھ رہا ہوں اور خاص اس میں درد کی ایک کیفیت ہے اور اقبال کی یہ وہ غزل ہے جو بچپن میں کالج کے زمانے میں مجھے بہت پسند تھی لیکن چونکہ مدت سے پڑھی نہیں، اس لئے خواب میں کوشش کر کر کے یاد کر کے وہ شعر پڑھتا ہوں اور پھر آخر یاد آجاتے ہیں اور وہ رواں ہو جاتے ہیں اور وہ شعر یہ تھے کہ تھا جنہیں ذوق تماشہ وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

Page 36

خطبات طاہر جلد ۹ 31 خطبہ جمعہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء تو بہت ہی دردناک اشعار ہیں اور جب آنکھ کھلی تو میرے دل پر بہت ہی اس بات کا گہرا اثر تھا اور غم کی کیفیت تھی کہ معلوم ہوتا ہے کہ سلسلے کے کوئی ایسے بزرگ جن کا خدا کے نزدیک ایک مرتبہ ہے رخصت ہونے والے ہیں جو انتظار کی راہ دیکھتے دیکھتے میرے جانے سے پہلے پہلے وصال پا جائیں گے.دوسرے صبح جب ملک سیف الرحمن صاحب کے وصال کی اطلاع ملی تو اس وقت لاہور کے دوست چوہدری حمید نصر اللہ صاحب اور ان کے ساتھ ایک دو اور دکلاء بھی تھے یہ ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے.ان سے میں نے بیان کی اور میں نے کہا کہ میں نیک فال کے طور پر یعنی اگر چہ لفظ ” نیک فال کا اطلاق پوری طرح تو نہیں ہوتا مگر ان معنوں میں نیک فال کے طور پر کہ گویا انڈارٹل چکا ہے اور جو ہونا تھا ہو چکا ہے، اس خواب کے مضمون کو ملک سیف الرحمن صاحب کے وصال پر لگا رہا ہوں.اگر چہ وہ اس عرصے میں ملتے بھی رہے ہیں لیکن جس مرتبے کے انسان تھے، خواب میں جیسا میرے ذہن پر اثر تھا کہ اس مرتبے کا کوئی انسان رخصت ہونے والا ہے یہ ان پر صادق آتا ہے اور دوسرا یہ خیال تھا کہ ملک صاحب کی خواہش تو بہر حال یہی ہوگی کہ میں بھی ربوہ جاؤں اور پھر ربوہ میں واپسی ہو اور اس تقریب میں شمولیت ہو تو اس خیال سے اگر اس پر اطلاق ہو جائے تو کوئی بعید از قیاس بات نہیں.آپ کو میں یہ رویا بتاتے ہوئے اس دعا کی تحریک کرتا ہوں کہ اللہ کرے کہ انذار کا پہلو یہاں تک ہی ٹل جائے اور جو دوسرا پہلو ہے واپسی کا ، اس کے آثار جلد جلد ظاہر ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ایسی حالت میں لے کے جائے کہ کم سے کم تکلیف کی خبریں ملیں.اب اس کے بعد خدا کرے یعنی میں تو دعا کے رنگ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بظاہر چیز ناممکن بھی ہو تو دعا کے ذریعے ممکن بن سکتی ہے.یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اب اس کے بعد واپسی تک کوئی فوت نہ ہو.وفات کا جو سلسلہ ہے وہ تو جاری رہے گا لیکن دعا کرتے وقت یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ کوئی بھی نہ ہو، اس لحاظ سے میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ دعا کریں کہ کم سے کم لوگ، اگر فوت ہونا کسی کا مقدر بھی ہے تو کم سے کم لوگ اس عرصے میں وفات پائیں اور کم سے کم لوگوں کے متعلق پھر یہ دردناک مضمون صادق آئے کہ تھا جنہیں ذوق تماشہ وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا

Page 37

Page 38

خطبات طاہر جلد ۹ 33 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء رسول کریم ﷺ نُورٌ عَلَى نُورٍ تھے نور محمد اللہ سے دنیا کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیں خطبه جمعه فرموده ۱۹ جنوری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَامِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمُ نُورًا تَمْشُونَ بِه وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌن (الحديد :٢٩) ، پھر فرمایا: یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے بھیجے ہوئے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے میں تمہیں اپنی رحمت سے دو ہرا حصہ عطا فرمائے گا.وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا اور تمہارے لئے ایک عظیم الشان نور تیار فرمائے گا.تمشون یہ جس کی روشنی میں تم چلو گے.وَيَغْفِرْ لَكُمْ اور وہ تم سے بخشش کا سلوک فرمائے گا.وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیم اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے.اس آیت کریمہ میں سب سے پہلی بات جو نظر کو پکڑتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ خطاب مومنوں سے ہے لیکن پہلی نصیحت یہ فرمائی گئی کہ اللہ کے رسول پر ایمان لے آؤ.وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں ان کو یہ کہنا کہ ایمان لے آؤ! کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن جب انسان اس پر

Page 39

خطبات طاہر جلد ۹ 34 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء مزید غور کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر ایمان لانے والے حقیقت میں ایمان نہیں لائے ہوئے ہوتے اور محض زبان کا ایمان ان کو کچھ فائدہ نہیں دیتا.اب یہاں حقیقی ایمان کی بات ہو رہی ہے کہ تم نے ایک منزل تو طے کر لی.تم نے اعلان کر دیا کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو لیکن محض یہ کافی نہیں.اب تمہیں ایمان کی روح کو اختیار کرنا پڑے گا، ایمان میں ڈوبنا ہوگا اور اس فائدے کی تلاش کرنی ہوگی جو ایمان کے نتیجے میں لازماً عطا ہوتا ہے اور وہ فائدہ جس کا بعد میں ذکر فرمایا گیا ، وہ حقیقی ایمان اور غیر حقیقی ایمان کے درمیان تمیز کر کے دکھاتا ہے اور ایسی روشن تمیز کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کسی ابہام کسی شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.اس مضمون کے تناسب سے بہت ہی خوبصورت جواب اس کا دیا گیا.فرمایا: يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ تم دو دفعہ ایمان لاؤ ، خدا تم پر دوہری رحمتیں کرے گا.پہلے ایمان کے نتیجے میں بھی تم پر رحمت فرمائے گا اسے ضائع نہیں ہونے دے گا اور اس دوسرے ایمان کے نتیجے میں جو حقیقی ایمان ہوگا جو ایمان کی روح کو سمجھنے کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے تم پر خدا دو ہری رحمتیں نازل فرمائے گا اور مزید نتیجہ یہ نکالا کہ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه اس ایمان کی علامت یہ ہے اور خدا تعالیٰ کے دوہرے فضل کی علامت یہ ہے کہ تمہیں ایک نو رعطا ہوگا جس کے ذریعے تم دیکھنے لگ جاؤ گے، تمہارے رستے روشن ہو جائیں گے.تمہاری زندگی کی ہر راہ تم پر اس طرح واضح ہو جائے گی کہ اس میں تم ٹھوکروں سے محفوظ ہو جاؤ گے.پس یہ وہ فرق ہے جو مومن کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر کوئی شخص ایمان لاتا ہے تو اگر چہ ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو.ظاہری ایمان ہے حقیقی ایمان نہیں.مگر قرآن کریم نے ہر ایسے دعویدار کے لئے ایک علامت کھول کر بیان فرما دی اور ہر شخص اس آیت کی روشنی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے یہ پہچاننے کی استطاعت رکھنے لگ گیا کہ آیا میرا ایمان حقیقی ایمان ہے یا نہیں جس کے نتیجے میں میں دوہری رحمتوں کا مستحق قرار دیا جاؤں اور پہچان کتنی واضح ہے نور عطا ہوگا.ایسا نور جو تمہاری راہیں تمہارے لئے واضح فرما دے گا اور تم اندھوں کی طرح اندھیرے میں ٹولتے ہوئے نہیں چلو گے بلکہ تمہیں صاف رستے دکھائی دینے لگ جائیں گے.یہ جو عرفان کا دوسرا جلوہ ہے یہ اس حقیقی ایمان کے نتیجہ میں نصیب ہوتا ہے اور اس کے بغیر مومن کی زندگی مکمل نہیں ہوتی اور در حقیقت مومن کا ایمان

Page 40

خطبات طاہر جلد ۹ 35 35 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء اسے کوئی بھی فائدہ نہیں دیتا اگر وہ نور کی تلاش نہ کرے اور نور کو حاصل نہ کرے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اس مضمون کو ادل بدل کر مختلف پہلوؤں سے ایسی حیرت انگیز صفائی کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ اس کا کوئی پہلو بھی اوجھل نہیں رہتا اور جب ذکر نور کا چل رہا ہو جو روشنی ہے تو پھر کسی پہلو کے اوجھل رہنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.نو رتو اندھیروں کو دور کرنے والا ہے.نور کا ذکر ہو تو کیسے ممکن ہے کہ کچھ شہبے کی گنجائشیں باقی رکھی جائیں.پس یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم اپنے رستے دیکھنے لگ جاؤ گے، اپنی زندگی کے ہر عمل کے لئے تمہیں یہ روشنی نصیب ہو جائے گی کہ درست یہ بات ہے اور غلط یہ بات ہے.اس کے بعد فرمایا.وَيَغْفِرْ لَكُمْ تمہیں پھر خدا تعالیٰ بخشے گا اور تم سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا.مغفرت کا سلوک نور کے عطا ہونے کے بعد ایک خاص معنی رکھتا ہے کیونکہ اس کے باوجود کہ انسان کو کھرے اور کھوٹے کی تمیز عطا ہو جائے.اس کیا وجود کہ وہ روشنی نصیب ہو جائے جس کے ذریعے وہ اپنی راہوں کو دیکھنے لگ جائے ، پھر بھی اس کا نفس اسے غلطیوں پر مجبور کرتا رہتا ہے اور وہ بعض دفعہ جان بوجھ کر دیکھتے ہوئے بھی ٹھوکر کھا جاتا ہے.بعض دفعہ اپنی اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے رستہ دیکھتے ہوئے اس پر چل نہیں سکتا اور اس سے استفادہ نہیں کر سکتا.پس ایسے موقعہ پر لازماً بخشش کا مضمون شروع ہو جاتا ہے اور ایسا شخص جسے خدا نور عطا کرتا ہے، اس نور کے بعد اگر اس سے کچھ غلطیاں ہوں تو بخشش کا بھی سلوک فرماتا ہے اور درگز رفرماتا ہے.لیکن بخشش کا مضمون صرف ان معنوں میں نہیں ہے کہ وہ کوتاہیاں کرتا چلا جائے اور خدا تعالیٰ بخشتا چلا جائے بلکہ ان معنوں میں ہے کہ نور کے عطا ہونے کے بعد جو مجبوری کی کمزوریاں ہیں جو مجبوری کی غفلتیں ہیں ان سے اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے.وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.یہاں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرآن کریم نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور اس مضمون کو آج میں آپ کے سامنے دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں اور تربیت کے سلسلے میں بیان کرنا چاہتا ہوں.ہر وہ شخص جو تربیت کرنے کا دعویدار ہے، ہر وہ شخص جولوگوں کو ہدایت کی طرف اور خدا کی طرف بلانے کا ادعا کرتا ہے، اس کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ تعلیم جو وہ پیش کرتا ہے وہ

Page 41

خطبات طاہر جلد ۹ 36 56 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء نورانی ہو کیونکہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ہر تعلیم جو خدا نے انبیاء کو عطا فرمائی وہ نور ہی کی تعلیم تھی لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس نور کو اپنا کر اپنی ذات کے لئے اس نور سے حصہ نہیں پایا ، وہ اس تعلیم سے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَبَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَ قَرَاطِيْسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا اباؤُكُم قُلِ الله ثم ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ (الانعام:۹۲) کہ ان سے کہہ وہ کون سی ذات تھی جس نے وہ کتاب اتاری جو موسیٰ لے کر آیا نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ وہ نور تھی اور لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب تھی.تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيْس تم نے اسے کاغذ بنا ڈالا.یعنی کاغذوں کا سلوک کیا محض تحریریں سمجھ کران کو پڑھتے رہے یا اپنے گھروں میں رکھتے رہے.تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرً ا یعنی تحریر یں تو تم ظاہر کرتے رہے اور لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے یہ ہماری روحانی کتاب ہے.اس کتاب سے ہم نے نور حاصل کیا ہے.وَ تُخْفُونَ كَثِيرًا مگر اس کے جواچھے نورانی پہلو تھے ان کو دبا دیتے رہے.ان کے اچھے پہلوؤں سے صرف نظر کرتے رہے ان کو نظر انداز کرتے رہے.یا اس تعلیم کے بعض حصوں کو پیش کرتے رہے اور بعض حصوں کو چھپاتے رہے جو تمہیں مجرم کرتے تھے.یہ دونوں معنی ہیں اس کے اور جو قو میں نور دیکھ کر نور سے استفادہ نہ کریں وہ نوران پر گواہ ٹھہرتا ہے اور ان کو بتاتا ہے کہ تم ظلم کرنے والے ہو اس لئے ایسی قومیں بھی ہیں جن کو نور عطا ہوا ان کو اس نور نے دکھا دیا کہ تم کہاں کہاں غلطی کر رہے ہو اور اس کے باوجود اس سے وہ صرف نظر کرتے رہے اور لوگوں سے وہ گواہیاں چھپاتے رہے جو دراصل ان کی ذات کے خلاف گواہیاں تھیں.پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نور سے کسی قسم کا استفادہ نہیں کیا.پس یہ دو الگ الگ مضمون ہیں.ایک وہ کہ کسی کو نور عطا ہو جائے اور وہ عمدا جان بوجھ کر اخفاء سے کام نہ لے اور اس کی روشنی سے حتی المقدور استفادہ کی کوشش کرتا رہے اور اس کو اپنے دل کا

Page 42

خطبات طاہر جلد ۹ الله 37 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء نور عطا ہو جائے.ایسے شخص کے لئے مغفرت کا مضمون ہے اور وہ لوگ جونور کو پہچانتے ہیں اور اس کی ان گواہیوں کو چھپا دیتے ہیں جو ان کے خلاف ہیں.ان کی ذات کے خلاف ہیں.اپنی آنکھیں بھی ان سے بند کر لیتے ہیں اور لوگوں پر بھی اس تعلیم کو ظاہر نہیں ہونے دیتے اور اپنی کبھی کی تائید میں آیات کے بعض ٹکڑے نکال کر وہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جو اپنے مضمون سے الگ کر کے دوسرے معنوں میں پیش کئے جاتے ہیں کیونکہ کبھی کی کوئی تعلیم نور میں تو نہیں ملتی.تو فرمایا کہ ایسے لوگوں کے لئے تو کوئی بخشش نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اس حال میں چھوڑ دے گا کہ وہ اپنے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جائیں گے.اور ان کو کچھ بھی نصیب نہیں ہوگا.پس نو کا تعلیم کی صورت میں نصیب ہونا کافی نہیں بلکہ نور کا اپنی ذات کو عطا ہونا ضروری ہے.اور اس مضمون پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے دل میں ایک نور پیدا کرتا ہے اس نور کے نتیجے میں پھر باہر کا نور اس کو عطا ہوتا ہے.بغیر اس اندرونی نور کے محض تعلیم کا نور اس کے لئے کوئی بھی فائدہ نہیں دیتا.تعلیم کے نور کی مثال سورج کی روشنی کی سی ہے.جو جب نکلتا ہے تو اس سارے کرہ ارض کو روشن کر دیتا ہے جس پر وہ طلوع ہوا ہے اور اس کی ساری فضا کو روشنی سے بھر دیتا ہے لیکن وہ لوگ جن کو نور بصیرت عطا نہیں ہوتا وہ اسی طرح اندھیروں میں رہتے ہیں اور اس نور سے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.پس قرآن کریم نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ اپنے نفس کے لئے نور حاصل کرو اور وہی نور ہے جو تم دوسروں کو عطا کرنے کے اہل ہو گے.اگر دنیا کی اصلاح کے لئے نکلے ہو تو چراغ لے کر نکلو لیکن وہ چراغ نہیں جو تعلیم کی صورت میں ملتا ہے یعنی محض وہ چراغ لے کر نہیں بلکہ اپنے نفوس میں وہ چراغ روشن کرو جن کے ذریعے تم روشنی والے بن جاؤ اور تم دوسروں کو روشنی دکھانے کی اہلیت حاصل کر لو.لیکن فرمایا کہ یہ وہ چیز ہے جو خالصہ اللہ سے نصیب ہوتی ہے اور اپنے طور پر انسان زبر دستی حاصل نہیں کر سکتا.وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ (النور: ٤١ ) وه شخص جس کو خدا نور عطا نہ کرے، اس کے لئے کوئی نور نہیں ہے.پس اس پہلو سے وہ پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی تھی وہ دعا کے طور پر ہمیں سکھائی گئی ہے اور ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ خدا سے نو ر مانگا کرو کیونکہ خدا کی طرف سے عطا کردہ نور کے سوا اور کوئی نور میسر نہیں آسکتا اور نور حاصل کرنے کا اور اس دعا کی قبولیت کا ذریعہ یہ بتایا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملالہ پر حقیقی ایمان لے آؤ.

Page 43

خطبات طاہر جلد ۹ 38 38 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء حقیقی ایمان تو ایک بہت ہی وسیع مضمون ہے یہاں اس مضمون کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک ایسی ذات تھے جن پر جونورا تارا گیا وہ آپ کے جسم میں اس طرح تحلیل کر گیا کہ آپ گویا مجسم نور ہو گئے.اور اس مضمون کو قرآن کریم نے بار ہا بیان فرمایا ہے کہ ہم نے تم پر ایسا رسول نور کی صورت میں اتارا ہے جو مجسم ذکر الہی ہے اور کئی جگہ آنحضرت ﷺ کو اسی طرح نور قرار دیا جس طرح قرآن کریم کو نور قرار دیا اسی طرح نور قرار دیا جس طرح فرقان کو نور قرار دیا اور نور کا لفظ دونوں پر یکساں اطلاق کر کے یہ دکھا دیا کہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں خدا کا نور مجسم ہو گیا ہے.یہ تعلیم اس طرح کھول کھول کر بار بار قرآن کریم میں بیان ہوئی کہ مسلمانوں میں سے ایک فرقے کو ٹھوکر لگ گئی اور وہ ان بچگانہ بحثوں میں پڑ گئے کہ آنحضرت ﷺ کا جسم تھا بھی کہ نہیں کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ نور تھے اور اتنا واضح نور کا لفظ آپ کی ذات پر قرآن کریم اطلاق فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے جو بچگا نہ نظر سے اس تعلیم کو دیکھا وہ سمجھے کہ یہاں نور سے مراد یہ ہے کہ آپ کا جسم تھا ہی نہیں صرف نور ہی نور تھے اور جو کچھ ہمیں دکھائی دیتا تھا وہ محض ایک نظر کا دھو کہ تھا.ایک عکس سا تھا ورنہ حقیقت میں آپ کا کوئی جسم نہیں تھا.اس لئے یہ بحثیں عام ہو گئیں کہ آپ کا سایہ تھا کہ نہیں تھا.آپ کی جو ماہیت تھی وہ کس قسم کی تھی اور ایک بہت بڑا فرقہ اس کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے اور ایک دوسرا فرقہ ایسا بنا جس نے جسم پر زور دینا شروع کیا اور نور کے پہلو کو حقیقت میں نظر انداز ہی کر دیا.مقابلے میں آکر جسم پر اتنا زور دیا کہ گویا آنحضرت ﷺ نور نہیں تھے اور محض بشر تھے.حالانکہ قرآن کریم یہ بتانا چاہتا ہے کہ آپ ایک ایسے بشر تھے جو نور بن گئے اور بشر کو نور میں تبدیل کرنے کے لئے وحی کی ضرورت ہے اور خدا سے تعلق کی ضرورت ہے.پس یہ جو مضمون ہے کہ خدا سے نور ملتا ہے.اس کو ہی قرآن کریم نے بیان فرمایا.جب فرمایا کہ : قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ ( الكيف : 1) كه دیکھو میں بظاہر تم جیسا ہی بشر ہوں.پھر یہ اتنا فرق تم کیا دیکھتے ہو؟ یہ فرق وحی کا فرق ہے.تمہارے جیسا بشر مگر ایسا بشر جس پر وحی نازل ہونے لگ گئی.پس بشریت کو نور میں تبدیل کرنے کے لئے وحی کی ضرورت ہے اور یہ وحی آنحضرت ﷺ کی وساطت سے ہمیں نصیب ہوئی لیکن یہ جب تک ہمارے ذاتی نور میں تبدیل نہ ہو اس وقت تک ہم اندھے رہیں گے.اور اس کو ذاتی نور میں تبدیل

Page 44

خطبات طاہر جلد ۹ 39 39 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء کرنے کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کے مطالعہ کی ضرورت ہے اور آپ کی حقیقی پیروی کی ضرورت ہے.ان معنوں میں آپ پر ایمان لانے کی ضرورت ہے کہ جس طرح آپ کی بشریت نور میں ڈھل گئی اسی رستے پر چلتے ہوئے انہی طرق یا ان رستوں کو اختیار کرتے ہوئے میں بھی رفتہ رفتہ اس نور سے حصہ پانے لگ جاؤں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم یہ کوشش کرو اور ہم یہ وعدے کرتے ہیں کہ ہم تمہیں وہ نور عطا کر دیں گے کیونکہ آنحضرت ﷺ کو بھی یہ نور خدا تعالیٰ نے عطا فر مایا تھا.لیکن اس نور کے عطا کرنے کی شرط یہ ہے کہ نفس کے اندر ایک شعلہ نور پیدا ہو.اس کے بغیر یہ بیرونی نور جو خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے یہ عطا نہیں ہوتا.قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کے نور کی جو تفصیل بیان فرمائی اس کو اسی رنگ میں بیان فرمایا کہ آپ کے نفس کے اندر ایک نور تھا جو اتنا لطیف تھا کہ وہ خود بخود بھڑک اٹھنے کے لئے تیار بیٹھا تھا.ایسی صورت میں جب آسمان سے شعلہ نور نازل ہوا تو نور علی نور بن گیا.یہ نہیں فرمایا کہ اس کو بھڑ کا دیا اور نور بنا دیا.فرمایا نور تھا پہلے ہی.نور علی نور ہوا ہے ایک نور پر ایک اور نور نازل ہوا ہے.پس اپنے نفوس کے اندر جب تک آپ کو ئی شمعیں روشن نہیں کریں گے.آسمان سے صلى الله نور نہیں اترے گا اور آنحضرت ملے پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح آپ کا وجود اندرونی طور پر لطافت اختیار کرتے ہوئے نور بن چکا تھا اور بھڑک اٹھنے پر تیار تھا یعنی ایسا نور جو تمام دنیا میں روشنی پیدا کر دے.یہ جو مثال دی ہے قرآن کریم نے یہ اس طرح کی مثال ہے جیسے Super Nova کا ذکر سائنس میں ملتا ہے کہ بعض جو Stars ہیں ان کے اندر Radiation کی ایسی Concentration ہو جاتی ہے.اس ریڈیائی قوت کا غیر معمولی طور پر ایسا اجتماع ہو جاتا ہے کہ وہ پھر اچانک بھڑک اٹھتے ہیں اور سارے جو کو وہ اتنی حیرت انگیز روشنی سے بھر دیتے ہیں کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.کروڑوں اور اربوں سال تک وہ روشنی مسلسل پھیلتی چلی جاتی ہے اور دوسروں کو روشن کرتی چلی جاتی ہے.یہ جواچانک روشنی کا بھڑک اٹھنا ہے سائنس دان بتاتے ہیں کہ اس میں ایسی قوت ہے کہ میں ارب سال پہلے جو روشنی بعض ستاروں میں بھڑ کی تھی وہ آج تک جو میں موجود ہے.اب میں ارب سال تک ، آپ اندازہ کریں کہ وہ کتنا بڑا فاصلہ ہے اور کتنا عظیم تصور ہے جس کو ہمارے دماغ حقیقت میں پکڑ بھی نہیں سکتے.تو روحانی دنیا

Page 45

خطبات طاہر جلد ۹ 40 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء میں بھی اس قسم کا وہ واقعہ ہوا ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی سے کا دل ان نوروں کا اجتماع تھا جو اپنی ذات میں اتنے حیرت انگیز طور پر قوت کو مجتمع کرنے والے تھے کہ اسی قوت کے زور سے وہ بھڑک اٹھنے پر تیار ہو گئے تھے.اس وقت آسمان سے شعلہ نور آپ پر نازل ہوا.یہ تمثیل حضرت محمد مصطفی امیہ کی بیان ہوئی ہے اور اس کے مقابل پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمثیل ایک اور رنگ میں پیش ہوئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَمَّا قَضَى مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِةِ أَنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي أَنَسْتُ نَارً ا لَعَلَى اتِيْكُمْ مِنْهَا بِخَبَرِ اَ وَجَدْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّا أَيُّهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِيُّ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي البَقْعَةِ الْمُبْرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ تُمُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَلَمِيْنَ (القصص: ۳۰-۳۱) کہ جب موسیٰ نے اپنے خسر جن کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت شعیب تھے.ان سے اپنی مدت کا معاہدہ پورا کر لیا تو اپنے اہل کو لے کر وہ واپسی کے لئے روانہ ہوئے.جب وہ طور کے قریب پہنچے تو انہوں نے طور پر ایک آگ کو روشن دیکھا.اس پر انہوں نے اپنے اہل سے کہا کہ ذرا یہاں ٹھہرو.مجھے ایک آگ دکھائی دے رہی ہے.ہو سکتا ہے میں وہاں سے کوئی روشنی کی خبر لاؤں.خبر سے مراد یہاں روشنی حاصل کرنا ہے.راستہ تلاش کرتے ہوئے ایک انسان جس طرح کسی دوسرے سے پوچھتا ہے کہ مجھے بتاؤ میں کون سارستہ اختیار کروں تو یہاں آگ سے پہلا خیال آگ لینے کا نہیں بلکہ رستے کی تلاش کا سوال پیدا ہوا ہے.جو حضرت موسی کے ذہن میں اٹھا ہے.پھر فرمایا اَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ یا ایک دہکتا ہوا کوئلہ ، ایک آگ کی چنگاری لے آؤں.لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ تا کہ تم اس کو سینکو اور اس سے گرمی محسوس کرو.معلوم ہوتا ہے ظاہری طور پر بھی سردیوں کا موسم تھا.فَلَمَّا أَتَهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِيُّ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبَقْعَةِ الْمُبْرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ يَمُوسَى إِنِّي أَنَا اللهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ ) جب وہ قریب پہنچے تو اس مبارک وادی سے، اس درخت سے جہاں خدا کا نور جلوہ گر تھا.وہاں سے آپ کو یہ آواز آئی کہ اے موسیٰ میں خدا ہوں.یعنی جونور تو نے دیکھا ہے وہ خدا کا نور ہے اور

Page 46

خطبات طاہر جلد ۹ 41 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء میں تجھے اپنی طرف بلانے کے لئے متوجہ کرنے کے لئے ایک ظاہری نور کی صورت میں دکھائی دیا تھا.چنانچہ اس وقت سے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ وحی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور وہ پیغام عطا ہوتا ہے.یہ بحث الگ ہے اور لمبی ہے کہ یہ واقعہ کب ہوا تھا.کیا حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے سفر سے پہلے آپ کو جانے کا اشارہ ملا تھا یا نہیں کیونکہ قرآن کریم سے یہی پتہ چلتا ہے کہ سفر سے پہلے آپ کو جانے کا اشارہ مل چکا تھا اور یہ بعد میں اس کی تفصیل عطا ہوئی ہے.مگر میں اس بحث کو یہاں نہیں چھیڑ نا چاہتا.مراد میری یہ ہے کہ وہاں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں پہلے نور کی ایک طلب پیدا ہوئی اور جس آنکھ نے وہ نور دیکھا ہے اس آنکھ کو اندرونی طور پر نور بصیرت حاصل تھا ور نہ آپ کے اہل کو وہ نور کیوں دکھائی نہ دیا.اگر وہ کوئی ظاہری آگ ہوتی تو آپ اپنی بیگم کو بتاتے یا جو بھی سفر کے ساتھی تھے ان کو کہتے وہ دیکھو سامنے آگ جل رہی ہے اور اس آگ سے ہم کچھ حصہ پاتے ہیں.ہوسکتا ہے کچھ لوگ آگ کے گرد بیٹھے ہوں ان سے ہم ہدایت پائیں اور یا آگ میں سے کچھ حصہ لے لیں لیکن قرآن کریم کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سوا کسی اور کو وہ آگ نظر نہیں آرہی تھی.یہ وہی مضمون ہے جو اندرونی بصیرت کے نور کا مضمون ہے.جب تک اندرونی نور نصیب نہ ہو خدا کا نور دکھائی نہیں دیتا اور جب اندرونی نورنصیب ہو جائے تو پھر خدا کا نور جلوہ گر ہو کر پہلے نور کونُور عَلى نُورٍ (النور:۳۷) بنادیتا ہے مگر دونوں واقعات کا فرق بتا تا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے نور کی قوت کیا تھی اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے نور کی قوت اس کے مقابل پر کیا تھی.بہت بڑا فرق ہے.ایک جگہ قلب محمد مصطفی ﷺ کو طور بنا دیا گیا ہے اور وہاں خدا کا نور جلوہ گر ہوتا ہے.ایک جگہ موسیٰ تلاش میں طور کا سفر کرتے ہیں اور وہی طور ہے جہاں جب وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے وہ شان دکھا جو تو نے آئندہ آنے والے ایک نبی کو دکھانی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو اس کا متحمل نہیں ہوسکتا تو میری پوری رؤیت نہیں کر سکتا.پس یہ تو نبوت کا مضمون ہے اور نبوت کا مضمون اندرونی نور سے شروع ہوتا ہے اور بیرونی نور پر جا کر اتمام پاتا ہے.پس قرآن کریم نے جہاں آتمِمُ لَنَا نُورَنَا (التحریم: 9) کی دعا سکھائی وہاں یہ بھی بتا دیا کہ محض ایک شعلہ نور کا حاصل ہونا کافی نہیں.اس کے اتمام کے لئے کوشش بھی کرتے رہو اور دعا بھی کرتے رہو.

Page 47

خطبات طاہر جلد ۹ 42 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل میں اس نور کو ٹولے اور محسوس کرے اور اگر اس کو نور کی شکل میں وہ شعلہ دکھائی نہیں دیتا تو جس طرح آگ کا ایک طلب گا ربعض دفعہ راکھ کو ٹولتا ہے اور ٹول کر اس کے اندر سے وہ چھوٹا سا دہکتا ہوا کوئلہ نکالتا ہے جس کو پھونکیں مارتا ہے تو پھر وہ نور میں تبدیل ہو جاتا ہے ، ایک آگ بھڑک اٹھتی ہے.ہم بچپن میں جب شکار پہ جایا کرتے تھے تو دیہات میں ٹھہرتے تھے وہاں ہم نے یہ نظارہ کئی دفعہ دیکھا کہ زمیندار حقہ کے شوقین صبح کے وقت جب ہم اٹھ رہے ہوتے تھے.وہ اس شعلے کی تلاش میں چولہوں کے اندر وہ جو راکھ پڑی ہوتی ہے اس کو ٹول ٹول کے اندر سے پھر وہ چھوٹا سا ایک چنگارا نکالا کرتے تھے اور اس کو کاغذ پر رکھ کر پھونکیں مار کر اس کو آگ میں تبدیل کیا کرتے تھے.پس تمباکو کا ایک نشئی ایک ظاہری شعلے کو بھڑ کانے کیلئے اگر اتنی محنت کرتا ہے ایک ظاہری شعلے کو بھڑ کانے کے لئے تو وہ لوگ جونور کے علمبر دار بنا کر دنیا کے لئے نکالے گئے ہیں وہ جن کے سپرداند ھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنا ہے وہ کیوں ایسی محنت نہ کریں.اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ محنت کی ضرورت ہے.یہ یقینی امر ہے کہ ہر انسان کے اندر شعلہ نور موجود ضرور رہتا ہے.یا یوں کہنا چاہئے کہ ہر انسان اس پہلو سے خدا تعالیٰ کے ایک عظیم انصاف کا مظہر ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں پیدائشی اندھا تھا اور مجھے یہ نور کبھی نصیب ہی نہیں ہوا.نور ہر ایک کو نصیب ہوتا ہے وہ اس کی تلاش نہ کرے اسے نکال کر ابھارے اور اجالے نہیں تو رفتہ رفتہ پھر وہ راکھ میں دبا ہوا شعلہ بھی مرجایا کرتا ہے.بعض لوگ ایسے بھی دیکھے ، بیچارے وہ ٹھنڈی راکھ کو تلاش کرتے رہتے ہیں.راکھ اٹھتی ہے ان کے سانسوں کے اندر ان کے Lungs میں داخل ہوتی ہے ان کا چہرہ خراب کرتی ہے ٹولتے رہتے ہیں کچھ نہیں نکلتا.تو ایسے بھی بد نصیب ہوتے ہیں جو اگر اپنی راکھ کو چھیڑریں نہیں اور اسی طرح پڑا رہنے دیں تو رفتہ رفتہ ان کا نوران کے سینوں میں مرجاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے بجھ جاتا ہے.ایسے بدنصیبوں کا بھی قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.لیکن آپ نے تو دنیا کو روشن کرنا ہے.آپ نے تو اپنی نئی نسلوں کی تربیت کرنی ہے اور یہ تربیت احمدیت کی تعلیم کے ذریعے آپ نہیں کر سکتے جب تک کہ اس تعلیم کے نور کو پہلے اپنے وجود کا حصہ نہ بنائیں اور وہ وجود کا حصہ تب بنتی ہے جب آپ کے دل میں ایک نور پیدا ہو اور نور نور پر لپکتا ہے.اس بنیادی نکتے کو آپ

Page 48

خطبات طاہر جلد ۹ ہمیشہ یا درکھیں.43 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء قرآن کریم سے بالکل واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اندرونی نور نصیب نہ ہو بیرونی نور اترتا نہیں.روشنی کو ایک روشن جگہ کی ضرورت ہے جہاں وہ نازل ہوتی ہے.وہ ایک اشتراک ،ایک اتحاد ہے جس کے نتیجے میں ایک روشنی دوسرے کی طرف کشش کرتی ہے.پس اندرونی نور کے حصول کے لئے سب سے پہلی تو کوشش ہے احساس ہے، یہ شعور ہے کہ مجھے اپنے نفس کے نور کو زندہ رکھنا ہے اس لئے اپنے اندر ان اچھی چیزوں کو تلاش کریں جو خدا کے نور کی یاد دلاتی ہیں.اپنے پاکیزہ جذبات کو ابھاریں اپنی نیکیوں کو ٹولیں اور انہیں زندہ کریں اور ان کوصاف کریں، ان کو مانجیں، ان کو روشن کرنے کی کوشش کریں.یہی وہ طریق ہے جس کے نتیجے میں آپ کے دل میں دبا ہوا شعلہ نور بھڑک اٹھے گا.جو اس وقت چنگاریوں کی صورت میں، چھوٹے چھوٹے دہکتے ہوئے کوئلوں کی صورت میں ہوگا.لیکن جب آپ یہ کوشش کریں گے اور اس پر پھونکیں ماریں گے تو انشاء اللہ وہ ایک روشن آگ میں تبدیل ہو جائے گا.اور اس کے لئے ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہے.یہ مضمون چونکہ بہت گہرا ہے اور تصوف کا رنگ اختیار کر جاتا ہے اور چونکہ ہم میں سے بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو تصوف کے باریک نکتوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے.اگر وہ سنیں اور لطف محسوس کریں تو اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے اور اسی لطف کو اپنا مقصد بنا کر خوش ہوکر پھر اس سے آگے گزر جاتے ہیں.اس لئے میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ بات سمجھا کر پھر وہ آسان طریق بتاؤں جس کے ذریعے محض تصوف کا ایک نکتہ نہ رہے بلکہ ایک ایسی ٹھوس حقیقی تعلیم بن جائے جس کو ہم میں سے ہر ایک اختیار کرنے کا اہل ہو جائے.میں نے جو یہ تحریک کی تھی کہ نمازوں پر زور دیں اور قرآن کریم کی تلاوت پر زور دیں.اس میں بڑا مقصد یہ تھا کہ اس طرح آپ کو اپنے نفس کے نور کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی.وہ لوگ جو عبادت پر قائم نہیں ہوتے ان کا نور بجھتا رہتا ہے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کبھی کوئی انکار ممکن نہیں.عبادت سے غافل لوگ نسبتا روز بروز ٹھنڈے ہونے لگ جاتے ہیں.عبادت کو جب اختیار کرتے ہیں تو ایک لمبا عرصہ ایسی کیفیت کا ان پر گزرتا ہے کہ وہ عبادت کرنے کے باوجود کوئی گرمی محسوس نہیں کرتے اور بے چین ہوتے ہیں کہ پھر اس عبادت کا فائدہ کیا؟ ہمیں تو کوئی گرمی نہیں

Page 49

خطبات طاہر جلد ۹ 44 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء مل رہی.وہ اس نکتہ کو بھول جاتے ہیں کہ ان کے دل کے شعلے یا دل کے دہکتے ہوئے کو کلے رفتہ رفتہ اتنی ڈھیروں راکھ کے تلے دب چکے ہیں اب آسانی کے ساتھ وہ آگ بھڑک نہیں سکتی.اس پر محنت کرنی پڑے گی.پس اسی لئے میں نے آپ کو حقے والوں کی مثال بتائی ہے.وہ جب طلب محسوس کرتے ہیں تو خواہ ان کو وہ چنگاری ملے یا نہ ملے.وہ ٹولتے رہتے ہیں، دیکھتے رہتے ہیں، بے چین ہوتے چلے جاتے ہیں.ایک معمولی سی چنگاری بھی ملے تو اس کو وہ سنبھال لیتے ہیں بڑی احتیاط سے کاغذ پر اٹھاتے ہیں پہلے ہلکی پھونکیں مارتے ہیں پھر زیادہ پھونکیں پھر جب وہ روشن ہو جاتی ہے تو ان کے چہرے بھی روشن ہو جاتے ہیں کہ اب ہمیں ہماری طلب کی پیاس بجھانے کا موقعہ مل جائے گا.تو جو نماز پڑھنے والے ہیں ، مجھے خیال آیا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم ایک بے کار کوشش کر رہے ہیں.گرمی کا فقدان یہ بتارہا ہے کہ ایک لمبا عرصہ یا تو انہوں نے عبادت نہیں کی یا عبادت ایک سرسری طور پر کرتے رہے ہیں اور اس سے استفادہ نہیں کر سکے لیکن مایوسی کی نہ ضرورت ہے نہ مایوسی کا حق ہے نہ مومن کو مایوسی کی اجازت ہے اور مایوس ہونے والوں کو پھر کچھ نصیب نہیں ہوا کرتا.پس اپنی عبادتوں کو تیز کریں اپنی جستجو کو بڑھائیں اور ہر کونے کھدرے پر اپنے نفس کے اندر نظر ڈالیں اور دیکھیں وہاں کون سی ایسی نیکی کی روشنی ہے جس کے حوالے سے خدا سے تعلق پیدا کریں اس کے بغیر نمازوں میں زندگی پیدا نہیں ہوسکتی.دو قسم کے حوالے ہیں جن سے نمازوں میں جان پڑتی ہے.ایک وہ حوالہ جو راکھ کا حوالہ ہے یعنی آپ تلاش کر رہے ہیں اور روشنی نہیں مل رہی اور آپ بے قرار ہو کر خدا سے کہتے ہیں کہ میرے پاس تو صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے مجھے کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی اس لئے اے خدا ! تو میری مدد کو آ! اور اس راکھ میں سے شعلہ نور پیدا کر دے.پس مایوسی کی بجائے اس عدم حصول کو مزید طلب میں تبدیل کر دیں بے چینی اور بے قراری کے ساتھ دعائیں کرنے لگ جائیں کہ اے خدا! تو میری مدد کو آ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز کے قیام کے سلسلے میں یہی مضمون بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ نمازوں کو زندہ کرنا ہے تو خدا سے مانگو اور بے قراری سے یہ عرض کرو کہ خدایا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.میری نمازیں خالی پڑی ہیں تو آ اور ان نمازوں کو زندہ کر دے، تو اپنے نور سے ان نمازوں کو روشن فرمادے، اپنی محبت کی گرمی سے انہیں توانائی بخش.

Page 50

خطبات طاہر جلد ۹ 45 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء یہ وہ دعائیں ہیں جو راکھ پر نظر کر کے دل میں پیدا ہوتی ہیں اور نیکی کے نور کو دیکھ کر اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا تصور باندھ کر اس سے تعلق پیدا کرنا ایک اور مضمون ہے.ہر انسان میں خدا تعالیٰ نے نیکی مختلف رنگ میں رکھی ہوئی ہے.نیکی کے اس حصے پر خدا کی طرف نگاہ کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا یہ دراصل صفات الہی کا پر تو ہے جو میرے دل میں مختلف شکلوں میں نیکیوں کی صورت میں موجود ہے اور اس پر خدا کا احسان کرتے ہوئے ان نیکیوں کو زندہ کرنا ، ان میں پھونکیں مارنا ، ان کو بھڑ کا نا ، ان کو اونچالے کے جانا ، یہ وہ کوشش ہے جو عبادت کے ذریعے کی جاتی ہے اور عبادت میں کی جاتی ہے.غور اور فکر کے ساتھ عبادت کے وقت اپنے نفس کا جائزہ لیتے رہنا اور بعد میں بھی ذکر الہی کی صورت میں اپنے نفس کا جائزہ لیتے رہنا ان معنوں میں جماعت کو چاہئے کہ اپنے نفوس کے نور کو بھڑکائے اور روشن کرے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک شخص نور کا محتاج ہے.پہلا ایمان کافی نہیں ایک دوسرا ایمان لانا ہوگا اور وہ آنحضرت مے کی حقیقت لانا پر ایمان لانا ہوگا.حقیقت محمدیہ کے مضمون کو سمجھنا ہوگا.اس دوسرے ایمان کے نتیجے میں خدا تعالیٰ دوہری رحمتیں لے کر آپ پر نازل ہوگا اور آپ کے اندر اور باہر کو ایک نور میں تبدیل فرمادے گا.اور ایسا نور ہو گا جس سے دوسرے دیکھنے لگیں گے اور اس کی روشنی میں نہ صرف آپ آگے بڑھیں گے بلکہ لوگوں کو بھی وہ روشنی فائدہ پہنچائے گی اور لوگوں کے لئے بھی وہ رستہ دکھانے کا موجب بنے گی.قرآن کریم فرماتا ہے کہ مومن کو ہم نے یہ ذاتی نورصرف اس لئے عطا نہیں کیا کہ وہ خود اپنے لئے استعمال کرے بلکہ لوگوں کو وہ نور دکھانے کے لئے استعمال کرنے لگ جائے اور وہ ایسا شمع بردار ہو جو قافلوں کو اپنے پیچھے لے کر چلنے والا ہو.رستہ دکھانے والا ہو اور اس مقصد کو پورا کرتے ہوئے جب وہ بالآخر خدا کی طرف واپس چلا جاتا ہے تو وہ لوگ جنہوں نے اس کو دیکھا تھا وہ اس کے نور سے محروم رہے تھے.قیامت کے دن اس سے مطالبہ کریں گے اب اس نور سے ہمیں کچھ حصہ دے دو.ہم بڑے بدنصیب تھے کہ تمہارے نور سے فائدہ نہیں اٹھا سکے.اس مضمون کو قرآن کریم سوره حدید آیات ۱۴ تا ۱۶ میں بیان فرماتا ہے.فرمایا:

Page 51

خطبات طاہر جلد ۹ 44 46 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء يَوْمَ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالْمُنْفِقْتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسُ مِنْ نُوْرِكُمْ قِيْلَ ارْجِعُوا وَرَاءَ كُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ کہ جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں، یہ رحم کا مطالبہ کریں گے کہ وانْظُرُونَا ہم پر شفقت کی نظر ڈالو.نَقْتَبِس مِنْ نُّورِكُمْ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ حصہ پالیں.قِیلَ ارْجِعُوا ان سے کہا جائے گا واپس جاؤ، وَرَاءَ كُمُ اپنے ماضی کی طرف لوٹنے کی کوشش کرو فَالْتَمِسُوا نُورًا اور وہاں نور کی تلاش کرو.یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ واپس جاسکتے ہیں.یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا میں جو نور سے محروم رہ جاتا ہے پھر قیامت کے دن اسے کوئی نور نصیب نہیں ہوتا اور مومنوں کے نور سے دوسروں کے لئے فائدہ اٹھانا ضروری ہے.اگر وہ اس دنیا میں مومنوں کے نور سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو قیامت کے دن ان کو اس نور سے کوئی حصہ نہیں ملے گا.پس جہاں یہ مومنوں کے لئے ایک قسم کی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دنیا کے نور کے نتیجے میں ان کو آخرت میں نور عطا فرمائے گا وہاں ان کی ذمہ داری کا احساس بھی تو ہے جو انہیں دلایا جارہا ہے کہ تم اگر اس نور کو دوسروں تک نہیں پہنچاؤ گے اور وہ اندھے مر جائیں گے تو پھر قیامت کے دن ان کو کوئی نور نہیں ملے گا اور ایک رنگ میں مومن اگر حساس ہو تو وہ یہ محسوس کرے گا کہ گویا مجھ پر ذمہ داری ہو گئی.میں نور دے سکتا تھا اور نہیں دیا.اب یہ دو پہلو ہیں جو آپ کے سامنے روشن ہونے چاہئیں.اول یہ کہ آپ نے نور پہنچانے کی کوشش کی اور پھر کوئی نور سے محروم رہا اس میں آپ کلیڈ بری الذمہ ہیں لیکن اگر نور پہنچانے کی کوشش نہ کی تو قیامت کے دن وہ منافقین خدا تعالیٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو مجبور تھے ہمیں تو نور دیا ہی نہیں گیا اور ان نو روالوں کو پھر وہ پہچان بھی نہیں سکتے کیونکہ جس نے نور پیش نہیں کیا ہوا سے قیامت کے دن پہچان کون سکے گا.معلوم یہ ہوتا ہے کہ مومنوں کی یہ صفات بیان فرمائی گئی ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے نور سے دوسروں کو روشنی عطا کرنے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں اور اس شان کے ساتھ اور اس استقلال کے ساتھ ایسا کام کرتے ہیں کہ وہ لوگ ان کو

Page 52

خطبات طاہر جلد ۹ 47 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء پہچاننے لگتے ہیں ، جاننے لگتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو روشنیاں پھیلا رہے ہیں.پھر اگر وہ ان روشنیوں کو رد کر دیں تو پھر قیامت کے دن ان کی ذمہ داری ان کی ذات پر ہے، مومنوں پر عائد نہیں ہوتی.پس آپ نے اگر اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو روشنی عطا کرنی ہے، اپنے ماحول میں اپنے دوستوں کو عطا کرنی ہے.اپنی گلیوں ، گلیوں والوں کو ، محلے میں محلے والوں کو.اگر شہروں کو نور سے بھرنا ہے، اگر ملکوں کو نور سے بھرنا ہے تو یہ نور وہ کافی نہیں جو تعلیم کی صورت میں موجود ہے.یہ تعلیم کا نور آپ کے دل میں اس وقت اترے گا جب آپ کے دل سے ایک شعلہ نور پیدا ہوگا.پھر نُورٌ عَلَى نُورٍ بن کر آپ اس دنیا کو روشن کرنے کی اہلیت حاصل کریں گے.پس دعا کرتے رہیں اور عاجزانہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے نور کی حفاظت فرمائے.آپ کو نور عطا کرے اور پھر اس کو روشن تر کرتا چلا جائے.صرف یہ بھی کافی نہیں کہ آپ نور حاصل کریں.اس کی حفاظت کا مضمون بھی قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.فرمایا ہے.جب یہ نور خدا کے بندوں کو عطا ہوتا ہے تو لوگ اس کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِه وَلَوْكَرِهَ الكَفِرُونَ (القف:۹) کہ یہ لوگ ایسے ظالم ہیں کہ ایک طرف تو مومن چراغ لے کر نکلتے ہیں کہ ان کے اندھیروں کو روشنیوں میں تبدیل کر دیں دوسری طرف یہ پھونکیں مار مار کر ان کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آؤ تم بھی ہم جیسے اندھے ہو جاؤ تم بھی نوروں سے محروم رہ جاؤ.تو عظیم جدو جہد ہے اس سلسلے میں نور کو پھیلانے کی جس کا قرآن کریم نے بیان فرمایا اور ہم پر واضح کر دیا کہ اس راہ میں یہ خطرات بھی ہوں گے کہ جن کو تم نور عطا کرنے لگو گے وہ تمہارے نور کو بجھانے کی کوشش کریں گے لیکن اگر تم دعا کرتے رہو اور خدا کی طرف متوجہ رہو اور کامل خلوص کے ساتھ اس راہ پر گامزن رہو.تو یاد رکھو کہ خدا تم سے وعدہ کرتا ہے وَاللهُ مُتِمُّ نُورِم وہ نور جو تمہارے دلوں میں خدا تعالیٰ نے روشن فرمایا.جو خدا کا نور ہے اس کے اتمام کا وعدہ خدا کرتا ہے.وہ اس کی حفاظت فرمائے گا اور وہ تمہارے نور کو روشن سے روشن تر کرتا چلا جائے گا.

Page 53

خطبات طاہر جلد ۹ 48 خطبہ جمعہ ۱۹/جنوری ۱۹۹۰ء پس خدا کرے ہم سب اس مفہوم کو سمجھ کر اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنی نیکیوں کے چراغ مزید روشن کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کا وہ نور جو قرآن کریم کی صورت میں اور محمد مصطف امہ کی صورت میں ہم پر نازل فرمایا گیا اس نور کا اہل بننے کے لئے اپنے دلوں میں روشنی پیدا کر یں.وہ دلوں کی روشنی اس نور کو کھینچے اور پھر ایسی خوبصورت شمعیں روشن ہو جا ئیں جن کی روشنی میں ہم دنیا کے اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کر دیں.

Page 54

خطبات طاہر جلد ۹ 49 49 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء ایمان اور اسلام کے درجوں کی حقیقت جماعت کو ٹولیوں میں تقسیم نہ کریں ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ / جنوری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی : فَلَمَّا جَاءَتْ قِيْلَ أَهْكَذَا عَرْشُكِ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ وَأُوتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمِهِ كَفِرِيْنَ قِيْلَ لَهَا ادْخُلِي القَرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرُحُ مُمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (النمل: ۴۳ تا ۴۵) پھر فرمایا: میں نے گزشتہ خطبے میں ایمان سے متعلق احباب جماعت کے سامنے مضمون رکھا تھا کہ بظاہر ایمان ایک ہی چیز کو کہتے ہیں لیکن در حقیقت ہر انسان میں ایمان مختلف درجے کا پایا جاتا ہے اور ایمان کے بے شمار مراتب اور درجات ہیں.جس طرح پانی ایک ہی چیز کا نام ہے لیکن چھوٹے برتن میں تھوڑا پانی آتا ہے بڑے برتن میں زیادہ پانی آتا ہے.مختلف شکلوں کے برتنوں میں پانی

Page 55

خطبات طاہر جلد ۹ 50 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے.پس ایمان کی کیفیت بنیادی طور پر چاہے ایک ہی ہولیکن اس کی کمیت میں فرق پڑتا چلا جاتا ہے اور یہ ایمان بڑھنے والی چیز ہے اور کم ہونے والی چیز بھی ہے.اس لئے ہمیشہ اس پر نگران رہنا پڑتا ہے حفاظت کرنی پڑتی ہے.ایک دولتمند آدمی کا دولت کا تصور ایک انسان میں اور ہوگا اور دوسرے انسان میں اور ہوگا.ایک غریب انسان چند سو روپے ماہانہ کے اضافے کو بھی دولت سمجھ لیتا ہے اور ایک امیر انسان بعض دفعہ لاکھوں کے اضافے کو بھی دولت نہیں سمجھتا اس کی خواہش کروڑوں تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے.پس ایمان کی بھی ایسی ہی کیفیت ہے.ہرانسان کا ایمان اس کی حیثیت کے مطابق ایک اہمیت اختیار کرتا ہے اور اس کا ایمان کا تصور اس کی اپنی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے، اس کا ایک گہرا رشتہ ہے.فکر هر کس بقدر هست اوست.،، ہر شخص کے تصور کی چھلانگ اس کی اپنی ہمت کے مطابق ہوا کرتی ہے لیکن یہ بہر حال ایک قطعی حقیقت ہے کہ ایمان کم بھی ہوتا ہے، بڑھتا بھی ہے اور قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ہمیں مسلسل اس کی نگرانی کرنی چاہئے.یہی حال اسلام کا ہے اسلام اور ایمان اپنے بلند تر مقامات پر جا کر ایک ہی چیز ہو جاتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہے لیکن آغاز میں دو الگ الگ راستے دکھائی دیتے ہیں.بعض دفعہ آغاز میں اسلام اور ایمان کا بظاہر کوئی تعلق نہیں ہوتا یعنی بیک وقت دونوں موجود نہیں ہوتے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات : ۱۵) بدو جو مدینے کے گرد بستے تھے انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ کہہ دے: لَّمْ تُؤْمِنُوا تم ہرگز ایمان نہیں لائے.وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا ہاں تم بیشک یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں ہم نے اطاعت کو قبول کر لیا ہے.وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ في قُلُوبِكُم حالانکہ ابھی تک ایمان نے تمہارے دل میں جھانک کر بھی نہیں دیکھا.تو آغاز میں ایمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں ہوسکتی ہیں.لیکن در حقیقت جب یہ دونوں ترقی کرتے ہیں تو بلند تر سطح پر پہنچ کر یہ دونوں ایک ہی چیز ہو جاتے ہیں اور اول المومنین اور اول المسلمین ایک ہی

Page 56

خطبات طاہر جلد ۹ 51 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء انسان پر صادق آنے والی دوصفات ہیں اور ان دونوں کے درمیان تفریق ممکن نہیں رہتی.ایمان بہر حال اولیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اسلام جو ایمان کے بغیر ہے وہ اس دنیا میں تو فائدہ دے سکتا ہے مگر دوسرے جہان میں فائدہ نہیں دے سکتا.وہ اسلام جو ایمان کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے وہی دراصل حقیقی اسلام ہے، چاہے آغاز میں وہ کمزور اور معمولی ہی کیوں نہ ہو.آج میں اسلام سے متعلق چند باتیں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.لفظ اسلام کا مطلب ہے : قبول کر لینا یا سپر د کر دینا اطاعت اختیار کر لینا.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے فرمایا: اسلم قال أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ (البقرہ :۱۳۲) کہ اے ابراہیم ! اسلام لے آ.کہا میں تو اپنے رب پر اسلام لے آیا.یعنی معابعد یہ فرمایا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کا جو مقام اسلام ہے اس میں بھی بڑے مراتب ہیں باوجود اس کے کہ حضرت اقدس ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اپنے زمانے میں اسلام کے علمبردار تھے اور ایسے عظیم الشان اسلام کے علمبردار تھے کہ قیامت تک قرآن کریم کی رو سے آپ کے اسلام کو دنیا خراج تحسین پیش کرتی رہے گی.اس زمانے میں بے مثل تھے اور بعد میں تمام مسلمانوں کے باپ بھی کہلائے.پس اس پہلو سے خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم کو مخاطب کر کے فرمانا اسلم کوئی معنی رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء میں بھی اسلام کی بلند تر حالتیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں اور اسلام کا وہ آخری مقام جس کے بعد پھر اسلام کا کوئی مقام نہیں رہتا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا اسلام ہے.اس پہلو سے تو گفتگو کا یہاں اس وقت موقع نہیں اور یہ بہت ہی وسیع مضمون ہے کہ انبیاء کے اسلام میں کیا فرق ہوتے ہیں اور کس طرح انبیاء کے اسلام ترقی کرتے ہیں صلى الله اور کیوں حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ اسلام کے آخری زینے پر تھے.میں اس وقت عام نصیحت کے طور پر آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتا ہوں یہ بتانے کے لئے کہ ہر وہ احمدی جوایمان لے آیا اور اس کا اسلام لانا بہت ضروری ہے کیونکہ ایمان جیسا کہ میں پہلے خطبے میں بیان کر چکا ہوں، خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کے بھیجے ہوؤں پر یقین کو کہتے ہیں.اور جتنا جتنا ایمان ترقی کرتا ہے اتنا ہی عرفان ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور ایمان اور عرفان کی ترقی کے ساتھ اطاعت میں نئے رنگ پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں یعنی اس کی روشنی میں پھر اسلام بھی ترقی کرتا

Page 57

خطبات طاہر جلد ۹ 52 42 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۹۰ء ہے.لیکن آغاز کے اسلام کے لئے غیر معمولی عرفان کی ضرورت نہیں ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی مثال پیش کرتے ہوئے مختلف مثالیں دیں مختلف رنگ میں بیان فرمایا.کہیں فرمایا ایمان العجائز اختیار کرو یعنی بوڑھیوں والا ایمان اختیار کرو جس کے نتیجے میں دل میں سوال نہیں اٹھتے.ان کا ایمان اس قسم کا ایمان ہوتا ہے جو زلزلوں سے بچارہتا ہے،ان کے اندر گہرا نصب ہوتا ہے.گویا وہ اسی طرح پیدا کی گئی ہیں اور ان کے ذہن میں اس کے متعلق کوئی سوال نہیں اٹھتے.اس کے نتیجے میں ان کو اطاعت بھی اسی درجے کی عطا ہوتی ہے اور ان کی اطاعت میں غیر معمولی پختگی پائی جاتی ہے.پس آپ نے اپنے گھروں میں، دیہات میں ،شہروں میں ایسی بڑی بوڑھیاں ضرور دیکھی ہوں گی جن کا ایمان بہت راسخ ہوتا ہے اور ان کے اعمال بھی باقاعدہ معین رستوں پر اس طرح چلتے ہیں جیسے خود رو ہوں اور ان میں کسی جبر کی ضرورت نہیں ہوتی.ان رستوں پر چلنے کی ان کو ایسی عادت پڑ چکی ہوتی ہے کہ وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتیں ان کا نمازیں پڑھنا، ان کا تلاوت کرنا، ان کا درود شریف پڑھنا ان کا ذکر الہی کرنا ایک ایسے ایمان کے نتیجے میں ہوتا ہے جس کی تفاصیل سے وہ بے خبر ہیں.یعنی بظا ہر فکر ونظر کی وہ طاقتیں ان میں موجود نہیں ہیں جس کے نتیجے میں صاحب ایمان کو مزید عرفان نصیب ہوتا ہے لیکن تقویت بڑی ہے بڑا راسخ عقیدہ ہے اور اتنا یقین ہے جس میں کوئی تزلزل نہیں آسکتا.اسی نسبت سے ان کا اسلام بھی بہت ہی پختہ دکھائی دیتا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی رخنہ آپ کو نظر نہیں آئے گا.پس عامتہ المسلمین کے لئے اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں دی جاسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو ایک اور رنگ میں بھی بیان فرمایا اور فرمایا کہ مجھے تو فلسفیوں کا ایمان ، بودا ایمان پسند نہیں.میں تو بچوں کے ایمان کو اس پر ترجیح دیتا ہوں ایک طرف بوڑھوں کا ایمان بتایا تو دوسری طرف بچوں کا ایمان بتایا.ان دونوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے.بچوں کا ایمان بھی کسی فکر ونظر کا نتیجہ نہیں ہوا کرتا بلکہ ان کے دل میں جو ایک بات بیٹھ جائے وہ بیٹھ جاتی ہے اور بڑی معصومیت کے ساتھ وہ اس کی پیروی کرتے ہیں.یعنی فکر و نظر سے عمل کے بغیر سوچ کے بغیر جو ان کے دل میں ایک یقین بیٹھ جاتا ہے وہ اس یقین کے مطابق اپنی حرکات و سکنات کو ڈھالتے ہیں، اس کے مطابق وہ ایک رویہ اختیار کرتے

Page 58

خطبات طاہر جلد ۹ 53 53 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء ہیں.ایک بچے کو کسی بات کا خوف ہو، خواہ وہ خوف والی بات نہ بھی ہو.ماں باپ بعض دفعہ لا کھ اس کو سمجھائیں کہ میاں کوئی ڈرنے کی بات نہیں ہے وہ اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا.ایک بچہ ہم نے دیکھا تھا جس کو جانوروں سے اتنا خوف تھا کہ جانوروں کے بنے ہوئے کھلونوں سے بھی ڈرتا تھا اور میں نے خود اس سے کئی دفعہ چھوٹی عمر میں کھلونوں کا خوف دور کرنے کی کوشش کی اس کو پیار سے پاس بلایا دیکھو میں اس کو ہاتھ لگا رہا ہوں یہ تمہیں کچھ نہیں کہتا لیکن اس کا خوف دور نہیں ہور ہا تھا.تو اس کا عمل اس ایمان کے نتیجے میں تھا جو اس کے دل میں حاصل ہے اور وہ ایمان کسی سوچ کے نتیجے میں نہیں.پس جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے ، ان کے لئے محفوظ مقام یہی ہے کہ وہ ایسا ایمان اختیار کریں جس کے نتیجے میں ان کا عمل بھی اسی قسم کے پختہ سانچوں میں ڈھالا جائے اور اس پر کسی قسم کا زلزلہ نہ آسکے.وہاں ان کا عمل ان کے ایمان کی نشاندہی کرتا ہے.پس عوام الناس میں اگر اعمال میں کمزوری ہو تو اس کا چونکہ اسلام سے تعلق ہے، اس سے صاف سمجھ جانا چاہئے کہ ان کے ایمان میں کمزوری ہے ورنہ یہ بات بالکل ساده سی واضح اور ثابت ہو چکی ہے کہ اگر سادہ لوح انسانوں میں جو فکر و نظر کی بجائے بعض عقائد کے پیش نظر اپنی زندگی کے رستے اختیار کرتے ہیں.ان میں اگر عقائد مضبوط ہوں تو ان کے رستے بھی بڑے واضح ہو جاتے ہیں ان رستوں پر وہ لازماً آگے بڑھتے ہیں.پس وہ عوام الناس جو اپنے اعمال میں پختہ ہیں ان کے اعمال کے شیشے سے ہم ان کے ایمان کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں اور ہمیں صاف دکھائی دینے لگتا ہے کہ وہ پختہ ایمان والے لوگ ہیں.مگر صاحب فکر ونظر میں یہ تناسب باقی نہیں رہا کرتا اور بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اس لئے جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کے لئے دو ہی بہترین مثالیں ہیں جن کی پیروی کرنی چاہئے ایک بوڑھوں کا ایمان اور ایک بچوں کا ایمان لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایمان کی روشنی جب فکر ونظر پر عمل کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں عرفان پیدا ہوتا ہے اور عرفان کے نتیجے میں پھر ایک اسلام پیدا ہوتا ہے اور وہ اسلام عام بوڑھے اور عام بچے کے اسلام سے بہت زیادہ پختہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں اس کو یقین کی روشنی نصیب ہو چکی ہوتی ہے.محض عقیدے کی وجہ سے یا ایک اندھے عقیدے کی وجہ سے وہ ایک عمل نہیں کر رہا ہوتا بلکہ یقین کی روشنی میں ایک عمل کرتا ہے.یہ مضمون بیان کرنے کے لئے میں نے اس آیت کا انتخاب کیا تھا جو میں نے آپ کے

Page 59

خطبات طاہر جلد ۹ 54 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء سامنے تلاوت کی مگر اس پر آنے سے پہلے میں ایک اور وضاحت آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں بار بار یہ نصیحت پڑھتے ہیں کہ تم سوال اٹھائے بغیر پیروی کرو جو کچھ کہا جاتا ہے وہی اختیار کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی اطاعت کرو اور آپ کے دین پر اس طرح چلو کہ کوئی سوال نہ اُٹھاؤ بلکہ جس طرح اندھی تقلید کی جاتی ہے اس طرح تقلید کرتے چلے جاؤ اسی میں تم محفوظ ہو.تو اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر یہ کیسا مذہب ہے جو اندھی تقلید کے سہارے زندہ رہتا ہے اور صاحب فکر ونظر کے لئے کوئی سوال کی گنجائش نہیں چھوڑتا اور اگر یہ مذہب یہی کچھ ہے کہ تم نے اندھی تقلید کرنی ہے اور کوئی سوال نہیں اٹھانا تو اہل نظر کا ایسے مذہب سے ایمان اٹھ جاتا ہے.پھر کیوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر اتنا زور دیا ہے.یہ سمجھانے کے لئے میں ایک اور پہلو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ وہ مذاہب جو حقائق پر مبنی ہوں، جو روشنی سے پیدا ہوئے ہوں ان میں حقیقت یہ ہے کہ اندھی تقلید اور صاحب فکر کی تقلید میں فرق کوئی نہیں کر رہا بلکہ اہل فکر و نظر کی تقلید اگر کوئی فرق رکھتی ہے تو اندھی تقلید سے زیادہ پختہ ہو جاتی ہے.پس وہ مذاہب جن کے عامتہ الناس کا مذہب بھی پختہ ہو اور ان کے اہل فکر و نظر کا مذ ہب بھی پختہ ہو ان پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوا کرتا کہ تم نے اندھی تقلید سکھا کر ہمیں خدا جانے کیا کچھ دے دیا ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے تم نے تو ہمیں اندھی تقلید کی عادت سکھائی اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ اس بات میں کوئی روشنی ہے بھی کہ نہیں.یہ سوال تب اٹھتا، اگر ایسی قوم کے صاحب فکر و نظر مذہب سے دور ہٹنے شروع ہو جاتے اور دونوں طبقوں کے درمیان ایک خلا بڑھتا چلا جاتا اور فاصلے زیادہ ہوتے چلے جاتے.لیکن وہ قوم جس میں دانشور اور اعلیٰ درجہ کے صاحب فکر و نظر لوگ اپنے مذہب میں کمزور ہونے کی بجائے زیادہ پختہ ہو جائیں.ان کے عوام الناس کے مذہب پر وہ گواہ بن جاتے ہیں اور ان کی صداقت پر شہید ہو جاتے ہیں اور دنیا پر یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ مذہب جس میں ایک بڑا طبقہ اندھی تقلید کر رہا ہے اپنی ذات میں سچا ہے کیونکہ ان کے صاحب فکر و نظر اور اہل دانش نے بھی اس تقلید میں اعلیٰ نمونے پیش کئے بلکہ اپنے جاہلوں سے بڑھ کر نمونے پیش کئے.پس عرفان کا بھی ایک مقام ہے جو مذہب میں ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.دیندار

Page 60

خطبات طاہر جلد ۹ 55 59 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء لوگوں کے دو قسم کے طبقات ہیں ایک وہ جو سادہ لوح ، عام فہم لوگ ، ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہی نصیحت ضروری ہے کہ تم چونکہ اہلیت نہیں رکھتے کہ بار یک سوالوں پر غور کر سکو.اس لئے تم اپنے را ہنماؤں کے پیچھے چلنا سیکھو اور جو تمہیں بتایا جاتا ہے اس پر یقین کے ساتھ قدم مارو اسی میں تمہاری بہبود ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو عرفان رکھتا ہے وہ بات سمجھتا ہے گہرائی تک اترتا ہے اور محض علم کے پیچھے نہیں چلتا بلکہ علم کے اندر جو فلسفہ پنہاں ہوتا ہے جو حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اس کے علم کو مزید طاقت ملتی چلی جاتی ہے.ایسا طبقہ صاحب عرفان لوگوں کا طبقہ ہے اور ہر بچے مذہب میں ان دونوں طبقات کا ہونا ضروری ہے ورنہ اگر اہل فکر ونظر مذہب سے دور ہٹنے لگ جائیں تو یقین جانیں کہ اس مذہب میں کوئی کمزوری ہے.یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات جب باہر کے دانشور مجھے ملتے ہیں تو میں احمدیت کی یہ مثال ان کے سامنے رکھا کرتا ہوں کہ احمدیت کی سچائی کو دیکھنے کے لئے آپ جیسا دانشور اس بات پر ضرور نظر رکھے کہ احمدیت میں جو جہلاء ہیں عوام الناس ہیں ان کا ایمان ان سے زیادہ مضبوط نہیں جو صاحب فکر و نظر ہیں بلکہ حقیقت میں اہل فکر ونظر کا ایمان زیادہ مضبوط اور زیادہ پختہ ہے اور اس پہلو سے ان دونوں طبقات میں آپ کوئی تفریق نہیں دیکھیں گے کوئی فاصلے نہیں دیکھیں گے.ایک احمدی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام ہیں جو Physists سائنس دانوں کی دنیا میں ایک بہت عظیم الشان مقام رکھتے ہیں اور تمام دنیا میں ان کے علم کا لوہا مانا گیا ہے.وہ اتنے ہی مخلص احمدی ہیں جتنا ایک ان پڑھ مزدور احمدی اور اسی طرح اطاعت کرتے ہیں جس طرح اگر ان کا چیڑ اسی احمدی ہو تو وہ اطاعت کرے گا.تو جو اسلام ان دونوں کے اندر پیدا ہوا ایک اسلام بظاہر اندھے ایمان کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، دوسرا اسلام ایک عارف باللہ کا اسلام ہے جو صاحب دانش ہے، صاحب علم ہے, صاحب عرفان ہے ان دونوں کے اسلام میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا.اگر کوئی فرق ہوگا تو یہ کہ زلازل میں بعض دفعہ اندھے ایمان والا تو ٹھوکر کھا جایا کرتا ہے لیکن صاحب عرفان ٹھوکر نہیں کھایا کرتا یہ ایک الگ مضمون ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں فی الحال گنجائش نہیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تھے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو، بے شمار رحمتیں ان پر نازل فرمائے.دنیا کے کتنے بلند مقامات تک پہنچے لیکن ان کے اسلام کی کیفیت یہ تھی کہ بہت سے

Page 61

خطبات طاہر جلد ۹ 56 50 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء اندھے ایمان والوں کے اسلام کے لئے بھی وہ ایک عظیم نمونہ تھے.حیرت انگیز اطاعت کا جذ بہ ان کے اندر پایا جاتا تھا.ایک آواز پر اٹھنا ایک آواز پر بیٹھنا کوئی ان سے سیکھتا.اطاعت امیرایسی تھی کہ نظروں کو چندھیا دینے والی تھی.اپنے اسلام کے عمل میں ایسے سادہ تھے کہ ایمان عجائز کا اسلام معلوم ہوتا تھا یعنی ایمان عجائز کے نتیجہ میں اسلام پیدا ہوتا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ علم و عرفان میں وہ بڑے بڑے مدمقابل کے منہ بند کرنے والے تھے.یونائٹیڈ نیشنز کی سطح پر ان کو تقاریر کا موقعہ ملا مختلف عدالتوں میں وہ پیش ہوئے مختلف عدالتوں کے وہ چیف جسٹس بنے ، ہندوستان کی سپریم کورٹ کے ممبر ہوئے.انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں وہ پریزیڈنٹ بھی رہے غالباً لیکن ممبر تو بہر حال ضرور تھے.اتنے عظیم مقامات اتنے بڑے مقامات نصیب ہوئے لیکن وہ سب لوگ جنہوں انہیں قریب سے دیکھا ہے اور انگلستان کی جماعت اس پر گواہ ہے کہ کیسی ان میں اطاعت کی روح تھی.پس جماعت احمد یہ اپنی ذات میں اسلام کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہے اور جماعت احمد یہ کا ایمان دوسروں کے لئے ایمان بخش بن جاتا ہے اگر صاحب دانش بار یک نظر سے جماعت احمدیہ کے مختلف طبقات پر نظر رکھے اور ان کا موازنہ کرے تو یہ بات اس کو معلوم ہو جائے گی کہ یہ ایسے ایمان پر قائم ہیں جہاں علم کی روشنی ایمان کوکم نہیں کرتی بلکہ زیادہ کر کے دکھاتی ہے اور اندھے ایمان اور دانشور کے ایمان میں تفریق نہیں پیدا کرتی یعنی اگر تفریق ہے تو صرف ان معنوں میں کہ دانشور کا ایمان اندھے ایمان والے کے ایمان سے زیادہ ہے، زیادہ پختہ، زیادہ واضح اور اسی نسبت سے اس کا عمل بھی بہت زیادہ قوی اور قطعی ہوا کرتا ہے.ان کے درمیان ایک طبقہ پیدا ہوتا ہے جو جہالت اور علم کے چھٹے میں زندگی گزارتا ہے.اس پر دن کی روشنی پوری طرح واضح نہیں ہوا کرتی دماغ تیز ہو جاتا ہے لیکن دین کا سچا علم اور ایمان کمزور ہوتا ہے.یہ ایسے لوگ ہیں جن کے ایمان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پناہ مانگی ہے.آپ نے فرمایا کہ فلسفی کے بودے ایمان سے مجھے بچے کا ایمان زیادہ پیارا لگتا ہے.پس احمدیت میں بھی ہمیں بعض ایسے طبقے دکھائی دیتے ہیں جو اپنی دانست میں دانشور بنتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے احمدیت کے حقیقی دانشور گواہ بن جاتے ہیں کہ یہ دانشور نہیں یہ انہی جھٹپٹے میں زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں جو نہ دن کے بندے ہیں، نہ رات کے بندے ہیں، درمیان کی کیفیت میں پائے جاتے ہیں.تھوڑی بہت سمجھ آگئی تھوڑا بہت

Page 62

خطبات طاہر جلد ۹ 57 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء شعور پیدا ہو گیا اور اس کے نتیجے میں پھر وہ بڑی بڑی تنقیحات کرنے لگ جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم فلسفے کے اعلیٰ آسمان پر اڑنے والے لوگ ہیں.پس ایمان حقیقت میں دوہی ایمان ہیں ایک وہ جو سادگی کا ایمان ہے اور اس کے نتیجے میں سادہ اسلام انسان کو نصیب ہو.ایک وہ جو عارف باللہ کا ایمان ہے اور عارف باللہ کے ایمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا خدا سے تعلق ہو یہ فرق یا درکھیں ورنہ فلسفہ بذات خود عارف باللہ کا ایمان پیدا نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خشک فلسفیوں کے ایمان سے پناہ مانگی ہے تو یہ مراد ہے کہ ایسا دماغ جو بظاہر روشن ہو چکا ہو لیکن خدا سے اس صاحب دماغ کا قلبی تعلق پیدا نہ ہوا ہواور اللہ تعالیٰ کا ایسا عرفان نصیب نہ ہو جیسے ایک دوست کا عرفان ایک دوست کو ہوتا ہے وہ شخص ہمیشہ مقام خطر میں رہے گا اور اس کے لئے ٹھو کر کھانے کے امکانات زیادہ ہیں بہ نسبت اس کے کہ وہ مستحکم قدموں سے ایک رستے پر آگے چلے.پس یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ ایمان نصیب کرے جو یا بوڑھوں اور بچوں کا ایمان ہو جس کے نتیجے میں ایک سادہ اسلام پیدا ہو، وہ اطاعت کرنی جانتا ہو، سوال اٹھانے نہ جانتا ہو یا پھر ایسا دماغ نصیب کرے جو بہت ذہین ہو بہت فطین ہو، بہت باریک بین ہو لیکن اس کی جڑیں ایسے دل میں پیوستہ ہوں جو دل خدا کا ہو چکا ہو جس دل کی آنکھ خدا کو دیکھ رہی ہو.پس وہ دماغ جو خدا رسیدہ دل سے روشنی پاتا ہے وہی دماغ ہے جو دراصل حقیقت میں ایک روشن دماغ ہے، روشن کہلانے کا مستحق ہے.ایسے دماغ کو پھر عرفان نصیب ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی جو یہ صفت بیان فرمائی: وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ ( الجمعہ:۳) اس میں آپ کے دونوں پہلو روشن فرما دیے آپ نے ایک ایسی قوم پیدا کی جس کو آپ نے کتاب سکھائی اور اس قوم میں سے پھر وہ بھی پیدا ہوئے جن کو آپ نے حکمت بھی سکھائی.ہر وہ شخص جو آپ پر ایمان لایا تھا وہ صاحب حکمت نہیں بن سکا.بہت سے مرد بھی اور عورتیں بھی بوڑھے بھی اور بچے بھی ان میں سے ایسے تھے جو آپ کو دیکھ کر آپ کے نور صداقت کو پہچان گئے تھے اور اس کے بعد علمی لحاظ سے انہوں نے زیادہ ترقی نہیں کی کیونکہ وہ علمی صلاحیتیں نہیں رکھتے تھے.لیکن بہت عظیم الشان اور چمکتا ہوا درخشندہ ایمان ان کو نصیب

Page 63

خطبات طاہر جلد ۹ 58 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء ہوا اور اسی قسم کا اسلام بھی ان کو عطا ہوا جس کے نتیجے میں ان کے اعمال سنوارے گئے.لیکن ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی تھا جس کو آپ نے حکمتیں بھی عطا کیں اور صاحب عرفان بھی بنادیا.اس پہلو سے تمام انبیاء صرف کتاب سکھانے پر انحصار نہیں فرماتے بلکہ علم کے بعد عرفان بھی عطا کرتے ہیں، کتاب کے بعد حکمتیں بھی سمجھاتے ہیں تا کہ ہر طبقہ جوان پر ایمان لاتا ہے وہ اپنی اپنی توفیق اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق فیض پاسکے.کوئی دانشور یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ نبی تو اندھوں اور جاہلوں کا نبی تھا.اس نے محض کتاب سکھا دی اور ہمارے جیسے روشن دماغوں کے لئے سیرابی کا کوئی انتظام نہیں کیا.ان کے دماغ اس درجہ سیراب کئے جاتے ہیں کہ اس سے زیادہ ان کو پانی اپنے اندر سمونے کی توفیق نہیں رہتی اور نبی کا علم اور نبی کا عرفان ان پر پھر بھی حاوی رہتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں بالتفصیل ملے گا.پس جہاں آپ نے اندھے ایمان پر زور دیا ہے اس کا یہ مفہوم ہے ان معنوں میں آپ زور دیتے ہیں بعض طبقے ایسے ہیں جن کے لئے سوالوں کی گنجائش نہیں ہوتی ، سوالوں کی ان کو ذہنی طور پر استطاعت نہیں ہوتی.اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان کا ایمان پختہ چٹانوں پر نصب ہو جو بظاہر منجمد نظر آئیں ، حرکت نہ کر سکیں لیکن مستحکم ضرور ہوں.کچھ طبقات ایسے ہیں جاری وساری ایمان والے لوگ ہیں ان کا ایمان بہتے پانیوں کی طرح مختلف رستوں سے گزرتا ہے مختلف کیفیتوں میں سے گزرتا ہے، مختلف مناظر دیکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان پانیوں میں ان تمام مناظر کی عکاسی ہوتی چلی جاتی ہے.کچھ نہ کچھ وہ ایک منظر سے لیتے ہیں، کچھ نہ کچھ دوسرے منظر سے لیتے ہیں، کچھ ایک زمین سے نمک اٹھاتے ہیں کچھ دوسری زمین سے نمک اٹھاتے ہیں.غرضیکہ وہ پانی زیادہ گہرا اور خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ جتنے بھی مادیات ہیں ان سے زیادہ وہ Rich ہوتا چلا جاتا ہے (Rich کا چونکہ اردو لفظ ذہن میں نہیں آ رہا تھا اس لئے میں اٹکا.) یہاں امیر کا لفظ اطلاق نہیں پاتا یوں کہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ جتنی بھی نعمتیں زمین میں موجود ہیں جتنے بھی مادے زمین میں موجود ہیں ان سے وہ زیادہ متمتع ہوتا چلا جاتا ہے.زیادہ استفادہ کرتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ وہ پانی جو پہاڑ کی چوٹی سے چلتا ہے جب وہ سمندر میں گرنے کے قریب ہوتا ہے وہ پہلے پانی کی نسبت بہت زیادہ فائدہ دینے کی قوت رکھتا ہے اور وہ پانی جس زمین پر پھر جاتا ہے اس زمین کو زرخیز بنا دیتا ہے.

Page 64

خطبات طاہر جلد ۹ 59 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء پس ایمان کی کیفیت بھی بعض لوگوں میں بہتے پانیوں کی سی ہے اور وہ بہتا پانی زیادہ ترقی اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور یہ ترقی اس کو عرفان کے ذریعے نصیب ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ صفت اپنے درجہ کمال میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو نصیب ہوئی کہ آپ نے علم اور کتاب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بہت گہرا عرفان بھی بخشا اور کتاب اور علم کی حکمتیں بھی لوگوں کو سکھائیں مگر ہر نبی ایسا ہی کرتا ہے اپنے اپنے مراتب کے مطابق اپنی اپنی توفیق کے مطابق یہ انبیاء کا کام ہے.چنانچہ حضرت سیلمان کے متعلق جو صاحب حکمت مشہور تھے قرآن کریم نے ان کے ساتھ ملکہ سبا، جس کا نام بلقیس بیان کیا جاتا ہے اس کی ملاقات کا جو واقعہ بیان فرمایا اس میں سے یہ تین آیات میں نے آج کے خطبے کے لئے چنی تھیں.فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهْكَذَا عَرْشُكِ جب وہ حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوئی تو حضرت سلیمان نے اس کے تخت جیسا ایک تخت اس کو دکھایا اور اس سے پوچھا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے.قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ بعینہ وہی گویا بالکل وہی ہے کوئی فرق مجھے دکھائی نہیں دیتا.وَاُوتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِینَ ہمیں اس سے پہلے علم عطا کر دیا گیا ہے.یعنی میں جو آپ کے پاس حاضر ہوئی ہوں تو علم پانے کے بعد حاضر ہوئی ہوں، کہ كُنَّا مُسْلِمِينَ اور میں اور میری قوم اسلام اختیا کر چکے ہیں.اب دیکھئے کسی علم کی بناء پر ملکہ سبا نے اسلام اختیار کیا اور حضرت سلیمان کی خدمت میں اپنے اس اسلام کا اظہار کیا لیکن حضرت سلیمان جانتے تھے کہ یہ اسلام ایک ابتدائی کیفیت کا نام ہے.یہ پورے معنوں میں اسلام کا مضمون سمجھتی نہیں.یہ سمجھتی ہے کہ ظاہری اطاعت اختیار کر لینا ہی اسلام ہے.پس جسے وہ علم قرار دے رہی ہے جسے وہ اسلام قرار دے رہی ہے یہ اس کے لئے کافی نہیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ اس نے کہا ہم اسلام قبول کر چکے ہیں آپ نے اس کو اسلام سکھانا شروع کر دیا.قرآن کریم فرماتا ہے وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ آپ نے اس کو اس چیز سے روکا جس کی وہ پہلے عبادت کیا کرتی تھی اگر پہلے عبادت کیا کرتی تھی اور اس سے رک گئی تھی تو دوبارہ کیوں روکا؟ مراد یہ ہے کہ آپ جانتے تھے کہ حکمتیں سمجھانا ضروری ہے اس کو بتانا ضروری ہے کہ کیوں غیر اللہ کی عبادت ایک جاہلانہ حرکت ہے ایک ہلاک کرنے والا فعل ہے.اس

Page 65

خطبات طاہر جلد ۹ 60 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء لئے آپ نے عبادت کے ان رستوں کے متعلق ایک مضمون بیان فرمایا اور صَدَهَا کا مضمون یہ بیان کرتا ہے کہ اس رنگ میں اس کو روکا کہ اس کا دل واقعہ رک گیا.اس کو اس قسم کی عبادت سے دلی نفرت پیدا ہوگئی.اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كَفِرِينَ وہ پہلے کافرین کی قوم میں سے تھی باوجود اس کے کہ قرآن تسلیم کر رہا ہے کہ اس وقت وہ کا فرنہیں تھی مسلمان ہو کر آئی تھی لیکن چونکہ پہلے کافروں میں سے تھی اس لئے اس کے کفر کے زنگ مٹانے ضروری تھے اور اسلام لانے کے باوجود اسے اسلام کا حقیقی مفہوم سمجھانا ضروری تھا.قِيْلَ لَهَا ادْخُلِى الطَّرح اس سے پھر یہ کہا گیا کہ اس خوبصورت اور بلند محل میں داخل ہو جا.فَلَمَّا رَآتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا اس نے اسے پانی کا ایک تالاب سمجھا اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اس طرح اُٹھالیا جیسے پانی میں داخل ہوتے ہوئے عام طور پر لوگ کپڑا اٹھا لیتے ہیں کہ بھیگ نہ جائے.قَالَ إِنَّهُ صَرْحُ مُمَرَّدُ تب حضرت سلیمان نے اس سے یہ فرمایا کہ ایک محل ہے.مُّمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ جو بڑی نفاست کے ساتھ شیشوں کے ٹکڑوں سے بنایا گیا ہے اور بہت ملائم کر دیا گیا ہے.قمرد کا مطلب ہے جسے نفاست سے برابر چنا گیا ہو کہ اس کے درمیان خلا دکھائی نہ دیں یعنی ٹکڑوں کے درمیان اگر ایسی برابری ہو جائے کہ گویا ایک ہی سطح دکھائی دینے لگے اور ملائمت اس میں پیدا ہو جائے تو اس کو ھمرد کہتے ہیں.یہ شیشوں کے ٹکڑے سے اس طرح بنایا گیا ہے کہ بالکل برابر کردئے گئے ہیں.کوئی جوڑ دکھائی نہیں دیتا اور بہت ہی چمکا دئے گئے ہیں.قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِی تب اس نے کہا کہ اے میرے رب ! میں نے تو اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے.وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ میں سلیمان کے ساتھ ایمان لاتی ہوں اس اللہ پر جو تمام جہانوں کا رب ہے.یہ وہ اسلام ہے جو حقیقی اسلام تھا جو حضرت سلیمان کے سمجھانے کے بعد اس کو نصیب ہوا.پس دیکھیں کتنا فرق پڑ جاتا ہے اسلام میں ایک اسلام وہ ہے جو ظاہری علم کی بنا پر کسی کونصیب ہوا یہاں تک کہ اس ملکہ نے اپنی قوم کو بھی ساتھ شامل کر لیا مگر صاحب حکمت نبی نے پہچان لیا کہ اس اسلام کی کوئی قیمت نہیں ہے جب تک اس کی گہرائی میں اس کو نہ اتارا جائے جب تک اس کی حکمتیں نہ بیان کی جائیں.جب اس نے حکمتیں بیان کیں تو اپنا پہلا اسلام اس کو اندھیرا دکھائی دینے لگا.

Page 66

خطبات طاہر جلد ۹ 61 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء اس نے کہا! او ہو، ہو میں کس کو اسلام سمجھا کرتی تھی اس کی تو کوئی حیثیت نہیں تھی.وہ اسلام ہے جو سلیمان کا اسلام ہے مَعَ سُلیمن سے مراد یہ ہے کہ مجھے سلیمان کی روحانی معیت نصیب ہو.اے رب ! میں وہ اسلام چاہتی ہوں جو سلیمان کو عطا ہوا ہے.اب وہ شیشوں کے ٹکڑوں پر چلانے میں جو ایک پیغام ہے وہ کیا ہے؟ بعض علماء بدقسمتی سے پرانے قصوں اور کہانیوں کو پڑھ کر ایک ایسا لغو تصور پیش کرتے ہیں کہ عقل ماتم کرنے لگ جاتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بے شمار احسانات میں سے یہ ایک بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے جماعت کو قرآن کریم کا عرفان بخشا ہے اور قرآن کریم پر غور کرنے کا طریق عطا فر مایا ہے ورنہ آپ پرانی تفاسیر کو اٹھا کر دیکھیں وہاں عجیب و غریب لغو قصے آپ کو دکھائی دیں گے.بعض مفسرین نے تو لکھا ہے کہ حضرت سلیمان اس کی پنڈلیاں دیکھنا چاہتے تھے اور وجہ کیا تھی کہ لوگوں نے مشہور کیا ہوا تھا اس کی پنڈلیوں پر بڑے بال ہیں اور آپ دیکھنا چاہتے تھے کہ واقعی بال ہیں کہ نہیں.انالله وان اليه راجعون اللہ تعالیٰ کا وہ نبی جو صاحب حکمت ابنیاء میں ایک خاص مقام اور درجہ رکھتا ہے اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک شیشے کا محل بنوایا بہت چمکدار اس کا فرش پانی کے اوپر بنایا تا کہ اس کو دھوکہ لگے کہ پانی ہے اور پھر اس نے اپنا کپڑا اٹھا دیا اور اس نے پنڈلیاں دیکھ لیں.انا لله وانا اليه راجعون.اس قسم کی تفاسیر ہیں جو عامتہ المسلمین کو روشنیاں دے رہی ہیں یعنی قرآن کریم کی روشنی کے درمیان میں حائل ہوگئی ہیں اور قرآن کی روشنی وہ نہیں پاتے بلکہ وہ شخص جو بیچ میں حائل ہے اس کے ذہن کے صرف اندھیرے دیکھ رہے ہیں.ایک اور مضمون یہ بیان کیا گیا تفسیر میں کہ حضرت سلیمان کو بتایا گیا تھا کہ یہ ڈائن ہے اور ڈائن کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے پاؤں الٹے ہوتے ہیں یعنی ٹخنے آگے اور پنجے پیچھے کی طرف تو حضرت سلیمان یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ حقیقت میں ڈائن ہے کہ نہیں جب اس نے کپڑا اٹھایا اپنی پنڈلیوں سے تو پورا پاؤں نظر آگیا کہ وہ سیدھا سادا پاؤں ہے تو پھر آپ نے اس خیال سے توبہ کر لی.حالانکہ تو بہ کرنے کی خاطر نہیں تھا.تو بہ کروانے کی خاطر یہ سارا قصہ بنایا گیا ہے حضرت سلیمان تو اس کی تو بہ کروانا چاہتے تھے نہ کہ اپنے خیالات سے تو بہ کرنے کی خاطر آپ نے یہ سارا قصہ شروع کیا.اتنا بڑا ایک جھگڑا شروع کر دیا کہ ایک محل بنائیں اس کے شیشے کے فرش ہوں نیچے پانی بہتا ہو.اتنی معمولی عقل کی بات بعض نیک لوگ

Page 67

خطبات طاہر جلد ۹ 62 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء ہونے کے باوجود نہیں سمجھ سکے مگر افسوس یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب روشنی عطا کی تو اب علماء اس روشنی کو لینے سے انکار کر رہے ہیں اور اس طرف پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو گئے ہیں اور ان اندھیروں کو قبول کر رہے ہیں جو نعوذ بالله من ذلك قرآن کریم کی طرف منسوب کئے جارہے ہیں.اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان اس کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ پانی اور شیشے کا جو تعلق ہے اگر شیشہ کثیف ہو تو شیشہ دکھائی دے گا پانی دکھائی نہیں دے گا.اگر شیشہ شفاف ہو تو پانی ہی دکھائی دے گا اور بعض دفعہ لوگ دھوکے سے شیشے ہی کو پانی سمجھ لیتے ہیں یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے.پس خدا سے تعلق میں دو طرح کے مضامین ممکن ہیں.بعض دفعہ خداوالے لوگ بنتے ہیں لیکن وہ اپنے وجود کو دکھاتے ہیں اور خدا کے وجود کو نہیں دکھاتے وہ بھی شرک پیدا کر دیتے ہیں.اور بعض دفعہ لوگ خدا والوں کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خدا ہیں حالانکہ وہ خدا نہیں ہوا کرتے.انہوں نے تو اپنا نفس مٹادیا ہوتا ہے اور ایسے شفاف بن جاتے ہیں کہ ان کے پار خدا دکھائی دیتا ہے.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فر مایا کہ تو خدا تو نہیں تھا.مگر تیری ذات میں ہم نے خدا کو دیکھا ہے یہی وہ مضمون ہے جو حضرت سلیمان ملکہ سبا پر روشن فرمانا چاہتے تھے آپ اس کو سمجھانا چاہتے تھے کہ تم پہلے ایک قسم کے دھوکے میں مبتلا رہی ہواب خطرہ ہے کہ دوسرے قسم کے دھوکے میں مبتلا نہ ہو جاؤ.پہلے تم نے کثیف انسانوں کو یا بتوں کو خدا سمجھ لیا حالانکہ وہ خدا کی روشنی کو تم تک پہنچنے ہی نہیں دے رہے تھے.وہ خدا اور تمہارے درمیان حائل وجود تھے ان کو خدا سمجھنا ایک کھلا کھلا شرک تھا اور جہالت تھی.اب تم ایک ایسے شخص کے دربار میں آئی ہو جس نے اپنے وجود کوکلیۂ مٹا دیا ہے اور اس کی ذات میں تمہیں خدا دکھائی دے رہا ہے لیکن وہ خدا نہیں ہے وہ خدا کا ایک عاجز بندہ ہے جس نے اپنے نفس کو کلیڈ مٹا دیا ہے.پس جس طرح تم شیشے کو دیکھ کر دھو کہ کھا گئیں اور اپنی پنڈلیوں سے اپنا کپڑا اٹھا لیا، اس طرح یاد رکھو کہ میرے وجود میں تمہیں جو الہی صفات دکھائی دیں گی ، وہ میری نہیں ہیں وہ خدا کی ہیں اور میں خدا نہیں ہوں بلکہ خدا نما ہوں.وہ بہت ہی ذہین عورت تھی جس نے اس مفہوم کو پوری طرح سمجھ لیا اور اچانک اس پر یہ بات روشن ہو گئی کہ میں کس اسلام کو لئے پھرتی تھی.میں کیا کہہ رہی تھی کہ

Page 68

خطبات طاہر جلد ۹ 63 خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۰ء میں اسلام لے آئی ہوں اس کے دل میں شدید شرمندگی پیدا ہوئی ہے اور شدید کسر نفسی پیدا ہوئی ہے.چنانچہ بے اختیار وہ بولی.رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِی اے میرے اللہ ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے جو یہ دعوی کر بیٹھی تھی کہ میں مسلمان ہوں.مجھے تو اسلام کا پتا ہی کچھ نہیں تھا اب پتا لگا ہے کہ جب سلیمان کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں اور فوراً عرض کیا أَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ اب میں اسلام لائی ہوں جو سلیمان کے ساتھ کا اسلام ہے جس میں شرک کی کوئی ملونی نہیں ہے.پس جماعت احمدیہ کو ایسا ہی اسلام اختیار کرنا ہے.ایمان عجائز رکھنے والوں کا اسلام بھی صاف اور شفاف ہے اس میں شرک کی کوئی ملونی نہیں ہوتی دوسرا ایمان اور اسلام ان لوگوں کا ہے جو صاحب عرفان ہوں اور ان کو حضرت سلیمان کی اس تمثیل سے نصیحت حاصل کرنی چاہئے اور خدا والوں کواس طرح دیکھنا چاہئے کہ وہ خدا نہیں بلکہ خدا نما ہے اور ان کا خدا نما ہونا اپنے کو مٹانے کے نتیجے میں ہے نہ کہ ابھارنے کے نتیجے میں، جو اپنے نفس کو عظمت دیا کرتے ہیں وہ کبھی خدا نما نہیں ہو سکتے.پس ان معنوں میں جماعت احمدیہ کو اسلام قبول کرنا ہے اور اسلام سکھانا ہے.ان دو باتوں.کے درمیان بے شمار مراحل ہیں بے شمار مراتب ہیں مجھے افسوس ہے کہ بعض دفعہ جماعتوں میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ اسلام کی اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں بہت سی جگہ جھگڑے چل پڑتے ہیں امراء کے خلاف باتیں شروع ہو جاتی ہیں ،ٹولیاں بن جاتی ہیں.مجھے بعض دفعہ باہر سے نمائندے بھیجنے پڑتے ہیں جو تحقیق کر کے صورت حال کو میرے سامنے کھول کر رکھیں.اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے واقعات بہت شاذ ہیں اور ایک سال بھر میں ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ تین دفعہ جہاں تک مجھے یاد ہے مجھے اس قسم کی تحقیق کروانی پڑی ہے اور بعض سالوں میں نہیں بھی کروانی پڑتی لیکن جماعت میں کسی ایک جگہ بھی کسی قسم کا رخنہ نہیں ہونا چاہئے.جولوگ معرفت نہیں رکھتے ان کو اطاعت اختیار کرنی چاہئے.ورنہ ان کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے جو صاحب عرفان ہیں وہ دانشور نہیں بلکہ وہ دانشور صاحب عرفان ہیں جن کا دل خدا میں اٹکا ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے پیار کا تعلق رکھتے ہیں.ایسے لوگ اسلام سے دور نہیں جاتے بلکہ اسلام میں پہلے سے زیادہ بڑھ کر عمل کرنے والے بن جاتے ہیں.پس ان دانشوروں کے ہاتھوں میں نہ

Page 69

خطبات طاہر جلد ۹ 64 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۹۰ء جائیں جو اپنی جہالت کو روشنی سمجھ رہے ہوتے ہیں جن کا دل خدا سے تعلق نہیں رکھتا اور دماغ میں بظاہر روشنی کی ایک جلا پاتے ہیں، یہ حض بہکانے والے لوگ ہیں اور ان سے آپ کو کبھی کچھ نصیب نہیں ہوگا.ان لوگوں سے تعلق جوڑیں جن کے دماغ کی روشنی ان کو اور زیادہ خدا تعالیٰ کا مطیع کرتی چلی جاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (الفاطر: ۲۹) کہ بعض عالم تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو دین سے دور ہٹ جاتے ہیں لیکن بچے عالم وہ ہیں جو اپنے علم کی وجہ سے سب سے زیادہ خدا سے ڈرتے ہیں بلکہ حقیقی طور پر ڈرنے والے علماء ہی ہوا کرتے ہیں.پس وہ کیسا دانشور ہے جو خوف خدا سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے.وہ فلسفی ہے جس کے فلسفے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالی کی پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی ہے ان لوگوں سے جو اس قسم کا خشک فلسفہ رکھتے ہیں.بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک جماعت میں جب فتنے شروع ہوتے ہیں تو اس طرح ہوتے ہیں کہ بعض عہد یداروں سے کسی کو پر خاش ہو جاتی ہے.بعض دفعہ اور کوئی وجہ نہیں تو Clash of Personality ہوتی ہے یعنی شخصیتوں کا ایک بعد ہے ایک آدمی پسند ہی نہیں آتا وہ جو چاہے کرے بعض لوگوں کو بس وہ ذات پسند نہیں آتی.وہ جس طرح جراثیم انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ بیماری کسی عضو کے اوپر پڑے تو وہ اس کے ساتھ تعلق باندھ لیں ، اس طرح وہ بظاہر خاموش بیٹھے رہتے ہیں ان کا منافقین میں شمار نہیں ہوتا لیکن جہاں کسی شخص کو ایسے عہدیدار کے خلاف پاتے ہیں جس سے ان کو نفرت ہو وہ فورا اس تک پہنچتے ہیں اور اس کے ساتھ تعلق بنا لیتے ہیں اور وہ شخص جو اس ابتلاء میں پڑتا ہے اس بیچارے کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ یہ محسوس کرے کہ میں پہلے بھی تو اسی جگہ بس رہا تھا پہلے کیوں نہیں میرے لئے اس کے دل میں محبت پیدا ہوئی، کیوں اس نے تعلق نہیں باندھا.اچانک میں اتنا محبوب کیوں ہو گیا میری کون سی خوبی اس نے دیکھی ہے سوائے اس کہ کوئی خوبی نہیں ہوتی کہ وہ اس شخص سے ناراض ہو جاتا ہے جس سے وہ ناراض ہے اور اس طرح دونوں کو ایک قدر مشترک مل جاتی ہے یعنی امیر کی ناقدری ان کی قدر مشترک ہو جاتی ہے.ایسے لوگوں کو خاص طور پر جن کے دل میں کسی پہلو سے نظام جماعت سے یا نظام جماعت کے کسی عہدیدار سے شکوہ پیدا ہو.ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس شکوے کے بعد جولوگ

Page 70

خطبات طاہر جلد ۹ 65 خطبه جمعه ۲۶ / جنوری ۱۹۰ ۱۹۹۰ ان کو زیادہ مسکرا کر ملتے ہیں، ان کی آنکھوں میں وہ ایک محبت کے آثار دیکھتے ہیں، وہ شیطان ہیں ان سے ان کو بچنا چاہئے وہی جراثیم ہیں جو ان پر حملہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اگر وہ ان کو اپنا سمجھیں گے تو ضرور ہلاک ہو جائیں گے.اس وقت ان کو بیدار مغزی سے سوچنا چاہئے کہ یہ لوگ پہلے کہاں رہتے تھے.کیا صرف اسی لئے میں ان کا محبوب ہو گیا ہوں کہ میں نظام جماعت سے بدظن ہو رہا ہوں.دوسرے ایسے لوگ ہیں وہ بھی ایک شرک کے نتیجے میں رخنہ پیدا ہوتا ہے جو بعض دفعہ ٹولیاں بنا کر اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے لگ جاتے ہیں دو چار اونچی با تیں کرنے والے لوگ یا مضبوط جسم کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور ایک جگہ اٹھنا بیٹھنا شروع ہو گئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اب ایک مضبوط ٹولہ ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ہمیں نیچادکھا سکے.ان میں سے کوئی ایک جرم کرتا ہے کوئی ایک شرارت کرتا ہے جس کو نظام پکڑتا ہے تو وہ پھر دوڑتا ہے اپنے ٹولے کی طرف اور اس ٹولے میں سہارا ڈھونڈتا ہے یعنی ایک خدا کو مان کر چھوٹے چھوٹے بت بنا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری طاقت کا انحصار اس ٹولے پر ہے.حالانکہ سچا مومن اور سچا مسلمان وہ ہے جس کی طاقت کا انحصار کلیۂ خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے اس کی طاقت کا انحصار اطاعت میں ہے، بغاوت میں نہیں ہے.جو شخص بھی اطاعت سے نکلتا ہے وہ اسلام سے باہر چلا جاتا ہے اور جو اسلام سے باہر چلا جائے اس کے لئے ایمان کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.نہ دنیا رہتی ہے نہ دین رہتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس سلسلے میں جو نصیحت فرمائی وہ میں آپ کے سامنے رکھ کہ اب اس خطبے کو ختم کرتا ہوں.یہ مسلم کی روایت ہے.صلى الله عن عبد الله بن عمر قال سمعت رسول الله عليه يقول من خلع يدا من طاعة لقى الله يوم القيامة لا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية.(مسلم کتاب الاماره حدیث نمبر: ۳۴۴۱) کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اطاعت سے اپنا ہاتھ نکال لیا.قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی کوئی دلیل نہیں ہوگی کوئی وجہ نہیں ہوگی کہ وہ بخشا جائے.

Page 71

خطبات طاہر جلد ۹ 66 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۹۰ء پس اسلام چاہے عجائز کا ہو، چاہے صاحب عرفان لوگوں کا اسلام ہو اطاعت کے بغیر اسلام ہے ہی کوئی چیز نہیں اور اگر آپ اطاعت کی حد سے باہر نکل جاتے ہیں اور کچھ ٹولے آپ کی مدد کرتے ہیں اور آپ کو انگیخت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بے شک تم بغاوت کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں تو یہ سارے شیطان ہیں.وہ خود بھی ہلاک ہوئے اور آپ کو بھی ہلاک کرنے والے ہیں ان کو پہچانیں.آنحضرت ﷺ نے ہمیں روشنی بخشی ہے آپ نے ہمیں ایسے لوگوں کی پہچان کے ذریعے عطا کر دئے ہیں بڑی کھلی کھلی نشانیاں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ہم دیکھ نہ سکیں.پھر فرمایا: اور جو شخص ایسی حالت میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی بیعت کا جو نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرنے والا ہے.پس ایسے لوگ بالآخر جب ان کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ باز نہیں آتے تو ان کی بیعت فتح کر دی جاتی ہے کہ بالآخر یہ ان کا انجام ہوتا ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ پہلے وہ موت کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن بعض لوگ شدید بے چین ہو جاتے ہیں روتے ہیں، گریہ وزاری کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، خط لکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا ہم اپنے پہلے غرور اور تکبر سے تو بہ کرتے ہیں.ہم نظام جماعت کے سامنے سر جھکانے کے لئے تیار ہیں.ہمیں جلد دوبارہ بیعت میں لیں ور نہ ہم جاہلیت کی موت مر جائیں گے.وہ سچے مومن ہیں جن کے دل میں ایمان کی قدر ہے جو اسلام کے معنی جانتے ہیں.پس ایسے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ چند دنیا کے بہت باتیں کرنے والے ساتھی یا بظاہر جسمانی لحاظ سے مضبوط ساتھی ان کو قیامت کے دن بچالیں گے.اگر وہ اپنی نافرمانی کے نتیجے میں اور بغاوت کے نتیجے میں اسلام کا جوا اتار پھینکیں گے.اگر ان کو بیعت سے باہر نکالا جائے گا تو اصدق الصادقین ، دنیا کے سب سے بچے رسول نے ہمیں خبر دی ہے کہ قیامت کے دن ان کے پاس خدا کے لئے کوئی حجت نہیں ہوگی.کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جسے وہ پیش کر کے اس کی بخشش کے طلب گار ہوں.اللہ تعالیٰ تمام جماعت کو حقیقی معنوں میں ایمان اور حقیقی معنوں میں اسلام عطا کرے.ایسا ایمان عطا فرمائے جو بڑھنے والا اور روشن تر ہونے والا اور وسیع تر ہونے والا ہو، ایسا اسلام عطا فرمائے جو دن بدن بڑھنے والا اور زیادہ عارفانہ ہو جانے والا اسلام ہو اور دن بدن زیادہ قوی ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ ہم سب پر ایسی حالت میں موت آئے کہ ہم نیک لوگوں کے ساتھ مرنے والے ہوں ، بدوں کے ساتھ مرنے والے نہ ہوں.آمین.

Page 72

خطبات طاہر جلد ۹ 67 خطبه جمعه ۲ فروری ۱۹۹۰ء جس قوم میں سارے قربانی کرنے والے لوگ موجود ہوں اس قوم کو کوئی جھوٹا نہیں کہہ سکتا ہے.( خطبه جمعه فرموده ۲ فروری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ اللهِ فَبَشِّرُهُمْ بِعَذَابِ اَلِيْهِ يَوْمَ يُحْيِي عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكُوى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْثِرُونَ (التوبه (۳۴-۳۵) پھر فرمایا: یہ دو آیات جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، یقیناً بہت سے احبار اور رہبان یعنی پیر اور فقیر ایسے ہیں.لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ کہ وہ لوگوں کا مال باطل کے ذریعے کھاتے ہیں.وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ اور مذہبی راہنما ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ

Page 73

خطبات طاہر جلد ۹ 68 خطبه جمعه ۲ فروری ۱۹۹۰ء کی راہوں سے روکتے ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف آنے سے لوگوں کو روکتے ہیں.وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّة اىی طرح وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں.وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللهِ اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں.فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابِ الی ان کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دے.يَوْمَ يُحْيِي عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ جس دن ان لوگوں پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی.فَتُكُوى بِهَا جِبَاهُهُمْ اور ان کی پیشانیوں کو داغا جائے گا اور ان کے پہلوؤں کو داغا جائے گا اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا.اس چیز سے جو وہ جمع کرتے رہے اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہ پائی.هذَا مَا كَنَزُتُم وہ وہ کچھ ہے جو تم نے جمع کیا تھا.لِاَنْفُسِكُمْ اپنی جانوں کے لئے.فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ پر اب اس جمع شدہ کو چکھ کے دیکھو.اس کا مزہ چکھو کہ وہ کیا چیز تھی.ان آیات میں وہ مضمون بیان کیا گیا ہے.جو ان مذہبی قوموں پر صادق آتا ہے جو زمانہ نبوی سے دور جا چکی ہوں اور انحطاط پذیر ہو چکی ہوں.یہاں لفظ أَحْبَارِ اور رُهْبَانِ کا ترجمہ میں نے پیر فقیر کیا ہے.لیکن یہ دونوں الفاظ مزید وضاحت کے محتاج ہیں اخبارِ ، خبر سے نکلا ہے یا حبر سے.اس کا مطلب یہ ہے.رونق اور خوبصورتی اور وہ لوگ جو صاحب رونق اور صاحب جمال ہوں ان کو اخبار کہا جاتا ہے.قرآن کریم نے ان الفاظ کو اچھے معنوں میں بھی استعمال فرمایا ہے اور برے معنوں میں بھی.ایسے نیک لوگ جن کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حسن اور جمال پیدا ہو چکا ہو.اور ان کے چہروں پر رونق آگئی ہو جو خدا تعالیٰ کی محبت کے نور سے عطا ہوتی ہے ایسے لوگ اخبار کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں.چنانچہ ان اچھے معنوں میں بھی قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال فرمایا ہے.برے معنوں میں یہ لفظ ظاہری حسن و جمال سے تعلق رکھتا ہے یعنی ایسے لوگ جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے جبہ و دستار پہنتے ہیں اور خوب سج دھج کر باہر نکلتے ہیں.کندھوں پر رومال ڈالتے ہیں.رنگین کپڑے پہنتے ہیں اور غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ دیکھنے والے سمجھیں کہ یہ بہت ہی کوئی خدا کے عظیم بندے ہیں.جن کی رونق اور جن کا جمال ان کی نیکی کی علامت ہے.ایسے لوگ بگڑے ہوئے زمانوں کی پیداوار ہوا کرتے ہیں.

Page 74

خطبات طاہر جلد ۹ 69 خطبه جمعه ۲ار فروری ۱۹۹۰ء اور یہاں اس آیت کریمہ میں اسی زمانے کے اخبار کا ذکر ہے جو تقویٰ کے حسن سے تو عاری ہوں لیکن اپنی ظاہری زیبائش کے ذریعے اپنے آپ کو خوبصورت کر کے دکھاتے ہوں تاکہ لوگ دھو کے میں مبتلا ہوں اور ان کو خدا کے بہت ہی عظیم الشان بندے تصور کرنے لگیں.اس کے برعکس قرآن کریم نے جو دوسرا لفظ استعمال فرمایا ہے، وہ رھبان ہے یہ بھی مذہبی راہنماؤں کے متعلق استعمال ہوتا ہے.لیکن معنوں میں بالکل دوسرے کنارے پر کھڑا ہے.احبار ایسے اشخاص کو کہا جاتا ہے جو بن ٹھن کر اور بہت ہی تیار ہوکر ، اس نیت سے تیار ہو کر لوگ ان کی طرف مائل ہوں، دنیا کے سامنے نکلیں اور رہبان ان کو کہتے ہیں جن کے چہرے پر خوف ہو، جو غمزدہ اور فکروں میں مبتلا دکھائی دیں اور خوفزدہ ہوں.اس وجہ سے فقیروں کے لئے جو خدا کی راہ کے فقیر بن جاتے ہیں ان کے لئے اچھے معنوں میں رھبان کا لفظ استعمال ہوا ہے.اور قرآن کریم نے بھی اور بھی کئی جگہ اسی مادے کو استعمال فرمایا.جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی خاطر ، خدا کے خوف سے غربت اختیار کرنے والے لوگ دنیا کو حج دینے والے لوگ وہ جو اپنے آپ کو غربت کا لباس پہنا لیں ایسی غربت جو خوف کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور خدا کے خوف کی خاطر وہ دنیا سے الگ ہو جائیں.پس یہ بھی بہت ہی اچھا مضمون ہے لیکن اگر اس کے برعکس بظاہر فقیر نظر آنے والے لوگ خدا کے خوف کی وجہ سے فقیر نہ بنے ہوں بلکہ لوگوں میں اپنی عزت کروانے کے لئے فقیر بنے ہوں.ان کے انکسار میں بھی ایک تکبر پایا جاتا ہو اور ان کی غربت میں ایک دھوکہ ہو یعنی غربت اس لئے ، گندے کپڑے اس لئے پراگندہ حال اس لئے کہ لوگ سمجھیں کہ یہ خدا کی خاطر اتنا پہنچا ہوا انسان ہے کہ اس کا حق ہے کہ ہم اس کو تحفے تحائف دیں اور پھر اس فقیری کے نتیجے میں وہ لوگوں کو دھو کے بھی دیتے ہوں اور باطل کے ذریعے مال کھانے والے لوگ ہوں.ایسے فقیر بھی آج دنیا میں عام ہیں اور ایسے احبار بھی آج دنیا میں عام ہیں.ان دونوں گروہوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں الَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّة وہ ایسے ہی مالدار ہوتے ہیں اور ہر طرح جس طرح بھی ان کا بس چلے وہ رو پیدا کٹھا کرتے رہتے ہیں.چاندی اور سونے کی مقداریں بڑھاتے ہیں لیکن خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہیں پاتے.پس یہ دونوں گروہ ایسے ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے مال و دولت اکٹھی کرنے والے ہیں اور پہلا گروہ زیادہ

Page 75

خطبات طاہر جلد ۹ 70 70 خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۹۰ء بد بخت ہے کیونکہ وہ خدا کے نام پر اور خدا کی محبت کے دکھاوے کے نتیجے میں پیسے اکٹھے کرتا ہے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہیں پاتا.ایسے لوگ آج کے زمانے میں بہت کثرت سے ملتے ہیں.آپ نے بارہا ایسے لوگوں کو دیکھا بھی ہوگا.ان کی تصویر میں بھی اخباروں میں چھپتی ہوئی دیکھی ہوں گی جو آج بعض مذہبی قوموں کے احبار بنے ہوئے ہیں.اور اسی طرح ان فقیروں کے واقعات بھی آپ پڑھتے ہوں گے جو فقیر بن کے دنیا کو لوٹنے کے لئے نکلتے ہیں اور سارا دجل ہی دجل ہوتا ہے.اس کے بالکل برعکس ان لوگوں کا حال ہوتا ہے جو زمانہ نبوی کے قریب ہوں.خواہ سالوں کے لحاظ سے قریب ہوں یا معنوی لحاظ سے قریب ہوں.خواہ اولین میں شمار ہوتے ہوں یا ان آخرین میں جن کے متعلق قرآن کریم نے یہ خوشخبری دی تھی کہ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعہ: ۴) ابھی تک ان اولین سے نہیں ملے لیکن مل جائیں گے.پس قرب خواہ زمانی ہو، خواہ روحانی اور معنوی.اس زمانے میں اس نظارے کے بالکل برعکس نظارہ دکھائی دیتا ہے.جو قرآن کریم نے ان آیات میں کھینچا ہے.اس زمانے میں وہ لوگ جو خدا کا صحیح تقویٰ اختیار کرتے ہیں، ان کے چہروں پر جونور اور رونق آتی ہے وہ اللہ کے تقویٰ کی وجہ سے آتی ہے اور وہ کبھی اس نیت سے بن بج کر نہیں نکلتے کہ لوگوں کو دھوکا دیں اور اپنی عظمت کے اظہار کے لئے اچھے کپڑے پہنیں.ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا پہنا، جو کچھ بھی ہے اس کا ریا کاری سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا.نہ ان کا اچھا حال ریا کاری کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ ان کا برا حال ریا کاری کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ ان کے امیر ریا کار ہوتے ہیں نہ ان کے غریب ریا کار ہوتے ہیں.پس مذہبی دنیا میں بھی وہ صاحب حیثیت ہوں تب بھی وہ ریا کاری کی خاطر کوئی بھیں نہیں اوڑھتے ، کوئی لباس نہیں اوڑھتے ، کوئی دکھاوے نہیں کرتے اور دھوکا دینے کے خاطر مصنوعی زینتیں نہیں اختیار کرتے.اسی طرح غریب بن کر لوگوں کو اس لئے نہیں دکھاتے کہ لوگ سمجھیں کہ یہ کوئی بہت ہی پہنچا ہوا درویش ہے اور دیکھو اس کا حال کیسا ہے کپڑے گندے برا حال ، یقیناً کوئی بہت ہی خدا رسیدہ انسان ہوگا.جب ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں تو قوموں کے مذاق بگڑ جاتے ہیں اور قوموں کو نیکی اور بدی کی پہچان نہیں رہتی.ایسی تو میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیشہ دوطرف دوڑ رہی ہوتی ہیں یا تو ایسے احبار کی طرف جن کا دکھاوا سب سے زیادہ ہو.جن کا پروپیگینڈ سب سے زیادہ ہو.وہ

Page 76

خطبات طاہر جلد ۹ 71 خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۹۰ء دیکھنے میں بڑے بڑے جبہ و دستار پہنے ہوئے اور بہت ہی پر رعب اور پر ہیبت دکھائی دینے والے لوگ ہیں اور یا پھر فقیروں کی طرف بھاگتے ہیں اور جتنا گندا کوئی انسان نظر آئے، جتنے برے حال میں کوئی دکھائی دے، اتنا ہی اسے خدارسیدہ سمجھتے ہیں.حالانکہ خدا رسیدہ ہونے کا گندگی سے کوئی بھی تعلق نہیں.خدا رسیدہ انسان کی تو ایک اور پہچان ہے لیکن اس لحاظ سے ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ غریب بھی ہوتو صاف ستھرا ہوتا ہے.لیکن ہم نے ایسی بگڑی ہوئی قوموں کو دیکھا ہے کہ بعض بڑے بڑے امیر لوگ ایسے لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں جو نہایت ہی گندے ہوں غلیظ ہوں.جو مہینوں نہاتے نہیں بدحال ، منہ سے جھا گیں نکلتیں اور اتنا ہی ان کو بڑا اور ولی اللہ سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اتنا ہی جھک کر ان کو سلام کر رہے ہوتے ہیں.اس کے بالکل برعکس وہ نظارے ہیں جو سچائی کے قرب سے دکھائی دیتے ہیں.جب سچائی قریب ہو ، اس وقت جو وہ مناظر پیدا کرتی ہے ، وہ مناظر اس منظر سے بالکل مختلف ہوتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے زمانے میں ان کے احبار بھی اور رہبان بھی وہ صحابہ کرام جو بہت ہی صاحب حیثیت تھے، وہ بھی اور وہ اصحاب الصفہ جو ایسے غریب تھے کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا.اور مسجد کے تھڑوں پر بیٹھ کے اپنے گزارے کیا کرتے تھے.ان کا خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں ایک ہی حال تھا.ان کے امیر اور غریب میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا تھا ان کے صاحب وجاہت بزرگوں میں اور مسکین طبع بزرگوں میں بھی اس لحاظ سے کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا تھا.جو کچھ خدا ان کو عطا کرتا تھا، اس سے وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے.یہاں جو دوسرا منظر کھینچا گیا ہے، غیر دینی صاحب حیثیت لوگوں کا اس میں غرباء کا ذکر نہیں ہے.اس میں ایک حکمت ہے.غرباء اگر خدا کی راہ میں کچھ پیش نہ کرسکیں تو ان پر حرف نہیں ہے.وہ خدا کے نزدیک ملزم نہیں ہیں.اس لئے آخری زمانے کے غرباء بھی اگر خرچ نہ کرتے ہوں تو زیر الزام نہیں آتے.اس لئے قرآن کریم نے وہاں غرباء کا ذکر چھوڑ دیا ہے اور صرف امیروں کا ذکر فرمایا ہے.لیکن پہلے زمانے کے امیروں کا جہاں بھی ذکر فرمایا وہاں ان کے غریبوں کا بھی ذکر فرمایا.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کے ذکر میں آپ کو کبھی صرف امیروں کا ذکر نہیں ملے گا.ہمیشہ ساتھ غریبوں کا بھی ذکر ملے گا.ان کے امیر بھی خدا کی راہ میں خرچ کر رہے

Page 77

خطبات طاہر جلد ۹ 72 خطبه جمعه ۲ار فروری ۱۹۹۰ء ہوتے ہیں اور ان کے غریب بھی خدا کی راہ میں خرچ کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے مقابلے میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب امیروں پر بازی لے جاتے ہیں کیونکہ نسبت کے لحاظ سے وہ زیادہ خرچ کرتے ہیں.چنانچہ اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے اور مومن کو اس روح کی طرف متوجہ کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَيَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ (البقره:۲۲۰).اے محمد مصطفی ﷺ ! تجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ تیری راہ میں کیا خرچ کریں.ان کو جواب دے کہ عفو اس لفظ عفو نے بہت ہی عظیم الشان را ہنمائی فرما دی ہے.یعنی یہ راہنمائی کہ جو امیر ہیں ان کے پاس اپنی ضرورتوں سے زیادہ جو بچ رہتا ہے اس میں سے خرچ کریں اور غریب جن کے پاس عضو نہیں ہے.وہ خدا کے نزدیک زیر الزام نہیں آئیں گے اگر وہ کچھ پیش نہ کرسکیں.لیکن اس کے باوجود یہ بھی فرماتا ہے کہ سرآء اور ضراء میں تنگی اور ترشی میں ، تنگ حالوں میں ، ایسے وقتوں میں بھی جب کہ وہ بھوکے ہوں اور بھوک کا خوف ان پر غالب آچکا ہے.ایسے وقت میں بھی نبوت کے زمانے کے غرباء خرچ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے اہل وعیال کے اوپر تنگی ڈال کے بھی ، اپنے پیٹ کاٹ کے بھی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.پس اس پہلو سے غرباء کو ان امراء پر ایک فضیلت عطا ہو جاتی ہے.امراء عفو میں سے خرچ کرتے ہیں اور غرباء عفو نہ ہونے کے باوجود خرچ کر رہے ہوتے ہیں.یہ مضمون آج جماعت احمدیہ پر سو فیصدی اطلاق پا رہا ہے اور تمام دنیا کی جماعتوں پر آپ نظر ڈال کر دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح جماعت احمدیہ کے غرباء قربانی میں کسی پہلو سے بھی امراء سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ اگر کوئی فضیلت ہے تو اکثر صورتوں میں غرباء کو ہے.ہر صورت میں نہیں کہا جا سکتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بعض امراء بھی ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں جیسے وہ اپنے مال کو ہلاک کرنا چاہتے ہوں.اپنی تجارتوں میں سے اتنا اتنارو پید نکالتے ہیں کہ دنیا دار کوئی تاجر اس کے تصور سے بھی کانپ اٹھے.اس لئے ہرگز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آج جماعت احمدیہ کے سب امراء پر سب غرباء سبقت لے گئے یا اکثر غرباء سبقت لے گئے.خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بڑے بڑے صاحب توفیق امراء بھی عطا کئے ہیں اور وہ قربانیوں میں کسی طرح غرباء سے پیچھے نہیں.دوسرے یہ کہ ایک اور نفسیاتی پہلو ہے جس کو ہمیشہ ہمیں مد نظر رکھنا چاہئے.

Page 78

خطبات طاہر جلد ۹ 73 خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۹۰ء غریب کے لئے قربانی نسبتاً ایک پہلو سے مشکل ہے اور ایک پہلو سے نسبتاً آسان ہے.کیونکہ روپیہ جب تھوڑا ہو تو صرف نسبت کے لحاظ سے وہ نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی تھوڑی کمیت اس کی حیثیت کو اس روپے والے کی نظر میں گرا دیتی ہے اور روپیہ جب زیادہ ہو تو تنا سب سے نہیں دکھائی دیا کرتا بلکہ اس کا زیادہ ہونا اپنی ذات میں اس روپے والے کے دل میں اس کی بہت زیادہ اہمیت پیدا کر دیتی ہے اس لئے امراء جب بڑی رقم خرچ کرتے ہیں تو ہر گز بعید نہیں کہ ان کو غرباء کی نسبت زیادہ تکلیف ہورہی ہوتی ہے کیونکہ غرباء کے دل سے اس روپے کی محبت ختم ہو چکی ہوتی ہے جو بہت قلیل ہو.ان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلیل ہے.پس جب وہ دیتے ہیں تو ساتھ شرم محسوس کرتے ہیں کہ ہم کیا دے رہے ہیں لیکن امراء کے دل میں روپے کے بڑھنے کے ساتھ اس کی محبت بڑھتی جاتی ہے اور یہ ایک طبعی قانون ہے جو تمام دنیا کے انسانوں پر برابر اطلاق پاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا کہ ابن آدم کی حرص کو دیکھو کہ جتنا اس کا مال بڑھتا ہے اتنی ہی اس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے.اگر خداس کو نعمتوں کی ، اموال و دولت کی ایک وادی دے دے تو وہ کہے گا کہ مجھے ایک اور وادی مل جائے.اس کے بغیر ٹھنڈ نہیں پڑے گی اس لئے یہ ایسے بار یک مضامین ہیں جن کا فیصلہ انسان نہیں کر سکتا.صرف خدا کر سکتا ہے جو دلوں پر نگاہ رکھتا ہے لیکن عمومی نظارے کے طور پر کسی جماعت کی صداقت کے لئے یہ ایک بہت ہی عظیم الشان دلیل ہے کہ ان کے امراء بھی اور ان کے غرباء بھی ، ان کے وہ مذہبی راہنما بھی جن کی ظاہری حیثیت بہتر ہو اور اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق دیئے گئے ہوں اور وہ مذہبی راہنما بھی جو بالکل غریب ہوں اور ان کے پاس کچھ بھی نہ ہو یعنی فقیر منش لوگ وہ دونوں مالی قربانیوں میں آگے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.پس جس قوم میں یہ سارے قربانی کرنے والے موجود ہوں اس قوم کو جھوٹا کوئی نہیں کہہ سکتا.یہ سچائی کی حیرت انگیز دلیل ہے اور ایسی دلیل ہے جس کو جھوٹا بنا نہیں سکتا.ایک چیلنج ہے کھلا ہوا.کون ہے؟ صلائے عام ہے سب کے لئے.کون ہے جو اس رستے میں آکر اس مقابلے کے لئے نکلے کسی جھوٹے کو توفیق ہی نہیں مل سکتی یا یوں کہنا چاہئے کہ کسی جھوٹی قوم کو یہ توفیق ہی نہیں مل سکتی کہ یہ منظر پیش کر کے دکھائے ان کے ہاں جو منظر دکھائی دیتا ہے اس کا بیان

Page 79

خطبات طاہر جلد ۹ 74 خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۹۰ء اسی آیت میں ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ خوب وہ جھوٹ اور فریب کے ذریعے لوگوں کے پیسے کھا رہے ہوتے ہیں.ان قوموں میں مالی بد دیانتی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ان کے لئے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.یادرکھیں جو دھو کے اور فریب سے کھانے والے لوگ ہیں وہ سچائی کی راہوں پر خرچ نہیں کر سکتے.وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ ان کے مقابلے روپے جمع کرنے کے مقابلے ہوتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے مقابلے نہیں ہوا کرتے.پس یہ وہ ایسی تفریق ہے جو انسان کے بنائے بن نہیں سکتی.بالکل ناممکن ہے کہ بحیثیت قوم جو جھوٹی ہو وہ اس منظر کی بجائے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے اس کے مقابل کا خوبصورت منظر دکھا سکے اور وہ لوگ جو قرب نبوت کے مناظر پیش کرتے ہیں ان کو کوئی دنیا میں جھوٹا نہیں کہہ سکتا.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ تمام دنیا میں یکا و تنہا جماعت ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے.کوئی اور مثال نہیں ہے کہ اس پہلو سے بحیثیت جماعت ایک عظیم الشان مالی قربانی کا نمونہ پیش کر رہی ہو.بعض دفعہ جماعت میں مالی قربانی کے لئے غیر معمولی جوش پیدا ہوتا ہے.بعض دفعہ کبھی کبھی کسی جگہ کچھ غفلت بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن ایمان کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ایک طبعی چیز ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی جب دینی ضروریات غیر معمولی طور پر بڑھتی تھیں تو آنحضرت غیر معمولی رنگ میں تحریک اور تحریص فرمایا کرتے تھے اور اس کے نتیجے میں دلوں میں جو ایمان کی دولت موجود تھی وہ ظاہری دولت کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر مجبور کر دیا کرتی تھی.یہی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تھی.یہی کیفیت بعد میں تمام خلفاء کے زمانے پر پائی گئی لیکن خواہ وقتی طور پر کچھ کمزوری بھی دکھائی گئی ہو.یہ میرا تجربہ ہے اور جماعت کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب بھی جماعت کو ہلایا گیا ہے اور بیدار کیا گیا ہے تو جس طرح بعض دفعہ پکے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے درخت کو ہلانے سے کثرت سے پھل گرنے شروع ہو جاتے

Page 80

خطبات طاہر جلد ۹ 75 خطبه جمعه ۲ار فروری ۱۹۹۰ء ہیں.اسی طرح جماعت احمد یہ مالی قربانی میں ایسا ہی نمونہ پیش کرتی ہے.بلکہ اس سے بڑھ کر خوبصورت نمونے دکھاتی ہے.بچپن میں جب ہم باغوں میں پھرا کرتے تھے یا جنگلوں میں جاتے تھے.بیریوں کے نیچے کھڑے ہو کر اچھے اچھے بیروں کو دیکھتے تھے.تو کئی دفعہ یہی طریق اختیار کیا کرتے تھے جب پکے ہوئے بیر ہوں تو روڑے مارنے کی بجائے دو تین لڑکے مل کر درخت کو ہلاتے تھے اور اگر وہ تھوڑا سا ہل جائے اس میں ایک قسم کا چھوٹا سا زلزلہ آ جائے تو اس سے بکثرت بیر گرتے تھے، اتنے کہ پھر سنبھالے نہیں جاتے تھے تو وہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایمان کی دولت نصیب ہو.ان کی ایمان کی دولت ہی دراصل ان کی دنیاوی دولت کو خدا کی راہ میں نچھاور کرنے کی وجہ بنتی ہے.جتنا کوئی دل کے لحاظ سے اور روحانیت کے لحاظ سے مالدار ہو اتنا ہی وہ خدا کی راہ میں غیر معمولی قربانیاں دکھاتا ہے.بسا اوقات مجھے ایسے غریب مربیان کی طرف سے مالی قربانی کی پیشکش ہوتی ہے کہ میں حیران رہ جاتا ہوں.ان کے متعلق میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ان کے پاس سوائے اس معمولی گزارے کے جو جماعت ان کو دیتی ہے اور کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے لیکن رقم خواہ تھوڑی ہو ، اس کو وہ بڑی مشکل سے اور بڑی قربانی کر کے جماعت کے لئے بچاتے اور پیش کرتے ہیں اور ان کے خطوں سے معلوم ہورہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ قربانی پیش کرتے وقت ان کو عظیم روحانی سرو مل رہا ہوتا ہے.پس یہ وہ رہبان ہیں جو سچائی کے رہبان ہیں.جو روشن دلوں کے رہبان ہیں.ان کی غربت واقعہ خدا کی خاطر ہوتی ہے اور اس غربت میں بھی وہ خدا کی خاطر قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں.مہ پہلے ہمارے وہ اس مضمون کو میں نے آج آپ کے سامنے اس لئے چھیڑا کہ کچھ ایڈیشنل وکیل المال یعنی جن کو میں نے انگلستان میں رضا کارانہ طور پر وکیل المال مقرر کیا ہوا ہے.محمد شریف اشرف صاحب وہ میرے پاس آئے کہ آپ افریقہ کیلئے ،فلاں جگہ کیلئے ، فلاں جگہ کیلئے جو مطالبہ آئے منظور کرتے چلے جارہے ہیں، اتنا خرچ کر رہے ہیں آپ کو پتہ نہیں کہ اس وقت مالی تنگی ہوگئی ہے ایک سال جو گزشتہ ایک سال ہے.ان کی مراد یہ تھی کہ یہ صد سالہ تشکر کا سال، اس سال میں انہوں نے مجھے بتایا کہ اتنا خرچ ہوا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ آپ منظور یاں دے رہے ہوں اور خرچ کرنے کیلئے پیسہ نہ رہے اس لئے یہ تھوڑا سا حساب بھی کبھی دیکھ لیا کریں.ان کو میں نے کہا

Page 81

خطبات طاہر جلد ۹ 76 خطبه جمعه ۲ ر فروری ۱۹۹۰ء کہ مجھے اس حساب کے دیکھنے کی اس وجہ سے ضرورت نہیں ہے کہ مجھے خوف ہو کہ پیسہ نہیں رہے گا.مجھے یقین ہے اور میرا گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ ضرورت ہو اور اللہ تعالیٰ نے مہیا نہ فرما دی ہو لیکن حساب دیکھنا، وہ میرے فرائض میں سے ہے، دیکھوں گا ضرور لیکن اس خوف کی وجہ سے میں نہیں دیکھوں گا.چنانچہ ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا.انہوں نے کہا اب مجھے کوئی فکر نہیں رہی اور اس کے چند دن بعد ہی ایک احمدی تاجر کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی منافع عطا فر مایا تو اس نے تقریباً پچاس ہزار پاؤنڈ کا ہدیہ خدا کیلئے بھجوایا اور انہوں نے کہا کہ آج کل ضرورتیں بڑھ رہی ہیں، جہاں چاہیں اسے خرچ کریں.تو اللہ تعالیٰ بھی پھر ایسی جماعت سے ایسے ہی سلوک فرماتا ہے.خدا تعالیٰ ایسی جماعت کی جماعتی ضروریات کو کبھی بھی افلاس کا منہ نہیں دیکھا تا کہ غربت کی وجہ سے وہ ضروریات پوری نہ ہو رہی ہوں.پس وقتی طور پر اگر کبھی غفلت بھی ہو جائے یا آمد میں کمی بھی آجائے تو ڈرنے کی بات نہیں.معمولی سا ذکر معمولی سی یاد دہانی اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی نتائج پیدا کر دیتی ہے.ابھی چند دن ہوئے ان صاحب نے جن کا میں نے ذکر کیا ہے.محمد شریف اشرف صاحب نے یہ ذکر کیا تو غالباً انہی دنوں کی رویا دیکھی ہوگی کینیڈا میں ایک صاحب نے جس کی اطلاع مجھے کل ملی یعنی کل ان کا خط ملا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک عجیب رؤیا دیکھی ہے.میرے ذہن میں اور خیال میں بھی نہیں تھی کہ آپ کچھ عرصے سے اپنی توجہ دوسرے کاموں میں خرچ کر رہے ہیں اور کہہ یہ رہے ہیں کہ جماعت مالی یاد دہانیوں وغیرہ کی باتیں خود کرے یعنی نظام جماعت اور چندوں کی تحریک کے سلسلے میں نظام جماعت از خود کام کرے، میں دوسرے کاموں میں مصروف ہوں اور اس کے نتیجے میں چندے میں کچھ کمی پیدا ہو جاتی ہے اور فکر پیدا ہو جاتی ہے کہ روپیہ کم ہو گیا.اب یہ کہاں سے آئے گا.ان کی خواب کا مضمون چونکہ بالکل ہمارے وکیل المال صاحب کی بات سے ملتا تھا.اس لئے مجھے خیال آیا کہ آج براہ راست یہ یاد دہانی کرا دوں.یہ بھی درست ہے کہ نظام جماعت کا کام ہے کہ وہ مسلسل بیدار مغزی کے ساتھ تمام جماعت کی حیثیت پر نظر رکھتے ہوئے صاحب حیثیت لوگوں کو ان کی حیثیت کے مطابق ، غرباء کو ان کی حیثیت کے مطابق مالی قربانی پر ابھارتا رہے.یہ

Page 82

خطبات طاہر جلد ۹ 77 خطبه جمعه ۲ فروری ۱۹۹۰ء نظام جماعت کا کام ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں ہے کہ اگر خلیفہ وقت براہ راست یہ کام نہ کرے تو نظام جماعت کی اپنی کوشش اس طرح پھل نہیں لاتی جس طرح جب خلیفہ وقت کی آواز اس میں شامل ہو جائے اس لئے لازماً خلفاء کو ہمیشہ اس کام میں نظام جماعت کی مدد کرتے رہنا ہوگا اور جب بھی کچھ عرصے کیلئے دوسری مصرفیات کی وجہ سے خلیفہ وقت براہ راست تحریک نہ کر سکے تو ہمارا تجربہ ہے کہ مالی لحاظ سے قربانی کا معیار گرنا شروع ہو جاتا ہے.ایسے کئی ملک ہیں جن میں مالی قربانی جتنی ہونی چاہئے تھی، اتنی نہیں تھی.جب ان کی طرف میں نے ذاتی توجہ دی.وہاں کی جماعت کو بھی متوجہ کیا.وہاں دوستوں کو خطوط لکھے ، پیغامات بھجوائے تو اتنی جلدی جلدی تبدیلیاں ہوئی ہیں کہ کل اگر ایک روپیہ آمد تھی تو آج دوروپے ہوگئی.کل ایک لاکھ تھی تو آج دولاکھ ہوگئی.یعنی بجائے اس کے کہ فیصد کے لحاظ سے بڑھے، دگنا ، تگنا، چوگنا ہونا شروع ہو گیا.چنانچہ میں نے ایسے ممالک کا ایک دفعہ جائزہ لیا تو میں حیران رہ گیا کہ چند سال پہلے اگر وہ ایک روپیہ قربانی کر رہے تھے تو آج چار یا پانچ روپے کر رہے ہیں یعنی وہ فیصد میں ماپنے کی بجائے ان کی قربانی کو اس کو کیا کہتے ہیں Factors انگریزی میں کہا جاتا ہے Factors میں ناپا جاتا ہے یعنی کتنے گنا زیادہ بڑھ گیا.تو جماعت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قدرا خلاص رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کیلئے ہمیشہ مستعد رہتی ہے کہ اگر اس کو صحیح معنوں میں بر وقت اپیل ہو تو کبھی بھی وہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کی راہ میں کنجوسی نہیں دکھاتی اور کمزوری نہیں دکھاتی.اس وقت بعض تحریکیں میرے پیش نظر ہیں جن کے متعلق میں آپ کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں.پہلے تو جس تحریک کا نام رکھا گیا تھا افریقہ اور بھارت فنڈ یا اسی قسم کا کوئی نام تھا.اس کے متعلق میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان سے بعض دوستوں نے مجھے توجہ دلائی کہ پاکستان کو آپ نے کیوں چھوڑ دیا.وہ مطلب سمجھے نہیں.افریقہ اور بھارت فنڈ اس لئے رکھا گیا تھا کہ یہ دوا یسے ممالک ہیں جہاں جماعتی ضرورتیں غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہیں اور وقتی طور پر جماعت کو یہ توفیق نہیں ہے کہ وہ اپنی ضرورتیں خود پوری کر سکے.ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ پاکستان کو نظر انداز کیا گیا ہے یا کسی اور ملک کو نظر انداز کیا گیا ہے.یہ ان کیلئے ایک قسم کا Compliment تھا.ایک قسم کا یہ ان کیلئے تحسین کا اظہار تھا.باقی ممالک تو اللہ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں لیکن ان

Page 83

خطبات طاہر جلد ۹ 78 خطبه جمعه ۲ار فروری ۱۹۹۰ء علاقوں میں کچھ کمزوری ہے لیکن اس کا برعکس درست نہیں ہے.یہ کہنا غلط ہے کہ باقی لوگ اچھے ہیں اور یہ بُرے ہیں.یہ مراد نہیں ہے.وجہ یہ ہے کہ افریقہ میں غربت اتنی زیادہ ہے اور اس قدر شدید اقتصادی بحران ہے کہ بعض ممالک میں تو حکومتیں اتنا غریب ہو چکی ہیں کہ اپنے ماتحتوں کو اپنے نوکروں کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں.مثلاً مالی سے مجھے وہاں کے امیر صاحب کا یہ خط ملا کہ یہاں بعض لوگوں نے غربت سے تنگ آکے ، جو حکومت کے ملازمین تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ہڑتال کرتے ہیں کیونکہ چھ مہینے سے ان کو تنخواہ نہیں ملی.وہ غریب لوگ پتہ نہیں کس طرح زندہ اور کس طرح گزارا کر رہے ہیں.تو جب اس کی اطلاع مالی کے پریزیڈنٹ صاحب کو پہنچی تو انہوں نے اعلان کیا کہ مجھے بھی ہڑتال میں شامل کر لو میں نے بھی چھ مہینے سے تنخواہ نہیں لی.جس بیچارے غریب ملک کا یہ حال ہو، وہاں توقع رکھنا کہ وہ اپنی ضروریات خود پوری کر لیں گے، یہ درست نہیں ہے عالمگیر جماعت ہیں ہم اور وحدانیت کا اور ملی توحید کا یہ مطلب بھی ہے کہ بحیثیت ایک عالمی جماعت کے ہم اپنی ضروریات خود پوری کرتے رہیں گے اور ہماری ضروریات پوری کرنے کیلئے خدا کفیل ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت ہر ملک میں فی ذاتہ خود کفیل ہو سکتی ہے.ہوگی انشاء اللہ.لیکن بعض صورتوں میں بعض وقتوں میں ایسا نہیں ہو سکتا.پس افریقہ کے لئے جو تحریک تھی وہ اس وجہ سے تھی کہ غیر معمولی مالی بحران کا شکار حکومتیں ہیں اور وہاں کے عوام الناس بہت ہی مفلوک الحال ہو چکے ہیں.امیر بھی ہیں لیکن غریب بہت زیادہ اور بہت ہی دردناک حالات کا سامنا کرنے والے اس لئے لازم بیرونی جماعتوں کو ان کی ضرورتیں پورا کرنی ہوں گی.ہندوستان میں یہ حالت تو نہیں لیکن ہندوستان میں احمدیت کی طرف غیر معمولی توجہ پیدا ہوگئی ہے اور وہ توجہ اتنی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ ہندوستان کی جماعتیں ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی فی الحال اہلیت نہیں رکھتیں لیکن ایک پہلو سے ہندوستان کی جماعتوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ میرا تاثر یہ ہے کہ وہ جتنی اہلیت رکھتی ہیں اتنا پیش نہیں کر رہیں بعض علاقوں کے متعلق جب میں نے خصوصیت سے توجہ دی تو ان کا چندہ غیر معمولی طور پر بڑھا پھر میں نے مختلف پہلوؤں سے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کا جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ابھی بہت سی جماعتوں میں گنجائش موجود ہے.بعض صوبوں میں جہاں نسبتا زیادہ غربت ہے اور ملازم پیشہ غریب

Page 84

خطبات طاہر جلد ۹ 79 خطبه جمعه ۲ فروری ۱۹۹۰ء طبقہ یا درمیانے درجے کا موجود ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کا معیار بہت بلند ہے مثلاً اڑیسہ ہے.اڑیسہ ایک ایسا صوبہ ہے جہاں جماعت کی اکثریت سفید پوش ہے یا غریب ہے اور آمد کے لحاظ سے سب سے زیادہ استقلال کے ساتھ قربانی کرنے والا وہ صوبہ ہے.اس کے علاوہ بعض جماعتوں کے نام لینے کی ضرورت نہیں.وہاں بڑے بڑے سیٹھ ہیں.بڑے بڑے صاحب حیثیت لوگ ہیں اگر وہ دل کھول کر خدا کی راہ میں خرچ کریں تو ہندوستان کو کم سے کم ایک حد تک خود کفیل ہو جانا چاہئے لیکن ہندوستان میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ بیرونی مدد زیادہ ہو اور ہم اس لئے مجبور ہیں کہ وہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رو چل پڑی ہے اور احمد بیت کی طلب پیدا ہوگئی ہے اس لئے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش تو میں کرتا رہتا ہوں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ضرورت بہر حال پوری ہونی ہے.اس غرض سے میں نے ہندوستان کو بھی ان ملکوں میں شامل کر لیا تھا جن کیلئے اس صدی کی پہلی خصوصی تحریک ہونی چاہئے.ویسے بھی میں نے اس سے پہلے ایک یہ وجہ بیان کی تھی کہ ہندوستان وہ خوش نصیب ملک ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا ہوئے.آج بھی ہمارا دائمی آخرین“ کا مرکز وہیں موجود ہے اور سب دنیا کا اس لحاظ سے ہندوستان محسن ہے.اگر اظہار تشکر کے طور پر باقی دنیا ہندوستان کی مدد کرے تو ہر گز کوئی مضائقہ نہیں ہوگا.ایک اور ملک جس کا ذکر ضروری ہے وہ امریکہ ہے امریکہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت حیثیت ہے.یعنی مالی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے سارے ملک کو ہی غیر معمولی توفیق عطاء فرمائی ہے.اس نسبت سے جماعت امیر تو نہیں کہلاسکتی لیکن مقابلہ باقی ملکوں کے مقابل پر احمدی کی حیثیت مالی لحاظ سے بھی دوسرے ممالک کے احمدیوں سے بہتر نظر آتی ہے.اب یہ سو فیصد مقابلہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہر شخص کی بہتر ہو یا غیر ملکوں میں کوئی امریکہ سے زیادہ امیر آدمی نہ ہو.یہ مراد نہیں ہے عمومی طور پر جو کیفیت دکھائی دیتی ہے، جو بالعموم صادق آتی ہے وہ یہی ہے کہ امریکہ کی جماعت صاحب توفیق اور صاحب حیثیت جماعتوں میں سے ہے لیکن وہاں بھی ہندوستان کی طرح ابھی توفیق کے مطابق چندے نہیں بڑھے.چنانچہ جب میں نے وہاں مسجد واشنگٹن کی تحریک کی اور جیسا کہ ہونا چاہئے تھا میں نے جماعت کو نصیحت کی کہ آپ کے ملک کے شایان شان جگہ ہونی چاہئے سب دنیا کی نظریں ہیں اور جماعت کی ضروریات کے مطابق اور جماعت کی حیثیت کے مطابق اگر چہ ہم بہر حال ایک

Page 85

خطبات طاہر جلد ۹ 80 80 خطبه جمعه ۲ار فروری ۱۹۹۰ء غریبانہ عمارت ہی بنا سکیں گے لیکن امریکہ کی غریبانہ عمارت افریقہ کی غریبانہ عمارت سے مختلف ہونی چاہئے کیونکہ ہر جگہ ایک لفظ کے معنی ایک نہیں ہوا کرتے.غیروں کے مقابل پر غریبانہ ہی ہوگی لیکن امریکہ کی حیثیت سے ہر حال اس غریبانہ مسجد میں اور غریبانہ مشن میں افریقہ کے غریب علاقوں کے مشنوں اور مساجد سے فرق ہونا چاہئے.اس پہلو سے ایک سکیم بنائی گئی.پہلے تو انہوں نے بہت زیادہ خرچ کی بنائی تھی.پھر اسے کانٹ چھانٹ کر چھوٹا کیا گیا اور اب جو آخری صورت میں مسجد کا نقشہ منظور ہوا ہے اس میں کوئی اسراف نہیں ہے یعنی ہرگز غیر معمولی خرچ نہیں ہے.سادگی کوملحوظ رکھا گیا ہے.کم خرچ کو لو ظا رکھا گیا ہے لیکن چونکہ وہاں مہنگائی بھی بہت ہے اس لئے سر دست ان کا اندازہ اڑھائی ملین کا ہے یعنی ۲۵ لاکھ ڈالر کا.اس سلسلے میں گزشتہ ایک سال سے مجھے امریکہ کی جماعت کی طرف سے فکر انگیز خط مل رہے ہیں اور امیر جماعت امریکہ اس بارے میں فکر مند ہیں کہ یہ روپیہ کیسے پورا ہوگا جو عام تحریکات انہوں نے کی ہیں اس کے نتیجے میں جو وعدے موصول ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس مد میں بہت ضرورت ہے.اسلئے وہ نئی نئی ترکیبیں بھی سوچ رہے ہیں اور مجلس عاملہ بار بار بیٹھتی ہے بار بار نہیں تو کم سے کم ایک دو دفعہ ضرور اس مقصد کیلئے بیٹھی ہے ) کہ کیا کیا ترکیبیں استعمال کی جائیں.جہاں تک بینکوں سے سود پر روپے لینے کا تعلق ہے وہ میں نے منع کر دیا ہے اور یہ فیصلہ میں نے آغاز ہی سے کیا تھا کہ ہرگز بینکوں سے سود لے کر ہم اپنی مساجد نہیں بنائیں گے.اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی برکت پڑی کہ پہلا فیصلہ مجھے یاد ہے کہ کینیڈا میں ہوا تھا، اس کے بعد سے مسلسل کینیڈا میں عظیم الشان مراکز قائم کئے گئے.بڑی بڑی زمینیں خریدی گئیں مگر ایک دمڑی بھی کسی بینک سے سود پر نہیں لینی پڑی امریکہ کو بھی میں نے یہی کہا کہ اس بات کو تو بھول ہی جائیں.یہ کوئی رستہ نہیں ہے.پھر اور کئی رستے تجویز ہوئے جماعت میں قرض کی تحریک کا بھی سوال اٹھا اور ایک مجھے یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ یہ تحریک کی جائے کہ جو لوگ بھی کسی خاص حد تک قربانی کریں گے ان کے نام دعاؤں کے لئے مسجد پر کندہ کئے جائیں گے.وہ بھی میں نے ان کو سمجھا کر یہ تجویز رد کر دی ہے کیونکہ یہ وہ مصنوعی ذرائع ہیں جو ایک خطر ناک بارڈر پر کھڑے ہیں ( بار ڈ رکا ترجمہ ذہن میں نہیں آ رہا.اس لئے بعض دفعہ لفظ اٹک جاتا ہے ) ایسی حد پر کھڑے ہیں جو معمولی سی لغزش میں انسان کو خود نمائی اور

Page 86

خطبات طاہر جلده 81 خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۹۰ء ریا کاری کے ملک میں دھکیل سکتی ہے.اس لئے یہ آخری شکل ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ اس کے نتیجے میں فوراً جماعت میں ریا کاری پیدا ہو جائیگی مگر اگر اس طریق کو استعمال کرنا شروع کیا جائے تو ہرگز بعید نہیں کہ کچھ کمزور اور ریا کار لوگ بھی شامل ہو جائیں اور وہ لوگ جو بے ریا خدمت کرنے والے ہیں ان میں بھی رفتہ رفتہ ریاء کاری کا کیڑا داخل ہونا شروع ہو جائے اس لئے میں اس تجویز کو پسند نہیں کرتا.اگر چہ بعض صورتوں میں مثلاً ہسپتال وغیرہ میں ، ہمارے وقف جدید کے دفتر میں بھی بعض نام کندہ ہیں لیکن ایسا اگر ہو گیا ہے تو اسکو دستور نہیں بنانا چاہتے.ان کے نام کی تختی لگ جائے تو اجازت مل گئی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، استثنائی طور پر ایسا کبھی ہو جائے تو ہو جائے اسے دستور بنانا نہایت خطرناک ہوگا کیونکہ اس کے بغیر جو جماعت قربانی کیلئے تیار ہو اس کو ایسے مصنوعی ذرائع سے قربانی کی طرف مائل کرنا ان کو مصنوعی بنا دے گا اس لئے اس تجویز کو تو میں نے رد کر دیا ہے.ایک دوست نے ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے لکھا کہ میںاتنی رقم پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میرے بزرگ مرحوم والدین کا نام یا جس رشتے دار کیلئے بھی انہوں نے کہا تھا، ان کا نام اس پر ضرور کندہ ہو.میں نے کہا نا منظور.مجھے آپ کا ایک آنہ بھی نہیں چاہئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کی ضرورتیں پوری کرتا ہے.اس شرط پر میں نہیں کروں گا.انہوں نے معذرت کا خط لکھا.شرمندگی کا اظہار کیا اور کہا میں روپیہ دیتا ہوں.اس کو چاہے پھینک دیں کوئی شرط نہیں.اس پر میں نے ہدایت کی کہ ان کے بزرگوں کا نام کندہ بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ اب مشروط نہیں رہا.تو بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ چندہ غیر مشروط ہوتا ہے لیکن اعلامیہ کا بھی چونکہ حکم ہے اس لئے جماعت کی طرف سے اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں میں تحریک پیدا ہو.یہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر مشروط نہیں ہونا چاہئے یعنی چندہ اس لحاظ سے مشروط نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں کسی قسم کی ریا کاری کا کوئی پہلو ہو.بہر حال یہ تجویز میں نے رد کر دی.پھر میں نے ان سے کہا کہ میں ساری دنیا میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ آپ کی مدد کریں.اگر امریکہ کی جماعت کو توفیق نہیں ہے تو وہ آپ کے لئے قربانی کریں.چنانچہ وہ تحریک بھی میں نے کر دی اور وہ تحریک کرتے وقت میرے پیش نظر یہ بات تھی کہ آج امریکہ دنیاوی لحاظ سے اتنا دولت مند ملک ہے اور اس طرح وہ خیرات کے بہانے لیکن اپنے ذاتی مقاصد کیلئے ساری دنیا کو Aid دے رہا ہے.

Page 87

خطبات طاہر جلد ۹ 88 82 خطبه جمعه ۲ فروری ۱۹۹۰ء یہ ایک اچھا لطیفہ ہوگا کہ جماعت احمد یہ امریکہ کو Aid دے رہی ہو اور جماعت احمدیہ کے غریب ممالک بھی کچھ روپیہ امریکہ بھجوار ہے ہوں.تو ہم وہ صاحب خیرات لوگ ہیں.جہاں غریب ممالک کی طرف سے میں نے وہ تحریک کر دی تھی مگر چونکہ اس کو یاد نہیں کرایا گیا اور ایک دفعہ کہنے کے بعد کوئی ایسا نظام نہیں تھا جو جماعت کو بار بار یاد دہانی کرائے اس لئے اس سلسلے میں کمزوری پیدا ہوئی ہے اور غیر ممالک سے بہت تھوڑی مالی قربانی کی اطلاع ملی ہے.ہو سکتا ہے کہ ان کا یہی خیال ہو کہ امریکہ کو کیا ضرورت ہے.لیکن جب میں نے وضاحت کر دی ہے کہ کیوں ضرورت ہے تو اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ سب دنیا کی جماعت کو امریکہ کی کم سے کم اس معاملے میں ضرور مدد کرنی چاہیئے.دوسرے مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ امریکہ کی جماعت میں توفیق ہے وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے علم کے مطابق کم سے کم ایک سواحمدی ایسا ہے جو اتنا صاحب حیثیت ہے کہ اگر وہ چاہے تو مل کر اس ساری ذمہ داری کو ادا کر سکتا ہے.کوئی اس میں شک کی بات نہیں لیکن چونکہ ایک مادہ پرست ملک ہے.وہاں دولت بھی ہے اور دولت کی محبت بھی ہے اور معیار بدل گئے ہیں.وہاں جماعت کے اندر قربانی کا معیار بڑھانے کیلئے بار بار نصیحت کی ضرورت ہے.امیر صاحب جماعت ہوں یا اس معاملے میں جو سیکرٹری چندے کی تحریک کیلئے مقرر ہوئے ہیں، وہ ہوں، ان کو اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جماعت کی تربیت کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات ان کے سامنے بار بار لائیں جو قرآن اور حدیث سے مزین ہیں اور ان کی ایسی پاکیزہ تفسیران میں موجود ہے کہ ان حوالوں سے جب ہم اس تفسیر کو پڑھتے ہیں تو دل بے اختیار خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کیلئے اچھلنے لگتا ہے.اس ذریعے کو اختیار کریں.دوسرے نصیحت کے ذریعے کو اختیار کریں.ان کو بار بار انگیخت کریں کہ دیکھو تم صاحب حیثیت جماعت ہو تمہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے اور یہ مصنوعی ذریعے چھوڑو کہ قرضے دو یہ کرو، وہ کرو کسی اور سے مانگو.کمپنیوں سے ٹھیکے کرو کہ دس سال میں ہم تمہیں ادا کریں گے تم ہمیں ایک دفعہ بنا دو.یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو امریکہ کی جماعت کی حیثیت کے شایان شان نہیں.اگر انہوں نے اپنی حیثیت کم بنالی ہے تو ان کی غلطی ہے.مجھے یقین ہے کہ ان میں حیثیت ہے توفیق ہے اور اگر وہ قربانی کریں گے تو ان کی توفیق بڑھے گی کم نہیں ہوگی.پتہ نہیں اس

Page 88

خطبات طاہر جلد ۹ 83 خطبہ جمعہ ۲ فروری ۱۹۹۰ء بارہ میں کیوں خدا تعالیٰ پر لوگ بے اعتمادی کرتے ہیں.جماعت کا سوسالہ تحربہ ہے اور چودہ سوسال پہلے کی پہلی صدی کا بھی یہی تجربہ تھا کہ جن لوگوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ہے خدا تعالیٰ نے ان کو بے حساب عطا فرمایا ہے پس اگر وہ ہمت دکھا ئیں اور عزم کر لیں تو ہرگز مشکل نہیں ہے کہ جو بیرونی مددان کو ملے ، اس سے ایک اور مسجد بنالیں لیکن یہ مسجد وہ خود اپنی ہی توفیق سے بنا سکیں.آخر پر ایک دعا میں ان کو دے سکتا ہوں اور اس دعا میں آپ لوگ بھی شامل ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جرمنی کے مزدور نو جوانوں کے دل مستعار کر دے.ایسی عظیم الشان قربانی کرنے والی جماعت ہے کہ دل دیکھ کر عش عش کر اٹھتا ہے.وہاں میں نے سو مساجد کی تحریک کی تھی اور میں جانتا ہوں کہ جرمنی کے اکثر نوجوان غریب ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سرشیال“ کہلاتی ہے اس پر پل رہے ہیں لیکن اس حیرت انگیز جذبے کے ساتھ انہوں نے لبیک کہا ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے.بعض دفعہ خط پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی حمد کے آنسو کہ اس نے کیسی عظیم الشان جماعت عطا کی ہے.غریب لوگ ایسے بھی ہیں جو فاقہ کش ہیں.جو ایک کمرے میں دس دس کا خاندان لئے بیٹھے ہیں لیکن جب سے سو مساجد کی تحریک کی ہے ان کو لگن لگ گئی ہے کہ کس طرح ہم خدا کی راہ میں چندہ دیں تا کہ ہماری جماعت اس تحریک کو پورا کرنے میں سرخرو ہو سکے اور ہم خلیفہ وقت کا دل خوش کر سکیں کہ دیکھیں ! آپ نے سو مساجد کا کہا تھا ، ہم نے سومساجد بنادی ہیں اور بہت ہی منظم منصوبے کے ساتھ بڑے عمدہ طریق پر وہاں یہ پروگرام بنایا جارہا ہے کہ آئندہ دس سال کے اندر خدا تعالیٰ توفیق دے تو وہاں سو مساجد ہو جائیں اور یہ یورپ کا پہلا ملک ہوگا جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو سو مساجد بنانے کی توفیق ملے گی.پس امریکہ کو اس سے سبق لینا چاہئے اور جیسا کہ میں نے دعا دی ہے کہ اگر اس صاحب حیثیت جماعت کو جرمنی کے غریب نو جوانوں کا دل مل جائے تو بہت بڑی دولت ہے اور اس دولت کے ساتھ پھر وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی ساری مالی مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے خوب فرمایا کہ غنی وہ نہیں ہے جس کے پاس مال و دولت زیادہ ہو غنی وہ ہے جس کا دل امیر ہو.اللہ تعالیٰ ساری جماعت کو ظاہری غنا بھی عطا کرے اور باطنی غنی بھی عطا فرمائے.

Page 89

Page 90

خطبات طاہر جلد ۹ 85 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء صدا حضرت محمدمصطفی امی کا بر پا کرده انقلاب از سرنو جماعت احمدیہ کے ذریعہ تمام عالم میں بیا کیا جائے گا.( خطبه جمعه فرموده ۹ فروری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی تلاوت کی : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوتُ وَبَرَزُوا الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (ابراہیم: ۴۹) پھر فرمایا.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ زمانہ یاد کرو جبکہ زمین تبدیل کر دی جائے گی ، اس زمین سے بالکل مختلف حالت میں جس کو تم دیکھتے ہو.وَ السَّموات اور اسی طرح آسمان بھی تبدیل کئے جائیں گے وَبَرَزُوا لِلهِ الْوَاحِدِ اور لوگ جوق در جوق خدائے واحد اور قہار کے لئے نکل کھڑے ہوں گے.یعنی وہ تبدیلیاں توحید کی طرف لے جانے والی تبدیلیاں ہوں گی خواہ وہ زمین پر واقع ہونے والی تبدیلیاں ہوں یا آسمان پر واقع ہونے والی تبدیلیاں ہوں ان کا نتیجہ ایک ہی نکلے گا یعنی خدا کی توحید آسمانوں پر بھی قائم ہوگی اور زمین پر بھی قائم ہوگی اور کثرت سے تو میں توحید کا رخ اختیار کریں گی.یہ قرآن کریم کی وہ پیشگوئی ہے جس کا اس زمانے سے بڑا گہرا تعلق ہے اور جماعت احمد یہ کے سپرد یہ عظیم الشان خدمت کی گئی ہے کہ ان تبدیلیوں کو جلد تر لانے میں اپنی تمام تر قوتیں صرف کر دے جن تبدیلیوں کو خدا تعالیٰ نے مقدر فرما دیا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر میں ہمیشہ اسی طرح ظاہر

Page 91

خطبات طاہر جلد ۹ 86 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء ہوا کرتی ہیں کہ بعض قوموں کو یہ توفیق ملتی ہے کہ وہ تقدیر کے رخ پر چلنے والی ہواؤں کے ساتھ چلتے ہیں اور ان تبدیلیوں کو جن کی پیشگوئیاں کی جاتی ہیں رونما کرنے میں بہت گہرا کر دار ادا کرتے ہیں، بہت ٹھوس کردار ادا کرتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ فتح نمایاں کی کلید ان کو تھمائی جاتی ہے اور ان کے ذریعہ یہ پاک تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں.اس زمانے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ان پاک تبدیلیوں کے لئے ذریعہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے.یہ تقدیر الہی ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.اس تقدیر کے مطابق تد بیر اختیار کرنا بھی ہمارا کام ہے اور دعاؤں سے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرماتے ہوئے ہماری کمزوریوں سے در گزر فرماتے ہوئے ، ہماری ناطاقتی پر رحم کی نظر ڈالتے ہوئے ،ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ عظیم الشان انقلاب جس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا گیا ہے یہ ہمارے ہی ذریعے رونما ہو.دواڑھائی سال پہلے کی بات ہے جلسہ سالانہ یو.کے پر میری ایک نظم پڑھی گئی تھی جس کا پہلا شعر یہ تھا کہ: دیار مغرب سے جانے والو، دیار مشرق کے باسیوں کو کسی غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا اس میں دو شعر ایسے بھی تھے جو پیشگوئی کا رنگ رکھتے تھے.لیکن الہامی نہیں تھے نیک تمناؤں کا اظہار خدا تعالیٰ کی تائید پر بھروسہ کرتے ہوئے پیشگوئی کے رنگ میں کیا گیا تھا.پہلا شعر ان دواشعار میں سے یہ تھا.تمہیں مٹانے کا زعم لیکر اٹھے ہیں جو خاک کے بگولے خدا اُڑا دے گا خاک ان کی کرے گا سوائے عام کہنا پس جماعت احمدیہ نے یہ دیکھ لیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری توقعات سے بڑھ کر پوری شان اور صفائی کے ساتھ اس نیک تمنا کو جو پیشگوئی کا رنگ رکھتی تھی پورا فرما دیا.دوسرا شعر یہ تھا: بساط دنیا اُلٹ رہی ہے حسین اور پائیدار نقشے جہان نو کے اُبھر رہے ہیں، بدل رہا ہے نظام کہنا کلام طاہر صفحہ: ۲۶

Page 92

خطبات طاہر جلد ۹ 87 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء اس میں تمام دنیا سے متعلق ایک پیشگوئی تھی جو، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ایک تمنا تھی جو پیشگوئی کا رنگ اختیار کر گئی لیکن اللہ کی ذات پر تو کل تھا کہ وہ اسی طرح دنیا کو دکھا دے گا اور جیسا کہ ہمیں یقین ویسے بھی تھا کیونکہ یہ وہ مضمون ہے جس کا تعلق در حقیقت پرانی پیشگوئیوں سے ہے اس آیت کریمہ سے ہے جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی.اس لئے اس بارے میں تو قطعاً کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ ایسا ہونا تھا اور لازماً ہو کر رہنا تھا میں نے جو شعر میں تمنا کا اظہار کیا اس سے مراد یہ تھی کہ یہ زمانہ قریب آچکا ہے اور ہمارے دیکھتے میں یہ واقعات رونما ہونے شروع ہو جائیں گے اور جماعت کو میں نے تسلی دلائی کہ ایسا ہونے والا ہے.پس اس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور غیر معمولی شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے ہماری توقع سے بھی جلدی ان باتوں کو دکھا دیا اور ان تبدیلیوں کی بنیادیں ڈال دیں.اس مضمون سے متعلق میں جماعت کو کچھ وضاحت کے ساتھ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نصیحت کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ جو عظیم الشان اور حیرت انگیز تبد یلیاں بڑی تیزی کیساتھ دنیا میں رونما ہورہی ہیں.ان تبدیلیوں کو جہان نو کے نقشے قرار نہیں دیا جا سکتا.ان تبدیلیوں کا اس شعر کے پہلے حصے سے تعلق ہے جو یہ ہے کہ اُلٹ رہی ہے با ط دنیا جو تبدیلیاں آپ کو روس میں یا دیگر مشرقی یورپ کے ممالک میں ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ان پر یہ امید نہ لگائیں کہ یہ ایک نئے نقشے کی بنیاد میں ڈالی جارہی ہیں.یہ پرانے نظام کو تباہ کیا جا رہا ہے جو عظیم نظام دنیا کے ایک فلسفی نے خدائی نظام کے مقابل پر بنایا تھا یہ اس کے انہدام کا دور ہے اس لئے محض ان تبدیلیوں کو جہان نو کا نقشہ سمجھ کر خوشی کے نعرے لگانا درست نہیں ہے.ان تبدیلیوں سے متعلق ابھی تک انسان اور جب میں انسان کہتا ہوں تو اس سے مراد ہے کہ انسانوں میں سے وہ دانشور جن کے ہاتھوں میں دنیا کی بڑی بڑی قوموں کی باگیں تھمائی گئی ہیں وہ انسان بھی ابھی تک ان تبدیلیوں کے متعلق یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ان کے نتیجے میں کیا ہونے والا ہے.شروع میں ہر ایک نے خوشی سے تالیاں بجائیں اور بڑے بڑے دعاوی کئے کہ دیکھو کیسے عجیب واقعات رونما ہورہے ہیں اور خوشی کا اظہار اس رنگ میں کیا گویا یہ تمام واقعات ان کی تائید میں ہور ہے ہیں حالانکہ

Page 93

خطبات طاہر جلد ۹ 88 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء یہ بات درست نہیں جو واقعات رونما ہورہے ہیں.ان کے پس منظر میں جو کچھ ابھرنے والا ہے ابھی تک انسان سے پوشیدہ ہے.اسی لئے بہت سے مفکرین فکر مند بھی ہیں اور پریشان بھی ہیں.وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے کیا نتائج نکلیں گے.ابھی سے انہوں نے ایسے خدشات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے جس سے ان کے ذہنوں میں یہ خطرہ جگہ بناتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ اس اتحاد کے نتیجے میں وہ یورپ دوبارہ ابھر آئے جو ۱۹۱۴ء کا یورپ تھا یا اس سے کچھ پہلے کا اور رفتہ رفتہ ان دونوں جرمنیوں کے اتحاد سے جرمن قوم کی عظمت کا وہ تصور دوبارہ بیدار نہ ہو جائے جس کے نتیجے میں دو دفعہ انسانوں کو بہت ہی ہولناک جنگوں میں دھکیلا گیا.اس کے نتیجے میں یورپ کے وہ چھوٹے چھوٹے ممالک جو پہلے بھی باقی یورپ کے مقابل پر بے حیثیت تھے نئے خدشات محسوس کر رہے ہیں اور یہ جو سیاسی خدشات ہیں یہ محض آئس برگ کا Tip ہے یعنی Ice Burg جو سمندر میں برف کے بڑے بڑے تو دے تیر رہے ہوتے ہیں ان کو کہا جاتا ہے.بعض دفعہ وہ پہاڑوں جتنے بڑے ہوتے ہیں.سطح سے اوپر تھوڑا دکھائی دیتے ہیں لیکن سطح کے نتیجے بہت زیادہ ہوتے ہیں.بڑا حجم ان کا سطح کے نیچے پوشیدہ ہوتا ہے.تو اسی طرح خدا تعالیٰ نے یہ جو تبدیلیاں رونما فرمائیں ان کا بہت تھوڑا سا حصہ دکھائی دے رہا ہے.آئس برگ کے متعلق تو حساب کی روح سے کہا جا سکتا ہے کہ ۳/ سطح سے باہر ہو جاتا ہے اور ۲/۳ سطح کے نیچے.لیکن عظیم الشان انقلابات کی جو بنیا د یں ڈالی جاتی ہیں، ان پر عمارت خواہ کتنی بلند تعمیر ہونی ہو، شروع میں بنیا دیں بہت گہری ہوتی ہیں اور سطح پر نظر آنے والا حصہ بہت معمولی ہوتا ہے.ان تبدیلیوں کے نتیجے میں کئی قسم کی تبدیلیوں کے سلسلے شروع ہونے والے ہیں اقتصادی لحاظ سے کئی قسم کے خطرات تیسری دنیا کو در پیش ہوں گے.کئی قسم کے خطرات آزاد دنیا کو درپیش ہوں گے اور ترقی یافتہ دنیا کو درپیش ہوں گے.مشرق اور مغرب کے امتزاج سے یعنی مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے امتزاج سے بہت سا ایسا صاحب فن مزدور جرمنی کے ہاتھ میں آجائے گا جو Capital کی کمی کی وجہ سے اپنے فن کو دولت میں تبدیل نہیں کر سکتا تھا اور بڑے بڑے صاحب دماغ سائنس دان جن کی سائنس کی کوئی قدر نہیں تھی ان کو ایک ایسا ترقی یافتہ صنعتی ملک ہاتھ آجائے گا جس میں وہ اور اپنے سائنسی جو ہر کو خوب کھل کھل کر دکھا سکیں گے اور بڑی عمدگی کے ساتھ اپنے دماغ کو مغربی جرمنی کی ترقی یافتہ صنعت کے ساتھ ملا کر جسے

Page 94

خطبات طاہر جلد ۹ 89 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء انگریزی میں کہتے ہیں Wed کرنا گویا شادی ہو گئی ہے ایک دماغ کی ایک صنعت کے ساتھ اس شادی کے نتیجے میں جیسے بچے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح جب دماغ ترقی یافتہ صنعتوں کے ساتھ امتزاج کرتے ہیں تو نئی نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں.یہ سارے ایسے واقعات ہیں جو لازماً رونما ہونے والے ہیں اور انگلستان جیسا ملک جو ابھی یورپ کے مقابل پر دن بدن تھوڑی حیثیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور بے حقیقت ہوتا جا رہا ہے.اس کے خدشات اور بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں.جب مشرقی جرمنی کی طاقتیں مغربی جرمنی کے ساتھ ملیں گی تو اس کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوں گے وہ جرمنی کو اتنی بڑی طاقت میں تبدیل کر دیں گے کہ بعید نہیں کہ اس کے مقابل پر سارا یورپ بھی بے حیثیت دکھائی دینے لگے.پھر مشرقی یورپ کے دوسرے ممالک ہیں جو طبعا اپنی روایات کے لحاظ سے بھی اور زبان کے قرب کے لحاظ سے بھی اور جغرافیائی قرب کے لحاظ سے بھی اگر روس سے ہٹیں گے تو ان کا زیادہ تر انحصار جرمنی پر ہوگا اور جرمنی کو ان سے براہ راست تقویت ملے گی اور ان کو جرمنی سے براہ راست تقویت ملے گی تو نئے نقشے اس پہلو سے بھی ابھرنے والے ہیں پھر روس نے جدید تبدیلیاں برداشت کی ہیں، اس کے بہت سے محرکات ہیں لیکن سب سے بڑا محرک اقتصادی دباؤ ہے.مارکسزم بعض پہلوؤں سے کامیاب ہوا ہو تو ہوا ہو لیکن قومی اقتصادیات کے لحاظ سے ناکام ہو چکا ہے.اس کو تسلیم کئے بغیر اب اشترا کی دنیا کے پاس کوئی چارا نہیں رہا.بالکل وہی نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر رہا ہے.جو ۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی لاہور میں ہونے والی تقریر میں بیان فرمایا تھا جو اس عنوان سے چھپی تھی.اسلام کا اقتصادی نظام اس زمانے میں ہم نے احمد یہ ہوٹل میں اس تقریر کا انتظام کیا تھا احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کہلایا کرتی تھی جس میں میں بھی ایک ممبر تھا.چنانچہ احمدی طلباء نے اس تقریر کا اہتمام کروایا تھا اور مجھے یاد ہے کہ اس میں آپ نے اشتراکیت کے گہرے مطالعے کے بعد جو پیشگوئیاں کی تھیں کہ لازماً اشتراکیت کا انجام آخریہ ہونا ہے.ان میں سے ایک یہ تھی کہ قومی طور پر تمام اقتصادی ذرائع کو اپنا کر انفرادی مقابلے کی دوڑ ختم ہو جاتی ہے اور اجتماعی طور پر فوراً یہ احساس پیدا نہیں ہوتا لیکن کچھ عرصے کے بعد چالیس پچاس سال

Page 95

خطبات طاہر جلد ۹ 90 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء گزرنے کے بعد ساری کی ساری قومی اقتصادیات گھاٹے میں چلی جاتی ہے.اس وقت ان لوگوں کو احساس ہوگا کہ انسان کا بنایا ہوا نظام انسان کے لئے کافی نہیں اور یہ مصنوعی نظام اشتراکیت کے کسی کام نہیں آئے گا بعینہ وہی نقشہ ہے جو آج ہمارے سامنے ابھر رہا ہے اور در حقیقت سب سے بڑا دباؤ جواشترا کی دنیا پر ہے وہ اقتصادی ناکامی کا ہے جب انفرادی طور پر انسان کو اپنی مرضی سے کمانے کے مواقع مہیا نہ ہوں اور وہ بحیثیت انسان ایک نوکر بن کر رہ جائے اور اس کے لئے نوکری سے نجات کی اور خود کسی معنی میں مالک بننے کی کوئی راہ باقی نہ رہے سوائے اس کے کہ وہ زبر دستی حکومت پر قابض ہو تو لازماً یہی نتیجہ نکلتا ہے جو ہمارے سامنے ہے.پھر دو قسم کے طبقات ابھرتے ہیں.یہ نہیں کہ طبقات مٹ جاتے ہیں بجائے اس کے کہ چھوٹے چھوٹے مالک اور چھوٹے چھوٹے مزدوروں کے گروہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوں ایک دوسرے پر انحصار کر رہے ہوں.ساری قوم بحیثیت مجموعی ایک مالک بن کر ابھرتی ہے اور ساری قوم اس کے مقابل پر مزدور بن کر اس بڑے اور زیادہ طاقتور مالک کے سامنے بالکل بے بس ہو جاتی ہے اور انفرادی طور پر ان کے لئے کچھ حاصل کرنے کے لئے کوئی راہ باقی نہیں رہتی سوائے ایک راہ کے کہ انسان حکومت کے طبقے میں داخل ہو جائے چنانچہ ایسے اقتصادی نظام کو چلانے والی پارٹیاں ایک چھوٹا سا طاقتور گروہ تیار کرتی ہیں جن میں وہ ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں اور حکومت کی ساری باگ ڈوران چند ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جن سے عوام الناس کبھی بھی اپنی مرضی کے مطابق وہ نہیں چھین سکتے.تو ایک طاقتور طبقہ پھر بھی ابھرتا ہے لیکن اقتصادی لحاظ سے اس سے کہیں بدتر حالت میں جو آزاد اقتصادی نظاموں میں ہمیں نظر آتی ہے نہ یہ اسلامی نظام ہے نہ وہ اسلامی نظام ہے اس لئے یہ خیال کر لینا اس نظام کا ٹوٹنا یعنی اقتصادی نظام کا ٹوٹناوہ نئے نقشے بنا رہا ہے جس کا میں نے اپنے شعر میں ذکر کیا تھا، یہ ایک غلط بات ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں.یہ جو نقشے مٹ رہے ہیں یہ مٹنے کے لائق تھے اس لئے مٹے ہیں لیکن وہ نقشے جو اشترا کی دنیا سے باہر بنے ہوئے ہیں وہ بھی مٹنے کے لائق ہیں کیونکہ وہ بھی اسلامی نہیں اور انہیں بھی لازماً مٹنا ہے اور یہ جو تاریخی ادوار میں یہ فوراً ایک دو سالوں میں چند سالوں میں ظاہر نہیں ہوا کر تے مکمل نہیں ہوا کرتے ان کو کچھ وقت لگتے ہیں لیکن جیسا کہ حالات نے پلٹا کھایا ہے انسانی تو قعات سے بہت زیادہ تیزی کے ساتھ یہ حالات تبدیل ہوئے ہیں اس لئے بعید نہیں کہ دوسری دنیا کے حالات بھی تیزی کے

Page 96

خطبات طاہر جلد ۹ 91 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء ساتھ تبدیل ہوں کس رنگ میں ہوں اس کے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا بہت سے ایسے خدشات ہیں جن کے متعلق تفصیلی ذکر کی اس وقت ضرورت نہیں لیکن میں یہ خیال کرتا ہوں کہ آج کی دنیا کے دانشوران تبدیلیوں کو امن کی طرف بڑھتی ہوئی تبدیلیاں سمجھ رہے ہیں یہ یقینی اور درست بات نہیں انہیں تبدیلیوں کی کوکھ سے عالمگیر جنگیں بھی جنم لے سکتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ آزاد دنیا یعنی جو د نیا آزاد کہلاتی ہے اور حقیقت میں آزاد نہیں اس آزاد دنیا کا نظام اپنی جگہ ٹوٹے گا اور پھر خدا تعالیٰ نئی دنیا کے نظام بنائے گا یا ایک عالمی جنگ کی صورت پیدا ہوگی اور حالات صاحب اقتدار لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے اور وہ بے اختیار ہو جائیں گے اور پھر اس جنگ کے بعد وہ نیا نظام ابھرے گا.جس کے متعلق میں نے اپنے شعر میں اشارہ کیا تھا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک تمنا کا اظہار تھا مگر اس تمنا کی بنیاد قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر تھی یعنی وہ تمنالا زما پوری ہونے والی تمنا تھی یقینی تھی اس کا یہ پہلو کہ ہمارے دیکھتے میں عنقریب پوری ہو جائے یہ وہ پہلو ہے جس کا میں نے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ ہماری توقع سے بہت بڑھ کر اور بہت تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہمیں دکھا دیں.اس ضمن میں جن خدشات کا تیسری دنیا کو سامنا کرنا پڑے گا وہ بہت بڑی فہرست ہے اور اس خطبے میں میرا ارادہ نہیں کہ اس تفصیلی بحث میں جاؤں ایک خطرے کی نشاندہی میں کرنا چاہتا ہوں کہ اس نئے جوڑ توڑ کے نتیجے میں جو شروع ہو رہا ہے عالم اسلام کے لئے کئی قسم کے خطرات رونما ہوں گے ایک لمبے عرصے تک مسلمان حکومتوں سے بعض مغربی ملک اس طرح کھیلتے رہے ہیں کہ ان کے اندر جو تشدد کے رجحان تھے ان کو انہوں نے خود ہی ہوا دی اور دوستیاں ایسے ملکوں سے کیں جو اسلام کے نام پر تشدد کے قائل تھے اور ان کی پشت پناہیاں کیں اور ان کو ہتھیار مہیا کئے ان کے سیاست کے رُخ متعین کیے اور ان کے سر پرست بن کر ان سے ہر قسم کا استفادہ کرتے رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا میں اسلام کے متشددانہ رجحانات یایوں کہنا چاہئے کہ عالم اسلام کیونکہ اسلام کے تو متشددانہ رجحانات نہیں ہیں عالم اسلام کے متشددانہ رجحانات کو اسلام کے متشددانہ رجحانات کے طور پر پیش کرتے رہے ایک طرف ان سے کھیلتے رہے ان سے استفادہ کرتے رہے ان کی حوصلہ افزائیاں کرتے رہے ان کی دوستی کا دم بھرتے رہے دوسری طرف آزاد دنیا میں اسلام کے

Page 97

خطبات طاہر جلد ۹ 92 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء چہرے کو ایسا مکروہ اور داغ داغ کر کے دکھاتے رہے کہ ہر باشعور انسان اس سے گھن کھانے لگا.اس دور میں یہ اس لئے ممکن تھا کہ روس اور روس کے ساتھی ممالک ان آزاد ممالک کے مقابل پر ایک بلاک بنائے کھڑے تھے اور وہ کچھ مسلمان ملکوں کی دوستی کا وہ دم بھرتے تھے اور ان سے کھیلتے تھے اور کچھ کا یہ دم بھرتے تھے اور اس طرح بڑے بڑے ملکوں کا جوڑ تو ڑ چھوٹے ملکوں کے جوڑ توڑ کی شکل میں ظاہر ہوا اور یہ مہرے تھے جن سے کھیلنے والے ہاتھ اور تھے مثلاً افغانستان میں جو واقعات رونما ہوئے عام پاکستانی مسلمان یا بعض علماء اپنی سادگی میں یہ سمجھتے ہیں کہ عظیم الشان اسلامی جہاد تھا جو بالآخر کامیاب ثابت ہوا اور دنیا کی ایک عظیم طاقت کو مسلمان مجاہدین نے شکست فاش دے دی یہ بھی ایک منظر ہے لیکن ایک اور بھی منظر ہے دراصل یہ لڑائی روس کی لڑائی تھی امریکہ کے ساتھ اور امریکہ کی لڑائی تھی روس کے ساتھ.یہ دراصل ایک ویٹنام تھا جو اس سے پہلے بھی ظاہر ہو چکا تھا ویتنام میں جو خونزیز جنگ سالہا سال تک لڑی گئی اور وہ دنگل جو منایا گیا جس میں بڑے بڑے پہلوان ایک ملک کو اپنے پاؤں تلے روند تے چلے جاتے رہے کبھی ایک آگے بڑھتا اور کبھی دوسرا آگے بڑھتا بلکہ وہ مٹی جوان کے پاؤں تلے کچلی جاتی تھی وہ وینام کی مٹی تھی، نہ روس کی تھی، نہ امریکہ کی تھی، اسی طرح کا ایک ویٹنام افغانستان میں ظاہر ہوا.ایک دیکھنے کا یہ بھی انداز اور یہ بھی زوایہ ہے اور دارصل جنگ نہ اسلام کی تھی نہ اشتراکیت کی تھی بلکہ روس اور امریکہ دو بڑی طاقتوں کی جنگ تھی اس میں مسلمانوں کو استعمال کیا گیا اور دونوں طرف لڑنے والے مسلمان تھے پس یہ کیسا عجیب جہاد تھا.جس میں مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا تھا اور بڑی طاقتیں ان دونوں مسلمانوں کی پشت پناہی کر رہی تھیں پھر عراق ایران کی جنگ میں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا کہ وہاں بھی جہاد کے نام پر جو انتہائی خونریز اور بے مقصد جنگ لڑی گئی وہ دنیا کی دو عظیم طاقتوں کی جنگ تھی ایک طرف روس کا بلاک مددگار بنا ہوا تھا اور دوسری طرف امریکہ کا بلاک مددگار بنا ہوا تھا اور دونوں پیسے لوٹ رہے تھے اور اپنے بوسیدہ ہتھیار بیچ بیچ کر ان سے تیل کی دولت کمارہے تھے اور وہ اپنی اس دولت کو اپنے ہی گھر جلانے کے لئے استعمال کر رہے تھے تو دنیا میں جو بساط دنیا ہے اس میں نظر آنے والے مہرے اور ہیں اور مہرے چلانے والے ہاتھ اور ہیں یہ وہ مہرے نہیں جن کے اپنے پاؤں ہیں اور اپنی سوچیں ہیں جو اپنی سوچوں کے ذریعہ اپنے پاؤں کی

Page 98

خطبات طاہر جلد ۹ 93 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء راہیں متعین کریں اور پھر انہیں حرکت دیں بلکہ یہ مہرے چلانے والی طاقتیں پس منظر میں رہتی ہیں اس پہلو سے عالم اسلام کی پشت پناہی اس رنگ میں نہیں ہو سکے گی جتنی روس کی امریکہ سے دوستی بڑھتی چلی جائے گی جتنا ان دونوں طاقتوں کا آپس میں ادغام ہوگا اور نئے اقتصادی نظام ابھریں گے اتنا ہی ان کا انحصار اسلامی طاقتوں پر کم ہوتا چلا جائے گا اور انکو دم دلاسہ دینے کی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوگی اس لئے ابھی سے آپ نے شاید سنا ہو کہ امریکہ سے بھی اور یورپ سے بھی کھلم کھلا ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ یہ جو مسلمانوں نے جبر و تشدد کے نام پر آفت مچائی ہوئی ہے اور دنیا کے امن کو برباد کر ر ہے ہیں اب ہمیں مضبوط ہاتھوں کے ساتھ ان سے نپٹنا ہوگا اور ان کے ان رجحانات کو کچلنا ہوگا.آذربائیجان میں جو ہوا وہ دراصل اسی کا شاخسانہ ہے آپ نے مغربی دنیا کے مواصلاتی نظام جس کو کہتے ہیں ٹیلی ویژن کا ہو یا ریڈیو یا اخبارات کا اس میں آپ نے یہ خبریں تو بار بار اور کثرت کے ساتھ سنی ہیں کہ آذربائیجان کے مسلمانوں نے آرمینیا کے عیسائیوں پر بہت مظالم کئے ہیں لیکن آرمینیا نے آذربائیجان کے مسلمانوں پر جو مظالم کئے ان کا ذکر نہیں سنتے حالانکہ ادنیٰ تدبر سے بھی یہ بات سمجھ آنی چاہئے کہ یہ جو محاورہ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی “ یہ بڑا گہرا محاورہ ہے حقیقت پر مبنی محاورہ ہے لازماً اس کی ایک لمبی تاریخ ہے ان دونوں قوموں کی لڑائیوں کی ویسے ہی تاریخ ہے جیسے ہندوستان اور پاکستان کی آپس کی لڑائیوں کی تاریخ ہے اور جہاں جہاں جس کا زور چلا اس نے دوسرے فریق پر ظلم کیا.یہ کہہ دینا کہ ایک ہی فریق ظلم کرتا چلا جارہا ہے اور اس میں جوش دکھا تا چلا جارہا ہے اور پھر اس جوش کی حالت میں تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا ہے لیکن وہ ظلم سے باز نہیں آرہا محض ایک فرضی کہانی ہے اور کوئی معقول آدمی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ آذربائیجان کےمسلمانوں نے اس حد تک ظلم پر کمر باندھی ہو اور ظلم توڑنے کا ایسا تہیہ کیا ہو کہ خواہ وہ خود بھی مٹ جائیں وہ ظلم سے باز نہیں آئیں گے یہ بات درست نہیں ہے.واقعہ یہ ہے کہ دونوں قوموں میں بڑی دیر سے آپس میں پر خاش چلی آرہی ہے لڑائیاں ہوتی رہیں پہلے لڑکی نے آرمینا پر ظلم کیا پھر آرمینیا کا جب بس چلاٹر کی کے بعض حصوں پر مظالم توڑے یہ بعید نہیں کہ شروع میں لڑکی کا پلہ بھاری رہا ہو.لیکن بعدازاں کیونکہ یہ وہی ممالک ہیں جو روسی اقتدار کے نیچے چلے گئے تھے اور ترکی سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا تھا اس لئے تاریخی ورثے کے طور پر جو دشمنیاں انہوں نے پائی تھیں وہ جاری ہیں لیکن آپ

Page 99

خطبات طاہر جلد ۹ 94 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء نے دیکھا کہ روس نے بھی جب آذربائیجان کی آزادی کی آواز کو دبایا ہے تو مسلمان کہہ کر دبایا ہے اور مقصد یہ تھا کہ مغربی دنیا اس بات سے مطمئن ہو جائے کہ روس اپنے دہریانہ عقائد کے باوجود عیسائیت کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے لیکن مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتا اس لئے روس نے جہاں جہاں بھی باقی جگہ پر آزادی کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے وہاں مغربی دنیاے بیک زبان اس کی مخالفت کی ہے لیکن آذربائیجان کے معاملے میں بیک آواز اس کی حمایت کی ہے پس جن خطرات کی میں نشاندہی کر رہا ہوں یہ بھی ان میں سے ایک معمولی آغاز ہے آئندہ کیا ہونے والا ہے اس کی تفاصیل اگر سوچی بھی جاسکتی ہیں تو یہاں بیان کرنے کا موقعہ نہیں لیکن میں جماعت احمدیہ کو یہ خصوصیت کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ چونکہ جہان نو کے جو پاک نقشے ابھرنے ہیں ان کا جماعت احمدیہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے اس لئے اس ٹوٹ پھوٹ کے دور میں جہاں پہلا نظام ٹوٹ رہا ہے ٹوٹ پھوٹ کے خطرات سے عالم اسلام کو بچانے کے لئے جماعت کو دعا کرنی چاہئے اور دعائیں ہی نہیں کرنی چاہئیں بلکہ نصیحت کے ذریعے راہنمائی کے ذریعے عالم اسلام کی مدد کر نی چاہیئے.اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا خطرہ راہنمائی کے فقدان سے ہے یہ ایک ایسا خوفنا ک بحران ہے سارے عالم اسلام میں کہ جس سے بڑا بحران کبھی دنیا کی کسی قوم کے سامنے نہیں آیا کبھی دنیا کی کوئی بڑی قوم ایسے خطر ناک بحران سے نہیں گزری جیسا کہ عالم اسلام گزر رہا ہے.وجہ اس کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے راہنمائی خود مقرر کر دی تھی خدا تعالیٰ نے خودان کو ایک عظیم قائد عطا فر ما دیا تھا جو الہام کے نور سے روشنی لے کر راہیں متعین کر رہا تھا اس قیادت کا یہ انکار کر چکے ہیں اس امامت کو یہ ٹھکرا چکے ہیں.پس ان کے دنیا کے بنائے ہوئے امام دنیا کی بنائی ہوئی قیادتیں ان کے کسی کام نہیں آسکتیں اور عملاً عالم اسلام کے عالمی واقعات کے متعلق جور د عمل ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی اندھا کسی طرف سے کوئی دھکا کھا کر یہ معلوم کئے بغیر یا یہ معلوم کر سکنے کے بغیر کہ گڑھا کدھر ہے اور بچاؤ کی جگہ کدھر ہے کسی ایک طرف دوڑ پڑے کوئی راہنما مسلمانوں میں آج نہیں جو ان کے لئے راہیں متعین کر سکے وہ ایک راہنما جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی عالمگیر قیادت ابھری ہے جسے خدا نے مقرر فرما دیا ہے اس کا بدقسمتی سے مسلمان قوم انکار کر چکی ہے اور جہاں جہاں انکار میں بڑھ رہی ہے وہاں وہاں زیادہ سے زیادہ مصائب ٹوٹ رہے ہیں.

Page 100

خطبات طاہر جلد ۹ 95 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء سب سے زیادہ مصیبت اس وقت پاکستان میں ہے جہاں راہنمائی کا فقدان ایسے دکھوں اور دردوں میں تبدیل ہو گیا ہے کہ قوم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے پور پور میں تکلیف ہے اتنا درد ناک حال ہے اس وقت پاکستان کا کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو بشدت بیمار نہ ہو جس میں زہر نہ گھل گیا ہو کوئی قیادت نہیں ہے اور جو قیادت نظر آتی ہے اس کے دل میں ان کے لئے کوئی ہمدردی نہیں جنہوں نے ان کو قائد بنارکھا ہے.قتل عام ہورہے ہیں ، ڈا کے پڑرہے ہیں، اغوا ہور ہے ہیں ہرقسم کی بدیاں جن کا آپ دنیا میں تصور کر سکتے ہیں جو خدا خوفی کے بغیر پیدا ہوا کرتی ہیں وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ اور بھیانک شکل کے ساتھ پاکستان میں ابھر رہی ہیں اور ہر بدی ظالمانہ سفا کا نہ رنگ رکھتی ہے.چھوٹے چھوٹے بچوں کو اغوا کر لینا اور ان کو قتل کر دینا ماؤں سے جدا کرنا طالب علموں کو اغوا کر کے لے جانا امیر لوگوں کے بچوں کا پکڑ لینا اور بڑی رقموں کے مطالبے کرنا یہ تو ایک روز مرہ کی تجارت بن گئی ہے پھر چھوٹے چھوٹے بچوں کا اغوا کر کے ان کے بازوں تو ڑ کر ان کی ٹانگیں ٹیڑھی کر کے ان کو دولت کمانے کے لئے فقیروں اور ریڑھیوں پر ڈال کر عوام الناس میں ان کی نمائش کرنا اور جو رحمت کا دودھ تھوڑا سا انسانوں میں باقی ہے اس کو اس طرح ان بچوں کی راہ میں اس طرح نچوڑتے چلے جانا دھو کے اور فریب سے مانگنے کے نئے نئے ڈھنگ اختیار کرنا کوئی ایک بات بھی ایسی ہو جو آپ سوچ سکیں کہ بدی ہے اور پاکستان میں نہ ہو کوئی ایسی بات نہیں آپ سوچ سکتے ہیں ہر بدی اپنی انتہائی مکروہ شکل میں نہایت ظالمانہ اور سفا کا نہ صورت میں پاکستان میں اس طرح پرورش پا رہی ہے جیسے ماں کے دودھ پر بچے پرورش پاتے ہیں جیسے زرخیز زمین پر ہریاول پرورش پاتی ہے.پس پاکستان کی گلی گلی پاکستان کا گھر گھر دکھی ہوا ہے ابھی حال میں ہی کراچی میں جو فسادات ہوئے ہیں کہنے کوتو ۴۵ آدمی مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارا تجربہ ہے کہ ایسے اعداد و شمار ہمیشہ کم کر کے دکھائے جاتے ہیں اور امر واقعہ یہی ہے کہ اس سے بہت زیادہ اموات بھی ہوتی ہیں اور بہت زیادہ لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں جتنے حکومت کے ادارے اور اخبارات بیان کرتے ہیں لیکن قطع نظر اس کے سارے شہر میں ان علاقوں میں جہاں فسادات ہوئے ہیں جو بے چینی کی لہریں چلی ہیں جو عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے ماؤں کے سر کے دوپٹے اتر گئے وہ عورتیں جن کو ہر لمحہ اپنی بیوگی کا خوف تھا اور وہ بچے جن کو

Page 101

خطبات طاہر جلد ۹ 96 خطبه جمعه ۹ رفر وری ۱۹۹۰ء ہر لمحہ اپنے یتیم ہو جانے کا خوف تھا یہ خوف یہ دکھ اور یہ فکر اس کثرت کے ساتھ کراچی کے گھروں میں محسوس ہوئے ہیں اور حیدرآباد اور سندھ کے لوگوں کے گھروں میں محسوس ہوئے ہیں.کہ ان دکھوں کو ان اعدادو شمار کے مطابق ظاہر کرنا بالکل ایک بے کار، ناکام کوشش ہے ۴۰ قتل ہوئے ہوں یا ۵۰ قتل ہوئے ہوں یا ۰۰ قتل ہوئے ہوں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ لکھولکھا دل ہیں جو روزانہ زخمی ہوتے ہیں اور روزانہ خون بہاتے ہیں کوئی امن نہیں رہا ہے کوئی ضمانت نہیں کسی چیز کی.علم کا میدان ہو، تجارت کا میدان ہو، تمدن کے مختلف دائرے ہوں کسی پہلو سے آپ کسی دائرے میں جا کر دیکھیں آپ کو پاکستان میں دکھ ہی دکھ دکھائی دیں گے.ایک طرف خطرہ یہ ہے کہ نئے نقشے ابھرنے سے پہلے انہدام کی کارروائی شروع ہو چکی ہے اور بڑی بڑی عظیم طاقتیں ٹوٹ رہی ہیں اور نئے نئے جوڑ توڑ کے ساتھ ایک نئی دنیا ابھرنے کو ہے اور دوسری طرف وہ عالم اسلام جس پر بناء ہے جس نے آئندہ ایک عظیم الشان کردار ادا کرنا ہے جہان نوکو بنانے میں وہ اپنی قیادت سے ہی غافل پڑا ہے.اس کو ابھی تک یہ احساس نہیں کہ خدا کے مقرر کردہ امام کو ٹھکرانے کے نتیجے میں وہ ہر قسم کی قیادت اور ہر قسم کی سیادت سے محروم ہو چکا ہے اور دن بدن ان کے دکھ بڑھتے چلے جارہے ہیں اس لئے اپنی دعاؤں میں اس بات کو بھی شامل رکھیں کہ وہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو اپنی ذمہ داریاں باحسن رنگ میں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے بلکہ یہ دعا کریں کہ وہ مسلمان جن کو ساتھ لے کر ہم نے آگے بڑھنا ہے.جو اس تقدید کا حصہ ہیں کہ آئندہ نئے جہاں کی بناء انہوں نے ڈالنی ہے ان کو اللہ تعالیٰ ہلاکت سے محفوظ رکھے.اگر یہ مسلمان نہ رہیں تو پھر ہمارے پاس وہ کون سی قوم ہوگی جس کو لے کر ہم آگے بڑھیں گے.نئی قوموں میں سے بھی تو میں آئیں گی لیکن وہ قومیں جو نسلاً بعد نسل مسلمانوں میں پیدا ہوتی چلی آرہی ہیں ان کے رنگ اور ہیں.ان کے اندر اسلام بہت گہرے طور پر جذب ہو چکا ہے.ان کے ظاہری کردار میں اگر نہ بھی نظر آ رہا ہو تو کوئی اہل دانش اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ معمولی سی کوشش سے ان کی صفائی ہوسکتی ہے.ان کے اندر اسلامی اخلاق کو دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایمان کی گہری جڑیں ابھی تک ان میں موجود ہیں.اسلامی معاشرہ ان کیلئے اجنبی نہیں ہے.کوئی ایسے تمدنی رجحانات ان کے نہیں ہیں جو اسلام کے نافذ ہونے کی راہ میں ایک ٹھوس مدافعت دکھائے لیکن مغربی قوموں میں اگر

Page 102

خطبات طاہر جلد ۹ 97 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء آپ نے تیزی سے اسلام پھیلا بھی دیا تو اس کے نتیجے میں انکی اپنی تہذیب ہے ، ان کا اپنا تمدن ہے جس کا ایک بڑا حصہ نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہے بلکہ اسلام کی روح سے ٹکرانے والا ہے.یہ آسان کام نہیں ہے کہ ان کے دل اپنے تمدن اور اپنی تہذیب سے توڑ کر اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو اپنانے کی طرف مائل کئے جاسکیں.چند خاندان جو اسلام قبول کرتے ہیں ان پر بھی مجھے علم ہے کہ ہمیں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے لازماً احمدیت کے لئے آئندہ دنیا میں تبدیلیاں پیدا کرنے کیلئے جو مواد کی ضرورت ہے وہ عالم اسلام سے مہیا ہوگا اور عالم اسلام کے بغیر ہم عظیم الشان انقلاب برپا نہیں کر سکتے.اس لئے علماء کی اگر چہ لاکھ یہ کوشش ہے کہ جماعت احمدیہ کو عالم اسلام سے تو ڑ کر الگ پھینک دیا جائے لیکن کسی قیمت پر بھی جماعت احمدیہ نے عالم اسلام سے جدا نہیں ہونا.ان کے مظالم کو منتقمانہ ردعمل کے طور پر اپنے دلوں میں پیدا نہیں ہونے دینا.یاد رکھیں اس بات کو جب بھی آپ کا دل مسلمان ظالموں کے خلاف انتقامی جذبات سے بھرے گا وہیں آپ کی شکست کے آثار شروع ہو جائیں گے.یہ وہ قوم ہے جس قوم میں زندگی کے آثار آج بھی موجود ہیں.آئندہ انقلابات کی بنیادیں مسلمان عوام سے اٹھائی جائیں گی اور لازماً جماعت احمدیہ کو ان کے دل جیتے ہیں، آج نہیں تو کل نہیں تو پرسوں لازماً یہ وہ دل ہیں جن کو جماعت احمدیہ کیلئے بنایا گیا ہے.جماعت احمد یہ ان کو جیتے گی اور پھر حضرت اقدس محمد مصطفی عمل کا بر پا کرده انقلاب از سر نو تمام عالم میں بپا کیا جائے گا.پس اس بات کو ہمیشہ پلے باندھے رکھیں کبھی بھی مسلمان بھائیوں کے مظالم کے نتیجے میں اس رنگ میں دل برداشتہ نہ ہوں کہ آپ کے دل سے بددعائیں نکلنی شروع ہوں.جلد بازی میں آپ کہنے لگیں کہ آگئی سزا.اب یہ پکڑے جائیں گے.اب یہ پکڑے جائیں گے.اب یہ مارکھائیں گے.جہاں یہ بات ہوئی وہاں یہ سمجھ لیں کہ آپ کا اپنا جسم فالج زدہ ہورہا ہے جن پر آپ کی بنا تھی وہ آزار اور مفلوج ہو جا ئیں تو آپ نے دنیا میں کام کیا کرنے ہیں.پس آپ نے ہر گز کسی قیمت پر عالم اسلام سے جدا گانہ حیثیت ان معنوں میں اختیار نہیں کرنی کہ آپ ان سے اپنے وجود کو اس طرح الگ سمجھیں کہ ان کے سکھ اور ان کے دکھ آپ کے سکھ اور دکھ نہ رہیں اور ان سے گہری ہمدردی جو آپ اپنے دل میں رکھتے ہیں اس کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے لگے.یہ ایک مشکل کام ہے ہمشکل فیصلہ ہے، میں جانتا ہوں کہ

Page 103

خطبات طاہر جلد ۹ 98 خطبه جمعه ۹ رفروری ۱۹۹۰ء نفسیاتی لحاظ سے ایک بہت کٹھن بات ہے جو میں آپ سے کہ رہا ہوں مگر اسی میں ہماری زندگی ہے،اسی میں ہماری بقا ہے.پس دعا کے ذریعے مدد مانگیں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جلد تر مسلمان عوام الناس کی آنکھیں کھولے جو بالکل بیچارے بے قصور اور نا سمجھ ہیں اور ان کو اس ظالمانہ قیادت سے جو ملاں کی قیادت ہے ان سے اللہ تعالیٰ جلد ترنجات بخشے کیونکہ یہ قیادت اگر زیادہ دیران کے کندھوں پر سوار رہی تو لازماً ان کو لے بیٹھے گی اور ابھی سے اس کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور جماعت احمدیہ کو اپنی ذمہ داریوں کو اپنے پیش آمدہ خطرات کو اور جہاں جہاں ہمارے فوائد وابستہ ہیں ان جگہوں کو پہچاننے اور ذہن نشین کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں ہم نے آگے بڑھنا ہے.

Page 104

خطبات طاہر جلد ۹ 99 خطبه جمعه ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء لا اله الا اللہ پر قائم ہو کر تو حید کے علمبردار بن جائیں.پاکستان حضرت مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے.( خطبه جمعه فرموده ۱۶ فروری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ایک ایسا کلمہ ہے جو تمام دنیا کے مذاہب کا خلاصہ اور ان کی جان ہے.مذہب خواہ قدیم ترین ہو یا اسلام جو آخری صورت میں ظاہر ہوا ان سب میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو وہ یہی ہے.لا الہ الا اللہ اور اسی لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو افضل الذکر بھی فرمایا.( ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر :۳۳۰۵) یعنی جتنے بھی ذکر ممکن ہیں خدا تعالیٰ کی یاد کے جتنے بھی طریقے سوچے جاسکتے ہیں ان میں سب سے زیادہ بہتر ، سب سے شاندار ، سب سے زیادہ خوبصورت یہ کلمہ لا الہ الا اللہ ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرآن کریم کی متعدد آیات اس امر پر روشنی ڈالتی ہیں کہ یہی کلمہ ہے جو ہمیشہ سے ہر مذہب کی جان رہا ہے.اس کے معانی پر جتنا بھی غور کیا جائے ، مزید گہرائیاں دکھائی دینے لگتی ہیں اور عملاً میں نے غور کر کے دیکھا ہے کہ اس میں تمام مذاہب کی تمام سچائیاں پائی جاتی ہیں.اس مضمون کو آپ کریدتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں تو در حقیقت کلمہ توحید کا مضمون پھیلتا چلا جاتا ہے، وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، گہرا ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ ہر مذہب کی ہر تعلیم کا خلاصہ یہ کلمہ بن جاتا ہے.انہیں معنوں میں ایک مرتبہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے حضرت ابو ہریرہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مـن قـال لا اله الا الله دخل

Page 105

خطبات طاہر جلد ۹ 100 خطبہ جمعہ ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء صلى الله الجنہ اس پیغام کو سن کر حضرت ابو ہریرہ باہر گلیوں میں نکل کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے یہ منادی کرنی شروع کر دی کہ اے لوگو! مبارک ہو جنت کی کنجی مل گئی.من قال لا اله الا الله دخل الجنة جس نے بھی لا اله الا الله کہ دیا وہ جنت میں داخل ہو گیا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ سنا تو آپ کو فکر پیدا ہوئی کہ لوگ اس کلمہ کے سچے مفہوم کو سمجھے بغیر اس خوشخبری کی گہرائی کو پائے بغیر سطحی طور پر کلمے سے چمٹ کر سمجھیں گے کہ وہ جنت میں داخل ہورہے ہیں تو وہ اسی طرح ان کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے حضرت رسول اکرم لیے کی خدمت میں لے گئے اور کہا: یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تھا کہ اس طرح کہو.آپ نے فرمایا: ہاں میں نے کہا تھا.تو اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! لوگ اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے تو آپ نے حضرت ابو ہریرہ کو منع فرما دیا کہ اس کا اس طرح اعلان نہ کرو جس طرح اب تم کرتے پھر رہے تھے (مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر (۶) لیکن آنحضرت ﷺ کی بات درست تھی.اس میں تو کوئی شک نہیں.وقتی طور پر ایک مصلحت کی خاطر اس کا اعلان تو منع فرما دیا مگر قیامت تک کے لئے وہ اعلان دنیا میں گھومتا پھر رہا ہے.ابو ہریرہ کی بات تو لوگ بھول جائیں گے، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی لیکن حضرت محمد مصطفی امی ہے کی بات تو بھلائی نہیں جاسکتی یقینا یہ ایک دائمی سچائی ہے اور اس میں گہری حکمت کا راز ہے.مــن قـال لا الــه الا الله دخل الجنۃ.اس کا ایک پہلو یعنی جھوٹے خداؤں کی پرستش کا جو پہلو ہے.اس کے متعلق میں ایک دفعہ کچھ حصہ مضمون کا بیان کر چکا ہوں.اب میں ایک اور پہلو سے متعلق جماعت کے سامنے اس مضمون کو رکھنا چاہتا ہوں، قرآن کریم کی ایک آیت سے جس کی نشاندہی ہوتی ہے اور وہ آیت درحقیقت اسی کلمہ کی ایک تفسیر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا (البقرہ:۲۵۷) جس طرح کلمے میں ایک انکار اور ایک اثبات شامل ہے.انکار جمع کی صورت میں ہے اور اثبات وحدت کی شکل میں تمام خداؤں کا انکار ہر قسم کے خداؤں کا انکار ہر طرز کے ، ہر امکانی خدا کا انکار مگر ایک اللہ کا اقرار.تو توحید پہلے سب کی نفی کر دیتی ہے اور جب کچھ باقی نہیں رہتا تو پھر خدا کے وجود کا اثبات آپ کے سامنے اس طرح پیش فرماتی ہے کہ اور کچھ بھی نہیں صرف ایک خدا ہی رہ گیا ہے.وہی مضمون ایک اور پہلو کے لحاظ سے اس آیت میں بیان ہوا ہے.فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللهِ جو طاغوت کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى اس

Page 106

خطبات طاہر جلد ۹ 101 خطبه جمعه ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء کا حال یہ ہوگا کہ گویا اس نے ایک مضبوط کڑے پر ہاتھ ڈال دیا ہے نہ وہ ہاتھ چھوٹنے والا ہے.نہ وہ کڑا ٹوٹنے والا ہے اور پھر اس سے اس کی جدائی کبھی نہیں ہوگی.یہ جو موحد کے لئے عظیم الشان خوشخبری ہے اس کا آغاز طاغوت کے انکار سے ہوتا ہے.اگر طاغوت کا کوئی پہلو باقی رہ جائے تو پھر اس نیک انجام کی کامل یقین کے ساتھ خوشخبری نہیں دی جاسکتی.یہ خوشخبری اپنی ذات میں یہ پیغام رکھتی ہے کہ اگر تم طاغوت کا انکار کر کے پھر خدا پر ایمان لائے ہو تو یہ اس کا لازمی نتیجہ ہوگا اور اگر تمہارے طاغوت کے انکار میں کوئی کمی رہ گئی کوئی رخنے رہ گئے تو پھر اسی پہلو سے تمہارے انجام کے او پر بھی خطرات کے سائے پڑ سکتے ہیں.طاغوت کا لفظ توجہ طلب ہے.طاغوت کا لفظ جس مادے سے بنا ہے اس میں سرکشی ، حد سے بڑھ جانا، ظلم، تعدی، یہ ساری باتیں شامل ہیں اور طاغوت کا لفظ واحد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور جمع کے لئے بھی اس لئے اس میں ہر قسم کی شیطانی طاقتیں شامل ہو جاتی ہیں اور جس طرح کا الہ میں جمع کے معنی شامل ہیں بلکہ کلیہ ہر قسم کے خدا کا انکار لازم قرار دیا گیا ہے.سوائے اللہ تعالیٰ کے.اسی طرح طاغوت نے بھی ہر قسم کی ان شیطانی طاقتوں کو ، ان شیطانی تحریکات کرنے والے وجودوں کو شامل کر لیا جو امکانی طور پر ہو سکتے ہیں یعنی عالم امکان میں جن کا وجود ممکن ہے اور وہ سارے اس میں شامل ہو گئے.تو یہاں بھی انکار جمع کا ہے اور اقرار صرف اللہ کا.تو وہ کون سی طاغوتی طاقتیں ہیں جن کا انکار ہے؟ اس کا مضمون اس لفظ کے معنی میں شامل ہے.ہر وہ شخص ، ہر وہ دوست، ہر وہ دشمن، ہر وہ فلسفی ، ہر وہ ذات ، وہ تصور جو انسان کے دل میں کسی قسم کی کجی پیدا کرے، اسے سرکشی پر آمادہ کرے، اسے حد سے تجاوز کرنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے، صراط مستقیم سے ہٹا کر کجی کی طرف لے جائے، ہر ایسی طاقت کو طاغوت کہتے ہیں.پس طاغوت کا انکار بہت ہی اہم ہے اور جب تک طاغوت کا انکار نہ ہو، اللہ کے ایمان کے تمام مثبت نتائج ظاہر نہیں ہو سکتے.اسی حد تک وہ مثبت نتائج خام رہ جائیں گے ان میں کوئی نہ کوئی خلا رہ جائے گا کوئی کمی باقی رہ جائے گی جس حد تک انسان کا تعلق کسی طاغوت سے باقی رہے گا.اس مضمون کو جماعت احمدیہ کے لئے بہت گہرائی میں سمجھنا ضروری ہے اور ہر قسم کے طاغوتی خیالات کو دل سے مٹانا، ہر ایسے شخص سے تعلق توڑنا جو قومی وحدت کے خلاف کسی قسم کے

Page 107

خطبات طاہر جلد ۹ 102 خطبه جمعه ۶ ار فروری ۱۹۹۰ء وسو سے پیدا کرتا ہو اور جس کا آخری نتیجہ طَغَو “ بنتا ہو یعنی بغاوت کرنا انحراف کرنا ،حد سے بڑھنا.قرآن کریم نے اس مضمون کو ایک اور پہلو سے بھی بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے طَغَو کا جرم کیا.یعنی جو بغاوت میں سرکشی میں ملوث ہوئے اور طاغوت کے تابع چلے ،ان کی سزا ان کی اپنی طاغوتی حرکتوں کے نتیجے میں ان کو ملتی ہے اور ان کی سزا کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے.چنانچہ شمود کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے فَاهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ (الحاقة :۶) وہ اپنی سرکشی کے ذریعے سزا پا گئے.یعنی ان کے لئے جو سزا مقرر ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ حد سے بڑھا ہوا عذاب، ایسا عذاب جس کا بیان ممکن نہ ہو.یعنی اس حیرت انگیز طور پر وہ اس قدر طغیانی دکھا رہا ہو.اس قدر جوش دکھا رہا ہو کہ اس کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر حد پھلانگ چکا ہے.تو قو میں طاغوت کی غلامی میں جس قسم کے جرائم کرتی ہیں ، بعینہ ویسا ہی عذاب ان کے لئے مقدر ہوتا ہے جو دراصل ان کے اعمال کی ایک دوسری شکل ہے پس جو لوگ طغیانی کے مرتکب ہوں گے وہ طغیانی کے ذریعے تباہ کئے جائیں گے.چنانچہ قرآن کریم نے حضرت نوح کی قوم کو بھی جب ہلاک فرمایا تو اس کا نقشہ اس طرح کھینچا.لَمَّا طَغَا الْمَاءِ (الحاقہ :۱۲) جب پانی نے سرکشی دکھائی.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تو میں خدا کے خلاف سرکشی دکھاتی ہیں، ان کا جرم یہ ہوتا ہے کہ ادنی ہو کر اپنے آقا کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ ساری کائنات کو انسان کے غلام کے طور پر پیدا فرمایا گیا ہے انسان کے لئے مسخر فرمایا گیا ہے.تو دیکھیں کیسا خوبصورت جواب ہے ان کی سزا کا کہ پھر جو تمہارے غلام ہم نے بنائے تھے، ہم ان کو تمہاری غلامی سے آزاد کرتے ہیں.ان کو تمہارے خلاف اٹھا دیں گے.تمہارے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کریں گے.تم نے اپنے آقا کے خلاف بغاوت کی اور تمہارے آقا نے جو غلام تمہیں بخشے تھے، وہ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے.پانی کا بھی طغیانی کے طور پر استعمال ہونا دراصل اسی لفظ طَغَو“ سے نکلا ہے جس کا مفہوم ہے سرکشی کرنا.تو پھر پانی بجائے اس 66.کے کہ تمہارے لئے رحمت بن کر برستا، وہ سرکشی کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوگا اور تمہیں ہلاک کر دے گا.اس مضمون کو غالباً سورۃ نوح میں ہی اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ جب نوح نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی اطاعت کرو گے تو پانی تمہارے لئے رحمت کا پانی بن کر برسے گا.پس پانی اپنی ذات میں انسان کی غلامی بھی کر سکتا ہے اور انسان کے خلاف بغاوت کر کے اس پر غالب بھی

Page 108

خطبات طاہر جلد ۹ 103 خطبه جمعه ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء آسکتا ہے.اسی طرح کائنات کی تمام قوتیں ایسی قوموں سے باغی ہو جایا کرتی ہیں جو خدا سے باغی ہو جائیں.پس طاغوت کے لفظ میں بہت ہی گہری حکمتیں ہیں اس کو سمجھنا چاہئے.جس قسم کی سرکشی کوئی انسان کرتا ہے اسی قسم کی سزا وہی سرکشی اس کے لئے مہیا کر دیتی ہے.، آج کی دنیا میں اس کی مثال Aids کی بیماری ہے.جس میدان میں آج مغرب کی دنیا نے خدا کے خلاف کھلی کھلی بغاوت کی ہے.جنسیات کے مضمون میں انہوں نے ہر حد کو تو ڑ دیا ہے اور ایسی کھلی بغاوت ہے کہ ان کے ریڈیو، ان کے ٹیلی ویژن ، ان کے اخبارات بے حیائی میں حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں اور اسی میدان میں ان کی سزا کے سامان اس طرح مہیا کئے گئے کہ جنسی طاقتوں نے ان کے خلاف بغاوت کر دی ہے.جہاں سے وہ لذت ڈھونڈ نا چاہتے ہیں وہاں سے ان کو عذاب مہیا کیا جا رہا ہے.پس یہ مضمون کوئی معمولی مضمون نہیں ہے اس میں بہت گہرائی اور بہت ہی وسعت ہے.ہر انسان جس قسم کی روحانی بغاوت میں مبتلا ہوگا ، جب وہ حد سے بڑھ جائے گی تب اس کی سزا مقدر ہوگی.یہاں اس سوال کا بھی جواب آجاتا ہے کہ کیوں ہر جرم کے وقت انسان پکڑا نہیں جاتا؟ کیوں قومیں ابتدا میں ہی پکڑی نہیں جاتیں؟ اس لفظ میں یہ مضمون داخل ہے کہ جب کوئی حد سے بڑھ جائے تب اس کی سزا کا وقت ہوگا اور پھر سزا حد سے بڑھ جائے گی.پس قوموں کو ان کے جرم کی طاقتوں ، ان کے عصیان کی طاقتوں کے مطابق مہلت دی جاتی ہے اور گناہوں کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کی تقدیر میں کچھ حدیں مقرر ہیں.جو قو میں وہ حدیں پھلانگ جاتی ہیں.پھر ان کی سزا کا دور شروع ہو جاتا ہے اور وہی چیزیں جن میں انہوں نے حد سے تجاوز اختیار کیا ہوتا ہے، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور ان کے خلاف پھر تجاوز اختیار کرتی ہیں.یہ ایک عام جزاوسزا کا مضمون ہے جو ساری کائنات میں جاری و ساری دکھائی دیتا ہے.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے لئے اس میں بہت غور کرنے کے مواقع اور اس سے عبرت حاصل کرنے کے مواقع ہیں.ہم نے بہت لمبے عرصے تک بنی نوع انسان کی خدمت کرنی ہے ہمارا کام یہ نہیں کہ ایک ہی نسل میں اپنے مقصد کو حاصل کر جائیں بلکہ ہمارے مقصد کا حصول نسلاً بعد نسل جس طرح جھنڈے منتقل کئے جاتے ہیں اس طرح اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا چلا جائے گا اور ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ

Page 109

خطبات طاہر جلد ۹ 104 خطبہ جمعہ ۶ار فروری ۱۹۹۰ء ہر نسل اپنے مطلوب کے قریب تر ہوتی چلی جائے ، دور نہ ہے.اس اعلیٰ اور عظیم الشان مقصد کے حصول کے لئے جس کا دائرہ ایک نسل پر نہیں پھیلا ہوا بلکہ مسلسل بیسیوں نسلوں تک پھیلا ہوا ہے، اتنی ہی زیادہ محنت ، اتنی ہی زیادہ توجہ اتنی ہی زیادہ حکمت اور منصوبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے پس ہمیں موجودہ نسلوں کو ہر قسم کی طغیانی سے پاک کرنا چاہئے خدا تعالیٰ کی رضا کے سامنے سر جھکانے پر آمادہ کرنا چاہئے اس مضمون کو بچوں کو بڑوں کو سمجھانا چاہئے ، ان کو یہ بتانا چاہئے کہ قومیں ہمیشہ اسی طرح ہی ہلاک ہوا کرتی ہیں اور تمہارے سامنے ہلاک ہونے والی بعض قوموں کی تقدیریں بن رہی ہیں ان کے نقوش ابھرتے چلے جارہے ہیں تم کیوں ان سے نصیحت نہیں پکڑتے ؟ جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے اس آیت پر غور کرتے ہوئے اس بدنصیب ملک کا خیال آنا ایک طبعی امر بن چکا ہے کیونکہ پاکستان جا کر وہاں سے ہر آنے والا یہ انتہائی دکھ بھری اور تکلیف دہ کہانی سناتا ہے کہ ہر دفعہ وہاں جانے پر ہمیں طغیانی بڑھی ہوئی دکھائی دی ہے، ہر شعبہ زندگی سے امن کلیتہ اٹھ چکا ہے، شرافت دن بدن ملتی اور غائب ہوتی چلی جاتی دکھائی دیتی ہے اور بے حیائی ظلم، زیادتی ، ہرقسم کی بغاوت جو دینی قدروں سے ہو یا عام انسانی قدروں سے ہو وہ زیادہ زور مارتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، زیادہ سرکش ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.اس کی تفصیل بڑی دردناک ہے اور بھیانک ہے.قوم سے رحم مٹتا چلا جارہا ہے اور ظلم بڑھتا چلا جارہا ہے.کراچی میں جو واقعات پیچھے ہوئے ان میں پانچ نوجوانوں کو پہلے باندھ کر بہت ہی خوفناک از بیتیں دی گئیں، اس کے بعد ان کو ایک کار میں جو غالباً انہی کی تھی ، اس میں بندھا ہوا بٹھا کر کار کو آگ لگا دی گئی اور ڈاکٹروں کی رپورٹ یہ ہے کہ وہ اس حالت میں زندہ تھے اور اس آگ سے جل کر مرے ہیں.اس ظلم سے یہاں تک قوم کو جھٹکا لگا ہے کہ مختلف راہنماؤں نے بیان دئے ہیں کہ یہ تو کوئی مسلمانی نہیں ہے.تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر ان کو پتہ چلا ہے کہ یہ مسلمانی نہیں ہے.وہ ساری منازل جو بالآخر قوم کو یہاں تک پہنچا گئی ہیں.وہ ہر منزل غیر مسلمان ہونے کی دلیل تھی ، وہ ہر منزل بتا رہی تھی کہ تمہارا قدم اسلام سے غیر اسلامی طاقتوں کی طرف ہے.ایمان سے طاغوتی طاقتوں کی طرف اٹھ رہا ہے اور دن بدن تم طاغوت کے غلام ہوتے چلے جارہے ہو.رشوت ستانی کا تو یہ عالم ہے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ جب میں کراچی پہنچا تو مجھے

Page 110

خطبات طاہر جلد ۹ 105 خطبه جمعه ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء جلدی لاہور پہنچنا تھا اور وہاں ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھی نہیں ملتے جب تک یا پہلے تعلقات نہ ہوں یا بہت پہلے سے نہ خریدے گئے ہوں یا آپ غیر معمولی زیادہ قیمت ادا نہ کر دیں.اور گاڑی کا یہ حال ہے وہ ٹکٹ جو ایک سو بیس روپے کا مہیا ہوتا تھا ، انہوں نے کہا کہ جب میں نے کوشش کی کہ مجھے کسی ذریعہ سے مل جائے تو مجھے صاف انکار ہو گیا کہ سارے ٹکٹ بک چکے ہیں.کوئی گنجائش نہیں پھر مجھے کسی نے کہا کہ بے وقوف نہ بنوقلی ٹکٹ بیچتے ہیں.آپ چھ سات سور و پید ان کو دیں تو آپ کو ٹکٹ مل جائیں گے تو بجائے اس کے کھڑکیوں پر ٹکٹ مل رہے ہوں وہاں اسٹیشن کے قلی ٹکٹ بیچتے پھرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے بتایا کہ ایک سو بیس روپیہ کا ٹکٹ غالبا ایک سو میں کا ہی بتایا تھا، وہ ساڑھے چھ سوروپے میں میں نے مجبور خریدا.تو جس قوم کا یہ حال ہو چکا ہو ظاہر بات ہے کہ اس کا ایک ہی نتیجہ ذہن میں آتا ہے کہ یہ قوم اپنی سب حدیں پھلانگ چکی ہے.اتنے رخنے ان میں پڑ چکے ہیں کہ دن بدن اور زیادہ پھٹتے چلے جارہے ہیں.بعض دفعہ رخنے پڑنے کی تصویر اتنی تیزی سے بنتی ہے کہ آنکھ اس کو دیکھ نہیں سکتی پھر اس کو Slowmotion میں دکھانا پڑتا ہے.بعض دفعہ اتنی آہستہ بن رہی ہوتی ہے یا اتنے وسیع پیمانے پر بن رہی ہوتی ہے کہ بیک وقت آنکھ اس کا اندازہ نہیں کر سکتی.پھر اس کو تیزی کے ساتھ اکٹھا کر کے دکھانا پڑتا ہے.آپ نے دیکھا ہوگا شاید کہ بعض دفعہ گولی لگنے سے جو شیشے پھٹتے ہیں ان کو معلوم کرنے کے لئے کہ کس طرح پھٹے تھے، بہت ہی آہستہ رفتار کے ساتھ اس تصویر کو دہراتے ہیں پھر انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت گولی لگی تو پہلی درزیں کہاں کہاں پڑی تھیں، پھر کیا رخنے ظاہر ہوئے ، پھر کس طرح شیشہ پھٹنا شروع ہوا کیونکہ بہت تیزی سے واقعہ ہو رہا ہے.اس کو آہستہ کر کے دکھانا پڑتا ہے.پاکستان کا اس وقت یہ حال ہو چکا ہے کہ یہاں تیزی سے بھی ہو رہا ہے اور اتنے وسیع پیمانے پر بھی ہو رہا ہے کہ نظر چندھیا جاتی ہے اس کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہر سطح پر رخنے پڑچکے ہیں اور مزید پڑتے چلے جارہے ہیں اور اس قوم کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہم سے یہ کیوں ہو رہا ہے ان کی تاریخ میں جو قریب کی تاریخ ہے، جو سب سے بڑا تاریخی کارنامہ سرانجام دیا گیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار تھا اور قومی سطح پر انکار تھا.ایک ایسا انکار جس کے متعلق آج تک علماء کہتے چلے جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ طاغوت کا انکار تھا اور توحید سے وابستہ ہونے کے لئے امت کو ایک کرنے کے لئے

Page 111

خطبات طاہر جلد ۹ یہ انکار ضروری تھا.106 خطبہ جمعہ ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء جہاں تک قرآن کریم کے مضمون کا تعلق ہے.فی ذاتہ یہ بات غلط قرار نہیں دی جاسکتی کہ طاغوت کے انکار کے بغیر کامل ایمان میسر نہیں آسکتا اس میں کوئی شک نہیں لیکن اگر واقعۂ طاغوت کا انکار ہوا ہو تو جو ایمان نصیب ہوتا ہے اس کی تصویر قرآن کریم نے کھینچی ہے کہ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا (البقره: ۲۵۷) وہ ساری قوم ایک وجود بن جایا کرتی ہے جو ہر قسم کی طاغوتی طاقتوں کا انکار کر دیتی ہے اور پھر ایمان لاتی ہے اور اس طرح توحید سے چمٹ جاتی ہے کہ اس کے لئے اس سے الگ ہونا ممکن ہی نہیں رہتا.ہمیشہ کے لئے تو حید اس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے.یہ ہے نتیجہ جو قرآن کریم نے نکالا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کے نتیجے میں ان کو جو تو حید ملی اس توحید کا نقشہ بھی قرآن کریم نے ہی کھینچا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ( الحشر: (۱۵) کیسی بدنصیب تو حید ان کو حاصل ہوئی کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک ہو گئے ہیں انکار اور کفر اور ظلم کے نتیجے میں ، دشمنی کے نتیجے میں یہ اکٹھے ہوئے ہیں اور چونکہ نفرت کے نتیجے میں اکٹھے ہوئے ہیں خود نفرت کا شکار ہیں محبت کے نتیجے میں اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ نفرت کے نتیجے میں اس طرح اکٹھے ہوئے ہیں کہ ہر دل پھٹا ہوا ہے.قرآن کریم نے جو کسوٹی پیش کی ہے اس کسوٹی پر آپ اس قوم کو پرکھ کر دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ نہ صرف یہ کہ واقعہ یہ اس وقت بھی پھٹے ہوئے تھے جب جماعت احمدیہ کو الگ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کے نتیجے میں ایک وحدت کا اعلان کیا تھا یعنی مذہبی لحاظ سے اس وقت بھی پھٹے ہوئے تھے بلکہ اس کے بعد ہر دوسری جہت سے بھی پھٹنے لگے.کوئی ایک پہلو بھی پاکستانیوں کی شخصیت کا ایسا نہیں رہا جس میں پھر در زیں نہ پڑنی شروع ہوں مزید رخنے نہ پیدا ہونے شروع ہوئے.بکھرتے چلے جارہے ہیں جس طرح شیشہ ٹوٹتا ہے تو کہتے ہیں کہ کرچی کرچی ہو گیا یہ تو بدنصیب ملک ہے جو کرچی کرچی ہوتا چلا جا رہا ہے.مذہبی وحدت کا تو یہ حال ہے کہ ہر فرقہ ایک دوسرے کے خلاف عناد میں دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے.جماعت احمدیہ کے خلاف ہر قسم کا گند جو سفا کا نہ رنگ میں شائع کیا جاتا ہے ، اس کو ایک طرف چھوڑ دیجئے.کل ہی مجھے وہاں سے بعض اشتہارات ملے ہیں جو شیعوں کے خلاف ہیں اور ایسی

Page 112

خطبات طاہر جلد ۹ 107 خطبہ جمعہ ۶ار فروری ۱۹۹۰ء گندی زبان استعمال کی گئی ہے ایسا خوفناک اشتعال دلایا گیا ہے شیعہ علماء کی تحریروں سے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ چیزیں پھیلیں تو نہایت خون ریز فسادات شروع ہو جائیں گے اور وہ جو اشتہارات شائع کرنے والے ہیں معروف سنی علماء ہیں.یہ نہیں کہ کوئی مخفی اشتہارات ہیں سب کو پتا ہے کہ کون ایسی حرکتیں کر رہا ہے.صوبائی طور پر تقسیم ہوئی تھی اور ایک وقت ایسا تھا کہ ہم اس بات پر فکر مند اور پریشان تھے کہ صوبائی تقسیمیں شروع ہوگئی ہیں.اب صوبے خود تقسیم ہو رہے ہیں شہر تقسیم ہونے لگے کوئی ایک افتراق کی راہ ایسی نہیں ہے جو کسی جگہ جا کر بند ہو چکی ہو.کوئی رخ ایسا نہیں ہے افتراق کا جس کی کوئی آخری منزل ہو ہر تفریق کے بعد ایک اور تفریق ہوئی شروع ہو جاتی ہے.پہلے سندھ اور پنجاب کی تفریق تھی ، پنجاب اور صوبہ سرحد کی تفریق تھی ، بلوچستان اور پنجاب کی تفریق تھی ، اب پنجاب عین بیچ میں سے بٹ چکا ہے، سندھ بٹ چکا ہے، کراچی بٹ چکا ہے، حیدر آباد بٹ چکا ہے اور ان کے اندر پھر مزید رخنے پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں.یہ جزا وہ جزا نہیں ہے جس کو قرآن کریم کی یہ آیت بیان کرتی ہے.فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنَ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا کہ دیکھو اگر واقعہ تم نے طاغوت کا انکار کیا اور تمام طاغوتی طاقتوں سے تعلق توڑ لیا تو تم طغیانی میں نہیں بڑھو گے تمہیں وحدت عطا کی جائے گی تمہیں قوت عطا کی جائے گی تمہارا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا پختہ ہو جائے گا کہ پھر اس کے ٹوٹنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہے گا.یہ کیسا انکار تھا جس انکار نے اس قوم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے کیا قرآن کریم کی اس آیت کے تابع انکار تھا؟ کیا قرآن کریم کی یہ پیشگوئی اور یہ وعدے نعوذ باللہ جھوٹے نکلے؟ ہرگز نہیں ! صاف ظاہر ہے کہ یہ ایمان کا انکار ہے اور طاغوت پر ایمان لانے کے مترادف بات ہوئی ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو ایسا نا شکر انہیں ایسا بے وفا نہیں کہ وہ قوم جو اس کی خاطر عظیم الشان اقدامات کر رہی ہو اور طاغوت کو مٹانے کیلئے کارروائیاں کر رہی ہو، اس قوم کو پکڑ کر اپنے سے تعلق توڑ کر طاغوت کے حوالے کر دے.اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا خلاصہ طغیانی ہے.اسی لئے میں نے وہ آیت آپ کو پڑھ کے سنائی تھی جس میں خمود کا ذکر ہے.فَاهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ (الحاقہ : ۶) وہ اپنی سرکشی کا ہی شکار ہو کر رہ گئے.وہی سرکشی جو انہوں نے خدا اور خدا والوں کے خلاف اختیار کی تھی ، وہی ان کے لئے

Page 113

خطبات طاہر جلد ۹ 108 خطبہ جمعہ ۶ار فروری ۱۹۹۰ء وہ طاغیہ بن گئی جو حد سے بڑھے ہوئے عذاب کی صورت میں ان کو ہلاک کر گئی ان کو دنیا سے مٹا گئی.پس میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ہماری تمنا ہے کہ ایسا ہو.میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمارا یہ خوف ہے کہ یہ قوم اگر نہ سمجھی تو ایسا نہ ہو جائے.آپ کو یاد ہوگا کوئی چند سال پہلے میں نے خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بتایا کہ اس قوم کا رخ کس طرف ہے اور کس قسم کی سزائیں ان کا مقدر معلوم ہوتی ہیں.ان میں ایک یہ مضمون بھی تھا کہ لوگ لوگوں کے خلاف ہو جائیں گے ہر شخص ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے گا اور ملک سے امن اٹھ جائے گا.وہ خطبہ آپ دوبارہ سنیں یا وہ خطبات سنیں تو آپ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کس طرح چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے جو سرکش ہونے والی قوموں کے حالات بیان کئے تھے وہ پاکستان کے حالات پر کتنے دردناک طور پر اطلاق پارہے ہیں اور ان پر ثابت ہوتے ہیں.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بڑی گہری فکر کی بات ہے.جہاں تک تمام دنیا کی جماعتوں کا تعلق ہے، ایک تو ان کے لئے اس بات میں ایمان کی مضبوطی کا پہلو ہے.یعنی ایک پہلو سے ایمان افروز واقعہ ہے کہ ان حالات کو دیکھنے کے بعد دنیا کے پردے پر جہاں بھی کوئی احمدی بستا ہے وہ ایک لمحہ کے لئے بھی گمان نہیں کرسکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹے تھے کیونکہ اگر آپ نعوذ باللہ جھوٹے تھے تو قرآن کریم کی یہ آیت پھر بالکل مہمل اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے کہ طاغوت کا انکار کرنے والے خدا سے مضبوط تعلق قائم کر لیا کرتے ہیں اور ایک وحدت میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نعوذ باللہ جھوٹے تھے تو جس قوم نے اس شدت کے ساتھ قومی سطح پر پورے کامل غوران کے کہنے کے مطابق فکر اور تدبر کے بعد ایک سوچا سمجھا فیصلہ کرتے ہوئے انکار کیا ہے، اس قوم کو جزا ملنی چاہئے یا سزاملنی چاہئے یہ سیدھا سوال ہے.پس اتنے بڑے عظیم الشان فیصلہ کے بعد جوان کے فکر کے مطابق طاغوت کا کلیۂ قومی سطح پر انکار تھا، وہ کیسا خدا ہے جس نے ان کو طاغوت کے حوالے کر دیا اب یہ دیکھنے کے لئے تو کسی خاص بصیرت کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان طاغوت کے حوالے ہے اور احمدیت کا بڑے سے بڑا دشمن بھی خود یہ کہتا چلا جارہا ہے کہ ہاں ہم طاغوتی طاقتوں کے حوالے ہو چکے ہیں.پھر کس نے

Page 114

خطبات طاہر جلد ۹ 109 خطبہ جمعہ ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء آپ کو طاغوت کے حوالے کیا کس خدا نے ؟ اس خدا نے جس پر آپ ایمان لائے تھے جس کی خاطر آپ نے نعوذ باللہ طاغوتی طاقتوں سے تعلق توڑا تھا اس لئے یہ ایسی قطعی منطق ہے، ایسی یقینی دلیل ہے کہ دنیا کے پردے پر جو احمدی بھی ان حالات کا مشاہدہ کرے اور اس کے پس منظر میں ہونے والے واقعات کو نگاہ میں رکھے، اس کا ایمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایسا مستحکم ہو جائے گا کہ اس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ لَا انفِصَامَ لَهَا ان حالات کو دیکھنے کے بعد دنیا کے پردے پر کوئی احمدی ایسا نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کڑے پر ہاتھ نہ ڈال دے، جو خدا کی رسی سے بندھا ہوا ہے اور پھر یہ اقرار نہ کرے کہ ہاں اے خدا میں نے اس کڑے پر ہاتھ ڈالا اور مجھے یہ جزا مل گئی ہے کہ لَا انفِصَامَ لَهَا نہ اب یہ کڑا ٹوٹ سکتا ہے نہ میرا اس سے یہ تعلق ٹوٹ سکتا ہے لیکن دوسرے پہلو سے ایک بہت ہی بڑی عبرت بھی اس میں ہے اور ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی آتی ہے.عبرت اس میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسی قوموں کو پھر معاف نہیں کیا کرتا جو حد سے تجاوز کر جاتی ہیں اور نام کے لحاظ سے ان کا کسی سے بھی تعلق ہو، اس تعلق کی پھر پرواہ نہیں کیا کرتا.پس جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ اس کڑے پر ہاتھ ڈالنے کے بعد پھر کبھی اس سے بے وفائی نہ کرے ور مسلسل اپنی ذات پر نگران رہے، ہم میں سے ہر شخص بحیثیت شخص، ہر جماعت بحیثیت جماعت، ہر بحیثیت تنظیم ، ہر گھر والا بحیثیت گھر کے مالک کے ، ہر عورت بحیثیت ماں کے یا بہن کے یا اور اپنے تعلقات کے دائرے میں اس بات پر نگرانی کرے کہ ہم میں کسی قسم کی طغیانی کے آثار نہ پیدا ہونے شروع ہو جائیں.طغیانی کا جو مضمون ہے یہ اپنی ذات میں ایک بہت ہی واضح تصویر پیش کرتا ہے.طغیانی یونہی اچانک تو نہیں آجایا کرتی.اس سے پہلے آثار پیدا ہوتے ہیں لہریں اٹھتی ہیں.ہواؤں کے مزاج بگڑنے لگتے ہیں.دیکھنے والوں کو خواہ موسم والوں نے پیش خبری کی ہو یا نہ کی ہواندازہ ہو جایا کرتا ہے پرندوں کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کتوں کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے ، وہ بھی بے چین ہوتے ہیں بھونکنے لگتے ہیں ، کوے کائیں کائیں کرنے لگتے ہیں اور جو بعض بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کی بیماریوں کی علامتیں ظاہر ہونے لگ جاتی ہیں.چنانچہ ایک تجربہ آج سے آٹھ دس سال پہلے کیا گیا ایک بچی کو موسم بگڑنے پر دمے کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی اور ڈاکٹروں نے جب اس کا تفصیل سے اور

Page 115

خطبات طاہر جلد ۹ 110 خطبہ جمعہ ۶ ار فروری ۱۹۹۰ء جائزہ لیا تو یہ بات دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دنیا کا کوئی آلہ ابھی موسم کی تبدیلی کا حال جانچ نہیں سکتا تھا کوئی علامت نہیں پکڑ سکتا تھا لیکن اس کی بیماری اس علامت کو پکڑ لیا کرتی تھی اور جب وہ بیماری کے آثار ظاہر ہوتے تھے تولا ز ما موسم میں وہی تبدیلی پیدا ہوتی تھی جو اس تبدیلی سے پہلے وہ بیماری اس کو پکڑ لیتی تھی.تو خدا تعالیٰ نے تو Consciously یعنی باشعور طور پر بھی اور غیر شعوری طور پر بھی انسان کے اندر یہ طاقتیں پیدا فرمائی ہیں کہ وہ حالات کا جائزہ لے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ گناہ جڑ پکڑ رہے ہوں طغیانیاں آہستہ آہستہ سر اٹھا رہی ہوں اور کسی صاحب بصیرت کو، کسی آنکھوں والے کو کچھ دکھائی نہ دے.جو خاندان ہلاک ہوتے ہیں جن کی بچیاں آزاد ہو کے گھروں سے نکل جاتی ہیں وہ خاندان جن کی اولادیں ان کے لئے کسی نہ کسی طرح ذلت کا موجب بنتی ہیں ان کا یہ کہنا اچانک یہ ہو گیا ، ہم بے بس ہیں بالکل جھوٹ ہے.طغیانی کا مضمون ہر جگہ بالکل اسی طرح صادق آتا ہے جس طرح بیرونی دنیا میں صادق آتا ہے.ایک دن میں طغیانی نہیں ہوا کرتی اور خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ہم مہلت دیتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ حدوں سے تجاوز کر جاؤ، یہ بتاتا ہے کہ بہت لمبا عرصہ ان چیزوں کے پیدا ہونے اور اپنے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں لگتا ہے.پس کسی کے لئے یہ کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا کہ جی ہم اچانک پکڑے گئے.چھوٹے بچے جب سکول جاتے ہیں اور واپس آ کے کچھ حرکتیں کرتے ہیں تو ہر صاحب بصیرت کے لئے اس میں ایک انتباہ ہوتا ہے.اسی وقت وہ پہچان سکتا ہے کہ اس بچے کا رخ کس طرف ہو چکا ہے.چنانچہ بعض مائیں جو ذہین ہیں اور ان باتوں کا خیال کرتی ہیں ، بعض دفعہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچے ، دو دو، تین تین سال کے میرے پاس لے کے آئی ہیں کہ اس میں یہ بات پیدا ہو رہی ہے.جب ٹیلی ویژن دیکھتا ہے تو حرکت کرتا ہے.جب کنڈرگارٹن جاتا ہے تو یہ حرکت کرتا ہے اور ہمیں فکر پیدا ہوگئی ہے.وہ بالکل معمولی سی بات ہوتی ہے اور میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں که کیسی پاکیزہ اور کیسی اعلیٰ اور کیسی ذہین مائیں خدا تعالیٰ نے احمدیت کو بخشی ہیں.پھر ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ یہ طریق اختیار کریں.یہ کریں.چنانچہ یہیں انگلستان میں ایک ایسی ماں اپنے بچے کو لے کے آئی کہ یہ حرکت کرتا ہے.مجھے اس سے بڑی فکر پیدا ہوگئی ہے میں نے اسے سمجھایا.اس کے بعد دوبارہ پھر چند مہینے یا ایک سال کے بعد وہ خاندان آیا اور انہوں نے بتایا کہ اللہ کے فضل سے اب

Page 116

خطبات طاہر جلد ۹ 111 خطبہ جمعہ ۶ ار فروری ۱۹۹۰ء ہمیں تسلی ہو گئی ہے بالکل ٹھیک ہے.جرمنی سے ایک خاتون کا خط آیا کہ میری بچی اس عمر میں ہے ،اس نے یہ بات شروع کر دی ہے.میں بڑی پریشان ہوں تو وہ ذہین قومیں جنہوں نے لمبے فاصلے طے کرنے ہیں.جن کا کام ایک نسل سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ نسلاً بعد نسل پھیلا ہوا ہے، انہیں لازماً اسی طرح صاحب بصیرت ہونا ہوگا.انہیں لازماً اسی طرح حساس بننا ہوگا.جب طغیانیاں زور پکڑ جائیں تو پھر ان کے سامنے کوئی پیش نہیں جاسکتی.بڑی سے بڑی قو میں بھی ان کے سامنے بالکل بے حقیقت ہو کر رہ جایا کرتی ہیں.اب یہ چھوٹے سے طوفان آئے ہیں انگلستان میں آپ نے دیکھ لیا ہے کہ کتنی بڑی عظیم الشان طاقت ہے، انگلستان کی یعنی گئی گزری ہونے کے باوجود ابھی غریب ملکوں کے مقابل پر بہت ہی بڑی ایک طاقت ہے، بہت منتظم ہے، ہرقسم کے سامان ان کو مہیا ہیں لیکن ہواؤں کے سامنے اور بارش کے سامنے اس طرح بے بس ہو گئے کہ کوئی بھی پیش نہیں جاتی.جس طرح پاکستان کے جھونپڑیوں والے بے بس ہو جایا کرتے ہیں اسی طرح یہ بڑی بڑی مضبوط عمارتوں والے بے بس ہو کر رہ گئے.وہاں یونائیٹڈ سٹیٹس یعنی امریکہ میں بعض اچا نک آنے والے خوفناک طوفان ہیں.اچانک ان معنوں میں کہ جب وہ پہنچتے ہیں ساحل تک تو بڑی تیزی کے ساتھ وہ شدت اختیار کرتے ہیں مگر ان معنوں میں نہیں کہ وہ بنتے ہی وہیں ہیں.سینکڑوں میل پہلے، بعض دفعہ مہینوں پہلے سے وہ پرورش پارہے ہوتے ہیں.وہ آثار بن رہے ہوتے ہیں لیکن جب وہ کنارے تک پہنچتے ہیں اور کسی شہر پر کسی ساحلی قصبے پر حملہ کرتے ہیں تو وہ طوفان اس طرح ہیں جیسے بالکل اچانک پیدا ہوئے ہوں.ان کے اندر اتنی طاقت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ مضبوط چھتیں اچانک اڑ جاتی ہیں.کاریں کئی کئی فٹ بلندی تک اٹھ کے پھر گرتی ہیں اچانک انسان کھڑا ہوا ایک دم بگولے کی طرح ہوا میں اڑ جاتا ہے اور پھر سینکڑوں فٹ کی بلندی سے گرتا ہے.بڑے بڑے مضبوط گارڈر، بڑے بڑے بھاری کنکریٹ کے تو دے کے تو دے یوں ہوا میں اڑ جاتے ہیں جس طرح چھوٹے سے کنکر کو انسان اچھال دے.اس وقت انسان کی کیا پیش جاسکتی ہے.قرآن کریم نے بہت خوبصورت نقشہ کھینچا ہے.لَمَّا طَعَا الْمَاءِ ان کو الصّاعِيَةِ نے پکڑ لیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا عذاب جس کے سامنے انسان بالکل بے بس اور بے اختیار ہو کر رہ جائے.پس جب یہ الطاغية بنتی ہے، اس وقت آپ کچھ نہیں کر سکتے.جب آپ کے کسی بچے

Page 117

خطبات طاہر جلد ۹ 112 خطبہ جمعہ ۱۶ار فروری ۱۹۹۰ء میں، آپ کے کسی عزیز میں یہ بغاوت اپناز ور مار چکی ہوتی ہے اور وہ اپنا سر اٹھا لیتا ہے پھر وہ وقت نہیں ہے کہ آپ اس کو سنبھال سکیں.پھر رونے اور حسرت کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا.ہاں دعا کے ذریعہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے.اور دعا کے ذریعے ہر طغیانی پر بھی فتح پائی جاسکتی ہے.دیکھیں حضرت نوح بھی تو اسی طغیانی کا شکار تھے.لیکن کس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کو اس طغیانی پر فتح عطا فرما دی.پس یہ ایک الگ مضمون ہے لیکن عام حالات میں انسان، جب سرکشی نی انتہا کو پہنچے تو پھر انسان بے بس ہو جایا کرتا ہے.اس لئے آپ خصوصاً وہ لوگ جو مغربی ممالک میں رہتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو آج کل بد قسمتی سے تیسری دنیا کے ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں نام کی مذہبی قدریں رہ گئی ہیں لیکن ہر لحاظ سے ہر بدی زور مار چکی ہے ان کو چاہئے کہ اپنی اولا د کو، اپنے گردو پیش کو ، اپنے ماحول کو ، اپنے عزیزوں کو ہمیشہ باریک نظر سے دیکھیں اور آثار جب پیدا ہور ہے ہوں اس وقت ان آثار سے نپٹنے کے سامان کریں.ان آثار سے نپٹنے کے سامان میں دعا بھی شامل ہے اور اس وقت کی دعا زیادہ موثر ہوگی.پھر دوسرے ذرائع دعا کے لئے لکھنا، جماعت کے نظام سے تعلق جوڑنا اور ہر قسم کی کوششیں کرنا جب کہ ابھی بیماری سراٹھا رہی ہے.جب کینسر بن چکی ہو جب اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہو تو پھر کچھ پیش نہیں جاسکتی.چنانچہ کینسر بھی دراصل اس الطَّاغیة کی ایک شکل ہے.وہ بیماری جو بے قابو ہو جائے جو سرکش ہو جائے.جو نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دے.پس جماعتوں میں بھی جہاں جہاں ایسے لوگ پیدا ہوں جو ایسے وسوسے پھونکتے ہیں جو بالآخر نظام کے خلاف بغاوت پر منتج ہوتے ہیں ان کی بھی نگرانی کریں اور وقت پر انہیں سمجھا ئیں.معمولی کوششوں سے بھی ابتدا میں چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے.پس عبرت بھی ہے جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اور ساری دنیا کی جماعت کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کبھی بھی جماعت احمدیہ کو اس انجام تک نہ پہنچائے کہ اس کے نفس کی الطَّاغية اس پر قابو پالے اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے قدرت اس سے بیرونی الطَّاغِيَةِ کے ذریعے انتقام لے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں راہ راست پر قائم رکھے اور وہ تو ازن اختیار کرنے کی توفیق بخشے جو اسلامی تعلیمات کی روح ہے.آمین.

Page 118

خطبات طاہر جلد ۹ 113 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء Friday The 10th کی پیشگوئی عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئی.مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد روس کا ذکر خیر ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ سال ایک خطبے میں میں نے دیوار برلن کے گرنے کا ذکر کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ اس صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک یہ واقعہ ہے اور بلاشبہ سال ۱۹۸۹ء میں ہونے والے تمام واقعات میں سب سے زیادہ اہم یہ واقعہ تھا.چنانچہ تمام دنیا کے اخبارات میں اس روز یعنی دوسرے روز جب یہ واقعہ ہوا ہے رات کو واقعہ ہوا صبح دوسرے دن یہی شہ سرخیاں لگیں اور سب سے زیادہ اہم اس بات کو قرار دیا گیا کہ دیوار برلن گر گئی ہے.اس سلسلے میں مجھے چند دن ہوئے اسلام آباد سے نصیر احمد صاحب طارق کی ایک چھٹی موصول ہوئی جس میں انہوں نے بعض ایسی باتوں کی طرف میری توجہ مبذول کروائی جن کی طرف پہلے میرا خیال نہیں گیا تھا.چنانچہ ان کا خط پڑھ کر میں نے اس پر پوری تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ جو باتیں انہوں نے لکھی تھیں وہ بالکل درست ہیں.اس دن جس دن یہ دیوار گرائی گئی ہے، سورج غروب ہو چکا تھا اور اگلے دن کی رات پڑ چکی تھی.اسلامی حساب سے گویا دن کی تاریخ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ختم تھی اور ایک نئے دن کی رات طلوع ہوئی تھی.جہاں تک انگریزی کیلنڈر کا تعلق ہے، نیا دن رات کے بارہ بجے شروع ہوا اور پھر وہ اگلے دن رات کے بارہ بجے تک جاری رہا.قابل توجہ

Page 119

خطبات طاہر جلد ۹ 114 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء بات یہ ہے کہ وہ دس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اور جتنے اخبارات میں دنیا میں یہ خبریں شائع ہوئیں ، ان پر Friday the 10th عنوان لگا ہوا تھا Date Line اس کی یہ بنتی تھی اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ وہ Friday ہے جب سے خدا تعالیٰ نے کشفاً مجھے یہ واقعہ دکھایا تھا، پہلا Friday ہے جو اسلامی مہینے کے لحاظ سے بھی اور انگریزی مہینے کے لحاظ سے بھی Friday The 10th کہلا سکتا ہے اور پوری طرح یہ دونوں تاریخیں ایک دوسرے کے ساتھ منطبق ہوگئی تھیں تو اول تو انگریزی تاریخوں کا اسلامی تاریخوں کے ساتھ منطبق ہو جانا یہ کم کم ہوتا ہے اور پھر یہ اس پر مزید اضافہ کہ صرف تاریخوں کا انطباق نہیں تھا بلکہ جمعہ کے دن یہ انطباق ہوا اور اسی دن یہ حیرت انگیز واقعہ بھی رونما ہوا.اس کے متعلق اخبارات نے جو مختلف خبریں لگائی ہیں، یہ اس کی تفصیل میں جانے کا تو وقت نہیں لیکن ایک اخبار وطن Weekly London نے جو بیان کیا ہے، اس سے انداز ہوتا ہے کہ اگلا دن یعنی دس تاریخ شروع ہونے کے وقت دراصل دیوار برلن کے اوپر حملہ ہوا ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ.حکومت نے اپنی سرحدیں کھولنے اور اپنے شہریوں کو مغرب کی طرف جانے کی اجازت دے دی اور پھر کیا تھا، شہریوں کا ایک سیلاب آ گیا اور نصف شب کے بعد لوگوں نے دیوار برلن پر ہلہ بول دیا.پس نصف شب کے بعد ہلہ بولنا بھی معنی رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسلامی لحاظ سے ہی وہ دس تاریخ شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ انگریزی کیلنڈر کے لحاظ سے بھی دیوار برلن پر جب ہلہ بولا گیا ہے تو دس تاریخ شروع ہو چکی تھی.اس سلسلہ میں مذہبی نقطۂ نگاہ سے جو اہمیت ہے،اس کے متعلق میں کچھ باتیں آپ کو یاد دلانی چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں.روس کے متعلق تقریباً سب احمدی جانتے ہیں، بچے بچے کو یہ علم ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ جماعت احمدیہ کو روس میں وہ ریت کے ذروں کی طرح پھیلا دے گا اور ایک رؤیا میں آپ نے روس کے عصا کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے دیکھا اور وہ عصا بھی تھا اور بندوق کی نالیوں کی طرح اس عصا کے اندر نالیاں بھی تھیں.یہ پیشگوئیاں جماعت میں عام ہیں یعنی ان کا علم عام ہے اور سب نظریں لگائے بیٹھے رہے کہ کب خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے آثار ظاہر فرمائے گا.اس سلسلے میں حضرت مصلح موعودؓ نے

Page 120

خطبات طاہر جلد ۹ 115 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء جماعت کو بار بارتحریک بھی کی ان دنوں میں یعنی انقلاب روس کے بعد شروع کے دس پندرہ سال تک باہر کی دنیا کے لئے روس کے علاقے میں داخل ہونا بہت ہی مشکل تھا.بعد ازاں سہولتیں پیدا ہوئیں لیکن پابندیاں بھی جاری رہیں ان دنوں میں تو بہت ہی مشکل کام تھا اور خطر ناک کام تھا اس لئے با قاعدہ جماعت کی طرف سے مبلغ تو وہاں بھجوایا نہیں جاسکتا تھا یعنی اجازت لے کر اور ویزا حاصل کر کے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو یہ توجہ دلائی کہ کچھ ایسے لوگ نکلیں جو روس تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اس راہ میں قربانیاں دیں.اس سلسلے میں جو اہم کردار حضرت مولوی ظہور حسین صاحب نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ادا کیا وہ تاریخ میں دہرانی چاہتا ہوں تا کہ روس کے تعلق میں ابتدائی خدمت کے وہ واقعات بھی آپ کے سامنے آجائیں اور اس مجاہد اول مولوی ظہور حسین صاحب کے لئے اور ان کے لئے جوان کے ساتھ شامل ہوئے تھے دعا کی بھی تحریک ہو.انہوں نے روس سے واپس آنے کے بعد کچھ عرصہ تو ایسی حالت میں گزارا کہ ان کو اپنے دماغ پر کوئی کنٹرول نہیں تھا.اتنا شدید ان کو وہاں عذاب دیا گیا ایسی ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنے حواس کھو بیٹھے تھے.جب ان کو ترکی کی سرحد سے پار باہر پھینک دیا گیا تو اتفاق سے کسی نے انداز ہ لگا کر کہ یہ ہندوستانی ہے، ان کو British Embassy میں پہنچا دیا اور چونکہ وہ پاگل پن کی حالت میں بھی ” قادیان قادیان“ بار بار کہتے تھے اس لئے کسی برٹش آفیسر کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ ہندوستان کے شہر قادیان کا رہنے والا ہے.چنانچہ انہوں نے جماعت سے تعلق قائم کیا اور پھر ان کو وہاں بھجوا دیا گیا.یہ وقتی دور جو بدحواسی کا تھا یہ زیادہ لمبا عرصہ نہیں چلا لیکن وہ جو تعذیب کے نشانات تھے وہ ساری عمر بدن پر قائم رہے اور جو ہم نے بھی بچپن میں بار ہاوہ دیکھے.سارے جسم پر جھلنے کے اور تکلیفوں کے آثار باقی رہے تھے.مولوی ظہور حسین صاحب نے بعد میں ایک بہت لمبا عرصہ جماعت احمدیہ کی مختلف حیثیتوں سے خدمت کی اور ایک کتاب ” آپ بیتی“ کے نام سے شائع کی جس میں مختصر اروس کے واقعات کا ذکر ہے.اس کتاب سے پتا چلتا ہے کہ جولائی ۱۹۲۴ء میں آپ دو دیگر مبلغین محمد امین خاں صاحب اور صاحبزادہ عبدالمجید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ روس کے سفر پر روانہ ہوئے.عبدالمجید صاحب کو تو رستے میں ایران میں ٹھہر جانا تھا کیونکہ وہ

Page 121

خطبات طاہر جلد ۹ 116 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء ایران کے لئے مبلغ مقرر ہوئے تھے اور محمد امین خان صاحب اور مولوی ظہور حسین صاحب کے سپر دیہ کام تھا کہ یہ غیر قانونی طور پر، جس طرح بھی بس چلے ایران کی طرف سے روسی سرحد پار کر کے روس میں داخل ہو جائیں.مولوی ظہور حسین صاحب مشہد میں بیمار ہو گئے اور وہاں رکنا پڑا.مولوی محمد امین صاحب کچھ انتظار کے بعد ا کیلے ہی سفر پر روانہ ہو گئے اور بخیریت بخارا پہنچ گئے.یہ وہی محمد امین خان صاحب ہیں جن کے ایک صاحبزادے بشیر احمد خان صاحب انگلستان کی جماعت کے فرد ہیں اور غالباً برمنگھم میں رہائش رکھتے ہیں.مولوی ظہور حسین صاحب بعد میں جب اکیلے روس میں داخل ہوئے تو وہ بھی دس تاریخ تھی اور یہ دس دسمبر کا دن تھا.آپ آر تھاک (Qrthak) پہنچے لیکن جب آپ بخارا جانے کے لئے ( یہاں طے ہوا تھا کہ یہ اور محمد امین خاں صاحب ملیں گے ) ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو وہاں آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد پھر ایک لمبا دور آپ کو اذیتیں دینے کا شروع ہوا.اسی حالت میں جب آپ قید تھے (چونکہ آپ کو رشین زبان نہیں آتی تھی، کوئی ساتھیوں سے رابطہ نہیں تھا ) تو آپ نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ظہور حسین ! آپ جیل میں تبلیغ نہیں کرتے.اس رویا سے وہ خدائی منشاء سمجھ گئے اور اپنے ساتھیوں سے روسی زبان سیکھنی شروع کر دی اور چونکہ کچھ مسلمان قیدی بھی ساتھ تھے اس لئے ان سے زبان بھی سیکھی اور ان کو تبلیغ بھی شروع کی.چنانچہ سب سے پہلا روس میں جو احمدی ہوا ہے وہ جیل میں ہوا ہے اور اس طرح سنت یوسفی دہرائی گئی.مولوی صاحب کو نمازوں میں منہمک دیکھتے اور جس طرح ان کی طبیعت میں غیر معمولی رقت پائی جاتی تھی (یہ انہوں نے کتاب میں تو ذکر نہیں کیا لیکن ہم جو بچپن سے ان کو جانتے ہیں.ہمیں علم ہے کہ وہ بہت ہی رقیق القلب تھے اور جلد جذباتی ہو جایا کرتے تھے تو نمازوں میں بھی ان کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی) اس کا اور ان کی تلاوت کا ان کے ساتھیوں پر گہرا اثر ہوا اور اسی کے نتیجے میں ان کو زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی.ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ روس میں وہ شخص جو سب سے پہلے احمدی مسلمان ہوا ہے وہ عبداللہ خان تھا.یہ عبداللہ خان تاشقند کا رہنے والا تھا اور اپنے علاقے کا بہت بڑا اور بارسوخ انسان تھا.عبداللہ خان کے ذریعے پھر اور قیدیوں میں بھی احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوئی اور کئی اور قیدیوں نے ان کی معرفت پھر بیعتیں کیں.

Page 122

خطبات طاہر جلد ۹ 117 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء یہ واقعہ آپ جانتے ہیں ۱۹۲۴ء کا ہے.اس کے بعد مولوی ظہور حسین صاحب کے ساتھ مرکز کا بھی رابطہ کچھ عرصہ کٹا رہا.پھر جب وہ واپس آئے تو اس وقت اتنی ہوش نہیں تھی کہ بتائیں کہاں کہاں احمدی ہیں اور ان سے کس طرح رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے چنا نچہ رابطہ بالکل کٹ گیا اور رابطہ کٹنے کے باوجود مولوی ظہور حسین صاحب ہمیشہ اس بات پر مصر رہے اور اس بات کے قائل رہے کہ وہاں احمد یہ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں جو قائم ہیں اور پھیل بھی رہی ہوں گی لیکن ہمیں ان کی تفاصیل کا کوئی علم نہیں تھا.سب سے پہلے جب مجھے روس میں جماعت احمدیہ کے متعلق جو علم ہوا ہے وہ ایک روسی انسائیکلو پیڈیا کے مطالعہ سے ہوا جو انگلستان سے غالبا بشیر احمد صاحب رفیق نے یا کسی نے معلوم کر کے مجھے مطلع کیا کہ یہاں ایک روسی انسائیکلو پیڈیا شائع ہوا ہے جس میں جماعت احمدیہ کے اوپر ایک روسی سکالر نے مقالہ لکھا ہے اور اس مقالے میں احمدیت کے متعلق کئی قسم کی باتیں درج ہیں.چنانچہ میں نے تحقیق کر کے اس مقالے کو حاصل کیا اور اسی کے انگریزی اور اردو میں تراجم کروائے اور ان تراجم سے بعض بہت دلچسپ باتیں سامنے آئیں.ان میں سے ایک یہ تھی کہ روسی مقالہ نگار نے بڑی تحدی کے ساتھ یہ لکھا کہ روس میں بھی احمد یہ جماعتیں موجود ہیں لیکن ان کا تعلق اپنے مرکز سے کٹ چکا ہے اور اس کی وجہ مقالہ نگار نے یہ بیان کی کہ ان کو غالباً اپنے مرکز سے یہ ہدایت ہے کہ روس میں رہتے ہوئے ہم سے تعلق نہ رکھو.یہ بات تو غلط ہے.غالباً انہوں نے اس بات کو چھپانے کے لئے یعنی اس پر پردہ ڈالنے کے لئے کہ روس نے مذہبی جماعتوں کو بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے پر روکیں عائد کر رکھی ہیں یہ ایک بہانہ تراشا اور باوجود اس کے کہ یہ تسلیم کیا کہ جماعتیں موجود ہیں لیکن یہ بات غلط کہہ دی کہ مرکز نے گویا جماعتوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ ہم سے رابطہ نہ کرو.اب سوال یہ ہے کہ ان سے رابطہ کیسے ہونا تھا اور خدا کی تقدیر میں کیا مقدر تھا.اس بات کو بیان کرنے کے لئے آپ کو میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک رؤیا بتا تا ہوں.اس رویا میں حضرت مصلح موعود یہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے ملک میں حالات خطرناک ہو چکے ہیں اس قسم کے ہو گئے ہیں کہ مجھے وہاں سے ہجرت کرنی پڑ رہی ہے اور اس ہجرت کے دوران میری گود میں میرا ایک بچہ ہے جس کا نام طاہر احمد ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی بچہ ساتھ نہیں.اس ہجرت کے دوران میں ایک نئے ملک میں پہنچتا ہوں اور اس ملک میں داخل ہو کر میں

Page 123

خطبات طاہر جلد ۹ 118 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون سا ملک ہے تو بتاتے ہیں کہ روس ہے اور جب میں ان لوگوں سے گفتگو کرتا ہوں اور ان کے متعلق پوچھتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں تو ایک آدمی ہلکی آواز میں احتیاط کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اونچا نہ بولیں ہم احمدی ہیں اور یہ سارا گاؤں اور اس علاقے میں جولوگ ہیں یہ سب احمدی ہیں.لیکن ہم حالات کی مجبوری سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہیں یہ رویا اسی بات پر ختم ہو گیا.اب یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی کہ روس کا تعلق دوبارہ جماعت احمدیہ سے قائم ہونا میرے زمانے میں ہو یہ سارے مقدر کے فیصلے تھے جن کے آپس میں ٹانٹے ملے ہوئے ہیں اور پھر مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے Friday the 10th دکھایا اور Friday the 10th کو وہ حیرت انگیز انقلاب بر پا ہوئے جن کی روشنی میں روس میں اسلام کے داخل ہونے یا جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کے داخل ہونے کے نئے دروازے کھلیں اور نئے امکانات روشن ہوں اور یہ بھی عجیب بات ہے اور کوئی اتفاق نہیں بلکہ مقدر تھا کہ جماعت احمدیہ کے خلفاء میں سے صرف میں ہوں جس کے ساتھ متعد د روسی مسلمان علماء اور صاحب دانش لوگوں نے ذاتی رابطہ قائم کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک بھی خلیفہ اس سے پہلے نہیں گزرا جس کا کسی روسی را ہنما سے ذاتی رابطہ ہوا ہو ایک نہیں ، دو نہیں ، تین نہیں، متعدد رابطے ہوئے اور ایسے رابطے ہوئے جن میں ہماری طرف سے کسی کوشش کا دخل نہیں.خدا تعالیٰ نے خود اس کے سامان پیدا فرما دیئے اور جس طرح وہ سامان پیدا ہوئے ہیں، ان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نہ ہماری کوشش کا دخل تھانہ اتفاقات تھے بلکہ خدا کی واضح تقدیران میں کارفرما دکھائی دیتی ہے.پہلے روسی عالم جو عالمی شہرت رکھتے ہیں جن کی مجھ سے ملاقات ہوئی ، وہ الحاج عبداللہ یف (Abdullayev) تھے.جس دن ان سے ملاقات ہوئی، اس کے دوسرے یا دو تین دن بعد جمعہ تھا اور میں نے جمعہ میں بیان بھی کیا تھا کہ روس کے ایک بہت ہی مقتدر مسلمان تشریف لائے تھے اور ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اس کے بعد داغستان کے علاقے کے مسلمان راہنما بھی ملے اور آذربائیجان کے علاقے کے مسلمان راہنما بھی ملے اور اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے اہم لوگ جو کانفرنسز میں یہاں تشریف لاتے رہے آکے مجھ سے ملتے رہے اور پھر بیلا روس (Byelorussia) کے مسلمان را ہنماؤں میں سے ایک نے بذریعہ خط رابطہ کیا اور انہوں نے یہ بتایا کہ ان کو کسی ذریعے سے جماعت احمدیہ کا وہ کتا بچہ جس

Page 124

خطبات طاہر جلد ۹ 119 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء میں قرآن کریم کی منتخب آیات کا روسی ترجمہ ہے ان تک پہنچا اور ان کو اس کے مطالعہ سے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے بہتر روسی زبان میں کبھی قرآن کریم کا ترجمہ نہیں کیا گیا.تو یہ جو سب رابطے پیدا ہوئے ہیں یہ سارے ایک ہی مضمون کی کڑیاں ہیں اس لئے اگر کسی کے ذہن میں یہ وہم ہو کہ Friday the 10th کا اس دن پر اطلاق پا نا کوئی اتفاقی حادثہ ہے تو اس سے سارے مضمون کو سننے کے بعد کوئی بہت ہی متعصب ہوگا یا طفلانہ خیال کا حامل ہوگا جو یہ اصرار کرے کہ یہ اتفاقی حادثہ تھا.اس دن اسلامی مہینے کا انگریزی مہینے کے ساتھ انطباق، اس دن جمعہ کا دن ہونا ، اس دن اس انقلابی سال کا سب سے بڑا انقلابی دن ہونا جس کے متعلق ساری دنیا نے کہا کہ یہ سال ایک غیر معمولی حیثیت کا حامل سال ہے اور تمام دوسرے اپنے اردگرد کے سالوں سے بہت ہی زیادہ نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور پھر اس دن کا اس سال میں سے بھی چوٹی کی طرح ابھر آنا اور غیر معمولی حیثیت اختیار کر جانا اور اس سے پہلے حضرت مصلح موعود کا یہ رویا جس کی تعبیر ظاہر ہے کہ ہجرت کا مجھے موقعہ ملے گا اور اس ہجرت کے دوران روس سے رابطہ ہوگا اور پھر ساری خلافتِ احمدیہ کی تاریخ میں ایک ہی خلیفہ کا روس کے ساتھ رابطہ ہونا اگر یہ سارے اتفاقات ہیں تو پھر نظم وضبط کے ذریعے واقعات کا ترتیب پانا کچھ اور ہی معنی رکھتا ہوگا.در حقیقت یہ ظاہر طور پر تقدیر ہے جس نے با قاعدہ ان واقعات کو منضبط کیا ہے اور ایک با قاعدہ ترتیب دی ہے اور تعلق جوڑے ہیں.پس اس پس منظر کو بیان کرتے ہوئے جہاں میں آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر حرکت میں آچکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے پورے ہونے کے دن قریب آرہے ہیں، وہاں ان کی ذمہ داریاں دوبارہ یاد کرا تا ہوں کہ ان قوموں سے جو روس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں اسلامی رابطے قائم کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.ایک سوقو میں ہیں جو صرف روس میں ہیں، اس کے علاوہ روس کے ماحول میں جو روس کے سیٹلائیٹس کہلاتے تھے ، ان میں بھی مختلف زبانیں بولنے والی قومیں ہیں.ابھی ہم نے اگر چہ چند زبانوں میں اسلامی لٹریچر کے ترجمے کئے ہیں لیکن وہ انتخاب ایسا ہے کہ شاذ ہی کوئی مشرقی بلاک کا ملک ہو جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ لٹریچر سمجھا نہ جاسکتا ہو.ایک دوز با نیں جو پیچھے رہ گئی تھیں ان میں بھی اب تراجم ہورہے ہیں.جہاں پہلے صرف انتخابات شائع ہوئے تھے وہاں اب پورے قرآن کریم

Page 125

خطبات طاہر جلد ۹ 120 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء کے تراجم کا انتظام ہو رہا ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اگلے چند سال کے اندر اندر پورے قرآن کریم کے تراجم کی تعداد ایک سو تک پہنچ جائے گی اور اگلے چند مہینے کے اندر انشاء اللہ پچاس سے تجاوز کر جائے گی.پس جہاں تک تیاری کا تعلق ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود بخود کروائی ہے اور اس کا پاکستان سے میری ہجرت کے ساتھ گہرا تعلق ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عَلَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرہ:۲۱۷) سنو! بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ تمہیں ایک چیز بری دکھائی دیتی ہے تکلیف دہ معلوم ہوتی ہے وَ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لیکن وہ تمہارے لئے بہتری رکھتی ہے تمہارے لئے اس میں بھلائی پائی جاتی ہے.اب آپ غور کر کے دیکھیں اگر پاکستان میں ہی میرا قیام رہتا ہے اور وہیں فعال مرکز رہتا تو اس صورت میں پچاس سال میں بھی ہمیں وہ توفیق نہیں مل سکتی تھی جو میرے باہر آنے کے نتیجے میں ہمیں ملی اور اس طرح دنیا کی بہت سی اہم زبانوں میں بلکہ اکثر اہم زبانوں میں نہ صرف قرآن کریم کے تراجم کرنے کی توفیق ملی بلکہ اور اسلامی لٹریچر تیار کرنے کی توفیق بھی ملی جس پر کام بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے.پس جماعت احمدیہ کو یہ پکا ہوا پھل ملا ہے اور بہت سے پکے ہوئے پھل ابھی درخت پر پڑے ہیں شاخوں سے لٹک رہے ہیں ان کے لئے آپ کو کچھ تھوڑی سی محنت تو کرنی پڑے گی درخت کو ہچکولے تو دینے ہوں گے.یہ خیال کہ لیٹے رہیں اور بیٹھے رہیں اور پاس پڑا ہوا بیر کوئی اور اٹھا کے آپ کے منہ میں ڈال جائے یہ تو افیموں والا خیال ہے.ہم تو دنیا کو افیم سے نجات دینے والے ہیں نہ کہ خود افیمی بننے والے ہیں اس لئے اس جہت میں مزید حرکت کریں.آپ میں سے ہر ایک جو بھی توفیق پاتا ہو اس توفیق کے مطابق ان قوموں سے اپنے تعلقات بڑھائے اور رابطے قائم کرے.جرمنی سے بعض احمدی نوجوانوں کو توفیق مل رہی ہے.وہ مجھے خط لکھتے رہتے ہیں اور پتا چلتا ہے.مثلاً ہمارے سندھ کے ایک دوست منور خالد صاحب وہاں جرمن زبان بھی سیکھ رہے ہیں اور ساتھ روسی زبان بھی سیکھتے ہیں یا روسیوں سے تعلقات بہر حال ضرور ہیں.زبان کا مجھے یاد نہیں رہا کہ انہوں نے ذکر کیا تھا کہ نہیں مگر ان کی دعوت وغیرہ کرتے رہتے ہیں.ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں.پھر دونوں اپنی جتنی بھی جرمن ان کو آتی ہے اس میں مذہبی تبادلہ خیالات کرتے ہیں اور ان کی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ اور بڑی گہری دلچسپی لی جارہی ہے اور جہاں جہاں بھی

Page 126

خطبات طاہر جلد ۹ 121 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء احمدیت کا پیغام پہنچتا ہے وہاں مشرقی یورپ کی قومیں فوراً متوجہ ہوتی ہیں اور جب ان کو فرق معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا آرتھوڈاکس (Ortho Dox) اسلام سے یعنی وہ اسلام جو ازمنہ وسطی سے تعلق رکھتا ہے، کیا فرق ہے تو ان کی دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی ہے.تو جرمنی میں تو رابطے ہورہے ہیں.باقی دنیا میں بھی روسی اور دیگر مشرقی دنیا کے لوگ موجود ہیں.ان سے جو احمدی بھی اپنے رابطے قائم کر سکتا ہے اور بڑھا سکتا ہے اور پھر ذاتی تعلقات اور حسن و احسان کے ذریعے ان پر نیک اثر قائم کر سکتا ہے،اس کو ضرور کرنا چاہئے اور اس ضمن میں اگر لٹریچر چاہئے تو دنیا کی ہر جماعت میں ایسا لٹریچر موجود ہے اور اگر نہیں تو ان کا کام ہے کہ مرکز سے رابطہ کر کے وہ لٹریچر حاصل کریں.اس سلسلے میں آخری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کو اس کام میں خصوصیت کے ساتھ دلچسپی لینی چاہئے.میں نے اپنے ایک گزشتہ خطبے میں یہ بتایا تھا کہ ہم نے جو لٹریچر شائع کیا ہے وہ الماریوں یا صندوقوں کی زینت بنانے کے لئے نہیں بلکہ تقسیم کے لئے کیا ہے اور ساری دنیا کی جماعتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ جائزہ لیں کہ ان کے ملکوں میں کون کون سی غیر قومیں آباد ہیں.چنانچہ اس ضمن میں کئی ملکوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی رپورٹیں مل رہی ہیں اور بہت سے امراء بڑی توجہ کے ساتھ اس ہدایت کی تعمیل میں جائزے لے کر پھر مجھے رپورٹیں بھجوا رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر امراء اس خصوصی کام کو یعنی مشرقی یورپ کی قوموں سے تعلق قائم کرنا اور ان میں احمدیہ لٹریچر تقسیم کرنا ، اس کام کو اگر وہ ذیلی تنظیموں سے لیں تو ان کو بھی سہولت ہو جائے گی اور ذیلی تنظیمیں غالباً بہتر رنگ میں یہ کام کر سکیں گی.ایک امیر کے لئے کام لینے کے دو طریقے ہوتے ہیں.ایک تو وہ جماعت کو عمومی ہدایت دے دے اور اس شعبے کے سیکرٹری کو مقرر کر دے کہ تم ان سے رابطے کرو.اس طریق پر سب کام چلتے ہیں لیکن ان کاموں میں ذرا نرمی پائی جاتی ہے.رفتار ذرا کم ہوتی ہے اور جسے انگریزی میں Casual کہا جاتا ہے.آرام آرام سے لوگ بات کو لیتے ہیں اور اتنی زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتے بعض دیتے بھی ہیں لیکن بالعموم کچھ لوگوں کو تو فیق مل جاتی ہے لیکن ذیلی تنظیموں کے سپر داگر خصوصی کام کیا جائے تو نسبتاً زیادہ افراد زیادہ ذمہ داری کے ساتھ اور مہم کی صورت میں کام کرتے ہیں.نئی تبدیلیاں جو ذیلی تنظیموں میں کی گئی ہیں ان میں ایک یہ بھی مقصد تھا کہ اس سے پہلے جو بعض مصلحتوں کی وجہ سے امارتوں سے ذیلی تنظیموں کو بالکل الگ کر دیا گیا تھا، ان

Page 127

خطبات طاہر جلد ۹ 122 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء کو دوبارہ امارتوں کے ساتھ مانوس کیا جائے اور تنظیم کے لحاظ سے اگر سو فیصدی ماتحت نہ بھی کیا جائے تو ان کے روابط ایسے ہو جائیں کہ امراء ان کو اپنا دست و باز وسمجھتے ہوئے ان سے بے تکلفی کے ساتھ اور اپنائیت کے ساتھ کام لیا کریں.ایک امیر کا یہ حق ہے کہ ساری جماعت کو حکم دے اور اس حکم کے مقابل پر اگر خدام ، انصار یا لجنات نے اگر کوئی حکم دیا ہو تو وہ کوئی حیثیت نہیں رکھے گا خود بخود گر جائے گا.پس اس طریق سے امیر حاوی تو ہے ہی لیکن میں اور رنگ میں بات کر رہا ہوں.امیر کو اس سے پہلے یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ تنظیموں کو بحیثیت تنظیمیں کسی کام پر مامور کرے، لجنہ کو کہے کہ میں تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہوں.خدام کو کہے کہ میں تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہوں علی ہذا القیاس.لیکن خلیفہ وقت یہ کام کر سکتا.ہے.وہ تمام تنظیموں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ تم امیر سے رابطہ کرو اور اپنی خدمات پیش کر و او را میران خدمات سے استفادہ کرے صدر ان کو بلائے ان کے ساتھ میٹنگ رکھے اور ان سے کہے کہ تم میرے ساتھ مل بیٹھ کر اب اس کام کو مرتب کرو اور ایک ایسا لائحہ عمل بناؤ جس میں تینوں تنظیمیں اس رنگ میں کام کریں کہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرنے والی ہوں یا تصادم نہ کرنے والی ہوں اور اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اس طرح کام کریں کہ تمام وہ میدان جس میں کام کرنا مقصود ہے ان میں کوئی خلاء باقی نہ رہیں بلکہ تمام میدان میں ہر پہلو سے کام شروع ہو جائے.اس ہدایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تمام دنیا میں امراء کو چاہئے کہ وہ ذیلی تنظیموں سے رابطہ کریں اور ذیلی تنظیموں کو چاہئے کہ پہل کرتے ہوئے اپنی خدمات فوری طور پر امراء کے سپرد کریں اور ان سے کہیں کہ جولٹریچر جماعت احمدیہ نے گزشتہ چند سالوں میں مختلف زبانوں میں شائع کیا ہے، اس لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے میں آپ جس قسم کا پروگرام ہمارے لئے بناتے ہیں ہم اس پر پوری طرح بشاشت کے ساتھ اور پوری تندہی کے ساتھ عمل کریں گے اور پھر اس کی رپورٹیں ذیلی تنظیموں کی طرف سے مجھے ملنی شروع ہوں جس کی نقل امیر کو آئے اور باقی باتوں میں وہ اسی طرح پہلے کی طرح کام کرتے رہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں بہت سے باہر بسنے والے روسیوں کے ساتھ یا مشرقی جرمنوں کے ساتھ ، چیکوسلواکین کے ساتھ یا دوسری قوموں کے ساتھ ہمارے روابط پیدا ہو جائیں گے اور اب تک جو ہوئے ہیں وہ بہت ہی امید افزاء ہیں.

Page 128

خطبات طاہر جلد ۹ 123 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء ایک یوروپین ملک کے Cultural Attachi مجھ سے ملنے آئے اور جب ان کو جماعت احمدیہ کا لٹریچر ان کی زبان میں پہنچایا گیا تو وہ اتنا Excite ہو گئے ، اتنا ان کی طبیعت میں ہیجان پیدا ہوا کہ دراصل اسی وجہ سے وہ ملنے آئے تھے اور ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر مجاز ہوں، میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں اپنے ملک کے دروازے آپ پر کھولتا ہوں.ایسا عظیم الشان لٹریچر ہے کہ اسے جلد لے کر ہمارے ملک میں پہنچیں.ہمارے ملک کے مسلمان بھی اور غیر بھی اس کے منتظر ہیں.وہ حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ ایسا اسلامی فرقہ بھی دنیا میں موجود ہے جو اسلام کے نام پر جبر کا قائل نہیں اور اسلام کے نام پر محض محبت سے پیغام پہنچانے کے نظریے پر زور دیتا ہے اور جماعت احمدیہ کی دیگر امتیازی تعلیمات جب اس کو معلوم ہوئیں تو اس نے کہا کہ ہم تو بے وجہ اسلام سے خوف کھا رہے تھے یہ تو بہت ہی پیارا مذہب ہے اور آپ کے آنے سے دوسرے مسلمانوں کی بھی تربیت ہوگی.ان کو بھی پتا چلے گا کہ اسلام ہے کیا ؟ تو میں آپ کو تجربے سے بتا رہا ہوں یہ کوئی اندازے نہیں ہیں تخمینے نہیں ہیں.واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مشرقی بلاک کے ممالک کو اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار کر دیا ہے.بہت سے سینوں کے داغ دھوئے جاچکے ہیں بہت سی غلط فہمیوں اور سیج رویوں کے نشان مٹ چکے ہیں اور اب وہ صاف اور کھلے دل کے ساتھ ایک نئی روشنی کے منتظر اور متلاشی ہیں اور بلاشبہ احمدیت ہی وہ روشنی ہے یعنی حقیقی اسلام جو ان کے دلوں کو مطمئن کرسکتی ہے.اس کے سوا اسلام کی سب تفسیریں جو دوسرے مسلمان فرقوں کے ذریعے ان تک پہنچ سکتی ہیں وہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں رہیں ان کے مزاج میں روشنی آچکی ہے، ان کے مزاج میں عقل و دانش کے ساتھ چیز کو پرکھنا داخل ہو چکا ہے اس لئے اب وہ بنی بنائی ایسی تعلیمات جن پر غور و فکر کے نتیجہ میں ان تعلیمات پر ایمان نہ رہے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں رہے.اسلام ایک ایسی تعلیم ہے.جس پر جتنا غور کریں ایمان بڑھتا ہے اور اس رنگ میں اسلام کی حقیقی تعلیم احمدیت کے سوا کم دوسروں کے پاس ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے مسلمان فرقوں میں بھی بہت سی باتوں میں اسلام کا نور اس شکل میں موجود ہے کہ وہ دوسرے دلوں کو مطمئن کر سکتا ہے.یعنی احمدیت اسلام کی ان معنوں میں Monoply اختیار نہیں کر سکتی کہ گویا ساری سچائی احمدیت کے پاس ہے اور باقی سب کے پاس جھوٹ ہی جھوٹ ہے یہ طرز عمل جھوٹ ہے اور احمدیت

Page 129

خطبات طاہر جلد ۹ 124 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء سچائی کی غلام ہے جھوٹ کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں.لیکن جن معنوں میں میں آپ پر بات واضح کر رہا ہوں اس کو غور سے سمجھ لیجئے تاکہ کہیں غلط دعوئی نہ کر بیٹھیں.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ احمدیت کے سوا اسلام کے دوسرے فرقوں میں سچائی نہیں ہے.میں یہ کہ رہا ہوں کہ بہت سے ایسے اہم امور ہیں.جن میں احمدیت کے سوا دوسرے فرقوں نے اسلام کی ایسی تصویر بنالی ہے جس کو آج کا دانشور آج کے زمانہ کی پیداوار جس نے سائنس کی روشنی میں آنکھیں کھولی ہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.بہت سی غلط کہانیوں کو اپنالیا گیا ہے اور ایمانیات میں داخل کر لیا گیا ہے.پس اس پہلو سے احمدیت ہی ہے جو آج کی باشعور دنیا کو اسلام کی ایسی تعلیم دے سکتی ہے جس کے ساتھ جتنا غور کریں محبت بڑھتی چلی جائے گی.اس پہلو سے مشرقی یورپ مغربی یورپ کے مقابل پر بہت زیادہ تیار ہے.بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن کے نتیجہ میں دونوں میں فرق ہے باوجود اس کے کہ وہ دہر یہ ہو چکا تھا! با وجود اس کے کہ مذھب سے بہت دور جا چکا تھا ان کے اندر ایک ذہنی صفائی بھی ہے اور دل کی تختیاں بہت سے ایسے تعصبات سے پاک ہو چکی ہیں جو عیسائیت کے عروج کے زمانہ میں موجود تھے.پس اس پہلو سے مغربی یورپ کا اپنے دروازے احمدیت اور اسلام کیلئے کھولنا ایک بہت ہی عظیم الشان واقعہ ہے اور حیرت انگیز اہمیت کا حامل واقعہ ہے اور اس واقعہ کا ہمارے جشن تشکر کے سال میں رونما ہونا.یہ بھی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ان باتوں پر غور کرتے ہوئے ساری جماعت جہاں اب خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرے گی کہ اس نے کس طرح غیب سے ہمارے لئے تقدیر میں جاری کی ہوئی تھیں جن کے دھاگے یہاں آکر اکٹھے ہوئے اور اچانک ہمیں ان تقدیروں کے مقاصد معلوم ہو گئے ہیں وہاں ان مقاصد کی پیروی کیلئے بھی اپنے آپ کو تیار کریں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد ہمیں ان بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کی باحسن توفیق عطا فرمائے.خطبه ثانیه اب چونکہ موسم بدلنا ہے اور گرمیوں کے آثار آرہے ہیں اس لئے سردیوں کا یہ آخری جمعہ ہے جس میں جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کی جائے گی کیونکہ ذہنی طور پر آپ کو بتا دینا چاہئے اس لئے

Page 130

خطبات طاہر جلد ۹ 125 خطبه جمعه ۲۳ فروری ۱۹۹۰ء میں نے آپ کو بتادیا ہے.آئندہ جو جمعہ ہوں گے.عصر بعد میں اپنے وقت پر ادا کی جائے گی ، مجبوری کے دن اب ختم ہو گئے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو مغرب کی دنیا میں رہنے والے احمدیوں کو یہ اہتمام کرنا چاہئے کہ وقت پر نماز ادا ہونی چاہئے.

Page 131

Page 132

خطبات طاہر جلد ۹ 127 خطبہ جمعہ ۱۹ مارچ ۱۹۹۰ء پرتگال میں کسی خلیفہ کا پہلا خطبہ جمعہ اور احمد یہ مشن ہاؤس کا باقاعدہ افتتاح خطبه جمعه فرموده ۹ / مارچ ۱۹۹۰ء بمقام پرتگال) تشہد اور تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج یہ مختصر خطبہ جمعہ جو میں دے رہا ہوں یہ پرتگال ملک میں دیا جا رہا ہے.یہاں خطبہ دینے کی وجہ یہ بنی کہ چونکہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ مجھے پرتگال ملک میں آکر جماعت احمدیہ کے مشن کا با قاعده افتتاح کرنے کا موقعہ ملا ہے اس لئے میری خواہش تھی کہ اس سفر میں ایک جمعہ بہر حال پرتگال کی زمین پر پڑھا جائے.جہاں تک اس سفر کا تعلق ہے.جب سے ہم سپین کی سرزمین سے پرتگال میں داخل ہوئے ہیں اور اب جب کہ ہم جانے کے قریب ہیں اس تمام عرصے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم سب نے بے شمار تائیدات الہی کے نظارے دیکھے ہیں.یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں احمدیت بالکل غیر معروف تھی.اگر چہ دو سال سے مکرم کرم الہی صاحب ظفر نے یہاں مشن کا آغاز کر رکھا ہے اور چند سعید روحوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی بھی توفیق ملی ہے لیکن جہاں تک ملک کے اکثر عوام کا تعلق ہے، یہاں کے دانشوروں کا تعلق ہے، یہاں کی حکومت کے نمائندگان کا تعلق ہے جماعت احمد یہ عملاً کالعدم مجھی جاتی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے یہاں آنے سے پہلے ایسے حیرت انگیز انتظامات جماعت کو یہاں متعارف کروانے کے پہلے سے ہی تجویز فرما رکھے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ سارا سفر

Page 133

خطبات طاہر جلد ۹ 128 خطبہ جمعہ ۱۹ مارچ ۱۹۹۰ء خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں اس کی انگلیوں کے درمیان چل رہا ہے.چنانچہ یہاں آنے سے کچھ عرصہ قبل محض اتفاقا یوں لگ رہا تھا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ خدا کی تقدیر نے ایسا کام کروایا.پرتگال کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر سے کسی دوست نے تعارف کروایا.وہ وہاں ہمارے ساتھ کھانے کے لئے بھی تشریف لائے اور تھوڑے عرصے میں ہی وہ اتنا گھل مل گئے اور احمدیت کی تعلیم سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے مجھ سے اس تمنا کا اظہار کیا کہ جب میں پرتگال آؤں تو ان کو بھی جماعت کی کچھ خدمت کا موقعہ ملے.چنانچہ میری اطلاع پر جب مبلغ پرتگال نے ان سے رابطہ کیا تو یہاں کے انتظامات کے سلسلے میں انہوں نے غیر معمولی مستعدی کے ساتھ غیر معمولی طور پر نصرت کی اور جن باتوں کا وہم وگمان میں بھی نہیں تھا وہ ساری باتیں ان کی اس غیر معمولی محبت اور تعلق اور کوشش کے نتیجہ میں سرانجام پاگئیں.تمام پارٹیوں کے اہم نمائندے ایک ایسی دعوت میں تشریف لائے جو (Foreign affairs) فارن افیئر ز کی ہاؤس کمیٹی کے چیئر مین نے دی اور یہ ایک بہت ہی اہم تقریب تھی.جس میں یہاں کے فارن افیئر ز کی کمیٹی کے ممبران شریک ہوئے اور مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ دیا اور پھر اس کے بعد بعض سوالات کئے جن کے جواب دئے.اس کے بعد ان کی طرف سے لنچ دیا گیا.جس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام پارٹیوں کے نمائندگان شامل تھے اور وائس پریذیڈنٹ بھی تھے اور اس فارن افیئر ز کمیٹی کے پریذیڈنٹ بھی تھے اور بعض سابق وزراء بھی تھے اور ان سے جب گفت و شنید ہوئی تو اندازہ ہوا کہ کس طرح اسلام کے لئے یہ جگہ پیاسی ہے اور اسلام کی تعلیم سے متاثر ہونے کے لئے بالکل تیار بیٹھی ہے.میرے ساتھ جو معزز خاتون بیٹھی ہوئی تھیں انہوں نے تعارف کروایا کہ وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں لیکن چونکہ پریذیڈنٹ ان کو جانتا تھا ان کی قابلیت سے متاثر تھا اس لئے ان کو حکومت میں ایک لمبا عرصہ وزیر کے طور پر رہنے کا موقع ملا اور اب بھی بڑے اہم عہدے پر فائز تھیں اور انہوں نے باتوں باتوں میں جب اپنا تعارف کروایا تو پتا چلا کہ ایک Nun School میں امکانی طور پر ایک Nun بننے کے لئے وہ داخل ہوئی تھیں اور چونکہ عیسائیت کے متعلق وہ بے تکلف سوال کیا کرتی تھیں.اس لئے وہ ایک پسندیدہ طالب علم نہ بنیں اور یہ کورس مکمل کرنے کے بعد وہ با قاعدہ یونیورسٹی میں داخل ہوئیں

Page 134

خطبات طاہر جلد ۹ 129 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۹۰ء اور اعلی تعلیم حاصل کی.ان کے بیان کے مطابق وہ عیسائی تو ضرور ہیں لیکن عیسائیت کی بہت سی ایسی تعلیمات جو ان کے دماغ کو مطمئن نہیں کر سکتی تھیں اس کی وہ قائل نہیں رہیں.جب میں نے اسلامی تعلیمات کے متعلق ان کو بتایا اور اسلام کے عمومی رحجانات کے متعلق بتایا تو حیرت انگیز طور پر متاثر ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ آج کا دن میرے لئے بڑا خوش قسمت دن ہے مجھے آج پہلی دفعہ اسلام کی سچی تعلیم کا علم حاصل ہوا ہے.یہ ایک نمونے کا رد عمل ہے جو سب نے اسی طرح دکھایا.ایک اور بڑی اہم تقریب Porto میں جو یہاں کا دوسرا بڑا اہم شہر ہے اور تجارتی لحاظ سے پہلا اہم شہر ہے.وہاں کی سب سے زیادہ معز ز کلب جس کے دو ہزار ممبر ہیں ان کے پریذیڈنٹ نے پہلے ہمیں لنچ دیا.پھر اس کے بعد رات کو ایک ڈنر دیا جس میں بہت شہر کے بڑے بڑے معززین اور اسٹنٹ گورنر بھی شامل ہوئے اور بہت ہی بارونق محفل رہی.اس کے بعد مجھے کلب کے ہال میں تقریر کا موقع دیا گیا.جس کا موضوع یہ تھا کہ اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے“ چنانچہ میں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی بنیادی حقوق کی تعلیم کا ذکر کیا تو اس کے بعد جو دوست ملے ہیں انہوں نے بہت ہی خوشی اور محبت کا اظہار کیا بلکہ ایک ممبر پارلیمنٹ Brito صاحب نے یہ اصرار کیا کہ انہیں اس کی کیسٹ مہیا کی جائے کیونکہ وہ اپنے دوستوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں.تو یہ سارے امور ایسے ہیں جن پر ہمارا کچھ بھی اختیار نہیں تھا.یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے اونچے طبقے تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے اور ان ذریعوں میں سے ہمیں بھی ایک ذریعہ بنا دیا.ان ذریعوں میں جو مقامی طور پر احمدیوں کو خاص سعادت نصیب ہوئی ان میں مکرم کرم الہی صاحب ظفر کا خاندان حسب سابق اپنی سابقہ سپین کی روایات کے مطابق بہت مستعدی سے ہر پہلو سے ہر خدمت کے میدان میں صف اول میں رہا ہے اور ان کی ایک بیٹی طاہرہ بھی اپنی بڑی بہن کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے جنہوں نے سپین کی تقریبات میں غیر معمولی محنت کی تھی اسی شان کے ساتھ محنت کر کے جماعت احمدیہ کی تقریبات کو کامیاب کرانے میں ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک تاریخی سعادت حاصل کی ہے.پس ایک مبلغ نہیں بلکہ اس مبلغ کا سارا خاندان ہی مبلغ ہے.اور جو مخلص احمدی یہاں ملے ہیں ان کے اندر میں نے یہ صلاحیتیں دیکھی ہیں کہ اگر انہیں با قاعدہ

Page 135

خطبات طاہر جلد ۹ 130 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۹۰ء مستعد کیا جائے تو وسیع پیمانے پرتبلیغ کے نئے رستے کھل سکتے ہیں چنانچہ ان کے ساتھ جو مجالس ہوئیں ان میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی اور میں یہ اندازہ کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے توقع رکھتا ہوں کہ میرا یہ اندازہ درست ہوگا اور وہ ایک نیا ولولہ لے کر نئے عزم لے کر اسلام کی تبلیغ کو پھیلانے کے لئے مستعد ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھوں میں ان کی طرز میں ایسے ولولے میں نے دیکھے ہیں جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ جب بھی خدا یہاں آنے کی توفیق دے گا اس سے پہلے یہ جماعت جو چند نفوس پر مشتمل ہے سینکڑوں بلکہ ہزار ہا نفوس تک پھیل چکی ہوگی.صرف اب ایک مسئلہ یہاں باقی ہے کہ ابھی تک ہمیں با قاعدہ مسجد کے لئے زمین دستیاب نہیں ہوسکی.جو جگہ مشن کے طور پر خریدی گئی ہے وہ سر دست اس چھوٹی جماعت کے لئے تو کافی ہے لیکن آئندہ جیسا کہ میں نے توقعات کا اظہار کیا ہے ضروریات کے لئے بالکل ناکافی ثابت ہوگی اور میری دعا یہ ہے کہ بہت جلد نا کافی ہو جائے اور اس عرصے میں خدا تعالیٰ ہمیں ایک بہت عمدہ ، بڑی وسیع زمین بھی مہیا فرمادے.آمین جو Reception جماعت کی طرف سے کل یہاں دی گئی تھی اس Reception میں دنیا کے مختلف ممالک کے اور بعض بہت اہم ممالک کے سفارت کار بھی شریک ہوئے اور ان سے گفت وشنید کے دوران ان کے ممالک میں بھی تبلیغ کے نئے رستے نکلے بلکہ ایک ملک کے سفیر نے تو تقریب کے معاً بعد فون کر کے اس خواہش کا اصرار سے اظہار کیا کہ میں دوبارہ ملنا چاہتا ہوں.چنانچہ ان کے سفارت خانے جا کر ان سے گفتگو ہوئی اور اس سے مجھے یہ اندازہ ہے بڑی احتیاط کے ساتھ وہ وعدے کر رہے تھے لیکن ان کی طرز سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے مخلصانہ طور پر وہ اپنے ملک میں احمدیت کی تعلیم کی اشاعت چاہتے ہیں.وعدے اس لئے نہیں کرتے کہ ممکن ہے کہ ان کی حکومت اس طرح ان کے ساتھ تعاون نہ کرے جس طرح وہ چاہتے ہیں لیکن ان کے محتاط الفاظ سے ایک بات قطعی طور پر ثابت ہو رہی تھی کہ وہ اپنی ذات میں عزم رکھتے ہیں اور چونکہ اسی ملک کے ایک اور سفیر نے بھی پہلے رابطہ کیا تھا اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ان دونوں سفراء کی کوششیں انشاء اللہ بار آور ثابت ہوں گی اور اگر جماعت دعاؤں میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے غیبی امداد طلب کرتی رہے تو ایک تقریب کئی اور تقریبات کے راستے کھول دیتی

Page 136

خطبات طاہر جلد ۹ 131 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۹۰ء ہے اور ایک ملک میں مقبولیت کئی اور ملکوں میں مقبولیت کے سامان مہیا کر دیا کرتی ہے.اس طرح ہمارے دروازے جن نئے میدانوں میں کھلتے ہیں اور بہت سے دروازے اور میدانوں میں کھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں صرف یہ ایک فکر لاحق ہوتی ہے کہ نئے تقاضوں کو ہم پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں گے یا نہیں اور ان نئی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر سکیں گے کہ نہیں لیکن چونکہ یہ دروازوں کے کھلنے کا جو سلسلہ جاری ہوا ہے یہ بھی ہماری کوششوں سے نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ جاری ہوا ہے اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ وہی فضل ہمارا حامی و مددگار ہوگا اور ان نئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیں نئی جوان ہمتیں عطا کرے گا، نئے حوصلے بخشے گا، نیا استحکام جماعت کو عطا کرے گا اور جو جو نئی زمینیں ہم اسلام کے لئے فتح کریں گے ساتھ ساتھ ان کو مستحکم کرتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے.جماعت احمدیہ کے لئے ساری عالمگیر جماعت احمدیہ کے لئے بہت سی خوشخبریاں ہیں جو ظا ہر ہو چکی ہیں اور بہت سی ظاہر ہورہی ہیں اور اس جو بلی کے سال کا پھل ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کثرت سے کھا رہے ہیں کہ دشمن کے لئے سوائے حسرت اور ناکامی اور دانت پینے کے کچھ بھی باقی نہیں رہا.اللہ تعالیٰ دشمن کے اس بڑھتے ہوئے غیظ و غضب کو ہمارے لئے مزید فضلوں کا موجب بنادے اور اس کا جود کھ جو تکلیف جماعت کو پہنچتی ہے اپنے فضل سے اس کثرت سے برکتیں نازل فرمائے کہ وہ دکھ راستہ چلتے ہوئے ایک معمولی سے کانٹے کے دکھ سے بھی کم حیثیت کا دکھ رہ جائے اور خدا کے فضل ہمیں ہر آن ہر پہلو سے بڑھاتے چلے جائیں.(آمین)

Page 137

Page 138

خطبات طاہر جلد ۹ 133 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے دل کو تبلیغ میں ڈال دیں تا کہ سپین میں اسلام نئی شان کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو ( خطبه جمعه فرموده ۱۶ / مارچ ۱۹۹۰ء بمقام JATIVA سپین) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج ہمیں یہ جمعہ چین کے ایک چھوٹے سے قصبے خاطبہ (Xativa) میں پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے ، خاطبہ کا ایک تلفظ شاطبہ (Xativa) بھی ہے اور یہ معین طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ کون سا تلفظ درست ہے.یہ قصبہ اگر چہ چھوٹا ہے لیکن تاریخی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل قصبہ ہے اور یہاں اس کے ماحول میں پہاڑوں کے اوپر آج تک مسلمانوں کی عظمت کے آثار باقیہ ان کی عظیم تاریخ کی اور ان کی یہاں موجودگی کی گواہی دے رہے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی خاندان آباد ہے.یعنی ڈاکٹر منصور احمد جن کو خدا تعالیٰ نے ایک اور ماہر لسانیات کے ساتھ مل کر قرآن کریم کے پہلے سپینش زبان میں ترجمہ کی توفیق دی اور اللہ کے فضل کے ساتھ ان کا یہ ترجمہ بہت ہی مقبولیت اختیار کر گیا.یہاں آنے سے پہلے جب پید رو آباد میں مجھے چند روز ٹھہرنے کا موقع ملا تو وہاں بعض ایسے سپینش علم دوستوں سے ملنے کا موقع ملا جنہوں نے قرآن کریم کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور دوسرے تراجم کے ساتھ ہمارے تراجم کا موازنہ بھی کیا ہے.چنانچہ انہوں نے بالا تفاق بڑے زور سے اس بات کی گواہی دی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا ترجمہ ہر دوسرے ترجمہ پر نمایاں فوقیت رکھتا ہے.کیا بلحاظ مضمون کی

Page 139

خطبات طاہر جلد ۹ 134 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء وفاداری کے اور کیا بلحاظ زبان کی سلاست کے.انہوں نے مجھے بتایا کہ قرآن کریم کا وہ ترجمہ جو جماعت نے کیا ہے وہ غیر معمولی طور پر ان سے بڑھ گیا ہے.ایک صاحب نے یہاں تک بتایا کہ میرے پاس پانچ دوسرے تراجم ہیں اور میں ایک لمبے عرصے سے ان تراجم کا بڑے غور سے مطالعہ کر رہا ہوں لیکن جب تک احمدی ترجمہ میرے ہاتھ نہیں آیا مجھے حقیقت میں قرآن کریم کے علوم سے تعارف نہیں ہوا اور اب میرے دل میں قرآنی مضامین کی عظمت بیٹھی ہے کیونکہ بڑی وضاحت کے ساتھ آپ کے علماء نے ہر پہلو سے تمام مشکل مقامات کو روشن کر دیا ہے.بہر حال منصور صاحب کی یہ خواہش تھی کہ یہ خطبہ یہاں دیا جائے باوجود اس کے کہ جگہ چھوٹی تھی لیکن چونکہ انہوں نے اپنے ساتھ گھر کے نیچے ایک اور گھر بھی کرایہ پر لیا ہے اور وہاں بھی مستورات کا انتظام موجود ہے اس لئے خدا کے فضل سے یہاں ہم پورے آگئے.یہاں کی جماعت تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک ہی گھر پر مشتمل ہے لیکن میڈرڈ سے ان کے بھائی، ان کی والدہ وغیرہ اور بہنیں اور پھر پید روآباد سے ان کے والد اور جماعت کے دیگر مخلصین یہاں جمعہ پڑھنے کی خاطر پہنچ گئے اس لئے خدا کے فضل سے یہاں کافی رونق ہے.خاطبہ کا شہر مسلمانوں کے آثار باقیہ کی وجہ سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور یہ سارا علاقہ سپین میں ایک پہلو سے ممتاز ہے یعنی قبلا نیہ یا اس سے ملتا جلتا کوئی نام ہے جس میں کئی صوبے شامل ہیں یہاں مسلمانوں نے آبپاشی کا ایک ایسا عظیم الشان نظام چھوڑا ہے جو تقریباً ہزار برس سے اسی طرح جاری وساری ہے اور زمانے کی ترقی کے باوجود آج تک عصر جدید کے انجینئر ز اس نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکے بلکہ اسی نظام کو اپنے اصل حال پر قائم رکھنا ہی ان کا بڑا کارنامہ ہے.یہ آب پاشی کا ایسا نظام ہے جس میں بغیر کسی شور کے بغیر کسی آواز کے بلکہ دیکھنے والے کو نمایاں طور پر نظر بھی نہیں آتا کہ پانی کہاں سے آ رہا ہے اور کدھر کو جارہا ہے.اس وسیع علاقے کی زمین کے چپے چپے کی آب پاشی کا انتظام موجود ہے اور پہاڑوں پر سے اس طرح نہریں اور زیر زمین نالیاں کھینچ کر تمام ملک میں پانی پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے کہ بغیر کسی محنت ، بغیر کسی کوشش کے ہر زمیندار کو اپنی ضرورت کا پانی مہیا ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ بہت ہی شاداب ہے، بہت عظیم الشان باغات کا علاقہ ہے اور ہر قسم کی بہترین فصلیں بھی یہاں ہوتی ہیں.اس پہلو سے یہ چین

Page 140

خطبات طاہر جلد ۹ 135 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء کے امیر ترین علاقوں میں شامل ہے.جہاں تک ان قلعوں کا تعلق ہے جو اس چھوٹے سے قصبے کے اردگرد موجود ہیں ان میں تین قلعے بہت نمایاں اہمیت رکھتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر وہ آج بھی یوں معلوم ہوتا ہے جیسے سنتری پہرہ دے رہے ہوں.دور دور تک اس علاقے پر ان چوٹیوں سے نظر پڑتی ہے اور وہ قلعے نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں.ایک قلعہ جس میں آج صبح ہمیں پھر کر مختلف پہلوؤں سے دیکھنے کا موقع ملا وہ شاطبیہ کا قلعہ کہلاتا ہے اور ان سب قلعوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے.اس میں حیرت انگیز صناعی کے کام کئے گئے ہیں.پانی کی حفاظت کا ایسا انتظام ہے کہ پہاڑی کھود کر زمین کے نیچے اتنے بڑے بڑے پانی کے ذخائر بنائے گئے ہیں کہ اگر اردگرد محاصرے کے نتیجے میں سال بھر بھی وہاں کے لوگوں کو محصور رہنا پڑے تو پانی کی کمی محسوس نہ ہو اور سال بھر سے مراد یہ ہے کہ پھر ہمیشہ کے لئے کیونکہ ہر سال اتنی بارش اس علاقے میں ہو جاتی ہے کہ قلعے میں اس کا پانی محفوظ کرنے کا انتظام ہوتو پھر کبھی بھی بیرونی ضرورت محسوس نہیں ہو سکتی.وہ بہت بڑے بڑے ذخائر ایک عرصے تک یہاں استعمال میں آتے رہے لیکن اب چونکہ ان کی صفائی کا انتظام موجودہ حالات میں مشکل ہے اس لئے ان کو بند کر دیا گیا ہے.اس کے علاوہ زیر زمین سرنگیں ہیں جو قلعے کے ایک مقام کو دوسرے مقام سے ملاتی ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہاں جو پرانے خاندان قلعے کے حالات سے واقف بسے ہوئے ہیں ان میں سے ایک نے ہمیں بتایا کہ پرانے آباؤ اجداد سے ہم لوگ یہ سنتے آئے ہیں کہ پہلے ایسی سرنگیں بھی تھیں جو ان تینوں قلعوں کو آپس میں ملاتی تھیں بلکہ دور دور کے قلعوں کو بھی اس قلعے سے ملاتی تھیں.چنانچہ اگر کسی ایک جگہ بھی دشمن کی طرف سے حملہ ہو تو مسلمان فوجیں دوسری ساتھی فوجوں کی حفاظت کے لئے یا قلعوں کی حفاظت کے لئے زیر زمین لمبے سفر طے کر کے پہنچ جایا کرتی تھیں.یہ ایک حیرت انگیز نظام ہے اور یقین نہیں آسکتا کہ کس طرح کس نے اتنی عظیم ہمت سے کام لیا ہو.ایک سنگلاخ زمین میں تو قبر کھودنا بھی مصیبت کا کام ہوا کرتا ہے کجا یہ کہ ان پہاڑوں کا سینہ چیر کے اتنے وسیع نظام قائم کر دیئے گئے ہوں.لازماً یہ محنت کا عرصہ سینکڑوں سال تک پھیلا ہوگا اور سینکڑوں سال کی یہ محنت معلوم ہوتا ہے ہزار ہا سال تک اسی طرح جاری وساری رہے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں دیکھ کر ان لوگوں کے عزم اور ہمت پر تعجب کیا کریں گی.

Page 141

خطبات طاہر جلد ۹ 136 خطبہ جمعہ ۱۶/ مارچ ۱۹۹۰ء یہ دونوں نظام اپنی جگہ قابل تعریف ہیں، قابل ستائش ہیں اور ان کو دیکھ کر انسان کا سران لوگوں کی عظمت کے سامنے تعریف کے رنگ میں جھکتا ہے.مگر حقیقت میں تو انسان کا سر عظمت کے لحاظ سے تو صرف خدا کے سامنے جھکنا چاہئے اور اس پہلو سے جو مضمون میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اسے خوب اچھی طرح ذہن نشین اور دل نشین کرنا چاہئے.ایک مسلمانوں کی قوم کی ظاہری عظمت تھی جس کے آثار باقیہ یہاں دکھائی دیتے ہیں اور ایک اسلام کی تعلیم کی عظمت ہے جو ان علاقوں سے بالکل مٹائی جاچکی ہے.پس جو روح تھی وہ تو غائب ہو گئی اور جسم کے نشان اس طرح ملتے ہیں جیسے ہزاروں سال کے فراعین مصر کی ممیاں موجود ہوں.جب روح باقی نہ رہے تو جسم کی عظمت کی کوئی حقیقت نہیں رہا کرتی.پس سپین کی سرزمین در حقیقت عبرت کا ایک نشان ہے.وہ لوگ جو آج بھی ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی جہاد کا معنی تلوار کا جہاد ہے اور تلوار کے زور سے علاقوں کو فتح کرنا اور قوموں کو اسلام کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہی دراصل حقیقی اسلامی جہاد ہے ان کے لئے یہ پین کا علاقہ ہمیشہ کے لئے ایک عبرت کا نشان پیش کرتا ہے اور ان کو بانگ دہل یہ بتاتا ہے، بڑے زور سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ تلوار کی عظمت کی کوئی حقیقت نہیں ہے.تلوار کی عظمتیں تلواروں کے ذریعے توڑ دی جاتی ہیں اور حقیقی عظمت پیغام ہی کی عظمت ہے اور محبت کی عظمت ہے اور عقل اور حکمت کی عظمت ہے جو ہمیشہ باقی رہا کرتی ہے.پس آپ دیکھیں کہ وہ علاقہ جو مسلمانوں نے پیغام کے ذریعے فتح کئے تھے.آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خدا اور رسول کے پیاروں کی عظمت کے گیت گا رہے ہیں.آپ انڈونیشیا چلے جائیں ، آپ ملائیشیا چلے جائیں ، آپ چین کے ان علاقوں میں جا کر سیر کریں جہاں مسلمانوں نے پیغام پہنچا کر یعنی قرآن کریم کا پیغام پہنچا کر لوگوں کے دل اور دماغ جیتے تھے پھر آپ روس کے ان علاقوں کی سیر کر کے دیکھیں جو تلوار سے فتح نہیں ہوئے بلکہ پیغام سے فتح ہوئے تھے.پھر آپ چینی ترکستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کو جا کر دیکھیں ،منگولیا کے علاقوں کو دیکھیں جہاں سے فاتح آئے تھے انہوں نے اسلام کی سر زمینیں فتح کی تھیں لیکن اسلام نے ان کے دل فتح کر لئے ، آج تک باوجود اس کے کہ بہت ہی ناسازگار حالات رہے، باوجود اس کے کہ دھر یہ حکومتیں ان بعض علاقوں میں قائم رہیں.اسلام کا نام مٹانے سے وہ کلینتہ قاصر رہے اور

Page 142

خطبات طاہر جلد ۹ 137 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء خائب و خاسر رہے.ابھی کچھ عرصہ پہلے مشرقی یورپ کے ایک سفیر سے میری ملاقات ہوئی اور انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اشتراکیت اسلام کا نام مٹانے میں ناکام رہی ہے.پس تلوار کی فتح تو کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی.دراصل پیغام کی فتح ہی وہ فتح ہے جس کی قدر ہونی چاہئے.اور چین کی سرزمین کو دوبارہ پیغام کے ذریعے اسلام کے لئے جیتنا ہمارا فرض ہے اور آج یہ پیغام کی فتح ہمارے نام لکھی گئی ہے اگر جماعت احمدیہ نے اس ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو کوئی اور اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکے گا.چند دن پہلے Sevilla کی یونیورسٹی میں عربی کے ڈیپارٹمنٹ میں مجھے ایک خطاب کرنے کی توفیق ملی ، اس خطاب سے پہلے عربی ڈیپارٹمنٹ کے جو ہیڈ تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ان کو ابتدائی باتوں پر خطاب کریں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں باوجود اس کے کہ ان کا عربی سے تعلق ہے اور کچھ اسلامی تعلیم سے تعلق رکھنے والے ڈیپارٹمنٹ کے طلباء بھی شاید آئیں لیکن ان کو اسلام کی حقیقت میں الف،ب کا بھی پتا نہیں اس لئے آپ زیادہ گہری اور فلسفیانہ باتیں کرنے کی بجائے سیدھی سادھی بنیادی تعلیم پرلیکچر دیں.ان کو یہ بتائیں کہ اسلام کے پانچ ارکان کیا ہیں اور ان کے کیا معانی ہیں.چنانچہ میں نے ان کے مشورے کے مطابق اسی مضمون پر وہاں خطاب کیا لیکن خطاب کے شروع میں میں نے ان سے کہا کہ آج کے خطاب میں مجھے بہت حیرت بھی ہے کہ وہ ملک جہاں آٹھ سوسال تک اسلام نے حکومت کی تھی اور آٹھ صدیوں کی حکومت بہت ہی شاذ کسی قوم کو نصیب ہوا کرتی ہے.آپ تاریخ عالم پر نظر ڈال کر دیکھ لیں سو، دوسوسال ، تین سوسال کی حکومت بھی بہت ہی بڑے اثرات پیچھے چھوڑ جایا کرتی ہے.انگلستان نے ہندوستان پر ، سو سال یا ڈیڑھ سو سال اگر پچھلا ان کا تجارتی زمانہ بھی شمار کر لیں اور اس کو بھی ان کے اثر و نفوذ میں شامل کر لیں تو ڈیڑھ سوسال کا عرصہ بنتا ہے جس میں انہوں نے حکومت کی ہے اور اس ڈیڑھ سو سال کے آثار آج تک قائم چلے آرہے ہیں اور عیسائیت کی شکل میں بھی یہ آثار بڑی کثرت سے آپ کو ہر جگہ ملتے ہیں.تو کجا ڈیڑھ سوسال اور کجا آٹھ سو سال تاریخ عالم میں بہت کم مثالیں آپ کو دکھائی دیں گی کہ کسی قوم نے کسی اور قوم پر اتنی لمبی حکومت کی ہولیکن

Page 143

خطبات طاہر جلد ۹ 138 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء تاریخ عالم میں شاید ایک بھی مثال آپ کو نظر نہ آئے کہ اتنی لمبی حکومت کے بعد ایک سو سال کے اندر اندران آٹھ سو سال کے تمام نشانات مٹادئے گئے ہوں.سوائے ان ظاہری نشانات کے جو قلعوں اور قبرستانوں کی صورت میں آپ کو سرزمین اندلس اور سپین کے دیگر علاقوں میں پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.مسلمانوں کے لئے کتنا دردناک عبرت کا نشان ہے ان مسلمانوں کے لئے جو آج بھی بلند آواز سے دنیا میں یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے دین کو پھیلانے کی اجازت دیتا ہے ، اور اسی کا نام مقدس جہاد ہے.ہر گز نہیں اس مقدس جہاد کو تو اس طرح شکست فاش دی جاچکی ہے.اور سپین کی سرزمین ہمیشہ اس بات پر گواہ رہے گی کہ اگر یہ مقدس جہاد ہے تو اس مقدس جہاد کی کوئی بھی قیمت نہیں.ہاں دلوں کی فتح کا جہاد جو قرآن بتا تا ہے اس کی عظمت کے گیت تمام دنیا کے مسلمان علاقے گارہے ہیں جہاں پیغام نے دلوں اور دماغوں کو فتح کیا تھا اور آج تک وہاں باوجود مخالفانہ کوششوں کے اسلام کے نشان نہیں مٹائے جا سکے بلکہ ایک ابھرتی ہوئی قوت کے طور پر اسلام ان علاقوں میں دوبارہ بڑی شان سے ابھر رہا ہے.پس جماعت احمدیہ نے اب وہ کام جو تلوار سے نہیں ہو سکا تھا، محبت اور پیار سے کرنا ہے.وہ دل جن میں تلوار نے نفرت کے بیج بوئے اور مسلمان حاکموں نے نفرت کی فصلیں کاٹی تھیں آج آپ نے ان دلوں کو صاف کر کے ان میں محبت کے بیج بونے ہیں اور محبت کے ذریعے سپین کی سرز مین کو دوبارہ اسلام کے لئے فتح کرتا ہے.ایک ایسی فتح کرنی ہے جو دائمی فتح ہوگی.ایک ایسی فتح کرنی ہے جو قیامت تک قائم و دائم رہے گی اور کوئی دنیا کی طاقت اس فتح کو مٹا نہیں سکے گی.اس کے لئے ہم ایک چھوٹی سی جماعت ہیں، ہمارے کندھوں پر بہت سے بوجھ ہیں.تمام دنیا میں ہم نے اسلام کی عظمت اور اسلامی تعلیم کی عظمت کے جھنڈے گاڑنے ہیں اس لئے ہر ملک کو اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالنی ہوں گی.یہ پیغام ہے جو میں سپین کے احمدی مسلمانوں کو دینا چاہتا ہوں.آپ غفلت کی حالت میں نہ بیٹھے رہیں اگر آپ نے اس زمین کو فتح نہ کیا تو اور کہیں سے لوگ نہیں آئیں گے.خدمت کرنے والوں نے یہاں خدمتیں کیں، قربانی کرنے والوں نے یہاں قربانیاں کیں اور آج تک وہ لوگ یہاں موجود ہیں جنہوں نے ابتدائی احمدی مبلغ کی عظیم قربانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور گہرے

Page 144

خطبات طاہر جلد ۹ 139 خطبہ جمعہ ۱۶/ مارچ ۱۹۹۰ء اثرات ان کے دلوں پر قائم ہوئے.آج کے دور میں یہاں کئی احمدی باہر سے آکر مستقل آباد ہو چکے ہیں اور با قاعدہ جماعت کا قیام ہو چکا ہے.اس لئے آپ سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اس عظیم مقام کو پہچانیں اور کبھی احساس کریں کہ آپ کون لوگ ہیں،آپ کے سپر داللہ تعالیٰ نے اس علاقے کی فتح کا سہرا لکھ دیا ہے لیکن اس سہرا کے حصول سے پہلے آپ کو کچھ محنت کرنی ہوگی، کچھ مشقت کرنی ہوگی.بیٹھے بٹھائے تو یہ سہرا آپ کے سر نہیں باندھا جائے گا.ہاں خدا کی تقدیر میں یہ مقدر ہے کہ احمد یہ جماعت نے بہر حال اس سرزمین کو فتح کرنا ہے اور احمد یہ جماعت کے سر پر یہ سہرا باندھا جائے گا.میں نے جو یہاں جماعت کی حالت دیکھی ہے، مجھے اخلاص تو دکھائی دیا ہے.قربانی کی روح بھی نظر آتی ہے، قربانی کا جذبہ موجود ہے لیکن اپنے اپنے منصب کو پہچاننے اور اس منصب کو پہچان کر اس کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھالنے کی کمی دکھائی دیتی ہے.اس پہلو سے آپ لوگوں کا منصب اول جو آپ کو سمجھنا چاہئے وہ ایک مبلغ کا منصب ہے.آپ کی زندگی کی ہر دلچسپی اس منصب کے مطابق ڈھالی جانی چاہئے.آپ کے ذاتی کاروبار ہوں یا دوسرے کام ہوں ، جماعتی کام ہوں یا سوشل دلچسپیاں ہوں ، ان سب میں سب سے اہم بات ہمیشہ جو پیش نظر رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ آپ کا کردار ایک مبلغ کے طور پر نمایاں ہو کر ابھرے اور تمام اہل سپین احمدیوں کو سب سے پہلے ایک مبلغ کے طور پر جاننے اور پہچاننے لگیں.آپ کپڑے بیچ رہے ہوں یا کپڑے خرید رہے ہوں دیگر کاروباری میں مصروف ہوں.جہاں بھی آپ جائیں، ان کے میلوں ٹھیلوں میں کبھی سوشل تعلقات بڑھانے کی خاطر شامل ہوں ہر حیثیت میں آپ کے مبلغ کا کردار نمایاں ہوکرا بھرنا چاہئے اور آپ کو دل جیتنے والے احمدی بننا چاہئے اور یہی جماعت احمدیہ کی شہرت اس ملک میں پھیلنی چاہئے.آپ نے اگر دیر کر دی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ملک بڑی تیزی کے ساتھ مذہبی اقدار سے دور جا رہا ہے.اس وقت آپ کے لئے ایک موقع ہے، اس وقت آپ کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ تھوڑی سی سہولت مہیا فرما دی ہے کہ ابھی ان میں مذہبی سوچ رکھنے والے کافی لوگ موجود ہیں.عیسائیت کے تعصبات بھی ان میں ہوں گے لیکن خدا کی محبت ابھی باقی ہے.دین کی محبت ابھی باقی ہے.ابھی ان لوگوں میں روحانیت کی قدر موجود ہے لیکن چونکہ پین کا علاقہ بہت تیزی کے ساتھ یورپ میں مدغم ہو رہا ہے اور E.E.C کا ایک مستقل حصہ بن کر یہ ملک تیزی کے ساتھ دیگر مغربی

Page 145

خطبات طاہر جلد ۹ 140 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء اقدار کے تابع ہو جائے گا اس لئے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بہت تیزی کے ساتھ اس قوم میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور ابھی جو وقت میسر ہے اس کو غنیمت سمجھیں ورنہ دیکھتے دیکھتے مغربی اور مادہ پرست تہذیب ان پر مزید اس طرح غالب آجائے گی کہ پھر یہاں کام کرنا بہت مشکل ہو جائے گا.جیسے ہمیں یورپ کے دیگر علاقوں میں مشکلات اور دقتیں پیش آرہی ہیں.اسی طرح آپ کے لئے بھی وقتیں پیش آئیں گی اور کام پہلے سے مشکل ہو جائے گا.پس اس پہلو سے کچھ نصیحتیں میں نے پید رو آباد کی مسجد میں جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کی تھیں ان کوملحوظ رکھیں اور کچھ مزید آپس میں بیٹھ کر مشورے کیا کریں.ایک خاندان کی طرح سر جوڑ کر بیٹھا کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے سامنے اپنے مسائل رکھا کریں، ان کے حل تلاش کرنے میں ایک دوسرے سے مدد مانگا کریں اور جہاں جہاں خدا نے آپ کو کوئی اچھا بصیرت کا نکتہ سمجھایا ہوا ہو وہاں وہ دوسروں کو سمجھایا کریں.اپنے تجارب سے جہاں خود فائدہ اٹھاتے ہیں، دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا ئیں اور اس طرح جماعت مل کر بڑی تیزی کے ساتھ آگے قدم بڑھانا شروع کرے.سپین کے ایک دوست جو مجھے ملنے آئے انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا.وہ مسلمان ہو چکے ہیں اور کافی عرصے سے مسلمان ہیں لیکن ابھی جماعت احمدیہ سے ان کا تعلق نہیں لیکن جماعت سے گہری محبت رکھتے ہیں اور دن بدن ان کی محبت بڑھ رہی ہے.انہوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ آپ کی جماعت میں میں نے بہت سی خوبیاں دیکھی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ جماعت آئندہ اسلام کے لئے عظیم کردار ادا کرے گی لیکن تبلیغ سے غافل ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس جماعت کو لوگ بیرون سے آئی ہوئی ایک جماعت سمجھتے ہیں اور جس تعداد میں سپینش احمدی ہونے چاہئیں اس تعداد میں تو درکنار اس کا ایک حصہ بھی موجود نہیں.یعنی چالیس پچاس احمدی جو اس وقت ہیں وہ بھی سپین میں موجود نہیں، کچھ اردگرد پھیل گئے، کچھ عدم تربیت کا شکار ہو گئے اور عملاً ٹھوس کام کرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے.پس انہوں نے کہا کہ سپین میں آپ کو اندازہ نہیں کہ کس طرح لوگ ایک قومی تعصب نہیں تو قومی جذبے سے متاثر ہیں اور وہ غیر قوموں کو خواہ وہ اچھا پیغام بھی دیں بہر حال غیر قو میں سمجھتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ آپ جلد سے جلد سپینش احمدی پیدا کریں اور وہ آپ کی آواز آگے قوم تک پہنچائیں تا کہ قوم یہ سمجھے کہ یہ ہماری آواز ہے.

Page 146

خطبات طاہر جلد ۹ 141 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء پس ان کے کہنے کے مطابق ابتداء میں یہ مشکل تو ضرور ہوگی کہ آپ کی آواز ایک بیرونی جماعت کی آواز سمجھی جائے گی لیکن انہوں نے ساتھ اس امید کا بھی اظہار کیا کہ میں جماعت سپین کے جن دوستوں کو جانتا ہوں، ان کے اخلاق سے بڑا متاثر ہوں ان کی صاف گوئی اور سچائی سے بڑا متاثر ہوں اس لئے مجھے یقین ہے کہ یہ بیرونی پن کی جو اجنبیت ہے اس پر احمدیوں کے اخلاق فتح پالیں گے اور شروع میں کچھ دقت تو ہوگی لیکن رفتہ رفتہ آپ لوگوں نے اگر ایک سپینش احمدیوں کی جماعت تیار کر لی تو پھر آئندہ بڑی تیزی کے ساتھ تبلیغ اسلام کے رستے کھل جائیں گے.اس وقت یعنی اس مجلس کے بعد ایک احمدی دوست نے ان سے کہا کہ آپ بیعت کر کے جائیں تو میں نے ان کو سمجھایا کہ اس طرح نہیں یہ خود اپنے مطالعہ کے ذریعہ آہستہ آہستہ جماعت کے قریب آرہے ہیں ان کو اور موقع دیں.ہمیں تو ایسے احمدی چاہئیں جو سرتا پا جماعت کے مضمون کو، جماعت کے عقائد کو، جماعت کے کردار کو سمجھ کر اپنالیں اور پھر اس خدمت میں وقف ہو جائیں.چنانچہ بعض خدا کے فضل سے ایسے مخلص احمدی نوجوان اور بعض نسبتا بڑی عمر کے یہاں موجود ہیں جن کے اندر اسلام کی سچی تعلیم گہرے طور پر سرائت کر چکی ہے اور ان کی شخصیت تبدیل ہو کر ایک اسلامی شخصیت میں تبدیل ہو چکی.ہے.پس کوشش کریں کہ اس قسم کے سپینش احمدی ہمیں میسر آئیں خاطبہ میں بھی اور میڈرڈ میں بھی اور پیدروآباد میں اور قرطبہ میں بھی اور اس کے علاوہ اندلس میں جہاں جہاں بھی ، خصوصیت سے اندلس میں میں نے اس لئے کہا ہے کہ اندلس مسلمانوں کے لئے ایک خاص عظمت اور محبت کا نشان بن چکا ہے اور اندلس کا نام آتے ہی پین کے لوگ بھی لازماً مسلمانوں کو یاد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس لئے اندلس میں غرناطہ میں ہماری جماعت ہے.صرف غرناطہ میں ہی نہیں ہونی چاہئے اردگرد دیہایت میں پھیلنے کی ضرورت ہے.پس بہت سے کام ہونے باقی ہیں.مجھے جماعت کے ایک دوست نے کہا کہ آپ پانچ سال کے بعد آئے ہیں جلد جلد آیا کریں میں نے کہا آپ جلد جلد بڑھیں تا کہ میں جلد جلد آنے پر مجبور ہو جاؤں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ میرے اس پیغام کو آپ اپنے دل میں بٹھا ئیں گے اور محض دماغ قائل نہیں ہوں گے بلکہ دل قائل ہو جائیں گے.دماغ تو قائل ہو جایا کرتے ہیں لیکن قوت عمل دل

Page 147

خطبات طاہر جلد ۹ 142 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء کے قائل ہونے سے آیا کرتی ہے.میں نے دیکھا ہے کثرت کے ساتھ یورپ میں جب خطابات کا موقع ملتا ہے یا سوال و جواب کی مجالس میں بیٹھنا پڑتا ہے.تو کھلم کھلا لوگ اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے دماغ آپ کی باتوں کے قائل ہو گئے ہیں لیکن عمل کی قوت پیدا نہیں ہوتی.عمل کی قوت دل کے قائل ہونے سے یا دل کے گھائل ہونے سے پیدا ہوا کرتی ہے.پس دلوں کو تو دلوں نے گھائل کرنا ہے.دماغوں کو دماغ کی باتیں قائل کریں گے لیکن اس کے باوجود تبدیلیاں پیدا نہیں ہوں گی.یہ آپ کی محبت ہے جو دلوں پر غالب آسکتی ہے اور محبت سے بڑھ کر آپ کی دعائیں ہیں جو دلوں کو قائل کر سکتی ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے جو دل جیتے ان کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر میر افضل اور میری رحمت شامل حال نہ ہوتی تو تو یہ دل نہیں جیت سکتا تھا.پس آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کسی کے لئے اخلاق کا دعویدار ہونے کا کوئی وہم و گمان بھی نہیں آسکتا.پس اگر خدا آپ کو مخاطب کر کے یہ فرماتا ہے کہ تو اپنے اخلاق حسنہ کے باوجود یہ دل نہیں جیت سکتا تھا ان کو اکٹھا نہیں کر سکتا تھا جب تک میری رحمت شامل حال نہ ہوتی.تو اس کے مقابل پر آپ کیا ہیں آپ کی کیا حیثیت ہے، اگر چہ دلوں کو جیتنے کے لئے اخلاق حسنہ ضروری ہیں مگر صرف انہی پر انحصار نہیں کرنا خدا کی رحمت پر انحصار کرنا ہے اور اس کے لئے آپ کو لازماً دعا گو ہونا پڑے گا اس کے لئے لازماً خدا سے تعلق باندھنے ہوں گے اور دنیا کو نظر آئے یا نہ آئے آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ خدا کے بندے بن چکے ہیں.آپ خدا کے نمائندہ بن چکے ہیں.پس یہ وہ آخری میرا پیغام ہے جسے آپ کو لازماً سمجھنا چاہئے اور اس کی اہمیت کو دلنشین کرنا چاہئے.پیغا مبر کئی قسم کے ہوا کرتے ہیں.ایک زبان کے ذریعے پیغام کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور جہاں تک ان کا بس چلتا ہے منطقی دلائل کے ذریعے اپنے پیغام کی فضیلت کو لوگوں پر ثابت کرتے رہتے ہیں مگر کتنے دل ہیں جو اس سے بد لے جاتے ہیں دلوں کی تبدیلی حقیقت میں اس کے بعد دو مراحل سے تعلق رکھتی ہے اور یہ بات میں آپ کو اپنے وسیع تجربہ کی بنا پر کہہ رہا ہوں.دوسرا مرحلہ دلوں کو اخلاق حسنہ سے جیتنے کا مرحلہ ہے اور اس کے بغیر حقیقت میں پیغام کو قبول کرنے کے لئے کوئی قوم تیار ہو ہی نہیں سکتی.پھر بھی جب آپ اس مرحلے پر فتح حاصل کر لیں تو آپ

Page 148

خطبات طاہر جلد ۹ 143 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء کو کچھ کمی محسوس ہوگی.آخری فیصلہ کرنے کے لئے لوگ ڈرتے ہوئے دکھائی دیں گے.کئی دفعہ اتنے قریب آجاتے ہیں اور اتنے قریب رہتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ اس کے باوجود آخری قدم کیوں نہیں اٹھا رہے.اس صورت میں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دعائیں ہیں جو کام کرتی ہیں اور دعاؤں کے ذریعے حیرت انگیز تبدیلیاں ہوتی ہیں.ایسے ایسے عظیم نشان ظاہر ہوتے ہیں کہ انسان کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں کہ کیسے یہ واقع ہوا.پس اس کے لئے با خدا بنا ضروری ہے.منہ کی خشک دعا ئیں کبھی قبول نہیں ہوسکتیں جب تک دل کی سوزش کے ساتھ ان کا تعلق نہ ہو اس لئے دعاؤں میں سوز پیدا کریں، اپنے دل میں وہ گرمی پیدا کریں جو خدا کی محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور پھر یہ محسوس کیا کریں کہ آپ خدا کے نمائندہ ہیں.خدا کے نمائندے ہونے کا احساس ایک بہت بڑا عظیم احساس ہے.اس احساس کے نتیجے میں تکبر نہیں بلکہ انکسار پیدا ہوتا ہے اور یہی اس احساس کی پہچان ہے.وہ علماء جو خدا کا نمائندہ بنتے ہیں اور خدا کی مخلوق سے تکبر سے پیش آتے ہیں وہ جھوٹے ہیں کیونکہ خدا کا نمائندہ کبھی بھی خدا کی مخلوق سے تکبر سے کام نہیں لیتا خدا کی مخلوق اس کی اپنی بن جاتی ہے.تبھی قرآن کریم نے آنحضرت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ قُل يُعِبَادِ (الزمر (1) کہ اے محمد ! تو یہ اعلان کر کہ اے میرے بندو! بہت سے علماء کے لئے اس آیت کو سمجھنے میں الجھن پیش آئی اور وہ حیران رہ گئے که قرآن تو اتنی عظیم الشان توحید کی تعلیم دیتا ہے پھر محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کر کے خدا نے یہ کیوں کہا کہ یہ اعلان کر دے کہ اے میرے بندو! وہ تو خدا کے بندے ہیں وہ تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ یہ تکبر کی انتہاء نہیں بلکہ انکسار کی انتہاء ہے.آنحضرت ﷺ خدا کی محبت میں ایسا بڑھے کہ خدا کے بندے ان کو اپنے بندے لگنے لگے اور جن بندوں سے خدا کو پیار تھا ان بندوں سے محمد مصطفی امیہ کو بھی پیار ہو گیا اور اس طرح دوئی مٹ گئی.پس حقیقت میں عرفان کے نتیجے میں تکبر نہیں بلکہ انکسار نصیب ہوا کرتا ہے.اس پہلو سے آپ کو خدا کا نمائندہ بننا چاہئے اور جب آپ میں یہ احساس پیدا ہوگا تو لازماً نہایت تیزی کے ساتھ پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور آپ کو اپنے وجود کے اندر سے ایک نیا وجود نکلتا ہوا دکھائی دے گا.آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے اندر ایک انقلاب آچکا ہے اور اس تبدیل شدہ شخصیت میں ایک

Page 149

خطبات طاہر جلد ۹ 144 خطبہ جمعہ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء صلى الله مقناطیسی طاقت پیدا ہو جائے گی.یہ وہ طاقت ہے جو دلوں کو فتح کیا کرتی ہے اور دراصل یہ خدا کی طاقت ہے جو دلوں پر غالب آیا کرتی ہے.آنحضرت ﷺ کی ذات میں وہ خدائی طاقت پیدا ہو چکی تھی.پس جب خدا نے یہ کہا کہ خدا یہ تبدیلی کرتا ہے تو یہ مراد نہیں تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ایک ذریعہ الگ کام کر رہا تھا اور خدا کے ذرائع الگ کام کر رہے تھے بلکہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں وہ ذریعے ظاہر ہوئے.آپ کی ذات میں خدا کی طاقتیں ظاہر ہوئیں اور ان کے ذریعے وہ عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئیں جو لاکھوں دلوں کو خدا تعالیٰ نے آنا فانا تبدیل کر کے دکھا دیا.پس یہ پین کی سرزمین کتنی ہی بھاری اور سنگلاخ زمین کیوں نہ نظر آئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو نسخے پہلے کارآمد ثابت ہوئے ہیں آج بھی لازماً کار آمد ثابت ہوں گے.یہ وہ نسخے نہیں جو اپنے اثر کو چھوڑ دیا کرتے ہیں.یہ دائی نسخے ہیں، یہ قانون قدرت سے تعلق رکھنے والے نسخے ہیں اور جیسے قانون قدرت تبدیل نہیں ہوتا یہ نسخے جو قانون قدرت پر مبنی نسخے ہیں ان کا اثر کبھی بھی پھر زائل نہیں ہوسکتا.کبھی بھی ان نسخوں کا اثر ضائع نہیں ہوسکتا.پس آپ ان کو استعمال کر کے دیکھیں.اس رنگ میں تبلیغ کریں جیسا کہ میں نے آپ سے بیان کیا ہے.عاجزانہ دعائیں کرتے رہیں اور دل کو تبلیغ میں ڈال دیں تبلیغ کے ہو جائیں.خدا کی نمائندگی اختیار کرنے کی کوشش کریں اور دعاؤں کے ذریعے خدا سے مدد مانگیں.پھر دیکھیں انشاء اللہ دیکھتے دیکھتے اس سرزمین کی تقدیر تبدیل ہوگی، نئی شان کے ساتھ اسلام دوبارہ اس سرزمین میں آئے گا.یہ شان تلوار کی شان نہیں ہوگی بلکہ پیغام کی شان ہوگی.یہ سرزمین کی فتح نہیں ہوگی بلکہ دلوں کی فتح ہوگی جو اس سرزمین پر بستے ہیں اور یہ فتح دائمی فتح ہوگی پھر دنیا کی کوئی طاقت کوئی تلوار اسلام کے نشان اس مقدس زمین سے مٹا نہیں سکے گی.خدا کرے اس کی آپ کو توفیق ملے ، خدا کرے آپ وہ تاریخی شخصیتیں بن جائیں جن کے نام کے ساتھ علاقے لکھے جائیں جن کے نام کو آئندہ آنے والی قو میں فخروں سے یاد کریں اور کہیں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اندلس کی زمین کو دوبارہ خدا کے لئے فتح کیا تھا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 150

خطبات طاہر جلد ۹ 145 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء آئندہ صدی غلبہ احمدیت کی صدی ہے ایک لاکھ ساٹھ ہزار بیعتوں کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيْهِ ® پھر فرمایا:.(الانشقاق :) کل بائیس تاریخ کو ہمارے جشن تشکر کے سال کا آخری دن تھا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے دوسرے سال کا پہلا دن جو جمعتہ المبارک سے شروع ہو رہا ہے اور ابھی چند دن تک رمضان المبارک بھی آنے والا ہے.گزشتہ رمضان مبارک میں جماعت احمدیہ نے غیر معمولی طور پر اظہار تشکر کی کامیابی کی دعائیں مانگی تھیں.اس رمضان مبارک کو اظہار تشکر کا شکریہ ادا کرنے کا رمضان المبارک بنا دینا چاہئے کیونکہ اس کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوئیں اور اس کثرت سے جماعت کی ادنی کوششوں کو فضل کے پھل لگے کہ اس کا بیان انسان کے لئے ممکن نہیں.ہر سطح پر جماعت کے بڑوں اور چھوٹوں نے خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور غیبی تائیدات کے نمونے دیکھے اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کے ایمان کونئی تقویت اور نئی

Page 151

خطبات طاہر جلد ۹ 146 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء زندگی ملی.یہ تفاصیل جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ساری دنیا کے ایک سو ہیں ممالک پر پھیلی پڑی ہیں اور ان کا اگر بہت ہی معمولی خلاصہ بھی نکال کر پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو جیسا کہ آپ نے گزشتہ جلسے میں دیکھا تھا کئی گھنٹوں میں بھی اُس خلاصے کا حق بھی ادا نہیں ہوسکا.پس اس پہلو سے میں اس خطبے میں تفصیل سے تو اس بات پر روشنی نہیں ڈالوں گا کہ اس گزشتہ اظہار تشکر میں جماعت احمدیہ کو کیا کچھ ملا اور کیسے کیسے ملا لیکن آخر پر چند باتیں آپ کے سامنے ایسی رکھوں گا جو تازہ خبروں سے تعلق رکھتی ہیں.یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے.اے انسان اِنَّكَ كَادِ مح إلى رَبَّكَ كَدْحًا تجھے یقینا خدا کے حضور محنت کر کے پہنچنا ہے اور اس راہ میں کوشش کرنی ہے اور اس کے نتیجے میں ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں فَمُلقِیه ایسی صورت میں تم اپنے رب کو پالو گے.یہ رمضان مبارک جو قریب آ رہا ہے اس کے پیش نظر سے میں نے اس آیت کا انتخاب کیا کہ اس رمضان مبارک میں جہاں خدا تعالیٰ کے حضور غیر معمولی جذبات تشکر کا اظہار کریں وہاں اُس سے لقا کی دُعا مانگیں اور یہ عرض کریں کہ ہم تیرے حضور محنت تو کرتے ہیں، کوشش کرنے کا عہد کرتے ہیں لیکن لقا کا معاملہ صرف ہماری خواہش سے تعلق نہیں رکھتا نہ ہماری محنت تک محدود ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک تو پردہ نہ اٹھائے ہماری لقا ممکن نہیں ہے.اس لئے تو اپنے فضل کے ساتھ ہماری لقا کے سامان پیدا کر.یہاں لفظ گڈ گا خاص توجہ کا مستحق ہے.اِلى رَبِّكَ كَدْحًا کا ایک معنیٰ ہے سخت محنت کرنا اور جب ساتھ گنگا دُہرایا جائے تو اس کا معنی یہ بن جائے گا کہ بہت ہی سخت محنت کرنا.محنت کو اپنی انتہا ء تک پہنچا دینا.پس اول تو لقا کا مضمون چونکہ انسانی عبادت کا معراج ہے اس لئے لازماً جتنی بلند چوٹی ہو اتنی ہی زیادہ محنت درکار ہوا کرتی ہے.تو قرآن مجید نے یہاں اِنک كَادِحَ إِلى رَبَّكَ كَدْحًا کہ کر یہ فرما دیا کہ عام دنیا کی ملاقاتوں کے لئے تم ترستے ہو اور بعض اوقات بڑی محنتیں کرنی پڑتی ہیں.شیریں فرہاد کا قصہ آپ نے سُنا ہے.فرہاد ایک نہر کھینچ لانے کے لئے اپنی ساری عمر گنوا بیٹھا اور پتھروں کے ساتھ تیشے مار مار کے اُس نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جو تمام ہندو پاکستان کی تاریخ میں ایک ضرب المثل بن چکا ہے یعنی اس کارنامے کی وجہ سے فرہاد کا نام ضرب المثل بن چکا ہے لیکن پھر بھی اس کو لقاء نصیب نہیں ہوئی.پس دنیا کی خاطر بسا اوقات انسان

Page 152

خطبات طاہر جلد ۹ 147 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء اتنی محنت کرتا ہے اور ایسی غیر معمولی قربانیاں پیش کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اُس کو لقاء نصیب نہیں ہوا کرتی.کیونکہ لقا کے لئے اُس شخص کے اندر بھی ایک اعلیٰ خلق کا ہونا ضروری ہے جس کی خاطر محنت کی جاتی ہے.جب تک اُس کی ذات محنت کو قبول کرنے والی نہ ہو اور اپنے اندر غیر معمولی احسان کی شان نہ رکھتی ہو اُس وقت تک ضروری نہیں کہ ہر محنت کرنے والے کو اُس کے محبوب کی لقامل جائے.خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ ہر محنت والے کو اگر وہ حسب توفیق محنت کرے، لقاء کی دعوت دیتا ہے اور چونکہ خود دیتا ہے اس لئے لازماً انسان یقین کے ساتھ محنت کرتا ہے کہ اگر میں حقیقی معنوں میں جیسا کہ فرمایا گیا ہے اُس کی لقاء کی کوشش کروں گا تو لقاء سے محروم نہیں رہوں گا.دوسرا گڈ حا کا معنی ہے اگلے دو دانتوں سے کاٹنا اور اس میں بھی اسی محنت کے مضمون کو مزید واضح فرما دیا گیا.خدا کی راہ میں جو محنت کرنی پڑتی ہے اُس میں اپنے نفس کو کاٹنا پڑتا ہے اور اُس کے لئے دُکھ اُٹھانا پڑتا ہے.دنیا کے عشق میں جو لوگ محنت کرتے ہیں وہ مسلسل اپنے نفس کو کاٹ رہے ہوتے ہیں اور اپنے دل کو زخم پہنچا رہے ہوتے ہیں، اپنے محبوب کے فراق میں اور اُس کی لقاء کی خواہش میں.پس خدا تعالیٰ نے یہاں وہ لفظ اختیار فرمایا جو عشق کے مضمون کو کامل طور پر کھول کر بیان کرتا ہے.فرمایا یہ محنت کوئی بیگار کی محنت نہیں ہو سکتی.ایسے مزدور کی محنت نہیں جس کے لئے کوئی اور اختیار نہ رہا ہو، مجبور کر دیا گیا ہو.پس انک کے لفظ میں تاکید ہے اُس سے غلط نبی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ خدا تمہیں مجبور کر رہا ہے.فرمایا ایسی محنت جبھی تم کر سکتے ہو جب تم میں عشق کا جذبہ پایا جائے.جب تم خاص اپنے نفس کو کاٹ بھی رہے ہو اور یہ جو مضمون ہے دو دانتوں سے کاٹنے والا یہ بسا اوقات عبادت میں واقعہ تجربے میں سے گزرتا ہے.بعض دفعہ جیسا کہ سکول کے بچے یا کالج کے لڑکے بھی جانتے ہیں امتحان کے دن قریب آجائیں، زیادہ محنت کے تقاضے ہوں اور نیند کا غلبہ ہو تو بعض طلباء اپنے آپ کو جگائے رکھنے کے لئے بار بار اپنے ہاتھ کو کاٹتے ہیں یعنی ایسا نہیں کاٹتے کہ زخم لگ جائے لیکن جگانے کے لئے کچھ تکلیف اپنے آپ کو پہنچاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی صحابہ کا یہ حال تھا کہ عبادت میں کھڑے رہنے کی خاطر اپنے آپ کو تکلیف پہنچایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ حضرت اقدس رسول اکرم علی اپنی ایک زوجہ مبارکہ کے گھر گئے تو ایک رسی لٹکی ہوئی دیکھی جو چھت سے کسی جگہ سے لٹکی ہوئی تھی.آپ

Page 153

خطبات طاہر جلد ۹ 148 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء نے پوچھا کہ یہ کیوں تو آپ کی زوجہ مبارکہ نے جواب دیا کہ یہ اس لئے کہ میں اتنا دیر کھڑا رہتی ہوں خدا کے حضور کہ تھک کر گرنے لگتی ہوں اُس وقت میں اس رسی کا سہارا لے لیتی ہوں.تو آنحضرت نے اس غیر معمولی محنت شاقہ سے منع فرمایا لیکن اپنی ذات میں آپ کی عبادت بھی بہت محنت طلب تھی اور بعض اوقات آپ کے عبادت میں کھڑے کھڑے پاؤں سوج جایا کرتے تھے.تو اس میں جو دانتوں سے کاٹنے کا مفہوم ہے یہ بھی عملاً خدا کی راہ میں محنت کرنے پر صادق آتا ہے.پس لقاء کے لئے جو کوشش ہونی چاہئے اُس میں ان محنتوں کے علاوہ دُعا کا پہلو بھی سامنے رکھیں اور رمضان مبارک چونکہ خود خدا کو ہمارے قریب لے آتا ہے اور چونکہ رمضان مبارک کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خوشخبری دی ہے کہ ہر نیکی کی کوئی جزاء مقرر ہے لیکن روزوں کی جزاء خدا خود ہے.تو اس لحاظ سے اس کا لقاء کے مضمون سے بہت گہرا تعلق ہے.پس اس مہینے میں لقاء کی دُعا کرنا اور لقاء کے لئے کوشش کرنا یقیناً دوسرے مہینوں کی نسبت بہت زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے.ایک غلط نہی بعض علماء کے دل میں اور عام مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے.یہاں جس لقاء کا وعدہ کیا گیا ہے وہ لقائے آخرت ہے اور ہر انسان اس کا مخاطب ہے اور اس سے مطلب اس کا یہ ہے کہ آخرت میں لقاء نصیب ہوگی.یہ بات ایک لحاظ سے تو درست ہے کہ ہر انسان طوعاً و کرھا گڈ حا قیامت کے دن خدا کے حضور حاضر کیا جائے گا مگر یہ درست نہیں کہ ہر انسان کولقاء نصیب ہوگی.یہ محض ایک غلط نہی ہے اور قرآن کریم اس کی واضح تر دید فرماتا ہے.لقاء کے نصیب ہونے کے لئے ضروری شرط ہے کہ اس دنیا میں لقاء نصیب ہو مَنْ كَانَ فِي هَذِهَ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمى (بنی اسرائیل : ۷۳ ) وہ لوگ جو اس دنیا میں اندھے ہیں وہ خدا کی لقاء آخرت میں کیسے حاصل کر سکیں گے.فرمایا فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْى وہ تو قیامت کے دن بھی اندھا رہے گا.پس حاضر ہو جانا اور مضمون رکھتا ہے اور لقاء نصیب ہو جانا اور مضمون رکھتا ہے.ہر چیز خدا کے حضور لوٹائی ضرور جائے گی لیکن یہ کہنا کہ لقاء نصیب ہوگی یہ درست نہیں.پس اگر ہر انسان مخاطب ہے تو اس دنیا میں لقاء مراد ہے کہ اے بندو! تم میں سے ہر ایک کو میں نے یہ صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر تم میری راہ میں محنت کرو گے تو میں تمہیں اپنی لقاء عطا کروں گا.پس یہ محنت کرو اور یہ صلائے عام ہے.اسی مضمون کو قرآن کریم کی ایک اور آیت بہت کھول کر

Page 154

خطبات طاہر جلد ۹ 149 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء بیان فرماتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أُولَيكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايْتِ رَبِّهِمْ وَلِقَابِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِمَةِ وَزُنًا (الكهف:۱۰۶) فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کا کفر کیا یہ جزا جول رہی ہے جہنم کی اس لئے ہے کہ انہوں نے خدا کا کفر کیا اور اس کی لقاء کا انکار کر دیا.پس اسی لئے ان کو جہنم کی جزاء دی جارہی ہے اور ان کے اعمال کا قیامت کے دن کوئی بھی وزن نہیں ہوگا.یہ آیت بہت ہی توجہ طلب ہے اس میں نیک اعمال کا انکار نہیں فرمایا گیا.بداعمال کا تو اجر ہوا ہی نہیں کرتا.مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو بظا ہر نیک اعمال کرتے ہوئے تمہیں دنیا میں دکھائی دیں گے اگر وہ ان نیک اعمال کے باوجود خدا کی لقاء کے منکر ہیں تو اس دنیا میں خدا کی لقاء کا انکار ان کو لقاء سے محروم رکھے گا اور جو دنیا میں لقاء سے محروم رہے گا قیامت کے دن اُس کو کچھ بھی نصیب نہیں ہوگا.گویا اُس کے سارے نیک اعمال اس دنیا میں ضائع چلے گئے أُولَبِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِايْتِ رَبِّهِمْ وَلِقَابِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ - فَحَبِطَتْ کا مطلب ہے کہ اُن کے اعمال ضائع کر دیے جائیں گے اور ان کا وزن ختم ہو جائے گا اس میں کوئی معنے ہی نہیں رہیں گے.پس بد اعمال کو اگر ضائع کیا جائے تو وہ تو بڑی نعمت ہے اُن لوگوں کے لئے جن کے بد اعمال ضائع کر دیئے جائیں.کسی کھاتے میں ہی نہ ڈالے جائیں.پس لازماً اس آیت میں نیک اعمال کی طرف اشارہ ہے اور ایسے لوگوں کے نیک اعمال کی طرف اشارہ ہے جو بظا ہر نیکی کرتے ہیں لیکن اس دنیا میں خدا کی لقاء کے قائل نہیں ہوتے اُس کی تلاش نہیں کرتے.اُس کے چہرے کے دیدار کے طالب نہیں ہوتے کیونکہ ان کے نزدیک اُن کے عقیدے کے مطابق اس دنیا میں خدا کی لقاء ختم ہو چکی ہے.یہاں یہ ذکر کرنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ دکھاتا ہے کہ اس دنیا میں لقاء ہوتی ہے اور صرف ایک کے لئے نہیں بلکہ ہر انسان کے لئے لقاء کا امکان موجود ہے.فرمایا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الهُكُمْ إِلَةٌ وَاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّةٍ أَحَدًا (الكيف : 11) اور یہ آیت جو میں نے اب پڑھی ہے یہ پہلی پڑھی گئی آیت کے چند آیتوں کے بعد ہے.پس جو مضمون وہاں اُٹھایا گیا تھا اس کو یہاں مکمل کیا

Page 155

خطبات طاہر جلد ۹ 150 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء گیا ہے.فرمایا وہ کیسے جاہل لوگ ہیں جو لقاء کا انکار کر دیتے ہیں.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے ایک بندے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں لقاء عطا فرمائی ہے اور اس سے کہا کہ یہ عام اعلان کر دو کہ یہ لقا میرے لئے خاص نہیں بلکہ میرے تعلق کے نتیجے میں جس تو حید کی میں تعلیم دیتا ہوں اگر اُس کے ساتھ تم وابستہ ہو جاؤ اور نیک اعمال کرو تو تمہیں بھی خدا اس دنیا میں لقاء عطا کر دے گا.پس لقاء کا مضمون ایک صلائے عام ہے.ہر انسان کے ساتھ اس کا تعلق ہے اور ہر انسان کو اس دنیا میں لقاء کی لازماً کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس مضمون سے غافل رہ کر زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں یہ خطرہ لاحق رہے گا کہ انسان اس دنیا میں خدا کی لقاء حاصل نہیں کر سکا وہ آخرت میں بھی لقاء سے محروم رہے گا.پس یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اس کو جماعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.صاحب لقاء لوگ اگر نصیب ہو جائیں اگر کسی جماعت کی اکثریت صاحب لقاء بن جائے تو عظیم الشان روحانی انقلاب بر پا ہوں.ایک صاحب لقاء بندے سے بھی بعض دفعہ روحانی انقلاب کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے.چنانچہ تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ کامل اندھیرے کے زمانے میں جبکہ تمام دنیا کا خدا سے تعلق کٹ چکا ہوتا ہے ایک بندہ ایسا اُٹھتا ہے جو خدا سے تعلق قائم کرتا ہے اور اُس سے لقاء حاصل کر لیتا ہے اور پھر اُس لقاء کو آگے اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے جیسے کوئی ساقی شراب بانٹتا ہے اور اعلان عام کر کر کے صلائے عام دے دے کر لوگوں کو بلاتا ہے کہ آؤ اور میرے مے خانے سے شراب بٹ رہی ہے آؤ اور اس سے حصہ لو.چنانچہ یہ جو آیت ہے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يوحى إلی یہ اسی قسم کی صلائے عام کا اعلان کر رہی ہے.فرماتا ہے ان کو بتاؤ کہ میں بھی تو تمہاری طرح کا ہی بشر تھا.تم جیسے ہی تھا دیکھنے میں.مجھ میں اگر فرق پڑا ہے تو لقاء کے نتیجے میں فرق پڑا ہے اور لقاء کا دوسرا معنیٰ وحی الہی ہے.خدا تعالیٰ سے خبریں پانا، خدا تعالیٰ سے تعلق کے اظہار کی باتیں سننا اور رویا اور کشوف سے اُس کو دیکھنا ورنہ ظاہری آنکھ سے تو خدا کی لقاء ممکن نہیں.پس یہاں لقاء کی تفسیر بھی فرما دی کہ لقاء "وحی" کو کہتے ہیں اور اس دنیا میں صاحب وحی ہو جانا یہ نہ صرف یہ کہ ہر انسان کے لئے ممکن ہے بلکہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے اور جو قو میں وحی کا انکار کر بیٹھتی ہیں ان کے اعمال اس دنیا میں ضائع کر دیئے جاتے ہیں.پس آج احمدیت کا اور غیر احمدیت کا سب سے بڑا فرق یہی ہے.آج دنیا کے اکثر

Page 156

خطبات طاہر جلده 151 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء دوسرے فرقے خواہ وہ اسلام سے تعلق رکھتے ہوں یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں وحی کے منکر ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کے مطابق لقاء کے منکر ہو چکے ہیں اور جو لقاء کا منکر ہو جائے اُس کے نظر آنے والے نیک اعمال خدا تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن ضائع کر دیئے جائیں گے اُن کی کوئی بھی حقیقت نہیں کیونکہ مقصود تو محبوب ہے.اگر محنت محبوب کی طرف نہیں لے کر جارہی اور محبوب کی لقاء کی تمنا نہیں کی جارہی تو اُس محنت کے کوئی معنی نہیں.وہ تو پتھر سے سر ٹکرانے والی بات ہے.پس محنت اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی.نیک اعمال اگر محنت ہیں تو ایسی محنت ہیں جن کا رُخ کوئی نہیں.وہ خدا کی محبت میں نہیں کی جارہی ، خدا کی طرف بڑھنے کے لئے نہیں کی جارہی.پس یہ جو رمضان مبارک آنے والا ہے اس میں لقاء کے مضمون کو اس طرح پیش نظر رکھیں جس طرح میں نے بیان کیا ہے اور خدا تعالیٰ سے غیر معمولی طور پر یہ التجاء کریں کہ اے خدا!! ہمیں سب دنیا میں صاحب لقاء بنادے.ہم دعوے تو کرتے ہیں کہ ایک سو بیس ممالک میں پھیل گئے ہیں مگر اگر ایک سو بیس میں صاحب لقاء نہیں تو آخر حقیقت میں ہمارے ایک سو بیس ممالک میں وجود ثابت نہیں ہو سکتا.حقیقت میں ہم ایک سو بیس ممالک میں تب پائے جائیں گے جب ہر ملک میں ایسے صاحب لقاء بندے پیدا ہو جائیں گے جن کو قطب کہا جاتا ہے، جن کے اوپر زمین آسمان کھڑے کئے جاتے ہیں ، جن کے سہارے سے باقی دنیا چلتی ہے.پس ایسا صاحب لقاء بنے کی کوشش کریں پھر دیکھنا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اُن رحمتوں اور برکتوں میں کتنی تیزی آجاتی ہے جو ہم پر اس سال گزشتہ میں نازل ہوئی ہیں.دو تین تازہ باتیں ہیں جو اس سلسلے میں آپ کے سامنے بیان کرنی تھیں.ایک تو اس سفر سے تعلق رکھتی ہے جو ابھی میں نے حال ہی میں کیا اور گزشتہ سال تشکر کے سال کا یہ آخری سفر تھا جس میں فرانس سے گزرتے ہوئے پہلے تو پرتگال گئے اور پھر پرتگال سے سپین اور پین سے پھر واپس فرانس کے رستے واپس پہنچے.پرتگال جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایک ایسا ملک ہے جہاں صرف دو سال پہلے ایک مبلغ کو بھیجا گیا تھا مولا نا کرم الہی صاحب ظفر کو اور جیسے وہ درویش صفت انسان ہیں اُسی طرح کے وہ دُعا گو ہیں اور بہت دُعائیں کر کے کام کرنے والے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو پھل لگایا اور اس وقت تک جب میں گیا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل سے نو بیعتیں وہاں ہو چکی

Page 157

خطبات طاہر جلد ۹ 152 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء تھیں اور ان نو میں آگے پھر پھلنے کا جذ بہ پایا جا تا تھا.ان میں سے ایک جو خالص پرتگالی نسل کے تھے وہ دیکھنے میں بالکل سادہ اور یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ جذباتی ہوں گے لیکن ان کی شخصیت کے اندر چھپے ہوئے بعض ایسے خواص تھے جو رفتہ رفتہ ظاہر ہونے شروع ہوئے.بہت کم گو اور اپنے جذبات کو ضائع نہ کرنے والا مزاج تھا لیکن جب ان سے رخصت ہو کر ہم سپین پہنچے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں وہ استقبال کے لئے کھڑے تھے.جو ان کی زبان جانتے تھے میں نے اُن سے کہا کہ پوچھو کہ ہم ان کو الوداع کہہ کے آئے تھے اور انہوں نے ہمیں رخصت کیا تھا یہ یہاں کہاں سے آگئے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو آپ سے پہلے سے یہاں پہ پہنچے ہوئے ہیں.آکے انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ رخصت کر کے مجھے بے چینی لگ گئی اور میں نے کہا کہ جب تک میرا بس ہے میں ساتھ ضرور دوں گا.چنانچہ جاتے ہی وہاں جو استقبال کی تیاریاں تھیں اُن میں سب سے زیادہ اُنہوں نے محنت کی.جو جھنڈیاں لگائیں اُنہوں نے لگائیں، جھاڑو اپنے ہاتھ سے دیئے اور حیرت انگیز اخلاص کا اظہار کیا جس سے سپین کی جماعت کو بھی بڑی روحانی تقویت ملی.جو دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے بعض افریقن ممالک کے دوست تھے جو پرتگیزی اثر کے نیچے ہیں ان میں بھی میں نے بہت ہی جذبہ دیکھا اور تمام پرتگال کے معززین کی بہترین نمائندگی ہماری ریسپشن (Reception) میں ہوئی.اس سلسلے میں میں گزشتہ خطبے میں کچھ ذکر کر چکا ہوں ان باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں زمین تیار ہے اور بہت تیزی سے جماعت احمدیہ کی محبت بڑھ رہی ہے.ٹیلی ویژن نے ، ریڈیونے ، اخبارات نے جماعت احمدیہ کے چرچے کئے اور جہاں جہاں بھی ہم ٹھہرے اور جہاں جہاں بھی ہمارے رابطے ہوئے وہاں ہم نے غیر معمولی محبت ، جوابی محبت کو اُبھرتے ہوئے دیکھا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسے رابطے پیدا ہوئے جن سے انشاء اللہ تعالیٰ نہ صرف اُس ملک میں بلکہ اور بھی دوسرے ملکوں میں احمدیت کی داغ بیل ڈالنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں.مثلاً ہماری ریسپشن میں وہاں کی تمام پارٹیوں کے نمائندگان شامل تھے اور مقامی طور پر حکومت کے نمائندگان اور معزز شخصیتیں بھی لیکن اس کے علاوہ بہت سے دیگر ممالک کے ایمبیسیڈ رز تشریف لائے ہوئے تھے اور اُن ایمبیسڈرز نے جس طرح سوال و جواب میں حصہ لیا اور اُس کے بعد جس محبت سے اظہار کیا ہے

Page 158

خطبات طاہر جلد ۹ 153 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء اُس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیونکہ جماعت احمد یہ تو بالکل غیر معروف تھی کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں تھی کہ جماعت احمدیہ کوئی موجود ہے لیکن دیکھتے دیکھتے ساری فضا پلٹ گئی.کوئی ریڈیو سے رابطہ نہیں تھا لیکن کیونکہ ایسی مجلس جس میں معززین تشریف لائیں وہاں ٹیلی ویژین اور ریڈیو کوخود بخود دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے نیشنل ٹیلی ویژین کی ایک نمائندہ وہاں تشریف لائی ہوئی تھی انہوں نے ساری تقریب کی کارروائی کو ٹیلی وائز کیا اور پھر ہمیں بتایا کہ کل یہ فلاں وقت نشر ہوگی اور یہ بھی وعدہ کیا کہ میں اس کی مکمل کاپی آپ کو دے دوں گی تا کہ آپ بھی اس سے استفادہ کریں.بعض ایمبیسیڈ رز جو مشرقی یورپ سے تعلق رکھتے تھے ان کے اندر ایسی جلدی جلدی تبدیلی پیدا ہوئی کہ ایک ایمبیسیڈر نے تو دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ کر جانے سے پہلے بارہا یہ کہا کہ I am deeply touched کہ میرے دل میں گہرائی تک اثر ہو گیا ہے اور وہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑتے تھے، زیادہ انگریزی نہیں آتی تھی یہی فقرہ بار بار کہے جاتے تھے اور پھر اپنے کارڈز دیئے اور آئندہ مستقل تعلق رکھنے کی تاکید کی.ایک ایمبیسیڈ رصاحب کا وہاں جہاں مشن ہاؤس میں ہمارا قیام تھا وہاں پہنچتے پہنچتے فون آگیا کہ میں تو دوبارہ ملنا چاہتا ہوں.مجھے آپ دوبارہ وقت دیں چنانچہ دوسرے روز پھر ہم اُن کے ہاں حاضر ہوئے اور بڑی محبت کے ماحول میں گفتگو ہوئی جو موضوع تھا گفتگو کا وہ یہ تھا کہ ہمارے ملک میں آپ جلدی پہنچیں اور کس طرح پہنچیں ؟ اس سلسلے میں انہوں نے مجھ سے باتیں کیں کہ میں مدد کرنا چاہتا ہوں اور اگر آپ آنا چاہیں دروازے کھلے ہیں اور میں اپنی حکومت سے رابطہ کرتا ہوں میں یہ وعدہ تو نہیں کر سکتا کہ میں سو فیصدی کامیاب ہو جاؤں گا لیکن میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی انتہائی کوشش ضرور کروں گا کیونکہ انہوں نے بتایا کہ میرے نزدیک ہمارے ملک کو جماعت احمدیہ کی ضرورت ہے.چنانچہ وہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا ورنہ انسان کہاں یہ تبدیلیاں دلوں میں پیدا کر سکتا ہے.یہ اُس خاص سال کی برکت ہی ہے جسے جشن تشکر کا سال کہتے ہیں اور چونکہ وہ مباہلے کا بھی سال تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اسے دہری برکتیں دی ہیں، غیر معمولی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں.سپین میں جا کر بھی یہی حال ہوا وہاں جب ریسپشن دی گئی تو وہاں کے دو گورنر تشریف لائے ہوئے تھے اور ایک گورنر تو اجازت لے کر چلے گئے لیکن ایک گورنر اس صوبے کے وہاں بیٹھے

Page 159

خطبات طاہر جلد ۹ 154 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء رہے اور بہت ہی غور اور توجہ سے باتوں کو سُنا اور Respond کیا حالانکہ جو آئی جی پولیس تھے انہوں نے یہ کہا آخر یہ کہ میری تو ابھی پیاس نہیں بجھی میں کل دوبارہ آنا چاہتا ہوں.وہی بات جو وہاں ہوئی تھی ایسی بات یہاں دوہرائی گئی.اب یہ کسی انسان کے بس کی بات تو نہیں چنانچہ وہ دوبارہ مشن ہاؤس تشریف لائے اور وہاں آکر بڑی لمبی باتیں ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ میں مستقلاً اس جماعت سے تعلق رکھنا چاہتا ہوں اور مجھے آپ اپنا بھائی سمجھیں اور یہیں نہیں بلکہ سارے پین میں کہیں کوئی کام ہو تو مجھے خدمت کا موقع ضرور دیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ اُس وقت وہاں ہمیں علم نہیں تھا پہلے اور ان کی زبانی علم ہوا کہ ہمارے دو احمدی مستری جو پاکستان سے آئے ہوئے تھے اور وہاں کام کر رہے تھے اُن کو صرف دو مہینے کا ویز املا تھا وہ بڑھاتے بڑھاتے ایک سال تک پہنچ گیا تھا اور یہی وہ صاحب تھے جنہوں نے آخری فیصلہ کرنا تھا.چنانچہ انہوں نے مشنری کو مخاطب ہو کر کہا کہ میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ کسی قیمت پر اب ان کو ایک دن بھی اور اجازت نہیں دینی اور اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو کبھی کسی درخواست کی ضرورت نہیں.میں اب از خود اس کے ویزے کو جب تک آپ کہیں گے بڑھاتا رہوں گا یعنی جب تک آپ کی خواہش ہوگی بڑھاتا رہوں گا لیکن اب آپ کو درخواست نہیں دینی چاہئے.اس طرح خدا تعالیٰ اپنے حیرت انگیز طور پر فضل نازل فرماتا رہا اور تعلقات کے راستے بڑھا تا رہا.وہیں اُسی ملک کے سفیر نے یعنی جو پین میں متعین ہیں جن کے متعلق میں نے پہلے بات کی ہے کہ دوبارہ اُنہوں نے خواہش کی تھی اور ملاقات کی ہمشن میں فون کیا کہ میں تو ان سے ابھی ملنا چاہتا ہوں.اب میرا یہ تاثر ہے کہ انہوں نے فون کیا ہوگا یا پھر کوئی دعوت نامہ گیا تھا اس کی وجہ ہوگی مگر بہر حال اُن کے اصرار کی وجہ سے ہمیں اپنا رستہ بدل کر میڈرڈ سے ہو کر جانا پڑا اور وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کے ساتھ بھی اسی موضوع پر باتیں ہوئیں اور انہوں نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا کہ ہمارے ملک کو آپ کی ضرورت ہے.میں اپنے طور پر رابطہ کرتا ہوں اور جب کوئی مثبت جواب آئے گا تو میں پھر آپ کو مطلع کر دوں گا.جہاں تک سوال وجواب کی مجالس کا تعلق ہے پین میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی سمجھدار طبقے کے لوگ صرف وہیں کے نہیں بلکہ دوسرے شہروں سے بھی تشریف لائے ہوئے تھے اور

Page 160

خطبات طاہر جلد ۹ 155 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء اُن سے لمبی مجالس لگیں جس کے نتیجے میں سپینش زبان میں بھی انہیں بہت اچھا موادسوال وجواب کی مجلس کا مہیا ہو گیا.اس سے ایک دن پہلے جو ایک باپ بیٹا تھے دونوں نے یعنی مجھ سے خاص طور پر ایک درخواست کی.کرم الہی صاحب ظفر نے یہ کہا کہ آج ایک مہمان آئے ہیں جن پر میں چھپیں سال سے محنت کر رہا ہوں لیکن وہ قریب آ کر وہیں کھڑے ہیں.آج یہ دُعا کریں کہ یہ احمدی ہو جائیں اور ان کے بیٹے قمر نے بھی ایک درخواست کی اور کیسی عجیب شان ہے خدا نے اس سارے خاندان کو کس طرح تبلیغ کی لگن لگائی ہوئی ہے اور کیسا اخلاص عطا کیا ہے.یہی دعا کی کہ ایک ہمارے دفتر میں بڑی بااثر اور بڑی باشعور اور تعلیم یافتہ عورت ہے اس پر میں نے بڑی محنت کی ہے اور ایک اور دوست ہیں دعا کریں کہ کوئی ان میں سے بیعت کر لے کیونکہ اب تک مجھے کوئی پھل نہیں ملا.وہ بھی دونوں ہی تشریف لائے ہوئے تھے.چنانچہ جو دوست تھے جن کا ذکر کیا ہے وہاں کے بڑے ہی سمجھدار تعلم یافته ، صاحب علم اور امیر آدمی ہیں.ان کا ایک بہت بڑا فرنیچر کا کارخانہ ہے اور بڑی دیر سے اسلام میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے بتایا کہ میں نے پانچ قرآن کریم مختلف وقتوں میں سپینش زبان میں ترجمہ ہوئے لے کر رکھے ہوئے ہیں اور پانچواں آپ کا قرآن کریم ہے اور انہوں نے کہا کہ جب تک آپ کا قرآن کریم میرے ہاتھ میں نہیں آیا مجھے کچھ پتا نہیں لگتا تھا کہ قرآن کریم کے مضامین کیا شان رکھتے ہیں؟ اور جب سے یہ قرآن پڑھنا شروع کیا ہے اُس نے کہا میری تو حالت بدل گئی ہے.اور اُس نے مختلف جگہیں مارک کر کے نشان لگا کر رکھے ہوئے تھے اور مجھے سناتا تھا پڑھ پڑھ کے اور کہتا تھا دیکھیں کیا بات ہے، کیا شان ہے اس مضمون کی اور کس طرح آپ لوگوں نے محنت کر کے قرآن کے حسن کو اُبھارا ہے اور اُجلا کیا ہے.چنانچہ وہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لائے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے کہا علیحدگی میں کہ میری بیوی بڑی سخت متعصب عیسائی ہے اور میری راہ میں سب سے بڑی روک یہی ہے.میں ساتھ لے آیا ہوں کہ شاید اس کا دل نرم ہو.تو اللہ تعالیٰ نے اُس کے دل کی نرمی کا سامان یوں بھی پیدا فرما دیا کہ وہ ایک خاص بیماری میں مبتلا تھی اور جب میں نے Homeo Pathically اُن کے علاج کی پیشکش کی اور ان کو بتایا کہ آپ کی یہ یہ علامتیں ہیں اور یہ وجوہات ہیں تو وہ حیران رہ گئیں کیونکہ جو باتیں ظاہر تھیں فوراً پتا چل جاتی ہیں علامتوں سے وہ اس تفصیل سے اُس کے اندر کی کیفیت، بیماری کی کیفیت میں نے بیان کی کہ وہ غیر

Page 161

خطبات طاہر جلد ۹ 156 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء معمولی طور پر متاثر ہوئی اور ساتھ ہی مجلسوں میں بیٹھی پورا وقت بعد میں ریسپشن میں بھی آئی تو اُن کے میاں کا چہرہ دیکھ کر اُن کی بیوی کے تاثرات معلوم ہورہے تھے.اتنا خوش تھے ان کی کیفیت دیکھ کے کہ آدمی اُس کو بیان نہیں کر سکتا کس طرح اُن کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا تھا جب وہ کسی بات سے متاثر ہوتی تھیں.آخر پر پھر اُن سے رہا نہیں گیا جب جدائی کے وقت انہوں نے الوداع کرنا چاہا تو الگ کمرے میں ملے مجھے انہوں نے کہا کہ اب میں مزید انتظار نہیں کر سکتا اپنی بیوی کے بدلنے کا اور آج میں یہاں سے بیعت کر کے رخصت ہوتا ہوں.پس خدا نے اُس باپ کی دُعا بھی سن لی اور اُس باپ نے مجھے دُعا کے لئے کہا تھا اللہ تعالیٰ نے میرا بھی حصہ ڈال دیا اور بیٹے کی دُعا یوں قبول ہوئی کہ وہی خاتون جو مطلقہ ہیں اُن کی تین بچیاں بھی ہیں جو اتنی قابل ہیں کہ سپین میں شاعری کے مقابلے میں سارے پین میں اُنہوں نے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے.ایسی اچھی ادیبہ ہیں اُن سے جب مجلس لگی تو اُٹھنے سے پہلے انہوں نے کہا کہ میرا تو خیال ہے کہ اب مجھے شامل ہو جانا چاہئے.میں نے اُن سے کہا کہ نہیں ابھی اور غور کر لیں، دُعا کر لیں تسلی ہو جائے.انہوں نے کہا میں نے اٹھنا نہیں جب تک بیعت نہ کر لوں.اب تو میرے دل کے بس کی بات نہیں رہی اور اُس نے کہا کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ میں کتنی دیر سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہی ہوں اور مجھے کتنی گہری دلچپسی پیدا ہو چکی ہے، یہ جو آپ کی کتاب ہے Murder in the name of Allah اُس کے دو ابواب کا میں ترجمہ کر کے دُہرا چکی ہوں اور باقی میں بڑی تیزی سے کر رہی ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ پین کو اس کتاب کی بہت ضرورت ہے.تو اپنے طور پر وہ اتنا پہلے ہی خدا کے فضل سے آگے بڑھ چکی تھی اور تھوڑا سا درخت کو ہلانا پڑتا ہے پھل گرانے کے لئے اُس ہلانے میں خدا نے میرا ہاتھ بھی لگوا دیا ورنہ وہ پھل تو پہلے سے ہی تیار تھا اور اُس کی بیعت پر خاص طور پر جو احمدی ہیں سپین کے بہت ہی خوش ہوئے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی وجہ سے جماعت کو غیر معمولی تقویت ملے گی پھر اُسی رات ایک پرانے سپین کے مسلمان کا فون آیا کہ میں نے ٹیلی ویژن پر آپ کے امام کا پروگرام دیکھا ہے مجھے خواہش ہے اگر وقت ملے تو میں ابھی آجاؤں اور مجھے گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں.چنانچہ ہم نے وقت دیا اُس کے بعد گیارہ بجے سے بعد کافی دیر تک اُن کے پاس بیٹھے رہے.انہوں نے بھی آخر پر یہی کہا کہ میں بڑی دیر سے مسلمان ہوں مگر تمام فرقوں کو پرکھنے کے بعد میرا دل اٹکا نہیں اور آپ کے

Page 162

خطبات طاہر جلد ۹ 157 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء ساتھ دل اٹکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا یہیں انجام ہوگا لیکن ابھی میں مزید سوچنا چاہتا ہوں.میں نے کہا ہاں شوق سے سوچیں دُعا کریں چنانچہ وہ بہت ہی محبت کے ماحول میں اور ایسے رنگ میں رخصت ہوئے کہ جس سے محسوس یہی ہوتا تھا کہ آج نہیں تو کل انشاء اللہ تعالیٰ ضرور تشریف لائیں گے.وہاں بنیادیں پڑی ہیں اور وہاں ایک Sevilla یو نیورسٹی ہے اس کے عربی ڈیپارٹمنٹ میں بھی لیکچر کا موقعہ ملا خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اُس کے بھی اچھے اثرات مترتب ہوئے.بہت سے لوگوں نے دلچسپی لی اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس سے بھی انشاء اللہ تعالی تبلیغ کے نئے رستے وہاں کھل جائیں گے.آخر پر یہ بہت بڑی خوشخبری آپ کو دینا چاہتا ہوں یہ بھی سب خوشخبریاں ہیں اور بڑی خوشخبری ان معنوں میں ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر خوشخبری کے پیٹ سے بہت ہی عظیم الشان اور خوشخبریاں ملنے والی ہیں.یعنی ایسی خوشخبریاں ہیں جن کے بطن سے خوشخبریاں پیدا ہوتی ہیں لیکن یہ جو خوشخبری ہے یہ ایک ایسا پھل ہے جو اس سال تشکر کا غیر معمولی پھل ہے.آپ کو یاد ہوگا میں نے کئی دفعہ جماعت کو اس دُعا کی طرف توجہ دلائی تھی کہ میری بڑی دیر سے دلی تمنا ہے کہ سال تشکر میں ہم ایک لاکھ بیعتوں کا ٹارگٹ پورا کر لیں اور اُس کے لئے سارے ممالک کو یاد دہانی بھی کروائی گئی اور ساری جماعت نے دعائیں کیں تو آج یعنی کل شام تک کی رپورٹوں کے مطابق ابھی اس میں ساری رپورٹیں شامل نہیں کیونکہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جو غیر معمولی محنت کر رہے تھے لیکن ان کی رپورٹ نہیں پہنچی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد بیعتیں ہو چکی ہیں اور یہ سال ایک عظیم سنگ میل کا سال بن گیا ہے ، سنگ میل کی حیثیت رکھنے والا سال بن گیا ہے لیکن جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی توجہ دلائی تھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چوٹی بن جائے گی اور پھر ہم گر جائیں گے.یہ پہلا قدم بنا چاہئے کہ اگلی صدی کا پہلا زینہ بنا چاہئے اور جو صاحب بصیرت اور صاحب شعور لوگ ہیں وہ یہ اندازہ لگانے لگے ہیں اور تمام ملکوں سے اس قسم کی آراء موصول ہو رہی ہیں کہ غیروں نے محسوس کر لیا ہے کہ اب یہ جماعت کے غلبے کی صدی آچکی ہے.یہاں تک کہ آج ہی کی ڈاک میں کلکتہ کے ہمارے امیر صاحب مشرق علی صاحب کی طرف سے خط ملا ہے اُن کو اللہ تعالیٰ نے بہت توفیق دی ہے کہ جماعت کو بڑی تیزی کے ساتھ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اور جہاں بھی اسلام کے

Page 163

خطبات طاہر جلد ۹ 158 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۹۰ء خلاف کسی رسالے یا اخبار میں کوئی خبر شائع ہوتی ہے فوراًوہ لوگ جوابی کارروائی کرتے ہیں چنانچہ اسی ضمن میں ایک بہت اہم ہندو اخبار کے ایڈیٹر تھے اُن سے ملاقات کی ، گھنٹہ ملاقات جاری رہی اُس نے جماعت احمدیہ کے متعلق تمام زاویوں سے ایک اندازہ لگایا ، گہرے سوال کئے اور آخر پر اُس کا تاثر یہ تھا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ زمانہ جماعت احمدیہ کے غلبے کا زمانہ ہے.اب وہ ایک صاحب بصیرت انسان ہے اس پہلو سے اُس نے یہ بات کہی.پس یہ بات تو بہر حال سچی ہے لیکن اس لئے نہیں کہ اُس نے کہی ہے بلکہ اس لئے کہ خدا کی تقدیر ہمیں یہ بات ہمارے افق پر لکھی ہوئی دکھا رہی ہے اور اس نے افق کی تحریر پڑھی ہے اس کی پیشگوئی پوری نہیں ہوگی خدا کی تقدیر پوری ہوگی لیکن پڑھنے والے افق کی تحریریں پڑھ لیا کرتے ہیں.جو صبح صادق کے آثار دیکھ کر یہ پیشگوئی کر دیں کہ دن ضرور طلوع ہوگا، دن تو ضرور طلوع ہوتا ہے لیکن اُن کی پیشگوئی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ انہوں نے صبح صادق کے آثار کو دن چڑھنے سے پہلے دیکھ لیا ہوتا ہے.پس اس وقت دنیا میں ایسے ممالک میں بھی جہاں جماعت کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور غیروں کا بہت وسیع غلبہ ہے جیسے ہندوستان ہے وہاں کے باشعور لوگ بھی آج اُن آثار کو پڑھنے لگے ہیں جو کل کے مستقبل کے جماعت احمدیہ کے عظیم غلبہ کی خبر دے رہے ہیں.پس اس رمضان میں اُس غلبہ کے لئے بھی تیاری کریں اور جہاں لقاء کی دعائیں مانگیں وہاں یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے ساری دنیا میں صاحب لقاء بندے پیدا کر کے خدا کے حضور تحفے کے طور پر پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 164

خطبات طاہر جلد ۹ 159 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء لقائے باری تعالیٰ کا حصول اعلیٰ اخلاق سے مزین ہوئے بغیر ممکن نہیں.حصول لقاء کے دیگر ذرائع خطبه جمعه فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک بار کسی نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! قیامت کب ہوگی.تو آپ نے جواباً فرمایا تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے بہت ہی پیارا اور بہت ہی گہرا پر حکمت جواب ہے.کب سے انسان کو غرض نہیں ہونی چاہئے تیاری ہمیشہ رہنی چاہئے.پس گزشتہ جمعہ میں جب میں نے اللہ تعالیٰ سے لقاء کے متعلق جو دعاؤں کی تحریک کی تھی.اس کے تعلق میں مجھے خیال آیا کہ تیاری کے سلسلے میں بھی کچھ باتیں آج آپ کے سامنے رکھوں کیونکہ قیامت کی تیاری در حقیقت لقاء کی ہی تیاری ہے اور دونوں ایک ہی مضمون ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جب فرمایا کہ قیامت کی کیا تیاری کی ہے.تو بلاشبہ اس سے مراد یہ تھی کہ قیامت میں تو خدا سے لقا ہوگی یعنی وہ لقاء جو ایک نہ ایک رنگ میں ہر ایک کو نصیب ہوگی اس کے سامنے پیش ہونا ہو گا ان معنوں میں لقاء ہے.پس جب پیش ہو گے تو اس کے لئے کیا تیاری ہے اور مراد در حقیقت یہ تھی کہ اصل لقاء جو تعلق اور محبت کی لقاء ہوا کرتی ہے ،اس کے لئے اگر تم نے اس دنیا میں تیاری نہ کی تو قیامت کا تمہیں کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا.پس اس پہلو سے ہمیں خدا تعالیٰ کی لقاء کے مضمون کو سمجھنا بھی چاہئے اور اس کے لئے ہمہ وقت تیاری بھی کرنی چاہئے.

Page 165

خطبات طاہر جلد ۹ 160 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء اس ضمن میں پہلی بات تو یہ آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں کہ لقاء کسی ایسے ایک لمحے کی ملاقات کا نام نہیں جو اچانک نصیب ہو جاتا ہے اور جس طرح آپ ایک دوست سے ملتے ہیں اور پھر اس سے جدا ہو جاتے ہیں اور اس کی خوشیاں دل میں لئے پھرتے ہیں.خدا سے بھی گویا اسی قسم کی کوئی ملاقات ہوگی.لقاء کا مضمون جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف ملفوظات اور کتب میں بہت کھول کر بیان فرمایا ہے عام انسانی ملاقات سے مختلف حیثیت رکھتا ہے.یہ لقاء ایسی ہے جس میں جس حصے کی لقاء نصیب ہو جائے وہ پھر مستقل لقاء رہتی ہے اور اگلے کی طلب پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی لقاء دنیا میں بیک وقت کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ لا محدود ہے اور انسان محدود ہے اور محدود انسان لا محدود میں سفر کر سکتا ہے لیکن اس کا احاطہ نہیں کر سکتا.پس لقائے باری تعالیٰ کا مضمون خدا کی ذات میں سفر کرنے کا مضمون ہے اور جو قدم آگے بڑھایا جاتا ہے پھر اس میں واپسی نہیں ہوا کرتی.یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ جتنا حصہ خدا کا پالیا پھر اس کے بعد خدا کے احاطے میں سے باہر نکل جائیں اور کہیں کہ یہ لقاء ہوگئی اب ایک دوسری لقاء کی کوشش کرتا ہوں بلکہ ایک سفر ہے جو لامتناہی ہے.تبھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک دفعہ جب ایک کھو کھلے فلسفی نے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی انسان سمندر میں کشتی پر سفر کر رہا ہواور کنارہ آجائے.وہ پھر بھی کشتی میں بیٹھا رہے تو اس کے متعلق آپ کیا خیال کریں گے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی یہ واقعہ بیان کیا ہے بڑا دلچسپ ہے.مطلب یہ تھا کہ عبادتیں کرتے ہو اس غرض سے کہ خدا مل جائے لیکن اگر خدا مل جائے اور پھر کشتی میں ہی بیٹھے رہو تو بڑی بے وقوفی ہوگی.تو آپ نے فرمایا کہ اگر تو کوئی کنارے والا سمندر ہو تو کشتی میں بیٹھے رہنا بہت بے وقوفی ہے لیکن اگر کوئی سمندر بے کنار ہو تو کسی مقام کو کنارا سمجھ کر وہاں جواترے گا ، وہیں ہلاک ہو جائے گا.پس خدا تعالیٰ کی لقاء کا مضمون دراصل یہی ایک لا متناہی سفر ہے اور اس سفر میں کوئی واپسی نہیں ہے کوئی قدم پیچھے اٹھنے والا نہیں ہے کیونکہ اگر اس سفر میں واپسی شروع ہو جائے تو وہ بہت ہی زیادہ خطر ناک بات ہے.خدا کو پانے کے بعد اس سے بے وفائی کرنا اور اس سے منہ موڑ نا ہلاکت کو دعوت دینے والی بات ہے.پس ایسی لقاء جو مسلسل بڑھتی چلی جائے اس کو لقائے باری تعالیٰ کہتے ہیں اور جو اس دنیا میں نصیب ہونی شروع ہو جائے پھر قیامت کے دن اس لقاء کا ایک ظاہری نظارہ بھی

Page 166

خطبات طاہر جلد ۹ 161 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء دکھائی دے گا وہ کیا ہوگا ؟ ہم اس کا تصور نہیں باندھ سکتے.مگر ہر شخص کی لقاء کی حیثیت اور توفیق اس دنیا میں طے ہوگی اور جتنی لقاء اس دنیا میں کسی کو نصیب ہوئی ہے.اس سے ممکن ہے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ اس میں روشنی پیدا ہو جائے اور اس لقاء کی جزا یہ ہو کہ خدا ایسے دکھائی دینے لگے گویا ہماری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے.مگر اس کے باوجود ہر شخص کی لقاء الگ الگ ہے.چنانچہ اس گڈریے کی لقاء اور تھی جو خدا تعالیٰ سے اپنے رنگ میں پیار سے باتیں کر رہا تھا کہ تو مجھے ملے تو میں تیری جوئیں ماروں، تیرے کپڑے دھوؤں ، کانٹے نکالوں اور موسیٰ“ کی لقا اور تھی.موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے کلیم اللہ کا لقب عطا فرمایا اور لقاء کے تعلق میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک خاص مقام تھا.مگر وہ مقام محمد مصطفی ﷺ کی لقاء کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا.پس وہ سفر جو ایک گڈریے کی لقاء سے شروع ہوتا ہے، وہ طور پر جا کر ختم نہیں ہوتا بلکہ طور کے بعد مقام محمد مصطفیٰ آتا ہے.یعنی محمد مصطفی کا قلب جس پر خدا جلوہ گر ہوا تو انسانی لقاء کا مضمون کامل ہوا.لیکن یہ مطلب نہیں کہ خدا محدود ہو گیا.مراد صرف یہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے جتنی توفیق عطا فرمائی ہے، جتنی استطاعت بخشی ہے.اس کی آخری حد تک خدا تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی میل کو پہنچنے کی توفیق بخشی ،لیکن ساتھ ہی معراج میں یہ بات ظاہر فرما دی کہ وہ حد آپ کی آخری حد تھی خدا کی آخری حد نہیں تھی بلکہ خدا کی حدود کا آغاز تھا.جہاں وہ تمثیلی بیری لگی ہوئی ہے جو انسان کی حد کو خدا کی حدوں سے جدا کرتی ہے.وہاں تک پہنچنا انسان کامل کا کام تھا لیکن یہ مراد نہیں کہ اس کے بعد خد اختم ہو جاتا ہے.خدا تو ایک لامتناہی ہستی ہے اور پھر اپنے فضل سے اس نے کس حد تک آنحضرت ﷺ کو اپنے اندر سفر کی توفیق بخشی.یہ ایک عام انسان خواہ وہ کیسا ہی نیک اور بزرگ اور فلسفی کیوں نہ ہو سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا تصور تجربے کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا.بہت سی باتیں ایسی ہیں جو تجربے کے بغیر بھی سوچی جاسکتی ہیں.بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بغیر تجربے کے نصیب نہیں ہوسکتیں.تبھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعوئی فرمایا کہ محد مصطفی عے کے دیدار کا دعوی کرنے والو اور دیکھنے والو جب تک میری آنکھ سے نہ دیکھو تمہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا چیز تھی.پس اگر حضرت محمد مصطفی حملے بھی عام انسانوں کو مکمل طور پر دکھائی نہیں دے سکتے.تو خدا تعالیٰ کے متعلق یہ تصور کر لینا کہ اس کی لقاء آنا فانا ایک جلوے کی صورت میں ظاہر ہو اور وہی اس کا منتہی بن

Page 167

خطبات طاہر جلد ۹ 162 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء جائے یہ ناممکن بات ہے.یہ بے وقوفی والی بات ہے.پس اس پہلو سے لقاء کے مضمون کو اپنی توفیق کے مطابق سمجھنے اور اپنی توفیق کے مطابق اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.لقاء تو ہر جگہ ہر صورت میں ممکن ہے.جہاں آپ کی نظر پڑے وہاں خدا کی لقاء ہو سکتی ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا ہر جگہ ہے تو اس کا ایک تو وہ تصور ہے جو ظاہری شش جہات کا تصور ہے لیکن خدا کے معاملے میں یہ تصور اس سے بہت زیادہ گہرا ہے اور غور طلب ہے.خدا ہر جگہ کا مطلب یہ ہونا چاہئے اور یہ ہے کہ جہاں بھی آپ نگاہ ڈالیں ، جہاں بھی آپ غور کریں وہاں آپ کو خدا دکھائی دینا چاہئے اور اگر نہیں دیتا تو اس حصے میں آپ لقاء سے محروم ہیں.لقاء کے متعلق یاد رکھیں کہ عام انسانوں کی لقاء بھی آسان نہیں ہوا کرتی، ملنے کے باوجود آپ اجنبی رہا کرتے ہیں.بہت سے ایسے آدمی ہیں جن کی مردم شناسی کی نظر کمزور ہوتی ہے.بعض لوگوں کی صحبت میں وہ عمریں گزار دیتے ہیں لیکن وہ ان کو دکھائی نہیں دیتے.ایسے نامردم شناس انبیاء کے زمانے میں بھی پیدا ہوتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی مے کی وحی لکھنے والا ایک کا تب اس قسم کا آنکھوں کا اندھا تھا.ظاہری طور پر فن کتابت سے واقف اور وحی لکھنے والا یعنی اس سے زیادہ مقدس اور کیا چیزلکھی جاسکتی ہے اور اس کے باوجود بصیرت سے عاری ، آنحضرت ﷺ کو ظاہری آنکھ سے دیکھتار ہا لیکن باطن کی آنکھ سے نہیں دیکھ سکا.یہ تو خیر بہت ہی بلند مقام کی بات ہے عام روز مرہ کے تجربے میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے آدمیوں سے آپ شناسا ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم جان چکے ہیں لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ مختلف زاویوں سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں مختلف مواقع پر اس سے واسطے پڑتے ہیں.اس کی اچھائی اور برائی کا مضمون آپ پر کھلتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات تو بیویاں بھی ہمیشہ خاوند سے واقف نہیں ہوا کرتیں اور پوری طرح واقف نہیں ہوا کرتیں اور بسا اوقات خاوند بھی اپنی بیویوں سے پوری طرح واقف نہیں ہوا کرتے.کئی عورتیں بے چاری ہمیشہ اس احساس میں گھل گھل کے زندگی بسر کرتی ہیں کہ ہمارے خاوند کو ہماری خوبیوں کا پتا ہی نہیں اور وہ سب کچھ فدا کرتی ہیں ان کے لئے اچھی سے اچھی زندگی کی راحتیں مہیا کرتی ہیں.لیکن وہ خاوند اندھی آنکھ سے دیکھ رہا ہوتا ہے.اس کو ان چیزوں کا ذوق ہی نہیں ہوتا.پس لقاء کا ذوق سے بڑا گہرا تعلق ہے.اعلیٰ چیز کی لقاء کے لئے ذوق بلند کرنا پڑتا ہے اور

Page 168

خطبات طاہر جلد ۹ 163 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء خدا تعالی کی لقاء کے لئے لطیف ذوق کے سوالقاء کا تصور ہی بالکل بچگانہ تصور ہے.پس خدا تعالیٰ کی ذات میں گم ہونے اور اس کی ذات میں سفر کرنے کے لئے اس کی تیاری بھی ضروری ہے اور وہ ذوق جو انسانوں کی نظر میں انسان کو ایک مرتبہ اور مقام عطا کرتا ہے.وہی ذوق ہے جو مزید لطافت اختیار کرتا ہے تو خدا کی نظر میں انسان کو ایک مرتبہ اور ایک مقام عطا کرتا ہے.پس جو لوگ اپنے انسانی واسطوں اور تعلقات میں لطیف مزاج پیدا نہیں کرتے ، اچھے ذوق کا مظاہرہ نہیں کرتے ، جن کی زبان گندی اور کثیف رہتی ہے، جو معاملات میں سختی کرتے ہیں اور ان کے اندر کوئی چک نہیں پائی جاتی، ان کے اندر کوئی لطافت نہیں پائی جاتی ، ان کا یہ توقع کر لینا کہ محض رمضان کی دعاؤں کے نتیجے میں خدا سے ان کی ملاقات ہوگی یہ ایک بچگا نہ توقع ہے.اس میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ خدا ملاقات کرنے پر پابند ہے.وہ مالک ہے جب چاہے کوئی تبدیلی پیدا کرتا ہے.لیکن جن کے لئے وہ لقاء کی عطا کا فیصلہ کرتا ہے ان کے ذوق میں ضرور تبدیلی پیدا کرسکتا ہے.پس اگر آپ کے ذوق میں وہ تبدیلی پیدا نہیں ہورہی جو لقاء باری تعالیٰ کے لئے ضروری ہے تو آپ یہ سمجھیں کہ آپ دعا تو مانگ رہے ہیں لیکن آپ نے تیاری کوئی نہیں کی.ظاہری آنکھ سے جیسا کہ میں نے دیکھا ہے آپ دنیا کو دیکھتے چلے جاتے ہیں، صبح شام ظاہر ہوتے ہیں ،موسم بدلتے ہیں.کسی جگہ خوبصورت نظارہ کرتے ہیں کسی جگہ ایک مکروہ منظر دیکھتے ہیں ان تمام امور سے اگر نظر تھرکتی ہوئی چلی جائے اور خدا تعالیٰ سے تعلق قائم نہ کرے اور خدا تعالیٰ کا خیال دل میں نہ آئے تو آپ نے ظاہری نظارے تو بہت کئے لیکن اس کے باوجود خدا کو نہ دیکھا.ایسا ہی ہے جیسے بعض انسانوں کے ساتھ آپ رہے لیکن ان سے آپ کو کوئی شناسائی نصیب نہیں ہوئی.پس پہلے تو آفاقی نظر سے بھی خدا کو دیکھنے اور اس کی لقاء کی کوشش شروع کریں.یہ ایک بہت سطحی لقاء ہے لیکن اس لقاء کا لطف آپ کے اندر مزید ذوق پیدا کرے گا اور اس ذوق کے نتیجہ میں پھر آپ کو گہری روحانی لقاء بھی نصیب ہوگی.یہ جو میں نے کیفیتیں بیان کی ہیں، ان کیفیتوں کو میں نے آفاقی اس لئے کہا کہ آپ باہر تمام کائنات میں جب بھی نظر ڈالتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا منظر ضرور دکھائی دیتا ہے جس کے ساتھ آپ کو خدا شناسی ہو سکے لیکن اس کے لئے غور

Page 169

خطبات طاہر جلد ۹ 164 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء اور فکر اور تدبر کی عادت ضروری ہے.اس کے لئے اولی الالباب ہونا ضروری ہے.اِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَتٍ لِأُولِى الْأَلْبَابِ ( آل عمران : ۱۹۱) یقینا دن کے الٹنے پلٹنے میں ، موسموں کے بدلنے میں نشانات ہیں مگر صاحب عقل لوگوں کے لئے وہ جو ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو کیا کرتے ہیں.يَذْكُرُونَ اللہ اللہ کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں.قیما و قُعُودًا نمازوں کا انتظار نہیں کرتے کہ نماز پڑھیں گے تو یاد کریں گے بلکہ جس حالت میں بھی وہ کائنات کے مناظر دیکھتے ہیں، اسی حالت میں خدا تعالیٰ کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ جو کیفیت ہے یہ خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں بیان فرمائی جیسے کوئی خودرو بہتا ہوا پانی ہو.اس میں جدو جہد، کوشش، محنت کا دخل نہ ہو بلکہ طبیعت کی ایک عادت بن چکی ہو.پس اس پہلو سے آفاق کا مطالعہ بہت ہی ضروری ہے کہ آپ کی عادت بن جائے کہ آپ کو اپنے گردو پیش میں خدا تعالی دکھائی دینے لگے اور اس کی یاد دل میں پیدا ہو.پھر اندرونی مطالعہ ہے جو انسان اپنے دل میں ڈوب کر ، اپنے نفس کی شناسائی حاصل کر کے خدا تعالیٰ کو پاتا ہے.اس ضمن میں بھی مطالعہ کی بہت سے قسمیں ہیں.ایک تو اپنے نظام کو جو ظاہری نظام ہے، اس کو دیکھنا اور اس پر غور کرنا اور اس پر یہ احساس کرنا کہ خدا تعالیٰ نے کتنا حیرت انگیز جسمانی نظام انسان کو بخشا ہے اور کتنی باریک نظر سے ہماری راحتوں کا سامان مہیا فرمایا ہے.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، سطحی بھی ہے لیکن اس میں گہرائی بھی بہت ہے.جتنا سائنس دان جستجو کرتا چلا جاتا ہے، اس کو انسانی جسم کے اندر حیرت انگیز نظم وضبط اور تخلیق کے ایسے عظیم کارنامے دکھائی دینے لگتے ہیں کہ اس کی روشنی سے اس کی نظر خیرہ ہو جاتی ہے اور جتنا آگے سفر کرتا ہے اتنا ہی مزید اس کو اور اس کے پیچھے، کچھ اور اس کے پیچھے کچھ اور دکھائی دینے لگتا ہے لیکن یہی مطالعہ چونکہ ایک اندھی آنکھ کا مطالعہ ہے یعنی روحانیت سے اندھی ہے.وہ اسے خدا کی طرف نہیں لے کے جاتا لیکن اس کے برعکس جو اولی الالباب ہیں، وہ جب اپنی ذات پر غور کرتے ہیں.اپنے روز مرہ کے رہن سہن پہ اپنی بھوک پر، اپنی پیاس پر ان سب زہروں پر جو ہر وقت جسم سے مختلف

Page 170

خطبات طاہر جلد ۹ 165 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء ہے؟ صورتوں میں خارج ہوتے رہتے ہیں ، جن کے بند ہونے پر جسم ایک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے.ان سب کیفیات پر غور کے نتیجے میں ان کو اپنی کائنات کے اندر بھی خدا دکھائی دینے لگتا ہے.اپنے وجود کے ذرے ذرے میں خدا دکھائی دینے لگتا ہے.بسا اوقات ایسے لوگوں سے گفتگو ہوئی اور ہوتی ہے جو خدا کی ہستی کے قائل نہ ہوں اور مختلف رنگ میں ان کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے.بعض دفعہ جو انسانی جسم کا شعور رکھنے والے لوگ ہیں جب وہ ملتے ہیں تو میں نے ان سے مثلاً یہ سوال کیا کہ کبھی آپ نے اپنے اوپر غور بھی کیا کہ آپ ہیں کون؟ آپ کے اندر جو یہ شعور ہے کہ میں ہوں.یہ فزکس کا کوئی قانون ہے یا کیمسٹری کا قانون ہے وہ میں کیا چیز ہے جو بول رہی ہے.آپ کو دکھ کیوں پہنچتا حالانکہ دکھ محسوس کرنا اور خوشی محسوس کرنا اس کے لئے کوئی فزیکل اور کیمیکل Justification ہونی چاہئے.کوئی اس کے لئے جواز ہونا چاہئے.میں نے کہا میں نے آپ کو بری نظر سے دیکھ لیا آپ تکلیف میں مبتلا ہو گئے.کون سا قانون ہے فزکس کا اور کیمسٹری کا یا کوئی اور قانون جس کو آپ مادی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایسی حرکتیں اس سے پیدا ہوتی ہوں ؟ میں نے آپ کے اوپر محبت کی نظر ڈالی اگر آپ کو مجھ سے تعلق ہے تو آپ کا دل خوش ہو گیا.یہ کیا مطلب ہے اس کا؟ یہ کیا چیز ہے؟ ایک معمولی سی بات پر بھی آپ اپنی کیفیتوں پر غور کرنا شروع کریں تو آپ کو خدا کا حیرت انگیز ہاتھ دکھائی دینے لگے گا.پھر میں نے بعض دفعہ ان سے پوچھا کہ اپنی آنکھ پر غور کریں.آنکھ کا ارتقاء کیسے ہوا؟ ایک مکمل کیمرے سے بڑھ کر خوبصورت سیٹ ہے جو خدا نے آپ کو عطا کیا ہے اور تدریج اس میں ممکن ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کے تمام اجزاء ا کٹھے پیدا ہوئے ہوں یہ ممکن نہیں ہے کہ Retina پہلے Automatically پیدا ہو جائے اور بغیر کسی مقصد کے اتفاقاً پیدا ہو جائے اور Lens ابھی نہ بنا ہو اور Lens بھی پھر اپنی ذات میں جو مختلف اعضا ء رکھتا ہے اور اس کے ارد گرد جو مسلز کا نظام ہے جو اس کو کنٹرول کرتا ہے وہ اگر کام نہ کرےتو Lens کا کوئی بھی معنی نہیں ہے.وہ مسلز جب بڑھاپے میں ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو آپ کو انہی آنکھوں کے ساتھ نظر آنا بند ہو جاتا ہے.آپ اپنے آپ کو ایک آنکھ پر Adjust ہی نہیں کر سکتے ، میں نے کہا آپ غور کر کے دیکھیں.اگر آپ کے اندر کوئی صداقت ہے تو آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ایک ایسا خالق ہے جو ماوراء ہے میں نہیں ہوں.اگر میں اپنا خالق آپ ہوتا تو مجھے تو ان سب باتوں کا علم

Page 171

خطبات طاہر جلده 166 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہاں ایک باشعور وجود کا ہونا ضروری ہے جب تک شعور نہ ہو اس وقت تک یہ چیز میں از خودا تفاقا بن نہیں سکتیں.پس اگر آپ ارتقاء پر غور کریں تو جتنا بھی غور کریں گے آپ کو معلوم ہوگا کہ ارتقاء اندھا نہیں ہے بلکہ آنکھوں والا بینا ارتقاء ہے اور اس کو باہر سے بینائی نصیب ہوئی ہے.اپنی بینائی سے وہ نہیں چلا.پس ایسا ارتقاء ہے جو چلتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پوری بینائی رکھتا ہے.جب اس کو آپ غور سے دیکھتے ہیں تو بے آنکھوں کے ہے تو کیا مطلب بنے گا ؟ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کوئی آنکھوں والا اس کو ہاتھ پکڑ کے چلا رہا ہے.پس جو بینا ارتقاء دکھائی دیتا ہے وہ سائنس دان کی زبان میں بینا نہیں ہونا چاہئے.اس کی کوئی آنکھ نہیں ہے اور باوجود اس کے اس کی حرکت، اس کا رخ ، اس کے ایک جز و کا دوسرے جزو سے اجتماعی تعلق.یہ ساری باتیں نظر کی محتاج ہیں جو ظاہری طور پر اس کو میسر نہیں لیکن اس کی تمام ادا ئیں، اس کا رخ اس کے سارے اطوار ایک بینا وجود کے سے ہیں تبھی قرآن کریم نے اس سوال کو اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم خود اپنے خالق ہو؟ عقل کے اندھوغور تو کرو تم تو اپنی کسی چیز کے بھی خالق نہیں ہو.معمولی سا نظام اس طرح بگڑے کہ جو چیز خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے وہ مرجائے تو ساری انسانی ترقیات مل کر جو طاقت پیدا کرتی ہیں وہ بھی وہ چیزیں دوبارہ پیدا نہیں کر سکتیں.کئی بے اولا دلوگ ہوتے ہیں میرے پاس علاج کے لئے اکثر آتے رہتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ اگر ان کے خلیے مرچکے ہوں تو لازم ہاتھ کھینچنا پڑتا ہے کیونکہ موت کا کوئی علاج نہیں اور جو چیز خدا نے رکھی تھی اور اب نہیں رہی.اس کو دنیا کی کوئی طاقت کھینچ کر دوبارہ لانہیں سکتی.قرآن کریم انسان کی اس بے اختیاری اور مجبوری کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ تم تو اتنے کمزور ہو کہ ایک معمولی سی لکھی جو چیز تم سے چھین لے تم اسے اسی حالت میں واپس لوٹا نہیں سکتے.اس کے اندر جو تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور جس طرح وہ اس کے نظام میں جذب ہو جاتی ہے.تمہارے ہاتھوں سے گئی تو ہمیشہ کے لئے چلی گئی.پس خدا تعالیٰ کی لقاء تو ظاہری آنکھ سے بھی ہوسکتی ہے ان معنوں میں کہ اس آنکھ سے دیکھ کر آپ مزید غور کریں اس کی کنہ میں داخل ہوں.اس کی تہہ میں ڈوبیں اور رفتہ رفتہ آپ کو ایک عظیم جہان دکھائی دینے لگے گا.جس میں خالق اپنی تخلیق کے ذریعہ آپ پر ظاہر ہوگا.جس طرح مصور اپنی

Page 172

خطبات طاہر جلده 167 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء تصویر کے ذریعہ کسی پر ظاہر ہوتا ہے پس تصویر میں تو اتنی بے انتہاء ہیں.ہماری ذات کے اندر بھی ہمارے گردو پیش میں بھی کوئی لمحہ ایسا میسر نہیں آسکتا جس میں انسان کے سامنے خدا کی کوئی تصویر جلوہ گر نہ ہو.پس نہ کوئی جگہ اس سے خالی ہے نہ کوئی لمحہ وقت اس سے خالی ہے، وہ تمام کائنات پر محیط ہے، ہر جگہ ہے ان معنوں میں ہے کہ دیکھا جاسکتا ہے اور ہرلمحہ دیکھا جا سکتا ہے.کوئی ایک لمحہ بھی خدا کی ذات سے عاری نہیں ہوسکتا.پس لقاء کے مضمون کو سمجھ کر اپنے اندر شعور پیدا کرنا یہ لقاء کی طرف پہلا قدم ہے.پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا.اپنے اندر ذوقی لطافتیں پیدا کریں تا کہ یہ دیدار جو ہے یہ محض ایک غائب کا دیدار نہ ہو بلکہ ایک ایسے حاضر کا دیدار ہو جو دیکھ کر پھر آنکھوں سے آنکھیں ملائے ورنہ یہ سارے نظارے یوں ہوں گے جیسے آپ کسی چیز کا حسن دیکھ رہے ہیں لیکن علم نہیں کہ وہ کہاں ہے.وہ نظر آنے کے باوجود بھی پردوں میں رہے گی.لیکن اگر وہ صاحب بصیرت ہو اور آپ اسے دیکھ رہے ہوں اور نظر ، نظر سے مل جائے ، پھر وہ لقاء میں ایک اور مضمون داخل ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ تو ایک ایسا وجود ہے جو بصیرت عطا کرنے والا اور بصارت بخشنے والا ہے.وہ بے بصیرت تو نہیں ، بے بصارت تو نہیں.پس اگر اس سے لقاء کرنی ہے تو ان نظاروں کو پھر مقابل پر پیدا ہونے والے نظاروں کے ساتھ ملا کر دیکھیں تب لقاء کا مضمون آگے بڑھے گا اور اس میں ایک نیا لطف پیدا ہو جائے گا.ایک ایسا آدمی جو غافل سو یا پڑا ہوا گر اندھا نہ بھی ہو ، آپ اس کے حسن کا نظارہ کرتے چلے جائیں اس کے باوجود آپ کو پوری تسکین نصیب نہیں ہوسکتی.ہاں جب آنکھیں کھولے پھر یہ فیصلہ ہوگا کہ آپ نے مزید لطف حاصل کرنا ہے یا آپ کے نصیب میں بے قراری لکھی گئی ہے.اگر ان آنکھوں میں پیار ہے، اگر ان آنکھوں میں محبت ہے، شناسائی ہے تعلق ہے تو وہ حسن کا نظارہ اچانک ایسی عظیم کیفیتوں میں تبدیل ہو جائے گا کہ پہلے نظارے کو اس کے ساتھ کوئی بھی نسبت نہیں رہتی اور اگر اس میں نفرت کے آثار پائے جاتے ہیں بیزاری کے آثار پائے جاتے ہیں تو وہ جو پہلا لطف تھا وہ بھی ہاتھ سے گیا.پس خدا تعالیٰ ایک باشعور زندہ ہستی ہے جو زندگی کا سرچشمہ ہے اور شعور کا سر چشمہ ہے.فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ (الانعام :۱۰۴) محض اپنی آنکھ

Page 173

خطبات طاہر جلد ۹ 168 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء سے اس کو نہیں دیکھ سکتے.ہاں اس کی آنکھ تمہیں پاتی ہے.وہ تم تک پہنچتا ہے.پس ان سب نظاروں کے ذریعے لقاء کا ایک قدم تو لازماً اٹھ چکا ہوتا ہے لیکن جب تک وہ اس قدم میں تبدیل نہ ہو کہ خدا میں حرکت پیدا ہو جائے اور وہ آپ کی طرف آئے ، اس وقت تک لقاء کا مضمون پورا نہیں ہوسکتا.پس آنحضرت ﷺ نے اس دوہری حرکت کو ہی لقاء قرار دیا ہے.فرمایا! بندہ خدا کی طرف ایک قدم صل الله اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دس قدم اس کی طرف آتا ہے.وہ چل کر اس کی طرف جاتا ہے تو وہ دوڑتا ہوا اس کی طرف آتا ہے.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر :۴۸۵۰) پس پا تا وہی ہے جو تیز ہو.جوست ہواس کی طرف پانے کا مصدر منسوب نہیں ہو سکتا.جو چیز کھڑی ہو آپ اسکی حرکت کرتے ہیں.آپ اس کو پاتے ہیں اور جو چیز کھڑی ہے آپ اس تک پہنچیں گے تو آپ ہی پائیں گے وہ تو حقیقت میں آپ کو نہیں پاتی اور رفتاروں کا موازنہ بھی دراصل Relativity کے تصور میں ایسی ہی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.جو چیز ہلکی رفتار سے کسی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کے مقابل پر کوئی چیز تیز رفتار سے اس کی طرف آرہی ہے تو جو تیز رفتار سے آتی ہے وہ پاتی ہے نہ کہ ملکی رفتار والی.تو خدا تعالیٰ ہی ہے.جو دراصل لقاء کی تمنا رکھنے والے کو ہمیشہ پاتا ہے اور اس کے لئے جب تک آپ کو مقابل پہ وہ حرکت دکھائی نہ دے اس وقت تک آپ کو لقاء کا مزہ صحیح معنوں میں نہیں آسکتا، ایک فلسفیانہ لقاء ہوگی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.یہ تو خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو ( کلام محمود صفحه: ۵۲) که عقل کے ذریعے بھی تمہیں لقاء ملے گی مگر نیر الہام کے بغیر پوری روشنی نصیب نہیں ہوسکتی.اس طرف ہے کون؟ اس کا جواب جب تک اس طرف سے نہ آئے محض یک طرفہ نظارے سے آپ تسکین نہیں پاسکتے.بعض کہانیوں میں ہم نے پڑھا ہوا ہے کہ بعض آباد کے آبادشہر لوگ چھوڑ کے چلے جایا کرتے ہیں اور ان میں کوئی وجود نہیں ہوتا.یہ کہانیوں کا قصہ تو بچپن کی باتیں تھیں.اب ایسے شہر دریافت ہوئے ہیں جنوبی امریکہ میں جہاں بالکل یوں لگا ہے کہ اس کہانی کا مضمون صادق آتا ہے.بعض شہر دریافت ہوئے ہیں جن میں کوئی تباہی نہیں آئی، کوئی جنگ کے آثار نہیں ہیں مگر کوئی نہیں سمجھ سکا اب تک کہ کون سی بلا نازل ہوئی جس کے نتیجے میں لوگ رستہ بستہ شہر چھوڑ کر الوداع کر گئے اور اس طرح شہر کی چیزیں پڑی کی پڑی رہ گئیں.کیا پتہ کون تھے کہاں چلے گئے اور پھر واپس

Page 174

خطبات طاہر جلد ۹ 169 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء آنے والے بھی ہیں کہ نہیں یعنی انہوں نے تو بہر حال واپس نہیں آنا جو مدتوں پہلے گزر گئے لیکن خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق یکطرفہ نظارہ ایسی ہی کیفیت پیدا کرتا ہے ابہام کی اور تفکرات کی اور سوچ کی کہ وہ کون ہے کہاں ہے؟ ہے بھی کہ نہیں؟ پس وہ قو میں جو دنیا دار ہو گئیں ان کو اگر اتنی بصیرت نصیب ہوئی کہ انہوں نے خدا کی ہستی کے آثار دیکھے ان میں سے کئی فلاسفرایسی کتابیں لکھتے ہیں کہ خدا Dead ہے یعنی ہوگا ضرور ہم انکار نہیں کر سکتے لیکن اب نہیں رہاوہ قومیں جو الہام کی منکر ہو جاتی ہیں ان کا بھی خدا مر جاتا ہے.پس اگلا قدم لقاء کا بہت ضروری ہے اور اس کے لئے اپنے ذوق کی لطافت پیدا کرنا ضروری ہے.اپنے گھر کو سجانا ضروری ہے.عام معمولی مہمان کے لئے بھی آپ تیاری کرتے ہیں، کچھ نہ کچھ حسب توفیق اپنے گھر کو سجاتے ہیں، اگر غریب بھی ہو تو کچھ کھانے کا معیار بلند کر لیتا ہے.جس حد تک بھی اس کو تو فیق ہو تو جب خدا کا نظارہ کیا اور دل یہ چاہا کہ وہ آپ کی ذات میں داخل ہو جائے تو اس کے لئے آپ کو ضرور تیاری کرنی ہوگی اور اس تیاری کا پہلا قدم اعلیٰ اخلاق ہیں.اعلیٰ اخلاق کے بغیر حقیقت میں خدا کی لقاء ممکن نہیں ہے.جزوی لقاء تو ہوسکتی ہے کیونکہ لقاء کے بعض نظارے جزوی اصلاح سے بھی تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ ایک اتفاقی واقعہ، اتفاقی حادثے کی صورت میں ہو سکتا ہے.وہ لقاء جو دائمی لقاء ہے جو مسلسل خدا کی ذات میں آگے بڑھنے کا نام ہے وہ لقاء اخلاقی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں ہے.آپ کو کسی انسان کا حسن دل لبھانے والا دکھائی دے.آپ کے اندر ایک کشش پیدا ہو جائے.آپ جب اس سے ملتے ہیں تو کچھ دیر کے بعد آپ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بات نہیں.ہمیں خواہ مخواہ کی کچھ دلچسپی پیدا ہوگئی تھی ، ظاہری شکل وصورت ہے مگر کوئی ایسے اخلاق نہیں ہیں کہ جو اس کشش کو دوام بخش سکیں جو پہلے پیدا ہوئی تھی.بعض دفعہ تو معمولی سی بات سے بھی ساری کشش کا فور ہو کر اڑ جاتی ہے.انگلستان کے ایک مصنف ہیں جنہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ میں ایک دفعہ ایک دکان میں داخل ہوا اور وہاں ایک ایسی حسینہ مجھے دکھائی دی جس کو دیکھ کر مجھے یقین آگیا کہ ایک نظر میں محبت ممکن ہے اور چند لمحوں بعد اس سے ملاقات کا بھی ایک سامان پیدا ہو گیا.اس کے ہاتھ سے کوئی بنڈل تھا جو گر گیا.میں نے دوڑ کر لپک کر اس بنڈل کو اٹھایا اور اس کے سپر د کیا.اس نے جس Flat آواز میں شکریہ ادا کیا وہ اس طرح جذبات سے عاری، خالی

Page 175

خطبات طاہر جلد ۹ 170 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء اور کھوکھلی آواز تھی کہ مجھے دوسرا یقین یہ ہو گیا کہ ایک لمحے میں محبت غائب بھی ہوسکتی ہے یعنی اگر لمحے میں پیدا بھی ہوسکتی ہے تو پھر ایک لمحے میں ختم بھی ہوسکتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ انسانی تجارب میں یہ بات آتی ہے کہ محض حسن کا نظارہ کافی نہیں ہوا کرتا جب تک گہراحسن نہ ہوا اور خدا تعالیٰ کو آپ ایسا بے ذوق سمجھیں نعوذ بالله من ذلك كہ آپ کے اندرحسن کے کوئی آثار پائے نہ جائیں اور وہ پھر بھی آپ کا دوست بنا پھرتا رہے یہ نہیں ہوسکتا.جس قسم کی ذات سے تعلق قائم کرنا ہے اپنی توفیق کے مطابق کیونکہ یہاں اپنی توفیق شرط ہے.وہ لامحدود ہے اور ہم محدود ہیں اس لئے مجبوری ہے اپنی توفیق کے مطابق کچھ تو زینت اختیار کریں.غریب دلہنیں بھی دولہا کے گھر سج کے جایا کرتی ہیں.ایک پنجابی شاعر ،صوفی شاعر ہیں ان کا پنجابی شعر تو مجھے یاد نہیں لیکن مضمون بڑا پیارا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ساری رات میں ناچ کے اپنے روٹھے یار کو مناؤں.اور مراد یہ ہے کہ خدا کے حضور گریہ وزاری کروں عبادت کروں تو ہر شخص اپنی توفیق کے مطابق اپنے اندر کچھ زینت ایسی پیدا کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کی نظر اس پر پڑے اور وہ زینت کی تکمیل کا انتظار نہیں کرتا.یہ اس کی رحمانیت ہے بلکہ زینت کے آغاز پر ہی وہ اپنا جلوہ دکھاتا ہے.اس لئے ہر وہ شخص جو لقائے باری تعالیٰ کی خاطر اپنی ذات میں کوئی اصلاح پیدا کرتا ہے، اپنے اخلاق کو حسن عطا کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ پہلے سے بہتر میں خدا کے وصال کے قابل بن جاؤں.ایسے شخص پر پھر خدا خود نازل ہوتا ہے اور اس کے نزول کے ساتھ پھر باقی اصلاح ہونی شروع ہو جاتی ہے.پس یہ جو مضمون ہے اس کو سمجھتے ہوئے رمضان شریف میں اپنے او پر غور کریں.بعض دفعہ خدمت سلسلہ کرنے والے جو خط لکھتے ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی اصلاح کی گنجائش ہے اور بہت تکلیف دہ حالت ہے.میں نے ایک لمبا سلسلہ خطبات کا شروع کیا تھا،مختلف اخلاق پر زور دینے کے لئے مالی لین دین، بیویوں سے سلوک، خاوندوں سے سلوک ، دوستوں سے گفتگو میں ، طرز تکلم میں اصلاح وغیرہ وغیرہ وہ اگلی صدی میں داخل ہونے کا بہانہ سامنے رکھ کرتا کہ اس طرح جماعت میں ایک ولولہ پیدا ہو جوش پیدا ہو، میں نے وہ باتیں بیان کیں لیکن حقیقت میں تو ان باتوں کا صدیوں سے تعلق نہیں تھا.وہ ایک دائمی اہمیت ، دائمی حیثیت کی باتیں ہیں.حقیقت میں ان باتوں کا

Page 176

خطبات طاہر جلد ۹ 171 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء صدیوں سے نہیں بلکہ ہر آنے والے لمحے سے تعلق ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی وہ لقاء جو زبردستی کی لقاء ہوگی ، ہمارا اس میں اختیار نہیں.ہم نے بہر حال لوٹ کے اس کے پاس جانا ہے.وہ تو صدیوں کا انتظار نہیں کیا کرتی.اس میں تو لمحے لمحے کی بھی ہمیں خبر نہیں کہ اب ہوگی یا اگلے لمحے ہوگی.پس وہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کا لمحات سے تعلق ہے اور ہر آنے والے لمحے سے تعلق ہے.ان باتوں میں اصلاح کریں اور پھر دیکھیں کہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کی لقاء زیادہ آسان ہونی شروع ہو جائے گی.اور بعض دفعہ اخلاق کی ترقی کے ساتھ انسان جزوی طور پر خدا کو اس طرح پانا شروع کر دیتا ہے کہ اس کو پھر چسکا پڑ جاتا ہے پھر وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے پھر اور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور جولقاء کا لطف ہے وہی اگلے قدموں کے لئے غذا بن جاتا ہے لیکن اگر وہ لطف ہی نصیب نہ ہوا ہو تو اگلے قدم کے لئے طاقت نہیں ہوتی بلکہ قدم واپس مڑتے ہیں اور دنیاوی مادی لذتوں کی طرف جھکتے ہیں اور انسان دن بدن اپنے ذوق میں زیادہ سفلہ پن محسوس کرنے لگتا ہے لیکن ایسے بھی ہیں جو کوئی محسوس نہیں کرتے ان کو پتا بھی نہیں لگتا کہ یہ کیا ہورہا ہے.پس خدا کی طرف سفر کے لئے ذوق کا لطیف تر ہوتے چلے جانا نہایت ضروری ہے پس اپنے ماحول میں، اپنے بچوں سے گفت و شنید میں اعلیٰ ذوق کا مظاہرہ کریں اپنی بیویوں سے گفت وشنید میں اعلی ذوق کا مظاہرہ کریں.بیویاں خاوندوں سے گفت و شنید میں اعلی ذوق کا مظاہرہ کریں.بھائی بہنوں سے ، دوستوں سے بے تکلفی کے باوجود ایک اخلاق کا پاس ضرور رکھا کریں کیونکہ وہ بے تکلفی جو بد تمیزی پر منتج ہو جائے ، وہ بے تکلفی جس سے کلام میں بدخلقی پیدا ہو، وہ بے تکلفی حقیقت میں ایک مہلک زہر ہے.وہ دوستیوں کو تباہ کرنے والی بے تکلفی ہوا کرتی ہے، دوستیوں کو بڑھانے والی نہیں ہوا کرتی اور ہمارے ملک میں خصوصیت سے یعنی پاکستان میں اور ہندوستان میں بھی اب یہ کثرت سے رواج ہو رہا ہے کہ بے تکلفی اور دوستی کا اظہار گندی گالیوں سے کرنا ہے اور یہ گندی گالیاں پھر آہستہ آہستہ ایسی عادت بن جاتی ہیں کہ اس میں انسان کو شعور ہی نہیں رہتا کہ میں کہہ کیا رہا ہوں اور کر کیا رہا ہوں.ہمارے ایک خادم سلسلہ نے خدام الاحمدیہ کے اصلاحی دوروں کے سلسلہ میں حیدر آباد ڈویژن کا اور بعض دوسرے علاقوں کا سفر کیا تو ان کا بڑا تکلیف دہ خط موصول ہوا.انہوں نے لکھا کہ

Page 177

خطبات طاہر جلد ۹ 172 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء ماحول کو تو میں جانتا ہی ہوں کیا حال ہو چکا ہے؟ مجھے تعجب ہوا کہ بعض دیہاتی احمدی جماعتوں میں بھی زبان کی صفائی کا خیال نہیں ہے.وہ عام روز مرہ گالیاں دینے لگ گئے ہیں.محاورے کے طور پر ہل چلا رہے ہیں تو اور کچھ نہیں تو بیل کو ہی ساتھ گالیاں دیتے جاتے ہیں.کس قدر بے وقوفی ہے؟ کہتے ہیں کہ ایک فرق میں نے ضرور دیکھا کہ اگر باقی معاشرے کی اصلاح کے لئے میں عمر بھی وقف کر دیتا تو کسی نے میری بات نہیں ماننی تھی.میں عمر کا چھوٹا ہوں، ان سے نا واقف بھی تھا جن کے پاس پہنچا لیکن جب میں نے ان کو سمجھایا کہ تم ہو کون اور تم سے کیا توقعات ہیں تو ہر ایک نے فوری طور پر مثبت رد عمل دکھایا اور پھر کہتے ہیں کہ میں نے دوروں میں دوبارہ جا کر رابطے کئے تو مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ وہ محض ایک فرضی رد عمل نہیں تھا بلکہ واقعہ ان کے اندر تبدیلیاں پیدا ہورہی تھیں.پس احمدیت کی مٹی میں یہی تو مزہ ہے کہ واقعتہ وہ مٹی ہے جو نم ہو تو بہت زرخیر ہے.اس وقت احمدی معاشرے کی اصلاح مشکل نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان نے دلوں میں ایک ایسی نرمی پیدا کر دی ہے اور وہ ملائمت پیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میں جس طرح آپ موم کو جس طرح چاہیں ڈھال لیں ، بیٹی نیکی میں ڈھلنے کے لئے موم کی طرح اثر رکھتی ہے اور بدی میں ڈھلنے کے لئے سخت ہو جاتی ہے.بیک وقت اس مٹی میں یہ دو خصوصیات موجود ہیں.خدا ان خصوصیات کو ہمیشگی کی زندگی دے جس قوم میں یہ خصوصیات پائی جائیں ان کی اصلاح آسان ہو جایا کرتی ہے اور بہت ہی ہوا کے رخ پر چلنے والی بات ہے.چنانچہ قرآن کریم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھوں میں ڈھلنے والی مٹی کی یہ تعریف فرمائی: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح:۳۰) یہاں أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ میں جو سختی بتائی گئی ہے ، دراصل کفار کی عادات کے خلاف سختی مراد ہے ، کفر کے خلاف سختی ہے.جہاں تک بدی کا تعلق ہے وہ بدی ان کے اوپر اثر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور نا مراد رہتی ہے.وہ ان کو اپنے رنگ میں ڈھال نہیں سکتی لیکن جہاں مومنوں کے اثر قبول کرنے کا معاملہ ہے.فرمایا رُحَمَاء بَيْنَهُمْ وہ نہایت ہی نرم اور بہت ہی تعاون کرنے والے اور جھکنے والے اور ان کے سامنے مٹ جانے والے لوگ ہیں.پس جو کوشش بھی آپ آج جماعت احمدیہ میں اصلاح کی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا رد عمل عام دنیا کے رد عمل کے مقابل پر ایک بالکل جدا گانہ ردعمل ہے.محض باشعور طور پر محنت کی ضرورت ہے.

Page 178

خطبات طاہر جلد ۹ 173 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء پس ہمارے نظام سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی عہدیداران ہیں خواہ وہ خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتے ہوں، لجنہ سے تعلق رکھتے ہوں، انصار سے تعلق رکھتے ہوں اور نظام جماعت کے دوسرے عہدیداران وہ ان باتوں کا خیال کریں اور اس رمضان میں خصوصیت سے ہر جگہ یہ شعور بیدار کریں کہ ہم نے خدا سے لقاء کی دعائیں مانگنی ہیں اور لقاء کی تیاریاں کرنی ہیں اور اس کی لقاء کی خاطر اپنے گھروں کو سنوارنا ہے.اپنے صحنوں کو جھاڑو دینے ہیں اور اپنی دیواروں کو دھونا اور صاف کرنا اور اپنے فرشوں کو مانجھتا ہے.جس طرح ایک اچھے مہمان اور پیارے مہمان کی تیاری ہر گھر کرتا ہے خواہ وہ غریب ہو، خواہ امیر ہو.ہم نے اپنی توفیق کے مطابق اپنے گھر کو خدا کے لئے سنوارنا ہے تا کہ وہ ایک معزز مہمان کی طرح یہاں نازل ہو.کئی دفعہ اگر وقت نہ بھی ہو اور پتا چلے کہ کوئی شخص بیچارہ تیاری کر کے بیٹھا ہوا ہے تو انسان مجبوراً بھی وہاں چلا جاتا ہے.میں نے سفروں کے دوران دیکھا ہے وقف جدید ، انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ کے دوران میں نے پنجاب میں بڑے سفر کئے ہیں.بعض دفعہ ہمارے دور میں ایک گاؤں نہیں ہوا کرتا تھا اور ان کو پتا ہوتا تھا کہ یہ دورے میں شامل نہیں ہے.گاؤں والے پہنچ جاتے تھے.کہتے تھے کہ جی ہم تو تیاری کر کے بیٹھے ہیں کیا کریں؟ اس میں محبت کا ایک ایسا جذبہ پایا جاتا ہے کہ دوسرے کو بے اختیار کر دیتا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو جی تیار بیٹھے ہیں تو پھر انسان کیسے کہہ دے اچھا تیار بیٹھے رہو ہم نہیں آسکتے.مجبور اوقت نکالنا ہی پڑتا ہے کچھ وہاں سے پھر وقت کھینچا ، کچھ کہیں سے کھینچ کر لمبا کیا.بہر حال وقت دینا پڑتا ہے تو اگر انسان میں ایسا جذبہ ہے احسان مندی کا، تو خدا تعالیٰ نے تو ہمیں احسان سکھایا ہے.وہ ہمارے احسان کا بھی خالق ہے.کیسے ممکن ہے کہ آپ خدا کے لئے کچھ تیاری کریں اور خدا کی طرف سے کورا سا جواب مل جائے کہ میرے پاس تمہارے لئے وقت نہیں ہے کہ تم پوری طرح صاف نہیں ہوئے.پس صاف ہونے کی کوشش شروع کر دیں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آپ پر اپنی رحمت کا جلوہ دکھاتا ہے وہ جھکا کرتا ہے.آپ میں اٹھنے کی طاقت نہیں ہے اور حقیقت میں معراج بھی خدا کے جھکنے کا ہی نام ہے اور معراج کا جو عرش ہے وہ حقیقت میں انسان کے دل کا عرش ہے.پس آپ لقاء باری تعالیٰ کی تیاری اس طرح تفصیل سے اس مضمون کو سمجھنے کے بعد کچھ نہ کچھ ضرور شروع کر دیں اور آج کے بعد جب رمضان ختم ہو تو

Page 179

خطبات طاہر جلد ۹ 174 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء دیکھیں کہ آپ نے کتنا خدا کی ذات میں سفر کیا ہے.یا درکھیں وہی سفر سفر ہو گا جو رمضان کے بعد بھی جاری رہے گا.وہ سفر جہاں آپ پھسل کر واپس آجائیں وہ سفر سفر نہیں ہے.یہ ممکن ہے کہ کوششوں میں انسان پھسلتا رہے لیکن جب ایک مقام کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اس کے بعد پھسلنا نہیں ہونا چاہئے.ہم نے کئی دفعہ بچپن میں ایسے Poles پر چڑھنے کی کوشش کی جس میں انسان پھسل جاتا ہے.بعض درختوں پر انسان چڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور پھسل جاتا ہے.کیڑیاں بھی دیواروں پر چڑھتی ہیں اور پھسل جاتی ہیں لیکن اگر انسان عزم جاری رکھے تو بار بار پھسلنے کے باوجود پھر ایک موقعہ ایسا نصیب ہوتا ہے جب انسان اس چوٹی کو پالیتا ہے جس کی طرف وہ حرکت کرنے کی کوشش کرتا ہے.جب اس درخت پر چڑھ کر اس چوٹی پر بیٹھتا ہے تو پھر کوئی پھسلنا نہیں ہے.پھر اپنی مرضی سے نیچے اترے تو اترے.ایک اور ہی لطف اس وقت فتح کا محسوس ہورہا ہوتا ہے کہ ہاں اب میں مقام محفوظ پہ پہنچ گیا ہوں.پس اس لقاء کو جو اس رمضان کے دوران حاصل ہو، اس پیمانے پہ جانچیں اور دیکھیں کہ آپ نے جو کچھ خدا کا پایا تھا ، رمضان گزرنے کے بعد بھی ہاتھ میں رہایا نہ رہا.اگر نہیں رہا تو پھر میرا آپ کو یہی پیغام ہوسکتا ہے کہ کوشش جاری رکھیں اور نہیں تو بار بار گرنے والی کیٹریوں سے ہی سبق حاصل کریں.پھسلیں بے شک پھسلیں مگر پھر اس نیت کے ساتھ دوبارہ سفر شروع کریں کہ میں نے ہمت نہیں تو ڑنی اور ضرور اپنے مقصد کو حاصل کر کے چھوڑنا ہے.پھر انشاء اللہ آپ کے پھسلنے سے نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر پھسلنے کا مطلب یہ ہے کہ اگلے رمضان تک مسلسل خدا سے دور ہی ہٹتے چلے جانا ہے تو پھر یہ لقاء نہیں ہے.اس کا جو کچھ اور نام رکھ دیں لیکن اسے آپ لقاء نہیں کہہ سکتے.پس اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو حقیقت میں لقاء کے مضمون کا عرفان عطا فرمائے.اور اس مضمون کو سمجھنے کے بعد لقائے باری تعالیٰ نصیب کرے.مذہبی قوموں میں سب سے بڑی دنیا کی طاقت لقاء سے حاصل ہوا کرتی ہے.اتنا بڑا کام ہمارے سپرد ہے، اتنے بڑے انقلابات ہم نے برپا کرنے ہیں لقاء کے بغیر ناممکن ہے کہ ہم اس کو سرانجام دیں سکیں.پس اس کی اہمیت کو سمجھیں.جتنے زیادہ صاحب لقاء جماعت احمدیہ کو نصیب ہوں گے اتنے ہی جلدی بڑے بڑے عظیم الشان انقلاب دنیا میں برپا کرنے کی ہمیں توفیق عطا ہو گی.اللہ کرے کہ جلد تر ہمیں یہ توفیق نصیب ہو.امین.

Page 180

خطبات طاہر جلد ۹ 175 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا کہ: کچھ عرصہ سے بعض دوستوں کی طرف سے جنازہ غائب کی درخواستیں موصول ہوتی رہی ہیں جو جمع ہوتی رہیں.بعض کے متعلق میرا خیال تھا کہ شاید پڑھا دیا ہے لیکن آج پرائیوٹ سیکرٹری نے جو فہرست دی ہے ، معلوم ہوتا ہے وہ پہلی فہرستیں نظر سے اوجھل رہی ہیں.صدر انجمن کی طرف سے بھی با قاعدہ بعض سفارشات موصول ہوئی ہیں.پس چونکہ یہ فہرست بہت لمبی تھی اس لئے میں نے اس سے پہلے امام صاحب سے کہا تھا کہ پڑھ کر سب کو سنا دی جائے.پس نماز جمعہ کے بعدان سب کی نماز جنازہ ہوگی.اس میں بعض ایسے متوفی شامل ہیں جن کا مختصر ا ذکر مناسب ہوگا.ایک ہمارے قادیان میں پرانے خادم سلسلہ شریف احمد صاحب امینی کچھ عرصہ ہوا وفات پاگئے.اسی طرح چوہدری عبدالعزیز صاحب کھو کھر تحریک جدید کے پرانے خادم تھے.عبدالقیوم صاحب کھوکھر ان کے بیٹے جرمنی میں ہیں.بشارت احمد صاحب امروہی بھی سلسلے کے پرانے خادم واقف زندگی.اسی طرح ہمارے یہاں کے انگلستان کے واقف زندگی مبلغ مجید احمد صاحب سیالکوٹی کی والدہ بھی وفات پاگئیں.مبشر احمد صاحب طارق مربی سلسلہ کی والدہ بھی وفات پاگئی ہیں.مسعود احمد صاحب دہلوی سابق مدیر الفضل کے نام سے سب جماعت شناسا ہے یہ بھی بڑا مخلص فدائی خاندان ہے.ان کے نو جوان بیٹے جرمنی میں پیچھے کچھ عرصہ ہو ا وفات پاگئے.اسی طرح ہمارے امریکہ کے مبلغ اظہر حنیف صاحب کے برادر نسبتی اسلم ندیم چوہدری کراچی میں وفات پاگئے.ہمارے ایک مبلغ اللہ دتہ صاحب مبشر.وقف جدید کے معلم ہوا کرتے تھے.بہت سادہ طبیعت اور کم تعلیم یافتہ لیکن بہت ہی روشن دماغ والے اور صاحب عرفان انسان تھے.چوروں قطب بنانے والا مضمون کچھ نہ کچھ ان پر ضرور صادق آتا تھا.واقعہ چور اور ڈاکو تھے جب انہوں نے احمدیت کو قبول کیا اور اس کے بعد خدا کی راہ میں اتنی تکلیفیں اٹھا ئیں.اتنی ماریں کھا ئیں.جن علاقوں میں ان کے رعب سے لوگ کا نپتے تھے وہاں جا کر انہوں نے ماریں بھی کھانی شروع کیں لیکن بڑے باہمت انسان تھے.ان کا مجھے بارہا اکثر خط آتے تھے کہ میرا جنازہ آپ نے ضرور پڑھانا ہے.

Page 181

خطبات طاہر جلد ۹ 176 خطبہ جمعہ ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء صالحہ ایاز بیگم اہلیہ مختار احمد صاحب ایاز.والدہ افتخار احمد صاحب ایاز جوطوالو کے ہمارے فاتح ہیں.ماشاء اللہ جنہوں نے طوالو میں طوعی طور پر دعوت الی اللہ کا کام کر کے جماعت قائم کی جس سے آگے پھر وہ بنیاد بنی جس کے نتیجے میں ہم نے پھر اللہ کے فضل سے South Pecific کے جزائر پر اسلام کا ہلہ بولا ہے اور ایسے ایسے جزائر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام نافذ ہوا ہے.جہاں اس سے پہلے کوئی بھی مسلمان نہیں تھا.پس یہ ان فتوحات کا پیش خیمہ بنا ہے.ان کی والدہ کا بھی خاص طور پر ذکر کرنا ضروری تھا.اسی طرح ہمارے ڈاکٹر نصیر احمد صاحب چوہدری جو امریکہ میں ہیں، بہت ہی مخلص اور قربانی کے میدان میں پیش پیش ان کے والد چوہدری ناصر احمد صاحب امریکہ میں وفات پاگئے.ان کا بھی میں نے وعدہ کیا ہوا تھا لیکن مجھے اب پتہ لگا ہے کہ جنازہ پہلے نہیں ہو سکا تھا.عنایت اللہ صاحب والد مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب.یہ بھی سلسلے کے ایک فدائی خاندان سے تعلق رکھنے والے بزرگ ہیں.پروفیسر عطاء الرحمن صاحب مرحوم کی اہلیہ وفات پاگئی ہیں.اسی طرح کراچی کے ڈاکٹر طاہر کی بیگم ڈاکٹر زبیدہ طاہر ہاشمی جو سلسلے کی ایک بہت ہی مخلص خادمہ تھیں، وہ بھی کینسر میں کچھ عرصہ تکلیف اٹھا کر وفات پاگئی ہیں.اور آپ کی جماعت میں ایک ابھی تازہ حادثہ ہوا ہے یعنی چوہدری شاہنواز صاحب کے وصال کی اطلاع لاہور سے ملی ہے.یہ جماعت لندن کے بہت ہی مخلص اور فدائی ممبر تھے اور جب سے میں یہاں آیا ہوں میں نے ان کو نصرت کے میدانوں میں ہمیشہ صف اول میں دیکھا ہے.جب بھی کوئی تحریک ہوئی.خدا تعالیٰ کے فضل سے فوری طور پر انہوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اس رنگ میں کہ اپنے خاندان کو اپنے طور پر حصہ لینے کی شہہ دلائی اور ایک ہی تحریک میں دونوں الگ الگ حصہ لیتے رہے.چوہدری شاہنواز صاحب اپنے طور پر اور ان کے بچے ، بہوئیں ، بیٹیاں اور داماد وغیرہ یہ سارے اپنے طور پر اکٹھا حصہ لیتے رہے.ان کا مجھ سے تعلق رفتہ رفتہ بڑھا ہے.پہلے میں ان سے بہت زیادہ متعارف نہیں تھا لیکن شروع میں جب خلافت کے بعد انہوں نے مجھ سے گہرا رابطہ قائم کیا تو حجاب کے طور پر یہ اس طرح اپنا تعارف کرایا کرتے تھے کہ میں خود تو شاید خلافت سے تعلق میں اتنا مرتبہ نہیں رکھتا ہوں لیکن میری

Page 182

خطبات طاہر جلد ۹ 177 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۹۰ء بیوی آپ کی پکی مریدنی ہے.پس وہ ہمیشہ آپا مجیدہ کا تعارف ”آپ کی مریدنی کے طور پر کرا کر پھر اس رستے سے تعلق میں داخل ہوتے تھے اور پھر رفتہ رفتہ خدا کے فضل سے یہ تعلق اتنا بڑھایا کہ پھر ایک دن میں نے ان کو کہا کہ اب ” آپ کی مریدنی کی ضرورت نہیں رہی ہے.اب تو آپ خود مرید ہو چکے ہیں تو چہرے پر بشاشت کی مسکراہٹ آئی اور اس کے بعد پھر انہوں نے وہ ذکر ضروری نہیں سمجھا.ان کی اولا د بھی خدا کے فضل سے بڑی مخلص فدائی اور منکسر المزاج ہے.یہ بڑی خوبی ہے اس خاندان میں اور یہ بڑا وسیع احسان کرنے والے تھے یہ.جماعت ہی کی خدمت نہیں بلکہ غرباء ، دوسرے خاندانوں پر ، عزیزوں پر اور رشتے داروں کے علاوہ بھی بڑا وسیع ان کا احسان کا دائرہ تھا اور جو اصل خوبی کی بات ، جس سے میں متاثر ہوا کرتا تھا وہ یہ تھی کہ محض روپے پیسے سے مدد نہیں کرتے تھے بلکہ اقتصادی طور پر خاندانوں کی تعمیر کرتے تھے اور ایسے بہت سے خاندان ہیں جن کی اقتصادی تعمیر میں انہوں نے حصہ لیا ہے.وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے ہیں ، باعزت روزی کمائی اور خدا کے فضل سے بڑے بڑے صاحب دولت بھی بن گئے.تو ان سب کے لئے جو اپنے ، اپنے رنگ میں احمدیت کے پھول ہیں.کسی کا رنگ کچھ کسی کا کچھ.ان سب کو نماز جنازہ میں خاص طور پر دعاؤں میں یا درکھیں.

Page 183

Page 184

خطبات طاہر جلد ۹ 179 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۹۰ء حصول لقاء کے ذرائع عجز اختیار کریں کیونکہ متکبر کے لئے لقاء کا حصول ناممکن ہے (خطبه جمعه فرموده ۶ را پریل ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: علامہ اقبال نے ایک دفعہ اپنی ایک نظم میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ عرض کیا کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں ( کلیات اقبال صفحه: ۲۸۰) یہ وہی لقاء کا مضمون ہے جو پچھلے دو خطبوں میں میں بیان کرتا آرہا ہوں لیکن ایک ایسی آنکھ نے لقاء کے مضمون کو دیکھنے کی کوشش کی جو عرفان سے عاری تھی.چنانچہ اس مضمون کو حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے ایک جوابی نظم میں بیان فرمایا تھا.علامہ اقبال نے تو یہ کہا تھا کہ کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں کیوں نظر نہیں آتی؟ کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں.اتنے سجدے میں نے تیرے حضور تیری لقاء کی خاطر کئے کہ گویا وہ سجدے آج بھی میری اس جبین نیاز میں تڑپ رہے ہیں جو میں زمین سے تیرے حضور رگڑ تا رہا ہوں.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جواباً جو نظم لکھی ، میں اس کے چند شعر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.انہوں نے لکھا:

Page 185

خطبات طاہر جلد ۹ مجھے 180 رہے خطبہ جمعہ ۶ راپریل ۱۹۹۰ء د یکھتا جو نہیں ہے تو یہ تری نظر کا قصو مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے نر تڑپ رہے ہیں تیری ہیں تیری جبین نیاز میں مجھے دیکھ رفعت کوہ میں مجھے دیکھ پستی کاہ میں مجھے دیکھ عجز فقیر میں مجھے دیکھ شوکت شاہ میں نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کر کہیں فرق ہو نہ نگاہ میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبینِ نیاز میں مجھے ڈھونڈ دل کی تڑپ میں تو مجھ دیکھ روئے نگار میں کبھی بلبلوں کی صدا میں سن کبھی دیکھ گل کے نکھار میں میری ایک شان خزاں میں ہے میری ایک شان بہار میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبینِ نیاز میں میرا نورشکل ہلال میں مرا حسن بدر کمال میں کبھی دیکھ طرز جمال میں کبھی دیکھ شان جلال میں رگِ جاں سے ہوں میں قریب تر ترا دل ہے کس کے خیال میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبین نیاز میں در عدن صفحہ : اے یہ نظارہ جو آپ نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے کلام میں دیکھا ہے.یہ عارفانہ ہونے کے باوجود لقاء کا وہ نظارہ ہے جو ابھی سطح سے تعلق رکھتا ہے، آفاقی نظر ہے.اس میں گہرائی بھی ہے، ہر سطح سے گویا وہ شیشے کی سطح ہے.نظر لوٹ کر واپس آنے کی بجائے خدا کی جانب اٹھتی ہے.جیسے بعض دفعہ زاویوں سے شیشے کو دیکھا جائے تو اپنا وجود دکھائی دینے کی بجائے دوسرا مقابل پر اس زاویے پر کھڑا ہوا ایک اور وجود دکھائی دیتا ہے.لیکن خدا کو دیکھنے کی ایک اور نظر ہے جو خدا کی ذات

Page 186

خطبات طاہر جلد ۹ 181 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء کے اندرونی مشاہدے سے تعلق رکھتی ہے.اس میں بھی ایک ظاہری نظر ہے یعنی ظاہری تو نہیں کہنا چاہئے ، وہ عرفان کی نظر ہی ہوا کرتی ہے لیکن نسبتا سطح سے تعلق رکھنے والی ہے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا.سائنس دانوں نے جو کائنات کا مطالعہ کیا ہے.اگر سائنس دان کی نظر سے آفاقی مطالعہ کیا جائے یا اندرون کا ، اپنی ذات کا مطالعہ کیا جائے تو ہر مطالعہ خدا تعالیٰ کی طرف لے کر جائے گا اور انسان یوں لگتا ہے جیسے ایک آئینہ خانے میں چلا گیا ہے.آئینہ خانے میں تو ایسا نظارہ ہوتا ہے کہ انسان جدھر دیکھے ادھر اپنے آپ کو خود ہی دکھائی دیتا ہے.یعنی اپنی صورت ہی دکھائی دیتی ہے مگر عرفان کا یہ آئینہ خانہ وہ ہے جس میں ہر طرف خدا دکھائی دینے لگتا ہے لیکن یہ بھی نظارہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابھی نسبتا سطحی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون ہمارے سامنے رکھا.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت :۷۰) وہ لوگ جو میری خاطر جہد کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں.جو میری ذات کی تلاش میں رہتے ہیں.لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہم ہیں جو اپنی راہیں ان کو دکھاتے ہیں.پس محض جہد سے جو نظارے دکھائی دیتے ہیں اسے لقاء نہیں کہا جاسکتا.لقاء کے لئے اپنے محبوب کا خود جھک کر ہاتھ پکڑنا ضروری ہے ورنہ دور کے نظارے تو بعض دفعہ دل کی پیاس بجھانے کی بجائے اور بھڑ کا جایا کرتے ہیں.پس لقاء سے مراد نظارہ نہیں ہے.لقاء سے مراد تعلق ہے.پیار اور محبت کا تعلق جو پہلی لقاء جو نظارے کی لقاء ہے اس کے بعد حاصل ہوا کرتا ہے اور اس پہلو سے خدا تعالیٰ کا نظارہ اپنے وجود میں انسان دیکھ بھی سکتا ہے اور نہیں بھی دیکھ سکتا.یہ اور طرح کا نظارہ ہے جس کو میں مختصر کرنے کی کوشش کروں گا مگر نسبتا تفصیل سے بیان بھی کروں گا.جہاں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مجھ تک پہنچنے کی بہت سی راہیں ہیں اور پھر میں مدد کرتا ہوں تم اپنی کوشش سے ان راہوں کے ذریعے مجھ تک نہیں پہنچ سکتے.وہاں اپنے ملنے کی ایک راہ بھی بیان فرمائی اور اس کا نام صراط مستقیم رکھا.چنانچہ جہاں فرمایا.لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہم اپنی راہوں کی طرف ان کو ہدایت دیتے ہیں.وہاں یہ دعا سکھلا دی اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ کے اے خدا ! ہمیں صراط مستقیم کی راہ دکھا.صراط مستقیم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (ہود: ۵۷) کہ اے نبی ! اعلان کر دے کہ میرا رب صراط

Page 187

خطبات طاہر جلد ۹ 182 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء مستقیم پر ہے.پس اس مضمون کو سمجھنے کے بعد اھدنا کی دعا کا مفہوم زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھنے کی انسان میں اہلیت پیدا ہو جاتی ہے.بہت سے مفسرین نے اس بات پر بحث چھیڑی ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں جو یہ فرمایا گیا کہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے.جب صراط مستقیم حاصل ہوگئی تو پھر یہ دعا مانگتے رہنے کا کیا مطلب ہے اور اس کے بہت سے معانی بیان فرمائے گئے ہیں جو درست ہیں اور مختلف زاویوں سے درست ہیں لیکن حقیقی معنی یہ ہے کہ صراط مستقیم خدا کی ذات کا وجود ہے اور خدا کی ذات جس راہ پر کھڑی ہے وہ لا متناہی راہ ہے اور خدا کی ذات میں سفر لا متناہی ہے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَم کا معنی یہ ہوگا کہ اے خدا! جس راہ کے متعلق تو نے فرمایا ہے کہ اے نبی ! اعلان کر کہ اِنَّ رَبِّيٌّ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ میرا رب صراط مستقیم پر کھڑا ہے.اس راہ کی ہدایت اس طرح دے کہ ہم ہمیشہ اسی راہ پر چلتے رہیں اور اسی راہ پر ہمیشہ تیرے وجود کے اندر آگے بڑھتے رہیں اور تیری ذات سے زیادہ متعارف ہوتے چلے جائیں.یہ در حقیقت وہ لقاء ہے جو خدا کی مدد سے ملتی ہے اور ملنے کے بعد پھر جاری رہتی ہے اور یہ مضمون پھر کبھی ختم نہیں ہوتا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا کے ملنے کی بہت سی راہیں ہیں لیکن ان راہوں کی تفاصیل بیان کرنے کا یہاں وقت نہیں.ان میں سے آج کے مضمون کے لئے میں نے ایک راہ اختیار کی ہے اور وہ بجز کی راہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر اپنے منظوم کلام میں بھی بہت پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے اور اپنے نثر کے کلام میں بھی بہت ہی پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے.فرماتے ہیں.بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی دخل ނ ہو دار الوصال میں چھوڑ و غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولا اسی میں ہے پھر فرماتے ہیں.جو خاک میں ملے آشنا ہے اے آزمانے والے ! نسخہ بھی آزما (درشین :۱۱۳)

Page 188

خطبات طاہر جلد ۹ 183 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء پس سب سے زیادہ قریب راہ اور آسان بھی اور مشکل بھی عجز کی راہ ہے.اپنے آپ کو گرا دینا آسان ہے اس لئے میں نے اسے آسان راہ کہا لیکن جب تکبر کے ڈنڈے کے سہارے انسان کا پھولا ہوا خیمہ کھڑا ہوا ہو جب تک وہ ڈنڈے نہ توڑے جائیں اس خیمے کا گرنا آسان نہیں ہوا کرتا اس لئے ایک پہلو سے یہ راہ آسان ہے اور ایک پہلو سے مشکل ہے لیکن جہاں تک خدا کی لقاء کا تعلق ہے ، اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ عجز کے بغیر خدا تعالیٰ کی لقاء ممکن نہیں ہے اور عجز انسان کو مختلف پہلوؤں سے نصیب ہوتا ہے اور اس مضمون پر بھی آپ اگر غور کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ بڑے بڑے عاجز بندے بھی جو حقیقہ بجز کی کئی منازل طے کر چکے ہوتے ہیں ، بہت سے پہلوؤں سے بجز سے عاری ہوا کرتے ہیں.اس لئے اس مضمون کو بڑا گہرائی سے سمجھنا چاہئے بجز کیا ہے اور کیسے نصیب ہوتا ہے؟ اور اس کے بر عکس تکبر کیا ہے؟ اور تکبر سے بچنے کے کیا طریق ہیں؟ ان کو اگر آپ خوب اچھی طرح سمجھ لیں تو آپ کے لئے خدا تک پہنچنے کی ایک راہ آسان تر ہو جائے گی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، آسان ہونے کے باوجود پھر بھی جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن نہیں ہوگا اس وقت تک آپ اس راہ میں آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور یہ بھی بجز سے ہی حاصل ہوتا ہے.وہ دعا مقبول ہوتی ہے جو بجز کے آخری مقام پر ہو اور اس دعا کا مقبول ہونا ایک ایسی حقیقت بن جاتا ہے جو سورج سے زیادہ بڑھ کر روشن ہوتی ہے.پس سجدے کی دعاؤں کے متعلق جو آپ سنتے ہیں کہ سجدے میں دعائیں مانگی جائیں تو وہ زیادہ مقبول ہوتی ہیں.اس سے مراد صرف یہ نہیں کہ سجدے کی حالت میں جو جسم کی حالت ہوتی ہے جو دعا مانگی جائے وہ مقبول ہوتی ہے.بعض دفعہ کھڑے کھڑے روحیں سجدہ ریز ہو جایا کرتی ہیں بعض دفعہ کھڑے کھڑے انسانی فکر ایسی عاجزی اختیار کرتا ہے کہ اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.وہ خدا کے حضور کلیۂ مٹ جاتا ہے.وہ سجدہ ہے جس سجدے کی دعائیں مقبول ہوا کرتی ہیں کیونکہ وہ سجدہ حقیقی محجز سے تعلق رکھتا ہے.انسان میں جو بعجز ہے وہ اس کے اندرونی رحجان سے تعلق رکھتا ہے اور محض اپنے آپ کو واقعہ کمزور سمجھنا کسی بڑی طاقت کے مقابل پر یہ بھر نہیں ہے.پہاڑ کے دامن میں کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی چلا جائے کیسا ہی متکبر کیوں نہ ہو.اگر ایک عظیم پہاڑ کے دامن میں کھڑا ہوگا تو اس کو ایک

Page 189

خطبات طاہر جلد ۹ 184 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء بجز کا احساس ہوگا.وہ یہ سمجھے گا کہ یہ جو بلندیاں اور یہ حجم اور یہ وزن اور یہ طاقت ایسی غالب ہیں کہ اس کے مقابل پر اس کی کوئی حیثیت نہیں لیکن یہ حقیقی بحجر نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک انسان وہاں بجز کا احساس کرتے ہوئے جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتا ہے.پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر وہ سارے عالم کا نظارہ کرتا ہے تو اس کا دل تکبر سے بھر جاتا ہے وہ سمجھتا ہے دیکھو! میں کتنا بلند ہوں.ہر دوسری چیز میرے سامنے حقیر اور ادنی اور چھوٹی دکھائی دیتی ہے لیکن ایک اور شخص جس کے دل میں عجز ہے جس کا رحجان عاجزانہ ہے، وہ پہاڑ کے نیچے بھی عاجز رہے گا اور پہاڑ کے اوپر بھی عاجز رہے گا دنیا کی کوئی کیفیت بھی اس کے عاجزانہ رحجان کو تبدیل نہیں کر سکتی.یہ وہ بجز ہے جو عارف باللہ کا بجز ہے جس کے بعد پھر لقاء نصیب ہوا کرتی ہے.انبیاء ہرشان میں عاجز ہوتے ہیں.نبوت سے پہلے کی شان میں بھی عاجز ہوتے ہیں اور نبوت کے بعد کی شان میں بھی عاجز ہوتے ہیں اور درحقیقت جتنا جتنا ان کو بلندی نصیب ہوتی ہے اتنا ان کا عجز بڑھتا ہے.چنانچہ نبوت سے پہلے کے عجز کی کیفیت اور ہوا کرتی ہے اور نبوت کے بعد کے عجز کی کیفیت اور ہوتی ہے کیونکہ بلندی سے بلندی کا عرفان بڑھتا ہے.ایک شخص جو پہاڑ کے نیچے سے پہاڑ کی چوٹی کو دیکھ رہا ہے اگر اس کی نظر چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی ہے تو اس کا بجز اسی نسبت سے ہوگا جس نسبت سے اس کو پہاڑ زیادہ سر بفلک دکھائی دے رہا ہے زیادہ بلند دکھائی دے رہا ہے لیکن ایک شخص جو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتا ہے اور مزید بلندیاں دیکھتا ہے اس کے دل کی کیفیت بالکل اور ہو جایا کرتی ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں تو اسی کو چوٹی سمجھ رہا تھا صرف میں ہی بے حقیقت نہیں.یہ پہاڑ بھی بے حقیقت ہے اس کی بھی کوئی حیثیت نہیں.جو رفعتیں مجھے ظاہری آنکھ سے دکھائی دیتی تھیں ان رفعتوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں.میرے خدا کی کائنات تو بہت وسیع ہے.بلند سے بلند تر ہر منزل کے بعد ایک اور منزل.یہی مضمون ہے جس کو حضرت اقدس ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جب بیان فرمایا تو اس کا ذکر قرآن کریم میں پڑھ کر بہت سے مفسرین دھوکہ کھا گئے اور سمجھ نہیں سکے.وہ سمجھے کہ نعوذ باللہ یہ جھوٹ کی ایک قسم ہے یا شرک کی ایک قسم ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارہ دیکھا اور کہا اچھا دیکھو! کیسا روشن ہے شاید یہی ہمارا خدا ہو.مراد یہ نہیں تھی کہ میرا خدا ہے یا تمہارا خدا ہے مراد یہ تھی کہ تم لوگ اس طرح مرعوب ہوتے ہو تم لوگ جو عرفان سے عاری ہو ہر بلند چمکنے والی چیز کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہو اور اس کے سامنے جھکتے ہو حالانکہ وہ ذات جو ماوراء ہے ان سے

Page 190

خطبات طاہر جلد ۹ 185 خطبه جمعه ۶ را پریل ۱۹۹۰ء پیچھے ہے وہ تمام روشنیوں کا منبع ہے، تمام روشنیاں اس سے پھوٹتی ہیں ، ہر نور اس سے نکلتا ہے.تو نظر کو کہیں ٹھہرا دینا جو ہے یہ ایک قسم کا غلط عجز پیدا کرتا ہے جو شرک کی طرف لے جاتا ہے.پس اس مضمون کو بہت غور سے سمجھنا ضروری ہے.دنیا میں انسان جب بڑے بڑے بادشاہوں کو ، جابر حاکموں کو دیکھتا ہے ان کے سامنے بھی تو ایک بحجر محسوس کرتا ہے لیکن اگر اسے حقیقی عاجزی نصیب نہیں یا بجز کا عرفان حاصل نہیں تو اس کی نظرو ہیں جھک جاتی ہے.بجز سے بجائے اس کے کہ تو حید پیدا ہو شرک پیدا ہو جاتا ہے.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے خداداد عرفان سے اس بات کو اس رنگ میں تمثیلاً بیان فرمایا کہ دیکھو! اوہو یہ تو ستارہ ڈوب گیا یہ تو میرا خدا نہیں ہوسکتا.ہاں چاند نکلا ہے دیکھو کیسا روشن ، کیسا خوبصورت، زیادہ پر نور اور زیادہ وجیہ اور دل کو لبھانے والا لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ چاند بھی ڈوب جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ اوہو! ہماری نظر تو یہیں ٹھہری ہوئی لگ رہی تھی یوں لگتا تھا کہ یہی آخری منزل ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک منزل ہے.دیکھو ! سورج نکل آیا اور کتنا عظیم الشان سورج ہے.کس طرح اس نے کل عالم کو روشنی سے بھر دیا ہے شاید یہی ہمارا خدا ہو.لیکن جب وہ سورج ڈوبا تو آپ نے فرمایا نہیں نہ ستارہ خدا تھا نہ چاند خدا تھا نہ سورج خدا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ماوراء الوراء ہستی ہے جو ہمارا خدا ہے جس نے ان سب چیزوں کو نور بخشا ہے.پس بجز تو ضروری ہے لیکن بجز کا بھی اپنا ایک عرفان ہوا کرتا ہے اور صاحب عرفان کا عجز اور ہے اور بے عرفان انسان کا عجز اور ہے.بے عرفان کا عجز ا سے بالکل ناکارہ اور بے ہمت کر دیا کرتا ہے ہر طاقت کے سامنے وہ سجدہ ریز ہو جاتا ہے.ہر بڑے کو دیکھتا ہے اور اس کے سامنے اپنے آپ کو بے حیثیت سمجھ کر اس کو سجدے کرنے لگتا ہے لیکن ایک صاحب عرفان کا بجزر بلندیوں کے ساتھ اور جھکتا چلا جاتا ہے.نہ وہ تکبر کی طرف مائل ہوتا ہے نہ وہ شرک کی طرف مائل ہوتا ہے.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مثال کے ذریعے عجز کی ایک بہت ہی خوبصورت تفسیر ہمارے سامنے فرما دی اور ہمیں بتایا کہ بجز وہی ہے جو بالآخر خدا تک پہنچائے ورنہ تم اپنے آپ کو ایسا حقیر اور بے طاقت سمجھنے لگو گے کہ مخلوق کے سامنے جھک جاؤ گے.پس نبوت میں بھی بجز کا عرفان بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ ایک بلندی کے بعد جب نبی کو

Page 191

186 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء خطبات طاہر جلد ۹ دوسری بلندی نصیب ہوتی ہے تو اس بلندی سے خدا کی بلندی کا ایک اور آسمان اس کے سامنے روشن ہو جاتا ہے ایک نئی بلندی اس کو دکھائی دینے لگتی ہے اور اس کے سامنے پھر وہ اپنے آپ کو دوبارہ عاجز محسوس کرتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو عاجز سمجھا تو تھا لیکن جیسا کہ حق تھا ویسا عاجز نہیں سمجھا تھا.خدا تعالیٰ تو لا محدود ہے اور اس کی ذات کی عظمت کا تصور بھی ممکن نہیں ہے.ایک موقعہ پر حضرت اقدس محمد مصطفی یا اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی غنی ہے اور ایسی لامتناہی دولتوں کا مالک وہ ہے کہ اگر تم اس سے اس کی ساری کائنات مانگو جو مانگ سکتے ہو مانگ لو اور وہ سب کچھ تمہیں دے دے تو اس کی دولت میں اتنی کمی بھی نہیں آئے گی جتنی ایک سمندر میں سوئی کا نوک ڈبوو اور اس کے ساتھ تھوڑ اسا پانی لگارہ جائے جب اس کو باہر نکالو.(مسلم کتاب البر والصلہ حدیث نمبر: ۴۶۷۴۰) اس پانی سے جو سوئی کی نوک کے ساتھ لگا رہ جاتا ہے اور وہاں قطرہ نہیں ٹھہر سکتا.مثال بہت خوبصورت دی ہے انگلی ڈ بوؤ اور کوئی چیز ڈبوؤ، اس کے ساتھ زیادہ پانی لگتا ہے.لیکن جو بار یک نوک ہواس کے ساتھ پانی کا قطرہ نہیں رہ سکتا اس لئے بہت ہی معمولی پانی ہوگا.فرمایا اس سے جو کمی آتی ہے ، خدا تعالیٰ کی کائنات میں اتنی بھی کمی نہیں آتی اگر وہ تمہیں سب کچھ بھی دے دے.وہ لامتناہی ہے.دولت : یہ بات صاحب عرفان کے بغیر کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی اور جس کو یہ عرفان ہو اس کو اپنی پر گھمنڈ کیسے ہوسکتا ہے.ایک ملک کا بادشاہ بھی ہو جائے تو وہ زمین کے ایک ملک کا بادشاہ ہے اور اس کے باوجود اس کا اقتدار کامل نہیں ہے اس کو تو اپنے نفس، اپنے وجود پر بھی اقتدار حاصل نہیں.جب بیمار پڑتا ہے تو کس طرح بے حیثیت اور بے حقیقت ہو کے رہ جاتا ہے.اس کو اپنے جذبات پر بھی کامل اختیار نہیں ہوتا ، نہ اپنے غصے پر ، نہ اپنی خوشی پہ، نہ اپنی نیند پر نہ اپنے جاگنے پر، پس وہ ایک بڑے ملک کا بادشاہ بن کر کیسے متکبر ہوسکتا ہے اگر اس کی نظر خدا کی لامتناہی ملکیت پر ہو.پس عرفان الہی بجز کی راہ سے جو نصیب ہوتا ہے ویسا اور کوئی عرفان نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں پھر خدا کی ذات دن بدن زیادہ ظاہر ہونے لگتی ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ بعض صوفیاء نے غلطی کی اور بجز کو ظاہری رنگ دینے لگے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ اپنے اوپر بعض اوقات مٹی ڈالتے تھے ، اپنے کپڑے پھاڑ لیتے تھے گندے کر لیتے تھے اور ایسا رنگ اختیار کرتے تھے جیسے وہ دنیا میں سب سے زیادہ گندے اور غلیظ اور بے کا ر لوگ ہیں.یہ ایک اظہار تھا کہ ہم کچھ بھی نہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ

Page 192

خطبات طاہر جلد ۹ 187 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء اللہ تعالیٰ تو جمال کو پسند کرتا ہے.وہ جو کچھ نہیں کی حالت ہے وہ بیرونی حالت نہیں ہے وہ ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے اور بعض دفعہ بیرونی کیفیت اس اندرونی کیفیت سے بالکل متقابل ہوتی ہے.اس سے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے.چنانچہ حضرت عبدالقادر جیلانی کے متعلق آتا ہے کہ وہ بڑے خوش پوش تھے.بہت ہی خوبصورت اور نہایت ہی قیمتی لباس پہنا کرتے تھے تو کسی نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے آپ تو بڑے بزرگ اور خدا کے خاص پیارے بندے ہیں.انہوں نے کہا ! میں نہیں پہنتا جب تک مجھے خدانہ کہے.ان کے دل کی پسند تھی جو خدا کی خاطر چھوڑ دینے پر تیار بیٹھے تھے لیکن اللہ نے اس پر نظر فرمائی اور کہا نہیں پہنو! تو بعض دفعہ خدا اپنے بندے کے دل کی پسند پوری کرنے کے سامان خود فرماتا ہے اور اس کا بجز ان کپڑوں میں چھپ جاتا ہے.پس عجز کا ظاہری حالت سے تعلق نہیں ہے.بعض دفعہ بجز پھوٹ کر ظاہری حالت پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے لیکن اس کو پہچاننے کے لئے بھی عرفان کی آنکھ چاہئے ، جواندر کا بجز ہے وہ ہے.ور نہ تو آپ کو بے شمار سادھو ایسے دکھائی دیں گے جو جسموں پر راکھ ملتے ہیں کئی دفعہ لوگ حیرت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ راکھ کا کیا قصہ ہے.یہ راکھ کیوں مل رہے ہیں ؟ معلوم ہوتا ہے کسی زمانے میں کسی صاحب عرفان نے ان کو یہ بتایا ہوگا کہ مٹی میں مل جانے سے راکھ ہو جانے سے خدا ملتا ہے جنہوں نے مٹی کا محاورہ سنا انہوں نے مٹی ملنی شروع کر دی، جنہوں نے خدا کی راہ میں راکھ ہو جانے کا ذکر سنا.انہوں نے یہ نہ سوچا کہ خدا کی خاطر اپنے وجود کو جلا کرختم کر دینا اور اپنے نفس کی راکھ بن جانا یہ مراد ہے خدا کی لقاء کے لئے یہ چیز ہے جو انسان کی مدد کرتی ہے تو انہوں نے راکھیں ملنی شروع کر دیں.پس بجز کے مقام تو بے شمار ہیں لیکن جب تک اندرونی طور پر آپ کو وہ آنکھ نصیب نہ ہو جو عجز کی شناسائی بخشتی ہے جس سے بجز پہچانا جاتا ہے.اس وقت تک صحیح معنوں میں آپ خدا کی راہ میں آگے قدم نہیں بڑھا سکتے.ایک اور پہلو سے جب ہم بجز کے مضمون پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی برعکس صورت کو دیکھ کر بجز کا مضمون ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور وہ ہے تکبر.تکبر بجز کا بالکل برعکس ہے اور تکبر ایک ایسی چیز ہے جو انسان اور خدا کے درمیان ایک مکمل جدائی پیدا کرنے والا مضمون ہے.کیونکہ تکبر ایک ایسی چیز ہے جو خدا کے سوا کسی کو زیب ہی نہیں دیتا.یہ وہ صفت ہے جس میں خدا کا کوئی نبی شریک نہیں

Page 193

خطبات طاہر جلد ۹ 188 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء ہے.صرف خدا ہے جس کے متعلق جس کی صفات میں لفظ متکبر آتا ہے اور بڑی شوکت والی صفت ہے.بڑا ہی رعب پیدا ہوتا ہے انسان پر جب انسان خدا کی صفت متکبر پرغور کرتا ہے.اس کے سوا کسی بندے میں نہ تکبر کرنے کی استطاعت ہے، نہ تکبر کرنے کی طاقت ہے نہ اسے زیب دیتا ہے نہ اسے اجازت ہے اس لئے خدا کے انبیاء بھی جبکہ خدا کی دوسری صفات میں شریک ہو جایا کرتے ہیں.شریک ان معنوں میں کہ اس سے حصہ پاتے ہیں ویسے تو نعوذ باللہ شرک کا دوسرا مضمون ان پر صادق نہیں آتا لیکن کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کی صفت میں رنگین ہو جانے کا انسان میں ملکہ حاصل ہے اور اسے طاقت ودیعت کی گئی ہے لیکن تکبر کے لحاظ سے نہیں.پس تکبر اگر کسی جگہ ہے تو وہ خدا کے اور بندے کے درمیان ایک ایسا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے نتیجے میں متکبر خدا سے مل ہی نہیں سکتا.چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو اپنے رنگ میں یوں بیان فرمایا کہ دولت مندوں کا خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا کیسا مشکل ہے کیونکہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو.(لوقا باب ۱۸.آیات ۲۴.۲۵) اس زمانے میں غالباً دولت مند ہی زیادہ متکبر ہوا کرتے تھے اس لئے اے دولت مندو! کہہ کر در اصل متکبر کا مضمون باندھا گیا ہے لیکن قرآن کریم نے اس مضمون کو نہایت زیادہ کمال کے ساتھ اور بہت ہی حسین انداز میں بیان فرمایا ہے اور اس مضمون کو جو حضرت مسیح علیہ السلام کے قول کی صورت میں ابتدائی دکھائی دیتا ہے اسے مکمل کر دیا ہے یعنی قرآن کریم کے بیان میں یہ مضمون اپنے ختم کو پہنچ گیا ہے اس سے بڑھ کر یہ مضمون بیان نہیں ہوسکتا فرمایا : إِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (الاعراف:۴۱) (خیاط ہے لفظ، جب میں پڑھتا ہوں تو بعض دفعہ لوگوں کو شبہ پڑتا ہے کہ فتح کے ساتھ پڑھا ہے.لیکن وہ فرق پڑھنے کی بجائے طرز میں ہے.بعض دفعہ بعد میں بھی لوگ پوچھتے ہیں تو یہ میں ان کو سمجھانے کے لئے بتا رہا ہوں ) وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِ مِینَ یقیناً وہ لوگ جنہوں نے

Page 194

خطبات طاہر جلد ۹ 189 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء ہمارے نشانات کو جھٹلایا.وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا اور ان سے تکبر اختیار کیا.لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے.وَلَا يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے.حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِ الْخِيَاطِ یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے.اب دیکھیں ان دونوں عبارتوں میں کتنا فرق ہے.اول تو محض دولت مند کا بیان نہیں فرمایا گیا بلکہ ہر قسم کی تکذیب کرنے والے کو متکبر فرمایا گیا.امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کے نشانات بے شمار ہیں.یہاں صرف انبیاء کی تکذیب مراد نہیں ہے بلکہ ساری کائنات میں اللہ تعالیٰ کی آیات پھیلی پڑی ہیں اور متکبر ہر آیت کی تکذیب کرتا چلا جاتا ہے.وہ دیکھتا ہے،استفادہ کرتا ہے.خدا کی آیات میں دن رات ڈوبا ہوا ہے.ان آیات کے سہارے زندہ ہے، ہر سانس ان آیات کا محتاج ہے.زندگی کا ہر لمحہ ان آیات کے سہارے چل رہا ہے اور ایسا غافل ہے اور ایسا بے وقوف اور اندھا ہے کہ اس کے باوجودان سے تکبر کی راہ اختیار کرتا ہے.سمجھتا ہے کہ میری ادنی غلام ہیں میں جس طرح چاہوں ان سے سلوک کروں اور کوئی مالک نہیں ہے جس کے سامنے میں اپنے اس استفادے کے لحاظ سے جوابدہ ہوں.یہ چیزیں ہیں جو میرے فائدہ کی خاطر اس طرح بنائی گئی ہیں جیسے میں مالک ہوں اور یہ چیزیں میرے لئے بنائی جانی خدا پر فرض تھیں.یہ رجحان ہے جو متکبر کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے.پس جہاں اس کا فضل اپنا ہاتھ کھینچ لے وہیں ایسا شخص اچانک نگا ہو جاتا ہے یعنی اس کا رجحان بالکل کھل کر سامنے آجاتا ہے.وہ کہتا ہے ہیں، ہیں! یہ خدا ہوتا کون ہے میرے ساتھ یہ سلوک کرنے والا.اتنی دنیا پڑی ہوئی ہے.فلاں ٹھیک ہے فلاں ٹھیک ہے.مجھے ہی بیمار ہونا تھا.میرے بچوں پر ہی مصیبت ٹوٹنی تھی اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کی ساری زندگی ، اس کے وجود کا ایک ایک ذرہ، اس کی یہ طاقت کہ خدا پر باتیں کرتا ہے.یہ بھی خدا کی آیات میں لپٹی ہوئی ایک داستان ہے جو انہی کے ذریعے چل رہی ہے.اس داستان کا اپنا کوئی وجود نہیں.آیات کے ذریعے ہی یہ داستان دکھائی دیتی ہے گویا ہے لیکن حقیقت میں صرف آیات ہی ہیں.پس آیات باری تعالیٰ سے روگردانی کرنا اور اس سے منہ موڑ لینا یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ یہ بخشش کے لائق نہیں اور یہی حقیقت میں تکبر کو پیدا کرنے والا گناہ ہے جس سے پھر تکبر پیدا ہوتا ہے اور بالآخر انسان بخشش سے محروم رہ جاتا ہے.

Page 195

خطبات طاہر جلد ۹ 190 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء قرآن کریم نے ایسے لوگوں کا حال بیان فرمایا کہ جب ہم ان پر نعمتیں نازل کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں.رَبِّ اكْرَمَنِ (الفجر (۱۶) کہ دیکھو میرے رب نے میری عزت افزائی کی ہے.رَبِّ أَكْرَمَنِ کہ میرے رب نے دیکھو میری عزت کی ہے اور جب ہم نعمتیں چھینتے ہیں تو کہتا ہے.رَبِّيٌّ أَهَانَنِ (الفجر ۱۷) خدا نے میری توہین کر دی ہے.یعنی خدا کون ہوتا تھا مجھے ذلت دینے والا اور رسوا کرنے والا.اس نے یہ نعمتیں مجھ سے واپس لے کر یا مجھ پر ان کی راہیں بند کر کے میری توہین کی ہے.پس وہ لوگ جو کائنات کو غفلت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے وجود کو بھی غفلت کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کو یہ آیات دکھائی نہیں دیتیں اور ان کے اندر پھر تکبر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.فرمایا وَاسْتَكْبَرُوا پس آغاز شروع کیا ، آیات سے غفلت کے ذکر سے، اس کے نتیجے میں جو بیماری طبعا پیدا ہوتی ہے پھر اس مضمون کو بیان فرمایا: وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا پھر فرمایا لَا تُفَتَحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ یہ نہیں کہا کہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے.فرمایا ان پر رفعتوں کا کوئی دروازہ بھی کھولا نہیں جائے گا.کتنا عظیم الشان اور کتنا کامل مضمون ہے یعنی وہ لوگ جو خدا کے سامنے بڑے بنتے ہیں اور اونچے ہوتے ہیں ان پر رفعتوں کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جائے گا.وہی ہیں جو سب سے زیادہ ذلیل اور سب سے زیادہ گرے ہوئے لوگ ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے قرآن کے اس مضمون کے مطابق اس کا برعکس نقشہ یوں کھینچا کہ خدا کے وہ بندے جو تو اضع کرتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی خبر یہ ہے ( اس حدیث کے الفاظ تو عربی میں ہیں مجھے اس وقت یاد نہیں یعنی یاد تھے لیکن اس وقت ذہن سے گزر گئے ہیں ) کہ خدا کے وہ بندے جو خدا کے حضور تواضع کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ساتویں آسمان پر اٹھا کر لے جاتا ہے.اِلی السَّمَاء اور زنجیر سے لپیٹ کر گویا کہ ان کو آسمان کی بلندیوں پر نہیں بلکہ ساتویں آسمان کی بلندیوں تک پہنچا یا جاتا ہے.پس قرآن کریم نے فرمایا.وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ جو تکبر کرتا ہے اس پر رفعتوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے.یہ الفاظ ہیں اذا تواضع العبد رفعه الله الى السماء السابع ( کنز العمال صفحه: ۲/۲۵) کہ جب بھی خدا کا کوئی بندہ تواضع کرتا ہے یعنی جھکتا ہے گرتا ہے.اس کے حضور عاجزی اختیار کرتا ہے.رفعه الله الى السماء السابع اس کو خدا ساتویں آسمان کی بلندی تک اٹھا لے جاتا ہے.الله

Page 196

خطبات طاہر جلد ۹ 191 خطبہ جمعہ ۶ را بریل ۱۹۹۰ء تو ہر بلندی کے لئے ایک عجز کا مقام ہے.اس بات کو آپ اچھی طرح یاد رکھیں.یعنی یہاں بلندی سے مراد یہ ظاہری بلندیاں نہیں ہیں.ہر انسان کے لئے اس کی خلقت میں کچھ بلندی پانے کی استطاعت موجود ہے اور ہر انسان کا آسمان الگ الگ آسمان ہے.تبھی خدا تعالیٰ نے مختلف نبیوں کو معراج کی رات آنحضرت ﷺ کو مختلف آسمانوں پر دکھایا ہے ان سے خدا نے کوئی نا انصافی نہیں فرمائی.ہر شخص کی بلندی کی ایک استطاعت ہے اور اس بلندی تک وہ بلند ہوسکتا ہے.چنانچہ مصلح موعود کی پیشگوئی میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا کہ وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.یعنی خدا تعالیٰ نے اس کو جتنی صلاحیتیں بخشی ہیں اس کا وہ آخری نقطہ جو آسمان پر مقدر ہے وہاں تک رسائی پا جائے گا یعنی وہ اپنی قوتوں کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھائے گا.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو توفیق بخشے گا کہ جو رفعتیں اس کے لئے مقدر تھیں وہ ان کو حاصل کر لے گا.پس اس آیت نے ہمیں سمجھایا کہ بجز کے ذریعے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں اور یہاں رفعت سے مراد صفات باری تعالیٰ ہیں کیونکہ حقیقت میں ظاہری آسمان کی طرف اٹھایا جانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.یہاں ہر گز ظاہری آسمان مراد نہیں ، نہ کبھی آج تک ہم نے دیکھا ہے کہ زنجیروں سے باندھ کر خدا نے کسی سجدہ کرنے والے کوسجدہ کی حالت سے اٹھا کر کسی او پر نظر آنے والے جو میں پہنچادیا صلى الله ہو.پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آنحضور ﷺ خبر دیں اور واقعہ نہ ہو لیکن یہ واقعہ ہر روز گزرتا ہے.ہزاروں لاکھوں بندگان خدا ایسے ہیں جو سجدوں کی حالت میں اٹھائے جاتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ سجدہ ظاہری سجدہ ہو.ان کے دلوں پر زندگی میں ایسی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں جو اچانک ان پر ان کے عجز کا ایک مقام روشن کرتی ہیں اور اس Flash میں اس ایسے لمحے میں جس کو ظاہری وقت سے نا پاہی نہیں جاسکتا، اچانک ان کو اپنا بجز کا ایک مقام دکھائی دیتا ہے اور دل سے خدا تعالیٰ کی ایسی تکبیر بلند ہوتی ہے کہ اس کے نتیجے میں انہیں رفعتوں کے ایک آسمان کی طرف بلندی نصیب ہوتی ہے.پس آخری درجہ ساتویں آسمان تک کا عام بندوں کا درجہ ہے.لیکن آنحضرت ﷺ کو ان کے علاوہ رفعت کا ایک اور مقام عطا ہوا.جو ان آسمانوں کے بعد کا مقام تھا اور وہ ظاہر کرتا ہے کہ حضور اکرم ﷺے خدا کے سب عاجز بندوں سے زیادہ عجز کرنے والے تھے.اس لئے عجز والے کو بلندی عطا ہوتی ہے اور

Page 197

خطبات طاہر جلد ۹ 192 خطبہ جمعہ ۶ راپریل ۱۹۹۰ء سچی بلندی حاصل کرنے والے کو بجز نصیب ہوتا ہے.نا ہے یہ دو مضمون آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہی لقاء کام کیونکہ قرآن کریم میں جس معراج کا ذکر ہے وہ لقاء کا معراج ہے.کسی ظاہری آسمانوں کا سفر تو نہیں ہے جس طرح بعض علماء بے چارے اپنی نا سمجھی میں اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ نعوذ باللہ کوئی ظاہری گھوڑا اترا اور اس کے اوپر آنحضرت ملالہ سوار ہوئے اور پھر وہ اُڑنا شروع ہوا پروں کے ساتھ ، یہاں تک کہ ایک ایک آسمان کو پیچھے چھوڑتا چلا گیا یہ بچگانہ تصور ہے.اصل میں صلى الله آنحضرت ﷺ کو خدا نے یہ پیغام دیا تھا کہ تو بجز کے ایک ایسے مقام تک پہنچ گیا ہے جس میں بنی نوع انسان میں کوئی تیرا شریک نہیں رہا.ان معنوں میں خدا کی توحید کا ایک پر تو ہ آنحضرت ﷺ پر پڑا جو کسی اور انسان پر کسی اور نبی پر نہیں پڑا.ایک رنگ میں آپ بھی واحد ہو گئے اور یکتا ہو گئے.کبھی کوئی انسان خدا کے حضور ایسا عاجز نہیں ہوا تھا جیسے آنحضرت ﷺ خدا کے حضور تواضع اختیار فرما گئے اور اس کے نتیجے میں تمام مخلوق تو اپنی بلندیوں کے باوجود ساتویں آسمان سے اوپر نہیں جاسکی لیکن صلى الله آنحضرت ﷺ کا مقام اس سے بھی بلند تر ہوا اور اس کا تعلق بحجز سے ہے کیونکہ آنحضور ﷺ نے خود فرما دیا ہے کہ رفعتیں یعنی آسمان کی طرف بلندیاں کیسے نصیب ہوا کرتی ہیں.اسی آیت میں پھر فرمایا لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَةِ الْخِيَاطِ نہیں کہا کہ اونٹ کانا کے میں داخل ہونا اس سے زیادہ آسان ہے کہ دولت مند جنت میں داخل ہو.یہ مضمون جو ہے یہ ایک قسم کا محال مضمون ہے، ناممکن دکھانے والا مضمون ہے مگر قرآن کریم نے جو بیان فرمایا ہے اس میں بندے کے لئے مایوسی کی دیوار کھڑی نہیں کی.یہاں یہ فرمایا ہے.یہاں تک کہ اونٹ داخل ہو جائے یہ مضمون فرمایا ہے اور تکبر کا اونٹ کم بھی ہو سکتا ہے، اس کا جسم چھوٹا بھی ہوسکتا ہے، اس کی کجیاں دور بھی ہو سکتی ہیں.اونٹ کی مثال بڑی خوبصورت مثال ہے.حضرت مسیح علیہ اسلام کو بھی یہ مثال دی گئی اور آنحضرت ﷺ کو بھی یہی مثال سکھائی گئی لیکن طرز میں کتنا فرق ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ زیادہ ناممکن ہے کہ دولت مند خدا کی جنت میں داخل ہو بنسبت اس کے کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے یا اس میں سے گزر جائے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ نہیں ، جب تک اونٹ اس قابل نہیں ہو جاتا کہ سوئی کے ناکے سے گزر نہ جائے اس وقت

Page 198

خطبات طاہر جلد ۹ 193 خطبہ جمعہ ۶ راپریل ۱۹۹۰ء تک جنت کا راستہ بند ہے اور ہاتھی کی بجائے اونٹ کی مثال اس لئے دی گئی ہے ورنہ ہاتھی زیادہ بڑا جانور ہے، قرآن کریم میں ہاتھی کا ذکر بھی موجود ہے، اونٹ میں ایک ٹیڑھا پن بھی ہے اسی لئے تکبر میں جو بھی پائی جاتی ہے اس کی مثال اونٹ سے بہتر نہیں دی جاسکتی تھی.صرف بڑا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر ایک ٹیڑھا پن بھی پایا جاتا ہے.پس قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جب تک کوئی انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھ رہا ہے اور ساتھ ٹیڑھا بھی ہے اور یہ دونوں چیزیں تکبر میں اکٹھی چلتی ہیں، اس وقت تک اس کے لئے کوئی نجات نہیں ہے لیکن یہ فرمایا کہ یہ ممکن ہے کہ تمہارے تکبر دور ہو جائیں، یہ ممکن ہے کہ تمہای کجیاں درست ہو جائیں اور تم سیدھے ہو جاؤ.اس لئے مایوسی کا پیغام نہیں ہے بلکہ امید کا پیغام ہے، مشکل کام ہے.تمہیں بہت محنت کرنی پڑے گی اِنَّكَ كَادِحَ إِلى رَبِّكَ بہت مشقت کی راہ اختیار کرنی پڑے گی لیکن اگر کرو گے تو فَمُلقِيهِ اے انسان! تجھے یہ پیغام ہے کہ تو ضرور خدا کو پالے گا.جنت تجھ پر حرام نہیں ہوئی ہے مگر جنت کی راہ بتائی جارہی ہے کہ وہ کیسی مشکل راہ ہے.اپنے نفس کے تکبر کو توڑو.اس کی کجیوں کو درست کرو پھر تم ضرور اس راہ پر چل پڑو گے جو حضرت محمد مصطفی اللہ کی راہ ہے اور پھر تمہیں حقیقی بلندی نصیب ہوگی.قرآن کریم میں آسمان کے مضمون کے ساتھ ایک اونٹ کا مضمون بھی باندھا گیا ہے.چنانچہ دوسری رکعت میں جو سورۃ ہم تلاوت کرتے ہیں اس میں یہ مضمون اکٹھا آیا ہے.اس کے متعلق ایک دفعہ میں نے خطبے میں کچھ روشنی ڈالی تھی لیکن قرآن کریم کی آیات تو لا متناہی ہیں.اب جو میں مضمون بیان کر رہا ہوں اس کا بھی اس کے ساتھ ایک تعلق ہے.آسمان کی بلندی اونٹوں کو حاصل نہیں ہوا کرتی تمہیں غور کرنا چاہئے.آسمان کی بلندی خدا کے عاجز بندوں کو حاصل ہوا کرتی ہے.پس رفعتیں حاصل کرنی ہیں تو اونٹوں پر بیٹھ کر تمہیں رفعتیں نہیں ملیں گی.تم یہ نہ سمجھنا کہ دنیا کی ان سواریوں کے مالک ہو جاؤ.بلند سواریوں پر دوڑ نے لگو تو تم بہت ہی عظیم الشان وجود بن جاؤ گے بلکہ حقیقی رفعتیں عجز سے حاصل ہوتی ہیں.اونٹ کے متعلق دوسری جگہ جو فر ما دیا کہ وہ داخل ہی نہیں ہوسکتا تو اونٹ پر بیٹھا ہوا کہاں سے داخل ہو جائے گا.یہ مضمون ہے جس میں غور کی طرف وہاں دعوت دی گئی ہے کہ اونٹ ہے تو بڑا اونچا جانور، اچھا بھلا تیز دوڑ بھی لیتا ہے، لیکن ٹیڑھا ہے اور تم اگر اونٹ کی راہ اختیار کرو گے تو تم متکبر بن جاؤ گے.پس فرمایا: لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ

Page 199

خطبات طاہر جلد ۹ 194 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء اس وقت تک ایسا شخص داخل نہیں ہو سکتا جب تک چھوٹا نہ ہو جائے اور اپنے نفس کے اونٹ کو وہ اور مختصر اور مختصر کرتا نہ چلا جائے یہاں تک کہ وہ ہلاکت کے مقام تک پہنچ جائے.اگر ایسا نہیں کرو گے تو فرمایا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ پھر ہم اس طرح مجرموں کو سزا دیا کرتے ہیں کہ ان کی ترقی کی راہیں تنگ کر دیتے ہیں.یہ بھی بہت ہی خوبصورت مثال ہے.ایک انسان بعض دفعہ جاتے جاتے دیکھتا ہے کہ راستہ تنگ ہوتا چلا گیا ہے.یہاں تک کہ وہ ایک ایسا سوراخ بن گیا ہے کہ اس میں سے وہ داخل ہو ہی نہیں سکتا.بعض لوگ مجھے ایسی خوا میں لکھتے ہیں اور وہ لکھتے ہیں کہ اس سے دل پر بہت ہی دہشت طاری ہوتی ہے.ایک انسان آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن راستہ تنگ ہوتے ہوتے اتنا چھوٹا ہو جاتا ہے کہ آدمی بے اختیار ہو جاتا ہے.کوشش کرتا ہے آگے بڑھنے کی لیکن پھنس جاتا ہے.پس آگے بڑھنے کی راہ میں جو روکیں ہیں وہ اپنے نفس کے تکبر کی روکیں ہیں ورنہ خدا کی راہیں کشادہ ہیں.جب ان راہوں سے بڑا بن کر انسان وہاں سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو نہیں گزرسکتا.پس رویا میں ایسے لوگوں کو در حقیقت یہ پیغام ہوتا ہے کہ تمہارے اندرا بھی ترقی کی گنجائشیں تو موجود ہیں لیکن تم نے اپنے نفس کو چھوٹا نہیں کیا.اپنے نفس کو خدا کے حضور اور چھوٹا کر و.جب چھوٹا کرو گے تو ان باریک راہوں سے بھی تم بڑی آسانی سے گزر جاؤ گے.آج کل سائنس کی ایسی فلمیں تیار کی جاتی ہیں جو اس قسم کے نظر کے دھو کے ہیں لیکن ان دھوکوں کے نتیجے میں انسان دھو کہ نہیں کھاتا بلکہ ہدایت کی راہ پا جاتا ہے.چنانچہ چھوٹے چھوٹے بار یک جراثیم جو جسم کے خلیوں میں داخل ہوتے ہیں ان کے متعلق خواہ کسی طرح بھی وہ بیان کریں حقیقت میں ایک طالب علم کو پورا مضمون سمجھ نہیں آسکتا.تو سائنس کے ذریعے انہوں نے ایسے نظر کے دھو کے بنالئے ہیں کہ ایک آدمی جو سمجھا رہا ہے کہ اندر کیا ہے، وہ اتنا چھوٹا دکھائی دیتا ہے کہ اس کے مقابل پر خلیے لگتا ہے کہ ایک بہت بڑا ہال ہے اور پھر وہ خلیے ان باریک نالیوں کے ذریعے اترتا ہے جو بڑی مشکل سے دکھائی دیتی ہیں اور وہ چھوٹا سا آدمی اس میں جا کر پھر وہ چاروں طرف پھر رہا ہے وہ اندر چیزیں دیکھ رہا ہے.وہ بچوں کو دکھا رہا ہے کہ دیکھو ! میں اس وقت فلاں جگہ پہنچ گیا ہوں.یہاں نیوکلیس کی یہ شکل ہے.یہ خلیے کے پردے اور نیوکلیس کے درمیان کا پانی ہے یہاں

Page 200

خطبات طاہر جلد ۹ 195 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۹۰ء اس قسم کی Pigments ہیں.یہ ہے وہ ہے.اور وہ ایسا مزیدار نظارہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کے دل پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتا ہے یا طالب علم کے ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتا ہے تو حقیقت میں انسان چھوٹا ہو جائے تو راہیں کشادہ ہو جاتی ہیں.اور خدا کی راہ میں چھوٹا ہونا ضروری ہے کیونکہ خدا کی راہ پر آپ نے چلنا ہے اور وہاں بڑے بن کے نہیں چلا جاسکتا.اور اس پہلو سے بہت سے اور ایسے زاویے ہیں جن کو آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہے.تکبر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض بہت ہی پیاری نصیحتیں فرمائی ہیں، وہ بھی آپ کے سامنے رکھنی ضروری ہیں لیکن چونکہ اب ایک گھنٹہ کے قریب وقت ہو گیا ہے.اس لئے باقی باتیں انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں بیان کروں گا.یہ وہ جمعہ ہے جس کا خطبہ اس وقت فرینکفرٹ اور میونخ میں بھی سنا جارہا ہے.اب خدا تعالیٰ نے دیکھیں نئے نئے ایسے آلات مہیا فرما دیئے ہیں، نئے نئے سائنس کے انکشافات ایسے ہو چکے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی آواز کی پہنچ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.پس وہ بھی ہمارے شریک ہیں اور اللہ تعالیٰ ان منتظمین کو جزاء دے جن کی کوششوں کے ذریعے یہ آواز براہ راست دوسرے ملکوں کے لوگ سن سکتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی ہدایت دے جن کی کا وش فکر کے نتیجے میں ایسی ایسی چیزیں ایجاد ہوئیں.احسان مند ہونے کا ایک یہ بھی طریق ہے.پس رمضان المبارک میں جب آپ دعائیں کریں تو اپنے ہر محسن کے لئے دعا کیا کریں.مجھے ایک بچی کی بات بہت ہی پیاری لگتی ہے.وہ چوہدری شاہنواز صاحب مرحوم کی نواسی ہے.وہ چھوٹی سی تھی تو اسے ماں باپ نے سمجھایا کہ بیٹا دعائیں کرو.رمضان ہے یا کسی موقعہ پر کہا ہو گا.بہت دعائیں کیا کرو.تو ایک دن اس سے پوچھا کہ تم نے کیا کیا دعائیں کیں.بتاؤ تو سہی! اس نے کہا.میں نے جو دعائیں کیں امی کے لئے ، نانی کے لئے ، نانا کے لئے ، ابا کے لئے فلاں کے لئے فلاں کے لئے.اس کے علاوہ میں نے اس کے لئے بھی دعا کی جس نے آئس کریم ایجاد کی تھی انہوں نے کہا ہیں؟ اس کے لئے کیوں دعا کی؟ اس نے کہا.دیکھو اس نے بچوں کا دل خوش کر دیا.اب یہ بات تو بچگانہ ہے لیکن عارفانہ بھی ہے.ہم لوگ جب بندوں کا احسان نہیں دیکھ سکتے تو خدا کا احسان بھی نہیں دیکھ سکتے.اس بات کو آنحضرت مہ نے بیان فرمایا : من لم يشكر الناس لا يشكر الله ( ترندى کتاب البر والصلہ حدیث نمبر : ۱۸۷۷) پس خدا کے عرفان کی

Page 201

خطبات طاہر جلد ۹ 196 خطبه جمعه ۶ را پریل ۱۹۹۰ء باتیں تو ہم کر رہے ہیں.اگر بندے کا ہی عرفان نہ ہو تو خدا کا بھی نہیں ہوگا.تو ہر حسن کے احسان پر نظر رکھتے ہوئے اس کے لئے دل میں جذ بہ تشکر رکھیں اور اگر براہ راست کچھ نہیں کر سکتے تو دعا کیا کریں.اپنی دعاؤں کے ذریعے آپ احسان کا بدلہ اس رنگ میں اتار سکتے ہیں کہ ظاہری طور پر جو بدلے اتارے جاتے ہیں اس سے بہت بڑھ کر ایسے شخص کو جزاء پہنچ جاتی ہے اور اس طرح ہر راہ میں آپ کو ، بندوں کی راہ میں بھی اور دوسری راہوں میں بھی آفاقی طور پر بھی اور اندرونی طور پر بھی ہر مطالعے میں خدا دکھائی دینے لگے گا.

Page 202

خطبات طاہر جلد ۹ 197 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء تکبر سے بچیں اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں محمد کے وسیلہ سے لقائے باری تعالیٰ حاصل کریں ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ را پریل ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ دو جمعوں سے لقاء باری تعالیٰ کا مضمون چل رہا ہے اور میں نے یہ بیان کیا تھا کہ خدا تعالیٰ کو پانے کی ایک بہت ہی پیاری راہ عجز کی راہ ہے.ویسے تو جیسا کہ میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھ کر سنائی تھی.خدا کو پانے کی بہت سی راہیں ہیں بلکہ لا تعداد راہیں ہیں اور ان کی طرف بسا اوقات انسان کے ذہنی تصرف کے بغیر دروازے کھلتے ہیں، بعض قلبی کیفیات انسان کی زندگی میں ایسی اس پر طاری ہوتی ہیں کہ جن کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی طرف دل لپکتا ہے اور یہ جو وصال کی راہیں ہیں یہ اس موقع کی مناسبت سے دل کے اس تعلق کے نتیجے میں کھلتی ہیں.پس وہ جو کھڑ کی کسی ایک راہ کی طرف کھل رہی ہے یا وہ در جو ایک راہ کی طرف کھل رہا ہے اس میں انسان کا تصرف کوئی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور اس کی دل پر نظر پڑتی ہے اور دل کی جنبش کے نتیجے میں یہ دروازے کھلا کرتے ہیں.لیکن اس مضمون کو سمجھنا پھر بھی ضروری ہے کیونکہ اس مضمون کو سمجھنے کے نتیجے میں وہ روکیں دور ہوتی ہیں جو دل کو خدا کے لئے متحرک کرتی ہیں اور انسان زیادہ عرفان کے ساتھ اور زیادہ وضاحت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہوں کی تلاش کر سکتا ہے اور ان میں قدم آگے بڑھا سکتا ہے.

Page 203

خطبات طاہر جلد ۹ 198 خطبه جمعه ۳ اراپریل ۱۹۹۰ء مجز کے ذکر میں میں نے یہ بتایا تھا کہ اس کا برعکس یعنی تکبر بھی غور کے لائق ہے کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے آپ کو عاجز سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اس میں تکبر کا ایک پہاڑ چھپا ہوا ہوتا ہے.لوگ اس محاورے سے تو واقف ہیں کہ اپنی آنکھ کا شہتیر تو دکھائی نہیں دیتا دوسرے کی آنکھ کا تنکا دکھائی دے دیتا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تکبر پر اس سے بہت بڑھ کر مثال صادق آتی ہے.تکبر اگر پہاڑ کی شکل میں بھی انسان میں موجود ہو تو بسا اوقات اس سے مخفی رہ جاتا ہے.اس ضمن میں ہمارے ایک احمدی شاعر مکرم چوہدری محمد علی صاحب جو سائیکالوجی کے پروفیسر تھے ، ان کی ایک نظم کا ایک مصرعہ خصوصیت سے مجھے بہت ہی پسند آیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ آنکھوں میں ہیں انا کے ہمالے پڑے ہوئے.یعنی اپنی آنکھوں میں انا کے ہمالے پڑے ہوئے ہیں اور اس کو نظر نہیں آرہے.پس متکبر کو ہر دوسری چیز دکھائی دے رہی ہوتی ہے اپنا تکبر دکھائی نہیں دیتا اس لئے ایسے مریضوں سے جب مجھے واسطہ پڑتا ہے جن کو یہ سمجھانا ہو کہ آپ متکبر ہور ہے ہیں اپنی فکر کریں ورنہ یہ ہلاکت کی راہ ہے تو سب سے زیادہ مشکل ان کو یہ سمجھانے میں پڑتی ہے کہ آپ کے اندر تکبر کا مادہ پایا جاتا ہے کیونکہ وہ شخص اپنے آپ کو عام طور پر عاجز سمجھ رہا ہوتا ہے.بہر حال یہ مضمون ایسا ہے جس پر مزید وضاحت سے روشنی کی ضرورت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک صاحب تجر بہ عارف باللہ کے طور پر جو تکبر کا ذکر فرمایا ہے اس میں سے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.منظوم کلام میں بہت سی جگہ آپ نے اس مضمون کو چھیڑا ہے.چند شعر یہ ہیں جو میں آپ کے سامنے آج پڑھ کے سناتا ہوں.جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے ! یہ نسخہ بھی آزما شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے

Page 204

خطبات طاہر جلد ۹ 199 خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۹۰ء پھر فرماتے ہیں: ے کرم خاک چھوڑ دے کبروغرو رکو زیبا ہے کبر حضرت رب غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولا اسی میں ہے (درین صفحہ ۱۱۲۰ ۱۱۳) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلانہیں یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.66 خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں..یہ لفظ موحد ہی لکھا ہوا ہے مگر ہو سکتا ہے کوئی اس میں لفظ چھٹ گیا ہو.موحد کے مرض کا ( تدارک) مراد معلوم ہوتی ہے ہر تو حید پرست کی بیماریوں کا ازالہ فرماتا ہے مگر متکبر کا نہیں.شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں وو تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا.سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کے لئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا“.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد : ۵، صفحه: ۵۹۸) یعنی شیطان کے موحد ہونے کے باوجود تکبر اس کی ہلاکت کا موجب بن گیا.پھر فرماتے ہیں: میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو میں خدا کی روح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور

Page 205

خطبات طاہر جلد ۹ 200 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کردے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر ہنر عقل اور علم اور ہنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایکدم میں اَسْفَلَ سَفِلِينَ (التین :۶ ) میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے.یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قومی میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی جو " اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں ست ہے وہ بھی متکبر ہے..یہ ایک بہت ہی اہم مضمون ہے جس کے متعلق کچھ مزید وضاحت کی ضرورت ہے.ہمارے ملک میں عام طور پر یہ محاورہ ہے کہ اب تو ہمارا کچھ بھی نہیں رہا اس لئے دعا کرتے ہیں.اب تو کوئی اور شکل نہیں باقی رہی گویا اس سے پہلے وہ خود اپنے کفیل تھے اور اس فقرے کے اندر ایک تکبر پوشیدہ ہے اور دعا کی قبولیت کا مانع رجحان اس میں پایا جاتا ہے.پس حقیقی طور پر دعا کے مضمون اور مفہوم کو سمجھنے والا وہی انسان ہے جو طاقتوں کے باوجود یہ یقین رکھتا ہو کہ ان طاقتوں میں فی ذاتہ کچھ حاصل کرنے کی استطاعت نہیں جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو.اس لئے یہ جو تکبر کا مضمون ہے اس کو آپ دیکھیں تو کتنا باریک تر ہوتا چلا جاتا ہے اور تکبر دکھانے کے لئے بھی ایک عارف باللہ کی انگلی چاہئے.جس نے اپنے وجود کا بہت ہی بار یک نظر سے مطالعہ کیا ہے اور اپنے گرد و پیش کا بھی

Page 206

خطبات طاہر جلد ۹ 201 خطبہ جمعہ ۱۳ار اپریل ۱۹۹۰ء بہت باریک نظر سے مطالعہ کیا ہے.کوئی انسان جس میں صداقت کا ایک ذرا سا بھی بیج ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قسم کے کلام کو پڑھنے کے بعد وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا کہ یہ شخص جھوٹا ہوسکتا ہے کیونکہ تقویٰ کی یہ باریک راہیں سوائے اعلیٰ درجے کے صداقت شعار لوگوں کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوا کرتیں.پس دیکھیں! کس طرح آپ ہماری اصلاح فرماتے ہیں ہمیں تقویٰ کی باریک راہیں دکھاتے ہیں.ان خطرات سے آگاہ کرتے ہیں جو ہمیں روز در پیش ہوتے ہیں اور ہم ان سے اپنی آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں.فرماتے ہیں: މ....و شخص بھی جواپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں ست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے.تو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یا درکھو.ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو.ایک شخص جو اپنے بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ صحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے“ تصحیح منع نہیں یعنی کسی کو درست کر نا لیکن رجحان ہے جو یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ خدا کی نظر میں پسندیدہ فعل تھا یا بر افعل تھا.ایک تصحیح ہے جیسا کہ میں پہلے بھی جماعت کو متوجہ کر چکا ہوں.جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں سمجھائی کہ جب نماز میں امام غلطی کرے تو سبحان اللہ کہا کرو.کیسی پیاری تصیح ہے.یہ بتایا گیا کہ صرف اللہ پاک ہے.یہ تصحیح کرنے والا غلطی سے پاک ہے، نہ وہ پاک ہے جس کی تصحیح کی جارہی ہے اور اللہ پاک ہے.تو تصحیح کے ساتھ ہی انکسار کا نسخہ بھی دے دیا اور تکبر سے بچنے کی راہ بھی دکھا دی.تو آپ فرماتے ہیں کہ تکبر کے ساتھ جو صحیح کرتا ہے اس نے تکبر کیا ہے ورنہ صحیح اپنی ذات میں کوئی برافعل نہیں.ہمیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے کھڑا کیا گیا ہے.اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ہم کسی بھائی کی درستی کریں تو نعوذ باللہ وہ تکبر ہوگا.کس انداز میں درستی کرتے ہیں.یہ ہے جو فیصلہ کن بات ہے کہ کوئی انسان متکبر ثابت ہوتا ہے یا عاجز ثابت ہوتا ہے.بعض دفعہ کسی انسان کی تصحیح کی طرف آپ توجہ کرتے ہیں اور استغفار بھی کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ غلطی اس سے ہوئی ہے، کل مجھ سے بھی ہوئی تھی.میں اس بات کا اہل بھی ہوں کہ نہیں کہ اس کی تصحیح

Page 207

خطبات طاہر جلد ۹ 202 خطبہ جمعہ ۱۳ار اپریل ۱۹۹۰ء کرسکوں، ایک یہ رجحان ہے، ایک یہ ہے کہ میں نے پکڑ لیا اس کو، یہ بڑا بنا پھرتا تھا اپنایا جماعت کا عہد یدار فلاں یا فلاں شخص.اب میں اس کو بتا تا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے؟.تو ان دونوں باتوں میں، دونوں رجحانات میں زمین آسمان کا فرق ہے حالانکہ امر واقعہ وہی رہتا ہے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے.وہ برحق ہے.پس یہ ہیں وہ باریک راہیں جن پر چل کر آپ پہلے اپنے تکبر کو مٹائیں کیونکہ متکبر خدا کی را ہوں میں داخل نہیں ہوتا، متکبر کو رفعتوں کے آسمان نصیب نہیں ہوتے یہ قرآن کریم کا فیصلہ ہے.اس فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سنا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو دُعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اُس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈرسکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو.( نزول اسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۳۰) پھر آپ فرماتے ہیں: یادر ہے کہ تکبر کو جھوٹ لازم پڑا ہوا ہے بلکہ نہایت پلید جھوٹ وہ ہے جو تکبر کے ساتھ مل کر ظا ہر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہ، متکبر کا سب سے پہلے سر توڑتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد۵،صفحه: ۵۹۹)

Page 208

خطبات طاہر جلد ۹ 203 خطبه جمعه ۳ اراپریل ۱۹۹۰ء تکبر کا جھوٹ کے ساتھ جو رشتہ ہے یہ ایک بہت ہی حیرت انگیز مضمون ہے جس کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لب کشائی فرمائی ہے اور اس پر غور کرنا چاہئے.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ جب غور کر کے تجزیہ کریں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کس طرح تکبر اور جھوٹ کا چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے.تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یاد رکھو تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنادیتا ہے.جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے....یه فقرہ غور کے لائق ہے کہ تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنادیتا ہے.آپ غور کریں تو شیطان بنا ہی تکبر سے تھا.اس کا آغاز ہی تکبر سے ہوا تھا اور اس کا انجام شیطانیت پر تکبر کے نتیجہ میں ہوا.پس شیطان ہی سے تکبر آتا ہے اور بالآخر انسان کو شیطان بنادیتا ہے.” جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے.نہ علم کے لحاظ سے، نہ دولت کے لحاظ سے ، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا - ہوتا ہے.اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه : ۲۱۲) قرآن کریم نے جہاں تکبر کا بکثرت ذکر فرمایا ہے.ان آیات پر اگر آپ غور کریں تو تکبر کی بہت سی باریک راہوں پر آپ اطلاع پا سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ بظاہر ایک ہی مضمون بار بار دہراتا ہے لیکن جب آپ سیاق وسباق پر غور کریں اور آیات میں معمولی تبدیلیوں پر غور کریں تو تب آپ کو یہ سمجھ آتی ہے کہ ایک ہی مضمون نہیں ہے بلکہ ایک مضمون کی مختلف شاخوں پر بحث ہو رہی ہے اور مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے ایک مضمون کو

Page 209

خطبات طاہر جلد ۹ 204 خطبہ جمعہ ۱۳ را پریل ۱۹۹۰ء زیادہ روشن اور واضح کر کے دکھایا جا رہا ہے.قرآن کریم کی متعدد آیات میں سے جو دو وقت کی رعایت سے میں نے آج چنی ہیں.ایک دو اور ہیں شاید بعد میں ان کا ذکر آجائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سَأَصْرِفُ عَنْ أَيْتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ذلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غُفِلِينَ (الاعراف: ۱۴۷) سَأصْرِفُ عَنْ ايْتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ میں ان لوگوں کے منہ اپنے نشانات سے اور اپنی آیات سے پھیر دوں گا جو زمین میں تکبر کرتے ہیں اور ان کو اس بات کا کوئی حق نہیں.پس سب سے بڑا نقصان متکبر کا یہ ہے کہ وہ ان نشانات کو جو قدرت میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں ان کو دیکھ کر ان سے استفادہ نہیں کر سکتا اور ان کو سمجھ نہیں سکتا.وہ اپنی آنکھیں ان کو دیکھتے ہوئے پھیر لیتا ہے.پس ایک دنیا دار کا قانونِ قدرت کا مطالعہ اسی وجہ سے اس کو کوئی فائدہ نہیں دیتا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ میری ذاتی عظمت ہے کہ میں نے یہ باتیں معلوم کی ہیں.ہر دریافت کے نتیجے میں اس کی انا بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو میں نے دنیا کو یہ دولت دی ہے کہ میں یہ راز سمجھ گیا ہوں حالانکہ اگر عرفان میں تکبر نہ ہوتا تو ہر مطالعہ اس کو زیادہ عاجز کرتا چلا جاتا ہے.پس سائنس کی دنیا میں بھی ہمیں ایسے عاجز بندے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے جتنا زیادہ خدا کے رازوں پر سے پردے اٹھانے کی سعادت پائی اتنا ہی زیادہ وہ عاجز اور منکسر المزاج ہوتے چلے گئے.نیوٹن کا وہ فقرہ آج تک دنیا کے لٹریچر میں بارہا Quote کیا جاتا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی آخری عمر میں کہا کہ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں نے بہت کچھ دریافت کر لیا بہت سے علوم سے پردے اٹھائے ، ایک نیا جہان زاویہ نگاہ کا تمہیں بخشا ہے لیکن میں جب اپنے او پر غور کرتا ہوں اور اپنی علمی

Page 210

خطبات طاہر جلد ۹ 205 خطبہ جمعہ ۱۳ار اپریل ۱۹۹۰ء حالت کا جائزہ لیتا ہوں تو اس بچے کی طرح اپنے آپ کو پاتا ہوں جو علم کے سمندر کے کنارے گھونگھوں کی تلاش میں پھر رہا ہو اور کوئی گھونگھا اٹھاتا ہے اور کان سے لگا کر سنتا ہے کہ دیکھیں اس کے اندر کیا چیز ہے جبکہ ابھی وہ سمندر میں داخل ہی نہیں ہوا ، پہلا قدم بھی اس نے نہیں رکھا.پس قانون قدرت نے اپنے جور از خود باہر پھینک دیئے ہیں ان پر نظر کرنے والا سائنسدان اگر متکبر ہو تو وہ کسی رنگ میں بھی خدا کے وصل کا فیض نہیں پاسکتا لیکن اگر اس میں بجز ہو تو اس کی توجہ اس طرف مبذول ہوتی ہے کہ کسی حد تک وہ خدا کو پالے؟ یہ دوسری باتیں ہیں جواثر انداز ہوتی ہیں لیکن کم سے کم اس کے لئے ایک راہ کھل جاتی ہے وہ چاہے تو اس راہ پر آگے قدم بڑھا سکتا ہے.پس اس مضمون کو جب ہم روحانی دنیا میں دیکھتے ہیں تو تمام وہ لوگ جو تکبر رکھتے ہیں وہ ہمیشہ نبوت کا انکار کرتے ہیں.جب سے دنیا بنی ہے نبوت کا سب سے زیادہ شدت سے انکار ہوا ہے.یہ وہم کہ یہ کوئی نیار جحان پیدا ہوا ہے اور اس رجحان کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبین قرار دیا اس کے بعد سے ختم نبوت کا تصور پیدا ہوا ہے.یہ بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ یوسف کو بھی تم نے بڑے دکھ دئے تھے.پہلے تو قبول نہیں کرتے تھے لیکن جب قبول کر لیا اور وہ ہلاک ہو گیا ، وہ چلا گیا، تو پھر تم نے یہ عقیدہ بنالیا کہ اب اس کے بعد خدا اور کسی کو نہیں بھیجے گا.یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ نبوت کا انکار ہمیشہ ہوا ہے اور اس کی راہ میں تکبر حائل ہوا کرتا ہے.اس مضمون کو یہ آیت کھول رہی ہے.سَأَصْرِفُ عَنْ ايْتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وہ لوگ جو تکبر کرتے ہیں ان کے سامنے میرے نشان کھلے کھلے آتے ہیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے ، میں ان کے منہ پھیر دیتا ہوں.میں ان کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ وہ ان نشانات کی راہوں سے مجھ تک رسائی پائیں.پھر فرمایا.وَانْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا قرآن کریم میں اسی مضمون کو ایک اور جگہ بیان فرمایا ہے.إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ (الانعام: ١١٠) کہ خدا کے ہاں تو بے شمار راہیں ہیں جو آیات کی صورت میں بکھری پڑی ہیں لیکن تمہیں کیا

Page 211

خطبات طاہر جلد ۹ 206 خطبه جمعه ۱۳ار اپریل ۱۹۹۰ء سمجھا ئیں کس طرح ہم تمہیں عقل دیں کہ جب وہ نشانات ظاہر ہوں گے تم نہیں دیکھ سکو گے.تم پھر بھی انکار کرتے چلے جاؤ گے.یہ مرض کیا ہے؟ یہ آیت جس پر ہم غور کر رہے ہیں یہ بتاتی ہے کہ تکبر کی مرض ہے.كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا وہ دیکھیں گے ہر قسم کے نشانات لا يُؤْمِنُوا بِهَا لیکن بدنصیبوں کو یہ توفیق نہیں ملے گی کہ ان آیات سے فائدہ اٹھا کر ایمان حاصل کرلیں.وَاِنْ تَرَوُا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ہاں ہر بھلائی کی راہ دیکھ کر اس سے ان کے قدم رک جائیں گے.وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ہاں جب وہ ٹیڑھی اور کج را ہیں دیکھیں گے تو ان پر آگے قدم بڑھائیں گے اور تیزی کے ساتھ ان کو قبول کریں گے.ذلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِايْتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غُفِلِينَ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانوں کا انکار کر دیا ہے.وَكَانُوا عَنْهَا غُفِلِينَ اور وہ اس سے غفلت کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں.پس متکبر قوموں کے لئے کچھ بھی بھلائی باقی نہیں رہتی اور ان کی یہ پہچان بن جاتی ہے کہ وہ عقل کی بات دیکھ کر اس سے رک جاتے ہیں اور غلط اور کج بات دیکھ کر اس میں آگے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں.پس ایسی قومیں دن بدن اپنی اخلاقی، سیاسی، معاشی، تمدنی، اقتصادی ہر پہلو سے انحطاط پذیر ہو جاتی ہیں کیونکہ تکبر کے نتیجے میں جب وہ خدا کے عرفان سے غافل رہ جاتے ہیں یا حجاب پیدا ہو جاتا ہے تو چونکہ نو ر دراصل اللہ ہی کا نور ہے، اس لئے ان کی عقلوں میں دوسرے نور کو پہچاننے کی بھی استطاعت باقی نہیں رہتی.پھر فرمایا.اِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُوْنَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ (الاعراف: ۳۰۷) اس کے برعکس وہ لوگ جو تیرے رب کے حضور ہیں.لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وہ خدا کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے.وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ اور اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کے حضور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں.پس یہ جو سجدہ ہے، یہ روح کا سجدہ ہے، رجحان کا سجدہ ہے یہ اپنے تعلقات کا ایک سجدہ ہے.جو عارضی طور پر اختیار نہیں کیا جاتا کہ سجدہ کیا اور پھر سجدے سے الگ ہو گئے.یہ وہ دائمی سجدہ ہے جس میں ایک غیر متکبر اور عاجز بندہ خدا کے

Page 212

خطبات طاہر جلد ۹ 207 خطبه جمعه ۱۳ار اپریل ۱۹۹۰ء حضور پڑا رہتا ہے.اسی لئے اس آیت نے بڑے ہی حسین انداز میں خدا کے حضور ان کی حاضری کا مضمون بیان فرمایا.اِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ ا محمد ﷺ وہ لوگ جو تیرے رب کے حضور رہتے ہیں ہر وقت خدا کی آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں ان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے.پس لقاء جو ہے وہ رب کے حضور رہنا ہی تو ہے.لقاء کے مضمون کو سمجھنے کے لئے عجز کا مضمون سمجھنا چاہئے اور اس کے برعکس تکبر کا مضمون سمجھنا چاہئے.عجز کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور تکبر کی ہر شکل سے نجات حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق کے بغیر انسان اپنے نفس کے تکبر سے آگاہ ہی نہیں ہوسکتا.جب اس کو علم ہی نہیں ہو گا کہ مجھ میں کس کس رنگ کا تکبر پایا جاتا ہے تو کیسے وہ اس تکبر سے بیچ کر وصل کی راہ تلاش کرسکتا ہے.قرآن کریم نے جو فرمایا.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) العنكبوت : ۷۰ ) وہ لوگ جو ہماری راہوں پر ۷۰) قدم بڑھاتے ہیں.ہماری خاطر مختلف راہوں سے چل کے آتے ہیں.ہم ان کو اپنی راہ کی ہدایت دیتے ہیں.ہم ان کو اپنی ذات کی طرف چلے آنے کی توفیق عطا کرتے ہیں.لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں ایک جوابی دعا کے رنگ میں یا بے اختیار خواہش کے رنگ میں پایا جاتا ہے.آپ عرض کرتے ہیں.ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں کیسی بے اختیار عشق کی آواز ہے.اے میرے آقا! میں جانتا ہوں کہ بہت سی راہیں ہیں لیکن اتنی راہیں کہ دل جس طرح Excitement کی وجہ سے مرتعش ہو گیا ہے.اس میں ایک اضطراب پیدا ہو گیا ہے، کس کو پکڑوں میں اس کو ، اس کو ، کن کن راہوں سے تیرے حضور حاضر ہوں.یہ جو عشق کی بے اختیار آواز ہے اس کے پیچھے ایک بہت گہری تڑپ پائی جاتی ہے.کوئی انسان جسے ادنی سا بھی نفسیات کا شعور ہو، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کو سننے کے بعد آپ کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ یہ شخص نعوذ باللہ جھوٹا ہے، خدا پر جھوٹ بولنے والا شخص ہے.یہ بے قرار تڑپ گہری سچائی کے نتیجے میں نصیب ہوتی ہے اور گہرے عشق کے نتیجے میں نصیب ہوتی

Page 213

خطبات طاہر جلد ۹ 208 خطبه جمعه ۱۳ار اپریل ۱۹۹۰ء ہے.اس کو آپ جتنی دفعہ پڑھیں ، آپ پھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کی اس تڑپ کا تصور نہیں باندھ سکتے کیونکہ اس کے لئے کچھ نہ کچھ تجر بہ ضروری ہے.فرماتے ہیں.ے ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں و شخص جس کی ساری زندگی خدمت میں وقف ہو، جس کی ہر راہ خدا کی طرف جانے والی ہو اس کے دل کا یہ حال ہے: ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں اس کو بجز کہتے ہیں.حقیقی بجز یہ ہے.عرض کرتے ہیں.محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر ہے کہ خاک اپنی اڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی ( در ثمین صفحه ۵۴) فسبحان الذى اخزى الأعادي پس یہ جو بجز کا مضمون ہے کہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام نے عشق سے باندھ دیا ہے اور تمام راہوں کا خلاصہ جو خدا کی طرف لے کر جاتی ہیں ان چند شعروں میں بیان کر دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ بچے عجز کی راہ سچی محبت کے بغیر نصیب نہیں ہوسکتی اور یہی وہ عجز کی راہ ہے جس کی تلاش میں ہمیں سرگرداں رہنا چاہئے.جس کے لئے ہمیں اس رمضان میں خصوصیت سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ ہمیں سچا بجز نصیب ہو اور تکبر کا ہر پہاڑ ہمارے وجود میں سے ملیا میٹ ہو جائے اور ہماری زمین خدا کے حضور اس طرح بچھ جائے جس طرح روح بعض دفعہ خدا کے حضور اس کی محبت میں بچھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.اس طرح ہمارا سارا وجود خدا کے لئے ہمیشہ بچھ جائے اور یہ

Page 214

خطبات طاہر جلد ۹ 209 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء وہی مضمون ہے جسے مستقل سجدے کے مضمون کے طور پر قرآن کریم نے پیش کیا ہے.جہاں تک راہوں کا تعلق ہے، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.بجز کی راہ کہنے کو تو آسان لفظ ہے مگر اسے پہچانا مشکل کام ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک ایک عارف باللہ عاجز سے بجز کا مضمون سیکھا نہ جائے ، اس وقت تک انسان کو یہ راہ نصیب نہیں ہو سکتی.مختلف راہوں میں جو سب سے بنیادی راہ ہے وہ بجز کی ہے لیکن اس کا عرفان انبیاء سے حاصل ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں تبھی قرآن کریم انبیاء کو وسیلے کے طور پر پیش کرتا ہے.یعنی یوں کہنا چاہئے کہ قرآن کریم نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ایک وسیلے کے طور پر پیش فرمایا ہے اور تمام دوسرے انبیاء بھی اپنے اپنے وقتوں میں اپنے وسیلے ہونے کا مضمون اپنے متبعین کے سامنے رکھتے ہیں.پس جورا ہیں انبیاء اختیار کرتے ہیں ان راہوں سے گزر کر خدا ملے گا اور انبیاء نے ہمیشہ بجز کی راہوں سے خدا کو پایا ہے.یہ وہ مضمون ہے جسے آپ کو خوب اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ عرض کیا کہ ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں تو جوابا اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ ” تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں ( تذکرہ صفحہ: ۵۹۵) کیسا پیارا جواب ہے.جس طرح تو نے اپنے عشق کا اظہار کیا ہے.جس عاجزی کے ساتھ تو میرے حضور بچھ گیا ہے.یہی تو راہ ہے جس کی مجھے تلاش تھی ، یہی تو راہ ہے جو مجھ تک پہنچاتی ہے.پس تیرے سوال میں ہی تیری بات کا جواب موجود ہے.تو کہتا ہے کہ اے میرے مولا ! ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں.میں بتا تا ہوں کہ یہی راہیں جو مجھے پسند ہیں.انہیں راہوں پر چلتارہ.یہ تیری عاجزانہ راہیں ہیں جو مجھے پسند آئی ہیں.پس حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کو بھی جب وسیلہ فرمایا گیا تو ہم اس مضمون پر غور کرتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ وسیلہ کہنے کے باوجود جب خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ جو محمد کی راہ ہے اس راہ سے مجھ تک آؤ.اس رستے سے مجھ تک پہنچ تو آنحضرت مہ خود اپنے متعلق کیا سوچتے ہیں اور کیا طرز عمل اختیار فرماتے ہیں.آپ کو پتا ہے یا ان لوگوں کو جنہوں نے اذان کے بعد کی دعاسنی ہوئی ہے، وہ کم سے کم جانتے ہیں کہ اس دعا میں حضرت محمد مصطفی حملے نے ہمیں یہ سکھایا کہ تم میرے لئے بھی دعا کیا کرو اور یہ دعا کیا کرو.اللهم ات محمد الالوسيلة والفضيلة والدرجة الرفيعة وابعثه مقاما محمود الذي وعدته ( بخاری کتاب الاذان حدیث نمبر : ۵۷۹) کہ اے ہمارے آقا!

Page 215

خطبات طاہر جلد ۹ 210 خطبہ جمعہ ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء تو ہمارے آقا محمد مصطفی امیہ کو وسیلہ عطا کر اور فضیلت عطا کر اور وہ درجہ رفیعہ عطا فرما اور وہ مقام محمود عطا فرما جس کا تو نے وعدہ کیا ہے.اب جسے وسیلہ بنایا گیا ہے اس کے عجز کا یہ عالم ہے کہ جن لوگوں کے لئے وسیلہ ہے ان سے کہتا ہے کہ میرے لئے دعا کرو کہ خدا تعالیٰ مجھے واقعی وسیلہ بنادے.اس سے زیادہ بجز کا مقام متصور ہی نہیں ہو سکتا.خدا کا قطعی وعدہ ہے کہ ہم تجھے مقام محمود ضر ور عطا کریں گے اور خدا کا یہ وعدہ سننے کے بعد ، جاننے کے باوجود کہ میرے حق میں یہ وعدہ ہے پھر وہ اپنے غلاموں کو نصیحت کرتا ہے کہ میرے لئے دعا کیا کرو کہ خدا واقعی مجھے مقام محمود عطا کرے.پس نبوت کی کنہ کو سمجھنے کے لئے عجز کے مقام کو سمجھنا چاہئے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ میرے ایمان کے مطابق تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ عاجز بندے تھے اور یہ جو دعا ہے اس قسم کی دعا آپ کو دنیا کے کسی اور نبی نے نہیں سکھائی.مذاہب کے مطالعہ میں کم سے کم میرے علم میں ایسی کوئی دعا نظر نہیں آتی حالانکہ دوسروں کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے.حضرت مسیح کا یہ قول ہمیں ملتا ہے کہ راہ اور حق اور زندگی میں ہوں.کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا لیکن ایسی کوئی دعا نہیں ملتی جس میں اپنے غلاموں کو انہوں نے یہ نصیحت کی ہو کہ میرے لئے دعا کیا کرو کہ جو وسیلہ خدا نے مجھے بنایا ہے اور جو راہ بنایا ہے وہ واقعہ اپنے تمام تر معانی کے ساتھ مجھے نصیب ہو جائے.پس وسیلہ ہونا اپنی ذات میں ایک بڑا گہرا مضمون ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی مے سے الله تعلق قائم کئے بغیر یہ وسیلہ نہیں نصیب ہو سکتا اور یہ تعلق جس طرح آنحضرت ﷺ کو اپنے رب سے عاجزانہ تھا، اسی طرح آپ کی امت کا فرض ہے اور اس کے بغیر راہ کوئی نہیں کہ آنحضرت ﷺ سے اپنے تعلق کو عاجزانہ بنادے اور اپنے وجود کو آنحضور کے وجود کے سامنے بچھا دے گویا کہ کلیہ آپ کی بادشاہی کو قبول کر لے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی وسیلہ کے مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.والله ان محمدا كردافة وبه الوصول بسدة السلطان (القصائد الاحمدیہ صفحہ ۶)

Page 216

خطبات طاہر جلد ۹ 211 خطبہ جمعہ ۱۳ را پریل ۱۹۹۰ء خدا کی قسم ! حضرت محمد مصطفی ملے تو خدا تعالیٰ کے وزیر اعظم ہیں.وَبِهِ الْوُصُولُ بِسُدَّةٍ السلطان اس بادشاہ یعنی خدا تعالیٰ کی چوکھٹ پر اس وزیر اعظم کے وسیلے سے پہنچا جائے گا.اگر وز یر اعظم کی طرف سے حکم نصیب نہ ہو، اجازت نامہ نصیب نہ ہو تو کون ہے جو بادشاہ کی چوکھٹ تک پہنچتا ہے.پس آنحضرت سے ایک تعلق لازمی ہے اور وہ تعلق اسی طرح عاجزانہ ہونا چاہئے جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کا تعلق عاجزانہ تھا.صلى الله علاوہ ازیں آنحضرت میلے کا بندوں سے بھی ایک عاجزانہ تعلق تھا اور اس مضمون کو سمجھیں گے تو پھر آپ کے وسیلہ ہونے کا مضمون زیادہ سمجھ آجائے گا.اپنے غلاموں کو دعا کے لئے کہنا ان باتوں میں دعا کے لئے کہنا جن کا حتمی طور پر فیصلہ شدہ ہونا معلوم ہو چکا تھا یہ اپنے غلاموں کے سامنے ایک عاجزانہ تعلق کا اظہار ہے.حضرت عمر کو ایک موقعہ پر کہا.بھائی ! میرے لئے دعا کرنا.(ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر: ۱۲۸۰) پس آنحضرت مالی خدا تعالیٰ سے جو عاجزانہ تعلق تھا.اس کے ساتھ بنی نوع انسان کے ساتھ بھی ایک عاجزانہ تعلق تھا اور غریبوں سے ایک گہرا تعلق تھا.پس محض ایک رومانی عشق کا اظہار کافی نہیں ہے.آنحضرت ﷺ اگر وسیلہ بنیں گے تو ان لوگوں کے لئے بنیں گے جو آپ کے وسیلہ ہونے کے مضمون کو سمجھتے ہیں اور ان راہوں سے آپ کے پاس پہنچتے ہیں جو راہیں آپ نے خود ہمیں دکھائی ہیں.ان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عاجزانہ راہیں ہیں جو ہر سمت میں عاجزی کے ساتھ چلتی ہیں.بنی نوع انسان سے بھی عاجزانہ تعلق ہے اور خدا سے بھی عاجزانہ تعلق ہے اور جہاں تک خدا کے غریب بندوں کا تعلق ہے ان میں اتر کر دراصل آپ نے خدا کو پایا ہے خدا کے مصیبت زدہ بندوں کی راہ سے آپ نے خدا کے وجود کو پایا.اس بات کا قطعی ثبوت اس واقعہ میں ملتا ہے جو نبوت کے حصول کے معابعد پیش آیا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو جب نبوت کے مقام پر فائز فرمایا گیا اور پہلی وحی نازل ہوئی تو جب آپ بہت سخت خوفزدہ حالت میں کہ یہ کیا واقعہ مجھ سے گزر گیا ہے گھر واپس لوٹے اور اس واقعہ کا اس قدر گہرا اثر تھا کہ آپ کشدت سے کانپ رہے تھے اور سخت سردی محسوس کر رہے تھے.حضرت خدیجہ نے آپ کو چادریں اوڑھائیں یا لحاف ڈالے، جس قسم کی بھی اس وقت سہولت تھی تن ڈھانپنے کی.اس کے بعد آپ کے خوف دور کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ آپ کے ساتھ خدا کا جو سلوک ہے وہ محض الله

Page 217

خطبات طاہر جلد ۹ 212 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء آپ کا وہم نہیں.یہ کوئی اور واقعہ نہیں ہورہا بلکہ اس کی ایک ٹھوس وجہ موجود ہے.جس قسم کے آپ ہیں ان سے خدا ایسے ہی سلوک کیا کرتا ہے یعنی آپ کو جو نبوت عطا ہوئی ہے یہ تو بہر حال وہمی ہے لیکن آپ یہ عرض کر رہی تھیں آنحضور ﷺ کی خدمت میں آپ کے اندر وہ صفات موجود ہیں جن کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور پھر ایسے بندوں کو نبوت عطا کرتا ہے.وہ صفات کیا ہیں؟ عرض کیا.انک لتصل الرحم وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقرى الضيف وتعين على نوائب الحق ( بخاری کتاب الوحی حدیث نمبر (۲) کہ اے محمد ! كلا والله ما يخزيك الله ابدا ہر گز نہیں.خدا کی قسم ! خدا تجھ جیسوں کو کبھی ضائع نہیں کیا کرتا.کسی قسم کا خوف نہ کھائیں.آپ وہ نہیں ہیں جو ضائع کر دیئے جاتے ہیں کیونکہ اگر آپ ضائع کر دیے جائیں تو دنیا سے تمام نیکیاں ضائع کر دی جائیں گی.پھر غریبوں ، مجبوروں ، یتیموں ، بے سہاروں کا پوچھنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا.انك لتصل الرحم تو وہ شخص ہے جس نے رشتوں کے احترام قائم کر دیئے ہیں.جس نے بہن کو بھائی سے محبت کرنی سکھا دی ہے، بیٹوں کو ماں کی عظمت بتائی ، ماں باپ کو اپنے بیٹوں سے تعلق سمجھایا.سارے رشتے جو ادب اور احترام اور پیار اور محبت کے تقاضے کرتے ہیں وہ آپ نے قائم کئے ہیں حالانکہ ابھی نبوت نصیب نہیں ہوئی تھی.وتحمل الکل.وہ خدا کے بندے جن کی کمریں بوجھوں سے ٹوٹ رہی تھیں.کوئی ان کا بوجھ اٹھانے والا نہیں تھا.تحمل الکل.تیری عادت بن چکی ہے تو آگے بڑھتا ہے اور ایسے مظلوموں کے بوجھ اٹھا لیتا ہے.وتكسب المعدوم.اور وہ تمام اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے تھے ان میں سے ایک ایک کو تو اپنی روزانہ کی زندگی میں زندہ کرتا چلا جارہا ہے.وتــقـــرى الضيف تو بے حد مہمان نواز ہے.اور مہمانوں کے ساتھ بہت ہی حسن سلوک کرنے والا ہے.وتعین علی نوائب الحق اور آسمان سے جو بلائیں نازل ہوتی ہیں بنی نوع انسان پر، تو آگے بڑھتا ہے اور ان بلاؤں میں ان کے ہاتھ بٹاتا ہے اور ان کے دکھ بانٹتا ہے.پس دیکھیں ! وسیلہ جس کو بنایا گیا ہے خود وہ خدا تک کن راہوں سے پہنچا تھا.وسیلہ بنا کیسے؟ وسیلہ بنا ہے خدا کے بندوں کے ساتھ تعلق قائم کر کے.تب اُس نے خدا کو پایا ہے.یہ وہ راہیں ہیں جن راہوں سے خدا کا وصال اسے نصیب ہوا اور ایسا وصال کہ ہمیشہ کے لئے اس کو دنیا کے لئے وسیلہ

Page 218

خطبات طاہر جلد ۹ 213 خطبہ جمعہ ۱۳ار اپریل ۱۹۹۰ء بنا دیا گیا.پس خدا سے تعلق اور بندوں سے روگردانی خدا کی محبت اور خدا کے پیار کی جستجو اور بندوں سے بے مہر ہوجانا اور اپنی محبتیں ان پر سرد کر دینا یہ دو متضاد چیزیں ہیں.یہ کبھی اکٹھی نہیں رہ سکتیں.پس اس رمضان المبارک میں یہ بھی یادرکھیں کہ آنحضرت ﷺ رمضان المبارک میں اس معالی طرح خیرات کیا کرتے تھے ، اس طرح غریبوں کے دکھ بانٹا کرتے اور ان کے لئے آسائشیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آپ تو بادصبا کی طرح ہمیشہ ایک چلنے والے فیض پھیلانے والے وجود تھے، ہمیشہ ہی چلا کرتے تھے لیکن رمضان کے دنوں میں تو یوں لگتا تھا جیسے یہ بادصبا آندھی بن گئی ہے ( بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر :۱۷۶۹).اس کثرت سے آپ فیض پھیلاتے تھے.پس میں نے جو جماعت کو پہلے بھی ایک دفعہ توجہ دلائی تھی کہ اپنی عید میں بھی غریبوں کو شامل کریں.میں اس ضمن میں اس کی یاد دہانی بھی کرواتا ہوں.اس رمضان المبارک میں اپنے نفوس کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ کا کس حد تک اللہ کے بندوں سے تعلق ہے.خدا کے بندوں کے لئے اپنے وجود کو جھکا ئیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح خدا کی رحمت آپ کی طرف جھکتی ہے.آپ خود آسمانوں کی طرف نہیں اٹھ سکتے.ہاں آسمانوں والا اگر جھک کر آپ کو اٹھا لے تو پھر آپ اٹھائے جائیں گے.اس مضمون کو سمجھنے کے بعد اگر بنی نوع انسان کے تعلقات میں آپ وہ حسن پیدا کریں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے تعلقات میں تھا.جس نے آپ کو رفعتیں عطا کیں، جس نے آپ کو وسیلہ بنا دیا.تو پھر آپ لقاء کی ایک توقع رکھنے کے حقدار بن جائیں گے.پھر خدا بہتر جانتا ہے کہ کس حد تک آپ اس کی نگاہ میں حقدار ہیں کہ نہیں لیکن کم سے کم اپنی نظر میں تو آپ ایک معقول طریق پر سوچ سکتے ہیں کہ ہاں میں بھی شاید لقاء والوں میں داخل کر لیا جاؤں لیکن اس کے بغیر نہیں.اس کے بغیر یہ محض کہانیاں ہیں محض جذباتی خیال کی باتیں ہیں کہ مجھے رسول اللہ اللہ سے بڑی محبت ہے.بڑا عشق ہے.لیکن جب راہیں اختیار کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ راہیں اختیار نہیں کی جاتیں.میں نے بار ہا نصیحتیں کی ہیں کہ اپنے خاندانی تعلقات کو بہتر کریں.اپنے روز مرہ کے ہا تعلقات میں سوچیں کہ صلہ رحمی کو کتنی اہمیت حاصل ہے.کس طرح میں نے بار بار آپ کو سمجھایا ہے کہ ساسوں کو چاہئے کہ دوسروں کی بیٹیاں جب اپنا گھر چھوڑ کر ان کے گھر میں آجاتی ہیں تو وہ ان پر رحم کیا

Page 219

خطبات طاہر جلد ۹ 214 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء کریں اپنی بیٹیاں سمجھا کریں اور بہوؤں کو سمجھایا ہے کہ تم اپنے دوسرے گھروں میں جا کر اپنی ماں کی طرح سلوک کیا کرو لیکن اس کے باوجود لوگ سنتے ہیں اور شاید دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں یا سنتے ہی نہیں اور محض ظاہری طور پر کانوں کے پر دے مرتعش ہوتے ہیں کیونکہ یہ شکایتیں پھر بھی آتی رہتی ہیں.بڑے بڑے تکلیف دہ خط بعض بچیوں کے ملتے ہیں کہ ہم گئیں تو ہماری جو نسبتی بہنیں ہیں وہ اس طرح سلوک کرتی ہیں گویا کہ میں نے ان کے بھائی پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے اور وہ جب تک مجھے ذلیل و رسوا نہ کر دیں کہ یہ ہمارا زیادہ ہے اور تمہارا کم ہے اس وقت تک ان کو چین نصیب نہیں ہوتا.ساسیں ہیں جو ہر وقت ہمارے خاوندوں کے کان بھرتی رہتی ہیں.کئی خطوط اس قسم کے ملتے ہیں کہ جب تک تم اس کو رسوا کر کے ذلیل کر کے میرے سامنے جھکاؤ نہیں تم میرے بیٹے نہیں اور اس میں یہ نقص ہے اور اس میں وہ نقص ہے.اس کے برعکس دوسری طرف سے بھی شکا یتیں ملتی ہیں تو وہ راہیں کون سی تھیں جن راہوں سے آنحضرت ﷺ نے خدا کو پایا.ان میں سے ایک راہ صلہ رحمی کی راہ تھی.اپنے خاندانی تعلقات کو درست کیا اور کوئی رشتے دار آپ کا انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا کہ کبھی بھی حضور ا کرم صلى الله سے اس کو کسی قسم کی جائز شکایت پہنچی ہو.پھر دوسروں کے بوجھ اٹھانا ہیں.تکسب المعدوم.مٹے ہوئے اخلاق کو زندہ کرنا ہے نہ کہ زندہ اخلاق کو مٹا دینا ہے.آج دنیا میں احمدیت اور غیر احمدیت کا یہ فرق ہے جو ظاہر ہونا چاہئے.کروڑ ہا انسان ایسے ہیں جو آج ان اخلاق کو جو انہوں نے اپنے آباؤ اجداد سے پائے ، مٹانے کے درپے ہیں اور اس طرح ملیا میٹ کر رہے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے ہماری گلیوں ، ہمارے شہروں کو چوں، ہمارے گھروں کے چہروں سے وہ اخلاق مٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں.بداخلاقی سیاہی کی صورت میں آپ کو دیواروں پر دکھائی دے گی، ہر قسم کے گندے کلمات وہاں لکھے ہوئے دکھائی دیں گے، ہر قسم کی گندی تصویریں وہاں دکھائی دیں گی.لیکن یہ ظاہری تصویریں نہیں ہیں.یہ دلوں کی تصویریں ہیں جو اچھل اچھل کر باہر نکل رہی ہیں.اخلاق معدوم ہورہے ہیں.پس احمدی اگر اخلاق کو قائم نہیں کریں گے تو کیسے خدا کو پائیں گے.ایک ایسا شخص جو اپنی بدخلقی سے باز نہیں آتا.گندی زبان استعمال کرتا چلا جاتا ہے، اپنے بھائی سے حقارت سے پیش آتا ہے ،اپنے بیوی بچوں سے ظلم کا سلوک کرتا ہے اور تلخی سے ان سے باتیں کرتا ہے.خیال نہیں کرتا کہ ان کے بھی دل ہیں.چھوٹے چھوٹے بچوں کے

Page 220

خطبات طاہر جلد ۹ 215 خطبہ جمعہ ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء بھی جذبات اور احساسات ہیں.پھر وہ باتیں لقاء کی کر رہا ہو یہ باتیں کرے رمضان المبارک میں اے خدا! مجھے اپنا لقاء نصیب کر دے، جسے ان کا لقاء نصیب نہیں جو ہر وقت ساتھ رہتے ہیں اسے خدا کا لقاء کیسے نصیب ہو سکتا ہے؟ پس جو ساتھ ہیں ان کا عرفان حاصل کریں ان کا لقاء حاصل کریں.پھر یا درکھیں کہ یہ وہی راہ ہے جس راہ پر چل کر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے رب کو پایا تھا.یہ ہے وسیلہ ہونے کا مضمون اس کو سمجھیں گے تو وہ آپ کے لئے وسیلہ بنیں گے.اگر نہیں صلى الله سمجھیں گے تو محض کہنے سے اور محض زبان سے درود پڑھنے سے حضرت اقدس محمد مصطفی ملی ہے.کے لئے وسیلہ نہیں بن سکتے.تَقْرِى الضيف.یہ وہ مضمون ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں نسبتاً بہتر حالت میں پایا جاتا ہے.اکرام ضیف کا جہاں تک تعلق ہے بسا اوقات یہ اطلاعیں ملتی ہیں اور کثرت سے کہ اس طرح احمد یوں نے ہماری مہمان نوازیاں کی ہیں کہ عقل دنگ رہ گئی ہے اس لئے اس مضمون کو میں چھوڑتا ہوں.یہ صرف کہوں گا کہ دعا کیا کریں کہ یہ خوبی جو ہم نے لنگر خانوں سے سیکھی ہے جو قادیان میں آنے والوں سے سیکھی اور قادیان میں میز بانوں سے سیکھی یہ خدا ہمیشہ ہم میں جاری اور زندہ رکھے اور کبھی بھی اس خوبی کو مٹنے نہ دے.وتعيـن عـلـى نوائب الحق.اور اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو جن کا بس نہیں چلتا کوئی ایسی مصیبت ، آفت پڑ جاتی ہے کہ وہ گر جاتے ہیں ان کو اٹھانے کی کوشش کیا کریں.پس عید میں جہاں آپ اپنے خاندان کے ساتھ خوشیاں منائیں گے میں یہ نہیں کہتا کہ ان کو چھوڑ دیں ان کا بھی اپنا حق ہے، ان خوشیوں کو ضرور قائم رکھیں، ان روایات کو زندہ رکھیں لیکن جہاں تک ممکن ہو کچھ وقت غرباء کے لئے بھی نکالیں کچھ نعمتیں ان کے سامنے بھی پیش کریں تا کہ وہ بھی آپ کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں.اس ضمن میں میں آخری بات یہ سمجھانی چاہتا ہوں کہ خوشیوں میں شریک کرنا اور بات ہے اور کسی کے غم میں شریک ہونا اور بات ہے اور یہ دونوں باتیں ضروری ہیں.بہت سے امیر ایسے ہیں اور خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ میں کثرت سے ایسے ہیں جو چندوں کے علاوہ اور دینی خدمات کے علاوہ مسلسل غرباء پر کچھ خرچ کرتے ہیں ،صدقات کی صورت میں بھی اور ذاتی طور پر اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کے ذریعے بھی.اس کو کہتے ہیں اپنی خوشیوں

Page 221

خطبات طاہر جلد ۹ 216 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء میں دوسروں کو شریک کرنا.لیکن غم میں شریک ہونے والا مضمون اس سے کچھ مختلف ہے اور نفس کی اصلاح کیلئے یہ بہت ہی ضروری ہے جب ربوہ میں پہلی مرتبہ میں نے یہ نصیحت کی تھی اس عید میں آپ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کریں تو ساتھ ہی یہ بھی سمجھایا کہ ان کے گھروں پر بھی جائیں اور ان کے حالات دیکھیں پہلی دفعہ ان لوگوں کو جو ہمیشہ سے نیکی کرنے والے تھے واقعہ آنکھوں کے سامنے لوگوں کے دکھ نظر آئے.اس قدر مغلوب ہوئے ہیں بعض لوگ کہ مجھے انہوں نے لکھا کہ ہم بتا نہیں سکتے کہ کیسا دکھ ہم نے محسوس کیا تھا.کیسا اپنے آپ کو گنہگار سمجھا.جن گھروں کو ہم سمجھتے تھے کہ ہم نے کبھی تحفے بھیج دیئے.بڑے خوش ہو گئے بہت ان کی خدمت کر دی.جب قریب جا کر دیکھا تو کیسی ترسی ہوئی حالت میں ان کے بچوں کو پایا ہے، کیسے دکھوں میں ان کو دیکھا ہے.ان کے گھروں کی حالتیں دیکھی ہیں اور ہمارے اندر تو ایک انقلاب بر پا ہو گیا ہے.پس صرف خوشیوں میں شریک نہیں ہونا، غموں میں شریک ہونا ہے اور ایک عید میں نہیں بلکہ ہمیشہ آپ بنی نوع انسان کے غموں میں شریک ہونے کی کوشش کریں.اپنے محلوں سے اتریں اور غریبوں کی کٹیاؤں میں جائیں ، ان کو قریب سے دیکھیں، ان کے اصلاح احوال کی کوشش کریں.لجنات ہیں ان میں سے خصوصیت سے وہ امیر بہنیں جو نیکی کا جذبہ رکھتی ہیں اور اللہ کے فضل کے ساتھ کرتی چلی جاتی ہیں.کبھی وہ ایک ایسی کلب بھی بنائیں کہ غریبوں کے محلوں میں جا کر ( آج کل کے لحاظ سے مناسب احتیاطوں کے ساتھ یقیناً ) دیکھیں، ان کے حالات کا جائزہ لیں.ان سے پوچھیں کہ آپ کا بجٹ چلتا کس طرح ہے.کیا کرتے ہیں بچے کپڑے کیسے پہنتے ہیں.کیا کھاتے ہیں اور پھر ان کو سمجھائیں کہ اس طرح تم کرو، یہ احتیاطیں کرو، یہ ضیاع نہ کرو.صرف یہی نہیں بلکہ پھر ان کی مدد کریں.ان کو بتائیں کہ اس معاملے میں آپ کے پاس غسل خانہ کوئی نہیں ہے، پردہ کوئی نہیں ہے، ٹائیلٹ کا انتظام اچھا نہیں ہے ، بیماری کے وقت میں گھر میں ایک عذاب بن جاتا ہے.یہ جو ضروری چیزیں ہیں ان میں ہم آپ کی مدد کرتے ہیں.اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم ان چیزوں میں عملاً آپ کی ٹھوس مدد کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ کو یہ چیزیں بنا دیتے ہیں یا زائد مدد دے دیتے ہیں جن سے آپ کو سہولت حاصل ہو جائے.یہ وہ طریق ہے جس سے آپ صرف اپنی خوشیاں نہیں بانٹیں گے بلکہ لوگوں کے دکھ بھی

Page 222

خطبات طاہر جلد ۹ 217 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۹۰ء بانٹیں گے اور آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی صرف خوشیاں بانٹنے میں نہیں گزری ، دکھ بانٹنے میں گزری ہے اور ایسا دکھ بانٹتا ہے کہ خدا نے آپ کو مخاطب ہو کر فر مایا کہ اپنے آپ کو ان کے غم میں ہلاک نہ کر لینا.یہ وہ وسیلہ ہے جو ہمیں عطا کیا گیا ہے.یہ وہ عاجزانہ راہیں ہیں جو ہمیں دکھائی گئی ہیں.ان راہوں پر آپ چلیں تو قرآن کے الفاظ میں محمد مصطفی ﷺ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کو ضرور لقاء نصیب ہوگا.یہ وہ راہیں ہیں جو نا کام اور نامراد نہیں رکھا کرتیں.یہ ضرور اپنے محبوب کے در تک آپ کو پہنچا کر چھوڑیں گی.پس یہ رمضان نہ گزرنے دیں جب تک دعاؤں کے ذریعے اور ان اعمال کے ذریعے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں.ہم خدا کو پانہ لیں اور یقین نہ کر لیں کہ اس خدا کو ہم نے دیکھ لیا اور اس خدا نے ہمیں دیکھ لیا اور ہم نے اس کی لقاء کی جنت کو حاصل کر لیا ہے.خدا کرے یہ ابدی جنتیں ہمیں نصیب ہوں.اگر ہم لقاء کی جنت کو اس دنیا میں پالیں تو دنیا کا کوئی غم ہمیں ڈرا نہیں سکتا.اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس : ۶۳) یہ وہ صاحب لقاء ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ خبردار ! خدا کے اولیاء کو تم کیسے ڈرا سکو گے.تم کیسے ان کو دکھ پہنچا سکتے ہو.یہ ابدی جنتوں میں بس رہے ہیں.لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ کوئی خوف اب ان پر غالب نہیں آسکتا.وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور کوئی نقصان ان کو حزبیں بنا کر نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ ہمیشہ یہ خدا کے ساتھ رہتے ہیں.

Page 223

Page 224

خطبات طاہر جلد ۹ 219 خطبه جمعه ۲۰ را بریل ۱۹۹۰ء جمعۃ الوداع کو جمعۃ الوصال بنادیں الله رسول کریم عملے کے وسیلہ ہونے کی حقیقت (خطبه جمعه فرموده ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج آخر وہ جمعہ کا دن آگیا جس کی امت محمدیہ کو ہر سال بشدت انتظار رہتی ہے.یا انتظار کو اگر مذکر لیا جائے تو جس کا امت محمدیہ کو ہر سال شدت سے انتظار رہتا ہے.یہ انتظار بعض لوگوں کی صورتوں میں تو سال بھر یہ پھیلا ہوا ہے اور بعض لوگوں کی صورتوں میں ایک مہینے پر پھیلا ہوا ہے یعنی رمضان میں شروع ہوتا ہے اور رمضان میں ختم ہو جاتا ہے اور بعض صرف ایک دن کو نقطے کی طرح اپنی نگاہ کے سامنے رکھتے ہوئے اس کا انتظار کرتے ہیں.ان کے انتظار کا سالوں یا مہینوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.اس جمعہ کو جمعتہ الوداع اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ رمضان کا آخری جمعہ ہے اور اس کے بعد پھر اس سے جدائی ہے.میں نے گزشتہ سال بھی اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی کہ ہمارے نزدیک تو در حقیقت یہ جمعۃ الوصال ہے کیونکہ یہ جمعہ اگر کوئی اہمیت رکھتا ہے تو سوائے اس کے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ وہ مبارک دن ہے جس میں وصل الہی کا سب سے زیادہ امکان ہے.اور وصل کے بعد وداع کا تصور تو بہت بڑا دردناک تصور ہے.یہ تو ساری خوشیوں کو المیہ میں تبدیل کر دینے والا تصور ہے.پس اگر جمعتہ الوداع کا یہ معنی ہے کہ الحمد للہ کہ یہ جمعہ آیا اور آکر چلا گیا پس اسے رخصت کرو اور جس طرح

Page 225

خطبات طاہر جلد ۹ 220 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء یہاں رواج ہے اسے ٹا.ٹا کہہ کے اس جمعہ سے چھٹی حاصل کرلو.تو یہ ایک بالکل غیر اسلامی ، غیر مومنانہ بلکہ ایسا تصور ہے جسے کوئی عاشق قبول نہیں کر سکتا.پس یہ جمعہ درحقیقت جمعۃ الوصال کی حیثیت سے ہی اہمیت رکھتا ہے اور جمعہ الوصال کی حیثیت سے ہی اسے سمجھنا چاہئے.آنحضرت که تو در حقیقت رمضان مبارک کے آخری عشرے میں غیر معمولی عبادت کیا کرتے تھے اور اسی عشرے میں لیلۃ القدر کی تلاش فرمایا کرتے تھے اور اس عشرے میں واقعہ ہونے والے جمعہ کو باقی دنوں سے ایک امتیازی شان حاصل ہوتی ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور اسی لئے اس جمعہ نے امت محمدیہ کے تصورات میں ایک مقام پیدا کیا ہے لیکن اس کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے متعلق میں قدرے روشنی ڈالوں گا لیکن اس سے پہلے میں اس مضمون کو ایک اور طریق پر شروع کرنا چاہتا ہوں.یہ لقاء ہی کا مضمون ہے جو گزشتہ چند خطبات سے جب سے رمضان کے خطبے شروع ہوئے ہیں جاری ہے.رات رویا میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مضمون کو ایک اور طریق پر دکھایا اور ساتھ ہی قرآن کریم کی ایک آیت کی ایک نئی تفسیر سمجھائی جس کا لقاء سے بڑا گہرا تعلق ہے اور دراصل جو مضمون میں آج کے خطبے میں بیان کرنا چاہتا تھا اسی کی تمہید ہے جو مجھے سمجھائی گئی ہے، رؤیا بڑی دلچسپ اور عجیب سی ہے.میں نے دیکھا کہ ربوہ میں کھلے گھاس کے میدان میں اکیلا بیٹھا ہوں اور وہاں پاکستان سے مختلف پروفیشنل گانے والے جو ریڈیو پاکستان یا ٹیلی ویژن وغیرہ میں گانوں میں حصہ لیتے ہیں، وہ کسی تقریب میں شمولیت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں اور ان کا جو رستہ ہے ان کے درمیان اور میرے درمیان ایک دیوار حائل ہے.گویا اس رستے پر جس پر وہ چل رہے ہیں ایک دیوار کی اوٹ ہے لیکن بعض جگہ در کھلے ہوئے ہیں.چنانچہ ایک در سے گزرتے ہوئے ان میں سے ایک شخص کی نظر مجھ پر پڑتی ہے اور خواب میں مجھ پر یہ تاثر ہے کہ یہ مجھے جانتا ہے اور میں اس کو جانتا ہوں.تو وہ جس طرح ایک انسان جانی پہچانی شکل کو ملنے کے لئے آگے بڑھتا ہے وہ میری طرف آگے بڑھتا ہے لیکن قریب آنے کی بجائے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر مجھے پنجابی میں کچھ شعر سناتا ہے.وہ جو پنجابی کے شعر ہیں وہ اس رنگ کے ہیں جیسے بعض دیہاتیوں کو یا کم علم والوں کو بعض دفعہ کوئی نکتہ ہاتھ آ جائے تو وہ بڑے فخر سے بڑے بڑے علماء کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر مجلسوں میں بیان کرتے ہیں

Page 226

خطبات طاہر جلد ۹ 221 خطبه جمعه ۲۰ ر ا پریل ۱۹۹۰ء ہم نے یہ سوال کیا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا.اس رنگ کا کوئی نکتہ ہے جو ایک پنجابی نظم میں اس کا یاد کیا ہوا اور وہ سوالیہ رنگ میں میرے سامنے رکھتا ہے لیکن اس کی طرز میں تکبر یا دکھا انہیں بلکہ واقعہ وہ اس نکتے میں الجھا ہوا معلوم ہوتا ہے اور اس کے طرز بیان میں ایک درد پایا جاتا ہے.پنجابی کے وہ شعر مجھے یاد تو نہیں مگر چند شعر ہیں.ان کا مضمون یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو یہ کائنات ہے اس کے راز تو بہت گہرے ہیں اور ہماری آنکھیں جو د یکھ رہی ہیں وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتیں اور ہماری آنکھیں جو دیکھتی ہیں وہ ہمیں کچھ اور منظر دکھاتی ہیں اور خدا کے جو قدرت کے راز یا عرفان کی باتیں ہیں ان تک ہماری آنکھیں پہنچ ہی نہیں سکتیں اور نہ ہم ان کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہماری آنکھیں ٹیڑھا دیکھ رہی ہیں اور یہ کہتے کہتے وہ بڑے درد سے اپنی آنکھ کے نچلے پردوں کو انگلیوں سے نوچ کر نیچے کر کے آنکھیں دکھاتا ہے.جن میں ایک قسم کی سرخی پائی جاتی ہے.جیسے رورو کے سرخی پیدا ہوگئی ہو اور وہ نظم میں ہی کہتا ہے کہ دیکھیں ان آنکھوں کی وجہ سے ہمارا کیا قصور؟ ہمیں تو خدا نے آنکھیں وہ دی ہیں جو غلط دیکھ رہی ہیں اور اس کے رازوں کی حقیقت کو پانہیں سکتیں اب بتائیں کہ ہم کیا کریں ، ہم کیسے سمجھیں.یہ نظم جب مکمل ہو جاتی ہے تو میں اس کو اشارہ کہتا ہوں کہ آئیں بیٹھیں اور میں آپ کو یہ مضمون سمجھا تا ہوں اور اتنے میں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس بات کی خبر باقی ساتھیوں کو بھی پہنچ گئی ہے اور وہ دور دور سے واپس مڑے ہیں اور ایک دائرے کی شکل میں مجلس بنا کر میری بات سننے کے لئے بیٹھ گئے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ نے بظاہر ایک بڑی الجھی ہوئی بات پیش کی ہے لیکن میں اس کی ایک سادہ سی تفسیر آپ کو بتاتا ہوں جو ابھی دیکھتے دیکھتے آپ کو بات سمجھا دے گی اور وہ آپ کی اس عارفانہ نظم کی در حقیقت تفسیر ہے ( تفسیر کا لفظ تو میں نہیں بولتا ) لیکن اس مضمون کو سمجھانے کے لئے میں کہتا ہوں.آپ کے سامنے میں ربوہ کی مثال رکھتا ہوں.آپ لوگ پاکستان کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں وہاں سے ربوہ تشریف لائے ہیں.یہاں آپ نے کچھ چہرے دیکھے ہیں، ان چہروں میں آپ کو خدا کا خوف دکھائی دیتا ہے.ان چہروں میں آپ کو عبادت کے رنگ دکھائی دیتے ہیں، ان چہروں میں آپ کو تقوی دکھائی دیتا ہے.ان چہروں میں آپ کو دین کی محبت اور اسلامی آداب اور اسلامی اخلاق دکھائی دیتے ہیں، یہاں کے گلیوں میں چلنے پھرنے والوں کو آپ نے دیکھا ، یہاں مجالس میں اٹھنے بیٹھنے والوں کو آپ نے دیکھا اور آپ اپنے دل سے گواہی لے کر مجھے بتائیں کہ کیا آپ کی آنکھوں

Page 227

خطبات طاہر جلد ۹ 222 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء نے آپ کو صحیح خبر نہیں دی تھی ، کیا آپ کی آنکھوں نے واقعہ آپ کو یہ اطلاع نہیں دی کہ اسلام کا جو بھی تصور ہے وہ یہاں پایا جاتا ہے اور جو مسلمانوں کی ادائیں ہونی چاہئیں وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں.پھر آنکھوں نے تو آپ سے کوئی دھوکہ نہیں کیا.اس کے باوجود اگر آپ کے دل کچھ اور پیغام لیں تو خدا کی بنائی ہوئی آنکھوں کا کیا قصور ہے.پھر میں ان سے کہتا ہوں کہ اب آپ موازنے کے طور پر چنیوٹ چلے جائیں جو ربوہ کے قریب ہی ہے اور وہاں بھی جا کر لوگوں کے چہروں کے مشاہدے کریں، وہاں بھی ان کی حرکات وسکنات کو غور سے دیکھیں.وہاں جا کر بھی سوچیں کہ آپ کے نزدیک قرون اولیٰ کے مسلمان کیسے ہونے چاہئیں تھے.حضرت اقدس محمد مصطفی می اے سے فیض پانے والے مسلمانوں کی کیا ادائیں ہونی چاہئیں اور دیکھیں اور پھر اپنے نفس سے پوچھیں کہ کیا آنکھوں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا؟ کیا آنکھوں کا پیغام یہی تھا کہ یہ جو ربوہ کے سب سے شدید مخالفین میں سے ہیں یہ بچے مسلمان دکھائی دے رہے ہیں یا آپ کی آنکھوں نے آپ کو یہ بتایا تھا کہ مسلمانی کی کوئی بھی علامتیں ان میں نہیں پائی جاتیں.ان کا اٹھنا بیٹھنا ، ان کا بولنا ، ان کا چلنا پھرنا ، ان کے مزاج سارے اسلام سے دور پڑے ہوئے ہیں.تو اب بتائیں کہ ہمارے خدا نے آپ کے ساتھ انصاف کیا کہ نہیں کیا؟ آپ کو سچی آنکھیں بخشیں کہ نہیں بخشیں؟ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ ( ا لج : ۴۷ ) والا مضمون ہے مگر اس آیت کا میں نے حوالہ نہیں دیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں چھپے ہوئے ہیں.یہاں صدور سے مراد تاریکی کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں.پس وہ دل جو خود اندھیروں میں بس رہے ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں نہ کہ وہ آنکھیں جو صحیح پیغام، جو کچھ وہ دیکھتی ہیں لوگوں تک پہنچا دیا کرتی ہیں.پس یہ رویا جو ہے یہ دیکھتے ہی میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اتنا واضح نظارہ ہے جس طرح میں آمنے سامنے دیکھ رہا ہوں اور اسی کیفیت میں میں جاگ بھی چکا تھا اور یہ رویا کا مضمون جاری تھا.یعنی صفائی رؤیا کی ایسی تھی کہ گویا بالکل جاگے ہوئے کا کوئی نظارہ ہو اور چنانچہ نیند میں اور اٹھنے میں فرق نظر نہیں آیا اور رڈیا کے جو آخری فقرے ہیں وہ میں نے جاگ کے ادا کئے جبکہ وہ منظر نظر سے غائب ہو چکا تھا.اس پر میری توجہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف پھیری گئی جس کا میں نے ان

Page 228

خطبات طاہر جلد ۹ خطبوں کے آغاز میں ذکر کیا تھا کہ: 223 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يُتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى بِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ( آل عمران: ۱۹۱ تا ۱۹۲) اس آیت کا عام مفہوم اور درست مفہوم جو تمام امت میں اسی طرح رائج ہے وہ یہ ہے کہ الَّذِيْنَ سے جو مضمون شروع ہوتا ہے وہ لِأُولِي الْأَلْبَابِ کی تفسیر ہے یعنی صاحب عقل لوگ جن کا ذکر لِأُولِي الْأَلْبَابِ کے الفاظ میں کیا گیا ہے، وہ ہیں الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ الله قيما جو خدا تعالیٰ کو کھڑے ہو کر بھی یاد کرتے ہیں، بیٹھے ہوئے بھی یا دکر تے ہیں ، کروٹ کے بل بھی یاد کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن جو مجھے مضمون دکھایا گیا وہ یہ تھا کہ الَّذِینَ میں آیات اللہ دکھائی جارہی ہیں.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَنْبَابِ وہ آیات کیا ہیں.ایک پہلو ان آیات کا یہ ہے کہ الَّذِینَ وہ لوگ ہیں وہ آیات جو دن رات خدا کو یاد کرتے ہیں اور ہر کروٹ پر خدا کو یاد کرتے ہیں اور دن کو بھی یاد کرتے ہیں اور رات کو بھی یاد کرتے ہیں.پس اس پہلو سے اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ جو يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيِّمًا وَ قُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ۚ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی ، اور بیٹھے ہوئے بھی اور لیٹے ہوئے بھی اور زمین و آسمان اور کائنات پر غور کرتے رہتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی تخلیق میں آیات ہیں یعنی یہ لوگ مجسم آیتیں ہیں اور یہ لوگ دن اور رات بدلنے کی کیفیات میں بھی آیات کا مقام رکھتے ہیں.قرآن کریم سے آیات کی اصطلاح کا انسانوں پر چسپاں ہونا اور پھر تزکیہ کے صیغہ میں ضمیر کا اس طرف پھیرا جانا سورۃ الکہف کی اس آیت سے ثابت ہے جہاں فرمایا: أَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ ابْتِنَا عَجَبًا (الكيف :۱۰) اسی طرح آیات کے جمع کے صیغہ کا بدل واحد کی صورت میں بیان کرنے کی مثال اس آیت کریمہ میں ہے فرمایا: فیه ایت بنتُ مَّقَامُ ابْراهِيمَ ( آل عمران: ۹۸) -

Page 229

خطبات طاہر جلد ۹ 224 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء اس مضمون کی تائید میں پھر میرا ذہن حضرت اقدس محمد مصطفی میلہ کی ان صفات کی طرف منتقل ہوا جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور مجھے سمجھایا گیا کہ ان آیات کا خلاصہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺے ہیں.یعنی مومن جو یہ صفات رکھتے ہیں وہ آیات ہیں یعنی ایسی آیات جن کو دیکھ کر دنیا والے کائنات کی حقیقت کو پاسکتے ہیں ، ایسی آیات ہیں جن کو دیکھنے کے بعد جن لوگوں میں عقل ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ لوگ یو نہی تو پاگل نہیں ہو گئے ، بڑے بڑے صاحب فہم لوگ ہیں ان کو کیا ہو گیا ہے کیوں ایک ایسی ذات کے عاشق ہو گئے ہیں جو ہمیں براہ راست نظر نہیں آتی.پس وہ ان آیات کو دیکھ کر خدا کی ذات کو پا جاتے ہیں یعنی مردہ کائنات کو دیکھ کر نہیں بلکہ آیات کے زندہ نشانات دیکھ کر ، ان لوگوں کو دیکھ کر جو مجسم آیات بنے ہوئے ہیں.پس ربوہ والی رؤیا میں در حقیقت یہی مضمون تھا کہ تمہیں اور ذرائع سے احمدیت کی سچائی کا علم ہو یا نہ ہو، ان زندہ نشانات کو دیکھو جو احمدیت نے پیدا کئے ہیں.ان کے چہروں کو، ان کی عادات کو، ان کی حرکات و سکنات کو دیکھو تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ خدا والے لوگ ہیں پھر تم دوسروں کی باتیں سن کر اپنی آنکھوں کو کیسے جھٹلاؤ گے.پس مجھے آنحضرت ﷺ کی صفات حسنہ کو اس زاویے سے دیکھنے کی توفیق عطا ہوئی اور میرا ذہن قرآن کریم کی اس آیت کی طرف منتقل ہوا.قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرَاتٌ رَّسُوْلًا (الطلاق:۱۱ ۱۲۰) کسی اور نبی کے متعلق جہاں تک مجھے یاد ہے ذِكْرًا کا لفظ استعمال نہیں ہوا کہ وہ مجسم یا دالہی تھا.اور آیات کی سب سے پہلی علامت ذکر ہی بیان فرمائی گئی ہے.الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيِّمًا وَ قُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ اور دن رات خدا کی ذات میں محو اور خدا کی یاد میں اپنے وجود کو کھو دینے والا وجود حضرت اقدس محمد مصطفی اے کا ہی وجود تھا.چنانچہ یہ نہیں فرمایا کہ یہ یاد کرنے والا وجود ہے.فرمایا ذكر ا یہ اللہ کی مجسم یاد ہے.اس کے وجود کو یاد سے الگ نہیں دکھایا جاسکتا.کلیۂ خدا کی یا داس کے وجود کے ذرے ذرے میں سرایت کر چکی ہے.پس تمام آیات جو کائنات میں پائی جاتی ہیں ان کا خلاصہ حضرت اقدس محمد مصطفی مانتے ہیں اور آیت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر انسان دوسرے نشانات کو جو پچھلی باتیں ہیں ان کو پا جائے.گویا ان معنوں میں آیت علامت کا حکم رکھتی ہے.پس جتنی بھی آیات ہیں ان کو دیکھ کر صاحب آیات یعنی خدا تعالیٰ کا یاد آجانا یہ کسی چیز کے آیت ہونے کی

Page 230

خطبات طاہر جلد ۹ 225 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء دلیل بنتا ہے.پس سب سے زیادہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو دیکھ کر خدا یاد آ سکتا ہے اس سے بڑھ کر کسی اور وجودکو دیکھ کر خدا ظاہر نہیں ہوسکتا.الله پھر آنحضرت ﷺ ہی کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغُفِلِينَ (الاعراف :۲۰۶) کہ اپنے رب کو یاد کر فِي نَفْسِكَ اپنے دل میں تَضَرُّعًا نہایت عاجزی کے ساتھ وخِيفَةً اور خدا کے خوف کے ساتھ وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ اور اس طرح بھی یاد کر کہ تیری زبان سے بے شک کوئی الفاظ نہ نکل رہے ہوں لیکن یا دالہی جاری وساری هو بِالْغُدُو وَالْآصَالِ صبح بھی اور شام کو بھی بدلتے ہوئے دن اور رات میں وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْخَفِلِينَ اور کسی حالت میں بھی اس یا دا لہی سے غافل نہ رہنا.پس إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَایت جو ہے وہ آیات یہی حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ ہیں اور یہ بات مبالغہ نہیں ہے.کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ کائنات کی نشانیوں کو جو جان نہیں رکھتیں، جو کوئی روح نہیں رکھتیں ان کو دیکھنے کے بعد جس خدا کی طرف اشارہ ہوتا ہے وہ ایک فلسفیانہ اشارہ ہوتا ہے.صرف مومن ہے جو ان نشانات کو دیکھ کر ایک زندہ خدا کی طرف حرکت کرتا ہے لیکن اس لئے نہیں کہ اس نے براہ راست ان نشانوں سے خدا کی طرف راہنمائی حاصل کی، بلکہ پہلے ہی اسے خدا کے وجود کا علم ہو چکا ہوتا ہے،خدا کے وجود کو وہ کسی صاحب خدا سے پاچکا ہوتا ہے، اس کو حاصل کر چکا ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے ساری نشانیاں خدا کی نشانیاں بن جاتی ہیں.لیکن دنیا دار جب ان نشانیوں کو دیکھتے ہیں تو ایک خدا کا تصور تو ضرور باندھتے ہیں اور بہت سے فلسفیوں اور سائنس دانوں نے ان باتوں کا اپنے کلام میں ذکر کیا ہے اور کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ہماری آنکھوں سے بھی ایک پردہ اٹھا اور ہمیں بھی معلوم ہوا کہ ان رازوں کے پیچھے کائنات کا ایک خالق موجود ہے.پس اس خالق تک وہ پہنچے لیکن اس سے آگے نہیں.ایک تصوراتی خالق ان کے سامنے ابھرا لیکن ایک ایسے وجود کے طور پر جو ان کا دوست بن جائے ، ان کا رفیق ہو جائے ،ان کا محبوب ہو جائے ، ان کے ساتھ زندہ رہے اور اپنی زندگی سے ان کو زندہ رکھے، ایسے وجود تک ان کی رسائی کی

Page 231

خطبات طاہر جلد ۹ کوئی خبر نہیں ملتی.226 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء پس یہ آیات کہاں، اور کہاں وہ آیات جن کا نام محمد مصطفی ﷺ ہے.جو ان تمام آیات کا خلاصہ ہیں.جنہوں نے لاکھوں کروڑوں بندوں کو اپنا وجود دکھا کر خدا کا وجود دکھا دیا.اور خدا نما ہو گئے.پس مجسم ذکر الہی بن کر اور دن اور رات خدا کو یاد کر کے ہر وہ شخص جو حضرت محمد مصطفی عملے کی پیروی کرتا ہے وہ بھی اپنے اپنے رنگ میں خدا نما وجود بن سکتا ہے اور یہی احمدیت کا مقصد ہے.جب تک احمدی اس پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل کرتے رہیں گے اور جب تک امام جماعت احمد یہ آنے والوں کو فخر سے یہ کہہ سکے گا کہ آؤ اور احمدیوں کا ہماری بستیوں میں مطالعہ کرو اور دیکھو کہ کیا دوسری بستیوں میں بسنے والوں سے ان میں کوئی فرق تمہیں دکھائی نہیں دیتا.اس وقت تک یقیناً احمدیت زندہ رہے گی اور احمدی ان آیات میں شامل رہیں گے جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر موجود ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی اور آنحضرت ﷺ کی غلامی سے ان کو بھی یہ آیات میں داخل ہونے کا شرف نصیب ہو گا اگر یہ فرق مٹ گئے اگر احمدیوں کو دیکھ کر خدا یاد نہ آئے بلکہ غیر اللہ یاد آنے لگیں تو پھر ایسا احمدی نہ آیات اللہ میں شمار ہو سکتا ہے نہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں غلاموں میں شامل ہونے اس کا حق رکھتا ہے.مضمون کے تعلق میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں اب آپ کو پھر دوبارہ پچھلے خطبات کی طرف لے کے جاتا ہوں.میں نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ خدا کو پانے کے لئے کامل عجز اختیار کرنا ضروری ہے اور خدا کے عاجز بندوں سے تعلق بڑھانا ضروری ہے.خدا کے غریب اور بے سہارا اور کمزور بندوں کے لئے دل میں گہری ہمدردی کا پیدا ہونا ضروری ہے یہاں تک کہ آپ ان کے ساتھ ہو جائیں.ان میں سے اپنے آپ کو شمار کرنے لگیں ، ان کے دکھ بانٹنے لگیں ، اپنے سکھ ان کے ساتھ بانٹنے لگیں، یہ لقاء کی شرط ہے آخری منزل نہیں ہے ، منازل میں سے ایک منزل ہے.یہ وہ منزل ہے جو آپ کو عبد کے ایک معنی سمجھاتی ہے.عبد یعنی بندہ جب خدا کی طرف منسوب ہو تو اسے عبد اللہ کہا جاتا ہے اور اللہ کا بندہ بننے سے پہلے خدا کے عام بندوں میں شامل ہونا اور عام معنوں میں عبد بننا ضروری ہے.ورنہ عبد اللہ بننے کا انسان اہل نہیں بن سکتا.پس پہلے آپ عبد کے عام معنی میں عبد بنیں اور عبد کا عام معنی ہے ایسا غلام جس کا کچھ بھی نہ ہو.پس جب اس تصور کے ساتھ آپ

Page 232

خطبات طاہر جلد ۹ 227 خطبه جمعه ۲۰ / اپریل ۱۹۹۰ء عاجزی اختیار کریں گے کہ آپ کا کچھ بھی نہیں سب مالک کا ہے اور آپ تو ایک جواب دہ ہیں اس سے بڑھ کر آپ کی کوئی بھی حیثیت نہیں تو آپ کے سارے تکبر منہدم ہو جائیں گے.آپ ایک بچھی ہوئی راہ بن جائیں گے اور کوئی بھی اونچ نیچ اور کبھی آپ کی ذات میں باقی نہیں رہے گی حقیقہ آپ کو اپنے عجز کا عرفان نصیب ہو جائے گا.پھر آپ عبادت کے لائق بنیں گے پھر عبادت کی ساری مسافت آپ کے سامنے کھلی پڑی ہوگی پھر جتنا زیادہ آپ خدا کی عبادت میں یعنی بندگی میں آگے بڑھیں گے اتنا ہی زیادہ آپ عبد کہلانے کے مستحق ہوں گے.پس آنحضرت ﷺ نے غریبی اور عجز کی راہ سے اپنے خدا کو پانے کی راہ اختیار فرمائی اور جب آگے بڑھے تو پھر عبادت میں اتنی ترقی کی کہ عبادت کے نتیجے میں پھر آپ کو وہ لقاء نصیب ہوئی جس لقاء کے حصول کے لئے میں آپ کو مسلسل نصیحت کر رہا ہوں اور دیکھیں کہ عبد کے ہر مفہوم میں آپ درجہ کمال کو پہنچ گئے.عبد کے عام مفہوم میں یعنی عاجزی اور حد سے زیادہ تذلیل اختیار کرنا اور اپنے نفس کی طرف کوئی بھی بڑائی منسوب نہ کرنا، اس میں حضرت رسول اکرم ﷺ سے بڑھ کر کوئی عاجز بندہ کبھی دنیا میں پیدا نہیں ہوا اور پھر اپنے وجود کو کلیۂ خدا کے سپرد کر دینا اور اس کی عبادت میں منہمک ہو جانا اور اس کی عبادت میں اپنے آپ کو کھود دینا اس پہلو سے بھی دنیا میں کبھی کوئی انسان آپ سے بڑھ کر عبادت گزار پیدا نہیں ہوا.پس اس لحاظ سے عبد کامل تھے تو آپ تھے عام بندے کے معنوں میں بھی ، انسانی معنوں میں بھی آپ انسانیت کے درجہ ء کمال کو بجز میں درجہ کمال حاصل کر کے پہنچے اور عبد ہونے کا حق ادا کر دیا اور خدا کی عبادت میں بھی عاجزانہ عبادت کے ذریعے آپ درجہ کمال کو پہنچے اور خدا کے عاجز بندہ ہونے کا حق ادا کر دیا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اگر چہ مختلف انبیاء کومختلف القابات ملے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت محمد مصطفی اللہ کے سوا کسی کو عبد اللہ نہیں کہا گیا اور یہ سب سے بڑا لقب ہے جو کسی بندے کو خدا تعالیٰ عطا کرتا ہے یا کرسکتا ہے.ان معنوں میں کہ عقلی لحاظ سے اس سے بڑ القب موجود نہیں ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام خود تو یہ کہتے ہیں کہ انسی عبد اللہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور ہر نبی ہی نہیں ہر بندہ یہی دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا کا بندہ ہوں جسے ذرا بھی عرفان حاصل ہو وہ یہ کہتا ہے کہ میں خدا کا بندہ ہوں.پھر ایک جگہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام یہ بھی عرض کرتے ہیں یعنی

Page 233

خطبات طاہر جلد ۹ 228 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو اس بات میں قطعاً ایک ذرہ بھی باک نہیں تھی کہ وہ خدا کا بندہ کہلائیں لیکن خدا نے خود کسی کو عبد اللہ کا لقب دیا ہو اس کی اور کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.مجھے ایک زمانے میں موازنہ مذاہب کا شوق تھا.مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا.ہوسکتا ہے کہ میرے علم میں نہ آیا ہو مگر میرے علم میں جہاں تک میں نے دیکھا کسی اور نبی کی کتاب میں اس کے لئے یہ لقب نظر نہیں آیا کہ خدا نے اسے مخاطب کر کے عبد اللہ فرمایا ہو.ہاں عبادت کے دعویدار انبیاء جیسا کہ ہونا چاہئے تھا اور بندہ ہونے کے دعویدار موجود تھے عبد کے دوسرے معنوں میں لیکن خدا کی طرف سے عبداللہ کا لقب نصیب ہونا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ ہی کے حصے میں تھا.پس وسیلے کا مضمون چل رہا تھا وسیلے کا ایک پہلو میں نے آپ کو گزشتہ خطبے میں دکھایا کہ وہ بندوں کے ساتھ عاجزی ہے جب تک بندوں کے ساتھ انسان کی عاجزی مستحکم نہ ہو جائے اور مستقل رنگ نہ اختیار کر لے اس وقت تک خدا کے ساتھ عاجزی کی اہلیت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ خدا کے سامنے تو بظا ہر ہر اندرونی نفس کے متکبر کے لئے بھی بڑائی کا سوال نہیں ہوتا.اس کو کیسے پتا چلے گا کہ واقعہ وہ عاجز ہے یا خدا کی عظمت اتنی ظاہر وباہر ہے کہ اس کے سامنے عاجزی اختیار کئے بغیر چارا کوئی نہیں.جب عاجز بندوں کے سامنے انسان بحر محسوس کرتا ہے اور ہر قسم کی بڑائی کو اپنے نفس سے مٹادیتا ہے تب وہ ان معنوں میں عبد بنتا ہے کہ پھر وہ خدا کی عبادت کا مستحق اور اہل ہو جاتا ہے اور پھر اس کی عبادت کو عاجزانہ عبادت قرار دیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت کے عبد ہونے کے مضمون کو بالکل اسی رنگ میں پیش فرمایا ہے.ایک جگہ فرماتے ہیں.عبودیت سے مراد وہ حالت انقیاد اور موافقت تامہ اور رضا اور وفا صلى الله اور استقامت ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آنحضرت ﷺ میں پیدا ہوئی جس سے آپ اس راہ کی طرح ہو گئے جو صاف کیا جا تا اور نرم کیا جاتا اور سیدھا کیا جاتا ہے.“ انقیاد سے مراد انتہائی تذلل ہے.انتقاد جب عربی میں کہا جاتا ہے تو مراد ہے کہ ایک آدمی اپنے آپ کو کلیۂ بچھا دے، خاک میں ملا دے، کامل تذلل اور بجز اختیار کرے اور اس کے بعد آپ فرماتے ہیں ” موافقت تامہ پھر خدا تعالیٰ کی ذات سے ایسی ہم آہنگی محسوس کرے کہ اس کے نتیجے

Page 234

خطبات طاہر جلد ۹ 229 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء میں رضا اور وفا پیدا ہو.اس مضمون کو نسبتاً زیادہ کھولتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور جگہ آنحضور ہے کے اس پہلو سے وسیلہ ہونے کا ذکر یوں فرماتے ہیں..”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبد بھی ہے اور اس لئے خدا نے عبد نام رکھا کہ اصل عبودیت کا خضوع اور ذلت ہے“ یعنی خضوع کا معنی ہے عاجزی اور ذل کا معنی ہے بالکل اپنے آپ کو گرا دینا.لاشئی محض سمجھنا، اپنے آپ کو بالکل چھوٹا بنادینا.” اور عبودیت کی حالت کا ملہ وہ ہے جس میں کسی قسم کا غلو اور بلندی اور تُجب نہ رہے.“ یعنی اگر خدا کی عبودیت اختیار کرنی ہے تو یہ لازم ہے کہ آپ کی ذات میں کسی قسم کی کوئی بلندی، خود پسندی، کوئی ریا کاری وغیرہ باقی نہ رہے.اور صاحب اس حالت کا اپنی عملی تحمیل محض خدا کی طرف سے دیکھئے اور انسان یہ بھی محسوس کرے کہ جو کچھ مجھے حاصل ہورہا ہے.وہ اللہ کی طرف سے ہو رہا ہے.میری کوششوں سے حاصل نہیں ہو رہا..پس یہ وہی مضمون ہے جس کو آپ نے فرمایا.جو خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آنحضرت ﷺ میں پیدا ہوئی.فرماتے ہیں اور صاحب اس حالت کا اپنی عملی تحمیل محض خدا کی طرف سے دیکھے اور کوئی ہاتھ درمیان نہ دیکھے.عرب کا محاورہ ہے.وہ کہتے ہیں.مورٌ مُعَبَّدٌ وَطَرِيقٌ مُعَبَّدٌ.جہاں راہ نہایت درست اور نرم اور سیدھا کیا جاتا ہے اس راہ کو الله طریق معبد کہتے ہیں.پس آنحضرت ﷺ اس لئے عبد کہلاتے ہیں کہ خدا نے محض اپنے تصرف اور تعلیم سے ان میں عملی کمال پیدا کیا اور ان کے نفس کو راہ کی طرح اپنی تجلیات کے گزرنے کے لئے نرم اور سیدھا اور صاف کیا“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴) اب یہ دیکھیں کہ وسیلہ کی کیسی اعلیٰ تعریف ہے اور کیسی کامل تعریف ہے.وسیلہ وہ ہوتا ہے جو ایک چیز کو دوسرے سے ملا دیتا ہے.جیسے پلد ریا کے عبور کرنے کا وسیلہ بن جاتا ہے.

Page 235

خطبات طاہر جلد ۹ صل الله 230 خطبه جمعه ۲۰ / اپریل ۱۹۹۰ء آنحضرت ﷺ کو وسیلہ ان معنوں میں نہیں پیش کر رہے کہ گویا نعوذ باللہ آپ وہ راہ ہیں جن پر قدم مارتے ہوئے لوگ آگے بڑھیں گے.ایسا حیرت انگیز عرفان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نصیب ہوا کہ اس کو بندہ اپنی کوشش سے تمام عمر سجدوں میں سر رگڑ کے بھی حاصل نہیں کر سکتا.یہ وہ عرفان ہے جو نازل ہوتا ہے ، جو خدا کی طرف سے نصیب ہوتا ہے فرماتے ہیں آپ نے اپنے نفس کو ایک بچھی ہوئی راہ بنا دیا اور وہ راہ اس غرض سے نہیں تھی کہ بندے اسی پر قدم رکھیں اس لئے تھی کہ خدا کی تجلیات اس پر دوڑ میں اوران راہوں سے خدا بندوں تک پہنچے.پس جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو وسیلہ بنانا چاہتا ہے اسے بندوں کے مقابل پر بھی ایک کامل عجز اختیار کرنا ہوگا اور خدا کے مقابل پر بھی ایک کامل عجز اختیار کرنا ہوگا اپنی عبادت کو عاجزانہ رنگ بخشنے ہوں گے اور پھر آنحضرت ﷺ سے عبادت کے رنگ سیکھتے ہوئے خدا کی تجلیات کا انتظار کرنا ہوگا کہ جو محمد مصطفی میلے کے وسیلے سے اس تک پہنچیں گی اور ان راہوں سے آئیں گی جن راہوں سے حضرت محمد مصطفی امیہ کو وہ نصیب ہوئیں.پس آنحضرت ﷺ اس لئے عبد کہلاتے ہیں کہ خدا نے محض اپنے تصرف اور تعلیم سے ان میں عملی کمال پیدا کیا اور ان کے نفس کو راہ کی طرح اپنی تجلیات کے گزرنے کے لئے نرم اور سیدھا اور صاف کیا اور اپنے تصرف سے وہ استقامت جو عبودیت کی شرط ہے ان میں پیدا کی.پس وہ علمی حالت کے لحاظ سے مہدی ہیں اور عملی کیفیت کے لحاظ سے جو خدا کے عمل سے ان میں پیدا ہوئی عبد ہیں کیونکہ خدا نے ان کی روح پر اپنے ہاتھ سے وہ کام کیا ہے جو کوٹنے اور ہموار کر نیوالے آلات سے اس سڑک پہ کیا جاتا ہے جس کو صاف اور ہموار بنانا چاہتے ہیں اور چونکہ مہدی موعود کو بھی عبودیت کا مرتبہ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے حاصل ہوا اس لئے مہدی موعود میں عبد کے لفظ کی کیفیت غلام کے لفظ سے ظاہر کی گئی یعنی اس کے نام کو غلام احمد کر کے پکارا گیا.الله جہاں تک عبودیت کا تعلق ہے.آپ نے بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات میں پڑھا ہوگا اور جیسا کہ میں نے پڑھ کر بعض اقتباسات سنائے ہیں ان میں سنا بھی ہے کہ ہمیشہ آپ نے اس کے ساتھ استقامت کا ذکر فرمایا ہے.وہ عبادت جو عارضی ہو اور آنے جانے

Page 236

خطبات طاہر جلد ۹ 231 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء والا رنگ رکھتی ہو جیسے جمعتہ الوداع کا ایک تصور پایا جاتا ہے کہ سال کے بعد آئے گا اور آتے ہی چودہ طبق روشن کر کے ہمیشہ کی غفلتوں کی تلافی کرتے ہوئے یہ جمعہ اپنے استحقاق کے لحاظ سے رخصت ہو جائے گا.یعنی پھر اس جمعہ کے حق ادا کرنے کے لئے پھر ہمیں کسی محنت کی ضرورت نہیں.یہ ایسا جمعہ ہے کہ جو آئے گا اور جس طرح ایک پیروں اور فقیروں کا تصور ہے کہ آئے اور دو جہان بخش گئے اس طرح یہ جمعہ دو جہان بخش کے چلا جائے گا.یہ تصور بالکل جاہلانہ اور غیر اسلامی ہے اور قرآن کریم سے اس کی کوئی سند نہیں ملتی.قرآن کریم سے یہ سند ملتی ہے کہ اس جمعہ میں یا اس برکت والی رات میں جو اس جمعہ کی رات کو بھی ہو سکتی ہے اور آخری عشرے میں کوئی اور رات بھی ہوسکتی ہے.ایسی گھڑی ضرور انسان کو نصیب ہوسکتی ہے جو اس کے دین و دنیا سنوار دے مگر ان معنوں میں نہیں کہ فقیر نے کچھ دے دیا کہ جاؤ اب چھٹی کرو جو چاہے کرتے پھرو بلکہ ان معنوں میں کہ جو کچھ سدھارے اس کو پھر قائم رکھے.ایک تبدیل شدہ وجود پیدا کرے اور وہ تبدیلیاں ایسی ہوں کہ پھر دوبارہ مائل بہ انحطاط نہ ہو سکیں.وہ رفعتیں جو وہ جمعہ یا وہ لمحے بخش جائیں، جو لیلۃ القدر کے بعض لمحے بخشتے ہیں وہ ایسی پاک تبدیلیاں ہیں کہ جو آکر ٹھہر جانے والی ہیں.مستقل وجود پر نقش ہو جانے والی ہیں.وہ وصل کی تبدیلیاں ہیں وداع کی تبدیلیاں نہیں.پس دنیا کے اکثر لوگوں کے لئے یہ جمعہ وداع کہہ کر رخصت ہو جا تا ہوگا مگر وہ جن کے لئے یہ وصل کا پیغام لاتا ہے وہ ان سے پھر کبھی جدا نہیں ہوتا.یہ وہ استقامت کا مفہوم ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ عبادت اور وصل الہی کے مضمون کے ساتھ بیان فرماتے ہیں.قرآن کریم بھی اس مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدُهُ (مریم: ۲۶) قرآن کریم فرماتا ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مضمون سیکھا ہے اور قرآن کریم ہی میں آپ کے کلام کی بنیاد ہے.تو قرآن کریم فرماتا ہے.رَبُّ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَه فَاعْبُدُهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہ وہ زمین اور آسمان کا رب ہے جو تمہارا رب ہے وَمَا بَيْنَهُمَا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کا بھی رب ہے.فَاعْبُدُهُ اس کی عبادت کر.وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِ، اور اس کی عبادت پر صبر اختیار کر.هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا کیا تو اس جیسی کسی اور ذات کو جانتا ہے.کیا کبھی تو نے سنا ہے کہ خدا جیسی بھی کوئی اور ذات کا ئنات میں موجود ہے.پس

Page 237

خطبات طاہر جلد ۹ 232 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء جب اس جیسا ہے کوئی نہیں تو اس کا در چھوڑ کر جائے گا کہاں؟ جو تعلق اس سے باند ھے اس کو پکڑ کر بیٹھ رہے اور پھر کبھی اس سے علیحدہ نہ ہو.پس یہ جمعہ جو رمضان کا آخری جمعہ ہے یقینا برکتوں والا دن ہے اور تمام سال کے دنوں میں ایک غیر معمولی عظمت اور شان اور امتیاز رکھتا ہے لیکن انہیں کے لئے جو اس جمعہ میں جو برکتیں حاصل کرتے ہیں ان کو پھر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور صبر اختیار کرتے ہیں.صبر کا مضمون استقلال کو بھی ظاہر کرتا ہے اور ایک اور پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جسے سمجھانا ضروری ہے.بعض ہمارے احمدی دوست جو عبادات کی طرف متوجہ ہیں اور ان کو جلدی پھل نہیں لگتا.وہ بعض دفعہ بہت بے چین ہو جاتے ہیں ، بعض تو پھر یہاں تک غلو کرتے ہیں کہ ہم نے تو اتنی دیر عبادتیں کی ہیں ہمیں مزہ ہی نہیں آیا ، عبادتوں کو پھل ہی نہیں لگ رہا، دعائیں قبول نہیں ہور ہیں.جو روح میں خدا کی طرف ایک قسم کا تموج پیدا ہونا چاہئے اور اس کے نتیجے میں جو لذت حاصل ہوتی ہے اس سے ہم عاری ہیں تو ہم تو اب تھک کے سمجھتے ہیں کہ یوں کوشش بے کار ہے.یعنی بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہاں تک لکھا.لیکن اکثر ایسے ہیں جو بڑی عاجزی اور تذلل سے اپنی فکروں کو میری طرف منتقل کرتے ہوئے دعا کی تحریک کرتے ہیں.کہتے ہیں ہمیں بچاؤ خدا کے لئے کچھ کروایسی دعا کرو کہ ہمارا دل بھی جاگ اٹھے ہماری عبادتیں بھی زندہ ہو جائیں تو ان کے لئے قرآن کریم یہ پیغام دے رہا ہے کہ عبادت کے ساتھ صبر کا مضمون وابستہ ہے.ہر شخص کی پختگی کے لئے ایک وقت درکار ہوا کرتا ہے اور ہر شخص کے لئے وہ وقت الگ الگ ہوا کرتا ہے.کسی نے سفر کہاں سے شروع کیا ہے اور کسی کی اندرونی صلاحیتیں کیا ہیں یہ دو مضمون ہیں جومل کر اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کب عبادت اپنی اس چھنگی کو پہنچے گی کہ اس کے شیر میں پھل انسان کو لذت سے بھر دیں گے.ایک انسان ہے جو بہت سے اندرونی گناہوں میں ملوث ، بہت دیرینہ خطاؤں میں مبتلا اور کئی پردوں میں چھپا ہوا ہے.وہ چاہتا ہے کہ میں ایک دن عبادت کر کے ایک دم شور ڈال کر خدا تعالیٰ کو راضی کرلوں اور اچانک مجھے خدا تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو جائے.اس وقت کی اس کی کیفیت یقیناً بڑی سخت بے قراری کی کیفیت ہوگی لیکن وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا (طہ:۱۳۳) کا مضمون یہ بتاتا ہے کہ عبادت کو فوری طور پر لازماً پھل نہیں لگا کرتا.بہت سے لمبے ایسے دور سے گزرنا ہوگا جس میں انسان پہلے اپنے نفس کی آگاہی حاصل کرے اپنی کمزوریوں کا عرفان حاصل

Page 238

خطبات طاہر جلد ۹ 233 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء کرے، اس عرفان کو پھر عرفان الہی کے راستوں پر منتقل کرے اور اپنے عرفان کے رستے سے خدا کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرے.پھر رفتہ رفتہ اس کی عبادت میں ایک نئی تازگی پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.اس کی عبادت میں زندگی کے آثار ظاہر ہوں گے اور اس کی عبادت میں مزے کی کیفیت پیدا ہو جائے گی لیکن یہ لمبے غور فکر اور مجاہدے کا مضمون ہے.اس سے تھکنا نہیں چاہئے اگر صبر کی طاقت نہیں ہے تو پھر عبادت کی بھی طاقت نہیں.پس لازماً عبادت کا صبر کے ساتھ اور استقلال کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور یہ مضمون یاد رکھنا چاہئے کہ اگر خدا کی عبادت میں کچھ نہیں ملا تو پھر بھی اسے چھوڑ کر جانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا پھر اور کون ہے جو خدا کے سوا تمہیں عبادت کے قابل دکھائی دیتا ہے.پس تمہارے لئے تو چارا ہی کوئی نہیں بے اختیاری کا عالم ہے.وہی واقعہ جو میں پہلے بھی آپ کو سنا چکا ہوں لاہور کے ایک درویش کا یاد آ جاتا ہے.اس موقعہ پر بیان کے لائق بہت موزوں ہے.ایک درویش تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک دن اس نے ترنگ میں آکر خدا سے یہ عرض کی کہ اے خدا مجھے تیری دنیا پسند نہیں آئی اور یہ کہہ کر وہ باہر بازاروں میں کودتا اچھلتا ہوا نکلا اور اعلان کرنا شروع کیا کہ ہم نے خدا کو کہہ دیا جو کہنا تھا اور بڑا ہی خوش دکھائی دیتا تھا.کسی نے پوچھا کہ تم نے خدا کو کیا کہا ہے کیوں اتنے خوش ہورہے ہو اس نے کہا کہ میں نے تو خدا کو صاف کہہ دیا ہے کہ مجھے تیری دنیا پسند نہیں آئی.کچھ دن کے بعد اس کو پھر بازاروں میں دیکھا گیا اور نہایت ہی مضمحل، پژمردہ سر نیچے پھینکا ہوا بے حداد اس.کسی نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے آج کیوں تم اتنے اداس ہو؟ اس نے کہا کہ جواب آ گیا ہے.کہا.کیا جواب آیا ہے؟ جواب یہ آیا ہے کہ پھر جس کی دنیا پسند آتی ہے اس میں چلے جاؤ.چھوڑ دو میری دنیا اگر پسند نہیں اور ہے ہی کوئی نہیں.هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا میں یہ پیغام ہے.کہ اے عبادت سے تھک جانے والو! اے جلدی ہمت ہار دینے والو! اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری عبادت کو پھل نہیں لگ رہے.اس لئے تم اس عبادت کو چھوڑ دو تو پھر چھوڑ کے جاؤ گے کہاں؟ خدا کے سوا بھی کوئی ذات سنی ہے جو اس جیسی ہو.اگر یہ رحمان و رحیم یہ رحیم و کریم خدا تمہارے دل کے لئے جیتا نہیں جاسکتا تو پھر دنیا میں اور کوئی ذات تمہارے لئے جیتی نہیں جاسکے گی.پس جو زور لگانا ہے اس در پر لگاؤ ، جو سجدے بھرنے ہیں اسی آستانے پر بھرو اور اپنی پیشانی کو یہیں رگڑو اس کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے.یہ مضمون قرآن کریم نے

Page 239

خطبات طاہر جلد ۹ 234 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء بڑی شان کے ساتھ کھول کر ہمارے سامنے رکھا ہے.پھر اس جمعہ کا کہاں سے تصور پیدا ہوا جو آیا اور سب کچھ بخش کر چلا گیا اور پھر انسان عبادتوں سے غافل ہو کر یہ سمجھ لے اب وداع ہو گیا ہے.اب میں یہ چاہوں کرتا پھروں.صبر اور استقامت کے سوا کبھی بھی عبادت آپ کو کچھ عطا نہیں کرسکتی.پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے جن کی عبادتیں ان کے ذاتی منافع سے وابستہ ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں.ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں.چنانچہ جب ان کی دعائیں اس رنگ میں قبول نہ ہوں جس طرح وہ چاہتے ہیں تو وہ اس عبادت سے الگ ہو جاتے ہیں ، اس سے غافل ہو جاتے ہیں یا بعض دفعہ بدظن ہو کر خدا تعالیٰ ہی کو چھوڑ بیٹھتے ہیں.قرآن کریم ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ (حج : ۱۲) ایسے لوگ بھی تمہیں بنی نوع انسان میں دکھائی دیں گے جو خدا کی عبادت کناروں پر بیٹھ کر کرتے ہیں یعنی وہ اللہ میں سفر اختیار نہیں کرتے بلکہ اس طرح جیسے کنارے پر بیٹھ کر گھر سے باہر کوئی فقیر مانگ رہا ہو.خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ آؤ اور میری ذات میں سفر کرو.میں تمہارے ساتھ ہوں اور پھر مجھ سے مانگو لیکن وہ اپنے آپ کو خدا کے سپرد نہیں کرنا چاہتے ان کو اس تصور میں کوئی مزہ نہیں ملتا.کوئی لذت دکھائی نہیں دیتی کہ وہ خدا ہی کے ہو جائیں پس وہ چاہتے ہیں کہ کنارے پر بیٹھ کر ہاتھ بڑھا کر جو مانگنا ہے مانگ لیں.فَاِنْ اَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ (حج : ۱۲) پھر خدا کی طرف سے کوئی خیران کو عطا ہو جائے، کوئی بھیک مل جائے تو بڑے مطمئن ہو جاتے ہیں جس طرح فقیر دعائیں دیتا چلا جاتا ہے، کہتے ہیں جی خدا سے ہم نے پالیا.جو ہم نے پانا تھا جی پالیا.لیکن وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةُ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ اگر خدا ان کو آزمائش میں مبتلا کر دے.ان کی طلب پوری نہ فرمائے تو وہ اپنے منہ کے بل یا منہ کا رخ اختیار کر کے جدھر منہ اٹھے.یہ محاورہ اس قسم کا ہے کہ جس کا ترجمہ یوں ہونا چاہئے.انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِے کہ پھر جدھر منہ اٹھے پکڑٹ دوڑ پڑتے ہیں کہ کچھ نہیں ملا جی کچھ نہیں ملا.یہ ویسا ہی قصہ ہے اس سے ملتا جلتا ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو اس نے کہا کہ خدا کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ تو اس نے واقعہ ایک جائے نماز خریدی اور ایک

Page 240

خطبات طاہر جلد ۹ 235 خطبه جمعه ۲۰ / اپریل ۱۹۹۰ء جگہ بچھا کر قبلہ رخ ہو کر عبادت شروع کی اور خدا سے مانگنے لگا اس کی بدقسمتی اتفاق سے اس وقت زلزلہ آ گیا اور وہ پیچھے کی طرف گرافورآ جائے نماز پیٹی اور کہا کہ اے خدا! اگر تو میری طلب نہیں پوری کرتا تو دھکے تو نہ دے یہ کون سا انصاف ہے.پس یہ ظالم لوگ واقعہ یہ کہتے ہوئے دنیا میں منادی کرنے نکل جاتے ہیں کہ خدا کی عبادت سے کچھ بھی نہیں ملا دھکے ہی ملے.ہم نے تو عمر ضائع کر دی خواہ مخواہ مسجدوں کے پھیرے لگائے.بزرگوں کو دعاؤں کے لئے لکھا.وہاں سے کچھ بھی نہیں ملتا بے کار ہے، فضول ہے.اپنا جو کچھ ہے وہ بھی ضائع کرنے والی بات ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ یہ وہ بد نصیب لوگ ہیں جن کی نہ دنیا رہتی ہے نہ آخرت رہتی ہے.پس ایسی عبادت نہ کرو جس کے نتیجے میں نقد نقد سودے کے مطالبے ہر وقت جاری رہیں اور یہ کہو کہ اے خدا! دے مجھے، میرے مطالبے پورے کر ورنہ پھر میں تیری عبادت نہیں کرتا خدا کو آپ کی عبادت کی کیا پرواہ ہے.اگر سارے انسان بھی اس کی عبادت چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عبادت بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ہے.خدا کے فائدے کے لئے نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی تو دنیا بھی ضائع ہو جاتی ہے.ان کی آخرت بھی ضائع ہو جاتی ہے.کچھ بھی نہیں رہتا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ یہ ہے وہ کھلا کھلا گھاٹا ہے جس سے ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں.پس رمضان المبارک میں آج کا دن بھی ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے.سارا رمضان ہی وصل کے مضمون سے گہرا تعلق رکھتا ہے کیونکہ میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا تھا کہ ہر عبادت کی کوئی جزاء بیان فرمائی گئی ہے اور روزوں کی جزاء خدا نے خود اپنے آپ کو ظاہر فرما دیا ہے.فرمایا ہے روزے کی جزاء میں ہوں کیونکہ روزے میں ساری عبادتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور عبد کا مضمون اپنے کامل وجود کے ساتھ ، اپنی کامل شان کے ساتھ انسان میں ظاہر ہوتا ہے کیونکہ روزہ آپ کو کسر نفسی سکھاتا ہے، غریبوں کی ہمدردی سکھاتا ہے، ان کی بھوک اور ان کی پیاس کا احساس دلاتا ہے، ان کی بے چارگی سے آپ کو باخبر کرتا ہے.روزے کے نتیجے میں آپ عام عبادتوں سے بڑھ کر عبادت کرتے ہیں اور اپنے جائز حقوق بھی خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں جو عام روز مرہ کی زندگی میں آپ کے لئے جائز ہیں.پس تمام عبادتوں کا خلاصہ روزے میں ہے پس اسی لئے اس کی جزاء خدا تعالیٰ نے خود اپنی

Page 241

خطبات طاہر جلد ۹ 236 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء ذات کو بیان فرمایا کہ روزے کی جزاء میں خود ہوں.اور پھر آخری عشرے میں تو عبادت ایک خاص معراج تک پہنچتی ہے.چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ روایت فرماتی ہیں کہ : كان النبي صلى الله عليه وسلم اذا دخل العشر شد مئزره واحيا ليله وايقظ اهله (بخاری کتاب الصوم حدیث : ۱۸۸۴) صلى الله کہ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ آنحضرت مہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا یہاں عشر کو رفع کی حالت میں لکھا ہوا ہے.جس کا مطلب ہے کہ عشرہ آیا ہے اور جو تر جمہ ہے وہ یہ لکھا ہوا ہے کہ دخل العشر کہ رسول اللہ یہ عشرہ میں داخل ہوتے تھے تو یہ ممکن ہے یہ لکھنے والی کی غلطی ہو یا یہی مضمون ہو کہ جب آخری عشرہ آجایا کرتا تھا ) شد مئزرہ آپ اپنی کمر کس لیا کرتے تھے اور صل الله.اپنی رات کو زندہ کر دیا کرتے تھے.و ایقظ اهله اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے.وہ شخص جس کی ہر رات زندہ ہو جس کا یہ دستور ہو کہ اپنے گھر والوں کو ہمیشہ جگا تا ہو اس کے متعلق جب یہ کہا جائے کہ آخری عشرہ میں یہ کرتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی فرق پڑا کرتا تھا.اس وقت عبادت اپنی آخری حد کو پہنچا کرتی تھی راتیں جاگ اٹھتی تھیں.خوا ہیں نور کما نے لگتی تھیں اور غیر معمولی شان کے ساتھ خدا آپ پر ظاہر ہوتا تھا اور اسی نظارے میں شامل کرنے کے لئے اپنے اہل و عیال کو بھی جگایا کرتے تھے کہ اٹھو اٹھو تم بھی اس نعمت سے محروم نہ رہو.پس اب جو باقی دن رہ گئے ہیں ان دنوں میں آپ بھی یہی کر کے دیکھیں کیونکہ خالی ایک پہلو سے عبد بننے سے خدا نصیب نہیں ہوگا.اگلا قدم عبد بننے کا بھی لازماً اٹھانا ہوگا یعنی عبادت کی طرف جب آپ آگے قدم بڑھائیں گے تو پھر صحیح معنوں میں آپ خدا کے سچے بندے بن سکیں گے اور پھر آپ کو لقائے باری تعالیٰ نصیب ہوگی.پھر حضرت قتادہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور اپنے حضور یہ عہد باندھا ہے کہ جو کوئی بھی انہیں ان کے وقت پر ادا کرتے ہوئے اور ان پر مداومت اختیار کرتے ہوئے ( یعنی یہ نہیں کہ کبھی پڑھ لیں اور کبھی نہ

Page 242

خطبات طاہر جلد ۹ 237 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء پڑھیں ،مستقل ہو جائے.ہمیشہ پڑھنے لگے ) میرے پاس آئے گا.(یعنی حاضر ہوگا قیامت کے دن اس حالت میں کہ وہ نمازوں کے رستے آیا ہو).فرمایا میں نے یہ عہد باندھا ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا اور جوان کی حفاظت نہیں کرے گا.اس کے لئے میرے پاس کوئی وعدہ نہیں یہ تو نہیں فرمایا کہ میں لازماً اسے جہنم میں ڈالوں گا لیکن فرمایا کہ میں عہد کے معاملے میں اس سے آزاد ہوں.پھر وہ میرے حضور کوئی وعدہ نہیں پیش کر سکتا کہ اے خدا ! تو نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے جنت میں ڈالے گا.پس میں تو اس راہ سے حاضر ہوا ہوں کہ مجھے جنت عطا کرے(ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۴۳۰) پنچ وقتہ نمازوں کو کتنی اہمیت ہے اور افسوس ہے کہ ابھی تک سو فیصدی جماعت کے متعلق میں یقین اور اطمینان سے نہیں کہہ سکتا کہ سارے پنج وقتہ نماز پر قائم ہو چکے ہیں اور اس کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس حدیث قدسی میں دو باتیں بیان فرمائیں ہیں.ایک نماز کا قائم کرنا اسے اپنی تمام لوازم اور شرائط کے ساتھ کھڑا کرنا اور دوسرا ہے پھر اس کی حفاظت کرنا.ضائع نہ ہونے دینا.کبھی دین کے غلبے ہوتے ہیں، کبھی دوسرے کام ہوتے ہیں کبھی دنیا کے پھندوں میں انسان پھنسا ہوا ہوتا ہے.جو حفاظت کرنے والا ہے وہ جس طرح شیرنی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے وہ نماز کو کسی پہلو سے بھی آنچ نہیں آنے دیتا ہر خطرہ سے اس کو بچاتا ہے پس اگر جماعت احمد یہ اس طریق کو اختیار کرے تو یہ وہ طریق ہے جس طریق سے خدا تعالیٰ کی لقاء نصیب ہوگی ورنہ تصوراتی عشق سے کچھ بھی نہیں ملے گا.پھر حضرت عبداللہ بن الشخیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں.ย صلى الله قال اتيت رسول الله له وهو يصلي ولجوفه ازیر کازیر المرجل من البكاء (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۸۸۴) کہ انہوں نے بتایا کہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز ادا کر رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ہنڈیا کے ابلنے کی طرح آواز آرہی تھی.پس صرف نماز کا سوال نہیں ہے.نماز کس طرح پڑھی جاتی ہے، کس کیفیت کے ساتھ پڑھی

Page 243

خطبات طاہر جلد ۹ 238 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء جاتی ہے یہ بھی سمجھنا ضروری ہے.پس پہلے نمازوں کے لئے وہ ہنڈیا تو بنا ئیں جس ہنڈیا سے ابلنے کی آواز آئے گی اگر نماز کا بدن ہی قائم نہ ہوا گر پنچ وقتہ نمازوں کی حفاظت نہ ہو تو وہ کون سی ہنڈیا ہے جس سے ابلنے کی آواز آئے گی.پس آپ کا سینہ تب اس ہنڈیا کی طرح بنے گا جب ہنڈیا موجود ہوگی اور وہ نمازوں کی ہنڈیا ہے اگر نہیں ہے تو اس کو حاصل کریں اس کے بغیر تو روحانیت کے جوش مارنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا.روحانیت کہاں بٹھا ئیں گے آپ؟ آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے بتادیا کہ آپ نمازوں کے برتن میں اپنی محبت کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے تھے اور نمازوں میں لپٹی ہوئی آپ کی روح خدا کے حضور جوش مارتی تھی اور واقعہ دیکھنے والوں کو یوں آواز آتی تھی جیسے واقعی کوئی ہنڈیا اہل رہی ہے.پھر آپ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے.حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ آنحضور یہ بعض اوقات نمازوں میں رات کو اتنی دیر تک کھڑے رہا کرتے تھے کہ آپ کے دونوں پاؤں اور پنڈلیاں تک متورم ہو جایا کرتے تھے.یعنی کھڑے کھڑے سوج جاتے تھے اس بارے میں آپ سے عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا افلا اکون عبدا شکورا.(بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر: ۴۴۵۹) کہ کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنو.صلى الله مطلب یہ ہے کہ کسی نے تعجب سے کہا ہوگا کہ یا رسول اکرم ﷺ آپ کو کیا ضرورت ہے اتنی لمبی چوڑی عبادتوں کی آپ کو تو خدامل چکا ہے، آپ تو خدا کے ساتھ رہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تبھی تو مجھ پر دہرا فرض ہے کہ اس پاک ذات کا شکر یہ ادا کروں.پس ایک عبادت ہوتی ہے حصول کے لئے ،ایک ہے لقاء کے بعد اپنے محبوب کو راضی رکھنے کے لئے ، ایک گریہ وزاری ہوا کرتی ہے ہجر کی گریہ وزاری ، اکثر کو تو وہ بھی نصیب نہیں ہے لیکن ہجر کے بعد جب محبوب مل جاتا ہے تو اس کے حضور جو انسان بیٹھ کر روتا ہے اور اس سے پیار کی باتیں کرتا ہے، اسے اپنار کھنے کیلئے اس کی منتیں کرتا ہے یہ وہ گریہ وزاری تھی جو آنحضرت ﷺ کو نصیب ہوئی تھی.پس عبد شکور بنے کا یہ مطلب ہے کہ تم ہجر کے واقف لوگ ہو تمہیں کیا پتا کہ لقاء کے رونے کیا ہوا کرتے ہیں.جب خدا نصیب ہو جائے تو کتنے پیار کے ساتھ اس کو اپنا بنائے رکھنا پڑتا ہے اور بار بار عرض کرنی پڑتی ہے کہ تیرا احسان ہے کہ تو مجھے نصیب ہو گیا ہے ورنہ میں کہاں اس لائق تھا.پھر صاحب لقاء کو ایک مرتبہ اور ایک مقام عطا کیا جاتا ہے جو اسے باقی بندوں سے ممتاز

Page 244

خطبات طاہر جلد ۹ 239 خطبه جمعه ۲۰ را بریل ۱۹۹۰ء کر دیا کرتا ہے.لقاء کے دعویدار دنیا میں بہت ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لقاء کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو پھر اگر انسان چھپانا چاہے بھی تو چھپ سکے.صاحب لقاء وجود میں کچھ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں جو خدا سے تعلق کی علامتیں ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے فرمایا اور ابو ہریرہ کی یہ روایت ہے.آپ فرماتے ہیں خدا نے فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت و دشمنی کی تو میں اسے جنگ کی خبر دیتا ہوں.میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا ایسا مقرب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر: ۶۰۲۱) اب کوئی ملاں ہو تو کہے گانعوذ بالله من ذالك كیسی گستاخی والی بات ہے.خدا پاؤں بن جاتا ہے.لیکن وہی بات ہے جس کو وصل نصیب ہی نہ ہو اس کو کیا پتا کہ وصل کیا ہوتا ہے.ہجر میں بیٹھے اندھیری راتوں میں جو چاہیں آپ تصور کرتے پھریں.یہ تو ایک صاحب وصل کی خبر الله ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی عمل یہ بتا رہے ہیں جن سے زیادہ خدا سے محبت کرنے والا کوئی نہیں تھا جن سے زیادہ خدا کے ادب اور احترام کا کوئی تصور بھی نہیں رکھ سکتا.آپ کو خدا نے خود بتایا کہ میرا بندہ جب مجھ سے پیار کرنے لگتا ہے تو مجھے دیکھو کہ میں پھر اس کے مقابل پر کتنا جھکتا ہوں یعنی بجز کا مضمون اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے.بندہ جب عاجزی میں کمال اختیار کرتا ہے تو پھر محبوب آقا اپنے آسمانی آقا کی عاجزی بھی تو دیکھو کہ وہ کیا رنگ اختیار فرماتا ہے.کہتا ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے.اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو ضرور اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ کا طلب گار ہو تو ضرور اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں.پس یہ ہے لقائے باری تعالیٰ جو ہم نے قرآن اور حضرت محمد مصطفی امیہ سے سیکھی اور جن کا عرفان پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان باریک راہوں کو خوب کھول کر ہمارے سامنے روشن کر دیا ہے.پس یہ لقاء ہے جس کا ہمیں طالب ہو جانا چاہئے اور یہ رمضان اگر خدانخواستہ

Page 245

خطبات طاہر جلد ۹ 240 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۹۰ء ضائع چلا گیا ہو تو باقی دنوں میں بھی کوشش کرتے رہیں.یہ درست ہے کہ بعض دفعہ بعض علاقوں میں ہیرے جواہرات یا سونے کی خبر ملتی ہے اور وہ ایک ہی لمحہ ہوا کرتا ہے جو انسان کو امیر بنا دیتا ہے لیکن اس لمحہ کی تلاش میں کتنے لاکھوں کروڑوں لمحے انسان کو صرف کرنے پڑتے ہیں پس لیلتہ القدر کا ایک لمحے میں آپ کا پا جانا یہ مطلب نہیں رکھتا کہ آپ صرف اسی لمحے کولیلۃ القدر کے حضور حاضر ہونے کی کوشش کریں.دیکھیں جو سونے کی تلاش کرتے ہیں وہ اپنی زندگیاں گنوادیتے ہیں.پھر ان میں سے خوش نصیب وہ ہوتے ہیں جنہیں وہ جگہ مل جاتی ہے.جہاں سونے کی کانیں ہوتی ہیں جو ہیرے، جواہر کی تلاش میں رہتے ہیں وہ دن رات سرگرداں رہتے ہیں.مہینوں ،سالوں اپنے صرف کر دیتے ہیں بعض اپنی ساری دولتیں اس راہ میں لٹا دیتے ہیں پھر بعض کو خوش نصیبی سے وہ ہیرا میسر بھی آجاتا ہے جوان کی دنیا بھی بنا دیتا ہے اور اگر وہ نیکی کی طرف مائل ہوں تو عاقبت بھی بنا سکتا ہے.خدا ایک لعل بے بہا ہے اس کے لئے کم سے کم وہ رجحان تو پیدا کریں جو دنیا والا دنیا کے ہیروں کی محبت میں پیدا کرتا ہے.اگر خدانخواستہ یہ رمضان بھی خالی گزرجائے تو باقی سارا سال پڑا ہوا ہے.اگلی لیلۃ القدر کی تیاری شروع کردیں اس جمعہ کو وداع نہ کہیں بلکہ اس نے جو پاک سبق آپ کو سکھائے ہیں ان سے چمٹ کر بیٹھ ر ہیں.اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کریں اور خدا سے ہمیشہ یہ ملتی رہیں اور متمنی رہیں اور اس کے در سے امید رکھیں کہ آج نہیں تو کل اس دنیا میں آنکھیں بند کرنے سے پہلے وہ آپ کو لقاء عطا فرمادے گا.احمدی صاحب لقاء بن جائیں تو ساری دنیا ان کے قدموں کی ٹھوکروں میں پڑی ہوگی.تمام دنیا کے وہ موتی بن جائیں گے.تمام دنیا کے وہ داتا ہو جائیں گے.کیونکہ وہ خدا کے ہوں گے اور خدا کی آواز سے بولنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں عبادت کا یہ معراج عطا فرمائے.(آمین)

Page 246

خطبات طاہر جلد ۹ 241 خطبه جمعه ۲۷ / اپریل ۱۹۹۰ء سب سے عالیشان وہ دربار ہے جو رات کے وقت لگتا ہے اسے تہجد کا در بار کہا جاتا ہے.( خطبه جمعه فرموده ۲۷ را پریل ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد اور تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: وہ ایک مہینہ رمضان کا جو ابھی گزرا ہے وہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خدا تعالیٰ ہر سال ایک مہینے کے لئے ایک دربار لگاتا ہے اور بادشاہوں کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ کبھی کبھی کچھ دن دربار لگانے کے لئے مخصوص کر لیا کرتے ہیں.وہ لوگ جن کی عام طور پر رسائی نہ ہو وہ دربار میں حاضر ہو کر اپنی مناجات پیش کرتے ہیں اپنی حاجات پیش کرتے ہیں اور اس طرح ان کی اس دربار تک ایسے رسائی ہوتی ہے کہ بالعموم خالی ہاتھ نہیں لوٹتے.تو اللہ تعالیٰ کی بھی ایک شان ہے کہ اس نے کئی قسم کے اپنے دربار جاری فرمائے ہوئے ہیں.ایک مہینے کا یہ خصوصی در بار تو اب ختم ہوا لیکن آپ کو یا د رکھنا چاہئے کہ خدا کے ہاں صرف یہ ایک مہینہ ہی دربار لگانے کا نہیں.ایک پانچ وقت کا روزانہ کا در بار بھی تو لگتا ہے.وہ لوگ جو یہ احساس کرتے ہیں کہ رمضان اپنی برکتیں لے کر چلا گیا.میں ان کو یاد کراتا ہوں کہ وہ لوگ جو پنچ وقتہ درباروں کی حاضری دینے والے ہیں ان سے رمضان کبھی برکتیں لے کر نہیں جایا کرتا.برکتیں چھوڑ کر جایا کرتا ہے اور ہر دربار میں ان برکتوں کا اعادہ ہوا کرتا ہے.پھر اسی طرح ہفت روزہ دربار بھی تو لگتا ہے اور سب سے عالیشان وہ دربار ہے جو محرم راز لوگوں کا دربار ہے جو رات کے وقت لگتا ہے اسے تہجد کا دربار کہا جاتا ہے.جس میں وہ لوگ جو دنیا کی

Page 247

خطبات طاہر جلد ۹ 242 خطبہ جمعہ ۲۷ / اپریل ۱۹۹۰ء نظر سے الگ ہو کر چھپ کر خدا سے ملنا چاہتے ہیں وہ اٹھ کر خدا کے حضور حاضری دیتے ہیں اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں مطلع فرمایا ہے کہ اس وقت کثرت سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ سے بندوں کا تعلق قائم کرنے کے لئے ایک خاص نظام جاری رہتا ہے.وہی نظام ہے جولیلۃ القدر کی صورت میں ایک غیر معمولی شان کے ساتھ رمضان کے مہینے میں بھی دوبارہ لگتا ہے لیکن وہ عام نظام در بار خاص کا جو خاص بندوں کے لئے علیحدہ ملاقاتوں کے لئے لگایا جاتا ہے اس کی ایک اپنی شان ہے.میرا تجربہ ہے کثرت سے ملاقاتوں کا موقع ملتا ہے.بیسیوں ملکوں میں میں پھرا ہوں ، بیسیوں بڑے بڑے ملکوں کی سینکڑوں جماعتوں سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن کچھ لوگ پھر بھی تشنگی کا اظہار کرتے ہیں کہ علیحدہ ملاقات کا وقت دیں اور بعض دفعہ اتنا اصرار کرتے ہیں کہ وقت نہ ہوتے ہوئے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے.اللہ کی عجیب شان ہے، روزانہ علیحدہ ملاقات کا وقت دیتا ہے، اور آدھی رات کے بعد سے یہ دربار لگ جاتا ہے کہ جس کو جو توفیق ہے وہ حاضر ہو جائے تو میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر رمضان کے دربار کو زندہ رکھنا ہے.اس سے فائدے جاری رکھنے ہیں تو ان درباروں میں حاضری دینانہ چھوڑیں پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ کوئی رمضان بھی آپ سے برکتیں لے کر نہیں جائے گا بلکہ ساری برکتیں آپ کی جھولی میں ڈالتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)

Page 248

خطبات طاہر جلد ۹ 243 خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۹۰ء عُسر کے بعد یسر نصیب ہوتا ہے.وہ رستے تلاش کریں جس سے خدا کا پیار حاصل ہو.( خطبه جمعه فرموده ۴ مئی ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ ) (الم نشرح : ۶ تا ۹ ) پھر فرمایا: یہ آیات کریمہ جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں بہت سے دائمی ، غیر مبدل اصول بیان فرمائے گئے ہیں اور بعض ایسے قوانین قدرت کا بھی ذکر ہے جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اسی طرح قوموں کی زندگی اور موت ، ترقی اور زوال کے اسباب کی طرف بھی ان مختصر آیات میں اشارہ ہے.اسی طرح وہ لوگ جو بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں اور بعض انتظامات چلاتے ہیں ، ان کے لئے بھی اس میں ایک گہری نصیحت ہے.ان آیات کا ترجمہ اگر چہ بالکل سادہ اور واضح ہے مگر پھر بھی ممکن ہے کہ بعض دوست میں سے نہ جانتے ہوں اس لئے میں سادہ الفاظ میں ان کا ترجمہ کرتا ہوں.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرً ا یقینا تنگی کے ساتھ آسائش بھی ہے.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا یقیناً تنگی کے ساتھ آسائش بھی ہے یا محنت اور مشقت کے ساتھ آسائش بھی ہے

Page 249

خطبات طاہر جلد ۹ 244 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَب پس جب تو فارغ ہو جائے تو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑا ہو جایا کر.وَاِلى رَبِّكَ فَارْغَبْ پھر اپنے رب کی طرف ہی رغبت کر.ان آیات پر میں نے پاکستان میں بعض خطبات میں روشنی ڈالی تھی.ان تمام باتوں کو دہرانا آج مقصود نہیں ہے بلکہ ایک دو زائد باتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے.ایک بات تو یہ ہے کہ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَب میں ایک مضمون میں پہلے بیان کر چکا ہوں وہ یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے لئے خدا تعالیٰ کے ذکر میں اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں تکلیف نہیں تھی بلکہ راحت تھی اور دنیا کے کاموں میں یا دین کے وہ کام جو براہ راست عبادت سے تعلق نہیں رکھتے اور دوسری مصروفیات میں انسان کو الجھائے رکھتے ہیں ان کاموں میں وہ لذت نہیں تھی جو لذت عبادت میں تھی.تو جس طرح عُسر کا ئیسر سے مقابلہ ہوتا ہے،عُسر اگر محنت اور مشقت اور تنگی کو کہتے ہیں تو یسر آسائش کو ، آرام کو سکینت کو کہتے ہیں.تو آنحضرت ﷺ کے لئے دن کے کاموں میں ہر چند کہ وہ دین کے ہی کام تھے اور خدا کی عبادت میں وہی نسبت تھی جو عسر کو یسر سے ہوتی ہے.چنانچہ فرمایا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَب جب تو دین کے کاموں سے جو دن کو در پیش ہوتے ہیں لیکن براہ راست عبادت سے تعلق نہیں رکھتے ، ان سے فارغ ہو جایا کرے تو پھر اپنی مرضی سے تیرا حق ہے کہ کچھ آرام بھی کرلے اور وہ آرام یہ ہے کہ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبُ اپنے رب کی طرف رغبت کر اور خدا کی یاد سے لذت پا.یہ وہ مقام ہے جو ابتداء میں نصیب ہونا تو درکنار انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کیونکہ بہت سے عبادت کر نیوالوں کے لئے ” نصب“ کا مقام تو رہتا ہے.نصب کی منزل پہ آ کر وہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور رغبت کی منزل ان کو نصیب نہیں ہوتی.اس لئے وہ بڑی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں.وہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ ہم نے تو عبادت کی ہمیں مزا نہیں آیا.اس مزے سے پہلے وہ اندرونی نفسیاتی رحجان پیدا کرنا ضروری ہے جو محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.جب تک عبادت کے اندر محبت کی روح نہ پائی جائے اس وقت تک نہ رغبت کا مضمون سمجھ آسکتا ہے نہ رغبت نصیب ہو سکتی ہے.پس اس آیت کریمہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، معانی کے سمندر ہیں اور بہت سی نصیحتیں ہیں، بہت سے قوانین قدرت کے راز ہیں جن سے پردے اٹھائے گئے ہیں.

Page 250

خطبات طاہر جلد ۹ 245 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا لى إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کو اگر سائنسی زبان میں آپ ڈھالنے کی کوشش کریں تو سائنس کا یہ مشہور محاورہ کہ:.Output is never greater than input ہے کہ جو Output ہے وہ Input سے زیادہ کبھی نہیں ہو سکتی اور اس کا لازمی انحصار Input پر ہے.Input انرجی Feed کرنے کا نام ہے.کسی کام کو حاصل کرنے کے لئے آپ جو قوت خرچ کرتے ہیں اس کو Input کہتے ہیں اور اس کام کے نتیجے کو Output کہتے ہیں.تو سائنس کے اس سادہ سے فقرے میں بہت گہرا قانون قدرت کا ایک راز بیان ہوا ہے.جس سے مغربی قوموں نے بے انتہا فائدے اٹھائے ہیں.گھر بیٹھے جنتر منتر سے کچھ نصیب نہیں ہوگا یہ پیغام ہے.جو کچھ تمہیں نصیب ہوتا ہے تمہاری محنت سے نصیب ہوتا ہے اور یہ بھی یا درکھو کہ جو نصیب ہوتا ہے وہ محنت کے مقابل پر کم ہوتا ہے یہ قانون ہے ناس قانون کو جب ہم مذہبی رنگ میں سمجھتے ہیں تو بالکل ایک نیا مضمون پیدا ہو جاتا ہے.قرآن کریم بتاتا ہے کہ Input کے سوا تمہیں راحت نصیب نہیں ہو سکتی لیکن خدا کی راہ میں تم جتنی Input کرتے ہو اس سے بہت زیادہ راحت نصیب ہوگی.یہاں سائنس کا وہ ابتدائی قانون صرف عمل پیرا نہیں رہتا بلکہ ایک قدم اور آگے یہ مضمون بڑھ جاتا ہے وَاَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم:۴۰) تو اپنی جگہ قائم ہے، کسی انسان کو بغیر محنت کے نہیں ملے گا.مگر جب Input خدا کے لئے کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنا حصہ بیچ میں ڈال دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلى رَبِّكَ فَارْغَبُ کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.جب تو خدا کی راہ میں محنت کرے گا تو پھر رغبتوں کا لامتناہی سلسلہ ہے.ایک ایسا سلسلہ ہے جو نہ ختم ہونے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جس کے لئے وہ جتنا چاہے بڑھاتا چلا جاتا ہے.پس حقیقت میں دنیا کے قوانین پر ہی قدم رکھتے ہوئے روحانیت کے قوانین تک رسائی ہوتی ہے.یہ خیال کر لینا کہ ہم دنیاوی قانون سے بالا ہیں یہ درست نہیں ہے.پہلے مادی قوانین جو قدرت کے قوانین ہیں اور خداہی نے بنائے ہیں ان پر عمل کرنا سیکھیں، ان کی حقیقتوں کو سمجھیں ، ان حقیقوں کو سمجھ کر ان کے مطابق اپنے زندگی کے منصوبے ڈھالیں اور منتیں کریں.پھر یاد رکھیں کہ آپ اس مقام پر فائز ہو چکے ہیں جہاں اب دین میں آپ جب وہی راہ اختیار کریں گے تو ایک بالائی منزل تعمیر ہوگی اور وہ قانون

Page 251

خطبات طاہر جلد ۹ 246 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء قدرت ان نتائج کے مقابل پر کوتاہ رہ جائے گا جو آپ کو نصیب ہوں گے.قوانین قدرت تو یہ بتاتے ہیں کہ آپ کی محنت کا زیادہ سے زیادہ برابر نتیجہ نکل سکتا ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک ہم نے ملاحظہ کیا ہے محنت کا برابر نتیجہ بھی نہیں نکلا کرتا.کیونکہ محنت میں کچھ حصہ ضیاع کا ہو جاتا ہے.کچھ چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں.مثلاً جب آپ موٹر میں پٹرول ڈالتے ہیں تو اگر چہ اس کی طاقت کا ایک بڑا حصہ پہیوں کو چلانے میں کام آتا ہے اور دیگر بجلی کے کل پرزوں کو چلانے میں کام آتا ہے.لیکن فریکشن (Friction) کے نتیجے میں اور کچھ مشین کی خرابی کے نتیجے میں مشین میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ تمام طاقت کو وہاں منتقل کر سکے جہاں منتقل کرنا مقصود تھا ایک حصہ اس کا ضائع چلا جاتا ہے.اسی لئے آپ اگر سائنسی محاوروں سے واقف ہوں تو آپ مشینوں کے متعلق یہ بھی لکھا ہوا پائیں گے کہ اس کی Efficiency ستر فیصدی ہے.اسی فیصدی ہے ، نوے فیصدی ہے، آج تک کوئی کار ایسی ایجاد نہیں ہوئی کوئی بھی مشین دنیا میں ایسی ایجاد نہیں ہوئی جو سو فیصدی امانت کے ساتھ آپ کی طاقت کا پھل آپ کو عطا کر دے.پس وہ جو درمیان میں Friction ہے وہ دراصل مشین کی خیانت ہے.وہ کچھ حصہ اپنے لئے رکھ لیتی ہے کچھ ضائع کر دیتی ہے.پس اس میں ہمیں ایک اور نکتہ بھی ہاتھ آیا کہ جتنا خدا کی راہ میں کوئی امین ہوگا اتنا ہی اس کی محنتوں کو بہتر پھل لگیں گے اور جتنا امانت میں خیانت کرنے والا ہوگا اتنا ہی اس کی محنت کے پھلوں میں کمی آتی چلی جائے گی.اب بظاہر دو عبادت کرنے والے ایک رات جاگ کر خدا کی راہ میں کھڑے رہتے ہیں.لیلۃ القدر میں یعنی لیلۃ القدر کی رات سمجھتے ہوئے ۲۷ / رمضان کو مثلاً بعض ایسے لوگ بھی عبادت کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں جن کو عام وقتوں میں پانچ وقت نمازوں کی بھی توفیق نہیں ہوتی لیکن بہر حال ایک جذبہ ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس گھڑی کا کوئی ایسا لمحہ ہمیں نصیب ہو جائے کہ ہماری زندگی کی ساری کو تا ہیاں دھل جائیں اور اللہ تعالیٰ مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے ہمیں دونوں جہان کی نعمتوں سے نوازے.اس نیک تمنا پہ تو کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ بھی کھڑے رہتے ہیں اور ایک ایسا آدمی بھی کھڑا رہتا ہے جس کا دل عبادت میں رہتا ہے جو ہمیشہ خدا کی محبت کی تلاش میں رہتا ہے.ان دونوں کا ظاہر ایک ہی ہے ، ایک جیسا ہی وقت ہے لیکن واقعہ ان کی عبادت کی کیا کیفیت ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سمجھ نہیں سکتا لیکن دنیا کے اندازوں کے مطابق ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ بعض لوگ اس قسم

Page 252

خطبات طاہر جلد ۹ 247 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء کے ہوں گے اور بعض لوگ اس قسم کے ہوں گے.کچھ ایسے بھی ہوں گے جو کھڑے رہتے ہیں.ان کو تکلیف محسوس ہوتی ہے بار بار دل اکتا جاتا ہے، تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ ہم کھڑے رہیں اور خدا کو یاد کریں لیکن دوسرے تصورات ، دوسرے خیالات ،فکریں، آرزوئیں ان کا دامن تھامتی ہیں اور دعا کرتے کرتے ان کی توجہ بکھر کر ادھر ادھر چلی جاتی ہے اور خدا سے ہٹ جاتی ہے.کچھ ایسے ہیں جن کی عبادت کا اکثر حصہ اسی کیفیت میں گزرتا ہے.کچھ ایسے ہیں جن کی عبادت کا نسبتا کم حصہ اس کیفیت میں گزرتا ہے.کچھ ایسے ہیں جن کی عبادت پر خدا کی یاد کا، خدا کی محبت کا غلبہ رہتا ہے.کچھ ایسے ہیں جن کی عبادت پر دنیا کی محبتوں کا غلبہ رہتا ہے اور خدا کی محبت کی جھلکیاں کہیں کہیں ان کی دکھائی دیتی ہیں.تو یہ فرق ہے امین اور غیرامین میں جو خدا کی طرف سے اس کی عبادت کا امین ہو وہ تمام تر تو جہات کو خدا کی راہ میں خرچ کر رہا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی Output بہت زیادہ ہوتی ہے.بنسبت ایسے شخص کے یعنی Input گو برابر ہوگی لیکن Output زیادہ ہوتی ہے.Input سے مراد ہے جو اس نے محنت کی.دونوں محنتیں کر رہے ہیں لیکن ایک کی محنت ضائع جارہی ہے چونکہ وہ امین نہیں ہے وہ اچھی قسم کی مشین نہیں ہے اس لئے مقصد پر خرچ کرنے کی بجائے وہ طاقت کو دائیں بائیں خرچ کر رہا ہے اور ایک شخص جو اللہ وقف ہے اور خدا کی راہ میں ایسا امین ہے کہ وہ تمام طاقتیں خالصہ خدا کے لئے خرچ کر رہا ہوتا ہے وہ مقام محمد بیت پر فائز ہے.پس ادنیٰ مقام سے لے کر مقام محمد بیت تک لاکھوں کروڑوں دیگر مراتب اور منازل ہیں.جن میں سے گزرتے رہنے کا نام ہی دراصل سلوک ہے.یعنی خدا کی راہ میں قدم بڑھانا.کوشش کرتے چلے جانا تو فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کے ساتھ جب یہ فرمایا: فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبُ تو یہ سبق دیا کہ دنیا میں تم جو ھنتیں کرتے ہو ان کا تو تمہیں برابر نتیجہ ملے گا.لیکن ہم تمہیں ایک اور سلوک کا اور محنت کا راستہ بتاتے ہیں جہاں اجر لامتناہی ہو جاتا ہے.چنانچہ لامتناہی اجر کا مضمون قرآن کریم میں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ منسلک پایا جاتا ہے.دنیا کے کسی قانون کے متعلق خدا تعالیٰ نے غیر ممنون اجر کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اپنی محنتوں کو زیادہ سے زیادہ ان راہوں میں

Page 253

خطبات طاہر جلد ۹ 248 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء استعمال کرنا چاہئے جو راہیں لامتناہی اجر کی طرف لے کر جاتی ہیں اور ان محنتوں پر نگر ان رہنا چاہئے کہ جن مقاصد کی خاطر ہم کام کر رہے ہیں.ہمارا وقت ، اور ہماری توانائی انہیں مقاصد پر خرچ ہو رہے ہیں اور ادھر ادھر بکھر نہیں جاتے اور ہمارے نفسانی خیالات اور دل کی بے ایمانیاں ان نیک کوششوں کو ضائع نہیں کر دیتیں.یہ وہ فرق ہے جو عبادت اور عبادت میں پیدا ہوتا ہے اور اسی کے نتیجے میں پھر Output کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کسی کو کیا ملے گا.پس جماعت احمد یہ ایک عارفانہ جماعت ہے یہ کوئی مولویوں کی جماعت نہیں ہے.جس نے ظاہری طور پر وضو کی بعض شرطیں ادا کر دیں اور نماز کے لئے کھڑا ہو کر ایک قسم کی مصنوعی سی نماز پڑھ لی جو زبان سے ادا کی جاتی ہے.بلکہ جماعت احمد یہ چونکہ عرفان پر مبنی جماعت ہے اس لئے جماعت احمدیہ کی نمازوں میں دل کا شامل ہونا بلکہ مسلسل دل کا عبادت میں شامل رہنا ضروری ہے.جہاں آپ دل اُچٹتا دیکھیں گے وہیں سمجھ لیں کہ عبادت میں کچھ خیانت ہوگئی ہے اور وہاں پھر استغفار کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.اور اس کا فیصلہ کیسے ہو کہ ہم عبادت میں امانت کا حق ادا کر نے والے ہیں یا اس پہلو سے کو تا ہیاں ہو رہی ہیں.اس کا ایک آسان گر خدا تعالیٰ نے انہیں آیات کریمہ میں آخر پر فَارْغَبْ کے لفظ سے بتا دیا کہ وہ عبادت جس میں تم لذت محسوس کرنے لگو گے یقین کرو کہ وہ عبادت درست تھی اور اس عبادت میں تم نے اپنی محنت کو ضائع نہیں کیا اور صحیح رستے پر خرچ کیا.جو عبادت جس حد تک لذت سے محروم رہتی ہے اس میں رغبت کا پہلو پیدا نہیں ہوتا ، اسی حد تک تم نے امانت کا حق ادا نہیں کیا.پس آنحضرت ﷺ کو چونکہ امین مقررفرمایا گیا تھا اور تمام امانت داروں سے بڑھ کر آپ امین تھے اس لئے آپ کی عبادت کا لازمی نتیجہ یہ نکالا ہے فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلى رَبِّكَ فَارُ غَبْ خدا کی طرف آپ کے مائل ہونے کا نام ہی رغبت ہے اور کوئی مضمون بیچ میں پیدا ہی نہیں ہوتا.جب بھی آپ کھڑے ہوں گے رغبت کے ساتھ کھڑے ہوں گے.جب بھی عبادت کریں گے رغبت کے ساتھ کریں گے.پس رغبت کے ساتھ عبادت اس لئے ضروری ہے کہ فَانْصَب کا نتیجہ یہ ہے ورنہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کا مضمون نہیں بنتا.عُسر کے بعد یسر نصیب ہونا چاہئے اگر عبادت کی سختیاں انسان جھیلتا ہے اور لذت

Page 254

خطبات طاہر جلد ۹ 249 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء سے محروم رہتا ہے تو پھر سختیاں ہی حصے میں آئیں گے اور لذت سے محرومی بتاتی ہے کہ یسر کی کوئی منزل اس کو نصیب نہیں ہوئی.پس شروع میں جب آپ اس مضمون کو پڑھتے ہیں فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا تو عبادت کا مضمون بھی خوب واضح ہو جاتا ہے اور ہر انسان کو اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کی پہچان کا ایک ذریعہ عطا فرما دیتا ہے.اپنے مقام اور مرتبے کی پہچان کا اور یہ وہ ایسا راز ہے جو خدا اور بندے کے درمیان رہتا ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کی عبادت کس حد تک مقبول ہے.کس حد تک کسی بندے کو رغبت نصیب ہوئی یا وہ بندہ جانتا ہے اگر وہ جاننا چاہے.لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ اکثر انسان ایک غفلت کی حالت میں زندگی گزار دیتے ہیں اور اگر وہ جاننا چاہیں بھی تو اس لئے جاننا نصیب نہیں ہوتا کہ ان کی آنکھوں پر غفلت کے پردے ہوتے ہیں اور نہیں پتہ کہ کیسے جانا جاسکتا ہے.اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عبادت میں سے گزر کر جب ہم واپس آتے ہیں تو ہم پہلے سے بہتر بن چکے ہوتے ہیں.لیکن اس بات کی پہچان کے اور بھی پہلو ہیں کہ عبادت نے ان میں کوئی فرق ڈالا یا نہیں ڈالا.جب میں یوگنڈا سفر پر تھا وہاں میں نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ اجتماع سےخطاب کرتے ہوئے ان کے سامنے اس بات کو کھولا تو بہت سے وہاں کے جومعززین تھے انہوں نے بعد میں اس بات میں بہت ہی گہری دلچسپی لی.موقعہ یہ تھا کہ ہم وہاں ایک مسجد کے افتتاح کے لئے اکٹھے ہوئے تھے.میں نے ان سے کہا کہ جب بھی کوئی عبادت کرنے والا مسجد جاتا ہے یا گر جے جاتا ہے یا جو بھی اس کے عبادت گھر کا نام ہے وہاں جاتا ہے تو جس حالت میں جاتا ہے اگر ویسا ہی واپس آ جاتا ہے تو پھر اس کا آنا جانا محض ایک وقت کا ضیاع ہے.ایک حرکت ہے جس کا نتیجہ کوئی نہیں.اگر آپ کسی کپڑے کو کسی رنگ میں بھگوئیں اور باہر نکالیں تو وہ سارا رنگ پیچھے چھوڑ آئے تو یسے کپڑے کو رنگ دینا بالکل ایک مسخرانہ بات ہوگی.جو کپڑا رنگ قبول ہی نہیں کرتا اس غریب کو بار بارغو طے دینے کا فائدہ کیا ؟ اس لئے رنگ کے فن کے جو بھی واقف ہوتے ہیں وہ کپڑے کو پہلے تھوڑا سا بھگو کے دیکھتے ہیں اگر وہ رنگ کو قبول نہ کرے تو پھر یہ توجہ کرتے ہیں کہ کیوں رنگ کو قبول نہیں کر رہا.پھر ان داغوں کو دور کرتے ہیں ان کو بعض ایسے تیزابوں سے گزارتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ رنگ کو قبول نہ کرنے والی جو بعض بدیاں یا بعض دھبے ان پر پیدا ہو چکے ہوتے ہیں ان کو وہ کاٹتے

Page 255

خطبات طاہر جلد ۹ 250 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء ہیں اور صاف کر کے پھر جب ڈبوتے ہیں تو وہ رنگ قبول کر لیتا ہے.تو ہر شخص جو عبادت کے لئے کہیں جاتا ہے وہ جب واپس آتا ہے تو اس میں کچھ تبدیلی ہونی چاہئے.یعنی جب وہ خدا سے ملاقات کر کے آئے واپس آکے ویسے کا ویسا ہے تو یہ عجیب سی بات ہے.کم سے کم اتنا ہی کرے کہ جب ملاقات کر کے آئے تو محسوس کرے کہ میں کسی بڑے گھر سے واپس آیا ہوں اور کچھ دیر اپنی عادات میں کچھ پاک تبدیلیاں پیدا کرے.جب کسی کو کوئی منصب نصیب ہوتا ہے تو اس کے اردگرد کے لوگ بھی اس ذمہ داری کو محسوس کرنے لگ جاتے ہیں کچھ فرق محسوس کرتے ہیں.پس عبادت کا ایک عام نتیجہ نکلتا رہنا چاہئے کہ عبادت کرنے والا زیادہ سے زیادہ خدائی رنگ اختیار کرتا چلا جائے اور یہ شعور اس میں پیدا ہوتا چلا جائے کہ چونکہ میں عبادت کرنے والا ہوں اس لئے عام انسانوں سے بڑھ کر مجھ پر ذمہ داریاں ہیں.عام انسانوں سے بڑھ کر مجھے باوقار ہونا چاہئے اور میری عادات اور خصلتوں میں کچھ خدا کے رنگ چڑھنے چاہئیں اگر وہ رنگ نہیں چڑھتے.اگر وہ بنی نوع انسان سے جیسے پہلے بدسلوکی کیا کرتا تھا ویسے ہی بدسلوکی کرتا چلا جاتا ہے.اگر وہ ویسے ہی لوگوں کے اموال کھاتا ہے، اگر ویسے ہی وہ غریبوں پر ظلم کرتا ہے، اگر ویسے ہی بد دیانتی سے پیش آتا ہے، ویسے ہی ترش روئی سے پیش آتا ہے، اپنے اہل وعیال کے حقوق ادا نہیں کرتا ، ان سے نرمی کا سلوک نہیں کرتا یا بیوی ہے تو اپنے خاوند کے حقوق ادا نہیں کرتی، بچوں کے ساتھ حسن خلق کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ،رشتے داروں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے، بدمعا لگی کی جاتی ہے.یعنی یہ سارے معاملات اور اس قسم کے بہت سے ہیں جن میں روزانہ کچی عبادت کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ فرق ہونا چاہئے.یہ ناممکن ہے کہ عبادت سچی ہو اور ان تمام امور میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں کوئی نہ کوئی پاک تبدیلی نہ پیدا ہونی شروع ہو جائے.پس جب نہیں ہوتی تو آپ کے دل میں سوال اٹھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا تھا کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا عُر کے بعد میسر نصیب ہوا کرتا ہے.میرے حصے میں تو صرف عسر ہی آرہا ہے.میں تو پانچ وقت وضو کرتا ہوں ، محنت کرتا ہوں ،مسجد کے چکر لگاتا ہوں یا گھر میں ٹکریں مارتا ہوں اور کچھ تکلیف اٹھاتا ہوں مگر وہ یسر کہاں چلا گیا جس کو خدا رغبت فرماتا ہے مجھے تو وہ نصیب نہیں ہوئی اور میرے اندر وہ تبدیلیاں پیدا نہیں ہوئیں جن کے نتیجہ میں خلق خدا سمجھے کہ یہ خدا والا انسان ہے.اس سے روز مرہ ہر شخص اپنی اپنی

Page 256

خطبات طاہر جلد ۹ 251 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء توفیق اور حیثیت کے مطابق اپنی عبادت کی قدر پہچان سکتا ہے لیکن کتنے ہیں جو ایسا کرتے ہیں.جماعت احمدیہ میں چونکہ آج کل میں عبادت کے مضمون پر زور دے رہا ہوں اور بار بار سمجھا رہا ہوں کہ جب تک ہم عبادت پر قائم نسلیں پیچھے نہیں چھوڑیں گے ہم اپنے حق کو ادا کرنے والے نہیں ہوں گے اس لئے اس مضمون کی طرف میں خصوصیت سے توجہ دلا رہا ہوں.پہلا کام تو وہ تھا جس کے متعلق مجالس خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ ، لجنات نے محنت شروع کر دی ہے اور میں بہت خوش ہوں کہ ساری دنیا سے کثرت سے ایسی رپورٹیں آرہی ہیں کہ مختلف ممالک کے صدران لجنہ خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اپنے اپنے دائرے میں منصوبے بنارہے ہیں لٹریچر تیار کر رہے ہیں، آڈیو ویڈیو سے مدد لے رہے ہیں ، گھر گھر بچوں تک پہنچ کر ان کے جائزے لئے جار ہے ہیں اور جہاں ان باتوں سے بڑے محروم ہیں ان کے جائزے لئے جارہے ہیں.ساری جماعت میں بیداری کا آغاز ہو چکا ہے.یہ کہنا درست نہیں کہ ساری جماعت بیدار ہو چکی ہے کیونکہ بیداری ہوتے ہوتے بھی وقت لگا کرتے ہیں.جب پہلے شفق کی پو پھوٹتی ہے تو کون سی سب دنیا ایک دم اٹھ جایا کرتی ہے.کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پھر نو، دس بجے ہی اٹھتے ہیں اور بعض بے چارے تو گیارہ بارہ بجے تک پڑے رہتے ہیں سورج سر پر چڑھ آتا ہے اور وہ اپنی غفلتوں میں پڑے رہتے ، ہیں.تو ایسے بھی ہوں گے لیکن جب عموماً بیداری شروع ہو جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہوگئی ہے تو میں اس صبح کے آثار دیکھ رہا ہوں جو ہر طرف خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیلتی چلی جارہی ہے اور جماعت احمدیہ میں تنظیمی لحاظ سے یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ ہمارے مقاصد میں اول مقصد عبادت گزار بندے پیدا کرنا ہے اور اس پہلو سے جو لوازمات ہیں ان کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.نماز کے آداب سکھانے چاہئیں، نماز کی عبارت یاد کروانی چاہئے.اس کے معانی سمجھانے چاہئیں چنانچہ اللہ کے فضل سے اس طرف سے کوششیں شروع ہیں.لیکن ایک حصہ وہ بھی ہے جو عبادت پر قائم ہے اور باقیوں کے مقابل پر بالعموم جماعت احمدیہ کو ایک عددی اکثریت حاصل ہے یا تناسبی اکثریت حاصل ہے.نسبت کے لحاظ سے جماعت احمدیہ میں خدا کے فضل سے زیادہ نماز پڑھنے والے ہیں لیکن وہ جو نماز پڑھنے والے ہیں ان کو کیسی نماز پڑھنی چاہئے یہ بھی تو ہمیں سمجھانا چاہئے.اس کے بعد کے جو وسیع مراتب ہیں اور بڑے بڑے مقامات ہیں وہ تو بعد میں آئیں گے لیکن اس سمت میں درست

Page 257

خطبات طاہر جلد ۹ 252 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء حرکت ہونا ضروری ہے.پس ان دو پہلوؤں سے اپنی نمازوں کو جانچیں اور یہ دونوں پہلو خدا تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں اور کھول کر بیان فرمائے ہیں..آپ کی نماز ایک محنت ہے.اس محنت کے نتیجے میں آپ کو یسر نصیب ہونا چاہئے اور ٹیسر انسانی اخلاق کا سر بھی ہے.آپ کے اندر جو تیزی اور ترشی پائی جاتی ہے وہ سر ہے.اس کے مقابل پر جب اخلاق درست ہو جائیں اور مزاج کا میزان درست ہو جائے.مزاج اعتدال پر آجائے تو آپ خود محسوس کریں گے کہ آپ پہلے کی نسبت زیادہ ہلکے پھلکے وجود بن گئے ہیں تو عام پہچان عبادت کی مقبولیت کی یہ ہے کہ آپ کے اندر ایسی پاک اخلاقی تبدیلیاں پیدا ہوں کہ آپ زیادہ اعلیٰ درجے کے انسان بننا شروع ہو جائیں اور اس پاک تبدیلی کو اپنی ذات میں محسوس کرنے لگیں اگر ایسا نہیں کریں گے تو آپ کی عبادت صرف محنت ہے اور اس کا پھل آپ کو نصیب نہیں ہورہا.دوسرا یہ کہ عبادت میں اگر پہلے لذت نہیں تو لذت کی کچھ جھلکیاں آنی شروع ہو جائیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے عبادت کے ایک حصے کا حق ادا کیا.یا د رکھیں کہ اگر آپ امین ہیں تو خدا سب سے بڑھ کر امین ہے.یہ ناممکن ہے کہ آپ خدا کی خاطر عسر اختیار کریں اور امانت کا حق ادا کر رہے ہوں.جتنی محنت کر رہے ہیں خدا کی خاطر اس کی جانب کر رہے ہوں اخلاص کے ساتھ اس کی طرف رخ کرتے ہوئے کر رہے ہوں اور آپ کو ٹیسر نصیب نہ ہو آپ کو آسانی بھی نہ ملے، یہ ناممکن ہے.وہی خدا جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا خدا تھا وہی آپ کا خدا ہے جس نے ان کی عبادت کے متعلق فرمایا.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ تو جب خدا کی راہ میں کھڑا ہوگا تو ہمیشہ رغبت پائے گا.ایک لمحہ بھی تجھے ایسا نصیب نہیں ہوگا کہ جو رغبت سے عاری ہو.پس اسی خدا نے آپ سے بھی سلوک فرمانا ہے اس لئے اپنی رغبتوں کو کسوٹی بنالیں یہ جانچنے کی کہ کس حد تک آپ خدا کی عبادت کے حق ادا کر رہے ہیں.اس پہلو سے پھر آئندہ نسلوں کو بھی سمجھانا شروع کریں اپنے گردو پیش کو سمجھانا شروع کریں اور اگر کچھ پیش نہ جائے ، کچھ سمجھ نہ آئے تو اس کا جیسا کہ میں نے علاج بتایا تھا وہ بھی لفظ رغبت میں رکھا گیا ہے.دل کو ٹولیں آپ کے اندر محبت کی کمی ہے.محبت کے بغیر رغبت نصیب نہیں ہو سکتی.جو شخص اپنے دنیاوی محبوب سے ملنے کیلئے محنت کرتا ہے اس کے لئے یہ وقت کہ آج سردی کی کڑی رات ہے یا گرمی کی کڑی رات ہے، یہ محبوب

Page 258

خطبات طاہر جلد ۹ 253 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۹۰ء سے ملنے کی لذت میں کمی نہیں پیدا کرسکتی.یہ دقتیں اپنی جگہ ہوں گی لیکن جس کو سچا پیار ہو گا اس کو اپنے محبوب سے چاہے وہ گرمی کی تپش میں ملاقات ہو یا سردی کی انتہاء میں ملاقات ہو، لا ز ما لذت ملے گی اور اس کے لئے پھر لوگ بڑی بڑی محنتیں بھی کرتے ہیں.راتیں جاگ کر گزارتے ہیں، کئی جو صبح دیر سے اٹھنے والے ہیں ایسے بھی ہیں جو عبادت کی بجائے دنیاوی محبوبوں کے لئے جاگ کے راتیں گزار رہے ہوتے ہیں ، صبح پھر وقت پر اٹھا نہیں جاتا لیکن لذت تو ملتی ہے.کم سے کم وہ امین ہیں، دنیاوی محبتوں کے ضرورامین ہیں تو آپ خدا کی محبتوں کے امین بنے بغیر کیسے لذت حاصل کر لیں گے.پس وہ امانت کا حق یہی ہے کہ آپ اس سے پیار کا جذ بہ اپنے اندر پیدا کریں اور اگر نہیں ہے تو فکر کریں اور وہ رستے تلاش کریں جن سے خدا تعالیٰ کا پیار پیدا ہوتا ہے.جیسا کہ میں پہلے اس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں ، صرف بیداری اور شعور کی ضرورت ہے.چاروں طرف سے خدا کی رحمتوں نے آپ کو گھیرا ہوا ہے، کوئی لمحہ ایسا نہیں جب آپ خدا کی رحمتوں کے نزول سے عاری ہوں، صرف احساس اور شعور ہے.یہ پیدا ہونا شروع ہو جائے تو پیار کا احساس بھی بڑھتا چلا جائے گا اور جب محبت پیدا ہو جائے تو پھر خشک نصیحتوں کی ضرورت باقی نہیں رہا کرتی.پھر ایک طبعی نتیجے کے طور پر آپ کی عبادتوں میں سرور پیدا ہو جائے گا.آپ کے ذکر الہی میں ایک گرمی پیدا ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو عبادت کے مناسب حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پر جانا ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: آج جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز بھی ادا کریں گے کیونکہ میں نے بعد میں ایک جگہ سفر

Page 259

Page 260

خطبات طاہر جلد ۹ 255 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء تفقه في الدین کریں اور ایسی امت بنیں جوامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرے ( خطبه جمعه فرموده ا ارمئی ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:۱۰۵) وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا (التوبه : ۱۲۲) إلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ پھر حضور نے فرمایا: یہ دو آیتیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے، قرآن کریم کی دو الگ الگ سورتوں سے لی گئی ہیں.پہلی آیت سورۃ آل عمران کی ایک سو پانچویں آیت ہے دوسری سورۃ التوبہ کی ایک سو بائیسویں آیت ہے ان کا ترجمہ یہ ہے.پہلی آیت کا ترجمہ ہے کہ چاہئے کہ تم میں سے ایک ایسی قوم کھڑی ہو جائے جولوگوں کو بھلائی کی طرف بلانے والی ہو اور نیکی کا حکم کرنے والی ہو اور بدیوں سے روکنے والی ہو.وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں.دوسری آیت کا ترجمہ ہے ، اور یہ ممکن نہیں کہ مومن تمام کے تمام بحیثیت قوم کلہم خدا تعالیٰ

Page 261

خطبات طاہر جلد ۹ 256 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء کے دین کی خدمت کے لئے ایک دفعہ نکل کھڑے ہوں اس لئے ضروری ہے یا یہ ترجمہ یوں بنے گا.فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ پھر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ان میں سے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کرتے رہیں اور پھر وہ مرکز میں پہنچ کر ، جو مرکز ان کی تربیت کا مقرر کیا گیا ہو تفقہ فی الدین حاصل کریں دین کو سمجھیں اور ایسی قابلیت پیدا کریں تا کہ وہ دوسروں کو بھی سمجھا سکیں.تفقه في الدين صرف سرسری علم حاصل کرنے کو نہیں کہا جا تا بلکہ گہرائی سے علم حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے.چنانچہ اس کے معا بعد جو نتیجہ نکالا وہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ یہاں تعلیم و تربیت کے لئے گروہ تیار کرنا مراد ہے.وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ تا که جب وہ واپس لوٹیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں اور لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ تا کہ وہ بدیوں سے بچنے والے اور ہلاکت سے بچنے والے بن سکیں.یہ دو آیتیں میں نے آج کے خطبے کے لئے اس لئے اخذ کی ہیں کہ جہاں کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو خوشخبریاں مل رہی ہیں اور فوج در فوج بعض علاقوں میں لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں، وہاں اس کے ساتھ ہی ایک انذار کا پہلو بھی ہے اور وہ انذار کا پہلو یہ ہے کہ اگر ہم ان کی تربیت سے غافل رہے.یہ احمدیت میں داخل ہوئے اور ویسے کے ویسے ہی رہے جیسے پہلے تھے یا ان کے ایمان کے استحکام کا انتظام نہ کیا اور ان کو ثابت قدم رکھنے کے لئے دعائیں نہ کیں ان کی تربیت اس رنگ میں نہ کی کہ ان کی بدیاں ملنی شروع ہو جائیں اور ان کے بدلے نیکی کے رنگ چڑھنے شروع ہو جائیں تو یہ سارے جو نو مبائع ہیں یا جو احمدیت میں اور اسلام میں نئے داخل ہوئے ہیں یہ خطرے کی حالت میں ہیں.کئی قسم کے خطرے ان کو درپیش ہیں اول یہ کہ ایمان کے بعد اگر کچھ عرصہ انسان علم اور تربیت سے محروم رہے تو اسی حالت میں وہ پختہ ہو جایا کرتا ہے پھر اس کو سمجھانے اور اس کی تربیت کرنے کے مواقع کم رہتے ہیں اور اگر آپ سمجھانے کی کوشش بھی کریں تو وہ شخص جو تازہ ایمان لایا ہو اس کے سمجھنے اور اس کے تعاون کرنے کے نفسیاتی طور پر زیادہ امکانات ہیں اور جو اس حالت میں دیر تک آکر سر د ہو چکا ہو اس کے تعاون کرنے کے امکانات بعید ہیں.اس لئے کہ نئے آنے والے کی حالت ایک بچے کی سی ہوتی ہے.ایک ایسے بچے کی سی حالت ہے جس کے کان میں اذان دینے کا حکم ہے اور جس کے دوسرے کان میں تکبیر کہنے کا حکم ہے.پس بڑے لوگوں میں سے بھی بعض

Page 262

خطبات طاہر جلد ۹ 257 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء بچے اسلام کو ملتے ہیں آنحضرت ﷺ نے پہلے دن کے بچے سے متعلق ہماری تربیتی ذمہ داریوں کو ایسے خوبصورت رنگ میں بیان فرما کر ان بڑے بچوں کی طرف بھی ہمیں متوجہ فرما دیا جو بعد ازاں اسلام میں داخل ہونے والے ہیں.اگر چھوٹے سے بچے کو جس کو ایک لفظ بھی بات کا سمجھ نہیں آتا ، سمجھانا اسی دن سے شروع کرنا ضروری ہے جس دن وہ خدا تعالیٰ آپ کی گود میں ڈالتا ہے تو وہ بڑے بچے جو زبانیں بھی سمجھتے ہیں، جو بالغ نظر ہیں یا بالغ نظر نہیں تو کم سے کم بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ان تک بات پہنچانا اور سمجھا کر پہنچانا بدرجہ اولیٰ فرض ہے.پس یہ بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے جو جماعت کے اوپر ڈالی گئی ہے اور کثرت کے ساتھ لوگوں کا فوج در فوج داخل ہونا ہمیں انتباہ بھی کر رہا ہے کہ اگر تم نے بروقت ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا تو تمہارے لئے اور آئندہ بنی نوع انسان کے لئے خطرات درپیش ہو سکتے ہیں.عدم تربیت یافتہ اور رنگ میں بھی دنیا کے لئے خطرات کا موجب بن جاتے ہیں کیونکہ وہ عقائد کے لحاظ سے بعض دفعہ نئی نئی باتیں گھڑ لیا کرتے ہیں.چنانچہ اسلام کی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں تو بہت سے بدعقائد جو آج مسلمانوں میں رائج دکھائی دیتے ہیں وہ باہر سے آنے والی قوموں کی پیداوار تھے.بہت سے فرقوں کی بنیا داسی طرح ڈالی گئی.چنانچہ بادشاہ کا بیٹا بادشاہ ہونے کا تصور چونکہ ایران میں قدیم سے چلا آرہا تھا اس لئے دراصل شیعیت کی بنیاد مکے اور مدینے میں نہیں پڑی بلکہ ان دور کے علاقوں میں پڑی ہے جہاں ایسی قومیں بڑی تیزی سے اسلام میں داخل ہوئیں.جنہوں نے ہمیشہ سے اپنے آباؤ اجداد کو اسی طرح دیکھا کہ جس مرتبے پر کوئی فائز تھا اس کے بیٹے نے اس مرتبے کو گویا ورثے میں پایا.پس ان کے لئے اسلام کا انتخاب کا طریق سمجھنا مشکل کام تھا.لیکن یہ خیال کر لینا کہ آنحضرت ﷺ کے جو خون کے لحاظ سے قریب ترین ہے اگر بیٹا نہیں تو اس کے متبادل جو بھی ہے، اس کو روحانی وارث ہونا چاہئے.یہ بہت آسان کام تھا پھر حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی آسمان پر زندگی کا عقیدہ دیکھیں.یہ بھی عیسائیوں کے فوج در فوج داخل ہونے کے نتیجے میں ان کے ساتھ چلا آیا اور چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نام لے کر آپ کی بعثت ثانیہ کا ذکر موجود تھا اگر چہ آسمان پر چڑھائے جانے کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن ان آنے والوں نے ان احادیث سے ان پیشگوئیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ دوسرا پہلو بھی مسلمانوں میں داخل کر دیا تو کئی قسم کے فتنے ہیں جو نئے آنے والوں کے ساتھ آکر پہلوں میں داخل ہو جاتے

Page 263

خطبات طاہر جلد ۹ 258 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء ہیں.کئی قسم کی خامیاں ہیں جو پہلے نئے آنے والوں کو دے دیتے ہیں اگر ان کی اپنی تربیت نہ ہو.اس لئے قرآن کریم نے یہ بہت ہی عظیم الشان، حکیمانہ نصیحت فرمائی اور یہ تاکیدی نصیحت فرمائی کہ اول تو بہترین بات تو یہ ہوتی کہ سارے مومن ہمہ تن اس کام پر لگ جاتے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ تم لوگوں کو اور کام ہیں اور مصروفیات ہیں اس لئے باری باری تم میں سے گروہ در گروہ ایسے لوگ ہوں جو اپنے آپ کو وقف کریں.وہ دین کی تربیت اس رنگ میں حاصل کریں کہ ان کو تفقہ حاصل ہو جائے اور تفقہ کے نتیجے میں وہ دوسروں کی تربیت کرنے کے اہل بن جائیں.اس طریق پر وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں گے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف وہی چندلوگ ہوں جو ایک دفعہ آئے ہیں.اس آیت سے میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہاں ایک سلسلہ جاری کرنے کا حکم ہے اور یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ایک وقت میں کچھ آجا ئیں.پھر دوسرے وقت میں دوسرے آجا ئیں.پھر تیسرے وقت میں تیسرے آجائیں اور اس طرح گویا رفتہ رفتہ پوری قوم اس تربیتی دور سے خود بھی گزر جائے اور دوسروں کی تربیت کرنے کی بھی اہل ہوتی چلی جائے.اس سے ملتا جلتا ایک نظام جماعت احمد یہ میں حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے جاری فرمایا تھا جس کا نام وقف عارضی ہے.بہت سے پہلوؤں سے وہ نظام اس نظام سے ملتا ہے.کئی پہلوؤں سے ذرا مختلف بھی ہے لیکن اس نظام کی بھی اپنی جگہ شدید ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کچھ عرصہ سے جماعت اس پروگرام سے آنکھیں بند کئے رہی ہے.اب جب ہم نے مرکزی انتظام میں کچھ تبدیلی پیدا کی ہے اور اس شعبے کے سربراہ زیادہ توجہ دے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان سے یہ خوش کن خبریں مل رہی ہیں کہ اب پہلے سے بڑھ کر لوگ وقف عارضی کے لئے اپنے آپ کو پیش.کر رہے ہیں.یہ جو خطرات میں نے بیان کئے ہیں.پاکستان میں بھی خطرات تو ہیں لیکن ذرا مختلف رنگ میں یہاں تو یعنی افریقہ میں یا دوسرے ممالک میں جہاں جماعتیں کثرت سے پھیل رہی ہیں ، وہاں تو نئے آنے والوں پر حملہ ہورہا ہے.پاکستان میں پرانوں پر حملہ ہو رہا ہے خصوصاً ان نسلوں پر جو پیدائشی احمدی ہیں جنہوں نے احمدیت کمائی نہیں ہے بلکہ ورثے میں پائی ہے.ایک لمبے عرصے تک عدم توجہ کے نتیجے میں بعض پاکستانی دیہات میں ایسی احمدی نسلیں پیدا ہوئیں جن کو اپنے عقائد کا خود پوری

Page 264

خطبات طاہر جلد ۹ 259 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء طرح علم نہیں.جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے استفادہ نہیں کیا.جن کو جماعت کے طور اطوار اور رہن سہن کے اور عادات اور خصائل سے بھی پوری واقفیت نہیں ہے بلکہ بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں ، بہت سے تو نہیں مگر چند ایسے علاقے اور دیہات ہیں جہاں ان کا اٹھنا بیٹھنا طرز زندگی ، رسم و رواج سب ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوکر غیر احمدی ماحول کے رنگ میں رنگے گئے ہیں اور ان کو دیکھ کر ان کے گھروں کے رہن سہن کو دیکھ کر ، ان کے گفتگو کے سلیقے کو دیکھ کر نمایاں طور پر کوئی امتیاز دکھائی نہیں دیتا.ان کی شادیاں ان کے غیر احمدی رشتے داروں میں ہو گئیں.ان کے گھر کی مستورات نے دوسری مستورات سے اس قسم کی بیہودہ پرانی رسمیں ورثے میں لے لیں اور چونکہ وہ اٹھنا بیٹھنا ان کے ساتھ رہا، اس لئے عملاً روز مرہ کی زندگی میں ان میں اور مخلص تربیت یافتہ احمدی گھروں میں ایک نمایاں بعد پیدا ہو گیا اور غیر احمدی گھروں کے ساتھ مل جل کر وہ اسی معاشرے کا ایک حصہ بن گئے.ان کی طرف بھی توجہ کی شدید ضرورت ہے.چنانچہ جہاں بھی اکا دکا ارتداد کے واقعات ہوئے ہیں وہاں ایسے ہی لوگوں میں سے ہوئے ہیں.یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ اتنے غیر معمولی دباؤ کے باوجود اور بعض علاقوں میں ایسی شدید کمزوریاں ہونے کے باوجود اتنا تھوڑا ارتداد ہوا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی تقدیر نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے احمدیوں کو تھام رکھا ہے ورنہ اتنے غیر معمولی دباؤ کے نتیجے میں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ پاؤں تلے سے تختے نکل جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی سہارا دیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہیں.قرآن کریم نے کھول کر جو ذمہ داریاں ہم پر ڈالی ہیں ہمارا فرض ہے کہ ان کو پہلے سے بڑھ کر آج کے حالات میں سرانجام دیں اور ان نصائح سے فائدہ اٹھائیں جو ہماری دنیا بھی سنوار نے والی ہیں اور آخرت بھی سنوارنے والی ہیں.پاکستان کے لئے تو اسی رنگ میں کثرت کے ساتھ واقفین عارضی کا جماعتوں میں بھجوایا جانا ضروری ہے جیسے پہلے چلتا چلا آرہا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا کچھ فرق ہے.قرآن کریم کی نصیحت یہ ہے کہ پہلے ان کو بلاؤ ان کی کچھ تربیت کرو پھر ان کو بھیجو.جو ہمارے ہاں وقف عارضی کا نظام جاری ہے اس میں جو شخص جس حالت میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اسی حالت میں اس کو بھجوادیا جاتا ہے.اس سلسلے میں میں نے غور کیا ہے تو میرے خیال میں کچھ عملاً دقتیں بھی ہیں.غالبا یہ ممکن

Page 265

خطبات طاہر جلد ۹ 260 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء نہیں ہے کہ پاکستان کے ہر حصے سے لوگ وقف کرتے ہوئے ربوہ پہنچ جائیں پہلے وہاں جا کر تربیت حاصل کریں پھر واپس لوٹیں لیکن ضلعی طور پر بعض جگہ یہ انتظام ممکن ہے.اسی طرح کچھ لوگ اگر اپنے آپ کو لمبے عرصے کے لئے وقف نہ کر سکتے ہوں اور تربیت کے لئے ان کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ خود آکر تفقہ کریں تو اس کا ایک متبادل طریق ہے کہ وقف عارضی کا شعبہ پرانے واقفین عارضی کی فائلوں کا مطالعہ کر کے اس سے ایسے اقتباسات الگ کر لیں جو نئے واقفین کی تربیت کے لئے مفید ہوسکیں.ان فائلوں میں کثرت سے ایسا مواد موجود ہے جس کو پڑھنا ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمارے نئے واقفین کو ایک نئی روشنی عطا کرے گا.وہاں بہت سے ایسے روحانی تجارب ہیں جن کا ذکر ملتا ہے کہ اگر چہ ایک آدمی ادنی روحانی حالت لے کر وقف میں گیا لیکن وہاں خدا کے فضل کے ساتھ ایسے نشانات دیکھے اور ایسے روحانی تجارب نصیب ہوئے کہ ایک نئی روحانی زندگی لے کے لوٹا ہے اور ان واقعات کا مطالعہ بہت ہی ایمان افروز ہے.پھر جماعتوں کی کمزوریوں کے ذکر ملتے ہیں کہ کیا کیا کمزوریاں ہیں.ایک واقف عارضی کو کیا کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں.غرضیکہ بہت سے لمبے تجربے کے نتیجے میں عملاً ہمارے لئے تربیت کا مواد اکٹھا ہو چکا ہے.اس کو ایک بڑی کتاب کی صورت میں نہ سہی بلکہ نہیں کرنا چاہئے.مختلف رسالوں کی صورت میں شائع کریں.کوئی نظام سے تعلق رکھنے والا رسالہ ہو کہ آپ نے کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ، کچھ جماعتی حالات کے متعلق کہ اس قسم کے حالات آپ کو درپیش ہوں تو آپ کو کیا کرنا چاہئے پھر ایمان افروز واقعات سے متعلق رسائل ہوں ان کو طبع کرا کر جب کوئی شخص اپنے آپ کو عارضی طور پر وقف کے لئے پیش کرتا ہے تو اس کو تحفتہ ایک پیکٹ بھجوائیں اور اس کو کہیں کہ خوب اچھی طرح ان کا مطالعہ کرے اور اپنے آپ کو جانے کے لئے تیار کرے.اس کے علاوہ بہت ہی ضروری ہے کہ جب پتہ چل جائے کہ فلاں شخص واقف عارضی ہے تو اسی جگہ سے جہاں تک ممکن ہو سکے اس کے لئے ابتدائی قرآن کریم کا ناظرہ سکھانا اور کچھ حصہ ترجمے کے ساتھ یاد کروانا اور کچھ حصہ عربی گرائمر کے ساتھ ترجمہ یاد کروانا ، یہ کام بہت ہی ضروری ہے اسے فوراً شروع کر وا دینا چاہئے.یہ بڑے لمبے تربیت کے مراحل ہیں یہ کوئی جنتر منتر نہیں ہے کہ جو آپ پھونکیں تو چند دنوں میں ہی آپ کو نتیجے حاصل ہو جائیں.پہلے تو لوگوں کو آمادہ کرنا کہ وہ دین کی طرف متوجہ

Page 266

خطبات طاہر جلد ۹ 261 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء ہوں ایک بڑا مرحلہ یہ ہے پھر جو آمادہ ہو جائیں ان کیلئے اساتذہ کا مہیا کرنا یہ بہت بڑا مرحلہ ہے.پھر کس طرح پڑھایا جائے.کیا پڑھایا جائے؟ جب آپ اس مضمون میں داخل ہوتے ہیں تو مرحلہ در مرحلہ اور مراحل ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں.ایک کو حل کریں پھر دوسرا، دوسرے کو حل کریں تو تیسرا.اب میں جب چند دن ہوئے ہارٹلے پول گیا وہاں نو مسلم احمدی جماعت خدا کے فضل سے بڑی مخلص ہے اور ہر جانے والا دیکھ کر یہ تاثر لیتا ہے کہ اللہ کے فضل سے بہت ہی مستحکم، بہت ہی عمدہ بہت ہی اخلاص سے بڑھی ہوئی جماعت ہے.اس میں شک نہیں لیکن جب تربیت کے لحاظ سے ٹولیں تو علمی کمزوریوں کے لحاظ سے اتنے کثرت سے خلاء دکھائی دیتے ہیں کہ انسان اس سے خوف محسوس کرتا ہے کہ ان خلاؤں کو پر کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی نظام نہیں ہے.یہاں لندن مسجد میں ہی ایک دوست تشریف لائے تھے یہاں ان کی بڑی عمر میں آمین ہوئی انہوں نے قرآن کریم ناظرہ بڑا اچھا پڑھنا سیکھا تو انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ اب تو اللہ کے فضل سے قرآن کریم پڑھنے والے مل گئے لیکن ان کو تر جمہ نہیں آتا.اب جب میں گیا ہوں.ان سے میں نے پوچھا تو پتہ لگا بغیر ترجمے کے سب پڑھا تھا تو سوال یہ ہے کہ ترجمہ سکھانا پھر آگے ایک بہت بڑا کام ہے.ان سے میں نے گفتگو کی.وہ اس بات پر آمادہ تھے کہ شروع میں آہستہ لیکن عربی زبان کے بنیادی قواعد سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد ترجمہ سیکھیں بجائے اس کے کہ صرف عربی پڑھ لی اور پھر انگریزی میں ترجمہ یادکرلیا کیونکہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب نہیں ہے جس کو خالصتہ ترجمے کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے.قرآن کریم سے براہ راست استفادے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ترجمے کی بنیادوں سے انسان واقف ہو.یہ پتہ ہو کہ یہ ترجمہ کیوں کیا جا رہا ہے.عربی زبان میں فاعل کیا ہوتا ہے ، مفعول کیا ہوتا ہے.مفعول عربی میں کیا ہوتا ہے.اسم اور خبر کس کو کہتے ہیں.غرضیکہ بہت سی اصطلاحیں ہیں.ان سے میں اس وقت آپ کے دماغوں کو بھرنا نہیں چاہتا.میں صرف یہ مثال دینا چاہتا ہوں کہ ترجمہ پڑھ لینا یعنی عربی پڑھنے کے بعد ساتھ لکھا ہوا ترجمہ پڑھ لینا ایک اور بات ہے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچتا ہے لیکن براه راست قرآن کریم سے استفادہ کے لئے اس کے مضامین میں غوطہ خوری کے لئے نہایت ضروری ہے کہ بنیادی عربی گرائمر سے کچھ واقفیت ہو اور پتہ ہو کہ یہ ترجمہ کیوں کیا جا رہا ہے.جب وہ شروع کریں گے تو پھر آگے اور مسائل پیدا ہوں گے پھر علم کی نئی کھڑکیاں کھلیں گی.پھر نئے میدان سامنے

Page 267

خطبات طاہر جلد ۹ 262 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء آئیں گے ، نئی چوٹیاں ظاہر ہوں گی ایک لامتناہی سفر ہے اس سفر کا ایک چھوٹا سا نمونہ میں نے انگلستان میں آپ کے سامنے رکھا ہے یعنی جتنے نو بائعین ہیں ان میں سے آج تک میرے علم میں صرف یہ ایک انگریز ہیں جنہوں نے پورا قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیا ہے.اور باقی سارے اس کے بغیر پڑھے ہوئے ہیں سوائے ان واقفین کے جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا اور باقاعدہ جامعہ میں تربیت حاصل کی اللہ کے فضل سے عالم دین بنے میں ان کی بات نہیں کر رہا.عوام الناس میں جتنے بھی نئے احمدی ہوئے ہیں ان کا یہی حال ہے پھر آپ پاکستانیوں میں سے احمدی ہونے والوں کا جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ وہ اخلاص میں ترقی کریں بھی.اس کے باوجود ان کے اندر علمی خلاء دکھائی دیں گے اور جماعت کے عقائد کے لحاظ سے ان کی گہرائی میں اترنے کے لئے ان کو ابھی کئی سفر کرنے ہیں.اس پہلو سے تفقہ فی الدین حاصل کرنا اس طریق پر جس کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے یہ بے حد ضروری ہے اور وقف عارضی کو اس کے ساتھ متعلق کرنا چاہئے جہاں جہاں بھی وقف عارضی کا نظام جاری ہے اور اللہ کے فضل سے لوگ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں اس کو قرآن کریم کی اس آیت کی نصیحت کے تابع کر کے اگر مرکز میں نہیں بلایا جا سکتا تو جس جگہ بھی ممکن ہے وہاں ان کا انتظام کرنا چاہئے اور کچھ تربیت ضروری ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عارضی طور پر تربیتی لٹریچر شائع کر کے ہی کسی حد تک ہم کمزوریوں کو دور کر سکتے ہیں.دیکھیں قرآن کریم نے بڑے خوبصورت انداز میں سارے امکانات کو کھلا رکھا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ مرکز میں پہنچیں وہ لوگ کیونکہ یہ ناممکن ہے.اسلام جو ساری دنیا میں پھیل رہا ہو کیسے ممکن ہے کہ ہر جگہ سے لوگ آکر ایک مرکز اسلام میں پہنچ کر وہاں سے دین سیکھیں.فرمایا فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَهُوا فِي الدِّينِ.نَفَر کا مطلب دو طریق پر سمجھا جا سکتا ہے.ایک تو یہ کہ ان میں سے نظر کر الگ ہو جائیں.کچھ ایسے لوگ ہوں جو جہاں بھی ہیں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم یہ امتیاز حاصل کریں گے کہ ہم نے دین میں تفقہ حاصل کرنا ہے.پس ظاہری طور پر وہ اپنے مقام کو نہ بھی چھوڑیں تو وہیں جہاں وہ موجود ہیں ان کے لئے تفقہ فی الدین کا انتظام ہونا ضروری ہے.دوسرا ہے نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ کا ظاہری نفر.یعنی وفود بن کر با قاعدہ ان میں سے ایک طبقہ سفر اختیار کرے اور وہ سفر خالصہ دین حاصل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جائے تو پیشتر اس

Page 268

خطبات طاہر جلد ۹ 263 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء کے کہ یہ دین پہنچانے کے لئے لوٹیں ، دین حاصل کرنے کے لئے سفر اختیار کریں.ظاہر بات ہے یہ مسلمان ہیں ورنہ انہوں نے کہیں دین حاصل کرنے کے لئے کیوں پہنچنا ہے اور پھر ذکر ہی.وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً مومنوں سے شروع کیا گیا ہے.پس اس پہلو سے اس نظام کو وقف عارضی کا نظام بنانا ضروری ہے.ورنہ وقف عارضی سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جاسکے گا اور جو پاکستان کے علاوہ ممالک ہیں.انگلستان ہے یا جرمنی ہے یا ناروے ہے.اس طرح افریقن ممالک ہیں ، ہندوستان میں آج کل خدا کے فضل سے کثرت سے تبلیغ ہو رہی ہے اور جوق در جوق بعض جگہ لوگ اسلام یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہورہے ہیں.ان سب جگہوں میں وقف عارضی کے نظام کو دوبارہ زندہ کرنا بے حد ضروری ہے اور جن ذیلی تنظیموں کے سپر د بھی میں نے یہ کام کیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم دیں وہ وقف عارضی کے نظام کے علاوہ اپنے دائرے میں مختصر ایسی کلاسز کا انتظام کر سکتے ہیں.ایسے تربیتی انتظامات جاری کر سکتے ہیں.جن کے نتیجے میں جن لوگوں کو انہوں نے قرآن کریم سکھانا ہے ان میں سے کچھ لوگ پہلے چن لئے جائیں اور ایک جگہ نہیں کہ ضرورلندن ہی بلایا جائے یا ضرور کسی بڑی مرکزی جماعت میں ہی بلایا جائے.جہاں جہاں ممکن ہے وہاں مختصر پیمانے پر تفقہ فی الدین سکھانےکا انتظام کرادینا چاہئے.اس کے لئے آج کل جو ماڈرن Devices ہیں، میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کیسٹس ہیں، ویڈیوز ہیں، چھوٹا چھوٹا تر بیتی لٹریچر ہے اس کو بھی شائع کریں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جو ذاتی تربیت فائدہ پہنچا سکتی ہے.وہ محض لٹریچر یا ویڈیوز وغیرہ کے ذریعہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.یہ متبادل چیزیں ہیں.تیم کا رنگ رکھتی ہیں.قرآن کریم نے جو زور دیا ہے وہ اس بات پر ہے کہ ذاتی تربیت کی جائے اور ذاتی تربیت اسی طرح ممکن ہے کہ کچھ لوگ آئیں.آپ ان کو سکھائیں.ان کو سکھانے کے لئے ان آلات سے مدد بے شک لیں مگر مربی ہونا ضروری ہے کوئی تربیت دینے والا آپ کے لئے ضروری ہے کہ ان کو مہیا کیا جائے اور پھر اس کے تابع آپ ان کو سمجھا کر خواہ تھوڑا سمجھائیں لیکن کچھ سمجھا کر واپس بھیجیں اور ان کو کہیں کہ یہ تم آگے جاری کر دو.پس قرآن کریم نے جو نظام جاری کیا ہے وہ اس وقف عارضی کے موجودہ نظام سے بھی کچھ مختلف ہے اور بعض اہم پہلوؤں سے مختلف ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور قرآن کریم کی جو کلاسز کا ہمارے ہاں رواج ہے اس سے بھی مختلف ہے.

Page 269

خطبات طاہر جلد ۹ 264 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء قرآن کریم کے جو درس جاری کئے جاتے ہیں یا سالانہ کلاسز کا انتظام کیا جاتا ہے اس میں آپ طالب علموں کو بحیثیت طالب علم کچھ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں.قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے استاد بنانا ہے.طالب علم نہیں بنانا.اب ان دو باتوں میں بڑا فرق ہے.ایک بچے کو اس غرض سے پڑھایا جائے کہ وہ خود بات سمجھ لے اور اس کی ذات تک اس کو علم حاصل ہو جائے.یہ ایک اور بات ہے لیکن اس نیت سے پڑھایا جائے کہ وہ جا کر دوسروں کو پڑھا جاسکے.یہ ایک بالکل اور بات ہے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے ہٹلر کے ایک جرنیل کی تجویز کا کہ جب جرمنی میں یہ پابندی تھی کہ ایک لاکھ سے زیادہ جرمن فوج نہیں ہو سکتی یعنی جرمن قوم ایک لاکھ سے زیادہ فوج رکھ نہیں سکتی تو اس قابل جرنیل نے یہ تجویز ہٹلر کے سامنے پیش کی کہ بجائے اس کے کہ ہم ایک لاکھ سپاہی پیدا کریں.کیوں نہ ہم ایک لاکھ سپاہی بنانے والے افسر بنادیں تعداد کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا.ایک لاکھ ہی رہے گا لیکن بجائے اس کے کہ ہم شاگرد بنا ئیں.استاد پیدا کرتے ہیں.یہ ترکیب بڑی مشہور ہوئی اور دنیا میں بعد میں بھی بڑے بڑے اس پر تبصرے کئے گئے.چرچل نے اپنی مشہور کتاب میں بھی اس کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اس کے دماغ کی ایک حیرت انگیز Brain Wave تھی جس نے ساری جرمن قوم کی کایا پلٹ دی اور ہماری آنکھوں کے نیچے حیرت انگیز طور پر اس قوم میں یہ صلاحیت پیدا ہو گئی کہ وہ آخری شکل میں لکھو کھا بلکہ قریباً ایک کروڑ تک سپاہی پیدا کر سکے ہیں.تو یہ ترکیب جو اس کے دماغ کی Wave بتائی جاتی ہے آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کو خود کھائی تھی.اور اسی آیت میں اس کا بیان ہے.فرمایا : دیکھو ایسے طالب علم نہ تیار کر وجوعلم کو اپنی ذات تک رکھیں اور خود علم حاصل کریں بلکہ ایسے اساتذہ تیار کرو جو تفقه فی الدین حاصل کرنے کے بعد بطور استاد اپنی قوموں کی طرف واپس لوٹ سکیں.اس پہلو سے افریقہ میں ہمیں بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.کئی ایسے ممالک ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے کثرت کے ساتھ احمدیت پھیلنی شروع ہو چکی ہے اور عیسائیوں میں سے بھی لوگ بڑی کثرت سے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور غیر احمدی مسلمانوں میں سے بھی ، وہاں کے امراء کے لئے ضروری ہے کہ ان میں تحریک کر کے صرف وہاں جا کر تربیت کے لئے اپنے مربیوں کو

Page 270

خطبات طاہر جلد ۹ 265 خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۹۰ء نہ بھجوائیں.جیسا کہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھجوا رہے ہیں بلکہ ان میں سے واقفین عارضی لیں اور ان کو یہ کہیں کہ جہاں ہم تمہارے لئے جگہ مقرر کرتے ہیں وہاں آکر دین کو اتنا ضرور سیکھنا ہے کہ تم دوسروں کو سکھا سکو اور پھر اس نظام کو سارا سال جاری رکھیں تا کہ یہ ٹولیاں اولتی بدلتی رہیں آج ایک ٹولی ایک جگہ سے آئی ہے اور جا کے کام میں مصروف ہوگئی.کل ایک دوسری ٹولی آگئی، پرسوں ایک اور ٹولی آگئی ، گویا کہ اس طرح ایک جاری کلاس کا انتظام ہو.اس کے لئے ان کو چاہئے کہ پورا نظام مقرر کریں اس کا بجٹ بنائیں اور مجھے مطلع کریں کہ اس قسم کا نظام ہم نے جاری کیا ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ایک جگہ ہو جیسا کہ میں نے قرآن کریم کی آیت سے آپ کو سمجھایا ہے.قرآن کریم نے کسی خاص جگہ کا ذکر نہیں فرمایا اور یہ انسانی سہولتوں اور مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان فرمایا گیا ہے.اس لئے جہاں ممکن ہے.جہاں آپ کو اساتذہ مہیا ہو سکتے ہیں اور کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ بہترین انتظام جاری کیا جاسکتا ہے وہاں آپ یہ نظام جاری کریں.خدام اور انصار اور لجنات قرآن کریم سکھانے اور نمازیں سکھانے کے اپنے پروگرام میں مضمون کو پیش نظر رکھیں اور وہ بھی ایک تربیتی اور تعلیمی نظام جاری کر دیں جو سارا سال کام کرتا رہے.اس طریق پر جب ہم کام کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جس کثرت کے ساتھ دنیا میں اسلام پھیلے گا اسی رفتار کے ساتھ ساتھ اسلام کا روحانی نظام مستحکم ہوتا چلا جائے گا اور جو شخص بھی اسلام میں داخل ہوگا وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامل طور پر ایک ایسے نظام کا حصہ بن جائے گا جو اس کو سنبھالنے والا ہوگا اور نئے آنے والوں کو سنبھالنے والا ہوگا.ان کی ذہنی اور علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہوگا.ان کی اخلاقی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہوگا اور وہ ایک ٹھوس مستقل نظام کا جزو بن کر ایک عظیم قافلے کے طور پر شاہراہ اسلام پر آگے بڑھنے والے ہوں گے.یہ نہیں ہوگا کہ کچھ لوگ داخل ہوئے.رپورٹوں میں ذکر آگیا.نعرہ ہائے تکبیر بلند ہو گئے اور پھر دو سال چار سال کے بعد نظر ڈال کے دیکھی تو پتا چلا کہ وہ سارے علاقے آہستہ آہستہ عدم تربیت کا شکار ہو کر واپس اپنے اپنے مقام پر چلے گئے ہیں.یہ وہ خطرات ہیں جن کے پیش نظر قرآن کریم نے حیرت انگیز طور پر ایسی خوبصورت نصیحت ہمارے سامنے رکھی ہے کہ مضمون کے ہر پہلو پر نظر ڈالتے ہوئے نہایت ہی عمدہ الفاظ میں کامل احتیاطوں کے ساتھ ایک ایسا مضمون ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے کہ جس کے اندر ہماری ساری تربیتی ضرورتیں پوری ہوتی

Page 271

خطبات طاہر جلد ۹ 266 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء دکھائی دیتی ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان نصیحتوں پر عمل کرے گی اور بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ استحکام کا پروگرام بھی جاری ہو جائے گا.جہاں تک پاکستان میں غیر احمدی علماء کا یا اور مخالفین کا یا حکومت کے کارندوں کا زور لگانے کا تعلق ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ کے فضل سے وہ اس میں ناکام ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ درست ہے کہ بہت سی غلط فہمیاں جماعت کے متعلق پھیلائی گئی ہیں اور جس تیزی کے ساتھ جماعت نے پھیلنا شروع کیا تھا اس تیزی کے ساتھ وہاں اب نہیں پھیل رہی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو ان کی انتہا تھی وہاں تک وہ پہنچ چکے ہیں اور اب وہاں سے واپسی شروع ہو چکی ہے.میں نے بڑی باریک نظر سے اس تمام عرصے کا جائزہ لیا ہے اور سال بہ سال مقابلہ کر کے دیکھا ہے.میں آپ کو بڑے وثوق کے ساتھ یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ وہ جو تبلیغ میں کمزوری آئی تھی ، وہ دور بھی اب اپنی انتہا تک پہنچ کر واپس ہونا شروع ہو گیا ہے جتنا زیادہ سے زیادہ زور لگا کر نقصان پہنچا سکتے تھے وہ پہنچا چکے اور کوئی ایک مہینہ بھی ایسا نہیں آیا بلکہ کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ جماعت احمدیہ پھیل نہ رہی ہو.اگر چہ کم رفتار سے پھیلی لیکن پھیلی ضرور ہے.اتنے حیرت انگیز دباؤ میں جماعت کا پھیلتے چلے جانا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی قدرت کا نشان ہے اور جس کثرت کے ساتھ وہ مرتد کرنا چاہتے تھے اس کا ہزارواں حصہ بھی ان کو نصیب نہیں ہوا اور چند ایک جو مرتد ہوئے اس کے مقابل پر سینکڑوں نئے احمدی اور بہتر لوگ اور مخلص لوگ جماعت کو عطا ہوتے رہے مگر اب وہ جو کمزوری کا حصہ تھا اور وہ دور اب طاقت کے دور میں تبدیل ہونا شروع ہو چکا ہے کیونکہ ایک دو سال سے اطلاعوں کے مطابق مولویوں کی تیزی کے باوجو دلوگ احمدیت کی طرف مائل ہونا شروع ہو چکے ہیں.اس لئے اس نظام کو اور مضبوط کرنا بہت ضروری ہے.وہ جتنا بھی زور لگا ئیں یہ ایک بات یقینی اور قطعی ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدے کئے ہیں جیسا کہ وہ ہمیشہ پورا کرتا چلا آیا ہے اب بھی ضرور پورا کرتا رہے گا اور کوئی نہیں جواس کو بدل سکے لیکن اگر ہم اپنے اندر مزید پاک تبدیلیاں پیدا کریں تو ان وعدوں کے ہم ایسے مستحق بن جائیں گے کہ وہ خدا نے پورے تو کرنے ہی ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام اور عزت اور اس بات کوملحوظ رکھتے ہوئے پورے کرنے ہوں کہ میں نے اپنے ایک پاکیزہ وفادار بندے

Page 272

خطبات طاہر جلد ۹ 267 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء سے وعدے کئے تھے ان کو میں ضرور پورا کروں گا تو یہ مضمون اپنی جگہ ایک طرف ہے.ایک دوسرا مضمون اس میں یہ داخل ہو جاتا ہے کہ جماعت اپنے آپ کو ان وعدوں کا مستحق بنادے.ایسی صورت میں خدا کے فضل اس کثرت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں کہ صرف وعدوں کو پورا کرنے کی ایک وجہ نہیں رہتی بلکہ جماعت زبان حال سے خدا تعالیٰ سے یہ فضل مانگتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم بھی تو مستحق ہیں.ہم نے بھی بڑی وفا کے ساتھ بڑے صبر آزما دور میں اپنے تعلق کو تیرے ساتھ قائم رکھا ہے.بڑی قربانیاں دی ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو تو نے وعدے کئے ہیں وہ تو تو نے پورے کرنے ہی ہیں.ہم پر اس کے علاوہ بھی احسان فرما اور اس کثرت کے ساتھ ہم پر فضل نازل فرما کہ دشمن دیکھے کہ تیری محبت بارش کے قطروں کی طرح ہم پر برس رہی ہے اور وہ موسلا دھار بارش بنتی چلی جارہی ہے.یہ وہ دعا ہے جو دعا کرتے ہوئے اہلیت کی خاطر قرآن کریم کی نصائح پر عمل کرتے ہوئے ایک مضبوط نظام کے تابع اپنی تربیت کی طرف توجہ کریں اور نئے آنے والوں کی تربیت کی طرف توجہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس پڑھ کر میں اب اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.یہ لوگ خود دسوچ لیں کہ اس سلسلہ کے بر باد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جانکا ہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے یہاں تک کہ حکام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے.یہ جو واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہورہے تھے یہ سارے واقعات آج کثرت کے ساتھ پاکستان میں ہورہے ہیں.اس کثرت سے جھوٹی گواہیاں احمدیوں کے خلاف دی جا رہی ہیں کہ بعض دفعہ غیر احمدی حج حیران ہو جاتا ہے اور وہ مولویوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے خدا کا خوف کرو تم نے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں اسلام کے نام پر گواہی دینے آئے ہو اور اتنے جھوٹ بول رہے ہو.کہتا ہے مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ تم جھوٹے کہتا ہے مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ تم جھوٹے ہو.چنانچہ بعض مقدموں میں احمدیوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے ان مجسٹر بیٹوں نے یا

Page 273

خطبات طاہر جلد ۹ 268 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء ججز نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ الف سے لے کر ی تک سارا مقدمہ جھوٹ پر مبنی ہے اور جتنے بڑے بڑے علماء گواہی دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے سب جھوٹے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ساتھ اس قسم کے سلوک کا آغاز آج سے تقریباً سو سال پہلے ہو چکا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان سب باتوں سے خود گزرے ہیں.اس لئے پاکستان کے لوگ یہ نہ خیال کریں کہ وہ کوئی قربانیوں کے نئے میدانوں میں داخل ہوئے ہیں ان میدانوں میں داخل ہوئے ہیں جن کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہو چکا تھا اور سب سے زیادہ مصیبتیں اس راہ میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جھیلی ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں: ” اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلا یا اور ہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دیئے اور مخالفانہ کاروائیوں کے لئے کمیٹیاں کیں“ یہ سارے کام جو آج پاکستان میں ہو رہے ہیں ان کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کونشانہ بناتے ہوئے کیا جاچکا تھا.مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا.پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا.کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا.پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نا بود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام ونشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور تک چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرندے اس پر آرام کر رہے ہیں.نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۳۳۸۴۰) آج جماعت احمد یہ اپنے روحانی آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ عرض کر سکتی ہے کہ اے ہمارے آقا! اب یہ درخت ہزاروں کو نہیں بلکہ لاکھوں کو پناہ دے رہا

Page 274

خطبات طاہر جلد ۹ 269 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۹۰ء ہے اور ایک دو ملکوں میں نہیں بلکہ ایک سو بیس ملکوں میں اس کی شاخیں پھیل چکی ہیں اور کثرت کے ساتھ روحانی پرندے اس درخت پر آکر اس سے استفادہ کر رہے ہیں.اس کے پھل کھا رہے ہیں اس کی چھاؤں میں پناہ لے رہے ہیں پس یہ وہ درخت ہے جس کی آبیاری ہم نے کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس درخت کو ہمیشہ بیماریوں سے پاک رکھتے ہوئے صحت اور توانائی کے ساتھ پھولنے اور پھلنے میں اگر ہمارے خون کی بھی اس کی سیرابی کے لئے ضرورت پیش آئے تو ہمیں اپنے کامل اخلاص کے ساتھ اس خون کو اس درخت کی آبیاری کے لئے پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے.

Page 275

Page 276

خطبات طاہر جلد ۹ 271 خطبه جمعه ۱۸ارمئی ۱۹۹۰ء پاکستان میں ملائیت کے پیدا کردہ بدترین حالات کا تذکرہ پاکستانی ملاؤں کو حضرت مسیح موعود کی زبان میں چیلنج خطبه جمعه فرموده ۱۸ رمئی بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دنیا کی کوئی چیز بھی اور کوئی حالت بھی نہ کلیہ فائدے سے خالی ہوتی ہے نہ کلیہ نقصان سے خالی ہوتی ہے.اب خوف و خطر اور خاص طور پر ایسے خوف و خطر کے ایام جو قوموں کے لئے زندگی اور موت کے سوال اٹھا رہے ہوں اگر چہ ایک ایسی حالت ہے جو ہر لحاظ سے معیوب اور تکلیف دہ معلوم ہوتی ہے لیکن ان حالات میں بھی بعض ایسے چھپے ہوئے فوائد موجود ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ظاہر ہونے لگتے ہیں.اسی طرح امن کی حالت بھی اور خوشحالی کی حالت بھی اگر چہ ایک بہت ہی پسندیدہ حالت ہے لیکن ایک لمبے عرصے تک اگر امن اور خوشحالی کا دور رہے تو اس دور میں بعض نقصانات بھی مضمر ہوتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت نوح کی قوم کو ایک لمبا زمانہ امن کا نصیب ہوا اور خوشحالی کا نصیب ہوا اور اس لمبے دور کے نتیجے میں ان کے اندر سے تمام خوبیاں غائب ہو گئیں اور ان کے اندر سے نیکی اور تقویٰ کا پانی اس طرح سے سوکھ گیا جس طرح لمبے عرصے تک برسات نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ پانی سوکھ جایا کرتا ہے اور بدیوں نے طغیانیاں شروع کیں اور ایسا جوش دکھایا کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر وہ عذاب نازل ہوا جس نے ان کے مقابل پر طغیانی دکھائی.پس حالتوں کے بدلنے سے خود بخو دنتائج ظاہر نہیں ہوا کرتے

Page 277

خطبات طاہر جلد ۹ 272 خطبه جمعه ۸ ارمئی ۱۹۹۰ء اگر انسان توجہ اور غور سے ان بدلتے ہوئے حالات پر غور کرے تو ان میں سے ہر حالت میں اس کے لئے کچھ سبق پوشیدہ ہوتے ہیں.ایک زمانہ تھا جبکہ پاکستان کو خطرات کا سامنا در پیش ہوا کرتا تھا جب اس قوم کی چھپی ہوئی خوبیاں ابھر کر باہر آجایا کرتی تھیں اور اس وقت دل میں ایک یقین پیدا ہوجاتا تھا کہ یہ قوم زندہ رہنے والی قوم ہے.باوجود اس کے کہ اس زمانے میں بھی کچھ بدیاں قوم میں راہ پا جاتی تھیں اور وقتا فوقتاً سر اٹھاتی رہتی تھیں لیکن مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار ہندوستان سے لڑائی کا خطرہ در پیش ہوا تو اچانک سارے پاکستان میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے نیکیوں کی ایک ہوا چل پڑی ہے، ایک لہر دوڑ رہی تھی جس کی آواز فضا میں سنائی دیتی تھی اور کسی انسان کے لئے شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی کہ یہ قوم خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سی خوبیوں کی مالک ہے جو وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ابھرتی ہیں اور ان خوبیوں کی بناء پر ایک انسان یہ فتوی دے سکتا تھا کہ یہ قوم زندہ رہنے کے لائق ہے اور اس میں زندگی کی ساری علامتیں پائی جاتی ہیں.پھر ایک دوسری جنگ آئی پھر بھی ہم نے یہی کچھ دیکھا مگر نسبتا کم ، پھر ایک تیسری جنگ آئی اور اس میں بھی ہم نے یہی کچھ دیکھا مگر ان خوبیوں کے اظہار میں کچھ اور کمی آگئی.اس کے بعد ایک لمبا عرصہ ایسے ابتلاء کا گزرا ہے جس کے نتیجے میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے باشندوں کی نیکیاں سوکھنی شروع ہوئیں اور اس کی پہچان کا آج وقت ہے یہ وقت کسی تبصرے کا محتاج نہیں بلکہ خود بول رہا ہے اور اب پھر پاکستان کی چاروں طرف سے سرحدوں کو شدید خطرہ لاحق ہے اور اتنا بڑا خطرہ ہے کہ دنیا کے مبصرین سمجھتے ہیں کہ پہلے کسی جنگ سے پاکستان کو ایسا خطرہ در پیش نہیں ہوا تھا جیسا اس جنگ سے ہوگا اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے مقابل پر ہندوستان کو بھی شدید نقصانات پہنچیں گے اور مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ جنگ اگر چھڑی تو چند دنوں کی جنگ نہیں ہوگی بلکہ لمبے عرصے تک دونوں ملکوں کی اقتصادی حالت کو کلیۂ تباہ کر کے ختم ہوگی.اس شدید خطرے کے باوجود،جیسا خطرہ آج تک اس ملک کو کبھی پیش نہیں آیا تھاوہ ابھرتی ہوئی خوبیاں دکھائی نہیں دے رہیں بلکہ ساری قوم خود اپنے ہی گناہوں کی طغیانی میں ڈوبی ہوئی دکھائی دیتی ہے.وہ ظلم اور وہ سفا کی جو مسلمانوں کے ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں پر روار کھے جارہے ہیں ان میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں آئی بلکہ پہلے سے بڑھتے

Page 278

خطبات طاہر جلد ۹ 273 خطبه جمعه ۸ ارمئی ۱۹۹۰ء چلے جارہے ہیں.ایک وہ دور تھا جب کہ حیدر آباد میں یا کراچی میں جب مسلمان دوسرے مسلمانوں کے گلے کاٹتے تھے اور فخر محسوس کرتے تھے کہ ہم نے اپنے دوسرے بھائیوں کے اتنے آدمی مار دئے یا اتنے آدمی اغواء کر لئے یا اتنا ظلم کیا تو جب بھی پولیس کی طرف سے یا فوج کی طرف سے مؤثر کارروائی ہوتی تھی تو کچھ عرصہ کے لئے یہ جوش و خروش دب جایا کرتا تھا.اب خبریں یہ آرہی ہیں کہ فوجی مداخلت کے باوجود اور کرفیو کے باوجود مسلسل اسی طرح قتل و غارت جاری ہے اور حیدر آباد سندھ میں فوج کو جہاں اور کوئی پناہ کی جگہ نہ ملی اس نے مسجدوں کے میناروں پر قبضہ کیا اور وہاں سے شرپسندوں پر گولیاں برسائیں اور یہ حالات آج کل کے حالات ہیں جبکہ اس ملک کی بقاء کا مسئلہ در پیش ہے ایک انتہائی طاقتور دشمن کا سامنا ہے جس کے دوسرے بازو پر افغانستان کی حکومت ہے جو ایک لمبے عرصے سے پاکستان سے کئی شکائتوں اور شکووں کی بناء پر موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی وقت ان کو موقع ملے تو وہ اپنے پرانے بدلے اتارے اور قوم کو کوئی حس نہیں صرف یہ نہیں کہ جس نہیں ہے بلکہ بے حسی کے نتیجے میں جو گناہ پیدا ہوتے ہیں ان گناہوں میں تیزی پیدا ہو رہی ہے اور شرم و حیا اس طرح قوم کی آنکھوں سے اور اس کے چہرے سے غائب ہورہے ہیں جیسے کبھی ان سے کوئی تعارف ہی نہیں تھا.چنانچہ ایک عجیب خبر میں نے کل اخبار میں دیکھی یا پرسوں کی بات ہے جس سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے میرے اوپر بجلی گر گئی ہو.ایسی دردناک اور ایسی ہولناک خبر ہے اور سرخی لگانے والے نے بڑے مزے سے سرخی لگا کر اس طرح واقعہ بیان کیا ہوا ہے جیسے کوئی بہت ہی دلچسپ اور لذیذ واقعہ ہوتا ہے.وہ خبر یہ ہے کہ پہلے تو کلاشنکوفس اکٹھی کی جاتی تھیں آج کل بجلی سے چلنے والے آروں کی اتنی مانگ بڑھی ہے کہ ملک میں یہ آرے ملنے بند ہو گئے ہیں اور بلیک پر فروخت ہوتے ہیں اور سمگلنگ کی جارہی ہے کہ کسی طرح اس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کیا جا سکے اور ان آروں کی اس لئے ضرورت ہے کہ اپنے مخالف دھڑوں کے ہاتھوں کی اور پاؤں کی انگلیاں کاٹی جائیں اور بجلی سے چلنے والے آروں سے وہ کہتے ہیں جو لذت محسوس ہوتی ہے دوسرے کی انگلیاں کاٹنے کی ویسے عام آرے میں مزہ نہیں ہے اور یہ خبر شائع ہو رہی ہے پاکستان کے اخباروں میں اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی کسی نے کوئی حیا محسوس نہیں کی ، کوئی دل نہیں لرزا اور ساتھ ہی یہ خبریں شائع ہورہی

Page 279

خطبات طاہر جلد ۹ 274 خطبه جمعه ۱۸ارمئی ۱۹۹۰ء ہیں کہ شریعت بل نافذ ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے اسلامی شریعت اس ملک میں نافذ ہوگئی ہے.انا لله وانا اليه راجعون - کیا شیطانی اعمال پر بھی اسلامی شریعت نافذ ہوسکتی ہے.کیا یہ اسلامی اخلاق ہیں اور یہ مسلمانوں کا بھی بھائی چارہ ہے جس کے اوپر اسلام کا رنگ کسی طرح بھی چڑھ سکتا ہے اور اس قدر بے حیائی اور بیبا کی پیدا ہو چکی ہے کہ فلموں کی مثالیں حضرت اقدس مصطفی ہے کے زمانے سے دی جا رہی ہیں.چنانچہ چک سکندر کے متعلق ایک اور خبر شائع ہوئی کہ علماء نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس دن وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی اور نہایت ہی سفا کا نہ واقعات ہوئے اور احمدیوں کو ان کے مکانوں میں زندہ جلانے کی کوشش کی گئی نہتی عورتوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا.یہاں تک کہ جانوروں سے بھی اس قدر بغض کا اظہار کیا گیا کہ جانوروں کو گولیاں مار مار کے ان پر تیل چھڑک کے ان کو آگ لگائی گئی.یہ جو خوفناک اور بھیانک واقعات ہوئے ہیں ان واقعات کا حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے اور آپ کے غلاموں کی سنت سے کوئی دور کی بھی نسبت دے تو اس نسبت دینے والے کو شیطان تو کہا جا سکتا ہے مسلمان نہیں کہا جا سکتا لیکن ان علماء نے بڑے فخر سے یہ اعلان کیا ہے کہ اس دن جس دن ہم نے یہ ظلم کئے تھے.اس دن ہم چک سکندر میں یوم بدر منائیں گے نعوذ باللہ یہ بدر کی فتح کا دن تھا.آپ سوچیں جس کو اسلام کی تاریخ سے ادنی سی بھی واقفیت ہو اور یوم بدر کا اس کو معلوم ہو کہ وہ کیا دن تھا کس طرح چند نہتوں نے خدا کے نام پر اپنے جگر گوشے خدا کے حضور میدان جنگ میں ڈال دیئے تھے اور کس طرح ایک بہت بڑے طاقتور دشمن کو ان خدا کے برگزیدہ بندوں نے جونہایت کمزور اور دنیاوی ساز وسامان سے بھی آراستہ نہیں تھے جن کے پاس پورے ہتھیار بھی نہیں تھے ، اس بڑے غالب دشمن کو اس طرح شکست دی کہ اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں شاذ کے طور پر کہیں دیکھی جاسکتی ہوگی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ دنیا کی غیر مذہبی تاریخ پر بھی نظر ڈال کر دیکھیں تو ایسے کمزور، ساز وسامان سے عاری کسی ایسی چھوٹی فوج کو جو اس طرح نہتی ہو کہ ان کے ہر سپاہی کے پاس معمولی ہتھیار بھی نہ ہوں اتنے بڑے اور غالب دشمن پر اس قسم کی غالب اور فیصلہ کن فتح کبھی نصیب نہیں ہوئی ہوگی.وہ لوگ تھے جنہوں نے دعاؤں کے ساتھ ، تقویٰ کے ساتھ اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اپنی

Page 280

خطبات طاہر جلد ۹ 275 خطبه جمعه ۸ ارمئی ۱۹۹۰ء زندگی گزاری اور اسی حالت میں خدا کے حضور اپنی جانیں پیش کرنے کے لئے میدان بدر میں حاضر ہوئے.وہ فتح ان دعاؤں کی فتح تھی جو حضرت اقدس محمد مصطفی یہ اس میدان کے ایک طرف اپنے خیمہ میں کر رہے تھے اور اس قدرآپ پر گریہ وزاری کی حالت طاری تھی کہ بار بار جوش گریہ سے بدن کا پتا تھا تو آپ کے کندھے سے چادر گرتی جاتی تھی.حضرت ابوبکر صدیق جو آپ کی ذاتی حفاظت کے لئے وہاں اس موقعہ پر کھڑے تھے بار بار وہ چادر اوڑھاتے تھے اور ان کی بھی حالت غیر ہوتی چلی جاتی تھی.اس خیمے میں جو دعائیں کی گئی تھیں یوم بدر کی یہ فتح ان دعاؤں کی فتح تھی ورنہ میدان جنگ میں جو واقعات ہورہے تھے ان کی رو سے ممکن نہیں ہے کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ اتنے بڑے اور قومی دشمن پر اتنی کمزور اور بے ساز و سامان فوج کو ایسی عظیم الشان فتح نصیب ہوئی ہو.چک سکندر میں سفا کی اور ظلم کی جونئی تاریخ لکھی گئی ہے اس کو یہ بد بخت علما ءیوم بدر سے مشابہ قرار دے رہے ہیں.جو قانون پاکستان میں بنایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی گستاخی کرنے والے کوموت کی سزاملنی چاہئے.قطع نظر اس کے کہ یہ شریعت کے مطابق درست قانون ہے یا نہیں لیکن اس ملک میں یہ قانون نافذ ہے اگر کبھی کوئی موقعہ اس قانون کے نفاذ کا تھا تو آج ہے.ان ظالموں اور بے حیاؤں پر یہ قانون چلنا چاہئے.جنہوں نے اس سفا کی اور ظلم کے دن کی مشابہت حضرت اقدس محمد مصطفی میلہ کی اس عظیم فتح کے ساتھ دی ہے جسے یوم بدر کی فتح قراردیا جاتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بے حیائی ایسی عام ہو چکی ہے ،جس اس طرح مٹ چکی ہے کہ کچھ بھی احساس نہیں رہا.بس بجلی سے چلنے والے آروں سے اپنے بھائیوں کی اور معصوم بچوں کی انگلیاں کاٹنے کا مزہ اس قوم کے حصے میں رہ گیا ہے.سوال یہ ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ جیسے کہ ایک عام معروف تصور ہے کہ بعض دوائیں ایسی ہیں یا ایک دوا ایسی ہے جو ہر بیماری کی دوا بن جاتی ہے اور اسے ہماری تصوراتی دنیا میں اکسیر کہا جاتا ہے.ویسے تو ہر بیماری کی خاص دوا کو بھی اکسیر کہہ دیتے ہیں لیکن اسیر کا جو روایتی تصور ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسی دوا جو ہر بیماری میں کام آجائے ، ہر بیماری کا نسخہ ہو اس کو انگریزی میں Panacea کہتے ہیں.اسی طرح بیماریوں میں سے ایک ایسی بیماری ہوتی ہے جو ہر مرض کو پیدا کرنے والی اور ہر مرض کی جڑ ہوتی ہے اور وہ تقویٰ کی کمی ہے جب دل سے تقویٰ اٹھ جائے تو ہر قسم کی روحانی بیماری پیدا

Page 281

خطبات طاہر جلد ۹ 276 خطبه جمعه ۱۸ارمئی ۱۹۹۰ء ہو جاتی ہے.پس پاکستان کی بیماریوں کی نشاندہی کرنے کے لئے اس سے زیادہ صحیح نشاند ہی ممکن نہیں کہ اس قوم کے دل سے تقویٰ اٹھ چکا ہے جس طرح پرندہ گھونسلے کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہ دیتا ہے.اسی طرح یوں معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ نے اس قوم کے دلوں کو خیر باد کہہ دیا ہے اور اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ وہاں کا منحوس مولوی ہے.ملاں نے اسلام کے نام پر وہ ظلموں کی ہولی کھیلی ہے، وہ فساد مچایا ہے، اس طرح قوم کے دل پھاڑے ہیں، اس طرح نفرتوں کی تعلیم دی ہے اور اس بات سے قطع نظر کہ اسلامی اعمال اور اسلامی اخلاق کا کیا ہو رہا ہے اپنی حکومت کے حصول کی خاطر اپنی بڑائی کی خاطر، نام نہاد اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے وہ ایک لمبے عرصے سے کوشش کرتے چلے آرہے ہیں اور خواب یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے ساتھ ہی مولوی کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے گی.یہ ایک نفسانی خواہش ہے جس کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں اگر اسلام سے محبت ہوتی اس مولوی کو تو اسلام کے ساتھ پاکستان کی گلیوں، اس کے شہروں ،اس کے گھروں ،اس کی بستیوں میں جو ظلم ہو رہا ہے، جو خون وہ اپنے بھائیوں کا کر رہے ہیں وہ اسلام کا خون کر رہے ہیں یہ ان کو دکھائی نہیں دیتا.اسلام سے ایک ادنی بھی محبت ہوتی تو معلوم کر لیتے کہ یہ سارا ملک دن بدن تمام اسلامی قدروں سے محروم ہوتا چلا آرہا ہے.اتنا جھوٹ ہے،اتنا فساد ہے، اتنا ظلم ہے،اتنی رشوت ستانی ہے، اتنی بے حسی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کم قوموں کے حالات پاکستان کے آج کے حالات جیسے آپ کو دکھائی دیں گے.پس ان سب بلاؤں کا تو درحقیقت ایک ہی علاج ہے کہ یہ سب سے بڑی بلا جو ملاں ہے ساری قوم اس پر لعنت ڈالے اور دعائیں کرے اور گڑ گڑائے کہ اے خدا! ہمیں اس لعنت سے نجات بخش کیونکہ جب تک یہ لعنت ملک پر سوار ہے کبھی بھی اس ملک کے لئے کوئی نجات کی راہ نہیں نکل سکتی.پس اگر کبھی پہلے ضرورت تھی کہ ملاں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور ساری قوم متحد ہو کر اس لعنت سے نجات پانے کا فیصلہ کرے تو آج یہ وقت ہے کیونکہ آج پاکستان کا ملاں پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال بن کر کھڑا ہوا ہے اگر یہ ملاں اپنی اس نحوست کے ساتھ باقی رہا تو یہ ملک باقی نہیں رہ سکتا اس لئے ہر وہ محب وطن جس کو پاکستان سے پیار ہے ہر وہ اسلام سے محبت کرنے والا جس کو اسلامی قدروں سے پیار ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس ملاں کے خلاف علم بغاوت بلند کرے اور قوم

Page 282

خطبات طاہر جلد ۹ 277 خطبه جمعه ۱۸ارمئی ۱۹۹۰ء میں یہ احساس پیدا کرے کہ یہ اسلام کے ہمدرد اور اسلام سے پیار کرنے والی قوم نہیں بلکہ ظالم اور سفاک لوگ ہیں جن کو اسلامی قدروں کو پامال ہوتے دیکھنے کے باوجود کوئی دکھ نہیں ہوتا کوئی شعور بیدار نہیں ہوتا اور ظلم اور سفا کی کو عام ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ان کو کوئی احساس نہیں ہوتا کہ یہ کیا ظلم ہورہے ہیں اور اس کے باوجود اسلامی شریعت کا نام ہے جوڈنکے کی چوٹ لیا جا رہا ہے اور ساری دنیا میں اعلان ہو رہا ہے کہ ہم سب سے زیادہ اسلام سے محبت کرنے والے اسلام کو نافذ کرنے والے ہیں.شراب خوری اتنی عام ہو چکی ہے کہ عام خبروں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تو اب کوئی کبھی کبھار سننے والا واقعہ نہیں رہا یہ تو روز مرہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے قوم کی ایک بھاری تعدادDrug Addiction میں مبتلا ہو چکی ہے یعنی وہ جو نشہ آور دوائیں ہیں ان کی عادی بن رہی ہے یا ان کی تجارت کر رہی ہے.ہر قسم کی بدیاں جو سوچی جاسکتی ہیں وہ اس وقت اس قوم پر نافذ ہو چکی ہیں.اس لئے یہ وقت ہے کہ دعاؤں کے ذریعے پاکستان کی مدد کی جائے اور اگر چہ ساری دنیا میں ایک سو بیس ملکوں کے احمدی پاکستانی تو نہیں ہیں لیکن پاکستان کے متعلق میں بارہا پہلے کہہ چکا ہوں کہ پاکستان سے ایک لمبے عرصے تک اسلام کا نام بلند ہوا ہے اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچا ہے اور یہ ایک سو میں ملک کسی نہ کسی رنگ میں جہاں ہندوستان کے زیر احسان ہیں کہ وہاں سے اسلام کی احیاء نو کا آغاز ہوا تھا ، وہاں پارٹیشن کے بعد پاکستان کے بھی زیراحسان ہیں.پس آج ان دونوں ملکوں کے لئے دعا کرنی چاہئے لیکن پاکستان کے لئے خصوصیت سے اس لئے کہ یہ اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور اسلام کے نام پر قائم ہونے کے باوجود ہر غیر اسلامی حرکت کی آماجگاہ بن چکا ہے.یہاں تک کہ ہندوستان کی ایمبیسی کی طرف سے حال ہی میں کچھ پمفلٹس تقسیم ہوئے ہیں.ان پمفلٹس میں سے ایک کو دیکھ کر تو میرا سر شرم سے جھک گیا اور یوں لگتا تھا جیسے دل کٹ گیا ہے.ہندوستان کی حکومت پاکستان کو یہ بتارہی تھی کہ تم نے اسلام کے نام پر یہ ملک قائم کیا تھا.یہ حرکتیں جو تم لوگ کر رہے ہو کیا یہ اسلامی حرکتیں ہیں؟ اور وہ حرکتیں گنائی ہوئی تھیں کہ اس طرح تم ایک دوسرے کا خون کر رہے ہو.اس طرح یہ ہورہا ہے اس طرح وہ ہو رہا ہے.ہر بدی جس کے خلاف اسلام نے

Page 283

خطبات طاہر جلد ۹ 278 خطبه جمعه ۸ ارمئی ۱۹۹۰ء جہاد کیا وہ تمہارے اندر قائم ہو چکی ہے، راسخ ہو چکی ہے اور باتیں کرتے ہو کہ ہم اسلام کے نام پر قائم ہوئے تھے.وہ تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ جنگ مسلمان اور غیر مسلم کی جنگ نہیں ہے ان کا مقصد تو یہ تھا کہ دنیا کو یہ بتائیں کہ مسلمان ممالک بیجا پاکستان کی حمایت نہ کریں کیونکہ ہرگز یہاں اسلام اور غیر اسلام کا مقابلہ نہیں ہے بلکہ ایک غیر اسلامی اقدار میں ہندوستان سے آگے بڑھے ہوئے ملک کا ایک ایسے غیر مسلم ملک سے مقابلہ ہے جو نسبتا اسلامی اقدار سے کچھ زیادہ تعلق رکھتا ہے اگر چہ اسلام کے نام پر نہ بھی ہو یعنی یہ موازنہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے.لیکن مسلمان کے لئے ایک ہندو ملک کی ایمبیسی (Embassy) کی طرف سے شائع ہو نیوالا یہ لٹریچر تو ایسا لٹریچر ہے کہ وہ شرم سے کٹ مرے.پس اس لحاظ سے دونوں ملکوں کا تمام دنیا پر ایک احسان ہے اس احسان کو یا در کھتے ہوئے ہندوستان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے ملک کے باشندوں سے انصاف اور تقویٰ کے ساتھ پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے ہی ملک کے باشندوں کے حقوق ان کو دینے کا حوصلہ عطا کرے اور ظلم اور سفاکی سے ان کے ہاتھ روکے.وہاں پاکستان کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ یہ جو موجودہ حالات ہیں ان حالات میں تو یہ ملک بچتا ہوا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے نام پر اور خدائے واحد و یگانہ کے نام پر یہ ملک مانگا گیا تھا اور یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہوش عطا کرے.واپس اسلامی قدروں کی طرف لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب سے بڑی دعا کہ ملاں کی نحوست سے ان کو نجات عطا فرمائے.(آمین) جہاں تک مولویوں کا تعلق ہے وہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں آج بھی اسی طرح مصروف ہیں جس طرح پہلے مصروف تھے ان کو پتہ ہی نہیں کہ باہر دنیا میں کیا ہو رہا ہے.ان کو یہ بھی پتا نہیں کہ پاکستان کے اندر کیا ہورہا ہے.صرف ایک رٹ ہے کہ نام کی اسلامی شریعت کی حکومت قائم ہو جائے اور جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ و فساد، افتراء پردازی، جھوٹ ، دنگا، سازشیں یہی ان کی زندگی کا مقصد ہیں اس میں مبتلا رہتے ہوئے ، اس نشے میں مست وہ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں.انہوں نے اپنی ہر کوشش کر دیکھی ہے یہاں تک کہ آج ساری قوم کے لئے وہ خطرہ بن چکے ہیں.اس لئے میں نصیحتاً ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ بتاتا

Page 284

خطبات طاہر جلد ۹ 279 خطبه جمعه ۱۸ارمئی ۱۹۹۰ء ہوں ، بڑی عاجزی کے ساتھ ان کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنی عاقبت کی خیر چاہتے ہیں اگر وہ ملک کی عاقبت کی خیر چاہتے ہیں اگر وہ اسلام سے کچھ معمولی سی بھی محبت رکھتے ہیں تو مخالفت بے شک کریں لیکن اسلامی طرز کی مخالفت کریں.اس محمد مصطفی امیہ کے صدقے میں ان سے یہ التجا کرتا ہوں کہ مخالفت ویسی کریں جیسے حضرت محمد مصطفی ﷺ اپنے مخالفوں کی کیا کرتے تھے.یہ میں نہیں کہتا کہ آنحضرت ﷺ ان کے ہیں، ہرگز میرا یہ کہنے کا مطلب نہیں.جو نقشہ میں نے کھینچا ہے اس کے بعد یہ کہنا کہ آنحضرت ﷺے ان کے ہیں یہ تو بڑا ظلم ہوگا.میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ہمارے ہیں پس اس دعوی کی شرم رکھیں اور مخالفت بھی کرنی ہے تو سنت مصطفیٰ کے مطابق مخالفت کریں پھر ہمیں کوئی عذر نہیں.پھر خدا کی تقدیر کے حوالے کریں جو بھی فیصلہ خدا کی تقدیر کرے گی اس پہ ہم راضی ہیں اور ساری دنیا کو اس پر راضی ہونا پڑے گا.الله حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان مخالفتوں کا ذکر کرتے ہوئے اسی رنگ میں علماء کو کچھ نصیحتیں کی تھیں کچھ امور کی طرف ان کو متوجہ کیا تھا اس لئے آپ کے الفاظ میں یہ اقتباسات پڑھ کر میں آج کے اس خطبے کو ختم کروں گا.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا اور اسی کی ذات کی مجھے قسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے.پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کا روبار کا نام ونشان نہ رہتا مگر تم نے دیکھا ہے کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں.دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے.اے بندگان خدا ! کچھ تو سوچو کیا خدا تعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کیا کرتا ہے؟“ پھر فرماتے ہیں: کون جانتا تھا اور کس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب میں ایک

Page 285

خطبات طاہر جلد ۹ 280 خطبه جمعه ۱۸ارمئی ۱۹۹۰ء چھوٹے سے بیج کی طرح بویا گیا اور بعد اس کے ہزاروں پیروں کے نیچے کچلا گیا اور آندھیاں چلیں اور طوفان آئے اور ایک سیلاب کی طرح جو شور بغاوت میرے اس چھوٹے سے تخم پر پھر گیا پھر بھی میں ان صدمات سے بچ جاؤں گا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۲ ۶۳) ( یعنی کون جانتا تھا کہ اس سب کے باوجو د میں ان صدمات سے بچ جاؤں گا ) سو وہ تم خدا کے فضل سے ضائع نہ ہوا بلکہ بڑھا اور پھولا اور آج وہ ایک بڑا درخت ہے جس کے سایہ کے نیچے تین لاکھ انسان آرام کر رہا ہے.“ پھر آخر پر حضور نصیحۂ علماء کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یعنی ان مخالف علماء کو جنہوں نے اپنی زندگیاں احمدیت کو نیست و نابود کرنے کے لئے وقف کر رکھی ہوئی تھیں اور آج بھی کی ہوئی ہیں.میں نصیحیہ للہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی ! لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور روروکر میرا استیصال چاہیں 66 ضمیمه اربعین روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۴۰۳ ۴۰۴۷) یعنی بجائے اس کے کہ تم گند بکنے میں، سازشوں میں ، فتنہ پردازیوں میں حد سے بڑھ جاؤ جیسا کہ بڑھ بھی چکے ہو.میں تمہیں ایک اور طریق بتاتا ہوں اگر تمہیں خدا پر ایمان ہے اور خدا کی خاطر تم مخالفت کر رہے ہو تو دعاؤں سے کام کیوں نہیں لیتے.مسجدوں سے نکل کر گلیوں اور گھروں میں فساد برپا کرنے کی خاطر جو بھڑک بھڑک کر نکلتے ہو واپس مسجدوں کولوٹو اور مسجدوں میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ اور دعائیں کرو کہ اے خدا ! یہ وہ شخص ہے جو ظالم ہے جس نے ایک ظالم جماعت پیدا کی ہے اور جو تیرے ہی دشمن لوگ ہیں.ہم بھی ان کے دشمن تیری خاطر ہیں پس تو ہماری مددفر ما اور ان کو نیست و نابود کرنے میں آسمان سے کارروائی کر کیونکہ ہماری زمین کی کاروائیاں تو بالکل ناکام و نامراد ہو چکی ہیں.یہ مراد ہے کہ اس رنگ میں تم دعائیں کرو استیصال چاہو“.یعنی مجھے کلیہ ملیا میٹ

Page 286

خطبات طاہر جلد ۹ 281 خطبه جمعه ۸ ارمئی ۱۹۹۰ء کر دینے کے لئے دعائیں کرو جڑوں سے اکھیڑ پھینکنے کے لئے دعائیں کرو.پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہوں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں لیکن یا درکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعا ئیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی یہ دعائیں سن نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بددعا کرے گا وہ بددعا اس پر پڑے گی.جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو وہ لعنت اسی کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو خبر نہیں.‘ اربعین روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۴۷۲۰) پس یہی ایک طریق رہ گیا ہے.علماء کی سرشت کو میں جانتا ہوں اور باوجود اس کے کہ جس طرح یہ نصیحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کامل خلوص سے اللہ کی تھی میں بھی اسی طرح عاجزانہ غلامی کے رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرح خلوص اور عجز کے ساتھ اور تقویٰ کے ساتھ کر رہا ہوں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان علماء کی سرشت کو ہم جانتے ہیں.یہ اس طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور شرارت سے کبھی باز نہیں آئیں گے.قوم پر جو بلا ٹوٹ جائے ، جو قیامت گزر جائے ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں.انہوں نے اپنی ضد اور بیبا کیوں سے باز نہیں آنا اور یہ اسی طرح فساد اور فتنے میں مبتلا ر ہیں گے لیکن میں آج یہ بھی ان کو بتانا چاہتا ہوں اور جماعت احمدیہ کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک عظیم الشان خوشخبری عطا کی ہے.جس کے پورا ہونے کے دن آچکے ہیں.میں نے چند دن ہوئے رویا میں دیکھا کہ تذکرہ میرے سامنے کھلا پڑا ہے اور اس کے ایک طرف ایک پیراگراف ہے جس پر میری نظریں مرکوز ہیں اور میرے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے جس کے پورا ہونے کے دن آچکے ہیں اور وہ پیشگوئی میں پڑھتا ہوں اس میں سے سب سے مرکزی بات جس پر میری نظر اٹک جاتی ہے اور وہ طرز بیان دل کو بہت ہی لذت پہنچاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ علماء اپنی مخالفت سے باز نہیں آئیں گے اور جس طرح دکھ اور آزار پہنچانے کے لئے دن رات کوشش کر رہے ہیں اسی طرح کرتے چلے جائیں

Page 287

خطبات طاہر جلد ۹ 282 خطبه جمعه ۱۸ارمئی ۱۹۹۰ء گے لیکن جس طرح خزاں کے موسم میں بھڑوں کے ڈنگ جھڑ جاتے ہیں اور نیش زنی کرنے سے عاجز آجاتے ہیں.یہ نہیں کہ ان کا دل نہیں چاہتا.پنجابی میں ہم تو ان کو دو گا“ کہا کرتے تھے.اردو میں مجھے علم نہیں لیکن وہ الفاظ جو الہام کے وہاں لکھے ہوئے ہیں وہ ” دو گئے“ کے لفظ ہی لکھے ہوئے ہیں اور وہ مضمون تو بالکل یہی ہے الفاظ ممکن ہے آگے پیچھے ہو چکے ہوں ذہن میں پوری طرح وہ یاد نہ رہے ہوں.وہ یہ تھے کہ مولوی تو اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے اور ڈنگ مارتے چلے جائیں گے لیکن خدا کی تقدیر ان کو دوگا کر دے گا اور ڈنگ مارنے کی طاقت ان سے جاتی رہے گی.پس یہ وہ خوشخبری ہے جو میں دیکھ رہا ہوں کہ لازماً اس کے پورا ہونے کے دن آرہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر عطا فرمائی ہے اور میں نہیں جانتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ان الفاظ میں کوئی پیشگوئی تھی یا نہیں تھی مگر جس رنگ میں خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے یہ مضمون ضرور کہیں موجود ہے.پس ان مولویوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ جو زور تم سے لگتا ہے لگاتے چلے جاؤ اور دعائیں کرو اور گریہ وزاری کرو اور اس کی توفیق نہیں تو گالیاں بکتے چلے جاؤ ہر قسم کی سازشیں کرو مگر میرے خدا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اور جماعت احمدیہ کے خدا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اس کی تقدیر تمہارے ڈنگ نگال دے گی اور جماعت کو بالآخر تمہارے آزاروں سے نجات بخشی جائے گی.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا آج چونکہ جمعہ کے بعد ایک سفر پر روانہ ہونا ہے اس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع ہوگی.

Page 288

خطبات طاہر جلد ۹ 283 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجتماعی تکذیب پاکستانی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جارہی ہے (خطبه جمعه فرموده ۲۵ رمئی بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.وَلَوْ يُعَجِلُ اللهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَ نَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ پھر فرمایا: (یونس : ۱۲) اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے ان کی بداعمالیوں کے نتائج پیدا کرنے میں اور ان کے برے اعمال کا شران تک پہنچانے میں اسی طرح جلدی کرتا جس طرح وہ خیر کی توقعات میں جلدی کرتے ہیں ، اور دنیا کے اموال اور دنیا کی دولتوں کے حصول کے لئے جلدی کرتے ہیں یا اپنے اچھے اعمال کے پھل کے لئے جلدی کرتے ہیں تو یقیناً اس دنیا میں ان کی صف لپیٹ دی جاتی اور ان کی بداعمالیوں کے نتیجے میں ان کی جو ہلاکت مقدر ہے وہ اس سے بہت جلدی آجاتی جتنا ان کے وہم و گمان میں ہے.فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُونَ لِقَاء نا پس ہم ان لوگوں کو جو ہماری لقاء کی توقع نہیں رکھتے ان کی اپنی ہی بد اعمالیوں کی طغیانیوں میں اس طرح بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں جیسے اندھا ئولتے ہوئے راہ پر چلتا ہے.

Page 289

خطبات طاہر جلد ۹ 284 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء یہ تشریحی ترجمہ ہے اس آیت کریمہ کا جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی.اس کا اطلاق کافروں پر ہوتا ہے ان لوگوں پر ہوتا ہے جو خدا کی لقاء کی توقع نہیں رکھتے لیکن مومنوں کے لئے بھی اس آیت میں بہت ہی نشانات ہیں اور بہت ہی غور و فکر کے مقامات ہیں اور کافروں کی جو تقدیر یہاں بیان کی گئی ہے دراصل اس کی بنیاد انسانی فطرت پر ہے اور انسانی فطرت کے لحاظ سے مومن بھی اس فطرت میں شریک ہے.اگر چہ اس کی فطرت بعض حالات میں مختلف رنگ میں ردعمل دکھاتی ہے لیکن جہاں تک فطرت انسانی کا تعلق ہے وہ کافر اور مومن میں یکساں ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں.ایک انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ اچھی چیز کے لئے وہ جلدی کرتا ہے اور اپنی بداعمالیوں پر نگاہ نہیں کرتا اور غلط کاموں کے نتائج سے نہ صرف یہ کہ غافل رہتا ہے بلکہ ایک موہوم سی توقع لگائے رکھتا ہے کہ شاید وہ نتائج نہ ہی نکلیں.یہ وہ فطرت ہے جو کافر اور مومن دونوں میں مشترک ہے، یہ ایسی فطرت ہے جس میں بچے بھی اسی طرح مبتلا ہیں جس طرح جوان اور بوڑھے.ایک سکول کا بچہ جب امتحان دے کر آتا ہے تو جہاں تک اس کے پرچے کے اس حصے کا تعلق ہے جہاں اس نے اچھا جواب دیا ہو، وہ امید رکھتا ہے کہ وہ نمایاں اور روشن ہو کر ممتحن کو دکھائی دے گا اور اس کے لئے گنجائش ہی کوئی نہیں نمبر کاٹنے کی اور جو برا پر چہ کیا ہوا ہو اس کے متعلق اپنی تصور کی آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ متن کو شاید نظر نہ آئے.وہ غالباً سرسری طور پر گزر جائے گا اور ہر غلطی کو پکڑ نہیں سکے گا.اب یہ ایک سادہ سی بات ہے اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں لیکن یہی بات جب روز مرہ کی زندگی میں انسان کے اعمال سے تعلق رکھتی ہے اور سنجیدہ اعمال سے تعلق رکھتی ہے تو پھر مومن اور کافر کے رد عمل میں ایک فرق پیدا ہو جاتا ہے.کافر اپنی بداعمالیوں سے اسی طرح بے خبر رہتا ہے جیسے ایک بچہ اپنے غلط حل کئے ہوئے پرچے کے نتائج سے بے خبر ہوتا ہے یا اس سے عمدا آنکھیں بند کر لیتا ہے.ایک مومن اپنے نیک اعمال سے بڑھ کر اپنے بد اعمال پر نگاہ رکھتا ہے اور ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں میں بداعمالیوں کے نتیجے میں پکڑا نہ جاؤں.پس جہاں تک فطرت انسانی کا تعلق ہے وہ تو یکساں ہی ہے لیکن شعور کے نتیجے میں انسان کے ردعمل میں تبدیلیاں ہونے لگتی ہیں.ایک جگہ بھلائی کی توقع اتنی زیادہ ہے کہ وہ حرص میں تبدیل ہو جاتی ہے اور برائی سے انسان غافل ہوتا چلا جاتا ہے.ایک جگہ

Page 290

خطبات طاہر جلد ۹ 285 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء برائی کی توقع ایک اور رنگ میں ظاہری ہوتی ہے یعنی اپنی بداعمالیوں پر نظر کرتے ہوئے یہ خوف انسان کو لاحق رہتا ہے کہ میں ان بداعمالیوں کے نتیجے میں کسی برے نتیجے کا شکار نہ ہو جاؤں اس لئے خدا سے وہ دعائیں کرتا رہتا ہے، استغفار کرتا رہتا ہے، تمنا رکھتا ہے کہ جانتے بوجھتے دیکھتے ہوئے بھی صرف نظر فرمائے.لاعلمی کے نتیجے میں نہیں بلکہ اپنے حسن خلق کے اظہار کے طور پر.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور در حقیقت وہ لوگ جو اپنی بداعمالیوں سے صرف نظر کرتے چلے جاتے ہیں ان کا انجام اس میں دکھایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کی تمام بدیاں ان کی نظر سے غائب ہو جاتی ہیں.اندھا پن جو اس آیت میں ظاہر کیا گیا ہے وہ اپنی بدیوں کے حقائق سے اندھا پن ہے.فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ فرمایا گیا ہے.وہ اپنی سرکشی میں ، اپنی بداعمالیوں میں اس طرح آگے بڑھتے ہیں جیسے ایک اندھا بغیر علم کے کہ یہ راہ اس کو کہاں لے کر جائے گی وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.وہ اپنی طغیانیوں کی لہروں پر موج در موج آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں جبکہ اپنی راہ کی تعین کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہوتا جس طرف طغیانی کی لہریں ان کو لے جاتی ہیں پھر اسی طرف سے وہ بہتے ہوئے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم وہ ممتحن تو نہیں جو تمہاری غلطیوں سے ناواقف رہتے ہیں.ہماری تو باریک در بار یک کمزوریوں پر اور بار یک در بار یک نیکیوں پر بھی نگاہ رہتی ہے.لیکن ہم اپنی مغفرت میں صرف نظر کے لحاظ سے اتنا وسیع حوصلہ رکھتے ہیں کہ ہم تمہیں ڈھیل پر ڈھیل دیتے چلے جاتے ہیں کہ شاید کوئی وقت ایسا آئے کہ تم اپنے کئے پر پچھتاؤ اور شرمندہ ہو اور اچانک تمہارا ضمیر بیدار ہو جائے اور تم واپسی کی فکر کرو.یہ وہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہےاور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو ہمیں دیکھو ہم کتنا بڑا حوصلہ رکھتے ہیں.اگر ہم بھی تمہاری طرح اپنے اعمال کا اجر حاصل کرنے میں جلدی کرتے یعنی اگر ہم بھی تمہاری طرح بے صبری کا نمونہ دکھاتے اور جس طرح تم اپنے اعمال کے نتائج حاصل کرنے میں، جو اچھے اعمال ہیں، جلدی کرتے ہو، اپنی محنت کا پھل حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہو، اسی طرح ہم تمہاری بدیوں کا پھل دینے میں جلدی کرتے تو تمہاری بدیاں تمہارے نیک اعمال پر اس طرح غالب ہیں کہ تمہاری صف لپیٹ دی جاتی اور تمہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی.گویا عمر کے جو پیمانے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں ان کا در حقیقت ہمارے نیک اعمال یا بد اعمال سے براہ راست

Page 291

خطبات طاہر جلد ۹ 286 خطبه جمعه ۲۵ مئی ۱۹۹۰ء تعلق نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے حو صلے اور وسیع القلمی سے تعلق ہے.حو صلے اور وسیع القلمی کا لفظ اگر چہ حقیقہ تو خدا تعالیٰ پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی ذات ماوراء الوری ہے لیکن انسانی محاورے کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے ہم ایسے محاورے بار بار خدا کے لئے استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جنہیں ہم خود سمجھتے ہیں اور تمثیلاً اللہ تعالیٰ کے اوپر ان کا اطلاق کرتے ہیں.پس اس پہلو سے میں وسیع القلمی اور بلند حو صلے کی بات کر رہا ہوں.اس آیت پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں متوجہ فرما رہا ہے کہ دیکھو ہمارا حوصلہ دیکھو، ہماری وسیع القلمی دیکھو کہ تم بد اعمال کرتے چلے جاتے ہو.ایسے بد اعمال جن کے نتیجے میں لازماً تمہیں ہلاک ہو جانا چاہئے اور ہم تمہاری ہلاکت کا وقت ٹالتے چلے جاتے ہیں اور تمہیں موقعہ دیتے چلے جاتے ہیں اور جب تم کوئی اچھے کام کرتے ہو یا دنیا میں محنت کرتے ہو تو اپنی بھلائی کی توقع میں اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں ایسی جلدی کرتے ہو کہ گویا اگر بس چلے تو تاخیر سے تمہارا اجر دینے والے کا سر توڑ دو.یہ جتنی بھی دنیا میں لیبر یونینز بنی ہوتی ہیں یا اس قسم کی یونینز قائم ہیں یا ایسوسی ایشنز قائم ہیں جن میں حقوق طلب کرنے میں شدت پائی جاتی ہے یہ دراصل اسی رحجان کا ایک نتیجہ ہیں.ہر معاملے میں انسان اپنے حق پر نظر رکھتا ہے اور اس میں اتنی جلدی کرتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ میں نے جو حق تلفیاں کی ہوئی ہیں اگر ان حق تلفیوں میں بھی مجھ سے ویسا ہی سلوک ہو اور جلدی مجھے سزا ملے تو میرا پھر کیا حال ہوگا.اس کے نتیجے میں میں اس دنیا میں رہنے کے لائق بھی رہوں گا کہ نہیں.یہ وہ مضمون ہے جس کا ایک بہت سا حصہ انسان کی نظر سے مخفی رہتا ہے اور مومن کی نظر سے بھی اس کا ایک حصہ مخفی رہتا ہے.وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو اکثر چھپائے رکھتے ہیں اور اسی طبعی رحجان کے نتیجے میں اپنی خوبیوں کو ابھار کر اور نکھار کر پیش کرتے ہیں اس لئے ہمارے جو حالات ہماری سطح پر دکھائی دیتے ہیں وہ در حقیقت ہماری تمام حقیقت کو آشکار کرنے والے نہیں ہوا کرتے.ہماری وہ حقیقتیں جو نا پسندیدہ ہیں جو مکروہ ہیں جو اس بات کی سزاوار ہیں کہ ہمیں سزائیں دی جائیں وہ حقیقتیں جہاں تک ممکن ہیں ہم اپنی ذات کے اندر چھپائے رکھتے ہیں اور وہی باتیں ظاہر کرتے ہیں جن میں خیر کی طلب ہو جن کے نتیجے میں خیر کی توقع ہو.پس انسانی زندگی پر اگر اس آیت کے مضمون کو اطلاق کر کے دیکھیں تو اکثر انسان کا مخفی حصہ وہی ہے جو بدی سے تعلق رکھنے والا ہے اور انسان کا اکثر اچھا

Page 292

خطبات طاہر جلد ۹ 287 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء حصہ وہی ہے جو اس کی نیکیوں کا نچوڑ ہے جس کو وہ اچھال کر سطح پر لے آتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بدیوں پر بھی ہماری نگاہ ہے اور گہرائی تک نگاہ ہے.تم کیا سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری بدیوں اور بداعمالیوں سے غافل ہے.تم نے جو چند نیکیاں اچھال کر ان کے اجر کے مطالبے شروع کئے ہوئے ہیں یا ان کے اجر کی توقعات رکھتے ہوا گر وہ بدیاں بھی اسی طرح اجر کی سزاوار ٹھہریں جن کو تم چھپائے ہوئے ہو تو نیکیوں کا اجر دینے کا تو سوال کیا تم دنیا میں صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جاؤ.حضرت عمرؓ نے جو وصال کے وقت بار بار بے چینی سے یہ دعا کی کہ لَا لِی وَلَا عَلَى “ 66 ( بخاری کتاب الاحکام حدیث نمبر: ۶۶۷۸) تو در حقیقت وہ ایک عارف باللہ کی دعا تھی جو جانتا تھا کہ جو نیکیاں دنیا کو دکھائی دے رہی ہیں اس کے علاوہ کچھ اور بھی اعمال ہیں جو یا مجھے دکھائی دیتے ہیں یا میرے خدا کو دکھائی دیتے ہیں.پس رد عمل تبدیل ہوتے ہیں عرفان کے ساتھ ورنہ انسانی فطرت تو تبدیل نہیں ہوتی ہر شخص اپنی بداعمالیوں کو چھپاتا ہے، خواہ وہ نیک ہو خواہ بد ہو نیک انسان اپنی بداعمالیوں پر نگاہ رکھتا ہے.بدانسان اپنی بداعمالیوں سے غافل رہتا ہے.نیک انسان اپنی بداعمالیوں سے گھبرا کر بعض دفعہ یہ التجائیں کرنے لگ جاتا ہے کہ اے خدا ! میری نیکیوں کا بے شک اجر نہ دے مگر میری بداعمالیوں پہ نہ پکڑ نا اور یہ کہتے ہوئے وہ جانتا ہے کہ اس دعا میں کوئی نقصان کا سودا نہیں ہے.حضرت عمر کی فطرت میں جو ایک نمایاں بات تھی وہ سادگی اور سچائی تھی، بے لاگ اور صاف بات کر نیوالی طبیعت تھی.ان کی دعا میں بھی یہی رنگ ہے.ہم حضرت عمر کو ان ساری خوبیوں سے جانتے ہیں جو خوبیاں آپ کی روز مرہ کی دینی خدمات کے رنگ میں ظاہر ہوئیں.حضرت عمرؓ نے اپنی ذات کو اپنے اندر ڈوب کر دیکھا ہے اور انکساری کی نظر سے دیکھا ہے.وہ معمولی معمولی کوتا ہیاں بھی جو عام انسانوں کی زندگی میں کوتاہیاں کہلاتی ہی نہیں وہ نیک انسان کو اپنی بدیوں کے طور پر دکھائی دینے لگ جاتی ہیں.پس رجمان کا فرق ہے.آپ کا رجحان معلوم ہوتا ہے ہمیشہ اس طرف رہا کہ مجھ سے کیا کمزوری لاحق ہوئی ہے، کونسی غفلت ہوگئی ہے.کن باتوں میں میں حق ادا نہیں کر سکا.ان باتوں پر دھیان کرتے کرتے آپ کی عمر کئی اور جونم اپنے سینے میں چھپائے رکھا تھا وہ بے اختیار پھوٹ کر آخری سانسوں کے وقت زبان سے نکلا ہے اور آپ نے بار بار بے چین ہو کر یہ دعا کی.لَا لِي وَلَا عَلَيَّ.لَا لِي وَلَا عَلَيَّ.

Page 293

خطبات طاہر جلد ۹ 288 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء اے میرے خدا! مجھے میری نیک اعمالیوں کی خیر بے شک نہ دے.مگر تیری مغفرت کی قسم ! میری بداعمالیوں سے صرف نظر کرنا اور میری کمزوریوں کو معاف کر دینا، میرا حساب برابر کر دینا.پس اگر چہ اس آیت کا اطلاق براہ راست مومن کی ذات پر نہیں ہوتا لیکن چونکہ فطرت انسانی مومن اور کافر میں مشترک ہے اور اس آیت کا گہرا تعلق انسانی فطرت سے ہے اس لئے مومن پر اس آیت میں سوچ و چار، غور و فکر کرنے کی بہت بڑی گنجائش ہے.اس مضمون کا ایک تعلق دعاؤں سے بھی ہے.ہم جب کسی قوم پر نظر کرتے ہیں ، اس کے ظلموں پر نظر کرتے ہیں تو بعض دفعہ ان پر بددعا کرنے میں جلدی کر جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ ہمیں اپنا مزاج سمجھا دیا اور مومن جو خدا سے سچی محبت رکھتا ہے، وہ طبعا اور فطر تأخدا کا مزاج اپنانے کی کوشش کرتا ہے.پس مومن کے لئے اس میں دوسری نصیحت یہ ہے کہ دیکھو میرا خدا تو بہت ہی مغفرت کرنے والا ہے، بداعمالیوں کی سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا.میں کیوں دعا کے ذریعے خدا کے اس مزاج کے خلاف تقاضے کروں.اللہ خیر پہنچانے میں تو جلدی کرتا ہے مگر بدی کے نتائج ظاہر فرمانے میں جلدی نہیں کرتا اور وہ جو موقعہ دیتا چلا جاتا ہے قوموں کو اس پہلو سے ہمیں اپنی دعاؤں کو بھی خدا کے مزاج کے مطابق ڈھالنا چاہئے.فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ میں اگر چہ ان بدنصیبوں کا ذکر ہے جو اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھاتے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے انسان مہلت سے فائدہ بھی اٹھا جاتے ہیں.پس جماعت احمدیہ کو قرآن کریم کی اس آیت سے حاصل کردہ سبق کے نتیجے میں اپنی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ کے مزاج کے مطابق ڈھالنا چاہئے اور ظالموں کے متعلق یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! تو ان کی کمزوریوں سے صرف نظر فرماتا چلا جا اور بخشش کی نگاہ رکھ اور مہلت دیتا چلا جا یہاں تک کہ وہ سب لوگ جو تیری مہلت سے فائدہ اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ مہلت سے فائدہ اٹھا ئیں.یہاں تک کہ قوم کا وہ سارا حصہ جس میں شرافت ہے، جس میں تقویٰ کی کوئی بو باقی ہے، جس میں اس بات کی صلاحیت موجود ہے کہ وہ گردو پیش سے عبرت حاصل کریں.اگر ان کو عبرت نصیب ہو جائے اور ان کی بدیاں دور ہونی شروع ہو جائیں اور وہ نیکیاں اختیار کرنے لگ جائیں تو اس سے بہتر کوئی اور چیز ممکن نہیں ہے.پس اسے خدا ! اس رنگ میں اس قوم کو مہلت دے کہ اس قوم

Page 294

خطبات طاہر جلد ۹ 289 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء میں جس شخص میں ، جس فرد واحد میں بھی نیکی کا کوئی پیج زندہ موجود ہے وہ بیج پنپ اٹھے اور تیرے فضل کے ساتھ اور تیرے کرم کے ساتھ جو حصے بچائے جاسکتے ہیں وہ بچائے جائیں.یہ وہ رجحان ہے جو اس آیت کے مزاج کے عین مطابق ہے.بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے وہ چیزیں ضائع نہیں ہونے دیتے.جیسے میں نے ایک دفعہ پہلے بھی خطبے میں ذکر کیا تھا، اگر پھل بھی گل جائے تو اس کو کاٹ کر تراشتے ہوئے اس تھوڑے سے حصے کو بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو صاف ستھرا موجود ہو.بعض لوگ ہیں جو اس معاملے میں لا پرواہ ہوتے ہیں اور خدا کے رزق کی قدر نہیں کرتے.پھل کا تھوڑ اسا بھی حصہ گلا ہو تو اس کو اٹھا کر ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں.یہی حال ہم روز مرہ کی زندگی میں بچے ہوئے کھانے کے ساتھ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں.یہی سلوک بچی ہوئی روٹیوں کے ساتھ دیکھتے ہیں.بعض لوگ روٹی کو ذرا سا داغ لگ جائے تو ساری روٹی اٹھا کر پھینک دیتے ہیں، ان کے لئے بھی اس آیت میں سبق ہیں.ان کو خدا کا مزاج اپنانا چاہئے اور جو حصہ بھی بیچ سکتا ہو اس کو بچانا چاہئے.پس قوم کے ساتھ بھی اسی طرح ایک پہلو سے کنجوسی کا سلوک کریں.کنجوسی ان معنوں میں کہ جو حصہ بچ سکتا ہے اس کو ضائع نہیں ہونے دینا.پس مومن کی دعا میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے.پاکستان میں اس وقت جو حالات گزر رہے ہیں وہ دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قوم نے مسلسل قومی لحاظ سے تکذیب کر کے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بہت بھڑ کا یا ہے.شاذ ہی دنیا کی تاریخ میں ایسی قومیں ہوں جنہوں نے قومی طور پر اس طرح یکجائی طور پر فیصلہ کرتے ہوئے وقت کے نبی کی تکذیب کی ہو.ایسے واقعات شاذ کے طور پر نظر آتے ا ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ سے ایسا ہی سلوک کیا گیا تھا جبکہ علماء نے اس زمانے کے علماء ہی کہلاتے تھے جو بڑے لوگ تھے مختلف قبائل کے ، انہوں نے مل کر ا کٹھے ہو کر ایک آخری فیصلہ کیا آپ کی ہجرت سے چند دن پہلے کہ ہم سب نہ صرف اس شخص کی تکذیب پر متفق ہیں بلکہ اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ ہم مل کر اس شخص کو بالآخر ہلاک کر دیں اور اس کے سلسلے کو نابود کر دیں.یہ دارالندوہ کا قومی فیصلہ تھا اور عجیب بات ہے کہ یہ فیصلہ ۷ ستمبر کو ہوا ہے.کچھ عرصہ پہلے میں نے آنحضرت ﷺ کے زمانے کی تاریخ کو تقویم کے ذریعے شمسی سالوں کے مطابق تبدیل کروایا اور وہ

Page 295

خطبات طاہر جلد ۹ 290 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء بہت ہی دلچسپ کیلنڈر بنا ہے.جسے انشاء اللہ جماعت کے استفادہ کے لئے شائع کیا جائے گا.اس کیلنڈر میں جو بعض نمایاں باتیں دکھائی دیتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ۷ ستمبر کو یہ فیصلہ ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نعوذ باللہ ساری قوم کے نزدیک جھوٹے ہیں اور اس وجہ سے اس بات کے سزاوار ہیں کہ انہیں قتل کر دیا جائے اور ساری قوم اس میں متفق ہو جائے اور سے رستمبر ہی کو جماعت احمدیہ کے خلاف یہ فیصلہ کیا گیا اور ساری قوم اس میں متفق ہو گئی کہ یہ جماعت اسلام سے خارج اور گردن زدنی اور ہر قسم کے ظالمانہ سلوک کی مستحق اور سزاوار ہے.ضمناً ایک بات یہ بھی بتادوں کہ ایک اور دلچسپ تاریخ جونکی وہ یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کا یوم وصال بعض گہرے محققین کے نزدیک ۲۶ مئی بنتا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یوم وصال بھی ہے.یہ دیکھ کر میری توجہ آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کی طرف بھی منتقل ہوگئی کہ مسیح میری قبر میں دفن کیا جائے گا.یدفن معی فی قبری (مشکوۃ باب نز ورل عیسی صفحہ ۴۸۰ ) محاورۃ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا میرا انجام ویسا اس کا انجام اور تاریخ کے لحاظ سے بھی بعینہ وہی انجام بنتا ہے الله یعنی ۲۶ مئی کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا وصال ہوا اور ۲۶ مئی کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا وصال ہوا.بہر حال یہ ایک ضمنی بات تھی.یہ بات قطعی ہے کہ اس زمانے میں قوم نے ے نمبر کو متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت یہ دین اور حق سے خارج اور گردن زدنی ہیں اور اسی فیصلے کی بنیاد ے ستمبر کو جماعت احمدیہ کے خلاف بھی ڈالی گئی.ساری قوم نے مل کر جماعت احمدیہ کی تکذیب کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے جب یہ فیصلہ ہوا تھا اس فیصلے کے باوجود خدا تعالیٰ نے قوم کو مہلت دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قوم کا ایک بہت بڑا حصہ ہلاک ہونے سے بچ گیا.پس اسی قومی تکذیب کے باوجود ان کے بچنے کی گنجائش ابھی بھی موجود ہے.خدا کی پکڑ جب تک نہیں آتی اس وقت تک ہمیں ہر صورت قوم کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو بھی حصہ خواہ گند میں مبتلا بھی ہو چکا ہوا گر کوئی صاف پہلو اپنی نیکی کا رکھتا ہے تو اس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی بخش دے اور اسے بھی نجات دے اس کے لئے بھی ہدایت کے سامان پیدا فرمائے.پس الفاظ خواہ کوئی بھی ہوں ، دعاؤں کی روح یہ ہونی چاہئے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا ، دعاؤں کے ساتھ کوشش بھی آخر وقت تک جاری

Page 296

خطبات طاہر جلد ۹ 291 خطبه جمعه ۲۵ مئی ۱۹۹۰ء رہنی چاہئے.خالی دعائیں کرنا اور دوا چھوڑ دینا یہ بھی مومنوں کا دستور نہیں ہے.دعائیں بھی جاری رکھیں.دوائیں بھی کرتے رہیں اور اس وقت سب سے زیادہ ضرورت پاکستان کو ، پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کو اور پاکستان سے باہر بسنے والے پاکستانیوں کو یہ کھول کھول کر بتانے کی ضرورت ہے کہ تم اپنی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالو.تم نے کیا کیا کام کئے ہیں جن کے نتیجے میں خدا تم سے یہ سلوک کر رہا ہے.تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ گزشتہ گیارہ سال میں ملک میں اسلام نافذ ہوا ہے.تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ تم نے شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں وہ کچھ کیا جو ضیاء کے دور سے پہلے کوئی دنیا میں کر نہیں سکا.تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ جماعت احمدیہ کوکا فراور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر اور تمام مراعات سے محروم کر کے تم نے اسلام کی عظیم الشان خدمت کی ہے.تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ تم نے نوے سالہ مسائل حل کئے اور ایسا ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا جس کی نظیر دوسری اسلامی تاریخ میں دکھائی نہیں دیتی اگر یہ سارے دعوے بچے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو تم پر بہت زیادہ مہربان ہو جانا چاہئے تھا.اللہ تعالیٰ تو اس آیت میں فرماتا ہے کہ میں کافروں سے بھی صرف نظر فرماتا ہوں.ان کی بداعمالیوں کی سزا دینے میں بھی جلدی نہیں کرتا.تمہارے معاملے میں خدا تعالیٰ کو کیا ہو گیا ہے کہ تمہاری نیکیوں کی جزاء تو نہیں دے رہا اور تمہاری بداعمالیوں کی سزا دینے میں اتنی جلدی جلدی آگے بڑھ رہا ہے کہ روز به روز تمہاری حالت بگڑتی چلی جارہی ہے.مختلف قسم کے مریض ہوا کرتے ہیں.بعضوں کی حالت سالوں میں بگڑتی ہے، بعضوں کی دنوں میں بعضوں کی گھنٹوں میں بگڑتی ہے.تم تو اس حال کو پہنچ گئے ہو کہ ہر دم تمہاری حالت غیر ہوتی چلی جارہی ہے.دنیا کی ہر برائی تمہارے قومی وجود کا حصہ بن چکی ہے اور ہر قسم کی بدیوں نے تمہیں گھیر رکھا ہے.اَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ (البقرہ:۸۲) والا منظر ہمارے سامنے ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض ظالم اور گناہ گار ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی خطیئہ ان کو گھیرے میں لے لیتی ہے.نکلنے کا رستہ نہیں رہتا.وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ (ص:۴) کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.یہ حال ہے اس وقت اور پاکستان میں عام مسلمان شہریوں کا سوال یہ ہے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ تم نے گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں کیا کارنامے سرانجام دیئے ہیں.احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر نکال کر تم نے ایک تاریخی خدمت دین کی ہے.احمدیوں پر ظلم وستم روا رکھ کر تم نے دین حق کی ہر

Page 297

خطبات طاہر جلد ۹ 292 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء طرح سے پاسداری کی اور جس حد تک ممکن تھا.تم نے فاسقوں اور ظالموں کو سزائیں دے کر خدا کی یعنی اپنی دانست میں خدا کی رضا حاصل کی ہے اور یہ کیسی خدا کی رضا ہے، اتنے بڑے مجاہدین ، اتنے عظیم الشان خدمت دین کرنے والے اس طرح خدا کی نظر سے گرائے گئے ہوں کبھی دنیا کی تاریخ میں کوئی اور بھی ایسا منظر دیکھا ہے.کوئی ایک بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رضا کے اظہار کا نمونہ پاکستان میں آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا.ظلم ، سفا کی ، بدی ہر چیز میں قوم اتنا بڑھ چکی ہے کہ اب کھلم کھلا اخباروں میں اشتہار شائع ہو رہے ہیں.بعض ایسوسی ایشنر بن گئی ہیں جو اشتہارات کے ذریعے بدیاں گنواتے ہیں کہ یہ یہ بدیاں اس قوم میں ہیں.کوئی اچھائی ہے تو بتاؤ ہمیں ہم اس سچائی کی تلاش میں ہیں.کہیں کوئی اچھائی قوم میں ایسی باتی دکھائی نہیں دیتی کہ جو خود بخود دکھائی دینے لگے اس لئے لوگ اشتہار دے رہے ہیں کہ اگر کسی کی نظر میں کوئی خوبی ہو جو ہماری نظر میں نہ آئی ہو تو مہربانی فرما کر فلاں فون نمبر پر یا فلاں پتے پر خط لکھ کر ہمیں بتائیں کہ ایک خوبی ابھی باقی رہ گئی ہے اور بدیاں کھلم کھلا اور نمایاں طور پر جلی قلم کے ساتھ لکھوا کر وہ شائع کروارہے ہیں اور کوئی جواب دینے والا باقی نہیں ہے.کوئی کہنے والا نہیں ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو.ہم ان بدیوں میں مبتلا نہیں ہیں.پس یہ وہ تاریخ ہے جو گزشتہ پندرہ میں سال کے اندر ہم نے Unfold ہوتی ہوئی ، اس طرح کھلتی ہوئی دیکھی ہے جس طرح پتی کھل رہی ہو تو آہستہ آہستہ کھل کر وہ پورے صفحے کی طرح سامنے آجاتی ہے.اس طرح قوم کے اعمال نامے کا صفحہ اب کھل چکا ہے اور ہر کوئی دیکھ رہا ہے.صرف یہ ان کو ہوش نہیں کہ یہ کیوں ہمارے ساتھ ہورہا ہے کہ دوٹوک واضح سوالات کرنے کی ضرورت ہے اور بار بار یہ سوالات کرنے کی ضرورت ہے کہ بتاؤ تم نے کیا کیا ہے اس عرصے میں ؟ اسلام کی سب سے بڑی خدمت تم نے کیا سرانجام دی تھی.اس خدمت کی یہ جزاء ہے جو خدا دیا کرتا ہے؟ پہلوں کو کیوں نہیں خدا نے ایسی خدمتوں کی جزاء دی.پس صاف پتا چلتا ہے کہ اس قوم کا جرم صرف یہی ہے کہ اس نے بحیثیت قوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی اور پھر ظلم اور افتراء میں بڑھتی چلی گئی.ہر طرح کے گند حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر اچھالے گئے آپ کی تصویروں کو بھیانک صورتوں میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا.آپ کے اوپر ہر قسم کے بہتان باندھے گئے ، ہرقسم کی گالیاں دیں اور قوم

Page 298

خطبات طاہر جلد ۹ 293 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء نے کھلے بندوں لوگوں کو اجازت دی کہ جتنا چاہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر مغلظات بکتے چلے جاؤ.اگر نہیں اجازت تو دفاع کی اجازت نہیں.یہ کارنامہ ہے جو قوم نے اس عرصے میں سرانجام دیا ہے اور یہ کا رنامہ اگر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا تھا تو یہ رضا ہے خدا کی جو تم دیکھ رہے ہو بہت ہی خوفناک رضا ہے.اس سے تو خدا کی طرف سے عذاب بہتر ہے اگر یہ خدا کی رضا ہے.اس لئے ہوش دلانے کی ضرورت ہے.ممکن ہے جھنجوڑنے سے، بار بار پکارنے سے کچھ لوگ جن کی قسمت میں جا گنا ہے وہ اٹھ کھڑے ہوں.وہ دیکھنے لگ جائیں، ان کو شعور پیدا ہو جائے اور جتنا حصہ قوم کا ہے بچ سکتا ہے بچ جائے.پس ان کنجوسوں کی طرح جو خدا کا رزق ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے وہ گلے ہوئے پھل میں سے بھی کچھ ٹکڑا کاٹ کر الگ کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ رزق بندوں کے لئے پیدا کیا ہے.ہم کیوں اسکو ضائع ہونے دیں ان کنجوسوں سے بڑھ کر اس قوم سے سلوک کریں.جس قوم کو یہ ملک خدا کے نام پر عطا ہوا تھا.اس قوم کا حق ہے کہ اس سے بڑھ کر کنجوسی کا یعنی اس پہلو سے جس پہلو سے میں نے وضاحت کی ہے سلوک کریں ، جس قوم نے خدا اور محمد مصطفی ﷺ کے نام پر یہ وطن حاصل کیا تھا.اللہ تعالیٰ اس قوم کو عقل دے اور شعور دے اور ہوش دے.جتنے بھی اس قوم میں سے بچائے جاسکتے ہیں وہ بچائے جائیں کیونکہ اب وقت تھوڑا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا کی پکڑ بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور یہ لوگ اپنی طغیانیوں میں يَعْمَهُونَ ، اندھوں کی طرح آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور کچھ پتا نہیں کہ ہم کس سمت میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ہوش دے اور شعور عطا کرے اور جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ پہلے سے بڑھ کر اس پیغام کو قوم کے سامنے رکھیں اور اس سوال کو بار بار اٹھا ئیں اور جہاں تک ممکن ہے جھنجوڑ جھنجوڑ کر اس قوم کو جگانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، کیونکہ بہت سے سخت دن میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں اور اس آیت پر جب نظر پڑتی ہے تو اس کا جو دوسرا اندازی پہلو ہے اس سے دل لرزنے لگتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کو اپنی طغیانیوں میں آگے جانے دیتا ہوں.بہت ہی خوفناک مہلت ہے جیسے کوئی خوفناک آبشار کی طرف ایک تختے کے ساتھ بندھا ہوا بے بس اور بے طاقت بڑھتا چلا جارہا ہو اور پہلے سے بڑھ کر وہ طغیانی جوش

Page 299

خطبات طاہر جلده 294 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۹۰ء دکھارہی ہو اور پتا ہو کہ ابھی کچھ فاصلے کے بعد وہ (Fall) ہے وہ آبشار ہے جہاں سے گرنے کے بعد پھر کوئی واپسی کی راہ باقی نہیں رہ جاتی ہے ایسی ہی خوفناک ہلاکت کی آبشار کی طرف قوم کی طغیانیاں اس قوم کو لئے چلے جارہی ہیں.ایک دعائیں ہی ہیں اور پر درد دعائیں ہی ہیں اور انذار ہے جو دلوں کو ہلا دینے والا انذار ہو.جس کے نتیجے میں اس قوم کے بچنے کی کوئی امید پیدا ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم بچانے والوں میں شمار کئے جائیں، ہلاک کرنے والوں میں شمار نہ ہوں.آمین

Page 300

خطبات طاہر جلد ۹ 295 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء وَجْهُ رَبَّك کو بقاء ہے اور اسے کوئی زوال نہیں اس سے مراد خدا کی رضا بھی ہے.( خطبه جمعه فرموده یکم جون ۱۹۹۰ء بمقام ناصر باغ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: كُل مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن : ۲۸،۲۷) پھر فرمایا: فتا کی حقیقت ایک ایسی ظاہر و باہر حقیقت ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز یقینی اور واضح اور ظاہر نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جب بھی زندگی پیدا ہوتی ہے تو بلاشبہ موت پیدا ہوتی ہے کیونکہ کوئی زندگی ایسی نہیں جسے بقا ہو اور جس کا انجام موت تک نہ پہنچے.جو چیز پیدا ہوتی ہے اسے بھی فنا ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا زندہ نہ ہو.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو اس آیت میں بیان فرمایا جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے کہ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ کہ ہر چیز جو بھی کائنات میں تمہیں دکھائی دیتی ہے یاز مین پر تم دیکھتے ہو، وہ فانی ہے.اس کی حقیقت کوئی نہیں وہ بالآخر فنا ہو جائے گی.سائنسدانوں نے اس مسئلے پر بہت غور کئے.ایک زمانے میں وہ سمجھتے تھے کہ ایٹم Indestructible ہے.یعنی ایک ایسی چیز ہے جو کبھی فنا نہیں ہوسکتی.پھر ایک دور اور ایسا آیا

Page 301

خطبات طاہر جلد ۹ 296 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء جب تحقیق نے قطعی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ ایٹم کو بھی فنا ہے اور اسی فنا کے نتیجے میں جو سائنس دانوں کو معلوم ہوئی پھر ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بموں کی ایجاد ہوئی.پھر ایک وقت ایسا تھا اور ابھی تک یہ دور چل رہا ہے ، جبکہ یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ Proton کو فنا ہے یا نہیں ہے؟ لیکن دن بدن سائنسدانوں کا زیادہ گروہ اس بات کا قائل ہوتا چلا جارہا ہے کہ Proton کو بھی بالآخر فنا ہے اور اب تک حساب دانوں نے جو حساب لگائے ہیں اور جن میں ہمارے مشہور Nobel Laureate ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی ہیں ان کے فارمولے کے مطابق غالباً Proton کی عمر 1033 سال ہے اور اس کے بعد Proton کو بھی فنا ہو گی.چنانچہ اربوں ڈالرز کے خرچ سے امریکہ میں ،اٹلی میں ، بعض دوسرے مقامات پر یہ تجارب کئے جارہے ہیں جن سے قطعی طور پر معلوم ہو سکے کہ Proton بالآخر فنا ہوگا یا نہیں ہوگا اور اگر ہو گا تو کتنی مدت میں؟ اور قرآن کریم نے آج سے چودہ سوسال بیشتر یہ قاعدہ کلیہ بیان فرمایا تھا کہ : كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ ہر چیز کو فنا ہے ، خواہ اس کا نام Proton رکھو یا ایٹم رکھو ، یا Electron رکھو، یا مو آن رکھو، سب پارٹیکل“ قرار دو، یا کچھ اور کہہ دو، ہر پہلو سے بلا استثناء کائنات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو فنا سے بالا ہو.پس اس لحاظ سے یہ ایک ایسی ظاہر حقیقت ہے، ایسی قطعی، ایسی یقینی کہ ہر وقت نظر کے سامنے رہتی ہے اور نظر کے سامنے رہنی چاہئے.لیکن ایک اور پہلو سے دیکھیں تو سب سے زیادہ موہوم حقیقت فنا کو ہے.یعنی انسان اپنے شعور کی دنیا میں موت سے ڈرنے کے باوجود اسے اپنے سے بہت دور دیکھتا ہے اور گردو پیش کو دیکھتا ہے لیکن اپنی ذات پر موت کی حقیقت کا اطلاق نہیں کرتا اور موت کی حقیقت کا اپنی ذات پر اطلاق کرنے کے نتیجے میں جو لازمی نتائج اس کی زندگی پر پڑنے چاہئیں ، ان سے وہ محروم رہ جاتا ہے.اس آیت کریمہ میں جہاں یہ فرمایا گیا کہ كُلّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ہر چیز کو تا ہے ، اس کے معابعد ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرما دیا گیا : ويَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ ایک چیز ایسی ہے جسے کوئی فنانہیں وہ تیرے رب کا چہرہ ہے ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ وه صاحب جلال ہے اور صاحب اکرام ہے.یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں نہ فرمایا کہ رب کو فنا نہیں ہے باقی ہر چیز کو فنا ہے.یہ

Page 302

خطبات طاہر جلد ۹ 297 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء کیوں فرمایا کہ وَجْهُ رَبَّكَ تیرے رب کے چہرے کو فنا نہیں ہے حالانکہ اصل لا فانی حقیقت تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اسی سے ہر دوسری چیز کو بقا حاصل ہوتی ہے اور اگر ہر دوسری چیز کوفتنا ہے اور خدا کو نہیں تو پھر دوسرا سوال یہ بھی اٹھتا تھا کہ وہ تمام نیک روحیں جنہوں نے خدا سے تعلق جوڑ کر ایک قسم کی بقا حاصل کر لی کیا اس آیت کریمہ کا اطلاق ان پر بھی ہوگا اور وہ بھی فنا ہو جائیں گی؟ کیا جنت کو بھی فنا ہے اور اہل جنت کو بھی فنا ہے؟ یا صرف زمین پر بسنے والوں کا ذکر کیا جا رہا ہے؟ ان تمام امور کا جواب در حقیقت قرآن کریم کی اس آیت میں ہمیں دے دیا کہ خواہ ہم غور کریں یا نہ کریں لیکن جواب اس میں موجود ہے.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تیرے رب کے سوا ہر چیز کو فنا ہے بلکہ فرمایا.وَجْهُ رَبَّكَ کے سوا ہر چیز کو تا ہے اور وَجْهُ رَبَّكَ کے ساتھ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ کی صفات بیان فرمائیں.وجہ کا ایک تو معنی ہے چہرہ.سوال دوسرا یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ چہرے کو فنا نہیں ہے، گویا خدا کا کوئی چہرہ ہے اور کیا نعوذ باللہ باقی ذات کو فنا ہے؟ اگر یہ معنے نہیں اور یقیناً نہیں اور بالکل غلط اور لغو معنے ہیں، تو پھر وَجْهُ کا لفظ کیوں استعمال فرمایا گیا ؟ وجه کا معنی صرف چہرہ نہیں بلکہ رضائے باری تعالیٰ ہے اور رضا جن لوگوں کو نصیب ہو جاتی ہے وہ صاحب رضا بن جاتے ہیں اور در حقیقت ان معنوں میں خدا کے وہی چہرے ہیں.پس جب یہ فرمایا گیا کہ وجْهُ رَبَّكَ کے سوا باقی ہر چیز فنا ہے تو مراد یہ ہے کہ ہر چیز فانی ہے، مگر وہ جو خدا سے تعلق جوڑ کر اس کی رضا کی مظہر بن جاتی ہے اور جو بھی خدا سے تعلق جوڑ کر اس کی رضا کا مظہر بن جاتا ہے وہی خدا کا چہرہ ہے.کیونکہ خدا فی ذاتہ تو دکھائی نہیں دیتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بارہا حضرت رسول اکرم ﷺ کے عشقیہ کلام میں یہ فرمایا کہ تجھ سے ہم نے خدا کو دیکھا ہے، تیرے دیکھنے سے خدا دیکھا، تو دراصل اسی آیت کی تفسیر ہے.خدا کے چہرے صاحب خدالوگ ہوا کرتے ہیں اور جیسا کہ اس آیت میں یہ خوشخبری عطا فرمائی گئی ہے کہ ہر چیز مٹ جائے گی مگر وہ لوگ جو خدا کی رضا کے مظہر بن جاتے ہیں، جن کے چہروں میں خدا دکھائی دینے لگتا ہے یعنی بصورت دیگر جو خدا کا چہرہ بن جاتے ہیں جن کو دیکھ کر خدا دکھائی دیتا ہے ، ان پر کبھی کوئی فنانہیں ہے، پس اس پہلو سے حقیقت محمدیت مﷺ ایک لافانی حقیقت بنتی ہے.جس کے اوپر کسی فنا کا کوئی تصور باندھا نہیں جا سکتا اور اسی نسبت سے نیک اعمال اختیار کرنے والے خدا کے وہ عاجز بندے جو خدا کی

Page 303

خطبات طاہر جلد ۹ 298 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء رضا کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور اپنی رضا کو اس رضا کے تابع مثانے لگ جاتے ہیں، وہ رفتہ رفتہ باخدا انسان بنتے ہوئے خدا کے چہرے بننے کے مستحق بن جاتے ہیں، خدا کے چہرے کہلانے کے مستحق بن جاتے ہیں اور اس پہلو سے ان کو بھی کوئی فنانہیں.پس اس پہلو سے غور کرتے ہوئے جب ہم روز مرہ کی زندگی میں اس مضمون کا اطلاق کر کے دیکھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ انسان فتا کو ہر طرف سے اپنے وجود کو گھیرے ہوئے دیکھتا ہے، باوجود اس کے کہ در حقیقت فنا کے سوا اور کوئی بھی حقیقت دکھائی نہیں دیتی ، باقی ساری باتیں افسانے بن کے رہ جاتے ہیں جو چیز باقی رہنے والی دکھائی دیتی ہے وہ فنا ہے.کوئی ایسی حقیقت نہیں جوفنا کی دست برد سے پاک ہو، بالا ہو، اس سے مستثنیٰ ہو اس کے باوجود ہم فنا کو بھول جاتے ہیں اور جو چھوٹی سی زندگی چند لمحوں کی ہمیں نصیب ہوتی ہے اس کو بقا سمجھنے لگ جاتے ہیں ، حالانکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان تمہاری زندگیوں کی یا ان وجودوں کے عرصہ حیات کہہ لیں یا عرصہ قیام کی کوئی بھی حقیقت نہیں ، خواہ وہ اربوں سال بھی رہیں بالآخر لازماً انہوں نے مٹنا ہے اور اس کے باوجود کہ ہم فنا کو اس طرح نہیں دیکھتے جیسے دیکھنا چاہئے ، ہم حیات سے چمٹتے ہیں اور حیات ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اپنی حیات کو لمبا کرنے کا کوئی سامان نہیں کرتے.یہ انسان کی غفلت کی وہ حالت ہے جس کے نتیجے میں تمام دنیا میں بد اعمالیاں پھیلتی ہیں اور انسانی زندگی صداقتوں سے محروم رہ جاتی ہے.ہم حقیقت میں جس زندگی کو چھٹتے ہیں اسے لمبا بھی کرنا چاہتے ہیں اور خواہ اپنی ذات کے متعلق یقینی طور پر یہ نہ بھی سمجھیں کہ ہم نے آج نہیں تو کل گزر جانا ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو نہ بھی ڈھالیں تب بھی ، جیسی بھی ہماری زندگی ہے اسے لمبا کرتے چلے جاتے ہیں، لمبا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کی مختلف شکلیں ہیں.ایک تو فی ذاتہ انسان اپنے لئے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی زندگی کا عرصہ بڑھتا چلا جائے اور زیادہ دی وہ اس دنیا میں سانس لے سکے.دوسرے علم کے ذریعے دنیا میں پھیلتا ہے اور اپنی ذات کو کائنات پر علم کے ذریعے اور جستجو کے ذریعہ پھیلاتا ہے.پس اس حیثیت سے جتنا صاحب شعور اور صاحب علم انسان ہو، وہ اتنا ہی زیادہ زندہ رہتا ہے.ایک بے وقوف اور کم نظر انسان بھی بظاہر اس کے ساتھ عرصۂ حیات میں شریک دکھائی دیتا ہے لیکن وہ شخص جس کی نظر محدود ہو وہ تھوڑی

Page 304

خطبات طاہر جلد ۹ 299 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء باتیں دیکھ رہا ہو، اس کی زندگی کا ماحصل بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے.وہ شخص جو صاحب علم وعرفان ہے، اس کی نظر کا ئنات پر پھیلی ہوتی ہے اس کے مطابق در حقیقت اس کی زندگی زیادہ وسیع اور بھر پور ہوتی ہے.چنانچہ کچھ وقت میں لمبا ہو کر ، کچھ کا ئنات میں پھیل کر انسان اپنی زندگی کو وسعت دیتا چلا جاتا ہے اور پھر اپنے مرنے کے بعد اپنی اولاد کے ذریعہ ایک قسم کی بقا حاصل کرتا ہے.اسی لئے وہ لوگ جو اولاد سے کلیتہ محروم ہوں ، وہ بہت بے چین اور بے قرار رہتے ہیں، کیونکہ در حقیقت نفسیاتی نکتہ یہ بنتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ تو باقی رہیں گے، ہم اپنی موت کے ساتھ ختم ہو جائیں گے اور ہماری اولاد پیچھے کوئی ایسی نہیں آئے گی جو ہمارے وجود کو ایک نئی خلعت عطا کرے اور ہمارے وجود ان کی شکلوں میں زندہ رہیں اور پھر ان کے بعد ان کے بعد میں آنے والے بچوں کی شکلوں میں زندہ رہیں اسی لئے مائیں اولاد سے بعض دفعہ اپنی ذات سے بھی زیادہ محبت کرتی ہیں کیونکہ درحقیقت وہ اپنی زندگی کی بقا اپنی اولاد میں دیکھ رہی ہوتی ہیں اور مستقبل چونکہ ایک لا متناہی چیز ہے اور حال کی عمر چھوٹی ہوتی ہے اس لئے جو گہری محبت کرنے والی مائیں ہیں وہ غیر شعوری طور پر اس مسئلے کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے بھی اولاد سے اس لئے محبت کرتی ہیں کہ وہ ان کی زندگی کا مستقبل ہوتی ہیں.وہ سمجھتی ہیں کہ اولاد کے ذریعے ہم ہمیشہ زندہ رہیں گی.قرآن کریم فرماتا ہے کہ نہ تم اپنی ذات میں مستقل زندہ رہ سکتے ہو، نہ اپنے علم کے ذریعے مستقل زندہ رہ سکتے ہو، نہ تم اپنی اولادوں کے ذریعے مستقل زندہ رہ سکتے ہو کیونکہ كُلَّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ اس زندگی ، اس کائنات میں فنا کا ہاتھ ہے جو سب ہاتھوں سے لمبا ہے، ہر عرصۂ حیات پر محیط ہے، ہر وجود پر اس کی دسترس ہے.پس کسی قیمت پر بھی تمہیں بقا نصیب نہیں ہو سکتی.ہاں بقا کی تمنا ہے اور سچی تمنا ہے تو ایک ہی ذریعہ ہے کہ جس سے تم ہمیشہ کی زندگی پاسکتے ہو اور وہ ہے وَجْهُ رَبَّكَ کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.اپنے رب کے وجہ کو پانے کی کوشش کرو.جس کا مطلب ہے رضائے باری تعالیٰ اور جب تم رضائے باری تعالیٰ حاصل کر لو گے تو خدا کی رضا کوکوئی فتانہیں.خدا کی رضا میں ہو کر تم ہمیشہ کی زندگی پالو گے اور لا متناہی زندگی پالو گے.اس حقیقت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہماری زندگیاں بہت سی برکتوں اور نعمتوں سے محروم کٹتی چلی جاتی ہیں.ہم میں سے بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بے چین ہیں.وہ لوگ جنہیں چین

Page 305

خطبات طاہر جلد ۹ 300 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء ب ہے وہ چین بھی ان کا عارضی ہے اور چین پر بھی ہمیشہ فنا آجاتی ہے، اگر فنانہیں ہے تو ایک معنی میں بے قراریوں کو فنا نہیں ہے حسرتوں کو فنا نہیں ہے کیونکہ وہ موت کی مثال ہیں.پس اس پہلو سے اگر ہم زندگیوں کو دیکھیں تو ہم میں سے اکثر ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں.کچھ نہ کچھ پانے کے باوجود بے چین رہتے ہیں کیونکہ ان کی تمنائیں ان کے حصول کی خواہشیں ان کی دستریں سے آگے آگے بھاگ رہی ہوتی ہیں.جو کچھ بھی حسرتیں انسان اپنے دل کی نکال سکتا ہے نکال چکتا ہے ، تو اس سے زیادہ اور حسرتیں دل میں آ کے جگہ بنا لیتی ہیں.اسی مضمون کو غالب نے یوں بیان کیا تھا، گناہ کی نسبت سے کہ: ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب ،اگران کردہ گناہوں کی سزا ہے (دیوان غالب صفحہ ۳۳۴) : کہ اے خدا! گناہوں کی بھی تو کبھی حسرت ہماری پوری نہیں ہو سکتی.جتنے گناہ کرتے چلے گئے ، گناہ کی طلب اور بڑھتی چلی گئ اور کبھی زندگی میں گنہگار کو جس نے سب طرح سے کھلی ڈور چھوڑ دی ہو.جس نے اپنے آپ کو ہر طرح کھلی چھٹی دے رکھی ہو اس کو بھی گناہ اس حد تک کرنے کی تسکین نصیب نہیں ہوئی کہ اس کا پیٹ بھر گیا ہو اسی مضمون کو غالب ایک اور شعر میں یوں بیان کرتا ہے.دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا (دیوان غالب صفحہ ۸۳۰) کہ میرے گناہوں کا جو سیلاب ہے وہ اپنا جوش مارتے ہوئے تیز رفتاری کی وجہ سے خشک ہو گیا اور ابھی تو میرا دامن بھی نہ بھیگا تھا.پس کسی پہلو سے آپ دیکھ لیں انسان کو مستقل چین نصیب نہیں ہوسکتا اور وہ کسی نہ کسی پہلو سے چین کی تلاش میں رہتا ہے اور وہ ایک راہ جو چین کے نصیب کی خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اس سے وہ غافل رہتا ہے.قرآن کریم نے جہاں یہ فرمایا کہ : وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ ایک باقی رہنے والی حقیقت ہے تو ساتھ یہ بھی بتادیا کہ رضائے باری تعالیٰ کو دوام حاصل ہے اور در حقیقت تسکین قلب دوام سے نصیب ہو سکتی ہے.اسی بات کو ایک اور آیت میں کھولتے ہوئے بیان فرمایا :

Page 306

خطبات طاہر جلد ۹ 301 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: ۲۹) خبردار ! اگر تم دلوں کی سکنیت چاہتے ہو، طمانیت چاہتے ہو، تو یا درکھنا کہ ذکر الہی کے سوا تمہیں کبھی سکون نصیب نہیں ہوسکتا.پس تسکین کی راہ بھی وہی ہے جو بقا کی راہ ہے اور دراصل یہ ایک دوسرے کے مختلف نام ہیں.تسکین اور بقا حقیقت میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہ دونوں چیزیں خدا تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہیں.اگر ہم اس مضمون کو سمجھیں اور غور کریں تو ہماری زندگی کے نقشے بدل جائیں.کتنے بے چین لوگ ہیں جو اس یورپ میں بس رہے ہیں، جو دنیا کے لحاظ سے ترقی کے آخری زمینوں پر دکھائی دیتے ہیں، اگر چہ ترقی کا کوئی آخری زینہ نہیں لیکن نیچے سے جب تیسری دنیا کی قومیں ان کو دیکھتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن یہاں بھی آپ ان کے سینے ٹول کر دیکھیں ان میں دانشور ہوں یا غیر دانشور ہوں، مزدور ہوں یا مالک ہوں، سب بے چین ہیں، کسی کو چین نصیب نہیں ہے.آپ احمدیت کے نمائندہ بن کر اس ملک میں یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ اگر تم چین چاہتے ہو تو ہم سے حاصل کرو.ہم تمہیں چین کی راہ دکھاتے ہیں، ہم تمہیں سکینت کا خزانہ عطا کر سکتے ہیں اور احمدیت کے پیغام میں، جو حقیقی اسلام ہے، دراصل یہی پیغام ہے.لیکن یہ کہنے کے بعد اگر ہم دیانتداری سے اپنے نفوس کا جائزہ لیں ، اپنے قلبی حالات کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم میں سے اکثر سکینت کے لحاظ سے خالی برتن ہیں.یہ درست ہے کہ دنیا میں سو قسم کی بے اطمینانی پیدا کرنے والی وجوہات موجود ہیں اور بسا اوقات ایسی تمنائیں ہیں جو پوری نہیں ہوسکتیں لیکن ان سب حسرتوں کا دکھ دور کرنے کا علاج بھی انہیں آیات میں ہے.أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَإِنَّ الْقُلُوبُ يَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ مثلاً وہ بے چین مائیں جو اولاد سے محروم رہتی ہیں، وہ بے قرار ہو ہو کر خط لکھتی ہیں لکھتی چلی جاتی ہیں.بعض دفعہ ایسے دردناک خط ملتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں دعا کی تحریک بھی خاص ہوتی ہے.بعض دفعہ خدا بشارت عطا فرماتا ہے بعض دفعہ قبولیت دعا کے آثار انسان دیکھ لیتا ہے اور بعض دفعہ نہ وہ دعا کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، نہ قبولیت کے آثار دکھائی دیتے ہیں وہ معاملے اسی طرح لٹکتے چلے جاتے ہیں اور وہ روحیں جو اپنی تمناؤں سے محروم رہتی ہیں.وہ بے چین رہتی ہیں اسی طرح بے قراری میں دن گزارتی چلی جاتی ہیں.بلکہ بعض عورتوں

Page 307

خطبات طاہر جلد ۹ 302 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء کے خط تو پھر دنوں کے حساب لے کر آتے ہیں کہ آج میری شادی کو میں سال اتنے دن ہو چکے ہیں اور آج تک میں اولاد سے محروم ہوں.حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی خدا تعالی کی ہستی پر سچا ایمان رکھتا ہو اور کائنات کا شعور رکھتا ہو، موت و حیات کے فلسفے سے آگاہ ہو ، اگر قرآن کریم کی اس آیت پر اس کی نظر ہو کہ كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالإِكْرَامِ تو اولاد کی تمنا اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اولاد کے نہ ہونے کے نتیجے میں ویسی بے قراری اس شخص کو نہیں ہوسکتی، جیسی ایک بے دین شخص کو ہوتی ہے.وہ زیادہ تیزی کے ساتھ خدا کی طرف جھکے گا اور خدا کی رضا حاصل کر کے اپنی ذات کو خدا کی ذات میں ایک دوام بخشے گا.خدا کی رضا کے ذریعے اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر سکتا ہے اور جس کو خدا تعالیٰ کی ذات نصیب ہو جائے اس کے دلوں کے خلا یقیناً دور ہو جایا کرتے ہیں.دنیا کی کمزوریاں ، دنیا کی محرومیاں دکھائی تو دیتی ہیں، محسوس بھی ہوتی ہیں لیکن بے حقیقت بن کر.اس کے برعکس جو دنیا میں ڈوب جاتے ہیں، انہیں دنیا کے غم اور دنیا کی تکلیفیں اتنی بڑی دکھائی دیتی ہیں کہ ان کے وجود پر قبضہ کر لیتی ہیں ان کو گرا دیتی ہیں.بعض دفعہ اپنے پاؤں تلے مسلتی چلی جاتی ہیں اور ایسے اشخاص کی ساری زندگیاں دکھوں اور مصیبتوں میں کٹتی ہیں.پس اگر آپ نے حقیقت میں تسکین پانے کا گر سیکھنا ہے، اگر آپ کو حقیقی تسکین کی تلاش ہے تو یا د رکھیں کہ تسکین بقاء سے نصیب ہوا کرتی ہے.ہر وہ دکھ جس کو آپ محرومی کہتے ہیں اس کا کسی نہ کسی شکل میں موت سے تعلق ہے.ہر وہ چیز جس کو آپ خوشی کہتے ہیں اس کا کسی نہ کسی شکل میں بقاء سے تعلق ہے.یہ مضمون بہت تفصیلی مطالعہ کا محتاج ہے اور اس موقعہ پر یہ مناسب نہیں ہوگا کہ اس کی تفاصیل میں جا کر میں آپ کو دکھاؤں کہ کس طرح ہر محرومی اور ہر دکھ کا کسی نہ کسی شکل میں موت سے تعلق ہے اور ہر خوشی کا اور ہر حصول کا کسی نہ کسی رنگ میں زندگی سے تعلق ہے لیکن ہے یہی کچھ حقیقت اس کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں.اس پہلو سے جب خدا تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ وَجْهُ رَبَّكَ کو بقاء ہے اور اسے کوئی زوال نہیں ہے تو اتنی گہری حقیقت ہے، ایسا عظیم عرفان کا خزانہ عطا کر دیا گیا ہے کہ جس سے بڑھ کر دولت نصیب ہی نہیں ہو سکتی.لیکن چونکہ انسان خدا تعالیٰ کے وجہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ، اور دنیا

Page 308

خطبات طاہر جلد ۹ 303 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء کی لذتوں کو قریب دیکھ رہا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے چہرے کو دور ہٹا ہوا دیکھتا ہے اور مشکل سمجھتا ہے ، اس لئے وہ سنتا ہے اور دل میں جاگزیں کرنے کی بجائے اور اس بات پر غور کرنے کے بجائے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے وہ سن کر آگے گزر جاتا ہے جیسے ان سنی کر دی گئی ہو.پس جماعت احمدیہ کو یا د رکھنا چاہئے کہ ان کی تربیت کے لئے اور ان کی کامیاب زندگیوں کے لئے اس گر کو نہ صرف سمجھنا ضروری ہے بلکہ اس کو اپنا لینا ضروری ہے.ان کے ساتھ چمٹ جانا ضروری ہے.وہ لوگ جن کو خدا دلوں میں محسوس ہونا شروع ہو جائے ان کی زندگیوں کی کا یا پلٹ جاتی ہے.ان کے غموں ، ان کے دکھوں، ان کے فکروں کی نوعیت بالکل اور ہو جاتی ہے.یہ ساری حقیقتیں ان کو عارضی دکھائی دیتی ہیں اور اس وقت یہ آیت بجائے خوف کے ایک اور خوشخبری لے کر ان کے لئے آتی ہے اور وہ یہ ہے كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ یعنی یہ تنبیہ کی بجائے باخدا لوگوں کے لئے خوشخبری بن جاتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دکھ بھی سارے عارضی ہیں دنیا کی حقیقتیں ساری بے معنی ہیں.جو چیزیں ہمیں حاصل نہیں ہوئیں انہوں نے کب باقی رہنا ہے.جو دوسروں نے ہتھیالی ہیں یا قبضہ کر بیٹھے ہیں، وہ ان پر کب تک رہیں گے؟ آخر ہر ایک نے اس دنیا سے چلے جانا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جانا ہے.وہاں اگر کوئی چیز کام آئے گی تو وَجْهُ رَبَّكَ کام آئے گا.یعنی خدا کی رضا ہے جو تمہارے کام آسکتی ہے.باقی ساری چیزیں اس دنیا میں پیچھے رہ جائیں گی اور جو پیچھے رہ جائیں گی وہ بھی فنا ہو جائیں گی ، کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.پس یہ آیت بظاہر شروع میں کم سے کم ایک ایسے شخص کو جس کو خدا کا عرفان حاصل نہیں ، ڈراتی ہے اور بہت ہی خوفناک اعلان دکھائی دیتا.گل مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ جب انسان وَجْهُ رَبَّكَ سے تعلق جوڑ لے اور سہارا خدا کی ذات کا لے، تو اچانک یہ آیت جو پہلے ڈراتی ہوئی دکھائی دیتی تھی ایک خوشخبری میں تبدیل ہو جاتی ہے.پھر انسان کو صبر کی بھی توفیق ملتی ہے.پھر انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں تو خدا کا ہو چکا، خدا کی رضا میں نے دل میں بسا لی.خدا کی رضا کی لذت محسوس کرنے لگا ہوں یہ تکلیفیں جو ہیں یہ عارضی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انہوں نے لازماً فنا ہو جانا ہے مگر میری لذت ہمیشہ باقی رہے گی.میرے سکون کو دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے چھین نہیں سکتی.یہ آیت کریمہ پیغام دینے لگ جاتی ہے.اور جب تک ہم اس تجربے سے نہ گزریں، ہم اہل یورپ کی زندگیوں کو تبدیل نہیں کر سکتے ی دلیل نہیں کر سکتے

Page 309

خطبات طاہر جلد ۹ 304 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ان سب کے اندر روز افزوں پیاس کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے.پیاس تو صدیوں کی ہے، لیکن اس کا احساس کبھی اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھا تھا جتنا اس دور میں بڑھ رہا ہے.ان کی نئی نسلیں محرومی کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہیں.اپنی تہذیب سے بددل ہو چکی ہیں، اپنے معاشرے سے بددل ہو چکی ہیں، اپنی Civilization سے اور ان تمام اقدار سے جن کو مغربی Civilization کہا جاتا تھا، آخر مایوس ہو چکی ہیں اور دن بدن یہ شعور بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اور اس تلاش میں کہ کچھ حاصل ہو جائے سرگردان کبھی کسی رخ پر اٹھ دوڑتی ہیں، کبھی کسی اور رخ پر اٹھ دوڑتی ہیں.تلاش میں ہیں لیکن پتہ نہیں کہ کیا تلاش کر رہی ہیں اور کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے.ان کو تبلیغ کرنے کا صرف ایک ہی مؤثر اور ٹھوس اور کارآمد طریق ہے، باقی ساری باتیں منطق کے ایچ بیچ میں ان کے ذریعے آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا اور وہ خدا کی زندہ حقیقت کو ان کے سامنے پیش کرنا ہے.ایک ہی ذریعہ ہے جس سے آپ ان کی اپنی ذات میں دلچسپی پیدا کر سکتے ہیں اور وہ ذریعہ ہے آپ کا اپنا وَجْهُ رَبَّكَ بننے کی کوشش کرنا.ایسا وجود بننا جس میں خدا کے چہرے دکھائی دینے لگیں اور وہ ایک ایسی کشش ہے جو ہر دوسری چیز پر لازماً غالب آنے والی ہے.ان کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے.لو تمہیں طور تسلی کا بتا یا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ مصرعہ فرمایا تو یہ کوئی سوچی سمجھی بات کا نتیجہ نہیں تھا.یہ ایک تجربے کے نتیجے میں خود بخود دل سے پھوٹنے والا مصرعہ ہے.آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا یاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے جس شخص نے نور خدا کو نہ پایا ہو، اس کے منہ سے یہ مصرعہ نکل نہیں سکتا.یہی طور تسلی کا اس وقت بھی تھا اور آج بھی ہے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تسلی کا یہ طور بتا کر صاحب تسلی لوگ پیدا کر دیئے.اپنے گردو پیش میں ان لوگوں کے حالات تبدیل کرنے شروع کر دیئے جو مختلف حالات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے.ان کے تعلقات دنیا سے ٹوٹنے شروع ہوئے اور خدا تعالیٰ سے بنے شروع ہوئے ، یہاں تک کہ دیکھتے دیکھتے ان کی کایا پلٹ گئی اور وہ یہی پیغام لے کر پھر

Page 310

خطبات طاہر جلد ۹ دنیا کے سامنے نکلے کہ 305 آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے ( در تمین صفحه: ۱۶) میں نے صحابہ کی زندگی پر غور کیا ہے، تو یہی خلاصہ مجھے ان کی زندگی کا ملا.ان میں صاحب علم بھی تھے اس میں کوئی شک نہیں لیکن ضروری نہیں تھا کہ جو صاحب علم تھا وہی دوسری سوسائٹی پر غالب آیا ہو.بعض بالکل دنیا کے لحاظ سے بے علم تھے جن کو خدا تعالیٰ نے غلبہ عطا فرمایا تھاوہ اپنے ماحول پر جہاں جاتے تھے غالب آجاتے تھے اور ان کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدیت کا پیغام دور نزدیک ہر طرف پھیلا ہے اور کبھی کسی سوسائٹی میں وہ لوگ مغلوب نہیں ہوئے.علم کی وجہ سے نہیں یا علم کے فقدان کی وجہ سے نہیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے نتیجے میں ہورہا تھا.صحابہ کے اندر خدا موجود تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تسلی کا یہ طور سیکھ لیا تھا اور ان کے دل طمانیت سے بھر گئے تھے.وہ ایسی طمانیت سے بھر گئے تھے جو نور خدا کے سوا نصیب نہیں ہوسکتی اور یہی ان کی دولت تھی.یہی ان کی روشنی تھی جس سے وہ اندھیروں میں اجالے کر رہے تھے اور دنیا والے نظریاتی لحاظ سے خواہ کتنی ہی مخالفت کرنے والے ہوں ، جب وہ آنکھوں کے سامنے خدا کی صفات کے نشان دیکھتے ہیں، جب وہ خدا کے چہرے کو جلوہ گر دیکھ رہے ہوتے ہیں تو رفتہ رفتہ ان کی ساری مخالفتیں ، اگر ان میں کوئی صداقت کا مادہ موجود ہے، مغلوب ہونے لگ جاتی ہیں.یہی وہ نور ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل (۸۲) حق آ گیا ہے اور باطل کے مقدر میں بھاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں.اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا باطل کے تو نصیب میں ہی بھا گنا ہے اس لئے باطل بھاگ گیا ہے.پس یہ وہ غلبے کا آخری اور غالب آنیوالا مفہوم ہے جس کو سمجھ کر جس کو اپنا کر اپنی زندگی میں جاری کر کے آپ کو گرد و پیش غلبہ نصیب ہو سکتا ہے لیکن غلبہ دراصل آپ کو نہیں بلکہ خدا کے چہرے کو نصیب ہوگا.اس پہلو سے ایک اور نکتہ بھی ہمارے ہاتھ آیا کہ وہ لوگ جو الہی جماعتیں ہیں جب وہ دنیا میں پھیلتی ہیں تو اپنی ذات کی خاطر نہیں ، اپنے جلال اور اپنے اکرام کے لئے نہیں، بلکہ چونکہ وہ خدا

Page 311

خطبات طاہر جلد ۹ 306 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء کے چہرے کو اپنا لیتی ہیں اس لئے ذُو الْجَلْلِ وَالاِکرَامِ کے چہرے کو اپنا کر وہ اس کی عزت اور اس کے شرف اور اس کے مرتبے کی خاطر دنیا میں پھیلتی ہیں اس لئے نہیں کہ ان کو کوئی غلبہ نصیب ہو ، یا ان کو کوئی طاقت عطا ہو.پس یہ پھیلاؤ در حقیقت اس وقت مبارک ہوگا جب ایسی الہی جماعتوں کے پھیلنے کے ساتھ خدا کا چہرہ پھیل رہا ہو خدا کا نور پھیل رہا ہو اور اگر اس کے بغیر آپ دنیا میں پھیلیں تو آپ کو عددی اکثریت تو حاصل ہوسکتی ہے، ایک قسم کا غلبہ تو مل سکتا ہے، مگر اس غلبے کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی.اب آپ دیکھیں Jehova Witness والے بھی ہیں، Mormons ہیں،اسی قسم کے اور بہت سے نئے نئے فرقے بھی نکلے ہیں جن کو Cults کہا جاتا ہے.ایک وقت میں ہری کرشنا والے سوئٹزر لینڈ میں اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں تیزی سے پھیلنے لگے تھے پھر امریکہ میں بڑا ان کو نفوذ ہوا.سکھ بننے کا شوق بھی یورپ اور امریکہ میں چلا.صوفی یعنی ایک قسم کا فرضی صوفی جو اپنی ذات میں ڈوب کر در حقیقت گرد و پیش سے آنکھیں بند کر رہا ہوتا ہے ایسا صوفی بننے کا شوق بھی اہل یورپ میں چلا.یہ چیزیں آئیں اور رفتہ رفتہ فنا ہوتی چلی گئیں کیونکہ ان میں درحقیقت کوئی باقی رہنے والی بات نہیں تھی.ان چیزوں کے پھیلنے سے در حقیقت خدا کا چہرہ نہیں پھیلا بلکہ وہ فرقے پھیلے ہیں جو دنیا میں عددی اکثریت کے خواہاں تھے.اور کچھ مالی فوائد ان کے پیش نظر تھے.یہ آیت کریمہ جو ہمیں بتاتی ہے کہ كُل مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْاِكْرَامِ یہ خوشخبری بھی ہمیں دے رہی ہے کہ وہ لوگ جو وَجْهُ رَبَّكَ کے بغیر ، تیرے رب کی رضا کے بغیر پھیلتے ہیں، ان کے پھیلنے کو بھی کوئی بقا نہیں.وہ بے معنی اور بے حقیقت عددی اکثریت ہے جس کو حقیقت میں خدا کی نظر میں کوئی حیثیت حاصل نہیں.اس نے آج نہیں تو کل مٹ جانا ہے.تم اگر پھیلنا چاہتے ہو تو خدا کا چہرہ حاصل کرو اور وہ چہرہ لے کر ، اس شمع کے نور کے ساتھ پھیلو.اس کا نتیجہ کیا نکلے گا.وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَالِ وَالْاِكْرَامِ خدا کے چہرے کا جلال دنیا میں پھیلے گا خدا کے چہرے کا اکرام دنیا میں پھیلے گا.پس صاحب خدا لوگ وہی ہیں جن کے پھیلنے کے ساتھ خدا تعالیٰ کا جلال اس کی عظمت اور اس کا اکرام دنیا میں پھیلتا ہے اور اس کے بغیر جماعت احمدیہ کے پھیلنے کا کوئی بھی معنی نہیں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.

Page 312

خطبات طاہر جلد ۹ 307 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء جرمنی میں خصوصیت سے خطبے کے دوران میں نے اس مضمون کو اس لئے چنا ہے کہ جرمنی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سی نیکیوں میں ترقی کر رہی ہے اور بہت سے خطرات کا بھی اس کو سامنا ہے.جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے عظیم مثالیں قائم کر ہی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ابھی بہت سی گنجائش باقی ہیں لیکن جہاں تک عبادتوں کا تعلق ہے، جہاں تک خدا کو دل میں بٹھا لینے کا تعلق ہے، ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں.جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے اگر چہ آپ لوگ کوشش کرتے ہیں ، یعنی ایک حصہ آپ میں سے ، مگر بہت بھاری اکثریت آپ کی ایسی ہے جو تبلیغ کے فن سے ہی واقف نہیں اور جب خطبات میں ذکر سنتی ہے تو دل میں ایک ولولہ سا اٹھتا ہے لیکن ایک عارضی چمک کی طرح ، جس طرح جگنواند ھیرے میں دکھائی دے، پھر وہ ولولہ خود بخود بجھ بھی جاتا ہے، باقی رہنے والی روشنی نہیں رہتی اور اس وجہ سے سالانہ تبلیغ کا ماحصل بہت تھوڑا ہے.اگر آپ اعداد میں اپنی تبلیغی کوششوں کے نتائج دیکھیں تو بالکل معمولی ہیں.اس لحاظ سے مجھے خیال آیا کہ دو باتوں کی طرف آپ کو خصوصیت سے متوجہ کروں.اول یہ کہ کامیاب تبلیغ کا راز حقیقت میں خدا کو پالیتا ہے اور اگر آپ صاحب خدا بن جائیں آپ کی علمی کمزوری کبھی آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوگی.آپ کی مقبول دعائیں آپ کی نیک ادا ئیں آپ کا اٹھنا بیٹھنا آپ کا سلیقہ آپ کا وقار آپ کی بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی ، جو یہ سارے نتائج ہیں خدا والا بننے کے، یہ جب آپ کی ذات میں ظاہر ہوں گے تو لازماً آپ کی تبلیغ مؤثر ہوگی اور آپ میں پھیلنے کی طاقت ہوگی.دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح پھیلنے کے نتیجے میں جو اعداد آپ کو نصیب ہوں گے وہ محض گفتی کی باتیں نہیں ہوں گی بلکہ حقیقۂ صاحب خدا لوگ ، صاحب خدا لوگ ہی پیدا کیا کرتے ہیں.اور ایسے لوگ جو تقویٰ کے ساتھ تبلیغ کرنے والے ہوں، جو نیکی کے ساتھ تبلیغ کرنے والے ہوں،ان کی تبلیغ کا پھل بھی باقی رہا کرتا ہے.یہ راز میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ لوگ جو لفاظیوں کے ذریعے اور محض منطق کے ذریعے لوگوں کے دماغ قائل کرتے ہیں، بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایسے اسلام میں داخل ہونے والے جو ان دروازوں سے داخل ہوتے ہیں اسی قسم کے وسوسوں کے

Page 313

خطبات طاہر جلد ۹ 308 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء دروازوں سے باہر بھی چلے جاتے ہیں اور انہیں دوام نصیب نہیں ہوتا لیکن نیک آدمی اگر ایک نیک آدمی پیدا کر دے تو اس کا براہ راست خدا سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور نیک آدمی کو پھر قرار ملتا ہے.اس کو دوام نصیب ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ میں ان دونوں باتوں کا موازنہ فرما دیا.فرمایا کلمہ طیبہ وہ ہے جس کی جڑیں پیوستہ ہو جاتی ہیں اور وہ رزق خدا سے اور آسمان سے حاصل کرتا ہے.اس کی شاخیں آسمان میں پھیلتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی برکت سے ہر حال میں اس کو پھل لگتے رہتے ہیں.تو جو انسان خدا کو حاصل کرنے کے بعد اس سے تعلق جوڑے اور باشمر بن جائے اس کے اکھڑنے یا اس کے بدکنے یا اس کے بھٹکتے پھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس ایسا شخص جو خود باخدا ہو اور نیکی کی اہمیت کو نہ صرف یہ کہ ذہنی طور پر سمجھتا ہو بلکہ اپنے دل کو نیکی کی راہ پر ڈال چکا ہو، خدا کے حضور اپنا سر تسلیم خم کر چکا ہو، اس شخص کے بنائے ہوئے احمدیوں میں بھی ویسے اثرات سرایت کر جاتے ہیں ویسی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نئے احمدی کو دیکھ کر اکثر یہ صحیح اندازہ لگا لیتا ہوں کہ کس کی تبلیغ سے ہوا ہو گا.فرماتے تھے کہ اگر کوئی مبلغ کنجوس ہو اور چندوں میں کمزور ہوتو اس کے ذریعے بنے ہوئے احمدی بھی کنجوس اور چندوں میں کمزور ہی نکلتے ہیں، جو شخص تبلیغ کا شوق رکھتا ہو لیکن نمازوں میں کمزور ہو، اس کے بنائے ہوئے احمدی بھی تبلیغ کا جوش تو رکھتے ہیں لیکن نمازوں میں کمزور ہوتے ہیں اس لئے کہ ہر شخص اپنی مہر دوسرے پر ثبت کر رہا ہوتا ہے.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا سب سے بالا مقام نبیوں کی مہر کا ہے.ایسی مہر جو نبوت پیدا کرتی ہے.اس مہر کے ایسے عظیم نقوش ہیں کہ نبوت کی طرح تقویٰ کے نقوش عطا کرتی ہے.پس یہ تو آپ کی مہر کا نقش آپ کا چہرہ دکھائے گا.آپ جب ایک نیا احمدی پیدا کرتے ہیں تو دراصل آپ کی مہر نے ایک نقش پیدا کر دیا ہے اس نقش میں آپ کے چہرے دکھائی دیں گے اور اگر آپ کے چہرے میں خدا دکھائی دیتا ہے ،ا گر آپ کے چہرے کو خدا کا چہرہ قرار دیا جا سکتا ہے، تو جتنے نقوش آپ بناتے چلے جائیں گے، ہر نقش خدا کی طرف اشارہ کر رہا ہوگا.ہر نقش کے چہرے میں خدا کے وجود دکھائی دینے لگیں گے اور اس طرح ایک ایسے استحکام کے ساتھ جماعت پھیلے گی کہ ہر قدم جواٹھے گا وہ مستحکم ہوتا چلا جائے گا.پس اس دنیا میں جبکہ خدا کی تلاش تو ہے لیکن لوگوں کو علم نہیں کہ کیسے حاصل کیا جائے ، جب

Page 314

خطبات طاہر جلد ۹ 309 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۹۰ء سکینت کی تلاش تو ہے لیکن پتہ نہیں کہ سکینت کیسے حاصل کی جاتی ہے، یہی گر ہے یہی ایک راز ہے جس کے سوا اور کوئی گر اور کوئی راز نہیں کہ آپ خدا کا چہرہ بننے کی کوشش کریں.اللہ سے محبت پیدا کریں.خدا سے پیار پیدا کریں اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں جھلکتا ہوا دکھانے کی کوشش کریں.یہ جھلکیاں ہر مومن میں ہوتی ہیں لیکن بعض مومنوں میں آنا فانا جھلکیاں آتی ہیں اور آنا فانا چلی جاتی ہیں، کبھی خدا کی چمک دکھائی دی کیونکہ جب تک خدا کی چمک کسی دل میں ظاہر نہ ہو وہ مومن بن ہی نہیں سکتا.اس لئے ہم میں سے جو کمزور بھی ہیں، بد بھی ہیں، ہر قسم کے احمدی ، ایمان کی وجہ سے کوئی نہ کوئی حالت ان کے دلوں پر ضرور طاری ہوئی ہوگی کہ انہوں خدا کو اپنے وجود میں جھلکتا ہوا دیکھا ہوگا بعض خطرات کے وقت دعاؤں کے ذریعے قبولیت دعا کا نشان دیکھا ہوگا ،.کبھی کسی رنگ میں کبھی کسی رنگ.غرضیکہ مومن ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ خدا کبھی دکھائی نہ دیا ہو یا اپنی ذات میں چپکا نہ ہو.لیکن یہ ووَجْهُ رَبَّكَ نہیں قرار دیا جا سکتا.کیونکہ وَجْهُ رَبَّكَ میں ایک مستقل حقیقت بتائی گئی ہے.عارضی جھلکی کا نقشہ نہیں کھینچا گیا.حقیقت میں مومن باخدا اس وقت بنتا ہے.جب خدا اس کی ذات پر غالب آچکا ہو.جب اسے یہ شعور پیدا ہو جائے کہ خدا کے ساتھ رہتا ہوں.پھر اگر وقتی طور پر وہ چھٹی کرتا ہے، کوئی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ عارضی بات ہے.واپس پھر اس دائم اور قائم رہنے والی حقیقت کی طرف وہ جلد لوٹ آتا ہے ایسے لوگ ہیں جو محفوظ مقام پر ہیں.پس ایسے لوگوں کے بنائے ہوئے احمدی بھی لازماً محفوظ مقام پر فائز رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو یہ نکات سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یادرکھیں احمدیت کا غلبہ خدا کے غلبے کے ساتھ ہوگا.اگر خدا آپ پر غالب نہیں آیا تو جس احمدیت کو آپ لے کر دنیا کے لئے نکل رہے ہیں وہ احمد بیت کبھی غالب نہیں آسکتی.اپنے وجود پر خدا کو غالب آنے دیں، پھر دیکھیں کہ آپ کے وجود کو خدا ساری دنیا پر غالب کر کے دکھائے گا.یہی ایک ترقی اور کامیابی کا راز ہے،اس کے سوا اور کوئی راز نہیں.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا نماز جمعہ کے معا بعد نماز عصر بھی جمع ہوگی.میں چونکہ مسافر ہوں اور کچھ اور بھی مسافر ہیں.مسافر دوگانہ پڑھیں گے اور باقی دوست جو مقامی ہیں سلام پھیرے بغیر انتظار کریں گے جب امام دونوں سلام مکمل کر چکا ہوتو پھر کھڑے ہوں اور بقیہ دور کعتیں پوری کریں.

Page 315

Page 316

خطبات طاہر جلد ۹ 311 خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۹۰ء اسلام اور ایمان کا فرق اسلام سے ہی دنیا کا امن وابستہ ہے ( خطبه جمعه فرموده ۸/ جون ۱۹۹۰ء بمقام Nunspeet ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: قرآن کریم میں دو مذہبی اصطلاحوں کا بکثرت ذکر ملتا ہے ایک تقویٰ اور ایک اسلام اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ان دونوں اصطلاحوں پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بکثرت ان کا ذکر کیا ہے اور ان کی تشریح فرمائی ہے.نثر میں بھی اور منظوم کلام میں بھی.لیکن اس کے باوجود ابھی تک میرا یہ تاثر ہے کہ جماعت کی اکثریت کو ان دونوں اصطلاحوں کے درمیان فرق معلوم نہیں اور ان کے باہمی رشتے کا بھی کوئی واضح تصور موجود نہیں.بالعموم یہی خیال کیا جاتا ہے کہ در اصل دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور چونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے تقویٰ پر بھی اتنا زور دیا کہ گویا تقویٰ اور اسلام ایک ہی چیز ہیں اور اسلام پر بھی اتنا زور دیا اور اس قوت کے ساتھ اس مضمون پر روشنی ڈالی کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی اسلام ہے، اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں اس لئے عام طور پر بیعتیں اسی بات پر راضی ہو گئیں کہ جو بھی ان کا تعلق ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اسلام کے خلاصے کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ کے خلاصے کا نام اسلام ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایسا ہی فرق ہے جیسے ایمان اور اعمال صالحہ کے درمیان فرق ہے اور ایک ایسا ہی رشتہ ہے جیسا ایمان اور اعمال صالحہ کے درمیان رشتہ ہے.ایمان

Page 317

خطبات طاہر جلد ۹ 312 خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۹۰ء ایک اندرونی حالت کا نام ہے جس کی باہر سے کوئی نشاندہی نہیں کی جاسکتی.اسی لئے اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ایمان لایا تو اس کے ایمان کو پر کھنے اور دیکھنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں اس لئے ایمان کے ساتھ ہی انسان کو تصدیق کا حکم ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ایمان لایا تو اس کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو تم ایمان نہیں لائے.سوائے خدا کے کوئی نہیں ہے جو ایمان کے متعلق فیصلہ دے سکے.اسی لئے جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کر کے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے واضح طور پر یہ نہیں فرمایا کہ یہ منافقین ایسے ہیں کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں ،اس لئے تم ان کو کہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے اور ساتھ ہی یہ ارشاد بھی فرمایا کہ اسلام کے متعلق ان کو اجازت دے دو کہ یہ بے شک یہ کہیں کہ ہم اسلام لے آئے ہیں.اب یہ مضمون ایک ایسا دلچسپ بھی ہے اور الجھا ہوا بھی ہے کہ جب تک کھول کر بیان نہ کیا جائے اس وقت تک لوگوں کو ان دونوں کے رشتے اور فرق کی پوری طرح سمجھ نہیں آسکتی.جب تک خدا تعالیٰ نے یہ اجازت نہیں دی یا حکم نہیں دیا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنی طرف سے کبھی کسی کو یہ نہیں فرمایا کہ تم مومن نہیں ہو اور ان معین لوگوں کے متعلق جن کے متعلق قرآن کریم میں یہ خبریں ملتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ مومن نہیں ہیں اگر چہ ان کو مسلمان کہلانے کی اجازت ہے.اس واضح ارشاد کے باوجود حضور اکرم ﷺ نے بھی آگے کسی صحابی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی مومن کہلانے والے کو یہ کہیں کہ تم مومن نہیں ہو.چنانچہ ایک ایسا واقعہ تاریخ اسلام میں ملتا ہے کہ ایک شخص جو جہاد کے دوران بہت ہی زبر دست مقابلہ کر رہا تھا یعنی مومنوں کا اور مسلمانوں کا اور ایک نامی پہلوان تھا.بالآخر اس کو جب ایک مسلمان نے پچھاڑ دیا اور اس کو قتل کرنے لگا تو اس نے کلمہ پڑھ کر اپنے ایمان کا دعوی کیا.ظاہر ہے ایسی صورت میں انسانی عقل یہی فیصلہ دیتی ہے کہ یہ شخص جان بچانے کی خاطر ایک دھوکے سے کام لے رہا ہے فی الحقیقت یہ ایمان نہیں لایا.چنانچہ مسلمان مجاہد نے اسی طرز عمل کا اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے اس کو قتل کر دیا کہ تم جان بچانے کی خاطر جھوٹ بول رہے ہو تمہارے دل میں کچھ نہیں ہے.وہ آیت جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے وہ یہ بتاتی ہے.لَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات : ۱۵) یعنی خدا نے رسول اللہ ﷺ کو خود خبر دی تھی کہ ان لوگوں کے دلوں میں

Page 318

خطبات طاہر جلد ۹ 313 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء ایمان داخل نہیں ہوا.یہ موقع بتاتا ہے کہ کسی بندے کو خود اختیار نہیں کہ وہ دلوں کے متعلق فیصلہ کر سکے که ایمان داخل نہیں ہوا ہے یا نہیں ہوا.چنانچہ جب اس واقعہ کی خبر آ نحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچی اور یہی قتل کرنے والے تھے جنہوں نے خود حضور اکرم ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا.وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا اور دو طرح کے آپ کے جوابات روایات میں مذکور ہیں.ایک یہ کہ آپ بار بار یہ فرماتے رہے اور فرماتے چلے گئے کہ تم نے کیوں نہیں اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا.(مسند احمد بن حنبل کتاب اول ۱۹۰۹۰) اس کے دل میں ایمان تھا یا نہیں تھا.اس مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ یہ بتارہے ہیں کہ کسی انسان کے بس میں ے نہیں ہے کہ دل کے حالات معلوم کر سکے.دل پھاڑ کر دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ اسی وقت وہ پھر.سے اس کا دل چیرتا اور دیکھتا، دیکھنے والے کو تو کچھ نظر نہ آتا.آنحضور ﷺ نے اپنی فصاحت و بلاغت میں اس رنگ میں اس مضمون کو ظاہر کیا گویا یہ فرمارہے تھے کہ اگر تم دل پھاڑ کے بھی دیکھتے تب بھی تمہیں کچھ پتا نہ چلتا تم نے ظاہر سے کیسے اندازہ کر لیا.پس ایمان ایک ایسی مخفی حالت کا نام ہے جس کی پہچان سوائے خدا کے کسی کے لئے ممکن نہیں کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے یا جان سکے کہ کسی دعویدار کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ہے.اسلام ایک ایسی چیز ہے جس کی کچھ ظاہری علامتیں ملتی ہیں اور اس پہلو سے ممکن ہے کہ ایک شخص مومن نہ ہولیکن وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے اور کچھ اسلامی عادات اختیار کر لے.ایسے شخص کے متعلق خدا تعالیٰ نے جہاں یہ خبر دی کہ بعض ایسے اشخاص ہیں جن کے دلوں میں ایمان نے جھانکا بھی نہیں یعنی دل میں ایمان داخل نہیں ہوا ان کو بھی تم مسلمان کہلانے سے باز نہیں رکھ سکتے تمہیں کوئی حق نہیں کہ یہ کہو کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تم مومن نہیں ہو ، اس لئے بغیر ایمان کے اسلام کی کوئی حیثیت نہیں.ایمان کے قیام کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس میں تمہیں مسلمان کہلانے کی بھی اجازت نہیں دوں گا بلکہ فرمایا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ یہ مومن نہیں.ایمان ان لوگوں کے دل میں داخل بھی نہیں ہوا لیکن ساتھ ہی میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو مسلمان کہلانے کی اجازت دو اور کہ دو: قُولُوا أَسْلَمْنَا کہ تم بے شک یہ کہتے رہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ، ہم مسلمان ہو گئے.

Page 319

خطبات طاہر جلد ۹ 314 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء تعجب ہے کہ اتنے واضح مضمون کو اس شان کے ساتھ قرآن اور تاریخ اسلام نے اور اسوہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے کھول کر بیان کر دیا ہو لیکن آج کا ملاں اپنی جہالت میں خدا کا مقام صلى الله حاصل کرنے کی کوشش کرے اور حضور اقدس محمد مصطفی ملے سے بھی مرتبے میں بلند ہونے کا عملاً دعویٰ کر رہا ہو.آپ کو تو خدا یہ خبر دیتا ہے کہ دلوں میں ایمان نہیں ہے پھر بھی مسلمان کہلانے کی اجازت دے دو اور ملاں اپنے ہاتھ میں یہ خدائی طاقت لے لیتا ہے کہ ایمان کا فیصلہ بھی ہم کریں گے اور اسلام کا فیصلہ بھی ہم کریں گے.ہمیں اس بات کی قدرت ہے کہ ہم دلوں میں جھانک کر دیکھ سکیں کہ کوئی شخص دل میں ایمان رکھتا ہے یا نہیں رکھتا اور اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ فلاں کا دل ایمان سے خالی ہے، ہم اس کو مسلمان کہلانے سے بھی روک دیں.لیکن یہ ایک ضمنی بات تھی جو میں نے سوچا کہ چلتے ہوئے آپ کو سمجھاتا چلوں کیونکہ ایک بہت لمبی بحث گزر چکی ہے.مولوی کہتے ہیں کہ احمدیوں کا دل چونکہ ایمان سے خالی ہے اس لئے ہم ان کو مسلمان کہلانے کی اجازت نہیں دیتے.تو میں نے چاہا کہ آپ کو یہ مضمون کھول کر بیان کر دوں لیکن مقصد یہ نہیں تھا.اصل مقصد آپ کو یہی سمجھانا ہے کہ اسلام اور ایمان کے اندر کیا رابطے ہیں اس کے نتیجے میں ایک احمدی کے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.پس جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ، تقویٰ ایک قلبی حالت کا نام ہے اور اسلام ایمان کے نتیجے میں ڈھلنے والے عمل کا نام ہے.پس ان دونوں کے درمیان رشتہ وہی ہے جس طرح ایمان اور اعمال صالحہ سے ایک تعلق ہے اور اس کا کثرت کے ساتھ قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے اور ایمان اور اعمال صالحہ کو اکٹھا بیان کیا گیا ، اسی طرح کی کیفیت تقویٰ اور اسلام کے درمیان کے رشتے کی پائی جاتی ہے.تقویٰ ایک ایسی اندرونی حالت کا نام ہے جو ایمان کی طرح دکھائی نہیں دیتی اور ایمان سے الگ حالت ہے.ایمان پہلی بات ہے تقویٰ بعد کا مضمون ہے اور پھر ایمان کے بعد تقویٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسی انسان کا اسلام کس نوعیت کا ہے.انسان جو نہی ایمان لے آئے ، معا وہ کامل نہیں ہو جاتا.ایمان کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا عرفان رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے اور تقویٰ کا عرفان کے ساتھ تعلق ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے کہ تقویٰ عرفان سے ترقی کرتا ہے خدا تعالیٰ کی ذات لامتناہی ، لا محدود ہے اور اس کی صفات کا کوئی حساب ممکن نہیں.جتنا

Page 320

خطبات طاہر جلد ۹ 315 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا تصور دل پر قائم ہوتا چلا جائے.جتنا اس کے حسن و احسان پر دل فریفتہ ہوتا چلا جائے اتنا ہی تقویٰ بڑھتا ہے اور اگر چہ بظاہر اسلام وہی رہتا ہے جو پہلے دن تھا لیکن عملاً اس کی کیفیت بدلنے لگتی ہے.اس مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے میں اسلام کے متعلق کچھ مزید روشنی ڈالتا ہوں پھر آپ ان دونوں روحانی اصطلاحوں کے باہمی تعلق کو زیادہ بہتر سمجھ سکیں گے.اسلام کے دو معانی ہیں ایک ہے سپردگی اپنے آپ کو کسی کے سپرد کر دینا.کسی کا ہو جانا.جیسے انسان محبت میں کسی سے کہتا ہے کہ میں تیرا ہو گیا.ایک فارسی کا شعر ہے من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری من تو شدم تو من شدی، میں تو ہو گیا تو میں ہو گیا.من تن شدم تو جاں شدی، میں جسم بن گیا تو جان بن گیا.تا کہ آئندہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ تو اور ہے اور میں اور ہوں.یہ اسلام کی اعلیٰ حالت کی تصویر ہے.جب خدا کے حضور بندہ ایسی عاجزی اختیار کرتا ہے کہ اپنے وجود کو اس کے حضور بچھا دیتا ہے اور واقعتہ قلب سلیم کے ساتھ یہ عہد کرتا ہے اور اس عہد کے نتیجے میں عملاً اپنے وجود کو خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے کہ آج سے تو اس میں بسے گا اور کوئی نہیں بسے گا.تو اس انتہائی سپردگی کی حالت کو اسلام کہا جاتا ہے.یعنی اسلام کی ترقی یافتہ صورت ، وہ انتہائی صورت جس کی طرف انسان کو اسلام لے جاتا ہے اور پھر اس آخری مقام تک پہنچا دیتا ہے وہ یہی ہے اور اس سے پہلے کی بھی اسلام کی کچھ حالتیں ہیں.جب انسان زبان سے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں.حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جس اسلام کا دعویٰ کرنے سے نہ روکنے کا ارشاد فرمایا تھا وہ یہی اسلام ہے یعنی آغاز کا اسلام.ایک انسان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں اپنے وجود کو خدا کے سپرد کرتا ہوں.اب کس حد تک اس نے سپرد کیا ہے اس کا فیصلہ تقویٰ نے کرنا ہے.اگر انسان کے دل میں خدا کا عرفان بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں تقویٰ ترقی کرے گا تو دن بدن اس کے اسلام کی حالت بدلنی شروع ہو جائے گی.کئی لوگ زبان سے ، واری واری ، جاتے ہیں یعنی وہ بھی سپردگی کا ایک اظہار ہے کہ میں قربان ، میں نشار، میرا سب کچھ تیرا اور جب وقت آتا ہے اس وقت دوڑ جاتے ہیں اس وقت سب کچھ اپنا ہو جاتا ہے.تو جہاں تک ان کے واری واری جانے کا تعلق ہے اس سے

Page 321

خطبات طاہر جلد ۹ 316 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء روکنے کی اجازت نہیں ہے.جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ وہ واقعہ آزمائش پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں گے کہ نہیں اس کا تعلق ان کی دلی محبت سے ہے.پس دلی محبت کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ اسلام کو تقویت بخشتا ہے اور اسلام کی کیفیت بدلتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ تقویٰ کی ترقی کے ساتھ واقعتہ انسان خدا کا ہو جاتا ہے اور سب کچھ اس کے سپر د کر دیتا ہے.انہی معنوں میں خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا اسليم حالانکہ وہ خدا کے نبی بن چکے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کی یعنی اسلام کی انتہائی حالت کی طرف آپ کو دعوت دی گئی تھی.قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقره:۱۳۲) کہ اے خدا ! میں تیرا ہو گیا.میں رب العالمین کے حضور اپنے وجود کو پیش کر دیتا ہوں.پس اسلام کی ایک ابتدائی حالت ہے اور ایک انتہائی حالت ہے.ان کے درمیان بے شمار منازل ہیں اور نہ کسی انسان کو ابتدائی حالت سے متعلق اختیار دیا گیا کہ کسی سے کہے کہ تم مسلمان نہیں ہو نہ انتہائی حالت سے متعلق انکار کا اختیار دیا گیا.باوجود اس کے کہ اسلام میں کچھ نظر آنے والی باتیں موجود ہیں.مثلاً جب ایک شخص کہتا ہے کہ میں اسلام لے آیا تو آپ نہ اس کے ایمان کو دیکھ سکتے ہیں، نہ اس کے تقویٰ کو دیکھ سکتے ہیں لیکن اسلام لانے کے بعد اگر وہ نمازیں نہیں پڑھتا، اگر عبادات بجا نہیں لاتا اگر بنی نوع انسان کے حقوق ادا نہیں کرتا تو آپ کی نظر یہی فیصلہ کرے گی کہ اس نے سپردگی کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا.اس لئے اسلام کے متعلق کسی حد تک انسان دیکھ سکتا ہے اور جانچ سکتا ہے لیکن تقوی تک انسان کی کوئی پہنچ نہیں اور سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی کسی شخص کے تقویٰ کو براہ راست جانچ نہیں سکتا.لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس سے تقویٰ دکھائی دینے لگتا ہے.اسلام کے متعلق جیسا کہ قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دکھائی دیتا بھی ہوتب بھی ضروری نہیں کہ کوئی شخص مومن ہو.بظاہر اسلام نظر آتا بھی ہو تو چونکہ ہمیں تقویٰ کی حالت کا علم نہیں اس لئے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تم مسلمان نہیں ہو.لیکن سو فیصدی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص مسلمان ہے بھی کہ نہیں اس لئے دونوں جگہ ایک ابہام کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ وہ منافقین جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے.جو آنحضرت ﷺ کے حضور حاضر ہوتے ، اسلام کے دعاوی کرتے ، نمازیں ساتھ پڑھتے اور بعض دفعہ جہاد میں بھی شریک ہو جایا

Page 322

خطبات طاہر جلد ۹ 317 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء کرتے تھے، ان کے متعلق اگر خدا تعالیٰ یہ خبرنہ دیتا تو کسی کو کچھ پتا نہیں لگ سکتا تھا کہ ان کا اسلام نظر آنے والا اسلام ہے اور اس اسلام کے پیچھے تقویٰ نہیں ہے.پس جو کچھ دکھائی دیتا ہے اس کے متعلق بھی ہم کچھ نہیں کہ سکتے.تو پھر جو کچھ دکھائی نہیں دیتا اس کے متعلق ہم کیسے دعاوی کر سکتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کے متعلق فرمایا: عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ (الحشر :۲۳) بعض لوگ جو سرسری نظر سے اس آیت کو پڑھتے ہیں ان کو یہ تو سمجھ آجاتی ہے کہ عالم الغیب کیوں کہا کیونکہ پردہ غیب کی خبریں صرف خدا کو معلوم ہیں شہادہ کی سمجھ نہیں آتی وہ کہتے ہیں شہادہ تو ہم بھی ہیں.جو دکھائی دیتا ہے تو خدا تعالیٰ نے کیوں اس شان کے ساتھ اپنی یہ صفت بیان کی کہ میں علم الغیب ہوں.علمُ الشَّهَادَةِ بھی ہوں.تو درحقیقت یہ انسان کا وہم ہے محض ایک گمان ہے کہ جو کچھ وہ دیکھتا ہے اس کے متعلق بھی قطعی طور پر اور یقینی طور پر وہ کہہ سکتا ہے کہ جو میں نے دیکھا ہے بعینہ وہی حقیقت ہے.یہ مضمون جب بعض صوفیاء کو معلوم ہوا تو وہ اتنے پریشان ہوئے کہ ہر بات سے ان کا اعتماد ہی اٹھ گیا یہاں تک کہ ساری کائنات کو واہمہ کہنے لگے.وہ بھی ایک انتہاء تک پہنچے اور حقیقت سے بے خبر ہو گئے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون پر نظر ان کی ضرور پڑی ہے.جب انہوں نے علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ پر نظر ڈالی تو پھر آہستہ آہستہ نفس پر غور کرنے سے ان کو معلوم ہوا کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ حقیقت تو نہیں ہو سکتی حالانکہ بعض حقیقتیں بھی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ حقیقت نہیں بھی ہوتی.جو شخص سچا ہو جس کا اندر اور باہر ایک ہو اس کو جب آپ دیکھتے ہیں تو حقیقت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ایک زندہ حقیقت تھے.اس لئے صوفیاء کا اس وہم میں مبتلا ہو جانا کہ گویا سب کچھ واہمہ ہی واہمہ ہے اور حقیقت ہے ہی کوئی نہیں یہ درست بات نہیں تھی.ہاں یہ درست ہے کہ انسان جب تک خدا کی گواہی نہ ہو اور آنحضرت ﷺ کے متعلق خدا کی گواہی ہے، اپنے زعم میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ وہی حقیقت ہے جو ہمیں دکھائی دیتی ہے.چنانچہ یہ صوفیاء جن کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کے وہم اتنے بڑھے کہ ایک زمانہ میں ہندوستان میں ان کی اور دوسرے علماء کی اور دوسرے صوفیاء کی بڑی بڑی بحثیں چلا کرتی تھیں اور بعض دفعہ بادشاہوں نے اپنے دربار میں ایسے مناظرے کروائے.

Page 323

خطبات طاہر جلد ۹ 318 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء چنانچہ ایک دفعہ ایک مغل بادشاہ کے دربار میں ایسا ہی مناظرہ ہو رہا تھا.وہ صوفی جو کہتے تھے سب واہمہ ہے اور کوئی حقیقت نہیں ہے.ہم کسی شکل میں بھی عَلِمُ الشَّهَادَةِ بن ہی نہیں سکتے.انہوں نے کہا کہ سب وہم ہی وہم ہے، آپ لوگوں کا خیال ہے.بادشاہ نے کہا کہ دیکھو یہ جو مناظرہ تمہارے درمیان اور فریق ثانی کے درمیان ہورہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ نہیں، انہوں نے کہا کہ نہیں یہ صرف وہم ہے.بادشاہ بڑا تنگ آ گیا فیصلہ کوئی نہیں ہوسکتا تھا تو اس نے کہا کہ اس صوفی کے پیچھے مست ہاتھی چھوڑو.پھر دیکھیں کیا کرتا ہے چنانچہ مست ہاتھی بلوایا گیا جب صوفی صاحب کے پیچھے چھوڑا گیا تو صوفی اٹھ بھاگا.بادشاہ نے اس کو آواز دی کہ وہم ہے یہ ہاتھی نہیں ہے تم کیوں بھاگ رہے ہو.اس نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت! آپ کو وہم ہے کہ میں بھاگ رہا ہوں میں بھاگ نہیں رہا.تو جب تو ہمات کی بیماری ہو جائے تو پھر ہر مضمون واہمہ بن جاتا ہے اور حقیقت کو پانے کے باوجو دانسان حقیقت کو کھودیتا ہے.یہ مضمون جو عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا مضمون ہے، یہ انکسار پیدا کرنے والا مضمون ہے.تو ہمات پیدا کرنے والا نہیں انسان کو تکبر سے باز رکھنے والا مضمون ہے.پس جب ہم کہتے ہیں کہ ہم نے کسی کا اسلام دیکھا تو اس دعوے میں اس حد تک شدت نہیں اختیار کرنی چاہئے کہ چونکہ ہم اس کو مسلمان کے طور پر دیکھتے ہیں، اس لئے لازماً خدا کے نزدیک وہ مقبول مسلمان ہے.ہمیشہ انکسار کی گنجاش رکھنی چاہئے اس لئے نہ کسی کے اسلام کے انکار کی ہمیں طاقت ہے ، نہ کسی کے اسلام کی ایسی تصدیق کی ہمیں طاقت ہے کہ جس کے اوپر ہم اعتماد کر سکیں اور کامل یقین کر سکیں اور اصرار کر سکیں.یہ وہ سبق ہے جو ہمیں قرآن کریم عطا فرماتا ہے اور ان دو انتہاؤں کے درمیان مومن جب زندگی گزارتا ہے تو نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ زندگی گزارتا ہے.پس تقویٰ اس ان دیکھی حقیقت کا نام ہے جو آپ چاہیں بھی تو دیکھ نہیں سکتے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بعض دفعہ یہ دکھائی بھی دینے لگتا ہے اور وہ دکھائی دیتا ہے عمل کے پردے میں اور اسلام کے پردے میں جس طرح جگنوں چمکتا ہے تو اس کے اندر کا نور جھیلوں سے باہر دکھائی دینے لگتا ہے.اسی طرح جب مومن تقویٰ سے بھر جاتا ہے تو اس کے اسلام میں بھی ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے اس لئے اگر چہ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہر مسلمان متقی ہے لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر تقی ضرور مسلمان ہوتا ہے اور تقویٰ کے بڑھنے کے بعد

Page 324

خطبات طاہر جلد ۹ 319 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء بعض دفعہ ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جب تقویٰ اعجاز دکھانے لگتا ہے اور تقویٰ کے اعجاز اسلام کے پردے سے ظاہر ہوتے ہیں.اس کے اسلام میں ایک نیا حسن پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس حسن کے نتیجے میں مسلم کے اندر ایک عجیب دل کشی پیدا ہو جاتی ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور اس مضمون کا تعلق اسلام کے دوسرے معنی سے ہے.جس کا مطلب ہے امن Peace پس جب انسان اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دے اور تقویٰ کی حالت میں اس نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کیا ہو تو پہلی بات اسے امن نصیب ہوتا ہے، اس کے دل کو سکینت مل جاتی ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے اعلان فرمایا.آلَآ اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس : ٦٣) که وہ لوگ جو واقعتہ تقویٰ کے ساتھ اپنے آپ خدا کے سپرد کر دیتے ہیں وہ ایک ایسے عالم جاوداں میں داخل ہو جاتے ہیں، عالم بقاء میں پہنچ جاتے ہیں کہ پھر دنیا کی عارضی چیزیں نہ انہیں کوئی گہرا صدمہ پہنچا سکتی ہیں نہ گہری گھبراہٹ میں مبتلا کر سکتی ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم خدا کے ہو گئے ، ہم خدا کے سپرد ہو گئے تو پھر ان بدلتی ہوئی کیفیات کے لئے بہت زیادہ گہرے غم اور فکر کی ضرورت نہیں.در حقیقت یہ وہی مضمون ہے جو انا للہ وانا اليه راجعون کا ہے.عام طور پر لوگ اپنی چیزوں کے نقصان کے وقت یہ پڑھتے ہیں اور وہ بھی اچھا موقع ہے لیکن درحقیقت اپنے آپ کو خدا کے لئے کھو دینے کا مضمون ہے جو انا لله وانا اليه راجعون میں بیان ہوا ہے.لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ہم خدا ہی کے تو ہیں.خدا ہی کی طرف سے آئے تھے اور اسی کی طرف ہمیں لوٹنا ہے اس لئے جہاں سے ہم آئے.جہاں آخر پہنچنا ہے.اس درمیانی عرصے میں اس سے اپنے وجود کو جدا کیوں رکھیں.تو سپردگی کا پیغام ہے جو ہمیشہ انا لله وانا اليه راجعون مومن کو دیتا چلا جاتا ہے.پس اس پہلو سے اسلام کے نتیجے میں امن نصیب ہوتا ہے اور وہ امن جو دل میں جاگزیں ہو جائے وہ انسان کے اعمال میں پھوٹتا ہے.اس کے رجحانات میں ظاہر ہوتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ وہ شخص جس کو اسلام کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے امن نصیب ہو وہ لوگوں کے امن لوٹنے کے لئے نکل کھڑا ہو.چنانچہ خدا تعالیٰ نے نام مسلم رکھا جس کا اصل ترجمہ ”امن پانے والا نہیں بلکہ ”امن دینے والا ہے پس اسلام کے پہلے مضمون کے نتیجے میں انسان کے دل کو امن نصیب ہوتا ہے اور جسے

Page 325

خطبات طاہر جلد ۹ 320 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء سچا امن نصیب ہو جائے وہ لازماً بنی نوع انسان کے لئے کامل طور پر ایک امن دینے والا وجود بن جاتا ہے جس سے امن کی شعاعیں پھوٹتی ہیں ، امن کی خوشبو نکلتی ہے اور کوئی شخص سچے مومن سے یا سچے مسلم سے کہنا چاہئے ، خوف نہیں کھا سکتا.اس کو پتا ہے کہ اس کے پاس میرا سب کچھ محفوظ ہے.پس مومن یا اس اصطلاح میں جس اصطلاح میں ہم بات کر رہے ہیں مسلم کہنا چاہئے ، مسلم وہ ہے جو سب سے پہلے اپنے وجود کو تقویٰ کے ساتھ خدا کے سپرد کر دے اور تقویٰ کے بغیر سپردگی کا مضمون پیدا ہی نہیں ہوتا.جب وہ سپر د کر دیتا ہے تو اسے امن نصیب ہو جاتا ہے.جب اسے امن نصیب ہوتا ہے تو بنی نوع انسان کی طرف جب وہ لوٹتا ہے تو کامل امن کے ساتھ لوٹتا ہے.آنحضرت ﷺ نے مسلمان کی تعریف یہ فرمائی کہ ایسا وجود جس سے اس کے بھائی کو نہ اس کی زبان سے کوئی خطرہ در پیش ہو، نہ اس کے اعمال سے کوئی خطرہ درپیش ہو.جس کے پاس دوسرے کی عزت بھی محفوظ ہے، اس کی جان بھی محفوظ ہے،اس کے اموال بھی محفوظ ہیں.پس یہ وہ امن ہے جو ہر مسلم کی طرف سے بطور ایک ضمانت کے تمام بنی نوع انسان کو مہیا کیا جاتا ہے.اب اس تعریف کی رو سے جو سو فیصدی حقیقی اور مبنی بر قرآن ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات اس کی قومی تائید کرتے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان کا تصور Terrorist کے طور پر دنیا میں اُبھرے اور وہ لوگ جو خود دنیا کے امن لوٹتے پھرتے ہیں وہ بار بار دنیا میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے بنی نوع انسان کے امن کو سخت خطرہ لاحق ہے سخت فتنوں کے ڈر پیدا ہو گئے ہیں.چنانچہ کل ہی خبروں میں انگلستان کی وزیر اعظم مسز تھیچر کا ایک بیان سنا اور اس پر میرا ذہن اس مضمون کی طرف منتقل ہوا اور میں نے چاہا کہ جماعت احمدیہ کو خوب اچھی طرح کھول کر تقویٰ اور پھر تقویٰ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اسلام سے متعلق آگاہ کروں اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف ان کو متوجہ کروں.کتنا ظلم ہے کہ وہ مذہب جس کے نام میں اس مذہب کی اعلیٰ ترین صفات کا خلاصہ داخل کر دیا گیا ہو، وہ مذہب جو خدا تعالیٰ سے تعلق کے انتہائی مقامات تک اپنے نام میں ہی اشارے کر رہا ہو اور پھر بنی نوع انسان سے تعلقات میں اپنے نام ہی کے اندر انتہائی اعلیٰ درجے کی تعلیم دے رہا ہو، جس کا خلاصہ یہ ہو کہ مسلم وہ ہے جس سے کائنات میں کسی کو کوئی خطرہ نہیں.اب آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ پر نگاہ ڈال کر دیکھیں آپ کو جب رحمۃ للعالمین کہا گیا تو صرف بنی نوع انسان کے لئے آپ

Page 326

خطبات طاہر جلد ۹ 321 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء رحمت نہیں تھے بلکہ جانوروں کے لئے بھی رحمت تھے اور بے جان چیزوں کے لئے بھی رحمت تھے.اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کا یہاں موقعہ نہیں لیکن میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ اس پہلو سے آپ آنحضرت ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کر کے دیکھیں تو صحیح معنوں میں آپ کو اسلام بمعنی امن کی حقیقت معلوم ہو جائے گی.کوئی دنیا میں ایسا وجود نہیں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو مسلمان سے کسی درجے کا خوف رکھتی ہو.آپ نے رستوں کو بھی امن عطا کیا یعنی اسلام کی ایسی تشریحات کیں اور اپنی زندگی میں اسلام کو ایسے حسین اسوہ میں ڈھال کر دکھایا کہ بے جان چیز ہو یا جاندار ہو، ہر چیز کو جو خدا نے پیدا کی ہے مسلمان سے امن نصیب ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے.یہ تشریح آپ نے اپنی عملی زندگی میں ہمیں کر کے دکھائی.یہاں تک بتایا کہ پانی کے بھی حقوق ہیں رزق کے بھی حقوق ہیں جانوروں کے بھی حقوق ہیں، رستوں کے بھی حقوق ہیں اور کوئی باریک سے باریک ایسی چیز بیان سے باہر نہیں رکھی جس میں خدا کی کسی تخلیق کے حقوق ہوں اور آپ نے ہمیں اس سے متعلق متوجہ نہ فرمایا ہو، پس ہر چیز جس وجود سے امن میں آجائے وہی وہ وجود ہے جو یہ کہہ سکتا ہے.اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ میں کامل طور پر خدا کا ہو گیا.گویا جو سب کچھ خدا کا ہے میں کامل طور پر اس کا پیام امن بن گیا اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلمت اللہ نہیں کہا بلکہ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ فرمایا.مطلب یہ تھا کہ میں اسلام کے باریک ترین تقاضوں کا عرفان رکھتے ہوئے تیرا ہو رہا ہوں.جن کا تو رب ہے.مجھے بھی اسلام کے بعد ان کی ربوبیت میں حصہ لینا ہوگا اور ان کے حقوق ادا کرنے ہوں گے.اسلئے جب میں کہتا ہوں کہ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ العلمین تو پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کے باریک تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوں.مضمون ہے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے جواب میں ملتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی اس مضمون پر شاہد ناطق تھی.پس اسلام کی طرف منسوب ہو نیوالا اگر Terrorist کہلانے لگے اور دنیا کی حکومتوں کے وزراء ان کے متعلق یہ بیان دیں، جیسا کہ مسز تھیچر کے بیان کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے کہ عالم اسلام سے ہمیں سخت خطرات درپیش ہیں اور دنیا کے امن کو تباہ کرنے کے احتمالات پیدا ہور ہے ہیں تو کتنی ظلم کی بات ہے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ظلم مسز تھیچر نے کیا ، ہو سکتا ہے کہ انہوں نے بھی از راہ ظلم یہ بات کی ہو لیکن ان لوگوں نے ضرور یہ ظلم کیا ہے جنہوں نے مسلمان کہلاتے ہوئے ایسے نمونے پیش کئے اور ایسی

Page 327

خطبات طاہر جلد ۹ 322 خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۹۰ء دھمکیاں بنی نوع انسان کو دیں جن کے نتیجے میں اسلام کی ایک بالکل غلط تصویر دنیا میں ابھری ہے.جماعت احمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مضمون کو سمجھے اور ہر احمدی ان معنوں میں مسلمان بنے جن معنوں میں آنحضرت ﷺ نے اسلام کو قبول فرمایا اور اپنے اسوہ حسنہ میں جاری فرمایا اور جن معنوں میں ہر دوسرا شخص بلکہ کائنات کی ہر چیز اگر کسی ایک وجود سے امن محسوس کرتی تھی تو حضرت رسول کریم ﷺ کا وجود تھا.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی مسلمان ہو اور بھیا نک ہو.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی مسلمان ہو اور اس کے پاس بیٹھنے سے لرزہ محسوس ہوتا ہو اور انسان اس کے قرب سے ، اس کی باتوں سے خوف کھائے ، اس کی زبان سے خوف کھائے ، اس کے پاس نہ اپنی عزت محفوظ ہو، نہ اپنی جان محفوظ ہو، نہ اپنا مال محفوظ ہو.پس وہ ملاں جو دنیا میں Terror پھیلاتے ہیں.جن کی زبان سے مغلظات نکلتی ہیں، لوگوں کے دلوں کے امن لوٹتے ہیں جو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسلام کے نام پر گھروں کو جلا ؤ اور اموال کولوٹو اور عزتوں کو برباد کرو، وہ شخص جو اسلام کے معنی سمجھتا ہو اس کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں یہ معلوم کرنے کے لئے یہ کس قسم کے اسلام کا دعویدار ہے لیکن احمدی کے لئے دوہری ذمہ داریاں ہیں اور دوہری مشکلات ہیں.ایک تو یہ کہ ہم ان دکھوں کے لئے آج منتخب کئے گئے ہیں جو دکھ بچے مسلمانوں کا ہمیشہ مقدر بنے رہے ہیں یعنی ظالم ان کے دلوں پر ، ان کے ایمان پر ، ان کے دعاوی پر حملے کرتا ہے اور ان کی عزتوں کو لوٹتا ہے اور ان کے دلوں کے امن کو برباد کرتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہمارے لئے ایک مشکل ذمہ داری جو ہم نے ادا کرنی ہے وہ یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان سے اسلام کی غلط تصویر کو مٹانا ہے یعنی ان کے دل سے اسلام کی غلط تصویر کو مٹانا ہے اور بچے اسلام کی تصویر ان کے دلوں پر جمانی ہے.یہ کام دوطریق پر کیا جاسکتا ہے.ایک ہے نظریاتی طور پر اور دلائل کے طور پر.چنانچہ دنیا میں جہاں کہیں بھی میں جاتا ہوں یا جہاں کہیں بھی احمدی غیر مسلموں سے اسلام کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو یہ مسئلہ ہمیشہ در پیش ہوتا ہے کہ اسلام ہے کیا ؟ اسلام ہلاکت کا نام ہے ،خوف پھیلانے کا نام ہے، ظلم و ستم کا نام ہے، جبر و تشدد کا نام ہے یا کوئی اور چیز ہے؟ تو زبان سے ، دلائل سے پوری طرح سمجھا کر ، میں بھی اور دوسرے سب احمدی بھی جو ایسے غیروں سے گفتگو کرتے ہیں جن کے اوپر اسلام کے غلط تاثرات ہیں پوری طرح کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کا صحیح تصور ان کے دل پر نقش ہو

Page 328

خطبات طاہر جلد ۹ 323 خطبه جمعه ۸ جون ۱۹۹۰ء جائے.رات ہی یہاں کے Nunspeet کے ایک ریڈیوٹیشن پر مجھے مدعو کیا گیا تھاوہ دوست جو اس شعبے کے انچارج ہیں بہت ہی خلیق اور مہربان انسان ہیں اور جماعت کو موقع دیتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے مافی الضمیر کو ان کے ریڈیو کے ذریعے بیان کریں تا کہ علاقے کے لوگ معلوم کریں کہ ہم کون لوگ ہیں.وہاں اس قسم کے سوال بھی اٹھے چنانچہ جہاں تک مقدور تھا میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام کا Terrorisim سے کوئی تعلق نہیں.لیکن یہ کافی نہیں اگر ہم سچے مسلمان بنتے ہیں یعنی خدا کے سپرد ہونے کے بعد اس سے امن حاصل کرتے ہیں تو پھر خود سچے امن کے پیمبر بن جاتے ہیں تو گرد و پیش ہمارے اعمال سے اسلام کی ایک تصویر کو دیکھے گا جو تصویر دل موہ لینے والی تصویر ہے اور یہ تصویر اس وقت حسین اور دلکش ہوگی جب دل میں تقوی موجود ہوگا.ظاہری طور پر آپ کے نمازیں پڑھنے سے، ظاہری طور پر بعض بداعمالیوں سے بچنے سے اسلام تو دکھائی دے گا لیکن اس اسلام میں نور نظر نہیں آئے گا جب تک اس اسلام کا گہرے تقویٰ سے تعلق نہ ہو.تقویٰ در حقیقت خدا کی محبت کا نام ہے اور اس خوف کا نام ہے کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے.کہیں کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے کہ وہ نظر پھیر لے.پس صرف محبت ہی کا نام نہیں بلکہ اس دائم رہنے والے شعور کا نام ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو راضی کرنا ہی نہیں راضی رکھنا ہے اور راضی رکھتے چلے جانا ہے.ایسی صورت میں وہ اسلام جو بظاہر ایک ہی دکھائی دیتا ہے عام اسلام سے مختلف ہو جاتا ہے.پھر دیکھنے والے کو ایسے شخص کے اسلام میں ایک عجب سا نور دکھائی دینے لگتا ہے.وہ نور چہروں سے چھلکتا ہے، پیشانیوں سے پھوٹتا ہے اور اس میں ایک ایسی کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ کوئی چاہے نہ چاہے ایسے وجود کی طرف انسان مائل ہونے لگتا ہے.پس اسلام ان اعمال کا نام ہے جو تقویٰ کو چاہتے ہیں لیکن بعض دفعہ بغیر تقویٰ کے بھی کئے جاتے ہیں لیکن جب اسلام کے پیچھے تقومی زور مار رہا ہو تو اسلام زندہ ہو جاتا ہے اور اس میں ایک ایسا نور ، ایسی عظیم الشان کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ بنی نوع انسان اس سے دور بھاگنا چاہیں بھی تو بھاگ نہیں سکتے.وہی مضمون ہے کہ: میں بلاتا تو ہوں ان کو مگر اے جذبہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے (دیوان غالب: ۲۹۶) غالب تو یہ کہتا ہے کہ اس پر بن جائے کچھ ایسی کہ بنائے نہ بنے.اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ تم

Page 329

خطبات طاہر جلد ۹ 324 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۹۰ء اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کر دو کہ تم بے اختیار کر دیا کرو تمہارے اندر ایک غالب قوت پیدا ہو جائے، لازماً کوئی دوسرا وجود تمہاری طرف کھینچتا ہوا چلا جائے.غالب بھی غالباً اور ایک رنگ میں یہی کہنا چاہتا تھا لیکن وہ دنیا کے مضمون کو بیان کر رہا ہے، میں دین کے مضمون کو بیان کر رہا ہوں تمثیل کے طور پر بعض دفعہ دنیاوی اشعار کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے تا کہ بنی نوع انسان زیادہ وضاحت سے سمجھ جائیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام در حقیقت تقویٰ کی اس حالت کا نام ہے جو بنی نوع انسان کو دکھائی بھی دیتی ہے.جو کچھ اسلام کی شکل میں دکھائی دیتا ہے ضروری نہیں کہ وہ تقویٰ کے نتیجے میں ہو لیکن اگر دکھائی دینے والا اسلام تقویٰ کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو تو اس اسلام میں ایک نور پیدا ہو جاتا ہے.اس اسلام میں ایک غیر معمولی کشش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بنی نوع انسان کو بڑی قوت کے ساتھ اور غالب قوت کے ساتھ کھینچنے لگتا ہے.پس دنیا کے اس ماحول کو اگر آپ نے تبدیل کرنا ہے تو محض زبانی پیغامات سے یہ دنیا تبدیل نہیں ہوگی اور جیسا کہ میں نے آپ کو قدم بقدم ساتھ چل کر سمجھایا ہے.اسی طرح اسی طریق پر اول اور دوئم اور سوئم قدم اٹھانے پڑیں گے.یا درکھیں خدا کے سپرد ہونا حقیقت میں تقویٰ چاہتا ہے.تقویٰ سچا ہو تو پھر سپردگی سچی ہوتی ہے اور جب تک انسان اپنے آپ کو خدا کے سپرد نہ کرے وہ امن میں نہیں آتا.ہر پہلو سے آپ اس مضمون پر غور کر کے دیکھ لیں اس کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں اور کوئی رستہ ہی نہیں بنتا.خدا کے سپرد کرنے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ اس کی حفاظت میں آگیا.جب اپنے آپ کو اس کے حضور پیش کر دیا تو چاروں طرف سے خدا کی فصیل ہے جو آپ کو گھیر لیتی ہے اور پھر ہر خوف سے آپ امن میں آجاتے ہیں اور ذہنی طور پر جو سپردگی کا مزا ہے ویسا اور کوئی مزا نہیں.ایک انسان جس نے محبت کی ہو اور اس کو یہ پتا ہو کہ پیار کے نتیجے میں جب انسان اس منزل پہ پہنچتا ہے کہ بس اب میں تیرا ہو گیا تو اس کیفیت سے جو لذت پیدا ہوتی ہے ویسی دنیا میں اور کوئی لذت نہیں اور وہی لذت ہے جو گہر اسکون پیدا کرتی ہے.پس اسلام ہی کے نتیجے میں ظاہری حفاظت بھی ہوگی اور اسلام ہی کے نتیجے میں اندرونی تسکین بھی نصیب ہوگی یعنی ظاہری امن بھی ملے گا اور اندرونی امن بھی ملے گا اور جب آپ اس امن کو حاصل کر لیتے ہیں تو پھر آپ دنیا کو امن دینے والے بن جائیں گے.آج دنیا عجیب عجیب را ہوں سے امن کی تلاش کر رہی ہے.S.A.L.T.Treaties ہور ہے ہیں.یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ

Page 330

خطبات طاہر جلد ۹ 325 خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۹۰ء باہم سمجھوتے ہوں، اعتمادات بڑھیں اور نیوکلئیر Weapons میں کمی آجائے.غرضیکہ ظاہری طریقوں سے وہ امن ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ بالکل ناممکن ہے.امن کا تعلق دل کی کیفیت سے ہے اور دل کے رجحان سے ہے اگر دنیا امن والوں سے بھر جائے جن کو امن نصیب ہے تو لا زمانی نوع انسان کو امن نصیب ہوگا اور اگر دنیا بے چین دلوں سے بھری ہوئی ہو تو کوئی سیاسی معاہدات بھی بنی نوع انسان کو امن نہیں عطا کر سکتے.پس آپ یا درکھیں کہ آپ کے ساتھ دنیا کا امن وابستہ ہے یہ کوئی فرضی باتیں نہیں ہیں.میں کوئی محض خیال آرائی کی باتیں نہیں کر رہا.میں ایسی ٹھوس حقیقتیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ جن حقیقتوں کے متعلق شبے کی کوئی گنجائش نہیں، کوئی وہم کی گنجائش نہیں.سپردگی کے بغیر یعنی تقوی کے ساتھ خدا کے سپرد ہونے کے بغیر بنی نوع انسان میں سے کسی کو امن نصیب نہیں ہوسکتا اور جب تک بنی نوع انسان کو ایسے صاحب امن نصیب نہ ہو جائیں ، ان کو بنی نوع انسان کے امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس حقیقی امن جماعت احمدیہ کے ایسے مخلصین سے وابستہ ہے جن سے ان کا ماحول امن میں آجائے.اگر ایک ایسا احمدی ہو جس سے اس کا ماحول امن میں نہ ہو تو دنیا اس کو کہے یا نہ کہے اس کا دل یہ گواہی دے سکتا ہے کہ تم مسلمان نہیں ہو.کیونکہ انسان اپنی ذات کو تو اندر سے دیکھ رہا ہوتا ہے اس لئے انسان کی عزت کی حفاظت کیلئے خدا تعالیٰ نے غیروں کی زبانوں سے تو اس کو محفوظ کر دیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے نفس کی زبان سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھیں آپ کے اندر اور آپ کے ضمیر کی آواز جتنا آپ پر ظلم کرے گی اتنا ہی آپ پر رحم کر رہی ہوگی.اس لئے اپنے وجود کو حقیقت سے پرکھیں اور بہت ہی آسان اور سیدھی اور صاف پہچان ہے کہ اگر آپ سے آپ کی بیوی امن میں ہے اگر آپ سے آپ کے بچے امن میں ہیں، اگر آپ سے آپ کے عزیز اور رشتے دار امن میں ہیں.اگر آپ سے آپ کے دوست امن میں ہیں اگر آپ سے آپ کا معاشرہ امن میں ہے تو یقین کے ساتھ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سپردگی کی علامتیں مجھ میں ظاہر ہو رہی ہیں.میں خدا کا بنتا چلا جارہا ہوں اور اس کے نتیجے میں طبعا جو ظہور میں آنا چاہئے تھا میری ذات میں ظہور میں آ رہا ہے اور پھر کامل یقین کے ساتھ اس راہ پر آپ آگے بڑھ سکتے ہیں اور آپ کے وجود کے ساتھ آپ کے ماحول کا ہی نہیں بلکہ رفتہ رفتہ تمام دنیا کا امن وابستہ ہوتا چلا جائے

Page 331

خطبات طاہر جلد ۹ 326 خطبہ جمعہ ۸/جون ۱۹۹۰ء گا.ایسے صاحب امن پھر پرورش پاتے ہیں بڑھتے ہیں خدا کی نظر میں آگے بڑھتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں اور بنی نوع انسان ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتی چلی جاتی ہے.وہ جانتے ہیں ، ان کے دل گواہی دیتے ہیں کہ ہاں یہ بچے ہیں اور ان کے دل میں حقیقی امن ہے اس کے بغیر جب آپ اپنے معاشرے کو بھی امن نہیں دے سکتے ، اپنے گھر والوں کو امن نہیں دے سکتے ، اپنے بچوں کو امن نہیں دے سکتے تو کیسے دعوی کر سکتے ہیں کہ آپ خدا کے سپر د ہو گئے اور پھر دنیا کو امن دے سکتے ہیں.خلاصہ اس بات کا یہ ہے اور یاد رکھیں یہ ایک ایسا خلاصہ ہے جو بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ لوگ جو حقیقت میں اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیتے ہیں خدا تعالیٰ کی تقدیر دنیا کو ان کے سپر د کر دیا کرتی ہے اور جب تک اپنے آپ کو خدا کے سپرد نہیں کریں گے دنیا آپ کے سپردنہیں کی جائے گی.اس لئے خدا کی سپردگی کی فکر کریں اور یہ فکر نہ کریں کہ دنیا کہاں ہے اور کب آپ دنیا پر غالب آئیں گے جب آپ اپنے وجود پر غالب آئیں گے تو یا درکھیں کہ وہی دن ہوگا جب آپ کو تو دنیا پر غلبہ اور فتح نصیب ہوگی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نمازیں جمع ہوں گی اور میرے ساتھ تمام مسافر بھی دوگانہ پڑھیں گے.جو دو چار مقامی دوست ہیں وہ بعد میں کھڑے ہو کر اپنی عصر کی نماز پوری چار رکعتیں کرلیں.

Page 332

خطبات طاہر جلد ۹ 327 خطبہ جمعہ ۱۵/جون ۱۹۹۰ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا روس میں دعوت الی اللہ کے متعلق رویا اور خواہش ، روس کیلئے واقفین زندگی کی تحریک (خطبه جمعه فرموده ۱۵ارجون ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اس دفعہ جرمنی کے سالانہ جلسے میں شرکت کی جو توفیق ملی تو جہاں جماعت کی ترقی سے متعلق بہت سی خوشکن باتیں دیکھنے میں آئیں وہاں سب سے بڑی خوشی کی بات یہ معلوم ہوئی کہ جن احمد یوں نے بھی مشرقی یورپ سے آکر مغربی جرمنی میں بسنے والوں سے رابطے کئے ہیں یا روسیوں سے رابطے کئے ہیں ان کے رابطوں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت جلدی ان لوگوں میں اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اگر چہ وہ سارے دوست تو جلسے پر آکر ملاقات نہیں کر سکے لیکن جتنوں نے بھی کی ان کو دیکھ کر دل خوشی اور اطمینان سے بھر گیا کہ بہت تیزی کے ساتھ ان میں احمدیت میں دلچسپی پیدا ہو رہی تھی اور جہاں تک جماعت احمدیہ کے دیگر فرقوں سے اختلافی عقائد کا تعلق ہے ان لوگوں کے لئے جماعت احمد یہ کوحق پر سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اشتراکیت نے ایک لمبے عرصے سے ان کے دلوں کی پٹی صاف کی ہوئی ہے اور اگر چہ وہ خدا سے بھی دور چلے گئے مگر ساتھ ہی لغواور کہانیوں والے عقائد سے بھی دور چلے گئے اور اب انہیں صرف وہی مذہب مطمئن کر سکتا ہے جو محض دل ہی کو مطمئن نہ کرے بلکہ دماغ کو مطمئن کرے اور جب تک ان کا دماغ مطمئن نہ ہو ان کا دل مطمئن نہیں ہو سکتا.اس لئے جب بھی ان کو سمجھانے کی خاطر کہ جو اسلام تمہیں پیش کیا جارہا ہے یہ

Page 333

خطبات طاہر جلد ۹ 328 خطبه جمعه ۱۵ جون ۱۹۹۰ء تنہا تصور نہیں ہے اور بھی اسلام کے تصورات ہیں اور ہمارے مخالفین ہمیں اس اس وجہ سے یہ یہ سمجھتے ہیں اور جو اختلافی عقائد ہیں ان میں سے چند یہ ہیں.جب بھی یہ بات ان سے کی گئی بے ساختہ انہوں نے کہا کہ اس میں تو کسی دلیل کی کوئی ضرورت ہی نہیں.ہم بغیر تر ڈو کے آپ کی بات سنتے سنتے یہی سمجھ رہے تھے کہ یہی معقول اسلام ہے اس کے سوا اسلام کی کوئی صورت نہیں ہے.تو اتنے عظیم الشان تغیرات خدا تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعے اسلام کے نفوذ کے پیدا فرمائے ہیں کہ اگر ہم اس پر عملاً خدا تعالیٰ کا شکر ادا نہ کریں تو بڑی سخت بدنصیبی ہوگی.جرمنی میں کچھ نوجوان اور کچھ انصار خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور بعض لجنہ اماء اللہ کی ممبرات بھی اس بارہ میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ان سب کی کوششوں کے نتائج جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت ہی امید افزا ہیں.اس ضمن میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ کا ایک مضمون جو کسی ایک بہت پرانے الفضل میں شائع ہوا تھا مجھے ہندوستان سے ایک دوست نے بھیجا ہے.میں چاہتا ہوں کہ وہ آپ کو پڑھ کر سناؤں اور اس کے بعد پھر اس کی روشنی میں چند باتیں آپ سے کروں گا لیکن اس سے پہلے میں ایک تصحیح کرنا چاہتا ہوں.آپ کو یاد ہوگا گزشتہ کچھ عرصہ پہلے میں نے خطبے میں حضرت مصلح موعودؓ کے ایک رؤیا کا ذکر کیا تھا کہ وہ کسی خوف کی وجہ سے جگہ چھوڑ کر کسی اور ملک میں جانے پر مجبور ہوئے ہیں اور وہاں انہوں نے مجھے گود میں اٹھایا ہوا ہے یا اُمّم طاہر کے ایک بیٹے کو اور اس میں میں نے حضرت مصلح موعود کی طرف منسوب کر کے نام طاہر لے لیا تھا چونکہ وہ رویا بہت پہلے سے پڑھی ہوئی تھی اس لئے خطبے کے معا بعد میں نے ربوہ لکھا کہ یادداشت سے بعض دفعہ غلطی ہو جاتی ہے اس لئے آپ اصل رویا جس اخبار میں چھپی تھی اس کی عکسی تصویر مجھے بھجوائیں تا کہ اگر غلطی سے کوئی بات واقعہ کے خلاف مذکور ہو گئی ہو تو اس کی درستی کر لی جائے.وہ رویا میں نے دوبارہ پڑھی تو اس میں باقی مضمون تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل رؤیا کے مطابق ہی تھا.یعنی یادداشت نے کوئی غلطی نہیں کی.لیکن لڑکے کا ذکر تو ہے اس میں میرا نام نہیں ہے بلکہ جس رنگ میں وہ ذکر ہے وہ اپنی ذات میں ایک خاص معنی رکھتا ہے اور اس میں بھی ایک پیشگوئی مضمر تھی.آپ نے یہ لکھا ہے کہ جب میں نے خطرہ محسوس کیا تو میں بالا خانے پر اس غرض سے گیا کہ اپنی اہلیہ ام طاہر کو بھی جگادوں اور ان کو بھی ساتھ لے چلوں.وہاں میں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ ان کا ایک بچہ لیٹا ہوا ہے.اب وہ بچہ جو

Page 334

خطبات طاہر جلد ۹ 329 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں موجود نہیں تھا، اچانک اس طرح دکھایا جانا خود اپنی ذات میں ایک اعجازی رنگ رکھتا ہے اور پھر اس سے دلچسپ بات یہ ہے کہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے بچے کو اٹھایا تو وہ لڑکا بن گیا.تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ موجود بچوں کی طرف اشارہ کرنا مراد نہیں تھی بلکہ کسی ایسے بچے کی طرف اشارہ کرنا مراد تھی جو خدا کی تقدیر میں دین کے کام آنے والا تھا اور اس کا لڑکا بن جانا بتاتا ہے کہ بعد میں اس میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی تھی.پس ایک تو یہ الفاظ کی درستی ذہن نشین کر لیں اور جو خطبے چھپ چکے ہیں یا ریکارڈ ہو چکے ہیں ان میں تو اب درستی ممکن نہیں لیکن تاریخ میں یہ بات میرے اس خطبے کے ذریعے درج ہو جائے گی.دوسری بہت دلچسپ بات جو دوبارہ پڑھنے سے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جو خطرہ تھا وہ فوجیوں کی طرف سے تھا اور ان فوجیوں کی تعیین نہیں ہے کہ کون ہیں.دیکھتے ہیں کہ میں اچانک گھر سے باہر دیکھتا ہوں تو کچھ فوجی افسر گویا بد نیتی کے ساتھ وہاں کھڑے ہیں اور مجھے ان کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا ہے تو میں زمین پر اتر کر جانے کی بجائے جس طرح پہاڑوں پر گھر بنے ہوتے ہیں اوپر کی منزل کا بھی بالا بالا تعلق ہوتا ہے.میں بالائی رستے سے نکل گیا ہوں اور یہ میری ہجرت کے عین مطابق ہے یعنی بالائی رستے سے یہاں فضائی رستے کے ذریعے رخصت ہونا اور خاموشی سے رخصت ہونا مراد ہے.تو بہر حال میں نے پرائیوٹ سیکرٹری کو یہ ہدایت کی تھی کہ اس ذکر کے ساتھ کہ یہ تصیح احباب جماعت کر لیں ، اس ساری رؤیا کو دوبارہ احمدی اخباروں میں شائع کروادیا جائے ہممکن ہے شائع ہو بھی چکی ہوں لیکن جہاں تک انگلستان کے رسالوں کا تعلق ہے ابھی تک میرے علم میں نہیں آیا کہ یہاں شائع ہوئی ہو حالانکہ بھجوائے ہوئے ایک مہینے سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے.بہر حال اب امید ہے کہ یہ اصل رؤیا اس مختصر نوٹ کے ساتھ جو میرے خطبے سے اخذ کر لیا جائے تمام دنیا کے احمدی اخبارات اور رسائل میں شائع ہو جائے گی.چونکہ اس کا بہت گہرا تعلق آج کے زمانے سے اور آج کی بدلتی ہوئی تاریخ سے ہے اس لئے سب احمدیوں کو چاہئے کہ اس پر غور کریں اور اس غور کے نتیجے میں اگر کوئی نیا نکتہ ہاتھ آئے تو اس سے بھی مجھے مطلع کریں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو یہ تو فیق عطا فرمائے کہ اسی دور میں ان عظیم الشان فتوحات کی بنیاد میں قائم ہو جائیں جن کے وعدے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے ہیں.

Page 335

خطبات طاہر جلد ۹ 330 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء اسی خطبے میں میں نے ایک روسی انسائیکلو پیڈیا یا مقالے کا ذکر کیا تھا کہ اس سے مجھے معلوم ہوا تھا کہ جماعت احمدیہ کی کچھ شاخیں روس میں ابھی تک موجود ہیں لیکن ہمارا ان سے رابطہ نہیں ہے اور میں نے بیان کیا تھا کہ یہ اطلاع مجھے ایک روسی رسالے کے مضمون کا ترجمہ پڑھ کر ہوئی.روسی زبان کے ہمارے ماہر خاور صاحب ہیں ان سے میں نے اب کہا تھا کہ وہ اصل حوالہ نکالیں.چنانچہ انہوں نے آج وہ حوالہ پیش کیا ہے.یہ رسالہ نہیں بلکہ با قاعدہ ایک کتاب ہے جس میں انسائیکلو پیڈیا کے رنگ میں گہرے تحقیقی مضامین اور اعداد و شمار شائع ہوتے ہیں.اس کا عنوان ہے: About the teachings and legends of the Ahmadia Muslim sect.یہ ایک بڑی کتاب کا حصہ ہے.یعنی اس میں ایک مضمون ہے جو اپنی ذات میں الگ شائع نہیں ہوا بلکہ ایک بڑی کتاب جو مشرقی ممالک میں مذاہب سے تعلق رکھتی ہے اس میں سے لیا گیا ہے.اس کا عنوان یہ ہے.Religion and Muslim society of the people of the East ۱۹۷۱ء میں یہ کتاب شائع ہوئی تھی.اس کے الفاظ یہ ہیں.یعنی جب ۱۹۲۰ء کا دھا کا اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا.at the end of Twenties.Ahmadia Groups were also found in the Soviet Central Asia احمد یہ گروپس ہیں یعنی ایک جماعت نہیں بلکہ کئی جماعتیں سوویت سنٹرل ایشیا میں اس وقت پائی گئی تھیں.But they, according to the declaration of the head of the whole Ahmadia Sect, did not then have connection with the Indian centre.لیکن وہ اپنے عالمی امام کی ہدایت کے تابع ہندوستانی مرکز سے منقطع رہیں اور انہوں نے اپنا رابطہ قائم نہ کیا.یہ بات میں نے خطبے میں بیان کر دی تھی لیکن میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ یہ معلوم ہوتا ہے

Page 336

خطبات طاہر جلد ۹ 331 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء چونکہ روس نے ایسے تعلق کی اجازت نہیں دی اور اس زمانے میں خاص طور پر تی تھی کہ ہندوستان سے کوئی علاقہ نہ رکھا جائے کیونکہ وہ انگریزی حکومت کے تابع تھا اس لئے اس بات پر پردہ ڈالنے کے لئے انہوں نے یہ کہانی بنالی ہے کہ مرکزی امام نے ہدایت کی تھی کہ تم یہ رابطے نہ رکھو.جو مضمون حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شائع ہوا ہے اور ہندوستان میں بہار کے ایک احمدی دوست نے مجھے بھجوایا ہے اس سے مزید اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ امام جماعت احمدیہ کو بشدت روسی جماعتوں سے تعلق قائم کرنے کی ایک بے پناہ تمنا تھی.اور ایسی تمنا تھی جو دل کو کریدتی رہتی تھی کہ کسی طرح ان جماعتوں سے میرا تعلق قائم ہو جائے.لیکن روسی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے اس زمانے میں ایسا تعلق قائم کرنا ممکن نہیں تھا.یہ مضمون ۱۴ اگست ۱۹۲۳ء کے الفضل میں شائع ہوا ہے.اس لئے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مقالہ نگار نے جو لکھا ہے کہ ۱۹۲۰ء کے دھا کے آخری عرصے میں“ یہ درست نہیں ہے کیونکہ ۱۹۲۳ء سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے روس میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.حضرت مصلح موعودؓ نے یہ با قاعدہ مضمون کی صورت میں الفضل میں چھپوایا.اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمُدهِ، وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ اس کے نیچے فارسی کا ایک شعر ہے.الله الحمد هر آن چیز که خاطر میخواست آخر آمد زپس پرده تقدیر پدید کہ کتنی اللہ کی حمد ہو.کیسا کیسا اللہ کا شکر ہو کہ ہر وہ چیز جس کا میرا دل خواہاں تھا آخر پر وہ تقدیر کے پیچھے سے ظاہر ہوگئی.۱۹۱۹ عیسوی کا واقعہ ہے جسے میں پہلے بھی بعض مجالس میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک احمدی دوست اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے جو انگریزی فوج میں ملازم تھے اپنی فوج کے ساتھ ایران میں گئے.وہاں سے

Page 337

خطبات طاہر جلد ۹ 332 خطبہ جمعہ ۱۵ جون ۱۹۹۰ء بولشو یکی فتنہ کی روک تھام کے لئے حکام بالا کے حکم سے ان کی فوج روس کے علاقہ میں گھس گئی اور کچھ عرصہ تک وہاں رہی.یہ واقعات عام طور پر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں کیونکہ اس وقت کے مصالح یہی چاہتے تھے کہ روسی علاقہ میں انگریزی فوجوں کی پیش دستی کو خفی رکھا جائے.ان دوست کا نام فتح محمد تھا اور یہ فوج میں نائک تھے.ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص فوج میں احمدی ہو گیا اور اس کو ایک موقعہ پر روسی فوجوں کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لئے چند سپاہیوں سمیت ایک ایسی جگہ کی طرف بھیجا گیا جو کیمپ سے کچھ دور آگے کی طرف تھی.وہاں سے اس شخص نے فتح محمد صاحب کے پاس آکر بیان کیا کہ ہم لوگ پھرتے پھراتے ایک جگہ پر گئے جہاں کچھ لوگ شہر سے باہر ایک گنبد کی شکل کی عمارت میں رہتے تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس عمارت کے اندر ایک ایسے آثار ہیں جیسے مساجد میں ہوتے ہیں لیکن کرسیاں بچھی ہوئی ہیں.جو لوگ وہاں رہتے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ یہ جگہ تو مسجد معلوم ہوتی ہے.پھر اس میں کرسیاں کیوں بچھی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ مبلغ ہیں اور چونکہ روسی اور یہودی لوگ ہمارے پاس زیادہ آتے ہیں وہ زمین پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لئے کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں“ یہ روس کا وہ مشرقی علاقہ ہے جہاں اسلام کے ظاہر ہونے کے ایک سوسال کے بعد ایک بہت بڑی قوم نے یہودیت اختیار کر لی تھی اور یہ تاریخ عالم کا خاص واقعہ ہے ورنہ تو عموماً یہودی نسلاً بعد نسل چلے آرہے ہیں اور یہ کوئی تبلیغی جماعت نہیں لیکن مشرقی یورپ سے آنے والے اکثر یہودی انہیں قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے وہاں یہودیت اختیار کی تھی تو غالبا یہ وہی علاقہ ہوگا.یہ میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ جن دوستوں نے وہ جماعتیں تلاش کرنی ہیں وہ ذہن نشین رکھیں کہ کون کون سی علامات ہیں جن کی پیروی کرتے ہوئے وہ احمد یہ جماعتوں تک پہنچ سکیں گے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ : اس لئے کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں.نماز کے وقت اٹھا دیتے

Page 338

خطبات طاہر جلد ۹ 333 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء ہیں.ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں.اس پر اس دوست کا بیان ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ چونکہ یہ مذہبی آدمی ہیں ان کو تبلیغ کروں.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو گئے.انہوں نے کہا کہ جس طرح اور انبیاء فوت ہو گئے ہیں اسی طرح وہ فوت ہو گئے ہیں.اس پر میں نے پوچھا کہ ان کی نسبت تو خبر ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے.انہوں نے کہا کہ ہاں اسی امت میں سے ایک شخص آجائے گا.اس پر میں نے کہا کہ یہ عقیدہ تو ہندوستان میں ایک جماعت جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مانتی ہے اس کا ہے.اس پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ بھی انہی کے ماننے والے ہیں.فتح محمد صاحب نے جب یہ باتیں اس نو احمدی سے سنیں تو دل میں شوق ہوا کہ وہ اس امر کی تحقیق کریں.اتفاقاً کچھ دنوں بعد ان کو بھی آگے جانے کا حکم ہوا اور وہ روسی عشق آباد میں گئے.وہاں انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا یہاں کوئی احمدی لوگ ہیں.لوگوں نے صاف انکار کیا اور یہ بھی یا درکھئے کہ خاص طور پر عشق آباد کا علاقہ ہے.لوگوں نے صاف انکار کیا کہ یہاں اس مذہب کے آدمی نہیں ہیں.جب انہوں نے یہ پوچھا کہ عیسی علیہ السلام کو وفات یافتہ ماننے والے لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تم صابیوں کا پوچھتے ہو.آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والوں کو بھی اس زمانے کے منکرین صابی کہا کرتے تھے.یعنی ایک نیا مذ ہب ایجاد کرنے والے، ایک نئے مذہب سے تعلق رکھنے والے.اچھا تم صابیوں کا پوچھتے ہو.وہ تو یہاں ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک شخص کا پتا بتایا وہ درزی کا کام کرتا ہے اور پاس ہی اس کی دوکان ہے.یہ اس کے پاس گئے اور اس سے حالات دریافت کئے.اس نے کہا کہ ہم مسلمان

Page 339

خطبات طاہر جلد ۹ 334 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء ہیں.یہ لوگ تعصب سے ہمیں صابی کہتے ہیں جس طرح رسول کریم ﷺ کے دشمن ان کے ماننے والوں کو صابی کہتے تھے.انہوں نے وجہ مخالفت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی مماثلت پر ایک شخص اسی امت کا مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور وہ ہندوستان میں پیدا ہو گیا ہیاس لئے یہ لوگ ہمیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں شروع میں ہمیں سخت تکالیف دی گئیں روسی حکومت کو ہمارے خلاف رپورٹیں دی گئیں کہ یہ باغی ہیں اور ہمارے بہت سے آدمی قید کئے گئے.لیکن تحقیق پر روسی گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ ہم باغی نہیں ہیں بلکہ حکومت کے وفادار ہیں تو ہمیں چھوڑ دیا گیا.اب ہم تبلیغ کرتے ہیں اور کثرت سے مسیحیوں اور یہودیوں میں سے ہمارے ذریعہ سے اسلام لائے ہیں یہ ساری باتیں بالکل ہمارے علم میں نہیں تھیں.اللہ تعالیٰ اس دوست کو جزا دے جنہوں نے پرانے اخبار کھنگال کر اتنا قیمتی مضمون دوبارہ ہمارے سامنے رکھا اور اس طرح ساری جماعت کو اس بے حد ایمان افروز واقعہ کا علم ہوا کہ روس میں جو تبلیغ ہوئی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی مسلمان بنایا گیا ہے محض مسلمانوں کو احمدی نہیں بنایا گیا.لیکن مسلمانوں میں سے کم نے مانا ہے یہ الٹ بات ہے.معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں وہاں مسلمانوں میں بہت زیادہ تعصب تھا تو ان میں سے کم نے مانا ہے لیکن اب تو خدا کے فضل سے سارے مسلمان تیار بیٹھے ہیں.احمدیوں کو اب تیاری کرنی ہے.مسلمان زیادہ مخالفت کرتے ہیں.جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ فتح محمد صاحب بھی اسی جماعت میں سے ہیں تو بہت خوش ہوا.سلسلہ کی ابتداء کا ذکر اس نے اس طرح سنایا کہ کوئی ایرانی ہندوستان گیا تھا وہاں اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ملیں.وہ ان کو پڑھ کر ایمان لے آیا اور واپس آکر یزد کے علاقے میں جو اس کا وطن تھا“ اب یہ یزد کا علاقہ بھی ہماری خاص توجہ کا مرکز بننا چاہئے.

Page 340

خطبات طاہر جلد ۹ 335 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء اس نے تبلیغ کی کئی لوگ جو تاجروں میں سے تھے ایمان لائے وہ تجارت کے لئے اس علاقہ میں آئے اور ان کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو حال معلوم ہوا اور ہم ایمان لے آئے اور اس طرح جماعت بڑھنے لگی“ یہ جو مضمون ہے یہ اس خط کی بھی یاد دلاتا ہے جو شملے کے رہنے والے ہندوستانی حکومت کے ایک غیر احمدی افسر نے ایک احمدی کے نام لکھا تھا جس میں اس نے ذکر کیا تھا کہ میں حکومت کے سفیر کے طور پر ایران وغیرہ کے مختلف علاقوں میں پھرتارہا ہوں اور وہاں میرے علم میں یہ بات آئی کہ ایران کی وساطت سے بعض روسی بھی احمدی ہوئے ہیں اور ایک روسی جو جہاز میں کپتان تھا.اس سے بھی ان کی ملاقات ہوئی اور اس نے بڑے فخر کے ساتھ سعادت کے رنگ میں تسلیم کیا کہ ہاں میں احمدی ہوں، تو یہ جو مختلف قسم کے سارے واقعات ہیں یہ ایک ہی طرف انگلیاں اٹھارہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ انسانی کوشش سے بلکہ خدا کی اس تقدیر کے نتیجے میں جو لکھی گئی ہے کہ روس میں ریت کے ذروں کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے مسلمان پیدا ہوں گے، یہ سامان خود بخود ہونے شروع ہو چکے تھے.یہ حالات فتح محمد صاحب مرحوم نے لکھ کر بھیجے.چونکہ عرصہ زیادہ ہو گیا ہے.اب اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ واقعات اسی ترتیب سے ہیں یا نہیں.لیکن خلاصہ ان واقعات کا یہی ہے گوممکن ہے کہ بوجہ مدت گزر جانے کے واقعات آگے پیچھے بیان ہو گئے ہوں.جس وقت یہ خط مجھے ملا میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کہ بخارا کے امیر کی کمان آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے.اسی رنگ میں پوری ہو رہی ہے اور میں نے چاہا کہ اس جماعت کی مزید تحقیق کے لئے فتح محمد صاحب کو لکھا جائے کہ اتنے میں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے بھی مجھے اطلاع ملی کہ سرکاری تار کے ذریعہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ فتح محمد صاحب میدان جنگ میں گولی لگنے سے فوت ہوگئے ہیں.اس خبر نے تمام امید پر پانی پھیر دیا اور سر دست اس ارادہ کو ملتوی کرنا پڑا مگر یہ خواہش میرے دل میں بڑے زور سے

Page 341

خطبات طاہر جلد ۹ 336 خطبہ جمعہ ۱۵/جون ۱۹۹۰ء پیدا ہوتی رہی اور آخر ۲ء میں میں نے ارادہ کر لیا.معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ ۱۳ ۱۴ کی بات ہوگی جو پہلا واقعہ ہے کیونکہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیر ہوگئی ہے.اس لئے واقعات شاید ذہنی ترتیب کے لحاظ سے آگے پیچھے ہو گئے ہوں.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پچھلے سال خط آیا ہو اور آج یہ واقعات ترتیب کے لحاظ سے بدل جائیں کیونکہ حضرت مصلح موعود کی یادداشت تو بہت پختہ تھی ، غیر معمولی تھی.اس لئے میرا اندازہ ہے کہ چند سال پہلے کا لکھا ہوا کوئی خط ہوگا.واقعات تو یا درہ گئے لیکن ترتیب یاد نہیں رہی تو ۱۹۲۱ء سے چند سال پہلے کے متعلق ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے فضل سے روس میں ایک نہیں بلکہ متعدد جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.” اور آخر میں میں نے ارادہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو اس علاقہ کی خبر لینی چاہئے چونکہ انگریزی اور روسی حکومتوں میں اس وقت صلح نہیں تھی اور ایک دوسرے پر سخت بدگمانی تھی اور پاسپورٹ کا طریق ایشیائی علاقہ کے لئے تو غالبا بند ہی تھا یہ دقت درمیان میں سخت تھی اور اس کا کوئی علاج نظر نہ آتا تھا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو اس کام کو کرنا چاہئے اور ان احباب میں سے جو زندگی وقف کر چکے ہیں.ایک دوست میاں محمد امین صاحب افغان کو میں نے اس کام کے لئے چنا“ انگلستان کی جماعت کی یہ خوش نصیبی ہے کہ انہی محمد امین افغان صاحب کے صاحبزادے بشیر احمد خان غالباً برمنگھم میں رہتے ہیں.یہ اسی عظیم تاریخی انسان کے بیٹے ہیں جواب جماعت احمدیہ انگلستان کے ایک فرد ہیں چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں : ایک دوست میاں محمد امین صاحب افغان کو میں نے اس کام کے لئے چنا اور ان کو بلا کر سب مشکلات بتادیں اور کہ دیا کہ آپ نے زندگی وقف کی ہے.اگر آپ اس عہد پر قائم ہیں تو اس کام کے لئے تیار ہو جا ئیں جان اور آرام ہر وقت خطرہ میں ہوں گے اور ہم کسی قسم کا کوئی خرچ آپ کو نہیں دیں گے.آپ کو اپنا خرچ خود کمانا ہوگا.

Page 342

خطبات طاہر جلد ۹ 337 خطبہ جمعہ ۱۵ جون ۱۹۹۰ء یعنی اپنے روزگار کا خودا انتظام کرنا ہو گا.کھانے پینے کا خود انتظام کرنا ہوگا اس دوست نے بڑی خوشی سے ان باتوں کو قبول کیا اور اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے اور سلسلہ کی تبلیغ کے لئے بلا زاد راہ فوراً نکل کھڑے ہوئے کوئٹہ تک تو ریل میں سفر کیا سردی کے دن تھے اور برفانی علاقوں میں سے گزرنا پڑتا تھا مگر سب تکالیف برداشت کر کے بلا کافی سامان کے دو ماہ میں ایران پہنچے اور وہاں سے روس میں داخل ہونے کے لئے چل پڑے.آخری خط ان کا مارچ ۱۹۲۲ء کا لکھا ہوا پہنچا تھا.اس کے بعد نہ وہ خط لکھ سکتے تھے.نہ پہنچ سکتا تھا مگر الحمد للہ کہ آج 9 اگست کو ان کا اٹھارہ جولائی کا لکھا ہوا خط ملا ہے.جس سے یہ خوشخبری معلوم ہوئی ہے کہ آخر اس ملک میں بھی احمدی جماعت تیار ہو گئی ہے اور باقاعدہ انجمن بن گئی ہے.“ اس دوست کو روسی علاقہ میں داخل ہو کر جو سنسنی خیز حالات پیش آئے وہ نہایت اختصار سے انہوں نے لکھے ہیں لیکن اس اختصار میں بھی ایک صاحب بصیرت کے لئے کافی تفصیل موجود ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کے تجربات سے دوسرے بھائی فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاص میں ترقی کریں گئے“ جو بھائی اس زمانے میں مخاطب تھے ان کے لئے تو ممکن نہیں ہو سکا کہ وہ ان تجربات سے فائدہ اٹھا کر اخلاص میں اور نیک اعمال میں ترقی کریں.آج جو آپ میرے مخاطب ہیں ان میں سے جن کو بھی خدا تعالیٰ توفیق دے اب حالات بہت زیادہ بہتر اور آسان ہو چکے ہیں اور رابطوں میں کوئی خطرہ نہیں ہے، وہ اپنے آپ کو خالصہ اس غرض سے وقف کریں کہ اپنے خرچ پر وہ ان علاقوں میں جن کی میں نے نشاندہی کی ہے خود پہنچ کر جائزے لیں اور حضرت مسیح کے کھوئے ہوئے شیروں کو تلاش کریں کیونکہ مسیح عیسوی کی تو بھیڑیں گئی تھیں، مسیح محمدی" کے اگر گمیں تو شیر گتے ہیں.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ دوست جو استطاعت رکھتے ہیں اور ایک ولولہ اور جوش رکھتے ہیں وہ اب روس میں تبلیغ اسلام کے لئے مستعد ہو جائیں اور وقف عارضی کے لئے ایسے نام ملنے چاہئیں جو ان جگہوں میں جا کر بڑی محنت اور کوشش سے بھولی بسری جماعتوں کا کھوج لگائیں اور پھر ان سے رابطہ کریں اور

Page 343

خطبات طاہر جلد ۹ 338 خطبہ جمعہ ۱۵ جون ۱۹۹۰ء اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس مضمون کو وہاں سے آگے بڑھائیں.پھر فرماتے ہیں: اور اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ حقیقی کامیابی خدا کی راہ میں فنا ہونے میں ہی ہے چونکہ برادرم محمد امین خان صاحب کے پاس پاسپورٹ نہ تھا اس لئے وہ روسی علاقہ میں داخل ہوتے ہیں.روس کے پہلے ریلوے سٹیشن قبضہ پر انگریزی جاسوس قرار دیئے جا کر گرفتار کئے گئے.کپڑے اور کتابیں اور جو کچھ پاس تھا وہ ضبط کر لیا گیا اور ایک مہینہ تک آپ کو وہاں قید رکھا گیا.اس کے بعد آپ کو عشق آباد کے قید خانہ میں تبدیل کیا گیا“ یہ وہی علاقہ ہے جس کا پہلے ذکر آچکا ہے وہاں سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں آپ کو براستہ سمر قند تاشقند بھیجا گیا اور وہاں دو ماہ تک قید رکھا گیا اور بار بار آپ سے بیانات لئے گئے تا یہ ثابت ہو جائے کہ آپ انگریزی حکومت کے جاسوس ہیں اور جب بیانات سے کام نہ چلا تو قسم قسم کی لالچوں اور دھمکیوں سے کام لیا گیا اور فوٹو لئے گئے.تا عکس محفوظ رہے اور آئندہ گرفتاری میں آسانی ہو اور اس کے بعد گوشکی سرحد افغانستان پر لے جایا گیا اور وہاں سے ہرات افغانستان کی طرف اخراج کا حکم دیا گیا مگر چونکہ یہ مجاہد گھر سے اس امر کا عزم کر کے نکلا تھا کہ میں نے اس علاقہ میں حق کی تبلیغ کرنی ہے اس نے واپس آنے کو اپنے لئے موت سمجھا اور روسی پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا اور بھاگ کر بخارا جا پہنچا.دو ماہ تک آپ وہاں آزادر ہے لیکن دوماہ کے بعد پھر انگریزی جاسوس کے شبہ میں گرفتار کئے گئے اور تین ماہ تک نہایت سخت اور دل کو ہلا دینے والے مظالم آپ پر کئے گئے اور قید میں رکھا گیا اور اس کے بعد پھر روس سے نکلنے کا حکم دیا گیا اور بخارا سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں سرحد ایران کی طرف واپس بھیج دیا گیا“.اللہ تعالیٰ اس مجاہد کی ہمت میں اور اخلاص اور تقویٰ میں برکت دے

Page 344

خطبات طاہر جلد ۹ 339 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء چونکہ ابھی اس کی پیاس نہ بھی تھی اس لئے پھر کا کان کے ریلوے سٹیشن سے روسی مسلم پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا یہ اس طرح بار بار پولیس کی حراست سے بھاگ نکلنا عجیب بات لگتی ہے.خاص طور پر اس زمانے میں بولشویک انقلاب کے بعد روس میں تو ان معاملات پر بہت سختی کی جاتی تھی.اس لئے یہ جو الفاظ انہوں نے لکھے ہیں روسی مسلمان پولیس اور حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ بعض اشارے موجود ہیں.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان پولیس کے ہاتھوں سے بھاگنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان کو تبلیغ کی گئی ہے اور یا وہ احمدی ہو گئے ہیں یا دل احمدیت کے لئے نرم ہو گئے ہیں ورنہ اسی طرح تکرار کے ساتھ روسی پولیس کی حراست سے بھاگ نکلنا کوئی آسان بات نہیں.روسی مسلم پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا اور پا پیادہ بخارا پہنچا.بخارا میں ایک ہفتہ کے بعد پھر ان کو گرفتار کیا گیا اور بدستور سابق پھر کا کان کی طرف لایا گیا اور وہاں سے سمرقند پہنچایا گیا.وہاں سے آپ پھر چھوٹ کر بھاگے اور پھر بخارا پہنچے اور ۱۳ مارچ ۲۳ء کو پہلی دفعہ بخارا میں اس جماعت سے مخلصین کو جو پہلے الگ الگ تھے‘ یعنی پہلے خدا کے فضل سے جماعت قائم تھی لیکن تنظیم قائم نہیں تھی تو انہوں نے بخارا میں جا کر وہ تنظیم قائم کی.اور حسب میری ہدایت کے ان کو پہلے آپس میں نہیں ملایا گیا تھا.ایک جگہ اکٹھا کر کے آپس میں ملایا گیا اور ایک احمدی انجمن بنائی گئی یہ جو فقرہ ہے یہ بہت دلچسپ ہے اور حسب میری ہدایت کے ان کو پہلے آپس میں نہیں ملایا گیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود کو پہلے ان کی کوئی اطلاع آئی ہوگی اور آپ نے ان کو احتیاط یہ حکم دیا ہوگا کہ آپس میں منظم ہو کر نہ رہو اور وہ جو روسی محقق نے بات لکھی ہے وہ پھر بالکل بے بنیاد بھی نہیں.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روسی محقق نے گہری تحقیق کی ہے اور اس کو یہ پتہ چلا ہے کہ جو تنظیم قائم نہیں ہے، رابطہ قائم نہیں ہے وہ مرکز کی ہدایت پر ہے لیکن وہ غلط سمجھا.آپس میں رابطہ قائم

Page 345

خطبات طاہر جلد ۹ 340 خطبه جمعه ۱۵ جون ۱۹۹۰ء نہ کرنے کی ہدایت تھی نہ کہ مرکز سے رابطہ توڑنے کی ہدایت تھی تو بہر حال پرانے کاغذات سے یہ بہت سی باتیں زیادہ واضح ہوتی چلی جاتی ہیں.اس طرح تاریخ پر مزید روشنی پڑتی ہے.ایک جگہ اکٹھا کر کے آپس میں ملایا گیا اور ایک احمد یہ انجمن بنائی گئی اور باجماعت نماز ادا کی گئی اور چندوں کا افتتاح کیا گیا.وہاں کی جماعت کے دو مخلص بھائی ہمارے عزیز بھائی کے ساتھ آنے کے لئے تیار تھے لیکن پاسپورٹ نہ مل سکنے کے سبب سردست رہ گئے.اس وقت محمد امین خاں صاحب واپس ہندوستان کو آرہے ہیں اور ایران سے ان کا خط پہنچا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے واپس لائے اور آئندہ سلسلہ کی بیش از بیش خدمات کرنے کا موقع دے.میں ان واقعات کو پیش کر کے اپنی جماعت کو مخلصوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ تکالیف جن کو ہمارے اس بھائی نے برداشت کیا ہے ان کے مقابلہ میں وہ تکالیف کیا ہیں جو ملکانہ میں پیش آرہی ہیں پھر کہتے ہیں جنہوں نے ان ادنیٰ تکالیف کے برداشت کرنے کی جرات کی ہے“ پھر کہتے ہیں“ سے مراد یہ ہے کہ بعض لوگ ملکانہ میں قربانی کرنے والوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ تکالیف برداشت کرنے کی جرات کی ہے تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ تکالیف یہ ہوا کرتی ہیں.ان کے مقابل پر تم ان چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کو کہہ رہے ہو کہ بڑی جرأت کی ہے.”اے بھائیو! یہ وقت قربانی کا ہے.کوئی قوم بغیر قربانی کے ترقی نہیں کر سکتی.آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی نئی برادری کو جو بخارا میں قائم ہوئی ہے یونہی نہیں چھوڑ سکتے.پس آپ میں سے کوئی رشید روح ہے جوان ریوڑ سے دور بھیڑوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو.اور اس وقت تک ان کو چوبانی کرے کہ اس ملک میں ان کے لئے آزادی کا راستہ اللہ تعالیٰ کھول دے.“ الفضل قادیان دارالامان ) مورخه ۱۴ اگست ۱۹۲۳ء نمبر ۱۲ جلد۱۱)

Page 346

خطبات طاہر جلد ۹ 341 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء دنیا میں تو غالباً جہاں تک میرا علم ہے کوئی ایسا چوبان میسر نہ آسکا جو اس وقت تک کہ خدا ان کے راستے کھول دے ان کی چوبانی کرتا لیکن میرا کامل ایمان ہے.ایک ذرہ بھی مجھے اس میں شک نہیں کہ اس تمام عرصے میں خدا تعالیٰ ان کی چوبانی کرتا رہا ہے اور ان کو ضائع ہونے سے بچاتا رہا ہے خدا کی یہ تقدیریں جو نئے نئے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں.یہ آپس میں گہراتعلق رکھتی ہیں اور بظاہرنئی ہونے کے باوجود ان کے گزشتہ تقدیروں سے رابطے ہوتے ہیں.پس آج جو روس کے لئے راستے کھولے جارے ہیں یہ اسی خدا کی تقدیر کے سلسلے کا ایک حصہ ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ساری جماعتیں جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس طرح غیر معمولی طور پر آسمان کے فرشتوں نے قائم کی ہیں وہ اس عرصے میں ضائع ہو چکی ہوں.ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ احمدی مخلصین اپنے آپ کو پیش کریں تا کہ از سر نو ان علاقوں سے رابطے کریں اور اب تو قرآن کریم کے ترجمے کا تحفہ ان کے پاس ہوگا اور اس سے بڑا اور اس سے عظیم تر تحفہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی خدمت میں پیش نہیں کیا جا سکتا.صرف یہی نہیں بلکہ بغیر اس علم کے کہ روس میں کیا تبدیلیاں ہونے والی ہیں.اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہم سے پہلے ہی تراجم کروارہی تھی اور جب کوئی پوچھتا تھا کہ کس طرح ان کو وہاں پہنچاؤ گے اور ہم رابطے کرتے تھے تو روس کے علاقے میں ان کتب اور رسائل کو پہنچانے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن اب اللہ تعالیٰ نے یہ رستے کھول دئے ہیں اور اور بھی بہت سی عظیم الشان تبدیلیاں ہو رہی ہیں.جو خالصہ اللہ کے فضل کے نتیجے میں ہیں اور کسی انسان کی چالا کی یا منصوبے یا ہوشیاری یا محنت کے نتیجے میں نہیں ہیں.رشین زبان میں اب تک جو تر جمے چھپ چکے ہیں وہ ہیں راشین ترجمہ قرآن مجید منتخب آیات قرآن مجید، منتخب اقتباسات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چار مختلف موضوعات پر فولڈرز جو حضرت مصلح موعودؓ کے بعض مضامین سے اس لئے اخذ کئے گئے تھے کہ آج کل کے زمانے میں روس کے مزاج کے مطابق وہ اقتباسات میرے نزدیک مفید تھے اور ان کے روسی ترجمے کروا کے چھوٹے چھوٹے فولڈرز کی صورت میں وہ چار فولڈ رز تیار کروائے گئے تھے جو بغیر تقسیم کے پڑے تھے، اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تقسیم کا وقت آگیا ہے.منتخب احادیث طباعت کے مرحلے پر ہیں کیونکہ ان کے ترجمے میں کچھ کمزوری رہ گئی تھی.جس کی بار بار کی چھان پھٹک کے نتیجے میں کچھ تاخیر

Page 347

خطبات طاہر جلد ۹ 342 خطبہ جمعہ ۱۵ جون ۱۹۹۰ء ہو گئی لیکن اب یہ طبع ہو رہی ہے.اس کے علاوہ حسب ذیل تراجم مکمل ہو چکے ہیں اور میں نے ہدایت کر دی ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ ان کو طبع کروایا جائے اور اس کے ساتھ ہی آئندہ معاً بعد شائع ہونے والے لٹریچر کے متعلق بھی منصوبہ بنایا جا رہا ہے.نماز اور اس کے مسائل “ یہ بہت ہی اہم ضرورت ہے اور روس کے مسلمان بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں اس قسم کا لٹریچر دو کیونکہ ہمیں تو کچھ بھی نہیں پتا.یعنی آباؤ اجداد سے جو کچھ اسلام سیکھا ہوا تھا وہ سب بھلایا جا چکا ہے.نماز اگر پڑھنی آتی ہے تو اس کا ترجمہ نہیں آتا لیکن نئی نسلوں کو تو نماز پڑھنی بھی نہیں آتی.نماز کا ترجمہ پھر اس کے مسائل سادہ سادہ چھوٹے چھوٹے مسائل جو آسانی سے ذہن نشین ہو سکیں ان سے متعلق یہ کتاب تیار کروائی گئی ہے جو سلسلے کی طرف سے مختلف کتب نماز کے موضوع پر تھیں ان میں سے کچھ حصے اخذ کر کے کچھ باتیں زائد کر کے ایک بہت ہی جامع مانع آسان زبان کی کتاب ہے جو انشاء اللہ روس میں بہت مقبولیت پائے گی."Revival of Religion" یہ غالباً آسٹریلیا یا نجی میں میری ایک تقریر تھی ، اس کا انگریزی ترجمہ ہے جس سے آگے روسی ترجمہ کروالیا گیا ہے.”یسر نا القرآن“ کا قرآن کا پڑھنا سکھانا بھی بہت ضروری ہے.ان لوگوں کو تو اب بالکل قرآن پڑھنا ہی نہیں آتا سوائے چند علماء کے جو باہر کی یونیورسٹیز میں جا کر عربی سیکھتے رہے ہیں.کروڑ ہا مسلمان عوام الناس ایسے ہیں جو قرآن کریم کی ایک سطر بھی نہیں پڑھ سکتے.پس ان کے لئے روسی زبان میں میسر نا القرآن پیش کرنا ضروری تھا.چنانچہ اس کے لئے میں نے مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر سے اجازت حاصل کی کیونکہ اس رسالے کے جو حقوق ہیں وہ پیر صاحب مرحوم نے حضرت میر صاحب کی اولاد کے نام کر دیئے تھے اور پہلے میر داؤ د احمد صاحب اس کے انچارج تھے.اب میرمحمود احمد صاحب ناصر اور میر مسعود احمد صاحب ہیں.چنانچہ میں نے ان سے اجازت لی اور انہوں نے بڑی خوشی سے اجازت دی کہ آپ اس سے استفادہ کریں جتنی زبانوں میں بھی ضرورت ہو جس طرح چاہیں استفادہ کریں تو یہ بتادیتا ہوں کہ یہ کام اجازت لے کر کیا جارہا ہے اور جماعت میں اس اخلاقی نکتہ کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جو رسالہ جو کتاب جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہے اس کو بغیر اجازت از خود شائع نہیں کروانا چاہئے.یہ دنیا کے مسلمہ اخلاق کے خلاف بات ہے اس لئے پہلے تحقیق کرنی چاہئے کہ کون اس کے حقوق رکھتا ہے اور جس کے حقوق کے متعلق معین معلوم نہ ہو اس کے متعلق جماعت سے اجازت لینی

Page 348

خطبات طاہر جلد ۹ 343 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء چاہئے.” اسلام میں عورتوں کا مقام اور سب سے اہم اس دوسرے حصے میں دیباچہ تفسیر القرآن مکمل و مسیح ہندوستان میں“ کا ترجمہ بھی ہو رہا ہے اس ضمن میں ایک اور خوشخبری یہ ہے کہ اگر چہ کلیم خاور صاحب جن کو روسی زبان کے لئے تیار کیا گیا تھا، ایک حد تک روسی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں، گفتگو کر سکتے ہیں اور روسی سے صحت کے ساتھ ترجمہ بھی کر سکتے ہیں لیکن روسی زبان کا ایسا محاورہ نہیں ہے کہ علمی مقالہ جات یا کتب کا ترجمہ کر سکیں.اس لحاظ سے شدت سے ضرورت تھی کہ کوئی ایسا آدمی جس کو انگریزی پر بھی عبور ہو اور روسی پر بھی عبور ہوا اور کسی حد تک مشرقی زبانوں یعنی فارسی عربی، وغیرہ سے بھی آشنا ہوا یا کوئی مترجم میسر آئے.پچھلے دنوں یعنی چند مہینے کی بات ہے غالبا دو مہینے کی یا اس کے لگ بھگ کہ ایک روسی شاعر اور مصنف جو تا تارستان کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور پانچ زبانوں کے ماہر ہیں وہ اپنے سفر پر یہاں تشریف لائے ان کا ہم سے تعارف ہوا اور چند مجالس میں ہی وہ جماعت احمدیہ کے ایسے مداح ہو گئے کہ اپنے سارے دوسرے کام چھوڑ کر اپنے آپ کو تراجم کے لئے پیش کر دیا.ابھی چند دن ہو گئے ان کا آسٹریلیا سے خط آیا ہے وہاں دورے پر گئے ہوئے ہیں اور انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ میں تو جماعت احمدیہ کا عاشق ہو چکا ہوں اور سارے دوسرے کام بند کئے ہوئے ہیں.جہاں جہاں جاتا ہوں جماعت احمدیہ کی تبلیغ کرتا ہوں اور میرا فیصلہ ہے کہ جلد واپس آکر اپنا بقیہ وقت تمام تر جماعت کی خدمت پر صرف کروں اور جو لٹریچر بھی اس وقت اولیت رکھتا ہو پہلے اس کے ترجمے کروں.اس ضمن میں یہ پہلے کئی دن اسلام آباد ٹھہر کر دن رات محنت کر کے دیباچہ تفسیر القرآن کے ترجمے کو دہراچکے ہیں اور جو حصہ اس میں سے ناقص تھا اس کی انہوں نے تصحیح کی ہے اور جب ہم نے ماہرین کو ان کی تصحیح دکھائی تو وہ عش عش کر اٹھے اور انہوں نے کہا کہ نہایت اعلیٰ ترجمہ ہے.اس میں کسی اصلاح کی گنجائش نہیں.تو یہ وہ ماہر ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی عطا کر دیئے.اب بتا ئیں بھلا یہ انسانی کام ہیں.میرے لئے یا آپ کے لئے ، ہم سب کے لئے بالکل ناممکن تھا کہ از خود اسلام کی ترقی کی اس طلب کو یا اس طلب کی پیاس کو بجھا سکتے.پیاس بجھانے والے بھی خدا مہیا فرما رہا ہے.سارے انتظام از خود جاری ہورہے ہیں.روسیوں کی ہاکی کی ایک ٹیم بھی ایک دوسرے علاقے سے یہاں آئی تھی ان کا بھی خدا تعالیٰ

Page 349

خطبات طاہر جلد ۹ 344 خطبه جمعه ۱۵ جون ۱۹۹۰ء نے احمدی ہاکی ٹیم انگلستان سے رابطہ قائم کروادیا.دوستانے ہوئے اب ہماری ٹیم وہاں جائے گی.تو یہ سارے سلسلے تقدیر الہی کے سلسلے ہیں جو Unfold ہو رہی ہے.جس طرح گلاب کی پتیاں کھلتی ہیں اس طرح یہ پھول کھل رہے ہیں اور زیادہ حسین اور دلکش اور زیادہ خوشبوؤں کے ساتھ یہ کھلتے ہوئے پھول انشاء اللہ تعالیٰ روسی دنیا کو اسلام کی طرف مائل کریں گے.و مسیح ہندوستان میں“ کا ترجمہ ہورہا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے باقی تراجم بھی ہوں گے.اب میں مختصر اصرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمام دنیا کی جماعتیں جہاں جہاں یہ امکان موجود ہے کہ روسی قوم کے باشندے وہاں عارضی یا مستقل رہائش رکھتے ہوں اور مشرقی یورپ کے دوست وہاں آباد ہوں یا ان کی ایمبیسیز موجود ہوں تو وہ جیسا کہ میں پہلے بارہا تاکید کر چکا ہوں، اسی بات کا انتظام کریں کہ کچھ نہ کچھ احمدی ان سے تعلق جوڑیں.مشکل یہ ہے کہ اکثر جماعتوں نے اپنے تمام احمدی دوستوں کو یہ بھی مطلع نہیں کیا کہ ہمارے پاس دوسروں کو پیش کرنے کے لئے کیا کیا لٹریچر موجود ہے اور بارہا مجھے اس بات پر وقت خرچ کرنا پڑتا ہے.مختلف ملکوں سے مطالبہ ہوتا ہے کہ فلاں روی سے ہمارا رابطہ ہوا، فلاں رومانین سے ہوا فلاں پولش سے ہوا.بتا ئیں اس زبان میں کوئی لٹریچر موجود ہے کہ نہیں.اب کتنی دفعہ بتا ئیں، کس طرح بتا ئیں ، ساری دنیا کی جماعتوں کو با قاعدہ سرکلر جاری کر کے تمام لٹریچر کے متعلق تفصیل پہنچائی گئی ہے اور جب نیا لٹریچر شائع ہوتا ہے، پہنچائی جاتی ہے.اگر اس پر امیر یا مبلغین بیٹھ رہیں اور احباب جماعت کو مطلع نہ کریں تو پھر وہ میرا وقت خرچ کرتے ہیں.میرا وقت تو آپ کا ہے لیکن جن باتوں پر خرچ کرنا ضروری نہ ہوان پر خرچ کروانا وقت کا ضیاع ہوتا ہے.اس لئے سب جماعتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے منصوبے کیا ہیں؟ کس رنگ میں تبلیغ کرنی چاہئے ؟ اگر مدد کی کوئی ضرورت پڑے تو کس طرح حاصل کرنی ہے؟ اس کے لئے پہلے اپنے ملک میں رابطے ہونے چاہئیں اور مجھے جیسا کہ دستور ہے اور میں اس کو پسند کرتا ہوں براہ راست صرف رپورٹ ملا کرے کہ یہ بات ہوئی تھی اور اس پر ہم نے رابطہ کیا اور اس طرح ہماری پیاس بجھ گئی اور اگر ضرورت پوری نہ ہو اور پیاس باقی رہے تو پھر لازم ہے کہ مجھے براہ راست اطلاع کریں تا کہ میں فوری طور پر جماعت کو متوجہ کروں.اس بات پر میں اس خطے کو ختم کرتا ہوں کہ دو تحریکات تھیں جن کو میں خاص طور پر آپ کے

Page 350

خطبات طاہر جلد ۹ 345 خطبه جمعه ۱۵/جون ۱۹۹۰ء سامنے رکھنی چاہتا تھا.ایک یہ کہ روس کے لئے واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو امین خاں صاحب مرحوم کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں.اگر چہ اب وہ سختیاں نہیں رہیں وہ تکلیفیں نہیں رہیں لیکن جس حد تک بھی ان کی قربانی کا اعادہ کیا جاسکتا ہے.اپنے خرچ پر جا کر محنت اور محبت اور جستجو کے ساتھ جماعتوں کا کھوج لگانا اور ان سے رابطہ کرنا اور نظام جماعت کو از سرنو زندہ کرنا یہ ان کا کام ہوگا اور اس کے علاوہ تبلیغ کے نئے رستے تلاش کریں اور لٹریچر کی تقسیم کے سلسلہ میں رابطے قائم کریں اور اپنی رپورٹوں میں ہمیں مطلع کریں کہ کس طرح فلاں فلاں قوم میں کن کن لوگوں میں لٹریچر کی ترسیل ضروری ہے اور نشاندہی کریں کہ کس قسم کا لٹریچر چاہئے اور دوسرا یہ کہ جو روسی دنیا میں پھیلے پڑے ہیں اور جو مشرقی یورپ کے باشندے باہر کی دنیا میں ملتے ہیں ان سب سے رابطے بڑھائیں اور جماعتیں اس بات کی نگران ہوں کہ سب احمدیوں کی بروقت صحیح راہنمائی ہورہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور ان کو علم ہے کہ کس کس زبان میں ہمارے پاس کیا کیا لٹریچر موجود ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ وقت کے ان تیزی سے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو ان توقعات سے بڑھ کر پورا کریں جو تو قعات ہماری جماعت سے کی جاتی ہیں.(آمین)

Page 351

Page 352

خطبات طاہر جلد ۹ 347 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء اخلاق محمد ہی اخلاق حسنہ ہیں ان کے بغیر کوئی کامیابی نہیں زندگی کی کایا پلٹنے کی طاقت سچے اسلام میں ہے دا عین الی اللہ ومبلغین سلسلہ کو اہم نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ جون ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- گزشتہ خطبے میں میں نے روس کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق جماعت احمدیہ کو اپنی نئی ذمہ داریاں سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اور یہ تحریک کی تھی کہ روس میں جانے کے لئے واقفین عارضی اپنے آپ کو پیش کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اُس کے بعد سے ایسے خطوط آنے شروع ہوئے ہیں کہ دوستوں میں اس بارے میں ایک بہیجان پایا جاتا ہے ، خواہش ہے.بعض لوگ مجبوریاں پیش کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس عہد کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ جب بھی خدا توفیق دے گا وہ انشاء اللہ ضرور جائیں گے.بعض نے جانے والوں کے لئے روپیہ پیش کیا ہے تا کہ وہ اُن کے خرچ پر جائیں اور اس طرح وہ ثواب میں شامل ہو جائیں لیکن وہ خود نہیں جاسکتے.بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور انشاء اللہ پروگرام کے مطابق اب اُن کو بھجوایا جائے گا.روس کے علاوہ بھی یورپین ممالک کے ساتھ اسلام کے رابطے کے امکانات دن بدن زیادہ روشن ہو رہے ہیں اور جماعت احمد یہ بھی انتظامی لحاظ سے ان تمام امور پر نظر رکھتے ہوئے مزید تعلقات

Page 353

خطبات طاہر جلد ۹ 348 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء بڑھا رہی ہے، حکومتوں سے بھی، اُن کے بڑے بڑے دانشوروں سے بھی اور اس کے علاوہ مذہبی راہنماؤں سے اور ہر رابطے کے نتیجے میں یہ بات زیادہ واضح ہوتی چلی جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت جماعت احمدیہ کی طلب پیدا ہو چکی ہے اور جب میں کہتا ہوں جماعت احمدیہ کی طلب تو ظاہر بات ہے کہ اسلام کی طلب مراد ہے مگر وہ اسلام جسے ہم اسلام سمجھتے ہیں جسے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام سمجھا تھا اور جسے آپ نے اپنے حسین اور بے داغ کردار کے طور پر دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا.اُس اسلام کی اتنی طلب ہے کہ بعض خطوط سے جب اطلاعیں ملتی ہیں کہ فلاں شخص جو پہلے اتنا دشمن تھا اسلام کا جب ہم نے اُس سے رابطہ کیا اور اسلام سمجھایا تو پھر اُس کا یہ رد عمل ہوا تو انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس طرح تیزی کے ساتھ انسان کی کایا پلٹتی ہے اور یہ کایا پلٹنے کی طاقت سچے اسلام میں ہے.حال ہی میں ہندوستان سے ایک رپورٹ ملی کہ وہاں کی وہ پارٹی جو مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش ہے اور دن بدن زیادہ طاقت حاصل کرتی چلی جارہی ہے اُن کے ایک سیکرٹری کو موقع ملا کہ ہماری تبلیغی نمائش کو آ کر دیکھے.وہ آیا تو کسی اور نیت سے ہوگا کیونکہ بعد میں جو اُس نے باتیں کیں اور بعض دوسرے ہندو جو مختلف تنظیموں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں انہوں نے باتیں کیں.اُن سے پتا چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ میں اُن کی دلچسپی بڑھ رہی ہے اور بڑے غور سے اور گہری نظر سے مطالعہ کر رہے ہیں کہ یہ کس قسم کی جماعت ہے اور کس طرح ان سے ہم نے نبرد آزما ہونا ہے؟ تو اس خیال سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ آئے تو ہوں گے تنقیدی نظر سے دیکھنے کے لئے اور بہر حال دوست کی نظر سے تو وہ جس مقام کے آدمی ہیں وہ نہیں آ سکتے تھے لیکن جوں جوں وہ نمائش دیکھتے رہے اور تبادلہ خیال کرتے چلے گئے اور یہ معلوم کرتے رہے کہ اسلام دیگر بنی نوع انسان سے اور دیگر مذاہب سے کیسے تعلقات کا خواہاں ہے، کیا تعلیم دیتا ہے؟ تو ان کی حالت بدلنی شروع ہوئی.آخر پر جانے سے پہلے وہ کتاب میں اپنے ہاتھ سے ریمارکس لکھ کر دے گئے ہیں اور انہوں نے یہ لکھا ہے کہ میں اُس اسلام سے نفرت کرتا ہوں جو اسلام دوسرے مسلمان ہمارے سامنے اب تک پیش کرتے رہے ہیں اور اُس اسلام سے محبت میں مبتلا ہو گیا ہوں جو اسلام جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے اور جو اسلام بانی اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا.حیرت انگیز ہے یہ بات کہ ایک گھنٹہ

Page 354

خطبات طاہر جلد ۹ 349 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء ڈیڑھ گھنٹے کی مجلس نے اور جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی کوششوں پر نظر ڈالنے سے اُن کے اندر یہ حیرت انگیز پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے.بہار جو کہ فسادات کی جڑ بنا رہا ہے.بہار سے اب بھی جو ڈاک موصول ہوئی تو اس میں بھی یہ باتیں تھیں کہ وہاں کے ہندو اب بار بار جماعت سے رابطہ کر کے معلوم کر رہے ہیں کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے اور اپنے گزشتہ رویے پر نظر ثانی کر رہے ہیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی ایک Good Will کے طور پر، خیر سگالی کے طور پر جہاں مسلمان فساد زدگان کی مدد کی گئی وہاں ہند وفسادز دگان کی بھی مدد کی گئی اور میں نے یہ خاص تاکید کی تھی کہ صرف مسلمانوں کی مدد کریں گے تو فرقہ واریت کو مزید ہوا ملے گی اس لئے انسانیت کی مدد کرنی ہے اور انسانیت کی مدد کریں گے تو انسانی جذبات اور انسانی قدروں کو تقویت ملے گی.چنانچہ ایک ہندو علاقے میں جو فساد سے متاثر تھا اگر چه زیادہ مسلمان متاثر ہوئے ہیں لیکن بہر حال ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ہندو متاثر ہوئے ہیں.وہاں جب جماعت احمدیہ نے جا کر غریبوں کی خدمت کی اور گرے ہوئے گھروں میں تعمیر کی پیشکش کی تو اُس سے ایک سنسنی سی پیدا ہوگئی اور اس تیزی سے یہ خبر اس علاقے میں پھیلی ہے کہ دور دور سے ہندوراہنما تجب سے دیکھنے آئے کہ یہ ہیں کون لوگ؟ کس قسم کے مسلمان ہیں اور کس قسم کی تعلیم دنیا میں پیش کر رہے ہیں؟ تو اس لئے رابطے تو بہت پھیل رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اور نئی نئی کھڑکیاں کھلتی چلی جارہی ہیں جو پھر دروازوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور پھر شاہراہوں میں بدل رہی ہیں اور تمام تعلقات کو خدا تعالیٰ کے فضل سے وسعت عطا ہورہی ہے.اب چلنے والے بھی تو چاہیں کھڑکیاں کھلیں، کچھ لوگ چھلانگیں لگاتے ہیں کھڑکیاں جب کھلتی ہیں، کچھ دروازوں کا انتظار کرتے ہیں، کچھ سڑکوں کا انتظار کرتے ہیں.اب تو خدا تعالیٰ نے سارے انتظام کر دیئے ہیں، سارے کام مکمل ہو گئے.اب چلنے والوں کی ضرورت ہے اور جہاں تک میں اپنی روز مرہ کی ڈاک سے اور ر پورٹوں سے اندازہ لگاتا ہوں میرا خیال ہے کہ ابھی بھاری اکثریت جماعت کی ایسی ہے جو ان بدلے ہوئے حالات میں اپنے بدلے ہوئے کردار کے ذریعے استفادہ نہیں کر رہی اور بہت سے گم سم بیٹھے ہیں یعنی بات سنتے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی دل نرم ہے اور بہت جلدی نصیحت کو قبول کرتا ہے لیکن اُن کی راہنمائی نہیں.کیا کریں کس طرح کریں؟ وہ بات سُن کر گم سم بیٹھ جاتے ہیں اور پھر بعض دفعہ

Page 355

خطبات طاہر جلد ۹ 350 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء اپنے درد کا اظہار کرتے ہیں جی ہماری خواہش تو تھی ہم کیا کریں، کچھ نہیں کر سکتے.حالانکہ اگر آنکھیں کھول کر ذہین اور بیدار مغز کے ساتھ آپ خدمت کی راہیں تلاش کریں تو ہر جگہ میسر آ جاتی ہیں.خواتین جو خدا تعالیٰ کے فضل سے آنکھیں کھول کر ذہانت سے خدمت کی راہیں تلاش کرتی ہیں اُن کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دیتا ہے.وہی محاورہ کہ شکر خورے کو خدا شکر دے ہی دیتا ہے.اگر دل میں طلب پیدا ہو اور طلب سچی ہو تو کوئی نہ کوئی اُس طلب کو پورا کرنے کی راہ نکل ہی آتی ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ طلب سچی ہو اور کوئی رستہ نہ ملے.یہ ضروری تو نہیں کہ ہر احمدی روس جائے ، یہ بھی ضروری نہیں کہ محض ہندوؤں سے رابطہ ہو یا سکھوں سے رابطہ ہو.خدا کی مخلوق وسیع ہے اور آپ جہاں بھی ہیں وہاں خدا کی ایسی مخلوق کے بیچ میں گھرے ہوئے ہیں جن کا احمدیت اور اسلام سے تعلق نہیں ہے تو جہاں چاروں طرف شکار پھیلا پڑا ہو اور شکاری شکار میں گھرا ہوا ہو وہاں اُس کا یہ شکوہ یا یہ تفکرات کہ شکار کہاں سے تلاش کروں سوائے اس کے کہ یہ بات ظاہر کرتی ہو کہ اُس کی آنکھیں بند ہیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا.سارے ماحول میں شکار ہے، ہر طرف ہے.وہ آنکھ کھولنی چاہئے جو ان کھلتے ہوئے رستوں کو دیکھنا شروع کر دے.اگر رستے کھل رہے ہوں اور آنکھیں بند ہوں تو اُن کھلتے ہوئے رستوں کا کیا فائدہ؟ اس لئے آج ضرورت ہے کہ ساری جماعت پوری جان اور دل اور حوصلے کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ کہ سارے عالم میں جو تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لئے پیدا ہو رہی ہیں اور اس کامل یقین کے ساتھ اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کہ وہ چھوٹی سی قوم جس کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمانی ہے اور جس کے مقدر میں یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمائندگی میں اس زمانے میں اسلام پھیلانے کی ایک نئی مہم جاری کرے جو عالمگیر ہو اور ایسی طاقتور مہم ہو کہ اہر درابر دیگر قوموں پر، دیگر مذاہب پر غلبہ پاتی چلی جائے وہ آپ لوگ ہیں.یہ یقین ہو تو یقیناً انسان کے رجحانات بالکل یکسر بدل جاتے ہیں.انسان اپنے وقت کا حساب کرنے لگتا ہے.دن رات اس سوچ میں فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہ کام میں کیسے سرانجام دوں.پھر آنکھیں کھولتا ہے تو گرد و پیش دیکھتا ہے تو معلوم کرتا ہے کہ میرے تو ابھی ہمسایوں سے ہی تعلقات نہیں ہیں.روز مرہ میں جن کاموں پر جاتا ہوں میرے

Page 356

خطبات طاہر جلد ۹ 351 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء ساتھی ہیں کبھی میں نے اُن کے سامنے بھی اسلام کے حق میں لب کشائی نہیں کی یا اس رنگ میں نہیں کی کہ اُن کو اسلام سے دلچسپی پیدا ہو.اس ضمن میں میں نے بار ہا پہلے بھی یہ نصیحت کی ہے اور اس کو جتنا بھی دہراؤں کم ہوگا کہ اسلام میں دلچسپی پیدا کرنے سے پہلے اپنی ذات میں غیروں کی دلچسپی پیدا کریں.ہرگز اسلام میں غیروں کو دلچپسی پیدا نہیں ہو گی اگر احمدی کی ذات دلچسپ نہ بن جائے اور لوگ اُس کی ذات میں دلچسپی لے کر پھر اُس مذہب کی جستجو شروع کریں جس نے اُسے دلچسپ بنایا ہے اور ذات میں دلچسپی کے لئے بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ آپ اخلاق حسنہ سے مزین ہوں.اسی لئے میں اخلاق حسنہ پر بار بار زور دیتا رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اخلاق حسنہ کے ہتھیاروں کے بغیر یہ دنیا دین اسلام کے لئے فتح نہیں کی جاسکتی اور اخلاق حسنہ کے بغیر آپ اپنے ماحول کو بھی فتح نہیں کر سکتے ، اپنے گھر کو اپنے بچوں کو فتح نہیں کر سکتے.یہ جو خط آتے ہیں کہ ہمارے بچے ہاتھ سے نکل گئے ، بیٹی بھاگ گئی نعوذ باللہ خدا کرے کہ ایسے واقعات احمدیت میں نہ ہوں کبھی لیکن ہورہے ہیں اُن سب کے پس منظر میں گھر یلو بداخلاقیاں ہیں اور اُس کے نتیجے میں اولاد کے ساتھ وہ گہرا رابطہ نہیں رہتا جو رابطہ ایک قوی اثر بن جاتا ہے.جس طرح مقناطیس کے اثر سے لوہا بھاگ نہیں سکتا اس طرح اولا دبھی بھاگ نہیں سکتی.تو اخلاق حسنہ کا فقدان ہے جو تربیت میں بھی بڑے تکلیف دہ مناظر پیدا کرتا اور دکھاتا ہے اور تبلیغ میں بھی انسان کو بے بس اور بے کس کر دیتا ہے.اخلاق حسنہ میں عورتوں کو ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرنا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب حساب فہمیاں ہونگی تو ایک بہت بڑی ذمہ داری بد اخلاقیوں کی عورتوں پر ڈالی جائے گی.اکثر بداخلاقیاں جاہل ماؤں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں.جاہل ماؤں کے گھروں میں بد اخلاقیاں پرورش پاتی ہیں جس طرح گندی غذا میں سونڈیاں اور کیڑے مکوڑے پرورش پاتے ہیں.جاہل مائیں اپنی اولاد کے پیار اور محبت میں شرک کی حد تک پہنچ جاتی ہیں اور پھر اُن کے ہر عیب پر پردے ڈالتی ہیں اور ہر خوبی سے بے نیاز ہو جاتی ہیں کیونکہ اُن کو عیب خوبی دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور اُس کے نتیجے میں وہ اُن کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں لوگوں کے حق غصب کرنے میں، اُن سے بد تمیزی کرنے میں ، بداخلاقی سے پیش آنے میں اور عجیب ظلم کی بات ہے کہ یہی مائیں جو اپنی اولاد کو عملاً خدا بنا کے پوج رہی ہوتی

Page 357

خطبات طاہر جلد ۹ 352 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء ہیں جب کسی اور گھر کی بیٹیاں اُن کے گھر آتی ہیں تو ان سے پیار اور محبت کی بجائے اپنی اولاد کی محبت کا اظہار اس طرح کرتی ہیں کہ اس کے اندر کیڑے ڈالنے شروع کر دیتی ہیں اور اس سے اپنے بیٹے کو بدظن کرتی ہیں، اپنے خاوند کو بدظن کرتی ہیں اور اگر بیٹا اُس کے حقوق ادا کرے تو وہ کہتی ہیں کہ تو ہم سے بھاگ گیا ہے، تجھے ماں باپ کی کوئی فکر ہی نہیں رہی.تو گھر بسانے کی بجائے گھر اجاڑتی ہیں اس لئے میں نے ایسی ماؤں کا نام جاہل مائیں رکھا ہے.بد اخلاق نہیں میں کہتا جاہل ہیں.معمولی عقل بھی ہو تو انسان ایسے کام نہ کرے کہ جس چیز سے پیار ہو اُس کی زندگی برباد کر رہا ہو لیکن عموماً جاہل مائیں یہی کیا کرتی ہیں.اپنی اولاد کی زندگی بھی برباد، دوسروں کی اولا د کی بھی زندگی بر باداور یہ بچے جب گلیوں میں نکلتے ہیں تو معاشرے کے لئے ہلاکت خیز ہو جاتے ہیں.مصیبت پھیلائی ہوتی ہے ،سکول جاتے ہیں تو بد تمیزیاں ، گندی گالی گلوچ ، لوگوں کی چیزیں اُچکنا اور دوسرے بچوں کو مارنا کوٹنا اور پھر گھر میں آ کر پناہ لیتے ہیں اور اگر ان بچوں کے ماں باپ اس گھر تک پہنچیں تو پھر دیکھیں ان ماؤں کو کس طرح شیر نیوں کی طرح باہر نکل کر لڑتی ہیں اور گندی گالیاں دیتی ہیں اور کہتی ہیں تم ہوتے کون ہو میرے بچے پر ہاتھ اُٹھانے والے، میرے بچے کو بُرا بھلا کہنے والے.یہ واقعات اس شدت سے احمدیت میں نہیں پائے جاتے ہوں گے لیکن پاکستان کی گلی گلی گواہ ہے کہ ہم نے اپنی قوم کو جاہل ماؤں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور یہ نظارے کوئی ایک دو جگہ کے نظارے نہیں ہیں سارے ملک میں ہر جگہ پھیلے پڑے ہیں اور احمدیت میں بھی ایسی مائیں ہیں جو اپنی بدنصیبی سے اپنی جہالت کی وجہ سے اپنی اولا دوں کو خراب کرتی ہیں.قوم کے اخلاق کا معیار ماؤں کے اخلاق کے معیار کے مطابق ہوگا اور یا درکھیں کہ اگر ماؤں کے اخلاق بلند ہو جائیں تو ایسی قوم کے اخلاق الا ماشاء اللہ شاذ کے طور پر خراب ہو سکتے ہیں مگر قوم کے طور پر اُن کے اخلاق خراب نہیں ہو سکتے.اس لئے لجنہ اماءاللہ کو بھی میں خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں لیکن احمدی خواتین کو بالعموم اور احمدی باپوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے گھر میں قوام بنیں اپنے گھر کے حالات پر نظر رکھیں اور کیونکہ خدا تعالیٰ نے اُن کو قوام فرمایا ہے جس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈنڈا اٹھا کر مارنے کوٹنے والا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدھا کرنے والا اور جو مرد اپنی بیوی کو صحیح رستے پر چلا نہ سکتا ہو اس کے اخلاق کا نگران نہ ہو اس کے معاملات کو

Page 358

خطبات طاہر جلد ۹ 353 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء درست نہ کر سکتا ہو اُس کی اولا د اُس کے ہاتھ سے ہمیشہ نکل جاتی ہے.پس اپنے تعلقات کو درست کریں اور اپنے گھر کے ماحول کو صاف اور شائستہ بنائیں.یہ اگر آپ نہیں کریں گے تو آپ اسلام کا پیغام دے ہی نہیں سکتے.آپ جتنے مرضی دلائل لے کر نکلیں اگر بد اخلاق ہیں تو آپ کی ذات میں کوئی دلچسپی کسی کو پیدا نہیں ہو گی.اگر آپ کا گھر جنت نشان نہیں ہے تو یورپ میں آپ ہمیشہ غیر ملکی بن کے رہیں گے کیونکہ آج ان کو سب سے زیادہ ضرورت اچھے گھر کی ہے.ان کے ہاں جو بے چینی اور اضطراب پائے جاتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھر کا امن اور سکون اُٹھ گیا ہے.ان کو جب تک اچھے گھروں کے نمونے پیش نہ کئے جائیں اُس وقت تک یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہمیں کچھ ملا ہے.چنانچہ اسلام کی تبلیغ جب بھی شروع ہو جاتی ہے.آخری تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ ہمارے لئے آپ کیا لائے ہیں، ہم کیوں بدلیں ، ہمیں کیا فائدہ؟ اچھے گھر ، اچھے اخلاق یہ وہ ایسی چیزیں ہیں جن کے نتیجے میں ہم دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ انسان سے بھی بلند تر ہو جاتے ہیں اور اُن کو بتا سکتے ہیں کہ مادی ترقی کے باوجود تم محروم ہو، تمہارے دل بے چین ہیں ، تمہاری دکھتی ہوئی رگیں گواہ ہیں کہ تم بالآ خر مطمئن نہیں.آؤ ہم سے اطمینان حاصل کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ شعر وہ سارے مضمون کی جان ہے کہ آؤ لوگو! کہ یہیں نُورِ خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے (درین صفحہ نمبر ۱۴) یہی ایک تسلی کا طور ہے جو ہم نے دنیا کو بتانا ہے لیکن اخلاق حسنہ کے بغیر آپ یہ طور دنیا کو سکھا نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ فرمایا کہ ”لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے تو ایک ایسے دل کی آواز تھی جو تسلی سے بھرا ہوا تھا.کامل طور پر اپنے رب سے مطمئن تھا اور اس آواز کے نتیجے میں جو شخص بھی لبیک کہتا وہ تسلی کی جانب قدم بڑھا تا لیکن جو خود بے چین دل ہووہ کیسے یہ اعلان کر سکتا ہے ”و تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے“.اس لئے طمانیت قلب کا بھی گہرا تعلق اخلاق حسنہ سے ہے.انسان جب اخلاق حسنہ سے مزین ہو جاتا ہے.تو اُسے ایک قسم کی Equilibrium ایک تو ازن نصیب ہو جاتا ہے اور اُسی کا نام سکون ہے، اُسی کا نام طمانیت ہے.تو طمانیت حاصل کئے بغیر آپ غیروں کو طمانیت عطا کر نہیں سکتے

Page 359

خطبات طاہر جلد ۹ 354 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء اور غیروں کو طمانیت کی طرف بلا نہیں سکتے اور اگر طمانیت آپ کو نصیب نہ ہو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اخلاق حسنہ سے ہی طمانیت نصیب ہوا کرتی ہے تو پھر آپ حقیقت میں جب بھی بات کرتے ہیں وہ بات بے وزن لگتی ہے.اکثر بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ انسان کو سمجھنے کی طاقت عطا فرمائی ہے.ایک ایسا شخص جس کے چہرے پر شرافت ہو، لجاجت ہو، اطمینان ہو وہ چہرہ بالکل مختلف ہوا کرتا ہے اُن دنیا دار چہروں سے جو خواہ کیسے ہی دولت مند کیوں نہ ہوں، کیسے ہی اُن کو گھروں کی آسائشیں نصیب ہوں لیکن دل اُن کے اطمینان سے خالی ہیں.چہروں پر ایک قسم کی بے قراری نظر آ جاتی ہے، آنکھوں میں ایک قسم کی بے چینی اور خلا کا احساس پیدا ہو جاتا ہے جو دیکھنے والی آنکھیں دیکھتی اور پہچانتی ہیں.جیسا کہ ظاہری بیماریاں دکھائی دیتی ہیں آنکھوں میں اور چہرے کے آثار میں اسی طرح باطنی بیماریاں بھی دکھائی دیا کرتی ہیں.تو آپ اپنے چہروں کو اپنے قلب کے اطمینان کے نور سے منور کریں اور اس کا طریقہ بالکل سیدھا سادھا وہی طریق ہے جو میں بیان کر رہا ہوں اس کے لئے کوئی خاص فارمولوں کی ضرورت نہیں اپنے اخلاق کی نگرانی کریں.حسن خلق کا مطلب یہ نہیں کہ نرمی سے بات کر کے یا طمع کاری سے بات کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں.حسن خلق کا مطلب یہ ہے کہ آپ سے کبھی کسی کو کوئی ضرر نہ پہنچے.ہر دوسرے شخص کا معاملہ آپ کے ہاتھ میں اس طرح قابلِ اعتماد ہو کہ جیسے اُس کے اپنے ہاتھ میں ہے بلکہ بسا اوقات وہ لوگ جو سچے اخلاق سے مزین ہوتے ہیں اُن کے ہاتھوں میں بعض لوگوں کے معاملات زیادہ محفوظ ہوتے ہیں جبکہ ان کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہوتے.کئی دفعہ کا مجھے پرانا تجربہ ہے جب وقف جدید میں میں اپنے طور پر مریضوں کی خدمت کیا کرتا تھا بعض غیر احمدی عورتیں اپنی امانت رکھوا جایا کرتی تھیں اور احمدی عورتیں بڑی دور سے آتی تھیں اور امانت رکھوا جاتی تھیں.اُن سے میں کہتا تھا کہ تمہیں کوئی اور جگہ نہیں تم اپنے پاس کیوں نہیں رکھتیں، کہ جی ہمیں پتا کوئی نہیں ہم نے اپنے پاس رکھی تو ضائع ہو جائے گی.یہاں یہ یقین ہے کہ ضائع نہیں ہوتی.ایک دفعہ ایک ایسی خاتون تشریف لائیں.خاتون تھیں یا جوڑا تھا مجھے یاد نہیں بہر حال غیر احمدی ہمارے ربوہ کے ہمسائے میں رہنے والے لوگ تھے اُنہوں نے اپنی ایک قیمتی امانت میرے سپرد کی کہ آپ اس کو اپنے پاس رکھ لیں جب ضرورت پڑے گی ہم لے لیں گے.میں

Page 360

خطبات طاہر جلد ۹ 355 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء نے کہا دیکھیں آپ کے مولوی صاحب وہاں ہیں اور بڑے بزرگ آدمی لگتے ہیں، آپ کو بہت تعلیم دیتے ہیں خطبوں میں ، ہر خطبے میں وہ جماعت کے خلاف بھی باتیں کر رہے ہوتے ہیں آپ اُن کے پاس کیوں نہیں امانت رکھواتے.انہوں نے کہا ناں ناں ناں اُن کے پاس نہیں رکھوانی.وہاں رکھوائی تو ضائع ہو جائے گی.میں نے کہا جن کے پاس آپ کے پیسے محفوظ نہیں آپ کا دین کیسے محفوظ ہے.تو امانت کا مطلب یعنی اطمینان کا مطلب حقیقت میں ایسے گہرے اخلاق ہیں جو اسلام سکھاتا ہے.دنیا داری کی چاپلوسیاں وہ اخلاق نہیں ہیں.پس جب میں آپ کو اخلاق حسنہ کی طرف بلاتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ اپنے اخلاق میں وزن پیدا کریں، توازن پیدا کریں، وہ گہرائی پیدا کریں جو قرآن کے اخلاق کے حصول کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور اُس کے بعد آپ کی کایا پلٹ جائے گی.آپ کی باتوں میں وزن پیدا ہو جائے گا.لوگ آپ کو دیکھیں گے اور آپ میں دلچسپی لیں گے.یہ وہ لوگ ہیں جو ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق پھیلانے کی اہلیت پاتے ہیں اور اہلیت پائیں گے.دین محمد کو اخلاق محمد سے جدا کیا ہی نہیں جا سکتا.یہ وہم ہے کہ اسلام الگ راہوں پے چل رہا ہو اور خلق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الگ راہوں پر چل رہے ہوں.اسی لئے پاکستان سے جب کچھ غیر احمدی دوست ملنے کے لئے آتے ہیں تو میں اُن سے کہتا ہوں کہ تم آنکھیں کھول کر یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ وہ علماء جنہوں نے اسلام کے جہاد کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے، جنہوں نے آپ کے خیال کے مطابق اسلام کی سربلندی کے جھنڈے اُٹھائے ہوئے ہیں اُن علماء کی گلیوں کا کیا حال ہے؟ کیا اُن گلیوں میں جہاں وہ اسلام کی تقریریں کرتے پھرتے ہیں اور اسلام کے نام پر نفرتیں پھیلاتے پھرتے ہیں اخلاق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ملتے ہیں یا نہیں اور خود ان علماء کے کردار میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کا حسن دکھائی دیتا ہے کہ نہیں.بلا استثناء آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کہا ہو کہ ہاں ملتا ہے.سر جھکا لیتے ہیں اور کہتے ہیں جی کہ یہ بات تو درست ہے نہ ان ملانوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق ہیں نہ ان کے چیلوں اور ان کے ماننے والوں میں جن کو یہ نصیحتیں کرتے ہیں.تو یا درکھیں دین محمد مجس کے نام پر آپ بڑے بڑے نعرے بلند کرتے ہیں در حقیقت اخلاق محمدتی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا

Page 361

خطبات طاہر جلد ۹ 356 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء جا سکتا.اس لئے جب آپ اسلام کی محبت کے دعویدار بنتے ہیں اور اسلام کو پھیلانے کے دعوے کرتے ہیں تو یا درکھیں اخلاق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کئے بغیر نہ اسلام آپ کا ہوگا نہ اسلام آپ کسی اور کا بنا سکیں گے.پس اخلاق فاضلہ اور اخلاق فاضلہ سے پھر میں یہی کہتا ہوں مراد اخلاق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے اُن کے بغیر آپ صحیح داعی الی اللہ نہیں بن سکتے.دوسری بات اس سلسلے میں تلاش کے متعلق میں کہنا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا بہت سے دوست بیچارے سمجھتے ہیں کہ تمنا تو ہے بڑی غیر معمولی دل میں خواہش پائی جاتی ہے کہ ہم بھی خدمت کر سکتے لیکن خدمت کی کوئی جگہ نہیں ملتی.ان سے میں کہتا ہوں کہ آنکھیں کھول کے متلاشی بنیں اور مبلغ کے لئے شکاری کی سی تلاش کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے.شکاری تو جہاں شکار دور دور تک بھی نہیں ملتا وہ اُس کی تلاش میں سرگرداں پھرتا رہتا ہے اور بعض دفعہ وہ جھاڑیوں کو شکار سمجھ کے اُن پر بھی فائر کر دیتا ہے، بعض دفعہ پتوں کے گچھوں کو فاختہ سمجھ کے اُس پر فائر کر دیتا ہے لیکن دیوانہ ہو جاتا ہے.ہر وقت تلاش میں سرگردان کہ کہیں سے کوئی چیز مل جائے اور جب کوئی اور شکار نہ ملے تو پھر کئی دفعہ لوگ کوئی کو اہی مار لیتے ہیں.کھانے کی چیز ہو تو شارک ہی مار لیتے ہیں حالانکہ عام حالات میں وہ پسند نہیں کرتے.تو شکاری کی روح پیدا کریں اور جب آپ شکاری کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ حیران ہوں گے کہ شکار میں تو آپ گھرے بیٹھے ہیں اور شکار ڈھونڈ رہے ہیں.کونسی جگہ ہے جہاں آپ کو محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے شکار نہ دکھائی دیتا ہو.تمام بنی نوع انسان وہ شکار ہیں جو آپ کے چاروں طرف پھیلے پڑے ہیں اُن سے رابطہ کرنے کا سلیقہ پیدا کریں اور اخلاق حسنہ سے مزین ہوں گے تو لازماً آپ میں وہ کشش پیدا ہوگی جس کے نتیجے میں وہ آپ میں دلچسپی لینے لگیں گے.ایک طرف سے نہیں دونوں طرف سے طلب پیدا ہو جائے گی.دوسرے شکاری کے سلسلے میں یہ ہمیں یا درکھنا چاہئے.ہم وہ شکاری تو نہیں ہیں جو گولی مار کے جان لیتے ہیں ہم تو وہ شکاری ہیں جو آب حیات پلا کر جان دیتے ہیں اور جان بخشتے ہیں اس لئے محاورہ شکار کا ہی چلتا ہے لیکن شکار کی نوعیت میں بہت فرق ہے، لیکن شکاری خواہ جان بخشنے کے لئے ، جان عطا کرنے کے لئے ڈھونڈ رہا ہو کسی کو یا جان لینے کے لئے اُس کا اور شکار کا آپس کا رابطہ ایک ہی قسم کا ہوتا ہے کیونکہ شکار کی آنکھ اُس کو ہمیشہ خوف اور بے اعتمادی سے دیکھ رہی ہوتی ہے.بچوں کو دوائی پلانے والی مائیں

Page 362

خطبات طاہر جلد ۹ 357 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء جانتی ہیں کہ کس طرح بچے دیکھتے چھپتے پھرتے ہیں اور جن بچوں کو نہانے کا ڈر ہوتا ہے جس دن نہانا ہو اُس دن بیچارے جگہ جگہ چھپتے پھرتے ہیں کسی طرح پکڑے نہ جائیں ماں بھی تاک میں اچانک اُن کو دھوکے سے پکڑ لیتی ہے تو یہ شکار اُن کے فائدے کے لئے یعنی شکار کے فائدے کے لئے شکاری اُن کی تلاش کر رہا ہے، اُن کی گھات میں بیٹھا ہوا ہے لیکن شکار بہر حال شکار ہی ہے.وہ تو بھاگے گا اس لئے اسلام کے لئے جب آپ لوگوں کو حیات نو بخشنے کے لئے نکلتے ہیں تو لازماً جب مذہب کا ذکر آئے گا تو بد کے گا ضرور اور وہ اُسے کڑوی دوائی سمجھے یا تیر و تفنگ سمجھے لیکن ایک دفعہ بد کتا ہے.اس کا علاج وہی ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سکھایا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رحمۃ اللعالمین مقرر فرما دیا.سب دوسروں سے زیادہ بڑھ کر کے پیار کرنے والا ، تمام بنی نوع انسان سے یکساں محبت کرنے والا اور اُس زمانے کی عورتوں نے گواہی دی ہے کہ کوئی رشتہ ایسا نہیں ہے جو ہم سوچ سکتی ہوں یعنی بچوں کا رشتہ، بھائیوں کا رشتہ، خاوندوں کا ، باپوں کا جن کی حفاظت اور پیار میں ایک عورت زندگی بسر کر سکتی ہے اور اُن رشتوں سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیار اور حفاظت عطا نہ فرمائی ہو.پس یہ جو رحمت کا بڑی ہی رحمت کا رشتہ ہے اس کے نتیجے میں شکار بھاگ نہیں سکتا اور آخر لوٹ لوٹ کر وہیں پہنچتا ہے جہاں سے وہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے.پس آپ کو اخلاق حسنہ سے بڑھ کر ایک اور قدم اُٹھانا ہوگا اور وہ رحمۃ للعالمین کا غلام بنا ہوگا.عام اخلاق حسنہ خواہ اُن کی بنیا دیں کتنی ہی گہری کیوں نہ ہوں اُن میں توازن تو پایا جاتا ہے، عدل تو پایا جاتا ہے ، احسان بھی پایا جاتا ہے مگر رحمانیت نہیں پائی جاتی.رحمانیت اس سے اوپر کی چیز ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے رحمانیت عطا کی تھی اور رحمانیت کے تعلق سے آپ نے بڑے بڑے دشمنوں کے دل فتح کئے جو بعد میں آپ کے جانثار عاشق بن گئے.تو آپ کو آگے بڑھ کر اپنے فیض کو دوسروں پر نچھاور کرنا ہوگا اور یہیر حمانیت ہے.بے طلب کے کہ آپ اُن کو دینے والے بنیں.بڑھ بڑھ کر ڈھونڈیں آپ اُن کی ضرورتیں تلاش کریں اور اُن پر احسان کے مواقع تلاش کریں.پس اس پہلو سے جب آپ اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالیں، اپنے ماحول میں دیکھیں ، اپنے ہمسایوں پر نگاہ کریں تو آپ کو جگہ جگہ ایسے مواقع مل جائیں گے جہاں آپ بڑھے ہوئے احسان کے

Page 363

خطبات طاہر جلد ۹ 358 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء ذریعے جسے میں رحمت کہہ رہا ہوں لوگوں کے دل فتح کر سکیں گے.تو تبلیغ کے لئے اخلاق حسنہ اور اخلاق حسنہ سے بلند تر مقام یعنی رحمانیت کا مقام حاصل کرنا بہت ہی ضروری ہے اور تلاش کی آنکھ پیدا کرنی چاہئے.پھر بہت سے مبلغین کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ کام اس طرح کرتے ہیں جیسے کام اُن کے پاس آ جائے تو کر لیں گے، کام کی دھن ان پر سوار نہیں ہوتی اور بہت سے ایسے داعین الی اللہ کودیکھا ہے جن کے دوسرے کام ہیں وہ جماعت کے لئے بظاہر زندگیاں وقف نہیں کئے ہوئے لیکن دن رات اُن کو دعوت کی دھن سوار رہتی ہے.پنجابی میں ایک آدمی جس کو ایک بات کی دھن سوار ہو کہتے ہیں اُس کو گھوگھی چڑھ گئی ہے.جس طرح بخار چڑھنے سے ایک خاص قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اس طرح بعض دفعہ ایک طلب اور تمنا کا بخار چڑھ جاتا ہے اور وہ کیفیت انسان پر قبضہ کر لیتی ہے.دن رات اسی کی لگن میں مبتلا رہتا ہے.تو اس پہلو سے ایک اچھے مبلغ کے لئے دھن پیدا کرنی ضروری ہے.وہ مست ہو جائے اپنے کام میں اور کام کی مستی اپنی ذات میں جزا ہے اصل میں اور اس کے بغیر کام میں مزا نہیں رہتا.اس لئے وہ لوگ جو کم چور ہوتے ہیں خواہ وہ مبلغ ہوں یا باہر کے لوگ ہوں اُن کی آخری وجہ کم چوری کی یہی ہے کہ اُن میں کام کی محبت ایسی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ اُن کے لئے دھن بن جائے اور اپنے کاموں میں وہ مست ہو جائیں.میں نے مزدوروں کو دیکھا ہے سخت گرمی میں جو گندم کاٹتے ہیں کیونکہ میں جب زمیندارہ کیا کرتا تھا یعنی براہ راست اپنی زمینداری کی نگرانی کرتا تھا تو اکثر جب بھی موقع ملے اُسی گرمی میں اُن کے ساتھ پھرتا تھا.کام میں ہاتھ بھی بٹاتا تھا اور دیکھتا تھا کہ ایک دن بھر میں ایک مزدور پر کیا گزرتی ہے.تو میں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ جو کام چور مزدور تھے اُن کی زندگی تو مصیبت ہوتی تھی.اُن کا وقت نہیں گزر رہا ہوتا تھا، وہ کبھی اس کروٹ بیٹھتے ،کبھی اُس کروٹ ، کبھی ایک ڈھیری کو ہاتھ لگا کے کھسک کے دوسری ڈھیری کے پاس پہنچ جاتے تھے اور وقت نہیں ملتا تھا کسی طرح اور جن کو کام کی گھوگھی چڑھ جاتی تھی وہ اس طرح مست ہو کے پھر کام کرتے تھے کہ پتا نہیں چلتا تھا کہ اُن کا وقت کیسے گزر رہا ہے.دیکھتے دیکھتے اُن کی درانتی جو ہے وہ یوں معلوم ہوتا تھا جس طرح ایک میوزک یا نغمے کی لئے کے ساتھ ایک ردھم پیدا ہوتا ہے، زیر و بم پیدا ہوتے ہیں اُس طرح مزدور کی جب وہ درانتی چلتی ہے اور وہ کام میں مگن ہو تو ایک قسم کی میوزک پیدا ہو جاتی

Page 364

خطبات طاہر جلد ۹ 359 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء ہے.کام کا بھی ایک نغمہ ہوتا ہے اور اُسی نفنے کی کے سے پھر وہ مزدور کام کرتا چلا جاتا ہے اور دیکھنے والا حیران ہوتا ہے کہ اتنی سخت محنت کے ساتھ کس طرح ایسی لگن سے مصروف ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے جو محنت کشوں کی جزا اُن کو ساتھ ساتھ دے رہا ہوتا ہے اور محنت سے بھاگنے والوں کو سزا اُن کو ساتھ ساتھ دے رہا ہوتا ہے.جن لوگوں کے دل اپنے کاموں میں نہ ہوں اُن کا وقت گزرنا ایک مصیبت ہوتا ہے.ایک ایک دن اُن کے لئے پہاڑ بن جاتا ہے.جو کاموں کے سپرد کر چکے ہوں اپنے آپ کو اُن کو پتا ہی نہیں لگتا کہ وقت گزرا کس طرح اُن کے لئے یہ مصیبت ہوتی ہے کہ وقت تیز گزر رہا ہے.پس تبلیغ کی دھن پیدا کریں پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے لئے چوبیس گھنٹے ایک مسلسل روانی کے ساتھ گزرتے چلے جائیں گے، دن دن سے ملتے چلے جائیں گے ، ہفتے ہفتوں کے ساتھ ملتے چلے جائیں گے اور وقت آسان ہو جائے گا مشکل نہیں رہے گا.مبلغین بھی جو بے کار بیٹھنے کے عادی بن جاتے ہیں اُن کو پتا ہی نہیں لگتا ہم نے کرنا کیا ہے؟ جب رپورٹوں کا وقت آتا ہے مصیبت پڑی ہوتی ہے.تو پھر ایک دو گھنٹے کی رپورٹوں پر اتنا وقت لگاتے ہیں کہ دو گھنٹے کا کام اور چھ گھنٹے کی رپورٹ لکھی جاتی ہے اور صاف پتا چل جاتا ہے کہ آدمی کو کام کوئی نہیں ورنہ ایک مبلغ اپنے چاروں طرف نظر ڈالے دس پندرہ افراد کی جماعت ہو تو اُن کی تربیت پر بھی اس کو اتنا وقت دینا پڑے گا کہ وہ چوبیس گھنٹے سے زیادہ لمبے دن کا مطالبہ کرنے والا بن جائے گا.یعنی زبان حال سے دعا کرے گا کہ اے خدا میرے دن میں اتنی برکت دے کہ چوبیس گھنٹے سے زیادہ گھنٹوں کا کام میں اس میں سنبھال سکوں اور اگر کام کا سلیقہ نہیں، کام سے محبت نہیں تو سینکڑوں کی جماعت میں بھی وہ بے کار بیٹھا رہتا ہے.پس داعین الی اللہ ہوں یا مبلغین ہوں یا د رکھیں کہ جو باتیں میں نے بیان کی ہیں اُن کے علاوہ کام کی دھن کا سلیقہ حاصل کریں کس طرح کام کی دھن پیدا کی جاتی ہے اور پھر مگن ہو جائیں اور مست ہو کے کام کریں.اس طرح جتنی جماعت کی آج تعداد ہے اگر سارے تبلیغ اسلام کے کام میں مست ہو جا ئیں تو دیکھتے دیکھتے ساری دنیا کی کایا پلٹ جائے گی.عظیم الشان کام آپ سرانجام دے سکیں گے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رستے کھل رہے ہیں اور کشادہ ہوتے چلے جارہے ہیں.

Page 365

خطبات طاہر جلد ۹ 360 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء نئے نئے رستے پیدا ہو رہے ہیں لیکن چلنے والوں کی ضرورت ہے پس اُن چلنے والوں میں آپ شامل ہوں.آخری بات دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.کوئی کام بھی دعا کے بغیر با برکت نہیں ہوتا.جب آپ اخلاق حسنہ سے مزین ہو کر خدا کی خاطر ان کاموں میں مگن ہوں گے تو آپ کی دعاؤں میں غیر معمولی طاقت پیدا ہو جائے گی اور دعاؤں کے ذریعے آپ کے کام دس گنا زیادہ یا اُس سے بھی زیادہ گنا برکت حاصل کر لیں گے.پس با اخلاق انسان کے لئے باخدا انسان بننا تو ایک آسان اور اگلا قدم ہے بلکہ حقیقت ہے کہ ساتھ ساتھ ہی وہ باخدا انسان بنتا ہی چلا جاتا ہے کیونکہ مذہب کی کہنہ یہ ہے کہ وہ اخلاق حاصل کرے جو خدا سے تعلق رکھنے والے اخلاق ہیں اور اخلاق حسنہ کا مطلب بھی باخدا بننا ہے لیکن یہ تو ایک انسان کے اندر واقعہ ہونے والے تجربات ہیں.باخدا ان معنوں میں بھی انسان بنتا ہے کہ ایک باشعور طور پر اللہ تعالیٰ کی ہستی سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہوتا چلا جاتا ہے اور تعلق بڑھاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جانتا ہے کہ خدا میرے ساتھ ہے اور کامل یقین رکھتا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں اُس کو آئے دن ایسے تجربے ہوتے چلے جاتے ہیں.اُس کو علم ہوتا ہے کہ خدا کوئی تصور کی بات نہیں ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کے سوا سب کچھ تصور ہے.اس کیفیت تک جب مبلغ پہنچ جاتا ہے تو وہ انقلابی کیفیت ہوتی ہے.پھر خدا اور اُس کی تقدیر تمام تر اُس کے ارادوں کے ساتھ چلتے ہیں.گویا کہ ایسی خدمت کرنے والا ، ایسی دعوت کرنے والا خدا کے ارادے کے ساتھ اس طرح ڈھل جاتا ہے اور اس طرح ہم آہنگ ہو جاتا ہے کہ اُس کا ارادہ خدا کا ارادہ بن جاتا ہے.پس یہ وہ مختصر چند باتیں ہیں جو دعوت الی اللہ کے سلسلے میں میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے.یہ بدلتی ہوئی دنیا اگر ہم نے نہ سنبھالی تو اور لوگ اس کو سنبھال لیں گے.ہم تھوڑے شکاری ہیں یہ دنیا جو اپنے آپ کو اب تبدیلیوں کے لئے پیش کر رہی ہے اس کے لئے بد شکاری ہم سے لاکھوں گنا زیادہ میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں.اس لئے وہ شکار جو آپ نہیں کر سکیں گے وہ ضرور کر لیں گے اور اس دنیا کی ہلاکت کی ذمہ داری ہم پر بھی ہوگی جس کو ایک ہلاکت سے خدا تعالیٰ نے اس لئے نکالا تا کہ وہ امن کے ساحلوں پر ہلاکت کا سمندر اُن کو پھینک دے اور ہماری غفلت کی وجہ سے جیسے مگر مچھ نکلتے ہیں سمندروں سے یا شارک

Page 366

خطبات طاہر جلد ۹ 361 ۲۲ جون ۱۹۹۰ء قریب تر پہنچ جاتی ہیں ساحلوں کے اور بچتے ہوئے لوگوں کو گھسیٹ کر واپس لے جاتی ہیں اسی طرح کی کیفیت ہوگی کہ سمندرا بھی خطروں اور فتنوں سے خالی نہیں ہوا.ایک وقت ملا ہے تھوڑ اسا کہ یہ قو میں جو ہلاکت کے منہ میں جا چکی تھیں ان کو ہلاکت نے اگلا ہے اور تھوڑی دیر کے لئے اگلا ہے اور اس وقت میں اگر آپ نے اُن کو پکڑ لیا اور محفوظ کر لیا اور ہمیشہ کے لئے خدا کا بنادیا تو یہ لوگ بچ جائیں گے.اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ساری دنیا کی نظریں ان پر ہیں، وہ ایک دوسرے پر پیش قدمی کرتے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ارب ہا ارب روپیہ ان قوموں کو اپنی طرف مائل کرنے اور دوبارہ ہلاکت میں ڈالنے کے لئے وہ خرچ کر رہے ہیں اس لئے یہ جو چند لمحے ہیں ان میں اگر آپ نے باشعور طور پر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور ایک ذرہ بھی مجھے اس میں شک نہیں کہ خدا ان چند لمحوں کو لمبا کرتا چلا جائے گا اور آپ کے کام میں برکت پر برکت دیتا چلا جائے گا کیونکہ اگر آپ پوری طاقت کے ساتھ خدا کی خاطر بندگان خدا کو بچانے کے لئے اپنا سب کچھ تن من دھن خدا کے حضور پیش کر دیں گے تو ناممکن ہے کہ یہ لمحے عارضی ثابت ہوں ان لمحوں کو خدا تعالی بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ آپ اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہم اپنی بدلتی ہوئی ذمہ داریوں کو خدا کی رضا کے مطابق سرانجام دینے والے بنیں.(آمین)

Page 367

Page 368

خطبات طاہر جلد ۹ 363 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء تربیت اولا د میں صرف انسانی کوششیں کام نہیں آسکتیں واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کی دعائیں مانگنا ضروری ہے.(خطبه جمعه فرموده ۲۹ جون ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامَّاتِ أُولَيكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَمًا ل خُلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامَّان (الفرقان: ۷۲ تا ۷۸ ) پھر فرمایا: قرآن کریم کی یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ الفرقان کی آخری چند آیات ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ جو تو بہ کرتا ہے اور توبہ کے بعد نیک اعمال بجا لاتا ہے

Page 369

خطبات طاہر جلد ۹ 364 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء فَإِنَّهُ يَتُوبُ اِلَى اللهِ مَتَابًا یہی وہ شخص ہے جو حقیقی معنوں میں خدا کی طرف بڑی کچی تو بہ کے ساتھ رجوع کرنے والا ہے.یہاں تو بہ کے مضمون کو دو دفعہ باندھا ہے.پہلے تو بہ کا ذکر فرمایا پھر اس کے معاً بعد عَمِلَ صَالِحًا فرمایا.جس کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کی تعریف میں صرف منفی پہلو نہیں بلکہ حقیقی تو بہ میں ایک مثبت پہلو بھی شامل ہے.عام طور پر تو بہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گنا ہوں سے بچنے کا عہد کرنا تو بہ ہے.لیکن قرآن کریم خلا کا قائل نہیں اور کائنات میں خلا حقیقت میں کہیں بھی موجود نہیں.خلا کا معنی ہی نفی ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جو اپنی ذات کی نفی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.پس یہ وہم کہ دنیا میں کہیں خلا ہے یا ساری کائنات میں کہیں خلا ہے یہ محض واہمہ ہے اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں.جس جگہ آپ خلا سمجھتے ہیں وہاں ماحول سے کچھ نہ کچھ اندر سرایت کر کے اس جگہ کو بھرنے کی کوشش کرتا ہے.تو بدیوں کا ہٹنا اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا.بدیوں کا ہٹنا صرف یہ معنی رکھتا ہے کہ کسی اور کے لئے جگہ خالی کی جارہی ہے.جس طرح کوئی معزز انسان کسی مجلس میں آئے تو بیٹھے ہوئے لوگ سرک کر اس کے لئے جگہ بنانے لگتے ہیں.یہی نقشہ قرآن کریم نے تو بہ کا کھینچا ہے کہ محض گناہوں کو دور کرنے کی خاطر نہیں بلکہ نیکیوں کو جگہ دینے کے لئے دور کرو اور یہی مضمون حسنة اور سيئة کے تقابل میں جگہ جگہ پیش کیا گیا ہے.تو فرمایا تو بہ تو وہی تو بہ ہے جس کے بعد عمل صَالِحًا اس کی پیروی میں چلے آئیں اور تمہارے دل کے خلاؤں کو بھر دیں اور تمہارے اعمال کے خلاؤں کو بھر دیں.فَإِنَّهُ يَتُوبُ إلَى اللهِ مَتَابًا یہی وہ شخص ہے حقیقت میں جو اللہ کی طرف سچی توبہ کے ساتھ رجوع کرنے والا ہے.وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزَّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَا ما وہ لوگ جو جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے یا جھوٹی گواہی نہیں دیتے.یہ اس کا عام ترجمہ ہے جو اولین ترجمہ شمار ہوتا ہے لیکن اس میں یہ بات بڑی شدت کے ساتھ شامل پائی جاتی ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی جھوٹ نہیں بولتے.جھوٹی گواہی دینا بعد کی بات ہے جس شخص کو ایسا ماحول جس میں ہر طرف سے دباؤ ہوں جھوٹی گواہی دینے پر مجبور نہ کر سکے.ایسا شخص لازماً اپنی عام زندگی میں بہت ہی سچا انسان ہوتا ہے اور

Page 370

خطبات طاہر جلد ۹ 365 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء لَا يَشْهَدُونَ النُّور کا یہ بھی معنی ہے کہ جھوٹ پر جھانکتے بھی نہیں، جھوٹ کو دیکھتے بھی نہیں، جھوٹ سے ان کا کوئی تعلق نہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں رمضان کے مہینے کے بارے میں یہی لفظ استعمال ہوا کہ جس نے رمضان کا مہینہ دیکھا.مطلب یہ ہے کہ جس نے رمضان کا مہینہ پایا.تو جھوٹ کے ساتھ ان کا دور کا بھی علاقہ نہیں وہ جھوٹ پر جھانکتے بھی نہیں.پھر فرمایا وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزَّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا انہی معنوں میں یہ دوسرا مضمون بہت ہی خوبصورت رنگ میں پہلے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے.جو لوگ جھوٹ کو نہیں دیکھتے وہ لغو چیزوں کو بھی نہیں دیکھتے.پس جب وہ ایسی مجالس سے گزرتے ہیں جہاں بے ہودگیاں ہوں، جہاں ناپسندیدہ حرکات ہوں تو اغماض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں.تو بہت ہی حسین منظر ہے بچے لوگوں کا کہ نہ وہ جھوٹ کو دیکھتے ہیں، نہ ایسی چیزوں کو جن میں جھوٹ کی آمیزش ہو اور عزت نفس کو قائم رکھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہ ایسی مجالس کے پاس سے گزر جاتے ہیں جہاں لغو باتیں جو درحقیقت جھوٹ کی آلائش رکھنے والی باتیں ہوتی ہیں کیونکہ جھوٹ کا معنی صرف یہ نہیں کہ خلاف واقعہ بات بیان کی جائے بلکہ لغو میں جھوٹ کا عنصر اس طرح شامل ہے کہ خیالی اور فرضی دلچسپیاں جوز بر دستی بتائی جاتی ہیں اور ان کا انسانی زندگی کی حقیقت سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہوتا.پس ایسی تمام دلچسپیاں جیسے جوا ہے اور اس قسم کی لغویات ہیں جو درحقیقت مصنوعی طور پر انسانی زندگی کو الجھانے کے لئے بنائی جاتی ہیں یہ ساری جھوٹ ہیں.تو جھوٹ کے مضمون کو زیادہ لطافت کے ساتھ مزید وضاحت کے ساتھ یوں بیان فرما دیا کہ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُ وا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا یہ وہ لوگ ہیں کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی آیات ان پر پڑھی جاتی ہیں لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَ عُمْيَانًا وہ ان سے ایسا سلوک نہیں کرتے جیسا کوئی باتیں سننے والا بہرہ ہو یا کوئی مخاطب اندھا ہو جس پر نہ کلام کا حسن اثر کرے نہ کلام کرنے والے کا حسن اثر کر سکتا ہو.دو ہی طرح سے انسانی زندگی متاثر ہوا کرتی ہے.یا تو نصیحت سن کر یا نصیحت کرنے والے کے حسن سے متاثر ہو کر.تو صُمَّا وَعُمْيَانًا میں یہ دونوں مضمون اس طرح باندھ کر بیان کر دئیے گئے کہ بعض لوگ نصیحت کرنے والے کو دیکھا کرتے ہیں.اگر وہ صاحب وقار ہو، صاحب عظمت ہو ، اس کے حسن سے انسان متاثر ہو تو اس کی کڑوی باتیں بھی

Page 371

خطبات طاہر جلد ۹ 366 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء انسان برداشت کرتا ہے اور اس کی مشکل نصائح پر بھی عمل کرتا ہے.بعض دفعہ نصائح اتنے حسین رنگ میں پیش کی جاتی ہیں کہ کہنے والا کوئی بھی ہو ، ان کو سن کر انسان ان سے متاثر ہو جاتا ہے.فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی صفات یہ بیان کی گئی ہیں کہ یہ لوگ کبھی بھی نصیحت سے بہروں والا سلوک نہیں کرتے اور نصیحت کرنے والوں سے اندھوں والا سلوک نہیں کیا کرتے.اس کا پہلے مضمون سے یہ گہرا تعلق ہے کہ نصیحت سننا اور نصیحت پر عمل کرنا کچھ تقاضے کرتا ہے.ہر انسان نصیحت پر عمل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا خصوصا وہ لوگ جو جھوٹے ہوں اور وہ لوگ جن کولغویات کی عادت ہو ، ان کے لئے نصیحت پر عمل کرنا بہت ہی مشکل کام ہے.چنانچہ مجھے بعض احمدی خواتین کے خطوط ملتے ہیں جن کے خاوند نیک نہیں ، ان کو دنیا کی دلچسپیوں کا زیادہ خیال ہے.بنسبت دین کی ذمہ داریوں کے.بعض ایسی نیک مائیں ہیں جو ان کے نیچے اس طرح زندگی بسر کرتی ہیں جس طرح حضرت آسیہ نے فرعون کے نیچے زندگی بسر کی تھی.گو وہ شدت نہیں لیکن کسی حد تک مضمون وہی ہے.جس کا کسی حد تک ان کی زندگی پر بھی اطلاق پاتا ہے.پس ایسی عورتیں جن کی زندگی کسی نہ کسی رنگ میں آسیہ سے مشابہ ہے وہ بڑے دردناک طریق پر مجھے خطوط بھتی ہیں اور کہتی ہیں ، ہم چاہتی ہیں بچوں کی اچھی تربیت کریں لیکن ہمارا ماحول ایسا ہے کہ جس میں ہمارے لئے بڑی مشکلات ہیں، خاوند نماز نہیں پڑھتا، خاوند فلاں چیز کا عادی ہے، خاوند فلاں بات کا عادی ہے.دنیا کی لغویات میں محو ہے اور بعض دفعہ جب میں آپ کا خطبہ سن کر بچوں کو سناتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ان پر بہت گہرا اثر پڑا ہے تو میں کوشش کرتی ہوں کہ میرا خاوند بھی سنے اور اس پر بھی اثر پڑے.چنانچہ جب وہ آتا ہے تو میں کسی بہانے سے وہ خطبہ لگا دیتی ہوں لیکن یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا وہ دلچسپی نہیں لیتا وہ سنتا ہی نہیں وہ توجہ نہیں دیتا اور بعض دفعہ کہ دیتا ہے کہ یہ بند کرو، یہ تم نے کیا لگایا ہوا ہے.تو قرآن کریم نے ان لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے جو نصیحت سے متاثر نہیں ہو سکتے اور جن کو کوئی بات بھی خواہ نصیحت کرنے والا اچھا ہو یا اس کا ان کے ذہن میں کوئی وقار ہو یا بات اچھے رنگ میں پیش کی گئی ہو.اس قسم کی کوئی بات بھی ان پر اثر نہیں کرتی.گویا کہ وہ بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا پہلے ذکر گزر چکا ہے.یہ اکثر وہ لوگ ہیں جو جھوٹے ہیں، جھوٹی گواہیاں دینے والے ہیں اور لغویات میں محو ہیں.

Page 372

خطبات طاہر جلد ۹ 367 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء پس جن لوگوں کی زندگی لغویات میں بسر ہو رہی ہو اور دنیا کی ادنیٰ اور گھٹی دلچسپیوں میں ان کی تمام تر توجہ ضائع ہو رہی ہو ، ان کو اچھی باتوں کے لئے وقت مل نہیں سکتا یا ملتا بھی ہے تو دلچپسی پیدا نہیں ہوتی.تو فرمایا کہ یہ میرے بندے جو ہیں جو سچی توبہ کرنے والے ہیں، نیک اعمال کرنے والے ہیں یہ ایسا نہیں کیا کرتے.یہ جب اچھی بات سنتے ہیں تو ان باتوں کی طرف دھیان دیتے ہیں اور پھر جب کوئی ایسا شخص ان سے گفتگو کرتا ہے جس کے لئے ان کے دل میں احترام ہو تو اور بھی زیادہ توجہ سے ان باتوں کو قبول کرتے ہیں.گویا کان تو وہ بات بتاتے ہیں جو سمجھ آ رہی ہے اور بیان کرنے والے کا مرتبہ اپنی ذات میں ان کو متاثر کرتا ہے اور بغیر سوال کئے کہ کیوں ہم ایسا کریں؟ اس کے احترام میں وہ بات کو قبول کرنے لگتے ہیں.اس میں ہمارے گھروں کی تربیت کے لئے بڑے گہرے راز ہیں.وہ ماں باپ جن کو بات کرنے کا سلیقہ نہ ہو، وہ ماں باپ جن کا اپنی اولاد میں کوئی وقار نہ ہو اور ایک خاص محبت اور احترام کا ان کو مرتبہ حاصل نہ ہو، ان کے بچے بہرے یا اندھے نہ بھی ہوں تب بھی ان کی نصیحتیں بے کار ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ دونوں باتوں کا ہونا بڑا ضروری ہے.گھر میں والدین اچھی بات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہوں اور ان کا ذاتی مقام اور مرتبہ ایسا ہو کہ اولا دکوان سے گہرا تعلق ہو.اگر تعلق زیادہ ہوگا تو اپنے ماں باپ کے چہرے دیکھ کر ان چہروں کی خاطر ان کی باتیں مانیں گے اور اگر بات اچھی ہوگی اور وزنی ہوگی تو چہرہ دیکھے بغیر ہی بات اپنی ذات میں ان کو قائل کرنے کی اہلیت رکھتی ہوگی.پھر فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا یہ وہ لوگ ہیں جو محض اپنی کوششوں پر انحصار نہیں کرتے بلکہ جانتے ہیں کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی نصرت شامل حال نہ ہو خدا تعالیٰ کی تائید ہمیں میسر نہ ہو، ہماری نصیحتیں اور اولاد کی اصلاح کی کوششیں سب بے کار جائیں گی.پس وہ خدا کے حضور یہ عرض کرتے رہتے ہیں کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جوڑوں سے یعنی اگر عورت ہے تو اس کے لئے بھی زوج کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اگر مرد ہے تو اس کے لئے بھی زوج کا لفظ استعمال ہوتا ہے.تو ہمیں اپنے زندگی کے ساتھیوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا

Page 373

خطبات طاہر جلد ۹ 368 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے.جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے یہ ضروری نہیں کہ لا زمامیاں بیوی کے تعلقات اور خاندان کے حالات پر ہی اطلاق پاتی ہو وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاما کی دعا بہت ہی وسعت رکھتی ہے اور اس آیت کے ٹکڑے میں ایک ایسا عظیم اور گہرا مضمون بیان ہوا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ عرفان کا دریا ایک کوزے میں سمیٹ دیا گیا ہے.اور قرآن کریم میں کثرت سے ایسی آیات ہیں جن میں آپ یہ عجیب بات دیکھیں گے کہ پوری آیت اپنی ذات میں ایک مضمون کو بیان کر رہی ہے اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اپنی ذات میں عرفان کا ایک سمندر لئے ہوئے ہیں اور اس آیت سے جس کا وہ ٹکڑا ہیں الگ کر کے بھی ان کو پڑھا جائے تو ابدی سچائیاں ان میں پائی جاتی ہیں جو دوسرے مضمون کی محتاج نہیں ہیں ہاں اس مضمون کو چار چاند لگانے کے لئے موتیوں کی طرح یا ہیروں اور جواہرت کی طرح اس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں.پس یہ جو مضمون ہے اس کو میں نے آئندہ اسی سلسلے میں ایک خطبے کے لئے اٹھا رکھا ہے.وہ میں پھر بیان کروں گا.اس وقت میں گھریلو ذمہ داریوں کے متعلق ہی چند باتیں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں جو اسی کلام الہی کی روشنی میں ہیں.فرمایا وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں اپنی بیویوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کر.وہ خاوند جن کا ذکر کیا گیا ہے وہ اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو اپنی بیویوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب نہیں ہوتی اور اس لئے وہ باہر دنیا میں بھاگتے ہیں اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں.معاشرے میں کھو کی شادیاں نہ کرنا بھی اس کی ایک وجہ بن جاتی ہے.بعض دفعہ عورت اپنی ذات میں نہایت نیک اور سلجھی ہوئی اور وفادار اور خاوند کی خدمت کرنے والی اس کے حقوق ادا کرنے والی ہے لیکن اس شادی کا جوڑ ملانے والوں نے خاوند اور بیوی کے مزاج کا ، ان کی عادات کا جوڑ نہیں ملایا.چنانچہ ایسا خاوند گھر سے باہر گھر محسوس کرتا ہے اور گھر کے اندر یوں لگتا ہے جیسے گھر سے باہر نکل گیا ہے اور گھر کے اندر کا ماحول اس کو اس طرح بے چین کرتا ہے جس طرح مچھلی پانی سے باہر آگئی ہو.تو یہ ساری کیفیت بالکل الٹ جاتی ہے.حقیقت میں وہی گھر جنت بنتے ہیں جہاں انسان باہر سے جب لوٹتا ہے تو اسے سکون ملتا ہے.وہ اپنے بھاری کپڑے اتار کر ہلکے کپڑے پہنتا ہے اور یوں لگتا ہے اس کے سارے بوجھ اتر گئے

Page 374

خطبات طاہر جلد ۹ 369 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء اور گھر کے پاکیزہ ماحول میں اسے ایک جنت ملتی ہے اور اگر وہاں اس کے لئے طبیعت اور مزاج کے خلاف باتیں ہوں تو وہ گھبرا جاتا ہے.ایک یہ بھی وجہ بنتی ہے، ایک وجہ یہ بھی بنتی ہے کہ وہ خاوند شادی سے پہلے ہی بداخلاق ہوتا ہے.اس کو باہر دنیا میں پھر کر اپنی طبیعت کے تقاضے پورے کرنے کی گندی عادت پڑی ہوتی ہیں اور اس کی نظریں بہک چکی ہوتی ہیں.جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے یہ کہا تھا کہ ہم ایک کھانے پر راضی نہیں رہ سکتے.ایسے خاوند پھر ایک بیوی پر راضی نہیں رہ سکتے اور ایک سے زائد بیویوں کی ان کے اندر طاقت نہیں ہوتی نہ انصاف کر سکتے ہیں نہ وہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں اس لئے وہ بہکے ہوئے خاوند ہیں اور اکثر جو خطوط ملتے ہیں ان کا زیادہ تر اس کیفیت سے تعلق ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب تک دونوں فریق ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک نہ بنیں اس وقت تک یہ توقع رکھنا کہ اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوگی یہ ایک فرضی بات ہے اور اس میں ایک بہت ہی گہری حکمت بیان فرمائی گئی ہے جس کا انسانی نفسیات سے گہرا تعلق ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ والدین جو ایک دوسرے سے آنکھوں کی ٹھنڈک پاتے ہیں ان کی اولادیں ہمیشہ ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنتی ہیں.تربیت میں یک جہتی پائی جاتی ہے اور ایک ہی مزاج کے ساتھ بچے پرورش پا رہے ہوتے ہیں اور وہ ماں باپ جو ایک دوسرے سے سچا پیار کرنے والے اور ایک دوسرے کا ادب کرنے والے اور ایک دوسرے کا لحاظ کرنے والے، ایک دوسرے کی ضروریات کی طرف دھیان رکھنے والے اور اخلاق سے پیش آنے والے ماں باپ ہوتے ہیں ان کی اولاد بھی اپنے ماں باپ سے بھی پیار کرنے والی بنتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نسبتا بہتر تعلقات قائم کرتی ہے اور ایسی اولاد پھر ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے.تو قرآن کریم نے دعا میں بھی کیسی عمدہ ترتیب پیش نظر رکھی فرمایا پہلے یہ دعا کیا کرو کہ اے خدا! ہمیں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو بنا دے اور جب ہم ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے تو پھر ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ تجھ سے یہ التجا کریں کہ اگلی منزل بھی ہمیں عطا کر جو اسی مضمون کی بالائی منزل ہے.یعنی پہلے ہمیں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر پھر ہم اولاد کی طرف سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک پانے والے ہوں تو دو مضمون اوپر تلے بیان ہوئے ہیں اور ایک کا دوسرے سے ایسا تعلق

Page 375

خطبات طاہر جلد ۹ 370 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء ہے جیسے ایک منزل کے اوپر ایک اور منزل تعمیر کر لی گئی ہو اور اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے أوليكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بالا خانے عطا کئے جائیں گے وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَسَلْما اور وہ ان بالا خانوں میں تحائف پائیں گے تَحِيَّةً تحھنے کو کہتے ہیں.یعنی ایسی نعمتیں پائیں گے جو ان کے اعمال کی جزا نہیں ہوں گی بلکہ اس کے علاوہ محض خدا کے فضل کے نتیجے میں انہیں نصیب ہوں گی.وسَلمًا اور سلامتی پائیں گے.آپ قرآن کریم کے تراجم میں جب اس آیت کا ترجمہ پڑھیں گے تو دو باتیں خاص طور پر دکھائی دیں گی.اول یہ کہ بالا خانوں کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے گویا واقعی ایک منزل کے اوپر دوسری منزل بنی ہے اور اس منزل میں وہ لوگ رہتے ہیں جو دوسری منزل ہے اور دوسرا یہ کہ اس کا تعلق جنت سے ہے اور اس دنیا سے تعلق نہیں ہے.حالانکہ اولیں طور پر اس کا مضمون کا اس دنیا سے تعلق ہے اوور بالا خانے سے مراد ہرگز ظاہری بالا خانہ نہیں ہے بلکہ اونچے مکان جس طرح اردو میں محاورے میں استعمال ہوتا ہے.اونچے مرتبے اور ہر زبان میں اونچا کا لفظ بلندی شان کے لئے اور ایک اعلیٰ مقام کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.یعنی ظاہری معنوں میں اعلیٰ مقام نہیں بلکہ معنوی لحاظ سے اعلیٰ مقام ہے.پس بالا خانے سے مراد یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کو عزت اور شرف کے مکان ملتے ہیں پس جن کو بلند مراتب نصیب ہوتے ہیں اور یہی مکان ہیں جو دراصل رہنے کے مکان ہیں جن میں یہ لوگ رہتے ہیں کیونکہ ان صفات کے نتیجے میں وہ گھر بالا خانے بنتے ہیں خواہ وہ تہہ خانوں میں بسنے والے لوگ ہوں.پس چونکہ اس دنیا میں ہر نیک آدمی کو ظاہری طور پر بالا خانے نہیں ملتے اس لئے ترجمہ کرنے والے ظاہری ترجمے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ گویا مراد ظاہری مکانوں کی دوسری منزل ہے.اگر دوسری منزل مومنوں کی جزا ہے یعنی ظاہری طور پر دوسری منزل تو پھر تو امریکہ اور مغربی دنیا کے دوسرے ممالک جن میں سو سے بھی اوپر منازل بن گئی ہیں ان کے مرتبے تو ہم سے بہت بلند ہو گئے اور ان کو تو خدا نے اتنی جزا اس دنیا میں ہی دے دی کہ اس کا ہم گویا اگلی دنیا میں بھی تصور نہیں کر سکتے.یہ کیسا خدا ہے جو قرآن کریم پر عمل کرنے والے تو بہ کرنے والے، نیک اعمال کرنے والے اور پھر ایسی ایسی پیاری دعائیں سکھا کر ان دعاؤں کے طلب گاروں کو یہ جزا دیتا ہے کہ اے خدا اس دنیا میں ہمیں تو چلو تو نے ٹوٹے پھوٹے مکان دے دیئے کوئی بات

Page 376

خطبات طاہر جلد ۹ 371 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء نہیں.زمین کی سطح پر گھسٹ گھسٹ کر زندگیاں گزاریں، کم سے کم انگلی دنیا میں ہمیں دوسری منزل دے دینا.ہرگز ہرگز کسی قیمت پر یہ مضمون قرآن کریم کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا اور قرآن کریم کی شان کو گھٹانے والا مضمون ہے.اس لئے بالا خانہ ہمیشہ روحانی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور لفظ بالا خانہ استعمال کرنا پڑے گا کیونکہ عربی میں بھی یہ بالا خانے کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے لیکن اس کے معنی ہمیشہ یہی سمجھیں کہ عزت اور شرف کے بلند مقامات اور دنیا میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے.یہ خیال کر لینا کہ یہ جنت کے وعدے ہیں یہ درست نہیں ہے.جنت کے وعدے بھی ہیں لیکن حقیقت میں اس جنت کا آغاز اس دنیا سے ہوگا اور یہی قرآن کریم کی مراد ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مترجمین نے اور مفسرین نے اگلی آیت کے ایک لفظ سے دھوکا کھایا ، جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے خُلِدِينَ فِيهَا کہ یہ لوگ اس حالت میں ہمیشہ رہیں گے اور سمجھے کہ یہ پیشگی کی زندگی تو جنت میں مل سکتی ہے.اس لئے یہ وعدہ جو کیا جا رہا ہے انعام کا ، اس کا تعلق اس دنیا سے نہیں بلکہ آئندہ دنیا سے ہو گا.حالانکہ اس مضمون کو قرآن کریم کی اسی آیت نے اگلے حصے میں کھول دیا تھا اور فرمایا سْتَقَدَّاقَ مُقَامًا یہ وہ جگہ ہے جو عارضی قیامگاہ کے طور پر بھی اچھی ہے اور مستقل قیامگاہ کے طور پر بھی اچھی ہے.جنت تو عارضی قیامگاہ ہے ہی نہیں.اس لئے خُلِدِین کا ایسا ترجمہ کرنا جو اسی آیت کے اگلے حصے کے مخالف ہو یہ درست نہیں ہے.ہاں ایک پہلو سے اگر دیکھا جائے تو اس آیت کو دونوں دنیاؤں پر چسپاں کیا جائے تو مضمون خوب کھل جاتا ہے اور بہت ہی حسین مضمون ابھرتا ہے.خُلِدِین کا پہلا معنی یہ ہوگا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گھروں کی جنتوں کی حفاظت کی جائے گی اور ان کی ساری زندگی امن اور سکون سے کٹے گی اور کبھی یہ نہیں ہوگا کہ کچھ عر صے کے بعد بیویوں کے دل خاوندوں سے بھر جائیں اور خاوندوں کے بیویوں سے بھر جائیں گے اور ان کی جنت جو ہے جہنم میں تبدیل ہو جائے گی وہ ایسے نیک لوگ ہیں جن کے گھر ہمیشہ ان کے لئے بالا خانے بنے رہیں گے یعنی عزت اور شرف کا مقام بنے رہیں گے اور ان سے اس دنیا میں اس مقام کو کوئی نہیں چھین سکے گا اس پر یہ دوام پائیں گے.دوسرا خُلدِین کا معنی پہلی آیت کے دوسرے حصے سے تعلق رکھتا ہے.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا فرمایا ان کی اولادوں کے لئے بھی یہ دعائیں سنی جائیں گی اور نسلاً بعد نسل یہ جنت تو ان میں چلتی چلی جائے گی.پس خالد سے مراد ہمیشہ

Page 377

خطبات طاہر جلد ۹ 372 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء کی زندگی ہی نہیں بلکہ لمبے عرصے تک رہنا یا لمبی زندگی پانا بھی لفظ خالد کے تابع ہے.اس مضمون کے اندر داخل ہے تو اس دنیا کے تعلق میں اس کے دو معنی ہوں گے ایک یہ کہ وہ میاں بیوی جو اس قسم کے ہیں اور ان کی اولاد جوان دعاؤں کا پھل ہے ان لوگوں کا گھر ہمیشہ جنت نشان بنارہے گا جنت کی آماجگاہ بنار ہے گا اور ان کی نیکیوں اور ان کی سکینت میں ایک دوام پایا جائے گا.دوسرے یہ کہ ان کے ساتھ یہ گھر ختم نہیں ہو جائیں گے.خُلِدِينَ فِيهَا کیونکہ جن ماں باپ نے اپنی اولاد کو بھی متقی بنالیا ہو اور ان کے لئے اس قسم کی دعائیں کرتے رہے ہوں کیسے ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں بند کرنے کے بعد ان کی اولا دکو دھتکار دے پس لازم ہے کہ جنت کی یہ نشانیاں ان گھروں میں نسلاً بعد نسل چلتی رہیں گی اور مقاما کے لحاظ سے دوسرے معنی بھی اس میں پائے جاتے ہیں کہ ان کو اس دنیا میں بھی یہ جنت نصیب ہوگی اور دوسری دنیا میں بھی جنت نصیب ہو گی اور عارضی ٹھکانہ بھی ان کا جنت ہوگا اور مستقل ٹھکانہ بھی جنت ہوگا.یعنی مرنے کے بعد پھر ان کو ہمیشگی کی وہ جنت بھی مل جائے گی جس کا تصور ہم عموماً دوسری دنیا کے تعلق میں باندھتے ہیں.پھر فرمایا قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ تمہاری تمہارے رب کو کچھ بھی پرواہ نہیں اگر تمہاری دعا ئیں نہ ہوں فَقَدْ كَذَّبْتُم فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا تم نے دعاؤں کی اہمیت کو جانا نہیں ان کی بے قدری کی ہے.اس مضمون کو بھلا بیٹھے ہو.پس اس کے نتیجے میں جو برائیاں تمہارے حصے میں آئیں گی وہ تمہیں چمٹ جانے والی ہوں گی اور خُلدِین کے مقابل پر تر اما رکھا گیا ہے.وہاں خوبیاں چمٹ جانے والی تھیں اور ہمیشگی اختیار کرنے والی خوبیاں تھیں.ان لوگوں کے لئے جن کا ذکر پچھلی آیات میں گزرا ہے اور ان لوگوں کے لئے جن کا منفی ذکر پچھلی آیات میں گزرا ہے اور وہ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد نہیں مانگتے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی برائیاں ان کو چمٹ کر ہمیشہ ساتھ رہنے والی ہوں گی اور وہ برائیاں ان کی نسلوں میں بھی چھٹی رہیں گی اور آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی چھٹی رہیں گی یعنی ایک بدگھر دوسرے بدگھر کو جنم دے گا.پھر وہ نسل اگلی بدنسل کو جنم دے گی اور اس طرح یہ گندگیاں اور یہ بدیاں معاشرے میں بڑھتی چلی جائیں گی اور آئندہ نسلوں میں پھیلتی چلی جائیں گی تو اس آخری ٹکڑے میں پچھلی تمام آیات کا خلاصہ مثبت رنگ میں

Page 378

خطبات طاہر جلد ۹ 373 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء بھی پیش فرما دیا اور منفی رنگ میں بھی پیش فرما دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ اپنی کوششوں پر انحصار کبھی نہ کرنا یہ ایسا تکبر ہے جو خدا کو پسند نہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ تربیت اولاد کے سلسلے میں محض انسانی کوشش کام نہیں دے سکتی.اس کے بہت سے اسباب ہیں اور تربیت کا مضمون ایسا ہے جو اتنا وسیع ہے اور اتنا پھیلا ہوا کہ ناممکن ہے کہ کوئی ماں باپ اپنی کوششوں پر انحصار کرتے ہوئے اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کی ضمانت دے سکے.آج کل جو سائنس دان اس مضمون پر غور کر رہے ہیں وہ تو اس مضمون کے اندر اتنا گہرا اتر چکے ہیں کہ ان میں سے بعض یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ گویا تربیت کا تعلق خالصہ ان Coded Messages میں ہے ان پیغامات میں ہے جو کمپیوٹر کی طرح انسانی نسل کے خلیوں میں درج شدہ ہیں اور جو Gene جس قسم کا کردار بنانے والی ہے وہ ویسا ہی کردار بنائے گی اور انسان جو چاہے کرے بد بد ہی رہیں گے اور گویا نیک نیک ہی رہیں گے یہ ایک طرف کا حد سے زیادہ جھکاؤ ہے اور یہ غیر متوازن نظریہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں.دوسری بعض لوگ کہتے ہیں Genes کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے.ہمارا معاشرہ ہے جو ہمیں جو کچھ چاہے بنا دیتا ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ماں باپ کی ابتدائی تربیت کا بہت حد تک دخل ہوتا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ سارے امور ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں حادثات کا بھی دخل ہوا کرتا ہے.ایک بچہ اتفاق سے بچپن میں سر کے بل گرتا ہے اور ایسی چوٹ پہنچ جاتی ہے کہ جس کے نتیجے میں اگر وہ پاگل نہ ہو تو مزاج بگڑ جاتا ہے اور بعض ایسے بچے باغیانہ مزاج رکھتے ہیں اور لڑتے رہتے ہیں اور بعض ایسے بچے عادات کے لحاظ سے اس طرح بگڑ چکے ہوتے ہیں کہ ان کے ماں باپ یا کسی اور کا ان پر بس نہیں ہوتا.پھر اور قسم کی بیماریاں ہیں جو بچوں کو مفلوج کر دیتی ہیں.بعض ذہن پر اثر کرتی ہیں بعض جسم پر اثر کرتی ہیں.تو تربیت کا مضمون اتنا وسیع ہے کہ اگر کوئی ہوشمند انسان اس مضمون کی وسعت پر نگاہ ڈالے تو ناممکن ہے کہ اس کے دماغ میں یہ تکبر کا کیڑا داخل ہو سکے کہ ہم اگر تو بہ کر لیں ، ہم اگر اچھے ہو جائیں، ہم نیک اعمال کریں، اپنے بچوں کی نگرانی کریں تو بچے ضرور اچھے ہوں گے.حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ نیک تو وہ نہیں ہو سکتے کیونکہ غیر نبی کو نبی پر کلی فضیلت نہیں ہو سکتی.حضرت نوح سے زیادہ اعمال صالحہ بجالانے والے نہیں ہو سکتے کیونکہ نبیوں

Page 379

خطبات طاہر جلد ۹ 374 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء میں بھی حضرت نوح" کا ایک غیر معمولی مقام ہے ایک نبی کی خاطر اور اس کے چند ماننے والوں کی خاطر ساری قوم کو ہلاک کر دینا ایک منفی پہلو رکھتا ہے اور ایک مثبت پہلو رکھتا ہے.اس سے بڑی حضرت نوح کی صالحیت کی گواہی نہیں دی جا سکتی کہ خدا تعالیٰ نے اس ایک پاک بندے کے لئے اور اس کے چند ماننے والوں کے لئے اپنے غضب کا ایک ایسا عظیم نشان دکھایا ہے کہ گویا ساری قوم کی ان کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں اور جب حضرت نوح کا ظاہری بیٹا ڈوبنے لگا یعنی ظاہری بیٹا تو وہاں اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کر دیا کہ ہم کیوں تجھے بچارہے ہیں اور کیوں ان کو ہلاک کر رہے ہیں.اِنَّهُ عَمَل غَيْرُ صَالِحٍ فرمایا کہ یہ بیٹا جو ہے یہ صالح اعمال نہیں رکھتا تو تیرا کیا خیال ہے کہ ہم تیری خاطر تجھے بچا رہے ہیں اور دنیا کو ہلاک کر رہے ہیں.ہم تو تیرے اعمال صالح کی خاطر، ان کو بقا دینے کے لئے ، ان کی پیشگی کی زندگی دینے کی خاطر تجھے اور تیرے ساتھیوں کو بچارہے ہیں اور جوان اعمال صالحہ سے خالی ہیں ان کو ہلاک کر رہے ہیں تو یہ بیٹا تیرا بیٹا کیسے ہو گیا جو اعمال صالحہ کی حفاظت میں اور ان کو بقاء دینے کے لئے تیرے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں رکھتا بلکہ کاٹا جا چکا ہے.پس حضرت نوح کے متعلق یہ عظیم الشان گواہی خود بتاتی ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کا عمل صالح میں ایک بہت ہی بلند اور بالا اور ارفع مقام تھا.پس اس کے باوجود وہ بیٹا آپ کے زیر نظر ، آپ کی آنکھوں کے سامنے غیر صالح کے طور پر بڑا ہونا شروع ہوا.اس کے بعد دنیا کا کون صالح انسان یہ دعوی کر سکتا ہے کہ میری نیکی جو ہے وہ لازماً میری تمام اولاد کو بچالے گی.اس لئے نیکی اپنی انتہا کو بھی پہنچی ہو اور خدا کے ہاں قبولیت کی سند پاچکی ہو، اس کے باوجود ایسے حادثات ہو سکتے ہیں.اس لئے بجز کا مقام یہ ہے کہ انسان دعائیں کرے اور خدا تعالی کے حضور ہمیشہ یہ عرض کرتار ہے کہ اے خدا ! تو ہی ہے جو چاہے تو ہم میاں بیوی کو ایک دوسرے سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہماری اولا دکو متقی بنادے کیونکہ ایسی اولاد کا امام بننا، یہاں امام سے مراد باپ کا یا ماں کا معنی رکھتا ہے یعنی دونوں کی چونکہ مشترکہ دعا ہے اس لئے ماں بھی امامت میں شامل ہے اور باپ بھی امامت میں شامل ہے تو مراد یہ ہے کہ اے خدا ! ہمیں ان نسلوں کا ماں باپ بنا جو متقی ہوں اور ان کے بغیر ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب نہیں ہوگی.اس میں تربیت کرنے والوں کے لئے ایک اور معرفت کا نکتہ بیان فرما دیا.جس کو بھلا کر.

Page 380

خطبات طاہر جلد ۹ 375 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء لوگ پھر تربیت میں بے شمار غلطیاں کرتے ہیں.فرمایا اگر تمہیں تقویٰ کے سوا کسی اور چیز میں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوئی تو یا درکھنا کہ نہ تمہارے حق میں یہ دعا قبول ہوگی ، نہ تم اولاد کی تربیت کے اہل بنو گے.اگر تم آنکھوں کی ٹھنڈک ان کی دنیاوی ترقیوں میں ہی دیکھ رہے ہو، اگر تمہیں اس بات پر فخر ہے کہ بیٹی سنگھار پٹارا اچھا کرتی ہے یا کپڑوں میں اس کا ذوق اچھا ہے.یا اس کی سہیلیاں زیادہ ہیں یا دنیا کے لحاظ سے بلند مقام رکھتی ہے اور ہر دلعزیز ہوتی چلی جارہی ہے اور پڑھائی میں بہت اچھی ہے اور ان باتوں پر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور تم اس کے اوپر وارے وارے جاتے ہو اور کہتے یہ دیکھو ہماری بیٹی گھر میں آگئی ہے آج اس نے یہ کیا، آج وہ کیا اور تمہیں دل کا سکون انہیں باتوں میں نصیب ہو گیا تو تم پھر یہ دعا کیسے کرو گے کہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا کیوں مانگی گئی ہے؟ آنکھوں کی ٹھنڈک اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا تقویٰ سے تعلق باندھ دیا گیا اور فرمایا خالی منہ سے دعائیں کرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک اس مضمون پر تم عمل کرنے والے نہ ہو.یہ مضمون تمہاری زندگیوں کا حصہ نہ بن چکا ہے پس اگر واقعی اولاد کی نیکی دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اگر اولاد کی نیکی دیکھ کر ان کی راہوں میں آنکھیں بچھنے لگ جائیں اور انسان کا دل خوشیوں سے بلیوں اچھلنے لگے اور خوشی کے ساتھ سجدہ ریز بھی ہو جائے کیونکہ روحانی دنیا میں یہ کیفیت اکٹھی پائی جاتی ہے خوشی سے دل اچھلتا بھی ہے اور خدا کے حضور سجدہ ریز بھی ہو جاتا ہے تو پھر تم یہ دعا مانگ سکتے ہو کہ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا اے خدا! ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کر اور تقویٰ والی اولا دعطا کر.اس کے بغیر تمہاری اپنی خواہشات اور اپنی تمنا ئیں تو دنیا کے رستوں پر چل رہی ہوں اور اپنی اولاد کی دنیا کی ترقیات سے تم راضی ہو چکے ہو اور اگر وہ عبادت نہیں کرتے تو تمہیں دکھ نہ ہوتا ہو.اگر وہ نیکیاں اختیار نہیں کرتے تو تمہیں تکلیف نہ ہو اگر وہ جھوٹ بولنے الے ہوں تو تمہارے دل عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں اور اگر وہ لغویات میں ایسے محو ہوں کہ ذکر الہی کے مقابل پر لغویات کو اہمیت دینے والے ہوں تو پھر تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک غیر متقین میں ہے اور تمہاری یہ دعا ئیں بالکل کھو کھلی ہو جائیں گی.پس وہ لوگ جو بعض دفعہ یہ شکایت کرتے ہیں کہ جی ! ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں آپ ہمارے لئے دعا کریں.بعض دفعہ تو ایسے لوگوں کے لئے دوسروں کی دعائیں کارآمد ثابت ہوتی ہیں مگر ایسے مضمون میں جو میں بیان کر رہا ہوں غیر کی دعا کام نہیں آسکتی کیونکہ انسان کے اپنے اعمال اور

Page 381

خطبات طاہر جلد ۹ 376 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء اپنی نیتوں کے رخ ان دعاؤں کے خلاف عمل کرنے والے ہوتے ہیں، ان کو جھٹلانے والے ہوتے ہیں.دعا ئیں اور سمت میں ان کو لے جانے کی کوشش کرتی ہیں اور وہ دعاؤں کی مخالف سمت میں زور لگا کر آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں.ان کا یہ دعا کرنا کہ یہ دعائیں اڑاتے ہوئے ہمیں ان سمتوں میں لے جائیں جو تیری طرف لے جانے والے رخ ہیں یہ کیسی بے معنی اور لغو بات ہوگی حقیقت میں یہ دعا سے مذاق کرنے والی بات ہوگی.پس خدا تعالیٰ نے ان آیات میں جو بے شمار خزانے حکمت کے مدفون فرمائے ہیں ان کو آپ ٹولیں تو آپ کو عرفان کے نئے نئے موتی ملتے چلے جائیں گے اور ان کا تربیت اولاد کے ساتھ اور تربیت قوم کے ساتھ گہرا تعلق ہے.پس اپنی اولاد میں نیکی دیکھ کر خوش ہوا کریں اور دنیا کی ترقیات کو سرسری نظر سے دیکھا کریں.ہو جائیں تو ٹھیک نہ ہوں تو وہ غم کی بات نہیں لیکن اگر نیکی نہ ہو تو غم میں گھل جانا اور ایسی تکلیف محسوس کرنا کہ اولا در یکھ لے کہ ہمارے ماں باپ نا خوش ہو گئے ہیں اور تکلیف میں مبتلا ہو گئے ہیں.یہ وہ جذبہ ہے جو حقیقت میں آپ کی دعاؤں کو طاقت دے گا.وہ عمل صالح جس کے متعلق فرمایا ہے کہ کلمہ طیبہ کو رفع عطا کرتا ہے جس سے کلمہ بلند ہوتا ہے وہ یہی مضمون ہے جو بیان کیا گیا ہے کہ ہر دعا کے ساتھ اس سے تعلق رکھنے والا اس کا ایک جوڑا نیک عمل ہوا کرتا ہے.یہ ضروری نہیں ہوتا کہ چند نیک اعمال ہوں تو سب دعا ئیں مقبول ہوں یا کسی دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ تمام تر نیک اعمال ہوں.یہاں مضمون جوڑوں کا بیان ہو رہا ہے اور جیسا کہ میاں بیوی کے اچھے جوڑے جو ایک دوسرے کے مزاج سے موافقت رکھتے ہوں دنیا میں پائے جائیں یا پائے جاتے ہیں تو ساتھ ہی وہاں سکینت بھی ملتی ہے.اسی طرح دعاؤں اور اعمال کے بعض جوڑے ہیں جہاں یہ جوڑے پائے جائیں گے وہاں قبولیت دعا کا مضمون ضرور موجود ہوگا.پس جس قسم کی آپ دعا مانگتے ہیں اگر آپ کا عمل اس دعا سے مطابقت رکھنے والا عمل صالح ہے تو یقین رکھیں کہ ایسی دعا ضر ور رفع پائے گی کیونکہ قرآن کریم نے اس کے متعلق یہی گواہی دی ہے اور ضرور مقبول ہوگی اس لئے محض رونا اور سجدوں میں پیشانیاں رگڑنا دعاؤں کے لئے کافی نہیں ہے.آپ کے اعمال اور رخ پر چل رہے ہوں اور سجدے اور رخ پر جارہے ہوں یہ تضاد خدا کو قبول نہیں ہے.بعض دفعہ جن کی خواہشات ان کے نیک اعمال کے مطابق ہوں ان کو لمبی دعاؤں کی بھی احتیاج نہیں ہوتی ان کی

Page 382

خطبات طاہر جلد ۹ ایک آہ ہی دعا بن جاتی ہے.377 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء اگر ایک ماں باپ ایسے ہیں جو ہر وقت اپنی اولاد میں نیکی تلاش کرتے ہیں اور نیکی نظر نہ آئے تو ان کے دل سے آہ نکلتی ہے وہی آہ ان کی دعا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس پر محبت اور پیار کی نظر ڈالتا ہے اور وہ جو دنیا پر راضی ماں باپ ہیں وہ بعد میں اپنی اولا دکو جب بے راہ رو ہوتے دیکھتے ہیں، ان کی لڑکیاں غیروں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں ، ان کے لڑکے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں تو پھر وہ روتے ہیں پیٹتے ہیں اور دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں یہ ساری بے حقیقت باتیں ہیں.جس طرح دنیا کے مضمون میں سائنس کا معنی ہے حقیقت اور حقیقت کو تصورات تبدیل نہیں کر سکتے.وہی خدا ہے جس نے روحانی دنیا پیدا کی ہے وہاں بھی ایک سائنس کا مضمون ملتا ہے اور سائنسی حقائق کے طور پر باتیں پائی جاتی ہیں.محض جذباتی اور تصوراتی طور پر آپ اس میں کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے.ہاں ایک اور مضمون وہاں بالا خانوں کا ملتا ہے جس کا مطلب یہ ہے جب تم اپنا سب کچھ کر دو گے تو پھر خدا کے فضل کے نتیجے میں تم وہاں تحية پاؤ گے.ایسے ارفع اور بلند مقامات تمہیں نصیب ہوں گے جہاں تمہاری کوششوں کا پھل تو ضرور ملے گا لیکن اس کے علاوہ خدا کی طرف سے تحائف بھی بہت ملیں گے.ایسے تحائف جو محض اس کے فضل کے نتیجے میں عطا ہو نے والے ہیں.پس ہم نے چونکہ سب دنیا میں اپنی اولاد کی تربیت کرنی ہے اور آئندہ بہت لمبے عرصے تک اپنی نسلوں کو خُلِدِین فیھا کے مطابق بنانا ہے.یعنی خدا کا یہ وعدہ کہ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اس کے متعلق ہم نے کوشش کرنی ہے کہ ہماری نسلوں کے حق میں بھی یہ وعدہ پورا ہو اور وہ ان اعلیٰ اور بلند اور ارفع مقامات پر ہمیشہ رہنے والے بن جائیں.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ وہ زندگی اختیار کریں اور تربیت کے وہ رنگ ڈھنگ سیکھیں جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے کھول کھول کر مضمون بیان فرمائے ہیں اور کھول کھول کر ہمیں تربیت کے طریقے سکھا دیئے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں احسن توفیق عطا فرمائے.اس مضمون کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صرف ماں باپ اور اولاد سے تعلق نہیں ہے بلکہ یہی مضمون اپنی وسعتوں میں نظام جماعت سے تعلق رکھنے والے ہر عہد یدار پر بھی صادق آتا ہے ہر امیر پر صادق آتا ہے ہر مربی پر صادق آتا ہے اور وہاں یہ مضمون اور کئی لحاظ سے وسعت اختیار کر جاتا ہے اگر چہ اتنے وسیع مضمون کو سمیٹنا تھوڑے وقت میں ممکن تو نہیں ہوتا لیکن میں

Page 383

خطبات طاہر جلد ۹ 378 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۹۰ء کوشش کروں گا کہ اس کے دوسرے پہلو کو آئندہ کسی خطبے میں پھر بیان کروں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا: آج چونکہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہے اور قائد صاحب نے فرمایا ہے کہ نماز جمعہ کے بعد انہوں نے خدام کو لے کر اسلام آباد جانا ہے اس لئے نمازیں جمع ہوں گی یعنی عصر کی نماز جمعہ کے معاً بعد جمع ہوگی.

Page 384

خطبات طاہر جلد ۹ 379 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء گھروں کو جنت نشان بنانے کیلئے بہترین قرآنی دعا متقیوں کا امام بننے کیلئے خود تقی بنیں (خطبہ جمعہ فرموده ۶ جولائی ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) پھر فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے اس آیت کے مضمون پر کچھ روشنی ڈالی تھی اور یہ ذکر کیا تھا کہ یہ بہت ہی وسیع مطالب پر حاوی آیت ہے اور تھوڑے وقت میں اس کے تمام پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ بھی روشنی نہیں ڈالی جاسکتی.آج میں بعض اور پہلوؤں سے اس آیت کے مضمون کو آپ پر واضح کرنا چاہتا ہوں تا کہ اس کو اچھی طرح سمجھ کر اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں.غالباً ایک دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے اسی آیت پر ایک یا دو خطبات دیئے تھے اور میرا خیال تھا کہ اگر تمام احمدی خاندان اس دعا کو اپنالیں اور اسے وظیفہ بنا کر ہمیشہ اس سے چھٹے رہیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں عظیم الشان پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہو جا ئیں گی اور وہ تمام گھریلو مسائل جن کو نہ امور عامہ حل کر سکتی ہے نہ قضاء حل کرنے میں کامیاب ہوسکی وہ اسی آیت کی برکت سے سلجھ جائیں گے لیکن چونکہ مسلسل ایسی شکایات پہنچتی رہتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی

Page 385

خطبات طاہر جلد ۹ 380 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء ہمارے بہت سے گھر ایسے ہیں جو اس آیت کی دعا کی برکت سے محروم ہیں اور اس دنیا میں وہ گھر سکینت نہیں بن سکے اور جنت نشان نہیں کہلا سکتے جبکہ ہم نے تمام دنیا کے گھروں کو سکینت عطا کرنی ہے اور چونکہ اس آیت کا مضمون صرف حاضر ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مستقبل سے اور بہت دور تک مستقبل سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس آیت کو نہ صرف موجودہ نسلوں کی تربیت میں اور گھروں کے ماحول کو بہتر بنانے میں ایک گہرا دخل ہے بلکہ آئندہ زمانوں کی نسلوں کو سنبھالنے کا بھی اس آیت کے مضمون سے گہرا تعلق ہے.پہلی بات جو آج میں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ دعا حقیقت میں ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا تقاضا کرتی ہے جو اگر حاصل ہو جائے تو اس دعا کی قبولیت کا ایک نشان و ہیں اسی دل میں ظاہر ہو جاتا ہے اور اگر حاصل نہ ہو تو جتنا چاہیں یہ دعا کرتے چلے جائیں اس دعا کو قبولیت کا پھل نہیں لگے گا.مثلاً وہ خاوند جو اپنی بیویوں سے مستقل بداخلاقی کا سلوک کرتے ہیں اور بدزبانی کا سلوک کرتے ہیں اور نیچا دکھانا چاہتے ہیں اور گھر میں ان کو لونڈیوں کی طرح تابع فرمان اور کام کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اگر اس کیفیت کو تبدیل نہ کریں تو یہ دعا ان کے منہ سے نکل ہی نہیں سکتی.جب تک ان کے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ یہ بیوی جس کو میں چڑیل سمجھتا ہوں جس کے ساتھ میں لونڈیوں سے بدتر سلوک کرتا ہوں، جس کی اس کی اولاد کے سامنے بے عزتی کرتا ہوں.میں اس بیوی سے تسکین مانگ رہا ہوں کیسے ممکن ہے؟ پس جو شخص واقعۂ دل کے خلوص کے ساتھ اسی بیوی سے تسکین چاہتا ہے جس سے وہ بدسلوکی کر رہا ہے جب تک اپنی کیفیت میں اور اپنے سلوک میں تبدیلی پیدا نہیں کرتا اس وقت تک نہ یہ دعا اس کو زیب دیتی ہے نہ اس کے منہ سے نکل سکتی ہے اور اگر کرے گا بھی تو ایک کھوکھلی اور بے معنی آواز کے سوا اس دعا کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی.پس وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے تنافر کے باوجود ان سے مزاج کی دوری کے باوجود اور اس بحث میں پڑے بغیر کہ قصور ان کا ہے یا بیوی کا ہے دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ خدا کے حضور اپنے معاملات پیش کر دیتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم اپنے تعلقات کو سلجھا نہیں سکے اگر ایک مرد ہے تو یہ دعا کرے گا اور عورت ہے تو وہ بھی یہ دعا کرے گی کہ جہاں تک میری کوششوں کا تعلق ہے اگران

Page 386

خطبات طاہر جلد ۹ 381 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء کو دیکھا جائے تو اب تک یہ گھر سدھر نہیں سکا اور ہمارے تعلقات میں اسی طرح تلخیاں چلی آرہی ہیں.میں خلوص نیت سے یہ چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں جو بھی صورت ہو، یا اگر جمع کے صیغے کے لحاظ مضمون کو پیش نظر رکھیں تو ہم کے ذریعے اس بحث میں پڑے بغیر کہ مرد دعا کر رہا ہے یا عورت دعا کر رہی ہے مضمون اسی طرح بغیر کسی رخنہ کے حل ہو جاتا ہے تو یہ دعا کریں یعنی دونوں اپنی اپنی جگہ کہ ہم تو اپنے تعلقات کو سلجھانے میں ناکام رہے ہیں لیکن ہماری خواہش یہی ہے کہ جیسے تو نے ہمیں سکھایا ہم ایک دوسرے سے سکینت حاصل کریں اور ایک دوسرے سے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل کریں.یہ دعا کرنے سے پہلے مقبول ہو جاتی ہے.یعنی ایک حصے کے لحاظ سے کیونکہ یہ دعا کرنے والے اگر مخلص ہیں تو لازما وہ اپنے رجحان میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کر کے یہ دعا کرتے ہیں اور باقی جو حصہ ہے وہ خدا پر چھوڑ دیتے ہیں.پس جیسے کہا جاتا ہے کہ آدھی جنگ تو لڑی گئی اور آدھے حصے پر تو انسان فتح یاب ہو گیا، ویسی ہی کیفیت اس دعا کی ہے جب خلوص نیت کے ساتھ کی جائے تو گویا آدھی جنگ تو لڑی گئی اور آدھا ملک فتح ہو گیا اور باقی حصہ جو ہے وہ خدا پر چھوڑا جائے تو لازماً ایسے مخلص انسانوں کے لئے خدا تعالیٰ حالات کو تبدیل کر دیتا ہے.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے جن لوگوں کے آپس کے تعلقات بگڑے ہوئے ہوں یا نہ بھی بگڑے ہوئے ہوں لیکن ان میں رعونت کا دخل ہوا اور دونوں طرف انانیت کا دخل ہو یا بچپن کی غلط تر بیتوں نے ان کو اس بات کا اہل ہی نہ چھوڑا ہو کہ حسن معاشرت کر سکیں، ایسے لوگ یہ دعا نہیں کر سکتے اور جب تک یہ دعا نہ کریں ان کے حالات بدل نہیں سکتے.ان تعلقات پر جب نظر پڑتی ہے تو بہت سے مختلف ایسے گوشے ہیں جن میں ہمیں بہت ہی زیادہ تکلیف دہ صورت حال دکھائی دیتی ہے.میں ان تمام امور کا ذکر تو یہاں نہیں کر سکتا جو مجھ تک مختلف ذرائع سے پہنچتے رہتے ہیں اور نفسیاتی لحاظ سے ویسے ہی مجھے ایک اندازہ ہوتا ہے کہ بگڑے ہوئے گھروں میں یہ کچھ ہورہا ہوگا لیکن بعض باتیں ایسی تکلیف دہ ہیں کہ جن کا واضح طور پر ذکر کرنا ضروری ہے.بعض خاوند ایسے ہیں جو اپنی بیویوں سے نہ صرف یہ کہ درشتی سے پیش آتے ہیں بلکہ ان کو ہمیشہ بدظنی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ گویا یہ عورت چال چلن کی اچھی نہیں ہے حالانکہ ان کے پاس کوئی ادنی سا بھی قرینہ اس بات کا نہیں ہوتا کہ اس عورت کے متعلق کوئی ایسی غلط سوچ

Page 387

خطبات طاہر جلد ۹ 382 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء کو وہ اپنے دماغ میں جگہ دے سکیں لیکن اگر واقعہ ان کو کسی بات کا یقین ہے تو اس کے لئے اسلام نے ، اسلامی شریعت نے ایک کھلا رستہ رکھا ہوا ہے جسے اختیار کرنا چاہئے اس رستے کو اختیار کئے بغیر اپنی بیوی کو اس رنگ میں طعنے دینا کہ مجھے کیا پتا یہ اولا د میری ہے بھی کہ نہیں.یہ ایک انتہائی بگڑی ہوئی مکروہ صورت ہے اور بعض دفعہ مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوتا ہے بعض ایسے مرد جو اپنے معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور دینی کاموں میں بھی کسی حد تک شغف رکھتے ہیں.اگر عہدہ پاس نہ بھی ہو تو جب ان کو کام کے لئے بلایا جاتا ہے تو وہ آگے آتے ہیں اور ان چہروں میں سے ہیں جو اپنی اپنی جماعتوں میں معروف ہوتے ہیں وہ بھی اپنی بیویوں سے لڑائی کے وقت اس قسم کے نہایت ہی مکر وہ کلمات استعمال کرتے ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ان کے بچے ان باتوں کو سن رہے ہیں.ایسے حال میں وہ یہ دعا کیسے کر سکیں گے کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اپنی بیوی کی راہ سے ان کو اولاد کا تقویٰ نصیب ہونا تھا اس تقویٰ کی راہ کو تو انہوں نے ہمیشہ کے لئے برباد کر دیا جب یہ کہا کہ مجھے کیا پتا ہے کہ یہ اولاد کس کی ہے تو اپنے ہاتھوں سے تقویٰ کی راہوں کو ہمیشہ کے لئے مسدود کر بیٹھے اور پھر ایسی اولا د سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایسے باپ کا ادب کرے گی اور آئندہ صحیح رستوں پر چلے گی.آئندہ زمانے کے معاشرے کے لئے خوشخبریاں لے کے آگے بڑھے گی.یہ ایک بالکل عبث توقع ہے اور عملاً یہ لوگ نہ صرف اپنے حال کو تباہ کرتے ہیں بلکہ دور تک مستقبل میں ان کے نفس کی تلخیاں معاشرے میں زہر گھولتی رہتی ہیں.پس یہ دعا ایسے لوگوں کو نہ زیب دیتی ہے نہ وہ سوچ سکتے ہیں کہ ہم کریں لیکن جب تک اس دعا کے ذریعے مدد نہ مانگیں، قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کچھ بھی پرواہ نہیں اور اگر تم دعاؤں کے ذریعہ مجھ سے مدد نہیں مانگو گے تو فرماتا ہے کہ تمہیں میں اس طرح چھوڑ دوں گا کہ گویا مجھے تمہارے عواقب کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کس حال میں تم کسی بد انجام کو پہنچو مجھ سے تمہارا تعلق کٹ گیا اور یہ مضمون اسی دعا کے بعد بیان کیا گیا ہے.تو خدا تعالیٰ کے اس آخری فرمان کا اس دعا کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور یقین کی حد تک انسان یہ کہ سکتا ہے کہ انسانی معاشرتی تعلقات اور خاندانی تعلقات دعا کی مدد کے بغیر کسی طرح سدھر نہیں سکتے.انسان کے تعلقات میں بہت سے رخنے ہیں جن رخنوں کی انسان کو بعض دفعہ خبر بھی

Page 388

خطبات طاہر جلد ۹ 383 خطبہ جمعہ ۶ رجولائی ۱۹۹۰ء.نہیں ہوتی اور وہ رخنے خلا پیدا کر دیتے ہیں تعلقات میں اور تعلقات کو کمزور کر دیتے ہیں جیسا کہ بعض دفعہ کل پرزوں میں تعمیر کے وقت بلبلے رہ جاتے ہیں اور جب غیر معمولی دباؤ میں وہ کل پرزے چلیں تو جہاں جہاں وہ بلبلے رہ جاتے ہیں وہاں سے وہ ٹوٹ جاتے ہیں اسی طرح انسانی تعلقات میں بہت سے رخنے ایسے رہ جاتے ہیں جو تقویٰ کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ کمزور مقامات ہمیشہ خطرے کا مقام بنے رہتے ہیں.جب کبھی بھی غیر معمولی دباؤ میں انسان آئے اور ابتلاء بڑھ جائیں یا مشکلات نازل ہوں تو ایسے وقت میں ان کمزور جگہوں پر حملہ ہوتا ہے اور پھر رخنے نمایاں طور پر پھٹ کر انسانی تعلقات کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور بکھیر دیتے ہیں تو یہ مضمون عمومیت کے لحاظ سے آپ سمجھ لیں تو تفصیل سے جب آپ اپنے تعلقات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب بھی تعلقات کسی دباؤ میں آئیں اس وقت انسان کو اپنی کمزوریوں کا پتا چلتا ہے.اس کے بغیر نہیں پتا چلتا بچہ بیمار ہو، پریشانی ہو، غربت ہو اور ضرورت کی چیزیں پوری نہ ہو رہی ہوں.بے وقت مہمان آجائیں یا غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو یا ماں باپ ایسے حال میں ہوں کہ ان کو مجبوراً اپنے گھر میں رکھنا ہو.یہ سارے وہ امور ہیں جو معاشرے پر دباؤ ڈالتے ہیں اور میاں بیوی کے تعلقات پر دباؤ ڈالتے ہیں.وہ بیوی جو اس سے پہلے بہت ہی اچھی دکھائی دے رہی ہوتی ہے.انسان سمجھتا ہے یہ تو کلیہ میری وفا دار اور میرے ساتھ تعاون کرنے والی اور میری زندگی کا ساتھی ہے.وہ خاوند جو بیوی کو ایک فرشتہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے اگر وہ پہلے دکھائی دے رہا ہو جب اس قسم کے دباؤ پیدا ہو جاتے ہیں تو اس وقت ان دونوں کے اندرونی رخنے ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور وہی بلبلے ہیں جن مقامات سے پھر یہ تعلقات ٹوٹنا شروع ہوتے ہیں.پس انسان کو اپنے اندرونے کا بھی خود پتا نہیں ہے اور اپنے رفیق حیات کے اندرونے کا بھی کچھ پتا نہیں ہے یعنی ان مقامات پر نظر نہیں ہے جو در حقیقت بعض وقت غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اس لئے جو بھی چاہیں آپ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کریں جب تک دعا سے مدد نہیں مانگیں گے آپ کے تعلقات سدھر نہیں سکتے اور آپ خطرات کے مقام سے باہر نہیں آسکتے.للہ تعالیٰ کی ان باتوں پر نظر ہے اور جب انسانی تعلقات دباؤ میں آتے ہیں تو تقویٰ کام آتا ہے.اس وقت حسن خلق کام نہیں آیا کرتا کیونکہ اخلاق کی بنیاد بعض دفعہ تقویٰ پر ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایک عام

Page 389

خطبات طاہر جلد ۹ 384 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء تربیت پر ہوتی ہے.یعنی دنیا میں ایک انسان کو جس قسم کی طبیعت میسر آئے اس کی وجہ سے اخلاق پر اچھا اثر پڑ سکتا ہے اور بعض قوموں کے جو خدا کی قائل نہیں بھی ہیں اخلاق اچھے ہوتے ہیں لیکن وہ اخلاق جو تقویٰ پر مبنی نہ ہوں، جو خدا کی ذات پر ایمان پر مبنی نہ ہوں وہ دباؤ میں آکر ہمیشہ بے معنی اور بے حقیقت ہو جایا کرتے ہیں.پس ظاہری اخلاق کے لحاظ سے آپ کا گھر چاہے جنت بھی بنا ہوا ہواگران اخلاق کی بنیاد تقویٰ پر نہیں ہے تو ہر گز اس جنت کو بقا کی کوئی ضمانت نہیں ہے لیکن اگر تقویٰ پر مبنی ہے تو جتنی زیادہ مشکل پیش آئے اتنا ہی زیادہ انسان کو ایک دوسرے کی خوبیوں کا علم ہونا شروع ہو جاتا ہے.مصیبت کے وقت اگر بیوی قربانی کر رہی ہے اور تعاون کر رہی ہے، اگر مشکل کے وقت خاوند قربانی کر رہا ہے اور تعاون کر رہا ہے تو چونکہ یہ تعاون تقویٰ کی بنا پر ہوتا ہے اور معاشرے کے دباؤ کے خلاف ہوتا ہے.اس وقت انسان کے اندر کے جو ہر ایک غیر معمولی جاذبیت کا موجب بن کر ابھرتے ہیں اور ایسے واقعات کے گزر جانے کے بعد میاں بیوی کے تعلقات پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں.ان میں ایک محبت کا عنصر ہی نہیں رہتا ، ان میں گہری قدر کا عنصر شامل ہو جاتا ہے.پس اس دعا کو غیر معمولی اہمیت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے جب تک سب سے پہلے آپ کے دل میں یہ نیت پورے یقین ، پوری صفائی کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ پیدا نہ ہو کہ میں نے اپنے ساتھی سے تسکین کی طلب کرنی ہے اور اپنے مولا سے طلب کرنی ہے.میں واقعہ چاہتا ہوں کہ جیسا بھی میرا زندگی کا ساتھی ہے، اپنی برائیوں سمیت جب میں نے اسے ایک دفعہ قبول کر لیا تو میرے بس میں نہیں ہے کہ میں اس سے سکینت حاصل کروں ، میں اپنے خدا سے دعا مانگوں گا ، یا دعا مانگو گی کہ تو ہمارے درمیان ایک دوسرے کے لئے سکینت رکھ دے اور ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.وہ لوگ جن کے تعلقات پہلے ہی اچھے ہوں اور واقعہ ایک طبعی محبت کے نتیجے میں ایک دوسرے سے وہ سکینت پاتے ہوں جب وہ یہ دعا مانگتے ہیں تو وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا والا حصہ ان کی محبت کے تعلقات میں ایک نیا تعلق پیدا کر دیتا ہے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا كا ٹکڑا ان کو یاد کراتا ہے کہ آپ کو ایک دوسرے سے جو تسکین ملتی ہے وہ محض ظاہری انسانی تعلقات کی بناء پر ہے اور اس کی تسکین کے نتیجے میں آپ کی اولا د اور آپ کے مستقبل کی کوئی حفاظت نہیں ہو سکتی

Page 390

خطبات طاہر جلد ۹ 385 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء جب تک دعا کا یہ حصہ شامل نہ کرلیں کہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اس وقت تک ان تعلقات کا کوئی دائمی فائدہ نہیں ہے.اگر وہ قائم بھی رہیں اور ابتلاؤں میں نہ بھی ٹوٹیں تب بھی ایسے تعلقات کے نتیجے میں اولاد فیض نہیں پاسکتی جب تک ان تعلقات میں تقویٰ کا عنصر شامل نہ ہو جائے.پس دعا کا یہ دوسرا حصہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا انسان کی توجہ ان تعلقات کے مال اور مقاصد کی طرف پھیر دیتا ہے یعنی یہ دعا یہ خیال پیدا کرتی ہے کہ ہمیں صرف حال پر راضی نہیں رہنا چاہئے بلکہ مستقبل کی تلاش کرنی چاہئے اور جب تک ہم متقیوں کے پیش رو نہ بن جائیں اس وقت تک ہمیں آپس کے تعلقات میں خوش ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے.یعنی یہ دعا اس طرف توجہ دلاتی ہے چنانچہ جن کے تعلقات اچھے ہیں ان کے تعلقات میں یہ دعا تقویٰ کے رنگ بھرنے لگتی ہے کیونکہ متقیوں کا امام ہونے کی دعا اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اگر تم واقعہ متقیوں کا امام بننا چاہتے ہو تو تقویٰ میں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.کیونکہ امامت کا مضمون بتاتا ہے کہ جس چیز میں کوئی انسان امام ہو ، اس کا پیش رو ہو، ان باتوں میں وہ سب سے آگے ہو تو یہ دعا صرف ایک دعا نہیں رہ جاتی بلکہ عملاً زندگی کی ایک تشکیل نو میں حصہ لیتی ہے اور وہی مضمون جو میں نے پہلے بیان کیا تھا میاں بیوی کے تعلقات میں وہی مضمون تقویٰ کے لحاظ سے انسان کا قدم عملی دنیا میں آگے بڑھانے لگتا ہے اور جب ایک انسان کہتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا تو اس سے صرف یہ مراد نہیں ہے کہ میری نسلوں میں متقی لوگ پیدا ہو جا ئیں بلکہ مراد یہ ہے کہ مجھ میں تقویٰ کے وہ جو ہر پیدا فرما اور اس شان کا تقویٰ عطا کر کہ میری اولا د یا ہماری اولادیں واقعہ ہمیں اپنا امام سمجھیں یعنی ماں باپ ہونے کے لحاظ سے وہ اس بات پر فخر نہ کریں کہ فلاں لوگ ہمارے آباؤ اجداد تھے.بلکہ تقومی کے لحاظ سے وہ یہ بات فخر کے ساتھ بیان کیا کریں کہ ہمارے آبا و اجداد متقی تھے.یہ وہی مضمون ہے جیسے وہ لوگ جو صحابہ کی اولاد میں سے ہیں آج کل جب ان سے تعارف ہو تو وہ بڑے فخر کے ساتھ اور جائز فخر کے ساتھ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد میں فلاں صحابی تھا ہمارے نھیال میں فلاں بزرگ تھا جس کو بیعت کی توفیق ملی.ہمارے ددھیال میں ایسا شخص تھا.وہ لوگ واقعی متقیوں کے امام تھے ان معنوں میں کہ ہر متقی ان کی طرف منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے مگر بعد میں غیر متقی بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ بھی فخر کرنے لگتے ہیں.غیر متقی جو اپنے

Page 391

خطبات طاہر جلد ۹ 386 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء آباؤ اجداد کا ذکر کرتے ہیں.ان کو عملاً اس مضمون میں کوئی دخل نہیں ہے.وہ دائرے کے باہر سے بیٹھے ہوئے ظاہر یہی کرتے ہیں کہ ہم اس دائرے میں ہیں کیونکہ اس دعا میں جب یہ فرمایا گیا کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا تو جن کے حق میں یہ دعا مقبول ہوئی ان کی غیر متقی اولا دان کو اپنا امام کہنے کا حقدار نہیں رہتی.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے لئے اس میں بہت گہرا سبق ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کے صلى الله دور میں غیر احمدی ملاؤں سے ہمارا سب سے بڑا جھگڑا یہ چل رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمارے امام زیادہ ہیں یا تمہارے امام زیادہ ہیں.وہ کہتے ہیں کہ کلیہ ہمارے امام ہیں اور تم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اگر تم نے کوئی تعلق ظاہر کیا تو ہمیں اتنا اشتعال آئے گا کہ ہم اس کے بعد حق بجانب ہوں گے کہ اگر تمہارے گھر لوٹیں، تمہاری مسجد میں مسمار کریں اور تمہیں قتل کریں یا تمہارے بچوں کو اذیتیں دیں کیونکہ تم نے ہمارے امام کو اپنا بنالیا اور احمدی یہ کہتے ہیں کہ اصل تو ہمارے ہی امام ہیں.اب اس جھگڑے کو کیسے نپٹایا جائے یہ سوال پیدا ہوتا ہے.یہ ایسا جھگڑا تو نہیں جیسے بچے آپس میں لڑتے ہوں کہ ہمارا باپ زیادہ ہے.تمہارا باپ زیادہ ہے اور ماں باپ اگر موجود ہی نہ رہے ہوں تو کوئی کس سے پوچھے کہ کس کا کوئی زیادہ تھا.اب قرآن کریم نے ہمیں یہ نکتہ سمجھا دیا اور پہچان کی ایک کسوٹی ہمیں عطا کر دی تا کہ آئندہ جب کبھی بھی امت میں یہ جھگڑے پیدا ہوں کہ محمد مصطفی نے کس کے زیادہ ہیں تو یہ آیت کسی کے حق میں گواہ بن کر کھڑی ہو جائے اور یہ بتائے کہ اس کے زیادہ ہیں اس کے نہیں ہیں یا اس کے بالکل نہیں ہیں.پس وہ لوگ جو تقویٰ میں ترقی نہیں کرتے ان کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ دعا کسی اور کے حق میں مقبول ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت رسول اکرم ﷺ کے حق میں لازماً اپنی تمام شان کے ساتھ مقبول ہوچکی ہے.پس اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرما دی ہے.فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے تم میری نظر میں ہمیشہ متقیوں کے امام ہی رہو گے اور غیر متقیوں سے تمہارا کوئی تعلق نہیں.پس آنحضرت ﷺ نے اسی دعا کی مقبولیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ آئندہ امت میں یہ یہ خرابیاں پیدا ہوں گی تو وہ بدخلق اور ظاہر بین علماء جن کے متعلق فرمایا کہ وہ آسمان کے

Page 392

خطبات طاہر جلد ۹ 387 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.ان کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ علمائی میرے علماء علماء هم شر من تحت اديم السماء ( مشکوۃ کتاب العلم والفضل صفحہ نمبر: ۳۸) ایسے بدخلق اور گندے علماء کا میرے سے کیا تعلق؟ میں تو متقیوں کا امام ہوں.اس لئے یہ غیر متقی جو ہیں ، ان لوگوں کے امام ہوں گے جن کے ماننے والے بھی غیر متقی تو اس جھگڑے کا حل پھر کتنا آسان ہوگیا اور کتنا واضح اور کہیں باہر پوچھنے کے لئے جانے کی ضرورت نہیں رہتی.وہ تمام راہنما اور سردار جن کی قوم دن بدن گند میں بڑھتی چلی جا رہی ہے اور بداخلاقیوں میں بڑھتی چلی جارہی ہے اور تقویٰ سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا.جن میں ہر قسم کی بدی عام ہوگئی ہے، جھوٹ عام ہو گیا ہے، فساد عام ہو گیا ہے،ایک دوسرے کے حق مارے جارہے ہیں اور بچے اغواء کیئے جارہے ہیں، معصوم لوگوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں.ہر قسم کے جرائم عام ہیں اور عزت کا نشان طاقت بن چکا ہے.جس کے پاس طاقت زیادہ ہے ، جس کے پاس جتھ زیادہ ہے جس کے ساتھی زیادہ ہیں وہی زیادہ معزز ہے اور اس کا حکم چلتا ہے.یہ سوسائٹی منتقیوں کی سوسائٹی تو نہیں کہلا سکتی.پس ان لوگوں کے امام جو غیر متقی ہیں وہ خود متقیوں کے امام بننے کے کیسے مستحق ہو سکتے ہیں اور یہ سارے مل کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے کا کیا حق رکھتے ہیں کیونکہ آپ کو تو خدا نے فرما دیا کہ میں نے تجھے متقیوں کا امام بنایا ہے اور قیامت تک اس امت میں جتنے بھی متقی پیدا ہوں گے محمد مصطفی ﷺ انہیں کے رہیں گے.چاہے دنیا سارا زور لگائے مگر ایسا نہیں کر سکے گی کیونکہ قرآن کریم کی یہ آیت ہمیشہ ان کی حفاظت فرمائے گی اور ان کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے دامن سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا کیونکہ وہ تقویٰ میں ترقی کر رہے ہوں گے.پس اس پہلو سے اس دعا کے اس رُخ پر بھی نگاہ کریں کہ اس دعا کا بالآخر کیا انجام ہے.اس کے دو کنارے ہیں ایک وہ جو مستقبل کی طرف چلنے کا رستہ ہے اور اس میں وہ ذُریت ہیں جو ہمیشہ ایک دوسرے کے بعد آتی چلی جائیں گی اور جن کے لئے تقوی کی آپ دعا کر رہے ہیں.دوسرے امامت کے لحاظ سے یہ دعا ماضی پر اثر دکھاتی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی عالی کی ذات تک انسان کو پہنچاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اگر تم متقی نہ بنے تو اس امام کے غلاموں میں تمہارا شمار نہیں ہوگا.کیونکہ اسے خدا نے ہمیشہ کے لئے متقیوں کا امام بنادیا ہے.

Page 393

خطبات طاہر جلد ۹ 388 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء پس اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ یہ دعا ایک حیرت انگیز طور پر وسیع اثر دکھانے والی دعا ہے اور اس دعا کے بغیر ہم حقیقت میں زندگی کے سانس نہیں لے سکتے کیونکہ مومن کی زندگی کے سانس تقویٰ کی صحت سے تعلق رکھتے ہیں جسے تقویٰ کی صحت نصیب نہ ہو تو جس طرح دے کے مریض کا دم گھٹ جاتا ہے اس طرح روحانی لحاظ سے اس کا دم گھٹ جاتا ہے.پس اس دعا کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور دونوں پہلوؤں کے لحاظ سے یعنی مستقبل کے لحاظ سے بھی اور ماضی کے لحاظ سے بھی ہمیشہ سوچ کر اور غور کے ساتھ یہ دعا مانگا کریں اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگیں کہ آپ کو وہ متقی بنائے جو محمد رسول اللہ اللہ کے غلام بننے کے شایان شان ہوں اور آپ کی اولاد کو ایسا متقی بنائے کہ وہ آپ کی اولاد کہلانے کی شایان شان ہو اور ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ تعلقات اسی طرح دونوں سمت میں مضبوط تر ہوتے چلے جائیں.لیکن ایک بیچ کا پہلو ہے جس کو اس آیت نے ہمارے سامنے رکھ دیا کہ جن میاں بیوی کے تعلقات ایک دوسرے سے تقویٰ پر مبنی نہیں ان کا نہ ماضی محفوظ ہے نہ مستقبل محفوظ ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ خیر کم خيــر كـم لاهـلـه وانـا خـيـر كـم لاهلی ( ترمذی کتاب المناقب حدیث نمبر : ۳۸۳۰) کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کیلئے بہترین ہے اور دیکھو میں اپنے اہل کے لئے بہترین ہوں یعنی تم سب میں اس لئے بہترین ہوں کہ اپنے اہل کے لئے بہترین ہوں کہ آپ اپنے اہل کے لئے بہترین ان معنوں میں تھے کہ آپ نے ان کے تمام حقوق ادا کئے اور ایک حق کا ادنی سا حصہ بھی نہیں رکھا اور اس کے ساتھ ان کے اخلاق کی نگرانی کی اور ہمیشہ مسلسل کی ان کی تربیت کی طرف متوجہ رہے اور بعض دفعہ راتوں کو اٹھ کر اپنی بیٹی کے گھر جایا کرتے تھے.حضرت فاطمہ اور ان کو حضرت علی کو نماز کے لئے جگایا کرتے تھے یا تہجد کے لئے جگایا کرتے تھے.یعنی ایسا مستقل آپ کو اپنی اولاد کی تربیت کا دھیان تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ لگن لگ گئی تھی کہ بلا استثناء کوئی دن ایسا نہیں ہے جب آپ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف اور اپنی اولاد کی طرف تربیت کے لحاظ سے توجہ نہ کی ہو تو خَیرُ كُم سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ دنیا کے معاملات میں ان کے حقوق ادا کرنے والا بلکہ خَیرُ تُم سے مراد یہ ہے کہ اول طور پر دین میں ان کے حقوق ادا کرنے والا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے والا.اس کے بعد جب یہ دعا کی جاتی ہے کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ تو اس دعا میں غیر معمولی

Page 394

خطبات طاہر جلد ۹ 389 خطبہ جمعہ "رجولائی ۱۹۹۰ء تقویت پیدا ہو جاتی ہے، اس کو قبولیت کا پھل لگنے لگتا ہے.اگر اس کے بغیر دعا کریں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا.دعاؤں کے متعلق یہ یادرکھنا چاہئے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ دعا وہی مقبول ہوتی ہے جو دل کے جوش کے ساتھ کی جائے اور بسا اوقات یہ دیکھتا ہے کہ دل کے جوش کے ساتھ دعا کر رہا ہے لیکن اس کو پھل نہیں لگا.اصل میں دعا کا مضمون بھی بہت باریک اور وسیع ہے اور چونکہ یہ سارا دعا کا ہی مضمون چل رہا ہے اور اس دعا کے مضمون پر ہی یہ آیات ختم ہوتی ہیں اس لئے اس خاص پہلو کی طرف میں آپ کو مزید متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ایک شخص جس کو دنیا کی حرص ہے وہ روپیہ چاہتا ہے ، دولت چاہتا ہے، مکان چاہتا ہے دنیاوی عزتیں چاہتا ہے اس کو طبعی طور پر ایسی دعاؤں کی لگن ہوگی اور ان دعاؤں کے لئے اس کے دل میں ایک طبعی جوش پایا جائے گا اور وہ دعائیں کرتا چلا جاتا ہے اور وہ دعائیں مقبول نہیں ہوتیں.آخر کیا وجہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی کی وہ مقامات جن کے لئے اس کے دل میں طبعی جوش نہیں ہے.وہ ان مقامات کو حاصل کرنے کے لئے دعا نہیں کرتا اور اپنی ایک عادت مستمرہ یعنی جاری رہنے والی عادت کے ذریعے وہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ میری دعائیں صرف میرے نفس کے لئے ہیں خدا تعالیٰ کے لئے نہیں اور نیکی کی خاطر نہیں.مثلاً یہی دعا ہے یہ دعا ایسی ہے جہاں اگر تعلقات خراب ہوں تو دل چاہتا ہی نہیں دعا کرنے کو اور دعا کرنا انسان کو محض اس وقت نصیب ہوسکتا ہے جب وہ خدا کی خاطر اپنی طبیعت کے خلاف دعا کر رہا ہے.تو ضروری نہیں ہے کہ طبیعت کے مطابق دعائیں قبول ہوں.بعض ایسے مواقع ہیں جہاں طبیعت کے خلاف دعا ئیں بہت زیادہ مقبول ہوئی ہیں اور ان کے اندر بہت زیادہ قوت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی مختلف وجوہات ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کے خلاف نیک باتوں کی خواہش کی وجہ سے دعا کرتا ہے.یعنی خواہش سے مراد ہے نیک باتوں کے احترام میں دعا کرتا ہے.اللہ کی خاطر وہ ایک نیکی کو حاصل کرنا چاہتا ہے دل نہیں کرتا اس نیکی کو پکڑ نے کے لئے کوئی بدی ہے جس میں وہ ملوث ہو چکا ہے اس سے چھٹکارا نصیب نہیں ہوتا اور واقعہ درد دل کے ساتھ ، باوجود اس علم کے کہ جس دن یہ بدی مجھ سے چھوٹی میری زندگی کا مزا ہا تھ سے جاتا رہے گا پھر دعا کرتا ہے تو یہ دعا طبیعت کے خلاف ہونے کی بجائے قبولیت کے زیادہ اہل ہو جاتی ہے.پس جہاں مزاج کے اختلاف ہوں جہاں میاں بیوی کے درمیان طبعی دوریاں ہوں.ایک

Page 395

خطبات طاہر جلد ۹ 390 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء دوسرے کی صورت پسند نہیں، ایک دوسرے کی عادتیں پسند نہیں اور بے شمار ایسی دیواریں ہیں جو درمیان میں حائل ہیں اور پھر اس نیت سے کہ میرا خدا چاہتا ہے کہ میں یہ دعا کروں اور مستقبل کی نسلوں کی حفاظت کی خاطر میرے لئے ضروری ہے، دین کی خاطر میرے لئے ضروری ہے.طبیعت پر بوجھ ڈال کر مگر خلوص نیت سے یہ دعا کرتا ہے تو اس دعا میں ویسا ولولہ تو نہیں ہوسکتا جیسے امتحان میں پاس ہونے کی خاطر ایک گھبرایا ہوا اور ڈرا ہوا طالب علم دعا کر رہا ہوتا ہے.بعض دفعہ وہ چیخیں مارتا ہے کہ اے خدا ! میں تو ذلیل ورسوا ہو جاؤں گا، میرے مستقبل کا انحصار ہے، میں نے سارا سال نہیں پڑھا مگر اب رحم فرما اور مجھے پاس کر دے.ایسی دعا میں بظاہر کتنا غیر معمولی جوش پایا جاتا ہے اور یہ دعا جب آدمی ان حالات میں مانگے گا جو میں نے بیان کئے ہیں تو وہ جوش پیدا نہیں ہوگا لیکن اپنے اوپر جبر کر کے وہ دعا کرے گا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسی دعا بظا ہر جوش میں کمی کے باوجود زیادہ مقبول ہوگی اور ایسی دعاؤں کے طفیل آپ کی دوسری دعائیں بھی قبول ہوں گی.یہ نکتہ ہے جس کو آپ کو سمجھنا چاہئے کیونکہ اگر آپ کی دعا ئیں محض طبعی خواہشات اور تمناؤں کے تابع ہیں تو ایک پہلو سے آپ اپنی ہوا کی عبادت کر رہے ہیں.اپنی خواہشات کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ تو جھوٹا ہے.خدا تمہاری ان آوازوں کو نہ سنے گا ، نہ قبول کرے گا.پس بظاہر آپ خدا کو مخاطب ہوتے ہیں مگر جس شخص کی ساری زندگی محض حوائج نفس کے لئے وقف ہو اور اپنی طبعی تمناؤں کی پیروی میں وہ دعائیں کرتا ہو عملاً اس کی دعائیں رائیگاں جاتی ہیں اور ان کا نشانہ خدا نہیں ہوتا ان کا قبلہ کچھ اور ہوتا ہے اور قرآن کریم نے فرمایا ہے یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کی تمنا کو اپنا معبود بنالیا ہے پس بظاہر وہ خدا کا نام لے رہا ہوتا ہے اور حقیقت میں اپنے نفس کی عبادت کر رہا ہوتا ہے.اس کی دعائیں کیسے مقبول ہوسکتی ہیں.ہاں اگر اس کی دعاؤں کے دائرے میں ایسی دعا ئیں بکثرت شامل ہو جائیں جس کا اس کے نفس کے رحجانات سے طبعی تعلق نہ ہو اور خالصہ بنی نوع انسان کی خاطر وہ اپنے نفس کو اس طرف مائل کر کے دعائیں کرتا ہو تو ان دوسری دعاؤں سے شرک کا الزام اٹھ جاتا ہے پھر ایک نیا مضمون ابھرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ہے خدا کا بندہ.جب ایسی باتوں میں بھی دعائیں کر رہا ہے جس میں اس کی خواہش نہیں تو جو طبعی دعائیں خواہش کے نتیجے میں ہوتی وہ بھی پاکیزگی کا رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور اسی نظر سے دیکھی جانی چاہیں تو ایسے لوگوں

Page 396

خطبات طاہر جلد ۹ کی دعا ئیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں.391 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو ایک اور مثال میں اس طرح واضح فرمایا کہ وہ دعائیں جن سے تمہیں ڈرنا چاہئے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہیں.ان میں ایک ماں کی دعا ہے جو اپنی اولاد کے خلاف ہو.دیکھیں کتنا عظیم الشان اور کتنا گہرا نکتہ بیان فرما دیا.یہ نہیں فرمایا کہ ماں کی دعا جو اپنی اولاد کے حق میں ہو وہ ضرور قبول ہوتی ہیں کیونکہ ہر ماں گندی ہو یا نیک ہو پاک ہو یا نا پاک ہوا اپنی اولاد کے حق میں تو بعض دفعہ دہر یہ بھی ہو تو دعائیں کرتی ہے بے اختیار کرتی ہے، کیونکہ اس کو بعی محبت ہے وہ دعائیں چونکہ نفس کی خاطر ہیں اس لئے ان کی قبولیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے.نیک مائیں جب یہ دعائیں کریں گی تو پھر اس لئے مقبول ہوں گی کہ وہ دوسری جگہ بھی اپنی دعاؤں میں خدا کی خاطر التجائیں کرنے کی عادی ہوتی ہیں اس لئے وہ ضرور مقبول ہوں گی.اس سے انکار نہیں لیکن مائیں اگر فطرت کے خلاف کسی بچے کو بد دعا دیتی ہیں تو اپنے مزاج کے خلاف بات کر رہی ہیں اور دیکھیں اور ایک مثال ایسی ہے جہاں مزاج کے مطابق دعاؤں کی تو ضمانت نہیں دی جاسکتی مگر مزاج کے خلاف دعا کرنے کی ضمانت ہے کہ وہ ضرور مقبول ہوگی.تو دعاؤں کے مضمون کو جب سمجھ لیں اور ان کی گہرائی تک پہنچیں تو دعاؤں کے اسلوب آجاتے ہیں.دعاؤں کا سلیقہ نصیب ہوتا ہے اور انسان کو سمجھ آجاتی ہے کہ کیوں بعض دفعہ میری عمر بھر کی گریہ وزاری بے کا رگئی ہے اور کیوں بعض دفعہ جوش پیدا ہوئے بغیر دل سے ایک خیال اٹھتا ہے اور وہ مقبول ہو جاتا ہے.دعاؤں کو بھی تقویٰ کا لباس پہنانا پڑتا ہے.یہ ہے آخری نکتہ اور اس کے بغیر دعائیں بارگاہ الہی میں مقبول نہیں ہو سکتیں.پس رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِماما کی دعا کو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے مستقل مانگنے کی عادت ڈال لیں اور جب یہ دعا کیا کریں تو اپنے تعلقات پر نگاہ کیا کریں کہ ان کی کیا نوعیت ہے.آپ واقعہ ان کو بدلنے کے لئے تیار ہیں بھی یا نہیں.اگر ہیں تو کیا کوشش کر رہے ہیں اور اگر نہیں تو پھر یہ دعا کیوں مانگ رہے ہیں.پھر اس دعا کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی.پس اس گہری اور تفصیلی نظر سے جب آپ صداقت کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس دعا کے ذریعہ اپنے معاشرتی تعلقات اور اہلی تعلقات کو بہتر بنانے کی

Page 397

خطبات طاہر جلد ۹ 392 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۹۰ء کوشش کریں گے تو بلاشبہ مجھے کامل یقین ہے کہ اس دعا کی برکتیں آپ پر آسمان سے بھی نازل ہوں گی اور زمین بھی اگلے گی اور آپ کے گھر دیکھتے دیکھتے جنت نشان بن جائیں گے.اس دعا کے بعض اور پہلو ہیں جن کا عمومی قومی تربیت اور جماعتی نظام سے بڑا گہرا تعلق ہے.اس کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.

Page 398

خطبات طاہر جلد ۹ 393 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کی دعا کا ایک پہلو یہ ہے کہ نظام جماعت میں تفرقہ کا باعث نہ بنیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ جولائی ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامان پھر فرمایا: (الفرقان: ۷۵) میں نے گزشتہ خطبے میں اس امر پر روشنی ڈالی تھی کہ کس طرح اس آیت کریمہ کا ایک حصہ بہت وسیع الاثر دکھائی دیتا ہے اور اس آیت کے اندر گویا ایک مضامین کا دریا ایک کوزے میں بند ہے اور وہ جو ٹکڑا ہے اس آیت کے اندر وہ ہے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اے ہمارے خدا ہمیں متقیوں کا امام بنادے.اس حصہ آیت کا تعلق اولا د سے بھی ہے جس کا ذکر چل رہا ہے اور ازواج سے بھی ہے جن کا پہلے ذکر گزرا کہ اے خدا ہمیں اپنے ساتھیوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما اور اپنی اولاد کی طرف سے اور اولاد در اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما.یعنی وہ آنکھوں کی ٹھنڈک جو متقیوں کو دیکھ کر نصیب ہوا کرتی ہے اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے اور اس کے علاوہ اپنی ذات میں یہ ٹکڑا بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے جس کا تعلق زندگی کے تعلقات کے ہر دائرے سے ہے اور پھر ان معنوں میں ازواج کے معنے بھی بدل جاتے ہیں اور وہاں صرف بیویاں مراد نہیں

Page 399

خطبات طاہر جلد ۹ 394 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء رہتیں یا خاوند مراد نہیں رہتے بلکہ زندگی کے کام کرنے والے ساتھی.اس پہلو سے میں اس آیت کے ایک حصے پر آج کچھ مزید روشنی ڈالوں گا.جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے میں نے بڑے غور سے ایسی جماعتوں کے حالات کا تجزیہ کیا ہے جن میں افتراق پایا جاتا ہے.افتراق کی جو وجوہات ہیں اُن میں سے بہت سی وجوہات کا تعلق آیت کریمہ کے اس حصے سے ہے واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.بالعموم قیادت کی خواہش کے نتیجے میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور اس کی کئی صورتیں ہیں.ایک تو نظام جماعت کا انتخاب کا طریق ہے.اُس طریق میں خالصہ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ محض تقویٰ کی بنا پر اپنے سرداروں کا انتخاب کر دیا جماعت کے عہدیداران کا انتخاب کرو.جہاں بعض جگہوں میں تقویٰ کی کمی ہو وہاں وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں اور جتھوں کے نتیجے میں انتخاب شروع کر دیتے ہیں.پس چونکہ منتخب کرنے والے غیر متقی ہوتے ہیں اس لئے ایسے غیر متقیوں کا امام بھی غیر متقی بن جاتا ہے اور واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کی دُعا کا اطلاق باوجود اس کے کہ یہ مذہبی لوگ ہیں اور بظاہر مذہبی اور نیک اقدار کی خاطر عہدیدار چنے جا رہے ہیں اُن پر نہیں ہوتا.ایسی قیادت جب بھی ابھرتی ہے جو جتھے بندی کے نتیجے میں اُبھرتی ہے اُس قیادت کے لازمی نتائج یہ نکلتے ہیں کہ وہ دوسرے مخلصین جو ایسی جماعتوں میں اقلیت میں پائے جاتے ہیں وہ یا تو رفتہ رفتہ تقویٰ کے دائرے سے خود باہر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں اور جتھے کے مقابل پر جتھا بناتے ہیں یا پھر وہ بالکل جماعت میں بے اثر اور بےحقیقت ہو کے رہ جاتے ہیں اور جماعت کا رُخ ترقی کی بجائے تنزل کی جانب مڑ جاتا ہے لیکن یہ جو آخری صورت ہے ایسی نسبتا کم دیکھنے میں آتی ہے.اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ جو جماعت کی اکثریت کے نزدیک تقویٰ کے اس مقام پر نہیں ہوتے کہ انہیں کوئی عہدہ دیا جائے وہ اقلیت میں پائے جاتے ہیں اور جہاں تک میں نے تفصیل سے جائزہ لیا ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ پہلی صورت بہت کم واقعہ ہوتی ہے اور بسا اوقات جماعت کی اکثریت تقویٰ کے ساتھ ووٹ دیتی ہے اور اُس کے نتیجے میں متقی ہی اُن کے سردار بنائے جاتے ہیں لیکن وہ حصہ جن کو ر ڈ کر دیا جاتا ہے اُن میں ایک مقابل کی لیڈرشپ اُبھرتی ہے اور اُس لیڈرشپ کا تعلق اُس پہلی لیڈرشپ سے ہوتا ہے جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے.جب خدا تعالیٰ نے آدم کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا اور فرشتوں کو حکم دیا

Page 400

خطبات طاہر جلد ۹ 395 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء کہ اُس کی اطاعت کرو تو اُس وقت ابلیس نے اطاعت سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے.پس ایسی صورت میں ہمیشہ میں بہتر ہوں کی آواز اُٹھتی ہے یا ساتھیوں کی طرف سے فلاں بہتر ہے کی آواز اُٹھتی ہے اور جب مجھے شکایتیں پہنچتی ہیں تو اُن کا خلاصہ کلام یہی ہوتا ہے کہ انتخاب ہوا اور اچھے آدمیوں کو چھوڑ دیا گیا اور غلط آدمی کو اختیار کر لیا گیا حالانکہ علم کے لحاظ سے ، دولت کے لحاظ سے یا فلاں فلاں لحاظ سے شخص بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا اور عہدہ اس کے سپر د ہونا چاہئے تھا.پس وہ چند لوگ جو نہ خود متقی ہوتے ہیں نہ خدا کی نظر میں اس لائق ہوتے ہیں کہ اُن کا امام متقی ہو.وہ اپنا ایک غیر متقی امام الگ بنا لیتے ہیں اور ان جماعتوں میں اُن غیر متقیوں کے محدود دائرے کے اندر پھر مجالس لگنی شروع ہو جاتی ہیں.منصوبے بنائے جاتے ہیں اور دن رات اُن کا مشغلہ اس کے سوا کوئی نہیں ہوتا کہ جماعت کی مقامی قیادت کو اُلٹا دیں اور اُن کے متعلق دن رات شکائیتیں لکھنا شروع کریں.چنانچہ بعض ایسے لوگ شکایتیں بھیجنے میں وقف ہو جاتے ہیں.ادنی سا قصور بھی اگر جماعت کی قیادت سے سرزد ہو اور ظاہر بات ہے کہ انسان میں کمزوریاں ہیں ، خامیاں ہیں اور ہر لحاظ سے وہ کامل نہیں ہوسکتا تو بعض صدران اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بعض کمزوریاں بھی دکھا دیتے ہیں.بعض ایسے امام الصلوۃ منتخب ہو جاتے ہیں جن کو قراءت پوری طرح نہیں آتی.بہر حال کسی قسم کی کوئی کمزوری ہو اُس پر پھر وہ نظر رکھ کر اُس کو اُچھالتے ہیں اور ایسی چٹھیاں مثلاً ملنی شروع ہو جاتی ہیں کہ فلاں شخص کو جماعت نے اپنا امام الصلوۃ مقرر کیا ہے اور وہ قراءت اچھی نہیں جانتا اور فلاں صاحب جن کو رڈ کر دیا گیا ہے وہ بہت اچھی قراءت جانتے ہیں.اس لئے کیا ایسے شخص کے پیچھے ہم لوگوں کی نماز ہو جائے گی ؟ واقعہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی کسی کے پیچھے بھی نماز نہیں ہوتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اُن کو متقی امامت سے الگ کر دیا ہوتا ہے.جس کا امام متقی نہیں اُس کے ماننے والے متقی کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور جو غیر متقی اپنا ایک غیر متقی امام بنا لیتے ہیں ان کی نماز کہیں بھی نہیں ہوتی اور وہ اس مضمون کو بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنا تعلق تقوی سے کاٹ کر خدا تک جتنے بھی سلسلے ہیں اُن سب کو شروع سے کاٹ لیا ہے.ایک تیسری قسم کی اشتراک والی قیادت اس طرح ابھرتی ہے کہ کسی شخص کے امیر سے یا

Page 401

خطبات طاہر جلد ۹ 396 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء پریذیڈنٹ وغیرہ جو بھی عہدہ ہو یا مربی اُس سے اختلافات ہو جاتے ہیں اور ان اختلافات کی بنا پر وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے جن کو امیر یا مربی وغیرہ سے ویسے کوئی الگ شکایات ہوں.چنانچہ یہ شکایتوں کا ٹولہ محض حب علی کی بنا پر نہیں بلکہ بعض معاویہ کی بنا پر اکٹھا ہوتا ہے اور جو بھی امیر کا دشمن ہو گا یا نظام کے کسی عہدیدار کا دشمن ہو گا جس سے یہ مخاصمت چل رہی ہے وہ سرکتے ہوئے ان لوگوں کے اندر داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی مجلسیں جس طرح دانشوروں کی مجلسیں ہوا کرتی ہیں اُس طرح اس خیال سے کہ گویا ہم دانشور ہیں اور ہم جماعت کے اعلیٰ درجے کی سوچ رکھنے والا طبقہ ہیں اور اُن پاگلوں میں سے نہیں ہیں جو آنکھیں بند کر کے اطاعت کرتے ہیں.اس طرح کا ایک ٹولہ نمودار ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ مجلسیں لگاتے ہیں اور امیر کو بھی ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور دوسرے عہدیداران کو بھی.گویا وہ باہر بیٹھے نظام جماعت کی خامیاں تلاش کرنے پر وقف ہو جاتے ہیں اور جو نو جوان اُن کے دائرہ اثر میں جاتے ہیں وہ اُسی طرح زنگ آلود یا زخمی ہونے لگ جاتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ تقویٰ کی امامت سے کاٹ دیتا ہے اور ان معنوں میں جب آپ دُعا پر اور اس کی افادیت پر غور کریں تو حیران رہ جاتے ہیں.غیر لوگ جن کا اس دُعا سے اور خدا سے اس رنگ میں تعلق نہ ہو، اس دعا کے واسطے سے تعلق نہ ہو اُن کے متعلق خدا کبھی یہ پرواہ نہیں کرتا کہ غیر متقیوں کو ان سے کاٹ کر الگ کر دے اور وہ بیچ میں ملتے رہتے ہیں اور اُسی طرح آہستہ آہستہ ساری قوم گندی ہو رہی ہوتی ہے اور اُن کو اچھے لوگوں سے الگ کر کے باہر پھینکنے کا کوئی نظام کام نہیں کر رہا ہوتا لیکن الہی نظام میں یہ لوگ خود بخود نکھر کر الگ ہونے لگ جاتے ہیں.اب وہ دُعا که واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اگر مقبول ہو اور یہ لوگ پھر بھی صالح قیادت کے ساتھ رہیں تو یہ ممکن نہیں ہے، اس بات میں تضاد پایا جاتا ہے.چنانچہ جب ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ اے خدا ہمیں متقیوں کا امام بنانا تو درجہ بدرجہ جو لوگ بھی اس دُعا کے اثر کے تابع اپنی زندگیاں گزارتے ہیں یعنی خدا سے یہی مانگتے ہیں اور عملاً یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ متقیوں کے ہی امام رہیں.خدا تعالیٰ غیر متقیوں کو اس طرح اُن سے کاٹ کے الگ کرتا چلا جاتا ہے اور دو قیادتیں اُبھر جاتی ہیں.ایک متقی قیادت اور ایک غیر متقی قیادت.پس سوال یہ ہے کہ اس کی پہچان کیا ہے؟ کون سی منتقی

Page 402

خطبات طاہر جلد ۹ 397 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء قیادت ہے اور کون سی غیر متقی قیادت؟ اس کی بہت سی پہچانیں ہیں اور ہر جماعت میں ایسے لوگوں کو جو غیر متقی ہوں متقیوں سے الگ کرنا ہر گز ناممکن نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ مضامین اتنے کھول کر بیان کر دیئے ہیں کہ اُن کی روشنی میں کھرے کو کھوٹے سے تمیز کرنا، روشنی کو اندھیرے سے الگ دیکھنا ہر گز ناممکن نہیں بلکہ ضروری ہے.ہر بینا آنکھ آسانی کے ساتھ ان دونوں ٹولوں میں فرق کر سکتی ہے.تبھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل :۸۳) حق آگیا ہے اور باطل نے اُس جگہ کو چھوڑ دیا ہے جس سے حق قابض ہوا ہے.کیونکہ یہ دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے اور جہاں تک بھاگنے کا تعلق ہے باطل کے مقدر میں ہے کہ وہ بھاگے حق کے مقدر میں نہیں ہے.پھر فرمایا رات اور دن اکٹھے نہیں ہو سکتے ، ایک جیسے نہیں ہو سکتے.زندہ اور مردہ ایک جیسے نہیں ہو سکتے اور ان دونوں میں ایک نمایاں فرق ہے.پس یہ بات ناممکن ہے کہ متقی اور غیر متقی اکٹھے رہتے ہوں اور ایک بینا آنکھ جس کی نظر قرآن کریم کی تعلیم سے روشنی حاصل کرتی ہو وہ پہچان نہ سکے کہ غیر متقی کون ہے اور متقی کون ہے؟ سب سے پہلی چیز جو قابل توجہ ہے وہ ی ہے کہ متقی شخص اعلیٰ مقاصد کی خاطر اپنے جذبات کو قربان کرتا ہے اور اپنے جذبات کی خاطر اعلیٰ مقاصد کو قربان نہیں کیا کرتا.اگر اُس کا نفس کچلا گیا ہے اور وہ اپنے نفس کا بدلہ اتارتے ہوئے جانتا ہے کہ اور بھی بہت سے نفوس کو زخمی کرے گا اور اُن کو بھی جماعت سے بدظن کرنے کا موجب بنے گا تو وہ اُن انبیاء کی تقلید کرتا ہے جو رات کو اٹھ کر یہ عرض کرتے ہیں کہ اِنَّمَا اَشْكُوا بَى وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (یوسف:۸۷) کہ میں اپنے شکوے اور اپنی شکایتیں لوگوں کے سامنے نہیں کیا کرتا بلکہ رات کے اندھیروں میں تنہائی میں اُٹھ کر خدا کے حضور پیش کرتا ہوں.پس متقی ہمیشہ اپنے شکوؤں اور شکایتوں کو خدا کے حضور پیش کرتا ہے یا خدا کے نمائندوں کے حضور پیش کرتا ہے جن کو وہ جانتا ہے کہ خدا کی طرف سے نمائندہ ہیں.یہ بحث الگ ہے کہ دنیا کی نظر میں وہ نمائندہ ہیں یا نہیں لیکن جب تک کوئی شخص یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ فلاں شخص خدا کی طرف سے نمائندہ ہے اُس وقت تک اگر وہ متقی ہے تو اُس کا فرض ہے کہ اپنے شکوے اور اپنی شکایات اُسی طرح خدا کے نمائندوں کے حضور پیش کرے جس طرح وہ خدا کے حضور پیش کرتا ہے اور خدا کے حضور پیش کرنے کا طریقہ اس قرآنی دُعانے ہمیں سکھا دیا کہ رات کے اندھیروں میں اُٹھ کر جب

Page 403

خطبات طاہر جلد ۹ 398 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء آواز گھر سے باہر نہیں نکلتی بلکہ گھر والوں کو بھی سنائی نہیں دے رہی ہوتی کہ خدا کا مخلص اور دُکھا ہوا بندہ یہ عرض کرتا ہے کہ إِنَّمَا أَشْكُوا بَيْ وَحُزْنِی إِلَی اللہ میں تو اپنے غم اور اپنے دُکھ صرف اللہ ہی کے حضور پیش کرتا ہوں.پس اس رنگ میں جو شکایت ہوتی ہے وہ بہت زیادہ گہرا اثر دکھاتی ہے کیونکہ یہ شکایت مبنی بر تقویٰ ہے اور یہاں اسکو ابی وَحُزْنِی میں یہی شکایت کا رنگ ہے جو بیان فرمایا گیا ہے.پس یہ خیال غلط ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے کوئی اصلاح کی راہ نہیں رہتی اس لئے وہ فتنے پیدا کرتے ہیں.اس لئے فتنے پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی انا کی خاطر فتنے پیدا کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر وہ تقویٰ کی یہ راہ اختیار کریں جو اصلاح کی حقیقی راہ ہے تو پھر اُن کی لیڈری نہیں چمکے گی بلکہ اُن کی شکایت کا ازالہ ہوگا اور جس چیز کو وہ اُچھال کر جماعت کے بعض دوسرے مجبور لوگوں کے سامنے لیڈر بن رہے ہوتے ہیں وہ چیز باقی نہیں رہتی جسے اُچھال کر پیش کیا جائے.چنانچہ بسا اوقات میں نے تجربہ کیا ہے جب کوئی متقی کسی سے دکھ اُٹھاتا ہے اور وہ بصیغہ راز مجھے مطلع کرتا ہے کہ یہ واقعہ ہوا ہے.میں تو بہر حال برداشت کر رہا ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ اسی قسم کے حالات چلتے رہے تو بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بھی بن سکتا ہے.جب میں تحقیق کرواتا ہوں کیونکہ متقی کی تحریر میں بھی ایک بڑی قوت ہوتی ہے اور صداقت اپنے آپ کو خود منواتی ہے اُس میں گواہیوں کی ضرورت نہیں رہا کرتی.ایسی تحریر دیکھتے ہی یقین ہو جاتا ہے کہ یہ آدمی سچا ہے لیکن محض اس وجہ سے نہیں بلکہ تحقیق کا حق ادا کرنے کی خاطر جب تحقیق کروائی جاتی ہے تو پتا چلتا ہے اور ہمیشہ ایسے شخص کی شکایت کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ مطمئن ہو جاتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں نہ اُس کے گرد کوئی ٹولہ اکٹھا ہوتا ہے، نہ زبان کے چسکوں کا موقع ملتا ہے کہ مجلسیں لگ رہی ہیں اور criticise کیا جارہا ہے، بعض لوگوں پر تنقید کی جارہی ہے اور اسی طرح ایک الگ اپنی چوہدراہٹ قائم کر لی جاتی ہے.یہ لوگ جو تیسرا طبقہ ہیں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کے اکٹھے ہونے کے نتیجے میں ایک اور چیز اُبھرتی ہے اور وہ جتھا بندی کا مضمون ہے.جتھا بندی شروع تو اسی طرح ہوتی ہے جیسے میں بیان کر رہا ہوں کہ کسی کی دشمنی میں چند لوگ اکٹھے ہونے شروع ہو جائیں لیکن جب اُن میں کچھ طاقتور ، کچھ منہ پھٹ لوگ شامل ہو جاتے ہیں تو اندرونی طور پر اُن میں قوت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے

Page 404

خطبات طاہر جلد ۹ 399 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہوتا کون ہے ہمیں دبانے والا.ہم مجالس میں اُٹھیں گے اور کھلے منہ سے بکواس کریں گے اور تنقید بھی کریں گے اور گالیاں بھی دیں گے اور جب بھی کوئی امیر ہمیں دبانے کی کوشش کرے گا اُس کے منہ پر بات ماریں گے اور ہمارے ساتھی اٹھ کر شور مچائیں گے اور کہیں گے اس کی بات سنو تم یہ کیا اپنی باتیں لگائے ہوئے ہو.جب اس قسم کی طاقت کا احساس جتھے میں پیدا ہو جائے تو پھر یہ بغاوت کی وہ آخری شکل ہے جو شیطان نے آننَا خَيْرٌ مِّنْهُ (الاعراف:۱۳) کہنے کے بعد اختیار کی.پہلے اُس نے قرآن کریم میں ہمیں سمجھایا کہ خدا کے مقابل پر بغاوت کا اعلان نہیں کیا تھا اور خدا کے مقابل پر ہر گز اپنی بڑائی بیان نہیں کی تھی.اُس نے خدا کے منتخب نمائندے کے مقابل پر اپنی بڑائی بیان کی تھی اور کہا تھا.میں اس سے بہتر ہوں، تیرا انتخاب غلط ہے.جب خدا تعالیٰ نے اُس کی اس بات کو ر ڈ کر دیا اور بعد میں جاری ہونے والے مضمون سے ثابت ہو گیا کہ شیطان جھوٹا تھا اور خدا کا انتخاب ہی سچا تھا تو بعد میں پھر اُس میں وہ انانیت پیدا ہوگئی جو جتھے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.چنانچہ اس نے خدا سے کہا کہ مجھے مہلت دے تو میں قیامت تک اب تیرے لوگوں کو ، تیرے بظاہر جو تیرے بندے ہیں اُن کو تجھ سے گمراہ کروں اور تیرے خلاف اُن کو بغاوتوں پر آمادہ کروں.جو جواب خدا تعالیٰ دیتا ہے اُس میں یہ جتھے کی طرف اشارہ موجود ہے.فرمایا ہم جانتے ہیں تیرے پاس جتھے ہیں، بعض طاقتور لوگ تیرے ساتھی بن چکے ہیں.پس فرمایا اپنے گھوڑ سواروں کو اور اونٹ سواروں کو اور پیادہ چلنے والے جتھوں کو بے شک اکٹھا کرو اور میرے مقرر کردہ امام کے خلاف چڑھالا ؤ اور میں قیامت تک کے لئے تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ ایسا کرتے چلے جاؤ اور کرتے چلے جاؤ اور کرتے چلے جاؤ مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جو میرے بندے ہیں یعنی یہاں مراد متقیوں سے ہیں کہ جو تقویٰ اختیار کرنے والے ہیں اور جن کا میرے سے تعلق قائم ہو چکا ہے اُن پر تمہیں کبھی کوئی غلبہ نصیب نہیں ہو گا لیکن جو کمزور ہیں وہ ٹوٹتے چلے جائیں گے اور آہستہ آہستہ تمہاری رعونت کو اور بڑھانے کا موجب بنتے چلے جائیں گے.پس یہ جو فتنہ گر ہیں یہ خدا کے باغی ہو جاتے ہیں اور خدا کے باغی براہ راست نہیں بنتے بلکہ قدم بقدم اور منزل بہ منزل ان کی بغاوت زیادہ اور زیادہ سر اُٹھانے لگتی ہے.پہلے مقامی طور پر جو منتخب نمائندہ ہیں اُن کے خلاف یہ کہہ کر بغاوت کی جاتی ہے کہ یہ تو ذلیل اور گھٹیا سے لوگ ہیں ، بے معنی

Page 405

خطبات طاہر جلد ۹ 400 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء ہیں، بے عقل ہیں، کچھ بھی ان کو حاصل نہیں اور ان کو ہمارا سردار بنایا گیا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے.پھر جب جتھا بنتا ہے اور تکبر پیدا ہوتا ہے تو افسر بالا جو ہیں مثال کے طور پر امارت ضلع اُن تک بات پہنچتی ہے اور جب وہ تحقیق کر کے مجھے یہ مطلع کرتے ہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور بے حقیقت لوگ ہیں جو باوزن لوگ ہیں وہی ہیں جو اس وقت جماعت کے ذمہ دار ہیں اور یہ جتھہ اُن سے زیادتی کر رہا ہے تو اُس کے جواب میں مجھے چٹھی ملتی ہے کہ آپ کا امیر ضلع خود نہایت غیر متقی ہے، جھوٹا ہے اور لالچی ہے.یہ وہاں آیا اور امیر نے یا پریذیڈنٹ نے اس کے لئے حلوے مانڈے تیار کئے ، مرغے کھلائے اور یہ اُن کے کھانے کھا کر انہی کے ہاتھ پر پک کر واپس لوٹا ہے اس لئے اس کی بات کا آپ اعتبار کس طرح کر لیتے ہیں؟ جب اُن کو لکھا جائے کہ اچھا ہم اور آگے بڑھ کر بالائی سطح پر کمشن مقرر کرتے ہیں اور ناظر صاحب امور عامہ کو مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ جائیں یا ناظر اصلاح وارشاد جائیں.مرکزی نمائندگان اور شامل ہو جائیں تو ایسی جماعت میں جب وہ پہنچ کر تحقیق کرتے ہیں تو لازما پہلی تحقیق کے مطابق ہوتی ہے.اُس کا وہ جواب یہ دیتے ہیں کہ دیکھئے وہی بات ہوئی.امیر ضلع نے ان لوگوں کی خاطریں کی ہیں، امیر ضلع ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے، مرکز میں تو تقویٰ رہا نہیں ، آپ نہیں ہیں تو پیچھے کچھ بھی نہیں رہا، سب صفایا ہو چکا ہے، آپ کو پتا ہی نہیں کہ لوگ کس طرح تقویٰ کا دامن چھوڑ کر دنیاداریوں میں پڑچکے اور پیچھے تو حال ہی کوئی نہیں رہا.پھر میں اُن کو کہتا ہوں کہ اب ایک ہی طریق ہے کہ میں براہ راست فیصلہ کروں اور تم براہ راست میرے خلاف بغاوت کرو کیونکہ میں جانتا ہوں تم کون لوگ ہو اور بجائے اس کے کہ تمہارا یہ پردہ بھی چاک ہو جائے میں تمہیں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح بھی ہے خاموشی سے زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو اور دُعا کرو کہ خدا تمہیں ہلاکت کا آخری قدم اُٹھانے سے پہلے بلا لے اور اس زندگی میں ایسی بربادی نصیب نہ ہو جولا ز ما اُخروی زندگی کی بربادی پر منتج ہوا کرتی ہے.پس خدا تعالیٰ جب فرماتا ہے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کی دُعا کرو تو اُس دُعا میں سارا نظام شامل ہو جاتا ہے.انبیاء کی طرف سے یہ دُعا چلتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انبیاء کی امتوں کا وہ حصہ رفتہ رفتہ اُن سے کاٹا جاتا ہے جن کا تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں رہتا.چنانچہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ آخری زمانے میں جس قسم کے لوگ پیدا ہوں گے اُن کے متعلق قرآن یہ شکوہ

Page 406

خطبات طاہر جلد ۹ 401 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء کرے گا قیامت کے دن کہ ان لوگوں نے ہمیں مہجور کی طرح چھوڑ دیا تھا اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نظارہ ہمارے سامنے پیش فرماتے ہیں کہ میں حوض کوثر پر اپنے متقی غلاموں کو کوثر بانٹ رہا ہوں گا تو ایک ایسا جتھا مجھے دکھائی دے گا جن کو میں ٹھیک سمجھتا تھا اور اُن کو جہنم کے فرشتے ہانک کر دوزخ کی طرف لے جارہے ہوں گے.میں عرض کروں گا اصحابی ، اصحابی.اے میرے اللہ ! یہ تو میرے صحابہ تھے.تو مجھے بتایا جائے گا کہ تجھے کیا پتا کہ تیرے بعد انہوں نے کیا رنگ اختیار کر لیا.( بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر ۴۲۵۹) اس مضمون میں بعض بڑی گہری باتیں ہیں جن پر غور ویسے ہی اپنی ذات میں ضروری ہے.اول یہ کہ نبی کی آنکھ تو بہت بصیرت والی آنکھ ہوا کرتی ہے.خصوصاً حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ جو خدا کے نور سے دیکھتی تھی جیسا کبھی کسی نے خدا کے نور سے نہیں دیکھا.آپ کا یہ کہنا کہ یہ ٹھیک لوگ تھے ، ان کو کیوں جہنم میں لے جایا جا رہا ہے؟ ایک یہ و ہم بھی دلوں میں پیدا کر سکتا ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کو نہیں پہچان سکے؟ لیکن اس وہم کا جواب اس حدیث میں موجود ہے.خدا تعالیٰ جوابا یہ نہیں فرما تا کہ تجھے نہیں پتا تھا یہ کیسے گندے لوگ ہیں میں جانتا تھا.فرمایا کہ تجھے نہیں پتا کہ تیرے بعد ان لوگوں نے کیا رنگ اختیار کر لیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بظاہر متقی نظر آنے والا ہے خواہ اُس وقت کی حالت اُس کی تقویٰ ہی کی ہوا گر وہ دل کی گہرائی سے اللہ کے تعلق کی بنا پر وہ نیکیاں سرانجام نہ دے رہا ہو اور اُس میں کوئی سرزنش غیر اللہ کی شامل ہو جائے تو اُس وقت کے اُس کے حالات بظاہر نیکی ہی کے حالات کہلائیں گے اور ایک نبی کی آنکھ بھی نیک کے طور پر اُن کو دیکھے گی لیکن وہ اندرونی رخنہ رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور بالآخر ان کا خدا سے تعلق کاٹا جاتا ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ بد انجام کو پہنچتے ہیں.یہ مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ دُعا کتنی ضروری ہے.اگر کوئی شخص محض اس وجہ سے کہ میں نے کسی نبی کا زمانہ پالیا ہے اور نبیوں میں سے بھی تمام انبیاء سے افضل کا زمانہ پالیا ہے اور اُس کی نظر میں اچھا ٹھہرا.اسی پر بنا کرتے ہوئے تکبر اختیار کر جائے اور اپنے آپ کو نظام سے بالا سمجھنے لگے اور الہی نظام سے کسی معنے میں ٹکر لینے کا خیال کرلے تو ان تمام نیکیوں کے باوجود وہ ہلاک ہو جائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو واقعات ہوئے وہ اسی قسم کے واقعات تھے.بعض لوگ اپنی صحابیت کے برتے پر اور اس وقت کی عظمت کے برتے پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں انہوں

Page 407

خطبات طاہر جلد ۹ 402 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء نے حاصل کی بعد کے زمانے میں سردار بننے لگ گئے اور نظام کے مقابل کھڑے ہونے لگ گئے.بعض صورتوں میں خلافت سے ٹکر لینے لگ گئے اور اُن سب کو خدا کی تقدیر نے ہلاک کر دیا.پس ثبات قدم اور آخری سانس تک ثبات قدم یہی وہ آخری انسان کی تمنا ہے جو اگر پوری وہ تمنا ہو جائے تو وہ کامیاب ہو گیا.یہی تمنا انسان کا مقصود اور مطلوب اور زندگی کا مدعا بن جانی چاہئے.پس یہ دُعا کہ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اِس مضمون کو بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر ہمارے سامنے کھولتی ہے اور اس سے بہتر دُعا کوئی متصور ہو نہیں سکتی.یہ نہیں فرمایا کہ تم یہ دعا کیا کرو کہ ہم متقی بنیں.فرمایا یہ دعا کیا کرو کہ متقیوں کے امام بنیں.دُور تک کے مستقبل کی حفاظت اس دُعا میں شامل ہو جاتی ہے.اول یہ کہ متقی بننا بہت اچھی بات ہے لیکن متقیوں کا امام بنا تو شہنشاہ بننے کے مترادف ہے.ایک بادشاہ بھی بہت بلند مرتبہ رکھتا ہے لیکن جو بادشاہوں کا شاہ ہو جسے شہنشاہ کہا جاتا ہے اُس کا مرتبہ بہت عالی ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کی نسبت سے یہ مرتبہ عطا ہوا کہ آپ انبیاء کے امام تھے اور آپ کی اُمت کو خدا نے یہ دُعا اُسی نسبت سے سکھائی کہ یہ دُعا کیا کروقَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا ہمیں بھی شہنشاہیت عطا کر اپنے دربار سے اور ہمیں صرف متقی نہ بنا بلکہ متقیوں کا امام بنا.تو جو شخص متقیوں کا امام بننے کی بچے دل سے دُعا کرتا ہے وہ لازماً اپنے تابع لوگوں کے تقویٰ پر نظر رکھتا ہے اور اپنے متبعین سے اُس کا تعلق تقوی کی بنا پر بڑھتا ہے.پس یہ جتنے ٹولے میں نے آپ کے سامنے بیان کئے ہیں یہ اس لحاظ سے ننگے ہو جاتے ہیں.اکثر ان کے ساتھ شامل ہونے والے لوگ غیر متقی ہوتے ہیں.اپنے روز مرہ کے اعمال میں ان کو سب دنیا جانتی ہے کہ ان لوگوں کے مقابل پر بہت زیادہ مجروح اعمال ہیں جنہوں نے نظام جماعت کے ساتھ اپنی وابستگی کو قائم رکھا ہے اور ہر قیمت پر امیر کی اطاعت اختیار کرنے والے ہیں.ان کی قربانیوں کا معیار، اُن کی روز مرہ کی زندگی ، اُٹھنا بیٹھنا، اُن کی نمازیں، اُن کا چندوں میں ہی نہیں بلکہ ہر نیکی کی آواز پر لبیک کہنا یہ تمام امور اُن کو ان دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں.ایک سچا امیر جو واقعہ اپنے لئے متقیوں کا امام ہونے کی دُعا کرتا ہے اور یہ دلی خواہش رکھتا ہے ایسے لوگوں کی کمزوریوں پر نظر رکھتا ہے اور ہمیشہ اُن کو نصیحت کرتا چلا جاتا ہے کہ تم نے فلاں بات میں کمزوری دکھائی تم اُسے دور کرنے کی کوشش کرو تم چندوں میں پیچھے رہ گئے تم نمازوں میں پیچھے رہ گئے تم

Page 408

خطبات طاہر جلد ۹ 403 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء بیویوں سے حسن سلوک میں پیچھے رہ گئے.ان باتوں کی طرف وہ توجہ دلاتا رہتا ہے اور اُن کی مجلسیں انہی باتوں میں رہتی ہیں.جو مخالف ٹولے ہیں اُن میں آپ یہ باتیں نہیں دیکھیں گے.کبھی یہ نہیں ہو گا کہ ان کے مخالف ٹولے اکٹھے بیٹھے ہوں اور اُن کے سردار نے کہا ہو میں تم میں فلاں تقویٰ کی خرابی دیکھ رہا ہوں تم نے فلاں چندے میں لبیک نہیں کہا تم نمازوں میں سُست ہو گئے ہو تم اپنے بیوی بچوں سے حسنِ سلوک میں پیچھے رہ گئے ہو ایسی باتیں نہیں ہوتیں.اپنی اصلاح کی بجائے یا یوں کہنا چاہئے کہ اپنی کمزوریاں دیکھنے کی بجائے اُن کو دور کرنے کی خواہش کی بجائے وہ صرف دوسروں کی کمزوریاں دیکھ رہے ہوتے ہیں اور تحکم کے ذریعہ اُن کو دور کرنے کا ادعا کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی گواہ ہے کہ وہ دور کرنا نہیں چاہتے بلکہ وہ اس بات پہ زیادہ خوش ہوتے ہیں کہ اور زیادہ کمزوریاں دکھائی دیں اور یہ کمزوریاں باقی رہیں تا کہ یہ لوگ ہمیشہ اُن کی تنقید کا نشانہ بنے رہیں اور جو متقیوں کے امام ہیں وہ اپنے متبعین سے بھی اور دوسروں سے بھی ہمیشہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی کمزوریاں دور کریں گے اور اُن کی زندگیاں کمزوریاں واقعہ دور کرنے پر وقف رہتی ہیں کمزوریوں پر تنقید کرنے پر وقف نہیں ہوتیں.پس یہ خیال کر لینا کہ متقیوں اور غیر متقیوں کے درمیان فرق مشکل ہے اور کہن نہیں سکتے کہ کون سا ٹولہ متقی ہے اور کون سا غیر متقی ہے یہ بالکل ایک بچگانہ خیال ہے.قرآن کریم کی تعلیم پر اگر آپ غور کریں بلکہ ادنی سا بھی غور کریں تو یہ مضمون ہر جگہ کھلتا چلا جاتا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ متقی غیر متقیوں جیسے ہوں اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا دونوں سے ایک ہی جیسا سلوک کرے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو جس طرح مختلف رنگ میں بیان فرمایا وہاں یوں بھی بیان فرمایا يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا الله اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللهَ فَأَنْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أولك هُمُ الْفَسِقُونَ لَا يَسْتَوى أَصْحَبُ النَّارِ وَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَابِرُونَ (الحشر: ۱۹ تا ۲۱) کیسی خوبصورتی کے ساتھ ، کسی وضاحت کے ساتھ اس مضمون کے ہر پہلو کو کھول دیا ہے.تقویٰ کا ذکر چل رہا ہے چنانچہ یہ تقویٰ ہی کا مضمون ہے.فرمایا يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو! جو ایمان لانے والے ہواتَّقُوا اللهَ.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.

Page 409

خطبات طاہر جلد ۹ 404 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء اور تقویٰ کی پہلی علامت جو تم میں ظاہر ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ دیکھو کہ تم نے اپنے آگے کیسے اعمال بھیجے ہیں اور اپنے پیچھے کیسی نسلیں چھوڑ کر جانے والے ہو.یعنی اپنے اعمال پر نظر رکھو اور اُن لوگوں کے اعمال پر نظر رکھو جن کے تم امام ہو.جن نسلوں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے اور اُن کو مستقبل کے سپر دکر کے واپس چلے جاؤ گے.پس اس تقویٰ کے ساتھ ایک انسان کو تو ہوش ہی نہیں رہتی کہ وہ دنیا کو تنقید کا نشانہ بناتا رہے.تقویٰ کا مطلب اُس کے دل پر اس ہیبت کے ساتھ طاری ہو جاتا ہے کہ اگر میں نے ایسے اعمال اختیار کئے جو میں نے آگے بھیجنے ہیں اور قیامت کے دن اُنہوں نے مجھ پر گواہ بننا ہے جو میرے لئے رسوائی اور ذلت اور خدا کی ناراضگی کا موجب بنیں گے تو یہ آیت ہمیشہ میرے خلاف گواہ بن کر کھڑی ہو گی اس لئے وہ تقویٰ کا یہ مفہوم سمجھتا ہے کہ ہر وقت اپنے اعمال کی نگرانی کرتا چلا جائے.دوسرا مضمون ہے اگلی نسلیں جو تم زمانے کے لئے آگے بھیج رہے ہو وہ ہمیشہ انکی فکر رکھتا ہے، ہمیشہ نظر رکھتا ہے اپنی اولاد پر، اُن کی حرکتوں پر ، اپنے دوستوں پر کیونکہ یہاں صرف اولا د کا ذکر نہیں فرمایا.فرمایا یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ اگر صرف اولاد ہوتی تو یہ محدود مضمون تھا یا فرمایا ہے جو کچھ بھی تم آگے بھیج رہے ہو.چنانچہ ہر انسان ایک دائرہ اثر رکھتا ہے اور وہ دائرہ اثر صرف اولاد تک محدود نہیں ہوا کرتا ، اُس کے ملنے جلنے والے، اُس سے متاثر لوگ ، اُس کے بہی خواہ یا اُس کے دست نگر لوگ کئی طرح کے ایک انسان کے دائرے میں بہت سے لوگ شامل ہو جایا کرتے ہیں.اُن سب پر وہ اپنے اثرات مترتب کر رہا ہوتا ہے اور وہ جس قسم کے لوگ بنا کر آگے بھیجتا ہے یعنی مستقبل میں وہ سارے اس آیت کے دائرے میں شامل ہو جاتے ہیں.تو ایسے لوگ جن کا میں نے ذکر کیا ہے جو منافقت کے دائرے کے نتیجے میں اپنی چوہدراہٹ الگ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کے اوپر اس آیت کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا.اکثر میں نے ان لوگوں کی اولاد میں ضائع ہوتی اور ہلاک ہوتی دیکھی ہیں اور وہ لوگ جو آپ کو متقی دکھائی دیتے تھے آگے اُن کی اولادیں ضائع ہو جاتی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی ساری زندگی لوگوں کو تنقید کا یا امارت کو یا نظام جماعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے گزار دی.پس خدا جو ان کی اولا دوں سے سلوک فرماتا ہے وہ ظاہر کر دیتا ہے کہ کس حد تک یہ لوگ متقی تھے.کیونکہ ان کی نیکیاں پھر آگے نہیں جاتیں.

Page 410

خطبات طاہر جلد ۹ 405 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء پس اس آیت پر آپ جتنا بھی غور کرتے چلے جائیں اس کا مضمون وسیع سے وسیع تر ہوتا دکھائی دیتا ہے.پھر فرمایا وَ اتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ خبردار ہم پھر تمہیں تقویٰ کی تلقین کرتے ہیں.تمہیں نہیں علم کہ تم کیوں بعض حرکتیں کرتے ہو اور خدا جانتا ہے.اس لئے تمہیں آج علم نہ بھی ہو تو چونکہ خدا کا علم ہے جو آئندہ زمانے پر اثرات مترتب کرے گا تمہارا علم نہیں اس لئے تم اپنی طرف سے اچھی چیزیں بھی بنا رہے ہو وہ نہایت ہی مکروہ چیزوں کی شکل میں آئندہ اُبھرنے والی ہیں اس لئے خدا سے ڈرنا ضروری ہے اور خدا پر انحصار ضروری ہے اور اُس سے دُعا کے ذریعے مدد مانگنا ضروری ہے.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ یہ وہ لوگ ہیں جو رفتہ رفتہ خدا کو بھول جانے والے لوگ ہیں جو ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.پس خدا اور اُس کی یاد اُن کی باتوں اور مجالس کی دلچسپیوں کا مرکز نہیں رہتا بلکہ اس قسم کے مشغلے ہیں جن میں وہ زندگیاں اپنی ضائع کر رہے ہوتے ہیں.اُن کی لذتوں کے رُخ بدل جاتے ہیں.فرمایا اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں.فَأَنسهُمْ أَنْفُسَهُم خدا اُن کو اس طرح بھولتا ہے کہ اُن کو اپنے مفادات سے غافل اور بے خبر کر دیتا ہے.پس خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ کا مضمون اس خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا گیا ہے کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اُس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم رفتہ رفتہ خدا کو زیادہ سے زیادہ بھولتے چلے جاؤ گے اور وہ لوگ جو خدا کو بھول جاتے ہیں خدا اُن کو اپنے حال سے بے خبر کر دیا کرتا ہے.پس فَانسُهُم اَنْفُسَهُم کا مطلب یہی ہے کہ اللہ خَبِيرٌ ہے اور تم نہیں جانتے.پس جب تم اپنے احوال سے بے خبر ہو جاتے ہو تمہیں پتا ہی نہیں رہتا کہ تم کیا کرتے ہو، کیوں کرتے ہو اور کس نہج میں ، کس سمت میں تم آگے بڑھتے چلے جارہے ہو تو ایسی صورت ہو جاتی ہے جیسے سر پٹ گھوڑے پر نہ ہاتھ باگ پر نہ پارکاب میں بے قابوگھوڑے پر سوار انسان بہا چلا جارہا ہو جس رخ پر وہ گھوڑا سرپٹ دوڑا اُسی رُخ پر اُس کا سوار دوڑتا چلا جاتا ہے.پس ایسے لوگوں کا انجام اُن کے ہاتھ میں نہیں رہتا اور اُن کی بے خبری لازماً اُن کے ماحول اور اُن کی آنے والی نسلوں کی تباہی پر منتج ہوا کرتی ہے.پھر فرماتا ہے کہ لَا يَسْتَوى أَصْحَبُ النَّارِ وَاَصْحَبُ الْجَنَّةِ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَابِزُونَ یہ خیال نہ کرنا کہ اصحاب الجنہ اور اصحاب النار میں فرق کرنا مشکل ہے.یہ تو کھلے کھلے فرق ہیں.یہ ہو ہی نہیں

Page 411

خطبات طاہر جلد ۹ 406 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء سکتا کہ یہ دونوں برابر ہوں اور ایک حال میں رہیں یا خدا تعالیٰ اُن سے ایک جیسا سلوک کرے.پس اس مضمون کو ایک اور رنگ میں بھی کھول دیا.نیک لوگوں کی اولادیں نیک رہتی ہیں سوائے بعض استثناؤں کے اور اُن استثناؤں میں بھی والدین میں سے کسی ایک کی غفلت کا دخل ہوتا ہے.چنانچہ حضرت نوح کی اولاد میں سے ایک کی خرابی کا جہاں ذکر فر مایا وہاں حضرت نوح کی اہلیہ کی خرابی کا ذکر فر ما دیا اور اُن دو عورتوں میں اُن کا ذکر کیا جن سے تو بہ اور پناہ مانگنے کی ہدایت ہے.ایک لوط کی بیوی اور ایک حضرت نوح کی بیوی اور حضرت نوح کی اولاد کی خرابی کا جو مضمون بیان ہوا ہے اُس سے پتا چلتا ہے کہ اس میں اُن کی اہلیہ کی کمزوری کا بھی دخل تھا.دنیا میں جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے جہاں نیک لوگوں کی اولاد کو برباد ہوتے دیکھا ہے وہاں الا ما شاء اللہ میرے علم میں مگر نہیں کہ کبھی بھی ایسی صورت سامنے آئی ہو کہ دونوں ماں باپ برابر متقی ہوں اور اپنی اولا د پر ایک ہی طرح کے اثرات ڈال رہے ہوں اور اولا د ضائع ہو جائے.دو طرح سے بدنصیبیاں دیکھنے میں آتی ہیں.ایک یہ کہ باپ نیک ہے اور ماں کے اندر کمزوری ہے وہ اس کی نیکیوں پر خوش ہونے کی بجائے تکلیف محسوس کرتی ہے.اگر وہ غالب باپ ہے اور طاقتور باپ ہے تو وہ باپ کے سامنے تو شکوہ کرنے کی مجال نہیں پاتی ، باپ کے جانے کے بعد اولا د کے کان بھرتی رہتی ہے اور ان کو کہتی ہے کہ تمہارے حق مارے گئے ، باپ تمہارا ایسا ہے پاگل ہو گیا ہے.نماز کے لئے صبح اُٹھا کر لے جاتا ہے تو ماں اُس پر رحم کر رہی ہوتی ہے اور اولاد پر یہ تاثر پیدا کرتی ہے کہ یہ ظالم ہے.تمہیں زبردستی گھسیٹ کے لے گیا ہے.پس جہاں یہ تضادات پیدا ہو جائیں وہاں بعض دفعہ نیک بزرگ باپ کی اولا دبھی تباہ ہو جاتی ہے اور اسی طرح بعض بزرگ ماؤں کی اولادیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں اگر خاوند بد ہوں.تو دونوں کی ذمہ داری ہے اور قرآن کریم نے اسی لئے یہ تمام مضامین جمع کے صیغہ میں استعمال فرمائے ہیں اور ایک پہلو سے قومی ذمہ داری بھی ہے جیسے کہ میں کچھ بیان کر چکا ہوں کچھ آئندہ بیان کروں گا.تو یہ یا درکھیں کہ بد اور نیک دو طرح سے الگ الگ پہچانے جاتے ہیں.ایک اپنے حالات کی وجہ سے جو ایک مؤمن کو صاف دکھائی دینے لگتے ہیں.اُن کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ ہماری غیر ذمہ دار باتوں سے کسی کا ایمان مجروح ہو جائے گا اور وہ دن بدن اخلاص کے مقام سے گرتا

Page 412

خطبات طاہر جلد ۹ 407 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء چلا جائے گا اور اُن کو مزہ اس بات میں آتا ہے کہ ہماری باتوں کے نتیجے میں یہ دوسری امامت سے ہٹ کر ہماری امامت کے پیچھے لگ جائے گا.ایسی بعض مثالیں بعض دفعہ مربیوں کی صورت میں بھی دیکھنے میں آتی ہیں.بعض مربی کسی ایسی جماعت میں جاتے ہیں جہاں اختلاف ہے اور فوری طور پر دونوں فریق کی طرف سے اُس مربی کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اگر وہ مربی غیر متقی ہو یا پوری طرح غیر متقی نہ ہو لیکن کچھ رخنہ موجود ہو تو بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے مربی سے مقابلہ اور رقابت اُس کو غلط قدم اُٹھانے پر آمادہ کر دیتے ہیں.وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ پہلے مربی نے تو یہ کام کئے تھے اور میں اب آ کر اس جماعت کے ساتھ ٹھیک سلوک کرنے والا ہوں اور پھر اُس کا رجحان اس طرف شروع ہو جاتا ہے کہ فلاں فریق بہتر ہے اور جو مربی کے ساتھ لوگ تھے وہ غلط ہیں.چنانچہ بجائے اس کے کہ تفرقہ دور کرے اور توحید کا قیام کرے وہ صرف تفرقہ کی شکل بدلتا ہے.جو لوگ پہلے مردود تھے اُن کا وہ سردار بن جاتا ہے اور جو پہلے محبوب تھے اُن کا دشمن ہو جاتا ہے اور پھر وہی شکایتوں کا سلسلہ اُسی طرح جاری ہے لیکن بالآخر وہ لوگ پکڑے اور پہچانے جاتے ہیں.ایک مربی کو میں نے اسی سلسلے میں لکھا.میں نے کہا مجھے تو اس طرح پتا چل جاتا ہے تم کیسے کام کرتے رہے ہو کہ بعض لوگ جماعت میں سے جو پہلے میری بیعت میں داخل تھے اور میرے مرید تھے اب وہ تمہاری بیعت میں داخل ہو چکے ہیں اور تمہارے مرید بن گئے ہیں.ان معنوں میں کہ جس امیر سے اُن کو دشمنی ہے کہ جو میرا منتخب امیر ہے جیسا میں چاہتا ہوں کہ اُس سے محبت اور اطاعت کا تعلق کریں وہ اختیار نہیں کرتے اور تمہارے زیادہ تابع فرمان ہیں.پس وہی مضمون دُعا والا کہ اے خدا! ہمیں غیر متقیوں کا امام نہ بنانا اس طرح بھی جاری ہو جاتا ہے اور وہ غیر متقی اپنے الگ امام بنا لیتے ہیں اور اُن کو خدا مجھ سے کاٹ کر الگ پھینک دیتا ہے.یعنی میں جب مجھ کہتا ہوں تو یہاں خلافت مراد ہے اور خلیفہ وقت سے اُن کو کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے.پس اس دُعا کا دائرہ بہت وسیع ہے، یہ دُعا بہت گہری ہے اور اس کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے ساتھ ہماری روحانی زندگی کی صحت وابستہ ہے اور اگر ساری جماعت اس دُعا کو اخلاص کے ساتھ مانگا کرے اور عادت مستمرہ بنالے ،ساری زندگی یہ دُعا مانگے اور سوچ سوچ کر دُعا مانگے اور اپنے حالات پر اس کا اطلاق کرنے کی کوشش کرے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت سے جماعت کے

Page 413

خطبات طاہر جلد ۹ 408 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء جھگڑے اور بھاری اکثریت جو فساد کی دکھائی دیتی ہے اگر چہ دوسری جماعتوں کے مقابل پر بہت ہی کم ہے لیکن فساد کے دائرے میں جو بھاری اکثریت فسادیوں کی دکھائی دیتی ہے وہ اس دُعا کے اثر سے مرجھا کر بے حقیقت ہونے شروع ہو جائیں گے.بیماری تب بڑھتی ہے اگر بیماری کو پھیلنے کے لئے مناسب مواد مہیا ہو.پس یہ لوگ جو فسادیوں کے سربراہ ہیں یہ دراصل No mans land پر حملہ کرتے ہیں.جو خدا کے ہیں اُن کے متعلق تو خدا تعالیٰ کا فرمان ہے اور وہ قطعی اور یقینی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں سے مخلصین کو اور متقیوں کو وہ کبھی خدا سے کاٹ کر الگ نہیں کر سکتے.جتنا بڑا مرضی ابتلاء آ جائے ایسے وفادار ہمیشہ نظامِ جماعت کے وفادار رہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں جب بعض ایسے لوگوں کو بھی سزا دینی پڑتی ہے اُن کی غلطیوں کی وجہ سے تو اُن کی اولا د بجائے پیچھے ہٹنے کے اور زیادہ تقویٰ میں ترقی کرتی ہے کیونکہ اپنے والدین کو گھروں میں روتے اور معافیاں مانگتے دیکھتے ہیں، گڑ گڑاتے دیکھتے ہیں اور پھر وہ نصیحت سنتے ہیں مسلسل کہ دیکھو ہم سے غلطی ہوئی ہے تم آئندہ کوئی غلطی نہ کرنا اور وہ سمجھتے ہیں کہ نظام خلافت سے کٹنا ہی اتنی بڑی سزا ہے، اتنا بڑا عذاب ہے کہ اُس کا دُکھ برداشت نہیں ہو سکتا.یہ متقیوں کی علامت ہے کہ وہ جب ابتلاؤں میں پڑتے ہیں اُس کے باوجود اُن کی اولا دیں ایمان میں زیادہ ترقی کرتی ہیں اور وہ دوسرے لوگ ہیں وہ رفتہ رفتہ اُن لوگوں پر حملہ کرتے ہیں جو درمیان کے لوگ ہیں اور اُن کی زمین کو جو کھلی چھوڑی ہوئی زمین ہے اپنانے لگتے ہیں.اس پہلو سے ایک اور مضمون تربیت کا میرے سامنے اُبھرا ہے وہ یہ ہے کہ تمام جماعت کے متقیوں کا کام ہے جو متقیوں کے سردار ہیں کہ وہ یہ نظر رکھا کریں کہ اُن کی ساری زمین متقی ہے کہ نہیں ہے اور اپنے تقویٰ کی زمین کو بڑھائیں اور جو بیچ کے پڑے ہوئے لوگ ہیں اُن کو ان ظالموں کے رحم و کرم پر نہ رہنے دیں کیونکہ جب بھی ابتلاء ہوں گے یہ بیچ کے لوگ اُن کے قابو آ ئیں گے.اس لئے ان سب کو رفتہ رفتہ ادنیٰ حالتوں سے اونچا کر کے اعلیٰ حالتوں کی طرف لے جائیں اور ایسا متقیوں کا گروہ بنادیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ اُن کا ہاتھ ایک ایسے عروہ وثقی پر پڑا ہوا ہے لَا انفِصَامَ لَهَا ( البقرہ:۲۵۷) جس کے مقدر میں ٹوٹنا ہے ہی نہیں.کسی قیمت پر پھر وہ اُس خدا کی رسی سے الگ نہیں ہو سکتے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور یادرکھیں افتراق سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی گناہ نہیں ہے.یہی شرک ہے جو خدائے واحد ہے اُس کے ماننے والے

Page 414

خطبات طاہر جلد ۹ 409 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۹۰ء ہمیشہ موحد رہتے ہیں اور عملاً ایک ملت واحدہ بن کر دنیا میں زندہ رہتے ہیں.افتراق توحید پر حملہ کرنے والی چیز ہے اور وہ قوموں کو منتشر کرنے کا سب سے بڑا خطرناک ہتھیار ہے.یہی وہ ہتھیار ہے جس سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے اور ہمیشہ افتراق کے ذریعے وہ الہی جماعتوں کو تباہ کیا کرتا ہے.پس وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا کی دُعا کولزوم کے ساتھ پکڑ لیں ہمیشہ دائمی طور پر اس کے ساتھ چمٹے رہیں.اگر آپ اس سے چمٹے رہیں گے تو پھر وہ بدیاں آپ سے چمٹ نہیں سکیں گی جن کا اگلی آیت میں ذکر ہے کہ فَقَدْ كَذَّبْتُهُ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا ( الفرقان: ۷۸) تم نے دُعا کی اہمیت کا ہی انکار کر دیا اس سے غافل ہو گئے ہواب تو لا ز ما برائیوں نے تمہیں چمٹ جانا ہے.پس یا آپ چمٹیں گے اور نیکیوں سے چمٹیں گے عروہ و نفی سے چمٹیں گے اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے یا پھر برائیاں آپ سے چمٹیں گی اور جس کا ہاتھ رسی سے الگ ہو جائے وہ پھر ٹکڑے ٹکڑے ہو جایا کرتا ہے اور لازماً برائیاں ایسے لوگوں پر قابض ہو جایا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ جماعت کو تو حید کے ساتھ اور ایسی وحدت کے ساتھ جو خدا کی نظر میں مقبول وحدت ہو آگے بڑھاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)

Page 415

Page 416

خطبات طاہر جلد ۹ 411 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء جلسہ سالانہ کے میز بانوں اور مہمانوں کو ہدایات جلسہ کے دوران بھی کارکنان نمازوں کی حفاظت کریں خطبه جمعه فرموده ۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء بمقام اسلام آباد برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:- اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جلسہ سالانہ یو کے میں اب تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں.یعنی جلسہ سالانہ اتنا قریب آچکا ہے کہ اب صرف ایک ہفتہ باقی ہے.جہاں تک انتظامات کا تعلق ہے مکرم چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی جو مستقل افسر جلسہ سالانہ ہیں وہ خدا کے فضل سے سارا سال ہی تمام امکانی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیاری کرتے رہتے ہیں اور جیسا کہ قادیان اور ربوہ میں دستور تھا ویسا ہی یہاں بھی نظام قائم ہو چکا ہے اور اسی طرح جرمنی کی جماعت میں بھی خدا کے فضل سے اسی طرح کا ایک بہت پختہ نظام قائم ہو چکا ہے اور جلسہ سالا نہ اب ایک جگہ نہیں بلکہ قادیان کی روایات کے مطابق اس وقت تقریباً ہمیں ، پچیس مختلف ممالک میں منعقد کیا جاتا ہے.جہاں تک جلسہ سالانہ یو کے کا تعلق ہے اسی طرف واپس آتے ہوئے میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ تمام انتظامات جن کا لمبی تیاری سے تعلق ہے وہ تو خدا کے فضل سے مکمل ہو چکے ہیں اور قریب کی تیاری کے بھی اکثر انتظامات نہ صرف مکمل ہو چکے ہیں بلکہ بہت سے کارکن یہاں پہنچ کر اپنے اپنے شعبے کو سنبھال بھی چکے ہیں.مثلاً ہمارا مواصلات کا شعبہ ہے یالا وڈسپیکر، ویڈیو وغیرہ کا شعبہ ہے.اس کے Volunteers ، رضا کار جو پاکستان سے تشریف لاتے ہیں وہ پہنچ گئے ہیں.جو مقامی ہیں وہ بھی

Page 417

خطبات طاہر جلد ۹ 412 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء تیاری کر چکے ہیں اور جو میں نے آج صبح اسلام آباد یو کے کی رپورٹ منگوائی تو پتا چلا کہ اکثر خیمے بھی نصب ہو چکے ہیں.ایک حصہ انتظامات کا وہ ہے جس کے لئے کارکن آخری وقت پہ مہیا ہوتے ہیں اور عموماً معاونین اور بعض دفعہ اُن سے اوپر کے افسران بھی چونکہ لمبا عرصہ رخصت نہیں لے سکتے اس لئے بہت قریب وقت پہنچتے ہیں.قادیان اور ربوہ میں بھی دستور ہوا کرتا تھا کہ ان کی جو ڈیوٹی شیٹ ہے وہ لمبا عرصہ پہلے چھپ جایا کرتی تھی اور ایک ریہرسل کر کے اُن کی حاضری کا پہلے جائزہ لیا جاتا تھا.مگر وہاں چونکہ سکول بھی اور کالج بھی اور دفتر بھی جماعت کے اپنے نظام کے تابع ہوا کرتے تھے اس لئے کوئی دقت نہیں تھی.انگلستان جیسی جماعت میں اور اسی طرح دوسری مغربی ممالک کی جماعتوں میں رخصتیں حاصل کرنے کی دقت اور سکول کے اوقات کا فرق یہ ساری چیزیں کارکنوں کے لئے وقتیں پیدا کرتی ہیں اور اُس کی وجہ سے کسی حد تک نظام کے لئے پھر دقت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ آج صبح ایک شعبہ کے انچارج نے مجھ سے ذکر کیا کہ جہاں تک ہمارے انتظامات کا تعلق ہے ہم پوری طرح تیار بیٹھے ہیں اور اب صرف معاونین کا انتظار ہے.اس سلسلے میں پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ افسر صاحب جلسہ یہاں کے مقامی جتنے بھی معاونین ہیں اُن کو ابھی سے جماعتوں کے ذریعے مطلع کر دیں کہ کب اُن کے آنے کی توقع کی جاتی ہے اور کہاں آ کر کس کو رپورٹ کریں تا کہ معاونین کی رپورٹ کا بھی ایک الگ انتظام ساتھ کے ساتھ جاری ہو جو پہلے یہاں جاری نہیں ہو سکا.ربوہ اور قادیان میں تو خدا کے فضل سے یہ بڑے لمبے عرصے سے جاری ہے اور حاضری معاونین کی بھی الگ رپورٹ پہنچا کرتی تھی جب ہم جلسے کے کام کیا کرتے تھے تو اُس وقت ہمیشہ باقاعدگی سے خلیفتہ اسیح کی خدمت میں یہ رپورٹ بھیجا کرتے تھے کہ افسر جلسہ کے نظام کی طرف سے کتنے معاونین حاضر ہیں ، کتنی کمی ہے اور یہ شعبہ اپنے معاونین پر نظر رکھتے ہوئے پھر ہنگامی معاونین مہیا کرنے کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے.یہ بات سب کو پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اگر کوئی کارکنوں کے سلسلے میں دقت محسوس کرتا ہے تو اُس کو فوری طور پر اس شعبہ سے رابطہ کرنا چاہئے اور اس شعبہ کا کام ہے کہ دوسرے معاونین مہیا کرے.چنانچہ ایسے بارہا مواقع پیش آچکے ہیں قادیان میں بھی اور ربوہ میں بھی جبکہ کسی خاص شعبے کو غیر معمولی طور پر زائد کارکنان کی ضرورت پیش آئی.ہمارے لنگر خانے میں جب میں کام کیا کرتا تھا لنگر خانے میں مجھے یاد ہے بعض

Page 418

خطبات طاہر جلد ۹ 413 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء دفعہ بریک ڈاؤن ( کام میں تعطل ہونے کی صورتیں ) ہو جاتے تھے اچانک بارش آگئی اور خیمے اُڑ گئے جس کی وجہ سے غیر معمولی طور پر بہت زیادہ کارکنوں کی ضرورت پیش آتی تھی.بعض لوگ پراتیں الٹا کر کے نان بائیوں کے اوپر سائبان بناتے تھے، کچھ زائد پیڑے بنانے والے درکار ہوتے تھے، کچھ زائد روٹیاں بنانے والے کیونکہ نا تجربہ کار کارکن زیادہ وقت لیتا ہے اس لئے جتنی کمی آتی تھی نان بائیوں میں یا پھر روٹی پکانے والوں میں اُس سے کئی گنا زیادہ کارکنان کی ضرورت پڑ جاتی تھی.تو ایسے موقع پر ہمارا تجربہ ہے کہ مہمانوں سے جب بھی درخواست کی گئی تو وہ بڑے شوق کے ساتھ ، بڑے ولولے کے ساتھ پیش ہوئے ہیں اور بعض دفعہ مقامی کارکنان سے بھی آگے بڑھ گئے.اس لحاظ سے یہ خیال کہ معاونین کی کمی ہو جائے گی یہ تو ایک وہم ہے جس کا کوئی بھی حقیقت سے تعلق نہیں.کمی ہو سکتی ہے صرف ان معنوں میں کہ انتظامیہ بیدار نہ ہو اور کسی کو پتا نہ ہو کہ کس کا کام ہے؟ اس لئے میں یہ بات وضاحت سے پیش کر رہا ہوں اور چونکہ اب یہ جلسے کا نظام خدا کے فضل سے دُنیا کے بیس سے زائد ممالک میں جاری ہو چکا ہے اور رفتہ رفتہ پھیلتا چلا جارہا ہے اور اُمید ہے کہ چند سال کے اندر اندر انشاء اللہ قادیان کا جلسہ اپنے ہم شکل جلسے اتنے پیدا کر دے گا کہ سو ممالک سے زائد میں ویسے ہی جلسے ہوا کریں گے اور ہر ملک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر جاری ہوگا.پس چونکہ جماعت کو یہ نام بہت پیارا ہے اور مسیح موعود کا لنگر کے ساتھ ہی دل نرم ہو جاتے ہیں اور طبیعت میں بے شمار محبت جوش مارتی ہے اس لئے اس جلسے کو کارکنان کی کمی نہیں ہوسکتی.جہاں بھی ہو گا خدا کے فضل سے اس لحاظ سے برکت ہوگی لیکن انتظام کی خرابی کی وجہ سے یا کسی کی لاعلمی کی وجہ سے کہ یہ کام میرا ہے بھی کہ نہیں ایسی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.چنانچہ مجھے پچھلا جلسہ گزرنے کے بعد ایک منتظم نے بتایا کہ ہمارا کام اگر کمزور ہوا ہے یا ہم وقت کے مطابق ضرورت پوری نہیں کر سکے تو اُس میں ہمارا قصور نہیں کا رکن نہیں تھے لیکن اُن کا ایک قصور ضرور تھا کہ اگر کارکن نہیں تھے تو فوری مطالبہ کیوں نہیں کیا گیا اور اگر فوری مطالبہ کیا گیا تھا اور اس کی طرف توجہ نہیں ہوئی تو فوری طور پر مجھے کیوں مطلع نہیں کیا گیا.جلسے کے دوران شکایات کے زیادہ رابطے نہیں ہوا کرتے بلکہ افسر متعلقہ کو بات کہی جاتی ہے اگر وہ ضرورت پوری نہ ہو تو فوری طور پر خلیفہ وقت کو اطلاع پہنچا دی جاتی ہے کیونکہ آخری

Page 419

خطبات طاہر جلد ۹ 414 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء ذمہ داری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں اُس کی ہوتی ہے کہ وہ مہمان نوازی کے فرائض انجام دے اور اگر بعد میں تکلیف کی خبر پہنچے تو اُسے بہت تکلیف پہنچتی ہے.اس لئے جلسے کے دوران میں شکایات کے معاملے میں اُس قسم کی پابندیاں نہیں ہوتیں کہ فلاں رستے سے فلاں رستے تک پہنچو اور پھر اُس کے بعد فلاں رستے تک پہنچو مختلف حالات کے مطابق نظام بدلتے ہیں.اگر کوئی شخص ڈوب رہا ہے تو اُس نے تو آواز دینی ہے کہ مجھے بچاؤ.اُس کے لئے کوئی باقاعدہ چینل مقرر تو نہیں ہوا کرتا کہ وہ فلاں کو کہے، وہ فلاں کو کہے پھر اُس کے آگے فلاں کو اطلاع پہنچے.اس لئے ہنگامی حالات کے مطابق ہنگامی نظام جاری ہوتے ہیں.شکایات موقع پر کریں.ایسی صورت میں سارے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے معاونین پورے کریں.اگر مہیا نہ ہوں تو بلا تاخیر افسر معاونین سے مطالبہ کریں اور اگر معقول مدت کے اندر یعنی ایسی مدت کے اندر جس میں انتظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ نہ ہو کیونکہ ضرورت پوری نہ ہو تو بلا تاخیر مجھے چٹ بھجوا دیں کہ فلاں ضرورت پڑی تھی اور ابھی تک پوری نہیں ہوئی خطرہ ہے کہ اگر دیر ہوگئی تو ہمارے نظام میں خرابی آ جائے گی.اسی ضمن میں چونکہ شکایات کی بات ہو رہی ہے آنے والے مہمانوں سے بھی میری یہی درخواست ہے کہ وہ اپنی شکایات موقع پر کیا کریں.بسا اوقات وہ موقع پر صبر کر جاتے ہیں اور واپس گھروں میں جانے کے بعد بے صبری دکھاتے ہیں.یعنی جب صبر کا موقع نہیں اُس وقت صبر کرتے ہیں جب صبر کا موقع آئے اُس وقت بے صبری دکھا جاتے ہیں.یعنی ان معنوں میں کہ پھر وہ اپنی شکایتیں لوگوں تک پہنچاتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں.ایک چھوٹا سا واقعہ بھی جماعت کے کارکنوں کی اتنی بدنامی کا موجب بن سکتا ہے بعض دفعہ کہ اگر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت میں یہ نظام جاری نہ ہو کہ بروقت مجھے اطلاع کر دیتے ہیں تو وہ خرابیاں آگے بڑھتی چلی جائیں.مثلاً پیچھے یہاں کسی شخص نے لفٹ دینے کے بہانے کرائے وصول کرنے شروع کئے.اب یہ مجھے علم نہیں کہ بہت زیادہ دفعہ واقعہ ہوا یا ایک دو دفعہ لیکن ایک دو دفعہ یہ واقعہ قطعی طور پر ہوا کہ ایک صاحب نے جب مہمان رخصت ہو رہے ہوتے تھے وہاں موٹر کھڑی کر دی کہ آؤ جی بیٹھو، تشریف لائیں ، اپنی موٹر میں بیٹھئے اور جب وہ مہمان بیٹھ گئے تو ہر ایک سے اُترتے وقت دس دس پونڈ وصول کرنے شروع کر دیئے.اس قسم کی مشکل صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ جس سے مطالبہ کیا جائے وہ بیچارہ پھر دینے پر مجبور

Page 420

خطبات طاہر جلد ۹ 415 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء ہو جاتا ہے.اب ایسے موقع پر ضروری تھا کہ فوری طور پر اس کی اطلاع مجھے بھجوائی جاتی.پرائیویٹ سیکر یٹری ہر وقت مہیا رہتا ہے اور بہت سے رستے ایسے ہیں جن کے ذریعے بلا تاخیر اطلاع بھجوائی جاسکتی ہے تا کہ اُس کی روک تھام کی جاتی.نہ صرف یہ کہ مجھے اطلاع نہیں کی گئی بلکہ سارا جلسہ وہ صاحب دل میں اس بات کو پکاتے رہے اور پھر لاہور جا کے وہ پھوڑا پھوٹا اور پھر سب جگہ بدنامیاں شروع ہر گئیں کہ جی یو کے کی جماعت ایسی ہے حالانکہ یو کے کی جماعت ایسی نہیں ہے، بڑی مخلص جماعت ہے.غیر معمولی قربانی کرنے والی ہے، جتنے مہمان نوازی کے سامان یہاں مہیا ہیں وہ اُس سے بہت زیادہ ربوہ والوں کو یا پاکستان یا ہندوستان کے لوگوں کو مہیا ہوتے ہیں کیونکہ یہاں رہن سہن کا طریق اور ہے.ٹائیٹ ایک ہے سارے گھر میں یا دو بھی ہوں تو پھر بھی بمشکل گھر کی ضرورت پوری کرتے ہیں تو ایسی جگہوں پر جب مہمانوں کا بوجھ پڑتا ہے پھر نو کر کوئی نہیں نوکر کا نظام کوئی نہیں ہے گھر والوں کو غیر معمولی محنت کرنی پڑتی ہے.یہ سارے کام جو یو.کے نے گزشتہ بہت سے سالوں سے بڑی ذمہ داری اور بڑی وفا اور بڑی محبت کے ساتھ سرانجام دیئے ہیں یہ ایک طرف اور ایک ڈھنڈورا پیٹنے والا ایک طرف جو جس مجلس میں بیٹھا اُس نے کہ دیا یوں کے کی جماعت وہ تو مہمانوں کو بٹھاتے ہیں اور پیسے چارج کرتے ہیں تو بڑا ظلم ہے جب مجھے چونکہ جماعت میں یہ نظام بھی ساتھ جاری ہے کہ خطوں میں مجھ سے ساری باتیں کرتے رہتے ہیں اور خدا کے فضل سے چونکہ مجھے کثرت سے روزانہ خط پڑھنے کی توفیق ملتی ہے اس لئے دنیا کے کونے کونے میں جو باتیں ہورہی ہیں اُن کی اطلاعیں پہنچ رہی ہوتی ہیں.تو جب لاہور سے مجھے کسی نے بتایا کہ فلاں شخص نے مجھ سے یہ بات کی ہے تو فوری طور پر میں نے وہاں کے نظام کو بھی جھنجوڑا اور یہاں بھی تحقیق کی تو پتا چلا کہ واقعہ ہوا تو تھا لیکن ایک انفرادی واقعہ ہوا ہے اُس کی وجہ سے جماعت کو بدنام کرنے کا حق انہیں نہیں.اسی طرح بعض دفعہ روٹی کے متعلق شکایت پیدا ہو جاتی ہے اور ہمیشہ سے ہوتی ہے کیونکہ اتنے بڑے مہمانوں کے لئے ہمارے مزاج کی روٹی پکانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور انتظامات میں Break downs بھی ہو جاتے ہیں یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے لیکن بعض دفعہ اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ مسلسل ایک چیز خراب بن گئی ہوتی ہے مثلاً روٹی کچی اُتر رہی ہے تو کچی اترتی چلی جارہی ہے یا جل رہی ہے تو جلتی چلی جارہی ہے.ایسے موقع پر اگر بروقت اطلاع نہ دی جائے تو بہت نقصان ہوتا

Page 421

خطبات طاہر جلد ۹ 416 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء ہے.یعنی رزق کا بھی نقصان اور لوگوں کے معدوں کا بھی نقصان اور مزاج کا بھی نقصان اور پھر باتوں کی وجہ سے اور روحانی لحاظ سے بھی نقصان پہنچ جاتے ہیں.اس لئے اس دفعہ ایک شکایات کا دفتر اس رنگ میں کھولنا چاہئے کہ جس میں ہرشا کی اپنی شکایت بلا تاخیر ڈال دے اور اُسی رات یا اگر افسر شکایات جو بھی مقرر ہو وہ ضروری سمجھے کہ یہ اس نوعیت کی شکایت ہے کہ فوری طور پر مجھے اس کی اطلاع ملنی چاہئے مجھے فوری اطلاع دے ورنہ رات کو جو دستور ہے کہ سارا دن کی شکایتیں اکٹھی ہو کر پھر شام کو پہنچیں تو یہ ایک دوسرا شعبہ بھی امسال سے یہاں جاری ہونا چاہئے.ایک اور مشکل ایسی ہے جس کے پیش نظر ہم ایک نیا نظام جاری کر رہے ہیں اور جماعت کو مطلع رہنا چاہئے یعنی میز بانوں کو بھی ، مہمانوں کو بھی کہ یہ نظام ہے جس میں بعض دفعہ ایک کمزوری بھی پیدا ہو جاتی ہے اور اُس کو اگر وہ خود حل کر سکتے ہوں تو خود حل کریں بجائے اس کے کہ گھبرا جائیں یا سمجھیں کہ یہاں سارا نظام ہی درہم برہم ہو ا ہوا ہے.ہم نے جو روٹی کی مشین یہاں بنوائی تھی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی اچھا کام کر رہی ہے لیکن یہاں مشینوں کی قیمتیں زیادہ پڑتی ہیں اور اگر سارے مہمانوں کی ضرورت کے لئے مشینیں بنائی جائیں تو تین مشینیں چاہئیں لیکن وہ ایک ہی مشین ہم بنا سکے ہیں اور اتنا عرصہ لگا ہے اُس کی نوک پلک کو درست کرنے میں.وہ خدا کے فضل سے بہت اچھے معیار کی روٹی پیدا کر رہی ہے.یعنی شروع میں کچھ کمزوریاں تھیں رفتہ رفتہ ٹھیک ہوتی چلی گئیں لیکن اگر اُس کی رفتار کو بہت زیادہ تیز کیا جائے تو پھر وہی بات ہوگی یا کچی روٹی نکلے گی یا جلی ہوئی.اس دفعہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہفتہ پہلے اکیس تاریخ سے وہ مشین کام شروع کر دے اور ایک بہت بڑا کولر ہے غالباً مائنس ٹو یا تھری ڈگری تک منفی دو تین درجہ حرارت تک وہ ٹھنڈا کرتا ہے.اُس میں تھیلیوں میں ڈال کے اُن روٹیوں کو محفوظ کر لیا جائے.preserve کرنے والی دوائیاں ہم نہیں ڈالنا پسند کرتے کیونکہ اُس سے آجکل جو تحقیقات ہو رہی ہیں نقصانات کے اندیشے ہیں.بہر حال اُس روٹی کے متعلق تین دن تک تو وہ کہتے ہیں قطعی طور پر ٹھیک رہتی ہے اور میں نے جو اپنے گھر میں تجربہ کر کے دیکھا ہے میں نے دس دن کے بعد بھی کھائی ہے میرے لئے تو وہ بھی ٹھیک تھی لیکن مزاج مختلف ہوتے ہیں.بعض لوگ پرواہ نہیں کرتے تھوڑی سی باسی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.خراب نہ ہو یعنی نقصان پہنچانے والی نہ ہو تو گزارہ کر لیتے ہیں.بعض بہت ہی نازک مزاج ہوتے ہیں اور وہ

Page 422

خطبات طاہر جلد ۹ 417 خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء روٹی کی ذراسی بھی اونچ نیچ کو برداشت نہیں کرتے اس لئے ہوسکتا ہے وہ روٹی جب باہر نکلے تو بعض لوگوں کے لئے کچھ مشکلات پیدا کرے.جو نئی بات ہے وہ روٹی کو گرم کرنے کا نظام ہے.روٹی کوگرم کرنے کے لئے اس دفعہ ہم نے ایک طریق سوچا ہے اُس پر عمل ہو گا.ہوسکتا ہے پہلی دفعہ ہونے کی وجہ سے وہ پوری طرح صحیح کام نہ کرے.تو جو روٹی پہنچے گی بعض دفعہ وہ ٹھنڈی بھی ہوسکتی ہے اندر سے اور ٹھنڈی ہونے کی وجہ سے یہ وہم ہوگا کہ شاید خراب ہو، بعض دفعہ جلدی میں گرم کرنے کے نتیجے میں بعض حصوں پر سطحی طور پر جلن کے آثار بھی ہوں اور سیاہی پیدا ہو جاتی ہے تو یہ میں مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ اُس روٹی میں کوئی بنیادی خرابی نہیں ہے.بہت اچھی روٹی ہو گی انشاء اللہ لیکن اگر کچھ ٹھنڈی ہو جائے اور اگر مہمان گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں تو وہ گھر میں گرم کر سکتے ہیں.اگر پسند نہیں آئی تو بجائے پھینکنے کے جہاں روٹیاں گرم ہو رہی ہیں وہاں لے جائیں اور اپنی روٹیاں دوبارہ گرم کروالیں.بے تکلفی سے گھر یلو رنگ میں اگر آپ گزارہ کرنے کی کوشش کریں تو خدا کے فضل سے انتظامات میں بہت سہولت پیدا ہو جاتی ہے.ایک اور بات جو کارکنان کے لئے بھی ضروری ہے اور مہمانوں کے لئے وہ یہ ہے کہ جہاں بھی نظام جاری ہو وہاں Friction ضرور پیدا ہوتی ہے کسی رنگ میں.یعنی جب موٹر چلتی ہے تو اُس کے پیسے ، اُس کے کل پرزے جو حرکت کرتے ہیں ایک دوسرے کے قریب سے گزرنے سے گرمی پیدا ہوتی ہے اور ذراسی بھی کسی ایک جگہ خرابی پیدا ہو تو ایک پُرزے کا دوسرے پر جھکاؤ بہت تیز گرمی پیدا کرتا ہے پھر یعنی وہ رگڑنے لگ جاتے ہیں.اس نظام کا بالکل اسی طرح انسانی نظام سے بھی تعلق ہے.انسانی انتظامات میں بھی بہترین نظام وہ ہوتا ہے جہاں ایک دوسرے سے رگڑ کر نہ چلیں اپنے اپنے دائرہ کار میں حرکت کریں.اُس سے جو گرمی ہوتی ہے وہ قابل برداشت رہتی ہے.یعنی قرب میں حرکت کے نتیجے میں گرمی ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن جہاں اپنا ( حلقہ عمل )Orbit اپنا کوئی پرزہ چھوڑ دے یعنی جس مدار پر حرکت کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اُس مدار سے ذرا سا بھی ہٹ جائے تو اُس سے پھر گرمی پیدا ہوتی ہے اور یہ گرمی اگر اس کا پہلے سے ہی انتظام نہ کیا جائے اور پیش بندیاں نہ کی جائیں تو اچانک سارے نظام کو بھی خراب کر سکتی ہے اور موٹر وغیرہ میں جو جدید مشینیں ہیں اُن میں Lubrication کا نظام ہے جو یہ پیش بندیاں کرتا ہے اور روز مرہ کی عام گرمی کو بھی کم

Page 423

خطبات طاہر جلد ۹ 418 خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۹۰ء سے کم درجہ پر رکھتا ہے.انجن آپ دیکھیں ذرا سا سٹارٹ کر کے گرم تو ضرور ہو گا لیکن چونکہ Lubrication ہورہی ہوتی ہے اس لئے وہ گرمی خطرہ پیدا نہیں کرتی.Lubrication انسانی نظام میں اخلاق سے ملتی جلتی ہے.جتنے اعلیٰ درجے کے اخلاق کارکنان کے اتنا ہی زیادہ نظام Lubrication کے ساتھ چلتا ہے اور اگر کسی پرزے کا جھکاؤ ہو کر کر بھی دوسری طرف لگ جائے تو وہLubrication ہے جو اُس کو بچالیتی ہے اور بعض دفعہ پیچھے دھکیل دیتی ہے.جماعت احمدیہ کی روایات میں اس پہلو سے اخلاق کو بہت بڑا مقام حاصل رہا ہے اور ساری دنیا جو حیرت سے دیکھتی ہے کہ جماعت کا اتنا بڑا انظام کیسے چل رہا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خدا کے فضل سے جماعت کے کارکنان اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوتے ہیں اور جہاں کہیں گرمی پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں وہاں اگر ایک سے غلطی ہوئی ہے تو دوسرا اپنے حسن خلق کے نتیجے میں اُس معاملے کو سنبھال لیتا ہے.بعض دفعہ ایک مہمان تیز مزاج آجاتا ہے، بعض دفعہ ایک میز بان تنقید برداشت نہیں کر سکتا اور اگر بدقسمتی سے دونوں اکٹھے ہو جائیں تو پھر ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے.باوجوداس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں بہت شاذ ایسے واقعات ہوئے ہیں لیکن ہم نے دیکھے ہیں ایک دفعہ ربوہ میں ایک چاول کھانے والے مہمان تھے اُن کے لئے چاول نہیں تھے انہوں نے کہا ہم ابھی پکا دیتے ہیں اُنہوں نے اتنا شور مچایا جو پکانے والے تھے وہ بھی اُسی مزاج کے تھے خوب گرما گرم بحث ہوئی اور یوں لگتا تھا کہ خوفناک لڑائی پھیل جائے گی اس علاقے میں.جب جاکے میں نے دیکھا تو شورسُن کے لنگر سے باہر آیا وہ دونوں میرالحاظ کرتے تھے.پیار سے اُن کو سمجھایا تو ہنس پڑے بات ہی ختم ہوگئی و ہیں.تو ایک ہنسی سے بعض دفعہ بڑے بڑے خراب نتائج جو نکل سکتے ہیں اُن کی روک تھام ہو جاتی ہے.اس لئے آپ حسن خلق سے ہی کام لیں اور جہاں مزاح سے فائدہ پہنچ سکے وہاں مزاح سے کام لیں یہ بڑی ضروری چیز ہے.مزاح زندگی کا ایک بڑا اہم حصہ ہے.ایک تو ہے ایسا مزاح جس کو لوگ کہتے ہیں کہ بھانڈ ہو گیا ہے کوئی شخص.یعنی جس کو عادت ہو دن رات سوائے مزاح کے کام ہی کوئی نہ ہو اس کو لوگ کہتے ہیں بھانڈ بن گیا ہے.وہ مزاح میں نہیں کہہ رہا لیکن وہ مزاح جو زندگی کی خوشکیوں میں تری پیدا کرنے والا ہے جو روز مرہ کی یکسانیت کو دور کرتا ہے اور زندگی میں ایک فراخی اور روانی پیدا کرتا ہے وہ مزاح بہت ضروری ہے اور بعض دفعہ

Page 424

خطبات طاہر جلد ۹ 419 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء غصوں کو ختم کرنے کے لئے مزاح بہت کام دیتا ہے.بعض بچے ایسی حرکت کر دیتے ہیں بعض دفعہ کہ ماں باپ کو ہنسی آ جاتی ہے.خواہ کتنا ہی غصہ ہو اُن سے پھر وہ ہنسی برداشت نہیں ہوتی اور جنسی برداشت نہ ہونے کے معاملے میں چھوٹے بڑے ادنی اعلیٰ سب برابر ہوتے ہیں.بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ اگر وفات کا موقع بھی ہو اور سوگ پر لوگ بیٹھے ہوں اگر کوئی ایسی حرکت کسی سے سرزد ہو جائے جو مزاحیہ ہو تو اُس وقت بھی ہنسی برداشت نہیں ہوتی.ایک دفعہ قادیان میں مجھے یاد ہے ہم بھائیوں سے کوئی غلطی ہوگئی.غالباً جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ ھی کہ ہمیں پتا نہیں لگا تھا کہ حضرت مصلح موعود نماز پہ چلے گئے ہیں اور ہم کھیلتے رہے اور جب واپس نکلے تو اُس وقت ہمیں سمجھ آئی کہ ہم پکڑے گئے اور غلطی ہوگئی بہر حال لائن لگوادی حضرت مصلح موعودؓ نے اور سب کو سزا دینی تھی.اب ہمیں پتا نہیں کیا سزا دینی تھی مگر بڑے غصے میں تھے کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے اُدھر نماز ہو رہی تھی اور تم صحن میں کھیل رہے تھے.تو ہمارے ایک بھائی جن کا نام لینا اس وقت مناسب نہیں اُن کی شکل اس قسم کی بن گئی اس وقت خوف سے اور اُن کا چہرہ بھی موٹا تھا تو وہ ذرا سا منہ کا نپتا تھا تو ایک گلہ نیچے ہو جا تا تھا اور ایک اوپر ہو جاتا تھاوہ حضرت مصلح موعودؓ کی sense of humour یعنی مزاح کا ذوق جو تھا وہ بہت اعلیٰ لطیف تھا تو آپ کی اُس پر نظر جو پڑی تو ہنسی برداشت نہ ہوئی.پہلے تو اپنا پلو پگڑی کا رکھا منہ پر اور کوشش کی برداشت کرنے کی اُس کے بعد اس قدر قہقہہ نکلا کہ وہ ہمیں اُسی طرح چھوڑ کر چلے گئے قصر خلافت کی طرف.تو ہنسی میں نے جیسا کہ بتایا ہے بعض دفعہ بڑے بڑے غصے پر قابو پالیتی ہے تو اگر کوئی لطیف مزاح ہو تو وہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے لیکن بھونڈے مذاق سے بچنا کیونکہ بھونڈا مذاق ہنستے ہوؤں کو بھی غصہ دلا دیا کرتا ہے اور ہر موقع کی بات ہوا کرتی ہے اس لئے بھانڈ پنے سے کام نہیں بنتا.ذہانت کے ساتھ مزاح کا استعمال ہونا چاہئے.اس فن کو آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے سیکھ سکتے ہیں.جہاں آپ نے مثلاً وفات مسیح کے دلائل دیئے ہیں وہاں اُس کے بعض حصے مزاح سے تعلق رکھتے ہیں.غیر احمدیوں کے عقائد کا بھونڈا پن آپ نے مزاح کے رنگ میں اس طرح ظاہر فرمایا ہے کہ لطیف مزاح ہے لیکن وہ تھوڑی دیر پڑھنے کے بعد میرا خیال ہے کہ مخالفین کو بھی ہنسی آ جاتی ہوگی.ایسا لغو عقیدہ ہے کہ اُس کو اگر کھول کر اُس رنگ میں بیان کیا جائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بسا اوقات بیان فرمایا ہے تو انسان ہنسی کے بغیر رہ نہیں سکتا اور جس کو ہنسی

Page 425

خطبات طاہر جلد ۹ 420 خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء آجائے پھر اس کی ضد بھی ٹوٹ جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مناظروں میں بھی اس فن کو نہایت ہی عمدگی اور پاکیزگی کے ساتھ استعمال کیا ہے.تو آپ بھی بحیثیت کا رکن اپنی مجلسوں میں جہاں تھکاوٹ دور کرنی ہو یا کسی کا غصہ ہٹانا ہو تو لطیف مزاح سے بے شک کام لیں.Tension نہ پیدا کریں یعنی اعصابی تناؤ.جن کا رکنوں میں اعصابی تناؤ پیدا ہو جائے پھر اُن سے غلطیاں ہونی شروع ہو جاتی ہیں.نظام چلتا ہے فراخدلی کے ساتھ ، حوصلے کے ساتھ ، کچھ دوسرے کی رعایت کی کچھ اپنا حق چھوڑا، کچھ اپنا حق مانگنے میں کمی کی ، کچھ دوسرے کے حصے کے زائد مطالبے کو بھی نرمی سے پورا کرنے کی کوشش کی.اس کو دوسرے لفظوں میں Cushioning کہتے ہیں اور اس کی مثال میں نے Lubrication سے دی ہے.یہ اعلیٰ اخلاق کی مختلف صورتیں ہیں.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس سارے جلسے میں بھی پرانی روایات کی طرح خدا کے فضل کے ساتھ تمام کارکن اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھا ئیں گے.اعلیٰ اخلاق اور نظم وضبط کے رشتے کے متعلق کچھ بتانا ضروری ہے.بعض لوگ اعلیٰ اخلاق کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ نظم و ضبط کو توڑ دیا جائے.حسن خلق کی خاطر نظام کو تو ڑ دیا جائے.کسی کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو اُس کو بھی جانے دیا جائے.قانون مقرر ہے کہ فلاں جگہ کھانا کھانا ہے تو جگہ جہاں ہے وہاں اُس کو بٹھا کے کھلا دیا.یہ جو چیزیں ہیں یہ ایک پہلو سے حسن خلق کہلا سکتی ہیں بڑا نرم انسان ہے، بڑا خلیق ہے، ہر آدمی کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک پہلو سے یہ بد انتظامی ہے اور بعض دفعہ بدانتظامی اتنی شدید رنگ کی ہو جاتی ہے حسن خلق کی وجہ سے کہ اُس سے بڑے بڑے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً سیکورٹی ، حفاظت کا نظام ہے اور لنگر خانوں میں اگر کسی کو جانے کی اجازت نہیں تو حفاظت کے نظام کی خاطر ہی ہے.بعض دفعہ بعض شریروں نے ہمارے جلسہ سالانہ پر کھانوں میں زہر ملانے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ جماعت نگران تھی اور خدا کے فرشتے نگران تھے جنہوں نے نگرانوں کو متوجہ فرما دیا.تو ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ ایسا ہوا ہے.تو ایسے موقعوں پر حسن خلق خودکشی کے مترادف ہوتا ہے.حسن خلق اور چیز ہے اور نظم وضبط اور چیز ہے اور ان دونوں کے درمیان ٹکراؤ نہیں ہے.آپ بڑے حُسن خلق کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کے ساتھ ایک آدمی کو کہہ سکتے ہیں کہ جناب آپ آگے نہیں جائیں گے.وہ پختی بھی کرے تو آپ برداشت کریں یہ

Page 426

خطبات طاہر جلد ۹ 421 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء حسن خلق ہے لیکن اُس کو آگے جانے دیں یہ بدنظمی ہے.اس لئے ہر نظام میں ان دونوں چیزوں کے درمیان توازن رکھنا بڑا ضروری ہوا کرتا ہے.جو آپ کے فرائض ہیں آپ نے بہر حال ادا کرنے ہیں.جن فرائض میں تبدیلی کا آپ کو اختیار نہیں وہاں اگر اپنے اخلاق کی وجہ سے آپ تبدیلی کرتے ہیں تو مجرم بنتے ہیں.اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے جتنی نرمی، جتنا لطف و عنایت دکھا سکتے ہیں ضرور دکھائیں مگر دائرہ کار کو پھلانگنے کی اجازت نہیں ہے.بعض دفعہ لوگ اپنے غیر احمدی ایسے مہمان کو لے آتے ہیں جس کے پاس ٹکٹ نہیں ہے.اب اُس سے کئی طرح سے باتیں ہو سکتی ہیں.سختی سے بھی کہا جاسکتا ہے ہر گز نہیں ہم جانے دیں گے.اُس کے سامنے بھی کہا جاسکتا ہے جس سے دونوں کی دشکنی ہو اور حسن خلق سے اُس کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک منٹ مجھ سے علیحدگی میں بات سنیں.دوسرے پر نظر رکھتے ہوئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں.اُس سے کہیں کہ یہ ہمارا نظام ہے اور ساری جماعت کے مفاد میں یہ نظام ہے اس لئے آپ مہربانی فرما کر کسی بہانے سے ان کو ذرا تھوڑی دیر ٹالیں اور یہ طریق ہے جس سے اجازت مل سکتی ہے اور فلاں نظام ہے جس کے پاس آپ کو جانے کی ضرورت پڑے گی.یہ طریقہ ہے سمجھانے کا.اگر اچھے طریقے سے سمجھایا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کوئی انسان بے وجہ بُرا مانے لیکن اگر بد خلقی سے بات کریں گے تو اُسے یقینا ٹھوکر لگتی ہے پھر شکایتیں پہنچتی ہیں کہ ہم فلاں دوست کو لے کر آئے تھے وہ بڑا ہی جماعت کے قریب آ چکا تھا اور فلاں نے بداخلاقی سے کام لیا اور وہ دور ہو گیا اور بھاگ گیا.ایسا ایک دفعہ ایک واقعہ پیش آیا.جس میں واقعہ منتظمین کی غلطی تھی.یعنی ایک ایسے شخص کو جس کے متعلق اُن کو شبہ تھا کہ اس کے اوپر نظام کی طرف سے پکڑ آئی ہوئی ہے اور وہ اُس جلسے میں اپنے ساتھ بعض غیر مسلم مہمانوں کو لے کے آیا ہوا تھا اور انہوں نے اپنی طرف سے مستعدی دکھاتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ نظام کا یہ تقاضا ہے جا کر بھری مجلس میں اُن کو اُٹھوا دیا.اب جو اندر داخل ہو چکا تھا اُس وقت اُن کا کام یہ تھا کہ افسر بالا کو بتاتے کہ فلاں صاحب بیٹھے ہوئے ہیں کیا حکم ہے اور اپنے ہاتھ میں اس فیصلے کو نہ لیتے اور ویسے بھی جب ایک آدمی داخل ہو چکا ہے تو اس وقت اُس کو اُٹھانا اور بات ہے اور جب نظام کی طرف سے ہدایت بھی کوئی نہیں ہے کہ چونکہ ایک شخص کو سزا ملی ہوئی ہے، ایک شخص سے چندہ نہیں لیا جارہا تو اس لئے اُسے جلسے میں بھی شامل نہ ہونے دیا جائے.ایسے فیصلے جو مہم بنے رہیں اُس میں نظام کا تقاضا یہ

Page 427

خطبات طاہر جلد ۹ 422 خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۹۰ء نہیں ہے کہ آپ اپنی طرف سے خود فیصلہ کریں.اُس میں نظام کا تقاضا یہ ہے کہ کچھ نظر رکھیں اور اس عرصے میں پیغام بھیج کر یا متعلقہ افسر کو مطلع کر کے اُس سے راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور افسر بالا کا بھی یہ کام ہے کہ وہ حسن خلق سے پیش آئے اور لوگوں کی ٹھوکر کا موجب نہ بنے.جماعت احمد یہ دل جیتنے کے لئے بنائی گئی ہے.اس بنیادی حقیقت کو تو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے اور نظام جماعت کی متابعت میں اگر دل ٹوٹتے ہوں تو ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ اپنی جان پر زیادہ سے زیادہ تکلیف لے لے اور دل توڑنے سے گریز کرے اور نظام کے تقاضے کو اس طرح سرانجام دے کہ اُس کے دل کو بیشک تکلیف پہنچ رہی ہو لیکن جس پر وہ نظام جاری کرنا ہے اُس کو کم سے کم تکلیف پہنچے یا نہ پہنچے.یہ ایک سلیقہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر بعض لوگوں کو ودیعت ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو سکھانا پڑتا ہے لیکن اگر باشعور طور پر ہر انسان ان باتوں کو سمجھ کر اپنے مزاج کو ان چیزوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے تو ناممکن نہیں ہے.آہستہ آہستہ تربیت سے لوگ سمجھ جاتے ہیں.بہر حال کوشش یہی کرنی چاہئے کہ آپ کسی کی ٹھوکر کا موجب نہ بنیں اور دل شکنی کا موجب نہ بنیں اور اگر تو ازن اس طرح کا خطرناک ہو کہ ایک طرف کسی قسم کا خطرہ درپیش ہو اور دوسری طرف ٹھوکر کا مسئلہ ہو تو یہ وہ صورتحال ہے جس کی فوری طور پر بالا افسر کو اطلاع کرنی ضروری ہے یہی حل ہے اور اُس وقت تک اپنی نگرانی رکھیں جب تک آپ نگرانی رکھ سکتے ہیں.جلسہ سالانہ کے نظام کے متعلق ایک اور اہم بات جس کی طرف میں سالہا سال سے اپنے نظام کو جہاں جہاں میں کام کرتا رہا ہوں ہمیشہ توجہ دلاتا رہا ہوں بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے جب سے میں نظام جلسہ سے وابستہ ہوا ہوں اس پہلو کی طرف جو میں اب بیان کرنے لگا ہوں ہمیشہ توجہ دلاتا رہا ہوں اور وہ ہے نماز کا قیام.جس طرح میں نے ایک بنیادی بات آپ کے سامنے یہ رکھی کہ ہم دل جیتنے کے لئے آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دل کس کی خاطر؟ اپنے لئے یا کسی اور کے لئے.ہم خدا کی خاطر دل جیتنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اس لئے اگر دل خدا کی خاطر نہ رہیں تو پھر وہ جیتنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں بالکل بے معنی اور لغو بات رہ جاتی ہے اور خدا کی خاطر دل جیتنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم بنی نوع انسان کو عبادت گزار بنانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.وہ لوگ جو نظام کے بہانے نمازیں چھوڑ دیتے ہیں اُن کے پاس اس کا کوئی جواز نہیں ہے.نماز کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ شدید جنگ

Page 428

خطبات طاہر جلد ۹ 423 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء کے دوران بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سوائے اس کے کہ بالکل ناممکن بنادیا گیا اور وہ صرف ایک دفعہ ہوا با قاعدہ نماز ادا کرتے تھے اور لڑائی ہو رہی ہوتی تھی اور قرآن کریم کے بیان کے مطابق آپ پھر بھی باجماعت نماز ادا کرتے تھے آدھے لوگ آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کے الگ ہو جایا کرتے تھے اور دوسرے دوسری رکعت پڑھنے کے لئے آتے تھے تو یہ ہتھیار سنبھال لیتے تھے اور پھر پہلی پارٹی دوبارہ واپس آتی تھی ان کو ہتھیار دے کر اور اپنی دوسری رکعت بعد میں پوری کرتی تھی اور دوسری پارٹی پھر واپس آکر اُن کو ہتھیار پکڑاتی تھی اور پھر اپنی رکعت پوری کرتی تھی.اب یہ بتائیں کہ چار پھیرے پڑتے تھے ( بخاری کتاب الخوف جلد دوم حدیث نمبر : ۳۳۷) اور دوران جنگ جب لڑائی ہو رہی ہو اُس وقت یہ کیفیت حیرت انگیز ہے سوائے اس کے کہ انسان کو کامل یقین ہو جائے ذرا بھی شک نہ رہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک دنیا کی سب سے زیادہ اہم چیز عبادت تھی اور عبادت کے مقابل پر پھر کسی چیز کو کوئی اہمیت نہیں رہتی تھی.یہاں چھوٹے سے نظام میں رخنے کے خیال سے بھی لوگ نمازوں کو ٹال دیتے ہیں چنانچہ بعض تو ایسے ہیں جو پھر نماز قضاء کر جاتے ہیں یا پھر پڑھتے بھی نہیں ہوں گے بعض چونکہ انگلستان وغیرہ میں نظام اُس طرح جاری نہیں ہے جس طرح قادیان یار بوہ میں جاری تھے اور جماعت کی اہمیت کا احساس اُس شدت کے ساتھ چھوٹی نسلوں میں پیدا نہیں کیا گیا جیسا کہ قادیان یار بوہ میں یا پاکستان کی بڑی جماعتوں میں کیا جاتا ہے.اس لئے یہاں دوہرا خطرہ ہے.کارکن آئیں گے وہ سمجھیں گے کہ یہی نیکی ہے کہ میں کارکن ہوں اور نماز ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے.اس سے مستقبل کے لئے آپ بہت ٹیڑھی عادتیں چھوڑ جائیں گے اور نہایت بڑے خطرات پیدا کر جائیں گے.جب زور برتن پر ہو جائے اور یہ دیکھا ہی نہ جائے کہ برتن بھرا ہوا ہے کہ خالی ہے تو ایسے برتن پر کسی نے سر پھوڑنا ہے جس میں کچھ بھی نہ ہو.یہ نظام برتن کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے اندر عبادت کی روح ہے، محبت کی روح ہے اور اعلیٰ اخلاق کی روحیں ہیں جو اس نظام جماعت کے برتن میں محفوظ رہتی ہیں اور سب سے اہم روح جو اس نظام میں ہے وہ عبادت کی روح ہے.پس جلسے کا نظام ہو یا کوئی اور اگر اُس کی وجہ سے عبادت میں رخنہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اپنے اعلیٰ مقصد کو ایک ادنیٰ مقصد پر قربان کر رہے ہیں.جبکہ عہدِ بیعت میں اس کے بالکل برعکس صورتحال ہے.عہد بیعت میں آپ یہ اقرار کرتے ہیں کہ میں

Page 429

خطبات طاہر جلد ۹ 424 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.تو وہاں نسبتی لحاظ سے وہ نظام جو بظاہر دین ہی کا حصہ ہے عبادت کے مقابل پر دنیا بن جاتا ہے اور یہ دین اور دنیا کا رشتہ اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے.بار یک درباریک ہوتا چلا جاتا ہے.اعلیٰ سے اعلیٰ دینی فرائض میں بھی آپس میں ایک تناسب ہوتا ہے.اوپر کے درجہ کا دینی پھل نچلے درجے پر قربان نہیں کیا جاسکتا.پس نماز با جماعت کے قیام کی طرف سارے منتظمین توجہ رکھیں اور ایک تربیت کا نظام ہے وہ تو اپنی جگہ کام کرے گا لیکن ہر افسر شعبہ کا کام ہے کہ اُس کے ماتحت افسران اور معاونین سب با قاعدہ نماز پڑھتے ہیں اگر ممکن ہو تو اُن کے لئے چھوٹی باجماعت نمازوں کا شعبہ وارا انتظام کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ بعض وقت باجماعت نماز میں شامل نہیں ہو سکتے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی دوران جہاد آدھے مجاہدین شامل نہیں ہو سکتے تھے مگر وہ جو صورت ہے کہ وہ آدھی نماز پڑھیں اور پھر واپس چلے جائیں پھر دوسرے آدھی نماز پڑھیں وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص ہے اُس کو ہم عام نہیں کر سکتے.اس لئے یا آپ نماز پڑھ سکیں گے باجماعت یا نہیں پڑھ سکیں گے دو ہی صورتیں ہیں.وہ جو صورت تھی جو میں نے بیان کی ہے اُس کے اندر ایک اور فلسفہ ہے جسے آپ کو سمجھنا چاہئے.جہاد کے وقت ہر شخص کو اپنی زندگی کے متعلق بے یقینی ہوتی تھی اور سب سے بڑی خواہش صحابہ کی اپنی زندگی کی آخری خواہش یہ ہوا کرتی تھی کہ ہمیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز کی تو فیق مل جائے.پس یہ جو نظام بیان کیا گیا ہے یہ کوئی جلد بازی میں تجویز کیا ہوا نظام نہیں ہے بلکہ ایسا حیرت انگیز حکمت پر مبنی نظام ہے جس کو دنیا دار سمجھ ہی نہیں سکتے.ایک دنیا دار جرنیل کے دماغ میں بھی نہیں آسکتی اس کے خواب میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ جنگ کے دوران کسی کو پیچھے بلا کر آدھوں کو پہلے چرچ میں بلا ؤ پھر دوسروں کو بلاؤ پھر وہ پہلے واپس آئیں پھر دوسرے واپس آئیں.وہ کہے گا یہ کیا چکر ہے یہ تو بالکل بے معنی اور بے حقیقت بات ہے.مگر عظمت کس چیز کی ہے دلوں میں؟ یہ ہے فیصلہ کن بات اور قرآن کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور صحابہ رضوان الہ علیہم کی سچائی کی کتنی بڑی دلیل اس چھوٹے سے حکم میں مضمر ہے.بلا استثناء، بلا شبہ سب سے بڑی عظمت اُس وقت عبادت کو حاصل تھی اور وہ عبادت جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پڑھی

Page 430

خطبات طاہر جلد ۹ 425 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء جائے.ایسے حریص تھے مؤمن اُس عبادت کے لئے کہ خدا تعالیٰ نے محبت کی نظر سے اُن کی تمنا کو دیکھا اور ایک ایسا نظام تجویز کیا جو دنیا کی نظر میں کلمزی (Clumsy) اور نا قابل عمل قرار دیا جائے گالیکن اُن کے دل کی تمنا دیکھیں کہ کتنی شدید تھی اور کیسی کیسی دعا ئیں اُن کے دل سے پھوٹتی ہوں گی خدا یا ہمیں توفیق ملے ہم بھی شہادت سے پہلے تیرے پاک رسول کے پیچھے نماز پڑھ چکے ہوں کہ خدا نے اُن کے دلوں پر نظر ڈالتے ہوئے قرآن کریم میں یہ حکم جاری فرما دیا.وہ بات تو پھر نہیں ہوسکتی لیکن عبادت کی محبت کا سبق تو ہمیں مل گیا ہے.یہ تو پتا چل گیا کہ سب سے زیادہ شدت کی مصروفیت کے وقت بھی عبادت کو جو اہمیت حاصل ہے ویسی کسی اور چیز کو حاصل نہیں.پس اس پہلو سے اس جلسے پر بھی اور دنیا بھر میں جہاں یہ خطبے پہنچیں گے اور وہاں بھی جلسے ہوں گے وہاں کے کارکن بھی اس بات کو پلے باندھ لیں اچھی طرح اور مضبوطی سے پکڑ لیں کہ ہر منتظم کا فرض ہے کہ اپنے ماتحتوں کو عبادت پر قائم کرے ، عبادت کے سلیقے سکھائے اور جلسہ یو.کے کے موقع پر تو آپ کو یہ دو ہرا فائدہ ہوگا کہ ایسے بچوں کو بھی آپ عبادت سکھانے کی توفیق پالیں گے جن میں سے بعض نہیں پڑھتے ہوں گے کیونکہ یہاں کی تربیت میں بہت سے خلا رہ گئے ہیں.چھ سال پہلے میں یہاں آیا تقریباً اُس سے پہلے جو تربیت کی حالت تھی اُس میں بہت سے نقص تھے.جو نسلیں اُس تربیت کے دوران پیدا ہوئی ہیں جب میں یہاں موجود رہا ہوں اُن کے اندر اور پہلی نسلوں میں بڑا فرق ہے اس لئے خلا والی نسلیں بہت سی یہاں ملیں گی جن کے اندر جگہ جگہ تربیتی خلا موجود ہیں.جلسہ سالانہ کے موقع پر منتظمین کو خدا تعالیٰ یہ بہت بڑی سعادت بخشے گا کہ اگر وہ اپنے کارکنوں کو نماز سکھا دیں اور نماز کے ساتھ اُن کے وضو پر بھی نظر رکھیں.چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کا خیال کریں.وضو ٹھیک کرتے بھی ہیں کہ نہیں اور نماز پڑھنے کا طریقہ بھی ٹھیک آتا ہے کہ نہیں.باریک نظر سے دیکھیں تو ان تین، چار ، پانچ بعض دفعہ دس دنوں میں بعض کارکنوں کا عرصہ خدمت دس دن تک پھیلا ہو گا بعضوں کا شائد اس سے بھی زیادہ ہوگا.بہت اچھا موقعہ میسر آ سکتا ہے کہ نئے نو جوانوں کی نئی نسلوں کی تربیت کی جاسکے.تربیت کے معاملے میں میں نے یہ کہا کہ باریک نظر سے تفصیل سے دیکھیں اور یہی بات انتظام کے معاملے پر بھی چسپاں ہوتی ہے.اچھا منتظم وہی ہے جو حکم جاری کرنے کے بعد یا ہدایت دینے کے بعد آخری کنارے تک نظر رکھے اور نیچے اتر کر اس سطح پر جو آخری کام کی سطح ہے

Page 431

خطبات طاہر جلد ۹ 426 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء وہاں دیکھے کہ کس طرح ہدایتیں پہنچی ہیں اور کس طرح وہاں کام ہورہا ہےاور Planning کے وقت بھی بار یک بار یک امکانات کو اور احتمالات کو پیش نظر رکھے.ایسا ہی مربی دین میں کامیاب ہوتا ہے اور ایسا ہی منتظم دنیا میں کامیاب ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ ہر حکم دینے کے بعد دوبارہ سنتے تھے اور سننے کے بعد اگر اُس کو ضرورت پڑتی تھی تو پھر دوبارہ بتاتے تھے اور پھر سنتے تھے.جب تک آپ کی یہ تسلی نہیں ہو جاتی تھی کہ سننے والے نے بات سمجھ لی ہے اُس وقت تک آپ اُس کو رخصت کی اجازت نہیں دیتے تھے.میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے انتظامات میں خرابی کا باعث اس سنت سے غفلت بنتی ہے یعنی جو کارکن اس سنت کو نہیں اپناتے وہ ایک پیغام دے دیتے ہیں اور پھر بے فکر ہوکر غافل ہو جاتے ہیں.جب کوئی نتیجہ نہ نکلے یا غلط نتیجہ نکلے اور ہم پوچھیں وہ کہتے ہیں جی ہم نے تو بتا دیا تھا اس کو.جب اُس کو جس کا بھی جو بھی نام ہو اُس کو بلایا جاتا ہے کہ جی تمہیں بتا دیا تھا پھر تم نے یہ حرکت کی تو وہ کہتا ہے جی مجھے انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا یہ بتایا تھا.اب اس میں جھوٹ سچ کا سوال نہیں ہے.سننے کے انداز مختلف ہیں بتانے کے انداز مختلف ہیں.جب تک ان دونوں کا مزاج ہم آہنگ نہ ہو جائے اور اچھی طرح یہ بات واضح نہ ہو جائے کہ جو کہا گیا تھا وہ سمجھا بھی گیا ہے کہ نہیں اُس وقت تک دونوں میں سے کسی کا قصور بھی قرار نہیں دیا جا سکتا یا یوں کہنا چاہئے کہ دونوں کا قصور ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذمہ داری سنانے والے پر ڈالی ہے.اسی لئے اپنی خدا کے حضور اسی رنگ میں ذمہ داری دیکھتے رہیں اور یہ وہ راز ہے آپ کی عظمت کا جو شخص کسی کی جواب طلبی کرنے والا ہو اگر وہ اپنی جوابدہی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اُس فکر میں ہلکان نہیں رہتا تو وہ حقیقت میں جواب طلبی کی بھی اہلیت نہیں پاتا اور ایسی خرابیاں اُس کے نظام میں لازما ہوں گی جس کے نتیجے میں جو بات اُس کے سپرد کی گئی ہے آگے صحیح رنگ میں پہنچی ہے کہ نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق تھا کہ بار بار بیان فرماتے پھر یہ بھی فرمایا کرتے کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک یہ بات پہنچائے اور پھر خود آخری عمر میں سب سے بڑے مجمع میں مخاطب کر کے جو حجۃ الوداع کا موقعہ تھا اُس وقت آپ نے فرمایا کہ بتاؤ ، گواہی دو کہ خدا نے جو مجھے پیغام دیا تھا میں نے تم تک پہنچا دیا.گواہی دو کہ جو خدا نے مجھے پیغام دیا تھا میں نے تم تک پہنچا دیا اور وہ لاکھوں کا مجمع بتایا جاتا ہے کہ اس سارے مجمع نے بیک

Page 432

خطبات طاہر جلد ۹ 427 خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء زبان ہو کر گواہی دی.آپ کو ان کی گواہی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ آپ اُن پر گواہ تھے لیکن اپنے دل کی ایک خواہش پوری کرنے کے لئے کہ خدا کے سامنے میں جوابدہ ہوں میرے سامنے یہ لاکھوں خدا کے بندے گواہ ٹھہر جائیں کہ ہاں میں نے حق ادا کر دیا ہے.اچھا منتظم خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ہو اُس کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر چلے بغیر چارہ ہی کوئی نہیں.چاہے نہ چاہے اُسے اس سنت پر عمل کرنا ہی ہوگا اور جہاں نہیں کرے گا وہاں نقصان اُٹھائے گا.سنت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ خوبی ہے کہ اس کے اکثر حصے ایسے ہیں جس میں منکرین کے لئے بھی سوائے سنت پر چلے بغیر چارہ نہیں ہے.نہیں چلیں گے تو مارکھا ئیں گے.اس لئے جو غلام ہیں، جو عاشق ہیں، جنہوں نے دنیا کو اس غلامی کے رنگ سکھانے ہیں اُن کے لئے تو بہت ہی ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو بڑی باریک نظر سے دیکھیں اور اپنی جان پر اس کو جاری کریں اور اپنے دل سے چمٹا کے بیٹھ جائیں اور پھر اُس سے استفادہ کر کے نیک نمو نے دنیا میں ظاہر کریں جو سنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کرنے والے نمونے ہوں.پس نظام جماعت کے ہر حصے پر اس بات کا اطلاق پاتا ہے.آپ جب کسی کارکن کو ہدایت دیں جلسے کے موقع پر بھی یہی طریق اختیار کریں، ہدایت کے بعد اُس سے پوچھیں کہ کیا سمجھے ہو بتاؤ؟ پھر وہ جو غلط سمجھا ہوگا اُس کو درست کریں اور اُس کو پھر یہ بھی سکھائیں کہ آگے بھی تم نے اسی طرح اگر کسی اور کو پیغام دینا ہے تو اسی طریق پر دو اور اچھی طرح یقین کر لو کہ بات صحیح رنگ میں پہنچ گئی ہے.آخری بات یہ کہ دُعا پر بہت زور دیں.میں نے بار ہاز ور دیا ہے لیکن دُعا ایک ایسی چیز ہے جس پر پورا زور دیا ہی نہیں جاسکتا.یعنی جتنا بھی دیں اُتنا ہی کم ہے.یہ محاورہ ہے اردو کا مگر عملاً یہ محاورہ اور کسی چیز پر صادق آئے نہ آئے دُعا کے مضمون پر ضرور آتا ہے.انسان جس کو کثرت سے دُعا کی عادت بھی ہو وہ بھی بعض موقع پر غافل ہو جاتا ہے اور جس کو زیادہ دُعا کی عادت ہو اور خدا تعالیٰ اُس کو سبق دینا چاہے اُس کی تھوڑی سی غفلت بھی غلط نتیجہ پیدا کر کے اُس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اور جب اُسے یاد آتا ہے کہ اوہو میں نے تو دُعا کرنی تھی اور دُعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس نتیجے کو درست بھی فرما دیتا ہے.پس ہمارے تمام منتظمین کو دُعا کو اپنانا چاہئے اور دُعا سکھانی چاہئے جس طرح نماز سکھانی

Page 433

خطبات طاہر جلد ۹ 428 خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۹۰ء ہے اُس طرح اپنے نو جوانوں کو دُعا کی اہمیت بتائیں اور اُن سے کہیں کہ اپنی روز مرہ ضرورتوں کے وقت اپنے لئے دعا کیا کریں.ہر کام میں مصروف ہوتے وقت دُعا کیا کریں اُس سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی سہولتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر کام اس طرح چلتے ہیں کہ پتا ہی نہیں لگتا کہ کون چلا رہا ہے.خود رو ہو جاتے ہیں، بہتے چلے جاتے ہیں اور اسی طرح پھر ہم نے دیکھا ہے کہ جلسے کے بعد جلسہ آ کے گزر جاتا ہے شروع میں بڑی مشکل پڑتی ہے، بڑے بوجھ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن جب جلسہ چلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فرشتے وہ بوجھ اٹھا کر اس حد سے گزرچکے ہیں اور پتا ہی نہیں لگا کہ کب وقت آیا اور کب گزر گیا.تو یہ دعاؤں کی برکت ہے جو ہماری نسلوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تربیت یافتہ نسلوں سے سیکھی ہے، ورثہ میں پائی ہے یہ برکت اور یہ سلیقہ سیکھا ہے.اس سے اب اگلی نسلوں میں ہمیں جاری کرنا ہے اور نسلاً بعد نسل اس کی حفاظت کرنی ہے اور دُعا کریں اور دُعا کروائیں اور دُعا کے سلیقے سکھائیں اور اُس کے نیک نمونے قائم کریں اور پھر اس کے پھل کھائیں جو دُعا کے ذریعے مانگ کر چیز ملتی ہے اُس کا مزہ ہی اور ہے.روزمرہ تو خدا کے اتنے احسانات ہیں کہ اُن میں ڈوبے ہوئے آپ کو یہ پتا ہی نہیں رہتا کہ کون کون سے احسانات ہیں.گننا شروع کریں تو ایک دن کے احسانات مہینوں میں بھی نہیں گن سکتے ہیں لیکن دُعا کے وقت ایک ذاتی رابطہ پیدا ہو جاتا ہے احسان پانے کا اور جو اُس کا لطف ہے وہ عمومی احسان سے ایک الگ لطف ہے.روز مرہ روٹی کھا رہے لوگ، روٹیاں تقسیم ہو رہی ہیں مگر کسی کو بلا کر کہا جائے کہ میاں یہ تمہارے لئے روٹی رکھی اُس روٹی کا بالکل اور مزہ ہے.اس لئے دُعا کے ذریعے وہ لذت حاصل کریں اور اپنے رب سے وہ تعلق پیدا کریں جس کے نتیجے میں آپ کو بھی خدا کی طرف سے تھوڑا تھوڑا مائدہ ملنا شروع ہو جائے.کچھ رزق براہ راست آپ کے حصے میں آئے اور اس کی وجہ سے پھر مستقل ہماری آئندہ نسلوں کی حفاظت ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.

Page 434

خطبات طاہر جلد ۹ 429 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء مومن اور منافق میں فرق جلسہ پر جانے والے پاکستانیوں کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنَ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمُ اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ امَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أوليتهم الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّوْرِ إِلَى الظُّلمتِ أُوليك أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ﴾ (البقره: ۲۵۷، ۲۵۸) پھر فرمایا: یہ آیات سورہ بقرہ سے لی گئی ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں.ہدایت کبھی سے کھل کر واضح ہو چکی ہے.پس جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے اُس کا ہاتھ گویا ایک ایسے مضبوط کڑے پر جا پڑا ہے، ایک مضبوط کڑے پر پڑ چکا ہے اور اُسے مضبوطی سے تھام چکا ہے کہ جس کے لئے ٹوٹنا نہیں اور اللہ تعالیٰ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے.اللہ تعالیٰ یقیناً ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے وہ ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور وہ

Page 435

خطبات طاہر جلد ۹ 430 خطبہ جمعہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۹۰ء لوگ جنہوں نے انکار کیا اُن کے دوست شیاطین ہیں جو اُنہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے رہتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں اور اس آگ میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے.جب بھی ہم آجکل منافق کا لفظ سنتے ہیں تو ذہن میں بالعموم ایک اعتقادی منافق ہی آتا ہے اور عام تصور جو منافق کا ذہن میں اُبھرتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص بظاہر ایمان لا رہا ہولیکن در حقیقت ایمان نہ لاتا ہو اور کسی لالچ کی وجہ سے یا کسی شرارت کی نیت سے وہ ایمان لانے والے گروہ میں داخل ہوا ہو اور اپنے مفادات کی خاطر یا مؤمنوں کی جماعت کو نقصان پہنچانے کی خاطر ایمان کے پردے میں چھپا ہوا کافر ہو.یہ منافق کی تعریف بھی درست ہے اور قرآن کریم سے قطعی طور پر ثابت ہے لیکن اس کے علاوہ بھی منافقین کا ذکر ملتا ہے.قرآن کریم میں بھی اور احادیث نبویہ میں بھی جن سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کی ایک اور قسم ہے جو اعمال کے منافق ہوتے ہیں.یعنی عقائد کے لحاظ سے وہ جب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو ایمان لاتے ہیں لیکن ان کی عملی زندگی میں ایسے اعمال جو صالح نہیں ہیں وہ روزمرہ اُن کی زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں اور مؤمن ہوتے ہوئے بھی ان کے اعمال میں کافرانہ اعمال شامل ہو جاتے ہیں.پس یہ دوغلا پن یعنی مؤمن ہوتے ہوئے بھی کافروں جیسے اعمال بجالا نامی بھی ایک نفاق ہے جسے ہم عملی نفاق قرار دے سکتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے چار قسم کے دل بیان فرمائے اور اس حدیث نبوی میں بہت کھول کر ان چار قسموں کو الگ الگ کر کے دکھایا گیا ہے.یعنی وہ لوگ جو کافر ہیں ، وہ لوگ جو منعم ہیں اور وہ لوگ جن کی بیچ کی حالت ہے اور وہ لوگ بھی جو دو قسموں میں منقسم ہیں ایک وہ جن کا میں نے اول طور پر ذکر کیا اور ایک وہ دوسرے جو بین بین کی حالت میں ہیں یعنی ایمان لاتے ہوئے بھی ان کے اعمال مؤمنوں کے سے اعمال نہیں بن سکے.حضرت ابی سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے.انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسانی دل چار قسم کے ہوتے ہیں.ایک مقفی شفاف تلوار کی طرح سونتا ہوا ، خدمت دین کے لئے تیار اور دوسرا وہ دل ہوتا ہے جس پر غلاف چڑھا ہوا ہوتا ہے اور غلاف بھی وہ جو خوب دوہرا ہوا ہو اور تیسرا وہ دل جو اوندھا رکھا ہوا ہو اور چوتھا وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہو یا پتھروں کے نیچے دبا ہوا ہو.وہ جو پہلا دل ہے یعنی صاف ، وہ تو مؤمن کا دل ہے.اُس کا دیا وہ نور ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوا ہے اور وہ دل جو غلاف میں بند ہے کافر کا دل ہے کہ

Page 436

خطبات طاہر جلد ۹ 431 خطبہ جمعہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۹۰ء صداقت اس کے اندر نہیں جاتی اور کفر باہر نہیں نکلتا اور اوندھا رکھا ہوا دل منافق کا دل ہے جو پہلے صداقت کو مان لیتا ہے پھر اس کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہے یا پتھروں میں دہا ہوا ہے وہ اس شخص کا دل ہے جس میں ایمان اور نفاق دونوں پائے جاتے ہیں.اس کے ایمان کی حالت تو اچھی سبزی کے مشابہہ ہے جسے پانی مل رہا ہو اور اس کے نفاق کی حالت ایک زخم کی سی ہے جس سے پیپ اور خون بہہ رہے ہوں اور پھر ان دونوں سے جو حالت غالب آ جائے وہ اسی گروہ میں شامل ہو جاتا ہے.(مسند احمد کتاب باقی مسند المکثرین حدیث نمبر : ۱۰۷۰۵) پس آج میں اس قسم کے منافقین کا ذکر کر کے جماعت کو اپنے اعمال کے متعلق نگران اور خبر دار رہنے کی تلقین کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کا فر تو بالکل الگ ہیں اور مؤمن بالکل الگ ہیں اور بیچ کی حالت میں دو قسم کے منافقین ہیں ایک وہ جو عقیدے کے لحاظ سے کافر ہوں اور عملاً مؤمنوں کے لبادے میں مؤمنوں کی جماعت میں خفیہ طور پر داخل ہو چکے ہوں یا پہلے ایمان لائے ہوں اور پھر منکر ہو چکے ہوں اور بعض مشکلات کی وجہ سے بعض مصالح کی وجہ سے وہ کھلم کھلا انکار کر کے کفر کی طرف واپس لوٹ نہ سکتے ہوں اور آخری قسم وہی ہے جن کے اعمال ابھی تک درست نہیں ہو سکے.ایمان بھی ہے اور اس کے ساتھ بد اعمالیاں بھی ہیں اور مل جل کر یہ دونوں بیک وقت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں.یہ حالت خطرے سے خالی نہیں ہے اور جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے نتیجہ نکالا کہ اس دوران کسی ایک حالت کو فتح ہوگی اور مرنے سے پہلے ایسا شخص یا ایک طرف کو لڑھک جائے گا یا دوسری طرف کو الٹ کر واضح طور پر یا اس کا انجام کفار پر ہوگا یا مؤمنین پر اور بین بین کی حالت ہمیشہ باقی نہیں رہتی.پس وہ مؤمن جن کے اعمال میں کمزوری ہو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال کی مسلسل اصلاح کرتے رہیں اور قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ اصلاح انسان کے اپنے بس کی بات نہیں جب تک ولایت نصیب نہ ہو اُس وقت تک یہ اصلاح ممکن نہیں ہے.چنانچہ ولایت کی جستجو ضروری ہے.ولایت کے متعلق بھی یہ خیال ہے کہ وہ شخص جو بہت پہنچا ہؤا بزرگ ہوا سے ہی خدا تعالیٰ کی ولایت نصیب ہوتی ہے یہ درست نہیں ہے.اُس کو بھی ولی کہتے ہیں لیکن ہر ایمان لانے والے کو جو بچے دل سے ایمان لاتا ہے ایک طرح سے خدا تعالیٰ کی ولایت نصیب ہو جاتی ہے

Page 437

خطبات طاہر جلد ۹ 432 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء اور اسی کے متعلق یہ آیت قرآنی ہے جس کی میں نے تلاوت کی.اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الULKتِ إِلَى النُّورِ وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں وہ تو اندھیروں سے نکل آئے.پھر ان کے متعلق یہ کہنا کیا معنے رکھتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لے آئے اللہ اُن کا دوست بن جاتا ہے اور ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا رہتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے کے ساتھ ہی اعمال کی پوری اصلاح نہیں ہوا کرتی بلکہ خلوص دل سے ایمان لانے والوں کو صرف یہ امتیاز اور یہ سعادت نصیب ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی مدد فرماتا رہتا ہے اور ان کو رفتہ رفتہ کفر کے حالات سے نکال کر ایمان کے حالات ان کو عطا کرتا رہتا ہے.یعنی عملی زندگی میں بھی ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف منتقل فرماتا رہتا ہے اور اعتقادی لحاظ سے بھی ان کو پہلے کی نسبت زیادہ بصیرت اور زیادہ واضح یقین کی حالت عطا فرماتا ہے اور علم الیقین کو حق الیقین میں بدلتا رہتا ہے.یہ وہ کیفیت ہے جس کو سمجھنے کے بعد ہر مؤمن کو اپنی فکر کرنی چاہئے اور اپنے اعمال کا اس طرح امتحان لینا چاہئے کہ کیا میں وہ ایمان لایا ہوں جس کے نتیجے میں خدا میرا ولی بن چکا ہو اور کیا دن بدن میرا رُخ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ہے یا نہیں ہے.چنانچہ جب مؤمنوں کی جماعت پر ہم اس طرح سے نظر ڈالتے ہیں تو اگر چہ بد اعمالیاں کسی نہ کسی رنگ میں ہر اس سالک کی زندگی میں پائی جاتی ہیں جو نیکی کی طرف یا خدا کی طرف حرکت کر رہا ہے اور بد اعمالیاں ان منافقین میں بھی پائی جاتی ہیں جن کے اندر کچھ اخلاص کی کمی کی وجہ سے یا اور ایسی بدیوں کی وجہ سے ان کے ایمان زخم خوردہ ہوچکے ہوتے ہیں اور اگر چہ مؤمن رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود بدیوں کی طرف ان کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے.پس مؤمنوں کی سوسائٹی میں اس قسم کی حالت کے انسان آپ کو ہر جگہ دکھائی دیں گے لیکن ان دونوں حالتوں پر نفاق کا لفظ اطلاق نہیں پاتا.یہ مضمون میں آپ پر اچھی طرح کھولنا چاہتا ہوں.کچھ ایسے مؤمن بھی ملیں گے جن کے اعمال کمزور ہیں لیکن ان کو خدا کی ولایت نصیب ہوتی ہے.کچھ ایسے مؤمن بھی نظر آئیں گے یا مؤمنوں کی سوسائٹی میں ایسے لوگ بھی دکھائی دیں گے جن کے اعمال کمزور ہیں لیکن انہیں اللہ کی ولایت نصیب نہیں ہے.ان دونوں کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے اور فرق یہ ہے کہ وہ مؤمن جو کمزور اعمال ہیں مگر ولایت نصیب ہے وہ دن بدن سدھرتے چلے جاتے

Page 438

خطبات طاہر جلد ۹ 433 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء ہیں اور مؤمنوں کی جماعت میں وہ لوگ جن کے اعمال کمزور ہیں لیکن ولا بیت نصیب نہیں ہے وہ دن بدن پہلے سے زیادہ گندی اور ابتر حالت کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں.چنانچہ اس نکتہ کا عرفان حاصل کر کے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے صحابہ نے اپنی گہری چھان بین کی اور ہر ایک ان میں سے خوفزدہ رہنے لگا کہ ہمارے نفاق کی کیا حالت ہے.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت حنظلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں تو منافق ہو گیا ہوں اور اپنے متعلق سخت خوف کا اظہار کیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیوں تمہیں خوف ہے کہ تم منافق ہو.انہوں نے عرض کیا کہ میں جب حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کے پاس ہوتا ہوں تو میرے دل کی اور کیفیت ہوتی ہے اور جب میں ان سے الگ ہوتا ہوں تو میرے دل کی کیفیت اور ہو جاتی ہے اور میں کمزوریوں میں مبتلا ہو جاتا ہوں.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میرا بھی یہی حال ہے (مسلم کتاب التو به حدیث نمبر : ۴۹۳۷).اب دیکھیں کہ صدیقیت سے بالا مقام نبوت سے نیچے اور کوئی نہیں.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ جواب دینا دراصل نفاق نہیں بلکہ صدیقیت کی نشانی ہے.آپ اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہر مؤمن میں دو قسم کی حالتیں جاری و ساری رہتی ہیں اور دونوں کے درمیان ایک مستقل جد و جہد اور لڑائی رہتی ہے.کبھی روشنی نمایاں ہو جاتی ہے کبھی اس روشنی پر سائے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ شخص منافق ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مدد اور خدا تعالیٰ کی ولایت کے ساتھ ایسا شخص جب ان باتوں کا عرفان پالیتا ہے تو مسلسل اس کی حرکت اندھیروں سے روشنی کی طرف ہوتی چلی جاتی ہے اور یہاں اندھیروں سے مراد کفر نہیں ہے بلکہ ایمان لانے والوں پر ہے کفر کے معنی میں اندھیرے کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ امَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ پس مؤمن تو کفر کے اندھیروں میں نہیں ہوتے.مراد یہ ہے کہ خدا کا نور چونکہ لا متناہی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف حرکت دراصل اندھیروں سے نور کی طرف حرکت کا نام ہے اور ہر اگلے قدم پر نور، نور کو ایک نئی جلا نصیب ہوتی ہے اور اس کے مقابل پر پچھلی حالت اندھیرے دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ لوگ جو خدا کی طرف حرکت کرتے ہیں اور ہزار ہا بلکہ لاکھوں خدا کرے کہ احمدیوں میں ایسے ہوں وہ جانتے ہیں کہ

Page 439

خطبات طاہر جلد ۹ 434 خطبہ جمعہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۹۰ء یہ مضمون ہر انسان کی ذات پر صادق آتا ہے.جوں جوں وہ ایمان اور تقویٰ میں ترقی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت سے اپنی حالت سدھارتا چلا جاتا ہے جب وہ چھیلی حالت کی طرف دیکھتا ہے تو یہ محسوس کرتا ہے کہ گویا اسے اندھیروں سے روشنی نصیب ہوئی ہے.اندھیری رات میں سایہ دار جگہ سے اگر آپ چاندنی کی طرف باہر نکل آئیں تو آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ آپ کو ہر قسم کی روشنی میسر آگئی اور اس سے بڑھ کر اور روشنی کیا ہوگی مگر یہ چاندنی رات جب صبح کی طرف منتقل ہوتی ہے اور پو پھوٹتی ہے تو انسان سمجھتا ہے کہ اس چاندنی کی تو کوئی حیثیت نہیں تھی اب روشنی نصیب ہوئی ہے اور جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ابتداء میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا روشنی ہوگی لیکن جب نصف النہار تک پہنچتا ہے تو روشنی کی کیفیت اور ہو جایا کرتی ہے.سورج کا نور تو محدود ہے اس کے باوجود نسبتی لحاظ سے اندھیروں سے روشنی کی طرف آنے کا ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں.خدا کا نور تو لا محدود ہے اس لئے وہاں اندھیروں سے روشنی کا سفر ایک جاری وساری سفر ہے اور ہر ایمان لانے والے کو اس معاملے میں خدا تعالیٰ سے ملتی رہنا چاہئے.بمنت دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اے خدا! ہم ایمان لے آئے ہیں پس اب ہمیں اپنے وعدے کے مطابق اندھیروں سے روشنی میں منتقل فرما اور وہی وہ تلقین ہے جو دوسرے لفظوں میں لیکن اسی مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے خدا تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں فرمائی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعا سکھاتا ہے ہمیں) رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا تُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا (ال عمران : ۱۹۴) اے ہمارے رب ! ہم نے ایک پکارنے والے کی پکار کو سُنا ، ایک صدا دینے والے کی صدا کو سنا اور وہ یہ اعلان کر رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ.فَامَنَّا پس ہم ایمان لے آئے لیکن یہاں ہمارا سفر ختم نہیں ہوتا.رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا پس اے ہمارے رب! اب ہمارے گزشتہ گناہوں کو بخش دے.وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا اور ہماری برائیاں دور کرنی شروع کر دے.پس ایمان لاتے ہی برائیاں دور نہیں ہوا کرتیں بلکہ ایمان لانے کے بعد انسان کو یہ سعادت نصیب ہو جاتی ہے کہ خدا کی مدد سے اُس کی برائیاں دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اگر وہ خدا سے مدد مانگتا رہے اور باشعور طور پر خود اپنے نفس کی نگرانی کرے.چنانچہ فرمایا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ اور مؤمن کا یہ سفر

Page 440

خطبات طاہر جلد ۹ 435 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء موت تک جاری رہتا ہے.فرمایا ہمیں اس حالت میں وفات دینا کہ تیرے نزدیک ہم ابرار میں شامل ہو چکے ہوں.پس ہر مؤمن کا اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر موت تک جاری رہتا ہے.اس کے بعد یہ دعا سکھائی.رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (ال عمران : ۱۹۵) کہ اے ہمارے رب! ہم تجھ سے اب یہ التجاء کرتے ہیں کہ ہمارے حق میں وہ سارے وعدے پورے فرما دے جو تو نے گزشتہ رسولوں کو ہمارے متعلق عطا فرمائے تھے اور قیامت کے دن ہمیں رسوا اور ذلیل نہ کرنا اور ہم جانتے ہیں کہ تو سچے وعدوں والا ہے اور کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا.ان دونوں مضامین کا آپس میں گہرا تعلق ہے.ان کے فتح سے پہلے یعنی بیرونی فتح سے پہلے نفس پر فتح حاصل کرنا بہت ضروری ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے ان دعاؤں کو اس ترتیب میں رکھا.پہلے نفس پر فتح کی دعا سکھائی.ہم ایمان لے آئے ، ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں گزشتہ گناہوں سے بخشش فرما اور آئندہ مسلسل ہماری اصلاح فرما تارہ اور ہماری بدیاں دور کرتارہ یہاں تک کہ ہم تیری نظر میں ابرار میں شامل ہو چکے ہوں اور اس حالت میں ہمیں موت دینا.جب یہ دعا مکمل طور پر مؤمن کے حق میں سنی جاتی ہے، جب وہ اپنے نفس پر کامل طور پر فتح یاب ہو جاتا ہے پھر وہ حق رکھتا ہے کہ خدا سے ان وعدوں کے پورا کرنے کی دعا کرے جو مؤمنوں کی فتح کے وعدے گزشتہ انبیاء کو عطا کئے گئے تھے اور بغیر پہلی دعا کی قبولیت کے دوسری دعا کی قبولیت ممکن نہیں ہے اور اگر پہلی دعا کی قبولیت کے بغیر دوسری دعا قبول ہو جائے تو دنیا کے لئے بھلائی کا موجب نہیں بلکہ سخت نقصان کا موجب ہوگی کیونکہ وہ لوگ جو ایمان کے باوجود اپنی بدیاں ترک نہیں کر سکتے وہ اگر دنیا کے سردار بنا دئیے جائیں تو تمام دنیا کے لئے اس میں خوشخبری نہیں بلکہ ہلاکت کا پیغام ہے.پس دیکھئے قرآن کریم نے کس فصاحت و بلاغت کے ساتھ اور کس گہری حکمت کے ساتھ ایسی دعائیں سکھائیں جن دعاؤں میں وہ مضمون نہایت ربط کے ساتھ اور اپنے مرتبہ اور مقام کے مطابق آگے بڑھتا ہے اور ہمیں یہ سب دے دیا گیا کہ اگر تم نے اپنے اعمال کی اصلاح نہ کی تو خدا سے ان وعدوں کی طلب نہ کرنا جو وعدے تمہارے حق میں پہلے انبیاء کو دیئے گئے ہیں.پھر یہ دعا سکھائی کہ اے خدا! قیامت کے دن ہمیں ذلیل اور رسوا نہ کرنا.ایمان والوں کو ذلیل اور رسوا کرنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟ وہ پہلی آیت نے حل کر دیا.اگر ایمان کے بعد اخلاقی اور عملی حالت میں کوئی

Page 441

خطبات طاہر جلد ۹ 436 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء اصلاح پیدا نہ ہو تو پھر ایسے لوگوں کے حق میں دوسرے وعدے بھی پورے نہیں ہوتے اور ایسے لوگ قیامت کے دن رسوا اور ذلیل کئے جائیں گے لیکن خدا کے وعدے جھوٹے نہیں ہوں گے.یہاں ایک اور مضمون بھی کھول دیا گیا کہ خدا تعالیٰ نے جو فتح کے وعدے عطا فرمائے ہیں وہ سب مشروط وعدے ہیں.یہ وہ جماعت ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ کی جماعت جس کے حق میں قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں ازل سے انبیاء کو بہت بڑی بڑی خوشخبریاں عطا کی گئی تھیں اور یکے بعد دیگرے تمام انبیاء ان آنے والے دنوں کی خوشخبریاں دیا کرتے تھے جبکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی علی کل دنیا اور نبیوں کے سردار کے طور پر ظاہر ہوئے تھے اور آپ نے متقیوں کی ایک جماعت پیدا کرنی تھی.اتنے قطعی وعدوں کے باجود خدا تعالیٰ نے یہ بات خوب کھول دی کہ یہ وعدے انہیں لوگوں کے حق میں پورے ہوں گے جو پہلے ایمان کے بعد اپنے اعمال میں نیک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کریں کیونکہ یہ وعدے ہمیشہ مشروط ہوا کرتے ہیں اور کوئی قوم یا کسی قوم کے بعض افراد ایسا نہ کر سکے ہوں تو قیامت کے دن ذلت اور رسوائی سے بچ نہیں سکیں گے اور خدا پر یہ شکوہ کرنے کا اُن کو کوئی حق نہیں ہوگا کہ تو نے انبیاء کی زبان سے ہمیں یہ خوشخبریاں عطا کی تھیں اس سے زیادہ پختہ وعدے اور کیا ہو سکتے ہیں؟ لیکن پھر کیوں ہم ان وعدوں کے پورا ہونے سے محروم رکھے گئے یہ شکوہ ایسا لوگوں کو کرنے کا کوئی حق نہیں جو ایمان کے بعد اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.پس جماعت احمدیہ کو کیونکہ اب دنیا میں عظیم غلبے عطا ہونے والے ہیں اور جماعت احمدیہ کے حق میں گزشتہ انبیاء کے وعدے پورے ہونے کے دن قریب آ رہے ہیں کیونکہ جماعت احمد یہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ ہی کی جماعت ہے اور وہ وعدے جو آپ کے اولین سے کئے گئے تھے وہ وعدے آپ کے آخرین کے حق میں بھی لازماً پورے ہونے ہیں.اس پہلو سے لا زم ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی طرف پہلے سے بڑھ کر متوجہ ہوں.اس مضمون کا خیال کل مجھے ملاقاتوں کے دوران آیا اور جب میں نے کھل کر پاکستان سے آنے والے مہمانوں کا جائزہ لیا تو اُس وقت مجھے اس طرف توجہ ہوئی کہ اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اس اہم جمعہ کے موقع پر جبکہ تمام دنیا سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسلام کے شیدائی یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ان کو یہ بات سمجھا دوں کہ محض احمدی ہونا کافی نہیں ہے، محض ایمان لانا کافی نہیں

Page 442

خطبات طاہر جلد ۹ 437 خطبہ جمعہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۹۰ء ہے.ایمان اگر سچا ہے تو خدا آپ کا ضرور ولی بنے گا اور اگر خداولی بن جائے تو آپ کی ہر آنے والی حالت پہلی حالت سے بہتر ہونی شروع ہو جانی چاہئے.اگر آنے والی حالت آپ کی بہتر نہ ہو اور اعلیٰ حالت سے ادنی کی طرف حرکت کر رہے ہیں تو یا درکھیں کہ منافقت کی یہ کیفیت قابل مواخذہ ہے اور یہ اس قسم کے منافق وہ لوگ ہیں جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ بالآخر ان کا بدانجام ہوگا اور وہ کا فرانہ حالتوں کی طرف لوٹ جائیں گے.اس ضمن میں مجھے ایک اور بھی فکر پیدا ہوئی.پاکستان سے جو اس سال مخلصین تشریف لائے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بھاری اکثریت محض اللہ اس سفر کی صعوبت اور سفر کے ایسے اخراجات برداشت کر کے آئی ہے جن کے وہ بظاہر متحمل نہیں تھے اور محض اللہ اس جلسے میں شرکت کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں تا کہ وہ اپنی دیر کی دیرینہ، کئی سال کی پیاس بجھا سکیں لیکن اُن کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی آگئے ہیں جو اعمال کے لحاظ سے اپنے مقام پر بھی اپنے اپنے دیہات میں بھی کمزور تھے اور عدم تربیت یافتہ تھے.بعض ایسے اضلاع ہیں یعنی پاکستان سے یعنی پنجاب سے خصوصیت کے ساتھ بعض ایسے اضلاع ہیں جہاں تربیت کی کمی محسوس ہوتی ہے اور وہ دیہات جہاں ظاہری طور پر بھی جہالت ہے یعنی علم کی کمی ہے وہاں تربیت کی کمی اور علم کی کمی نے مل کر وہ کیفیت پیدا کر دی ہے جیسا کہ کہتے ہیں کریلا اور نیم چڑھا.کریلا ہوتا تو کڑواہی ہے لیکن اگر نیم کے درخت پر جو خود بہت کڑوا ہے کریلے کی بیل چڑھا دی جائے تو اُس کریلے کی تلخی عام کریلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے.پس ایسے بعض احمدیوں کا یہاں آنا خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین ہوں جن کی تربیت میں کمزوریاں رہ گئی ہیں.باہر سے دوسرے آنے والوں کے لئے بہت خطرات پیدا کر سکتا ہے.یہاں آنے والے مختلف قسم کے لوگ ہیں.کچھ ایسے احباب ہیں جو یورپ سے تعلق رکھتے ہیں، کچھ امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں، کچھ افریقہ سے، کچھ مشرق بعید سے، مختلف ممالک سے ہجوم در ہجوم یا اکا دُکا جیسی جیسی کیفیت ہو لوگ یہاں اللہ کی محبت میں چلے آئے ہیں.وہ اپنے بھائیوں سے کچھ تو قعات لے کر بھی آئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اجتماع محض اللہ ہے اور محض دین کی خاطر منعقد کیا جارہا ہے اور وہ چونکہ یقین رکھتے ہیں کہ سب دور دور سے آنے والے تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے اس لئے اگر وہ ہم میں سے بعض ایسی کمزوریاں دیکھیں جو مؤمنوں کو زیب نہیں دیتیں تو وہ یقیناً ایسے لوگوں میں سے کم فہم

Page 443

خطبات طاہر جلد ۹ 438 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن سکتا ہے.کم فہم کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ مومن سے لوگوں کو کوئی ٹھوکر نہیں لگتی.وہ مومن جو صاحب فراست ہے، وہ مومن جو حقیقت میں کامل روشنی اور کامل نور کے ساتھ خدا پر ایمان لاتا ہے اُس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا انفِصَامَ لَهَا (البقرہ:۲۵۷) اس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ کڑا جب اُس پر اُس نے ہاتھ ڈالا یعنی ایمان کا کڑا اور تعلق باللہ کا کڑا نہ وہ کڑا ٹوٹ سکتا ہے اور نہ اس کا ہاتھ چھوٹ سکتا ہے.پس ایسے اعلیٰ صاحب عرفان لوگ جو نسبتاً کم ہوتے ہیں ان کے لئے تو کسی ٹھوکر کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا مگر بہت سے لوگ ان کے مقابل پر ادنیٰ حالتوں پر ہوتے ہیں اور ابھی ان کا بدیوں سے نیکیوں کی طرف سفر اور اندھیروں سے نور کی طرف سفر اتنا آگے نہیں بڑھا ہوتا کہ وہ مقام محفوظ تک پہنچ چکے ہوں.ایسے لوگ بعض اوقات ٹھو کر کھا جاتے ہیں.پس وہ لوگ جو اپنی کمزوریاں لے کر باہر نکلتے ہیں اور نو مؤمنین سے اُن کو واسطے پڑتے ہیں بعض دفعہ ان کے لئے بہت بڑے ابتلاء کا موجب بن جاتے ہیں اور یہ ابتلاء کئی قسم کے پیش آتے ہیں.مثلاً ایک اذان دی جاری ہے، نماز کا وقت قریب آ رہا ہے ، دور دور سے مختلف رنگوں اور نسلوں اور قوموں اور زبانیں بولنے والے لوگ نماز کے لئے کوشاں ہورہے ہیں، کوئی وضو کے لئے لپک رہا ہے کوئی ویسے فارغ ہو کر مسجد کی طرف دوڑا چلا جارہا ہے اور دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ جو پاکستان سے آئے ہوئے ہیں وہ اپنی گپوں میں مصروف ہیں ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ خدا کے نام پر ان کو مسجد کی طرف بلایا جارہا ہے.اب وہ سرسری سی نظر بھی ان کی حالت پر ڈالیں تو وہ سرسری نظر دل پہ گہرا اثر ڈال جاتی ہے اور بعض دلوں پر زخم لگا جاتی ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں ہم تو ان کی فکروں میں گھلتے رہے، ہم تو ان کے لئے دنیا میں شور مچاتے رہے کہ ہمارے مومن بھائیوں کا خیال کرو جو خدا کی خاطر خدا کے نام پر اس طرح تکلیف دیئے جارہے ہیں اور ان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ عبادت سے ہی غافل ہیں.یہ واقعات عملاً ہوتے ہیں.چنانچہ گزشتہ سال کی بات ہے ایک یورپین مخلص احمدی نے مجھے اسی طرح کا خط لکھا.اُس میں لکھا کہ میں تو تہجد کے لئے بھی اُٹھتا تھا اور اپنے بھائیوں کو جگاتا بھی تھا لیکن میرے دل پر بڑا زخم لگ گیا ہے کہ بہت سے پاکستانی جو اسی بیرک میں قیام پذیر تھے جس بیرک میں میں ٹھہرا ہوا تھا وہ

Page 444

خطبات طاہر جلد ۹ 439 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء میرے اُٹھانے پر اٹھنا تو در کنار بُرا مناتے تھے اور نا پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے.پس یورپ کا ایک نیا مخلص احمدی جس نے عیسائیت کو ترک کیا اور اسلام کو قبول کیا اس کا تو یہ نمونہ تھا اور اس کے مقابل پر جن لوگوں کے متعلق وہ سمجھتا تھا کہ وہ ایمان میں ہم سے بہت آگے ہوں گے ان کا یہ نمونہ تھا.چنانچہ اس نے اپنے فکر کا اظہار کیا.مجھے یاد آ گیا یہ براہ راست ( مجھے خط نہیں لکھا بلکہ مربی سے انہوں نے ان باتوں کا اظہار کیا اور انہوں نے پھر مجھے یہ ساری تفصیل لکھی.) بہر حال بات وہی ہے عملاً واقعہ ایسے ہی ہوا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ مخلص اور نیک ہیں اس لئے ان کے لئے خصوصیت سے دعا بھی کی اور ان کو سمجھانے کا خط بھی لکھا چنانچہ اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ اس ابتلاء سے وہ ثابت قدم باہر نکل آئے اور کسی قسم کے لغزش نہیں کھائی لیکن اول تو ہر شخص ایک مقام پر نہیں ہوتا اور دوسرے ہر شخص کی بات مجھ تک پہنچتی بھی نہیں اور ہر شخص اپنے وساوس کا اظہار دوسرے سے کرتا بھی نہیں.اس لئے بعض خاموش تماشائی ایسے بھی ہوتے ہیں جو اثرات لے کر واپس لوٹ جاتے ہیں اور کسی دوسرے کو صفائی کا موقع نہیں دیتے.ایسے لوگوں کے متعلق ہم کیسے فکر کر سکیں گے.اس لئے پاکستان سے آنے والے احمدیوں کو خصوصیت کے ساتھ میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفاق کی حالت پر نگاہ کریں.اگر تو آپ کے نفاق کی حالت یہی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا وہ اُن کو اندھیروں سے لازماً روشنی کی طرف بلائے گا تو پھر مجھے آپ کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے.لیکن اگر خدا کی ولایت سے خالی ہیں ،اگر آپ کی بدیاں بچپن سے آپ میں راسخ ہو چکی ہیں اور وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہیں اور کم نہیں ہو رہی ہیں یا بدیوں کا احساس نہیں رہا، وہ شعور نہیں رہا جو شعور انسان کو اپنے اندرونے سے آگاہ کرتا رہتا ہے تو پھر آپ کی حالت سخت خطرے کی حالت ہے اور یہ حالت تو وہاں بھی خطرے کی تھی اور یہاں بھی خطرے کی ہے لیکن خدا کے لئے اس حالت کو دوسروں کے لئے تو خطرے کا موجب نہ بنائیں.خدا کا خوف کریں اور اپنے اعمال کی اس طرح نگرانی کریں کہ اگر کچھ کمزوریاں ہیں تو کم سے کم آپ کی ذات تک رہیں جب تک خدا آپ کو ان سے نجات نہیں بخشا.دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنیں.جہاں تک اس قسم کے نفاق کا تعلق ہے یہ نفاق بُرا نفاق نہیں بلکہ اچھا نفاق ہے.ایک انسان بعض دفعہ نفاق کا اظہار کرتا ہے اپنے متعلق غلط تاثرات پیدا کرنے کے لئے کہ لوگ اس کو متقی

Page 445

خطبات طاہر جلد ۹ 440 خطبہ جمعہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۹۰ء سمجھیں، نیک سمجھیں ، اس کی عزت کریں اور اس طرح اس کو سوسائٹی سے کچھ فوائد پہنچ جائیں.یہ نفاق لا ز مابر انفاق ہے لیکن ایک انسان کوشش کر کے محض اس لئے اپنے پر دے ڈھانپتا ہے کہ لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب نہ ہو اور جو نسبتاً بہتر ایمان والے لوگ ہیں ان کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنے تو یقیناً یہ نفاق بر اتفاق نہیں ہے کیونکہ یہ خدا کی خاطر ہے اور اچھی نیت کے ساتھ کیا جا رہا ہے.تم ان باتوں پر غور کرتے ہوئے آپ یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ اس قسم کے نفاق مؤمنوں کی سوسائٹی میں تو ملتے ہیں کفار کی سوسائٹی میں نہیں ملتے.کفار کی سوسائٹی تو کھلی کھلی ہوتی ہے اُن کی بدیاں با ہر نکل آتی ہیں اور ساری دنیا کو دکھائی دے رہی ہوتی ہیں اور بعض معصوم یہ سمجھتے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ بچے ہیں اور کم سے کم منافق تو نہیں جو کچھ ہے وہ سب کچھ انہوں نے ظاہر کر دیا لیکن یہ بات نہیں سوچتے کہ ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ شیطانوں کے دوست بن چکے ہوتے ہیں اور مسلسل شیطان ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتا چلا جاتا ہے.ایسے لوگ بظاہر نفاق کی بدی سے تو پاک ہوتے ہیں لیکن اس بدی سے پاک ہونے کا نام کفر ہے.یعنی اپنی بدیوں پر دلیر ہو چکے ہوتے ہیں.اپنی بدیوں سے حیامٹ چکی ہوتی ہے، کسی قسم کی شرم باقی نہیں رہتی.اس لئے نفاق کی ضرورت نہیں رہتی اور اس وجہ سے کہ شرم بدیوں کی حیا نہیں رہی لازما یہ سوسائٹیاں بد سے بدتر حال کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہیں.پس وہ تمام سوسائٹیاں جن میں یہ نشانی آپ کو دکھائی دے کہ وہاں بدی کی حیا مٹ گئی ہے اور حیا مٹ جانے کی وجہ سے دن بدن مزید بدی وہ سوسائٹی اختیار کرتی چلی جاتی ہے ایسی سوسائٹی کا قدم ہمیشہ اعلیٰ حالتوں سے ادنیٰ حالتوں کی طرف جاری رہتا ہے اور کوئی اُن کو روکنے والا نہیں ہوتا لیکن مؤمنوں کی حالت میں جو نفاق پایا جاتا ہے وہ اور وجہ سے ہے.وہاں ایک بڑا طبقہ مومنوں کا بدیوں کے باوجود بدیوں کی حیا رکھتا ہے اور اپنے دل میں گھلتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے اور خدا سے بھی شرماتا ہے اور بندوں سے بھی شرماتا ہے.اس مضمون کو قرآن کریم نے حضرت آدم کے واقعہ کی شکل میں ہمیں کھول کر دکھایا.فرمایا جب آدم سے غلطی ہوئی اور اُسے اپنی غلطی کا شعور ہوا تو وہ بھولا انسان خدا سے چھپنے لگا اور جنت کے پتے اپنی کمزوریوں پر ڈھانپنے لگا تا کہ وہ خدا کی نظر سے پیچھے ہٹ جائے.خدا کی نظر سے تو کوئی ہٹ نہیں سکتا ، خدا کی نظر سے تو کوئی چھپ نہیں سکتا لیکن یہ آدم کی حیا تھی جو ظاہر کی گئی ہے اور یہی حیا تھی جو اُس کی بخشش کا

Page 446

خطبات طاہر جلد ۹ 441 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۹۰ء موجب بنی.پس یہ ریاء نہیں ہے یہ حیاء ہے اور حیا اور ریاء میں یہی فرق ہے.حیاء تو اُس سے بھی چھپنے پر آمادہ کرتی ہے جس سے کوئی چھپ نہیں سکتا لیکن دونوں کیفیت کا نام ہے.پس مؤمن کی سوسائٹی اگر بعض بدیاں بھی رکھتی ہے تو حیاء کے ذریعے وہ پتوں سے اپناتن اپنی کمزوریاں ڈھانپنے کی کوشش کرتی رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں نقصان نہیں بلکہ فائدہ پہنچتا ہے.دیکھنے والوں کے لئے ٹھو کر نہیں ہوتی اور اپنے لئے وہ حیا اکسیر کا کام کرتی چلی جاتی ہے اور دن بدن انسان اپنی بدیوں سے خود شر ما تا رہتا ہے.پس وہ لوگ جو سلوک کی راہوں پر چلنے کے واقف ہیں وہ جانتے ہیں بسا اوقات جب ان سے بدیاں نہیں چھٹتیں تو کیسے کیسے اپنے نفس سے شرمندہ رہتے ہیں.حیاء اور ریاء میں یہی فرق ہے.ریا کار کی بدیاں اگر دوسرے کو معلوم نہ ہوں تو اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور اُس کو کوئی شرم نہیں آتی.اُس کو صرف اُس وقت شرم آتی ہے جب اس کی بدیاں پکڑی جائیں اور غیر ان کو دیکھ لیں.وہ مؤمن جو ریا نہیں کرتا بلکہ حیاء کرتا ہے اس کو تو کوئی بھی دیکھ نہیں رہا ہوتا تب بھی وہ شرما رہا ہوتا ہے.اپنی ذات سے شرما رہا ہوتا ہے اپنے خدا سے شرما رہا ہوتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ میں اپنے آپ کو کسی طرح چھپا لوں.اسی طرح استغفار ہے کیونکہ استغفار کا مطلب ہے اپنے آپ کو ڈھانپنا جیسے بعض دفعہ کیڑے جو روشنی برداشت نہیں کر سکتے وہ زمین کو کریدتے ہوئے زمین میں چھپ جاتے ہیں اپنے اوپر مٹی ڈال لیتے ہیں.پس ایسے وہ مؤمن جو خدا کے نور سے اس لئے شرماتے ہیں کہ وہ بد ہیں اور ان کے اندر کمزوریاں ہیں وہ اپنے اوپر استغفار کے پر دے ڈالتے ہیں اور وہی استغفار ہے جو قبولیت کی اہلیت رکھتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کو سچی تو بہ نصیب ہوتی ہے.پس ہمیں ان معنوں میں اپنی بدیوں کو ڈھانپنا چاہئے کہ ہمارا ڈھانپنے کا مقصد ریا کاری نہ ہو بلکہ حیاء ہو اور اس حیاء کے نتیجے میں کچی استغفار پیدا ہو اور استغفار کے نتیجے میں ہم مسلسل کوشش بھی کریں اور دعائیں بھی کریں.پس وہ لوگ جو خصوصیت کے ساتھ اس جلسے میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں اپنے اپنے ملک میں ان کی جو بھی حالت تھی یہاں وہ نسبتنا زیادہ احتیاط کریں کہ یہاں حیا میں کمی دوسروں کے لئے اُن کے ایمان کی ٹھوکر کا موجب بھی بن سکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ مؤمن سے جو اعلیٰ تقاضے قرآن کریم ہم سے رکھتا ہے

Page 447

خطبات طاہر جلد ۹ 442 خطبہ جمعہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۹۰ء یعنی خدا نے قرآن کریم کی زبان میں ہمارے سامنے رکھے ہیں ہم ان تقاضوں کو کامل انکسار کے ساتھ پورا کرنے والے ہوں اور دن بدن ہماری حالت اندھیروں سے نور کی طرف نکلنے والوں کی حالت ہو اور ہر آنے والا دن ہم پہلے کے مقابل پر زیادہ روشنی میں بسر کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 448

خطبات طاہر جلد ۹ 443 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۹۹ء اس تمام عالم اسلام کے مسائل کا حل یہی ہے کہ خدا کی قائم کرده سیادت کے آگے اپنا سر جھکا دیں.(خطبه جمعه فرموده ۳ /اگست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَإِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات: ۱۱،۱۰) پھر فرمایا: یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ الحجرات کی دسویں اور گیارہویں آیات ہیں.گزشتہ دس سال سے زائد عرصہ ہو گیا کہ عالم اسلام پر بہت سی بلائیں وارد ہو رہی ہیں اور عالم اسلام مسلسل مختلف قسم کے مصائب کا شکار ہے.اگر تو یہ مصائب اور تکلیفیں غیروں کی طرف سے عالم اسلام پر نازل کئے جارہے ہوتے تو یہ بھی ایک بہت ہی تکلیف دہ امر تھا لیکن اس سے بڑھ کر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عالم اسلام خود ایک دوسرے کے لئے مصیبتوں کا ذمہ دار ہے اور دوحصوں میں بٹ کر مسلسل

Page 449

خطبات طاہر جلد ۹ 444 خطبه جمعه ۳ /اگست ۱۹۹۰ء سالہا سال سے عالم اسلام کا ایک حصہ دوسرے عالم اسلام کے لئے مصیبتیں اور مشکلات پیدا کرتا چلا جا رہا ہے.تیل کی دولت نے بہت سے مسلمان ممالک کو فوائد پہنچائے اور ساتھ ہی کچھ نقصانات بھی پہنچائے.نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ ان میں رفتہ رفتہ تقویٰ کی روح گم ہوگئی اور دنیا کی دولت نے ان کے رجحانات کو یکسر دنیا کی طرف پلٹ دیا.یہ بات آج کے مختلف مؤرخین بھی اپنی کتب میں لکھتے رہے ہیں اور آج بھی لکھ رہے ہیں کہ جب تک عالم اسلام غریب تھا اس میں تقویٰ کے آثار پائے جاتے تھے لیکن اس تیل کی دولت نے گویا ان کے تقویٰ کو پھونک کر رکھ دیا ہے اور محض دنیا دار حکومتوں کی شکل میں وہ مسلمان حکومتیں ابھری ہیں جن کا اول مقام یہ تھا کہ خدا کا تقویٰ اختیار کرتیں ، اپنے ملک کے رہنے والوں کو تقویٰ کی تلقین کرتیں اور عالم اسلام کے باہمی تعلقات کو تقویٰ کی روح پر قائم کرتیں اور مسائل کو تقویٰ کی روح کے ساتھ حل کرتیں مگر ایسا نہیں.جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے یہ تعلیم نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ ہر قسم کے امکانی مسئلے کو قرآن کریم نے چھیڑا بھی ہے اور اس کا ایک مناسب حل بھی پیش فرمایا ہے.چنانچہ اس امکان کو بھی قرآن کریم نے زیر نظر رکھا کہ مختلف مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہو جا ئیں اور ان اختلافات کی شکل ایسی بھیانک ہو جائے کہ ان میں سے بعض دوسروں پر حملہ کریں اور مسلمان حکومتیں با ہم ایک دوسرے کے ساتھ قتال اور جدال میں ملوث ہو جائیں.چنانچہ اس امکان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے.وَاِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا کہ ہو سکتا ہے کہ بعض مسلمان طاقتیں بعض دوسری مسلمان طاقتوں کے ساتھ نبرد آزما ہو جائیں اور ایک دوسرے پر حملہ کریں.ایسی صورت میں تمام عالم اسلام کا یہ مشترکہ فرض ہے کہ ان کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کی جائے.فَإِنْ بَغَتْ إِحْدُهُمَا على الأخرى اور اگر ایک طاقت دوسری طاقت کے خلاف باغیانہ رویہ اختیار کرنے پر مصر رہے اور اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کا علاج یہ ہے کہ تمام عالم اسلام مل کر مشتر کہ طاقت کے ساتھ اس ایک طاقت کو زیر کریں اور مغلوب کریں اور جب وہ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ اپنے فیصلوں کو احکامات الہی کی طرف لوٹا دے اور خدا کے فیصلے کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اس پر مزید

Page 450

خطبات طاہر جلد ۹ 445 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۹۰ء زیادتی بند کی جائے اور از سر نو اس طاقت اور دوسری طاقت کے درمیان جس پر حملہ کیا گیا ہے، صلح کروانے کی کوشش کی جائے اور پھر یا درکھو کہ اس صلح میں بھی تقوی کو پیش نظر رکھنا اور انصاف سے کام لینا.پھر انصاف کی تاکید ہے کہ انصاف سے کام لینا.کیونکہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.پھر فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اخْوَةٌ یاد رکھو کہ مومن بھائی بھائی ہیں.فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمُ پس ضروری ہے کہ تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح قائم رکھو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ، تا کہ تم پر رحم کیا جائے.ان آیات کی روشنی میں ایک بات قطعی طور پر واضح ہوتی ہے کہ عالم اسلام نے اپنے با ہمی اختلافات میں قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی ہدایت کو محوظ نہیں رکھا.اگر مسلمان طاقتیں قرآن کریم کی اس واضح ہدایت کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاملات نپٹانے کی کوشش کرتیں تو وہ ایک لمبے عرصے تک جو نہایت ہی خون ریز عرب ایران جنگ ہوئی ہے وہ زیادہ سے زیادہ چند مہینے کے اندر ختم کی جاسکتی تھی.مشکل یہ در پیش ہے کہ دھڑا بندیوں سے فیصلے ہوتے ہیں اور تقویٰ کی روح کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا.چنانچہ گیارہ سال تک مسلمان ممالک ایک دوسرے سے بٹ کر آپس میں برسر پیکار رہے اور بعض طاقتیں بعض کی مدد کرتی رہیں لیکن اس اسلامی اصول کو نظر انداز کر دیا گیا کہ سب مل کر فیصلہ کریں اور سب مل کر ظالم فریق کے خلاف اعلان جنگ کریں.ایسی صورت اگر ہوتی تو صرف عرب اور ایران جنگ کا سوال نہیں تھا بلکہ پاکستان اور انڈونیشیا اور ملائیشیا اور دیگر مسلمان ممالک مثلاً شمالی افریقہ کے ممالک ، ان سب کو مشترکہ طور پر اس معاملے میں دخل دینا چاہئے تھا اور مشترکہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ظالم کو ظلم سے باز رکھنا چاہئے تھا.اب ایسی ہی ایک بہت تکلیف دہ صورت اور سامنے آئی ہے کہ اب ایران اور عرب کی لڑائی نہیں بلکہ عرب آپس میں بانٹے جاچکے ہیں اور ایک مسلمان عرب ریاست نے ایک دوسری مسلمان عرب ریاست پر حملہ کیا ہے.اس سلسلے میں عرب ریاستوں کی جو سربراہ کمیٹی ہے جو ان معاملات پر غور کرنے کے لئے غالبا پہلے سے قائم ہے، ان کے نمائندے کا اعلان میں نے سنا اور ٹیلی ویژن پر اس پروگرام کو دیکھا اور مجھے تعجب ہوا کہ اس لمبے تکلیف دہ تجربے کے باوجود ابھی تک انہوں نے عقل سے کام نہیں لیا اور قرآنی اصول کو اپنانے کی بجائے اصلاح کی کئی نئی راہیں تجویز کر رہے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ ممالک

Page 451

خطبات طاہر جلد ۹ 446 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۹۰ء جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ تمام اکٹھے ہو کر اس معاملے میں دخل دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور بعض مسلمان ممالک ان سے دخل اندازی کی اپیلیں کر رہے ہیں.چنانچہ ایک مغربی مفکر کا انٹرویو میں نے دیکھا.اس نے یہ اعلان کیا کہ اس وقت عراق اور کویت کی لڑائی کے نتیجے میں Concentric دو دائرے قائم ہو چکے ہیں یعنی ایک ہی مرکز کے گرد کھینچے جانے والے دو دائرے ہیں.ایک چھوٹا دائرہ ہے جو عالم اسلام کا دائرہ ہے ایک بڑا دائرہ ہے جو تمام دنیا کا دائرہ ہے اور ہم یہ انتظار کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ عالم اسلام کا دائرہ اس فساد کے مرکز کی طرف متوجہ ہو کر اس کی اصلاح میں کامیاب ہو جائے لیکن اس کے امکانات دکھائی نہیں دیتے اور خطرہ ہے.(انہوں نے تو خطرے کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ) انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ تمام دنیا کے وسیع تر دائرے کو اس معاملے میں دخل دینا پڑے گا.اس مختصر خطبے میں میں عالم اسلام کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی تعلیم کی طرف لوٹیں تو ان کے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں.یہ بہت ہی قابل شرم بات ہے اور نقصان کا موجب بات ہے کہ ساری دنیا مسلمان ممالک کے معاملات میں دخل دے اور پھر ان سے اس طرح کھیلے جس طرح شطرنج کی بازی پر مہروں کو چلایا جاتا ہے اور ایک کو دوسرے کے خلاف استعمال کرے جیسا کہ پہلے کرتی چلی آئی ہے.امر واقعہ یہ ہے اس وقت مسلمانوں کی طاقتیں اپنی دولت کو اپنے ہی بھائیوں کے خلاف استعمال کر رہی ہیں.وہ تیل جس کو خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر اسلامی دنیا کو عطا کیا تھا، وہ تیل جہاں غیروں کے لئے عظیم الشان ترقیات کا پیغام بن کر آیا ہے اور وہ اس کے نتیجے میں اپنی تمام صنعت کو چلا رہے ہیں اور ہر قسم کی طاقت کے سرچشمے جن کی بنیادیں مسلمان ممالک میں ہیں ان کے لئے فائدے کے سامان پیدا کر رہے ہیں.جہاں تک مسلمان ممالک کا تعلق ہے وہ اس تیل کو ایک دوسرے کے گھر پھونکنے اور ایک دوسرے کی مملکتوں کو جلا کر خاکستر کر دینے میں استعمال کر رہے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے سوا اس کا آخری تجز یہ اور کوئی نہیں بنتا.اب بھی وقت ہے اگر عالم اسلام تقویٰ سے کام لے اور قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کوئی غیر مسلم طاقت اسلامی معاملات میں کسی طرح دخل دینے پر مجبور ہو اور ضروری ہے کہ ان دو قرآنی آیات کی تعمیل میں اس مسئلے کو جو آج بہت ہی بھیانک شکل میں اٹھ کھڑا ہوا ہے محض

Page 452

خطبات طاہر جلد ۹ 447 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۹۰ء عرب دنیا تک محدود نہ رکھا جائے کیونکہ جب آپ اسلام کے لفظ کو بیچ میں سے اڑا دیتے ہیں اور ایک اسلامی مسئلے کو علاقائی مسئلہ بنادیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں خدا تعالی کی تائید اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہے.پس تعلیم قرآن میں کسی قوم کا ذکر نہیں ہے جو ہدایت قرآن کریم نے عطا فرمائی ہے،اس میں مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی ذکر ہے اور ان سب کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے.پس یہ ہرگز عرب مسئلہ نہیں ہے یہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے.اس میں انڈونیشیا کو بھی اسی طرح ملوث ہونا چاہئے جس طرح پاکستان کو ملائیشیا کو بھی اسی طرح ملوث ہونا چاہئے جیسے الجیریا کو یا دوسرے ممالک کو اور سب ممالک کا ایک مشترکہ بورڈ تجویز کیا جانا چاہئے جوفریقین کو مجبور کریں کہ وہ صلح پر آمادہ ہوں اور اگر وہ صلح پر آمادہ نہ ہوں تو تمام عالم اسلام کی طاقت کو اس ایک باغی طاقت کے خلاف استعمال ہونا چاہئے اور تمام غیر مسلم طاقتوں کو یہ پیغام دے دینا چاہئے کہ آپ ہمارے معاملات سے ہاتھ کھینچ لیں اور ہمارے معاملات میں دخل نہ دیں.ہم قرآنی تعلیم کی رو سے اس بات کے اہل ہیں کہ اپنے معاملات کو خود سلجھا سکیں اور خود نپٹا سکیں مگر افسوس ہے کہ اس تعلیم پر عمل درآمد کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے.یہ عراق اور کویت کی لڑائی کا جو واقعہ ہے یا عراق کے کویت پر حملے کا ، اس کے پس منظر میں بہت سی بددیانتیاں اور عہد شکنیاں ہیں، صرف عربوں کے آپس کے اختلاف نہیں ہیں بلکہ تیل پیدا کرنے والے دوسرے اسلامی ممالک بھی اس معاملے میں ملوث ہیں.چنانچہ انڈو نیشیا ہے مثلاً ، اس کو اپنے عرب مسلمان بھائیوں سے شدید شکوہ ہے کہ Opec کے تحت جو معاہدے کرتے ہیں ان معاہدوں کو خود بصیغہ راز توڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اجتماعی طاقت سے جو فوائد حاصل ہونے چاہیں وہ نقصانات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور ہر ملک جس طرح چاہتا ہے اپنا تیل خفیہ ذرائع سے بیچ کر زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس اس پس منظر میں بھی تقوی ہی کی کمی ہے.یہ معاملہ صرف عراق اور کویت کی جنگ کا نہیں بلکہ آپس کے معاملات میں تقویٰ کے فقدان کا معاملہ ہے اور جو بھی عالمی ادارہ اس بات پر مامور ہو کہ وہ ان دونوں لڑنے والے ممالک یا ایک ملک نے جو حملہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل کریں، اس کا فرض ہو گا کہ وہ تہہ تک پہنچ کر ان تمام محرکات کا جائزہ لیں جن کے نتیجے میں بار بار اس قسم کے خوفناک حالات پیدا ہوتے چلے جاتے ہی اور اس میں ایران کو بھی برابر شامل کرنا چاہئے.کوئی مسلمان ملک اس سے باہر

Page 453

خطبات طاہر جلد ۹ 448 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۹۰ء نہیں رہنا چاہئے.اگر یہ ایسا کر لیں تو جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی تائید تمہیں حاصل ہوگی اور لازماً تم ان کوششوں میں کامیاب ہو گے.پھر تاکیداً فرمایا : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اپنے بھائیوں کے درمیان ، جو آپس میں بھائی بھائی ہیں صلح کرواؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تقویٰ اختیار کرنے والوں پر رحم کیا جاتا ہے.پس کوئی مسئلہ بھی جو اسلام سے یا قرآن سے تعلق رکھتا ہو تقویٰ کے بغیر حل نہیں ہو سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام مسلمانوں کے مسائل کا مختصر تجزیہ لیکن ایسا تجزیہ جو تمام حالات پر حاوی ہو یوں فرمایا کہ تقویٰ کی راہ گم ہوگئی ہے.اسلام کا نام تو ہے لیکن تقویٰ کا راستہ باقی نہیں رہا.وہ ہاتھ سے کھویا گیا ہے.جب تقویٰ کی راہ گم ہو جائے تو پھر جنگلوں اور بیابانوں میں بھٹکنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا.پس میں جماعت احمدیہ کے سربراہ کے طور پر اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو خواہ وہ ہمیں بھائی سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ پر زور اور عاجزانہ نصیحت کرتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی امت کو شدید خطرات درپیش ہیں.تمام عالم اسلام کی دشمن طاقتیں آپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دخل اندازی کے بہانے ڈھونڈتی ہیں اور ایک لمبا عرصہ ہوا کہ آپ ان کے ہاتھ میں نہایت ہی بے کس اور بے بس مہروں کی طرح کھیل رہے ہیں اور ایک دوسرے کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں.اس لئے تقومی کو پکڑیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی امت کو جو آج دنیا میں ذلت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور تمسخر کا سلوک ان کے ساتھ کیا جارہا ہے، تمام دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بڑی حقارت سے عالم اسلام کو دیکھتی ہیں اور بجھتی ہیں کہ یہ ہمارے ہاتھوں میں اسی طرح ہیں جس طرح بلی کے ہاتھوں میں چوہا ہوا کرتا ہے اور جس طرح چاہیں ہم ان سے کھیلیں اور جب چاہیں سوراخ میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اس کو دبوچ لیں.یہ وہ معاملہ ہے جو انتہائی تذلیل کا معاملہ ہے.نہایت ہی شرمناک معاملہ ہے اور عالم اسلام پر داغ پر داغ لگتا چلا جارہا ہے.اسلام کی عزت اور وقار مجروح ہوتے چلے جارہے ہیں.اس لئے خدا کا خوف کریں اور اسلام کی تعلیم کی طرف واپس لوٹیں اس کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ادبار اور تنزل کا دور اور یہ بار بار کے مصائب حقیقت میں حضرت

Page 454

خطبات طاہر جلد ۹ 449 خطبه جمعه ۳ /اگست ۱۹۹۰ء اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کا نتیجہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور آخری پیغام میرا یہی ہے کہ وقت کے امام کے سامنے سرتسلیم خم کرو.خدا نے جس کو بھیجا ہے اس کو قبول کرو.وہی ہے جو تمہاری سربراہی کی اہلیت رکھتا ہے.اس کے بغیر اس سے علیحدہ ہو کر تم ایک ایسے جسم کی طرح ہو جس کا سر باقی نہ رہا ہو.بظاہر جان ہو اور عضو پھڑک رہے ہوں بلکہ درد اور تکلیف سے بہت زیادہ پھڑک رہے ہوں لیکن وہ سر موجود نہ ہو جس کی خدا نے اس جسم کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے پیدا فرمایا.پس واپس لوٹو اور خدا کی قائم کردہ اس سیادت سے اپنا تعلق باندھو.خدا کی قائم کردہ قیادت کے انکار کے بعد تمہارے لئے کوئی امن اور فلاح کی راہ باقی نہیں ہے اس لئے دکھوں کا زمانہ لمبا ہو گیا.واپس آؤ اور تو بہ اور استغفار سے کام لو.میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خواہ معاملات کتنے ہی بگڑ چکے ہوں اگر آج تم خدا کی قائم کردہ قیادت کے سامنے سرتسلیم خم کر لو تو نہ صرف یہ کہ دنیا کے لحاظ سے تم ایک عظیم طاقت کے طور پر ابھرو گے بلکہ تمام دنیا میں اسلام کے غلبہ نو کی ایسی عظیم تحریک چلے گی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور وہ بات جو صدیوں تک پھیلی ہوئی دکھائی دے رہی ہے وہ دہا کوں کی بات بن جائے گی ، وہ سالوں کی بات بن جائے گی.تم اگر شامل ہو یا نہ ہو، جماعت احمد یہ بہر حال تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے جس طرح پہلے اس راہ میں قربانیاں پیش کرتی ہے کرتی رہی ہے، آج بھی کر رہی ہے، کل بھی کرتی چلی جائے گی اور اس آخری فتح کا سہرا پھر صرف جماعت احمد یہ کے نام لکھا جائے گا.(انشاء اللہ ) پس آؤ اور اس مبارک تاریخی سعادت میں تم بھی شامل ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں تمہاری خدمت کی توفیق عطا فرمائے.ایک بہترین خدمت گار تمہیں مہیا ہوئے تھے جو خدا کے نام پر خدا کی خاطر اور حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کی محبت میں ہر مشکل مقام پر تمہارے لئے قربانیاں کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے.تم نے ان سے استفادہ نہیں کیا اور ان کی خدمت سے محروم ہو گئے ہو.یہ اس دور کی عالم اسلام کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو عقل عطا فرمائے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میری نصیحت یہ ہے کہ خواہ وہ آپ سے فائدہ اٹھا ئیں یا نہ اٹھائیں، خواہ وہ آپ کو اپنا بھائی شمار کریں یا نہ کریں، دعاوں کے ذریعہ آپ امت محمدیہ کی مدد کرتے

Page 455

خطبات طاہر جلد ۹ 450 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۹۹ء چلے جائیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم کو بھی فراموش نہ کریں کہ ے اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوی حب پیمبرم در مین فارسی صفحه: ۱۰۷) کہ اے میرے دل ! تو اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا، ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا کہ یہ تیرے دشمن یعنی مسلمانوں میں سے جو تیری دشمنی کر رہے ہیں ، آخر تیرے محبوب رسول کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.پس تو اس محبوب رسول کی محبت کی خاطر ہمیشہ ان سے بھلائی کا سلوک کرتا چلا جا.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 456

خطبات طاہر جلد ۹ 451 خطبه جمعه ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء اللہ کی محبت کے ذریعہ سے ہم ساری دنیا پر غالب آ سکتے ہیں حنیف بنیں اور شیطان کی طرف نہ گریں.خطبه جمعه فرموده ۰اراگست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَا وَيُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَوةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ قُ پھر فرمایا: (البيه ) یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے سورہ بینہ سے لی گئی ہے.اس ایک آیت میں نہ صرف اسلام کا خلاصہ بیان فرما دیا گیا ہے بلکہ تمام ادیان کا جوخدا کی طرف سے نازل کئے جاتے رہے ہیں خلاصہ بیان فرما دیا گیا ہے اور وَمَا اُمِرُوا میں تمام اہل کتاب کے دین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے کبھی بھی اہل کتاب کو یعنی جن قوموں کی طرف کتاب نازل فرمائی اس کے سوا اور کوئی دین عطا نہیں کیا کہ لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ کہ وہ اللہ کی عبادت کریں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دین کو خدا کے لئے خالص کرنے والے ہوں اور حنفاء ہوں یعنی ہمیشہ اللہ کی طرف جھکنے والے ہوں و يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكُوةَ اور نمازوں کو قائم کریں اور بنی نوع انسان کے لئے جیسا خدا چاہتا ہے خرچ کریں یا بھلائی کے کاموں

Page 457

خطبات طاہر جلد ۹ 452 خطبه جمعه ۰ ا راگست ۱۹۹۰ء پر خرچ کریں وَ ذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ یہ وہ دین ہے جو قائم رہنے والا دین ہے.یعنی وہ تمام ادیان کی بنیاد ہے جو ہر زمانے میں، ہر حال میں، ہر قوم میں یکساں قائم رہی اور ہر دین کی عمارت اسی بنیاد پر کھڑی کی گئی.اس آیت میں عبادت کا ذکر پہلے کرنے کے بعد پھر نمازوں کے قیام کا ذکر فرمایا گیا ہے جو غور طلب بات ہے.اگر عبادت سے مراد نمازیں ہی ہیں تو پھر دوبارہ نمازوں کا ذکر کیوں فرمایا گیا.وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللہ انہیں کوئی حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ وہ خدا کی عبادت کریں.اس کے بعد فرمایاؤ يُقِيمُوا الصَّلوةَ اور نماز کو قائم کریں.پس معلوم ہوا کہ پہلی جگہ جہاں عبادت کا ذکر ہے وہاں وسیع تر مضمون ہے اور دوسری جگہ رسمی عبادت جو مذاہب سکھاتے ہیں وہ مذکور ہے.یعنی وَ يُقِيمُوا الصَّلوۃ میں وہ رسمی عبادات بیان کی گئی ہیں جو ہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو سکھلائیں اور ان میں آپس میں اختلاف بھی ہے.مختلف شکلوں میں وہ عبادتیں بجالائی جاتی ہیں.پہلی آیات کا جو عبادت کا حصہ ہے اس کے ساتھ ایک شرط قائم کر دی گئی جو صرف اس عبادت کے ساتھ متعلق نہیں بلکہ بعد میں آنے والے حصص کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے اس کا ترجمہ پھر یوں بنے گا کہ وَمَا اُمِرُوا انہیں نہیں حکم دیا گیا اِلَّا لِيَعْبُدُوا الله مگر یہ کہ خدا کی عبادت کریں مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ دین کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے.اس کی تشریح کیا ہے عبادت سے مراد کیا ہے ؟ یہ بعد میں بیان فرمایا: وَيُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّکٰوۃ کہ اگر وہ خدا کی خاطر عبادت کریں گے اور خدا کی طرف جھکتے ہوئے عبادت کریں گے تو خدا اور بنی نوع انسان کے حقوق میں فرق نہیں کریں گے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کریں گے.پس پہلی عبادت میں خدا تعالیٰ سے تعلق کا وسیع تر مفہوم بیان ہوا ہے جس کے نتیجے میں انسان صرف خدا ہی کا نہیں ہوتا بلکہ اس کے بندوں کا بھی ہو جاتا ہے اور قیام نماز پر انحصار نہیں کرتا یا اکتفاء نہیں کرتا بلکہ قیام نماز کے ساتھ بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ رہتا ہے اور ان کا بھی پورا پورا خیال کرتا ہے.پس زکوۃ جس کو ہم کہتے ہیں یہ صرف وہ رسمی شرح کے ساتھ چندہ ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ زکوۃ جسم کی بھی ہوتی ہے، عقل کی بھی ہوتی ہے، انسان کو خدا نے جو بھی توفیق عطا فرمائی ہے ہر ایک کی زکوۃ

Page 458

خطبات طاہر جلد ۹ 453 خطبه جمعه ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء نکالنی پڑتی ہے اور یہ جو واقفین نو کی تحریک ہے یہ بھی جماعت کی طرف سے اولاد کی زکوۃ ہے.یعنی خدا تعالیٰ نے جو اولاد جماعت کو وسیع طور پر عطا فرمائی ، اس میں سے ایک حصہ خدا کے حضور زکوۃ کے طور پر پیش کر دیا گیا.پس زکوۃ کا معنی بھی بہت وسیع ہے اور عبادت کا معنی بھی بہت وسیع ہے لیکن تینوں پر یہ شرط عائد ہوتی ہے کہ لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کہ خدا کی خاطر اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے ایسا کریں.پس مخلصین کی شرط عبادت کے عمومی مفہوم پر بھی اطلاق پائے گی يُقِیمُوا الصَّلوةَ کے پر بھی اطلاق پائے گی اور زکوۃ کی ادائیگی پر بھی اطلاق پائے گی اور اسی کا نام فرمایا نُ الْقَيِّمَةِ ہے.اگر خدا کی خاطر دین کو خالص کئے بغیر انسان کسی نوع کی بھی کوئی عبادت بجالائے وہ قبول نہیں ہوگی ، خدا کی خاطر دین کو خالص کئے بغیر کسی رنگ میں بھی نمازیں قائم کرے وہ قبول نہیں ہوں گی اور خدا کی خاطر دین کو خالص کئے بغیر اگر کسی طرح کی بھی انسان زکوۃ نکالے تو وہ رد کر دی جائے گی.یہ بنیادی مفہوم ہے جس کے متعلق فرمایا گیا کہ یہ دِینُ الْقَيِّمَةِ ہے یہ ایک ایسا خداوند کی طرف سے جاری ہونے والا مذہبی قانون ہے جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی.ہمیشہ ہر مذہب کی بنیاد اسی اصل پر قائم کی جاتی رہی اور اسی اصل پر قائم رہے گی.اب لفظ حُنَفَاء کا کچھ مزید تعارف ہونا چاہئے کہ اس سے کیا مراد ہے جب مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّين ا فرما دیا گیا تو اس کا مطلب ہے اپنے دین کو خدا کے لئے خالص کر دیا حنفاء سے کیا مراد ہے ”حنیف “ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا لقب ہے اور جیسا کہ اس سے پہلے میں بعض دفعہ خطبات میں بھی اور قرآن کریم کے درس میں بھی بیان کر چکا ہوں کہ حنیف کا لفظی ترجمہ ہے ٹیڑھا اور ایک طرف جھکا ہوا.چنانچہ لنگڑے کو بھی حنیف کہا جاتا ہے جس کا ایک پاؤں مڑا ہوا ہو جس کو پنجابی میں ڈ ڈا“ کہتے ہیں.اس کو بھی عربی زبان میں حنیف کہا جاتا ہے.پس یہاں ”حنیف سے کیا مراد ہے؟ مراد یہ ہے کہ ایک طرف جھکا ہوا.یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ایسا جھکاؤ کہ جب بھی یہ فیصلہ در پیش ہو کہ گرنا ہے تو کس طرف گرنا ہے تو ہمیشہ خدا کی طرف گرے.اب پل صراط کا جو نقشہ آپ کے ذہن میں آتا ہے عرف عام میں پل صراط کے متعلق بڑی بڑی کہانیاں بنی ہوئی ہیں.اس کے نتیجے میں عرف عام میں ایک پل صراط کا نقشہ ذہن میں آتا ہے کہ ایک بہت ہی

Page 459

خطبات طاہر جلد ۹ 454 خطبه جمعه ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء بار یک راستہ ہے اور اس میں خطرہ ہے کہ انسان کسی طرف گر جائے.اصل نقشہ مکمل تب ہو کہ اگر پل صراط کے ایک طرف جہنم ہو اور ایک طرف جنت ہو اور آدمی کے لئے ہمیشہ یہ خطرہ رہتا ہے کہ کہیں لڑکھڑائے اور کسی سمت میں گر جائے.یہ حنیف کا لفظ یہ نقشہ پیش کرتا ہے کہ جب بھی ایسے فیصلے در پیش ہوں کہ انسان نے دنیا کو اختیار کرنا ہے یا دین کو اختیار کرنا ہے یا کبھی انسان لغزش بھی کھا جائے تو جب بھی گرے خدا کی طرف گرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی بنا پر بیعت میں یہ شرط رکھی کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.جب بھی میرے سامنے دو فیصلے آئیں گے ایک دنیا اور ایک دین کا اور ان کا مقابلہ ہوگا تو میں ہمیشہ بالا رادہ دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا.لیکن حنیف میں ارادے کا دخل نہیں ہے.حنفاء جو حنیف کی جمع ہے اس میں مزاج اور فطرت کا بیان ہے.ایک ایسا شخص جس کی فطرت نیک ہو اور پاکیزہ ہو اس کا جھکاؤ ہمیشہ خدا کی طرف اور بھلائی کی طرف رہنے والا ہو.پس اس کی ٹھو کر بھی اس کو نجات دینے کا موجب بنے اور اس کا بالا رادہ فیصلہ بھی نجات ہی کا موجب بنے.اس سے غلطیاں بھی ہوں تو صحیح سمت میں ہوں اور اس طرح اس کو ایک محفوظ زندگی یا معصوم زندگی خدا کی طرف سے عطا کی جاتی ہے جس کا ماڈل حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو پیش کیا گیا اور ان کا نام ہی حنیف رکھ دیا گیا.لفظ حنیف کے ساتھ ہی عربی کا ایک اور لفظ بھی ہے جس میں صرف ایک نقطے کا اضافہ ہے یعنی جنیف ”ح“ کے نیچے نقطہ ڈال دیں تو وہ ” ج بن جاتی ہے اور اگر ” حنف“ کے ” میں نقطہ ہو تو ”جنف بن جائے گا.اب یہ عربی زبان کا کمال کہنا چاہئے یا یہ کہنا چاہئے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی فرمایا کہ یہ الہامی زبان ہے.یہ انسان کی بنائی ہوئی زبان نہیں ہے.اسے تسلیم کریں تو یہ چھوٹی سی مثال اس ایمان کو، اس یقین کو اور تقویت دیتی ہے.ایک ایسی چیز جو دو سمتوں کے درمیان متوازن ہوگئی ہو اگر ایک نقطے کا بھی اس میں اضافہ ہو تو وہ ایک دوسری طرف گر پڑے گی.پس حنف کا مطلب ہے ہر دفعہ خدا کی طرف گرنے والا اور اگر اس پر دنیا کے ایک نقطے کا بوجھ بھی زائد آجائے تو وہ دنیا کی طرف گر پڑے گا اور یہ حقیقی پل صراط ہے جس میں ہمیں بہت احتیاط سے قدم اٹھانا ہوگا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی نوح میں اپنی تعلیم پیش کی ہے یعنی قرآن پر اور سنت پرمبنی تعلیم اس کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہماری تعلیم“ کے نام سے ایک

Page 460

خطبات طاہر جلد ۹ 455 خطبه جمعه ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء الگ رسالے کی صورت میں بھی شائع کیا.اس میں جہاں ایسے مقامات آتے ہیں کہ اگر تم میں دنیا کی ایک ذرہ بھر بھی ملونی ہوئی تو تم قبول نہیں کئے جاؤ گے اور قریب ہے کہ تم ہلاک ہو جاؤ.اس کو پڑھ کر بعض احمدی ایسے خوفزدہ ہوتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ بعضوں نے مجھے کہا کہ ہم سے تو یہ کتاب پڑھی نہیں جاتی کیونکہ اس کا ایک ایک فقرہ ہمیں متہم کرتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں.جتنا اعلیٰ معیار پیش فرمایا گیا ہے اور جتنی اعلیٰ تو قعات جماعت سے وابستہ فرمائی گئی ہیں ان کے پیش نظر تو یہ نظر ہی نہیں آتا کہ کوئی احمدی دنیا میں موجود ہو لیکن وہ اس عارفانہ نکتہ کو نہیں سمجھتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی سب سے اعلیٰ تعریف فرمائی ہے اور یہ تعریف آپ پر صادق آتی تھی.تو ہر جگہ جب فرماتے ہیں کہ اس کا مجھ سے تعلق نہیں تو مراد یہ ہے کہ وہ اس مقام کو نہیں حاصل کر سکا جس مقام کو دینے کے لئے میں آیا ہوں اور یہ وہ مقام ہے جو میں نے محمد مصطفی ﷺ کی متابعت میں پایا اور اس میں ایک نقطہ بھی دنیا کی ملونی کا شامل نہیں ہے.یہ وہی ”ح“ پر زائد ہونے والا نقطہ ہے جو ایک ظاہری تمثیل بن گیا ہے اور روحانی معنوں میں یہ وہ نقطہ کہلائے گا جو ایک متوازن شخصیت کو ایک طرف گرادے اور یہ دنیا کا نقطہ ہے.یہ جب داخل ہو جائے تو فیصلوں میں ہمیشہ انسان دنیا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے اب یہ محض ایک فلسفیانہ بات نہیں ہے.روز مرہ کی زندگی میں اگر آپ غور کی نظر سے اپنے فیصلوں کو دیکھیں تو ہمیشہ یہی ہوتا ہے بعض لوگ جب دوراہوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو بڑا مشکل وقت ہوتا ہے صحیح فیصلہ کرنے کا اور وہ ان دوراہوں پر بسا اوقات دنیا کی طرف جھکنے والے فیصلے کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو جب دو راہوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو خواہ کیسا ہی کڑوا فیصلہ ہو وہ ہمیشہ دین کی طرف مائل ہونے والا فیصلہ کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن گواہی دیتا ہے کہ وہ نجات یافتہ ہیں کیونکہ وہ دِینُ الْقَيِّمَةِ پر قائم ہیں پس دِينُ الْقَيِّمَةِ کی تعریف میں حنیف کا داخل ہونا ضروری تھا ورنہ کیا پتہ کہ کسی کا دین خالص ہے کر نہیں ہے.پس مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء کا تعلق نیت سے ہے اور انسان کے اندرونی رجحان سے ہے وہ اگر سچا اور خالص ہو گا تو اس کے نتیجے میں لاز ماوہ شخص حنیف بنے گا.یعنی عملی دنیا میں وہ ہمیشہ خدا کی طرف گرنے والا اور خدا کی طرف جھکنے والا بن جائے گا ورنہ اس کا یہ دعویٰ کہ میں

Page 461

خطبات طاہر جلد ۹ 456 خطبه جمعه ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء دین خدا کے لئے خالص کر چکا ہوں یہ دعویٰ درست نہیں ہے.پس ایک پہلو سے مخلصین کہہ کر اندرونی کیفیت کو بیان فرما دیا گیا دوسرے پہلو سے اس اندرونی کیفیت کی پہچان کی کسوٹی ہمیں عطا کر دی گئی کہ ہزاروں دعویدار ہوں گے جو کہیں گے ہم دین کو اللہ کے لئے مخلص کرنے والے ہیں.تم ان کو پہچان سکتے ہو یہ کہنے کی ضرورت بھی نہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ تم سچ بول رہے ہو روز مرہ کی زندگی میں ان کے اعمال خود بتاتے چلے جائیں گے کہ وہ اپنے اس دعوی میں بچے ہیں یا جھوٹے ہیں کیونکہ حنفاء ہونے کا فیصلہ ایک ایسا فیصلہ ہو گا جو دکھائی دینے والا ہوگا.جہاں بھی دورا ہے آئیں گے جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کرنی ہوگی.جھوٹ کی پناہ لینی ہے کہ سچ کی پناہ لینی ہے.ایسے موقعوں کے اوپر ان کا فیصلہ خود بتا دے گا کہ وہ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء تھے یا نہیں تھے.پس جماعت احمدیہ کو اس بار یک نظر سے اپنی نیتوں کا حساب اپنے آپ سے لیتے رہنا چاہئے اور روز مرہ کی زندگی میں یہ عادت ڈالنی چاہئے کہ وہ جب بھی فیصلے کرتے ہیں وہ ”حنیف“ کے فیصلے کرتے ہیں یا ”حنیف کے فیصلے کرتے ہیں.ان کی کون سی شخصیت ابھرتی ہے.اگر ان کے فیصلوں میں جف کا عنصر غالب ہے تو پھر دنیا کی ملونی غالب ہوگئی اور اگر حنف کا عنصر غالب ہے تو دین کی ملونی غالب ہو گئی اور اس کے بعد پھر جہاں غلبہ ہو وہاں خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ غلبے والے حصے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے اور کم تر حصے کو دور کرتا چلا جاتا ہے.اس لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہرگز مراد یہ نہیں کہ ہر انسان جب وہ حنیف بنتا ہے تو اچانک مکمل حنیف بن جاتا ہے اور دنیا کی ملونی کا نشان تک باقی نہیں رہتا.یہ سلوک کا ایک رستہ ہے جس پر چلتے ہوئے رفتہ رفتہ اگلی منازل تک انسان کی رسائی ہوتی ہے لیکن آغاز ہی سے یہ فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کا انجام کہاں ہوگا.اگر اس کے روز مرہ کے فیصلوں میں حنف کا عصر غالب ہو، یعنی خدا کی طرف جھکنے کا عنصر غالب ہو، پھر بعض فیصلوں میں ٹھو کر بھی کھا چکا ہو اور بعض باتوں میں اس نے دنیا کو بھی ترجیح دی ہو تو جہاں تک میرا قرآن کریم کا مطالعہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے بچنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے اس کی مغفرت اس کی ہر دوسری صفت پر غالب ہے اس لئے وہ شخص جو بالعموم خدا کی طرف جھکنے والا ہو، اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ اس کی نیکی کے دائرے

Page 462

خطبات طاہر جلد ۹ 457 خطبه جمعه ۱ اگست ۱۹۹۰ء کو بڑھانا شروع کر دیتا ہے اور اس کی بدی کے دائرے کو کم کرنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ نقطہ جو جیم“ کا جف کا نقطہ ہے وہ کلی مٹ جاتا ہے اور اس کا انجام پھر حسنف پر ہوتا ہے تبھی قرآن کریم نے ہمیں یہ دعا اصرار سے سکھائی وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ اے خدا! ہمیں ایسی حالت میں وفات دینا کہ ہم تیرے نزدیک ابرار میں شمار ہو چکے ہوں.اسی لئے انجام بخیر کی دعا کی طرف اولیاء نے بہت توجہ کی ہے اور بار ہا انجام بخیر کی دعامانگا بھی کرتے تھے اور دوسروں سے اس کی درخواست بھی کیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے قادیان میں بچپن میں جب صحابہ کی اکثریت وہاں پھرا کرتی تھی تو اس زمانے میں اکثر صحابہ جو دعا کی درخواست کیا کرتے تھے وہ انجام بخیر کی دعا کی درخواست کیا کرتے تھے اور سب سے پہلے یہ بات میں نے ان ہی سے سیکھی.اس وقت سمجھ نہیں آیا کرتی تھی کہ یہ بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پانے والے، دین کی صف اول کے لوگ یہ ہم بچوں سے یہ کیوں درخواست کرتے ہیں کہ دعا کرو کہ ہمارا انجام بخیر ہو.بعد میں جب قرآن کریم کے مطالعہ سے زیادہ سمجھ آئی تو اس وقت پتا چلا کہ انجام بخیر سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں نہ ہم مریں بلکہ جس رستے پر خدا ڈالتا ہے اس کے اختتام تک پہنچیں.اپنی نیکی کا انتہائی عروج حاصل کریں.ہر شخص کی انتہاء الگ الگ ہے.ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے نیکی کا ایک دائرہ بخشا ہے.اس دائرے تک اس کی نیکی پھیل سکتی ہے.وہ اس کی حدود ہیں یا آسمان کی رفعتوں میں اس کا ایک نقطہ ہے جس تک وہ پہنچ سکتا ہے.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ یا نیک انجام کی دعا کا یہ مطلب ہوگا کہ اے خدا! ہمیں اس نقطہ عروج تک پہنچا دے جو ہماری ذات کے تعلق میں ہمیں ابرار میں داخل کر دے یعنی بر ہی پر رہے اور بدی کا کوئی پہلو باقی نہ رہے.حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو پیشگوئی تھی اس میں یہ تھا کہ جب وہ اپنے کام مکمل کر لے گا تب وہ اس نقطہ آسمان کی طرف رفع کرے گا جو اس کے لئے مقدر ہے.پس ابرار میں مرنے یا نیک انجام پانے سے مراد یہی ہے کہ اے اللہ ! ہمیں اس وقت تک زندہ رکھ اور رفتہ رفتہ اس مقام کی طرف ہماری راہنمائی فرماتا چلا جا جس مقام میں جا کر دنیا کا کوئی نقطہ باقی نہیں رہتا اور خالصہ ہم تیرے ہو جاتے ہیں.

Page 463

خطبات طاہر جلد ۹ 458 خطبه جمعه ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر تم میں دنیا کی کوئی ملونی ہوئی تو تم ہلاک ہو جاؤ گے، اس کا ایک اور حل یہ بھی ہے کہ ایسے عاجز بندے جو دنیا کی ملونی رکھتے ہوئے نیکی کی طرف میلان رکھتے ہیں اور فکر رکھتے ہیں اور ہمیشہ اپنے گناہوں پر غموں میں گھلتے رہتے ہیں اور یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ابرار میں مارنا.خدا تعالیٰ رفتہ رفتہ ان کو مارتے وقت اس مقام تک پہنچا چکا ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی نقطہ ان میں باقی نہیں رہتا.ایک یہ معنی ہیں مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء کے.دوسرے اس کے معنی عشق کے ہیں اور محبت کے ہیں مُخْلِصِينَ کسی کے لئے مخلص ہونے سے مراد ہے اس سے محبت کرنا اور محبت کی پہچان یہ ہے کہ غیر محبوب کے مقابل پر ہمیشہ انسان محبوب کو ترجیح دیتا ہے اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ جس چیز سے محبت ہے اس کے مقابل پر اس کو ترجیح دے دے جس سے نفرت ہے.یہ ایک قانون فطرت ہے جس میں کسی انسان کا دخل نہیں ، چارہ کوئی نہیں.جیسے کشش ثقل ہر چیز کو اپنے دائرے میں اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس کے خلاف کوئی طاقت کام نہیں کر سکتی.اس طرح وہ چیزیں جو بظاہر زمین سے دور ہو رہی ہوتی ہیں اپنے مکینیکل ذریعوں سے، کشش ثقل ان کو بھی کھیچ رہی ہوتی ہے ، جب میں کہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت اس قانون سے باہر نہیں رہ سکتی تو یہ بالکل درست بات ہے.ہر چیز جوز مین سے دور ہو رہی ہے کسی اور ذریعے سے، اس پر بھی کشش ثقل مسلسل اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے اور اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی ہے.یہ وہ قوانین ہیں جو غیر مبدل ہوا کرتے ہیں، ان کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.تو محبت کا قانون یہ ہے کہ جب بھی دو فیصلے ہوں، انسان قدر تا طبعاً محبت کی طرف جھکتا ہے اور نفرت کو کبھی محبت پر ترجیح نہیں دیتا.مخلصین سے مراد ہے: محبت کرنے والے اور حنفاء میں ان کی محبت کی پہچان بتادی.وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں ان کے اعمال تبھی قبول ہوں گے اگر وہ محبت کے ساتھ عبادت بجالانے والے ہوں ،اگر وہ خدا کی محبت کے ساتھ نمازیں پڑھنے والے ہوں، اگر وہ دخدا کی محبت کے ساتھ زکوۃ دینے والے ہوں.پہچان کیا ہے؟ ایسے لوگ حنیف ہوا کرتے ہیں، جب بھی خدا کے مقابل پر غیر اللہ کی بات ہو تو وہ خدا کی طرف جھکتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے جھوٹ سے بچنے کی ایک نصیحت کے وقت بھی یہی نصیحت فرمائی کہ

Page 464

خطبات طاہر جلد ۹ 459 خطبه جمعه ۱ اگست ۱۹۹۰ء وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزَّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ (الج:۳۲-۳۱) که قول زور سے بچو حُنَفَاء اللہ اس کا کیا مطلب ہے کہ جھوٹ سے بچو اللہ کے لئے حنیف ہوتے ہوئے اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا کہ شرک نہیں کرنا.مراد یہ ہے کہ جھوٹ کے وقت انسان غیر اللہ کی پناہ میں آتا ہے اور جھوٹ کو اختیار کرناہی یہ بتارہا ہے کہ اللہ کی طرف جھکاؤ نہیں ہے دنیا کی طرف جھکاؤ ہے.اس لئے جھوٹ ثابت کرتا ہے کہ انسان حنیف نہیں رہا.ایک اس کا یہ مطلب ہے.دوسرا یہ مطلب یہ ہے کہ جھوٹ تم اس لئے اختیار کرتے ہو کہ تمہارا تو کل غیر اللہ پر ہے.اگر تم جھوٹ سے بچو اور یہ سوچ کر بچو کہ اب تو میں نے غیر سے تو کل ہٹا دیا ہے، اب میرا تو کل اللہ پر ہو گیا ہے.میں اللہ کی طرف گر گیا ہوں تو پھر شرک نہیں کرنا پھر یا درکھنا کہ خدا ایسے گرنے والوں کو سنبھال لیا کرتا ہے.تو یہ وہی مضمون ہے کہ حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جہاں فیصلوں میں یہ خطرہ بھی ہو کہ دوسری طرف میری ہلاکت ہے.اس ہلاکت کو دیکھتے ہوئے یعنی ایسے مقام پر سچ بولنا جہاں پتا ہو کہ اس کی سزا یقینی ہوگی پھر بھی گرتا ہے تو خدا کی طرف گرتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی صورت میں اگر تم جھوٹ سے اس لئے پر ہیز کرنے والے ہو کہ تم حنیف ہو چکے ہو تم مجبور ہو بے اختیار ہو.میرے سوا تمہارا کوئی در ہی نہیں رہا.تو پھر یا درکھو کہ اگر تم مشرک نہیں ہو تو میں بھی موحدین کو چھوڑنے والا نہیں ہوں.میں تمہاری ضرور حفاظت کروں گا.تمہیں اپنی پناہ میں لے لوں گا.تمہیں اپنی گود میں اٹھالوں گا.پس یہ وہ مضمون ہے مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء کا جس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا محبت کا پہلو بھی بہت نمایاں ہے.اخلاص اور محبت دراصل ایک ہی چیز کے دونام ہیں اور اس کی پہچان یہی ہوا کرتی ہے کہ دو فیصلوں میں ہمیشہ جس شخص سے محبت ہے اس کے حق میں فیصلہ ہوا کرتا ہے جس سے محبت نہ ہو یعنی اس میں انصاف کی بات نہیں ہو رہی.میں کسی اور کے حق میں انصاف کی بات نہیں کر رہا.اپنے رجحانات کی بات کر رہا ہوں.ایک انسان نے دو چیزوں میں سے ایک اختیار کرنی ہے وہاں انصاف کا فیصلہ نہیں ہے.اس اختیار کے وقت ہر شخص لازماً بے اختیار ہو کر محبت والا فیصلہ کرے گا اور جس سے کم محبت ہے اس کی طرف نہیں جھکے گا ، پس بغیر محبت کے کوئی عبادت نہیں یہ نتیجہ نکلا.بغیر محبت کے نہ کوئی نماز ہے نہ کوئی زکوۃ ہے اور اس مضمون کو مزید تقویت ملتی ہے قرآن کریم کی ایک اور آیت سے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

Page 465

خطبات طاہر جلد ۹ 460 خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۹۰ء قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمر آن :۳۲) کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! نام تو نہیں لیا گیا مگر مخاطب آپ ہیں ) تو ان سے کہہ دے جو تیری پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اس کے دو معنی ہیں.یعنی ایک ہی معنی میں اگر پہلے حصے پر زور دیا جائے تو اور معنی نکل آئیں گے دوسرے حصے پر زور دیا جائے دوسرے معنی ابھر آئیں گے.عام طور پر دوسرے حصے پر زور دیا جاتا ہے اور یہ مطلب ہے جو اپنی ذات میں درست ہے کہ اے محمد ﷺ! یہ اعلان کر کہ اگر تم خدا کی محبت کے اپنے دعوے میں بچے ہو تو میری پیروی کر کے دکھاؤ کیونکہ میں محبت کے دعوے میں سچا ہوں اور اس محبت کے نتیجے میں جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں وہ میں پورے کر رہا ہوں اس لئے میری پیروی کرو تو تمہاری محبت کا دعوی سچا نکلے گا.اگر پہلے حصے پر زور دیا جائے تو ایک اور معنی نکلتا ہے جو مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء کے معنے کو اور واضح کر دیتا ہے.وہ یہ ہے کہ اگر تم نے میری پیروی کرنی ہے تو محبت کے بغیر نہیں کر سکو گے اگر خدا سے محبت نہیں ہے تو نہیں کر سکو گے.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي یعنی تُحِبُّونَ اللہ کے پہلے حصے پر زور ہوگا مراد یہ ہوگی کہ میری پیروی کرنے کی خواہش رکھنے والو یا درکھو.اگر تمہیں خدا سے محبت ہے تو پیروی کرسکو گے.اگر خدا سے محبت نہیں ہے تو نہیں کر سکو گے.پس حُنَفَاء لِلَّهِ کا مضمون اور کھل کر واضح ہو گیا کہ اگر خدا سے محبت ہے تو پھر عبادتیں، نیکیاں، زکوۃ خدمتیں سب قبول ہوں گی.اگر نہیں ہے تو پھر یہ ساری ظاہری چیزیں ہیں اور بے معنی اور بے حقیقت ہو جاتی ہیں.اس مضمون کو سمجھنے کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ کیوں دنیا میں بڑے بڑے عبادت گزار اور جبہ پوش اور دستار بند لوگ ایسے ہیں جن کے متعلق انسان اپنی فطرت سے محسوس کرتا ہے کہ یہ تقویٰ سے خالی لوگ ہیں، بے معنی اور بے حقیقت لوگ ہیں.ان کے اندر کشش کی بجائے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اپنی طرف جذب کرنے کی بجائے وہ دھکہ دینے والے لوگ ہوتے ہیں.ان میں رعونت دکھائی دے گی.ان میں دنیا کے لحاظ سے بہت بڑائی اور رعب بھی دکھائی دے گا.مگر پیار سے خالی لوگ ہوتے ہیں کیونکہ جن کی عبادتیں اللہ کے پیار سے خالی ہوں ان کے تعلقات دنیا کے پیار سے بھی خالی ہو جایا کرتے ہیں، یعنی وہ خود دنیا کی طرف جھکتے ہیں مگر دنیا والوں کے لئے ان کے دلوں

Page 466

خطبات طاہر جلد ۹ 461 خطبه جمعه ۱ اگست ۱۹۹۰ء میں سچا پیار نہیں ہوتا.پس دنیا سے پیار ہونا اور چیز ہے اور اہل دنیا سے پیار ہونا اور چیز ہے.اہل دنیا سے پیار صرف اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ سے پیار ہو.پس یہاں بھی وہی مضمون ہے کہ زکوۃ بھی تب قبول ہوگی اگر اللہ سے پیار ہوگا اور زکوۃ کا سلیقہ بھی تب آئے گا اگر خدا تعالیٰ سے پیار ہوگا.پس تمام جماعت کو اب اس پہلو پر زور دینا چاہئے اور اپنی عبادتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.کیا پتا ہم ساری عمر عبادتیں کرتے رہے ہوں اور ساری عمر چندے بھی دیئے رہے ہوں لیکن خدا کی محبت غالب نہ ہو تو یہ ساری چیزیں ضائع ہو رہی ہوں اس لئے جب سودے کرنے ہیں تو سودوں کی قیمت وصول کرنی ہے.ایسی زندگی کا کیا فائدہ کہ انسان قربانی بھی کر رہا ہواور قربانی کا حاصل بھی کچھ نہ ہو.ایک ایسی جگہ کاشت کر رہا ہو جو زمین پیداوار کی اہلیت نہیں رکھتی.میں نے دیکھا ہے بعض بیچارے زمیندار لوگ ساری عمر ایسی زمین پر ٹکریں مارتے رہتے ہیں جہاں سے نکلتا کچھ نہیں.وہ قرضوں میں دبے رہتے ہیں.بچے ان کے نوکریاں کر کے ان کو پال رہے ہوتے ہیں لیکن وہ زمین کا پیچھا نہیں چھوڑتے.تو وہی کاشت وہی محنت اچھی ہے جس سے نتیجے میں پھل حاصل ہو.پس اگر عبادتیں کرنی ہیں تو پھلدار عبادتیں کریں، اگر چندے دینے ہیں تو پھل دار چندے دیں ، اگر عوام الناس کی خدمت کرنی ہے تو ایسی خدمت کریں جس کے نتیجے میں آپ کو کچھ حاصل ہو اور اس میں دونوں طرف محبت کی شرط رکھ دی گئی ہے.اگر محبت سے عبادتیں کرو گے، اگر محبت سے نمازیں قائم کرو گے، اگر محبت سے صدقات دو گے تو یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی ہو گی.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي اور محمد مصطفی ﷺ کی سچی پیروی کے نتیجے میں فرمایا: يُحبكُمُ الله تمہارا پھل یہ ہے کہ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا.اب اگر اللہ محبت کرنے لگے تو یہ بات کی چھپی نہیں رہ سکتی.یہ ایسی بات نہیں ہے جس کے لئے کہنے والے کو ڈھنڈورے پیٹنے پڑیں.اس کے نتیجے میں علامتیں ظاہر ہوا کرتی ہیں.اہل اللہ کی اپنی علامتیں ہیں اور وہ غیر اللہ کے سوا جو کسی اور کے بندے بنتے ہیں ان سے وہ علامتیں اہل اللہ کوممتاز کر دیا کرتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے گہرے اور لمبے تجربے کی روشنی میں بیان فرمایا ہے.اس لئے یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست لیکن جب تک آخری نتیجہ نہ نکلے، کوئی

Page 467

خطبات طاہر جلد ۹ 462 خطبه جمعه ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء شخص نہ مطمئن ہو سکتا ہے نہ اسے مطمئن ہونے کا کوئی حق حاصل ہے جب تک وہ خدا سے اس کے پیار کی علامتیں نہ حاصل کر لے اور یہ علامتیں وہ خود بیان کر کے اپنے ڈھنڈورے نہیں پیٹا کرتا لیکن دن بدن اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے پیار کے جلوے نازل ہوتے ہیں اور اس کی کیفیت بدلنے لگتی ہے.پھر لوگ اس کو دیکھتے ہیں پھر خدا اس کو بعض دفعہ ظاہر کرتا ہے اور بعض دفعہ نہیں کرتا اور دونوں صورتوں میں خدا کے ایسے بندے جو حُنَفَاء للہ ہوں وہ کلیۂ مطمئن رہتے ہیں بلکہ بعض دفعہ نہ ظاہر کرنے کی صورت میں زیادہ مطمئن ہوتے ہیں اور مزے کر رہے ہوتے ہیں اپنی ذات میں، ظاہر ہوتے ہیں تو خدا کی خاطر ہوتے ہیں اور دنیا کو خدا کی طرف بلانے کے لئے ظاہر ہوتے ہیں.پس آنحضرت مہ جب ظاہر نہیں تھے اس وقت بھی وہ خدا کے تھے اور خدا سے اسی طرح راضی تھے جب ظاہر ہوئے تو وہ جو اندرونی سکون تھا اور اطمینان نصیب تھا اس کی قربانی دے کر ظاہر ہوئے ہیں اور بہت بھاری قیمت دینی پڑی مگر چونکہ خدا کی خاطر ہوا اس لئے پھر بھی مطمئن رہے.جوریا کا رلوگ ہیں ان کا الٹ حساب ہوتا ہے.وہ جب تک ظاہر نہ ہوں یعنی اپنے آپ کو ظاہر نہ کریں اس وقت تک وہ بے چین رہتے ہیں.اس وقت تک ان کی زندگی عذاب میں مبتلا رہتی ہے.جب وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دیں تو پھر ان کے بوجھ ہلکے ہو جاتے ہیں.پس اہل اللہ کا مخفی ہونا اور حیثیت رکھتا ہے اور دنیا داروں کا مخفی رہنا اور حیثیت رکھتا ہے اہل اللہ کا ظاہر ہونا اور حیثیت رکھتا ہے اور دنیا داروں کا ظاہر ہونا بالکل اور حیثیت رکھتا ہے.خدا کے بندے جب ظاہر ہوتے ہیں تو تکلیف کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں اور آپ اشعار کا مطالعہ کریں تو یہی مضمون ملتا ہے فرماتے ہیں.مجھے تو دنیا میں نکلنے کا کوئی شوق نہیں تھا.بڑے اطمینان سے میں تیری محبت کے سائے تلے تیری محبت میں ڈوبا ہوا زندگی بسر کر رہا تھا.تو نے مجھے نکالا ہے تو میں نکلا ہوں اور تیری خاطر نکلا ہوں پس اگر تیری نیت خالص ہو یعنی مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء کے درجے سے انسان تعلق رکھتا ہو تو اس کے بعد اس کی ہر ہجرت خدا کی طرف ہوتی ہے.وہ مخفی رہ کر بھی خدا کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے.وہ ظاہر ہو کر بھی خدا کی طرف حرکت کر رہا ہوتا ہے اور اس پہلو سے اس کے اخلاص کےاوپر خدا اس کے اخفاء کی حالت میں بھی گواہ رہتا ہے اور اس کی اعلانیہ حالت میں بھی گواہ رہتا ہے.شرط

Page 468

خطبات طاہر جلد ۹ 463 خطبه جمعه اراگست ۱۹۹۰ء یہی ہے کہ خدا سے محبت کا تعلق ہو اور پیار کا تعلق ہواور یہ محبت ہر دوسرے رشتے پر غالب ہو.جتنے لوگ دنیا میں ٹھوکر کھاتے ہیں وہ اس مقام پر جا کر ٹھو کر کھاتے ہیں جہاں خدا کی محبت سے دنیا کی محبت یا اولاد کی محبت یا اپنی عزت کی محبت آگے اونچا سر نکالے ہوئے کھڑی ہوتی ہے.جب تک ان کا امتحان اس مقام تک نہیں پہنچتا وہ مخفی رہتے ہیں.یعنی ان کا نفاق مخفی رہتا ہے.ان کی نیکی مخفی نہیں رہی ان کی نیکی ظاہر رہتی ہے اور ان کا نفاق مخفی رہتا ہے.جب ابتلاء اتنا سراُٹھالے بلند ہو جائے کہ وہاں جا کر خدا کی محبت کو تاہ رہ جائے اور اس کا قد چھوٹا ر ہے اور ان کی اولاد کی محبت اور مال کی محبت اور عزت نفس کی محبت اونچی نکلی ہوئی ہو تو وہ ابتلاء پھر ان کو خدا سے الگ کر دیتا ہے.اس وقت وہ ننگے ہوتے ہیں.اس وقت وہ ظاہر ہوتے ہیں اور پتا چلتا ہے کہ یہ کیا تھے جواب ابھر کر Surface پر یعنی سطح آب پر ابھر کر نکلے ہیں تو کیا شکل نکلی ہے.سطح آب کے نیچے ڈوبی ہوئی ہزار چیزیں ہیں.کہیں بھیا تک مردہ جانور بھی ہیں.کہیں بڑی بڑی خوبصورت مچھلیاں بھی ہیں.باہر آئیں تو پتا چلے نا.تو ابتلاء یہ کام کیا کرتا ہے کہ اندرونی گندے وجود کا سر جب باہر نکلتا ہے تو نہایت بھیا نک اور مکروہ شکل میں نکلتا ہے.اس وقت پتا چلتا ہے کہ ان کی خدا کی محبت کا قد بس اتنا سا ہی تھا اور اپنی محبتوں کے قداس سے بہت اونچے تھے.پھر وہ خدا کی محبت کے بغیر وجود نکلتا ہے اور وہ مکروہ ہوتا ہے.لیکن اہل اللہ کو ابتلاء اور رنگ میں دکھاتے ہیں.ان کی نیکیاں مخفی ہوتی ہیں اور جب ابتلاء ان کو اچھالتے ہیں تو ان کی اپنی ساری محبتیں پیچھے رہ جاتی ہیں، ڈوبی ہوئی رہ جاتی ہیں،صرف خدا کی محبت کے ساتھ وہ چلتے ہیں اور خدا کی محبت کے ساتھ دنیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو خدا کبھی نہیں چھوڑتا.ہمیشہ ان کی حفاظت فرماتا ہے.ان کے ساتھ رہتا ہے.اسی کا نام اللہ کی معیت ہے، معیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چار قدم کی معیت اور پھر خدا پیچھے اور آپ آگے.یہ معیت کا مطلب ہے رَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا (التوبه (۶) کہ وہ ایمان لانے والے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہے وہ یہ ہوتے ہیں جو دین کو خدا کے لئے خالص کرتے ہیں اور ہر دوسرے کے مقابل پر خدا کی محبت کو غالب سمجھتے ہیں اس کے ہو کے رہ جاتے ہیں.پس اس مضمون کو سمجھ کر یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم احمدیوں کو کثرت کے ساتھ ایسے خدا والے عطا ہوں یا جماعت احمدیہ کو کہنا چاہئے کہ کثرت کے ساتھ

Page 469

خطبات طاہر جلد ۹ 464 خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۹۰ء ایسے خدا والے عطا ہوں جو ہر امتحان کے بعد جب وہ ظاہر ہوا کریں تو خدا کی معیت کے ساتھ ظاہر ہوا کریں.خدا کے حسن اور خدا کے جلووں کے ساتھ ظاہر ہوا کریں اس وقت دنیا میں جو بے انتہاء مصائب آرہے ہیں اور آنے والے ہیں اور بہت ہی بڑے زلزلے رونما ہونے والے ہیں جن کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں ان میں یہ اہل اللہ ہیں جو دنیا کو بچائیں گے.اس لئے آج ایک یا دو یا تین یا چار کی ضرورت نہیں ہے آج لاکھوں ایسے احمدیوں کی ضرورت ہے جو اہل اللہ بن چکے ہوں اور خدا کی معیت ان کو نصیب ہو.پس اللہ کرے کہ لاکھوں نہیں ، کڑوروں ایسے احمدی ہمیں عطا ہوں جو خدا والے بن کر دنیا کوخدا کے عذاب سے بچانے میں کامیاب ہوسکیں.( آمین )

Page 470

خطبات طاہر جلد ۹ 465 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۹۰ء خلیج کے تنازعہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کریں اسلامی ممالک کو انتباہ اور عراق کی تباہی کی خبر خطبه جمعه فرموده ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: شرق اوسط جسے ہم عرفِ عام میں مشرق وسطی بھی کہتے ہیں، اس کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور چونکہ یہ تقریباً تمام تر مسلمان علاقہ ہے، اس لئے تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بارے میں تشویش لازمی ہے اور چونکہ وہ مقدس مقامات جو مسلمانوں کو دنیا میں ہر دوسری چیز سے زیادہ پیارے ہیں یعنی مکہ اور مدینہ جہاں کسی زمانے میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم پھرا کرتے تھے اور جن کی فضاؤں کو آپ کی سانسوں نے معطر اور مبارک فرمایا تھا وہ ارض مقدسہ بھی ہر طرف سے خطروں اور سازشوں میں گھری ہوئی ہے.پس اس لحاظ سے آج سارا عالم اسلام گہرا کرب محسوس کرتا ہے لیکن سب سے زیادہ گہرا کرب در حقیقت جماعت احمد یہ ہی کو ہے کیونکہ آج دُنیا میں اسلام کی سچی اور مخلص نمائندگی کرنے والی جماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے.جب میں کہتا ہوں کہ صرف جماعت احمد یہ ہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی بے خبر انسان اس سے یہ خیال کرے کہ ایک جھوٹی تعلی ہے، ایک دعویٰ ہے اور ایک ایسی بات ہے جو دوسرے مسلمان فرقوں کو متنفر کرنے والی ہوگی اور وہ یہ سمجھیں گے کہ یہی اسلام کے علمبردار اور ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں.گویا ہمیں اسلام سے سچی ہمدردی نہیں لیکن جیسا کہ میں حالات

Page 471

خطبات طاہر جلد ۹ 466 خطبہ جمعہ ۷ اسراگست ۱۹۹۰ء کا تجزیہ آپ کے سامنے رکھوں گا اُس سے یہ بات کھل کر واضح ہو جائے گی کہ آج اگر حقیقت میں اسلام کا درد کسی جماعت کو دُنیا میں ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے.آج کے زمانے کی سیاست گندی ہو چکی ہے.انصاف اور تقویٰ سے عاری ہے.وہ مسلمان ریاستیں جو اسلام کے نام پر اپنی برتری کا دعوی کرتی ہیں اُن کی وفا بھی آج اسلامی اخلاق سے نہیں اور اسلام کے بلند و بالا انصاف کے اصولوں سے نہیں بلکہ اپنی اغراض کے ساتھ ہے.اسی وجہ سے عالم اسلام کے طرز عمل میں آپ کو تضاد دکھائی دے گا اور سوائے جماعت احمدیہ کے جتنے بھی دنیا کے فرقے ہیں آج وہ کسی نہ کسی اسلامی ریاست کے ساتھ دھڑے بنا چکے ہیں اور کسی نہ کسی ایک کو اپنی تائید کے لئے اختیار کر چکے ہیں حالانکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسلامی اقدار سے وفا کی جائے.اگر اسلام سے سچی محبت ہو تو محض ان تقاضوں سے وفا کی جائے جو اسلام کے تقاضے ہیں جو قرآن کے تقاضے ہیں، جو سنتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کی روشنی میں جب ہم موجودہ سیاست پر غور کرتے ہیں تو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق پر نہ مسلمانوں کی سیاست کی بنیاد دکھائی دیتی ہے نہ غیروں کی سیاست کی.غیر قو میں انصاف کے نام پر بڑے بڑے دعاوی کر رہی ہیں.گویا وہی ہیں جو دنیا میں انصاف کو قائم رکھنے پر مامور کی گئی ہیں اور اُن کے بغیر اُن کی طاقت کے بغیر انصاف دنیا سے مٹ جائے گا اور مسلمان ریاستیں اسلام کے نام پر بڑے بڑے دعاوی کر رہی ہیں مگر جب آپ تفصیل سے دیکھیں تو انصاف کا یعنی اُس انصاف کا جو قرآن کریم پیش کرتا ہے ایک طرف بھی فقدان ہے اور دوسری طرف بھی فقدان ہے.اب جو صورت حال اس وقت ظاہر ہوئی ہے، میں اب خاص طور پر اُس کے حوالے سے بات کرتا ہوں.عراق نے کسی شکوے کے نتیجے میں ایک چھوٹی سی ملحقہ ریاست پر حملہ کر دیا اور اس حملے کے نتیجے میں جو مسلمان ریاست پر حملہ تھا آنا فانا پیشتر اس سے کہ دنیا با خبر ہوتی اس پر مکمل قبضہ کر لیا اور اس کے نتیجے میں اچانک تمام دنیا میں ایک ہیجان بر پا ہوا اور وہ لوگ جو اسی قسم کے دوسرے واقعات پر نہ تکلیف محسوس کیا کرتے تھے، نہ کسی بہیجان میں مبتلا ہوتے تھے، نہ غیر معمولی مدد کے لئے دوڑے چلے آتے تھے ، کویت کے لئے اُن کی ہمدردیاں اس زور سے چپکی ہیں اور اس شدت کے

Page 472

خطبات طاہر جلد ۹ 467 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۹۰ء ساتھ اُن کے اندر ہیجان پیدا ہوا ہے کہ اس زمانے کی تاریخ میں اس کی کوئی اور مثال دکھائی نہیں دیتی.یہ جو عرصہ اب تک گزر چکا ہے اس کے دیگر حالات پر تو میں مزید روشنی نہیں ڈالنی چاہتا جو اخبار بین لوگ ہیں وہ جانتے ہیں کیا ہو رہا ہے مگر محض اس حوالے سے کہ اسلام کے تقاضے یا اسلامی انصاف کے تقاضوں کا کہاں تک خیال رکھا جا رہا ہے یا کہاں تک موجودہ سیاست ان سے عاری ہے، اس پہلو سے میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پوری طرح سے بغداد کی حکومت کو غیر مو ٹر کرنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے اقدامات شروع کئے تو دن بدن یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ عظیم اسلامی مملکت ایسے خطرناک حالات سے دو چار ہونے والی ہے کہ جس سے نبرد آزما ہونا اس کے بس میں نہیں رہے گا.اس وجہ سے مجھے بھی لازما غیر معمولی طور پر تشویش بڑھتی رہی اور میں بڑی گہری نظر سے جائزہ لیتا رہا کہ کس قسم کی گفت و شنید چل رہی ہے اور کیا حل پیش کئے جارہے ہیں.حال ہی میں جب شاہ حسین جو شرق اُردن کے بادشاہ ہیں انہوں نے امریکہ کا دورہ کیا تو پہلے تو یہ خیال تھا کہ کوئی خط لے کر گئے ہیں.بعد میں پتا لگا کہ خط قطا تو کوئی نہیں ویسے ہی وہ کچھ پیغامات لے کر، کچھ تجاویز لے کر گئے ہیں.اس ضمن میں جو ٹیلی ویژن اور ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے امریکہ کے صدر نے اور عراق کے صدر صدام حسین صاحب نے ایک دوسرے کے لئے زبان استعمال کی یا ایک دوسرے پر الزامات لگائے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کتنے ہیجان آمیز ہیں اور کس حد تک دنیا کی عظیم مملکتوں کے سربراہ بھی عام وقار سے اتر کر گھٹیا باتوں پر آ جاتے ہیں.حیرت ہوتی ہے اُن کے بیانات سُن کر کس طرح ایک دوسرے کے اوپر غلیظ زبان استعمال کی جارہی ہے.جھوٹا ، گندے کر دار والا ، دھوکے باز، اس قسم کے الفاظ اور واقعہ اس کے پیچھے یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی ریاست پر جو ایک مسلمان ریاست تھی ، ایک بڑی مسلمان ریاست نے قبضہ کیا ہے.دنیا میں دوسری جگہ اتنے بے شمار ایسے واقعات اس سے بہت زیادہ خوفناک صورت میں ظاہر ہوئے ہیں اور ہوتے چلے جارہے ہیں کہ اُن کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو یہ واقعہ اس کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن لازماً اس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں جن کے نتیجے میں اس کو اتنا غیر معمولی طور پر اُچھالا گیا.بہر حال قبضہ تو ہو چکا اس کے بعد اس قبضے کو ہضم کرنے کا معاملہ تھا اور جتنا شدید رد عمل دنیا

Page 473

خطبات طاہر جلد ۹ 468 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۹۰ء میں ظاہر ہوا ہے اس کے نتیجے میں عراق کے صدر صدام حسین صاحب نے امریکہ کو یہ کہلا کے بھجوایا کہ اگر تم واقعۂ انصاف چاہتے ہو تو پھر اس سارے علاقے میں انصاف برتا جائے اور ہم تیار ہیں کہ ہم اپنی چھوٹی برادر ریاست کی حکومت کو پہلے کی طرح بحال کرتے ہیں جو خاندان اس ریاست پر فائز تھا اُس کے سپر د دوبارہ اس ملک کی باگ ڈور کر دیتے ہیں اور پہلے کی طرح تمام حالات بحال کر دیئے جائیں گے.اس علاقے میں اور بھی اس قسم کی باتیں ہیں اور بھی اسی قسم کے ناجائز قبضے ہیں جو تمہارے اتفاق کے ساتھ یا تمہارے اتحاد اور تمہاری سر پرستی کے ساتھ ہوئے ہیں تم اُن کو بھی اس ناجائز تسلط سے آزاد کراؤ.مثلاً اُردن کے مغربی ساحل پر یہود کا جو قبضہ ہے جسے دن بدن وہ زیادہ مستحکم کرتے چلے جارہے ہیں اور اب روسی مہاجرین کو وہاں آباد کر رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ اس علاقے پر بھی غیروں کا قبضہ ہے بلکہ ایسے غیروں کا قبضہ ہے جو ہم مذہب بھی نہیں.ایسے غیروں کا قبضہ ہے جن سے عرب کو شدید دشمنی ہے اور اس قبضے کو وہ مستقل صورت دیتے چلے جارہے ہیں اور تمہارے مغرب کے اخلاق نے اس ضمن میں کوئی رد عمل نہیں دکھایا.مغرب کے انصاف کے تصور کے سر پر جوں تک نہیں رینگی اس لئے اُس کو بھی شامل کرو اور پھر شام (Syria) ایک اسلامی ملک ہے اُس نے لبنان میں اپنی فوجیں بھیجیں ، وہاں تسلط کیا.بار بار جب چاہے وہاں فوجیں بھجواتا ہے اور جو چاہے وہاں کرتا ہے اُس کو بھی باز رکھا جائے اور اس کی فوجوں کو واپسی کے لئے مجبور کیا جائے.اس قسم کے یہ واقعات جو اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں اُن کو ساتھ ملا کر غور ہونا چاہئے.جہاں تک صدام حسین صاحب کی اس بات کا تعلق ہے، نہایت معقول ہے اور اگر انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر بات کرنی ہے تو پھر خصوصیت کے ساتھ اس علاقے میں رونما ہونے والے سارے واقعات کو یکجائی صورت میں دیکھنا ہوگا.اسی تعلق میں کچھ اور باتیں بھی ہیں.صدام حسین صاحب نے اگر انصاف اور تقویٰ کی نظر سے دیکھا جائے تو کویت پر جو حملہ کیا ہے اس کی کوئی جائز وجہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اُس سے کم جائز وجہ یہودیوں کے پاس ہے کہ وہ اُردن کے مغربی ساحل پر قبضہ مستقل بنالیں اور اس علاقے کو ہمیشہ کے لئے ہتھیا لیں لیکن اس کے علاوہ بھی بعض مظالم اُن کی طرف منسوب ہوئے.مثلاً مغربی پریس نے یہ بات بہت ہی بڑھا چڑھا کر پیش کی کہ ایک انگریز کو نکلنے کی کوشش میں سرحد پار

Page 474

خطبات طاہر جلد ۹ 469 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۹۰ء کرتے ہوئے یعنی ملک چھوڑنے کی کوشش میں انہوں نے گولیوں سے ہلاک کر دیا.یہ ایک واقعہ ہے.اس کے مقابل پر لبنان میں یا دیگر علاقوں میں یہود نے جو مسلسل مظالم کئے ہیں اور پھر یہودی ہوائی جہازوں نے عراق ہی کے ایٹمی پلانٹس کو جس طرح دن دھاڑے بڑی بے حیائی کے ساتھ تباہ و برباد کیا، ان سارے واقعات کو مغربی دنیا نے نظر انداز کیا ہوا ہے اور اس کے خلاف ایک انگلی تک نہیں اُٹھائی.ایک علاقے میں ایک شخص مارا جاتا ہے، اس کے اوپر دنیا کے سارے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر شور پڑ جاتا ہے کہ ظلم کی حد ہو گئی ہے.ہزار ہا بوڑھے، بچے، جوان جو کیمپوں میں بالکل نہتے پڑے ہوئے ہیں اُن کو جب بالکل مظلوم حالت میں تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے اور بچوں کے سر پتھروں سے ٹکراٹکرا کر پھوڑے جاتے ہیں، بلبلاتی ہوئی ماؤں کے سامنے اُن کے بچے ذبح کئے جاتے ہیں اور پھر اُن ماؤں کی باری آتی ہے.لبنان کے ایک کیمپ میں اتنا ہولناک واقعہ گزر گیا ہے اور اس پر کسی نے کوئی شور نہیں مچایا.تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ انصاف کی باتیں ہیں یا اور باتیں ہیں.محرکات اگر انصاف پر مبنی ہیں تو پھر انصاف تو ایک ہی نظر سے سب دنیا کو دیکھتا ہے.انصاف کے پیمانے بدلا نہیں کرتے.اسی طرح عراق میں یہ مشہور کیا گیا کہ بعض انگریز ایئر ہوسٹسز (Air Hostesses) کے ساتھ وہاں کے فوجیوں نے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا اور اُن کی آبروریزی کی اور اس پر بہت شور پڑا ہے.کشمیر میں گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل مسلمان عوام اور غریب عورتوں اور بچوں پر شدید مظالم توڑے جارہے ہیں اور آبروریزی کے واقعات اس کثرت سے ہورہے ہیں اور ایسے دردناک واقعات ہیں کہ وہ جو مجھے اطلاعیں ملتی ہیں ان کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے کہ ایسے بہیمانہ اور سفا کا نہ سلوک بھی دنیا میں کئے جاسکتے ہیں.کون سے مغربی ممالک ہیں جنہوں نے اس معاملے پر ہندوستان کو ملامت کا نشانہ بنایا ہو اور کون سا مغربی میڈیا ہے جس نے ان باتوں کو نمایاں کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہو؟ جہاں روزانہ بیسیوں ایسے ظالمانہ واقعات ہوتے ہیں اور ہوتے چلے جارہے ہیں اُن سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور یہ واقعہ جو کہا جاتا ہے کہ عراق میں ہوا ہے، اس کے اوپر اتنا شور پڑا اور اس شور کے مدھم ہونے سے پہلے ہی یہ بات بھی ظاہر ہو گئی کہ وہ سب جھوٹ تھا اور ایک فرضی بات تھی.

Page 475

خطبات طاہر جلد ۹ 470 خطبہ جمعہ ۷ اراگست ۱۹۹۰ء دوسری طرف عراق بھی جو اسلامی انصاف کے تقاضے ہیں اُن پر پورا نہیں اتر رہا.اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ خواہ لڑائی ہو اور خواہ جس قوم سے تمہاری لڑائی ہورہی ہے، اُس قوم سے تعلق رکھنے والے لڑائی کے دوران تمہارے مُلک میں آباد ہوں تم ان کو کسی قسم کا Hostage بناؤ کسی قسم کی سودا بازی کے لئے ان کو استعمال کر دیا اُن پر کوئی ایسا ظلم کرو جو تقوی کے خلاف ہے یعنی ظلم فی ذاتہ تقویٰ کے خلاف ہے.مراد یہ ہے کہ اُن کے ساتھ ہر قسم کی زیادتی سے اسلام منع کرتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ساری زندگی اور اس زندگی میں ہونے والے تمام غزوے گواہ ہیں کہ ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ جس قوم کے ساتھ اسلام کی فوجیں برسر پرکار تھیں اُن کے آدمی جو مسلمانوں کے قبضہ قدرت میں تھے اُن سے ایک ادنی بھی زیادتی ہوئی ہو، وہ کلیہ آزاد تھے.جس طرح چاہتے زندگی بسر کرتے اور کسی ایک شخص نے کسی فرد واحد نے بھی اُن پر کبھی کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ اسلام تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر کوئی پناہ مانگتا ہے تو خواہ وہ دشمن قوم سے تعلق رکھنے والا ہو اُس کو پناہ دو لیکن عراق نے اسلام کے اس اعلیٰ اخلاق کے پیمانے کوکلیۂ نظر انداز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تمام برٹش قوم سے تعلق رکھنے والے جو کسی حیثیت سے کویت میں یا عراق میں زندگی بسر کر رہے تھے اور تمام امریکن جوان علاقوں میں موجود تھے اُن کو نہ ملک چھوڑنے کی اجازت ہے، نہ اپنے گھروں میں رہنے کی اجازت ہے، وہ فلاں فلاں ہوٹل میں اکٹھے ہو جائیں.اسی طرح دیگر غیر ملکیوں کو بھی جو اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیں اُن کو بھی باہر نکلنے کی اجازت نہیں.اب ظاہر بات ہے کہ جس طرح یہ معاملہ آگے بڑھ رہا ہے، ان کو Hostages کے طور پر استعمال کیا جائے گا.اب یہ بات اپنی ذات میں کلیہ اسلامی اخلاق تو در کنار، دنیا کے عام مروجہ اخلاق کے بھی خلاف ہے اس لئے اخلاق ہیں کہاں؟ آج کی سیاست میں کونسا ایک ملک ہے خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی ہو جس کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہوں کہ یہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہویا اسلامی اخلاق کے ادنی معیار پر بھی پورا اُترتا ہو.ہر طرف رخنے ہیں.اب حال ہی میں یہ جو Unitednation کے ریزولیوشنز کو بہانہ بنا کر تمام طرف سے عراق کا Blockage کیا گیا یعنی فوجی اقدام کے ذریعے عراق میں چیزوں کا داخلہ بھی بند کیا گیا اور وہاں سے چیزوں کا نکلنا بھی بند کیا گیا.اس میں دو قسم کی اخلاقی زیادتیاں ہوئی ہیں جو بہت ہی خطرناک ہیں.ایک یہ کہ یونائیٹڈ نیشنز

Page 476

خطبات طاہر جلد ۹ 471 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۹۰ء نے ہر گز کھانے پینے کی اور ضروریات زندگی کی اشیاء کو بائیکاٹ میں شامل نہیں کیا تھا.دوسرے یونائیٹڈ نیشنز نے ہرگز یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر کوئی ملک بائیکاٹ نہ کرنا چاہے تو اُسے زبر دستی بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا جائے.اب ان دونوں باتوں میں امریکہ بھی اور انگلستان بھی یہ کھلی کھلی دھاندلی کر رہے ہیں.ایک طرف عراق پر بداخلاقی کا الزام ہے جو ہم مانتے ہیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے بداخلاقی ہے، لیکن دوسری طرف اس دوسرے سانس میں خود ایک ایسی خوفناک بد اخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں جو بظاہر ڈپلومیسی کی زبان میں لپٹی ہوئی اور اتنی نمایاں طور پر خوفناک دکھائی نہیں دیتی مگر امر واقعہ یہ ہے کہ بغداد کی حکومت نے جو چار ہزار انگریز اور دو ہزار امریکن یا اس کے لگ بھگ جتنے بھی ہیں اُن لوگوں کو پکڑ کر اپنے پاس Hostage کے طور پر رکھا ہوا ہے.اگر ان کو بالآ خر خدانخواستہ ظالمانہ طور پر وہ ہلاک بھی کر دیں تو بھی یہ ظلم جو انگریز اور امریکہ مل کر عراق پر کر رہے ہیں یہ اُس سے بہت زیادہ بھیا نک مُجرم ہے.وجہ یہ ہے کہ اب اس جرم کے دائرے میں یعنی اس جرم کے نشانے کے طور پر Jorden کو بھی شامل کیا جارہا ہے.شرق اُردن ایک ایسا ملک ہے جو ہمیشہ مغرب کا وفادار رہا ہے بلکہ قابلِ شرم حد تک وفادار رہا ہے اور سب سے زیادہ وفادار اس علاقے میں جو اسلامی ریاست تھی وہ یہی ریاست تھی.ویسے تو وفا میں سعودی عرب ان سے بڑھ کر ہے لیکن اس کا معاملہ صرف وفا کا نہیں.سعودی عرب کے تمام مفادات امریکن مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکے ہیں اور ایک ہی چیز کے دو نام بنے ہوئے ہیں اس لئے وہاں وفا کا سوال نہیں مگر شرق اُردن جو ایک چھوٹا ملک ہے، یہ واقعہ ایک لمبے عرصے سے مغربی دنیا کا مشہور وفادار ملک چلا آ رہا ہے.انگریزوں کے ساتھ بھی گہرے دوستانہ بلکہ برادرانہ مراسم ، امریکنوں کے ساتھ بھی اور اب تک ان کی اپنی فہرستوں میں اس ملک کا نام ہمیشہ وفاداروں میں سر فہرست رکھا جاتا رہا.شرق اُردن کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ عراق کے ساتھ اقتصادی بائیکاٹ کرے تو خود مرتا ہے اور اس کے لئے زندگی کا کوئی اور چارہ نہیں رہتا اور پھر اگر اس کے نتیجے میں عراق اسے بہانہ بنا کر اس پر قبضہ کرنا چاہے تو شرق اردن میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ چند گھنٹے اُس کا مقابلہ کر سکے اس لئے اُن کی یہ مجبوری ہے مگر اس مجبوری کو کلیۂ نظر انداز کرتے ہوئے مغرب نے شرق اُردن کو بھی اپنے جرم کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر تم نے

Page 477

خطبات طاہر جلد ۹ 472 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۹۰ء عراق کا Blockage کرنے میں ہماری مدد نہ کی تو ہم تمہارا Blockage کریں گے اور اس Blockage میں چونکہ خوراک شامل ہے اس لئے بے شمار انسانوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑا کر بھوکوں مارنے کا منصوبہ ہے یہاں تک کہ وہ کلیہ ذلیل اور رسوا ہو کر اپنے ہر مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے.خواہ وہ مبنی بر انصاف ہو یا مبنی بر انصاف نہ ہو اور صرف یہی نہیں اس کے بعد اور بھی بہت سے بدارادے ہیں جن کے تصور سے بھی انسان کی رُوح کانپ اُٹھتی ہے.اس لئے سوال یہ ہے کہ کہاں انصاف ہے؟ مغربی دنیا چونکہ ڈپلومیسی جس کو اسلامی اصطلاح میں دجل کہا جاتا ہے، دجل میں ایک درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہے، آج تک بنی نوع انسان میں کبھی دجل کو اس بلندی تک نہیں پہنچایا گیا جس بلندی تک آج کی مغربی دنیا ڈپلومیسی اور سیاست کے نام پر دجل کو اپنے عروج تک پہنچا چکی ہے اس لئے اُن کے جرائم ہمیشہ پردوں میں لیٹے رہتے ہیں، ان کی زبان میں سلاست ہوتی ہے اور پروپیگنڈے کے زور سے اپنی باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان میں کچھ معقولیت دکھائی دینے لگتی ہے.بہر حال ایک طرف تو یہ حال ہے کہ یہ جو بحران ہے وہ دن بدن گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اور بہت سے خطرات ایسے ہیں جو سر اُٹھا کر ظاہر ہونے لگے ہیں اور بہت سے ایسے خطرات ہیں جو ابھی سرا نا نہیں اُٹھا سکے کہ عام انسانی نظر اُن کو دیکھ سکے لیکن اگر آپ گہری نظر سے مطالعہ کریں تو آپ کو وہ دکھائی بھی دے سکتے ہیں.ہمارا ایک چھوٹا سا مچھلیوں کا تالاب ہوا کرتا تھا، جب ہم وہاں جاتے تھے تو پہلی نظر سے تو صرف پانی کی سطح دکھائی دیا کرتی تھی پھر وہ مچھلیاں نظر آنے لگتی تھیں جو Surface کے قریب یعنی سطح کے قریب آکر سر ٹکراتی ہیں لیکن جب غور سے دیکھتے تھے تو پھر سطح سے نیچے تہہ تک آہستہ آہستہ وہ مچھلیاں بھی دکھائی دینے لگتی تھیں جو پہلی اور دوسری نظر میں دکھائی نہیں دیتی تھیں.تو دُنیا کے سیاسی معاملات کا بھی یہی حال ہو ا کرتا ہے.ایک سطحی نظر ہے جس سے عوام الناس دیکھتے ہیں.کچھ دیر کے بعد اُن کو وہ سر اٹھاتی ہوئی مچھلیاں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں لیکن اگر مومن کی نظر سے اور فراست کی نظر سے دیکھا جائے تو پاتال تک کے حالات دکھائی دینے لگتے ہیں.اس پہلو سے ابھی بہت سے خطرات ایسے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں ہوئے اور وقت اُن کو ظاہر کرے گالیکن میری دُعا ہے اور میں آپ کو بھی اس دُعا میں شامل کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان خطرات کو

Page 478

خطبات طاہر جلد ۹ 473 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۹۰ء عالم اسلام کے سر سے ٹال دے.آب مسلمانوں کے گروہوں کا جہاں تک حال ہے یا مسلمانوں کے رد عمل کا جہاں تک حال ہے یہ ایک نہایت ہی خوفناک اور افسوسناک رد عمل ہے.میں نے ایک پچھلے خطبے میں یہ بات بہت کھول کر عالم اسلام کے سامنے پیش کی تھی اور اخباروں میں بھی وہ بیان جاری کئے خواہ وہ شائع ہوئے یا نہ ہوئے لیکن میں نے ہدایت کی تھی کہ مسلمان سربراہوں کو اُن ہدایات کا خلاصہ یا ان مشوروں کا خلاصہ ضرور بھجوا دیا جائے.خلاصہ اُس کا یہ تھا کہ قرآن کی تعلیم کی طرف لوٹیں کیونکہ قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِى شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ (النساء : ٢٠) جب تم آپس میں اختلاف کیا کرو تو محفوظ طریق کار یہی ہے جس میں امن ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی طرف بات کو لوٹایا کرو.قرآن اور سنت جس طرف چلنے کا مشورہ دیں اسی طرف چلو اور اسی میں تمہارا امن ہے اور اسی میں تمہاری بقا ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ دُنیا کے سیاستدانوں کے ساتھ جوڑ تو ڑ کر کے اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کرو، قرآنی تعلیم کی طرف لوٹو اور قرآن کریم نے جو طریق کار واضح طور پر کھول کر بیان فرمایا ہے اس سے روشنی حاصل کرو اور وہ یہ ہے کہ صرف ایک قوم کے مسلمان نہیں بلکہ ہر ایسے جھگڑے کے وقت جس میں دو مسلمان ممالک ایک دوسرے سے برسر پیکار ہونے والے ہوں، تمام مسلمان ممالک اکٹھے ہو کر سر جوڑ کر اُس ایک ملک پر دباؤ ڈالیں جو شرارت کر رہا ہو ان کے نزدیک اور پھر انصاف کے ساتھ اُن دونوں کے معاملات سُن کر صلح کرانے کی کوشش کریں.اگر اس کے باوجود صلح نہ ہو اور ایک دوسرے پر حملہ کرتا ہے تو یہ مسلمان ممالک کا کام ہے کہ وہ اس ایک ملک کا مقابلہ کریں اور غیروں سے مدد کا کہیں ذکر نہیں فرمایا گیا.اگر اس تعلیم کو پیش نظر رکھا جاتا تو آج جو یہ حالات بد سے بدتر صورت اختیار کر چکے ہیں اور نہایت ہی خطر ناک صورت اختیار کر چکے ہیں ان کی بالکل اور کیفیت ہوتی.قرآن کریم کی اس تعلیم سے میں یہ سمجھتا ہوں اور مجھے کامل یقین ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو ایک مسلمان ملک خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اُس کے مقابل پر سارے مسلمان ملک مل کر یہ اجتماعی طاقت ضرور رکھیں گے اور ہمیشہ رکھتے رہیں گے کہ اگر وہ اپنی ضد پر قائم ہو تو اُسے بزور د با دیا جائے اور اس کی انا توڑنے پر اسے مجبور کر دیا جائے.اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن کریم یہ تعلیم نہ دیتا.یہ

Page 479

خطبات طاہر جلد ۹ 474 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۹۰ء ایسی واضح اور قطعی تعلیم ہے جس میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی اسلامی ملک خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہوا اگر وہ سرکشی دکھاتا ہے اور تم باقی مسلمان ملک قرآنی تعلیم کے مطابق معاملات طے کرانے کی کوشش کرتے ہو اور وہ ضد کرتا ہے اور بغاوت اختیار کرتا ہے تو تمہاری اجتماعی طاقت اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی.یہ خوشخبری ہے جو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے دی ہے اور یہ خوشخبری آج بھی صادق آتی ہے اگر اس سے فائدہ اُٹھایا جائے لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف سعودی عرب نے اپنے سر پرستوں کو فوری طور پر مداخلت کی دعوت دی اور ان کی فوجیں یعنی امریکہ کی اور انگلستان کی فوجیں وہاں پہنچنی شروع ہوئیں بلکہ تمام دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کو انہوں نے ان بڑی طاقتوں کو مجبور کیا یا آمادہ کیا کہ وہ بھی کچھ نہ کچھ حصہ ڈالیں.چنانچہ مشرق بعید سے بھی ، دور دراز سے کچھ نیول یونٹس یا ہوائی جہازوں کے یونٹس یا کچھ فوجی ہر طرف سے وہاں پہنچنے شروع ہوئے تا کہ تمام دنیا ایک طرف ہو جائے اور عراق اور اس کا ایک آدھ ساتھی ، شرق اردن کو ایک طرف کر دیا جائے اور اب تک یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب دفاعی اقدامات ہیں اور خطرات کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ان کی حد بندی کی جارہی ہے.دوسرا اس کا پہلو یہ ہے کہ اکثر مسلمان ممالک ان بڑے ممالک کے دباؤ کے نیچے آ کر مجبور ہو چکے ہیں یا اپنی خود غرضیوں کی وجہ سے اس بات پر بطیب خاطر شرح صدر کے ساتھ آمادہ ہو چکے ہیں کہ وہ بھی اپنی فوجیں وہاں بھیجیں.یہاں تک کہ پاکستان کی حماقت کی حد ہے کہ پاکستان بھی ان مسلمان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جس نے سعودی عرب اپنی فوجیں بھجوانے کا وعدہ کیا ہے یعنی ایسی فوج جو امریکہ اور انگلستان کی فوجوں کے ساتھ مل کر مسلمان ملک عراق کے خلاف لڑے گی.یہ صورت حال بہت زیادہ سنگین ہوتی چلی جارہی ہے اور یہ خیال کرنا کہ یہ ساری کاروائیاں اور اتنی بڑی تیاریاں صرف سعودی عرب کو بچانے کے لئے کی جارہی ہیں ، بہت پرلے درجے کی حماقت ہوگی.اس سے زیادہ سادگی نہیں ہو سکتی کہ انسان یہ خیال کرے کہ اتنے بڑے ہنگامے جو دُنیا میں برپا ہورہے ہیں، تمام طرف سے Naval Blockadge ہورہے ہیں اور نہایت خطرناک قسم کے جنگی طیارے جو آج تک کبھی کسی محاذ پر استعمال نہیں ہوئے وہ بھی وہاں پہنچائے جارہے ہیں اور جدید ترین جنگی ہتھیار وہاں اکٹھے کئے جارہے ہیں یہ صرف سعودی عرب کو عراق سے بچانے کے

Page 480

خطبات طاہر جلد ۹ 475 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۹۰ء لئے کیا جارہا ہے.مجھے جو خطرہ نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے بہانے عراق کو چاروں طرف سے کلیۂ نہتا کرنے کے بعد اسرائیل کو اجازت دی جائے گی کہ وہ عراق پر حملہ کرے اور Jorden نے اگر یہی رستہ اختیار کیا جو اس وقت اختیار کئے ہوئے ہے یعنی اپنی مجبوری کی وجہ سے عراق کے ساتھ ہے تو اُن کے لئے یہ بہت بڑا بہانہ موجود ہے کہ اس وجہ سے کہ Jorden ان کے ساتھ شامل نہیں ہو رہا Jorden کو سزا دی جائے اور اس کی سزا یعنی بقیہ آدھی سزا یہ ہوگی کہ جس طرح اُردن کے مغربی کنارے پر یہود قابض ہو گئے ، Jorden کے باقی علاقے پر بھی جس حد تک ممکن ہے یہود قابض ہو جائیں اور جس حد تک تیزی کے ساتھ عراق وہاں پہنچ سکتا ہے اُس کے کچھ علاقے پر عراق قابض ہو جائے اور اس کے بعد پھر عراق کو شدید سزادی جائے.اس ضمن میں یہ خطرہ ہے کہ کچھ عرصے تک یہ دباؤ بڑھایا جائے گا اور بھوک سے مجبور کر کے ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے گا اور اس دوران اگر کسی وقت مناسب سمجھا گیا تو ایک اشارے پر اسرائیل کو اجازت دی جاسکتی ہے اور یہ سب کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو مسلمان فوجوں کے ساتھ مل کر یہاں حفاظت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں.ہمارا تو اس میں دخل ہی کوئی نہیں اور ہمارے ان فوجی اقدامات کے ساتھ تمام عالم اسلام کا اتفاق شامل ہے اور ہماری طرف سے تو کوئی زیادتی نہیں ہوئی ، یہ عراق اور اسرائیل کے درمیان کے معاملات ہیں.یہ آپس میں طے کرتے رہیں ہم تو بیچ میں دخل نہیں دیں گے اور مسلمان ممالک کی فوجیں چونکہ یہاں مقفل ہو چکی ہوں گی اس لئے دوسرے مسلمان ممالک اگر چاہیں بھی تو الگ ہو کر اسرائیل کے مقابلے کے لئے عراق کی کوئی مرد نہیں کر سکیں گے.اگر یہ نہ ہو تو اس کے علاوہ بھی یہ خطرہ بڑا حقیقی ہے کہ عراق سے ایسا خوفناک انتقام لیا جائے گا کہ اسے پُرزہ پرزہ کر دیا جائے گا اور جب تک ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو گی، جب تک یہ اُبھرتا ہوا مسلمان ملک جو اس علاقے میں ایک غیر معمولی طاقت بن رہا ہے اسے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود نہ کر دیا جائے.یہ ارادے پہلے اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں اور میں اسرائیل کے جو بیانات پڑھتا رہتا ہوں اُن سے مجھے یقین ہے کہ بہت دیر سے اسرائیل جو یہ پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ اسرائیل کو عراق سے خطرہ ہے یہ ساری باتیں اُسی کا شاخسانہ ہیں.کسی طرح عراق کو آمادہ کیا گیا کہ وہ کو یت پر قبضہ کرے اور پھر یہ سارا سلسلہ جاری ہو.یہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ایسے وقت اتفاقی نہیں ہوا کرتے اور ان کے

Page 481

خطبات طاہر جلد ۹ 476 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۹۰ء پیچھے کچھ محرکات ہوتے ہیں، کچھ زیر زمین سازشیں کام کر رہی ہوتی ہیں، کہیں.C.I.A کے ایجنٹ ہیں، کہیں دوسرے ایسے غدار ملک کے اندر موجود ہیں جو غیر ملکی بڑی بڑی طاقتوں کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے میں نہایت حکمت کے ساتھ دبی ہوئی خفیہ کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کارروائیوں کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الناس میں موجود ہے کہ خناس وہ طاقتیں ہیں جو ایک شرارت کا بیج بو کر خود پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور کچھ پتا نہیں لگتا کسی کو کہ کہاں سے بات شروع ہوئی، کیوں ہوئی ، کوئی بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے تو کون ذمہ وار ہے؟ لیکن در حقیقت ان کے پیچھے بڑی بڑی قو میں ہوا کرتی ہیں.پس اس پہلو سے یہ حالات نہایت ہی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں.اب آپ عالم اسلام کا تاریخی پس منظر میں جائزہ لے کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کبھی بھی اسلام کی قوت کو بعض مسلمان ممالک کے شامل ہوئے بغیر نقصان نہیں پہنچایا جاسکا.ساری اسلامی تاریخ کھلی کھلی اس بات کی گواہ پڑی ہے کہ جب بھی مغربی طاقتوں نے مسلمان طاقت کو اُبھرنے سے روکا ہے یا ویسے کسی ظاہری یا مخفی جنگی کارروائی کے ذریعے ان کو پارہ پارہ کیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے تو ہمیشہ بعض مسلمان ممالک کی تائید ان لوگوں کو حاصل رہی.میں اس تاریخ کا مختصر ذکر آپ کے سامنے رکھتا ہوں، صرف نکات کی صورت میں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں المر' کے اعداد پر بحث کرتے ہوئے یہ نقاب کشائی سب سے پہلے فرمائی کہ ان آیات میں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان اعداد میں اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ کوئی تعلق موجود ہے اور ان کے اعداد ۱ ۲۷ بنتے ہیں اور ا۲۷ وہ سال ہیں جو پہلی تین نسلوں کے گزرنے کے سال ہیں جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خوشخبری دی تھی کہ یہ نسلیں یعنی میری نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل یہ مامون اور محفوظ نسلیں ہیں.ان کا بھی کم و بیش وقت ۲۷۱ سال پر جا کر پورا ہوتا ہے.یہ وہ خطرناک سال ہے جس میں عالم اسلام کے انحطاط کی بنیادیں کھودی گئیں اور آئندہ سے پھر عالم اسلام میں جو افتراق پیدا ہوا ہے اور مختلف جگہ انحطاط کے آثار پیدا ہوئے ہیں دراصل ان کا آغاز اسی سال میں ہوا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے جو دو بڑے اہم واقعات سنگِ میل کے طور پر پیش فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ ۲۷۱ میں سپین کی اسلامی مملکت نے پوپ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ بغداد کی حکومت کو تباہ کرنے میں اور ان کو

Page 482

خطبات طاہر جلد ۹ 477 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۹۰ء شکست دینے میں پوپ سپین کی اسلامی مملکت کی تائید کرے گا اور اس زمانے میں چونکہ پوپ کا اثر مغربی سیاسی دنیا پر غیر معمولی طور پر زیادہ تھا بلکہ بعض پہلوؤں سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوپ ہی کی حکومت تھی اس لئے یہ ایک بہت ہی بڑا خطرناک معاہدہ تھا اور یہ ایسی سازش تھی جیسے آج سعودی عرب تمام مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرے کہ ایک اسلامی ملک کو تباہ کر دیا جائے اور وہ اسلامی ملک پھر وہی ملک ہو جس کا دارالخلافہ بغداد ہے.دوسری طرف بغداد نے ۲۷۲ یا ۳ ۲۷ ہجری میں قیصر روم کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ قیصر روم اور بغداد کی حکومت یعنی عراق کی حکومت اُس وقت تو عراق اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ عراق کے علاوہ بھی اسلامی مملکت پھیلی ہوئی تھی، اس لئے اس زمانے کی اسلامی حکومت کو بغداد کی حکومت کہنا ہی زیادہ موزوں ہے تو بغداد کی حکومت اور قیصر روم کی طاقت مل کر سپین کی اسلامی مملکت کو تباہ کر دیں گے.پس یہ وہ سال ہے جو آئندہ ہمیشہ ہمیش کے لئے مسلمانوں کے امن کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ہلاکتوں کے رستے کھولنے والا سال تھا اور اس کے بعد جب بھی بڑے بڑے واقعات اسلامی مملکتوں پر گزرے ہیں، ہمیشہ غیروں کی سازشوں میں بعض مسلمان ممالک ضرور شامل رہے ہیں.ہلاکو خان کے ذریعے ۱۲۵۸ھ میں بغداد کو تباہ کروایا گیا یعنی تقدیر نے کروایا یا جو بھی حالات تھے اُن میں بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس وقت اعتصم جو آخری عباسی خلیفہ تھا اور بہت کمزور ہو چکا تھا اُس کے وزیر اعظم نے یا وزیر نے مجھے جہاں تک یاد ہے غالباوزیر اعظم تھے اور وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور وہ المعتصم سے ناراض تھے اس وجہ سے کہ انہوں نے بعض نہایت ظالمانہ کارروائیاں شیعوں کے خلاف کیں.یہ درست ہے کہ وہ کارروائیاں ظالمانہ تھیں اُن کا کوئی حق المعتصم کو نہیں پہنچتا تھا لیکن اس کا بدلہ انہوں نے اس طرح اُتارا کہ ہلاکو خان جو اپنے تسخیر کے ایک دورے پر تھا لیکن یہ خوف محسوس کرتا تھا کہ بغداد پر حملہ کرنا شاید معقول نہ ہو اور شاید اس کے اچھے نتائج نہ نکلیں اُس کو اس وزیر نے پیغام بھجوایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس مملکت کا صرف رعب ہی رعب ہے اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے اور بعض اور ایسے اقدامات کئے جن کے نتیجے میں فوج کو منتشر کروا دیا گیا.زیادہ جو فوج رکھی گئی تھی اس کے متعلق بادشاہ کو کہا گیا کہ خزانہ اس کا بار برداشت نہیں کر سکتا اس لئے اس کو کم کر دو.کچھ فوج کو ایسی سرحدوں کی طرف بھیجوا دیا گیا جہاں سے کوئی خطرہ نہیں تھا.غرضیکہ ہلاکو خان کو

Page 483

خطبات طاہر جلد ۹ 478 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۹۰ء دعوت دے کر بلوایا گیا اور وہ جو بے انتہاء خوفناک بر بادی بغداد کی اور اس اسلامی حکومت کی ہوئی ہے اس کی تفاصیل میں جانے کا موقع نہیں.اکثر لوگوں نے یہ واقعات سنے ہوں گے اور اس پر بعض درد ناک ناول بھی لکھے گئے.بہر حال یہ دنیا کا ایک معروف ترین تاریخی واقعہ ہے یہ واقعہ ۶۳۷ ھ میں گزرا ہے اندر سے ہی بعض مسلمانوں نے غیر قوموں سے سازش کر کے بغداد پر حملہ کروایا.اس کے بعد تیمور لنگ کے ہاتھوں ۱۳۸۶ھ میں بڑی بھاری تباہی مچائی گئی اور اس وقت بھی مسلمانوں کے نفاق اور افتراق کا نتیجہ تھا کہ تیمور لنگ کو یہ موقعہ میسر آیا کہ وہ ایک دفعہ پھر بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دے اور اس مملکت کو تباہ و برباد کر دے.تیسری دفعہ ترکوں کے ہاتھوں ۱۶۳۸ھ میں بغداد کی حکومت کو برباد کیا گیا اور یہ بھی ایک مسلمان حکومت تھی جو مسلمان حکومت کے خلاف برسر پر کا تھی.اس کے بعد ترکوں کی حکومت کو بر باد کرنے کے لئے انگریزوں نے سعودی عرب کے اُس خاندان اور سعودی عرب کے اُس فرقے سے مدد حاصل کی جو اس وقت سعودی عرب پر قابض ہے اور اس زمانے میں کو بیت جس پر اب عراق نے حملہ کیا ہے ان کا نمایاں طور پر ممد و مددگار تھا.چنانچہ ان کی کوششوں سے یعنی اگر سعودی عرب کے موجودہ خاندان کو جو ایک سیاسی خاندان تھا اور ان کا قبیلہ اور فرقہ وہابیہ ا کٹھے ہو کر انگریز کی تائید نہ کرتے اور اگر کویت میں بسنے والے قبائل ان کی مدد نہ کرتے تو ترکی حکومت کو عالم اسلام سے ختم نہیں کیا جا سکتا تھا.عرب ازم کے تصور کو اُٹھایا گیا اور بھی بہت سی کا رروائیاں ہیں.یہ لمبی کہانی ہے مگر اس وقت بھی ایک غیر طاقت نے بعض مسلمانوں کو استعمال کر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی حکومت کو برباد کیا یعنی پہلے ترکی نے بغداد کی حکومت کو تباہ کیا پھر کویت اور سعودی عرب کے علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کی مدد سے ترکی کی حکومت کو تباہ و برباد کر وایا گیا.اب پھر ویسے ہی حالات در پیش ہیں.اب پھر سعودی عرب کی مدد سے اور تائید سے اور اردگرد کی ریاستوں کی تائید اور مدد کے ساتھ ایک بڑی اسلامی مملکت کو بہت ہی سخت خطرہ درپیش ہے اور جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے ان قوموں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس دفعہ عراق کو ایسی خوفناک سزا دی جائے اور ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ پھر بیسیوں سال تک کوئی مسلمان ملک ان قوموں کے خلاف سر اُٹھانے کا یا ان سے آزادی کا تصور بھی نہ کر سکے اور اس میں سب سے بڑا محرک اسرائیل

Page 484

خطبات طاہر جلد ۹ 479 خطبہ جمعہ ۷ اراگست ۱۹۹۰ء ہے کیونکہ اسرائیل بڑے عرصے سے یہ شور مچا رہا ہے کہ ہمیں عراق کی طرف سے کیمیائی حملے کا خطرہ ہے اور ہماری چھوٹی سی ریاست ہے اگر عراق کیمیاوی حملہ کرے تو ہم صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں.پس جو بھی خطرہ تھا وہ حقیقی تھایا غیر حقیقی اور اس کی ذمہ داری کس پر ہے اس بحث میں جائے بغیر یہ بات بہر حال قطعی اور یقینی ہے کہ سب سے بڑا ان حالات کا محرک اسرائیل ہے اور اسرائیل کے مفادات ہیں اور اس وقت تمام عالم اسلام گویا اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کے لئے کھڑا ہو چکا ہے اور اس کے مقابل پر ایک ایسے اسلامی ملک کو برباد کر نے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے جس کی یقیناً بعض حرکتیں غیر اسلامی تھیں اور تقویٰ اور انصاف کے خلاف تھیں لیکن اس کے باوجود اس بات کا سزاوار تو نہیں کہ اُس کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے اور برباد کر دیا جائے.انصاف کے خلاف ساری دنیا میں حرکتیں ہو رہی ہیں.اس سے بہت زیادہ حرکتیں ہو رہی ہیں اور کوئی بڑی طاقت اُس کے لئے اپنی چھوٹی انگلی بھی نہیں ہلاتی.اس لئے جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ انصاف کی خاطر نہیں کر رہے.گہری دشمنیاں ہیں بعض انتقامات انہوں نے لینے ہیں اور یہ حملہ حقیقت میں اسلام پر حملہ ہے.گو بظاہر ایک ایسے اسلامی ملک پر حملہ ہے جس کی اپنی حرکتیں بھی اسلامی نہیں رہیں.پس یہ دشمنیاں بہت گہری ہیں اور تاریخی نوعیت کی ہیں اور یہ فیصلے بہت اونچی سطح پر کئے گئے ہیں کہ اس وقت ساری دنیا میں سب سے بڑی طاقت کے طور پر عراق اُبھر رہا ہے.اگر اسے ابھرنے دیا گیا تو بعید نہیں کہ یہ ارد گرد کی ریاستوں کو ہضم کرنے کے بعد ایک متحد عالم اسلام مشرق اوسط میں پیدا کر دے جس میں ساری دنیا کی تیل کی دولت کا ایک معتد بہ حصہ موجود ہو اور اقتصادی لحاظ سے اس میں یہ صلاحیت موجود ہوگی کہ وہ باقی تمام باتوں میں بھی خود کفیل ہو جائے اور پھر غیر معمولی بڑی فوجی طاقت بن کر ابھرے یہ ان کے خطرات ہیں.خطرات کچھ بھی ہوں آج سب سے بڑا خطرہ جو عالم اسلام کو دکھائی دینا چاہئے وہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی تائید اور نصرت اور پوری حمایت کے ساتھ ایک اُبھرتی ہوئی اسلامی مملکت کو صغیر ہستی سے نیست و نابود کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور خود اس میں اس مملکت کے ارباب حل و عقد ذمہ دار ہیں.ایسی صورت میں کیا ہو سکتا ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی وقت اتنا نہیں گزر چکا کہ حالات کو سنبھالا نہ جاسکتا ہولیکن مسلمانوں کے لئے سوائے اس کے کہ خدا اور رسول کی طرف لوٹیں اور کوئی نجات اور امن کی راہ نہیں

Page 485

خطبات طاہر جلد ۹ 480 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۹۰ء ہے.جہاں تک عراق کا تعلق ہے ان کے لئے سب سے پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ اسلامی اخلاق کو مجروح نہ کریں اور زیادہ دنیا میں اسلام کو تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں.وہ غیر ملکی جو اس وقت ان کی پناہ میں ہیں خواہ ان کا تعلق امریکہ سے ہو یا انگلستان سے ہو یا پاکستان سے ہواُن کو کھلی آزادی دیں کہ جہاں چاہیں جائیں ہمارا تم پر کوئی حق نہیں ہے.ہماری ان ملکوں سے اگر لڑائیاں ہیں تو ہم اُس سے نپٹیں گے یا اپنے معاملات کو طے کریں گے مگر تم اپنی ذات میں معصوم ہو اور ہماری امانت ہو اور امر واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کی رُو سے ہر غیر ملکی اس ملک میں امانت ہوا کرتا ہے جس میں وہ کسی وجہ سے جاتا ہے.خواہ اس ملک کی اس غیر ملکی کے ملک سے لڑائی بھی چھڑ جائے تب بھی وہ امانت رہتا ہے.پس اس امانت میں خیانت کا نہایت ہولناک نتیجہ نکلے گا ان کی انتقام کی آگ جو پہلے ہی بھڑک رہی ہے وہ اتنی شدت اختیار کر جائے گی کہ وہ لکھو کھبا معصوم مسلمانوں کو بھسم کر کے رکھ دے گی.حکومت کے سر براہ اور اس سے تعلق رکھنے والے تو چند لوگ ہیں جو مارے جائیں گے.وہ مسلمان معصوم عوام مارے جائیں گے، جنگ کے ایندھن بھی وہی بنیں گے اور جنگ کے بعد کے انتظامات کا نشانہ بھی انہیں کو بنایا جائے گا اس لئے سوائے اس کے کہ عراق کی حکومت تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیم کی طرف لوٹے اس کے لئے امن کی کوئی راہ کھل نہیں سکتی.یہ قدم اُٹھائے اور دوسرے عالم اسلام کو یہ پیغام دے کہ میں پوری طرح تیار ہوں تم جو فیصلہ کرو میں اُس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہوں اور ہر گارنٹی دیتا ہوں کہ کویت سے میں اپنی فوجوں کو واپس بلاؤں گا.امن بحال ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ فیصلہ عالم اسلام کرے اور غیروں کو اُس میں شامل نہ کیا جائے.اگر یہ تحریک زور کے ساتھ چلائی جائے اور عالم اسلام کے ساتھ جس طرح ایران سے صلح کرتے وقت نہایت لمبی جنگ کے اور خونریزی کے بعد جس میں Millions ہلاک ہوئے یا زخمی ہوئے جو علاقہ چھینا تھا وہ واپس کرنا پڑا.اگر یہ ہو سکتا ہے تو خونریزی سے پہلے کیوں ایسا اقدام نہیں ہوسکتا اس لئے دوسرا قدم عراق کے لئے ضروری ہے کہ کویت سے اپنا ہاتھ اُٹھالے اور عالم اسلام کو یقین دلائے کہ جس طرح میں نے ایران سے صلح کی ہے اسلام دشمن طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کی خاطر ان کے ظلم سے بچنے کے لئے میں تم سب سے صلح کرنی چاہتا ہوں اور یہ ظلم صرف ہم پر نہیں ہوگا بلکہ سارے عالم اسلام پر ہوگا.اسلام کی طاقت بیسیوں سال تک بالکل پچلی جائے گی اور اسلامی مملکتیں پارہ پارہ ہو جائیں گی اور کاملۂ غیروں

Page 486

خطبات طاہر جلد ۹ 481 خطبہ جمعہ ۷ اراگست ۱۹۹۰ء پر ان کو انحصار کرنا پڑے گا.اتنے خوفناک بادل اس وقت گرج رہے ہیں اور ایسی خوفناک بجلیاں چمک رہی ہیں کہ اگر ان لوگوں کو نظر نہیں آرہیں تو میں حیران ہوں کہ کیوں ان کو دکھائی نہیں دیتیں، نہ ان کو ان کا شور سنائی دے رہا ہے ، نہ ان کو خطرات دکھائی دے رہے ہیں اور جاہلوں کی طرح دوحصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوئے ہوئے ہیں.پس ضروری ہے کہ عراق یہ پیغام دے اور بار بار یہ پیغام ریڈیو ٹیلی ویژن کے اوپر نشریات کے ذریعہ تمام عالم اسلام میں پہنچایا جائے کہ ہم واپس ہونا چاہتے ہیں.ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے عالم اسلام کی عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں لیکن اس میں غیروں کو شامل نہ کرو.یہ ایک ایسی اپیل ہے جس کے نتیجے میں تمام مسلمان رائے عامہ اتنی شدت کے ساتھ عراق کے حق میں اُٹھے گی کہ یہ حکومتیں جو ارادہ بدنیتوں کے ساتھ بھی غیروں کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر مجبور ہیں وہ بھی مجبور ہو جائیں گی کہ اس اپیل کا صحیح جواب دیں اور اگر نہیں دیں گی تو پھر اگر یہ خدا کی خاطر کیا جائے اور خدا کی تعلیم کے پیش نظر اسلامی تعلیم کی طرف لوٹا جائے تو اللہ تعالیٰ خود ضامن ہو گا اور یقینا اللہ تعالیٰ عراق کی ان خطرات سے حفاظت فرمائے گا جو خطرات اس وقت عراق کے سر پر منڈلا رہے ہیں.ہماری تو ایک درویشانہ اپیل ہے، ایک غریبانہ نصیحت ہے اگر کوئی دل اسے سنے اور سمجھے اور قبول کرے تو اس کا اس میں فائدہ ہے کیونکہ یہ قرآنی تعلیم ہے جو میں پیش کر رہا ہوں اور اگر تکبر اور رعونت کی راہ سے ہماری اس نصیحت کو رڈ کر دیا گیا تو میں آج آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اتنے بڑے خطرات عالم اسلام کو در پیش ہونے والے ہیں کہ پھر مدتوں تک سارا عالم اسلام نوحہ کناں رہے گا اور روتا رہے گا اور دیواروں سے سر ٹکراتا رہے گا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا، کوئی پیش نہیں جائے گی کہ ان کھوئی ہوئی طاقتوں اور وقار کو حاصل کر لیں جو اس وقت عالم اسلام کا دنیا میں بن رہا ہے اور بن سکتا ہے.عملاً اس وقت مسلمان ممالک ایک ایسی منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے اگر خاموشی اور حکمت کے ساتھ اور فساد مچائے بغیر وہ قدم آگے بڑھائیں تو اگلے دس یا پندرہ سال کے اندر عالم اسلام اتنی بڑی طاقت بن سکتا ہے کہ غیر اس کو ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھ سکیں گے اور چاہیں بھی تو ان کی پیش نہیں جائے گی اور اگر آج ٹھوکر کھائی ، آج غلطی کی تو ایک ایسی خطرناک منزل ہے کہ یہاں سے پھر

Page 487

خطبات طاہر جلد ۹ 482 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۹۰ء ٹھوکر کھا کر ایک ایسی غار اور ایسی تباہی کے گڑھے میں بھی گر سکتے ہیں جہاں سے پھر واپسی ممکن نہیں رہے گی.اس کے ساتھ ہی میں جماعت کو تلقین کرتا ہوں کہ وہ بہت ہی سنجیدگی اور در ددل کے ساتھ دعائیں کریں.مسلمان ممالک ہم سے جو بھی زیادتیاں کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں یا آئندہ کریں گے یہ ان کا کام ہے کہ وہ خدا کو خود جواب دیں گے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ہم اسلام کے وفادار ہیں اور اسلامی قدروں کے وفادار ہیں ہمیں اس بات سے کوئی خوف نہیں کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے کسی مسلمان ملک کی غلطی کی نشاندہی کر کے اُس سے عاجزانہ درخواست کریں کہ اپنی اصلاح کرو اور اُس کے نتیجہ میں خواہ وہ ہمارا دشمن ہو جائے یا ہم سے بعد ازاں انتقامی کاروائیوں کی سوچے.ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ہمارا یہ طرز عمل خالصہ اللہ ہے.ہم جانتے ہیں کہ آج اسلام کی روح قرآن اور سنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں ہے.اگر قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی سنت سے محبت ہے تو لازماً اس روح کی ہمیں حفاظت کرنی ہوگی اور اس روح کی حفاظت کے لئے تمام دنیا کے احمدی ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں.حق بات کہنے سے وہ باز نہیں آئیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو حق بات سے باز نہیں رکھ سکتی اور ایسی حق بات جو سراسر کسی کے فائدہ میں ہو.اگر اس سے کوئی ناراض ہوتا ہو پھر ہماری پناہ ہمارے خدا میں ہے ہمارا تو کل ہمارے مولیٰ پر ہے اور ہمیں دینا کی سیاستوں سے کوئی خوف نہیں.اس ضمن میں میں آپ کو ایک خوشخبری بھی دینی چاہتا ہوں کہ جو نصیحت میں نے کی ہے یہ نصیحت حقیقت میں آج میرے مقدر میں تھی کہ میں ضرور کروں اور خدا نے اس کا آج سے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حمامۃ البشری میں لکھتے ہیں: وإن ربي قد بشرنى فى العرب، وألهمنى أن أمونهم وأُريهم طريقهم وأصلح شؤونهم، وستجدوني في هذا الأمر إن شاء الله من الفائزين.(حمامة البشرکی روحانی خزائن صفحہ ۱۸۲) یعنی میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی ہے اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال درست کروں اور انشاء اللہ آپ مجھے اس معاملہ میں

Page 488

خطبات طاہر جلد ۹ کامیاب وکامران پائیں گے.483 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۹۰ء پس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس فریضہ کی ادائیگی پر مأمور فرمایا آج آپ کے ادنی غلام کی حیثیت سے میں آپ کی نمائندگی میں اس فریضے کو ادا کر رہا ہوں اور میں اس الہام کی خوشخبری کی روشنی میں تمام عالم اسلام کو بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ ان عاجزانہ، غریبانہ نصیحتوں پر عمل کریں گے تو بلا شبہ کامیاب اور کامران ہوں گے، اور دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اور آخرت میں بھی سرفراز ہوں گے لیکن اگر خدانخواستہ انہوں نے اپنے عارضی مفادات کی غلامی میں اسلام کے مفادات کو پرے پھینک دیا اور اسلامی تعلیم کی پرواہ نہ کی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو دنیا اور خدا کے عذاب سے بچا نہیں سکے گی.اللہ تعالیٰ عالم اسلام کی طرف سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے اور ہمارے دل کو فرحت نصیب فرمائے اور ہماری تمام بے قراریاں اور کروب دور فرمائے جن میں آج مجھے یقین ہے کہ ہر احمدی کا دل مبتلا ہے.آمین.

Page 489

Page 490

خطبات طاہر جلد ۹ 485 خطبه جمعه ۲۴ راگست ۱۹۹۰ء خلیج کے بحران پر حقیقت افروز تبصرہ اسلامی دنیا کی ترقی اور امن مسیح محمدی کی دعاؤں پر منحصر ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ راگست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ کئی صدیوں سے شرق اوسط کا علاقہ مسلسل انحطاط کا شکار ہے اور جنگوں اور بے چینیوں اور بدامنی اور کئی قسم کے کروب میں اور دکھوں اور تکلیفوں میں مبتلا رہا ہے لیکن گزشتہ چالیس سال سے خصوصیت کے ساتھ ان تکلیفوں اور بے چینیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوا بلکہ ہوتا چلا جارہا ہے.اس کی وجوہات معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں لیکن معلوم ہونے کے باوجود ان وجوہات پر نہ مشرق کی توجہ ہے نہ مغرب کی توجہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال کے دور میں جتنی باراس علاقے کا امن پارہ پارہ ہوا اور اس کے نتیجے میں عالمی امن کو صدمے کے احتمالات پیدا ہوئے اتنی ہی بار اس کے نتیجے میں جو رد عمل مغرب نے دکھایا وہ آئندہ ایسے ہی خطرات پیدا کرنے والا رد عمل تھا اور ایسے ہی خطرات کو بڑھانے والا رد عمل تھا ان کو دور کرنے والا نہیں تھا اور ہر ایسے تجربے سے گزرنے کے بعد شرق اوسط میں بسنے والے مسلمان عربوں نے جو ردعمل دکھایا وہ وہی رد عمل تھا جس کے نتیجہ میں وہ پہلے بارہا نقصانات اٹھا چکے تھے اور بارہا اپنی تکالیف میں اضافہ کر چکے تھے.پس بار بار کے تجارب سے گزرتے ہوئے ، بار بار انہی نتائج تک پہنچنا جو پہلی مرتبہ بھی غلط ثابت ہو چکے ہیں یہ دانشوروں کا کام نہیں لیکن بظاہر دونوں طرف دانشور بھی موجود ہیں اس لئے کچھ اور وجہ ہے جس کی بناء

Page 491

خطبات طاہر جلد ۹ 486 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء پر یہ صورتحال سلجھنے کی بجائے مسلسل الجھتی چلی جارہی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس تمام بے چینی کی جڑ اسرائیل ہے اگر چہ ہر لڑائی کے بعد مغرب نے اس کا ایک تجزیہ پیش کیا اور یہ بتایا کہ مشرق وسطی کے لوگوں کی کیا غلطی تھی ان کے راہنماؤں کا کیا قصور تھا جس کے نتیجے میں یہ سب نقصان پہنچے ہیں لیکن کبھی بھی انہوں نے مرض کی جڑ نہیں پکڑی اور اپنے طرز عمل میں اصلاح کی طرف کبھی توجہ پیدا نہیں کی.مثال کے طور پر اس سے پہلے جنرل ناصر کے اوپر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ عبدالناصر ایک پاگل شخص ہے یہ اپنا توازن کھو بیٹھا ہے.اس کو علم نہیں کہ اس کے مقابل پر طاقتیں کتنی غالب ہیں اور ان کے مقابل پر اس کی یا اس کے ساتھیوں کی ، سارے عربوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے.جتنی دفعہ یہ جنگ کو جائے گا ہر بار ہزیمت اٹھائے گا اور پہلے سے بدتر حال کو پہنچے گا اس لئے مغربی دنیا کے تجزئے کے مطابق ایک پاگل را ہنما اٹھا جس نے اپنے جوش کی وجہ سے تمام قوم کے دل جیت لئے مگر ہوش سے عاری تھا اس لئے ان کی ہوش کے لئے اس نے کوئی چارہ نہ کیا.نتیجہ اس کا ہر اقدام جواس نے اپنے دشمن کے خلاف کیا بالآخر اس پر اور اس کے ساتھیوں پر الٹا اور ہر بار جب اس کا مقابلہ غیروں سے ہوا تو نہ صرف یہ کہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کچھ کھویا اور مسلسل کھوتا چلا گیا.یہی حال کچھ عرصے تک اس کے پیچھے آنے والے دوسرے راہنماؤں کا رہا.پس پہلے دور کا تجزیہ یہ مغرب کے نزدیک مسلمانوں، عربوں میں سے اٹھنے والا ایک جوشیلا پاگل لیڈ رتھا اور یہی تجزیہ اب صدام حسین کے بارہ میں پیش کیا جارہا ہے اور تمام دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروائی جارہی ہے کہ لو ایک اور پاگل لیڈر اٹھا ہے.ایسا پاگل لیڈر جس کی بنیادیں صرف ناصریت یعنی جنرل ناصر کے نظریات اور اس کے رویے پر ہی مبنی نہیں بلکہ ہٹلر میں بھی پیوستہ ہیں اور ہٹلریت میں پیوستہ ہیں جسے نانسی ازم (Natsizm) بھی کہا جاتا ہے.اصل نام تو نائسی ازم ہے لیکن اس کا Symbol بن کر ھٹلر ابھرا تھا اس لئے ھٹلرانہ طرز عمل بھی اسے کہا جاتا ہے.تو یہ آج کل مغربی دنیا میں ٹیلویژن وغیرہ کے اوپر بکثرت ہٹلر کے دور کی فلمیں دکھا رہے ہیں اور اس جنگ کے ایسے واقعات پیش کر رہے ہیں جس سے نائسی ازم کے دور کی یادیں مغرب میں تازہ ہو جائیں اور از خود بغیر کچھ کہے وہ نائٹسی ازم کے دور اور اس کے محرکات کو جنرل صدام حسین کے دور اور اس کے محرکات کے ساتھ وابستہ کر دیں.پس یہ ان کا تجزیہ ہے لیکن کسی مغربی مفکر نے یہ نہیں کہا کہ اگر یہ

Page 492

خطبات طاہر جلد ۹ 487 خطبه جمعه ۲۴ راگست ۱۹۹۰ء واقعہ بیمار ذہن تھے جو راہنما بن کر ابھرے تو ان بیمارذہنوں کو پیدا کر نیوالی بیماری کو نسی تھی اور یہ نہیں سوچا کہ اگر بیمار سراڑ بھی دیئے جائیں تو جو بیماری باقی رہے گی وہ ویسے ہی اور سر پیدا کرتی چلی جائے گی اور کبھی بھی اس بیماری سے اور اس بیماری کے اثرات سے یہ نجات حاصل نہیں کر سکتے.وہ بیماری کیا ہے؟ وہ اسرائیل کا قیام اور اس کے بعد مغرب کا مسلسل اسرائیل سے ترجیحی سلوک ہے.جب بھی کسی دوراہے پر اسرائیل کے مفاد کو اختیار کرنے یا مسلمان عرب دنیا کے مفاد کو اختیار کرنے کا سوال اٹھا بلا استثناء ہمیشہ مغرب نے اسرائیل کو فوقیت دینے کی راہ اختیار کی اور مسلمان دنیا کے مفادات کو ٹھکرادیا.پس اس بیماری کا خلاصہ ایک عرب شاعر نے اپنے ایک سادہ سے شعر میں یوں بیان کیا ہے کہ من كان يلبس كلبه شيء ويقنع لى جلدى ما الكلب خير عنده منی و خیر منه عندی کہ وہ شخص جو اپنے کتے کو تو پوشاکیں پہنا تا ہواور میرے لئے میری جلد ہی کو کافی سجھتا ہو، بلا شبہ اس کے لئے کتا مجھ سے بہتر ہے اور میرے لئے کتا اس سے بہتر ہے.بعینہ یہی مرض کی آخری تشخیص ہے.عرب دنیا کے دل میں یہ بات ڈوب چکی ہے اور ان کا یہ تجزیہ حقائق پرمبنی ہے کہ مغرب اپنے کتوں کو تو پوشاک پہنائے گالیکن ہمیں نگار کھے گا اور یہ صورتحال اسرائیل اور عرب موازنے میں پوری طرح صادق آتی ہے.پس مغرب کا رد عمل ایسے مواقع پر ہمیشہ یہ ہوا کہ اس جاہل عرب دنیا سے بچنے کے لئے اور اس کے نقصانات سے دنیا کو بچانے کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ اسے پارہ پارہ کر دو، ٹکڑے ٹکڑے کر دو اور آئندہ کے لئے اس کے اٹھنے کے امکانات کو ختم کر دو.یہ ویسا ہی تجزیہ ہے گو اتنا ہولناک نہیں اور اتنا مجرمانہ نہیں جتنا پہلی جنگ عظیم کے بعد کیا گیا اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد کیا گیا.دونوں صورتوں میں وہ تجزیہ ناکام رہا وہ بنیادی محرکات جو نانسی ازم کو پیدا کرتے ہیں یا ناصریت کو پیدا کرتے ہیں یا صدا میت کو پیدا کرتے ہیں.جب تک ان محرکات پر نظر ڈال کر اس مرض کی صحیح تشخیص کر کے اس کے علاج کی طرف متوجہ نہ ہوا جائے ، بار بار وہ سر اٹھتے رہیں گے اور دوسرے سروں کے کٹنے کا موجب بھی بنتے رہیں گے اور یہ پھوڑا پکتا رہے گا.یہاں تک کہ کوئی ایسا وقت بھی

Page 493

خطبات طاہر جلد ۹ 488 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء آسکتا ہے کہ جب مغرب کی طاقتور حکومتوں کے اختیار سے باہر نکل جائے.صدام حسین کو جو طاقت دی گئی ہے یہ بھی دراصل مغربیت کی نا انصافی کا ایک مظہر ہے اور ان کے لئے بے اصول پن کا ایک مظہر ہے.اس سے پہلے مغرب ہی تھا جس نے خمینی ازم کی بناڈالی تھی.فرانس وہ مغربی ملک ہے جس میں امام خمینی صاحب نے پناہ لی اور بہت لمبے عرصے تک فرانس کی حفاظت میں رہے اور فرانس کے اثر اور تائید کے نیچے وہ پراپیگنڈہ کی مہم جاری کی گئی جس نے بالآخر وہ انقلاب برپا کیا جو ابھی تک جاری ہے اور اس عرصے تک چونکہ مغرب کو یہ خطرہ تھا کہ اگر خمینی ازم او پر نہ آیا یعنی مذہبی انقلاب برپا نہ ہوا تو شاہ کی نفرت اتنی گہری ہو چکی ہے کہ لازماً اشترا کی انقلاب بر پا ہو گا.پس خمینی ازم یا اسلام کے اس نظریے کی محبت نہیں تھی جو ایران میں پایا جاتا ہے بلکہ اس سے بڑے دشمن کا خوف تھا جس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ ثمینی ازم کی پرورش کریں اور جب وہ طاقت پا گیا تو کیونکہ وہ مذہبی لوگ تھے اور وہ جانتے تھے کہ مذہبی جذبات کے نتیجے میں ہم ابھرے ہیں ، اس لئے لازماً ان کے مفاد میں یہ بات تھی کہ مذہبی جذبات کو مشتعل رکھنے کے لئے ایک نفرت کے بدلے دوسری نفرت کی طرف رخ پھیرا جائے.پہلا انقلاب بھی نفرت کی بنا پر تھا اور وہ نفرت شاہ ایران اور اس کے پس منظر میں اس کے طاقتوار حلیف اور سر پرست امریکہ کی نفرت تھی.چنانچہ یہی نفرت انہوں نے مذہبی فوائد حاصل کرنے کے لئے استعمال کی اور امریکہ کو شیطان اعظم کے طور پر پیش کیا اور ہر طرح سے قوم کے ان مذہبی جذبات کو زندہ رکھا جو نفرت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بنا پر اس کے ردعمل میں خمینی ازم کو تقویت ملنی شروع ہوئی.پس پہلے بھی اس علاقے میں جو بدامنی ہوئی.جو خوفناک جنگیں لڑی گئیں یا فسادات بر پا ہوئے یا قتل و غارت ہوئی یا نا انصافیاں ہوئیں ان کی بھی بنیادی ذمہ داری مغرب پر عائد ہوتی ہے اور بنیادی اس لئے کہ شاہ کے مظالم میں بھی مغرب ہی کی سر پرستی شامل تھی اور ذمہ داری تھی.یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ جسے آج دنیا میں تجسس کے نظام پر اتنا عبور حاصل ہو چکا ہے کہ دور دور کے ایسے واقعات جن کے متعلق اس ملک کے رہنے والے بھی ابھی شعور نہیں پاتے ابھی احساس ان کے اندر بیدار نہیں ہوتا ، ان کی انٹیلی جینس کی رپورٹیں ان کو بھی ان سے باخبر کر دیتی ہیں.چنانچہ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں جو کئی انقلابات ہوئے ان میں امریکہ سے یہ شکوہ بھی کیا گیا کہ ہمیں خبر نہیں دی.

Page 494

خطبات طاہر جلد ۹ 489 خطبه جمعه ۲۴ راگست ۱۹۹۰ء یعنی ایک راہنما کی حکومت الٹی ہے، ایک پارٹی کو الٹایا گیا ہے اور وہ امریکہ سے شکوہ کر رہے ہیں کہ عجیب لوگ ہیں ہمیں خبر ہی نہیں دی.جس ملک میں رہتے ہو تمہیں اپنے ملک کی خبر نہیں اور شکوہ کر رہے ہو کہ ہمیں خبر نہیں دی پس شعور کی کمی جتنی زیادہ مشرق میں نمایاں ہوتی چلی جارہی ہے اور اپنے حالات سے بے حسی جتنی بڑھتی جارہی ہے اتنا ہی ان قوموں کے اندر دوسروں کا شعور بیدار ہو رہا ہے اور دوسروں کے معاملات میں جس تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے.پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کو پتا نہ ہو کہ شاہ ایران نے کیسے سخت مظالم توڑے ہیں اور ان کا کتنا خطرناک رد عمل ہے جو ملک میں پنپ رہا ہے.ان مظالم کے دوران اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کی اول ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی باشعور انسان امریکہ کو اس ذمہ داری سے مبرا نہیں کرسکتا.اس میں دشمنی یا جذبات کی بات نہیں ایک ایسی حقیقت ہے جو ادنی سی سمجھ رکھنے والا دانشور بھی آج یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ شہنشاہیت جو ایران کی شہنشاہیت ہے وہ امریکہ کی پروردہ تھی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سارے رد عمل کی ذمہ داری اصل میں امریکہ پر عائد ہوتی ہے اور اس رد عمل کو سنبھالنے کے لئے امریکہ نے جو طریق کار اختیار کیا وہ بھی ان کے مفاد میں یا ان کے نزدیک دنیا کے مفاد میں ضروری تھا.وہ سمجھتے تھے کہ اس رد عمل سے اب دو ہی طاقتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں یا مینی ازم ، مذہب کی طاقت اور یا پھر اشتراکیت ہے اور اشتراکیت چونکہ زیادہ سخت دشمن تھی اور اس دور میں اگر اشتراکیت کو یہاں غلبہ نصیب ہو جاتا تو جو صلح آج روس اور امریکہ کے درمیان میں ہوئی ہے وہ کبھی واقعہ نہیں ہو سکتی تھی.پھر صدامیت پیدا نہ ہوتی پھر روس کی طرف سے اور روسی ایران کی طرف سے مشرق وسطی کے امن کو شدید خطرہ درپیش ہوتا اور ایسا خطرہ درپیش ہوتا جس کا کوئی مقابلہ ان کے پاس نہیں تھا، مقابلہ کرنے کی کوئی طاقت ان کے پاس نہیں تھی.پس بہر حال اپنے مفاد میں اور جسے جس طرح یہ پیش کرتے ہیں کہ ساری دنیا کے امن کے مفاد میں انہوں نے خمینی ازم کو پیدا کیا اور اس کی پرورش کی.یہاں تک کہ جب وہ طاقت پکڑ گیا تو انہوں نے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اپنے نظام کی بقاء کی خاطر اور امریکہ کے بداثرات سے اسے بچانے کے لئے ایک درمیانی راہ اختیار کی جو درمیانی راہ ان معنوں میں تھی کہ روس اور امریکہ کے بیچ میں چلتی تھی مگر اسلامی انصاف کے لحاظ سے وہ درمیانی راہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے اپنے دائیں بھی

Page 495

خطبات طاہر جلد ۹ 490 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء قتل وغارت کا بازار گرم کیا اور اپنے بائیں بھی قتل وغارت کا بازار گرم کیا اور اسلام کے نام پر ایسا کیا.پس عالم اسلام کو کئی نقصانات پہنچے اور پھر ایران سے اپنا بدلہ لینے کے لئے ”صدا میت کو پیدا کیا گیا اور عراق کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی گئی اور تمام عرب طاقتیں جو ان کے زیر نگیں تھیں.ان کے ذریعے بھی مدد کروائی گئی اور براہ راست بھی یہاں تک کہ ایک موقعہ پر جبکہ عراق کو شدید خطرہ لاحق ہوا اور صاف نظر آنے لگا کہ ایرانی فوجیں اب بغداد پر قابض ہو جائیں گی تو اس وقت امریکہ نے کھلم کھلا اعلان کیا کہ ایسا نہیں ہوگا یا ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا.چنانچہ بڑی تیزی کے ساتھ ان کی مدافعانہ طاقت کو بڑھا کر جارحانہ طاقت میں تبدیل کیا گیا اور یہ جو دنیا میں آج پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے کہ ایسا ظلم اور بے حسی ہے کہ Poisonous گیسیں جو اعصاب کو تباہ کرنے والی یا جسم پر چھالے ڈالنے والی یا دم گھوٹنے والی گیسیں ہیں، بنی نوع انسان کے خلاف ان کو استعمال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے ، اس لئے اس ظالم سے دنیا کو نجات دلانا ضروری ہے.کل یہی وہ قو میں تھیں جنہوں نے وہ گیس بنانے کے طریقے ان کو سکھائے تھے.ان کے علم میں تھا اور ان کی آنکھوں کے سامنے مسلسل وہ فیکٹریاں بنائی گئیں اور ان کا Know how ان کو عطا کیا گیا کیونکہ اس وقت مقابل پر بڑا دشمن ایران تھا اور ان قوموں کا یہ کہنا، اگر آج یہ کہیں کہ ہمیں تو علم نہیں، یہ کام تو عراق نے خفیہ طور پر خود بخو دکر لئے ، یہ بالکل جھوٹ ہے.لیبیا میں جب گیسوں کے کارخانوں کا آغاز ہوا تو اس وقت انہوں نے وہاں بمباری کی اور دنیا میں اعلان کیا کہ ہم کسی قیمت پر اس کارخانے کو قائم نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ دنیا کے امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہوگا اور پھر تفاصیل بیان کیں جو حیرت انگیز طور پر درست تھیں.انہوں نے کہا کہ لیبیا کہتا ہے کہ ہم یہ گیسیں نہیں بنار ہے بلکہ دوسری قسم کی فرٹیلائز ریا اور کیمیا تیار کر رہے ہیں تو ہم ان کی تصویریں آپ کو دکھاتے ہیں اندر سے یہ وہ کارخانہ ہے، یہاں یہ چیزیں بن رہی ہیں اور یہ یہ چیزیں پیدا ہورہی ہیں.اتنی ہو چکی ہیں ایک ایک جزء ایک ایک تفصیل کا ان کو علم تھا اور دنیا کے سامنے اس کو پیش کیا.تو عراق کے معاملے میں کس طرح آنکھیں بند تھیں جب اس کی پشت پر کھڑے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی قیمت پر بھی ایران کو عراق پر یا عرب دنیا پر فوقیت حاصل نہ ہوا ور غلبہ حاصل نہ ہو ور نہ ان کو خطرہ تھا کہ پھر سارا معاملہ ان کے اختیار اور قبضہ قدرت سے باہر نکل جائے گا اور اس وقت

Page 496

خطبات طاہر جلد ۹ 491 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء ایران شور مچا رہا تھا کہ ظلم ہو گیا ، اندھیر نگری ہے، ایسی سفا کی ہے.وہ اپنے بیماروں کی تصویر میں دکھا رہا تھا اور چند ایک معمولی جھلکیوں کے بعد انہوں نے وہ منظر دنیا کے سامنے لانے بند کر دیئے.اب جبکہ اس، جس کو یہ سر پھرا کہتے ہیں اور بیمار دماغ کہتے ہیں اس بیمار دماغ کو جس کو انہوں نے خود پیدا کیا، جب اس بیمار دماغ کو ذلیل و رسوا کرنا پیش نظر ہے تو وہی تصویریں جو ایران کے وقت پہلے ایران دکھایا کرتا تھا وہ اب ساری دنیا کو دکھارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایسا ظالم شخص جس نے اپنے بھائی ایرانی مسلمانوں پر ایسے ظلم کئے تھے اس کے ظلم سے دنیا کیسے بچے گی.وہ دوسروں پر رحم کرے گا یا ان سے انسانیت کا سلوک کرے گا.تو یہ ردعمل جو ہے یہ بھی وہی پرانے رد عمل اور وہی پرانا طریق یعنی بیماری کو نہیں دیکھتے جو بیمار سر پیدا کرتی ہے، ان طاقتوں کو جو یہ خود طاقتیں ہیں نظر انداز کر دیتے ہیں جو بیماری پیدا کرنے میں مسلسل مد رہتی ہیں اور ایک بیماری کو آغاز سے لے کر نقطہ انجام تک پہنچاتی ہیں بلکہ آخر پر توجہ صرف بیمارسروں کی طرف مبذول کرا دیتے ہیں کیونکہ ان کو انہوں نے تن سے جدا کرنا ہوتا ہے اس لئے دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ ہم مجبور ہیں ایک پاگل ذہن ابھرا ہے جس کا یہ مقدر ہے کہ اسے تن سے جدا کیا جائے ورنہ وہ باقی دنیا کے سروں کے لئے خطرہ بن جائے گا.آخری بات وہی ہے.یہ بیمار ذہن کیوں پیدا ہورہا ہے ؟ اس لئے کہ مسلسل مغرب کا سلوک خصوصاً عرب مسلمانوں سے اور ایران کے مسلمانوں سے ظالمانہ رہا ہے، سفا کا نہ رہا ہے، جارحانہ رہا ہے اور باوجود اس کے کہ ان میں بہت سے ممالک کی دوستیوں کے ہاتھ انہوں نے جیتے.ان کی سر پرستیاں کیں اور بظاہر ان کے مددگار بنے لیکن عملاً اس کی وجہ واضح تھی کہ ان سے استفادہ کرنے کے لئے سب سے اچھا ذریعہ ان سے دوستی پیدا کرنا تھا.ان کے تیل کی دولت تمام کی تمام اپنے بینکوں میں رکھوائی اور اس سے دہرا فائدہ اٹھایا.ایک تو یہ کہ وہ بہت بڑے دولت کے ذخائر بن گئے جس سے ان کی سرمایہ کاری کو غیر معمولی تقویت ملی اور دوسرے ہر خطرے کے وقت ان کی دولت پر قابض ہونے کا اختیار ان کو حاصل ہو گیا.اب جہاں دوسری جگہ امانت کی باتیں کرتے ہیں وہاں ان کے امانت کے تصور بدل جاتے ہیں یعنی ایک شہری جب دوسرے ملک میں جاتا ہے تو اس کی امانت ہے اس میں خیانت نہیں کرنی چاہئے مگر امن اور دوستی کے زمانے میں اعتماد کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی مالی نظام کے تحفظات سے استفادہ کرتے ہوئے یا ان پر غلطی سے یقین کرتے ہوئے

Page 497

خطبات طاہر جلد ۹ 492 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء جب دولتیں ان کے بینکوں میں جمع کرائی جاتی ہیں تو کیا حق ہے ان کا کہ کسی دشمنی کے وقت بھی ان کی دولت کے اوپر ہاتھ رکھ دیں اور کہیں کہ اس کو ہم بنی نوع انسان کے فائدے میں سیل (Seal) کر رہے ہیں، سر بمہر کر رہے ہیں.کتنے ہی مشرقی ممالک ہیں جن کی دولتیں اس طرح ہر لڑائی اور ہر خطرے کے وقت سر بمہر کر دی گئیں اور اب بھی کویت کی دولت سر بمہر کی گئی لیکن وہ ان کو بعد میں ان کی دوستی کی وجہ سے چھوڑ دینے کی نیت سے اور عراق کا سارا سرمایہ جو غیر ملکوں میں تھا، اسے سر بمہر کر دیا گیا ، تو یہ دجل کی باریکیاں ہیں لیکن ان تمام چالا کیوں کو اور ان تمام ظلموں کو یہ ایک نہایت نفیس Civilize زبان میں پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اس میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں.اس کے مقابل پر ہر دفعہ بد نصیب عرب مسلمان دنیا نے ہوش کا جوش سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر دفعہ جوش کو ہوش سے ٹکرا کر جوش کو پارہ پارہ کروایا ہے اور مسلمان دنیا کو مزید ذلیل و رسوا کروایا ہے.سب سے بڑی غلطی عرب دنیا نے یہ کی اور ہمیشہ کرتی چلی گئی کہ یہ سیاسی محرکات اور یہ دنیاوی معاملات جن میں خود غرض قوموں کا رد عمل مذہب کی تفریق کے بغیر ہمیشہ ایک ہی ہوا کرتا ہے.ان محرکات کو ان کے مواضع پر جہاں یہ واقع ہیں، ان تک رکھنے کی بجائے ان کو مذہب میں تبدیل کر دیا گیا اور جو نفرت پیدا کی گئی وہ اسلام کے نام پر پیدا کی گئی ان قوموں کا جن قوموں نے آپ کے مفادات پر حملہ کیا ہے.مقابلہ کرنے کا انسانیت آپ کو حق دیتی ہے.اس کو بلا وجہ اسلامی جہاد میں تبدیل کر کے ان کو اور موقع دیا گیا کہ پہلے تو یہ صرف اسلامی دنیا پر حملہ کرتے تھے اب وہ اسلام پر بھی حملہ کر یں اور تمام بنی نوع انسان کو کہیں کہ اصل بیماری اسلام ہے.اسرائیلیت نہیں ہے ہماری نا انصافیاں نہیں ہیں بلکہ اسلام ایک سج مذہب ہے جو بھی پیدا کرتا ہے.ایک غیر منصفانہ مذہب ہے جو غیر منصفانہ خیالات کو فروغ دیتا ہے اور ساری بیماریاں اسلامی طرز فکر میں ہیں.چنانچہ ایران کے رد عمل میں بھی جو غیر اسلامی رد عمل تھا اور جس کا اسلام سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں تھا لیکن دنیاوی اصول کے مطابق اگر اس کو پیش کیا جاتا تو بہت حد تک دنیا کو مطمئن کروایا جا سکتا تھا کہ ہم مظلوم رہے ہیں.اب ہمارا وقت ہے انتقام لینے کا، ہم مجبور ہیں دنیا کسی حد تک اس کو سمجھ سکتی تھی لیکن اسلامی دنیا کی لیڈرشپ کی جہالت کی حد ہے کہ قول سدید کی بجائے ، دنیا کوصاف بات بتانے کی بجائے کہ ہم مجبور ہیں ہم بے اختیار ہیں.جب بھی ہمیں موقعہ ملے گا، انہوں

Page 498

خطبات طاہر جلد ۹ 493 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء نے ہمارے اندراتنی نفرتیں پیدا کی ہیں اور نا انصافیوں کی اتنی صدیاں ہمارے موجودہ رد عمل کے پیچھے کھڑی ہیں کہ ہم مجبور ہو کر ایک کمزور آدمی کا رد عمل دکھائیں گے جس کے ہاتھ میں جب اینٹ آتی ہے تو وہ اٹھا کر مارتا ہے پھر یہ نہیں سوچا کرتا کہ اس کے نتیجے میں اس کو کیا سزا ملے گی یا طاقتو ر اس سے کیا سلوک کریں گے.اس صورتحال کو تقویٰ کے ساتھ اور اسلامی تعلیم کے مطابق قول سدید کے ساتھ نتھار کر اور کھول کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بجائے ، جس میں غیر معمولی فوائد مضمر تھے ، انہوں نے پھر اسلام پر حملہ کروانے کے ان کو مواقع فراہم کئے.پہلے کہا کہ ہمارے بدن پر حملہ کرو پھر کہا کہ آؤاب ہماری روح پر بھی حملہ کرو، اور ایسے ظالمانہ طور پر اسلامی تعلیم کو توڑ مروڑ کر پیش کیا کہ اس کے نتیجے میں دنیا کے تمام اہل دانش جانتے تھے کہ یہ مذہبی ردعمل نہیں ہے اس لئے اگر یہ مذہبی کہتے ہیں تو بہت اچھا ، ہم ان کے مذہب پر حملہ کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ مذہب ٹیڑھا ہے،.ان کے دماغ ٹیڑھے نہیں ہیں.پس وہ سرجن کو یہ بیمار سروں کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور جو ان کی بیماری کی وجہ سے بیمار ہوئے ، اسی مسلمان دنیا نے ان کو موقع فراہم کئے کہ ان کی بیماری کی وجہ بھی اسلام قرار دیا جائے اور غلط تشخیص دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کی جائے اور دنیا اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کیونکہ جو بیمار ہے اس کی بات زیادہ سنی جاتی ہے.بیمار کہتا ہے کہ میرے سر میں درد ہے اور ساتھ بتا تا ہے کہ میں نے یہ کھایا تھا اور یہ حرکت کی تھی اس کے نتیجے میں سر میں درد ہے.پھر ڈاکٹر اگر کچھ اور بات کہے بھی تو اس پر کسی کو اطمینان نہیں ملتا.چنانچہ جب یہ بیمار سر دنیا کو دکھائے جاتے ہیں تو ساتھ کہتے ہیں کہ اس کی بہت اعلیٰ تشخیص خود اس بیمار نے کر دی ہے.یہ بیمار کہتا ہے کہ میرا مذہب پاگل ہے، میرا مذ ہب مجھے نا انصافیوں پر مجبور کرتا ہے، میرا مذہب مجھے کہتا ہے کہ عورتوں اور بچوں سے ظلم کرو اور اس طرح تم اپنے بدلے اتارو اور اس طریق پر تمہیں انتقام لینے کا اسلام حق دیتا ہے.سبو تا ثر کرو، بہوں سے شہروں کا امن اڑاؤ، جس طرح بھی پیش جاتی ہے تم اپنے دکھوں کا بدلہ لو اور تمہارے پیچھے خدا کھڑا ہے اور اسلام کھڑا ہے اور تمہیں تعلیم دیتا ہے کہ مذہب کے نام پر ایسا کرو.بالکل غلط بات تھی ، اس میں اس کا ادنی سا بھی کوئی جواز نہیں تھا.جو باتیں میں نے بیان کی ہیں یہ ایسی باتیں ہیں جو دنیا کے سامنے کہیں بھی آپ پیش کریں دنیا تسلیم کرنے پر مجبور ہوگی کہ بیمار سر کیوں ہیں اور بیماری کی وجہ کیا ہے؟ لیکن ان ظالموں نے خود اپنے اوپر ہی حملہ نہیں کرنے دیا بلکہ اپنے مذہب کو

Page 499

خطبات طاہر جلد ۹ 494 خطبه جمعه ۲۴ راگست ۱۹۹۰ء بھی حملے کا نشانہ بنانے کے لئے سامنے پیش کر دیا.یہ ہے خلاصہ ظلم و ستم کا جو اس وقت روا رکھا جارہا ہے.آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ اسلامی لیڈرشپ ان محرکات کو، ان مواجهات کو سمجھے اور تمام تر توجہ اصل بیماری کی طرف مبذول کرے اور مبذول کروائے اور دنیا کے سامنے یہ تجزیے کھول کر رکھے کہ ہم مجبور اصدام کے مقابل پر تمہارے ساتھ شامل ہوئے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بری الذمہ ہو اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صدام کا دور کرنایا عراق کی بربادی عالم اسلام کا علاج ہے.یہ عالم اسلام کے لئے مزید تباہی کا موجب بنے گا اور وہ محرکات جاری رہیں گے اور وہ بیماریاں باقی رہیں گی جن کے نتیجے میں بار بار مشرق وسطی کا امن برباد ہوتا ہے اور بار بار دنیا کو ان سے خطرہ محسوس ہوتا ہے.پس جہاں تک انصاف کا تعلق ہے اس طرف واپس جا کر دیکھیں تو اسرائیل نے ہرلڑائی کے بعد کچھ مسلمان علاقوں پر قبضہ کیا اور اسے دوام بخشنے میں مغربی طاقتوں نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا.ایک انچ زمین بھی ایسی نہیں جسے خالی کروایا گیا ہو سوائے مصر کے اور اس وقت مصر کے سیناء کے ریگستان کو جب یہودی تسلط سے خالی کروایا گیا تو پہلے مصر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا.اسرائیل سے ایسی صلح کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کا تخمینہ یہ تھا کہ مصر ہمیشہ کے لئے اسلامی دنیا سے کٹ جائے گا اور ان کی دشمنیوں کا نشانہ بن جائے گا اور اس بناء پر اس کی بقاء ہم پر منحصر ہوگی اور جب تک ہم اس کا سہارا بنے رہیں گے یہ زندہ رہے گا ورنہ یہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا.یہ وہ تخمینے تھے جن کی بنا پر انہوں نے ریگستان کے وہ علاقے مصر کو واپس دلوا دیئے جو یہود کے تسلط میں تھے لیکن اس کے علاوہ کہیں بھی ایک انچ زمین بھی واپس نہیں کرائی گئی یعنی اسرائیل سے ان لوگوں کو زمین واپس نہیں کروائی گئی جو گر کر ذلت کی صلح پر آمادہ نہیں تھے.Jorden کتنی دیران کا دوست رہا ہے ابھی بھی جب وہ خبروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو ہمارا دوست، سب سے زیادہ اس پر انحصار کیا کرتے تھے کہتے ہیں کتنے ہم پاگل تھے، کیسا بے وفا دوست نکلا؟ اور یہ نہیں دیکھتے کہ تم نے اس دوستی میں اس کو دیا کیا ہے؟ تمام عرصہ اس دوست کے وطن کا نہایت قیمتی ایک ٹکڑا اس کے دشمنوں کے قبضے میں رہا اور تم نے ہمیشہ دشمن کو تو طاقت دی اور دشمن کو اس ناجائز قبضے کو برقرار رکھنے میں مددی اور اس کے باوجود کہ یہ تمہارا دوست تھا.

Page 500

خطبات طاہر جلد ۹ 495 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء قرآن کریم نے جہاں فرمایا ہے کہ غیروں کو دوست نہ بناؤ اس سے بھی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں اور اس کے نتیجے میں بعض وسطی زمانوں کے مسلمان علماء نے اسلام کو مزید بد نام کروایا.یہ وہ مواقع ہیں جن میں اسلام فرماتا ہے کہ غیروں سے دوستی نہ کرو.اسلام اور انصاف کے تقاضوں کو بیچتے ہوئے دوستیاں نہ کرو.یہ وہ پس منظر ہے جس میں تعلیم ہے اور ساتھ ساتھ ذکرفرما دیا گیا کہ وہ لوگ جو تم سے دشمنی نہیں کرتے جو تم سے نا انصافی کا سلوک نہیں کرتے.ان سے دوستی سے خدا تمہیں منع نہیں کرتا بلکہ ان سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے.یہ اسلام ہے لیکن اسلام کی وہ تعلیم جو عقل کی تعلیم ہے اسے انہوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا اور اس تعلیم پر عمل کیا جس کو خود بے عقلی کے معنے پہنائے پس جہاں دوستی سے منع کیا گیا وہاں دوستیاں کیں.جہاں دوستیاں کرنے کی تلقین کی گئی اور طریقہ سکھایا گیا کہ کس قسم کی قوم سے دوستیاں کرنی ہیں وہاں دوستیوں سے باز رہے.پس ان کی بیماری کی آخری شکل یہی بنتی ہے کہ تقویٰ سے دور جاچکے ہیں، قرآن کریم کی تعلیم سے دور جاچکے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک بل سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا.( بخاری کتاب الادب حدیث نمبر (۵۲۶۸) لیکن کتنی بارڈ سے جاچکے ہیں.اسی سوراخ میں دوبارہ انگلیاں ڈالتے ہیں اور اسی سوراخ سے بار بارڈ سے جاتے ہیں اور آج تک انہوں نے ہوش نہیں پکڑی.پس صاحب ہوش مغرب کے حالات کا تجزیہ کریں تو وہ بھی جاہل ہے اور بے وقوف ہے اور بار بار کے نقصانات کے باوجود آج تک نصیحت نہیں پکڑ سکا کہ اصل بیماری کیا ہے اور جب تک یہ بیماری رہے گی دنیا کے لئے خطرات ہمیشہ اسی طرح ان کے سر پر منڈلاتے رہیں گے اور مقابل پر جو مسلمان ممالک نے بھی بار بار کی تکلیفیں اٹھانے کے باوجود نصیحت نہیں پکڑی اور بار بارا نہی غلطیوں میں مبتلا ہوتے چلے جارہے ہیں.اس کا کیا علاج ہے اس کا صرف ایک علاج ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے ہمیں سکھلایا اور جس کی طرف میں نے آپ کو پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر دوبارہ توجہ صل الله دلاتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مختلف بڑی لمبی پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک ٹکڑا آپ کو بتاتا ہوں.آخری زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یا جوج ماجوج دنیا پر قابض ہوجائیں گے اور موج در موج اٹھیں گے اور تمام دنیا کو ان کی طاقت کی لہریں مغلوب کر لیں گی.اس وقت دنیا میں مسیح

Page 501

خطبات طاہر جلد ۹ 496 خطبه جمعه ۲۴ را گست۱۹۹۰ء نازل ہوگا اور مسیح اپنی جماعت کے ساتھ ان کے مقابلے کی کوشش کرے گا، ان کے مقابلے کا ارادہ کرے گا.تب اللہ تعالیٰ مسیح سے یہ فرمائے گا.لَا يَدَانِ لَاحَدٍ لِقَتَالِهِمَا کہ ہم نے جو یہ دو تو میں پیدا کی ہیں ان دونوں سے مقابلے کی دنیا میں کسی انسان کو طاقت نہیں بخشی تمہیں بھی نہیں بخشی.ایک علاج ہے کہ تم پہاڑ کی پناہ میں چلے جاؤ اور دعائیں کرو.(مسلم کتاب الفتن حدیث نمبر : ۵۲۲۸) دعا ہی وہ طاقت ہے جو ان قوموں پر غالب آئے گی اس میں پہاڑ سے کیا مراد ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم وہ پہاڑ ہے جس کا ذکر فرمایا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے کہ لَوْ اَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ أَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مَّتَصَدِعَا مِنْ خَشْيَةِ الله (الحشر (۲۲) کہ یہ قرآن اگر ہم پہاڑ پر بھی اتارتے تو وہ اس کی عظمت سے خشیت اختیار کرتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ، گر جاتا لیکن اس میں نصیحتیں ہیں ان لوگوں کے لئے آیات ہیں جو فکر کرنے کے عادی ہیں.مراد یہ ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کو پہاڑوں پر عظمت حاصل تھی.محمد مصطفی ﷺ پہاڑوں میں سب سے سر بلند تھے.دنیا کے پہاڑوں میں تو یہ طاقت نہیں تھی کہ اس کلام کی عظمت اور جلال کو برداشت کر سکے لیکن ایک محمد مصطفی ہیں جو سب سے سر بلند پہاڑ تھے اور سب سے قوی پہاڑ تھے.پس مراد یہی ہے کہ محمد مصطفیٰ" کی عظمت کی طرف لوٹو اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم میں پناہ مانگو.اس سے طاقت پاؤ اور اگر تم محمد مصطفی میے کی عظمت کی طرف لوٹو گے اور اس میں پناہ لے کر دعائیں کرو گے تومحمد مصطفی یہ ہے کے سائے میں پلنے والی دعائیں کبھی نا کام نہیں جایا کرتیں.اس عظمت سے پھر تم بھی حصہ پاؤ گے.تمہاری دعا ئیں حصہ پائیں گی اور دوسر اسبق اس میں یہ ہے کہ اس زمانے کے تمام مسلمانوں میں سے کسی کے متعلق نہیں فرمایا کہ خدا ان کو کہے گا کہ تم دعائیں کرو.صرف مسیح اور مسیح کی جماعت کے متعلق یہ فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا اس زمانے میں حقیقت میں دعا سے ایمان ہی اٹھ چکا ہو گا دعا کو وہ لوگ اہمیت نہیں دیں گے.اس لئے جن لوگوں کو دعا کی اہمیت ہی کوئی نہیں ان کو دعا کا نسخہ بتا نا ہی بالکل بے کار بات ہے.چنانچہ آپ دیکھ لیجئے کہ کتنے ہی مسلمان راہنماؤں کے بڑے بڑے بیانات آرہے ہیں.کوئی کہتا ہے کہ امریکہ کی طرف دوڑو اور اس سے پناہ لواور اس سے مددلو اور کوئی ایران سے صلح کر رہا ہے یا اپنی تقویت کی اور باتیں بیان کر رہا ہے.کسی ایک نے بھی خدا کی پناہ میں جانے کا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں جانے کا کوئی ذکر نہیں کیا.کسی

Page 502

خطبات طاہر جلد ۹ 497 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء نے یہ نصیحت نہیں کی کہ اے مسلمانو! یہ دعا کا وقت ہے دعائیں کرو.کیونکہ دعاؤں کے ذریعہ ہی تمہیں ن پر غلبہ نصیب ہوگا.پس ایک جماعت ہے اور صرف ایک جماعت ہے جو مسیح محمد مصطفی ﷺ کی جماعت ہے جس کے متعلق خدا نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ اگر عالم اسلام کو بچایا گیا تو اس جماعت کی دعاؤں سے بچایا جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ محمد مصطفی ﷺ کی عظمت میں پناہ لیں ، آپ کی تعلیم میں پناہ لیں ، آپ کے کردار میں پناہ لیں.آپ کی سنت میں پناہ لیں اور پھر دعائیں کریں.پس اس سارے مسئلے کا اگر کوئی عارضی حل تجویز بھی کیا گیا تو ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ وہ حل پہلے سے بدتر حال کی طرف مشرق وسطی کے رہنے والوں کو بھی لوٹائے گا اور دنیا کو بھی لوٹائے گا.بہت دردناک حالات پیدا ہونے والے ہیں اور جہاں تک بیماریوں اور دکھوں کا تعلق ہے اس کا کوئی حل نہیں ہوگا.وہ حل اگر ہے تو آپ کے پاس یعنی مسیح محمدی" کی جماعت کے پاس ہے آپ دعائیں کریں اور دعائیں کرتے چلے جائیں کیونکہ یہ تکلیفوں کا زمانہ ابھی لمبا چلنے والا ہے.ابھی حالات نے کئی پلٹے کھانے ہیں، کئی نئے ادوار میں داخل ہوتا ہے اس لئے دعا کے لحاظ سے ابھی تا خیر نہیں ہے.ہم تو پہلے بھی دعائیں کرنے والے لوگ ہیں لیکن آج کی دنیا میں ان حالات کے پیش نظر، اس تجزیے کے پیش نظر جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دعا کے سوا آج ان دنیا کی امراض کا اور امت مسلمہ کی امراض کا اور کوئی چارہ نہیں اور اہل مغرب کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا ان کو عقل دے، بار بار وہ اپنی چالا کیوں اور اعلیٰ سیاست کے ذریعے دنیا کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں اور ہر بار ناکام رہے ہیں ایک بار بھی ان کی چالاکیاں دنیا کے کام نہیں آئیں کیونکہ ان کی چالا کیوں میں خود غرضی ہوتی ہے اور نفسانیت محرک بنتی ہے آخری فیصلوں کے لئے.پس عقل کل کا تقویٰ سے تعلق ہے یہ بات دنیا کو آج تک سمجھ نہیں آئی.قرآن کریم جب تقویٰ پر زور دیتا ہے تو پاگل ملائیت پر زور نہیں دیتا.ایسے تقویٰ پر زور دیتا ہے جس سے فراست پیدا ہوتی ہے.جس سے مومن خدا کے نور سے دیکھنے لگتا ہے اور عقل کل اور تقوی دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ہر چالا کی جو تقویٰ سے عاری ہوگی وہ لازماً بالآخرناکامی پر منتج ہوگی.اسے چالا کی کہہ سکتے ہیں اسے عقل نہیں کہہ سکتے.پس آج دنیا خواہ مشرق کی ہو یا مغرب کی ہو ، عقل کل سے عاری ہے کیونکہ تقویٰ سے عاری

Page 503

خطبات طاہر جلد ۹ 498 خطبه جمعه ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء ہے اور تقویٰ کی دولت کے امین اے محمد مصطفی ﷺ کی جماعت ! اے مسیح محمدی کی جماعت !تمہیں بنایا گیا ہے.پس اس امانت کا حق ادا کرو اور جب تک تم اس امانت کے امین بنے رہو گے خدا تمہیں ہمیشہ غلبہ عطا کرے گا اور ناممکن کوتم ممکنات بنا کر دکھاتے چلے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 504

خطبات طاہر جلد ۹ 499 خطبه جمعه ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہوتا ہے ہجرت کرنے والے اپنی نیتوں کے مطابق اجر دیئے جائیں گے خطبه جمعه فرموده ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بہت گہرے معارف اور حکمتوں پر مشتمل ہے کہ انما الأعمال بالنیات (بخاری کتاب الوحی حدیث نمبر : ۱) کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے.یہ قانون جو روحانی اور طبعی قانون ہے، اس کا اطلاق انسانی قوانین پر ممکن نہیں کیونکہ یہ حکمت اور بہت گہری حکمت جو اس چھوٹے سے کلے میں بیان فرمائی گئی ہے اس کا معاملات پر اطلاق تبھی ممکن ہے جب معاملے کا فیصلہ کرنے والا عالم الغیب ہو یا ایسا طبعی قانون ہو جو ہمیشہ انصاف کے ساتھ عمل کرتا ہے.پس اس پہلو سے دنیا کے قوانین میں اس حکمت کا کوئی بھی دخل نہیں.چنانچہ تمام دنیا میں انسان کے بنائے ہوئے جتنے بھی قوانین ہیں ان کی رو سے اگر کوئی شخص کوئی جرم کر کے یہ ثابت کرنا چاہے کہ میری نیت نہیں تھی تو اس کے عذر کی پذیرائی نہیں ہوگی ، اس کی یہ بات سنی نہیں جائے گی کیونکہ دنیا ظاہر پر فتوی دیتی ہے اور ظاہر ہی کا فیصلہ کرتی ہے اور نیتوں کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے ،سوائے اس کے کہ اس نیت کا کوئی ایسا اظہار لوگوں کے سامنے کیا گیا ہو جن کی گواہی قطعی ہو اور حج شک میں پڑ جائے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص واقعی نیک نیت کے ساتھ کام کرنے والا ہو.ایسی صورت میں بعض دفعہ اس کو شک کا فائدہ دے دیا جاتا ہے مگر ایسے معاملات بہت استثنائی ہیں.روحانی قانون میں اور

Page 505

خطبات طاہر جلد ۹ 500 خطبه جمعه ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء طبعی قانون میں آنحضرت ﷺ کا بتایا ہوا یہ بنیادی اصول یکساں کارگر ہے.اس کے بہت سے پہلو ہیں جو عام طور پر معلوم ہیں وہ تو یہ ہیں کہ اس ارشاد کا تعلق اجر سے ہے اور عموماً لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی مراد اتنی ہی تھی کہ جو شخص جس نیت سے کوئی عمل کرے گا اس کے مطابق اس کو اجر ملے گا اور وہ عمل خواہ بظاہر نیک ہوا گر نیت بد ہے تو خدا کے ہاں وہ اپنے بد عمل کی جزا پائے گا اور عمل بظاہر دنیا کو برا دکھائی دیتا ہو لیکن اگر نیت نیک ہوتو اس کی خدا کے ہاں اچھی جزا عطا ہوگی.اس کی بہت سی مثالیں ہیں یعنی دوسرے حصے کی مگر قرآن کریم نے بعض مثالیں اس واقعہ میں پیش فرمائی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو پیش آیا.ان کو ایک ایسے بزرگ ساتھی کے ساتھ سفر کا موقعہ ملا جنہوں نے ظاہری طور پر بار بار ایسی حرکات کیں جو دنیا کی نظر میں معیوب اور نا پسندیدہ تھیں اور اس ارتکاب کی حالت میں اگر وہ پکڑے جاتے تو دنیا کا قانون ان کو سزا دیتا.مثلاً راہ چلتے کسی کی کشتی کو اس طرح توڑ دینا کہ وہ سمندری یا دریائی سفر کے قابل نہ رہے اور ناکارہ ہو جائے یہ وہ ایک فعل ہے جو دنیا کے لحاظ سے قابل مواخذہ ہے یا کسی بچے کوقتل کردینا یہ اور بھی زیادہ قابل مواخذہ بات ہے اور ان دونوں معاملات میں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بات کھولی گئی تو معلوم ہوا کہ نہ صرف نیتیں نیک تھیں بلکہ عملاً خدا کے اذن پر ایسا ہورہا تھا اور وہ ایک عارف باللہ بزرگ تھے جو اپنی طرف سے کوئی کام نہیں کرتے تھے بلکہ خدا کے اذن کے مطابق وہ معاملات طے کیا کرتے تھے.اس معاملے کو جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بعض فیصلوں پر اطلاق کر کے دیکھیں تو ان کی حکمت سمجھ آجاتی ہے.دنیا کی نظر میں آج بھی آپ کے بعض ایسے ارشادات قابل مواخذہ ہیں کہ جن کی رو سے آپ نے بعض شریروں کے قتل کا حکم دیا.درحقیقت وہ بزرگ جو کشفاً حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھائے گئے تھے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ ہی تھے اور جو تجربے بیان کئے گئے ہیں ان کی گہری حکمتیں آنحضرت ﷺ کی سیرت اور آپ کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوسکتی ہیں.بہر حال عام طور پر اس ارشاد نبوی کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ مراد صرف اتنی ہے کہ جزاء عمل پر نہیں بلکہ اس نیت پر مترتب ہوگی جو عمل سے پہلے ہے.ظاہری طور پر خواہ بدی کی گئی ہو خدا جانتا ہے کہ وہ فعل کرنے والے کی نیت کیا تھی اس لئے قیامت کے دن یا دنیا میں ہی جو قانون قدرت ہے

Page 506

خطبات طاہر جلد ۹ 501 خطبه جمعه ۳۱ / اگست ۱۹۹۰ء اس کی رو سے وہ شخص سز انہیں پائے گا بلکہ جزا پائے گا اور اسی طرح نیکیوں کا معاملہ ہے.اگر وہ نیک عمل کر رہا ہو لیکن نیست بری ہو تو ایسے نیک اعمال کی بری جزا ملے گی.یہ جزاء کا معاملہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا تعالیٰ کے ایسے فیصلے سے تعلق رکھتا ہے جو بالعموم یوم جزاء سزا میں ظاہر ہوگا اور اس کا ایک تعلق قانون طبعی سے ہے اور قانون طبعی بھی خدا کے مزاج کے مطابق ہے اس لئے اگر آپ گہرا غور کر کے دیکھیں تو قانون طبعی بھی دراصل ایسے ہی نتائج ظاہر کرتا ہے جن کا اعمال سے بڑھ کر نیتوں سے تعلق ہو.مثلاً دنیا میں امن کے نام پر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے بہت بڑی بڑی کوششیں سرانجام دی ہیں اور بڑے بڑے فیصلے کئے ہیں بعض اوقات جنگیں بھی کی گئی ہیں لیکن مقصد یہ بتایا گیا کہ امن کا قیام پیش نظر تھا اس لئے بعض صورتوں میں جنگ ضروری ہوگئی تھی.اگر تو واقعہ نیت امن کا قیام ہو اور انصاف کے ساتھ تمام ایسے معاملات میں جہاں امن کو خطرہ درپیش ہو ویسا ہی رد عمل ظاہر ہوتا ہے جو نیک نیت کے نتیجے میں ظاہر ہونا چاہئے تو یقیناً ان کوششوں کے نتیجے میں دنیا میں ایک دیر پا امن قائم ہوسکتا ہے مگر بار بار کی ایسی کوششوں کے باوجود جو گزشتہ تقریباً ایک صدی پر پھیلی پڑی ہیں دنیا آج تک امن سے محروم چلی آرہی ہے اور خطرات ہیں کہ دنیا کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے.ایک خطرے کو ٹالا جاتا ہے تو دوسرا خطرہ سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور دنیا کو وہ امن نصیب نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں دل و جان کو چین ملتا ہے بلکہ ظاہری امن کے باوجود دنیا بے چین دکھائی دیتی ہے اور بے قراری ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ قانون کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے یہ در پردہ کام کرتا چلا جارہا ہے خواہ ان لوگوں کو محسوس ہو یا نہ ہو.چنانچہ نیتوں میں چونکہ فساد ہوتا ہے اور خود غرضیاں ہوتی ہیں اس لئے امن کے نام پر کئے جانے والے سب فیصلوں میں رخنے پڑ جاتے ہیں.پس اعمال کا دارو مدار نیات پر ہونے کا ایک مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر نیتوں میں فساد ہو تو اعمال اس فساد سے بچ نہیں سکتے اور جلد یا بدیران اعمال پر ان بد نیتوں کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ان اعمال میں ایسا رخنہ پڑ جاتا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ صالح اعمال نہیں کہلا سکتے اور ان کے نتیجہ میں نیک نتائج نہیں نکل سکتے.اسی طرح بدی کی بات ہے جو دنیا کو بدی نظر آتی ہو لیکن نیت نیک ہو اس کی بھی بہت سی

Page 507

خطبات طاہر جلد ۹ 502 خطبه جمعه ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء مثالیں ہیں اور ان میں بھی بالعموم آخر نیک نیت ہی کامیاب ہوتی ہے اور بدی کا نتیجہ بد نہیں نکلتا.إِلَّا مَا شَاءَ الله - یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیوں بعض دفعہ استثناء ہوتے ہیں.اس وقت میں اس میں نہیں جانا چاہتا لیکن میں آپ کے سامنے مثال رکھتا ہوں ایک دفعہ کرنل محمد حیات قیصرانی صاحب جو بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے اور بہت قابل سپاہی اور بہت بہادر اور بے خوف سپاہی تھے انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ آزاد کشمیر میں ان کو آزاد کشمیر کی فوج کے ساتھ بہت لمبا عرصہ کام کرنے کا موقعہ ملا ہے اور اس کے علاوہ پاکستان کی دوسرے علاقوں کی فوجوں کے ساتھ بھی وہ وابستہ رہے ہیں ویسے تو وہ بلوچ رجمنٹ کے تھے لیکن کہتے ہیں کہ میں نے کسی علاقے کا سپاہی اتنا اچھا نہیں دیکھا جتنا آزاد کشمیر کا سپاہی ہے.اس میں بہادری بھی ہے.اس میں قربانی کا جذ بہ بھی ہے اور عقل سے بھی کام لیتا ہے.اس کی ایک مثال انہوں نے یہ دی کہ ایک دفعہ با قاعدہ جنگ تھی یا ہندوستانی کشمیر کے ساتھ چپقلش چل رہی تھی تو کرنل صاحب کی چونکہ عادت تھی کہ وہ ہمیشہ خطرے کے مقام پر آگے بڑھ کر سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا کرتے تھے اس لئے اس عادت کے مطابق وہ ایک مہم کے دوران آگے بڑھ کر ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں وہ دشمن کی گولی کا نشانہ بنائے جاسکتے تھے.ان کے قریب ہی پیچھے ان کا جو نئیر افسر جو آزاد کشمیر سے تعلق رکھتا تھا وہ بھی آرہا تھا اس کی نظر پڑی کہ سامنے کے مورچے سے ایک ہندوستانی سپاہی نے بندوق کا نشانہ کرنل صاحب کو بنایا ہے.پیشتر اس کے کہ وہ ٹریگر دبا دیتا اور وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا، اس نے اچانک بہت زور کے ساتھ دھپڑ مار کے کرنل صاحب کو گرا دیا اور اس دوران وہ خود اس خطرے کے مقام پر آگے آ گیا.یہ اللہ تعالیٰ نے اس پر فضل فرمایا کہ وہ خود بھی مجروح نہیں ہوا اور اس پر گولی کا نشانہ ٹھیک بیٹھ نہیں سکا لیکن گولی چلائی ضرور گئی.اب یہ ایک مثال ہے.اگر فوج میں کوئی سپاہی کسی افسر کو تھپڑ مارے اور پھر اس طرح ذلت کے ساتھ گرا بھی دے تو یہ ایک بہت بڑا جرم ہے بعض دفعہ اس کے نتیجے میں اس کو بہت سنگین سزامل سکتی ہے لیکن وہاں نیت یہ تھی کہ افسر کو بچایا جائے اور اس نیک نیت کی وجہ سے وہ جو بدی تھی اس کو بھی نیکی کا ایک رنگ مل گیا اور ہمیشہ کرنل صاحب یہ واقعہ اس کی تعریف میں بیان کیا کرتے تھے.ایک ظاہری بدی ہے لیکن نسیت نے اس کو حسن عطا کر دیا.اس لئے قانون طبیعی بھی جاری و ساری ہے اور یہاں خدا کی طرف سے جزا د ینے کا معاملہ

Page 508

خطبات طاہر جلد ۹ 503 خطبه جمعه ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء نہیں تھا لیکن ایک طبعی نتیجے کے طور پر وہ بدی نیکی پر منتج ہو گئی اور پھر اس کی جزا اس کو اس طرح ملی کہ اس کا ذکر خیر جاری ہوا.تو اعمال کا انحصار یقیناً نیتوں پر ہوا کرتا ہے لیکن بعض صورتوں میں نیتوں کا انحصار بھی اعمال پر ہوا کرتا ہے اور یہ ضمون آگے جا کر زیادہ گہرا اور الجھا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے.اس کی طرف میں رفتہ رفتہ آپ کو متوجہ کروں گا لیکن اس وقت میں خصوصیت سے یہ بات آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو پاکستان میں جو حالات درپیش ہیں ان کے نتیجے میں بہت سے احمدیوں نے وہاں سے ہجرت کی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ان سب کے پیش نظر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ نصیحت تھی یا نہیں تھی.جہاں تک حالات کی مجبوری کا تعلق ہے اس کا سب پر یکساں اطلاق ہو رہا ہے اور بندے کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اس کی پاکستان سے چلنے سے پہلے خدا کی خاطر ہجرت پیش نظر نہیں تھی بلکہ دنیا کی خاطر ہجرت پیش نظر تھی.اس لئے دنیا کے لحاظ سے تو وہ سارے مہاجرالی اللہ ہی کہلائیں گے اور اگر ان کی نیتیں خاص طور پر خدا کی خاطر ایسی جگہ جانے کی نہیں تھیں جہاں انہیں اعلائے کلمتہ اللہ کی آزادی ہو.جہاں وہ آزادی کے ساتھ اذانیں دے سکیں خدا کا ذکر خیر کر سکیں.تبلیغ کر سکیں تو بھی اس حد تک ان کی نیتوں میں ایک صفائی موجود ہے کہ وہ خدا کی خاطر ستائے ضرور گئے تھے اور ان میں یہ طاقت نہیں تھی کہ ان آزمائشوں کا مقابلہ کر سکتے ، اس لئے وہ جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے.ایسی ہجرت کو بھی ”ہجرت اللہ“ کہا جاسکتا ہے، کو ہجرت الی اللہ نہیں ہوگی.وہ ہجرت جو اللہ بھی اور الی اللہ بھی ہو وہ ہجرت در حقیقت حضرت محمد مصطفی امی اور آپ کے غلاموں کی ہجرت تھی.اس سے پہلے ایک ایسی ہجرت جو اللہ “ کہلا سکتی ہے گو الی اللہ کا محاورہ غالباً اس پر صادق نہیں آتا یعنی ہجرت حبشہ.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقعہ پر یہ بھی فرمایا کہ من كانت هجرته الى الله و رسوله ( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر (۵۲) کہ جس شخص کی ہجرت خدا اور رسول کی طرف ہو وہ خدا اور رسول کو پالیتے ہیں تو جس وقت ہجرت حبشہ ہوئی ہے اسی وقت تو آنحضرت مہ مصائب میں گھرے ہوئے اپنے اور بہت سے مخلصین کے ساتھ مکے میں موجود تھے.دودفعہ ہجرت حبشہ ہوئی اور اس کے بعد پھر ایک لمبا عرصہ تک آنحضرت ا سکے ہی میں مقیم رہے تو وہ ہجرت الى الله ورسوله “ ان معنوں میں نہیں کہلا سکتی کیونکہ رسول تو خود بغیر ہجرت 66

Page 509

خطبات طاہر جلد ۹ 504 خطبه جمعه ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء کے وہاں بیٹھا ہوا تھا مگر یقیناوہ سلسلہ تھی یعنی اس میں خدا کے تعلق کا ایک دخل تھا.خدا کی خاطر تکلیفیں اٹھانے والے جب ایک ایسے حال کو پہنچے کہ بات ان کی حد برداشت سے بڑھ گئی تو انہوں نے ہجرت کی جو یقینا اللہ کی خاطر تھی مگر اللہ اور اللہ کے رسول مکے میں اس سے زیادہ موجود تھے اپنے تعلق کے لحاظ سے جتنا اس وقت وہ حبشہ میں کہیں موجود ہوں گے.یعنی خدا کی ذات تو ہر جگہ ہے لیکن اپنے تعلق اور اظہار کی رو سے وہ بعض جگہ زیادہ عیاں ہوتی ہے اور بعض جگہ کم عیاں ہوتی ہے تو سب سے زیادہ خدا کا جلوہ تو مکے میں روشن تھا جہاں آنحضرت تھے.تو اسی سے استنباط کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ بعض ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی ہجرت میں یہ نیت داخل نہیں ہوگی کہ ایسی سرزمینوں کی طرف جائیں جہاں خدا کا نام لینے کی آزادی ہو، جہاں خدا کا نام دوسروں تک پہنچانے کی آزادی ہو اور اس سے ہم خدا کا قرب حاصل کریں مگر چونکہ خدا کی خاطر ستائے گئے ہیں اس لئے للہ کہنا جائز ہے لیکن کچھ اور بھی لوگ ہو سکتے ہیں اور بعض نتائج مجھے بتا رہے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جن کی نیت در اصل دنیا کی خاطر ہجرت ہے اور جب یہ بات ہجرت کی نیت میں داخل ہو جائے تو ہجرت ثواب سے بھی محروم ہو جاتی ہے اور نیک اثرات سے بھی محروم ہو جاتی ہے.ہجرت کے متعلق قرآن کریم میں کچھ وعدے دیئے گئے ہیں کہ جو خدا کی خاطر خدا کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ سلوک فرمائے گا.ان وعدوں کا تعلق ان ہی ہجرتوں سے ہے جو اللہ ہو اور الی اللہ “ ہوں ، دوسری ہجرتوں سے ان وعدوں کا کوئی تعلق نہیں.پس ایسے لوگ ان باتوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور عملاً ہمارے ملک میں بدقسمتی سے نیتوں میں اس حد تک فتور داخل ہو چکا ہے کہ نیتوں کا فتور ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو گیا ہے اور بچپن سے ہی لوگوں کے مزاج میں نیتوں کا فتور پایا جاتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ ہم خدا تعالیٰ سے توقع رکھتے ہیں کہ احمدی اس پہلو سے خدا کے نزدیک سرخرو ٹھہریں گے مگر عملاً یہ بات معلوم کرنا بہت مشکل ہے اور بسا اوقات ہجرت کر نیوالوں کو بھی معلوم نہیں ہوتی.چنانچہ بعض ہجرت کرنے والے ایسے ہو سکتے ہیں جن کی نیت خالصہ دنیا کمانا ہو اور دنیا کے آرام حاصل کرنا ہو.ایسے ہجرت کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے ان دونوں باتوں کو ملا دیا ہے اور ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نرمی کے سلوک

Page 510

خطبات طاہر جلد ۹ 505 خطبه جمعه ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء کے اس وعدے کا اطلاق ہو سکتا ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو نیک اعمال کو بداعمال کے ساتھ ملا دیتے ہیں ان کا معاملہ خدا پر ہے.چاہے تو ان سے بخشش کا سلوک فرمائے چاہے تو ان کو پکڑے تو ایسے لوگ جو ہیں ان کے لئے بھی یہی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بخشش کا ہی سلوک فرمائے اور ان کی نیتوں میں جو نیکی کا عنصر شامل تھا اسے غالب کرتا چلا جائے اور بدی کے عنصر کو مٹاتا چلا جائے.کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے باہر جانے والے دوستوں سے مغربی تہذیب کی آزادی کے ذکر سنے ہوئے ہوتے ہیں.انہوں نے یہ سنا ہوتا ہے کہ وہاں اس قسم کی سہولتیں مہیا ہیں کہ انسان قانون کی نظر میں مجرم بنے بغیر کئی قسم کے جرائم کا ارتکاب کر سکتا ہے.عیاشی کے ایسے سامان موجود ہیں جن سے متعلق دنیا تعارض نہیں کرتی اور جب چاہے انسان، جس طرح بھی چاہے عیاشی کی زندگی بسر کرے.ان کی نیتوں میں اگر یہ بات داخل ہو تو خواہ وہ للہ ہجرت کرنے والے دکھائی دیتے ہوں ایک اور قانون ضرور عمل کرے گا اور وہ قانون یہ ہے کہ پھر آنحضرت مہ نے فرمایا کہ اس کی ہجرت پھر اس طرف ہوگی جس طرف اس کی نیت تھی یعنی ہجرت کے باوجود وہ خدا کو پانے کی بجائے بد قماش لڑکیوں کو پالے گا ہجرت کے باوجود وہ خدا کو پانے کی بجائے شراب اور جوئے اور اس قسم کی بداعمالیوں کو پالے گا اور اس کا دنیا میں جو انجام ہوگا وہ ظاہر کرے گا کہ اس کی نیت کیا تھی.پس جہاں تک مہاجرین کا تعلق ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں شخص کی نیت ی تھی اور فلاں کی ی تھی مگر عمومی نصیحت کے ذریعے ان کو متوجہ کرنا ضروری ہے کہ اگر پہلے تمہاری نیتوں میں فتور تھا بھی تو اسے خوب کھنگال کر معلوم کرو اور اپنی نیتوں کو اب بھی صاف کر لو کیونکہ جب تک عمل نیتوں سے رنگین نہیں ہو جاتے اس وقت تک تو بہ کا دروازہ کھلا ہے.عمل جب نیتوں سے رنگین ہو جاتے ہیں تو پھر معاملہ حد اختیار سے باہر نکل جاتا ہے اس لئے ان کے یہاں کے اعمال یہ فیصلہ کرنے والے ہیں کہ وہ کس نیت سے چلے تھے.بہت سے ایسے مہاجرین میں نے دیکھے ہیں جو وہاں جماعتی نقطۂ نگاہ سے اچھے اعمال کرنے والے لوگ نہیں تھے.نہ وہ چندے دیتے تھے، نہ وہ نمازوں کی طرف متوجہ تھے، نہ جماعتی خدمت میں حصہ لیا کرتے تھے لیکن یہاں آنے کے بعد دن بدن ان کے حالات سنور نے

Page 511

خطبات طاہر جلد ۹ 506 خطبه جمعه ۳۱ راگست ۱۹۹۰ء شروع ہو گئے.نمازوں کے عادی بن گئے جماعت کے تعلق میں آگے بڑھ گئے اور چندوں اور قربانیوں میں ماشاء اللہ غیر معمولی نمونے دکھانے لگے.ایسے لوگوں کے حال پر جب میں نظر ڈالتا الله ہوں تو مجھے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد یاد آجاتا ہے کہ جس کی ہجرت اللہ کی خاطر اللہ کی طرف ہوگی وہ ضرور خدا ہی کو پائے گا اور اس کی یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی.چنانچہ جو عظیم انقلاب برپا ہوا ہے وہ انقلاب جو پاکستان سے آنے والوں میں کثرت کے ساتھ بر پا ہوا ہے جس کے نمونے ظاہر وباہر ہیں، یہ در حقیقت حضرت رسول اکرم ﷺ کی اس خوشخبری کے نتیجے میں ہی ہے اور ہم اس کے نیک اثرات دیکھ رہے ہیں لیکن یہ جو معاملہ ہے کہ انسان نیتوں کی وجہ سے اپنے اعمال پر غالب آجائے.یہ ایک دو دن کا معاملہ نہیں ہے یہ ایک لمبا اور محنت طلب سفر ہے.نیت اگر اچھی ہو اور انسان کے اعمال میں بدی کا غلبہ ہو تو نیت کو اعمال پر غالب آنے کے لئے ایک لمبا وقت درکار ہوا کرتا ہے.اس کے لئے لمبی توجہ کے ساتھ محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ بد اعمالیاں اتنی آسانی سے انسان کا پیچھا نہیں چھوڑا کرتیں.بعض اس قسم کے ایسے اعمال ہیں جن کی مثال آنحضرت ﷺ کو اس طرح دکھائی گئی کہ جہنم میں ایک شخص آگ کے تنور میں پڑتا ہے پھر وہ باہر نکلتا ہے اور پھر نجات پانے کی بجائے دوبارہ تنور میں داخل ہو جاتا ہے پھر وہ باہر نکلتا ہے پھر دوبارہ داخل ہو جاتا ہے اور اس نظارے کا یہ مفہوم آنحضرت ﷺ کو بتلایا گیا کہ بعض شہوانی غلبے ایسے ہیں جو انسان کو اسی حالت میں مبتلا رکھتے ہیں.رات پی زمزم پہ ئے اور صبح دم دھوئے دھبے جامہ احرام کے (دیوان غالب صفحه: ۲۸۱) ہر رات یہی ہوتی ہے اور ہر صبح یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگ نیت کرتے ہیں بدیوں سے نکلنے کی اور یہ ان کی مثال ہے ورنہ وہ لوگ جو بدیوں سے نکلنے کی نیت ہی نہیں کرتے وہ تو ہمیشہ تنور میں رہتے ہیں.یہ نظارہ ان لوگوں کا دکھایا گیا ہے جو بدیوں سے نکلنے کی نیت کرتے ہیں جب ان کی خواہشات اطمینان پا جاتی ہیں اور جب خواہشات جوش مارتی ہیں تو دوبارہ پھر اس تنور میں جاپڑتے ہیں اس نظارے میں انسانی نفسیات کا ایک بہت گہرا پہلو بھی دکھلایا گیا ہے اور وہ یہ پہلو ہے کہ اگر کوئی شخص نیک نیتی سے اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہو تو جب اس کو بدی کے نتیجے میں تسکین

Page 512

خطبات طاہر جلد ۹ 507 خطبه جمعه ۳۱ / اگست ۱۹۹۰ء حاصل ہو چکی ہو اس وقت نیت نہ کرے بلکہ جب بدی غلبہ مار رہی ہو اور جوش دکھا رہی ہواس وقت نیت کرے اور اس وقت اس پر غالب آنے کی کوشش کرے.اگر ایسا کرے گا تو دوبارہ اس تنور میں نہیں پڑے گا.بار بار تنور سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ بدی کو تسکین مل گئی اور بار بار داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر آ گیا تو کچھ دیر کے بعد پھر جوش پیدا ہوا اور پھر انسان اسی گناہ میں مبتلا ہو گیا.تو یہ گناہوں میں سے ایک گناہ کی مثال ہے ایسے ہزار ہا گناہ ہیں جن میں انسان اسی طرح مبتلا ہوتا ہے اور اسی طرح ان گناہوں کے ساتھ اس کی کشمکش رہتی ہے لیکن کشمکش بھی ان ہی لوگوں کی رہتی ہے جن کا نفس لوامہ زندہ ہو.جن کا دل انہیں بار بار کوئے ملامت کو لے کے جائے اور بار بار شرمندگی کا احساس ہو ان کے لئے بھی گناہوں پر غالب آنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ نظارہ ہمیں بتاتا ہے کہ بہت سے بد نصیب ایسے ہیں جو بالآخر ایسی حالت میں مرتے ہیں وہ تنور کے اندر تھے تنور کے باہر نہیں تھے کیونکہ جو تنور کے باہر مرنے والے ہیں ان کا یہ نظارہ نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کو دکھایا گیا.جو بد حالت پر مرتا ہے اس کو سزا ملتی ہے جو نیک حالت پر مرتا ہے اس کا نیک انجام ہوتا ہے.اس لئے صرف ایک مثال سے آپ سمجھ جائیں گے کہ اگر نیتوں کو یہاں آنے کے بعد بھی درست کر لیا جائے تو پھر کتنی بڑی جدو جہد کا آغاز ہونے والا ہے اور بہت لمبا وقت چاہئے اور پھر درمیان میں ایک مشکل یہ ہے کہ نیتوں کا پتا بھی نہیں چلتا کیونکہ ایک نیت کا اگر علم حاصل بھی ہو اور انسان سمجھ لے کہ میں اس معاملے میں ہمیشہ بدنیت رہا کرتا تھا اور میں نے اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا رکھا تھا، اس کے باوجود بہت سے دوسرے ایسے گناہ ، بہت سے دوسرے ایسے عوارض ہیں جن کی تشخیص کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے اور ہر انسان کے لئے بڑا مشکل معاملہ ہے کہ وہ اپنے گنا ہوں کی اس طرح تشخیص کر سکے کہ وہ جان لے کہ میری نیت بد تھی اس لئے بدنتائج نکلے ہیں.قرآن کریم نے حضرت آدم کی بریت دیکھیں کس خوبصورت انداز میں یہ بیان فرمائی.جہاں فرمایا کہ : وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما ( طه (۱۱۲) که آدم تو خود بار بار تو بہ کر رہا تھا اور استغفار کر رہا تھا اور کہتا تھا کہ میں گنہگار ہوں لیکن خدا جو نیتوں کی کہنہ سے واقف ہے وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم نے اس میں بدی کا عزم نہیں پایا تھا اس لئے تم غلط نہی میں مبتلا نہ ہو جانا کہ خدا نے ایک ایسے شخص کو نبی کے طور پر چن لیا

Page 513

خطبات طاہر جلد ۹ 508 خطبه جمعه ۳۱ /اگست ۱۹۹۰ء جس کی نیتوں میں فتور داخل تھا اس کی نیت صحیح تھی اس کے باوجود اس سے غلطی ہوئی.پس چونکہ انما الاعمال بالنیات کا قانون ہر چیز پر حاوی اور غالب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو اس غلطی کے بداثرات سے بچالیا.پس نیتوں کا معاملہ بہت ہی باریک ہے اور آخری طور پر اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کسی کی نیت کیا ہے.اس لئے نیت کی پہلی اصلاح تو یہ ہونی چاہئے اور وہ پہلا اور سب سے اہم قدم ہے کہ انسان غور کرے کہ میں کیوں مہاجر بن کے اپنے وطن سے نکلا تھا اور اگر نیت میں اس بات کا غلبہ نہ ہو کہ میں اللہ کی طرف جارہا ہوں اور خدا کے ساتھ تعلق کے لئے مجھے وہاں زیادہ سازگار ماحول میسر آئے گا اور خدمت دین کی آزادی میسر ہوگی تو پھر ایسا شخص خطرات کے مقام پر کھڑا ہے یعنی ضروری نہیں کہ وہ خطروں میں مبتلا ہو بلکہ بعض دفعہ ہجرت سے پہلے کی خدا کی راہ میں اٹھائی ہوئی تکلیفیں اس کو سنبھال لیتی ہیں اور ان تکلیفوں کی جزا اس کی نیتوں کی اصلاح کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے عملاً بالا رادہ وہ نیت کی اصلاح نہ بھی کرے تب بھی خدا تعالیٰ ان تکلیفوں کی جزاء اسے دیتا ہے جو اس نے خدا کی خاطر اپنے وطن میں برادشت کی تھیں اور اس کے نتیجے میں نیتوں کی اصلاح بھی شروع ہو جاتی ہے اور ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح بھی شروع ہو جاتی ہے.مگر نیت میں اگر بدی کا عنصر غالب ہو تو پھر یہ بہت خطرے کا مقام ہے.ایسے لوگ پھر وہاں اگر اپنی بداعمالیوں کو چھپائے ہوئے تھے تو اس ماحول میں آکر وہ زیادہ ننگے اور زیادہ دلیر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر ان کا بد انجام ہوتا ہے جس سے کوئی بچا نہیں سکتا.تو وہ مہاجرین جواب تک تشریف لائے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، عمومی طور پر میرا تاثر یہی ہے اور مجھے اطمینان ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان کی نیتیں خالص تھیں یا ان کی نیتوں میں نیکی کا عصر غالب تھا یا ہجرت اللہ ضرور تھی.تکلیفیں اٹھا کر ان سے گھبرا کر نکلے تھے یا انہوں نے خدا کی خاطر کچھ ایسے دکھ اٹھائے تھے جو ظاہری طور پر دنیا کو نہ بھی معلوم ہوں لیکن دل ان کے ہمیشہ خدا کی خاطر دکھوں میں مبتلا رہے ، ان کی جزا کے طور پر خدا نے ان کی نیتوں کی اصلاح فرما دی مگر جو بھی ہوا اکثر صورتوں میں خدا کے فضل سے وہ لوگ جو ہجرت کر کے باہر نکلے ہیں وہ اصلاح پذیر ہیں لیکن نظام جماعت کو ان پر نظر رکھنی چاہئے اور مسلسل کوشش کرنی چاہئے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اصلاح کا معاملہ ایک بہت ہی مشکل معاملہ ہے.ہزار بار بھی آپ کو سمجھاؤں تو آپ پوری طرح سمجھ

Page 514

خطبات طاہر جلد ۹ 509 خطبه جمعه ۳۱ /اگست ۱۹۹۰ء نہیں سکیں گے کہ کتنا مشکل ہے اس لئے دعاؤں کے ذریعہ بھی ان کی مدد کریں اور اپنی مد بھی کریں ! ور جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے کوشش کر کے ایسے لوگوں پر نظر ر کھے جو رفتہ رفتہ بدی کی طرف بڑھ رہے ہوں کیونکہ وہی سب سے بڑے خطرے میں مبتلا ہیں اور گھیر کر ان کو ہر طرح سے ذرائع اصلاح کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کو واپس لانے کی کوشش کریں اور جو نیکیاں کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں.ان کو احساس پیدا ہو کہ ہم خدا کے فضل سے پہلے اچھے ہوتے چلے جارہے ہیں.اس طرح انشاء اللہ رفتہ رفتہ جماعت احمدیہ کے وہ عناصر بھی جو بہت سی بدیوں میں مبتلا تھے اور وہی بدیاں لے کر باہر آگئے وہ انشاء اللہ تعالیٰ ہجرت کی برکت سے خدا کے فضل سے اصلاح پذیر ہوتے چلے جائیں گے اور ایک نئی جماعت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور دنیا کے لحاظ سے بھی اور خدا کے وعدے ان کے حق میں پورے ہوں گے اور بہت سی وسعتیں ان کو عطا ہوں گی لیکن جو بدا رادوں سے آئے ہیں اور دن بدن بدیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، ان کے لئے نہ دین رہے گا نہ دنیا رہے گی اور دونوں طرف سے وہ نامراد دکھائے جائیں گے اس لئے میں ان کو متنبہ کرتا ہوں کہ اگر کچھ غلط قدم اٹھائے گئے ہیں تو تو بہ کریں اور اپنی ہجرت کو خدا کی خاطر بنانے کی کوشش کریں اس کی پناہ میں آئیں اور پھر دین بھی ان کو عطا ہوگا اور دنیا بھی عطا ہوگی.جہاں تک اعمال کا نیتوں پر دارومدار ہے وہ تو میں نے بیان کیا.اس کا ایک دوسرا حصہ ہے نیتوں کا اعمال پر بھی دارو مدار ہوا کرتا ہے اور دراصل یہ ایک Wishes chain ہےWishes cirde ہے.یعنی ایسی بدیوں کا ایک دائرہ ہے جو مزید بدیاں پیدا کرتی چلی جاتی ہیں اور پھر ان کے بچے بڑے ہو کر پہلی بدیوں کو مزید تقویت دیتے ہیں اس طرح بدیاں بڑھنے کا ایک مسلسل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.جتنے بھی ممالک مثلاً مشرقی دنیا کے ممالک ہیں ان کے اندر بعض برائیاں ہیں جو اسی طرح بدنیتیوں کو جنم دیتی ہیں اور مغربی دنیا میں بھی بعض برائیاں ہیں جو بعض بد نیتیوں کو جنم دیتی ہیں.مثلاً یہاں فحشاء عام ہوگئی ہے اور اس کی حیا اٹھ گئی ہے اس کے نتیجہ میں ٹیلیویژن وغیرہ کے ذریعے یا اخبارات اور تصاویر کے ذریعے جو چھوٹی نسلیں ان باتوں کو دیکھتی ہیں باوجود اس کے کہ بلوغت کو نہیں پہنچی ہوتیں ان کی نیتوں میں یہ بات داخل ہو جاتی ہے کہ جب ہمیں توفیق ملے گی ہم اسی قسم کی بدیاں کریں گے اور جب نیتیں بد ہو جائیں تو پھر دوسرے قو می اصلاحی ذرائع ناکام ہو جایا کرتے ہیں.

Page 515

خطبات طاہر جلد ۹ 510 خطبه جمعه ۳۱ / اگست ۱۹۹۰ء مشرقی دنیا میں رشوت ستانی عام ہے اور اپنی طاقت کا ناجائز استعمال اور طاقت سے ناجائز استفادہ ایک عام بیماری ہے.چنانچہ وہاں اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بھاری تعداد میں طالب علم اس نیت کے ساتھ بعض Professions کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہوا ہوتا ہے کہ اس Professions میں جا کر انہوں نے اس طرح دنیا کی کمائی اور اس طرح وہ بڑے بڑے محلات بنانے میں کامیاب ہو گئے اور ایک اعلیٰ قسم کی زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوئے.اگر فوج کا کردار گندا ہو مثلاً ، اور فوجی افسر بننے کا مطلب یہ ہو کہ بڑے بڑے پلاٹ ملیں گے، دنیا کی رعایتیں ملیں گی اور انسان اپنی من مانی کارروائی کر سکے گا اور قانون کی دست برد سے بالا رہے گا اگر یہ منظر کوئی قوم پیش کر رہی ہو یا کسی قوم کی فوج پیش کر رہی ہو تو فوج میں جانے والے جو بچے ہیں ان کی نیتوں میں شروع میں ہی یہ فتور داخل ہو جاتا ہے.وہ اس نیت سے فوج میں نہیں جاتے کہ ہم اپنی جانیں پیش کریں گے اور ملک کے دفاع کی خاطر یہ یہ قربانیاں کریں گے اور اس طرح اپنی قوم کی عزت بچانے کے لئے اپنی عزتیں مٹادیں گے بلکہ شروع سے ہی نیت یہ ہوتی ہے کہ جب ہم بڑے ہوں گے اور فوجی افسر بنیں گے تو اسی طرح ہی ہم قوم کے اموال پر قابض ہو جائیں، قوم کی عزتوں پر قابض ہو جائیں گے، قوم کے وقار پر قابض ہو جائیں گے جس طرح وہ لوگ جو ہمیں دکھائی دے رہے ہیں انہوں نے قوم کے ساتھ سلوک کیا تو وہ بداعمالیاں جو قوم پر غالب آجائیں وہ قوم کے حال پر ہی غالب نہیں آیا کرتیں بلکہ قوم کے مستقبل پر بھی غالب آجاتی ہیں اور بد بچے دیتی ہیں.پس وہ نیتیں جو بد اعمال پیدا کرتی ہیں بعد میں بد اعمال کے نتیجے بھی بد نیتوں کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے نتیجے میں پھر نئے بد اعمال پیدا ہوتے ہیں.تو بدیوں کے فروغ کا ایک بہت ہی خطرناک سلسلہ چل پڑتا ہے جس کو روکنا پھر انسان کی طاقت میں نہیں رہتا اور یہ عجیب بات ہے کہ دنیا میں تیزی کے ساتھ فروغ پانے والی چیزیں بدیاں ہیں.نیکی بھی فروغ پاتی ہے لیکن آہستگی کے ساتھ اور پاؤں جما کر.بدی بہت تیزی کے ساتھ فروغ پکڑتی ہے.چنانچہ آپ دیکھیں کہ دنیا میں زندگی کی مختلف قسم میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی چیز بکٹیر یا ہیں.وہ جراثیم جو زندہ چیزوں کی صحت پر حملہ کرتے ہیں اور دنیا کے ہر جانور، ہر سبزی اور ہر نوع کی مخلوقات سے ان کا تعلق

Page 516

خطبات طاہر جلد ۹ 511 خطبه جمعه ۳۱ / اگست ۱۹۹۰ء پیراسائٹ کا تعلق ہوتا ہے یعنی ان کے جسموں پر وہ غالب آتے ہیں.ان کے جسم کے سہارے زندہ رہتے ہیں اور اتنی تیزی سے وہ نشو نما پاتے ہیں کہ ان کی نشو ونما کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی.آنافانا ایک جرثومہ جسم میں داخل ہو کر بعض دفعہ چند گھنٹوں میں، بعض دفعہ چند دنوں میں ارب ہا ارب کی تعداد کو پہنچ جاتا ہے تو.بدیاں بھی بالعموم اسی طرح تیزی کے ساتھ پھیلنے والی چیزیں ہیں اور نیکیوں کے لئے صبر چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی آہستگی سے بڑھتی ہے اور پاؤں جما کر آگے بڑھنا پڑتا ہے.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کی جدو جہد بہت ہی اہم بھی ہے اور بہت مشکل بھی ہے.اتنے کٹھن مراحل ہیں کہ ان کے اوپر آپ غور کریں تو ہوش اڑ جاتے ہیں کہ ہم میں طاقت کہاں ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں مگر خدا نے ہم پر جو ذمہ داری ڈالی ہے خواہ ادا نہ کرسکیں یعنی اپنے مقصد کو حاصل نہ کر سکیں اگر اس راہ میں مارے جائیں تو یہی نجات ہے، یہ نا کامی نہیں ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ایک تو بہ کرنے والے کا نقشہ اس رنگ میں کھینچا جس کی تفصیل سے میں پہلے بھی آپ کو آگاہ کر چکا ہوں مگر اب صرف وہ حصہ بیان کرتا ہوں جس کا اس مضمون سے تعلق ہے.ایک سالہا سال کا، عمر بھر کا گنہگار جب تو بہ کرنے کی خاطر صلحاء کے ایک شہر کی طرف جارہا تھا تو راستے میں اس کی موت آگئی لیکن مرنے سے پہلے وہ کہنیوں اور گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہوا جہاں تک اس کی طاقت تھی اس سمت میں بڑھتا رہا.وہ جانتا تھا کہ اسے اس کی موت سفر کے اختتام سے پہلے آئے گی.وہ جانتا تھا کہ اس طرح گھٹنے کے باوجود وہ شہر جو ا بھی بہت دور تھا ، جو تقریباً نصف فاصلے پر تھا اس تک نہیں پہنچ سکے گا لیکن نیت میں صفائی تھی اور نیت میں مضبوطی تھی.اس کا دل بے قرار تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو بدیوں کے شہر کو چھوڑ کر الی اللہ “ ہجرت کر سکوں.چنانچہ وہ اس تمثیلی نظارے میں رسول اکرم ﷺ کو یوں دکھلایا گیا کہ وہ گھٹتا ہوا آخر دم تک کوشش کرتا رہا کہ وہ نیکوں کے شہر کی طرف بڑھ جائے.بہت ہی پیاری تمثیل ہے جس کی تفاصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں لیکن یہ نکتہ آپ دیکھیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو بتلایا گیا کہ خدا کے فرشتے جو بدی اور نیکی کے فرشتے تھے، انہوں نے اس کا معاملہ خدا کے حضور پیش کیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دونوں طرف کے فاصلے ناپو.اگر بد شہر جس سے وہ ہجرت کر کے نیک شہر کی طرف جارہا تھا اس مقام سے قریب تر ہو.جہاں اس نے جان دی ہے تو پھر اس کو بدوں میں شمار کرلو اور اگر وہ شہر جونیکیوں کا شہر تھا جو اس کی ہجرت کا

Page 517

خطبات طاہر جلد ۹ 512 خطبه جمعه ۳۱ / اگست ۱۹۹۰ء مقصود تھا وہ اس جگہ سے قریب تر ہو جہاں اس نے جان دی ہے تو اس کو نیکیوں میں شمار کر لو.اس کے بعد آنحضرت ﷺ ہمیں بتاتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک عجیب واقعہ ہے جس کو سن کر روح پکھلتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کیا اور وہ جگہ ناپ رہے تھے تو جو بدوں کی طرف کی زمین تھی وہ لمبی ہوتی چلی جارہی تھی اور اگر وہ ایک گز ناپتے تھے تو دراصل وہ ایک گز زمین نہیں ناپ رہے ہوتے تھے بلکہ تھوڑی زمین کو لمباناپ رہے تھے.یعنی دس انچ زمین اگر وہ ناپ رہے ہیں تو وہ زمین کھیچ گئی ہے اس لئے ایک گز دس انچ میں پورا آگیا اور اگر چہ وہ فاصلہ تھوڑا تھا لیکن جب پیمائش ختم ہوئی تو وہ گزوں کے لحاظ سے بہت بڑا فاصلہ دکھائی دینے لگا اور دوسری طرف کے فرشتوں کے ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ سلوک فرمایا کہ وہ زمین سکڑنے لگی اور زمین تو زیادہ بہی تھی مگر گز جب ناپتے تھے تو وہ تھوڑا دکھاتے تھے یعنی زمین اگر دس گز کی ہے اور وہ سکڑ کر ایک گز رہ گئی ہو تو دس گزنا پنے کی بجائے وہ گز اس کو ایک گز دکھا رہے تھے تو دونوں طرف سے خدا کی رحمت نے یہ سلوک فرمایا کہ ایک طرف اس کی بدیوں کے فاصلے زیادہ دکھائی دینے لگے.دوسری طرف اس کی نیکیوں کی طرف کے فاصلے کم دکھائی دیئے جانے لگے اور آخر خدا نے کہا کہ دیکھو یہ تو نیکی کے شہر کی طرف آگے بڑھ گیا تھا.اس لئے اس سے بخشش کا سلوک ہوگا.تو نیتوں کی اصلاح اگر کر لی جائے تو صرف نیتیں کافی نہیں ہیں.وہ خدا جو نیتوں کو قبول کرنے والا ہے وہ بہت مہربان ہے اور اس کی رحمت اور بخشش کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا.اس لئے بظاہر نیت کی بات ہو رہی ہے مگر حقیقت میں نیت قبول کرنے والے کی بات ہو رہی ہے.اگر نیت میں صفائی ہوگی اور پاکیزگی ہوگی تو باوجود اس کے کہ محض نیت اس قابل نہیں ہوگی کہ بدیوں پر غالب آ سکے اور بسا اوقات یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی کا بقیہ سفر اتنا تھوڑا رہ گیا ہو کہ بدیوں والا اس کا سفر اس پر غالب آچکا ہو.زندگی کا اکثر حصہ ان سے بدیوں میں صرف کر دیا ہو تو نیتوں کی نیکی کے نتیجے میں اگر نیک اعمال رونما بھی ہو رہے ہوں اور وہ تعداد میں تھوڑے ہوں اور اپنی کمیت کے لحاظ سے بھی تھوڑے ہوں اور اپنی قوت کے لحاظ سے بھی تھوڑے ہوں تو پھر وہ قانون غالب آئے گا کہ اگر نیکی زیادہ ہے تو جزاء ملے گی اور بدی زیادہ ہے تو سزا ملے گی.تو یہاں خدا کا فضل انسان کے آڑے آتا ہے.خدا کا فضل ہے جو نیتوں کے ایسے پھل لگاتا ہے جو نیتوں کے حق سے بہت زیادہ ہو

Page 518

خطبات طاہر جلد ۹ 513 خطبه جمعه ۳۱ /اگست ۱۹۹۰ء جاتے ہیں پس نیتوں کو درست کر لیں اور یہ فیصلہ کریں کہ یہاں چلے آنے کے بعد آپ کی پہلی نیتوں سے آپ کا رابطہ کٹ جائے گا اور اب آپ اپنی ہجرت کو الی اللہ بنانے کی کوشش کریں گے.یہ مضمون صرف ظاہری طور پر ہجرت کرنے والوں پر صادق نہیں آتا بلکہ بہت وسیع مضمون ہے اور ہجرت الی اللہ کا مضمون جسم کی ہجرت سے اس طرح وابستہ نہیں کہ ضروری جسم کی ہجرت کے ساتھ اس کا تعلق ہو.بہت سے جسمانی ہجرت کرنے والوں سے اس کا تعلق ضرور ہے لیکن ان لوگوں سے بھی تعلق ہے جو جسمانی لحاظ سے ایک انچ بھی حرکت نہ کر رہے ہوں لیکن ان کا دل اللہ کی طرف مائل ہو چکا ہو اور ان کی ہجرت الی اللہ کا سفر وہیں سے شروع ہو چکا ہوتا ہے.پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ساری جماعت کو اللہ تعالیٰ ہجرت الی اللہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ورنہ یہ دنیا اپنی بدیوں سمیت اتنی طاقتور ہے اور دنیا کی بدیاں دنیا پر اتنی غالب آتی چلی جارہی ہیں کہ دنیا کو تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے.ہاں اپنے آپ کو تبدیل کرنے سے ہمیں یہ سفر شروع کرنا ہوگا اور باوجود یکہ اپنے آپ کو تبدیل کرنا بھی ہمارے بس کی بات نہیں اگر ہم اپنی نیتوں کو درست کر لیں گے تو حضرت اقدس محمد مصطفی میلہ کی یہ بشارت ضرور ہمارے حق میں پوری ہوگی کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہوا کرتا ہے.

Page 519

Page 520

خطبات طاہر جلد ۹ 515 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرنا چاہئے (خطبہ جمعہ فرموده ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء بمقام ناصر باغ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: تیسری دنیا جس میں افریقہ بھی شامل ہے اور بہت سے ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں اور جنوبی امریکہ کے بھی بہت سے ممالک شامل ہیں ان کے مسائل دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں اور زیادہ اُلجھتے چلے جارہے ہیں اور زیادہ گیر ہوتے چلے جارہے ہیں.ان تمام مسائل کی بہت سی وجوہات ہیں، بہت سے محرکات ہیں ، بہت سے عوامل ہیں جن کے نتیجے میں یہ مسائل بڑھ رہے ہیں لیکن اگر ایک وجہ تلاش کی جائے تو آخری نقطہ جس کے گرد سارے مسائل گھومتے ہیں اور پھر بڑھتے پہنتے چلے جاتے ہیں وہ نقطہ جھوٹ کا نقطہ ہے.میں نے بڑی گہری نظر سے افریقہ کے حالات کا بھی جائزہ لیا ہے، مشرقی دنیا کے دیگر ممالک کے حالات کا بھی جائزہ لیا ہے اگر چہ بالعموم رجحان یہی پایا جاتا ہے کہ ہر نقص اور ہر برائی کو مغرب کے سر پر تھوپ دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ مغربی دنیا نے ان ممالک کو مسائل میں ایسا اُلجھا رکھا ہے کہ ہوش نہیں آنے دیتے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی دنیا بھی کسی تیسری دنیا پر غالب نہیں آسکتی جب تک اس دنیا میں اندرونی کمزوریاں نہ ہوں.وہ جسم جوصحت مند ہوں وہ جراثیم کے گھیرے میں رہتے ہیں، ہر سانس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں جراثیم ان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں.غذا کے ہر لقمے کے ساتھ جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہیں لیکن ان کو اس کی کوئی بھی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ صحت مند جسموں کے اندر دفاع کی طاقت موجود ہوتی ہے.جب انسان کے دفاع کی طاقتیں کمزور ہو جائیں تو چھوٹے سے چھوٹا جرثومہ بھی ، چھوٹی سے چھوٹی بیرونی طاقت

Page 521

خطبات طاہر جلد ۹ 516 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء بھی اُس پر قبضہ پانے کی اہلیت اختیار کر جاتی ہے.پس میں جانتا ہوں کہ مغربی دنیا کا جو مالی نظام ہے وہ مشرقی دنیا کے لئے اور تیسرے درجے کی دنیا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے لیکن یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے سارے نقصان پہنچ رہے ہیں درست نہیں ہے.تمام برائیوں کی جڑھ جھوٹ ہے جس کے نتیجے میں مشرقی دنیادن بدن اور زیادہ بدتر حال میں مبتلا ہوتی چلی جارہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شراب ام الخبائث ہے.اگر شراب ام الخبائث ہے اور ضرور درست ہے تو جھوٹ کو ام الکبائر کہنا نا جائز نہ ہو گا اسی لئے ایک لمبے عرصے سے میں جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ جھوٹ کے خلاف جہاد شروع کریں.دنیا کا کوئی ملک بھی جھوٹ کی عادت کے ساتھ نہ اپنا دفاع کر سکتا ہے نہ کسی پہلو سے بھی دُنیا میں ترقی کر سکتا ہے اور کوئی قوم دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی اگر اس کے اندر جھوٹ کی بیماری موجود ہو اور جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے مذہبی جماعتوں کے لئے تو جھوٹ ایک زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے اور ایسی جماعتیں جو جھوٹ میں مبتلا ہوں اور مذہبی جماعتیں ہوں وہ خود بھی ڈوبتی ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہیں کیونکہ اُن پر انحصار کیا جاتا ہے.ان کو خدا تعالیٰ نے راہنمائی کے لئے پیدا کیا ہوتا ہے اس لئے اگر وہ خود جھوٹ کی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو راہنمائی کی تمام صلاحیتوں سے عاری ہو جاتی ہیں.تمام خوبیوں سے رفتہ رفتہ تعلق توڑنا شروع کر دیتی ہیں جو اُن کو نبوت کے نتیجے میں عطا ہوتی ہیں اور تمام بدیوں سے اُن کے روابط بڑھتے چلے جاتے ہیں.پس اس پہلو سے باوجود اس کے کہ اس سے پہلے بھی میں نے بارہا خطبات میں جھوٹ کے خلاف جہاد کرنے کی تلقین کی تھی مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک یا دو یا چار خطبوں کی بات نہیں میں سمجھتا ہوں کہ بار بار جماعت کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے.جرمنی میں چونکہ پاکستان سے آنے والوں کی تعداد جماعتی لحاظ سے بہت زیادہ ہے اس لئے ایک بُرائی جو اُن کے آنے کے ساتھ جرمنی کے ملک میں سمگل ہوتی ہے وہ جھوٹ ہے.اس میں ہر گز کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ پاکستان کا معیار اپنے گردو پیش کے معیار کی نسبت بہت بہتر ہے.ہر اخلاقی نقطہ نگاہ سے، ہر اخلاقی پہلو کے لحاظ سے جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے امتیازی طور پر بہتر ہے لیکن اس کے با وجود یہ کہنا درست نہیں ہے اور یقیناً جھوٹ ہے کہ پاکستان میں بسنے والی جماعتوں میں سے جھوٹ

Page 522

خطبات طاہر جلد ۹ 517 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء کی عادت بالکل متروک ہو چکی ہے اور ختم ہو چکی ہے.بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں علاقائی اثرات کے نتیجے میں جھوٹ عام ہے اور سوائے اُن متقیوں کے جن کی جماعت تھوڑی ہے جو بالا رادہ اپنے آپ کو جھوٹ کی نجاست سے پاک رکھتے ہیں، احمدیوں کے اندر ایک طبقہ ایسا ہے جس میں جھوٹ کی وہ شدت نہ سہی مگر جھوٹ کی ملونی ان کی باتوں میں ضرور پائی جاتی ہے اور سب سے بڑی خطر ناک بات یہ ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں خواہ وہ جھوٹ نہ بھی بولتے ہوں جب ضرورت پیش آتی ہے تو اس سے پر ہیز نہیں کرتے.اب یہ دو الگ الگ باتیں ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہیں.وہ سوسائٹی جس میں جھوٹ کی شرم اُٹھ جائے وہاں جھوٹ اس طرح بولا جاتا ہے جیسے زندگی کے سانس لئے جاتے ہیں اور کوئی حیاء نہیں ہوتی اور کوئی روک حائل نہیں ہوتی.ایسے لوگ گھر میں بھی بے تکلف جھوٹ بولتے ہیں، عدالتوں میں بھی جھوٹ بولتے ہیں، دفتروں میں اگر کام نکلوانے ہوں وہاں بھی جھوٹ بولتے ہیں گویا جھوٹ اُن کی فطرت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے.اس پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی اکثریت کا ایسا ابتر حال نہیں ہے لیکن جب ضرورتیں پیش آتی ہیں اُس وقت وہ جھوٹ بول دیتے ہیں اور ایسے متقی جو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ ہر حال میں جھوٹ سے پر ہیز کرتے ہیں اُن کی تعداد تھوڑی ہے.ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَولِینَ تو ہوتے ہیں لیکن ثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِيْنَ نہیں ہیں (الواقعہ :۴۰ (۴۱) قرآن کریم کے بیان فرمودہ اِس حصے کو پیش نظر رکھنا چاہئے.وہ لوگ جو نیکیوں میں بہت سبقت لے گئے اُن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے اولین میں یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ لوگوں میں وہ ایک بڑی جماعت تھے اور آخرین میں بھی ایسے لوگ ہوں گے لیکن وہ بڑی جماعت کے طور پر نہیں ہوں گے.نسبت تعداد کے لحاظ سے اُن کی تعداد کے لوگ تھوڑے ہوں گے اور غالب اکثریت قرار نہیں دیا جا سکتا.پس یہ وہ پیشگوئی ہے جسے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیشگوئی اس غرض سے تھی کہ تم اس پر اطمینان پا جاؤ.یہ پیشگوئی اس غرض سے تھی کہ ہمیں متوجہ کیا جائے کہ تم جس بلند مقام کے لئے پیدا کئے گئے ہوا بھی تک اُس بلند مقام کو پانہیں سکے اور تم اپنی حالت سے اس لئے غافل نہ رہ جانا کہ تمہیں قرآن کریم نے اولین سے ملانے کی خوشخبری دی ہے.تم اولین سے ملائے تو جاؤ گے لیکن "ثل ، کے طور پر نہیں، ایسی بڑی تعداد میں

Page 523

خطبات طاہر جلد ۹ 518 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء جیسا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مخلصین اور منتقد مین کی جماعت موجود تھی اتنی بڑی تعداد میں تم نسبت کے لحاظ سے نیک رہو گے.ہاں درمیانے درجے کے نیک لوگوں میں تم بہت بڑی تعداد میں پائے جاؤ گے.پس یہ پیشگوئی یہ بتانے کے لئے تھی کہ ہم دن بدن اور زیادہ نگران ہوں اور زیادہ توجہ اور کوشش کریں.اپنی درمیانے درجے کی اکثریت کو اول درجے کی اکثریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور اس ضمن میں سب سے اہم بات سچائی کا قیام ہے اور جھوٹ سے پر ہیز ہے.جھوٹ کے متعلق میں نے کہا کہ بسا اوقات بہت سے احمدی جب ان کو ضرورت پیش آتی ہے تو جھوٹ بول جاتے ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو یہاں موجود ہیں.جب انہوں نے جرمنی آنے کے لئے بارڈر کر اس کئے ، جب عدالتوں میں پیش ہوئے ، جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیسے آئے تھے؟ کس طرح داخل ہوئے تھے؟ پاسپورٹ دکھاؤ تو ہر قدم پر ان میں سے بہت سی تعداد ایسی ہے جنہوں نے ضرور جھوٹ بولے ہوں گے کیونکہ عمومی طور پر ملاقات کے دوران جب میں جائزے لیتا ہوں تو مجھے یہ معلوم کر کے سخت شرمندگی ہوتی ہے اور تکلیف پہنچتی ہے کہ اگر چہ میرے سامنے جھوٹ نہیں بولتے اور جھوٹ بول کر اپنے پہلے جھوٹ پر پردہ نہیں ڈالتے لیکن پہلے جھوٹ بولا ہوا ہوتا ہے.اب یہ ایک مثال ہے جس سے آپ کو جھٹ معلوم ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ میں جھوٹ بولا تو جاتا ہے لیکن دوسروں سے بہر حال بہتر ہیں.بعض جگہیں مقرر کی ہوئی ہیں کہ وہاں جھوٹ نہیں بولنا اور یہ بھی ہمارے ملک میں رائج ایک ایسا لغو محاورہ ہے کہ جب آپ کسی سے پوچھیں کہ سچ بول رہے ہو تو کہتے ہیں جی! " تواڈے سامنے جھوٹ نہیں بولتا.بھئی جھوٹ تو خدا کے سامنے بولا جاتا ہے یا نہیں بولا جاتا.بندوں کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے.اگر جھوٹ بولو گے تو جہاں بھی بولو گے خدا کے سامنے بولو گے نہیں بولو گے تو جہاں نہیں بولو گے خدا کی خاطر نہیں بولو گے مگر چونکہ یہ رواج ہے اس لئے کچھ تھوڑی بہت حیاء اور شرم تو بہر حال موجود ہے.بعض لوگوں کے سامنے آ کر پھر وہ کہتے ہیں ہم آپ کے سامنے سچی بات کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ وہاں بھی سچی بات نہیں کر رہے ہوتے.صرف محاورۃ کہتے ہیں اور کیونکہ ہمارے ملک میں اکثر یہ رواج ہے کیونکہ مجھے اس لئے علم ہے کہ اکثر لوگ وہاں اپنے جھوٹ کو پکا کرنے کے لئے اور بیچ بنا کر دکھانے کے لئے یہ

Page 524

خطبات طاہر جلده 519 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء بھی کہہ دیتے ہیں کہ جی! آپ کے سامنے ہم جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے یقین کریں کہ جو جھوٹ بول رہے ہیں وہ بیچ ہے.جھوٹ اتنی گہرائی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں رائج ہو چکا ہے، راسخ ہو چکا ہے، گہری جڑیں پکڑ چکا ہے کہ ایک دو دفعہ ہلانے سے جھوٹ کا یہ پودا اکھیڑا نہیں جائے گا بارہا مسلسل توجہ کی ضرورت ہے.جس طرح آپ اکثر زمیندار ہیں، آپ جانتے ہیں کہ جب کھیتوں میں غیر پودے داخل ہو جائیں اور گہری جڑیں پکڑ جائیں تو ایک یا دو مرتبہ کی کلائی ان کو اکھیڑنے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتی.آپ ایک دفعہ محنت کرتے ہیں کلائی کرتے ہیں پھر دوسری دفعہ کرتے ہیں پھر تیسری دفعہ کرتے ہیں اور بظاہر کھیت خالی ہو جاتا ہے لیکن جڑیں موجود ہوتی ہیں، اس لئے چوتھی دفعہ پھر ضرورت پیش آ جاتی ہے.بعض دفعہ چھ چھ مہینے ، سال سال محنت کرنی پڑتی ہے اور اگر ماحول میں وہ جڑی بوٹیاں موجودر ہیں تو ایک زمیندار خواہ کتناہی مفتی کیوں نہ ہو کتنی احتیاط کے ساتھ بھی اپنے کھیت کوان غلط بوٹیوں سے پاک کرنے والا ہو پھر بھی بار بار ماحول سے اڑ کر اُس کے کھیتوں میں یہ غلط جڑی بوٹیاں جڑ پکڑتی رہتی ہیں.چنانچہ پاکستان کے احمدیوں کا بھی یہی حال ہے.سالہا سال سے جماعت احمدیہ کے مختلف ادارے، جماعت احمدیہ کی مختلف تنظیمیں کوشش کرتی ہیں اور کرتی چلی جارہی ہیں لیکن ماحول کیونکہ بہت گندا اور بیہودہ ہو چکا ہے اس لئے ہر طرف سے جھوٹ داخل ہوتا چلا جاتا ہے اور بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے.ان ملکوں میں آنے والے احمدیوں کو وہاں کے مقابل پر ایک فائدہ اور ایک فوقیت حاصل ہے.یہاں اگر وہ دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جھوٹ کے پودے کو تلف کرنے کی کوشش کریں گے تو چونکہ باہر کے معاشروں میں یعنی مغربی دنیا کے معاشرے میں جھوٹ کی عادت نہیں ہے، بہت اونچے مقامات پر بڑے مقاصد کے لئے یہ جھوٹ بولتے ہیں.روزمرہ کی شہری زندگی میں جھوٹ ایک شاذ و نادر سی چیز ہے.پکے ہوئے مجرم جھوٹ بول دیتے ہیں لیکن عام سوسائٹی جھوٹ نہیں بولتی.وہ واقف ہی نہیں کہ جھوٹ بھی بولا جاتا ہے.ایسے ماحول میں اگر ایک دفعہ آپ کی صفائی ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی بھاری توقع رکھی جاسکتی ہے کہ لمبے عرصہ تک آئندہ آنے والی نسلوں تک بھی آپ لوگ جھوٹ سے پاک رہیں گے اس لئے یہاں آ کر پناہ لینی ہے تو خدا کی پناہ لیں اور شیطان سے پناہ لیں.ہجرت کرنی ہے تو وہ ہجرت کریں جو اللہ

Page 525

خطبات طاہر جلد ۹ 520 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء اور رسول کی طرف ہجرت ہوا کرتی ہے اور اس ہجرت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جھوٹ کی سر زمین سے ہجرت کر کے سچائی کی زمین میں داخل ہو جائیں اور سچائی کی پناہ میں آجائیں.یہ کام بہت مشکل اور محنت طلب ہے اور اس میں یہ کہنا کہ فلاں جماعت کا عہدیدار ہے، فلاں اس حیثیت کا آدمی ہے، فلاں چندے دیتا ہے، فلاں نمازیں پڑھتا ہے اس لئے جھوٹ نہیں بولتا ہوگا یہ بھی غلط ہے.کیونکہ بعض برائیاں بعض نیکیوں کے ساتھ بھی پنپتی رہتی ہیں اور اگر تو بہ نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ نیکیوں کو کھا جاتی ہیں.اسی طرح بعض نیکیاں برائیوں کو رفتہ رفتہ زائل کرتی چلی جاتی ہیں اور یہ زندگی کی مستقل جد و جہد ہے.اس لئے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ چونکہ فلاں شخص میں فلاں نیکی ہے اس لئے وہ جھوٹ سے پاک اور عاری ہے اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ چونکہ فلاں شخص جھوٹ بولتا ہے اس لئے وہ نمازیں بھی ٹھیک نہیں پڑھتا، اس کا خدمت کرنا بھی بے معنی اور لغو ہے، اس کا چندے دینا بھی بے معنی اور لغو ہے.یہ دونوں انتہا ئیں ہیں جو غلط ہیں.مومن کو تقویٰ کے ساتھ کام لینا چاہئے.حقائق کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہئے.وہ لوگ جو یہ طعنے دیتے ہیں کہ جی ! فلاں شخص دیکھو.جی نمازیں بظاہراتنے خشوع سے پڑھتا ہے، چندے دیتا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر جھوٹ بول دیا.یہ بھی محض ایک گھٹیا طعنہ آمیزی ہے.ہر چیز کے اپنے اپنے کام ہیں اور اپنے اپنے مقامات ہیں اور زندگی کو اس طرح نہیں کیا جاسکتا کہ یا کلیۂ پاک ہو یا کلیہ بد ہو.دونوں آمیزشیں ہیں بدی کی اور حسن کی اور پاکیزگی کی یہ ساتھ ساتھ چلتی ہیں.مومن کا کام ہے کہ جد وجہد کرتا چلا جائے.اپنی بدیوں کو کم کرتا چلا جائے اور اپنی نیکیوں کو بڑھاتا چلا جائے.اس حقیقت پسندی کے ساتھ ہمیں اپنی اصلاح کے لئے آگے قدم بڑھانے ہیں اور اصلاح کی اس جستجو میں سب سے پہلے سچ کی جستجو ضروری ہے.اگر برائیاں مٹانی ہیں اور رفتہ رفتہ ہر قسم کی بدیوں سے پاک ہونا ہے تو سب سے پہلا قدم جھوٹ سے پاک ہونے کا قدم ہے.اس دفعہ جو لوگ باہر سے تشریف لائے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے متعلق مجھے علم ہے کہ جرمنی آگئے ہیں اور انگلستان میں اپنے پیچھے اس طرح جھوٹ کی ایک لکیر چھوڑ آئے ہیں جس طرح سانپ چلتا ہے تو اپنے پیچھے رستے پر ایک لکیر چھوڑ جاتا ہے.ان لوگوں کے نام ظاہر کرنا یہ تو ناجائز اور نا مناسب ہے اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے ہیں؟ لیکن بعض کے جانے کے بعد اُن کے

Page 526

خطبات طاہر جلد ۹ 521 خطبہ جمعہ کے استمبر ۱۹۹۰ء بعض جھوٹ میرے علم میں آئے اور مجھے اس کی تکلیف پہنچی.اس لئے میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ جرمنی کی جماعت میں جو خطبہ دوں گا اس میں سب سے زیادہ اہم نصیحت جھوٹ سے پر ہیز کی نصیحت ہوگی.جھوٹ سے متعلق قرآن کریم نے مختلف مواقع پر جو بڑی شدت کے ساتھ اس سے باز رہنے کی ہدایت فرمائی ہے اس میں سب سے زیادہ زور اس رنگ میں دیا گیا کہ جھوٹ کو شرک کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے.جھوٹ اور شرک کو آپس میں اس طرح جوڑ کر بیان کیا ہے گویا وہ ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.پس یا درکھیں کہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کی نفسیات ایک شرک کی نفسیات کے مشابہ ہیں.دونوں کی بنیادیں ایک جیسی ہیں.آگے جا کر کچھ رستے بدل جاتے ہیں اور بظاہر اختلافات نظر آتے ہیں.وہاں مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں لیکن حقیقت میں جھوٹ اور شرک دراصل ایک ہی جڑ کے دو درخت ہیں اور خصوصیت کے ساتھ شرک خفی تو خالصہ جھوٹ پر پلتا ہے اور جھوٹ شرک پر پلتا ہے.اب آپ دیکھیں کہ آپ نظارہ میں ایک خرگوش کا تصور باندھیں جو گھاس کے ایک چھوٹے سے میدان میں اپنی جگہ سے باہر نکلتا ہے اور اس کے اردگر دجھاڑیاں ہوتی ہیں جب وہ کسی خطرے کو محسوس کرتا ہے، کسی کتے کی آواز سُنتا ہے یا شکاری پرندے کا سایہ پڑتا دیکھتا ہے تو ایک دو چھلانگیں لگا کر کسی جھاڑی میں چھپ جاتا ہے، اس کے چاروں طرف جھاڑیاں ہوتی ہیں اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہاں مجھے پناہ ملے گی اور جب تک پناہ کا یقین نہ ہو وہ اس کھلے میدان میں جرات کے ساتھ آ کر گھاس چر نہیں سکتا.یہی حال جھوٹے کا ہے اور وہ جھاڑیاں جوار دگر دجھوٹ کی جھاڑیاں ہوتی ہیں وہ اُس کی پناہ گاہ بنتی ہیں اور گھاس کے میدان کی مثال اس کی بدیوں کی مثال ہے.ایک جھوٹا شخص جب برائیوں میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے بھی خطرہ ہوتا ہے کہ وہ پکڑا نہ جائے کیونکہ مزا ہونی ہے لیکن ہر برائی کے وقت اُس کا سہارا جھوٹ ہوتا ہے اور اس کی نیت میں یہ سہارا داخل ہوتا ہے.اگر وہ برائی کے وقت اپنی نیت کا تجزیہ کرے اور یہ سوچے کہ اگر میں پکڑا جاؤں گا تو میں کیا کروں گا.اس وقت دراصل اس کی نیت کی حقیقت اس پر واضح ہو سکتی ہے.لازماً بھاری اکثریت اپنے نفس کو یہ جواب دے گی کہ میں یہ بہانہ بناؤں گا اور وہ بہانہ بناؤں گا.یہ جھوٹ بولوں گا یا وہ جھوٹ بولوں گا جو نسبتا بیوقوف لوگ ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہیں اور جو نسبتاً چالاک لوگ ہیں.وہ بھی جھوٹ بولتے ہیں

Page 527

خطبات طاہر جلد ۹ 522 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء اور دونوں جھوٹ کے سہارے لیتے ہیں.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بیوقوف کو سچا بہانہ بنانا نہیں آتا اور چالاک آدمی نسبتاً زیادہ بہتر بہانے بنالیتا ہے لیکن دن بدن جتنی بھی جھاڑیاں اُن کی پناہ گاہیں ہیں وہ سب جھوٹ ہیں.اگر اُن کے سامنے یہ سوال در پیش ہو کہ اگر میں پکڑا جاؤں گا تو میں کیا کروں گا ؟ اور جواب یہ ہو کہ میں سچ بولوں گا تو پھر وہ اُس گھاس کے میدان میں چھلانگ لگا کر بے فکر ہو کر وہ گھاس چرنے کی جرات نہیں کر سکتا کیونکہ جھوٹ کی جھاڑیاں اُس سے دُور ہٹ جائیں گی اور اردگرد اُسے کوئی جھاڑی دکھائی نہیں دے گی اور وہ محسوس کرے گا کہ گویا میں ننگا ہو گیا ہوں اور اگر واقعہ کوئی جرم اس سے سرزد ہو اور وہ پکڑا جائے تو پہلے نیت نہ بھی ہو تو بہت بڑا ابتلاءانسان کو پیش آتا ہے اور اس وقت وہ کہتا ہے اچھا پھر اس دفعہ میں جھوٹ بول لیتا ہوں تو جس شخص کی پناہ جھوٹ ہے اس کی ذات میں خدا کیسے داخل ہوسکتا ہے.خدا تعالیٰ نے تو ہمیں یہ سکھایا کہ اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ میں شیطان رجیم سے اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں اور شیطان رجیم جھوٹ ہے.جھوٹ کی ایک مجسم شکل کا نام شیطان ہے تو ایک طرف تو خدا نے اُسے یہ سکھایا ہو کہ قدم قدم پر یہ دعائیں مانگو میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں.دوسری طرف ہر قدم پر وہ جانتا ہو کہ خدا کی پناہ اُس کے کام نہیں آئے گی.اس کا دل گواہی دیتا ہو کہ یہ فرضی پناہ ہے.اصل پناہ شیطان کی پناہ ہے.ہر طرف سے وہ جھولی کھول کر مجھے اپنی جھولی میں پناہ دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے اور کہتا ہے اچھلو! جس طرح ماں بچے کو اُٹھانے کے لئے اپنی جھولی پھیلا دیتی ہے اس طرح وہ شیطان کی جھولی کو دیکھتا ہے اور اس میں چھلانگ لگا کر پناہ لینے کی نیت سے جرم کا ارتکاب کرتا ہے.یہ ایک حقیقت ہے اور تیسری دُنیا ہو یا کوئی اور دُنیا جہاں بھی آپ جائیں گے وہاں آپ کو جھوٹ اور جرم کا یہی رشتہ دکھائی دے گا.اللہ والا بننے کے لئے ضروری ہے کہ جھوٹ کی ان جھاڑیوں کا قلع قمع کیا جائے اور ہر قدم پر یہ فیصلے کئے جائیں کہ اگر مجھ سے کوئی جرم سرزد ہو تو میں نے جھوٹ کی پناہ ہرگز نہیں لینی اور اس فیصلہ کے بعد مجرم کی سزا قبول کرنے کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کر لیتا ہے.ایسی صورت میں بسا اوقات اللہ تعالیٰ مغفرت فرماتا ہے اور ایسا شخص ابتلاء میں ڈالا ہی نہیں جاتا اور اگر ڈالا جاتا ہے تو چونکہ خدا کی خاطر اور توحید کی خاطر وہ ایک سزا کو خوشی سے قبول کرتا ہے.اس کے اندر غیر معمولی پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے جب تک کہ ارد گرد جھوٹ کی

Page 528

خطبات طاہر جلد ۹ 523 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء جھاڑیاں ہیں آپ کو علم ہی کوئی نہیں کہ خدا کی پناہ میں آنے کا مطلب کیا ہوتا ہے اور جب تک آپ خدا کی پناہ گاہیں ڈھونڈیں نہیں ، نہ آپ پناہ میں آسکتے ہیں نہ آپ دُنیا کو پناہ میں لا سکتے ہیں.یہ گہرا، مسلسل مضمون ہے.جھوٹوں کو خدا کی پناہ نہیں ملا کرتی اور جھوٹے دُنیا کو پناہ نہیں دے سکتے اور خاص طور پر یہ کہہ کر کہ ہم انہیں خدا کی پناہ کی طرف بلا رہے ہیں وہ کیسے پناہ دے سکتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے.پس اس بات کو معمولی نہ سمجھیں.اس پر غور کریں خدا روز مرہ کی زندگی میں نہیں داخل ہوگا جب تک آپ جھوٹ سے چھٹکارا حاصل نہ کریں اور خدا تعالیٰ کی پناہ کے نشان آپ نہیں دیکھ سکتے جب تک آپ جھوٹ کی پناہ گاہوں سے منہ موڑ نہ لیں اور یہ نشان جھوٹ کی جگہ آپ کو پناہ دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.یہ کوئی فرضی نشانات نہیں ہیں.یہ ایسے نشانات ہیں جو روز مرہ مومن کی اور سچے مومن کی زندگی میں اُس کے سامنے ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اور اُس کی ساری زندگی خدا کے سہاروں پر چلتی ہے.خدا کے سہاروں پر ہی اُس کا زندگی کا سفر ہوتا ہے اور خدا کی پناہ گاہوں کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.یہ وہ تجربہ ہے جو بچے کو نصیب ہوتا ہے اور اس تجربے کے بغیر مومن کی زندگی کا تصور بھی نہیں پیدا ہو سکتا اس لئے میں آپ کو پھر تاکید سے کہتا ہوں کہ جھوٹ سے استغفار کریں اور جھوٹ سے تو بہ کریں ورنہ آپ کا خدا سے سچا تعلق قائم نہیں ہو گا.باقی سب باتیں فرضی ہیں.جھوٹ سے تو بہ کرنا ایک قدم کی توبہ نہیں ہے، بہت سے قدم اُٹھانے پڑیں گے کیونکہ جب آپ جھوٹ سے تو بہ شروع کریں گے تو ایک جھاڑی کے بعد آپ کو دوسری جھاڑی دکھائی دینے لگے گی.ایک جڑا کھیڑیں گے تو ایک اور جڑ دکھائی دینے لگے گی.پس آپ میں اکثر چونکہ زمین دار لوگ ہیں آپ اس بات کا ذاتی تجربہ رکھتے ہوں گے کہ کھیتوں کی صفائی کے وقت جب انسان پہلی صفائی کرتا ہے تو ظاہر ہونے والی نظر آنے والی جھاڑیوں کے بعد پھر اُن کے پیچھے چھپی ہوئی دوسری جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں.ان کی صفائی کرتے ہیں تو پھر کچھ جڑیں سر نکال دیتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ ابھی اور کچھ صفائی ہونے والی ہے.صفائیوں کا سلسلہ تو ایک لمبا سلسلہ ہے.ایک چھلانگ میں یہ ساری منازل طے نہیں ہو سکتیں لیکن ایک چھلانگ تو لا ز مالگانی ہوگی، اس کے بغیر اگلی چھلانگ کی توفیق نہیں مل سکتی اس لئے ہر وہ شخص جو اس رستہ پر قدم بڑھانا چاہتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے لئے نمونے کی ایک

Page 529

خطبات طاہر جلد ۹ 524 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء بد عادت چن لے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرے.بہت سے اور بھی ایسے محرکات ہیں جو سوسائٹی میں جھوٹ کی مدد کرتے ہیں.جہاں تک عمومی معاشرے کا تعلق ہے اُن سے بھی ہمیں پر ہیز کی ضرورت ہے تا کہ ماحول بھی ایسا بنے جو بچوں کے لئے ساز گار ہو جائے.ان بدخصلتوں اور بد عادات میں سے ہمارے ملک میں ایک عادت بیٹھ کر گپیں مارنا ہے اور یہ وہ عادت ہے جو آگے پھر جھوٹ کو پیدا کرنے میں بہت ممد بنتی ہے.دوست بیٹھتے ہیں اور پتہ نہیں کہاں سے اُن کو اتنا وقت مل جاتا ہے کہ مجلسیں لگا کر کہیں مارتے ہیں اور جس کو وہ گپ کہتے ہیں اُس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ نہیں ہے اور چونکہ مشغلے کی باتیں ہوتی ہیں بعض ایسی زمینیں ہوتی ہیں جن کو No Man's Land کہا جا سکتا ہے.وہ دراصل نہ جھوٹ کی زمین ہوتی ہے نہ بیچ کی زمین ہوتی ہے.جتنے لطائف ہیں یا جتنی کہانیاں ہیں، مجالس کی گپ شپ ہے یہ اسی سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا ذکر مشتبہات کے طور پر فرمایا.آپ نے فرمایا کہ دیکھو! بادشاہوں کی رکھیں ہوا کرتی ہیں جن کی وہ حفاظت کرتا ہے اور اگر اُن رکھوں میں کوئی غیر چلا جائے تو اس کی سزا پاتا ہے.جو خدا تعالیٰ کی حدود ہیں وہ ان رکھوں کا مقام رکھتی ہیں جن سے تجاوز کرنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کا موجب بنتا ہے.فرمایا: الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ کہ یہ جو خدا کی رکھیں ہیں یہ ہمارے لئے حرام ہیں، جو بڑی بڑی کھلی اور واضح رکھیں ہیں ان کی سرحدیں پتا لگ جاتی ہیں کہ کہاں سے شروع ہوتی ہیں.اَلحَلَالُ بَین اور اسی طرح وہ باتیں جن کی خدا نے کھلم کھلا اجازت دے رکھی ہے خاص طور پر ہمیں معلوم ہیں اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے.ان دو کے درمیان کئی ایسی زمینیں ہیں جنہیں مشتہیہات کہا جاتا ہے.یعنی جسے آج کل کی فوجی اصطلاح میں No Man's Land کہہ سکتے ہیں یا دو ملکوں کے بارڈرز کے درمیان جو چھوٹا سا علاقہ ، چھوٹی سی سڑک ہوتی ہے جس پر نہ ایک قبضہ کرتا ہے نہ دوسرا قبضہ کرتا ہے.آپس میں سمجھوتے کے نتیجے میں ، وہ بھی No Man's Land ہے.فرمایا: بعض چرواہے اپنی بھیڑوں کو No Man's Land میں چراتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں لیکن بھیڑوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر طرف منہ مارتی ہیں اس لئے ہر گز بعید نہیں کہ وہ بھیٹر میں بادشاہ کی رکھ میں بھی داخل ہو جائیں اس لئے اپنے اعمال کی نگرانی رکھو.جہاں تم سمجھتے ہو کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں واضح طور پر

Page 530

خطبات طاہر جلد ۹ 525 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء حرام بات نہیں ہے اس لئے کرنے میں حرج نہیں وہاں خطرہ ضرور پیش آتا ہے کیونکہ انسانی فطرت بھیڑوں کی طرح ہر جگہ منہ مارنے کی عادی ہوتی ہے اور جس طرح بھیڑوں کو عقل نہیں ہوتی کہ کہاں منہ مارنا ہے اسی طرح انسان جرموں کے ارتکاب میں بھیڑوں کا سا مرتبہ رکھتا ہے اور رفتہ رفتہ عام گھاس کے میدان سے ہٹ کر ہری بھری وہ گھاس نظر آئے جو بادشاہ کی رکھ میں خاص طور پر پائی جاتی ہے تو دل میں حرص پیدا ہو جاتی ہے، لالچ پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہاں منہ مارنے سے انسان اپنے آپ کو روک نہیں سکتا ، اسی طرح گپوں کا حال ہے.یہ کہتیں بھی درحقیقت No Man's Land ہیں جو پھر بالآ خر جھوٹ میں داخل ہو جاتی ہیں اور گپ کی وجہ سے جھوٹ کی شرم اٹھتی چلی جاتی ہے اس لئے گپ شپ کی مجالس میں بھی اگر آپ احتیاط نہیں کریں گے اور بار بار اپنے آپ کو غلط بیانی سے اور مبالغہ آمیزی سے روکیں گے نہیں تو لازم ہے کہ آپ چلتے چلتے پھر جھوٹ میں بھی داخل ہو جائیں گے اور اس طرح ایسی ابتدائی صورت میں جھوٹ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.ایک دوسری عادت جو ہمارے ملکوں میں ہے وہ غیر ذمہ داری کی بات کرنا ہے.اُس کے نتیجہ میں بھی انسان بالآ خر جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے یا بعض دفعہ شرم محسوس کر کے مجبوراً اپنے آپ کو ایک قابل شرم بات سے بچانے کے لئے جھوٹ کی پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور ایک جھوٹ سے پھر دوسرا جھوٹ ، دوسرے جھوٹ سے تیسرا جھوٹ شروع ہو جاتا ہے.غیر ذمہ داری کی مثال یہ ہے کہ آپ نے کسی سے پوچھا فلاں بات ہوگئی ہے؟ تو اُس نے جھوٹ نہیں بولا اندازہ لگایا کہ ہوگئی ہے اور کہہ دیا کہ جی! ہو گئی ہے.آپ جب جستجو کرتے ہیں تو وہ بات نہیں ہوئی ہوتی تو یہاں وہ پھنس جاتا ہے.پھر یہ بتانے کے لئے کہ اُس نے بیچ بولا تھا، بجائے بیچ بولنے کے اور یہ کہنے کے کہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی ہیں نے اندازہ لگایا تھا.وہ یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص نے مجھ سے یہ بات کی تھی اور اس کا یہ مطلب نکلتا تھا.چنانچہ میں نے سچ بولا ہے، فلاں شخص نے جھوٹ بولا تھا اور اس طرح ایک سے دوسری، دوسری سے تیسری بات نکلتی چلی جاتی ہے.مجھے بار ہا تجربہ ہوا ہے کہ ایسے لوگ جو غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں وہ بالآ خر جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.بات کو ذمہ داری سے کرنا چاہئے.جتنی بات معلوم ہے اتنی کرنی چاہئے جو معلوم نہیں اس کے متعلق اقرار کرنا چاہئے کہ مجھے معلوم نہیں ہے.یہ تو عمومی معاشرے کی باتیں ہیں جن میں انسان کو احتیاط کرنی چاہئے.پھر لطیفہ گوئی کی خاطر

Page 531

526 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء خطبات طاہر جلد ۹ جیسا کہ گپ شپ کی مجالس میں ہوتا ہے چونکہ لطیفہ فرضی بات ہے، ہنسانے کی خاطر کی جاتی ہے اس لئے بعض بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ واقعات کی دُنیا میں بھی ہنسانے کے لئے اگر جھوٹ بولا جائے تو وہ لطیفہ ہو گا اور اس بد احتیاطی کی وجہ سے بھی ہمارا بہت سے خاندانوں میں جھوٹ کی عادت پڑ جاتی ہے.ایک بچے نے آکے گپ مار دی اور لوگوں میں بہیجان پیدا کر دیا.کچھ دیر کے بعد کہا کہ نہیں نہیں.اصل بات تو یوں تھی اور وہاں لطف اُٹھایا اور سارے لوگ ہنس پڑے کہ اس نے خوب شرارت کی تھی.اس کا نام شرارت رکھ دیتے ہیں.کسی شخص پر ہنسانے کے لئے اتنی گندی جھوٹی بات بیان کر دی جو اس غریب نے نہ کی ہو ، لوگ اس پر ہنس پڑتے ہیں اور دُہرے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں.ایک تکبر کے اور اپنے بھائی کو حقیر دیکھنے کے، دوسرے جھوٹ بولنے کے یا جھوٹ کی حمایت کرنے کے مرتکب بن جاتے ہیں.تو ہمارے معاشرے میں یہ چھوٹے چھوٹے سے ایسے رجحانات ہیں جو جھوٹ کے مددگار ہوتے ہیں اور جھوٹ کو پالنے میں ان کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے.ج پس تمام سوسائٹی کی عادات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جس سے جھوٹ نہ پہنچے.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص نگران ہو.آپ سب کسی نہ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں خواہ وہ گھر کی ہو یا باہر کی ہو.وہاں جب اس قسم کی باتیں ہوں جن کے متعلق جیسا کہ میں نے مثالیں دی ہیں، جن کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ جھوٹ کی افزائش کریں گی تو آپ لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ جی! یہ درست طریق نہیں ہے اور ایسا شخص جو جھوٹ کا سہارا لے کر مجلس میں ہر دلعزیز بننے کی کوشش کرتا ہے، زیادہ باتونی بنتا ہے، زیادہ ہنساتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس کو ہیرو بنایا جائے اس کو Discourage کرنا چاہئے ، اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے.اگر ایسے شخص کی باتوں پر اہل مجلس ہنسنا بند کر دیں اور کہیں بڑی لغو بات کی ہے.بیوقوفوں والی بات ہے، جھوٹ بول کے تم ہمیں کیا خوش کرنا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی ہی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی بلکہ سوسائٹی سے جھوٹ کی حوصلہ شکنی ہوگی.بہر حال نگرانی کی ضرورت ہے اور ہر پہلو سے ہر جہت سے نگرانی کی ضرورت ہے.نظام جماعت کو سب سے پہلے تو مستعد ہو جانا چاہئے اور وہ لوگ جو جھوٹ بولتے ہیں اور پھر جماعت سے تصد یقیں چاہتے ہیں تا کہ ان کو دنیا کے فوائد پہنچیں ، ان کو یہ کھول کر بتادینا چاہئے کہ اگر ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ تم نے جھوٹ بولا ہے تو ہماری طرف سے تمہیں کس قسم کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں دیا جائے گا، احمدی

Page 532

خطبات طاہر جلد ۹ 527 خطبہ جمعہ کا استمبر ۱۹۹۰ء ہو یا نہیں ہو.یہ الگ بحث ہے لیکن ہم جھوٹوں کے مددگار نہیں ہیں اور یہ اعلان کھول کر سب تک پہنچا دینا چاہئے.جب تک یہ وضاحت نہیں ہوئی اس وقت تک جو غلطیاں ہوئی ہیں ان سے اگر صرف نظر کر لیا جائے تو اس خیال سے کہ ایک گندی عادت میں لوگ مبتلا ہو گئے ہیں انہوں نے ٹھوکر کھالی.اُن کے لئے بھی تو بہ کا دروازہ کھلنا چاہئے.اس پہلو سے اگر نظر انداز کر دیا جائے تو ایسا مضائقہ نہیں ہے لیکن تو بہ کی طرف مائل کرنے کے بعد اس بات کا اقرار لے کر کہ آئندہ آپ کس دینی، دنیاوی منفعت کی خاطر جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر بولیں گے تو پھر ہم سے کسی فیض کی توقع نہ رکھیں.اس صرف نظر کا یہ مقصد نہیں کہ انہوں نے جو جھوٹ بولا ہے جماعت اس کی تصدیق کرے.جماعت نے ہرگز کسی جھوٹ کی تصدیق نہیں کرنی، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مطلب یہ ہے کہ جماعتی پہلو سے اس کو سزا نہ دی جائے، اگر پہلے کوئی غلطی ہوگئی ہے اور آئندہ کے لئے کوئی انسان تو بہ کرتا ہے لیکن آئندہ کے لئے سختی سے ایسے لوگوں کا محاسبہ ہونا چاہئے.دوسرا دوستوں کی مجالس کا بھی نگران ہونا چاہئے اور یہ بات اپنے دوستوں میں عادتا کہنی چاہئے یعنی اسے منتقلاً اپنی روز مرہ کی گفتگو میں عادت کے طور پر داخل کر لینا چاہئے کہ جھوٹ کے خلاف باتیں کریں.جھوٹ کے بداثرات کے متعلق باتیں کریں.یہ بتائیں کہ کس طرح سوسائٹیاں تباہ ہوئی ہیں.کس طرح ہمارا ملک پاکستان یا ہندوستان یا دوسرے ممالک جھوٹ کی وجہ سے موت کے کنارے تک پہنچے ہوئے ہیں.تمام اخلاقی قدریں تباہ ہوگئی ہیں.کسی پہلو سے سوسائٹی میں امن نہیں رہا.اگر جھوٹ نہ ہو تو رشوت پہنپ ہی نہیں سکتی.اگر جھوٹ نہ ہو تو جرائم کے ارتکاب پر کسی قسم کی چھوٹ مل ہی نہیں سکتی.جیسا کہ ہمارے ملک میں موجود ہے.جھوٹ نہ ہو تو لازماً انصاف حاصل ہوتا ہے.یہ جو نا انصافیاں اور ظلم جتنے بھی چل رہے ہیں غریبوں کی جائدادوں پر قبضے، چوری، ڈاکے، تمام کی بنیاد جھوٹ پر ہے.پس مجالس میں کھول کر ایسی باتیں کرنی چاہئیں اور سمجھانا چاہئے کہ ہمیں ان عادتوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.جھوٹ کے معاملے میں گھروں میں بھی جہاد ہونا چاہئے.وہ مائیں یا والدین جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پاک طبیعت رکھتے ہیں ان کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہئے اور اس معاملے میں پوری سختی کرنی چاہئے یعنی سختی سے مراد یہ نہیں کہ ان کو بید مارے جائیں.مراد یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ جھوٹ بولتا ہے تو اس سلسلے میں اپنی

Page 533

خطبات طاہر جلد ۹ 528 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء ناراضگی کا کھلا کھلا اظہار کرنا چاہئے تاکہ بچے کو محسوس ہو کہ اس کی اس حرکت سے والدین کو سخت تکلیف پہنچی ہے اور اس نے اُن سے حاصل ہونے والا پیار کھو دیا ہے.کئی طریق ہیں جن کے ذریعے بچے کو بڑی سختی کے ساتھ پیغام پہنچایا جاسکتا ہے.دوسرے یہ کہ اس ماحول میں پلنے والے بہت سے بچے ایسے ہوں گے جو اپنے والدین یا بہن بھائیوں سے زیادہ سچ بولنے والے ہوں گے کیونکہ میں نے یہ بھی جائزہ لے کر دیکھا ہے کہ انگلستان میں بھی اور یہاں بھی جو بچے شروع میں یہاں آگئے اور یہاں کے ماحول میں پلے بڑھے ہیں ،ان میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سچ بولنے کا رجحان اپنی بڑی نسلوں سے زیادہ پایا جاتا ہے.اس لئے میں بچوں کو بھی نگران بناتا ہوں کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں بزرگوں کے نگران بنیں اور جب اُن سے کوئی ایسی بیہودہ حرکت سرزد ہوتی دیکھیں جس سے پتہ لگے کہ وہ جھوٹ کی طرف مائل ہیں یا کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں تو بچوں کو ان کو سمجھانا چاہئے.یہ خیال دل سے نکال دیں کہ بچے اگر بڑوں کو سمجھا ئیں تو یہ بے ادبی ہوگی کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بزرگوں کو سمجھایا اور دوٹوک باتیں کر کے سمجھایا بلکہ ہر نبی اپنے وقت کے بزرگوں کو سمجھا تا رہا.بچپن سے ہی وہ یہ اسلوب رکھتا ہے کہ وہ بڑوں کو بھی سمجھاتا ہے، چھوٹوں کو بھی سمجھاتا ہے.سمجھانے کے معاملے میں عمر کا تفاوت کوئی حیثیت نہیں رکھتا.پس بعض دفعہ تو بچے کا سمجھانا زیادہ طور پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے آپ کے ہاں ہماری جماعت میں جتنے بچے ہیں اُن کو بھی اس جہاد کا علم اپنے ہاتھوں میں تھام لینا چاہئے اور اپنے گھر میں اپنے بڑوں کو جب وہ جھوٹ بولتا دیکھیں تو اُن کو ٹو کیں ، انکو کہیں کہ یہ بہت بُری بات ہے، اسلام کے خلاف ہے، قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے، انبیاء کی سنت کے خلاف ہے، ایک قسم کی قومی خودکشی ہے، تم جھوٹ بول کر نہ خدا کے رہو گے نہ دنیا کے رہو گے.ایسی سادہ باتیں کہ کراگر بچہ بھی اپنے والدین یا بڑوں کو جھوٹ سے پاک رہنے کی ہدایت کرتا ہے تو اس کا بعض دفعہ بہت زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے بلکہ بچے کی بات بعض دفعہ بڑے سے بھی زیادہ دل کو کاٹتی ہے اور شرمندہ کرتی ہے.پس ساری کی ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرنا چاہئے کیونکہ جماعت احمدیہ کی بقاء کے لئے بیچ پر قائم ہونا ضروری ہے.دنیا میں توحید کے قیام کے لئے بیچ کا علم بلند کرنا

Page 534

خطبات طاہر جلد ۹ 529 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء ضروری ہے.ہمیں تو سچائی کے معاملے میں ساری دنیا کا راہنما بنا ہے.ایسے اعلیٰ اور پاک نمونے ان کے سامنے پیش کرنے ہیں کہ دنیا ہم سے سچ سیکھے اور سچ کی باریک راہیں اختیار کرنا سیکھے.ہر مقام پر سچ ہماری پناہ گاہ بنے اور کبھی بھی ہم جھوٹ کی شیطانی پناہ گاہوں کی طرف نہ دوڑیں.یہ توحید خالص ہے جو زندگی کا پیغام ہے.اگر آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو تو حید کے بغیر آپ دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے.دنیا کی کوئی قوم بھی دنیاوی مطالب کے لئے توحید کی حقیقت کو پائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور سچائی پر قائم ہوئے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی.اس لئے یہاں کی وہ مغربی قومیں جو دنیا میں ترقی کر رہی ہیں یہ نسبتاً ایک دائرے میں بچی ہیں اور سچائی ہی کی برکت ہے جس کو میں تو حید بھی کہتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک سچ اور تو حید ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اس لئے جو کچھ بھی انہوں نے پایا ہے یہ بھی تو حید ہی کی برکت سے پایا ہے.اگر اپنی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی یہ تو حید کو اختیار کریں تو دنیا کے لحاظ سے بھی عظیم الشان ترقی اختیار کریں اور دین کے لحاظ سے بھی عظیم الشان ترقی اختیار کریں اس کام کے لئے خدا نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے اس لئے آپ پر دوہرا فرض ہے کہ آپ سچائی میں نہ صرف ان قوموں کے ہم پلہ ہوں بلکہ ان سے آگے نکلیں اور سچائی کی باریک راہیں بھی ان کو دکھائیں اور تقویٰ کے اعلیٰ مقامات کی طرف بھی ان کو بلائیں.یہ بلند اخلاقی مراتب سچائی کے سوا ممکن نہیں ہیں اس لئے ہر جگہ، ہر ماحول میں، ہر مجلس میں جھوٹ کے خلاف جہاد کریں اور سچائی کا مقام نہ بھولیں اور یہ نسخہ آزما کے دیکھیں کہ جب سارے سہارے آپ خود بالا رادہ توڑ دیتے ہیں، اس لئے کہ یہ شیطانی سہارے ہیں تو اس وقت خدا ضرور آپ کا سہارا بنے گا اور جب خدا سہارا بنتا ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر ظاہر ہوتا ہے اور انسان کا دل حیرت انگیز طور پر خدا کے وجود کے یقین سے بھر جاتا ہے.یہ کوئی موروثی یقین نہیں ہوتا بلکہ خود کمایا ہوا یقین ہوتا ہے.جرمنی سے ہی بعض جوانوں نے مجھے کئی دفعہ ایسے خط لکھے ہیں جن سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل سے یہاں بھی بچ پر قائم لوگ ، خدا کے مجاہد بندے موجود ہیں جوا بتلاؤں کے وقت سچ بولتے ہیں، جو خطروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولتے ہیں.جب اُن کے سامنے دو فیصلے ہوتے ہیں کہ یا جھوٹ کی پناہ لینی ہے یا سچ بول کر سزا پانی ہے یا اس ملک سے واپس چلے جانا ہے.اس قسم کے بعض فیصلے جب ان کو در پیش ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے وہ سچ

Page 535

خطبات طاہر جلد ۹ 530 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۹۰ء بولتے ہیں اور پھر وہ حیران ہو جاتے ہیں کہ جن خطرناک نتائج کو قبول کرنے کے ارادے سے انہوں نے سچ بولا تھا وہ خطرناک نتائج اس طرح ٹل جاتے ہیں جیسے ان کا وجود ہی کوئی نہیں.خدا تعالیٰ غیب سے ان کی حفاظت فرماتا ہے.پس سچ بولنا ہے خواہ خدا لازماً حفاظت فرمائے یا نہ فرمائے ، اس کا نام تو حید ہے.یہ کوئی شرط یا سودا بازی نہیں ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سچ کی پناہ گاہیں یقیناً سچی ہیں اور انسان سچ کی پناہ لینے کے نتیجہ میں اکثر صورتوں میں امن میں آجاتا ہے اور جھوٹ کی پناہ گاہیں یقیناً جھوٹی ہیں اور اکثر جھوٹ کی پناہ عارضی ہوتی ہے اور سرسری ہوتی ہے اور فی الحقیقت جھوٹ آپ کو کسی خطرے سے بچ نہیں سکتا کیونکہ جھوٹ کی پناہ بھی جھوٹ ہوا کرتی ہے.پس اگر عقلِ سلیم اختیار کرنی ہے، گہرے طور پر حالات کا جائزہ لینا ہے تو اس کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں.خدا کی خاطر کریں یا بالآخر اپنی خاطر کریں، بچنا ہے تو بیچ کی پناہ گاہوں میں بچ سکتے ہیں.اگر ہلاک ہونا ہے تو پھر جھوٹ کی پناہ گا ہیں آپ کے لئے کھلی پڑی ہیں.بے شک انہیں اختیار کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم پوری گہرائی کے ساتھ اور بار یک نظر کے ساتھ سچائی پر قائم ہو جا ئیں اور بڑے سے بڑے ابتلاء میں بھی کسی جھوٹے خدا کی پناہ میں نہ آئیں اور یہ فیصلہ کریں کہ توحید کے سائے میں مرنا بہتر ہے بہ نسبت جھوٹ کے سائے کی بظا ہر زندگی کے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین )

Page 536

خطبات طاہر جلد ۹ 531 خطبه جمعه ۱۴ ستمبر ۱۹۹۰ء ہجرت کے معاملہ میں سچائی کے اعلیٰ معیار اپنا ئیں اور جھوٹ سے مکمل اجتناب کریں ، باخدا داعی اللہ بنیں.( خطبه جمعه فرموده ۱۴ رستمبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت Nunspeet ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج ہی مغربی جرمنی سے میں ان کے خدام الاحمدیہ کے اجتماع اور دیگر پروگراموں میں شرکت کے بعد یہاں پہنچا ہوں.جیسا کہ میری آواز سے آپ کو معلوم ہو چکا ہوگا کہ میرا گلا اکثر تو مغربی جرمنی نے استعمال کر لیا ہے جو کچھ تھوڑا سا بچا ہے اس سے میں کوشش کروں گا کہ چند باتیں آپ سے بھی کروں.مغربی جرمنی کا اجتماع خدا کے فضل سے ایک بہت ہی بڑا اور عظیم الشان اجتماع تھا.یہاں تک کہ ربوہ سے آئے ہوئے بعض مہمانوں نے یہاں تک کہا کہ ربوہ کی یاد تازہ ہو رہی ہے اور یہ کہتے کہتے ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ وہاں کی جماعت کو خدا کے فضل سے یورپ میں یہ امتیاز حاصل ہو گیا ہے کہ سب سے زیادہ پاکستان کے تربیت یافتہ اور عدم تربیت یافتہ خدام مغربی جرمنی کے حصے میں آئے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ وہاں کی عدلیہ کا بہت ہی احسان والا رویہ ہے جو جماعت احمدیہ سے وہ برتتی ہے.بارہا مجھ سے بھی وہاں کے عدلیہ کے جوں نے ملاقاتیں کیں اور اس سفر میں بھی ملاقاتیں کیں.ان میں جو خصوصی بات میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ صرف عام دنیاوی طریق پر خالصہ قانون کے تابع وہ فیصلے نہیں کرنا چاہتے بلکہ چونکہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے

Page 537

خطبات طاہر جلد ۹ 532 خطبه جمعه ۱۴ ستمبر ۱۹۹۰ء اس لئے بڑی گہری نظر سے وہ جماعت احمدیہ کے حالات پر غور کرتے ہیں اور جتنے حج مجھے ملے ہیں ان سب کا یہ حال ہے کہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کے حالات پر ذاتی طور پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے عقائد ، جماعت احمدیہ کے اختلافات جو دوسروں سے ہیں اور جماعت احمدیہ کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض تو اس کے نتیجے میں اتنا متاثر ہیں کہ ایک حجج نے مجھے بتایا کہ میرے لئے ایک لمبے تجربے کے بعد اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ میں کسی احمدی کے کیس کا انکار کرسکوں کیونکہ میں محض قانونی موشگافیاں نہیں بلکہ حقیقت کی روح سے دیکھتا ہوں اور اس کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی جماعت من حیث الجماعت ایک مظلوم جماعت ہے اور اس کا حق ہے کہ دنیا میں جہاں چاہے جاکے آباد ہوتا کہ اس کو ضمیر کی آزادی نصیب ہو.چنانچہ بعض حج تو جسم کی آزادی کی حد تک اپنی نظر کو محدود رکھتے ہیں اور زیادہ تر اسی جستجو میں رہتے ہیں کہ کس حد تک پناہ گزین نے عملاً جسمانی تکلیف اٹھائی لیکن جرمنی کے جوں میں یہ بات میں نے خصوصیت سے دیکھی کہ ایک نہیں دو نہیں اس سے زیادہ تعداد میں مجھ سے جو ملے ہیں انہوں نے ہمیشہ اس بات کا ذکر کیا کہ وہ صرف یہ یقین کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان میں جماعت احمد یہ کونمیر کی آزادی ہے کہ نہیں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ چونکہ ہم اس بات پر مطمئن ہو چکے ہیں کہ پاکستان میں کسی احمدی کے لئے ضمیر کی آزادی نہیں رہی اس لئے ہم بڑی فراخدلی کے ساتھ آپ کے پناہ گزنیوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایک افسوس ناک بات کا بھی ذکر کیا جس کا میں آپ سے بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ بعض احمدی جو ایجنٹوں کے پڑھائے لکھائے جھوٹ بول دیتے ہیں اس کا ان کی طبیعت پر بہت ہی برا اثر دیکھا.چنانچہ ایک جج نے مجھ سے کہا کہ آپ کی جماعت سے میں بہت ہی اونچی تو قعات رکھتی ہوں (وہ حج خاتون تھیں) اور مجھے اس جماعت سے گہری محبت ہے.صرف اس وجہ سے نہیں کہ یہ مظلوم ہے بلکہ اس کے عقائد میں توازن ہے ان کے اندر بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں ، اخلاص ہے، بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں لیکن جب میں یہ دیکھتی ہوں کہ کوئی احمدی اپنے ایجنٹوں کے پڑھائے میں آکر ، ان کی سکھائی پڑھائی میں آکر جھوٹ بولتا ہے تو مجھے اس کی بہت تکلیف پہنچتی ہے.اب اس کو احمدیت کے لئے تکلیف پہنچنا یہ اس کی بہت بڑھی ہوئی شرافت کا نتیجہ ہے لیکن جتنی تکلیف اسے پہنچی اس سے بہت زیادہ تکلیف مجھے پہنچی.

Page 538

خطبات طاہر جلد ۹ 533 خطبه جمعه ۴ ار تمبر ۱۹۹۰ء چنانچہ میں نے جرمنی کے اجتماع میں بھی جو خطبہ وہاں دیا تھا سب سے زیادہ اس بات کولیا کہ احمدی اور جھوٹ کا آپس میں کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہونا چاہئے.جس طرح شرک اور توحید کے درمیان ایک بیر ہے اسی طرح بچے موحد اور جھوٹ کے درمیان بیر ہوا کرتا ہے اور جھوٹ اور توحید اور شرک اور توحید یہ ایک ساتھ پنپ نہیں سکتے اس لئے جو احمدی بھی اپنے ادنی مفاد کی خاطر اپنی روح کو قربان کرتا ہے اور جھوٹ میں ملوث ہو جاتا ہے اتنا ہی بڑا وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کومول لینے والا بنتا ہے.روزمرہ کی مجالس میں گپ شپ کی عادت اور مبالغہ آمیزی کی عادت تو ہمارے ملک میں عام ہے لیکن جب سنجیدہ معاملات میں جھوٹ بولے جائیں تو وہ ایسی باتیں ہیں جو یقیناً خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتی ہیں.چنانچہ قسموں کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہیں نہیں پکڑے گا.انسانی کمزوریاں ہیں، بعضوں کو عادت پڑی ہوتی ہے یونہی قسمیں کھاتے رہنے کی لیکن جہاں تم نے قسم کو سنجیدگی سے اپنے مفاد کی خاطر استعمال کیا اور جھوٹ بولا تو یقیناً خدا تعالیٰ تمہیں پکڑے گا.پس اللہ تعالیٰ بھی معمولی گپ شپ میں اور سنجیدہ جھوٹ میں فرق کرتا ہے اور سنجیدہ جھوٹ دراصل شرک کا ہی دوسرا نام ہے کیونکہ جھوٹ کے ذریعے انسان اپنے آپ کو ایسے خطرے سے بچانا چاہتا ہے جس کے لئے خدا کی پناہ بھی لے سکتا تھا لیکن خدا کی پناہ پر اس کو تو کل نہیں ہوتا.خدا کی پناہ کے متعلق وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا.وہ سمجھتا ہے پتا نہیں خدا پناہ دے یا نہ دے ، میں تو بری طرح پھنس چکا ہوں اس لئے سر دست خدا سے تعلق تو ڑ لوکوئی فرق نہیں پڑتا.پھر دوبارہ حاضری دیدوں گا.اس وقت تو جھوٹ کی پناہ میں آنا چاہئے.یہ وہ گہری نفسیات ہے جو ہمیشہ جھوٹے کو خدا سے تعلق کاٹ کر شیطان سے تعلق قائم کرنے پر مجبور کر دیا کرتی ہے.اس وقت وہ سمجھتا بھی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں لیکن خدا جو بہت باریک نظر کے ساتھ انسانی معاملات کو دیکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ جب میری ضرورت تھی تو میرے بندے نے مجھ پہ تو کل نہیں کیا اور شیطانوں پر تو کل کیا اس لئے جس پر یہ تو کل کرتا ہے اسی کا ہو جائے اور ایسے بندوں کو پھر خدا تعالیٰ کا پیار نصیب نہیں ہوا کرتا یہی مضمون تھا جو میں نے وہاں بیان کیا.آنحضرت ﷺ کی زندگی اور صحابہ کی زندگی پر آپ غور کر کے دیکھیں کہ سب سے بڑی سچائی سے اس وقت انہوں نے کام لیا جب سب سے زیادہ خطرہ درپیش ہوا کرتا تھا اور بڑے سے

Page 539

خطبات طاہر جلد ۹ 534 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۹۰ء بڑے خطرے کے وقت نہ صرف یہ کہ جھوٹ سے کام نہیں لیا بلکہ سچائی بڑی قوت کے ساتھ دل سے پھوٹی ہے.ایک موقعہ پر حضرت اقدس محمد مصطفی علے ایک غزوے میں شریک تھے اور دو پہر کو قافلہ آرام کرنے کے لئے مختلف درختوں کی چھاؤں ڈھونڈتا ہوا الگ الگ پھیل گیا.آنحضرت علیہ بھی ایک درخت کی چھاؤں میں تنہا لیٹے ہوئے آرام فرمارہے تھے ،اتنے میں ایک دشمن کا وہاں سے گزر ہوا.اس نے تلوار سونتی اور آنحضرت ﷺ کو جگا کر کہا، آپ کا نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب یہاں اور کوئی نہیں ہے، تیرا کوئی ساتھی بچانے والا نہیں ہے تو نہتا ہے اور لیٹا ہوا ہے اور میں یہ تلوار سونت کے تیرے سر پر کھڑا ہوں.اب بتا تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے آنحضرت ﷺ نے بڑے اطمینان سے اسی طرح لیٹے ہوئے فرمایا میر اخدا.اس صداقت میں ایسا رعب تھا ایسا جلال تھا کہ وہ شخص کانپ گیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار زمین پر جا پڑی.آنحضرت ﷺ نے اس تلوار کو اٹھایا اور فرمایا.بتااب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے اس نے ہاتھ جوڑ دیئے اور گڑ گڑا کر کہا کہ آپ معاف کریں، آپ بہت احسان کرنے والے ہیں، مجھ سے غلطی ہوئی.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اوبد بخت تجھے میرا نمونہ دیکھ کے بھی پتا نہیں چلا کہ بچانے والا کون ہے.وہ ایک ہی ہے جو ہمارا خدا ہے.(ترمذی کتاب الصفۃ القیامۃ حدیث نمبر (۲۴۴) پس خطروں کی شدت کے وقت انسان کی سچائی آزمائی جاتی ہے خطروں کی شدت کے وقت انسان کی تو حید آزمائی جاتی ہے اور جھوٹ ایک شرک ہے.اس کی پناہ میں آنے والے پھر تو حید سے ہمیشہ اپنا تعلق توڑ لیا کرتے ہیں.اس لئے تو حید نام کی توحید نہیں ہے جو نعروں کے ذریعہ دنیا میں پھیلائی جائے.اللہ اکبر کے نعرے لگانے والے جب مشکل میں مبتلا ہوں اور شیطان اکبر کے نعرے لگائیں یعنی عملاً اس کی پناہ میں آجائیں تو ان کے بلند بانگ نعروں کی کیا قیمت باقی رہ جاتی ہے.پس چونکہ یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے جسے خوب کھول کھول کر خدام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.اس لئے میں آج آپ کو بھی اس بات کی یاددہانی کراتا ہوں کہ جھوٹ سے پر ہیز کا عہد کریں اور ہمیشہ کے لئے تو بہ کریں.اپنے نفس کو ٹولتے رہا کریں.چھوٹے جھوٹوں سے بھی بچنے کی کوشش کریں کیونکہ جھوٹ کی عادت انسان کو رفتہ رفتہ بڑے جھوٹ بولنے پر بھی آمادہ کر دیا کرتی ہے اور جہاں اپنے مفادات کا واقعات کے مطابق یہ تقاضا دیکھیں کہ جھوٹ بولیں گے

Page 540

خطبات طاہر جلد ۹ 535 خطبه جمعه ۴ ار تمبر ۱۹۹۰ء تو مفادات حل ہوں گے وہی مقام ہے بیچ بولنے کا.ایسے کسی مقام پر اگر آپ سچ بولیں گے تو اگر فوری طور پر خدا نے آپ کو پناہ نہ بھی دی تب بھی آپ صدیق کہلائیں گے اور جو سزا آپ کو دنیا کی نظر سے ملے گی وہ سزا خدا کے پیار کو حاصل کرنے کا موجب بن جائے گی اس دن سے آپ کی زندگی کی کا یا پلٹ جائے گی.آپ کے اندر ایک روحانی انقلاب بر پا ہو جائے گا اور ایسا بھی ہوگا اور بسا اوقات ایسا ہوگا کہ جہاں خطروں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیرا ہو.آپ کو کوئی اور پناہ نہ ملتی ہو خدا کی خاطر آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ جو کچھ بھی ہوگا میں نے جھوٹ کی پناہ نہیں لینی تو اچانک خدا تعالیٰ کی تقدیر خطرات کے گھیروں کو توڑ دیگی اور آپ کے لئے بیچ نکل کے باہر جانے کے لئے رستے کشادہ ہو جائیں گے اور یہ اتنی دفعہ بارہا احمدیوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور ہوتا ہے کہ یہ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ امر واقعہ ہے.روزمرہ کی زندگی میں ایک روزمرہ ہونے والا تجربہ ہے.پس اس وجہ سے نہیں کہ آپ کو خدا ضرور بچائے گا اس لئے آپ سچ بولیں.اس لئے سچ بولیں کہ خدایچ پر راضی ہوگا اور پھر بچائے نہ بچائے وہ مالک ہے اس کی مرضی ہے لیکن شرک سے اور شیطان سے پھر آپ کو ضرور بچالے گا اور آپ کی ساری زندگی کو آئندہ پاک اور صالح بنادے گا.اس لئے اس نیت کے ساتھ سچ پر قائم رہنے کا عہد کریں.جہاں تک جرمنی کی جماعت کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا وہاں کی عدلیہ کا رویہ بہت ہی احسان کا رویہ ہے اور محض قانونی نہیں بلکہ انسانی سطح پر وہ احمدیوں کے معاملات کو دیکھتے ہیں اور بہت گہرا غور کرتے ہیں اور اکثر دل سے مطمئن ہیں کہ جس جماعت کو اپنے ضمیر کی آزادی نہیں اس جماعت کا حق ہے کہ اس وطن سے ہجرت کر جائے.یہ دوسرا پہلو میں نے وہاں خدام الاحمدیہ کے سامنے رکھا اور آپ کو پھر مختصرا اس کے متعلق بتانا چاہتا ہوں کہ اصل ہجرت بدن کی نہیں بلکہ روح کی ہجرت ہوا کرتی ہے.جیسا کہ وہ حج جو مسلمان بھی نہیں وہ بدنوں کے مقابل پر روح کو اہمیت دے رہے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ شدت کے ساتھ ہر مذہب روح کو اہمیت دیتا ہے اور بدنوں کو ثانوی حیثیت دیتا ہے.آنحضرت ﷺ نے ہجرت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بدن کی ہجرت سے بہت بڑھ کر روح کی ہجرت کا نقشہ کھینچا ہے.فرمایا جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی وہ یقینا اللہ اور اس کے رسول کو پالے گا.جس کی ہجرت دنیا کے مقاصد اور مطالب کی طرف ہوگی

Page 541

خطبات طاہر جلد ۹ 536 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۹۰ء وہ دنیا کے مقاصد اور مطالب کو ہی پائے گا.پس آپ میں سے وہ خواہ نو جوان ہوں یا بوڑھے ہوں ،مرد ہوں یا عورتیں ہوں، جو ہجرت کر کے یہاں تشریف لائے ہیں ان کو میں مختصراً یہ بات یاد کرا تا ہوں کہ آنے سے پہلے اگر نیت کچھ اور تھی بھی.تب بھی اب اپنی نیتوں کو درست کر لیں اور دنیا سے دین کی طرف ہجرت کریں.یہ ہجرت زندگی کے ہر لمحے پر ہو سکتی ہے اور وہ ہرلمحہ زندگی کا ایک موڑ بن جاتا ہے جس میں انسان دنیا کی طرف سے رخ پھیر کردین کی طرف رخ اختیار کر لیتا ہے.پس دعا کریں کہ آپ کو بھی زندگی کا کوئی ایسا ہی لمحہ نصیب ہو جو زندگی کا ایسا موڑ بن جائے جس میں آپ کا رخ دنیا سے ہٹ کر خدا کی طرف ہو جائے اور اگر یہ ہو جائے تو پھر آپ کی ہجرت دنیاوی لحاظ سے بھی کامیاب ہوگی اور دینی لحاظ سے بھی کامیاب ہوگی اور آپ کو زندگی کا مقصد حاصل ہو جائے گا.تو اس پہلو سے انصار کو بھی ، خدام کو بھی اور لجنات کو بھی اپنے ممبروں کو اور نمبرات کو یاد دلاتے رہنا چاہئے کہ ہمیں بالآخر لازماً خدا کی طرف ہجرت کرنا ہے اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر بھی بہر حال ہم خدا ہی کی طرف لوٹیں گے.دو ہی صورتیں انسان کی زندگی پر آسکتی ہیں.ایک یہ کہ وہ خدا کی طرف اس طرح لوٹے جس طرح ہنکا کر کسی چیز کو لے جایا جاتا ہے اور ایک اس طرح لوٹے کہ اس کا دل اچھلتا ہوا اپنے بدن سے آگے بڑھ کر خدا کی طرف بڑھ رہا ہو.اس کی روح پیش قدمی کرتی چلی جائے اور وہ اس طرح خدا کی طرف لپکے جس طرح ایک بھو کا بلبلاتا ہوا بچہ ماں کے دودھ کی طرف لپکتا ہے.ایسی واپسی حقیقی مومن کی واپسی ہے اور وہ لوگ جو اس دنیا میں خدا کی طرف ہجرت نہیں کرتے مرنے کے بعد قرآن کریم نے ان کا بعینہ یہی نقشہ کھینچا ہے کہ فرشتے ان کو ہنکا کر لے جائیں گے جس طرح جانوروں اور بھیڑ بکری کے ریوڑوں کو ہنگا کر لے جایا جاتا ہے.وہ اپنی مرضی سے نہیں چلتے ان کو علم بھی نہیں ہوتا کہ کہاں جار ہے ہیں.ہنکانے والے کتے بعض دفعہ ان کے لئے رکھے جاتے ہیں جو ان کو چاروں طرف سے ڈرا دھمکا کر ایک سمت میں چلنے پر مجبور کرتے ہوں ، بعض دفعہ گھوڑ سوار سانٹے لے کر ان کے آگے پیچھے چلتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے مرنے کے بعد ان لوگوں کو جو مرنے سے پہلے خدا کی طرف نہیں گئے جہنم کی طرف لے جانے کا یہی نقشہ کھینچا ہے اور ایسے فرشتے جو شداد ہیں جو سختی کرنا جانتے ہیں ان کے سپردان لوگوں کو کیا جائے گا.در اصل جنت اور جہنم اسی دنیا میں بنتے ہیں جن

Page 542

خطبات طاہر جلد ۹ 537 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۹۰ء کی روحیں خدا کی طرف مائل ہو جاتی ہیں اور خدا سے تعلق پیدا کر لیتی ہیں اور اس دنیا میں ہی خدا کی طرف بار بار جھکنے سے ان کو لذت محسوس ہوتی ہے مرنے کے بعد کی زندگی میں یہی ان کی جنت بنے گی کیونکہ مرنے کے بعد خدا اور بندے کی روح کے درمیان سے پردے اٹھا دئیے جائیں گے اور جو چیز یہاں حسین دکھائی دے رہی تھی جب وہ پر دے کم ہوں گے تو اور زیادہ حسین دکھائی دے گی اور یہی حقیقی جنت ہے جو مومن کی جنت ہے.چنانچہ قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس دنیا میں خدا سے راضی ہو گئے ہوں اور خدا ان سے راضی ہو گیا ہو، ان کو یہی خوشخبری دیتا ہے.يَآيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً أَ فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي انفجر ۲۸ (۳۱) کہ اے وہ نفس مطمئنہ ! جو خدا سے راضی رہا اور جس سے خدا راضی ہو گیا فَادْخُلِي فِي عِبدِي آج میرے عباد کی جنت میں داخل ہو جاؤ وَادْخُلِي جَنَّتِی.میری جنت میں داخل ہو جاؤ.پس حقیقی جنت وہی ہے جس کی بناء اس دنیا میں ڈالی جاتی ہے اور وہ محبت الہی کی جنت ہے.قیامت کے بعد کی زندگی میں جونئی روحانی زندگی ہوگی کیونکہ بندے کی روح اور خدا کی روح کے درمیان فاصلے نسبت کے لحاظ سے کم دکھائی دیں گے اور خدا کا حسن زیادہ شان کے ساتھ جلوہ گر ہوگا اس لئے خدا کے قرب کا جلوہ ہی ان روحوں کے لئے جنت بن جائے گا.وہ کس طرح متمثل ہوتی ہے کن شکلوں میں ڈھلتی ہے اس کے کچھ نظارے قرآن کریم نے پیش فرمائے ہیں لیکن وہ تمثیلات ہیں.ایسی تمثیلات ہیں جن کو ہمیں سمجھانے کی خاطر پیش کیا گیا ہے ورنہ نہ تو اس قسم کے باغات ہیں جیسے ہم باغات دیکھتے ہیں، نہ ہی وہ واقعہ اس دودھ کی نہریں ہیں جسے ہم دودھ جانتے ہیں نہ ہی ویسا شہد وہاں بہتا ہوا دکھائی دے گا جیسا شہر ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں.اگر ایسا ہوتا تو ہمیں یہ نہ بتایا جاتا کہ جنت ایک ایسی چیز ہے جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا.پس یہ ساری باتیں جو ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں یا جن کا ذکر سنتے ہیں ان کو ہماری آنکھ نے اس دنیا میں دیکھا بھی ہوا ہے اور ہمارے کانوں نے ان کا ذکر سنا بھی ہے.پس یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ ایک طرف تو ہم دیکھ بھی رہے ہوں اور سن بھی رہے ہوں ، دوسری طرف ہمیں یہ بتایا جائے کبھی کسی آنکھ نے اس جنت کو نہیں دیکھا جو جنت خدا نے اپنے بندوں کے لئے محفوظ رکھی ہے اور کبھی کسی کان نے اس جنت کا ذکر نہیں سنا حالانکہ اس کا ذکر قرآن کریم میں ہم پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں.

Page 543

خطبات طاہر جلد ۹ 538 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۹۰ء مراد یہ ہے وَأَتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا ( البقرہ: ۲۶) کہ حقیقت میں کچھ ملتی جلتی سی چیزیں ہیں جو پیش کی جائیں گی لیکن جیسی اس دنیا میں ہیں ویسی ہرگز نہیں.وہ تمثیلات ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن ہمیں چونکہ دنیا میں یہ چیزیں اچھی لگتی ہیں اس لئے یہ بتانے کے لئے کہ بعض چیزیں بہت ہی اچھی ہوں گی ہمارے لئے کچھ نقشے کھینچے گئے ہیں لیکن حقیقت میں جو کچھ پیش کیا گیا مُتَشَابِها ہے اور اس دنیا میں مومن کو جو لذت ملتی ہے وہ خدا کے قرب سے ملتی ہے.پس مُتَشَابِها سے مراد یہی ہے کہ وہ جنت کے پھل ، وہ جنت کے باغات خدا کے قرب کی کچھ شکلیں ہوں گی.کیا تجسم اختیار کریں گی ہم نہیں جانتے لیکن وہی ہیں جو زیادہ Develop ہوجائیں گی ، زیادہ بڑی شان کے ساتھ ایک ایسی شکل میں ظاہر ہوں گی جن کی طرف روح لپکے گی اور ان سے غیر معمولی لذت حاصل کرے گی.پس جہنم بھی اسی قسم کی ایک چیز ہے اور وہ اچھی باتیں جن سے انسان آج اس دنیا میں متنفر ہوتا ہے جب ان اچھی باتوں کے قریب کیا جائے گا تو ان سے لذت حاصل کرنے کی بجائے وہ اس کے لئے ایک روحانی عذاب بن جائیں گی.چنانچہ اس دنیا میں جو سجدہ نہیں کر سکتا قیامت کے دن اس کے لئے سجدہ ہی جہنم ہے.جو اس دنیا میں خدا کا ذکر سن کر نا فر محسوس کرتا ہے اور اس کی طبیعت بھڑکتی ہے اور وہ دوڑتا ہے کہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا، اس کی بجائے ایک فلمی گانا ہو یا کوئی اور اس قسم کی دنیاوی لذت ہوتو اس کو وہ بڑے غور سے سنتا اور شوق سے قبول کرتا ہے اس کے لئے وہاں اس کی جنت موجود نہیں ہوگی.وہاں کوئی لغو چیز نہیں ہوگی کوئی بیہودہ سرائی نہیں ہوگی اور ایسا شخص بے چارا اس لئے جہنم میں مبتلا ہو گا کہ اس کا ذوق Develop نہیں ہوا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک کتے کو جس کو پھل سے کوئی ذوق نہیں ہے اس کو پھل دیدیا جائے.جس کو گند چاہئے.جس کو چھیچھڑے چاہئیں جس کو مردارخوری کی عادت ہو ، لاشوں کے بدبودار گوشت سے لذت سے محسوس کرتا ہو اس کے سامنے اگر اچھے سے اچھا پھل آپ رکھ دیں گے تو اس بیچارے کے لئے جہنم ہی ہوگی.چنانچہ غالب کے متعلق آتا ہے کہ اس کو پھلوں کا بہت شوق تھا.آم کا بہت شوق تھا اور غالب کے دوستوں میں سے ایک صاحب ایسے تھے جن کو آم سے نفرت تھی.بہت کم دنیا میں ایسے ہوتے ہیں مگر ہوتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ مجلس لگی ہوئی تھی سب آم کھا رہے تھے اور وہ جن کو آم سے نفرت

Page 544

خطبات طاہر جلد ۹ 539 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۹۰ء تھی وہ بھی اس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.اچانک ایک گدھے کا وہاں سے گذر ہوا تو گدھے نے آم کے پھینکے ہوئے چھلکوں اور گٹھلیوں کو سونگھا اور بڑی نفرت سے اپنے ہونٹ چڑھا کر منہ دوسری طرف کر لیا اور بغیر کھائے آگے نکل گیا تو جن کو آم سے نفرت تھی انہوں نے بے ساختہ غالب سے متاثر ہو کر کہا کہ مرزا دیکھو گدھا بھی آم نہیں کھاتا.غالب نے جواب دیا.ہاں! گدھا آم نہیں کھاتا تو ایک بھی“ کے ہونے یا نہ ہونے نے دیکھیں کتنا فرق پیدا کر دیا.وہ گدھے جو اس دنیا میں خدا کی محبت کے آم نہیں کھاتے اس دنیا میں جب ان کو آم نصیب ہوں گے تو ان کے لئے تو جہنم ہی ہوگی.اس لئے یہ ذوق کی پرورش کی بات ہے ذوق کی اگر سلیقے سے پرورش کی جائے تو رفتہ رفتہ وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور ادنی سے اعلیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا ذوق پیدا کرنے کے لئے زندگی کو اربوں سال کے تربیت کے دور سے گزارا ہے.وہ معمولی کیڑے جوابتدائی حالت سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے بہت سی قسمیں ایسی ہیں جو گندگی سے باہر سانس ہی نہیں لے سکتیں اور وہی ان کی جنت ہے.کس طرح خدا تعالیٰ نے رفتہ رفتہ ایک دو سال میں نہیں، ایک دو ہزار سال میں بھی نہیں، ایک دولاکھ سال میں نہیں، ایک دو کروڑ سال میں بھی نہیں، اربوں سال میں زندگی کو تربیت دے کر اس کو اعلیٰ ذوق کی اس منزل تک پہنچادیا ہے جسے انسان کی منزل کہا جاتا ہے اور اس کے باوجود جب وہ تربیت پا کر اس قابل ہوگیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں لذت حاصل کر سکے.جب وہ اس لائق بن گیا کہ وہ اعلیٰ اور لطیف چیزوں کا ادراک کر سکے اور ان کو سمجھ سکے اور ان کا ادنی سے فرق کرنا سیکھ لے تو اس وقت وہ واپس لوٹا اور دنیا کی طرف منہ مارنے لگ گیا اور پھر گندگی کی طرف جھک گیا.ایسے ہی شخص کا ذکر ایک کتے کی مثال کے ساتھ خدا تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: ۱۷۷) کہ اگر ہم چاہتے ہم اس کا رفع ان صفات کے ذریعے کر دیتے جوخدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائی تھیں وَلكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ لیکن وہ بد بخت زمین کی طرف جھک گیا اور ان ادنیٰ حالتوں کی طرف لوٹ گیا جن سے نکال کر ایک بہت لمبے عرصے میں خدا نے تربیت کر کے اس کو بلند مقام تک پہنچایا تھا.اسی طرح سورہ تین میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِى أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ فَلَهُمْ أَجْرُ غَيْرُ مَمْنُونٍ ) (تین : ۵ تا ۷ ) کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم

Page 545

خطبات طاہر جلد ۹ 540 خطبه جمعه ۴ ار تمبر ۱۹۹۰ء ، پیدا کیا ہے.تقویم سے مراد ہے سیدھا اور درست کرنا.فرمایا دیکھو ہم نے درستی کرنے کے کتنے لمبے دور سے اور تربیت کے دور سے انسان کو گزار کے اس کو کیسی اعلیٰ حالت تک پہنچادیا ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ ) پھر ہم نے اس کو دنیا کی ادنیٰ حالتوں کی طرف لوٹنے دیا.کیوں؟ اس لئے نہیں کہ خدا نے زبر دستی لوٹا دیا.اس لئے کہ وہ نہ ایمان لایا نہ اس نے اعمال صالحہ کو اختیار کیا.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کو اختیار کیا وہ مستثنی ہیں وہ کبھی بھی ادنیٰ حالتوں کی طرف واپس نہیں لوٹائے جائیں گے.فَلَهُمْ أَجْرُ غَيْرُ مَمْنُونٍ ان کے لئے ایسی جزاء ہے جو نہ ختم ہونے والی ،ان کی ترقیات بے حساب ہیں اور لامتناہی ہیں.پس یہ وہ فلسفہ ہے جو قرآن نے ہمیں زندگی کا فلسفہ سکھایا ہے.جتنا لمبا عرصہ ہماری تربیت پر ہمارے ماضی میں گزرا ہے اگر آج ہم اس راہ کو اختیار کر لیں جس پر آئندہ روح کی Evolution کا مدار ہے جس کے ذریعے پھر روح نے آگے ترقی کرنی ہے تو پھر کوئی واپسی نہیں ہے.فرمایا : پھر ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جس طرح ارب ہا ارب سال کے دور سے گزار کے تمہیں تربیت دیکر انسان کے مقام تک پہنچایا تھا یہ انسان کا مقام تمہارا پہلا قدم بن جائے گا اور آئندہ اس سے بھی بہت زیادہ ترقیات تمہارے لئے رکھی گئی ہیں.ترقی کے ایسے غیر متناہی مقامات ہیں کہ تم ان کا تصور ہی نہیں کر سکتے.غَيْرُ مَمْنُونٍ وہ کبھی کالے نہیں جائیں گے کبھی کسی مقام پر ختم نہیں ہو نگے.پس یہ وہ دعوت ہے جو اسلام نے آپ کو دی ہے جو قرآن کریم نے بڑے حکیمانہ فلسفے کے ساتھ کھول کر آپ کے سامنے رکھی ہے.اس کی حکمتیں بیان فرمائی ہیں.آپ کے لیے ماضی کی مثالیں دیگر آپ کو سمجھایا ہے کہ یہ دنیا باطل نہیں ہے.انسان کی پیدائش یونہی اتفاقا نہیں ہوئی بلکہ ایک بہت ہی بلند اور نہ ختم ہونے والے مقصد کی پیروی کے لئے انسان کو بنایا گیا ہے.پس جیسا اس کا ماضی ہے جس میں رفتہ رفتہ ترقی دکھائی دیتی ہے.ویسا ہی اس کا مستقبل بھی ہوسکتا ہے مگر شرط یہی ہے کہ ایمان لے آئے اور اعمال صالحہ اختیار کرے.پس اس پہلو سے مومن کی زندگی لامتناہی زندگی بن جاتی ہے مگر اس دنیا میں اسے خدا کی طرف لوٹنا ہوگا.اگر اس دنیا میں خدا کی طرف نہیں لوٹے گا تو اس کا متبادل یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی کی طرف لوٹ جائے گا.

Page 546

خطبات طاہر جلد ۹ 541 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۹۰ء أَسْفَلَ سَفِلینَ کا مطلب یہ ہے کہ بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین ہوتا چلا جائے گا.یعنی وہ واپس حیوانی خصلتوں کی طرف لوٹ جائے گا.قرآن کریم کے اس بیان کی صداقت ہمیں ان انسانوں کی زندگی میں ملتی ہے جو لذت حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی گندگی پر منہ مارتے ہیں اور جب ان کو عام ان باتوں میں لذت نہیں ملتی جو خدا نے صحت مند لذتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں تو پھر وہ گندگی کو کھودتے کھودتے اور زیادہ غلاظت کی تہہ تک اترنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جو Drug کے ذریعے ایک قسم کی روحانی لذت حاصل کرنے کا جنون ہے یہ دراصل اسی کوشش کا دوسرا نام ہے اور اس کے علاوہ جنسیات میں جس حد تک انسان اس وقت ارزل ہو چکا ہے اور اَسْفَلَ سَفِلِينَ کی طرف لوٹ چکا ہے اس کا سارا مغربی معاشرہ گواہ ہے لیکن ماضی کی طرف لوٹنا اور حیوانی صفات اختیار کر کے لذت حاصل کرنے کی کوشش کرنا انسان کے کسی کام نہیں آ سکتا.وہ دن بدن پاگل ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ لذتیں معنی کھو دیتی ہیں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.اس کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں.اس پاگل پن میں پھر بہیمانہ تحریکات چلتی ہیں.کئی قسم کے جنون پیدا ہوتے ہیں کئی قسم کی Cults نکلتی ہیں.کہیں چھٹے بجا بجا کر اپنی روح کی تسکین کے سامان کی کوشش کی جاتی ہے کہیں بال بڑھا کر، کہیں بال منڈھوا کر کہیں ایک دوسرے پر ظلم کر کے، کہیں جتھے بنا کر جرم کرنے کے نتیجے میں لذت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ سارے وہی نقوش ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے نشاندہی کی تھی کہ ان نقوش پر چلتے ہوئے تم الٹے پاؤں واپس ادنیٰ حالتوں کی طرف لوٹ جاؤ گے سوائے اس کے کہ تم ایمان لے آؤ اور اعلیٰ بہترین عمل اختیار کرواس صورت میں تمہارے لئے ترقی کا ایک لامتناہی سلسلہ کھلا ہوا ہے.پس خدام کو اور لجنات کو اور انصار کو یہ سبق اپنے ہرممبر کو پڑھانے چاہئیں کہ یہ جو مغرب کا معاشرہ جس میں آج احمدی دم لے رہے ہیں.یہ اَسْفَلَ سَفِلِينَ کا معاشرہ ہے.ہر طرف سے آپ کو آواز میں پڑیں گی کہ آؤ اور دنیا کی لذتوں میں ہمارا ساتھ دواور ہمارے ساتھ مل کر واپسی کے وہ سفر اختیار کرو جن کے نتیجے میں ہم حیوانی اور بہیمانہ لذتیں حاصل کر رہے ہیں.دوسری طرف خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ یہ تمہارے تنزل اور ذلتوں کے رستے ہیں پھر خدا کی طرف تمہارا رجوع نہیں ہو سکے گا سوائے اس کے کہ فرشتے ہانک کر تمہیں لے کے جائیں لیکن لذتوں کی طرف نہیں جھنموں کی

Page 547

خطبات طاہر جلد ۹ 542 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۹۰ء طرف تم ہانکے جاؤ گے اس لئے اس مقام سے واپس لوٹو آگے بڑھو اور جن مقاصد کی خاطر تمہیں حیرت انگیز طور پر روحانی ترقی دی گئی ہے، شعور دیا گیا ہے، غیر معمولی طور پر لطافتوں کے ادراک کی طاقتیں عطا کی گئی ہیں لطافتوں کو سمجھنے کی طاقتیں عطا کی گئی ہیں ان پر غور کرو، ان سے سبق سیکھو اور آگے بڑھو اور اپنے خدا کی طرف حرکت کرو اور خدا کی طرف سفراختیار کرو.یہ سفر اس دنیا میں ہونا ضروری ہے ورنہ پھر اس دنیا میں جا کر یہ سفر اختیار نہیں کیا جاسکتا.یہ وہ بات ہے جو قرآن کریم بار بار آپ کو سمجھاتا ہے یہ بات ہے جو آپ کو خصوصیت سے اپنی نئی نسلوں کو سمجھانی چاہئے کیونکہ جب تک ایک مضبوط فلسفہ ان کی حفاظت نہیں کرے گا وہ دنیا کی ظاہری اور سرسری لذات میں کھوئے جائیں گے.کوئی تنظیم اپنے کسی ممبر کے ساتھ ہمیشہ جڑ کر نہیں رہ سکتی.زندگی کے بہت ہی ایسے مواقع ہیں جن میں انسان تنہا سفر کرتا ہے اور تنظیم کی نظر وہاں تک نہیں پہنچتی تنظیم کی پابندیاں اس کو کسی خاص حالت پر مقید نہیں رکھ سکتی ایسے وقتوں میں جو معاشرے کے غالب اثرات ہیں وہ یقیناً اس کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.سوائے اس کے کہ اس کا دل اور اس کا دماغ دونوں مطمئن ہوں کہ یہ معاشرہ گندہ اور ظالم ہے اس کے لئے نقصان دہ ہے اور پوری طرح مطمئن ہوں کہ جو راہ اس نے اختیار کی ہے اس کے پیچھے ایک گہرا فلسفہ ہے، ایک بہت بڑی حکمت ہے.یہ باتیں سمجھنے کے بعد پھر وہ ان کے خطرات سے باہر آسکتا ہے بشرطیکہ دعا کا بھی عادی ہو، بشرطیکہ وہ قدم قدم پر خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے والا ہو اور اسی پر تو کل کرنے والا ہو.پس جہاں آپ جھوٹ سے تو بہ کر کے خدا کی پناہ میں آئیں گے وہاں اس سفر میں جو یہ دوسرا سفر ہے خدا آپ کا یقیناً ساتھ دے گا اور غیر معمولی طاقت عطا کرے گا.ہر خطرے سے آپ کو بچائے گا اور اس رستے پر ڈال دے گا جو غیر ممنون ہے جو کبھی ختم نہ ہونے والا ہے.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی توفیق کے بغیر ہم اس دنیا کے حالات بدل نہیں سکتے جس دنیا میں اس وقت یہاں موجود ہیں.اس دنیا کو آج دلائل سے بڑھ کر خداوالوں کی ضرورت ہے.لوگ بارہا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم تبلیغ کیسے کریں؟ ہم تبلیغ کرتے تو ہیں مگر اثر نہیں دکھاتی.تبلیغ وہی اثر دکھاتی ہے جو خدا والے کی تبلیغ ہو.جو ان تجارب سے گزرا ہوا ہو.جانتا ہو کہ ایک خدا ہے وہ جانتا ہو کہ وہ خدا اس کے ساتھ ہے.بارہا اس کے پیار اور قرب کے جلوے دیکھ چکا ہو اس

Page 548

خطبات طاہر جلده 543 خطبه جمعه ۱۴ ستمبر ۱۹۹۰ء کی بات میں وزن ہوتا ہے اس کی بات میں قوت عطا کی جاتی ہے اس کی بات میں گہرا اثر رکھا جاتا ہے.پس یہ دو باتیں جو میں نے آپ کو بتائی ہیں ان پر آپ قائم ہو جائیں اور پھر تبلیغ کریں اور درد دل سے تبلیغ کریں.اچھے دوستوں کو تلاش کریں اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھائیں کیونکہ تبلیغ کا ایک اور بھی بہت اہم گر ہے جسے آپ کو لازماً سیکھنا چاہئے کہ تبلیغ رستہ چلتے بیج کا چھٹا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ بڑی گہری حکمت کے ساتھ ایسی کاشت کا نام تبلیغ ہے جس کی انسان پھر مسلسل حفاظت کرتا ہے جو اس کے اپنے دائرہ اختیار میں ہوتی ہے ورنہ بیج پھیلانا تو کوئی تبلیغ نہیں ہے.آپ دنیا میں زرخیز سے زرخیز علاقے میں بیج پھیلاتے چلے جائیں، پیچھے پیچھے پرندے اس بیج کو چگتے چلے جائیں گے.جانور اس کو آ کر ضائع کرتے چلے جائیں گے کبھی پانی کا فقدان ہوگا کبھی کسی اور چیز کا نقصان ہوگا اور جو بیج آپ پھیلائیں گے وہ پیچھے سے ضائع ہوتا چلا جائے گا لیکن وہ بیج کام کا بیج ہوا کرتا ہے جسے ایک انسان اپنے کھیت میں اگاتا ہے جو اس کے قبضے میں ہوتا ہے.اس کی حفاظت کرنا جانتا ہے روز اسکی پرورش کرتا ہے اس کے ساتھ مانوس ہو جاتا ہے اس کو اپنے ساتھ مانوس کرتا ہے اور یہی وہ کچی تبلیغ ہے جو پھل دیتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا تعالیٰ سے یہ عرض کی کہ : رَبِّ اَرِنی كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْلى ( البقرہ: ۲۶۱) اے خدا ! تو مجھے اس بات پر مامور تو کر چکا ہے کہ میں مردوں کو زندہ کروں.اب تو نے ہی زندہ کرنا ہے.گیف تُحْيِ الْمَوْتُى تو بتا تو سہی کہ مردوں کو کیسے زندہ کرے گا.تو اللہ تعالیٰ نے جو مثال دی اس میں نکتے کی جو بہت اہم بات بیان فرمائی گئی وہ یہ تھی کہ پرندوں کولو، چار پرندوں کو پکڑو، فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ (البقرہ:۲۶۱) بعض مفسرین بیچارے اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ قصر کا مطلب ہے قیمہ کردو اور قیمہ کر کے چاروں طرف پہاڑیوں پر پھینک دو حالانکہ فطر کا مطلب ہے مانوس کرلو.اگر قیمہ کرنا ہوتو اليك کا کیا مطلب؟ اپنی طرف قیمہ کر لو.کیا ہوا؟ مانوس بنانا ہو تو اس کے ساتھ اِلَيْكَ کا صلہ لگتا ہے کہ ہاں اپنی طرف مانوس کرلو، اپنے ساتھ مانوس کرلو اس لئے اس کے سوا کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتا.فرمایا کہ دیکھو! جب تم پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کر لیتے ہو تو تمہاری آواز کا جواب دیتے ہیں.ان

Page 549

خطبات طاہر جلد ۹ 544 خطبه جمعه ۱۴ار تمبر ۱۹۹۰ء کو مختلف سمتوں میں پہاڑیوں پر چھوڑ بھی آؤ تب بھی وہ تمہاری آواز پر اڑتے ہوئے تمہارے قدموں میں پہنچ جائیں گے.اسی طرح انسانی روحوں کی تشخیص ضروری ہوا کرتی ہے ورنہ تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی ورنہ مردے زندہ نہیں ہو سکتے.یہ دنیا جو مادہ پرست ہو چکی ہے اس کی مثال مردوں کی سی ہے اور یہ وہ مردے ہیں جن کو زندہ کرنا آپ کا کام ہے اور زندہ کرنے کی ترکیب خدا تعالیٰ نے سکھا دی ہے.بجائے اس کے کہ بازاروں میں پھر کے صرف لڑیچر تقسیم کر دیا یا اسٹال لگا کے گھر آگئے کہ جی! ہم نے بڑی تبلیغ کر دی.یا ویسے ہی بے ترتیب، بغیر کسی سلیقے کے بغیر کسی پروگرام کے بحشیں چھیڑ دیں اس کا نام تبلیغ نہیں ہے.فَصُرْهُنَّ کے بغیر تبلیغ کا میاب نہیں ہو سکتی.پس آپ کو ، ہر داعی الی اللہ کو لازماً اپنے ایسے دوست بنانے ہوں گے جن کے ساتھ اس کو مسلسل پیار کرنا ہوگا، بہت محبت کا سلوک کرنا ہوگا ، اس کی خدمت کرنی ہوگی.ایسے دوست کو اپنے قریب کرنا ہوگا یہاں تک کہ وہ آپکی دنیاوی آواز پر لبیک کہنے کا اہل ہو جائے ، ایسا شخص آپ کی روحانی آواز کا بھی جواب دے گا.یہ نکتہ ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.پس اچھے شریف لوگوں سے دوستیاں کریں اور امر واقعہ یہ ہے کہ دوستیاں ہم مزاج سے ہی ہوا کرتی ہیں اس سے ایک اور بات یہ سمجھ آگئی کہ جن کے مزاج مختلف ہیں ان پر آپ کیوں وقت ضائع کرتے ہیں.جن کے مزاج ہی اور طرح کے ہیں ان کے ساتھ سر کرانا اور فضول بخشیں کرنا اپنے وقت کا ضیاع ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان کے ساتھ سر ٹکرانا ایسا ہی ہے جیسے سور کے سامنے موتی پھینک دیئے جائیں.سؤر کو موتیوں کی کوئی قدر نہیں ہوتی.پس فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ سے یہ مضمون بھی سمجھ آ گیا کہ ہم مزاج لوگ تلاش کرو.ایسے جو تمہارے مزاج سے ملتے جلتے ہیں.ان سے پیار بڑھاؤ.ان سے تعلقات قائم کرو.ان سے دوستیاں لگاؤ اور ان کو قریب کرتے ہوئے پھران کو زندگی کا پیغام دو.اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ زندہ کرنے والا میں ہوں.اگر تم ایسا کرو گے تو میں زندہ کروں گا.پس اس نکتے کو آزمانا چاہئے.اس نسخے کو پھیلانا چاہئے اور یہ نسخہ خدا والوں کا نسخہ ہے ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام خدا والے تھے.اس لئے ان کے ہاتھ پہ یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا.ایک ایسا شخص جو خودخدا سے تعلق نہیں رکھتا اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک پرندہ جس نے خدا کے ساتھ انس اختیار نہیں کیا.وہ پرندہ جو خدا کی آواز کا جواب نہیں دیتا وہ کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ لوگوں کو خدا کی

Page 550

خطبات طاہر جلد ۹ 545 خطبه جمعه ۱۴ر تمبر ۱۹۹۰ء طرف بلائے اور لوگ اس کی آواز کا جواب دیں.پس پہلے آپ وہ پرندہ بہنیں جو خدا سے زندگی حاصل کرے، پہلے آپ وہ پرندہ بہنیں جو خدا کی ذات سے مانوس ہو جائے اور اس کی آواز پر لبیک کہنا سیکھیں.پھر آپ لوگوں کو اپنے ساتھ مانوس کریں پھر دیکھیں آپ کی آواز میں خدائی طاقت پیدا ہو جائے گی.دنیا کی ان روحوں کی مجال نہیں ہوگی کہ ان کا انکار کر سکیں اور ان کے سامنے اباء کر سکیں.خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ نسخہ سکھایا ہے کہ اس طرح خدا مردے زندہ کیا کرتا ہے.پہلے تم زندہ ہوا اور پھر اسی مثال کے پیچھے چلتے ہوئے خدا کے دوسرے بندوں کو زندہ کرنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور تبلیغ کے صحیح طریق بھی سکھائے اور پھر خوداپنے فضل سے ان کو پھل لگا دے.ایک دفعہ اگر مومن کی تبلیغ کو پھل لگنے شروع ہو جا ئیں تو پھر ایسے درخت بے ثمر نہیں رہا کرتے.ہر موسم میں یہ پھل دیتے ہیں بلکہ وہ درخت جو خدا سے زیادہ گہرا تعلق قائم کر لیتے ہیں ان کے متعلق تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ پھر موسم ہو یا نہ ہو ہر حال میں ہمیشہ یہ پھل دیتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم میں سے یہ ایک کو ہمیشہ ایسا ہی پھل دینے والا باشمر درخت بنا دے.

Page 551

Page 552

خطبات طاہر جلد ۹ 547 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء تمام کام خدا کے فضل سے ہوں گے.اپنا اور اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کے معیار کو بلند کریں.اخلاقی تربیتی ورثہ اپنے بچوں میں بانٹیں.( خطبه جمعه فرموده ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج جمعۃ المبارک کے دن مجلس انصار اللہ UK کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور اس میں شرکت کے لئے یورپ کی بعض دوسری مجالس کے نمائندگان بھی تشریف لائے ہوئے ہیں.اسی طرح آج ہی ماریشس کی جماعت کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا ہے اور امیر صاحب ماریشس کا مجھے پرسوں خط ملا ہے جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ آپ کا یہ خطبہ براہ راست ماریشس میں سنا جا رہا ہوگا اس لئے ہمارے اس جلسے کوملحوظ رکھتے ہوئے چند کلمات ہماری جماعت کو مخاطب کر کے بھی کہیں اس سے جماعت کی حوصلہ افزائی ہوگی.جہاں تک جماعتی نظام کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے.اس پہلو سے کہ پاکستان کی جماعتوں سے باہر پہلے وہ نظام جو پاکستان میں یا اس سے پہلے ہندوستان میں رائج تھا وہ تمام دنیا میں اس طرح تفصیل سے رائج نہیں ہوا تھا بلکہ بالعموم دستور یہی تھا کہ جو مرکزی نمائندہ بطور مربی کسی ملک میں مقرر کیا جائے وہی امیر ہوا کرتا تھا اور دراصل اسی کی

Page 553

خطبات طاہر جلد ۹ 548 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء وساطت سے مرکز سے ساری جماعت کا رابطہ رہتا تھا یا بعض صورتوں میں عدم رابطہ کا بھی وہی ذمہ دار بنتا تھا.گزشتہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ سارے نظام عام کو ہمہ گیر کیا جائے اور جماعت احمد یہ دنیا میں جہاں کہیں بھی پائی جائے ایک ہی نظام کی لڑیوں میں منسلک ہو.ایک ہی اسلوب پر چل رہی ہو اور ملک ملک کا فرق نہ رہے.اس کے ساتھ ہی کچھ عرصہ پہلے ایک یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ صدران مجالس مرکز یہ یعنی خدام الاحمدیہ کے صدر اور انصار اللہ کے صدر اور لجنہ کی صدر، یہ تمام دنیا کے صدران نہ ہوں بلکہ ہر ملک کا صدر اپنے ملک کے لحاظ سے جواب دہ ہو اور وہی اس ملک میں آخری ذمہ دار ہو جس کا تعلق براہ راست خلیفہ وقت سے ہو اور اس طرح دنیا میں ہر صدارت کا نظام بھی پاکستان کے صدارت کے نظام سے متوازی جاری ہو جائے اور یہ نہ ہو کہ صدارتیں پاکستان کی صدارت کے تابع ، ان کی وساطت سے خلیفہ وقت سے رابطہ رکھیں.ان دونوں انتظامی تبدیلیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی بیداری پیدا ہوئی اور نشو و نما کے لحاظ سے ایک ایسے دور میں داخل ہوئی ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی امید افزا ہے بہت تیزی کے ساتھ جماعت کے ہر حصے، ہر شعبے اور ہر طبقہ زندگی میں بیداری پیدا ہورہی ہے.اس کے نتیجے میں ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہیں اور بعض امراء پر اور بعض صدران پر اتنا بڑا بوجھ پڑا ہے کہ بعض دفعہ وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ راہنمائی کے لئے مجھے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی کام اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور جماعتی معاملات میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد اس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پھر نئے نئے پروگرام بھی ملتے چلے جارہے ہیں تو کس طرح ہم ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں گے.صرف ملکی سطح ہی پر نہیں بلکہ ملک کے اندر مقامی سطح پر بھی بعض احمدیوں پر جب ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو وہ اس ذمہ داری کے تقاضوں کے خیال سے لرزتے ہیں اور بڑے ہی انکسار اور لجاجت سے خط لکھتے ہیں کہ ہم کیسے اس اہم ذمہ داری کو ادا کر سکیں گے.تو جہاں بیداری عام ہوتی چلی جارہی ہے وہیں بیداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذمہ داریاں بھی ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہیں.اس پہلو سے میں نے سوچا کہ آج دو باتوں کی طرف تمام دنیا کے امراء کو بھی اور صدران کو بھی اور اسی طرح ان تمام عہدیدران کو متوجہ کروں جن دو باتوں پر نظام جماعت کا انحصار ہے اور اسی

Page 554

خطبات طاہر جلد ۹ 549 خطبه جمعه ۲۱ / ستمبر ۱۹۹۰ء طرح باقی عہدیداران بھی اس نصیحت میں شامل ہیں.اگر وہ ان باتوں کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر کے ان سے منسلک ہو جائیں گے، زندگی بھر ان باتوں سے چھٹے رہیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ان کے سارے مسائل آسانی سے حل ہوں گے اور جماعت احمدیہ کے نظام کو چلانے کے متعلق کسی قسم کی بلا وجہ کی فکر لاحق نہیں ہوگی.ایک فکر تو وہ ہوتی ہے جو ہر ذمہ دار آدمی کو ذمہ داری کے ساتھ ہی لاحق ہو جاتی ہے.اس کا تعلق تو اس کی زندگی سے ہے.موت تک یہ فکر اس کو دامنگیر رہتی ہے اور ایک فکر وہ ہوتی ہے جو بدانتظامی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.پس میں جس فکر کے دور ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں وہ بدا نتظامی کے دور ہونے کی فکر سے نجات کی خوشخبری دیتا ہوں.ذمہ داری کے فکر سے نجات کی خوشخبری نہیں وہ اگر میں دوں تو ایک بری خبر ہوگی.تو ہر عہدیدار اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، ایک فکر میں تو مبتلا ہے اور زندگی بھر مبتلا رہے گا اس کا فکر میں مبتلا رہنا اس کی زندگی کی علامت ہے اور اس کے اس فکر کے بڑھنے کی دعا کرنی چاہئے کم ہونے کی نہیں.لیکن جہاں کام کے بوجھ بڑھنے کے نتیجے میں خلا رہ جاتے ہیں اور عہدیداران کی تربیت کی کمی کی وجہ سے پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں وہ فکریں بہر حال دور ہونی چاہیں اور ان کے دور ہونے کے علاج بھی سوچتے رہنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی فکروں سے ہمارے تمام عہدیداران کو آزاد کرے.پہلی بات تو اس مثال کے ساتھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو غالبا پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اور آپ میں سے کئی نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کتاب میں پڑھی بھی ہوگی.ایک موقعہ پر ان کی والدہ سے ہندوستان کے وائسرائے نے یہ سوال کیا کہ مجھے بتائیں کہ کیا ایک چھوٹے سے گھر کا انتظام چلانا زیادہ مشکل ہے یا ایک ایسی عظیم سلطنت کا انتظام چلانا جس پر سورج نہ غروب ہوتا ہو.تو ان کی والدہ نے بڑے تحمل سے اور بڑی گہری فکر کیساتھ جواب دیا کہ اگر خدا کا فضل شامل حال نہ ہو تو چھوٹے چھوٹے گھر کا انتظام بھی چلایا نہیں جاسکتا چھوٹی سے چھوٹی ذمہ داری کو بھی ادا نہیں کیا جاسکتا اور اگر خدا کا فضل شامل حال ہو جائے تو بڑی سے بڑی سلطنت کا انتظام چلانا بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہر پہلو سے آسان ہو جاتا ہے خود بخود چلنے لگتا ہے.تقویٰ کی کتنی گہری بات ہے جو صرف متقیوں کو نصیب ہو سکتی ہے اور ایک عارف باللہ کا کلام ہے اس کے سوا کسی کے ذہن میں ایسا خوبصورت، ایسا حسین ، ایسا حقیقی جواب آہی نہیں سکتا.

Page 555

خطبات طاہر جلد ۹ 550 خطبه جمعه ۲۱ / ستمبر ۱۹۹۰ء پس اس بات کو یاد رکھیں کہ جماعتی ذمہ داریاں بڑھنے کے نتیجے میں جہاں آپ کی ذمہ داریاں بڑھتی ہیں وہاں اللہ سے تعلق رکھنے کے نتیجے میں اللہ تعالی کی ذمہ داریاں بڑھتی ہیں اور وہ بندے جو خدا سے پیار کرتے ہیں اور خدا پر انحصار کرتے ہیں ان کے کام خدا خود آسان کر دیتا ہے اور ان کے کام از خود رواں ہو جاتے ہیں اس لئے سب سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ کاموں کے بڑھنے کے نتیجے میں آپ خدا سے تعلق بڑھا ئیں اور اس پر انحصار کریں.اس کا برعکس بہت ہی خطرناک ہے جہاں آپ یہ خیال کریں کہ گویا آپ کے زور پر کام چل رہے ہیں وہاں نفسانیت کا ایک کیٹر ا داخل ہو جاتا ہے جو نیک اعمال کو کھانے لگتا ہے اور وہیں کاموں میں خرابی کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں، خرابی کا آغاز شروع ہو جاتا ہے.اس لئے وہ لوگ جو خدا ہی پر تو کل رکھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ سارے کام خدا کے فضلوں سے چلیں گے وہ ہمیشہ دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے کام بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بہتر ہونے کے نتیجے میں ان کو تکبر کی ٹھو کر نہیں لگتی بلکہ انکسار بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ پر تو کل بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھتی ہے.اس کے لئے دل میں تشکر کے زیادہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس کے رد عمل کے نتیجے میں پھر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوتا ہے کہ جو بھی میرا شکر گزار بندہ ہو گا اس کو میں مزید دوں گا.پس سب سے اہم نکتہ یہی ہے جس کو آپ یا درکھیں، پلے باندھ لیں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی بھلائیں نہیں کہ انتظام خواہ کتنے ہی بڑے اور وسیع تر ہوتے چلے جائیں خدا کے فضل سے چلیں گے اور جولوگ خدا سے تعلق رکھتے ہیں ان کے کام آسان ہو جایا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ خودا اپنے فضل سے و وہ کام بنا دیتا ہے اس لئے اپنا تعلق بڑھائیں اور پھر دعاؤں پر زور دیں اور یا درکھیں کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے سب سے پہلا خیال دعا کا ہونا چاہئے اور سب سے پہلا سہارا خدا کا ڈھونڈ نا چاہئے یہ عادت زندگی بھر آپ کے کام آئے گی اور ہمیشہ آپ کے سارے کام آسان کرتی چلی جائے گی.دوسرا پہلو تقوی کا ہے جس کا اسی سے تعلق ہے.اللہ سے تعلق بڑھانا ہو تو تقویٰ کا معیار بھی بڑھانا چاہئے اور اس پر میں بہت دفعہ گفتگو کر چکا ہوں لیکن یہ مضمون اتنا وسیع ہے بلکہ عملاً لا متناہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح خدا کی ذات لامتناہی ہے اس طرح تقویٰ کا مضمون بھی لا متناہی ہے کیونکہ اس کا خدا کی ذات سے گہرا تعلق ہے.تقویٰ کا تمام تر انحصار اللہ تعالیٰ پر ہے اس لئے متقی کے

Page 556

خطبات طاہر جلد ۹ 551 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء بلند مراتب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تقویٰ کا مضمون بھی پھیلتا چلا جاتا ہے اور وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی کوئی حد نہیں آتی.اس پہلو سے خواہ لاکھ خطبات بھی دیئے جائیں یہ مضمون اپنی ذات میں ختم ہونے والا مضمون نہیں.آج میں اسی پہلو سے امراء کو اور دیگر عہدیداران کو، صدران مجالس ہوں یا دیگر عہد یداران ہوں، ان کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس دعا کو جس کی طرف میں پہلے بھی متوجہ کر چکا ہوں اس کو خصوصیت کے ساتھ اپنا لا زمہ بنالیں.اس دعا کے ساتھ چمٹ جائیں اور اس دعا کو اپنے ساتھ چمٹا لیں اور وہ یہ ہے کہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کہ اے خدا! ہمیں متقیوں کا امام بنا.یہ دعا کرتے ہوئے جب وہ اس پر غور کریں گے تو اس کے نتیجے میں نئے نئے مضامین ان کو سجھائی دیں گے اور وہ مضامین ان کے کام آسان کریں گے.خاص طور پر اس مضمون کو پیش نظر رکھیں کہ اگر کوئی امیر ہے یا صدر ہے یا جیسا کہ میں نے کہا ہے دوسرا عہد یدار ہے،اس کا کام تب اچھا ہوگا اگر وہ متقیوں کا امام بننے کی دعا بھی کرے گا اور کوشش بھی کرے گا اور اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کا معیار بڑھانے کی کوشش کرے گا.عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ منتظمین یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اگر حسن انتظام سے آراستہ ہوں یعنی ہم میں یہ صلاحیت ہو کہ ہم اچھا انتظام چلا سکیں تو یہی کافی ہے حالانکہ ہرگز یہ کافی نہیں ہے.حسن انتظام اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے لیکن وہ مہرے جن کو اس نے چلانا ہے وہ مادہ جس سے اس نے کام لینا ہے اس کی اپنی صفات ہیں، اپنی حصلتیں ہیں جن کے اچھے ہونے کے نتیجے میں حسن انتظام بہتر پھل لائے گا اور جن کے کمزور ہونے کے نتیجے میں حسن انتظام کو بھی اسی طرح کمزور اور ناقص پھل لگیں گے.ہماری جماعت کا کارکن وہ مادہ ہے جس کا معیار بڑھانا ضروری ہے اگر اس مادے کو تقویٰ نصیب ہو تو اس کے اندر نئی صفات ابھریں گی ، نئی خصوصیات پیدا ہوں گی اور ایک اچھا منتظم ایسے مادے سے بہت بڑے بڑے کام لے سکتا ہے.اگر تقویٰ کا معیار گرا ہو تو یہ ایک بوسیدہ اور بریکار مادہ ہوگا جس کے نتیجے میں اچھے سے اچھا حسن انتظام بھی اس پر اچھا عمل نہیں دکھا سکتا اور اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا.جو بوسیدہ چیز ہے اس کو کہاں تک آپ سنبھال سکتے ہیں جو شکل بھی دیں گے وہ شکل عارضی ثابت ہوگی اور رخنوں والی ہوگی.اس لئے مٹیریل یعنی مادے کا اچھا ہونا بہت ہی ضروری ہے

Page 557

خطبات طاہر جلد ۹ 552 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء اور یہ دعا ہمیں یہ بات سکھاتی ہے کہ دینی انتظامات میں، دینی معاملات میں ہرا میر ، ہر صاحب عمل کو اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کا معیار بڑھانے کی فکر کرنی چاہئے ورنہ وہ دعا اثر نہیں دکھائے گی جس کے ساتھ اس دعا کی تائید میں نیک اعمال شامل نہ ہوں.یہ وہ عمل صالح ہے جو دعا کو رفعت عطا کرتا ہے.پس ہر دعا کیساتھ عمل صالح کا ایک مضمون بھی چسپاں ہے، اس کے ساتھ وابستہ ہے، اس کو لازم ہے اور اسی عمل صالح کو اختیار کرنا چاہئے جس کے لئے دعا کی جاری ہے.پس تمام امراء اور تمام عہدیداران کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ان کی اپنی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ جہاں وہ اپنے لئے متقیوں کا امام ہونے کی دعا کریں وہاں اپنے ماتحتوں کا تقویٰ کا معیار بڑھانے کی کوشش کریں اور اس پہلو سے مجھے یہ خلا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت کے ہمارے بہت سے منتظمین بھی اس کو براہ راست اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دوا لگ الگ باتیں ہیں.ہم ہیں انتظام کے سربراہ اور مربیان یا بعض بزرگ لوگ تقویٰ کے سربراہ ہیں اور گویا یہ دوا لگ الگ چیزیں ہیں حالانکہ جماعت احمدیہ میں جو ایک روحانی جماعت ہے حسن انتظام کو حسن تقویٰ سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا.ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.مومن کی زندگی کے وجود کا تقویٰ ایک دائمی حصہ ہے.اس لئے یہ باطل تصور دل سے بالکل نکال دیں کہ آپ منتظم ہیں اور تقویٰ کے نگران اور لوگ ہیں.آپ ہی منتظم ہیں اور آپ ہی تقویٰ کے نگران بھی ہیں اس لئے سب سے زیادہ آپ کی نظر اپنے ماتحت کارکنوں کے تقویٰ پر بھی ہونی چاہئے اور عام افراد جماعت کے تقویٰ پر بھی ہونی چاہئے اور ہمیشہ اس فکر میں غلطاں رہنا چاہئے کہ میرے دائرہ کار میں جو احمدی بستے ہیں خواہ کسی حیثیت سے بھی ہوں ، کسی عمر سے تعلق رکھنے والے ہوں ، ان کے تقویٰ کا کیا حال ہے ان پر نظر رکھنی ضروری ہے ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ہمیشہ تجزیاتی نظر اختیار کرنی چاہئے.لیکن تجزیاتی نظر سے مراد تخریبی ، تنقیدی نظر نہیں یا منتقمانہ نظر نہیں اس معاملے میں جماعت کو بار بار نصیحت کی ضرورت ہے.بعض لوگ اپنی خشکی کو نیکی سمجھنے لگتے ہیں اور خشک مزاجی کی وجہ سے کیونکہ وہ بدی کرنے کے اہل ہی نہیں ہوتے ، کیونکہ مزاج ہی بڑا خشک ہوتا ہے اس میں رس ہی کوئی نہیں ہوتا ، اس سے کوئی نچوڑے گا کیا؟ نہ نیکی نچڑتی ہے نہ بدی نچڑتی ہے اور وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم تقویٰ کے بڑے اعلیٰ

Page 558

خطبات طاہر جلد ۹ 553 خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء معیار پر فائز ہیں اور ان کی علامت یہ ہے کہ ان کی تنقیدی نظر ہمیشہ لوگوں کو چھلنی کرتی رہتی ہے اور کبھی اندرونی نظر سے اپنے آپ کو نہیں دیکھتے اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ میری باتیں کس کو تکلیف پہنچاتی ہیں یا آرام پہنچا رہی ہیں.میں بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے باتیں کر رہا ہوں یا اپنا ایک دیا ہوا جذبہ انتقام پورا کر رہا ہوں اور یہ ظاہر کر رہا ہوں کہ میں بہتر ہوں تم لوگ گندے ہو.ایسے لوگ نیکوں پر بھی تنقید کرتے ہیں یہ بتانے کے لئے جی یہ فلاں بات میں تو نیک ہوگا.آپ کو لگتا ہوگا اندر سے پھولوتو یہ حال ہے اور گویا خدا نے ان کو داروغہ بنایا ہوا ہے.اندر سے پھولنے کا ، یہ پھولنے کا لفظ پنجابی ہے لیکن ہے بہت برحل اطلاق پانے والا اس لئے میں نے عمداً اس کو استعمال کیا ہے.یعنی کرید کرید کر اندر سے تلاش کر کے قریب سے دیکھ کر معلوم کرنا کہ کون کون سے نقص اس پردے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں جو خدا کی ستاری کا پردہ ہے.پس یہ خدا کی ستاری کے پردے کو چاک کر کے اس سے پرے جھانک کر مومنوں کی برائیاں تلاش کرنے والے لوگ ہوتے ہیں.امیر کا منتظم کا ایسی آنکھ سے احتراز ضروری ہے اور ایسی سرشت سے اس کو تو بہ کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا چاہئے.اس کی نظر بالکل اور طریق سے اپنی جماعت کو ، اپنے ماتحتوں کو دیکھتی ہے.جیسے ماں اپنے بچے کو دیکھ رہی ہوتی ہے.اس کی نظر میں پیار ہوتا ہے، اس کی نظر میں فکر ہوتا ہے، اس کی نظر جب کسی برائی کو تلاش کرتی ہے تو اس کو گہر اغم لگا دیتی ہے، روگ لگا دیتی ہے اور وہ بے چین ہو جاتا ہے دوسرے کو بے چین نہیں کرتا خود بے چین ہوتا ہے اور اس بے چینی کے نتیجے میں اس کے دل سے جو دعا میں اٹھتی ہیں ان میں ایک عجیب شان پیدا ہو جاتی ہے جو مقبولیت کی شان ہے اور اس کی نصیحت میں اثر پیدا ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے خامیوں پر نظر رکھیں کیونکہ خامیوں کو دُور کرنے کی ذمہ داری ہر عہدیدار کی ذمہ داری ہے جو اپنے دائرہ کار میں اثر دکھائے لیکن اس نظر سے جس نظر سے میں نے آپ کو تلقین کی ہے اس نظر سے خامیوں پر نگاہ رکھیں اور ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں اور یاد رکھیں کہ جتنا زیادہ آپ اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کے معیار کو بلند کریں گے اتنے ہی عظیم الشان کامیاب منتظم ثابت ہوں گے اور اللہ کی نظر میں آپ کا اپنا مرتبہ بلند ہوگا.اس سلسلے میں ایک اور چیز بھی ہے جو قرآن کریم ہمیں تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کے لئے بتاتا ہے.اس کو خصوصیت سے پیش نظر رکھنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ

Page 559

خطبات طاہر جلد ۹ 554 خطبه جمعه ۲۱ / تمبر ۱۹۹۰ء (الحجرات (۴) تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو.یہ بات بالکل درست ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز شخص وہی شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو.لیکن یہ بات بھی تو درست ہے کہ جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہوگا وہ سب سے زیادہ اللہ کے رنگ ڈھنگ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا.پس ہر متقی کا کام ہے کہ تقویٰ کو عزت دے.کیونکہ تقوی خدا کی نظر میں عزت پاتا ہے.یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس کو اپنے روز مرہ کے معاملات میں اختیار کرنے کے نتیجے میں جماعت میں تقویٰ کی قدر و قیمت بڑھے گی اور اس سلسلے میں بھی بعض خطرات ہیں جن سے بیچ کر چلنا ضروری ہے.قادیان میں مجھے یاد ہے کہ ہم نے یہ باتیں ورثے میں پائی تھیں یعنی وہ نسلیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے ساتھ مل کر بڑھی ہیں اور اس ماحول کو انہوں نے پایا ہے.ان کی اپنی کوئی خوبی نہیں تھی مگر صحابہ کی جو تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی تھی اس کے نتیجے میں یہ روز مرہ کی باتیں تھیں جن کا نصیحت سے تعلق نہیں تھا بلکہ ایک معاشرتی ورثہ تھا اور اس ورثے میں یہ بات شامل تھی کہ عزت کے لائق وہی ہے جو نیک ہے اور اس میں یہ کلاس کا جو فرق ہے یہ بالکل کلیۂ نظر انداز ہو جایا کرتا تھا یعنی مختلف طبقات جو دنیا کی نظر میں یعنی دنیا کے پیمانوں سے بنائے جاتے ہیں اور جن میں دنیا وی وجاہت ، عہدہ، مقام، مرتبہ، دولت یہ سارے وہ محرکات ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کلاسز کا وجود ابھرتا ہے اور طبقات بنتے ہیں.یہ بھی ایک طبعی روز مرہ جاری رہنے والا سوشل نظام ہے اور اس سے مومن بھی کلیاً بچ ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ ایک نظام ہے جو خود بخود تشکیل پاتا چلا جاتا ہے اور طبقات ابھرتے چلے جاتے ہیں لیکن جہاں تک عزتوں کا تعلق ہے وہاں عزتوں کے معاملے میں مومن ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو پیش نظر رکھتا ہے کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ الْقُكُمْ (الحجرات : ۱۴) طبقات بے شک ہوں.ہم نے تمہیں شعوب اور قبائل میں بھی تقسیم کیا ہوا ہے اس طرح انسان بھی طبقات میں بٹ جاتا ہے لیکن جہاں تک عزتوں کا تعلق ہے، تم ہمیشہ تقوی کو عزت دینا کیونکہ خدا تقومی کو عزت دیتا ہے.اس اصول کو ہم نے قادیان میں اس زمانے میں کارفرما دیکھا جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور یہ میں

Page 560

خطبات طاہر جلد ۹ 555 خطبه جمعه ۲۱ / ستمبر ۱۹۹۰ء بتانا چاہتا تھا کہ اس کا نصیحتوں سے تعلق نہیں تھا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اخلاقی تربیتی ورثہ تھا جوان نسلوں نے پایا تھا.اس ورثے کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے.اب وہ دور آ گیا ہے جس دور میں اس ورثہ کو دوبارہ بڑھانا چاہئے کیونکہ تمام دنیا میں پھیلنے والی جماعتوں نے یہ ورثہ از خود اپنے آباؤ اجداد سے نہیں پایا.اس لئے میں نے لفظ سرمایہ کاری استعمال کیا.یہ جماعت احمدیہ کا بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے اور تعداد کے مقابل پر یہ سرمایہ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اس لئے اس سرمائے کو بڑی حکمت کے ساتھ اور بڑی محنت کیساتھ دانش مندی سے بڑھانا چاہئے اور حرکت میں لانا چاہئے.پس امراء اور عہدیداران اگر یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ تقویٰ کو عزت ملنی چاہئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سرمایہ دوبارہ نشو ونما پانے لگے گا اور جماعت پھر اس پہلو سے بہت ہی متمول ہوتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ ہم اس دور کی تمام نسل کو اس پہلو سے اتنا متمول اور غنی کر دیں کہ آئندہ آنے والی نسل پھر شکر کے ساتھ ان کی طرف دیکھے جس طرح ہم نے بڑے ہی شکر کے ساتھ جھکی ہوئی نگاہوں سے اپنی پہلی نسلوں کو دیکھا تھا اور اس بات کو ہمیشہ دل میں جانشین کیا کہ ہم ان کی دولتوں کا سرمایہ حاصل کرنے والی نسل ہیں.ویسا ہی آج کی نسل خدا کرے کہ اس پہلو سے اتنی متمول ہو جائے کہ وہ آئندہ آنے والی تمام نسلوں کو جو ساری دنیا میں کہیں بھی ہوں ان کو یہ سرمایہ عطا کرنے والی نسل بنے اور یہ سرمایہ ان کے ہاتھوں میں چھوڑ کر جانے والی نسل بنے.اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بعض خطرات بھی ہوتے ہیں یا ریا کاری بھی بعض دفعہ شروع ہو جاتی ہیں اور تصنعات بھی آجاتے ہیں، بعض اور بھی کئی قسم کے ایسے خطرات اُبھرتے ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے میں مختصراً آپ کو بتا تا ہوں کہ قادیان کا معاشرہ تھا کیا؟ ایک ایسا عجیب معاشرہ تھا جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں.وہاں ایک غریب مزدور جو سارا دن محنت کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا، بچے تھے تو ان کی نگرانی بھی اسی محنت سے کرتا تھا، وہ بعض دفعہ اپنی نیکی کی وجہ سے ایسی عزت کے مقام پاتا تھا کہ بڑے بڑے دنیاوی طبقات سے تعلق رکھنے والے جھک کر اس سے ملتے تھے ، اس کو محبت اور پیار اور اکرام کی نظر سے دیکھتے تھے.مصافحہ کرتے وقت عزت کے ساتھ مصافحہ کیا کرتے تھے اور دعا کی درخواست کرتے تھے.ایسے فقیر بھی وہاں تھے جن کی

Page 561

خطبات طاہر جلد ۹ 556 خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء بے حد عزت کی جاتی تھی.مجھے یاد آیا ہماری مسجد مبارک کے نیچے سیڑھیاں اترتے ہی بائیں طرف ایک چبوترے کے اوپر شمس الدین مرحوم ایک درویش تھے جو مفلوج تھے اور ان کا گزارا بھیک پر تھا لیکن شاید کم ہی دنیا کے کسی بھکاری نے اتنی عزت پائی ہو جتنی بھائی شمس الدین کی عزت کی جاتی تھی کیونکہ یہ بھی ہمارے معاشرہ کا ورثہ تھا کہ چونکہ وہ نیک انسان تھے اور خدا سے تعلق رکھنے والے انسان تھے اور بھکاری اس رنگ کے نہیں تھے کہ بھیک کی خاطر بیٹھے ہوں.ایک مفلوج آدمی بیٹھا تھا جو آئے کبھی عزت اور محبت کے ساتھ کچھ دے جائے تو اس کو دعا دے کر قبول کرتے تھے اور اسی سے چندے بھی دیا کرتے تھے.ان کے اس مقام کا ایک احترام قائم تھا اور بچے بھی جب گزرتے تھے تو بھائی شمس الدین کہہ کے ، سلام کر کے ادب سے جھک کر وہاں سے گزرا کرتے تھے.وہاں بعض پاگلوں کی بھی عزت کی جاتی تھی کیونکہ وہ نیکی کی حالت میں پاگل ہوئے اور پاگل پن کی حالت میں بھی نیکی ساتھ چل رہی تھی اور ان کے ساتھ بھی بڑی محبت اور احترام کا سلوک کیا جاتا تھا.چنانچہ ایک ایسے ہی پاگل تھے جو مجھے یاد ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مردانے میں بڑے حق کے ساتھ داخل ہوا کرتے تھے ، ان کا جو مطالبہ ہو وہ وہاں پورا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی.مجلس میں بیٹھتے تھے اپنے رنگ کی باتیں کر کے چلے جایا کرتے تھے اور پاگل پن تو تھا لیکن پاگل پن کے ساتھ کچھ نیکی کی حکمت بھی ہوتی تھی.وہ جو ہمارے معاشرے میں مجذوب کا تصور پیدا ہوا ہے وہ غالبا اسی وجہ سے ہوا ہے جو بیرونی معاشروں میں نہیں ملتا.مجذوب ایسے پاگل کو کہتے ہیں جو غالباً پاگل ہونے سے پہلے خدا سے تعلق رکھنے والا ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے پاگل پن میں بھی اس تعلق کی جزاء اس کو ملتی رہتی ہے اور اس کے منہ سے بعض دفعہ بہت سے عارفانہ کلمات جاری ہوتے رہتے ہیں.جہاں جاہل سوسائٹی ہو وہاں وہ اس نکتے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پاگلوں کی عزت کرنے لگ جاتے ہیں.ہر فقیر، پاگل ، بے وقوف خواہ وہ گندہی بکنے والا ہو اس کی بھی عزت کرنے لگ جاتے ہیں.کہتے ہیں جی ! مجذوب ہے حالانکہ یہ جہالت ہے.ہر شخص مجذوب نہیں ہوا کرتا.مجذوب وہ پاگل ہے جس کے پاگل پن میں بھی خدا کے تعلق کے آثار ظاہر ہوں اور بسا اوقات اس کے منہ سے عرفان کی باتیں جاری ہوتی ہیں جو قرآن و حدیث اور سنت کے مضامین کے مطابق ہوتی ہیں ان سے ٹکرانے والی نہیں.بہر حال جب ایسی سوسائٹی ہو تو جیسے میں نے بیان کیا ہے یہ عزتیں طبقات کے پیش نظر

Page 562

خطبات طاہر جلد ۹ 557 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء نہیں کی جاتیں بلکہ تقویٰ کے پیش نظر کی جاتی ہیں.وہاں ایسے بھی بزرگ تھے جو ہر لحاظ سے بلند مقام اور مراتب رکھتے تھے ، اپنے عہدوں کے لحاظ سے بھی، دنیا کے لحاظ سے بھی.ان کو اس وجہ سے کہ خدا نے ان کو دنیاوی عزت دی ہے حسد کا شکار نہیں بنایا جا تا تھا.تقویٰ کی سوسائٹی کا ایک یہ بھی پہلو ہے جسے پیش نظر رکھنا چاہئے.بعض جہلاء تقویٰ کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ صرف غریب کی عزت کی جائے اور امیر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن متقی وہ ہے جو تقویٰ کی عزت کرتا ہے تقویٰ اگر گودڑی میں بھی دکھائی دے تو وہ اس سے محبت کرے گا اور پیار کرے گا اگر شاہانہ فاخرانہ لباس میں بھی دکھائی دے تب بھی وہ تقویٰ سے پیار کرے گا نہ گودڑی کے چیتھڑے اسے تقویٰ کی عزت کرنے سے باز رکھ سکیں گے، نہ فاخرانہ لباس کی چمک دمک اس کی نظر میں شامل ہو سکے گی کیونکہ اس کی نظر تقویٰ کی عاشق ہوتی ہے.جہاں بھی دکھائی دے وہ اس کی عزت کرتی ہے.پس یہ تقویٰ کا وہ اکرام ہے جو ہم نے اس آیت کریمہ سے سیکھا.جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انْقُكُمْ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ تمہارا خدا تقویٰ کو عزت دیتا ہے.اگر اس خدا سے تمہیں محبت اور تعلق ہے تو تم بھی ہمیشہ تقوی کو عزت دینا.اگر سوسائٹی میں تقویٰ کو عزت دی جائے تو تقویٰ پہنچتا ہے اور بڑی عمدگی سے نشو ونما پاتا ہے جیسے بہار میں پودے جو پہلے مرجھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ از خودنئی نئی کونپلیں نکالنے لگتے ہیں.نئے رنگ ان پر ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح تقومی کے لئے ایک ماحول کی ضرورت ہے اور یہ ماحول جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.یہ تقویٰ کی افزائش میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں جیسا کہ بہار ہو یا برسات ہو تو بعض غلط جڑی بوٹیاں بھی سر نکالنے لگتی ہیں ایسے ماحول میں بعض دفعہ دنیا دار لوگ بھی نیکی کے لبادے اوڑھ کر ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں نمائش آجاتی ہے اور وہ تقویٰ کو بعض دفعہ پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.ایسی عورتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو پیر بنتی ہیں اور ان کی جو ایجنٹس ہیں وہ مشہور کرتی ہیں کہ فلاں بی بی جو ہے وہ بڑی نیک ہے وہ اتنی تہجد پڑھتی ہے اتنی نمازیں پڑھتی ہے کسی ضرورت کے وقت اس کے دربار میں حاضری دو گے مرادیں پوری ہوں گی.یہ مرض بڑھ کر پھر قبر پرستی تک پہنچ جایا کرتی ہے.ایسے خطرناک اڈوں سے پناہ مانگنی بھی ضروری ہے اور بعض باتیں جو بچے تقویٰ اور دکھاوے کے تقویٰ میں تفریق کرنے والی ہیں ان کو آپ پیش نظر رکھیں.

Page 563

خطبات طاہر جلد ۹ 558 خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء مجھے یاد ہے حضرت مصلح موعود اس معاملے میں بڑی ہی باریک اور نگران نظر رکھتے تھے.اس لئے بعض لوگ جن کی طرف لوگوں کا رجحان ہوتا تھا اس پر وہ سخت رد عمل دکھایا کرتے تھے اور بعض لوگ جن کی طرف لوگوں کا رجحان ہوتا تھا اس پر نہ صرف یہ کہ رد عمل نہیں دکھاتے تھے بلکہ خود بھی ان کو دعاؤں کے لئے لکھتے تھے.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مولوی سرور شاہ صاحب ، اسی قسم کے کثرت سے اور بزرگ تھے ، حضرت مفتی محمد صادق احب، جن کو حضرت مصلح موعودؓ ہر موقعہ پر دعا کے لئے لکھا کرتے تھے اور محبت اور احترام سے پیش آتے تھے اور جہاں تک توفیق ملتی تھی ان کی خدمت بھی کیا کرتے تھے یعنی عام خدمتوں کے علاوہ بھی ان سے محبت اور ہدیے دینے کا تعلق بھی رکھتے تھے لیکن بعض لوگ جو نیکی کے نام پر سر اٹھاتے تھے ان پر وہ اس طرح برستے تھے جس طرح آسمان سے بجلی کڑک کے ٹوٹتی ہے اور بڑے سخت ان کے بارے میں پریشان ہو جاتے تھے.اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی آنکھ اللہ کے نور سے دیکھتی تھی اور آپ جانتے تھے کہ کہاں فتنہ پیدا کرنے والی نیکی ہے جو بظاہر نیکی ہے لیکن حقیقت میں تقویٰ سے عاری ہے اور کہاں سچا تقویٰ ہے.اس کی ایک اور پہچان بھی جو عام نظر سے بھی سامنے آجاتی ہے اور وہ یہ ہے.کہ قرآن کریم فرماتا ہے.وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ خدا سے تعلق رکھنے والے جو متقی ہیں تقویٰ کی تعریف ہی ہو رہی ہے کہ وہ کیا ہے؟) فرمایا منتقی وہ لوگ ہیں کہ خدا جو ان کو دیتا ہے وہ خدا کی راہ میں آگے جاری کرتے ہیں.پس وہ بزرگ جن کا میں نے ذکر کیا جو بچے بزرگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پروردہ تھے ان کو ایک ہاتھ سے ملتا تھا تو وہ دوسرے ہاتھ سے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے.ایک ہاتھ سے ملتا تھا تو دوسرے ہاتھ سے وہ جماعت پر خرچ کیا کرتے تھے.اور ضرورتمندوں کی ضرورت پورا کرنے پر نگران اور مستعد رہا کرتے تھے اور یہ وہ بات تھی جو ان کو عام لوگوں سے جولوگوں کی دولتیں بٹورنے کی خاطر بزرگ بنتے ہیں ان سے ممتاز اور الگ کر دیا کرتی تھی.یہ جو نیک بیبیوں کے اڈے بعض دفعہ بن جاتے ہیں اور غیر احمد یوں میں تو کثرت سے یہ رواج ہے ان میں بھی آپ یہ بات دیکھیں گے کہ یہ نیک بیبیاں چندوں میں پیچھے ہوں گی بلکہ شاید نہ ہی دیتی ہوں اور غریبوں پر خرچ کرنے والی نہیں ہوں گی بلکہ اپنے تقویٰ کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنا ایک بلند مقام بنا کر گدی بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور ایسے نیک مرد بھی ہوتے ہیں یعنی بظاہر نیک مرد اور پھر

Page 564

خطبات طاہر جلد ۹ 559 خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء بعضوں کے ملے جلے حالات بھی ہوتے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا حال ہے ، کچھ خرچ کرنے والے بھی ہیں لیکن بعض دفعہ ریا کاری ان کو نقصان پہنچا رہی ہوتی ہے.نیک بنے کا شوق اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی ان سے جھک کر سلام کرتا ہے.ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے اور بڑے مزے سے ہاتھوں کو لمبا کر کے اس پہ بوسہ وصول کرتے ہیں اور متقی وہ ہے جو شرم سے غرق ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اگر یہ شخص میری بدیوں پر نظر ڈالے تو متنفر ہو کر مجھے پیٹھ دکھا کر چلا جائے اور اب ان دونوں کے دل کے معاملات ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون متقی ہے اور کون نہیں مگر وہ لوگ جن کو خدا اپنا نور عطا کرتا ہے وہ ظاہری طور پر ثبوت نہ ہونے کے باوجود جانتے ہیں کہ کن میں بچے تقویٰ کی روح ہے اور کن میں بچے تقویٰ کی روح نہیں ہے.اس دوسرے پہلو سے تقویٰ کا معیار بڑھانے کے لئے انکسار کا معیار بڑھانا ضروری ہے.یا درکھیں کہ تقویٰ کی جڑیں جتنی گہری ہوں اتنا ہی زیادہ تقویٰ کا درخت نشو ونما پاتا ہے اور تقویٰ کی جڑیں گہری ہونے کا مطلب انکسار کا بڑھنا ہے.جتنا زیادہ کسی شخص میں عارفانہ انکسار ہو گا اتنا ہی زیادہ اس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہوں گی اور اتنا ہی زیادہ صحیح معنوں میں اس کا تقویٰ کا درخت نشو ونما پائے گا.اس مضمون کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا: أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم: ۲۵) کہ وہ کلمات طیبہ جو خدا کے کلام کا مظہر ہوا کرتے ہیں ان کی مثال ایسے درختوں کی ہے جن کی جڑیں ثابت ہوں اور جن کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے والی ہوں.یہاں لفظ ثابت استعمال کیا گیا.یہ نہیں فرمایا گیا کہ جڑیں گہر میں ہو لیکن اس ایک لفظ ثابت نے دو مضامین بیان کر دیئے کیونکہ بعض درخت جن کی جڑیں گہری ہوں اور کھوکھلی ہوں یعنی اندرونی طور پر بیماریوں کی شکار بھی ہوں وہ ثابت نہیں ہو سکتے اور بعض دفعہ اپنے مادے کے مزاج کے لحاظ سے یعنی قدرت نے مادے کو جو صفت بخشی ہے اس پہلو سے بعضوں کی جڑیں ویسے ہی کمزور ہوتی ہیں.گہری ہوتی ہیں مگر جب آندھی چلتی ہے تو وہ درخت یوں جڑوں سے ٹوٹ کے گر جاتے ہیں اور اگر گہری نہ ہوں اور مضبوط ہوں اور زمین کی سطح پر پھیلی ہوں جیسا کہ عموماً یورپین درختوں میں یہ بات پائی جاتی ہے.تو بڑے بڑے تناور درخت بہت اچھے لہلہاتے ہوئے نشو ونما پاتے ہوئے ہر موسم میں ترقی کرتے ہوئے درخت آندھی کے مقابل پر اس

Page 565

خطبات طاہر جلد ۹ 560 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء طرح منہدم ہو جاتے ہیں جس طرح بعض دفعہ کھو کھلی جڑوں والے درخت گر جاتے ہیں.پیچھے جب آندھیاں آئیں تو جن پارکوں میں، کبھی کسی میں کبھی کسی میں ، ہم سیر پر جاتے رہے ہیں.ان میں جب سیر پہ جانے کا موقعہ ملا تو میں نے تعجب سے دیکھا کہ بہت ہی عظیم الشان درخت جن کا بہت رعب پیدا ہوتا تھا ان کی جڑیں سطحی تھیں اور اکثر درخت جڑوں سے اکھڑے ہوئے ہیں.ان کی جڑیں بھی ساتھ اکھڑی ہوئی ہیں.ان کے اوپر لفظ ثابت کا اطلاق نہیں ہوسکتا.کیونکہ ثابت لفظ میں دونوں خوبیاں آجاتی ہیں.ایسی جڑیں جو مضبوط ہوں اور درخت کو تحفظ دیں اور ایسی جڑیں جو گہری ہوں کیونکہ ابتلاء کے وقت اگر وہ گہری نہیں ہوں گی تو ثابت نہیں رہ سکیں گی.اس لئے مضبوط بھی ہوں تو کافی نہیں.پس قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ کمال ہے کہ اس نے تقویٰ کے درخت کی مثال ایسے جڑوں والے درخت کی مثال سے دی ہے جس کی جڑیں ثابت ہوں یعنی مضبوط بھی ہوں اور گہری بھی ہوں اور ابتلاء کی کوئی آندھی انہیں ہلا نہ سکے اور ہر حال میں نشو ونما پانے والے ہوں.جتنی ان کی جڑیں ثابت ہوں گی یعنی مضبوط اور گہری ہوں گی اتنا ہی ان کا تقویٰ مضبوط ہوگا.دراصل یہ تقویٰ کی تعریف ہے یعنی انکساری وہ جو حقیقی اور عارفانہ انکساری ہے اور چھپی ہوئی نیکیاں وہ جو جراثیم کے اثر سے پاک ہیں اور ان کے نتیجے میں ان کے درخت وجود کو ایک مضبوطی اور طاقت ملتی ہے.یہ تقویٰ کی بہترین مثال دی گئی ہے جتنی نیکیاں ان کی چھپی ہوئی ہیں اتنا ہی ان کے درخت کو اللہ تعالیٰ رفعتیں عطا کرتا ہے.ان کی نیکیاں جتنی صحت مند ہیں اتنا ہی وہ آزمائشوں کے مقابل پر ثابت قدم ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں اور طاقت پاتے ہیں.ایسے درختوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر حال میں پھل لگتے رہتے ہیں اور ان کے پھل دائمی ہوتے ہیں.آسمان سے ان کو پھل ملتے ہیں لیکن جڑیں ان کی ان کے انکسار کی وجہ سے چھپی ہوئی ہوتی ہیں اور زمین کے اندر گہری داخل ہو جاتی ہیں اور ان کی گہرائی کا تناسب ان کی بلندی کے ساتھ ہے ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ یہ دو متقابل تصویریں ہیں جن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے.جتنی ثابت ہوں گی ، جتنی مضبوط اور گہری ہوں گی اتنا ہی درخت بلند تر ہوتا چلا جائے گا.پس اس پہلو سے ان صفات کی پرورش کرنے کی ضرورت ہے یعنی جس طرح ماں بچوں کی

Page 566

خطبات طاہر جلد ۹ 561 خطبه جمعه ۲۱ / ستمبر ۱۹۹۰ء پرورش کرتی ہے.جس طرح ایک زمیندار اپنے درختوں کی پرورش کرتا ہے اور ہر ایسا ذریعہ استعمال کرتا ہے جس سے یہ صفات پیدا ہوں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں، اسی طرح امراء اور عہد یداران کو اپنے ماتحت عہدیدار ان کی تربیت کرنی چاہئے اور ان سے معاملات کے درمیان جب ایسی باتیں دکھائی دیں جن سے معلوم ہو کہ بعض پہلوؤں سے ان کے تقویٰ میں کمزوری ہے.بعض دفعہ جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں، بعض دفعہ کسی شخص سے اس بنا پر حسد کرنے لگتے ہیں کہ اس کو امیر کا زیادہ قرب حاصل ہے اور اس کی کمزوریوں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں.بعض دفعہ اپنے مزاج کے اختلاف کی وجہ سے دوسرے کی اچھی بات بھی ان کو بری لگنے لگ جاتی ہے اور مجلس عاملہ میں اس بنا پر پارٹی بازی شروع ہو جاتی ہے بعض دفعہ گروہی تعلقات کی بنا پر مشورے غلط دیئے جاتے ہیں اور جس کے ساتھ زیادہ دوستی ہو اس کی ضرور تائید کرنی ہے.اگر ضرور نہیں تو اکثر صورتوں میں تائید کرنی ہے.اس قسم کی بہت سی بیماریاں ہیں جو جڑوں کو کھانے والی ہیں.ایسے درختوں کی جڑیں بظاہر گہری بھی ہوں تو ثابت نہیں کہلا سکتیں.پس ایک امیر کے لئے ایک صدر کے لئے یا دوسرے منتظم کے لئے اگر وہ اپنا تقویٰ کا معیار بڑھالے اور خدا کے نور سے دیکھنے لگ جائے یہ باتیں معلوم کرنا ہرگز مشکل نہیں ہے.اس لئے ان باتوں پر وہ تنگی محسوس کرنے کی بجائے ایسے لوگوں کے لئے گہری ہمدردی کے جذبات رکھے ان کی خاطر دکھ محسوس کرے.تنگی اور چیز ہے اور دکھ اور چیز ہے ان دونوں باتوں میں فرق ہے.تنگی کے نتیجے میں بعض امراء پھر بیزار ہونے لگتے ہیں.کہتے ہیں کیا بکواس ہے.کس قسم کے بیہودہ لوگ ہیں اور ان کے دل اچاٹ ہونے لگ جاتا ہے.دکھ کے نتیجے میں ان کے لئے زیادہ فکر ، ان سے زیادہ گہرا تعلق ہونے لگ جاتا ہے.پس تنگی محسوس کرنے کی بجائے ان کے لئے دکھ محسوس کرنا چاہئے.تنگی کو خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہا مأفرمایا: ولا تسئم عن الناس.( تذكره صفحه : ۱۹۷) یہاں تَستَم کا جو مضمون ہے یہ تنگی کا مضمون ہے.تکلیف تو تجھے لوگوں کے کثرت سے آنے کے نتیجے میں پہنچے گی.بے وقت تجھ سے مطالبات کرنے کے نتیجے میں لیکن دل میں تنگی نہ پیدا کرنا.ہاں تکلیف کے نتیجے میں جو دوسرے لوازمات ہیں ان سے تو انسان کو مفر نہیں ہے.ان میں دعا کی طرف متوجہ ہونا قربانی کی روح اختیار

Page 567

خطبات طاہر جلد ۹ 562 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء کرنا، زیادہ انکسار اختیار کرنا اور بہت سی خوبیاں ہیں جو خدا کی خاطر تکلیف اٹھانے کے نتیجے میں خود بخود پیدا ہوتی ہیں.تو اگر تنگی نہ ہو تو وہ خوبیاں پیدا ہوں گی اگر تنگی ہوگی تو وہ خوبیاں ضائع ہو جائیں گی.پس جب میں تنگی کہتا ہوں تو اس وسیع مضمون کو پیش نظر رکھ کر یہ الفاظ استعمال کر رہا ہوں کہ امراء کو اور عہدیداران کو چاہئے کہ ماتحتوں میں جب اس قسم کی خامیاں دیکھیں تو تنگی محسوس کرنے کی بجائے ان کے لئے درد محسوس کریں اور ان کو نصیحت کریں اور ان کو اس طرح پرورش دیں کہ گویا ان کے اپنے وجود کی بناء ان پر ہے.اس پہلو سے عہدیدار اور امیر درخت کا وہ حصہ بن جاتا ہے جو باہر نکلا ہوا ہے جس کی شاخیں آسمان پر ہیں اور یہ تمام عہدیداران اور کارکن اس کی جڑیں بن جاتے ہیں.پس ایک اور منظر ہمارے سامنے ابھرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر عہد یدار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے ماحصل کی بلندی اور جو کچھ وہ خدا کی نظر میں حاصل کرتا ہے اس کی رفعت اس بات پر منحصر ہے یعنی اس بات پر بھی بہت حد تک منحصر ہے کہ ان کے ماتحتوں کا تقویٰ کیسا ہے.اگر وہ متقی ہوں گے اگر وہ پیوستہ ہوں گے اور گہرے ہوں گے اور ثابت کہلا سکتے ہوں گے تو ایسے امیر کا درخت بہت رفعتیں اختیار کرے گا اور اس کے کاموں کو بہترین پھل لگیں گے.پس اس نئی تعریف کی رو سے ، اس نئے زاویہ کی رو سے پھلوں کی تعریف بدل جاتی ہے.یہاں پھلوں سے مراد ہے جماعت کی اجتماعی کوششوں کا پھل جتنا زیادہ جڑیں اچھی ہوں گی اور ان کے تقویٰ پر امیر کی یادیگر عہدیداران کی نظر ہوگی اسی حد تک ان لوگوں کی اجتماعی کوششیں پھل لائیں گی اور اس کے نتیجے میں امیر چونکہ ان کا نمائندہ ہے اور ان کا ایک Symbol بن جاتا ہے اس لئے اس کی رفعتیں یعنی امیر کی سر بلندی اور اس کی ترقی در اصل ساری جماعت کی سربلندی اور ساری جماعت کی ترقی ہے.تو اس پہلو سے گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے ماحول کی نگرانی کرنی چاہئے.کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے.تقویٰ سے وابستہ ان فتنوں پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے جن میں سے بعض کی مثال میں نے دی ہے لیکن اور بھی بہت سے فتنے ہیں جو نیکی کا روپ دھار کر جماعتوں کو شیطانی وساوس میں بھی مبتلا کرتے ہیں اور شیطانی تحریکات کو پھیلانے میں مدد دیتے ہیں ان سب پر نگاہ رکھتے ہوئے اور

Page 568

خطبات طاہر جلد ۹ 563 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء استغفار کرتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے اگر تمام جماعتی عہد یداران اپنے کام کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کریں گے تو میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ کام دراصل خدا ہی نے کرنے ہیں اور وہی بات ہے جس سے میں نے اس خطبے کا آغاز کیا تھا کہ کام خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا خدا کی طرف سے توفیق مل جائے تو ہر بات آسان ہو جاتی ہے.ہر بات پہاڑی ندیوں کی طرح خودرو بڑی طاقت سے بہنے لگتی ہے اور اس کو چلانے کے لئے اس کو جاری کرنے کے لئے بظا ہر کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی.جو محنت اس میں داخل ہوتی ہے وہ ایک طبعی قانون کے طور پر خود بخود اس کام کو آگے بڑھانے میں جذب ہو جاتی ہے اور دیکھنے والا یہی محسوس کرتا ہے کہ خود بہنے والی ایک طاقتور پہاڑی ندی ہے لیکن ان دو باتوں پر اس کا انحصار ہے جو میں نے بیان کی ہیں.اپنے تقویٰ کا معیار بڑھاتے ہوئے خدا پر انحصار کریں اور دعاؤں پر زور دیں اور دعاؤں پر اپنے سب کاموں کی بناء کریں اور پھر اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کو بڑھا ئیں اور ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ اگر ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے کام آج جس رفتار سے چل رہے ہیں ان سے سینکڑوں گنا زیادہ رفتار سے اور زیادہ قوت کے ساتھ اور شان کے ساتھ آگے بڑھنا شروع ہوں گے اور آئندہ نسلوں کو ہم ورثے میں جو تقویٰ دیں گے اس کی جزاء ہمیں نصیب ہوتی رہے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اب اختتام پر میں اپنے ایک بہت ہی پیارے بھائی صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی وفات کا اعلان کرتے ہوئے یہ بتاتا ہوں کہ نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی اور ان کے ساتھ ہی ہمارے اور بھی بہت سے ایسے دوست ہیں جو دنیا سے رخصت ہو گئے.جن کے اپنے مقامات اور ایسے مراتب تھے جو بعض صورتوں میں دکھائی دیتے ہیں بعض صورتوں میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نظر سے مخفی بھی رہتے ہیں تو ان سب کا نام پڑھ کر سنا دیا گیا ہے.ان میں سے تین کا ذکر میں خصوصیت سے کرنا چاہتا ہوں.ایک ہمارے چوہدری فتح محمد صاحب نائب امیر جماعت لاہور ، ان کی وفات کی بھی کل اطلاع ملی ہے.یہ بھی بہت مخلص فدائی اور بے لوث خدمت کرنے والے اور ہر قسم کی ریا کاری سے کلیۂ پاک صاف گو، صاف دل انسان تھے اور انہوں نے امیر جماعت لاہور کے لئے بہت ہی ان

Page 569

خطبات طاہر جلد ۹ 564 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء کے کام آسان کئے اور ان کے دست راست کے طور پر ایسا دست راست جو خفی طور پر چلتا رہا ان کے بہت ہی بوجھوں کو اٹھایا اور ان کی مدد کی.ان کا خاندان آپ جانتے ہیں چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان ہے یا شاید آپ نہ بھی جانتے ہوں.یہ ہم نام بھی تھے اور کئی پہلوؤں سے ان کی خوبیوں کے بھی مالک تھے پس ایسے لوگ جواب رخصت ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو اس دنیا میں ان کی نیکیوں کی جزاء دے جن کی اس دنیا میں ان کو توفیق ملی اور ان کی اگر کمزوریاں رہ گئی تھیں تو اللہ ان کی پردہ پوشی فرمائے اور آئندہ نسلوں کو ان کمزوریوں سے بچائے اور ان کی خوبیاں ان میں جاری فرمائے.برادرم مرزا منور احمد صاحب کا خط ان کے وصال کے بعد ملا ہے یعنی جس دن وصال کی اطلاع ملی اسی دن ان کا خط ملا جس میں انہوں نے ایک خواب لکھی ہے جو شاید پہلے ملتی تو مجھے سمجھ نہ آتی کہ اس کا کیا مفہوم لیکن عین اس وقت ملی جبکہ اس کا مفہوم ظاہر ہو چکا تھا.وہ لکھتے ہیں کل خواب میں دیکھا کہ غالبا نماز تراویح پڑھا رہا ہوں اور تمام قرآن کریم اس وقت پڑھ کر ختم کیا ہے.اللہ تعالیٰ میرا انجام بخیر فرمائے.اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو محسوس ہو گیا تھا کہ وقت قریب آرہا ہے اور خدا کے فضل سے خوشخبری بھی ملی ہے کہ انجام بخیر ہے کیونکہ جس رنگ میں انجام کی خبر دی گئی بہت ہی پیارا رنگ ہے.انہوں نے ساری عمر کبھی تراویح نہیں پڑھا ئیں اور نہ ہی کبھی ایسی خواب پہلے دیکھی ہوگی.میرے علم میں تو کبھی نہیں.پس وفات سے کچھ عرصہ پہلے رویا میں اس قسم کا انجام دکھایا جانا بہت ہی مبارک انجام ہے.جس دن ان کی وفات ہوئی ہے اس سے دورات پہلے یہاں دو مختلف لوگوں نے خواہیں دیکھیں وہ بھی ایسا رنگ پیش کرتی ہیں کہ اگر اس وقت وفات سے پہلے بتائی جاتیں تو سمجھ میں نہ آتی کہ کیا بات ہے لیکن دونوں خوا میں ایک ہی رات دکھائی گئیں اور دراصل ایک ہی منظر کے دو پہلو ہیں اور وفات کے بعد پھر وہ بالکل صاف دکھائی دیتا ہے کہ کیا مطلب تھا.ایک ہماری خاتون جو خدا کے فضل سے کئی دفعہ بہت ہی اچھی سچی خوابیں دیکھنے والی ہیں انہوں نے عزیزم مرزا مبشر احمد کو جو بھائی منور کے صاحبزادے ہیں ان کو دیکھا کہ بہت مغموم دکھائی دے رہے ہیں اور اسی رات میری اہلیہ نے خواب میں نواب محمد احمد خان صاحب مرحوم کو جو ان کی بیگم کے بھائی اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے بڑے صاحبزادے تھے ان کو دیکھا کہ بہت ہی خوش کسی کا

Page 570

خطبات طاہر جلد ۹ 565 خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء انتظار کر رہے ہیں.تو یہ دونوں خوا میں اب اکٹھی ہوں تو پھر صاف نظر آ جاتا ہے کہ کیا مراد ہے.مبشر کا مغموم ہونا رخصت کے نتیجے میں ہے اور ان کی بیگم کے بھائی کا خوش ہونا ان کی آمد کے انتظار میں ہے تو اس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو اپنے وجود کے رنگ دکھاتا رہتا ہے اور اپنے قرب کے آثار ظاہر کرتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کو اس قسم کے قرب کے نشان دکھاتا رہے جس پر ان کے ایمان کی بنا ہے اور انحصار ہے جس پر در حقیقت ہمارے تقویٰ کا انحصار ہے.صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے متعلق صرف ایک بات کہہ کر اب میں اس خطبے کو ختم کروں گا کہ ان میں جوسب سے زیادہ حسین پہلو تھا وہ خلافت سے ان کا عشق اور وفا کا پہلو تھا.ایسی حیرت انگیز محبت ان کو خلافت سے تھی اور اس کا احترام ملحوظ تھا کہ جب وہ ملتے تھے تو جس محبت اور خلوص سے ملتے تھے میں شرم سے پانی پانی ہو جاتا تھا.بعض دفعہ طبیعت پر بوجھ ہوتا تھا کہ اب یہ سب کے سامنے آکر اس طرح اظہار کریں گے تو میرا کیا حال ہوگا.بڑے بھائی تھے اور اس سے پہلے کی زندگی میں وہ ناراض بھی ہوا کرتے تھے.ان کا بالکل اور رنگ کا تعلق تھا لیکن جب سے خدا تعالیٰ نے خلافت کا منصب عطا کیا ان کی کیفیت ہی بدل گئی اور سب بھائیوں میں میں نے اس پہلو سے سب سے زیادہ ان میں امتیاز دیکھا ہے.ایک غیر معمولی امتیازی شان پائی ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی یہ نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.کیا کیا صورتیں ہیں جو خاک میں پنہاں ہوگئی ہیں یا ہو رہی ہیں.یہ صورتیں پچھلی صدی نے پیدا کی تھیں خدا کرے کہ اگلی صدی میں ان کے پسماندگان کی گل و لالہ کی شکل میں ان کی خوبیاں زندہ رہیں اور اگلی صدی ان بزرگوں کا یہ ورثہ پائے اور پھر ان کے پنہاں ہونے کے بعد نئے لالہ وگل پھوٹتے رہیں.خدا کرے کہ یہ سلسلہ دوام اختیار کرے اور ہمیشہ اچھی نسلیں ، اچھی نسلیں پیچھے چھوڑ کر جانے والی ہوں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا: ایک اور دوست کا میں ذکر کرنا چاہتا تھا جو میں نے کہا تھا تین کا میں کروں گا، وہ بھول گیا.وہ جماعت انگلستان کے ایک انگریز نو مسلم ہیں مسٹر Bill Nedges یہ ہارٹلے پول کے رہنے والے تھے اور معمر بزرگ تھے جن کی بیگم نے سب سے پہلے بیعت کی اور بہت ہی نیک خاتون ہیں اور بے حد تبلیغ کا شوق ہے اور ان کی تبلیغ کے نتیجے میں پھر ان کا بیٹا بھی احمدی ہوا ، ان کے خاوند بھی

Page 571

خطبات طاہر جلد ۹ 566 خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء ہوئے ان کی بہوؤیں بھی ہوئیں اور اب وہ ایک انگریز خاندان ہے جو اوپر سے نیچے تک سارے کا سارا بچے دل سے مخلص مسلمان بنا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کثرت سے جماعت احمدیہ کو ایسے اور خاندان عطا کرے.بعض اور بھی پہلے کے ہیں.ایک کہنا غلطی ہے کیونکہ میرے ذہن میں فوراً بعض اور خاندان بھی آئے ہیں جو خدا کے فضل سے مکمل مخلص احمدی ہیں تو انگلستان کے معاشرے کو اسلامی معاشرے میں تبدیل کرنے کے لئے یہ جاہلانہ احتجاج کام نہیں آئیں گے جس طرح آج کل بعض ایشیائی مسلمان کر رہے ہیں کہ گلیوں میں نکل کر اپنے معاشرے کے حقوق کے مطالبے کر رہے ہیں ان لوگوں کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ضروری ہیں.ان کے خاندانوں کو اسلامی معاشرے کا رنگ دے کر ان کے سامنے مثال کے طور پر رکھنا ضروری ہے.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ بھی بہت صاف دل سیدھے سادے بہت ہی نیک انسان تھے ان کو بھی نماز جنازہ میں دعاؤں میں خاص طور پر یادرکھیں کیونکہ آپ کے انگلستان کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس ضمن میں یاد رکھیں کہ جب بھی کوئی نیک آدمی فوت ہو اس کے ساتھ اس کے پسماندگان کے علاوہ اس کی نیکیوں کے مزید نشو و نما پانے کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے تا کہ ایک کی کمی ہزاروں دوسروں کے حصول کے نتیجے میں پوری ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: آج چونکہ انصار اللہ کا اجتماع ہے اور بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں جنہوں نے پھر یہاں سے اسلام آباد بھی جانا ہے اس لئے نماز جمعہ کے بعد عصر بھی ساتھ ہی پڑھی جائے گی یعنی نماز جمعہ کے ساتھ عصر جمع ہوگی.

Page 572

خطبات طاہر جلد ۹ 567 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء مالی قربانیاں کرنے سے تم امیر ہو گے کیونکہ تمہارا غنی سے تعلق جڑے گا اور اگر اس تعلق کو کاٹو گے تو تم فقراء ہو جاؤ گے اپنی اولادکو مالی قربانی کا مزا چکھائیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ایک عرصے سے میں نے جماعت کو مالی قربانی سے متعلق یاد دہانی نہیں کروائی.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مالی قربانی میں جماعت احمد یہ اس تیزی کے ساتھ آگے بڑھی ہے اور اس استقلال کے ساتھ اس پر قائم ہو چکی ہے کہ واقعتہ مرکزی ضرورت کے پیش نظر یاد دہانی کی ضرورت نہیں پڑتی.چند دن ہوئے تھے مجھے مکرم محمد شریف اشرف صاحب جوایڈیشنل وکیل المال ہیں انہوں نے جماعتوں کی وہ فہرست بھجوائی جو افریقہ فنڈ میں پیش پیش ہیں.اس پر مجھے خیال آیا کہ اس موضوع پر بھی اب پھر کچھ کہنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس وجہ سے کہ لوگوں کو مالی قربانی کی ضرورت ہے.یعنی مالی قربانی کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ نیک کاموں میں جن میں اللہ تعالیٰ جماعت کو تو فیق عطا فرماتا ہے، نئے نئے ترقی کے میدان کھلتے ہیں، نئی عمل کی راہیں سامنے آتی ہیں تو ان امور پر جو خرچ کرنا پڑتا ہے اس کے لئے جماعت کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ جماعت ہی نے پوری

Page 573

خطبات طاہر جلد ۹ 568 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء کرنی ہے.تو جب بھی ایسی ضرورت پیش آئے مالی قربانی سے متعلق تحریک کرنے کا خیال دل میں پیدا ہو جاتا ہے لیکن مجھے اس دن یہ خیال آیا کہ جماعت کو اپنے طور پر اور ہر فرد کو اپنے طور پر ایک ضرورت ہے جسے کبھی ہمیں بھلانا نہیں چاہئے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر صرف جماعت کی ضرورت کے پیش نظر مالی قربانی کی تحریک ہوتی تو خدا تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ غنی ہے اور تم فقراء ہو.خدا تعالیٰ کی عطا کے ہزار ہا رستے ہیں وہی سب کو دیتا ہے وہ اپنے دین کی ضرورتیں خود پوری کر سکتا تھا.اس فلسفے کو بعض لوگ نہیں سمجھتے اور اس کی وجہ سے بعض ٹھوکر میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض شبہات میں مبتلا رہتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ مالی قربانی کا حکم قرآن کریم میں جو بار بار دیا گیا ہے یہ اس ضرورت کے پیش نظر ہے کہ مالی قربانی سے لوگوں کا تزکیہ ہوتا ہے ،لوگوں کے اندر پاکیزگی پیدا ہوتی ہے.مومن کو مزید تقویٰ نصیب ہوتا ہے اور قوم کی اصلاح ہوتی ہے اور قوم میں ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور بہت سی دوسری بدیوں سے چھٹکارے کی توفیق ملتی ہے.مالی قربانی کی اس ضرورت کو اگر آپ پیش نظر رکھیں تو ہر دور میں ہمیشہ جماعت کا ایک نہ ایک طبقہ ضرور ایسا رہتا ہے جسے مالی قربانی کی شدید ضرورت ہے اور وہ اس ضرورت سے محروم ہے کیونکہ ان باتوں کو وہ سمجھتا نہیں.پس اس دن مجھے خیال آیا کہ مرکزی ضرورتیں اللہ کے فضل سے اس طرح پوری ہوتی چلی جارہی ہیں کہ اس پہلو سے اگر مجھے یاد دہانی کا خیال نہ بھی آئے تو اصل قربانی کا جو فلسفہ ہے، جو قربانی کی اصل روح ہے اس کے پیش نظر لا زما مجھے بار بار جماعت کو یاد دہانی کروانی چاہئے اور مالی فلسفے کو بیان کر کے متوجہ کرنا چاہیئے کہ خدا کی زبان میں اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ (فاطر (۱۲) تم فقیر ہو.اگر تم مالی قربانی نہیں کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے پس فقراء کا مطلب یہاں یہ ہے کہ تم محتاج ہو.اگر خدا کی خاطر تم اپنے اموال پیش نہیں کرو گے تو تمہیں شدید نقصانات پہنچیں گے اور جہاں تک میرا تجربہ ہے اور وسیع تجربہ ہے اور جہاں تک میں نے تاریخ کا بھی مطالعہ کیا ہے یہ نقصانات کئی انواع کے ہیں.ایک تو قرآن کریم نے لفظ زکوۃ کو مالی قربانی سے باندھا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دو حصے اس کے ایسے ہیں جو آپ کو پیش نظر رکھنے چاہئیں ایک یہ کہ یہ بڑھنے والی چیز ہے.پس اگر کسی قوم کے اموال میں برکت کی ضرورت ہو یعنی قومی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوتو

Page 574

خطبات طاہر جلد ۹ 569 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء قرآن کریم کی رو سے اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے والی قو میں ہمیشہ پہلے سے بہتر ہوتی چلی جاتی ہیں.اس پہلو سے میں نے افریقہ میں جن علاقوں میں تیزی سے جماعت پھیل رہی ہے اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جہاں سخت غربت ہے وہاں تاکید کی کہ ایک غربت کا علاج کرنے کی ہم کوشش کر رہے ہیں افریقہ کی تحریک ہے جیسا کہ میں نے ذکر کیا اور صنعتوں کے قیام کی کوشش ہے، افریقہ سے تجارت کو بڑھانے کی کوشش ہے اور ذرائع اختیار کئے جارہے ہیں مگر ہماری توفیق اتنی تھوڑی ہے اور ہمارے پاس اس فن کے ماہرین جو جماعت کو مہیا ہو سکتے ہیں وہ اتنے تھوڑے ہیں کہ افریقہ کی ضرورت کے مقابل پر سمندر کے سامنے قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے.تو اس پر مجھے خیال آیا کہ خدا نے اصل گر خود سمجھا دیا ہے اسی گر کو پکڑنا چاہئے اور اس کو جماعت کے سامنے کھول کر رکھنا چاہئے چنانچہ میں نے افریقہ کے مبلغین کو تاکید کی کہ اگر تم نے ان نئے آنے والوں کو ان کی غربت کی وجہ سے چندے کی تحریک نہ کی اور اپنی طرف سے ان پر رحم کیا تو ان پر تم سخت ظلم کرنے والے ہو گے.افریقہ کی اقتصادی حالت کو تم نہیں بدل سکتے مگر خدا تبدیل کر سکتا ہے اور قرآن کریم نے ہمیں یہ نکتہ سکھایا ہے کہ جو خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں بے انتہاء برکتیں بخشتا ہے.دور اول میں یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ کے دور میں مسلمانوں کی جو ابتدائی حالت تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں.ایسی غربت تھی کہ آنحضرت ﷺ کو بھی فاقے پڑتے تھے اور آپ کی ازواج مطہرات کو بھی اور آپ کے خاندان کو بھی جو مکے کے معزز ترین خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد تھے اور اسی طرح آپ کے صحابہ کو بھی بہت چند ایک تھے جن کو خدا تعالیٰ نے بعض پہلوؤں سے دنیاوی طور پر دولت عطا کی تھی ورنہ تو سب سے دولتمند وہی تھے جو حضرت محمد مصطفی عے دنیا کو دولتیں تقسیم کرنے آئے تھے.بہر حال دنیاوی دولت کے لحاظ سے بعض تھے مگر سوسائٹی کی بھاری اکثریت ایسی تھی جو غربت کی حالت میں زندگی بسر کر رہی تھی.مدینے میں جا کر بھی کم و بیش یہی حال رہا.اصحاب الصفہ کا حال آپ جانتے ہیں کہ کس طرح ایک بڑی تعدا د صحابہ کی مسجد کے صحن میں اس کے کنارے جو بیٹھنے کی جگہیں بنی ہوئی تھیں وہاں پڑے رہتے تھے اور دن کو تلاوت کی ، قرآن کریم کی، دین کی باتیں کیں اور اسی حالت میں اور وہیں رات بسر کرتے تھے اور کوئی ذریعہ معاش صلى الله

Page 575

خطبات طاہر جلد ۹ 570 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء نہیں تھا خدمت کے لئے کچھ لوگ آئے اور کچھ پیش کر دیایا کبھی لکڑیاں اکٹھی کرنے کے لئے جنگل میں چلے گئے اور واپس لا کے کچھ بیچ کر گزارہ کیا.اس طرح ان کی گزراوقات تھی لیکن چند سال کے عرصے میں ہی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے گھر اس طرح دولتوں سے بھر دیئے کہ تاریخ میں اس قسم کے انقلاب کی آپ کو کوئی اور مثال دکھائی نہیں دے گی.دیکھتے دیکھتے صرف ان چند مسلمانوں ہی کے نہیں جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ وابستہ تھے اور آپ کی خاطر سب کچھ لٹا کر آپ کے در پر آ بیٹھے تھے بلکہ ان کے ساتھیوں کو بھی ، نئے آنے والوں کو بھی ، ان کی اولا دوں کو بھی خدا نے اتنی دولتیں عطا کی ہیں کہ اب بھی آپ کبھی سپین جائیں تو وہاں کے جو آثار باقیہ ہیں وہاں اس دولت کے نشان ملتے ہیں.یہ درست ہے کہ مساجد کو سونے سے سجانا اسلامی تعلیم نہیں ، لیکن ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب بادشاہوں کو یا حکومتوں کو اتنی دولت ملی تھی کہ ان کو کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس سے کیا کریں؟ غرباء کے حقوق پورے کرنے کے بعد یونیورسٹیوں پر خرچ کرنے کے بعد، اقتصادیات کی حالت بہتر بنانے کے لئے ہر قسم کی سکیمیں چلیں لیکن سونے کے انبار لگ گئے تھے اور جواہر کے انبار لگ گئے تھے.وہ مساجد جو سپین میں اب بھی دکھائی دیتی ہیں یعنی بڑی بڑی بلند عمارتیں جو مساجد کے ساتھ وابستہ ہیں وہ بھی اور مساجد بھی اس پر انہوں نے سونالگا نا شروع کیا اورسونے سے اس پر کام کرنے شروع کئے اور جواہر جڑنے شروع کئے.سپین کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ جب مسلمانوں کا انخلا ہوا ہے تو اتنا سونا اور اتنے جواہر.وہاں سے لوٹے گئے ہیں کہ اس کو ضبط تحریر میں لانا مؤرخ کے لئے مشکل معلوم ہوتا ہے.کسی نے کوئی اندازہ پیش کیا کسی نے کوئی اندازہ پیش کیا.لیکن یوں معلوم ہوتا ہے جیسے سونے اور جواہرات کی گاڑیوں کی گاڑیاں بھر کے وہاں سے دوسری جگہوں پر منتقل کی گئیں.تو دولت خدا کے ہاتھ میں ہے اور خداغنی ہے اور ہم فقیر ہیں، یہ قرآن کریم کا اعلان ہے جس کو اس نے ہر دور میں ہمیشہ مختلف رنگ میں سچا کر کے دکھایا ہے وہ چند صحابہ جنہوں نے خدا کی خاطر قربانیاں کی تھیں چند روٹی کے ٹکڑوں کی قربانیاں تھیں.چند کپڑوں کی قربانیاں تھیں اس سے زیادہ تو عرب کی حالت ہی کوئی نہیں تھی عرب کی مجموعی اقتصادی حالت ایسی تھی کہ چند ایک امیر ہو جا ئیں تو باقی سب کے لئے لازما غریب ہونا تھا.پس ان کی قربانی بھی چند ٹکوں کی ، چند روٹیوں کی قربانیاں ہی تھیں لیکن خدا نے پھر اتنی دولت عطا کی

Page 576

خطبات طاہر جلد ۹ 571 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء ہے کہ ساری دنیا میں بغداد سب سے زیادہ دولت مند شہر تھا اور دنیا کی سب سے زیادہ نعمتیں بغداد میں پائی جاتی تھیں.پاکستان وغیرہ سے آنے والے اب جب انگلستان آتے ہیں یا امریکہ جاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ ہر موسم کا ، ہر جگہ کا پھل یہاں موجود ہے.دنیا کی ہر نعمت کو ان امیر ممالک نے اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچا ہوا ہے.مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں بغداد کو یہ مقام حاصل تھا کہ سب دنیا کی ہر نعمت وہاں پہنچا کرتی تھی.پس اس سلسلے میں میں نے صرف یہ ایک مثال دی ہے ایک پہلو جو قرآن کریم ہمارے سامنے رکھتا ہے کہ خدا کی راہ میں ادا کرنے سے یا قربانیاں کرنے سے تم امیر ہوگے کیونکہ تمہاراغنی سے تعلق جڑے گا اور اگر اس تعلق کو کاٹو گے تو تم فقراء ہو جاؤ گے.پس مذہبی قومیں اگر مالی قربانی کو بھلا دیں تو پھر ان پر غربت کی مار پڑا کرتی ہے.اگر وہ مالی قربانی میں پیش پیش ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو بے انتہا دولتیں عطا کیا کرتا ہے.یہ وہ راز ہے جسے ہمیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے اور قومی اقتصادی تعمیر کے سلسلے میں بھی اسے استعمال کرنا چاہئے.یہاں یہ فرق ضرور پیش نظر رہے کہ جو مالی قربانی کرتا ہے وہ اس نیت سے نہیں کرے گا کہ خدا مجھے اور دے مگر جس نے قومی تعمیر کرنی ہے وہ قوم کی حالت بدلنے کے لئے قوم میں قربانی کی روح ضرور پیدا کرے گا.ان دونوں باتوں میں فرق ہے ، ایک آدمی اس لئے خدا کو دے کہ اے خدا! میں تجھے دس روپے دے رہا ہوں اب مجھے پچاس کر کے واپس کر دے تو یہ ایک بالکل جاہلانہ خیال ہوگا.وہ اپنی قربانی کو خود تباہ و برباد کر دے گا.قرآن کریم نے فرمایا ہے: وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدثر : ے) کہ کسی پر احسان بھی نہ کرو اس نیت سے تا کہ تم زیادہ حاصل کرلو.تو خدا کو دینے کے وقت تو احسان کا معاملہ نہیں ہوا کرتا.یہ ایک عاجزانہ ہدیہ ہے جسے قبول کرلے تو ہمارے لئے اسی میں سعادت ہے، وہی ہمارا اجر ہے.پس جب میں یہ باتیں بیان کرتا ہوں تو غلط نہ سمجھیں ، میں ہر گز آپ کو یہ نہیں سمجھا رہا کہ آپ میں سے ہر شخص خدا کی خاطر اس نیت سے قربانی کرے کہ خدا اس کے مال کو بڑھائے گا، لیکن وہ لوگ جنہوں نے قوم کی تعمیر کرنی ہے جن کے پاس قومی ذمہ داریاں ہیں ان کا فرض ہے کہ مسلسل قوم کے مالی قربانی کے معیار کو بڑھاتے چلے جائیں اور جان لیں اور یقین رکھیں کہ اس طرح قوم کی اقتصادی مشکلات کاحل بھی ہوگا

Page 577

خطبات طاہر جلد ۹ 572 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء اور بحیثیت قوم کے یہ ایک ایسا نسخہ ہے جو از منہ سابقہ میں آزمایا جا چکا ہے اور سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں یہ آزمایا گیا اور اس کے نتائج آپ نے دیکھے.بعض لوگ حیران ہوتے ہیں کہ عربوں کو تیل کہاں سے مل گیا.اصل واقعہ یہ ہے کہ عربوں کو تیل انہی قربانیوں کے نتیجے میں ملا ہے جو از منہ گزشتہ میں یا دور اول میں آنحضرت علے کے غلاموں نے کی تھیں.بعض لوگ حیران ہوتے ہیں کہ عیسائیوں کو کیوں اتنی دولت نصیب ہوگئی.قرآن کریم لکھتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اپنے حواریوں کو فقیر بنادیا اور کچھ بھی ان کے پاس نہیں رہا تو انہوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے آقا! تو خدا سے دعا کر کہ خدا آسمان سے مائدہ نازل فرمائے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بعض شرطوں کے ساتھ فرمایا کہ ہاں ! میں مائدہ نازل کروں گا.خود عیسائی ، جو مذہبی راہنما ہیں وہ بھی اس بات کو سمجھتے نہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ آسمان سے روٹی اتری تھی اور وہ کھلا دی گئی تھی یہی مائدہ تھا.یہ بڑی جاہلانہ تعبیر ہے.آج جو عیسائی دنیا میں دولت کی ریل پیل دیکھتے ہو یہ وہی مائدہ ہے جو آسمان سے اتارنے کا خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا.پس قوموں کی تاریخ مختلف پہلوؤں سے دیکھی اور سمجھی جاسکتی ہے مذہبی نقطۂ نگاہ سے آپ ہلکا ساز او یہ پلیٹیں تو ایک بالکل نیا جہان دکھائی دینے لگتا ہے اور یہی سچازاویہ ہے، یہی اصل منظر ہے اور اس منظر کو آپ جب بھی اس اصول کو مذہبی تاریخ پر چسپاں کر کے دیکھیں گے ہمیشہ ایسے ہی مناظر دکھائی دیں گے.پس سائنسی ثبوت اسی کا نام ہے کہ اگر ایک مثال پیش کی جائے.وہی حالات دہرائے جائیں تو وہی مثال دوبارہ ابھرنی چاہئے.پس مذہبی دنیا میں جو بعض اصول کارفرما ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا کی خاطر مالی قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بے انتہاء دنیاوی برکتیں بھی عطا کرتا ہے.پس میں نے ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے افریقہ کے مبلغین کو خصوصیت سے ہدایت کی کہ تم اپنی جہالت میں ان پر یہ رحم نہ کرنا کہ ان غربیوں سے پیسے مانگے تو بڑا ظلم ہوگا.تم مومن کی فراست کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، مومن کی فراست سے کام لیتے ہوئے ان پر یہ رحم کرنا کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ بھی خدا کی راہ میں پیش کر دو اور یہی تمہارے سب مصائب کا علاج ہے.پس مجھے بہت خوشی ہوئی یہ معلوم کر کے کہ جب وہاں سے Feed Back آیا ہے یعنی میری اس تحریک کے

Page 578

خطبات طاہر جلد ۹ 573 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء جواب میں رپورٹیں آنی شروع ہوئیں تو پتا چلا کہ افریقہ کے غریب ترین ممالک میں بھی ، غریب ترین علاقوں میں بھی خدا کے فضل سے مالی قربانی کی روح موجود ہے.بیدار ہورہی ہے اور بھی اور جب بھی کہا جاتا ہے تو غریب سے غریب آدمی بھی ضرور کوشش کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ وہ خدا کے حضور پیش کرے.یہ سلسلہ اگر ہر افریقن ملک میں جاری ہو جائے اور تمام جماعت مالی قربانی کی پابندی اختیار کرلے اور حسب توفیق جو کچھ ہو سکتا ہے خدا کے حضور پیش کرے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دیکھتے دیکھتے ان احمدیوں کی وجہ سے سارے افریقہ کی تقدیر بدل جائے گی اور ان کے سارے اقتصادی مسائل کا حل اسی میں ہے کہ وہ خدا کی خاطر کچھ پیش کرنا سیکھ لیں.پس ضرورت سے مراد ایک یہ ضرورت ہے اور درحقیقت یہی ضرورت ہے جس کی طرف بار بار توجہ دلانی چاہئے کہ خدا غنی ہے تم لوگ فقیر ہوا اپنے فقر کا علاج کرو اور فقر کا دوسرا علاج ایمان کی دولت سے ہوتا ہے.زکوۃ کے نتیجے میں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے نتیجے میں ایمان نصیب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا ملتی ہے جو باتیں میں نے پہلے بیان کیں ان پر مومن نظر نہیں رکھتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک چھوٹی جزاء ہے اور جانتا بھی ہے کہ یہ تو ملنی ہی ملنی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانی کرنے والوں کو کبھی بھی تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑا کبھی ان کو دنیا کا فقیر نہیں بنایا.پس فقیر تو بنا ہے.فقراء کا مطلب ہے تم بہر حال فقراء ہو، چاہو تو خدا کے در کے فقیر بن جاؤ، چاہو تو دنیا کے فقیر بن جاؤ.پس بہترین نسخہ یہی ہے کہ خدا کا فقیر انسان بن جائے اور دنیا کے فقیر سے اسے استغناء نصیب ہو جائے اور ان معنوں میں وہ بھی غنی بن جائے.بہر حال دوسرا پہلو جو بہت ہی اہم ہے جس پر مومن کی نظر رہتی ہے وہ ہے مالی قربانی کے نتیجے میں خدا کی رضا نصیب ہوتی ہے اور یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی مراتب عطا ہوتے ہیں اور یہ کوئی دنیاوی سودا نہیں ہے کہ اس کے بدلے زیادہ پیسے دیدیئے تو بات طے ہوگئی.قربانی چونکہ خدا کی خاطر کی جاتی ہے اس لئے اس کی جزاء خدا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا نصیب ہوتی ہے.بعض لوگ اپنی جہالت میں کہہ دیتے ہیں کہ جی آپ لوگوں نے تو جماعت کو بس مالی قربانی، مالی قربانی کہہ کہہ کے اور کسی طرف توجہ ہی نہیں رہنے دی.لوگ سمجھتے ہیں کہ نیک وہی ہے جو مالی قربانی

Page 579

خطبات طاہر جلد ۹ 574 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء کرے.ہم کیا کہتے ہیں خدا یہ کہتا ہے اور قرآن کریم اس مضمون سے بھرا پڑا ہے.اس میں جماعت کے کسی عہدیدار کا قصور نہیں اگر نعوذ باللہ قصور ہے تو پھر خدا سے پوچھو کہ کیوں خدا نے قرآن کریم کو ہر ہر صفحے پر اس مضمون سے بھر دیا ہے کہ خدا کے حضور کچھ پیش کرو اور یہ بھی یاد دہانی کراتا جاتا ہے کہ تمہیں ضرورت ہے اس کو ضرورت نہیں ہے.پس ان ضرورتوں میں سے ایک ضرورت یہ ہے کہ مالی قربانی کے نتیجے میں اخلاص نصیب ہوتا ہے تقویٰ نصیب ہوتا ہے اور انسان کے نفس کو پاکیزگی عطا ہوتی ہے ، دنیا کی محبت نصیب ہوتی ہے، دنیا کی بدیوں سے تعلق کم ہو جاتا ہے اور انسان جب مالی قربانی کے نتیجے میں آگے قدم بڑھاتا ہے تو تمام ایسی بدیاں جن میں مالی قربانی نہ کرنے والا عام طور پر مبتلا ہو جایا کرتا ہے ان سے رفتہ رفتہ اس کو نجات ملنے لگتی ہے رجحانات بدل جاتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا دن بدن ایسے شخص کو اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے.پس شروع میں ہوسکتا کہ اس میں دوسری بدیاں موجود ہوں ، بعض دوسری کمزوریاں موجود ہوں مگر ایک مالی قربانی کرنے والے کو ہم نے ضائع ہوتے کبھی نہیں دیکھا.کچھ کمزوریاں رہ بھی جائیں تو اللہ رفتہ رفتہ ان کی اصلاح فرما دیتا ہے.ایک تو اس سے صرف نظر کا معاملہ فرماتا ہے جو ایک بہت ہی عجیب سلوک ہے.آپ کو جس شخص سے پیار ہو جب آپ اس کی کمزوری نہ دیکھنا چاہیں تو آپ ایسی حالت میں اگر اس کو پکڑیں بھی جہاں اس کا جرم ثابت ہوتا ہو تو بعض دفعہ نظر پھیر کے چلے جاتے ہیں گو یاد یکھا ہی نہیں.بعض اپنے بچوں کی بری باتیں سنتے ہیں اور ان سنی کر دیتے ہیں وہ چاہتے بھی نہیں کہ ہم انہیں سنیں.تو اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس نے بھی یہ رنگ اختیار فرمایا ہوا ہے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جب اپنے پیاروں سے بعض غلطیاں دیکھتا ہے تو ان سے عضو فرماتا ہے.وَاعْفُ عَنَّا (البقرہ:۲۸۷) کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! ہم سے عفو فرما، یعنی ہم جب گناہ کر رہے ہوں تو گویا تو ہمیں نہیں دیکھ رہا.تو پیار کے طور پر اپنی نظر ہم سے پھیر لے.تو جو مالی قربانی کرنے والے ہیں ان کے متعلق مجھے علم ہے کہ خدا تعالیٰ ان سے زیادہ عضو فرماتا ہے اور پھر اگلا حصہ مغفرت کا ہے اور پھر اس سے اگلا حصہ ہے.كَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران :۱۹۴) مالی قربانی کرنے والوں کی بدیاں دور ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں کہ وہ

Page 580

خطبات طاہر جلد ۹ 575 خطبہ جمعہ ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء نیکیوں کے ساتھ دم تو ڑتے ہیں یعنی نیکی کی حالت میں مرتے ہیں.پس مالی قربانی کے بہت سے فوائد ہیں اور ان پر آپ جتنا بھی غور کریں آپ کو اور بار یک در باریک پہلوان میں دکھائی دیتے چلے جائیں گے.سچی مالی قربانی کرنے والا اپنے پیاروں سے بھی یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی مالی قربانی کریں اور یہ بات اس کے اخلاص کی کسوٹی بن جاتی ہے.اگر ایک ماں کو اپنے بچوں سے صحیح پیار ہے تو وہ اس بات میں خوشی محسوس نہیں کرے گی کہ بچے اپنا پیسہ اپنے پاس ہی رکھیں اور دین میں خرچ نہ کریں اور وہ یہ نہیں بجھتی کہ میں جو خرچ کر رہی ہوں بس یہی کافی ہے بچوں پر کیا بوجھ ڈالنا ہے.بالکل اس کے برعکس وہ بچوں سے بھی چاہتی ہے کہ وہ بھی مالی قربانی کریں.جس سے اس کے اپنے اخلاص کا ثبوت ملتا ہے اور یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دل میں خدا کی سچی محبت اور قربانی کی بچی روح ہے یہ اس لئے قربانی نہیں کر رہی کہ اس کو اطاعت کی ایک رسماً عادت پڑی ہوئی ہے بلکہ اس کی اہمیت کو جانتی ہے اور اس حد تک جانتی ہے کہ اپنے سب پیاروں کواس سعادت میں شریک کرنا چاہتی ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو کوئی نعمت مل جائے اور اپنے پیاروں کو کہیں کہ تم ذرا دور بیٹھے رہو.اس مصیبت میں مجھے ہی اکیلے کو رہنے دو، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کو وؤں کو بھی خدا نے یہ فطری سخاوت بخشی ہے کہ روٹی کا ایک ٹکڑا ملے تو کائیں کائیں کر کے ردور سے اپنے بھائی بندوں کو بلا لیتے ہیں.انسان کو بھی ان باتوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور سبق کے علاوہ اپنے آپ کو پہچاننے کے لئے ان باتوں کو بطور کسوٹی استعمال کرنا چاہئے.پس میں نے دیکھا ہے بعض ایسے ماں باپ ہیں جن کے بچے جب عملی زندگی میں حصہ لیتے ہیں کچھ کمانے لگتے ہیں تاجر ہوتے ہیں، نوکر بنتے ہیں تو وہ ان سے اس رنگ میں صرف نظر کرتے ہیں کہ چندہ نہیں دیتا تو کوئی بات نہیں.تازہ تازہ کمائی کرنے لگا ہے اور ابھی اس کے دن ہی کیا ہیں؟ ہم نے کافی قربانیاں کی ہیں.اس کو کچھ دیر اسی حالت میں رہنے دیں اور بعض ماں باپ اس طرح ان پر رحم کرتے ہیں کہ ہم نے جو ساری عمر نعمتیں حاصل کیں، خدا کا پیار پایا،خدا تعالیٰ سے غیر معمولی برکتیں حاصل کیں تو اس سے اولاد بیچاری کو کیوں محروم کریں.چنانچہ وہ تاکید کرتے ہیں کہ دیکھو خدا تمہیں اب نوکر بنا رہا ہے ،تجارت کے مواقع عطا فرما رہا ہے.جو کچھ بھی تمہیں ملتا ہے سب سے پہلے خدا کے حضور پیش کرو.اور ان دونوں قسم کے تجربے مجھے ہوتے رہتے ہیں بعض دفعہ بڑے دلچسپ ہوتے ہیں بعض وہ دور دور.

Page 581

576 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء خطبات طاہر جلد ۹ بچے تو ایسے ہیں جو اپنے ماں باپ کے سکھانے پڑھانے پر اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ کر اور یقین کے بعد اپنی تنخواہ ملتے ہی یا اپنے منافع ہوتے ہی وہ مجھے بھجوا دیتے ہیں کہ اسے جس طرح بھی چاہیں خدا کی راہ میں استعمال کریں کیونکہ ہمیں خدا نے یہ توفیق عطا فرمائی.ہمارا پہلا کمایا ہوا رزق ہے.تو اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس قسم کے ماں باپ ہیں اور کس قسم کی وہ اگلی نسلیں تیار کر رہے ہیں.بعض بچے ہیں جو جب وہ کمانے لگتے ہیں تو نظر سے غائب ہونے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اگر پہلے جماعت میں وہ آتے جاتے بھی ہوں اور معروف بھی ہوں تو رفتہ رفتہ سرکنے لگ جاتے ہیں گویا ان کی دولت ان کے لئے ایک لعنت بن جاتی ہے اور بعض بچے سعید فطرت ہوتے ہیں.مجھے ایک دفعہ ایک بچے نے اپنے ماں باپ کی شکایت لکھی.اس نے کہا کہ جب میں نے کمائی شروع کی اور خدا کی خاطر قربانی شروع کی تو میرے ماں باپ مجھے سمجھانے لگے کہ اتنا نہ کرو، ظلم ہے اور کچھ اپنے لئے بچاؤ.کچھ فلاں کے لئے کرو، کچھ فلاں کے لئے کرو، تو اس بچے نے مجھ سے پوچھا کہ میرا دل تو نہیں چاہتا کہ ماں باپ کے کہنے میں آکر خدا کے حضور مالی قربانی پیش کرنا بند کر دوں.آپ مجھے بتائیں کیا میرے لئے یہ گناہ تو نہیں ہوگا اگر اس معاملے میں میں ماں باپ کی بات نہ مانوں؟ معلوم ہوتا ہے وہ بہت ہی سعید فطرت نو جوان تھا.اس کو ایک یہ بھی ڈر تھا کہ اگر چہ نیکی سے روک رہے ہیں مگر ماں باپ ہیں ان کی اطاعت کا بھی حکم ہے.میں نے پھر اس کو سمجھایا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ معاملہ بالکل طے ہو گیا.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خلافت کا مقام تو اس طرح ہے جیسے ایک بہت ہی وسیع عالمی خاندان کا کوئی سر براہ ہو جس سے بے تکلفی سے لوگ اپنی باتیں کرتے رہتے ہیں، ہرقسم کی باتیں چھیڑتے ہیں.ماں باپ بچوں کی شکایتیں کرتے ہیں بچے ماں باپ کی شکاتیں کرتے ہیں لیکن پیار کے ماحول میں اور اصلاح کی خاطر تو اس پہلو سے میری توجہ قرآن کریم مفہوم کی ایک آیت کے ایک اور مضمون کی طرف بھی ہوئی جس طرف پہلے عموما خیال نہیں گیا تھا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اپنی اولا د کو اموال کے ڈر سے قتل نہ کرو.اس کا عام طور پر من یہی سمجھا جاتا ہے اور وہ بھی درست ہے کہ اس لئے برتھ کنٹرول نہ کرو اس لئے خاندانی منصوبہ بندی نہ کرو کہ تم لوگ غریب ہو جاؤ گے.قوم کی جو مجموعی اقتصادی حالت ہے وہ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کو برداشت نہیں کر سکے گی اور کھانے والے منہ زیادہ ہو جائیں گے اور روٹی کھانے کے لئے زیادہ

Page 582

خطبات طاہر جلد ۹ 577 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء میسر نہیں ہوگی.یا یوں کہنا چاہئے کہ کھانے والے منہ زیادہ ہو جا ئیں گے اور اگانے والے کھیت کم ہو جائیں گے.یہ ایک فلسفہ ہے جو آج کل کی مادی دنیا میں چل رہا ہے.عموماً اس آیت کا اسی مضمون پر اطلاق ہوتا ہے مگر مجھے یہ خیال آیا اور میں سمجھتا ہوں یہ مضمون بھی درست ہے اسی آیت سے نکلتا ہے کہ اگر تم اپنی اولاد کو مالی قربانی سے روکو گے اس خیال سے کہ وہ غریب نہ ہو جائیں.تمہاری مجموعی دولت میں کمی نہ آجائے تو یا درکھو کہ تم اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو قتل کرنے والے ہو گے.پس میں خوب کھول کر جماعت کو یہ باتیں سمجھاتا ہوں کہ حقیقت میں جماعت کوان معنوں میں ضرورت نہیں ہے کہ اب فلاں چندہ نہ آیا تو یہ ضرورت پوری نہیں ہوگی ،فلاں چندہ نہ آیا تو یہ ضرورت پوری نہیں ہوگی مگر جماعت کو اس پہلو سے یاد دہانی کی شدید ضرورت ہے کہ ہمیشہ جماعت میں ایک ایسا طبقہ ہوگا جسے قربانی کا فلسفہ سمجھ نہیں آتایا قربانی کرتا ہے تو اس میں لذت محسوس نہیں کرتا اور نہیں جانتا کہ مالی قربانی کے بغیر اسے کتنے خطرات ہیں، کیسے کیسے نقصانات پہنچ سکتے ہیں.اس کے دین، اس کے اعمال کے ضائع ہونے کا بھی خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.پس ایسے طبقے کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ بار بار نصیحت کی جائے اور یاددہانی کرائی جائے.جماعت کی مجموعی زندگی بھی مالی قربانی کو دوام بخشنے سے وابستہ ہے اور جماعت کی انفرادی زندگی بھی مالی قربانی کو دوام بخشنے سے وابستہ ہے.لیکن مالی قربانی کو دوام اس طرح بخشنا ضروری ہے کہ اس کے لطیف پہلوؤں پر نظر ر ہے اور مالی قربانی کے نتیجے میں انسان زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے.یہ تجارت تو ہے مگر اور قسم کی تجارت ہے یہ ایسی تجارت ہے جیسے میں نے بیان کیا کہ تحفہ پیش کرتے وقت بھی انسان کچھ حاصل کرتا ہے.سوئے بچے کو ماں بھی کچھ نہیں دیتی الا ماشاء الله.یہی چاہے گی کہ بچہ دیکھ رہا ہو کہ میں اسے کیا دے رہی ہوں تو پھر دیتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دینا تو ہے ہی میں اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھاؤں.اس سے پیار کے جذبات کیوں نہ لے لوں.پس مالی قربانی کی روح یہ ہونی چاہئے اور یہ ہے اس کا لطیف پہلو جس پر ہمیشہ جماعت کی نظر رہنی چاہئے.اللہ تعالیٰ تو کبھی نہیں سوتا لیکن وہ دلوں کا حال ضرور جانتا ہے اگر غفلت کی حالت میں آپ نے قربانی دی تو یہ حال ہو گا کہ گویا سوتے ہوئے میں آپ کے ہاتھ سے کوئی پیسہ گر گیا اور کسی نے اٹھالیا اور اس لذت سے آپ محروم ہو جائیں گے اس لئے ماں والی مثال خدا پر یوں اطلاق نہیں

Page 583

خطبات طاہر جلد ۹ 578 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۹۰ء پاتی کہ گویا نعوذ باللہ آپ دے رہے ہیں اور خدا سویا ہوا ہے مگر اس طرح ضرور اطلاق پا جاتی ہے کہ آپ سوئے ہوئے ہیں اور خدا کو دے رہے ہیں اس لئے پورے شعور سے خدا کو دیا کریں.عاجزی کے ساتھ اس احساس کے ساتھ کہ میرے دینے میں کوئی ایسی ادا شامل ہے جس پر خدا کو پیار آئے گا اور ان اداؤں کی تلاش کیا کریں اور یہ ایسی چیز ہے جو تفصیل سے آپ کے سامنے بیان نہیں کی جاسکتی.صرف یہ پہلو آپ کے سامنے رکھا جا سکتا ہے کہ عطا کرتے وقت یا پیش کرتے وقت انسان کے قلب کی ایک کیفیت ہوا کرتی ہے.وہ لفظوں میں ظاہر ہو یا نہ ہو، ہوتی ضرور ہے.بعض دفعہ وہ کیفیت یہ ہوتی ہے کہ لو پیچھا چھوڑو، جاؤ جہنم میں.دفعہ ہو میری جان چھوڑو، پیسے کچھ لے لومگر مجھے اعصابی سکون مل جائے اور آپ لفظوں میں کہیں نہ کہیں.بعض دفعہ آپ اس طرح بھی دیتے ہیں بعض دفعہ مائیں بھی بچوں کو اس طرح دیدیتی ہیں.مصیبت پڑی ہوتی ہے وہ کان کھانے لگ جاتا ہے، پیچھے پڑ جاتا ہے کہ دوجی دو، دو، دو، دو، وہ کہتی ہے اچھا جاؤ دفعہ ہو جاؤ یہاں سے مجھ سے پیسے لے لو، جاؤ نکلو یہاں سے حالانکہ ماں اتنی محبت کرتی ہے بعض دفعہ فقیروں کو لوگ اس طرح دیدیتے ہیں، بعض دفعہ دیتے ہیں تو رحم کے جذبات ہوتے ہیں.بعض دفعہ دیتے ہیں تو پیار کے جذبات ہوتے ہیں ،بعض دفعہ دیتے ہیں تو محبت کے جذبات ہوتے ہیں انسان سمجھتا ہے کہ اگر اس نے قبول کر لیا تو میرے لئے کتنی عزت کا مقام ہے، کتنی سعادت ہے اور بعض دفعہ دیتے وقت محسوس ہورہا ہوتا ہے کہ ہم دونوں کے اندر پیار کارشتہ بڑھ رہا ہے.پس جب میں نے کہا کہ لطیف پہلوؤں پر نظر رکھیں تو میری یہ مراد ہے کہ مالی قربانی کو اس طرح دوام بخشیں کہ آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ آپ کو ہمیشہ اچھی اداؤں کی تلاش رہے اور اس رنگ میں خدا کے حضور پیش کیا کریں کہ دیتے وقت آپ کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہو جایا کرے.آپ کا دل نرم ہو جایا کرے، آپ سمجھ لیا کریں کہ یہ وہ کیفیت ہے جوضرور مقبول ہوگی کیونکہ اس کیفیت کو دنیا میں کوئی رد نہیں کر سکتا خدا کیسے رد کر سکتا ہے.پس خدا کرے کہ ہم اپنے مالی قربانی کے نظام کی ہمیشہ حفاظت کریں.اس کے بدن کی حفاظت کریں، اس کی روح کی بھی حفاظت کریں اگر ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت ہمیشہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی چلی جائے گی اور کوئی بھی جماعت کی راہ میں حائل نہیں ہو سکے گا اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 584

خطبات طاہر جلد ۹ 579 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۹۰ء لقائے باری تعالیٰ پر یقین کرنے سے انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے.خطبه جمعه فرموده ۵ را کتوبر۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : وَقِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسُكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا وَمَأْوِيكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّنْ نُصِرِينَ ذلِكُمْ بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ أَيْتِ اللهِ هُزُوًا وَّغَرَّ تُكُمُ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا ۚ فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَوتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ پھر فرمایا:.(الجاثیه: ۳۵ تا ۳۸) یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ الجاثیہ سے لی گئی ہیں.وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنْسَكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا وَ مَأْ و يكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نُصِرِينَ اور ان سے کہا جائے گا کہ آج ہم نے تم کو اسی طرح بھلا دیا ہے جیسے تم اس دن کو بھلا بیٹھے تھے جس دن تمہاری ملاقات مقدر تھی یعنی لِقَاءَ يَوْمِكُمُ هذا آج کے دن کی ملاقات کو بھلا بیٹھے

Page 585

خطبات طاہر جلد ۹ 580 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء ت وَمَاوركُمُ النَّارُ اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے وَمَا لَكُمْ مِنْ نَصِرِينَ اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا ذلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آیتِ اللهِ هُزُوًا وَغَرَّ تُكُمُ الْحَيُوةُ الدُّنْيَاي اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ کی آیات کو تم نے مذاق کا نشانہ بنایا اور ان سے تمسخر کیا.وَغَرَّ تُكُمُ الْحَيُوةُ الدُّنْيَا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں ان باتوں کو نظر انداز کرنے میں مدددی.غر“ کا مطلب ہے : دھوکے میں مبتلا کر دیا.دنیا کی زندگی نے تمہیں ان باتوں سے غافل کر دیا.دھو کے میں مبتلا کر دیا اور تم ان باتوں کی اہمیت کو سمجھ نہیں ہے.فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ پر آج کے دن وہ اس عذاب سے نجات نہیں پائیں گے لَا يُخْرَجُونَ کا مطلب ہے نکالے نہیں جائیں گے.وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ اور ان کی کسی چوکھٹ تک رسائی نہیں ہوگی.پس یہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمین کا بھی رب ہے.تمام جہانوں کا رب ہے اور اسی کے لئے الکبرِ یاد ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی اور وہ عزیز اور حکیم ہے.ان آیات میں درد ناک عذاب کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس میں سب سے پہلے تو یہ بات انسان کے ذہن کو متعجب کرتی ہے کہ کیوں بعض لوگوں کو کسی عذاب کی حالت میں چھوڑ کر بھلا دیا جائے گا.دنیا کی تاریخ میں تو ہمیں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں بہت سے ایسے قلعوں کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں جن کے نیچے زیر زمین ایسے قید خانے تھے جہاں بادشاہوں کی مخالفت کرنے والوں کو ایک دفعہ داخل کر کے بھلا دیا جاتا تھا اور پھر کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا تھا.اس زمانے میں بھی بعض ممالک کے جیل خانوں کے متعلق بعض اطلاعیں دینے والے ایسی ہی اطلاعیں دیتے ہیں کہ وہاں جب ایک دفعہ کسی کو پھینک دیا جائے تو پھر اس کی کوئی رسائی نہیں ہوتی اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا.مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے کچھ احمد یوں کو بعض ظالموں نے شکایت کر کے سعودی عرب میں جیل میں بھجوا دیا اور تقریباً دو مہینے وہ اسی حالت میں پڑے رہے.کسی نے ان سے پوچھا نہیں کہ کیا جرم تھا نہ کوئی پیشی ہوئی یہاں تک کہ جماعت کی کوششوں سے پھر بالآخران تک ہماری رسائی ہوئی اور ان کی دادرسی ہوئی تو اس زمانے میں بھی ایسے ظلم دیکھنے میں آتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے جو فرمایا کہ قیامت کے دن بعض مجرموں سے یہی سلوک کیا جائے گا تو یہ معاملہ تو دنیا کے معاملات سے

Page 586

خطبات طاہر جلد ۹ 581 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء کچھ الگ ہونا چاہئے.دنیا کے معاملات میں تو یہ طریق ظلم کا طریق ہوا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ ظالم نہیں ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھولنے کے مضمون کو بھولنے سے باندھا ہے فرمایا کہ ہم تمہیں بھلا دیں گے جیسا کہ تم نے ہماری لقاء کو بھلا دیا.پس پہلی بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ نا انصافی کا مضمون نہیں، ظلم کا مضمون نہیں بلکہ برابر کا بدلہ دیے جانے کا مضمون ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے کیونکہ انسان جب خدا کو بھلا دیتا ہے تو اس کا بھلانا ایک عارضی حیثیت رکھتا ہے اور محض بھلانے کے نتیجے میں اتنی بڑی سزا کو تسلیم کرنے پر دل آمادہ نہیں ہوتا جب تک اس کے نتیجے میں کچھ اور ایسے مکروہ افعال سر زدنہ ہوں جن کے علم کے بعد انسانی دل مطمئن ہو جاتا ہے کہ ہاں یہ شخص سخت سلوک کا سزاوار تھا.پس بھلانے کے نتیجے میں کچھ اور واقعات ہونے چاہئیں.کچھ ایسی باتیں رونما ہونی چاہئیں جس کے نتیجے میں انسانی فطرت مطمئن ہو کہ ہاں ایسا شخص زیادہ سزا کا مستحق ہے.تو اسی مضمون کو خدا تعالیٰ پھر اگلی آیات میں کھولتا ہے فرماتا ہے: ذلِكُمْ بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ أَيْتِ اللهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا یہ صرف اس لئے نہیں کہ تم نے خدا کو بھلا دیا ، اسے یاد نہیں کیا بلکہ اس حد تک بھلا دیا کہ تم نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو مذاق کا نشانہ بنایا اور ان سے تمسخر کرنا شروع کر دیا.پس یہاں بھلانے سے مراد محض کسی دوست کو بھلا دینا نہیں یا کسی فوت شدہ کو بھلا دینا نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اس سے بے خوف ہو جانا اور دل میں یہ یقین پیدا کر لینا کہ میں کبھی اس کے سامنے پیش نہیں کیا جاؤں گا.پر لِقَاءَ يَوْمِكُمُ هذا میں اس بات کی وضاحت ہے کہ وہ لوگ جو جرموں پر جرات اختیار کرتے ہیں اور بیباک ہو جاتے ہیں ان کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ دل میں یقین کر بیٹھتے ہیں کہ قیامت ویا مت سب قصے ہیں، ان میں کوئی بھی حقیقت نہیں اور ہم خدا کے حضور پیش نہیں ہوں گے اور کوئی نہیں ہے جو ہماری جواب طلبی کر سکے.پس اس کے نتیجے میں دو باتیں ، دوسلوک ان سے کئے جائیں گے.اول یہ کہ چونکہ وہ یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ پیش نہیں کئے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں جرائم پر جرات کرتے ہیں اس لئے جب ان کو سزادی جائے گی تو ان کی پیشی کسی کے سامنے نہیں ہوگی اور دادرسی کے لئے کوئی چوکھٹ نہیں پائیں گے.يُسْتَعْتَبُوْنَ کا مطلب ہے کسی چوکھٹ تک رسائی پانا.تو فرمایا کہ وہ تو خود یقین کر چکے

Page 587

خطبات طاہر جلد ۹ 582 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء ہیں کہ کوئی ہے ہی نہیں اور کسی کے سامنے ہماری جواب طلبی نہیں ہوگی.اس لئے عدم کے سامنے ان کی دادرسی بھی نہیں ہو سکتی.اسپلیں تو وہاں ہوتی ہیں جہاں کوئی وجود ہو.پس ان سے ان کے اپنے اعتقادات کے مطابق معاملہ کیا جائے گا.دوسرے یہ کہ محض بھلا دینا کافی نہیں.بھلا دینے کے بعد بعض بداعمالیوں پر جرات کرنا اور بیبا کی اختیار کرنا یہ دراصل انسان کو سزاوار قرار دیتا ہے.چنانچہ اس کے متعلق دو باتیں بیان فرمائیں وہ تمسخر سے کام لینے لگے اور دنیا کی زندگی نے انہیں رستے سے بھٹکا دیا اور بے راہ روکر دیا.یہ جو مضمون ہے اس کا روز مرہ کے گناہوں کے ساتھ ایک بڑا گہراتعلق ہے.مغربی دنیا میں جب بھی ہم اسلام کا پیغام پہنچاتے ہیں تو بسا اوقات میں نے دیکھا ہے کہ دلائل کے ساتھ ان کو قائل بھی کر لیا جائے کہ اسلام ایک معقول مذہب ہے اور اس دنیا کے مسائل کاحل رکھتا ہے تب بھی وہ اسلام کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور دراصل عیسائیت کے مقابل پر اسلام کو کمتر جان کراس کا انکار نہیں کرتے بلکہ اپنی تہذیب سے چھٹے ہوئے ہیں اور اسلام کے مقابل پر اپنی تہذیب کو قربان نہیں کر سکتے.اس تہذیب نے ان کو بہت سی آزادیاں دے رکھی ہیں، ہر قسم کی لذت یابی کے سامان یہاں موجود ہیں اور ہر قسم کی لذت یابی کی اجازت موجود ہے پس غَرَّتُكُمُ الْحَيُوةُ الدُّنْيَا کا یہ مطلب ہے کہ آخرت کے اوپر اور جزاء سزا پر ایمان کا نہ ہونا لازماً انسان کو دنیا کی طرف جھکا دیتا ہے اور وہ دنیا کا کیٹر بن جاتا ہے اور ان دونوں مضمونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے پس جب خدا کو بھلا کر اور یوم آخرت کو بھلا کر انسان دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رہا ہوتو ناممکن ہے کہ وہ موت کے بعد کے متعلق ایک فرضی خیال کے اوپر اس چیز کو قربان کر دے جو اس کے ہاتھ میں ہے اور وعدہ فردا پر آج کی ان باتوں کو قربان کر دے جن کو وہ حقیقتیں سمجھ رہا ہے کہتے ہیں (انگریزی کا محاورہ ہے اس کا ترجمہ یہ ہے ) ایک جھاڑی کے دو پرندوں سے ہاتھ کا ایک پرندہ بہتر ہے.پس اسی قسم کا مضمون ہے جو صرف مغرب ہی میں نہیں بلکہ مشرق میں بھی ذہنوں میں ابھرتا ہے خواہ الفاظ میں بیان کیا جائے یا نہ کیا جائے اور مختلف شعراء اسی مضمون کو خود تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں چنانچہ دنیا کے اکثر ادب میں آپ یہ مضمون پائیں گے کہ آئندہ کے وعدوں پر ، کو رو قصور کے وعدوں پر ، کل کی شراب کے وعدوں پر آج کی حسیناؤں کو ، آج کی شراب کو کیوں قربان کریں.آج

Page 588

خطبات طاہر جلد ۹ 583 خطبه جمعه ۵ را کتوبر ۱۹۹۰ء جو ہاتھ میں ہے وہ ٹھیک ہے کل دیکھی جائے گی.چنانچہ الفاظ تو بہر حال مختلف ہوتے ہیں اور شاعرانہ تخیل کے ساتھ باندھے جاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہی مضمون ہے جو دنیا کے ہر ادب میں آپ کو ملے گا اور اسی مضمون کو قرآن کریم ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر گناہوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ گناہ کا اور دنیا میں جھک جانے کا سب سے بڑا محرک یہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوگا اور یہ جو لقاء کے قصے ہیں یہ سب فرضی باتیں ہیں اور کہانیاں ہیں.چنانچہ دراصل ان آیات سے پہلے جو آیات ہیں وہ اسی مضمون کو بیان کر رہی تھیں.میں نے درمیان سے تلاوت شروع کی اب میں پہلی آیات پڑھ کے سناتا ہوں تا کہ آپ کو ذہن نشین ہو جائے کہ کیا مضمون چل رہا تھا اور قرآن کریم ہمیں کیا سمجھانا چاہتا ہے.وَأَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَفَلَمْ تَكُنْ ايَتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ (الجاثية: ۳۲) پس وہ لوگ جنہوں نے انکار کر دیا.اَفَلَمْ تَكُنْ ايَتِى تُتْلَى عَلَيْكُمْ کیا تمہارے سامنے ہماری آیات پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں یا ہماری طرف سے نشانات تمہارے سامنے پیش نہیں کئے جاتے تھے.فَاسْتَكْبَرُ تُم پس تم نے تکبر سے کام لیا اور تم قوم مجرمین بن گئے.وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ اور جب ان کے سامنے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کا وعدہ حق ہے.یقینا سچا ہے وَ السَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا اور قیامت کے متعلق کوئی شک کی گنجائش نہیں.لازماً ہوگی اور لازماً تمہارا سوال و جواب ہو گا قُلْتُم مَّا نَدْرِئَ مَا السَّاعَةُ تم یہ جواب دیتے ہو کہ ہمیں نہیں پتا کہ قیامت کیا چیز ہے اور ساعت کیا ہوگی.اِنْ نَّظُنُّ إِلَّا ظَنَّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ ہم تو ظنوں میں مبتلاء ہیں خیالات اور توہمات میں مبتلاء ہیں.مَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ اور ایک بات پختہ ہے کہ ہم ان باتوں پر یقین کرنے والے نہیں.وَبَدَالَهُمْ سَيَّاتُ مَا عَمِلُوا پس ان کے لئے ان بداعمالیوں کا پھل ظاہر ہو گیا جن میں وہ مبتلاء تھے.وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ اور ان کا اس چیز نے احاطہ کر لیا جس پر وہ مذاق کیا کرتے تھے.وَبَدَا لَهُمْ سَيَاتٌ مَا عَمِلُوا نے اس مضمون کو خوب اچھی طرح کھول دیا ہے کہ محض عقائد کی بناء پر کوئی شخص پکڑا نہیں جاتا بلکہ عقائد کے نتیجے میں جو بداعمالیاں پیدا ہوتی ہیں ان کے نتیجے میں پکڑا جاتا ہے اور ہر عقیدے کے ساتھ کچھ بداعمالیوں کا تعلق ہوتا ہے.پس

Page 589

خطبات طاہر جلد ۹ 584 خطبه جمعه ۵ را کتوبر ۱۹۹۰ء قرآن کریم نے جو عقائد پر زور دیا ہے اور ایمانیات پر زور دیا ہے وہ محض ایک فرضی بات نہیں بلکہ ہر عقیدے کے ساتھ بعض اعمال کا گہرا تعلق ہوتا ہے اور ہر حقیقت کے انکار کے نتیجے میں بعض بدیاں لازماً پیدا ہوتی ہیں.پس آخرت پر یقین پر جو زور دیا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اگر آخرت پر سے ایمان اٹھ جائے تو دنیا کی طرف رجحان اسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اسی حد تک انسان گناہوں پر جرات کرتا چلا جاتا ہے.پس وہ لوگ جو آخرت کو ظن کی باتیں سمجھنے لگتے ہیں وہ اس دنیا میں کسی قیمت پر بھی اپنی لذتوں سے کنارہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے.وہ سمجھتے ہیں کہ فرضی باتوں کے اوپر ہم آج کی لذتوں کو کیوں قربان کریں.یہ وہ مضمون ہے جس کے نتیجے میں بداعمالیاں پیدا ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں حق کو قبول کرنے سے محرومی پیدا ہوتی ہے.یہ دو باتیں ہیں جو قرآن کریم نے کھول کر بیان فرمائی ہیں ، پس وہ قو میں جو اسلام سے دور ہیں جب آپ ان کو اسلام کا پیغام پہنچاتے ہیں تو آپ کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ ان میں بھاری اکثریت خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی آخرت پر وہ یقین نہیں رکھتی جو آپ رکھتے ہیں یا آپ کو رکھنا چاہئے اور اس کے نتیجے میں محض دلائل کافی نہیں ہیں اور ایسا طریق اختیار کرنا ضروری ہے یا ایسے دلائل دینا بھی ضروری ہے جن کے نتیجے میں اُخروی زندگی پر ایمان بڑھے اور انسان کواس بات کا احساس پیدا ہو کہ میں آزاد نہیں ہوں میری ضرور جواب طلبی ہوگی.یہ جواب طلبی کا جو فقدان ہے یہ دنیا میں کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرآن کریم کے مضمون کی روشنی میں ہر قسم کی بد اعمالیوں سے تعلق ہے چنانچہ آج کل مغربی دنیا جس دور میں داخل ہو رہی ہے وہ صرف آخرت کی جواب طلبی کے انکار کا دور نہیں بلکہ دنیا کی جواب طلبی سے بھی انکار کا دور ہے اور انفرادی آزادی پر امریکہ میں اور یورپ میں زور دیا جا رہا ہے یہ اگلا قدم، یہ اگلا دور ہے جس میں وہ داخل ہوچکے ہیں.مذہب سے دوری کا پہلا وہ دور ہے جو آخرت میں جواب طلبی سے انکار کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں خدا سے تعلق رکھنے والی ساری ذمہ داریوں کو انسان اپنی گردن سے اتار کے پھینک دیتا ہے اور ساتھ ہی بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والی ان ذمہ داریوں کو بھی انسان ترک کرنے لگتا ہے جن کا مذہب سے تعلق ہو اور مذہبی تعلیم سے تعلق ہو.یہ دور یورپ کی گزشتہ ایک

Page 590

خطبات طاہر جلد ۹ 585 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء دوصدیوں کا دور تھا.صرف یورپ نہیں کہنا چاہئے امریکہ بھی اس میں شامل ہے اور مغربی دنیا یا مغربی دنیا سے متأثر ساری قومیں اس میں شامل ہیں.ایک عرصے کے بعد آخرت کا سوال نہیں رہتا بلکہ جواب طلبی کا تصور قریب آجاتا ہے اور انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ میں کیوں کسی کے سامنے جواب دہ ہوں.جب کوئی خدا نہیں ہے کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے میں خود ہوں جو اپنے سامنے جوابدہ ہوں اس لئے مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں معاشرے کی پابندیوں کا خیال کروں ، تہذیب کی پابندیوں کا خیال کروں ، اچھے برے کی پابندیوں کا خیال کروں اس دور میں داخل ہو کر انسانی علوم بھی نئے نئے شاخسانے چھوڑنے لگتے ہیں اور بدی اور برائی کے درمیان کوئی تمیز باقی نہیں رہتی چنانچہ آج کل جو مغربی دنیا میں معاشرے سے متعلق اور اخلاقیات سے متعلق جو فلسفے پڑھائے جاتے ہیں ان میں اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ اچھے اور بُرے کے درمیان جور وایتی تمیزیں تھیں وہ مٹ چکی ہیں اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے.ہر شخص آزاد ہے.اگر ماں باپ بچے کو یہ سمجھا سمجھا کر بعض باتوں سے باز رکھیں کہ یہ باتیں بُری ہیں تو وہ دراصل بچے پر ظلم کرنے والے ہوں گے اور اس کی آزادیاں سلب کرنے والے ہوں گے.چنانچہ ایک دفعہ جب میں جرمنی گیا تو وہاں سوالات میں ایک یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ آپ بچوں کی آزادیاں کیوں سلب کرتے ہیں؟ کیوں بچوں کو اپنی مرضی سے جو کچھ وہ چاہیں کرنے نہیں دیتے؟ اور جب میں نے اس کا جواب دیا اور سمجھانے کی کوشش کی تو غالباً مجلس میں سے ہی کسی نے بتایا کہ ہمارے سب سکولوں میں استاد بالعموم یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو.ہر شخص آزاد ہے جو دل میں آتا ہے کرو اور اگر تم نے نہ کیا تو پھر تم نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاؤ گے اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاؤ گے.اب جواب طلبی سے یہ انکار آخرت کی بات نہیں رہی اس دنیا میں آگئی اور اس کے نتیجے میں پھر حکومت کے قوانین سے انکار کارجحان بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اور بے راہ روی جو ہے اس کی کوئی حد نہیں رہتی.پس قرآن کریم جو مضمون بیان کرتا ہے اس میں بہت ہی گہرائی ہوتی ہے اور انسانی فطرت سے اس کا گہرا تعلق ہوتا ہے.پس یہاں فرمایا کہ دنیا کی طرف تمہارا بڑھتا ہوار جان تمہیں بے راہ روکر دے گا اور بھٹکادے گا اور فرائض سے غافل کر دے گا.اور آج مغربی دنیا میں ہم یہی دور دیکھ رہے ہیں.میں نے اس سوال کرنے والے سے کہا کہ یہ جو تم نے سوال اٹھایا ہے اپنے استاد سے پوچھو

Page 591

خطبات طاہر جلد ۹ 586 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء کہ اس سوال کی آخری حد کونسی ہوگی.اگر ماں باپ کو یہ حق نہیں ہے کہ بچوں کو بعض باتیں کرنے سے روکیں تو حکومت کو کیا حق ہے کہ وہ شہریوں کو بعض باتیں کرنے سے رو کے کسی معاشرے کو کیا حق ہے کہ کسی کو کوئی بات کرنے سے رو کے اور ایک دفعہ یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ کسی کو کسی سے روکنے کا کوئی حق نہیں ورنہ وہ شخص جس کو روکا جاتا ہے بیچارہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گا تو ہر قانون دنیا سے اٹھ جائے گا اور کسی کو کوئی حق نہیں رہتا.ایک انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ چوری کرے کیوں اس کو چوری نہیں کرنے دیتے ؟ بعض لوگوں کا دل چاہتا ہے کسی کے منہ پر تھپڑ ماریں کیوں نہیں مارنے دیتے ؟ بعض دفعہ بغیر وجہ کے بھی دل چاہنے لگ جاتا ہے بعض بچوں کو عادت ہوتی ہے وہ برداشت نہیں کر سکتے کسی کمزور بچے کو دیکھیں تو جب تک اس کو مارنہ لیں ، اس کو دھکا نہ دیدیں اس وقت تک اس کو مزا نہیں آتا.بچپن کی یہی عادت بعض بڑوں میں بھی ہو جاتی ہے.ان کے دماغ میں اچانک جنون اٹھتا ہے کہ ہم کسی کو کچھ چھیڑیں، تنگ کریں، اس کے بغیر ان کو لطف نہیں آتا.اگر انسانی نفسیات کا یہ تقاضا ہے کہ جو خواہش ہواس کو پورا کر دینا چاہئے اور روکنے کا کسی کو حق نہیں تو پھر صرف مذہب کا سوال باقی نہیں رہتا.دنیا کے ہر معاملے میں اور تعلقات کے ہر دائرے میں یہی قانون نافذ ہوگا.اور اس کے نتیجے میں انسان ہر ذمہ داری سے کلیہ آزاد ہو جائے گا.پس ذمہ داریوں سے آزادی کا رجحان ہے جو آج کی دنیا میں آپ دیکھ رہے ہیں اور یہ رجحان دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے.ان کو آپ جب تبلیغ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں یہ خوبیاں ہیں اور اسلام میں وہ خوبیاں ہیں تو آخر پر ان کی تان اکثر اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ عورت کو اسلام کیا آزادی دتیا ہے اور میں اس سوال پر پھر مرد اور عورتیں سب مشترک ہو جاتے ہیں، اکٹھے ہو جاتے ہیں.آپ جواب دیں اور ان کو عقلی طور پر مطمئن بھی کرائیں لیکن ان کی مسکراہٹ بتارہی ہوتی ہے کہ تم جو چاہوکر لو ہم اس معاشرے کو چھوڑنے والے نہیں.عورتیں جو بن ٹھن کر باہر نکلتی ہیں اور مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ارادہ یا غیر ارادی طور پر ، اپنے رہن سہن کی طرز کی بنا پر میری مراد ہے وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.ان کو وہ سمجھتے ہیں کہ واپس تو اب کوئی نہیں دھکیل سکتا نہ ہم ان عادتوں کو چھوڑنے والے ہیں.

Page 592

خطبات طاہر جلد ۹ 587 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء پس یہ وہ مقام ہے جو انتہائی خطرناک مقام ہے اس کا آغا ز اسی کمزوری سے ہوا ہے جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا کہ آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ دنیا یہی ہے اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اگر ہے تو شاید بھوت پریت قسم کی زندگی ہو.شاید روحوں کا دنیا میں بھٹکتے رہنا اور اپنے دنیا کے ہو.تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرنا اس زندگی کا مزاج ہے.اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں لیکن جواب طلبی کے نقطہ نگاہ سے یہ لوگ اُخروی زندگی کے قائل نہیں رہتے.آج کل مغربی دنیا میں ایک یہ بھی رجحان بڑھ رہا ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے تذکرے کئے جائیں اور سائنسی لحاظ سے یا فلسفیاتی لحاظ سے یہ ثابت کیا جائے کہ مرنے کے بعد انسان کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہے گا.میں نے اس قسم کے لٹریچر کا مذہبی نقطہ نگاہ سے بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے اور میں اس مطالعہ کے بعد آپ کو وثوق سے بتاتا ہوں کہ ان کا مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین کرنا یا اس کی باتیں کرنے کا جو رجحان ہے اس کا جواب طلبی سے کوئی تعلق نہیں ہے.آپ کسی جدید لٹریچر میں یہ بات نہیں پائیں گے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح کسی شکل میں اس لئے زندہ رہے گی کہ وہ خدا کی طرف لوٹائی جائے اور خدا اس سے جواب طلبی کرے.اس مضمون کا دور سے بھی کوئی ذکر ان کی کتابوں میں اور ان کی تحقیقات میں آپ کو نہیں ملے گا.ان کا مرنے کے بعد کی زندگی کا تصور ایک خوش فہمی سے تعلق رکھتا ہے.ایک خام خیالی سے تعلق رکھتا ہے.موت سے تو ان کو انکار نہیں ہے اور ہر انسان کا دل چاہتا ہے کہ میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہوں اور زندگی کے انقطاع کے بعد ایک بے چینی لگ جاتی ہے.ہر انسان سمجھتا ہے کہ کیا یہی سب کچھ تھا.میں پیدا ہوا میرے تعلق والے دوست پیدا ہوئے ، ہمارے بڑے پیدا ہوئے اور آکے گزر گئے اور بس یہ سلسلے ختم ہو گئے.یہ سوال ان کو بے چین کر دیتا ہے دل چاہتا ہے کہ کسی طرح مرے ہوؤں سے تعلق جوڑ سکیں.اس خواہش کی بنا پر نہ کہ خدا سے تعلق جوڑنے کی خواہش کی بناء پر یہ ایک فرضی زندگی کا تصور باندھتے ہیں اور اسی کے اوپر مضامین لکھتے ہیں.چنانچہ مرنے کے بعد کی زندگی کا ان کا مضمون یہیں ختم ہو جاتا ہے کہ ہمارے پرانے تعلق والے عزیز یا دوست جو مر گئے وہ کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہ کر ہم سے دوبارہ تعلق قائم کر سکتے ہیں اس مضمون کا قرآنی مضمون سے دور کا بھی واسطہ نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ خدا کی طرف لوٹائے جائیں گے اور دنیا سے ان کا تعلق ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جائے گا.وَحَرام عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبیاء : ۹۲) کہ ہم

Page 593

خطبات طاہر جلد ۹ 588 خطبه جمعه ۵ /اکتوبر ۱۹۹۰ء نے کسی بستی پر حرام کر دیا ہے جس کے باشندے ، رہنے والے جب ایک دفعہ مر جائیں وہ ہرگز کبھی لوٹ کر دوبارہ وہاں نہیں آئیں گے.پس دیکھیں کہ بظاہر ایک ہی قسم کا مضمون ہے جس پر یہ بھی ایمان لا رہے ہیں اور اہل ایمان بھی خدا تعالی پر یقین کرنے والے بھی ایمان لاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر ان کے محرکات بھی الگ ہیں اور ایک دوسرے سے بالکل جدا جدا ہیں.ان کا مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان اس زندگی پر ایمان کے نتیجے میں اور اس کی بڑھی ہوئی خواہش کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور مرنے والوں کو بھی دوبارہ اپنی طرف لوٹا دیتے ہیں.اور مذہبی تصور میں دنیا سے تعلق کاٹ کر روحوں کو خدا کی طرف واپس بھجوایا جاتا ہے اور وہاں جا کر وہ جوابدہ ہوتے ہیں.پس یہ وہ مذہبی تصور ہے کہ تم مرو گے، خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہاں تمہارے سے جواب طلبی کی جائے گی.یہ بنیادی تصور ہے جو گناہوں کے قلع قمع کرنے کے لئے ضروری ہے اور اس تصور سے آپ جتنا دور ہوتے چلے جائیں گے اتنا ہی تو ہمات کا شکار ہوتے چلے جائیں گے اور اتناہی غیرذمہ دار ہوتے چلے جائیں گے.آخر وہ مقام آتا ہے جب انسان جرائم پر بے دھڑک ہو کر جرات اختیار کرتا ہے پھر نہ وہ خدا کو جواب طلبی کا حق دے سکتا ہے نہ انسان کو جواب طلبی کا حق دے سکتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں آزاد ہوں.مروں گا یہیں ختم ہو جاؤں گا.زندگی میں جو کچھ میں کرسکتا ہوں میں کروں گا کوئی مجھے روکنے والا نہیں.اس دور میں جب دنیا داخل ہوتی ہے تو جرائم اس تیزی سے پرورش پاتے ہیں کہ پھر ان پر کوئی حکومتیں اختیار نہیں رکھتیں اور کسی طرح ان کو روک نہیں سکتیں.انگلستان میں ٹیلی ویژن پر آج کل اس قسم کی بہت بحثیں آتی ہیں کہ جرائم بڑھ رہے ہیں ان کو کس طرح روکا جائے، پولیس قوانین میں کیا تبدیلیاں پیدا کی جائیں، کیا اختیار ان کو دیے جائیں کیا اختیار نہ دیے جائیں اور جب میں ان پروگراموں کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ قرآنی حکمتوں سے ہٹ کر جب دنیا کے حکمتوں والے بھی باتیں کرتے ہیں تو بالکل جاہلانہ باتیں ہوتی ہیں جرائم کو قوانین نہیں روکا کرتے کوئی دنیا کا قانون کوئی دنیا کی پولیس جرائم کو روک نہیں سکتی.جرائم کو دبا سکتی ہے اور جرائم کو روکنے کے لئے صرف خدا تعالیٰ کا تصور اور اس سے تعلق کا تصور ہے جو حقیقت میں کام کر سکتا ہے.ایسا انسان جو خدا پر یقین رکھتا ہے اور خدا سے ملاقات کا یقین رکھتا ہے

Page 594

خطبات طاہر جلد ۹ 589 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء اس کے اندھیرے بھی روشن ہو جاتے ہیں کیونکہ اسے چھپنے کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی.وہ جہاں بھی جائے جس حالت میں زندگی بسر کرتا ہو وہ آنکھوں کے نیچے رہتا ہے اور نظر کے سامنے رہتا ہے.یہی ایک حقیقت ہے جو انسان کو گناہوں سے پاک کر سکتی ہے اس کے سوا اور کوئی طریق گنا ہوں سے پاک ہونے کا نہیں ہے.پس دنیا کی خرابیاں ہوں یا مذہبی امور سے تعلق رکھنے والے گناہ ہوں تمام جرائم کی جڑ اس بات میں ہے کہ ہم خدا سے لِقاء کے مضمون کو بھلا دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس سے پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں.ظاہراً انکار کریں یا نہ کریں.ہماری روزمرہ کی زندگی میں مرنے کے بعد خدا سے ملنے کا تصور کمزور پڑتا چلا جاتا ہے اور یہ تصور جتنا کمزور پڑتا چلا جاتا ہے اتنا ہی انسان گناہوں پر دلیری اختیار کرتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ معاشرتی گناہ بھی جن کو ہم قانون شکنی کہتے ہیں وہ بھی زور مارنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام سوسائٹی انار کی میں تبدیل ہو جاتی ہے.پس جماعت احمدیہ کو ان بنیادی حقیقتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے خواہ کوئی کتنی تلقین کرے سچائی کی عبادتوں کی ، نیکی اختیار کرنے کی ، بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنے کی، بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی کیسی کیسی اچھی نصیحتیں کیوں نہ کرے جب تک سننے والے کو یہ یقین نہ ہو کہ میرا ایک خدا ہے اور مرنے کے بعد میں نے اس کے حضور پیش ہونا ہے اس وقت تک یہ صیحتیں اثر نہیں دکھا سکتیں یا دکھاتی ہیں تو ایک عارضی سا اثر دکھاتی ہیں پس اس بنیادی حقیقت کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر اتنازور دیا ہے اور مختلف رنگ میں اس پر روشنی ڈالی ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تحریریں کسی نے پڑھی ہوں تو اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ کبھی بھی اس بنیادی مضمون کو فراموش کر سکے.وہ نظم جو ہمیشہ شادیوں کے موقع پر پڑھی جاتی ہے اس کا مصرعہ یہی ہے نا کہ: یه روز کر مبارک سبحان من یرانی (درشین صفحه ۳۴۰) کہ اے خدا اس دن کو مبارک کر اور ساتھ عرض کیا سبحان من یرانی.پاک ہے وہ ذات جو مجھے ہمیشہ دیکھتی ہے.پس جوشخص اس یقین کے ساتھ زندہ ہے کہ ایک ذات اس کو ہمیشہ دیکھتی رہتی ہے اس کی زندگی میں کوئی اندھیرا آ ہی نہیں سکتا.وہ روشنی کے وقت بھی روشنی میں رہتا ہے اور

Page 595

خطبات طاہر جلد ۹ 590 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء اندھیروں کے وقت میں بھی روشنی میں رہتا ہے اور یہ مضمون ایک جیسی شدت کے ساتھ سب پر چسپاں نہیں ہوتا.اندھیروں میں بھی نسبتیں ہوا کرتی ہیں، روشنی میں بھی نسبتیں ہوا کرتی ہیں.ایک اندھیرے سے انسان روشنی کی طرف منتقل ہوتا ہے تو اگلی روشنی کے مقابل پر وہ پہلی روشنی اندھیرا دکھائی دینے لگتی ہے اس لئے یہ بہت لمبا سفر ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ خدا کے تصور کو زیادہ سے زیادہ تازہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لمحات اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے اور زیادہ سے زیادہ لمحات میں خدا تعالیٰ کے وجود کا تصور باندھا جائے یہی ایک طریق ہے جس سے انسان حقیقی معنوں میں گناہوں سے نجات پاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: افسوس کا مقام ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے لیکن اس کے لئے وہ کوششیں کی جاتی ہیں کہ گویا کبھی یہاں سے جانا ہی نہیں.انسان کیسا غافل اور نا سمجھ ہے کہ اعلامیہ دیکھتا ہے کہ یہاں کسی کو ہمیشہ کے لئے قیام نہیں ہے.لیکن پھر بھی اس کی آنکھ نہیں کھلتی.اگر یہ لوگ جو بڑے کہلاتے ہیں اس طرف توجہ کرتے تو کیا اچھا ہوتا.دنیا کی عجیب حالت ہورہی ہے جو ایک دردمند دل کو گھبرا دیتی ہے.بعض لوگ تو کھلے طور پر طالب دنیا ہیں اور ان کی ساری کوششیں اور تگ و دود نیا تک محدود ہے لیکن بعض لوگ ہیں جو اسی مردود دنیا کے طلب گار مگر وہ اس پر دین کی چادر ڈالتے ہیں.جب اس چادر کو اٹھایا جاوے تو وہی نجاست اور بد بو موجود ہے یہ گروہ پہلے گروہ کی نسبت زیادہ خطرناک اور نقصان رساں ہے.(ملفوظات جلد ۴ صفحہ: ۴۶۷) یہ پہلو جو ہے اس کو خاص طور پر پیش نظر رکھیں کہ محض دین کی چادر اوڑھ لینا کافی نہیں بلکہ حقیقت میں اس چادر کے اندر کی زندگی ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں رہتی ہے.پس جب تک ہم پوری کوشش کر کے چادر سے باہر کی زندگی کو چادر کے اندر کی زندگی کے مطابق نہ کر لیں اس وقت تک ہم مقام امن میں نہیں آ سکتے اور یہ بات کہنے کو آسان ہے لیکن بہت مشکل بات ہے.ایسی بات ہے جس پر ساری زندگی محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ خدا کے غیر معمولی فضل کے سوا کوئی انسان یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہو کہ میری چادر سے باہر کی زندگی

Page 596

خطبات طاہر جلد ۹ 591 خطبه جمعه ۵ /اکتوبر ۱۹۹۰ء میری چادر کی اندر کی زندگی کے مطابق ہے.بسا اوقات بڑے سے بڑے بزرگ کی بھی دو حالتیں ہوتی ہیں ایک وہ جیسا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا چادر اوڑھے ہوئے کی حالت کہ باہر سے لوگ اس کے دین کو دیکھ سکتے ہیں اس کے دل کی حالت سے بے خبر اور اس کے خفیہ اعمال سے بے خبر رہتے ہیں اور ایک وہ حالت ہے جو وہ اندر بیٹھا دیکھ رہا ہے.سب سے بڑی تکلیف اس بات کی ہوتی ہے کہ بعض لوگ اپنی اندر کی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور یہ تب ہوتا ہے جب انسان اس احساس سے بالکل غافل ہو جاتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے.پس اس مضمون کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کے لئے میں تفصیل سے یہ بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہم میں سے وہ جو سچا ایمان لانے والا ہے اور واقعہ ایمان لانے والا ہے وہ یہ تو کہہ ہی نہیں سکتا، یہ تو سوچ ہی نہیں سکتا کہ میں خدا کے سامنے پیش نہیں ہوں گا ہر احمدی یہ یقین رکھتا ہے لیکن پیش ہونے سے پہلے اس دنیا میں اگر اس کو یہ پتا نہ ہو کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے تو اسی حد تک پیش ہونے کی ذمہ داریوں سے وہ غافل ہوتا چلا جائے گا اور اس یقین کے باوجود کہ میں نے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے انسان اپنے گناہوں کی حالت سے غافل ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے گناہوں کو اندھیرے کی حالت میں کیا ہے اور گناہوں کے وقت کوئی اسے دیکھ نہیں رہا تھا.باشعور طور پر چاہے وہ نہ سمجھے لیکن غیر شعوری طور پر یہ یقینی بات ہے کہ گناہ کے وقت انسان خدا کی نظر سے غافل رہتا ہے.یہ حالت جب بد سے بدتر ہونی شروع ہو تو بالآخر ایسے انسان کو خود اپنی اندر کی حالتوں کا بھی علم نہیں رہتا اور انسان غفلتیں کرتا ہے لیکن محسوس نہیں کرتا کہ میں نے کیا کیا ؟ یہ وہ چادر کے اندر ایک اور چادر ہے جس کے اندر وہ داخل ہو جاتا ہے اور اس حالت سے لوگوں کو نکالنا بہت ہی مشکل کام ہے.تربیت کے دوران ہر قسم کے مواقع پر میں نے خاص طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ وہ شخص جس نے صرف ایک ہی چادر اوڑھی ہوئی ہے اور بظاہر نیک ہونے کے با و جود وہ خدا کی نظر سے غافل بھی رہتا ہے اس کو اگر جھنجھوڑا جائے تو وہ سنبھل جاتا ہے اور بہت جلدی اس میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے لیکن وہ شخص جس کی اپنی نظر دھندلا جائے ، جو اپنے اعمال سے خود غافل ہو چکا ہو اس کو جھنجھوڑ کر جگانا بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ بسا اوقات وہ ایک بدی میں مبتلا ہوتا ہے آپ اس کو کہتے ہیں تم کر رہے ہو تو وہ آگے سے بھڑک اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایسی بات

Page 597

خطبات طاہر جلد ۹ 592 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء نہیں کرتا.آپ جھوٹے کو جھوٹا کہہ دیں وہ ایسے غصے سے آپ کو جواب دے گا کہ تم جھوٹے ہوگے، تمہارے ماں باپ جھوٹے میں تو بالکل جھوٹ نہیں بولتا یا تم ہوتے کون ہو مجھے جھوٹا کہنے والے اور کبھی وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کی ساری زندگی جھوٹ میں صرف ہوتی ہے.پس بہت سے ایسے گناہ ہیں جو خدا کی نظر تو در کنار خود اپنی نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں.اس حالت کا نام ہے ظلمات کے اوپر ظلمات یعنی ایک ظلمت نہیں ہے بلکہ کئی قسم کی ظلمتوں کے اندر انسان گھرا ہوا ہے.پس صرف ایک ظلمت یعنی پہلی ظلمت جو ہے وہ اتنی خطرناک نہیں مگر جب ظلمت کے اندر ظلمت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو رفتہ رفتہ انسان کو اس بات کا شعور ہی نہیں رہتا کہ میں کیا کر رہا ہوں کیوں کر رہا ہوں.اس کی نظر سے تمام حقیقتیں اوجھل ہو جاتی ہیں.ایسے انسان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ ایک چوپائے کی طرح زندگی بسر کرتا ہے جو اوندھے منہ چلنے والا ہو.اس کا کوئی مرشد نہ ہو کوئی اس کو ہدایت نہ دے سکتا ہو.پس بنیادی عقیدہ وہی ہے یعنی خدا سے مرنے کے بعد لقاء کا عقیدہ.اس کے آپ جتنے قریب جائیں گے اتنا آپ کو روشنی نصیب ہوگی جتنا باشعور طور پر اس عقیدے کو چمٹیں گے اور اس کی پناہ میں آئیں گے اتنا ہی آپ ظلمات سے روشنیوں کی طرف سفر کرنے والے ہوں گے.جتنا اس عقیدے سے غفلت کی حالت میں یا باشعور طور پر پیچھے ہٹیں گے اتنا ہی گناہوں میں مبتلا ہوتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ اپنی حالت سے کلیہ بے خبر ہو جائیں گے پس ”نسی کا مضمون یعنی بھلا دینے کا مضمون دراصل ان سب باتوں کو بھلا دینا ہے.جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے لقاء یوم آخر کو بھلا دیا اس لئے یہ سزا دیتا ہوں تو یہ کوئی ایسا ظالمانہ فیصلہ نہیں ہے.جیسا کہ میں نے مثال دی کہ دنیا کے بادشاہ کسی کو جیل میں ڈال کے بھلا دیتے ہیں بلکہ اس کا بہت گہرا انسانی نفسیات سے تعلق ہے.انسان جب لقاء کے مضمون کو بھلاتا ہے تو رفتہ رفتہ اپنے آپ سے بھی غافل ہوتا چلا جاتا ہے اور جو اپنے آپ کو بھلا دے وہ کسی اور سے کیسے شکوہ کر سکتا ہے کہ مجھے تم نے بھلا دیا.پس اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں اپنی لقاء کی حقیقی معرفت عطا کرے اور ہم موت کو یادرکھنے والے ہوں بھلانے والے نہ ہوں.موت دنیا کی سب سے زیادہ یقینی حقیقت ہے لیکن سب سے زیادہ بھلا دی جاتی ہے.کتنے لوگ ہیں جو ہم سے پہلے گزر گئے اور پھر کبھی خوابوں کے سوا ان کی صورت نہیں

Page 598

خطبات طاہر جلد ۹ 593 خطبه جمعه ۵ اکتوبر ۱۹۹۰ء دیکھی مگر اس کے باوجود انسان اس دنیا میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اس طرح رہتا ہے جیسے ہمیشہ یہیں رہے گا.اپنے مفادات کی خاطر اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر بے دھڑک آخرت کے مفادات کو قربان کرتا ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے عزیزوں سے ناراض ہوتا ہے.ان کی زندگی بھی تلخ کرتا ہے اپنی زندگی بھی تلخ کرتا ہے اور نہیں سوچتا کہ اس چند روزہ دنیا نے جب ختم ہونا ہے تو انسان کو یوں محسوس ہوگا جیسے میں کچھ رہا ہی نہیں.چند گھڑیاں رہا ہوں اس وقت یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ خوامخواہ تھوڑی دیر کی خاطر میں نے ساری زندگی برباد کر لی اور انسان یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں واپس جاؤں تو پھر میں یہ یہ کام کروں.یہ سب جھوٹے قصے ہیں.آج اگر آپ کوموت کا احساس نہ ہو تو آپ کی یہ زندگی سنور نہیں سکتی.موت کے وقت کا احساس گزشتہ زندگی کوسنوار نہیں سکتا.یہ دو دائی حقیقتیں ہیں ان کو اگر آپ نے بھلا دیا تو کچھ بھی حاصل نہیں رہے گا اگر ان کو آپ اچھی طرح ذہن نشین رکھیں اور پکڑے رکھیں تو آپ کی انفرادی اصلاح کے لئے بھی یہ عظیم الشان کام سر انجام دیں گی اور قومی اصلاح کے لئے بھی یہ دو باتیں یعنی جماعت کی زندگی کے لئے اور اس کی بقاء کے لئے بہت عظیم الشان کام سرانجام دینے والی ہوں گی.بزرگوں نے جو قبروں کی زیارت کا لکھا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قبروں سے وہ کچھ مانگنے جاتے ہیں.تمام انبیاء قبروں کی زیارت کرنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی ماموریت سے پہلے بھی بزرگوں کی قبروں پر جایا کرتے تھے اور ویسے بھی قبور کی زیارت کیا کرتے تھے.یاد رکھیں کہ اس میں ہرگز نعوذ بالله من ذلك مردہ پرستی کا تصور داخل نہیں جن بزرگوں کی میں بات کر رہا ہوں وہ مردہ پرستی سے تو اس طرح کراہت کرتے تھے جیسے ایک نفیس طبیعت کا انسان ظاہری گندگی سے کراہت کرتا ہے.اس کے باوجود قبروں کے پاس جانا یا قبرستانوں میں جاکر ان کا خدا کی یاد میں غافل ہونا دراصل موت یاد کرانے کی خاطر ہوا کرتا تھا.آج کل کے زمانے میں بھی لوگ پاکستان میں اور بعض دوسرے ممالک میں قبروں کی زیارت کرتے ہیں بلکہ بالکل الٹ مقصد کے لئے.بزرگ قبروں پر اس لئے جاتے ہیں کہ موت یاد آئے اور یقین کریں کہ یہ سب لوگ مر چکے ہیں اور جو مردہ دل لوگ ہوں وہ قبروں پر اس لئے جاتے ہیں کہ یہ بھی نہیں مرے جو بظاہر مرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بھی زندہ ہیں اور ان سے مانگا جاسکتا ہے، ان

Page 599

خطبات طاہر جلد ۹ سے مرادیں حاصل کی جاسکتی ہیں.594 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۹۰ء پس ظاہری طور پر دیکھیں زیارت ایک ہی قسم کی ہے لیکن نتائج کتنے مختلف ہیں ایک زیارت موت کو بھلا دینے والی زیارت ہے یعنی جو مرے ہوئے ہیں ان کو بھی زندہ سمجھ رہے ہیں اور ایک زیارت ہے جو زندوں کو بھی موت کا خوف دلاتی ہے.پس جواب طلبی کی خاطر موت کو یا درکھنا یہ ہر قسم کے انسانی معاشرے کی اصلاح کے لئے ضروری ہے اور صرف مذہبی معاشرہ نہیں بلکہ غیر مذہبی معاشرہ بھی اگر لقاء کا قائل ہو جائے تو مذاہب کے اختلاف کے باوجود انسان کے اخلاق پر اس لقاء کا بہت ہی گہرا اثر پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت احمدیہ کی اصلاح میں لقاء باری تعالیٰ کا عقیدہ غیر معمولی اثر دکھانے لگے.اس کی دعا کا خیال مجھے اس لئے آیا ہے کہ بسا اوقات میں نے دیکھا ہے کہ نصیحتیں کی جاتی ہیں مسلسل کی جاتی ہیں مگر اثر نہیں ہوتا.پھر میں اپنے آپ کو جھنجھوڑتا ہوں وجوہات تلاش کرتا ہوں.کیا وجہ ہوئی کہ بعض بدیاں جماعت سے دور نہیں ہور ہیں بعض معاشرتی خرابیاں ہیں جو مٹنے میں نہیں آرہیں کیا میرے بیان میں کوئی کمزوری رہ گئی یا کوئی ایسی باتیں ہیں جن تک نظر نہیں پہنچ سکی تو ان کی تلاش میں میری نظر اس بات پر آکر ٹھہری کہ حقیقت میں ان تمام بدیوں کا لقائے یوم آخر سے بڑا گہرا تعلق ہے اس لئے جماعت میں لقاء کے مضمون کا بار بار ذکر کرنا ضروری ہے تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقام پر فائز کرے جہاں ہم اس کو دیکھ رہے ہوں اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہو.

Page 600

خطبات طاہر جلد ۹ 595 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء صا الله ظُلُمت ثَلث کی لطیف تشریح: رسول کریم علی وہ سورج ہیں جنہوں نے تمام پردے ہٹا کر اندر کی راہ دکھائی.( خطبه جمعه فرموده ۱/۱۲ اکتوبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات قرآنیہ تلاوت کیں : وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابِ بِقِيْعَةِ يَحْسَبُهُ الظَّمَانُ مَاءَ حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدُهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللهَ عِنْدَهُ فَوَقْهُ حِسَابَهُ وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ اَوْ كَظُلُمتِ فِي بَحْرِدُّجى يَخْشُهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَتَ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا اخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَذِيَرُهَا وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُوْرِةً (النور: ۳۰ تا ۴۱) خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمُنِيَةَ أَزْوَاجِ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهُتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلمتِ ثَلَكٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُوْنَ ) فرمایا: (الزمر:۷) گزشتہ جمعہ پر میں نے کچھ حجابات کا ذکر کیا تھا کہ انسان اپنی زندگی مختلف قسم کے پردوں

Page 601

خطبات طاہر جلد ۹ 596 خطبه جمعه ۱۲ را کتوبر ۱۹۹۰ء میں بسر کر کے ضائع کر دیتا ہے میرے ذہن میں اس وقت قرآن کریم کی یہ چند آیات تھیں جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اور خیال تھا کہ وقت ہوتا تو میں ان حجابات ، ان پردوں سے متعلق کچھ مزید وضاحت کرتا لیکن ایک ہی خطبے میں چونکہ یہ ممکن نہیں تھا اس لئے میں نے اس مضمون کو آج کے اس خطبے کے لئے بیچارکھا.یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں سے پہلی دو آیات سورۃ النور کی ہیں.چالیس اور اکتالیس اور دوسری آیت سورۃ الزمر کی ساتویں آیت ہے پہلی آیات میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسے سراب کی سی ہے جو بقیعة یعنی ایک کھلے چٹیل میدان میں پیدا ہوتا ہے.پیاسا اس کو پانی تصور کرتا ہے إذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدُهُ شَيْئًا یہاں تک کہ جب اس کی طرف سعی کرتا ہوا اس کی طرف دوڑتا ہوا اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں وہ پانی سمجھ رہا تھا کہ پانی واقعہ ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا.وَوَجَدَ اللهَ عِنْدَہ ہاں خدا کو اس جگہ پاتا ہے.فَوَقْهُ حِسَابَہ اور وہ اس کو اُس کا پورا پورا حساب دیتا ہے.واللہ سَرِيعُ الْحِسَابِ اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے.اَوْ كَظُلمتِ یا ان اندھیروں کی طرح فِي بَحْرِتی جو ایک بڑے ہی پر جوش گہرے سمندر میں پیدا ہوتے ہیں يَخْشُهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْج ان کو موج کے بعد ایک اور موج ڈھانپ لیتی ہے.مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ اور اس کے اوپر بادلوں کا سایہ ہوتا ہے یعنی سورج کی روشنی بھی براہ راست اس سمندر تک نہیں پہنچتی ظُلمتُ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ يه ایسے اندھیرے ہیں کہ ایک کے اوپر دوسرے اندھیروں کی لہریں ہیں ، دوسرے اندھیروں کے سائے اور پردے ہیں إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْيَر تھا اور ظلمت اتنی گہری ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اپنا ہاتھ دیکھنا چاہے تو اسے بھی دیکھ نہ ہے.وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا جس کے لئے خدا تعالیٰ نور پیدا نہ فرمائے فَمَا لَهُ مِنْ نُّورِ اس کے لئے کوئی نور نہیں ہے.ان آیات سے ملتے جلتے مضامین ایک دوسری آیت میں بیان ہوئے ہیں اور جس طرح یہاں بھی تین اندھیروں کا ذکر ہے وہاں بھی تین اندھیروں کا ذکر ہے لیکن وہ مضمون بظاہر اس سے بالکل الگ مقام پر واقعہ ہے اور سرسری نظر سے ان دونوں کا تعلق معلوم نہیں ہوتا.دوسری آیت یعنی

Page 602

خطبات طاہر جلد ۹ 597 خطبه جمعه ۱۲ را کتوبر ۱۹۹۰ء سورہ الزمر کی ساتویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ تمہیں خدا نے ایک ہی جان سے پیدا فرمایا.پھر اسی جان سے تمہارا جوڑا بھی بنایا اور تمہارے لئے آٹھ جوڑے انعام میں سے پیدا فرمائے يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ ایک پیدائش کے بعد دوسری پیدائش کی صورت میں فی ظُلمتِ ثَلث تین اندھیروں میں، ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُم یہ ہے تمہارا رب لَهُ الْمُلْكُ وہی مالک ہے اسی کے لئے بادشاہت ہے.اس کی ہر چیز ملکیت ہے لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.فَانى تُصْرَفُونَ پھر تم کہاں الٹے پھر رہے ہو، کہاں بہکتے پھر رہے ہو.کس طرف لوٹ کر جاؤ گے خدا سے ہٹ کر.یہاں دوسرے حصے میں تو تین اندھیروں کا ذکر تین کہہ کر فرمایا اور پہلی آیات میں تین اندھیرے بیان فرمائے لیکن لفظ تین وہاں بیان نہیں فرمایا.ان دونوں کو اگر آپ غور سے پڑھیں تو ایک آیت کے مضمون سے دوسری آیات کے مضمون کو سمجھنے میں بڑی سہولت ملتی ہے، آسانی پیدا ہو جاتی ہے لیکن سب سے پہلے میں یہ دوسری آیت جو بعد میں پڑھی ہے اس کے متعلق کچھ کہتا ہوں.قرآن کریم نے ماں کے پیٹ میں بچے کا اندھیروں میں پیدا ہونے کا جو ذکر فرمایا ہے اس سے مختلف مفسرین نے مختلف اندھیروں کے متعلق کچھ بیان کیا ہے لیکن اس سے مراد صرف وہ ظاہری اندھیرے نہیں ہیں جو ماں کے پیٹ میں تہہ بہ تہہ پائے جاتے ہیں بلکہ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ میں ایک اور مضمون بیان فرمایا اور وہ انسانی زندگی کے ارتقاء کا مضمون ہے.انسانی زندگی تین بڑے ادوار میں ارتقاء پذیر ہوئی ہے ایک وہ جو قرآن کریم کے بیان کے مطابق نباتا کا دور تھا.خدا فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں نبات کی طرح اگایا.یعنی جب انسان ابھی نباتاتی دور میں تھا اور حیوانی زندگی میں داخل نہیں ہوا تھا.دوسرا دور ہے حیوانی زندگی کا دور ،اور تیسرا ارتقاء ہے انسانی زندگی کا ارتقاء اور جب تک خدا تعالیٰ نے اپنی روح آدم میں نہیں پھونکی باوجود اس کے کہ اس سے پہلے آدم پیدا ہو چکا تھا اسے نور نصیب نہیں ہوا اور مذہب کے آغاز سے قبل کی انسانی زندگی بھی اندھیروں میں بسر ہو رہی تھی.پس دراصل تو یہ ایک بہت ہی گہرا اور لمباوسیع مضمون ہے جس میں خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ کہ کہ ہمیں توجہ دلائی گئی کہ جن اندھیروں کا ہم بنیادی طور پر ذکر کر رہے ہیں یہ تمام زندگی کے ہر دور پر پھیلے

Page 603

خطبات طاہر جلد ۹ 598 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء پڑے ہیں اور تین ادوار میں بٹے ہوئے ہیں.ان پر غور کرو گے تو اس سے تمہیں بہت سی روشنی نصیب ہوگی اور تمہیں یہ علم ہو جائے گا کہ جب تک خدا کی طرف سے انسان پر آسمان سے نور نازل نہیں ہوا اس سے پہلے کی تمام زندگی کلیۂ بے معنی اور بے حقیقت اور اندھیروں میں بسر ہونے والی زندگی تھی.اس کا دوسرا معنی ظاہری طور پر یہ ہے کہ ماں کا ایک جسم ہے جس نے رحم کو گھیرا ہوا ہے اور ماں کا رحم خود ایک پردہ ہے لیکن اس جسم کی دبیز تہہ کے اندر چھپا ہوا ہے اور باہر کی دنیا سے رحم کا تعلق کاٹ دیتا ہے پھر رحم خود ایک پردہ ہے جو اس Plasenta اور جسم کے درمیان حائل ہے جس کے اندر بچہ بنتا ہے.Placenta اس تھیلی کو کہا جاتا ہے جس کے اندر بچے کی پرورش ہوتی ہے وہ براه راست رحم میں پرورش نہیں پاتا بلکہ اس کا ایک حصہ رحم سے پیوستہ ہو کر رحم کی وساطت سے ماں سے فیض پا رہا ہوتا ہے اور پھر تیسر ا پر وہ اس Placenta کا ہےاس Plasenta کے اندر بچہ بہت سے بداثرات سے محفوظ رہتا ہے جو رحم سے براہ راست اس کو پہنچ سکتے تھے اور یہ ایک بہت ہی دلچسپ نیا مضمون ہے جس پر سائنس آج کل بہت تحقیق کر رہی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے بچے کو خود اس کی ماں کے جسم اور رحم سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور کیوں Plasenta میں لپیٹا ہوا ہے لیکن جہاں تک پردے کا تعلق ہے یہ بہر حال پردہ ہے.ان تین پردوں کے اندر بچے کی زندگی تمام نوروں سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی بلکہ بالواسطہ تعلق رکھتی ہے اور کئی رہتی ہے.رحم کے اندر Placenta کے اندر جو بچہ ہے وہ صُمٌّ بُكْم عُنى (البقرہ: 19) کی کیفیت رکھتا ہے نہ وہ براہ راست سن سکتا ہے نہ بول سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے اور کلیڈ تین اندھیروں میں لپٹا ہوا پڑا ہے.ماں جو فیض اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دنیا سے پاتی ہے وہ فیض رحم میں منتقل ہوتا ہے.رحم جو فیض Plasenta کو بخشتا ہے اس سے بچہ فیض پاتا ہے اور ہر طرف سے وہ لینے والا ہے عطا کرنے والا نہیں یعنی یہ وہ زندگی ہے کہ جو چیز تین اندھیروں میں لپٹی ہوئی ہے اس کی آخری شکل یہ بنتی ہے کہ وہ ہر طرف سے فیض پارہی ہے اور فیض دے نہیں سکتی اور براہ راست کچھ بھی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی.نہ سن سکتی ہے نہ دیکھ سکتی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صُمٌّ بُكْم عُنی کی سی کیفیت ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ایسی صورت میں اس میں اپنی روح پھونکتے ہیں اور جب روح پھونکتے ہیں تو وہ سمیعًا بَصِيرًا (الدھر:۳) بن جاتا ہے.

Page 604

خطبات طاہر جلد ۹ 599 خطبہ جمعہ ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء جہاں تک سائنسی تحقیق کا تعلق ہے غالباً چوتھے یا پانچویں مہینے کے درمیان ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ اچانک بچے میں زندگی پڑ جاتی ہے.آج کل تمام دنیا میں Abortion کے متعلق جو بخشیں ہو رہی ہیں کہ کس حد تک اسقاط حمل وقت سے پہلے کرنا جائز ہے یا نہیں ہے.اسقاط حمل کس حد تک جائز ہے اور کب جائز ہے؟ تو آخری رجحان جو ہے وہ یہی ہے کہ جب تک بچے میں زندگی نہ پڑے اس وقت تک کوئی بڑی اخلاقی روک اسقاط حمل کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے.لیکن جب زندگی پڑ جائے تو اس کے بعد اس کا اپنا ایک الگ وجود بن جاتا ہے پھر جب تک داکٹری یا طبی رائے کے مطابق ماں کو خطرہ در پیش نہ ہو اس وقت تک بچے کو گرا نا مناسب نہیں یا جائز نہیں.تو یہ وہ موقع ہے جسے ہم فخ روح“ کہتے ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے بچے میں، جنین میں روح پھونکی جاتی ہے وہ دوسرے اندھیرے جن کا اسی آیت میں ذکر ہے جو انسانی زندگی کے ارتقاء پر پھیلے ہوئے ہیں ان میں بھی یہی بات اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جب تک ہم نے آدم کو ٹھیک ٹھاک کر کے یعنی بنالیا، درست کرلیا، جب تک اس میں روح نہیں پھونکی فرشتوں کو اس کی اطاعت کا حکم نہیں دیا.جب ہم نے اس میں روح پھونکی تو پھر ایک خلق آخر بن گیا.ایک نئے وجود کے طور پر وہ ظاہر ہوا.پس دونوں اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنے کے لئے فخ روح کی ضرورت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذاتی طور پر ایک الہامی کیفیت کے نازل ہونے کی ضرورت ہے.ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی ہے بچے کی صورت میں لیکن لازماً ایک حکم آتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اس سوال کے جواب میں کہ روح کیا چیز ہے؟ فرمایا: کہہ دے کہ یہ امرِ رَتي (بنی اسرائیل:۸۲) ہے.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہیں ہوسکتی.جب تک یہ امر نازل نہ ہواس وقت تک کوئی چیز زندہ نہیں ہو سکتی تو یہ جواند ھیرے ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک اندھیر اوہ آخری ہے جس میں انسان کچھ بھی باہر سے براہ راست حاصل نہیں کر سکتا.نہ دیکھنے کی ، نہ سننے کی طاقت، نہ بولنے کی کلیۂ ایک دوسرے کے فیض پر انحصار پانے والی زندگی بسر کر رہا ہے جب خدا تعالی کی طرف سے نفخ روح ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی بچہ اچانک تم دیکھتے ہو کہ سمیعًا بَصِيرًا (الدھر:۳۰) ہو جاتا ہے.سننے والا اور دیکھنے والا بن جاتا ہے.یہاں بولنے کا ذکر نہیں فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے کا انحصار دراصل سننے پر ہے اور باہر

Page 605

خطبات طاہر جلد ۹ 600 خطبه جمعه ۱۲ را کتوبر ۱۹۹۰ء کی دنیا سے فیض پانے کے دراصل دور ستے ہیں.سننا اور دیکھنا.یہی سب سے اہم رستے ہیں.بولنا ان کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اس لئے دراصل بولنے کا لفظ ان کے اندر شامل ہے تو چونکہ پیدائش کے معابعد بچہ بولنے نہیں لگتا.لیکن فوراً دیکھنے اور سننے لگ جاتا ہے اس لئے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ بھی کمال ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ اچانک بولنے لگ جاتا ہے.بلکہ فرمایا کہ وہ دیکھنے اور سننے لگ جاتا ہے یعنی بولنے کے لئے تیاری شروع ہو جاتی ہے اور جو علم وہ پاتا ہے اس کے بیان کی قدرت پھر اس کو ان ہی دو ذریعوں سے نصیب ہوتی ہے.تو یہ تین اندھیرے ہیں جو بہت اختصار کے ساتھ میں نے بیان کئے اور جو ماں کے اندر بچے کی مثال کے ذریعے ہم پر واضح فرمائے گئے.اب ہم پہلی دو آیات کی طرف آتے ہیں کہ ان میں کیا مضمون بیان ہوا ہے اور وہ اندھیرے ہماری زندگی پر کس طرح اطلاق پاتے ہیں اور ہیں کیا ؟ پہلی آیت میں تو ایسے کفار کی مثال دی گئی ہے جو کلیہ مذہب سے بے تعلق اور خالصہ دنیا دار ہیں.ان کو نہ خدا کا کچھ پتا ، نہ کسی مذہب کا پتا، ان کی زندگی یہی دنیا اور اسی کی لذات کی پیروی ہے اور اس کے سوا ان کے لئے اور کچھ بھی نہیں.تمام کائنات گویا کہ ان کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی.صرف وہ چیزیں معنی اختیار کر جاتی ہیں جو ان کو لذت دینے میں کسی طرح محمد بنتی ہیں یا براہ راست ان کو لذت پہنچاتی ہیں.پس ان کی ساری زندگی لذتوں کی پیروی میں بسر ہو جاتی ہے اور جو لذتیں انہوں نے اپنے تصور سے ،اپنے ذہن کے نقشے میں ایسی بنائی ہوئی ہوتی ہیں کہ ان کو حاصل کرنے کے بعد ان کی پیاس بجھ جائے گی ، ان کو چین نصیب ہو جائے گا.بلا استثناء جب بھی یہ ان لذتوں کو حاصل کرتے ہیں تو وہ پیاس بجھانے میں کامیاب نہیں ہوتیں بلکہ ایک اور پیاس بھڑکا دیتی ہیں اور سراب کی طرح آگے آگے بھاگتی رہتی ہیں یہاں تک کہ آخری وقت پہنچ جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس لمبے سفر کو مختصراً یوں بیان فرما دیا کہ سراب کی طرح ان کے اعمال ہیں اور سراب کے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ پیاسا صرف ایک مقام کو نظر میں رکھ کر وہاں تک نہیں پہنچا کرتا بلکہ سراب اس سے آگے بھاگتا رہتا ہے اور وہ اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے یہاں تک کہ موت کا وقت آ جائے.پس قرآن کریم نے اس لمبے مضمون کو اس طرح مختصر کر دیا کہ آغاز سفر اور مقصد سفر بیان فرما دیا اور پھر انجام سفر بیان فرما دیا.فرمایا کہ پھر تم جانتے ہی ہو کہ اسے کوئی پانی نہیں ملتا اور اس کا زندگی کا

Page 606

خطبات طاہر جلد ۹ 601 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء آخری حساب پیاس کی حالت میں مرنا ہے.اگر چہ یہ سفر بہت لمبا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ اللہ تعالیٰ بہت تیز حساب کرنے والا ہے.حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی بعض دفعہ لمبی زندگیاں جو دنیا کی لذتوں کے حصول میں صرف ہو جاتی ہیں اور اس وقت حساب نہیں ہوتا تو اس سے ایک تو ہمیں یہ سمجھ آئی کہ سَرِيعُ الْحِسَابِ کا وہ مطلب نہیں ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی گناہ کیا اور ابھی پکڑا گیا.کیونکہ سراب کی پیروی کرنے والا جب تک سراب تک نہ پہنچ جائے یعنی اس مقام تک جس کے بعد آگے سفرختم ہو جاتا ہے تو اس وقت تک اس کا حساب پورا چکا یا نہیں جاتا لیکن دوسرا مضمون اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ اگر چہ آخری حساب سفر کے آخر پر چکا یا جاتا ہے لیکن ایک مسلسل حساب ہے جو ساتھ کے ساتھ جاری ہے اور ان معنوں میں اللہ تعالیٰ سَرِيعُ الْحِسَابِ ہے یعنی یہ نہ سمجھیں کہ جب وہ موت کے آخری کنارے پر پہنچ کر پیاس سے مر رہا ہے تو اس وقت اس پر سَرِيعُ الْحِسَابِ ظاہر ہوا ہے.بلکہ پیاسا جب پانی کی تلاش میں سرگردان ہوتا ہے اور پانی سمجھ کر ایک چٹیل میدان کی طرف بھاگ رہا ہوتا ہے تو اس کا ہر قدم اس کا حساب چکا رہا ہوتا ہے: ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے (دیوان غالب : ۲۹۴) غالب نے جو یہ مضمون بیان فرمایا ہے اس سے آپ کو سَرِيعُ الْحِسَابِ سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی.پس سراب ہی کا نقشہ ہے جو غالب نے کھینچا ہے کہتا ہے: ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے مجھ سے دوری منزل اس وقت ظاہر نہیں ہوتی جب میں آخر پر پہنچتا ہوں اور کچھ نہیں پاتا بلکہ ہر قدم پہلے سے زیادہ دو بھر اور مشکل ہوتا چلا جاتا ہے اور میری تکلیف کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے آخر پر پھر یہ بات کھلتی ہے کہ میں محض ایک سراب کی پیروی کر رہا تھا اور کچھ بھی نہیں تھا جس کی خاطر میں لا حاصل دوڑا.پس سَرِيعُ الْحِسَابِ کا ایک تو ہمیں یہ اشارہ مل گیا کہ بہت سی باتوں میں خدا تعالیٰ کے سَرِيعُ الْحِسَابِ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادھر گناہ کیا ادھر پکڑے گئے.لیکن جھوٹی لذتوں کی پیروی کرنے والوں کے لئے سَرِيعُ الْحِسَابِ کا یہ بھی معنی ہے کہ ہمیشہ ایک محرومی

Page 607

خطبات طاہر جلد ۹ 602 خطبه جمعه ۱۲ را کتوبر ۱۹۹۰ء کا احساس ہے جوان کے ساتھ لگارہتا ہے جوان کی جا کو کر ید تار ہتا ہے اور بھی بھی وہ تسکین قلب و جاں پا نہیں سکتے.اس کے بعد پھر ان ظلمات کا ذکر فرمایا جن کی خاطر میں نے ان آیات کی تلاوت کی یعنی وہ بیان کرنا مقصور تھیں.فرمایا: فِي بَحْرِلُعِى يَغْشَهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ سراب کی زندگی سے مراد خالص دنیا داری کی زندگی ہے اور قرآن کریم کے محاورے سے پتا چلتا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۴۲) یعنی خشکی میں بھی فساد ہو گیا اور بحر میں بھی فساد ہو گیا.خشکی کا فسادان دنیا داروں کا فساد ہے جو مذہب سے بے تعلق ہوتے ہیں اور تری کا فساد وہ فساد جو مذاہب میں برپا ہو جاتا ہے مذاہب میں پیدا ہوتا ہے اور ان کو گندا کر دیتا ہے اور روشنیوں کو اندھیرے میں بدل دیتا ہے.یہ وہ مذاہب ہیں جو کبھی خدا کی طرف سے تھے لیکن بعد میں بندوں نے اپنا تعلق خدا کے نور سے کاٹ لیا اور پھر دن بدن ان مذاہب کے اندھیرے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان کے نتیجے میں بظاہر مذہبی لوگ ہیں لیکن ان کی ساری زندگی اندھیروں میں صرف ہوتی ہے.پس اچانک سراب سے سمندر کی طرف منتقل ہونا اور بظاہر مضمون بدل دینا یہ عجیب قرآن کریم کی شان ہے لیکن ذرا گہری نظر سے آپ دیکھیں تو درحقیقت ایک ہی مضمون کے دو پہلو ہیں اور ان دونوں مضامین کا قرآن کریم کی ایک اور آیت سے تعلق ہے جیسا کہ میں نے آپ کو پڑھ کر سنایا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ پہلا فساد بر کا تھا جو پہلی آیت میں کھول کر بیان فرمایا گیا اور دوسرا فساد ”بحر کا فساد ہے جس کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے تو ایسی صورت میں اندھیروں کی کئی شکلیں ہیں آخری شکل وہی ہے جیسے ماں کے پیٹ میں جنین کی جو Plasenta میں لپٹا ہوا ہوتا ہے.ایسا مذ ہبی انسان جو کلیۂ اندھا ہو بظاہر مذہب سے تعلق ہو لیکن سوائے نفسانیت کے اس میں کچھ بھی نہ ہو، مذہب اس کے لئے فیض پہنچانے کا ذریعہ تو ہو.مذہب اس کو اس بات پر آمادہ نہ کر سکے کہ دوسروں کو فیض پہنچا سکے گویا خدا اور اس کی ساری کائنات سب کچھ اس کی خاطر قائم ہیں.جب تک ان باتوں کا فیض اس تک پہنچتا ہے اس کا تعلق قائم ہے جب فیض بند ہو گیا تو وہ اپنا تعلق تو ڑلے گا اور اس کے سوا اس کو کوئی نور بصیرت حاصل نہیں، کوئی سماعت کی طاقت حاصل نہیں.ایسے لوگوں کا ذکر قرآن کریم نے اور بھی کئی جگہ فرمایا کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق رکھتے ہیں کہ جب تک

Page 608

خطبات طاہر جلد ۹ 603 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء خدا کے دینے کا ہاتھ دیتار ہے ان کا تعلق ہے اگر دینے کا ہاتھ رک گیا تو وہ آگ کے کنارے پر کھڑے ہیں وہیں گر جائیں گے اور بھسم ہو جائیں گے.ان کی زندگی اس بات سے مشروط ہوتی ہے اور یہ صرف براہ راست خدا سے تعلق میں نہیں بلکہ مذہبی جماعتوں سے تعلق میں بھی ان کا یہی طرز فکر ہے جو ہمیشہ قائم رہتا ہے.ایک احمدی ہے اگر نظام جماعت سے اس کو فیض پہنچ رہا ہے تو وہ تعلق رکھ رہا ہے اور جہاں کسی موقعہ پر نظام نے فیض نہیں دیا یا فیض تو ہ دیتا ہے لیکن نظام کے فیض کی تعریف اور ہے اور اس کے فیض کی تعریف اور ہے.وہیں وہ کھڑا ہو جائے گا اور الٹ کر دیکھے گا نظریں ملا کر اور اس کی نظروں میں کوئی شرم کوئی حیاء کوئی ادب نہیں ہوگا کہ یہ جماعت ہے، مجھے اس کی ضرورت تھی اور تم لوگ میرے کام نہیں آئے.جاؤ جہنم میں، مجھے کوئی ضرورت نہیں، میرا تم سے کوئی تعلق نہیں.تو ایسے بچے جن کا جنین سے یہ تعلق رہتا ہے ذرا بھی جنین ان کو خوراک دینی بند کر دے تو وہ مرجاتے ہیں.اور ظاہری تعلق بھی تو ڑ لیتے ہیں اور فسادی بن جاتے ہیں.اگر وہ زیادہ دیر جسم میں رہیں تو جسم کو بھی گندا کرنا شروع کر دیتے ہیں اس لئے جسم ان کو نکال کے باہر پھینک دیتا ہے.پس خدا کو براہ راست مخاطب کر کے یہ کہنے والے لوگ تو کم ہوں گے یعنی مذہبی دنیا میں.غیر مذہبی دنیا میں تو ان کو پر واہ ہی کوئی نہیں کہ خدا ہے یا نہیں ہے.لیکن نظام جماعت سے یا مذہبی نظام جو بھی سے تعلق میں یہ لوگ خواہ وہ عیسائیت ہو یا کوئی اور مذہب ہو.ہمیشہ نفسانیت کو اتنا اونچا مقام دیتے ہیں کہ مذہب سے تعلق صرف فیض پانے کا ہے ، فیض دینے کا کوئی تعلق نہیں.چنانچہ آپ کو لاکھوں کروڑوں عیسائی بھی ایسے ملیں گے جو فیض کی خاطر عیسائی ہوئے جب تک ان کو Aid ملتی ہے جب تک ان کو فیض پہنچتارہتا ہے وہ عیسائی بنے رہتے ہیں جہاں وہ فیض ختم ہوا انہوں نے عیسائیت سے تعلق تو ڑ لیا.تو یہ وہ آخری اندھیرا ہے اور اس کی بہت سی صورتیں ہیں.میں نے صرف ایک مثال دی ہے کیونکہ یہ مضمون بہت وسیع ہو جائے گا اس کو آپ اپنے طور پر سوچ کر اپنی زندگی کی مختلف حالتوں پر اطلاق کر کے دیکھ سکتے ہیں.جب میں کہتا ہوں اپنی زندگی کی مختلف حالتوں پر تو میری مراد یہ نہیں ہے کہ نعوذ بالله من ذلك ہم میں سے ہر ایک اسی حالت میں ہے اور وہ پہچان سکتا ہے کہ میں اسی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہوں بلکہ میری مراد یہ ہے کہ ان مثالوں کا سوفی صدی اطلاق نہیں ہوا کرتا ہر انسان پر.یہ مثالیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی نہ کسی حد تک کسی نہ کسی شخص سے کوئی نہ

Page 609

خطبات طاہر جلد ۹ 604 خطبه جمعه ۱۲ را کتوبر ۱۹۹۰ء کوئی تعلق رکھتی ہیں.بعضوں سے زیادہ اور بعضوں سے کم ، بعضوں کی حالت میں جنین کی کیفیت بہت تھوڑی ہوتی ہے اور سیمیعًا بَصِيرًا کی کیفیت زیادہ ہوتی ہے.بعضوں کی حالت جنین کی کیفیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ موت کے مشابہ ہوتی ہے.لیکن ہم میں سے ہر شخص ان کیفیات سے گزرا ہوا ہے کیونکہ جنین کی مثال میں خدا تعالیٰ نے ایک اور بہت ہی عظیم الشان حکمت کی بات یہ بیان فرما دی ہے کہ جنین میں غور کرو کہ ہم تمہیں کیسے مختلف شکلیں دیتے ہیں اور یہ جو سوال اٹھایا گیا اس نے تمام Evolution ، تمام دور ارتقاء کے ہر حصے پر روشنی ڈال دی کیونکہ سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ خدا تعالیٰ رحم میں جنین کو ہر اس شکل سے گزارتا ہے جس شکل سے کبھی زندگی گزری ہے اور زندگی کے ہر طبقے کی کوئی نہ کوئی مشابہت بچے کی پیدائش کے آغاز سے لے کر اس کے مکمل ہونے تک ضرور اس کی زندگی کی نشو و نما کے کسی حصے میں ملتی ہے.پس سلوک کی اعلیٰ سے اعلیٰ راہیں طے کر نیوالا بھی ان باتوں سے واقف ضرور ہوتا ہے خواہ وہ کتنے بلند مقام پر ہو.بعضوں کے سفر کامیابی سے طے ہوتے ہیں، ہر ابتلاء سے وہ کامیابی سے گزر جاتے ہیں.بعض ٹھوکریں کھا کر آگے بڑھتے ہیں ، بعض کچھ دیر اندھیروں میں بسر کر کے پھر خدا سے توفیق پاتے ہیں کہ پردے پھاڑ کر آگے نکلیں.مگر آپ اگر اپنے حال پر ان باتوں کو اطلاق کر کے دیکھیں تو یہ مضمون جو جنین والا ہے آپ کے لئے روشنی لے کر آئے گا اور آپ کو اندھیروں سے نکالنے والا بنے گا اور آپ اپنی کیفیتوں کا بہتر تجزیہ کرنے کے اہل بن جائیں گے.پس خود غرضی کی انتہاء کا نام جنینی کیفیت ہے جس میں انسان کلیۂ فیض پانے والا ہے اور یہ وہ پردہ ہے جو عقل اور دل اور روحانیت کو بالکل اندھا کر دیا کرتا ہے.خود غرضی اور نفسانیت کی آخری شکل وہ ہے جو بڑے سے بڑے عالم کو بھی کلیۂ جاہلانہ حرکتوں پر مجبور کر دیا کرتی ہے.بڑے سے بڑے فلسفہ دان، بڑے سے بڑے سیاستدان کو جب خود غرضی کی بیماری لاحق ہو تو جہاں وہ لاحق ہوتی ہے وہاں اس کا اندھا پن ظاہر ہو جاتا ہے وہاں نہ وہ سیمینکا رہتا ہے، نہ بصیرا رہتا ہے.سن بھی نہیں سکتا دیکھ بھی نہیں سکتا.اب یہ بھی ایک مثال ہے جو آج کل کے حالات پر صادق آ رہی ہے.آپ مغربی دنیا کے بڑے بڑے عظیم الشان روشن دماغ تعلیم یافتہ سیاستدانوں کے حال پر غور کریں.جہاں خود غرضی لاحق ہوئی وہاں نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں.فوراً اندھے بھی ہو جاتے ہیں اور بہرے بھی ہو جاتے

Page 610

خطبات طاہر جلد ۹ 605 خطبه جمعه ۱۲ را کتوبر ۱۹۹۰ء ہیں اور جو بولتے ہیں وہ اندھے اور بہروں کی طرح، گونگوں کی طرح کی باتیں ہوتی ہیں.جو شخص اندھا اور بہرا بھی ہو وہ جو بات کرے گا تو گونگا ہوگا اور اول درجے کا گونگا ہوگا.وہ سوائے غوغا کے اور شور کے اور اس کو کچھ بھی سمجھ نہیں آسکتی کیونکہ گونگوں کی بھی قسمیں ہیں.اکثر تو خدا کے فضل سے دیکھ بھی سکتے ہیں اس لئے وہ ہونٹوں سے اندازے لگا کر بہت کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں.لوگوں کے تاثرات دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ان کی آواز کیسی بدزیب ہے اور بدنما ہے اور کیا کیا اس میں کمزوریاں ہیں جو چہروں پر ظاہر ہوتی ہیں.تاثرات کی شکل میں تو ایسے گونگے جو ذہین ہوں وہ پھر ایسی آوازیں نہیں نکالتے جس پر لوگ ہنستے ہوں ، جس پر لوگ برا مناتے ہوں، جن کے بداثرات لوگوں کے چہروں پر ظاہر ہور ہے ہوں لیکن یہ گونگے اور بہرے جو عقل کے گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں نہ عقل کی بات سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں.ان کی باتیں بالکل شور وغوغا ہیں.مکروہ سنائی دینے والی باتیں اور ان کے اندر کوئی مغز نہیں رہتا، کوئی حکمت نہیں رہتی ، کوئی بنی نوع انسان کے فائدے کی بات نہیں رہتی.تو انسان اندھیروں میں سے ہمیشہ کے لئے نکل کر ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ جہاں روشنی ہی روشنی ہو، یہ سوائے خدا سے تعلق کے نصیب نہیں ہوسکتا اور پھر آگے اس میں بھی درجے ہیں لیکن باقی سب جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی پہلو سے جنین کی کوئی حالت اپنے اند رکھتا ہے.اس مضمون پر غور کر کے اگر آپ اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو اللہ تعالی آپ کو توفیق عطا فرما سکتا ہے کہ آپ اپنے لئے بہتر لائحہ عمل بنا سکیں.دوسرے پردے کی مثال جب ہم اس آیت پر چسپاں کرتے ہیں تو وہ ایسے انسان کی سی ہے جو خدا کی نظر میں نہیں رہتا لیکن بندوں کی نظر میں آجاتا ہے اور بندوں کو دیکھنے لگ جاتا ہے اور بندوں کو سنے بھی لگ جاتا ہے.اس کے بنی نوع انسان سے تعلقات قائم ہو جاتے ہیں.وہ جنین کے پردے سے باہر آکر ایک اور قسم کے پردے میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کا ہر فعل دو پہلو رکھتا ہے.یا وہ بنی نوع انسان سے خوف کھا رہا ہے اور یا وہ بنی نوع انسان کو خوش کرنا چاہتا ہے.خدا اس کی نظر میں کوئی ایسی اہمیت نہیں رکھتا کہ اپنے افعال کو اور اپنے اعمال کو خدا کی رضا کی خاطر ڈھالے اور خدا کی رضا کے تابع کرے چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو کثرت سے مختلف آیات میں بیان فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ جو نیک عمل کرتے ہیں وہ ریا کی خاطر کرتے ہیں یہاں تک کہ سب

Page 611

خطبات طاہر جلد ۹ 606 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۰ء سے بڑا نیک عمل یعنی عبادت اس میں بھی ریا داخل ہو جاتی ہے گویا یہ سمندر کی دونوں موجوں سے باہر تو آگئے لیکن سحاب کا سایہ ابھی ان کے اوپر پڑا ہوا ہے یعنی سمندر کی موجوں سے باہر بھی آجائے اور اگر گہرے بادل چھائے ہوئے ہوں تو کچھ سوجھائی نہیں دیتا تو ان کا جو کچھ بھی تھوڑا بہت دھندلا نظر آتا ہے اس کا آسمان سے تعلق نہیں ہوتا وہ اپنے ماحول اور چھوٹے سے مختصر دائرے کے ماحول میں دکھائی دینے والی چیزیں ہیں اور انہیں کی خاطر انسان زندہ رہتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ) (الماعون : ۸۲۵) فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ہلاکت ہو مصلیوں کے لئے ، یہاں مصلی سے مراد پنجابی والے مصلی نہیں.مصلین یعنی نماز پڑھنے والے.دیکھیں کلام الہی کی شان نماز پڑھنے والوں پر لعنت ڈال رہا ہے لیکن کون سے نماز پڑھنے والے.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ وہ اپنی نماز کی کنہہ سے غافل ہوتے ہیں.اسکی حکمتوں اور اس کی روح سے غافل ہوتے ہیں یعنی نماز کی حکمت اور کنہ تو یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف انسان کو لے جائے اور خدا کے ساتھ تعلق قائم کر دے اور خدا دکھائی دینے لگے اور خدا کی خاطر نماز پڑھ رہا ہو.یہ ہے صلوٰۃ کی حقیقت اور اس کی حکمت.عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سے غافل ہوتے ہیں لیکن خلا تو دنیا میں کوئی نہیں ہے جب ایک حقیقت ایک جگہ کو چھوڑتی ہے تو اس کی جگہ ایک جھوٹی بات اس حقیقت کے خلا کو پر کرنے کے لئے آجاتی ہے.الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُونَ ہر فعل انسان کے لئے کوئی مقصد چاہتا ہے، کوئی وجہ ہونی چاہئے کوئی Motive Force کام کرنے کے لئے طاقت کا ذخیزہ ہونا چاہئے فرمایا ان کی Motive Force بدل جاتی ہے.خدا کی خاطر نماز نہیں پڑھتے ، دکھاوے کی خاطر، بنی نوع انسان کو بتانے کی خاطر کہ ہم کتنے بزرگ ہیں اور داڑھیاں بڑھالیں گے اور ایسی ایسی جگہوں پر جا کر نماز پڑھیں گے کہ جہاں تصویریں کھینچی جارہی ہوں، کیمرے تیارہوں ان کی عبادت کے چرچے کرنے کے لئے اخباروں میں تشہیر ہو رہی ہو کہ فلاں وزیر صاحب فلاں جگہ پہنچے اور فلاں جگہ عید کی نماز انہوں نے سر انجام دی.اس قسم کے قصے شروع ہو جاتے ہیں لیکن صرف وزیروں پر موقوف نہیں ہے.صرف سیاستدانوں پر موقوف نہیں ہے، زندگی میں بہت سے انسان ایسے ہیں جن

Page 612

خطبات طاہر جلد ۹ 607 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء کی تصویریں بھی اخباروں میں نہیں آتیں اور چرچے اخباروں میں نہیں چلتے لیکن ان کی عبادتیں ریا کی وجہ سے بے حقیقت ہو جاتی ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ بے حقیقت ہونے کی وجہ سے ریا کا شکار ہو جاتی ہیں.پھر ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دکھاتے ہیں تو خدا کو نہیں دوسروں کو اور ڈرتے ہیں کسی کی نظر سے تو بنی نوع انسان کی نظر سے ڈرتے ہیں اور میری نظر سے نہیں ڈرتے تو جس کا تعلق سورج سے نہ رہا ہو اور درمیان میں گہرے بادلوں کے پردے حائل ہوں ، نہ سورج اس کو دیکھ سکتا ہے نہ وہ سورج کو کچھ دکھا سکتا ہے تو کیسی حسین مثال دی ہے کہ خدا کے نور سے تعلق کاٹنے والے یہ لوگ پھر دنیا کے نوروں سے تعلق جوڑتے ہیں.یعنی دنیا کے نور سے مراد ہے جتنی بھی تھوڑی بہت روشنی دراصل سورج سے بالواسطہ دنیا کو نصیب ہوتی ہے.اس روشنی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور وہی ان کا ملجا و ماوگی ہے ، وہی ان کی زندگی کا حاصل ہے.تو یہ جو دوسرا پردہ ہے یہ بھی بہت خطرناک پردہ ہے اور بنی نوع انسان کی اکثریت خواہ وہ مذہب سے تعلق رکھتی ہو اور خواہ وہ نفسانیت کی آخری حالت سے باہر آ چکی ہو تب بھی اسی حال میں زندگی بسر کر رہی ہوتی ہے کہ اس کے اکثر نیک اعمال کوئی نہ کوئی بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق رکھنے والے مضمرات لئے ہوئے ہوتے ہیں.ایسی مخفی باتیں لئے ہوتے ہیں جن کا تعلق خدا کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ بنی نوع انسان سے ہوتا ہے.ان کی خیرات کا بھی زیادہ تر تعلق نفسی اغراض اور ریا کی اغراض سے ہو جاتا ہے.یانفسی اغراض ان معنوں میں کہ وہ دیتے ہیں تاکہ زیادہ ملے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (المدثر: ) اس مضمون کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہرگز اس خیال سے احسان نہ کرو کہ تم زیادہ لے لو اور بعض دفعہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ریا سے تعلق ہوتا ہے وہ اللہ کے لئے نہیں خرچ کرتے بلکہ دنیا کو دکھانے کی خاطر.اور یہ صرف دو مقاصد نہیں ہیں ان کے درمیان بہت ہی بار یک در بار یک یعنی چھوٹی چھوٹی منازل ہیں اور بہت ہی مراتب ہیں جو ان کے درمیان واقعہ ہیں.اس لئے جب قرآن کریم بعض بڑی بڑی بنیادی باتوں کا ذکر فرماتا ہے تو یہ نہیں ہے کہ وہ باتیں آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہیں ان کے درمیان چھوٹے چھوٹے فاصلے ہیں اور انسان ایک مقام سے دوسری طرف سفر کرتے ہوئے وقت لیتا ہے لیکن درمیان میں بہت سی منازل حائل ہوتی ہیں کوئی یہاں ٹھہر گیا کوئی وہاں ٹھہر گیا اور بعض لوگوں کی زندگی تمام

Page 613

خطبات طاہر جلد ۹ 608 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء تر بنی نوع انسان کے خوف اور بنی نوع انسان کو خوش کرنے کی خاطر مختلف منازل میں گزرتی ہے.ان دو باتوں کے درمیان جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مختلف مراتب اور منازل ہیں الگ الگ مقامات ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خالصہ بنی نوع انسان سے ڈرنے والا شخص ہے اور یہ خالصہ بنی نوع انسان کو راضی کرنے والا شخص ہے بلکہ ہر شخص اپنی اپنی توفیق کے مطابق کسی حال پر قائم ہوتا ہے کہیں بنی نوع انسان کا خوف اس پر اس حد تک غالب ہو جاتا ہے کہ پوری طرح وہ مشرک بن چکا ہوتا ہے اور خدا اور خدا والوں کا کوئی خوف اور کوئی احترام اس کے دل میں باقی نہیں رہتا اور بہت سے آدمی ایسے ہیں جن میں کچھ حصہ خدا کے خوف کا بھی رہتا ہے اور کچھ حصہ بنی نوع انسان کے خوف کا بھی رہتا ہے اور ان دونوں کے درمیان بہت سے فاصلے ہیں.مختلف حالتیں ہیں اور ہرانسان اگر غور کرے تو اپنی حالت کا تعین کر سکتا ہے.ولَو اَلْقَی مَعَاذِيْرَهُ (القیامہ (۱۲) والی آیت میں جو مضمون قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے یہی ہے کہ تم اپنے نفس پر بصیر تو ضرور ہو.ہم نے تمہیں یہ توفیق بخشی ہے چاہو تو اپنے نفس کا ایسا خوبصورت اور واضح تجزیہ کرلو کہ بعینہ معلوم کرلو کہ تم کیا واقع ہو اور تمہاری حالت کہاں ہے کس مقام پر کھڑی ہے لیکن تم عذروں کے چکر میں پڑے رہتے ہو.مصیبت یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی اپنے حالات کو چھپاتے ہواور اندھیروں کی ایسی حالت میں ہو جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا کہ لَمْ يَكَديريها (النور: ۴۱) اگر وہ ہاتھ بڑھا کر اس کو دیکھنا چاہے تو دیکھ نہیں سکتا اور اس نہ دیکھنے میں در حقیقت اس کے اندرونی رجحان کا تعلق ہے ایسے اندھیروں میں بسر کرنے والے خواہ وہ اندھیروں کی کسی قسم میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہوں در حقیقت اپنے گناہوں اور اپنی کمزرویوں سے واقف نہیں ہونا چاہتے اور ان سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں.جب وہ دکھائی دینے لگتی ہیں تو اپنی نظر کو دھندلا لیتے ہیں اور اس کمزور طالب علم کی طرح جو امتحان دینے کے بعد سوچتا ہے کہ شاید میرے استاد کی نظر دھندلاگئی ہواور یہ غلطی اس نے محسوس نہ کی ہو.اس طرح وہ ہمیشہ اپنے متعلق یہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نظر دھندلانے کی امید استاد سے رکھتے ہیں اپنی ساری زندگی اپنے حالات کو اسی دھندلائی ہوئی نظر سے دیکھتے چلے جاتے ہیں اور کبھی ان کو خیال نہیں آتا کہ آخری ممتحن ہم نہیں ہیں بلکہ آخری ممتحن تو خدا ہے.پس ایک ایسا وقت آئے گا جب تم اس مقام پر پہنچو گے جہاں تمہارا حساب چکایا جائے

Page 614

خطبات طاہر جلد ۹ 609 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء گا.وہی روشنی میں زندگی بسر کرنے والا ہے جو اس آخری پردے سے بھی باہر ہو یعنی جس کے اوپر سحاب کا پردہ نہ ہو اور سورج سے براہ راست فیض پانے والا ہو.اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب خدا انور دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو جس کو چاہے وہ اپنے نور کی طرف ہدایت دیتا ہے.ایسے شخص کا حال یکدفعه بدل جاتا ہے، اس کے رجحانات کی کایا پلٹ جاتی ہے.وہ سورج سے صرف فیض نہیں پا تا بلکہ سورج کی طرح فیض پہنچانے والا بن جاتا ہے اور تمام عالم کو فیض پہنچاتا ہے اور اس پر یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ آخری اندھیرے میں بھی جو فیض اس کو پہنچ رہا تھا وہ دراصل اسی سورج سے پہنچ رہا تھا.یہ وہ عرفان کا آخری مقام ہے جس کے بعد اور باریک تر مقامات ہیں مگر ظاہری نظر کے لحاظ سے یہ وہ آخری مقام ہے جہاں سے پھر نئے طبقات شروع ہو جاتے ہیں گویا کہ تین دور کہہ لیں مقام نہیں کہنا چاہئے.یہ آخری دور ہے جس میں انسان داخل ہو جاتا ہے اور پھر نیا نیا نوراس کو ہمیشہ نصیب ہوتا چلا جاتا ہے اس مقام پر آکر جو خدا سے براہ راست فیض پانے لگ جاتے ہیں جو خدا کی نظر میں آجاتے ہیں خدا کو دیکھتے ہیں اور خدا ان کو دیکھتا ہے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ سمندر کے گہرے ترین اندھیروں میں بھی زندگی کی جو بھی شکلیں تھیں، جو بھی توانائی کی صورتیں موجود تھیں وہ تمام کی تمام بالواسطہ سورج سے فیض پانے والی تھیں.ایک بھی حالت ایسی نہیں جو قابل ذکر ہو جس نے سورج سے فیض نہ پایا ہو.یہ سائنس کا ایک لمبا مضمون ہے اس کو تفصیل سے بتانے کا نہ موقعہ ہے نہ جمعہ میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ان مضامین کو سمجھ سکیں الا ماشاء اللہ لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہی آخری صورت ہے جس سے دنیا کا کوئی صاحب فہم انسان جو سائنس سے واقفیت رکھتا ہوا نکار نہیں کر سکتا.آپ دنیا میں جتنی چیزیں دیکھ رہے ہیں، جتنی حرکت مل رہی ہے جتنی توانائی کی شکلیں ہیں، جتنی زندگی کی شکلیں ہیں، ارتقاء کی جو بھی حالتیں پائی جاتی ہیں.یہ بالآخر کلیۂ سورج سے فیض پانے والی ہیں.اس لئے وہ اندھیرے جہاں موج کے بعد موج ڈھاپنے ہوئے ہے.وہ مقامات جہاں موج کے بعد موج اندھیرے ڈال رہی ہے اور پھر سحاب بھی اوپر چھایا ہوا ہے.وہ مقامات بھی سحاب کے پیچھے چمکنے والے سورج سے فیض یافتہ ہوتے ہیں لیکن ان جاہلوں کو پتا نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہورہا ہے جب وہ پردہ اٹھتا ہے تو پھر سارا ماحول روشن ہو جاتا ہے، پھر تمام حقیقتیں آشکارہ ہو جاتی ہیں.

Page 615

خطبات طاہر جلد ۹ 610 خطبہ جمعہ ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ فرماتے ہیں: ع پر دے جو تھے ہٹائے اندر کی راہ دکھائے (درین صفحہ ۸۳) تو دراصل یہی اندر کی راہ ہے.آنحضرت علی کو بھی خدا تعالیٰ نے ایک سورج کے طور پر ظاہر کیا اس لئے کہ یہ بتایا جائے کہ اس نے مجھ سے تعلق رکھ کے سورج والے رنگ ڈھنگ اختیار کر لئے.تمام بنی نوع انسان کو فیض پہنچانے والا بن گیا اور وہ لوگ جو اندھیروں میں بھی واقعہ ہیں وہ بھی دراصل اسی کے نور سے فیض یافتہ ہیں.اس سے ایک اور مضمون ہم پر کھل جاتا ہے لیکن اس کے بھی بیان کا موقعہ نہیں.حقیقت میں اتنا میں عرض کروں گا کہ اسلامی تعلیم دنیا کے ہر مذہب پر اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ جہاں بھی جس مذہب میں بھی آج کوئی فیض کا مقام ملے گا وہاں آپ کو اسلامی تعلیم کی جھلک ملے گی جہاں نہیں ملے گی وہاں کوئی فیض کا مقام نہیں ملے گا.پس اس مختصر بات میں ساری باتیں آجاتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ روشنی کا وہ سورج بن جاتے ہیں جس سے ہم خدا کا فیض پاتے ہیں، خدا کا نور حاصل کرتے ہیں اور وہ سب پردے اٹھا دیتا ہے اور اندر کی راہ دکھا دیتا ہے پس یہ آخری پردہ ہے جسے توڑنے کی کوشش کرنی چاہئے.آپ اس بات کے اہل نہیں ہو سکتے کہ اپنے اندرونی اندھیروں سے نجات حاصل کریں اور اپنے اوپر چھائے ہوئے پردوں کو خود چاک کر سکیں سوائے اس کے کہ آپ خدا کے ساتھ براہ راست تعلق جوڑ لیں اور خدا کے نور سے نور یافتہ ہو جائیں اور پھر اس کی روشنی کے نتیجے میں سارے پر دے اس طرح گھلنے لگیں اور مٹنے لگیں اور زائل ہونے لگیں جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ : جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( بنی اسرائیل :۸۲) جب حق روشن ہو جاتا ہے یعنی خدا کسی بندے پر روشن ہو جاتا ہے تو اس کی ساری ظلمات مٹ جاتی ہیں اور کٹ جاتی ہیں اور سارے پر دے باطل ہو جاتے ہیں اور ان کو وہاں ٹھہر نے کی مجال نہیں رہتی پس یہ وہ آخری نور کی حالت ہے جس کی طرف ہمیں ہمیشہ سفر کرتے رہنا چاہئے.جس کے لئے کوشاں رہنا چاہئے اور جس کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین مختصر میں دو باتوں میں تمام احباب جماعت عالمگیر کا بے حد شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.فیض کا مضمون چل رہا ہے جو خدا سے فیض یافتہ ہوں وہ تمام بنی نوع انسان کو فیض پہنچاتے

Page 616

خطبات طاہر جلد ۹ 611 خطبه جمعه ۱۲ را کتوبر ۱۹۹۰ء ہیں.بھائی منور جو میرے بڑے بھائی اور بزرگ تھے ان کی وفات کے بعد تمام دنیا سے اس کثرت سے تعزیت کے بہت ہی درد میں ڈوبے ہوئے ، اخلاص سے روشن خطوط ملے ہیں کہ ان کے اوپر اظہار تشکر کی مجھ میں طاقت نہیں ہے لیکن اس کثرت سے آرہے ہیں کہ یہ بھی ممکن نہیں یہاں کے موجودہ سٹاف کی رو سے کہ جیسا کہ میری خواہش تھی کہ ہر ایک کو اس کے مضمون کے مطابق شکریہ کا جواب دوں بلکہ اب تو تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ با قاعدہ ایک تحریر چھپوا کر بھجوانا بھی بہت مشکل ہے اس لئے میں نے سوچا کہ خطبہ کے آخر پر ایسے تمام احباب کا دلی شکر یہ ادا کروں.ان کا دل یہ ضرور چاہتا ہوگا کہ میں ان کی تحریر پڑھوں اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے جذبات کا مطالعہ کروں ان کی تحریر کی روشنی میں.یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ ایسا ہی کیا ہے.ہر شخص کی تحریر کے اندر جو بار یک رکا بنتیں چھپی ہوئی تھیں جو خاص ان کے تجربات تھے جو بھائی مرحوم کے ساتھ ان کی واقفیتیں یا ان کے فیض کا ذکر ہے.وہ ساری باتیں میں نے جذب کیں اور ہر شخص کا اس کی حیثیت اور اس کی توفیق کے مطابق شکر گزار ہوا اور اسی کے خط کے مضمون کے مطابق اس کیلئے دعا گو ہوا.پس اسی میرے شکریہ کو کافی سمجھا جائے اور اس خطبہ کے ذریعہ میں تمام احباب جماعت کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.جزاکم اللہ احسن الجزاء دوسرا پہلو ہے میری اہلیہ کی اچانک بیماری کا.ان کو دل کا دورہ ہوالیکن چونکہ کچھ کمزوری بھی تھی اور کچھ اور ایسے الجھاؤ تھے بیماری کی شکل میں کہ جس کی وجہ سے طبیب کیلئے یہ مکن نہیں ہوتا کہ وہ پہچان سکے کہ یہ دل کا دورہ ہے اور اچھے سے اچھا طبیب بھی اس معاملے میں دھو کہ کھا جاتا ہے.چنانچہ با وجود اس کے کہ دل کا بے حد شدید حملہ تھا جس سے عموماً انسان جانبر نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور چار پانچ دن اسی حالت میں کہ پتا بھی نہیں کہ دل کی تکلیف ہے وہ پھرتی بھی رہیں ، میرے سفر کی تیاری بھی کرواتی رہیں اور شدید تکلیف میں رہیں لیکن نہ احساس ہونے دیا کہ کیا ہو رہا ہے، نہ پوری طرح بتایا.جب آخر پتا چلا تو ڈاکٹر دیکھ کر حیران رہ گیا.اس نے کہا کہ یہ تو نہ ممکن نظر آتا ہے کہ اتنے شدید دل کے حملے کا مریض بچ جائے اور پھر مسلسل سیڑھیاں چڑھ رہا ہے اور اتر رہا ہے، کپڑے پیک کر رہا ہے، سفر کی تیاری کر رہا ہے.یہ تو نا قابل یقین بات ہے لیکن اس کو یہ نہیں پتا کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے دعا گو جماعت ہے اور ان کی بیماری کی خبر کے

Page 617

خطبات طاہر جلد ۹ 612 خطبہ جمعہ ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء بعد جو دعائیں ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب تھا وہ دعاؤں سے پہلے بھی بعض دفعہ قبول فرمالیتا ہے اور اس کثرت سے احباب جماعت کے خطوط ملے ہیں اس قدر درد سے بلک بلک کے احباب نے ، ساری دنیا میں دعائیں کی ہیں کہ یہ ناممکن تھا کہ ان کا فیض نہ پہنچتا.پس یہ مثال ہے ان لوگوں کی جو خدا سے براہ راست نور یافتہ ہوں خدا سے براہ راست فیض یافتہ ہوں.وہ بھی سورج بن کر ابھرتے ہیں اور تمام عالم میں ان کا فیض پہنچتا ہے.اس لئے اگر نجی ہو یا امریکہ ہو یا افریقہ ہو یا پاکستان یا ہندوستان ، کہیں بھی کوئی احمدی ہے اس کی دردناک دعاؤں کا فیض میں نے خود دیکھا ہے، ہم تک پہنچتارہا اور آخری شکل یہ ہے کہ جو ماہرین نے دیکھا ان میں سے ایک نے ہمارے ایک احمدی ماہر قلب کو امریکہ فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں خلاصہ تو صرف یہ کہ سکتا ہوں کہ یہ معجزہ ہے.اس کے سوا ہمیں کچھ مجھ نہیں آتی کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا کیونکہ جس بیماری میں بظاہر مرنا یقینی تھا اس بیماری سے نہ صرف شفا ملی بلکہ اس کے بعد مسلسل اس بیماری کو چیلنج کیا گیا کہ آؤمار کے دکھاؤ اور پھر بھی اس بیماری کو توفیق نہیں ملی مارنے کی اور پھر شفا اس نوعیت کی ہوئی کہ ماہر قلب نے مجھے خود بتایا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہوا ہے بیماری کا کوئی بداثر جو زندگی بھر دل کے ساتھ چمٹ جایا کرتا ہے وہ ان کی صورت میں نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر احتیاط کی جائے ابھی تو وقت لگے گا تین مہینے ابھی اس زخم کو مندمل ہونے میں لگیں گے جو کافی بڑے حصے پر واقع ہے.وہ کہتے ہیں احتیاط تو لازمی ہے لیکن اب تک جو صورت حال ابھری ہے وہ یہی ہے کہ اس کی ان پیچیدگیوں سے اللہ تعالیٰ نے بچالیا ہے جو بالعموم ایسے مریضوں کو لاحق ہو جایا کرتی ہیں.اس ضمن میں ایک چھوٹا سا ایک واقعہ دلچسپ سا سنادوں اور اس سے اندازہ ہوجاتا ہے انسان کو کہ بعض دفعہ ضروری نہیں کہ الہام ہو لیکن ایسے واقعات ہوتے ہیں.جو خدا کی طرف سے پیغام بن جاتے ہیں اور انسان اس کو پیغام کے طور پر سمجھ لیتا ہے اور اس کی پہچان کے بھی واضح نشانات ہوا کرتے ہیں جس وقت ان کی بیماری نے ایک شدت اختیار کی اور ڈاکٹر نے بالآخر ہمیں بتایا کہ دل کا شدید حملہ ہے اور Complete Heart Failure میں جاچکی ہیں اس وقت دعا کے بعد میں لیٹا تو میں نے ٹیلی ویژن خبروں کیلئے آن کیا.لیکن عجیب بات ہے کہ اس چینل پر خبروں کی بجائے پنجابی کی ایک قوالی آرہی تھی یہاں انگلستان میں اور وہ قوالی یہ تھی، مجھے لفظ تو پورے یاد نہیں، کہ

Page 618

خطبات طاہر جلد ۹ 613 خطبه جمعه ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۰ء جنوں سائیاں رکھے انوں نہ مارے کوئی ، جس کو سائیں نے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اس کو کوئی مار نہیں سکتا اور قوالوں کی طرح اسی مصرعہ پر اٹکا ہوا تھا ، یہی گائے جا رہا تھا.اچانک مجھ کو یہ خیال آیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ میری دعا کا جواب دے رہا ہے.یہ مریض وہ ہے جس کو پوری مارنے کی کوشش کی گئی مگر خدا نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ نہیں مارنے دینا اس لئے تم لوگ کچھ نہیں کر سکتے.جو مرضی کرلو خدا نے نہیں مرنے دینا اس مریض کو.اب یہ دل کا تاثر ہو سکتا تھا لیکن اسی شام جب میں ہسپتال بیوی سے ملنے گیا تو انہوں نے عجیب بات بتائی کہ اس ہسپتال میں نہ کوئی گانے ، نہ شور نہ ٹیلی ویژن Intensive Care ہے دل کی آواز بھی باہر سے نہیں آتی.جس وقت ECgہور ہی تھی اس وقت اچانک کہیں سے ایک ٹیلی ویژن آن ہوا ہوگا یار یڈیو ، یہ آواز آرہی تھی بار بار پنجابی گانے کی کہ ”جنوں سائیاں رکھے انوں نہ مارے کوئی اب اس ہسپتال میں میں بار بار گیا ہوں ، میں نے ایک دفعہ بھی نہ ریڈیو کی آواز سنی نہ ٹیلی ویژن کی آواز سنی اور Intensive Care میں ویسے بھی نہیں پہنچا کرتی آواز میں لیکن یہ خدا نے بتانا تھا کہ یہ بھی ایک الہام کی قسم ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کی آوازوں کے ذریعے جو عام قانون میں جاری ہیں ایک پیغام پہنچا دیتا ہے اور اسے تقویت دینے کی خاطر اس اعجازی رنگ میں اس کودہراتا ہے کہ انسان کے لئے شک کی گنجائش نہ رہے اور پھر جو بعد واقعات ہیں شفا کے جو بیان کئے ہیں ثابت کرتے ہیں کہ یہی خدا کا فیصلہ تھا.الحمد للہ مجھے یقین ہے اصل میں یہ کہنا چاہئے تھا کہ خدا کا فیض ہے صرف لیکن اس فیض کو بندوں میں دہرا لطف پیدا کرنے کی خاطر وہ دعاؤں کے ساتھ ملا دیا کرتا ہے اور تا کہ بندوں کو یہ بھی لطف آئے کہ ہمارا بھی ہاتھ لگا ہوا ہے.ان معنوں میں دعاؤں کا میں ممنون ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے محبت کرنے والے احباب جماعت کا ہاتھ بھی لگوا دیا ورنہ اصل میں تو ہر فیض اسی سے جاری ہوتا ہے اور اسی کے فیصلے کے مطابق جاری ہوتا ہے اور میں تمام احباب جماعت کا میں دل کی گہرائیوں سے شکر یہ ادا کرتا ہوں یہ جتنے بھی خط ملتے ہیں میں خود بھی پڑھتا ہوں بڑے غور سے اور پھر بی بی کو بھی پہنچا دیتا ہوں وہ بھی پڑھتی ہیں اور ہر ایک کا پیغام ان تک براہ راست بھی پہنچ رہا ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء

Page 619

Page 620

خطبات طاہر جلد ۹ 615 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء مصطفا نئی صدی کا چیلنج یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ جو محمد صفی ام الا اللہ کے صافی دل پر نازل ہوا اس کو پھیلایا جائے ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ راکتو بر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ابھی ایک سال سات ماہ کا عرصہ گزرا ہے کہ احمدیت اپنے قیام کی دوسری صدی میں داخل ہوئی اور اس تھوڑے ہی عرصے میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ایسے آثار دکھائی دینے لگے ہیں کہ بفضلہ تعالیٰ یہ صدی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے غلبے کی صدی ثابت ہوگی.مختلف ممالک میں، مختلف قوموں میں جہاں اس سے پہلے احمدیت کے نفوذ کے رستے بند تھے نہ صرف یہ کہ رستے کھلے ہیں بلکہ احمدی عقائد احمدی خیالات ، احمدی طرز فکر کو اپنانے کے لئے لوگ بے چین اور پیاسے دکھائی دیتے ہیں.ان تمام نئے علاقوں میں جہاں اس عرصے میں پہنچنے کی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں تو فیق ملی ہے جس تک بھی احمدیت کا پیغام پہنچا ہے اس نے دو طرح سے تعجب کا اظہار کیا ہے.ایک یہ کہ ہم اب تک اس سے کیوں محروم رکھے گئے؟ اور دوسرے یہ کہ بلا استثناء تمام نئی قوموں میں بھاری اکثریت نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ یہ خیالات ہمارے اپنے دل کے خیالات ہیں ہمارے نزدیک مذہب ایسا ہی ہونا چاہئے ہمارے نزدیک اسلام کی یہی تو جیہہ ہے جو فطرت کو قبول ہوسکتی ہے اور جس میں غالب آنے کی صلاحیت موجود ہے.ابھی تک ان میں سے بہت کم ہیں جن کو با قاعدہ احمدی ہونے کی توفیق ملی ہے یا اگر غیر مسلم تھے تو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی ہے

Page 621

خطبات طاہر جلد ۹ 616 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء لیکن خیالات کی ہم آہنگی بہت ہی خوش آئند ہے اور آئندہ جماعت احمدیہ کے غلبے کے لئے بہت سی امیدیں پیدا کرتی ہے.جہاں تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے کا تعلق ہے اس کے لئے خیال کی ہم آہنگی ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کی راہ میں اور بہت سی روکیں ہیں ،ان میں سے ایک روک کا میں نے گزشتہ کسی خطبے میں ذکر کیا تھا کہ وہ معاشرے کے اختلاف کی روک ہے.مغربی معاشرے نے ہی نہیں بلکہ دنیا کی دیگر بہت سی قوموں کے معاشروں نے بھی انسان کو اپنے رہن سہن میں ایسی لذتوں کی آزادی بخش دی ہے کہ اس میں گناہ کا خیال ان کے لذتوں کی پیروی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا اور کوئی سماجی روک بھی ایسی نہیں جس کے نتیجے میں وہ بعض گناہوں سے باز رہنے پر مجبور ہوں یا باز رہنے کی طرف ان کا بے اختیار میلان ہو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ سماج کے اثر کے نیچے باز نہ رہنا بھی چاہیں تو باز رہیں.پس یہ دو قسم کے نمایاں اثرات ہیں جو انسان کو بدیوں سے روکتے ہیں.ایک خدا کا تصور اور اس کے نتیجے میں گناہ کا خیال جو انسان کو بدیوں سے روکنے میں بہت حد تک کامیاب ہوسکتا ہے اگر خدا کا تصور حقیقی ہے تو گناہ کا خوف یعنی گناہ سے بچنے کا خیال بھی ایک حقیقی خیال بن جاتا ہے اور انسان کو بدیوں سے روکنے میں ایک بڑی قوت بن کر ابھرتا ہے.اگر خدا کا تصور واہمی سا ہو، اگر خدا کا تصور ایک بعید تصور ہواور حقیقی اور سچا اور زندہ تصورنہ ہو تو اگر چہ گناہ کا تصور اس سے بھی پیدا ہوتا ہے لیکن وہ تصور بے اثر ثابت ہوتا ہے اور انسان عقلی طور پر ایک بات کو گناہ تسلیم کرتے ہوئے بھی اس سے باز رہنے کی طاقت نہیں رکھتا.پس ان دونوں باتوں کا باہم گہرا رشتہ ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ ایک ایسا تعلق ہے کہ ایک اگر طاقت پکڑے گا تو دوسرا بھی طاقت پکڑے گا.پس خدا پر ایمان جتنا قوی ہوتا چلا جاتا ہے گناہ سے نفرت بھی اسی قدر قوی ہوتی چلی جاتی ہے یا اگر نفرت نہ ہوتو گناہ کا خوف اور گناہ سے بچنے کا رجحان اسی قدر زیادہ طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے.پس ہمارا مقابلہ ایک پہلو سے دہریت سے ہے اور اسی دہریت کے نتیجے میں معاشروں کو آزادی ملتی ہے.جب گناہ کا تصور باقی نہ رہے تو معاشرے کے رنگ بدل جاتے ہیں.دوسری قوت جو انسان کو بدیوں سے روکتی ہے وہ سماج کی قوت ہے.بعض دفعہ گناہ کا خیال انسان کو کسی چیز سے نہیں روکتا بلکہ سماج کا دباؤ اس کو بعض چیزیں کرنے سے روکتا ہے اور سماج مختلف

Page 622

خطبات طاہر جلد ۹ 617 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء ممالک اور مختلف قوموں کے مختلف ہیں.اب ایک ہندو سماج ہے اس سماج کا تصور ضروری نہیں کہ ان کے مذہب سے ہم آہنگ ہو بلکہ سماج ایک اپنا الگ رستہ چلتا ہے اور مذہب بعض دفعہ اس کے ساتھ متوازی بھی ہوتا ہے بعض دفعہ الگ ہٹ جایا کرتا ہے لیکن اس کے باوجو د سماج قائم رہتا ہے جہاں مذاہب کمزور پڑ جائیں وہاں سماج طاقتور ہو جایا کرتے ہیں چنانچہ بہت سے افریقن ممالک میں خدا کے تصور کے لحاظ سے گناہ کا کوئی تصور نہیں مگر ان کا اپنا ایک سماج ہے اور اس سماج کا بڑا بھاری دباؤ ان قوموں پر ہے.وہ عام مذہبی نقطہ نگاہ سے گناہ کریں تو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں لیکن سماج کے خلاف بات نہیں کر سکتے اسی طرح تمام دنیا میں سماج کے دباؤ ہیں.مغربی معاشرہ بھی ایک سماج ہے اس کا نیکی اور بدی سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس کا خدا کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ قوم نے اپنا ایک رہن سہن بنالیا ہے جس پر مذہبی اثرات بہت ہی کم ہیں.لہذا جس معاشرے کو ہم عیسائی معاشرہ سمجھ رہے ہیں یہ در حقیقت عیسائی معاشرہ نہیں ہے بلکہ عیسائیت کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے.بہر حال جب ہم ان قوموں کو تبلیغ کرتے ہیں تو جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ہمارے سامنے اسلام کے مقابل پر عیسائیت کھڑی نہیں ہوتی.نہ اسے کھڑا ہونے کی طاقت ہے بلکہ اسلام کے مقابل پر مغربی سماج سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور ان قوموں کے لئے اپنے سماج کو چھوڑ کر مذہب کو قبول کرنا جو سماج میں بھی دخل انداز ہواورسماج کے اطوار بدلنے کی کوشش کرتا ہو بہت ہی مشکل کام ہے.پس اس لحاظ سے انگلی ایک صدی کے جو مقابلے ہمارے درپیش ہیں ان میں ایک مقابلے کا میدان سماج کے ساتھ مقابلہ ہوگا.اوراس بارے میں میں نے پہلے آپ کو متنبہ کیا تھا کہ ہمیں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا اور بہت سوچ سمجھ کر سماج کی تعیین کرنی ہوگی.اگر پاکستانی یا دیگر قومی سماج کو ہم نے اسلام کا نام دے کر دوسری قوموں پر ٹھونسنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں رد عمل پیدا ہوئے اور انہوں نے اسلام کو رد کیا تو اس میں خدا کے نزدیک ہم ذمہ دار ٹھہریں گے.اگر ہم نے دوسری طرف سماج کو راضی کرنے کی خاطر اسلامی اقدار کو قربان کر دیا اور اس خطرے سے کہ کہیں اس وجہ سے یہ اسلام کو رد نہ کر دیں کہ اسلام ان کے سماج سے ٹکراتا ہے، اسلام میں تبدیلیاں کرنی شروع کر دیں تو پھر بھی یقیناً ہم نہ صرف ذمہ دار ہوں گے بلکہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرنے والے ہوں گے.اسلام کو پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے، یہ

Page 623

خطبات طاہر جلد ۹ 618 خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۰ء فرض ہم پر عائد فرمایا گیا مگر اس طرح نہیں پھیلانا کہ گویا ہم اس مذہب کے مالک ہیں جس طرح چاہیں پھیلائیں ، پھیلانا مقصد ہے.پھیلانا مقصد تو ہے مگر اسی اسلام کو پھیلانا مقصد ہے.جو آنحضرت ﷺ کے قلب صافی پر نازل ہوا تھا اور اس اسلام کی خدا تعالیٰ کو ایسی غیرت ہے کہ آنحضرت علیہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تو ایک ذرہ بھر بھی اس اسلام سے الگ قدم رکھ دے، باہر قدم رکھ دے، کوئی تبدیلی اس میں منظور کر دے لیکن خدا تجھے متنبہ کرتا ہے کہ تیرے پاس یہ امانت ہے، ایک ذرہ بھی اس میں خیانت ہوئی اور اگر ایک شعشہ بھی تو نے اس دین سے باہر قدم رکھا جو میں نے نازل فرمایا ہے تو تو سب کچھ کھو بیٹھے گا اور کہیں کا نہیں رہے گا.کتنی بڑی اور خوفناک وارننگ (warning) ہے، کتنا بڑا انتباہ ہے.دراصل آنحضرت علی کے لئے تو ناممکن تھا کہ ایک ذرہ بھی اسلام سے انحراف کرتے بلکہ اس کے متعلق تصور بھی پیدا نہیں ہوسکتا.انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ رسول اکرم علی ایسی بات سوچ بھی سکتے تھے.پس خدا جب آپ کو مخاطب کر کے یوں فرماتا ہے تو تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والی مختلف قوموںکو متنبہ فرماتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی اور ہے کہ جوں جوں اسلام نے مختلف قوموں میں پھیلنا تھا اسلام میں تبدیلی کے تقاضے پیدا ہونے تھے پس وہ اسلام جو تمام بنی نوع انسان میں پھیلا ہے اور مختلف قوموں میں اس نے نفوذ پکڑا ، ان علاقوں کے مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ اپنے سماج سے تم نے اس رنگ میں صلح نہیں کرنی کہ اسلام کے اصولوں کو تبدیل کرو اور تبدیل ہونے دو بلکہ ایک ذرہ بھی تمہیں اس وجہ سے کہ لوگ تمہیں اچھا سمجھنے لگیں اسلام کونرم دیکھ کر اسلام کو قبول کرنے لگ جائیں ان کی خاطر اپنے مذہب میں تبدیلی نہ کرو.یہ پیغام ہے جو آنحضرت ﷺ کی وساطت سے تمام دنیا کے مسلمانوں کو پہنچایا گیا ہے.پس ہمارے لئے ایک پل صراط قائم کیا گیا ہے جہاں اگر دائیں طرف گریں تب بھی ہلاکت ہے بائیں طرف گریں تب بھی ہلاکت ہے.ایک طرف اپنے معاشرے کو اگر وہ اسلامی نہیں، اسلامی معاشرے کے طور پر پیش کرنا بھی بڑا بھیانک جرم ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رد عمل پر ہم خدا کے حضور جوابدہ ہوں گے اور اگر اس وجہ سے اسلام قابل قبول نہیں رہے گا یعنی بعض قوموں کے لئے قابل قبول نہیں رہے گا تو اس میں سراسر ہمارا گناہ ہے اور اگر اسلام کو قابل قبول

Page 624

خطبات طاہر جلد ۹ 619 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء بنانے کی خاطر ہم نے اسلام میں تبدیلیاں روا رکھیں تو یہ نہ صرف گناہ ہوگا بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر گناہ ہوگا اور بہت بڑی بددیانتی ہوگی اور اسلام کے ساتھ خیانت ہوگی جس کی خدا تعالیٰ اجازت نہیں دیتا.پس یہ وہ باریک راہ ہے جس پر چل کر ہم نے اس صدی میں دنیا کی مختلف قوموں کو اسلام پہنچانا ہے.ایک یہ بڑا خطرہ ہے جس کی میں نشاندہی کرنی چاہتا ہوں کیونکہ جوں جوں تیزی کے ساتھ ہم نئی قوموں میں پھیلیں گے.اسی قسم کے مطالبے بڑھتے چلے جائیں گے ، اسی قسم کے تصادم ہوتے چلے جائیں گے اسی قسم کی الجھنیں ہمیں در پیش ہوں گی اور ان نئے تقاضوں کو صحیح معنوں میں پورا کرنے کے لئے یا ان نئے مقابلوں سے نپٹنے کے لئے ہمارے لئے کھلی ہوئی ایک واضح راہ ہونی چاہئے اور ہمیں پہلے سے ہی اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے.پس اگر چہ یہ خطرات بعض جگہ دیسی ہی شدت کے ساتھ نہیں ابھر رہے لیکن چونکہ یہ ترقی اور غلبے کی صدی ہے اس لئے ہماری موجودہ نسل کو حکمت سے کام لیتے ہوئے آئندہ پیش آمدہ خطرات کے احتمالات کو سامنے رکھنا چاہئے.خطروں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے احتمال پر نظر رکھتے ہوئے ان کے خلاف تیاری کرنی چاہئے.قرآن کریم نے جو یہ حکم دیا ہے کہ سرحدوں پر گھوڑے باندھو.رابطوا فرمایا.جس کا مطلب یہ ہے کہ سرحدوں پر اپنے گھوڑے باندھو.یہ سرحدیں مکانی بھی ہیں اور زمانی بھی ہیں.پس آئندہ زمانے کی سرحدیں وہ ہیں جن پر ہم آج کھڑے ہیں اور یہاں ہمیں گھوڑھے باندھنے کی ضرورت ہے.یہاں ہمیں مکمل طور پر اسلام کے دفاع کے لئے فوجی تیاری کی ضرورت ہے.پس جو خطرات آئندہ داخل ہو سکتے ہیں آج ان کے رستے بند کرنے ہیں.پس معاشرے کے معاملے میں جماعت احمدیہ کو خالصہ اسلامی معاشرے کوصرف اختیار کرنا ہے بلکہ اسے خالص کر کے اختیار کرنا ہے اور اس میں دوسرے معاشروں کے نفوذ کے خطرات سے متنبہ رہنا ہے کیونکہ جب معاشرے معاشروں سے ملتے ہیں جس طرح گرم پانی ٹھنڈے پانی سے ملتا ہے تو نفوذ ضرور ہوتا ہے.بعض پہلوؤں سے بعض نفوذ ایسے ہیں جن کی اجازت دی جاسکتی ہے جہاں اسلام کے بنیادی اصولوں سے تصادم نہیں ہے ، ٹکراؤ نہیں ہے، وہ ایک عام انسانی ترقی کے نتیجے میں بعض معاشرتی اصلاحیں ایسی ہوتی چلی جاتی ہیں جن کا مذاہب سے تصادم نہیں ہوتا.

Page 625

خطبات طاہر جلد ۹ 620 خطبہ جمعہ ۱۹ را کتوبر ۱۹۹۰ء مضمون اپنی ذات میں ایک الگ مضمون ہے.میں صرف اس طرف اشارہ کرتا ہوں کہ ہر وہ معاشرہ جو آپ کے معاشرے سے مختلف دکھائی دے لاز مار دکرنے کے لائق نہیں ہے.بلکہ بعض انسانی ترقی کا جو سلسلہ جاری ہے اس کے نتیجے میں بعض معاشرتی تبدیلیاں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں جو رہن سہن کے انداز سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کو غلط کہہ کے رد نہیں کیا جا سکتا.اب آنحضرت کے زمانے میں ایک رہن سہن تھا.بعض علماء جو تنگ نظری اختیار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسی قسم کی چادریں پہننا، اسی قسم کی چٹائیوں پر لیٹنا، اسی طرح کی شلوار میں اور قمیصیں استعمال کرنا یہی اسلامی معاشرہ ہے اور یہ کہنے کے باوجود ان کا اپنا رہن سہن اس سے مختلف ہے.نہ ویسی ٹوپیاں پہنتے ہیں نہ ویسی غذا کھاتے ہیں.پھر اگر وہ اپنے اس عقیدے میں بچے ہوں تو ان کو پھر اسی طرح کھجوریں بھی کھانی چاہئیں اور اونٹ کا دودھ پینا چاہئے اگر اسی کا نام اسلامی معاشرہ ہے.تو یہ معاشرہ تو اب تمام دنیا میں رائج ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نہ اتنے اونٹ ہیں نہ اتنی کھجوریں ہیں جن پر تمام بنی نوع انسان کے پیٹ بھر سکیں.پھر سواری بھی وہی اختیار کرنی چاہئے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ بعض انسانوں میں ترقی سے تعلق رکھنے والی تبدیلیاں ہیں جو بعض پہلوؤں میں معاشرتی تبدیلیاں بھی بن جاتی ہیں ان کا مذہب سے تصادم نہیں ہوا کرتا.پس بڑے غور کے ساتھ اور فکر کے ساتھ ہمیں ان باتوں کا تجزیہ کر کے کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنی ہوگی.ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ کون سا معاشرہ حقیقت میں اسلامی معاشرہ ہے خواہ اس میں بعض ترقیاتی تبدیلیاں ہوں.کون سا معاشرہ غیر اسلامی معاشرہ ہو جاتا ہے خواہ وہ تبدیلیاں ہوں یا نہ ہوں، خواہ وہ ماضی سے تعلق رکھتا ہو.پس افریقن ممالک کی بہت سی معاشرتی باتیں ایسی ہیں جو ترقی سے نہیں بلکہ ماضی کے ادوار سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ اسی حد تک غیر اسلامی ہیں جیسے آج پیدا ہونے والی معاشرے کی بعض باتیں غیر اسلامی ہیں تو زمانے کا تعلق نہیں ہے بلکہ روح دیکھنی ہوگی.مثلاً افریقہ میں بعض جگہ مذہب کے نام پر بعض جگہ روایات کے طور پر عورتوں کا ختنہ کرنے کا ایک ظالمانہ رواج ہے اس کے متعلق جو تفاصیل میں نے پڑھی ہیں وہ ایسی خوفناک ہیں کہ اس ظلم کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.چھوٹی بچیوں پر ایسے ایسے مظالم کرتے ہیں اور یہ مظالم بعض دفعہ خدا کے نام پر بعض دفعہ معاشرے کے نام پر کئے جاتے ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کس طرح کوئی اپنی معصوم بچیوں پر ایسا ظلم

Page 626

621 خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۰ء خطبات طاہر جلد ۹ کر سکتا ہے.پس یہ ماضی کی ایک بھیانک رسم ہے جس کا انسانی ترقی سے تعلق نہیں.یہ بھی غیر اسلامی ہے اور مغربی دنیا کے بعض ترقی یافتہ معاشرتی رجحانات بھی غیر اسلامی ہیں تو بہت کچھ مل جل گیا ہے.بہت سے ابہام پیدا ہو چکے ہیں اور جس طرح سونے کے تلاش کرنے والا اس لئے ریت کو رد نہیں کر دیتا کہ اس میں کہیں کہیں سونے کے ذرے ہیں بلکہ اس کو چھانتا ہے، دھوتا ہے ، محنت کرتا ہے بعض کیمیائی اثرات کے ذریعے غیر سونے کو الگ کرتا ہے اور سونے کے ذرات کو الگ کرتا ہے بہت محنت کرنی پڑتی ہے.پس اسلامی معاشرے کی حفاظت کے لئے اس سے زیادہ محنت کرنی پڑے تب بھی یہ درست بلکہ ضروری ہے.بہر حال یہ ایک ایسا مضمون ہے جس پر آج سے ہمیں نظر رکھنی ہوگی اور اگلی صدی میں مستقلاً اس راہ سے داخل ہونے والے ہر خطرے کا مقابلہ کرنا ہوگا.اسی وجہ سے میں نے بہت سے خطبات اور خطابات میں معاشرے کو اپنا موضوع بنایا اور معاشرے سے متعلق اب جرمنی میں جب خواتین کے اجلاس میں میری تقریر ہوئی تو اس میں بھی میں نے اسی موضوع پر خطاب کرتے ہوئے بہت سے پہلوؤں سے پردہ اٹھایا اور یاد کرایا کہ دیکھو جس قوم میں آکے تم بسے ہو یعنی جرمنی قوم میں، ان کے اندر مغربی معاشرے کی بعض بدیاں بھی موجود ہیں لیکن یا درکھو کہ تم بھی جس معاشرے کو لے کر اس ملک میں داخل ہوئی ہو تم بہت سی ایسی معاشرتی بدیاں ساتھ لائی ہو جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ بدیاں بھی بڑی بھیانک ہیں.اس لئے تم یہ نہ سمجھنا کہ تم اسلام کی علمبر دار بن کر ان کے سامنے اپنی ہر عادت کو اسلامی بنا کر پیش کرسکتی ہو.اگر تم ایسا کرنے کی حماقت کروگی تو اسلام کو شدید نقصان پہنچے گا اور یہ قو میں حق رکھیں گی کہ اس معاشرے کو جس کو تم اسلام بنا کر پیش کر رہی ہو اس کو رد کر دے.اس کے برعکس ان کے معاشرے میں بہت سی رد کرنے کی باتیں ہیں لیکن بہت سی اچھی باتیں بھی ہیں جو ان کا معاشرتی حصہ بن چکی ہیں ان کو قبول کرنا تمہارے لئے فرض ہے اور یہ خیال کہ یہ غیر قوموں کی باتیں ہیں، انہیں ہم کیسے اپنا ئیں یہ بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ کے لئے اس نفسیاتی روک کو دور فرما دیا جب فرمایا الحكمة ضالة المومن ( ترندی کتاب العلم حدیث نمبر : ۲۶۱۱) کہ حکمت کی بات مومن کی گمشدہ اونٹنی کی سی حیثیت رکھتی ہے.جیسے کسی کی اونٹنی گم ہو چکی ہو اور وہ اسے ملے تو وہ اسے

Page 627

خطبات طاہر جلد ۹ 622 خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۰ء غیر سمجھ کر دھت کار نہیں دیا کرتا خواہ اسے کسی غیر قوم سے ملے.اگر کسی عرب کی گم شدہ اونٹنی کسی دشمن قبیلے سے بھی ملتی تو وہ بڑے شوق سے اسے لے کے جاتا تھا اور لوگوں کی نظریں بچا کر لے جاتا تھا اور اپنا حق سمجھتا تھا.یہ کوئی عرب رسم نہیں بلکہ اس کا اطلاق انسانی فطرت پر ہوتا ہے اور ہر شخص جس کی گھی ہوئی ہر چیز جہاں بھی ملتی ہے وہ اسے اپنا حق سمجھ کر لیتا ہے.پس آنحضرت ﷺ نے اب ضآلة المومن کہہ کر حکمت کو ایک تو مومن کی ملکیت قرار دیا یعنی مومن حکمت کے لئے ، حکمت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اور حکمت کے بغیر مومن کی کوئی حیثیت نہیں.مومن کا اثاثہ مومن کا مال مومن کا سب کچھ حکمت ہی ہے اور مومن کے لئے یہ ناممکن ہے کہ مومن رہتے ہوئے حکمت کی بعض باتیں کھو دے.پس میرے نزدیک اس میں ایک پیشگوئی بھی تھی اور وہ یہ تھی کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ مومن ایمان لانے کے باوجود ان حکمتوں کو گنوا بیٹھے جو میں نے اسے عطا کی ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے.وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعہ:۳) کتاب کے ساتھ حکمت نازل ہوئی اور آنحضرت علیہ اس حکمت کے معطی بن گئے.اس حکمت کو عطا کرنے والے بن گئے.پس صلى الله یہ خیال کر لینا کہ اس حدیث کا اطلاق آنحضرت علیہ اور آپ کے غلاموں پر ہوتا تھا یہ درست نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ تمام حکمتوں کی کوثر حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوئی اور آپ نے وہ حکمتیں بانٹیں اور بڑے کھلے ہاتھوں کے ساتھ بانٹیں لیکن آئندہ ایسا ایک زمانہ آنے والا تھا کہ ان حکمت کی باتوں سے رفتہ رفتہ مسلمان غافل ہونے لگتے اور غیر قو میں انہیں اپنا لیتیں.پس علم کے لحاظ سے دیکھئے تو آپ کو ایک بہت لمبا صدیوں پر پھیلا ہوا دور دکھائی دے گا کہ جب مغربی قوموں نے مسلمانوں سے علم سیکھ کر اس میں ترقی کرنی شروع کی اور مسلمانوں نے وہ علم اس طرح دے دیا جس طرح انسان پھٹے پرانے کپڑے کسی کو دے دیتا ہے اور ان سے تعلق تو ڑلیتا ہے.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ایک دفعہ اسی موضوع پر ایک مقالہ فرانس میں پڑھا تھا جو ریویو میں شائع ہوا.اگر کسی نے اس دردناک تاریخ کا مختصر اعلم حاصل کرنا ہے تو وہ مقالہ جوڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا ریویو میں شائع ہوا.اس موضوع پر نہایت ہی عمدہ مقالہ ہے.آپ نے بہت تھوڑے سے صفحات پر بہت بڑی تاریخ کا خلاصہ پیش کر دیا ہے اور اس کا خلاصہ یہی ہے کہ بدقسمتی سے چند سو سال کے اندر اندر مسلمانوں نے وہ سب کچھ جو قرآن اور حدیث اور بعد کے ترقیاتی

Page 628

خطبات طاہر جلد ۹ 623 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء ادوار سے سیکھا تھا لٹانا شروع کیا اور اس طرح لٹانا شروع کیا کہ مغربی قومیں دونوں ہاتھوں سے وہ علم لوٹ کر چلی گئیں اور وہ علم مسلمانوں کے پاس باقی نہ رہا.ورنہ علم تو ایسی چیز ہے جسے لٹایا بھی جاسکتا ہے اور اس کے باوجود قائم رہتا ہے کم نہیں ہوتا.آنحضرت ﷺ جب حکمتیں پھیلانے کی خاطر تشریف لائے تو حکمتوں کے پھیلانے سے آپ کی حکمت کم تو نہ ہوئی بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ علم اور حکمت پھیلانے سے بڑھتے ہیں.بہرحال اس حدیث سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت علیہ کی آئندہ زمانوں پر نظر تھی اور آپ جانتے تھے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ حکمت جو مومن کی ملکیت ہے اس سے گم جائے گی اور غیر قوموں میں چلی جائے گی.اس وقت علماء اٹھیں گے اور کہیں گے کہ یہ مغربی علوم ہیں ان کو حاصل نہیں کرنا.یہ غیر قوموں کی حکمتیں ہیں ان سے پر ہیز کرنا ہے.علماء کی یہ آوازیں تمہیں جاہل بنانے کے لئے اٹھیں گی اس وقت یا درکھنا کہ میں محمد مصطفی سے بلند آواز سے مخاطب کر کے تمہیں کہہ رہا ہوں کہ اے آنے والے مسلمانو! ان جاہل علماء کی آواز پر کان نہ دھرنا.یہ حکمتیں تمہاری حکمتیں ہیں.تم سے غیروں نے لے لی تھیں اور ان کو اپنا سمجھ کر اپنا لیا اور پھر تلافی مافات کرنا اور ان باتوں میں آگے بڑھنا اور قرآن کریم کی اس تعلیم کو یاد رکھنا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران: 1) تمہیں خیر امت بننے کے لئے نہ صرف یہ کہ اپنی کھوئی ہوئی حکمتیں واپس لینا ہوں گی بلکہ اتنی ترقی کرنی ہوگی کہ ان حکمتوں کو دوبارہ دنیا میں لوٹانا شروع کرو اور پھیلا نا شروع کرو مگر اس طریق پر کہ تم اور بھی زیادہ ان علوم میں اور ان حکمتوں میں ترقی کرو جن کا فیض تم سے غیروں کی طرف جاری ہو رہا ہو.پس یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر میں نے ان کو متنبہ کیا کہ تم اسلام کی تعلیمات کی علمبر دار تو ہو، اسلام کی تعلیمات کی اجارہ دار نہیں رہی.بدقسمتی سے اسلام ایک ایسے دور سے گزر چکا ہے جس میں یہ حکمتیں اسلام سے کھوئی گئیں اور غیر قوموں نے حاصل کر لیں تم جن میں آکے بسی ہو، یہاں تمہیں وہ حکمتیں بھی نظر آئیں گے اور وہ علوم بھی دکھائی دیں گے ان کو اخذ کرنے میں ہرگز تر دو نہیں کرنا اور جھوٹی لاف اور تعلی سے کام نہیں لینا کہ ہم دنیا کو دینے کے لئے آئے ہیں.ہمارا معاشرہ سب سے اچھا ہے اس لئے ہم جو کچھ تمہارے لئے لے کر آئے ہیں اس کو اسی طرح قبول

Page 629

خطبات طاہر جلد ۹ 624 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء کرلو.یہ تو قابل قبول نہیں ہے کہ پنجاب کے کسی ایک ضلع کا معاشرہ مثلاً گجرات کا معاشرہ جرمن قوموں پر ٹھونس دیا جائے کہ یہ اسلامی معاشرہ ہے.وہ معاشرہ جو اسلام کی تعلیم کے اکثر حصوں سے بالکل عاری ہو چکا ہو جہاں چوری عام ہو.جہاں جھوٹ عام ہو، جہاں دھو کہ عام ہو چکا ہو، جہاں بدنظری عام ہو.ہرقسم کی بیماریاں اور غلط رسوم اس طرح رائج ہو چکی ہوں کہ عملاً ایک اسلامی ملک میں ایک غیر اسلامی رواج قائم ہو چکا ہو اور غیر اسلامی سماج نے قوم کو جکڑ لیا ہوا ایسی بد رسوم ، ایسی بد عادات کو اسلامی معاشرہ کے طور پر ) پیش کرنے کا حق کس نے ہم لوگوں کو دیا ہے.پس اسی مضمون سے تعلق رکھنے کی باتیں تھیں جو میں نے اپنے رنگ میں ان کو سمجھا ئیں اور بتایا کہ بعض باتوں سے احتراز لازم ہے جہاں بے حیائی کی تعلیم ہے جو مغرب دے رہا ہے جہاں اور بہت سے ایسے بنیادی نقائص ہیں جو اسلام کی پاکیزہ عائلی زندگی کو مجروح کرنے والی باتیں ہیں ان سے احتراز لازم ہے لیکن دیگر اچھی باتوں سے نہ صرف یہ کہ احتر از لازم نہیں بلکہ ان کو اختیار کرناضروری ہے.پس یہ مقابلوں کے وہ میدان ہیں جو ہمارے لئے اس صدی میں کھولے جارہے ہیں اور ان کے متعلق تمام دنیا کی جماعتوں کو ایسے مقابلوں کا انتظام کرنا چاہئے ایسے طریق اختیار کرنے چاہئیں جس سے عام احمدی کی تعلیم و تربیت ہو.اس کا ذہن اور اس کی قلبی صلاحیتیں اجاگر ہوں.صرف یہی نہیں کہ ہم نصیحت کے ذریعے اسے بتائیں کہ اسے کیا کرنا چاہئے بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہر جگہ کی جماعتیں اپنے اپنے ملک کے لحاظ سے ایسے Study groups بنا ئیں.ایسے صاحب عقل و فہم لوگوں کی سوسائیٹیاں قائم کریں یا ان کے ادارے قائم کریں جو ان باتوں پر غور کریں اور ہر ملک میں اس لحاظ سے ریسرچ کے کھلے میدان پڑے ہوئے ہیں.غانا کی رسوم اگر چہ وہ افریقہ ہے باقی افریقہ کے ممالک سے مختلف بھی ہیں، نائیجریا کی رسوم اگر چہ وہ افریقہ ہے باقی افریقن ممالک سے مختلف بھی ہیں اور ان رسوم میں سے کچھ ایسی ہوں گی جو اسلامی مزاج رکھتی ہوں گی اور کچھ ایسی ہوں گی جو یقیناً اسلامی مزاج سے عاری بلکہ اس کے مخالف ہوں گی.اسی طرح جاپان کا معاشرہ ہے.اسی طرح چین کا معاشرہ ہے جن جن نئی قوموں میں احمدیت داخل ہوئی ہے ان میں بعض جگہ اسلام پہلے سے موجود تھا لیکن بگڑی ہوئی صورت میں.اس کی وجہ سے اور بھی زیادہ الجھنیں پیدا ہو چکی ہیں اور مسلمانوں کے علاقوں میں بھی غیر اسلامی رسم ورواج جڑ پکڑ چکے ہیں اور انہوں نے قومی معاشرے کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے.پس

Page 630

خطبات طاہر جلد ۹ 625 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء ملکوں کے اندر بھی فرق ہے.غانا کے وہ علاقے جو مسلمان ہیں وہاں کے رسم ورواج ان علاقوں سے مختلف ہیں جو عیسائی ہیں اور عیسائی علاقوں کے رسم ورواج کسی حد تک ان علاقوں سے مختلف ہیں جو Pagan کہلاتے ہیں یعنی بد مذہب اور اس کے باوجود تینوں کے اندرا قدار مشترکہ بھی ہیں یعنی ایسی مشترک اقدار ہیں جو اسلامی بھی ہیں اور مشترک اقدار ایسی بھی ہیں جو کلیہ غیر اسلامی ہیں.تو ایک ہی ملک کا اگر آپ تجزیہ کریں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ کس طرح کھچڑی پکی ہوئی ہے اور وہاں بڑی واضح نظر کے ساتھ ان امور کا مطالعہ کرنا، ان رحجانات کا تجزیہ کرنا اور اسلامی معاشرے کے نقوش کو نتھار کر اور الگ کر کے ان قوموں کے سامنے پیش کرنا ایک بہت ہی بڑا اور عالمگیر چیلنج ہے جو جماعت احمدیہ کو در پیش ہے اور جتنا اس صدی میں یہ چیلنج ابھرا ہے یا ابھر نے والا ہے ویسا پچھلی صدی میں آپ کو عشر عشیر بھی اس کے ساتھ واسطہ نہیں پڑا.پس اب چاہئے کہ ہم تمام ممالک میں ان امور کے اوپر غور کرنے کے لئے کمیٹیاں بنادیں.بعض دانشوروں کو اس طرف متوجہ کریں بعض تحقیقات کے سیل قائم کریں اور ان میں دونوں قسم کے تحقیق کرنے والے شامل ہونے چاہئیں جہاں پاکستانی موجود ہیں ہندوستانی موجود ہیں اور اس کے علاوہ دوسری قومیں ہیں وہاں بہتر یہ ہوگا کہ کچھ پاکستانی اور ہندوستانی بھی ان قوموں کے محققین کے ساتھ شامل کر لئے جائیں اور جہاں یہ نہیں ہیں وہاں ضروری ہے کہ جو بھی تحقیق ہو اور جس نہج پر اس تحقیق کے نتائج نکلیں ان سے مرکز کو ساتھ کے ساتھ مطلع رکھا جائے تا کہ اگر کسی جگہ کوئی غلط فہمیاں پیدا ہونے کا خطرہ ہے تو انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے.مثلاً پردہ ہے پردے میں بھی اتنے اختلافات ہیں کہ اس کی وجہ سے اب ایک بالکل نئی صورت ابھر کر سامنے آرہی ہے.ہمارے اپنے ملک میں بھی پردے کی دو قسمیں ہیں، کئی قسمیں ہیں لیکن نمایاں طور پر دو قسمیں ہیں.ایک دیہاتی پردہ اور ایک شہری پردہ.دیہاتی پردے میں ملانوں کے گھروں کے سوا الا ماشاء اللہ پردہ عام چادر سے کیا جاتا ہے اور روزمرہ عورتیں وہ کام کرتی ہیں جن میں برقعہ اوڑھنا ممکن ہی نہیں.وہ کھیتوں میں جاتیں ، روز مرہ کے کام کرتیں، بھٹیار نیں دانے بھونیں اور کئی قسم کے ایسے کاموں میں خواتین مصروف رہتی ہیں جن کے متعلق اس جگہ کے ملاں بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کرتے کہ یہ غیر اسلامی طرز زندگی ہے.اب مثلاً یہ ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ کیا یہ واقعی غیر اسلامی طرز زندگی ہے.اگر نہیں تو پھر شہروں کا پردہ مختلف کیوں ہے.اگر مختلف ہے تو کس

Page 631

خطبات طاہر جلد ۹ 626 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء حد تک اسے مختلف ہونے کا حق ہے.پردے کی روح کیا ہے اور کہاں کن حالات میں کس صورت میں وہ ابھرے گا.افریقہ میں پردے کی اور نوعیت ہے اور پردے کے مسائل مختلف ہیں.افریقہ میں بعض جگہ بعض مسلمان علاقوں میں پردہ انتا سخت ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عورت نے تنسو اوڑھا ہوا ہے وہ تنو میں قید ہر جگہ پھر رہی ہے معلوم ہوتا کہ ان علاقوں کے علماء نے حُوْرٌ مَّقْصُورَت فِي الْحَيَامِ (الرحمن :۷۳) کی غلط تشریح سمجھی.وہ سمجھے کہ یہ جو قرآن کریم میں ذکر ہے کہ جنت میں حوریں ہوں گی جو خیموں کے اندر قلعہ بند ہوں گی اس سے مراد یہ ہے کہ ان کو ایسا برقعہ اوڑھا دو کہ بالکل یوں لگے کہ تنبو پھر رہا ہے اور یہی حوریں ہیں.محض ایک جاہلانہ تشریح ہے جس نے ایک کر یہ منظر پیدا کیا ہے کبھی آنحضرت ﷺ کے زمانے میں معاشرے نے یہ رنگ نہیں اختیار کیا تھا.اس کے برعکس دوسری طرف اسی ملک میں چلے جائیں تو عورتیں اس طرح پردہ سے بے نیاز ہیں کہ چھاتیاں بھی تنگی اور اس پر کوئی شرم بھی نہیں.یعنی یہ نہیں سمجھا جاتا کہ یہ کوئی بے شرم عورت ہے جو ٹنگی پھر رہی ہے.بلکہ کچھ غربت کے اثرات کچھ پرانے معاشرے کے اثرات وہ اس بات میں کسی قسم کی حیا محسوس ہی نہیں کر تیں نہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ کوئی عجیب بات ہے اب ایک ہی ملک میں یہ دو کنارے ہیں.اسلامی معاشرہ کیا ہے.وہ بیچ کی کیا راہ ہوگی جہاں ان لوگوں کو بھی کھینچ کے لانا ہوگا اور ان لوگوں کو بھی کھینچ کے لانا ہوگا.یہ سوال اس ملک کے لئے ایک خاص اہمیت اختیار کر جاتا ہے پس صرف پر دے کو ہی آپ لے لیں تو ہر ملک کے چیلنج الگ الگ ہیں ہر ملک کے معاشرے کی شکلیں مختلف اور ان شکلوں میں سے اسلامی خدو خال تلاش کرنے ایک مختلف مسئلہ بن جاتا ہے.پس تمام دنیا میں جب تک مقامی طور پر ابھی سے ان امور کی طرف توجہ شروع نہ کی جائے تو آئندہ بڑے بھاری خطرات درپیش ہوں گے.سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ احمدیت مختلف ممالک میں مختلف برتنوں میں پڑ کر مختلف شکلیں اختیار کر جائے گی.احمدیت یعنی حقیقی اسلام اس کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں ایک تو پانی کی شکل کہ جس معاشرے میں جائے اس کے مطابق کچھ نہ کچھ ڈھل جائے اور ایک منجمد چیز کی شکل کہ جو ڈھل نہیں سکتی کائی جاتی ہے اسلام ان دونوں کے مابین چیز ہے بعض پہلوؤں سے ڈھلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اختیار بھی رکھتا ہے بعض پہلوؤں سے منجمد ہے اور اس معاملے میں اتنی سختی سے منجمد ہے کہ کاٹے بغیر نئی شکل اختیار کر نہیں سکتا اور کاٹنے کی اجازت نہیں ہے.

Page 632

خطبات طاہر جلد ۹ 627 خطبہ جمعہ ۱۹/اکتوبر ۱۹۹۰ء پس ایک مثال کو لے کر پوری طرح اسلام پر چسپاں کرنا بھی ممکن نہیں دوسری مثال کو لے کر بھی اسلام پر پوری طرح چسپاں نہیں کیا جاسکتا.ان دونوں کے مابین ایک رستہ ہے اسے اختیار کرنا ہوگا.پس آج کے خطبے میں میں صرف یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ تمام دنیا میں اگلی صدی کے آنے والے خطرات کوملحوظ رکھتے ہوئے احمدیوں کی نگران کمیٹیاں مقرر کر دی جائیں جو معاشرتی پہلو سے پیش آمدہ خطرات کی نشاندہی کریں اور موجودہ یا رائج الوقت معاشرے کے خدو خال کی جانچ پڑتال کریں اور جو غیر اسلامی رسمیں ہیں ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف اس ملک میں جہاد شروع کریں اور جو اسلامی رسمیں ہیں ان کی تائید میں ہوا چلانے کے لئے جد و جہد کریں اور جہاں جہاں اسلام کی مقامی معاشروں سے صلح ممکن ہے انہیں بڑی جرات کے ساتھ اور حوصلے کے ساتھ قبول کرنے پر آمادہ ہوں اور ان کے متعلق اعلان کریں کہ یہ جو طرز زندگی ہے، یہ ہرگز غیر اسلامی نہیں ہے.یہاں صلح ہوسکتی ہے اور وہاں صلح نہیں ہو سکتی.یہ تمام امور ہیں جن پر ہمیں لمبا عرصہ محنت کرنی ہوگی اور ہر ملک میں محنت کرنی ہوگی.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے جماعت کو کہ ان نئی ذمہ داریوں کو بھی ادا کرنا ہو گا جو نئی صدی سے وابستہ ہوگئی ہیں اور وہ ایسے خطرات کی شکل میں آرہی ہیں جو خوشخبریوں سے چھٹے ہوئے ہیں.پس یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ خوشخبریاں ہی خوشخبریاں لیتے رہیں اور اس کے ساتھ آپ کو کوئی محنت نہ کرنی پڑے کوئی خطرات لاحق نہ ہوں.گلاب کا پھول پھولوں کا سرتاج ہے اور اس کے ساتھ کانٹے لگے ہوتے ہیں نسبتاً کم درجے کے پھولوں کے ساتھ کانٹے نہیں بھی ہوتے مگر وہ چمن جس میں ہر قسم کے پھول ہوتے ہیں اس کا کانٹوں کے بغیر تصور نہیں ہوسکتا.پس ہر قسم کی خوشخبری کے ساتھ بھی کچھ کانٹے لگے ہوتے ہیں.ان کانٹوں کو پہچانا ضروری ہے ان سے بچنا ضروری ہے لیکن یہ خیال کر لینا بہر حال غلط ہے کہ آپ کو ایسی خوشخبریاں ملیں گی اس صدی میں جس کے ساتھ کوئی خطرات وابستہ نہ ہوں، کوئی خطرات لاحق نہ ہوں.ایک اور بہت بڑا خطرہ جس کا ہمیں مقابلہ کرنا ہوگا وہ نسل پرستی کا خطرہ ہے اس موضوع پر میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں یا اس سے آئندہ خطبے میں روشنی ڈالوں گا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دو بڑے چیلنج ہیں جو یہ صدی ہمارے لئے لے کر آئی ہے ان کے متعلق ہمیں ہر پہلو سے تیار رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور خود روشنی عطا کرے کیونکہ یہ رستے خطرناک ہیں.ان میں غلط فیصلے بھی ہو سکتے ہیں اور آج کے غلط فیصلے کل کے بہت بڑے خطرناک

Page 633

خطبات طاہر جلد ۹ 628 خطبہ جمعہ ۱۹ را کتوبر ۱۹۹۰ء رجحانات اور رسم ورواج میں تبدیل ہو جائیں گے تو دعا کرتے ہوئے ، ڈرتے ہوئے اس راہ پر آگے قدم بڑھانا ہے مگر آگے ضرور بڑھانا ہے کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اس سے اجتناب کی کوئی صورت ممکن نہیں.

Page 634

خطبات طاہر جلد ۹ 629 خطبه جمعه ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء نسل پرستی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں.تقویٰ پر مبنی قوم کا تصور اسلامی تصور ہے.عراق کی تباہی کا مکمل منصو بہ بنالیا گیا ہے.(خطبه جمعه فرموده ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشهد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَيْرٌ پھر فرمایا: (الحجرات :۱۴) گزشتہ خطبے میں میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ بدلتے ہوئے حالات میں جماعت احمدیہ کے سامنے نئے میدان کھل رہے ہیں جن میں اسلام کا غیر اسلامی قدروں سے جہاد ہو گا اور نئے معرکوں کے میدان کھلیں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ معر کے اپنی نوعیت کے لحاظ سے نئے نہیں بلکہ تاریخی لحاظ سے ہمیشہ سے ان کا وجود چلا آ رہا ہے لیکن بعض ادوار میں یہ نمایاں طور پر سر اُٹھاتے ہیں اور نسبتی لحاظ سے ایک غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں.پس اس دور میں جس میں سے اب ہم گزر رہے ہیں اس میں اسلام کا بہت بڑا مقابلہ معاشرتی قدروں سے ہوگا اور اہلِ مغرب جو زیادہ تر عیسائیت سے تعلق رکھنے والے ہیں اُنہوں نے نظریاتی جنگ سے بہت زیادہ بڑھ کر عمد أجنگ کا رُخ معاشرے کے اختلاف کی طرف موڑ دینا ہے اور اسی بناء پر وہ مغربی قوموں کی اپنی دانست

Page 635

خطبات طاہر جلد ۹ 630 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء میں اسلام سے حفاظت کریں گے.دوسرا پہلو Racialism یعنی نسل پرستی کا بڑی شدت کے ساتھ اُبھرنا ہے.باوجود اس کے کہ آپ مغربی دنیا میں بکثرت نسل پرستی کے خلاف آواز سُنتے ہیں اور نسل پرستی کا الزام کسی پر لگانا ایک بہت بڑی گالی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ محض ایک دکھاوے کی بات ہے.مغربی دنیا میں نسل پرستی کے خلاف جو بھی مہم چلائی گئی ہے یہ بڑے وسیع پیمانے پر یہود کی طرف سے چلائی گئی ہے اور اس کا رُخ صرف یہودی نسل پرستی کے خلاف تعصب کا قلع قمع کرنا ہے.یعنی یہودیت میں جہاں تک نسل پرستی موجود ہے اُس کے خلاف مہم نہیں بلکہ یہودی نسل پرستی کے خلاف جو مختلف تحریکیں دنیا میں اُٹھتی رہتی ہیں اُن کو ملیا میٹ کر دینے کے لئے ایک بہت بڑا عالمگیر پرو پیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کا رُخ خاص طور پر یورپ اور امریکہ کی طرف ہے اور اس پہلو سے آج خصوصیت سے نازی دور کے نسل پرستی سے تعلق رکھنے والے ظلموں کو ابھار کر کبھی ڈراموں کی شکل میں ،کبھی دوسری صورتوں میں کبھی مقالوں کی صورت میں اہلِ مغرب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور متنبہ کیا جاتا ہے کہ دوبارہ کبھی اس قسم کی غلطی کا اعادہ نہ کرنا اور ساتھ ساتھ پرانے جنگی جرموں کی سزا آج تک جاری ہے اور یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ اگر تم میں سے کبھی کسی نے پھر نسل پرستی کے جذبے سے یہود کی مخالفت کی یا اُن پر ظلم کرنے کا ارادہ کیا تو یا درکھنا تمہیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا.پس در حقیقت یہاں جو نسل پرستی کے خلاف اب کوئی مہم آپ کو ملتی ہے وہ محض اس محدود دائرے سے تعلق رکھتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ نسل پرستی ان قوموں میں شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے لیکن اس نسل پرستی کا رُخ مشرقی دنیا ہے یا افریقہ کی دنیا ہے یا اسلام ہے جو ایک قوم کے طور پر بعض دفعہ پیش کیا جاتا ہے اور اُس کے خلاف نسل پرستی کے جذبات کو اُبھارا جاتا ہے.بعض دفعہ مذہب اور معاشرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اُس کے خلاف معاشرتی اور مذہبی جذبات کو ابھارا جاتا ہے.روس میں جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے دیوار برلن کے گرنے سے جو نئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی عالمی تبدیلیوں سے متعلق کچھ ذکر میں نے اپنی جلسہ سالانہ کی آخری تقریر میں کیا تھا.اُس میں ایک پہلو ہے نسل پرستی کے جذبے کا اُبھرنا.یہ ایک بہت ہی اہم پہلو ہے جس کا اسلام سے براہ راست ٹکراؤ ہونے والا ہے.اس لئے چونکہ صرف جماعت احمدیہ ہے جو درحقیقت اسلامی قدروں کی

Page 636

خطبات طاہر جلد ۹ 631 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء حفاظت کے لئے قائم کی گئی ہے اور حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو اس خطرے کو خوب اچھی طرح سمجھنا چاہئے اور اس کی باریک راہوں سے بھی واقف ہونا چاہئے.تا کہ جس راہ سے بھی یہ حملہ کرے اُس راہ سے جماعت بڑی بیدار مغزی کے ساتھ اور مستعدی کے ساتھ اس حملے کو نا مراد اور نا کام کرنے کے لئے تیار ہو.یورپ کی تبدیلیاں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اُن کے نتیجے میں خود یورپ میں پہلے قوم پرستی اُبھرے گی اور پھر نسل پرستی.قوم پرستی اور نسل پرستی کا آپس میں گہرا تعلق ہے صرف دائروں کا اختلاف ہے.سب سے پہلے تو یہ بات آپ کو پیش نظر رکھنی چاہئے کہ روس کسی ایک قوم کے باشندوں پر مشتمل نہیں ہے.دنیا میں مختلف قسم کی ریاستیں پائی جاتی ہیں بعض ریاستیں قوم کے تصور پر ابھرتی ہیں اور اُسی تصور پر قائم ہوتی ہیں بعض نظریات کے نام پر قائم کی جاتی ہیں جیسے کہ اسرائیل ہے یہاں دونوں باتیں اکٹھی ہوگئی ہیں مگر اکثر دنیا کے ممالک ایسے ہیں جن میں قوم کے نام پر ملک کا تصور محض ایک موہوم تصور ہے عملاً ایک سے زیادہ قومیں ان ملکوں میں بستی ہیں اور ان ملکوں کی ہمیشہ جدو جہد یہ رہتی ہے کہ قوم کے تفریق کی طرف اہلِ ملک کا دھیان نہ جائے ورنہ یہ ملک آپس میں پھٹ جائے گا.یہ مسئلہ انگلستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یعنی اندرونی لحاظ سے.ایک طرف شمال میں سکاٹ لینڈ ہے پھر مغرب میں Wales ہے پھر مزید مغرب میں آئر لینڈ ہے اور پھر شمال اور جنوب سے اختلافات بھی ایک قسم کے قومی اختلاف کا رنگ اختیار کرتے جاتے ہیں.ان تمام اختلافات میں سے یہ جو بڑے قومی اختلاف ہیں وہ سکاٹش اور انگلش ، ویلش اور انگلش اور آئرش اور انگلش کے اختلافات ہیں.اب آپ دیکھیں کہ Great Britian یا United Kingdom دراصل ایک ملک ہے اور جب وسیع پیمانے پر بیرونی خطرات در پیش ہوں تو وہاں ان سب قوموں کے مفادا کٹھے ہو کر اُس ملک کو اندرونی طور پر تقویت دیتے ہیں اور اس وقت برٹش قوم کا وسیع تر تصور ابھرتا ہے.جب امن کے حالات ہوں تو قومی رجحانات سر اٹھانے لگتے ہیں اور خطرات کی نوعیت بدل جاتی ہے.ایک دوسرے سے عدم اعتماد، ایک دوسرے سے خود غرضانہ تعلقات یا عدم تعلقات یہ چیزیں قوم کے رنگ میں اپنا اپنا اثر دکھاتی ہیں اور قومیت کے پیمانے پر تعلقات کو جانچا جانے لگتا ہے.خود غرضی قومی سطح پر محض اس وجہ سے آپس میں تفریق پیدا کرتی

Page 637

خطبات طاہر جلد ۹ 632 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء ہے کہ ساؤتھ کے باشندے کہتے ہیں کہ ہم نے ساؤتھ کے مفاد کی حفاظت کرنی ہے.انگریز سمجھتا ہے کہ ہم نے انگریز کے مفادات کو سکائش کے مفادات پر قربان نہیں ہونے دینا.ویلش سمجھتا ہے کہ ہم سے زیادتی ہو رہی ہے اور Exploitation کی جارہی ہے اور جو حقوق ویلش کو ملنے چاہئیں وہ بقیہ انگلستان ہمیں نہیں دیتا غرضیکہ یہ ایک مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ در حقیقت دنیا کی اکثر ریاستیں امریکہ ہو یا انگلستان ہو یا جرمنی ہو یا دیگر ریاستیں دراصل وہ ایک قوم پر مشتمل نہیں.اہل علم کے نزدیک اگر کوئی ایک ملک حقیقۃ ایک ہی قوم پر مشتمل ہے تو وہ لڑکی ہے لیکن در حقیقت یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ کردش قوم اپنے آپ کو ٹرکش قوم سے بالکل الگ سمجھتی ہے.اُن کی قدریں اور اُن کی زبان، اُن کے مزاج عام ٹرکش سے بالکل مختلف ہیں اور یہی وجہ ہے ان دونوں قوموں کے درمیان شدید منافرت بھی پائی جاتی ہے ، عدم اعتماد بھی پایا جاتا ہے اور کر د دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس حد تک درست ہے یا غلط کہ وہ لمبے عرصے سے ٹرکش قوم کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن اگر کسی حد تک کسی ایک ملک کو قومی ملک قرار دیا جا سکتا ہے تو گردی حصے کو چھوڑ کر باقی ترک قوم کو واقعہ ایک قوم اور ایک ملک ہونے کی فضیلت حاصل ہے یعنی نسبتاً اُن کے اوپر اس کا اطلاق پاسکتا ہے کہ ایک قوم اور ایک ملک ہے لیکن جہاں تک تر کی قوم کا تعلق ہے یہ عجیب بات ہے کہ ترک قوم ترکی میں کم اور ترکی سے باہر زیادہ ہے اور چھ اور چار کی تقریباً نسبت ہے.اگر چار ترک ترکی میں آباد ہوں تو چھ ترک ترکی سے باہر ہیں اور اس سے میری مراد یہ نہیں کہ یورپ میں مختلف حصوں میں پھیلے پڑے ہیں وہ تو ہیں ہی وہ تو دنیا کی ہر قوم دنیا کے تقریباً ہر دوسرے ملک میں چلی جاتی ہے مگر زیادہ تر روس میں ترک قوم آباد ہے اور ترکمان کہلاتے ہیں.اگر چہ یہ آپس میں بھی بٹے ہوئے ہیں اور مختلف قسم کی تحریکات اب جنم لے رہی ہیں جن میں ایک دوسرے سے ایک ترک ریاست کو جو دوسری ترک ریاست سے خطرات درپیش ہیں اُن کو اُبھار کر آپس میں ایک دوسرے کے مقابل پر پیش بندیاں کی جارہی ہیں لیکن ساتھ ہی ایک عمومی جذ بہ اُبھر رہا ہے کہ ہم ترک قوم ہیں اور ہمارا ترکی سے الحاق ضروری ہے اور اس خیال کو تر کی قوم آئندہ ہوا دے گی اور ترک قوم کے مفادات اس بات سے وابستہ سمجھے جائیں گے کہ دنیا کے تمام ترک اکٹھے ہو جائیں اور ترکی کا لفظ ایک وسیع تر ملک پر اطلاق پائے اور Ottoman ایمپائر کا جو وسیع تصور تھا اُس نے لازماً دوبارہ جنم لینا ہے.

Page 638

خطبات طاہر جلد ۹ 633 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء اُدھر اسلام بھی اس معاملے میں ایک کردار ادا کرنے والا ہے اور اُن قوموں میں سے جو ایران سے تعلق رکھنے والی قومیں ہیں اور ترکی بولنے کے باوجود اُن میں ایرانی اثرات بھی بڑے گہرے ہیں اُن کو ایران اپنی طرف بلائے گا اور اُن میں سے بہتوں کا شیعہ ہونا اس بات میں محمد ہو گا.پھر ایسی قومیں ہیں جو خالصہ سُنی ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ ترکی بولنے والی ہیں ، اوٹی فرزبان بولتی ہیں یا کوئی اور زبان بولتی ہیں اُن کو سنی مسلمان دنیا اگر اُن کو اپنی ہوش آنے دی گئی تو اپنی دولت کے ذریعے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں گے.روس ویسے ہی ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں یہ ٹوٹ رہا ہے اور بکھرنے والا ہے.کوئی غیر معمولی قوت ایسی اُبھرے جو اُس کو بکھرنے اور ٹوٹنے سے روک دے تو یہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر سر دست جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے ایسی کوئی بیرونی یا اندرونی طاقت دکھائی نہیں دیتی جو روس کو سنبھالے رکھے.اور روس کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک نظریہ کو قوم بنادیا گیا جیسا کہ پاکستان میں ایک نظریے کو قوم بنایا گیا.روس کا بحیثیت ملک کے دنیا کے نقشے پر ابھرنا کسی ایک قوم کے وہاں ہونے کے مرہون منت نہیں بلکہ اشترا کی نظریے کی پیداوار ہے.اس سے پہلے زار نے جو مختلف ممالک پر قبضہ کیا تھا اس وقت اس قسم کی کلونیل ازم (Colonialism) کی کیفیت پائی جاتی تھی یعنی ایک بہت بڑی یورپین طاقت نے بہت سے وسیع ارد گرد کے مسلمان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جیسے اس سے پہلے مسلمان خوانین روس پر قابض ہوا کرتے تھے اور اس کے یورپین علاقہ پر قابض ہوا کرتے تھے.تو وہ جو کیفیت تھی وہ تبدیل کر دی گئی اور ۱۹۱۸ء کے انقلاب میں جونئی بات روس سے رونما ہوئی وہ یہ تھی کہ قوم کی بجائے نظریے نے ایک ملک پیدا کیا اور روس نے تمام دنیا میں بڑے زور سے اس بات کا پروپیگنڈا شروع کیا کہ ملک حقیقت میں قوموں سے نہیں بنا کرتے بلکہ نظریوں سے بنتے ہیں اس لئے ہمارا نظریہ عالمگیر ہے اور عالمگیر اشترا کی قوم دنیا میں ابھرے گی اس نظریے سے استفادہ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ممالک کو آپس میں پھاڑنے میں ان لوگوں نے بہت سا کام کیا اور جہاں جہاں یہ نظر یہ پھیلا ہے وہاں قومیت کے خلاف بھی جہاد شروع ہوئے لیکن بعض جگہ اس نظریہ کا کھلم کھلا تصادم ہوا کہ اسلام بھی دراصل نظریہ کے نام پر ملک قائم کرنا چاہتا ہے اور قوم کا کوئی تصور اس کے سوا موجود نہیں.اس نظریے کی ایک محدود شکل پاکستان کا دو قومی نظریہ ہے.اس وقت میرے پاس وقت

Page 639

خطبات طاہر جلد ۹ 634 خطبه جمعه ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء نہیں کہ میں اس کی تفصیل بیان کروں اور صحیح صورتحال آپ کے سامنے رکھوں کہ دوقومی نظریہ کس حد تک قابل عمل تھا کس حد تک نہیں اور حقیقت سے اُس کا کیا تعلق ہے؟ اور جو غیر معمولی جدوجہد مسلمانانِ ہند نے پاکستان کے قیام کے لئے کی اُس کی دراصل کیا وجہ تھی اور اس کے محرکات حقیقی معنوں میں کیا تھے؟ کیا اقبال کے نظریوں کو پڑھنے کے بعد اُنہوں نے ایسا کیا تھا؟ اور اُس سے متأثر ہو کر ایسا کیا یا بالکل مختلف وجوہات تھیں؟ بہر حال یہ مضمون الگ ہے مگر میں یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ روس میں جب اشتراکیت کا نظریہ شکست کھا گیا جو مرکزی حیثیت رکھتا تھا اور اُس کے گردساری قوموں کی چکی گھوم رہی تھی اور اُس کا جو محور تھا اُس پر یہ نظریہ بڑی قوت سے ان قوموں کو اپنے اردگرد باندھے ہوئے تھا وہ جب محور نکل گیا تو لازماً انہوں نے بکھرنا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی ماسوائے اس کے کہ کچھ عرصے کے بعد بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ایسے رد عمل ظاہر ہوں کہ یہ قو میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مفاد وابستہ سمجھیں لیکن مفاد وابستہ ہونے کا جو نظریہ ہے جس نے شمالی امریکہ کو اکٹھا کیا یہ نظریہ روس میں اس وقت قابل عمل نہیں کیونکہ اگر چہ اشترا کی تصور کے نتیجے میں روسی قوموں کو اکٹھا کیا گیا لیکن درحقیقت یورپ کی قوموں کے سوا باقی قوموں سے نا انصافی کی گئی یعنی یورپین بھی مختلف قوموں میں وہاں موجود ہیں.جہاں تک روس کے اقتصادی نظام کا تعلق ہے اور یا آپس میں قوموں کے تعلقات کا معاملہ ہے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان قومیں اور بعض دیگر پسماندہ قومیں اس طرح برابری کی سطح پر روس میں حصہ دار نہیں رہیں اور اقتصادی مفادات کے لحاظ سے اور صنعتی ترقی کے لحاظ سے اُن کو پس پشت ڈالا گیا.پس بجائے اس کے کہ وہ با ہمی قومی مفاد کے نظریے کے تابع کسی وجہ سے اکٹھا ر ہنے کی کوشش کریں معاملہ اس کے برعکس صورت اختیار کر گیا ہے اور یہ قو میں نہ صرف یہ کہ روسی اشترا کی نظریہ کے ٹوٹنے کی وجہ سے لازماً طبعا بکھرنے کے لئے تیار ہیں بلکہ ماضی کے مظالم کی ، ماضی کی نا انصافیوں کی یادیں ان کو اس بات پر انگیخت کر رہی ہیں.جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اسلام بحیثیت ایک مذہب یہاں سر دست کوئی اثر ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ ان قوموں کی بھاری اکثریت عملاً لا مذہب ہو چکی ہے اگر چہ مسلمان بھی کہلاتی ہو.ان کے نوجوانوں میں ہی نہیں بلکہ علماء میں بھی خدا کا حقیقی تصور نہیں ہے بلکہ ایک موہوم سا تصور ہے اور خدا کے نام پر عبادت کرنا قربانی کرنا ، اپنے آپ کو تبدیل کرنا یہ تو ایک لمبی محنت کو چاہتا ہے دوبارہ اسلام

Page 640

خطبات طاہر جلد ۹ 635 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء رفتہ رفتہ ان میں نافذ کرنا ہو گا اور یہ ایک ایسا اہم معرکہ ہے جس کو جماعت احمدیہ نے سر کرنا ہے.بہر حال اسلام ایک اور رنگ میں ان پر اثر پذیر ہو رہا ہے اور وہ ہے اسلام کا قومیت کے ساتھ تعلق اور وہی دو قومی نظریہ جس کی ایک شکل علامہ اقبال نے پیش کی وہ ان جگہوں پر روس کی یونائیٹڈ ریپبلک سے نجات حاصل کرنے کی خاطر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسے بغاوت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اس لئے نہیں کہ یہ نمازیں نہیں پڑھتے اس لئے جہاد کیا جائے ، اس لئے نہیں کہ نئی اُبھرتی ہوئی شکل میں اُن کی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگادی جائے گی بلکہ اس کے بالکل برعکس صورت ہے اور اس کے با وجود یہ قومی نظریہ ایک قوت بن کر اُبھرنے والا ہے.اس وقت صورت یہ ہے کہ ان کے تبدیل شدہ حالات میں مذہبی آزادی دی جا رہی ہے اور صرف مسلمان علاقوں میں نہیں بلکہ یورپین علاقوں میں بھی عیسائیت کی خاطر بہت سے قوانین میں تبدیلی پیدا کی جارہی ہے جن کا اثر اسلامی دنیا پر بھی لازمی ہوگا.پس اگر اسلام کے نقطہ نگاہ سے کوئی رد عمل ہوتا تو اُس کے لئے تو ضروری تھا کہ اسلام میں دخل اندازی بڑھتی.جب دخل اندازی تھی اُس وقت تو کوئی رد عمل نہیں ہوا.اُس وقت تو روس کا کوئی حصہ یہ طاقت ہی نہیں رکھتا تھا کہ اسلام کے نام پر روس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے.اب بھی جو نئی نسلیں روس کی مرکزی حکومت سے بغاوت کا خیال کر رہی ہیں اُن کو بذات خود تو اسلام سے تعلق نہیں ہے یعنی اکثریت اُن میں سے نماز نہیں جانتی ، قرآن نہیں جانتی.محبت اسلام کی اُٹھ رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اُسی محبت سے ہم نے فائدہ اُٹھانا ہے لیکن محبت عمل کے سانچے میں ڈھل جائے یہ بات محض خیالی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.ابھی تک محبت صرف ایک نسلی تصور کے سانچے میں ڈھل رہی ہے، ایک قومی تصور کے سانچے میں ڈھل رہی ہے اور اُس کے نتیجے میں اس قوم میں مرکزی روس سے بغاوت کے خیالات اُبھر رہے ہیں.ان خیالات پر باہر سے چھاپے پڑیں گے، ان خیالات پرستنی اسلام بھی چھاپہ مارے گا اور اُنہیں اپنانے کی کوشش کرے گا ، ان خیالات پر شیعہ اسلام بھی چھاپے مارے گا اور اُن کو اپنانے کی کوشش کرے گا.اسی طرح دوسرے مذہبی اور قومی اختلاف جو مسلمانوں کی باہر کی دنیا میں موجود ہیں وہ اپنا اپنا رنگ دکھا ئیں گے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے اور مسلمانوں

Page 641

خطبات طاہر جلد ۹ 636 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء کے روس کے اندر واقع زیادہ سے زیادہ حصے پر اپنا اثر جمانے کی کوشش کریں گے.یہ ایک نیا معرکہ کھل رہا ہے اور اگر جماعت احمدیہ نے جلدی نہ کی اور حقیقی اسلام سے ان قوموں کو متعارف نہ کروایا.اگر اُس عالمگیر اسلام سے ان قوموں کو متعارف نہ کروایا جس کا نسل پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا اُس قومی نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دنیا میں قوموں کے تعلق میں پایا جاتا ہے بلکہ اسلام کا ایک ایسا عالمگیر تصور ہے جو قومی اور نسلی تصورات کی نفی پر قائم ہوتا ہے اور اُن کی موجودگی سے شدید نقصان اُٹھاتا ہے.اسی لئے جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی اُس میں.بات خوب کھول دی گئی کہ یا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا کہ اے بنی نوع انسان ! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے گویا کہ نسلی اور قومی لحاظ سے تم ایک ہی چیز ہو.اگر کوئی تفریق ہے تو مرد اور عورت کی اس تفریق کو نہ تم مٹا سکتے ہو نہ اُس تفریق پر قومی اور نسلی نظریات قائم کر سکتے ہو اور اگر کرو گے تو وہ غلط ہوگا کیونکہ مرد اور عورت کے باہمی اشتراک کے بغیر بنی نوع انسان قائم نہیں رہ سکتے وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ ہم نے مختلف گروہوں اور قبیلوں میں تمہیں اس لئے بانشا لِتَعَارَفُوا تا کہ ایک دوسرے سے تعارف کرواسکو.تمہاری شخصیات پہچانی جائیں.جیسے ناموں کی تفریق سے انفرادی شخصیات پہچانی جاتی ہیں لیکن ناموں کی تفریق پر گروہ تقسیم نہیں ہوا کرتے.یہ نہیں ہوا کرتا کہ ناصر نام کے سارے آدمی اکٹھے ہو جائیں اور طاہر نام کے سارے آدمیوں کے مقابل پر ایک گروہ بنا لیں.یا خلیل نام کے سارے نام کے آدمی اکٹھے ہو کر مبارک نام کے تمام آدمیوں کے خلاف ایک گروہ بندی کر لیں.یہ ایک تعارف کا طریق ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے.اس کے نتیجے میں کسی قسم کے تعصبات نہ اُبھرنے چاہئیں نہ عقلاً اُبھر سکتے ہیں.تو قرآن کریم نے یہ مثال دی ، تعارف کا لفظ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اس سے آگے بڑھو گے تو حماقت ہوگی اور جہالت ہوگی.تعارف کی حد تک قوموں کی تقسیم رہنی چاہئے اور رہے گی.ان کی مزاج شناسی کے لحاظ سے اگر یہ تفریق رہے تو اس کا کوئی حرج نہیں لیکن اس سے آگے اس تفریق کو بڑھنے کا حق نہیں.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتَقُكُمْ اب تمام عالم اسلام صرف ایک لحاظ سے قوموں کو قوموں سے یا فرد کو فرد سے الگ کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ ہے تقویٰ.اگر کوئی زیادہ متقی ہے تو قطع نظر اس کے کہ اُس کی قوم کیا ہے اُس کا مذہب کیا ہے، اُس کا

Page 642

خطبات طاہر جلد ۹ 637 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء رنگ کیا ہے، جغرافیائی لحاظ سے وہ کس ملک کی پیداوار ہے اُس کی عزت کی جائے گی.گویا تقوی انگلستان کے باشندے کو ویلز کے باشندے سے ملا دے گا اور ویلز کے باشندے کو سکاٹ لینڈ کے باشندے سے ملا دے گا اور سکاٹ لینڈ کے باشندے کو آئر لینڈ کے باشندے سے ملا دے گا اور اسی طرح افریقہ کے باشندوں سے بھی ان کو ہم آہنگ کر دے گا اور عرب کے باشندوں سے بھی ان کو ہم آہنگ کر دے گا اور روس کے باشندوں سے بھی ہم آہنگ کر دے گا اور چین کے باشندوں سے بھی ہم آہنگ کر دے گا اور جاپان اور امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے بھی تقوی رکھنے والے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے اور یہی وہ قومی نظریہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اس کے سوا اور کوئی قومی نظریہ نہیں.تقویٰ کی بناء پر عزتیں کی جائیں گی ، تقویٰ ہی اس لائق ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے اور ہم مزاج لوگ جو نیکی کے نام پر اکٹھے ہوں وہ نیکوں کی ایک قوم بنانے والے ہوں گے مگر اس قوم کا سیاسی تفریق اور سیاسی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں.اب جہاں روس میں نئی تبدیلیاں اثر انداز ہو رہی ہیں اور غلط رنگ میں قومی نظریے اُبھر رہے ہیں وہاں یورپ میں اور دیگر مغربی دنیا میں بھی نئے قسم کے نسلی تعصبات اُبھر رہے ہیں جن کا تعلق اندرونی طور پر بھی ہے اور بیرونی طور پر بھی ہے.اندرونی طور پر یورپ میں اب لازماً ایک قوم کے دوسری قوم کے خلاف عدم اطمینان کے جذبات ابھرنے والے ہیں اور عدم اعتماد کے جذبات اُبھرنے والے ہیں اور ایک دوسرے سے اگر آج رشک ہے تو کل حسد میں تبدیل ہونے والا ہے اور جہاں ایک طرف یورپ آپس میں اکٹھا ہوتا دکھائی دے رہا ہے وہاں اسی باہمی اتحاد کی رو میں افتراق کے بیج بوئے جاچکے ہیں اور لا زمانے اکٹھے ہونے والے یورپ کے اندر شدید اختلافات پیدا ہوں گے اور اُبھارے جائیں گے اور اُن کا تعلق ایک دوسرے سے عدم اعتماد اور ایک دوسرے کا حسد ہے.اب جرمنی ہے مثلاً وہ یورپ میں بہت بڑی قوت بن کر اُبھرنے والا ہے اور جرمنی سے جہاں تک خدشات کا تعلق ہے بعض قو میں اس بارے میں زبان نہیں کھول رہیں.لیکن اندرونی طور پر ممکن ہے اُن قوموں میں بھی خدشات کا احساس پیدا ہو چکا ہو لیکن جہاں تک انگلستان کا تعلق ہے انگلستان تو بار باران خدشات کا اظہار کر رہا ہے کہ جرمنی بہت بڑی طاقت بن کر اُبھر جائے گا اور پھر ہو سکتا ہے ماضی کی طرح وہ تمام غلطیاں دہرائے جن غلطیوں کے نتیجے میں ایک عالمگیر جنگ رونما ہوئی تھی.

Page 643

خطبات طاہر جلد ۹ 638 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء چنانچہ ابھی کچھ عرصہ پہلے جو کیبنٹ میں ایک نائب وزیر نے استعفی دیا تھا وہ اسی موضوع پر دیا تھا، اسی مسئلے پر دیا تھا.جرمنی جا کر انہوں نے ایسے خیالات کا اظہار کر دیا جو پہلے جرمنی کے نزدیک در حقیقت انگلستان کی کیبنٹ کی باتیں تھیں لیکن اُس نے اپنی طرف سے ان کو ظاہر کیا اور جہاں تک کیبنٹ کا تعلق ہے اُنہوں نے اُس سے نہ صرف قطع تعلقی کا اظہار کیا بلکہ اگر وہ کہتا ہے میں حق پرست تھا اُس حق پرست کو استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بار بار اس قسم کی آواز میں اُٹھائی جارہی ہیں.ابھی حال ہی میں سویڈن میں ایک انگریز دانشور مسٹر ایتھنی برگس (Mr.Anthony Burgiss) کا ٹیلی ویژن پر انٹرویو ہوا اور غالبا اخباروں میں بھی اُن کا کوریج ہوا وہ ایک انگریز دانشور کے طور پر وہاں متعارف کروائے گئے اور تعارف یہ کروایا گیا کہ ان کو اسلام کا بہت گہرا علم ہے اور بڑے وسیع اور دیرینہ تعلقات ان کے مسلمان ممالک سے رہے ہیں اور بلکہ یہ وہاں لمبا عرصہ ٹھہر کر بھی آئے ہیں.یہاں تک ان کو اسلام کا علم سیکھنے کا شوق تھا کہ شدید خطرہ تھا کہ یہ مسلمان ہی نہ ہو جائیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس جہالت سے بچالیا وہ گویا اس رنگ میں ان کو پیش کیا جارہا تھا کہ وہ آخری مقام پر پہنچ کر پھر ان پر وہ باتیں کھل گئیں کہ یہ واپس آگئے اور اب ہم آپ کے سامنے ایک ایسے دانشور کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مسلمانوں کی سیاست سے بھی واقف ہیں اور اسلام کی کنہہ سے بھی واقف ہیں.یہ تھا دراصل اُن کے یورپ میں جانے اور مختلف مواقع پر اپنے خیالات کے اظہار کا مقصد چنانچہ اسلام کو اس نے بہت ہی ظالمانہ حملوں کا نشانہ بنایا اور خلاصہ کلام یہ تھا کہ آج کی دنیا میں آزادی انسان اور آزادی ضمیر کا اگر کوئی مذہب دشمن ہے تو اسلام دشمن ہے اور آج آزادی ضمیر کا سب سے بڑا خطرہ دنیا میں اسلام سے وابستہ ہے، لاحق ہے.یہ کہنے کے بعد پھر اُنہوں نے آخر وہ بات کہہ دی جو کہا جاتا ہے کہ آج کل لوگوں کے ذہن میں عام طور پر گھومتی ہے کہ جرمنی کس شکل میں یورپ میں اُبھرے گا.چنانچہ انہوں نے اُسی تسلسل اور بڑے زور سے یہ بھی کہہ دیا کہ جس طرح جرمنی آجکل یورپ کے امن کے لئے ایک نئے خطرے کے طور پر اُبھر رہا ہے اُسی طرح اسلام آزادی ضمیر کے لئے خطرے کے طور پر اُبھر رہا ہے.اس پر اس پینل نے جس میں وہ بات کر رہے تھے ایک مشرقی یورپ کے نمائندہ نے بڑی شدت سے ان کی مخالفت کی صرف اس حد تک کہ مثال تم نے غلط دی ہے جیسے اسلام کے معاملے میں تو ہم مان جائیں گے لیکن جرمنی خطرہ

Page 644

خطبات طاہر جلد ۹ 639 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء نہیں بنے گا اور اس نے کہا کہ میں موجودہ نسلوں کو اچھی طرح جانتا ہوں یہ تو تم محض پرو پیگنڈہ کر رہے ہولیکن یہ پروپیگنڈے کی بات نہیں ہے یہ انسانی نفسیات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.وہ تو میں جو بنیادی طور پر خود غرض ہوں اور اُن کے انصاف کا تصور قومیت سے وابستہ ہو اور قومیت قومی تصور میں پیوست ہواُن کے ہاں قومی تصور آپس کے معاملوں میں بدلنے لگتے ہیں.جب آپس کے مقابلے ہوں گے ایک ملک کے دوسرے ملک سے تو وہاں ویلش تصور اور آئرش تصور اور سکائش تصور اور انگلش تصور یہ سارے مل کر ایک وسیع تر برطانوی تصور کے طور پر ابھرتے ہیں اور جرمن میں بوار مکین تصور اور دوسرے جرمن تصور کی بجائے ایک وسیع تر جرمن تصور ابھرتا ہے جس میں نہ مشرقی جرمنی کا تصور باقی رہتا نہ مغربی جرمنی کا نہ شمال کا نہ جنوب کا.تو قومیت رفته رفته نسل پرستی کا رنگ اختیار کرنے لگتی ہے.پہلے جغرافیائی حدوں میں پھیلتی ہے اور ایک قوم کی بجائے دو چار تو میں مل کر دوسری دو چار قوموں کے مقابل پر اپنے اڈے بناتی ہیں اور جب ان سب کے مجموعی مفادات باہر کی دنیا سے ٹکراتے ہیں تو یہی قومی تصور نسلی تصور بن جاتا ہے اور White against black سفید فام کا مقابلہ سیاہ فام سے شروع ہو جاتا ہے اور سرخ فام کا مقابلہ زرد فام سے شروع ہو جاتا ہے اور ہم جیسے سانولے لوگ بھی بیچ میں آ جاتے ہیں جو اس لحاظ سے بھی تعصب کا شکار بن جاتے ہیں اور اُس لحاظ سے بھی تعصب کا شکار بن جاتے ہیں چنانچہ امریکہ میں پاکستانی اور ہندوستانی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ کالوں کے نزدیک بھی الگ قوم ہیں اور Colonist کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اور سفید فاموں کے نزدیک بھی یہی حال ہوتا ہے.یہی خطرات افریقہ میں اُبھر رہے ہیں کہ پاکستانی کا رنگ چونکہ اُن سے مختلف ہے اس لئے پاکستانی کو بھی وہ ایک غیر قوم سمجھ کر یہ تعصب دل میں بٹھانے لگتے ہیں کہ یہ بھی آئے ہوئے ہیں باہر سے گویا ہم پر راج کرنے آئے ہیں.بہر حال یہ تعصبات پھر جو قومی تعصبات ہیں یہ وسیع تر ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر رنگوں میں بدل جاتے ہیں.روس اور چین کے درمیان جو تاریخی اختلافات ہیں اُن کا زیادہ تر تعلق اشتراکیت کے مختلف تصورات سے بتایا جاتا ہے یعنی یہ تعلق بتایا جاتا ہے کہ روس کے ہاں اشتراکیت کا الگ تصور ہے اور چین کے ہاں الگ تصور ہے اور چونکہ دونوں ملکوں کے درمیان فلسفہ اشتراکیت کو سمجھنے میں اختلافات ہیں اور اُس کی تعبیروں میں اختلافات ہیں اس لئے ان دونوں قوموں کے

Page 645

خطبات طاہر جلد ۹ 640 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء درمیان اتحاد نہیں ہوسکتا.حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اختلافات بالکل سطحی نوعیت کے ہیں.بنیادی اختلاف یہ ہے کہ روس اپنی عظمت اور طاقت کے زمانے میں بھی کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اشتراکیت چین کی زرد فام رنگ اختیار کر کے دنیا پر قابض ہو جائے اور چین کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اشتراکیت زرد رو ہو کر نہ اُبھرے بلکہ سُرخ و سفید ہو کر یورپین اشتراکیت کے طور پر دنیا پر قابض ہو جائے.پس در حقیقت ان دونوں قوموں کے درمیان جو حسد تھا وہ زرد قوم اور سرخ و سفید قوم کے درمیان کا حسد تھا جو اپنے جلوے دکھاتا تھا اگر چہ دبا رہا اور دنیا کی نظر میں اس طرح اُبھر کر نہیں آیا لیکن جو لوگ ان کی قومی نفسیات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں یہ اشتراکیت کے جھگڑے نہیں تھے بلکہ چینی قوم کے یعنی زرد رو چینی قوم کے سفید اور سرخ رُخ رکھنے والی روسی قوموں سے جیسی Jealousy تھی یا حسد تھا جو دراصل ان اختلافات کو ہوا دے رہا تھا اور اس کے نتیجے میں جو عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے وہ بعد میں پیدا ہوا.تو یہ جو بدلتے ہوئے حالات ہیں ان میں یہ اختلافات اور بھی زیادہ بڑھنے والے ہیں اور ان کے ساتھ جماعت احمدیہ کو براہ راست مقابلہ کرنا ہوگا.چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا اور تمہید ہی جو کافی وقت چاہتی تھی مشکل سے ختم ہوئی ہے اس لئے میں اس مضمون کو آج یہاں ختم کرتا ہوں.آئندہ خطبہ چونکہ تحریک جدید کے موضوع پر دیا جاتا ہے اس لئے آئندہ خطبے میں انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق تحریک جدید کا موضوع بیان ہوگا اور اُس کے بعد پھر خطبہ جب آئے گا تو پھر میں اس مضمون کو جماعت احمدیہ کے تعلق میں اُس کی مذہبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے تعلق میں بیان کروں گا کہ ہمیں کیا کیا خطرات درپیش ہیں، دنیا کو ان خطرات سے بچانے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہے اور اسلام کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے اور نسل پرستی کے حملوں سے بچانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کس قسم کے خطرات ہمارے سامنے ہیں.اب آخر پر میں دوبارہ عراق اور عرب اور مسلمانوں کے عمومی مفاد کے متعلق دُعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.اس مسئلے پر میں تفصیل سے پہلے روشنی ڈال چکا ہوں اس لئے اُس کو دوبارہ چھیڑ نے کی ضرورت نہیں جو نئے حالات سامنے اُبھر رہے ہیں ان کی رُو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغربی قو میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ اسرائیل کے چنگل میں مکمل طور پر پھنس کر اُن کے اس منصوبے کا شکار ہو چکی ہیں کہ بہر حال عراق کی ابھرتی ہوئی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا جائے اور اسی

Page 646

خطبات طاہر جلد ۹ 641 خطبه جمعه ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء تسلسل میں مسلمانوں کی دیگر طاقتیں جو ہیں وہ بھی کمزور ہو جائیں اور بکھر جائیں لیکن اس سطح پر یہ مقابلے نہ ہوں کہ گویا مسلمان ایک طرف اور عیسائی ایک طرف، مغربی قو میں ایک طرف اور مشرقی ایک طرف بلکہ اس دفعہ کا جو منصوبہ ہے اُس میں جاپان تک کو بھی اس میں شامل کرنے کا پختہ منصوبہ بنایا جاچکا ہے اور آج کل جاپان میں یہی بحث چل رہی ہے کہ محض اس لئے کہ جاپان کو بھی عراق کو تباہ کرنے میں حصہ دار بنا دیا جائے.جاپان کے اُس قانون کو بدلنے کے لئے جاپانی اسمبلی میں Resolutions پیش کئے جاچکے ہیں جس قانون کو خود مغربی اقوام نے ایک لازمی اور غیر متبدل لائحہ عمل کے طور پر جاپان کے لئے تجویز کیا تھا کہ کبھی بھی دنیا میں جاپانی فوج اپنے ملک سے باہر جا کر کوئی لڑائی نہیں لڑے گی اور اپنے ملک سے باہر کسی اور سرزمین پر جا کر کسی قسم کی فوجی کاروائیوں میں ملوث نہیں ہو گی.یہی قانون جرمنی کے لئے بھی بنایا گیا تھا جو تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہی قانون جاپان کے لئے بنایا گیا تھا تا کہ آئندہ کبھی بھی جاپانی قوم کوکسی عالمی جنگ میں شرکت کا خیال تک پیدا نہ ہو اور مسلمان دشمنی میں اور عرب دشمنی میں کہہ لیجئے مگر میرے خیال میں تو زیادہ صحیح تشریح یہ ہے کہ مسلمان دشمنی میں انہوں نے اب جاپان کو بھی اس رنگ میں ملوث کیا ہے کہ وہ بھی ساری دنیا کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی موجودہ اُبھرتی ہوئی بڑی طاقت کو کلیۂ نیست و نابود کر دے تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ مغربی دنیا کا کھیل ہے اور نہ مشرق اور مغرب کی تقسیم ہو اس موضوع پر اور نہ اسلام اور غیر اسلام کی تقسیم ہو.عرب ممالک بھی ساتھ ہوں، مسلمان ممالک بھی ساتھ ہوں، مغربی بھی ہوں اور مشرقی بھی اور جاپان چونکہ ایک بہت بڑی طاقت رکھتا ہے اور جاپان کے چونکہ اقتصادی مفادات تیل کے ملکوں سے بڑے گہرے وابستہ ہیں اس لئے اُن کو یہ بھی خطرہ تھا اگر جاپان الگ رہا تو بعد کی اُبھرتی ہوئی شکل میں جن نفرتوں نے جنم لینا ہے اُس کا نشانہ صرف مغربی طاقتیں نہ بنیں بلکہ جاپان بھی ساتھ شامل ہو جائے کیونکہ اقتصادی طور پر مقابلہ اگر ہے تو جاپان ہی سے ہے.بہر حال بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ بہت ہی عظیم منصوبے کے تحت جاپان کو بھی شامل کرلیا گیا ہے.ان کی جو مختلف ممالک میں کانفرنسز ہورہی ہیں اور ان کے دانشور جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اُس کا خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ یہ کتنا بھیا نک منصوبہ ہے جس کے نتیجے میں اتنا گہرا اور لمبا نقصان عالم اسلام ہی کو نہیں بلکہ دوسری مشرقی دنیا کو بھی پہنچے گا

Page 647

خطبات طاہر جلد ۹ 642 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء کہ پھر اُس سے بعض ممالک جانبر ہی نہ ہو سکیں اور بہت دیر تک یہ ممالک اپنے زخم چاٹتے رہیں گے.اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارا نہیں ہوگا.پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی جنگ جو وہاں ٹھونسی جارہی ہے، اس پہ بڑے اخراجات کئے جارہے ہیں یہ اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ اور تیل کی جو بڑھتی ہوئی قیمت ہے اُس کے نتیجے میں یورپ کو اور دوسری مغربی دنیا کی صنعت کو نقصان جو پہنچے گا اُس کا ازالہ کیسے ہوگا.مختلف سیمینار ہورہے ہیں مختلف ممالک میں اور اُن کی رپورٹیں مجھے پہنچتی ہیں اُن میں وہ سب تفصیل تو نہیں صرف دعا کی تحریک کے طور پر خلاصہ آپ کو یہ بتاتا ہوں.منصوبہ یہ ہے کہ اس جنگ کا تمام خرچ عرب مسلمان قوموں سے وصول کیا جائے گا اور ان معاہدات پر دستخط ہو چکے ہیں کہ جو جنگ تھوپی جائے گی اور تھو پی جارہی ہے اس کا بل سعودی عرب سے لیا جائے گا اور کویت سے اور دوسری قو میں جتنی بھی شامل ہیں اُن سے اُس کی قیمت وصول کی جائے گی.خاص طور پر سعودی عرب کو سب سے زیادہ بل ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا اور چونکہ سعودی عرب کے اکثر خزانے امریکہ کے ہاتھ میں پہلے سے ہی موجود ہیں اس لئے اُن کے بھاگ جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.دوسری بات یہ کہ تیل کی قیمت بڑھنے کے نتیجے میں مغرب کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اُس کے متعلق یہ معاہدہ ہو چکا ہے کہ مغربی قوموں کو وہ زائد قیمت یہ مسلمان ممالک واپس کر دیں گے جو موجودہ مشکلات کی وجہ سے اُن کو بڑھانی پڑی یا موجودہ حالات کے نتیجے میں جو بڑھ گئی ہے.یہ تو یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ معاہدے کس رنگ میں ہوئے ہیں لیکن ان کے دانشوروں نے اپنی تقریروں میں مختلف کانفرنسز میں یہ بیان کھل کے دیئے ہیں اور اس سے زیادہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں.یہ بیان بہر حال دیئے گئے ہیں کہ ہم آپ کو اطمینان دلاتے ہیں آپ کی اقتصادیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ ہمارا اُن سے یہ سمجھوتہ ہو چکا ہے کہ جتنی بڑھی ہوئی قیمت وہ ہم سے وصول کریں گے اور موجودہ شکل میں مجبور ہیں کہ اُس قیمت کو کم نہ کریں ورنہ دنیا کے باقی ممالک سے بھی وہ نہیں وصول کر سکتے اس لئے تیل کے بڑھے ہوئے منافع میں سے جہاں تک عرب منافع کا تعلق ہے وہ واپس کیا جائے گا اور جہاں تک مغربی تیل کی بڑھی ہوئی قیمت کا منافع ہے وہ پہلے ہی ان کی جیب میں موجود رہے گا.اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ ہو چکا ہے کہ صرف یہ سوال نہیں ہے کہ کویت واپس لیا جائے گا.سوال یہ ہے کہ صدام حسین کی تمام بڑھتی ہوئی طاقت کو ہر پہلو سے ہر جگہ کچل دیا جائے گا.اسی لئے

Page 648

خطبات طاہر جلد ۹ 643 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۹۰ء آپ نے ایک شاخسانہ سُنا ہو گا کہ کہہ رہے ہیں کہ صرف کیمیاوی جنگ کی صلاحیت نہیں ہے صدام حسین کو بلکہ بائیولاجیکل وار فیئر Biological Warfare کی صلاحیت بھی ان کے اندر موجود ہے اور انہوں نے ایسے جراثیم پہ قدرت پالی ہے، ایسے جراثیم کو محفوظ طریقے پر بڑھا کر بموں کی شکل میں دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کے ذرائع اُن کو مہیا ہو چکے ہیں اور ٹیکنالوجی حاصل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں بہت ہی خطرناک جراثیم غیر قوموں میں پھیلائے جاسکتے ہیں اور اُس کے لئے پیش بندی کرنا بہت مشکل کام ہے.مثلاً اینتھر کس ہے ایک ایسا جرثومہ ہے جس کے نتیجے میں جلد پر خوفناک قسم کے پھوڑے بھی نکلتے ہیں ، خون میں Poisining ہو جاتی ہے اور بہت ہی درناک حالت میں موت واقع ہوتی ہے.ایتھر کس کو جنگی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرنے کی ایجا داگر چہ مغرب ہی کی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی عراق کو بھی حاصل ہو چکی ہے.اسی طرح ٹائیفائیڈ ہے کالرا ہے اسی قسم کے اور بہت سی مرضیں ہیں جن سے خود حفاظتی کے لئے اگر چہ ٹیکے ایجاد ہو چکے ہیں لیکن مغربی مفکرین یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ عراق ان کو آپس میں ملا کر ایسی خوفناک پوشنز (Potions) یا ملی جلی جس طرح کہ ادویات ہوتی ہیں اُن کا ایک مرکب کہہ لیں ،معجون کہہ لیں یعنی مختلف جراثیم کے مرکبات اور معونہیں بنا کر انکو یہ دنیا میں پھیلا دیں گے اور یہ ناممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے خود حفاظتی کی اور دفاعی کارروائی کی جاسکے.اب جہاں تک میر اعلم ہے ابھی تک چند دن سے پہلے یہ باتیں دنیا کے سامنے نہیں لائی گئی تھیں نہ کبھی عراق کی طرف سے ایسی دھمکی دی گئی تھی.عراق نے جب بھی دھمکی دی ہے کیمیاوی جنگ کی دھمکی دی ہے لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا کی رائے عامہ پر مکمل طور پر قبضہ کرنے کی خاطر یہ باتیں بھی داخل کر رہے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن مقصد یہ ہے کہ اگر ہم عراق کو کلیہ تباہ و برباد کریں اور کچھ بھی وہاں باقی نہ چھوڑیں تو دنیا کی رائے عامہ مطمئن ہو جائے کہ اصل وجہ کیا تھی اور یورپ اور مغرب میں جب یہ باتیں بیان کرتے ہیں کہ ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے اس بات پر اور اُس بات پر تو یہ وجہ نہیں ہے کہ اپنے راز خود اُگل رہے ہیں بلکہ پراپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر یہ باتیں بتانے پر مجبور ہیں ورنہ مغربی رائے عامہ اتنا اقتصادی رجحان رکھتی ہے کہ اگر یہاں یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ اس جنگ کے نتیجے میں شدید اقتصادی نقصانات ہمیں پہنچیں گے تو مغربی رائے عامہ یقیناً اپنے سیاستدانوں کو اس جنگ کی

Page 649

خطبات طاہر جلد ۹ 644 خطبه جمعه ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء اجازت نہیں دے گی.پس یہ ان کی مجبوریاں ہیں.یہ نہیں کہ کسی جاسوس نے یہ باتیں نکالی ہیں.کھلے عام اب یہ باتیں ہو رہی ہیں وجہ اُس کی یہی ہے کہ رائے عامہ کو ابھارنا ہے اور رائے عامہ کو اکٹھا کرنے کی خاطر یہ قربانی کرنی پڑتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری جنگ کی تیاری ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی جنگ اب تھوپی جائے گی اُس میں عالم اسلام خود عالم اسلام کے دور رس مفادات کو ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد کرنے کے لئے پوری مستعدی سے ان کا ساتھ دے رہا ہوگا.اس سے زیادہ بھیانک تصور انسان کے دماغ میں اسلام کے تعلق میں نہیں اُبھر سکتا کہ دنیا کی اکثر مسلمان قو میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے مغربی دنیا کا اس بات میں بھر پور ہاتھ بٹائیں اور ان کے افعال کی پوری ذمہ داری قبول کریں ، ایک اُبھرتی ہوئی اسلامی طاقت کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ اُس کا نام و نشان مٹ جائے.ہمارے پاس تو سوائے دُعا کے اور کوئی ہتھیار نہیں ہے اور میں پہلے ہی جماعت کو متوجہ کر چکا ہوں.میں بھی دعا کرتا ہوں ہمیشہ آپ بھی یقین ہے کہ دعاؤں میں اس بات کو یادر کھتے ہوں گے.یہ خطرہ سارے عالم اسلام کے لئے خطرہ ہے اور کوئی معمولی خطرہ نہیں.اس کے عقب میں بہت سے اور خطرات آنے والے ہیں.ان باتوں کے رد عمل پھر اور بھی پیدا ہوں گے اور اُس کے نتیجے میں قومیاتی تصورات پھر اور بھی زیادہ اُبھریں گے، نسلی تصورات اور بھی زیادہ اُبھریں گے اور اگلا جو دنیا کا نقشہ ہے وہ اُلٹنے پلٹنے والے دور سے گزرنے والا ہے.نئے نقشے بننے میں تو ابھی دیر ہے.اس دور میں اگر ہم مستعد ہو جائیں اور دعاؤں کے ذریعے اور اپنی ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کے ذریعے ان تمام خدشات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور اسلام کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لئے تیار ہو جائیں.پورے اخلاص کے ساتھ عہد کریں کہ ہم ہرگز اسلام کی بقا کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے تو پھر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری دعائیں اور ہماری پُر خلوص کوششیں یقیناً دنیا کے حالات پر اچھے رنگ میں اثر انداز ہوں گی اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کے خلاف سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 650

خطبات طاہر جلد ۹ 645 خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۹۰ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان تحریک جدید کے تحت ابتدائی واقفین کا ایمان افروز تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۲ نومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج سے تقریباً ۵۶ برس پہلے کی بات ہے کہ اکتوبر کے مہینے کے آخر پر حضرت اقدس مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلی بار تحریک جدید کا اعلان فرمایا.۱۹ر کتوبر کے خطبے میں آپ نے یہ ذکر فرمایا کہ یہاں ایک بہت بڑی احرار کا نفرنس ہونے والی ہے.یہ احرار کا نفرنس اس غرض سے قادیان میں منعقد کی جارہی تھی کہ ایسے منصوبے بنائے جائیں کہ قادیان سے ہی نہیں، تمام دنیا سے یا تمام دنیا سے ہی نہیں قادیان سے بھی جماعت احمدیہ کو یکسر مٹادیا جائے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دنیا بھر میں کوئی بھی نام لیوا نہ رہے اور اسی قسم کے بلند و بانگ دعادی اس کانفرنس میں کئے گئے اور یہ اعلان کئے گئے کہ ہم اس بستی قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے.اور احمدیت کا نام ونشان دنیا سے اس طرح محو ہو جائے گا کہ اگلی نسل تک کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ احمدیت نام کی کوئی چیز بھی بھی کہ نہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ کانفرنس دو دن تک شروع ہونے والی ہے یعنی ۲۱ تاریخ کو اور میں اس کانفرنس کے بعد ایک تحریک کا اعلان کروں گا جو اپنے نتائج کے لحاظ سے اور اپنے اثرات کے لحاظ سے بہت ہی عظیم الشان اور بہت دور رس نتائج کی حامل تحریک ہوگی مگر ذہنی طور پر میں جماعت کو تیار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تحریک قربانیوں کے بہت سے مطالبات کی تحریک ہے.

Page 651

خطبات طاہر جلد ۹ 646 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء جس حد تک قربانیوں کے مطالبات میں تم لوگ لبیک کہو گے اسی حد تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیشمار افضال نازل ہوں گے.پس اکتوبر کے آخر پر یا ۲۶/اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں یا اس کے بعد ۲ نومبر کے خطبہ جمعہ میں آپ نے باقاعدہ تحریک جدید کا اعلان فرمایا.آج یہ حسن اتفاق ہے کہ ہمارے امسال کے جمعے بھی ان ہی تاریخوں میں واقع ہورہے ہیں جن تاریخوں میں ۱۹۳۴ء کے جمعے واقع ہوئے تھے.پس اگر وہ اعلان ۲ نومبر کو تھا تو آج ۲ نومبر ہے اور ۲ نومبر ہی کو میں اس پہلی تحریک کی یاد جماعت کو دلانی چاہتا ہوں.وہ بہت ابتداء کے، غربت کے دن تھے جبکہ جماعت احمدیہ کو سوائے چند دوسرے ملکوں کے دنیا میں کہیں بھی کوئی نفوذ نہیں تھا.اس وقت تمام دنیا میں جو چھوٹی چھوٹی بیرونی جماعتیں ابھی قائم ہوئی تھیں ان میں ایک انگلستان تھا جہاں مشن قائم ہو چکا تھا.یہ مسجد جس میں میں آج یہ خطبہ دے رہا ہوں اس کی تعمیر ہو چکی تھی اور اس کے علاوہ مشرقی افریقہ میں کینیا، دارالسلام، ٹانگانیکا وغیرہ میں پاکستان سے یا ہندوستان سے گئے ہوئے صحابہ نے جماعتیں قائم کی تھیں اور دیگر مخلصین نے، کچھ مقامی افراد بھی ہوئے لیکن بہت کم ، معدودے چند.اسی طرح سری لنکا میں بھی خدا کے فضل سے جماعت قائم ہو چکی تھی.انڈونیشیا میں بھی جماعت قائم ہو چکی تھی اور عرب ممالک میں سے عدن میں اور ایک دو اور مقامات پر جماعت قائم تھی.تو کل تعداد جہاں تک میں نے نظر دوڑائی ہے اس وقت بارہ تھی اور تحریک جدید کے مطالبات کو جماعت نے اس اخلاص کے ساتھ ، اس قدر غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ قبول کیا اور وفا سے ان پر ایک لمبے عرصے تک قائم رہے کہ آج یہ ان ہی اولین مجاہدین کی قربانیوں کا پھل ہے جو ہم کھا رہے ہیں اور یہ وہی تحریک ہے جواب بڑھ کر ایک عظیم تناور درخت بن چکی ہے اور دنیا کے ۱۲۴ ممالک تک اس کی شاخیں پھیل چکی ہیں اور تنے بھی لگ چکے ہیں یعنی جڑیں بھی قائم ہو چکی ہیں.صرف یہی نہیں کہ باہر کے ملکوں سے ایک تناور درخت کے سائے ہیں جو پھیل رہے ہیں بلکہ جہاں جہاں بھی یہ درخت یا اس کی شاخیں پہنچتی ہیں وہاں نئی جڑیں قائم ہوتی ہیں اور برگد کے درخت کا سا حال ہے جو اگر اسی طرح مسلسل چلتا رہے تو کہتے ہیں کہ کبھی مرہی نہیں سکتا کیونکہ وہ جوں جوں بڑا ہوتا چلا جاتا ہے، اس کی شاخیں پھیلتی ہیں، ان شاخوں میں سے پھر ایسی باریک رگیں سی اُترتی ہیں جو Tubes کی طرح زمین کی طرف بڑھتی ہیں اور زمین تک پہنچ

Page 652

خطبات طاہر جلد ۹ 647 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء کر پھر وہ جڑیں خود پیدا کرتی ہیں اور جب جڑیں قائم ہو جاتی ہیں تو وہی بار یک سی رگ جو پہلے ایک کونپل کی طرح معمولی سی پھوٹتی ہے وہ ایک بہت مضبوط نتا بن جاتی ہے اور پھر اس سے برگد کا درخت مزید پھیلنے لگتا ہے.پس الہی جماعتوں کی دنیا میں نشر و اشاعت کی ایسی ہی مثال ہوا کرتی ہے.اولین دور میں اسلام بھی اسی طرح دنیا میں پھیلا تھا اور اس آخرین دور میں بھی اسلام کا احیائے نوجو جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہو رہا ہے وہ اسی طریق پر ہو رہا ہے.پس اس گزشتہ چھپن ۵۶ سال کے عرصے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ چند جماعتیں حدودے چند ہی نہیں بلکہ اپنی قوت اور کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے بھی بہت کمزور تھیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۲۴ ممالک میں پھیل گئیں اور ہر جگہ جڑیں قائم کیں اور سب جڑیں زمین میں خوب گہری پیوستہ ہوگئیں اور ان کے تنے اب بلند ہو رہے ہیں اور بعید نہیں کہ وہ بھی آئندہ چند سالوں میں آسمان سے باتیں کرنے لگیں.جہاں تک مشنز کا تعلق ہے اس وقت دنیا بھر میں تبلیغی مشن جن میں با قاعدہ احمدی مبلغین کام کر رہے تھے اور تبلیغی مراکز تھے ، چھ تھے اور آج ان کی تعدادا ۳۰ تک پہنچ چکی ہے.جہاں تک چندوں کا تعلق ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے پہلی تحریک ساڑھے ستائیس ہزار کی کی اور اس زمانے کے لحاظ سے جماعت اتنی غریب تھی کہ ساڑھے ستائیس ہزار ہندوستانی روپیہ ایک بہت بڑی تحریک معلوم ہوئی اور بہت سے سننے والے خوفزدہ تھے کہ کس طرح یہ تحریک پوری ہوگی.کس طرح جماعت اس پر لبیک کہہ سکے گی لیکن اس قدر عشق اور والہانہ جذبے کے ساتھ جماعت نے اس تحریک پر لبیک کہی کہ جنوری کے خطبے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ میں نے ساڑھے ستائیس ہزار کی تحریک کی تھی اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے امید تھی کہ اتنا روپیہ پورا ہو جائے گالیکن اب تک ۳۳ ہزار روپے نقد وصول ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ چھبیس ہزار سے زائد کے وعدے آچکے ہیں.اس زمانے میں یہ اتنی بڑی تحریک سمجھی گئی کہ ہندوستان کے متفرق اخباروں نے ، ہندو اخباروں نے بھی اور مسلمان اخباروں نے بھی اور عیسائی اخباروں نے بھی اس بات کا نوٹس لیا اور بڑے بڑے مقالے لکھے گئے ، اداریے لکھے گئے ، بڑی بڑی سرخیاں لگائی گئیں کہ دیکھو خلیفہ قادیان کتنا زیرک ہے اور کتنا اپنی جماعت کو آگے لے جا چکا ہے اور جماعت کا بھی حال یہ ہے کہ ساڑھے ستائیس ہزار کی تحریک کی اور

Page 653

خطبات طاہر جلد ۹ 648 خطبه جمعه ۲ نومبر ۱۹۹۰ء ۳۳ ہزار نقد پیش کر دیا اور ابھی وہ تحریک جاری ہے اور پھیلتی چلی جارہی ہے.ہندو اخباروں نے ہندوستان کے ہندوؤں کو متنبہ کیا اور کہا اس کو معمولی بات نہ سمجھو.آج چاہئے کہ ہم خلیفہ قادیان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اپنے لوگوں اور اپنے اپنے علاقوں میں اسی قسم کے جذبے پیدا کریں اسی قسم کی تحریکیں کریں.اس طرح مذاہب زندہ ہوا کرتے ہیں، اس طرح قربانیاں ہیں جو نئے نئے رنگ لاتی ہیں اور قوموں کو غیر معمولی طور پر قوت بخشتی اور آگے بڑھاتی ہیں.بہر حال مختلف الفاظ میں مسلمان معاند اخباروں نے بھی اور تائید کرنے والے شریف اخباروں نے بھی اسی طرح ہندو، عیسائی اور دیگر اخباروں نے اس تحریک کا بہت سخت نوٹس لیا.تعریفی رنگ میں بھی بہت بڑا نوٹس لیا اور مخالفت کے رنگ میں بھی بہت بڑا نوٹس لیا اور زیرک لوگ سمجھ گئے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، اس کے بہت بڑے اور عظیم الشان نتائج ظاہر ہونے والے ہیں.جہاں تک واقفین کا تعلق ہے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک کے نتیجے میں نو جوانوں کا جو پہلا دستہ دنیا میں پھیلایا گیا ان کے نام میں آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں کیونکہ آج ہم میں سے بہت کم ایسے ہیں جو تاریخ احمدیت پڑھنے کا شوق یا وقت رکھتے ہیں یا نہیں تاریخ احمد بیت جومولوی دوست محمد صاحب نے بڑی محنت سے لکھنی شروع کی ہوئی ہے اس کی جلدیں ہی مہیا ہیں یا دستیاب ہیں تو اس پہلو سے کبھی کبھی پرانی تاریخ کو دو ہرا دینا چاہئے تا کہ نئی نسل کے لوگوں کو بھی معلوم ہو کہ آج سے کچھ سال پہلے جماعت کا کیا حال تھا.کون کون سے مخلصین تھے جو قربانیوں میں آگے آئے اور پھر ان کے نتائج کیا نکلے.بہر حال اول مجاہدین کا جو دستہ تھا ان میں سے نو نام میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، ایک مولوی غلام حسین صاحب ایاز مرحوم، صوفی عبدالغفور صاحب مرحوم صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز مرحوم مولوی عبدالغفور صاحب ،مرحوم، محمد ابراہیم ناصر صاحب مرحوم، ملک محمد شریف صاحب گجرات مرحوم، اور مولوی محمد دین صاحب مرحوم ، ان کے علاوہ تین خوش نصیب ایسے بھی تھے جو آج بھی زندہ ہیں.ان میں سے ایک حاجی احمد خان صاحب ایاز جو ہنگری کے مبلغ بنائے گئے تھے پھر پولینڈ بھی گئے تھے اور ایک مولوی رمضان علی صاحب جو آپ کی یعنی انگلستان کی جماعت کے ایک ممبر ہیں اور خدا کے فضل سے زندہ بھی ہیں اور صحت بھی اچھی ہے اور ایک چوہدری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی ہیں.-

Page 654

خطبات طاہر جلد ۹ 649 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء تو یہ وہ خوش نصیب تھے جنہوں نے نہ صرف آواز پر لبیک کہا بلکہ ان کی پیشکش قبول فرمائی گئی اور ان کو تاریخی لحاظ سے یہ سعادت بخشی گئی کہ تحریک جدید کے اعلان کے بعد واقفین کا جو دستہ دنیا میں پھیلا یا گیا ان میں یہ شامل ہوئے.دو شہداء کا بھی اور ایک اور مبلغ کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے جو باقاعدہ وقف کر کے نظام کے تحت تو تبلیغ کے لئے نہیں نکلے لیکن حضرت مصلح موعود کی آواز سنتے ہی لبیک کہا اور مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لئے چلے گئے.ان میں سے تین دوستوں کا ذکر خاص طور پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا کیونکہ ان کی قربانی سے حضرت مصلح موعودؓ بہت متاثر تھے.ایک ولی دادخان صاحب تھے.یہ افغانستان کے باشندے تھے جب ۱۹۳۴ء میں تحریک ہوئی تو اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے طور پر ہی واپس اپنے ملک تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جانے سے پہلے حضرت مصلح موعودؓ سے ہدایات لے لیں کہ کس رنگ میں تبلیغ ہونی چاہئے چنانچہ اس کے مطابق ایک عرصے تک دوستوں کو قادیان بھجواتے رہے اور ہندوستان میں جب بھی وہاں سے کوئی مسافر آتا تھا تو اس کو یہ تحریک کرتے تھے کہ احمدیوں سے رابطہ کرو.اس کے نتیجے میں تبلیغ پھل لانے لگی لیکن اس کے ساتھ ہی حسد بھی بڑھنے لگا.آخر اپنے ہی قریبی رشتے داروں نے ان کو ایک موقعہ پر جب یہ ہندوستان سے واپس جارہے تھے تو گولیاں مار کر شہر کر دیا.دوسرے دوست عدالت خان تھے یہ خوشاب کی طرف کے غالبا شاہ پور خوشاب کے علاقے کے تھے.انہوں نے بھی وقف کے ساتھ ہی چین کے سفر کی نیت باندھی اور اس غرض سے یہ بھی پہلے افغانستان گئے لیکن پاسپورٹ نہیں تھا.اس لئے وہاں قید کر دیئے گئے اور قید کی حالت میں بھی تبلیغ کرتے رہے جس کا بہت اثر ہونا شروع ہوا.چنانچہ حکومت افغانستان نے ان کو پھر ملک بدر کر کے واپس ہندوستان بھجوادیا.واپس آکر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں رپورٹ پیش کی اور کہا کہ اب میں چین کے ارادے سے جاتا ہوں.چنانچہ دوسری مرتبہ بھی چین کے ارادے سے نکلے تو اپنے ساتھ ایک دوست محمد رفیق صاحب کو بھی لے گئے.یہ ایک اور نو جوان تھے کشمیر میں ان کو نمونیہ ہو گیا اور اس نمونیہ کی حالت میں جب دیکھا کہ اب آخری سانس ہیں، وقت قریب آگیا ہے تو حضرت مصلح موعودؓان کے اخلاص کا اور ایمان کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت اور کوئی علاج میسر نہیں تھا اور موت سر پر کھڑی تھی تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جلدی جاؤ اور کسی غیر احمدی

Page 655

خطبات طاہر جلد ۹ 650 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء کو میرے ساتھ مباہلے پر آمادہ کرو.میرے بچنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے اگر کوئی غیر احمدی اس وقت جبکہ میں جان کنی کی حالت میں ہوں گا مجھ سے مباہلہ کر لے گا تو خدا ضرور مجھے احمدیت کی صداقت کی خاطر بچادے گا چنانچہ وہ باہر نکلے لیکن افسوس کہ جب خدا کی تقدیر آچکی ہو تو پھر کوئی ترکیب کارگر نہیں ہوتی.چنانچہ پیشتر اس کے کہ وہ کسی کولا سکتے انہوں نے جان جان آفرین کے سپرد کر دی اور حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو بھی شہدائے احمدیت میں شمار کیا کیونکہ تبلیغی سفر کے لئے نکلے تھے اور جس شان سے جان دی ہے، جس اخلاص کے ساتھ جان دی ہے اس سے یقیناً ان کا مقام شہداء سے کم شمار نہیں ہوسکتا.محمد رفیق صاحب جو ان کے ساتھی تھے ان کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کو ہی قبول کرنا تھا کر لیا اور شاید اسی لئے ان کو یہ تحریک ہوئی کہ یہ اپنے ساتھ محمد رفیق کو لے جائیں چنانچہ محمد رفیق صاحب کو موقعہ ملا اور وہ کاشغر پہنچ گئے اور کاشغر میں جاکر انہوں نے تبلیغ کی اور اسی تبلیغ کے نتیجے میں حاجی جنود اللہ صاحب احمدی ہوئے اور پھر ان کے خاندان کے دوسرے دوست بھی ، ان کے بڑے بھائی بھی اور کچھ باقی افراد خانہ بھی احمدی ہوئے ، والدہ بھی احمدی ہو ئیں اور وہ لوگ پھر ہجرت کر کے قادیان آگئے.حاجی جنود اللہ صاحب کی ہمشیرہ ہمارے خاندان میں بیاہی گئیں.بھا بھی فرخ ہم ان کو کہا کرتے تھے.سید بشیر شاہ صاحب جو میرے خالہ زاد بھائی تھے اور دوا خانہ خدمت خلق کے ایک لمبا عرصہ تک انچارج کا رکن رہے ہیں، ان کے ساتھ ان کا رشتہ طے ہوا اور ان کی اولا د یعنی بھا بھی فرخ کی اولا د تو اب قریباً ساری ہی کینیڈا میں ہے سوائے ایک بچی کے جو یمن میں بیاہی گئی ہے اور ایک بچی جوا بھی پاکستان میں ہے لیکن حاجی جنو داللہ صاحب کی اولاد میں سے دو بچے یہاں آپ کی انگلستان کی جماعت کے ممبر رہے ہیں.ایک تو کینیڈا جاچکے ہیں اور ایک ابھی یہیں ہیں اور عنقریب ان کی شادی بھی ہونے والی ہے.باقی بچے ان کے کینیڈا میں ہی ہیں اور ایک بچہ جاپان میں ہے تو اس طرح یہ خاندان بھی خدا کے فضل سے دنیا کی مختلف جگہوں میں پھیل گیا اور مختلف جگہ یہ جو ان کے بوٹے لگے ہیں اس کا خدا تعالیٰ کے فضل - سہرا عدالت خان صاحب کے سر پر ہے جن کی دعاؤں اور اخلاص کے نتیجے میں محمد رفیق صاحب کو کاشغر جانے کی توفیق ملی اور پھر ان کے ذریعہ یہ خاندان احمدی ہوا.اس خاندان کے اس نوجوان

Page 656

خطبات طاہر جلد ۹ 651 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء سے جو انگلستان میں ہیں میں نے ان سے بات کی تھی کہ آپ لوگوں کو اب چاہئے کہ کاشغر سے رابطے کریں.اب تو رابطوں کی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، روکیں دور ہورہی ہیں چنانچہ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں اور جہاں تک ممکن ہے وہ تحقیق کر کے اپنے پرانے علاقے کا پتا کر رہے ہیں تا کہ وہاں خود جاسکیں یا ہم کسی واقف عارضی کو وہاں بھیج دیں تو وہاں جا کر پرانے روابط کو زندہ کیا جائے.بہر حال وہ تحریک جو۱۹۳۴ء میں ایک بہت چھوٹی سی تحریک کے طور پر شروع ہوئی تھی اب جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کی برکتیں پھیل رہی ہیں اور جو پھل اس نے پیدا کئے وہ آگے اپنے پیج دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور اس طرح ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی نشر واشاعت کے سامان ہو رہے ہیں.چندے کا یہ حال ہے کہ اس زمانے میں تمام دنیا کے چندے کے وعدے ایک لاکھ ۲۶ ہزار تھے اور آج جو امریکہ سے اطلاع ملی ہے.امریکہ کی تمام وصولی صرف ایک ملک کی اس زمانے کے وعدوں سے ۷ اگناہ زیادہ ہے اور امریکہ (غالباً میں دیکھتا ہوں ادائیگیوں میں کس نمبر پر آتا ہے) ہاں ! امریکہ کا نمبر ادا ئیگی کے لحاظ سے چوتھا ہے تو چوتھے نمبر کی ادائیگی کا ملک ہے وہ اس زمانے کے تمام دنیا کے ممالک کے چندوں کے مقابل پر آج سے اگناہ زیادہ چندہ دے رہا ہے.اس سے آپ اندازہ کریں کہ ان چندوں میں کتنی برکت پڑی.لیکن چندوں میں برکت کی جب ہم بات کرتے ہیں تو دراصل یہ چندے اخلاص کا پیمانہ ہیں.اموال کے کم اور زیادہ ہونے کی بحث نہیں ہے.اگر اموال کی بات کریں تو ہماری ساری دنیا کا تحریک جدید کا جو چندہ ہے وہ آج کل کے بڑے بڑے امیروں کی دولت کے مقابل پر ایک قطرے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا.اتنے بڑے بڑے واحد امراء دنیا میں موجود ہیں جن کی دولت جماعت احمدیہ کی مجموعی دولت کے لگ بھگ ہو گی.اس لئے جب میں چندوں میں برکت کی بات کرتا ہوں تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ ہمارے پاس غیر معمولی طور پر دولت اکٹھی ہوگئی ہے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاص میں بہت برکت دی.جماعت قلیل تعداد ہونے کے باوجود، غریب ہونے کے باوجود مالی قربانیوں میں آگے بڑھتی گئی ہے اور تھک کر پیچھے نہیں ہٹی اور ۶ ۵ سال کا عرصہ ہو گیا ہے اس تحریک کو بجائے اس کے کہ اس عرصے میں جب دو تین نسلیں آملی ہیں لوگ تھک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بہت ہوگئی کافی دیر ہوگئی اب آہستہ آہستہ اس تحریک کو ختم

Page 657

خطبات طاہر جلد ۹ 652 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء ہونا چاہئے کہ ہم اتنا عرصہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے.برعکس صورت ہے اور سینکڑوں ایسے افراد ہیں جنہوں نے کھوج لگا کر اپنے آباء واجداد کے بند کھاتے دوبارہ جاری کئے ہیں.نہ صرف یہ کہ خود قربانی میں آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ اپنے مرحوم والدین یا دیگر بزرگوں کا جب ان کو پتا چلتا ہے کہ وہ یہ چندہ دیا کرتے تھے اور اب ان کا کھاتہ بند ہے کیونکہ وہ فوت ہو چکے ہیں تو پھر وہ ان کی طرف سے وہ چندے جاری کرتے ہیں.بعض لوگوں نے مجھے یہ بھی لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرا کوئی بزرگ ایسا نہیں جس کا چندہ ہو لیکن میری بھی خواہش ہے اس لئے میری طرف سے کسی اور مرحوم بزرگ کا کھا نہ زندہ کر دیں اور اس کی طرف سے میں ادائیگی کرتا رہوں گا.اسی طرح اخلاص کے اور بہت سے ایسے نمونے سامنے آتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جماعت احمد یہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے اور پہلی نسلوں کی نیکیوں کا جھنڈا موجودہ نسلوں نے نہ صرف اٹھایا ہے بلکہ بلند تر کرتی چلی جارہی ہے لیکن یہ یادرکھنا ضروری ہے اور میرے لئے اور آئندہ خلفاء کے لئے آپ کو یہ یاد دلاتے رہنا ضروری ہے کہ جو جھنڈے بلند ہوا کرتے ہیں یہ دراصل پہلی نسلوں کی قربانی کے نتیجے میں ایسا ہوا کرتا ہے اور ان کی دعاؤں کے نتیجے میں ایسا ہوا کرتا ہے.پہلی نسلوں کی دعائیں ان کی قربانیاں ان کی وہ حسرتیں کہ ہم دینا چاہتے تھے مگر دے نہیں سکے تو ایسی عظیم اور قوی دعائیں بن جایا کرتی ہیں کہ نسلاً بعد نسل وہ دعا ئیں پہنچتی رہتی ہیں اور پھل لاتی رہتی ہیں.ابھی ایک خاتون نے امریکہ سے مجھے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ میری والدہ نے دودھ میں نہلایا ہے اور پھر یہ خیال کر کے کہ میں اپنے متعلق نہ سمجھ لوں، کہا کہ مجھے دودھ میں نہلایا ہے اس کی میں نے تعبیر کی اور وہ تعبیر یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے یاد کرا رہا ہے کہ تمہیں اگر کوئی توفیق مل رہی ہے تو اس میں مرحوم بزرگوں کی دعاؤں کا دخل ہے اور ان ہی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ صرف اگلی نسل کو نہیں بلکہ بعض دفعہ پشت در پشت ، سات سات پشتوں تک ان دعاؤں کے فیض پہنچاتا رہتا ہے.یہ میں آپ کو اس لئے یاد کرواتا ہوں کہ ان بزرگوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.جب ہم بہت ہی عظیم قربانیاں کر رہے ہوں تو ہمارے اندر یہ تکبر نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ ہم بہت بڑے ہو گئے ہیں بلکہ ان قربانیوں کے نتیجے میں یہ پھل لگ رہے ہیں جو اس وقت بہت چھوٹی دکھائی دیتی تھیں لیکن اپنی اندرونی قوت کے لحاظ سے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی

Page 658

خطبات طاہر جلد ۹ 653 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء بڑی اور عظیم قربانیاں تھیں.حضرت مصلح موعودؓ نے بارہا خطبات میں ان ابتدائی قربانی کرنے والوں کے ذکر کئے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا تو وہ اپنی کوئی چیز اٹھالا یا کرتے تھے.کوئی کپڑا اٹھالائے ، کوئی عورت بیچاری بکری لے آئی کسی کے پاس اور کچھ نہیں تھا تو گھر کا ایک برتن اٹھالائی کہ میرے پاس یہی کچھ ہے اور کچھ نہیں ہے.اسی کو قبول فرمائیں.اس زمانے میں حضرت مصلح موعود نے پتا نہیں قبول فرمایا یا کس رنگ میں دلداری کی.مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آسمان کے خدا نے ان قربانیوں کو ضرور قبول فرمایا ہے اور آج جو ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کے مرد اور عورتیں اور بچے دینی قربانیوں میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں میرا تو یہ کامل یقین ہے کہ اس میں ان ابتدائی قربانی کرنے والوں کا بھی دخل ہے اور ان قربانی نہ کر سکنے والوں کی حسرتوں کا بھی دخل ہے.حسرتوں کو بھی خدا قبول فرماتا ہے چنانچہ دیکھیں قرآن کریم میں ان صحابہ کا ذکر بھی موجود ہے اور کتنے پیار سے موجود ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے آپ کو جہاد کے لئے پیش کیا مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، کوئی سواری نہیں ہے جس پر میں تمہیں میدان جہاد تک پہنچا سکوں.اس پر وہ اس حال میں واپس مڑے کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے ہم جان بھی اپنی پیش نہیں کر سکتے.اب دیکھیں یہ حسرت ہی تو تھی لیکن قربانی کرنے والوں کا اس شان کا ذکر آپ کو قرآن کریم میں اور نظر نہیں آئے گا جیسا کہ ان حسرتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے.پس ہماری آج کی ترقیات میں جو ہم ۶ ۵ سال کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں اور جماعت احمد یہ ایک عظیم الشان درخت ہی نہیں بلکہ بے شمار عظیم الشان درختوں میں تبدیل ہوتی چلی جارہی ہے تو یاد رکھیں کہ ان میں اول نسل کے اولین احمدیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے لے کر آج تک ان سب احمدیوں کی قربانیوں کا دخل ہے جو قربانیاں پیش کر سکے یا قربانیاں پیش کرنے کی حسرتیں لے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے.پس ان سب کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور ان کی دعاؤں کے طفیل ان کی برکت کو محسوس کرتے ہوئے اگر ہم ان کیلئے دعائیں کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگلی نسلیں آپ کو دعاؤں میں یا درکھیں گی ، یہ فیض جاری رہے گا.جو بیج آج آپ بوئیں گے وہ کل کے درخت بننے والے ہیں

Page 659

خطبات طاہر جلد ۹ 654 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء اور جو آج درخت ہیں یہ عظیم الشان جنگلوں اور جمنوں میں تبدیل ہونے والے ہیں اس لئے اپنے پہلوں کو اگر آپ یا درکھیں اور ان کے لئے دعائیں کیا کریں تو اللہ تعالیٰ آئندہ نسلاً بعد نسل آپ کے ذکر کو زندہ رکھے گا اور آپ کے لئے دعائیں کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے.پس وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جن کے پہلے بھی دعائیں ہوں جن کے بعد میں بھی دعائیں ہوں اور وہ خود بھی دعاؤں کے سائے تلے پرورش پارہے ہوں پس حقیقت میں دعا ہی ہے جس کے ذریعہ ہم نے تمام دنیا میں اسلام کو از سرنو غالب کرنا ہے اور ان دعاؤں کے نتیجے میں اور ان کے سائے تلے ہم نے قربانیوں میں آگے بڑھنا ہے.جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے مختصر آ میں آپ کو بتا تا ہوں کہ حسب سابق خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان آج بھی صف اول میں ہے اور پاکستان کی تمام جماعتوں کے اگر چہ تفصیلی اعدادو شمارا بھی مجھے نہیں پہنچے لیکن اب تک کے جو اعداد و شمار ہیں ان کی رو سے کراچی کی جماعت اپنی تحریک جدید کی ادائیگیوں میں اول ہے.دس لاکھ کا ان کا دعدہ تھا اور حالات کے بے حد خراب ہونے کے باوجود ، افراتفری ظلم، لوٹ مار، بے چینی ، بد اطمینانی ، تجارتوں کی ناکامی ، ہر قسم کے خطرات کے باوجود بجائے اس کے کہ دس لاکھ سے کم ادائیگی کرتے ، کراچی نے چودہ لاکھ ادا ئیگی کی ہے.اللہ تعالیٰ یہ ان کے لئے مبارک فرمائے اور ان کا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف رواں رہے.دنیا بھر میں پاکستان بہر حال اول ہے اور جرمنی نے جو یہ عزاز حاصل کیا تھا کہ وہ دوسرے نمبر پر آئے وہ نہ صرف اس اعزاز کو خدا کے فضل سے قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ آگے بڑھ رہا ہے اور دوسری جماعتوں کو جو پہلے اس کے شانہ بشانہ تھیں اور پیچھے چھوڑتا چلا جا رہا ہے اور فاصلے بڑھا رہا ہے.تیسرے نمبر پر United Kingdom ہے یعنی انگلستان کی جماعت جہاں میں آج کھڑے ہوکر یہ خطبہ دے رہا ہوں.اس جماعت میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قربانی کا بڑا جذ بہ ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وصولی کے انتظام میں کوئی کمزوری ہے کیونکہ آج تک کی جیسی رپورٹ بعض دور دور کے ممالک سے مل گئی ہے یہاں سے نہیں مل سکی اور تازہ رپورٹ میں ایسی نہیں پیش کر سکتا جس کے مطابق میں آپ کو بتا سکوں کہ برطانیہ کا نوے ہزار کا وعدہ تھا اور تا حال وصولی کی اطلاع اکہتر ہزار سات سو دو پاؤنڈ ہے جبکہ جرمنی کا وعدہ ایک لاکھ پینتیس ہزار پاؤنڈ تھا اور وصولی تاحال ایک لاکھ چھتیس ہزار ہو چکی

Page 660

خطبات طاہر جلد ۹ 655 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء ہے.تو ان دونوں پہلوؤں سے جرمنی کی جماعت نہ صرف انگلستان کی جماعت کو پیچھے چھوڑ گئی ہے بلکہ فاصلہ زیادہ بڑھا چکی ہے اور اب تو تقریباً ایک اور دو کی بات ہوگئی ہے.بہر حال خدا کرے کہ آپ کی جماعت کو بھی تعداد میں ویسی برکت ملے اور اخلاص اور قربانیوں میں بھی اور مالی استطاعت میں بھی ویسی برکت ملے کہ آپ مقابلے کی اس دوڑ میں آگے بڑھ سکیں اگر برابر نہیں ہو سکتے آگے نہیں بڑھ سکتے تو کم سے کم فاصلہ کم کرنے کی کوشش کریں.چوتھے نمبر پر امریکہ ہے اور امریکہ نے جتنا وعدہ لکھوایا تھا اکسٹھ ہزار پانچ سو انتالیس، وہ پورا کر دیا ہے اور پھر کینیڈا ہے جس نے اکتالیس ہزار اسی کا وعدہ کیا تھا آج ہی اطلاع ملی ہے کہ ان کا وعدہ بھی پورا ہو چکا ہے پھر انڈو نیشیا آتا ہے.اس کے بعد ہندوستان ہے.پھر جاپان ہے.انڈو نیشیا بھی خدا کے فضل سے مالی قربانی میں مسلسل مضبوط قدموں سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہر سال انڈونیشیا کی جماعت کا ہر مالی قربانی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قدم آگے ہے اور انتظامی لحاظ سے بھی وہ باقی دنیا کی مجالس کے لئے ایک نمونہ ہے.جاپان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ باوجود اس کے کہ بہت چھوٹی جماعت ہے لیکن قربانی میں غیر معمولی طور پر ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے.دو سال پہلے تک وہاں جاپان خود کفیل نہیں تھا اور نسبتا ان کا چندہ اتنا کم تھا کہ باہر سے ایک خطیر رقم ان کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھجوانی پڑتی تھی.یہاں تک کہ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ٹوکیو کا مشن بند کر دیا جائے اور صرف نا گویا کامشن جاری رکھا جائے.اس پر جماعت نے ردعمل دکھایا اور احتجاجی خط ملے اور وعدے ملے کہ ہم قربانی میں آگے بڑھیں گے.آپ مشن بند نہ کریں پھر جب میں نے دورہ کیا تو کچھ نوجوان جو نسبتا کمزور بھی تھے ان میں بھی خدا کے فضل سے نئی زندگی پیدا ہوئی اور اب جاپان خدا کے فضل سے دونوں جگہ مشنوں کے اخراجات میں خود کفیل ہے اور اس کے علاوہ اور کئی قسم کی قربانیوں میں بھی آگے بڑھ رہا ہے.تحریک جدید کے لحاظ سے جاپان کی چھوٹی سی جماعت کا چندہ دس ہزار پونڈ سے آگے بڑھ چکا ہے اور تمام دنیا میں فی کس چندہ دہندہ کے لحاظ سے یہ دنیا کی ہر دوسری جماعت سے آگے ہوگئی ہے.پس اس پہلو سے جماعت جاپان بھی قربانی کے لحاظ سے ذکر کے لائق ہے اور دعاؤں میں یادر کھنے کے لائق ہے.جہاں تک مجموعی چندوں کا موازنہ ہے یعنی ہمارے پچھلے سال سے جو موازنہ ہے وہ یہ ہے

Page 661

خطبات طاہر جلد ۹ 656 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء که ۸۸،۶۸۹ء میں دنیا بھر کی جماعتوں کی طرف سے پانچ لاکھ اکیس ہزار سات سو میں پاؤنڈ کے وعدے اور وصولی پانچ لاکھ نوے ہزار آٹھ سو چھتیں یعنی انہتر ہزار ایک سو چھ اضافہ کے ساتھ وصولی ہوئی اور ۹۰ء.۸۹ء میں یعنی جو سال چند دن ہوئے دو تین دن پہلے اختتام پذیر ہوا.اس میں وعدے تھے پانچ لاکھ چھیانوے ہزار آٹھ سو بائیس اور وصولی ہوئی چھ لاکھ بہتر ہزار دوسواسی.یعنی خدا تعالیٰ کے فضل سے وعدوں کے مقابل پر پچہتر ہزار چار سو اٹھاون وصولی زیادہ ہوئی اور جہاں تک فیصد اضافے کا تعلق ہے گزشتہ سال کے مقابل پر یہ سال جو پیچھے گزرا ہے اس سے پہلے سال کے مقابل پر اس گزرے ہوئے سال میں (۱۲۹) فیصد آمد میں اضافہ ہوا.افریقن ممالک میں ماریشس صف اول میں بھی ہے اور افریقہ میں خدا کے فضل سے پہلا بھی ہے اور ماریشس کی جماعت بھی اپنے نظم وضبط کے لحاظ سے باقاعدگی کے لحاظ سے اور قربانیوں میں دن بدن آگے بڑھنے کے لحاظ سے بہت ہی اچھی مثالی جماعت ہے.مشرق بعید کے ممالک کے اعتبار سے ترتیب یوں بنتی ہے کہ انڈونیشیا اول جاپان دوم نجی سوم اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ان کے بعد آتے ہیں افریقہ سے رپورٹیں پوری نہیں آئیں لیکن جو آئی ہیں ان کے لحاظ سے ماریشس پہلے پھر نائیجر یا پھر گیمبیا پھر کینیا پھر پینین پھر یوگنڈا اور بعض بڑے بڑے ممالک غانا اور سیرالیون وغیرہ کی رپورٹیں چونکہ شامل نہیں اس لئے ان کا موزانہ پیش نہیں کیا جاسکتا.یورپ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جرمنی اول ہے یو.کے دوم اور ناروے اس کے بعد پھر ڈنمارک، پھر ہالینڈ پھر سوئٹزرلینڈ پھر سویڈن پھر سپین پھر یجیم ، پھر پرتگال.آج میں تحریک جدید کے ۵۷ ویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ نیکی کی جو عظیم الشان روایات جماعت پیچھے چھوڑ آئی ہے جن کا بہت ہی مختصر ذکر میں نے کیا ہے ان روایات کو قائم رکھتے ہوئے تمام دنیا کی جماعتیں امسال بھی قربانی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جہاں تک نئے تقاضوں کا تعلق ہے اس ضمن میں میں بہت سی باتیں چھوڑ کر وقت کے لحاظ سے صرف ایک بات آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ مشرقی یورپ اور روس میں جو نئے میدان تبلیغ کے کھلے ہیں ان کا بھی گہرا تعلق تحریک جدید کے آغاز سے ہے.تحریک جدید کے آغاز ہی میں روس

Page 662

خطبات طاہر جلد ۹ 657 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۹۰ء اور چین اور مشرقی یورپ میں جماعت کی طرف سے با قاعدہ یا اپنے طور پر طوعی کام کرنے والے مبلغین پہنچ چکے تھے اور اپنی قربانیوں کی ایک بہت ہی درد ناک اور عظیم داستان یہ لوگ وہاں چھوڑ آئے ہیں.ان قربانیوں کو وہاں سے لینا ہے اور آگے بڑھانا ہے.اس سلسلے میں میں وقف کی ایک تحریک کر چکا ہوں جس میں بہت سے مخلصین نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ عارضی وقف کرنے والے جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے انتظار کر رہے ہوں گے کہ وہ درخواستیں کہاں چلی گئیں وہ یاد رکھیں کہ ان پر بہت توجہ کے ساتھ اور تفصیل کے ساتھ غور ہورہا ہے اور ضروری معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں اور ضروری انتظامات کئے جارہے ہیں.نئی جگہوں پر اس زمانے میں اس طرح بھجوا دینا کہ کوئی شخص سراٹھا کر جدھر رخ بنے اس طرف چل پڑے یہ کوئی مناسب طریق نہیں ہے.ان تمام علاقوں کے متعلق چھان بین ہونی ضروری ہے ان کے جغرافیائی حالات ان کے تاریخی حالات ان کے موجودہ تمدنی اخلاقی حالات وغیرہ وغیرہ اور رہن سہن کے طریق، اخراجات کتنے اٹھیں گے اور کیا کیا وقتیں ہیں جو در پیش ہو سکتی ہیں.زبان کے مسائل کیسے حل ہوں گے بڑ یچر کیا لے کر جائیں گے، اجازت نامے کیسے ملیں گے غرضیکہ اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جن پر باقاعدہ بڑی توجہ اور محنت کے ساتھ تحقیق ہورہی ہے اور کوائف مرتب ہورہے ہیں اور موسموں کو بھی دیکھنا پڑے گا کون سے موسم وہاں موزوں رہیں گے.جب بھی یہ تیاری ہو جائے گی.تو ہم انشاء اللہ تعالیٰ واقفین کو باقاعدہ ایک تفصیلی ہدایت نامہ بھجوائیں گے اور ان کی پوری راہنمائی کریں گے کہ آپ اگر فلاں علاقے میں جانا چاہتے ہیں تو اس طرح جائیں.یہ یہ ضروریات ہیں ، یہ یہ امور پیش نظر رہنے چاہئیں اور جماعت اس معاملے میں کیا مدد کر سکے گی.پھر بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں کے لئے ابھی مناسب تعداد میں لٹریچر موجود نہیں ہے اور لٹریچر میں سے بعض ایسی کتابیں اور رسالے ہیں جو چھپ رہے ہیں، بعض ابھی تیار ہور ہے ہیں.نئی زبانیں ہیں جن پر ہمیں کوئی اختیار نہیں.ابھی کوئی احمدی ان زبانوں کا ماہر نہیں بنا تو ماہرین بھی ڈھونڈ نے پڑتے ہیں پھر صحیح تراجم کے لئے جو احتیاطیں ضروری ہیں وہ بھی ضروری ہیں اور وقت طلب بھی ہیں.تو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ دو تین ماہ کے اندراندر میں امید رکھتا ہوں ہمارے واقفین کو رسالے کے رسالے ان علاقوں میں جانا شروع ہو جائیں گے اور ایک دو پہلے جا بھی چکے

Page 663

خطبات طاہر جلد ۹ 658 خطبه جمعه ۲ نومبر ۱۹۹۰ء ہیں.بعض لوگ جن کے پاس مالی توفیق نہیں ہوئی وقف کرتے ہیں ان کے متعلق میری گزارش یہ ہے کہ وہ وقف بے شک کریں لیکن اگر بعض لوگوں نے جس طرح کہ بعض ہمارے مخلصین ابھی کر رہے ہیں رو پے بھجوانے شروع کئے یا وعدے کئے کہ آپ اپنی طرف سے جس کو چاہیں بھجوائیں ہم وقف ہیں وقت نہیں دے سکتے مگر رقم مہیا کر سکتے ہیں.ایسی رقمیں بھجوائیں اور جیسا کہ میں نے کہا بھجوا بھی رہے ہیں اور وہ اتنی کافی ہوئیں کہ سارے خواشمندوں کو بھجوایا جا سکے تو انشاء اللہ تعالیٰ سب کو بھجوائیں گے لیکن اگر اتنی کافی نہ ہوئیں تو پھر جو خواہشمند ہیں ان میں سے انتخاب کرنا ہوگا اور جو نسبتاً زیادہ اہلیت والے ہیں ان کو بھجواسکیں گے.زبانوں کے متعلق بھی معلومات بھجوائی جائیں گی لیکن یہ یاد رکھیں کہ وقف یعنی عارضی وقف کرتے وقت آپ کے ذہن میں جو بھی ملک ہے.مشرقی یورپ کا ہو، روس ہو یا چین ہو جو بھی نئے ممالک ہمارے پیش نظر ہیں ان میں سے جو آپ کو زیادہ پسند ہو یا اپنا طبعی رجحان پاتے ہوں.ان کی زبان سیکھنی شروع کر دیں اور سروست ابتدائی تعلیم کے لئے جو عام ٹکسالی کی چھوٹی چھوٹی کتا بیں یالیسٹس وغیرہ مہیا ہیں اس سے آپ بے شک کام لیں.ابتدائی تعارف ضرور ہو جانا چاہئے.روزمرہ کی چند باتیں کرنی آجائیں اور بعد میں ہم آپ کو جولٹریچر دیں گے اس سے بہت سی ضرورت پوری ہو جائے گی لیکن کچھ تعارف کے بعد جب آپ وہاں جائیں گے تو وہاں زبان سیکھنی زیادہ آسان ہوگی.پہلے سے تعارف ہو تو پھر بہت جلدی انسان رواں ہو جاتا ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ پانی جب خشک جگہ پہ پھینکتے ہیں تو کس طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے لیکن پانی کو ایک پتلی سی بھی گیلی لکیر مل جائے تو بڑی تیزی سے اس پر بہنے لگتا ہے تو پہلے پانی مہیا نہیں تو گیلی لکیریں ہی اپنے اوپر ڈال لیں ان زبان کی گیلی لکیروں پر پھر زبان روانی سے چلے گی.تو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے جماعت کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہم آپ کے لئے پوری محنت سے تیاری کر سکیں اور آپ اپنی ذاتی ذمہ داریاں بھی ادا کریں اور دعا بہت کریں.یہ آخری بات ہے لیکن ہر پہلی بات سے زیادہ افضل اور زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے.دعا میں جو برکت ہے اس کی کوئی مثال دنیا میں اور کسی تدبیر میں نہیں ہے.دعا میں تدبیر اور دعا دونوں باتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بہت ہی لطیف روشنی -

Page 664

خطبات طاہر جلد ۹ 659 خطبه جمعه ۲ نومبر ۱۹۹۰ء ڈالی ہے اور بہت ہی گہری حکیمانہ باتیں بیان فرمائی ہیں.خلاصہ یہی ہے کہ دعا دنیا کی سب سے عظیم تدبیر ہے جو تقدیر پر جال ڈالتی ہے اس سے بڑی تدبیر کیا ہوگی جو تقدیر کو اپنے دام میں لے لے اور تقدیر الہی اور انسانی کوششیں جب اکٹھی مل کر آگے بڑھتی ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ایسے آگے بڑھنے والے کی راہ نہیں روک سکتی.پس ان دعاؤں سے بھی بہت کام لیں.اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو اور یہ عظیم پہاڑ جو ہمارے سامنے کھڑے ہیں انہیں سر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا: اب چونکہ دن چھوٹے ہو چکے ہیں اور جب ہم جمعہ کی نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو عصر کی نماز کا وقت شروع ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ آج کل اڑھائی اور تین کے درمیان عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اس لئے جب تک یہ دن چھوٹے ہیں اور ان کا تقاضا رہے گا اس وقت تک ہم جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع کرتے رہیں گے.پس آج پہلے دن اسی ضرورت کے پیش نظر جمعہ کے معاً بعد عصر کی نماز بھی ساتھ ہی پڑھی جائے گی.

Page 665

Page 666

خطبات طاہر جلد ۹ 661 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء عراق اور بابری مسجد کے معاملہ میں عالم اسلام کی راہنمائی احمدیت کی ترقی کو اب دنیا میں کوئی نہیں روک سکتا.( خطبه جمعه فرموده ۹ رنومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: عالم اسلام پر جو حالات آجکل گزر رہے ہیں وہ ہر احمدی کے لئے بہت ہی زیادہ باعث فکر ہیں اور پریشانیاں کم ہونے کی بجائے سر دست بڑھ رہی ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی احباب جماعت کو بار بار دعا کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت کی تھی ، اب پھر میں اس خطبے کے ذریعے جماعت کو دعا کی یاد دہانی کراتا ہوں.بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور گہرے خلوص اور درد کے ساتھ ہر احمدی کو با قاعدہ اس امر کے لئے دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عالم اسلام کے خطرات کو ٹال دے اور اگر چہ بہت ہی گہرے اور سیاہ بادل ہر طرف سے گھر کر آئے ہیں لیکن خدا کی تقدیر جب چاہے ان کے رخ پھیر سکتی ہے اور اس وقت دنیا کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جہاں یا براہ راست مسلمانوں کو خطرہ در پیش نہ ہو یا بالواسطہ خطرہ در پیش نہ ہو اور ان تمام خطرات کے مقابلے کے لئے فی الحقیقت دنیا میں کہیں بھی مسلمان تیار نہیں اور جو اسلامی اور عقل و دانش کا رد عمل ہونا چاہئے وہ رد عمل کہیں دکھائی نہیں دے رہا اس لئے ہمارا کام ہے کہ نصیحت بھی کریں، سمجھانے کی بھی کوشش کریں خواہ کوئی ہماری آواز سُنے یا نہ سُنے ، ہمارا فرض ہے کہ اس وقت جو بھی نصیحت کا حق ہے وہ ضرور ادا کریں لیکن محض نصیحت پر بنا نہیں کرنی کیونکہ نصیحت ان کانوں پر پڑے جو سننے کے لئے آمادہ نہ

Page 667

خطبات طاہر جلد ۹ 662 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء ہوں، حالات اُن آنکھوں کو دکھائے جائیں جو دیکھنے کے لئے تیار نہ ہوں اور بات ان دلوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے جن کے اوپر ضد کی مہریں لگی ہوں تو جو بھی انسان کرنا چاہے اس کا نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا اس لئے دعا ئیں بہت ضروری ہیں.نصیحت میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے اور جہاں تک غیر دنیا کا تعلق ہے ان کے رخ موڑنے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے.آپ کی دعاؤں کے بھی دو رخ ہونے چاہئیں.ایک یہ کہ اللہ اہلِ اسلام میں ہوشمند لیڈرشپ پیدا فرمائے اور اہل اسلام کی قیادت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے ان کو عقل دے، ان کو تقویٰ کا نور عطا کرے اور حالات کو سمجھنے کی توفیق بخشے اور دوسری طرف جو ظالم باہر کی دنیا سے اسلام پر حملہ آور ہونے والے ہیں یا ہو رہے ہیں یا اندرونی طور پر مسلمانوں کے اندر سے ان سے دشمنی کرنے والے اسلام کے بھیس میں اُن سے دشمنی کر رہے ہیں ان سب کے رُخ پھیر دے اور ان کی تمام کوششوں کو نامراد اور ناکام فرما دے.سرسری طور پر جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ میں آپ کے سامنے مختصر رکھتا ہوں.سرسری طور پر تو نہیں مر مختصر آرکھتا ہوں کیونکہ اس سے پہلے اس مضمون پر مختلف رنگ میں میں روشنی ڈال چکا ہوں.عراق کے ساتھ وابستہ جھگڑے کا تعلق در حقیقت کویت پر عراق کے قبضے سے ہے.یہ تو سب دوستوں کو معلوم ہے اور اس وقت تمام دنیا کی طاقتوں کو عراق کے خلاف جو اکٹھا کیا جارہا ہے اس کے محرکات کیا ہیں ان میں سے ایک دو میں نے بیان کئے لیکن بہت گہرے محرکات ہیں.اگر توفیق ملی تو آئندہ کبھی ان پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا اور یہ بتاؤں گا کہ ان سازشوں کی باگ ڈور در حقیقت کن ہاتھوں میں ہے لیکن خلاصہ اس جھگڑے کا یہی ہے کہ ایک مسلمان ملک نے ایک ایسے خطہ زمین پر قبضہ کر لیا جو اس مسلمان ملک کے نزدیک کبھی اس کا تھا اور انگریزوں نے اس خطے کو کاٹ کر وہاں ایک الگ حکومت قائم کر دی تھی.یہ عراق کا کیس ہے.اس کے جواب میں یہ کہا جارہا ہے کہ اگر آج ہم کسی خطے پر کسی تاریخی دعوئی کے نتیجے میں کسی ملک کو قبضہ کرنے دیں تو اس سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہوگا اور ہم کسی قیمت پر بھی اس قسم کی ظالمانہ حرکت کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتے.چنانچہ مغربی راہنماؤں کی طرف سے بار بار اس خیال کو بھی رڈ کیا جارہا ہے کہ تیل میں

Page 668

خطبات طاہر جلد ۹ 663 خطبه جمعه ۹ رنومبر ۱۹۹۰ء ہمیں دلچسپی ہے.کہتے ہیں تیل میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں دلچسپی ہے تو امن عالم میں دلچسپی ہے.ایک خطے کو جو زمین کا ایک ٹکڑا ہے اس کو کوئی ملک اپنے قبضے میں اس لئے کر لے کہ تاریخی لحاظ سے کچھ اور تھا یہ بالکل ایک لغو بات ہے اور ہم ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے.آئیے اب ہم اس دور کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈال کر دیکھیں کہ کیا ہوتا رہا ہے اور یہ جو دلیل پیش کی جارہی ہے اس کی ماہیت کیا ہے.جہاں تک عالم اسلام سے تعلق رکھنے والی بعض سرزمینوں کا تعلق ہے ان میں سب سے پہلے فلسطین کی سرزمین ہے جس کے ایک بڑے حصے پر اس وقت اسرائیل کی حکومت قائم ہے اور اس کے علاوہ بھی وہ حکومت سرکتی ہوئی اردن دریا کے مغربی ساحل تک پہنچ چکی ہے.یہ حقیقت میں ایک تاریخی قضیہ تھا.ہزاروں سال پہلے یہود کا اس سرز مین پر قبضہ تھا اور یہاں اُنہوں نے معبد تعمیر کئے اور اس زمین کو یہود کے نزدیک غیر معمولی اہمیت تھی.مغربی طاقتوں نے اس قدیم تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس زمانے کا جغرافیہ تبدیل کیا اور اس قدر غیر معمولی ہٹ دھرمی اور جسارت کی کہ سارا عالم اسلام شور مچاتا رہ گیا اور عالم اسلام کے سوا دنیا کی بہت سی دوسری طاقتیں بھی عالم اسلام کی ہمنوائی میں اُٹھ کھڑی ہوئیں کہ تم تین چار ہزار سال پرانی تاریخ کو ٹولتے ہوئے راکھ کے انبار میں سے ایک چنگاری نکال رہے ہو اور اسے ہوا دے کر آگ بنانے لگے ہو.تمہارا کیا حق ہے کہ آج اس پرانے دعوے کو قبول کرتے ہوئے اس حال کی دنیا کے نقشوں کو تبدیل کرو.مگر وہی بڑی حکومتیں جو عراق کو تباہ کرنے پر آج تکی بیٹھی ہیں وہ متحد ہو گئیں اس بات پر کہ نہیں تاریخ کے نتیجے میں جغرافیے تبدیل کئے جائیں گے اور جغرافیہ تو تبدیل ہوتے رہنے والی چیزیں ہیں.پھر آپ کشمیر کو دیکھ لیجئے ، پھر آپ جونا گڑھ کو دیکھ لیجئے.پھر آپ حیدر آباد دکن کو دیکھ لیجئے غرضیکہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جو آج بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اس دور میں جس میں سے ہم گزر رہے ہیں تاریخ کے حوالے سے یا بغیر کسی حوالے کے جغرافیے تبدیل کئے گئے اور تمام دنیا کی سیاست کو کوئی خطرہ در پیش نہیں ہوا اور سیاسی تقسیمیں دنیا میں جتنی بھی ہیں انہوں نے ان تبدیلیوں کے نتیجے میں کوئی واویلا نہیں کیا اور کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ سب دنیا مل کر اس تبدیل ہوتے ہوئے جغرافیے کو پھر پہلی شکل پر بحال کر دے.صرف یہی نہیں بلکہ ہم جب افریقہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں

Page 669

خطبات طاہر جلد ۹ 664 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء تو اور بھی زیادہ حیرت انگیز اور بھیانک شکل دکھائی دیتی ہے.ایک رسالہ The Plain Truth یہاں سے شائع ہوتا ہے، اس کے ایک صفحے میں سے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو علم ہو کہ دنیا کا جغرافیہ تبدیلی کرنے کا حق کن کو ہے اور کن کو نہیں ہے.یہ لکھتا ہے: In November 1884, Representatives of 13 European Nations and The United States met in Berlin.Having portioned out Africa among themselves, they agreed to respect each other's "spheres of influence".Soon only Ethiopia and Liberia remained independent nations.(The Plain Truth, October 1990).....In actuality the division of Africa was done with mainly In most black African European interests in mind....states south of the sahara the standard of living is falling, the people hungry, bewildered and disillusioned.A part of the blame must be placed on the way the continent was, and is, divided.Only a divine power could reverse this (The Plain Truth Oct.1990) tragedy peaceably.لکھتا ہے کہ ۱۸۸۴ء میں ۱۳ یورپین ریاستوں کے نمائندے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے نمائندے برلن میں اکٹھے ہوئے.غرض کیا تھی؟ افریقہ کی بندر بانٹ.چنانچہ تمام افریقہ کے براعظم کو انہوں نے وہاں ایسے ٹکڑوں میں تقسیم کیا کہ کچھ ٹکڑے کسی کے حصہ اثر میں آئے اور کچھ ٹکڑے کسی اور کے حصہ اثر میں آئے.غرضیکہ تمام یورپین ممالک نے اپنے اپنے حصہ اثر کے ٹکڑے چن لئے اور معاہدہ یہ ہوا کہ ہم ایک دوسرے کے حصہ اثر کے ٹکڑوں میں دخل نہیں دیں گے فی الحقیقت یہ تقسیم تمام تر یورپین ریاستوں کے مفاد میں کی گئی تھی.اس کی تفاصیل اس مضمون میں بھی بیان ہوئی ہیں اور تاریخ میں ویسے ہی یہ مضمون پوری

Page 670

خطبات طاہر جلد ۹ 665 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء چھان بین کے ساتھ ہمیں تالیف ہوا ہوا ملتا ہے.خلاصہ یہ ہے کہ ان تقسیمات میں ہرگز کسی افریقن قوم یا کسی افریقن ملک کے مفاد کوملحوظ نہیں رکھا گیا اور قوموں کو نہ قومیت کی بناء پر تقسیم کیا گیا، نہ لسانی کجہتی کی بناء پر تقسیم کیا گیا، نہ دیگر مفادات کو دیکھا گیا، نہ اقتصادی مفادات کو دیکھا گیا، نہ یہ دیکھا گیا کہ کہاں قدرتی دولتیں یعنی معدنیات موجود ہیں اور کہاں نہیں اور نہ یہ دیکھا گیا کہ ریاستیں بہت چھوٹی ہو جائیں گی اور اقتصادی لحاظ سے آزادی کے ساتھ چلنے کی اہل بھی رہیں گی یا نہیں ، نہ یہ دیکھا گیا کہ ریاستیں اتنی بڑی ہو جائیں گی کہ ان کے نتیجے میں دیگر ریاستوں کے حقوق خطرے میں پڑ جائیں گے اور ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو جائے گا.یہ وہ خلاصہ ہے جو ہمیں تاریخ میں بھی ملتا ہے اور اس مضمون میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو غیر معمولی تکالیف افریقہ کے باشندوں کو اٹھانی پڑیں اور اب بھی اٹھائے چلے جارہے ہیں اس کی تفصیل بھی آپ کو تاریخ میں ملتی ہے اور اس مضمون میں بھی مختصراً ذکر ہے.خلاصہ کلام یہی ہے کہ سارے افریقہ کے براعظم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں یا بعض بڑے ٹکڑوں میں اس نیت سے بانٹ دیا گیا کہ اس خطہ زمین کے تمام تر مفادات اہل مغرب کو حاصل ہوں اور حاصل ہوتے رہیں.اب آزادی کے بعد افریقہ کو جو اکثر مسائل در پیش ہیں وہ اسی غلط تقسیم کے نتیجے میں ہیں کیونکہ قومی بجہتی کا تصور ابھرنے کے ساتھ لسانی اشتراک کے خیالات بھی اُبھرتے ہیں اور جغرافیے کی حدود انسان اور پاتا ہے اور قومی یکجہتی اور لسانی اشتراک کی حدود اور طرح دیکھتا ہے.پھر تاریخی طور پر افریقہ کی قوموں کی ایک دوسرے سے دشمنیاں ہیں مثلاً لائبیریا میں بعض قوموں کی بعض دوسری قوموں سے دشمنیاں ہیں لیکن یہ صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ بڑے بڑے علاقوں میں یہ دشمنیاں پھیلی پڑی ہیں اور ان میں سے بعض دشمنی والی قوموں کو اس طرح کاٹ دینا کہ وہ نسبتاً کمزور دوسری قوموں پر حاوی ہو جائیں، غرضیکہ بہت سی ایسی شکلیں ابھرتی ہیں جن کے نتیجے میں سارا افریقہ اس وقت بے اطمینانی ، عدم اعتماد اور منافرتوں کی لپیٹ میں ہے.ان تمام نا انصافیوں کو دور کرنے کی طرف نہ کبھی کسی نے توجہ کی ، نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں بلکہ اب تو معاملہ اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ان نا انصافیوں کو کالعدم کر کے افریقہ کی نئی تقسیم کی جائے تو جو موجودہ خطرات ہیں ان سے بہت زیادہ خطرات افریقہ کے امن کو درپیش ہوں گے.

Page 671

خطبات طاہر جلد ۹ 666 خطبه جمعه ۹ رنومبر ۱۹۹۰ء پس یہ ہے خلاصہ تاریخ اور جغرافیہ کے تعلقات کا.اب جب ہم کو یت پر عراق کے قبضے کی طرف واپس آتے ہیں تو اس ساری صورت حال کا یہ تجزیہ میرے سامنے آیا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم ملک مسلمان ملک کی سرزمین پر قبضہ کر لے اور جغرافیہ تبدیل کر دے تو دنیا کے امن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں.اگر کوئی مغربی طاقت یا سب طاقتیں مل کر ایک وسیع براعظم کے جغرافیے کو بھی تبدیل کر دیں اور تہس نہس کر دیں اور ایسی ظالمانہ تقسیم کریں کہ ہمیشہ کے لئے وہ ایک آتش فشاں مادے کی طرح پھٹنے کے لئے تیار بر اعظم بن جائے تو اس سے امنِ عالم کو کوئی خطرہ در پیش نہیں ہو گا لیکن اگر ایک مسلمان ملک کسی مسلمان ملک کی زمین پر قبضہ کرے تو اس سے سارے عالم کے امن کو خطرہ ہوگا اور اس عالمی خطرے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے.یہ آخری منطق ہے جو اس سارے تجزیے سے اُبھر کر ہمارے سامنے آتی ہے.اس کے با وجود کہ یہ ساری باتیں معروف اور معلوم ہیں، یہ کوئی ایسی تاریخ نہیں ہے جس کو میں نے کھوج کر کہیں سے نکال کر پڑھا ہے اور جس سے مسلمان دانشور واقف نہیں یا مسلمان ریاستوں کے سر براہ واقف نہیں، سب کچھ ان کی نظر کے سامنے ہے اور دیکھتے ہوئے نہیں دیکھ رہے کہ اس وقت جو کچھ مشرق وسطی میں ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے اس کا تمام تر نقصان اسلام کو اور اہل اسلام کو پہنچے گا اور تمام تر فائدہ غیر مسلم ریاستوں کو اور غیر مسلم مذاہب اور طاقتوں کو میسر آئے گا اس جنگ کی جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جو بھی قیمت چکانی پڑے گی وہ تمام تر مسلمان ممالک چکائیں گے اور یہ جو عظیم الشان فوجوں کی حرکت ایک براعظم سے دوسرے براعظم کی طرف ہو رہی ہے یہ غیر معمولی اخراجات کو چاہتی ہے اس کے لئے دولت کے پہاڑ درکار ہیں لیکن یہ وہی دولت کے پہاڑ ہیں جو سعودی عرب نے اور شیخڈم نے ان ہی ملکوں میں بنارکھے تھے اور وہی اب قانونی طور پر ان کے سپرد کر دئیے جائیں گے کہ یہ تمہارے ہو گئے.ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا اور نتیجہ ایک ابھرتے ہوئے اسلامی ملک کو ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دینا اور مسلمانوں کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا بھی جرم قرار دیا جانا کہ وہ اپنی عزت نفس کے لئے کسی قسم کی کوئی آزاد کار روائی کر سکتے ہیں.عراق کو بھی ہم نے بہت سمجھانے کی کوشش کی اور جس طرح بھی ہوا ان کو پیغام بھجوائے گئے کہ آپ خدا کے لئے خود اپنے مفاد کی خاطر اور اس اسلامی مفاد کی خاطر جو آپ کے پیش نظر ہے

Page 672

خطبات طاہر جلد ۹ 667 خطبه جمعه ۹ رنومبر ۱۹۹۰ء اس ناانصافی کے قدم کو پیچھے کر لیں کیونکہ تاریخ کے حوالے سے اگر جغرافیے تبدیل ہونے لگیں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، افریقہ میں بھی اب یہ ناممکن ہو گیا ہے.دنیا میں اکثر جگہوں پر یہ ممکن نہیں رہا اس لئے خود آپ کا مفاد اس میں ہے، کویت کا مفاد اس میں ہے، عالم اسلام کا مفاد اس میں ہے کہ اس اٹھے ہوئے قدم کو واپس لے لیں اور اپنی طاقت کو بڑھائیں اور عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوشش کریں لیکن افسوس کہ وہاں بھی یہ بات نہیں سنی گئی اور دیگر مسلمان عرب ممالک نے بھی ذرہ بھی دھیان اس بات پر نہیں دیا کہ ہم غیر مسلم طاقتوں سے مل کر ان کے سارے ظلم کا خرچ برداشت کرتے ہوئے ایک مسلمان ریاست کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کے بعد اس تمام علاقے سے ہمیشہ کے لئے امن اٹھ جائے گا.عالمی امن کو خطرہ ہے یا نہیں ہے مگر یہ ریاستیں جو اس جنگ کا خرچ برداشت کرنے والی ہیں اور کرایے کے لڑنے والوں کو باہر سے بلا کر لائی ہیں ان کو میں یقین دلاتا ہوں کہ پھر وہ کبھی اپنے ماضی کی طرف واپس لوٹ کر نہیں جاسکیں گی.بد حال سے بد حال تک پہنچتے چلے جائیں گے اور کبھی پھر امن اس علاقے کامنہ دوبارہ نہیں دیکھے گا اس لئے اب اس نصیحت کے بعد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دعا ہی باقی رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان کو عقل دے اور ہماری نصیحت کی بات خواہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ معلوم ہوتی ہو اپنے فضل سے اس میں طاقت بخشے اور دلوں کو اسے قبول کرنے پر آمادہ فرمادے کیونکہ اللہ ہی ہے جو ان حالات کو تبدیل کر سکتا ہے.بہت خوب اس لکھنے والے نے لکھا کہ Only a Divine power could reverse this tragedy peaceably کہ اب تو صرف کوئی الہی طاقت ہی ہے جو اس انتہائی دردناک صورتحال کو پر امن کیفیت کے ساتھ تبدیل کر دے.پر امن کوششوں کے ذریعے تبدیل کر دے.اب ہم ہندوستان پر نگاہ ڈالتے ہیں وہاں پہلے جو ہو چکا وہ ہو چکا.جو کشمیر میں اب ہو رہا ہے وہ بھی ہو رہا ہے لیکن سب سے بڑی دردناک بات یہ ہے کہ وہاں بھی تاریخ کے نام پر ایک اور طرح کی جغرافیائی تبدیلی کی جارہی ہے.کہا جاتا ہے کہ ساڑھے تین سو سے چارسوسال کے عرصے کے درمیان، پہلے بابر نے ایک ہندو مندر کو جو اجودھیا میں پایا جاتا تھا اور رام کا مندر کہلاتا تھا Demolish کر دیا، منہدم کر دیا اور اس کی جگہ ایک مسجد تعمیر کر دی جسے بابری مسجد کہا جاتا ہے.اس کے متعلق تاریخی حوالے کس حد تک مستند ہیں.یہ بحث ہندوستان کی ایک عدالت میں ابھی جاری ہے

Page 673

خطبات طاہر جلد ۹ 668 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء لیکن زیادہ تر بنیاد اس الزام کی ایک مسلمان درویش کی ایک رؤیا پر ہے جس نے یہ دیکھا تھا کہ بابری مسجد کے نیچے رام کا مردہ دفن ہے اور اس لئے یہاں پہلے ایک مندر ہوا کرتا تھا اور اس کی جگہ اب مسجد بنائی گئی ہے تو یہاں گویا کہ رام مدفون ہو گیا.کسی کی یہ رویا بھی بہت پرانی ہے.یہ وہ حوالہ ہے جس کی رو سے ہندوؤں نے اپنے عدالتی کیس کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے اور دیگر بھی بہت سی ایسی سندات پیش کرتے ہیں جن کی فی الحقیقت کوئی تاریخی حیثیت نہیں مگر بہر حال یہ تو عدالتی معاملہ ہے، اس میں زیر بحث ہے مگر قطع نظر اس کے کہ یہ دعوی سچ ہو یا جھوٹ ، چارسوسال پہلے کی تاریخ کو اگر اس طرح تبدیل کرنے کی آج کوشش کی جائے تو اس کو صرف اس اصول پر جائز سمجھا جاتا ہے جو مغربی طاقتوں کا اصول ہے کہ اگر غیر مسلم کریں تو جائز ہے، اگر مسلمان کریں تو جائز نہیں ہے.مسلمانوں کے لئے نہ اس وقت جائز تھا، نہ اب جائز ہے کہ اس عمارت کو اپنے پاس رکھیں اور ہندوؤں کے لئے یہ جائز ہے کہ جب چاہیں پرانی تاریخ کے حوالے سے آج کے قبضوں کی کیفیت بدل دیں اور آج کے جغرافیہ کو تبدیل کر دیں.پس ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے لئے بہت ہی بڑا خطرہ درپیش ہے لیکن یہ خطرہ دراصل ان خطرات سے زیادہ ہے جو جغرافیائی خطرات دیگر جگہوں پر در پیش ہیں.یہاں اسلام کی عظمت اور اسلام کی توحید کو خطرہ ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت اور خدا کی توحید کو ایک خطرہ درپیش ہے.وہ جگہ جہاں خدائے واحد کی عبادت کی جاتی تھی وہاں اب بے حقیقت اور ایسے بچوں کی عبادت کی جائے گی جو جن خداؤں سے وابستہ ہیں ان خداؤں کا ہی کوئی وجود نہیں.پس ایک خدائے واحد کی عبادتگاہ کو جو تو حید کی علمبر دار ہو بت خانوں میں تبدیل کرنا یہ محض ایک چھوٹا سا حادثہ نہیں بلکہ تمام اسلام کی بنیاد پر حملہ ہے اور اس کا جواثر ہے وہ ہندوستان پر بہت دور تک پھیلے گا اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا امن ظاہری طور پر بھی ہندوستان سے اُٹھ جائے گا اور بہت ہی خوفناک فسادات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گا جس کو روکا نہیں.جاسکے گا.بہر حال یہ ایک بہت ہی غیر معمولی جذباتی اور اعتقادی اہمیت کا معاملہ ہے جسے عالم اسلام کو سمجھنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی جور د عمل اس کے نتیجے میں پیدا ہونا چاہئے وہ اسلامی رد عمل ہونا چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ یہاں بھی ویسی ہی صورتحال ہے جیسا کہ عراق سے تعلق رکھنے والے مسائل کی ہے.ایک طرف ہم بنگلہ دیش پر نظر ڈالتے ہیں کہ اسے غصے میں کہ بعض ہندوؤں نے یا یوں کہنا

Page 674

خطبات طاہر جلد ۹ 669 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء چاہئے کہ لاکھوں ہندوؤں نے بابری مسجد پر حملے کی کوشش کی اور بعض اس میں داخل بھی ہو گئے اور پہلے سے نصب شدہ بُت کی وہاں عبادت بھی کی گئی ، انہوں نے بہت سے مندر جلا ڈالے اور منہدم کر دیئے اور بہت سے ہندوؤں کی املاک لوٹ لیں اور ان کا قتل و غارت کیا.کیا یہ اسلامی رد عمل ہے؟ یقینا نہیں.ناممکن ہے کہ اسلامی تعلیم کی رُو سے اس رد عمل کو جائز قرار دیا جائے.اسلام تمام دنیا کے مذاہب کی عظمت اور ان کی حرمت کی حفاظت کرتا ہے.عظمت کی حفاظت ان معنوں میں نہیں کہ ان کے سامنے اعتقادی لحاظ سے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اس لحاظ سے کہ جوان مذاہب کو عظیم سمجھتے ہیں ان کو قانونی تحفظات مہیا کرنے کی تلقین کرتا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں، چاہے باطل کو بھی عظیم سمجھیں وہ جس کو عظیم سمجھنا چاہتے ہیں عظیم سمجھتے رہیں.پس جہاں تک ان کے دلوں کا اور ان کے دلوں کے احترام کا تعلق ہے ان کی حفاظت کرنا دراصل ان مذاہب کی عظمت کی حفاظت کرنا ہے اور حرمت کی حفاظت اس طرح کرتا ہے کہ مسلمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسروں کے عبادت خانوں کو منہدم کرے اور ان کی جگہ خواہ مسجد بنائے یا کچھ اور تعمیر کر دے.یہ ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ دراصل پاکستان میں ہونے والے چند واقعات کا رد عمل ہے.جس طرح ہندوستان میں ہونے والے واقعات کا ایک رد عمل مشرقی بنگال میں یا یوں کہنا چاہئے کہ بنگلہ دیش میں ظاہر ہوا اور سندھ کے بعض علاقوں میں ظاہر ہوا اسی طرح ظلم کے رد عمل دوسری جگہ ہوتے رہتے ہیں اور ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں یہ حوالہ دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے.پاکستان میں بھی تو انتہاء پرست ملاں مذہب کے نام پر اپنے اقتدار کو غیروں پر قائم کرنے کا دعوی کرتا ہے اس لئے وہ ہند و پارٹی جو دراصل اس سارے فساد کی ذمہ دار ہے اس کے راہنما بار بار یہ حوالے دے چکے ہیں کہ اگر پاکستان کے ملاں کو یہ حق ہے کہ اسلام کے نام پر جن کو وہ غیر مسلم سمجھتا ہے ان کے تمام انسانی حقوق دبالے تو کیوں ہندومت ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ ہم ہندومت کے نام پر ہندومت کی عظمت کے لئے تمام مسلمانوں کے تمام بنیادی حقوق دبا لیں.چنانچہ ایک موقع پر گزشتہ الیکشنز میں اس نے یہ اعلان کیا کہ مسلمانوں کو میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ یا ہندوؤں کے اقتدار میں کلیہ ان کے حضور سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس ملک میں زندہ رہیں یا اپنا بوریا بستر لپیٹیں اور اس ملک سے رخصت ہو جائیں

Page 675

خطبات طاہر جلد ۹ 670 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء کیونکہ ہندوستان میں اس لیڈر کے نزدیک اب مسلمان اور اسلام کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی.یہ ویسا ہی اعلان ہے اور اس حوالے سے کیا گیا ہے جو پاکستان کے ملاں نے احمدیوں کے متعلق کیا.وہاں تو انہوں نے غیر مسلم ہوتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ، ان مسلمانوں کے خلاف یہ اعلان کیا جو دعویٰ کرتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں کسی ہندو فرقے کو زبر دستی مسلمان بنا کر ان کے خلاف یہ اعلان نہیں کیا اس لئے نا انصافی تو ہے لیکن اس نا انصافی کی جو بنیاد ہے اس بنیاد کے قیام میں کوئی نا انصافی نہیں.کھل کر انہوں نے یہ کہا کہ جو غیر ہندو ہے اس کے لئے ہمارے یہ جذبات ہیں مگر غیر ہندو کا فیصلہ غیر ہندو کرے گا.ہم زبر دستی بعضوں کو غیر ہندو قرار دے کر ان پر اپنے فیصلے نہیں ٹھونسیں گے.مگر پاکستان میں جو ظلم اور زیادتی ہوئی وہ اس سے بھی ایک قدم آگے ہے وہاں پہلے اسلام کے جانثاروں کو ، حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صداقت کا کلمہ پڑھنے والوں کو، خدا تعالیٰ کی توحید کا کلمہ پڑھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور پھر ان سے وہ تمام نارواسلوک کئے گئے جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا لیکن چونکہ انہوں نے غیر مسلم بنا کر ایسا کیا اس لئے غیر مسلم دنیا کے ہاتھ یہ بہانہ تو بہر حال آ گیا کہ پاکستان کا ملاں اسلام کی سند کو استعمال کرتے ہوئے جن کو غیر مسلم سمجھتا ہے ان سے یہ سلوک کرتا ہے تو ہم غیر مسلموں کو (اس میں وہ بہر حال ہند و شامل کرتے ہیں ) کہ ہم ہندوؤں کو پھر کیوں یہ حق نہیں ہے کہ ہم مسلمانوں سے جو چاہیں سلوک کریں.پس جب پاکستان میں مسجدیں منہدم کی جارہی تھیں اور چاروں صوبے اس بات کے گواہ ہیں کہ چاروں صوبوں میں خدائے واحد و یگانہ کی عبادتگاہوں کو جن میں خالص اللہ کی محبت اور اس کے عشق میں عبادت کرنے والے پانچ وقت اکٹھے ہوا کرتے تھے منہدم کر دیا گیا ، جب احمدیوں کی مساجد کو ویران کرنے کی کوشش کی گئی ، جب وہاں سے کلمہ توحید کا بلند ہونا ان کے جذبات پر ظلم کرنے کے مترادف قرار دیا گیا اس وقت ان کو کیوں خدا کا خوف نہیں آیا اور کیوں اس بات کو نہیں سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیرہ پھر ضرور ظالموں کو پکڑتی ہے اور ان کو اپنے کردار کی تصویر میں دکھاتی ہے.پس جو بد بختی ہندوستان میں ہو رہی ہے اور مسلمانوں پر جو عظیم مظالم توڑے جارہے ہیں اس کی داغ بیل پاکستان کے ملاں نے ڈالی ہے.یہ وہ مجرم ہے جو خدا کے حضور جوابدہ ہوگا.اس دنیا میں بھی آپ دیکھیں گے کہ ایک دن آئے گا جب یہ ملاں اپنے ظلم وتعدی کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور

Page 676

خطبات طاہر جلد ۹ 671 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء آخرت میں تو بہر حال ان کا رسوا اور ذلیل ہونا مقدر ہو چکا ہے سوائے اس کے کہ یہ تو بہ کریں.پس پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے اثرات غیر دنیا پر پڑتے ہیں، غیر دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اثرات دوسری دنیا کے حصوں پر پڑتے ہیں.غیر مسلم دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات اسلام کی دنیا پر پڑتے ہیں.غرضیکہ اس طرح یہ دنیا ایک ایسی دنیا نہیں ہے جو مختلف جزیروں کی صورت میں ایک دوسرے سے الگ رہ رہی ہو.ایک جگہ ہونے والے واقعات کا اثر موجوں کی طرح دوسرے حصے کے اوپر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور ظلم ہمیشہ ظلم کے بچے دیتا ہے.پس اگر ہم نے دنیا میں انصاف کو قائم کرنا ہے اور ہم ہی نے دنیا میں انصاف کو قائم کرنا ہے تو ہمیں ظلم کے خلاف جہاد کرنا ہوگا.ہمیں انصاف اور امن کے حق میں جہاد کرنا ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے: انصر اخاك ظالما او مظلوما جب پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! مظلوم بھائی کی تو ہم حمایت کریں، ظالم بھائی کی کیسے حمایت کریں؟ آپ نے فرمایا! ظلم سے ان کے ہاتھ روک کر ان کی حمایت کریں.( بخاری کتاب المظالم والغضب حدیث نمبر : ۲۲۶۳) پس جہاں جہاں بھی مسلمان ممالک نے یہ غلط رد عمل دکھایا ہے اور اسلام کے نام پر نہایت ہی کر یہ حرکات کی ہیں اور ہندوؤں کے مندروں کو لوٹا یا منہدم کیا ہے ان کے ظلم سے ہاتھ روکنا ہمارا کام ہے اور یہی ان کی مدد ہے اور جہاں جہاں مظلوم مسلمان غیروں کے ظلم کی چکی میں پیسے جارہے ہیں وہاں جس حد تک بھی ممکن ہے ان کی مدد کرنا یہ بھی عین اسلام ہے اور اسی کا حکم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اس لئے احمدیوں کو ہر دو محاذ پر جہاد کے لئے تیار ہونا چاہئے.سچا رد عمل تو یہ تھا کہ ایسے موقع پر سب سے پہلے تو تمام غیر مذاہب کے عبادت خانوں کی حفاظت کے لئے تمام مسلمان ممالک تیار ہو جاتے اور ہندوستان کے سابق وزیر اعظم وی.پی.سنگھ سے نصیحت پکڑتے.وہ ایک عظیم راہنما ہے اگر چہ وہ اب طاقت پر فائز نہیں لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی حق پرستی کی تعریف کی جائے.ہندوستان کی بہت ہی بڑی بدنصیبی ہے، ایک تاریخی بدنصیبی ہے کہ اتنے عظیم الشان را ہنما کی راہنمائی سے محروم ہو گیا جس کے پیچھے چل کر ہندوستان کی کھوئی ہوئی ساری عظمتیں مل سکتی تھیں کیونکہ وہ راہنما جو حق پرست ہو اور حق کی خاطر اپنے مفادات کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو، آج کی دنیا میں قوم کو اس سے بہتر کوئی اور لیڈر میسر نہیں آسکتا.دو باتیں وی.پی.سنگھ

Page 677

خطبات طاہر جلد ۹ 672 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء صاحب نے ایسی کیں جن کی وجہ سے میرے دل میں ان کی بہت ہی عزت قائم ہوئی اور محبت قائم ہوئی اور میں دعا کرتا رہا کہ اللہ کرے کہ دنیا کے دیگر راہنما بھی اس طرح حق پرست بن جائیں.سب سے پہلے تو لاکھوں اور کروڑوں مظلوم اچھوتوں کے لئے یہ تن تنہا کھڑے ہو گئے اور اپنی پارٹی کے ان لیڈروں کے اختلاف کو بھی چیلنج کیا جو ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتے تھے اور تمام ملک میں یہ قانون رائج کیا کہ وہ اچھوت جو ہزاروں سال سے مظلوم چلے آ رہے ہیں ان کے حقوق کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے لئے حکومت میں نوکریوں کے تحفظات دیئے جائیں اور ایک خاص فیصد مقرر کر دی گئی کہ اتنی فیصد تعداد کی نسبت کے لحاظ سے لازماً اچھوت قوموں کے لئے حکومت کی ملازمتیں ریز رور کبھی جائیں گی.یہ ایک بہت بڑا قدم تھا اور ایسے ہندوستانی ملک میں یہ قدم اُٹھانا جہاں ایک لمبے عرصے سے اونچی ذات کا قبضہ رہا ہو، جہاں ان کا مذہب انہیں کہتا ہو کہ اونچی ذات کے حقوق زیادہ ہیں اور نچلی ذات کے کوئی بھی حقوق نہیں ، ایک بہت غیر معمولی عظمت کا مظاہرہ تھا جو بہت کم دنیا کے لیڈروں کو نصیب ہوتی ہے.پھر یہی نہیں بلکہ جب اس کے خلاف ایک شور برپاہوا تو سینہ تان کے اس کا مقابلہ کیا اور کوئی پرواہ نہیں کی کہ اس کے نتیجے میں اقتدار ہاتھ سے جاتا ہے کہ نہیں.ابھی یہ شور و غوغا کم نہیں ہوا تھا کہ ان کے خلاف سازشیں کرنے والوں نے بابری مسجد کے تنازعہ کو زیادہ اُچھالنا شروع کیا اور لاکھوں کروڑوں ہندو اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ وہ بابری مسجد کی طرف کوچ کریں گے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور وہاں وہ پرانا تاریخی لحاظ سے موجود یا غیر موجود جو بھی شکل تھی رام کے مندر کی دوبارہ تعمیر کریں گے.اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنا اور ہندو فوج کی اکثریت کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ اگر تمہارے ہم مذہب بھی جتھہ در جتھہ یہاں حملہ کرنے کی کوشش کریں تو ان کو گولیوں سے بھون دولیکن مسجد کے تقدس اور ہندوستان کے قانون کے تقدس کی حفاظت کرو.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.بلا شبہ بہت سے ہندو ان کوششوں میں مارے گئے اور ہندو فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے ، ہند و پولیس کے ہاتھوں زدو کوب کئے گئے اور اس کے علاوہ بہت سے زخمی ہوئے ، بہت سے قید ہوئے.ان کے راہنما کو جو بہت بڑی طاقت کا مالک ہے اور جس کے اشتراک اور اتحاد کی وجہ سے ان کی حکومت قائم تھی ان کو قید کر دیا گیا.غرضیکہ یہ جانتے ہوئے کہ جس شاخ پر میں بیٹھا ہوا ہوں اسی شاخ کو کاٹ رہا ہوں.

Page 678

خطبات طاہر جلد ۹ 673 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء بیوقوفی کی وجہ سے نہیں بلکہ بہادری اور اصول پرستی کی خاطر اس عظیم راہنما نے گرنا منظور کر لیا، خواہ گر کر اس کی سیاسی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے خطرہ درپیش تھا لیکن کوئی پرواہ نہیں کی.پس ایسے راہنما جو انصاف کے نام پر کہیں بھی قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں، اسلامی تعلیم یہ ہے کہ ان کی عظمت کو تسلیم کیا جائے اور ان کی مدد کی جائے کیونکہ وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدہ:۳) میں کسی مذہب کے نام پر تعاون کا حکم نہیں بلکہ انصاف اور خدا خوفی کے نام پر تعاون کا حکم ہے.اچھی باتوں اور خدا خوفی کے نام پر تعاون کا حکم ہے.بہر حال یہ اب آنے والی تاریخ بتائے گی کہ ہندوستانی قوم نے کس حد تک ان واقعات سے نصیحت پکڑی ہے اور کس حد تک وہ اپنے سگوں کو اپنے سوتیلوں سے پہچانے کی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے مگر عالم اسلام کو ان کا ممنون ہونا چاہئے تھا.عالم اسلام کو ایسی صورت میں ہندوستان کی حکومت کو بلا وجہ تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اچھے کو تقویت دینی چاہئے تھی ، ان کے لئے لازم تھا کہ یہ اعلان کرتے کہ جو ہندوانتہاء پسند کر رہے ہیں سخت ظلم کر رہے ہیں اور ہم برداشت نہیں کریں گے لیکن ہندوستان کے وہ راہنما جو اس ظلم کے خلاف نبرد آزما ہیں اور کمزوری محسوس کرتے ہوئے بھی وہ سینہ تان کر اس کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں ہم ان کو ہر طرح سے تقویت دینے پر تیار ہیں.ہر طرح سے ان کی مدد کرنے پر تیار ہیں.یہ انصاف کی آواز تھی جو اسلام کی آواز ہے اور جہاں تک دھمکیوں کا تعلق ہے، یہ گیدڑ بھبھکیوں سے تو کبھی کوئی ڈرا نہیں.باقاعدہ تمام مسلمان ممالک کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے تھا اور ہندوستانی حکومت کو کوئی ٹھوس پیغام دینا چاہئے تھا.یہ بتانا چاہئے تھا کہ تمہارے مفادات اتنے گہرے اور اتنے قیمتی مفادات، اسلامی ممالک سے وابستہ ہیں کہ اگر تم نے بالآخر یہ حرکت ہونے دی تو تمہارے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا کیونکہ یہ بات انصاف کے خلاف نہیں ہے کہ کسی قوم سے اقتصادی بائیکاٹ اس لئے کیا جائے کہ اس نے جارحیت کا طریق اختیار کیا ہے.پس سزا دینے کے مختلف طریق ہوتے ہیں اور یہ سزا تو دراصل ایک ظلم کو روکنے کے لئے ذریعہ بنی تھی.صرف ایک کو یت کی چھوٹی سی سرزمین سے جس پر ایک اسلامی ریاست قائم تھی پانچ لاکھ ہندوستانی اپنے اقتصادی مفادات کو قربان کر کے واپس اپنے وطن جانے پر مجبور ہو گئے.اب اگر کویت میں پانچ لاکھ جمع تھے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سارے عالم اسلام میں کتنے ہندو مفادات اور کتنے ہندوستانی مفادات ہوں گے اور ہندوستان کی موجودہ اقتصادی

Page 679

خطبات طاہر جلد ۹ 674 خطبه جمعه ۹ رنومبر ۱۹۹۰ء حالت کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اتنے بڑے اقتصادی خطرے کومول لے.پھر حکومت جس کی بھی ہو کسی نام سے آئے وہ اسلامی قدروں کا جائز احترام کرنے پر مجبور کردی جاسکتی ہے.پس یہ جو معقول اور جائز طریق ہیں ان کو چھوڑ کر چند مندرجلا کر اور بھی زیادہ اسلام کو ذلیل ورسوا کرنا اور یہ ثابت کرنا کہ اس میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا کہ کسی کی عبادت گاہ کو منہدم کرو، جلاؤ ، رسوا اور ذلیل کرو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اگر فرق نہیں پڑتا تو پھر ایک مسجد سے کیا فرق پڑ جائے گا تو بہر حال یہ جو خطرات ہیں یہ بھی ایسے معاملات ہیں جن میں سوائے اسلامی فکر اور تقویٰ کے نور کے صحیح فیصلے نہیں ہو سکتے اور عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ جاہلانہ جذباتی رد عمل دکھانے کی بجائے متقیانہ ردعمل دکھائے جس میں طاقت ہوگی ، جو مفید ہوگا، جو اسلام کی بدنامی کی بجائے اسلام کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کا موجب بنے گا اور اس کے نتیجے میں کوئی فائدہ بھی حاصل ہوگا.جہاں تک پاکستان کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے بہت سے احمدی اس خیال میں پریشان دکھائی دیتے ہیں اور مجھے خطوط بھی ملتے ہیں کہ یہ وہ حکومت ہے جس میں وہ عناصر او پر آگئے ہیں جو احمدیت کے دشمن تھے اور ہیں لیکن جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو حکومت کے سر براہ ہیں اور جو اقتدار پر قابض ہوئے ہیں ان کے اور دعاوی ہمارے سامنے آ رہے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو مختصر بیان کروں ، پاکستان کی ذیلی مجالس کے ربوہ میں ہونے والے اجتماعات سے متعلق تازہ صورتحال سے آپ کو مطلع کرتا ہوں.تین چار دن پہلے کی بات ہے کہ Fax کے ذریعے اطلاع ملی کہ ہمارے ضلع کا ڈپٹی کمشنر کوئی غیر معمولی طور پر شریف معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہماری درخواست پر پہلی دفعہ نہ صرف بغیر کسی تردد کے لجنہ کے اجتماع میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دی بلکہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں بھی لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دے دی جو عجیب بات تھی اور بظاہر انہونی تھی اور انصار اللہ کے اجتماع میں بھی لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دے دی تو اس لئے ہم فوری طور پر یہ تیاریاں کر رہے ہیں.اس پر مجھے خیال آیا کہ اللہ اس ڈپٹی کمشنر پر رحم کرے، شریف بھی ہے اور سادہ بھی ہے.نہیں جانتا کہ کن حالات میں یہ اجازت دے رہا ہے مگر بہر حال یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ شریف بھی ہے اور بہادر بھی ہے اور خدا کرے یہی بات درست ہو.بہر حال انہوں نے اجازت دیتے وقت اس

Page 680

خطبات طاہر جلد ۹ 675 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء خیال کا بھی اظہار کیا کہ اب اگر کوئی تبدیلی ہو تو میں ذمہ دار نہیں ہوں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض سادگی نہیں تھی بلکہ جانتے تھے کہ اس حکم کو تبدیل کروایا جاسکتا ہے.چنا نچہ علماء فوری طور پر سیکرٹری وزارت مذہبی امور مرکزیہ سے ملے اور اس نے ان کو تعجب سے کہا کہ ہیں؟ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو یہ جرات کہ احمدیوں کو اپنے اجتماع کے لئے لاؤڈ سپیکر کی اجازت دے دے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، آپ بھول جائیں اس بات کو ، یہ ناممکن ہے.چنانچہ دو دن بعد ہی جماعت کو تحریری حکم مل گیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب معذرت کے ساتھ اطلاع کرتے ہیں کہ ان کو اپنا پہلا اجازت نامہ منسوخ کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں پہلے لجنہ کا اجتماع، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ اجتماع منعقد نہ کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ بغیر لاؤڈ سپیکر کے ہی خدام الاحمدیہ کا اجتماع منعقد کیا جائے.مگر آج ہی Fax ملی ہے کہ دوسرا حکم نامہ یہ ملا ہے کہ صرف لاؤڈ سپیکر کی اجازت ہی منسوخ نہیں کی جاتی بلکہ اجتماع منعقد کرنے کی اجازت بھی منسوخ کی جاتی ہے.اس وجہ سے ربوہ میں بہت ہی بے چینی ہے، تکلیف ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے Fax کے انداز سے ہی کہ احمدی نوجوان جو مقامی ہیں یا باہر سے آئے ہیں، اس وقت بہت کرب کی حالت میں ہیں.ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لمبے سفر ہیں.یہ اس قسم کے جو واقعات احمدیت کی تاریخ میں ہو رہے ہیں یہ بعض منازل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہمارا قیام ان منازل پر نہیں ہے.جو قافلے لمبے سفر پر روانہ ہوتے ہیں انہیں رستے میں مختلف قسم کے ڈاکوؤں، چوروں، اُچکوں، بھیڑیوں اور دیگر مخلوقات سے خطرات پہنچتے رہتے ہیں اور تکلیف پہنچتی رہتی ہے لیکن قافلوں کے قدم تو نہیں رُک جایا کرتے.ان کے گزرتے ہوئے قدموں کی گردان چہروں پر پڑ جاتی ہے جو ان کے خلاف غوغا آرائی کرتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور کچھ کاٹنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور تاریخ کی اس گرد میں ڈوب کر وہ ہمیشہ کے لئے نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں.ہاں ان مدفون جگہوں کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں تو آپ تو لمبے سفر والی قوم ہیں.ایسے لمبے سفر والی قوم ہیں جن کی آخری منزل قیامت سے ملی ہوئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ مسیح اور قیامت آپس میں ملے ہوئے ہیں تو بعض علماء نے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب ہے کہ مسیح کے آتے ہی قیامت آجائے گی.بڑی ہی جہالت والی بات ہے.مراد یہ تھی کہ مسیح کا زمانہ قیامت تک ممتد ہوگا.بیچ میں اور کوئی زمانہ نہیں

Page 681

خطبات طاہر جلد ۹ 676 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء آئے گا.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی مثال بھی قیامت کے ساتھ اسی طرح دی اور اپنی اور مسیح کی مثال بھی اسی طرح دی کہ ہم دونوں اس طرح اکٹھے ہیں جس طرح اُنگلیاں جڑی ہوئی ہیں تو یہ مطلب تو نہیں تھا کہ بیچ میں زمانہ کوئی نہیں آتا.مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ اس وقت تک ممتد ہوگا اور بیچ میں کوئی روک ایسی نہیں جو اس زمانے کو منقطع کر سکے اور پہلے کو دوسرے سے کاٹ سکے تو جس قوم کے اتنے لمبے سفر ہیں وہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکلیف محسوس کرنے لگے اور دل چھوڑنے لگے یہ بات تو کوئی آپ کو زیب نہیں دیتی.بات یہ ہے کہ اس نئی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اور ان کے ہاتھ میں اقتدار کی تلوار آئی تو کئی طرف سے خوف اور خطرہ کا اظہار کیا گیا لیکن اس حکومت کے سربراہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم شریف نواز لوگ ہیں، ہم شرافت کو نوازنے والے ہیں اور شرفاء کو ہم سے ہرگز کوئی خطرہ لاحق نہیں.غالبا ان ہی اعلانات کے اثر میں ایک شریف النفس ڈپٹی کمشنر نے وہ قدم اٹھایا جو اس نے اٹھایا لیکن دوسری طرف احمدیوں کے کانوں میں ایک اور آواز آرہی ہے اور وہ ملانوں کی آواز ہے.وہ کہتے ہیں تم اس آواز سے دھو کہ نہ کھانا، اقتدار کسی کے قبضے میں ہو ظلم اور تعدی کی تلوار ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہم جب چاہیں جس گردن پر چاہیں یہ تلوار اس پر گرا کر اس کو تن سے جدا کر سکتی ہے تو تم دیکھو کہ یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں آ گئی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں نے اس آواز کو سنا اور اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر کئی قسم کے اندیشے قبضہ کر گئے، کئی قسم کے تو ہمات میں وہ مبتلا ہو گئے اور اس وقت ایسی ہی کیفیت دکھائی دے رہی ہے.میں ان کو اسی مضمون کی ایک اور بات یاد کرانا چاہتا ہوں جس میں جو کچھ بھی میں نصیحت کر سکتا تھا اس کا بہترین خلاصہ بیان ہو گیا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک غزوہ کے موقع پر اپنے غلاموں سے بچھڑ کر اکیلے ایک درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے کہ آپ کی آنکھ ایک للکار کی آواز سے کھلی.ایک دشمن مسلمانوں سے نظر بچا کر آپ تک پہنچا اور آپ ہی کی تلوار اٹھا کر اس نے آپ کے سر پر سونتی اور کہا کہ اے محمد ابتا اب تجھے میرے ہاتھوں سے اور میری اس تلوار سے کون بچا سکتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی طرح اطمینان سے لیٹے رہے اور فرمایا: میرا خدا.( ترندی کتاب صفۃ القیامه حدیث نمبر : ۲۴۴۱)

Page 682

خطبات طاہر جلد ۹ 677 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۹۰ء کتنی عظیم بات ہے.تمام دنیا میں قیامت تک مومنوں پر آنے والے ابتلا ؤں کا ایک ہی جواب ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس وقت اس ظالم کو دیا اور ہمیشہ ہر مؤمن ہر ظالم کو یہی جواب دیتا رہے گا اور اگر یہ جواب نہیں دے گا تو اس کے بچنے کی کوئی ضمانت دنیا میں نہیں ہے.پس تم یہ نہ دیکھو کہ آج تلوار کس کے ہاتھ میں ہے تم یہ دیکھو کہ وہ ہاتھ کس خدا کے قبضے میں ہے.وہ باز و کس قدرت کے تابع ہیں جنہوں نے آج تمہارے سر کے اوپر ایک تلوار سونتی ہوئی ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تلوار پہلے گرے گی مگر ہمارا خدا جانتا ہے اور وہ گواہ ہے کہ تلوار گرانے والوں پر اس کے غضب کی بجلی پہلے نازل ہوگی اور وہ ہاتھ شل کر دئیے جائیں گے جو احمدیت کو دنیا سے مٹانے کے لئے آج اٹھے ہیں یا کل اٹھائے جائیں گے.اس تقدیر کو دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.گزند پہنچیں گے تکلیفیں پہنچیں گی.قرآن فرماتا ہے کہ ایسا ہو گا.روحانی اور جذباتی طور پر تم کئی قسم کی اذیتیں پاؤ گے لیکن اگر تم ثابت قدم رہو اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے جواب پر ہمیشہ پوری وفا اور توکل کے ساتھ چھٹے رہو کہ اے تلوار اٹھانے والے دشمن ! جس طرح کل میرے خدا نے خدا والوں کو تیری تلوار سے نجات بخشی تھی اور اپنی حفاظت میں رکھا تھا، آج بھی وہی زندہ خدا ہے.اسی کی جبروت کی قسم کھا کر ہم کہتے ہیں کہ وہی خدا آج ہمیں تمہارے ظلم وستم سے بچائے گا.پس آپ کو اگر ان دعاوی سے تکلیف ہے تو مجھے ان احمدیوں کے اس رد عمل سے تکلیف پہنچی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ نعوذ بالله من ذلك یہ تلوار اب ان ہاتھوں میں آئی ہے کہ جو ضر وراحمدیت کا سر کاٹ کے رہیں گے.خدا کی قسم ایسا نہیں ہو گا.ہمیشہ ان ظالموں کی مخالفت نے احمدیت کی ترقی کے سامان پیدا کئے ہیں، نئے راستے کھولے ہیں.گزشتہ ابتلاؤں میں ضیاء کے گیارہ سال اس طرح کئے کہ ہرلمحہ اس کی چھاتی پر سانپ لوٹتے رہے مگر احمدیت کی ترقی کو وہ دنیا میں روک نہیں سکا اور آخر انتہائی ذلت کے ساتھ نامراد اور نا کام اس دنیا سے رخصت ہوا.پس تلواروں کے بدلنے سے تمہارے ایمان کیسے بدل سکتے ہیں.اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو اور ثابت قدمی دکھاؤ اور اللہ پر توکل رکھو اور یقین کرو کہ وہ خدا جس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے وہ خدا اور اس کے رسول ضرور غالب رہیں گے اور ضرور غالب رہیں گے اور ضرور غالب رہیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 683

Page 684

خطبات طاہر جلد ۹ 679 خطبہ جمعہ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء عالمی امن رحمتہ للعالمین میلے کے دست شفقت سے ہی مل سکتا ہے.آج امن عالم کو سب سے زیادہ خطہ عصبیت اور خود غرضی سے ہے ( خطبه جمعه فرموده ۶ ارنومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج امن عالم کو سب سے زیادہ خطرہ عصبیت اور خود غرضی سے ہے جو بد قسمتی سے اس وقت دنیا کے اکثر سیاستدانوں کے دماغوں پر راج کر رہی ہیں.سیاستدان خواہ مغرب کا ہو یا مشرق کا ، سیاہ فام ہو یا سفید فام، بالعموم سیاستدانوں کے ساتھ شاطرانہ چالیں اس طرح وابستہ ہو جاتی ہیں کی اخلاقی قدروں اور سیاست کے اکٹھا چلنے کا سوال نہیں رہتا.صرف ایک اسلام ہے جس کی سیاست شاطرانہ چالوں سے پاک ہے اور وہی اسلامی سیاست ہے ورنہ یہ کہہ دینا کہ اسلام ہمارا دین ہے اور ہماری سیاست ہے اور سیاست کی اقدار کو اسلام سے الگ کر دینا یہ ایک غیر حقیقی بات ہے.اس میں کوئی سچائی نہیں ہے.اسلامی سیاست کا فی الحال دنیا میں کہیں کوئی نمونہ دکھائی نہیں دے رہا خواہ وہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ممالک ہوں ہر جگہ سیاست کا ایک ہی رنگ ڈھنگ ہے اور سیاست پر خود غرضی حکومت کر رہی ہے.اصولوں سے الگ عصبیتیں حکومت کر رہی ہیں.پس سب سے بڑا خطرہ دنیا کو عصبیت سے اور خود غرضی سے لاحق ہے.جب روس اور امریکہ کے درمیان یہ صلح کا انقلابی

Page 685

خطبات طاہر جلد ۹ 680 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء دور شروع ہوا تو دنیا کے سیاستدانوں نے بڑی امید سے مستقبل کی طرف نظریں اٹھا ئیں اور یہ کہنا شروع کیا کہ اب امن کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے.حالانکہ یہ محض خوابوں میں اور جاہلانہ خوابوں میں بسنے والی بات ہے.ان نئے انقلابی حالات کے نتیجے میں کچھ فائدے بھی پہنچے ہیں لیکن کچھ نقصا نات بھی ہوئے ہیں اور ان نقصانات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مغرب اور مشرق کی نظریاتی تقسیم کے نتیجے میں جو عصبیتیں پہلے سے دبی ہوئی تھیں وہ اب ابھر کر سامنے آگئی ہیں اور دن بدن زیادہ ابھر کر مختلف علاقوں میں کئی قسم کے خطرات پیدا کرنے والی ہیں.جب بہت بڑے بڑے خطرات درپیش ہوں، جب دنیا دو بڑے حصوں میں منقسم ہو تو بہت سے چھوٹے چھوٹے خطرات اُن خطرات کے سائے میں نظر سے غائب ہو جایا کرتے ہیں یا بعض دفعہ دب جاتے ہیں، ایسا ہی بیماریوں کا حال ہے.بعض دفعہ ایک بڑی بیماری لاحق ہو جائے تو چھوٹی چھوٹی بیماریاں پھر ایسے انسان کو لاحق نہیں ہوتیں اور جسم کی توجہ اس بڑی بیماری کی طرف ہی رہتی ہے.پس بنی نوع انسان کے لئے جو خطرات اب اُبھرے ہیں وہ اتنے وسیع ہیں اور اتنے بھیا نک ہیں کہ جب تک ہم ان کا گہرا تجزیہ کر کے ان کے خلاف آج سے ہی جہاد نہ شروع کریں اس وقت تک یہ خیال کر لینا کہ ہم امن کے ایک دور میں ہیں ، امن کے گہوارے میں منتقل ہورہے ہیں یہ درست نہیں ہے بلکہ آنکھیں بند کر کے خطرات کی آگ میں چھلانگ لگانے والی بات ہوگی.میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.تاکہ تمام دنیا میں جماعت احمد یہ خصوصیت کے ساتھ ہر ملک میں جہاں بھی جماعت احمد یہ موجود ہے، اس کے دانشوروں تک یہ پیغامات پہنچائیں.انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور ان پر جہاں تک ممکن ہے اخلاقی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے ملکوں میں ان خطرات کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنی اپنی رائے عامہ کو علمی روشنی عطا کریں اور ان کو بتائیں کہ دنیا کو اس وقت کیا کیا خطرات درپیش ہیں.آج اگر توجہ نہ کی گئی تو کل بہت دیر ہو جائے گی.عراق کے جھگڑے میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ نہیں تھی کہ ایک ظلم کے خلاف ساری دنیا متحد ہوگئی ہے.اس حقیقت کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے کہ دیکھو روس اور امریکہ کی صلح کے نتیجے میں یا ان دو بلا کس کے قریب آنے کے نتیجے میں اب ساری دنیا خطرات کا نوٹس لے رہی ہے اور امن عامہ کو جہاں بھی خطرہ در پیش ہوگا وہاں سب دنیا اکٹھی ہو کر اس خطرے کے مقابلے

Page 686

خطبات طاہر جلد ۹ 681 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء پر متحد ہو جائے گی ، یہ بات درست نہیں ہے.میں خطرات کی بعض مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گا جو اس سے بہت زیادہ بھیانک خطرات ہیں جو عراق کی صورت حال سے دنیا کے سامنے آئے ہیں اور ان سے نہ صرف آنکھیں بند کی جارہی ہیں بلکہ لمبے عرصے سے آنکھیں بند کی گئی ہیں اور آئندہ بھی کی جائیں گی.یہاں تک کہ بعض قوموں کے خود غرضی کے مفادات ان خطرات کی طرف انہیں متوجہ ہونے پر مجبور کریں گے.قوموں میں نسلی خطرات اور لسانی اختلافات کے خطرات اور مذہبی اختلافات کے خطرات اور تاریخی جھگڑوں کے خطرات اور اس طرح کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں ہم خطرات کو تقسیم کر سکتے ہیں اور ان کی مثالیں جب سامنے رکھتے ہیں تو ایک انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کتنے بڑے آتش فشاں مادے ہیں، کتنے بھیا نک آتش فشاں مادے ہیں جو ساری دنیا میں جگہ جگہ دبے پڑے ہیں اور کسی وقت بھی ان کو چھیڑا جاسکتا ہے.چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مذہبی سیاسی خطرات میں سے ہندوستان کی مثال آپ کے سامنے ہے.وہاں پہلے سکھ قوم نے اپنے مذہب کی بناء پر ایک قومی تشخص اختیار کرتے ہوئے ہندوستان کی دیگر قوموں سے علیحدگی کا مطالبہ کیا.یہ مطالبہ پاکستان کے تصور سے کچھ ملتا جلتا مطالبہ ہے.لیکن خالصہ سیاسی مطالبہ نہیں تھا بلکہ مذہب اور سیاست نے مل کر ایک عصبیت کو پیدا کیا اور اس عصبیت کے نتیجے میں باقی قوموں سے اس ملک میں علیحدگی کا ایک رجحان پیدا ہوا.اس کے برعکس اس کو دبانے کے لئے بھی عصبیتیں ابھری ہیں، اور اس جھگڑے میں دونوں طرف سے کسی نے بھی نہ مطالبہ کیا ہے کہ آپس میں مل بیٹھ کر انصاف کے تقاضوں کے مطابق ان جھگڑوں کو طے کریں اور یہ دیکھیں کہ کس حد تک انصاف اور حسن سلوک کے نظریے کے تابع یہ معاملات طے ہونے چاہئیں اور خطرات اگر سکھوں کو درپیش ہیں تو ان کا ازالہ ہونا چاہئے لیکن دونوں طرف سے یہی آواز بلند کی جارہی ہے کہ سکھ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ رہنا ہمارے لئے خطرہ ہے.ہمارے مذہبی قومی تشخص کو ہندوستان کے ساتھ رہنا ہمیشہ کے لئے مٹا دے گا اور ہندوستان کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس آواز کو اگر ہم نے تسلیم کر لیا تو ہندوستان پھر اس طرح ٹکڑوں میں تقسیم ہونا شروع ہو جائے گا کہ اس کو پھر روکا نہیں جاسکتا.دونوں آوازوں میں بڑاوزن معلوم ہوتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگر آخری وجہ تلاش کی جائے تو

Page 687

خطبات طاہر جلد ۹ 682 خطبہ جمعہ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں طرف خود غرضیاں بھی ہیں اور دونوں طرف عصبیتیں بھی ہیں.ہندوستان نے تقسیم ہند کے بعد چھوٹی قوموں سے جو سلوک کیا ہے اس میں عصبیتوں نے بہت کام دکھائے ہیں ، بہت کردار ادا کیا ہے.ہندو بھاری اکثریت ہے اور باوجود اس کے کہ ہندوستان کی ریاست مذہبی نقطہ نگاہ پر قائم نہیں ہوئی ہے، لیکن ہندو نے ایک قومیت اختیار کر لی ہے اور اپنی کثرت اور.اکثریت کی بنا پر جو قوت ہندو کے ہاتھ میں ہے ، اس قوت میں باقی چھوٹی قو میں شریک نہیں رہی ہیں اور فیصلے کی تمام تر طاقتیں ہندوؤں کے ہاتھ میں رہی ہیں.خواہ وہ اپنی حکومت کو سیکولر کہتے چلے جائیں مگر امر واقعہ یہی ہے اور ہندوؤں ہی میں صرف ہندؤں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ہندوؤں کے ایک طبقے کے ہاتھ میں رہی ہیں.جسے ہم برہمن طبقہ یا اونچی ذات کا طبقہ کہتے ہیں.یہ وہ عصبیتیں تھیں جنہوں نے پھر آگے جھگڑوں کو جنم دیا ہے.بنیادی طور پر سیاست کا فر ماتھی لیکن اس بنیاد کے نیچے حقیقت میں عصیتیں دبی پڑی تھیں اور ان عصبیتوں نے اس عمارت کو ضرور ٹیڑھا بنانا تھا جو عصبیتوں کے اوپر قائم کی جارہی تھی.پس ہندوستان میں اس وقت ہمیں جو بہت سے خطرات نظر آ رہے ہیں اس کی آخری وجہ عصبیت ہے اور انصاف سے ہٹ کر خود غرضی کے نتیجے میں فیصلے کرنے کا رجحان ہے.چنانچہ دیکھیں، اب جو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیاں تفریق ہونا شروع ہوئی ہے اور بہت گہری Rift پڑ چکی ہے بہت گہری دراڑیں پڑ گئی ہیں.اس کی بنا ہندو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عصبیت ہے اور مسلمان کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی عصبیت ہے.اسی طرح لسانی لحاظ سے ہندوستان میں جو خطرات ابھر رہے ہیں ان میں بھی دراصل عصبیتیں کام کر رہی ہیں.جنوبی ہندوستان اس احساس محرومی میں مبتلا ہو رہا ہے کہ شمالی ہندوستان کی قومیں جو ہندی سے زیادہ آشنا ہیں یا سنسکرت سے کسی حد تک آشنا ہیں وہ سارے ہندوستان پر حکومت کر رہی ہیں اور ہندوستان میں جو تقریبا ۱۵۰۰ از بانیں بولی جاتی ہیں ان زبانوں سے منسلک قوموں کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا یعنی وہ تو میں جن کی یہ زبانیں ہیں، ان سب کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا.تو ہندوستان کی ہر تقسیم کے پیچھے دراصل پس منظر میں عصبیت اور خود غرضی دکھائی دے گی.ان کے نام مختلف ہو جائیں گے کہیں لسانی جھگڑے نظر آئیں گے، کہیں مذہبی جھگڑے نظر آئیں گے، کہیں قومی جھگڑے نظر آئیں گے، کہیں ذات پات کے جھگڑے نظر آئیں گے.کہیں چھوٹی ذات کا ہندو جو ہے وہ

Page 688

خطبات طاہر جلد ۹ 683 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء ہزاروں سال سے اونچی ذات کے ہندو کے مظالم کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ان کی چکی کے اندر پیسا جارہا ہے اور اس کو کوئی انسانی شرف نصیب نہیں ہو سکا.اس قدر ظالمانہ سلوک ہے یعنی عملاً سلوک کی بات نہیں میں کر رہا.فلسفیاتی اور نظریاتی تفریق ایسی ہے کہ اس کے نتیجے میں ادنیٰ قو میں جو ہیں وہ کسی انسانی شرف کی مستحق ہی نہیں ہیں.حال ہی میں وی.پی سنگھ صاحب کی جو حکومت ٹوٹی ہے اس کے ٹوٹنے کی وجہ حقیقت میں یہی ہے کہ انہوں نے عصبیتوں کے خلاف آواز بلند کی تھی.انہوں نے انصاف کے حق میں جھنڈا بلند کیا تھا اور باوجود اس کے کہ خود اونچی قوم سے تعلق رکھتے تھے یعنی راجپوت قوم سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے چھوٹی قوموں کے حقوق دلانے کے لئے ایک عظیم مہم کا آغا ز کیا اسی طرح مسلمانوں کے مذہبی تقدس کی حفاظت کی.غرضیکہ یہ جو لڑائی ہندوستان میں اب شروع ہوئی ہے اس کے نام آپ کو مختلف دکھائی دیں گے.تفریقیں مختلف نہج کی ہوں گی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انصاف کی کمی اور عصبیت کا عروج یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جو سارے ہندوستان کے لئے ایک خطرہ بن کر ابھر رہی ہے اور یہ خطرہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے.برطانیہ جیسا ملک جو بظاہر بیسویں صدی کے ، اب تو اکیسویں صدی شروع ہونے والی ہے.بیسویں صدی کے آخری کنارے پر دنیا کے ممتاز ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے، یہاں آج تک عصبیتیں کام کر رہی ہیں.اور ان کی سیاست آج بھی عصبیتوں سے آزاد نہیں ہو سکی.آئر لینڈ میں مذہبی عصبیت سیاست کے ساتھ مل کر اپنے جوہر دکھا رہی ہے.دوسری قوموں کے اوپر حکومت کرنے کا جو تاریخی عمل ہے وہ باوجود اس کے کہ ہمیں رُکا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر واقعہ جاری ہے انگریز کی حکومت دنیا سے سمٹ کر بظاہر اب اپنے علاقے میں آچکی ہے لیکن انگریز کی تجارتی حکومت انگریز کے سیاسی نفوذ کی حکومت آج بھی سب دُنیا میں جگہ جگہ پھیلی پڑی ہے اور یہ عصبیت کہ ہمیں حق ہے کہ ہم دنیا پر راج کریں اور اُن کی اقتصادیات پر بھی حکومت کریں ، ان کے جغرافئے پر بھی حکومت کریں.ان کے سیاسی جوڑ تو ڑ پر بھی حکومت کریں اور ان کو اپنی خارجہ پالیسی پر آخری اور مکمل اختیار نہ ہو بلکہ عملاً ہم اُن کی خارجہ پالیسی طے کرنے والے ہوں.خواہ بظاہر دنیا ہمارے اور اُن کے درمیان اس کے اندر کوئی رشتہ نہ دیکھے لیکن اُصولی اور وسیع پیمانے پر جو خارجہ پالیسی بنائی جاتی ہے.یہ قو میں چھوٹی قوموں کو اس کے تابع دیکھنا چاہتی ہیں اور تب اُن کو پتا لگتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد نہیں

Page 689

خطبات طاہر جلد ۹ 684 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء ہے جب اپنی خارجہ پالیسی کو اس رنگ میں تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں جوان بڑی قوموں کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہو جاتی ہے.یعنی تجاوز اختیار کرنے لگتی ہے.یعنی عملاً یہ ہو رہا ہے کہ بڑی تو میں چھوٹی قوموں کی خارجہ پالیسی اس طرح بناتی ہیں کہ انہوں نے خود بعض دائرے مقرر کر لئے ہیں.ان دائروں کے اندر رہتے ہوئے یہ دوسری قوموں سے اپنے تعلقات اختیار کریں یا اُن میں تبدیلیاں پیدا کریں تو کوئی حرج نہیں لیکن جہاں ان دائروں سے باہر قدم رکھا وہاں ہم ضرور کوئی بہانہ ڈھونڈیں گے ان کے معاملات میں دخل دینے کا اور ان کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی.تو برطانیہ بھی بذات خود عصبیتوں کا بھی شکار ہے اور ان کی عصبیت طرح طرح کے مظالم دنیا پر بھی توڑ رہی ہے.نسلی عصبیتوں میں ہمیں مثال کے طور پر روس میں اس وقت بہت سے خطرات دکھائی دیتے ہیں.نسلی عصبیتوں کے لحاظ سے ترک قوم اس وقت ایسے تاریخی دور سے گزر رہی ہے کہ اس میں نئے نئے قسم کے خیالات اور اُمنگیں پیدا ہورہی ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس قوم نے آئندہ چند سالوں میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کرنی ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے بڑے عالمی تغیرات بر پا ہو سکتے ہیں یا کل عالم کے امن پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے.میں نے گزشتہ خطبے میں بتایا تھا کہ ترکوں کی اکثریت ترکی سے باہر بستی ہے اور نصف سے زیادہ اُن میں سے سوویت یونین میں رہتے ہیں.چنانچہ ترکی میں کل ترک ۴۴ ملین ہیں یعنی ۴ کروڑ ۴۰ لاکھ اور سوویت یونین میں ۴۲ ملین یعنی ۴ کروڑ اور ۲۰ لاکھ اِس طرح چین میں سے ملین گویا ان دونوں اشترا کی ملکوں میں بسنے والے ترک اپنی مجموعی طاقت کے لحاظ سے ترکی سے بھی زیادہ ہیں.ترکی میں بسنے والے ترکوں سے بھی زیادہ ہیں لیکن ان کا رجحان ان ملکوں کی طرف نہیں جن میں یہ رہتے ہیں.بلکہ تحرکی کی طرف ہے اور ترکوں کا رجحان بھی اب ان کی طرف ہے اور ان کی آنکھیں کھل رہی ہیں.میں جب پرتگال اور سپین کے دورے پر گیا تو دونوں جگہ بلغاریہ کے ایمبیسیڈ رز نے مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ملاقات کی اور اُن سے گفتگو کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ یہ دونوں ترکی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں چنانچہ زیادہ تفصیل سے جب چھان بین کی گئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ ترکی سے اس وجہ سے خائف ہیں کہ انہوں نے ماضی میں ترک قوموں پر کچھ زیادتیاں کی ہوئی ہیں اور اب جبکہ روس کی حفاظت کا سایہ اُن کے سر سے اُٹھ رہا ہے تو اُن کو خطرہ یہ ہے کہ ہم ترکی کے رحم وکرم پر

Page 690

خطبات طاہر جلد ۹ 685 خطبہ جمعہ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء چھوڑ دیئے جائیں گے اور ترک قوم اپنے تاریخی بدلے ہم سے لے گی.چنانچہ اس وقت تو مجھے علم نہیں تھا، یہاں آنے کے بعد جب میں نے مزید جستجو کی تو مجھے بلغاریہ کی پریشانی کی وجہ تو سمجھ میں آگئی.۱۹۸۹ء میں یعنی پچھلے سال بلغاریہ نے بلغاریہ کے اندر بسنے والے ترکوں پر اتنے مظالم کئے کہ ایک ہی سال میں لا کھ ترک بلغاریہ سے ہجرت کر کے ترکی چلے گئے.پس قومی عصبیتیں نہ صرف اس دور میں قائم ہیں بلکہ روس کے اندر برپا ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں ابھر رہی ہیں.پس بہت ہی جاہل انسان ہو گا جو یہ کہہ دے کہ دنیا ایک بڑے امن کے دور میں داخل ہورہی ہے.بڑی بڑی جنگوں کے خطرے ٹل گئے ہیں.عملاً یہ دبے ہوئے خطرے ہیں اب سر نکال رہے ہیں.اس طرح آرمینیا اور ترکی کے درمیان دیرینہ مخالفتیں ہیں اسی طرح آذربائیجان جو روس کا ایک علاقہ ہے اور آرمینیا ان دونوں کے درمیان تاریخی مخاصمتیں چلی آرہی ہیں اور جو ترک روس میں بستے ہیں اُن میں بھی آپس میں ایک دوسرے سے اختلافات ہیں اور اُزبک ترک باقی ترکوں سے الگ اپنی ایک شخصیت کے متقاضی ہیں اور ان کو خطرہ ہے کہ اگر ہم روس کے دوسرے ترکوں کے ساتھ ملا دئے گئے تو ہماری شخصیت اس میں کھوئی جائے گی اور ہم اُن سے مغلوب ہو جائیں گے اور اُزبکستان اور ساتھ کے ہمسایہ ترک صوبوں میں لمبے عرصہ سے لڑائیاں جاری ہیں اور اختلافات ہیں.جہاں تک نسلی تعصبات کا تعلق ہے اُن میں ہمیں اب افریقہ پر نظر کرنی چاہیئے.دراصل یہ افریقہ میں جتنے بھی اختلافات ہیں اور خطرات ہیں اس کا پس منظر جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا، مغربی قوموں کا افریقہ پر تسلط ہے جس نے ماضی میں کئی قسم کے رنگ دکھائے اور قوموں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا.ایک زبان بولنے والوں کو الگ الگ کیا.قبائل کی اس طرح تقسیم کی کہ ملک کے اندر بھی اختلافات دبنے کی بجائے اور زیادہ نمایاں ہو کر اُبھرنے لگے اور اب موجودہ حالت میں افریقہ میں ایسے خطرات درپیش ہیں کہ پہلے اگر روس اور امریکہ کی رقابت کے نتیجے میں بعض قوموں کو بعض قوموں کے خلاف تحفظات حاصل ہو گئے تھے، اب وہ تحفظات قائم نہیں رہ سکتے تھے اور کچھ عرصے کے بعد ان کے اندرونی جھگڑے رنگ لانے لگیں گے.چنانچہ لائبیریا میں جو کچھ ہوا ہے یہ دراصل اسی کا نتیجہ ہے.اس سے پہلے لائبیریا پر مغربی قوموں کی بڑی گہری نظر رہتی تھی اور اختلافات جو قومی اختلافات تھے اُن کو یہ لوگ کسی حد تک سنبھالے ہوئے تھے.لیکن جب روس اور امریکہ کی

Page 691

خطبات طاہر جلد ۹ 686 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء رقابت ختم ہوئی تو اچانک وہ خطرے اُٹھ کھڑے ہوئے اور سارے افریقہ میں اب جمہوریت کے نام پر Multi Party سسٹم کو نافذ کرنے کے لئے آوازیں اُٹھنی شروع ہوئی ہیں.تو سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی افریقہ مختلف خطرات کا شکار ہے یعنی سیاسی نقطہ نگا سے مراد یہ ہے کہ کونسا سیاسی نظام وہاں جاری ہونا چاہئے ، اس نقطہ نگاہ سے بھی قومی نقطہ نگاہ سے بھی اور قوموں کے درمیان سرحدی جھگڑوں کے لحاظ سے بھی اور بد قسمتی سے مذہبی نقطہ نگاہ سے بھی کئی قسم کے خطرات درپیش ہیں اور مشکل یہ ہے کہ اُن خطرات کو دور کرنے کے لئے کوئی اجتماعی کوشش ابھی شروع ہی نہیں کی گئی.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ جب کہتے ہیں کہ ہم نے ساری دنیا کو اکٹھا کر کے عراق کے خطرے کی طرف متوجہ کر دیا اور بہت ہی عظیم الشان کارنامہ ہوا ہے امن عالم کے قیام کے سلسلہ میں تو محض فرضی باتیں ہیں اور جھوٹے حقیقت سے خالی دعوے ہیں.یہ سارے خطرات جو میں نے آپ کو دکھائے ہیں یہ چند نمونے ہیں.بے شمار خطرات اس نوعیت کے ہیں جو آتش فشاں مادہ کی طرح جگہ جگہ دبے بڑے ہیں.بعض میں سرسراہٹ پیدا ہورہی ہے اور وہ پھٹنے پر تیار بیٹھے ہیں اور بعض کچھ وقت کے بعد پھٹیں گے.لیکن جو تفریقیں ہیں یعنی قومی ،لسانی، مذہبی، یہ تفریقات اپنی جگہ کھل کھیلنے کے لئے تیار بیٹھی ہیں.میں چند نمونے آپ کے سامنے اور رکھتا ہوں.گر یک اور ٹرکش یعنی یونانی اور ترک قوم کے دیرینہ اختلافات جو نیٹو کی وجہ سے دبائے گئے تھے یعنی گریس (Greece) بھی مغربی ملک تھا اور ترکی بھی ایک حصے میں مغربی ہونے کے لحاظ سے یعنی یورپین کہلانے کی وجہ سے نیٹو کا ممبر تھا اس لئے ان کے مفادات کا تقاضا تھا کہ جب تک روس کا خطرہ درپیش ہے ان کو آپس میں نہ لڑنے دیا جائے.لیکن وہ اختلافات دبے نہیں ختم نہیں ہوئے بلکہ کچھ عرصے کے لئے وقتی مفادات نے ان کو نظر انداز کئے رکھا لیکن موجود ہیں.اسی طرح آرمینیا کا میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا ہے.ہندوستان میں لسانی جھگڑے ہیں.سری لنکا میں لسانی تفریق کے نتیجے میں اور قومی تفریق کے نتیجے میں خوفناک جھگڑے ہیں.نسلی برتری کے اعتبار سے یہود کی طرف سے تمام دنیا کو آج بھی اسی طرح خطرہ ہے.جیسا کہ گزشتہ کئی ہزار سال سے رہا ہے اور یہودی قوم دنیا سے نسلی برتری کے تصور کو مٹانے میں بظاہر صف اول کا کردار ادا کر رہی ہے اور دنیا میں بہت

Page 692

خطبات طاہر جلد ۹ 687 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے.یہودیوں کی طرف سے کہ نسلی تقسیموں کو مٹانا چاہئے اور نسلی تعصبات کو مٹانا چاہئے ، یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ ان کو خطرہ ہے کہ نسل کے نام پر یہود کو کسی وقت بعض قو میں اپنے غضب کا نشانہ نہ بنالیں لیکن جہاں تک یہود کی غیر قوموں پر نسلی برتری کا تعلق ہے ان کا نظریہ ہٹلر کے نانسی نظریہ سے کسی طرح بھی کم نہیں بلکہ ان کے لٹریچر کا میں نے تاریخی طور پر مطالعہ کر کے دیکھا ہے.آج کا لٹریچر نہیں ، قدیم سے ، حضرت داؤد کے زمانے سے ان کے لٹریچر میں ایسا مواد ملتا ہے کہ گویا یہ قوم دنیا پر غالب آکر دنیا کو غلام بنانے کے لئے پیدا کی گئی تھی اور جب تک تمام عالم کو یہودی تسلط کے نیچے نہ لایا جائے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا.بات یہ بھی امن کی کرتے ہیں لیکن ایسے امن کی بات کرتے ہیں جو ان کے زاویہ نگاہ سے امن دکھائی دیتا ہے اور ساری دنیا کے زاویہ نگاہ سے فساد اور ظلم دکھائی دیتا ہے.پھر اسی طرح امریکہ میں نسلی برتری کا تصور آج بھی اسی طرح اپنے جوہر دکھا رہا ہے اگر چہ جہاں تک قانونی تحفظات کا تعلق ہے، امریکہ کے کالے لوگوں کو سفید فام قوموں کے ساتھ ایک مساوات عطا ہو چکی ہے لیکن نسلی تعصبات ان قوانین کے ذریعہ مٹانہیں کرتے.قوانین جو بھی ہوں نسلی تعصبات کا اپنا ایک قانون ہے جو رائج رہتا ہے اور باقی قوانین پر غلبہ پالیتا ہے.پس امریکہ سیاہ فام قوموں کی جو موجودہ حالت ہے اس کو سفید فام قوموں کے برابر سمجھنا انتہائی پاگل پن ہوگا.کسی پہلو سے بھی ان کو مساوات نصیب نہیں.ہر پہلو سے وہ اتنا پیچھے جاچکے ہیں اور اتنے دبائے گئے ہیں کہ ان کے اندر نفرتیں ابھر رہی ہیں.جب میں امریکہ گیا تو مجھے کسی نے یہ کہا کہ آپ کی جماعت بہت آہستہ پھیل رہی ہے اور بعض دوسرے جو مسلمان فرقے ہیں وہ ان کالے افریقنوں میں بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہورہے ہیں ، آپ بھی کوئی ایسی ہی ترکیب کریں.میں نے ان کو کہا کہ میں تو ایسی ترکیبوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے آیا ہوں.مذہب کے نام پر یہ ان کے اندر دبی ہوئی نفرتوں کو ابھارتے ہیں اور چنگاریوں کو آگ بناتے ہیں اور یہ ان کے مزاج کے مطابق بات ہے.اس لئے آج اگر احمدیت نفرت کی تعلیم دینا شروع کرے اور ان کے اندر جو احساس کمتری ہے اس سے کھیلنے لگے اور اس دبی ہوئی آگ کو شعلے بنانا چاہے تو جماعت احمد یہ اتنی منظم جماعت ہے کہ تمام دوسری جماعتوں سے سبقت لے جاسکتی ہے.دس پندرہ سال کے اندر سارے امریکہ کے کالوں پر

Page 693

خطبات طاہر جلد ۹ 688 خطبہ جمعہ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء جماعت احمدیہ قبضہ کر سکتی ہے.مگر ہمیں کسی عددی غلبے کی ضرورت نہیں.ہم ایسے عددی غلبے کے منہ پر تھوکتے بھی نہیں جس کے نتیجے میں قومیں قوموں سے نفرت کرنے لگیں اور امن جو ہے وہ جنگ کی آگ میں تبدل ہو جائے.اس لئے جماعت احمدیہ کا نظریہ بالکل مختلف نظریہ ہے ہمیں آج اگر غلبہ نصیب نہیں ہوگا تو دوسو سال کے بعد نصیب ہو جائے گا.چارسوسال ، ہزار سال کے بعد ہو جائے گا.لیکن وہ غلبہ نصیب ہوگا جو محمدرسول ﷺ کا غلبہ ہے.آپ کے خلق کا غلبہ ہے.آپ کی تعلیم کا غلبہ ہے جو قرآن کا غلبہ ہے.اسی غلبے کی ہمارے ذہنوں میں اور ہمارے دلوں میں قدرو قیمت ہے.باقی غلبے تو ظلم اور سفاکی کے غلبے ہیں شیطانیت کے غلبے ہیں، ہمیں ان میں کوئی د پیسمی نہیں بلکہ ہم ان کو مٹانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.ان سے ٹکرانے کے لئے ، ان سے تصادم کرنے کے لئے کھڑے کیا گیا ہے.پس یہ جو نسلی تفریقیں ہیں یہ امریکہ میں شمال میں بھی ملتی ہیں اور جنوب میں بھی ملتی ہیں.وہاں کے، ریڈ انڈینز کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو عملا صفحہ ہستی سے مٹائے جاچکے ہیں لیکن جنوبی امریکہ میں ریڈ انڈینز بڑی بھاری تعداد میں موجود ہیں بلکہ Latin یعنی لاطینی قوموں کے مقابلے پر بہت سے ممالک میں بھاری اکثریت میں موجود ہیں.اس کے باوجود ان کو اس طرح دبایا جا رہا ہے، اس طرح ان کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں دن بدن ان کے اندر تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے.اپنا انتقام لینے کے لئے ان کے اندر ایسی تحریکات چل رہی ہیں جس کے نتیجے میں آج نہیں تو کل وہاں کئی قسم کے دھماکے ہوں گے اور جو دھما کہ خیز رجحانات ہیں جن کے نتیجے میں جگہ جگہ بم چلائے جاتے ہیں معصوم شہریوں کی زندگی لی جاتی ہے.امن عامہ کو برباد کیا جاتا ہے.اس کو آپ باہر بیٹھے جتنا مرضی Condemn کریں، نفرت کی نگاہ سے دیکھیں ، اس کے خلاف تقریریں کریں جب تک ان وجوہات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو یہ باتیں پیدا کرتی ہیں اس وقت تک اس قسم کی Large Scale، وسیع پیمانے پر Condemnation سے اور ان پر تنقید کرنے سے تو یہ مسائل حل نہیں ہوں گے.پس نسلی تفریقوں کے نتیجے میں جو خطرات ہیں وہ بھی ساری دنیا میں جگہ جگہ پھیلے پڑے ہیں.یوگو سلاویہ میں دیکھیں چھ Republics ہیں اور ان چھ ریپبلک میں سے ہر ایک،ایک دوسرے سے غیر مطمئن اور ایک دوسرے سے دور بھاگنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں.دو خود مختار Republics ہیں جو

Page 694

خطبات طاہر جلد ۹ 689 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء کیتھولک مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں اور باوجود اشتراکیت کے لمبے دور کے کیتھولیزم Catholicism وہاں آج تک بڑی قوت سے موجود ہے یعنی سیاسی حیثیت میں قوت کے ساتھ موجود ہے مذہبی حیثیت سے پتا نہیں کس حد تک موجود ہے.ان میں سلوویکیا (Slovekia) اور کروشیا (Croatia) یہ دو بڑی بڑی ریپبلکس ہیں جو سب سے زیادہ امیر بھی ہیں ان کے اندر جو علیحدگی پسندی کے رجحانات ہیں یہ بڑے نمایاں ہو رہے ہیں.جنوب میں سربیا Serbia مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے اور اسی طرح ایک اور علاقہ ہے غالباً کسووو یا اس قسم کے نام ہیں ، مجھے کچھ صحیح تلفظ یاد نہیں مگر Albanian speaking جو بھی علاقے ہیں ان کی بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے پس وہاں مذہب جمع قومیت اور سابق میں ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک ، یہ چیزیں مل کر ان کو آزادی پر انگیخت کر رہے ہیں اور وہاں بھی تحریکات پیدا ہو رہی ہیں اور اس وقت یوگوسلاویہ کی مرکزی حکومت کو ان مسلمان علاقوں سے ایسے خطرات محسوس ہورہے ہیں کہ ان پر دن بدن زیادہ بختی ہورہی ہے اور باہر سے لوگوں کے لئے وہاں جانا اور زیادہ مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے.باقی جگہ نسبتا آزادی ہے ابھی ہم نے حال ہی میں ایک مرکزی وفد وہاں بھیجوایا تھا.ایک بڑی کتابوں کی نمائش میں شرکت کے لئے.تو انہوں نے بتایا کہ وہاں مسلمان علاقوں میں وہ نہیں جا سکے لیکن دوسرے علاقوں میں جہاں کچھ مسلمان بستے ہیں ان سے ان کا رابطہ ہو سکا.وجہ یہ تھی کہ وہاں آجکل بڑی سختی کی جارہی ہے.سپین میں علاقائی تفریق اور اس کے نتیجے میں بموں کے دھما کے ایک لمبے عرصے سے جاری ہیں اور وہ تنازعات ایسے ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو مستقل رہتا ہی ہے.جس طرح آئر لینڈ کا ناسور ہے.پھر بین الاقوامی سرحدی تنازعات ہیں.پھر ایسے تنازعات ہیں جس میں بعض قوموں نے بعض چھوٹی قوموں پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے علاقوں کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ ضم کر چکے ہیں.جہاں تک پرانے تاریخی معاملات ہیں، ان کو نہ بھی چھیڑیں اور حال ہی کی باتیں دیکھیں تو بڑے بڑے خطرات امنِ عالم کو اس قسم کے اختلافات کے نتیجے میں در پیش ہو سکتے ہیں.تنبت اور چین کا معاملہ ہے.اب چین نے تبت پر زبر دستی قبضہ کیا ہے اور ہندوستان نے بھی شور مچایا اور کوشش کی کہ تبت سے چین کو نکال سکے لیکن چین کی غالب قوت نے ہندوستان کی ایک نہیں چلنے دی اور جو تصویریں یہاں کے ٹیلیویژ نز پر تبت کے معاملے میں دکھائی جاتی ہیں ان سے

Page 695

خطبات طاہر جلد ۹ 690 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ کچی ہیں ، پرو پیگنڈا نہیں ہیں تو چینی قوم کی طرف سے تبت قوم کے اوپر بھی بڑے بڑے مظالم توڑے گئے ہیں.اب یہ بتائیے یعنی سوچئے اور غور کیجئے کہ عراق اگر کویت پر قبضہ کرتا ہے تو اس کا موازنہ تبت پر چین کے قبضے سے کیوں نہیں کیا جاتا جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ وہاں قومی اختلافات بھی ہیں نسلی اور مذہبی اختلافات بھی ہیں اور کئی قسم کے اختلافات ہیں، جنہیں کچلا گیا ہے.جن کے نتیجے میں ایک قوم کو کچلا گیا ہے یہاں تو ایک مسلمان ملک ہی ہے جس نے ایک ہمسایہ ریاست پر اس بنا پر قبضہ کیا کہ عملاً تو ان کے درمیان فرق کوئی نہیں ہے ، وہی عرب وہ ہیں ، وہی وہ ہیں.جیسے مسلمان یہ ہیں ویسے وہ مسلمان.لیکن تاریخی طور پر اور زیادہ پرانی تاریخ نہیں ، اس دور کی تاریخ میں ہی کو بیت عراق کا حصہ تھا اور انگریز حکومت نے اسے کاٹ کر جدا کیا تھا.میں ہرگز یہ تلقین نہیں کر رہا کہ اس قسم کی تاریخ کے گڑے مردوں کو اکھیڑا جائے.میں صرف آپ کو یہ دکھا رہا ہوں کہ بنی نوع انسان کا عراق کے خلاف اجتماع کسی تقویٰ اور انصاف پر مبنی نہیں ہے.اسرائیل جب دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیتا ہے اور اس قبضے کے نتیجے میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ اس سے امن عالم کو بڑا بھاری خطرہ درپیش ہو گیا ہے.پس خود غرضی ہے جو اس وقت دنیا پر حاکم ہے اور خود غرضی سے خطرات درپیش ہیں اور جو طاقتور بڑی قومیں ہیں ان کا رجحان یہ ہے کہ بہت سے خطرات کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر استعمال کرنے کے لئے یہ دبائے رکھتی ہیں اور اپنی سوچوں میں مزے لیتی رہتی ہیں کہ ہاں اگر فلاں شخص نے بد تمیزی کی یعنی فلاں لیڈر نے بد تمیزی کی یا فلاں قوم نے اپنے نئے پینترے دکھائے تو اس صورت میں ہم یہ جو وہاں دیا ہوا خطرہ ہے اس کو ابھار دیں گے اور اس آتش فشاں مادے کو چھیڑیں گے تاکہ پھر ان کو مزہ چکھا ئیں کہ اس طرح اختلافات ہوا کرتے ہیں.اب آپ دیکھیں کہ ایران نے جب امریکہ کے ساتھ سختی کا سلوک کیا.جماعت احمد یہ چونکہ انصاف پر مبنی ہے جماعت احمدیہ نے ہرگز ایک دفعہ بھی ایران کی اس معاملے میں تائید نہیں کی کہ امریکہ کے سفارت کاروں کو وہ اپنے قبضہ میں لے لیں.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے سفارت کاروں کا جو تقدس قائم فرمایا ہے اور اس بارے

Page 696

خطبات طاہر جلد ۹ 691 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء میں جو عظیم الشان تعلیم عطا کی ہے اس تعلیم سے انحراف کسی مسلمان حکومت کو زیب نہیں دیتا.پس ہم نے ان کی تائید نہیں کی لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ یکطرفہ ظلم تھا.امریکہ نے شاہ ایران کے ذریعے ایک لمبے عرصے تک ایسے مظالم توڑے ہیں ، ایران کے عوام پر اور اس طرح جبر و استبداد کا ان کو نشانہ بنایا گیا کہ اس کے نتیجے میں پھر دماغی توازن قائم نہیں رہتے.پھر جب انتقام کا جذبہ ابھرتا ہے تو وہ کہاں متوازن سوچوں کے ساتھ صحیح رستوں پر چلایا جا سکتا ہے.انتقام تو پھر اعتدال کی راہ نہیں دیکھا کرتا.وہ تو سیلاب کی صورت میں ابھرتا ہے اور سیلاب کبھی یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ دریاؤں کے رستوں کے اوپر بعینہ ان کی حدود میں چلیں.سیلاب تو کہتے ہی اس کو ہیں جو کناروں سے اچھلنے والا پانی ہوتا ہے.پس انتقام کے جذبے بھی کناروں سے اچھلتے ہیں اور ان کے نتیجے میں پھر یہ زیادتیاں ہوتی ہیں ، جیسے آپ نے دیکھیں لیکن اس پر جو انتقامی کارروائی پھر امیر ان کے خلاف کی گئی اس میں عراق کو استعمال کیا گیا اور عراق کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ عراق کا ایران سے ایک تاریخی سرحدی اختلاف پایا جا تا تھا اور دونوں قوموں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں تھا کہ کہاں ایران کی حدیں ختم ہوتی ہیں یا عراق کی ختم ہوتی ہیں اور ایران کی شروع ہوتی ہیں.وہ خطرات ہمیشہ سے ترقی یافتہ بیدار مغز قوموں کی نظر میں تھے.اس موقع پر ان کو استعمال کیا گیا.اس موقع پر عراق کو شہ دی گئی اور مدد کے وعدے دیئے گئے.میں نے جب پہلے اپنی کتاب Murder In The Name Of Allah میں یہ لکھا کہ سعودی عرب نے ان کی مدد کی تھی اور سعودی عرب نے ہی انگیخت کیا تھا تو بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ ثبوت کیا ہیں؟ یہ تو آپ کے اندازے ہیں.اب ثبوت سامنے آ گیا ہے.سعودی عرب ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہے کہ ایسا ظالم ملک ہے کہ ہم نے ہی تو اس کو لڑنے کی طاقت دی تھی.ہم نے ہی تو اسیران کے مقابل پر اس کی پشت پناہی کی تھی اور اب ہمیں آنکھیں دکھانے لگا ہے تو کھل کر یہ حقیقت دنیا کے سامنے آچکی ہے.میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ جو خطرات مختلف جگہوں پر دبے ہوئے ہیں اور بے شمار ایسی قسمیں ہیں ان دبے ہوئے خطرات کی کشمیر کا جھگڑا بھی ان ہی میں شامل ہے اور بہت سے جھگڑے ہیں.ان دبے ہوئے خطرات کو یہ تو میں دیکھتی ہیں اور اس کے با قاعدہ جس طرح جغرافیہ میں نقشے بنائے جاتے ہیں کہ کہاں کہاں کون کون سی معدنیات دفن ہیں اسی طرح سیاست کے نقشے بھی بنے

Page 697

خطبات طاہر جلد ۹ 692 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء ہوئے ہیں.یہ جو بیدار مغز، تعلیم یافتہ ترقی یافتہ قومیں ہیں ان کے ہاں با قاعدہ ان کے نقشے موجود ہیں اور ان کو علم ہے کہ کس وقت کس خطرے کو ابھارنا ہے اور کس بم کو چلانا ہے اور دھما کہ پیدا کرنا ہے اور یہ جو نیتیں ہیں یہ ساری انتقامی کارروائیوں کی غرض سے خاموشی سے ان کے ذہنوں میں موجود رہتی ہیں.ظاہر اس وقت ہوتی ہیں جب ان کے خود غرضانہ مفادات ان کو ظاہر ہونے پر مجبور کر دیں.ورنہ ذہنوں میں موجود ہیں اور مغربی ڈپلومیسی کا حصہ ہیں.افسوس یہ مسلمان ممالک بھی اسی سیاست میں مبتلا ہو چکے ہیں.افسوس یہ ہے کہ ہند وممالک بھی اسی سیاست میں مبتلا ہو چکے ہیں اور بدھسٹ ممالک بھی اسی سیاست میں مبتلا ہو چکے ہیں.ساری دنیا پر اسی ظالمانہ سیاست نے قبضہ کر لیا ہے.جس کے اوپر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ خود غرضی راج کر رہی ہے، نا انصافی راج کر رہی ہے.ان خطرناک رجحانات کا جب تک قلع قمع نہ کیا جائے اس وقت تک دنیا امن میں نہیں آسکتی اور جنگ کے سائے دنیا کے اوپر سے نہیں ملیں گے بلکہ اب جبکہ روس اور امریکہ میں صلح ہو چکی ہے، یہ چھوٹے چھوٹے خطرات زیادہ قوت کے ساتھ ابھریں گے اور ان کو اب آتش فشاں پہاڑوں کی طرح جاگ کر آگ برسانے سے کوئی دنیا میں روک نہیں سکے گا کیونکہ جب دنیا کی بعض اور عظیم قوموں کے مفادات یہ چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں چھیڑ خانی چلی جائے.غالب کہتا ہے : (دیوان غالب : ۲۳۹) یار سے چھیڑ چلی جائے اسد گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی اب یہ جو بڑی تو میں آپس میں خوباں نہیں تھیں اس وقت بھی ان کی چھیڑ میں جاری تھیں.اب ان کی صلح ہوگئی ہے تو یہ چھوٹی چھوٹی قو میں ان کے لئے خوباں بن گئی ہیں.ان کے ساتھ وصل تو ان کو نصیب نہیں ہو سکتا.حسرتوں کی چھیڑ خانی اب باقی رہ گئی ہے.اب یہ جو مضمون ہے، سو فیصدی تو کچھ شعر اطلاق نہیں پاتے اس لئے اسے کچھ تھوڑ اسا حالات پر چسپاں کرنے کے لئے مجھے مولد Mold کرنا پڑے گا.یہ حسرتوں کی چھیڑ خانی جب محبوب اور عاشق کے درمیان ہوتی ہے تو مارا تو ہمیشہ عاشق ہی جاتا ہے.کیونکہ محبوب طاقتور ہوتا ہے اور عاشق کمزور ہوتا ہے.معشوق کو عاشق پر ہمیشہ غلبہ رہتا ہے.لفظوں کی تفریق ہی یہ بتا رہی ہے کہ معشوق وہ ہے جو عاشق پر حکومت کرے.تو یہاں عشق اور معشوق کا معاملہ تو نہیں ہے مگر غلبے اور مغلوبیت کا معاملہ ضرور ہے.طاقت

Page 698

خطبات طاہر جلد ۹ 693 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء اور کمزوری کا تعلق ضرور ہے.پس یہاں اگر خوباں سے چھیڑ چلے گی تو حسرت ہمیشہ کمزور کے حصے میں آئے گی.حسرت کبھی محبوب کے حصہ میں نہیں آیا کرتی حسرت ہمیشہ محبت کرنے والے کے حصہ میں آیا کرتی ہے.پس بہت سی حسرتیں ایسی ہیں جو ہم کمزور، غریب قوموں کے حصے میں آنے والی ہیں اور چھیڑ خانی سے ان لوگوں نے باز نہیں آنا.اس لئے جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم سے دنیا کی سیاست کو روشناس کرائے اور جس ملک میں بھی احمدی بستے ہیں وہ ایک جہاد شروع کر دیں.ان کو بتائیں کہ تمہارا آخری تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمہارے ہر قسم کے خطرات کی بنیاد خود غرضی اور نا انصافی پر ہے.دنیا کی قوموں کے درمیان جو چاہیں نئے معاہدات کر لیں جس قسم کے نئے نقشے بنانا چاہتے ہیں بنائیں اور ان کو ابھاریں لیکن جب تک اسلامی عدل کی طرف واپس نہیں آئیں گے (واپس کیا ؟ وہ چلے ہی نہیں تھے وہاں سے ) اس لئے یوں کہنا چاہئے ، جب تک اسلامی عدل کی طرف نہیں آئیں گے.جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق میں پناہ نہیں لیں گے جو تمام جہانوں کے لیے ایک رحمت بنا کر بھیجے گئے.اس لئے صرف اور صرف آپ کی تعلیم ہے جو بنی نوع انسان کو امن عطا کر سکتی ہے.باقی ساری باتیں ڈھکوسلے ہیں، جھوٹ ہیں، سیاست کے فسادات ہیں.ڈپلومیسی کے دجل ہیں.اس کے سوا ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.پس امن عالم کے قیام کی خاطر آج صرف جماعت احمدیہ ہے جس نے صحیح خطوط پر ایک عالمی جہاد کی بناڈالنی ہے.اس لئے میں آپ سب کو اس امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ دنیا سے تعصبات کے خلاف جہاد شروع کریں اور دنیا سے ظلم وستم کو مٹانے کے لئے جہاد شروع کریں.سیاست کو عدل سے روشناس کرانے کے لئے جہاد شروع کریں.اگر یہ سب کچھ ہو تو یونائیٹڈ نیشنز یعنی اقوام متحدہ کی سوچ میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو جائے گی، پھر اقوام متحدہ کی بہت سی کمیٹیاں ایسی بنائیں جائیں گی جو جس قسم کے خطرے میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں،ان کے او پر غور کرنے کے لئے اور ان خطرات کے ازالے کی خاطر وہ کام شروع کریں گی اور اس کے لئے ان کو دنیا میں ایسے منصف مزاج سابق میں عدلیہ سے تعلق رکھنے والے کارکن مل سکتے ہیں جن کے انصاف کے اوپر دنیا کو کوئی شک نہیں ہے.مثلاً "ڈوشین "ہیں کینڈا کے ایک جسٹس

Page 699

خطبات طاہر جلد ۹ 694 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء (Justice.J.Dechene) ان کی انصاف کی نقطہ نگاہ سے بڑی شہرت ہے.ہمارے پاکستان میں ہمارے پارسی ایک جسٹس تھے جسٹس دراب پٹیل صاحب، جنہوں نے اِس وجہ سے استعفی دے دیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ فوجی انقلاب کے نتیجے میں جو کاروائیاں کی جا رہی ہیں ان کے لئے کوئی منصفانہ بنیاد نہیں ہے.چنانچہ ان کا انصاف کے نقطہ نگاہ سے ایک تقویٰ کا مقام ہے.تقویٰ ایک بہت بڑا وسیع لفظ ہے غیر مذہبی اقدار پر بھی تقویٰ کا لفظ صادق آتا ہے کیونکہ اخلاق حسنہ فی الحقیقت اپنی آخری شکل میں خدا ہی سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں.پس جو جسٹس، جو منصف، اپنے انصاف میں جن دوسری اغراض اور اثرات سے بالا ہو جائے اس کو انصاف کے لحاظ سے ہم متقی کہہ سکتے ہیں.پس ایسے متقی جسٹس آپ کو پاکستان میں بھی ملیں گے، ہندوستان میں بھی ملیں گے، پین میں بھی ملیں گے.میں جب پرتگال گیا تھا تو وہاں ایک سابق جسٹس سے میری ملاقات ہوئی جن کو پرتگال کی حکومت اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی کیونکہ یونائیڈ نیشنز نے بین الاقوامی معاملات میں جہاں نا انصافی ہورہی ہے ان پر غور کرنے کا کام ان کے سپر کیا تھا اور ان کے بعض فیصلے پرتگال کے خلاف تھے.وہ پرتگالی تھے.ان سے میں جب ملا تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ تم اپنے مظالم کے قصے، ناانصافیوں کے قصے بتا رہے ہو، میں تو آواز اٹھاؤں گا.لیکن کیا آواز ، کن کانوں میں پڑنے کے لئے اٹھاؤں گا.کیونکہ جس ملک میں میں بس رہا ہوں جہاں ساری عمر میں نے عدالت کی ہے.یہ خود اس معاملے میں مجھ سے ہی انصاف نہیں کر رہے اور دنیا کی ساری قومیں نا انصافی پر مبنی ہیں.دوستانہ ماحول میں بڑی لمبی گفتگو ہوئی ، بہت معمر بزرگ ہیں.انسانی قدروں کے لحاظ سے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں.لیکن سیاسی نقطہ نگاہ سے ان کو ایک طرف پھینکا گیا ہے تو دنیا میں شریف النفس انصاف پر قائم عالمی شہرت رکھنے والے ایسے سابق جسٹس مہیا ہو سکتے ہیں یا دوسرے بعض سیاستدان ، اتفاق سے ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جن کی انصاف کے لحاظ سے شہرت ہو جاتی ہے.ان کو چن کر ، نہ کہ جتھہ بندی کے نتیجے میں لوگوں کو چنا جائے.پس انصاف کے نقطہ نگاہ سے اگر ایسے لوگوں کو چن کر عالمی خطرات کو مختلف قسموں میں بانٹ کر مختلف کمیٹیاں بنائی جائیں اور یہ فیصلہ ہو کہ ان خطرات کو ہمیشہ کے لئے مٹانے کے لئے بنیادی جھگڑوں کی وجوہ پر غور ضروری ہے اور قوموں کی تعلیم تربیت ضروری ہے زیادہ سے زیادہ ہمیں یہ کوشش

Page 700

خطبات طاہر جلد ۹ 695 خطبہ جمعہ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء کرنی چاہئے کہ جھگڑوں کی کنہ کو سمجھ کے ان کی تہہ تک پہنچ کر دونوں متقابل یا متصادم قوموں کو پہلی سٹیج پر سمجھایا جائے اور ساری دنیا کی اس نقطہ نگاہ سے تربیت کی جائے اور دنیا کی رائے عامہ کو بتایا جائے کہ یہ جھگڑے ہیں ، ان میں ہماری کمیٹیوں نے یہ کام کئے ہیں.یہ حقیقی صورت ابھر کر سامنے آئی ہے.پس حل تو اس سٹیج کے اوپر ایک دم نہیں سوچے جا سکتے کیونکہ یہ معاملے بعض صورتوں میں بہت الجھے ہوئے ہیں لیکن حل تلاش کرنے کی کوشش شروع کرنی ضروری ہے.پس جن لوگوں کو یعنی جن قوموں کو آج عراق میں یہ خطرہ دکھائی دے رہا ہے.میں ان کو ہزار خطرے سارے عالم میں پھیلتے ہوئے دکھا سکتا ہوں.اگر وہ واقعی امن عالم کے خواہ ہیں تو جیسا کہ میں نے ان کو مشورہ دیا ہے وہ انصاف پر قائم ہو کر، اسلامی انصاف پر قائم ہو کر جو نہ مشرق جانتا ہے نہ مغرب ، نہ شمال اور جنوب کی تقسیم سے واقف ہے بلکہ محض اللہ کو پیش نظر رکھ کر ایک نظر یہ انصاف پیش کرتا ہے اس اسلامی انصاف پر قائم رہ کر اگر یہ اپنے تنازعات کو حل کرنے یا دنیا کے تنازعات اور جھگڑوں کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تو میں یقیں دلاتا ہوں کہ دنیا کو امن نصیب ہوسکتا ہے.لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے دست شفقت سے ہی یہ امن نصیب ہوسکتا ہے کیونکہ ایک ہی نبی ہے جس کو رحمتہ للعالمین قرار دیا گیا ہے.پس جسے خدا نے دنیا کی سب قوموں اور سب جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اس کے سامنے جب تک تم دست سوال نہیں بڑھاتے ، جب تک تم اس سے فیض نہیں پاتے تم دنیا کو امن نہیں عطا کر سکتے.اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کو ایک عالمگیر جہاد شروع کر دینا چاہئے اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہو.آمین.

Page 701

Page 702

خطبات طاہر جلد ۹ 697 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء تقویٰ اختیار کرتے ہوئے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ، حبل اللہ سے مراد خلافت ہے.( خطبه جمعه فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواً وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.( آل عمران: ۱۰۳-۱۰۴) پھر آپ نے فرمایا: یہ دو آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ آل عمران سے لی گئی ہیں اور ان کا بسم اللہ کا شمار کرتے ہوئے نمبر ۱۰۳ اور ۱۰۴ ہے پہلی آیت میں یہ فرمایا گیا کہ اے وہ لوگو جو ایمان لاتے ہو اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے.وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم مسلم ہو.اسلام لانے والے ہو اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنے والے ہو.

Page 703

خطبات طاہر جلد ۹ 698 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء اس آیت میں دو احکام جاری فرمائے گئے ہیں اور دونوں احکامات کے ساتھ ایک ایک سوال دل میں اٹھتا ہے.فرمایا: تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے.سوال یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق کیا ہے؟ کیسے تقویٰ کا حق ادا ہوگا ؟ دوسرا ارشاد یہ ہے کہ ہرگز نہ مروجب تک تم مسلمان نہ ہواور مرنا اپنے اختیار میں نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ہم اپنی موت پر اختیار رکھیں گے.کس طرح اس حکم کی اطاعت کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں علم نہیں ہے کہ کس وقت موت ہمیں آجائے.در حقیقت اس آیت کے یہ دونوں ٹکڑے جو یہ دو سوال اٹھاتے ہیں ایک دوسرے کا جواب ہیں.اگر تم خدا کا ویسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے تو اس کے نتیجے میں تم ہمیشہ اپنے نفس کی ایسی حفاظت کرتے رہو گے کہ جس سے تم اپنے آپ کو ہر وقت اطاعت کی حالت میں رکھو گے.یہاں مسلم سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم اسلام لے آؤ کیونکہ مخاطب ہی مومنوں کو فرمایا گیا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تمہیں ہم حکم دیتے ہیں کہ اسلام کی حالت میں مرو اور اس حالت کے سوا کسی اور حالت میں ہرگز نہ مروتو یہاں اسلام لانے سے مراد اطاعت ہے.خدا کی اطاعت کا اختیار کرنا اور خدا کے سپر در ہنا تو تقویٰ کا حق ہی ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ تقویٰ کا حکم ہے لیکن ہمیں علم نہیں کہ تقویٰ کیسے اختیار کیا جاتا ہے.ان کے لئے یہ آیت ان کے اس سوال کا عمدہ جواب پیش کرتی ہے کہ تقویٰ اس طرح اختیار کیا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے ہرلمحہ نگران رہو کہ کسی وقت بھی ایسی باغیانہ حالت نہ ہو کہ اگر تم اس حالت میں مرجاؤ تو تم پر اس آیت کا مضمون صادق نہ آسکے اور یہ جو مضمون ہے کہ اپنی زندگی کی ہر حالت میں نگرانی کرنا.یہ ایک بہت ہی مشکل مضمون ہے کیونکہ بسا اوقات انسان ماحول سے پیدا ہونے والے اثرات کے نتیجے میں جو ردعمل دکھاتا ہے وہ رد عمل تقویٰ سے ہٹا ہوتا ہے اور سپردگی کا رد عمل اسے نہیں کہا جا سکتا.چنانچہ دنیا میں جتنے بھی عوامل انسان کی فطرت پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کا تجزیہ کر کے آپ دیکھ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر عمل کے نتیجے میں انسان کا رد عمل بالعموم تو ازن سے ہٹ کر ہوتا ہے اور جہاں بھی انسان تو ازن کھو بیٹھے وہاں تقویٰ کی راہ گم ہو جاتی ہے اور ایک باغیانہ حالت پیدا ہوتی ہے.چنانچہ اس مضمون کو مزید گہرائی میں جا کر اگر باریکی سے اس کا مطالعہ کریں تو یہ مضمون نہ صرف یہ کہ زندگی کے ہر لمحے پر حاوی ہے بلکہ ہر لمحے پر نگرانی کا طریق بتاتا ہے.مثلاً ایک آدمی عام حالت میں بغیر کسی ہیجان کے

Page 704

خطبات طاہر جلد ۹ 699 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء بیٹھا ہوا ہے اور اس کو کئی قسم کی خبریں مل سکتی ہیں.کئی قسم کے معاملات اسے پیش آسکتے ہیں.ایک آدمی اس کو بلا وجہ غصہ دلا سکتا ہے، اس کے مزاج کے خلاف بات کر کے اور بلا وجہ چڑا کر یا ایک ایسی خبر دے کر جس سے اس کا نقصان ہوتا ہو اور بد تمیزی کے انداز میں دل دکھانے کی خاطر اس کو اگر کوئی بری خبر دے تو عام ایسی خبر کے نتیجے میں جو اثر ہے اس سے کہیں زیادہ شدت کا عمل پیدا ہوتا ہے اور جور د عمل ہے اس میں اکثر انسانوں کا اختیار نہیں ہوتا کہ اس رد عمل کو متوازن رکھیں.اگر ایک انسان کسی عمل سے کسی کو تکلیف دیتا ہے اور غصہ دلاتا ہے.مثلاً ایک چیز کسی نے ماردی تو فورا رد عمل یہ ہوگا کہ میں اس کو دس چپیڑ میں ماروں.ایک گالی دی تو ایک گالی کے جواب میں ایک گالی دے کر انسان رکتا نہیں بلکہ دس ، پچاس، سو گالیاں دے کر بھی بعض کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا.کسی کو ایک ٹھونکا لگا دیں تو وہ بعض دفعہ اتنی ذلت محسوس کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں مار مار کر جب تک کچومر نہ نکال دے اس کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا تو یہ جورد عمل کی حالت ہے وہ باغیانہ حالت ہے وہ سپردگی کی حالت نہیں.اس حالت میں اگر کوئی جان دے دے تو وہ اسلام کی حالت میں جان دینے والا نہیں ہوگا.اس سلسلے میں ایک لطیفہ حضرت مصلح موعودؓ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک بہت موٹا تازہ پہلوان اکھاڑے سے آ رہا تھا، خوب مالش کی ہوئی، سرمنڈھایا ہوا اور ٹنڈ کہتے ہیں جب بال بالکل نہ ہوں اور چکنی چپڑی کھوپڑی نظر آتی ہو تو اس کی ٹنڈ چمک رہی تھی ، اس کے پیچھے پیچھے ایک کمزور نحیف انسان جو اس کی پھونک کی مار بھی نہیں تھا وہ چلا آرہا تھا.اس کو اس کا چمکتا ہوا صاف شفاف سردیکھ کر شرارت سوجھی اور اس نے بھرے بازار میں اچھل کر اس کی بینڈ پر ایک ٹھونگا لگا دیا.وہ جس کو ہم پنجابی میں ٹھونگا مارنا کہتے ہیں ( ٹھونگا ہی غالباً اسکا اردو میں لفظ ہے ) بہر حال انگلی سے الٹی کر کے اس نے یوں سر پر ایک ٹھونکا لگایا، سارا بازار ہنس پڑا.غصے میں آکر اس کو اتنا مارا کہ نیم بے ہوش کر دیا.جب مار بیٹھا تو اس نے کہا کہ پہلوان جی ! آپ جتنا مرضی مارلیں مجھے اس ٹھونکے کا جو مزا آ گیا ہے.وہ آپ کو نہیں آسکتا.اب یہ ہے تو لطیفہ مگر اس میں فطرت کا ایک گہرا راز بیان ہوا ہے.ایک شخص کو بظاہر ایک ٹھونکا لگتا ہے لیکن وہ ایسی ذلت محسوس کرتا ہے اس کے نتیجے میں اس قدر خفیف ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا کی نظر میں میں بالکل ذلیل اور رسوا ہو گیا ہوں.تو جو دل کا رد عمل ہے اس کے نتیجے میں پھر وہ بیرونی رد عمل دکھاتا ہے جو ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا رد عمل ہوتا ہے اور اعتداء میں داخل ہو جاتا

Page 705

خطبات طاہر جلد ۹ 700 ہے سوائے ایسے آدمی کے جو تقویٰ کا حق ادا کرنے والا ہو.خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء ایک خوشخبری آپ سنتے ہیں اس پر بھی جو رد عمل ہوتا ہے وہ بھی ویسی ہی صورت اختیار کرتا ہے.بعض لوگ خوشخبری سن کر اچھلنے لگ جاتے ہیں بیہودہ ، لغوحرکتیں کرنے لگ جاتے ہیں.شیخیاں بگھارنے لگتے ہیں، بغلیں بجاتے ہیں.عجیب عجیب پاگلوں والی حرکتیں کرتے ہیں.خوشی کی کوئی خبر سنیں یا خوشی کا کوئی موقعہ دیکھیں کسی پر فتح حاصل کریں یا اچانک کوئی بڑا منافع حاصل ہو ، ہرایسی حالت میں انسان اپنے رد عمل میں حد سے تجاوز کرنے والا ہوتا ہے اور وہ اس کی اسلام کی حالت نہیں رہتی.غم کی خبر دیکھیں تو بالکل نڈھال ہو کر اس غم کے اثر کے نیچے دب جاتے ہیں.خوف کی خبر سنیں تو خوف سے مغلوب ہو جاتے ہیں.قرآن کریم کافروں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَفَرِحُ فَخُورٌ (ھود:1) وہ چھوٹی سی بات پر نہایت خوش ہو جانے والے اور معمولی سے حاصل کے نتیجے میں بے حد فخر کرنے لگتے ہیں.اچھلتے ہیں اور اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں تو در حقیقت ہر روز ہر لمحہ جب بھی ہم پر بیرونی عوامل اثر انداز ہوں وہ وقت ہے تقویٰ کا حق ادا کرنے کا اور اس وقت انسان اکثر بے خبری کی حالت میں ہوتا ہے اور کبھی بیدار مغزی کے ساتھ اپنے نفس پر غور نہیں کرتا تا کہ مجھ سے جو سلوک کیا گیا ہے یا جو کچھ مجھے اطلاع ملی ہے یا جو تبدیلی میرے حالات میں پیدا ہوئی ہے اس کے نتیجے میں میں اگر خدا کی نظر میں رہنے والا انسان ہوں یا یہ معلوم ہو کہ کون مجھے دیکھ رہا ہے تو میں کیا رد عمل دکھاؤں گا ؟ خدا کی نظر میں رہنے والا انسان ہمیشہ معتدل ہوتا ہے.اس کا رد عمل کبھی بھی حد سے تجاوز نہیں کرتا اگر ایک ایسے انسان کی موجودگی میں جس کا آپ پر رعب ہو، جس کی ہیبت آپ کے دل پر طاری ہو کوئی شخص آپ کی بے عزتی کرے تو آپ ہرگز اس طرح اس کو گندی گالیاں نہیں دیں گے جس طرح علیحدگی میں بے عزتی کرنے پر دیں گے.اس وقت آپ کو کوئی نقصان پہنچائے تو بڑا دبا دبا اور گھٹا گھٹا ردعمل دکھائیں گے ورنہ اس کی بھی بے عزتی ہوتی ہے جس کی موجودگی میں آپ حد سے تجاوز کرتے ہیں.ماں باپ کی موجودگی میں بچوں کا رد عمل اور ہوتا ہے.ماں باپ سے علیحدگی میں اور ردعمل ہوتا ہے.ایک صاحب جبروت بادشاہ کے حضور درباریوں کے ساتھ اگر کوئی حرکت ہو تو انکار و عمل بالکل اور ہوگا اور گلیوں میں، بازاروں میں چلتے ہوئے انہیں درباریوں سے اگر کوئی بدسلوکی کرے تو ان کا رد عمل باکل اور ہو گا.

Page 706

خطبات طاہر جلد ۹ 701 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء پس تقویٰ کا معنی یہ ہے اور تقویٰ کا حق ادا کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ زندگی کی ہر وہ حالت جس میں آپ کے اوپر کسی قسم کے عوامل کارفرما ہوں آپ کی عام حالت میں تبدیلی پیدا کرنے والے کوئی بیرونی محرکات ہوں اس وقت اپنے رد عمل کو اس طرح دیکھو کہ جیسے تمہارے علاوہ خدا بھی اس کو دیکھ رہا ہو اور اگر ان معنوں میں خدا کے سامنے رہو تو یہ تقویٰ کی حالت ہے جس کا دوسرا نام اسلام ہے یعنی علمی دنیا میں ہر وقت خدا کے حضور سر بسجو درہنا اور اس کی اطاعت کے اندر رہنا اس کی فرمانبرداری اور سپردگی میں رہنا.پس یہ چھوٹی سی آیت دو سوال اٹھاتی ہے اور یہ آیت انہی دونوں سوالات کا جواب خود دیتی ہے لیکن اس کی مزید تفصیل اس کے بعد آنے والی آیت پیش فرماتی ہے اور اسلام کی ایک اور تصویر ایسی کھینچتی ہے جس کی طرف از خود محض اس آیت سے توجہ مبذول نہیں ہوتی وہ مضمون جب تک کھولا نہ جائے انسان پر از خود کھل نہیں سکتا.چنانچہ فرمایا: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا اگرتم تقویٰ کا حق ادا کرنے والے ہوا اگر تم اس کے نتیجے میں یہ تسلی پا جاتے ہو کہ تم اس حالت میں جان دو گے جو سپردگی کی حالت ہے تو پھر جو کسوٹی ہم تمہارے سامنے رکھتے ہیں اس پر اپنے آپ کو پر کھ کر دیکھو اور اسلام کے جو حقیقی اور بنیادی معنی ہیں وہ ہم تم پر کھولتے ہیں اور یہ دیکھو کہ تم ان معنی سے انحراف تو نہیں کر جاتے.فرمایا وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا حقیقی اسلام یہ ہے کہ اللہ کی رسی کو پکڑے رکھو اور یہ اطاعت کی حالت ہے مگر جَمِیعاً اجتماعی طور پر انفرادی طور پر نہیں.پس ایک اور مضمون بیان ہوا ہے جو پہلے مضمون کے تسلسل میں ہی اس کا اگلا قدم ہے.بِحَبْلِ اللہ کس کو کہتے ہیں؟ پہلے اس مضمون پر میں کچھ بیان کر دوں پھر اس مضمون پر کچھ مزید روشنی ڈالوں گا.قرآن کریم کی روح سے حبل اللہ کا ترجمہ کرتے ہوئے دو ایسی آیات ذہن میں ابھرتی ہیں جہاں حبل کا لفظ بیان ہوا ہے ایک تو آیت وہ ہے جہاں فرمایا: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا تُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ ( آل عمران : ۱۱۳) کہ وہ لوگ ہیں جن پر ذلت مسلط کر دی گئی ہے.آینَ مَا تُقِفُوا جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں گے وہ ذلت اور رسوائی اور نکبت کی حالت میں پائے جائیں گے.إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللهِ سوائے اس کے کہ اللہ کی حبل ان کو اس ذلت سے مستثنیٰ کرنے والی ہو اور لوگوں کی حبل ان کو اس ذلت سے مستثنیٰ کرنے والی ہو.وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ ذلت سے ان کی اس حصے میں حفاظت کرنے والی ہو.

Page 707

خطبات طاہر جلد ۹ 702 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء یہاں’حبل الله “ سے اور ”حبل الناس“ سے بلحاظ معنی ایک ہی مراد ہے کیونکہ دونوں کے ساتھ حبل کا لفظ استعمال ہوا ہے اور تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں حبل سے مراد عہد ہے.یعنی خدا کا عہد جو بندوں کی حفاظت کرتا ہے.اس عہد کے نتیجے میں بعض دفعہ تو میں ذلت سے بچائی جاتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ان سے عہد ہے کہ اس حالت میں میں تمہیں ایک خاص تکلیف سے بچاؤں گا.جو بھی عہد کی نوعیت ہو اس کے نتیجے میں خدا کا عہد ان کو پہنچتا اور وہ ان کی حفاظت کرتا ہے.اسی طرح قوموں کے عہد ہیں.ایک قوم کا دوسری قوم سے معاہدہ ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ہم پر حملہ کرے تو تم ہمارے دفاع کے لئے چلے آنا تو اس معاہدے کی رو سے پھر بعض دفعہ انسان بعض قسم کے شر سے بچائے جاتے ہیں تو حبل کا بنیادی معنی عہد ہوا.دوسرا حبل کا لفظ " حبل الورید " کے محاورے کے طور پر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.حبل الورید " شہ رگ کو کہتے ہیں.یہ وہ رسی ہے جو دل اور دماغ کا تعلق سارے بدن سے ملاتی ہے اور اگر یہ رسی کٹ جائے تو دل اور دماغ دونوں کا تعلق بدن سے کٹ جاتا ہے اور اس کا دوسرا نام موت ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا کی آیت میں یہ وہ جگہ یعنی وہ آیت ہے جس کا مضمون میں نے بیان کیا ہے ، یہ وہ جگہ ہے جہاں حبل کا لفظ درحقیقت ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو استوار رکھو جو تمہاری زندگی کی ضمانت ہے اگر تمھارے ان تعلقات پر ضرب پڑ گئی یا وہ منقطع ہو گئے تو اسی حد تک تم زندگی سے محروم ہو جاؤ گے.حبل کا دوسرا معنی بھی یہاں صادق آتا ہے اور پہلے معنی کی مزید تشریح کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ در حقیقت قرآن کریم نے تمام مومنوں کو ایک معاہدے کی رو سے اپنے انبیاء اور شریعتوں سے باندھ دیا ہے اور یہ عہد اللہ تعالیٰ کا آغاز انسانیت سے لے کر آج تک ہمیشہ قوموں سے لیا جاتا ہے.پس ہر صاحب شریعت نبی اور اس کی شریعت عملاً حبل اللہ بن جاتے ہیں کیونکہ خدا کے ساتھ کئے جانے والے عہد کے ذریعے وہ ان دونوں سے باندھے جاتے ہیں.شریعت کی اطاعت اور صاحب شریعت نبی کی اطاعت یہ ضروری ہو جاتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر حبل اللہ کا یہی معنی ہے تو ایک دفعہ ایک صاحب شریعت نبی آ گیا اور شریعت پیش کر کے چلا گیا تو کیا ہر انسان یہ نہیں کہہ

Page 708

خطبات طاہر جلد ۹ 703 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء سکتا کہ میرا اس صاحب شریعت نبی سے ایک تعلق قائم ہو چکا ہے اللہ کی حبل کے ذریعے.میں اپنے عہد بیعت میں جو روحانی معنوں میں میں نے اس سے جوڑا ہے یا باندھا ہے مخلص ہوں اور ثابت قدم ہوں اور اسی طرح شریعت سے میرا مخلصانہ تعلق ہے تو مجھے اب کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے گویا میرا اسلام اسی سے کامل ہو گیا کہ میں نے ایک شارع نبی کو قبول کیا اور اس کی شریعت کے ساتھ اطاعت کا تعلق جوڑ لیا.یہ ایک سوال جو پیدا ہوتا ہے اس کا جواب یہی آیت یہ دیتی ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اسلام سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم شریعت سے تعلق جوڑ لو اور صاحب شریعت نبی سے تعلق جوڑ لو بلکہ "حبل اللہ سے مراد یہ ہے یعنی دوسرے معنوں میں اسلام سے مراد یہ ہے کہ اکٹھے رہ کر تعلق جوڑ و جہاں بھی تمہارا تعلق بظاہر قائم رہا اور آپس کا اتحاد ٹوٹ گیا وہاں تم اسلام کی حالت سے باہر نکل جاؤ گے.پس صرف خدا کی رسی کو پکڑنا کافی نہیں خدا کی رسی کو اجتماعی طور پر پکڑ ناضروری ہے.یہ ایک عظیم الشان مضمون ہے جس نے اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ امت کا شیرازہ بکھرنے نہیں دینا ورنہ شریعت اور صاحب شریعت نبی سے تمہارا تعلق کوئی کام نہیں دے گا.اگر تم بظاہر تعلق رکھتے ہوگے لیکن تمہاری حرکتوں کی وجہ سے تمہارے اعمال کی وجہ سے یا تمہارے اقوال کی وجہ سے امت کا شیرازہ بکھرنے لگے گا اور تم ایک دوسرے سے جدا ہونے لگو گے تو پھر حبل اللہ سے تمہارا تعلق حقیقی معنوں میں شمار نہیں کیا جائے گا اور خدا کے نزدیک تم سزا کے مستحق ٹھہرو گے.پس اسلام کی یہ مزید تشریح ہے جو پہلی آیت سے ذہن میں نہیں ابھرتی تھی از خود ذہن اس طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا لیکن دوسری آیت نے اس کو کھول کر بیان فرما دیا.پس بیعت خلافت کی جو ضرورت پڑتی ہے وہ اس لئے نہیں کہ خلیفہ کوئی صاحب شریعت مامور ہوتا ہے بلکہ خدا کے صاحب شریعت رسول کے گزر جانے کے بعد اس قرآن کے یا اس کتاب کے باقی رہنے کے بعد جو ہر صاحب شریعت نبی کے بعد باقی رکھی جاتی ہے محض ان سے تعلق کافی نہیں ہے، پھر جمیعت کیسے نصیب ہوگی.جمیعت مرکزیت سے نصیب ہوتی ہے اور نظام خلافت وہ جمیعت عطا کرتا ہے.خدا سے تعلق ٹوٹ جائے تو پھر امتیں بکھر جاتی ہیں.پس جب ایک امت دو فرقوں میں تبدیل ہو جائے یا تین یا چار یا پانچ فرقوں میں بٹ جائے اور ان میں کسی کا بھی خلافت سے تعلق قائم نہ ہو اور خدا کی رسی کو اس طرح نہ چمٹیں کہ گویا سب اکٹھے ہو گئے

Page 709

خطبات طاہر جلد ۹ 704 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء اور ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے تو در حقیقت قرآن کریم کے بیان کے مطابق ان کا حبل اللہ سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے سوا کوئی دنیا کا نظام جمیعت پیدا نہیں کرتا.فرقے تو آپ کو بہت سے دکھائی دیں گے.مگر کسی فرقے میں بھی وہ جمیعت نہیں ہے جو نظام خلافت کے اندر آپ کو دکھائی دیتی ہے.پس خلافت راشدہ کے بعد آپ دیکھیں کہ کس طرح امت بکھرنے لگی اور متفرق ہونے لگی اور وہ جمیعت جو آپ کو خلافت راشدہ کے وقت دکھائی دیتی تھی جب ایک دفعہ ٹوٹی تو پھر ٹوٹ کر بکھرتی چلی گئی اور ٹکڑوں پر ٹکڑے ہوتے چلی گئی.پس یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اسلام کا یعنی حقیقی اسلام کا.صاحب شریعت نبی سے تعلق باندھو ، اس کی ذات سے بھی تعلق باندھو اور اس کی شریعت سے بھی کیونکہ وہ عہد جو رسول سے، صاحب شریعت رسول سے باندھا جاتا ہے وہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ ہم اس شریعت کی اطاعت کریں گے جو تجھ پر نازل ہوئی بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس شریعت کی بھی اطاعت کریں گے اور تیری بھی اطاعت کریں گے پس صاحب شریعت نبی کے گزرنے کے بعد جمیعت کا تصور ہی نہیں پیدا ہوسکتا اگر خلافت جاری نہ ہو ورنہ یہ مانا پڑے گا کہ اس کے جانے کے بعد ہر شخص انفرادی طور پر حبل اللہ کو پکڑ لے اور یہی اس کے لئے کافی ہے.حالانکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا مل کرا کھٹے ہو کر تم نے حبل اللہ کو پکڑنا ہے.پس منطقی طور پر کوئی اور راہ دکھائی نہیں دیتی سوائے اس کے کہ نبوت کے بعد خلافت جاری ہو اور جب خلافت ایک دفعہ بکھر جائے تو پھر دوبارہ نبوت کے ذریعے قائم ہوتی ہے خواہ وہ پہلی شریعت کی نبوت کا اعادہ ہو.نئی شریعت نہ بھی آئے.مگر دوبارہ آسمان سے حبل الله اترتی ہے اور پھر دوبارہ جمیعت عطا ہوتی ہے اس کے بغیر جمیعت نصیب نہیں ہو سکتی.پھر فرمایا وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءِ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ دیکھو اس وقت کو یاد کرو.جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے.فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ یہ اللہ تھا جس نے تمہارے دلوں کو آپس میں محبت کے رشتوں سے مضبوطی سے باندھ دیا.فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا تو یہ کیا عجیب مجزہ رونما ہوا کہ تم جو ایک دوسرے کے دشمن تھے، ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ اور تم

Page 710

خطبات طاہر جلد ۹ 705 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء ایک ایسے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہوئے تھے جو آگ سے بھرا ہوا تھا فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا پس یہ اللہ تھا جس نے تمہیں اس گڑھے سے بچالیا.اس کنارے کی حالت سے ہٹا کر تمہیں دور لے گیا.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات تم پر کھول کھول کر بیان کرتا ہے.تا کہ تم ہدایت پاؤ.اب اس دوسرے حصے میں یہ مضمون بیان فرمایا کہ تفرقہ لازماً آگ تک پہنچاتا ہے.آگ سے مراد لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ جہنم کی آگ مراد ہے مگر قرآن کریم کے محاورے سے ثابت ہے کہ آگ سے مراد خوفناک لڑائیاں بھی ہیں اور صرف مرنے کے بعد آگ مراد نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی جو مختلف جگہوں پر ہم ہر وقت قوموں کو آپس میں لڑتا دیکھتے ہیں یا ہر وقت نہیں تو کبھی کبھی لڑتا دیکھتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ تفرقہ ہے.اور جب تفرقہ شدت اختیار کر جائے تو ایسی قو میں لازماً پھر لڑائی کی آگ میں جھونکی جاتی ہیں ، حرب کی آگ میں جھونکی جاتی ہیں.یہ ایک مزید کسوٹی اپنی حالت کو پہچاننے کے لئے پیش کر دی.فرمایا کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو.اگر تم واقعی اللہ کی اطاعت میں داخل ہو اور حبل اللہ کو تھامے ہوئے ہو تو یہ ناممکن ہے کہ تم آپس میں لڑ پڑو.یہ ناممکن ہے کہ تم آگ کی بھٹی میں جھونکے جاؤ یعنی لڑائی کی بھٹی میں جھونکے جاؤ.اللہ نے تمہیں اس آگ سے دور کر دیا یعنی حبل اللہ کے نتیجے میں تم اس کنارے سے دور لے جائے گئے اور جب تک تم اس کنارے پر کھڑے تھے تیز ہوا کا کوئی جھونکا بھی تمہیں اس میں دھکیل سکتا تھا، کوئی شدید دشمن تمہیں دھکا دے کر اس میں دھکیل سکتا تھا، کوئی شدید دشمن تمہیں دھکا دے کر اس میں گرا سکتا تھا لیکن جو کناروں سے ہٹ جائیں گے ان کو ایک جھونکا یا ایک، دو چار دھکے تو اس آگ کے گڑھے میں نہیں گرا سکتے اور پھر حبل اللہ کو جس نے مضبوطی سے تھاما ہوا ہو وہ تو اتنی دور آگ کے کناروں سے نکل جاتا ہے کہ کوئی دنیا کی طاقت اس کو آگ میں نہیں دھکیل سکتی.سے دور اس مضمون کو سمجھنے کے بعد آپ اس زمانے میں آج بدنصیبی سے مسلمانوں کی جو حالت ہے اس کی طرف واپس آئیں.ایران اور عراق میں جو جنگ ہوئی ہے ۸ سال تک مسلمان ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے.کیا اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ آگ کے کنارے پر نہیں کھڑے تھے ؟ کیا اس آیت کریمہ کی روشنی میں کوئی انسان یہ کہ سکتا ہے کہ انہوں نے مضبوطی

Page 711

خطبات طاہر جلد ۹ 706 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء سے خدا تعالیٰ کی رسی کو تھاما ہوا تھا؟ اور جمیعا وہ سب اجتماعی طور پر اس رسی سے چمٹے ہوئے تھے.پس یہ آیت محض ایک نظریاتی فلسفہ پیش نہیں کر رہی بلکہ دنیا کی گہری حقیقتوں سے ہمیں آشنا کر رہی ہے یہ ایسی ٹھوس حقیقتیں ہیں جن سے انسان نظر بچا کر نکل نہیں سکتا ایسی حقیقتیں ہیں جو قو موں کو گھیر لیتیں ہیں اور خواہ آپ ان کو نظر انداز کریں ان کے نتائج سے آپ بچ نہیں سکتے.پس قرآن کریم کا یہ ارشاد کہ تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کا حق اختیار کرو یعنی تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کا حق ادا کرو اور ہرگز نہ مروجب تک مسلمان نہ ہو، مسلمانوں پر لازم کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اکٹھے ہو کر ایک جان ہو کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس سے اس طرح چھٹے رہیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان کا ہاتھ خدا کی رسی سے جدا نہ ہو اور ایک دوسرے سے بھی جدا نہ ہو یعنی ایک طرف خدا کی ریتی کو تھاما ہوا ہو اور دوسری طرف وہ سب اکٹھے ہوں اور مل کر ایک ہی رسی کو پکڑا ہو.یہ امت مسلمہ کی وحدانیت کا وہ منظر ہے جو قرآن کریم کی ان آیات نے تفصیل سے کھول کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے.بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان جو قرآن کریم کو پڑھتے بھی ہیں تو مضامین پر گہرا غور نہیں کرتے.اکثر تو ایسے ہیں جو نہ تو پڑھنے کے اہل رہے نہ غور کرنے کے مگر ان کے راہنما قرآن کریم کی آیات پڑھ کر ان کو اکٹھا کرنے کی بجائے ان کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یعنی ظلم کی حد ہے کہ قرآن کریم تو اللہ کی رسی کی یہ تعریف فرمارہا ہے کہ اس کو پکڑو اور اجتماعی طور پر پکڑو اور تم یقیناً آگ کے عذاب سے بچائے جاؤ گے.اگر تم لڑائی کے لئے تیار بھی بیٹھے ہو گے.ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے کے لئے مستعد ہو گے تو اللہ تعالیٰ اس رسی کی برکت سے تمہیں ایک دوسرے سے دور ہٹا دے گا یعنی دشمنی کی حالت سے دور ہٹا دے گا اور پھر محبت کی حالت میں قریب کرے گا اور اتنا قریب کر دے گا کہ تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن جاؤ گے.کتنا حسین منظر ہے جو تقویٰ کے نتیجے میں پیدا کر کے دکھایا گیا ہے اور اس کے برعکس آج مسلمان علماء قرآن کے حوالے دے دے کر منہ سے جھا گئیں اڑاتے ہوئے ایک دوسرے سے نفرت کی تعلیم دیتے ہیں.پہلے ۸ سال تک دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ ایران قرآن کے حوالے سے عراقیوں کے قتل کی تعلیم دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ کافر ہیں ان کو ماروان کو قتل کرو اور تم غازی بنو گے اور اگر تم ان کے ہاتھ سے مارے گئے تو تم شہید ہو گے اور عراقی علماء اسی زور اور شدت کے ساتھ اہل عراق کو یہ خوشخبری سنا

Page 712

خطبات طاہر جلد ۹ 707 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء رہے تھے کہ اگر تم ایرانی کافروں کے ہاتھوں مارے جاؤ گے تو یقیناً جنت میں جاؤ گے.خدا کے نزدیک تمہارا مرتبہ شہداء کا مرتبہ ہوگا اور اگر ان بد بختوں کو مارو گے تو ایک کا فر کو واصل جہنم کر رہے ہو گے.یعنی ان کی تقریریں اور خطبات ایسے نہیں تھے کہ جو وقتی طور پر پیغام کی صورت میں لوگوں تک پہنچائے جارہے ہوں کھلم کھلا دنیا کے اخبارات میں یہ خبریں چھپتی تھیں.روز مرہ یہ اعلانات ہوتے تھے.ان کے ریڈیو، ان کے ٹیلیویژن ، ان کے اخبارات ان پروپیگنڈوں میں ہمیشہ منہمک رہے یعنی ۸ سال تک.اب آپ اندازہ کریں کہ یہ حبل اللہ ہے جس کی قرآن کریم تعلیم دیتا ہے.اب وہی عراق ہے جس کے ساتھ سارا عرب تھا اور یہ جو اسلام اور غیر اسلام کی جنگ جاری تھی اب اس نے مختلف روپ دھارے ہیں.کبھی تو یہ سنی اسلام کی شیعہ اسلام سے جنگ قرار دی گئی.کبھی بدکرداروں اور غاصبوں کی (جو حقیقت میں اسلام سے مرتد ہو چکے تھے ) ایمان والوں اور تقویٰ شعار لوگوں سے جنگ قرار دی گئی، کبھی اہل عرب کی عجمیوں سے جنگ بن گئی اور جو بھی عرب ممالک عراق کے ساتھ اکٹھے ہوئے در حقیقت محض اسلام کے نام پر نہیں اکٹھے ہوئے تھے کیونکہ ان کے دوسری جگہ شیعوں سے اسی طرح تعلقات تھے بلکہ بہت سے شیعہ اکثریت کے ممالک بھی عراق کے ساتھ اکٹھے ہو گئے اس لئے کہ عرب تھے اس لئے وہ جنگ عرب اور عجم کی جنگ بن گئی.اس طرح انہوں نے عراق کی حمایت کی لیکن نام اسلام کا استعمال کیا کہ ظلم ہو رہا ہے.ایک ایسا ملک جو حقیقت میں اسلام سے دور جا پڑا ہے وہ مسلمانوں اور عربوں پر حملہ کر رہا ہے یعنی دہرا گناہ کر رہا ہے اور اب آپ دیکھ لیں کہ عالم اسلام ( یعنی سنی عالم اسلام کہہ لیں یا عرب عالم اسلام ) عین بیچ سے دو نیم ہو چکا ہے اور بہت سے عرب مسلمان ممالک مل کر ایک بہت بڑے مسلمان ملک عراق کے مقابل پر اکٹھے ہو گئے ہیں اور جنگ کی آگ بھڑکنے کو تیار بیٹھی ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس وقت تم آگ کے کنارے پر کھڑے تھے، اللہ تھا جس نے اس سے تمہیں بچالیا.پس ابھی اس آگ کے گڑھے میں یہ پڑے نہیں ہیں لیکن اگر قرآن کریم پر ان کا ایمان ہے اور اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے حوالے سے میں ان سب سے عاجزانہ التجا کرتا ہوں اور بڑی شدت سے التجا کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اس آیت کے درس آج کل اپنی مساجد میں ، اپنے ریڈیو پر، اپنے ٹیلیویژنز پر ، اپنے اخبارات میں دیں اور اپنے ملکوں کے باشندوں کو بتائیں کہ قرآن کریم تم سے کیا توقع کرتا ہے اور اگر تم لڑ

Page 713

خطبات طاہر جلد ۹ 708 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء پڑے تو پھر ہر گز تمہاری موت اسلام کی موت نہیں ہوگی.قرآن سچا ہے تمہارے دعوے جھوٹے ہو سکتے ہیں.یہ ناممکن ہے کہ قرآن جھوٹا نکلے اور تمہارے دعوے سچے ہوں قرآن کریم فرماتا ہے: لَا تَفَرَّقُوا ہر گز تفرقہ نہ اختیار کرنا.خدا کی رسی کو اکٹھے مضبوطی سے تھامے رکھو اور یہی چیز ہے جو تمہیں جنگوں کی ہلاکتوں اور جنگوں کے عذاب سے بچا سکتی ہے.پس تمام دنیا میں احمدیوں کو مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانی چاہئے کہ تمہیں ہلاکت سے بچانے کا نسخہ قرآن کریم کی ان آیات میں ہے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ان پرغور کرو، خدا کا خوف کرو اور مسلمان، مسلمان کی گردن کاٹنے سے اپنے ہاتھ کھینچ لے کیونکہ نہ مقتول کی موت اسلام کی ہوگی اور نہ قاتل خدا کے نزدیک غازی ٹھہرے گا بلکہ ایک مسلمان کو قتل کرنے والا قرار دیا جائے گا اور اگر اس قتل میں غیر قوموں کو بھی وہ اپنا شریک کرلیں، غیر مسلموں کو بھی آواز دے کر بلائیں کہ آؤ اور ہمارے بھائیوں کی گردن اڑانے میں ہماری مدد کرو تو پھر یہ اور بھی زیادہ بھیانک شکل بن جاتی ہے پس دعاؤں کا تو وقت ہے کیونکہ دعاؤں کے بغیر دلوں کے قفل کھل نہیں سکتے محض نصیحت کی کنجی سے دل نہیں کھلا کرتے جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق نصیب نہ ہو.پس دعائیں بھی کریں اور کوشش بھی کریں اور مسلمانوں کی توجہ بار باران آیات کریمہ کی طرف مبذول کرائیں اور ان کو بتائیں کہ اسی میں تمہاری زندگی ہے اور اس سے روگردانی میں تمہاری موت ہے لیکن ایسی درد ناک موت ہے جس کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیت گواہی دے گی کہ جب تم مرے تھے تو تقویٰ کا حق ادا کرنے والے نہیں تھے.جب تم مرے تھے تو اسلام کی حالت میں نہیں تھے.پس تمہاری زندگی مسلمان کہلا کر اسلام کے اوپر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے اب بظاہر اسلام کے نام پر جان دینے کے باوجود اگر یہ بدنصیب انجام تمہارا ہوا کہ خدا کا کلام تم پر گواہ بن کر کھڑا ہو جائے کہ اے ایمان کی باتیں کرنے والو، اے تقویٰ کی باتیں کرنے والو، اے اسلام کی باتیں کرنے والو، خدا کا کلام گواہ ہے کہ تم نے نہ ایمان کا مزا چکھا ہے ، نہ تقویٰ کا معنی جانتے ہو ، نہ تم اسلام کی بات کرنے کا حق رکھتے ہو.پس بہت ہی خطرناک وقت ہے جو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے کھڑا دیکھ رہے ہیں.پس تمام دنیا میں ایک ہی جماعت ہے جو خدا تعالیٰ کی خلافت کی رسی سے وابستہ ہے.اس

Page 714

خطبات طاہر جلده 709 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء حبل اللہ سے وابستہ ہے جس نے محمد رسول ﷺ اور آپ کی شریعت سے عہد وفا باندھ کر ا کٹھے ہو کر ایک ہی ہاتھ پر جمع ہو کر اس آیت کے مضمون کا حق ادا کر دیا ہے.اور حبل اللہ کو جَمِیعًا اجتماعی طور پر چمٹ گئے ہیں.پس نہ صرف یہ کہ آپ چمٹے رہیں بلکہ دوسروں کو بھی نجات کی دعوت دیں اور اس رسی کی طرف بلائیں جو زندگی کی واحد ضمانت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ سننے والوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس مضمون کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور یہاں سے اپنے زندگی کا آب حیات حاصل کریں کیونکہ اس کے سوا زندگی کا کوئی اور ذریعہ باقی نہیں رہا.آمین.

Page 715

Page 716

خطبات طاہر جلد ۹ 711 خطبه جمعه ۳۰ /نومبر ۱۹۹۰ء سورۃ فاتحہ کا عرفان حاصل کریں.اس میں انسان کی سوچوں کے جتنے پہلو بھی ہیں ان تمام کی سیرابی کی گئی.(خطبه جمعه فرموده ۳۰ رنومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: بہت سے دوست مختلف ممالک سے جو خطوط لکھتے ہیں ان میں بارہا اس سوال کا اعادہ کیا جاتا ہے یعنی تکرار سے بار بار مختلف دوستوں کی طرف سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ عبادت میں مزا پیدا کرنے کی کیا ترکیب ہے؟ بعض لوگ علمی پیاس بجھانے کی خاطر بغیر کسی ہیجان کے لکھتے ہیں اور بعض معلوم ہوتا ہے شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہیں.بہت کوشش کرتے ہیں، بہت زور مارتے ہیں لیکن عبادت میں مزا نہیں آتا.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو عبادت کے بیرونی دروازے تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور عبادت کو چھوڑ کر جانے کا قصد کر چکے ہوتے ہیں اور وہ گویا مجھے آخری تنبیہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ابھی بھی ہمیں سمجھا لو اور بچالو ورنہ پھر اگر ہم نے عبادت سے منہ موڑ لیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے.مختلف دوستوں کو میں مختصر مختلف جواب دیتا ہوں لیکن یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ باوجوداس کے کہ اس سے پہلے بھی اس پر روشنی ڈال چکا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ مختلف پہلوؤں سے مختلف زاویوں سے بار بار اس مضمون کو جماعت کے سامنے کھولنا چاہئے.آج کے خطبے میں میں سورہ فاتحہ کے نقطۂ نگاہ سے اس پر روشنی ڈالوں گا.

Page 717

خطبات طاہر جلد ۹ 712 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء سورۃ فاتحہ میں درحقیقت تمام سوالات کا حل ہے اور کوئی بھی ایسی مشکل نہیں جسے یہ کشانہ کر دے اسی لئے اس کا نام فاتحہ رکھا گیا یعنی ہر چیز کو کھولنے والی چابی.اگر آپ اس سورۃ پر غور کریں تو کوئی دنیا کا ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کی کنجی اس میں آپ نہیں پائیں گے.مختصر تعارف اس کا یہ ہے کہ اسے ام الکتاب بھی کہا گیا ہے یعنی قرآن کریم کی ماں ہے اور اور بھی بہت سے اس کے نام ہیں.اس کی سات آیات ہیں اور سات ہی مضامین پر اس میں بحث کی گئی ہے اور ہر انسان اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں اس کو ادا کرتا ہے.یہ وہ سورۃ ہے جو ہر مسئلے کا حل اپنے اندر رکھتی ہے خود اس کے متعلق بھی سوال اُٹھتے ہیں اور اٹھائے جاتے ہیں کہ ایک ہی سورۃ ہم مسلسل پڑھتے چلے جائیں تو آپ خود ہی کہیں کہ کیا بوریت نہیں ہو گی؟ ایک ہی جیسے الفاظ عیسائی تو ہفتے میں ایک دفعہ یعنی اتوار کے دن جا کر کچھ سنتے یا کوئی باتیں دہراتے ہیں لیکن مسلمان ہر روز ہر نماز میں جو پانچ دفعہ پڑھی جاتی ہے اور اس کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کا اعادہ ضرور کرتا ہے اور اس کو تکرار سے پڑھتا چلا جاتا ہے.ایک ہی کھانا اگر روز کھایا جائے تو انسان تنگ آجاتا ہے.دیکھئے یہود اسی وجہ سے کتنی بڑی ٹھو کر کھا گئے تھے کہ کھلم کھلا خدا کی نعمت کے خلاف بغاوت کی کہ ہم ایک نعمت پر ہمیشہ کے لئے راضی نہیں رہ سکتے.ہمیں تو مختلف قسم کے کھانے دیئے جائیں.کون انسان ایک کھانا روزانہ کھائے.اس مصیبت سے تو مذہب سے دور بیٹھنا ہی بہتر ہے.جب تحریک جدید کا آغاز ہوا تو احمدیوں کے لئے بھی کچھ اسی قسم کا ابتلاء آیا تھا.غرباء تو ایک کھانے پر راضی ہوتے ہی ہیں لیکن تحریک جدید نے جب ایک کھانا کہا تو امراء کو بھی اس کا پابند کر دیا.لیکن اس میں اور یہود کے ابتلاء میں ایک بہت بڑا فرق تھا یہود کا ابتلاء یہ تھا کہ ایک کھانا اور روزانہ ایک ہی کھانا قسم میں بھی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن تحریک جدید کے پروگرام میں تو روازنہ آپ صبح سے شام ، شام سے صبح قسمیں تبدیل کر سکتے تھے.تو بہت بڑے ابتلاء میں ڈالے گئے تھے اور آخر ایک بڑا حصہ اس میں ناکام رہا مگر بعید نہیں کہ اس میں بھی وہی مضمون ہو جو سورۃ فاتحہ سے تعلق رکھتا ہے.یعنی ظاہری طور ہر ایک کھانا بھی ان کو دیا گیا ہوگا.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ روحانی غذا کا زیادہ ذکر ہے.کوئی ایسی روحانی غذا ان پر لازم کی گئی ہے جسے انہیں ہمیشہ با قاعدہ تکرار کے ساتھ دہراتے چلے جانا تھا اور جس سے چمٹے رہنا تھا.پس ظاہری طور پر بھی ایک کھانا اور روحانی لحاظ سے بھی ایک کھانا یہ تو دہرے ابتلا میں مبتلا ہو گئے.قرآن مجید نے جب سورۃ فاتحہ کو ام الکتاب

Page 718

خطبات طاہر جلد ۹ 713 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء قرار دیا اور بار بار دھرائی جانے والی آیات قرار دیا تو یہی وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر آنحضرت نے ہر نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھنا فرض قرار دے دیا اور بار بار دھرائی جانے لگی یعنی نمازوں میں سیہ ام الکتاب یا سورۃ فاتحہ بار بار دھرائی جانے لگی.اب میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ یہ وہ ایک ایسی بار بار پڑھی جانے والی سورۃ ہے جس کے اندر اس کے متعلق اٹھائے جانے والے سارے سوالات کا جواب ہے.سورۃ فاتحہ کی اس مناسبت کے ساتھ تفسیر کرنا جو میں ذکر چلا رہا ہوں بہت ہی زیادہ وقت چاہتا ہے لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ مختصر وقت میں اس مضمون کا تعارف آپ کو کروادوں تاکہ بعد میں آپ سوچتے رہیں اور اس سے استفادہ کریں.جوسات مضامین اس میں بیان ہوئے ہیں ان میں سے چار صفات باری تعالیٰ ہیں اور ایک عبادت کا عہد ہے اور ایک استعانت ہے یعنی مدد مانگنا اور ایک ہدایت کا ذکر ہے یعنی ہدایت طلب کرنا.یہ سات باتیں اس میں بیان ہوئی ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتح: ۲ تا ۴) یہاں جو لفظ الْحَمدُ ہے اس کا اس سارے مضمون سے تعلق ہے.پس سورۃ فاتحہ میں صفات باری تعالیٰ چار ہیں لیکن حمدان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک دائمی لازمی ہمیشہ کا تعلق رکھتی ہے اور بعد میں بھی جتنے مضامین بیان ہوئے ہیں ان سب کا حمد سے تعلق ہے.پس حمد سورۃ فاتحہ کا ایک رنگ ہے.اسی لئے اسے الحمد بھی کہا جاتا ہے.جہاں تک حمد کا تعلق ہے یہ چونکہ ہر مقام شکر پر ادا کی جاتی ہے اس لئے جب بھی ہم نے خدا کا شکر ادا کرنا ہو تو الحمد کو شکر کے معنوں میں بھی ادا کرتے ہیں یعنی جب بھی کہنا ہو.اے خدا! ہم تیرے بے حد ممنوں ہیں، تو نے بہت احسان کیا، تیرا شکریہ، تو الحمدللہ منہ سے نکلتا ہے گو یا حمد اور شکر دونوں ہم معنی ہو گئے اور کثرت استعمال نے یہ معنی حمد کو عطا کر دیئے ہیں.تو سب سے پہلی بات جو سورۃ فاتحہ ہمیں بتاتی ہے جس کا ساری سورۃ فاتحہ کے مضمون سے تعلق ہے وہ حمد ہے اگر حمد کا لفظ بغیر سوچے ادا کر دیا جائے تو باقی سارے مضامین خالی رہیں گے کیونکہ حمد کا دروازہ وہ دروازہ ہے جس سے داخل ہوکر سورۃ فاتحہ کے باقی مضامین سمجھ آتے ہیں اور ان میں رس بھرتا ہے.تو پہلی نصیحت تو یہ کہ سورۃ فاتحہ جب پڑھتے ہیں تو لفظ الحمد پر ٹھہر کر غور تو کیا کریں کہ کیا کہہ رہے ہیں.سب تعریف، ہر قسم کی تعریف مکمل تعریف خدا ہی کے لئے ہے.ایسا شخص جس کو نماز میں مزا نہیں آتا اس کے قبلے جدا ہوتے ہیں،اس لذت

Page 719

خطبات طاہر جلد ۹ 714 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء یابی کی راہیں الگ ہوتی ہیں، اس کے سامنے کوئی دوست ہوتا ہے، کوئی مطلوبہ چیز ہوتی ہے کوئی اور ایسی طلب ہوتی ہے جس کے ساتھ اس نے اپنی حمد کو وابستہ کیا ہوتا ہے.پس لذت تو وہاں آتی ہے جہاں لذت کا قبلہ ہو.اگر قبلہ اور طرف ہواور آپ کا منہ اور طرف ہو تو آپ کو بے چینی پیدا ہو گی لذت نہیں آئے گی.پس لفظ حمد پر غور کرنا بہت ضروری ہے اور اس کا آسان طریق یہ ہے کہ اپنی ذات کا تجزیہ کیا جائے اور انصاف کے ساتھ اور تقویٰ کے ساتھ انسان پہلے یہ تو معلوم کرے کہ مجھے کون کون سی چیزیں اچھی لگتی ہیں.کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جن سے مجھے پیار ہے.ان چیزوں کو اگر نماز کے ساتھ باندھ دیا جائے تو نماز بھی اچھی لگنے لگے گی.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے حقیقت میں انسان کو بڑی وسیع نظر سے اپنی ساری زندگی اور اس کے مقاصد کا جائزہ لینا پڑے گا اور وسیع نظر سے ہی نہیں بلکہ گہری نظر سے بھی اور جب انسان اپنے حمد کے مقامات کا تعین کرلے کہ میرے نزدیک یہ چیز باعث حمد ہے.یہ چیز قابل حمد ہے، یہ چیز تعریف کے لائق ہے تو اس وقت الحمد للہ کا ایک اور مضمون اس کے سامنے اُبھرے گا.وہ جب غور کرے گا تو جو چیز بھی اس کو اچھی لگتی ہے اس کو اچھا بنانے میں خدا کی تقدیر نے کام کیا ہے اور خدا چاہے تو اس کو اچھا رکھے گا.جب چاہے گا وہ اچھی نہیں رہے گی اس کی اچھائی ذاتی نہیں اور دائمی نہیں.بعض دفعہ ایک چیز ایک خاص حالت میں اچھی لگتی ہے.اچھانیا بنا ہوا گھر ہے، بہت ہی خوبصورت لگتا ہے.اس کے ساتھ انسان کی طبعی حمد وابستہ ہو جاتی ہے لیکن پچاس، ساٹھ ،ستر سال کے بعد جب اس کی چولیں ڈھیلی ہو جائیں ، جب وہ جراثیم سے بھر جائے ، ہر طرف اس کا رنگ اجڑ جائے.اس کا نقشہ بدلنے لگے ، چیزیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں تو اسی گھر سے وحشت ہو گی.حمد رفتہ رفتہ اس کو چھوڑ دے گی.ایک خوبصورت چیز سے محبت ہے.جب تک اس کی خوبصورتی قائم ہے ، اس وقت تک طبعاً اس کی طرف رغبت ہوگی اور جب خوبصورتی مٹ جائے تو پھر یا تو انسان اس سے متنفر ہو کر دور بھاگنے لگتا ہے یا اگر وہ صاحب وفا ہے تو ایک اور صفت اس کے کام آتی ہے اور وفا اس کو اس کے ساتھ تعلق قائم رکھنے پر مجبور کرتی چلی جاتی ہے لیکن وہ طبعی بے اختیار محبت جو حسن کے ساتھ وابستہ ہے وہ ویسی نہیں رہ سکتی اسی لئے وفا اور جفا میں یہی فرق ہے.حسن اگر ہو گا تو نہ وفا کی ضرورت ہے نہ جفا کا سوال.جب حسن مٹ جائے یا پیچھے ہٹنے لگے تبھی دومضامین آگے بڑھتے ہیں اور صاحب وفا کا

Page 720

خطبات طاہر جلد ۹ 715 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء تعلق اس چیز سے قائم رہتا ہے جو حسن چھوڑ بیٹھی ہے اور صاحب جفا اس سے آنکھیں بدل لیتا ہے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ احمد للہ کی ایک تفسیر ان چیزوں پر غور کرنے سے بھی آپ کے سامنے ابھرے گی.جو چیز بھی آپ کو پیاری ہے اس پر آپ غور کر کے دیکھ لیں ، اس کا حسن دائمی نہیں.اس کی لذت دائمی نہیں ہے.بلکہ اس میں لذت موجود بھی ہو تو سیری کے بعد آپ کی نظر میں اسکی اہمیت ختم ہو جاتی ہے.جو چاہیں مزیدار کھانا آپ کھا ئیں ، آپ کو میسر ہو کثرت کے ساتھ عین آپ کی خواہشات کے مطابق تیار ہوا ہو.جب پیٹ بھر جائے گا تو اس کی حد ختم ہو جائے گی.دوبارہ جب آپ کو کوئی دے گا تو آپ پہلے تو تکلف سے مسکرا کر کہیں گے کہ نہیں نہیں کوئی ضرورت نہیں.اگر وہ زبر دستی کھلائے گا تو آپ کا دل چاہے گا کہ اس کو جوتیاں ماریں کہ اس نے کیا مصیبت ڈالی ہوئی ہے.بچے چونکہ بے تکلف ہوتے ہیں وہ صاف ماؤں کے منہ پر بات مارتے ہیں کہ بس نہیں کھانا.جو مرضی کر لیں تو حمد حسن کے ہوتے ہوئے بھی ختم ہو جایا کرتی ہے لیکن ایک ذات ہے جس نے وہ حمدان چیزوں میں رکھی ہے.اس کی حمد دائمی ہے.وہ ذاتی حمد ہے اور اسی نے پیدا کی ہے جب چاہے وہ حمد چھین لے.جب ان باتوں پر آپ غور کرتے ہیں تو آپ کا ہر قبلہ خدا کی طرف اشارہ کرنے لگتا ہے اور قبلہ اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا.چنانچہ غالب نے اسی مضمون کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے.یعنی ان معنوں میں تو نہیں کہ سورۃ فاتحہ سے تعلق میں لیکن چونکہ وہ صوفیانہ مزاج بھی رکھتا تھا، اس لئے بعض دفعہ اچھی اچھی حکمت کی باتیں بیان کر دیا کرتا تھا، کہتا ہے.ہے پرے سر حدا در اک سے اپنا مسجود قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں (دیوان غالب صفحہ : ۱۴۶) کہ ہم بظاہر قبلے کی طرف منہ کرتے ہیں لیکن ہمارا مسجود قبلے سے پرے ہے.قبلہ فی ذاتہ مسجود نہیں ہے.جو نظر رکھنے والے لوگ ہیں ، صاحب نظر لوگ وہ قبلہ کو قبلہ نما کہتے ہیں قبلہ دکھانے والا.تو اس نگاہ سے اگر آپ کائنات کی کسی چیز کو بھی دیکھیں تو ہر چیز کے ساتھ حد کا تصور وابستہ ہے اور ہر چیز قبلہ نما بن جاتی ہے.پس صرف وہی چیزیں نہیں جو آپ کے لئے محمود ہیں اور آپ کو محبوب ہیں بلکہ کسی چیز پر بھی نظر ڈالیں کوئی چیز بھی حمد سے خالی نہیں اور اس کے ساتھ ہی فرمایا لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اور ربوبیت کا حمد سے ایک بہت گہرا تعلق ہے.میرے لئے تو ممکن نہیں ہو گا کہ حمد کے مضمون کو ان

Page 721

خطبات طاہر جلد ۹ 716 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء سات مضامین سے باندھ کر تفصیل سے یہاں بیان کروں لیکن یہ نمونہ آپ کو دے رہا ہوں تا کہ ان باتوں پر غور کر کے اپنی نمازوں کے ان سات برتنوں کو ایسے رس سے بھر دیں کہ ہر برتن میں آپ کے لئے ایک تسکین بخش شربت موجود ہو جسے پی کر آپ لذت حاصل کریں.اب ربوبیت کے مضمون کے ساتھ حمد کا جو تعلق ہے وہ بہت ہی گہرا اور بہت ہی وسیع ہے.میں نے آپ کے سامنے کھانے کی مثال پیش کی.کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کھانا جب فضلے میں تبدیل ہو جاتا ہے ، گندگی اور بد بو میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر کہاں حمد اس میں باقی رہ سکتی ہے اور حمد کے مضمون کو میں اس کے ساتھ کس طرح باندھوں گا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ نظر گہری کر کے دیکھو ربوبیت کا اس کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے کیونکہ جو چیز تمھارا گند ہے.وہ خدا کی کائنات میں بعض اور مخلوقات کے لئے ایک نعمت ہے اور وہ نعمت مختلف شکلوں میں اس کی دوسری مخلوق کو پہنچ رہی ہے.ایسی بدبودار کھا د جس کے پاس سے گزرا بھی نہیں جاتا وہ پودوں کے لئے ایک نعمت ہے.اسی سے رنگ برنگ کے پھول اور خوشبوئیں میں پیدا ہوتی ہیں اور وہ رزق پیدا کرتی ہیں جو آپ کے لئے حمد بن جاتا ہے.تو کیسا عظیم مضمون ہے رَبِّ العلمین کی حمد کا کہ کوئی ایک پہلو بھی کائنات کا ایسا نہیں جو استعمال ہونے کے بعد بھی حمد کے مضمون سے خالی ہو.ہاں ایک طرف سے خالی ہوتا ہے دوسری طرف سے بھر جاتا ہے ایک کی ربوبیت کرتا ہے جب اس کی پیاس بجھا دیتا ہے تو خدا کی ایک اور مخلوق کی ربوبیت لئے تیاری کرتا ہے.پس اس پہلو سے جب آپ کائنات پر نظر ڈالیں تو کوئی ایک زندگی کا ذرہ بھی نہیں ہے جو کسی نہ کسی حالت میں کسی چیز کے لئے باعث حمد نہ ہو.عالمین نے اس بات کو کھول دیا ہے کہ تم خدا کو اپنی طرح ایک چھوٹی ذات نہ سمجھا کرو جب اس کی طرف حمد منسوب کرو اور اس کی ذات میں حمد تلاش کرو تو رب العلمین کے طور پر مد تلاش کرو اور ساری کائنات کی ربوبیت کے لئے اس نے جو نظام جاری فرمایا ہے اس پر غور کرو تو تمھاری نظر چندھیا جائے گی.ساری زندگی لمحہ لحہ بھی تم غور کرتے چلے جاؤ گے تو یہ مضمون ختم نہیں ہوگا، ناممکن ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں.اس زمین میں اور زمین کی ایک فضا میں جو اس زمین کا حصہ ہی ہے جتنی بھی مختلف قسم کی کیمیاء موجود ہیں مختلف قسم کے ذرات موجود ہیں یہ تمام کے تمام مختلف شکلوں میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں اور ایک پہلو سے استعمال ہوتے

Page 722

خطبات طاہر جلد ۹ 717 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء ہیں تو پھر ایک دوسرے پہلو کے لئے تیار ہو کر نکل جاتے ہیں اور کوئی waste نہیں.ضیاع کا کوئی تصور نہیں ہے.ناممکن ہے کہ ہم خدا کی اس زمین اور اس کے جو میں سے ایک ذرہ بھی ضائع کر سکیں کیونکہ وہ دوبارہ ری سائیکل Recycle ہوتا ہے اور یہ تو از ن اتنا عظیم الشان ہے کہ اتنی بڑی زمین، اتنی بڑی اس کی جو اور ان گنت ذروں پر مشتمل، لیکن ایک ذرہ بھی بلا مبالغہ اس میں سے ضائع نہیں ہو رہا.جس طرح چاہیں آپ اس کو استعمال کر کے اس کا حسن چاٹ جائیں ، اس کو ختم کر دیں.وہ جو بھی نئی شکل اختیار کرے گا کسی اور پہلو سے وہ جلوہ دکھانے لگے گا کسی اور کے لئے حسین بن کر ابھرے گا.ایک کا زہر ہے تو دوسرے کے لئے تریاق بن جائے گا ایک کی تریاق ہے تو وہ کچھ دیر کے بعد اس کے لئے زہر بنتی ہے اور ایک اور کیلئے تریاق بنتی ہے تو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ پڑھتے وقت اگر انسان ٹھہر کے سوچے اور خدا تعالیٰ کی ذات کی وسعت اور عظمت کا تصور کرے اور جس طرف نظر ڈالے وہاں حمد ہی کا مضمون دکھائی دے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان ساری عمر سورۃ فاتحہ پڑھتے وقت صرف الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کا حق ادا کر سکے ، بالکل ناممکن ہے.پس کون کہتا ہے کہ یہ بار بار دہرائی جانے والی ام الکتاب انسان کے لئے بوریت اور اکتاہٹ کا مضمون پیدا کرتی ہے، اکتاہٹ کے مواقع پیدا کرتی ہے ہر گز نہیں، ہر انسان کی اکتاہٹ اس کے اندر سے پیدا ہوتی ہے.اگر اسے محبت کا سلیقہ نہیں تو ہر چیز سے وہ اکتا جائے گا، اچھی سے اچھی چیز بھی اس کو بھلی معلوم نہیں ہوگی.پس اگر اکتاہٹ سے پناہ مانگنی ہے تو تو اپنے اندر محبت کا سلیقہ پیدا کریں.آپ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ کسی بات سے بھی خوش نہیں ہوتے.ان کے ماتھے پر تیوری چڑھی ہوئی ، جو چیز مرضی دیں کہ نہیں جی ! فضول بکو اس.ہر چیز پر تنقید کرتے ، ہر چیز ان کو بری لگتی ہے.قنوطی جیسے، جہاں جاتے ہیں لوگوں کو مصیبت پڑ جاتی ہے.اس لئے نہیں کہ ان کے سامنے خدا کی کائنات حمد سے خالی ہوتی ہے.اس لئے نہیں کہ دنیا میں اچھے لوگوں کا فقدان ہوتا ہے یا خو بیاں ہی دنیا سے غائب ہو چکی ہوتی ہیں.پس ان کے اندر ایک یبوست پائی جاتی ہے، ایک ایسی خشکی ہوتی ہے جو ان کو محبت سے عاری کر دیتی ہے.پس اگر محبت کی نظر پیدا کریں یعنی حسن دیکھنے اور اس سے استفادے کی نظر پیدا کریں تو خدا تعالیٰ کی حمد آپ کو ساری کائنات میں عظیم تر وسعتوں کے ساتھ اس طرح بکھری ہوئی

Page 723

خطبات طاہر جلد ۹ 718 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء اور پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ایک ذرے کے دل میں بھی آپ اتر جائیں تو اس میں بھی حمد کا ایک نیا جہان آپ کو دکھائی دینے لگے گا.پھر خدا رحمن بھی ہے اور رحیم بھی ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی ہے.ان صفات باری تعالیٰ کے ساتھ آپ حد کو باندھیں تو پھر آپ دیکھیں کتنے کتنے نئے حسین نقشے کائنات کے آپ کے سامنے ابھرتے ہیں اور ہر نقشے کے ساتھ خدا کی ہستی کا تصور وابستہ ہوتا ہے ہرحسین چیز کو خدا تعالیٰ حسن عطا کر رہا ہوتا ہے.تو وہ نما ز لذت سے کیسے خالی ہو جاتی ہے جس نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہو اور بے پناہ حسن کے جہان وہ ایک نظر کے سامنے کھولتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ وقت نہ ہونے کی وجہ سے یا غور کی زیادہ قوت نہ پانے کی وجہ سے استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے آگے گزر جائیں تو آپ کی مرضی ہے ورنہ سورہ فاتحہ کے ہر لفظ پر ٹھہر جائیں تو ساری زندگی اس ایک لفظ میں گزر سکتی ہے اور بغیر اکتاہٹ کے گزر سکتی ہے.ایک عجیب مضمون ہے ہر ہر لفظ میں جو آگے ایک پورا جہاں بناتا چلا جاتا ہے.پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا مضمون ہے.عبادت کا حمد سے بہت گہرا تعلق ہے اگر حمد نہیں ہوگی تو عبادت بھی نہیں گی اور یہ دعویٰ کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ صرف تیری عبادت کرتے ہیں ، ایک بہت بڑا دعویٰ ہے جو حد کے مضمون سے گزرے بغیر بالکل چھوٹا بن جاتا ہے.جب تک انسان یہ اقرار نہ کرے اور پورے صدق دل سے اس اقرار کو سمجھ کر اس کا قائل نہ ہو کہ تمام حمد خدا کے لئے ہے اس وقت تک تمام عبادات خدا کے لئے ہو ہی نہیں سکتی.اگر حمد کا کوئی پہلو کسی اور کے لئے ہے تو تو عبادت کا ہر پہلو خدا کیلئے نہیں ہو سکتا.یہ ایک ایسی حسابی بات ہے جس کے اندر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے.یہ Equation ہے ایک Mathematics کی اور ایسی قطعی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس Equation کو بدل نہیں سکتی.حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کو جو اتنا عظیم مقام عطا ہوا کہ کائنات کی ہر چیز تو در کنار ہر نبی سے آگے بڑھ گئے.تو اس مسئلے کو سمجھنے کا آخری نقطہ یہ ہے کہ آپ کی ساری حمد بلا استثناء خدا کے لئے ہوگئی تھی.اس لئے ایک وہ شخص تھا جو جب یہ کہتا تھا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ تو کامل طور پر اس اقرار میں سچا تھا کیونکہ واقعہ آپ کی ساری حمد خدا کے لئے تھی اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.ہم جب خدا سے مدد مانگتے ہیں تو اس سے پہلے یہ اقرار کر رہے ہوتے

Page 724

خطبات طاہر جلد ۹ 719 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء ہیں کہ اے خدا! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں.ہر شخص کی نیت یہی ہوگی اس سے تو کوئی انکار نہیں ہو سکتا یعنی انکار کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں لیکن یہ قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کلیہ اس مومن کا حق حضرت محمد ﷺ نے ادا فرمایا اور پھر وہی ادا کر سکتا ہے جو آپ کا کامل غلام ہو.اب جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتا یعنی دعا کرنے والا قطعی طور پر خدا ہی کی عبادت کرتا ہے اور کسی اور کی عبادت نہیں کرتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مدداسی سے مانگے گا اور کوئی مدد کے لئے رہا ہی نہیں کیونکہ جب معبود اٹھ گئے تو معبود تو ہوتے ہی وہ ہیں جن کے سامنے انسان اپنی ساری ہستی جھکا دیتا ہے اور اس سے بڑا اور کسی کو نہیں دیکھتا.اس کے بعد اور کون سا دروازہ رہ جاتا ہے جس کو کھٹکھٹانے کیلئے وہ اپنی ضروریات کی خاطر جائے گا.پس اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا مضمون إِيَّاكَ نَعْبُدُ سے از خود پیدا ہوتا ہے اور اتنا ہی پیدا ہوتا ہے جتنا ايَّاكَ نَعْبُدُ میں سچائی پائی جاتی ہے، اس سے زیادہ نہیں.پس اگر کسی کی عبادتیں حمد سے خالی ہوں اور حمد غیروں کے لئے ہو خواہ بظاہر اس کی عبادت کرے یا نہ کرے تو اس کی حمد سکڑ کر چھوٹی سی رہ جاتی ہے.کہتا تو یہی ہے کہ اے خدا!! میں صرف تیری عبادت کرتا ہوں مگر جو موحد ہو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اے خدا! میری نیت یہی ہے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کروں لیکن اس کی حمد چونکہ دنیا میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے اور لوگ خود قبلہ بن چکے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ قبلہ نما ہوں.اس پہلو سے اس کی عبادت جتنا حمد سے خالی ہوتی ہے اتناہی سکڑ کر اس طرح بن جاتی ہے جیسے کوئی فالج زدہ جسم ہو.ہاتھ سکڑ کر پہلو کے ساتھ بغیر طاقت کے لٹک جاتا ہے.ہاتھ تو رہتا ہے.اس طرح عبادت کی ظاہری شکل تو رہے گی لیکن چونکہ حمد سے خالی ہوگی اس لئے وہ جان سے خالی ہوگئی وہ زندگی سے خالی ہوگی ، غور سے خالی ہوگی ،وہ طاقت سے خالی ہوگی، وہ اثر سے خالی ہو گی اور اسی نسبت سے إيَّاكَ نَسْتَحِینُ میں کمزوری آجائے گی.خدا کی تقدیر اندھی تو نہیں ہے،خدا کی تقدیر تو اتنی صاحب بصیرت ہے کہ ان باریک ترین چیزوں کو بھی دیکھتی ہے جن پر انسان کی نظر پڑ ہی نہیں سکتی.اللہ کی تقدیر از خود اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا جواب بنتی ہے لیکن یہ دیکھ کر کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں کتنی استطاعت ہے.مانگنے کی استطاعت دیکھی جاتی ہے ظرف کے مطابق دیا جاتا ہے.پس ایسا شخص جس کی عبادت چھوٹی سی رہ گئی ہو اس کی استعانت کا جواب بھی اتنا ہی ملے گا اور اس میں کوئی ظلم

Page 725

خطبات طاہر جلد ۹ 720 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء نہیں.یہ اس بات کا ایک طبعی منطقی نتیجہ ہے.آپ جب خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں تو جواب میں یہ مل سکتا ہے کہ تو فلاں کا بھی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ، فلاں کا بھی کھٹکھٹاتا ہے.تیرے نزدیک فلاں شخص اتنی عظمت رکھتا ہے کہ جب سچ اور جھوٹ کا سوال ہو تو اس کی عظمت کے سامنے تو سچ کو قربان کرتے ہوئے بھی جھک جاتا ہے تیرے ذہن میں فلاں چیز کی اتنی طاقت ہے کہ اس سے مدد مانگنے کی خاطر تو ہر اس فعل پر آمادہ جاتا ہے جس کو خدا نے منع کیا ہوا ہے غرضیکہ ایک بہت ہی تفصیلی مضمون ہے اور روز مرہ کی زندگی میں جب ہم اپنی ذات پر اور اپنے گردو پیش پر چسپاں کرتے ہیں تو آدمی اگر صاحب ہوش ہو تو اس کے ہوش اڑ جائیں.ساری عمر عبادتوں میں اگر وہ مغز ڈھونڈ نے لگے تو اتنا تھوڑا ملے گا جیسے جلے ہوئے گھر سے انسان اپنی کوئی چھوٹی سی چیز تلاش کر رہا ہو.پس جو عبادتیں خالی ہوں گی وہ کیا مانگیں گی؟ کیونکہ ہر مانگنے کے جواب میں، ہر سوال کے جواب میں خدا کی تقدیر اسے یہ کہ رہی ہوگی کہ نہ نہ تم ایسی باتیں نہ کرو، تکلف نہ کرو تم دوسروں کی عبادت کیا کرتے تھے خواہ ظاہری طور پر نہ سہی لیکن جب مدد مانگنے کا وقت آتا تھا تو کسی اور کو طاقتور سمجھتے تھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا کرتے تھے اس لئے بے تکلفی سے صاف حق کا اقرار کر لو.بات یہ ہے کہ تم میرے دروازے کھٹکھٹانے کے اہل ہی نہیں ہو.جس کی حد تمھارے دل میں ہے.جس کی حقیقی عبادت کرتے ہو اسی سے مانگو اگر وہ تمہیں کچھ دے سکتا ہے.پس یہ جو فرق ہے بعض دعائیں قبول ہوتی ہیں اور بعض نہیں.آنسو فرق نہیں پیدا کیا کرتے.بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ہمیں عبادت میں کس طرح مزا آئے ہم تو روتے روتے سجدہ گاہوں کو تر کر دیتے ہیں مگر ہماری مطلوبہ چیز ہمیں نہیں مل رہی.ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جس چیز کو وہ خدا بنا بیٹھے ہوں پھر اس سے اس کا وجود مانگیں کیونکہ جب وہ اتنی زیادہ پیاری لگنے لگ گئی ہو کہ وہی قبلہ بن چکی ہو اور خدا کی طرف حمد صرف لفظوں سے منسوب کی جا رہی ہو اور فی الحقیقت خدا کی کائنات میں دوسری مختلف چیزیں انسان کی نظر میں محمود بن گئی ہوں ، قابل حمد بن گئی ہوں تو جب وہ خدا کے حضور روتا ہے تو حمد کی وجہ سے نہیں روتا.وہ اس وجہ سے روتا ہے کہ اس کی طلب پوری نہیں ہورہی.بیمار جب چھینیں مارتا ہے تو کسی تکلیف کی وجہ سے چیچنیں مارتا ہے.ضروری نہیں کہ اس کی چیخوں سے اس کا علاج ہو جائے علاج تو علاج کے علم کے ساتھ ہوتا ہے.

Page 726

خطبات طاہر جلد ۹ 721 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء پس عبادات میں بھی ایک سائنس ہے.دعاؤں کی بھی ایک سائنس ہے.جو دعائیں مستجاب ہونے کا حق رکھتی ہیں وہی مستجاب ہوتی ہیں.بعض دفعہ وہ آنسووں سے خالی بھی ، ابھی دعانہ بھی بنی ہوتب بھی وہ مقبول ہو جاتی ہے اور اس کا راز اسی میں ہے کہ سورہ فاتحہ کو آپ سمجھیں اور حمد کے مضمون کو خدا تعالیٰ کی چار صفات پر اطلاق کرتے چلے جائیں پھر جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہیں تو اپنے نفس کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ کہاں کہاں آپ کی عبادت واقعۂ حمد سے لبریز ہے اور کہاں کہاں خالی ہے.اپنی روز مرہ کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مضمون ہی ایک ایسا مضمون ہے جو آپ کے قدم روک لے گا اور آپ کبھی بھی اس مضمون سے نئے نکات حاصل کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے.سورۃ فاتحہ کا ایک مضمون بھی ایسا نہیں جسے انسان ساری زندگی کے غور وخوض کے بعد ختم کر سکے.تو بتائیے کون سی اکتاہٹ کا مقام ہے، اکتاہٹ کیسے پیدا ہوسکتی ہے.اکتاہٹ تو ہوتی ہے جب ایک چیز بار بار اسی شکل میں سامنے آئے.خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ تعارف ملتا کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ (الرحمن : ۳۱،۳۰) خدا کی ہستی ایسی ہے کہ ہر لحظہ اس کی شان بدل رہی ہے، اس سے انسان کیسے بور ہوسکتا ہے.اگر بدلتی ہوئی شان دیکھنے کی استطاعت کسی میں پیدا ہو جائے ، اسے ایسی آنکھیں نصیب ہو جائیں جو بدلتی ہوئی شان کو دیکھ سکیں تو اس کے لئے تو خدا تعالیٰ کبھی پرانا ہو ہی نہیں سکتا اور سورۃ فاتحہ کے شیشوں سے آپ خدا کی بدلی ہوئی شان دیکھ سکتے ہیں.یہ سورۃ فاتحہ وہ آلہ ہے، جیسے دور بین یا خورد بین یا اس قسم کے کیمرے استعمال کئے جاتے ہیں.بعض چیزوں کو خاص نہج سے قریب سے دیکھنے کے لئے اسی طرح سورۃ فاتحہ کو بھی ایک صاحب بصیرت انسان خدا تعالیٰ کی صفات دیکھنے اور اس کی نئی نئی شانیں دیکھنے میں استعمال کر سکتا ہے اور اگر چہ صرف چار صفات کا ذکر ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ان چار صفات میں خدا تعالیٰ کی تمام صفات موجود ہیں اور اب دیکھیں کہ اس چھوٹی سی سورۃ کوام الکتاب کہا گیا ہے اور قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی تمام صفات کی بحث ہے.پس کیسے اسے ام الکتاب کہہ سکتے ہیں اگر اس میں خدا تعالیٰ کی صفات میں سے صرف چار بیان ہوں.سوائے اس کے کہ وہ چاروں صفات اُمّم الصفات ہوں اور یہی امر واقعہ ہے.ان چار صفات کے ایک دوسرے کے عمل کے ساتھ اور ان کی جلوہ گری میں آپ کو خدا تعالیٰ کی تمام صفات دکھائی دے سکتی ہیں.

Page 727

خطبات طاہر جلد ۹ 722 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء پس اُمّ الکتاب کا صرف یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ میں مضامین ہیں.ان میں ہر لفظ جو بیان ہوا ہے وہ ماں کا درجہ رکھتا ہے.خدا تعالیٰ کی چار صفات ام الصفات ہیں.عبادت کا مضمون خدا سے تعلق کے لحاظ سے ہر مضمون کی ماں ہے.یہ وہ رستہ ہے جس کے ذریعے خدا سے تعلق قائم ہوتا ہے اور اس کے بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو زندگی کے کسی دائرے میں بھی خدا سے تعلق ہو خواہ بظاہر آپ نماز پڑھ رہے ہوں یا نہ پڑھ رہے ہوں ، وہ حقیقت میں عبادت ہی ہے جس کے ذریعے تعلق قائم ہو سکتا ہے اور اس مضمون کو حضرت اقدس محمد علی نے ہمارے سامنے اس طرح کھول کر بیان فرما دیا جب فرمایا کہ اگر تم بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتے وقت یہ سوچتے ہوئے لقمہ ڈالو کہ خدا راضی ہو گا اور خدا چاہتا ہے کہ تم اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو اور اس سے حسن سلوک کرو تو تمھارا یہ فعل بھی عبادت بن جائے گا.تو اب دیکھ لیں اس چھوٹی سی مثال میں ہر انسانی زندگی کے ہر عمل کو عبادت میں تبدیل کرنے کا کتنا عظیم الشان نسخہ فرما دیا گیا ہے اور تعلق صرف نماز کے ذریعے قائم نہیں ہوتا بلکہ ہر آن انسان کے گردو پیش ہونے والے واقعات اور اس کے تجارب کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کا ایک تعلق ہے.انسان اپنے گردو پیش میں ہونے والے واقعات سے متاثر ہو کر جو بھی ردعمل دکھاتا ہے وہ رد عمل عبادت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے اور عبادت سے دور بھی ہٹ سکتا ہے.پس إِيَّاكَ نَعْبُدُ میں تعلق باللہ کی ماں بیان ہوگئی ہے.یعنی اس ایک لفظ کے اندر اس ایک عہد میں کہ اے خدا تیرے سوا ہم کسی کی عبادت نہیں کریں گے، تیری کریں گے اور صرف تیری کریں گے، تیری ہی عبادت کرتے ہیں کسی اور کی عبادت نہیں کرتے.غیر کی عبادت کا انکار کرتے ہیں.اس اقرار میں ہر تعلق باللہ کی جان ہے اور اس کو آپ جتنا وسیع کرتے چلے جائیں گے اتنا ہی زیادہ آپ اس کے مطالب سے استفادہ کرتے چلے جائیں گے.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بھی بظاہر آپ غیروں سے سوال کرتے ہیں.بچہ ماں سے سوال کرتا ہے، باپ سے چیز مانگ لیتا ہے، دوست دوست سے چیز مانگ لیتا ہے اس میں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں فرق کیا ہے؟ اس فرق میں جب آپ غور کریں گے تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ دوست کی حیثیت ، ماں کی حیثیت ، باپ کی حیثیت ، بچے کی حیثیت جب تک یہ حیثیتیں اصل مقام پر قائم نہ ہوں اور خدا کے مقابل پر ان کے مقام انسان کے پیش نظر نہ ہوں، اگر ان کے ضائع ہونے کے باوجود خدا باقی رہتا ہو اور ان کا حسن اور ان کی خوبیاں

Page 728

خطبات طاہر جلد ۹ 723 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء یوں دکھائی دیتی ہو جیسے خدا کا حسن اور خدا کی خوبیاں ان میں منعکس ہو رہی ہوں تو پھر ان سے مانگنا خدا ہی سے مانگنا بن جائے گا اور غیر اللہ سے مانگنا نہیں رہے گا لیکن اگر ان کے مقام بگڑے ہوئے ہوں اور ان کے مقامات اللہ تعالیٰ کے مقام سے الگ ہوں اور اس راہ پر نہ ہوں تو پھر یہ شرک کے آلات بن جائیں گے.پس قبلہ کو قبلہ نما کہنا اس مضمون کی وضاحت کر رہا ہے.جب ایک عبادت کرنے والا قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے تو اس لئے وہ مشرک نہیں ہے کہ قبلہ جس طرف بنا ہوا ہے وہاں موجود عمارت اس کے تصور میں ہی نہیں آتی.گویا وہ ہے ہی نہیں صرف منہ اس طرف کیا جاتا ہے لیکن نشانہ بالآخر خدا کے قدم ہیں.جن کی عبادت کے سامنے انسان اپنا سر جھکاتا ہے.پس اس پہلو سے جب انسان حمد کے مضمون پر نگاہ ڈالتا ہے اور گردو پیش سب پیاری چیزوں کو اس طرح سمجھنے لگتا ہے کہ ان کی اپنی کوئی حقیقت نہیں میرے خدا ہی کا حسن ہے تو اس کے بعد ان سے استعانت کرتا ہے تو اس استعانت سے کوئی بھی خاص توقع نہیں ہوا کرتی نہ بھی ملے تو اس کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا اور اس کے مانگنے میں ایک استغنا پایا جاتا ہے ایک عظمت پائی جاتی ہے اور جھک کر گر کر نہیں مانگتا وہ جانتا ہے کہ خدا نے ہی اس کو دیا ہے اگر یہ نہیں دے گا اور خدا نے مجھے دینا ہوگا تو ہزار رستے اس کے دینے کے ہیں ان گنت راہیں ہیں جن سے وہ مجھے عطا کر سکتا ہے.تو عرفان جتنا جتنا بڑھتا چلا جاتا ہے اتنی اتنی ہی نماز میں لذت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور عرفان بڑھانے کے لئے بہت غیر معمولی علم کی ضرورت نہیں ہے.ہر انسان کا اپنا علم عرفان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.اب کائنات پر غور کرنے کے لئے ایک سائنس دان کا غور بہت وسیع ہو گا اگر اسے خدا تعالیٰ عرفان کی آنکھیں ہی نہ دے تو بڑے سے بڑے علم کے باوجود اس کو حمد کا مضمون سمجھ نہیں آئے گا لیکن ایک معمولی ، انسان ایک چرواہا، ایک گڈریا ایک زمیندار کاشت کار یا ایک مزدو را گر بصیرت کی نظر رکھتا ہو تو وہ اپنے روز مرہ کے کاموں میں بھی خدا کی حمد دیکھ سکتا ہے اور حمد کے ترانے گا سکتا ہے.پس علم سے حمد ضرور بڑھتی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن علم کے بغیر بھی عرفان نصیب ہو سکتا اگر انسان خدا تعالیٰ کی جستجو کرے اور اس کے حسن کی تلاش کرے تو کوئی جگہ ، ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں سے جستجو کرنے والا خدا تعالیٰ کا حسن نہ دیکھ سکے اور وہی حسن ہے جو دراصل حمد میں تبدیل

Page 729

خطبات طاہر جلد ۹ 724 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء ہوتا ہے جس کے بعد انسان بے اختیار کہتا ہے الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ پھر روز مرہ کے انسان تجارب ہیں ، خوشیاں ہیں، غم ہیں، خوف ہیں ان کے نتیجے میں روزانہ نماز کے یہ سات لفظ جو میں نے بیان کئے ہیں یہ نئے نئے مضامین سے بھرے جا سکتے ہیں.ایک شخص کا ایک بچہ فوت ہو جاتا ہے اور کوئی صدمہ پہنچتا ہے اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب ہم کس طرح سچے دل سے حمد کریں یہ کہنے والے صرف اس لئے کہتے ہیں کہ ان کے دماغ میں حمد اور شکر ایک ہی مضمون کے دو نام بن چکے ہوتے ہیں اور اکثر لوگ حمد صرف شکر کے معنوں میں کہتے ہیں ان کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ حمد ہے کیا تو کہتے ہیں اب تو ہمارا نقصان ہو گیا ہے اب تو ہم صدمے کی حالت میں ہیں یا خوف کی حالت میں ہیں ہم کیسے حمد کر سکتے ہیں لیکن وہی وقت حمد کرنے کا ہوتا ہے.کیونکہ ایک محمود چیز ان کے ہاتھوں سے چلی گئی ہوتی ہے ایک ایسی چیز ان کی روح سے کھوئی جاتی ہے جس کے ساتھ ان کی کوئی حمد وابستہ ہے اور وہ وقت ہوتا ہے یہ یاد کرنے کا کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ حمد تو اصل میں خدا کی ہے خدا نے یہ حد تھوڑی سی بخشی تھی عارضی طور پر وہ قابل ستائش تھا لیکن جس نے حمد عطا کی تھی وہ میرا ہے اور ہمیشہ میرے ساتھ رہنے والا ہے وہ کبھی مجھے چھوڑنے والا نہیں پس نقصان سے کچھ صدمہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن اگر صدمہ کو انسان عارضی سمجھ لے یعنی حقیقت میں عرفان کی روح سے تو وہ صدمہ عارضی بن جاتا ہے اور اگر اس کی حمد ہمیشہ کے لئے اس سے وابستہ ہوچکی ہو اور خدا کے علاوہ ایک باطل بت کے طور پر ایک شخص سے پیار کرنے لگے تو اس کا نقصان بھی ہمیشہ رہے گا اور اس سے پتا چلے گا کہ اس نے خدا کے علاوہ کسی اور شخص سے دائمی حمد منسوب کر دی تھی.پس دیکھیں کہ ایسے صدمے کے بعد اس کی پہلی نماز کی پہلی رکعت بے اختیار اس کی توجہ اس کی طرف مبذول کرا دیتی ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ روز تمہیں یہ سبق دیا گیا، روز تم نے غور سے پڑھا، جانتے ہو اچھا بھلا کہ خدا کے سوا کسی کی کوئی حد نہیں ہے تو اگر یہ چیز ضائع ہوئی تو خدا ہی نے تو حمد عطا کی تھی اس لئے اگر کوئی حمد عطا کرنے والا اپنی چیز واپس لیتا ہے تو واپس کرتے وقت بھی شکریہ ادا کیا جاتا ہے شکوہ کا وقت نہیں ہوا کرتا.آپ نے کسی کو کوئی چیز استعمال کے لئے دی ہو اور جب آپ واپس لیں تو وہ آگے سے گالیاں دینے لگ جائے یہ چیز ابھی تو تم نے دی تھی اب واپس لے کر جا رہے ہو تو آپ کا اس کے متعلق کیا تاثر ہوگا لیکن اگر وہ شریف النفس ہوگا تو وہ

Page 730

خطبات طاہر جلد ۹ 725 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء واپس دیتے وقت بھی شکریہ ادا کرے گا لیکن یہ شکریہ بھی ادا ہو سکتا ہے اگر مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ پر نظر ہو جس کو انسان مالک کل سمجھتا ہے اس کا شکر یہ ادا کیا کرتا ہے اور اس کے واپس لینے پر کوئی ناراضگی پیدا نہیں ہو سکتی جتنی دیر اس نے موقع دیا غنیمت ہے اس کا احسان ہے تو مُلِكِ يَوْمِ الدِّین نے اس حمد کا خدا تعالیٰ کی صفات کے ساتھ تعلق خوب کھول کر بیان کر دیا.یہ مطلع کر دیا کہ اگر خدا کو ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ سمجھو گے تو اس کے ساتھ وابستہ ہر حمد ہمیشہ حمد کی ہی حالت میں دکھائی دے گی.اگر اس کو ملِكِ يَوْمِ الدِّین نہیں سجھو گے تو بعض موقعوں پر ، حمد کے اہل نہیں رہو گے جب کسی پہلو سے ابتلا پیش آئے گا کوئی چیز تم سے واپس لی جائے گی تم آپ جو مالک بن بیٹھے ہو گے ہمیشہ کے لئے اپنا بنا چکے ہو گے، ہمیشہ کے لئے اس کے ہو چکے ہو گے تو مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ پھر کہاں رہا.خدا تو اس کی ملکیت سے پھر الگ ہو گیا.پس سورہ فاتحہ میں انسان کی سوچوں کے جتنے پہلو بھی ہیں ان تمام کی سیرابی کی گئی ہے انسان کی ہر تشنگی کو دور فرمایا گیا ہے ممکن نہیں کہ کوئی انسان سورۃ فاتحہ پر سے غور کرتے ہوئے گزرے اور کسی قسم کے تشنگی باقی رہے یا اکتاہٹ محسوس ہو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ جب یہ کہو کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ تو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں یہ معنی سامنے رکھ لیا کرو کہ اے خدا تیری عبادت کی نیت تو ہے لیکن کی نہیں جاتی اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ مدد بھی تجھ ہی سے مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور پھر آہستہ آہستہ تمہاری عبادت صحیح مقام پر کھڑی اور صحیح قائم ہو جائے گی.پس یہ مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بہت وسیع ہے اور ایک خطبے میں تو ناممکن ہے کہ اس کا پورا حق ادا کیا جا سکے میں نے کوشش کی ہے کہ مختصراً آپ کو سمجھاؤں کہ عرفان سے نماز میں لذت پیدا ہوتی ہے اور اس کے لئے محنت کرنی پڑے گی.بات سمجھنے کے باوجود اچانک آپ کی نماز زندہ نہیں ہوسکتی جن دانوں میں رس نہ رہا ہو اور وہ اگر زندہ ہیں اور درخت سے تعلق رکھتے ہیں تو معاً علاج کے بعد ان میں رس نہیں بھرا جا سکتا وقت لگتا ہے اور محنت کرنی پڑتی ہے پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: يَا يُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحُ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِيه (الانشقاق : ۷ ) کہ اے انسان! تو خدا کی طرف محنت کر رہا ہے یعنی وہ انسان مخاطب ہے جو

Page 731

خطبات طاہر جلد ۹ 726 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۹۰ء خدا کو پانے کے لئے محنت کرتا ہے.گادِے اِلى رَبِّكَ كَدْحًا تجھے بہت محنت کرنی پڑے گی اور بہت محنت کر رہا ہے ہم تجھے یہ یقین دلاتے ہیں کہ تیری یہ محنتیں ضائع نہیں جائیں گی.فَمُلقِیهِ تو ضرور اس رب کو پالے گا جس کی خاطر تو محنت اور جد وجہد کرتا ہے.تو عبادت کے باہر کے دورازے پر پہنچنے کی بجائے واپس عبادت کے مرکز کی طرف لوٹیں اور اپنی محنتوں کو جاری رکھیں اور خدا سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ محنتوں کی بھی توفیق عطا فرمائے اور محنتوں کو پھل بھی لگا دے.یہاں تک کہ نماز آپ کے لئے لذتوں کا ذریعہ بن جائے ، بوریت اور اکتاہت کا باعث نہ رہے.

Page 732

خطبات طاہر جلد ۹ 727 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء ذکر الہی کے مضمون کو سمجھ کر خدا تعالیٰ کی حمد کریں.اگر نماز میں لذت پیدا کرنی ہے تو نماز سے باہر ذکر الہی کا سلیقہ سیکھیں (خطبہ جمعہ فرموده ۷/ دسمبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ط وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوران وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي أَذَانِهِمْ وَقْرًا وَ إِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا پھر فرمایا: (بنی اسرائیل : ۴۵ تا ۴۷) b یہ تین آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ اسراء جس کا دوسرا نام بنی اسرائیل بھی ہے اُس سے لی گئی ہیں.آیت نمبر ۴۶،۴۵ اور ۴۷.اگر بسم اللہ شامل کر لی جائے جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے اور قرآن کریم میں بسم اللہ کا نمبر شامل کیا جاتا ہے تو پھر یہی ہے.بسم اللہ کے بغیر ۴۴، ۴۵ اور ۶ ۴ نمبر ہوگا.

Page 733

خطبات طاہر جلد ۹ 728 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں سات آسمان اور زمین اور جو کچھ بھی ان میں ہے اور فی الحقیقت کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کی تسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم لوگ ان تسبیحوں کو سمجھتے نہیں.یعنی زندہ چیزیں بھی اور بظاہر مردہ نظر آنے والی چیزیں بھی جو کچھ بھی کائنات میں آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے لیکن تم اُسے سمجھ نہیں سکتے.إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا.یقیناً وہ یعنی اللہ تعالیٰ بہت ہی بردباد اور بہت ہی مغفرت کا سلوک فرمانے والا ہے.وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ اے محمد ! مخاطب کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن مخاطب حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو ہی فرمایا گیا ہے.کہ اے محمد ! تو جب قرآن کی تلاوت کرتا ہے ہم تیرے درمیان اور اُن لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک ایسا پردہ وارد کر دیتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتا.یعنی مخفی پردہ ہے.دیکھنے میں کوئی پردہ نہیں لیکن فی الحقیقت وہ پردہ ہے.وہ تیرے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے.وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوْبِهِمُ اكِنَّةً اَنْ يَفْقَهُوهُ اور ہم اُن کے دلوں پر طرح طرح کے پردے ڈال دیتے ہیں.چنانچہ وہ اُن پر دوں کی وجہ سے سمجھ نہیں سکتے یا اس غرض سے پردے ڈال دیتے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ نہ سکیں اور اُن کے کانوں میں بوجھ ہے.یعنی اول تو آواز ہی دلوں تک نہیں پہنچتی کیونکہ کان ہی اُس آواز کو رڈ کر دیتے ہیں اور جو آواز دلوں تک پہنچتی ہے، دل پر دوں میں ملفوف ہیں، لیٹے ہوئے ہیں اور ایک نہیں کئی قسم کے پردے ایسے ہیں جنہوں نے دلوں کو حق کی بات سمجھنے سے محروم کر رکھا ہے اور جب بھی تو قرآن کریم میں اپنے رب کو اُس کی توحید کے ساتھ ، ایک خدا کے طور پر پیش کرتا ہے یا اُس کا ذکر کرتا ہے تو یہ لوگ پیٹھ پھیر کر نفرت کے ساتھ منہ موڑ کر چلے جاتے ہیں.گزشتہ خطبے میں میں نے نماز میں لذت پیدا کرنے کا ایک طریق یہ بیان کیا تھا کہ سورہ فاتحہ کے مضمون کو خوب غور سے پڑھیں اور حمد کے لفظ میں ساری لذتوں کی کنجی ہے.اگر خدا تعالیٰ کی حمد اس طرح کی جائے کہ انسان کا دماغ ان لفظوں کے ساتھ مل جائے ، وابستہ ہو جائے جو سورہ فاتحہ میں ادا کئے جاتے ہیں اور سوچ سوچ کر حمد کو مختلف پہلوؤں سے خدا تعالیٰ کی ذات پر اطلاق کرتا چلا جائے اور اُس کی صفات کو حمد کی روشنی میں سمجھے تو ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ مضامین کا ہے جو انسان پر روشن ہوتا چلا جاتا ہے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حمد کرنے میں کائنات کی ہر چیز

Page 734

خطبات طاہر جلد ۹ 729 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء شامل ہے.صرف جانداروں ہی کا ذکر نہیں فرمایا گیا بلکہ ہر وہ چیز جو آسمانوں میں یا زمین میں ظاہر یا مخفی طور پر موجود ہے وہ سب خدا تعالیٰ کی حمد کر رہی ہوتی ہے.فرمایا لیکن تم اُس کو سمجھتے نہیں ہو.اس ضمن میں میں چند اور پہلوؤں سے احباب جماعت پر حمد کو سمجھنے کا اور اس کو اپنانے کا طریق پیش کرنا چاہتا ہوں.پہلا تو یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ آفاق پر غور کرنے سے انسان کو خدا تعالیٰ کی ہستی سے شناسائی ہوتی ہے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اپنے نفس پر غور کرنے سے انسان کو خدا تعالیٰ کی ہستی کی شناسائی ہوتی ہے.آفاق میں بھی خدا کے نشان ملتے ہیں اور اپنے وجود میں بھی خدا تعالیٰ کے نشان ملتے ہیں.آفاتی لحاظ سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنے کا طریق قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اُس کے زمین و آسمان کی اور جو کچھ اُن دونوں میں ہے اُن کی تخلیق پر غور کریں.جیسا کہ فرمایا الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ ( آل عمران :۱۹۲) یعنی لِأُولِي الْأَلْبَابِ وہ لوگ جو صاحب عقل ہیں، جو خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں، اپنے پہلوؤں پر کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے ہر حالت میں وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ اور ان کی یاد محض ایک خیالی اور فرضی یاد نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی تخلیق پر غور کرنے کے نتیجے میں اُس سے مدد حاصل کر کے ان کی یاد میں بہت گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور غیر معمولی لذت پیدا ہو جاتی ہے.پس زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنا اور دن اور رات کے بدلنے پر غور کرنا ذکر الہی کے ساتھ ایک گہرا تعلق رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر صاحب عقل ہو ، تم صاحب ہوش ہو تو ہم تمہیں یہ طریق بتاتے ہیں کہ ہمیں یاد کرنے کے لئے ہماری تخلیق پر غور کیا کرو اور جب تم ہماری تخلیق پر غور کرو گے تو ہم سے اس طرح تمہاری شناسائی ہو جائے گی ، ایسا گہراتعلق پیدا ہو جائے گا کہ عاشق کی طرح تم خود بخود ہمیں یاد کرنے لگو گے اور پھر دن رات یاد کرو گے لیٹے ہوئے اپنے پہلوؤں پر اُس وقت بھی ہمیں یاد کرو گے اور اُٹھتے ، چلتے پھرتے ، بیٹھتے گویا کہ ہر حالت میں ہم تمہیں یادر ہیں گے یہ طریق ہمیں سمجھایا گیا اور جہاں غور کرنے کے لئے نصیحت فرمائی وہاں یہ بھی ساتھ بتا دیا کہ تم اکیلے نہیں ہو حد میں.جن چیزوں پر تم غور کر کے اُن سے مدد لیتے ہوئے ہمیں یاد کرتے ہو، ہر وہ چیز جس پر تم غور کرو گے وہ خود ہماری یاد میں مصروف ہے اور ہماری یاد میں محو ہے اور ہماری تسبیح کر رہی ہے.یاد کرنے والوں کا یہ مضمون اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کا ذرہ ذرہ

Page 735

خطبات طاہر جلد ۹ 730 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول اور محمدکھائی دیتا ہے لیکن اُس کے باوجود انسان جسے سب سے زیادہ عقل دی گئی ہے، سب سے زیادہ نا سمجھ ہے.لَّا تَفْقَهُونَ تم اُن کی تسبیح کو سجھتے ہی نہیں.کیسا تم غور کر رہے ہو کہ نہ خدا تعالیٰ کی کائنات پر غور کر کے خدا کی یاد تمہارے دل میں پیدا ہوتی ہے نہ جن چیزوں پر غور کرتے ہو یہ سمجھ سکتے ہو کہ وہ کیوں ان باتوں میں مصروف ہیں جو تمہیں دکھائی تو دیتی ہیں مگر سمجھ نہیں آتی.اس کے بعد اگلی آیت کا تعلق بظاہر اس مضمون سے نہیں لیکن فی الحقیقت اسی سے ہے اور اسی کی انگلی کڑی ہے لیکن وہ میں بعد میں بیان کروں گا.اب میں اس مضمون کے پہلے حصے کو ذرا زیادہ کھول کر بیان کرتا ہوں.انگلستان میں آجکل بدھ کے روز رات کو جو زندگی کی مختلف شکلیں ہیں اُن سے متعلق David Attenbrough کی فلمیں دکھائی جا رہی ہیں.David Attenbrough ایک بیالوجسٹ ہے جو اس فن میں غالباً آج تمام دنیا کے زندہ لوگوں میں سب سے زیادہ ماہر ہے کہ مختلف جانوروں کی زندگی کے حالات کو فلمائے یعنی ویڈیو کے ذریعے اور پھر اُن کی ایسی حالتوں میں اُن کو پکڑ لے جو عام طور پر نظر سے اوجھل رہتی ہیں اور اس طریق پر پھر پیش کرے کہ جس کے نتیجے میں ایک حیرت انگیز منتظم زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے اُبھرتا ہے اور مختلف پہلوؤں کو وہ لیتا ہے اور اُن پہلوؤں سے تعلق رکھنے والے مختلف جانوروں کی فلمیں پھر اکٹھی کر دیتا ہے اور ایک وسیع نظر میں آپ کو کسی زندگی کے ایک پہلو پر مختلف جانوروں کی قدر اشتراک دکھائی دینے لگتی ہے.اس کی مثال میں آپ کو دوں گا تو پھر بات آپ کو سمجھ میں آجائے گی.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی تخلیق پر غور کیا ہے اور بہت سے گہرے رازوں سے پردے اٹھائے ہیں مگر کم اُن میں سے وہ خوش نصیب ہیں جو اس کے نتیجے میں ذکر الہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.وہ ان چیزوں کو دیکھ تو رہے ہیں لیکن اُن پر یہ آیت صادق آتی ہے کہ تم سمجھتے نہیں اُن کی تسبیح کو کیونکہ تمہارا اپنا مزاج تسبیح کا نہیں ہے.نہ تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ کیا حرکتیں کر رہے ہیں اور کیوں خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور کیسے تسبیح کرتے ہیں.نہ تمہارا اپنا ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ یہ تو حیرت انگیز خدا تعالیٰ کی تخلیق کے کرشمے ہیں.جس طرح ایک مصور کے شاہکار کو دیکھ کر ذہن وہیں نہیں اٹکا رہتا بلکہ مصور کی طرف منتقل ہوتا ہے اور اُس کی تعریف کی طرف دل مائل ہوتا ہے.بعینہ یہی نتیجہ کا ئنات پر غور کرنے کا نکلنا چاہئے تھا اور جب بھی خدا تعالیٰ کی نئی نئی صنعتیں اور حیرت انگیز تخلیق کے کارنامے ہمارے سامنے آتے اُسی حد تک ، اُسی شناسائی کے

Page 736

خطبات طاہر جلد ۹ 731 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء معیار کے مطابق ہمیں اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف ہو جانا چاہئے تھا.مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم دیکھتے تو ہولیکن تم سمجھتے نہیں ہو.یہ بڑا دلچسپ مضمون ہے اگر چہ مجھے اتنا وقت نہیں ملتا کہ میں اس قسم کی فلمیں سب دیکھ سکوں.بعض دیکھ لیتا ہوں اور بعض کے متعلق ہمارے عبدالباقی ارشد صاحب کا بیٹا نبیل ہے اُس کو میں کہہ دیتا ہوں وہ میرے لئے تیار کر لیتا ہے.ریکارڈ کر کے پھر مجھے بعد میں بھجوا دیتا ہے اور بہت سی میں نے ربوہ اس غرض سے بھی بھجوائیں کہ وہاں کی نئی نسلوں میں وہ فلمی گانوں کے شوق اور بیہودہ فلمیں دیکھنے کے شوق پیدا ہورہے ہیں.وہ یہ کچھ دیکھیں جن کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے، جن کے متعلق توجہ دلائی گئی ہے کہ ان چیزوں کو دیکھو، ان پر غور کرو اور پھر تمہیں خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑے گی از خود تمہارے دل میں خدا کی محبت موجیں مارنے لگے گی اور بے اختیار ذکر میں اُتر جاؤ گے اور تسبیح از خود، خودرو چشموں کی طرح تمہارے دل سے پھوٹنے لگے گی مگر چند بھجوائی ہوں گی مگر بہت سی ایسی ہیں میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ اور بھی اکٹھی کر کے وہاں بھی بھجوائی جائیں اور باقی افریقہ وغیرہ کے ممالک میں بھی ایسی فلمیں بھجوائی جانی چاہئیں اور بچپن ہی سے بچوں کو دکھا کر اُن کے مضامین سے اُن کو شناسائی کروانی چاہئے.اب میں آپ کے سامنے مثالیں رکھتا ہوں کہ کس طرح یہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طور پر صلاحیتیں عطا کیا گیا ہے اور نہایت ہی اعلی طریق پر یہ ان مضامین کو ہم سے روشناس کرواتا ہے جبکہ کسی اور سائنسدان کو میں نے اس حکمت اور عقل اور گہرائی کے ساتھ ایسی فلمیں بناتے ہوئے نہیں دیکھا.ایک مضمون ہے آپس میں جانور ایک دوسرے سے کس طرح اپنے مطالب بیان کرتے ہیں، کس طرح ایک دوسرے سے رابطے پیدا کرتے ہیں.اس ضمن میں اُس نے مختلف ذرائع کو خصوصیت سے اختیار کیا اور پھر ایک ایک ذریعے سے تعلق رکھنے والے مختلف جانوروں کی مثالیں پیش کر کے یہ مضمون کھول کر سامنے رکھا اُس وقت صاف دکھائی دینے لگتا ہے کہ ایک حیرت انگیز خلاق عظیم ہے جس نے با قاعدہ ایک نظام کے تابع یہ حیرت انگیز کائنات پیدا فرمائی ہے ی اتفاقات کا حادثہ نہیں ہے.چنانچہ مثال کے طور پر روشنی کے ذریعے جانور ایک دوسرے سے رابطے پیدا کرتے ہیں.وہ دکھاتا ہے کہ کس طرح جگنو جو چمکتے ہیں، ہم لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں بچے بھی

Page 737

خطبات طاہر جلد ۹ 732 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء ان سے کھیلتے ہیں ، دلچسپی لیتے ہیں یہ کہ اتفاقاً یہاں اس کے اندر کوئی روشنی کا مادہ پیدا ہو گیا ہے جو خود بخود جلتا بھتا رہتا ہے اور وہی اُس کا مقصد ہے.لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب وہ غور کرتے ہیں تو بے اختیار اُن کے دل سے یہ بات نکلتی ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا اے خدا ! تو نے یہ چیزیں باطل اور بے مقصد پیدا نہیں فرما ئیں.تو یہی بات کہ باطل نہیں پیدا فرمائی “ یہاں تک تو دنیا کے سائنسدان پہنچنے لگے ہیں.خدا کرے اُس سے اگلا قدم بھی وہ اُٹھا لیں فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تک بھی پہنچ جائیں اور ذکر الہی میں بھی مشغول ہو جائیں.ہوسکتا ہے کچھ ہوں بھی لیکن اکثریت بدنصیبی سے اس سے محروم ہے.تو روشنی سے جو پیغام رسانی کی جاتی ہے اُس کے متعلق اُس نے مختلف ملکوں میں مختلف موسموں میں جگنوؤں کا پیچھا کیا اور اُن کی فلمیں بنائیں اور پھر اُن کے پیغامات پر غور کر کے اُن کو سمجھا.اس حد تک اُن کو سمجھا کہ سائنسی لحاظ سے پھر وہ ثابت بھی کرسکتا ہے کہ جو نتیجہ میں نکال رہا ہوں یہ درست ہے.جہاں تک پیغامات کا تعلق ہے ان سائنسدانوں کی نظر صرف یہاں تک پہنچتی ہے کہ نر کا پیغام مادہ کو کس طرح پہنچتا ہے، مادہ کا پیغام نرکو کس طرح پہنچتا ہے لیکن David Attenbrough آ گے بھی ایک قدم بڑھا چکا ہے اور یہ باتیں کہنے کے بعد جو عام طور پر سائنسدان کہتے ہیں وہ کچھ مثالیں ایسی بھی پیش کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اتنی سی بات نہیں ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں، اور بھی بہت کچھ یہ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں اور با قاعدہ ان کی ایک روشنیوں کی زبان ہے.چنانچہ جگنوؤں کی پیروی میں وہ ملائشیا بھی گیا اور وہاں اُس نے ایسے ایسے عظیم مناظر دیکھے کہ جن کو دیکھ کر انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہو جاتا ہے.ایک بہت بڑے درخت پر لکھوکھہا جگنو بھی ہو سکتے ہیں.اتنے کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پتے پتے پر ایک جگنو ہے اور وہ سارے کے سارے ایک ہم آہنگی کے ساتھ جس طرح تال پر سر چلتے ہیں اُس طرح ایک نغمگی کے ساتھ اکٹھے بجھتے ہیں اور اکٹھے جلتے ہیں اور اُن کے درمیان کوئی فرق نہیں جیسے ایک دل ڈھرک رہا ہو، جیسے نبض چلتی ہو اُس طرح وہ سارے ایک دم جلتے ہیں اور ایک دم بجھتے ہیں.وہ کہتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ ہم نے امریکہ میں بھی دیکھے وہاں اکیلے اکیلے جگنو چمکتے بجھتے دیکھے لیکن یہ عجیب کا ئنات ہے خدا کی کہ ان سب نے ایک دوسرے سے ہم آہنگی سیکھ لی ہے اور پھر اس نے مزید جب اُن پر غور کیا تو اس نے یہ

Page 738

خطبات طاہر جلد ۹ 733 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء بات معلوم کی کہ نرجب چمکنے کے ذریعے مادہ کو پیغام بھیجتا ہے اگر مادہ اُس کا جواب دینا چاہے اور اپنی طرف بلانا چاہے تو یونہی اتفاقا ایک طبعی رد عمل کے طور پر وہ نہیں چمکے گی بلکہ بعینہ دوسیکنڈ انتظار کے بعد آدھے سیکنڈ کے لئے چمکے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہاں میں تیار ہوں تم سے تعلق قائم کرنے کے لئے میری طرف آ جاؤ.چنانچہ اُس نے روشنی سے یعنی ٹارچ کے ذریعے یہ کر کے دکھایا.جگنو چمکے تو اُس کے پورے دو سیکنڈ کے بعد اُس نے ہاتھ پر تھوڑی سی ٹارچ روشن کی اور آدھا سیکنڈ صرف روشن کی اور اُڑتا ہوا ایک جگنو وہاں پہنچ گیا لیکن یہ جو اتنی سی بات اُس نے حاصل کی ہے اس کے لئے سالہا سال کی اُس کو محنت کرنا پڑی ہوگی، غور کرنا پڑا ہوگا اور ایک چھوٹا سا علم اُس کو حاصل ہو گیا جسے اُس نے سائنسی طور پر ثابت بھی کر دیا.مجھے یاد ہے جب میں ایک دفعہ بنگلہ دیش گیا تو خیال تھا سند ربن میں نئی نئی جماعتیں قائم ہو رہی تھیں اس لئے سندر بن بھی جانا چاہئے چنانچہ یہی نظارہ پہلی مرتبہ میں نے سندر بن میں دیکھا تھا اور مجھے علم نہیں تھا کہ ملائیشیا میں بھی ایسا ہوتا ہوگا اور آج تک مجھے یاد ہے اُس کی کیفیت.یا تو ہے لیکن نا قابل بیان ہے.جب آپ خود یہ نظارہ دیکھیں کہ دور تک میل ہا میل تک سارے درخت جگنوؤں سے بھرے ہوئے ہیں سارے بیک وقت بجھتے بیک وقت جلتے ہیں اور کوئی انسانی روشنیوں کا کھیل اس سے زیادہ دل کو متاثر نہیں کر سکتا لیکن ملائیشیا کا مجھے تو علم نہیں مگر بنگلہ دیش میں سندر بن میں ایک مزید بات اور بھی تھی کہ (وہ اُن کا نام مجھے یاد نہیں جھینگر قسم کی چیزیں ہیں جو درختوں کے اوپر آوازیں نکالتے ہیں خاص قسم کی کرچ کرچ کی سی آواز میں بھی نکلا کرتی ہیں ) لیکن جو بنگلہ دیش میں آوازیں تھیں وہ گھنٹیوں سے مشابہ تھیں اور بعد میں مجھے علم ہوا کہ ایک ایسا Insect حشرارت الارض میں سے ایک قسم ایسی ہے جس کا نام ہی انہوں نے گھنٹی والا رکھا ہوا ہے.تو یوں لگتا تھا گھنٹی بجی ہے تو وہ روشنیاں ایک دفعہ جلتی اور یک دفعہ بجھتی تھیں اور ادھر یہ گھنٹیاں یک دفعہ چلتی اور یک دفعہ ختم ہو جاتی تھیں اور ان کی ٹن ٹن ٹن ٹن کی آواز اس رات کے وقت حیرت انگیز ایک کیفیت ، ایک حیرت انگیز اثر پیدا کرنے والا تجربہ تھا جس پر میں غور کرتا رہا اور حیران تھا کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے مختلف جگہوں میں کیا کیا حسن پھیلا رکھا ہے اور اپنے کیسے کیسے جلوے دکھاتا ہے اور اُس کو کوئی پرواہ نہیں کہ باہر سے دنیا آتی ہے دیکھتی ہے نہیں دیکھتی ، ان لوگوں کو بھی کوئی سمجھ آتی ہے کہ نہیں آتی مگر وہ سارے جگنو

Page 739

خطبات طاہر جلد ۹ 734 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء ایک دم سے جلتے تھے اور ایک دم سے کیوں بجھتے تھے.اگر مادہ کی تلاش تھی تو عام طور پر جانوروں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ مادہ کے لئے وہ الگ ہو کر باقیوں سے بچ کر ایسے اشارے دیتے ہیں تا کہ دوسرے رقیب نہ اُن تک پہنچ جائیں مگر وہاں یہ نظارہ نہیں تھا.پس David Attenbrough کی فلم میں جب میں نے دیکھا تو مجھے وہ یاد آ گیا.یہ ایک طریق ہے تسبیح کا.خدا تعالیٰ کی تسبیح دنیا میں ہر چیز کر رہی ہے.کچھ آوازوں کے ذریعے، کچھ روشنی کے ذریعے، کچھ سجدہ ریز ہو کر ، کچھ لہکتے ہوئے.ہزار ہا مخلوقات کی قسمیں یا ان گنت کہنا چاہئے یا ہزار ہانسیج کی قسمیں یا انگنت کہنا چاہئے دنیا میں موجود ہیں لیکن ہم غافل آنکھوں سے اُن کو دیکھ کر گزر جاتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے خالق نے کیسی کیسی حسین چیز یں تخلیق فرمارکھی ہیں.روشنیوں کے سلسلے میں مجھے یاد ہے وہاں ہی رات کے وقت کشتی میں سفر کا موقع ملا تو ایسی مچھلیاں ہمارے ساتھ ساتھ دوڑتی تھیں جو چاندی کی طرح چمک رہی تھیں اور پہلی مرتبہ مجھے یہ اتفاق ہوا تھا کہ ایسی مچھلی دیکھوں جو چاندی کی طرح چمکتی ہولگتا تھا کہ با قاعدہ چاندی کی بنی ہوئی مچھلیاں ہیں جو کوندے مار رہی ہیں ساتھ ساتھ اور سطح کے قریب آ کر کشتی کی پیروی کرتی ہوئی.David Attenbrough نے فلم میں نہ صرف فضا میں چمکنے والے حشرات الارض کی تصویریں کھینچی ہیں مختلف قسم کی صرف جگنوؤں کی نہیں بلکہ زمین پر چلنے والوں کی بھی کھینچی ہیں اور سمندر میں ڈوبے ہوؤں کی بھی کھینچی ہیں اور وہ بتاتا ہے کہ نہ جو اس حیرت انگیز جلوہ آرائی سے خالی ہے نہ خشکی پر چلنے والے جانور اس سے خالی ہیں نہ سمندر کے اندر بسنے والے اس سے خالی ہیں.چنانچہ سمندر میں جب وہ جا کر دکھاتا ہے تو سطح پر یعنی سطح کے قریب رہنے والی مچھلیاں اور اس قسم کے جانوررات کے وقت جب ایک دوسرے سے روشنیوں کے ذریعے باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور بہت ہی خوبصورت نظارے پیدا ہوتے ہیں لیکن سب سے زیادہ حیرت انگیز چیز جو David Attenbrough نے بھی محسوس کی اور ہر دیکھنے والا محسوس کرتا ہے یہ وہ ہے کہ سمندر کی تہہ میں اتنی گہرائی پر جہاں سمندر کے پانی کا بوجھ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ فضا کے اندر جو بوجھ ہے جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں اُس سے پچاس گنا سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے.یعنی اتنا بوجھ ہے کہ اگر ایک انسان بغیر کسی مشینی سہارے کے بغیر خاص قسم کے خود پہنے ہوئے نیچے چلا جائے تو اُس

Page 740

خطبات طاہر جلد ۹ 735 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء بوجھ سے پچک کر اس طرح چپک کے وہ پھیل جائے اور بکھر جائے جس طرح اُس کے اوپر کئی ٹن وزن ڈال دیا جائے.شاید اُس سے بھی زیادہ وزن ہو کیونکہ پچاس گنا فضائی وزن سے زیادہ وزن ہو جاتا ہے نیچے جا کر.وہاں David Attenbrough یہ تمہید قائم کرتا ہے کہ میں جب خاص قسم کی کشتی میں بیٹھ کر کیمرے وغیرہ لے کر نیچے گیا تو اول تو یہ بھی نہیں سوچ سکتا تھا انسان کہ اس نے اتنے حیرت انگیز دباؤ کے نیچے کوئی زندگی پل سکتی ہے لیکن مزید حیرت اس بات پر ہے کہ وہاں روشنی کا کوئی اشارہ بھی نہیں پہنچتا، نور کی کوئی ایک اچٹتی ہوئی کرن بھی وہاں داخل نہیں ہوسکتی کیونکہ اوپر کی سطح کا پانی اُس کو جذب کر لیتا ہے اور مکمل تاریکی کا اگر کہیں کوئی تصور ہے تو وہ نیچے ہے.کل یہ بالکل ایک تاریک دنیا ہے.کہتا ہے وہاں جب نیچے پہنچے یعنی دکھاتا ہے وہ فلم تو وہاں ہمیں ایسی حیرت انگیز مچھلیاں دکھائی دیں، ہر قسم کے مختلف جانور چلتے پھرتے دکھائی دیئے جن کا آپس میں گفتگو کا ذریعہ روشنی تھا.پس اُس انتہائی اندھیرے میں بھی خدا نے مخلوق کو روشنی کے ذریعے ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کا سلیقہ سکھایا ہوا ہے اور ملکہ عطا کر رکھا ہے.اُن کو وہ اعضاء عطا کر دیئے ہیں جن کا بنانا آج کے سائنسدان کے بھی اختیار میں بھی نہیں کہ اس طرح اُس کو بنا کر اُن کے جانوروں کے اندر رکھ دے اور وہ ایسے حیرت انگیز طریق پر کارفرما ہوں کہ اُس کو سمجھنا بھی انسان کے لئے ایک امر محال ہے یعنی اُس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا.وہ جو ٹار چیں نیچے خدا نے بنا رکھی ہوئی ہیں مختلف قسم کی مچھلیوں کے لئے وہ ہمارے جس طرح بلب تعلق رکھتے ہیں بٹنوں کے ساتھ مرضی سے جلائے بجھائے جاسکتے ہیں اسی طرح جانوروں کی مرضی پر وہ روشنیاں ہیں، از خود طبعی طور پر نہیں جلتیں بلکہ جانوروں کی مرضی ہے جب چاہیں روشن کر لیں جب چاہیں بجھا دیں اور اتنے خوبصورت رنگ ہیں کہ بعض مچھلیاں جب اکٹھے اپنے سارے رنگ ظاہر کرتی ہیں تو کوئی آگ کا کھیل جو آپ نے دنیا میں دیکھا ہوگا اُس کا مقابلہ نہیں کرتا.حد سے زیادہ خوبصورت مناظر پیدا ہوتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ اتنا مکمل اختیار دے دیا گیا ہے اُن کو کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے ایک طرف کے آدھے جسم کو روشن کریں، اگر چاہیں تو دوسری طرف کے آدھے جسم کو روشن کریں.چنانچہ وہ دوستوں کا جوڑا جو یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ ہم دوستی کر کے اکٹھے پھر رہے ہیں اُن کی تصویر اُس نے اس طرح کی ہوئی ہے کہ اُن کا وہ پہلو جو ایک دوسرے کی طرف ہے وہ خوبصورت اور چمک رہا ہے اور دوسرا پہلو بالکل تاریک ہے

Page 741

خطبات طاہر جلد ۹ 736 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء اور اگر ان کا رُخ بدل جائے تو دوسرا جو ایک دوسرے کے سامنے پہلے آئے گاوہ روشن ہو جائے گا اور جود دوسری طرف چلا جائے گا وہ بجھ جائے گا اور اُن کے اندر چھوٹے چھوٹے قمقمے سے بھی لگے ہوئے ہیں مختلف شکلوں میں جب چاہیں وہ اُن کو روشن کر لیں تو روشنیوں کے ذریعے گفت و شنید کا ایک نظام خدا تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے اور وہ صرف مذکر اور مؤنث کے درمیان گفت وشنید کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کو مختلف حالتوں میں مختلف کیفیات بتانے کے لئے روشنیوں کے ذریعے پیغام بھیجتے ہیں لیکن ابھی پوری طرح اُن کے حالات کو انسان سمجھ نہیں سکا.اول تو یہ کہ بہت مشکل کام ہے دوسرا یہ کہ سائنسدانوں کا جب ایک طرف دماغ چل پڑے تو عادت پڑ جاتی ہے ہر بات کا وہی نتیجہ نکالتے ہیں.اتنی سی بات سمجھ آگئی کہ مرد اور عورت میں آپس میں تعلق ہوتا ہے تو ہر اشارے کا یہ مطلب نکالنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کی کائنات وسیع ہے وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرہ : ۲۵۶) وہ تو خدا کی کسی چیز کے ایک چھوٹے سے پہلو کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے.إِلَّا بِمَا شَاء جس کی خدا توفیق بخشے، جتنا چاہے ان کو علم عطا فرما دیتا ہے.تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب ہمیں یہ بتایا کہ تم کائنات میں خدا تعالیٰ کی تخلیق پر غور کیا کرو.اگر لِأُولِي الْأَلْبَابِ ہو.فرمایا لِأُولِي الْأَلْبَابِ ہی نہیں کرتے ہیں.صاحب علم اور عقل غور کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کیسے بنائی ہے، کیا کیا نظام اُس میں رکھے ہوئے ہیں، کس طرح خدا تعالیٰ کی صفات اس کائنات میں جلوہ گری کرتی ہیں؟ اور جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو اُس سے ذکر الہی پیدا ہوتا ہے اور یہی عقل کی تعریف ہے.نہ اکیلا ذکر الہی کوئی معنی رکھتا ہے جس میں عقل شامل نہ ہو.آنکھیں بند کر کے آپ کسی کی تعریف کرتے رہیں آپ کو پتا ہی نہ ہو کہ تعریف کس چیز کی کر رہے ہیں اُس کو ذکر کہنا ہی حماقت ہے اور چیز دیکھ رہے ہیں مگر تعریف پیدا نہیں ہو رہی، صاحب حمد کی طرف ذہن نہیں جارہا یہ بھی ایک اندھا پن ہے تو عقل کی نشانی یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں میں امتزاج ہو جائے، یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو جائیں اور پھر خدا تعالیٰ کی عجیب شان آپ کو ہر جگہ دنیا میں پھیلی ہوئی دکھائی دے گی جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا ہے : تسمح لَهُ السَّمُوتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ کہ دیکھو اُسی کی تعریف کر رہے ہیں سارے آسمان یعنی

Page 742

خطبات طاہر جلد ۹ 737 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء سات آسمان اور زمین اور جو کچھ اُن میں ہے اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حمد اور تسبیح میں مصروف نہ ہو مگر تم سمجھتے نہیں.پھر آوازوں کے ذریعے جو ایک دوسرے سے جانور باتیں کرتے ہیں اُن کے متعلق ہمیں اتنا تو علم ہے کہ ہم یعنی انسان ایک دوسرے سے اس طرح باتیں کرتے ہیں لیکن جانوروں کے متعلق ہم یہی سمجھتے ہیں کہ صرف ایک دو ایسے اشارے ہیں خوف کے یا حرص کے جو وہ اپنی چیخوں کے ذریعے یا بے ہنگم آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ جب جانوروں کی زندگی پر تحقیق کی جائے اور ان کی آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بہت کچھ اور بھی معلوم ہونے لگتا ہے.آجکل کے زمانے میں سائنسدانوں نے اس علم کی طرف توجہ کی ہے اور معلوم کرنا شروع کیا ہے کہ پرندے جب آوازیں نکالتے ہیں تو کیا صرف خوف کی آواز ہی ہے یا کچھ اور بھی باتیں ہیں.چنانچہ اُن کو پتا چلا کہ صرف خوف کی یا اُمید کی باتیں نہیں بلکہ اور بھی اشارے اپنی آوازوں میں وہ کرتے ہیں لیکن چونکہ ہمارے سُننے کی جو Wavelengths ہیں یعنی ارتعاش کے اندر کتنی مرتبہ اونچ نیچ پیدا ہوتی ہے آواز کے ارتعاش میں اُس کو Wavelengths کہتے ہیں.ایک ارتعاش اور دوسرے ارتعاش کی پیک (Peak) کے درمیان آپس میں کیا فاصلہ ہے.بہر حال یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کی مجھے اُردو نہیں آ رہی تو میں Wavelengths کے طور پر آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.آواز کوسننے کا خدا تعالیٰ نے ہمارا ایک دائرہ مقرر فرما دیا ہے اُس دائرے سے کم Wavelengths کی آوازوں کو ہم نہیں سُن سکتے اُس دائرے سے آگے بڑھی ہوئی Wavelengths کی آوازوں کو ہم نہیں سن سکتے اور جانور اس سے بہت زیادہ سنتے ہیں اور بہت کم بھی سنتے ہیں.اس لئے اول تو وہ جو آوازیں ہمیں اُن کی آتی ہیں اُن سے زیادہ کچھ باتیں وہ کر رہے ہوتے ہیں جن کا ہمیں پتا ہی نہیں اور مختلف جانوروں کے لئے مختلف سمت میں خدا تعالیٰ نے انسان پر برتری عطا کی ہوئی ہے.بعض کم Wavelengths کی آواز میں سنتے ہیں بعض زیادہ کی آوازیں سنتے ہیں مگر جو کچھ آوازیں وہ نکالتے ہیں اُن میں بہت کچھ مضامین بھی بیان ہو رہے ہوتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں جب ہم نے بچپن میں پہلی مرتبہ یہ پڑھا کہ حضرت سلیمان کو پرندوں کی اور جانوروں کی زبان سکھائی گئی تھی تو حیرت بھی ہوتی تھی اور ذہن زیادہ اُن پر یوں، جنوں کی کہانیوں

Page 743

خطبات طاہر جلد ۹ 738 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء کی طرف منتقل ہو جایا کرتا تھا جن سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ انسانوں کی طرح با قاعدہ باتیں کر کے ایک دوسرے کو اپنا مضمون سمجھاتے ہیں لیکن بعد میں جب سائنس کی مدد سے ان باتوں پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی غیر معمولی حکمت عطا کی تھی اور وہ ان جانوروں کی آوازوں کو محض لغو نہیں سمجھا کرتے تھے مہمل نہیں سمجھا کرتے تھے بلکہ ان پر غور فرمایا کرتے تھے.اور غور فرمانے کے نتیجے میں اُن پر بہت سے ایسے مضامین روشن ہو جاتے تھے جو عام آدمی پر روشن نہیں ہوتے.طیور کے اور بھی معانی ہیں جو تفاسیر میں ملتے ہیں لیکن ظاہری طور پر اگر معنے کئے جائیں تو یہی معنے بنتے ہیں کہ حضرت سلیمان ایک بہت ہی غیر معمولی حکمت رکھنے والے نبی تھے جن کو خدا تعالیٰ نے عام نبوت کی باتوں کے علاوہ بھی بہت سی حکمت کی باتیں بتائی تھیں اور اُن میں ایک اُن کا یہ شوق بھی تھا کہ جانوروں کے اشاروں سے اُن کی حرکتوں سے ، اُن کی آوازوں سے معلوم کریں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں.اس مضمون پر بھی David Attenbrough نے ایک بہت ہی دلچسپ فلم بنائی ہے یا ایک سے زائد بنائی ہوں گی.مجھے ایک دفعہ ایک دیکھنے کا موقعہ ملا اور اُس سے پتا چلتا ہے کہ پرندوں کی جو آوازیں ہیں وہ صرف آپس میں ایک ہی جنس کے پرندے نہیں سمجھتے بلکہ دوسری جنس کے پرندے بھی سمجھتے ہیں اور جب یہ خاص وقتوں میں خاص پیغام دینا چاہتے ہیں تو سارا جنگل اُن آوازوں سے گونج رہا ہوتا ہے.انسان سمجھتا ہے کہ اب اس نقارخانہ میں طوطی کی آواز کون سنے گا اور کون سمجھے گا لیکن اُس نے بڑے گہرے غور سے معلوم کیا کہ وہ جانور جو اپنی آواز دور تک دوسرے اپنے ہم جنسوں کو پہنچانا چاہتے ہیں وہ اس آواز کے ہنگامے میں ان وقفوں کی تلاش کرتے ہیں جب دوسروں کی آوازیں بند ہوتی ہیں چنانچہ عین اُس وقت جبکہ دوسری بڑی آواز میں جو اُن کی آواز کو ڈ بوتی ہیں وہ رکتی ہیں تو ایکدم پھر یہ اپنی چیخ چلاتے ہیں اور اس سلسلے میں اور بھی بہت سی اُس نے دلچسپ باتیں دریافت کیں تو پتا چلا کہ با قاعده ردم (Rythem) ہیں با قاعدہ آپس میں جس طرح ریڈیو سٹیشنز نے آپس میں Wavelengths آلاٹ کی ہوئی ہوتی ہیں کہ اسWavelengths پر ہم پیغام بھیجیں گے، اس پر تم بھیجو تا کہ مل جل نہ جائیں اُسی طرح جانوروں کی آوازوں کی Wavelengths اُن کی بچیں (Pitches) اُن کی بہت سی اور چیزیں اُن کو ایک دوسرے سے مختلف بھی کر دیتی ہیں اور آوازوں کے ایک شور میں جہاں بظاہر تو یوں

Page 744

خطبات طاہر جلد ۹ 739 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء معلوم ہوتا ہے کہ ہر آواز ایک دوسرے سے مل گئی ہے وہاں ان کی آواز میں اپنی خاص ادا کے ساتھ ، اپنی خاص خصوصیت کے ساتھ ان کے ہم جنسوں کو پہنچ رہی ہوتی ہیں.پس بعض دفعہ وقفہ سے فائدہ اُٹھا کر ، بعض دفعہ آواز کی قسموں کی صلاحیت کی بناء پر یہ بے انتہاء شور میں بھی ایک دوسرے سے گفت وشنید کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اُس کے ساتھ پھر بعض پرندے بعض دوسری آوازوں کو ساتھ شامل بھی کر لیتے ہیں چنانچہ ایک افریقہ نہیں کسی اور ملک غالبا ساؤتھ افریقہ کا ہے ایک خاص قسم کا طوطا ہے وہ جب ایک درخت پر قبضہ جماتا ہے اور یہ اعلان کرنا چاہتا ہے کہ یہ درخت میرا ہو گیا ہے اور کوئی طوطا ادھر اب نہ آئے تو نہ صرف یہ کہ وہ خاص قسم کی آوازیں نکالتا ہے بلکہ ایک لکڑی توڑ کر ڈھول کی طرح درخت کے ساتھ بجاتا بھی ہے اور اس میں ایک (Rythem) ہے، اس میں ایک نغمگی پائی جاتی ہے یوں ہی بے ہنگم طریق پر نہیں مارتا بلکہ اپنی آواز کے ساتھ ملا کر گویاڈھول بھی بج رہا ہے اور اعلان بھی ساتھ ساتھ ہورہا ہے کہ اس درخت پر میں نے قبضہ کر لیا ہے اب کوئی نہیں آئے گا.پھرسمندر کے اندر جو مختلف آوازیں پیدا ہو رہی ہیں وہ اگر باہر اسی قوت کے ساتھ سنائی دینے لگیں تو انسان کی زندگی حرام ہو جائے.ایک دفعہ سان فرانسسکو میں بعض لوگوں نے جو بہت بڑے بڑے امیر تھے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ہاؤس بوٹ (House Boat) میں رہا کریں زیادہ مزہ آئے گا یعنی جس طرح کشمیر میں رواج ہے کہ ڈل جھیل میں کشتیوں کے گھر بنے ہوئے ہوتے ہیں اُس کو ہاؤس بوٹ کہتے ہیں.انہوں نے بہت ہی عظیم الشان اور عیاشی کے تمام سامانوں سے مرصع کر کے ایسے کشتیوں کے گھر بنائے اور اُن میں رہنے لگے.اُن کو چین نصیب نہ ہوا کیونکہ ساری رات اتنی خوفناک آواز میں آتی تھیں کہ دل دہل جاتے تھے اور آوازوں کی قسمیں ایسی تھیں جس سے وہ سمجھتے تھے کہ شاید بجلی والوں نے جو کیبلز بچھائی ہیں اُن سے مقناطیسی لہریں اٹھتی ہیں جو بعض دوسروں سے ٹکرا کر یہ آواز پیدا کرتی ہیں، بعضوں کا خیال تھا کہ سیورج والوں نے اس طریق پر گندا پانی قریب سے گزارا ہے کہ اُس سے یہ گونج پیدا ہورہی ہے چنانچہ مختلف مقدمے بن گئے.کوئی بجلی کی کمپنی پہ بن گیا، کوئی کمیٹی پہ بن گیا کہ تم نے سیورج غلط طریقے سے گزارا ہے اُس سے ہماری نیند حرام ہو گئی ہے.یہ ابھی مقدمے چل ہی رہے تھے کہ ایک سائنسدان نے تحقیق کی اور اُس نے اُس کی وجہ معلوم کر لی.اُس علاقے میں ایک خاص قسم کی مچھلی پائی جاتی ہے جو سارا دن خاموش رہتی ہے اور

Page 745

خطبات طاہر جلد ۹ 740 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء ساری رات آوازیں نکالتی ہے اور ان آوازوں کے ذریعے مچھلیاں ایک دوسرے کو رات کو پیغام دے رہی ہوتی ہیں کہ ہم یہاں ہیں یہاں آ جاؤ.چنانچہ اس نے اسی قسم کی آواز ریکارڈ کی یعنی خود بنا کر اور سمندر کے اندر ایک لاؤڈ سپیکر جس پر پانی اثر نہیں کرتا تھاوہ لڑکا یا اور کیمرے مقرر کئے جو اُس کی تصویریں کھینچیں.جب وہ وہی آواز نکالتا تھا تو اُس لاؤڈ سپیکر کے گرد بڑی تیزی کے ساتھ وہ مچھلیاں حملہ کر کے آتی تھیں اور اُس وقت پتا چلا کہ یہ ہیں آواز نکالنے والی مچھلیاں.سمندر کے اندر وہ آواز بہت ہی زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے لیکن وہ اتنی قوی آواز تھی کہ سمندر سے باہر بھی سنائی دیتی تھی.یہ عام طور پر نہیں ہوتا لیکن سمندر کے اندر تو بعض مچھلیوں کی آواز میں اتنی طاقت کے ساتھ حرکت کرتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے تین تین سو میل دور باتیں کر لیتی ہیں.چنانچہ اب با قاعدہ سائنسدانوں نے یہ تحقیق کر کے عملاً تین تین سو میل بلکہ بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ دور اُن مچھلیوں کی آواز میں پکڑی ہیں اور ان کو حل کیا ہے اور معلوم کیا ہے کہ یہ پیغام اس طرح بھیجتی ہیں.تو سمندر کے نیچے بھی پھر وہ David Attenborough چلا جاتا ہے آوازوں کے آلوں کے ساتھ اور وہاں خدا کی ایک عجیب کائنات دکھائی دیتی ہے.اس قدرشور برپا ہے، اس قدر ہنگامہ ہے کہ بظاہر ہمارے کان کچھ بھی نہیں سن رہے، کوئی آواز بھی نہیں آرہی لیکن سمندر کی دنیا اس طرح بول رہی ہے، اس طرح باتیں کر رہی ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں کہتے ہیں نا مچھلی ھٹے میں چلے جاؤ، شور وغل بر پا ہوا ہوتا ہے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کوئی کیا کہ رہا ہے اگر اُن سب کی آواز میں انسان سمجھنے لگے اور انسان سُننے لگ جائے تو سمجھنا تو در کنار اس کے کان کے پردے پھٹ جائیں یہ اتنی طاقتور آوازیں ہیں کہ انسان اُن کا متحمل نہیں ہوسکتا.پس اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ ہم نے کانوں پر پردے ڈالے ہیں جن کو تم دیکھتے نہیں ہو، دیکھ سکتے نہیں ہوامر واقعہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے پردے بنا رکھے ہیں یعنی ظاہری دنیا میں بھی وہ پر دے بنے ہوئے ہیں جن کو ہم دیکھ نہیں سکتے.Wavelengths بدلنے کے نتیجے میں ایک پردہ بن گیا.آپ خاص قسم کی آوازیں سنتے ہیں، بعض دوسری قسم کی آواز میں سُن ہی نہیں سکتے ورنہ اگر سنتے تو اپنی آوازیں سننے کے بھی اہل نہ رہتے اس قدر طاقتور آوازیں ہیں اتناز بر دست شور ہے کہ پردوں کے پر نچے اُڑ جائیں.پس خدا تعالیٰ نے پردے رکھے ہوئے ہیں حفاظت کی خاطر لیکن

Page 746

خطبات طاہر جلد ۹ 741 خطبہ جمعہ کے دسمبر ۱۹۹۰ء بدنصیب لوگ وہ ہیں جو ان پر دوں کے نتیجے میں حق سے محروم رہ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے جو پردے بنائے ہیں وہ خاص مقاصد کے لئے بنائے ہیں.اب روحانی دنیا میں بھی جب ہم پردوں کی بات کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے قائم کئے ہوئے پر دے کچھ مصالح رکھتے ہیں لیکن بدنصیب لوگ اُن پردوں کے نتیجے میں حق بات سے محروم رہ جاتے ہیں.پردے اس لئے خدا تعالیٰ نے عطا کئے انسان کو تا کہ گندی باتوں سے بچے ، لغو باتوں سے بچے.وہ اُن چیزوں سے بچے جو خدا سے دور لے جاتی ہیں.یہ تھا استعمال پر دے بنانے کی یہ حکمت تھی اس لئے بنایا تو خدا ہی نے ہے مگر انسان جب چیزوں کے غلط استعمال کرنے لگتا ہے تو وہ چیز جو فائدے کی خاطر بنائی جاتی ہے وہ نقصان کا موجب بن جاتی ہے.جہاں بھی آپ یہ پڑھتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا، ہم نے پردے بنائے ، ہم نے خاص فاصلے حائل کئے روکیں پیدا کیں تو نعوذ باللہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شر پہنچانے کے لئے ایسا کیا.مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون نے بعض مصلحتوں کی وجہ سے بعض چیزیں بنا رکھی ہیں ، بعض روکیں پیدا کرنے کی صلاحیت انسان کو بخشی ہے.آنکھیں بند کر سکتا ہے.یہ بھی اس کی ایک نعمت ہے اگر انسان آنکھیں بند نہ کرسکتا تو اُس کا نظام عصبی تباہ و برباد ہوجا تا.نیند نہیں آسکتی تھی اس کو اور ہر وقت کی آنکھیں کھلی ہوئی تو ایک عذاب ہے.اب دیکھیں آنکھیں بند کرنا ایک نعمت کے طور پر دیا گیا تھا مگر آپ اگر روشنیوں سے آنکھیں بند کر لیں اور جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتے پھریں اور مصیبت میں مبتلا رہیں تو معمولی روز مرہ کی زندگی آپ کے لئے عذاب بن سکتی ہے.ایک دفعہ ہم نے سیر کرتے ہوئے مقابلہ کیا کہ آنکھیں بند کر کے کون سیدھا چل سکتا ہے تو آنکھیں بند کر کے اول تو چلنا ہی بڑا مشکل ہے، بہت بڑی مصیبت ہے.آدمی کا بیلنس بگڑ جاتا ہے.دوسرے رُخ کا پتا ہی نہیں چلتا.چنانچہ جب میں اور میری بچیاں ساتھ تھیں ہم نے کہا ہم آنکھیں بند کر کے سیدھا چلنے کی کوشش کرتے ہیں.میں نے کہا جب میں آواز دوں گا ”ہاں“ تو اُس وقت آنکھیں کھولنا.جب میں نے آواز دی تو کوئی کسی طرف نکلا ہوا تھا، کوئی کسی طرف نکلا ہوا تھا اور کوئی اُس سے پہلے ہی کسی جگہ ٹھوکر کھا کر سفر بند کر چکا تھا.اب آنکھیں بند کرنا ایک نعمت ہے مگر غلط جگہ آنکھیں بند کرنا تو نعمت نہیں وہ تو ایک مصیبت بن جاتی ہے روزمرہ کی زندگی انسان نہیں گزار سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے پر دے بنارکھے ہیں جو خاص مقاصد کے لئے بنائے گئے ہیں

Page 747

خطبات طاہر جلد ۹ 742 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء مگر یہ بد نصیب ایسے ہیں کہ پردے غلط جگہوں پہ استعمال کرتے ہیں.بعض پہلوؤں سے وہ تیز نظر رکھتے ہیں، بعض پہلوؤں سے کچھ بھی نہیں دیکھتے.بدنصیبی سے ایسے پردے بعض مسلمان علماء کی آنکھوں پر بھی ہیں بعض چیزیں وہ نہیں دیکھ سکتے اور عجیب حالت ہے کہ جس قرآن کریم نے یہ عظیم را ز ہمیں سمجھائے.ایسے عظیم راز جود نیا کی اور کسی کتاب میں نہیں ملتے وہ مسلمان خدا کی کائنات کی تخلیق پر غور کرنے سے عاری رہے.ایک دور تھا چند سو سال کا یعنی بغداد میں جب اسلامی مملکت کا مرکز تھا جس میں سائنسدانوں نے بڑی ترقی کی ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر وہ ماضی کی بات بن چکی ہے.اب ان چیزوں پر غور کے لئے مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور غیر کھولتے ہیں لیکن مسلمان ذکر کی طرف تو بہر حال مائل ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ ذکر کی طرف مائل نہیں ہوتے.کسی نے آنکھ پر ایک پردہ گرا رکھا ہے کسی نے دوسرا پردہ گرا رکھا ہے اور جہاں تک دلوں کی کیفیت کا تعلق ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دلوں پر تو ہم نے کئی قسم کے پر دے بنار کھے ہیں.ایک نہیں بہت سے پردے ہیں جو حائل ہو جاتے ہیں.یہ جو مضمون ہے اس سے متعلق میں پھر انشاء اللہ کسی وقت بیان کروں گا اب وقت زیادہ ہو رہا ہے اب دوسری آیت کی طرف آکر آپ کو مختصراً اس کا پہلی آیت سے تعلق بنا کر دکھاتا ہوں یعنی تعلق تو ہے لیکن دکھانا چاہئے کہ کیا تعلق ہے.معاً اس مضمون کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے یعنی بظاہر چھوڑ کر وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتَوْران اے محمد ! اسی طرح ہم نے تیرے اور اُن لوگوں کے درمیان بھی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے نہ دکھائی دینے والے پر دے بنارکھے ہیں.جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ان کے پہلے کچھ نہیں پڑتا.قرآن ذکر ہے مراد یہ ہے کہ جب تو ذکر الہی کرتا ہے اُس قرآن کے ذریعے جو خدا نے تجھے عطا کیا ہے تو تو لذتوں کی دنیا میں کھویا جاتا ہے.کلیۂ خود فراموش ہو جاتا ہے لیکن یہ جولوگ سُن رہے ہیں ان کو کچھ مجھ نہیں آرہی ہوتی.ہم نے ایسے پر دے بنارکھے ہیں گویا ان کی سننے کی Wavelength ہی اور ہے اور عملاً روحانی دنیا میں مختلف Wavelengths ہیں.مختلف قسموں کی آوازیں ہیں جو صاحب عرفان سمجھ سکتے ہیں اور جن کو عرفان نصیب نہ ہو وہ نہیں سمجھ سکتے.تو دیکھئے قرآن کریم میں ان

Page 748

خطبات طاہر جلد ۹ 743 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء دو انتہاؤں کوکس طرح چھوٹی سی آیات میں بیان فرما دیا.ایک طرف انسان کی یہ بدنصیبی اس کو دکھائی کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے.تم سے نیچے جتنی مخلوقات ہیں وہ سب تسبیح اور حمد میں مصروف ہیں مگر تمہیں دیکھنے کے باوجود اُن کی تسبیح سنائی نہیں دیتی اور سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کس طرح کر رہے ہیں اور خود تم اپنی ذات میں بھی تسبیح اور حمد سے ایسے غافل ہو گئے ہو کہ جب خدا تعالیٰ کی حمد بیان کرنے والا ایسا آیا جو سب دنیا میں حمد بیان کرنے والوں سے آگے بڑھ گیا.جب خدا تعالیٰ کی تسبیح کرنے والا ایسا وجود ظاہر ہوا کہ اُس جیسا کبھی نہ پہلے پیدا ہوا تھا نہ آئندہ پیدا ہوسکتا ہے یعنی محمد مصطفیٰ.جس کے متعلق فرمایا کہ ذِكْرًار سُولًا (الطلاق: ۱۲۱۱) وہ مجسم ذکر الہی ہے.تم اُس کی باتوں سے کھلا کھلا ذکر الہی سنتے ہو اور تب بھی تمہارے اور اُس کے درمیان پردے پڑے ہوئے ہیں.پس اس صورت میں کائنات میں سب سے زیادہ اندھا جانورانسان بن جاتا ہے نہ خود تسبیح اور حمد کا سلیقہ اور نہ دوسروں کو دیکھ کر وہ کچھ سیکھتا ہے اور اُن کی سمجھ بھی نہیں آتی.ساری کائنات بھری ہوئی ہے خدا کی حمد اور تسبیح کرنے والوں سے.اُن کی آواز میں سُنائی دے رہی ہیں، اُن کی روشنیاں جل رہی ہیں اور عجیب مناظر ہیں جو تمام دنیا میں کائنات میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں.ہواؤں میں بھی ہیں، خشکی کے اوپر بھی ، زمین پر چلنے والوں میں بھی اور سمندر کی گہرائیوں تک بھی ہیں اور دن رات وہ جلوہ افروزیاں ہو رہی ہیں.خدا تعالیٰ کے جلوے ظاہر ہورہے ہیں مختلف شکلوں میں مگر دیکھنے والے کو بھی دکھائی نہیں دے رہا، سنے والے کو بھی سنائی نہیں دے رہا اور پھر ایسے اندھے اور غافل ہو جاتے ہیں جب حضرت اقدس محمد مصطفی عملے ان پر ذکر الہی پڑھتے ہیں ان کے اور اُن کے درمیان ایک پردہ آ جاتا ہے اور کچھ سمجھ نہیں آتا.پس اگر نماز میں لذت پیدا کرنی ہے تو نماز سے باہر ذکر الہی کا سلیقہ سیکھیں.وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ (العنکبوت: ۴۲) کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ نماز میں تو تم تھوڑی دیر ٹھہرتے ہولیکن خدا کے ذکر کا مضمون بہت وسیع تر ہے ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور ذکر کو سمجھو تو پھر جب تم نمازوں کی طرف لوٹو گے تو ہر دفعہ آنے میں تمہیں ایک نئے خدا سے شناسائی ہوگی.خدا تو وہی ہو گا لیکن اُس کے نئے جلوے دیکھ کر تم آرہے ہو.اس مضمون کو اگر اُس مضمون کے ساتھ ملالیں جو دل کے اندر اپنے وجود پر اپنے حالات پر غور کرنے کے ذریعے خدا دکھائی دیتا ہے تو اس کو کہتے ہیں اندر اور باہر

Page 749

خطبات طاہر جلد ۹ 744 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء دونوں کا روشن ہو جانا.صوفیاء جو باتیں کرتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں پتا نہیں کس قسم کی روشنی ہے آنا فانامل گئی.کہتے ہیں جی ہمارے تو چودہ طبق روشن ہو گئے، ہمارا تو باہر بھی روشن ہوگیا ، ہمارا تو اندر بھی روشن ہو گیا.یہ کوئی ایسی روشنی نہیں ہے جو اچانک بلب جلا کر اُن کو نصیب ہو جاتی ہے وہ عمر بھر کے ذکر الہی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی روشنیاں ہیں جو باہر سے بھی دکھائی دیتی ہیں اور اندر سے بھی دکھائی دیتی ہیں اور وہ بڑھتی رہتی ہیں اور اُن کے اندر ایک نئی چمک پیدا ہو جاتی ہے، نئے نئے رنگ ظاہر ہونے لگتے ہیں.پس وہ سمندر کی گہرائیاں بھی جو بعض لوگوں کے لئے تاریک تر ہیں جب بصیرت نصیب ہو تو وہاں بھی روشنیاں جلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.پس ذکر الہی کے مضمون کو سمجھیں اور یہی حمد ہے.غور کے بعد جب حمد کے ذریعے آپ خدا تعالیٰ سے محبت اور تعلق پیدا کریں گے تو پھر نمازوں میں جب حمد کا لفظ آئے گا اور حمد کے ساتھ وابستہ صفات الہی نظر آئیں گی تو اُن میں آپ کو نئے نئے نور دکھائی دینے لگیں گے ،نئی نئی روشنیاں نظر آنے لگیں گی ، نئے حمد کے ترانے گاتے ہوئے لفظ دکھائی دیں گے اور آپ کی روح بے شمار لذتوں میں ڈوب جائے گی لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر نماز میں کلیہ تمام تر نظارے ایک ہی دفعہ آپ کو دکھائی دیں.عادت ڈالنی پڑے گی رفتہ رفتہ تھوڑی تھوڑی حسب توفیق.ہر دفعہ جب نماز پڑھیں تو کچھ تو سوچیں خدا کی حمد کی بات جو آپ کے دل پر اُس کیفیت کے وقت زیادہ اثر انداز ہورہی تھی اور چاہے آدھا منٹ ہے چاہے ایک منٹ ٹھہریں اس مضمون کو ایسے حقیقی حمد کے مضمون سے باندھ کر آگے چلیں جو آپ نے محسوس کیا ہو.محض زبان سے ادا نہ کیا جارہا ہو.پس جب اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہتے ہیں تو جتنے نظارے میں نے آپ کو بتائے ہیں یہ ربوبیت ہی کے نظارے ہیں.تمام جہانوں کا رب ہے اور کیسی کیسی صنعتیں اُس نے پیدا کر رکھی ہیں اور اُن کا عشر عشیر بھی ہمیں پتا نہیں چلا بلکہ ہزارواں، لاکھواں، کروڑواں حصہ بھی ہم پر بھی روشن نہیں ہوا لیکن جو کچھ بھی ہم نے دیکھا حیرت انگیز پایا.اس طرح آپ کا علم بڑھتا ہے تو خدا کی حمد بڑھتی چلی جاتی ہے اُس کا شعور بڑھتا چلا جاتا ہے.پھر اپنے نفس اور اپنے دل پر غور کریں ، اپنی زندگی پر غور کریں روز مرہ کے تجارب پر غور کریں، خدا تعالیٰ کے احسانات پر غور کریں تو جتنا جتنا غور کریں گے اتنا اتنا آپ کی نمازیں لذتوں سے بھرنی شروع ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 750

خطبات طاہر جلد ۹ 745 خطبہ جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۹۰ء میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ایسے عظیم مضامین ہیں کہ جن کا سمجھانا بھی مشکل ہے لیکن یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ ایک ہی علاج ہے اور صرف ایک ہی.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا دروازہ کھول کر ذکر الہی میں مصروف ہوں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا تیری ہی عبادت کریں گے مگر کس طرح إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تجھ سے ہی مدد مانگتے ہوئے.اگر تیری مدد نصیب نہ ہو تو ہم نہیں کر سکتے.میں نے آپ کو بتایا تھا کہ یہاں عبادت میں حمد کا مضمون داخل ہے.سچی حمد کے بغیر عبادت کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا اور سچی حمد نہ ہو عبادت کے ساتھ تو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دعا قبول نہیں ہو سکتی.کیونکہ حد کا قبولیت دعا سے گہرا تعلق ہے.چنانچہ اسی مضمون کو رکوع سے اٹھتے وقت جو کلمہ کہتے ہیں وہ کھول دیتا ہے.وہ کلمہ یہ ہے سمع اللہ لمن حمدا.اللہ اُس کی سنتا ہے جو اُس کی حمد کرتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ہمیں یہی تو بتایا گیا تھا کہ خدا سے عرض کرو کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اس لئے تجھے ہی فرماتے ہیں کہ اے خدا! ہماری مدد فرما، ہماری دعا قبول کر لیکن عبادت حمد سے خالی نہیں ہونی چاہئے ورنہ یہ دعا نا مقبول ہو جائے گی.اس مضمون کو سمع اللہ لمن حمد نے کھول دیا کہ اللہ سنتا ضرور ہے اور اُس کی سُنتا ہے جو اُس کی حمد کرتے ہیں.حمد کے ذریعے تعلق قائم ہوتا ہے.پس خدا سے حمد کا تعلق قائم کریں، اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ تعلق بڑھا ئیں پھر عبادت میں جب اُس کے حضور حاضر ہوں گے تو آپ کو ہر عبادت کے وقت ایک قریب تر آیا ہوا خدا دکھائی دے گا جس کے بہت سے تعلقات آپ سے قائم ہو جائیں گے.جتنی حمد آپ سوچیں گے اتنے ہی محبت کے رابطے خدا تعالیٰ سے بڑھنے شروع ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 751

Page 752

خطبات طاہر جلد ۹ 747 خطبه جمعه ۱۴ دسمبر ۱۹۹۰ء اپنی نمازوں میں عرفان الہی کے رنگ بھر میں سورۃ فاتحہ پر غور کرنے سے نماز کا ذوق حاصل ہوگا (خطبه جمعه فرموده ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: بچوں کو تصویر کشی کی تربیت دینے کے لئے بعض ایسی تصویروں کی کتب بھی دستیاب ہیں جن میں خاکوں کی صورت میں نقوش بنائے جاتے ہیں لیکن رنگ نہیں ہوتے اور بچے پھر اپنی مرضی اور مزاج کے مطابق ، اپنی طبعی صلاحیتوں کے مطابق ، اپنے ذوق کے مطابق ان میں رنگ بھرتے ہیں.اگر ایسی لاکھوں کتابیں بھی شائع کر دی جائیں اور لکھوکھا بچوں کو تقسیم کر دی جائیں تو بظاہر تصویر ایک ہی ہوگی لیکن ہر بچہ جب اس میں رنگ بھرے گا تو نتیجہ مختلف نکلے گا.خواہ رنگ بھی ایک ہی قسم کے مہیا کئے جائیں لیکن ہر ایک اپنے ذوق، اپنے مزاج ، اپنی صلاحیتوں کے مطابق رنگ بھرتا ہے اور تصویر مختلف روپ لے کر ظاہر ہوتی ہے.سورہ فاتحہ کا جو میں پیچھے دو خطبوں میں ذکر کر چکا ہوں اس کی اور نماز کی باقی تمام ان عبارتوں کا یہی حال ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں.وہ سارے کلمات جو نماز میں ادا کئے جاتے ہیں ان میں رنگ انسان کو خود بھرنے پڑتے ہیں اور جہاں تک سورہ فاتحہ کا تعلق ہے وہ تو خود بھی اپنی کیفیتیں اس طرح بدلتی رہتی ہے کہ زاویہ بدلنے سے اس کا اور رنگ دکھائی دیتا ہے اور ہر زاویے پر پھر بے شمار ایسے امکانات ابھرتے ہیں جن کی روشنی میں انسان سورۂ فاتحہ کی مدد سے مضامین تک

Page 753

خطبات طاہر جلد ۹ 748 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء رسائی پاتا ہے اور مضامین کو جذبات میں ڈھال کر پھر سورۂ فاتحہ میں ایسی کیفیت کے رنگ بھرتا ہے جس سے سورۃ فاتحہ کوئی اجنبی چیز، بیرونی چیز نہیں رہتی بلکہ اس کے دل کی واردات بن جاتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو نماز کے متعلق یوں بیان فرمایا کہ دیکھو نمازیں جو تم پڑھتے ہو ان میں الفاظ وہی ہیں جو سب پڑھتے ہیں لیکن کیفیتیں الگ الگ ہوتی ہیں اور کوئی نماز فائدہ نہیں دے سکتی جب تک تم اس کو اپنی کیفیت سے نہ بھرو.کیفیت سے بہتر اور کوئی لفظ اس منظر کی تصویر کشی نہیں کر سکتا ، اس صورت حال کو بیان نہیں کر سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لفظ کیفیت رکھ کر تمام مضامین کو یہاں مجتمع کر دیا.کیفیت اس آخری احساس کا نام ہے جو مختلف چیزوں سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا خلاصہ کیفیت ہے.اگر سائنسی زبان میں اس کی بات کریں تو اگر چہ ہم مختلف تصویریں دیکھ رہے ہوتے ہیں یا مناظر دیکھ رہے ہوتے ہیں ، خوشبوئیں سونگھ رہے ہوتے ہیں، لمس سے لذت پارہے ہوتے ہیں اور اس طرح حواس خمسہ ہمارے لئے مختلف قسم کی دلکشیوں کے سامان لاتے ہیں لیکن آخری صورت میں وہ Electric Pulses ہیں جن میں تبدیل ہوتے ہیں اور بجلی کی وہ لہریں ہی ہیں ہیں جو ہمارے دماغ تک پہنچتی ہیں وہاں نہ رنگ پہنچتا ہے نہ خوشبو پہنچتی ہے نہ لمس سے کچھ حصہ وہاں پہنچتا ہے نہ نمک کا احساس نہ میٹھے کا احساس جو کچھ پہنچتا ہے وہ بجلی کی لہروں کی صورت میں پہنچتا ہے، اس کا نام کیفیت ہے جو انسان محسوس کرتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز میں لذت پیدا کرنے اور افادیت پیدا کرنے کے لئے ہمیں یہ نسخہ عطا فر ما دیا کہ وہ نمازیں جن میں کچھ کیفیت شامل ہوگی وہ کارآمد نمازیں ہیں.وہ نمازیں جو کیفیت سے خالی ہوں گی اُن سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور وہ ایسے برتنوں کی طرح ہیں جن میں کچھ بھی بھر انہیں.پس نمازوں میں کیفیت پیدا کرنے کی خاطر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ کون سی چیزیں کیفیت پیدا کرنے کے لئے مد ہوتی ہیں.کیفیت از خود پیدا نہیں ہو جاتی.کیفیت کے لئے حواس خمسہ سے مدد لینا ضروری ہے اور حواس خمسہ جو پیغامات پہنچاتے ہیں وہ پیغامات دماغ کے مختلف حصوں پر اثر انداز ہو کر کیفیت پیدا کرتے ہیں.پس علم بڑھانا اور گہری نظر سے کائنات کا مطالعہ کرنا ، خدا تعالیٰ سے شناسائی حاصل کرنا اور حواس خمسہ جو خدا نے عطا فرمائے ہیں اُن کے ذریعہ خدا کی حمد تک پہنچنا یہ وہ مضمون ہے جس کا زندگی

Page 754

خطبات طاہر جلد ۹ 749 خطبه جمعه ۱۴ ردسمبر ۱۹۹۰ء کے ہر لمحے سے تعلق ہے اور ہمارے گردو پیش یہ مضمون بنتا چلا جاتا ہے اگر ہم ہوشمندی کے ساتھ محسوس کریں کہ ہم کیسے رہ رہے ہیں اور اپنے ماحول کے اثرات کو خدا تعالیٰ کی حمد کے ساتھ باندھنا سیکھ لیں پھر جب آپ نماز میں داخل ہوں گے تو وہ نماز کیفیتوں سے بھری ہوئی ہوگی.اگر نماز سے باہر کچھ نہیں ہے تو نماز کے اندر بھی کچھ پیدا نہیں ہوگا.اس لئے بعض لوگ جو یہ حیران ہوتے ہیں کہ ہم تو نماز میں داخل ہوئے تھے لذتیں حاصل کرنے کے لئے ہمیں تو وہاں کوئی لذت نہیں ملی باہر کی دنیا میں لوٹے اور پھر لذتوں میں دوبارہ کھوئے گئے.وہ بالکل درست کہتے ہیں کیونکہ باہر کی لذتوں کا خدا سے تعلق نہیں تھا اور اندر نماز خالی پڑی تھی اس لئے خالی ویرانے سے گھبرا کر وہ اُن لذتوں کی طرف لوٹتے ہیں جن کا خدا کی ذات سے تعلق نہیں ہے.یعنی تعلق ہے تو سہی مگر وہ سمجھے نہیں ، رشتے تھے تو سہی مگر وہ باند ھے نہیں گئے اس لئے وہ اس مادی دنیا سے لذت پانے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن روحانی دنیا سے لذت پانے کی اہلیت نہیں رکھتے.پس اپنی سوچ کو انگیخت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سوچ کے بغیر دل میں جذبات پیدا نہیں ہوا کرتے.بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ قلبی کیفیت اور چیز ہے اور دماغ اور چیز ہے.حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ ان کا وجود نہیں ہے.قرآن کریم نے سوچوں کے آخری مرکز کے طور پر فؤاد کا یعنی دل کا ذکر فرمایا ہے اور دلوں کو ہی اندھا قرار دیا اور دلوں ہی کو دیکھنے والا بیان کیا.جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ دماغ کی آخری حقیقت بھی دل پر منتج ہوتی ہے اور آخری صورت میں چونکہ کیفیتیں بن جاتی ہیں اور کیفیتوں کا مرکز دل ہے.اس لئے قرآن کریم بھی دماغ کی بجائے دل کا ذکر کرتا ہے.پس اپنی سوچ کو بیدار کریں تو آپ کے دل میں عرفان کی لہریں دوڑنے لگیں گی اور عرفان کی لہریں ہی ہیں جو وہ کیفیت پیدا کرتی ہیں جس سے نماز میں لذت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار بڑھتے رہتے ہیں.اب حواس خمسہ کا میں نے ذکر کیا ہے اس سے پہلے میں پچھلے خطبے میں David Attenborough کی ایک دو وڈیوٹیسٹس کا ذکر کر چکا ہوں.مجھے بعد میں کسی نے بتایا کہ جو کچھ انہوں نے وڈیو کی صورت میں پیدا کیا ہے اس کو انہوں نے کتابی شکل میں بھی ڈھالا ہوا ہے اور ان کی تصنیف بھی ملتی ہے.مگر بہر حال یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہر کس و ناکس کی پہنچ میں نہیں اور نماز ہر شخص نے پڑھنی ہے تو بعض لوگوں کی رسائی ایسے مواد تک ہوتی ہے جن سے خدا تعالیٰ کے فضل کے

Page 755

خطبات طاہر جلد ۹ 750 خطبه جمعه ۱۴ رو نمبر ۱۹۹۰ء ساتھ اُن کا علم بڑھتا ہے اور اگر اُن کے اندر بصیرت ہوتو وہ اس علم کے بڑھنے کے ساتھ خدا تعالیٰ کی یاد میں بھی ترقی کرنے لگتے ہیں لیکن اگر دیکھنے کی طاقت ہی کچھ نہ ہو تو وہ علم الگ پڑا رہتا ہے اور خدا کا تصور الگ پڑا رہتا ہے اور ان دونوں کے درمیان رشتہ قائم نہیں ہوتا.مگر سوال یہ ہے کہ ساری دنیا تو اس قسم کے علم تک رسائی نہیں رکھتی اور وہ دنیا جو پہلے گزر چکی ہے جن میں ایسے زمانے شامل تھے جن میں خدا کے عظیم انبیاء گزرے جو خدا کو سب سے زیادہ یاد کرنے والے تھے اور وہ زمانہ بھی شامل ہے جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جن سے زیادہ ذکر کرنے والا نہ پہلے پیدا ہوا نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے.تو اس زمانہ میں David Attenborough کا تو وجود ہی کوئی نہیں تھا، اس سائنس کا وجود نہیں تھا جس نے David Attenborough پیدا کئے ، ان ایجادات کا کوئی تصور نہیں تھا جن کے ذریعے سے انسان کی خدا تعالیٰ کی ان صنعتوں تک رسائی ہوئی جن میں اس نے حیرت انگیز تخلیق کے کرشمے دیکھے.پس نماز تو ہر زمانے کے لئے ہے اور ذکر الہی ان ظاہری علوم کا محتاج نہیں مگر ذکر الہی اس اندرونی توجہ کا ضرور محتاج ہے جس کے نتیجے میں ہر جگہ انسان کو خدا ملنا شروع ہو جاتا ہے اور نظر میں گہرائی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور اپنے گرد و پیش جہاں دیکھتا ہے وہ خدا کے وجود کو وہاں جلوہ گر دیکھتا ہے اور جتنی بصیرت تیز ہو اور جتنی محبت بڑھے اتنا ہی خدا کا وہ جلوہ زیادہ خوبصورت ، دلکش اور دلر با دکھائی دینے لگتا ہے.پس عام دنیا کے دستور کے لحاظ سے بھی نماز میں اور خصوصاً سورہ فاتحہ میں ہر انسان اپنی اپنی توفیق کے مطابق رنگ بھر سکتا ہے.حواسِ خمسہ کی میں نے بات کی ہے اب یہ بھی ایک بڑی دلچسپ غور طلب بات ہے کہ سورہ فاتحہ میں رَبِّ الْعَلَمِینَ کے بعد الرَّحْمٰن کا ذکر فرمایا گیا اور الرَّحْمنِ پر غور کرنے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایسی ذات ہے ( بے شمار اور بھی معانی ہیں لیکن ایک بڑا نمایاں معنی یہ ہے کہ ) جس نے محض ضرورت سے بہت بڑھ کر دیا.محض ضرورت تو یہ ہے مثلا کہ ایک انسان کی بھوک مٹ جائے اور اس کی غذا اس لحاظ سے مکمل ہو کہ اس کو زندگی کے قیام کے لئے اور زندگی کی نشو ونما کے لئے جن کیمیاوی اجزاء کی ضرورت ہے وہ اسے متناسب شکل میں مہیا ہو جائیں.یہ زندگی کی محض ضرورت ہے اور یہ ضرورت بعض دفعہ Drips کی صورت میں بھی جس کے ذریعے مریضوں

Page 756

خطبات طاہر جلد ۹ 751 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء کو خوراک پہنچائی جاتی ہے انسان کو مہیا ہو جاتی ہے.ایسے Concentrates کی صورت میں یعنی ایسی غذاؤں کے خلاصے کی شکل میں بھی انسان کو مہیا ہو جاتی ہے جس میں مزا کوئی نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو معمولی سا ہوتا ہے اور ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو اگر خدا تعالیٰ نے کائنات کو بعض ضرورتوں کی خاطر پیدا کرنا تھا تو محض اس طرح بھی پیدا فرما سکتا تھا کہ ہر چیز کی ضرورت پوری ہو جائے اور خدا نے تخلیق کا گویا حق ادا کر دیا لیکن ہر جگہ آپ کو رحمانیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے.حواس خمسہ پر آپ غور کر کے دیکھیں یہ تو ہر انسان کے بس میں ہے.اس کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں.ہر انسان سے مراد وہ ہے جسے حواس خمسہ عطا ہوں اور اگر حواس خمسہ عطا نہ ہوں تو چار حواس عطا ہوں تو ان کے ذریعے بھی انسان اسی قسم کی معرفت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے.تین ہوں تو اُن تین کے ذریعے انسان اپنی توفیق کے مطابق خدا تک پہنچ سکتا ہے مگر حواس خمسہ ہوں یا چار حواس ہوں یا تین ہوں یا دو یا ایک، زندگی میں کوئی ایسا زندگی کا حصہ آپ کو دکھائی نہیں دے گا جو حواس سے عاری ہو اور اگر حواس سے عاری ہے تو وہ موت ہے.پس انسان ہی نہیں بلکہ اس کی ادنیٰ حالتیں بھی حواس کے ذریعے خدا تک پہنچتی ہیں اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے اگر وہ محض اس پہلو سے غور کرے کہ میری ہر حس میں اللہ تعالیٰ نے محض ضرورت پوری نہیں فرمائی بلکہ اس سے بہت بڑھ کر رکھا ہے.ناک کو خوشبو کی یاہو کے احساس کی ضرورت ہے وہ اس لئے ہے کہ بعض زہریلی اور گندی چیزوں سے انسان بچ سکے لیکن اس میں لذت کیوں رکھ دی.بعض چیزوں میں لذت کیوں رکھ دی گئی ؟ سوال تو یہ ہے.اس کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا.بعض جانور اس حد تک وہ قوت رکھتے ہیں جو شامہ کہلاتی ہے یعنی سونگھنے کی قوت کہ وہ اپنی ضرورت کی چیز کو پہچان لیں اور جو چیز اُن کے لئے مضر ہوسکتی ہے اس کو پہچان کر اس سے دور ہٹ سکیں.یہ ہے بنیادی ضرورت جسے میں محض ضرورت کہتا ہوں لیکن ہر جانور کو خدا تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ لذت بھی عطا کر دی ہے.جو انسان تک پہنچتے پہنچتے درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے.نظر کی محض ضرورت یہ ہے کہ آپ رستہ دیکھ سکیں چیزوں کو نہ صرف دیکھ سکیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس کے فاصلے دیکھ سکیں.چیزوں کو اس حد تک پہچان سکیں کہ کون سی آپ کے لئے مفید ہیں اور کون سی مضر ہیں.کہاں ٹھوکر ہے کہاں صاف رستہ ہے.غرضیکہ محض ضرورت کی زندگی کی بہت سی روز مرہ کی ایسی حالتیں ہیں جنہیں نظر پورا کرتی ہے لیکن نظر کے ساتھ لذت رکھ دی اور اس

Page 757

خطبات طاہر جلد ۹ 752 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء لذت کو ایسی طاقت بخشی ہے کہ انسان حسن کی تلاش میں زندگی بسر کر دیتا ہے.شعراء نظر سے تعلق رکھنے والی لذت کا اپنے کلام میں ذکر کرتے ہیں.ساری زندگی اس بات پر صرف کر دیتے ہیں کہ ہم نے حسن کو اس طرح جلوہ گر دیکھا، اس طرح جلوہ کر دیکھا.کھانے کی لذت سے ہر انسان آشنا ہے اور اگر محض ایسا کھانا ملے جو اس کی ضروریات پوری کرتا ہو لیکن لذتیں زیادہ مہیا نہ کر سکے تو انسان بیزار ہو جاتا ہے.بعض گھروں میں اس وجہ سے میاں بیوی کی لڑائیاں طلاق تک پہنچ جاتی ہیں کہ بیوی کو کھانا نہیں اچھا پکانا آتا.ہر روز کی بک جھک، بک جھک ہوتے ہوتے بالآ خر نفرتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور خاوند کہتا رہتا ہے کہ تو تو ہے ہی بے سلیقہ.تیرے ہاتھ میں تو مزہ ہی کوئی نہیں حالانکہ جہاں تک جسم کی ضرورت کا تعلق ہے وہ تو اُسے مہیا ہو رہی تھی.اسی طرح آپ اپنے دیگر حواس پر غور کریں تو کم سے کم ضرورت بہت تھوڑی تھی اس سے بہت زیادہ عطا کیا گیا ہے اور اس عطا کرنے کی صفت کا نام جو ضرورت حقہ سے زیادہ ہو رحمانیت ہے.پس جب آپ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتے ہیں اور ربوبیت کے نظارے اپنے ذہن میں تصویر کی طرح گھماتے ہیں تو اپنے گردو پیش اپنی ذات میں ، اپنی اولاد کی صورت میں ، اپنے ماں باپ کی صورت میں ، اپنے دوستوں کی صورت میں ، اپنے معلمین کی صورت میں ہر طرف سے آپ کور بوبیت کے نظارے مختلف شکلوں میں دکھائی دینے لگیں گے اور جس دن کی جو نماز ہے اس دن جو خاص ربوبیت کا اثر دل پر پڑنے والی بات ہے وہ نمایاں طور پر اپنے ذہن میں آپ حاضر کر سکتے ہیں اور روز مرہ کے بدلتے ہوئے تجارب کے ساتھ ساتھ ربوبیت کے مختلف نقشے آپ کے ذہن میں اُبھر سکتے ہیں اور جب آپ رحمانیت میں داخل ہوں تو آپ کے حواس خمسہ نے اُس دن آپ کو جو بھی لذت پہنچائی ہے وہ لذت حمد میں تبدیل ہو جائے گی.آپ اُس وقت نماز پڑھتے ہوئے یہ سوچ سکتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ایسا عجیب ہے میرا رب کہ ساری کائنات کا نظام اُس نے سنبھالا ہوا ہے.تمام کائنات کی ربوبیت فرما رہا ہے اور کسی کے حال سے کسی کی ضرورتوں سے غافل نہیں ہے لیکن ضرور تیں ایسی پوری کرتا ہے کہ ضرورت پورا کرتے وقت ضرورت سے زیادہ یعنی کم سے کم ضرورت سے زیادہ لذتیں عطا کر دیتا ہے.پس اگر چہ رحمانیت کا مضمون یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اسے آغاز کہنا بھی درست نہیں ہوگا کیونکہ رحمانیت کے ذکر میں یہ

Page 758

خطبات طاہر جلد ۹ 753 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء بات ایک بہت ہی معمولی حیثیت رکھتی ہے لیکن سوچ کا ایک طریقہ ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس طرح آپ سورۃ فاتحہ پر غور کرنا شروع کریں اور پھر رحمانیت پر غور کر کے رحیمیت پر آئیں اور وہاں جا کر دیکھیں کہ اور باتوں کے علاوہ رحیمیت میں بار بار دینے کا مفہوم ہے اور اس رنگ میں بار بار دینے کا مفہوم ہے کہ محنت ضائع نہ جائے بلکہ زیادہ ہو کر واپس ملے تو ساری کائنات میں رحیمیت پھیلی ہوئی دکھائی دینے لگے گی.ایک پہلو سے جب آپ خدا کو دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ باقی ساری صفات غائب ہوگئی ہیں وہی اصل صفت تھی لیکن ربوبیت سے جب رحمانیت میں داخل ہوتے ہیں تو ہر طرف رحمان خدا کا نظارہ دکھائی دینے لگتا ہے.رحمانیت سے جب رحیمیت میں جاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جہاں رحیمیت کارفرما نہ ہو.انسانی جسم کے تمام اجزاء میں اور انسان کے تمام ارکان میں ، اُس کے اعضاء میں ہر چیز سے جو انسان بنا ہوا ہے انسان رحیمیت کے سبق پڑھ سکتا ہے.گردو پیش پر دیکھیں ، ایک زمیندار کو بڑے علم کی ضرورت نہیں.وہ جانتا ہے کہ میں موسموں سے فائدہ اُٹھاتا ہوں اور موسم آتے جاتے رہتے ہیں.ایک موسم میں کھودیتا ہوں تو اگلا موسم دوبارہ وہی مواقع لے کر میرے حضور حاضر ہو جاتا ہے اُس موسم سے میں فائدہ اُٹھا تا ہوں اور پھر وہ موسم نکل جاتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ کمی رہ گئی ہے وہ کمی رہ گئی لیکن پھر وہ دوبارہ چکر لگا تا ہوا میرے پاس پہنچ جاتا ہے اور کہتا ہے اچھا اب کمیاں پوری کرلو.موسم کے بار بار آنے میں کوئی کمی نہیں ہوتی لیکن اس سے فائدہ اُٹھانے میں کمی رہ جاتی ہے.پس بعض لوگ ایسے ہیں جن کا رحیمیت سے تعلق اس طالب علم کی طرح ہوتا ہے جو ہر امتحان کے وقت سوچتا ہے کہ جو ہو چکا وہ ہو چکا اگلے امتحان کی دفعہ میں یہ سب تیاریاں کروں گا تا کہ یہ نقص بھی نہ رہے، یہ نقص بھی نہ رہے اور اگلا امتحان پھر بھی آتا ہے لیکن وہ پھر تیاریوں سے محروم رہ جاتا ہے.تو استفادہ کرنے کا کام ہمارا ہے لیکن جہاں تک افادہ کا تعلق ہے فائدہ پہنچانے کا تعلق ہے، رحیمیت ہر بار اپنے سب جلوے لے کر آتی ہے اور بار بار آتی ہے، رحیمیت کا مضمون بھی اتنا وسیع ہے کہ ایک خطبہ چھوڑ بیسیوں خطبات میں بھی مضمون کی نشاندہی بھی پوری نہیں کی جاسکتی لیکن یہ مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے کہ اس مثال پر غور کرتے ہوئے اپنے علم کو بڑھائیں، اپنے عرفان کو بڑھائیں، کسی بیرونی علم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ کے حواس خمسہ یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ آپ کو

Page 759

خطبات طاہر جلد ۹ 754 خطبه جمعه ۱۴ دسمبر ۱۹۹۰ء خدا تک پہنچادیں لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ آپ کے اندر خدا تک پہنچنے کی طلب پیدا ہو.اگر طلب پیدا ہو جائے تو پھر آپ کو اس بات کا عرفان حاصل ہو گا کہ دراصل آپ خدا تک نہیں پہنچتے خدا آپ تک پہنچتا ہے.حواس خمسہ کے ذریعے آپ ہر چیز تک پہنچ جاتے ہیں لیکن خدا کی توفیق کے بغیر خدا کو پانہیں سکتے.پس ثابت ہوا کہ حواس خمسہ بذات خود خدا تعالیٰ تک پہنچانے کی اہلیت نہیں رکھتے امکانات پیدا کرتے ہیں.اب ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.جیسا کہ میں نے پہلے مثال دی تھی بڑے بڑے علماء دنیا میں موجود ہیں جو سائنس کے ایسے ماہرین ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تخلیق کی باریک دربار یک چیز وں تک ان کی نگاہ پہنچتی ہے اور جہاں پہنچ کر ٹھہرتی ہے وہاں ان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ابھی تم نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا اس سے پرے علم کے اور بھی جہان ہیں.پس نہ صرف یہ کہ وہ نظر رکھتے ہیں بلکہ نظر کے اندر عمق رکھتے ہیں، گہرائی رکھتے ہیں اور پھر بھی خدا تک نہیں پہنچتے.لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام ۱۰۴۰) قرآن کریم فرماتا ہے کہ تمہاری آنکھیں، تمہاری بصارت خدا تک نہیں پہنچ سکتی هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ہاں وہ ہے جو تمہاری قوت ادراک تک پہنچتا ہے.کتنا عظیم الشان نکتہ اس میں بیان فرما دیا گیا اور امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت و لطافت اور اس کا اعلیٰ ہونا اور اس کا عظیم ہونا اور اس کا اکبر ہونا یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو انسانی حواس خمسہ کو نا کام کر دیتی ہیں کہ انسان محض ان کے زور سے خدا کی عظمت کو پالے اس کے علوم کو پالے، اس کی کبریائی کو پالے اور اس کی ذات کی گہرائی تک اتر سکے.پس سطحوں تک جا کر ہمارے حواس ٹھہر جاتے ہیں.اس کے بعد پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا دور شروع ہوتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ چیز جو ہمیں بظاہر دکھائی دے رہی ہے یہ بڑی پیاری ہے لیکن اس کے پیچھے کوئی اور ذات چھپی ہوئی ہے.پس ہم اس کی عبادت کریں.جب اس کی عبادت کرتے ہیں اور حمد کو اس کے ساتھ ملاتے ہیں تو پھر وہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ حمد کی تو فیق بھی اسی سے ملتی ہے.پس إيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے یہ مضمون مکمل ہو جاتا ہے.پس حواس خمسہ کے ذریعے آپ کوشش کریں لیکن ساتھ یہ دعا کرتے رہیں کہ اے اللہ تعالیٰ ! اے خدا!! تو ہمارے حواس خمسہ پر نازل ہو.ان پر جلوہ فرما کیونکہ جب تک تو اپنی صفات کا جلوہ ہم پر نہیں فرماتا اُس وقت تک ہم دیکھتے ہوئے بھی

Page 760

خطبات طاہر جلد ۹ 755 خطبه جمعه ۱۴ رد نمبر ۱۹۹۰ء دیکھنے سے محروم رہیں گے.ہم سنتے ہوئے بھی سننے سے محروم رہیں گے.ہم چکھتے ہوئے بھی چکھنے سے محرم رہیں گے اور اپنی کسی حسن کے ذریعے بھی تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے.مؤمن جب اس عجز کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا میں ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے.عجز میں ایک طاقت ہے اور کبر میں نا طاقتی پائی جاتی ہے.جب بھی انسان خدا سے تعلق باندھتا ہے تو یادر کھے کہ وہاں طاقت کا نام عجز ہے یعنی اپنی کمزوریوں کا احساس اور اپنی بڑائی کا احساس کمزوری ہے جس کے بعد انسان خدا سے تعلق کاٹ لیتا ہے.پس حواس خمسہ کی نا اہلی کو دیکھنے کے لئے آپ کو کہیں بہت دُور کے سفر کی ضرورت نہیں.اہلیت رکھتے ہوئے بھی ان میں ایک نااہلیت پائی جاتی ہے.پس دنیا کی عظیم قوموں کو آپ دیکھیں جو خدا تعالیٰ کی تخلیق پر غور کرتے ہوئے ، اس تخلیق میں چھپے ہوئے رازوں سے استفادہ کرتے ہوئے عظیم الشان ایجادات کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں اور وہ قومیں آج تمام دنیا پر غالب ہیں لیکن ان کا بھاری حصہ ایسا ہے اور بہت بھاری حصہ ایسا ہے جو خدا کے تصور سے نا آشنا ہے اور ذاتی طور پر خدا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ، خدا کے تصور کا ایک ایسا مبہم سا سایہ ان کے ذہنوں پر پڑا ہوتا ہے جو تعلق قائم کرنے کے لئے کافی نہیں.ایک فرضی سا خیال ہے اور ایک کثیر تعداد ان میں سے ایسی ہے جو باشعور طور پر یہ اعلان کرنے کی جرات کرتے ہیں کہ خدا نہیں ہے.ایسے بھی بڑے بڑے سائنس دان ہیں جنہوں نے بے انتہاء تشخص کیا اور قدرت کے بہت بڑے بڑے عظیم راز پالئے اور سب کچھ پانے کے بعد یہ کہہ کر سب کچھ گنوا بیٹھے کہ ہم نے تو ہر طرف دیکھا ہمیں تو خدا کہیں دکھائی نہیں دیا.پس جب میں حواس خمسہ کی بات کرتا ہوں تو وہ کھڑکیاں ہیں ، دروازے ہیں جہاں تک روشنی پہنچ سکتی ہے مگر دروازے اور کھڑکیاں اچھل اچھل کر روشنیوں تک نہیں پہنچ سکتے.روشنی ان تک پہنچتی ہے.الله نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ( النور : ۲۶) خدا زمین و آسمان کا نور ہے اور اور معانی کے علاوہ ایک یہ معنی ہیں کہ تم آنکھیں کھولو، نور خود تم تک پہنچے گا اگر تم نور کی طلب کرنے والے ہو گے اور نور کی خواہش رکھنے والے ہو.اگر تم نور کی خواہش رکھو گے تو آنکھیں کھولو گے اور کھولو گے تو ہر طرف سے خدا کے جلوے تم تک پہنچنے لگیں گے اور اگر آنکھیں رکھتے ہوئے آنکھیں بند رکھو گے تو اندرونی طور پر تم میں بظاہر صلاحیت ہوگی لیکن نو رتم تک نہیں پہنچ سکے گا.پس حواس خمسہ تو ہر شخص

Page 761

خطبات طاہر جلد ۹ 756 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء کو عطا ہوئے اور حواسِ خمسہ کے مضامین پر اگر انسان غور کرتا ہے تو سورہ فاتحہ میں اس کو بہت ہی خوبصورت رنگ بھرتے ہوئے دکھائی دیں گے اور خدا کی حمد اُس کے اندر اس غور و خوض کے بعد کیفیت پیدا کرے گی یا کیفیتیں پیدا کرے گی اور انہیں کیفیتوں کا نام نماز ہے.ان ہی کیفیتوں کا نام عبادت ہے.اس عبادت کے بعد جب آپ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتے ہیں تو بلا تر ودیقین کے ساتھ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا سے پھر ضرور مدد ملے گی لیکن دوسرے دروازے بند کرنے پڑتے ہیں.ان معنوں میں بند کرنے پڑتے ہیں کہ آخری یقین بلا شرکت غیرے یہی رہتا ہے کہ صرف ایک ذات ہے اس کے سوا کوئی نہیں.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب آپ واپس خدا تعالیٰ کی اُن چار صفات کی طرف واپس جاتے ہیں جن کا سورۃ فاتحہ میں ذکر ہے تو تعجب پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا کہ إيَّاكَ نَعْبُدُ کہو اور یہی چار صفات ہیں جو بنیادی طور پر خدا کا تعارف کروانے کے لئے کافی ہیں لیکن ان میں بہت سی صفات موجود ہی نہیں ہیں.ہم جب کہہ دیتے ہیں کہ ہم صرف تیری عبادت کریں گے اور صرف تجھ سے ہی مانگیں گے اگر ہماری ضرورتیں اور ہوں اور زائد ہوں تو یہ عہد تو ہمارے لئے موت کا پیغام بن جائے گا.آپ ایک محدود طاقت والے انسان سے یہ رشتہ باندھ بیٹھیں جس کی طاقتیں بھی محدود ہیں، جس کی پہنچ محدود ہے.جو ہمیشہ رہ بھی نہیں سکتا اُس سے یہ عہد کر بیٹھیں کہ میں جو کچھ مانگوں گا تجھ سے ہی مانگوں گا تو جب اس کی ضرورت دینے والے کی طاقت سے باہر ہوگی وہیں وہ مارا گیا.ایک دفعہ ایک عباسی وزیر نے جو عباسی خلیفہ کے وزیر تھے کسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تو اس نے احسان کا شکریہ اس رنگ میں ادا کیا کہ اس سے تحریری معاہدہ کیا کہ اے وزیر! میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ آئندہ میں تیرے دروازے کے سوا کسی دروازے کی طرف نہیں دیکھوں گا اور تیرے سوا کسی سے نہیں مانگوں گا لیکن کچھ عرصے کے بعد نہ وہ وزیر رہا نہ وہ در رہا اور یہ وعدہ از خود ہی جھوٹا ثابت ہو گیا.پس جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کہتے ہیں تو غور طلب بات یہ ہے کہ آیا یہ حکمت کی بات تھی بھی کہ نہیں.کہیں ہم ایسا عہد تو نہیں کر بیٹھے جس کے نتیجے میں بعض ہماری ضرورتیں خدا کی ذات سے باہر رہ جائیں گی اور جب ذات کی طرف واپس

Page 762

خطبات طاہر جلد ۹ 757 خطبه جمعه ۱۴ رو نمبر ۱۹۹۰ء لوٹتے ہیں تو وہاں صرف چار صفات ہیں.ربوبیت ، رحمانیت،رحیمیت اور مالکیت.اب کیا ان چاروں صفات سے انسان کا گزارا ہو سکتا ہے.علم کا یہاں کہیں ذکر نہیں کہ خدا عالم الغیب بھی ہے.اس بات پر غور کرتے ہوئے وہ مضمون ذہن میں اُبھرتا ہے جس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ در حقیقت یہ چاروں صفات اُمّم الصفات ہیں اور کوئی ایک صفت بھی ایسی نہیں جو ان کے اثر سے باہر ہو.بعض دفعہ ایک صفت سے کئی دوسری صفات پیدا ہوتی ہیں.بعض دفعہ مختلف صفات مل کر بعض صفات پیدا کرتی ہیں اور آپس میں ان کے تعلقات کے ادلنے بدلنے سے نئے مضامین اُبھرتے ہیں اور بعض دفعہ ہماری نظر نہیں ہوتی کہ ہم ایک صفت میں دوسری صفات موجود دیکھ سکیں لیکن موجود ہوتی ہیں اور قرآن کریم کا مطالعہ ہماری توجہ ان کی طرف مبذول کرواتا ہے اور بتاتا ہے کہ دیکھو اس کھڑکی کے رستے یہ روشنی بھی دکھائی دینی چاہئے تھی مگر دکھائی نہیں دی.مگر قرآن کریم مددگار بنتا ہے اور سارے قرآن کریم کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت ایک یقین کے طور پر دل میں ہمیشہ کے لئے جاگزیں ہو جاتی ہے کہ سورہ فاتحہ کو ام الصفات کہنا محض ایک جذباتیت کی بات نہیں تھی ، ایک جذباتی تعلق کے نتیجے میں نہیں تھا بلکہ گہرے ٹھوس علم کے نتیجے میں ہے اور یہی حقیقت ہے.مثلاً میں نے علم کا ذکر کیا کہ خدا کو ہم سورہ فاتحہ کے علاوہ جانتے ہیں کہ عالم الغیب ہے،عالم الشهادة ہے اور حاضر کو جانتا ہے، غائب کو جانتا ہے، ماضی کو بھی جانتا ہے، مستقبل کو بھی جانتا ہے لیکن سورہ فاتحہ میں تو کوئی ایسا ذ کر نہیں ملتا.پھر انسان قرآن کریم کے مطالعہ میں یہ بات پڑھ کر اچانک حیران رہ جاتا ہے کہ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ ) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن :۲ تا ۵) کہ یہ رحمان ہے جس نے قرآن سکھایا.اب رحمانیت کا علم سے کوئی تعلق ہے ورنہ رحمان کو قرآن سکھانے والا کیوں قراردے دیا گیا.یہ کہنا چاہئے تھا کہ علام الغیوب ہے،عالم ہے، علیم ہے جس نے قرآن سکھایا.کیونکہ علم سکھانے والے کو تو عالم کہا جاتا ہے یا علیم کہا جاتا ہے یا علامہ کہا جاتا ہے.رحمان تو نہیں کہا جاتا تو رحمانیت میں علم کا کون سا جزو پایا جاتا ہے یا کونسی مشابہت ان صفات میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم جو تمام علوم میں سب سے زیادہ جامع ہے اور سب سے اونچا مقام رکھتا ہے اور سب سے زیادہ گہرائی رکھتا ہے اس کو علیم کی طرف منسوب کرنے کی بجائے رحمان کی طرف منسوب کر دیا.

Page 763

خطبات طاہر جلد ۹ اس 758 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء مضمون پر غور کرتے ہوئے جب آپ رحمانیت میں سفر شروع کرتے ہیں تو آپ یہ سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ربوبیت بہت وسیع طور پر اثر انداز دکھائی دیتی ہے اور قانون قدرت اور تخلیق میں کارفرما نظر آتی ہے لیکن جب کچھ بھی نہ ہو تو رحمانیت کے سوا کسی چیز کا آغاز ہو ہی نہیں سکتا.کیونکہ رحمن کے اندر بن مانگے دینے والے کا معنی پایا جاتا ہے یعنی ابھی سائل کا وجود ہی پیدا نہیں ہوا.کوئی کچھ مانگنے کے لئے دربار میں حاضر نہیں ہوا لیکن اس کے لئے عطا کی تیاریاں ہو رہی ہیں.پس حقیقت میں تخلیق کا بھی رحمانیت کے ساتھ تعلق ہے اور علم کا بھی رحمانیت کے ساتھ تعلق ہے.تخلیق کا تعلق تو آپ کو فوراً سمجھ آ گیا ، جب آپ دوبارہ اس آیت پر غور کریں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ رحمان کے ساتھ تخلیق کو کیوں باندھا تھا.الرَّحْمنُ نُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ فى عَلَمَهُ الْبَيَانَ کہ رحمان نے انسان کی تخلیق کی ہے اور رحمان ہی تھا جس نے قرآن عطا کیا.تخلیق کے لئے رحمانیت کا جوڑ سمجھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کی بہترین مثال پیش فرما دی.انسان تخلیق کی وہ آخری شکل ہے جس میں سب سے زیادہ رحمانیت جلوہ گر ہے کیونکہ انسان کو سب سے زیادہ وہ چیزیں عطا ہوئی ہیں جو بن مانگے عطا ہوئیں اور جو درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہیں.کوئی اور مخلوق اس میں انسان کا مقابلہ نہیں کرتی بلکہ تمام کائنات کا خلاصہ انسان ہے.تو خَلَقَ الْإِنْسَانَ کا فاعل رحمان قرار دے دینا اور یہ فرمانا کہ رحمان نے انسان کی تخلیق کی ہے ، نہ صرف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تخلیق کا آغاز رحمانیت کے نتیجے میں ہوا ہے بلکہ تخلیق پر غور کرنے سے سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں رحمان کو خالق کہا گیا کیونکہ وہی مضمون دوبارہ اُبھرتا ہے جو میں نے آپ سے پہلے بیان کیا ہے کہ ہر تخلیق میں ضرورت واجبی کے علاوہ چیز میں عطا کی گئی ہیں.ضرورت حقہ کا لفظ میں نے پہلے استعمال کیا تھا غالبا ضرورت واجبی کہنا زیادہ درست ہے یعنی وہ ضرورت جو کم سے کم ہے جس کے پورا ہو جانے کے بعد چیز کو بقاءنصیب ہو جاتی ہے اور پیاس بجھ جاتی ہے.وہ ضرورت پورا کرنے کے بعد اگر مزید کچھ عطا کیا جائے تو وہ واجبی ضرورت سے زیادہ ہے اور اس کے لئے رحمان کا ہونا ضروری ہے ورنہ آپ روز مرہ کی زندگی میں تو رحمن نہیں بنتے.مزدور نے جب آپ کا کوئی کام کیا ہو تو بالعموم انسان کم سے کم دے کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے.اکثر مالکوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ نو کروں بیچاروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ تمہاری ضرورت پوری

Page 764

خطبات طاہر جلد ۹ 759 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء ہو گئی بس کافی ہے، ہم اس میں رہ سکتے ہو.سردی سے بچ سکتے ہو، گرمی سے کسی حد تک بچ سکتے ہو بلکہ واجبی ضرورت بھی پوری نہیں کی جاتی کسی حد تک پوری ہو جائے تو سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری ادا ہو گئی.وہ تو رحمان نہیں کہلا سکتے.پس تخلیق میں کوئی بھی زندگی کا ایسا ذرہ آپ کو دکھائی نہیں دے گا خواہ وہ زندگی کی کسی نوع سے تعلق رکھنے والا ذرہ ہو جس ذرے کے اندر بھی رحمانیت کا جلوہ دکھائی نہ دیتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اُس پہ آسان ہے (در نمین : ۴) اب کیڑے کا پاؤں بنانے پر انسان قادر نہیں.یہ بات آج کے زمانے میں عجیب لگتی ہے.جب آپ دیکھتے ہیں کہ ہوائی جہاز ایجاد ہو گئے ، ٹیلی ویژنز ایجاد ہوگئیں.حیرت انگیز بار یک در بار یک صفاتِ کائنات پر غور کرنے کے نتیجے میں انسان بار یک در بار یک چیزیں بنانے پر قادر ہوتا چلا جا رہا ہے تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ مصرعہ اب پرانے زمانے کی بات بن گیا کہ بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز لیکن جب آپ گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ بڑی بڑی تخلیق اور عظیم تخلیق اور بار یک در بار یک تخلیق کا دعویٰ کرنے والا انسان بھی آج تک کیڑے کا ایک پاؤں بنانے سے عاجز ہے کیونکہ کیڑے کے ایک پاؤں میں عجیب در عجیب چیزیں بنی ہوئی ہیں.کیڑے کا ایک پاؤں جس مسالے سے بنا ہوا ہے جس طرح اس کے اندر انرجی Energy پہنچانے کا انتظام ہے، جس طرح وہ اپنے ظاہری حجم کے مقابل پر بیسیوں گنا زیادہ وزن اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے.جس طرح اس کے اندر بار یک دربار یک اعصاب ہیں.جس طرح وہ اس بات کا اہل بنایا گیا ہے کہ سیدھی ، عمودی چیزوں پر بھی وہ چڑھ جائے اور عام سطح پر بھی اسی طرح دوڑ نے لگے جس طرح بعض اُن میں سے پانی کی سطح پر بھی دوڑنے کی استطاعت رکھتے ہیں اس کیڑے کے پاؤں پر آپ غور کریں تو عقل دنگ رہ جائے گی اور بغیر کسی شک کے ایک انسان جو صاحب علم ہو اور صاحب فراست ہو وہ دوبارہ یہ اعلان کرے گا اور ہزار بار یہ اعلان کرے گا: بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز

Page 765

خطبات طاہر جلد ۹ 760 خطبه جمعه ۱۴ر دسمبر ۱۹۹۰ء تو خدا تعالیٰ کی صنعتوں میں تو ہر جگہ رحمانیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے اور رحمانیت کو تخلیق میں ڈھالنے کے لئے علم کی ضرورت ہے کیونکہ تخلیق میں سائنس بھی ہے اور ٹیکنالوجی بھی ہے.یہ دو چیزیں اکٹھی ہو کر تخلیق میں ڈھلتی ہیں.علم کے بغیر تخلیق ممکن ہی نہیں ہے.پس علم جب درجہ کمال کو پہنچا ہوتب تخلیق خوبصورت ہوتی ہے اور اس کے باوجود تخلیق کوئی عملی جامہ نہیں اوڑھ سکتی یا عمل کی صورت میں ڈھل نہیں سکتی جب تک ساتھ ٹیکنالوجی بھی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کو ، رحمان خدا کو علم کے بغیر رحمانیت کو تخلیق میں ڈھالنے کی استطاعت ہی نہیں ہو سکتی تھی اور سب سے زیادہ عالم وہ ہوتا ہے جو چیز کو خود بنانے والا ہے.دوسرے بھی سمجھتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.کسی کے بنائے ہوئے ماڈل پر غور کرتے ہیں اور گہرائی میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جو بنانے والا ہے اس سے بڑھ کر عالم دنیا.میں کوئی نہیں ہوسکتا.پس رحمان میں ہی علم بھی شامل ہے اور رحمان ہی میں تخلیق بھی شامل ہے.پس جب ہم کہتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو بلا شبہ کوئی ناقص سودا نہیں کر رہے ہوتے.کوئی خوف والا سودا نہیں کر رہے ہوتے.کامل یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس سے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ صرف تیری عبادت کریں گے اور کسی اور کو عبادت کے لائق نہیں سمجھیں گے ہم پورے یقین اور عرفان کے ساتھ یہ عہد کر رہے ہیں.ان کا یہ مطالبہ ایک طبعی آواز ہے جو اس کے پیچھے آنی چاہئے کہ اے ہمارے معبود! پھر ہماری ضرورتیں بھی تو ہی پوری کرنا کیونکہ تو تمام ضرورتیں پوری کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مضامین ہیں مگر اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے اگر وقت ملا میں انشاء اللہ اسی مضمون پر مزید گفتگو ا گلے خطبے میں کروں گا اور اگر بیچ میں ایسا کوئی اور امر زیادہ فوری توجہ کے لائق آیا تو پھر ایک خطبے کا ناغہ کر کے پھر انشاء اللہ آئندہ خطبے میں اس مضمون کی طرف آؤں گا تا کہ لوگ جو ہر وقت ہمیشہ پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ نے کچھ بتایا تھا لیکن ابھی پیاس نہیں بجھی کچھ اور بتائیں.نمازوں کو ہم کس طرح زندہ کریں تو جہاں تک خدا مجھے تو فیق عطا فرمائے میں چاہتا ہوں کہ اس ذمہ داری کو ادا کر دوں اور آپ کو نمازوں کو زندہ کرنے کے کچھ راز سمجھا دوں.اگر ہماری نمازیں زندہ ہو جائیں تو ہم زندہ ہوں گے اور ساری انسانیت زندہ ہوگی کیونکہ عبادت کی زندگی کے سوا انسان کو زندگی نصیب نہیں ہوسکتی.وہ دیکھتے ہوئے بھی اندھا رہے گا.وہ سنتے ہوئے بھی بہرا رہے گا وہ بظاہر بولنے کی طاقت رکھے گا مگر بیان سے خالی ہوگا کیونکہ

Page 766

خطبات طاہر جلد ۹ 761 خطبہ جمعہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۹۰ء اس کے بیان کا رحمانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.پس یہ بہت ہی اہم بات ہے.زندگی کی تمام اہم چیزوں میں سب سے زیادہ اہم عبادت ہے مگر وہ عبادت جسے سمجھ کر ادا کیا جائے، جو کیفیتوں میں ڈھلنی شروع ہو جائے اور کیفیتوں سے بھر جائے اس سے زندگی پیدا ہوتی ہے اور وہ زندگی پھر تمام کائنات کو زندہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 767

Page 768

خطبات طاہر جلد ۹ 763 خطبہ جمعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء سورۃ فاتحہ میں بیان صفات باری تعالیٰ کا مظہر بننے کی کوشش اور منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کی دعائیں کر ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ / دسمبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کا خطبہ بھی گزشتہ خطبات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتا چلا آیا ہوں کہ کس طرح نماز کے ساتھ ایک ذاتی تعلق پیدا کیا جائے اور کس طرح نماز کے مطالب میں ڈوب کر نماز سے لذت حاصل کی جائے اور وہ مقصد پالیا جائے جو نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد ہے یعنی یہ ایک ذریعہ ہے بندے کو خدا سے ملانے کا.پس جب تک ذریعے کا صحیح استعمال نہ ہو اُس وقت تک ذریعہ اپنے مقصود کو پا نہیں سکتا.پس خدا تعالیٰ کا وصل، خدا تعالیٰ سے تعلق مقصود بالذات ہے اور نماز سے جتنا تعلق بڑھے گا نماز کا جتنا عرفان بڑھے گا اتنا ہی زیادہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے تعلق بڑھے گا اور خدا تعالیٰ کا عرفان بڑھے گا اور نماز کے ذریعہ آپ اپنی زندگی کے، اپنی پیدائش کے مقصد کو پا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نماز سے بے سوچے سمجھے گزرتے چلے جائیں تو تمام عمر کی نمازیں بھی اس عارف باللہ کی ایک نماز کے برابر نہیں ہوسکتیں جو ایک نماز سے گزرتا ہے مگر اس میں ڈوب کر، اُس کو اپنا کر، اس کا ہو کر اس میں سے نکلتا ہے اسی لئے بعض دفعہ بعض کم فہم لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی نماز ہوا کرتی ہے جو خدا سے ملا دیتی ہے اور صرف ایک ہی نماز کافی ہے.یہ ایک بالکل غلط اور جاہلانہ تصور ہے.بعض جو زیادہ عارف بنے کی کوشش کرتے ہیں اور صوفیانہ مزاج

Page 769

خطبات طاہر جلد ۹ 764 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء رکھتے ہیں یا نہیں مگر لوگوں کو دکھاتے ضرور ہیں.وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ بس زندگی کا ایک لمحہ کافی ہے وہ لمحہ جو خدا سے ملا دے اور مفہوم یہ ہوتا ہے کہ بس ایک لمحے کی ملاقات کے بعد پھر ہمیشہ کے لئے چھٹی.حالانکہ ملانے والا لمحہ وہ لمحہ ہوا کرتا ہے جو ہمیشہ کے لئے وابستہ کر دے.جس کے بعد علیحدگی کا کوئی تصور نہ رہے.پس ایک نماز کا سوال نہیں ہے.سوال ایک ایسی نماز کا ہے جو آپ کا نماز کے ساتھ ایسا گہرا اور دائمی رشتہ باندھ دے، ایسا تعلق پیدا کر دے کہ جو پھر کبھی نہ ٹوٹے.محبت کے متعلق شعراء کہتے ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہو جایا کرتی ہے مگر وہ ایک ہی نظر ایسی تو نہیں ہوا کرتی کہ دوبارہ محبوب کی طرف اُٹھنے کی تمنا سے ہی محروم رہے.ایک نظر سے مراد یہ ہے کہ محبت جب ہو جائے تو پھر ہر نظر اپنے محبوب کو تلاش کرتی ہے اور یہی عرفان الہی اور وصلِ الہی کی حقیقت ہے.ایک دفعہ جب اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو جائے جس کا نماز سب سے بڑا ذریعہ ہے تو پھر یہ تعلق دائمی ہو جایا کرتا ہے اور اس تعلق کی سچائی کا نشان ہی اس کا دوام ہے اس لئے میں آپ کو مختلف پہلوؤں سے نماز کے مضمون پر غور کرنے کے طریق بتانے کی کوشش کر رہا ہوں تا کہ ہر شخص اپنے اپنے مزاج کے مطابق وہ طریق اختیار کرے اور عبادت کا صرف فریضہ ادا نہ کرے بلکہ عبادت کی لذت حاصل کرے اور عبادت کے پھل کھائے.جب ہم صفات باری تعالیٰ کا ذکر سورہ فاتحہ کے الفاظ میں کرتے ہیں تو اس کے بعد إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دعا ہے اس کا ایک مفہوم میں پہلے بیان کر چکا ہوں اب ایک اور امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ چار بنیادی صفات بیان ہوئی ہیں: رَبِّ الْعَلَمِينَ، الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.پس جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہیں تو اس کا ایک مطلب تو ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں.تیرے سامنے سر جھکاتے ہیں اور اپنے وجود کو تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں گویا آج کے بعد یہ وجود ہمارا نہیں تیرا ہو گیا اور دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ ہم قدم بقدم تیرے پیچھے چلتے ہیں.جس طرح ایک غلام آقا کی پیروی کرتا ہے اور اپنی مرضی کا مالک خود نہیں رہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ مالک کی تصویر بن جائے.جیسا مالک کرتا ہے ویسا ہی وہ کرے تو اس کا نام بھی عبدیت ہے.پس عبدیت اور عبودیت دو مفہوم عبد کے اندر پائے جاتے ہیں.جہاں تک دوسرے مفہوم کا تعلق ہے اس کو

Page 770

خطبات طاہر جلد ۹ 765 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء پیش نظر رکھیں تو نماز آپ کو روزانہ ایک پیغام بھی دے گی اور ایک محاسبہ بھی کرے گی.جب آپ کہتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ تو سب سے پہلے رَبِّ الْعَلَمِينَ کی صفت آپ کے سامنے آکھڑی ہوگی اور آپ اپنے دل میں یہ سوچیں گے اگر سوچنے کی اہلیت رکھتے ہوں کہ کیا میں بھی رب بننے کی کوشش کرتا ہوں؟ کیا میری ربوبیت کا فیض بھی تمام جہانوں پر ممتد ہے یا ممتد ہونے کی کوشش کرتا ہے؟ یہ ایک سوال اتنا گہرا اور اتنا وسیع سوال ہے کہ اس کے حقیقی جواب تلاش کرنے میں بھی مد تین درکار ہیں اور اس کی مختلف جگہوں پر باری باری اطلاق کرتے ہوئے پھر اس کا الگ جواب حاصل کرنا ایک بڑی محنت کا کام ہے مگر ایک بہت ہی دلچسپ سیر ضرور ہے.جب انسان کسی ذات کو رَبِّ الْعَلَمِینَ تسلیم کرتا ہے اور ساتھ یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ ایک قابلِ تعریف بات ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - رَبِّ الْعَلَمِينَ ہونا کوئی بُرائی کی بات نہیں بلکہ ہر پہلو سے قابل تعریف ہے بلکہ تمام حقیقی تعریفوں کا مستحق رَبِّ الْعَلَمِینَ ہے تو اگر آپ رَبِّ الْعَلَمِینَ بننے کی کوشش نہیں کرتے تو آپ جھوٹے ہیں.یہ منہ کی تعریف محض ہونٹوں سے نکلی ہوئی تعریف ہے اور دل سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جو چیز آپ کو پسند آئے آپ ویسا ہونے کی کوشش کرتے ہیں.پس رَبِّ الْعَلَمِینَ کہ کر رَبِّ الْعَلَمِینَ کا تعلق حمد باری تعالیٰ سے باندھ کر ہر بچے عبادت کرنے والے پر فرض ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے دل کی آرزو بن جاتا ہے کہ وہ ویسا بننے کی کوشش کرے.اب رب العلمین کا مضمون تو بہت ہی وسیع ہے لیکن اپنے گردو پیش سے اگر آپ شروع کریں تو اس کا اطلاق نسبتاً آسان ہو جاتا ہے.بعض لوگ اپنے بچوں کے لئے رب ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے نہ صرف یہ کہ رب نہیں ہوتے بلکہ ربوبیت کے برعکس اثر دکھاتے ہیں.ماں اگر بچوں سے پیار کرتی ہے تو وہ بھی ایک ربوبیت کا مظہر ہے لیکن وہ ربوبیت خدا کی نظر میں قابل تعریف نہیں ٹھہرتی یا قبولیت کی مستحق قرار نہیں پاتی جب وہی ماں اپنے سوتیلے بچوں سے ظلم کر رہی ہوتی ہے.جب دوسرے بچوں سے اس کا منفی سلوک ہوتا ہے تو وہیں رَبِّ العلمین کا مضمون منقطع ہوتا جاتا ہے.ایسی ربوبیت جو محدود دائرے سے تعلق رکھتی ہو اس وقت تک نا قابلِ قبول ہے جب تک دائرہ وسیع ہو تب بھی ربوبیت جاری رہے اور منقطع نہ ہو جائے لیکن ماں کی اپنے بچوں سے محبت اسی وقت ربوبیت کی تعریف سے باہر قدم نکال دیتی ہے جبکہ ماں

Page 771

خطبات طاہر جلد ۹ 766 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء کے تعلقات دوسرے بچوں سے اور دوسرے بنی نوع انسان سے منفی صورت اختیار کر لیتے ہیں.یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے مگر اس کو آپ انسانی دائروں میں پھیلائیں تو آپ کے لئے اپنا جائزہ لینا بہت ہی آسان ہو جاتا ہے.جب بھی آپ کسی سے تعلقات قائم کرتے ہیں تو وہ ایک لمحہ اپنے نفس کی اندرونی حالت کو جانچنے کا ہوتا ہے.تعلقات کس قسم کے قائم ہورہے ہیں، کیوں ہورہے ہیں؟ کیا ان تعلقات میں ربوبیت کا کوئی عنصر ہے بھی کہ نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو آپ کے تعلقات کو وضاحت سے کھول کے آپ کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے اور جب بھی تعلقات کروٹیں بدلتے ہیں اور لاشعوری حالت سے شعوری میں اُبھرتے ہیں تو وہ وقت بھی ایسے ہوتے ہیں جب آپ اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ آپ واقعةُ رَبِّ الْعَلَمِینَ بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہیں.بعض تعلقات جاری و ساری ہیں اور وہ ایک قسم کے لاشعور میں رہتے ہیں.مثلاً اپنے ماحول سے گرد و پیش سے، جانوروں سے تعلقات، یہ اگر چہ دبے ہوئے تعلقات ہیں لیکن ہیں سہی کیونکہ جس کا ئنات میں ہم سانس لے رہے ہیں یہاں لازماً ہمارے اس سے تعلقات ہیں.ایک بچہ چھوٹی سی بندوق لے کر شکار پر نکلتا ہے اور جب وہ شکار کرتا ہے تو اس کا جانور سے ایک قسم کا تعلق قائم ہوتا ہے.یہ لاشعور سے شعور میں اُبھر آتا ہے.اس وقت اگر وہ شکار کرتا ہے اور ربوبیت پر نظر رکھتے ہوئے ان معنوں میں خدا کی حمد کرتا ہے کہ مالک وہی ہے اور رب بھی وہی ہے اس نے ہر شخص کے رزق کے انتظام فرمائے ہوئے ہیں اور میرا جو اس جانور سے تعلق ہے بظاہر میں شکاری ہوں لیکن یہاں خدا کی ربوبیت میرے لئے جلوہ دکھا رہی ہے جس طرح اسی پرندے کے لئے اس نے اس وقت جلوے دکھائے جب یہ چھوٹے چھوٹے جانوروں کا شکار کر کے خدا کی ربوبیت کے مزے چکھتا تھا.تو ربوبیت کا مضمون بظاہر اس صورت میں متصادم ہونے کے باوجود ایک نئی شکل میں آپ کے سامنے ظاہر ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ ایک پہلو سے رب بنتا ہے اور دوسرے پہلو سے بظاہر ربوبیت کی نفی ہورہی ہوتی ہے.ایسی صورت میں ایک بنیادی قانون ہے جو ہمیشہ کارفرما ہے اور وہ یہ ہے کہ بہتر کے لئے ادنی کو قربان کیا جائے گا.یہاں ربوبیت ایک اور رنگ میں آپ کے سامنے اُبھرتی ہے مگر وہی بچہ جب آگے بڑھتا ہے اور ایک ایسے جانور کو جو خدا نے خوبصورتی کے لئے پیدا کیا ہے جو اس کے کھانے کے کام نہیں آسکتا یا ایسے جانور کو جو خدا تعالیٰ نے صفائی کے لئے مقرر فرمائے ہوئے

Page 772

خطبات طاہر جلد ۹ 767 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء ہیں یا اور مقاصد کے لئے پیدا کئے ہیں ان کو محض مارنے کی نیت سے مارتا ہے تو یہاں ربوبیت سے وہ اپنا تعلق تو ڑلیتا ہے اور واضح طور پر ربوبیت کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے تو بظا ہر ایک ہی فعل ہے یعنی جانور سے تعلقات کے دوران کسی جانور کو ذبح کرنا یا شکار کرنا اور کسی جانور کی جان بخشی کرنا لیکن یہ ایک فعل نہیں رہتا جب آپ ان افعال کو مختلف حالات میں ربوبیت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھتے ہیں.پھر جانور جو ضرورتمند ہیں، جو مصیبت میں مبتلا ہیں ان کے لئے آپ نے مغربی قوموں میں خاص طور پر ربوبیت کے جذبے دیکھے ہوں گے جو بد قسمتی سے مسلمانوں میں نسبتا کم پائے جاتے ہیں تو ایک ہی چھوٹی سی مثال سے جو رستہ کھلتا ہے وہ ایک لا متناہی سفر بن جاتا ہے.انسان کے گردو پیش سے تعلقات میں بیشمار قسم کے تعلقات ممکن ہیں اور ہر تعلق میں جب آپ آگے قدم بڑھاتے ہیں یا نئے تجارب حاصل کرتے ہیں، جب لاشعوری تعلقات اچانک شعور میں اُبھرتے ہیں تو وہ اوقات ہوتے ہیں جب آپ اپنا جائزہ لے سکتے ہیں اور رَبِّ الْعَلَمِينَ سے اپنے تعلق کو یا قائم کر سکتے ہیں یا منقطع کر سکتے ہیں.پھر ربوبیت کے دائرے میں بالعموم جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں غرباء سے تعلق ہے خدا کے مصیبت زدہ بندگان کی مصیبتوں کاحل ہے اور اس کے برعکس ایسے افعال ہیں جو منفی اثر پیدا کرنے والے ہیں.ایک آدمی اگر ایک غریب سے ہمدردی نہیں کرسکتا تو اس کی ربوبیت کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ افسانوی ربوبیت ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں رب سے محبت کرتا ہوں لیکن حقیقت میں نہیں کیونکہ ویسا بننا نہیں چاہتا لیکن ایک شخص جب ربوبیت کے برعکس تعلقات کسی سے قائم کرتا ہے، کسی غریب کا حق مارتا ہے، کسی یتیم کے اموال ہضم کرنے لگ جاتا ہے، کسی کمزور پر ظلم اور زیادتی کرتا ہے تو یہ ربوبیت کی منفی علامات ہیں.اب ایسا شخص جب نماز میں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتا ہے تو حقیقت میں آسمان سے یہ آواز کیا بن کر اُس پر پلٹتی ہے؟ یہ سوال ہے.کیا وہ رحمت کے پھول بن کر اس پر برسے گی جیسا کہ آگے رحمان کا ذکر چلا ہے یا برعکس شکل اختیار کرے گی.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر انسان کا اپنا عمل ربوبیت سے منفی ہوگا تو یہ آواز کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ ہمیشہ اس پر لعنت بن کر گرے گی اور از خود یہ آواز اس پر رحمت کے پھول برسانے کا موجب نہیں بنے گی.پس یہ مضمون بہت ہی وسیع اور گہرا ہے اور اس مضمون کو آپ آگے بڑھا ئیں اور رحمانیت

Page 773

خطبات طاہر جلد ۹ 768 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء سے تعلق جوڑیں تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ دوبارہ کہیں اور پھر سوچیں کہ رحمان خدا نے آپ کے لئے کیا کیا کچھ پیدا کیا ہے.رحمان کا تصور قائم ہی نہیں ہو سکتا جب تک عدل کا تصور نہ ہو کیونکہ رحمان عدل سے بالا ہے اور اوپر ہے.بالا ان معنوں میں نہیں کہ بے نیاز بلکہ عدل کے قیام کے بعد رحمانیت کا مضمون شروع ہوتا ہے.پس جو شخص عدل پر ہی قائم نہیں وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ في الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ رحمان تو ضرورت سے بڑھ کر دینے والا حق سے بڑھ کر دینے والا ، بن مانگے دینے والا.پس یہاں تعلقات کے دائرے ربوبیت کی ایک بالاشان دکھانے لگتے ہیں.ربوبیت کا مضمون زیادہ ارتقائی صورت میں انسانی ذہن میں اُبھرتا ہے اور اس کے اعمال پر جلوہ گر ہوتا ہے.پس جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہیں تو یہاں ” “ سے مراد اللہ تو ہے ہی کہ اے خدا تجھ سے مگر خدا کی کس شان سے تعلق باندھا جارہا ہے.ربوبیت کا مضمون ایک تعلق پیدا کرے گا تو رحمانیت کا مضمون ایک دوسرا تعلق پیدا کرے گا.پھر رحیمیت کا مضمون ہے جس میں محنت کا پورا پورا اجر بلکہ محنت سے کچھ بڑھ کرا جر دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.ایک انسان اپنے تعلقات کے دائرے میں بڑی آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو پرکھ سکتا ہے کہ کیا میں جب کہتا ہوں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو رحیم تک میری حمد کی آواز پہنچتی بھی ہے کہ نہیں یا رحیمیت کو میں واقعی قابل تعریف سمجھتا ہوں اور اگر سمجھتا ہوں تو پھر میں خود کیوں رحیم بنے کی کوشش نہیں کرتا.پس جہاں جہاں اس کے اس سوال کے جواب میں ایک منفی تصویر ابھرتی ہے یا بے رنگ تصویر ابھرتی ہے وہیں وہیں اس کا إيَّاكَ نَعْبُدُ کہنا اثر سے خالی ہوتا چلا جاتا ہے.جہاں منفی تصویراً بھرتی ہے اس کا مضمون بعد میں بیان ہوگا کہ پھر اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے.آگے بڑھیں تو مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ تک آپ پہنچ جاتے ہیں.مالک میں خدا تعالیٰ کی نہ صرف مالکیت کی صفت بیان ہے بلکہ ملوکیت کی صفت بھی بیان ہے یعنی مالک کے اندرسب چیزیں داخل ہو جاتی ہیں لیکن جب يَوْمِ الدِّینِ کے ساتھ مالک کا مضاعف ہو تو ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مالک جس کے قبضہ قدرت میں تمام انجام ہیں.کوئی چیز اس سے بھاگ کر باہر نکل ہی نہیں سکتی.ساری عمر کوئی شخص محنت کرے اور وہ سمجھے کہ میری اس کوشش

Page 774

خطبات طاہر جلد ۹ 769 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء میں کسی اور نے کوئی دخل نہیں دیا اور میں کامیاب ہو گیا لیکن اس محنت کا پھل گھر پہنچتے تک بھی اگر مالک یہ فیصلہ کر لے کہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا تو وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا.اگر گھر میں پہنچ بھی جائے اور وہ بظاہر سمجھے کہ میں اپنی محنت کے پھل پر قابو پا چکا ہوں، یہ میرا ہو چکا ہے اگر مالک یہ سمجھے کہ اس سے اس محنت کرنے والے کو فائدہ نہیں پہنچنا چاہئے تو وہ محنت کرنے والا خود دنیا سے اٹھ سکتا ہے یا اور کوئی ایسی بلا اس پر نازل ہو سکتی ہے کہ گھر میں پھل موجود ہے لیکن محنت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تو مالک ایک ایسے کامل صاحب اختیار وجود کا تصور پیدا کرتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے جو سیاست کا بھی بادشاہ ہے، جو مالکیت کا بھی بادشاہ ہے اور ملوکیت کا بھی یعنی وہ تمام اختیارات بھی رکھتا ہے جو ایک مالک اپنی کسی چیز پر رکھتا ہے.خواہ وہ بادشاہ ہو یا نہ ہو.ایک چھوٹے سے چھوٹا غریب آدمی بھی کچھ نہ کچھ اختیار رکھتا ہے ایک روٹی کا ٹکڑا بھی اگر اس کو بھیک کے طور پر ملا ہو تو وہ اس ٹکڑے پر تھوڑا سا اختیار رکھتا ہے.تو مالک کے اندر یہ تمام اختیارات آ جاتے ہیں جن میں بادشاہ کو دخل دینے کا کوئی حق ہی نہیں پہنچتا اور اگر وہ چاہے بھی تو ہر ایک کے اختیار چھین نہیں سکتا.تو مالک ایسے عظیم وجود کو کہتے ہیں جو ہر چیز کا حقیقی مالک ہے.چھوٹی ہو یا بڑی ہو اور ملک کے اندر بعض ایسی باتیں ہیں یعنی بادشاہ کے اختیارات میں جو مالکیت کے دوسرے اختیارات میں نہیں ہوا کرتیں.بادشاہ قانون بنا دیتا ہے، بادشاہ جب چاہے کسی کو Dispossess کر دیتا ہے.اسی کے اختیارات وقتی طور پر چھین لیتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن پر انسان کا اختیار رہتا ہی ہے وہ چھین نہیں سکتا وہ اس کو اس کی ہر چیز سے ، Possession سے محروم کر سکتا ہے لیکن اس کے خیالات کے قبضے سے محروم نہیں کر سکتا.پس خدا جب مالک بنتا ہے تو ہر چیز کا مالک بن جاتا ہے.وہ بندے کے خیالات کا بھی مالک بن جاتا ہے اور جب چاہے ان کو بھی تبدیل فرما سکتا ہے.وہ ہر ذی شعور کے شعور کا مالک بن جاتا ہے اور جب وہ بادشاہ بنتا ہے تو جس سے چاہے جس کو چاہے محروم کر دے.یہ مضمون قرآن کریم نے مختلف سورتوں میں مختلف آیات میں بیان فرمائے ہیں جیسا کہ فرمایا: اللهمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران: ۲۷)

Page 775

خطبات طاہر جلد ۹ 770 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء یہاں مالک کا معنی صرف کسی چیز پر قبضہ کرنے والا نہیں بلکہ یہاں ملوکیت کے معنے اور بادشاہت کے معنے بھی اس میں داخل فرما دیئے جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں اللهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ کہ اے خدا! تو ملک کا بھی مالک ہے.یعنی صرف چیزوں کا مالک نہیں، بادشاہتوں کا اور مضامین کا بھی مالک ہے.کوئی مضمون ایسا نہیں جس کا تو مالک نہ ہو اور بادشاہت بھی ایک مضمون ہے جو تیرے قبضہ قدرت میں ہے.تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ تو جس کو چاہتا ہے ملک عطافرما دیتا ہے جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے.تو ہر چیز پر قادر ہے یہ مالک کی تعریف ہے.تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْل وَتُخْرِجُ الْحَى مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ( آل عمران : ۲۸) کہ اے خدا! تو رات کو دن میں تبدیل فرما دیتا ہے.دن کو رات میں تبدیل فرما دیتا ہے.موت سے زندگی نکالتا ہے اور زندگی سے موت نکالتا ہے.مردوں سے زندہ پیدا کرتا ہے اور زندوں سے مردہ پیدا کر دیتا ہے.وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ اور جس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرما دیتا ہے.تو اس آیت نے اس مضمون کو خوب کھول دیا کہ مالک سے مراد محض کسی چیز کا مالک ان معنوں میں نہیں ہے جن معنوں میں ہم مالک بنتے ہیں یا مالکیت کا مضمون سمجھتے ہیں بلکہ بہت ہی وسیع اور گہرا مضمون ہے اس میں سیاست اور بادشاہت بھی داخل ہو جاتی ہے اور رزق بھی داخل ہو جاتا ہے اور قانون سازی بھی داخل ہو جاتی ہے اور قانون پر پورا قبضہ ہونا بھی داخل ہو جاتا ہے اور قانون کا نفاذ بھی داخل ہو جاتا ہے اور زندگی بھی اس کے ماتحت آتی ہے اور موت بھی اس کے ماتحت آتی ہے.گو یا مالکیت کا تصور اتنا وسیع ہے کہ رحمانیت نے جس تخلیق کا آغاز کیا تھا اور بوبیت نے اس تخلیق کو جن جن منازل سے گزارا تھا اور رحمانیت اور رحیمیت نے ان کے اوپر جو جو جو ہر دکھائے ان سب کے بعد جو آخری صورت وجود کی ابھرتی ہے اس تمام صورت پر ہر پہلو سے خدا کا مکمل قبضہ ہے.پس مالک کا تصور ایک بہت ہی عظیم تصور ہے اور مالک بننے کی کوشش کرنا یہ مضمون ایک مشکل مضمون ہے لیکن اس کا تعلق پہلے مضامین سے ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مالک ظالم بھی ہوسکتا ہے،سفاک بھی ہو سکتا ہے کسی سے ناجائز چھین کر بھی وقتی طور پر مالک بن سکتا ہے اور ملوکیت کے اور ملکیت کے نہایت خوفناک مظاہر ہم دیکھتے ہیں تو پھر ہم ویسا بننے کی کیسے کوشش کر سکتے ہیں لیکن

Page 776

خطبات طاہر جلد ۹ 771 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء امر واقعہ یہ ہے کہ جب آپ ربوبیت کے دروازے سے داخل ہو رہے ہیں اور رب بننے کی کوشش مخلصانہ طور پر کر چکے اور کسی حد تک ربوبیت سے حصہ پالیا، جب رحمانیت کے دروازے میں داخل ہوئے اور رحمان بننے کی کوشش کی اور کسی حد تک رحمانیت سے حصہ پالیا جب رحیمیت کے دروازے میں داخل ہوئے اور رحیم بننے کی کوشش کی اور رحیمیت سے کسی حد تک حصہ پالیا تو درحقیقت آپ ہی ہیں جو مالک بننے کی صلاحیت پیدا کر چکے ہیں.آپ ہیں جن کا یہ حق بنتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ.اے خدا! کچھ چیزوں میں تو ہم نے واقعہ کوشش کی اور تیرے جیسے بنے کی کوشش کرتے رہے اور کسی حد تک بن گئے مگر ملوکیت کا مضمون ایسا ہے جس میں ہمارا دخل نہیں ہے اور ہم مالک بن نہیں سکتے کیونکہ یہاں کامل طور پر تیرا قبضہ ہے.اس لئے اب تو ہمیں مالک بنا بھی دے اور یہ تو فیق عطا فرما کہ ہم ملوکیت کے وقت رب بھی ہوں اور رحمان بھی ہوں اور رحیم بھی ہوں اور تیری تمام صفات کے مظہر ہوں اور تیرے مالک ہونے میں جو یہ ایک خاص شان پائی جاتی ہے کہ مالک ہوتے ہوئے بھی تو دوسروں کو ملکیت عطا کر دیتا ہے یہ شان بھی ہمیں بخش.اب یہاں خدا کی صفات کے مطابق مالک ہونا اور بندے کی صفات کے مطابق مالک ہونا دوا الگ الگ چیزیں بن جاتی ہیں.ان شرائط کے ساتھ جو شرائط سورۂ فاتحہ ہمارے سامنے رکھتی ہے جب ہم مالکیت کے مضمون پر غور کرتے ہیں اور اس کا موازنہ اس مالکیت سے کرتے ہیں جواس مضمون سے عاری ہے.ان شرائط سے عاری ہے تو زمین و آسمان کا فرق پڑتا ہے یا آسمان اور زمین کا فرق ظاہر ہوتا ہے.ایسا ما لک جو اس جذبے سے پاگل ہو کر کہ میری جائیداد بڑھے میرا قبضہ قدرت بڑھے.ایسا بادشاہ جو اس ہوس سے پاگل ہو کر خدا کے بندوں پر حملے کرتا ہے اور اس کی مخلوقات کے لئے ایک عذاب بن جاتا ہے کہ کسی طرح میرے ملک گیری کی ہوس پوری ہو اور میری مملکت وسیع ہو وہ نہ رب بن سکتا ہے نہ رحمان بن سکتا ہے نہ رحیم بن سکتا ہے.مالکیت کسی کو دیتا نہیں بلکہ چھینتا چلا جاتا ہے حالانکہ قرآن کریم نے مالکیت کی یہ تعریف فرمائی کہ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ - اصل حقیقی مالک وہ ہے جو عطا بھی کرتا ہے.صرف لیتا ہی نہیں لیکن جب لیتا ہے تو وہ حق لیتا ہے جو اس کا ہے اور کسی اور کا حق نہیں لیتا اور جب عطا کرتا ہے تو کسی کا حق نہیں دے رہا ہوتا بلکہ اپنی طرف سے عطا کر رہا ہوتا ہے کیونکہ کلیہ مالک وہی ہے دنیا کا

Page 777

خطبات طاہر جلد ۹ 772 خطبہ جمعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء بادشاہ جو ملک گیری کی ہوس کے ساتھ حملے کرتا ہے وہ ایسے حق چھین رہا ہے جو اس کے نہیں ہیں وہ دوسرے بندگان خدا کے حقوق میں دخل اندازی کرتا ہے اور غاصب کی چھینی ہوئی چیزیں اس کو مالک نہیں بنا دیا کرتیں.ان میں سے وہ کچھ کسی کو دے بھی دے اور کوئی والی مقرر کر دے اور بظاہر ملوکیت کسی کے سپر د کر دے تو جیسا اُس کا قبضہ ناجائز ویسے اس کی عطانا جائز اور بے معنی اور بے حقیقت لیکن جب يَوْمِ الدِّینِ کی شرط ساتھ لگا دیں تو یہ فرق بالکل ہی نمایاں اور اتنا زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی مشابہت کی شکل بھی باقی نہیں رہتی.يَوْمِ الدِّینِ کا مطلب ہے جزاء سزا کے دن، آخری دن کا مالک.ہر چیز اس کی طرف لوٹ جائے گی اور ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئی دوسرا شخص ملکیت میں یا ملوکیت میں ایک ذرہ بھر بھی اس کا شریک نہیں رہے گا.قرآن کریم فرماتا ہے: وَمَا أَدْرِيكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ثُمَّ مَا أَدْريكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ، يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَبِذٍ لِلَّهِ ن (الانفطار : ۲۰۰۱۹) کہ تمہیں کس طرح سمجھا ئیں کہ يَوْمِ الدِّينِ کیا چیز ہے.يَوْمِ الدِّینِ اس دور کا، اس زمانے کا نام ہے لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا.کوئی شخص اپنے لئے یا اپنے کسی عزیز یا تعلق والے کے لئے کسی چیز کا بھی مالک نہیں رہے گا.وَالْأَمْرُ يَوْمَذٍ لِلهِ اور ملکیت کا امر کلیۂ سو فیصد خدا کی طرف لوٹ چکا ہوگا.پس یہ دنیا کے بادشاہ اور دنیا کے مالک عارضی طور پر آپ کو بظاہر مالک دکھائی بھی دیں اور خدا کی صفت ملوکیت میں شریک بھی دکھائی دیتے ہوں مگر اس طرح دنیا سے خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں اور اس طرح ان کی ملوکیتیں اور مالکیتیں یا ان سے چھینی جاتی ہیں یا یہ خودان سے جدا کئے جاتے ہیں کہ بالآ خرخدا کی مالکیت کا مضمون اپنی پوری شان سے بلا شرکت غیرے اُبھرتا ہے اور ہرامراس کی طرف لوٹ جاتا ہے.پس خدا کے بندے کے طور پر، اس کی ملوکیت میں حصہ لینا اس مضمون کو بہت وسیع کر دیتا ہے اور جو خدا سے مالکیت مانگتا ہے اور خدا جیسا بن کر مالک بنے کی کوشش کرتا ہے اسے موت اس کی ملکیت سے محروم نہیں کیا کرتی.وہ ایک عالم بقاء میں رہنا سیکھ لیتا ہے.یہاں جو کچھ پاتا ہے وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اسے اگلی دنیا میں منتقل بھی کرتا چلا جاتا ہے.یہاں جو بادشاہتیں

Page 778

خطبات طاہر جلد ۹ 773 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء خدا کی خاطر عاجزی اور انکساری سے کرتا ہے اور رب اور رحمان اور رحیم بن کر خدا کے بندوں سے اپنے تعلقات قائم کرتا ہے بڑا ہو کر چھوٹا بنتا ہے اس کی ملوکیت بھی قیامت کے دن کے بعد خدا تعالیٰ کی رحمت کے جلوے کی صورت میں اُسے واپس کی جائے گی اور بہت بڑھا چڑھا کر واپس کی جائے گی.پس اس دنیا میں ہم کس حد تک مالک ہوں گے اور کس حد تک ملک ہوں گے اس کا تعلق اس دنیا میں خدا کے مالک اور ملک ہونے سے ہے اور اس بات سے ہے کہ ہم نے اس مالک اور ملک سے کس حد تک تعلق جوڑ لیا ہے.پس نَعْبُدُ کا ایک یہ مضمون ہے، ایک یہ مفہوم ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تو جانتا ہے اور تو دیکھ رہا ہے کہ جو چیز تیری ہمیں پسند آ رہی ہے ہم ویسا بننے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے ہمارے اخلاص میں تو کوئی شک نہیں رہا.اگر ہم جھوٹے ہوتے تو منہ کی تعریف کرتے اور عملاً ہم اور رُخ اختیار کرتے کسی اور سمت میں روانہ ہو جاتے مگر جس کو ہم اچھا سمجھ رہے ہیں اس کے قدم بقدم اس کے پیچھے چلے آرہے ہیں.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ اے خدا ہم پورے خلوص کے ساتھ اور صمیم قلب کے ساتھ اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ اور اپنے اعمال کی تصدیق کے ساتھ بار بار یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور کسی اور کی عبادت نہیں کرتے.دوسرے معنوں میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی ہے.ایک اس کی صفات کی پیروی ہے اس طرح جو دنیا میں ہر جگہ جلوہ گر دکھائی دیتی ہے اور اس کے لئے کسی مذہبی احکام کی ضرورت نہیں.انسان کا ربوبیت کا تصور، رحمانیت کا تصور ، رحیمیت کا تصور اور مالکیت کا تصور خدا کے تعلق میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے اور اپنے اپنے تصور کے مطابق جس حد تک انسان عبدیت کی راہیں اختیار کرتا ہے وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہنے کا حق رکھتا ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت نازل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ صرف اپنی صفات کے جلووں سے ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اوامر اور نواہی کے جلووں سے ظاہر ہوتا ہے.احکام دیتا ہے اور بعض چیزوں سے منع کرتا ہے کہیں شجرہ طیبہ ہے اور کہیں شجرہ خبیثہ ہے.فرماتا ہے کہ شجرہ طیبہ سے جتنے پھل چاہو کھاؤ اور جس طرح چاہو کھاؤ اور حکم دیتا ہے کہ شجر ممنوعہ کی طرف نہ جاؤ.وہ خبیث شجر ہے تو یہاں انسان روزانہ دوٹوک فیصلے کرنے کا اہل ہو جاتا ہے یہاں اس کی سوچوں اور فکروں کا سوال نہیں رہتا بلکہ کھلم کھلا خدا کی عبودیت یا عدم عبودیت کے مراحل اس کے سامنے آتے ہیں اور ہر مرحلے پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے عبود بیت

Page 779

خطبات طاہر جلد ۹ 774 خطبہ جمعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء کرنی ہے یا عبودیت سے منہ پھیرنا ہے.پس ان معنوں میں جب وہ ان شرائط کو پورا کرتا ہے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پورا کرتا ہے، یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک پورا کرتا ہے تو وہی چار صفات کے جلوے دوبارہ ایک کے بعد دوسرے ہمارے سامنے رقص کرتے ہوئے آ جاتے ہیں، ایک حسین نظارے کی صورت میں آجاتے ہیں.ربوبیت کے معاملے میں ہم نے کسی حد تک خدا کے احکامات کی پیروی کی اور اس کی مناہی سے بچے.رحمانیت کے پہلو سے ہم نے خدا تعالیٰ کے کس کس حکم کی پیروی کی اور کس کس حکم کا انکار کیا اور رحیمیت کے پہلو سے ہم نے کس حد تک خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کی یا ان کا انکار کیا اور اسی طرح مالکیت کے پہلو سے ہم کس حد تک واقعہ خدا کے بچے بندے ثابت ہوئے یہ عبودیت کے مضمون کو مکمل کر دیتا ہے اور اسی مضمون میں یہ نماز بھی شامل ہے جس میں ڈوب کر آپ خدا سے یہ تعلقات قائم کر رہے ہیں.خدا نے ہی اپنے تعلق کا یہ ذریعہ بیان فرمایا اور سب سے زیادہ اس کو ا ہمیت دی تو اس ساری دنیا کی سیر کے بعد جب ایک نمازی واپس اپنے حال میں لوٹتا ہے تو یہ بھی پھر پہچانتا ہے اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ میں کس حد تک نماز کے تقاضے پورے کر رہا ہوں اور کس حد تک عدل کے ساتھ نماز کے تقاضے پورے کر رہا ہوں اور کس حد تک عدل سے بالا اور اونچا ہو کر خدا کے حضور ایسی عبادت کر رہا ہوں کہ اگر نہ بھی کروں تو مجھ پر حرف نہیں لیکن بہت بڑھ کر سلوک کرتا ہوں اور جب یہ مضمون شروع ہوتا ہے تو وہاں احسان کا مضمون داخل ہو جاتا ہے یعنی نماز عدل سے احسان میں تبدیل ہونے لگتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر حسین ہونے لگ جاتی ہے.اب آپ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں داخل ہوتے ہیں.اب دیکھیں کہ ہر شخص کا ایاک نَسْتَعِينُ ہر دوسرے شخص سے کتنا مختلف ہو چکا ہے بظاہر ایک ہی آواز ہے کہ اے خدا! ہم تیری مدد چاہتے ہیں اور صرف تیری مدد چاہتے ہیں تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں لیکن کس کس مدد کی اہلیت کے ساتھ.جب بھی سوال حکومتوں میں پیش ہوا کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے Biodatas ہوتے ہیں، ان کے اعمال نامے ہوتے ہیں جو چیز انہوں نے حاصل کی ، جو حاصل نہ کر سکے ان سب کا خلاصہ بعض صفحات پر درج ہو کر پیش ہوا کرتا ہے.اگر کسی نے چپڑاسی بھی بننا ہو تو اس کے لئے بھی کچھ صلاحیتیں درکار ہیں.پس وہ بادشاہ جو چپڑاسی بھی بنا سکتا ہے اور وزیر

Page 780

خطبات طاہر جلد ۹ 775 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء اعظم بھی بنا سکتا ہے وہ بظاہر مالک تو ہے اور قدرت تو رکھتا ہے کہ جسے چاہے چپڑاسی بنا دے جسے چاہے وزیر اعظم بنادے مگر آنکھیں بند کر کے ایسا نہیں کرتا وہ دیکھتا ہے کہ درخواست کنندہ کے پاس کون سی دوسری صلاحیتیں ہیں ، کون سے اس کے مددگار کوائف ہیں جن کی روشنی میں مجھے اس کے ساتھ اپنے تعلقات میں معین فیصلہ کرنا ہے کہ کس مرتبے پر میں اس کو نافذ کروں گا، کس مقام تک اس کو بلند کروں گا اس کا رفع کہاں تک ہونا ہے.پر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ادنیٰ سے ادنیٰ حالت سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ حالت تک کی دعا مانگ لی گئی مگر اس بات کا فیصلہ کہ یہ دعا کس حد تک قابل قبول ہوگی یہ فیصلہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ نے پہلے ہی کر دیا ہے اور ایک نَعْبُدُ کے مضمون کی تفصیل خدا کی نظر میں ہے اور فرشتے اس تفصیل کو لکھتے چلے جاتے ہیں اور ایک ایسا اعمال نامہ تیار کرتے چلے جاتے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب قیامت کے دن دوسری زندگی میں یہ اعمال نامہ انسان کے سامنے پیش ہوگا تو حیرت سے کہے گا کہ مالِ هَذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً (الكهف:۵۰) که کیسی کتاب ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نہیں چھوڑ رہی اور کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی نہیں چھوڑ رہی.ہر چیز کا اس نے احاطہ کیا ہوا ہے.پس وہ احاطہ جو قیامت کے دن ہو گا وہی احاطہ اس دنیا میں ایک نَسْتَعِيْنُ کے وقت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت میں ہر بندے سے الگ الگ سلوک ہور ہے ہوتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک دعا تھی لیکن وہ ایک ایسے شخص کی دعا تھی جو تمام انسانوں کے رفع کے وقت خواہ وہ عام انسان تھے یا انبیاء تھے سب کو پیچھے چھوڑ گیا اور اس کا مقام قرب ہر دوسرے نبی سے ہی بالا نہیں بلکہ تمام فرشتوں ، تمام ملائک ، تمام کائنات میں ہر وجود سے آگے تھا.پس اس مقام قرب پر جو سفارش ہوتی ہے یا دعا ہوتی ہے اس کا ایک اور مرتبہ ہے اور دنیا میں بھی ہم یہی کچھ دیکھتے ہیں اس لئے خدا کے مضمون کو سمجھنے کے لئے کوئی غیر معمولی صلاحیتیں در کار نہیں آپ روز مرہ کی دنیا میں اتر کر اپنے گرد و پیش میں، اپنی فطرت اور فطرت کے نتیجے میں اپنے تعلقات پر غور کریں جو طبعی تعلقات ہیں اور سچائی پر مبنی ہیں تو آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلقات قائم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا.اب ایک بادشاہ کے حضور اس کا وز یر اعظم جو اس کا چہیتا بھی ہووہ

Page 781

خطبات طاہر جلد ۹ 776 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء وہ ایک درخواست پیش کرتا ہے.اگر چہ وہ درخواست ایسے غریبوں کی طرف سے ہے یا ایسے مجرموں کی طرف سے ہے جن سے بادشاہ کو یا تعلق نہیں ہے یا اُن سے ناراض ہے لیکن جب وزیر اعظم و درخواست پیش کرتا ہے تو اس کی حیثیت بالکل بدل جاتی ہے اور قبولیت کا ایک بڑا مرتبہ اس درخواست کو حاصل ہو جاتا ہے ورنہ ہر کس و ناکس کو کہاں یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ بادشاہ کی بعض دفعہ زنجیر بھی کھٹکھٹا سکے کجا یہ کہ اس کی آواز وہاں تک پہنچے.تو وسیلے کا مضمون بھی اس سے شروع ہو جاتا ہے.اور اس مضمون کے معا بعد اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا اسی مضمون کو آگے بڑھا رہی ہے اور نئے نئے جہان علم و معرفت کے ہمارے سامنے کھولتی ہے.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ مدد مانگیں تو کیا؟ یہاں نَسْتَعِينُ کا عبودیت سے صرف ان معنوں میں تعلق نہیں جو میں بیان کر چکا ہوں بلکہ نَسْتَعِينُ ایک خالی برتن ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کیا مانگا گیا ہے.نَسْتَعِيْنُ کا ایک تعلق رب سے ہے، رحمان سے ہے.رحیم سے ہے، مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ سے ہے اور عبادتوں سے ہے اور اس کی روشنی میں ہر چیز انسان مانگ سکتا ہے ایک تسمہ بھی خدا سے مانگتا ہے اور مانگنا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ خدا سے صرف بڑی چیزیں نہیں چھوٹی چیزیں بھی مانگو اور صرف چھوٹی نہیں بلکہ بڑی چیزیں بھی مانگو تو نَسْتَعِينُ کا ایک بہت بڑا وسیع اور کھلا برتن ہے جس کو آپ نے کچھ نہ کچھ مانگ کر بھرنا ہے لیکن جب آپ اهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہتے ہیں تو یہاں آپ دنیا وی چیزوں سے ہٹ کر کچھ اور مانگنے لگے ہیں.اب یہاں نعمتیں نہیں مانگ رہے بلکہ مراتب مانگ رہے ہیں اور ان دو باتوں میں بڑا فرق ہے.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فرمایا.یہ نہیں فرمایا کہ اے خدا! ہمیں اس رستے کی طرف ہدایت دے جس پر نعمتیں ملتی ہوں.نعمتیں تو جتنی مانگی تھیں پہلے ہی مانگ چکا ہے یعنی دنیا کی نعمتیں اور دوسری ایسی چیزیں جو نعمت کہلاتی ہیں.یہاں کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اے خدا ہمیں اس رستے کی ہدایت دے جہاں نعمتیں ملتی ہوں.فرمایا اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اس رستے کی طرف ہدایت دے جہاں تیرے پیار حاصل کرنے والے تجھ سے انعام پانے والے چلتے ہیں.اب یہاں اس دُعا میں نَعْبُدُ اور نَسْتَعِينُ کے دونوں مضامین اکٹھے ہو گئے ہیں.یہ بتایا گیا ہے کہ روحانی مرتبے اور قرب الہی کے لئے اگر تم دعا مانگو گے تو یہ ایک ایسا مضمون ہے جو عام حالات میں نعمتیں عطا

Page 782

خطبات طاہر جلد ۹ 777 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء کرنے سے مختلف مضمون ہے.ایک کافر جو خدا تعالیٰ کے احکامات سے کھلم کھلا بغاوت کرتا ہے وہ بھی خدا کی نعمتوں میں حصہ پاتا ہے کیونکہ دنیا میں ہر جگہ اس کی نعمتیں پھیلی پڑی ہیں.کوئی ایسا انسان نہیں جو خدا کی نعمت سے حصہ نہ پاتا ہو لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اے خدا! ہمیں اُن لوگوں کا رستہ دے جو منعم علیہ ہیں تو نعمتیں نہیں مانگیں بلکہ خدا سے انعام یافتہ لوگ بنے کی دعا مانگی ہے اور یہاں سارے کا فر تمام خدا سے روگردان اور دنیا دار الگ ہو جاتے ہیں اور ان کا رستہ یہاں ختم ہو جاتا ہے.ایک اور رستہ شروع ہوتا ہے جو قرب الہی کا رستہ ہے.خدا سے پیار مانگنے کا رستہ ہے اس سے مراتب حاصل کرنے کا رستہ ہے اور اس کے متعلق ہمیں فرمایا کہ یہ رستہ تمہیں تب عطا ہو گا جب تمہاری عبادت واقعہ ان رستوں سے گزرے گی جن رستوں سے انعام پانے والوں کی عبادتیں گزر چکی ہیں.جہاں تم نعمت کی دعا نہیں مانگ رہے ہو گے بلکہ نعمت پانے والوں جیسا بننے کی دعا مانگ رہے ہو گے اور یہ دعا پہلی دعا سے بہت زیادہ مشکل دعا ہے.لوگ عموماً سمجھتے ہیں اهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہنا بڑا آسان کام ہے کہ اے خدا ہمیں سیدھے رستے پر چلا.بس ختم ہو گئی.وہ یہ نہیں سوچتے کہ جن لوگوں پر خدا نے انعام کیا تھا وہ تھے کون کون اور اس دنیا میں کن کن مصیبتوں سے گزرے ہوئے ہیں.حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تمام انعام پانے والوں کے سردار تھے اور اس سے پہلے موسی نے بھی انعام پائے اور عیسی نے بھی پائے اور ابراہیم نے بھی پائے اور نوح نے بھی پائے اور تمام گزشتہ انبیاء جن کی تاریخ قرآن کریم میں محفوظ ہے وہ لوگ ہیں جو منعم علیہم کے گروہ میں داخل ہیں اس رستے پر چلتے رہے جس پر خدا نے انعام پانے والے انسان پیدا کئے تھے.انعام نہیں رکھے، انعام حاصل کرنے والے انسان پیدا کئے تھے.اب ان پر آپ نظر ڈالیں تو ہر ایک کی زندگی ایک مصیبت یعنی دنیا کی نظر میں.ایسے خطر ناک مراحل سے گزرے ہیں ایسے تکلیف دہ حالات کا ساری عمر سامنا رہا ایسی ایسی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے ، ایسے ایسے دکھ ان پر لا دے گئے کہ جو عام انسان کی کمر توڑ دیتے ہیں تو کیا آپ یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں وہ بنا دے.اچانک ایک جھٹکا انسان کو لگتا ہے اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ میں کہاں پہنچ گیا.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتے کہتے آرام سے میں ہر چیز مانگتا ہی چلا جارہا تھا اور اچانک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں ڈر لگتا ہے اور دل میں

Page 783

خطبات طاہر جلد ۹ 778 خطبه جمعه ۲۱ دسمبر ۱۹۹۰ء خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا مانگ رہا ہوں اور اگر یہ دیانتداری سے مانگتا ہے تو پھر ہر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اَرِنَا مَنَاسِكَنَا ( البقرہ: ۱۲۹) کی دعا مانگ رہا ہوتا ہے.یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے خدا! مجھے میری قربان گاہیں دکھا.مجھے بتا کہ کہاں کہاں میرے خون کے قطرے تیری راہوں میں بہنے چاہئیں.کس کس مقام پر میرے سرقلم ہونے چاہئیں اور میری جان تجھ پر فدا ہونی چاہئے.کتنی عظیم لیکن ایک کتنی مہیب دعا بن جاتی ہے ان معنوں میں کہ انسان منعم علیہم کے گروہ پر جب غور کرتا ہے تو ایک اور ہی تصویر ابھرتی ہے اور اس تصویر کے ساتھ خوف جو پیدا ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج قرآن کریم میں ہی رکھ دیا ہے.فرمایا : منعم علیہ وہ نہیں جو صرف انبیاء سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان کے مختلف مراتب ہیں وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَيكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَيْكَ رَفِيقًان (النساء:۷۰) تو اے بندو! خوف نہ کھاؤ لیکن سچائی سے دعا ضرور مانگو.اگر تمہیں ابھی یہ حوصلہ نہیں کہ منعم علیہم لوگوں کے سرتا جوں جیسا بننے کی کوشش کرو اور خدا سے یہ دعا مانگو کہ جس طرح ان کی زندگیاں گزریں ویسی ہی ہماری زندگیاں بھی گزریں تو پھر ذرا نیچے اتر جاؤ.نچلی سیڑھی پر کھڑے ہو کر دعا مانگ لو.وہاں نہیں ہمت پڑتی تو اس سے نچلی سیڑھی پر کھڑے ہو کر دعامانگ لو.سب سے آخری چوکھٹ پر کھڑے ہو جاؤ.صالحین کے اندر ہر قسم کے لوگ شامل ہیں.ایسے بھی ہیں جن سے کمزوریاں بھی سرزد ہوئیں جن کے اندر زیادہ بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں تھی، اللہ ان سے درگزر فرماتا رہا مگر کسی میں تو ضرور شامل ہو اور کچھ نہ کچھ ویسے نمونے ضرور دکھاؤ جیسے انعام پانے والوں نے اس سے پہلے دکھائے ہیں تو دیکھئے یہ سورہ فاتحہ کی دعا ہمیں کن کن راہوں سے گزارتی رہی ہے، کن کن نئے مطالب اور معارف کے جہان ہمارے سامنے کھولتی جارہی ہے اور کھولتی رہی ہے اور کس طرح ہمیں رفتہ رفتہ سلیقہ سکھاتی ہے، تربیت دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کس طرح ادا کرو، اس سے کیا فائدہ اٹھاؤ، کس طرح اس سے دلی تعلق قائم کر ولیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ مضمون تو شاید اور ایک دو خطبوں کا محتاج رہے ابھی وقت ختم ہو رہا ہے.ایک گھنٹے کے قریب وقت گزر چکا ہے تو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو آئندہ یا اس سے آئندہ خطبے میں انشاء اللہ اس مضمون کو جاری رکھیں گے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

Page 784

خطبات طاہر جلد ۹ 779 خطبہ جمعہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء مالك كا مطلب ہے ہم نے اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا میں اپنے اہل وعیال اور اپنے تابع لوگوں کو بھی شامل کریں ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) / تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کا جمعہ امسال آخری جمعہ ہے جو ہمیں اکٹھے پڑھنے کی توفیق عطا ہورہی ہے.عام طور پر اس جمعہ میں موضوع وقف جدید ہوا کرتا ہے لیکن روایت یہ چلی آرہی ہے کہ ضروری نہیں کہ سال کے آخری جمعہ کو وقف جدید کے لئے وقف رکھا جائے بلکہ اگلے سال یعنی آئندہ آنے والے سال کے پہلے جمعہ میں بھی بعض دفعہ وقف جدید کے موضوع پر خطبہ دیا جاتا ہے.چونکہ میں نے نماز سے متعلق مضمون شروع کر رکھا ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ آج کے خطبے میں نماز ہی کے مضمون کو جاری رکھا جائے.اگر خدا کے فضل کے ساتھ ختم ہو گیا تو پھر آئندہ جمعہ وقف جدید کے موضوع پر خطبہ دیا جائے گا اور پھر دوبارہ انشاء اللہ اسی موضوع کی طرف واپس آ سکتے ہیں.اگر ختم ہو گیا تو پھر واپس آنے کی ضرورت نہیں اگر نہ ختم ہو سکا تو پھر انشاء اللہ دوبارہ اسی موضوع کی طرف واپس آ جائیں گے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ سے متعلق میں نے بتایا تھا کہ لفظ ملک میں خدا تعالیٰ کا ہر چیز پر قادر ہونا بھی داخل ہو جاتا ہے.ہر چیز کا ملک ہونا بھی داخل ہو جاتا ہے اور ہر چیز پر اس کی

Page 785

خطبات طاہر جلده 780 خطبہ جمعہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء بادشاہت کا مضمون بھی صادق آتا ہے.اس سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پہلی تینوں صفات یعنی رب، رحمان اور رحیم مالکیت کے ساتھ مل کر اور زیادہ وسعت اختیار کر جاتی ہیں.اگر مالکیت سے الگ ان کا تصور کیا جائے تو خدا تعالیٰ کی ذات میں ایک نقص واقعہ ہوتا دکھائی دیتا ہے.اس مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام اور عیسائیت کے موازنے کی گفتگو میں بیان فرمایا.عیسائیت کے نزدیک خدا تعالیٰ رَبِّ بھی ہے، الرَّحْمٰنِ بھی ہے، الرحیم بھی ہے لیکن اس کے باوجو د معاف نہیں کرسکتا کیونکہ مالک کا کوئی تصور بائبل نے اس رنگ میں پیش نہیں فرمایا جیسے قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی مالکیت کا تصور پیش فرمایا.پس اس مضمون کو آپ انسانی معاملات اور تجارب پر چسپاں کر کے دیکھیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی.ایک حج کرسی انصاف پر بیٹھتا ہے اس میں ربوبیت کی صفات بھی ہیں ، رحمانیت کی صفات بھی ہیں، رحیمیت کی صفات بھی ہیں مگر چونکہ نہ وہ قانون کا مالک ہے نہ دوسری سب چیزوں کا مالک ہے اس لئے جہاں معاملات کا فیصلہ انصاف کی رُو سے کرنا ہوگا اس کی قوت فیصلہ انصاف کے دائرے میں ہی محمد ودر ہے گی.ایک ذرہ بھی وہ انصاف سے باہر نکل کر ان معنوں میں فیصلہ نہیں دے سکتا کہ قانون کو اپنالے یعنی نیا قانون جاری کر دے.ایسی تقدیر بنالے جس کے نتیجے میں جس سے وہ رحمانیت کا سلوک کرنا چاہے اس کے حق میں وہ فیصلہ دے سکے اور اسی طرح کسی کی چھینی ہوئی چیز کسی کو بخش نہیں سکتا کیونکہ وہ مالک نہیں ہے اور اپنی طرف سے کچھ دینے کا اس کو اختیار نہیں.تو یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع کو بہت ہی اہمیت دی اور بڑی تفصیل سے اس مضمون پر بخشیں فرمائیں.آپ نے بتایا کہ اس خدا کو جو مالک نہ ہو یقیناً اسی طرح Behave کرنا چاہئے یا اس طرح اس سے معاملات کرنے چاہئیں جس طرح عیسائیت کے خدا کا تصور ہے کہ اگر انسان گناہ کرے تو وہ اس لئے معاف نہیں کر سکتا کہ اس کی عدل کی صفت کے خلاف ہے اور عدل سے باہر وہ جانہیں سکتا اس لئے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ اپنے مزعومہ بیٹے کو جس کے متعلق عیسائیت کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کا بیٹا تھا اُسے قربان کر دیا اور اس کے بدلے باقی بنی نوع انسان کے گناہ بخش دیئے.یہ ایک الجھا ہوا اور بڑا لمبا مضمون ہے جس کی تفاصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں مگر اصل روک جوان کے ذہنوں میں ہے وہ یہی ہے یعنی عیسائیوں کے ذہنوں میں کہ کیوں خدا معاف نہیں کر

Page 786

خطبات طاہر جلد ۹ 781 خطبہ جمعہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء سکتا اس لئے کہ وہ محض عادل ہے اور مالک نہیں ہے.اسی طرح ملک نہیں ہے اور قانون سازی کے اختیار نہیں رکھتا پس رب رحمن اور رحیم یہ تین صفات بہت ہی حسین اور دلکش ہیں لیکن اگر مالک سے الگ رہیں تو محدود ہو جاتی ہیں لیکن مالک کے ساتھ جب مل جاتی ہیں تو پھر ایک عظیم الشان جلوہ دکھاتی ہیں جس کا کوئی کنارہ دکھائی نہیں دیتا.ان معنوں میں انسان تو مالک نہیں بن سکتا لیکن انسان خدا کی مالکیت کے کچھ نہ کچھ مزے چکھ سکتا ہے اگر وہ اپنی مالکیت میں لوگوں کو شریک کرے اور لوگوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے جیسا کہ مالک ہونے کی وجہ سے ہمارا رب ہمیں معاف کر دیتا ہے.پس یہ نہیں کہ مالکیت کی صفت سے ہم کچھ بھی حصہ نہیں لے سکتے.اپنے اپنے دائرے میں جس حد تک ہمیں خدا تعالیٰ نے کسی چیز کا مالک بنا رکھا ہے اس کا استعمال اس رنگ میں کریں جیسے خدا مالک ہے اور اپنی مالکیت کا استعمال فرماتا ہے اور اس میں بخشش کا مضمون سب سے زیادہ نمایاں ہوکر اُبھرتا ہے اور اپنی چیز میں دوسروں کو دینے کا مضمون بڑا نمایاں ہو کر نکلتا ہے.اس کے علاوہ ایک اور رنگ بھی ہے جس میں ہم مالک بننے کی کوشش کر سکتے ہیں.اور وہ مضمون ایک بہت ہی لطیف اور اعلیٰ درجے کا مضمون ہے جس کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں متوجہ فرمایا.مالک خدا کا تصور ہمیں بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ کلیہ ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر پورا اقتدار رکھتا ہے اس کے باوجود بندوں کو اور دوسری چیزوں کو جو اس نے پیدا کی ہیں بعض دفعہ اس رنگ میں مالک بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے زعم میں واقعہ مالک بن بیٹھتے ہیں اور ملک دے کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے اور روزمرہ اصل مالک دکھائی نہیں دیتا اور کلیہ انسان کو یا جانوروں کو زندگی کی ہرقسم کو کہنا چاہئے اپنے اپنے چھوٹے سے دائرے میں بعض دفعہ اس طرح ملکیت عطا ہو جاتی ہے کہ زندگی کی وہ قسم جو بھی ہے.وہ یہ بجھتی ہے کہ میں ہی مالک ہوں اور کوئی نہیں اور بیچ میں دخل وہ اندازی نہیں رہتی.یہ اس قسم کا مضمون ہے کہ عارضی طور پر معطی نے جس کو عطا کیا اس کو اس رنگ میں عطا کیا کہ گویا وہی مالک ہے اور اپنی مرضی اس سے اُٹھالی اور دوسرے کی مرضی کے تابع کر دیا.ان معنوں میں انسان اپنے رب سے ایک خاص سلوک کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ہمیں دیا ہوا اپنی جان ، مال ، عزت ہر چیز جس کا اقتدار خدا نے ہمیں دیا، جس کی ملکیت خدا نے ہمیں عطا فرمائی ہم اپنے رب کو اس طرح لوٹا دیں کہ اے خدا! تو نے جس چیز کا ہمیں مالک بنایا تھا ہم اس

Page 787

خطبات طاہر جلد ۹ 782 خطبہ جمعہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء راز کو پاگئے ہیں کہ اصل مالک تو ہے.پس پیشتر اس کے کہ تو ہم سے واپس لے لے ہم طوعی طور پر محبت کے اظہار کے طور پر یہ تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں.آج کے بعد جیسے بعد میں تو نے مالک بننا ہے ایسے آج بھی تو ہماری ان سب چیزوں کا مالک بن گیا ہے.اس مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان بیان کرنے کے لئے استعمال فرمایا.آپ نے فرمایا کہ حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو تمام دوسرے انبیاء پر جو ایک عظیم فضیلت ہے، وہ خصوصیت سے اس بات میں ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنا سب کچھ کلی اصل مالک کو اسی دنیا میں لوٹا دیا اس طرح کسی اور انسان نے ایسا نہیں کیا یعنی باریک ترین جذبات کو بھی خدا کے سپرد کئے رکھا، اپنی ملکیت کے ہر حصے کو کلیۂ خدا کے سپر د کر دیا.اپنی رضا کو کلیۂ خدا کے سپرد کر دیا اپنی محبت کو اپنی نفرت کو ، ہر چیز کو جس پر انسان کوئی قدرت رکھتا ہے اپنے رب کو واپس کر دیا کہ تو ہی حقیقی مالک ہے اس لئے آج میں یہ سب کچھ تیرے سپرد کرتا ہوں اور تیری رضا کے تابع میں اپنی چیزوں کو استعمال کروں گا.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) (انعام : ۱۶۳) خدا تعالیٰ نے اس راز کو خود کھولا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم شاید اس تفصیل سے بنی نوع انسان پر اپنا یہ مقام روشن نہ فرماتے مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اے محمد ! بنی نوع انسان کے سامنے اعلان کر میں وہ ہوں جس نے اپنا سب کچھ خدا کے سپرد کر دیا ہے اور میرا ایک ذرہ بھی باقی نہیں رہا.اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکی وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي میری عبادتیں کیا، میری قربانیاں کیا، میری زندگی کا ہر حصہ، میری موت یعنی خدا کی راہ میں جو میں لمحہ لمحہ مرتا ہوں سب کچھ خدا کے لئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جب تم وہ سب کچھ خدا کے سپر د کر دو جس کا مالک تمہیں بنایا گیا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی ملکیت میں تمہیں شریک کر لیتا ہے اور ایک نئی شان کے ساتھ ، ایک نئی تخلیق کے ساتھ تم اُبھرتے ہو اور ان معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو گویا اس تمام کائنات کی ملکیت میں خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ذریعہ شریک کرلیا، اپنی عطا کے ذریعے شریک کر لیا جو خدا تعالیٰ کا تھا یعنی جو سب کچھ بندے کا تھا وہ اس نے خدا کے سپر د کر دیا اور خدا چونکہ احسان کرنے والوں کے احسان کی سب سے زیادہ شکر گزاری کرتا ہے اور احسان کو تسلیم فرماتا ہے.

Page 788

خطبات طاہر جلد ۹ 783 خطبہ جمعہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۰ء کوئی بندہ اس رنگ میں کسی کے احسان کو قبول نہیں کرتا جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تو ایک رنگ میں بندے نے احسان کا سلوک کیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے احسان کا سلوک فرمایا اور کہا تو نے جو کچھ تیرا تھا مجھے دے دیا.اب میرا جو کچھ ہے وہ تیرا ہو گیا.انہیں معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ ” جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو ( تذکرہ صفحہ :۳۹۰) کہ اے بندے اگر تو میرا ہو جائیں یعنی اپنی مالکیت کو ختم کر کے سب کچھ مجھے واپس لوٹا دے تو اس کے بدلے جو سب کچھ میرا ہے وہ تیرا ہو جائے گا.تو مالک کا لفظ ایک بہت ہی عظیم الشان صفت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ان معنوں میں ہر دوسری چیز پر حاوی ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت مالک کے ساتھ مل کر ایک نئی شان کے ساتھ دوبارہ اُبھرتی ہے اور نئی شان کے ساتھ جلوہ دکھاتی ہے.پس جب ہم کہتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اس میں صفت مالکیت خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رہنی چاہئے اور ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت ان سب کو مالکیت کی ذات میں اکٹھا کر کے پھر خدا کو مخاطب کرنا چاہئے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.اس مضمون کے بعد میں نے انعام کا مضمون مختصر بیان کیا تھا، اب آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں که الْمَغْضُوبِ اور الضَّالِّينَ کا خدا تعالیٰ کی ان صفات سے کیا تعلق ہے جو سورہ فاتحہ کے آغاز میں بیان ہوئی ہیں.یعنی رب کے تصور کے ساتھ کہیں غضب اور گمراہی کا تصور ذہن میں نہیں آتا.رحمان کے تصور کے ساتھ کہیں غضب اور گمراہی کا تصور ذہن میں نہیں آتا.اسی طرح نہ رحیمیت کے ساتھ تعلق دکھائی دیتا ہے نہ مالکیت کے ساتھ تو پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا تعلق ان چار صفات سے ہے جو بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جو سورہ فاتحہ کے آغاز میں بیان ہوئی ہیں اس مضمون پر غور کرتے ہوئے ایک نکتہ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے بندے بننے کے لئے خدا تعالیٰ کی تمام صفات کے ساتھ تعلق ہونا ضروری ہے.جس صفت کے ساتھ تعلق کہتا ہے اس حصے میں انسان اس صفت کا بر عکس ہو کر دنیا میں اُبھرتا ہے.پس اگر کوئی انسان رب بننے کی کوشش نہیں کرتا تو ربوبیت

Page 789

خطبات طاہر جلد ۹ 784 خطبہ جمعہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء کے برعکس جلوہ دکھاتا ہے اور دراصل خدا غضبناک نہیں ہوتا بلکہ خدا کے وہ بندے لوگوں کے لئے غضب کا موجب بن جاتے ہیں جو اپنے رب کی صفات حسنہ سے تعلق توڑ بیٹھتے ہیں.پس دنیا میں جتنے بھی دُکھ آپ دیکھتے ہیں جن میں کوئی شخص غضب کا نشانہ بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو ان معنوں میں وہ غضب کا نشانہ بنتا ہے کہ وہ خدا کی صفات ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت سے تعلق توڑتا ہے اور ان کے برعکس جلوے دنیا کو دکھاتا ہے.ان کی برعکس شکل میں دنیا پر ظاہر ہوتا ہے اور خدا کے بندوں سے بدسلو کی کرنے میں انسان پہل کرتا ہے اس کے بعد خدا کا اس سے سلوک شروع ہوتا ہے جو پھر اسے خدا کا مغضوب بنا دیتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ماں بچے سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے اور اس کی اس انتہائی محبت میں بظاہر غضب کا پہلو دکھائی نہیں دیتا مگر اس بچے کو جو تکلیف دے اس کے لئے وہی مہربان ماں بہت زیادہ غضبناک ہو جاتی ہے اور اتنی غضبناک ہوتی ہے کہ کسی اور رشتے میں ایسا غضب دکھائی نہیں دیتا.کہتے ہیں شیر کے بچوں کو اگر کوئی اٹھانے کی کوشش کرے تو شیر سے بہت زیادہ شیرنی اس پر غضبناک ہوتی ہے.شیر کے غضب سے تو وہ بچ جائے لیکن شیرنی کے غضب سے نہیں بچ سکتا.اسی طرح ہتھنی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اگر ہتھنی کے بچے کوکوئی تکلیف پہنچائے تو ہاتھی سے بہت زیادہ بڑھ کر ہتھی اپنا انتقام لیتی ہے اور پھر جس نے ظلم کیا ہو اس کو مار کر اس کو اپنے پاؤں تلے اس طرح مسلتی ہے کہ اس کا نشان تک مٹ جائے.خاک میں اس کو ملا کر پھر بھی اس کا غصہ ختم نہیں ہوتا اور اس کی بناء محبت ہے،اس کی بناء رحمت ہے.رحم کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں مطلع فرمایا کہ لفظ ”رحم ، یعنی ماں کا وہ عضو جس میں بچہ پلتا ہے اس کا نام رحم اس لئے رکھا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رحم کے ساتھ اس کا تعلق ہے.جس طرح خدا تعالیٰ رحمان ہے اور رحمانیت کا تخلیق سے ایک تعلق ہے.اسی طرح بچے کی تخلیق کا ماں کے رحم سے تعلق ہے اور چونکہ عربی در حقیقت الہامی زبان ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لئے ایک ہی لفظ منتخب فرمایا.ایک ہی مادے سے دونوں چیزیں بنیں یعنی رحم اور رحمان.پس حقیقت یہ ہے کہ ماں کی محبت کو بچے کے لئے جب آپ سمجھ لیں تو تب آپ پر یہ بات روشن ہوگی کہ بچوں سے دشمنی کرنے والے پر دنیا میں سب سے زیادہ غضبناک کوئی چیز ہوسکتی ہے تو وہ ماں ہے.پس رحمان خدا کے بندوں سے جو لوگ دشمنی کرتے ہیں ان پر خدا غضب ناک ہوتا

Page 790

خطبات طاہر جلد ۹ 785 خطبہ جمعہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء ہے اپنی رحمانیت کی وجہ سے.پس دو معنوں میں ایسے لوگ مغضوب بن جاتے ہیں.ایک تو یہ کہ وہ لوگ جو نہ رب بنا سیکھتے ہیں، نہ رحمان بننا، نہ رحیم ، نہ مالک، ان سے دنیا فیض نہیں اٹھاتی.ان کا فیض کسی کو نہیں پہنچتا.وہ خدا کی اس رحمت اور بندوں کے درمیان یا خدا کی صفات حسنہ اور بندوں کے درمیان ایک روک بن جاتے ہیں اور محض یہ روک بننا ہی ان کو خدا کے عتاب کا مورد بنا دیتی ہے لیکن جب یہ روک سے بڑھ کر اگلا قدم اُٹھاتے ہیں اور منفی صورت میں بندوں سے سلوک کرتے ہیں یعنی جہاں رحم کرنا ہے وہاں سفا کی سے پیش آئیں، جہاں حق سے بڑھ کر عطا کرنا ہے وہاں حق تلفی شروع کر دیں، جہاں پرورش دے کر یعنی تربیت کر کے اعلیٰ مقامات تک پہنچانا وہاں منفی رویہ اختیار کریں اور خدا کے اچھے بھلے لوگوں کے اخلاق خراب کرنا شروع کر دیں.ان کے اندر گندگی پھیلانا شروع کر دیں جیسا کہ آجکل کے زمانے میں بہت سی گندگیاں ہیں جو امریکہ سے نکل نکل کر سب دنیا میں پھیل رہی ہیں تو امریکہ میں وہ لوگ جو نہایت گندی قسم کی فحش فلمیں بناتے اور ایسی نئی نئی لذتیں ایجاد کرتے ہیں جس سے بنی نوع انسان کے اخلاق خراب ہوں وہ نہ صرف یہ کہ رب سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ رب کے برعکس تعلقات بنی نوع انسان سے قائم کرتے ہیں یا رب سے برعکس رویہ کے ساتھ بنی نوع انسان کے ساتھ پیش آتے ہیں تو یہ جو ان کا منفی رویہ ہے اگر واقعۂ خدا رب ہے تو اس کی ربوبیت کو کاٹنے والے سے خدا کا ایک منفی رویہ ظاہر ہوتا ہے.اگر وہ رحمان ہے تو اس کی رحمانیت سے بر عکس طریق پر بنی نوع انسان سے سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ کا ایک برعکس رویہ ظاہر ہوتا ہے اور یہی مضمون ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی تمام منفی صفات ظہور میں آتی ہیں.پس جب خدا تعالیٰ نے فرمایا: اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اس کے بعد وہ لوگ جو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی صف میں داخل نہیں ہوئے اور ان کے حق میں یہ دعا قبول نہیں ہوئی کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو وه وه بچا کھچا گند ہے جو الْمَغْضُوبِ اور الضَّالِّينَ کی شکل میں ہم پر ظاہر کیا گیا ہے.ان معنوں میں وہ ظاہر ہوئے کہ خدا کی صفات کے منفی عکس بن کر وہ دنیا پر ابھرے.اس ضمن میں میں ایک دفعہ غور کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو زیادہ واضح طور پر مجھے سمجھائے تو کشفی حالت میں خدا تعالیٰ نے یہ مضمون ایک اور رنگ میں مجھے دکھایا اور وہ یہ تھا

Page 791

خطبات طاہر جلد ۹ 786 خطبہ جمعہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۰ء کہ جیسے ایک کارخانے میں آپ ایک طرف سے کوئی چیز Raw Material یعنی خام مال ڈالتے ہیں تو وہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور اعلی تکمیل کی شکل میں ایک طرف سے نکل رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ایک طرف وہ گند بھی نکل رہا ہوتا ہے جو اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کارخانے میں داخل ہونے کے بعد اپنے اندر ایسی تبدیلی کر سکے کہ اسے ایک مکمل صنعت کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے، اس کو وہ Waste Product کہتے ہیں.پس ایک چیز ہے End Product اور ایک ہے -Waste Product End Product تو ہر صنعت کا وہ مال ہے جس کی خاطر صنعت کاری کی جاتی ہے اور کارخانے بنائے جاتے ہیں اور اپنی آخری شکل میں بہت خوبصورت تبدیلیاں پیدا ہونے کے بعد وہ ایک نئے وجود کی صورت میں خام مال دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا ہے.اب اس وقت آپ کے پاس جتنی بھی چیزیں ہیں وہ سب اسی طرح کسی نہ کسی کارخانے سے نکل کر ایک نئی شکل میں آپ کے سامنے ظاہر ہوئی ہیں.کسی نے کپڑے کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، کسی نے اون کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، کسی نے قراقلی پہنی ہوئی ہے.اب تصور کریں کہ یہ کیا چیزیں تھیں.اسی طرح آپ کے لباس، آپ کے بوٹ، آپ کے قلم یہ سب خام مال تھے جو مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر اس شکل میں آپ تک پہنچے جس میں آپ نے ان کو قبول کیا اور استعمال کیا لیکن آپ کا ذہن اس گندگی کی طرف کبھی نہیں گیا جو اس دوران پیدا ہوتی رہی اور ان چیزوں سے الگ کی جاتی رہی اور اسے ضائع شدہ مال کے طور پر ایک طرف پھینک دیا گیا.چنانچہ اس زمانہ میں صنعتوں نے جہاں بہت ترقی کی ہے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر دنیا کے سامنے اُبھرا ہے کہ اس Waste Material کا کیا کریں.یہ تو دنیا کے لئے عذاب بنتا جا رہا ہے.جب یہ کم ہوا کرتا تھا اس زمانے میں انسان کی توجہ بھی اس طرف نہیں گئی اور آج سے سو سال پہلے بھی صنعتکاری تھی.بڑے بڑے کارخانے جاری تھے لیکن کبھی بھی اس زمانے کی اخباروں میں آپ کو یہ بخشیں دکھائی نہیں دیں گی کہ یہ جو اچھی چیزیں بنانے کی ہم کوشش کرتے ہیں اس کوشش کے دوران جو چیزیں ضائع ہو رہی ہیں ان کا ہم کیا کریں.وہ سمندروں میں پھینک دیتے تھے یا عام کھلی جگہ پر پھینک دیتے تھے یا جھیلوں میں ڈال دیتے تھے اور کبھی اُن کے نقصان کی طرف کسی کی توجہ نہ گئی.اب چونکہ زیادہ چیزیں بن رہی ہیں اسی طرح Waste Material بھی بڑھتا

Page 792

خطبات طاہر جلد ۹ 787 خطبہ جمعہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۰ء چلا جارہا ہے اور وہ Waste Material ایسی خطرناک چیز بن کر دنیا کے سامنے اُبھرا ہے کہ اس کے غضب سے دنیا ڈرنے لگی ہے اور یہ بڑا بھاری مسئلہ ہے.دنیا کی تمام بڑی قوموں میں اب بہت ہی زیادہ فکر کے ساتھ ان مسائل پر غور ہو رہا ہے کہ کس طرح ان مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کریں جو صنعت کے دوران By Product کے طور پر یا Waste Product کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں پڑی ہوئی ہے اور ہم نہیں سمجھتے کہ کس طرح اس صنعت سے چھٹکارا حاصل کریں.مذہبی دنیا میں یہ Waste Product ہے جو بنی نوع انسان کے لئے تباہی کے سامان کرتی ہے اور بعض دفعہ جس طرح دنیا میں بھی بعض چیزوں میں Waste زیادہ ہو جاتا ہے اور جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ بہت تھوڑی ہوتی ہے اسی طرح بد قسمتی سے بعض دفعہ انسانوں پر ایسے دور آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے اصلاحی نظام سے گزرتے ہوئے بہت کم ہیں ان میں جو فائدہ اُٹھا ئیں اور ایک بھاری تعداد میں جو Waste Material کے طور پر ایک طرف پھینک دی جاتی ہے.چنانچہ حضرت نوح" کے زمانے میں آپ دیکھیں اسی طرح ایک روحانی کارخانہ جاری ہوا تھا جیسے ہرنبی کے زمانے میں جاری ہوتا رہا لیکن بنی نوع انسان کی ایک بھاری تعداد ایسی تھی جو Waste Material تھا اور بہت تھوڑے تھے جو کارخانے سے اپنی آخری مکمل صورت میں نکھر کر دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے.پس خدا تعالیٰ نے ان نکھرے ہوئے وجودوں کو تو بچا لیا اور Waste Material کو ضائع کر دیا.بنی نوع انسان کے پاس ایسا کوئی طریق نہیں ہے کہ وہ Waste Material سے کلیۂ نجات حاصل کر سکیں.اسی لئے مذہب کے Waste جمع ہوتے ہوتے بالآ خر یعنی وہ Waste جن کو عبرت کا نشان بنا کر یا اور صورتوں میں یا بعض بعد کے فوائد کے لئے باقی رکھا جاتا ہے.بعض دفعہ Recycle کرنے کے لئے بھی Waste کو باقی رکھا جاتا ہے، وه Waste الْمَغْضُوبِ بن کر اور الضَّالِّينَ بن کر بنی نوع انسان کو مصیبت ڈال دیتے ہیں.یہاں خدا تعالیٰ نے لفظ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ رکھا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ خدا اُن پر غضبناک ہوا.مغضوب کا مطلب ہے وہ لوگ جن پر غضب کیا گیا یا غضب کا مورد بنائے گئے یا بنائے جارہے ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ اے خدا! ہمیں ان کا رستہ نہ دکھانا جن پر تو غضبناک ہوا.اس لئے کہ غضب دراصل ان بندوں سے شروع ہوتا ہے اور خدا سے نہیں ہوتا.غضب کا آغا ز بندے سے ہوتا

Page 793

خطبات طاہر جلد ۹ 788 خطبہ جمعہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء ہے اور خدا تعالیٰ محض رد عمل کی صورت میں غضبناک ہوتا ہے جیسا کہ میں نے تفصیل سے آپ کو سمجھایا ہے کہ ایک ماں اپنے رحم کی وجہ سے غضبناک ہوتی ہے.پس خدا کی یہ شان ہے کہ یہاں غضب کے مضمون میں یہ اشارہ فرما دیا کہ اگر چہ بعد میں آپ یہ بھی دیکھیں کہ خدا تعالیٰ غضب ناک ہوا لیکن سورہ فاتحہ نے یہ اشارہ کر دیا اور یہ مضمون کھول دیا کہ دراصل غضب کا آغاز بندے کی طرف سے ہوتا ہے اور اپنے غضب کے نتیجے میں وہ مغضوب بنایا جاتا ہے.پھر ایسا شخص بندوں کا بھی مغضوب ہو جاتا ہے اور خدا کا بھی مغضوب ہو جاتا ہے.پس ضمیر کو واضح نہ کرنے کے نتیجے میں مضمون میں اور کشادگی پیدا کر دی اور وسعت پیدا فرما دی کہ اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر نہ ڈال دینا جو Waste Product ہیں.جو سورہ فاتحہ کے روحانی نظام سے گزرتے ہیں یعنی سورہ فاتحہ کا روحانی نظام تو وہی ہے جو ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے پھیلا پڑا ہے.کیونکہ اگر قرآن کی ماں ہے تو ساری کائنات کی ماں بھی سورہ فاتحہ بن جاتی ہے.پس اے خدا! جو تیرے روحانی نظام سے جس کا ذکر تو نے سورہ فاتحہ میں فرمایا ہے استفادہ نہیں کر سکتے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو کلیۂ محروم ہو جاتے ہیں اور وہ مغضوب ہیں.ان پر بندے بھی غضبناک ہوتے ہیں کیونکہ ان کے بندوں پر غضبناک ہونے کے نتیجے میں تو نے ان کو غضب کا نشانہ بنایا ہے.پس چونکہ وہ بندوں سے ظلم اور سفا کی کا سلوک کرتے ہیں رفتہ رفتہ ان کے خلاف نفرتیں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر آخر وہ یہاں تک بار بار بندوں کے غضب کا نشانہ بنائے جاتے ہیں اور چونکہ وہ خدا کے بندوں سے غضب کا سلوک کرتے ہیں اس لئے آسمان سے وہ خدا کے غضب کا نشانہ بھی بنائے جاتے ہیں اس طرح دوہری لعنتوں کا شکار ہو جاتے ہیں ان لوگوں میں ہمیں نہ داخل فرمانا، ہمیں ان بدنصیبوں میں نہ لکھ دینا.ہمیں ان خوش نصیبوں میں لکھنا جو تیرے روحانی نظام سے گزر کر اس سے فیض پا کر ایک نئی خلقت کے طور پر دنیا میں اُبھریں اور نئی عظیم الشان بنی نوع انسان کو فائدہ دینے والی صورت میں ایک نیا وجود پائیں.یہ ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا جو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی صورت میں جا کر پھر مکمل ہوتی ہے.الصَّالِينَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو الْمَغْضُوبِ کی حد تک تو خدا کی ربوبیت اور رحمانیت سے نہیں کاٹے گئے مگر کچھ نہ کچھ تعلق انہوں نے ضرور توڑا ہے اس لئے ان کو گمراہوں میں

Page 794

خطبات طاہر جلد ۹ 789 خطبه جمعه ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء لکھا ہے اور خصوصیت کے ساتھ وہ لوگ الضالین ہیں جن کا خدا کی بعد میں آنے والی صفات سے زیادہ تعلق کا ٹا گیا ہے یعنی اگر چہ ربوبیت سے بھی یہ کچھ تعلق کاٹ دیتے ہیں اور رحمانیت سے بھی لیکن رحیمیت اور مالکیت سے یہ بہت زیادہ قطع تعلقی کرتے ہیں اور جن کا تعلق مالکیت سے کٹ جائے وہ الضّالِّينَ ہو جاتے ہیں.اس مضمون کی تفصیل میں بھی جانے کا یہاں وقت نہیں مگر میں نے پہلے چونکہ ذکر کر دیا تھا اس لئے میں اس تعلق کو اس ذکر سے جوڑتا ہوں اور وہ ذکر میں نے یہ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے معرفت کا یہ عظیم الشان نکتہ ہمیں سمجھایا کہ عیسائیوں پر جو و بال ٹوٹا ہے وہ خدا کی صفت مالکیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اور اس پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ٹوٹا ہے.وہ خدا کو محض عادل سمجھتے ہیں اور مالک نہیں سمجھتے اور قانون دان نہیں سمجھتے اور قانون کا مالک نہیں سمجھتے اس لئے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ عدل کے تقاضوں سے بالا ہو کر بندوں سے مغفرت کا سلوک نہیں کر سکتا.جس نے مالک سے تعلق تو ڑا وہ الضَّالِّينَ میں شامل ہو گیا اور الضالین کے متعلق ہمیں علم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور بعض دوسرے مفسرین نے آنحضور کی ہدایات کی روشنی میں جو تفاسیر لکھی ہیں ان میں یہ بات بہت کھول کر بیان کی گئی ہے کہ اگر الْمَغْضُوبِ یہودی ہیں تو الضالین عیسائی ہیں.پس ضال ہونے کا یعنی گمراہ ہونے کا خصوصیت کے ساتھ مالک کے انکار سے تعلق ہے اسی لئے میں نے جو آپ کے سامنے یہ اشارہ رکھا ہے کہ مغضوبیت زیادہ تر ربوبیت اور رحمانیت سے منقطع ہونے کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور الضالین ہونا زیادہ تر رحیمیت اور مالکیت سے قطع تعلق ہونے کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے یعنی صال بننا.بہر حال اس مضمون کو چھوڑتے ہوئے اب میں آگے بڑھتا ہوں.ایک اور بہت اہم بات سورہ فاتحہ کے متعلق آپ کو یاد رکھنی چاہئے کیونکہ آپ بار بار اس کو نماز میں پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہیں گے تو اس کا مضمون بہت وسیع ہو کر آپ کے پیش نظر رہنا چاہئے.اس لئے کہ ہر وقت انسان ایک حال میں نہیں ہوتا اور سورہ فاتحہ ایک ایسی عظیم الشان سورۃ ہے جو انسان کے ہر حال سے تعلق رکھنے کے لئے مزاج رکھتی ہے اور وسعت رکھتی ہے.اس لئے آپ جتنا زیادہ سورہ فاتحہ کے مزاج سے شناسا ہوں گے اتنا ہی زیادہ آپ کے کسی نہ کسی حال میں یہ آپ کے کام آسکے گی ورنہ بعض

Page 795

خطبات طاہر جلد ۹ 790 خطبہ جمعہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۰ء حالتوں میں جب آپ نماز پڑھیں گے تو سورہ فاتحہ آپ کو ایک بے تعلق سی چیز دکھائی دے گی لیکن اگر اس کی وسعتوں کو سمجھیں گے تو یاد رکھیں یہ آپ کی وسعتوں پر ہمیشہ حاوی رہے گی اور کبھی بھی یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کی کوئی حالت سورۃ فاتحہ کی وسعت سے باہر نکل جائے.یہ جو پہلو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اس کا تعلق ضمائر سے ہے.آپ نے دیکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ جب اللہ کا تعارف کرواتی ہے تو اس میں سوائے غائب کے کوئی ضمیر نظر نہیں آتی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں کوئی ضمیر ظاہر نہیں ہے.وہ ربّ یا یہ رب یا تو یا میں یا ہم یا آپ کسی قسم کی کوئی ضمیر نہیں مگر غائب کا مضمون ہے.پس خدا تعالیٰ کی تمام صفات کو غائب میں اور جمع کی صورت میں اکٹھا کر کے دکھایا گیا.اس کے بعد مضمون نے پلٹا کھایا اور پہلی دفعہ کھلم کھلا ضمائر کا استعمال اس طرح ہوا کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دعا میں ہم نے اپنی طرف جمع متکلم کا صیغہ لگالیا اور خدا کی طرف سے واحد مخاطب کا.یعنی خدا کو تو کہا اور اکیلا کر دیا.اپنی تمام صفات کے باوجود خدا تعالیٰ کی ایک ایسی ہستی کا تصور ہمارے سامنے ابھرا جو غیر منقسم ہے ، جو جمع تفریق نہیں ہوسکتی اور واحد ہے پس دعا مانگی تو اس وہم میں مبتلا ہو کر نہیں کہ چونکہ صفات زیادہ ہیں اس لئے ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ بھی کئی قسم کے مختلف وجود رکھتا ہو اور اپنے آپ کو جمع کر دیا.گویا تمام کائنات کی نمائندگی اختیار کر لی.رَبِّ الْعَلَمِینَ کا تصور ایک نئے رنگ میں ہمارے سامنے ابھرا اور ہم نے یہ سوچا کہ جب وہ سب جہانوں کا رب ہے تو اس سے تعلق رکھنے کے لئے ہم سب کی نمائندگی میں کیوں نہ اس سے مانگیں کیونکہ وہ سب کا ہے.اگر سب کی طرف سے ہم مانگیں گے تو ہماری دعا میں زیادہ اثر ہوگا اور ہم بھی اس کی رَبِّ الْعَلَمِینَ ہونے کی صفت میں حصہ پالیں گے.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا نے یہ دونوں باتیں ہمیں سمجھا دیں کہ رب اپنی تمام صفات کے باوجود اکیلا ہی ہے اور کائنات پھیلی پڑی ہے اور بے شمار ہے.انسان اپنی ذات میں اس ساری کائنات کو مجتمع کر سکتا ہے اور اس ساری کائنات کی نمائندگی میں خدا سے دعا کر سکتا ہے اور یہ دعا واقعہ تمام کائنات کی نمائندگی میں ہوسکتی ہے کیونکہ جب ہم کہتے إِيَّاكَ نَعْبُدُ تو در حقیقت ہم عبادت کا حق ادا کریں یا نہ کریں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ساری کائنات واقعہ عبادت کر رہی ہے تو یہ محض ایک مبالغہ آمیزی نہیں ہے یا محض ایک ذوقی نکتہ

Page 796

خطبات طاہر جلد ۹ 791 خطبہ جمعہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۰ء نہیں ہے بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہیں کہ اے خدا صرف تیری ہم سب عبادت کرتے ہیں یعنی کل عالمین تو بالکل سچ بات کر رہے ہوتے ہیں اور چونکہ تمام کائنات کا نمائندہ انسان واقعہ ہے اس میں تمام کائنات کا شعور خلاصہ کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے اور سب سے اعلیٰ شعور انسان کو عطا کیا گیا ہے.اس لئے بحیثیت مخلوقات میں سے افضل ہونے کے وہ نمائندگی کا حق بھی رکھتا ہے.پس جو تخلیق میں سب سے افضل ہو وہ جب عبادت کا اقرار کر لے اور خدا کے حضور جھک جائے تو گویا تمام کائنات خدا کے حضور جھک رہی ہے.پس ایسا انسان جو عبادت کے وقت اپنا یہ مقام پیش نظر رکھے اُس کے رکوع اور سجود میں ایک اور شان پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خدا کے حضور اکیلا نہیں جھک رہا ہوتا بلکہ نَعبُدُ کے ساتھ جھک رہا ہوتا ہے تمام کائنات کا خلاصہ بن کر جھک رہا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب نَعْبُدُ کی دعا عرض کرتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف ساری کائنات کا نہیں بلکہ تمام عبادت کرنے والوں کے سردار کے طور پر یہ عرض کیا کرتے تھے کہ اے خدا! اے رب العالمین !! ہم سب جو بھی عبادت کرنے والے ہیں وہ سب تیرے حضور جھکتے ہیں اور میں ان کا سردار ہونے کی حیثیت سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ تو ہی عبادت کے لائق ہے اور تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں.ہماری سب سرداریاں تیرے حضور سجدہ ریز ہیں، ہمارے ماتھے تیرے حضور عاجزانہ طور پر اپنے آپ کو مٹی میں رگڑتے ہیں اور گریہ وزاری کرتے ہیں اور اپنی عاجزی کا اقرار کرتے ہیں تو جب تمام کائنات کا سردار جس کو خدا نے پیدا کیا خدا کے حضور رکوع کرتا تھا اور سجدے کرتا تھا اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا پڑھا کرتا تھا تو حقیقت میں تمام کائنات اور اس تمام کائنات کا خلاصہ خدا کی عبادت کیا کرتے تھے.پس اس شان کی عبادت تو آج کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر ممکن ہے بھی تو اس کو استطاعت نہیں ہے.یعنی بشری طور پر اس کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عبادت کے برابر پہنچ سکے.اس لئے حسب توفیق اپنی عبادت کو ایسی وسعت دینا ضروری ہے اور اس وسعت کا آغاز اپنے خاندان سے کریں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں اگر آپ باشعور طور پر باقی چیزوں کو تو شامل نہیں کر سکتے تو اپنی بیوی اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں کو شامل کر لیں.اگر

Page 797

خطبات طاہر جلد ۹ 792 خطبه جمعه ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء آپ خدا تعالیٰ کی جماعت کی طرف سے کسی عہدے پر مامور ہیں تو ان سب کو شامل کر لیں.اگر آپ قائد مجلس خدام الاحمدیہ ہیں تو خدام کو شامل کر لیں.اگر لجنہ کی صدر ہیں تو لجنات کو شامل کر لیں غرضیکہ جس جس دائرے پر بھی آپ کو کسی کام پر مامور فرمایا گیا ہے ان کو اپنے ساتھ شامل کر لیں.ایسی صورت میں جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہیں گے تو اس کے ساتھ ہی اپنے نفس کا ایک محاسبہ بھی شروع ہو جائے گا اور انسان یہ سوچے گا کہ کہ کس حد تک میں ان کی نمائندگی کا حق رکھتا ہوں.کیا میں نے ان کو عبادات کرنے میں اپنے ساتھ شریک کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ نہیں.کیا میں نے واقعہ چاہا ہے کہ یہ سارے میرے ساتھ خدا کی عبادت کرنے والے بنیں.پس اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے مضمون میں سے کچھ ہوا نکل جائے گی کچھ جان نکل جائے گی ، وہ طاقت اس میں نہیں پیدا ہو سکتی.پس دیکھیں وہی دعا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی لیکن حالات کے بدلنے کے ساتھ اس کے معنی بدلنے شروع ہو جاتے ہیں.بعض صورتوں میں یہ بہت قوی دعا بن کے ابھرتی ہے ، بعض صورتوں میں اس میں ناطاقتی پیدا ہو جاتی ہے.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا کا مضمون بہت ہی وسیع اور گہرا ہے.اس کا ایک طرف رب ، رحمان، رحیم اور مالک سے تعلق ہے اور دوسری طرف کل عالمین سے اس کا تعلق بن جاتا ہے اور آپ رب اور اس کی مخلوقات کے درمیان واسطہ بن جاتے ہیں.ضمائر کا یہی مضمون آگے بڑھتا ہے اور اب ہم رکوع میں داخل ہوتے ہیں.آپ نے کبھی سوچا یا نہیں سوچا لیکن یہ تعجب کی بات ضرور ہے کہ رکوع میں جاتے ہیں تو ہم بھی اکیلے اور خدا بھی اکیلا سبحان ربی العظیم، سبحان ربی العظیم اور یہی سجدے میں حال ہے.رَبِّ الْعَلَمِينَ میرا رب بن گیا ہے اور یہ بہت دلچسپ بات ہے اور بہت لطف کی بات ہے اور بے انتہا شکر کی بات ہے کہ وہ شخص جو نماز کو سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ ادا کرتے ہوئے رکوع تک پہنچتا ہے اس کو گویا نماز یہ پیغام دے رہی ہے کہ تو نے خدا کی ربوبیت کو عالمین کے اوپر قبول کیا اور سمجھا اور خدا کی ربوبیت کا نمائندہ بننے کی کوشش کی.تو نے خدا کی رحمانیت کو کل عالمین پر جاری ہوتے دیکھا اور سمجھا اور پھر خود خدائی نمائندگی میں اپنی رحمانیت کو اسی طرح پھیلانے کی کوشش کی غرضیکہ مالک تک آپ پہنچیں تو ان سب باتوں کا جواب پھر خدا کی طرف سے یہ آتا ہے کہ تو نے تو مجھے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہا کہ اے خدا! میں تمام بنی نوع انسان کی یا اُن سب کی نمائندگی میں جن کو تو نے میرے تابع فرمایا

Page 798

خطبات طاہر جلد ۹ 793 خطبہ جمعہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۰ء ہے.تیری عبادت کرتا ہوں اس لئے اب میں تجھ پر تیرا خدا بن کر ابھروں گا اور تجھے یہ حق عطا کرتا ہوں کہ تو کہہ سبحان ربی العظیم پاک ہے میرا رب جو میرا رب ہے.اب یہاں جو غائب تھا وہ غائب نہ رہا جو سب کا تھا وہ سب کا ہوگا بھی لیکن یہاں اپنا بن کے ابھرا ہے اور میرا رب بن کے ابھرا ہے.پس جس کا رب عظیم ہو تو اس کو بھی عظمتوں سے حصہ ملے گا اس میں یہ خوشخبری بھی عطا کر دی گئی ہے کہ اب تو عام انسان نہیں رہا تو نے ایک ایسی ذات سے تعلق جوڑ لیا ہے اور اس کو اپنا بنالیا ہے اور وہ تیرا ہو چکا ہے کہ اب اس کی عظمتوں سے تجھ کوحصہ دیا جائے گا اور جب وہ سجدہ میں جاتا ہے اور دنیا کی نظر میں بالکل ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے یعنی اس سے زیادہ دنیا کی نظر میں انسان کے لئے کیا رسوائی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنا ماتھا کسی کے حضور خاک پر رگڑنے لگے، وہاں اس کے دل سے یہ آواز اٹھتی ہے سبحان ربی الاعلیٰ وہ رب جسے میں نے اپنا بنالیا ہے جس نے مجھے اپنا بنا لیا ہے وہ ہر دوسری چیز سے بلند تر اور اعلیٰ ہے اور اس کے مقابل پر کسی اور چیز کی کوئی حیثیت نہیں تو خدا کے علم میں سے خدا کا بلند مرتبہ ہونے میں سے ان عاجز بندوں کو بھی حصہ عطا کیا جاتا ہے اور اس طرح ضمائر کا مضمون دیکھیں کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک پہنچتا اور بظاہر سجدے کی انتہائی جھکی ہوئی حالت میں ہے لیکن اس جھکی ہوئی حالت میں یہ مضمون اپنے معراج کو پہنچ جاتا ہے اور انسان کو یہ سبق دے جاتا ہے کہ اس کی ہر ترقی کا راز اس کے عجز میں ہے.جتنا زیادہ وہ خدا کے حضور گرے گا اور جھکے گا اتنا ہی زیادہ اسے سر بلندی عطا کی جائے گی.پس ضمائر کے لحاظ سے بھی آپ دیکھیں تو نماز ایک عظیم الشان پیغام رکھتی ہے اور گہرے سبق رکھتی ہے اس کے علاوہ نماز میں زمانوں کو بھی اس رنگ میں استعمال فرمایا گیا ہے کہ ایک بہت ہی دلکش مضمون ہمارے سامنے ابھرتا ہے اور ہمارے دماغوں کو روشن کرتا چلا جاتا ہے لیکن میں گھڑی کو دیکھ رہا ہوں.اب چونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے چند اور باتیں بھی نماز سے متعلق کہنی باقی ہیں.اس لئے انشاء اللہ آئندہ جمعہ پر ہی اگر وقف جدید کی باتیں کرنے کے بعد وقت بچاور نہ پھر اس سے آئندہ جمعہ پر اس مضمون کو جاری رکھیں گے.

Page 799

اشاریہ خطبات طاہر جلد ۹

Page 800

اشاریہ آ.آل عمران اللهم ملك الملك تؤتي الملک......(۲۷) ۷۶۹ آیات قرآنیہ ( ترتیب بلحاظ قرآن کریم ) تولج اليل في النهار وتولج النهار في اليل (۲۸)۷۷۰ قل ان كنتم تحبون الله.(۳۲).فيه ايت بينت مقام ابراهیم (۹۸) ۴۶۰٬۴۵۹ الفاتحة الحمد لله رب العالمین (۲ تا ۴) اهدنا الصراط المستقيم(٦) ۷۵۲۷۱۳ ۱۸۲۱۸۱ البقره ذالك الكتب لاريب فيه هدى للمتقين (۳) يا يها الذين امنوا اتقوالله (۱۰۴۱۰۳) ولتكن منكم امة يدعون (۱۰۵) کنتم خيرا امة اخرجت للناس......(ااا) ضربت عليهم الذلة.....(۱۱۳) ۲۲۳ ۶۹۷ ۲۵۵ ۶۲۳ 2+1 صم بكم عمي.....(۱۹) يبين الله لكم الآيات (۲۲۰) واتوا به متشابها......(۲۶) احاطت به خطيئته (۸۲) ارنا مناسكنا......(۱۲۹) قال اسلمت لرب العلمين......(۱۳۲) 11 ۵۹۸ ۱۳ ۵۳۷ ۲۹۱ 227 ۳۱۶۵۱ ان في خلق السموات والارض و اختلاف اليل والنهار لأيت لاولی الالباب......(۱۹۱) ۱۶۴ ۷۲۹٬۲۲۵ ۲۲۴ ۲۲۳۱۹۲۱۹۱ ربنا اننا سمعنا مناديا ينادى للايمان......(۱۹۴) ۴۳۴ كفر عنا سيئاتنا وتوفنا مع الابرار.......(۱۹۴) ۵۷۴ ربنا واتنا ما وعدتنا على رسلک.....(۱۹۵) ۴۳۵ النساء ۱۲۰ فان تنازعتم في شيء.....(۶۰) ۴۷۳ عسى ان تكرهوا شياء و هو خير لكم (۲۱۷) ویسئلونک ماذا ينفقون قل العفو.......(۲۲۰) ۷۲ ومن يطع الله والرسول فاولیک...(۷۰) ۷۷۸ ولا يحيطون بشيء من علمه......(۲۵۶) ۷۳۶ المائدة لا اكراه في الدين......فمن يكفر بالطاغوت ويومن وتعاونوا على البر والتقوى......(۳) بالله فقد استمسک (۲۵۸٬۲۵۷) بالعروة الوثقى...(۲۵۷) رب ارنى كيف تحيي الموتى (۲۶۱) فصر هن الیک.......(۲۶۱) واعف عنا (۲۸۷) ۴۳۸٬۴۲۹٬۴۰۸ ۱۰۷ ۱۰۶ ۱۰۰ ۵۴۳ ۵۴۴٬۵۴۳ ۵۷۴ الانعام قل من انزل الكتب الذي جاء به موسى نورا و هدى للناس......(۹۲) لا تدركه الابصار (۱۰۴) ۳۶ ۷۵۴،۱۶۷ انما الايت عندالله وما يشعركم......(۱۱۰) ۲۰۵ قل ان صلاتی و نسکی و محیای.۷۸۲ (۱۶۳)

Page 801

انا خير منه......(۱۳) الاعراف النحل ۳۹۹ وان لكم فى الانعام لعبرة نسقيكم مما في بطونه ان الذين كذبوا بايتنا واستكبروا عنها.....(٤١) من بين فرث ودم لبنا.....۶۷ تا ۷۰) ۹۸٬۷۶۲۱ ۱۹۴۱۹۳،۱۹۲،۱۹۰،۱۸۹،۱۸۸ ساصرف عن ايتي الذين يتكبرون في الارض بغير الحق.......(۱۴۷) ولو شئنا لرفعنه بها.......(۱۷۷) بنی اسرائیل ۲۰۶٬۲۰۵۲۰۴ | تسبح له السموات السبع والارض......(۴۵ تا ۷۲۷۴۷ اولم يتفكروا ما بصاحبهم من جنة (۱۸۵) واذکر ربک فی نفسک تضرعاًو خيفة و دون الجهر من القول.....(۲۰۶) ۵۳۹ ۱۳۱۲ ۲۲۵ ان الذين عند ربك لا يسكتبرون عن عبادته....(۲۰۷) ۲۰۶ التوب يايها الذين امنو ان كثيرا من الاحبار والرهبان من ن كان في هذه اعمى فهو في الآخرة اعمی (۷۳) ۱۴۸ جاء الحق و زهق الباطل (۸۳۸۲) ۶۱۰،۳۹۷،۳۰۵ من امر ربیی (۸۶) الكهف ام حسبت ان اصحب الكهف والرقيم كانوا من ايتنا عجبا (١٠) ما لهذا الكتاب لا يغادر.....(۵۰) لياكلون اموال الناس بالباطل......(۶۷۳۵،۳۴ ۶۸ ۷۴۶۹ | اولئک الذين كفروا بايت ربهم وماكان المئومنون لينفروا......(۱۲۲) یونس ولو يعجل الله للناس الشر......(۱۲) الا ان اولياء الله لا خوف عليهم و لا هم يحزنون......(٦٣) لفرح فخور......(١١) هود ان ربي على صراط مستقیم (۵۷) یوسف ۲۶۲،۲۵۵ ۲۸۳ ۳۱۹۲۱۷ ۱۸۱ انما اشكوا بثى و حزني الى الله.....(۸۷) ۳۹۷ الرعد الا بذكر الله تطمئن القلوب......(۲۹) ابراہیم يوم تبدل الارض غير الارض والسموت وبرزوا لله الواحد القهار.......(۴۹) ۳۰۱ ولقائه فحبطت اعمالهم......(١٠٦) قل انما انا بشر مثلكم......(ااا) مریم ۵۹۹ ۲۲۳ ۷۷۵ ۱۴۹۱۴۸ ۱۵۰۱۴۹ رب السموت والارض و ما بينهما فاعبده...(٦٦) طم ولم نجد له عزما......(١١٦) واصطبر عليها (۱۳۳) الانبياء ٢٣٣،٢٣١ ۲۳۲ وحرام على قرية اهلكنا انهم لا يرجعون (۹۶) ۵۸۷ الحج و من الناس من يعبد الله على حرف......(۱۲)۲۳۵،۲۳۴ واجتنبوا قول الزور......( ۳۲۳۱) ۴۵۹ ولكن تعمى القلوب التي في الصدور (۴۷) ۲۲۲

Page 802

النور الله نور السموات والارض (٣٦) ۷۵۵ قيل اليوم ننسكم كما نسيتم لقاء.....(۳۵ تا ۳۸ ۵۷۹ الفتح ومن لم يجعل الله له نوراً فماله من نور (۴۱) ۳۷ محمد رسول الله والذين معه اشداء على الكفار والذين كفروا اعمالهم كسراب.لم يكد يرها (۴۰، ۴۱) الفرقان و من تاب وعمل صالحا (۷۲ تا ۷۸) فقد كذبتم فسوف يكون لزاماً.....(۷۸) النمل فلما جاءت قيل اهكذا عرشک قالت كانه هو.......( ۴۳ تا ۴۵) القصص ۶۰۸ ۳۶۳ ۴۰۹ ۶۳۶۰۵۹۴۹ رحماء بينهم (۳۰) الحجرات ۱۷۲ ۶۳۶۶۲۹ وان طائفتن من المؤمنين اقتتلوا......(۱۱۱۰) ۴۴۸۴۴۳ يا يها الناس انا خلقنكم......(۱۴) قالت الاعراب امنا قل لم تو منوا ولكن قولوا اسلمنا......(۱۵) النجم وان ليس للانسان الا ما سعى (۴۰) ۳۱۲۵۰ ۲۴۵ فلما قضى موسی الاجل و سار باهله انس من جانب الطور ناراً....(۳۱،۳۰) العنكبوت ولذكر الله اکبر (۴۶) ۴۰ ۷۴۳ الرحمن الرحمن علم القرآن (۲تا۵) ۷۵۸۷۵۷ كل من عليها فان......(۲۸٬۲۷) ۳۰۶۳۰۲۲۹۶۲۹۵ كل يوم هو في شان (۳۱٬۳۰) والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا (۷۰) ۲۰۷۱۸۱ حور مقصورت في الخيام.....(۷۳) ۷۲۱ ۶۲۶ الروم ظهر الفساد في البر والبحر (۴۲) فاطر انتم الفقراء (٦ ١ ) انما يخشى الله من عباده العلماء (۲۹) م ولات حين مناص (۴) الزمر خلقكم من نفس واحدة.....) الجاثية واما الذين كفروا افلم تكن.....(۳۲) ۶۰۲ ۵۶۸ ۶۴ ۲۹۱ ۵۹۵ ۵۸۳ الواقعہ ثلة من الأولين......(۱۴) الحديد ۵۱۷ يوم يقول المنفقون والمنفقت للذين امنوا ۴۶ انظرونا نقتبس من نوركم.....(۱۴ تا ۱۶) يايها الذين امنوا اتقو الله وامنوا برسوله....(۲۹) ۳۳ الحشر تحسبهم جميعاً و قلوبهم شي (۱۵) 1+29+4 يا يها الذين آمنوا اتقوا الله (۲۰.۱۹) ۴۰۴۴۰۳ لو انزلنا هذا القرآن على جبل......(۲۲) ۴۹۶،۱۳ علم الغيب والشهادة......(۲۳) ۳۱۷

Page 803

الصف يريدون ليطفئوا نورالله با فواههم.....(۹) الجمعة ويعلمهم الكتاب والحكمة (۳) وآخرين منهم لما يلحقوا بهم (۴) الطلاق ۴۷ ۶۲۲،۵۷ ۷۰ قد انزل الله اليكم ذكرا رسولا (۱۲،۱۱) ۲۲۴ ،۷۴۳ التحريم اتمم لنا نور نا (۹) ام الحاقة فاهلكوا بالطاغية (٦) ولا تمنن تستكثر (۷) المدثر القيامة ولو القى معاذيره (١٦) الدھر سميعاً بصيراً (۳) الانشقاق ۱۰۲ ۶۰۸ ۵۹۹۵۹۸ یا یها الانسان انک کادح الی ربک کدحًا فملقیه (۷) ۷۲۵،۱۹۳،۱۴۶،۱۴۵ اتین لقد خلقنا الانسان في احسن تقویم (۵ تا ۵۳۹٬۲۰۰ البيئة وما امروا الا يعبدو الله مخلصين له الدين.......(۶) ۴۵۱ الماعون فويل للمصلين الذين......(۶۵) احادیث نبویہ ما خلق الله خلقا اكرمه عليه من العقل ماكسب احد شياء افضل من عقل يرد الى هدى عن ردا من خلع يدا من طاعة لقى الله يوم القيامة ولا حجة له..من قال لا اله الا الله دخل الجنة اذا تواضع العبد رفعه الله الى السماء السابع من لم يشكر الناس لا يشكر الله اللهم ات محمد ا الوسلية والفضيلة.انک لتصل الرحم وتحمل الكل.اذا دخل العشر اشد مئزره..و هو يصلى و لجوفه اذير.يدفن معي في قبري علماء اء هم شر من تحت اديم السماء خیر کم خیر کم لاهله ربی اکرمن (۱۶) ربی اهانن(۱۷) ۱۹۰ ۱۹۰ يا يتها النفس المطمئنة ارجعي......(۲۸ تا ۳۱) ۵۳۷ الم نشرح فان مع العسر يسراً....۶ تا ۹) ۲۴۳، ۲۴۵، ۲۵۲،۲۴۷ لايدان احد لقتا لهما انما الاعمال بالنيات من كانت هجرته إلى الله و رسوله الحكمة ضالة المومن انصراخاک ظالم او مظلوما العظيم سبحان ربی ۶۰۶ ۹ ۱۰۰،۹۹ ۱۹۰ ۱۹۵ ۲۰۹ ۲۱۲ ۲۳۶ ۲۳۷ ۲۹۰ ۳۸۷ ۳۸۸ ۴۹۶ ۵۱۳٬۵۰۸٬۴۹۹ ۵۰۳ ۶۲۱ ۶۷۱ ۷۹۳۷۹۲

Page 804

احادیث بالمعنى ابن آدم کی حرص کو دیکھو کہ جتنا اس کا مال بڑھتا ہے اتنی اس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے....غنی وہ نہیں جس کے پاس مال و دولت زیادہ ہوشنی وہ ہے جس کا دل امیر ہو لا الہ الا اللہ کو افضل الذکر فرمانا جوتی کا تسمہ بھی خدا تعالیٰ سے مانگو ۷۳ ۸۳ ۹۹ 22Y آپ کا ایک غزوہ میں ایک درخت کے سائے میں آرام فرمانا آپ نے سفارت کاروں کا تقدس قائم فرمایا آپ مہر نبی سے آگے بڑھ گئے حضرت آدم علیہ السلام ۶۷۶ ۶۹۰ ZIA ۵۹۹،۴۹۴ ،۴۴۰ ،۱۹۹ قرآن کریم میں آپ کی بریت کا خوبصورت انداز اللہ تعالیٰ نے آپ کو غلطی کے بداثرات سے بچالیا ۵۰۷ ۵۰۸ ۳۹۴ حضرت آدم علیہ السلام کا زمین میں خلیفہ بنایا جانا جہنم میں ایک شخص آگ کے تنور میں پڑتا ہے پھر وہ خدا تعالیٰ نے آدم کے اندر اپنی روح پھونکی باہر نکلتا ہے اور دوبارہ تنور میں داخل ہوتا ہے حکمت کی بات مومن کی گمشدہ اونٹنی کی سی حیثیت رکھتی ہے ۶۲۲ آذربائیجان روزوں کی جزا ء اللہ تعالے خود ہے رمضان المبارک میں اپنے نفوس کا جائزہ لیں لالی و لاعلی حضرت عمر کی دعا اعمال کا انحصار یقینا نیتوں پر ہوتا ہے آپ سے سوال کے قیامت کب ہوگی؟ ۲۳۵۱۴۸ آر تھا ک (Qrtthak) روس کا شہر آرمینیا آپ کا معرج کی رات ہر نبی کو الگ الگ آسمان پر دیکھنا پہلی وحی کے بعد آپ کی بہت سخت خوف کی حالت آپ کا رمضان میں کثرت سے خیرات کرنا رسول کریم علیہ وسیلہ بنانے کی حقیقت ۲۱۳ ۲۸۷ ۵۰۳ ۱۵۹ ۱۹۱ ۲۱۱ ۲۱۳ آزاد کشمیر آسٹریلیا حضرت آسیہ نے فرعون کے نیچے زندگی بسر کی ۲۱۹ آئرلینڈ پ جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے آئرلینڈ کی مذہبی عصبیت اور سیاست تو کمر کس لیا کرتے تھے ۲۳۶ ۲۳۸ آئس برگ (Ice Burg) ۵۹۷ ۱۱۸۹۴۹۳ ۱۱۶ ۶۸۶،۶۸۵،۹۳ ۵۰۲ ۶۵۶۳۴۳٬۳۴۲ ۳۶۶ ۶۳۷ ،۶۳۱ ۶۸۹،۶۸۳ آپ کی عبادت حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کا صحابی کو فر ما نا کہ تم نے کیوں نہ اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا ۳۱۳ آپ حضرت علی کو نماز اور تہجد کیلئے جگایا کرتے تھے ۳۸۸ خطبہ حجۃ الوداع آپ نے چار قسم کے دل بیان فرمائے ۴۲۷ ،۴۲۶،۴۱۳ ۴۳۱،۴۳۰ ۸۸ ۷۷۷،۵۴۳،۵۲۸ ،۳۲۱،۳۱۶،۵۱ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ستارہ دیکھنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لقب حنیف ابلیس ابلیس کی انانیت آنحضرت کا ایک تو بہ کرنے والے کا نقشہ کھینچا ۵۱۲،۵۱۱،۴۹۸ آپ نے فرمایا مسیح اور قیامت آپس میں ملے ہوئے ہیں ۶۷۵ حضرت ابو بکر صدیق ۱۸۵،۱۸۴ ۴۵۳ ۳۹۹ ۴۳۳۲۷۵

Page 805

۴۳۰ ۳۲۹،۱۰۰،۸۸ اخلاق حسنہ سے ہی طمانیت نصیب ہوا کرتی ہے دین محمد کو اخلاق محمد سے جدا نہیں کیا جاسکتا اخلاق محمدی ہی اخلاق حسنہ ہیں ۲۹۶ اخلاق حسنہ کا مطلب بھی با خدا بننا ہے جماعت احمدیہ کی روایات میں اخلاق کا مقام ۶۶۷ ۶۴۵ ۶۴۸ ۲۱۴ حضرت مسیح موعود کے اخلاقی اور تربیتی ورثے کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے ارتقاء ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۶،۳۴۷ قرآن کریم کے مطابق اصل ارتقاء عقل کا ارتقاء ہے آنکھ کا ارتقاء انسانی زندگی کا تین ادوار میں ارتقاء ۴۱۸ ۵۵۴ ۱۹ ۱۶۵ ۵۹۷ ۲۲۶ ماں کے رحم میں بچہ ارتقاء کے تمام ادوار سے گزرتا ہے ۶۰۴ ۲۴۰ اردن ۶۹۰،۴۹۴ ، ۴۷۵ ، ۴۷۱ ،۴۶۸ ، ۴۶۱،۴۵۳ اردن اگر عراق کا اقتصادی بائیکاٹ کرتا ہے تو خود مرتا ہے ۴۷۱ اردن ہمیشہ قابل شرم حد تک مغرب کا وفادار رہا ہے اڑیسہ (ہندوستان کا صوبہ ) งง ۷۹ استغفار استغفار کے نتیجے میں انسان کو سچی توجہ نصیب ہوتی ہے ۴۴۱ اسد اللہ خاں غالب غالب کو پھلوں کا بہت شوق تھا اسرائیل ۷۱۵،۶۰۱،۳۲۴،۳۲۳ ۵۳۹،۵۳۸،۵۲۵ ۴۷۳،۴۷۲،۴۶۵ ۶۹۰۶۶۳۶۴۱۶۴۰،۶۳۱ ،۴۹۴۰ ۴۷۹،۴۷۵ ۴۹۴ ۴۸۷ ۴۷۹ ۵۱ ۶۱۵ ۳۴۹ ۶۷۱ ۲۵۶ ۳۳۱ ۴۰۹ حضرت ابوسعید رض حضرت ابو ہریرة اٹلی اجودھیا احرار مجلس احرار اور ان کے دعاوی حاجی احمد خان صاحب ایاز مجاہد ہنگری احمدی / احمدیت احمدی اور غیر احمدی میں فرق احمدی کا مقصد حیات خدا نما بننا احمدی صاحب لقاء بن جائیں احمدی طرز فکر کو اپنانے کیلئے لوگ بے چین اور پیاسے دکھائی دیتے ہیں احمدی دل نرم ہے جلد نصیحت پکڑتا ہے احمدیوں کو ہر دو محاذ پر جہاد کیلئے تیار ہونا چاہئے فوج در فوج بعض علاقوں میں لوگ احمدیت میں داخل ہورہے ہیں.بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ اختلاف و افتراق افتراق کے ذریعے الہی جماعتوں کو تباہ کرنے کی شیطانی کوشش افتراق سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی گناہ نہیں ۴۰۹ مذہبی اور قومی اختلاف اپنا رنگ دکھانے کیلئے تیار ہیں ۶۳۶ اخلاق اخلاقی تربیتی ورثہ اپنے بچوں میں بانٹیں اخلاق حسنہ میں عورتوں کو ایک بہت ہی اہم کردار ۵۴۷ اسرائیل نے مغرب کی مدد سے ہرلڑائی میں مسلمان علاقوں پر قبضہ کیا مغرب کا مسلسل اسرائیل سے ترجیحی سلوک اسرائیل کا عراقی حملے کا شور مچانا اسلام اسلام کے لغوی معانی اور اس کی وضاحت ۳۵۱ ادا کرنا ہے

Page 806

ملکہ سبا کے اسلام کی کیفیت اور حضرت سلیمان کا اسے اسلام سکھانا دنیا کے نئے جوڑ توڑ میں عالم اسلام کیلئے خطرات عالم اسلام کو خطرات سے بچانے کیلئے جماعت کو دعا اور بذریعہ نصیحت مدد کی تحریک مسلمانوں کے دل جماعت جیتے گی اور پھر آنحضرت کا بر پا کردہ انقلاب تمام عالم میں بپا کیا جائے گا احمدیت کا پیغام ہی حقیقی اسلام ہے اسلام سے ہی دنیا کا امن وابستہ ہے اسلام کے خلاصے کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ کے خلاصے کا نام اسلام ہے اسلام کے نتیجے میں امن نصیب ہوتا ہے اسلام کی طرف منسوب ہونے والاterrorist نہیں ہوسکتا اسلام کے نتیجہ میں ظاہری امن بھی ملے اور اندرونی امن بھی ملے گا اسلام کے حق میں دنیا میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں ۹۱ عالم اسلام گویا اسرائیل کے مفادات کی حفاظت ۵۹ کیلئے کھڑا ہو چکا ہے اسلامی تعلیم کی رُو سے تمام غیر ملکی امانت ہوا کرتے ہیں ۴۸۰ مغربی ممالک میں عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام ۹۴ کو کم تر خیال کرنا اسلام میں عورت کو آزادی نہ دینے پر اعتراض اسی اسلام کو پھیلا نافرض ہے جو آنحضرت مے کے قلب صافی پر نازل ہوا لا ۳۰۱ ۳۱۱ ۳۱۱ ۳۱۹ ۳۲۱ ۳۲۴ اسلام کا غیر اسلامی قدروں سے جہاد اسلام کا بہت بڑا مقابلہ معاشرتی قدروں سے ہونے والا ہے نسل پرستی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں سنی اسلام اور شیعہ اسلام ۵۸۲ ۵۸۶ ۶۱۸ ۶۲۹ ۶۲۹ ۶۲۹ ۶۳۵ اسلام کو انسان آزادی ضمیر کے خلاف مذہب کے طور پر پیش کرنا ۶۳۸ ۶۴۰ اسلام کو نسل پرستی کے حملوں سے بچانے کیلئے تدابیر اسلام کی بقا کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد ۶۴۴ ۳۵۰ عالم اسلام کی مشکلات دور ہونے کیلئے دعائیں عالم اسلام خود ایک دوسرے کیلئے مصیبتوں کا ذمہ دار ۴۴۳ کرنے کی تحریک عالم اسالم کے مسائل کا حل خدا کی قائم کردہ سیادت کے آگے سر جھکا دیں عالم اسلام کا ایک حصہ دوسرے عالم اسلام کیلئے مصیبتیں اور مشکلات پیدا کرتا چلا جا رہا ہے جب عالم اسلام غریب تھا اس میں تقویٰ کے آثار پائے جاتے تھے عالم اسلام کی سب سے بڑی بدنصیبی عالم اسلام کا گہرا کرب عالم اسلام کے طرز عمل میں تضاد عالم اسلام میں انصاف کا فقدان کوئی اسلامی ملک سرکشی دکھاتا ہے تو تمام اسلامی ملک مل کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبوکر دیں ۴۴۳ بابری مسجد کا واقعہ اسلام کی عظمت اور اسلام کی تو حید کو خطرہ ہے اسلام تمام دنیا کے تمام مذاہب کی عظمت اور ۴۴۴ ان کی حرمت کی حفاظت کرتا ہے ۴۴۴ ۶۶۲۶۶۱ ۶۶۸ ۶۶۹ ۶۹۳ مغرب کا پراپیگنڈا اصل بیماری اسلام ہے اسرائیلیت نہیں ۴۹۲ دنیا کو اسلامی عدل کی طرف آنا ہوگا ۴۴۹ مسلمان دنیا نے مواقع فراہم کئے کہ ان کی بیماری ۴۶۵ کی وجہ ہی اسلام قرار دیا جائے ۴۶۶ اسلامی لیڈرشپ تمام تر توجہ اصل بیماری کی طرف ۴۶۶ مبذول کرے عالم اسلام نے بار بار کے تجربات کے باوجود ۴۷۴ کوئی سبق حاصل نہیں کیا سن ۲۷۱ میں عالم اسلام کے انحطاط کی بنیادیں کھودی گئیں ۴۷۶ اسلامی انصاف محض اللہ کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے ۴۹۳ ۴۹۴ ۴۹۵ ۶۹۵

Page 807

اسلام سے مراد یہ ہے کہ اکٹھے رہ کر تعلق جوڑو ۷۰۳ افریقی ممالک سے تجارت بڑھانے کی کوششیں سنی اسلام کی شیعہ اسلام سے جنگ 2.2 افریقہ میں صنعتوں کے قیام کی کوششیں ۵۶۹ ۵۶۹ اسلام آباد.برطانیہ ۱۱۳، ۵۶۶،۴۱۲،۳۷۸ افریقہ کے غریب ترین ممالک میں بھی انتہائی مالی اشتراکیت روس اور چین میں فلسفہ اشتراکیت کی تعبیروں میں اختلافات ہیں اصحاب الصفہ اصحاب الصفہ کا احوال ۴۸۹،۴۸۸ ۶۴۰ ۵۶۹ قربانی کی روح افریقی ممالک میں مبلغین کو ہدایت کہ ان سے مالی قربانی ضرور کروانی ہے ۵۷۲ ۵۷۲ احمدیوں کی وجہ سے سارے افریقہ کی تقدیر بدل جائے گی ۵۷ افریقہ پر تسلط مغربی قوموں کا ہے افغانستان ۶۸۵ ۶۴۹،۳۸۸،۹۲ اصحاب الصفہ کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا ۵۶۹ افغانستان پاکستان سے پرانے بدلے اتارنے کیلئے اطاعت اطاعت سے متعلق آنحضرت کی حدیث حضرت مسیح موعود کے اطاعت کے متعلق فرمودات پر اٹھنے والے سوال کا جواب دینی معاملات میں امیر کی اطاعت کریں خدا کی اطاعت اختیار کرنا اور خدا کے سپر درہنا تو تقویٰ کا حق ہی ہے ۵۴ ۵۵۲ ۶۹۸ موقع کی تلاش میں ہے علامہ اقبال ۲۷۳ ۶۳۵،۶۳۴،۱۷۹،۳۰ اقتصادیات حضرت مصلح موعودؓ کے اقتصادیات پر لیکچر اور اقتصادی نظام کی ناکامی پر تبصرہ الجيريا مکرم اظہر احمد حنیف صاحب مبلغ امریکہ ۷۵ اللہ تعالی ہر ضرورت اور خوف کے وقت سب سے پہلے دھیان مکرم افتخار احمد ایاز صاحب طوالو میں دعوت الی اللہ کی خدمات ۱۷۶ خدا کی طرف جانا چاہئے افریقہ ۸۹ ۴۴۷ ۲۲ خدا تعالیٰ کے عرفان کے نتیجے میں انکسار نصیب ہوا کرتا ہے ۱۴۳ ۵۷۲،۵۶۸،۵۱۵،۲۶۴،۲۶۳،۲۵۸،۸۰،۷۸،۷۷،۷۵، خدا تعالیٰ زندگی اور شعور کا سر چشمہ ہے ،۶۶۴،۶۶۳۶۵۶۰۶۴۶۰۶۳۸ ،۶۳۷ ،۶۲۶،۶۲۴۶۱۷ خدا تعالیٰ کا وجود بصیرت عطا کرنے والا ہے خدا تعالیٰ ایک باشعور زندہ ہستی ہے ۱۶۷ ۱۶۷ افریقہ شمالی افریقہ جنوبی افریقہ فنڈ کی تحریک ۷۳۹،۷۳۱،۶۸۶۰۶۶۷ ،۶۶۵ ۴۴۵ ۷۳۹ ۵۶۷ ۵۶۸ افریقہ میں جماعت تیزی سے پھیل رہی ہے افریقہ میں نئے احمدی ہونے والوں کو چندہ ادا کرنے کی تحریک ضرور کی جائے ۵۶۹ خدا کی ذات میں سفر لامتناہی ہے خدا تعالیٰ نے سب چیزوں کو نور بخشا ہے اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتا ہے سارا نور دراصل اللہ ہی کا نور ہے خدا تعالیٰ کی ذات میں ہوکر سفر کریں ۱۸۲ ۱۸۵ IAZ ۲۳۴

Page 808

اگر سارے انسان بھی عبادت چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ آخری ممتحن تو خدا تعالیٰ ہے کی شان کبریائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا خدا تعالیٰ ایک لعل بے بہا ہے ۲۳۵ خدا جب کسی بندے پر روشن ہو جاتا ہے تو اس کی ۲۴۰ ساری ظلمات مٹ جاتی ہیں اپنی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ کے مزاج کے مطابق ڈھالنا چاہئے ۲۸۸ خدا کے جبروت کی قسم کھا کر ہم کہتے ہیں کہ وہی خدا اصل اور لافانی حقیقت خدا تعالیٰ کی ذات ہے وجہ اللہ سے مرادرضائے باری تعالیٰ ہے خدا کی رضا میں ہو کر ہمیشہ کی زندگی پانا رضائے باری تعالیٰ کو دوام حاصل ہے جس کو خدا تعالیٰ کی ذات نصیب ہو جائے اس کے دلوں کے خلایقیناً دور ہو جایا کرتے ہیں وجه ربک کو بقاء ہے اور اسے کوئی زوال نہیں صرف خدا کی رضا ہے جو تمہارے کام آئے گی نور خداتسلی پانے کا ذریعہ نور خدا حاصل کرنے کی کوشش کریں ۲۹۸،۲۹۷ ۲۹۹،۲۹۸ ٣٠٢ ٣٠٢ ٣٠٣ ۳۰۴ ۳۰۵ آج ہمیں تمہارے ظلم وستم سے بچائے گا اللہ تعالیٰ سے تعلقات استوار رکھنا تمہاری زندگی کی ضمانت ہے خدا کی اس زمین کا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہو رہا ان چار صفات میں خدا تعالیٰ کی تمام صفات موجود ہیں خدا تعالیٰ کی چار صفات ام الصفات ہیں خدا چاہتا ہے کہ تم اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو آفاق میں بھی خدا تعالیٰ کے نشانات ملتے ہیں انسان کے وجود میں بھی خدا تعالیٰ کے نشانات ملتے ہیں سمندر کی تہہ میں انتہائی اندھیرے میں خدا کی الہی جماعتوں کے پھیلنے کے ساتھ خدا کا چہرہ پھیل رہا ہے ۳۰۶ مخلوق کا وجود خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا کوئی حساب ممکن نہیں ۳۱۴ جو اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دیتے ہیں خدا تعالیٰ کی تقدیر دیکھ سکتے ہو دنیا کو ان کے سپر د کر دیتی ہے خدا ایک زندہ حقیقت ہے ۳۲۶ ۳۶۰ ۴۴۵ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اس کی ہر دوسری صفت پر غالب ہے ۴۵۶ خدا تعالیٰ کو روزمرہ کی زندگی میں داخل کریں جو بندے خدا پر انحصار کرتے ہیں ان کے کام خدا خود آسان کر دیتا ہے دولت خدا کے ہاتھ میں ہے خدا غنی ہے اور ہم فقیر ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علیہ کے گھر دولتوں سے بھر دیئے کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۵۲۳ ۵۷۰ ۵۷۰ خدا تو وہی ہو گا لیکن اس کے نئے جلوے تم روزانہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا کروڑواں حصہ بھی ہم پر ابھی ۶۰۸ ۶۱۰ ۶۷۷ ۷۰۲ 212 ۷۲۱ ۷۲۲ ۷۲۲ ۷۲۹ ۵۳۵ ۷۴۳ ۷۴۴ ۷۵۲ روشن نہیں ہوا اللہ تعالی تمام کائنات کی ربوبیت فرمارہا ہے اللہ تعالیٰ کی رحیمیت ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے ۷۵۳ اپنے اندر خدا تک پہنچنے کی طلب پیدا کریں حمد کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ سے ملتی ہے ۷۵۴ ۷۵۴ خدا کی طرف سے توفیق کے بغیر آپ خدا کو نہیں پاسکتے ۷۵۴ خدا کی مدد حاصل کرنے کیلئے دوسرے دروازے بند کرنے پڑتے ہیں ۷۵۶ چار صفات بنیادی طور پر خدا کا تعارف کروانے کیلئے کافی ہیں ۷۵۶ اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانی کرنے والوں کو کبھی تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑا ۵۷۳ تخلیق کا آغاز رحمانیت کے نتیجہ میں ہوا اے ہمارے معبود تو ہماری تمام ضروریات پوری ۷۵۸ اندھیروں کو دور کرنے کیلئے خدا کے تصور کو زیادہ سے زیادہ تازہ کیا جائے ۵۹۰ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ZY.

Page 809

خدا تعالیٰ کی صفتوں میں تو ہر جگہ رحمانیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے ۷۶۰ جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو امراء ۷۸۳ ۴۰۰،۳۹۹،۳۹۶،۳۹۷ ،۳۷۷ ،۲۶۴ رحمانیت کو تخلیق میں ڈھالنے کیلئے عزم کی ضرورت ہے ۷۶۰ امراء اور صدر ان جماعت کو نصائح سورۃ فاتحہ میں بیان صفات باری کا مظہر بننے کی کوشش کریں ماں اگر بچوں سے پیار کرتی ہے تو وہ بھی ایک ربوبیت کا مظہر ہے ربوبیت کے دائرے میں خدا کے مصیبت زدہ بندگان کی مصیبتوں کا حل ہے رحمانیت سے تعلق جوڑیں جو عدل سے بالا اور اوپر ہے رحمان کا مطلب ہے کہ ضرورت اور حق سے بڑھ ۷۶۳ 272 ۵۶۳۵۶۲۵۶۱،۵۵۱،۵۴۸ امراء کو ایسے اپنے ماتحتوں کی نگرانی کرنی چاہئے جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ رہی ہوتی ہے امیر کی سر بلندی اور اس کی ترقی دراصل ساری جماعت کی سربلندی اور ساری جماعت کی ترقی ہے ۷۶۷ امریک ۷۶۸ کر دینے والا خدا تعالیٰ ہر چیز کا ہر ذی شعور کے شعور کا مالک بن جاتا ہے ۷۶۹ اصل مالک وہ ہے جو عطا بھی کرتا ہے صرف لیتا ہی نہیں ہے اے ے ایک وقت ایسا آئے گا جب کوئی دوسرا شخص ملوکیت ۷۷۲ ۵۵۳ ۵۶۲ ،۱۷۶۱۷۵،۱۶۸،۱۱۱ ،۹۳ ،۹۲،۸۳٬۸۲،۸۱،۸۰ ،۷۹،۲۵،۵ ۴۷۱،۴۷۰۴۶۸،۴۶۷ ، ۴۶۶،۴۳۷ ، ۳۷۰،۳۰۶،۲۹۶ ۵۷۱،۵۷۰۵۱۵ ، ۴۹۶ ،۴۸۹ ،۴۸۸ ، ۴۸۴، ۴۸۰ ، ۴۷۴ ،۶۵۲۶۵۱،۶۴۲،۶۳۹،۶۳۲،۶۳۰،۶۱۲،۵۸۵،۵۸۴ ۷۳۲،۶۹۱،۶۹۰،۶۸۸،۶۸۵،۶۷۹،۶۶۴،۶۵۵ امریکہ شمالی امریکہ جنوبی میں ذرہ بھر بھی اس کا شریک نہیں رہے گا خدا تعالیٰ اپنے اوامر اور نواہی کے جلووں سے ظاہر ہوتا ہے ۷۷۳ روحانی مرتبے اور قرب الہی کیلئے اللہ تعالیٰ سے تم دعا مانگو سازشیں ایک کافر بھی خدا کی نعمتوں میں سے حصہ پاتا ہے خدا تعالیٰ کے بندے بنے کیلئے خدا تعالیٰ کی تمام صفات کے ساتھ تعلق ہونا ضروری ہے رحمن خدا کے بندوں سے جود شمنی کرتے ہیں ان پر خدا غضبناک ہوتا ہے اللہ دتہ مبشر صاحب معلم وقف جدید المعتصم باللہ آخری عباسی خلیفہ اقوام متحدہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء ولا تسلم عن الناس 222 ۷۸۳ ۷۸۴ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی عراق کے خلاف شاہ ایران سے نفرت دراصل اس کے طاقتور ۶۸۸،۶۳۴ ۶۸۸ ۴۶۷ ۴۸۸ حلیف اور سر پرست امریکہ کی نفرت تھی امریکہ نے عربوں کی تیل کی دولت سے دوہرا فائدہ اٹھایا ۴۹۰ امریکہ اور یورپ میں انفرادی آزادی پر بہت زور دیا جا رہا ہے ۱۷۵ امریکہ میں نسلی برتری کا تصور ۴۷۷ امریکہ نے شاہ ایران کے ذریعہ لمبے عرصہ تک مظالم ۶۹۴۶۹۳ ۲۵ ۵۶۱ توڑے ہیں ۵۸۴ YAZ ۶۹۱ امریکہ میں نہایت گندی اور مخش فلمیں بنانے کا رجحان ۷۸۵ امن امن کا تعلق دل کی کیفیت سے ہے ۳۲۴ ۳۲۵

Page 810

۳۲۵ حقیقی امن جماعت احمدیہ کے مخلصین سے وابستہ ہے کے دل کے حالات معلوم کر سکے عالمی امن رحمۃ اللعالمین کے دست شفقت سے ہی مل سکتا ہے ۶۷۹ انسانی تعلقات میں مختلف رخنے امن عالم کو سب سے بڑا خطرہ عصبیت اور خود غرضی سے ہے ۶۷۹ آخری سانس تک ثبات قدم انسان کی آخری تمنا اصلاح انسان کے اپنے بس کی بات نہیں جب تک یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا ایک بڑے امن کے دور میں داخل ہورہی ہے امین ۶۸۵ ولایت نصیب نہ ہو انسانی اعمال خود بتاتے ہیں کہ وہ اپنے دعوئی میں بچے ہیں یا جھوٹے جتنا امانت میں خیات کرے گا اتنا ہی محنت کے پھل ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے نیکی کا ایک دائرہ بخشا ہے خطروں کے وقت انسان کی سچائی آزمائی جاتی ہے ۲۴۶ میں کمی آتی جائے گی جتنا کوئی امین ہوگا اتنا ہی اس کی محنتوں کو بہتر پھل لگے گا ۲۴۶ انسان کا اعلیٰ اور لطیف چیزوں کا ادراک ۲۴۷ انسان کی پیدائش یو نہی اتفاقا نہیں ہوئی امین اور غیر امین میں فرق اگر امین نہیں تو اس کی محنت ضائع چلی جائے گی ۲۴۷ ارب ہا ارب سال کے دور سے گزر کر انسان اگر آپ امین ہیں تو خدا سب سے بڑھ کر امین ہے ۲۵۲ اس مقام تک پہنچا ہے انتقام انتقام تو اعتدال کی راہ نہیں دیکھا کرتا انجام باخدا انسان کی بات میں قوت عطا کی جاتی ہے ۶۹۱ جب انسان خدا کو بھلا دیتا ہے تو پھر خدا بھی اس کو بھلا دیتا ہے انجام بخیر سے مراد اپنی نیکی کا انتہائی عروج حاصل کریں ۴۵۷ ہر انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہے انجام بخیر کی دعا کی طرف اولیاء نے بہت توجہ کی ہے اندلس سپین انڈونیشیا انسان ۴۵۷ انسان جو خدا پر یقین رکھتا ہے اس کے اندھیرے ۱۴۱،۱۳۸ ۴۴۷ ، ۴۴۵ ،۴۳۳،۱۳۶ بھی روشن ہو جاتے ہیں در حقیقت انسان اپنے گناہوں اور کمزوریوں سے واقف نہیں ہونا چاہتا انسان اپنے نفس پر بصیرہ “ تو ضرور ہو ۳۱۳ ۳۸۳ ۴۰۲ ۴۳۱ ۴۵۶ ۴۵۷ ۵۳۴ ۵۳۹ ۵۴۰ ۵۴۰ ۵۴۲ ۵۸۱ ۵۸۷ ۵۸۹ ۶۰۸ ۶۰۸ قرآن کریم میں تین مثالوں میں مختلف انسانی حالتوں کا بیان ۳ جہاں بھی انسان توازن کھو بیٹھے وہاں تقویٰ کی راہ گم ہو جاتی ہے ۶۹۸ کا انسانوں کیلئے شہد کی مکھی کی مثال میں معرفت کا گہرا نقطہ کے خدا کی نظر میں رہنے والا انسان ہمیشہ معتدل رہتا ہے انسان کا سر عظمت کے لحاظ سے صرف خدا کے آگے جھکنا چاہئے ۱۳ با خدا انسان کا رد عمل کبھی بھی حسد سے تجاوز نہیں کرتا انسان خدا تعالیٰ کا نظارہ اپنے وجود میں دیکھ سکتا ہے ہر انسان کا آسمان الگ الگ آسمان ہے آخری درجہ ساتواں آسمان عام بندوں کا درجہ ہے انسان ہر قسم کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ دیر اس دنیا میں سانس لے سکے ۱۸۱ ۱۹۱ ۱۹۱ ۲۹۸ ہر انسان کا اپنا علم عرفان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۷۲۳ نفس پر غور کرنے سے انسان کو خدا سے شناسائی ہوتی ہے ۷۲۹ اگر انسان آنکھیں بند نہ کر سکتا تو اس کا نظام عصبی تباہ اور برباد ہو جاتا ۷۴۱ ۷۵۸ انسان روزمرہ کی زندگی میں تو رحمان نہیں بنتا کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ کسی دوسرے

Page 811

انسان کی تخلیق میں سب سے زیادہ صفت رحمانیت جلوہ گر ہے انسان آج تک کیڑے کا پاؤں بنانے سے عاجز کوئی ایسا انسان نہیں جو خدا کی نعمت سے حصہ نہ پاتا ہو انسان کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے سب سے اعلیٰ شعور انسان کو عطا کیا گیا انصار الله مجلس انصار الله جرمنی صدر مجلس انصار الله انصار اللہ پاکستان ۷۵۸ انگلستان ۳۲۹،۲۶۳،۲۶۲،۱۷۵ ،۱۶۹ ،۱۱۷ ،۱۱۶ ،۱۱۱،۱۱۰،۸۹،۷۵ ، ۴۷۴ ،۴۷۱،۴۶۶ ،۴۶۰ ، ۴۱۵ ، ۴۱۲،۴۱۱ ،۳۴۴،۳۳۶ ۶۵۵،۶۵۴،۶۵۱،۶۵۰،۶۴۸،۶۱۲،۵۷۱ ، ۵۲۸ ، ۵۲۰ ، ۴۸۰ ۷۳۰،۶۵۶ ۷۵۹ ۷۸۱ انگلستان نے ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کی ۱۳۷ ۷۹۱ انگلستان کی وزیر اعظم کا اعلان کہ مسلمانوں کی طرف سے بنی نوع انسان کے امن کو سخت خطرہ ۱۲۱،۲۵ ۱۲۲ ۱۷۳، ۵۴۱،۵۳۶۵۲۷ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں عصبیتیں مجلس انصاراللہ یوکے کا سالانہ اجتماع انصار اللہ قرآن کریم اور نمازیں سکھانے کے پروگرام بنا ئیں انفاق فی سبیل اللہ (نیز دیکھئے مالی قربانی) بعض مالی تحریکات کی یاددہانی مالی تحریک افریقہ اور بھارت فنڈ“ خلیفہ وقت کے مالی قربانی کی طرف توجہ دلانے سے پیدا ہونے والی تبدیلی ۳۲۸ انگریز کے سیاسی نفوذ کی حکومت آج بھی سب دنیا ۵۴۸ میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے ۶۷۴ برطانیہ بذات خود بھی عصبیتوں کا شکار ہے ۵۵۲،۵۴۷ ۲۶۵ LL LL اولی الالباب غور اور فکر اور تدبیر کیلئے اولی الالباب ہونا ضروری ہے اہل اللہ اہل اللہ کی اپنی علامتیں ہوا کرتی ہیں اہل اللہ کو ابتلا ءاور رنگ میں دکھاتے ہیں ان کی نیکیاں مخفی ہوتی ہے ایٹم بم ایٹم بم کو بھی فنا ہے ایک احمدی تاجر کی پچاس ہزار پاؤنڈ کی غیر معمولی قربانی ۷۶ ایڈز (Aids) غریب مربیان کی مالی قربانی افریقہ فنڈ کی تحریک ۷۵ ۳۲۰ ۶۸۳ ۶۸۳ ۶۸۴ ۱۶۴ ۴۶۱ ۴۶۳ ۲۹۶ جنسی بے راہ راوی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری ۱۰۳ ۵۶۷ | ایران افریقہ میں نئے احمدی ہونے والوں کو چندہ ادا کرنے کی تحریک ضرور کی جائے آنحضرت مسیح موعود اور خلفاء کے زمانوں میں مالی قربانی کی ایک جیسی کیفیت ،۳۴۰،۳۳۸ ،۳۳۵،۳۳۴،۳۳۱،۲۵۷ ،۱۱۶،۱۱۵ ،۹۲ ،۶۳۳،۶۹۱ ،۴۹۰،۴۸۹ ،۴۸۰ ، ۴۷۶ ، ۱۴۴۷ ، ۴۴۵ ، ۴۳۳ ۵۶۹ ۷۰۶،۷۰۵،۶۹۱،۶۹۰ ۷۴ ایران میں اگر خمینی ازم نہ آتا تو اشتراکی انقلاب بر پا ہوتا ۴۸۸

Page 812

۱۳ ایران کی شہنشاہیت امریکی کی پروردہ تھی ۴۸۹ ایک بد عادت اور بد خصلت فارغ بیٹھ کر گئیں مارتا ہے ۵۲۴ ایران کا رد عمل بھی غیر اسلامی رد عمل تھا ۴۹۲ برلن ایران اور عراق آٹھ سال تک دوسرے کا خون بہاتے رہے ۷۰۵ دیوار برلن کے گرائے جانے کا ذکر ۵۱۵ ۶۶۴،۱۱۴،۱۱۳ دیوار برلن کے گرنے سے نئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہے ایران قرآن کے حوالے سے عراقیوں کے قتل کی تعلیم دیتا رہا ۷۰۷ برمنگھم الشياء اینتھر کس پینتھر کس کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے مکرم بشارت احمد صاحب امروہی سلسلہ کے پرانے خادم اور واقف زندگی ۶۳۰ ۳۶۶،۱۱۶ ۱۷۵ کی ایجاد مسٹر انتھنی برگس ایتھوپیا ایمان مومنوں کو حقیقی ایمان لانے کا حکم اور اس کا فائدہ ایمان کی وضاحت ۶۴۳ ۶۳۸ ۶۶۴ ۳۴ ۴۹ ایمان کے متعلق حضرت مسیح موعود کے فرمودات کی تشریح ۵۲ ایمان اور اسلام میں فرق ایمان کی دواقسام ایمان ایک مخفی حالت کا نام ہے بغیر ایمان کے اسلام کی کوئی حقیقت نہیں ایمان اور اعمال صالحہ کے درمیان فرق ایمان اگر سچا ہے تو خدا تعالیٰ ضرور ولی بنے گا بالا خانے بالا خانوں سے مراد اونچا مر تبہ اور بلندشان کے ہیں بالا خانہ ہمیشہ روحانی معنوں میں استعمال ہوتا ہے بخارا (روس) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سید بشیر احمد شاہ صاحب ۵۵۶،۴۵۴ مکرم بشیر احمد خان صاحب آف برمنگھم بشیر احمد رفیق خان صاحب ۳۳۹،۱۱۶ 112 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة امسیح الثانی المصلہ اع موعود ۶۵۰،۶۴۹،۶۴۸ ،۶۴۷ ، ۳۰۹ ،۸۹ رویا میں آپ کا مولوی ظہور حسین کو تبلیغ کرنے کی طرف متوجہ کرنا ۳۱۳ آپ کی طاہر احمد نام کے بچہ کے ہمراہ روس میں ۳۱۳ ۳۱۱ ۴۳۷ ۳۷۰ ۳۷۱ جانے کی رؤیا حضرت مصلح موعودا اور فلسفی کا مکالمہ نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جانا روس میں دعوت الی اللہ کی خواہش ایک رؤیا کا تذکرہ ولا ۱۹۱ ۳۴۱،۳۴۰۳۳۹،۳۳۶،۳۳۱،۳۲۹،۳۲۸ ،۳۲۷ آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی آپ کی تفسیر کبیر میں الم کے اعداد پر بحث ۴۵۷ آپ ہر موقع پر دعا کیلئے بزرگوں کو لکھا کرتے تھے ۵۵۸،۵۵۷ ۳۴۰۳۳۹،۳۳۸،۱۱۶ آپ کی آنکھ اللہ کے نور سے دیکھتی تھی حضرت مصلح موعود لطیفہ سنایا کرتے تھے بدر سوم ہد رسوم اور بد عادات کو اسلامی معاشرہ نہیں کہا جا سکتا ۶۲۴ ۵۵۸ ۶۹۹ بغداد ۴۶۴ ، ۴۶۷، ۴۷۱، ۴۷۶ ، ۴۷۷ ، ۴۷۸ ۴۹۰

Page 813

۹۵ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+4 ۲۶۷ ۲۷۲ ۲۷۲ ۲۷۲ ۲۷۲ ۲۷۲ ۱۴ بغداد کی حکومت اور قیصر روم کا سپین کی اسلامی مملکت پاکستان میں راہنمائی کا فقدان اور مسائل کو تباہ کرنے کا معاہدہ بغدادساری دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند شہر تھا باغیانہ وظالمانہ حالات و واقعات ۵۷۱ پاکستان میں رشوت ستانی کا عالم بغداد میں دنیا کی سب سے زیادہ نعمتیں پائی جاتی تھیں۵۷۱،۵۷۰ مسیح موعود کی تکذیب کے نتیجے میں پاکستان میں بلقیس ملکہ سبا بلغاریہ ۵۹ پڑنے والی پھوٹ اور تفریق پاکستان میں جماعت کے خلاف غیر احمد یوں ۶۸۵ کی جھوٹی گواہیاں بل نيجس (Bill Nedges) آف ہارٹلے پول پاکستان کے خطرات کے زمانہ میں خوبیاں ابھر کر باہر آجایا کرتی تھیں انگریز نو مسلم مخلص احمدی بلوچستان بنگلہ دیش سندر بن کے جنگل میں جگنو ۵۶۵ پاکستان کے باشندوں کی نیکیاں سوکھنی شروع ہوئیں 1+2 ۶۶۹ ۷۳۳ ۳۴۹ پاکستان کو چاروں طرف سے شدید خطرات کا سامنا پاکستانی قوم اپنے ہی گناہوں کی طغیانی میں ڈوبی مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم اور سفا کی ہوئی دکھائی دیتی ہے بہار بھارت بیعت پاکستان میں فوجی مداخلت کے باوجود قتل و غارت جاری ہے ۲۷۳ ۷۷ ملاں نے اسلام کے نام پر خون کی ہولی کھیلی پاکستانی قوم کے دل سے تقویٰ اٹھ چکا ہے عہد بیعت میں اقرار کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا ۴۲۴ پاکستان میں فساد کا بنیادی سبب منحوس مولوی ہے پیلاروس بیلجیم سنين پاکستان ۱۱۸ ۲۲۰،۱۷۱،۱۵۴،۱۴۶،۱۱۲،۱۱۱،۱۰۸ ،۹۳۷۷ ،۲۹،۲۵ ،۴۳۶،۴۲۳،۴۱۵ ،۴۱۱ ،۳۵۵،۲۶۳،۲۶۰،۲۵۸ ،۲۴۴ ،۲۲۱ ،۵۲۷،۵۱۷،۵۱۶،۵۰۳،۴۸۰ ، ۴۴۵ ، ۴۳۹ ،۴۳۸ ،۴۳۷ ،۶۳۳۶۲۵،۶۱۲،۵۹۳،۵۷۱،۵۷۰، ۵۴۷ ،۵۳۲،۵۳۱ ،۶۷۴،۶۷۱،۶۷۰۰ ۶۶۹ ،۶۵۴،۶۵۰،۶۴۶۶۳۹،۶۳۴ ۶۹۴۶۹۳،۶۸۱ ۲۷۶ ملاں پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال بن کر کھڑا ہوا ہے ۲۷۶ پاکستان ہر غیر اسلامی حرکت کی آماجگاہ بن چکا ہے ۲۷۷ ۲۷۷ دعاؤں کے ذریعہ پاکستان کی مدد کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ پاکستان کو ملاں کی نحوست سے نجات عطا فرمائے ۲۷۸ ہر بدی جس کے خلاف اسلام نے جہاد کیا وہ تم میں قائم ہو چکی ہے ۲۷۸ موجودہ حالات میں یہ ملک بچتا ہوا دکھائی نہیں دیتا پاکستان غیر اسلامی اقدار سے بھی آگے بڑھ چکا ہے ۲۷۸ ۲۷۸ ۲۸۲ مولویوں سے ڈنگ مارنے کی طاقت جاتی رہے گی اجتماعی تکذیب پاکستانی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جارہی ہے ۲۸۳ پاکستان کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں ۲۸۹ پاکستان کی طرح شاذ ہی دنیا میں کسی نے قومی طور پر وقت کے نبی کی تکذیب کی ہو ۲۹۲،۲۸۹

Page 814

دنیا کی ہر برائی تمہارے وجود کا حصہ بن چکی ہے ۲۹۱ ۱۵ پیشگوئی اللہ تعالیٰ پاکستان پر پھر مہربان کیوں نہیں ۲۹۱ کثرت سے قوموں کا توحید کا رخ اختیار کرنے پاکستان کی حالت ہر دم غیر ہوتی جارہی ہے ۲۹۱ کی قرآنی پیشگوئی اہل پاکستان کو انتباہ تم خدا کی نظر سے گرائے گئے ہو ۲۹۱ ۲۹۲ حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے پیشگوئی کا رنگ رکھنے والے دواشعار پاکستان اسلام ادمحمد ﷺ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ۲۹۳ روس کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کا ذکر ۸۵ ۸۶ ۱۱۴ پاکستان کی حماقت کی حد کہ عراق میں فوجیں بھیجوانے Fridaythe 10th کی پیشگوئی کا پورا ہونا ۱۱۴ کا وعدہ کیا پاکستان میں کسی احمدی کیلئے ضمیر کی آزادی نہیں رہی پاکستان دو قومی نظریہ ۴۷۴ ۵۳۲ ۶۳۳ | تاشقند (روس) انتہا پسند ملاں مذہب کے نام پر اقتدار کا دعوی کرتے ہیں ۶۶۹ ۷۰۰ توحید کا کلمہ پڑھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ایک دن ملاں اپنے ظلم و تعدی کی وجہ سے پکڑا جائے گا ذیلی مجالس کے اجتماعات پر پابندی پرتگال خلیفہ اسیح کا پہلا خطبہ جمعہ احمد یہ مشن ہاؤس کا افتتاح پرتگال ممبر پارلیمنٹ پرده پردہ کی مختلف اقسام کا تذکرہ ۶۷۰ ۶۷۵،۶۷۴ ۶۹۴۶۸۴،۶۵۶،۱۵۲،۱۵۱،۱۲۸ پردہ کے ہر ملک میں پہینچ الگ الگ ہیں افریقہ میں پردہ کے مسائل پنجاب پوپ پورٹو (پرتگال) پولینڈ پید رو آباد (سپین) ۱۲۹،۱۲۷ ۱۳۰،۱۲۷ ۱۲۸ ثبت ۳۳۸،۱۱۶ ۶۸۹ ۱۳۰ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے تبلیغ کریں۱۴ مکن نہیں کہ مومن تمام کے تمام بحیثیت قوم خدا تعالیٰ کے ۲۵۶ دین کی خدمت کیلئے یک دفعہ نکل کھڑے ہوں.فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں.۲۵۶ بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ دائین الی اللہ و مبلغین سلسلہ کو نصائح ۳۳۱ ۳۴۷ تبلیغ کے لئے اخلاق حسنہ کا بلند مقام حاصل کرنا ہوگا ۳۵۸ ۶۲۵ تبلیغ کی دھن پیدا کریں.۶۲۶ اگر ساری جماعت تبلیغ میں لگ جائے تو ساری دُنیا کی ۶۲۶ ۶۲۴،۴۳۷ ،۱۰۷ ۴۷۷ ، ۴۷۶،۴۶۳ کایا پلٹ جائے ۳۵۹ ۳۵۹ تبلیغ سے آپ کی دعاؤں میں غیر معمولی برکت پیدا ہوجائیگی ۳۶۰ خداوالے کی تبلیغ اثر دکھاتی ہے تبلیغ رستہ چلتے چھٹا دینے کا نام نہیں ہے ۱۲۹ تبلیغ کیلئے اچھے دوستوں کی تلاش کریں اور ان کے ۶۴۸ ۱۴۱ ،۱۴۰،۱۳۴ ، ۱۳۳ ساتھ تعلقات بڑھائیں گہری حکمت کے ساتھ کاشت کا نام تبلیغ ہے ۵۴۲ ۵۴۳ ۵۴۳ ۵۴۳

Page 815

ہر داعی الی اللہ کو اپنے قریبی دوست بنانے ہونگے تبلیغ کے فن سے واقفیت حاصل کریں ۵۴۴ تربیت اولاد کے لئے دعائیں مانگیں مغربی ممالک میں تبلیغ میں مشکلات ۵۸۴،۵۸۲ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی نصرت کے بغیر ۳۰۷ اولا د کی اصلاح کی کوشش سب بے کار ہیں کامیاب تبلیغ کاراز حقیقت میں خدا کو پالینا ہے ۳۰۷ تربیت اولاد کے سلسلہ میں محض انسانی کوشش کام نہیں دے سکتی ۳۷۳ با خدا داعی الی اللہ بنیں تحریکات دعاؤں کے ذریعہ پاکستان کی مدد کرنے کی تحریک ۵۳۱ اپنی اولاد میں نیکی دیکھ کر خوش ہوا کریں ۲۷۷ اولاد کی دُنیا کی ترقیات کو سرسری نظر سے دیکھا کریں ۳۷۶ اولا د اعلی اور بلند اور ارفع مقامات پر ہمیشہ رہنے والی بن جانے کی دعا کریں ۳۷۷ اپنی اولاد میں ہمیشہ نیکی کی تلاش میں لگے رہیں ۳۷۷ غرباء کے گھروں میں جا کر اُن کے حالات کا جائزہ لیں ۲۱۶ اولا دور اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہونے کی دعا ۳۷۹ ۲۷ ہر اگلی نسل کو دعا گو بنانے کی تحریک عالم اسلام سے خطرات ٹلنے کیلئے خصوصی دعاؤں کی تحریک ۴۷۳۴۷۲ روس کے لئے واقفیں زندگی کی تحریک ۳۴۵،۳۴۱ ،۳۳۷ ،۳۲۷ ۳۰۷ ۳۰۷ ۵۳۱ تبلیغ کے فن سے واقفیت حاصل کریں کامیاب تبلیغ کا راز حقیقت میں خدا کو پالینا ہے با خدا داعی الی اللہ بنیں رؤیا کے انذاری پہلو کے ٹلنے اور خوشخبری والے پہلو کے جلد ظاہر ہونے کیلئے دعا کی تحریک مسجد واشنگٹن کیلئے چندہ کی تحریک تحریک جدید ٣٠١ اپنی اولا د کو مالی قربانی کی محبت چکھائیں ترقی ترقی کا کوئی آخری زینہ نہیں ترکستان ترکی ۶۸۶،۶۸۵،۶۸۴۶۳۳۶۳۲۴۷۸،۱۱۵ ،۳۹ ۱۳۶ ۳۱ ΔΙ ۶۵۶،۶۵۵،۶۵۴،۶۵۱ ، ۶۴۹ ،۶۴ ۶، ۶۴۵ ، ۶۴۰،۱۷۵ ترکوں کی حکومت بر باد کرنے کے لئے انگریزوں نے سعودی عرب کی مدد حاصل کی.روس میں ترک قوم ترکمان کھیلاتے ہیں زیادہ ترک ترکی سے باہر رہتے ہیں ۴۷۸ ۶۳۲ ۶۸۴۶۳۲ کٹر دش قوم اپنے آپ کو ٹرکش قوم سے بالکل الگ سمجھتی ہے ۶۳۲ ٹر کی ایک ہی قوم پر مشتمل ملک حضرت مصلح موعود کے ذریعہ ۱۹۳۲ میں تحریک جدید کا اعلان ہوا ۶۴۶۰۶۳۵ سلطنت عثمانیہ کا جو وسیع تصور تھا اس نے لاز مادو بار تحریک جدید کے تحت ابتدائی واقفین زندگی کا ذکر خیر ۶۴۵ دفتر اول کے کھاتوں تو زندہ رکھتے کی تحریک تحریک جدید کے تحت ایک کھانا پکانے کی تحریک تحریک وقف نو ۶۵۲ ۷۱۲ جنم لینا ہے ۶۳۲ ۶۳۳ ترک قوم نسلی عصبتیوں کے لحاظ سے تاریخی دور سے گزررہی ہے ۶۸۴ تسکین تسکین قلب دوا دعا سے نصیب ہو سکتی ہے تحریک وقف نو جماعت کی طرف سے اولاد کی زکوۃ ۴۵۳٬۴۵۲ تسکین لقاء سے نصیب ہوا کرتی ہے ۳۰۰ ٣٠٢ تخلیق حیرت انگیز خدا تعالیٰ کی تخلیق کے کرشمے تربیت اولاد ۷۳۰ تصویر کشی بچوں کو تصویر کشی کی تربیت دینے کیلئے کتب کے خاکے ۷۴۷

Page 816

تفرقه تفرقہ لازماً آگ تک پہنچاتا ہے ۷۰۵ ۱۷ ہر قسم کا ظلم فی ذاتہ تقویٰ کے خلاف ہے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسلامی اقدار سے وفا کی جائے ۴۶۶ تقویٰ اور اسلام میں فرق ۳۱۱ تفسیر ملکہ سبا کے پنڈیوں سے کپڑا اٹھانے کے متعلق تقوی کا خدا تعالیٰ کے عرفان سے تعلق ہے ۳۱۴ تقویٰ ایمان کے نتیجے میں ڈھلنے والے عمل کا نام ہے ۳۱۴ علماء کی لغو تفاسیر اور اس کی پر حکمت وضاحت ۶۱ ۶۲ تقویٰ ایک قلبی حالت کا نام ہے تقوی تقویٰ کی ایک تعریف کا عقل کی تعریف پر انطباق 11 اپنے اور اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کے معیار بلند کریں ۵۴۷، ۵۳۷ تقویٰ کا تمام انحصار اللہ تعالے پر ہوتا ہے اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کے معیار بڑھانے کی فکر کرنی چاہیے ۵۵۲ ۵۵۷ ہمیشہ تقویٰ کو عزت دیں کیونکہ خدا تقومی کو عزت دیتا ہے ۶۳۷،۵۵۴ تقویٰ کو پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے تقوی کی جڑیں جتنی گہری ہونگیں اتنا ہی زیادہ ۵۵۸ دلی محبت کا نام تقویٰ ہے ۳۱۴ ۳۱۶ ۳۱۶ ۳۱۶ تقویٰ اسلام کو تقویت بخشتا ہے کسی شخص کے تقویٰ کو براہ راست جانچا نہیں سکتا تقویٰ کے اعجاز اسلام کے پردے سے ظاہر ہوتے ہیں ۳۱۹ تقوی سے دل کو سکینت مل جاتی ہے تقویٰ والے عالم بقاء میں پہنچ جاتے ہیں تقوی در حقیقت خدا کی محبت کا نام ہے خدا کے سپرد ہونا حقیقت میں تقویٰ چاہتا ہے ۳۱۹ ۳۱۹ ۳۲۳ ۳۲۴ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھا میں ۶۹۷ تقویٰ اختیار کر وجیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے تقویٰ کا درخت نشو ونما پاتا ہے جب تقوی دل سے اٹھ جئے تو ہر تم کی روحانی بماری پیدا ہو جاتی ہے ۲۶ ہر وقت خدا کے حضور سر بسجو در ہنا اور اس کی اطاعت کرنا ۴۹۷ تقویٰ سے فراست پیدا ہوتی ہے عقل کل اور تقویٰ دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۴۹۷ آنکھوں کی ٹھنڈک کا تقویٰ سے تعلق باندھنا ۳۷۵ ۳۹۱ اپنی دعاؤں کو بھی تقوی کالباس پہنائیں اخلاق کے بقاء کی بنیاد تقویٰ ، حسن خلق کی بنیاد تقویٰ ۳۸۴ انسانی تعلقات میں دباؤ کے وقت تقویٰ کام آتا ہے ۳۸۳ تقویٰ کے حصول کے لئے دعاؤں کی تلقین متقیوں کا امام بننے کے لئے خود متقی بنیں جہاں انتخاب تقویٰ کی بنیاد پر نہ ہو وہاں ترقی کا رُخ تنزل کی جانب مٹر جاتا ہے ۳۸۲ ۳۷۹ ۳۹۴ محض تقومی کی بنیاد پر اپنے سرداروں کا انتخاب کیا کرو ۳۹۴ جبہ پوش اور دستار بند تقوی سے خالی لوگ ۴۶۰ اسلامی یا غیر اسلامی ملک تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پورا نہیں اتر تا ۴۷۰ تقوی ہے متکبر کے لئے لقاء ناممکن ہے تکبر سے بچنے کے طریق تکبر انسان اور خدا میں جدائی پیدا کرتا ہے تکبر خدا کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا متکبر پر آیت کی تکذیب آتا چلا جاتا ہے تکبر سے بچیں اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں تکبر جیسی کوئی بلا نہیں ہے تکبر دکھانے کیلئے بھی ایک عارف باللہ کی انگلی چاہیے جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں ست ہے وہ بھی متکبر ہے تکبر کے ساتھ جو تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر کیا ہے اللہ تعالی متکبر کا سب سے پہلے سر توڑتا ہے تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو ۶۹۸ 2+1 ۱۷۹ ۱۸۳ 1^2 IAZ ۱۸۹ ۱۹۷ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۲

Page 817

۱۸ شیطان بنا دیتا ہے تکبر اور جھوٹ کا چولی دامن کا ساتھ متکبر قوموں کے لئے کچھ بھی بھلائی باقی نہیں رہتی کوئی تنظیم اپنے کسی ممبر کے ساتھ ہمیشہ جڑ کو نہیں رہ سکتی ۲۰۳ جانوروں کی زندگی اور ان کی آوازوں پر تحقیق کرنے کی ضرورت ۷۳۷ ۲۰۳ مچھلیاں رات کے وقت سمندر میں آواز کے ذریعہ پیغام دیتی ہیں ۷۴۰ ۲۰۶ ۵۴۲ جبر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں اگر تو بہ نہ کی جائے تو برائیاں رفتہ رفتہ نیکیوں کو کھا جاتی ہیں ۵۲۰ جرائم توحید دنیا میں توحید کے قیام کیلئے سچ کا علم بلند کرناضروری ہے ۵۲۹ جرائم کو قوانین نہیں روکا کرتے ۴۲۹ ۵۸۸ جرائم کو روکنے کے لئے صرف خدا سے تعلق کام کر سکتا ہے ۵۸۸ جرمنی ۲۶۳،۱۷۵،۱۲۱،۱۱۱،۸۸، ۳۲۷، ۶۳۲،۴۱۱،۳۲۸، ،۵۱۶،۵۱۵،۶۵۶، ۶۵۵،۶۵۴،۶۴۱ ، ۶۳۹،۶۳۸ ،۶۳۷ ۵۸۵،۵۳۳،۵۳۲،۵۳۱،۵۱۹،۵۱۸،۵۲۹،۵۲۱،۵۲۰ ۵۳۳ ٩٩ شرک اور توحید کے درمیان ایک بیر ہے کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کی اہمیت خطروں کی شدت کے وقت انسان کی تو حید آزمائی جاتی ہے ۵۳۴ آپ حضرت علی کو نماز اور تہجد کیلئے جگایا کرتے تھے ۳۸۸ تہجد رات کے وقت لگنے والا سب سے عالی شان دربار ۲۴۱ مسن تھیچروز یر اعظم برطانیہ تیمور لنگ کے ذریعہ بغداد کی تباہی ٹ،ت ٹانگانیکا ٹوکیو (جاپان) شمود اپنی سرکشیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی قوم ج ۳۲۱،۳۲۰ CLA ۶۴۶ سومساجد بنانے کی تحریک پر یہاں کے نوجوانوں کے غیر معمولی جذبہ کا ذکر ۸۳ ۳۰۷ ۵۱۶ جرمنی جماعت نیکیوں میں ترقی کرنے والی جماعت جرمنی میں پاکستان سے آنے والوں کی اکثریت جرمنی آکر پناہ لینی ہے تو خدا کی پناہ لیں شیطان سے پناہ لیس ۵۲۰ جرمنی کی عدلیہ کا احسان جرمنی کی عدلیہ احمدیوں کے معاملات کو انسانی سطح پر دیکھتی ہے ۵۳۵ جرمنی یورپ میں بہت بڑی قوت بن کر ابھرنے والا ہے ۶۳۷، ۶۳۸ جشن تشکر سال ۶۵۵ | جشن تشکر کے سال کی برکات عظیم الشان سنگ میل والا سال 1+2 ایک لاکھ بیعتوں کے ٹارگٹ کا پورا ہونا ۵۳۲،۵۳۱ ۱۵۳ ۱۵۷ ۱۵۷ جاپان جانور جگنو جگنور وشنی کے ذریعہ پیغام رسانی کرتے ہیں ۶۲۴، ۶۳۷ ، ۶۵۵،۶۵۰،۶۴۱ جگنو چمکنے کے ذریعہ مادہ کو پیغام بھیجتا ہے جلسہ سالانہ ۷۳۲ ۷۳۳ جانوروں میں روشنیوں کے ذریعہ گفت وشنید کا ایک متبادل جلسہ ہائے سالانہ پر احباب کی خوشی و تسکین کا ذکر ۲۹ نظام خدا تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے ۷۳۶ جلسہ سالانہ کے میزبانوں اور مہمانوں کو ہدایات ۴۱۱

Page 818

۱۹ قادیان کی روایات کے مطابق عالمی جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد ہنگامی ضروریات کے لئے الگ معاونین کا ایک شعبہ قائم کریں ۴۱۲،۴۱۱ ۴۱۲ نظام جماعت یا کسی عہدیدار سے شکوہ پیدا ہونے والے کو نصیحت ۶۴ جماعت کے مالی قربانی کرنے کے انداز جماعت احمدیہ کی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی قربانی کا انداز ۷۲ افراد جماعت کی مالی قربانی جماعت کی سچائی کی حیرت جلسہ سالانہ کا انتظام خدا تعالیٰ کے فضل سے کم و پیش انگیز دلیل ہے بیس ممالک میں جاری ہو چکا ہے ۷۳ ۴۱۳ جماعت احمدیہ کے سپر د کی جانے والی عظیم الشان خدمات ۸۵ ہنگامی ضروریات کیلئے مہمانوں سے بھی رضا کار لئے جاسکتے ہیں ۴۱۳ کسی قیمت پر جماعت نے عالم اسلام سے جدا نہیں ہوتا ۹۷ جلسہ سالانہ سے متعلق شکایات سے فوری طور پر خلیفہ وقت کو اطلاع پہنچائی جائے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب ہر وقت مہیا ہوتے ہیں ان کے ذریعہ شکایات پہنچائیں جلسہ سالانہ U.K روٹی پکانے کی بہترین مشین مسلمان عوام الناس کیلئے دعا کی تحریک ۴۱۴۰۴۱۳ جماعت احمدیہ کا ایک عظیم الشان مقصد ۴۱۵ ۴۱۶ ۹۸ ،۹۷ ۱۰۳ جماعت احمدیہ کو مضبوط کڑے کو تھامے رکھنے کی نصیحت ۱۰۹ جماعت احمد یہ عالمگیر کے لئے خوشخبریاں ۱۳۱ جماعت احمدیہ نے محبت کے ذریعہ پین کو اسلام کیلئے فتح کرنا ہے ۱۳۸ ساری دُنیا میں اسلامی تعلیم کی عظمت کے جھنڈے گاڑنے ہیں ۱۳۸ تیار کر کے لگائی گئی ہے جلسہ سالانہ کے موقع پر شکایات کا الگ شعبہ قائم کریں ۴۱۶ آپ کو دل جتنے والا مبلغ بننا چاہئے ۱۳۹ ۱۴۲ ۱۵۰ دلوں کو اخلاق حسنہ سے جیتنے کی کوشش کریں نظم وضبط توڑے بغیر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں جلسہ سالانہ پر غیر از جماعت احباب کو لانے کیلئے مقررہ ۴۲۰ احمدیت اور غیر احمدیت میں فرق جماعت احمدیہ سے محبت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ۱۵۳،۱۵۲ طریق کے مطابق قبل از وقت اجازت حاصل کریں ۴۲۱ جلسہ سالانہ اور قیام نما ز لازم اور ملزوم ہیں ۴۲۲،۴۱۱، ۴۲۵ آپ کسی کی ٹھو کر اور دل شکنی کا موجب نہ بنیں نظامت تربیت کو فعال بنا ئیں کارکنان کو ہدایات دے کر بار بار دوہرائیں ۴۲۲ ۴۲۴ آفاق کے مطالعہ کو اپنی عادت نباؤ ۱۶۴ اپنے وجود کے ذرے ذرے میں خدا تعالیٰ کو تلاش کرو ۱۶۵ اپنے خاندانی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں جماعت اعلیٰ اخلاق کو زندہ کرے ۲۱۳ ۲۱۴ ۴۲۷ غرباء کے گھروں میں جا کر اُن کے حالات کا جائزہ لیں ۲۱۶ ہمارے تمام منتظمین کو دعا کو اپنانا چاہیے اور دعا سکھانی چاہے ۴۲۷، ۴۲۸ خدا کے غریب اور بے سہارا اور کمزور بندوں سے یہ اجتماع محض دین کی خاطر منعقد کیا جاتا ہے ۴۳۷ دلی ہمددری کا جذبہ پیدا کریں وہ رستے تلاش کریں جس سے خدا کا پیار حاصل ہو ۲۲۶ ۲۴۳ ۲۴۷ جماعت احمدیہ احمدیت جماعت احمدیہ کی محنتوں کے لامتناہی اجبر جماعت احمدیہ کا قرآنی تعلیم کی رو سے مقام اور ذمہ داری ۱۵ شہد کی مکھی کی مثال کا جماعت احمدیہ پر اطلاق اور اس کی وضاحت ۱۲ ہماری توانائیاں نیک مقاصد کیلئے خرچ ہوں ادھر ادھر بکھر نہ جائیں ۲۳۸ نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے دعاؤں پر انحصار اور خدا سے جماعت احمد یہ ایک عارفانہ جماعت ہے مولویوں کی نہیں ۲۴۸ جماعت احمدیہ میں تنظیمی لحاظ سے احساس بیداری وہ رستے تلاش کریں جن سے خدا تعالیٰ کا پیار پیدا ہوتا ہے۲۵۳ تعلق قائم کرنے کی تلقین اسلام سے متعلق جماعت کو نصیحت ۲۶ ۶۳ ۲۵۱

Page 819

کوئی لمحہ ایسا نہیں جب آپ خدا کی رحمتوں کے نزول سے عاری ہوں ۲۵۳ اسلام میں دلچسپی پیدا کرنے سے پہلے اپنی ذات ایسی اُمت بنیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرے ۲۵۵ میں غیروں کی دلچسپی پیدا کریں ہارٹلے پول کی نومسلم احمدی جماعت ۲۶۱ احمدی مرد اپنے گھر کے قوام بنیں جماعت احمدیہ کا درخت آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اپنے گھر کے ماحول کو صاف اور شائستہ بنا ئیں ۲۶۹ ۳۵۱ ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۵۷ کو پناہ دے رہا ہے آپ کو رحمتہ العالمین کا غلام بنا ہو گا جماعت احمدیہ کی شاخیں ایک سو بیس ممالک میں پھیل چکی ہیں ۲۶۸ بدلتی ہوئی دُنیا کو ہم نے سنبھالنا ہے جماعت احمدیہ وہ درخت ہے جس کی آبیاری ہم نے کرنی ہے ۲۶۹ پس آپ عروہ میٹھی سے چھٹیں ورنہ برائیاں لازما آپ سے چمٹیں گی ۴۰۹ جماعت احمدیہ کیلئے عظیم الشان خوشخبری ایک رویا کا تذکرہ ۲۸۱ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر دل جیتنے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں ۴۲۲ ساری قوم نے مل کر جماعت احمدیہ کی تکذیب کا فیصلہ کیا ۲۹۰ جماعت احمدیہ کو عظیم الشان غلبے نصیب ہونے کی نوید ۴۳۶ ۳۰۱ ۴۴۹ 7 ستمبر کو جماعت احمدیہ کو خارج از اسلام قرار دیا گیا ۲۹۰،۲۹۱ اللہ ہمیں بچانے والا بنائے ہلاک کر نیوالوں میں شمار نہ ہوں ۲۹۴ تم دنیا کو چین اور سکون کی راہ دکھانے آئے ہو اپنے آپ کو ایسا وجود بناؤ جس میں خدا کا چہرہ دکھائی دینے لگے ۳۰۴ جماعت احمد یہ دعاؤں کے ذریعہ امت محمدی اے کی مدد کو اپنا فرض قرار دے جماعت احمدیہ کو باریک نظر سے اپنی نیتوں کا حساب جماعت احمدیہ کی تن من دھن کی بازی آخری فتح کا سہرا صرف جماعت احمدیہ کے سرلکھا جائے گا ۴۴۹ غلبہ دراصل آپ کو نہیں بلکہ خدا کے چہرے کو نصیب ہوگا ۳۰۵ خدا تعالی کے جلال کے بغیر جماعت احمدیہ کے پھیلنے کی کوئی بھی حقیقت نہیں آپ صاحب خدا بننے کی کوشش کریں آپ کے چہرہ میں خدا دکھائی دینا چاہیے ٣٠٦ لیتے رہنا چاہیے ۴۴۹ ۴۵۶ ۳۰۷ جماعت احمدیہ کو کثرت کے ساتھ خدا والوں کی ضرورت ہے ۴۶۳ ۳۰۸ عالم اسلام کی واحد بچی اور مخلص نمائندگی کرنے والی خدا کی ذات کو اپنی ذات میں جھکتا ہوا دکھانے کی کوشش کریں ۳۰۹ اپنے وجود پر خدا تعالیٰ کو غالب آنے دیں احمدیت کا غلبہ خدا تعالیٰ کے غلبہ کے ساتھ ہوگا جماعت ہے ۳۰۹ جماعت احمد یہ اسلام کا حقیقی در در رکھنے والی جماعت ۴۶۶،۴۵۶ ۴۶۶ ۳۰۹ احباب جماعت کو سنجیدگی اور درد دل سے دعائیں کرنے کی تلقین ۴۸۲ ۳۲۵ بنی نوع انسان سے اسلام کے غلط تصور کو منانے کی کوشش کریں ۳۲۲ اگر عالم اسلام کو بچایا گیا تو اس جماعت کی دعاؤں یا درکھیں آپ کے ساتھ دُنیا کا امن وابستہ ہے جب تک اپنے آپ کے خدا کے سپردنہیں کریں گے جماعت احمدیہ کی جد و جہد بہت ہی اہم اور کٹھن ہے دنیا آپ کے سپرد نہیں کی جائے گی جماعت احمدیہ کے لئے نفوذ کے عظیم الشان مواقع ۳۲۶ ۳۲۸ سے بچایا جائیگا جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرے جماعت احمدیہ پاکستان کا بہترین معیار دنیا میں جماعت احمدیہ یعنی اسلام کی طلب پیدا ہو چکی ہے ۳۴۸ جماعت احمدیہ پاکستان خدا تعالیٰ کے فضل سے جو اسلام جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے حیرت انگریز ہے ۳۴۸ امتیازی طور پر بہتر ہے جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلغی کوشش آپ اخلاق حسنہ سے مزین ہوں ۴۹۷ ۵۱۱ ۵۱۵ ۵۱۶ ۵۱۷ ۳۴۹ ہمیں سچائی کے معاملے میں ساری دُنیا کا راہنما بنا ہے ۵۲۹ ۳۵۱ جماعت احمدیہ کی بقاء کے لئے بیچ پر قائم ہونا ضروری ہے ۵۲۹ احمدیہ کی پر ہونا ضروری ہے ۵۲۹

Page 820

جماعت احمد یہ جرمنی کو خدا کے فضل سے یورپ میں ایک امتیاز جماعت احمد یہ ایک مظلوم جماعت افراد جماعت قدم قدم پر خدا تعالیٰ سے مدد مانگیں کاموں کے بڑھنے کے نتیجے میں خدا سے تعلق بڑھا ئیں اور اس پر انحصار کریں مالی قربانی میں جماعت احمدیہ کی تیز رفتار ترقی جماعت کے ایک طبقہ کو ہمیشہ شدید مالی امداد کی ضرورت رہی ہے خدا کے در کے فقیر بن جاؤ خدا کے نور سے نور یافتہ ہونے کی کوشش کریں دنیا کو ان پیش آمدہ خطرات سے آگاہ کرے ۵۲۱ جماعت احمدیہ کوغلبہ نصیب ہونا ہی ہونا ہے خواہ سوسال ۵۳۲ چار سو سال یا ہزار سال کے بعد ہو جماعت احمدیہ نے ہرگز ایک دفعہ بھی ایران کے ظلم ۵۴۲ کی تائید نہیں کی ۵۵۰ دنیا سے ظلم وستم کو مٹانے کے لئے جہاد شروع کریں دنیا میں امن کیلئے عالمگیر جہاد شروع کر دینا چاہئے ساری دُنیا میں ایک ہی جماعت ہے جو خدا تعالیٰ کی ۵۶۷ ۵۶۸ خلافت کی رسی سے وابستہ ہے ۵۷۳ جنرل جمال عبدالناصر مصر کے صدر ۶۱۰ جمعه ۶۸۰ ۶۸۸ ۶۹۰ ۶۹۲ ۶۹۵ ۷۰۸ ۴۸۶ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دعا گو جماعت ہے ۶۱۲ جمعۃ الوداع کو جمعۃ الوصال بنادیں ۲۲۰،۲۱۹، ۲۳۵،۲۳۲،۲۳۱ یہ صدی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے غلبہ کی صدی ثابت ہوگی ۶۱۵ جنت احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے میں معاشرے کی مخالفت کی روک ہمارا مقابلہ دہریت سے ہے ۶۱۶ ۶۱۶ جماعت احمدیہ کو خالص اسلامی معاشرے کو اختیار کرنا ہے ۶۱۹ جرمن معاشرے کی بعض خامیوں کا تذکرہ ۶۲۱ جماعتیں اپنے ملک کے لحاظ سے Study groups بنائیں ۶۲۴ جماعت احمدیہ کو آئندہ صدی میں پیش آنے والے خطرات کا تذکرہ حقیقت میں جنت کا آغاز اسی دُنیا سے ہو جاتا ہے نسلاً بعد نسل یہ جنت ان میں چلتی چلی جائے گی دعاؤں کے ذریعہ آپ کے گھر دیکھتے دیکھتے جنت نشان بن جائیں گے جنگ جنگ بدر جیسی غالب اور فیصلہ کن فتح کبھی کسی کو ۶۲۶، ۶۲۷ نصیب نہیں ہوئی ہوگی جماعت احمدیہ در حقیقت اسلامی قدروں کی حفاظت کیلئے عرب اور ایران جنگ کا پس منظر قائم کی گئی ہے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا احیاء نو جماعت احمد یہ نہ صرف زندہ بلکہ زندہ تر ہے احمدیت کی ترقی کودنیا میں کوئی نہیں روک سکتا ۶۳۰ ۶۴۷ ۶۵۲ جونا گڑھ ریاست حاجی جنود اللہ صاحب ۶۶۱ جہاد ہمارے لمبے سفر ہیں ہمارا قیام مشکلات کی منازل پر نہیں ہے ۶۷۵ تلوار کے جہاد کی کوئی حقیقت نہیں آپ ایسے لمبے سفر والی قوم ہیں جن کی آخری منزل قیامت سے ملی ہوئی ۶۷۵ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ جھوٹ ہے وہ ہاتھ شل کر دیئے جائیں گے جو احمدیت کو دُنیا سے مٹانے کیلئے آج اٹھے ہیں یا کل اٹھائے جائیں گے ۶۷۷ جھوٹ کے نتیجے میں مشرقی دنیا دن بدن بدتر ہوتی چلی جارہی ہے ۱۹۴ ۳۷۱ ۳۷۱ ۳۹۲ ۲۷۴ ۴۴۷ ، ۴۴۵ ۶۶۳ ۱۳۶ ۵۱۶ ۵۱۶

Page 821

۵۳۶ ۶۹۴ ۲۶۴ جھوٹ اُم الكبائر جماعت احمد یہ جھوٹ کے خلاف جہاد شروع کرے ۵۱۶ ۵۱۶ جہنم جہنم میں ایک شخص آگ کے تنور میں پڑتا ہے پھر وہ کوئی قوم دنیا میں ترقی نہیں کرسکتی جس کے اندر جھوٹ باہر نکلتا ہے اور دوبارہ تنور میں داخل ہوتا ہے کی بیماری موجود ہو جھوٹ تو خدا کے سامنے بولا جاتا ہے بندوں کے ساتھ اس کا کیا تعلق جھوٹ کی سرزمین سے ہجرت کر کے سچائی کی زمین میں داخل ہو جائیں جھوٹ کو شرک کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے ۵۱۶ ۵۱۸ ۵۲۰ ۵۲۱ دراصل جنت اور جہنم اسی دُنیا میں بنتے ہیں جسٹس جے Justice J.Dechene چ ، ح چرچل اللہ والا بنے کیلئے ضروری ہے کہ جھوٹ کا قلع قمع کیا جائے ۵۲۲ چک سکندر میں علماء کا یوم بدرمنانے کا عزم ۲۷۵،۲۷۴ ایک جھوٹ سے پھر دوسرا جھوٹ دوسرے جھوٹ سے تیسرا جھوٹ شروع ہو جاتا ہے ہمارے ملک پاکستان یا ہندوستان جھوٹ کی وجہ سے موت کے کنارے تک پہنچے ہوئے ہیں جماعت نے ہر گز کسی جھوٹ کی تصدیق نہیں کرنی ۵۲۵ ۵۲۷ ۵۲۷ چین ۶۹۰،۶۸۹،۶۸۴،۶۵۸ ،۶۴۹ ،۶۴۰،۶۳۹ ،۶۳۷ ،۶۲۴ ،۱۳۶ چین کا فلسفہ اشتراکیت حبل اللہ ۶۳۹ اگر جھوٹ نہ ہو تو لازماً انصاف حاصل ہوگا اگر جھوٹ نہ ہو تو رشوت پنپ ہی نہیں سکتی ۵۲۷ ہر صاحب شریعت نبی حبل اللہ بن جاتا ہے ساری کی ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد خدا کی رسی کو پکڑنا کافی نہیں خدا کی رسی کو اجتماعی طور ۵۲۷ حبل اللہ سے مراد خدا کا عہد جو بندوں کی حفاظت کرتا ہے ۷۰۲ بلند کرنا چاہئے ہر جگہ، ہر ماحول میں، اور ہر مجلس میں جھوٹ کے خلاف جہاد کریں ۵۲۸ پر پکڑ نا ضروری ہے ۵۲۹ حبل اللہ زندگی کی واحد ضمانت حسن جھوٹا شخص خدا سے تعلق کاٹ کر شیطان سے تعلق قائم کرتا ہے ۵۳۳ حسن اگر ہوگا تو نہ وفا کی ضرورت ہے نہ جفا کا سوال جھوٹ انتہائی گہرائی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں رائج ہو چکا ہے جھوٹوں کی ہر گز مددگار نہیں ہوگی جماعت احمدیہ کے ادارے اور ذیلی تنظمیں جھوٹ کے خلاف جہاد کریں جھوٹ ثابت کرتا ہے کہ انسان حنیف نہیں رہا تیسری دُنیا کے مسائل کی جڑ جھوٹ ہے عام مغربی سوسائٹی جھوٹ نہیں بولتی ہر حسین چیز کو خدا تعالے حسن عطا کر رہا ہوتا ہے ۵۱۹ انسان حسن کی تلاش میں زندگی بسر کر دیتا ہے ۵۲۷ ۵۱۹ ۴۵۹ ۵۱۵ ۵۱۹ حفاظت ۷۰۲ ۷۰۳ 2+9 ۷۱۴ ZIA ۷۵۱ شہد کی مکھی کی مثال میں حفاظتی انتظامات کرنے کی تلقین کے حکمت حکمت کے بغیر مومن کی کوئی حیثیت نہیں ۶۶۲ حکمت کی بات مومن کی گمشدہ اونٹنی کی کیحیثیت رکھتی ہے ۶۲۲

Page 822

۲۳ حمد ربوبیت کا حمد سے ایک بہت گہرا تعلق ہے حمدحسن کے ہوتے ہوئے بھی ختم ہو جایا کرتی ہے کوئی ایک زندگی کا ذرہ بھی نہیں جو باعث حمد نہ ہو خدا تعالیٰ کی حمد ساری کائنات میں عظیم تر وسعتوں کے ساتھ بکھری ہوئی ہے علم سے حمد بڑھتی ہے ۷۱۵ ۷۱۵ 217 212 ۷۲۳ حمد کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے محبت اور تعلق پیدا کریں ۷۴۴ خدا سے حمد کا تعلق بڑھائیں حمل اسقاط حمل کس حد تک اور کب جائز ہے چوہدری حمید اللہ صاحب حضرت حنظلہ حنیف حنیف سے مراد ایک طرف جھکا ہے ۷۴۶ ختنه افریقہ میں مذہب کے نام پر عورتوں کا ختنہ کرنے کا ظالمانہ رواج خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ جرمنی ۶۲۱،۶۲۰ ۵۴۱،۵۲۲،۲۵۱،۱۷۳،۱۷۱،۱۲۲،۱۲۱ ۵۳۴،۵۳۱،۵۳۵ خدام الاحمدیہ برطانیہ اجتماع خدام الاحمدیہ پاکستان صدر مجلس خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ قرآن کریم سکھانے اور نماز میں سکھانے کے پروگرام بنائیں ۵۹۹ حضرت خدیجه ۳۱ ۴۳۳ خلافت نظام خلافت سے کٹنا ہی اتنا بڑا عذاب ہے کہ اُس کا دُکھ برداشت نہیں ہو سکتا حبل اللہ سے مراد خلافت ہے ۴۵۳ نظام خلافت جمعیت عطا کرتا ہے ۳۷۸ ۵۴۸ ۲۶۵ ۲۱۱ ۴۰۸ ۶۹۷ ۷۰۳ حنیف ! ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والا ۴۵۵ ، ۴۵۷ خلافت کے سوا کوئی دنیا کا نظام جمعیت پیدا نہیں کرتا ۷۰۴ جھوٹ ثابت کرتا ہے کہ انسان حنیف نہیں رہا ۴۵۹ کسی فرقے میں وہ جمعیت نہیں جو نظام خلافت میں ہے ۷۰۴ حیدرآباد (پاکستان) حیدر آباد دکن حیوانات ۲۷۳،۱۷۱،۱۰۷ ،۹۶ ۶۶۳ جب خلافت ایک دفعہ بکھر جائے تو پھر دوبارہ نبوت کے ذریعہ قائم ہوتی ہے خلافت احمدیہ خلیفہ ۷۰۴ ۶۵۲،۶۴۸ ،۶۴۷ سائنس دانوں کا حیوانات کو درجوں میں تقسیم کرنے کا طریق اور قرآن کریم خاطبہ.سپین خ خاندانی منصو به بندی ۹ خلیفہ کا حاصل کرنے کا مقام اور جماعت کو اپنی سوچوں کا نچوڑ خلیفہ کے سامنے پیش کرنے کی تلقین ۱۳۳ ۱۳۴ خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کے وہ حضرت مسیح موعود ۱۷ علیہ السلام کے مہمانوں نوازی کے فرائض سرانجام دے ۴۱۴ خلیفہ وقت سے رابطہ براہ راست ہونا چاہئے ۵۴۸ برتھ کنڑول اور خاندانی منصوبہ بندی کی ممانعت ۵۷۶ خلیج کے تنازع کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کریں ۴۶۵

Page 823

۲۴ خلیج کی جنگ کا مقصد ایک ابھرتے ہوئے اسلامی ملک حال پر راضی نہیں رہنا چاہیے بلکہ دعاؤں کے ذریعہ ۶۶۶ | مستقبل کی تلاش جاری رکھیں ۳۸۵ کو ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کر دینا ہے خلیج کی جنگ کے لئے دولت کے پہاڑ سعودی عرب دعا وہی مقبول ہوتی ہے جو دل کے جوش کے ساتھ کی جائے ۳۸۹ سے وصول کئے جائیں گے امام خمینی ۶۶۶ آپ کی دعائیں محض طبعی خواہشات اور تمناؤں کے تابع نہ ہوں ۳۹۰ دُعا کریں اور دعا کروائیں اور دُعا کے سلیقے سکھائیں ۴۲۸ امام خمینی نے ایک لمبا عرصہ فرانس کے اثر اور تائید سے دُعا کے ذریعے مانگ کر جو چیز ملتی ہے اُس کا مزہ ہی اور ہے ۴۲۸ مہم جاری رکھی مغرب نے ہی ضمینی ازم کی بناء ڈالی خوشاب ۴۸۸ عالم اسلام سے خطرات ملنے کیلئے خصوصی دعاؤس کی تحریک ۴۷۳٬۴۷۲ ۸۸ اور پر اسلامی دنیا کی ترقی اور امن مسیح محمدی کی دعاؤں پر منحصر ہے ۴۸۵ ۶۴۹ محمد مصطف اللہ کے سائے میں پلنے والی دعائیں بھی نا کام نہیں جایا کرتیں دعا کے ذریعہ ہی ان قوموں پر غلبہ پایا جاسکتا ہے دارالندوہ کا قومی فیصلہ بھی 7 ستمبر کو ہوا تھا ۲۸۹ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے سب سے پہلا خیال داغستان حضرت داؤد علیہ السلام حضرت میر داؤ داحمد صاحب جسٹس دراب پٹیل دعا مومن کا دعا کے ساتھ اٹوٹ تعلق دعا اور اسباب خالصہ دعا پر انحصار کی مثالیں ہر اگلی نسل کو دعا گو بنانے کی تحریک ۱۱۸ ۶۸۷ ۳۴۲ دعا کا ہونا چاہئے ۴۹۶ سات سات پشتوں تک دعاؤں کا فیض پہنچتا رہتا ہے ۶۵۲ اگر آپ بزرگوں کو دعاؤں میں یادرکھیں گے تو آئندہ نسلیں آپ کو دعاؤں میں یا درکھیں گی ۶۹۴ دعاؤں کے ذریعہ ہی ہم نے تمام دُنیا میں اسلام کو از سرنو غالب کرنا ہے ۲۱ ۲۲ ۲۴ ۲۷ ۱۴۳ دعاؤں کی قبولیت کے لئے باخدا بننا ضروری ہے دعاؤں کے ذریعہ حیرت انگیز نشانات ظاہر ہوتے ہیں ۱۴۳ سجدے میں مانگی گئی دعا ئیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں خطرات کے وقت دعاؤں کے ذریعہ قبولیت دعا کے نشانات ۳۰۹ کوئی کام بھی بغیر دعا کے بابرکت نہیں ہوتا دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو بد انجام سے بچنے کے لئے دعاؤں کی تلقین ۱۸۳ ۳۶۰ ۶۵۳ ۶۵۴ دعا میں جو برکت ہے دُنیا کی کسی تدبیر میں نہیں ۶۵۹،۶۵۸ ۷۰۸ دعاؤں کے بغیر دلوں کے قفل نہیں کھل سکتے دعا کرنے والا کہ رہا ہوتا ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا واء جو دعائیں مستجاب ہونے کا حق رکھتی ہیں وہی مستجاب ہوتی ہیں ۷۲۱ دعاؤں کی بھی ایک سائنس ہے منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کی دعائیں کریں سارے دکھ عارضی ہیں دُنیا کی ساری حقیقتیں بے معنی ہیں ۳۰۳ دنیا ۳۷۲ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق نصیحت ۳۸۲ دنیا کی تبدیلیوں کو امن کی تبدیلیاں کہنا درست نہیں دعاؤں کے بغیر خاندانی تعلقات سدھر نہیں سکتے ۳۸۳ ان سے جنگیں بھی جنم لے سکتی ہیں ۷۲۱،۷۲۰ ۷۶۳ AL ۹۱

Page 824

۲۵ دنیا کی کوئی چیز بھی کلیتہ فائدہ سے خالی نہیں ہوتی ۲۷۱ ڈپلومیسی کو اسلامی اصطلاح میں دجل کہا جاتا ہے دنیا داروں کے چہروں پر ایک قسم کی بے قراری نظر آ جاتی ہے ۳۵۴ مغربی دنیا ڈپلومیسی اور سیاست کے نام پر دجل کو اپنے اہل دنیا سے پیار صرف اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب خدا تعالی سے پیار ہو عروج تک پہنچا چکی ہے ۴۶۱،۴۶۰ ڈنمارک دنیا ظاہر پر فتوی دیتی ہے اور ظاہر پر ہی فیصلہ کرتی ہے ۴۹۹ ذکر الہی چالاکیوں اور نفسانیت سے دُنیا کے مسائل حل نہیں ہو نگے ۴۹۷ تیسری دُنیا کے گمبھیر مسائل تیسری دُنیا کے مسائل کی جڑ جھوٹ ہے تیسری دُنیا کی کمزوریاں مغربی دنیا کے مالی نظام سے مشرقی دُنیا کو خطرات ۵۱۵ ۵۱۵ ۵۱۵ ۵۱۶ ذکر الہی کے سوا تمہیں کبھی سکون نصیب نہیں ہو سکتا خدا تعالے کی تخلیق پر غور کرنے سے ذکر الہی کی طرف توجہ ہوتی ہے ذکر الہی کے مضمون کو سمجھیں اور یہی حمد ہے ۴۷۲ ۳۰۱ ۷۳۰ ۷۴۴ اس دُنیا کو آج دلائل سے بڑھ کر خدا والوں کی ضرورت ہے ۵۴۲ عمر بھر کے ذکر الہی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی روشنی ۷۴۴ Waste Material کا کیا کریں یہ تو دنیا کیلئے یلی تنظیمیں عذاب بنتا جا رہا ہے دودھ جانوروں کا غذا کی ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی غذا دودھ پیدا کرنا مولا نا دوست محمد صاحب شاہد دین دیندارلوگوں کے دو طبقے دین حاصل کرنے کیلئے سفر اختیار کرنا اپنا دین خدا کی راہ میں خالص کرنا وز ۸۶ ذیلی تنظیمیں کے سپر د قرآن کریم پڑھانے کی کام ۶۴۸ ۵۵ ۲۶۳ ۴۵۶ ۲۶۳ ذیلی تنظیمیں مغربی معاشرے سے بچاؤ کیلئے پروگرام بنائیں ۵۴۱ ربوه ۲۲۱،۲۲۰،۲۱۶،۳۱ ۷۳۱،۵۳۱،۴۲۳،۴۱۸ ،۴۱۵ ، ۴۱۲۰۴۱۱،۲۲۴ ۲۲۲ ماں کے رحم کا خدا تعالیٰ کے رحم سے کا تعلق رشوت ستانی مشرقی دُنیا میں رشوت ستانی کا عام ہونا رمضان المبارک / روزه / صوم ۷۸۴ ۱۰۴ ۵۱۰ ڈائنوسار ڈائنوسار اور ان کی ہلاکت 1.رمضان المبارک کو اظہار تشکر کا رمضان بنادیں ۱۴۵ Danid Attenlro agh جانوروں کے حالات رمضان المبارک میں لقاء باری تعالٰی کی دعائیں مانگیں ۱۴۶ رمضان تمام عبادتوں کا خلاصہ ۷۳۴۷۳۲،۷۳۰، ۷۵۰۰۷۴۹،۷۴۰۰۷۳۵ رمضان المبارک میں اپنے نفوس کا جائزہ لیں زندگی فلمانے کا ماہر مصنف ڈپلومیسی ڈپلومیسی کے دجل ۶۹۳ رمضان المبارک کی عبادات کو سارا سال جاری رکھنے کی کوشش کریں ۲۳۵ ۲۱۳ ۲۴۱

Page 825

۲۶ رمضان کی برکات سارا سال اپنی جھولی میں ڈالنے کی حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی اقبال کے شعر پڑھنے کوشش کریں مولوی رمضان علی صاحب انگلستان روح جب روح باقی نہ رہے تو جسم کی عظمت کی کوئی حیثیت نہیں ۲۴۲ ۶۴۸ ۱۳۶ والی رویا چندوں کی تحریک نظام جماعت از خود کرنے کے متعلق ایک صاحب کی رویا رویا میں مولوی ظہور حسین کو حضرت مصلح موعود ضیا تبلیغ کرنے کی طرف توجہ دلانا بعض دفعہ کھڑے کھڑے روحیں سجدہ ریز ہو جایا کرتی ہیں ۱۸۳ حضرت مصلح موعود کا طاہر احمد نام کے بچہ کے ہمراہ روس ہر مذہب روح کو اہمیت دیتا ہے بدنوں کو ثانوی حیثیت میں جانے کی رؤیا دیتا ہے ۵۳۵ خدا کے قرب کا جلوہ ہی روحوں کیلئے جنت بن جائے گا ۵۳۷ ایک مبارک رؤیا کا تذکرہ ز ۱۱۶ ۱۱۷ ۲۲۲۲۲۱،۲۲۰ ۵۹۹ نفخ روح سے مراد روس ۳۲۷ ،۱۳۶،۹۳ ،۹۲،۸۹ ،۸۷۱۱۹ ،۱۱۸،۱۱۷ ۳۴۷ ،۳۴۲،۳۳۴،۳۳۸ ،۳۳۵،۳۳۴،۳۳۲،۳۳۱،۳۳۰ ۶۸۶،۶۸۵،۶۸۴۶۷۹ ،۶۵۸ ،۶۵۶ ،۴۸۹،۴۶۸ ،۳۵۰ زار روس ڈاکٹر زبیدہ طاہر ہاشمی کراچی جنازہ ۶۳۴۶۳۳،۶۳۰، ۶۴۰،۶۳۹،۶۳۷ زکوة روس میں احمدیت روس کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کا ذکر زکوۃ بھی تب قبول ہو گی اگر اللہ تعالے سے پیار ہوگا ۳۳۵،۳۳۴،۳۳۳۳۳۲،۳۳۱، ۳۴۴،۳۴۰،۳۳۹ | تمام انسانی طاقتوں پر زکوۃ واجب ہے روس میں سب سے پہلا احمدی جیل میں ہوا ہے اس ۱۱۴ زکوۃ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا ملتی ہے زندگی ۱۱۶ ۳۴۳،۳۴۲،۳۴۱ کا نام عبد اللہ خان تھا روس زبان میں تراجم کی اشاعت ضروری نہیں کے ہر احمدی روس ہی جائے اور بھی ممالک ہیں ۳۵۰ روس کسی ایک قوم کے باشندوں پر مشتمل نہیں ہے روس ٹوٹ رہا ہے اور بکھرنے والا ہے ۶۳۱ ۶۳۳ کوئی ایسی زندگی نہیں جس کا انجام موت نہ ہو اپنی زندگی کی بقا اپنی اولاد کی صورت میں دیکھنا روحانی ہجرت زندگی کے ہر لمحے پر ہوسکتی ہے مرنے کے بعد خدا اور بندے کی روح درمیان سے روس اور امریکہ کے درمیان صلح کا انقلابی دور ۶۹۲۶۸۰،۶۷۹ پردے اٹھا دیئے جائیں گے روس میں نسلی عصبتیوں کے بہت سے خطرات دکھائی دیتے ہیں ۶۸۴ قرآن کریم نے ہمیں زندگی کا فلسفہ سکھایا ہے رویا حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی دنیا کا جماعت کی مد دکو دوڑے چلے آنے والی رویا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی تیر کر دریا عبور کرنے والی رویا ۲۵ ۲۸ وہ پرندہ بہنیں جو خدا سے زندگی حاصل کرے مرنے کے بعد کی زندگی کا تصور انسانی زندگی کا سفر سراب کی طرح ہے ۶۳۳،۱۱۴ ۱۷۶ ۴۶۱ ۴۶۲ ۵۷۳ ۲۹۵ ۲۹۹ ۵۳۶ ۵۳۷ ۵۴۱،۵۴۰ سراب کی زندگی سے مراد خالص دنیا داری کی زندگی ہے اپنی زندگی کے ہر لمحہ نگران رہو ۵۴۵ ۵۸۷ ۶۰۰ ۶۰۲ ۶۹۸

Page 826

۲۷ زیارت قبور سرحد صوبہ ابنیاء بھی قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے ۵۹۳ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب ورشاہ قبروں کی زیارت دراصل موت کو یا درکھنے کے لئے ۵۹۳ س سان فرانسسکو (امریکہ) سائنس سائنس میں super neva کا ذکر سیا ملکہ چین ۷۳۹،۲۵ سری لنکا سعودی عرب ۱۰۷ ۵۵۸ ۶۴۶ ۶۹۱،۶۶۶،۶۴۲،۴۷۸ ، ۴۷۷ ، ۴۶۴ ، ۱۴۶۱ ،۴۶۰ سعودی عرب کے تمام مفادات امریکن مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکے ہیں ۳۷ سعودی عرب نے اپنے آقاؤں کو فوری طور پر ۵۹ مداخلت کی دعوت دی ۱۴۴ ۱۴۱ ،۱۴۰،۱۳۹،۱۳۸ ،۱۳۶،۱۳۵،۱۳۴ ۱۳۳ ۱۳۷ ۱۴۱ ،۱۴۰ سپین میں سپینش احمدی پیدا کریں سعودی عرب میں بعض احمدیوں کو قید کی سزا سعودی عرب کے اکثر خزانے امریکہ میں موجود ہیں سکاٹ لینڈ سپین میں نئی شان کے ساتھ اسلام کا زندہ ہونا سپین میں آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی سلویکیا سپین کی اسلامی مملکت کا پوپ کے ساتھ معاہدہ کرنا ۴۷ | حضرت سلیمان علیہ السلام سپین کے آثار باقیہ کے نشانات کا مطالعہ سپین میں علاقائی تنازعات ناسور کی شکل اختیار کر ۵۷۰ چکے ہیں سپینش چ ۱۵۶ ۱۵۵ ۱۵۴ ۱۵۳ ۱۵۲ ۱۵۱،۱۲۹،۱۲۷ ۶۹۴۶۸۴۶۵۶،۴۷۷ ، ۴۷۶ ۴۷۴ ۵۸۰ ۶۳۷ ،۶۳۱ ۶۸۹ ۶۲۶۱،۶۰ قرآن میں آپ کا ملکہ سبا سے ملاقات کا بیان فرمودہ واقعہ ۵۹ حضرت سلیمان کو پرندوں اور جانوروں کی زبان سکھائی گئی ۷۳۷ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی غیر معمولی حکمت عطا کی تھی سماج ۷۳۸ بعض اوقات سچ بولنے کا رجحان بچوں میں بڑی نسل سے زیادہ پایا جاتا ہے.سچ اور توحید ایک ہی چیز کے دو نام سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کریں ۵۲۸ ۵۲۹ ۵۳۱ سماج کی قوت بعض دفعہ بدیوں سے روکتی ہے ۶۱۶ اسلام کے مقابل پر مغربی سماج سامنے آکھڑا ہوتا ہے ۶۱۷ پاکستانی یا دیگر قومی سماج کو ہم اسلام کا نام نہیں دے سکتے ۶۱۷ سماج کو راضی کرنے کیلئے ہم اسلامی اقدار کو قربان نہیں کر سکتے سماج کی خاطر اسلام میں تبدیلی نہ کرو سچ بولیں خدا تعالیٰ کی تقدیر خطرات کے گھیروں کو توڑ دے گی ۵۳۵ سمر قند (روس) دنیا میں توحید کے قیام کیلئے سچ کا علم بلند کرناضروری ہے ۵۲۹ سربیا ۶۸۹ سندھ ۶۱۷ ۶۱۹،۶۱۸ ۳۳۸ ۶۶۹،۲۷۳،۱۲۰،۱۰ ،۹۶

Page 827

۲۸ > سنسکرت زبان سورة فاتحہ ۶۸۲ ۷۱۲ سورۃ فاتحہ کا عرفان حاصل کر کے نماز ادا کریں سورۃ فاتحہ ہر مسئلے کا حل اپنے اندر رکھتی ہے سورۃ فاتحہ میں درحقیقت تمام سوالات کا حل ہے کوئی دنیا کا مسئلہ نہیں جس کی کنجی سورۃ فاتحہ میں نہ ہو ۷۱۲ سورۃ فاتحہ کو ام الکتاب بھی کہا گیا ہے سورۃ فاتحہ میں چار صفات باری تعالیٰ کا ذکر شام ۱۲ شاہ حسین اردن کے بادشاہ ۷۱۲ ۷۱۳ چوہدری شاہنواز صاحب مرحوم شراب ۴۶۸ ۶۴۹ ۴۶۷ ۱۹۵،۱۷۷ ،۱۷ سورۃ فاتحہ کے شیشوں سے آپ خدا کی بدلی ہوئی شان دیکھ سکتے ہیں ۷۲۱ قرآن کریم کی حرمت اور پھر شراب کو بطور نعمت بیان ۷۲۸ کرنے کے احکام کی وضاحت سورۃ فاتحہ میں حمد لفظ ساری لذتوں کی کنجی ہے سورۃ فاتحہ پر غور کرنے سے نماز کا ذوق حاصل ہوتا ہے ۷۴۷ شراب کا فسق و فجور سے گہرا تعلق ہے سورۃ فاتحہ میں بیان فرمودہ چار ام الصفات ۷۵۷ شراب ام الخبائث ۷۸۸ | شرق اوسط ساری کائنات کی ماں سورۃ فاتحہ سوسائٹی عام مغربی سوسائٹی جھوٹ نہیں بولتی شرق اوسط کا علاقہ صدیوں سے مسلسل انحطاط کا شکار ۵۱۹ شرق اوسط میں تمام بے چینی کی جڑ اسرائیل ہے ۵ ۵۱۶ ۴۸۵ ۴۸۶ سوسائٹی کی تمام بد عادات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے ۵۲۶ شریعت سوئٹزرلینڈ سویڈن سی آئی اے (C.I.A) سیاست ۶۵۶،۳۰۶ کیا شیطانی اعمال پر بھی اسلامی شریعت نافذ ہوسکتی ؟ ۲۷۴ ۶۵۶،۶۳۸ اسلامی شریعت کے مطابق اپنے مسائل حل کریں مولانا شریف احمد امینی صاحب مرحوم ۳۸۲ ۱۷۵ اسلامی سیاست کا فی الحال دنیا میں کہیں نمونہ دکھائی نہیں دیتا ۶۷۹ اسلام کی سیاست شاطرانہ چالوں سے پاک ہے ۶۷۹ وَاللَّهِ إِنَّ مُحمداً....من كان يلبس كلبه شي من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی سیاست کو عدل سے روشناس کرانے کیلئے جہاد شروع کریں ۶۹۳ الله الحمد هر آن چیز کے خاطر میخواست سیالکوٹ سیرالیون ۶۴۸ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار ۶۵۶ تھا جنہیں ذوق تماشہ وہ تو رخصت ہو گئے دیار مغرب سے جانے والو د یار مشرق کے باسیوں کو ۲۱۰ ۴۸۷ ۳۱۵ ۳۳۱ ۴۵۰ ۳۱،۳۰ ۸۶ حضرت ملک سیف الرحمن صاحب تمہیں مٹانے کا زعم لے کر اٹھے ہیں جو خاک کے بگولے ۸۶ آپ کے کتبہ کی عبارت کا ذکر ۳۰ ۳۱ | بساط دنیا الٹ رہی ہے حسین اور پائیدار نقشے ۸۶

Page 828

۲۹ ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں (پورا بند ) یہ تو خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں مجھے دیکھتا جو نہیں ہے تو یہ تری نظر کا قصور ہے (پوری نظم) بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں (پوری نظم) آنکھوں میں ہیں انا کے ہمالے پڑے ہوئے جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا دریائے معاصی تنگ آبی سے ہوا خشک ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد آؤ لو گو کہ یہیں نو ر خدا پاؤ گے میں بلاتا ہوں ان کو مگر اے جذ بہ عدل رات پی زمزم پر مے اور صبح دم یہ روز کر مبارک سبحان من بیانی ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے پردے جو تھے ہٹائے اندر کی راہ دکھائے یار سے چھیٹر چلی جائے امید ہے پرے سر حد ادراک سے اپنا سجود بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیٹرے کا بشر ہرگز شعراء نظر سے تعلق رکنے والی لذت کو اپنے کلام میں ذکر کرتے ہیں حضرت شعیب علیہ السلام شفاء سورۃ فاتحہ کے نام شفاء ہیں شہر میں بنی نوع انسان کے لئے عظیم الشان شفاء ۲۰۸،۲۰۷ ۱۶۸ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۲ حضرت مولوی شیر علی صاحب ص ض صالحہ ایاز بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مختار احمد ایاز صاحب ۵۵۸ KY ۱۹۸ اگر صبر کی طاقت نہیں تو پھر عبادت کی بھی طاقت نہیں ۲۳۳ ١٩٩،١٩٨ ۳۰۰ ۳۰۰ صحابه رسول الله ۶۵۳،۵۷۰،۵۳۳،۵۱۸،۴۳۳،۱۴۷ ۵۶۹ ۳۰۴ صحابہ رسول ﷺ کی مالی قربانیاں ۳۲۳ ۵۸۹ ۶۰۱ ۶۱۰ ۶۹۲ ۷۵۹ ۷۵۲ صحابہ رسول "بڑی تعداد میں مسجد کے صحن میں پڑے رہتے وہیں دن رات بسر کرتے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صداقت ۵۶۹ ۶۴۶،۵۵۴۰ ۴۵۷ ،۳۰۵ ۴۹۴ ،۴۸۸ ،۴۸۶،۴۶۸ ،۴۶۷ ۴۸۶ ۴۹۰ صداقت اپنے آپ کو خود منواتی ہے صدام حسین صدر عراق ۴۰ صدام حسین ، عراق کو پاگل لیڈر کے طور پر پیش کئے جانا Δ Δ ۳۵۰ ایران سے بدلہ لینے کیلئے صدامیت کو پیدا کیا گیا صدام کو دور کر نا عراق کی بربادی عالم اسلام کی مزید ۳۹۸ ۴۹۴ صدام حسین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ہر پہلو سے چل دیا جائیگا ۶۴۲ تباہی کا موجب بنے گا.۴۰۰ ۴۰۰ شکر خورے کو خدا شکر دے ہی دیتا ہے (محاورہ) مکرم شمس الدین صاحب در ویش قادیان شملہ ( ہندوستان) شهد شہد میں بنی نوع انسان کے لئے عظیم الشان شفاء صدر انجمن احمدیه ناظر صاحب امور عامه ۳۳۵ ناظر صاحب اصلاح وارشاد Δ صدی دیوار برلن کا گرایا جا نا صدی کا اہم ترین واقعہ

Page 829

۳۵۴ ۲۱ ۱۷۶ ۱۵۵ جماعت احمدیہ کی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے ۱۴۵، ۱۵۷ وقف جدید میں غیر احمدی عورتیں اپنی امانتیں صوفی صوفی بننے کا شوق بھی یورپ میں چلا صوفی کہتے تھے کہ سب واہمہ ہے اور کوئی حقیقت نہیں ضیاءالحق جنرل کا تار یک دور ۳۰۶ ۳۱۸ ۲۹۱ آپ کے پاس رکھواتی تھیں آپ کی دعا کے متعلق تحریرات الگ شائع ہونے کی حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خواہش طاہر احمد صاحب ڈاکٹر کراچی مولا نا کرم الہی ظفر صاحب آخر انتہائی ذلت کے ساتھ نامراد اور نا کام اس دنیا طاہرہ صاحبہ بنت سے رخصت ہوا ضیاء کا گیارہ سالہ دوراحمد بیت کی ترقی کو دنیامیں روک نہیں سکا طاغوت bob طاغوت کے لغوی و تشریحی معانی 922 1+1 طغیانی و سرکشی اچانک نہیں آتی بلکہ پہلے آثار پیدا ہوتے ہیں ۱۰۹ طغیانیاں زور پکڑلیں تو ان کے سامنے کوئی پیش نہیں جاتی دعا کے ذریعہ ہر طغیانی پر فتح پائی جاسکتی ہے ۱۱۲ طوالو طور پہاڑ آپ کے اسلام کی کیفیت ۴۰ حضرت مولوی ظہور حسین مجاہد روس کا تفصیلی ذکر خیر ۱۱۵ حضرت عائشہ صدیقہ عائلی معاملات ع حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة امسیح الرابع معاشرہ میں بے چینی کی ایک وجہ کفو کی شادیاں نہ ۲۴ کرنا بھی ہے آپ کا خالصہ دعا پر انحصار کے دو مواقع دنیا کا جماعت کی مدد کیلئے دوڑے چلے آنے کی آپ کی رؤیا ۲۵ جو میاں بیوی ایک دوسرے سے ٹھنڈک پاتے ہیں تیر کر دریا عبور کرنے والی آپ کی رؤیا نظم غزل آپ کیلئے والی رؤیا نظم غزل آپ کیلئے کہنے کا پس منظر خواب میں اقبال کے اشعار پڑھنے والی رویا رؤیا کے انداری پہلو کے ٹلنے اور خوشخبری والے پہلو کے جلد ظاہر ہونے کیلئے دعا کی تحریک Friday The 10th کا ذکر آپ کا منظوم کلام ۲۹ ۲۳۶،۲۱۳ ۳۶۸ ان کی اولاد میں ان کیلئے آنکھوں کی ٹھنڈک پاتی ہیں ۳۶۹ اولادیں گھروں کو سکینت اور جنت نشان بنا ئیں ۲۹ بیویوں سے حسن سلوک کی تلقین حسن معاشرت کے فوائد دعاؤں کے ذریعہ اپنے معاملات خدا تعالیٰ کے حضور ۳۱ پیش کریں ۳۸۰ ۳۸۱،۳۸۰ ۳۸۱ ۳۸۱ ۱۱۴ بیویوں سے لڑائی کے وقت نہایت ہی مکر وہ کلمات کا استعمال ۳۸۲ یہودیوں کے بارہ میں غلط سوچ کو اپنے دماغوں میں جگہ نہ دیں ۳۸۲ ۳۸۳ میاں بیوی کے تعلقات میں مختلف دباؤ ۳۵۴ آپ کا وقف جدید میں مریضوں کی خدمت کرنا

Page 830

۳۱ عبادات عبادت کے اندر محبت کی روح کا پایا جاناضروری ہے ۲۴۴ پس جب تو فارغ ہو جائے تو خدا تعالیٰ کی عبادت کیلئے کھڑا ہو جایا کر جب بھی عبادت کریں رغبت کے ساتھ کریں ۲۴۴ عبدالقیوم کھوکھر صاحب حضرت عبد اللہ بن الشحیر حضرت عبداللہ بن عمر ۲۴۸ عبد اللہ خان ( روس کا پہلا احمدی) مقبول عبادت کرنے والا خدائی رنگ اختیار کرتا چلا جاتا ہے ۲۵۰ الحاج عبد الله یف (روسی عالم ) ۱۷۵ ۲۳۷ 13 = ١١٦ ۱۱۸ ≤ مقبول عبادت کرنے والا بنی نوع انسان سے بدسلوکی نہیں کیا کرتا ۲۵۰ صاحبزادہ شہزادہ عبدالمجید صاحب ( مبلغ اول ایران ۱۱۵ کچی عبادت کے نتیجہ میں کچھ نہ کچھ عادات میں بہتری آنی چاہئے ۲۵۰ یہ ناممکن ہے کہ عبادت کچی ہو اور انسان میں پاک تبدیلی نہ پیدا ہونی شروع ہو جائے عبادت پر قائم نسلیں اپنے پیچھے چھوڑ کر جانے کی کوشش کریں عبادت سے کیا مراد ہے اگر عبادتیں کرنی ہیں تو پھلدار عبادتیں کریں عبادت میں مزا پیدا کرنے کی ترکیب کیا ہے عبادت کا حمد سے بہت گہرا تعلق ہے عبادت بھی ایک سائنس ہے عبودیت ۲۵۰ اللہ کا بندہ بننے کے لئے پہلے عبد بنا ضروری ہے ۲۵۱ ۴۵۲ ۴۶۱ ZIA ۷۲۱ انسانی زندگی کے ہر عمل کو عبادت میں تبدیل کرنے کا عظیم الشان نسخہ ۷۲۲ عبودیت سے مراد مہدی موعود کیلئے عبودیت کا مرتبہ ۲۲۶ ۲۳۰،۲۲۹،۲۲۸ ۲۳۰ ہم قدم بقدم تیرے پیچھے چلتے ہیں اس کا نام عبدیت ہے ۷۶۴ عجز سجدہ حقیقی بحجز سے تعلق رکھتا ہے عجز کے بغیر خدا تعالیٰ کی لقاء ممکن نہیں عارف باللہ کا بجز جس کے بغیر لقاء نصیب ہوتی ہے اللہ تعالی مددفرمائے گا تو تمہاری عبادت صحیح قائم ہو جائیگی حقیقی بجز خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے خدا تعالی کی مدد کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کی عبادت بھی نہیں کر سکتے ۷۴۶ نبوت میں بھی بجز کا عرفان بڑھتا چلا جاتا ہے جتنا کوئی زیادہ خدا کے حضور گرے گا اور جھکے گا عجز کا ظاہری حالت سے تعلق نہیں ہے اتنا ہی زیادہ اسے سر بلندی حاصل ہوگی ۷۹۳ پس ہر بلندی کیلئے ایک بجز کا مقام ہے ۱۸۳ ۱۸۳ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۵ IAZ ۱۹۱ مکرم عبدالباقی ارشد صاحب لندن ۷۳۰ آسمان کی بلندی خدا کے عاجز بندوں کو حاصل ہوا کرتی ہے ۱۹۳ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نوبل انعام یافتہ چوہدری عبدالعزیز صاحب کھوکھر صوفی عبدالغفور صاحب ۶۲۲،۲۹۶،۵۵ حضرت عبدالقادر جیلانی بڑے خوش پوش تھے ۱۷۵ خدا تعالیٰ کو پانے کی راہ عجز کی راہ ہے سچا بجز نصیب ہونے کے لئے دعائیں کریں عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں عجز کا عرفان حاصل کریں ۱۹۷ ۲۰۸ ۲۱۷ ۲۲۷ ۶۴۸ بجز میں ایک طاقت ہے اور کبر میں ناطاقتی پائی جاتی ہے ۷۵۵ ۱۸۷ عدالت خان صاحب شہید احمدیت وقف کے ۶۵۰،۶۴۹ ساتھ ہی چین کے سفر کی نیت باندھی ۶۴۸ صوفی عبد القدیر صاحب نیاز مرحوم

Page 831

۳۲ عدن عراق ۶۴۶ ،۴۶۸،۴۶۷ ،۴۶۶ ، ۴۴۷ ، ۴۴ ،۹۲ ۴۷۹،۴۷۸ ،۴۷۷ ، ۴۷۵ ، ۴۷ ۴۰ ، ۴۷۲ ،۴۷۱ ،۴۷۰ ،۴۶۹ ،۶۶۶،۶۶۳،۶۶۲،۴۹۴ ،۴۹۲ ،۴۹۱،۴۹۰،۴۸۱،۴۸۰ عراقی علماء اہل عراق کو یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ ایرانی کافروں کے ہاتھوں مارے جاؤ گے تو سیدھے جنت میں جاؤ گے ۷۰۶ عرب ۶۴۶،۶۴۰،۶۳۷ ،۶۲۲،۴۹۲،۴۹۱،۴۹۰،۴۶۸ عربوں کی دولت مختلف اوقات میں سر بمہر کی گئی عرب کی مجموعی کمزور اقتصادی حالت ۴۹۲ ۵۷۰ ۶۸۱،۶۸۰۰۶۶۹ ،۶۹۱۷۶۹۰۶۸۶ ، ۷۰۷،۷۰۶،۷۰۵ خلیج کی جنگ کا تمام خرچ عربوں سے وصول کیا جائے گا ۶۴۲ اسلامی ممالک کو انتباہ اور عراق کی تباہی کی خبر عراق کا کویت پر حملہ ۴۶۵ ۴۶۶ عرفان عرفان اور صاحب عرفان طبقه عراق بھی اسلامی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہا ۴۷۰ بلندی سے بلندی کا عرفان بڑھتا ہے عراق کو شدید سزا دینے کی سازشیں عراق کو چاروں طرف سے نہتا کر کے اسرائیل کو حملہ کی اجازت دی جائے گی عراق سے خوفناک انتقام لینے کی تیاریاں عراقی حکومت کو تقویٰ سے کام لینے کی تلقین عراق ابھرتے ہوئے اسلامی ملک کو ہمیشہ ۴۷۵ ۴۷۵ ۴۷۵ ۴۸۰ ۵۴ ۱۸۴ صاحب عرفان بلندیوں کے ساتھ ساتھ جھکتا چلا جاتا ہے ۱۸۵ عرفان الہی بجز کی راہ سے نصیب ہوتا ہے ۱۸۶ عرفان بڑھانے کیلئے غیر معمولی علم کی ضرورت نہیں ہے ۷۲۳ اشک آباد دروس پروفیسر عطاءالرحمن صاحب الرحمن کیلئے نیست و نابود کرنے کی تیاریاں ۴۸۱،۴۷۹،۴۷۸،۴۷۵ عقل عراق کو کویت سے اپنا قبضہ ختم کرنے کی تلقین ایران سے بدلہ لینے کے لئے عراق کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی گئی ۴۸۱،۴۸۰ دو جہتوں سے عقل کی تعریف ودیعت شدہ عقل اور کسی عقل ۴۹۰ اصل ارتقاء عقل کا ارتقاء ہے مغرب نے ہی عراق کو اعصابی گیس بنانے کے طریقے سکھائے ۴۹۰ عقل کی تعریف کا تقویٰ کی ایک تعریف پر انطباق عراق نے مغرب کی سر پرستی میں ایران پر ظلم کئے عراق اور مسلمانوں کے عمومی مفاد کے متعلق دعا کی تحریک ۴۹۱ عقل اور تفکر کا مقام ۶۴۰ عقیده ۳۳۸،۳۳۳ KY ۹ 1.1.11 ۱۲ عراق کی ابھرتی ہوئی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا ۶۴۰ ۶۴۴۶۴۱ ہر عقیدے کے ساتھ کچھ بداعمالیوں کا تعلق ہوتا ہے ۵۸۳ جھگڑے کی بنیا د عراق کا کویت پر قبضہ ہے عراق کو ہم نے مختلف ذرائع سے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن نا کامی ہوئی بنی نوع انسان کا عراق کے خلاف اجتماع کسی تقویٰ اور انصاف پر مبنی نہیں ہے عراق کا ایران سے پرانا تاریخی سرحدی اختلاف ۶۶۲ عقائد کی وجہ سے نہیں بلکہ بد اعمالیوں کی وجہ سے انسان ۶۶۶ ۶۹۰ ۶۹۱ پکڑا جاتا ہے قرآن کریم نے عقائد اور ایمانیت پر زور دیا ہے تفقہ فی العلم صرف سرسری علم نہیں بلکہ گہرائی سے علم حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے ۵۸۳ ۵۸۴ ۲۵۶

Page 832

۳۳ ۷۴۴ مغربی معاشرہ در حقیقت عیسائیت کے خلاف علم بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی حمد بڑھتی چلی جاتی ہے اپنا علم بڑھائیں اور گہری نظر سے کائنات کا مطالعہ کریں ۷۴۸ بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے سب سے زیادہ عالم وہ ہوتا ہے جو چیز کو خود بنانے والا ہے ۷۶۰ عیسائیت کو اسلام کے مقابل پر کھڑا ہونے کی علماء علماء کا قصص قرآنی کا لغو تصور علماء کیلئے استعمال کئے گئے دو الفاظ احبار اور رہبان کی وضاحت ۶۸ طاقت نہیں ہے عیسائیت کے خدا کا تصور ہے کہ اگر انسان گناہ کرے تو وہ معاف نہیں کر سکتا علماء کے نزدیک مسیح موعود کا انکار پاکستان کا تاریخی کارنامہ ۱۰۶ کہ وہ معاف کر سکے پاکستان میں غیر احمدی علماء کے ذریعہ بہت سی غلط فہمیاں جماعت کے متعلق پھیلائی جارہی ہیں ۲۶۶ ۲۷۱ عیسائیوں کے نزدیک خدا عادل ہے مالک نہیں عیسائیوں پر صفت مالکیت کی وجہ سے وبال ٹوٹا ۶۱۷ ۶۱۷ ۷۸۰ ۷۸۰ ۷۸۹ پاکستانی ملاؤں کو حضرت مسیح موعود کی زبان میں چیلنج حضرت عیسی علیہ السلام ۷۷۷،۵۴۴،۳۳۴٬۳۳۳ پاکستان میں سب بلاؤں کا علاج ملاں کی لعنت سے نجات ہے حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ۲۷۶ حضرت عیسی علیہ السلام عبد اللہ کی حقیقت مولوی کہتے ہیں کہ احمدیوں کا دل ایمان سے خالی ہے ۳۱۴ حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کا ذکر جس مولوی کے پاس آپ کے پیسے محفوظ نہیں آپ کا دین کیسے محفوظ ہے ظاہر بین علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق حضرت عمر فاروق حضرت عمر خدا کی فطرت کی سادگی اور سچائی حضرت عمرؓ کی وفات کے وقت کی بار بار کی بے چینی لالی ولاعلی حضرت عمر کی دعا مکرم عنایت اللہ صاحب عہد یداران نظام جماعت عہد یداران پر تنقید کرنے کی عادت ۳۵۵ ۳۸۷ ۲۱۱،۱۰۰ ۲۸۷ ۲۸۷ ۲۸۷ ۱۷۶ ۱۷۳ غ غالب غانا ۱۸۸ ۲۲۸،۲۲۷ ۲۵۷ ۳۲۳ ۶۵۶،۶۲۵،۶۲۴ ۱۴۱ غرناطه غذا غذا کے ہر لقے کے ساتھ جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہیں، ۵۱۵ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۶،۱۰۵،۹۱،۸۲،۷۹ ،۷۴،۶۲،۶۱ ، ۵۸ ،۵۲،۴۴ ،۲۷ ،۳۳۵ ،۳۳۴،۳۳۳،۲۹۳،۲۱۰،۱۹۲،۱۷۲،۱۱۹،۱۱۸،۱۰۸ ۶۵۸،۶۷۵،۶۰۹،۵۹۳،۵۹۱،۵۹۰۳۴۱ ۴۰۸،۴۰۴ ،۴۰۳،۴۰۲،۴۰۰ ،۳۹۹،۳۹۸ عید کی خوشیوں میں غرباء کو شامل کریں عیسائیت عیسائی دنیا میں دولت کی ریل پیل وہی مائدہ ہے جو حضرت مسیح سے وعدہ کیا گیا تھا ۲۱۵ آپ کی دعا کے متعلق تحریرات الگ شائع ہونے کی ۱۲۹ حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خواہش وحی کے نتیجہ میں آپ کے کلام میں پیدا ہونے والی شفاء ۵۷۲ | آپ کا خالصہ دعا پر انحصار کی دلیل ۲۱ ۱۶ ۲۴

Page 833

۳۴ روس میں جماعت کے کثرت سے پھیلنے اور عصا تھا منے کی پیشگوئیوں کا ذکر صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۴ ۲۰۷ ف،ق حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال سب سے زیادہ مشکلات خدا تعالی کی راہ میں آپ نے جھیلی ۲۶۸ ہر قسم کی ریا کاری سے پاک،صاف گواور صاف حضرت مسیح عود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ۲۸۱،۲۸۰،۲۷۹،۲۶۸ | دل انسان علماء مسجد میں جا کر ہمارے نیست نابود ہونے کیلئے دعائیں کریں ۲۸۰ بالشویک علاقہ میں تبلیغ کرنے والے احمدی آپ کی مخالف علماء کو نصائح جو شخص میرے پر بدعا کرے گا وہ بدعا اسی پر پڑے گی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب ۲۸۱ ۲۹۲ ذہانت کے ساتھ مزاح کا استعمال آپ سے سیکھنا چاہئے ۴۲۰،۴۱۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور فن مناظرہ فرانس ۴۲۰ فرعون بیعت کے الفاظ میں شامل میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا ۴۵۴ فریکشن ۴۵۴ ۵۶۴ ۵۶۳ ۳۳۵،۳۳۴،۳۳۳،۳۳۲ ۶۵۶،۶۱۲،۳۴۲ ۶۲۲،۴۴۸،۱۵۱ ۳۶۶،۱۳۶،۳ کشتی نوح میں اپنی تعلیم پیش کی ہے جہاں بھی نظام جاری ہو وہاںFriction ضرور پیدا ہوتی ہے ۴۱۷ آپ نے کشتی نوح میں اسلام کی سب سے اعلیٰ تعریف فرمائی ہے آپ نے فرمایا اگر تم میں دنیا کی کوئی ملونی ہوئی تو تم ہلاک ہو آپ کو دنیا میں نکلنے کا کوئی شوق نہیں تھا آپ کی کتاب حمامۃ البشری میں خوشخبری سیح موعود مسیح موعود کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے الهام مسیح موعود ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء زار روس کا سوٹا ولا تسئم عن الناس تیری عاجزانہ را ہیں اس کو پسند آ ئیں جے توں میر اہور ہیں سب جگ تیرا ہو فرینکفرٹ فساد ۴۵۸ خشکی کے فساد سے مراد د نیا داروں کا فساد ہے ۴۶۲ تری کا فساد وہ ہے جو مذاہب میں برپا ہو جاتا ہے فضل ۴۸۲ ۶۷۶ ۱۹۵ ۶۰۲ ۶۰۲ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو نیتوں کے بہترین پھل لگتا ہے ۵۱۲ فطرت انسانی فطرت ہے کہ وہ اچھی چیز کیلئے جلدی کرتا ہے ۲۸۴ ۲۵ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی بداعمالیوں پر نگاہ نہیں کرتا ۲۸۴ ۱۱۴ فطرت انسانی کافر اور مومن میں یکساں ہے ۵۶۱ انسانی فطرت تو تبدیل نہیں ہوتی ۲۰۹ ۷۸۳ فلسطین فنا مولوی غلام حسین ایا ز صاحب ۶۴۸ فنا کی حقیقت یقینی اور واضح ۲۸۴ ۲۸۷ ۶۶۳ ۲۹۵ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ۵۵۸ کوئی ایسی چیز نہیں جو فنا کی دست برد سے پاک اور بالا ہو ۲۹۸ ایسی چیز جوفنا کی اور بالا

Page 834

۷۲۸ ۷۲۹ ۷۵۷ ۳۵ قادیان ۴۲۳،۲۱۵،۱۷۵ ،۱۱۵ ۶۵۰،۶۴۹،۶۴۷ ،۶۴۵ ،۵۵۴ ،۴۵۷ قادیان کا ایسا عجیب معاشرہ تھا جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ۵۵۵ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا دعویٰ ۶۴۵ قرآن کریم کے مطابق خدا تعالیٰ کی حمد کرنے میں کائنات کی ہر چیز شامل ہے قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ آفاق پر غور کرنے خدا تعالیٰ کی شناسائی ہوتی ہے قرآن کریم تمام علوم کا جامع شیریں اور فرہاد کا قصہ قانون یہ خیال کر لینا کہ ہم دنیاوی قانون سے بالا ہیں درست نہیں ۲۴۵ قربانی قانون قدرت ایک بنیادی قانون ہے کہ بہتر کیلئے ادنی کو قربان کیا جائیگا ۷۶۶ قصہ ایک گہرا قانون قدرت کا راز ۲۴۵ ۱۴۶ ۷۵۶ قبلہ کو قبلہ نما کہنا ۷۲۳ حضرت قتادة ۲۳۳ ۱۶۱ قبلانیہ.سپین قمر الہی صاحب ظفر قوم ۱۵۵ عباسی خلیفہ کے ایک وزیر کا ایمان افروز واقعہ لاہور کے ایک درویش کا قصہ ۲۳۶ گڈریے کی لقاء باری تعالیٰ آب پاشی کا نظام ہزار سال سے جاری ہے ۱۳۴، ۱۳۵ قوم قرآن کریم ۴۴۴۲۰۴،۴۰،۳۶، ۴۴۵، ۴۴۶ ، ۴۴۷، ۴۴۸ بگڑی ہوئی اقوام میں خدا رسیدہ ہونے کا غلط تصور ۵۴۵،۵۴۴،۵۳۷،۵۳۱،۵۳۰،۵۲۸،۵۱۸،۵۱۷،۵۰۳ قوموں کی زندگی اور موت ، ترقی اور زوال کے اسباب ۲۴۳ قرآن کریم سپینش زبان میں ترجمہ قرآن کریم سے استفادہ کیلئے بنیادی عربی گرائمر سے کچھ واقفیت ضروری ہے قرآن کریم کو مہجور کی طرح چھوڑنا ۱۵۵،۱۳۴ ۲۶۱ ۴۰۰ قرآن کریم کی تعلیمات میں تمام مسائل کا حل موجود ہے ۴۷۳ قرآن سنت جس طرف چلنے کا مشورہ دیں اسی طرف چلو ۴۷۳ خفیہ کاروائیوں کے بارہ میں سورۃ الناس میں ذکر قرآن نے فرمایا ہے کہ غیروں کو دوست نہ بناؤ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا کمال قوم پرستی اور نسل پرستی میں دائروں کا اختلاف ہے آپس میں گہرا تعلق ہے بڑی قو میں چھوٹی قوموں کی خارجہ پالیسی بناتی ہے قیصر روم کنگ ۴۷۶ کاشغر (روس) ۴۹۵ کائنات ۶۳۱ ۶۸۴ CLL ۱۸۱ } ۲۲۳ ۷۳۱ قرآن کریم میں تین اندھیروں کا ذکر ۵۹۷،۵۹۶ سائنس کی نظر سے کائنات کا مطالعہ خدا کی طرف سے لے کر جاتا ہے قرآن کریم نے ماں کے پیٹ میں بچے کا اندھیروں ۵۹۷ کائنات کی تخلیق کے راز میں پیدا ہونے کا ذکر فرمایا ہے یہ ناممکن ہے کہ قرآن جھوٹا نکلے اور تمہارے دعوے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام کے تابع یہ حیرت انگیز نیچے ہوں ۷۰۸ کائنات پیدا فرمائی ہے

Page 835

۳۶ ساری کائنات خدا کی حمد اور تسبیح کر رہی ہے کائنات کا بھاری حصہ خدا کے تصور سے نا آشنا ہے ساری کائنات واقعتہ خدا کی عبادت کر رہی ہے کتابیات ۷۴۳ ۷۵۵ ۷۹۰ دیباچهتفسیر القرآن دیوان غالب کشتی نوح کتاب کی اشاعت سے قبل حقوق اشاعت کی تعیین کلام طا ہر ( مجموعہ کلام حضرت خلیفۃ المسح الرابع) ضروری ہے آب بیتی ( از مولوی ظهور حسین مجاہد روس ) آئینہ کمالات اسلام (روحانی خزائن ) ابوداؤد ۳۴۲ ۱۱۵ ۲۰۲،۱۹۹ ۲۱۱ کلام محمود مسلم صحیح مسند احمد بن حنبل ۳۴۳ ۵۴۵ ۸۶ ۱۶۸،۵۲ ۴۹۶،۴۳۳،۱۸۶،۱۶۸،۹۹ ۳۱۳ اربعین روحانی خزائن اسلام کا اقتصادی نظام (تصنیف حضرت مصلح موعودؓ ) ”اسلام میں عورتوں کا مقام،، الفضل ۲۸۱ ۸۹ ۳۴۳ ۳۴۰،۳۳۱،۱۷۵ مسیح ہندوستان میں مشكوة ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نزول مسیح ، روحانی خزائن نماز اور اس کے مسائل ۳۴۴ ،۳۴۳ ۲۹۰ ۵۹۰،۲۰۳،۱۶۰ ۲۶۸،۲۰۲ ۳۴۲ ویکی لنڈن (اخبار) Weekly London ۱۱۴ یسرنا القرآن ۳۴۲ ۳۴۲ Review of religion ۷۸۰ Murder in the name of allah القصائد الاحمدیہ انسائیکلو پیڈیا (روسی) ۲۱۰ ۱۱۷ بائبل بخاری صحیح ۲۳۹،۲۳۶، ۱۷ ۵۰۳،۴۹۹،۴۹۵،۴۲۳ ،۴۰۱ ،۲۸۷ ،۲۳۹،۲۳۶ تاریخ احمدیت ۶۴۸ تذکره ۷۸۳،۵۶۱،۲۸۱،۱۱۴ ترندی تفسیر کبیر حقیقۃ الوحی روحانی خزائن حمامة البشرى در مین در تمین فارسی مذہب کے نام پر خون کراچی ۶۹۱،۱۵۶ ۶۵۴،۲۷۳،۱۷۶،۱۷۵ ، ۱۰۷ ، ۱۰۵، ۱۰۴ ،۹۶،۹۵ ۹۹ ۲۸۰ مکرم مولا ناکرم الہی ظفر صاحب مکرم مولا نا کرم الہی ظفر صاحب مبلغ سپین و پرتگال ۱۵۵،۱۲۹،۱۲۷ مکرم مولا نا کرم الہی ظفر صاحب آپ کا سارا خاندان ہی مبلغ ہے ۴۸۳،۴۸۲ مولا نا کرم الہی ظفر درویش صفت مبلغ ۱۲۹ ۱۵۴۱۵۱ ۷۵۹،۶۱۰،۵۸۹،۳۵۳،۳۰۵،۲۰۷ ، ۱۹۹ ،۱۸۲ ۴۵۰ کروشیا كسووو ۶۸۹ ۶۸۹

Page 836

۲۵ 3 ۳۷ کشش ثقل کشش ثقل ہر چیز کو اپنے دائرے میں اپنی طرف کھنچتی ؟ کشمیر میں توڑے جانے والے مظالم کی داستان کلمہ طیبہ کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کے مثال ۴۵۸ ۶۶۳۶۴۹ ۴۶۹ گیمبیا لاس اینجلس لاہور لوم لاہور کے ایک درویش کا قصہ ۳۶۸ لائیبیریا مکرم کلیم خاور صاحب ( روسی زبان کے احمدی ماہر ) ۴۱۵،۱۰۵،۸۹،۳۱ ۲۳۳ کمپیوٹر کمپیوٹر کا تصور تفکر کے تصور کے نزدیک تر ہے کویت ۳۴۳،۳۳۰ ۱۲ بریکیشن جدید مشینوں میں Lubrication کا نظام لبنان لٹریچر ۴۱۸ ،۴۱۷ ۴۶۹،۴۶۸،۴۵۵ تمام تنظیموں کو امیر سے رابطہ کر کے لٹریچر کی تقسیم ۴۴۶، ۴۵۶،۴۴۷، ۴۶۷، ۴۶۹ ، ۴۷، ۴۷۸ ۴۹۲۰، کے سلسلہ میں تعاون کی ہدایت ۶۹۰۶۷۴۶۶۷ ،۶۶۲۶۴۲ ۶۸۸ لجنہ اماءاللہ ۱۲۲ ۵۴۱،۵۳۶،۲۵۱،۲۱۶،۱۷۳ ۱۲۲ ۱۲۱ قرآن کریم اور نمازیں سکھانے کے پروگرام بنائیں ۲۵ لجنہ اماءاللہ جرمنی ۲۶۵ ۳۲۸ کیتھولزم کیلیفورنیا کینیا کینیڈا گجرات گناه ۶۵۶۰۶۴۶ ۶۹۳،۶۵۵،۶۵۰،۸۰۰۷۶ گناہوں کا ذمہ وار دراصل قیامت کا انکار ہے گناہوں کے قلع قمع کرنے کیلئے قیامت اور جزاء سزا کے دن کا تصور ضروری ہے ایمان جتنا قوی ہوگا اتنا ہی گناہ سے نفرت قوی ۶۲۴ ۵۸۳ صدر لجنہ اماءاللہ لجنہ اماءاللہ پاکستان صدر لجنہ اماءاللہ ۵۴۸ ۶۷۵،۶۷۴ ۷۹۲ لقائے باری تعالی ۱۴۶، ۱۴۸، ۱۵۱،۱۵۰،۱۴۹، ۱۲۰،۱۵۹۱۵۸ ۱۷۴ ۱۷۳،۱۷۱ ، ۱۷۰ ،۱۶۹،۱۶۸ ،۱۶۷ ،۱۶۳،۱۶۲،۱۶۱ ۲۴۰،۲۳۹،۳۲۸ ،۳۲۷ ،۳۲۶،۲۲۰ لقاء کے منکر کے اعمال قیامت کے دن ضائع کر ۵۸۸ دیئے جائیں گے ہر ملک میں صاحب لقاء وجود ضروری ہیں ۶۱۶ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کی لقاء لقائے باری تعالیٰ کا حصول اخلاقی اصلاح کے بغیر ہوتی چلی جائے گی جب گناہ کا تصور باقی نہ رہے تو معاشرے کے رنگ بدل جاتے ہیں ۶۱۶ ممکن نہیں ۱۵۰ ۱۵۸،۱۵۱ ۱۵۹ ۱۵۹

Page 837

۳۸ لقاء باری تعالیٰ ایک لامتناہی سفر ۱۶۰ مالی قربانی سے لوگوں کے اندر پاکیزگی پیدا ہوتی ہے لقائے باری تعالیٰ خدا تعالیٰ کی ذات میں سفر ۱۶۰ مالی قربانی کرنے والی قو میں ہمیشہ پہلے سے بہتر 17.۱۶۱ ہوتی چلی جاتی ہیں اگر تم مالی قربانی نہیں کرو گے تو تمہیں شدید مالی لقاء کسی ایک لمحہ کی ملاقات کا نام نہیں گڈریئے کی لقاء باری تعالیٰ عام انسانوں کی لقاء بھی آسان نہیں ہوا کرتی ۱۶۲ نقصانات پہنچیں گے جہاں آپ کی نظر پڑے لقاء باری تعالیٰ ہو سکتی ہے ۱۶۲ مالی قربانیوں سے بہت سی دوسری بدیوں سے اعلیٰ اخلاق کے بغیر حقیقت میں خدا کی لقاء ممکن نہیں ہے ۱۶۹ چھٹکارے کی توفیق ملتی ہے جماعت احمدیہ اور عرفان لقائے باری تعالیٰ ۱۷۴ مالی قربانی سے مومن کو مزید تقویٰ نصیب ہوتا ہے لقائے باری تعالیٰ کے حصول کیلئے عجز اختیار کریں ۱۷۹ اور قوم کی اصلاح ہوتی ہے لقاء کیلئے محبوب کا خود جھک کر ہاتھ پکڑ نا ضروری ہے ۱۸۱ اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں کے اموال میں قرآن کریم میں معراج کا ذکر بھی لقاء کا معراج ہے ۱۹۲ بے انتہا برکت بخشتا ہے صاحب لقاء کو ایک مرتبہ اور ایک مقام عطا کیا جاتا ہے ۲۳۸ مذہبی قو میں مالی قربانی میں پیش پیش ہوں تو اللہ تعالیٰ صاحب لقاء وجودوں میں خدا سے تعلق کی علامتیں ان کو بے انتہا دولتیں عطا کیا کرتا ہے پائی جاتی ہیں صاحب لقاء باقی بندوں سے ممتاز کر دیا جاتا ہے ۲۳۹ مذہبی تو میں اگر مالی قربانی کو بھلادیں تو پھر ان پر ۲۳۹ اگر مالی قربانیاں نہیں کرو گے تو تم فقراء ہو جاؤ گے لقائے باری تعالیٰ پر یقین کرنے سے انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے انسان لقاء کے مضمون کو بھلا کر رفتہ رفتہ اپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتا ہے غربت کی مار پڑتی ہے ۵۷۹ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کی قربانیوں کی وجہ سے عیسائیوں تو اتنی دولت نصیب ہوگئی ۵۶۸ ۵۶۸ ۵۶۸ ۵۶۸ ۵۶۸ ۵۶۹ ۵۷۱ ۵۷۱ ۵۷۱ ۵۷۲ ۵۹۲ عربوں کو تیل کی دولت دور اول کی قربانیوں کی وجہ سے ملا ۵۷۲ جماعت میں لقاء کے مضمون کا بار بار ذکر کرنا ضروری ہے ۵۹۴ اقتصادی مسائل کاحل خدا کی راہ میں قربانی کرنا ۵۷۳ ۴۹،۳۳۲۱،۱، ۲۶۳،۱۷۶،۹۹،۸۵،۶۷ مالی قربانی کرنے والوں کی بدیاں دور ہونی شروع ہو جاتی ہیں ۵۷۴ لندن حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا ذکر ليبيا لیلۃ القدر کی تلاش ماریشس مالی (افریقہ) مالی قربانی ۴۰۶ ۴۹۰ ۲۴۰،۲۳۱،۲۲۰ ۶۵۶۰۵۴۷ مالی قربانی کے نتیجہ میں اخلاص اور تقویٰ نصیب ہوتا ہے ۵۷۵ اگر اپنی اولا د کو مالی قربانی سے روکو گے تو تم اپنی اولاد کو قتل کرنے والے ہوگے جماعت کی انفرادی زندگی بھی مالی قربانی کو دوام بخشنے سے وابستہ ہے جماعت کی مجموعی زندگی مالی قربانی کو دوام بخشتے سے وابستہ ہے ماں اللہ تعالیٰ کو تمہاری مالی قربانیوں کی ضرورت نہیں ۵۶۸ اولاد سے محروم بے چین ماؤں کے خطوط ۵۷۷ ۵۷۷ ۵۷۷ ٣٠١

Page 838

۳۹ قوم کے اخلاق کا معیار ماؤں کے اخلاق کے معیار کے مطابق ہوگا ۳۵۲ متقی قیادت اور غیر متقی قیادت کی پہچان ۳۹۷ ،۳۹۶ منتقی اعلیٰ مقاصد کی خاطر اپنے جذبات کو قربان کرنا ہے ۳۹۷ جن ماں باپ نے اپنی اولاد کو تقی بنالیا ان کی جنت متقی کا فرض ہے کہ اپنے شکوے اور شکایتیں نسلاً بعد نسل چلتی رہے گی ماں کی دعا اپنی اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہے ۳۷۲ خدا کے نمائندوں کے حضور پیش کرے ۳۹۱ متقی کی تحریر میں بھی ایک بڑی قوت ہوتی ہے بچوں سے دشمنی پر سب سے زیادہ غضبناک کوئی ہو سکتا ہے متقیوں پر شیطان کو کبھی غلبہ نصیب نہیں ہوتا تو وہ اس کی ماں ہے مبارک مصلح الدین احمد صاحب حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ آپ کا عارفانہ منظوم کلام مبالغہ آمیزی مبالغہ آمیزی کی عادت ہمارے ملک میں عام ہے ۷۸۴ متقیوں کا امام بننا تو شہنشاہ بننے کی مترادف ہے ۲۸ ۵۶۴ ۱۸۰،۱۷۹ ۴۳۳ متقیوں اور غیر متقیوں میں فرق متقی کی اولاد سے خدا تعالیٰ کا سلوک متقی ہر وقت اپنے اعمال کی نگرانی کرتا ہے متقی کو جتنا مرضی ابتلا ء آ جائے ہمیشہ نظام جماعت کا وفادار رہتا ہیں سب سے زیادہ معزز اور متقی مکرم مرزا مبشر احمد صاحب ڈاکٹر ۵۶۵ متقی کی عزت مبشر احمد طارق صاحب مثال اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونے کی مثال کو وؤں کی فطری سخاوت کی مثال متشابهات متشابہات سے مراد متقی ہر منتقی مسلمان ضرور ہوتا ہے ۱۷۵ ۱۹۲ ۵۷۵ ۵۲۵،۵۲۴،۵۱۱،۵۱ مجذوب مجذوب ایسے پاگل کو کہتے ہیں جو غالبا پاگل ہونے سے پہلے خدا سے تعلق رکھنے والا ہے مجید احمد سیالکوٹی صاحب مکرمہ آ پا مجیدہ شاہنواز صاحبہ خلافت سے گہراتعلق محبت ۱۸ محبت بغیر رغبت کے نصیب نہیں ہوسکتی ہر منتقی اپنے خاندان کے بزرگوں کی طرف منسوب اخلاص اور محبت ایک ہی چیز کے دو نام ۳۸۵ ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے متقیوں کا امام بننا ہے تو دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد مصطفی احمد مجتنی عم الله سے مدد طلب کریں اولا د کا اپنے متقی آباؤ اجداد پر فکر کرنا غیر متقی متقیوں کے امام بننے کے مستحق نہیں ہو سکتے جب امام متقی نہیں تو اس کے مانے والے متقی کیسے ہو سکتے ہیں ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۷ ۳۹۵ ۳۹۷ ۳۹۸ ۳۹۹ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۵ ۴۰۴ ۴۰۸ ۵۵۴ ۶۳۶ ۵۵۶ ۱۷۵ 122 ۲۵۲ ۴۵۹ ،۵۹،۵۸،۵۰،۴۸ ، ۴۱ ،۴۰ ،۳۹ ،۳۷ ،۳۰،۱۶،۱۵،۱۳،۱۱،۱۰ ،۹ ۱۶۱،۱۴۴،۱۴۳،۱۰۰ ،۹۹ ،۹۷ ،۸۳،۷۴ ۷۳ ۷۱،۶۵،۶۲ ۴۲۴ ،۴۲۳،۴۰۲۴۰۱ ،۴۰۰ ، ۳۸۸ ،۳۸۷ ،۳۸۶،۲۱۱،۲۱۰ ۵۲۱،۵۲۰،۵۰۶۵۰۳،۵۰۰،۴۹۹،۴۹۲،۴۶۲،۴۶۱ ،۴۶۰ ۷۲۲،۷۰۹،۶۲۳،۶۲۲،۶۱۰ ، ۵۷۲،۵۳۵ ،۵۳۴،۵۳۳،۵۲۴

Page 839

آپ کا اسباب سے استفادہ کرتا آپ کے نور ہونے کا حقیقی مفہوم ۲۳ آپ کی آنکھ سب سے زیادہ خدا کے نور سے دیکھتی تھی ۴۰۱ ۳۸ آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے زیادہ اہم چیز عبادت تھی ۴۲۳ حقیقت محمدیہ کو سمجھنے اور اس پر ایمان لانے کی نصیحت ۴۵ آپ کی عادت تھی کہ ہمیشہ ہر حکم دینے کے بعد دوبارہ سنتے ۴۲۶ آنحضرت کا اسلام ازواج مبارکه حضرت رسول کریم علی آپ کی عبادت آپ سے سوال کے قیامت کب ہوگی؟ ۵۱ ۱۴۷ خطبہ حجۃ الوداع ۴۲۷ ،۴۲۶،۴۱۳ ۴۳۱،۴۳۰ آپ نے چار قسم کے دل بیان فرمائے ۱۳۸ آپ کے تمام غزوات میں عظیم اخلاق کا مظاہرہ ۱۵۹ آنحضرت نے کا ایک تو بہ کرنے والے کا نقشہ آپ کا معرج کی رات ہر نبی کو الگ الگ آسمان پر دیکھنا ۱۹۱ کھینچا بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ عاجز بندے تھے ۲۱۰ آنحضرت علی روشنی کا سورج ۴۷۰ ۵۱۲،۵۱۱،۴۹۸ ۶۱۰ پہلی وحی کے بعد آپ کی بہت سخت خوف کی حالت ۲۱۱ آپ نے فرمایا مسیح اور قیامت آپس میں ملے ہوئے ہیں ۶۷۵ آپ کا رمضان میں کثرت سے خیرات کرنا ۲۱۳ آپ کا ایک غزوہ میں ایک درخت کے سائے رسول کریم وہ وسیلہ بنانے کی حقیقت کائنات کی آیات کا خلاصہ آپ سے بڑھ کر کوئی عاجز بندہ کبھی دنیا میں پیدا نہیں ہوا عاجزانہ عبادت کے ذریعہ آپ درجہ کمال تک پہنچے آپ نے غریبی اور بجز سے خدا تعالیٰ کو پایا ۲۱۹ میں آرام فرمانا ۲۲۴ آپ نے سفارت کاروں کا تقدس قائم فرمایا ۲۲۷ آپ ہر نبی سے آگے بڑھ گئے ۲۲۷ آپ مجسم ذکر الہی تھے ۲۲۷ آپ جیسا ذکر الہی کرنے والا نہ پیدا ہوا نہ ہوگا آپ جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے آپ تمام انعام پانے والوں کے سردار تھے تو کمر کس لیا کرتے تھے آپ کی عبادت جنگ بدر کی فتح آپ کی خیمہ میں کی جانے والی دعاؤں کے طفیل ہوئی تھی حقیقت محمدیت ایک لافانی حقیقت ہے ۲۳۶ ۲۳۸ ۲۷۵ آپ کو دوسرے انبیا ء پر فضیلت آنحضرت کا مجسم نور ہونا اور اس کا حقیقی مفہوم اندونی نور نصیب ہو تو خدا کا نو رجلوہ گر ہوکر پہلے نور کو نور علی نور بنا دیتا ہے ۲۹۷ آنحضرت اور موسیٰ کے نور کی قوت میں فرق آپ نے کسی صحابی کو یہ اجازت نہیں دی کہ کسی کو چوہدری محمد اسحق صاحب سیالکوٹی کہہ کہ تم مومن نہیں آپ نے صحابی کو فرمانا کہ تم نے کیوں نہ اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا قرآن اور تاریخ اسلام نے آپ کے اسوہ کو کھول کر بیان کر دیا ۳۱۲ ۳۱۴ آپ جانوروں اور بے جاں چیزوں کیلئے بھی رحمت تھے ۳۲۱ حضرت عاللہ متقیوں کے امام ٣٨٦ نواب محمد احمد خان صاحب مکرم محمد امین صاحب افغان محمد امین خاں صاحب ۶۷۶ ۶۹۰ ZIA ۷۴۳ ۷۵۰ LLL ۷۸۲ ۳۸ ام ۶۴۸ ۵۶۴ ۳۴۵،۳۴۰،۳۳۸،۳۳۶ کرنل محمد حیات صاحب قیصرانی آپ حضرت علی کو نماز اور تہجد کیلئے جگایا کرتے تھے ۳۸۸ آپ سے پیش آمدہ ایک واقعہ کا تذکرہ ۱۱۶،۱۱۵ ۵۰۲

Page 840

۴۱ محمد رفیق صاحب محمد شریف اشرف صاحب ایڈیشنل وکیل المال الثانی ۶۵۰،۶۴۹ مسجد بابری مسعود احمد صاحب ۵۶۷،۷۶،۷۵ | مسعود احمد دہلوی صاحب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۵۴۹ مخلص اور فدائی خاندان سے تعلق چوہدری محمد علی صاحب ایم اے ۱۹۸ مسلمان ۶۶۸،۶۶۷ حضرت نواب محمد علی خان صاحب ۵۶۴ مسلم وہ ہے جس سے کائنات میں کسی کو کوئی خطرہ نہیں میرمحموداحمد صاحب ناصر مختار احمد ایاز صاحب مخلصین مخلصین سے مراد محبت کرنے والے مدینہ منورہ ۳۴۲ مسلمان ممالک میں تیل کی دولت سے تقویٰ کی روح گم ہو گئی ۱۷۶ مسلمان طاقتوں کا اپنی دولت کا اپنے ہی بھائیوں ۴۵۸ ۴۶۵،۲۵۷ ،۵۰ کے خلاف استعمال ۳۴۲ ۱۷۵ ۳۲۰ ۴۴۴ مسلمان ممالک میں جنگ کی بنیادی وجہ تقویٰ کا فقدان ۴۴۷ مسلمانوں کے ادبار اور تنزل اور بار بار مصائب کی حقیقت ۴۴۸ مسلمانوں کے مصائب اور ذلت کی وجہ حضرت مربیان سلسلہ عالیہ احمدیہ ۲۶۳، ۳۷۷، ۴۰۷، ۵۴۷ مسیح موعود علیہ السلام کا انکار حضرت مریم بیگم صاحبہ ام طاہر مزاح غصوں کو ختم کرنے کیلئے مزاح بہت ضروری ہے حضرت مصلح موعود کا مزاح کا بہت اعلی لطیف ذوق مذہب ۳۲۸ ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۱۹ ۴۴۹ مسلمانوں کو پیغام کہ وقت کے امام کے سامنے سرتسلیم خم کرو ۴۴۹ تم ہر گز نہ مروجب تک تم مسلمان نہ ہو مسلمان مسلمان کی گردن کاٹنے سے اپنا ہا تھ کھینچ لے ۶۹۸ بغداد میں مسلمان سائنس دانوں نے بہت ترقی کی تھی ۷۴۲ مشرق بعید مشرق وسطی ۴۷۴ ،۴۳۷ ۶۶۶ ۱۵۷ 117 ۴۹۴ مذاہب کا خلاصہ اور جان کلمہ توحید ۹۹ مذہب کے آغاز سے قبل انسان کی زندگی اندھیروں میں ۵۸۷ مشرق علی صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکته جہاں مذاہب کمزور پڑ جائیں وہاں سماج طاقتور ہو جایا کرتا ہے ۶۱۷ مشہد (ایران) مسجد بینکوں سے سود پر روپیہ لے کر مسجد میں بنانے سے منع کرنے کی فیصلہ کی برکت مسجد کیلئے چندہ دینے پر دعا کیلئے نام کندہ کرنے کی ممانعت مسجد واشنگٹن کیلئے چندہ کی تحریک مسجد مبارک قادیان ۸۰ ۸۰ ΔΙ ۵۵۶ معاشرہ معاشرہ میں عظیم الشان پاکیزہ تبدیلیاں پیدا کرنے کا ذریعہ ۳۷۹ حضرت مغیر ۲۳۸ حضرت مفتی محمد صادق صاحب

Page 841

۴۲ ۵۰۴،۵۰۳،۴۹۰۰ ۴۶۵ ،۲۵۷ ارض مقدس ہر طرف سے خطروں اور سازشوں میں گھری ہوئی ہے کھی شہد کی مکھی اور عام لکھی میں فرق شہد کی مکھی کو ہونے والی وحی ملائشیا منافقین ۴۶۵ ۶ حضرت موسیٰ کو ظاہری نور کی شکل میں خدا کا دکھائی دینا آنحضرت اور موسیٰ کے نور کی قوت میں فرق مومن مومن کا دعا کے ساتھ اٹوٹ تعلق ۴۰ ۴۱ ۲۱ حقیقی ایمان کے نتیجہ میں مومن کا عطا ہونے والی نور بخشش ۳۴ ۱۲، مومن اپنے نیک اعمال سے بڑھ کر اپنے بد اعمال پر نگاہ رکھتا ہے ممکن ہے کہ ایک شخص مومن نہ ہو لیکن وہ اپنے کو ۲۸۴ ۷۳۳،۵۳۲،۴۴۷ ، ۴۴۵ ، ۴۳۳ ،۱۳۶ منافقین کے دل ایمان سے خالی منافقین اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے الہی نظام میں منافقین خود بخود نکھر کر الگ ہونے لگ جاتے ہیں منافقین کی ایک اور قسم اعمال کے منافق مومن ہوتے ہوئے بھی کافروں جیسے اعمال بجالانا ایمان کے پردے میں چھپا ہوا کافر ۳۱۲ ۳۱۶ ۳۹۶ ۴۳۰ ۴۳۰ ۴۳۰ مسلمان کہے اور کچھ اسلامی عادت اختیار کر لے ۳۱۳ مومن نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ۳۱۸ مومن کا اندھیرے سے نور کی طرف سفر موت تک مومن کی فراست کی نظر سے پاتال تک کے حالات جاری رہتا ہے دکھائی دینے لگتے ہیں مومن ایک بل سے دودفعہ نہیں ڈسا جاتا مومن خدا کے نور سے دیکھتا ہے کوئی شخص بظاہر ایما لا رہا ہولیکن در حقیقت ایمان نہ لایا ہو ۴۳۰ مومن کا کام ہے کہ بدیوں کو کم کرتا چلا جائے اور منصور احمد صاحب ڈاکٹر اپنی نیکیوں کو بڑھاتا چلا جائے قرآن کریم کا سپینش زبان میں ترجمہ کی توفیق ۱۳۳ ۱۳۴ مومن کو ہمیشہ تقویٰ کے ساتھ کام لینا چاہئے حضرت پیر منظور محمد صاحب منگولیا ۴۳۵،۴۳۴ ۴۷۲ ۴۹۵ ۴۹۷ ۵۲۰ ۵۲۰ ۳۴۲ مومن کو جو لذت ملتی ہے وہ خدا کے قرب سے ملتی ہے ۵۳۸ ۱۳۶ مومن کی زندگی لامتناہی زندگی ہے مومن کا اثاثہ حکمت ۵۴۰ ۶۲۲ حضرت صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اگر خدا نے مومن کو دینا ہوگا تو ہزار رستے اس کے ہیں ۷۲۳ نہایت ہی مبارک انجام آپ کو خلافت سے حیرت انگیز محبت، وفا اور عشق تھا منور خالد صاحب حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ کا طور پر آگ دیکھنے کا تمثیلی واقعہ ۵۹۳ ۵۶۵ ۱۲۰ ۷۷۷،۵۰۰،۱۶۱،۳۶ ۴۰ آپ کی قوم نے کہا کہ ہم ایک کھانے پر راضی نہیں رہ سکتے ۳۶۹ مومن عجز کے مقام پر فائز ہوتا ہے مهمان نوازی اکرام ضیف کی اہمیت میڈرڈ (سپین) میونخ ۲۱۵ ۱۵۴ ۱۹۵

Page 842

۴۳ ن.و ناسی ازم ہٹلر کی ہٹلریت اور نائٹسی ازم ۴۸۶ محض نصیحت کی کنجی سے دل نہیں کھلا کرتے نصیر احمد چوہدری صاحب ڈاکٹر امریکہ نصیر احمد طارق صاحب ناصریت ،صدا میت کو پیدا کرنے والے محرکات مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب کا جائزہ لینے کی ضرورت ناروے ۴۸۷ نفس کی تلخیاں معاشرے میں زہر گھولتی رہتی ہیں ۶۵۶،۲۶۳ نظام جماعت حضرت مرزا ناصراحمد خلیفة المسیح الثالت تفرقہ کا باعث نہ بنیں آپ نے وقف عارضی کا نظام جاری فرمایا چوہدری ناصر احمد صاحب امریکہ نا گویا (جاپان) نائیجیریا نبی / انبیاء ۲۵۸ ۱۷۶ تنقید کرنے کی عادت ۷۰۸ ۱۱۳ ۳۸۲ ۳۹۳ ۳۹۶،۳۹۵ جماعت پر تنقیدکرنے والوں کی اولاد ہیں ضائع ہوجاتی ہیں ۴۰۴ جماعت احمدیہ کے ادارے اور ذیلی تنظیمیں جھوٹ ۶۵۵ کے خلاف جہاد کریں ۶۲۴ نظام جماعت کو تمام ممالک میں ایک ہی نظام کی لڑیوں میں پرونے کی کوشش جماعت احمدیہ کے حسن انتظام کو حسن تقویٰ سے ہر نبی اپنے وقت کے بزرگوں کو سمجھا تا رہا ہے ۵۲۸ الگ نہیں کیا جا سکتا ۵۱۹ ۵۴۸ ۵۵۲ تمام انبیاء کرام منم علیہم گروہ میں داخل ہیں مکرم نبیل ارشد صاحب لندن مکرم ندیم احمد چوہدری صاحب کراچی نسل پرستی نسل پرستی کے شدید خطرات نسل پرستی بڑی شدت کے ساتھ ابھر رہی ہے یہودی نسل پرستی کے خلاف تعصب کا قلع قمع کرنے کی کوشش نسل پرستی اور یہودی LLL ۷۳۱ ۱۷۵ ۶۲۷ ۶۳۰ ۶۳۰ ۶۸۶ نسلی تفریقوں کے خطرات ساری دنیا میں پھیلے پڑے ہیں ۶۸۸ نصیحت نصیحت پر عمل کرنا کچھ تقاضے کرتا ہے ہر انسان نصیحت پر عمل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا نماز نمازوں پر زور دینے کی تحریک اور ان میں جان ڈالنے والا حوالہ نمازوں میں اپنی محبت کو خدا کے حضور پیش کرو نماز کے آداب سکھانے چاہئیں نظام کے بہانے نمازیں چھوڑنے کا کوئی جواز نہیں ریا کا شکار عبادتیں وہ نماز لذت سے کیسے خالی ہو جس میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہو ۴۴ ३ ۲۳۸ ۲۵۱ ۴۲۳ ۶۰۷ ،۶۰۶ ZIA اللہ تعالیٰ کے عرفان سے نماز میں لذت پیدا ہوتی ہے ۷۲۵ ہر دفعہ نماز میں آنے میں تمہیں ایک نئے خدا سے شناسائی ہوگی ۳۶۶ اگر نماز میں لذت پیدا کرنی ہے تو نماز سے باہر ذکر الہی کا سلیقہ سیکھیں ۷۴۳ ۷۴۳

Page 843

۴۴ جتنا آپ خدا تعالیٰ کے احسانات پر غور کریں گے اتنا حضرت نوح کی اولاد میں ایک خرابی کا ذکر آپ کی نمازیں لذتوں سے بھرنی شروع ہو جائیں گی ۷۴۴ اپنی نمازوں میں عرفان الہی کا رنگ بھریں وہ نمازیں جن میں کچھ کیفیت شامل ہوتی وہ کارآمد نمازیں ہیں نمازوں میں کیفیت پیدا کر نے کیلئے حواس خمسہ سے مدد لینا ضروری ہے نور ۷۴۷ نور مومن کے ایمان کی علامت ہے.موسیٰ پر اتاری جانے والی کتاب نور تھی ۷۴۸ نور کا تعلیم کی صورت میں ملنا کافی نہیں بلکہ اس کا 2M اپنی ذات کو عطا ہوناضروری ہے ۷۲۸ آنحضرت کا مجسم نور ہونا اور اس کا حقیقی مفہوم ۴۰۶ ۳۴ ۳۶ ۳۷ ے کے لیے اگر ہماری نمازیں زندہ ہوں گی تو ہم زندہ ہوں گے ۷۶۸ حضرت موسیٰ کو ظاہری نور کی شکل میں خدا کا دکھائی دینا ۴۰ نمازوں کو زندہ کرنے کے کچھ راز ۷۶۰ اندونی نور نصیب ہو تو خدا کا نو رجلوہ گر ہوکر پہلے نور کو نماز کے ذریعہ آپ اپنی پیدائش کے مقصد کو پا سکتے ہیں ۷۶۳ نور علی نور بنا دیتا ہے نماز کا جتنا عرفان بڑھے گا اتنا ہی زیادہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے تعلق بڑھے گا نماز بندے کو خدا سے ملانے کا ذریعہ ہے نماز کے مطالب میں ڈوب کر نماز سے لذت حاصل کی جائے نمازوں میں اپنی بیوی اپنے بچوں اور عزیزوں کو شامل کر لیں ۷۶۳ ۷۶۳ ۷۶۳ ۷۹۱ ۴۱ ۴۲ آنحضرت اور موسیٰ کے نور کی قوت میں فرق ام نور ہر ایک کونصیب ہوتا ہے جب تک اندرونی نور نصیب نہ ہو بیرونی نورا تر تا نہیں ۴۳ عبادات پر قائم نہ ہونے والوں کا نور بجھتا رہتا ہے ۴۳ ۴۷ ۴۳۴ نن سپیٹ (ہالینڈ) نفل/ نوافل ۳۲۳،۳۱۱ تہجد رات کے وقت لگنے والا سب سے عالی شان دربار ۲۴۱ کثرت سے فرشتوں کے نزول کا وقت نوافل اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ذریعہ حضرت نوح علیہ السلام مومنوں کیلئے نور کے سلسلہ میں خوشخبری اور احساس ذمہ داری ۴۶ حفاظت نور کا قرآنی مضمون اور دعا کی تلقین سورج کا نور محدود ہے خدا کا نور لامحدود ہے اگر تم نور کی خواہش رکھو گے تو آنکھیں کھولو گے نومبائعین ۴۳۴ ۷۵۵ نو مبائع کی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی فوری ضرورت ۲۵۶ ۲۵۶ ۲۳۹ نومبائعین کی عدم تربیت سے خطرات عدم تربیت یافتہ دنیا کیلئے خطرات کا موجب بن جاتے ہیں ۲۵۷ پاکستان میں نو مبایعین کے اندر بھی علمی خلا دکھائی دیں گے ۲۶۲ ۷۸۷،۷۷۷ ،۳۷۳،۱۱۲،۱۰۲ ۲۷۱ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب کا تذکرہ حضرت نوح کی قوم سے نیکی اور تقویٰ کا پانی سوکھ گیا ۲۷۱ نیت نیتوں کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے ۴۹۹ حضرت نوح کی قوم کو ایک لمبازمانہ امن کا نصیب ہوا اگر نیتوں میں فساد ہو تو اعمال اس فساد سے نہیں بچ سکتے ۵۰۱ اور خوشحالی نصیب ہوئی حضرت نوح کی خاطر ساری قوم کو ہلاک کر دینا حضرت نوع کابلند اور ارفع مقام ۲۷۱ جلد یا بدیر اعمال پر ان بد نیتوں کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے ۵۰۱ ۵۰۳ ۳۷۴ اعمال کا انحصار یقینا نیتوں پر ہوتا ہے ۳۷۴ بعض صورتوں میں نیتوں کا انحصار بھی اعمال پر ہوا کرتا ہے ۵۰۳

Page 844

اگر نیتوں کی اصلاح کرلی جائے تو خدا تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا نیوٹن ۵۱۳ ۴۵ ہجرت ہجرت کرنے والے اپنی نیتوں کے مطابق اجر دیئے نیوزی لینڈ واشنگٹن وحی وجی کے نتیجہ میں شہد کی مکھی میں پیدا ہونے والی عظیم تبدیلی وحی کے منکر قرآن کے منکر اور لقاء کے منکر وصل الہی کیلئے استقامت شرط وقف جدید وقف عارضی وقف عارضی کا نظام ۲۰۴ جائیں گے ۶۵۶ ہجرت حبشہ ۷۹ ۶ ۱۵۱ ۲۳۲ ۴۹۹ ۵۰۳ قرآن کریم میں ہجرت سے متعلق کئے گئے کچھ وعدے ۵۰۴ جس کی ہجرت اللہ کی خاطر اللہ کی طرف ہوگی وہ ضرور خدا ہی کو پائے گا آپ اپنی ہجرت کو الی اللہ بنانے کی کوشش کریں ہجرت کرنی ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کریں ۵۱۳ ۵۱۹ ۱۷۳، ۷۹۳،۷۷۹،۳۵۴،۱۷۵ اصل ہجرت بدن کی نہیں بلکہ روح کی ہجرت ہوا کرتی ہے ۵۳۵ ہدایت اللہ بنگوی چوہدری صاحب ۲۶۵،۲۶۳۲۶۰،۲۵۹،۵۲۸ افسر جلسہ سالانہ یو.کے پاکستان کی جماعتوں میں کثرت سے واقفین عارضی ہری کرشنا وفود کا بھیجوایا جانا ضروری ہے ۲۵۹ واقفین عارضی کے تجربات پر مشتمل واقعات شائع کئے جائیں ۲۶۰ ہلاکو خان وقف عارضی کے نظام کے تحت قرآن پڑھانے کا مستقل انتظام ہونا چاہیئے روس میں وقف عارضی کی تحریک یورپ مشرقی کیلئے واقفین عارضی کی تحریک ۲۶۲ ۳۴۷ ۶۵۸،۶۵۷ ہلاکو خان کے ذریعہ بغداد کو تباہ کروایا گیا ہلاکو خان کو دعوت دے کر حملہ کیلئے بلوایا گیا ہندوستان ۴۲۱،۴۱۱ ولی داد خان صاحب افغانستان کے باشندے ابتدائی واقفین میں شامل ۶۴۹ وی.پی.سنگھ (وزیراعظم ہندوستان) ۶۷۳۶۷۲،۶۷۱ آپ نے انصاف کے حق میں جھنڈ ابلند کیا ویٹینام ویلز (انگلستان) ہالینڈ ،۳۳۱،۳۲۸،۱۷۱ ،۲۵۸ ،۱۴۶،۱۳۷ ،۱۱۵،۹۳،۷۹،۷۸،۵۶ ،۶۱۲،۵۴۷ ،۵۲۷ ،۴۶۹،۴۱۵ ،۳۴۸ ،۳۴۰ ،۳۳۵،۳۳۴،۳۳۳ ،۶۶۸،۶۶۷،۶۵۸ ،۶۴۹ ،۶۴۸ ،۶۴۷ ،۶۴۶، ۶۳۹ ،۶۲۵ ۶۹۴۶۸۹،۶۸۳،۶۸۲۶۷۴،۶۷۳۶۷۲۶۷۱۰۶۷۰۶۶۹ ۶۸۳ ۹۲ ہندوستان میں آج کل لوگ جوق در جوق حقیقی اسلام میں داخل ہورہے ہیں ہندوستان سے اسلام کی احیاء نو کا آغاز ہوا تھا ۶۳۷اللہ تعالیٰ ہندوستان کو اپنے ملک کے باشندوں سے انصاف اور تقویٰ کے ساتھ سلوک کی توفیق دے ۶۵۶،۵۳۷ ،۳۱۱ ۲۶۳ ۲۷۷ ۲۷۸ ہندوستان میں صوفیاء کی بڑی بڑی بحثیں چلا کرتی تھیں ۳۱۷ ۲۶۴

Page 845

۴۶ وائسرائے ہندوستان ہندوستان میں ہونے والے مظالم کی داغ بیل پاکستان کیلئے ملاؤں نے ڈالی ہے ۵۴۹ سکھ بننے کا شوق بھی یورپ اور امریکہ میں چلا یورپ میں تبلیغ کے مواقع ۶۷۱ ۳۰۶ ۳۴۷ ہر نقص اور ہر برائی کو مغرب کے سر پر تھوپ دینا درست نہیں ۵۱۵ ہندوستان میں سکھ قوم کا دیگر قوموں سے علیحدگی کا مطالبہ مغربی معاشرہ میں ہر قسم کی لذت یابی کے سامان ہندوستان میں چھوٹی ذات کے ہند و ہزاروں سال ۵۸۲ مغربی معاشرے میں اخلاقیات اور فلسفہ کا بڑھایا جاتا ۵۸۵ سے اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم کا نشانہ بنا ہوا ہے ۶۸۳ مغربی معاشرہ کے مطابق کسی کوکسی سے روکنے کا کوئی ہندوستان میں کم و بیش پندرہ صدز با نیں بولی جاتی ہیں ۶۸۲ حق نہیں ہندوستان کی ریاست مذہبی نقطہ نگاہ سے قائم نہیں ہوئی ۶۸۲ ہنگری یا جوج ماجوج یا جوج ماجوج کی پیشگوئی یرغمال ۶۴۸ مغربی دنیا میں ذمہ داریوں سے آزادی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے مغربی معاشرہ میں سماج کو چھوڑ کر مذہب کو قبول ۴۹۵ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے یورپ میں پہلے قوم پرستی ابھرے گی اور پھر نسل پرستی ۵۸۶ ۵۸۶ ۶۱۷ ۶۳۱ مغربی دنیا میں بھی نے قسم کے نسلی تعصبات ابھر رہے ہیں ۶۳۷ یر غمال بنانا دنیا کے عام مروجہ اخلاق کے بھی خلاف ہے ۴۷۰ بیمن یورپ یورپ میں بھی شدید اختلافات پیدا ہوں گے اور ابھارے جائیں گے مغرب اور مشرق کی نظریاتی تقسیم ۸۷،۸۳،۵، ۱۳۹٬۹۳،۸۹،۸۸، ۱۴۰، ۴۲۴،۳۰۶،۱۴۱ خود غرضانہ مفادات مغربی ڈپلومیسی کا حصہ ہیں ۶۳۷ ۶۸۰ ۶۹۲ ۲۰۵ ۶۸۶ ۵۶ ۶۵۶،۲۴۹ ۶۸۹ ،۶۳۴،۶۳۲،۶۳۰، ۵۸۵ ، ۵۸۴،۵۴۷ ، ۴۳۸ ، ۴۳۷ ۶۵۶،۶۴۳۶۴۲۶۳۸ ،۶۳۷ حضرت یوسف علیہ السلام ۱۲۴ یونان یونان اور ترکی کے درینہ اختلافات یونائیٹڈ نیشنز ۱۳۷ یوگنڈا ۶۸۷ ،۴۹۴ ، ۴۷۵ ،۴۶۹،۴۶۸ ،۳۳۲ ۶۳۰ ۷۱۲ یوگوسلاویہ یہودیت یہودی نسل پرستی یہود کے ٹھوکر کھانے کی وجہ یورپ مغربی یورپ مشرقی ۶۵۸،۶۵۷ ،۶۵۶،۶۳۸ ،۳۴۴ ،۳۳۲،۳۲۷ ،۱۵۳،۱۲۴،۱۲۱ ۳۰۱ ٣٠٣ ۳۰۴ ۳۰۴ اشتراکیت اسلام کا نام مٹانے سے قاصر رہی یورپ دنیا کے لحاظ سے ترقی کے آخری زمینوں پر دکھائی دیتا ہے اہل یورپ کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا گر یورپ کی نئی نسل اپنی تہذیب سے بددل ہو چکی ہے یورپ کی نئی نسل کو خدا کی زندہ حقیقت کو ان کے سامنے پیش کرنا ہے

Page 845