Khutbat-eTahir Vol 8 1989

Khutbat-eTahir Vol 8 1989

خطبات طاہر (جلد 8۔ 1989ء)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات طاہر خطبات جمعہ ۱۹۸۹ء فرمودة سیدنا حضرت والا برای لی مینی رابع خليفة رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد ۸

Page 2

نام کتاب بیان فرموده ---------------- خطبات طاہر جلد نمبر ۸ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ

Page 3

لا ۳۵ ۵۱ لا ۸۳ 1+1 = ۱۳۵ نمبر شمار خطبه فرموده 1 ۶ Δ ۹ 1.11 ۶ / جنوری ۱۹۸۹ء ۱۳/ جنوری ۱۹۸۹ء فہرست خطبات عنوان مالی قربانی کی برکات اور وقف جدید کے سال نو کا اعلان فرارالی اللہ اور تبتل اختیار کرنے کا حقیقی مفہوم ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء قائد اعظم کو خراج تحسین، پاکستانی راہنماؤں کو مشورہ اور جماعت کو ابتلاء میں صب کی تلقین ۲۷ جنوری ۱۹۸۹ء نئی صدی کے استقبال نمائشیں لگانے اور ترسیل لٹریچر کی بابت انتظامی ہدایات ر فروری ۱۹۸۹ء جشن جو بلی کی تیاریاں، حکومت کی پابندیاں.افغان وعرب قوم کیلئے دعا کی تحریک ۱۰ار فروری ۱۹۸۹ء واقفین نو کے والدین کی ذمہ داریاں واقفین نو کے اخلاق سب سے بلند ہونے چاہئیں ۱۷ فروری ۱۹۸۹ء واقفین نو کی تعلیمی صلاحیتوں اور اخلاقی کردار کو نمایاں کرنے کا کام بچپن سے شروع کریں ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء سلمان رشدی کی کتاب پر رد عمل پر تبصرہ نیز حضور کی عالم اسلام اور مذاہب عالم کو نصائح ۳ مارچ ۱۹۸۹ء دنیا بھر کے احمدی رشدی کی شیطانی کتاب کے خلاف اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء عظیم الشان روحانی گیٹ سے گزرنے والا احمدیت کا خوش نصیب قافلہ ۷ار مارچ ۱۹۸۹ ء نئی صدی میں عجز و انکساری کے ساتھ قربانیاں پیش کرتے ہوئے داخل ہوں ۱۵۵ ۱۶۷ ۱۷۹ نئی صدی کے آغاز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے اسلام علیکم کا تحفہ ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء نئی صدی کا پہلا سفر گولوے جنوبی آئر لینڈ میں مشن ہاؤس کا افتتاح ۷ اپریل ۱۹۸۹ء انزل فيه القرآن کی لطیف تفسیر ، رمضان میں خدا کے ہو جائیں ۲۰۳ ۲۱۵ ۱۴ اپریل ۱۹۸۹ء کلمہ توحید سے چمٹ جائیں ، نکا نہ اور ۵۶۳ گ ب جڑانوالہ میں ہونیوالے مظالم کا ذکر ۲۲۹ ۲۱ اپریل ۱۹۸۹ء صد سالہ جوبلی کے سلسلہ میں ہونے والی تقریبات کا ذکر اور خدا کے فضلوں کا تذکرہ ۲۸ را پریل ۱۹۸۹ ء نئی صدی کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ گھروں کو جنت نشان بنادیا جائے یہ دیا درمئی ۱۹۸۹ء حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہمارے لئے امن اور صلح کا ایک عظیم الشان لائحہ عمل موجود ہے ۲۴۹ ۲۶۵ ۲۸۳ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 ۱۷ ۱۸

Page 4

نمبر شمار خطبہ جمعہ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ E ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ { ۳۷ عنوان ۱۲ مئی ۱۹۸۹ ء عالمگیر سازش کے ذریعہ جماعت کونشانہ بنانے میں سعودی حکومت کا سیاسی کردار ۱۹ مئی ۱۹۸۹ ء بہائیت کے حملے سے نمٹنے کیلئے جماعت خدا کے فضل سے پوری طرح مستعد ہے ۲۶ مئی ۱۹۸۹ء حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ، اللہ ہمیشہ آپ کے ایمان کی حفاظت فرمائے گا صفحہ نمبر ۲۹۹ ۳۲۳ ۳۴۳ ۲ جون ۱۹۸۹ ء جشن تشکر کے سلسلہ میں منعقدہ نمائشوں میں یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۳۶۱ ۳۸۳ ۹/ جون ۱۹۸۹ء مباہلہ کا سال مکمل ہونے پر احمدیت کی کامیابی اور منظور چنیوٹی کی ذلت کی پیشگوئی کا پر ۶ ارجون ۱۹۸۹ء نسلوں کی حفاظت اور بقاء کے لئے پہلے اپنے آپ کو اسلامی اخلاق سے مزین کریں ۴۰۵ / ۲۳ جون ۱۹۸۹ ء نوع انسانی کو فائدہ پہنچانے کے لئے خدا کی محبت کے کرشمے دکھائے جائیں ۳۰ رجون ۱۹۸۹ء سان فرانسسکو امریکہ میں احمدیہ مشن کا بابرکت افتتاح فرانسسکوامریکہ کا ۴۲۳ ۴۴۵ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء مسجدوں کی بنیاد تقوی پ رکھیں.لاس اینجلس اور گوئٹے مالا کی مساجد کے افتتاح کا ذکر ۴۵۷ ۱۴؍ جولائی ۱۹۸۹ء مساجد ومشن ہاؤسز کیلئے بڑی جگہ خریدیں جماعت آسٹریلیا کو دعوت الی اللہ کی خصوصی تحریک ۴۷۵ ۲۱ جولائی ۱۹۸۹ء چک سکندر میں تین شہادتیں ہوئیں اور احمدیوں کے سوسے زائد گھر جلائے گئے ۲۸ جولائی ۱۹۸۹ ء جاپانیوں کے دل حسن اخلاق سے جیتیں نیز واقعہ چک سکندر ۴ راگست ۱۹۸۹ ء جوبلی کے موقع پر کئے گئے دوروں سے ترقی کے دروازے کھلے ہیں ۴۸۵ ۴۹۹ ۵۰۹ ار اگست ۱۹۸۹ ء اپنے دلوں سے غیر اللہ کے نقش کو مٹا کر ہی ہم تمام عالم کو امت واحدہ بنا سکتے ہیں ۱۸ار اگست ۱۹۸۹ء مبللہ کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے جشن تشکر کا سال احمدیت کی کامیابی کا سال بنادیا ہے ۵۴۱ ۲۵ اگست ۱۹۸۹ء ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعہ تربیتی خلاکو پر کریں، میز بانان جلسہ اور مہمانوں کو نصائح اور ۵۶۱ ار ستمبر ۱۹۸۹ ء مغربی قومیں اپنی ہلاکت کے سامان کر چکی ہیں ، جماعت کا تمدن ہی زندہ رہنے والا ہے ۵۷۷ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء قول حسن اور اعلیٰ کردار کے حامل داعی الی اللہ کا مقابلہ دنیا نہیں کر سکتی ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء تقدیر الہی کا انسانی تدبیر اور دعا سے تعلق ۵۹۱ ۶۰۷ ۶۲۱ ۲۲ ستمبر ۱۹۸۹ء سکینڈے نیوین ممالک کے سارے احمدی با خدا اور پھر خدا نما وجود بن جائیں ۳۸

Page 5

نمبر شمار خطبہ جمعہ ۳۹ ۴۰ ३ ۴۲ ۴۳ ३ هم م ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ عنوان ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ ء جماعت پر اتے فضل نازل ہونگے کہ جواب تک ہوئے ہیں آپ ان کو بھول جائیں گے ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء ۱۳ / اکتوبر ۱۹۸۹ء رسول اکرم ﷺ کا اصل جہاد نصیحت کا جہاد ہے لا غلبن انا و رسلی کا وعدہ ضرور پورا ہوگا ۲۰ را کتوبر ۱۹۸۹ ء اللہ تعالیٰ جماعت کے ذریعہ دنیا کی ہدایت کے عظیم سامان پیدا کرنے والا ہے ۲۷ اکتوبر ۱۹۸۹ ء آج کا دور مذہبی تاریخ میں عظیم الشان دور شمار ہوگا.تحریک جدید کے سال نو کا آغاز نومبر ۱۹۸۹ء آئندہ ہر ملک کی ذیلی تنظیموں کے صدران براہ راست خلیفہ وقت کو جوابدہ ہوں گے ۱۰ نومبر ۱۹۸۹ ء احمدیت سے منحرف ہونے والوں اور ایمان لانے والوں کے درمیان فرق کا تذکرہ صفحہ نمبر ۶۳۱ ۶۴۵ ۶۶۹ ΥΛΙ ۶۹۱ ۷۰۹ ۷۲۵ ۷۴۱ ۱۷ نومبر ۱۹۸۹ ء کیرالہ میں ہونے والے مباہلہ کا ذکر، مکذب قومیں دنیا وی آفات کا شکار ہو جاتی ہیں ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء تنظیموں کو پانچ بنیادی اخلاق ، قیام نماز اور تلاوت کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تلقین ۷۵۵ اردسمبر ۱۹۸۹ء دنیا کومحمد کیلئے فتح کر لو، آئندہ واقفین نو بچوں پر بھاری ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اے ۸ دسمبر ۱۹۸۹ء منحرف فلسطینی عرب حسن عودہ کے ارتداد کی حقیقت ، مولوی منظور چنیوٹی کا کھلم کھلا جھوٹ ۷۸۵ ۸۰۱ ۱۵ر دسمبر ۱۹۸۹ء تعالوا الى كلمة سواء بيننا وبينكم کے اصول پر آپس میں تعلقات استوار کرو ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء مسلمانوں کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سب سے زیادہ دکھ احمدی کو ہوتا ہے ۸۱۵ ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء ۱۹۸۹ء کا سال تاریخ انسانی میں ایک ایسا بلند اور ممتاز سال بن کر اُبھرا ہے ۸۳۵

Page 6

خطبات طاہر جلد ۸ 1 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء مالی قربانی کی برکات اور وقف جدید کے سال نو کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۶ جنوری ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) اور پھر فرمایا: تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنی تلاوت کی: مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةٌ وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَقُطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقره ۳۴۲) یہ جمعہ ۱۹۸۹ء کا پہلا جمعہ ہے اور سابقہ روایات کے مطابق نئے سال کے پہلے جمعہ یا اُس سے گزرے ہوئے سال کے آخری جمعہ میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان ہوا کرتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں وقف جدید کے متعلق کچھ کہوں تمام دنیا کی جماعتوں کے تمام احباب اور خواتین اور بچوں کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں.یہ سال ہمارے لئے ایک خاص اہمیت کا سال ہے کیونکہ تقریب دو مہینے اور سترہ دن کے بعد احمدیت کی نئی صدی کا سورج طلوع ہونے والا ہے اور احمد بیت کی پہلی صدی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ، پوری شان کے ساتھ برکتیں پیچھے چھوڑتی ہوئی رخصت ہونے والی ہے اس پہلو سے یہ سال جدائی کا بھی سال ہے اور وصل کا سال بھی ہے.ایک ایسا دن جدا ہونے والا ہے جو اپنی روشنی میں ہمیشہ آئندہ ہر صدی سے بڑھ کر چمکے گا یعنی پہلی صدی کا دن کیونکہ اس کے سر پر وہ امام ظاہر ہوئے جن کی خوشخبری حضرت اقدس محمد مصطفی ملالہ نے خود عطا فرمائی اور جس کی تیرہ صدیوں تک اُمت انتظار کرتی رہی.پس اگر چہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت سینکڑوں ہزاروں گنا آئندہ صدی میں ترقی کرے گی لیکن وہ ساری ترقیاں مرہون منت ہیں

Page 7

خطبات طاہر جلد ۸ 2 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء اُن قربانیوں کی جو اس پہلی صدی میں کی گئیں.آئندہ صدی بھی قربانیاں مانگے گی ، آئندہ صدی میں بھی قربانیاں پیش کی جائیں گی مگر جو آغاز کا نور ہے اُس کو کسی طرح بھی آئندہ آنے والی روشنیاں دھندلا نہیں سکتیں.اب دراصل اُسی نور کی برکت ہے جو پھیلتی چلی جائے گی اور یہ دن روشن تر اور روشن تر ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ تمام دنیا پر اسلام کے کامل غلبہ کی صدی طلوع ہوگی.اس پہلو سے یہ جو پہلی صدی پر شام آئی ہے یہ کچھ اداسی کی کیفیت بھی پیدا کرتی ہے لیکن اُس کے ساتھ ہی تیز قدم بڑھانے کی طرف بھی ہمیں اُبھارتی ہے اور جیسے جیسے سورج غروب ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ کاموں کے لحاظ سے ابھی ہم پیچھے رہ گئے ہیں.بہت سے پروگرام تھے جن کی طرف میں نے بار ہا جماعت کو توجہ دلائی.بہت سے پروگرام ہیں جواس وقت زیر عمل ہیں اور جماعت تمام دنیا میں کوشش کر رہی ہے کہ انگلی صدی کے طلوع سے پہلے پہلے ہم ان پروگراموں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں لیکن یہ کام اتنازیادہ ہے اور کئی جگہ ایسے خلا دکھائی دے رہے ہیں کہ سال کے آغاز پر میں سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ دعاؤں کے ذریعے مدد مانگیں.بارہا میں نے تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور اگر چہ مایوس کسی قیمت پر کسی صورت میں بھی نہیں لیکن پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جتنی تیاری ہمیں کرنی چاہئے تھی ویسی تیاری ہم نہیں کر سکے اور اُس وقت ہمیشہ دعا کی طرف طبیعت متوجہ ہوتی ہے.دعا دو طرح سے کرشمے دکھایا کرتی ہے.اول یہ کہ جو کام ہم نہیں کر سکتے وقت کے لحاظ سے دُعا کی برکت سے تھوڑے وقت میں اُس سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے جتنی عام حالات میں انسانی عقل توقع رکھتی ہے.دوسرے دعا کی برکت سے ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی گزشتہ کوتاہیوں پر بھی پردہ ڈالتے ہوئے اپنے فضل کے ساتھ ایسے ثمرات ایسے پھل عطا فرما دیتا ہے جن کے لئے ہم حقدار نہیں تھے جن کے لئے ہم نے محنت نہیں کی تھی کوشش نہیں کی تھی محض اللہ کے فضل کے ساتھ وہ سارے پھل عطا ہوتے ہیں جن کی عام حالات میں توقع بھی نہیں کی جاسکتی.تھوڑے کو وہ قبول کرتا ہے اور بہت زیادہ کر دیتا ہے یہی وہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.چونکہ اس کا مالی قربانی سے تعلق ہے اس لئے وقف جدید کے سال نو کا آغاز کے اعلان کرنے سے پہلے میں نے اس آیت کی تلاوت کرنی مناسب

Page 8

خطبات طاہر جلد ۸ 3 خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۹ء سمجھا تا کہ اس کے متعلق میں کچھ بیان کروں.اس کا تعلق چونکہ ایک عمومی اصول سے ہے جس کا اطلاق ہماری موجودہ حالت پر نئی صدی کے طلوع سے پہلے کے حالات پر بھی ہوتا ہے اس لئے یہ آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے اس تمام صورت حال پر یکساں روشنی ڈالے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَةَ أَضْعَافًا كَثِيرَةً کون ہے جو خدا کو قرضہ حسنہ دے تاکہ اللہ تعالیٰ اُسے اُس کے لئے بہت بڑھا دے وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَبْضُطُ اور اللہ تعالیٰ چیزیں وصول بھی کرتا ہے قبض بھی کرتا ہے، اُن کو کھینچتا ہے اور بحط اُن کو پھیلا بھی دیتا ہے.قبض کا مضمون ایسا ہے جیسے مٹھی میں سے کوئی چیز انسان سمیٹ لے اور پھر مٹھی کھول کر اُس کو پھیلا دے اس کو بسط کہتے ہیں.تو خدا تعالیٰ چیزیں سمیٹتا بھی ہے اور اُن کو بڑھا کر پھیلا کر واپس بھی کیا کرتا ہے.وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اور اس کی طرف تم ہا لٹائے جاؤ گے.اس آیت میں ایک اُلجھے ہوئے مضمون کو سلجھایا گیا ہے جو بسا اوقات انسانی ذہن کو پریشان کرتا ہے.جب مومن سے خدا کی راہ میں چندہ مانگا جاتا ہے تو اپنے ایمان اور تقویٰ اور خلوص کی وجہ سے خواہ اس مضمون کی سمجھ آئے یا نہ آئے کہ خدا کو کیا ضرورت ہے.مومن خدا کی راہ میں مالی قربانی کرتے تو ہیں لیکن بسا اوقات یہ سوال اُٹھتے ہیں اور قرآن کریم نے ان سوالات کا مختلف جگہ ذکر فرمایا ہے کہ کیا خدا غریب ہے؟ خدا کو کیا ضرورت ہے کہ مومنوں سے قربانی لے، ساری کائنات اُس کی ہے اور کیوں وہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ تکلیف اُٹھا کر تنگی ترشی میں بھی ہم اُس کی راہ میں کچھ خرچ کریں.اس سوال کے مختلف جوابات قرآن کریم میں ملتے ہیں.یہاں جو مضمون ہے یہ مضمون قانون قدرت کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے.فرمایا تم دنیا پر، کائنات پر غور کر و تمام کائنات خدا نے اس طرح پیدا کی ہے کہ وہ چیزوں کو پہلے سمیٹتا ہے پھر بڑھا کر واپس کرتا ہے.زمیندارہ پر آپ غور کریں تو آپ کو یہ سارا مسئلہ سمجھ آ جائے گا.آپ اگر زمیندارہ جانتے ہیں یا تجربہ ہے تب بھی ورنہ سُنا تو سب نے ہوا ہے کہ زمیندار اُس وقت اپنا بیج زمین میں ڈالتا ہے جب اُس کو اُس بیج کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جب اُس کی فصل کا پھل اختتام تک پہنچ رہا ہوتا ہے، جب اُس کو کھانے کے لئے ، اپنی دیگر ضروریات کے لئے اس پیج کی براہ راست یا اُس کو بیچ کر اُس کی قیمت کی بہت

Page 9

خطبات طاہر جلد ۸ خطبه جمعه ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء ضرورت پڑتی ہے.وہ وقت ہے نئی فصل بونے کا اور انتہائی ضرورت کے وقت جو دانے اُس کے گھر بچتے ہیں اُن کو وہ مٹی میں ملا دیتا ہے.یہ ہے قبض کا مضمون اور کامل یقین رکھتا ہے کہ اس کے بغیر اُس کے آئندہ سال کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں.کامل یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ جو قبض کرتا ہے وہ بسط بھی کرتا ہے اور بسط کے مضمون پر یقین رکھے بغیر کوئی زمیندار بھی اپنا قیمتی بیج مٹی میں نہیں ملا سکتا.اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سے دنیا بنی ہے اُس وقت سے خدا تعالیٰ اسی مضمون کو ہر سال مختلف شکلوں میں عملی صورت میں دنیا پر ظاہر کرتا چلا جارہا ہے.انسان تو بالا رادہ اپنے پیج کومٹی میں ملاتا ہے لیکن اُس سے پہلے ارب ہا ارب سال سے جب سے نباتات پیدا ہوئی ہے یہی مضمون ہے جو روکشائی کر رہا ہے جو ایک چلتی ہوئی فلم کی طرح ہر سال سینکڑوں ، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں صورتوں میں ظاہر ہوتا چلا جارہا ہے.درخت جب پھلوں سے بھر جاتے ہیں تو پھر وہ اپنے پھلوں کو مٹی میں ملا دیتے ہیں ، ہوائیں اُن کو بکھیر دیتی ہیں اور بظاہر سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے لیکن اُنہی دانوں سے پھر اور پھل پیدا ہوتے ہیں اور درخت اگتے ہیں اور سارا نظام کائنات اسی طرح جاری و ساری ہے.تو جب خدا تعالیٰ نے کائنات کو اس طرح بنایا اور اسی اصول اور اسی مضمون پر کائنات میں ارتقاء اختیار کیا ہے اور مجموعی طور پر انسان کی دولت یا حیوانات کی دولت بڑھتی چلی گئی ہے کم نہیں ہوئی تو کیسے ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ روحانی نظام میں اس آزمودہ نسخے کو بھلا دے یارڈ فرما دے.پس روحانی دنیا میں بھی جو مالی قربانی کے مطالبے ہیں وہ دراصل اُسی خدا کے مطالبے ہیں جس نے آپ کو دنیا میں مٹی میں پیج ما نا اور پھر فصلیں کاٹنے کا گر سکھایا ہے.فرمایا وَ اللهُ يَقْبِضُ وَ يَبْضُطُ تم کیوں نہیں دیکھتے اس بات کو کہ خدا تعالیٰ نے یہ قانون جاری فرمایا ہوا ہے کہ جو لوگ اپنا ماحصل، اپنی دولت کو خدا کے سپرد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُسے بڑھا کر واپس کیا کرتا ہے.فرمایا کہ جس کے لئے وہ چاہتا ہے اُس کو بہت بڑھا کر عطا فرتا ہے.وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اور اُسی کی طرف تم لوٹ کر جانے والے ہو.وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ کا مطلب ہے اُس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو اس کا پہلے مضمون کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس کا پہلے مضمون سے دو طرح کا تعلق ہے.اوّل یہ کہ ہم سب کچھ اپنا جو خدا کی کائنات کو واپس کرتے ہیں یا ہم سے واپس کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں ہوا کرتا بلکہ دوبارہ نئی صورتوں میں اُٹھتا ہے.نئی صورتوں میں نکلتا ہے.تو فرمایا تم بھی جومٹی میں ملائے جاؤ گئے

Page 10

خطبات طاہر جلد ۸ 5 خطبہ جمعہ ۶ / جنوری ۱۹۸۹ء یہ تمہارے لئے کوئی انجام نہیں ہے یہ تمہارے لئے نئی پیدائش کا دن ہوگا.تم خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور جس طرح خدا تعالیٰ اپنی طرف لوٹائے جانے والی چیزوں کو بڑھایا کرتا ہے تمہیں بھی نئی خلق عطا ہوگی جو زیادہ وسیع ہوگی پہلے سے.ہر پہلو سے وہ زیادہ شاندار اور زیادہ لطیف ہوگی اور جو کچھ تم قانون قدرت کو اپنے وجود کے طور پر واپس کرو گے اُسے خدا تعالیٰ بہت بڑھا کر اور نشو ونما دے کر پھر ظاہر فرمائے گا.دوسرا معنی اس آیت کے اس حصے کا یہ ہے کہ جو کچھ تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو یہ نہ سمجھو کہ ساری جزا تمہیں اس دنیا میں مل جاتی ہے.اس دنیا میں بھی ضرور جز املتی ہے اور خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والوں کو بہت بڑھا کر عطا کیا جاتا ہے لیکن اگلی دنیا میں بھی تمہارے لئے یہ خزانے جمع ہورہے ہیں.اگر انسان کسی ایسی جگہ خزانے بھجوا دے جہاں خود نہ پہنچ سکتا ہو تو وہ خزانے اُس کے ہاتھ سے ضائع گئے ، وہ ہمیشہ کے لئے کھوئے گئے.تو آیت کا یہ حصہ انسان کو یقین دلاتا ہے کہ تمہاری امانت جہاں پہنچ رہی ہے وہاں تم بھی جانے والے ہو اور جو کچھ تم بھیجو گے وہ اس کو بھیجے ہوئے کی نسبت ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں بلکہ انگنت گنا زیادہ اُس دنیا میں پاؤ گے جس میں آخر تمہیں لوٹ کر جانا ہے.تو یہ چھوٹی سی آیت بہت وسیع مطالب اپنے اندر رکھتی ہے اور مالی قربانی کا فلسفہ ہمیں سمجھاتی ہے.صرف مالی قربانی کا نہیں بلکہ دیگر قربانیوں کا فلسفہ بھی سمجھاتی ہے.ہم خدا کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں یقین کریں کہ ہر چیز جو ہم خرچ کرتے ہیں اُسے برکت دی جائے گی، اُسے بڑھایا جائے گا اور واپس ہمیں لوٹایا جائے گا.یعنی ہم تو خدا کی طرف لوٹیں گے مگر خدا ہر چیز جو ہم خدا کی طرف بھیجتے ہیں ہماری طرف لوٹاتا چلا جائے گا.اس پہلو سے نئی صدی کے حالات کے ساتھ بھی اس مضمون کا تعلق ہے.جو کچھ خدا نے ہمیں دیا وقت دیا ، عزتیں دیں، اموال دیئے ، جانیں عطا فر ما ئیں.کئی قسم کی سہولتیں ہمیں بخشیں.آغاز میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت باوجود اس کے کہ جماعت بہت چھوٹی اور بہت کمزور تھی اور بہت غریب تھی اور اُن کے پاس بچت کی نسبت بہت تھوڑی تھی.ایسے حالات تھے کہ اکثر احمدی بمشکل زندہ رہنے کے لئے گزارے پا رہے تھے.بہت کم تھے جو غیر معمولی طور پر متمول شمار ہو سکتے ہوں لیکن انہوں نے اپنے اموال بھی دیئے خدا کی راہ میں اپنی عزتیں بھی قربان کیں، اپنے تعلقات، اپنی دوستیاں، اپنی رشتہ داریاں کوئی ایسی چیز جس کی انسان

Page 11

خطبات طاہر جلد ۸ 6 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء قدر کر سکتا ہے ایسی نہیں جو اس دور میں جماعت احمدیہ نے خدا کی راہ میں قربان نہ کر دی ہوں.جو کچھ اُن کو حاصل تھا وہ سب کچھ دے دیا.ایسے خطر ناک حالات تھے کہ اُس زمانے میں بعض علاقوں کے متعلق انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہاں کے معزز لوگ تمام عزتوں کو اپنے ہاتھ سے حج کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہہ دیں گے اور یہ لمبی کہانی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا جو کچھ انہوں نے خدا کی راہ میں پیش کیا اُس کو بہت بڑھا کر اللہ تعالیٰ نے اُن کی آئندہ نسلوں اور اُن کے خاندانوں کو عطا فرمایا.آج دنیا کے کونے کونے میں احمدی نسلیں جو ان بزرگوں کی نسلیں ہیں پھیلی پڑی ہیں وہ گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی ایک چیز کو بھی اُن کے لئے اپنے پاس رکھا نہیں بلکہ يَقْبِضُ وَ يَبضُطُ کے مضمون کو بڑی شان کے ساتھ پورا فرمایا ہے.اُن کو وسعتیں عطا کیں اُن کی عزتیں بڑھائیں، اُن کے اموال بڑھائے ، اُن کی طاقتیں بڑھائیں، اُن کے اثر و رسوخ بڑھائے ، اُن کی جانوں کو برکت دی، اُن کے خاندانوں میں اُن کی نسلوں کو برکت عطا فرمائی.غرض یہ کہ ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑھا چڑھا کر اُن کو واپس فرمایا.آج ایک سو سال کا عرصہ گزرنے کو ہے اور اس ایک سو سال میں ہم مسلسل اللہ تعالیٰ کے بڑھتے ہوئے ، وسیع تر ہوتے ہوئے فضلوں کا نظارہ کرتے چلے آئے ہیں.اس لحاظ سے آج جو ہمیں قربانی کی توفیق مل رہی ہے اس پر اگر آپ غور کریں تو یہ بھی انہی قربانیوں کے بچے ہیں جو قربانیاں اُس وقت تھوڑی نظر آتی تھیں آج زیادہ ہو کر جو دکھائی دے رہی ہیں دراصل یہ بھی يَقْبِضُ وَ يَنقُطُ کے مضمون سے تعلق رکھنے والی بات ہے.قربانیوں کی طاقت کو بھی خدا تعالیٰ بڑھاتا ہے، قربانیوں کے مظاہروں کو بھی اللہ تعالیٰ برکت عطا فرماتا ہے اور ایک نسل جو اس بات کا عرفان نہ رکھتی ہو بعض دفعہ بیوقوفی میں یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم زیادہ قربانیاں دے رہے ہیں، ہم زیادہ وقت دے رہے ہیں، ہم منظم طور پر زیادہ کام کر رہے ہیں لیکن اس بات کو وہ بھول جاتے ہیں کہ دراصل اُن کے آباء کی قربانیاں ہیں جو بحیثیت قربانی برکت پارہی ہیں.پس جو کچھ آج ہم روحانی لحاظ سے مٹی میں ملا رہے ہیں یا ملانے کی توفیق پارہے ہیں.مٹی میں ملانے کی سعادت پارہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ صدی بکثرت ان قربانیوں کا فیض پائے گی اور اگر ہم دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کی معافی چاہتے ہوئے ،استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ

Page 12

خطبات طاہر جلد ۸ خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۹ء سے یہ التجا کرتے رہیں کہ جو کچھ ہم نے خدا کے حضور قربانیوں کی صورت میں پیش کیا ہے ہم جانتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ کر سکتے تھے.بہت تھوڑا ہے جو ہم نے کیا ہے لیکن تو بڑھانے والا ہے تو تھوڑے کو بہت کرنے والا ہے اور تیری طاقتوں کی حد کوئی نہیں ، کوئی شمار نہیں ہے اس لئے اس سے قطع نظر کہ ہم نے کیا ڈالا تیری راہ میں تو اسے بہت بڑھا دے.اس مضمون کو سمجھنا ہو تو پھر اسی مثال کی طرف واپس لوٹتے ہیں ہر زمیندار جو دانے مٹی میں ملاتا ہے اُس کے ساتھ مٹی ایک جیسا سلوک نہیں کیا کرتی.حالات مختلف ہیں، زمینیں مختلف ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے اس مثال کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض ایسی قربانیاں ہیں جو خالصہ للہ کی جاتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو دکھاوے کی خاطر کی جاتی ہیں.جو خالصہ للہ کی جاتی ہیں اُن کی مثال ایسی ہے جیسے زمیندار کا دانہ کسی ایسی زرخیز زمین میں پڑے جو غیر معمولی طور پر اس دانے کو بڑھانے کی طاقت رکھتی ہو.اگر تیز بارش ہو تب بھی وہ زمین بڑی کثرت کے ساتھ اُس پیج کو اگائے اور نشو ونما عطا کرے اور اگر بارش نہ بھی ہو تو رات کی شبنم سے ہی وہ استفادہ کر سکے اور اُسی شبنم کے ذریعے، تھوڑے کے ذریعے بھی وہ اس بیج کو بڑھا دے اور بعض قربانیاں ایسی ہیں جو سطحی ہوا کرتی ہیں جن کو خدا تعالیٰ قبول نہیں فرماتا.اُن کی مثال ایسی ہے جیسے ایسی سخت چٹان پر بیج پڑے جس کی سطح پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی ہے تو تھوڑی دیر کے لئے روئیدگی ظاہر کرتی ہے، سبزہ دکھائی دیتا ہے لیکن جب بھی بارش آتی ہے وہ سب کچھ بہا لے جاتی ہے.پھر اسی مثال میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جولوگ اپنی قربانیوں کا تتبع کرتے ہیں اُن کے پیچھے چلتے ہیں اور اُن کی آبیاری کرتے ہیں اُن کو بہت زیادہ دیا جاتا ہے بہ نسبت اُن زمینداروں کے جو بیج پھینک کر خواہ اچھی زمین پر پھینکا ہو پھر اُس سے غافل ہو جاتے ہیں.تو صرف قربانی کر دینا کافی نہیں ہے قربانی کیسی ہے اور کس حد تک نشو ونما پانے کی توفیق رکھتی.ہے؟ یہ ایک بہت ہی وسیع مضمون ہے اس لئے دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے.وہ حال کا بھی خدا ہے، مستقبل کا بھی ہے اور ماضی کا بھی ہے.یہ التجا کر نی چاہئے کہ اگر ہماری قربانیوں میں ہماری نیتوں میں کچھ فتور بھی رہ گیا ہو اور خالصہ تیرے لئے نہ بھی کی گئی ہوں تو آج ہم التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بخش دے، ہمیں معاف فرما! ہماری قربانیوں کو کامل سچائی عطا کر ! تو

Page 13

خطبات طاہر جلد ۸ 8 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء منتقبل کا خدا ہے ویسے ماضی کا بھی ہے تو زمانے کا مالک ہے چاہے تو ہماری گزری ہوئی قربانیوں پر بھی پردہ پوشی فرما سکتا ہے اور اُن کو تاہیوں کی زد سے ہماری قربانیوں کو بچاسکتا ہے.اس لئے آئندہ کے لئے ہمیں خلوص کی تکلیف عطا فرما اور سابقہ کوتاہیوں کو بخش دے اور پھر ایسی فضلوں کی موسلا دھار بارش فرما کہ ہماری تھوڑی قربانیاں بھی بہت زیادہ نشو و نما پائیں اور ہر زمانے میں نشو و نما پاتی رہیں.یہ مضمون جو ہے اس کو پھر خدا تعالیٰ اور بڑھاتا ہے.فرماتا ہے کہ عام قانون قدرت میں جب بہت دیا جائے تو ایک دانہ سات بالیوں میں تبدیل ہو سکتا ہے اور ہر بالی میں سوسو دانے ہوں تو ایک دانہ سات سو گنا ترقی کر سکتا ہے لیکن فرمایا کہ یہیں بات ختم نہیں ہو جاتی یہ تو تمہارے اخلاص کے کمال اور خدا تعالیٰ کے اس اخلاص کو قبول کرنے کا مضمون ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل کا مضمون جس کا قربانیوں سے کوئی تعلق نہیں یعنی براہ راست تعلق نہیں وہ اس کے علاوہ ہے فرمایا اگر تم بہترین رنگ میں خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرو گے تو عام قانون ہے جو روحانی دنیا میں چل رہا ہے جس کا اطلاق بعض شکلوں میں مادی دنیا میں بھی تم ہوتا ہوا د یکھتے ہو وہ یہ ہے کہ ایک قربانی سات سو گنا زیادہ پھل پیدا کر سکتی ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں لوگ جن کی خاطر خدا لا محد و دطور پر ان قربانیوں کے پھلوں کو بڑھا بھی سکتا ہے يُضعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ (البقرہ:۲۶۲) جس کے لئے وہ چاہے، جس کے لئے وہ فیصلہ کرے وہ ان اربعوں اور قوانین کی حد سے بالا سمجھا جائے گا اور ان حدود کے دائرہ کے اندر اس سے سلوک نہیں کیا جائے گا بلکہ لامحدود سلوک کیا جائے گا.تو ہمارا جس خدا سے تعلق ہے اُس کے ساتھ یہ جو حسابی معاملات ہیں یہ ہمیں درست کرنے ہوں گے اور بے حساب کی توقع اُس سے ہم رکھیں تو وہ بے حساب دے سکتا ہے.پس جہاں تک انسان کا تعلق ہے اُسے اپنا حساب ضرور درست کرنا چاہئے ، اور اپنا حساب درست کرنے کے بعد اُس کے ساتھ خدا پر توکل رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو حساب کے مطابق بہت دے یا بے حساب عطا کرے.اس بے حساب عطا کرنے کے مضمون میں بظاہر کوئی منطق نہیں.وہ کون لوگ ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ بے حساب سلوک فرماتا ہے.اس مضمون کو اگر آپ سمجھ لیں تو پھر ہم میں سے ہر شخص اللہ تعالیٰ سے لامحدود عنایات کی توقع رکھ سکتا ہے.خدا تعالیٰ کے ہاں احسان میں بھی عدل پایا جاتا ہے اور کلیۂ بے وجہ اُس کا کوئی سلوک بھی نہیں ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے بے حساب عطا کرنے کا مضمون اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ آپ اپنی

Page 14

خطبات طاہر جلد ۸ خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء حد تک پہنچ جائیں اور اُس کے آگے بڑھنا آپ کے لئے اس لئے ممکن نہ ہو کہ آپ کی استعدادوں میں اُس سے آگے بڑھنا ممکن نہیں.وہاں سے فضل کا مضمون شروع ہوتا ہے اور وہاں سے بے حساب کا مضمون شروع ہوتا ہے.پس اس لئے میں نے کہا تھا کہ آپ اپنا حساب پورا کر لیں جتنی توفیق ہے، جتنی استطاعت ہے وہ سب کچھ اگر آپ خدا کی راہ میں پیش کردیں اور ایک ایسا مقام دیکھیں کہ جن سے آگے آپ بڑھ نہیں سکتے.وہاں پھر آپ کی نیکیوں کی حسرتیں باقی رہ جائیں گی وہاں خواہشیں ہیں جو دل میں کلبلا ئیں گی اور بے چین کریں گی کہ کاش ہم اس سے بھی زیادہ کر سکتے.اس حد سے آگے پھر آپ کے عمل کی حد ختم ہو جاتی ہے اور خدا کے لامحدود فضلوں کی حد شروع ہو جاتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی میلے سے اللہ تعالیٰ نے جو لا محدود فضلوں کا سلوک فرمایا ہے.ایک جاہل دنیا دار یہ کہہ سکتا ہے کہ اُس کی مرضی تھی اُس نے جس طرح چاہا اُن کو بڑھا دیا اور اس میں اُس کا Arbitrary فیصلہ ہے یعنی بغیر کسی استحقاق کے بغیر کسی وجہ کے.دنیا کے لحاظ سے یہ بھی بات درست نظر آتی ہے.مگر امر واقعہ اس سے مختلف ہے.خدا تعالیٰ کے ہر احسان کے اندر عدل کا مضمون پایا جاتا ہے اور اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ملے سے یا آپ کی غلامی میں کسی اور شخص سے جب آپ خدا تعالیٰ کا لامحدود فضلوں کا سلوک دیکھتے ہیں تو یقین کریں کہ اُس شخص کی قربانیوں کی ایک ایسی حد پہنچی تھی جس سے آگے اُس کی تمنا ئیں رہ گئیں تھیں اور حسرتیں رہ گئیں تھیں اور خدا نے جو اُس کو استعدادیں عطا کی تھیں اُن میں توفیق نہیں تھی کہ اُس سے آگے بڑھ سکے.تب خدا کے فضل نے وہاں سے اُس کا ہاتھ پکڑا ہے اور پھر اُس کو لا محدود فضلوں کی دنیا میں پہنچادیا ہے.معراج محمد مصطفی ﷺ میں ہمیں یہی مضمون ملتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہو نے بشریت کی حدود کو آخری مقام تک کوشش کی ہے.اُس سے بالا کوئی مقام نہیں ہے بشریت کے لئے جس حد تک ممکن تھا سب کچھ خدا کی راہ میں دیا ہے.یہاں تک کہ اس کے بعد پھر خدارہ جاتا ہے باقی اور بشریت کی تمام طاقتیں ختم ہو جاتی ہیں اور کوتاہ ہو جاتی ہیں مگر وہاں ٹھہرے نہیں ہیں وہاں تعلق باللہ کا ایک نیا مضمون شروع ہوا ہے جو لا محدود ہے پھر اُس تک عام انسان کی نظر اور اُس کا فہم اور اُس کا ادراک پہنچ ہی نہیں سکتے لیکن روزمرہ کی زندگی میں ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے یہ تجربے ہو سکتے ہیں اس لئے جماعت احمدیہ کو اپنے ایسے خدا سے تعلق جوڑتے ہوئے اس تعلق کو محدود نہیں رکھنا چاہئے.

Page 15

خطبات طاہر جلد ۸ 10 خطبه جمعه ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء بڑا ظلم ہوگا کہ الہ تعالی تولا حد و فضل کرنے والا ہواور ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اس کے فضلوں کے ہاتھ روک رہے ہوں اور اُن کو محدود کر رہے ہوں.اس لئے اب یہ دعا کرنی چاہئے کہ جو کوتاہیاں ہم سے ہو گئیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن کے اوپرستاری کا پردہ ڈال دے اور ہماری غفلتوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے نیکیوں کے طور پر شمار کر لے اور ہماری استعدادوں کو بھی بڑھائے اور ہمیں اپنی استعدادوں تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے.یہاں تک کہ نیکی کے ہر میدان میں ہم اُس کنارے تک پہنچ جائیں جس کے آگے ہماری بشریت کی حد کے لحاظ سے بڑھنا ممکن نہ رہے اور پھر ہم خدا کے لا انتہا فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں اور آئندہ صدیاں ہماری ان قربانیوں کے لا انتہا پھل کھاتی چلی جائیں.ہم نے پہلوں کی محنت کے پھل کھائے ہیں اس کو یا درکھیں اور اُن کو اپنی دعاؤں میں نہ بھلا ئیں اور ہماری محنت کے پھل آئندہ نسلیں کھائیں گی اور اگر آپ پہلی نسلوں سے یہ سلوک کریں گے کہ اُن کے سامنے اپنی ممنونیت کا سر جھکائیں گے اور اپنے دل میں سوز و گداز کے ساتھ اپنی دلی دعاؤں میں ان کو یا درکھیں گے تو یا درکھیں کہ پھر آئندہ نسلیں بھی آپ سے ایسا ہی سلوک کریں گی.پس یہ جو بقیہ دو ماہ سترہ دن اس صدی کے باقی ہیں اُن کو خصوصیت کے ساتھ ان دعاؤں میں وقف کریں اور اپنے حالات کو ٹولیں ، اپنے دلوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں کس حد تک کمی رہ گئی ہے.اصلاح نفس کے لحاظ سے جو تربیت کا مجاہدہ ہم کر رہے ہیں اُس کے لحاظ سے اور خدا کی راہ مین قربانیاں پیش کرنے کے لحاظ سے اور دعایہ کریں کہ خدا ان دو ماہ سترہ دنوں میں اتنی برکت ڈال دے کہ وقت کے پیمانے کے لحاظ سے نہیں بلکہ فضل کے پیمانے کے لحاظ سے ہمیں عمل کی توفیق عطا ہو اور اللہ تعالیٰ اُس عمل کو قبول کرتے ہوئے ہماری جزاؤں کو لا انتہا کر دے.اس مختصر تعارف کے بعد اب اسی مضمون کی روشنی میں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.آپ کو جیسا کہ معلوم ہے کہ وقف جدید پہلے صرف پاکستان اور ہندوستان کی حد تک محدود تحریک تھی لیکن گزشتہ تقریباً تین سال کا عرصہ ہوا اسے ساری دنیا میں پھیلا دیا گیا ہے اور اگر چہ بعض ممالک ایسے ہیں جہاں وقف جدید کا چندہ وہیں خرچ کیا جاتا ہے.انہی ممالک میں مثلاً افریقہ کے ممالک اور بعض اور دوسرے ممالک ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک کا وقف جدید کا چندہ زیادہ تر

Page 16

خطبات طاہر جلد ۸ 11 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء ہندوستان میں خرچ کے لئے وقف.ہے.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسلسل جماعت وقف جدید کے لحاظ سے قربانی میں آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.۱۹۸۴ء میں وعدوں کے متعلق تو یہاں ذکر نہیں لیکن وصولی سترہ لاکھ پندرہ ہزار بہتر روپے تھی.۱۹۸۵ء میں بیس لاکھ چوالیس ہزار ہوئی.۱۹۸۶ء میں تئیس لاکھ بانوے ہزار.۱۹۸۷ء میں اٹھائیس لاکھ اکسٹھ ہزار اور ۱۹۸۸ء میں ان کا خیال ہے کہ انشاء اللہ اکتیس لاکھ سے بڑھ جائے گی یعنی کل آمد بڑھ جائے گی اُس تاریخ تک جب یہ رپورٹ بھجوائی گئی پچیس لاکھ پچاسی ہزار روپے وصولی تھی.وقف جدید کا سال اگر چہ دسمبر میں ختم ہوتا ہے لیکن وصولی جو گزشتہ سال کی ہے وہ اگلے ایک دو ماہ تک آتی چلی جاتی ہے اور دسمبر کے آخر پر پہلے چونکہ جلسہ سالا نہ ہوا کرتا تھا اس لئے سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی.اب یہ Peak وہاں سے تبدیل ہوکر جنوری میں داخل ہو گئی ہے یعنی سب سے زیادہ وصولی چونکہ اب ڈاک کے ذریعہ آتی ہے اس لئے عموماً سال کے آخر پر جماعتیں جب حساب سمیٹتی ہیں تو زیادہ تر رقمیں جنوری میں داخل کرتی ہیں.جو گزشتہ میرا تجربہ ہے اور مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے تقریباً جو بیس سال وقف جدید میں خدمت کی توفیق ملی ہے ، وہ یہی ہے کہ بعض دفعہ میں فیصد تک ، پچیس فیصد تک بھی آخری ایک دو ماہ میں گزشتہ سال کا چندہ وصول ہوتا ہے تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ جس رفتار سے اللہ تعالیٰ پاکستان کی جماعتوں کو آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.اس سال بھی ویسا ہی سلوک فرمائے گا اور ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرما تارہے گا.دعا کی تحریک کے طور پر عموماً ان جماعتوں کے نام سنائے جاتے ہیں جنہوں نے مالی قربانی میں غیر معمولی حصہ لیا ہے.دفتر اطفال کا جہاں تک تعلق ہے جس ترتیب سے میں یہ نام سناؤں گا اُسی ترتیب سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اطفال کے چندہ میں ان جماعتوں کو غیر معمولی قربانی کی توفیق ملی ہے.ربوہ سرفہرست ہے پھر بدین، پھر سانگھڑ، پھر سکھر، پھر خیر پور، رحیم یارخان ،مظفر گڑھ ، راجن پور، گوجرانوالہ، لاہور، سیالکوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، سرگودھا، چکوال، راولپنڈی، اسلام آباد اور اٹک.جہاں تک عام چندہ وقف جدید کا تعلق ہے اُس میں اس فہرست کی ترتیب حسب ذیل ہے: ربوہ پھر سر فہرست ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے، پھر کراچی، پھر حیدر آباد، پھر تھر پارکر، سانگھڑ ، خیر پور،

Page 17

خطبات طاہر جلد ۸ 12 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء رحیم یار خان، ڈیرہ غازیخان، راجن پور، بہاولنگر ، ملتان، گوجرانوالہ ، لا ہور ، سیالکوٹ، فیصل آباد، شیخوپورہ، جھنگ ، اوکاڑہ، گجرات ، چکوال، راولپنڈی اور ایبٹ آباد.یہ میں نہیں جانتا کہ وقف جدید نے ترتیب کیسے قائم کی ہے؟ جب میں وقف جدید میں ہوا کرتا تھا تو بڑی احتیاط سے مختلف پہلوؤں سے جائزے لے کر یہ ترتیب قائم کیا کرتا تھا.جہاں تک کل چندے کا تعلق ہے ظاہر بات ہے کہ یہ ترتیب درست نہیں ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ سانگھڑ کو لاہور سے زیادہ یارحیم یار خان یا ڈیرہ غازیخان کو لاہور سے زیادہ چندہ پیش کرنے کی توفیق ملی ہو.اس لئے یا تو غلطی ہوئی ہے اور اس دفعہ انہوں نے یہ جو فہرست بھجوائی ہے یہ بے ترتیب بھیج دی ہے مگر چونکہ گزشتہ سالوں میں ایک ترتیب قائم کی جاتی تھی اور اول جماعتوں کا اول ذکر کیا جاتا تھا اس لحاظ سے میں نے یہی سمجھا کہ اسی ترتیب سے ان جماعتوں نے قربانی میں حصہ لیا ہوگا.اگر انہوں نے یعنی وقف جدید کے دفتر والوں نے کسی اور پہلو سے یہ ترتیب قائم کی ہے مثلاً گزشتہ سال کے مقابل پرفی کس چندہ دہندہ کے اضافے کا جہاں تک تعلق ہے تو ہو سکتا ہے یہ ترتیب بدل چکی ہو اور بعض چھوٹی جماعتیں اس پہلو سے زیادہ آگے آجائیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے بعض دفعہ ترتیب قائم کی جاتی ہے کہ وعدوں کے مقابل پر وصولی کی نسبت کے لحاظ سے کون آگے ہے.چونکہ ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے یا بھیجی گئی ہے تو تاخیر سے بھیجی گئی ہے کہ ابھی میں اُس کا مطالعہ نہیں کر سکا.اس لئے میں نے احتیاطاً ساتھ یہ وضاحت کر دی ہے یہ نہ ہو کہ بعد میں جماعتیں پھر احتجاج شروع کر دیں کہ ہم نے زیادہ دیا تھا آپ نے ہمارا نام پیچھے کر دیا کیونکہ اکثر جماعتیں پھر یہ کہا کرتی ہیں.تو جو بھی ہے اللہ کے نزدیک قربانیوں کے لحاظ سے آگے اُسے اللہ اپنی جزا میں بھی آگے رکھے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں اُن کو بڑھائے اور اُن کو بھی صف اوّل کی قربانی کرنے والوں میں شامل فرمائے.جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے جو اطلاعات اب تک ہمیں ملی ہیں اس کے مطابق یہ ترتیب درست ہے جس ترتیب میں اگلے نام پڑھوں گا.صرف ایک شکوے کی بات یہ ہے کہ بیرونی جماعتوں نے بار بار توجہ دلانے کے باوجود کوائف بھیجنے میں بہت سنتی کی ہے اور اب فہرست جو میں پڑھ کر سناؤں گا اس میں بھی کئی خامیاں ہوں گی کیونکہ ہمیں بروقت اطلاع نہیں مل سکی تو اگر کوئی جماعت زیادہ قربانی کرنے والی تھی اور فہرست کے لحاظ سے پیچھے رہ گئی ہے تو اُس میں اُن کے اپنے

Page 18

خطبات طاہر جلد ۸ 13 خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۹ء نظام کا قصور ہے اُنہوں نے بروقت اطلاع کیوں نہیں دی.بہر حال جو اطلاعیں ملی ہیں اُن کے لحاظ سے سرفہرست خدا تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ کی جماعت ہے جس نے سال گزشتہ میں گیارہ ہزار پاؤنڈ وقف جدید میں ادا کئے.دوسرے درجے پر جرمنی کی جماعت ہے جس نے نو ہزار آٹھ سو ایک پاؤنڈ ادا کئے.اور تیسرے درجے پر امریکہ کی جماعت ہے جس نے چھ ہزار پانچ سو بائیس پاؤنڈ ادا کئے.پھر ماریشس کا نمبر آتا ہے جس نے دو ہزار ایک سو اٹھانوے پاؤنڈ ادا کئے اور پھر کینیڈا جس نے دو ہزار تمیس پاؤنڈ ادا کئے.کینیڈا کی کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسے ہوا ہے کیونکہ عام طور پر وہ مالی قربانی میں امریکہ سے پیچھے نہیں ہیں اور ہر دوسری تحریک میں خدا کے فضل سے نہ صرف یہ کہ امریکہ کے پیچھے قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ آگے بڑھنے کا رجحان پایا جارہا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ اُن کی انتظامیہ کا قصور ہو یا وقف جدید کے سیکرٹری کا قصور ہو کہ وہ غافل رہا ہو سارا سال لیکن جیسا کہ تاثر کینیڈا کا یہاں پیدا ہو رہا ہے ویسا نہیں ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس طرف وہ مزید توجہ کریں گے.انڈونیشیا ایک ہزار پانچ سو بائیس، ناروے ایک ہزار تین سو چھیانوے.چھوٹی جماعتیں جو بعد میں آگے بڑھ رہی ہیں تیزی سے بعد میں آ کر اُن میں ناروے بھی خدا کے فضل سے شامل ہے ہر جہت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہا ہے لیکن اس پہلو سے سوئٹزر لینڈ ناروے کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے کیونکہ سوئٹزر لینڈ کی جماعت ناروے کی جماعت کے مقابل پر تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے لیکن وقف جدید کے چندے میں اُنہوں نے ایک ہزار دو سو پاؤنڈ رپورٹ آنے تک ادا کئے تھے.ڈنمارک نے ایک ہزارستاون پاؤنڈ اس مد میں ادا کئے ہیں.بہر حال یہ مختصر رپورٹ نامکمل ہے لیکن ایک تھوڑی سی تصویر آپ کے سامنے رکھ رہی ہے کہ وقف جدید کے چندوں کی طرف بیرونی دنیا میں کس طرح توجہ ہو رہی ہے.پہلے بھی میں نے یہ بات سمجھائی تھی کہ بیرونی دنیا میں جو چندوں میں وقف جدید کی تحریک ہے اس کی دو وجوہات ہیں اول یہ کہ ہر نیکی میں حصہ لینے اور شامل ہونے کا موقع پانے کی انسان کے دل میں تمنا ہوتی ہے اور یہ وہ تحریک تھی جو بے وجہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن بعض خاص مصلحتوں کی وجہ سے آغاز میں صرف پاکستان اور ہندوستان میں محدود کی گئی تھی.اس عرصے میں میں نے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں تحریر کر کے یہ اجازت لی تھی چنا نچہ تحریک ( جدید ) میں پھر اُس پر عمل بھی کیا کہ باہر کی دنیا

Page 19

خطبات طاہر جلد ۸ 14 خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۹ء کو بھی وقف جدید میں شامل کیا جائے خواہ وہ اپنا رو پید اپنے پاس ہی رکھیں.چنانچہ کچھ نیم دلی کے ساتھ یہ تحریک آج سے بہت پہلے جاری ہو گئی تھی اور مختلف رپورٹوں میں ہمیں یہ اطلاع ملتی تھی کہ افریقہ کے بعض ممالک میں، یورپ نے یا امریکہ نے کچھ کچھ روپیہ وقف جدید میں بھی ادا کیا ہے جو اُن کے مقامی فنڈ میں شامل کر لیا گیا.آج سے تین چار سال پہلے کی بات ہے غالبا تین سال پہلے کی بات ہے جب شدھی کے خلاف جہاد کی میں نے تحریک کی ہے تو اس وقت شدھی کے لئے وقتی روپے کی کچھ ضرورت تھی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو گئی لیکن یہ ایک ایسا کام نہیں ہے جسے ہم تھوڑا بہت کرنے کے بعد بھلا دیں.ہندوستان میں وسیع پیمانے پر مختلف صوبوں میں مسلمانوں کو مرتد کر کے دوبارہ ہندو بنانے کی منظم کوششیں جاری ہیں اور جتنی زیادہ میں تحقیق کروا رہا ہوں اتنا ہی زیادہ ہولناک منظر سامنے آ رہا ہے.علی گڑھ جو مسلم یونیورسٹی کا مرکز ہے اور اسلامی تعلیم کا ہندوستان میں ایسا مرکز ہے گویا ایک روشنی کا مینار ہے وہاں.اُس کے اردگرد ہزاروں گاؤں ایسے ہیں جو مسلمان ہوئے تھے چند نسلیں پہلے اور اب دوبارہ ہندو بنالئے گئے ہیں.یوپی (U.P) میں مسلمان مراکز کے اردگرد مشہور شہروں مثلاً لکھنؤ کے ارد گرد، شاہجہان پور کے ارد گرد، مختلف جگہوں میں یہی قصہ جاری ہے، آندرا پردیش میں راجستھان کو لے لیں، کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں منظم طریق پر یہ تحریک جاری نہ ہو اور پنجاب میں بھی اب یہ ممتد کر دی گئی ہے.قادیان سے باہر ہم نے یہ تحریک چلائی تھی کہ گرتے ہوئے مسلمانوں کو سنبھالیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی مسجد میں واگزار کروائی گئیں، جہاں اذانیں نہیں ہوتی تھیں اذانیں دلوائی گئیں.باقاعدہ نمازیں شروع کی گئیں اور مسجدوں کو آباد کیا گیا.بہت بھاری کام ہوا ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.پچھلے دنوں چونکہ سیاسی حالات بگڑے ہیں اس لئے اس کام میں ویسی تیزی نہیں رہی لیکن جہاں تک مخالفانہ کوششوں کا تعلق ہے وہ بھی جاری ہیں اُسی طرح اور پنجاب میں اب گزشتہ ایک دو سال کے اندر خصوصیت کیساتھ شدھی کی تحریک منتظم طور پر داخل ہوئی ہے.ان سب تحریکات کے مقابلے کے لئے ہندوستان کی جو وقف جدید ہے اُس کی یہ استطاعت نہیں ہے، مالی لحاظ سے جتنی ضرورت ہے ہندوستان کی جماعتیں چونکہ چھوٹی رہ گئی ہیں اُن میں یہ طاقت نہیں ہے.اسی مقصد کے پیش نظر میں نے وقف جدید کو مستقلاً تمام دنیا میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور مقصد یہی تھا کہ یہ سارا روپیہ جب تک ضرورت پیش آتی ہے ہندوستان کے

Page 20

خطبات طاہر جلد ۸ 15 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء لئے وقف کیا جائے اور اگر یہ ضرورت پوری ہوگئی یعنی ضرورتیں تو دین کی ویسے کبھی پورا نہیں ہوا کرتیں مگر اگر ایسا وقت آیا کہ ہندوستان کی جماعتیں اپنی کوششوں کے لئے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکیں اور اللہ کرے کہ جلد وہ وقت آئے تو پھر اسی روپے کو آپ کے بچوں کی تربیت کے لئے استعمال کیا جائے گا اور جس طرح معلمین تیار کئے جاتے ہیں، مدرس کے طور پر جگہ جگہ بیٹھ کر چھوٹی جماعتوں میں پورے مربی کی تعلیم تو وہ نہیں پاتے لیکن اتنا علم ضرور رکھتے ہیں کہ ابتدائی قرآن کی تعلیم ، نماز روزے کی تعلیم دے سکیں تو اس قسم کے معلم پھر غیر ملکوں میں بھی رکھے جاسکتے ہیں.تو یہ تحریک انشاء اللہ تعالیٰ ایک لمبی چلنے والی تحریک ہے اور بہت ہی نتیجہ خیز ثابت ہوگی لیکن سردست تو فوری ضرورت ہمیں ہندوستان کے لئے ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ جماعتیں بھی جب تک اس تحریک کے فوائد سے غافل رہنے کی وجہ سے اس میں ہلکا حصہ لیتی رہی ہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب جماعت کو احساس ہو جائے کہ اس چیز کی ضرورت ہے تو پھر وہ ہلکا حصہ نہیں لیا کرتی بلکہ بعض دفعہ تو روکنا پڑتا ہے سمجھا کر کہنا پڑتا ہے کہ اس سے زیادہ نہ بڑھو.اس لئے یہ تو ناممکن ہے کہ جماعت میں وقف جدید کی طرف اس لئے توجہ نہ دی ہو کہ ان کے اندرا خلاص میں کمی آگئی ہے.نعوذ باللہ من ذالک لیکن یہ یقینی بات ہے کہ وقف جدید کے فوائد اور اس کے عالمی اثرات سے ناواقفیت کے نتیجہ میں جماعت کا رد عمل نسبتا نرم ہوا ہو.اس لئے میں آپ کو یاد کرا رہا ہوں کہ یہ اس کے مقاصد ہیں یہ اس کے فوائد ہیں، ضروریات ہیں.اس لئے جہاں تک توفیق ہو آپ اس تحریک میں پہلے سے بڑھ کر حصہ لیں اور آخر پر جو بات یاد دہانی کے طور پر کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو کثرت سے اس میں شامل کریں.جو تعداد مجھے ملی ہے مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ اعداد وشمار درست ہوں گے یہ بتایا گیا ہے کہ صرف چھ ہزار احباب ہیں بیرون پاکستان جو وقف جدید میں اب تک شامل ہوئے ہیں.یہ ماننے والی بات نہیں ہے ضرور اعداد و شمار بھجوانے میں غلطی ہوئی ہے مگر کوشش یہ کرنی چاہئے کہ کوئی احمدی بچہ بھی ایسا نہ رہے جو وقف جدید میں شامل نہ ہو اور باہر کے لحاظ سے اگر آپ ایک پاؤنڈ مثلاً انگلستان کے لئے ایک بچے کے لئے پیش کر دیں تو میرے خیال میں تو کوئی ایسی مشکل نہیں ہے اور اگر نسبتا بڑے بچوں کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے پیش کریں اور اور اپنے جیب خرچ میں سے پیش

Page 21

خطبات طاہر جلد ۸ 16 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۹ء کریں تو پھر اس کا بہت فائدہ پہنچے گا اور روحانی لحاظ سے اُن بچوں کے دل میں ایک عزم پیدا ہو جائے گا، ایک خواہش پیدا ہو جائے گی کہ ہم دینی خدمات میں حصہ لیتے رہے ہیں.ایک بیج بویا جائے گا جسے خدا تعالیٰ پھر بڑھائے گا تو اس پہلو سے اس طرف بہت توجہ دینی چاہئے.باہر کی دنیا میں تعداد بڑھانے کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائے اور میں سمجھتا ہوں اگر تعداد بڑھائی جائے اور اگر تھوڑا تھوڑا چندہ بھی بچے اور بعض نئے شامل ہونے والے پیش کریں تو سر دست جو فوری ضروریات ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہو جائیں گی.میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس پہلو سے بھی ہمیں آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے گا.دعاؤں میں بھی یادرکھیں ہندوستان کے حالات ایسے ہیں کہ ہماری جماعت تناسب کے لحاظ سے بہت ہی تھوڑی ہے اور خدمت کے میدان بے انتہا ہیں اور چونکہ ہندوستان کو خدا تعالیٰ نے آئندہ اسلام کا قلعہ بنانے کے لئے چنا تھا اور ہندوستان ہی میں امام پیدا فرمایا تھا اس لئے اس ملک کی بہت غیر معمولی اہمیت ہے جسے ہم وقتی حالات کی تبدیلی سے نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں.اگر ہندوستان مسلمان ہو جائے تو دنیا کی عظیم ترین اسلامی مملکت بنے گا اور اگر احمدی تربیت کے تابع مسلمان ہو تو ساری دنیا، اسلامی کا سوال نہیں، ساری دنیا میں سب سے زیادہ عظیم طاقت بن سکتا ہے کیونکہ احمدیت جس طرح اسلامی اخلاق پر زور دیتی ہے اور اسلامی اخلاق کو نظریاتی طور پر نہیں بلکہ عملی دنیا میں انسانوں کی زندگی میں ڈھالتی ہے اُس سے طاقت پیدا ہوا کرتی ہے اور اگر ہندوستان مسلمان ہو جائے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تمام دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بن جائے گا اور اُس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ ساری دنیا کے مسلمان ہونے کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اس لئے پاکستان کا اپنا ایک مقام ہے اُس مقام کو میں نظر انداز نہیں کر رہا لیکن ہندوستان کو بھی اُس کا حق ملنا چاہئے اور ہمیں ہندوستان کے حق سے غافل نہیں رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے تھوڑے کو قبول فرمائے اور بہت بڑھا کر اُس کے نیک اثرات ظاہر فرمائے.آمین

Page 22

خطبات طاہر جلد ۸ 17 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء فرار الی اللہ اور تبتل اختیار کرنے کا حقیقی مفہوم ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ جنوری ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ سے پہلے دو خطبوں میں یا تین خطبوں میں میں فرار الی اللہ کا مضمون بیان کر رہا تھا.یعنی قرآن کریم نے جو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ فَفِرُّوا إِلَى اللهِ (الذریت :۵۱) اللہ کی طرف دوڑ و تو یہ فرار الی اللہ یعنی خدا کی طرف دوڑنا کیا معنی رکھتا ہے.اس ضمن میں میں نے یہ بات خوب کھول کر بیان کی کہ اللہ کی طرف بھاگنے سے مراد یہ ہے کہ بعض بُری صفات کو چھوڑ کر بعض اچھی صفات اختیار کرنا، غیر اللہ کے رنگ چھوڑ کر اللہ کے رنگ اختیار کرنا اور اس کے سوا خدا کی طرف دوڑنے کے اور کوئی معنی نہیں.خدا تعالیٰ کو پکارنا اور بات ہے اور خدا کی طرف دوڑنا اور بات ہے.ایک انسان مصائب میں جکڑا ہوا خدا کو پکا تو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ خدا کی طرف دوڑ رہا ہو.بعض دفعہ انسان ایسے دشمن کے گھیرے میں آجاتا ہے کہ وہ نجات دہندہ کا تصور کر کے اس کو بلاتا تو ہے لیکن اس کی طرف جانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو مضطر کی دعا کا مضمون اور ہے اور فَفِرُّوا إِلَى الله کا مضمون اور ہے.فَفِرُّوا اِلَی اللہ کا مضمون امن کی حالت سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ابھی دشمن نے انسان کو گھیرے میں نہیں لیا اور ہر طرف سے اسے خوف محسوس ہوتا ہے اور جوں جوں خوف کا شعور بڑھتا چلا جاتا ہے، جوں جوں گناہوں کی ماہیت کا زیادہ علم ہوتا چلا جاتا ہے انسان ہر خوف کے مقام سے امن کے مقام کی طرف یعنی خدا کی طرف دوڑ نے لگتا ہے.تو بدیوں کو ترک کرنا اور نیکیوں کی طرف جانا محض ایک ظاہری دنیاوی کوشش کے طور پر نہیں بلکہ ایک

Page 23

خطبات طاہر جلد ۸ 18 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء خاص جذبے کے تابع جس کا ایک گہرا خدا سے تعلق ہے یہ ہے فرارالی اللہ.اس ضمن میں میں نے ایک مثال پیش کی تھی کہ کس طرح حرص کو قناعت میں تبدیل کرنا فرار الی اللہ ہوتا ہے.اس ضمن میں بعض اور صفات کا بھی ذکر آیا.اس میں سے ایک غناء اسی طرح تنبل کا ذکر بھی آیا یعنی اپنے آپ کو دوسری چیزوں سے منقطع کر کے اللہ کی طرف تبتل اختیار کرنا.اب میں اس مضمون کے اس حصے پر نسبتاً زیادہ روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا.قناعت کا مضمون بہت عمدہ ہے لیکن قناعت کی ترقی یافتہ صورت غناء ہے.قناعت اپنی ذات میں کافی نہیں اور قناعت اور غناء میں فرق دکھانے کے لئے میں یہ مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک انسان کے پاس جو کچھ ہے اگر وہ اس پر راضی ہے اور باہر کی طرف جو کچھ اس کے پاس نہیں ہے ان سمتوں میں اتنے حرص کے ساتھ نہیں دیکھتا کہ گویا ان چیزوں کے بغیر اس کی زندگی اجیرن ہو جائے گی تو یہ قناعت ہے لیکن بعض دفعہ ایک قانع آدمی ان چیزوں سے محروم ہو جاتا ہے جو اس کے پاس تھیں اور اس وقت اس کے صبر کا بھی امتحان ہوتا ہے اور اس کے قناعت کا مقام بھی پہچانا جاتا ہے.ایسی صورت میں دو طرح کی صفات انسان کی مدد کرتی ہیں یا تو وہ صابر ہو.قناعت کے باوجود ہاتھ میں آئی ہوئی چیز وہ چیز جس کی عادت پڑ چکی ہو اس کے ہاتھ سے نکلنے کے صدمے کو برداشت کرنے کی طاقت صبر سے حاصل ہو سکتی ہے اور اس سے اعلیٰ مرتبہ کی چیز جو قناعت کی ترقی یافتہ صورت ہے وہ غناء ہے یعنی چیزوں سے تعلق تو ہے لیکن ان کے بغیر بے قراری اتنی نہیں بڑھتی کہ گویا انسان کی زندگی اجیرن ہو جائے.پس غناء کا مطلب یہ نہیں کہ چیزوں سے تعلق نہیں ہوتا.غناء کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں سے تعلق ہے تو سہی لیکن ان کے بغیر انسان کا نقصان نہیں ہوتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مرزا مبارک احمد سے بہت پیار تھا.آپ کے بچوں میں سب سے چھوٹے تھے یعنی لڑکوں میں سب سے چھوٹے تھے اور بہت ہی آپ کو پیارے تھے چنانچہ ان کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اشعار کہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ کتنی گہری محبت تھی ان سے جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر

Page 24

خطبات طاہر جلد ۸ 19 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء جگر کا ٹکڑا کہا اس کو ، پاک شکل، پاک خو.ویسے بھی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ بہت پیارا تھا لیکن جب خدا نے بُلا لیا دل کی آخری آواز یہ تھی کہ بُلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جاں فدا کر (در متین صفحه : ۱۰۰) پس وہ غناء جو اللہ کے تعلق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ چیزوں سے پیار نہیں رہتا.اس کا مطلب ہے کہ چیزوں سے پیار تو رہتا ہے لیکن ان کی جدائی محسوس نہیں ہوتی یعنی اس حد تک محسوس نہیں ہوتی جیسے ایسے انسان کو جو ان چیزوں پر انحصار کرنے لگ جاتا ہے.پس اس مضمون کو مزید کھولنے کی خاطر میں یہ مثال دیتا ہوں کہ آپ لوگ جو جمعہ میں بیٹھتے ہیں بعض دفعہ گرمیوں میں ایسی دو پہر کے وقت جمعہ ہورہا ہوتا ہے کہ نیند کا غلبہ ہوتا ہے بعض لوگ کھانا کھا کر آتے ہیں تو کافی نیند کی مستی چڑھ جاتی ہے اور جمعہ میں لوگ اکثر جڑ کے بیٹھتے ہیں اکثر.اگر کوئی انسان جاگا ہوا ہے تو اس کے ساتھ جڑا ہوا انسان اپنے کندھے کو ایک طرف ہٹالے تو اس جاگے ہوئے انسان کو کچھ بھی نہیں ہو گا.شاید وہ کچھ تھوڑی سی کشادگی محسوس کرے لیکن نقصان کو ئی نہیں لیکن اگر اس وقت وہ سو چکا ہے اور اچانک وہ کندھا ہٹائے تو ایسا شخص گر جاتا ہے اور بسا اوقات ہم نے دیکھا ہے کہ بچے بعض دفعہ شرارت سے ساتھ کے بچے کو جو سوچ کا ہو گرانے کی خاطر ایک دم اپنا کندھا پیچھے کر لیتے ہیں.تو غناء آپ کو گرنے سے بچاتی ہے، آپ کو وہ زندگی کا شعور بخشتی ہے جو آپ میں اور ایک سوئے ہوئے غفلت کی حالت میں زندہ رہنے والے انسان میں فرق کر دیتی ہے.آپ سے دنیا کی چیزیں جتنی بھی ہوں وہ اپنا تعلق تو ڑتی ہیں تو آپ کو بے سہارا نہیں چھوڑ دیتیں کیونکہ آپ کا سہارا خدا کی ذات پر ہوتا ہے.یہ ہے غناء جو دراصل قناعت کے بعد پیدا ہوتی ہے.جو شخص قانع نہیں ہے اس کو غناء کا کچھ علم نہیں.پہلے قانع ہونا ضروری ہے پھر قناعت میں معرفت حاصل ہونے کے نتیجے میں کچی غناء حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق غناء کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور اس مضمون کو جب ہم خدا کی ذات میں جاری ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ہ اللہ تعالیٰ حقیقی غنی ہے اس کے سوا دراصل کوئی غنی نہیں.اسی وجہ سے میں نے غناء کے لفظ کے ساتھ بار بار یہ کہا کہ خدا کے تعلق کی بنا پر غناء

Page 25

خطبات طاہر جلد ۸ 20 20 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۹ء نصیب ہو سکتی ہے ورنہ نہیں نصیب ہو سکتی کیونکہ غناء کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ بھی نہ ہو اور انسان راضی ہو.جیسا کہ میں نے کہا تھا قناعت کی ترقی یافتہ صورت ہے.قناعت کے بعد غناءتب نصیب ہوتی ہے جب اس سے تعلق ہو جس کے پاس سب کچھ ہے اس لئے یہ صبر سے بھی مستغنی کر دیتی ہے صبر سے بالا مقام ہے غناء کا.اگر یہ انسان کو معلوم ہو کہ جس سے میرا تعلق ہے اس کے پاس سب کچھ ہے اور یہ یقین ہو کہ جو کچھ میرے ہاتھ سے جا رہا ہے وہ اس کے پاس جا رہا ہے تو اس کامل شعور اور عارفانہ شعور کا نام غناء ہے.پس بندے کی غناء اللہ کے تعلق کے بغیر ممکن نہیں ہے.جہاں تک خدا کی غناء کا تعلق ہے اس کا نقشہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر کھینچا اور آپ ہی کے الفاظ میں ایک لمبی حدیث میں سے ایک اقتباس پڑھ کر سناتا ہوں.یہ حدیث قدسی ہے یعنی خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ذات کا عرفان ان الفاظ میں بخشا.فرمایا کہ یعنی دنیا کو بتا دو کہ اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، تمہارے زندہ اور تمہارے مردہ، تمہارے رطب و یا بس یعنی مومن اور غیر مومن، نیک اور بدسب کے سب میرے بندوں میں سے بدبخت ترین آدمی کے دل کی مانند ہو جائیں.بد بخت ترین آدمی کے دل کی مانند یہ عجیب مثال ہے کیونکہ بد بخت ترین آدمی کا دل وہ ہے جو خدا سے سب سے زیادہ دور ہے اور خدا کا دشمن ہے تو فرمایا کہ صرف دوری نہیں مجھ سے کھوئے نہ جائیں بلکہ بد بخت ترین آدمی کے دل کی طرح سیاہ ہو جائیں اور میری دشمنی اور میری نفرت کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آئے تو یہ بات میری بادشاہت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں کر سکتی.پس کھونے کے نتیجے میں بے چینی کا نہ ہونا یہ بھی ممکن ہے جب اتنا ہو کہ کمی کا احساس ہی نہ ہو یہ غناء ہے ورنہ صبر ہے.تو حقیقی غناء خدا کے سوا کسی ذات کو حاصل نہیں ہوسکتی اور ایک جاہل کی خواب ہے اگر کوئی انسان یہ سوچے کہ میں غنی ہوں مجھے کوئی پروا نہیں.غناء خدا سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوسکتی ہے اور خدا سے ایسے تعلق کے نتیجے میں جس کے ساتھ بجز کے باوجود مالکیت کا احساس ہو یعنی خدا کی کائنات میں خدا کی عطا کے نتیجے میں شراکت کا احساس ہو.یہ وہ سچا احساس اور شعور ہے جو انسان کو سچی غناء بخشتا ہے.اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے اگلے اور تمہارے پچھلے تمہارے زندہ اور تمہارے مردہ اور تمہارے رطب اور تمہارے یا بس سب کے سب اکٹھے ہو جائیں اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے اپنی خواہش کے مطابق مطالبہ کرے اور میں ان

Page 26

خطبات طاہر جلد ۸ 21 خطبہ جمعہ ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء میں سے ہر سوال کرنے والے کو جو کچھ اس نے مانگا ہے اسے دے دوں تو یہ چیز میری بادشاہت میں اتنی بھی کمی نہیں کر سکتی جتنا کہ وہ شخص جو سمندر کے کنارے سے گزرتے ہوئے اس میں سوئی ڈبوئے اور اسے نکال لے.سوئی کے ناکے کے ساتھ جتنا پانی چمٹا ہوا رہ جائے گاوہ پانی سمندروں میں جتنی کمی کر سکتا ہے تم سب کی مانگی ہوئی تمام خواہشات بھی میں پوری کر دوں تو میری کائنات میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی.یہ ہے اصل مثبت پہلو جس کے نتیجے میں وہ دوسرا پہلو پیدا ہوتا ہے یعنی غناء کا لفظ جو استغناء کے معنی رکھتا ہے وہ اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں استغناء کے معنے کہ غنی کے پاس سب کچھ ہے پس جس شخص کو خدا کے ساتھ ہونے کا احساس نہ ہو اور یہ یقین نہ ہو کہ خدا میرے ساتھ ہے وہ نہ غنی ہے اور نہ مستغنی ہے.غناء کا ایک غلط مطلب ہم اپنے روزمرہ کے تعلقات میں یہ سمجھتے ہیں کہ کسی سے تعلق ٹوٹے تو ہم کہتے ہیں جاؤ جہنم میں ہمیں کوئی پروا نہیں.پنجابی میں اس قسم کے بہت سے محاورے ملتے ہیں کہ جس شخص سے کسی چیز کی توقع تھی اس نے پوری نہیں کی، کسی سے تعلق تھا اس نے توڑ دیا تو اردو میں کہتے ہیں ”جاؤ جہنم میں“.پنجابی میں کہتے ہیں ”خصماں نوں کھا“.جو مرضی ہو عجیب سا محاورہ ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں مگر پنجابی اس مضمون کو خوب سمجھتے ہیں.یہ پنجاب کی استغناء کی آخری شکل ہے.اس کو بد خلقی کہتے ہیں.یہ استغناء نہیں ہے کیونکہ خدا کو چھوڑ کر جب بد بخت جاتا ہے تو اس کے جانے سے کمی تو کچھ نہیں ہوتی مگر خدا تعالیٰ کی ذات اس کے لئے نفرت کے جذبات اپنے اندر نہیں رکھتی بلکہ اس کے واپس آنے کی منتظر ہوتی ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مضمون کو ایک اور رنگ میں یوں بیان فرمایا کہ اگر کوئی شخص صحرا میں ایسی جگہ ہو کہ دور دور تک اس کو کوئی مدد، کوئی سہارا نہ ہو.اس کی اونٹنی پر اس کا سارا سامان لدا ہوا ہو.بیچ دو پہر کے وہ آرام کی خاطر کچھ دیر کے لئے ستانے لگے اور اس عرصے اس کی اونٹنی جس میں اس کا پانی اس کی خوراک سب کچھ لدا ہوا تھا وہ بہک جائے اور اس کے ہاتھ سے جاتی رہے.ایسے وقت میں وہ اس اونٹنی کے لئے کیسی طلب محسوس کرتا ہے اس کا ذکر حضور نے نہیں فرمایا لیکن اس کے بعد یہ فرمایا کہ اچانک وہ اونٹنی اس کو مل جائے تو اس کو جتنی خوشی اس کھوئی ہوئی اونٹنی سے محسوس ہوتی ہے اس سے زیادہ خدا اپنے گناہگار بندے کے واپس آنے کے متعلق محسوس کرتا ہے جو اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے.تو خدا کی غناء جو ہے یہ

Page 27

خطبات طاہر جلد ۸ 22 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء اخلاق کی بہت ہی اعلیٰ منزل ہے اس کا اس بد اخلاقی سے کوئی تعلق نہیں کہ ہم اپنے تعلق توڑنے والوں کو کہتے ہیں جاؤ جہنم میں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز کی پروا کرتا ہے.پس ایک طرف کچھ پروا نہ ہونا اور ایک طرف پروا کی حد بلکہ ایسا مقام کہ گویا حد کوئی نہیں ان دونوں کے امتزاج کا نام غناء ہے دراصل.وجہ یہ ہے کہ کوئی چیز جو خدا کی ملکیت ہے وہ جب اس سے الگ ہوتی ہے تو اس کی ملکیت اس سے الگ ہوتی ہے چونکہ بے انتہاء ہے اس کے پاس اس لئے اس کا الگ ہونا خدا کو نقصان نہیں پہنچا تا یہ ہے غناء لیکن جس کی جو چیز ہو اس سے اس کو پیار ہوتا ہے اور اس تعلق کی بنا پر جب وہ واپس ملتی ہے تو اس وجہ سے خوشی نہیں ہے اس کو یعنی خدا تعالیٰ کی ذات کو کہ گویا اس کے خزانوں میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ اس کے پیار کی طلب پوری ہوئی ہے.اس لئے احتیاج پورا ہونے کی مثال تو بندے کی وجہ سے دی گئی ورنہ بندہ تو ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتا اور نہ حقیقی معنی اس مثال کے یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اتنا تعلق، اتنا پیار ہے کہ ان کے جانے سے اگر چہ اس کو کوئی نقصان نہیں لیکن ان کے آنے سے اس کو بہت خوشی ہوتی ہے.تو حقیقت میں خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کے نتیجے ہی میں اعلیٰ اخلاق نصیب ہو سکتے ہیں اگر ہم خدا تعالیٰ کی صفات پر غور نہ کریں تو ہم ہرگز اعلیٰ اخلاق حاصل نہیں کر سکتے.پس فرار الی اللہ کی جب میں بات کرتا ہوں تو میری مراد یہ نہیں ہے کہ کسی بدی کو ایک دم ارادے کے ساتھ چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ مضمون بہت گہرا ہے یعنی مومن کی زندگی میں بدی چھوڑنا اور نیکی اختیار کرنا کوئی دنیا دار کے ساتھ گزرنے والا واقعہ نہیں ہے.بعض لوگ ارادہ کرتے ہیں کہ آج سے میں جھوٹ نہیں بولوں گا.ان کے جھوٹ چھوڑنے میں اور ایک مومن کے فرار الی اللہ میں بے شمار فرق ہے، بے انتہا فرق ہے کیونکہ مومن جب جھوٹ چھوڑ کر سچائی کو اختیار کرتا ہے تو حق کا جو تصور وہ باندھتا ہے وہ خدا کا تصور ہے اور خدا کے حق ہونے اور بندے کے سچائی کے تصور میں زمین آسمان کا فرق ہے.خدا کی صفات میں اتنی گہرائی ہے کہ خدا کی ذات کی طرح خدا کی ہر صفت بھی لامتناہی ہے پس یہ سفر ایک ایسا سفر بن جاتا ہے جس کو انسان ساری زندگی بھی ختم نہیں کرسکتا، طے کرتا رہتا ہے یعنی ایک مقام سے دوسرے مقام ، دوسرے سے تیسرے مقام، تیسرے سے چوتھے مقام کی طرف منتقل ہوتا چلا جاتا ہے لیکن یہ کہنا کہ میں نے سفر کا آخری مقام حاصل کر لیا یہ درست نہیں.حد استطاعت تک جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا ایک انسان اس مرتبے کو حاصل کر سکتا ہے جو خدا نے اس کی

Page 28

خطبات طاہر جلد ۸ 23 23 خطبہ جمعہ ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء " ہیئت کے اندر رکھا ہوا ہے اس کی شاکلت کے اندر کچھ حدود مقرر کی ہوئی ہیں ان حدود کے آخری کنارے کو چھونا انسان کی تکمیل ہے اور ہر شخص کی حدود کا آخری کنارہ الگ الگ ہے.اسی لئے جب ہم کہتے ہیں کہ تمام نبی معصوم اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ (البقره: ۲۸۲) تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید المعصومین معصوموں کے بھی سردار تو ان دو چیزوں میں تضاد نہیں ہے.مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء معصوم ہیں لیکن ہر نبی اپنی استطاعت کے مطابق معصوم ہے.اس کے لئے خدا نے جو معصومیت کی حدیں مقرر فرمائی ہوئی تھیں ہر نبی نے اپنی اپنی حد کو چھو لیا ہے لیکن جب حدیں وسیع ہوں تو محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور زیادہ جہاد کرنا پڑتا ہے ان حدوں پر عبور حاصل کرنے کے لئے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استطاعت کی حدیں زیادہ تھیں اس لئے آپ کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑی ہے.ایک لحاظ سے تو آپ نے وہی کچھ کیا ہے جو باقی انبیاء نے کیا یعنی اپنی حد استطاعت تک پہنچے لیکن ایک دوسرے لحاظ سے آپ نے اپنی حد استطاعت کو چھونے کے لئے بہت زیادہ محنت کی ہے بہ نسبت دوسرے انبیاء کے جنہوں نے اپنی اپنی حد استطاعت کو چھوا.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرق کو ظاہر کرنے کے لئے ایک تمثیل کے طور پر ہمارے سامنے اس واقعہ کو رکھا کہ جب حضرت موسیٰ ر نے خدا سے یہ عرض کیا کہ مجھے اپنا چہرہ دکھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو میرے چہرے کو نہیں دیکھ سکتا حالانکہ پہلا سفر جو خدا کی طرف کیا گیا تھا اس میں آپ نے خدا کو دیکھا.ایک آگ کے شعلے کی صورت میں آپ نے خدا کو دیکھا تھا.تو یہ جوفرمایا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا اس سے مراد یہ تھی کہ جو جلوہ تو چاہتا ہے وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والا جلوہ ہے جو آپ دیکھ سکتے ہیں اور تو نہیں دیکھ سکتا تو چنانچہ اس فرق کو دکھانے کی خاطر آپ نے فرمایا کہ میں پہاڑ پر تجلی کرتا ہوں اگر یہ تو برداشت کر سکے تو پھر وہ جلوہ بھی برداشت کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جب پہاڑ پر تجلی فرمائی تو پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور حضرت موسی غش کھا کر گر پڑے.تو سوال یہ ہے کہ حدیں تو الگ الگ ہیں لیکن ہر حد کو چھونے کے لئے محنت میں فرق پڑ جاتا ہے.جس حد تک حضرت موسی" پہنچے تھے اس حد تک آنحضرت یہ بھی

Page 29

خطبات طاہر جلد ۸ 24 خطبہ جمعہ ۱۳/ جنوری ۱۹۸۹ء پہنچے لیکن پھر آگے بھی تو بڑھے اس لئے کہ آپ کی حد زیادہ اونچی تھی.اسی مضمون کو خدا تعالیٰ نے معراج کی شکل میں بیان فرمایا.پس غناء کے نتیجے میں جب انسان دوسری چیزوں کو ترک کر کے خدا کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے تو اس مضمون کو ہر انسان اپنی ذات پر پہلے چسپاں کرے اور یہ معلوم کرہے کہ کہاں کہاں خدا نہیں ہے میری ذات میں اور غیر اللہ موجود ہے.اس طرح جب غور کرے گا تو ہر شخص کے بت بھی مختلف ہوں گے، ہر شخص کے سفر کی طوالت بھی الگ الگ ہو جائے گی لیکن ہر شخص کا انتہائی مقام ایک مقرر ہے اس مقام تک پہنچنا اس کے لئے ممکن ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بنا ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے یقینا ممکن نہیں ہے یعنی اس تشریح کے ساتھ جو میں نے بیان کی ہے لیکن ہر شخص کا اپنی آخری حد کو چھولینا یہ ممکن ہے.اس پہلو سے فرارالی اللہ کا سفر جو ہے وہ ساری زندگی پر محیط ہو جاتا ہے اور انسان اپنے نفس میں ڈوب کر جب وہ جگہیں تلاش کرتا ہے جہاں خدا نہیں ہے تو شاذ ہی کوئی ایک ایسا انسان ہو جسے وہ جگہیں نہ ملتی ہوں.اگر وہ بصارت کے ساتھ آنکھیں کھول کر دیکھے اور اگر آنکھیں بند رکھے تو ہر انسان سمجھتا ہے میرے اندر خدا ہی خدا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے.چنانچہ اندھے یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ ہم خدا والے ہو چکے ہیں اور صاحب بصیرت لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا ابھی بہت سا سفر طے کرنا باقی ہے.جن کو غیر کی نظر خدا والا سمجھ رہی ہوتی ہے ان کی اپنی نظر اپنے آپ کو خدا والا نہیں سمجھ رہی ہوتی چنانچہ وہ قرآن کریم کی اس آیت کے تابع اپنی زندگی کا سفر جاری رکھتے ہیں فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم :۳۳) کہ تم اپنے نفسوں کا تزکیہ نہ کرو یہ فضول بات چھوڑ دوخدا ہی بہتر جانتا ہے تم میں سے کون ہے جو صحیح معنوں میں تزکیہ اختیار کر چکا ہے، مکمل تزکیہ اختیار کر چکا ہے.پس جماعت اگر اپنے نفس میں ڈوبنے کا شعور حاصل کر لے تو بہت سی مصیبتوں اور دھندوں سے چھٹکار امل جائے.ہر وقت جو جماعت میں بعض لوگ دوسروں پر تنقید کر کے منافرت پھیلانے والے اپنی بڑائیاں کرنے والے دوسروں پر اور اپنے بھائیوں کی تحقیر کرنے والے آپ کو ملتے ہیں کسی سے چھوٹی سی غلطی ہو گئی اس کو اچھالتے ہیں اور دنیا میں اس کو مشتہر کرتے ہیں.سارا معاشرہ اس سے دکھی ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ خدا کی طرف سفر اختیار کرنا شروع کریں جس طرح میں ط

Page 30

خطبات طاہر جلد ۸ 25 خطبہ جمعہ ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء نے آپ کو سمجھایا ہے یعنی اپنے نفس میں ڈوب کر فرار الی اللہ اختیار کرنا شروع کریں تو سارا معاشرہ ان بدیوں سے پاک ہو جائے گا.بجائے اس کے کہ غیر ہمارے شر سے پناہ مانگیں یہ وہ مقام ہے جہاں شرور انفسنا کی دعا حقیقت اختیار کر جاتی ہے جب انسان یہ کہتا ہے اے خدا ہمیں اپنے نفس کے شر سے بچا تو ایسا انسان جب دعا کرتا ہے ضروری نہیں حقیقی معنوں میں دعا کر رہا ہو کسی ایسے شخص کی یہ دعا قبول نہیں ہو سکتی جس کے شر سے اس کے ساتھ نہیں بچ رہے.جس کے شر سے اس کے بھائی، اس کی بہنیں ، اس کا معاشرہ نہیں بچتاوہ اگر خدا کے حضور دن رات یہ وظیفے کے طور پر تکرار کرتا رہے کہ اے خدا مجھے میرے نفس کے شرور سے بچا، اے خدا ہمیں ہمارے نفس کے شرور سے بیچا اس کی دعا کوئی بھی معنے نہیں رکھے گی.جب تم غیر کو اپنے نفس کے شرسے نہیں بچاتے تو اپنے آپ کو کیسے اپنے نفس کے شر سے بچا سکتے ہو.اس لئے پہلے اپنے شرور کو اپنی ذات کے دائرے میں تو محمد و کرو.غیر کو پناہ دے دو پھر یہ دعا کرو پھر اندر کا سفر جو بہت ہی مشکل سفر ہے وہ دعا کی مدد سے آسان ہونا شروع ہو جاتا ہے.دعا کے بغیر یہ سفر اختیار کرنا اور منزلیں طے کرنا ممکن نہیں ہے.اس سے اگلا مقام ہے جسے تبتل کا مقام کہا جاتا ہے.فرار خوف سے تعلق رکھتا ہے اور تبتل طمع سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ فرار اور تبتل کے مضمون کو اگر سمجھنا ہو تو قرآن کریم کی یہ آیت اس کی تشریح کرتی ہے تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدہ:(۱۷) کہ خدا کے بندے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے پہلو راتوں کو اپنے بستروں اور آرام گاہوں سے الگ ہو جاتے ہیں يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں خوف کی وجہ سے بھی اور طمع کی وجہ سے بھی.خوف کی وجہ سے خدا کو پکارنا اور اس کی مدد چاہنا یہ فرار الی اللہ کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے اور طمع کی وجہ سے خدا کی طرف بڑھنا اور دوسروں سے اپنا تعلق توڑ لینا یہ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيلا (المزمل:۹) کا مضمون ہے جو فرار کے بعد انسان کو نصیب ہوتا ہے.پس فرار میں غیر اللہ سے انسان اس کے ڈر سے خدا کی طرف دوڑ رہا ہے اور تبل میں اللہ کی محبت اس پر اتنا غلبہ کرتی چلی جاتی ہے کہ غیر اللہ کی طرف سے اس کا دل بجھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے غیر اللہ سے ایک انقطاع نصیب ہو جاتا ہے.یہ مضمون بھی اتنا وسیع ہے کہ سوائے خدا کے چند

Page 31

خطبات طاہر جلد ۸ 26 26 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء خوش نصیب انسانوں کے کسی شخص نے اپنی حد استطاعت تک اس مضمون کا سفر طے نہیں کیا پر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ یکتا انسان تھے جنہوں نے تمام انبیاء سے بڑھ کر اس سفر کے سارے مراحل طے کر لئے اور کامل طور پر تبتل الی اللہ اختیار کر لیا.پس تبتل الی اللہ کے متعلق کچھ تفصیل ضروری ہے کیونکہ یہ خیال غلط ہے کہ پہلے فرار کی ساری منزلیں طے ہو جائیں تب تبتل کا سفر شروع ہوتا ہے.بیک وقت دونوں باتیں چل سکتی ہیں تبھی خدا تعالیٰ نے ایک آیت میں ان دونوں کو اکٹھا کر دیا ہے.یعنی تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کہ ان کے پہلو راتوں کو اپنی آرام گاہوں سے جُدا ہوتے ہیں خوف کی وجہ سے بھی اور طمع کی وجہ سے بھی.پس یہ درست ہے کہ جہاں انسان فرار اختیار نہیں کرتا اس حصے میں اسے خدا کی طمع نصیب نہیں ہو سکتی لیکن یہ درست نہیں ہے کہ جب تک پورا فرار نہ ہو جائے اس وقت تک کوئی طمع بھی پیدا نہیں ہو سکتی.بعض انسان بعض گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں اور بعض دوسرے پہلوؤں سے خدا تعالیٰ کی بعض صفات کی طمع ان کو نصیب ہو چکی ہوتی ہے.ان پہلوؤں میں جہاں ان کو طمع نصیب ہو جاتی ہے وہاں وہ ان کے مقابل کی برائیوں سے مکمل فرار اختیار کر چکے ہوتے ہیں لیکن بعض دوسری جگہ ان کے دامن اسکے ہوتے ہیں.آپ جب جنگلوں میں سفر کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ آپ کا تار تار کانٹوں میں پھنس جائے.بعض پہلو کانٹوں میں پھنسے ہوتے ہیں، بعض آزاد ہوتے ہیں جو آگے کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں.اس لئے یہ دونوں مضمون بیک وقت شروع ہوں گے لیکن طمع کا مقام فرار کے بعد آئے گا یعنی ہر فرار کے بعد ایک طمع کا مقام پیدا ہو گا.اس لئے اس طمع کو تل میں تبدیل کر کے اگر ہم دیکھیں تو اس کا ایک نقشہ ذہن میں اُبھرتا ہے جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ایک پھل جو پکا ہوا نہ ہو اس کی کھال جلد اوپر سے اتارنے کی کوشش کریں گے تو آپ دیکھیں گے یا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اُترے گی یا بارہا جگہ جگہ سے وہ پھل بھی اس کے ساتھ آ جائے گا لیکن جو پھل پک چکا ہو اس کی جلد بعض دفعہ خود ہی پھول کر اس سے الگ ہو جاتی ہے.اسی طرح بیجوں کا حال ہے اور دنیا میں ہم ہر جگہ دیکھتے ہیں کہ ایک چیز جب وہ دو تعلق رکھتی ہو تو ایک تعلق جب تک مکمل طور پر دوسرے تعلق سے مغلوب نہیں ہو جاتا وہ چیز آسانی سے اس سے الگ نہیں ہو سکتی.

Page 32

خطبات طاہر جلد ۸ 27 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء آپ میں سے ہر شخص کو تجربہ ہے زخموں کا ، چوٹیں لگ جاتی ہیں اور ان کے اوپر ایک کھرنڈ سا اس کو کہتے ہیں یعنی ایک چھلکا سا آ جاتا ہے زخم کے اوپر.نادان لوگ کچے چھلکے کو چھیڑتے رہتے ہیں.بچے اور بندر برداشت ہی نہیں کر سکتے وہ.ہلکی سی جب کھجلی پیدا ہوتی ہے وہ تبتل کے مقام سے پہلے کی کھلی ہے.ابھی پورا تل ہوا نہیں ہوتا لیکن تقتل میں بھی ایک مزہ ہے اور اس مزے کے نتیجے میں انسانی ہاتھ جو نادانوں کے ہاتھ بار بار اس جگہ پر پہنچتے ہیں کہ اسے اب اُتار ہی دیں لیکن اتارنے کے لئے کچھ اور صبر کرنا پڑتا ہے، کسی اور وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے.جب مکمل طور پر وہ چھلکا اس زخم والی جگہ کو چھوڑ دیتا ہے تو ہلکا سا ہاتھ لگنے سے ہی وہ خود اُکھڑ کر ایک طرف ہو جاتا ہے.پس انسان کا فرار کے نتیجے میں خدا کی طرف بھا گنا اور چیز ہے لیکن خدا کی محبت کے پختہ ہونے کے نتیجے میں بعض چیزوں سے بے رغبت ہی ہوتے چلے جانا یہ تبتل الی اللہ ہے اور تبتل الی اللہ غناء کے بعد نصیب ہوا کرتا ہے.اسی لئے میں نے غناء کا مضمون پہلے رکھا.جب آپ غناء اختیار کرتے ہیں تو غناء کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ غناء حقیقی طور پر حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ کے قرب کا احساس نہ ہوا اور جب خدا کے قرب کا احساس ہو جاتا ہے تو جس چیز سے غناء نصیب ہوتی ہے اس کے ساتھ تعلق واجبی سا رہ جاتا ہے اور یہ جو غناء کا مضمون ہے جب تبتل الی اللہ میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر ایک تعلق مزید پیدا ہو جاتا ہے ان چیزوں سے جن سے انسان کا واسطہ ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے سوا کہیں اور تفصیل سے مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد ربانی کے تابع پہلے تقتل اختیار کیا ہے.قانع تو آپ تھے ہی غناء آپ کو کامل طور پر نصیب تھی اور تبتل کا جو حکم آیا ہے یہ ابتدائی نبوت کے زمانے میں ہی عطا ہو چکا تھا.دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ترقی کی منازل اتنی جلد جلد طے کی ہیں کہ تاریخی نقطہ نگاہ سے کسی جگہ انگلی نہیں رکھی جاسکتی کہ یہاں اس منزل پر تھے اور وہاں اس منزل پہ تھے لیکن مضمون کی اندرونی ترتیب کے لحاظ سے انگلی رکھی جاسکتی ہے کہ یہ ہوا پھر یہ ہوا پھر یہ ہوا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدا کی ذات سے عشق کے کمال کا نتیجہ تھا کہ آپ کو تمام بنی نوع انسان، تمام مخلوقات سے تبتل نصیب ہوا اور تبتل کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری تعلق موجود رہا لیکن دل خدا کی طرف مائل ہو چکا تھا.جتنا زیادہ تل ہواتنا

Page 33

خطبات طاہر جلد ۸ 28 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء علیحدگی کی تکلیف کم ہوا کرتی ہے.چنانچہ عام انسان اپنے روز مرہ کے تجربے میں بعض جدائیوں کو برداشت نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا تبتل الی اللہ نہیں ہوتا.بعض مائیں اپنے بچوں کی موت کے صدمے سے مرجاتی ہیں اور واقعہ ایسا ہوتا ہے.ابھی آج ہی کی ڈاک میں میں نے ایک خط دیکھا جس میں بتایا گیا کہ ایک احمدی ماں کا بچہ جوان فوت ہو گیا حادثے میں اس کے چند دن کے بعد وہ صدمے سے چل بسی حالانکہ اور کوئی بیماری نہیں تھی.تبتل حقیقت میں اس چیز کا نام ہے کہ باقی چیزوں سے تعلق موجود ہوتے ہوئے بھی وہ تعلق اتنا واجبی سا رہ جائے کہ ان معنوں میں واجبی کہ اگر وہ الگ ہو جائے تو کوئی نقصان محسوس نہ ہو اور نقصان نہ ہو.نقصان محسوس نہ ہو اور بات ہے کسی قسم کا نقصان نہ ہو یہ وہ مضمون ہے جو زیادہ باریک ہے جس کو سمجھانے کے لئے تھوڑا سا وقت میں اور لگاؤں گا.ہر شخص کو اپنے پیارے کی جدائی کا نقصان محسوس ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے بچے ابراہیم کوقبر کی لحد میں اُتار رہے تھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اپنے پیاروں کی جدائی کا غم محسوس کیا کرتے تھے.شہداء کی جدائی جن کے متعلق خدا نے خبر دی تھی واضح طور کہ وہ زندہ ہیں اور جنت میں ہیں ان کی جدائی کا بھی آپ غم محسوس کیا کرتے تھے.پس تبتل الی اللہ سے مراد یہ نہیں ہے جیسا کہ میں نے غناء کے مضمون میں سمجھایا کہ نقصان کا احساس نہ ہولیکن اپنے وجود کو اپنے روحانی وجود کو، وہ جدائی نقصان نہیں پہنچا سکتی.چنانچہ یہ جو سلسلہ ہے نقصان کے نہ ہونے کا اس کو پھوڑے والی مثال میں الٹا کے آپ دیکھیں تو پھر زیادہ سمجھ آ جائے گی.جب زخم کی جلد ا لگ ہوتی ہے صحت مند جلد سے تو ایک کمی تو آتی ہے اور کچھ دیر کے لئے اس جگہ جہاں سے وہ زخم کا چھلکا الگ ہوا ہے احساس رہتا ہے کچے پن کا.ایک کمی کا احساس موجود ہوتا ہے لیکن حقیقت میں نقصان نہیں ہوتا.پس اس لئے اس کو سمجھانے کی خاطر میں نے نقصان کے احساس اور نقصان میں فرق کرنے کی کوشش کی ہے، فرق دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جلد جس کے اوپر سے زخم کا چھلکا اُتر رہا ہے وہ اس کی جدائی کو محسوس ضرور کرتی ہے لیکن فی الواقعہ اس کا نقصان کوئی نہیں ہے.پس تبتل جب کامل ہو تو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح وہ تل انسان کے روحانی وجود کو کسی جدائی پر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ الی اللہ ہے.ایک طرف سے ایک چیز چھٹی تو دوسری طرف سے

Page 34

خطبات طاہر جلد ۸ 29 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء کامل طور پر حاصل ہوگئی ہے اور انحصار کلیۂ خدا کی ذات پر ہو چکا ہے لیکن دنیا کے محسوسات کے مطابق انسانی محسوسات کے مطابق انسان جدائیوں کو کچھ نہ کچھ محسوس ضرور کرتا ہے لیکن ان دونوں چیزوں میں بڑا فرق ہے.ایک عام انسان کا اپنے نقصان کو محسوس کرنا اور ایک ایسے انسان کا محسوس کرنا جس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تبتل کے نتیجے میں تعلق قائم ہو چکا ہے.ایسے لوگوں کی روحیں آسانی سے نکلتی ہیں.اس مضمون کے متعلق بھی ایک غلط نہی ہے جو میں آپ پر کھولنا چاہتا ہوں.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خاموشی سے بغیر تکلیف کے جو مر جائے وہ گویا کہ تل کی نشانی ہے.یہ درست نہیں ہے.تبتل روحانی معنوں میں ہوا کرتا ہے اور بعض دفعہ خدا کے نیک بندے بھی ایسی جسمانی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اس سے وہ بے چینی محسوس کرتے ہیں.اُن کو دنیا چھوڑنے کی بے چینی نہیں ہوا کرتی.دنیا چھوڑنے کے وقت جو تکلیف ہو رہی ہوتی ہے مادی جسمانی اس کی بے چینی ہوتی ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی آخری لمحات میں جو بیماری کی بے قراری تھی وہ بشری تقاضا تھا.بیماری کی وجہ سے آپ کا جسم تکلیف محسوس کرتا تھا اور جتنا خدا سے تعلق بڑھتا ہے انسان زودحس ہوتا چلا جاتا ہے.تکلیف پر واویلا بے شک نہ کرے لیکن ہر نفیس طبیعت والے انسان کو تکلیف زیادہ محسوس ہوا کرتی ہے.اس لئے یہ کہنا کہ جو شخص آرام سے جان دے دے وہ بڑا ولی اللہ ہے اور جس کی جان مشکل سے نکلے وہ نعوذ باللہ من ذالك خدا سے دور ہے یہ بالکل غلط بات ہے.یہ وہ بات ہے جو حقیقت میں خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا.ایک انسان جب اپنے پیاروں سے جدا ہو رہا ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں خدا کی طرف جا رہا ہوں.اس وقت اس کی روح کے اندر ایک موازنہ ہو رہا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب یہ اختیار دیا گیا تو آپ نے بار بار عرض کیا في الرفيق الأعلى في الرفيق الأعلى في الرفيق الأعلى ( بخارى كتاب المغازی حدیث نمبر : ۴۴۳۸) اے میرے خدا میرا چین تو تیری ذات ہے.میرا آسمانی رفیق یہ نہیں فرمایا کہ صرف تو ہی رفیق ہے اور بھی رفقاء تھے ، دنیاوی رفیق بھی تھے ان کے اور خدا کی رفاقت کے درمیان جب یہ فیصلہ تھا کہ اب ان کو کلیہ چھوڑنے کے بعد ایک رفاقت عطا ہونی ہے تمہیں.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کی صدا تھی فی الرفيق الأعلى، في الرفيق الاعلیٰ جب بھی مقابلہ ہوگا ، جب بھی

Page 35

خطبات طاہر جلد ۸ 30 خطبہ جمعہ ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء مواز نہ ہوگا تو ادنی رفیق کو چھوڑ دیا جائے گا اور اعلیٰ رفیق کی طرف روح حرکت کرے گی.چونکہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف حرکت ہے اس لئے اس موازنے کے وقت اس جدائی کی وہ تکلیف نہیں ہوتی مگر جن کا کلیۂ انحصار دنیا پر ہوتا ہے جن کی لذتیں ہی دنیا کی ہوتی ہیں، جن کے تعلقات کے مزے دنیا کے تعلقات کے مزے ہوتے ہیں اور ان کو خدا کے تعلق کا مزہ اس دنیا میں نصیب نہیں ہوتا ان کی موت خواہ جسمانی لحاظ سے آرام سے بھی آئے بڑی مشکل موت ہوا کرتی ہے کیونکہ وہ حسرت کے ساتھ ہر چیز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں.یہ بھی میرے ہاتھ سے گیا، یہ بھی میرے ہاتھ سے گیا، اچھا مکان بنایا تھا اس کو تو رہنا نصیب نہیں ہوا، اچھے کپڑے بنائے تھے پہنے نصیب نہیں ہوئے ، اولا دخدا نے دی تھی ان کی شادیاں، ان کی خوشیاں دیکھنی نصیب نہیں ہوئیں.ہزار قسم کی بے نصبیاں اس وقت اس کے سامنے ہیولے بن کر اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں.ہر طرف اس کو نا مرادی اور ایک نقصان اور زیاں کا احساس محسوس ہوتا ہے جس طرح غول بیابانی کسی چیز کوگھیر لیں اس طرح اس کے چاروں طرف یہ دنیا کے بھوت اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں.یہ وہ تکلیف دہ موت ہے جو جسمانی طور پر تکلیف دہ نہ بھی ہو روح کے لئے بڑی اذیت ناک ہوا کرتی ہے.پس تجمل الی اللہ اس وقت اختیار کرنا چاہئے جب ابھی جدائیوں کے وقت نہ آئیں.جدائیوں سے پہلے تبتل اختیار کر لیا جائے تو انسان ہر نامرادی سے بچ جاتا ہے اور اس کی ہر مراد پوری ہو جاتی ہے مگر تبتل الی اللہ میں کچھ نہ کچھ ابتدا میں انسان کو از خود محرومی اختیار کرنی پڑتی ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ بغیر محرومیاں اختیار کئے انسان کو مکمل طور پر تنبل نصیب ہو جائے.چنانچہ بے شمار انسانی تعلقات میں سے ہر تعلق پر نظر رکھنی ہوگی کہ اس تعلق کی جڑیں میری ذات میں پیوستہ ہیں یا یہ تعلق ایک سطحی تعلق ہے جس کے الگ ہونے کے نتیجے میں مجھے میری ذات کو نقصان نہیں ہوگا.جب جڑیں پیوستہ ہوں کسی چیز میں اس پودے کو اس درخت کو اُکھاڑ کر آپ دیکھیں جس ذات میں پیوستہ ہوتی ہیں جڑیں اس کی بہت ساری مٹی اس جگہ کی مٹی اور اس کے ساتھ لگا ہوا مواد سب ساتھ اچھل کر کے آجاتے ہیں لیکن جو چیز تبتل اختیار کر چکی ہو وہ بڑے آرام سے نئی سمت میں انتقال اختیار کر لیتی ہے اور کوئی تکلیف نہیں ہوتی.روز مرہ کی زندگی میں ایسے انسان کو صبح شام تجربے ہوتے ہیں ان تجربوں کی روشنی میں انسان کو اپنی روحانی زندگی کا مسلسل جائزہ لینا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 36

خطبات طاہر جلد ۸ 31 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء نے جو تبتل اختیار فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ تمام دنیا کے تعلقات کو رکھتے ہوئے بھی آپ ان سے الگ ہو گئے اور یہ بتل ایک انتہائی تنہائی کا مقام ہے.ایک شاعر نے کہا ہے تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا لیکن تبتل کا مضمون اس مضمون کی انتہائی شکل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے لئے اپنے تعلقات کو اس طرح الگ کرنا شروع کیا کہ سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی آپ تنہا رہ گئے.یعنی اگر خدا کی ذات نہ ہو تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انسان تھے جو تمام کا ئنات میں تنہا تھے کوئی اور تعلق آپ کے کام کا نہیں تھا سوائے خدا کے تعلق کے.یہ وہ تل کا مقام ہے جس کے بعد خدا سارا انسان کا ہو جاتا ہے.اور وہ تبتل جس جس حصے میں نصیب ہوتا چلا جاتا ہے اتنا اتنا خدا اس کو ملتا چلا جاتا ہے.پس ہمیں اپنے تعلقات سے جدائیاں اختیار کرنی پڑیں گی تب اس کے مقابل پر خدا کا وصل نصیب ہوگا اور یہ جدائیاں اس وقت اختیار ہونی چاہئیں جب ہمارے اختیار میں ہے شاعر نے تو کہا ہے کہ میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا دوسرا نہ ہونا پاس یہ تو اتفاق کی بات ہے.دنیا میں ہر روز وہ چلتا پھرتا تھا اس کو کبھی جلوت نصیب ہوتی تھی کبھی خلوت بھی ملتی تھی لیکن دنیا میں اکثر حصہ انسان کا جلوتوں میں ہی گزرتا ہے قسمت سے اس بے چارے کو معلوم ہوتا ہے کبھی خلوت ملتی تھی وہ اپنے محبوب کو یاد کیا کرتا تھا گویا وہ اس کے پاس آ گیا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری جلوتیں نصیب ہوتے ہوئے بھی ایک خلوت نصیب ہوئی.بیوی سے تعلقات کے وقت بھی وہ خلوت نصیب تھی.چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جو نصیحت فرمائی ہے یہ صاحب عرفان جو اس تجربے میں سے گزرا ہوا نہ ہواس کے بغیر کسی کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی.آپ نے فرمایا جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اس خیال سے ڈالتا ہے کہ میرا اللہ راضی ہو گا اس کا حکم ہے کہ اپنی بیوی سے نرمی کا سلوک کرو.اس کا ایک لقمہ ڈالنا بھی عبادت بن جاتا ہے.یہ ہے خلوت کے اندر جلوت یا جلوت کے اندر خلوت یعنی بظاہر ایک

Page 37

خطبات طاہر جلد ۸ 32 32 خطبہ جمعہ ۱۳/جنوری ۱۹۸۹ء انسان سے تعلق ہے لیکن اس کی گہرائی کے اندر در اصل خدا کا تعلق کام کر رہا ہے.پس تمام کائنات میں جب آپ تنہا رہ گئے ہیں اور ہر دوسری چیز سے آپ نے تعلق کامل طور پر تو ڑ لیا ہے اس وقت کامل طور پر خدا آپ کا ہوا ہے اور یہ تعلق تو ڑنا اور تعلق جوڑنا ایسا مضمون نہیں ہے جو کسی وقت کے لحاظ سے ایک لمحے میں پیدا ہوا ہو.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ مسلسل ایک سفر کی حالت کا نام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی بعض تعلقات توڑنے اور بعض تعلقات قائم کرنے کے میں گزری ہے.اس کے بعد جب آپ کو یہ خلوت نصیب ہو جاتی ہے تو خدا کی عجیب شان ہے کہ وہ ان تعلقات کو دوبارہ عطا کرتا ہے اور آپ کو دنیا کے لحاظ سے بھی تنہا نہیں رہنے دیتا.چنانچہ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ ادنی (النجم: ۹.۱۰) میں یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روحانی سفر میں ایسا دنو اختیار فرما گئے اتنا قریب ہو گئے خدا کے کہ تمام دوسرے غیر اللہ تمام مخلوق سے آپ کا تعلق ٹوٹ گیا.فَتَدَتی پھر اس کے بعد خدا کی محبت کے نتیجے میں خدا کی مخلوق کی طرف ایک نیا رجحان پیدا ہوا، ایک نیا تعلق پیدا ہوا اور وہ تعلق خدا کے واسطے سے تھا اس لئے وہ عبادت تھا.پس خدا تعالیٰ آپ کو تنہا ر کھنے میں خوش نہیں ہے، خدا تعالیٰ آپ کی جھوٹی جلوتوں کو توڑتا ہے اور فنا کر دینا چاہتا ہے.خدا کی خاطر آپ کو ویرانے اختیار کرنے پڑتے ہیں اور پھر خدا ان ویرانوں کو دوبارہ بساتا ہے، نئی جنتیں آپ کو عطا کرتا ہے، نئی بہاریں اور نئے جلوے آپ کو بخشتا ہے.وہ کائنات ہے جو زندہ رہنے کے لائق ہے جو اس لائق ہے کہ آپ اسے یہ سب کچھ چھوڑ کر بھی اختیار کریں اور اس نئی کائنات کے حصول کی کوشش کر نا حقیقی اسلام ہے اور یہی وہ فرار الی اللہ ہے آخری منزل جس کی یہ ہے.پس جماعت احمد یہ جب تک اس سفر کو اس طرح قدم بقدم اختیار کرنا نہیں سیکھے گی جس طرح میں نے سمجھایا ہے ایک فرضی چھلانگ میں آپ سارے مراحل طے نہیں کر سکتے.اتنا بڑا کام ہے، اتنا وسیع ہے، اتنا باریک بینی کا کام ہے کہ فرار کی پہلی منزلیں ہی آپ اختیار کرنے کی کوشش شروع کریں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ کتنا مشکل کام ہے.گناہوں کا عرفان بڑھانا، خطروں کو پہچاننا ، ان سے خوف محسوس کرنا، ان سے نفرت پیدا کرنا دلوں میں اور خدا کی طرف دوڑنے کی کوشش

Page 38

خطبات طاہر جلد ۸ 33 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۹ء کرنا کوئی شخص اگر ساری زندگی میں اسی جھگڑے کو نپٹا جائے گا تو میں کہہ پاؤں گا کہ خدا کی قسم وہ بھی کامیاب ہو گیا لیکن ان جھگڑوں کو نپٹا کر پھر غناء کے مضمون میں داخل ہونا اور پھر غناء کے نتیجے میں تبتل کے مقام کو سمجھنا اور پھر تبتل کی کوشش کرنا یہ تو بہت ہی وسیع مضمون ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہو انسان کو نصیب نہیں ہو سکتا.دعا کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.پس قرآن کریم میں جو فرمایا تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ الگ ہوتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ ہم اپنے بستروں اور آرام گاہوں سے الگ ہوتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ ہم اپنی کوشش سے اپنے خدا کو نہ خوف کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں نہ طمع کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں.ہاں دعا کے ذریعے ہم ضرور ان تمام مراحل کو طے کر سکیں گے.پس یہ سارا سفر دعا کے ذریعے طے ہوتا ہے.مسلسل دعا، ہر قدم پر دعا، ہر اگلی منزل کے لئے دعا، ہر پچھلی منزل سے دور ہونے کے لئے دعا، اس سے کامل قطع تعلقی کے لئے دعا، یہ دعا کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ انْتَ الْوَهَّابُ ) (آل عمران: 9) جتنی بھی قرآن کریم میں دعا ئیں آپ پائیں گے ان میں یہی مضمون بیان ہوگا کہ فرار کے لئے ، غناء کے لئے تیل کے لئے ، خدا کو کامل طور پر پالینے کے لئے پھر خدا کی خاطر بنی نوع انسان پر جھکنے کے لئے اور ان کے فائدے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنے بلکہ ہر قربانی پیش کرنے کے لئے ہر ہر قدم پر آپ کو دعا کی ضرورت ہوگی.خدا کرے کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس سفر کو قرآنی تعلیم کے مطابق اختیار کرے اور ہم اپنے لئے بھی دعا کریں اور اپنے بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں.اپنے سے طاقتوروں کے لئے بھی دعا کریں اور اپنے کمزوروں کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا جماعتی لحاظ سے ہمیں یہ عظیم الشان سفر اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سفر کے تمام مراحل کو ہمارے لئے آسان فرمادے ورنہ اس کی مدد کے بغیر ہم ایک قدم بھی اس کی راہ میں آگے نہیں بڑھا سکتے.

Page 39

Page 40

خطبات طاہر جلد ۸ 35 خطبه جمعه ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء قائد اعظم کو خراج تحسین ، پاکستانی را ہنماؤں کو مشورہ اور جماعت کو ابتلاء میں صبر کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: پاکستان سے کچھ عرصے سے پھر جماعت کے متعلق کچھ پریشان کن خبریں موصول ہو رہی ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے معاندین نے اپنی ذلت آمیز شکست اور نا کامی کے بعد اپنی خجالت مٹانے کے لئے اور کچھ اس طرح جیسے کسی جانور کو زخمی کر دیا جائے تو وہ نئے کس بل کے ساتھ دوبارہ حملہ کرنا چاہتا ہے زیادہ تلخی کے ساتھ شدت کے ساتھ حملہ کرنا چاہتا ہے کچھ اسی انداز سے انہوں نے جماعت کے متعلق اپنی معاندانہ کوششوں کو پہلے سے بہت تیز کر دیا ہے.جگہ جگہ سے مختلف بڑھتے ہوئے مظالم کی خبریں بھی مل رہی ہیں اور بدقسمتی سے سیاسی حالات کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ بعض علاقوں میں ہمارے سیاستدان بھی اس صورتحال سے استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.کچھ ویسا ہی ان کا خیال معلوم ہوتا ہے جیسے کسی زمانے میں ( ممتاز ) دولتانہ کا خیال تھا اور بدقسمتی سے ہماری سیاست میں ماضی سے سبق لینا نہیں آتا اور ایسے تاریخی واقعات جو بارہا دو ہرائے جاچکے ہوں وہ بھی ہمارے سیاستدان کو دکھائی نہیں دیتے.مستقبل کی نظر بھی کوتاہ ہے اور ماضی کی نظر بھی کوتاہ ہے.صرف قریب کے وقتی مفاد کو دیکھنے کی عادت ہے اور اسی حد تک جا کر نظر ٹھہر جاتی ہے.اس لئے کچھ ایسی پیچیدگیاں ہیں ابھی حالات میں کہ ہمیں دعاؤں سے غافل نہیں رہنا چاہئے.تیسری دنیا کی

Page 41

خطبات طاہر جلد ۸ 36 خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء سیاست میں بالعموم صرف پاکستان ہی کی بات نہیں بلکہ تمام دنیا میں وہ ممالک جو بھی ترقی پذیر ہیں ان کی سیاست میں یہ ایک مشترک رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ سیاست خود غرض ہے اور بسا اوقات اصولوں کے سودے بھی کر لیتی ہے.جہاں تک دیانت اور اخلاق کے اعلیٰ تقاضوں کا تعلق ہے سیاست دنیا میں کہیں بھی ہو وہ ان سے بے بہرہ ہوتی ہے.خواہ وہ مغرب کی سیاست ہو، خواہ مشرق کی ، خواہ شمال کی ، خواہ جنوب کی آپ کو کہیں بھی سیاست میں اعلیٰ اخلاقی اقدار دکھائی نہیں دیں گی.اس لئے جو چیز جہاں مل نہیں سکتی وہاں اس سے توقع نہیں رکھنی چاہئے لیکن ایک فرق بہر حال ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں کسی دباؤ کے تابع بھی اصولوں کے سودے نہیں کئے جاتے اور بار ہا آپ کو ایسے سیاسی رہنما دکھائی دیں گے جو پورے طاقت کے عروج میں ہوتے ہوئے بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں مگر کسی قیمت پر بھی اصولوں کے سودوں پر تیار نہیں ہوتے.یہ نظارے آپ کو مشرق میں دکھائی نہیں دیں گے.یہ ہماری بدقسمتی ہے.سوائے ایک تاریخی موقع کے جبکہ سیاست کے میدان میں ایک ایسا روشنی کا سورج اُبھرا تھا جو سیاستدان نہیں تھا لیکن ایک با اصول اور سچا قوم کا ہمدرد انسان تھا یعنی قائد اعظم.قائد اعظم کو بعض لوگ یعنی خصوصا مغربی ناقدین جب اپنی سیاست کی عینکوں سے دیکھتے ہیں تو ان میں انہیں نہرو کے مقابل پر ان کو بہت سی خامیاں دکھائی دیتی ہیں.بہت سی جگہ پر وہ سمجھتے ہیں کہ ایک اچھا سیاستدان ہوتا تو لچک دکھاتا، نرمی اختیار کرتا، کچھ رستہ بدل کر چلتا لیکن یہ کیسا سیاستدان ہے جس کی اتنی عزت کی جاتی ہے اور اس کے باوجود جہاں کہیں بھی سیاست کی آزمائش ہوئی وہاں اس نے اپنے اصولوں کے مقابل پر وقتی مفاد کو ٹھکرا دیا اور کسی قسم کی نرمی نہیں دکھائی جبکہ ہر موقع شناس ایسے مواقع پر نرمی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس لئے قائد اعظم کو ایک سخت اکھڑ انسان کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کو حالات نے بنادیا حالانکہ یہ تجزیہ بالکل غلط ہے اور غیر درست ہے.قائد اعظم اتنے با اصول انسان تھے کہ ایک موقع ایسا بھی ان کی زندگی میں آیا جب وہ کانگریس سے مایوس ہوئے اور مسلمانوں کے حالات پر نظر ڈال کر انہوں نے یہ دیکھا کہ یہ لوگ سچائی کی خاطر تلخی کی راہوں پر قدم نہیں مار سکیں گے اور ہر طرح میرا ساتھ نہیں دے سکیں گے تو انہوں نے سیاست سے کلیہ کنارہ کشی اختیار کر لی اور جیسے بعض دفعہ بچے روٹھ جاتے ہیں اس طرح یہ بالغ نظر انسان روٹھ کر انگلستان میں آکر بیٹھ گیا اور تمام دوستوں اور مداحوں کو یہ واضح اطلاع دے دی کہ آج کے بعد میں ہندوستان کی

Page 42

خطبات طاہر جلد ۸ 37 خطبه جمعه ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء سیاست میں کوئی دخل نہیں دوں گا.اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کی نظر نے دیکھا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے کوئی نجات کی راہ سیاست کے لحاظ سے ہے تو وہ قائد اعظم کے پیچھے چل کر ہی مل سکتی ہے یعنی محمد علی جناح اور محمد علی جناح ہی سے آج ہندوستان کے مسلمانوں کا تمام مفاد وابستہ ہے.اُس زمانے میں مولانا عبدالرحیم صاحب درد یہاں انگلستان میں امام ہوا کرتے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے ان سے فوری رابطہ پیدا کیا اور کہا کہ جس طرح میں آپ کو سمجھاتا ہوں اس طریق پر قائد اعظم سے جاکے، قائد اعظم تو اس وقت غالبا نہیں کہلاتے تھے، محمد علی جناح سے جاکے ملیں اور ان کو بتائیں کہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے.آپ کی کا میابی یا نا کامی اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتی.زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ایک ناکام راہنما کے طور پر مر جائیں لیکن ایک عظیم قوم کی زندگی کی خاطر ایسی قربانیاں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتیں.چنانچہ آپ واپس آئیں اور دوبارہ مسلمانوں کی قیادت کو اپنے ہاتھ میں سنبھالیں.اس وقت قائد اعظم کا رد عمل شروع میں تو بہت سخت تھا جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ با اصول انسان تھے لیکن با اصول انسان جب بات کو سمجھ جاتا ہے تو پھر نرمی بھی اختیار کرتا ہے.یہ وہ فرق ہے جو مغربی آنکھ نے دیکھا نہیں اور قائد اعظم کو ایک ایسے Rigid انسان کے طور پر، ایسے سخت انسان کے طور پر پیش کیا ہے جو گویا بات سمجھنے کے بعد بھی راہ بدلنے پر آمادہ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اور باتوں کو چھوڑ دیں تو یہ ایک واقعہ ہمیشہ کے لئے اس الزام کو قائد اعظم سے دھونے کے لئے کافی ہے.اس زمانے میں مسجد لندن کی حیثیت آج کے مقابل پر کچھ بھی نہیں تھی.چند گنتی کے احمدی تھے اور درد صاحب مرحوم کو قائد اعظم جانتے بھی نہیں تھے.اچانک ایک امام مسجد کا جو خود ایک غیر معروف انسان ہو ان کے پاس پہنچنا اور یہ درخواست کرنا کہ آپ اپنا فیصلہ بدل دیں اور دوبارہ واپس جائیں ہندوستان کی سیاست میں حصہ لیں اور قوم کی پوری طرح بھر پور نمائندگی کریں.تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ ہمارے عبدالرحیم صاحب در دمرحوم کو قائد اعظم کے ساتھ بحث تمحیص میں گزرا، ان کو سمجھانے کی کوشش کی بالآخر جب قائد اعظم نے سمجھ لیا کہ ہاں واقعہ ان کا مؤقف درست ہے اور میرے لئے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ہو مجھے بہر حال ہندوستان واپس پہنچ کر مسلمانوں کی خدمت کرنی چاہئے تو انہوں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا اور آپ کے تاریخ دان اس بات کو مستند کتابوں میں لکھ چکے ہیں.قائد اعظم نے خود اس بات کا اقرار کیا کہ ایسے زندگی کے اہم موڑ پر مجھے سیدھی راہ دکھانے والا لنڈن مسجد کا امام تھا جہاں اس وقت میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں.

Page 43

خطبات طاہر جلد ۸ اس کے بعد پھر وہ کبھی پیچھے نہیں ہے.38 خطبه جمعه ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء وہ ایک ایسا بے خوف با اصول اور با مرا در اہنما تھا کا میابی جس کے قدم چومتی تھی باوجود اس کے کہ کامیابی کے حصول کے لئے وہ اصول چھوڑ کر جھکنا نہیں جانتا تھا.کسی ایک موقع پر زندگی میں آپ نے اصول کا سودا نہیں کیا.چنانچہ اس زمانے میں جبکہ پاکستان کا قیام اتنی اہمیت رکھتا تھا اور خود قائد اعظم نے آخر پر جو بر صغیر کے سیاسی حل کا رستہ تجویز کیا تھا اس کی کامیابی اور نا کامی کا سوال تھا.بظاہر ایک شخص کی کامیابی اور نا کامی کا بھی نہیں بلکہ ساری قوم کی کامیابی اور نا کامی کا سوال تھا.ایسے موقع پر ایک سیاستدان جتنے بھی اپنے موافق اور مؤید ا کٹھے کر سکتا ہے وہ سمیٹتا چلا جاتا ہے.کسی کو کچھ لالچ دیتا ہے، کسی کو کچھ لالچ دیتا ہے.کسی سے کسی بات کے سودے ہوتے ہیں، کسی سے کسی اور بات کے سودے ہوتے ہیں اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے یہ بھی کہ دیتا ہے کہ اس موقع پر اتنے بڑے اصول داؤ پر لگے ہوئے ہیں کہ چند چھوٹے چھوٹے اصولوں کی قربانی دے دینا اس کے مقابل پر کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتا.ایسے موقع پر قائد اعظم کی ایک بہت بڑی آزمائش خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئی اور دراصل اس آزمائش پر ان کا پورا اُترنا ہی ان کی زندگی کو با مراد کرنے کا فیصلہ کر گیا.تمام ہندوستان میں مسلمانوں کے اندر تمام مذہبی جماعتیں سوائے جماعت احمدیہ کے قائد اعظم اور پاکستان کی مخالف تھیں.مسلمان حق میں تھے لیکن سب مسلمان حق میں نہیں تھے جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے بحیثیت تنظیم اگر تمام نہیں ہوسکتا ہے میری یادداشت نے کوئی غلطی کی ہولیکن بھاری اکثریت وہ تو عام معروف مذہبی جماعتیں جو آج پاکستان پر قابض ہیں وہ ساری کی ساری قائد اعظم کی مخالف تھیں اور پاکستان کے تصور کے مخالف تھیں لیکن ایک بات پر وہ اپنا مؤقف بدلنے پر آمادہ تھیں اور وہ چھوٹی سی بات یہ تھی کہ قائد اعظم سے انہوں نے درخواست کی کہ اگر آپ مسلمانوں میں سے احمدیوں کو نکال دیں اور ان کی غیر مسلم حیثیت تسلیم کرتے ہوئے ان کو مسلم لیگ سے خارج کر دیں تو ہم اپنا تمام عمر کا سیاسی مؤقف تبدیل کر کے آپ کے پیچھے لگنے کے لئے تیار ہیں.یہ شرط مان لیں تو باقی ساری باتیں بلا شرط ہم آپ کی تسلیم کر لیں گے.کتنا عظیم الشان دباؤ تھا.ساری زندگی کی جنگ کا نتیجہ اس بات پر منحصر تھا اور ایک سیاستدان، ایک دانشور جو ملکی حالات سے باخبر ہو جو فرقوں کے باہمی تناسب کے اعداد و شمار سے واقف ہو اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ ایک

Page 44

خطبات طاہر جلد ۸ 39 خطبہ جمعہ۲۰/جنوری ۱۹۸۹ء سیاستدان کے طور پر یہ فیصلہ کرے کہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی نمائندہ مذہبی جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ، رڈ کرتے ہوئے، مخالف بناتے ہوئے ایک چھوٹی سی مذہبی جماعت کو قبول کر لے محض اس لئے کہ اس کے نزدیک اصول کا تقاضا یہ تھا کہ اکثریت کی رائے کورڈ کر دیا جائے اور ایک چھوٹی اقلیت جماعت کی رائے کو قبول کر لیا جائے.چنانچہ قائد اعظم نے انتہائی دباؤ کے باوجود ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا.انہوں نے کہا میرے نزدیک مسلمان سیاست میں بنیادی طور پر یہی اصل ہمیشہ قائم رہے گا کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اس کا حق ہے کہ بحیثیت مسلمان مسلمانوں کی سیاست میں حصہ لے.جو شخص اپنے منہ سے اپنے اسلام کا انکار کرتا ہے اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہو یہ اتنی سی بات تھی.چنانچہ انہوں نے احمدیوں کی ممبر شپ روکنے کی بجائے با قاعدہ ایک تاریخی فیصلے کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ ہر احمدی مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں دوسری تمام مذہبی جماعتیں اگر ناراض ہو کر مسلم لیگ کی ممبر شپ سے الگ ہوتی ہیں تو ہونے دو.یہ وہ اصولی فیصلہ تھا جس کے نتیجہ میں دراصل قائد اعظم کامیاب ہوئے یہ وہ اصولی فیصلہ تھا جو خدا کو پسند آیا جو انصاف اور تقویٰ کی بات تھی جس نے در حقیقت ایک ہاری ہوئی بازی کو جتا دیا.میں سمجھتا ہوں یہ اسی فیصلے کی برکت تھی کہ ایک عظیم انقلاب رونما ہونا شروع ہوا.اس فیصلے سے پہلے خود پنجاب میں بھی قائد اعظم کے ہم خیالوں کو کوئی طاقت حاصل نہیں تھی.ایک یونسٹ (Unionist) حکومت تھی خضر حیات کی جو مسلم لیگ کے مخالف اور کانگریس کے اصولوں سے متفق تھی اور جس پنجاب جو آج پاکستان کی جان ہے اس پنجاب میں بھی اگر مسلم لیگ کی کوئی حیثیت نہیں تھی تو اندازہ کریں کہ اس وقت یہ فیصلہ کرنا کہ تمام بڑی مذہبی جماعتیں جس سے ناراض ہو جائیں اور ایک چھوٹی سی اقلیت کو خوش کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے اصول پر قائم رہنے کی خاطر اس چھوٹی سی اقلیت کو ترجیح دے دینا.یہ وہ فیصلہ تھا جس نے حالات کی کایا پلٹ دی.دیکھتے دیکھتے وہ بڑے بڑے علماء جو قائداعظم کو رڈ کر چکے تھے ان کے پلیٹ فارم ان کے قدموں تلے سے کھسکنے شروع ہوئے اور قائداعظم کے قدموں کی طرف بڑھنے لگے.وہ قدم جوان پلیٹ فارموں کی طرف لالچ کی وجہ سے نہیں بڑھے تھے خدا نے ان کے ان پلیٹ فارموں کو ان کے مالکوں کے قدموں کے نیچے سے نکال دیا اور وہ پلیٹ فارم قائد اعظم کی

Page 45

خطبات طاہر جلد ۸ 40 خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء طرف بڑھنے لگے.یہاں تک کہ ایک ایسار یلا آیا کہ جس میں یہ علماء ہواؤں میں لٹکے ہوئے رہ گئے اور ان کے نیچے کی تمام زمین نکل گئی تھی.یہ ہے وہ اصول کی بات جو بد قسمتی سے آج تک ہمارے سیاستدان نے نہیں سیکھی اس وقت جو پاکستان میں صورتحال ہے اُس میں بھی اسی قسم کی بعض باتیں ہیں جن کے فیصلے ہونے والے ہیں.علماء کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے یعنی احمدیوں کے مخالف علماء کا کہ وہ خوف دلا کر اور دھمکیاں دے کر سیاستدان کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شروع میں اُن کو صرف اتنی بات دکھاتے ہیں کہ ہمارا مطالبہ تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک چھوٹی سی جماعت کو مردود قرار دے دو اور اُس کے خلاف ہر قسم کی زیادتیوں کو برداشت کر جاؤ.جہاں تک اکثریت کا تعلق ہے وہ تمہارے ساتھ رہے گی تم ہماری زبان کے چرکوں سے بھی بچے رہو گے اور ساری قوم میں تمہاری مقبولیت ہوگی کہ ایک ایسی جماعت کو تم نے رڈ کیا ہے جس جماعت کو قوم بحیثیت مجموعی رڈ کر چکی ہے اور یہ اکثریت کا فیصلہ ہے.یہ بات بیچ میں سے چھپا جاتے ہیں کہ دنیا کی کسی اکثریت کوبھی یہ حق نہیں ہے کہ انصاف پر تبر رکھ سکے اور انصاف کے تقاضوں پر جمہوریت کی راجدہانی نہ کبھی پہلے ہوئی تھی نہ آئندہ کبھی ہوسکتی ہے.جمہوریت کا مقصد انصاف کا قیام ہے اس لئے جمہوریت کی طاقت کو استعمال کر کے انصاف کی قربانی نہیں دی جاسکتی اور اصولوں کی قربانی نہیں دی جاسکتی جن کے بغیر جمہوریت چل نہیں سکتی.تو اس حصے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اور اُسے چھپاتے ہوئے باقی بات کو بڑی عمدگی اور بڑے منطقی انداز میں سیاستدانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر سارے ملک میں شور مچاتے ہیں اور ایک مہم چلا دیتے ہیں اخباروں میں دھمکانے کی ، مرعوب کرنے کی.وہ کہتے ہیں دیکھو جی یہی بات ہے خبر دار جو اس جماعت کی کسی نے تائید کی.اگر تم نے تائید کی تو ہم شور مچائیں گے اور عوام کو بتا ئیں گے اور ان کو کہیں گے گلیوں میں نکلو یہ لوگ فلاں نواز ہیں اور فلاں کی تائید میں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اُن کے ذریعہ سے طاقت میں آئے تھے، اُن کے ساتھ ان کی ساز باز ہے اور یہ اور وہ.غرضیکہ عجیب و غریب ایسی کہانیاں ہیں جنہیں وہ دھمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں.جہاں تک موجودہ حکومت کی سیاسی پارٹی کا تعلق ہے میں جانتا ہوں کہ اُن میں سے بھاری اکثریت ایسی ہے جو بدنیت نہیں ہے.اُن کے اصول بھی آزاد تھے.اُنہوں نے عوام سے یہ وعدہ کیا

Page 46

خطبات طاہر جلد ۸ 41 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۹ء تھا کہ ہم سیکولر ازم کے نام پر آ رہے ہیں اور اُن کے منشور میں یہ بات داخل تھی.عوام نے سب کچھ دیکھ کر سوچ سمجھ کر ان کے حق میں، اُن کی تائید میں فیصلہ کیا لیکن جب سیاسی دباؤ بڑھنے شروع ہوں تو اُس وقت سیاستدان کی اندرونی Integrity اُس کے اصولوں پر قائم رہنے کی طاقت کا امتحان ہوا کرتا ہے.کیا اس امتحان پر یہ سارے پورے اُتر سکیں گے یا نہیں یہ ہے فیصلہ جو آج ہونے والا ہے.جہاں تک میں پاکستان کے حالات کو جانتا ہوں میرے نزدیک وہ سیاستدان جو نیک نیت ہیں اُن میں بھی مضبوط قومی کے مالک بہت کم لوگ ہیں.ایسے کردار کے مالک جو پوری عظمت کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کو چیلنج کر سکتے ہوں اور اصولوں کے سودوں پر تیار نہ ہوں ایسے بہت کم ہیں.بھاری اکثریت اُن شرفاء کی ہے جن کی زبان ہوا کی تائید میں تو چلا کرتی ہے ہوا کے مخالف نہیں چلا کرتی.جن کے ہونٹوں سے جو آواز بلند ہوتی ہے وہ نقار خانے کے شور کے مطابق ہوا کرتی ہے.اُس طوطی کی آواز نہیں جو نقار خانے کے مقابل پر باوجود کمزور اور نحیف ہونے کے پھر بھی آواز بلند کرنے کی جرات کرتا ہے.اس لحاظ سے ہمارے ملک میں سیاسی لحاظ سے ہمیشہ عدم استحکام رہا اور قائد اعظم کے بعد بدنصیبی سے قوم نے پھر کبھی با اصول سیاست کا منہ نہیں دیکھا.یہ وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے کچھ خطرات دکھائی دیتے ہیں.بہر حال جہاں تک جماعت کا تعلق ہے ایک اور پہل بھی ہماری کمزوری کا یہ ہے کہ اصول کی خاطر ہم نے خود سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے.وہ ووٹ جس کی قیمت سیاستدان کی نظر میں ہوا کرتی ہے وہ تو ہمارے پاس نہیں ہے.اُن سکوں سے جیب خالی ہے جو سیاستدان کی ہمدردی خرید لیا کرتے ہیں.نہ وہ ظاہری سکتے ہیں نہ وہ سیاسی سکے ہیں ہمارے پاس اس لئے جماعت بالکل تہی دامن ہے اس پہلو سے.اس لئے سوائے اس کے کہ کوئی سیاستدان عظیم کردار کا مالک ہو، بے انتہا با اصول ہو اور قوم کی آخری فلاح کی منزل کی طرف اُس کی نظر ہو اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوف کھا کر اپنے اصول کی راہ بدلنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہو اس کے سوا وہاں حالات کے سدھرنے یا سدھرے رہنے کی کوئی اور صورت نہیں ہے.اس وقت پاکستان کے حالات میں جہاں تک میں مطالعہ کر رہا ہوں مجھے دو قسم کے سیاستدان حکومت کی پارٹی کے اندر دکھائی دے رہے ہیں بلکہ تین قسم کے کہنا چاہئے.ایک وہ ہیں

Page 47

خطبات طاہر جلد ۸ 42 خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء جن کو جماعت سے ہمدردی ہے جو با اصول تو ہیں لیکن اپنے اصولوں کی حفاظت کی طاقت نہیں رکھتے.جو شریف تو ہیں لیکن اُن کی شرافت کی زبان میں جرات کا فقدان ہے.وہ بے چین ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن اُن کی کچھ پیش نہیں جاتی.ایک طبقہ سیاستدانوں کا وہ ہے جو ذاتی طور پر شریف النفس ہے لیکن جماعت سے ویسے کوئی ہمدردی نہیں رکھتا اور اصولوں پر قائم رہنے کا بھی کوئی خاص تجر بہ یا سلیقہ ان کو نہیں ہے.ساری عمر ایسی سیاست کی پیروی کی ہے جو رستوں کے مطابق رخ بدلا کرتی ہے اپنی مرضی کے مطابق رستے نہیں بنایا کرتی اور یہی بڑا فرق ہے ہمارے ملک کی سیاست اور مغربی سیاست میں.یہاں پہلے منازل معین کی جاتی ہیں اور اطراف کی تعیین کی جاتی ہے پھر راہ تجویز کی جاتی ہے جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ آرام کے ساتھ قوم کو منزل تک پہنچا دے.ہمارے ملک میں گھسے پیٹے رستوں کی پیروی کی جاتی ہے خواہ وہ منزل سے بھی ہٹا دیں.اس لئے یہ بڑا فرق ہے ان کو عادت ہے قوم کے خیالات کو جانچ کر خواہ وہ صحیح ہوں خواہ وہ غلط ہوں اُن کے پیچھے چلنے کی تا کہ قوم کو یہ احساس نہ ہو کہ ہم اُن کے راہنما ہیں جو اُن کے خیالات کو بدلنے پر بھی آمادہ ہو سکتے ہیں.چنانچہ بظاہر یہ لوگ را ہنما ہوتے ہیں لیکن عملاً عوام الناس ان کے راہنما ہوتے ہیں.اب یہ جو چیز ہے اس میں ایک فرق دکھانا ضروری ہے.دنیا میں ہر جگہ عوام کے خیالات اور خواہشات کا احترام کیا جاتا ہے اور کوئی بھی دنیا کی سیاست نہیں ہے جو عوام کی نبضوں پر انگلیاں رکھے بغیر اپنے فیصلے کرے لیکن جو بات میں کہہ رہا ہوں اُس میں ایک فرق ہے.وہ فرق یہ ہے کہ دنیا کے باشعور اور بالغ نظر سیاستدان عوام کے خیالات اور جذبات پر نظر تو رکھتے ہیں لیکن جب یہ سمجھتے ہوں کہ یہ جذبات اور خیالات خود قوم کے لئے مہلک ہیں اور خود سیاست کے لئے مہلک ہیں تو پھر اُن خیالات اور جذبات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر وہ تبدیل نہ ہوسکیں تو خود الگ ہو جاتے ہیں اور ان خیالات کی پیروی نہیں کرتے.اس کو حقیقت میں راہنما کہا جاتا ہے.مشرقی پاکستان ٹوٹنے والا تھا اور بنگلہ دیش بنے والا تھا تو اس سے پہلے شیخ مجیب الرحمن صاحب سے ایک دفعہ مجھے تفصیلی گفتگو کا موقع ملا.اُن کو میں نے ہر پہلو سے سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ اپنے رستے کو تبدیل کریں اور جس راہ پہ آپ چل پڑے ہیں یہ قوم کے لئے شدید نقصان دہ ہوگا.چنانچہ ایک موقع پر میں نے اُن سے کہا اور مجھے افسوس ہے کہ مجھے اُن سے یہ کہنا پڑا جس کا مجھے خیال تھا کہ اُن کو بہت

Page 48

خطبات طاہر جلد ۸ 43 خطبہ جمعہ۲۰/جنوری ۱۹۸۹ء تکلیف پہنچے گی کہ میں نے بہت سے دنیا کے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کی ہیں ، بہت سے لیڈروں سے میں واقف ہوں لیکن آج تک میں نے کبھی دنیا میں اتنا کمزور سیاستدان نہیں دیکھا جتنے آپ ہیں.اُن کا تو یوں لگتا تھا جیسے اشتعال سے اپنے آپ پر قابو نہیں رہے گا.ایک دم اس قسم کی گہری چوٹ کسی نازک جگہ پر لگائی جائے اس طرح اُن کا رد عمل ہوا لیکن اُن میں بہر حال بہت سی خوبیاں تھیں یونہی تو کوئی قوم کا راہنما نہیں بن جایا کرتا.اُنہوں نے حوصلے سے اپنے جذبات کو برداشت کیا، اُن پر قابو پایا اور مجھے کہا کہ یہ عجیب بات آپ کر رہے ہیں.ساری قوم میرے پیچھے ہے، سارا مشرقی پاکستان میری آواز پر لبیک کہہ رہا ہے اور آپ کہتے ہیں میں نے اپنی ساری زندگی میں اتنا کمزور سیاسی راہنما کبھی نہیں دیکھا.میں نے کہا اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کو قوم نے آگے لگایا ہوا ہے آپ نے قوم کو پیچھے نہیں لگایا ہوا اور آپ ایک انچ بھی رستہ بدلنا چاہیں تو قوم آپ کو دھتکار کر ایک طرف پھینک دے گی اور آپ میں طاقت نہیں ہے رستہ بدلنے کی اس لئے میں جو آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں بالکل وقت ضائع کر رہا ہوں.آج آپ اگر ادنی سی آواز بھی بلند کریں کہ جس طرف میں آپ کو پہلے لے کر جارہا تھا وہ راہ غلط ہے اور ہمیں اس راہ کو تبدیل کرنا چاہئے تو آپ کو قوم ہلاک کر دے گی.اس لئے آپ طاقتور راہنما کیسے ہو گئے ؟ پس یہ فرق ہوا کرتا ہے سیاستدان آگے ہی ہوا کرتا ہے لیکن دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ قوم نے اُس کو آگے لگا رکھا ہے یا وہ قوم کو پیچھے پیچھے لے کر چل رہا ہے.تو قوم کے آگے لگنے والے سیاستدان تو بکثرت ہمیں نظر آ رہے ہیں لیکن قوم کو پیچھے لگانے والے سیاستدان وہ جو اصولوں کے پابند سیاستدان ہوا کرتے ہیں، عظیم حوصلوں اور عظمتوں کے مالک ہوتے ہیں اُن کا فقدان ہے اور یہی بحران ہے سیاست کا جس نے پاکستان کی سیاست کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے.تو ایسے طبقہ سے یہ توقع رکھنا جن کی تربیت یہ نہ ہو، جو نبضوں پر ہاتھ رکھتے ہوں کہ اگر ڈوب رہی ہیں تو ہم ساتھ ڈوب جائیں گے اس پر آمادہ ہوں.نبضوں کو بدلنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اُن میں یہ استطاعت نہ ہو کہ ڈوبتی نبضوں کا ساتھ نہیں دینا اور اُبھرتی نبضوں کا ساتھ دینا ہے اور دیتی ہوؤں کو ابھارنا ہے وہ سیاستدان راہنما بننے کے کیسے اہل ہو سکتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں اور ایک معمولی سا طبقہ ایسا بھی ہے جو احراری مزاج ہے اور پیپلز پارٹی میں داخل ہے.وہ ایسے موقع پر باہر کی آواز کو اندر پہنچاتا ہے اور بڑھا چڑھا کر پہنچاتا ہے اور اُن خطرات کو جو محض گیدڑ بھبکیوں کی حیثیت

Page 49

خطبات طاہر جلد ۸ 44 خطبه جمعه ۲۰/جنوری ۱۹۸۹ء رکھتے ہیں اُن کو حقیقت بنا کر دکھاتا ہے اور وہ لوگ جو با اصول سیاستدان ہیں لیکن کمزور اُن کے دلوں پر بار بار حملے کرتا ہے اُن کو ڈراتا ہے، دھمکاتا ہے، اُن کے حوصلے پست کرتا ہے کہ خبر داراب اگر تم نے کسی اصول کی خاطر اس جماعت کا ساتھ دیا تو تم دیکھنا کہ تم صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جاؤ گے،صفحہ سیاست سے مٹا دیئے جاؤ گے.حالانکہ وہ بھول جاتا ہے کہ ہمیشہ جب بھی واقعہ ہوا ہے ہمارے سیاسی اُفق پر اس سے برعکس واقعہ ہوا ہے.صفحہ سیاست سے وہ مٹائے گئے ہیں اور بار بارمٹائے گئے ہیں جنہوں نے اصولوں کو مٹنے دیا ہے، جنہوں نے اصولوں کی خاطر اپنے وجود کو مٹانے کا فیصلہ کیا ہے وہ کبھی نہیں مٹائے گئے اور ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی پہ اُن کے نام ثبت ہو چکے ہیں ایک ملک میں کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا، دو ملکوں میں نہیں ہوا ہمیشہ ساری دنیا میں ہمیشہ ہمیش سے یہی ہوتا چلا آیا ہے.اس لئے پاکستان میں جو موجودہ حالات ہمیں دکھائی دے رہے ہیں اُن میں بدنصیبی ، حوصلہ رکھنے والے باشعور بالغ نظر سیاستدانوں کے فقدان کی بدنصیبی ہے لیکن جہاں تک انسانی کوشش کا تعلق ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کو تنبیہ کرتے چلے جائیں، ہم ان کو خبر دار کریں اور ان کو ہوشیار کریں ، ان کو سمجھائیں اور ان کو دکھا ئیں کہ جن راہوں کی تم پیروی کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہو وہ ہلاکت کی راہیں ہیں.اُس کے بعد ہم پر پھر وہی حکم اطلاق پاتا ہے جو ہمارے آقا پر اطلاق پایا تھا اِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرَ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ (الغاشیہ: ۲۲-۲۳) اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تیری حیثیت صرف نصیحت کرنے والے کی ہے تو اُن پر داروغہ نہیں تو ہم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاک پاکے خاک پا ہم بھلا کہاں یہ حیثیت رکھتے ہیں کہ اپنے آپ کو داروغے بنا بیٹھیں اور مذکر کی حیثیت سے باہر چھلانگ لگائیں.لیکن مذکر کی حیثیت بھی بڑی مشکل حیثیت ہے.داروغے سے زیادہ مشکل حیثیت ہے، بڑے صبر کے تقاضے ہیں اس حیثیت میں، بڑے مراحل ہیں، جن پر ثبات قدم اختیار کرنا بڑا مشکل کام ہوا کرتا ہے لیکن بہر حال ہمارے مقدر میں یہی ایک رستہ لکھا ہوا ہے اسی رستے پر ہم نے چلنا ہے اور ضرور چلنا ہے.ہر مشکل، ہر مصیبت کو برداشت کر کے اس پر چلنا ہے اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ قوم کو متنبہ کرے اور سمجھائے اور آج کے سیاستدان کو خواہ وہ حکومت کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو یا حکومت سے باہر کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو خوب اچھی طرح کھول کر دکھائے کہ پاکستان کی

Page 50

خطبات طاہر جلد ۸ 45 خطبه جمعه ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء سیاست کو تباہ کرنے میں سب سے بڑا بلکہ شاید ایک ہی ہاتھ ہے اور وہ مولوی کا ہاتھ ہے.جن ملکوں میں ملائیت کا عذاب نازل نہیں ہوا وہاں سیاستیں آزاد ہیں اور ملائیت سے مراد میری صرف مسلمانوں میں جو خاص قسم کے علماء ہیں وہ نہیں ہیں بلکہ ملائیت سے مراد مذہبی جنون کا غلبہ ہے جس حیثیت سے میں ملائیت کی بات کر رہا ہوں.یہ ملائیت خواہ ہندو ازم میں نظر آئے ، خواہ بُدھ ازم میں نظر آئے ، خواہ عیسائیت میں نظر آئے ، خواہ یہودیت میں نظر آئے جہاں بھی جب بھی ملائیت سیاست میں داخل ہوئی ہے اور سیاسی مزاج پر اُس نے قبضہ کیا ہے وہاں ہمیشہ سیاست کو اس نے ہلاک کر کے رکھ دیا ہے اور پھر سیاست اس زہر کے بعد زندہ نہیں بچ سکی.پاکستان میں بارہا یہ تجربہ ہو چکا ہے.کہتے یہ ہیں کہ چھوٹی سی بات ہے تم مان جاؤ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ایک ملک کے کسی چھوٹے سے طبقہ پر قانون کے طور پر کوئی سیاسی جماعت ظلم کرنے پر آمادہ ہو جائے تو یہ رستہ کھل جاتا ہے جو پھر کبھی بند نہیں ہو سکتا.جس اصول کے ذریعے جس اصول کی قربانی کے ذریعے ملائیت کو سیاست پر کسی ایک جگہ غلبہ ہوتا ہے وہ پھر وہاں نہیں ٹھہرا کرتا وہ آگے اپنی جگہ بڑھانا شروع کرتا ہے اور چونکہ ایک دفعہ رستہ کھل جاتا ہے پھر اُس رستے کو بند کرنا سیاستدانوں کے لئے آسان نہیں ہوا کرتا.اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے لیکن جماعت احمد یہ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہے ، ہندوستان کی تاریخ سے بھی واقف ہے یعنی جماعت کے جتنے بھی دانشور ہیں، تعلیم یافتہ طبقہ ہے اُن کے لئے مشکل نہیں کہ وہ اس کی مثالیں تلاش کریں اور اپنے روز مرہ کی گفتگو میں جن سے بھی گفتگو ہو اُن کو سمجھاتے وقت وہ مثالیں اُن کے سامنے پیش کریں.اُن کو بتا ئیں کہ کس طرح غلطی کی جاتی ہے.ایک دفعہ جب ملائیت کو سیاست میں دخل دینے کی اجازت دے دی جائے تو پھر وہ وہاں نہیں رکا کرتی ، آگے بڑھتی ہے اور یہی وہ سلسلہ تھا جو ایک چھوٹے سے نقطے سے آغاز ہوا اور پھر آخر شرعی عدالتوں، شرعی کورٹس اور پھر شریعت کے تابع تمام سیاست کا قلع قمع کرنے پر منتج ہوا.آٹھویں ترمیم جس کو آپ کہتے ہیں اُس میں جماعت احمدیہ کے اوپر مظالم کی بھی ایک شق ہے لیکن دراصل یہ وہ شق ہے جس سے ساری سیاست کی بربادی کا آغاز ہوا تھا.۱۹۷۴ء کی ترمیم کی بات نہیں میں کر رہا.۱۹۷۳ء کے آئین میں یہ شق رکھ دی گئی تھی کہ کوئی احمدی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا اور پاکستان کا صدر نہیں بن سکتا.الفاظ یہ تھے یا کچھ مختلف تھے لیکن مفہوم اس کا یہی تھا.چنانچہ

Page 51

خطبات طاہر جلد ۸ 46 خطبه جمعه ۲۰/جنوری ۱۹۸۹ء میں نے اُس زمانے میں پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں میں سے بعض سے بات کی اُن کو میں نے کہا کہ قانون میں یہ شق کیوں رکھی ہے تو انہوں نے کہا آپ نے کوئی ملک کا صدر بننا ہے یا آپ کی نیت کوئی چیف جسٹس بنے کی ہے، آپ کو کیا فرق پڑتا ہے.میں نے کہا مجھے تو نہیں پڑتا کیونکہ کسی احمدی نے کبھی پاکستان کے صدر بنے کا یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے کا خواب نہیں دیکھا لیکن آپ کو فرق پڑتا ہے اور قوم کو فرق پڑتا ہے اور پڑے گا.یہ وہ آپ نے سوراخ رکھ لیا ہے جس سوراخ سے ملاں داخل ہو گا اور دن بدن آپ کے لئے ایک مصیبت کا موجب بنتا چلا جائے گا، ہمیشہ کے لئے ایک سردردی ہے جو آگے بڑھتی چلی جائے گی.آپ کے لئے جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی.جب ایک دفعہ آپ نے اصول کا سودا کر لیا تو پھر آگے جا کر اور اصول قربان کرنے پڑیں گے.میں نے اُن کو سمجھایا کہ جماعت احمدیہ میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو یہ خواہش رکھتا ہو لیکن آپ یہ بتائیں کہ اس کے باوجود اگر ساری قوم یہ فیصلہ کرے کہ کوئی احمدی صدر ہونا چاہئے تو آپ کا یہ قانون کیوں روکے گا اُس کو پھر.سیدھی اصولی بات یہ ہے کہ جمہوریت میں اکثریت کا فیصلہ جاری ہونا چاہئے.اگر وہ اُن دائروں میں ہے جن دائروں سے جمہوریت کا تعلق ہے، یہ بنیادی شرط ہے.تو اگر پاکستان کے جمہور چاہتے ہوں کہ کوئی احمدی مسلمان ملک کا صدر بن جائے تو کیوں اُس کو روکا جائے گا.آپ کو کیا حق ہے کہ جو اُس وقت اقلیت ہو چکے ہوں گے اور اگر اکثریت یہ نہیں چاہتی تو خطرہ کیا ہے؟ اس قانون کے ہونے سے کیا فرق پڑ جائے گا.اس لئے ایک ایسے فرضی خطرے کے خیال سے آپ نے اس شق کو رکھ لیا ہے بلکہ میں نے کہا کہ فرضی خطرہ بھی نہیں، مولوی کو خوش کرنے کی خاطر یہ جانتے ہوئے کہ کوئی ایسا خطرہ نہیں ہے آپ نے ایک شق اس قانون میں رکھ لی ہے جوشق یہاں نہیں ٹھہرے گی اور لازماً بات آگے بڑھے گی.چنانچہ وہ سلسلہ تھا جو پھر اس کے بعد جاری ہوا اور وہ بات آگے بڑھ کر پھر جماعت احمدیہ کے متعلق آگے نہیں بڑھی بلکہ ساری قوم کے لئے آگے بڑھی اور یہ جو شریعت بل اور شرعی عدالتیں اور یہ تفریق در تفریق کے سلسلے، یہ مہاجر پاکستانی اور یہ غیر مہاجر پاکستانی ، یہ پنجابی پاکستانی ، یہ سندھی پاکستانی ، یہ افغان پاکستانی جو مہاجر بن کر آیا ہے یہ پٹھان پاکستانی جو پہلے سے یہاں بستا ہے.جتنے تفریق در تفریق کے سلسلے تھے یہ دراصل اُسی وقت بنیادی طور پر قائم ہو چکے تھے یعنی پیج کے طور پر بوئے جاچکے تھے.اس سارے تجربے سے گزر کے گیارہ سال کے دکھ اُٹھا کر کئی قسم کے خطرناک اور صبر آزما مراحل سے نکل کر یہ لوگ جو آج حکومت پر قابض ہوئے ہیں ان کی استطاعت دیکھیں کہ ان سب باتوں کو بھولنے

Page 52

خطبات طاہر جلد ۸ 47 خطبه جمعه ۲۰ / جنوری ۱۹۸۹ء کی استطاعت رکھتے ہیں، ان سب باتوں کو فراموش کرنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن یہ طاقت نہیں رکھتے کہ اپنی ناک کے آگے دیکھ سکیں.نہ ماضی میں دیکھ سکتے ہیں نہ مستقل میں دیکھ سکتے ہیں.اُن باتوں میں نہیں دیکھ سکتے جن باتوں میں ان کا ذاتی مفاد نہ ہو اور اگر ذاتی مفادناک کی حد تک جا کر ٹھہر جائے گا تو پھر آگے نہیں دیکھیں گے.اس لئے ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ہر نظر کی بیماری بعینہ انسان کی اقتصادی اور سیاسی بیماریوں سے سو فیصدی مشابہ ہو، بعینہ مشابہ یہ نہیں ہوا کرتا.مثالیں دی جاتی ہیں بعض تھوڑی صادق آتی ہیں، بعض زیادہ صادق آتی ہیں.تو یہ جو نظر کی کمزوری ہے اس کا خود غرضی سے تعلق ہے دراصل اور جہاں سیاست خود غرض ہو جائے وہاں اگر یہ بیماری بڑھ جائے تو اُس کے نتیجہ میں کوتاہ نظری پیدا ہوتی ہے جو ایک مخصوص قسم کی کوتاہ نظری ہے.بعض پہلوؤں سے سیاستدان سینکڑوں سال کے بعد دیکھ سکتے ہیں، ہزاروں سال کی تاریخ سے سبق لے سکتے ہیں اس لئے بیوقوف نہیں ہیں، بیمار ہیں بیچارے.ایک بنیادی طور پر اخلاقی کمزوری کو برداشت کر لیا گیا ہے اور خود غرضی کے غلام بننے کے نتیجے میں جو اُس کے طبعی عوارض ہیں وہ اُن کو لاحق ہو رہے ہیں.اس لئے ان کو تجزیہ کر کے دکھانا چاہئے ،سمجھانا چاہئے کہ یہ رستہ درست نہیں ہے غلط ہے.تم جن رستوں سے گزر کے آئے ہو وہاں یہ موڑ پہلے بھی آئے تھے ، پہلے بھی تو تم نے غلط قدم اُٹھائے تھے، پہلے بھی تم غلط نتیجے دیکھ چکے ہو.اگر تمہاری یاد داشت چھوٹی ہے، اگر تمہاری نظر کوتاہ ہے تو ہم تمہیں بتا رہے ہیں ، ہم تمہیں دکھارہے ہیں کہ ایسے واقعات پہلے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی اگر تم وہ غلطیاں کرو گے جو پہلے کر چکے ہو تو ویسے ہی نتیجے دیکھو گے جو پہلے دیکھ چکے ہو اور اس قانون قدرت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.یہ بات ہے جو سمجھانے والی ہے اور اس کے لئے جماعت کو محنت کرنی چاہئے اور ان کو یہ بھی بتادینا چاہئے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں اور ہر ایک کی کمزوریوں سے باخبر ہیں.ہم جانتے ہیں تم میں سے اکثر ایسے ہیں جن کی نیتیں ٹھیک ہیں اس لئے تم اگر ہمیں آج قربان کر سکتے ہو اپنی مفاد کی خاطر تو مجبور ہو کے کر رہے ہو ہمیں یہی احساس ہے لیکن اس کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ اس قربانی کے بعد تمہاری قربانی کا وقت بھی آنے والا ہے.اس لئے ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں جس چھری کو تم آج ہماری گردن پر چلنے کی اجازت دو گے خدا کی قسم وہ چھری ضرور تمہاری گردن پہ چلائی جائے گی.یہ وہ تقدیر ہے جسے تم تبدیل نہیں کر سکتے اور کبھی کسی نے تبدیل نہیں کیا لیکن ہماری گردن کی حفاظت کی خدا نے ضمانت

Page 53

خطبات طاہر جلد ۸ 48 خطبہ جمعہ۲۰/جنوری ۱۹۸۹ء دی ہے.چھری چل تو سکتی ہے مگر اس گردن کو تن سے جدا نہیں کر سکتی.چلے گی ہزاروں مرتبہ یہ چھریاں چلائی گئی ہیں اور آزمائش پہ آزمائش ہم پر گزر چکی ہے مگر تیز سے تیز چھری نے بھی جماعت کے سر کو جماعت کے تن سے جدا نہیں کیا.نہ پہلے کر سکے تھے نہ آج کر سکتے ہو نہ کل کر سکو گے.مگر جن چھریوں کو تم نے اجازت دی اور اگر تم نے اجازت دی تو وہ جب تمہارے اوپر چلائی جائیں گی تو گہرے وار کریں گی اور گہرے زخم چھوڑیں گی اور ہو سکتا ہے تمہارے وجود کی بقا کو ہی خطرے میں ڈال دے.ہم یہ نہیں چاہتے ، ہم جانتے ہیں تم میں بہت اچھے لوگ ہیں، نیک لوگ ہیں ایسے لوگ ہیں اگر وہ با اصول رہیں تو سیاست ہی میں نہیں انسانی شرافت کی تاریخ میں بھی ہمیشہ کی زندگی پا جائیں گے.ہم یہ جانتے ہیں کہ تم وہ نہیں ہو جو بار بار موقع دیئے جاتے ہو اور ایسے زیادہ آدمی ہمارے پاس نہیں ہیں اس لئے اس تاریخی موقع کو ضائع نہ کرو اور اپنے اور قوم کے فائدے کی بجائے اپنی قوم کے نقصان میں تبدیل نہ کرو.جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے ہم یقین اور کامل یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا جس نے پہلے ہمیں کبھی نہیں چھوڑا، آج بھی ہمیں نہیں چھوڑے گا.ہمارا تو کل تم پر نہیں ہے، ہمارا تو کل کائنات کے مالک اور خالق خدا پر ہے اور وہی جس نے ہمیشہ ہمارے تو کل کی عزت اور بھرم رکھا ہے اور کبھی بھی ہماری توقعات کو ٹھوکر نہیں لگائی.اس لئے میں پاکستان کے اُن احمدیوں کو بھی مخاطب اور متنبہ کرتا ہوں جو چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے نتیجوں میں لمبی چھلانگیں لگانے لگتے ہیں.پہلے بھی میں نے آپ کو متنبہ کیا تھا اُس وقت یہ حالات ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے.اب میں آپ کو دوبارہ متنبہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے اپنی توقعات کو اور اپنی امیدوں کو دنیاوی تبدیلیوں سے وابستہ کر لیا تو پھر آپ کی کوئی ضمانت نہیں ہے.اگر اندھیروں میں بھی آپ نے خدا کے نور سے دیکھنے کی عادت ڈالی، اگر ہر قسم کے خطرات میں بھی آپ نے اپنے یقین کو آنچ نہ آنے دی کہ وہ خدا جو کل ہمارے ساتھ تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا اور کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گا تو پھر دنیا کی کوئی مصیبت آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گی.حالات ضرور تبدیل ہوں گے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے یہ حالات تبدیل کئے جائیں گے لیکن آپ کو تبدیل نہیں ہونا.اگر آپ تبدیل ہو گئے اور خدا کے تعلق کو توڑ دیا تو پھر حالات آپ کے لئے کبھی تبدیل نہیں کئے جائیں گے اس لئے موحد بنو اور خدا پر اپنا تو کل رکھو.با اصول رہو اور قوم کو اصولوں پر قائم رہنے کی تلقین کرو.اُن کو سمجھاؤ، اُن کو اپنی عقلوں کا نور عطا کرو، اُن کو دکھاؤ کہ کونسی راہیں چلنے کی راہیں ہیں

Page 54

خطبات طاہر جلد ۸ 49 خطبہ جمعہ۲۰/جنوری ۱۹۸۹ء وو اور کونسی راہیں چھوڑنے کی راہیں.پھر دیکھو کہ خدا کا فضل تم کو بھی نہیں چھوڑے گا.آخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.یہ وہ امام ہے جس سے آپ نے تعلق باندھا ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس تعلق کا مستحق بھی بنائے.آپ فرماتے ہیں: ” صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا اور یہ عاجز اگر چہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگر چہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا.مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے.میں ہر گز ضائع نہیں ہوسکتا.مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقیناً یا د رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ بیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں.کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا.کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی ضائع نہیں کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور کیا خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا.میں اُس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے.کوئی چیز ہمارا پیوند تو ڑ نہیں سکتی اور مجھے اُس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اُس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اُس کا جلال چمکے اور اُس کا بول بالا ہو.کسی ابتلا سے اُس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگر چہ ایک ابتلاء نہیں کروڑ ا بتلا ہو، ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل

Page 55

خطبات طاہر جلد ۸ میں مجھے طاقت دی گئی ہے.50 50 من نه آنستم که بروز جنگ بینی پشت من آن منم کاندر میان خاک و خون بینی سرے خطبه جمعه ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء میں ہرگز وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے روز تم میری پیٹھ دیکھ سکو.ہاں میں وہ ضرور ہوں کہ جب طاقت سے معاملہ بڑھ جائے گا تو خاک و خون میں لتھڑا ہوا میرا سر تو دیکھو گے مگر بھاگتے ہوئے کی ا میری پیٹھ کبھی نہیں دیکھ سکو گے.پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پُر خار باد یہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور اُن کا پچھلا حال اُن کے پہلے سے بدتر ہوگا.کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں.کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے.کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں.ہرگز نہیں ہو سکتے.مگر محض اُس کے فضل اور رحمت سے پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں اُن کو وداع کا سلام.لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفا دار لوگ عزت پاتے ہیں کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے.“ (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳ ۲۴) پس اللہ تعالیٰ ہمیں بدظنی اور غداری کے داغ سے ہمیشہ بچائے اور اس امام کے ساتھ پیوستہ رکھے.ہمارا ہر تعلق اس امام کے ساتھ قائم رکھے اور اس امام کے عزم اور حوصلے کے شایان شان بنائے.آمین.

Page 56

خطبات طاہر جلد ۸ 51 خطبہ جمعہ ۲۷/جنوری ۱۹۸۹ء نئی صدی کے استقبال ، نمائشیں لگانے اور ترسیل لٹریچر کی بابت انتظامی ہدایات (خطبه جمعه فرموده ۲۷/جنوری ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: احمدیت کی دوسری صدی شروع ہونے میں اب تھوڑا عرصہ باقی ہے جہاں میں اس سے پہلے مسلسل بعض اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں.آج کے خطبے میں میرا خیال ہے کہ انتظامی ذمہ داریوں کی طرف بھی کچھ توجہ دلاؤں کیونکہ جوں جوں یہ صدی یعنی انگلی صدی قریب آرہی ہے بہت سے ایسے انتظامات ہیں جو ہمیں اس صدی کے آغاز سے پہلے کرنے ہیں کیونکہ جب ہم صدی میں انشاء اللہ تعالیٰ داخل ہو جائیں گے تو اس وقت موقع کی اور وقت کی ایسی ضرورتیں ہوں گی جو ہماری تو جہات کو الجھا لیں گی اور جب تک اس صدی کے آغاز سے پہلے ہم انتظامات مکمل نہ کرلیں ہرگز بعید نہیں کہ خامیاں باقی رہ جائیں.اپنی پوری کوشش کرنے کے بعد بھی یقیناً خامیاں باقی رہیں گی کیونکہ یہ بشریت کے لازمی تقاضے ہیں لیکن ایسی خامیاں جو کوشش کی حد تک سب کچھ کر گزرنے کے بعد رہ جاتی ہیں ان کا علاج دعا ہے اور ویسے تو ہر بات کا علاج دعا ہی ہے لیکن اس صورت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے دعا کی قبولیت کی ضمانت بھی ہے یعنی ایسی دعا جو انسان اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچانے کے بعد مزید خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہوئے مانگتا ہے اس کی قبولیت کے ان دعاؤں کے مقابل پر بہت زیادہ امکانات ہیں جو دعائیں بغیر کوشش اور بغیر محنت کے عدم توجہ

Page 57

خطبات طاہر جلد ۸ 52 خطبہ جمعہ ۲۷/جنوری ۱۹۸۹ء کے بعد کی جاتی ہیں.آپ ایسے طالبعلموں کو بھی جانتے ہوں گے جو سارا سال کچھ نہیں پڑھتے اور آخری دنوں میں پھر اس قدر دعاؤں پر زور دیتے ہیں کہ جو وقت ان کو کتابوں کے مطالعہ میں صرف کرنا چاہئے وہ سجدوں میں صرف کر دیتے ہیں اور خدا کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خدا سے رحم کی توقع رکھتے ہیں.ہر چیز کا ایک وقت ہوا کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے ہر ذمہ داری کے دائرے مقرر فرمار کھے ہیں ان دائروں کے اندر رہتے ہوئے حد استطاعت تک ذمہ داریاں ادا کرنا انسان کا کام ہے.پھر جو کمزوریاں باقی رہ جاتی ہیں، جو خلا رہ جاتے ہیں ان کو پر کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے اور بندے کا کام نہیں ہے یعنی خدا کا کام وہاں بھی رہتا ہے جہاں بندے کا کام ہے لیکن جہاں یہ بندے کا کام ختم ہو جاتا ہے وہاں سے جب خدا کا کام شروع ہوتا ہے تو تقدیر خاص جاری ہوتی ہے اور وہ دعاؤں کے نتیجے میں جب جاری ہوتی ہے تو انسان کو اعجازی کام دکھاتی ہے.تو اس لئے جہاں تک انسانی کوشش کا تعلق ہے میں جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں اسے اپنی حد استطاعت تک پہنچا دیں، ان کناروں تک پہنچادیں جن سے آگے خلق کی حد ختم ہو جاتی ہے اور خالق کی حد شروع ہو جاتی ہے.پھر دعائیں کریں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے کاموں میں کتنی برکت پڑتی ہے.جہاں تک صد سالہ جو بلی کے کاموں کی مختلف شقوں کا تعلق ہے یہ تو بہت زیادہ ہیں اور ممکن نہیں ہوگا میرے لئے کہ ایک یا دو یا تین خطبوں میں بھی ان تمام شقوں کو بیان کر دوں اور اس سارے پروگرام کو آپ کے سامنے از سرنو رکھوں.جہاں تک جماعتوں کی انتظامیہ کا تعلق ہے تمام دنیا کے ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جن کی تعداد اب ۱۸ یا ۱۹ا ہو چکی ہے.تمام ہدایتیں جاری کر دی گئی ہیں اور ان کی یاد دہانیاں بھی کروائی جارہی ہیں لیکن ہمارے مختلف ممالک میں معاشروں کے اثرات کے نتیجے میں رد عمل مختلف ہوا کرتے ہیں بعض ممالک کی جماعتوں سے خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی مستعدی کے جواب آتے ہیں.فوراً توجہ کرتے ہیں، فور أحتی المقدور کارروائی کرتے ہیں پھر اس کی اطلاع بھی دیتے ہیں.بعضوں کی طرف سے رد عمل بہت ڈھیلا اور سُست رو ہے.اس لئے آج جو دو مہینے کے قریب اگلی صدی کے شروع ہونے میں وقت باقی ہیں میں امید رکھتا ہوں کہ ان سُست رو جماعتوں تک بھی یہ بات پہنچ کر ان پر اثر انداز ہو جائے گی اور اب مزید لوگ کوئی وقت بھی سستی میں ضائع نہیں کریں گے.

Page 58

خطبات طاہر جلد ۸ 53 خطبہ جمعہ ۲۷/جنوری ۱۹۸۹ء ساری جماعت کو اس کام میں حصہ لینا ہے لیکن جہاں تک میراعلم ہے تمام جماعت کو اس کی ذمہ داریوں سے منتظمہ نے مطلع نہیں کیا یعنی ہر ملک کے منتظمہ نے مطلع نہیں کیا.چند دن ہوئے امیر صاحب انگلستان تشریف لائے تھے انہوں نے مجھے وہ ہدایت نامہ دکھایا جو انگلستان کے افراد جماعت کی راہنمائی کے لئے جاری کرنے والے تھے.تو مجھے خوشی ہوئی کہ ایک اچھا مثبت اقدام کیا گیا ہے لیکن بہت سی ایسی باتیں ہیں جو سمجھانی پڑتی ہیں.محض تحریری طور پر اطلاع دینا کافی نہیں ہوا کرتا اس لئے ایسی جماعتوں میں جہاں عموماً تعلیم کا معیار بلند ہے مثلاً انگلستان ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ذہنوں میں بالعموم جلا پائی جاتی ہے ایسی جماعتوں میں بھی سمجھانا ضروری ہے ورنہ آپ خطوں کے ذریعے اور تحریروں کے ذریعے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے.میں نے تو دیکھا ہے کہ بعض باتیں تحریراً سمجھائی جائیں پھر بلا کر سمجھائی جائیں پھر جب دوبارہ پوچھا جاتا ہے تو پھر بھی خامیاں رہ جاتی ہیں.اسی لئے اس بنیادی انسانی فطرت کو سمجھتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ جب ہدایات جاری فرماتے تھے تو ان ہدایات کو خود دہراتے تھے.پھر تیسری مرتبہ سمجھاتے تھے اس کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اب مجھے یہ ہدایات دوبارہ سناؤ تا کہ میں معلوم کروں کہ کس حد تک تم میری باتوں کو سمجھ سکے ہو.بچپن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ہماری تربیت میں ایک بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ یہ تھا کہ روز مرہ کی زندگی میں سبق دینے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعات سنایا کرتے تھے اور ان سے ہمیں سبق دیتے تھے.چنانچہ یہ بات بھی میں نے ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ نہیں بارہا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ سے سنی.آپ کا طریق یہ تھا کہ بچوں کو سیر پر کبھی ساتھ لے گئے، یا گھر میں ملاقات کے وقت چھوٹی چھوٹی باتیں شروع کر دیں تربیت کے امور کے متعلق لیکن ہر بات میں حوالہ سیرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوا کرتا.یہ بات جو میں نے ان سے سیکھی ہے یہ میں آج آپ کو سکھا رہا ہوں.اس طریق کو اپنا ئیں اور اس طریق کے مطابق اپنے بچوں کی بھی تربیت شروع کریں ان کو بتائیں کہ کس صدی میں داخل ہونے والے ہیں، اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں ان سے پوچھیں کہ وہ کونسا عیب تم میں پایا جاتا ہے کونسی بد عادت ہے جو تم چھوڑ دو گے اور اس پہلو سے سب سے زیادہ جھوٹ پر

Page 59

خطبات طاہر جلد ۸ 54.....خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء زور دیں، جھوٹ کے دفع کرنے ، جھوٹ کے قلع قمع کرنے پر.اب بچوں سے آپ جب پوچھیں گے تو شائد کوئی بچہ یہ نہ تسلیم کرے کہ میں جھوٹ بولتا ہوں اور جو بچے جھوٹ بولتے ہیں وہ تسلیم بھی کیسے کر سکتے ہیں کیونکہ یہ جرات بچے بچے کو ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو تسلیم کر لے لیکن جب ان کو پیار سے آپ سمجھا ئیں گے تو ایسے مواقع پیش آئیں گے جہاں آپ ان کو نمایاں طور پر بتا سکتے ہیں کہ اس لطیفے میں جو تم نے بات کہی ہے یہ غلط ہے اور یہ جھوٹ کی قسم ہے اس لئے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی تم جھوٹ سمجھتے ہوئے یہ عہد کر لو کہ انگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے میں اس بد عادت کو ترک کر دوں گا.جھوٹ پر آپ جتنا غور کریں گے آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کی بے شمار قسمیں ہیں اور بہت سے سچے آدمی بھی جھوٹ کی بعض قسموں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور ان کو پتا بھی نہیں لگتا کہ بعض اپنی زندگی کے بعض دائروں میں وہ جھوٹے ہیں.لطیفہ سناتے وقت یعنی ایسا لطیفہ جو واقعات پہ مبنی ہو اس کو اس کی زیبائش کے لئے جو مبالغہ آمیزی کرتے ہیں وہ جھوٹ ہوا کرتا ہے.اگر لطیفہ فرضی ہو تو اس میں تو جھوٹ کا کوئی سوال ہی نہیں لیکن کسی شخص کے متعلق یہ واقعہ بیان کرنا کہ اس نے یہ بات کہی تھی اور اس میں زیب داستان کی خاطر اپنی طرف سے باتیں گھڑ کے داخل کر لینا بعض اوقات جھوٹ ہی نہیں بلکہ اپنے بھائی کی تحقیر کا موجب بن جاتا ہے اور ایک بدی نہیں بلکہ دو بدیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں.اور میں نے دیکھا ہے کہ بچوں میں اگر شروع سے ہی اس عادت کو روکا نہ جائے تو بڑے ہو کر یہ عادت بڑی بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہے.جھوٹ اور تکبر اور استہزاء یہ ساری چیزیں اکٹھی پیدا ہوتی اور بڑھتی اور پنپتی ہیں.تو اس لئے ان امور پر تفصیل سے آپ کو نظر ڈالنی ہوگی اور بچوں کی تربیت میں ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو سمجھانا ہوگا کہ دیکھو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت فرمائی تھی کہ اگر تم نے ایک ہی بدی چھوڑنی ہے تو جھوٹ کو چھوڑ دو اور پھر وہ مثال آپ بیان کر سکتے ہیں کہ کس طرح رفتہ رفتہ اس کی ساری بدیاں ترک ہو گئیں اور جھوٹ چھوڑنے کے نتیجے میں وہ دوسری بدیاں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا ( تفسیر کبیر امام رازی جلد ۸ صفحہ ۱۷۶) اسی لئے قرآن کریم نے شرک کی نجاست کے ساتھ جھوٹ کی مثال بیان فرمائی ہے اور اکٹھا بیان کیا ہے.واقعہ یہ ہے کہ جھوٹ تمام گناہوں کی جڑ ہے اور اس جڑ کو تلف کر دیں تو ضروری نہیں کہ ایک دم سا را درخت زمین پر آ گرے لیکن رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ جس طرح درختوں کی جڑیں بیمار ہو جاتی ہیں اور مرجاتی ہیں تو پہلے

Page 60

خطبات طاہر جلد ۸ 55 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء پتوں پر پھر شاخوں پر پھر پھوٹنے والی کونپلوں پر ان کے اثر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ بعض درخت کئی کئی مہینے میں مرتے ہیں اور زمیندار بیچارے کو پتا ہی نہیں لگتا کہ کیا ہورہا ہے.بعد میں جب کبھی وہ ذرا زور سے تنے کو ہلائے تو سارا درخت مع تنا ہی ہاتھ میں آجاتا ہے اس کی جڑیں کھائی گئی ہوتی ہیں.تو جھوٹ کی جڑوں کے ساتھ یہ سلوک کریں کیونکہ جھوٹ کی جڑیں سب بدیوں کی جڑیں ہیں اور جب آپ اس بدی کو اپنی سوسائٹی سے نکال کے باہر پھینک دیں گے ، اکھیڑ دیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نیک نتائج فورا نہ بھی ہوں تو بالآ خر رفتہ رفتہ ضرور ظاہر ہوں گے.اسی طرح بچوں کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریریں پڑھانے کی طرف متوجہ ہوں مثلاً الفضل میں جو بار بار ہر روز اقتباسات شائع ہوتے ہیں وہ ادارہ کی طرف سے بڑی محنت کے بعد منتخب کئے جاتے ہیں اور بہت ہی پر اثر ہیں اور وقت کی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کا جواثر پڑ سکتا ہے وہ آپ کی لاکھ تقریریں بھی پیدا نہیں کر سکتیں.اس لئے بچوں کو ان اقتباسات کی طرف متوجہ کریں.ہمارے یہاں مغربی دنیا میں اسی طرح افریقہ میں اور مشرقی ممالک میں بہت سے احمدی ہیں بلکہ اکثر احمدی ہیں جو اردو نہیں پڑھ سکتے.تو انتظامیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ کم سے کم ان اقتباسات کے تراجم فوری طور پر تمام جماعت کو مہیا کر دیے جایا کریں اور یہ جو بقیہ دو مہینے باقی ہیں ان میں یہ اقتباسات ہی حیرت انگیز روحانی اور پاکیزہ انقلابی تبدیلی پیدا کر دیں گے.تو ان کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور یہ کام اس بات کا انتظار نہ کریں کہ جماعتیں با قاعدہ ان کے تراجم کرائیں اور پھر ان کو مشتہر کریں.اتنے بڑے کام ہیں.اتنی اس میں محنت کرنی پڑتی ہے، اتنی احتیاط کرنی پڑتی ہے پھر بھی ایسی غلطیاں رہ جاتی ہیں کہ طعن آمیزی کا موجب بنتی ہیں بعض لوگوں کے لئے اس لئے کہ وہ کام اپنے وقت پر ہوں بڑی توجہ کی جارہی ہے، مترجمین تیار کئے جارہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ رفتہ رفتہ یہ کام مختلف زبانوں میں پھیل رہا ہے لیکن اس کا انتظار نہ کریں جو سرسری ترجمے ہیں وہ کوئی ایسی بات نہیں ہوا کرتے کہ جس کے اوپر با قاعدہ ایکشن لئے جائیں اور جواب طلبیاں ہوں وہ تو صرف ایک کوشش ہے پیغام دوسرے تک پہنچانے کی.اس پہلو سے ان کے تراجم کر کے خواہ اگر چھپانے کا یا نقلیں کرنے کا سامان مہیا نہیں ہے تو کیسٹ ریکارڈر ہر جماعت میں موجود ہیں ان میں ان کو بھر کر بچوں کو سُنا دیا کریں.

Page 61

خطبات طاہر جلد ۸ 56 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء یہ تو انتظامی امور سے بات شروع ہوئی تھی اور ایک ضروری دوسری طرف توجہ پھر گئی اپنی ذات میں یہ بہت ضروری بات تھی لیکن بات اس طرح شروع ہوئی کہ جو بات سمجھائی جائے اسے دُہرائیں اور پھر سنیں.اس طرح اب ذمہ داریوں کی تقسیم کے وقت آپ سب نے دنیا کی ہر جماعت نے کام کرنا ہے.ذمہ داریاں تقسیم کریں کیونکہ ایک یا دو اشخاص کے پاس یا مجلس عاملہ کے پاس بھی اتنا وقت نہیں ہے کہ صد سالہ جو بلی کی ساری ذمہ داریاں ادا کر سکے.بہت کام کو پھیلا نا پڑے گا یہاں تک کہ بعید نہیں کہ بعض جگہ ساری جماعت ہی کسی نہ کسی پہلو سے کام کی ذمہ دار ہو یعنی چند گروہ کسی کام کی طرف توجہ دے رہے ہیں ، چند اور گروہ کسی اور کام کی طرف گویا ٹولیوں میں آپ کو منتظمین بانٹے پڑیں گے اور اس کے لئے وقت اتنا تھوڑا رہ گیا ہے کہ اگر ابھی تک آپ نے پہلی ہدایتوں پر عمل نہیں کیا تو خطبہ سنتے ہی فوراً اس کام پر بیٹھ جائیں اور تقسیم کار کریں پھر ان سب کو جن کے سپر د کام کیا جاتا ہے تحریری اطلاع صرف نہ کریں بلکہ ان کو بلائیں یا ان تک پہنچیں ان کو بات سمجھائیں ، ان کو کام کرنے کا سلیقہ سکھائیں ، ان کو بتائیں کہ اس طرح ہم نے کام کرنا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بہت سے کام ہم یہاں کر رہے ہیں اور باقاعدہ کام کے نمونے بنا کر جماعتوں تک پہنچائے جارہے ہیں.مثلاً سب سے اہم کام اس سال یعنی آئندہ سال کتابوں کی اور لٹریچر کی نمائش ہے اور اسی طرح تصویری نمائش ہے.اس کام کے لئے تمام دنیا کی جماعتوں میں ایک فلم تیار کر کے بھجوائی گئی ہے کہ ہم نے مرکز میں اس کام کو کیسے کیا ہے اور ہر تصویر جو دکھائی گئی ہے ہدایت میری ان کو یہی تھی اور مجھے یہی انہوں نے بتایا ہے کہ اس ہدایت پر عمل ہوا ہے کہ اس تصویر پر تشریح بسط کے ساتھ کی ہے کہ یہ کام اس طرح وقت لیتا ہے، یہ اس طریق پر کیا گیا ہے، قرآن کریم کے مختلف نسخوں کو ہم نے اس طریق پر سجایا ہے، اقتباسات قرآن کریم کے اس طرح رکھے گئے ہیں اور زبانوں کے اوپر ان کے لیبل کس طرح لگائے گئے ہیں.غرضیکہ بہت تفصیلی ہدایات پر مشتمل ایک ویڈیو تیار کر کے تمام ممالک کو بھجوائی گئی ہے.ہمارے جو مرکزی نمائش سیل کے سیکرٹری ہیں مشتاق احمد صاحب شائق آج کل بڑی محنت سے تصویروں کی نمائش ، چارٹس کی نمائش گرافس جو بنائے گئے ہیں ان کی نمائش ان سب کاموں پر محنت کر رہے ہیں اور تقریباً یہ کام مکمل ہو چکا ہے تو امید ہے کہ کچھ حصہ تو غالباً یہ بھجوا چکے ہیں کچھ بڑا حصہ باقی ہے وہ انشاء اللہ جلد جماعتوں تک پہنچ جائے گا اور انہوں نے بھی صرف ہدایتیں دینے پر انحصار نہیں کیا

Page 62

خطبات طاہر جلد ۸ 57 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء بلکہ اگر یہ بتایا ہے کہ لائبریریوں میں ، ریسپشنز (Receptions) میں جدید ملکوں میں جس طرح تصویروں کی نمائش کی جاتی ہے.درمیان میں ایک گھومنے والا فرنیچر کچھ ہوتا ہے جس کا نام مجھے پتا نہیں کیا کہلاتا ہے لیکن وہ ایک ایسا آلہ ہے جس کے اردگر دو تصویر میں کارڈوں کے اوپر لگادی جاتی ہیں جو بڑے بڑے کارڈز ہوتے ہیں اور ان کو آپ گھما کر تو جس طرح چاہیں جو چاہیں تصویر مزے سے دیکھیں جتنا چاہیں اس پر وقت لگا ئیں.وہ تصویر میں اگر دیوار پر لمبی لگائی جائیں تو بہت زیادہ جگہ گھیریں گی لیکن اگر عین مرکز میں جس طرح تولیہ لٹکانے والی چیزیں ہوا کرتی تھیں ہمارے زمانے میں یا ہیٹ لٹکانے کے لئے ریسپشن ہال میں انگلستان میں رواج ہوا کرتا تھا.اس قسم کی چیز ہے لیکن ذرہ اس میں فرق ہے جس میں گھومنے والے تختے سے لگے ہوتے ہیں.تو ان تختوں پہ کس طرح تصویر میں سجانی ہیں اس کے نمونے بنا کر یہ بھجوائیں گے جماعتوں کو جو میرا خیال ہے آج کل میں ایک دو دن کے اندر انشاء اللہ تعالیٰ یہ کام مکمل ہو جائے گا.تو انتظامیہ کا جہاں تک تعلق ہے ہدایات پوری یا پہنچادی گئی ہیں بعض حصوں میں یا پہنچائی جارہی ہیں اور یہ کام میں امید رکھتا ہوں کہ فروری کے آخر تک مکمل ہو جائے گا.بہت سی بنی بنائی چیزیں جماعتوں کو مہیا ہو جائیں گی.اب ان کو لگانا کہاں ہے؟ کس طرح سلیقے سے لگانا ہے؟ ان کی حفاظت کا کیا انتظام کرنا ہے؟ کون منتظم وہاں کیا فرائض سرانجام دیں گے؟ کس طرح ان نمائشوں میں احباب کو دعوت دی جائے گی ؟ یہ سارے تفصیلی کام ہیں جو بہت ہی محنت طلب ہیں اور یہ چیزیں پہنچنے سے پہلے ان کی تیاریاں ہونی ضروری ہیں.کچھ کام ۲۳ مارچ اور اس کے بعد شروع ہوں گے ان کے لئے بھی پہلے تیاری کریں مثلاً یہ جو نمائشیں ہیں یہ بڑے ممالک میں اگر صرف ایک نمائش ایک شہر میں لگائی جائے تو کافی نہیں ہو سکتی.اس لئے ابھی سے ایسے انتظام کرنے ہوں گے کہ کچھ عرصہ ایک شہر میں نمائش لگے بعد میں اس ساری نمائش کو سمیٹ کر کسی اور شہر میں جہاں ہال یا سکول کی عمارت بعض جگہیں کرائے پر لی جاسکتی ہیں یا احمد یہ ہاسپیٹلز یا احمد یہ سکولز میں جگہیں مقرر کی جاسکتی ہیں ان میں منتقل کیا جائے اور پھر ایسا فرنیچر کم سے کم وہاں ضرور مہیا کیا جائے جو ایسی نمائشوں کے لئے ضروری ہوگا ، پھر ایسے ماہرین تیار کئے جائیں جو دوران سال نمائش کے ساتھ گھو میں.اب ایسے ماہرین تیار کرنے کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ بہت سے ایسے احمدی احباب ہیں جو چند دن کا وقت تو دے سکتے ہیں.سارا سال کا وقت نہیں دے سکتے.اس لئے

Page 63

خطبات طاہر جلد ۸ 58 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء جب آپ بیٹھ کر تفصیل سے اس چھوٹے سے کام پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بڑی محنت سے مختلف شہروں سے مختلف قسم کے بڑی عمر کے چھوٹی عمر کے احمدی مخلص بلوانے پڑیں گے ان سے وقت طے کرنا ہو گا کہ تمہارے شہر میں کب یہ نمائش پہنچے اور اس عرصے کے لئے تمہارے شہر کے کتنے نمائندے ہیں جو ہمارے پاس آکر کام سیکھیں گے اور مرکزی نمائش میں آ کر وہ دیکھیں گے کہ کس طرح کام چلایا جاتا ہے.اس کام کے لئے بھی بڑا وقت چاہئے اور محنت چاہئے.تو انتظامی پہلوؤں سے مجھے فکر پیدا ہورہا ہے کہ جس قسم کی توجہ کی ضرورت تھی ابھی تک پوری توجہ نہیں دی گئی.علاوہ ازیں نمائش کے سلسلہ میں ہی ہر احمدی کو ابھی سے اپنے دوستوں کو ذہنی طور پر آمادہ کرنا چاہئے کہ جماعت احمدیہ کی ایک عالمگیر نمائش ہونے والی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ تمہارے لئے یہ دلچسپی کا اور علم میں اضافے کا موجب بنے گی.تم ہمارے ساتھ چلنا اور اُس کے ساتھ وقت طے کریں اور اپنا پروگرام سال بھر کا بنائیں کہ کتنی دفعہ آپ کتنے دوستوں کو لے کر ایسی نمائشوں میں پہنچ سکتے ہیں تا کہ کروڑ ہا بندگان خدا ایسے ہوں جن تک احمدیت کا پیغام تصویری زبان میں اور چارٹس کی زبان میں اور دوسرے ایسے انداز میں پہنچے جو انسانی فطرت پر زیادہ گہرا اثر کرتا ہے.وہاں ویڈیوز بھی چلائی جارہی ہوں گی مختلف قسم کی ، وہاں سلائیڈ بھی دکھائی جارہی ہوں گی ، وہاں مختلف دلچپسی کا لٹریچر بھی موجود ہوگا جو مفت بھی ہوگا قیمتا دینے کے لئے بھی ہوگا.غرضیکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ جو بھی اس نمائش میں جائے گا اُس پر اُس کا انشاء اللہ تعالیٰ بہت ہی گہرا اثر پڑے گا.ماریشس میں جماعت نے ریہرسل کے طور پر ایسی نمائش ایک جگہ لگائی اور یہ جماعت ماریشس کا بہت بڑا کارنامہ تھا.ماریشس کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر مستعد ہے اور جب کوئی ہدایت دی جاتی ہے فوری طور پر جماعت اُس میں ہمہ تن مصروف ہو جاتی ہے یعنی اُس کی تعمیل میں.چنانچہ یہ بڑا عمدہ خیال تھا کہ ہم پہلے یہ ریہرسل تو کر کے دیکھیں کہ نمائش کیسی ہوگی؟ باوجود اس کے کہ اُس نمائش کا جو اس سال کے لئے لگانی مقصود ہے شاید دسواں حصہ بھی اُن کے پاس موجود نہیں تھا یعنی اُن اشیاء کا ، اُن کتب کا ، اُن چارٹس کا ، اُن تصاویر کا بلکہ میرا خیال ہے پانچواں حصہ بھی نہیں ہوگا.لیکن اُس کے باوجود انہوں نے ایک میٹر سے اجازت لے کر ٹاؤن ہال میں یہ نمائش لگائی.جب میں وہاں گیا اور ایک موقع پر جب اُس علاقے کے معززین کی دعوت کی گئی تھی تو وہاں

Page 64

خطبات طاہر جلد ۸ 59 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء بہت سے لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا.انہوں نے کہا کہ ہم تو حیران رہ گئے ہیں دیکھ کر کہ جماعت احمد یہ کتنے عظیم کام کر رہی ہے.ایک میٹر سے ملاقات کے لئے گیا تو اُس میئر نے بھی کہا کہ میں نے تو وہ نمائش دیکھی تو مجھے پہلی دفعہ پتا چلا کہ آپ کی جماعت ہے کیا چیز.حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ کس طرح اعزازی خدمت کے طور پر طلوعی (Voluntarily) خدمت کے طور پر آپ نے کتنے عظیم الشان کام کئے ہوئے ہیں.ایسی نمائشوں میں ہمارے پرانے زمانے سے لے کر اب تک کے وقار عمل کی تصویریں بھی ہوں گی.کس طرح بڑے چھوٹے مل کر مسجد میں بنارہے ہیں، دوسرے مخلوق خدا کی خدمت کے رفاہ عامہ کے کام کر رہے ہیں.پرانے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے لے کر آج تک کے زمانے کی احمد یہ تاریخ تصویری زبان میں دہرائی جائے گی.شہداء کی تصویریں ہوں گی، مظالم کی مختلف صورتوں کی تصویریں ہوں گی، اتنی دلچسپ نمائش ہے اور اتنی وسیع ہے کہ اس کے چھوٹے چھوٹے نمونے بھی جب کوئی دیکھتا ہے تو غیر معمولی طور پر متاثر ہوتا ہے.اب جس رنگ میں ہم نے احمدیت پر مظالم کو تصویری زبان میں گزشتہ جلسہ سالانہ پر یہاں دکھایا تھا وہ تو ابھی ایک چھوٹی سی شکل تھی اب اُس کو ہم مکمل کر کے زیادہ وسیع صورت میں دنیا میں پیش کرنے والے ہیں انشاء اللہ.وہاں اُس نمائش سے جو لوگ گزرے کچھ مقامی میئر تھے کچھ باہر سے دوسرے آنے والے تھے اُن کے متعلق پتا چلا کہ ہنستے ہنستے داخل ہوتے تھے روتے روتے نکلتے تھے اور بعضوں نے ایسے زبر دست اس پر تاثرات لکھے ہیں کہ ہم سُنا کرتے تھے، یہ باتیں ہمیں بھی پہنچتی تھیں کہ کبھی ریڈیو پر کبھی اخبارات میں لیکن جو آنکھوں سے ہم نے یہ تصویر میں دیکھی ہیں جو اس کا گہرا دل پر اثر پڑا ہے اس کو ہم فراموش نہیں کر سکتے.جماعت احمدیہ کی جو قربانیاں ہیں ان کی جزا تو خدا دے گالیکن حصول جزا کے لئے کچھ طریقے بھی تو اختیار کئے جاتے ہیں.اس کی آخرت کی جزا تو آخرت میں ملے گی دنیا میں بھی اگر ہم کچھ کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کی روحانی جزاء ہمیں یہاں بھی عطا فرمائے گا اور ان شہداء کے خون کے ہر قطرے کی قیمت ہم وصول کریں گے.اس مقدس خون کا ایک قطرہ ضائع نہیں جانے دیں گے.ایک ایک خراش جو اسیران راہ مولیٰ کو آئی ہے اُس خراش سے ہم ملکوں ملکوں میں پھول کھلائیں گے.ان کی قربانیوں کی تحریریں ہیں جن سے ایسی تصویر میں اُبھری ہیں اللہ تعالیٰ کے

Page 65

خطبات طاہر جلد ۸ 60 خطبہ جمعہ ۲۷/ جنوری ۱۹۸۹ء فضل کے ساتھ جو تمام دنیا میں حیرت انگیز طور پر لوگوں کے دلوں میں روحانیت کے چمن پھیلانے والی ہیں.اس لئے اس کی طرف جس طرح ہم توجہ کر رہے ہیں اگر جماعتیں اس سے استفادہ کے لئے تیاری کر لیں تو وہ حیران ہو جائیں گی دیکھ کر کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا کتنا گہرا اثر اور کتنا وسیع اثر پڑتا ہے اور کس طرح دشمن دوستوں میں تبدیل ہوتے ہیں.اس لحاظ سے جن دوستوں کو آپ نے بلانا ہے اُس میں دشمنوں کو بھی شامل کریں.جب میں لفظ دوست استعمال کرتا ہوں تو میری مراد عام محاورے میں دوست یعنی عام انسان ہیں یہ نہ کریں کہ دشمنوں کو محروم رکھیں.جو شدید معاندین ہیں اگر وہ بھی تیار ہوں سوائے اس کے کہ اس کے بعد بعض ملکوں میں اُن سے شرارت کا اور فتنے کا خطرہ ہو وہاں مومن والی فراست سے کام لیتے ہوئے.ایسے لوگوں کو نہ بلائیں بلکہ ہوا بھی نہ لگنے دیں اُن کو کہ کیا ہورہا ہے لیکن جن ممالک میں ضمیر کی آزادی ہے وہاں شدید سے شدید دشمن کو بھی بلائیں اُس کو دکھا ئیں تو سہی کہ ہو کیا رہا ہے، احمدیت ہے کیا چیز.وہ جو آنکھوں سے دیکھنے کا اثر پڑتا ہے وہ سنی سنائی باتوں کا اثر نہیں پڑا کرتا اور نہ وہ کتابیں پڑھنے سے حاصل ہوسکتی ہے یہ بات.اس لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے اگلی صدی کے لئے بہت ہی عظیم زادراہ آپ کے لئے تیار ہے اس کو استعمال کرنا اس ساری صدی میں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر منحصر ہے اور اس کا آغاز بھی نمائشوں کے ذریعے ہوگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ نمائشوں میں جب آپ ان ذرائع کا استعمال کریں گے تو سال کے اختتام سے پہلے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی جھولیوں میں کثرت سے روحانی پھل گرنے شروع ہو جائیں گے.نمائشوں کو سارا سال مؤثر بنانے کی خاطر ایک طریق یہ بھی اختیار کیا جائے کہ مختلف معززین کے دن بنائے جائیں اور اُن معززین کے نام پر اُس دن نمائش ہو، اُن کے لئے خاص احترام اُس دن کا ان کا کیا جائے ، اُن کی تصویر میں کھینچی جائیں.اخباروں کے نمائندوں کو اطلاع دی جائے.ٹیلی ویژن اگر ہے، ریڈیو ہے تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندوں کو اطلاع کی جائے اور ہفتے میں ایک دن یا جہاں جماعت زیادہ دن منا سکتی ہے تو بڑے بڑے معززین کو وہاں اُن کے نام کے دنوں میں بلائیں.یہ دنیا دار لوگ ہیں ان میں بڑے بڑے شریف بھی ہیں مگر دنیا دار ہیں اور جب تک نام ونمود ساتھ شامل نہ ہو یہ ایسے مواقع پر جو خالصہ مذہبی مواقع ہیں زیادہ توجہ نہیں کیا کرتے.تو

Page 66

خطبات طاہر جلد ۸ 61 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء اگر ان کی خاطر ان کو بلایا جائے کہ آپ معزز ہیں ، آپ ہمارے لئے باعث عزت، باعث صداحترام مہمان ہیں تو پھر یہ ضرور وقت نکال لیا کرتے ہیں.تو اس طرح یہ نمائشیں ساری دنیا کے اُن ممالک میں جہاں احمدی ان نمائشوں کو دکھا ئیں گے انشاء اللہ تعالیٰ سارا سال اثر پیدا کریں گی اور نیوز میڈیا کے لئے یعنی جو پیغام رسانی کے جو وسائل ہیں اُن کے لئے دلچسپی کا سامان رہے گا اُن شخصیتوں کی وجہ سے.آپ کی وجہ سے وہ توجہ نہیں کریں گے لیکن آنے والے کی وجہ سے توجہ کریں گے.تو امید رکھتا ہوں اُن کے ساتھ اور بھی لوگ آئیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے حق میں خیالات تبدیل ہوں گے، راہیں تبدیل ہوں گی اور ایک عظیم الشان روحانی انقلاب بر پا ہوگا.اب جہاں تک لٹریچر کی ترسیل کا تعلق اس سلسلے میں بھی بہت سے خلاء دکھائی دے رہے ہیں.جیسا کہ آپ جانتے ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ پچاس سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم پیش کئے جائیں گے.ان تراجم کو آگے احباب تک پہنچانا اور اُس کے نتیجے میں جو خرچ شدہ رقم واپس ملتی ہے اُس سے پھر آئندہ نئے قرآن کریم شائع کرنے کے لئے استعمال کرنا یہ ایسا کام ہے جس کے نتیجے میں کثرت کے ساتھ قرآن کریم دنیا میں پھیلنے شروع ہو جائیں گے.یہ بڑی محنت کا کام ہے.جن تراجم کو ہم نے شائع کیا ہے اُن کے ابھی تک نکاس کی رفتار تھوڑی ہے.لیکن جہاں حکمت کے ساتھ بعض احباب جماعت نے دلچسپی لی ہے وہاں ایسی جگہوں میں جہاں پہلے خیال تھا کہ یہاں قرآن کریم کا نکاس نہیں ہو سکتا بڑی تیزی سے نکاس شروع ہو گیا ہے.یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ یہ خود اپنی جگہ بناتی ہے اور اگر انسان غفلت نہ کرے تو اس کتاب کے پھیلاؤ کو، اس کی اشاعت کو روکا نہیں جاسکتا.اس لئے اُن زبانوں میں جہاں جہاں بھی پڑھنے والے موجود ہیں ابھی سے مختلف جماعتوں کو تیاری کرنی چاہئے کہ وہ کس طرح قرآن کریم کو جلد از جلد شائع کر دیں گے اور اُس کے نتیجے میں پھر جور تم حاصل ہوگی پھر مزید نسخے ، پھر مزید نسخے اس طرح پرنٹ کے بعد پرنٹ نکلنے شروع ہو جائیں گے.ایک اور شکل یہ بھی ہو گی کہ اس کے نتیجے میں جو رقم ملے گی اس سے ہم مزید زبانوں میں بھی ترجمہ کرنے میں کامیاب ہوں گے انشاء اللہ.میرے ذہن میں تو یہ نقشہ تھا جب میں نے تحریک کی تھی کہ جن خاندانوں یا جن جماعتوں کی طرف سے یہ قرآن کریم شائع کئے جار ہے ہیں ہمیشہ کے لئے اُن کے لئے ایک صدقہ جاریہ بن جائے اور قرآن کریم کی جو آمد ہو کسی اور مقصد پر

Page 67

خطبات طاہر جلد ۸ 62 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء خرچ نہ ہواُسی سے پھر مزید قرآن مجید پھر مزید شائع ہوتے چلے جائیں گے.اگر مزید زبانوں کے لئے اس عرصے میں مزید خاندان یا مزید جماعتیں تیار نہ ہوئیں تو پھر اسی رقم کو بعض مزید زبانوں کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے.گو میں اُمید رکھتا ہوں اتنی رقم ضرور انشاء اللہ بچنی شروع ہو جائے گی.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی عظیم الشان کام ہو چکا ہے.اس کام سے اس کی شایان شان عظیم الشان نتائج حاصل کرنا یہ جماعت کا کام ہے اس کے لئے ذہنی طور پر اور عملی طور پر تیار ر ہیں.ترسیل واشاعت کے سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ جو اقتباسات قرآن کریم سے یا احادیث سے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے لے کر شائع کئے جارہے ہیں اُن کا اکثر حصہ ہدیہ پیش ہوگا اور جن زبانوں میں وہ اقتباسات شائع کئے جار ہے ہیں وہ بعض ایسی ہیں جو مختلف ممالک میں بولی جاتی ہیں اس لئے جس جس ملک میں اُس زبان میں جتنے جتنے اقتباسات کی ضرورت ہے وہ تو طے کر لیں.کئی دفعہ لکھا گیا ہے لیکن بعض ممالک نے مستعدی سے جواب دیا لیکن بعض ایسے ممالک ہیں، بعض نہیں بلکہ بہت سے ہیں جنہوں نے آج تک یہ تکلیف بھی نہیں کی کہ اپنی ضرورت کو معین کریں اور عجیب بات ہے کہ اُن میں بڑے بڑے مستعد بھی ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ.بڑی مخلص جماعتیں بھی ہیں جہاں سے ہم نے یہ سستی دیکھی ہے حالانکہ باقی کاموں میں وہ مستعد ہیں.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ بعض انسان کے شعبے انسانی فطرت جو ہے بڑی وسیع چیز ہے اُس کے بعض شعبوں پر روشنی ہوتی ہے، بعض شعبوں پر سایہ ہوتا ہے.بعض جگہ سے جھوٹ ختم ہو گیا ہے ، بعض جگہ جھوٹ جاری ہے.تو بستیوں کا بھی یہی حال ہوا کرتا ہے بعض لوگ بعض زندگی کے شعبوں میں مستعد ہو چکے ہوتے ہیں، بعض دوسروں میں سُست ہوتے ہیں تو اس لئے ان پر اس طرح کا حرف نہیں کہ گویا اُنہوں نے بالکل عدم اطاعت کی ہے یا تعاون نہیں کیا لیکن میں متوجہ ضرور کرنا چاہتا ہوں.اتنا اہم کام ہے اس سے غفلت اچھی نہیں ہے.آپ جلد از جلد تعین کریں کہ آپ کو کتنی ضرورت ہے.ہم نے خود آپ کی ضرورت کو انداز معین کیا ہے اس لئے ہم آپ کے اب جواب کا انتظار نہیں کریں گے.آپ کو ہم ضرور کتا ہیں بھیجیں گے لیکن ہوسکتا ہے وہ آپ کی ضرورت سے کم ہوں اور یہ ضرورت معین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ پہلے اس کی تقسیم کا انتظام کریں.یہ جواب نہیں چاہئے کہ امیر کو چٹھی ملتی ہے وہ اُسی وقت لکھ کر بھیج دے کہ جی ہمیں پانچ ہزار بھیج دیں.

Page 68

خطبات طاہر جلد ۸ 63 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۹ء اس قسم کی چٹھیوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا نہ پڑنا چاہئے عقلا کیونکہ وہ چٹھی دیکھتے ہی پتا چل جاتا ہے کہ انہوں نے کیا حرکت کی ہے.چٹھی اس قسم کی چاہتے کہ ہم نے جائزہ لیا ہے اتنا بڑا علاقہ ہے،اس کی تقسیم کی جماعت میں اتنی استطاعت موجود ہے.دتی تقسیم کے لئے کتنے کارکنان مہیا ہوں گے اور وہ اتنی دیر میں اتنے گھروں تک یہ کتاب پہنچا سکتے ہیں اور ڈاک کے ذریعے تقسیم کا انتظام اتنا خرچ چاہتا ہے، اتنا خرچ پوسٹنگ پر ہوگا اور اتنے احمدی دوست تیار ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اتنی اتنی کتب اس عرصے میں پوسٹ کر دیں گے.اس طرح کام ہوگا تو پھر تسلی ہوگی پھر ہمیں سمجھ آئے گی کہ ہاں واقعہ ہی آپ نے معنی خیز کام کیا ہے ورنہ خالی ایسے جواب تو کئی آچکے ہیں کہ جی آر ہمیں دس ہزار بھیج دیں، ہیں ہزار بھیج دیں.بالکل بے معنی بات ہے کیوں بھیج دیں؟ جب تک یہ یقین نہ ہو کہ آپ اُس کو تقسیم کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور سارا انتظام مکمل ہے اُس وقت تک آپ کا اخلاقی حق نہیں ہے کہ جواب دے کر اپنی ذمہ داری کوٹلانے کی کوشش کریں.اس سلسلے میں بعض جگہ بڑا اچھا کام شروع ہو گیا ہے لیکن وہ بھی اُس وقت شروع ہوا جب میں نے نمائندہ بھیجا اور اُن کو سمجھایا مثلاً منیر الدین صاحب شمس نے کوئی دو تین ماہ پہلے ہندوستان کا دورہ کیا.تمام علاقوں میں وہاں خود پہنچے منتظمین کو بلایا، ان کو سمجھایا پھر وہاں انتظامات مکمل کئے تقسیم کار مکمل کی.وہ ہندوستان جہاں اس سے پہلے مہینوں جواب نہیں آیا کرتے تھے وہاں اب ایسا مستعد انتظام جاری ہو گیا ہے کہ جس طرح شعاعیں پڑ کر منعکس ہوتی ہیں واپس اس طرح خط ملتے ہی ان جماعتوں کی طرف سے جواب آرہے ہیں اور خوشیوں کی خبریں مل رہی ہیں کہ خدا کے فضل سے اب ہم انتظام مکمل کر کے تیار بیٹھے ہیں اور یہ یہ کام ہو گیا ہے.تو اس لئے سمجھانے کی بڑی ضرورت ہے.بعض علاقوں میں تو ہم نمائندے مرکزی بھجوا سکے ہیں لیکن بعض علاقوں میں نہیں بھجوا سکے لیکن وہاں یہ طریق کارطے ہوا تھا کہ جن ممالک کے سپر د بعض دوسرے چھوٹے ممالک ہیں وہ خود اپنے نمائندے وہاں بھجوا کر اُن کو سمجھا ئیں گے.اس ضمن میں مجھے ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں ملی یعنی تسلی بخش رپورٹ نہیں ملی.مثلاً انگلستان ہے اگر انگلستان کے سپرد بعض چھوٹے ممالک تھے تو ان کا فرض تھا کہ وہاں اپنے نمائندے بھیجیں.وہ نہ صرف سمجھا ئیں بلکہ اپنے سامنے کچھ نمونے تیار کروا کے آئیں.اگر تسلی ہو کہ بالغ نظری سے کام ہو رہا ہے.مومن کی شان یہ تو نہیں کہ گلے سے کام اُتارے.مومن کی شان

Page 69

خطبات طاہر جلد ۸ 64 خطبہ جمعہ ۲۷/جنوری ۱۹۸۹ء تو یہ ہے کہ گلے سے کام نہ اتر نے دے جب تک تسلی نہ ہو جائے کہ یہ کام صحیح طریق پر جاری ہو چکا ہے.اس لئے ان سب امور میں جہاں جہاں خلا ہے اُن پر نظر ڈالیں، جہاں جہاں خلا مجھے نظر آتا ہے اُسی وقت اُن کو چٹھی لکھ کر متنبہ کر دیا جاتا ہے لیکن ساری دنیا کے پھیلے ہوئے ممالک میں تفصیل سے انسانی نظر نہیں پہنچ سکتی لیکن جو قریب ہیں اُن کی نظر زیادہ آسانی سے تفاصیل تک پہنچ سکتی ہے.اس لئے امراء اور صدران اور دوسرے منتظمین جو قریب کی دنیا میں اپنے خلاد یکھتے ہیں اُن کو بھرنے کی بھی کوشش کریں اور اپنے اعلیٰ افسران کو بھی اُن سے مطلع کریں اور مجھے بھی مطلع کرنا شروع کر دیں کہ ہم نے اس اس پہلو سے یہ انتظامی خلا دیکھا ہے تا کہ میں بھی اُن کو مزید متوجہ کروں.جہاں تک اصولی ہدایتوں کا تعلق ہے یہ مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں تفصیلی کام کا تو میں نے بیان کیا تھا کہ وقت ہی نہیں ہے اس کی روشنی میں پھر آپ اپنے کام کو بڑھالیں اور پھیلا لیں اور ہر شعبہ میں اسی طریق پر طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل کے سہارے دعائیں مانگتے ہوئے اپنے خلاؤں کو بھرنے کی کوشش کریں اور خوب تیار ہو جائیں.جس دن ہم اگلی صدی میں داخل ہوں اُس دن سے پہلے پہلے انتظامی لحاظ سے ہم پوری طرح تیار ہو چکے ہوں.پھر سرچھ ر پھینک کر آپ کام میں تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کردیں.اس ضمن میں چندوں کے بقایوں کے متعلق بھی میں یاد دہانی کرواتا ہوں.صد سالہ جو بلی کے چندوں کی وصولی کی تاریخ میں بڑھاتا رہا تا کہ جو کمزور ہیں اُن کو بھی موقع ملتا رہے.جہاں تک مجھے یاد ہے ۳۱ دسمبر ۱۹۸۸ء مقرر کی تھی کہ اس وقت تک آپ سب بقایا ادا کر دیں لیکن میں جانتا ہوں بعض لوگ کوشش کے باوجود بھی اس وقت تک بقایا ادا نہیں کر سکے.اس لئے بعضوں نے مجھے لکھنا شروع کیا ہے کہ ہمیں محرومی کا شدید احساس پیدا ہو رہا ہے اس لئے ہمیں ایک سال کی اور مہلت دے دیں.تو یہ کوئی ایسی مہلتیں تو نہیں ہیں جو آخری حرف بن چکی ہوں کیونکہ نیکی کے کام میں جب وقت مقرر کئے جاتے ہیں تو صرف یہ مراد ہوتی ہے کہ تحریک ہو، تحریک ہو.جو سبقت لے جانے والے ہیں اُن کی توجہ ہو اور وہ سبقت لے جانے کی کوشش کریں.جو پیچھے رہنے والے ہیں اُن کو ساتھ ملنے کا موقع دیا جاتا ہے.تو اب پھر میں ایک سال مزید اضافہ کرتا ہوں کہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۸۹ء تک بھی جو دوست ادا کر دیں گے اُن کا جہاں تک میرا تعلق ہے میں یہی سمجھوں گا کہ اُن کا چندہ وقت کے اندر ہی ادا ہو گیا

Page 70

خطبات طاہر جلد ۸ 59 65 خطبہ جمعہ ۲۷/جنوری ۱۹۸۹ء ہے.باقی جو بقایارہ جائیں گے وہ اللہ تعالیٰ معاف کرے اور پھر ہماری غفلتوں کی پردہ پوشی کرے.جن کے بقائے رہ جائیں گے اگر چہ مدت گزر چکی ہوگی لیکن اُن کو بعد میں بھی ادا کرنے چاہئیں.یہ میں اصولی بات سمجھانا چاہتا ہوں.نماز کا ایک وقت مقرر ہے کتاب موقوت ہے لیکن جب وقت کے اندر نہ پڑھی جائے تو قضا کا حکم ہے.اسی طرح جو خدا سے وعدے کئے جاتے ہیں وہ بھی فرض کی طرح شمار ہونے چاہئیں اور قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ان وعدوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک.اس لئے جن لوگوں نے گھبراہٹ کے خط لکھے ہیں میں اُن کے ساتھ پوری طرح متفق بھی ہوں اور اُن کے لئے پریشان بھی ہوں.جن کو احساس اور شعور ہے وہ جانتے ہیں کہ ہم نے وعدہ خدا سے کیا تھا کوئی معمولی بات نہیں ہے.ہمارے حالات نے اجازت دی ہو یا نہ دی ہو یہ وعدے پورا کرنے سے محرومی ایک ایسا داغ ہے جس کی تکلیف ہونی چاہئے لیکن اگر وقت کے اندر نہ پورا ہو سکے اور مجبوری ہو تو گناہ تو نہیں ہو گا لیکن اس خلا کو اس طرح پر کرنا چاہئے جس طرح چھٹی ہوئی نمازوں کی قضا کی جاتی ہے.تو بعد میں بھی دیں لیکن اپنے طور پر اپنی ذمہ داری سے جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے یہ چندے کا وقت ختم ہو چکا ہوگا ممکن ہے بعض بقائے ایسے رہ جائیں بلوں کی ادائیگی کے جن میں یہ استعمال بھی ہو جائے لیکن نہ بھی ہو تو جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے آپ کا وعدہ خدا سے پورا ہو جائے گا اور آپ کو اس سے اطمینان قلب نصیب ہوگا.آخری بار پھر میں یہ عرض کروں گا کہ بہت سی ہمارے بد عادات کی گھڑیاں ہیں جو ہم پر سوار ہیں.ہر سال کے آغاز میں انسان وعدے کیا کرتا ہے اپنے نفس سے، بعض دفعہ اپنے خدا سے، بعض دفعہ اپنے دوستوں سے کہ یہ یہ کمزوریاں میں چھوڑوں گا.اس سال کے آغاز پر مجھے خیال آیا کہ یہ تحریک کروں کہ بعض بدیاں چھوڑ دیں.ویسے تو ہر بدی چھوڑنی چاہیئے لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ اس کو اگلی صدی کے تعلق میں بیان کروں گا جیسا کہ میں پہلے بھی کرتا آرہا ہوں.اگلی صدی سے پہلے جس طرح آپ بچوں سے وعدے لیں گے اُس طرح اپنے نفس سے بھی وعدے لیں اور اس کے لئے دعا شروع کر دیں.بعض عادتیں ترک کرنا آسان نہیں ہوا کرتا.بڑی ہمت چاہئے اور بعض عادتیں ایسی ہیں جو آپ ایک دفعہ چھوڑ بھی دیں تو پھر دوبارہ آجایا کرتی ہیں اس لئے بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے.گناہوں کی جو تمثیل بائبل میں پیش کی گئی ہے اور شیطان کو گناہ مجسم کے طور پر دکھایا گیا

Page 71

خطبات طاہر جلد ۸ 66 60 خطبہ جمعہ ۲۷/جنوری ۱۹۸۹ء ہے.وہ تمثیل سانپ کی شکل میں پیش کی گئی ہے.بہت سی مماثلتیں سانپ کو شیطان کے اس تصور سے ہیں جو مذہبی دنیا میں پایا جاتا ہے لیکن ایک مماثلت گناہ کے ساتھ شیطان کو یہ ہے کہ سانپ ہر سال ایک کینچلی اُتارتا ہے یعنی اپنی ایک کھال کو کھینچ کر کانٹوں میں الجھ کر پوری طرح اُتار کے اپنے جسم سے الگ پھینک دیتا ہے.اُس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُس کی کھال اب ختم ہو گئی.نیچے سے ایک نئی کھال نکل آتی ہے.تو گناہ بد بخت کو بھی یہ کسی طرح یہ طریقہ آ گیا ہے وہ ایک کھال اُتارتا ہے تو نیچے سے دوسری کھال نکل آتی ہے.اس طرح گناہوں کی بھی نہیں ہوتی ہیں یعنی ایک گناہ کو آپ کھینچ کر اُتاریں گے تو نیچے سے پاک دامن نہیں نکلیں گے بلکہ اُس کے نیچے ایک اور بھی گناہ کو پائیں گے.جس طرح سردیوں میں بعض بزرگ ٹھنڈے کپڑے پندرہ میں پہن لیتے ہیں اور اُن کا اور چارہ نہیں ہوتا.انسان جو روحانی لحاظ سے فلاکت زدہ ہو اُس نے گناہوں کے پندرہ بیس یا زیادہ کپڑے پہنے ہوتے ہیں تو ایک کپڑا آپ پھاڑ کر پھینکیں گے تو نیچے سے دوسرا بھی نکل آئے گا پھر تیسرا بھی نکل آئے گا بڑی محنت کا کام ہے، بڑی توجہ کا کام ہے اور دعا کے بغیر ممکن نہیں.یہ عادت بڑی بُری چیز ہے گناہ کی ہو، جس چیز کی بھی ہو بہت ہی ظالم چیز ہے انسان کو اپنا غلام بنا لیتی ہے.اس لئے عادتوں سے آزادی حاصل کریں پھر آپ ہلکے بدن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اگلی صدی میں داخل ہو سکیں گے.ورنہ آپ کا بدن بھاری رہے گا اور باقی سفر مشکل ہو گا.اس لئے اس سفر کے لئے تقویٰ کا زاد راہ چاہئے جو آپ کو اندرونی طاقت مہیا کرے گا.تقویٰ کے بغیر آپ بدیوں سے چھٹکارا نہیں پاسکتے تو تقویٰ کا معیار بڑھائیں، خدا سے دعا مانگیں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اگلی صدی میں اس حال میں داخل ہو کہ اُس نے اپنے گناہوں میں سے کچھ بھی نہ چھوڑا ہواور خدا کرے اکثر احمدی ایسے ہوں کہ سب نہیں تو اکثر گناہ وہ اس صدی کے دامن میں پیچھے چھوڑ جائیں اور پاک اور صاف ہو کے صحابہ کی طرح صاف اور پاک ہو کر اگلی صدی میں داخل ہوں تا کہ اس کنارے سے ایک تربیت کا نیا دور شروع ہو جائے اور وہ تربیت کا دور پھر اگلی صدی تک، اگلی نسلوں کے کام آتا رہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور اللہ اپنے فضل سے ہماری توفیق کو بڑھاتا چلا جائے.آمین

Page 72

خطبات طاہر جلد ۸ 20 67 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء جشن تشکر کی تیاریاں، حکومت پاکستان کی طرف سے پابندیاں افغان اور عرب قوم کے لئے دعا کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۳ فروری ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جس طرح آبشار کے دہانے کے قریب ہوتے ہوئے دریا کی رفتار تیز ہو جایا کرتی ہے اسی طرح جوں جوں ہم اگلی صدی کی صبح کی طرف بڑھ رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کا دھارا بھی بہت تیز رفتاری کے ساتھ اور پہلے سے بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس پہلو سے ان کاموں کی فکر بڑھتی جاتی ہے جو ابھی ادھورے ہیں اور پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے.اس سلسلے میں جماعت کو جو عمومی نصیحت کی تھی اس کے رد عمل کی بہت اچھی خبریں مل رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تمام دنیا کی جماعتیں ہمہ تن ان کاموں میں مصروف ہیں جو اگلی صدی کو خوش آمدید کہنے کے لئے اور اس کی تیاری کے سلسلے میں ہمیں کرنے ہیں.وقار عمل کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بوڑھے، بچے ، عورتیں سبھی غیر معمولی طور پر وقت کی قربانی کر رہے ہیں اور یہ سعادت پارہے ہیں کہ اپنے وقت کو اور ان صلاحیتوں کو جو اُن کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں خدمت دین میں صرف کریں.انگلستان کی جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پہلو سے ایک نمونے کی جماعت بن کے اُبھری ہے.نہ صرف اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جماعت انگلستان کو کثرت سے کارکن

Page 73

خطبات طاہر جلد ۸ 68 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء مہیا ہیں بلکہ جو زائد بوجھ جو خلافت کی ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے اس کو بھی انگلستان کی جماعت بڑی خوشی کے ساتھ ، فراخدلی کے ساتھ ،عظیم قربانی کی روح کے ساتھ اور بڑے استقلال کے ساتھ اُٹھا رہی ہے.جب یہ تحریک کی گئی کہ ہمیں کتابیں اور پارسل غیر ملکوں میں بھجوانے کے لئے واقفین عارضی طور پر وقف کرنے والوں کی ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسلسل ایسے نو جوان اور بوڑھے بھی اور خواتین بھی کام کے لئے آگے آئے ہیں جنہوں نے خدا کے فضل سے یہ فکر دور کر دی ورنہ ایسے ملک میں جہاں مہنگائی بہت ہو وہاں پیسے دے کر اس قسم کے کام کروانے بہت مہنگے پڑتے ہیں اوراسی روپے کو ہم سلسلے کی دوسری ضروریات کے لئے بہتر رنگ میں صرف کر سکتے تھے.تمام دنیا سے جو خبریں آرہی ہیں وہاں بھی یہی معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ کے فضل سے سہ لوگ ہمہ تن کاموں میں مصروف ہیں اور جو باقی خلا ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا وہ خانے تو دعانے پر کرنے ہیں اس لئے دعا کی طرف دوبارہ متوجہ کرتا ہوں.دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دعاؤں میں جو خلوص دل سے نکل رہی ہوں غیر معمولی طاقت عطا ہوتی ہے اور مشکل کام بھی بالکل آسان دکھائی دینے لگتے ہیں اور کبھی بھی دعا کرنے والے کے کام بے برکت اور بے ثمر نہیں رہتے.اس لئے بالعموم جماعت دعا تو کر رہی ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ وقت کی بڑھتی ہوئی رفتار کے مطابق دعا کی رفتار کو بھی تیز کریں اور ہر کارکن با شعور طور پر اپنے لئے بھی دعا کرے.بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کو بہت لمبی تربیت حاصل نہیں اس لئے وہ خدمت دین کے لئے وقت تو پیش کر رہے ہیں لیکن دعا کے مضمون سے ناواقف ہیں اور ان تجربوں میں سے بذات خود نہیں گزرے.یہ بہت اچھا موقع ہے کہ ایسے نوجوانوں کو دعا کی طرف متوجہ کیا جائے اور جہاں جہاں بھی منتظمین ان رضا کاروں سے کام لے رہے ہیں کام کی خاطر بھی اور خود ان نو جوانوں کی اصلاح اور روحانی ترقی کی خاطر بھی ان کو دعا کی طرف متوجہ کیا جائے.اس کے نتیجے میں یہ کارکن اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خدا کی تائید کے زندہ نشان دیکھیں گے اور محسوس کریں گے کہ دعا کے بغیر جو کام تھے ان کے مقابل پر دعا کے ساتھ کام بالکل اور نوعیت کے کام بن جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک بشاشت قلب محسوس کریں گے جو اس سے پہلے انہوں نے محسوس نہیں کی ہوگی اور یہ چند روز کی محنت جو دعا کے ساتھ کی جائے گی ساری زندگی ان کے کام آئے گی.اس لئے بالعموم جماعت تمام جماعتی مصالح اور مفادات کے لئے

Page 74

خطبات طاہر جلد ۸ 69 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء دعا کرے اور کام کرنے والے ہمہ وقت کام کے دوران اور بعد میں بھی جہاں تک تو فیق ملتی ہے اپنے لئے دعائیں کرتے رہیں.ان دعاؤں میں ایک یہ بھی دعا ہمیں شامل کر لینی چاہئے کہ جو لوگ آج زندہ ہیں اور یہ تمنا رکھتے ہیں کہ اگلی صدی کا منہ دیکھنے سے پہلے رخصت نہ ہوں اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں میں برکت دے.اگر چہ قضا و قدر کا معاملہ جاری وساری رہتا ہے اور انسانی جذبات سے بالا ہے لیکن دعا کے ذریعے قضا و قدر اور جذبات کے درمیان ایسا تعلق قائم ہو جایا کرتا ہے کہ نیک بندوں کی دلی کیفیات کے مطابق تقدیر میں ڈھلنے لگتی ہیں اور یہ وہ ایک غیر معمولی سنت ہے جس کو عام دنیا دار مشاہدہ بھی نہیں کر سکتے بلکہ سوچ بھی نہیں سکتے.اس لئے یہ تو ضرور ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسے خدا کی تقدیر میں بندے ہوں گے جن کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں لیکن اگر ساری جماعت سب کے لئے عمومی طور پر یہ دعا کرے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ بہت سے ایسے ہیں جن کو خدا زیادہ لمبی زندگی عطا فرما دے گا اور سوائے اس کے کہ بعضوں کے لئے تقدیر مبرم ہے جس کو شفاعت کے سوا ٹالا نہیں جاسکتا اور شفاعت کا مضمون آپ جانتے ہیں کہ اذن الہی سے تعلق رکھتا ہے، دعا سے تعلق نہیں رکھتا.اس لئے دعا کی حد میں جس حد تک بھی اپنے ساتھی بھائیوں کی زندگی کو لمبا کرناممکن ہے یہ دعائیں کریں کہ ان کی زندگیاں بھی لمبی ہوں خواہ بوڑھے ہوں، خواہ کینسر کے مریض ہوں ، خواہ دوسرے عوارض میں مبتلا ہوں اور ان کو اللہ تعالیٰ صحت بھی عطا فرمائے لمبی زندگی عطا فرمائے اور اگلی صدی کی خوشیوں میں باقی جماعت کے ساتھ وہ شریک ہوسکیں.گزشتہ دنوں الفضل میں مولا نانسیم سیفی صاحب کی جو نظمیں شائع ہوتی رہی ہیں ان میں ایک شعر ایک خاص الگ مزاج کا شعر تھا اور اس پہلو سے مجھے وہ بہت پسند آیا.انہوں نے دشمنان احمدیت کولمبی زندگی کی دعادی یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپنی اوقات تو دیکھ لیں کیا کرنا چاہتے تھے کیا کر سکے؟ جو پہلو اس میں مضمر ہے جو بیان نہیں ہو سکا اس میں دو مصرعوں کا شعر دو مصرعوں کا ہی ہوا کرتا ہے.حد سے زیادہ مضمون اس میں بند نہیں کئے جاسکتے لیکن وہ مضمر مضمون ہے اور یہ بھی دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو کتنی ترقیات عطا فرماتا ہے.اس لئے اس دعا میں ان کو بھی شامل کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی فضل جماعت پر نازل فرمانے ہیں کچھ وہ فضل دکھا کر دشمنوں کو لے کر جائے تا کہ جہاں ہماری موت کامیابی اور خدا تعالیٰ کے شکر کرتے ہوئے ، اس کے احسان گنتے ہوئے ،حمد کے

Page 75

خطبات طاہر جلد ۸ 70 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء ساتھ موت ہو وہاں یہ محسوس کر لیں کہ یہ کلیہ نا کام اور نا مرادر ہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک نہیں سکے اور جتنی انہوں نے کوشش کی اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے یعنی اس کے برعکس ان کی تمناؤں کو الٹاتے ہوئے جتنی لعنتیں انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین پر ڈالیں اس سے زیادہ شان کے ساتھ وہ دین اُبھرا اور غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو رحمتیں اور برکتیں اور کامیابیاں نصیب فرمائیں.ان دنوں پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ علماء دن رات مکر میں مبتلا ہیں.یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ان کو بڑی سخت تشویش ہے.بہت سے ایسے معاملات ہیں جو اُن کی توقعات کے برعکس نکلے ہیں.بہت سے ایسے طاقت کے دائرے ہیں جہاں اُن کی پکڑ کمزور پڑ گئی ہے اور معاملات میں عمل دخل ویسا نہیں رہا جیسا پہلے تھا.چنانچہ اس کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے وہ سخت بے چین ہیں.وہ جو پہلے یہ سوچ رہے تھے کہ صدی کے آخر تک جماعت کو نیست و نابود کر دیں گے اب اُن کو اپنے نیست و نابود ہونے کی فکر لاحق ہورہی ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ اگر یہ صدی کامیابی کے ساتھ اختتام تک پہنچی اور نئی صدی کا آغاز بلند تر اُمیدوں کے ساتھ ہوا تو یہ اُن کی موت ہے.اس پہلو سے وہ سخت بے چین ہیں اور گہری تدبیروں اور مکروں میں مبتلا ہیں.چنانچہ آج بھی (اخبار ) جنگ میں یہ خبر بھی شائع ہوئی (یعنی کل کا جنگ تھا جو رات کو آگیا تھا صبح میں نے دیکھا) کہ پنجاب کی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس صدی کے اختتام کا اور اگلی صدی کے آغاز کا جشن نہیں منانے دیں گے اور یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ربوہ کو بہر حال کسی قیمت پر بھی ان خوشیوں میں شریک نہیں ہونے دیں گے.چنانچہ با قاعدہ حکومت کی طرف سے جونو ٹیفکیشن جاری کر دی گئی ہے اس پر میرا ذہن قرآن کریم کی اس آیت کی طرف منتقل ہوا کہ إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدًا فَمَهْلِ الْكَفِرِينَ اَمْهِلْهُورُوَيْدًا ع ( الطارق: ۱۲-۱۸) که یقینا وہ تدبیریں کر رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن میں بھی تدبیر کر رہا ہوں.یہاں خدا تعالیٰ نے اکیڈ کہہ کر مومنوں کو اس تدبیر سے الگ کر دیا ہے اور تمام تدبیر کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے.اس میں جو پیغامات ہیں خاص طور پر قابل توجہ باتیں ہیں وہ یہ ہیں کہ مومن کو تدبیر سے منع نہیں فرمایا گیا بلکہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے پتا چلتا ہے کہ جہاں تک مومن کے بس میں ہے اُس کو تدبیر اختیار کرنے کا ہی حکم ہے لیکن مومن کی

Page 76

خطبات طاہر جلد ۸ 71 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء تدبیریں کام نہیں کیا کرتیں.آخری فیصلہ خدا کی تدبیر سے ہوا کرتا ہے اور جب خدا کی تدبیر ظاہر ہوتو اُس وقت وہ تنہا ہے جو سارے عظیم الشان انقلابات برپا کرتی ہے اور مومن کو یہ دھوکا نہیں ہونا چاہئے کہ اُس کی تدبیری کوششوں نے یہ نتائج پیدا کئے ہیں.کافروں کی اور دشمنوں کی تدبیر کو ان کی تدبیر سوجھتی ہے.اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا کثرت سے ہیں، بہت زیادہ ہیں اور سارے تدبیروں میں مصروف ہیں.ان کے مقابل پر یہ نہیں فرمایا کہ میرے بندے بھی تدبیر کر رہے ہیں، میں بھی کر رہا ہوں بلکہ فرمایا اکیدُ گیدا میں تدبیر کر رہا ہوں.تو جو کوششیں آپ نے کرنی ہیں وہ کریں لیکن جو انقلاب بر پا کرنے والی تدبیر ہے وہ خدا ہی کی تدبیر ہے اور جب خدا کی تدبیر جاری ہوتی ہے تو اُس کے مقابل پر انسان کی ہر تدبیر نا کام ہو جاتی ہے.اس لئے یہ جو عادت بعض لوگوں کو پڑ گئی ہے کہ سیاسی افق پر اپنے مستقبل کی تحریریں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس عادت کو ترک کر دیں.ہمارے مستقبل کی تحریریں روحانی اُفق پر لکھی جاتی ہیں اور ہمارے مستقبل کا فیصلہ آسمان پر ہوتا ہے زمین پر نہیں ہوتا.اس لئے دعائیں کریں اور دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جب خوشخبریاں عطا فرمائے اور جن کو بشاشت عطا کرے وہاں اپنے مستقبل کی تحریریں پڑھنے کی کوشش کریں اور وہی تحریر میں ہیں جو لازماً کچی ثابت ہوں گی ورنہ سیاسی افق پر وہ تحریریں اُبھرتی بھی رہتی ہیں اور مٹتی بھی رہتی ہیں.تحریریں لکھنے والوں کو بھی وہ تحریریں اپنے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹا دیا کرتی ہیں لیکن وہ تحریر میں جو خدا کی تقدیر لکھ رہی ہے وہ ان مٹ ہوتی ہیں کوئی دنیا کا ہاتھ اُن تحریروں کو مٹانے کے لئے نہ اُن تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے ، نہ ان کو مٹانے کی طاقت رکھتا ہے.اس لئے یہاں بھی پھر مضمون دعا ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے.چند دن ہوئے صبح جب میں اُٹھا نماز کے لئے تو میرے منہ پر حضرت مصلح موعودؓ کے یہ شعر جاری تھے جو وہ کافی دیر تک جاری رہے لیکن اُس وقت میں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ یہ الہامی کیفیت تو نہیں ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اشارے ضرور ہیں ان باتوں میں.وہ شعر یہ تھے کہ پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب زندگی ہو گیا پھٹ کر ہوا اُن کا حباب زندگی

Page 77

خطبات طاہر جلد ۸ 72 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء لوٹنے نکلے تھے وہ امن وسکون بیکساں خود انہی کے لٹ گئے حسن و شباب زندگی ( کلام محمود صفحه: ۱۵۵) تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ انسان کے منہ پر بعض اشعار جاری ہو جاتے ہیں اور خاص طور پر ایسی کیفیت میں جب جاری ہوں جب انسان بالا رادہ ان باتوں کو یا اس مضمون کو سوچ نہ رہا ہو تو یہ باتیں ایک پیغام کا رنگ رکھتی ہیں لیکن اُن کو الہام نہیں کہا جاسکتا.الہام مختلف چیز ہے جو بڑی وضاحت کے ساتھ اور صفائی کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے اور اس میں انسان کے لئے طلبہ کی گنجائش نہیں رہتی.تو یہ جو بھی بات تھی میں تو بہر حال ایک لمبے عرصے سے اس نظم کو نہ پڑھا ، نہ یہ شعر میرے ذہن میں تھے، نہ رات کو سوتے ہوئے یہ مضمون میرے ذہن میں تھا.اس لئے میں یہی سمجھتا ہوں کہ خدا نے ہمیں دعائیہ رنگ میں اس طرف متوجہ فرمایا ہے.تو ساری جماعت اس عرصے میں یہ دعا بھی کرے کہ اب ان کی کتاب زندگی کا آخری باب ختم ہو اور ان کا حباب زندگی جس نے دنیا کو دھوکا دیا ہوا ہے حقیقت کا لیکن محض ہوا ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں وہ پھٹ جائے اور دنیا ان کی حقیقت کو دیکھ لے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو ان کی آنکھوں کے سامنے بیش از پیش ترقیات عطا فرماتا چلا جائے جو ان کی امنگوں کے تو بالکل برعکس ہوں گی مگر دعا یہ کریں کہ ہماری اُمنگوں سے بھی بہت بڑھ کر ہوں.تو یہ جو وقت بقیہ ہے یہ دعاؤں میں صرف کرنا چاہئے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں خاص طور پر اس دور میں غیر معمولی اثر دکھانے والی ثابت ہوں گی.اس سلسلہ میں ایک دعا یہ بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نفرتوں سے پاک رکھے.ایک لمبی جدوجہد میں سے ہم گزر رہے ہیں، گزر کے آئے ہیں اور جو شدید معاندانہ کوششیں جماعت کے خلاف کی جارہی ہیں اُنہوں نے لازماً اس عرصے میں جماعت کے دلوں پر کوئی اثر چھوڑا ہے اور یہ کوششیں ابھی جاری ہیں.اس لئے میں جانتا ہوں کہ انسان کمزور ہے اور بعض دفعہ ان معاندانہ کوششوں کے نتیجے میں اُس کے دل میں نفرت اثر پذیر ہو جاتی ہے.نفرت اُس کے دل پر گہرے داغ ڈال جاتی ہے.مومن کی زندگی کو نفرتوں سے پاک ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا کہ چاہئے نفرت بدوں سے بلکہ فرمایا ہے:

Page 78

خطبات طاہر جلد ۸ 73 چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء اس تفریق کو ، اس فرق کو نمایاں طور پر اپنے پیش نظر رکھا کریں کہ بدوں سے نفرت نہیں بلکہ بدی سے نفرت کرنی ہے اور بدی کا جو شخص مظہر بن چکا ہو تبھی بات ہے کہ وہ بدی کی نفرت اُس کی نفرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جایا کرتی ہے اور وہ نفرت سے جن میں دعاؤں کا میلان پیدا کرتی ہے یعنی اُن شخصوں کے ، اُن لوگوں کے مٹ جانے اور برباد ہو جانے کا.چونکہ میں نے شروع میں آپ کو ایک بات سمجھائی کہ یہ دعا کریں کہ ان کی عمریں لمبی ہوں اور یہ نا کامی دیکھیں تو اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس فرق کو آپ کے سامنے واضح کر دوں.بد جب تک بد ہے اُس کی بدی کی وجہ سے اُس کے متعلق ایسے خیالات دل میں اُٹھتے ہیں جو منفی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن اُس کے ساتھ ایک دعا ضرور شامل کرنی چاہئے کہ اے خدا اگر ان بدوں کی تقدیر میں بدی کی حالت میں مرنا ہے تو پھر ہماری دعا یہ ہے کہ ان کو نامرادی کی ایسی موت دے جو دنیا کے لئے عبرت بنے لیکن اول دعا یہی ہے کہ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے.اس لئے اس پہلو سے بھی غور کیا کریں کہ یہ جو اپنی بدیوں کی وجہ سے قابل نفرت دکھائی دینے والے لوگ ہیں ان کا حال اس دنیا میں بھی بد ہے اور قابل رشک نہیں اور اُس دنیا میں اس سے بڑے عذاب کے منتظر ہیں اس لئے اس پہلو پر نظر ڈال کر اُن پر رحم بھی کرنا چاہئے اور رحم کے ساتھ ان کے لئے دعا کرنی چاہئے.یہ مضمون اُس قوم کے لئے سمجھنا بہت ہی ضروری ہے جو رحمۃ للعالمین کی طرف منسوب ہوتی ہے اور سچے دل سے منسوب ہوتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی مے کو جو رحمتہ للعالمین فرمایا گیا اس مضمون کو ہمیں کبھی بھی نہیں بھلانا چاہئے.اس لئے اگر بدوں سے نفرت اس رنگ کی ہو جائے کہ ہم اُن کے بد انجام کے سوا کوئی اور تمنا دل میں نہ رکھتے ہوں تو یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رحمت سے دور ہٹا دے گی.اس لئے جو دعائیں میں نے آپ کو شروع میں کہی تھیں وہ اس شرط کے ساتھ کریں اور اس معاملے میں دل کو ٹول لیا کریں.نفرت کو مٹاتے ہوئے پہلے رحمت کو جگہ دیں اور خدا سے پہلے سے یہ دعا مانگیں کہ اے خدا تو جہاں تک ان لوگوں کے اندر پاک تبدیلی کی گنجائش موجود ہے اور تیری آنکھ دیکھ سکتی ہے ہم نہیں دیکھ سکتے.ان کے اندر پاک تبدیلی پیدا فرما دے اور ان کو اس بد انجام سے بچالے لیکن ہم جانتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ

Page 79

خطبات طاہر جلد ۸ 74 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء سے بڑھ کر ان بدوں کے لئے کوئی دعا کرنے والا نہیں تھا اور ہم جانتے ہیں کہ اُن دعاؤں کے باوجود بہت سے بد تھے جو بد انجام کو پہنچے اس لئے وہ پہلو جو ہے اس کے پیش نظر اس دعا کو ساتھ شامل کرنا چاہئے کہ اے خدا اگر تیری تقدیر میں ان کی اصلاح نہیں لکھی تو ان کی موت خاموشی کی موت نہ ہو بلکہ ایسی کھلی ذلت اور ناکامی کی موت ہو کہ خدا کے وہ بندے جن کے اندر سعادت کی روح ہے وہ اس سے نصیحت پکڑیں اور عبرت حاصل کریں.دعاؤں کے سلسلے میں بعض اُن علماء کے لئے بھی دعا کریں جو پاکستان اور ہندوستان میں پیدا ہونے والے عمومی طور پر جو علماء ہمیں دکھائی دیتے ہیں اُن سے مختلف ہیں.میں نے جہاں تک عالم اسلام کا جائزہ لیا ہے سب سے بدقسم کا عالم ہندوستان اور ہندوستان کے ساتھ برصغیر کہنا چاہئے، ہندو پاکستان میں پیدا ہوا ہے اور یہ حکمت تو بالکل واضح ہے کہ جہاں اس قسم کے علماء ہوتے ہیں وہیں اللہ تعالیٰ اپنے نمائندہ کو بھیجا کرتا ہے مصلح کو بھیجا کرتا ہے.یہ بات تو بالکل واضح اور سمجھ کے لائق ہے لیکن یہ خیال کر لینا کہ آج مسلمانوں کے نعوذ باللہ من ذالک سارے علماء ہی یہی رنگ رکھتے ہیں یا خود بر صغیر ہند و پاکستان میں بھی سارے علماء ایسے ہیں یہ درست نہیں ہے.اس غلط نہی کے نتیجے میں ہم سے گزشتہ عرصوں میں ایک کو تاہی ہوئی ہے کہ ہم نے علماء کی طرف کم توجہ کی ہے.جس شخص کو عالم سمجھایا عالم کے طور پر سُنا.یہ سمجھا کہ ہمارے اور اُس کے درمیان ایک ایسی خلیج واقع ہے جو کبھی پاٹ نہیں سکتی، یہ درست نہیں ہے.پاکستان میں ، ہندوستان میں باوجود اس کے کہ بعض علماء بہت شرارت میں آگے بڑھ گئے نہایت نیک دل اور پاکباز علماء بھی پیدا ہوئے اور آج بھی ہیں جو متقی ہیں.ورنہ ہمارے معاملے میں ، جماعت احمدیہ کے معاملے میں جتنے علماء آپ کو شور ڈالتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اُس سے بیسیوں گنا زیادہ علماء آپ کو منظر عام پر دکھائی دیتے ہیں.بہت سے ایسے علماء ہیں جو بول سکتے ہیں، اُن کی آواز میں طاقت بھی ہے لیکن جماعت کے معاملہ میں وہ خاموش ہیں.کس حد تک یہ خاموشی نیکی ہے، کس حد تک یہ خاموشی جرم ہے یہ فیصلہ خدا نے کرنا ہے مگر اس خاموشی میں فی ذاتہ ایک امتیازی بات ضرور ہے.جب کسی کمزور کو مارا جارہا ہو اُس کو تکلیف دی جارہی ہو اور اُس کے نتیجے میں ذلیل دنیا کی دولتیں کمائی جارہی ہوں اُس وقت ایسے علماء کا خاموش رہنا اور اُس بدی میں حصہ لے کر اُس دنیا کی دولت کی تمنا میں ہاتھ آگے نہ بڑھانا یہ بھی ایک نیکی ہے

Page 80

خطبات طاہر جلد ۸ 75 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے متعلق ہمیں اطلاعیں ملتی رہتی ہیں بعضوں کے مجھے خط بھی مل جاتے ہیں کہ وہ دل میں جماعت احمدیہ کی سچائی کے قائل ہیں اور اُن کو یہ توفیق نہیں ہے کہ وہ کھلم کھلا جماعت احمدیہ کی تائید کر سکیں لیکن اپنے خطبات میں، اپنے ماحول میں جو تقریریں کرتے ہیں اُن میں وہ جماعت کی مخالفت نہیں کرتے.پھر اُن میں سے ایسے بھی ہیں جو سچا سمجھتے ہوئے بھی مخالفت کرتے ہیں.اسی لئے میں نے کہا کہ اتنی قسمیں ہوتی ہیں تہ بہ تہ کہ انسان کے لئے فیصلہ مشکل ہے کہ کون بد ہے اور کون نیک ہے.اس لئے جو عموماً نیک دکھائی دیتے ہوں یا نیکوں جیسی بعض خصلتیں اُن سے ظاہر ہو رہی ہوں اُن کو خصوصیت کے ساتھ اپنی دعا میں بھی شامل کرنا چاہئے اور اُن سے رابطہ بھی بڑھانا چاہئے.ایک عالم کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نہایت ہی خطرناک تقریر جماعت کے خلاف کر کے جب سٹیج سے اترا تو ایک احمدی نے اُس سے رابطہ کیا اُن کو کہا کہ میاں آپ خدا کا خوف کریں کیوں آپ ایسی بد باتیں کرتے ہیں.مجھے یہ بتائیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اور جماعت کے متعلق آپ کیا سمجھتے ہیں.کیا واقعی جھوٹے ہیں؟ تو اس نے کہا خدا گواہ ہے اُنہیں جھوٹا نہیں کہہ سکتے.اُس نے کہا پھر آپ نے یہ کیا حرکتیں کیں ہیں، اس قد راشتعال انگیز تقریر کی ہے.اس نے پیٹ سے اپنا کپڑا اٹھایا کہ یہ جو بد بخت ہے روٹی مانگتا ہے میں کیا کروں.تو ایسے بھی ہیں جو روٹی کے غلام ہیں بیچارے اور دنیا کی دولتوں کی خاطر چند روزہ فائدے کی خاطر وہ جماعت کی مخالفت بھی کرتے ہیں لیکن دل مؤید ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ: دل ہمارے ساتھ ہیں گومنہ کریں بک بک ہزار (در ثمین صفحه: ۱۳۰) تو یہ جو بک بک کرنے والے منہ ہیں ان کے اندر بھی بعض دل ہیں جو تائید میں ہیں لیکن جو بک بک کرنے والے نہیں ہیں اُن میں تو کثرت سے ایسے ہوں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو یہ خبر دی گئی کہ لاکھوں ایسے ہیں جو آپ پر درود بھیجتے ہیں لیکن آپ کے ساتھ شامل نہیں ہیں ، اُن کو یہ توفیق نہیں ملی.تو ایسے لوگ جو دل سے صداقت کے قائل ہو چکے ہیں یا شرافت کی وجہ سے، اپنے طبعی رجحان کی وجہ سے گند میں ملوث نہیں ہیں اُن کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو جماعت کو عطا کر دے اور وہ اپنی اُن صلاحیتوں کو جو خدا نے انہیں بخشی ہیں وہ ایک نیک اور

Page 81

خطبات طاہر جلد ۸ 76 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء تاریخ ساز کام میں استعمال کریں اور اُن سے رابطے بھی رکھنے چاہئیں.علماء سے خواہ مخواہ بدکنے کی ، ڈرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایسی فرقان عطا فرمائی ہے، ایسے عظیم دلائل عطا فرمائے ہیں کہ احمدی بچہ بھی بڑے بڑے علماء کے منہ بند کر سکتا ہے.منہ بند کرنے کی خاطر نہیں دل جیتنے کی خاطر اُن سے رابطے رکھنے چاہئیں، اُن کو سمجھانا چاہئے ، اُن کو جماعت کے حالات سے مطلع رکھنا چاہئے.جہاں دوسرے علاقوں میں علماء ملتے ہیں وہاں نسبتا شرافت زیادہ ہے مثلاً اگر چہ آپ کے نزدیک پٹھان علماء ، افغانستان والے علماء نہایت ہی متشد داور تنگ نظر ہیں اور واقعہ یہی صورت ہے لیکن اُن میں بہت سے ایسے خدا کے نیک بندے ہیں جو کچھ بھی سمجھتے ہیں خالصہ اللہ کر رہے ہیں اور تمام قربانیوں میں قوم کے ساتھ شامل ہیں اُن کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی آنکھوں سے پردے اُٹھائے اور اُن کی یہ قربانیاں رائیگاں نہ جائیں بلکہ سچائی کے رستے میں خرچ ہوں.افغانستان کے حالات دن بدن بگڑ رہے ہیں اُس کی وجہ سے مجھے بہت تشویش ہے.واقعہ یہ ہے کہ اس وقت جو وہاں انقلاب رونما ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اُس انقلاب کے اندر بہت سے ایسے خطرات مخفی ہیں جو انقلاب کے رونما ہونے کے ساتھ ہی سر اُٹھا ئیں گے.اس لئے وہ ہمسایہ مسلمان ملک ہے اُس کے لئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ اُس ملک کو اگر ایک اچھا انقلاب عطا کرتا ہے تو اس انقلاب کے ساتھ جو لیٹے ہوئے خطرات ہیں ان سے ان کو بچالے.اوّل تو یہ کہ افغان مجاہدین کے جو بھی گروہ ہیں وہ آپس میں بٹے ہوئے ہیں.اس وقت Common Enemy Factor جس کو کہتے ہیں یعنی مشترک دشمن.اُس کے اثر کے نتیجے میں یہ لوگ اکٹھے ہیں لیکن جو نہی طاقت پکڑیں گے اُس وقت مشترک دشمن غائب ہو چکا ہوگا منظر سے.اُس وقت ان کے پھٹے ہوئے دل پھر ساری افغان قوم کو پھاڑ دیں گے اور نہایت خطرناک حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ حکومت ملے مجاہدین کو لیکن اس حال میں کہ بجائے اس کے کہ مجاہدین روسیوں کے گلے کاٹ رہے ہوں مجاہدین ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگیں اور یہ ایک حقیقی خطرہ ہے.اگر یہ خطرہ درپیش نہ ہوتا تو امریکن اور برطانوی اور دوسرے مغربی سفارتکاروں کو وہاں سے نہ بلایا جاتا.وجہ یہ ہے کہ اگر تو کوئی اشترا کی انقلاب کا خطرہ ہوتا پھر تو ان لوگوں کو وہاں خطرہ تھا.ایسے انقلاب سے ان لوگوں کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے

Page 82

خطبات طاہر جلد ۸ 77 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء جس کی پرورش مغرب نے کی ہو.ایسے مجاہد سے ان کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے جن کی سر پرستی امریکہ کر رہا ہو.اس لئے ان کے آنے سے تو ان کے حالات پہلے سے بہتر ہونے چاہئیں اور ان کو بظاہر امن نصیب ہونا چاہئے لیکن جن کو یہ دشمن کہتے ہیں، اس دشمن کے سائے تلے انہوں نے امن محسوس کیا ہے جس دوست کو پالا ہے اس کے طاقت میں آنے سے ڈر رہے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی انٹیلی جنس کی ایجنسیز نے ان کو مطلع کیا ہے کہ یہ انقلاب جب کامیاب ہوگا اور ان کو کامیاب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تو اُس وقت ایک گروہ کے طور پر کوئی طاقت بھی سیاست پر قبضہ نہیں کر سکے گی بلکہ سیاسی گروہ متفرق ایک دوسرے سے بٹ جائیں گے اور ہر ایک کوشش کرے گا کہ دوسرے کو نیچا دکھائے اور حکومت پر قابض ہو جائے.ایک تو یہ بڑا واضح خطرہ جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے.دوسرا خطرہ یہ ہے کہ وہ کردار جو مجاہدین ادا کر رہے تھے روسی حکومت کے خلاف اب روسی ایجنٹس وہی کردار نئی آنے والی حکومت کے خلاف ادا کریں اور جو Terrorism اور انڈرگراؤنڈ ، زیر زمین تحریکیں ہوتی ہیں امن کو برباد کرنے والی ان تحریکوں کی روس سر پرستی شروع کر دے.میں نہیں جانتا کہ روس کے ارادے کیا ہیں لیکن سیاست میں یہ باتیں چلتی ہیں اس لئے بظاہر کچھ عرصے تک ان علاقوں میں امن قائم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا.پاکستان پر اس کے لازماً بد اثرات پڑیں گے.وہاں کی بدامنی پاکستان پر اثر انداز ہو گی اور کئی طریق سے اثر انداز ہو گی.اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں مگر چونکہ ایک مسلمان قوم ہے اگر چہ جماعت احمدیہ کے ساتھ اُس قوم نے احسان کا سلوک نہیں کیا، عدل کا سلوک بھی نہیں کیا ، عام انسانی سلوک بھی نہیں کیا لیکن صلى الله کاخر کنند دعوی حب پیمبرم ( در تمین فارسی صفحه : ۱۰۷) آخر ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہے اور ان کے دکھ اور ان کے در د ایسے نہیں جو ہمارے دل پر گہرا اثر نہ چھوڑیں یا ہمیں بے چینی نہ دیں.اس لئے ہم اپنے دل کے سکون کی خاطر آئندہ اس قوم کے مستقبل کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے ، ان کو حقیقی امن عطا کرے اور حقیقی نور عطا کرے جس کے ذریعے سے یہ دائمی امن کا رستہ دیکھ سکیں اور جماعت احمدیہ کے متعلق ان کا جو گزشتہ رویہ تھا اس میں پاک تبدیلی پیدا کریں اور یہ بھی سمجھ لیں کہ جیسے بھی حالات ہیں اگر چہ ہمیں ان حالات سے تکلیف ہے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ گزشتہ مظالم

Page 83

خطبات طاہر جلد ۸ 78 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء کا پھل ہیں یہ حالات اور بڑے بڑے بزرگ اور پاک شہیدوں کی روحیں ہیں جن سے دعائیں لینے کی بجائے انہوں نے اس حال میں انہیں تکلیفیں دے کر مارا کہ اگر بد دعا اُنہوں نے نہ بھی کی ہو بعض کے متعلق تو میں جانتا ہوں کہ وہ ایسے نہیں تھے کہ بد دعا کرتے ہوئے جان دیں لیکن خدا تعالیٰ کی غیرت اُن کی خاطر بعض دفعہ ایسے حیرت انگیز کرشمے دکھاتی ہے کہ اگر وہ دعا ئیں بھی کر رہے ہوں تو وہ دعا ئیں اُس وقت مقبول نہیں ہوا کرتیں اور ایک لمبے عرصے تک قوم سزا پاتی ہے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے ضرور دعائیں کی ہوں گی لیکن ان دعاؤں کے جواب میں جو خدا تعالیٰ نے ان کو خبر دی وہ دنیا سے رخصت ہونے سے چند لمحے اُنہوں نے بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے بتائی اور کہا کہ دیکھو تم میری جان تو لے لو گے لیکن مجھے تمہارے متعلق بہت فکر ہے اور بہت تشویش ہے اور میں جانتا ہوں کہ ایک لمبے عرصے تک خدا کے عذاب تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اور طرح طرح کی مصیبتوں میں تم مبتلا کئے جاؤ گے.چنانچہ وہ اپنی جان بچانے کی خاطر یہ ڈراوا نہیں دے رہے تھے بلکہ جب جان بچانے کی خاطر امیر نے اُن سے یہ کہا کہ آپ ہلکی آواز میں ہی مجھے کہہ دیں کہ آپ نے توبہ کر لی ہے تو میں آپ کی جان ابھی بھی بخش سکتا ہوں.آپ نے فرمایا اس کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا.پس یہ ڈراوا نہیں تھا یہ کوئی حقیقی خبر تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس کی اطلاع انہوں نے قوم کو دی.پھر امیر نے یہاں تک کہا کہ آپ تو بہ نہ کریں مجھے اس بات کی اجازت دے دیں کہ میں اعلان کر دوں آپ کی طرف سے.آپ کا دل صاف رہے گا ، آپ اپنا دین نہیں بدلیں گے لیکن مجھے اجازت دے دیں میں اپنے طور پر جھوٹ بول لوں لیکن میں نہیں چاہتا کہ آپ کو اس طرح ظلم کے ساتھ شہید کیا جائے.آپ نے فرمایا میں اس کی بھی اجازت نہیں دیتا.چنانچہ ایک غیر معمولی عظمت کے ساتھ ، غیر معمولی شان کے ساتھ انہوں نے اپنی جان خدا کے حضور میں پیش کی ہے.ایسے ایسے عظیم شہداء ہیں کہ جن کے متعلق یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ان واقعات کو اسی طرح گزر جانے دے اور جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے مجھے کامل یقین ہے کہ اس کا تعلق ماضی قریب میں ہونے والے واقعات سے نہیں بلکہ ماضی بعید میں ہونے والے واقعات سے ہے.اُن واقعات سے ہے جن کا آغاز حضرت صاحبزداہ عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت سے ہوا.

Page 84

خطبات طاہر جلد ۸ 79 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء پس ان کے لئے دعا میں خاص طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ سے اس قوم کی بخشش طلب کرنی چاہئے اور بخشش کا تعلق تو بہ سے ہوا کرتا ہے.اس لئے محض وقتی طور پر یہ دعانہ کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مصیبت سے بچائے.اس معاملے کی پاتال تک پہنچیں، سمجھیں کہ کیوں ان پر یہ عذاب نازل ہو رہا ہے اور خدا سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس تو بہ کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ بخشش فرما یا کرتا ہے اور درگزر سے کام لیا کرتا ہے اور ان کی تقدیر بدلے.دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی ان کی تقدیر بدل جائے.افغانستان جس قوم پر مبنی ہے اس میں بہت ہی عظیم طاقتیں موجود ہیں.کمزوریاں بھی ہیں ، بعض خامیاں بھی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر افغان قوم احمدی ہو تو اُس کے نتیجے میں روس میں احمدیت کے داخل ہونے کے عظیم مواقع پیدا ہوں گے.کوئی اور قوم اس مقام پر نہیں ہے کہ روس میں اس شدت کے ساتھ اور گہرے رسوخ کے ساتھ تبلیغ کر سکے جتنی افغان قوم کو اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ غیر معمولی توفیق حاصل ہے یعنی بنیادی طور پر خلقی طور پر اُن کو یہ توفیق حاصل ہے.خواہ ظاہر ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو.تو میری نظر اس دعا کے وقت یہاں تک محدود نہیں کہ اگلے چند سال ان کے اوپر مصیبتیں نہیں پڑیں میری نظر بہت دور تک پہنچ رہی ہے اور اس لئے آپ کو میں سمجھا رہا ہوں تا کہ آپ کی دعاؤں میں اُسی نسبت سے زیادہ سنجیدگی ہو اور زیادہ بیقراری پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے روس میں عظیم انقلاب کی خبریں دی ہیں.اب ہم آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں کہ کسی وقت یہ انقلاب رونما ہو جائے گا اور ہاتھ پہ ہاتھ دھر لیں کہ بس خود بخود ہوگا یہ درست نہیں ہے.کام تو خدا نے کرنے ہیں لازماً لیکن ہمیں کوشش کا حکم ہے اور کوشش میں حکیمانہ طور پر حالات کا جائزہ لینا بھی شامل ہے.چنانچہ روس کے اردگرد کے حالات پر جہاں تک میں نے نظر ڈالی ہے میرے نزدیک سب سے اہم رستہ روس میں تبلیغ اسلام کا افغانستان کا رستہ ہے.اگر افغانستان بدامنی کا شکار ہو جائے یا خدا کے عذاب کے نیچے آ کر ہلاک ہو جائے تو اس سے بنی نوع انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.ایک سزا ہے بس جو پوری ہوگی لیکن اگر اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے، ان کے اندر اصلاح پیدا کرے ، ان کو تو بہ کی توفیق بخشے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کے لئے بہت ہی عظیم الشان کامیابیوں کا آغاز ہو جائے گا اور روس میں وہ جس طرح جس شدت کے

Page 85

خطبات طاہر جلد ۸ 80 60 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء ساتھ تبلیغ چلے گی وہ کسی اور ذریعے سے مجھے ممکن نظر نہیں آتی.میں امید رکھتا ہوں کہ اس پہلو کو پیش نظر رکھ کر جماعت افغانستان کے لئے ، اپنے افغان بھائیوں کے لئے خاص طور پر دعا کرے گی.آخر پر عرب دنیا کے لئے میں دعا کی درخواست کرتا ہوں.عربوں سے جہاں تک ہمارا واسطہ پڑا ہے ہم نے محسوس کیا ہے کہ بہت شریف النفس لوگ ہیں.مظلوم ہونے کی وجہ سے ان کے رد عمل بہت سخت ہوتے ہیں اس لئے کوئی Terrorist بن گئے ، کوئی اور کئی قسم کی تخریب کا رتنظیموں میں بھی شامل ہوئے.بے چینی کا اظہار جس طرح کسی سے بن پڑا اُس نے کیا لیکن بنیادی طور پر یہ قوم حضرت محمدمصطفی ﷺ کی وارث ہے.وہی خون دوڑ رہا ہے اس قوم میں جو محمد رسول اکرم علی کی مقدس رگوں میں دوڑا کرتا تھا.اس نسبت سے بھی یہ ہمیں پیارے ہیں اور ہمیشہ پیارے رہیں گے اور اس پہلو سے بھی کہ ان میں اُس شرافت کے آثار باقی ہیں، مٹے نہیں ہیں.جہاں جہاں بھی واسطہ ہوا ہے عربوں سے یورپ میں، باہر امریکہ میں یا دوسری جگہوں پر وہاں ہم نے دیکھا ہے کہ مخالفت کے باوجودطبیعت میں گہری سعادت پائی جاتی ہے اور جب حق دیکھ لیتے ہیں تو فوراً قبول کرتے ہیں اور بڑی تیزی سے اس میں ترقی کرتے ہیں.اس لئے اگلی صدی سے پہلے پہلے ہمیں حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے کہ عربوں میں سے کثرت کے ساتھ احمدی ہوں اور احمدیت کا پیغام ان لوگوں تک اس طرح پہنچ جائے کہ جس کے نتیجے میں اگر آج نہیں تو کل آخر یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت میں شامل ہو جائیں.عرب قوم اگر احمدی ہو جائے تو ساری دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا ہو جائے گا.حیرت انگیز اس وقت خدا تعالیٰ نے ان کو اندرونی توفیقات عطا فرمائی ہوئی ہیں.مادی وسائل کے لحاظ سے بھی اور روحانی وسائل کے لحاظ سے بھی غیر معمولی قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں، خلوص رکھتے ہیں اور جو گزرے ہوئے ہیں یہ سطحی طور پر گزرے ہوئے ہیں.بنیادی طور پر اسلام سے محبت ابھی تک موجود ہے.اس لئے عربوں کو بھی خاص طور پر دعا میں یاد رکھیں اور جہاں تک عرب علماء کا تعلق ہے شاذ ہی ایسے ہوں گے جن کے متعلق آپ یہ کہ سکیں کہ شریر ہیں.بھاری اکثریت عرب علماء کی شریف ہے اور اس قسم کے دو غلے علماء نہیں جس قسم کے علماء سے برصغیر میں لوگوں کو واسطے پڑتے ہیں.بڑی قربانی کرنے والے ہیں، ان میں لیڈرشپ کی صلاحیتیں موجود ہیں.خالص ہیں اپنی نیتوں میں، اپنے اعمال میں جہاں تک ممکن ہیں یہ تقویٰ اختیار کرنے والے

Page 86

خطبات طاہر جلد ۸ 81 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء لوگ ہیں.غلطی خوردہ ہیں تو یہ الگ بات ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ لوگ بد اور شریر ہیں نعوذ بالله مــن ذالك يہ بالکل درست نہیں ہے نا جائز بات ہے.اس لئے ایسا اچھا انسانی مواد اور ایسا قیمتی انسانی مواد ہمارے سامنے پڑا ہوا ہے جس تک ابھی تک ہمیں دسترس نہیں ہوئی.اس لئے جہاں جہاں بھی احمدی موجود ہیں وہ عربوں سے اپنے تعلقات کو بڑھائیں.اُن میں سے بعض بڑے جلدی مشتعل ہونے والے بھی ہوں گے یہ بھی میں مانتا ہوں لیکن خالصہ اس لئے کہ لوگوں نے اُن کے دلوں میں غلط فہمیاں پیدا کر رکھی ہیں لیکن جماعت کی طرف سے اب بہت سا ایسا لٹریچر شائع ہو چکا ہے عربی زبان میں پیسٹس تیار ہیں، ویڈیوز ہیں.ایک رسالہ التقویٰ جاری ہوا ہوا ہے کہ ان سب وسائل کو اگر جماعت استعمال کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت تیزی کے ساتھ عربوں کے اندر حیرت انگیز انقلاب بر پا ہوگا.جہاں جہاں جماعت نے رابطہ کیا ہے وہاں نیک نتیجے نکل رہے ہیں.اس لئے یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے اگر میں ویسے جائزہ لے کر ایک نتیجہ نکالتا وہ بھی وہی یہی ہوتا.لیکن میرے تجربے کا جائزہ بھی یہی بتا رہا ہے کہ یہ جو نتیجہ ہے یہ حقیقی ہے.اس لئے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ عربوں کے ساتھ اپنی محبت کے تعلقات قائم کریں.تبلیغ کے لئے ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ملتے ہی پیغام رسانی شروع کر دی جائے.قرآن کریم فرماتا ہے حکمت سے کام لو.عرب قوم میں جو خو بیاں ہیں اُن خوبیوں کی راہ سے آپ ان میں داخل ہوں.بڑے سخی لوگ ہیں ، بہت مہمان نواز ہیں اور اُسی طرح سخاوت کی قدر کرنے والے اور مہمان نوازی کی قدر کرنے والے ہیں.امیر سے امیر آدمی کو اگر غریب آدمی بھی ایک پیالی چائے کی محبت سے پیش کرے تو یہ اُس کے سامنے ہمیشہ احسان مندی کا اظہار کرتے رہیں گے.بہت جلدی دل جیتے جا سکتے ہیں.تو ان سے پہلے پیار اور محبت کا تعلق قائم کریں کیونکہ جب تک پیار اور محبت کا تعلق قائم نہیں ہوگا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے پیغام کونفرت کی نگاہ سے جانچنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور وہ نگاہ ہمیشہ غلط نتیجہ نکالتی ہے.اس لئے اب ایک پہلی مہم کے طور پر دعا اور دوسری مہم کے طور پر عربوں سے وسیع تعلقات قائم کرنے اور تیسری مہم کے طور پر جماعت نے اب تک جو عربوں کے لئے لٹریچر تیار کیا ہے یا دوسرے ذرائع اختیار کر رہی ہے اُن سب سے استفادے کی کوشش کریں.میں اُمید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ آئندہ اور بھی جو امور خاص طور پر اگلی صدی سے پہلے تیاری

Page 87

خطبات طاہر جلد ۸ 82 32 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۹ء کے سلسلے میں میرے ذہن میں آئیں گے میں آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ جو باتیں میں نے آپ سے کہی ہیں ان پر گہری سنجیدگی ، خلوص کے ساتھ عمل شروع کر دیں گے.آخری بات پھر وہی کہ دعا سے غافل نہ ہوں.ہمارے سارے کام دعا سے بننے ہیں ورنہ ہم بہت ہی کمزور، بہت ہی حقیر ، بہت ہی ناطاقت اور بے حیثیت لوگ ہیں.دعا ہی ہے جس نے ہماری حیثیت بنانی ہے.ہمیں زمین سے آسمان پر اُٹھا دینا ہے.غالب کہا کرتا تھا کہ شاہ کا مصاحب ہونے کی وجہ سے میری قدر ہو رہی ہے وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے (دیوان غالب صفحه : ۲۷۹) تو آپ ہیں کون ، ہم کون ہیں، ہماری اگر آبرو ہے تو خدا سے تعلق کی وجہ سے آبرو ہے.اس تعلق کو بڑھا ئیں تو ساری دنیا میں آبرو ہوگی ورنہ ہماری کوئی بھی حیثیت اور کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.

Page 88

خطبات طاہر جلد ۸ 83 خطبه جمعه ۰ ار فروری ۱۹۸۹ء واقفین نو کے والدین کی ذمہ داریاں واقفین نو کے اخلاق سب سے بلند ہونے چاہئیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ارفروری ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آئندہ صدی کی تیاری کے سلسلے میں ایک بہت ہی اہم تیاری کا تعلق واقفین نو سے ہے.وقف نو کی جو میں نے تحریک کی تھی اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بارہ سو سے زائد ایسے بچوں کے متعلق اطلاع مل چکی ہے جو وقف نو کی نیت کے ساتھ دعائیں مانگتے ہوئے خدا سے مانگے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کی خیر وعافیت کے ساتھ ولا دت کا سامان فرمایا.یہ چھوٹے چھوٹے بچے آئندہ صدی کے واقفین نو کہلاتے ہیں.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے خطوط مسلسل ملتے چلے جارہے ہیں.اس سلسلے میں دو طرح کی تیاریاں میرے پیش نظر ہیں مگر اس سے پہلے کہ میں تیاری کا ذکر کروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وقف نو کے لئے جتنی تعداد کی توقع تھی اتنی تعداد بلکہ اس کا ایک حصہ بھی ابھی پورا نہیں ہو سکا اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اس میں پیغام پہنچانے والوں کا قصور ہے.بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں عامۃ الناس تک یہ پیغام پہنچایا ہی نہیں گیا اور جن دنوں یہ تحریک کی گئی تھی اُن دنوں کیسٹ کا نظام آج کی نسبت بہت کمزور حالت میں تھا اور افریقہ کے ممالک، ایسے دیگر ممالک جہاں اُردو زبان نہیں سمجھی جاتی اور بعض علاقوں میں انگریزی بھی نہیں سمجھی جاتی وہاں ترجمہ کر کے کیسٹس پھیلانے کا عملا کوئی انتظام نہیں تھا.اس وجہ سے وہ جو

Page 89

خطبات طاہر جلد ۸ 84 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء براہ راست پیغام کا اثر ہو سکتا ہے اُس سے بہت سے احمدی علاقے محروم رہ گئے.بعد ازاں مؤثر رنگ میں اس تحریک کو پہنچانا یہ انتظامیہ کی ذمہ داری تھی مگر بعض جگہ ذمہ داری کو ادا کیا گیا اور بعض جگہ یا ادانہیں کیا گیا یا نیم دلی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے.پیغام پہنچانا صرف کافی نہیں ہوا کرتا کس جذبے کے ساتھ پیغام پہنچایا جاتا ہے، کس محنت اور کوشش اور خلوص کے ساتھ پیغام پہنچایا جاتا ہے.یہ پیغام کے قبول کرنے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے.مختلف دنیا میں پیغمبر آئے بنیادی طور پر ایک ہی پیغام تھا یعنی خدا کا پیغام بندوں کے نام لیکن جس شان کے ساتھ وہ پیغام حضرت محمد مصطفی ﷺ نے پہنچایا اس شان سے کوئی اور پہنچا نہیں سکا اور جس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ آپ کا پیغام قبول کیا گیا ویسے تاریخ انبیاء میں کسی اور کا پیغام قبول نہیں کیا گیا.اس لئے پیغام پہنچا نا کافی نہیں.کس رنگ میں اور کس جذبے کے ساتھ ، کس خلوص کے ساتھ ، کس درجہ محبت اور پیار کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے پیغام پہنچایا جاتا ہے.یہ وہ چیزیں ہیں جو پیغام کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں.اس لئے میری خواہش یہ تھی کم سے کم پانچ ہزار بچے اگلی صدی کے واقفین نو کے طور پر ہم خدا کے حضور پیش کریں.ابھی کافی سفر باقی ہے اس تعداد کو پورا کرنے میں اور دوست یہ لکھ رہے ہیں کہ جہاں تک اُن کا تاثر تھایا میں نے جو شروع میں خطبے میں بات کی تھی اس کا واقعہ یہی نتیجہ نکلتا ہو گا کہ جو اس صدی سے پہلے پہلے بچے پیدا ہو جائیں گے وہ وقف نو میں لئے جائیں گے اور اُس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو جائے گا لیکن جس طرح بعض دوستوں کے خطوط سے پتا چل رہا ہے وہ خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھ کر کہ اب وقت نہیں رہا وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے اُن کے لئے اور مزید تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے جن تک ابھی یہ پیغام ہی نہیں پہنچا میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وقف نو میں شمولیت کے لئے مزید دو سال کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے اور یہ عرصہ فی الحال دو سال کا بڑھایا جارہا ہے تا کہ اس پہلی تحریک میں شامل ہو جائے ورنہ یہ تحریک تو بار بار ہوتی ہی رہے گی لیکن وہ خصوصاً تاریخی تحریک جس میں اگلی صدی کے لئے ایک واقفین بچوں کی پہلی فوج تیار ہو رہی ہے اُس کا عرصہ آج تا دو سال تک بڑھایا جارہا ہے.اس عرصے میں جماعتیں کوشش کر لیں اور جس حد تک بھی ممکن ہو یہ فوج پانچ ہزاری تو ضرور ہو جائے اس سے بڑھ جائے تو بہت ہی اچھا ہے.بہت سے والدین مجھے لکھ رہے ہیں کہ ان کے متعلق اب ہم نے کرنا کیا ہے؟ جیسا کہ میں

Page 90

خطبات طاہر جلد ۸ 85 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء نے بیان کیا تھا اس کے دو حصے ہیں اول جماعت کی انتظامیہ کو کیا کرنا ہے اور دوسرا بچوں کے والدین کو کیا کرنا ہے؟ جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے اُس کے متعلق وقتاً فوقتاً میں ہدایات دیتا رہا ہوں اور جو جو نئے خیال میرے دل میں آئیں یا بعض دوست مشورے کے طور پر لکھیں ان کو بھی اس منصو بے میں شامل کر لیا جاتا ہے لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے آج میں اس ذمہ داری سے متعلق کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں.خدا کے حضور بچے کو پیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے کوئی معمولی بات نہیں ہے اور آپ یا درکھیں کہ وہ لوگ جو خلوص اور پیار کے ساتھ قربانیاں دیا کرتے ہیں وہ اپنے پیار کی نسبت سے اُن قربانیوں کو سجا کر پیش کیا کرتے ہیں.قربانیاں اور تحفے دراصل ایک ہی ذیل میں آتے ہیں.آپ بازار سے شاپنگ کرتے ہیں عام چیز جو گھر کے لئے لیتے ہیں اُس کو باقاعدہ خوبصورت کاغذوں میں لپیٹ کر اور فیتوں سے باندھ کر سجا کر آپ کو پیش نہیں کیا جاتا لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے تحفہ لینا ہے تو پھر دکاندار بڑے اہتمام سے اُس کو سجا کر پیش کرتا ہے.پس قربانیاں تحفوں کا رنگ رکھتی ہیں اور اُن کے ساتھ سجاوٹ ضروری ہے.آپ نے دیکھا ہو گا بعض لوگ تو مینڈھوں کو ، بکروں کو بھی خوب سجاتے ہیں اور بعض تو اُن کو زیور پہنا کر پھر قربان گاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں، پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور کئی قسم کی سجاوٹیں کرتے ہیں.انسانی قربانی کی سجاوٹیں اور طرح کی ہیں.انسانی زندگی کی سجاوٹ تقویٰ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اُس کی محبت کے نتیجے میں انسانی روح بن ٹھن کر تیار ہوا کرتی ہے.پس پیشتر اس سے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کئے جائیں گے.ان ماں باپ کی بہت ذمہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ ان کے دل کی حسرتیں پوری ہوں.جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنار کھتے ہیں وہ تمنا ئیں پوری ہوں.اس سے پہلے جو مختلف ادوار میں واقفین جماعت کے سامنے پیش کئے جاتے رہے اُن کی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ کئی قسم کے واقفین ہیں کچھ تو وہ تھے جنہوں نے بڑی عمروں میں ایسی حالت میں اپنے آپ کو خود پیش کیا کہ خوش قسمتی کے ساتھ اُن کی اپنی تربیت بہت اچھی ہوئی ہوئی تھی اور وقف نہ بھی کرتے تب بھی وقف کی روح رکھنے والے لوگ تھے.صحابہ کی اولا دیا اول تابعین کی اولا داچھے ماحول میں، اچھی پرورش اور خدا تعالیٰ کے فضل کے

Page 91

خطبات طاہر جلد ۸ 86 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء ساتھ اچھی عادات سے سجے ہوئے لوگ تھے.وہ واقفین کا جو گروہ ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے زندگی کے ہر شعبے میں نہایت کامیاب رہا.پھر ایک ایسا دور آیا جب بچے وقف کرنے شروع کئے گئے یعنی والدین نے اپنی اولاد کو خود وقف کرنا چاہا.اس دور میں مختلف قسم کے واقفین ہمارے سامنے آئے ہیں.بہت سے وہ ہیں جن کو والدین سمجھتے ہیں کہ جب ہم جماعت کے سپر د کریں گے تو وہ خود ہی تربیت کریں گے اور اس عرصے میں انہوں نے اُن پر نظر نہیں رکھی.پس جب وہ جامعہ میں پیش ہوتے ہیں تو بالکل ایسے Raw میٹریل کے طور پر، ایسے خام مال کے طور پر پیش ہوتے ہیں جس کے اندر بعض مختلف قسم کی ملاوٹیں بھی شامل ہو چکی ہوتی ہیں اُن کو صاف کرنا ایک کاردار د ہوا کرتا ہے.اُن کو وقف کی روح کے مطابق ڈھالنا بعض دفعہ مشکل بلکہ محال ہو جایا کرتا ہے اور بعض بد عادتیں وہ ساتھ لے کر آتے ہیں یعنی بعض باتیں جماعت ویسے سوچ بھی نہیں سکتی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بعض لڑکوں کو جامعہ میں چوری کے نتیجے میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے.کسی کو جھوٹ کے نتیجے میں وقف سے خارج کیا گیا ہے.اب یہ باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اچھے نیک ، صالح احمدی میں پائی جائیں کجا یہ کہ وہ واقفین زندگی میں پائی جائیں لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ والدین نے پیش تو کر دیا لیکن تربیت کی طرف توجہ نہ کی یا اتنی دیر کے بعد اُن کو وقف کا خیال آیا کہ اُس وقت تربیت کا وقت باقی نہیں رہا تھا.بعض والدین سے تو یہ بھی پتا چلا کہ اُنہوں نے اس وجہ سے بچہ وقف کیا تھا کہ عادتیں بہت بگڑی ہوئی تھیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اُس طرح تو ٹھیک نہیں ہوتا وقف کر دو تو آپ ہی جا کر جماعت سنبھال لے گی اور ٹھیک کرے گی.جس طرح پرانے زمانے میں بعض دفعہ بگڑے ہوئے بچوں کو کہتے تھے اچھا اس کو تھانیدار بنوادیں گے تو یہ جماعت میں چونکہ نیکی کی روح ہے.تھانیداری کا تو خیال نہیں آتا اُن کو لیکن واقف بنانے کا خیال آجاتا ہے حالانکہ تھانیداری سے تو ایسے بچوں کا تعلق ہو سکتا ہے وقف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.بہت بعید کی بات سوچتے ہیں یہ لوگ.وہ تو لطیفہ ہے تھانیداری والا لیکن یہ تو دردناک واقعہ ہے.وہ تو ایک ہنسنے والی کہاوت کے طور پر مشہور ہے یہ تو ایک بہت بڑا زندگی کا المیہ ہے کہ خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے آپ کو بس گندہ بچہ نظر آیا ہے، ناکارہ محض بچہ نظر آیا ہے جو ایسی گندی عادتیں لے کر پلا ہے کہ آپ اُس کو ٹھیک نہیں کر سکتے.اس لئے یہ جو تازہ کھیپ آنے والی ہے بچوں کی اس میں ہمارے پاس خدا کے فضل سے بہت سا وقت ہے

Page 92

خطبات طاہر جلد ۸ 87 خطبه جمعه ارفروری ۱۹۸۹ء اور اب ہم اگر ان کی پرورش اور تربیت سے غافل رہیں تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے اور ہرگز پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتفاقاًیہ واقعات ہو گئے ہیں.اس لئے والدین کو چاہئے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور جیسا کہ میں بیان کروں گا بعض تربیتی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ دیں اور اگر خدانخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنے تابع طبع کے لحاظ سے وقف کے اہل نہیں ہے تو اُن کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہئے کہ میں نے تو اپنی صاف نیت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بد قسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں اگر ان کے باوجود جماعت اس کو لینے کے لئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں اور نہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے.پس اس طریق پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اب ہمیں آئندہ ان واقفین نو کی تربیت کرنی ہے.جہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے اس سلسلے میں جو صفات جماعت میں نظر آنی چاہئیں وہی صفات واقفین میں بھی نظر آنی چاہئیں بلکہ بدرجہ اولی نظر آنی چاہئیں.ان صفات حسنہ سے متعلق ، ان اخلاق سے متعلق میں مختلف خطبات میں آپ کے سامنے مختلف پروگرام رکھتا رہا ہوں اور اُن سب کو ان بچوں کی تربیت میں خصوصیت سے پیش نظر رکھیں.خلاصہ ہر واقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے، بچپن سے ہی اُس کو بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے اور یہ نفرت اُس کو گویا ماں کے دودھ میں ملنی چاہئے اور باپ کی پرورش کی بانہوں میں.جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے اس طرح سچائی اُس کے دل میں ڈوبنی چاہئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا.ضروری نہیں ہے کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اُس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجے کے مومنوں کے لئے ضروری ہے اس لئے اب ان بچوں کی خاطر اُن کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز بنانا ہو گا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر یا مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ یہ ایک خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو آپ نے بہر حال پورا کرنا ہے.اس لئے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں.قناعت کے متعلق میں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے.بچپن ہی سے ان

Page 93

خطبات طاہر جلد ۸ 88 خطبه جمعه ارفروری ۱۹۸۹ء بچوں کو قانع بنانا چاہئے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہئے اور عقل اور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے یہ تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے.دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک اُن کو پہنچانا ضروری ہے.بچپن سے اُن کے اندر مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہئے.ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی.ترش رو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ محل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ صفت بھی واقفین بچوں میں بہت ضروری ہے.یعنی یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں.مذاق اچھی چیز ہے یعنی مزاح لیکن مزاح کے اندر پاکیزگی ہونی چاہئے اور مزاح کی پاکیزگی دو طرح سے ہوا کرتی ہے.کئی طرح سے ہو سکتی ہے لیکن میرے ذہن میں اس وقت دو باتیں ہیں خاص طور پر.ایک تو یہ کہ گندے لطائف کے ذریعے دل بہلانے اور اپنے یا غیروں کے دل بہلانے کی عادت نہیں ہونی چاہئے اور دوسرے یہ کہ لطافت ہو اُس میں ، مذاق اور مزاح کے لئے ہم لطافت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں یعنی لطیفہ کہتے ہیں اُس کو.لطیفہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ بہت ہی نفیس چیز ہے اور ہر قسم کی کرختگی اور بھونڈھا پن لطافت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ کثافت سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ ہندوستان کی اعلیٰ تہذیب میں جب بھی ایسے خاندانوں میں جہاں اچھی روایات ہیں کوئی بچہ ایسا لطیفہ بیان کرتا تھا جو بھونڈھا ہو اُس کو کہا جاتا تھا کہ یہ لطیفہ نہیں ہے یہ کثیفہ ہے.یہ تو بھانڈھ پن ہے.تو بھانڈھ پن اور اچھے مزاح میں بڑا فرق ہے.اس لئے جو مزاح ہمیں آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں کہیں کہیں نظر آتا ہے کیونکہ اکثر مزاح کے واقعات اب محفوظ نہیں ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے صحابہ کی زندگی میں وہ مزاح نظر آتا ہے اور خلیفتہ اسیح الثانی کی طبیعت میں بھی بڑا مزاح تھا لیکن اُس مزاح کے ساتھ دونوں قسم کی پا کیز گی تھی لیکن بعض ایسے دوستوں کو بھی میں نے دیکھا جنہوں نے مزاح سے یہ رخصت تو حاصل کر لی کہ مزاح میں کبھی وقت گزار لینا کچھ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن یہ فرق نہیں کر سکے کہ مزاح کے ساتھ پاکیزگی ضروری ہے.چنانچہ بعض نہایت گندے اور بھونڈے لطیفے بھی اپنی مجلسوں میں بیان

Page 94

خطبات طاہر جلد ۸ 89 خطبه جمعه ارفروری ۱۹۸۹ء کرتے رہے اور بعض لوگوں نے اُس سے سمجھ لیا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ بہت فرق پڑتا ہے.اپنے گھر میں اچھے مزاح کو جاری کریں، قائم کریں لیکن برے مزاح کے خلاف بچوں کے دل میں بچپن سے ہی نفرت اور کراہت پیدا کریں.یہ چھوٹی سی بات ہے بظاہر اور اس پر میں نے اتنا وقت لیا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ انسانی زندگی میں خصوصاً وہ زندگی جو تکلیفوں سے تعلق رکھتی ہو، جو ذمہ داریوں سے تعلق رکھتی ہو، جہاں کئی قسم کے اعصابی تناؤ ہوں وہاں مزاح بعض دفعہ بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسانی ذہن اور انسانی نفسیات کی حفاظت کرتا ہے.غناء کے متعلق میں پہلے بیان کر چکا ہوں، قناعت کے بعد پھر غناء کا مقام آتا ہے اور غنا کے نتیجے میں جہاں ایک طرف امیر سے حسد پیدا نہیں ہوتا وہاں غریب سے شفقت ضرور پیدا ہوتی ہے.غناء کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غریب کی ضرورت سے انسان غنی ہو جائے.اپنی ضرورت سے غنی ہوتا ہے غیر کی ضرورت کی خاطر.یہ اسلامی غنا میں ایک خاص پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.اس لئے واقفین بچے ایسے ہونے چاہئیں جو غریب کی تکلیف سے غنی نہ بنیں لیکن امیر کی امارت سے غنی ہو جائیں اور کسی کو اچھا دیکھ کر اُن کو تکلیف نہ پہنچے لیکن کسی کو تکلیف میں دیکھ کر وہ ضرور تکلیف محسوس کریں.جہاں تک اُن کی تعلیم کا تعلق ہے جامعہ کی تعلیم کا زمانہ تو بعد میں آئے گا لیکن ابتداء ہی.ایسے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں یقیناً انشاء اللہ نظام جماعت ضرور پروگرام بنائے گا.ایسی صورت میں والدین نظام جماعت سے رابطہ رکھیں اور جب بچے اس عمر میں پہنچیں جہاں وہ قرآن کریم اور دینی باتیں پڑھنے کے لائق ہو سکیں تو اپنے علاقے کے نظام سے یا براہ راست مرکز کو لکھ کر اُن سے معلوم کریں کہ اب ہم کس طرح ان کو اعلیٰ درجہ کی قرآن خوانی سکھا سکتے ہیں اور پھر قرآن کے مطالب سکھا سکتے ہیں کیونکہ قاری دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک تو وہ جو اچھی تلاوت کرتے ہیں اور آواز میں اُن کی ایک کشش پائی جاتی ہے اور تجوید کے لحاظ سے وہ درست ادائیگی کرتے ہیں لیکن اُس سے جان نہیں پڑا کرتی.ایسے قاری اگر قرآن کریم کے معنی نہ جانتے ہوں تو وہ تلاوت کے بت تو بنا دیتے ہیں، تلاوت کے زندہ پیکر نہیں بنا سکتے.وہ قاری جو تلاوت کرتے ہیں سمجھ کر اور اُس تلاوت کے اُس مضمون کے نتیجے میں اُن کے دل پگھل رہے

Page 95

خطبات طاہر جلد ۸ 90 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء ہوتے ہیں، اُن کے دل میں خدا کی محبت کے جذبات اُٹھ رہے ہوتے ہیں اُن کی تلاوت میں ایک زائد بات پیدا ہو جاتی ہے جو اصل ہے، زائد نہیں.وہ روح ہے اصل تلاوت کی.تو ایسے گھروں میں جہاں واقفین زندگی ہیں وہاں تلاوت کے اس پہلو پر بہت زور دینا چاہئے.خواہ تھوڑا پڑھایا جائے لیکن ترجمہ کے ساتھ مطالب کے بیان کے ساتھ پڑھایا جائے اور یہ عادت ڈالی جائے بچے کو کہ جو کچھ بھی وہ تلاوت کرتا ہے وہ سمجھ کر کرتا ہے.ایک تو روز مرہ کی صبح کی تلاوت ہے اُس میں تو ہو سکتا ہے کہ بغیر سمجھ کے بھی ایک لمبے عرصے تک آپ کو اُس کو قرآن کریم پڑھانا ہی ہو گا لیکن ساتھ ساتھ یہ ترجمہ سکھانے اور مطالب کی طرف متوجہ کرنے کا پروگرام بھی جاری رہنا چاہئے.نماز کی پابندی اور نماز کے جو لوازمات ہیں اُن کے متعلق بچپن سے تعلیم دینا اور سکھانا یہ بھی جامعہ میں آ کر سیکھنے والی باتیں نہیں اُس سے بہت پہلے گھروں میں اپنے ماں باپ کی تربیت کے نیچے یہ باتیں بچوں کو آ جانی چاہئیں.اس کے علاوہ تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور دینی تعلیم میں وسعت کا ایک طریق یہ ہے کہ مرکزی اخبار اور رسائل کا مطالعہ رہے.بدقسمتی سے اس وقت بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مقامی اخبار نہیں ہیں اور بعض زبانیں ایسی ہیں جن میں مقامی اخبار نہیں ہیں لیکن ابھی ہمارے پاس وقت ہے اور گزشتہ چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں اپنے اپنے اخبار جاری کرنے کے رجحان بڑھ چکے ہیں.تو ساری جماعت کی انتظامیہ کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جب آئندہ دو تین سال میں یہ بچے سمجھنے کے لائق ہو جائیں یا چار پانچ سال تک سمجھ لیں تو اُس وقت واقفین نو کے لئے بعض مستقل پروگرام، بعض مستقل فیچرز آپ کے رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتے رہنے چاہئیں کہ وقف نو کیا ہے، ہم ان سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ اور بجائے اس کے کہ اکٹھا یک دفعہ پروگرام ایسا دے دیا جائے جو کچھ عرصے کے بعد بھول جائے.یہ اخبارات چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تربیتی پروگرام پیش کیا کریں اور جب ایک حصہ رائج ہو جائے تو پھر دوسرے کی طرف متوجہ ہوں پھر تیسرے کی طرف متوجہ ہوں.واقفین بچوں کی علم بنیاد وسیع ہونی چاہئے.عام طور پر دینی علماء میں یہی کمزوری دکھائی دیتی ہے کہ دین کے علم کے لحاظ سے تو اُن کا علم کافی وسیع اور گہرا بھی ہوتا ہے لیکن دین کے دائرے سے باہر دیگر دنیا کے دائروں میں وہ بالکل لاعلم

Page 96

خطبات طاہر جلد ۸ 91 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء ہوتے ہیں اور اس نے اسلام کو بہت شدید نقصان پہنچایا ہے.وہ وجوہات جو مذاہب کے زوال کا موجب بنتی ہیں اُن میں یہ ایک بہت ہی اہم وجہ ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور وسیع علم کی بنیاد پر قائم دینی علم کوفروغ دینا چاہئے.یعنی پہلے بنیاد عام دنیاوی علم کی وسیع ہو اُس پر پھر دینی علم کا پیوند لگے تو بہت ہی خوبصورت اور بابرکت ایک شجر طیبہ پیدا ہوسکتا ہے.اس لحاظ سے بچپن ہی سے ان واقفین بچوں کو عام جنرل نالج بڑھانے کی طرف متوجہ کرنا چاہئے یعنی آپ متوجہ خود ہوں تو ان کا علم آپ ہی آپ بڑھے گا یعنی ماں باپ متوجہ ہوں اور بچوں کے لئے ایسے رسائل، ایسے اخبارات لگوایا کریں، ایسی کتابیں ان کو پڑھنے کی عادت ڈالیں جس کے نتیجے میں ان کا علم وسیع ہو اور جب وہ سکول میں جائیں تو ایسے مضامین کا انتخاب ہو جس سے سائنس کے متعلق بھی کچھ واقفیت ہو ، عام دنیا کے جو آرٹس کے مضامین ہیں لیکن سیکولر مضامین مثلاً معیشت ہے، اقتصادیات، فلسفہ، نفسیات اور حساب تجارت وغیرہ ایسے جتنے بھی متفرق امور ہیں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ علم بچے کو ضرور ہونا چاہئے.علاوہ ازیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے کیونکہ سکولوں میں تو اتنازیادہ انسان کے پاس اختیار نہیں ہوا کرتا یعنی پانچ مضمون، چھ مضمون ، سات مضمون رکھ لے گا بچہ، بعض یہاں دس بھی کر لیتے ہیں لیکن اس سے زیادہ نہیں جاسکتے.اس لئے ضروری ہے کہ ایسے بچوں کو اپنے تدریسی مطالعہ کے علاوہ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے.اب یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے واقفین زندگی بچوں کے والدین میں سے اکثر کے بس کی نہیں یعنی اُن کو تو میں نصیحت کر رہا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ بہت سے ایسے ہیں بیچارے افریقہ میں بھی ، ایشیا میں ، یورپ، امریکہ میں جن کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ اس پروگرام کو وہ واقعہ عملی طور پر اپنے بچوں میں رائج کر سکیں اس لئے یہ جتنی باتیں ہیں یہ متعلقہ شعبوں کو تحریک جدید کے متعلقہ شعبہ کو نوٹ کرنی چاہئیں اور اس خطبے میں جو نکات ہیں اُن کو آئندہ جماعت تک اس رنگ میں پہنچانے کا انتظام کرنا چاہئے کہ والدین کی اپنی کم علمی بھی اور اپنی استطاعت کی کمی بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں روک نہ بن سکے.چنانچہ بعض جگہوں پر ایسے بچوں کی تربیت کا انتظام شروع ہی سے جماعت کو کرنا پڑے گا.بعض جگہ ذیلی تنظیموں.استفادے کئے جاسکتے ہیں مگر یہ بعد کی باتیں ہیں اس وقت تو ذہن میں جو چند باتیں آرہی ہیں وہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ ہمیں کس قسم کے واقفین بچے چاہئیں.

Page 97

خطبات طاہر جلد ۸ 92 92 خطبه جمعه ارفروری ۱۹۸۹ء ایسے واقفین بچے چاہئیں جن کو شروع ہی سے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی عادت ہونی چاہئے ، جن کو اپنے سے کم علم کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ، جن کو یہ حوصلہ ہو کہ وہ مخالفانہ بات سنیں اور تحمل کا ثبوت دیں.جب اُن سے کوئی بات پوچھی جائے تو تحمل کا ایک یہ بھی تقاضا ہے کہ ایک دم منہ سے کوئی بات نہ نکالیں بلکہ کچھ غور کر کے جواب دیں.یہ ساری ایسی باتیں ہیں جو بچپن ہی سے طبیعتوں میں اور عادتوں میں رائج کرنی پڑتی ہیں اگر بچپن سے یہ عادتیں پختہ نہ ہوں تو بڑے ہوکر بعض دفعہ ایک انسان علم کے بہت بلند معیار تک پہننے کے باوجود بھی ان عام سادہ سادہ باتوں سے محروم رہ جاتا ہے.عام طور پر دیکھا گیا ہے جب کسی سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو فوراجواب دیتا ہے.خواہ اس بات کا پتا ہو یا نہ ہو پھر بعض دفعہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک بات پوچھی اور جس شخص سے پوچھی گئی ہے اس کے علم میں یہ تو ہے کہ یہ بات ہونے والی تھی لیکن یہ علم میں نہیں ہے کہ ہو چکی ہے اور بسا اوقات وہ کہہ دیتا ہے کہ ہاں ہو چکی ہے اور واقفین زندگی کے اندر یہ چیز بہت بڑی خرابی پیدا کر سکتی ہے.میں نے اپنے انتظامی تجربہ میں بارہا دیکھا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے بعض دفعہ بہت سخت نقصان پہنچ جاتا ہے مثلا لنگر خانہ میں میں ناظم ہوتا تھا تو فون پر پوچھا کہ اتنے ہزار روٹی پک چکی ہے کہ جی ہاں پک چکی ہے تسلی ہو گئی.جب پہنچا وہاں تو پتالگا اس سے کئی ہزار پیچھے ہے میں نے کہا آپ نے یہ کیا ظلم کیا ہے، یہ جھوٹ بولا ، غلط بیانی کی اور اس سے بڑا نقصان پہنچا ہے کہ نہیں جی جب وہ میں نے یہ بات کی تھی اُس سے پہلے، آدھا گھنٹہ پہلے اتنے ہزار ہو چکی تھی تو آدھے گھنٹے میں اتنی تو ضرور بننی چاہئے تھی یعنی فارمولا تو ٹھیک ہے لیکن واقعاتی دنیا میں فارمولے تو نہیں چلا کرتے.واقعہ ایسی صورت میں یہ بات نکلی کہ وہاں کچھ خرابی پیدا ہوگئی، کوئی آپس میں لڑائی ہوگئی، گیس بند ہوگئی.کئی قسم کی خرابیاں ایسی پیدا ہو جاتی تھیں تو جس آدھے گھنٹے میں اُس نے کئی ہزار کا حساب لگا یاوہ آدھا گھنٹہ کام ہو ہی نہیں رہا تھا.تو یہ عادت عام ہے.میں نے اپنے وسیع تجربے میں دیکھا ہے کہ ایشیا میں خصوصیت کے ساتھ یہ بہت زیادہ عادت پائی جاتی ہے کہ ایک چیز کا اندازہ لگا کر اُس کو واقعات کے طور پر بیان کر دیتے ہیں اور واقفین زندگی میں بھی یہ عادت آجاتی ہے یعنی جو پہلے سے آئے ہوئے ہیں اور اُن کی رپورٹوں میں بھی بعض دفعہ ایسے نقص نکلتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے.اس لئے اس بات کی بچپن سے عادت ڈالنی چاہئے کہ جتنا علم ہے اُس کو علم کے طور پر بیان

Page 98

خطبات طاہر جلد ۸ 93 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء کریں، جتنا اندازہ ہے اُس کو اندازے کے طور پر بیان کریں اور اگر بچپن میں یہ عادت آپ نے نہ ڈالی تو بڑے ہو کر پھر دوبارہ رائج کرنا، بڑی عمر میں رائج کرنا بہت مشکل کام ہوا کرتا ہے کیونکہ ایسی باتیں انسان بغیر سوچے کرتا ہے.عادت کا مطلب ہی یہ ہے خود بخو دمنہ سے ایک بات نکلتی ہے اور یہ بے احتیاطی بعض دفعہ پھر انسان کو جھوٹ کی طرف بھی لے جاتی ہے اور بڑی مشکل صورتحال پیدا کر دیتی ہے کیونکہ ایسے لوگوں میں سے بہت سے میں نے ایسے دیکھے ہیں جب اُن سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ کیوں کیا تو بجائے اس کے کہ اُس کی صاف بات بیان کریں کہ یہ ہم سے غلطی ہوگئی ہم نے اندازہ لگایا تھا وہ اپنی پہلی غلطی کو چھپانے کے لئے دوسری دفعہ پھر جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی ایسا عذر تلاش کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.جب اُس عذر کو پکڑیں تو پھر ایک اور جھوٹ بولتے ہیں.خجالت الگ ، شرمندگی الگ سب دنیا اُن پہ ہنس رہی ہوتی ہے اور وہ بیچارے جھوٹ ہے جھوٹ بول کے اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.یہ چیزیں بچپن سے شروع ہوتی ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے جب گھر میں پکڑے جاتے ہیں کسی بات پر کہ آپ نے یہ کہا تھا یہ نہیں ہوا اُس وقت وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ماں باپ اس کا نوٹس نہیں لیتے.اُس کے نتیجے میں مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر بعض دفعہ ایسے بگڑتے ہیں کہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے عادتاً وہ یہ کام شروع کر دیتے ہیں.تو ایسے واقفین اگر جامعہ میں آجائیں گے تو جامعہ میں تو کوئی اور ایسا جادو نہیں ہے کہ اچانک ان کی یہ پرانے بگڑے ہوئے رنگ اچانک درست ہو جائیں.ایسے رنگ درست ہوا کرتے ہیں غیر معمولی اندرونی انقلابات کے ذریعے.وہ ایک الگ مضمون ہے.ہم ایسے انقلابات کے امکانات کو رد نہیں کر سکتے لیکن یہ دستور عام نہیں ہے.اس لئے ہم جب حکمت کے ساتھ اپنی زندگی کے پروگرام بناتے ہیں تو اتفاقات پر نہیں بنایا کرتے بلکہ دستور عام پر بنایا کرتے ہیں.پس اس پہلو سے بچوں کو بہت گہری تربیت دینے کی ضرورت ہے یعنی جھوٹ نہیں ہوا کرتا ایک عادت ہے کہ تخمینے کو ایک اندازے کو حقیقت بنا کر پیش کر دینا.پھر عمومی تعلیم میں ان کی بنیاد وسیع کرنے کی خاطر ان کو ٹائپ سکھانا چاہئے جو ٹائپ سیکھ سکتے ہوں.اکا ؤنٹس رکھنے کی تربیت دینی چاہئے.دیانت پہ جیسا کہ میں نے کہا تھا بہت زور ہونا چاہئے.اموال میں خیانت کی جو کمزوری ہے یہ بہت ہی بھیا نک ہو جاتی ہے اگر واقفین زندگی میں

Page 99

خطبات طاہر جلد ۸ 94 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء پائی جائے اور اُس کے بعض دفعہ نہایت ہی خطرناک نتائج نکلتے ہیں.وہ جماعت جو خالصۂ طوعی چندوں پر چل رہی ہے اُس میں دیانت کو اتنی غیر معمولی اہمیت ہے گویا دیانت کا ہماری شہ رگ کی حفاظت سے تعلق ہے.سارا مالی نظام جو جماعت احمدیہ کا جاری ہے وہ اعتماد اور دیانت کی وجہ سے جاری ہے.اگر جماعت میں یہ احساس پیدا ہو گیا خدانخواستہ کہ واقفین زندگی اور سلسلے کے اموال میں کام کرنے والے خود بد دیانت ہیں تو اُن کو جو چندے دینے کی توفیق نصیب ہوتی ہے اس تو فیق کا گلا گھونٹا جائے گا اور چاہیں گے بھی تو پھر اُن کو واقعہ چندہ دینے کی توفیق نہیں ملے گی.اس لئے واقفین کو خصوصیت کے ساتھ مالی لحاظ سے بہت ہی درست ہونا چاہیئے اور اس لحاظ سے اکا ؤنٹس کا بھی ایک گہراتعلق ہے.جو لوگ اکاؤنٹس نہیں رکھ سکتے اُن سے بعض دفعہ مالی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بددیانتی ہوئی ہے اور بعض دفعہ مالی غلطیوں کے نتیجے میں جن کوا کا ؤنٹس کا طریقہ نہ آتا ہولوگ بد دیانتی کرتے ہیں اور افسر متعلقہ اُس میں ذمہ دار ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ لوگ جو اموال پر مقرر ہیں اُن کا مالی لحاظ سے دیانت کا معیار جماعت احمدیہ میں اتنا بلند ہے کہ دنیا کی کوئی جماعت بھی اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن خرابیاں پھر بھی دکھائی دیتی ہیں.عمد ابد دیانتی کی مثالیں تو بہت شاذ ہیں یعنی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں لیکن ایسے واقعات کی مثالیں بہت سی ہیں ، بہت سی سے مراد یہ ہے کہ مقابلہ بہت ہیں کہ جن میں ایک شخص کو حساب رکھنا نہیں آتا، ایک شخص کو یہ نہیں پتا کہ میں دستخط کر نے لگا ہوں تو میری کیا ذمہ داری ہے اس کے نتیجے میں ، کیا مجھے دیکھنا چاہئے.جس کو جمع تفریق نہیں آتی اُس بیچارے کے نیچے بعض دفعہ بد دیانتی ہو جاتی ہے اور بعد میں پھر الزام اُس پر لگتے ہیں اور بعض دفعہ تحقیق کے نتیجے میں وہ بری بھی ہو جاتا ہے بعض دفعہ معاملہ الجھا ہی رہتا ہے پھر.ہمیشہ ابہام باقی رہ جاتا ہے کہ پتا نہیں بد دیانت تھا یا نہیں تھا.اس لئے اکا ؤنٹس کے متعلق تمام واقفین بچوں کو شروع ہی سے تربیت ہونی چاہئے اور ان کا تب ہی میں نے حساب کا ذکر کیا تھا ان کا حساب بھی اچھا ہو اور ان کو بچپن سے تربیت دی جائے کہ کس طرح اموال کا حساب رکھا جاتا ہے.روزمرہ سودے کے ذریعے سے ان کو یہ تربیت دی جاسکتی ہے اور پھر سودا ان کے ذریعے کبھی منگوایا جائے تو اُس سے ان کی دیانتداری کی نوک پلک مزید درست کی جاسکتی ہے.مثلاً بعض بچوں سے ماں باپ سودا منگواتے ہیں تو وہ چند پیسے جو بچتے ہیں وہ جیب میں رکھ لیتے ہیں.بددیانتی کے طور پر نہیں اُن

Page 100

خطبات طاہر جلد ۸ 95 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء کے ماں باپ کا مال ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ پیسے کیا واپس کرنے ہیں.وہ وقت ہے تربیت کرنے کا.اُس وقت اُن کو کہنا چاہئے کہ ایک دھیلہ ایک دمڑی بھی ہو جب سودے کے طور پر منگوائی جائے تو وہ واپس کرنی چاہئے.پھر چاہے دس روپے مانگو دھیلے کی بجائے اُس کا کوئی حرج نہیں لیکن جو دھیلا جیب میں ڈالا جاتا ہے بغیر بتائے کہ جی بچ گیا تھا اس کا کیا واپس کرنا تھا اُس میں آئندہ بد دیانتی کے بیج بو دیے ہیں، آئندہ بے احتیاطیوں کے بیج بو دیے ہیں.تو قو میں جو بگڑتی اور بنتی ہیں دراصل گھروں میں ہی بگڑتی اور بنتی ہیں.ماں باپ اگر بار یک نظر سے اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہوں تو ظیم مستقبل کی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں یعنی بڑی شاندار تو میں اُن کے گھروں میں تخلیق پاتی ہیں لیکن یہ چھوٹی چھوٹی بے احتیاطیاں بڑے بڑے عظیم اور بعض دفعہ سنگین نتائج پر منتج ہو جایا کرتی ہیں.تو مالی لحاظ سے اُن کو تقویٰ کی باریک راہیں سکھائیں کہ جتنی باتیں میں کہہ رہا ہوں ان سب کا تقویٰ سے ہی تعلق ہے اصل میں تو تقویٰ کی یہ کچھ موٹی راہیں ہیں جو عام لوگوں کو آتی ہیں کچھ مزید باریک رہیں ہیں اور واقفین کو ہمیں نہایت لطیف رنگ میں تقوی کی تربیت دینی چاہئے.اس کے علاوہ سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، انصاراللہ جو بعد میں آئے گی لیکن پندرہ سال کی عمر تک خدام کی حد تک تو آپ تربیت کر سکتے ہیں.خدام کی حد تک اگر تربیت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر انصار کی عمر میں بگڑنے کا امکان شاذ کے طور پر ہی کوئی ہوگا ورنہ جتنی لمبی نالی سے گولی چلائی جائے اتنی دور تک سیدھا رہتی ہے.خدام کی حد تک اگر تربیت کی نالی لمبی ہو جائے تو خدا کے فضل سے پھر موت تک وہ سیدھا ہی چلے گا انسان.الا ماشاء اللہ.تو اس پہلو سے بہت ضروری ہے کہ نظام کا احترام سکھایا جائے.پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو.وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اُس سے زخمی ہو جائیں گے.آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہر از خم محسوس کریں گے.یہ ایسا زخم ہوا کرتا ہے جس کو لگتا ہے اُس کو کم لگتا ہے جو دیکھنے والا ہے قریب کا اُس کو زیادہ لگتا ہے اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام

Page 101

خطبات طاہر جلد ۸ 96 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء جماعت سے تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں اُن کی اولا دوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں.واقفین بچوں کو نا صرف اس لحاظ سے بچانا چاہئے بلکہ یہ سمجھانا چاہئے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری تو قعات اس کے متعلق کتنی عظیم بھی کیوں نہ ہوں اُس کے نتیجے میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.اگر کوئی امیر جماعت ہے اور اُس سے ہر انسان کو توقع ہے کہ یہ کرے اور وہ کرے اور کسی توقع کو اُس سے ٹھوکر لگ جاتی ہے تو واقفین زندگی کے لئے بہت ضروری ہے کہ اُن کو یہ خاص طور پر سمجھایا جائے کہ اُس ٹھو کر کے نتیجے میں تمہیں ہلاک نہیں ہونا چاہئے.یہ بھی اُسی قسم کے زخم والی بات ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی دراصل ٹھوکر تو کھاتا ہے کوئی عہدیدار اور لحد میں اتر جاتا ہے دیکھنے والا.وہ تو ٹھو کر کھا کر پھر بھی اپنے دین کی حفاظت کر لیتا ہے اور اپنی غلطی سے انسان استغفار تو کرتا ہے لیکن ہلاک نہیں ہو جایا کرتا اکثر سوائے اس کے کہ بعض خاص غلطیاں ایسی ہوں لیکن جن کا مزاج ٹھوکر کھانے والا ہے وہ اُن غلطیوں کو دیکھ کر بعض دفعہ ہلاک ہی ہو جایا کرتے ہیں، دین سے متنفر ہو جایا کرتے ہیں اور پھر جراثیم پھیلانے والے بن جاتے ہیں.مجلسوں میں بیٹھ کر جہاں دوستوں میں تذکرے ہوئے وہاں کہہ دیا جی فلاں صاحب نے تو یہ کیا تھا، فلاں صاحب نے یہ کیا تھا.ساری قوم کی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں.تو بچوں کو پہلے تو اس بلا سے محفوظ رکھیں پھر جب بڑی عمر کے ہوں تو اُن کو سمجھا ئیں کہ اصل تو محبت خدا اور اُس کے دین سے ہے.کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے خدا کی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو.آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اُس کا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول کے دوستوں کے ایمانوں کو ، اپنے بچوں، اپنی اولادوں کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کر دیں.اپنا زخم حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اُس کے اند مال کے جو ذرائع باقاعدہ خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں اُس کو اختیار کریں لیکن لوگوں میں ایسی باتیں کرنے سے پر ہیز کریں.آج بھی ایسی باتیں ہو رہی ہیں جماعت میں اور ایسے واقعات میری نظر میں آتے رہتے ہیں.ایک شخص کو کوئی تکلیف پہنچی ہے اور اس نے بعض مخلصین کے سامنے وہ باتیں بیان کیں اور باتیں سچی تھیں اور یہ سوچا نہیں کہ ان مخلصین کے ایمان کو کتنا بڑا اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے.بعض واقفین زندگی نے بھی ایسی حرکتیں کیں اُن کو شکوہ ہوا انتظامیہ سے، تبشیر سے، کسی

Page 102

خطبات طاہر جلد ۸ 97 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء سے اور نو احمدی غیر ملکوں کے مخلصین بیچارے ساری عمر بڑے اخلاص سے جماعت سے تعلق رکھتے تھے اُن کو اپنا ہمدرد بنانے کی خاطر یہ بتانے کے لئے کہ دیکھیں جی ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے وہ قصے بیان کرنے شروع کئے اور خود تو اُسی طرح بچ کے واپس چلے گئے اپنے ملک میں اور پیچھے کئی زخمی روحیں پیچھے چھوڑ گئے.اُن کا گناہ کس کے سر پہ ہوگا یہ بھی ابھی طے نہیں ہوا کہ منتظمہ کی غلطی بھی تھی کہ نہیں اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا غلطی منتظمہ کی نہیں تھی ، بدظنی پہ سارا سلسلہ شروع ہوا.لیکن اگر غلطی ہوتی بھی تب بھی کسی کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنی تکلیف کی وجہ سے دوسروں کے ایمان ضائع کرے.پس سچا وفادار وہ ہوا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی جماعت پر نظر رکھے اور اُس کی صحت پر نظر رکھے.پیار کا وہی ثبوت سچا ہے جو حضرت سلیمان نے تجویز کیا تھا اور اس سے زیادہ بہتر قابل اعتماد اور کوئی بات نہیں.آپ نے سُنا ہے، بارہا مجھ سے بھی سنا ہے، پہلے بھی سنتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان کی عدالت میں دو دعویدار ماؤں کا جھگڑا پہنچا.جن کے پاس ایک ہی بچہ تھا کبھی ایک گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی ، کبھی دوسری گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی اور دونوں روتی تھیں اور شور مچاتی تھیں کہ یہ میرا بچہ ہے.کسی صاحب فہم کو سمجھ نہیں آئی کہ اس مسئلہ کو کیسے طے کیا جائے.چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو بڑا مشکل ہے طے کرنا کہ کس کا بچہ ہے.اگر ایک کا بچہ ہوا اور دوسری کو دے دیا گیا تو بڑا ظلم ہو گا اس لئے کیوں نہ اس بچے کو دوٹکڑے کر دیا جائے اور آدھا ٹکڑا ایک کو دے دیا جائے اور آدھا ٹکڑا دوسرے کو دے دیا جائے تا کہ نا انصافی نہ ہو.چنانچہ انہوں نے جلاد سے کہا کہ آؤ اور اس بچے کو عین بیچ سے نصف سے دوٹکڑے کر کے ایک ایک کو دے دو، دوسرا دوسری کو دے دو.جو ماں تھی روتی چیختی ہوئی بچے کے اوپر گر پڑی کہ میرے ٹکڑے کر دو یہ بچہ اُس کو دے دو لیکن خدا کے لئے اس بچے کو کوئی گزند نہ پہنچے.اُس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اس کا بچہ ہے.پس جوخدا کی خاطر جماعت سے محبت رکھتا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہ جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے دے اور ایسی باتیں برداشت کر جائے کہ جس کے نتیجے میں کسی کے ایمان کو گزند پہنچتا ہو.وہ اپنی جان پر سب و بال لے لے گا اور یہی اُس کی سچائی کی علامت ہے لیکن اپنی تکلیف کو دوسرے کی روح کو زخمی کرنے کے لئے استعمال نہیں کرے گا.تو واقفین میں اس تربیت کی غیر معمولی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک دفعہ واقعہ نہیں ہوا، دو دفعہ

Page 103

خطبات طاہر جلد ۸ 98 خطبه جمعه ارفروری ۱۹۸۹ء نہیں ہوا.بیسیوں مرتبہ پہلے ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں بعض دفعہ بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں اور ایک شخص سمجھتا ہے کہ میں نے خوب چالا کی کی ہے خوب انتقام لیا ہے.اس طرح تحریک جدید نے مجھ سے کیا اور اس طرح پھر میں نے اُس کا جواب دیا.اب دیکھ لو میرے پیچھے کتنا بڑا گروہ ہے اور یہ نہیں سوچا وہ گروہ اُس کے پیچھے نہیں تھا وہ شیطان کے پیچھے تھا.وہ بجائے متقیوں کا امام بننے کے وہ منافقین کا امام بن گیا ہے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی ہلاک کیا.پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سہی لیکن غیر معمولی نتائج پیدا کرنے والی باتیں ہیں.بچپن سے ہی اپنے واقفین نوکو یہ باتیں سمجھا ئیں اور پیار اور محبت سے اُن کی تربیت کریں تا کہ وہ آئندہ صدی کی عظیم لیڈرشپ کے اہل بن سکیں.بہت سی باتوں میں سے اب وقت تھوڑا ہے کیونکہ میں نے سفر پہ بھی جانا ہے.ایک بات میں آخر یہ یہ کہنی چاہتا ہوں ان کو وفاسکھائیں.وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے.وہ واقف زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف سے نہیں چمٹتا وہ جب الگ ہوتا ہے تو خواہ جماعت اُس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پر غداری کا داغ لگا لیتا ہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے.اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اس فیصلے کے نتیجے میں یا تو یہ بچے عظیم اولیاء بنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہے.جتنی بلندی ہو اتنا ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی تو بڑھ جایا کرتا ہے.اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کے سبق دیں.بار بار سبق دیں.بعض دفعہ واقفین ایسے ہیں جو وقف چھوڑتے ہیں اور اپنی طرف سے چالاکی کے ساتھ چھوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہم جماعت کی حد سے باہر نکل گئے ، اب ہم آزاد ہو گئے اور اب ہمارا کچھ نہیں کیا جاسکتا.وہ چالا کی تو ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہوتی.وہ چالا کی سے اپنا نقصان کرنے والے ہوتے ہیں.ابھی کچھ عرصہ پہلے میرے سامنے ایک ایسے واقف کا معاملہ آیا جس کی ایسے ملک میں تقرری تھی اگر وہاں ایک معین عرصہ تک وہ رہے تو وہاں کی نیشنیلٹی کا حقدار بن جاتا تھا اور بعض وجوہات سے میں نے اُس کا تبادلہ ضروری سمجھا.چنانچہ جب میں نے اُس کا تبادلہ کیا تو چھ یا سات ماہ ابھی باقی تھے یعنی اُس مدت میں باقی تھے جس کے بعد وہ حقدار بنتا تھا.اُس کے بڑے لجاجت سے اور محبت اور خلوص کے خط آنے شروع ہوئے کہ مجھے کچھ مزید مہلت دے دی جائے یہاں قیام کی اور میں نے وہ مہلت

Page 104

خطبات طاہر جلد ۸ 60 99 خطبه جمعه ارفروری ۱۹۸۹ء دے دی.بعض صاحب فہم لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ مجھے بیوقوف بنا گیا ہے.چنانچہ اُنہوں نے لکھا کہ جناب یہ تو چالا کی کر گیا ہے آپ کے ساتھ اور یہ تو چاہتا ہے کہ عرصہ پورا ہواور پھر آزاد ہو جائے وقف سے پھر اس کو پرواہ کوئی نہ رہے.تو میں نے اُن کو بتایایا لکھا کہ مجھے سب پتا ہے.آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مجھے علم نہیں کہ کیوں یہ ایسا کر رہا ہے لیکن وہ میرے ساتھ چالا کی نہیں کر رہا وہ اپنے نفس کے ساتھ چالا کی کر رہا ہے.وہ اُن لوگوں میں ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے يُخْدِعُونَ اللهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقره: ۱۰) اس لئے میں اس کی ڈور ڈھیلی چھوڑ رہا ہوں تا کہ یہ جو مجھے ظن ہے اور آپ کو بھی ہے یہ کہیں بدظنی نہ ہو.اگر وہ اس قسم کا ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں اور جیسا مجھے بھی گمان ہے تو پھر وقف میں رہنے کے لائق نہیں ہے.تو بجائے اس کے کہ بدظنی کے نتیجے میں یعنی اس فن کے نتیجے میں جو بدظنی بھی ہوسکتی ہے اگر یہ طن غلط ہو تو بدظنی ہے.ہم اُس کو بدلتے پھریں اور اُس کو بچاتے پھریں.اُس کو موقع ملنا چاہئے.چنانچہ وہ حیران رہ گیا کہ میں نے اُس کو اجازت دے دی ہے.پھر اُس نے کہا اب مزید اتنا مجھے مل جائے تو پھر اتنا روپیہ بھی مجھے مل جائے گا.میں نے کہا وہ بھی تم لے لو بے شک اور جب وہ واپس گیا تو اُس کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا.کیسی بیوقوفوں والی چالا کی ہے.وہ بظاہر سمجھ کی بات جو تقویٰ سے خالی ہوا کرتی ہے اُس کو ہم عام دنیا میں چالا کی کہتے ہیں.پس اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں.بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور اُن کو عادت پڑ جاتی ہے.وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اُس کے نتیجے میں بعض دفعہ اُن شوخیوں کی تیزی خود اُن کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے.اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے.اُن کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے ہم نے تو کیا ہے بڑے خلوص کے ساتھ اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ.ایک گیٹ اور بھی آئے گا جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے اُس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ چاہتے ہو کہ نہیں چاہتے.ایک دفعہ امریکہ میں وہ جو ڈزنی لینڈ میں ایک رائیڈ ایسی تھی جس میں بہت ہی زیادہ خوفناک موڑ آتے تھے ، رفتار بھی تیز تھی اُس رائیڈ کی اور اچانک بہت تیزی کے ساتھ مڑتی تھی تو کمزور دل والوں کو خطرہ تھا کہ ممکن ہے کہ کسی کا دل ہی نہ

Page 105

خطبات طاہر جلد ۸ 100 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۹ء بیٹھ جائے.چنانچہ انہوں نے وارنگز لگائی ہوئی تھیں کہ اب بھی واپس جا سکتے ہو ، اب بھی واپس جاسکتے ہو اور پھر آخری ایک وارننگ تھی سرخ رنگ میں کہ اب یہ آخری ہے اب واپس نہیں جاسکو گے.تو وہ بھی ایک گیٹ جماعت میں آنے والا ہے جب ان کے بچوں سے جو آج وقف ہوئے ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ اب یہ آخری دروازہ ہے پھر تم واپس نہیں جاسکتے.اگر زندگی کا سودا کرنے کی ہمت ہے، اگر اس بات کی توفیق ہے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو اور پھر کبھی واپس نہ لو.پھر تم آگے آؤور نہ تم اُلٹے قدموں واپس مڑ جاؤ.تو اُس دروازے میں داخلے کے لئے آج سے ان کو تیار کریں.وقف وہی ہے جو وفا کے ساتھ تا دم آخر قائم رہتا ہے.ہر قسم کے زخموں کے باوجود گھٹتا ہوا انسان بھی اسی راہ پہ بڑھتا ہے واپس نہیں مُڑا کرتا.ایسے وقف کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں.اللہ آپ کے ساتھ ہو، اللہ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم واقفین کی ایک ایسی فوج خدا کی راہ میں پیش کریں جو ہر قسم کے اُن ہتھیاروں سے مزین ہو جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں اور پھر اُن پر اُن کو کامل دسترس ہو.آمین.

Page 106

خطبات طاہر جلد ۸ 101 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء واقفین نو کی تعلیمی صلاحیتوں اور اخلاقی کردار کو نمایاں کرنے کا کام بچپن سے شروع کیا جانا چاہئے ( خطبه جمعه فرموده ۱۷ فروری ۱۹۸۹ء بمقام بیت النور ہالینڈ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: یہ خطبہ جمعہ جو آج میں احمد یہ مشن نو ر ہالینڈ میں دے رہا ہوں دراصل میرے گزشتہ خطبے کا ایک تتمہ ہے اور اس خطبے میں میں نسبتاً آہستہ گفتگو کروں گا کیونکہ اس خطبے میں ساتھ ساتھ ڈچ زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے اور جہاں تک میرا گزشتہ تجربہ ہے یہاں ڈچ ترجمہ کرنے والے گوانگریزی سے تو بہت اچھا اور ساتھ ساتھ رواں ترجمہ کر لیتے ہیں مگر ڈچ زبان میں باوجو دمہارت کے ساتھ ساتھ تیزی سے ترجمہ کرنے کی استطاعت ابھی ہمارے مبلغین میں نہیں ہے.یعنی اُردو سے براہ راست ترجمہ کرنے کی اس لئے فقرے بھی چھوٹے بولنے پڑیں گے تاکہ مضمون کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے.میں نے گزشتہ خطبے میں واقفین کی نئی نسل کی تیاری کے سلسلے میں کچھ نصائح کی تھیں.یعنی واقفین کی اس نسل کی تیاری کے سلسلے میں جو اگلی صدی کے تحفہ کے طور پر جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہے.چونکہ یہ مضمون پوری طرح گزشتہ خطبہ میں ادا نہیں ہو سکا بعض پہلو رہ گئے اور بعض مزید وضاحت کے محتاج تھے اس لئے آج مختصر ا میں اسی مضمون کو بیان کروں گا.واقفین کی تیاری کے سلسلے میں ان کی بدنی صحت کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا ضروری

Page 107

خطبات طاہر جلد ۸ 102 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء ہے.وہ واقفین جو مختلف عوارض کے شکار رہتے ہیں اگر چہ بعض ان میں سے خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر غیر معمولی خدمت بھی سرانجام دے سکتے ہیں لیکن بالعموم صحت مند واقفین بیمار واقفین کے مقابل پر زیادہ خدمت کے اہل ثابت ہوتے ہیں اس لئے بچپن ہی سے ان کی صحت کی بہت احتیاط کے ساتھ نگہداشت ضروری ہے.پھر ان کو مختلف کھیلوں میں آگے بڑھانے کی باقاعدہ کوشش کرنی چاہئے.ہ شخص کا مزاج کھیلوں کے معاملے میں مختلف ہے.پس جس کھیل سے بھی کسی واقف بچے کو رغبت ہو اس کھیل میں حتی المقدور کوشش کے ساتھ ماہرین کے ذریعے اس کو تربیت دلالنے کی کوشش کرنی چاہئے.بعض دفعہ ایک ایسا مربی جو کسی کھیل میں مہارت رکھتا ہو محض اس کھیل کی وساطت سے لوگوں پر کافی اثر ورسوخ قائم کر لیتا ہے اور نوجوان نسلیں اس کے ساتھ خاص طور پر وابستہ ہو جاتی ہیں.پس ہم تربیت کا کوئی بھی رستہ اختیار کریں کیونکہ ہماری نیتیں خالص ہیں اس لئے وہ رستہ خدا ہی کی طرف جائے گا.دنیاوی تعلیم کے سلسلے میں میں نے بیان کیا تھا کہ ان کی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے ، ان کے علم کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے.اس سلسلے میں قوموں کی تاریخ اور مختلف ممالک کے جغرافیہ کو خصوصیت کے ساتھ ان کی تعلیم میں شامل کرنا چاہئے لیکن تعلیم میں بچے کے طبعی بچپن کے رجحانات کو ضرور پیش نظر رکھنا ہوگا اور محض تعلیم میں ایسی سنجیدگی اختیار نہیں کرنی چاہئے جس سے وہ بچہ یا تو بالکل تعلیم سے بے رغبتی اختیار کر جائے یا دوسرے بچوں سے اپنے آپ کو بالکل الگ شمار کرنے لگے اور اس کا طبعی رابطہ دوسرے بچوں سے منقطع ہو جائے.مثلاً بچے کہانیاں بھی پسند کرتے ہیں اور ایک عمر میں جا کر ان کو ناولز کے مطالعہ سے بھی دور نہیں رکھنا چاہئے لیکن بعض قسم کی لغو کہانیاں جو انسانی تربیت پر گندے اور گہرے بد اثرات چھوڑ جاتی ہیں ان سے ان کو بچانا چاہئے خواہ نمونے کے طور پر ایک آدھ کہانی انہیں پڑھا بھی دی جائے.بعض بچے Detective Stories یعنی جاسوسی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن انہیں اس قسم کی لغو جاسوسی کہانیاں پڑھائی جائیں جیسی آج کل پاکستان میں رائج ہیں اور بعض مصنف بچوں میں غیر معمولی شہرت اختیار کر چکے ہیں جاسوسی کہانیوں کے مصنف کے طور پر.تو بجائے اس کے کہ ان کا ذہن تیز ہو، ان کی استدلال کی طاقتیں صیقل ہو جائیں اور زیادہ پہلے سے بڑھ کر ان میں استدلال کی قوت چپکے وہ ایسے جاہلانہ جاسوسی

Page 108

خطبات طاہر جلد ۸ 103 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء تصورات میں مبتلا ہو جائیں گے کہ جس کا نتیجہ عقل کے ماؤف ہونے کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا.شریک ہومز کو تمام دنیا میں جو غیر معمولی عظمت حاصل ہوئی ہے وہ بھی تو ایک جاسوسی ناول لکھنے والا انسان تھا لیکن اس کی جاسوسی کہانیاں دنیا کی اتنی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں کہ آج تک کسی دوسرے مصنف کی اس طرز کی کہانیاں دوسری زبانوں میں اس طرح ترجمہ نہیں کی گئیں.جس طرح شکسپیئر کے نام پر انگریز قوم کو فخر ہے اس طرح اس جاسوسی ناول نگار کے نام پر بھی انگریز قوم فخر کرتی ہے.یہ محض اس لئے ہے کہ اس کے استدلال میں معقولیت تھی اگر چہ کہا نیاں فرضی تھیں.اس لئے اس قسم کی جاسوسی کہانیاں بچوں کو ضرور پڑھائی جائیں جس سے استدلال کی قو تیں تیز ہوں لیکن احمقانہ جاسوسی کہانیاں تو استدلال کی قوتوں کو پہلے سے تیز کرنے کی بجائے ماؤف کر دیا کرتی ہیں.اسی طرح ایک رواج ہندوستان میں اور پاکستان میں آج کل بہت بڑھ رہا ہے اور وہ بچوں کو دیو مالائی کہانیاں پڑھانے کا رواج ہے اور ہندوستان کی دیو مالائی کہانیوں میں اس قسم کے لغو تصورات بکثرت ملتے ہیں جو بچے کو بھوتوں اور جادو کا قائل کریں اور اس قسم کے تصورات اس کے دل میں جاگزین کریں گویا سانپ ایک عمر میں جا کر اس قابل ہو جاتا ہے کہ دنیا کے ہر جانور کا روپ دھار لے اور اسی طرح جادو گر نیاں اور ڈائنیں انسانی زندگی میں ایک گہرا کردار ادا کرتی ہیں.یہ سارے فرضی قصے اگر بڑا پڑھے تو وہ جانتا ہے کہ یہ محض دل بہلاوے کی من گھڑت کہانیاں ہیں لیکن جب بچہ پڑھتا ہے تو ہمیشہ کے لئے اس کے دل پر بعض اثرات قائم ہو جاتے ہیں جو بچہ ایک دفعہ ان کہانیوں کے اثر سے ڈرپوک ہو جائے اور اندھیرے اور انہونی چیزوں سے خوف کھانے لگے پھر تمام عمر اس کی یہ کمزوری دور نہیں کی جاسکتی.بعض لوگ بچپن کے خوف اپنے بڑھاپے تک لے جاتے ہیں.اس لئے کہانیوں میں بھی ایسی کہانیوں کو ترجیح دینا ضروری ہے جس سے کردار میں عظمت پیدا ہو.حقیقت پسندی پیدا ہو، بہادری پیدا ہو، دیگر انسانی اخلاق میں سے بعض خلق نمایاں کر کے پیش کئے گئے ہوں.ایسی کہانیاں خواہ جانوروں کی زبان میں بھی پیش کی جائیں وہ نقصان کی بجائے فائدہ ہی دیتی ہیں.عربی کہانیاں لکھنے والوں میں یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ وہ جانوروں کی کہانیوں کی صورت میں بہت سے اخلاقی سبق دیتے تھے اور الف لیلیٰ کے جو قصے تمام دنیا میں مشہور ہوئے ہیں ان میں اگر چہ بعض بہت گندی کہانیاں بھی شامل ہیں لیکن ان کے پس پردہ روح یہی تھی کہ مختلف

Page 109

خطبات طاہر جلد ۸ 104 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء قصوں کے ذریعے بعض انسانی اخلاق کو نمایاں طور پر پیش کیا جائے.مثلاً یہ قصہ کہ ایک بادشاہ نے اپنی ملکہ کو کتوں کی طرح باندھ کر ایک جگہ رکھا ہوا تھا اور جانوروں کی طرح اس سے سلوک کیا جارہا تھا اور کتے کو بڑے اہتمام کے ساتھ معزز انسانوں کی طرح محلات میں بٹھایا گیا تھا اور اس کی خدمت پر نوکر مامور تھے.یہ قصہ ظاہر ہے کہ بالکل فرضی ہے لیکن جو اعلیٰ خلق پیش کرنا مقصود تھا وہ یہ تھا کہ کتنا ما لک کا وفادار تھا اور ملکہ دغا باز اور احسان فراموش تھی.پس ایسی کہانیاں پڑھ کر بچہ کبھی یہ سبق نہیں لیتا کہ بیوی پر ظلم کرنا چاہئے بلکہ یہ سبق لیتا ہے کہ انسان کو دوسرے انسان کا وفادار اور احسان مند رہنا چاہئے.اسی طرح مولا نا روم کی مثنوی بعض کہانیاں ایسی بھی پیش کرتی ہے جو پڑھ کر بعض انسان سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے مولانا ہیں جو اتنی گندی کہانیاں بھی اپنی مثنوی میں شامل کئے ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ساری توجہ جنسیات کی طرف ہے اور اس سے باہر یہ سوچ بھی نہیں سکتے.چنانچہ ایک دفعہ لاہور کے ایک معزز غیر احمدی سیاستدان نے مجھے مولانا روم کی مثنوی پیش کی جس میں جگہ جگہ نشان لگائے ہوئے تھے اور ساتھ یہ کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں یہ بزرگ انسان تھا، یہ اتنا بڑا مرتبہ تھا، ایسا بڑا فلسفی تھا، ایسا صوفی تھا لیکن یہ واقعات آپ پڑھیں اور مجھے بتائیں کہ کوئی شریف انسان یہ برداشت کرے گا کہ اس کی بہو بیٹیاں ان کہانیوں کو پڑھیں.چنانچہ جب میں نے ان حصوں کو خصوصیت سے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ نتیجہ نکالنے میں اس دوست نے غلطی کی ہے.وہ کہانیاں جنسیات ہی سے تعلق رکھتی تھیں لیکن ان کا آخری نتیجہ ایسا تھا کہ انسان کو جنسی بے راہروی سے سخت متنفر کر دیتا تھا اور انجام ایسا تھا جس سے جنسی جذبات کو انگیخت ہونے کی بجائے پاکیزگی کی طرف انسانی ذہن مائل ہوتا تھا.پس یہ تو اس وقت میرا مقصد نہیں کہ تفصیل سے لٹریچر کی مختلف قسموں پر تبصرہ کروں.یہ چند مثالیں اس لئے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو جو کچھ آپ پڑھاتے ہیں اس کے متعلق خوب متنبہ رہیں کہ اگر غلط لٹریچر بچپن میں پڑھایا گیا تو اس کے بداثرات بعض دفعہ موت تک ساتھ چھٹے رہتے ہیں اور اگر اچھا لٹریچر پڑھایا جائے تو اس کے نیک اثرات بھی بہت ہی شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں اور بعض انسانوں کی زندگیاں سنوار دیا کرتے ہیں.جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے سب سے زیادہ زور شروع ہی سے عربی زبان پر دینا چاہئے

Page 110

خطبات طاہر جلد ۸ 105 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء کیونکہ ایک مبلغ عربی کے گہرے مطالعہ کے بغیر اور اس کے باریک در بار یک مفاہیم کو سمجھے بغیر قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا اس لئے بچپن ہی سے عربی زبان کے لئے بنیاد قائم کرنی چاہئے اور جہاں ذرائع میسر ہوں اس کی بول چال کی تربیت بھی دینی چاہئے.قادیان اور ربوہ میں ایک زمانے میں یعنی جب ہم طالب علم تھے عربی زبان کی طرف تو توجہ تھی لیکن بول چال کا محاورہ نہیں سکھایا جاتا تھا یعنی تو جہ سے نہیں سکھایا جاتا تھا اس لئے اس کا بھی ایک نقصان بعد میں سامنے آیا.آج کل یہ رواج ہے کہ بول چال سکھائی جارہی ہے لیکن زبان کے گہرے معانی کی طرف پوری توجہ نہیں کی جاتی اس لئے بہت سے عرب بھی ایسے ہیں اور تجارت کی غرض سے عربی سیکھنے والے بھی ایسے بہت سے غیر ملکی ہیں جو زبان بولنا تو سیکھ گئے ہیں لیکن عربی کی گہرائی سے ناواقف ہیں اور اس کی گرائمر پر عبور نہیں ہے.پس اپنی واقفین نونسلوں کو ان دونوں پہلوؤں سے متوازن تعلیم دیں.عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی کامل غلامی میں اس زمانے کا جو امام بنایا گیا ہے اس کا اصل لٹریچر اردو میں ہے اور وہ لٹریچر کیونکہ خالصۂ قرآن اور حدیث کی تفسیر میں ہے اس لئے عرب پڑھنے والے بھی جب آپ کے عربی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کی کیسی گہری معرفت اس انسان کو حاصل ہے کہ جو ان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی جو مادری لحاظ سے عربی زبان سیکھنے اور بولنے والے ہیں.چنانچہ ہمارے عربی مجلہ التقویٰ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو اقتباسات شائع ہوتے ہیں ان کو پڑھ کر بعض غیر احمدی عرب علماء کے ایسے عظیم الشان تحسین کے خط ملتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.بعض ان میں سے مفتیوں کے بیٹے ہیں اس عظمت کے آدمیوں کے بیٹے ہیں جن کو دین پر عبور ہے اور دین میں معروف مفتی ہیں ان کا نام لینا یہاں مناسب نہیں لیکن انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم تو حیران رہ گئے ہیں یہ دیکھ کر اور بعض عربوں نے کہا کہ ایسی خوبصورت زبان ہے، ایسی دلکش عربی زبان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کہ ایک شخص نے کہا کہ میں بہت شوقین ہوں عربی لٹریچر کا مگر آج تک اس عظمت کا لکھنے والا میں نے کوئی عرب نہیں دیکھا.پس عربی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اردو لٹریچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے اور بچوں کو اتنے معیار کی اُردو سکھانی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو لٹر پچر سے

Page 111

خطبات طاہر جلد ۸ 106 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء براہ راست فائدہ اُٹھا سکیں.جہاں تک دنیا کی دیگر زبانوں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اکثر اہم ممالک میں ایسی احمدی نسلیں تیار ہورہی ہیں جو مقامی زبان نہایت شستگی کے ساتھ اہل زبان کی طرح بولتی ہیں اور یہاں ہالینڈ میں بھی ایسے بچوں کی کمی نہیں ہے جو باہر سے آنے کے باوجود ہالینڈ کی زبان ہالینڈ کے باشندوں کی طرح نہایت شستگی اور صفائی سے بولنے والے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا اردو کا معیار ویسا نہیں رہا.چنانچہ بعض بچوں سے جب میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ہالینڈی زبان میں تو بہت ترقی کر چکے ہیں لیکن اردو زبان پر عبور خاصہ قابل توجہ ہے.یعنی عبور حاصل نہیں ہے اور معیار خاصہ قابل توجہ ہے.پس آئندہ آپ نے واقفین نسلوں کو کم سے کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا.عربی ، اردو اور مقامی زبان.پھر ہمیں انشاء اللہ آئندہ صدی کے لئے اکثر ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم پیش کرنے والے بہت اچھے مبلغ مہیا ہو جائیں گے.آئندہ جماعت کی ضروریات میں بعض انسانی خلق سے تعلق رکھنے والی ضروریات ہیں جن کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اور اب دوبارہ اس پہلو پر زور دینا چاہتا ہوں.پس واقفین بچوں کے اخلاق پر خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے انہیں خوش اخلاق بنانا چاہئے.ایک تو اخلاق کا لفظ ہے جو زیادہ گہرے خصائل سے تعلق رکھتا ہے اس کے متعلق میں پہلے کئی دفعہ بات کر چکا ہوں لیکن ایک اخلاق کا معنی عرف عام میں انسان کی میل جول کی اس صلاحیت کو کہتے ہیں جس سے وہ دشمن کم بناتا ہے اور دوست زیادہ.کوئی بد مزاج انسان اچھا واقف زندگی ثابت نہیں ہو سکتا اور کوئی خشک مزاج انسان ملاں تو کہلا سکتا ہے صحیح معنوں میں روحانی انسان نہیں بن سکتا.ایک دفعہ ایک واقف زندگی کے متعلق ایک جگہ سے یہ شکائتیں ملیں کہ یہ بدخلق ہے اور ترش روئی سے لوگوں سے سلوک کرتا ہے.جب میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے یہ جواب دیا کہ سب جھوٹ بولتے ہیں.میں تو بالکل درست اور صحیح چل رہا ہوں اور ان کی خرابیاں ہیں جب توجہ دلاتا ہوں تو پھر آگے سے غصہ کرتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ خرابیوں کی طرف سب سے زیادہ توجہ تو حضرت محمد مصطفی عملے نے دلائی تھی اور جتنی دوری اُس دنیا کے لوگوں کی آپ سے تھی اس کا ہزارواں حصہ بھی جماعت احمدیہ کے نوجوان آپ سے فاصلے پر نہیں کھڑے.آنحضرت علی کامل طور پر معصوم تھے اور آپ خود اپنے اندر کچھ خرابیاں رکھتے ہیں جن سے حضور اکرم ﷺے مخاطب تھے جو تمام برائیوں کی آماجگاہ تھے مگر یہ

Page 112

خطبات طاہر جلد ۸ 107 خطبہ جمعہ ۱۷ار فروری ۱۹۸۹ء نو جوان تو کئی پہلوؤں سے سلجھے ہوئے ، منجھے ہوئے اور باہر کی دنیا کے جوانوں سے سینکڑوں گنا بہتر.پھر کیا وجہ ہے کہ آپ جب نصیحت کریں تو یہ بد کہتے ہیں اور متنفر ہوتے ہیں اور آنحضرت ما لہجہ نصیحت فرماتے تھے تو وہ آپ کے عاشق ہو جایا کرتے تھے.دوسرے میں نے ان سے کہا کہ ایک آدھ شکایت تو ہر مبلغ کے متعلق ہر ایسے شخص کے متعلق آہی جاتی ہے جو کسی کام پر مامور ہو.ہر شخص کو وہ راضی نہیں کر سکتا.کچھ لوگ ضرور ناراض ہو جایا کرتے ہیں لیکن ایک شخص کے متعلق شکایتوں کا تانتا لگ جائے تو اس پر غالب کا یہ شعر اطلاق پاتا ہے.گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی (دیوان غالب صفحه : ۳۴۸) پس اپنے بچوں کو خوش اخلاق ان معنوں میں بنائیں کہ میٹھے بول بول سکتے ہوں، لوگوں کو پیار سے جیت سکتے ہوں.غیروں اور دشمنوں کے دلوں میں راہ پا سکتے ہوں ، اعلیٰ سوسائٹی میں سرایت کر سکتے ہوں کیونکہ اس کے بغیر نہ تربیت ہو سکتی ہے نہ تبلیغ ممکن ہے.بعض مبلغوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے اس لئے اپنے ملک کے بڑے سے بڑے لوگوں سے جب وہ ملتے ہیں تو تھوڑی سی ملاقات میں ہی وہ ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل ے تبلیغ کی عظیم الشان را ہیں کھل جاتی ہیں.جہاں تک بچیوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی بار ہاماں باپ سوال کرتے ہیں کہ ہم انہیں کیا بنا ئیں.وہ تمام باتیں جو مردوں کے متعلق یا لڑکوں کے متعلق میں نے بیان کی ہیں وہ ان پر بھی اطلاق پاتی ہیں لیکن اس کے علاوہ انہیں گھر گھر ہستی کی اعلی تعلیم دینی بہت ضروری ہے اور گھریلو اقتصادیات سکھانا ضروری ہے کیونکہ بعید نہیں کہ وہ واقفین بچیاں واقفین کے ساتھ ہی بیا ہی جائیں.جب میں کہتا ہوں کہ بعید نہیں تو مراد یہ ہے کہ آپ کی دلی خواہش یہی ہونی چاہئے کہ واقفین بچیاں واقفین سے بیاہی جائیں ورنہ غیر واقفین کے ساتھ ان کی زندگی مشکل گزرے گی اور مزاج میں بعض دفعہ ایسی دوری ہو سکتی ہے ایک واقف زندگی بچی کا اپنے غیر واقف خاوند کے ساتھ مذہب میں اس کی

Page 113

خطبات طاہر جلد ۸ 108 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء کم دلچسپی کی وجہ سے گزارہ نہ ہو اور واقفین کے ساتھ شادی کے نتیجے میں بعض دوسرے مسائل اس کو در پیش ہو سکتے ہیں.اگر وہ امیر گھرانے کی بچی ہے اس کی پرورش ناز و نعم میں ہے اور اعلیٰ معیار کی زندگی گزار رہی ہے تو جب تک شروع ہی سے اسے اس بات کے لئے ذہنی طور پر آمادہ نہ کیا جائے کہ وہ سادہ سخت زندگی اور مشقت کی زندگی برداشت کر سکے اور یہ سلیقہ نہ سکھایا جائے کہ تھوڑے پر بھی انسان راضی ہو سکتا ہے اور تھوڑے پر بھی سلیقے کے ساتھ انسان زندہ رہ سکتا ہے.پس ایسی لڑکیاں جن کو بچپن سے مطالبوں کی عادت ہوتی ہے وہ جب واقفین زندگی کے گھروں میں جاتی ہیں تو ان کے لئے بھی جہنم پیدا کرتی ہیں اور اپنے لئے بھی.مطالبے میں فی ذاتہ کوئی نقص نہیں لیکن اگر مطالبہ توفیق سے بڑھ کر ہو تو پھر خواہ خاوند سے ہو یا ماں باپ سے یا دوستوں سے وہ زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس معاملے میں کیسا خوبصورت سبق دیا جب فرمایا لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: ۲۸۷ ) که خدا کسی کی توفیق سے بڑھ کر اس سے مطالبے نہیں کرتا تو بندوں کا کیا حق ہے کہ توفیق سے بڑھ کر مطالبے کریں.پس واقفین زندگی کی بیویوں کے لئے یا واقفین زندگی لڑکوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ سلیقہ سکھیں کہ کسی سے اس کی توفیق سے بڑھ کر نہ توقع رکھیں نہ مطالبہ کریں اور قناعت کے ساتھ کم پر راضی رہنا سیکھ لیں.اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بتانی چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف کی ایک تحریک کے ساتھ یہ بھی تحریک فرمائی کہ امیر گھروں کے بچوں کے لئے گھر کے باقی افراد کو یہ قربانی کرنی چاہئے کہ اس کے وقف کی وجہ سے اس کے لئے خصوصیت کے ساتھ کچھ مالی مراعات مہیا کریں اور یہ سمجھیں کہ جتنا مالی لحاظ سے اس کو بے نیاز بنائیں گے اتنا بہتر رنگ میں وہ قومی ذمہ داریوں کی امانت کا حق ادا کر سکے گا.اس نصیحت کا اطلاق صرف امیر گھرانوں پر نہیں بلکہ غریب گھرانوں پر بھی ہوتا ہے.ہر واقف زندگی گھر کو یعنی ہر گھر کو جس میں کوئی واقف زندگی ہے آج ہی یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ خدا ہمیں جس معیار پر رکھے گا ہم اپنے واقف زندگی تعلق والے کو اس سے کم معیار پر نہیں رہنے دیں گے یعنی جماعت سے مطالبے کی بجائے بھائی اور بہنیں اور ماں باپ اگر زندہ ہوں اور توفیق رکھتے ہوں یا دیگر قریبی مل کر ایسا نظام بنائیں گے کہ واقف زندگی بچہ اپنے زندگی کے معیار میں اپنے گھر والوں کے ماحول اور ان کے معیار سے کم تر نہ رہے.

Page 114

خطبات طاہر جلد ۸ 109 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء چنانچہ ایسے بچے جب زندگی کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو کسی قسم کے Inferiority Complex یعنی احساس کمتری کے شکار نہیں رہتے اور امانت کا حق زیادہ بہتر ادا کر سکتے ہیں.جہاں تک بچیوں کی تعلیم کا تعلق ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ تعلیم دینے کی تعلیم دلوانا یعنی بی ایڈ کروانا.مطلب یہ ہے کہ ان کو استانیاں بننے کی ٹرینینگ دلوانا خواہ ان کو استانی بنانا ہو یا نہ بنانا ہوان کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے.اسی طرح لیڈی ڈاکٹرز کی جماعت کو خدمت کے میدان میں بہت ضرورت ہے.پھر کمپیوٹر سپیشلسٹ کی ضرورت ہے اور Typist کی ضرورت ہے اور یہ سارے کام عورتیں مردوں کے ساتھ ملے جلے بغیر سوائے ڈاکٹری کے باقی سارے کام عمدگی سے سرانجام دے سکتی ہیں.پھر زبانوں کا ماہر بھی ان کو بنایا جائے یعنی لٹریری نقطہ نگاہ سے ، ادبی نقطہ نگاہ سے ان کو زبانوں کا چوٹی کا ماہر بنانا چاہئے تا کہ وہ جماعت کی تصنیفی خدمات کر سکیں.اس طرح اگر ہم سب اپنے آئندہ واقفین نسلوں کی نگہداشت کریں اور ان کی پرورش کریں، ان کو بہترین واقف بنانے میں مل کر جماعتی لحاظ سے اور انفرادی لحاظ سے سعی کریں تو میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے اوپر جماعت احمدیہ کی اس صدی کی نسلوں کا ایک ایسا احسان ہوگا کہ جسے وہ ہمیشہ جذ بہ تشکر اور دعاؤں کے ساتھ یاد کریں گے.آخر پر یہ بتانا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ زور تربیت میں دعا پر ہونا چاہئے یعنی ان بچوں کے لئے ہمیشہ دردمندانہ دعائیں کرنا اور ان بچوں کو دعا کرنا سکھانا اور دعا کرنے کی تربیت دینا تا کہ بچپن ہی سے یہ اپنے رب سے ایک ذاتی گہرا تعلق قائم کر لیں اور اس تعلق کے پھل کھانے شروع کر دیں.جو بچہ دعا کے ذریعے اپنے رب کے احسانات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے وہ بچپن ہی سے ایک ایسی روحانی شخصیت حاصل کر لیتا ہے جس کا مربی ہمیشہ خدا بنارہتا ہے اور دن بدن اس کے اندر وہ نقدس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو خدا سے سے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا اور دنیا کی کوئی تعلیم اور کوئی تربیت وہ اندرونی تقدس انسان کو نہیں بخش سکتی جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کے پیار اور اس کی محبت کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے.پس ان بچوں کی تربیت میں دعاؤں سے بہت زیادہ کام لیں.خود ان کے لئے دعا کریں اور ان کو دعا کرنے والے بچے بنائیں.میں امید رکھتا ہوں کہ ان ذرائع کو اختیار کر کے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے سپرد کرنے سے

Page 115

خطبات طاہر جلد ۸ 110 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۹ء پہلے پہلے ہی یہ بچے ہر قسم کے حسن سے آراستہ ہو چکے ہوں گے اور ایسے ماں باپ بڑی خوشی کے ساتھ اور کامل اطمینان کے ساتھ ایک ایسی قربانی خدا کے حضور پیش کر رہے ہوں گے جسے انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق خوب سجا کر اور بنا کر خدا کے حضور پیش کیا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 116

خطبات طاہر جلد ۸ 111 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء سلمان رشدی کی کتاب پر رد عمل پر تبصرہ نیز حضور کی عالم اسلام اور مذاہب عالم کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت تلاوت کی: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّتُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) (الانعام: ۱۰۹) آج کے خطبے میں میں سلمان رشدی کی شیطانی کتاب کے متعلق احباب جماعت کو صورت حال سے مطلع کرنا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں وہ لائحہ عمل بھی پیش کروں گا جو اسلامی تعلیم کی رو سے مسلمانوں کو ایسی صورت حال سے نپٹنے کے لئے اختیار کرنا چاہئے.اس کتاب کا پس منظر کیا ہے؟ پہلی نظر تو فوری پس منظر پر جاتی ہے اور جیسا کہ مختلف صائب الرائے دوستوں نے ، لوگوں نے اظہار کیا ہے.یہ کتاب کوئی انفرادی خباثت نہیں بلکہ اس کے پیچھے اسلام کے خلاف سازش کارفرما نظر آتی ہے لیکن اس سے بھی دور کے پس منظر میں اس سازش کی جڑیں پیوستہ ہیں اور بات وہاں سے شروع ہونی چاہئے.اس زمانے کا مستشرق ایک تہذیب کی ملمع کاری کے پردے میں اسلام پر اب اس رنگ میں حملے کرتا ہے کہ جس سے تہذیبی دائروں کو پامال کئے بغیر وہ اسلام پر چر کے لگاتا رہے اور معصومیت اور نادانی میں بہت سے مسلمان

Page 117

خطبات طاہر جلد ۸ 112 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء ایسے ہیں جو یہ سمجھ بھی نہیں سکتے کہ وہی شرارت اور وہی خباثت جو گزشتہ تاریک صدیوں میں عیسائی مستشرقین کی طرف سے اسلام کے خلاف جاری تھی اس نے نیا رنگ بدلا ہے لیکن خباثت وہی ہے اور دشمنی وہی ہے.چنانچہ اس پہلو سے جب ہم اس دور کے پس منظر پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی سو سال تک مغربی دنیا میں مستشرقین زیادہ تر وہی لوگ تھے جو عیسائی پادری تھے اور عیسائی مذہب سے براہ راست اُن کا ایک خادمانہ تعلق تھا.اس دور میں اسلام کے خلاف جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ننگے حملے تھے.بڑے گندے تھے لیکن ننگے اور واضح اور کھلے حملے تھے اور اُن کا طریقہ کار یہ تھا کہ کمزور ترین روایات جو مسلمانوں ہی کی کتب میں موجود ہیں اُن کو اُٹھا کر اُن کو واقعاتی صورت میں پیش کیا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ ہم حقین ہیں اپنی طرف سے ہم اسلام کے خلاف کوئی بات نہ کہتے ہیں، نہ اس کو تعلیمی روایات کے مطابق سمجھتے ہیں یا تصنیفی روایات کے مطابق سمجھتے ہیں.اس لئے جو کچھ بھی انہوں نے لکھا اس کی بنیادیں اُنہوں نے اسلامی لٹریچر میں سے تلاش کیں.واقدی مؤرخین میں سے اُن کا بہت مرغوب ہوا.اسی طرح طبری نے بے احتیاطی سے جو بعض لغو اور بے ہودہ روایتیں اکٹھی کیں اُن پر اُنہوں نے بنا کی اور مغربی دنیا کے سامنے یہ تاثر پیش کیا کہ دیکھو مسلمان مصنفین جو بڑے رتبے اور اعلیٰ مقام کے مصنفین ہیں جن کا وقار ہے اسلامی دنیا میں اُن کی کتابوں سے ہم یہ حوالے پیش کر رہے ہیں اس لئے یہ ہے حقیقی تحقیق ، اصل تحقیق اور یہی اسلام کی صورت ہے جو اُبھر رہی ہے.جو بد دیانتی انہوں نے کی وہ یہ کہ اُس سے قوی تر روایات زیادہ مسند کتب میں ایسی موجود تھیں جو ان لغو روایات کو کلیہ رد کرتی تھیں, قرآن کریم کی تعلیم اور قرآن کریم میں واضح نصوص اور آیات ایسی موجود تھیں جن کی روشنی میں کوئی دیانتدار محقق ان بیہودہ اور لغو روایات کو نگاہ میں نہیں لا سکتا تھا جو سینکڑوں سال بعد اکٹھی ہوئیں اور جن کے اکثر راوی بالکل جھوٹے تھے اور اسلامی محققین نے جو تحقیقات کیں اسماء الرجال کے سلسلے میں اس میں اُن کا جھوٹ ، اُن کا خبث ، اُن کا منافق ہونا اور اُن کا بدکار ہونا اس قسم کی بہت سی باتیں اُن کتب میں موجود تھیں جو یہ پڑھتے تھے اور جانتے تھے.کیونکہ بڑے بڑے لائق اور قابل آدمی اس پہلو سے موجود تھے کہ انہوں نے اسلامی کتب کی خوب ورق گردانی کی لیکن وہی چیز چینی جو اسلام کے خلاف حملے کے طور پر استعمال ہو سکتی تھی اور بظاہر دیانتداری کا ایک لبادہ اوڑھا لیکن در حقیقت یہ ایک انتہائی بد دیانت تصنیفی کوشش تھی یا تحقیقی کوشش تھی

Page 118

خطبات طاہر جلد ۸ 113 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء جس کو انہوں نے ظاہری طور پر غیر جانبدار تحقیق کی ملمع کاری کے اندر پیش کیا.پھر وہ دور بدلا جیسا کہ میں نے گزشتہ بعض خطبات میں بھی بیان کیا تھا.۱۹۸۴ء میں جب میں انگلستان آیا ہوں تو میں نے اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی کہ متقین نے پھر اسلامی دنیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر اپنی پالیسی تبدیل کر لی اور حملے چھپے ہوئے اور دبے ہوئے کرنے شروع کئے اور زیادہ تر اُن مسائل کو اُچھالا جن مسائل کو اچھالنے میں اسلامی ریاستیں یہ بجھتی تھیں کہ ہماری تائید کی جارہی ہے.مثلا قتل مرتد میں بڑی شدت کے ساتھ ان لوگوں کی تائید کی جو کسی بزرگ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اُس کو قتل کر دینا چاہئے اور حوصلہ مخالفت کے مقابل پر نہیں دکھانا چاہئے.یہ وہ چند باتیں ہیں بنیادی طور پر یعنی حوصلے کی کمی ، برداشت کی کمی اور غیرت کا غلط تصور اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اور ہر قسم کی مخالفانہ رائے کو شدت کے ساتھ کچلنے کی کوشش کرنا یہ وہ کچھ بنیادی باتیں ہیں جن پر انہوں نے زوردیا اور یہ ثابت کیا کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے اور چونکہ اس زمانے کی بعض مسلمان ریاستوں کو اپنے ملک میں جبر وتشدد کے لئے اس قسم کی اسلامی سندات درکار تھیں اور وہ یہی چاہتے تھے کہ اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا جائے جس کے نتیجے میں اُن کا استبداد ان دائروں میں مکمل ہو جائے جن میں وہ حکومت کرتے ہیں اس لئے اُنہوں نے ان چیزوں کو اپنی تائید میں سمجھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہم پر اس دور میں عظیم الشان احسان کیا ہے وہ بہت دائروں پر پھیلا ہوا ہے لیکن یہ دائرہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تمام ایسی غلط روایات کو تحقیقی طور پر رد فرمایا جن کے نتیجے میں اسلام کی تصویر ایک بھیانک مذہب کے طور پر دنیا میں اُبھر رہی تھی اور ایسی تعلیم کے طور پر پیش کیا جو پاک فطری تعلیم تھی جو دلوں میں اپنے ذاتی حسن کی وجہ سے خود بخو د جذب ہونے اور دلوں کو قائل کر لینے کی اہلیت رکھتی تھی.اس پر سب دنیا میں علماء نے شور مچایا اور مخالفین نے احمدیت کے خلاف مہمات شروع کیں کہ یہ اسلام کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں.سلمان رشدی کی کتاب میں جو کچھ لیا گیا ہے وہ اُنہی روایات سے لیا گیا ہے جن کو احمدیت نے رد کیا تھا اور اس جرم میں احمدیوں کے خلاف شدید تحریکات چلائی گئیں اور اس کے مقابل پر ان لغو اور بیہودہ روایات کو تسلیم کر لیا گیا.اُن روایات پر بنا کر کے اُس نے ایک ناول لکھا اور زبان نہایت غلیظ اور بازاری اور سوقیانہ، ایسی غلیظ زبان کہ جو ہماری بعض گلیوں میں بداخلاق بچے روز مرہ گندی زبان

Page 119

خطبات طاہر جلد ۸ 114 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء استعمال کرتے ہیں اُس سے ملتی جلتی زبان ہے.جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق ، آپ کی ازواج کے متعلق اور دیگر بزرگوں کے متعلق استعمال کی گئی.مجھے جو پہلی دفعہ اس کتاب کی طرف متوجہ کیا گیا.یہ تو مجھ میں طاقت نہیں تھی کہ ساری کتاب کا مطالعہ کر سکتا لیکن بعض متفرق احمدی دوستوں کو میں نے اس کام پر مقرر کیا کہ وہ ایسے خاص پیرا گراف ایسے خاص حصے کتاب کے نمایاں کر کے، اُن پر نشان لگا کر میرے سامنے پیش کریں جن سے پتہ چلے کہ یہ کیا کہنا چاہتا ہے، کیوں کہنا چاہتا ہے اور اس کتاب کے پس منظر میں کوئی سازش ہے یا کوئی انفرادی کوشش ہے؟ گو اُن حصوں کا مطالعہ بھی ایک روحانی عذاب تھا لیکن اُن کے مطالعہ سے مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ یہ کتاب ایک شخص کی انفرادی کوشش کا نتیجہ یقینا نہیں ہے.سلمان رشدی جیسا شخص جس کا مذہب سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں جو ایک دہر یا نہ ماحول میں پیدا ہوا، اسی ماحول میں اُس نے پرورش پائی اور پھر انگلستان میں کم عمری میں ایسی عمر میں آیا جب یہ دنیا کی بیہودگیوں اور لذتوں میں پوری طرح ملوث ہو گیا.مذہب سے اس کا کوئی رشتہ کوئی تعلق نہیں.وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ مجھے کوئی ذاتی علم مذہب کے متعلق نہیں ہے.اس کا اس بار یکی کے ساتھ سارے وہ نکات تلاش کر لینا جو دشمنان اسلام، عیسائی دشمنان اسلام خصوصیت کے ساتھ اسلام پر حملے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے یہ کوئی انفرادی ، اتفاقی واقعہ نہیں ہے.اُس سارے زہر کا نچوڑ اس کتاب میں اکٹھا کیا گیا ہے جو گزشتہ کئی صدیوں پر پھیلا ہوا ہے.سارا ز ہر نہیں تو اُس میں سے بہت سے حصے خصوصیت کے ساتھ جو آج کے مغربی مزاج کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں کیونکہ فحشاء یہاں عام ہے اور اُس کے نتیجے میں جنسی مضمون سے تعلق رکھنے والی کتابیں یہاں زیادہ مقبولیت اختیار کرتی جاتی ہیں.اس لئے بعض قسم کی روایات پر بنا پر کر کے اُس نے اس کتاب کو ایک نہایت گندی جنسی جذبات ابھارنے والی کتاب یا جنسی جذبات کو بعض مقدس لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے تصنیف کیا اور رنگ یہ دیا کہ گویا ایک کہانی ہے.بہت سے تبصرے اس پر ہوئے ہیں لیکن ان تبصروں کی تفصیل میں تو میں یہاں نہیں جاؤں گا بعض باتیں اس ضمن میں میں آپ کے سامنے رکھوں گا.ایک بات خصوصیت کے ساتھ نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ کتاب سلمان رشدی کی یقینا نہیں.اُس نے اپنے ایمان کا تو نہیں کیونکہ ایمان اُس کے پاس نہیں تھا اپنی روح کا سودا کیا ہے اور کسی امیر سوسائٹی نے اس کو روپیہ دے کر اس

Page 120

خطبات طاہر جلد ۸ 115 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء بات پر آمادہ کیا ہے.اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس کو مشورہ بھی دیا کہ یہ بہت خطرناک بات ہے اور تم اس میں ملوث نہ ہو اور بعض ٹیلی ویژن پروگراموں میں اُن کا ذکر بھی آیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ روپیا اتنا زیادہ تھا کہ وہ اُس کو رد نہیں کر سکا اور چونکہ خود ایک بے دین اور لا مذہب انسان تھا اور خود اپنی ذاتی زندگی اس قسم کی نہیں تھی کہ جس میں انسان نفاست اور شرافت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھے.اس لئے بالکل بے باک ہو گیا اور معلوم ہوتا ہے یہی اس کو کہا گیا تھا کہ ایسی کتاب لکھو جو انتہائی بے باکی کے ساتھ مغربی دنیا پر سے اسلام کا ہر قسم کا اچھا تصور مٹادے اور یہ جو دوبارہ اسلام کا عروج ہو رہا ہے اور اسلام طاقت پکڑ رہا ہے اس کو اس قسم کے لٹریچر کے ذریعے کلیہ مغربی اثرات سے زائل کر دیا جائے ، مٹا دیا جائے اور وہ بھیانک تصور جو اسلام کا گزشتہ صدیوں میں پایا جاتا تھا وہ پوری قوت کے ساتھ دوبارہ واپس آ جائے اور اسی تصور کے نتیجے میں پھر ہم اسلام کی وہ کوششیں جو یورپ اور مغرب کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی ہورہی ہیں اُن کو نا کام اور نا مراد کر دیں.یہ سازش کا پس منظر معلوم ہوتا ہے.مثلاً ایک بات ایسی ہے جو ایسے اس قسم کے مصنف کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی از خود.جو ایسی بات ہے جس کا اسلام اور عیسائیت کے دلائل کے مقابلے میں اُس کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کا آغاز ہوتا ہے حضرت اقدس اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے.مسلمانوں کا مؤقف یہ رہا ہے ہمیشہ سے چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اس لئے وہ روحانی ورثہ جس کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری دی گئی تھی اُس ورثہ میں آنحضرت علی نے بھی اُسی طرح شامل ہیں اور آپ کے متعلق وہ مبارک پیشگوئیاں بائیل میں موجود ہیں اُن کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے.یہ موقف ہے جو مسلمان ہمیشہ سے آغاز اسلام سے لے کر اب تک لیتے رہے ہیں.اس پر عیسائیوں نے بارہا اپنے دلائل میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت ہاجرہ چونکہ با قاعدہ منکوحہ بیوی نہیں تھیں اور ایک لونڈی تھیں جن سے ازدواجی تعلقات کی حضرت سارہ نے اُن کو اجازت دے دی تھی.اس لئے یہ اولاد جائز اولا د نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس نوعیت کی جائز اولاد نہیں کہ وہ روحانی ورثہ پاسکے.یہ بحث ہے جو وہ لمبے عرصے سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان چلتی چلی آئی ہے اور خصوصیت کے ساتھ احمدی لٹریچر نے جس کا نوٹس لیا اور نہایت قطعی اور مضبوط دلائل سے ہمیشہ عیسائی پادریوں اور

Page 121

خطبات طاہر جلد ۸ 116 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء محققین کے منہ بند کئے ہیں کہ اُن کی دلیل میں کوئی جان کوئی قوت نہیں محض ایک بیہودہ سرائی ہے اس سے بڑھ کر اُس کی کوئی حیثیت نہیں.اب یہ شخص سلمان رشدی دہر یہ بھی ہولیکن پیدائشی طور پر اسلام کا دشمن تو نہیں سمجھا جا سکتا اس کو اور اتنا گہرا مطالعہ اس کا کہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان وہ بنیادی چیزیں کون سی ہیں جن پر اسلام اور عیسائیت کے دلائل کی فتح و شکست کا انحصار ہے.یہ ایسے شخص سے توقع نہیں رکھی جاسکتی اور وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ اس کا کوئی ایسا مطالعہ نہیں.چنانچہ اپنے مطالعہ کی بنیاد کے طور پر طبری کو پیش کرتا ہے اور طبری میں تو ایسا کوئی ذکر نہیں.یقیناً ایسے عیسائی گروہوں کی طرف سے اس کتاب کا مواد اس کو مہیا کیا گیا ہے جو اسلام کی جڑوں پر دور تک حملہ کرنا چاہتے ہیں جو تاریخ میں بہت دور تک گہری دبی ہوئی ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے تک وہ اُتر جاتی ہیں.چنانچہ حضرت اسماعیل کے متعلق وہ بات اس طرح شروع کرتا ہے کہ ناجائز اولا دکہتا ہے اور پھر نہایت ہی غلیظ نا قابل برداشت لفظ استعمال کرتا ہے اُن کے لئے.اگر لا مذہب آدمی ہو تو دوسرے انبیاء پر بھی حملے کرتا لیکن اُس کے حملے خاص طور پر آنحضرت ﷺ کے آباؤ اجداد پر اور اُن بزرگوں پر ہیں جن کی اسلام میں خاص اہمیت ہے لیکن آگے جا کر جب صحابہ کے دور میں اس کے حملوں کا میں نے جائزہ لیا تو ایک عجیب یہ بات سامنے آئی کہ اُمہات المؤمنین پر حملے تو سمجھ آتے ہیں یہ خبیث لوگ ہمیشہ اس طرح کرتے چلے آئے ہیں لیکن حضرت سلمان فارسی کو کیوں خاص طور پر اپنی خباثت کا نشانہ بنایا گیا ؟ اُس وقت یہ دوسرا نقطہ سمجھ آیا کہ چونکہ ایران کے ساتھ آجکل ان قوموں کی بے انتہاء دشمنی چل رہی ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ایران شکست کھا گیا ہے لیکن اُس نے مغرب کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کیا.چاہے احمقانہ طور پر جوابی حملے کئے ہوں، اپنا نقصان کیا ہو، خودکشی کی ہو لیکن چوٹ مارنے سے باز نہیں آیا اور اپنا سر نہیں جھکا یا مغرب کے سامنے.یہ چیز ان کی انا پر ایسے عذاب کا موجب بنی ہوئی ہے کہ ہر دوسری چیز کو معاف کر سکتے ہیں، ثمینی کو معاف نہیں کر سکتے اور ایرانی کو معاف نہیں کر سکتے.اس لئے چونکہ حضرت سلمان فارسی وہ اکیلے صحابی تھے جو ایک بہت صاحب عظمت تھے اور ایرانی تھے اس لئے اُن پر حملے سے یہ سمجھے ، اُن کی سکیم بنانے والے کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ حملہ جو ہے یہ ایران کو تکلیف پہنچائے گا اور اُس کو خاص طور پر چوٹ لگے گی اور ایسا ہی ہوا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بھی حملہ ہے لیکن وہ جانتے

Page 122

خطبات طاہر جلد ۸ 117 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء تھے کہ یہ حملہ شائد شیعوں کو تکلیف نہ پہنچا سکے.اس لئے دوسرا آدمی سلمان فارسی چنا گیا ہے.ابوبکر بھی چنے جاسکتے تھے، عمرؓ بھی اپنے جاسکتے تھے، عثمان اور علی بھی چنے جا سکتے تھے.ان سب کو چھوڑ کر سلمان فارسی کا انتخاب بتاتا ہے کہ یہ ساری کتاب ایک گہری سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور بڑی باریک بینی کے ساتھ یہ ایک ایسا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جو وہاں وہاں چوٹ لگاتا ہے جہاں یہ چوٹ لگانا مقصود ہے.پس یہ کتاب جو ایک غلاظت کی پوٹ ہے یہ محض ایک غلاظت کی پوٹ نہیں بلکہ نشانے کے ساتھ یہ غلاظت مقدس چہروں پر ماری گئی ہے اور اس نیت ، اس ارادے کے ساتھ پھینکی گئی ہے کہ کثرت کے ساتھ اہل اسلام کے دل دکھیں اور بے چین اور بے قرار ہوں اور کچھ نہ کرسکیں.اس کا ایک ایرانی پس منظر بھی ہے اور کچھ یہ بھی کہ گزشتہ کچھ سالوں سے تقریباً پندرہ بیس سال سے کم سے کم مغربی ملکوں نے ایک دوغلی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے.وہ یہ ہے کہ اُن مسلمان ممالک کے دوست ہیں اور اُن کو تقویت پہنچاتے ہیں جو اسلام کے متعلق ایسے متشددانہ رویے رکھتے ہیں اور جبر اور استبداد کی تعلیم کے قائل ہیں.یہ اس لئے ہے تا کہ اپنے ملکوں میں وہ اسلامی نظریے کا سہارا لے کر اشتراکیت کو کچلیں اور مغربی دشمن طاقتوں کو بھی اسی تلوار سے قتل کریں اور ختم کریں.یہ اُن کا منصوبہ ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب وہ اپنے ممالک میں اسلام کے نام پر مظالم کریں تو مغربی دنیا میں بھی ان مظالم کو اچھالا جائے اور اسلام کی ایک نہایت بھیانک تصویر پیش کی جائے.پس جہاں ایک طرف سعودی عرب کو پوری امریکہ کی حمایت حاصل رہی وہاں سعودی حکومت نے جب ایک شہزادی کو قتل کروایا ایک فحاشی کے الزام میں تو اُس کی نہایت ہی مبالغہ آمیز اور خوفناک تصویریں اور فلمیں بنا کر ساری دنیا میں پیش کی گئیں اور سعودی عرب نے اُس کے خلاف بڑا شدید احتجاج کیا.اسی طرح امریکن اخبار سعودی کردار پر حملہ کرنے سے کبھی بھی باز نہیں آئے اور وہ ساری باتیں وہ تھیں جن کے او پر امریکہ کی حکومت کی بھی پوری چھتری تھی اور پوری طرح اُس کی پشت پناہی حاصل تھی.اس لئے یہ ان کے لئے ایک مسئلہ بن گیا کہ وہ حکومتیں جو اسلام کے نام پر جبر کرتی ہیں اور جن کی پوری سرپرستی مغرب کو حاصل ہے اُن کی جبر کی عادتیں یار جحانات اگر اچھل کر مغربی دنیا میں آئیں تو پھر ہم کیا کریں گے؟ چنانچہ ایک طرف ان خوفناک طاقتوں کو تقویت دے کر اور نیا خون دے کر اُبھارنے کی کوشش کرتے رہے دوسری طرف مغرب میں ان کو بدنام کرتے رہے اور یہ چاہتے تھے کہ اسلام کا

Page 123

خطبات طاہر جلد ۸ 118 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء جبر و تشدد عالم اسلام کے خلاف تو استعمال ہو لیکن غیر اسلامی دنیا کی طرف اس کا رجحان نہ ہو.خمینی نے اس رجحان کو پلٹنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی کے ساتھ وہ کوشش جس رنگ میں ہونی چاہئے تھی اُس رنگ میں نہیں تھی بلکہ ایسے رنگ میں تھی کہ اسلام کے لئے مزید بدنامی کا موجب بنا.اب سوال یہ ہے کہ خمینی کے ساتھ ہمارا کوئی نظریاتی تعلق تو نہیں ہے بلکہ مسائل پر بنیادی اختلافات ہیں اور وہ بنیادی شیعہ اور سنی جو شیعیت کی ہر قسم کی شیعہ فرقوں کے اندر مشترک ہیں اور شیعیت کی جان ہے اُن میں ہم اُن سے مختلف ہیں اور اہل سنت کے ساتھ ہمارا اتفاق ہے.اس کے باوجود تقوی اور سچائی کا تقاضہ یہ ہے کہ جہاں کوئی بات درست دیکھی جائے اس کو تسلیم کیا جائے.خمینی نے جو کچھ بھی کیا ہے میرا تا ثر یہ ہے کہ وہ شخص انتہائی غلطی خوردہ سہی لیکن دیانتدار ہے.انتہائی بیوقوف سہی ہمارے نقطہ نگاہ سے اسلام کے لئے لیکن امام خمینی صاحب کے اندر کر دار کا دوغلا پن دکھائی نہیں دیا.چنانچہ ابھی ہالینڈ میں جب نیشنل پریس انٹرویو کے لئے آیا ہوا تھا انہوں نے چاہا اس قسم کا فقرہ میں کہوں کہ ٹمینی صاحب نے جو بات اُٹھائی ہے یہ صرف سیاسی چال کے طور پر ہے.میں نے اُن سے کہا کہ نہیں ہرگز ایسی بات نہیں یہ آپ لوگ پراپیگنڈا کر رہے ہیں لیکن میں اسے درست نہیں سمجھتا.خمینی صاحب کا اسلام کا بگڑا ہوا نتصور ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بڑا بھیا نک تصور ہے، مجھے اس سے کوئی اتفاق نہیں لیکن ثمینی کی شخصیت کے متعلق اب تک میں کوئی ایسی بات معلوم نہیں کر سکا جس سے میں یہ کہ سکوں کہ امام خمینی صاحب عمد أ جھوٹ بول رہے ہیں اور کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں.جس بھیا نک اسلام کو انہوں نے پیش کیا اُس پر عمل بھی کر کے دکھایا اور اس کے نتیجے میں اتنا کشت وخون ہوا ہے.میں اہل مغرب کو یہ کہتا رہا ہوں کہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ تمہیں خمینی کے خلاف کیوں تکلیف ہے؟ اصل تکلیف خمینی کے خلاف یہ نہیں ہے کہ اُس نے اہل مغرب کو کوئی عملاً نقصان پہنچا دیا ہے.واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف جو یہ ہمیشہ سے پھوڑے دل میں پکتے رہے ہیں کہ اسلام کو نیچا دکھایا جائے اور تیسری دنیا کے ممالک کو خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم اُن کو پوری طرح اپنے استبداد کے نیچے رکھا جائے.اس بات کو ثمینی نے الٹایا ہے اور یہ ہے اصل راز ان کی تکلیف کا.ورنہ جہاں تک خمینی صاحب کے بھیانک اسلامی تصور کا تعلق ہے اس کا تمام تر نقصان اسلام کو پہنچا ہے.میں ان کے سامنے یہ بات بار بار کھولتا رہا ہوں ہر پریس کانفرنس میں کہ جتنا خمینی نے آپ کو فائدہ پہنچایا ہے بڑے ہی آپ

Page 124

خطبات طاہر جلد ۸ 119 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء ناشکرے ہیں جو اُس بیچارے کے پیچھے پڑ گئے ہیں.اس نے وہ جنگ لڑی اور اتنا لمبا عرصہ تک لڑی جس کے نتیجے میں تمام عرب دنیا کی اور ایران کی تیل کی دولت یعنی مسلمان دنیا کی تیل کی طاقت اُس کا اکثر حصہ کہنا چاہئے وہ بیہودہ اور ذلیل ہتھیاروں کے بدلے میں ان کو ملتی رہی دولت ، طاقت نہیں کہنا چاہئے تیل کی دولت.اسلامی دنیا کے تیل کی دولت مغربی دنیا کو بعض بوسیدہ اور گھٹیا ہتھیاروں کے بدلے عملاً مفت ملتی رہی ہے.میں جب یہ کہتا ہوں تو علم کی بنا پر کہہ رہا ہوں.بہت سے ایسے ہتھیار ہیں جو ہر روز فنی ترقی کی وجہ سے پرانے ہوتے چلے جارہے ہیں.پرانے زمانوں میں پچاس پچاس سال کے بعد ایسے دور آتے تھے کہ بعض ہتھیاروں کی کھیپ پرانی ہو کر رد کر دی جایا کرتی تھی.اب تو بعض دفعہ ایک سال میں دو دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں تو وہ سارے ہتھیار جو ماڈرن وار فیئر (Modern War Fair) کے لئے جدید حربی فن کے لئے مد مقابل کے خلاف مؤثر طور پر استعمال نہ ہو سکتے ہوں.مثلاً روس نئی ایجادات کر چکا ہے اُس کے لئے پرانی رائفلیں کہاں کام آ سکتی ہیں یا پرانے زمانے کے ٹینک کہاں استعمال آسکتے ہیں، پرانے زمانے کے جہاز کیسے کام آ سکتے ہیں؟ تو یہ ساری چیزیں عموماً یا غرق کر دیا کرتے تھے سمندروں میں اور یا جہاں امکان موجود ہو کوئی توڑ پھوڑ کر کے ان کو دوبارہ استعمال کیا جائے اس میں کافی خرچ کر کے اس کو دوبارہ استعمال کرنا پڑتا تھا.یہ سارا لچر ہتھیاروں کا گند، یہ تیل کے بدلے بیچتے رہے ان ممالک کو.اتنا بڑا خمینی ان کا محسن ثابت ہوا کہ امریکہ کا جو Deficit آپ جانتے ہوں گے آجکل خبریں آتی رہتی ہیں.سالانہ Deficit جس کے اوپر کہتے ہیں کہ بہت ہی بڑے خسارے کے اعداد و شمار ہیں وہ ایک سو تہتر بلین بنتا ہے.ایک سو تہتر بلین ڈالر اور یہ Mind Bogling یعنی دماغ کو ماؤف کرنے والی رقم ہے انسان اس کا تصور نہیں کر سکتا.بلین کتنی بڑی رقم ہوتی ہے اُس کو آپ ڈالروں میں تقسیم کریں اُس کے آپ پاکستانی روپے بنا ئیں تو کئی سڑکیں یہاں سے چاند تک اور واپسی بھی بن سکتی ہیں ان روپوں سے.ایران نے صرف ایران نے اس جنگ میں جو روپیہ خرچ کیا ہے اور زیادہ تر مغرب سے ہتھیار خرید نے پر خرچ کیا ہے اُس کی مقدار چار سو بلین ہے.یعنی امریکہ کے سال ہا سال کے جمع شدہ خسارے کے مقابل پر دوگنی سے بھی زیادہ ، اڑھائی گنا کے قریب.یہ پیسے کہاں گئے کن لوگوں کے پاس گئے ؟ انہی ترقی یافتہ قوموں کے پاس جنہوں نے ہتھیار دیئے اور ان ہتھیاروں سے کون مارا

Page 125

خطبات طاہر جلد ۸ 120 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء گیا ؟ عیسائی مارے گئے یا یہودی مارے گئے یاد ہر یہ مارے گئے؟ سوائے مسلمانوں کے اور کوئی نہیں مارا گیا.یاسنی مسلمان مارا گیا ہے یا شیعہ مسلمان مارا گیا ہے اور اس کے مقابل پر سعودی عرب اور عراق اور دیگر ہمدرد عرب ممالک کی جو دولت خرچ ہوئی ہے اس جنگ کو سہارا دینے میں وہ سب اس کے علاوہ ہے.میں نہیں اندازہ لگا سکتا اُس کے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن بے انتہا روپیہ ہے اور تقریباً تمام تر تیل کی دولت ہے جو مغربی دنیا میں کوڑیوں کے بھاؤ چلی گئی.اب یہ دشمن کس بات کے ہیں پھر.مارے گئے تو مسلمان مارے گئے ، اختلافات ہوئے تو اسلامی دنیا میں ہوئے.جو کچھ مظالم ہوئے وہ مسلمان نے مسلمان پر توڑے.ساری دنیا میں اسلام کی بدنامی کے سامان پیدا کر کے آپ کے حضور پیش کئے اور ابھی آپ کا انتقام ختم نہیں ہو رہا.اس لئے دراصل یہ انتقام اُس انا کے کچلنے کے نتیجے میں ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور اس چیز کو یہ معاف نہیں کر سکتے.اس لئے خمینی نے جو کچھ بھی کیا ہے اس سے مجھے اختلاف ہے کیونکہ اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، اپنی قوم پر ظلم کیا ہے، عالم اسلام پر ظلم کیا ہے لیکن یہ بات ضرور کہنی پڑتی ہے کہ اُس نے جو کچھ بھی سمجھا ، جس کو باطل سمجھا اُس کے سامنے سر نہیں جھکایا اور یہ وہ تکلیف ہے جو شاید صدیوں میں کبھی ان کو محسوس نہ ہوئی ہو اس شدت کے ساتھ جیلسی (Jelicy) اب محسوس ہوئی ہے.اس لئے ان کو یہ معاف کرنے کے لئے تیار نہیں.چنانچہ جب خمینی صاحب نے اس خبیثا نہ کتاب کے اوپر سلمان رشدی کے قتل کا حکم جاری کیا تو ان کا رد عمل غیر متوازن اور نہایت ہی شدید تھا.ایک تو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ان کو ہاتھ آ گیا دوبارہ لیکن اُس سے قطع نظر اُنہوں نے ساری دنیا میں شور مچایا کہ انسان کی تقریر کی آزادی کا حق اتنی بڑی عظمت ہے تہذیب نو کی کہ ہم اس پر حملہ برداشت نہیں کر سکتے.کون ہوتا ہے زبان کے چرکوں کے نتیجے میں جسم پر چر کے لگانے والا اور پھر اعلان کر رہا ہے ہمارے ملک کے ایک باشندے کے خلاف.اب سلمان رشدی کے حق میں اتنا شدید ردعمل کہ اچانک سارا یورپ متحد ہو جائے اور امریکہ کی پوری طاقت بھی اس کی پشت پناہی کرنے لگے اور اپنے سیاسی سفارتکار ان ملکوں سے اچانک بلالیں اور ان کے سفارتکار بھجوا دیں.یہ سوچنے والی بات ہے کون سی اس بات میں معقولیت ہے.جبکہ خود ان کے اپنے ملک میں احمدیوں کے خلاف قتل کے اعلانات کئے گئے ، اخباروں میں چھپے اور میرے سر کی چالیس ہزار پاؤنڈ قیمت ڈالی گئی اور ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی.ابھی حال ہی میں ایک

Page 126

خطبات طاہر جلد ۸ 121 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء so called عالم یعنی جو عالم کہلاتے ہیں دنیا میں وہ تشریف لائے اور انہوں نے بیان دیا کہ ہر احمدی واجب القتل ہے.اس لئے ان کا علاج صرف یہی ہے کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے.وہ اخبار میں خبر شائع ہوئی.کسی احمدی نے ہوم آفس کو بھجوائی اُن کی طرف سے جواب آیا کہ ابھی تک ہم اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا کوئی جرم انہوں نے کیا ہے یا نہیں کیا.جس قوم کے ان اعلانات پر یہ رد عمل ہو جو ان کے ملک میں ایک آدمی کے خلاف نہیں بلکہ پوری جماعت کے خلاف دیئے جارہے ہیں جو معصوم ہے جس نے کوئی بدی نہیں کی ، کوئی قانون نہیں تو ڑا ، کسی کا دل نہیں دکھایا اُن کا رد عمل خمینی کے متعلق اتنا شدید کہ اُس نے قتل کا فتویٰ دے دیا ہے یہ صاف بتا رہا ہے کہ سیاست کھیلی جارہی ہے.اس میں اخلاقیات والا حصہ اور ضمیر کی آزادی والا حصہ محض ایک دکھاوا ہے.کچھ انتقامات ہیں، کچھ پرانے جذبے اسلام کے خلاف ہیں، کچھ نفرتیں ہیں جو نئی شکل میں سر اٹھاتی رہتی ہیں اور اب اس شکل میں اس پرانی دیرینہ نفرت نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے اور ثمینی صاحب اس کو انگیخت کرنے میں ایک ذریعہ بن گئے..قرآن کریم دفاع کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ ہر مسلمان پر واجب قرار دیتا ہے اور ہر سرحد پر گھوڑے باندھنے کی تلقین کرتا ہے.خواہ وہ نظریاتی سرحد ہو، خواہ وہ جغرافیائی سرحد ہو لیکن اسلام بعض قسم کی جوابی کارروائیوں کی اجازت نہیں دیتا اور بعض قسم کے حملوں کی اجازت نہیں دیتا.اُن میں سے ایک یہ ہے کہ کسی کے بزرگوں کے اوپر حملہ کیا جائے، کسی کا دل دُکھایا جائے.چنانچہ وہ آیت جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے یہ اصل اسلامی تعلیم ہے.فرمایا وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ یعنی آزادی تقریر اپنی جگہ ہے.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقره: ۲۵۷) کا حکم اپنی جگہ ہے لیکن مسلمان کی زبان پر پابندی لگارہا ہے، اسلام اور غیروں پر حملے کرنے کے لحاظ سے پابندی لگا رہا ہے.اس مذہب کو یہ ایک آمرانہ اور بہیمانہ مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جرات کرتے ہیں.کوئی شرم، کوئی اخلاقی اقدار کا خیال تک نہیں ہے.ان کو ان کے مستشرق جو واقعہ اسلام کے نفلی علوم پر دسترس کرتے ہیں اُن کے سامنے ساری باتیں موجود ہیں.قرآن جانتے ہیں، قرآن کے تراجم کئے ہوئے ہیں ان لوگوں نے لیکن اس آیت کو یہ کبھی بھی اسلام کے دفاع میں پیش نہیں کریں گے.

Page 127

خطبات طاہر جلد ۸ 122 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء سوال یہ ہے کہ آزادی ضمیر کا حق سب سے زیادہ اسلام نے قائم کیا ہے اور آزادی تقریر کا حق بھی اسلام بڑی شان کے ساتھ مسلمانوں کو اور ساری دنیا کو دیتا ہے لیکن بعض جگہ شرافت کی حدود شروع ہو جاتی ہیں.اُن حدود میں آزادی کے نام پر داخل ہونے کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور تعلیم ایسے خوبصورت رنگ میں پیش کرتا ہے کہ غیروں کو نہیں روکتا کہ تم حملے نہ کرو بلکہ مسلمانوں کو روکتا ہے کہ تم غیروں کے مقدس لوگوں پر حملے نہ کرو.اس تعلیم کو اگر مسلمان ممالک نے اپنایا ہوتا تو کبھی یہاں تک نوبت نہ پہنچ سکتی.اگر پہنچتی بھی تو دنیا کے منہ پر وہ یہ باتیں مار سکتے تھے کہ ہم تو تمہارے مقدس بزرگوں کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں.اُن کی بھی ہم حفاظت کرتے ہیں جن کو ہم سچا سمجھتے ہیں.وہ تو ہم نے کرنی ہی تھی لیکن اُن کی بھی کرتے ہیں جن کو ہم سچا نہیں سمجھتے اور سینکڑوں ایسے غیر مذاہب کے بزرگ ہیں جن کی احمدیت کی نظر میں تو اس وجہ سے عزت ہے کہ ہم اسلامی عمومی تعلیم کی رو سے اُن کو سچا سمجھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے اکثر فرقے اُن کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور اُن کے لئے بعض دفعہ عزت کا لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتے.اس قرآنی تعلیم کی رو سے جن کو وہ جھوٹا سمجھتے تھے اُن کی عزتوں کی حفاظت کرتے کیونکہ قرآن کریم نے تو یہاں تک فرمایا کہ جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو.اس سے زیادہ بہتر اور کیا تصور ہو سکتا ہے.بزرگوں کی تعلیم ان مذاہب کے بزرگوں کی عزت کرنا تو اس کے نیچے ہے جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہیں دینی.فرمایا کہ اگر ایسا کرو گے تو پھر اگر انہوں نے تمہارے خلاف گالیاں دیں پھر تمہیں اعتراض کا کوئی حق نہیں ہوگا.پھر انہوں نے اگر تمہارے خدا کو، تمہارے بزرگوں کو گالیاں دیں تو تم نے خود اُن کو دعوت دی ہوگی کہ آؤ اور ایسا کرو.تو کتنی حسین تعلیم ہے اسلام کی جو ضمیر کو آزاد بھی کرتی ہے لیکن بھٹکنے سے بھی روکتی ہے.اب مغرب نے جو اختیار کیا ہے اپنے دفاع کا طریق وہ یہ ہے کہ ہم آزادی ضمیر اور آزادی تقریر پر کسی قیمت پر حملہ نہیں ہونے دیں گے اور کہتے ہیں کہ سلمان رشدی نے جو کچھ لکھا ہے ہم اس میں اس لئے دخل نہیں دے سکتے کہ ہمارے ملک میں آزادی تقریر ہے.تمہارے ممالک میں بدتہذیبیاں ہیں ، جہالتیں ہیں، تعصبات ہیں، تمہارا مذہب ایسا ہے کہ جو دوسرے کی زبان بندی کرتا ہے اس لئے تم لوگ یہ سمجھ نہیں سکتے کہ انسانی ضمیر کی آزادی کہتے کس کو ہیں.ہمیں دیکھو ہم ان قدروں کے علمبر دار بنے ہوئے ہیں.جن قدروں کا سچا حقیقی علمبر دار اسلام تھا ان قدروں کی غلط

Page 128

خطبات طاہر جلد ۸ 123 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء صورتوں کے یہ علمبر دار بنے اور اپنے آپ کو دنیا کی عظیم ترین تہذیب کا محافظ اور پیغامبر بنائے ہوئے ہیں.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کی یہ حفاظت کر رہے ہیں وہ بالکل اس کے برعکس ہے جو اسلام نے تعلیم دی تھی.اب تجزیہ کر کے دیکھیں کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اے مسلمانو تم دوسروں کے بزرگوں کو خواہ وہ سو فیصدی جھوٹے بھی ہوں برا بھلا نہ کہو اور اس میں ہم تمہیں آزادی نہیں دیتے.یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں آزادی کا تصور یہ ہے کہ دوسروں کے بزرگوں کو خواہ وہ کروڑہا کروڑ انسانوں کے نزدیک صاحب عظمت ہوں برا بھلا کہو اور نہایت غلیظ زبان میں برا بھلا کہو اور یہ ہے آزادی ضمیر کا تصور اور یہ ہے انسانی آزادی کا تصور.کیا دوسری طرف ضمیر کوئی نہیں ہے؟ کیا زبان کو آزادی ہے اور کانوں کو کوئی آزادی نہیں ہے؟ کیا زبان کا حق ہے اور کان کا نہیں؟ کیا یہ حقوق ایک سمت سے دوسری سمت میں روانہ ہوتے ہیں اور دوسری سمت کا کوئی بھی خیال تمہیں نہیں ہے.یہ عدم توازن ہے جس کو مسلمانوں کو کھول کر اُن کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور پھر یہاں پر ایک دوغلا پن ہے.ایک تضاد ہے ان کے اپنے عمل میں.بلا شیمی (Blasphamy) کا ایک قانون ہے جو اس ملک میں رائج ہے لیکن وہ صرف عیسائیت کے لئے ہے.اب دیکھیں یہاں اسلام اور عیسائیت کا کتنا نمایاں فرق سامنے آتا ہے.ان کا جو قانون ہے وہ یہ ہے اور اُس کو حج میڈ لاء (Judge Made Law) کہتے ہیں یعنی پارلیمنٹ نے تو یہ قانون نہیں بنایا مگر روایہ چلا آرہا ہے جس کو عدالتوں نے تقویت دی اُس کی توثیق کی.وہ قانون یہ ہے کہ عیسائیت کے خلاف اور حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف کوئی ایسی زبان برداشت نہیں کی جائے گی جو تضحیک کا رنگ رکھتی ہو تذلیل کا رنگ رکھتی ہو ، اس میں فاسقانہ لفظ استعمال کئے گئے ہوں.وہاں آزادی ضمیر کہاں گئی ، وہاں آزادی تقریر کہاں چلی گئی؟ اپنے ملک میں قانون رائج ہے موجود ہے اُسے ایک طرف چھپائے ہوئے ہیں.اسلام یہ قانون دے رہا ہے کہ تم نے دوسرے مذہبوں کی عزت کرنی ہے اور خبر دار جو اس قانون کو پامال کیا اور اس مذہب کو کہتے ہیں بہت ہی تنگ نظر اور جاہلانہ اور فرسودہ مذہب ہے اور ان کے ہاں صرف اپنے بزرگوں کی حفاظت کا قانون ہے اور جب اُن سے کہا جائے کہ دوسرے بزرگوں کی عزت کرو تو کہتے ہیں کہ آزادی ضمیر ، آزادی تقریر کے مخالف بات ہے.مجھ سے جب پریس انٹرویو ہوئے کچھ یہاں.یہاں تو بعض معززین کی دعوت میں سوال ہوا تھا.ہالینڈ میں کئی پریس انٹرویو ہوئے اُن کے سامنے میں نے یہ

Page 129

خطبات طاہر جلد ۸ 124 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء مسئلہ رکھا میں نے کہا آزادی تقریر اپنی جگہ درست ہے لیکن آپ کا عمل یورپ کے سیاستدان کا عمل بتا رہا ہے کہ یہ بے محابا نہیں ہے اور بے حد نہیں ہے.جب آزادی تقریر بعض حصوں میں ، بعض سرحدوں سے گزرنے کی کوشش کرتی ہے تو آپ اُس پر قدغن لگاتے ہیں اُس کی راہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں چنانچہ میں نے کہا جس انگلستان میں آجکل شدت کے ساتھ سلمان رشدی کی کتاب کی تائید میں باتیں ہو رہی ہیں اور آزادی تقریر کے نام پر ہو رہی ہیں.وہاں کی پارلیمنٹ میں اگر مسز تھیچر یا اور پارلیمنٹ ممبروں کے خلاف ویسی ہی خبیثا نہ زبان استعمال کی جائے جیسی اس کتاب کے مصنف نے دنیا کے مقدس ترین بزرگوں کے متعلق استعمال کی ہے تو کیا آزادی تقریر کے نام پر آپ یہ زبان برداشت کریں گے.کیا انگلستان کی پارلیمنٹ اس کو اجازت دے گی؟ ایسے شخص کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے گندے الفاظ خود کھا جائے.ورنہ اُسے اٹھا کے ایوان سے باہر پھینک دیا جائے گا تو وہاں آزادی تقریر کا حق کیوں یاد نہیں آتا؟ اس لئے کہ آپ کی عقل آپ کو بتاتی ہے کہ آزادی تقریر کا حق غیر محدود نہیں ہو سکتا.بعض دائروں میں اسے محدود کرنا ہوگا اور اسمبلی کا دائرہ اُن دائروں میں سے ایک ہے.مذہب کا دائرہ اس سے زیادہ حقدار ہے کہ وہاں اس حق کو اس حد تک محدود کیا جائے کہ کسی پر ظالمانہ قہقے نہ لگائے جائیں.پس یہ جھوٹ ہے کہ آزادی ضمیر کی آزادی تقریر کی حفاظت کی جارہی ہے.بیچ میں سے وہ بہت خوش ہیں کہ خوب ہمیں موقع ملا ہے عالم اسلام سے بدلہ لینے کا اور ان کو دُکھ پہنچانے کا اور تہذیب کے نام پر کسی کو دُکھ دینا یہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس سے عالم اسلام کو دکھ پہنچے.ایک پہلو تو اس کا یہ ہے جو آپ کے پیش نظر رہنا چاہئے دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ ہیں جو اس صورتحال کو سمجھ ہی نہیں سکتے.مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے ایسی کثرت کے ساتھ مضامین لکھتے اور صورتحال کو واضح کرتے اور یہ جو درمیانی طبقہ ہے جو لا علم طبقہ یہ اس وقت اس جھوٹے پراپیگنڈے کی لپیٹ میں کلیہ آچکا ہے.یہ اس لئے ان باتوں کو نہیں سمجھتے کہ ایک تو جیسا کہ میں نے بیان کیا آزادی تقریر کا تصور غلط رنگ میں ان کے سامنے رکھا گیا ہے.دوسرے دو کمزوریاں اس وقت مغربی قوموں میں جاگزین ہو چکی ہیں.گہرے طور پر ان میں جڑیں پکڑ چکی ہیں.ایک بے حیائی اور دوسرے مذہب سے دوری.چنانچہ یہاں حضرت عیسی علیہ السلام کے

Page 130

خطبات طاہر جلد ۸ 125 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء متعلق بھی بعض دفعہ ایسی ایسی لغو باتیں چھپ جاتی ہیں کہ کوئی غیرت مند عیسائی دراصل اُس کو برداشت نہیں کر سکتا مگر غیرت اگر کم ہو جائے تو کیا جائے؟ مسلمان تکلیف اُٹھاتے ہیں.احمدی تکلیف اُٹھاتے ہیں مسلمان کی حیثیت سے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کو عیسائی ملکوں میں بھی گالیاں دی جاتی ہیں.ان کا تصور بگڑا ہوا ہے اور پھر جنسیات نے اتنا قبضہ کر لیا ہے ان کے دماغ پر کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ناول میں جنسی چٹکے چھوڑ نا تو ضروری ہو گیا ہے اس کے بغیر ناول مزیدار ہو ہی نہیں سکتا.جہاں تقدس کا تصور مٹ چکا ہو، جہاں جنسیات قوم کے مزاج پر غالب آ چکی ہو وہاں ایسی کتاب جس میں مقدس ہستیوں پر حملہ کیا گیا ہے اور جنسی پہلو سے حملہ کیا گیا ہے وہ ان کے نزدیک ایک دلچسپ ناول ہے اس سے زیادہ کچھ بھی حیثیت نہیں.ان کو بتانا چاہئے کہ مسلمانوں کی طرز فکر تم سے مختلف ہے.ہمارے جذبات اور ہیں، ہماری قدریں اور ہیں.ہمیں سمجھنا ہو تو اپنی عیسائیت کی پچھلی صدیوں میں جا کر دیکھو.تم انہیں جہالت کی صدیاں کہہ کے رد کر رہے ہو.ہم سمجھتے ہیں اس وقت تھوڑی سی غیرت کی روشنی تم میں موجود تھی جواب تم میں نہیں ہے.ایک پہلو سے تم روشنی میں داخل ہوئے ہو دوسرے پہلو سے تاریکی میں قدم بڑھا رہے ہو.پس مذہبی پہلو سے اور نقدس کے تصورات کے لحاظ سے تم روشنیوں سے اندھیرے میں سفر کر رہے ہو.اس زمانے میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اس کے ہزارویں حصے کو برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا جتنا اب کھلم کھلا روز ٹیلی ویژن ، اخبارات میں کہا جاتا ہے.تو یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے خود اپنے بزرگوں کو جسے خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں اُس پر حملے کی کھلی اجازت دی ہوئی ہے تو مسلمان کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے کہ جن کو ہم نبی بھی نہیں سمجھتے اُن کے اوپر ہم نہ حملہ کریں.یہ وہ تضادات ہیں جو سمجھانے والے ہیں اور بتانے والے ہیں اور خوب بات کھولنی چاہئے کہ یہ وجوہات ہیں جس طرح ان کی پارلیمنٹ کا حوالہ ہے، بعض تہذیبی اقدار کا حوالہ ہے یہ بتانا چاہئے کہ قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لئے بعض تہذیبی تقاضے تمہیں پورے کرنے ہوں گے.عالم اسلام ایک بڑی طاقت ہے اور آج جبکہ دنیا بد امنی کا گہوارہ بنی ہوئی ہے یہاں امن پیدا کرنے کے لئے تمہیں عقل اور سلیقہ اختیار کرنا چاہئے اور ایسی طرز اختیار کرنی چاہئیں کہ بلاوجہ کسی قوم کا دل نہ دکھے.یہ سمجھانے کا عصر اس تمام تحریک میں غائب رہا ہے.چنانچہ جب ہالینڈ میں مجھ سے

Page 131

خطبات طاہر جلد ۸ 126 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء پریس انٹرو یولیا گیا اور وہاں اور یہاں میں ایک فرق میں نے یہ دیکھا.یہاں آج کل اسلام کے حق میں معقول باتیں اور سمجھانے کی باتیں کی جائیں تو اُن کو پریس والے شائع ہی نہیں کرتے.اور ہالینڈ اس لحاظ سے بالکل آزاد تھا.اُنہوں نے نہایت عمدگی اور دیانتداری سے اس انٹرویو کو ریڈیو میں بھی مشتہر کیا اور اخبارات میں بھی شائع کیا اور انہوں نے بتایا کہ کیا ہمیں اعتراض ہے، کیوں اعتراض ہے، کیا کرنا چاہئے؟ میں نے اُن سے کہا کہ تم لوگ زبان کی آزادی کے علمبرار ہو.کیا تمہاری آزاد زبان ایک بیہودہ بات کو رد کرنے کے لئے استعمال نہیں ہو سکتی تھی ؟ اس پہ کیا قدغن لگی تھی ؟ کیوں تمہارے سیاسی راہنماؤں نے ، کیوں تمہارے دانشوروں نے اُس ظالم انسان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا اور اُسے رد نہیں کیا اور کیوں اپنے عوام الناس کے سامنے تم نے یہ بات نہیں اُٹھائی کہ مسلمانوں کے دل بڑے حساس ہیں اس معاملے میں اور یہ شرافت کی اقدار کے خلاف بات ہے کہ ایسے لغو حملے کسی بزرگ کے متعلق کرنا جس کے اوپر قوم کے لکھوکھہا انسان جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور کروڑہا ہیں جو جانیں قربان کرنے کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں لیکن لازما لکھوکھا ایسے ہیں جو عملاً ہنستے ہوئے اپنی جان فدا کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.یہ آگ سے کھیلنے والی بات ہے اس کو سمجھو.تمہارے تعلقات ہیں عالمی تعلقات مسلمانوں سے اُن کو نقصان نہ پہنچاؤ.اگر شرافت کی خاطر نہیں تو اپنے مفاد کی خاطر اور عقلی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تم اپنے طرز عمل کو تبدیل کرو اس قسم کی نصیحت کی باتیں کچھ رشدی کے خلاف باتیں کی ہوتیں اور عالم اسلام کو آپ یہ کہتے کہ ہمارے قانون سر دست ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم اس کتاب کو بین (Ban) نہ کریں.عالم اسلام کارد عمل نسبتاً زیادہ سلجھا ہوا ہوتا اور رشدی کی کتاب کے خلاف عیسائی دنیا سے باتیں سُن کر کچھ تو ان کے دل ٹھنڈے ہوتے لیکن یہاں آزادی زبان استعمال نہیں کی اور غلاظت کو تقویت دینے میں آزادی تقریر کی باتیں ہورہیں ہیں.جس طرف بھی دیکھیں ایک غلط رد عمل ہے جس نے صورتحال کو انتہائی بھیا نک بنا دیا ہے.مسلمانوں کے غلط رد عمل نے اتنا نقصان پہنچایا ہے اسلام کو کہ یہ کتاب اپنی ذات میں کبھی بھی اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی.کتابوں کو جلایا گیا، بھنگڑے ڈالے گئے ، گالیاں دی گئیں.اس کے نتیجے میں یہ لوگ اس تاریخی پس منظر میں کہ اسلام جہاد کی تعلیم دیتا ہے، غیر کوقتل کرنے کی تعلیم دیتا ہے غلط افسانے اپنے ذہنوں میں بنا بیٹھے.یہاں انگلستان میں عامۃ الناس سے آپ بات کر

Page 132

خطبات طاہر جلد ۸ 127 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء.کے دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے اُن کا یہ تصور ہے کہ اسلام مسلمان یہاں اب ہر غیر کی گردن کاٹنے کے لئے تیار بیٹھا ہوا ہے اور ہماری سوسائٹی میں بدامنی پھیل جائے گی اور عذاب نازل ہو جائے گا اور ہم برداشت نہیں کر سکیں گے حالانکہ کل ایک ملین کی تعداد ہے مسلمان کی اور ان کا جوش جتنی تیزی سے اُٹھتا ہے بد قسمتی سے اُسی تیزی سے بیٹھ بھی جاتا ہے.صرف دائم رہنے والی نفرتیں پیچھے چھوڑ رہے ہیں اور اسلام کے حق میں کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے لیکن اس سے بہت زیادہ نقصان یہ پہنچا ہے کہ وہ کتاب جو اپنی ذات میں شدید پراپیگنڈے کے باوجود بھی مقبول نہیں ہو رہی تھی اور بعض ممالک اس کو رد کر چکے تھے، انگلستان اس کو رد کر چکا تھا بغیر کسی احتجاج کے، جاپان اس کو رد کر چکا تھا بغیر کسی احتجاج کے.انہوں نے کہا ہم ہرگز اس کا ترجمہ اپنے ملک میں شائع نہیں ہونے دیں گے اور اس کتاب کے خلاف قومی طور پر ایسے محرکات تھے جن کے نتیجے میں بعض حکومتیں اس کو اپنے ملک میں شائع کرنے سے خوف کھا رہی تھیں.چند لوگ پڑھتے اور کچھ دیر کے بعد کتاب ملک میں غائب ہو جاتی ، گر جاتی.نہایت فضول قسم کی کتاب ہے.شریف لوگوں کو زیادہ اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن اب اتنی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے کہ کروڑ ہا مغربی دنیا کا انسان اس کتاب کو لینے کے لئے ترس رہا ہے.پورا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح وہ مہیا ہو جائے.جب مسز تھیچر نے Spycatcher کے خلاف مہم چلا ئی تھی تو اُن کے ناقدین نے یہی بات کہی تھی کہ تم تو اس کتاب کو انگریز کی نظر سے اوجھل رکھنا چاہتی تھی یہ تمہاری مہم ہی ہے جس نے اس کو اتنی تقویت بخشی ہے لیکن وہ مہم تو پھر ایک معقول دائرے سے تعلق رکھتی تھی جو آپ مہم بے سروپا کریں تو وہ زیادہ تر آپ کو نقصان پہنچاتی ہیں دشمن کو فائدہ پہنچاتی ہیں.پس ایک نہایت غلیظ کتاب یہاں تک شہرت پاگئی کہ امریکہ میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اب اُس کے نہایت گندے اقتباسات جو دراصل مسلمان کی دلآزاری کا موجب تھے پڑھ کر سنائے جارہے ہیں.یعنی کتاب خریدنے کی بھی ضرورت نہیں رہی وہ غلاظت اور وہ خباثت کروڑ ہا انسانوں تک گھر بیٹھے پہنچ رہی ہے.تو انسان کو تو جوابی کارروائی حکمت سے کرنی چاہئے.بدقسمتی سے مسلمانوں میں کوئی معقول سلجھی ہوئی لیڈرشپ نہیں ہے اور وہ مولوی ہے اُس کو اتنی عقل بھی نہیں ہے کہ اسلام کے حق میں کس قسم کی تحریکات چلانی چاہئیں اور کس قسم کی تحریکات سے احتراز کرنا چاہئے اور سارا عذاب اس زمانے میں مسلمان پر یہ ملاں ہے جس کو دنیا کے حالات کی ، دنیا کی سیاست کی ، دنیا

Page 133

خطبات طاہر جلد ۸ 128 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء کی خدمتوں کی ہوش ہی کوئی نہیں ہے وہ صرف وقتی طور پر ، ہر اس تحریک میں حصہ لیتا ہے جس کے نتیجے میں بے چینی پھیلے، Blood shed ہو، خون ہو قتل و غارت ہو، گالیاں دی جائیں اس کے سوا اس کو کوئی اہلیت نہیں رہی.اس کا جو رد عمل یہاں پیدا ہو چکا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ ابھی ہو گا.وہ Rationalism کو تقویت ملے گی اور آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کے خلاف دیر تک اب وہ لوگ اس ناکام کوشش کے نتیجے میں جو انہوں نے کی ہے سازشیں کرتے رہیں گے ، نئی قسم کی مصیبتیں کھڑی کرتے رہیں گے اور جو کچھ بھی سوسائٹی میں مسلمان نے ایک مقام حاصل کیا تھا اُس مقام سے گر کر کہیں پہنچ گیا ہے اور بے مقصد.اگر کسی تحریک کے نتیجے میں مقام چھوڑ کر قعر مذلت میں بھی جانا پڑتا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت کو بحال کیا جاتا اور آپ کی حفاظت کی جاتی تو میں اس کے حق میں صلى الله تھا، اور میں آج بھی اس کے حق میں ہوں، ہمیشہ اس کے حق میں رہوں گا لیکن آنحضرت عیے کی عزت کی حفاظت کی بجائے آپ کو دنیا میں اور زیادہ اور وسیع طریق پر گندی صورت میں پیش کرنے کے لئے ایک ذریعہ آپ بن جائیں اور خود قومی خود کشی بھی کریں یہ کس اسلام کے نتیجے میں ہوا، یہ کس حکمت اور کس عقل کے مطابق ہو رہا ہے اور ادھر حالت یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے شرارت کر کے خاص طور پر ایران پر حملہ کیا تھا اور توقع یہ رکھتے تھے جس نے بھی یہ شرارت کی ہے کہ ایران اس کی جوابی کارروائی کرے گا.اب جو عرب کا دل ہے یعنی مکہ اور مدینہ اور حجاز کی سرزمین وہاں سے کوئی جوابی کارروائی کا اعلان نہیں ہورہا.ایران بول رہا ہے اس لئے مصر سے فتویٰ ہو گیا ہے کہ نہیں بلا شیمی (Blasphamy) کے اوپر کسی کو قتل کرنے کا فتوی دینے کی اجازت نہیں.کیسے تضادات پیدا ہو گئے ہیں.ایک طرف یہ تعلیم کہ اگر کوئی آنحضرت ﷺ کی عزت پر کوئی اشارہ بھی ایسی بات کہے جو گستاخی سمجھی جائے اس کا قتل فرض ہے اور کہاں ثمینی کی دشمنی میں اب یہ فتویٰ کہ اتنی غلیظ کتاب جو سراسر خباثتوں پر مشتمل ہے اُس کے مصنف کے اوپر بھی موت کا فتویٰ جاری نہیں کیا جاسکتا اسلامی تعلیم کی رو سے.نہ اس غیر دنیا میں مذہب رہا نہ اپنی دنیا میں مذہب رہا.وہاں بھی ایک جھوٹی سیاست اور ملمع کاری ہے یہاں بھی ایک جھوٹی سیاست اور ملمع کاری ہے.وہ دیکھئے پاکستان کے ایک مشہور عالم کہلانے والے مولوی محمد طفیل صاحب جنہوں نے افغان صورتحال سے خوب فائدہ اُٹھایا ضیاء کے زمانے میں.اس سلمان رشدی نے معافی کا اعلان کیا

Page 134

خطبات طاہر جلد ۸ 129 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء کہ مجھے معاف کر دیا جائے اور انہوں نے کہا ہاں ہم تمہیں معاف کرتے ہیں.ایک احمدی اگر آنحضرت ﷺ کے عشق میں لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کا نعرہ بلند کرتا ہے اُس کو تم واجب القتل قرار دیتے ہو اور کسی قیمت پر معاف کرنے کے لئے تیار نہیں اور بے حیائی کی حد یہ ہے کہ ایک نہایت ہی خبیث مصنف جس نے آنحضرت ﷺ اور دیگر بزرگ انبیاء اور صحابہ پر نہایت گندے اور نا پاک حملے کئے جس سے ایک غیرتمند مسلمان کا خون کھولنے لگتا ہے اُس کو تم اس لئے معاف کر دیتے ہو کہ وہ کہتا ہے میں معافی مانگتا ہوں اور ساتھ یہ بھی اعلان کرتا ہے.انہی ریڈیوز ، ٹیلیویژنز کے اوپر کہ کاش میں نے اس سے زیادہ گندی کتاب ، اس سے زیادہ سخت کتاب لکھی ہوتی اور ایک لفظ بھی اپنی کتاب کے مضمون کے خلاف نہیں لکھتا اور آپ کہتے ہیں جی اُس نے کہہ دیا ہم دل دکھانے پر بھی معافی مانگ رہے ہیں یہ صاحب.اس لئے ہم معاف کر دیتے ہیں.کمال ہے معافی کا تصور بھی اور انتقام کا تصور بھی.جو عشاق محمد مصطفی ، وہ تو گردن زدنی ہیں تمہارے نزدیک اور جو خبیث گندے اور نا پاک حملے کرنے والے ہیں اور حدوں سے تجاوز کرنے والے ہیں.ان کے منہ کی جھوٹی معافی پر تم ان کو معاف کرنے کے لئے تیار ہو گویا تم خدا بنے بیٹھے ہو.تمہارے ہاتھ میں اس کی معافی اور اس کی اصلاح کا معاملہ ہے.ہرگز تمہارے ہاتھ میں نہیں.محمد مصطفی عیدے کی جو غیرت ہمارے خدا کے دل میں ہے.خدا رکھتا ہے محمد مصطفیٰ کی غیرت.وہ کبھی ایسے خبیث کو معاف نہیں کرے گا.جس نے اس بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ دنیا کے سب سے مقدس انسان پر سب سے غلیظ حملے کئے.تم ہوتے کون ہو معاف کرنے والے.قطعا طور پر نہیں دیتا اسلام.یہ اسلام، احمدیت کی تعلیم نہیں اس تعلیم کے خلاف تم احمدیت کے خلاف ہمیشہ گندی سازشیں کرتے رہے اور تحریکات چلاتے رہے.لیکن آج خمینی نے جب یہ قتل کا فتویٰ دیا تو تم اس قتل کے فتویٰ کے بھی خلاف ہوگئے.یہ تمہارا تقویٰ ، یہ تمہارا مذہب، یہ تمہاری سیاست ہے.اس کو تم اسلام کہتے ہو؟ وہی اسلام پینے گا دنیا میں جو محمد مصطفی ﷺ کا اسلام ہے جس کے ساتھ احمدیت دل و جان کے ساتھ وابستہ ہے اور ہمیشہ وابستہ رہے گی اور اس اسلام سے ہٹنے کے نتیجے میں تم نے خود دشمن کے ہاتھ میں وہ ہتھیار پکڑا دیئے جن کو پکڑ کر وہ اب غلیظ حملے کر رہا ہے اور تمہارے پاس حقیقت میں ان کے جواب کی کوئی کارروائی نہیں رہی ، کوئی موقع نہیں رہا، کوئی ہتھیار نہیں رہا.

Page 135

خطبات طاہر جلد ۸ 130 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء پس میں احمدیوں کو اب یہ تلقین کرتا ہوں کہ صورتحال کے تجزیہ کے نتیجے میں وہ ایسی مؤثر اور دیر پا کارروائی کریں جو آئندہ نسلوں تک پھیل جائے.اگلی صدی، اس سے اگلی صدی ، اُس سے اگلی صدی.اب یہ ایک صدی کا معاملہ نہیں ہے.محمد مصطفی ﷺ کا سارا زمانہ غلام ہے.اپنے پہلے زمانے کے بھی وہ بادشاہ تھے اور آئندہ زمانوں کے بھی وہی بادشاہ ہیں اس لئے ہمیشہ کے لئے جماعت احمد یہ ایسی کوششوں میں وقف ہو جائے جس کے نتیجے میں دشمن کے ہرنا پاک حملے کو ناکام بنایا جائے.پس میں جماعت کی اُن نسلوں کو خصوصیت سے مخاطب ہوں جو ان ملکوں میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اسلام پر حملے ہوتے ہیں کہ اگر چہ ہم ان حملوں کے لئے دفاع کا مضمون جہاں سمجھتے ہیں لیکن یہاں کی زبان کے اسرار ہمیں نہیں آتے.وہ لوگ جنہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی ہے ہندوستان میں یا پاکستان میں یا دیگر ممالک میں شاذ اُن میں سے ایسے ہیں جن کا بچپن کا ماحول وہی تھا جو اہل زبان انگریزی دانوں کا ماحول ہوا کرتا ہے.جیسے اعلیٰ ، اعلیٰ تو نہیں کہنا چاہئے ایسے انگریزی سکولوں میں ، Convent سکولوں میں پڑھے جس کے نتیجے میں دین کا بے شک کچھ نہ رہا ہولیکن انگریزی زبان پر دسترس ہوگئی اور اس محاورے کے واقف ہو گئے جو ان کو پسند آتا ہے.اس لئے اپنی نئی نسلوں کو مقامی زبانوں میں ماہر بنائیں اور نئی نوجوان نسلوں میں سے کثرت کے ساتھ اخبار نویں پیدا کریں کیونکہ صرف زبان کا محاورہ کافی نہیں اخبار نویسی کی زبان کا محاورہ ضروری ہے اور اس نیت سے کریں کہ ساتھ ساتھ یہ اسلام کا گہرا مطالعہ بھی کریں گے تاکہ ان کی زبان دانی اسلام کے حق میں اور محمد مصطفی ماہ کے دفاع میں استعمال ہو.اس لئے امریکہ ہو یا افریقہ ہو یا چین ہو یا جاپان ہو یا یورپ کے متفرق ممالک ہوں یا ایشیا کے دیگر ممالک جہاں جہاں بھی احمدی خدا کے فضل کے ساتھ موجود ہیں اور مقامی طور پر ایسی پرورش انہوں نے پائی ہے اور ایسی تعلیم حاصل کی ہے کہ اس ملک کے الله اہل زبان شمار کئے جاسکتے ہیں ان کو محمد مصطفی ﷺ کے دفاع کے لئے وقف ہو جانا چاہئے اور اس نیت سے ادب اور کلام پر دسترس حاصل کرنی چاہئے اور قادر الکلام بننا چاہئے کہ خود انہی کے ہتھیاروں سے انہی کے انداز سے ہم ان کے متعلق جوابی کارروائی کریں گے اور اسلام کا دفاع کریں گے اور حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کے تقدس کی حفاظت کریں گے اور یہ جنگ آج کی چند دنوں کی جنگ نہیں ہے یہ لوگ اس حملے کو بھول جائیں گے اور یہ تاریخ کی باتیں بن جائیں گی اور پھر ایک بد بخت اُٹھے گا اور

Page 136

خطبات طاہر جلد ۸ 131 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء پھر حملہ کرے گا اور پھر ایک بد بخت اُٹھے گا اور پھر حملہ کرے گا.اس لئے احمدیت کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے آنحضور ﷺ کے سامنے سینے تان کے کھڑی ہو جائے.جس طرح حضرت طلحہ نے کیا تھا کہ جو تیر حضرت محمد مصطفی ﷺ پر برسائے جارہے تھے اپنے ہاتھ پر لئے اور ہمیشہ کے لئے وہ ہاتھ بے کار ہو گیا اس طرح اپنا سینہ سامنے تان کر کھڑا ہو جائے تمام تیر جو ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ پر چلائے جارہے ہیں اپنے سینوں پر لیس یہ اسلام ہے یہ اسلام کی محبت ہے اس طرح اسلام کا دفاع ہونا چاہئے اور وہ سارے مضامین جو اس کتاب میں چھیڑے گئے ہیں کہانی کے رنگ میں ان کا محققین اور اہل علم مطالعہ کریں اور ان کے دفاع پر کثرت کے ساتھ مضامین شائع کروائیں اور ایک ایک چیز کو لے کر اب جب کہ یہ دلچسپی قائم ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسلام کا پوری طرح دفاع کریں اور یہ فوری کارروائی کا حصہ ہے اور اس کے لئے ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے.خوش قسمتی سے میری کتاب ”مذہب کے نام پر خون ایک انگلستان کی کمپنی اس کا انگریزی ترجمہ شائع کر رہی ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے کہ جب اس کا انگریزی ترجمہ ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں ۱۹۵۳ء کے حوالے سے.بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن Islamic Terrorism پر کچھ نہیں کہا گیا اور Islamic Fundamentalism پر کچھ نہیں کہا گیا اور مرتد کی سزا کے قتل کے موضوع کے اوپر جس طرح بھر پور عالمانہ دفاع ہونا چاہئے تھا اس کی بجائے چند ایک باتوں پر اکتفا کی گئی ہے جبکہ حملے متفرق کئی سمتوں سے ہو رہے ہیں.تو ان کا میں ممنوں ہوں کہ ان کے اس توجہ دلانے پر میں نے دو نئے باب انگریزی میں اضافہ کئے ہیں جو اردو میں نہیں ہیں اور اس میں منصور شاہ صاحب نے میری مدد کی اور ڈکٹیشن (Dictation) بھی لیتے رہے اور مشورے بھی دیتے رہے اور کافی انہوں نے محنت کی.بہر حال یہ کتاب اب تیار ہے چھپنے کے لئے اور اس کمپنی کا مجھے پیغام ملا ہے کہ عجیب اتفاق ہے کہ ادھر یہ مسئلہ اٹھا ہے اور ادھر یہ کتاب ہماری تیار ہے چنانچہ ہم نے سب دنیا میں یہ اشتہار دے دیا ہے کہ اصل اسلامی تعلیم کیا ہے اس کے متعلق ایک کتاب آنے والی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ عاجزانہ خدمت کی توفیق بخشی اور جو انگریزی ترجمہ ہے اس میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ سید برکات احمد صاحب مرحوم نے جو اپنی آخری کینسر کی بیماری میں یہ ترجمہ کیا تھا بڑے اخلاص کے ساتھ اُن کے لئے بھی دعا کریں وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ میری

Page 137

خطبات طاہر جلد ۸ 132 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء زندگی میں یہ چھپ جائے اُن کے مشوروں پر بعض حصے جو اردو دان طبقے کے لئے موزوں تھے لیکن مغربی دنیا کے لئے بے تعلق سے تھے وہ چند حصے تھوڑے سے حذف کر دیئے گئے تھے اور اُن کے مشورے پر بعض باتوں کا اضافہ کر دیا گیا تھا.اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ گویا مترجم نے دخل اندازی کر کے وہ غلط رنگ میں تصنیف کو پیش کیا ہے جو کچھ بھی ہے مجھ سے اجازت لے کر اور مجھے مشورہ دے کر تبدیلیاں کروائی ہیں بعض انہوں نے اور اس سے نفس مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ مغربی دنیا کے لحاظ سے اس بات کو تقویت ملتی ہے جو ہم دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں.اس لئے امید ہے یہ انشاء اللہ تعالیٰ نیک نتیجہ پیدا کرے گی لیکن یہ کافی نہیں ہے.اس کتاب کے متعلق چونکہ ایسی غلیظ ہے میں اس کو تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں بورڈ مقرر کروں گا جو تجزیہ کر کے اُن تمام جڑوں تک پہنچے جہاں سے یہ غلط الزامات چلتے ہیں اور پھر بعض احمدی محققین کے سپر د یہ کام کیا جائے گا کہ وہ اس کے جواب لکھیں اور مختلف زبانوں میں ترجمے کر کے ساری دنیا میں پیش کئے جائیں.آج کل چونکہ شیطانی کتاب میں دلچسپی ہے اس لئے ہو سکتا ہے اس کے بہانے جواب میں بھی دلچسپی پیدا ہو جائے جو ویسے عام حالات میں نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہر میدان جنگ میں جہاں اسلام کا دفاع ضروری ہے ہر اس سرحد پر جہاں اسلام پر حملے ہورہے ہیں ہمیشہ احمدی صف اوّل پر آنحضرت ﷺ اور اسلام کے دفاع میں سینہ تانے کھڑے رہیں اور کسی شیطان کو یہ طاقت نہ ہو کہ کسی نام پر بھی وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور اس پاک مذہب پر حملے کر سکے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا: ایک بات جو میں نے جماعت کو سمجھانی تھی اس وقت ذہن سے اتر گئی وہ میں اب اس دو خطبوں کے درمیان بیان کرتا ہوں.ایک تو یہ کہ جن ملکوں نے یا جن کمپنیوں نے اس کتاب کو شائع کرنے کی اجازت نہیں دی یا شائع کرنے لگے تھے اور یہ ارادہ واپس لے لیا اُن کو حوصلہ افزائی اور شکریوں کے خط جماعت کی طرف سے ملنے چاہئیں اور یہ اس لئے ضروری ہے کہ بہت بڑا احسان ہے.یعنی ہمارے دل پر احسان ہے جو اس قدر دکھ اُٹھاتا ہے اس کتاب سے رسول اللہ ﷺ کی تائید میں کوئی آواز بھی کسی طرف سے بلند ہو اس کا شکر یہ فرض ہے اور سب شکریوں سے بالا یہ شکریہ ہے تو ان لوگوں سے مختلف رنگ میں رابطہ ہونا چاہئے مگر ایسی حکمت کے ساتھ کہ اس کا کوئی غلط تاثر قائم نہ

Page 138

خطبات طاہر جلد ۸ 133 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء ہو.پس انفرادی طور پر بعض لوگ خود ہی لکھتے ہیں وہ تو الگ بات ہے لیکن جماعتیں جب یہ اس مسئلے پر غور کریں تو حکمت کے ساتھ منصوبہ بنا کر اور مرکز کے مشورے کے ساتھ کارروائی کریں.اب تک مثلاً امریکہ میں والدن بکس (Walden Books) کے تین سو سٹالز سے یہ کتاب ہٹالی گئی ہے.اگر ہم اس وقت ان کے ساتھ شکریہ کا تعلق قائم کریں تو ہوسکتا ہے آئندہ کے لئے پھر وہ ارادہ ہی بدل دیں لیکن اگر یہ نہ ہوا تو مجھے ڈر ہے کہ دوبارہ پھر یہ داخل کر لیں گے یا یہ سمجھیں گے کہ معاملہ ٹھنڈا ہو گیا ہے.تو اس وقت ان لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنا، ان کا شکریہ ادا کرنا ، ان کو سمجھا نا کہ تم اس گند میں نہ پڑو اور احتجاجاً اخلاقی قدروں کی خاطر اس کتاب سے اپنا تعلق تو ڑلو یہ مفید نتیجہ پیدا کرسکتا ہے، ساتھ دعا بھی کرنی چاہئے.فرانس اور جرمنی کے پبلشرز نے جنہوں نے کتاب کا ترجمہ شائع کرنا تھا اپنا فیصلہ بدل لیا ہے.فرانس کی حکومت، جرمنی کی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ اب مطلع کرے مرکز کو بھی اور خود مؤثر رابطہ کریں اور کبھی کہیں کہیں سے بیرونی دنیا سے بھی ان کمپنیوں کو اور ان حکومتوں کو شکریہ کے خط جانے چاہئیں.ہندوستان خاص طور پر شکر یہ کا محتاج ہے جس نے باوجود اس کے کہ ہندو بھاری اکثریت ہے اصولاً اس کتاب کو رڈ کر دیا ہے خود ہی اور باوجود اس کے کہ بہت دباؤ ڈالا گیا ہے ہندوستان پر لیکن اس نے اس کو تسلیم نہیں کیا.ساؤتھ افریقہ باوجود اس کے کہ نسلی دشمنیاں ہیں لیکن اس معاملے میں شرافت دکھا گیا ہے.باقی مسلمان ممالک میں سے چند نے کیا ہے اور یہ عجیب ہے کہ باقی سب نے نہیں کیا ہے اس کو ابھی تک رڈ اور کوئی قانونی روک نہیں کھڑی کی.جاپان نے کیونکہ وہ سمجھدار قوم ہے غالباً تجارتی اغراض کی خاطر مسلمان ممالک کو خوش کرنے کے لئے اس کتاب کو چھپنے کی اجازت نہیں دی لیکن ویسے بھی ہو سکتا ہے کہ تہذیبی لحاظ سے بھی انہوں نے غلط سمجھا ہولیکن کہا بہر حال یہی ہے کہ نہایت بد تہذیب کتاب ہے اس قسم کی کتاب ہم شائع نہیں کریں گے.W.H.Smith نے جس نے کثرت کے ساتھ یہاں شروع کی تھی وقتی طور پر اس کتاب کو واپس لے لیا ہے.سب سے زیادہ جو قابل شکریہ ہیں وہ کارڈینل ہیں کیون (Lyons) کے فرنچ کارڈینل جنہوں نے نہایت بھر پور تبصرہ اس کتاب کے خلاف کیا ہے اور اس تبصرے کو پڑھ کے دل خوش ہو جاتا ہے.انہوں نے کہا کہ نہایت غلیظ ، لغو، لچر ایسی مخش کتاب ہے کہ کسی دنیا کے شریف آدمی کو اس کو نہیں پڑھنا چاہئے اور اس کو ساری دنیا کو رد کرنا چاہئے اور اس نے شکوہ کیا ہے عیسائیوں سے کہ تمہیں شرم

Page 139

خطبات طاہر جلد ۸ 134 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء نہیں آتی کہ جب حضرت عیسی" کے خلاف ایک فلم بنائی گئی تھی تو تم جانتے ہو کہ مسلمان تمہارے شانہ بشانہ اس کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور آج محمد رسول اللہ ﷺ پر اور دیگر بزرگوں پر حملے ہو رہے ہیں اور تم تماشے دیکھ رہے ہو اور مزے اُٹھا رہے ہو.پس وہ کارڈینل ایسا ہے جسے خاص طور پر جماعت کی طرف سے کچھ شکریے اور تہنیت کا پیغام ملنا چاہئے اور ان سب لوگوں کے لئے سب سے اچھا شکریہ کا طریق یہ ہے کہ ان کے لئے دُعا کی جائے.یہ شکر یہ ان تک نہیں پہنچے گا لیکن خدا تک پہنچے گا اور اللہ ہم سے اس شکریہ کے نتیجے میں راضی ہو گا اور ان سے بھی راضی ہوگا.پس یہ ایک حصہ ہے اس میں مزید معلومات بعد میں حاصل کی جاسکتی ہیں اور ایک اصولی راہنمائی کے تابع جماعت کو چاہئے کہ وہ جائز اسلامی رد عمل دکھائے اور بڑی شان کے ساتھ بڑی غیرت کے ساتھ دکھائے.

Page 140

خطبات طاہر جلد ۸ 135 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء دنیا بھر کے احمدی رشدی کی شیطانی کتاب کے خلاف اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں ( خطبه جمعه فرموده ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ خطبے میں میں نے سلمان رشدی کی شیطانی کتاب کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون ابھی تشنہ تکمیل ہے.بعض ایسے اہم بنیادی سوال ہیں جن کی طرف توجہ مبذول کرنی ضروری ہے.مغربی دنیا میں سب سے اہم سوال جو اس وقت زیر بحث ہے وہ انسانی ضمیر اور انسانی بیان اور انسانی قلم کی آزادی ہے اور وہ تمام تر توجہ سلمان رشدی کی کتاب کے غلیظ حصوں سے ہٹا کر اس بنیادی اصول کی طرف مبذول کروا رہے ہیں.گویا کہ دراصل مسلمانوں اور عیسائیوں یا مغربی طاقتوں اور مسلمان مشرقی دنیا کے درمیان در اصل بحث یہی ہے کہ کیا انسانی ضمیر کو آزادی ملنی چاہیئے یا نہیں؟ کیا انسان کو قول اور فعل اور قلم کی آزادی نصیب ہونی چاہئے یا نہیں؟ جہاں تک مقدس بزرگوں کی بے حرمتی کا تعلق ہے یا خود خدا کے تقدس پر حملہ کرنے کا بھی تعلق ہے قرآن کریم میں اس سلسلے میں بڑی واضح اور کھلی ہوئی غیر مبہم تعلیم موجود ہے.یہ وقت تھا کہ مسلمان اس تعلیم کو خوب کھول کر تمام دنیا کے سامنے پیش کرتے اور بتاتے کہ ایسی صورت میں قرآن کریم ہمیں کیا ہدایت دیتا ہے.اس کی بجائے جس قسم کے مظاہرے شروع کئے گئے یا جس قسم کے

Page 141

خطبات طاہر جلد ۸ 136 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء فتوے جاری کئے گئے انہوں نے اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کئے اور اسلام کو پہلے سے بھی بڑھ کر بھیانک شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع عطا کیا.چنانچہ اس سلسلے میں قرآنی تعلیم سے متعلق میں جماعت کو بھی مطلع کرنا چاہتا ہوں اور جماعت کی وساطت سے چاہتا ہوں کہ سب دنیا کے سامنے قرآنی تعلیم کے ان بنیادی حصوں کو خوب کھول کر پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ مقدس بزرگوں کی بے حرمتی ہو یا خدا تعالیٰ کی بے حرمتی ہو اس سلسلہ میں قرآن کریم نے ہمیں کیا تعلیم دی ہے اور کیا تہذیب سکھائی ہے.قرآن کریم کی تین آیات کا میں نے اس موقع پر انتخاب کیا ہے.ایک ہے: وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِأَبَابِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكيف ۵ تا ۷ ) ان آیات میں جو سورۃ کہف کی پانچویں تا ساتویں آیات ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے تقدس پر بہت بڑا حملہ کیا ہے اور وہ حملہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ایک ایسا بیٹا منسوب کیا جو ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوا ہے.اگر چہ دیو مالائی مذاہب میں اس قسم کے تصورات ملتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے بہت سے بیٹے ہیں لیکن وہ بیٹے انسانی عورت کے بطن سے پیدا ہوئے بیان نہیں کئے جاتے ہیں الا ماشاء اللہ.یا اگر کئے جاتے تھے تو وہ ایک تاریخ کا حصہ بن چکے تھے لیکن عیسائی مذہب کا یہ عقیدہ جس نے دنیا میں پھیلنا تھا اور دنیا میں ایک بہت ہی وسیع اثر رسوخ پیدا کرنا تھا.اس گستاخی کو اپنے رسوخ کے ساتھ ہر جگہ پھیلاتا چلا جاتا اس لئے قرآن کریم نے اس کا بہت سختی سے نوٹس لیا.فرمایا کہ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِم تم تصور نہیں کر سکتے بہت ہی بڑی بات جو انہوں نے خدا کی گستاخی کی ہے کوئی معمولی گستاخی نہیں.خدا تعالیٰ کی طرف در حقیقت ازدواجی تعلقات منسوب کئے جارہے ہیں.چونکہ ایک انسان، خدا کا بیٹا، عورت کے بطن سے خدا کا بیٹا اس کے سوا کوئی تصور پیدا نہ کرتا لیکن اس

Page 142

خطبات طاہر جلد ۸ 137 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء کے ساتھ یہ تو فرمایا اِنْ تَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا کہ جھوٹ کے سوا وہ کچھ نہیں کہتے.مگر ان کی کوئی سزا تجویز نہ فرمائی.پس سب سے بڑا تقدس تو خدا کی ذات کا تقدس ہے.اس کے متعلق انتہائی گستاخی کا کلمہ قرآن کریم میں مذکور کرنے کے باجود پھر اس کی سزا تجویز نہ کرنا یہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے نتیجے میں انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ خدا کے تقدس پر حملے کے نتیجے میں اس کو کوئی دنیاوی سزا دے.تو انسان کا کیا رد عمل ہونا چاہئے؟ اس کے لئے آپ نے اس رد عمل کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے ردعمل کے طور پر بیان فرما دیا.فرمایا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا کہ اگر یہ تیری باتیں سن کر نصیحت نہ پکڑیں تیری ان باتوں کے متعلق ایمان نہ لائیں تو خدا کی اس عظیم گستاخی پر جو یہ کر رہے ہیں کیا تو اتناد کھ محسوس کرے گا کہ اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا.پس رد عمل جو بیان فرمایا گیا اس سے زیادہ قابل اعتماد اور تقلید کے قابل اور کوئی رد عمل نہیں ہو سکتا اور وہ دل کا دکھ ہے اور دکھ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وہ صالح اعمال ہیں جو اسلام کی طرف حملہ کرنے والوں کا ہر میدان میں دفاع کرتے ہیں اور عمل صالح کا در حقیقت دل کے دکھ اور دل کے خلوص سے گہرا تعلق ہے پس یہ پھر عظیم الشان عالمی جد و جہد جو عیسائیت کے خلاف یا ان مذاہب کے بدعقائد کے خلاف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جاری فرمائی اس کا اس دکھ سے گہرا تعلق ہے.دوسرا گستاخی کا ایک نمونہ قرآن کریم نے خود عیسائیوں سے تعلق رکھنے کے سلسلے میں پیش کیا لیکن اس کا حملہ خدا پر نہیں بلکہ خودان عیسائیوں پر تھا.عجیب ہے خدا کی شان اور فصاحت و بلاغت قرآن کریم کی کہ یہ دونوں نمونے عیسائیت سے تعلق رکھنے والے پیش کئے گئے ہیں.ایک میں عیسائیت خدا کے تقدس پر حملہ آور ہو رہی ہے.دوسرے میں عظیم عیسائیت کے دشمن حضرت مسیح اور حضرت مریم کے تقدس پر حملہ آور ہورہے ہیں اور واقعہ ایک ہی ہے جس کی بناء پر یہ دونوں کہانیاں بنائی گئی ہیں.یہ بھی غلط اور وہ بھی غلط.خدا تعالیٰ کا بیٹا ہونا بھی غلط اور حضرت مسیح کا نعوذ باللہ غیر قانونی ولادت ہونا بھی غلط.اس دوسرے کفر کا اور دوسری گستاخی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا (النساء: ۱۵۷) که خدا تعالیٰ نے جو یہود پر لعنت ڈالی ہے اس لعنت کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں

Page 143

خطبات طاہر جلد ۸ 138 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء نے حضرت مریم " پر بہت ہی بڑا بہتان باندھا ہے اور اس بہتان کے نتیجے میں حضرت مریم جو حضرت مسیح کی والدہ تھیں اور عیسائیوں کے نزدیک بہت ہی زیادہ عزت کے لائق ہیں.ان کی ذات پر نہایت ناپاک حملہ کیا گیا ہے اور اس مزعومہ خدا کے بیٹے کی ذات پر بھی حملہ کیا جو دراصل مقدس وجود تھا اور خدا تعالیٰ کا ایک سچا رسول تھا.تو کتنا عظیم الشان قرآن کریم کا علم کلام ہے کہ یہ کہنے کی بجائے کیونکہ عیسائیوں نے خدا کی ذات پر حملہ کیا ہے اس لئے تم ان پر حملے کرو اور ان کو تکلیفیں پہنچاؤ اور ان کے دلوں کو دکھ دو.عیسائیوں کے دلوں کو دکھ دینے والوں کے خلاف آواز بلند کی اور فرمایا کہ کچھ ایسے ظالم ہیں جو خدا پر حملے کر رہے ہیں اور کچھ ایسے ظالم ہیں جو خدا پر حملے کرنے والوں پر حملے کر رہے ہیں.وہ دونوں حملے نا جائز ہیں اور دونوں حملے ناپاک ہیں اور سچائی کا یہ فرض ہے کہ ہر جگہ جہاں جھوٹ اور باطل نظر آئے وہاں وہ اس کے خلاف جہاد کا علم بلند کرے.پس یہ ہے قرآنی تعلیم اور ان دونوں جگہ میں آپ کو کہیں یہ مضمون دکھائی نہیں دے گا کہ چونکہ عیسائی خدا کی گستاخی کرتے ہیں اس لئے نیاموں سے تلوار میں نکالو اور ان کے اوپر حملہ آور ہو جاؤ اور ان کے سرتن سے جدا کر دویا یہودی عیسائیوں کے مقدس وجودوں اور خود تمہارے مقدس وجودوں کی گستاخی کرتے ہیں اس لئے تم اٹھو اور ان کے خلاف تلوار میں نکالو اور ان پر حملہ آور ہوا اور انہیں صفحہ ہستی سے نیست و نابودکر دو، ان سے زندہ رہنے کا حق چھین لو کیونکہ انہوں نے ان وجودوں کے خلاف گستاخی کی ہے جن سے تم محبت کرتے ہو.جن کا تقدس تمہارے دل میں ہے.پھر تیسری ایک آیت میں قرآن کریم نے اس مضمون کی ایک عمومی شکل پیش فرمائی اور ایک غیرت مند مسلمان کے رد عمل کا ذکر فرمایا.یہ دو آیات ہیں جن میں ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے.ایک آیت سورۃ نساء آیت ۱۴۱.اس میں فرمایا : وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتُبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ أَيَتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللهَ جَامِعُ الْمُنْفِقِينَ وَالْكُفِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيْعًا

Page 144

خطبات طاہر جلد ۸ 139 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء اور خدا تعالیٰ نے تم پر اس کتاب میں یہ حکم نازل فرما دیا ہے.بڑا ہی پر شوکت اور پر زور کلام ہے.کہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب میں جو احکام کی کتاب ہے مسلمانوں کے لئے یہ حکم نازل فرما دیا ہے کہ جب بھی تم خدا تعالیٰ کی آیات کا انکار ہوتا ہوا سنو یا دیکھو کہ خدا تعالیٰ کی آیات سے تمسخر کیا جا رہا ہے جیسا کہ بعینہ اس وقت سلمان رشدی کی کتاب کا معاملہ ہے تو کیا کرو؟ کیا یہ کرو کہ اس کے قتل کے فتوے دو یا معصوم اور لاعلم مسلمانوں کو بازاروں میں نکال کر گولیوں کا کونشانہ بناؤ ؟ ہر گز نہیں.فرمایا ایسی صورت میں تمہارے لئے یہ رد عمل مقرر ہے.فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِہ کہ ان کے ساتھ ہر گز نہ بیٹھو لیکن ہمیشہ کی قطع تعلقی پھر بھی نہیں کرنی اگر وہ نصیحت پکڑ جائیں اور ان شرارتوں سے، ان دکھ کی باتوں سے باز آجائیں تو اس کے بعد پھر تم ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہو لیکن جب تک وہ اس ذلیل طرز عمل پر قائم ہیں اور خدا تعالیٰ کی پاکیزہ آیات کی گستاخی کرتے ہیں اور تمسخر سے کام لیتے ہیں تمہیں ان کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے اور یہ بیٹھنے کی اجازت نہ دینا اپنی ذات میں ایک بہت بڑا حکیمانہ حکم ہے.کیونکہ اس کے دو نتیجے نکل سکتے ہیں.یا تو کچھ کمزور طبیعتیں اپنے پیاروں کے خلاف باتیں سن کر مشتعل ہو جاتی ہیں اور قوانین اور احکام کو پس پشت ڈالتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر پھر بعض دفعہ ایسے ظالموں کو قتل تک کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں.تو دنیا میں اس سے ہر طرف فساد پھیل سکتا ہے دوسرے اپنی غیرت پر حملہ ہوتا ہے اور اگر انسان بیٹھا ر ہے اور ایسی باتیں سنتا ر ہے تو اس کی بے غیرتی اس کے ایمان کو ضائع کر سکتی ہے.پس دونوں صورتوں میں ہلاکتیں ہے.پس کیسی اعلیٰ اور مہذبانہ تعلیم ہے اور کیسے انسان کا نفس یا انسان کے نفس سے دوسروں کے نفوس کی حفاظت کرتی ہے کہ جب یہ فرمایا جب تم ایسی باتیں گستاخانہ سنو تو ایسی مجالس سے اُٹھ آیا کرو اور مزید نہیں بیٹھا کرو اور جہاں تک ان کی سزا کا تعلق ہے وہ خدا پر چھوڑو.اِنَّ اللهَ جَامِعُ الْمُنْفِقِينَ وَالْكُفِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا - خدا تعالی منافقوں کو بھی اور کافروں کو بھی سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا.دوسری جگہ فرمایا:

Page 145

خطبات طاہر جلد ۸ 140 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي ايْتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَكَ الشَّيْطَنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَ مَا عَلَى الَّذِيْنَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَلَكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (الانعام: ٤٩٧٩ ) فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیات میں بے لگام باتیں کرتے ہیں، بہکی ہوئی، ایسی باتیں جن کا نہ سر ہے نہ پیر ہے اور يَخُوضُونَ کے اندر ہر قسم کا تمسخر، ہر قسم کا مذاق ، ہر قسم کی لغو باتیں شامل ہیں.تو فرمایا اگر اس قسم کی باتیں کرتے ہیں فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ تلوار میں نکال کر ان کے قتل کے درپے نہ ہو جاؤ بلکہ ان سے الگ ہو جاؤ ان سے بے تعلقی اختیار کرلو حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ ، یہاں پھر یہ شرط لگا دی کہ مستقل بے تعلقی اور مستقل بائیکاٹ کا حکم نہیں ہے بلکہ جب تک شریر اپنی شرارت پر قائم ہے اس وقت تک اس سے قطع تعلقی کرو.ہاں جب وہ دوسری باتوں میں بہکنے لگے تو پھر ان کو بہکنے دو.دنیاوی باتوں میں وہ لوگ لغو باتیں کرتے ہی رہتے ہیں لیکن تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں اس معاملے میں.ہاں دینی معاملہ میں تمہارا غیرت دکھانا فرض ہے اور غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان سے الگ ہو جاؤ إِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِيْنَ اگر تمہیں شیطان بھلا دے پھر اس کے بعد، اس نصیحت کے بعد تم نے ظالموں کے ساتھ کبھی بھی نہیں بیٹھنا.یہاں وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطنُ سے پھر کیا مراد ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کمزور طبیعتیں جو ان لغو باتوں کو سن کر زخمی ہو جاتی ہیں اور متاثر ہو جاتی ہیں ان کو بعد میں بھی اسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں کیونکہ رفتہ رفتہ پھر ان کا ایمان بالکل ضائع ہوسکتا ہے.دلائل سے بھاگنے کی تعلیم نہیں دی گئی.تمسخر اور ذلیل باتوں سے بھاگنے کی تعلیم دی گئی ہے.یعنی علیحدہ ہونے کی تعلیم دی گئی ہے اور جہاں تک ایسے لوگوں کے ساتھ سختی کرنے کا تعلق ہے یا ان کی زبانوں کو لگا میں دینے کا تعلق ہے اس کے متعلق قرآن کریم کی اگلی آیت یعنی اس کے معا بعد یہ فرماتی ہے وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ که یاد رکھو وہ لوگ جو خدا کا تقویٰ اختیار

Page 146

خطبات طاہر جلد ۸ 141 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء کرتے ہیں.ایسے بدکاروں اور بے لگام لوگوں کا حساب ان سے نہیں لیا جائے گا.ان کے اوپر کوئی حرف نہیں ، وہ ہر گز ذمہ دار نہیں ہیں کہ یہ لوگ کیسی کیسی شیطانی با تیں کرتے ہیں تو جب ذمہ واری تمہاری نہیں ہے، جب تم سے حساب نہیں لیا جائے گا تو پھر تم کیوں قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہو.وَلكِنْ ذِكْری ہاں ایک فرض تمہارا ضرور ہے کہ نصیحت کرو اور نصائح کے ذریعے ان کو سمجھانے کی جو کوشش ممکن ہو ا ختیار کرو.لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ہو سکتا ہے، بعید نہیں کہ وہ تقویٰ اختیار کریں.پس جن کو قتل کرنے کا حکم ہو ان کے متعلق کہاں سے کہا جاسکتا ہے کہ نصیحت کرو ہو سکتا ہے وہ تقویٰ اختیار کریں.انہیں تین آیات میں یا چار آیات میں نہیں قرآن کریم میں جہاں بھی آپ اس مضمون کو براہ راست یا اشارہ موجود پائیں گے وہاں کسی ایک جگہ بھی انسان کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ خدا یا خدا کے برگزیدہ بندوں کی گستاخی کرنے کے جرم میں ایسے لوگوں کو خود سزائیں دیں بلکہ سزا کا معاملہ خدا تعالیٰ نے کلیہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور بار بار کھول کر یہ مضمون بیان فرمایا ہے.خدا تعالیٰ نے جو یہ طریق اختیار فرمایا اس میں بہت بڑی حکمت ہے.امن عالم کا انحصار اس بات پر ہے، انسانی سوسائٹی میں امن قائم کرنے اور فساد کے خطروں کو دور کرنے کے لئے یتعلیم نہایت ضروری تھی.وجہ یہ ہے کہ جہاں تک تقدس کا تعلق ہے اس کے تصورات مختلف قوموں میں مختلف ہیں اور ہر قوم نے اپنے ذہن میں کچھ مقدس وجود بنا رکھے ہیں اور جہاں تک ان مقدس وجودوں کا تعلق ہے ان کے اوپر حملے کا تصور بھی جدا جدا ہے بعض جگہ تنگ نظری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے مقدس وجود کا تم نے نام لیا تو یہ بھی ان کی تذلیل اور ان کی گستاخی ہے.اگر خدا تعالیٰ ہر انسان کو اپنے ذہن کے مطابق مقدس وجود کی بے حرمتی پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا تو ساری دنیا میں ہر طرف فساد پھیل جاتا.کوئی دنیا کا ایسا انسان نہیں جس کے مذہب کی رو سے کسی دوسرے مذہب پر کوئی حملہ نہ ہوتا ہو اور بعض ایسے مذاہب ہیں جو اپنے احساسات میں اتنے تیز ہیں کہ حملہ نہ بھی ہو تو حملے کا تصور کر لیتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے انسانی سوسائٹی کو فساد سے بچانے کی خاطر یہ بین الاقوامی تعلیم دی اور یہ بین الاقوامی تعلیم آپ کو دنیا کے کسی اور مذہب میں نظر نہیں آئے گی.اس لئے کہ کوئی اور مذہب بین الاقوامی نہیں تھا اور نہ ہے اور اسی مذہب کو یہ تعلیم عطا ہوئی تھی ، اسی کو عطا ہوئی جس کو تمام عالم کے لئے بھجوایا گیا ہے.پس بجائے اس کے کہ ان تعلیمات کو

Page 147

خطبات طاہر جلد ۸ 142 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء کھول کھول کر مغربی اور عیسائی دنیا کے سامنے رکھا جاتا اور بتایا جاتا کہ تم ہمیں کیا تہذیب سکھانے لگے ہو تم تو خوشہ چین ہو اسلام کے اور ساری تعلیم کے نہیں صرف چند حصوں کے جن باتوں کو تم نے آج اپنے زعم میں ترقی یافتہ زمانے میں جا کر ایک ترقی یافتہ تحریک کی صورت میں پایا ہے قرآن کریم کی تعلیم کے لحاظ سے اس میں بہت بہت رخنے موجود ہیں اور تمہاری تعلیم ناقص ہے اور جو کچھ تم بتا رہے ہو یہ اچھا ہے وہ پہلے سے اسلام میں موجود ہے اور جو تمہارے پاس نہیں ہے وہ بھی اسلام میں موجود ہے اور تمہاری تہذیب کے نام پر جو تم نے اصول پیش کئے ہیں ان میں جو رخنے ہیں ان کی بھی قرآن کریم نے نشاندہی فرما دی ہے.پس بنیادی بات یہی ہے کہ قرآن کریم دو دائروں کو الگ الگ کرتا ہے.جسمانی دائرے کو الگ کرتا ہے اور کلام کے دائرے کو الگ کرتا ہے.جو حملے جسمانی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں ان کا جسمانی جواب دینے کی اجازت دیتا ہے.جو حملے کلام کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کلام کے ذریعے جواب دینے کی اجازت دیتا ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی بد کلامی کرتا ہے یعنی عام دنیا میں خدا اور مقدس وجودوں کی بات نہیں، عام دنیا میں کسی انسان کے تعلق والے کے خلاف اس کے سامنے بد کلامی کرتا ہے تو عدل کی اعلیٰ تعلیم کے نقطہ نگاہ سے فرماتا ہے کہ ایسا مظلوم اگر بے قابو ہو جائے اور کلام کے ذریعے ویسی بات کرے جو نا پسندیدہ بات ہے.اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی حرف نہیں لیکن وہاں پر یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اس کے مقابل پر ہتھیار نکال لے اور اس کے قتل کے در پے ہو جائے یا اسے کوئی جسمانی سزا دے.پس یہ دو الگ الگ دائرے ہیں.جہاں حملہ تلوار سے کیا گیا ہے وہاں تلوار سے جواب دینے کا مسلمان کو حق ہے بلکہ بعض صورتوں میں فرض ہو جاتا ہے اور جہاں زبان سے یا قلم سے حملہ کیا گیا ہے وہاں زبان اور قلم سے جواب دینے کا نہ صرف حق ہے بلکہ فرض بھی ہو جاتا ہے.پس بجائے اس کے کہ مغربی دنیا اسلام کو ایک قدیم جاہلانہ مذہب بنا کر دنیا کو دکھائے اگر زبان سے اس حملے کا جواب دیا جاتا اور قرآن کریم کے دیئے ہوئے ہتھیاروں کو عمدگی سے استعمال کرتے ہوئے جوابی حملے کئے جاتے تو یہ ساری بازی الٹ سکتی تھی.یہ جو جنگ ہے اس میں حکمت چاہئے اور حکمت تو عام مادی جنگوں میں یعنی تلوار کی جنگوں میں بھی چاہئے لیکن خصوصیت سے کلام کی جنگ میں حکمت کا بڑا گہرا

Page 148

خطبات طاہر جلد ۸ 143 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء تعلق ہے.اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت تھی کہ مغرب کے پاس کون سے ہتھیار ہیں جن کے ذریعے وہ آج اسلام پر حملہ آور ہوا ہو.ہم کیوں ان ہتھیاروں سے ان پر جوابی حملہ نہیں کر سکتے ؟ جہاں تک گستاخی کا تعلق ہے وہ ہم نہیں کر سکتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وجود جو ان کے ہاں مقدس ہے وہ ہمارے ہاں بھی مقدس ہیں.اس لئے بڑی یک طرفہ کی جنگ بن جاتی ہے اور غیر متوازن جنگ بن جاتی ہیں.اگر وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات پر حملے کرتے ہیں تو فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ کا مضمون تو ہم پر صادر ہوتا ہے لیکن جوابی حملہ کرنے کی کوئی جانہیں پاتے.کیونکہ حضرت مریم اسی طرح ہمارے لئے مقدس ہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے زیادہ مقدس ہیں جس طرح عیسائیوں کے نزدیک ہیں.اور حضرت مسیح اپنی حقیقی شان میں ہم پر زیادہ روشن ہیں، ہم ان کی زیادہ معرفت رکھتے ہیں جو ایک عیسائی دنیا کے تصوراتی مسیح کے.پس یہاں ایک غیر متوازن جنگ میں اور بھی زیادہ حکمت کی ضرورت ہے.آخر کس طرح ان باتوں کا جواب دیا جائے؟ پہلی بات تو یہ ہے جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں جماعت کو نصیحت کی تھی کہ اگرچہ یہ کتاب پڑھنا ایک شدید روحانی اذیت ہے لیکن بعض محققین اگر جواب دینے کی خاطر اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ان کی مجبوری ہے.حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ ؟ والا مضمون یہاں اس غرض سے اطلاق نہیں پاتا کہ یہاں عالم اسلام کے دفاع کے لئے اور اسلام کے روحانی جہان کے دفاع کے لئے ایک کارروائی، ایک تکلیف دہ کا رروائی ضروری ہے.جب میدان جنگ میں آپ جاتے ہیں تو چر کے بھی لگتے ہیں، آپ زخم بھی کھاتے ہیں، جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں مگر مجبوری ہے.پس اس تکلیف کو خدا کی خاطر برداشت کرنا پڑے گا اور بعض علماء کو خصوصیت سے اس کتاب کا مطالعہ کر کے اس کا تجزیہ کرنا پڑے گا، ہر قسم کے الزامات کو الگ الگ کرنا ہوگا ، تاریخ اسلام کے حوالوں سے دیکھنا ہوگا کہ آیا کسی الزام کی کوئی بنیاد موجود ہے یا نہیں؟ خواہ وہ کتنی ہی کمزور بنیاد کیوں نہ ہو اور کون سے الزامات ایسے ہیں جو محض فرضی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں اور اس طرح ایک سلسلہ مضامین دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہونا شروع ہو جانا چاہئے.جس میں اس گندی کتاب کے ناپاک حملوں کو عقلی لحاظ سے اور حکمت کے لحاظ سے رڈ کر کے دکھایا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ تم جھوٹے اور بد دیانت لوگ

Page 149

خطبات طاہر جلد ۸ 144 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء ہو اور سوائے دکھ پہنچانے کے تمہارا اور کوئی بھی مقصد نہیں ان حملوں میں.چنانچہ وہ تہذیب کا جو لبادہ انہوں نے اوڑھا ہوا ہے وہ تہذیب جو دراصل اسلام نے سکھائی ہے.اس کا سارا لبادہ انہوں نے نہیں اوڑھا لیکن کسی نے ٹوپی اوڑھ رکھی ہے، کسی نے پاجامہ پہن رکھا ہے، کسی نے اور کوئی لباس کا ٹکڑا لیا ہوا ہے اور سارے اسلامی تعلیم کے خوشہ چین ہونے کے باوجود جگہ جگہ سے ننگے بدن بھی ہیں.اس لئے پورے اسلامی فاخرانہ لباس میں ملبوس ہو کر اسلامی تقویٰ کے لباس پوری طرح اوڑھ کر اور پہن کر اور زیب تن کر کے پھر آپ اس میدان میں مقابلے کے لئے نکلیں اور پھر دیکھیں کہ بفضلہ تعالیٰ کس طرح دشمنوں کو ہر حملے میں ناکام بنایا جا سکتا ہے.دوسرا پہلو وہ جو ایسا ہے جو زیادہ تر حکومتوں سے تعلق رکھتا ہے.اسلامتی حکومتوں کو ایسے موقع پر غیرت دکھانی چاہئے اور ناپسندیدگی کا اس رنگ میں اظہار کرنا چاہئے کہ جس سے ان کو محسوس ہو کہ یہ قوم با غیرت ہے اور حملوں کو برداشت نہیں کرے گی لیکن اس کی ناپسندیدگی کا اظہار اس طریق پر ہے کہ ہم لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور دنیا کو دھوکہ نہیں دے سکتے.اس وقت جو نا پسندیدگی کا اظہار ہے یہ ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھمانے والی بات ہے اور یہ دنیا کو اس کی وجہ سے دھوکہ دے رہے ہیں.یہاں تک کہ روس تک پہنچ گئے ہیں، جاپان تک پہنچ گئے ہیں کہ خمینی نے جو قتل کا فتویٰ دیا ہے اس کے خلاف احتجاج کرو.یہ پہلی دفعہ شائد واقعہ ہوا ہے کہ قتل کا فتویٰ پر یہ دراصل مذہبی حیثیت کا فتوی ہے اور ایک ایسا فتوی ہے جس کی خود اس مذہب میں جس کی طرف وہ فتویٰ منسوب کیا جا رہا ہے کوئی بھی بنیاد نہیں مگر اس کے نتیجے میں یورپ کے بارہ ممالک نے اس ملک کا بائیکاٹ کر دیا اور صدر بش (Bush) کا اعلان آیا ہے کہ ہم پوری طرح یورپ کی پشت پناہی کرتے ہیں اس معاملے میں اور ان کے سفیروں نے روس پر بھی اثر ڈالا اور روس کو بھی اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ قطع تعلقی کر لے ایران سے، یہاں تک کہ ملائشیا پر بھی اپنے اقتصادی تعلقات کی بناء پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی کہ مسلمان ملک ہوتے ہوئے وہ خمینی کے خلاف رد عمل دکھا ئیں اور اس فتوے کے نتیجے میں اپنے سفیر وہاں سے واپس بلوا لیں.جاپان تک پہنچے اور جاپان کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی ایسی صورت میں جاپان اپنا سفیر ایران سے واپس بلوائے.تو یہ سارے اسلام کے خلاف ملکوں کا متحد ہو جانا اگر چہ سیاست کے نام پر ہے لیکن کوئی

Page 150

خطبات طاہر جلد ۸ 145 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء آنکھ ایسی نہیں جو یہ پہچان نہ سکتی ہو کہ اس کے پیچھے در حقیقت اسلام سے نفرت کارفرما ہے یا ایران کی نفرت کارفرما ہے.تو اس نفرت نے جس طرح اپنا سر اٹھایا ہے یہاں اس سر کے اٹھانے کے نتیجے میں اسلام کی طرف بھی حملہ ساتھ کیا جاتا ہے.یعنی یوں کہہ لینا چاہئے کہ ایران کی نفرت اور اسلام کی نفرت نے گویا ایک اجتماع کر لیا ہے اور اگر ایران کے خلاف نفرت کا اظہار کریں اور دوست مسلمان ممالک پوچھیں تو اُن ممالک سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اسلام کے خلاف بالکل نہیں ہیں ہم تو ایران سے اپنے بدلے اُتار رہے ہیں اور اگر دوسرے ممالک اپنے دوست ممالک بات کریں تو ان سے کہیں کہ دیکھیں ہم نے تو اسلام پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیا.اور تیسرا اس طرز عمل کا فائدہ یہ اٹھایا انہوں نے کہ سلمان رشدی کی کتاب کی غلاظت سے توجہ اس رنگ میں ہٹائی کہ گویا یہ ثانوی سی بات ہے اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، ایک معمولی بات ہے.اصل واقعہ تو یہ کہ سلمان رشدی کے خلاف قتل کا فتویٰ دے دیا گیا ہے اور مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں.یہاں تک کہ ایران نے برطانیہ کو یہ پیشکش بھی کی کہ تم کھلم کھلا اس کتاب کو Condemn کرو.اس کے خلاف نفرت کا ، مذمت کا اظہار کرو.تو پھر تو ہمارے تعلقات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں.مگر انہوں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا.کتاب کی مذمت کا ہم اعلان نہیں کریں گے.یعنی تمام دنیا کو یہ کہ ر ہے ہیں (یہاں آ کر بات کھل جاتی ہے ) کہ در اصل اس موقع پر اصل جھگڑا یہ ہے کہ خمینی کے اس فتوے کے خلاف مذمت کا اظہار ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے ؟ جمینی کے فتویٰ کے خلاف تمام دنیا کو مذمت کرنی چاہئے یہ ان کا مطالبہ ہے اور جب کہا جائے کہ جس خباثت کی وجہ سے خمینی نے یہ حرکت کی اس کی مذمت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے تو کہتے ہیں زبان کی اور قلم کی اور ضمیر کی آزادی ہے.اگر آزادی ہے تو مذمت کرتے ہوئے تمہاری زبانوں پر کیوں تالے پڑ جاتے ہیں.ایک بے حیائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو اور پھر اس کی مذمت نہیں کرتے.یہاں پہنچ کر اسلام کی دشمنی ظاہر ہو جاتی ہے.جو میں مضمون بیان کر رہا ہوں ایک فرضی الزام نہیں ہے جو ان پر عائد کیا جا رہا ہے.ان کا طرز عمل کھول کر بتا رہا ہے کہ محض سیاسی دشمنی نہیں ہے بلکہ اسلام کی دشمنی بھی اس ساری صورتحال میں کارفرما ہے.ایسی صورت میں ان سے کیا سلوک ہونا چاہئے؟ جس قسم کے ہتھیاروں سے کوئی دشمن حملہ کرتا ہے اس قسم کے ہتھیاروں کا استعمال نہ صرف

Page 151

خطبات طاہر جلد ۸ 146 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء قرآن کریم سے جائزہ ثابت ہے بلکہ ضروری ہو جاتا ہے.اس وقت کی مغربی دنیا کے ہاتھ میں دو بڑے ہتھیار ہیں جن کو یہ اپنے مد مقابل کے خلاف استعمال کرتے ہیں.ایک ہے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں اور دوسرے کے خلاف استعمال کرنا اور دوسرا ہے اقتصادی دباؤ.چنانچہ جب بھی یہ کسی ملک کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہیں تو آپ پڑھتے ہوں گے کہ یونائیٹڈ نیشن (United Nation) نے ، اقوام متحدہ وغیرہ میں یہ کوششیں کی جاتی ہے کہ اس کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے.یہ جو دو ہتھیار ہیں یہ ان کے نزدیک مہذب ہتھیار ہیں.ان کے خلاف آواز نہیں بلند کی جاسکتی.ان دو ہتھیاروں کو کیوں عالم اسلام استعمال نہیں کرتا.بجائے اس کے کہ معصوم، مظلوم مسلمانوں کو گلیوں میں نکال کر ان کو بھیٹر بکریوں کی طرح خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرو اور ٹکڑے ٹکڑے کرو.جس دشمن نے حملہ کیا اس دشمن کے خلاف نبرد آزما ہو اور انہی ہتھیاروں کو اس کے خلاف استعمال کرو جن ہتھیاروں کو وہ خود استعمال کرنا جانتا ہے اور آج بھی استعمال کر رہا ہے.پس سلمان رشدی کی اس کتاب کے نتیجے میں جو عالمی رائے عامہ مسلمانوں کے حق میں ہو سکتی تھی ہمارے غلط رد عمل کے نتیجے میں وہ ساری عالمی رائے عامہ ان لوگوں کے حق میں ہوگئی ہے.یعنی ظلم کرنے والے بھی یہ ہیں اور مظلوم بننے والے بھی یہ ہیں.آج ساری دنیا ان کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ساری دنیا نہیں تو دنیا کا ایک کثیر حصہ اور طاقتور حصہ ان کے پروپیگینڈے سے متاثر ہوکر یہ نتیجہ نکال رہا ہے کہ مسلمان ظالم ہیں اور مغربی ممالک مظلوم ہیں کیونکہ آزادی ضمیر کے جہاد کا معاملہ ہے اور اس معاملے میں مسلمان آزادی ضمیر کو کچلنے کے درپے ہیں جبکہ مغربی دنیا اس کی حفاظت کر رہی ہے.اور کتاب کا گند اور غلاظت اور نا جائز جملہ اور ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے دلوں کے ٹکڑے اُڑا دینا ایسے ظالمانہ حملے سے، ان کے نزدیک اس چیز کی کوئی بھی اہمیت نہیں رہی.مسلمان ممالک کے پاس دولت ہے اور اگر وہ چاہیں تو اقتصادی حملے کے ذریعے بھی جواب دے سکتے ہیں اور رائے عامہ کے میدان میں بھی ان سے بڑی قوی جنگ لڑ سکتے ہیں.ایسے ایسے لکھنے والے یہاں موجود ہیں جن کو اگر ان کے وقت کی ، ان کے قلم کی قیمت دی جائے اور بات سمجھائی جائے تو خو دا نہی کے اخباران کی آواز کو دبا سکتے ہیں.بڑے بڑے اعلیٰ پائے کے مصنفین موجود ہیں مغربی دنیا میں جو

Page 152

خطبات طاہر جلد ۸ 147 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء سمجھدار بھی.اگر عربوں کی تیل کی دنیا، ان لوگوں سے تعلق پیدا کرتی اور فوری طور پر جوابی کارروائی کے لئے ان کو لکھنے پر آمادہ کرتی اور اس معاملہ میں خرچ کرتی تو ہرگز بعید نہیں تھا کہ رائے عامہ کے میدان میں ایک دفاعی جنگ بڑی شدت کے ساتھ شروع ہو جاتی.کتابیں لکھوائی جاسکتی تھیں، اخباروں سے جو طاقتور اخبار ہیں ایسے تعلقات قائم کئے جاسکتے تھے اقتصادی دباؤ کے نتیجے میں کہ وہ اخبارات از خود مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو خوب عمدگی کے ساتھ ، وضاحت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتے.دنیا کے معاملات میں سیاست کے معاملات میں لوگ اخبارات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کو خرید بھی لیتے ہیں اگر وہ تعاون نہ کریں.یہیں انگلستان کی بات ہے کہ اُنیسویں صدی کے آخر پر ۱۸۸۸ء یا اس کے لگ بھگ ایک پارسی ، ہندوستان کے پارسی کو خیال آیا کہ میں انگلستان کی پارلیمنٹ کا ممبر بنوں چونکہ وہ بڑے اچھے مقرر اور بہت اچھے لکھنے والے اور انہی کی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے تھے.ان کا خیال تھا کہ میرے علم سے متاثر ہو کر مجھے لوگ ووٹ دیں گے اور میں جیت جاؤں گا.اپنے متعلق ان کی یہ حسن ظنی درست تھی لیکن وہ و ہم غلط تھا کہ یہ قوم ان کو یہ کرنے دے گی.کیونکہ آج کل تو ایسی باتیں عام ہیں لیکن اس زمانے میں یہ سوچنا کہ انگلستان کی پارلیمنٹ میں ایک ہندوستان کا کالا نمائندہ بن جائے یہ ایک بہت بعید کی بات تھی.چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ جب انہوں نے اپنے الیکشن میں کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو تمام اخبارات نے ان کی خبروں کا بائیکاٹ کر دیا.کوئی بھی خبر شائع نہیں کرتا تھا.کیونکہ وہ بہت بڑا دولت مند گھر تھا.یعنی پارسیوں کا جو گھر تھا مجھے اس وقت ان کا نام یاد نہیں لیکن بہت دولت مند لوگ تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انگلستان کا سب سے زیادہ چھپنے والا اور با اثر اخبار خرید لیا جائے.چنانچہ وہ پہنچے ایک اخبار کے پاس اور اس سے کہا کہ تمہارے شیئر ز بکتے ہیں تو ہم حاضر ہیں خریدنے کے لئے.اتنے شیئر ز خرید لئے سارا اخبار نہیں خریدا وہ بھی تاجر لوگ تھے لیکن اس کے نتیجے میں بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ان کو اکثریت حاصل ہوگئی.چنانچہ اس دن کے بعد اس اخبار نے مسلسل ان کے حق میں لکھنا شروع کیا اور ان کی خبریں دینی شروع کیں.نتیجہ یہ نکلا کہ سترہ ووٹوں سے یہ جیت گئے.اس زمانے میں اس کا اتنا شدید ردعمل ہوا کہ ایک ہندوستانی آکر ہم سے یہ حرکت کر جائے ، ہماری پارلیمنٹ کا ممبر ، ہمارے علی الرغم بن جائے ، ہمارے اخبار خرید کر.انہوں نے یعنی مخالف پارٹی نے ، جو امیدوار تھے انہوں نے مقدمہ کیا اور کہا کہ ووٹوں

Page 153

خطبات طاہر جلد ۸ 148 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء کی گنتی میں غلطی ہوئی ہے اس لئے دوبارہ گنے جائیں.چنانچہ عدالت نے بڑی احتیاط کے ساتھ جب دوبارہ ووٹ گئے تو ان کو سترہ کی بجائے بائیس ووٹوں کی اکثریت حاصل ہوئی.تو دنیا کی خاطر اپنے سیاسی مفادات کی خاطر لوگ یہ حرکتیں کرتے ہیں اور یہ جائز ہیں ان میں کوئی برائی نہیں.کوئی دنیا کا معقول آدمی ایسے طرز عمل پر حملہ نہیں کرسکتا.باقی ممالک کو چھوڑیں سعودی عرب کے پاس اتنا روپیہ ہے کہ چاہے تو سارے انگلستان کے اخبار خرید لے اور اس کو پتا بھی نہ لگے کہ میری دولت میں کوئی کمی آئی ہے.اتنا روپیہ ہے کہ اپنے سود سے وہ ان کے اخبار ا خرید سکتا ہے اور اتنی رقم قائم کر سکتا ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے اقتصادی قومیں ہیں، اقتصادی مفادات کے پیچھے چلنے والی قومیں ہیں جو مرضی دوسرے محرکات ہوں اگر اقتصادی فوائد ان محرکات کے مقابل پر زیادہ اہم دکھائی دیں تو یہ لازماً اقتصادی مفادات کی پیروی کرنے والے لوگ ہیں.تو سعودی عرب اگر چاہے آج بھی یہ کر سکتا ہے.مغربی ممالک کے بڑے بڑے اخبار خریدے اور ان میں سلمان رشدی والے کیس کے متعلق اسلام کے حملوں کا جواب شروع کرے اور دنیا کو بتائے کہ یہ سب دھوکہ بازی ہو رہی ہے حقیقت حال یہ ہے کہ اسلام پر نہایت ظالمانہ حملہ کیا گیا ہے اور حملے کی وہ زبان بے شک نہ شائع کی جائے لیکن جس طرح کہ میں نے بیان کیا ہے ہراس پہلو سے جس پہلو سے انہوں نے اسلام پر حملہ کیا ہے ایک جوابی کارروائی کی جاسکتی ہے اور مؤثر جوابی کارروائی جاسکتی ہے.لیکن حالت یہ ہے کہ بدقسمتی سے آج عالم اسلام مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر حملے کی غیرت بھی ان کو اکٹھا نہیں کر سکتی.کیونکہ ایران کے امام خمینی صاحب نے ایک غلط فتویٰ دیا اس سے یہ نتیجہ تو نہیں نکالا جا سکتا کہ اس سارے معاملے میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا جائے لیکن ان کے معاملے میں مغرب تو ایک ایسی متحدہ کا رروائی کرتا ہے کہ یورپ کے ہے بارہ سفیر آن واحد میں واپس بلا لئے جاتے ہیں اور امریکہ ان کی پشت پناہی کے لئے کھڑا ہو جاتا.اور کھلم کھلا اعلان کرتا ہے ، کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اس سے عالم اسلام کے دلوں پر کیا بُرا اثر پڑے گا اور یہاں حال یہ ہے کہ کیونکہ خمینی نے یہ فتویٰ دے دیا ہے بجائے اس کے کہ فتوے کو رڈ کر کے دیگر معاملات میں ان کے ساتھ ہونے کا اعلان کرتے اور کہتے کہ تم نے اگر مینی پر اس وجہ سے کوئی حملہ کیا

Page 154

خطبات طاہر جلد ۸ 149 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء تو ہم اس معاملے میں خمینی کے ساتھ ہوں گے کیونکہ اگر سیاست کی جنگ ہے یہ تو پھر سیاسی طور پر ہماری دنیا، مسلمانوں کی دنیا سے الگ نہیں کی جاسکتی اور اگر یہ مذہبی حملہ ہے تو مذہبی طور پر ہم ویسے ہی مسلمان ہیں تم جانتے ہو.اسلام کی غیرت ہمیں ایسی جگہ اکٹھے کئے ہوئے ہے جہاں سے ہم کسی قیمت پر الگ نہیں کئے جاسکتے.مگر افسوس کہ اس معاملے میں بعض عرب ممالک نے نہایت ہی نامناسب رد عمل کا اظہار کیا ہے.اس سے مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا کہ تاریخ اسلام میں سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہے.ایک موقع پر شام کے شمال کی طرف سے ( مجھے اب معین یاد نہیں کہ کس سرحد سے لیکن شمالی سرحد کی بات ہے ) عیسائی طاقتوں نے حضرت علی کی حکومت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس زمانے میں امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان آپس میں شدید اختلافات تھے.اس لئے اس زمانے کی عیسائی طاقتوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم علی کی حکومت پر حملہ کریں گے تو معاویہ اگر ان کے خلاف ہمارے ساتھ شامل نہ بھی ہو تب بھی ان کے حق میں کوئی کارروائی نہیں کرے گا.چنانچہ ایک لمبے عرصے تک مسلمانوں کی شمالی سرحدوں پر مخالفانہ فوجوں کا اجتماع ہوتا رہا.جب امیر معاویہ گو اس بات کی اطلاع ملی تو انہوں نے قیصر روم کے نام ایک خط لکھا اور اس خط میں لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ علی کی حکومت کو کمزور سمجھتے ہوئے تم نے علی کی حکومت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ معاویہ اور علی کی دشمنی ہے اس لئے معاویہ اس صورت میں علی کی مددکو نہیں آئے گا لیکن خدا کی قسم تمہارا یہ خیال جھوٹا ہے.یہ عالم اسلام کی غیرت کا معاملہ ہے.اگر تم نے اس حملے کی جرات کی تو وہ سپاہی جوعلی کی طرف سے لڑنے والے ہوں گے ان میں صف اوّل پر معاویہ کھڑا ہو گا اور معاویہ کی ساری طاقتیں علی کی خدمت میں پیش کر دی جائیں گی.( تاریخ اسلام حصہ دوم صفحہ ۴۵، ۴۶ مصنفہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی) یہ اتنا عظیم الشان خط تھا، اتنا اس کا رُعب طاری ہوا کہ کسی لڑائی کی نوبت نہیں آئی اور دشمن نے فیصلہ کیا کہ وہ عالم اسلام جو اپنے سیاسی مقاصد میں اور مذہبی مقاصد میں اس طرح متحد ہونے کی طاقت رکھتا ہے اس پر کوئی حملہ کا میاب نہیں ہوسکتا.آج افسوس ہے کہ تاریخ کے اس سنہری باب کو بھلایا جا رہا ہے.آج مسلمانوں کی اندرونی دشمنیاں اس بات کی راہ میں حائل ہو رہی ہیں کہ اسلام کے خلاف شدید ترین اور غلیظ

Page 155

خطبات طاہر جلد ۸ 150 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء ترین حملوں کے مقابل پر بھی اکٹھے ہونے سے انکار کر رہے ہیں.پس ایک ایسی عالمی مشاورت کے بلانے کی ضرورت ہے.جو خواہ مکہ یا مدینہ میں بلائی جائے یا اسلام آباد پاکستان میں بلائی جائے یا ایران میں بلائی جائے یا دنیا کے کسی اور خطے میں بلائی جائے.کوئی بلانے والا ہو اور کوئی وہ مقام ہو جہاں اکٹھا ہونے کی دعوت دی جائے.آج خدا اور محمد مصطفی ﷺ کی غیرت کا تقاضا ہے کہ تمام عالم اسلام لبیک لبیک کہتے ہوئے اس مقام پر اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے اکٹھا ہو جائے اور یہ فیصلہ کرے کہ کس طرح ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی حرمت اور عزت کا دفاع کرنا ہے اور اس راہ میں جو بھی تعلیم قرآن کریم نے ہمیں دی ہے اس تعلیم کے اندر رہتے ہوئے دفاع کرنا ہے اس سے ایک قدم با ہر نکال کر دفاع نہیں کرنا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرآن کریم کی تعلیم نہایت جامع اور مانع ہے.اس رنگ میں آپ کو دفاع کی ہدایت دیتی ہے کہ دشمن نے جو ہتھیار اپنا رکھے ہیں وہ دشمن کے ہاتھ سے چھینے جائیں گے.جس طرح تلواروں کے مقابلے میں بعض تلوار کے دھنی اس طرح حملہ کرتے ہیں کہ دشمن کے ہاتھ کی تلوار ہاتھ سے چھنک کر گر جایا کرتی ہے.یہ رائے عامہ کی جو تلوار انہوں نے اٹھارکھی ہے اگر آپ قرآنی حکمت کے دائروں میں رہتے ہوئے جوابی کارروائی کریں تو ان کے ہاتھ کی یہ تلوار جھنک کر گر جائے گی.آپ آج نسبتے نظر آتے ہیں، قرآن کی طاقت سے یہ تلوار آپ کے ہاتھ میں تھمائی جائے گی اور دنیا کی ساری رائے عامہ کو آپ مرعوب اور مجبور کر سکتے ہیں یہ بات ماننے پر کہ اسلام مظلوم ہے اور اسلام کے خلاف جو دشمن حملہ آور ہیں ان کو ان حملوں کا کوئی حق نہیں ہے.اسلامی تعلیم کے اندر رہنے میں ہی ساری عالم اسلام کی طاقت ہے لیکن اسلامی تعلیم سے باہر نکل کر اور بکھر کر انفرادی طور پر وہ جوابی کارروائیاں کرنا جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا.یہ جوابی کارروائیاں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں.ایسی جوابی کارروائیوں سے دشمن کو مزید اور پھر مزید اور پھر مزید طاقت ملتی چلی جائے گی اور آپ اور زیادہ دُنیا میں خود بھی بدنام ہوں گے اور اسلام کو بھی بدنام کریں گے اور قرآن کو بھی بدنام کریں گے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا بھی بدنامی کا موجب بنیں گے.اس لئے قرآن ایک جامع مانع کتاب ہے ایک کامل شریعت ہے.ایک اتمام نعمت ہے.اس کامل شریعت

Page 156

خطبات طاہر جلد ۸ 151 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء سے ، اس اتمام نعمت سے فائدہ اٹھائیں اور قرآنی تعلیم کے حدود کے اندر رہتے ہوئے قرآنی ہتھیاروں کو ہاتھوں میں تھام کر آج اپنی غیرت کا مظاہرہ کریں.بعض عیسائی پادریوں نے جن میں شرافت کا بیج ہے اور شرافت کی خوبو ہے انہوں نے یہاں تک اعلان کیا ہے کہ ہم پنگون سیریز Panguin Series کی آئندہ کوئی کتاب بھی کبھی نہیں خریدیں گے.یہ ایسا گندا اور ناپاک حملہ ہے.اس حملے کے دفاع میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آزادی ضمیر کے حق کو استعمال کیا گیا.آزادی ضمیر کے حق کا ناجائز اور نہایت ناپاک اور بہیمانہ استعمال کیا گیا ہے.اس لئے آزادی ضمیر کے حق کو تلوار سے تو نہ کاٹیں لیکن اس حق کو پامال کرنے والے کو اس طرح دنیا کے سامنے ننگا کر دیں اور اس طرح اس کی خامیوں کو اچھال کر دنیا کے سامنے پیش کر دیں کہ بجائے اس کے کہ وہ معصوموں پر داغ لگا سکے اس کے جسم کا ، اس کے دل کا ، اس کی فطرت کا داغ داغ دنیا کے سامنے ننگا ہوکر باہر آ جائے.سیہ وہ طریق ہے جس کے مطابق عالم اسلام کو جوابی کارروائی کرنی چاہئے اور میں امید رکھتا ہوں کہ احمدی جہاں جہاں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ ساری صورتحال کو جس طرح میں آپ کو سمجھا رہا ہوں اور کھول کھول کر قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں دنیا کے سامنے کھول کر پیش کریں گے اور جہاں جہاں حکومتوں میں کسی جگہ بھی احمدیوں کا اثر اور نفوذ ہے کسی رنگ میں بعض ایسے بھی احمدی ہیں جو سعودی عرب میں بڑے ڈاکٹر ہیں، سرجن ہیں اور کیونکہ چھوٹے پاکستانی مُلاں کی نگاہ وہاں تک نہیں اس لئے وہاں وہ کام کر رہے ہیں اور کیونکہ وہ با اخلاق ہیں اور اپنے فن میں بڑی مہارت رکھتے ہیں اس لئے تمام طاقتور شہزادے ان کی عزت کرتے ہیں.اس علم کے باوجود کہ وہ احمدی ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیں.یہ خیال نہ کریں کہ آپ کمزوروں کی جماعت ہیں جن کا کوئی اثر نہیں.احمدی اپنے اخلاق کی طاقت سے، اپنے کردار کی عظمت کی طاقت سے دنیا میں بہت نفوذ رکھتا ہے.امریکہ میں بھی بڑے بڑے لوگوں پر احمدی اپنے اخلاق اور کردار کی طاقت سے نفوذ رکھتے ہیں اور اثر رکھتے ہیں اور اسی طرح دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں میں جہاں احمدیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اس کا بھی سوواں حصہ ہو گی وہاں بھی بعض احمدی اپنی عظمت کردار کی وجہ سے ایک اثر رکھتے ہیں.تو اس سارے اثر کو اسلام کے حق میں اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے حق میں استعمال کریں اور دنیا میں ایک شور مچا دیں وہ شور جو ان کی آوازوں کو مزید بلند کرنے کا موجب نہ بنیں بلکہ ان کی

Page 157

خطبات طاہر جلد ۸ 152 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء آوازں کو اس طرح دبا دینے کا موجب بنیں کہ کسی بے غیرت کو آئندہ کے لئے اسلام پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو.ایک اور پہلو اس مضمون کا یہ ہے جس سے مجھے بہت تکلیف ہے کہ مسلمان علماء بھی اور بعض سیاسی لیڈر بھی جذباتیات کو ابھار کر بعض مسلمان عوام کو جو لاعلم ہیں جن کو پتا نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں.ان کو گلیوں میں نکالتے ہیں اور خود اپنے ہی اہل ملک کے سپاہیوں کی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں.ایسے واقعات اسلام آباد میں بھی ہوئے ، کراچی میں بھی ہوئے ، بمبئی میں بھی ہوئے ، دوسرے ملکوں میں بھی ہوئے اور بہت سے مسلمان ہیں جو اس دینی غیرت کی وجہ سے شہید ہو گئے ہیں.یہ درست ہے کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا.اس قسم کے خطرناک اور بیہودہ رد عمل کی اجازت نہیں دیتا لیکن یہ بھی درست ہے کہ جن لوگوں نے اپنی جانیں فدا کیں ہیں ان کو ان باتوں کا کوئی علم نہیں ، ان کی اکثریت بالکل معصوم ہے.اور صرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غیرت پر حملہ ہوتے ہوئے انہوں نے زندہ رہنا پسند نہیں کیا.وہ گلیوں میں پلنے والے عام غریب اور مزدور لوگ تھے لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے دین کی غیرت رکھنے والے تھے.جب مولویوں نے ان سے یہ کہا کہ آج دین کی غیرت تمہیں بلا رہی ہے، آج محمد مصطفی ﷺ کی آواز تمہیں بلا رہی ہے.تو جو کچھ ان کے پاس تھا یعنی نگی چھاتیاں وہ لے کر میدان میں نکل آئے اور گولیوں کا نشانہ بنائے گئے.ان کے پسماندگان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے.یہ ایک بہت بڑی مشرقی بدنصیبی.بدقسمتی ہے کہ ان کے لیڈ ر عوام کو اُبھارتے ہیں اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر خواہ وہ سچے ہوں یا جھوٹے یہ ان سے قربانیاں لیتے ہیں اور جب یہ قربانی کے میدان میں جانوروں کی طرح مارے جاتے ہیں اور گلیوں میں گھسیٹے جاتے ہیں ان کی اولادوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا.یہ معاملہ ایسا ہے جس میں ہمارے مشترک آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عزت اور احترام کا تعلق ہے، آپ کی محبت اور غیرت کا تعلق ہے.اس لئے ہر جگہ جماعت احمدیہ کو میں ہدایت کرتا ہوں کہ جہاں جہاں ایسے لوگ شہید ہوئے ہیں جو اس نام پر شہید ہوئے ہیں اگر چہ وہ غلط تعلیم معلوم کرنے کے نتیجے میں شہید کئے گئے لیکن وہ ان کے گھروں تک پہنچیں ان کا معلوم کریں کہ ان کا کیا حال ہے ، کوئی ان کا پرسان حال ہے بھی کہ نہیں اور اگر یہ معلوم کریں کہ اقتصادی لحاظ سے ان کو امداد کی ضرورت ہے تو ہے،

Page 158

خطبات طاہر جلد ۸ 153 خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۸۹ء جماعت فوری طور پر تحقیق کے بعد مجھے رپورٹ کرے کہ ہندوستان میں یا پاکستان میں یا دوسری جگہوں پر کتنے ایسے مظلوم مسلمان ہیں جن کے پسماندگان کا کوئی پوچھنے والا نہیں.ہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عاشق ایک جماعت ہے جو ضرور ان کا حال پوچھے گی اور آپ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے پسماندگان کو ذلیل ہونے نہیں دیا جائے گا.خدا ہماری وسعتیں بڑھائے اور ہم جو آنحضرت ﷺ کے احترام کی خاطر جس قربانی کا عہد کر چکے ہیں ہیں اس عہد پر پورا رہنے کی توفیق بخشے.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری توفیق کو بڑھاتا رہے گا اور اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے گا کہ ان غریبوں، معصوم بچوں، ان یتیموں ، بیواؤں کی خبر گیری کریں اور اپنے آقا محمد مصطفی ﷺ کے نام پر بھی ان کی خبر گیری کریں جو دنیا میں سب سے بڑھ کر یتیموں کی خبر گیری کرنے والا تھا، جو کائنات میں سب سے بڑھ کر یتیموں کا والی تھا.جن کا کوئی دیکھنے والا نہیں تھا ان کا ہمارا آقا محمد مصطفی ام دیکھنے والا تھا.اس لئے آج آپ کی غیرت اور آپ کی محبت اور آپ کے عشق کا تقاضا ہے کہ وہ جنہوں نے آپ کی راہ میں جانیں دی ہیں اُن کے بھی دیکھنے والے ہوں اور وہی ان کے دیکھنے والے ہوں گے جو آنحضرت ﷺ سے دائمی ، از لی ، اٹوٹ محبت رکھتے ہیں.کوئی دنیا کی طاقت اس محبت کو نقصان نہیں پہنچا سکتی.

Page 159

Page 160

خطبات طاہر جلد ۸ 155 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء عظیم الشان روحانی گیٹ سے گزرنے والا احمدیت کا خوش نصیب قافله ( خطبه جمعه فرموده ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں: بَلَى مَنْ اَوْ فِى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ اِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ (آل عمران: ۷۷-۷۸) ۲۳ / مارچ ۱۹۸۹ء یعنی اسی سال کو جماعت احمدیہ انشاء اللہ اگلی صدی میں یعنی جماعت احمدیہ کے قیام کی اگلی صدی میں داخل ہو چکی ہوگی اور آج کے جمعہ اور اُس دن کے درمیان اب صرف ایک اور جمعہ باقی ہے.جوں جوں یہ وقت قریب آ رہا ہے ہر احمدی کا دل پہلے سے زیادہ جذبات اور احساسات کے ساتھ دھڑک رہا ہے.کئی قسم کے خیالات دلوں میں پیدا ہورہے ہیں، کئی قسم کی سوچیں اُبھر رہی ہیں، کئی قسم کے امتحانات ہیں جو سب احمدی اپنے اپنے رنگ میں خود اپنے لے رہے ہیں اور محسوس ہو رہا ہے کہ ایک بہت ہی اہم وقت آنے والا ہے.تصوراتی رنگ میں بعض دفعہ انسان ایسے مناظر کو یوں بھی سوچتا ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا گیٹ لگا ہو جس میں سے ایک عظیم الشان

Page 161

خطبات طاہر جلد ۸ 156 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء قافلہ گزرنے والا ہو.وقت کا ویسے تو کوئی گیٹ نہیں ہوا کرتا لیکن تصور میں انسان اپنے روز مرہ کے تجربوں سے انہی اصطلاحوں میں سوچ لیتا ہے.تو مجھے بھی اس طرح سوچتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ جیسے بہت ہی عظیم الشان گیٹ ہے جس میں سے احمدیت کا یہ عظیم قافلہ گزرنے والا ہے اور یہ اب چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا ہے.اس اہم موقع پر جس طرح احمدی اپنے آپ کو سجانے کی کوشش کر رہے ہیں اس بات کے متعلق مجھے ہر طرف سے خط آ رہے ہیں اور دنیا کے ہر ملک سے خط آ رہے ہیں.کسی نے کوئی عہد باندھا ہے، کسی نے کوئی کسی نے بعض اپنی برائیاں دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کسی نے بعض خوبیاں اپنانے کا فیصلہ کیا ہے غرضیکہ ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں، اپنے اپنے حالات کے مطابق سجاوٹ کی کوشش کر رہا ہے.اس پر میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ جب دنیا میں عظیم الشان بادشاہ بعض عظیم الشان بادشاہوں کے مہمان بنتے ہیں تو سارے ملک میں ایک ہیجان برپا ہو جاتا ہے اور بہت بڑے بڑے گیٹ لگائے جاتے ہیں اُن بادشاہوں کے استقبال کے لئے اور جولوگ اُن بادشاہوں کے ساتھ داخل ہوتے ہیں وہ بھی بن سج کر داخل ہوتے ہیں اور وہ گیٹ بھی بڑے خوبصورت اور بڑے عظیم الشان ہوتے ہیں جو ان بادشاہوں کے استقبال کے لئے بنائے جاتے ہیں.پھر اسی طرح چھوٹے پیمانے پر جب کوئی بڑا مہمان کسی شہر میں داخل ہو تو شہروں کے سامنے بھی گیٹ لگائے جاتے ہیں اور اُن کو سجایا جاتا ہے اور داخل ہونے والے بھی جہاں تک توفیق پاتے ہیں بن سج کر ہی اُن گیٹوں سے گزرتے ہیں.پھر باراتی ہیں خواہ وہ غریب کے گھر آئیں ، خواہ وہ امیر کے گھر آئیں اُن کا بھی اسی طرح استقبال کیا جاتا ہے.امیر آدمی زیادہ قیمتی ، زیادہ بڑے، زیادہ بجلی کے قمقموں سے روشن گیٹ لگا لیتے ہیں اور غریب آدمی اگر اور کچھ میسر نہیں تو ایک کیلے کا تنا کاٹ کر یا مانگ کر اُسی سے اپنے گیٹ بنالیا کرتے ہیں اور اسی طرح باراتوں کا حال ہے.امیروں کی باراتیں زیادہ سج کے گزرتی ہیں اور غرباء کی باراتیں نسبتاً کم سج کے گزرتی ہیں لیکن سجاوٹ کا تصور گیٹوں میں داخل ہونے کے ساتھ اس طرح منسلک ہے کہ ایک تصور سے دوسرا تصور خود بخود پیدا ہوتا ہے.جماعت احمد یہ جس گیٹ میں داخل ہونے والی ہے وہاں تو ابھی ہماری پہنچ ہی نہیں ہے ، وقت کے لحاظ سے بھی ہماری پہنچ نہیں اور اس لحاظ سے بھی کہ وہ ایک تصوراتی گیٹ ہے ہم آگے بڑھ کر اُسے سجا نہیں سکتے اگر وقت

Page 162

خطبات طاہر جلد ۸ 157 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء سے پہلے پہنچ کر خود اپنے استقبال کی تیاری کی کوشش کریں تب بھی ہمیں علم نہیں ، ہماری استطاعت نہیں ہے کہ اس تصوراتی اور نظریاتی گیٹ کو کیسے سجائیں گے؟ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے قرآن کریم کی ایک آیت میرے ذہن میں آئی جس میں خدا تعالیٰ نے اسی قسم کا ایک نقشہ کھینچا ہوا ہے.جہاں فرمایا کہ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف :۳۲) کہ اے مومنو! تم ہر مسجد میں اپنی زینت خود ساتھ لے کر جایا کرو اور جہاں تک مسجدوں کا تعلق ہے قرآن کریم میں کوئی آیت بھی ایسی نظر نہیں آتی جس میں مسجدوں کے سجانے کا ذکر ہو.اُن کے پاک اور صاف رکھنے کا تو ذکر ہے لیکن اُن کے سجانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا.تو بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان دونوں باتوں میں توازن نہیں ہے کہ مہمان تو تم ہو خدا کے گھر آرہے ہو لیکن زمینیں اپنی ساتھ لے کے آنا اور یہی تمہارا استقبال ہوگا اور یہی تمہاری سجاوٹ ہو گی.پھر جب میں نے مزید اس مسئلہ پر غور کیا تو قرآن کریم کی اس آیت کے نتیجے میں یہ گتھی سلجھی اور مجھ پر حقیقت روشن ہوئی کہ قرآن کریم ہمیں کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ مسجدوں کا ایک ظاہر ہے وہ ظاہر اگر سجایا جائے تو ہر کس و ناکس کے لئے برابر سجاوٹ ہوگی.ایک بد کار آدمی بھی مسجد میں داخل ہوتا ہے اور ایک پاکباز آدمی بھی داخل ہوتا ہے.ایک ایسا انسان بھی داخل ہوتا ہے جس نے اپنے اعمال صالحہ کے ساتھ بد اعمالیوں کو بھی شامل کیا ہوا ہے اور ایک ایسا بھی داخل ہوتا ہے جو خدا کی نظر میں صالح ٹھہرتا ہے.پھر ایک شہید بھی ایسی مسجد میں داخل ہوتا ہے، ایک صدیق بھی ایسی مسجد میں داخل ہوتا ہے اور بسا اوقات ایک نبی بھی ایسی مسجد میں داخل ہورہا ہوتا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے ظاہری سجاوٹ کو استقبال کی نشانی بنایا ہوتا تو وہ ظاہری سجاوٹ تو ہر کس و ناکس کے لئے ، ہر بڑے اور چھوٹے کے لئے ، ہر متقی اور غیر متقی کے لئے ایک قدر مشترک بن جاتی.گویا سب کا ایک ہی طرح استقبال ہو رہا ہے.انسان کو تو مجبوری ہے وہ تو فرق نہیں کر سکتا وہ تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ بارات میں صرف دو یا ایک اس گیٹ سے داخل ہو اور باقی سب لوگ حسب مراتب نسبتاً چھوٹے چھوٹے گیٹوں سے داخل ہوں اور جو بیچارے ساتھ ملازم ہیں اُن کے لئے گندے، جھونپڑیوں کے تنکوں کے گیٹ بنائے جائیں ایسا تو کوئی نہیں کر سکتا انسان نہ ایسی بات انسان کو زیب دیتی ہے لیکن خدا تعالیٰ یہ فرق کرنا چاہتا تھا.خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ سمجھایا کہ یہ تصوراتی اور نظریاتی گیٹ اور یہ سجاوٹیں جو مسجدوں میں لگائی جاتی ہیں یہ تمہارے بس سے باہر ہیں تمہارے

Page 163

خطبات طاہر جلد ۸ 158 خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۸۹ء اختیار میں نہیں ہے کہ تم ایسی سجاوٹیں کر سکو اور اگر کرو گے تو پھر تم سب برابر کے اس میں شریک ہو جاؤ گے اس لئے تم مہمان ہو اور میں تمہارا میز بان ہوں.میرا گھر ہے جس میں تم آ رہے ہو اس لئے میں ہر ایک سے حسب مراتب کے مطابق سلوک کروں گا.تمہاری زمینوں کو دیکھا جائے گا کہ تمہاری کتنی قدر ہونی چاہئے اس مسجد میں تم اپنی قیمت خود بڑھانے والے ہو گے اور جتنی اپنی قیمت اونچی کرتے چلے جاؤ گے اتنا ہی اس میزبان کو زیادہ قدردان پاؤ گے.اُس وقت مجھے سمجھ آئی کہ کیوں ایک ہی مسجد میں جو بظاہر گھاس پھوس کی مسجد تھی یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کی مسجد.اس میں کوئی سجاوٹ نہیں تھی.بارش ہوتی تھی تو چھت ٹپکتی تھی اور بسا اوقات سجدوں میں زمین کو چھونے والی پیشانیاں او کیچڑ سے بھر جایا کرتی تھیں.( صحیح ابن حبان کتاب الصوم حدیث نمبر: ۳۶۸۵) اس مسجد میں بھی زینت کا ایک روحانی انتظام موجود تھا اور ہر شخص کی زینت کے مطابق اس سے سلوک ہو رہا تھا.اس مسجد میں بارات کے دولہا حضرت اقدس محمد مصطفی ملے تھے اور پھر آپ کے درجہ بدرجہ آپ کے مطابق میں صدیق بھی تھے، شہید بھی تھے، صالح بھی تھے.گویاوہ ایک عظیم الشان بارات تھی جس کا ہر پانچ مرتبہ روزانہ مسجد میں فرشتے استقبال کیا کرتے تھے اُن کے لئے زمینیں سجائی جایا کرتی تھیں.وہ خدا کا کام تھا اور وہ نظر آنے والی زیشنیں نہیں تھیں.پس یہ گیٹ یعنی صدی کا گیٹ اس میں جب ہم داخل ہو رہے ہیں تو اگر چہ ہم اپنے سامنے کسی مجھے ہوئے گیٹ کو نہیں دیکھ رہے ، ہم میں سے ہر ایک خود اپنے آپ کو سجانے میں مصروف ہے لیکن اس تصوراتی گیٹ میں جس رنگ میں داخل ہو گا اُس کو اپنے ماحول میں گردو پیش کوئی ایسی خوبصورت سجاوٹ کی عمارت یا گیٹ دکھائی نہیں دیں گے جس سے اُس کو محسوس ہو کہ گویا میری خاطر یہ سب کچھ کیا گیا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا جو پانچ وقت آپ کی سجاوٹ کے مطابق آپ کے ساتھ زینت کا سلوک فرماتا ہے،حسن و احسان کا جلوہ دکھاتا ہے اور ہر نمازی کو اس کے تقویٰ کے مطابق ہر مسجد میں جب وہ داخل ہوتا ہے عزت دی جاتی ہے.اسی کا نام مراتب کا درجہ بدرجہ بڑھنا ہے.اسی طرح اب جب اس گیٹ میں ہم داخل ہونے والے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعت میں سے ہر فرد بشر پر خدا کی نظر ہوگی.اس کے ساتھ یقیناً عزت کا سلوک کیا جائے گا.یقیناً اس کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جائے گا.خدا کے فرشتے اس کے احترام کے لئے حاضر ہوں گے اور وہ خدا کی نمائندگی کریں گے لیکن کس کو کتنا احترام ملنا ہے ، کس کی

Page 164

خطبات طاہر جلد ۸ 159 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء کیسے عزت افزائی کی جائے گی، کس سے کتنا پیار کا سلوک ہوگا اس کا فیصلہ ہم میں سے ہر ایک کے اپنے ہاتھ میں ہے.پس جتنے دن باقی رہ گئے ہیں ان دنوں کو دعاؤں کے ساتھ تقویٰ کے ساتھ بسر کرنے کی کوشش کریں اور خوب غور کریں کہ کونسی ایسی بدیاں ہیں جو ابھی تک آپ جھاڑ نہیں سکے، جو ابھی تک بلائیں بن کر آپ کے ساتھ چھٹی ہوئی ہیں اور کون سی ایسی خوبیاں ہیں جو آپ کی پہنچ میں موجود ہونے کے باوجود آپ سے دور ہیں آپ ہاتھ اُن کی طرف بڑھاتے نہیں ہیں.ہر نیکی ہر انسان کی پہنچ میں ہے ورنہ ان نیکیوں کو ہم پر لازم نہ کیا جاتا اور جب میں کہتا ہوں کہ آپ کی پہنچ میں ہے تو مراد یہ ہے کہ آپ کی تخلیق میں خدا تعالیٰ نے یہ بات ودیعت فرما دی ہے کہ آپ اُن سب نیکیوں کو حاصل کر لیں جن کا قرآن کریم ذکر فرماتا ہے اور جو ہمیں سنت میں ملتی ہیں.درجہ بدرجہ کس حد تک ہم اس نیکی کو حاصل کر سکیں گے؟ اس کا بھی ہماری خلقت سے ایک تعلق ہے اور اپنی استعدادوں سے باہر نکل کر ہم اپنی نیکیوں کو بڑھا نہیں سکتے لیکن استعدادوں تک پہنچنا ہم پر فرض فرمایا گیا ہے.ہم اس بات کے مکلف کئے گئے ہیں کہ ہمیشہ کوشش کرتے رہیں کہ نیکیوں کے حصول میں اپنی استعدادوں کی آخری حدیں چھو دیں.یہی ہماری تکمیل ہے ورنہ خدا کے سوا اور کوئی انسان کبھی کامل بن ہی نہیں سکتا.پس اس پہلو سے جو تھوڑ اوقت رہ گیا ہے اس میں مزید غور کریں، فکر کریں، اپنی فکر کریں، اپنے اہل وعیال کی فکر کریں، اپنے بچوں کی فکر کریں، اپنے دوستوں کی فکر کریں اور محبت اور پیار کے ساتھ اُن کو بھی سجانے کی کوشش کریں اور ان کی گندگیاں بھی دور کرنے کی کوشش کریں.یہ دو مضمون ہیں جن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے.یہ ضروری نہیں کہ انسان کلیۂ پاک وصاف ہو جائے اور سب بدیوں کو چھوڑ دے تب ہی اس میں سجاوٹ پیدا ہوگی.ہمارے ہاں پنجاب میں تو بعض غریب قوموں میں یہ بھی رواج ہے کہ شادی پر جاتی ہیں عورتیں تو پرانی شلوار اور نیا دو پٹہ پہنا ہوا یا ئی قمیض پہنی ہوئی اور اُس پر پھٹی پرانی شلوار یا کوئی اور جسم کا کپڑا ایک نیا ہو گیا ایک پرانا ہو گیا اور اُن کو یہ عجیب نہیں لگتا.اس لئے عجیب نہیں لگتا کہ وہ جانتی ہیں کہ ہماری توفیق میں اس سے زیادہ ہے نہیں.اگر ہم میں ایک نئے دوپٹے کی توفیق ہے تو یہی ہماری سجاوٹ ہے.پس اس توفیق کو مذہب میں بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ بندے سے ایسی زیادتی نہیں کرتا کہ اگر اُس میں کسی خاص لمحے میں یہ توفیق

Page 165

خطبات طاہر جلد ۸ 160 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء نہیں ہے کہ وہ کامل طور پر پاک وصاف ہو کر پھر خوبیوں کو اختیار کرے تو اُس کو کلیۂ ردفرمادے تبھی قرآن کریم میں واضح طور پر یہ فرمایا گیا کہ بعض خدا کے ایسے بندے بھی ہیں جنہوں نے نیک اعمال کو بداعمال کے ساتھ اکٹھا کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے چاہے تو ان کو معاف فرمادے چاہے تو ان کا مواخذہ کرے لیکن بحیثیت مجموعی ان کو رد نہیں کیا جائے گا.پھر خدا تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ کس نے کس بدی کو توفیق پانے کے باوجو د ترک نہیں کیا تھا، کس نے کس نیکی کو تو فیق پانے کے باوجود اختیار نہیں کیا تھا اور یہ مضمون اتنا باریک ہے اور اتنا تہہ بہ تہہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نظر اس مضمون کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی مگر ہوگا اس قسم کا واقعہ جس قسم کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی جن کے اعمال سئیہ اعمال صالحہ کے ساتھ مل جل گئے ہیں وہ بھی یقیناً خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بخشے جائیں گے اور ان کو بھی اعزاز کے ساتھ جنت کے دروازوں میں قبول کیا جائے گا.پس یہ جو گیٹ ہمارے سامنے سج رہا ہے یعنی یہ تصوراتی گیٹ یہ ایسا تصوراتی بھی نہیں جیسا کہ ہم اپنے اظہار خیال کے معاملے میں مجبوراً اس کو تصوراتی کہتے ہیں اور کوئی لفظ ہمیں ملتا نہیں مگر ایسا تصوراتی بھی نہیں یقینا یہ ایک ایسا روحانی گیٹ ہے جس میں خدا اور اس کے فرشتے ہمارے منتظر ہیں اور نئی صدی میں داخل ہونے والا یہ قافلہ ایک خاص نظر سے دیکھا جائے گا اور ہم میں سے ہر ایک سے اس کی حیثیت اور اس کی توفیق کے مطابق اعزاز کا سلوک کیا جائے گا.خدا نہ کرے کہ کچھ ایسے بھی ہوں جو اس دروازے پر رد کر دئیے جائیں.بظاہر وہ وقت کے لحاظ سے تو آگے گزر جائیں لیکن اس گیٹ میں سے گزرنے کی ان کو اجازت نہ ملے.ایسا دنیا میں بھی ہوا کرتا ہے کہ وقت کے لحاظ سے جب زمین کے لحاظ سے ایک آدمی آگے گزر جاتا ہے لیکن جو گیٹ مقرر ہے اس سے اس کو نکلنے کی اجازت نہیں ملتی.کھیلوں میں بھی ایسا ہوتا ہے گول کی جگہ مقرر ہے فٹ بال ہزار مرتبہ دائیں اور بائیں سے آگے نکل جائے اس کے کوئی بھی معنی نہیں.وہی فٹ بال عزت کا مقام پاتا ہے اور ایک گول کے طور پر لکھا جاتا ہے اس وقت کہ اس فٹ بال کے ذریعے گول ہو گیا جو گیٹوں کے بیچ سے گزرتا ہے.تو خدا نہ کرے کہ ایسا ہو ہم میں سے بہت سے بدقسمت ایسے بھی ہوں جو وقت کے لحاظ سے تو آگے نکل جائیں لیکن خدا کے فرشتے اس کو یا اُن کو اس گیٹ سے نہ گزرنے دیں جو خاص طور پر روحانی لحاظ سے اس موقع پر سجایا گیا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہر احمدی کوشش کرے گا تو یقیناً اس کے ساتھ حسن واحسان

Page 166

خطبات طاہر جلد ۸ 161 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء کا سلوک کیا جائے گا، عفو کا سلوک کیا جائے گا، مغفرت کا سلوک کیا جائے گا لیکن یہ عہد ضروری ہے کہ میں اپنے آپ کو پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش کروں گا اور یہ عہد خاص طور پر اس لئے ضروری ہے کہ ہم اگلی صدی کے سر پر کھڑے ہونے والے ہیں اور آئندہ آنے والی ساری صدی کی جو مسافت پھیلی پڑی ہے اس پر آپ لوگ اثر انداز ہوں گے.ایک سو سال گویا کہ آپ کو بادشاہی عطا کی گئی ہے.آپ کی نسلوں نے اگلی صدی میں اسلام کی عظیم الشان خدمتیں کرنی ہیں یا بعض لوگوں نے ان خدمتوں سے محروم رہ جانا ہے.پس اس موقع پر جو قافلہ بھی یہ سعادت پارہا ہے کہ وہ صدی کے سر پر قافلہ بنے اس میں آپ شامل ہیں اور اس پہلو سے غیر معمولی اہمیت حاصل ہو چکی ہے.پس اس رنگ میں داخل ہوں سر جھکاتے ہوئے تقویٰ کے ساتھ اور اس ارادے کے ساتھ کہ جو کمزوریاں ہم دور کر سکے ہیں وہ اللہ کا فضل تھا جو ہم نہیں دور کر سکے وہ ہماری ہی اپنی شامت اعمال ہے ہم آئندہ اس کو پوری کوشش کے ساتھ ان بدیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھیں کہ جو خدا کے ساتھ عہد کئے جاتے ہیں وہ پوچھے جاتے ہیں.کوئی آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ اچھا پھر ہم عہد ہی نہیں کرتے لیکن یہ ایسی بات نہیں ہے جو اس کے بس میں ہے.ایک عہد تو وہ ہے جو آج آپ کر رہے ہیں یا پہلے کر چکے ہیں یا کل کرنے والے ہوں گے کہ میں اپنی یہ کمزوری دور کروں گا.وہ بھی ایک عہد ہے اس کی بھی ایک اہمیت اور عظمت ہے لیکن ایک عہد بیعت ہے جو دراصل خدا تعالیٰ سے کیا جاتا ہے اور وہ عہد ہے جو اصل اور حقیقی عہد ہے جس کے اندر ساری نیکیوں کو اختیار کرنا شامل ہے اور ساری بدیوں کو ترک کر دینا شامل ہے.پس بظاہر آپ بالا رادہ اس روحانی گیٹ سے داخل ہونے سے پہلے کوئی عہد خدا سے باندھیں یا نہ باندھیں اگر آپ مومنین کی جماعت میں شامل ہیں تو وہ عہد تو آپ باندھ چکے ہیں.اب آپ بے اختیار ہیں اس لئے یا درکھیں کہ جو عہد خدا سے باندھا گیا ہے اس عہد کو نبھانا ہمارا فرض ہے.اس عہد کو نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرنا ہم سب پر لازم ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عہد جو ہے یہ مسؤل ہے.اس عہد کے متعلق تم ضروری پوچھے جاؤ گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس عہد بیعت کی تجدید کی اس دور میں جس کا اسلام میں آغاز حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے ذریعے سے ہوا تھا تو اُس میں یہ الفاظ رکھے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور میں اپنے تمام پچھلے گنا ہوں سے تو بہ کرتا ہوں اور آئندہ ہر

Page 167

خطبات طاہر جلد ۸ 162 خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۸۹ء قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہوں گا.یہ جو بچنے کی کوشش کرتا رہوں گا ایک بہت ہی حکیمانہ کلام ہے.وہ اس لئے کہ اگر یہ عہد ہوتا کہ میں ہر قسم کے گناہوں سے بچوں گا تو یہ ایک ایسا عہد ہوتا جسے شاید قبول کرنے کی کسی میں بھی ہمت نہ ہوتی کیونکہ کون کہہ سکتا ہے کہ میں ہر قسم کے گنا ہوں سے ہمیشہ بچ جاؤں گا اور اگر ایسا کوئی عہد رکھا ہی نہ جاتا تو پھر گویا سب کو کھلی چھٹی ہو جاتی کہ پچھلے گناہوں کی بخششیں مانگنا ہمارا کام رہ گیا ہے گناہ کرتے چلے جائیں بخشش مانگتے چلے جائیں.یعنی وہی بات ہوتی کہ رات پی زم زم پہ مے اور صبح دم دھوئے دھبے جامہ احرام کے (دیوان غالب صفحه : ۳۸۱) جام احرام کے دھبے دھوتے چلے جائیں اور پھر رات کو مے بھی پیتے چلے جائیں اسی قسم کی ایک زندگی بنتی تو یہ دیکھئے کتنے خوبصورت الفاظ ہیں.کمزوروں کو حوصلہ دلانے والے اور صاحب عزم لوگوں کو ہمیشہ ان کا عہد سامنے رکھنے والے اور عظیم مقامات جن کی طرف انہوں نے آگے بڑھنا ہے وہ ان کے پیش نظر رکھنے والے ہیں.یہ عہد کیا ہے کہ میں تمام عمر جب تک میں زندہ رہوں گا گنا ہوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہوں گا.یہ امر واقعہ ہے کہ اگر گناہوں سے بچنے کی انسان واقعۂ کوشش کرتا رہے تو خدا تعالیٰ ضرور تو فیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ گناہوں سے بچ جائے لیکن بہت سے ایسے گناہ ہیں جن میں انسان گناہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس کا بس نہیں چلتا اور اچانک کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو روشنی ملے تو وہ جاگ اٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ہاں میں کیا کر رہا ہوں ورنہ بسا اوقات وہ یہی سمجھتا ہے کہ میں گناہوں سے بچنے کی کوشش میں زندگی خرچ کر رہا ہوں.اس لئے یہ شعور بیدار کرنے کا وقت ہے.خوب اچھی طرح اپنے حالات پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا واقعی آپ کوشش کر رہے ہیں کہ نہیں کر رہے.آپ جانتے ہیں کہ ہزار مرتبہ انسان پر ایسے وقت آتے ہیں جب وہ مالی معاملات میں بددیانتی کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور باشعور طور پر اس کو علم نہیں ہوتا کہ میں یہ کر رہا ہوں اور کئی قسم کی دنیاوی لذتوں کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے جانتا ہے کہ گناہ ہے خواہ چھوٹا گناہ ہے یا بڑا گناہ ہے مگر گناہ ضرور ہے اور اس کے باوجود وہ کوشش کر رہا ہوتا ہے.غالب نے اپنی

Page 168

خطبات طاہر جلد ۸ 163 خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۸۹ء زندگی کے حالات پر غور کرنے کے بعد جب اپنا جائزہ لیا تو اسی نتیجے تک پہنچا تھا کہ انسان دراصل جتنے گناہ کر سکتا ہے اس سے بہت زیادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.چنانچہ اس مضمون کو اس نے اس طرح باندھا کہ نہ کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یا رب! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے (دیوان غالب صفحه : ۳۴۶) اے خدا جو گناہ میں نے کئے ہیں جن کی تو مجھے سزا دینے والا ہے یہ تو کچھ بھی نہیں.نہ کردہ گناہوں کی حسرتیں اگر شامل کر لی جائیں تو بے انتہا گناہ بن جاتے ہیں اور یہ محض شاعری نہیں ہے یہ صاحب بصیرت کی گہری نگاہ ہے انسانی اعمال پر.غالب میں اگر بعض کمزوریاں نہ ہوتیں تو وہ خود کہتا ہے اور خود اس بات کا شعور رکھتا تھا کہ یہ مسائل تصوف ، یہ ترا بیان ، غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا ( دیوان غالب صفحه :۵۰) تو واقعہ جب وہ یہ باتیں بیان کرتا ہے تو گہری سوچ اور فکر کے نتیجے میں اس میں بعض انسانی فطرت کے راز ہیں اور یہ محض شاعری نہیں ہے یہ مسائل تصوف ہیں.پس آپ بھی اپنی زندگیوں پر غور کر کے دیکھیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے یہ معلوم کر کے کہ ہم میں سے اکثر کی اکثر زندگی گناہوں کی حسرتوں اور تمناؤں میں کٹ گئی ہے اور ہم سمجھ یہ رہے ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہم گناہ نہ کریں.جو لوگ بالا رادہ کوشش کرتے ہیں ان کی کوششوں کو کامیاب کیا جاتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے.حقیقت میں بندے کا کام ہی نہیں ہے کہ وہ بے گناہ اور معصوم ہو جائے اس کی ذمہ داری کوشش سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اور اسی حد تک اس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے.پس اس روحانی عظیم وقت کے گیٹ میں سے جب ہم گزرنے والے ہیں تو اس پہلو سے بھی ہمیں اپنے حالات پر اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالنی چاہئے اور اپنی امنگوں کا بھی جائزہ لینا چاہئے ، اپنی خواہشات کا جائزہ لینا چاہئے ، اپنی حسرتوں کا جائزہ لینا چاہئے ، روزمرہ کی زندگی میں جو طلب پیدا

Page 169

خطبات طاہر جلد ۸ 164 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء ہوتی ہے اس کا جائزہ لینا چاہئے کیسی طلب ہے؟ اور دکھ نیکی نہ کرنے پر زیادہ ہوتا ہے کہ بدی نہ کرنے پر زیادہ ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جوں جوں انسان کا شعور بڑھتا چلا جاتا ہے یہ نسبت بدلتی جاتی ہے.ایک لاعلم انسان جو غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے اس کو بسا اوقات گناہ نہ کر سکنے کا صدمہ زیادہ ہوتا ہے اور نیکی نہ کر سکنے کا صدمہ کم ہوتا ہے.بچے نماز نہیں پڑھتے اور صبح کی نماز میں نہیں اُٹھتے شاذ ہی ایسے ہوں گے جن کو صدمہ ہوا ہو لیکن جب بڑے ہونے شروع ہوتے ہیں جب شعور بیدار ہوتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ احساس بڑھنے لگتا ہے پھر بعض لوگ دعاؤں کے خط بھی لکھنے لگ جاتے ہیں کہ اور تو نمازیں پڑھ لیتے ہیں لیکن صبح کے وقت آنکھ نہیں کھلتی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی توفیق بخشے.پھر اور زیادہ شعور بیدار ہوتا ہے تو پھر اس کا غم لگ جاتا ہے پھر واضح طور پر توجہ پیدا نہیں ہوتی بلکہ واقعہ غم لگ جاتا ہے اور جب غم لگتا ہے تو پھر خدا کی تقدیر ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے.ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس اس وقت شیطان آیا جب ان کی نیند بڑی گہری تھی اور بڑے مزے لے کر سورہے تھے.اُٹھنے لگے عادتاً تہجد کے وقت جیسا کہ اُن کو عادت تھی مگر اُس وقت شیطان نے کچھ ایسا پھسلایا کہ ان کی دوبارہ آنکھ لگ گئی اور پھر سورج نکل آیا اور ان کو ہوش ہی کوئی نہیں تھی.تہجد کا تو کیا ذ کر با وقت صبح کی نماز بھی نہیں پڑھ سکے.اس پر اتنا بڑا صدمہ محسوس کیا کہ سارا دن روتے رہے، ساری رات روتے روتے اُن کی آنکھ لگ گئی اور تھکے ہوئے نیند کے غلبے سے مجبور سوئے تھے لیکن اچانک انہوں نے آواز سنی کہ بھائی نماز کے لئے اُٹھو، نماز کے لئے اُٹھو.بھائی کا لفظ تو نہیں یہ تو ویسے محاورے سے نکل گیا لیکن یہ آواز سنی کہ نماز کے لئے اٹھو، نماز کا وقت ہو گیا ہے.آنکھ کھلی دیکھا تو کوئی نہیں تھا.انہوں نے کہا تم کون ہو مجھے جگانے والے.اس نے کہا میں شیطان ہوں.انہوں نے کہا شیطان مجھے نماز کے لئے جگانے کے لئے آئے ہو.اس نے کہا میرا کام تو لوگوں کو دکھ دینا ہے اور نیکیوں سے محروم کرنا ہے.کل میں نے تمہیں ایک نماز سے محروم کیا تھا لیکن تمہاری گریہ و زاری کو خدا نے ایسا پسند فرمایا ہے کہ تمہارے کھاتے میں ہزاروں نمازیں لکھ دی گئیں تو میں تو نیکیوں سے محروم کرنے والا شیطان ہوں نیکیوں کی عادت ڈالنے والا تو نہیں ہو.نیکیوں کے اسباب بنانے والا تو نہیں ہوں اس لئے آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں

Page 170

خطبات طاہر جلد ۸ 165 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء نماز سے محروم کبھی نہیں کرنا.تمہاری ایک نمازگئی تو ہزاروں نمازیں ملیں گی.پس یہ معرفت ہے جو جوں جوں ترقی کرتی چلی جاتی ہے نیکی سے ذاتی تعلق اور محبت بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر خدا تعالیٰ نیکیوں کی توفیق بڑھانا ہے اور جو نیکیاں نہ کرنے کی حسرتیں ہیں پھر ان کا ثواب ملنا شروع ہو جاتا ہے.ہمارا خدا ایک بے انتہا رحم کرنے والا ، بے انتہا بخشش کرنے والا ، بار بار بخششیں کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا خدا ہے.یہ وہ خدا ہے جو نا کردہ گناہوں کی حسرتوں کے باوجود بھی سزا نہیں دیتا مگر یہی خدا ہمارا گواہ ہے کہ نا کردہ نیکیوں کی جزا ضرور دے دیتا ہے اگر ان کی حسرتیں رہ جائیں.تو وقت تھوڑا ہے ہم نیکیاں تو زیادہ نہیں کر سکتے مگر نیکیاں نہ کرنے کی حسرتیں لے کر اس گیٹ میں داخل ہوں گے.تو میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ وہ ایسا غفور رحیم خدا ہے اور بے انتہا رحم کرنے والا ہے کہ وہ آپ کی ساری زندگی برکتوں سے بھر دے گا اور ان نیکیوں کی بھی آپ کو جزا دے گا جن کی حسرتیں لے کر آپ اگلی صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے.پس اپنی نیکیوں کی اُمنگوں کو بڑھالیں، خواہشوں کو بڑھا لیں.یہ تمنائیں کریں کہ کاش ہماری اولاد ہماری ساری نیکیاں لے کر بڑی ہو اور ایک بھی بدی ہم ان کو ورثے کے طور پر نہ دیں اور اس کے لئے کوشش شروع کر دیں کیونکہ ان نیکیوں کی حسرتوں کو جزا املا کرتی ہے جن کے لئے انسان کوشش ضرور کرتا ہے خواہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو سکے یا نہ ہو سکے.کیونکہ فرضی باتیں خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتیں.پس اس پہلو سے آپ اپنی اولاد، در اولاد، در اولاد، در اولاد کو شامل کرلیں اور یہ وصیت کرنی شروع کریں اپنی اولاد کو جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل اپنی اولاد کو وصیت کیا کرتے تھے کہ دیکھوتم آئندہ وصیت کرتے چلے جاؤ کہ ان بدیوں سے بچنا ہے اور ان نیکیوں کو اختیار کرنا ہے اور توحید کے سوا اور کوئی مذہب اختیار نہیں کرنا.تو اس طرح آئندہ ساری نسل تک کم سے کم ایک سوسال تک آپ کو ان سب نیکیوں کی جزا ملتی رہے گی جن کی آپ حسرتیں رکھتے ہیں کہ کاش ہم خودان نیکیوں کو قائم کر سکتے.چونکہ آپ سنجیدہ ہیں، چونکہ آپ مخلص ہیں، چونکہ آپ متقی ہیں.واقعہ یہ چاہتے ہیں اس لئے ان نا کردہ نیکیوں کی آپ کو جزا ضرور ملے گی.پس جب یہ سودے ہو رہے ہیں تو پھر اپنی مانگ کو بڑھا ئیں اور اونچا کریں.بڑے آدمیوں سے چھوٹی چیز نہیں مانگنی چاہئے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے.اس کی تو کوئی حد نہیں ہے اس لئے اب وقت کے لحاظ سے بہت

Page 171

خطبات طاہر جلد ۸ 166 خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۸۹ء بڑے اعمال کا تو موقع نہیں ہے لیکن بہت بڑی تمناؤں اور نیک تمناؤں کا موقع ضرور ہے.خدا کرے کہ ہماری تمناؤں کا بھی سر بلند ہو اور ہمارے اعمال کا بھی سر بلند ہو جب ہم اگلی صدی میں داخل ہو رہے ہوں اور ہم اور ہماری نسلیں اور پھر اُن کی نسلیں اور پھر اُن کی نسلیں ہمیشہ ہمیش کے لئے نیکیوں کے جھنڈے بلند کرنے والے ہوں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: اب چونکہ مغرب کی نماز ذرا پیچھے ہٹ گئی ہے وقت کے لحاظ سے اس لئے آج تو انشاء اللہ حسب سابق جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع ہوگی لیکن آئندہ سے جمعہ کی نماز الگ رہے گی اور عصر کی نماز بعد میں الگ وقت پر پڑھی جائے گی.یہ اس لئے ضروری ہے ویسے تو دور دور سے آنے والے ہیں اس رعایت سے جمع بھی کی جاسکتی ہے لیکن چونکہ ان ملکوں میں عادتیں پڑ گئی ہیں لوگوں کو جمع کرنے کی اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم حتی المقدور الگ الگ نمازیں پڑھا کریں.

Page 172

خطبات طاہر جلد ۸ 167 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء نئی صدی میں عجز وانکساری کے ساتھ قربانیاں پیش کرتے ہوئے داخل ہوں خطبه جمعه فرموده ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفَان فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفَانْ لَّا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا اَهْتَان يَوْمَدٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَاعِوَجَ لَهُ ۚ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا (۱۰۹۲۱۰۶:۴) جس طرح ہر سال رمضان شریف میں آخری دنوں میں ایک جمعہ آتا ہے جسے ہم جمعۃ الوداع کہا کرتے ہیں اسی طرح احمدیت کی پہلی صدی کے آخر پر آج یہ وہ جمعہ ہے جسے ہم اس صدی کا جمعۃ الوداع کہہ سکتے ہیں.جوں جوں وقت قریب آ رہا ہے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی چلی جارہی ہیں اور آج ہی صبح ہالینڈ کے امیر صاحب نے فون پر ایک بات کرنی تھی جو ہالینڈ ہی کے باشندے ہیں انہوں نے بھی بے ساختہ یہ کہا کہ اب تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تیز رفتار گاڑی پہ بیٹھ کر ہم اگلی صدی میں داخل ہونے والے ہیں.جیسے ہوائی جہاز جب ایئر پورٹ پر اتر رہا ہوتا ہے تو اُس وقت رفتار کا زیادہ احساس ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ جب وہ ہوا میں اُڑ رہا ہو.اس وقت صرف یہی محسوس نہیں ہوتا کہ انسان ایئر پورٹ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جہاز میں بیٹھا ہوا بلکہ یوں معلوم

Page 173

خطبات طاہر جلد ۸ 168 خطبہ جمعہ ۱۷/ مارچ ۱۹۸۹ء ہوتا ہے کہ ایئر پورٹ بھی بڑی تیزی کے ساتھ اُس جہاز کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں مسافر سفر کرتے ہیں.تو اس وقت تو ویسی ہی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور تمام دنیا سے احمدی مردوں ، عورتوں اور بچوں کے جو خطوط مل رہے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمام دنیا کے احمدیوں کے دلوں میں ایک عظیم بیجان بر پا ہے.سارے ہی بہت تیزی کے ساتھ مختلف رنگ میں اگلی صدی میں داخل ہونے کے لئے تیاریاں کر رہے ہیں اور مختلف ممالک کے لوگ اپنی اپنی زبانوں میں مختلف نغمے بنارہے ہیں جو انصار بھی پڑھ کر ریکارڈ کر کے بھجوا رہے ہیں، خدام بھی بھجوا رہے ہیں، لجنات بھی ، ناصرات بھی اور انگلستان سے متعلق بھی مجھے معلوم ہے کہ یہاں بھی ایسے نغمات تیار کئے گئے ہیں.تو ایسے نغمات کے دن آنے والے ہیں جن میں ہم خدا کی حمد کے ترانے گائیں گے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں گے اور اسی طرح حمد و ثناء کے ساتھ اور درود پڑھتے ہوئے اور درود کے راگ الاپتے ہوئے اور خدا کی حمد کے گیت گاتے ہوئے ہم انشاء اللہ اگلی صدی میں داخل ہوں گے.مجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اگلی صدی میں فضا تبدیل ہونے والی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے حیرت انگیز تائیدی نشانات دکھلائے جائیں گے.بہت ہی عظیم کام ہم نے کرنے ہیں جن کے لئے اگلی صدی کا دور مقدر ہو چکا ہے اور بہت سی نئی ذمہ داریاں ہم پر ڈالی جانے والی ہیں جن کے لئے ہم اپنے آپ کو جہاں تک توفیق ہے تیار کر رہے ہیں لیکن جو کام در پیش ہے اور جو مشکلات سامنے ہیں اُن کو دیکھ کر بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے جیسے عظیم الشان پہاڑ سامنے کھڑے ہیں جن کو سر کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے اور وہ پہاڑ ایسے ہیں جو بڑے تکبر کے ساتھ اپنی چوٹیوں کے سر بلند کئے ہوئے ہمیں اس طرح حقارت سے دیکھ رہے ہیں اور اس طرح چیلنج دے رہے ہیں کہ تم کون ہو اور ہوتے کیا ہو کہ ہماری بلندیوں کو فتح کرنے اور سر کرنے کے ارادے باندھ رہے ہو؟ چاروں طرف یہی عالم ہے ہر طرف سے احمدیت کے لئے روکیں کھڑی کی جارہی ہیں اور راستے کی تمام روکیں جو پہلے تھیں اُن کو بلند تر کیا جارہا ہے.پہلے افراد یہ دعوے کیا کرتے تھے کہ ہم احمدیت کو مٹا دیں گے اور اُس کے ایسے منصوبے باندھا کرتے تھے.پھر گروہوں نے یہ کام شروع کیا پھر ملک ملک کے گروہ اکٹھے ہوئے اور اب حکومتوں نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور حکومتوں کے گروہ اس بات پر ا کٹھے ہورہے ہیں کہ جس طرح بھی بن سکے احمدیت کی راہ روک دی جائے اور ان کی ترقی کی تمام

Page 174

خطبات طاہر جلد ۸ 169 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء راہیں مسدود کر دی جائیں.ایسے حالات میں بعض کمزور دل یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہماری یہ خوش فہمی ہے ہم بڑے بڑے دعوے کر کے اپنے دل بڑھاتے ہیں لیکن دل بڑھانے کے ساتھ ضروری تو نہیں کہ ہماری قد و قامت بھی بڑھ جائے اور بلند دعوے کرنے سے یہ نتیجہ تو نہیں نکلتا کہ ہم میں عظیم الشان طاقت بھی پیدا ہو جائے.ایک پہلو سے اُن کی یہ بات درست ہے اور یقیناً درست ہے کہ نا تو دل بڑھانے سے قد اونچے ہو جایا کرتے ہیں نہ قوت کی باتیں کرنے سے جسم میں توانائی پیدا ہو جاتی ہے لیکن جس دنیا میں ہم یہ دعاوی کر رہے ہیں وہ دنیا عام دنیا سے مختلف دنیا ہے وہ دنیا مذہب کی دنیا ہے اور وہ دنیا ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے بالکل دنیا سے الگ ایک تاریخ پیش کی ہے اور ایسے قوانین ہمارے سامنے کھول کر رکھے ہیں جن کا اطلاق مذہب کی دنیا پر ہوتا ہے اور یہ قوانین صرف مذہبی دنیا سے تعلق نہیں رکھتے.جب دوسری دنیا کے قوانین ان قوانین سے ٹکراتے ہیں تو ان قوانین کو بالا دستی عطا کی جاتی ہے اور ان سے ٹکرا کر وہ دوسرے قوانین پاش پاش کر دیئے جاتے ہیں.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے بار بار کھول کے رکھا اور ہمارے بلند بانگ دعاوی دیوانوں کی برہنہیں ہیں بلکہ ایسے فرزانوں کی باتیں ہیں جن کے پیچھے خدا کا کلام ہے اُن کی پشت پناہی کر رہا ہے اور جن کے پیچھے انبیاء کی تمام تاریخ کھڑی ہے اور انہیں جرات اور حوصلے دلا رہی ہے کہ آگے بڑھو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتی.تمہارے مقدر میں آگے بڑھنا ہے، آگے بڑھنا ہے، آگے بڑھنا ہے.اس لئے بے خوف خدا پر توکل کرتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ.قرآن کریم کی جس آیت کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں یہی مضمون بیان ہوا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ علیہ نے آج سے تقریباً چودہ سوسال پہلے جب دعویٰ کیا کہ میں تمہاری نظر میں ایک اُمی عام عرب کا باشندہ ہوں اور تم جب مجھ سے یہ باتیں سنتے ہو کہ میں عرب کو فتح کروں گا تو تم بڑی حقارت سے دیکھتے ہو اور آپس میں جب مجلسیں لگاتے ہو تو مجھے دیوانہ کہتے ہو.کہتے ہو کیسی عجیب عجیب باتیں کرتا ہے لیکن تم عرب کی فتح پر متعجب ہور ہے ہو مجھے خدا نے تمام دنیا کی فتح کے وعدے دیئے ہیں اور تمام عالم کو میری صداقت کے اقدام کے نیچے بچھا دیا جائے گا.یہ دعویٰ تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زبان سے دنیا نے سنا اور بھی زیادہ تعجب اور استہزاء

Page 175

خطبات طاہر جلد ۸ 170 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء اور تمسخر کا سلوک اُن کے ساتھ کیا لیکن خدا تعالیٰ نے اس وقت دنیا کی کیا کیفیت تھی اور وہ کیا کیا سوال حضور ا کرم سے کیا کرتے تھے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ان کے مقابل پر کیا کیا حالت تھی اور خدا تعالیٰ سے کس طرح وہ روز عظیم الشان خوشخبریاں سنا کرتے تھے اس مضمون کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے.فرمایا وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ اے محمد ! تجھ سے وہ پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں.ایک عرب کے پہاڑ کی بات نہیں رہی تو تو یہ دعوی کر رہا ہے کہ تمام دنیا کے پہاڑوں کو فتح کرے گا اس لئے اب عربوں کا سوال ایک پہاڑ کے متعلق نہیں رہا وہ تجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا اس دنیا کے تمام عظیم پہاڑوں کی روکوں کو تم چکنا چور کر دو گے؟ کیا ان تمام مشکلات پر غالب آ جاؤ گے؟ بڑی عظیم الشان سلطنتیں تھیں جو عرب کے دائیں بھی کھڑی تھیں اور بائیں بھی کھڑی تھیں.ایک طرف سلطنت روم کا پہاڑ تھا.یعنی چوٹی در چوٹی سلسلہ وار ہزاروں میل تک پھیلا پڑا تھا اور دوسری طرف کسری کی حکومت کا پہاڑ تھا جو چوٹی در چوٹی سلسلہ وار ہزاروں میل تک پھیلا پڑا تھا.پھر اس کے بعد دنیا کی اور عظیم الشان طاقتیں تھیں چین کی سلطنت بھی تھی جس کے قصے عرب تک پہنچا کرتے تھے لیکن جن سے بہت کم لوگوں کو ذاتی شناسائی تھی.تو عربوں نے جب آنحضرت ﷺ کا یہ دعویٰ سنا تو اُن کی توجہ یقیناً ان تمام طاقتوں کی طرف منتقل ہوئی ہوگی اور اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ یہ کیسے دعوے کر رہا ہے؟ ہمارے سامنے تو بالکل کمزور اور بے بس اور طاقت سے عاری دکھائی دے رہا ہے اور کہتا یہ ہے کہ میں تمام دنیا کے پہاڑوں کو فتح کرلوں گا.تو اس منظر کو ایک کلمے میں محفوظ کرتے ہوئے اس کی تصویر کشی قرآن کریم اس طرح فرماتا ہے وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ اے محمد ! تجھ سے وہ بہت سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں.فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفَا ان سے کہہ دو کہ ہاں مجھے طاقت نہیں ہے کہ میں ان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکوں لیکن يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا میرا خدا، میرا رب ان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دے گا.فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا اور انہیں ایک چٹیل میدان بنادے گا.لَا تَرى فِيْهَا عِوَجًا وَلَا اَهْنا ان پہاڑوں میں پھر نہ کوئی موڑ تم دیکھو گے، نہ کوئی کبھی نظر آئے گی اور نہ کوئی بلندی دکھائی دے گی.یہ تمام کے تمام پہاڑ ایک چٹیل میدان کی طرح زمین کے ساتھ ہموار اور برابر کر دیئے جائیں گے.يَوْمَذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَاعِوَجَ لَہ ہاں یہ دن ہو گا جب وہ اس داعی محمد مصطفیٰ" کی غلامی کے لئے تیار ہو چکے

Page 176

خطبات طاہر جلد ۸ 171 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء ہوں گے اور اس کی اطاعت کے سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا.لَا عِوَجَ لَہ اس میں تم کوئی بھی نہیں دیکھتے.ہر لحاظ سے سیدھا، ہر لحاظ سے صراط مستقیم پر قائم اور کسی پہلو سے بھی تم اگر تلاش کرنے کی کوشش کرو تو اس کے کردار میں تمہیں کسی قسم کی کوئی کمی، کوئی کبھی دکھائی نہیں دے گی.وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا اُس وقت یہ آوازیں جو آج بڑی بڑی باتیں کر رہی ہیں اور بلند ہو رہی ہیں اور پہاڑوں کی بلندیوں کے قصے کرتی ہیں خود اتنی دھیمی ہو جائیں گی اور خدا کے خوف سے اس طرح دب جائیں گی کہ تمہیں سوائے سرگوشیوں کے ان لوگوں کی کوئی آواز تمہیں سنائی نہیں دے گی.یہ وہ وعدہ ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی مے سے خدا تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے کیا اور اُس کے تھوڑی دیر بعد ہی ہم نے واقعہ عظیم الشان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ ہو کر بکھرتے دیکھا.اب وہ اسلام کے گھوڑوں کے سامنے چٹیل میدان بن گئے.اسلام کا پیغام دند نا تا ہوا اُن کے سینوں پر سے راہیں نکالتا ہوا اگلی دنیا کی طرف بڑھتا رہا.تو جو پیشگوئی ایک دفعہ تاریخ عالم نے لفظ لفظاً بعینہ پورا ہوتی دیکھ لی ہے کیوں تم تعجب کرتے ہو کہ اس پیشگوئی کا دوبارہ ظہور نہیں ہوگا.گویا یہ اپنی راہ میں اپنی منزل تک پہنچے بغیر آدھے رستے میں تھک کر بیٹھ جائے گی ہرگز ایسا نہیں ہوگا.آج بھی یقیناً دنیا کی عظیم الشان سلطنتوں کے پہاڑ اسلام کی راہ روک کے کھڑے ہیں.آج بھی بے شک ہمیں اتنی طاقت بھی ان کے مقابل پر نہیں جتنی حضرت محمد مصطفی ملے کے عرب غلاموں کو دنیا کی دیگر عظیم الشان سلطنتوں کے مقابل پر حاصل تھی لیکن آج بھی وہی خدا ہے، وہی محمد مصطفی ﷺ کا خدا ہے جو چودہ سو سال پہلے تھا اور ہم نہیں ہمارا خدا ان پہاڑوں کو ضرور ریزہ ریزہ کر دے گا اور میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اگلی صدی میں تم یہ نظارے دیکھو گے کہ عظیم الشان طاقتوں کے پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے میدانوں کی طرح، ہموار میدانوں کی طرح تمہارے سامنے بچھا دیئے جائیں گے اور احمدیت کی فتح کے گھوڑے اور اسلام کی فتح کے گھوڑے دندناتے ہوئے اُن کی چھاتی کے اوپر سے گزرتے چلے جائیں گے پھر اگلی دنیاؤں کو فتح اور پھر مزید اگلی دنیاؤں کو فتح کرتے چلے جائیں گے.پس پہاڑوں کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور مذہبی دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے اور یہ خدا کی طاقت ہے جو ایسا کرتی ہے.جہاں اس مضمون پر غور کرنے سے ہم میں عظیم

Page 177

خطبات طاہر جلد ۸ 172 خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۸۹ء حوصلے پیدا ہوتے ہیں، یقین پیدا ہوتا ہے، ہمارے عزائم کے سر بلند ہوتے ہیں وہاں انکساری کے سر جھکتے بھی ہیں وہاں بجز کے نئے سبق بھی ہم سیکھتے ہیں.وہاں ہمیں یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ ہم اپنی طاقت سے اپنی حکمتوں اور اپنی ہوشیاریوں کے بل بوتے پر دنیا میں کوئی کام سرانجام نہیں دے سکیں گے.يَنْسِفَهَارَتي نَسْفًا اگر ہمارے مقابل پر عظیم طاقتوں کو کوئی طاقت شکست دے گی تو ہمارے رب کی طاقت ہے اور ہماری اپنی طاقت نہیں ہے.پس اگر اس پیغام کو تم نے بھلا دیا تو کوئی پہاڑ تمہارے لئے سر نہیں جھکائے گا.کسی پہاڑ کو فتح کرنے کی تم مقدرت نہیں رکھو گے اس لئے اس صدی سے اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے سر جھکا کر نکلو اور اگلی صدی میں اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے سر جھکا کر داخل ہو.بجز و انکسار کے ساتھ داخل ہو ، دعائیں کرتے ہوئے داخل ہو، خوشیوں کے گیت ضرور گا ؤ لیکن اس کامل یقین کے ساتھ کہ ہمارا ایک خدا ہے جو ہماری پشت پناہی کے لئے کھڑا ہے اور ہم میں کوئی بھی طاقت نہیں جب تک اُس خدا کی نصرت ہماری مدد کو نہ آئے ہم ایک انگلی ہلانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ، ایک قدم بھی آگے بڑھانے کی طاقت نہیں رکھتے ، ہمارا سانس لینا بھی اپنی طاقت میں نہیں ہے.یہ سب کچھ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت کا اذن جاری ہو.اگر اس عجز کے ساتھ تم آگے بڑھو گے تو خدا تعالیٰ کی تقدیر تمہیں ایسے نظارے بھی دکھائے گی کہ نہایت عاجز اور حقیر چیزیں دنیا میں عجیب عظمتیں پاگئیں.ایک نظارہ تو تم نے یہ دیکھا کہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کیا گیا اور ذروں میں تبدیل کر دیا گیا.وہی خدا کی تقدیر جو یہ عظیم الشان کام کر کے دکھاتی ہے وہ ایسے نظارے بھی تو دکھاتی ہے کہ ریزوں کے پہاڑ بنادے گی اور ذروں کو بلندیاں عطا کی گئیں اور عظمتیں بخشی گئیں.پس جہاں تک غیروں کے محمد رسول کریم ﷺ کے دشمنوں کے مٹنے کا تعلق ہے یا درکھو کہ خدا اُن کو مٹائے گا تم سے نہیں مٹائے جاسکتے.جہاں تک تمہاراعظمتیں حاصل کرنے کا تعلق ہے یاد رکھو کہ خدا کے ہی کے ہاتھ میں عظمتیں ہیں لیکن وہ صرف عاجز بندوں کو یہ عظمتیں عطا کیا کرتا ہے اور ایسا ہونا کہ ذرے پہاڑ بن جائیں کوئی انہونی بات نہیں ہے.آپ جانتے ہیں سمندر میں گھونگھوں کی کیا حیثیت ہوا کرتی ہے.بڑے بڑے عظیم الشان سمندر ہیں جن کے مقابل پر سمندر کے گھونگھے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتے.چھوٹی چھوٹی زندگی کی قسمیں ہیں جو بالکل حقیر ہیں دنیا کی زندگی کی دوسری

Page 178

خطبات طاہر جلد ۸ 173 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء تمام قسمیں اُن پر غالب آجاتی ہیں اور اُن کو اپنی خوراک بنالیا کرتی ہیں.بے طاقت، بے رفتار ، دشمن سے بھاگنے کی بھی اُن کو طاقت نہیں ہوتی ، کسی پر حملے کرنے کی بھی اُن کو طاقت نہیں ، زندگی کی کمزور ترین صورتوں میں سے ایک صورت ہے اور جم بھی بالکل معمولی ادنی سا.کبھی کبھی سمندر کی لہر میں اُن گھونگھوں کو خشکی پر ساحل پر پھینک دیا کرتی ہیں.آپ دیکھتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا، کمزور سے کمزور بچہ بھی اُن پر ہاتھ ڈالتا ہے اُن کو اپنے دفاع کی طاقت نہیں ہوتی.وہی گھونگھے ہیں جو عجز اور انکساری کے ساتھ جانیں دیتے ہوئے سمندر کے فرشوں پر ہسمندر کی زمینوں پر ایک کے بعد دوسرا گرتا چلا جاتا ہے اور وہ ایک زندگی میں نہیں ، دو زندگیوں میں نہیں ہزاروں لاکھوں نسلوں میں بھی یہ امید نہیں کر سکتے اتنے کمزور ہیں اور اتنے چھوٹے ہیں کہ کبھی اُن کا سرسمندر کی لہروں کی سطح سے باہر بلند ہو سکے گا لیکن کامل استقلال کے ساتھ مسلسل اُن کی ایک نسل اور پھر دوسری نسل اور پھر تیسری نسل مرمرکز سمندر کی تہہ بھرتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آتا ہے کہ سمندر کی سطح سے اُن کا سر واقعہ بلند ہو جاتا ہے اور زندگی کی دوسری قسمیں وہاں امن ڈھونڈتی ہیں اور اُن کی قبروں پر نئی زمینیں، نئی کائناتیں بنتی ہیں ، نئے جزیرے وجود پذیر ہوتے ہیں.تو ہماری یہ حیثیت اگر گھونگھوں سے بڑھ کر نہ ہوتب بھی کوئی مضائقہ نہیں.اگر ہم میں اپنے دفاع کی کوئی طاقت نہ ہو تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں ہے.ہاں ایک چیز کی ضرورت ہے عزم کی اور یقین کی اور جد وجہد مسلسل کی.پیہم مسلسل سعی کرتے چلے جائیں اور یہ جان لیں کہ گھونگھوں کے جزیرے بھی بنی نوع انسان کے لئے فائدہ بخش ہوتے ہیں لیکن آپ کی نعشوں پر ، آپ کی نسلوں کی نعشوں پر جو اسلام کے جزیرے تعمیر ہوں گے اُن سے بڑھ کر دنیا کے لئے کوئی فائدہ مند جزیرے کبھی نہیں بنائے گا لیکن آپ کا مقابلہ کسی ایک سمندر کے کسی ایک حصے سے نہیں ہے.آج بدی کا پانی تمام دنیا کی خشکیوں کو غرق کر چکا ہے.آپ کو مسلسل ایسی قربانیاں دینی ہوں گی کہ ایک یا دو جزیرے نہیں بنانے ہوں گے بلکہ نئی زمینیں تعمیر کرنی ہوں گی اور نئی زمینیں بعد میں بنا کرتی ہیں پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے آسمان بنائے جاتے ہیں.پس آسمان سے اپنا تعلق جوڑ لو اور کامل یقین رکھو اور پورا تو کل کرو اور انکساری کا دامن تھام لو اور مسلسل جدو جہد کرتے چلے جاؤ اس بات سے بے نیاز ہو جاؤ کہ تم آج فتح کا منہ کیوں نہیں دیکھ رہے یا کل فتح کا منہ کیوں نہیں دیکھ رہے.تمہاری نسلوں کو کیوں خدا تعالیٰ کی تقدیر اور انتظار

Page 179

خطبات طاہر جلد ۸ 174 خطبہ جمعہ ۱۷/ مارچ ۱۹۸۹ء کروارہی ہے ان سب باتوں سے بے نیاز ہو جاؤ.تمہاری فتح کا دن وہ دن ہے جب اسلام کی خاطر تم قربان ہو جاؤ گے.ہم میں سے ہر وہ شخص جو اسلام کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے اپنے وجود کوکھو دیتا ہے وہ دن جس دن اُس نے اپنے وجود کو کھویا اُس کی فتح کا دن ہے.یہی وہ راز تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنے غلاموں کو سکھا دیا تھا اور پھر اس کے بعد اسلام کے لئے کسی شکست کا کوئی سوال باقی نہیں رہا تھا.ایک موقع پر ایک صحابی کو جب دشمنوں نے گھیرا ہوا تھا تو پیشتر اس کے کہ وہ جلاد نیزہ مار کے اُن کو شہید کرتے جب وہ جلاد نیزہ مارنے کے لئے اُن کی طرف بڑھ رہا تھا تو انہوں نے بڑے زور سے نعرہ لگایا فزت برب الكعبة - فزت برب الكعبة ) بخارى کتاب المغازی حدیث نمبر: ۳۸۶۴) که میں تو کامیاب ہو گیا.رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا.حیرت اور استعجاب سے اُن لوگوں نے اس آواز کو سنا جو ایک شہید ہونے والے کے آخری لمحوں کی آواز تھی اور وہ بعض دلوں میں ایسا ڈوب گئی کہ اُن کو چین نہیں آیا جب تک کہ انہوں نے اسلام کے متعلق مزید تحقیق کر کے اُس کو سچا پاتے ہوئے اُس کو قبول نہ کر لیا.پس آنحضور ﷺ نے جو فتح کا ایک راز اپنے غلاموں کو سکھا دیا تھا وہ یہی راز تھا کہ تمہاری فتح کا دن وہ دن ہے جب خدا کے حضور تم اپنا سب کچھ پیش کر دو پھر اس بات سے بے نیاز ہو جاؤ کہ تمہاری نسلیں کیا دیکھتی ہیں اور کیا نہیں دیکھتیں.پس اس عزم کے ساتھ آگے بڑھو میں جانتا ہوں کہ خدا کی تقدیر ضرور اور ضرور عظیم الشان فتوحات دکھائے گی لیکن میں یہ تعلیم دیتا ہوں اور یہ میں قرآن اور محمد مصطفی" کی تعلیم سے آپ کو دیتا ہوں اپنی طرف سے نہیں دے رہا کہ ان فتوحات کی لالچ میں آگے نہ بڑھو، اُن فتوحات کی حرص لے کر آگے نہ بڑھو کیونکہ حقیقی اور اصلی اور دائمی فتح تمہاری قربانی کا دن ہے اور تمہاری قربانی کی فتح ہے.پس اپنی قربانی کے حوصلے بلند کرتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر قربانی کے ارادے اور منتیں باندھتے ہوئے اگلی صدی میں داخل ہو اور خدا سے یہ عرض کرو کہ جب بھی ہماری واپسی کا وقت آئے تیرے حضور ہم فلاح پانے والوں میں شامل ہوں.اگر ایسا کرلو گے تو ہر آن، ہر قدم فتح ہی کا دن ہے، ہر لحہ ہماری فتح کا لمحہ ہو گا.ہم میں نئے آنے والے بھی فاتحانہ شان سے اس دنیا میں داخل ہو رہے ہوں گے، ہم میں سے وہ جو اس دنیا سے جدا ہورہے ہوں گے وہ بھی فاتحانہ شان میں اس دنیا سے جدا ہورہے ہوں گے.یہ وہ جماعت ہوگی جس کو دنیا کی کوئی طاقت مفتوح اور مغلوب نہیں کر سکے گی.

Page 180

خطبات طاہر جلد ۸ 175 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء جہاں میں نے گھونگھوں کی مثال دے کر آپ کو یہ یاد دلایا اور ایک نظارہ قانون قدرت سے دکھایا کہ مرنے والے حقیر لوگ بھی قربانیاں دینے والے بالکل بے حقیقت ذرات بھی جب استقلال کے ساتھ مستقل جدو جہد کے ساتھ قربانیاں پیش کرتے چلے جاتے ہیں تو اُن قربانیوں کو ضرور سر بلندی عطا کی جاتی ہے.عظیم سمندروں پر اُن کو فتحیاب کیا جاتا ہے وہاں اس خطبے کو ختم کرنے سے پہلے میں اس امر کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جزیرے کا وہ حصہ جو سمندر سے باہر سر نکالتا ہے اگر اپنی بلندی پر مغرور ہو جائے اور اپنی بلندی کا مقابلہ اُن حقیر ذرات کی پستی سے کرنے لگے جو اُس کو سمندر کی تہہ میں ارب ہا ارب ٹن وزن کے نیچے دبے ہوئے دکھائی دیتے ہوں گے تو کیسی جہالت کی بات ہوگی.وہ پہلی نسل گھونگھوں کی جو سمندر کی تہہ میں بغیر کسی مقصد کے بظاہر بغیر کسی نظر آنے والے مقصد کے اپنی لاشیں بچھا دیتی ہیں وہ اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اس کی آئندہ نسلیں ضر ور فتح یاب ہوں گی اور سب سے بڑی فتح پانے میں نسل وہی نسل ہے جو سب سے پہلے ترقی کے سلیقے سکھاتی ہے.قربانی کے رستوں سے گزارنے کے آداب بتاتی ہے.اس کے او پر جتنی بھی وہ عمارت بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے وہ ساری ہمیشہ ہمیش کے لئے اُس ادنی پست پہلی سطح کی ممنونِ احسان رہتی ہے.پس اپنے اُن بزرگوں کے احسانات کو نہ بھولیں خواہ وہ آج سے سو سال پہلے گزر گئے یا چند دن پہلے گزرے یا چند لمحے پہلے گزرے، خواہ اس صدی میں گزرے یا چودہ سو سال پہلے گزرے.وہ سارے قربانی کے گھونگھے جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں بچھاتے رہے جن پر اسلام کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوئیں اور یہ عظیم الشان جزیرے اُبھرے وہ لوگ ہماری خاص دعاؤں کے حقدار ہیں.ہم محتاج ہیں کہ اُن کے لئے دعائیں کریں اور وہ حقدار ہیں کہ ہم اُن کے لئے دعائیں کریں اور اُن کے تصور سے ہم وہ عرفان حاصل کریں جو انکساری کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے.انکساری محض زبان سے حاصل نہیں ہوا کرتی یا درکھیں بڑے بڑے ایسے متکبر لوگ ہیں جو اپنی شان بتانے کے لئے کہا کرتے ہیں ہم تو کوئی چیز بھی نہیں.بڑے بڑے ایسے ساہوکار اور امیر اور کارخانے دار ہیں بعض جو اپنی شان اس طرح بناتے ہیں کہ مجلس میں بیٹھ کر کہتے ہیں ہم تو ایک مزدور ہیں ہماری زندگی کا سارا وقت روزانه مزدوری کرتے گزرا.تمہیں کیا پتا ہم کیا لوگ ہیں.وہ سمجھتے ہیں اسی میں شان ہے.ایک کروڑ پتی مزدور ہے جو لاکھوں مزدوروں پر حکومت کر رہا ہے ایسی انکسار کی باتیں جھوٹی اور مصنوعی

Page 181

خطبات طاہر جلد ۸ 176 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء اور بے حقیقت ہیں.منکسر بننے کے لئے بھی عرفان کی ضرورت ہے اور اگر آپ اپنے پرانے بزرگوں کو اُن عظمتوں کے وقت یا درکھیں گے جو آپ کو خدا کے فضل عطا کرتے ہیں تو آپ کو حقیقی انکساری کا ایک عرفان نصیب ہو گا تب آپ جان لیں گے کہ آپ اپنی ذات میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے.وہ لوگ جو سب سے پہلے آئے جنہوں نے نیکی کے اطوار سکھائے ، جنہوں نے تمہیں قربانیوں کے اسلوب بتائے ، جنہوں نے وہ ادا ئیں سکھائیں جو خدا کی نظر کو محبوب ہوا کرتی ہیں وہ لوگ ہیں جو اس صدی میں داخل ہوتے وقت سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم اُن کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور اُن کے ذکر کو بھی بلند کریں جس طرح خدا اور رسول کے ذکر کو بلند کرتے ہیں.اس ضمن میں میں نے اس سے پہلے اپنے افریقہ کے دورے میں ایک ہدایت دی تھی معلوم نہیں کس حد تک اُس پر عمل ہوا کہ یہ ایک ایسا اچھا خلق ہے اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو یاد رکھنا اور اُن کے احسانات کو یا درکھ کے اُن کے لئے دعائیں کرنا.اس خلق کو ہمیں صرف اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہئے.چنانچہ غالباً کینیا کی بات ہے وہاں میں نے ایک کمیٹی بٹھائی کہ وہ سارے بزرگ جو پہلے کینیا پہنچے تھے جنہوں نے آکر یہاں قربانیاں دیں جماعت کی بنیادیں استوار کیں اُن کے حالات اکٹھے کرو اُن حالات کو زندہ رکھنا تمہارا فرض ہے ورنہ تم زندہ نہیں رہ سکو گے اور مجھے تعجب ہوا اور بڑا دکھ امیز تعجب ہوا جب میں نے نوجوان نسلوں سے ان کے آباؤ اجداد کے متعلق پوچھا تو پتالگا کہ اکثر کا کچھ پتا نہیں تھا.نام جانتے تھے یہ پتا تھا کہ فلاں زمانے میں کوئی صاحب آئے تھے ، بعضوں کو یہ بھی پتا تھا کہ اُس کی قبر کہاں ہے، وہ دادا جو کسی وقت آیا تھا یا پڑ دادا جو کسی وقت آیا تھا وہ کہاں چلا گیا بعضوں کو تو یہاں تک علم نہیں تھا چنانچہ میں نے اُن کو بتایا کہ یہ تو بہت عظیم الشان قربانیاں کرنے والے انسان تھے.انہوں نے ہی وہ بنیا دیں قائم کی ہیں جن پر آج تم قائم ہو کر اپنے آپ کو ایک بلند عمارت کے طور پر دیکھ رہے ہو.چنانچہ اُس کمیٹی نے بڑا اچھا کام کیا اور ایک عرصے تک میرے ساتھ اُن کا رابطہ رہا اور بعض ایسے بزرگوں کے حالات اکٹھے کئے جو نظر سے اوجھل ہو چکے تھے.اس لئے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اُس تاریخ کو اُن کی بڑائی کے لئے شائع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطا کرنے کے لئے.اُن کی مثالوں کو زندہ کرنے کے لئے ، اُن کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ

Page 182

خطبات طاہر جلد ۸ 177 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۸۹ء یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے آباؤ اجداد تھے.کن حالات میں کس طرح وہ لوگ خدمت دین کیا کرتے تھے، کس طرح وہ چلا کرتے تھے، کس طرح بیٹھا کرتے تھے، اوڑھنا بچھونا کیا تھا، اُن کے انداز کیا تھے؟ مجھے یاد ہے ایک دفعہ سیالکوٹ دورے پر گیا انصار اللہ کا صدر تھا اُن دنوں میرے ساتھ مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب جو اُس زمانے میں انصار اللہ سیالکوٹ کے ناظم تھے وہ بھی ہمسفر تھے یہ مکرم چوہدری شاہ نواز صاحب کے بھائی تھے.تو حسن اتفاق سے ہمارا سفر ان سڑکوں پر ہوا جن سڑکوں پر کسی زمانے میں انہوں نے بچے کے طور پر اپنے والد کو چلتے دیکھا تھا اور نئے احمدیوں کے ساتھ جو قافلہ در قافلہ قادیان کو جایا کرتے تھے.عجیب روح پر ور وہ نظارہ تھا ہمارا غالبا تانگہ تھا یا موٹر تھی جو بھی تھا جب اُن سڑکوں سے گزر رہا تھا تو ایک ایک یا داُن کے ذہن میں تازہ ہوتی چلی جارہی تھی.وہ تو بتایا کرتے تھے کہ اگر چہ استطاعت تو تھی لیکن ہمارے ابا جان مرحوم اس بات کی زیادہ لذت محسوس کیا کرتے تھے کہ پیدل قادیان جائیں.چنانچہ گاؤں گاؤں سے چھوٹے چھوٹے قافلے اُس قافلے کے ساتھ ملتے چلے جاتے تھے اور جلوس بنتا چلا جاتا تھا اور کئی لوگ ساتھ پنجابی کے گیت گاتے ہوئے، صدا ئیں الاپتے ہوئے اُس قافلے کی رونق بڑھا دیا کرتے تھے اور نئی روحانی لذتیں اس کو عطا کیا کرتے تھے.کہتے ہیں میں بھی کئی دفعہ انگلی پکڑ کے ساتھ اس طرح چل رہا ہوتا تھا میرے باقی بھائی بھی.جتنا مزہ اُس زمانے میں اُن جلسوں کا اور قادیان اس طرح پیدل جلوس کی صورت میں جانے کا آیا ویسا اُن کو پھر ساری عمر کبھی مزہ نہیں آیا.مزے تو آئے کئی کئی رنگ کے مزے آئے لیکن وہ بات اپنے رنگ میں ایک الگ بات تھی.تو اُن بزرگوں کی باتیں جس طرح انہوں نے پیار سے کیں اس سے میرا دل بھی بے ساختہ دعاؤں سے بھر گیا اور میں نے سوچا کہ کاش سارے خاندان دنیا کے اسی طرح اپنے بزرگوں کو یا درکھیں اور اپنے بزرگوں کے تذکرے اپنے خاندان میں اپنے بچوں سے کیا کریں.بعض اُن میں سے ایسے بھی ہوں گے جن کو یہ استطاعت ہوگی کہ وہ ان واقعات کو چھپوا دیں کتابی صورت میں لیکن ان کو میں ایک بات کی تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ بسا اوقات ایسے واقعات اکٹھے کرنے والے احتیاط سے کام نہیں لیتے.بعض ایسی روایات بیان کر دیتے ہیں اپنی یادداشت کی غلطی کی وجہ سے جو بعض دوسری روایات سے ٹکرا جاتی ہیں.بعض ایسی باتیں بیان کر دیتے ہیں جو کم عمری کی وجہ سے نا کبھی کے نتیجے میں وہ صحیح پہچان نہیں سکے.واقعہ کسی اور رنگ میں ہوا بات کسی اور رنگ میں

Page 183

خطبات طاہر جلد ۸ 178 خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۸۹ء کی گئی اور اس بچے نے کچھ اور سمجھ لیا اور وہی بیان کر دیا.تو یقیناً ایسے راویوں کو جھوٹا تو نہیں کہا جاسکتا لیکن غلطی انسان سے ہوتی ہے اور یہ روایتیں ایسی قیمتی اور مقدس ہیں اور جماعت کی ایسی امانت ہے کہ ان میں ہم چھوٹی اور ادنی غلطیاں بھی پسند نہیں کر سکتے اس لئے اگر کسی نے ان بزرگوں کے حالات اس نیت سے چھپوانے ہوں کہ باقی بھی استفادہ کریں تو ان کا اخلاقی اور جماعتی فرض ہے کہ وہ نظام جماعت سے پہلے اس کی اجازت لیں اور علماء ان کتب کو پڑھ کر اچھی طرح اس بات کا جائزہ لے لیں کہ کوئی ایسی بات نہیں جو کسی پہلو سے بھی جماعت کے لئے مضر ہو یا غلط دعوے کئے گئے ہوں یا ضرورت سے بڑھ کر فاخرانہ انداز اختیار کیا گیا ہو جبکہ بڑائیوں کے بیان میں عاجزانہ طریق اختیار کرنا چاہئے.تو کئی قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں ایسی باتوں میں اس لئے ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ یہ کام کریں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر اس نسل میں ایسے ذکر زندہ ہو گئے اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بھی بلند کرے گا اور آپ یا درکھیں کہ اگلی نسلیں اسی طرح پیارا اور محبت سے اپنے سر آپ کے احسان کے سامنے جھکاتے ہوئے آپ کا مقدس ذکر کیا کریں گی اور آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی.اسی طرح سلسلہ بہ سلسلہ صدی بہ صدی ہر جوڑ پر خدا تعالیٰ ایسے انتظام کرتا رہے گا کہ جماعت کے ولولے تازہ ہو جائیں، جماعت کے عزم بڑھ جائیں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائیں، نئے حوصلے بلند ہوں اور وہ امانت جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کی ہے اُس کو ہم آدھے راہ میں اپنی غفلتوں کے ساتھ پھر ضائع نہ کر دیں.اللہ کرے کہ ہم اس شان سے اور اس عجز کی شان کے ساتھ اس تو کل سے اور اس تو کل کی شان کے ساتھ اس دعا سے اور اس دعا کی شان کے ساتھ اگلی صدی میں داخل ہوں کہ ہمارا ہر قدم محمد مصطفی ﷺ کی راہوں پر آگے بڑھتار ہے اور ایک قدم بھی محمد مصطفیٰ کی راہوں سے ہٹ کر آگے نہ بڑھے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 184

خطبات طاہر جلد ۸ 179 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء نئی صدی کے آغاز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے السلام علیکم کا تحفہ حمد اور شکر کے ساتھ نئی صدی میں داخل ہوں ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء بمقام اسلام آباد ٹلفور ڈانگلستان) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: چند دن پہلے ہم ہر بات کا آخری کی نسبت سے ذکر کر رہے تھے کہ یہ پہلی صدی کا آخری جمعہ ہے یا یہ پہلی صدی کی فلاں آخری بات ہے، یہ پہلی صدی کی فلاں آخری بات ہے.اب دن بڑھ گئے ہیں اور اگلی صدی کی پہلی باتیں کرنے کا وقت آ گیا ہے.چنانچہ اس پہلو سے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ آج ہم سب کو احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا جمعہ پڑھنے کی توفیق عطا ہورہی ہے.ہماری بڑی خوش نصیبی ہے کہ تمام جماعت احمد یہ عالمگیر جس کے افراد اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں.خواہ وہ بڑے ہیں یا چھوٹے ہیں ، مرد ہیں یا عورتیں ہیں، بوڑھے ہیں یا بچے ہیں وہ سب جو گزشتہ صدی بھی دیکھ سکے اور اس نئی صدی میں داخل ہوئے اور آج ہم اکٹھے اس نئی صدی کے سر پر کھڑے ہیں اور دور تک پھیلے ہوئے اگلی صدی کے منظر کا تصور باندھ رہے ہیں.بعض دفعہ سڑکیں یا مناظر فی ذاتہ نہ اونچے ہوتے ہیں نہ نیچے ہوتے ہیں لیکن دیکھنے والے کو وہ اونچے یا نیچے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں.سائنس میوزیم میں اس قسم کے کئی نظارے نظر کے دھوکوں کو ظاہر کرنے کے لئے دکھائے جاتے ہیں.گزشتہ مرتبہ جب مجھے کینیا جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایک سڑک کے اوپر قافلے کے جملہ افراد کی راہیں بٹ گئیں.بعضوں کا خیال تھا کہ یہ سڑک اوپر جارہی ہے اور بعضوں کا خیال تھا

Page 185

خطبات طاہر جلد ۸ 180 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء یہ نیچے جارہی ہے.چنانچہ ہم نے کاریں روکیں اور ایک سے زیادہ مرتبہ روکیں لیکن جن لوگوں کو وہ سڑک اونچی جاتی دکھائی دے رہی تھی اُن کو پھر بھی اونچی ہی دکھائی دی اور جن کو نیچے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھے اُن کو نیچے ہی دکھائی دی.اسی طرح اس انگلی صدی کی سڑک کا حال ہے.دنیا کے وہ تمام لوگ جو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں جوڑ سکے اُن کو یہ صدی کی سڑک نیچے جاتی ہوئی دکھائی دے گی.اُن کے لئے تنزل اور پھر تنزل اور پھر تنزل کے سوا کچھ نہیں لکھا ہوا لیکن وہ سارے خوش نصیب جو آج خدا سے تعلق جوڑ چکے ہیں یا کل جوڑیں گے یا پرسوں جوڑیں گے اُن کے لئے صدی کی یہی سڑک بلندیوں کی طرف حرکت کرتی ہوئی دکھائی دے گی اور صرف دکھائی ہی نہیں دے گی واقعہ اُن کو ہر قدم بلندیوں کی طرف لے کر جائے گی.پس جماعت احمدیہ کو بھی آج اس آئندہ صدی کے کنارے پر کھڑے ہو کر یہ صدی کی سڑک بلند ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور آسمان کی رفعتوں سے باتیں کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں بلا شبہ اگلی صدی کے آغاز پر وہ لوگ جو اُس زمانے میں تیسری صدی کا منہ دیکھ رہے ہوں گے وہ اس طرح حیرت سے ہمیں نیچے کی طرف دیکھیں گے کہ گویا ہم ہزاروں کوسوں کی مسافت پر اُن سے نیچے کھڑے اُن کو بلندی کی طرف دیکھ رہے ہیں.ایک یہ ہے منظر جو نظر کے اور زاویے کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا اس منظر کو اگر پلٹ کر دیکھا جائے تو آج جو ہم پچھلی صدی کو سر جھکا کر دیکھ رہے ہیں گویا احمدیت ابھی آغاز ہی میں تھی اور آج کے مقابل پر دنیاوی طاقتوں کے لحاظ سے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن اچانک جب ہم منظر تبدیل کریں، نظر یہ تبدیل کریں ، زاویہ بدلیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ صدی کا وہ کنارہ اتنی بلندی پر ہے، اتنی بلندی پر ہے کہ اگر ہم اُس کی طرف دیکھیں تو ہمارے سر کا لباس سر کی ٹوپی اتر جائے اور جس طرح کہا جاتا ہے کہ بلندی کی طرف دیکھتے ہوئے پگڑی سنبھال کر دیکھنا چاہئے ہمیں اُن بلندیوں کی طرف دیکھتے ہوئے پگڑیاں سنبھالنی چاہئیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس صدی کے سر پر کھڑے تھے اس نئے نقطہ نگاہ سے اس نئے زاویے سے دیکھا جائے تو وہ اس دور کی بلند ترین جگہ پر تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے زمانے سے تیرہ سو سال پہلے جب دیکھتے تھے تو اپنی پگڑی سنبھال کر دیکھتے تھے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف نگاہ جاتی تھی تو آپ کے قدموں پر نگاہ پڑا کرتی

Page 186

خطبات طاہر جلد ۸ 181 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء تھی.پس دیکھیں واقعات ایک ہی سے ہیں اور زاویے بدلنے سے اور نقطہ نگاہ بدلنے سے کس طرح مناظر یکدفعہ تبدیل ہو جاتے ہیں.پس ایک پہلو سے تو ہم یقیناً بلندی کی طرف جائیں گے اور وہ پہلو ہے احمدیت اور اسلام کا غلبہ اور اس کی ترقی اور دنیاوی لحاظ سے، ادبی لحاظ سے جماعت کا ہر پہلو سے وسعت اختیار کرنا لیکن میں آپ کو دوسرے پہلو کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں.تعداد میں آپ خواہ لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ ہو جائیں اگر رفعتوں کا حقیقی تصور آپ نے تبدیل ہونے دیا، اگر تعداد ہی کو معیار ترقی سمجھ لیا تو پھر آپ کی نجات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.جہاں رفعتوں کا تصور باندھیں وہاں آج سے سو سال پہلے ہی نہیں بلکہ چودہ سو سال پہلے نگاہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس صدی کا آغاز کیا اُس کی بلندی کی طرف بھی دیکھیں اور آج سے چودہ سو برس پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جس بلندی سے بنی نوع انسان کو مخاطب فرمایا اُس کی طرف بھی نگاہ کریں اور وہ رفعتیں حاصل کرنے کی کوشش کریں.وہ رفعتیں تعداد سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں، دنیا وی وجاہتوں سے اُن کا کوئی بھی رشتہ نہیں، جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ایک تھے اُس وقت ساری کائنات کا خلاصہ آپ تھے.آپ ہی تھے جن کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لولاك لما خلقت الافلاك (روح المعانی جلد اول صفحہ ۷۰) اے میرے پیارے بندے! اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں ساری کائنات کو پیدا نہ کرتا.پس اصل رفعتیں وہی ہیں جو روحانی رفعتیں ہیں، جو خدا کی نگاہ میں رفعتیں کہلاتی ہیں اور اُن کا دنیاوی و جاہتوں اور عددی اکثریت سے کوئی بھی تعلق نہیں.پس آپ آج اس صدی کے سر پر کھڑے ہیں اور آج آپ وہ لوگ جو میرے ساتھ اس خطبے میں شریک ہیں اس صدی کا پہلا خطبہ سُن رہے ہیں اور پہلا جمعہ پڑھ رہے ہیں.اس اولیت کو روحانی اولیت میں تبدیل کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.زمانے کے لحاظ سے آپ کو ایک اولیت عطا کی گئی ہے.روحانی اقدار کے لحاظ سے علمی اقدار کے لحاظ سے ، مذہبی اقدار کے لحاظ سے، تقویٰ کے لحاظ سے، خدا سے تعلق اور محبت اور پیار کے لحاظ سے اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی کے لحاظ سے اول بننے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کو خدا نے صدی کے سر پر کھڑا کر کے آج تمام دنیا میں اول قرار دے دیا ہے.پس اُن تمام خوبیوں میں اول ٹھہریں جو خدا کی نگاہ میں اول قرار دئیے جانے

Page 187

خطبات طاہر جلد ۸ کا پیمانہ قرار دی جاتی ہیں.182 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء آج جو آپ میرے ساتھ خطبہ جمعہ سن رہے ہیں یا جمعہ پڑھ رہے ہیں آپ کو میں یہ اطلاع خوشکن اطلاع بھی دیتا ہوں کہ اس وقت اس آواز کو ماریشس کے احمدی بھی سن رہے ہیں اور جرمنی کے احمدی بھی سن رہے ہیں.یہ وہ صدی کا پہلا خطبہ ہے جس کو آسمانی رسل و رسائل کے ذریعہ سے اس کو سیٹیلائٹ ٹگ اپ (Hook up) کہتے ہیں سب سے پہلے ماریشس کی جماعت نے سننے کا انتظام کیا اور اب مجھے اطلاع ملی ہے کہ جرمنی کی جماعت نے بھی اس خطبے کو براہ راست سنے کا انتظام کیا ہوا ہے.ماریشس کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی مخلص اور فعال جماعت ہے اور جب میں نے وہاں دورہ کیا جیسا کہ میں نے اپنے بعض خطبات میں پہلے بھی ذکر کیا تھا اُن کے اندر میں نے زندگی کے ایسے آثار دیکھے جن کے نتیجے میں میں بہت سی امیدیں وابستہ کر کے وہاں سے لوٹا اور بعد میں جتنی اطلاعات بھی مجھے مل رہی ہیں اُن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دن بدن اُن کے اندر نیا ولولہ پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے.زندگی کی علامتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ جماعت ہر پہلو سے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے.اسی طرح جرمنی کی جماعت کا حال ہے.نو جوانوں کی یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی فعال اور دین کی راہ میں قربانیاں کرنے میں تمام دنیا کی جماعتوں میں اولین جماعتوں میں شامل ہے.اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے ان کو یہ اولیت بھی عطا فرما دی کہ یہ دونوں جماعتیں آج اس اہم تاریخی خطبے میں ہم سب کے ساتھ اسی طرح شریک ہیں جس طرح ہم اکٹھے ایک جگہ بیٹھے ہوں.پس میں آپ سب کو بھی اور اُن سب کو بھی جو براہ راست میری آواز کو سن رہے ہیں اور دنیا کے اُن تمام احمد یوں کو بھی جو آج براہ راست اس آواز کو نہیں سن رہے لیکن کل یا پرسوں سن سکیں گے دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کا تحفہ پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ممکن نہیں ہمارے لئے کہ ہم اس شکریہ کا حق ادا کرسکیں.گزشتہ صدی میں ہم پر اتنے احسانات کی بارشیں نازل فرمائیں اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمتوں کے نشان ہم نے نازل ہوتے دیکھے.اتنے عظیم خطرات سے خدا تعالیٰ نے جماعت کو محفوظ اس طرح نکالا جس طرح محبت کرنے والے دو بازؤں میں سمیٹ لیا گیا ہو اور بسا اوقات ایسے سخت وقت

Page 188

خطبات طاہر جلد ۸ 183 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء آئے ، ایسے کڑے وقت آئے کہ خطرہ تھا کہ بعض علاقوں سے جماعت کی صف لپیٹ دی جائے گی مگر خدا تعالیٰ کی غیر معمولی قدرت نے حیرت انگیز جلوے دکھائے.پس ان سب امور کی طرف جب ہم نگاہ دوڑاتے ہیں تو شکر کے جتنے بھی جذبات دل میں پیدا ہوتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ پیاس نہیں بجھی.بعض دفعہ اس کیفیت میں جب خدا تعالیٰ کے احسانات کا تصور باندھتا ہوں اور وہ راہیں تلاش کرتا ہوں جن پر سجدے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا جائے.تو اس مضمون کو اتنا پھیلا ہوا دیکھتا ہوں، اپنی طاقت سے اتنابڑا ہوا پاتا ہوں کہ کوئی پیش نہیں جاتی.بے اختیار اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اے محسن! تو اتنا احسان کرنے والا ہے کہ کوئی دنیا کا ممنون احسان خواہ ایک ہو خواہ قومیں ہوں ، خواہ ایک ملک کے باشندے ہوں یا تمام عالم کے بسنے والے ہوں دن رات بھی اگر وہ تیرے احسانات کا شکریہ ادا کریں تو اُن کے بس میں نہیں ہے.اس لئے ہم سے مغفرت اور رحمت کا سلوک فرما.ہمارے دل کی بے قرار تمناؤں پر نظر کر.ہم چاہتے ہیں کہ تیرے احسانات کا شکر یہ ادا کریں مگر ہم میں طاقت نہیں ہے.یہ باتیں جو میں کہہ رہا ہوں اس میں قطعاً لفاظی کا کوئی شائبہ بھی نہیں.آپ میں سے ہر ایک کو میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ آج اپنی زندگی پر اگر مڑ کر نگاہ ڈالیں بچپن سے لے کر آج تک کے واقعات پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کتنے بھیا نک موڑ آپ کی زندگیوں پر ایسے آئے تھے اُن میں سے ہر موڑ آپ کے لئے ہلاکت کا پیغام لاسکتا تھا اور آپ کو یہ توفیق نہ ملتی کہ موڑ مڑ کر اپنے سفر کا باقی حصہ طے کر سکیں.زندگی کو بھی مختلف خطرات پیش آئے ، ایمان کو بھی مختلف خطرات پیش آئے.دنیا کی دولتوں اور حیثیتوں کو بھی خطرات پیش آئے اور خدا تعالیٰ نے بسا اوقات ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں، دس دفعہ نہیں، ہمیں دفعہ نہیں بلا شبہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم میں ہر ایک کی زندگی میں ہزار ہا مرتبہ ایسے احسانات کے سلوک فرمائے کہ اُن میں سے ایک ایک احسان اس لائق ہے کہ اُس کے شکریے میں زندگیاں گزاری جائیں.یہ مضمون ہر انسان پر کھل سکتا ہے اگر وہ احسان شناسی کی نظر پیدا کرے اور دنیا کا کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو اس پہلو سے خدا تعالیٰ کے زیرا احسان نہ ہو.جماعت احمدیہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ نظارے بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں.پس اس صدی کو شکر کی صدی بنانا ہے اور خدا تعالیٰ کے احسانات کو یادرکھنے اور احسانات کو پہچاننے کی صدی بنانا ہے.ورنہ غفلت کی آنکھ سے اگر آپ دیکھیں تو احسانات کی خواہ

Page 189

خطبات طاہر جلد ۸ 184 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء بارش ہو رہی ہو تب بھی انسان کے شکر کی زبان سوکھی رہتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی زبان وہ زبان تھی کہ جب آسمان سے بارش کا پہلا قطرہ گرا کرتا تھا تو آپ زبان باہر نکال کر اپنی زبان پر اس قطرے کو لیا کرتے تھے.ظاہری لحاظ سے وہ زبان تر ہوتی تھی لیکن دراصل اس میں ہمیں ایک پیغام ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کے ہر قطرے سے ہماری زبانیں تر رہنی چاہئیں اور ہمارا دل اُن احسانات سے سیراب رہنا چاہئے.پس یہ صدی ہمیں احسانات منانے کی صدی بنانی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ جو میرے احسانات کا شکر کرتا ہے میں اُسے بڑھا تا چلا جا تا ہوں ،اس پر مزید فضل کرتا چلا جاتا ہوں اس لئے اگر آج آپ یہ فیصلہ کریں کہ اس صدی کو احسانات منانے کی صدی بنا ئیں گے تو یہ تو نہیں ہو سکے گا کہ ایک صدی کے اندر آپ خدا تعالیٰ کے احسانات گن سکیں یا اُن کا شکر یہ ادا کر سکیں.ہزاروں صدیوں کے احسانات کا بوجھ آپ کی آئندہ نسلوں پر پڑ جائے گا اور وہ بھی اگر احسان مند رہیں گی تو ان پر بھی خدا تعالیٰ کے احسانات کی بے انتہا بارشیں برستی رہیں گی.کتنا آسان طریق ہے خدا کے فضلوں کو جذب کرنے کا، کتنا مؤثر طریق ہے اللہ تعالیٰ کے احسانات کو اپنے پیا سے دلوں کی طرف کھینچنے کا کہ اس کے احسانات کا تصور باندھیں اور اس تصور کے ساتھ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا شروع کریں.تصور باندھنے کا احسان کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور اس مضمون کو میں آپ پر خوب ظاہر کرنا چاہتا ہوں.بہت سی زبانیں آپ نے دیکھی ہوں گی جو ہر وقت خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں حرکت کر رہی ہوتی ہیں اور بہت سے ایسے ہاتھ بھی دیکھے ہوں گے جن میں تسبیجیں تھامی ہوں گی اور زبان کی ہر حرکت کے ساتھ تسبیح کے دانے بھی ہر وقت گردش میں رہتے ہیں لیکن کیا واقعہ اس زبان کی حرکت اور دانوں کی گردش کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احسانات بھی دلوں میں اسی طرح گردش کرتے ہیں؟ یہ ہے وہ سوال جس کے جواب پانے کے نتیجے میں ہر شخص کی تسبیح کی ایک حیثیت مقرر کی جاتی ہے اور خدا کی نظر میں صرف اسی تسبیح کی حیثیت ہے جو دل کے پردوں پر گردش کر رہی ہو.پس چی تسبیح احسانات کے عرفان کے نتیجے میں عطا ہوا کرتی ہے اور اس عرفان کو حاصل کرنے کے لئے کسی لمبی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے ایک اندرونی بیداری کی ضرورت ہے.اندرونی طور پر شعور کو جگانے کی ضرورت ہے.صبح جس حال میں آنحضرت آنکھیں کھولا کرتے تھے.آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی خدا کے شکر کا اظہار شروع ہو جاتا تھا اور پہلی بات یہ کرتے تھے

Page 190

خطبات طاہر جلد ۸ 185 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء کہ اے خدا ! تو نے کتنا احسان فرمایا کہ مجھے ایک قسم کی موت کے منہ سے نکال کر دوبارہ زندگی عطا کی.آج میں تیرے فضل کے نتیجے میں، تیرے رحم اور کرم کے نتیجے میں آنکھیں کھول رہا ہوں.یہ حضرت محمد مصطفی مے کی آنکھیں تھیں جو بظاہر نیند سے اُٹھنے کے وقت کھلا کرتی تھیں لیکن فی الحقیقت نیند کی حالت میں بھی کھلی رہتی تھیں.آپ کے عرفان کا یہ عظیم مقام تھا کہ آپ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ بظاہر میری آنکھیں سو جاتی ہیں مگر میرا دل کبھی نہیں سوتا اور نیند کی حالت میں بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے تصور میں تسبیح وتحمید میں مصروف رہتا ہے.پس حضور اکرم ﷺ سے تسبیح وتحمید کے اسلوب سیکھیں.تسبیح وتحمید کے آداب سیکھیں.پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کی زندگی کا لمحہ محہ اللہ تعالی کے احسانات کے تابع ہے.تب آپ کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ ساری زندگی بھی اگر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے چلے جائیں تو وہ شکر ادا نہیں ہوسکتا.ہرسانس جو ہم لیتے ہیں، ہر ہوا کا ذرہ جو ہر سانس میں ہم لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات کی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے.ایک عارف باللہ ان نشانات کا جب تصور باندھتا ہے تو اس ایک سانس کے تصور میں ہی سینکڑوں دوسرے سانس لے لیتا ہے.کس کس سانس کی پیروی کرے گا اُس کے احسان ادا کرنے کے لئے.ایک بزرگ کے متعلق یہ ذکر آتا ہے ایک دفعہ ایک مٹھائی کا ٹوکرا اُن کے سامنے تحفے کے طور پر پیش کیا گیا.کچھ اس میں لڑو تھے انہوں نے نکالے اور اپنے مریدوں کولڈ و بانٹ دیئے اور ایک لڈو خود ہاتھ میں پکڑ لیا.وہ تو اپنے اپنے لڈو کھا کر فارغ ہو گئے اور وہ جو بزرگ تھے انہوں نے لڈو سے دانہ دانہ نکال کر منہ میں ڈالنا شروع کیا اور ہلکا ہلکا اس کو چباتے رہے اور خیالات میں کھوئے رہے.ایک لمبا عرصہ گزرگیا اور وہ لڈو ختم نہ ہوا.تو اُن کے ایک مرید نے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا میں ہر دانہ جو منہ میں ڈالتا ہوں اس کے ساتھ یہ تصور باندھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ خدا کے رحمتوں کے کتنے جلووں نے یہ دانہ بنایا ہوگا.میرا ذ ہن میٹھے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے.میرا ذ ہن اس نئے شکر کی طرف یعنی گنے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو کبھی کھیتوں میں آگ رہا تھا پھر وہ تنومند ہوا، پھر اس میں رس پیدا ہوا ، رس میں میٹھاس پیدا ہوئی اور کس طرح پھر اس کو میری خاطر کیونکہ خدا نے یہ دانہ میرے منہ میں ڈالنا تھا بڑی محنت کے ساتھ کسانوں نے کاٹا اور پھر کس طرح اس کا رس نچوڑا گیا اور یہ مضمون سوچتا چلا جاتا ہوں دانہ ختم ہو جاتا ہے یہ مضمون ختم نہیں ہوتا پھر ایک اور دانہ منہ

Page 191

خطبات طاہر جلد ۸ 186 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء میں ڈالتا ہوں پھر اس سے پہلے کی طرف میری توجہ منتقل ہو جاتی ہے پھر میں سوچتا ہوں کہ صرف ایک میٹھا ہی تو نہیں ہے اور بھی اجزاء ہیں اس کے وہ لکڑیاں بھی تو ہیں جن سے آگ جلائی گئی اور وہ چنے بھی تو ہیں یا مکئی یا جو بھی اس لڑو میں بطور نشاستہ کے ڈالا گیا کہ وہ سب چیزیں تھیں پھر ان کے اوپر کیا کیا گزری پھر کس کس طرح کس کس وقت زمیندار اٹھے اور پو پھٹتے وہ کندھوں پر بل لے کر روانہ ہوئے کھیتوں کی طرف اُن کی حفاظت کس طرح کی گئی.اتنا وسیع مضمون اس ایک دانے کے ساتھ منسلک ہو گیا کہ وہ گھنٹہ تو لڈو ختم کرنے میں لگا لیکن گھنٹوں مزید درکار تھے اس مضمون کی تفصیل سے پیروی کرنے اور اس کو اپنے دل پر عرفان کی صورت میں جاری کرنے میں.اس مضمون کو آپ زندگی کے روز مرہ تجربہ میں پھیلا کر دیکھیں ہمارا وقت بہت محدود ہے.احسانات کا سلسلہ بہت دراز ہے اور ناممکن ہے کہ اگر ہمہ وقت ہم خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر یہ ادا کرنے میں مصروف رہیں تب بھی ان احسانات کا شکریہ ادا نہ کر سکیں.یہ مضمون صرف وہاں سے شروع نہیں ہوتا کہ کس وقت ایک زمیندار ہل کندھے پر اٹھا کر روانہ ہوا تھا بلکہ اگر آپ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کریں تو لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں اربوں سال ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے انسان کے آنے کی تیاریاں کی ہیں.اس زمین کو بچھونا بنایا، پہاڑ کس طرح پیدا کئے گئے ، سمندر کس طرح پیدا ہوئے، زندگی کا آغاز کیسے ہوا، کیسے کیسے قوانین جاری کئے گئے زندگی کی حفاظت کے لئے اور کس طرح وہ زندگی میں تناسب پیدا کیا گیا جس کے بغیر انسان کی پیدائش ناممکن تھی؟ انسان کی ہر ضرورت کو پیش نظر رکھ کر خواہ وہ ابتدائی زمانے کا انسان تھا یا آخری زمانے کا انسان ہر قسم کی ضروریات مہیا کی گئیں.خزائن ہیں زمین میں دبے ہوئے آج بھی جن تک ابھی ہماری نگاہ نہیں پہنچی مگر قرآن کریم یہ اعلان کر رہا ہے.ان من شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجر:۲۲) کوئی چیز ایسی نہیں ہے بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے جس کے خزانے ہم نے محفوظ نہ کر رکھے ہوں.وَمَا نُنَزِّلُةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ لیکن ہم ان کو ایک اندازے کے مطابق ظاہر فرماتے چلے جاتے ہیں اور بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے نازل کرتے چلے جاتے ہیں.جن موٹروں پر آپ بیٹھ کر آئے ہیں جو تیل اُن موٹروں میں پھونکا گیا کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس تیل کی تیاری کے لئے خدا تعالیٰ نے کتنے سال لگائے ہیں.اربوں سال لگے ہیں.اس

Page 192

خطبات طاہر جلد ۸ 187 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء تیل کو جس کو آپ بے تکلفی سے آج پھونک دیتے ہیں اس کو تیار کرنے پر ان گنت زندگیاں قربان کی گئیں.ان گنت زندگیوں کی قسمیں قربان کی گئی ہیں اور ایک بہت ہی لمبے عرصے پر جس کے اوپر ہمارا ذہن منتج نہیں ہو سکتا اس تک پہنچ نہیں سکتا خواہ ہم ہندسوں میں اس کی باتیں کرلیں مگر ہمارے تصورات اتنے محدود ہیں کہ فی الحقیقت ہم اس لمبائی کا اندازہ نہیں کر سکتے.اتنے لمبے عرصے پر پھیلے ہوئے خدا تعالیٰ کی قدرت تیل کے چشموں کے لئے تیاری کر رہی تھی اور آج ہم بیٹھتے ہیں ایک گیلکن تیل لیا اس کو پھونکا اور خیال بھی نہیں کرتے کہ یہ تیل کیسے بنا کیوں ہمارے ہاتھ آیا اور یہ خزانہ خدا نے کب سے ہمارے لئے بچا کر رکھا ہوا تھا ؟ تو ایک بات نہیں دو نہیں تین نہیں لاکھوں کروڑوں اربوں انگنت باتیں ہیں جن کے ذکر کی بھی انسان کو مجال نہیں اور طاقت نہیں کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ میرے کلمات ایسے لامحدود ہیں، ایسے انگنت ، اتنے بے پناہ ہیں کہ اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور ان کلمات کو لکھنا شروع کیا جائے تو سمندرسوکھ جائیں گے لیکن ان کلمات کا ذکر ختم نہیں ہوگا اور اگر اور بھی ویسے سمندر ان کی مدد کے لئے آجائیں وہ سمندر بھی خشک ہو جائیں گے لیکن میرے کلمات کا ذکر کبھی ختم نہیں ہوگا.پس یہ وہ خدا ہے جس کے احسانات کے تابع ہم ہیں اور ہم جب کہتے ہیں کہ انگنت احسانات ہیں بارش کی طرح اس کے فضل نازل ہوتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ ہم درست کہہ رہے ہیں اس میں کوئی مبالغہ نہیں.ایک قطرے کا مبالغہ بھی اس میں نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی بارشوں نے ایک سو سال تک جماعت احمدیہ پر ہر قسم کے فضل نازل فرمائے.اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں قطرہ تھا اس کے فضل نے دریا بنا دیا اور ایک خاک کا ذرہ تھا جسے خدا نے ثریا بنا دیا ہے.پس آج جو ایک کروڑ احمدی اس دنیا میں بس رہے ہیں یہ اسی قطرے کے بنے ہوئے دریا ہیں.پس اگر آپ خدا تعالیٰ کے احسانات کے ہر قطرے پر شکر ادا کرنے کا سلیقہ سیکھ جائیں گے تو آپ میں سے ہر ایک قطرہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اگلی صدی کے آغاز سے پہلے ایک ایک کروڑ بن جائے اور اگر زمین پر آپ کے پھیلنے کی جگہ نہیں ہو گی تو اس صدی کا خدا آسمان میں وسعتیں عطا کرے گا اور آسمان میں آپ کے پھیلنے کے لئے گنجائشیں نکالی جائیں گی.زمانہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ آئندہ کیا

Page 193

خطبات طاہر جلد ۸ 188 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء ہونے والا ہے لیکن یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ احسان مند رہیں گے تو خدا کے فضلوں کے ساتھ آپ کے احسان مندی کا کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا.وہ فضل آپ سے سینکڑوں ہزاروں گنا تیز رفتاری کے ساتھ آگے آگے بھاگیں گے اور آپ کا احاطہ کر لیں گے اور آپ میں استطاعت نہیں ہو گی کہ اُن فضلوں کا احاطہ کر سکیں.پس اس اگلی صدی کا پہلا پیغام ساری جماعت احمدیہ کے نام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا شمار کرنے کی کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کے احسانات میں ڈوبنے کی کوشش کریں.آپ کے سارے مسائل احسان مندی کے ذریعے سے حل ہو سکتے ہیں.ساری مشکلات جذ بہ احسان مندی کے ساتھ دور ہو سکتی ہیں لیکن احسان مندی حقیقی ہونی چاہئے محض زبانی نہیں ہونی چاہئے.عادت ڈالیں اپنی فطرت ثانیہ بنالیں کہ خدا تعالیٰ کے پیار اور محبت کا ذکر کر کے سوچوں میں ڈوب جایا کریں اور سوچا کریں کہ یہ بھی خدا کا احسان ہوا، وہ بھی خدا کا احسان ہوا.آج جو ہم اس وقت زندگی کی سانس لے رہے ہیں اور ایک جگہ اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور بے شمار احسانات کا مجموعہ ہے.اس ضمن میں میں چند ایک چھوٹی چھوٹی اور باتیں بھی آپ کو بتاتا ہوں وہ کوئی سنجیدہ مضامین تو نہیں لیکن چونکہ پہلے کی بات شروع ہوئی ہے اس لئے آج کے خطبے میں بعض پہلی باتیں میں آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جو اس طرح قطرہ قطرہ کے طور پر شروع ہوئی ہیں.آج جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہمارا یہ پہلا خطبہ ہے.میرا یہ پہلا خطبہ ہے اگلی صدی کا جو میں آپ کے سامنے پڑھ رہا ہوں.جہاں تک خطبہ نکاح کا تعلق ہے اس صدی کا پہلا خطبہ نکاح مکرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب مرحوم کی بچی نیرہ باہری حمید کا پڑھا گیا.باہری حمید ہالینڈ کی ایک مخلص احمدی خاتون ہیں جن کا نکاح ثانی ڈاکٹر عبدالحمید صاحب مرحوم سے ہوا تھا.وہ عبدالباقی ارشد صاحب کے والد تھے.انہوں نے مجھے ایک خط لکھا کہ میری بیٹی کا نکاح ہونا ہے اور میری دلی خواہش ہے کہ اگلی صدی کا پہلا نکاح یہ ہو.چنانچہ وہ اس پہلو سے مجھے ان کی بات بہت پسند آئی.واقعی یہ ایک تاریخی سعادت ہے کہ اگلی صدی کا پہلا خطبہ نکاح جو خلیفہ وقت پڑھے وہ جس کا بھی ہو جماعت میں ہمیشہ ایک خاص اعزاز کے ساتھ یاد کیا جائے گا.نکاح کے ساتھ اب میں دوسرا پہلو بیان کرتا ہوں جنازے کا.اس صدی کا پہلا جنازہ مکرم عبد السلام خان صاحب مرحوم کا پڑھا گیا جو آج ہی ایک بجے

Page 194

خطبات طاہر جلد ۸ 189 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء یعنی جمعہ سے پہلے پڑھا گیا.عبدالسلام خان صاحب مرحوم صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ایک معزز پٹھان خاندان کے فرد تھے.آپ کے والد نے جب ۱۹۰۸ء میں بیعت کی تو صوبے کے گورنر نے حکم دے کر آپ کے خاندان کو صوبہ بدر کر دیا.۱۹۱۸ء میں خان صاحب بطور احمدی پیدا ہوئے اور ہمیشہ بڑے ہی اخلاص اور وفا کے ساتھ جماعت سے وابستہ رہے.بڑے دعا گو بزرگ تھے ان کی یہ خواہش تھی کہ میں اگلی صدی تک پہنچوں.اللہ تعالیٰ نے اس خواہش کو اس طرح بھی پورا فرما دیا کہ اس صدی کی پہلی نماز جنازہ جو خلیفہ وقت نے ادا کی وہ خان صاحب مرحوم مغفور کی تھی.اس صدی کا پہلا بچہ جو میرے علم میں آیا اور جسے میں نے اس صدی کا پہلا احمدی بچہ قرار دیا وہ آپ کے امیر آفتاب احمد خان صاحب کا نواسہ ہے اور اس کے بچے کے والد لطیف الرحمن ہیں اور دادار فیق الرحمن اور خان صاحب کے والد ثناء اللہ خان صاحب ہوا کرتے تھے.بڑے نیک اور مخلص بزرگ تھے اور یہ اس صدی کا پہلا احمدی بچہ ہے.آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کوئی ایسی بات تو نہیں کہ اس اہم خطبے میں اس کا ذکر کیا جائے لیکن ابھی میں نے آپ کو ایک بات سمجھائی ہے آپ کیوں اس کو بھول رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی بارشیں دیکھیں کتنی وسیع ہوتی ہیں.بعض دفعہ سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں میل تک پھیلی ہوتی ہے.کتنے قطرے گرنے ہوتے ہیں اُن بارشوں کے لیکن اس کے پہلے قطرے کو محمد مصطفی ﷺ کی زبان باہر نکل کر اپنی چھاتی پر لیا کرتی تھی پیار اور محبت سے.تو یہ قطرات ہیں جو بہت سے برسیں گے اور آج اس کا آغاز ہو رہا ہے.جنازوں کے متعلق تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ جنازے بھی تو ہوں گے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جنازہ بھی ایک رحمت کا موجب ہے.اس کو میں قطرات رحمت کے طور پر جو شمار کر رہا ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.یہ فیصلہ کہ پیدائش خوشی کی بات ہے اور جنازہ غم کی بات ہے یہ ایسا آسان فیصلہ نہیں ہے.حضرت مسیح بعض باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا شخص جو ہو اس پر تف ہے.لعنت ہے اس دن پر جس دن وہ پیدا ہوا.ایسا شخص جوان باتوں سے محروم رہے یا ایسی بدیوں میں مبتلا ہو بسا اوقات دنیا کے عام محاورے میں ہم کہتے ہیں لعنت ہے اس دن پر جس دن وہ پیدا ہوا اور حضرت مسیح کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے رحمت تھی اس دن پر، خدا تعالیٰ کی برکتیں تھیں اس دن پر ، سلام تھا اس دن پر جس دن مسیح پیدا ہوا.وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ أَبْعَثُ حَيًّا (مریم: ۳۴) مسیح کی

Page 195

خطبات طاہر جلد ۸ 190 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء زبان میں خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ قرآن کریم میں محفوظ رکھے کہ سلام ہے اس دن پر جس دن میں پیدا ہوا اور سلام ہے اس دن پر جس دن میں فوت ہو ایا فوت ہوں گا اور اس دن پر بھی سلام جس دن میں دوبارہ اُٹھایا جاؤں گا.پس نا پیدائش سلامتی کا موجب ہوتی ہے نہ موت کوئی سلامتی کا موجب ہوتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ بعض موتیں خدا تعالیٰ کے نزدیک سلامتی کا موجب بن جایا کرتی ہیں.رہتی دنیا تک جب تک قرآن کریم رہے گا اور ہمیشہ رہے گا کروڑ ہا اربوں بندے خدا تعالیٰ کے یہ آیت پڑھا کریں گے اور حضرت مسیح کی موت پر بھی سلامتی بھیجا کریں گے.پس جنازے کا بھی ایک رحمت کے طور پر ذکر کرنا کوئی بے جا بات نہیں ہے.مجھے یقین ہے کہ خان صاحب کی موت کا دن بھی سلامتی کا دن تھا.ان کا نام بھی سلام تھا جس دن یہ پیدا ہوئے ایک صحابی کی اولاد کے طور پر پیدا ہوئے.تمام عمر وفا کے ساتھ احمدیت سے چمٹے رہے.پس آج ان کی وفات کا دن بھی سلامتی ہی کا دن ہے اور پہلی صدی کا جنازہ جو آج ان کا پڑھا گیا ہے اس لئے لحاظ سے بھی یہ بہت ہی برکتوں کا موجب ہے.پس ہمیں خدا کی رحمت کے ہر نشان کو محفوظ رکھنا چاہئے.آئندہ صدی بہت سے انعامات ہمارے لئے لانے والی ہے.خدا کے بیشمار انعامات جو صدی کے آغاز سے نازل ہونے شروع ہوئے ہم ان کا احاطہ نہیں کر سکتے.بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا علم بعد میں ہو گا لیکن ایک بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں سب سے آخر پر لیکن سب سے اہم.اس صدی کا پہلا الہام جو مجھے ہوا وہ صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا وہ تھا السلام علیکم ورحمۃ اللہ پس ہم سلامتی کی جو باتیں کر رہے ہیں میں نے چاہا کہ میں آپ کو اس خوشخبری میں شریک کروں.وہ خدا جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس خدا کو گواہ ٹھہرا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس صدی کا پہلا پیغام مجھے یہ دیا ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ.دنیا خواہ چاہے آپ پر ہزار لعنتیں زبانی ڈالتی پھرے، ہزار ، لاکھ کروڑ کوششیں کرے آپ کو مٹانے کی مگر اس صدی کے سر پر خدا کی طرف سے نازل ہونے والا سلام ہمیشہ آپ کے سروں پر رحمت کے سائے کئے رکھے گا اور ان رحمتوں اور سلامتیوں کے سائے تلے آپ آگے بڑھیں گے یہ صرف میرے نام پیغام نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کی جماعت کے لئے یہ پیغام ہے اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ بر کاتہ کا لفظ تو مجھے یاد نہیں

Page 196

خطبات طاہر جلد ۸ 191 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء لیکن السلام علیکم ورحمتہ اللہ کو بالکل صاف کھلی آواز میں روشن آواز میں کہا اور اس سے میرا دل حمد سے بھر گیا کہ خدا تعالیٰ کی کیسی شان ہے کہ پہلی صدی کے آغاز پر ہی وہی وقت جب صدی شروع ہورہی تھی اس وقت خدا تعالیٰ نے بڑے پیار اور محبت کی آواز میں اور بڑی کھلی کھلی واضح آواز میں مجھے السلام علیکم کا تحفہ مجھ پر نازل فرمایا تا کہ میں اسے تمام دنیا کی جماعتوں کے سامنے پیش کرسکوں.پس ماریشس کے وہ احمدی جو اس آواز کو سن رہے ہیں اُن کو بھی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ پہنچے اور جرمنی کے وہ مخلصین جو اس آواز کو سن رہے ہیں ان کو بھی السلام علیکم و رحمتہ اللہ کا تحفہ پہنچے اور وہ سب احمدی جو اس آواز کو نہیں سن رہے ان کو بھی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ پہنچے کیونکہ وقت ایسا ہے جو اس سلام کو پہنچانے کے لئے چنا گیا ہے اس لئے مجھے کامل یقین ہے کہ سلام ان احمدیوں کو بھی پہنچے گا جو بھی پیدا نہیں ہوئے.اُن احمدیوں کو بھی پہنچے گا جو ا بھی احمدی نہیں ہوئے.ان قوموں کو بھی پہنچے گا جن تک ابھی احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا.آئندہ ایک سو سال میں احمدیت نے کتنی ترقی کرنی ہے ہم اس کا ابھی تصور بھی نہیں باندھ سکتے.کن کن نئی سرزمینوں میں اس احمدیت نے جڑیں پکڑنی ہیں اور تنومند درخت بننے ہیں اور عظیم الشان خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے ان درختوں کے ذریعے ان تمام زمینوں پر محیط ہونے ہیں.ہم ان باتوں کا آج تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ جہاں تک بھی احمدیت پھیلے گی دنیا کے جس جس خطے میں بھی احمدیت کا پیغام قبول کیا جائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امام زمانہ تسلیم کیا جائے گا جہاں جہاں حضرت محمد مصطفی عملے کی سرداری کے سامنے احمدیت کے ذریعے سرتسلیم خم کئے جائیں گے اُن سب کو اس سلام کا تحفہ ہمیشہ ہمیش پہنچتا رہے گا.پھر آئندہ صدی میں کیا ہونا ہے اللہ بہتر جانتا ہے، کیسے لوگ ہوں گے.مجھے امید ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ تقویٰ کی ایک نئی لہر جاری کرے گا اس صدی کے لئے بھی اور رحمتوں کے نئے پیغام آئندہ صدی کے لئے خود پیش فرمائے گا.آج دنیا کے ہر احمدی کا دل خوش ہے ذرہ ذرہ خدا کے احسانات کے ذکر سے لرز رہا ہے.تموج میں ہے دل ہی نہیں بلکہ وجود کا ذرہ ذرہ کثرت کے ساتھ دنیا کے کونے کونے سے مبارکباد کی تاریں موصول ہو رہی ہیں اور زمین کے کناروں تک سے یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ ہاں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا کر چھوڑا ہے لیکن ابھی ان

Page 197

خطبات طاہر جلد ۸ 192 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء کناروں کو مزید وسعتیں عطا ہوتی ہیں.آج جو ہم احمدی نسلیں زندہ ہیں ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس حد تک اپنے معیار خلوص کو بلند کر کے اور قربانیوں کے معیار کو بلند کر کے ہم نے اگلی صدی کے ذریعے، اگلی صدی کی آنے والی نسلوں کے لئے رحمت کے سامان مہیا کرنے ہیں.بہت سے خوش نصیب ہم میں سے ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ صدی کے اختتام سے پہلے پہلے بہت سی بدیاں جھاڑ دیں.بہت سے گناہوں سے توبہ کی.بہت سے خوش نصیب ایسے ہیں جنہوں نے نئی روحانی زندگی پائی.بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے مجھے خط لکھے کہ ہم نے جب مسلسل خطبات سن کر اپنے نفس کا جائزہ لیا کہ کس حد تک ہم متقی ہیں اور کس حد تک یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ اگلی صدی کے سر پر کھڑے ہوں تو ہم نے اپنے آپ کو بے حد گناہ گار پایا بلکہ اس لائق نہ پایا کہ ہم احمدی کہلائیں لیکن آج انگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے ہم تجدید بیعت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کامل خلوص اور کامل عزم کے ساتھ ، پختہ عزم کے ساتھ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمارا پہلا وجود مر کر پچھلی صدی میں دفن ہو جائے گا اور ایک نیا روحانی وجود اگلی صدی میں داخل ہوگا.پس یہ وہ جماعت ہے جس میں ہزاروں لاکھوں کو خدا نے نئی زندگیاں عطا کی ہیں، نئے وجود بخشے گئے ہیں، نئے خلق نصیب ہوئے ہیں.بہت سی بدیاں اُن سے جھڑ کر پچھلی صدی میں جاپڑی ہیں.آئندہ ان نیکیوں کی حفاظت کرنے کے سامان کرنے ہیں.ان نیکیوں کو پھیلانے کے سامان کرنے ہیں اور وہ سب احمدی جو ابھی تک اپنی بہت سی کمزوریوں کو دور نہیں کر سکے خواہش کے باوجود دور نہیں کر سکے اور میں جانتا ہوں کہ لکھوکھا لکھوکھا ایسے احمدی ہوں گے جو کوشش کے باوجود اپنی تمام کمزوریوں کو دور نہیں کر سکے تو میں اُن کو متوجہ کرتا ہوں کہ اس صدی کی نئی فضا میں جو تموج پیدا ہوا ہے، جو نیکی کے ذکر کے ساتھ دلوں میں اللہ تعالیٰ نئے ولولے پیدا کر رہا ہے ان سے استفادہ کرتے ہوئے ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا.ان خاص لمحات سے استفادہ کرتے ہوئے آج بھی کوشش کریں کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور پاک اور صاف ہو کر نے وجود خدا تعالیٰ سے حاصل کریں کیونکہ آپ پر اگلی صدی کی آنے والی نسلوں کی بہت سی عظیم ذمہ داریاں ہیں.آپ میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ نے ایک قسم کے تجدید کے مقام پر کھڑا کیا ہے.دین اسلام کو جو آئندہ خطرات درپیش ہیں ان کا علاج آج آپ نے کرنا ہے اگر آپ کو اس بات کا شعور ہو.آپ کے تقویٰ کا معیار بڑھنے سے آئندہ آنے والے خطرات کا مقابلہ ہوگا.آج کی نسل

Page 198

خطبات طاہر جلد ۸ 193 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس کامیابی کے ساتھ اسلام کی جنگیں دنیا کے مختلف ممالک میں لڑی جانے والی ہیں.آپ کا ہتھیار تقویٰ کا ہتھیار ہے اس کے سوا کوئی اور ہتھیار نہیں ہے جو آپ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا ہے.دعا کا تقویٰ کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.آسمان سے جو اعجا ز نازل ہوا کرتے ہیں اُن کا براہ راست تقویٰ کے معیار سے تعلق ہوا کرتا ہے.پس اپنے تقویٰ کا معیار بلند کریں اور وہ زادراہ لیں جو ایک سو سال تک آئندہ نسلیں کھاتی رہیں.اس لئے آئندہ صدی میں کیا ہونا ہے؟ اس کا فیصلہ آج کے احمدیوں نے طے کرنا ہے، ان کے دلوں نے کرنا ہے، ان کے اخلاق نے کرنا ہے، ان کے نیک اعمال نے کرنا ہے اور ان کے ان فیصلوں اور عزائم نے کرنا ہے کہ ہر صورت میں ہم نے اپنی بدیوں کو جھاڑنا ہے اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہے اور نیکیوں کی حفاظت کرنی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت تقویٰ کے ایک نئے معیار پر نئی صورت میں اُبھرے گی اور نئی شان کے ساتھ دنیا کے سامنے ظاہر ہوگی.ایسی شان کے ساتھ ظاہر ہوگی کہ وہ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دے.آپ کی زبانوں میں وہ طاقت نہیں ہے دنیا کو تبدیل کرنے کی جو آپ کے خاموش تقویٰ میں طاقت ہے.تقویٰ وہ قوت رکھتا ہے جو بغیر زبان میں ڈھلے عظیم الشان تبدیاں پیدا کر سکتا ہے.پس اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے ، اس پر تو کل کرتے ہوئے اس عزم کے ساتھ داخل ہوں کہ جو کمزوریاں سرزد ہو چکیں وہ ماضی کا حصہ بن جائیں ، ڈرونی خوابوں کی طرح پیچھے رہ جائیں اُن کی تعبیر میں بھی آپ نہ دیکھیں اور آج آپ نے جو نئے عزائم باندھے ہیں اسلام کی ترقی کے لئے اور اسلام کی سر بلندی کے لئے جو آپ پیاری پیاری خوا ہیں دیکھ رہے ہیں ان کی عظیم الشان تعبیریں دنیا میں ظاہر ہوں اور خدا آپ کو توفیق دے کہ اپنی آنکھوں سے ان تعبیروں کو دیکھیں اور دیکھتے دیکھتے تمام دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو اور ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہمارے دل تراوت حاصل کریں ان باتوں سے.یہ ہے ایک احمدی کا تصور جسے ہم نے اس صدی میں پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے.یہ ذکر آج کا ذکر ایسا نہیں کہ جس میں غم کی بات کی جائے اور ایسی بات کی جائے جس سے دل پر کسی طرح میں آئے لیکن آپ سب نے پنجاب میں ہونے والے ایک حکومت کے حکم نامہ کا ذکر سنا ہوا ہے اور بہت سے ایسے ہوں گے جو توقع رکھتے ہوں گے کہ میری زبان سے سنیں کہ وہ کیا واقعہ ہوا اور

Page 199

خطبات طاہر جلد ۸ 194 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء اس پر جماعت کو کیا ردعمل دکھانا چاہئے.اس لئے میں اپنے خطبے کو اس ذکر پر خواہ وہ تکلیف دہ ذکر ہی کیوں نہ ہو ختم کروں گا.کچھ عرصہ نہیں تقریباً تین چار دن پہلے مجھے ربوہ سے فون کے ذریعہ یہ پیغام موصول ہوا.ناظر صاحب امور عامہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ کمشنر سرگودھا ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر جھنگ اور پولیس کے بڑے اور چھوٹے تمام افسران اکٹھے ہو کر ربوہ اس غرض سے تشریف لائے کہ ربوہ کے جو چیدہ چیدہ سربراہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن ربوہ کے منتظمین یا مختلف افسران جور بوہ کی نمائندگی کر سکتے ہیں ان کو ایک پیغام دیں اس نیت کے ساتھ تشریف لائے.ان کو اکٹھا کیا گیا اور پیغام یہ تھا کہ آپ کو اس صدی کے اختتام پر اور نئی صدی کے آغاز پر کسی قسم کے کوئی جشن منانے کی اجازت نہیں دی جائے گی.نہ جلوس کی اجازت دی جائے گی، نہ جلسے کی اجازت دی جائے گی، نہ بتیاں روشن کرنے کی اجازت دی جائے گی وغیرہ وغیرہ.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے کہا کہ آپ لکھ کر یہ پیغام دیں جب تک حکومت کی طرف سے تحریری حکم نامہ نہیں ملے گا ہم اس کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے اور پھر جو کچھ بھی ہوگا اس کی آپ پر ذمہ داری ہے.چنانچہ اس پر کمشنر نے ان سے وعدہ کیا کہ میں کل یہ پیغام لکھ کر بھجوا دوں گا.ان کا اندازہ یہ تھا کہ اس تحریری پیغام میں تا خیر اس لئے کی جارہی ہے تا کہ جماعت عدالت کی طرف رجوع نہ کر سکے اور آگے جو رھتیں آرہی ہیں ان سے حکومت فائدہ اٹھا لے اور جب تک عدالت تک جماعت پہنچے اس سے پہلے پہلے یہ دن گزرچکے ہوں.اتنا ان کی طبیعت پر بوجھ تھا اور اتنا آواز میں غم تھا کہ بات کرتے ہوئے آواز لرز رہی تھی.مجھے اس سے بڑی فکر پیدا ہوئی اور میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں آپ ہر گز اس طرز میں مجھ سے بات نہ کریں اور میں آپ کو باقاعدہ ایک یہ پیغام دیتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہو آپ نے اپنے حوصلے کا سر بلند رکھنا ہے اور قطعاً ان لوگوں سے مرعوب نہیں ہونا.چنانچہ میں نے ان کو پھر اس فون کے بعد یہ پیغام بھجوایا کہ ایک سوسال کے خدا تعالیٰ کے بے انتہا احسانات ہیں جو جماعت پر نازل ہوئے ہیں اس کے نتیجے میں جو خوشیاں دلوں سے پھوٹ رہی ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکتی.اس لئے آج میرا آپ کو پیغام یہ ہے کہ آپ نے لازماً خوش رہنا ہے جو کچھ سر پر گزرے آپ نے اپنی خوشی کو مغلوب نہیں ہونے دینا.میں نے ان سے کہا کہ جب میں ربوہ سے روانہ ہو رہا تھا تو میں نے آپ سے ایک وعدہ لیا تھا اور وہ وعدہ

Page 200

خطبات طاہر جلد ۸ 195 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء ا یہ تھا کہ آپ اس غم کو مرنے نہیں دیں گے اور ہمیشہ اس غم کو تازہ رکھیں گے.اس وعدے کو آج آپ بھول جائیں، آج میں آپ سے ایک نیا وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں نے جو جماعت کو خوشیاں دی ہیں آپ ان خوشیوں کو زندہ رکھیں اور کسی ظالم کو اجازت نہیں دیں گے کہ اس کے پنجے آپ کے دلوں سے ان رحمتوں کی خوشیوں کو چھین لیں.آپ کو نئے کپڑے پہنے کی اجازت نہیں تو پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں بازاروں میں پھریں اور خوشیوں سے آپ کے چہرے دمک رہے ہوں.آپ کے وجود کا ذرہ ذرہ ان دشمنوں کو نا کام اور نا مراد کر رہا ہو اور ان کو کہہ رہا ہو کہ ہماری مقدس خوشیوں تک پہنچنے کی تمہارے بہیمانہ پنجوں کو اجازت نہیں دی جائے گی.پھر دیکھیں یہ لوگ کس طرح آپ کو نا کام اور نامراد کر سکتے ہیں کوئی دنیا کی طاقت آپ کو نا کام اور نامراد نہیں کر سکتی.خدا کے فضلوں کی خوشیاں کوئی دنیا میں روک سکتا ہے، خدا کے رحمتوں کی خوشیاں کوئی دنیا میں روک سکتا ہے؟ چنانچہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک بالکل نئی فضا پیدا ہوگئی اور پنجاب میں جہاں جہاں یہ پیغام پہنچا وہاں بہت سے شہروں میں تو انہوں نے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ کوئی ہمیں قید کرتا ہے مارتا ہے گلیوں میں گھسیٹتا ہے، گالیاں دیتا ہے انہوں نے خوب جشن منائے.ربوہ کی تو دوسری حیثیت کے پیش نظر اگر چہ وہاں بتیاں تو نہیں جل سکیں لیکن میں نے ان سے کہا کہ اتارنی آپ نے نہیں ہیں.یہ دن ایسا ہے یعنی ۲۳ / مارچ کا دن کہ جس دن یہ ساری قوم مجبور ہوگئی ہے بتیاں جلانے پر اور خوشیاں منانے پر کیونکہ خدا کی تقدیر نے اس دن کو یوم پاکستان بنا دیا ہے.اس لئے ان گھروں کی بتیاں احمدیت کی خوشیاں منارہی ہوں گی خدا کی نظر میں اور وہ بتیاں جو ان کو نظر نہیں آتیں جلتی ہوئی آپ کے گھروں پر وہ خدا کی نظر میں سب سے زیادہ روشن قرار دی جائیں گئیں اور ایسا ہوتا ہے، خدا کی تقدیر میں ایسا ہوتا آیا ہے.اس لئے احمدیت کو دنیا کی کوئی طاقت ناکام اور نا مراد نہیں کر سکتی یہ بات یاد رکھیں.ہمارے لئے خوشیوں کے دن آئے ہیں اور خوشیوں کے دن بڑھتے چلے جائیں گے ہمارے لئے.ہمارے لئے خوشیاں ایسی مقدر ہو چکی ہیں جو ہماری راتوں کو بھی دن بنا دیں گیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ایک ذرہ بھی مجھے اس بات میں شک نہیں کہ نئی صدی احمدیت کے لئے نئی نئی خوشیاں لے کر آنے والی ہے.پس خوشی سے اچھلو اور کو دو اور خدا کی رحمتوں پر شکر کے لئے اور تیاری کرو.اپنے شکروں کے معیار کو اور زیادہ بڑھاؤ کیونکہ ہم نے تو آج خدا تعالیٰ کے گزشتہ

Page 201

خطبات طاہر جلد ۸ 196 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء فضلوں کو جو دیکھا ہے اس کی روشنی میں ہم یقین کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل اتنا روشن ہے اور اتنا عظیم الشان ہے کہ جس طرح آج سے سو سال پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ دنیا کے ایک سو بیس ممالک میں جماعت احمدیہ پھیل چکی ہوگی اور کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس سے پہلے تیرہ سو سال میں ساری دنیا کے مسلمانوں نے جتنی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کئے ہیں اس سے دوگنی زبانوں میں چند سال میں جماعت احمدیہ کو توفیق ملی تراجم کر کے ساری دنیا میں اس مقدس صحیفے کے ترجمے کو پھیلا دے.کوئی وہم کر سکتا تھا اس زمانے میں؟ پس آج آپ بھی و ہم نہیں کر سکتے ،سوچ بھی نہیں سکتے کہ خدا کی رحمتوں نے کیا کیا آپ کے لئے مقدر کر رکھا ہے.پس میں ربوہ کے رہنے والے ہوں یا پنجاب کے دوسرے علاقوں کے لوگ جو اس حکم کوسن کر غمزدہ ہیں ان کو میں دوبارہ یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی خوشیاں ان کی پہنچ سے بالا ہیں.آپ خوش رہیں اور خدا تعالیٰ مزید آپ کی خوشیاں بڑھاتا چلا جائے گا.یہ کیوں نہیں سوچتے آپ کہ کس قدران کے دل مغضوب ہو چکے ہیں.کس قدر ان کی تکلیف کے نئے نئے سامان خدا تعالیٰ نے پیدا کر دئیے ہیں.یعنی وہ شخص جو کسی کی خوشی پر عذاب میں مبتلا ہو اس سے زیادہ اور کیا جہنم سوچی جاسکتی ہے.بڑے ہی سادہ لوح ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حکم دے کر ہماری خوشیاں چھین لی ہیں.ان کا حکم دینا بتاتا ہے کہ ان کے دلوں میں آگ لگی ہوئی ہے اس جہنم میں جل رہے ہیں کہ احمدیوں کو کیوں خدا تعالیٰ نئی نئی رفعتیں نئی نئی برکتیں عطا کرتا چلا جارہا ہے.وہ حکم میں آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں اس کو آپ پڑھ کر دیکھیں یہ کوئی رونے والا حکم.اس پہ تو ہنسی آتی ہے.حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر بیوقوف اور جاہل قوم ہے یہ کہ جو اس طرح دوسرے کی خوشیاں چھینے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ رزیل کوشش بتا رہی ہے کہ دلوں میں ایک آگ لگی ہوئی ہے، جہنم برپا ہے.بہت انہوں نے کوشش کی ، بہت زور مارے کہ احمدیت کو نا کام اور نامراد کر دیں.آج سوسال کے بعد اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی پیش نہیں گئی ، کوئی سختی کام نہ آئی، کسی قسم کے رزیل ارادوں نے احمدیت کو نا کام تو کیا کرنا تھا احمدیت کے پاؤں کی خاک کو بھی وہ ناکام و نامراد نہیں کر سکے.یہ وہ کیفیت ہے جو اس حکم سے ظاہر ہے.ایک شکست کا اعتراف ہے کہ ہم سب کچھ کر بیٹھے ہیں ہم نامراد ہو گئے ہیں اب خدا کے لئے خوش نہ ہو.کیونکہ تمہاری خوشیاں ہمیں تکلیف دیں گی.حکم نامے کے

Page 202

خطبات طاہر جلد ۸ 197 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء الفاظ یہ ہیں.ڈپٹی کمشنر صاحب لکھ رہے ہیں.جبکہ میرے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ ضلع جھنگ میں قادیانی ۲۳ / مارچ ۱۹۸۹ء کو قادیانیت کی اپنی صد سالہ جو بلی منعقد کر رہے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے چراغاں کرنے، عمارات سجانے ، سجاوٹی گیٹ کھڑے کرنے ، پمفلٹ تقسیم کرنے ، دیواروں پر پوسٹر لگانے ، شیرینی بانٹے سپیشل کھانے ( لفظ پیش کھانے بھی خوب ہے)، بیجز کی نمائش، بینر لگانے اور جھنڈیاں وغیرہ لگانے کا انتظام کیا ہے جو کہ مسلمانوں کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے“.(انا للہ وانا الیہ راجعون ) اب بتا ئیں اس حکم کے اوپر رونا آئے گا یا جنسی آئے گی یعنی یہ ساری چیز میں مسلمانوں کے نزد یک سخت قابل اعتراض ہیں.آپ کا ہنسنا بعض دلوں میں آگ لگا رہا ہے.آپ کی خوشیاں بعض سینوں میں جہنم کے سامان پیدا کر رہی ہیں.یہ آپ کی خوشی کا موقع ہے اور آپ کے ناچنے اور گانے کے دن ہیں یا مغموم ہونے کے دن ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے اور یہی قرآن کریم کی پیشگوئی تھی کہ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ (التح۳۰۰) یہ سرسبز و شاداب کھیتیاں جو اُگائی جارہی ہیں خدا کی راہ میں انہوں نے ضرور نشو ونما پانی ہے، لہلہاتا ہے.ان کی شاخوں نے مضبوطی اختیار کرنی ہے.ان کے تنوں نے تنومند ہو جانا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی.جتنی یہ کھیتی شاداب ہوتی چلی جائے گی اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لِيَغِیظُ بِهِمُ الْكُفَّار اس کے نتیجے میں ان لوگوں کا انکار کرنے والے اور زیادہ غیض و غضب کی آگ میں جلتے چلے جائیں گے.پس چودہ سو سال پہلے جو عظیم الشان پیشگوئی قرآن کریم میں کی گئی تھی آج آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے.اس لئے اس پر اور بھی خوش ہوں.اس قسم کے حکم ناموں نے ثابت کر دیا ہے کہ سچا تھا وہ قرآن جس نے یہ پیشگوئی کی تھی اور سچا تھاوہ رسول جس پر یہ کلام الہی نازل ہوا اور سچا تھا وہ خدا اور عالم الغیب تھا وہ جانتا تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے.وہ جانتا تھا کہ ایسے بھی دن آئیں گے کہ بعض لوگوں کی خوشیاں بعض دوسرے لوگوں کے لئے عذاب بن جائیں گی.پس یہ حکم نامہ جو ہے یہ ہمیں مغموم کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہماری خوشیوں میں اضافہ کرنے کے لئے ایک دستاویزی ثبوت کے طور پر ہمارے ہاتھ میں آیا ہے.چنانچہ آگے جا کر لکھتے ہیں.یہ دیکھو احمدی کیا ظلم کر رہے ہیں.پچھلے سوسالوں کے کارناموں پر خوش ہو رہے ہیں حالانکہ

Page 203

خطبات طاہر جلد ۸ 198 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء پنجاب گورنمنٹ کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے بذریعہ ٹیلی پرنٹر پیغام بتاریخ ۲۰ / مارچ ۱۹۸۹ء میں متذکرہ بالا قادیانیوں کے صد سالہ جشن پر صوبے بھر میں پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے.کہ حکومت پنجاب نے فلاں فلاں قانون بذریعہ فلاں کے ذریعہ جو ٹیلی پرنٹر کے ذریعے بھجوایا گیا تھا ان کے اوپر پابندی لگانے کا فیصلہ اور یہ خوش ہورہے ہیں.یعنی دلوں کے اوپر بھی پنجاب کی حکومت فیصلہ کرے گی کہ کیا واردات گزرے.ایسا بیوقوفوں والا فیصلہ میں سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کی تاریخ میں ایک منفرد فیصلہ ہے.بڑی بڑی جاہل حکومتیں ہم نے سنی ہیں تاریخ میں ذکر بھی کرتے ہیں مگر ایسا احمقانہ، ایسا جاہلانہ حکم نامہ آج تک میرا خیال ہے دنیا کی کبھی کسی حکومت کو جاری کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ہوگی.پھر وہ فرماتے ہیں.اور جبکہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ سی PPC ایکٹ XLV ۱۸۶۰ء کے تحت قادیانی گروہ کے کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے دین کو اسلام کہے یا قرار دے یا اپنے دین کی تبلیغ یا پر چار کرے یا دوسروں کو اپنے دین کی تحریری زبان یا کسی مرئی طریق سے دعوت دے یا کسی بھی انداز سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے تو مستوجب سز ا ٹھہرے گا جبکہ میری رائے اور گورنمنٹ کے مندرجہ بالا فیصلے اور تعزیرات پاکستان کے مندرجات کے مطابق اور زیر دفعہ ۲۹۸سی PPC ایکٹ XLV آف ۱۸۶۰.ایسی کافی وجوہات موجود ہیں کہ اس کی (یعنی صد سالہ تقریبات کی فوری روک تھام کی جائے اور ایسی ہدایات کا اجراء ضروری ہے جو انسانی زندگی ، املاک اور امن و سکون عامہ کو درپیش خطرہ کا انسداد کریں.اس لئے اب میں چوہدری محمد سلیم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ دفعہ ۱۹۹۸ PC ۱۴۴ج کے تحت اپنے اختیارات کو بروئے کارلاتے ہوئے قادیانیوں کو ضلع جھنگ میں مندرجہ ذیل سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لئے حکم صادر کرتا ہوں.عمارات اور ان کے احاطوں میں چراغاں کرنا.( یعنی اپنے گھروں کے اندر بھی نہیں چراغاں کر سکتے ) سجاوٹی گیٹ لگانا، جلسے اور جلوس کا انعقاد، لاؤڈ سپیکر یا میگافون کا استعمال، نعرے لگانا ، بیجز آویزاں کرنا، رنگ برنگے قمقے اور بینرز لگانا، پمفلٹ تقسیم کرنا، پوسٹر لگانا، دیواروں پر لکھنا، مٹھائی یا کھانا یا تقسیم کرنا ( جہالت کی حد ہوتی ہے.کیسی احتیاط ہے زبان میں ماشاء اللہ.آخر وہ ڈپٹی کمشنر ہیں پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ایسی زبان استعمال کروں کہ کوئی

Page 204

خطبات طاہر جلد ۸ 199 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء احمدی بیچ کے جاہی نہ سکے.اگر مٹھائی تقسیم کرنا ہو تو کہہ دیں گے جی کہ ہم تو کھا رہے ہیں.فرماتے ہیں مٹھائی یا کھانا یا تقسیم کرنا اور کوئی ایسی حرکت جو بالواسطہ یا بلا واسطہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات انگیخت یا مجروح کرنے کا موجب ہو.بالواسطہ یا بلا واسطہ.اب ہم تو سانس لیتے ہیں تو آپ کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ہم کریں کیا آخر؟ سانس لینا تو نہیں چھوڑ سکتے اور تم میں طاقت نہیں ہے کہ احمدیت کے سانس بند کر سکو.تمہاری مجال نہیں ہے کہ احمدیوں کی خوشیاں چھین سکو.تم ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہو کے یہ خدائی کی باتیں کرتے ہو.خدا کی قسم تمام دنیا کی حکومتیں بھی مل کر اگر ایسے ذلیل اور رزیل فیصلے کریں گی تب بھی احمدیوں کے دلوں سے ان کی خوشیاں نہیں چھین سکیں گی.تم ایک سوسال کی خوشیوں پر اس قدر نامرادی کا اظہار کر رہے ہو تمہیں کیا پتا کہ اگلے سو سال تمہیں کیا دکھانے کے لئے آ رہے ہیں؟ اپنی دلوں کی جنموں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جو سامان کر سکتے ہو کر ولیکن خدا کی قسم احمدیت میں آنے والی صدی بیشمار اور بے انتہا خوشیاں لے کر آئے گی اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو ان خوشیوں کے دلوں پر اپنے پنجے گاڑ سکے.یہ تمہاری تحریریں ان کی حیثیت کیا ہے.یہ تمہاری باتیں شوخیاں ہیں اس سے بڑھ کر اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اس لئے لگاؤ جتنا مرضی زور لگاؤ خدا کی بارش کی طرح برستی رحمتوں کو روک نہیں سکتے تم ناممکن ہے تمہارے لئے.دستخط کرنے کا آخر پر دیکھیں کس شان سے ذکر فرمایا.میرے ہاتھ اور عدالت کی مہر سے آج مورخہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۹ء کو جاری کیا گیا.چوہدری محمد سلیم ڈپٹی کمشنر.اگر تمہاری ڈپٹی مجسٹریٹی وہاں نہیں کام کر سکی جنہیں آپ حکم دے رہے ہو ساری دنیا سے تم احمدیوں کی خوشیاں چھین لو گے.حیثیت کیا ہے تو فیق کیا ہے تمہاری ؟ اب تم سمجھتے ہو کہ تم حکومت کے کارندہ ہو تمہارے ہاتھ میں ایک تحریر لکھی ہے اور شائد تم یہ بھی سمجھتے ہو کہ تمہارا دل اس تحریر میں نہیں ہے صرف تمہارے ہاتھ مجبور ہیں اس لئے تم سزا نہیں پاؤ گے.مگر میں تمہاری یہ غلط فہمی دور کرنی چاہتا ہوں.مجھے یاد ہے حضرت مصلح موعودؓ کے گھر کی تلاشی کا جب حکم دیا گیا پنجاب گورنر کی طرف سے ۱۹۵۳ء کی بات ہے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بلایا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ

Page 205

خطبات طاہر جلد ۸ 200 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء پولیس یا ڈی ایس پی تھا اس کے ساتھ پھر کر وہ تلاشی کرواؤں.اس زمانے میں شرافت کا معیار آج سے بہت زیادہ بلند تھا.چنانچہ وہ ڈی ایس پی صاحب یا ایس پی صاحب مجھے اب صحیح یاد نہیں جب تشریف لائے تو بہت ہی زیادہ شرمندہ اور معذرت خواہ تھے.بار بار یہ حضرت صاحب سے عرض کر رہے تھے کہ مجھے معاف کریں میں بالکل مجبور اور بے اختیار ہوں.بتائیے میرا کیا گناہ ہے؟ میں تو ایک ادنی کارندہ ہوں حکومت کا اور گورنر پنجاب کا حکم ہے میں اس کو ٹال نہیں سکتا میں مجبور ہوں.بتائیے اس کی سزا مجھے تو نہیں پہنچے گی، کیا میں بھی بد نصیب ہوں گا اس وجہ سے کہ مجھے استعمال کیا گیا ہے؟ حضرت مصلح موعودؓ یہ بات سنتے رہے اور مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا کہ دیکھیں میں جانتا ہوں کہ آپ مجبور ہیں لیکن بعض دفعہ مجبوریوں سے بھی بد بختیاں مل جایا کرتی ہیں اور بعض دفعہ مجبوریوں سے بھی سعادتیں مل جایا کرتی ہیں.آپ سے زیادہ وہ جوتی مجبور تھی جو ابو جہل کے قدموں میں تھی اور اسی طرح وہ جوتی مجبور تھی جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قدموں میں تھی.آپ بتائیں کہ کیا دونوں کا ایک ہی سا نصیب تھا؟ کیا وہ جوتی منحوس اور بدنصیب نہیں تھی جو ابو جہل کے قدموں میں تھی ؟ لیکن تھی بے اختیار.اسی طرح کتنی معزز اور کس شان کی وہ جوتی تھی جس پر میرے آقا محمد مصطفی عملے کے قدم پڑا کرتے تھے اور قدموں کے ساتھ لپٹی پھرا کرتی تھی.اس لئے یہ خوست تو ایسی ہے جس میں میں بے اختیار ہوں میں چاہوں بھی تو اس نحوست سے آپ کو الگ نہیں کر سکتا.ایسے لرزے وہ، اس قدر وہ خوفزدہ ہوئے کہ وہ تلاشی مجھے یاد ہے وہ جس طرح انسان سونگھتا پھرتا ہے جگہ کو تھوڑا تھوڑا سونگھا اور اس کے بعد کہا کہ بس اس سے زیادہ مجھ میں طاقت نہیں.وہ زمانہ اور تھا شرافتوں کے معیار، تقویٰ کے معیار اور ہوا کرتے تھے اب تو ہم نے پانیوں میں بہتے بہتے ایک اور سی فضا میں سر نکالا ہے.پس اس موقع پر اگر چہ دنیا کی اکثریت تو پاکستانی نہیں مگر میں پاکستانی ہوں اور مجھے اپنے ملک سے محبت ہے اور پیار ہے اپنے وطن سے میں مجبور ہوں اور نہیں تو میرے تعلق کی خاطر ، میری خاطر اس بدنصیب ملک کے لئے دعا کریں کہ جتنے دن باقی ہیں بدنصیبوں کے اللہ تعالی دور فرما دے.ان رزیل اور کمینی حکومتوں کی صفیں لپیٹ دے جو صرف اسلام کے نام پر نہیں وطنیت کے نام پر بھی داغ ہیں اور انسانیت کے نام پر بھی داغ ہیں.حماقتوں کی پوٹیں ہیں اس کے سوا ان کی کوئی حیثیت نہیں.تمام دنیا میں ہمارے عزیز وطن کو بدنام کرنے کا موجب بن رہی ہیں.پس

Page 206

خطبات طاہر جلد ۸ 201 خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۸۹ء اللہ دن بدلے اور موسم تبدیل فرمادے اور جلد از جلد ہمارا ملک اس قسم کی خوستوں سے آزاد ہو اور خدا کی رحمتوں اور برکات کا موجب بنے.پس اور اگر آپ کا تعلق اس ملک سے نہیں تو میری خاطر جس کے ہاتھ پر آپ نے بیعت کی ہے میرے تعلق کی خاطر مجھ پر رحم کرتے ہوئے میرے ملک کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: - ایک ذکر میں بھول گیا تھا جو مجھے بہت عزیز ہے یعنی اسیران راہ مولیٰ کا ذکر.ہم نے دعائیں کیں ، گریہ وزاری کی کہ اے خدا اگلی صدی کے آغاز سے پہلے ان کے بندھن ٹوٹ جائیں اور وہ بھی ہماری طرح آزادی کے سانس لیتے ہوئے ہماری خوشیوں میں شریک ہوں لیکن وہ مالک ہے ہم ادنی بندے ہیں.ابھی خدا کی تقدیر کو شائد یہ منظور نہیں تھا لیکن آپ یہ دعا ئیں ضرور جاری رکھیں.آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں خدا کی تقدیر کا حکم دنیاوی احکام پر غالب ضرور آئے گا اور مجھے ہرگز مایوسی نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ غیر معمولی سامان ایسے پیدا فرمائے گا کہ ہمارے عزیز مظلوم بھائی جو تمام احمدیت کی نمائندگی کے طور پر اسیری کی مشقتوں میں سے گزررہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے یہ بوجھ بھی آسان فرما دے ان کو تسکین قلب عطا کرے، ہر مشکل ان کے لئے ہلکی کر دے اور پھر ان زنجیروں کے ٹوٹنے کے سامان پیدا کرے.بظاہر زنجیریں تو انہوں نے پہن رکھی ہیں لیکن ان زنجیروں کی بندش ،اس کی تنگی ہمارے دلوں کو محسوس ہو رہی ہے.اس لئے جب تک وہ زنجیریں نہیں ٹوٹیں گی اس وقت تک ہمارے دلوں کی یہ تنگی کا احساس مٹ نہیں سکتا یہ نہیں ٹوٹ سکتا.تو دعا کریں ان کی خاطر نہیں تو اپنی خاطر ہی کریں لیکن میں جانتا ہوں کہ ہم اگر تکلیف محسوس بھی کر رہے ہوں گے تو اس تکلیف کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں سعادتیں مل رہی ہیں اور یہ تکلیف اپنی ذات میں معزز تکلیف ہے.اس لئے فی الحقیقت کوئی سچا انسان بھی اپنی تکلیف دور کرنے کی خاطر نہیں اپنے بھائی کی تکلیف کو دور کرنے کی خاطر یہ دعائیں کرے گا.اس لئے آپ خالصہ اللہ اپنے ان عزیز بھائیوں کو جس طرح پہلے دعاؤں میں یاد رکھتے آئے ہیں مزید دعاؤں میں یاد رکھیں اور امید رکھیں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور مناسب وقت پر جب خدا کی تقدیر فیصلہ کرے گی ان دعاؤں کو سنے گا اور انشاء اللہ ان بھائیوں کی قید کی زنجیریں لازما توڑی جائیں گی.اللہ وہ دن جلد تر ہمیں دکھائے.آمین.

Page 207

Page 208

خطبات طاہر جلد ۸ 203 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء نئی صدی کا پہلا سفر گولوے جنوبی آئر لینڈ میں مشن ہاؤس کا افتتاح ( خطبه جمعه فرموده ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء بمقام گولوے جنوبی آئر لینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کا جمعہ میں اور میرے دوسرے ساتھی جماعت آئرلینڈ کے ساتھ ایک قصبے گولوے میں ادا کر رہے ہیں.نئی صدی کے پہلے سال کا یہ میرا پہلا سفر ہے جو آئر لینڈ یعنی جنوبی آئرلینڈ کے لئے اختیار کیا گیا.اس سفر کی تقریب خصوصیت کے ساتھ اس لئے پیدا ہوئی کہ یہاں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کا پہلا مشن ہاؤس ایک بنی بنائی عمارت کی صورت میں خریدا گیا.جماعت کی خواہش تھی کہ اس مشن ہاؤس کا افتتاح میں خود با قاعدہ طور پر کرواؤں اور حسن اتفاق سے جن دنوں میں یہ صورت ممکن تھی یہ آئندہ جماعت کی دوسری صدی کے ابتدائی ایام تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اس صدی کا دوسرا خطبہ ہے جو میں اس نئی جماعت میں دے رہا ہوں.اس ملک کے حالات کے متعلق مختصراً میں دنیا بھر کی جماعتوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں.یہ ایک کیتھولک ملک ہے جس کی بھاری اکثریت رومن کیتھولکس سے تعلق رکھتی ہے اور اس پہلو سے یہ عیسائیت میں بہت زیادہ سنجیدہ ہیں.اگر چہ دنیا میں ہر جگہ کیتھولکسزم میں مذہب کے ساتھ وہ گہری عقیدت اور دلچپسی باقی نہیں رہی لیکن وہ دنیا کے بعض علاقے جہاں مذہب کے ساتھ بہت گہری عقیدت اور وابستگی ہے اور انسانی معاملات میں مذہب کو ایک فوقیت حاصل ہے.آئر لینڈ انہی

Page 209

خطبات طاہر جلد ۸ 204 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے.بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ آئر لینڈ میں رومن کیتھولکسز م اس سے زیادہ عقیدہ اور عمل کی صورت میں ملتا ہے جتن ویٹیکن (Vatican)کےاردگرد کے علاقے میں صورت حال دکھائی دیتی ہے.اس پہلو سے یہ ملک غیر معمولی طور پر مذہبی رجحان رکھتا ہے.عموماً دنیا میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کیتھولک لوگ اسلام سے زیادہ متنفر ہیں اور عیسائیت میں بہت زیادہ پختہ ہونے کی وجہ سے ان میں اسلام کے نفوذ کے کم امکانات ہیں.یہ خیال میری رائے میں درست نہیں کیونکہ مثلاً ہالینڈ میں جتنے بھی احمدی ہالینڈ کے ہوئے ہیں وہ سارے کے سارے پہلے کیتھولکس تھے.اسی طرح بعض دنیا کے دوسرے ممالک سے جو بیعتوں کی اطلاع ملتی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیتھولکس میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام قبول کرنے کے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں.خاص طور پر وہ کیتھولک علاقے جہاں مذہب کو اہمیت دی جاتی ہے ان میں چونکہ ابھی تک مذہب کے معاملات میں سنجیدگی موجود ہے اس لئے وہ غور کرنے کا رجحان رکھتے ہیں.باقی دنیا خصوصاً مغربی دنیا مذہب سے اتنا دور جا چکی ہے کہ ان کو مذہب میں بحیثیت مذہب کوئی دلچسپی نہیں اور اگر آپ کو دلچسپی ہی کوئی نہیں ہوگی اور غور ہی نہیں کریں گے تو مذہب تبدیل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ دراصل ایسے لوگ کوئی مذہب بھی نہیں رکھتے اُن کو اگر دلچسپی ہے تو مادہ پرستی میں، اس دنیا کی لذتوں، اس دنیا کی نعمتوں میں ہے اور دنیا کی ترقیات میں ہے.اس لئے آپ ان میں سے خواہ بہت سے اچھے اخلاق والے لوگ بھی پائیں ان کے اخلاق ، اُن کی ذات اور معاشرے تک محدود رہتے ہیں اور ان کے اخلاق کے نتیجے میں ان کے اندر مذہبی نفوذ پانے کی کوئی راہ آپ کو نہیں ملتی.پس اس پہلو سے وہ علاقے جو مذہبی تعصب رکھتے ہیں یعنی صرف مذہب میں سنجیدہ ہی نہیں بلکہ مذہبی تعصب بھی رکھتے ہیں وہ بھی اسلام کے نقطہ نگاہ سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ وہ کچھ نہ کچھ سوچ بچار تو ضرور کریں گے، غور وتد بر تو ضرور کریں گے.اس علاقے میں یعنی آئر لینڈ میں ایک اور خصوصیت یہ پائی جاتی ہے کہ رومن کیتھولک ہونے کے باوجود اسلام سے نفرت نہیں ہے اور بالعموم اس قوم کے اخلاق بہت اچھے ہیں.اس پہلو سے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جماعت کو یہاں نفوذ اختیار کرنے میں دقتیں پیش آئیں گی اور سخت منافرت کا سامنا ہو گا یہ خیال بالکل غلط نکلا ہے.جس علاقے میں ہم اس وقت یہ مشن بنا رہے

Page 210

خطبات طاہر جلد ۸ 205 خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء ہیں اور مضبوط کرنے کے لئے منصوبے بنا رہے ہیں اس علاقے کے لوگ بہت ہی خلیق اور انسانی اقدار سے مزین ہیں.با اخلاق لوگ ہیں اور ہمسایہ ہمسائے کا خیال رکھتا ہے.عام دنیا کی انسانی قدر میں یورپ میں اس علاقے میں باقی ملکوں کے مقابل پر زیادہ دکھائی دیتی ہیں.اسی طرح جو تجربہ مجھے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرنے کا ہوا ہے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہاں کے صحافی بھی مخیر ہیں اپنے دل کے لحاظ سے اور جو باتیں ان کو پسند آتی ہیں ان کو کھول کر دوسروں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور اس بات میں عار محسوس نہیں کرتے کہ ان کے عقیدے کے خلاف اگر کوئی شخص ، کوئی ٹھوس دلیل پیش کرے تو اسے تسلیم کریں اور اسے دنیا کی نظر میں بھی لے کر آئیں.چنانچہ جو پہلا تعارفی مضمون میرے آنے پر یہاں ایک اخبار میں شائع ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی کھلے دل کے ساتھ اور وسیع نظر کے ساتھ اس لکھنے والے نے جماعت احمدیہ کا مطالعہ کیا اور قطعاً کسی قسم کی کنجوسی سے کام نہیں لیا مضمون میں محض فراخ دلی کے ساتھ جماعت کی اچھی باتیں بیان کی گئیں اور خیر مقدم کیا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں آئندہ بھی میں اور مضامین شائع کروں گا.اسی طرح اس سے پہلے ان سے بھی کل ملاقات ہو چکی ہے یعنی لکھنے والے سے، اس سے پہلے یہاں ڈبلن (Doblen) میں دو مختلف اخباروں کے صحافی تشریف لائے ہوئے تھے ان سے گفتگو کے دوران بھی میں نے یہی اندازہ کیا کہ یہاں کے لوگ اچھے اور صاف دل ہیں اور دراصل مذہب میں جو چیز زیادہ کام آتی ہے وہ دل کی نیکی ہے اور سعادت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار تو مجھے تو یہاں بہت ہی جو ہر قابل دکھائی دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس علاقے کے لوگوں کی فطرت نیک ہے اس لحاظ سے میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ چھوٹی سی جماعت جسے آج ہم یہاں دیکھتے ہیں بڑھنے اور نشو ونما پانے کی صلاحیت رکھتی ہے یعنی بیرونی لحاظ سے یہ صلاحیت موجود ہے.وہ سرزمین جہاں ہم احمدیت اور اسلام کا بیج بونا چاہتے ہیں وہ زمین با صلاحیت ہے.اب پیج با صلاحیت ہے یا نہیں یہ دوسرا پہلو ہے اور اس پہلو کی طرف میں اس جماعت کو خصوصیت کے ساتھ متوجہ کرنا چاہتا ہوں.

Page 211

خطبات طاہر جلد ۸ 206 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء آپ میں نو جوان بھی ہیں، بڑی عمر کے بھی ہیں ، عورتیں اور بچے بھی ہیں.ایک لمبے عرصے تک آپ لوگوں نے اس ملک میں اس طرح زندگی گزاری کہ ایک با قاعدہ نظام جماعت قائم نہیں تھا اور نظام جماعت کے وسیلے سے آپ تک جماعتی پیغامات نہیں پہنچتے رہے اور اولاد کی تربیت کے سلسلے میں بھی نظام جماعت نے کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ آپ کی مائیں اگر وہ دینی علم رکھتی تھیں انہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ اپنے بچوں کو دین کی راہ پہ قائم رکھیں اور دینی علوم سے آراستہ کریں لیکن یہ انفرادی کوششیں تھیں اور بالعموم یہاں کے نوجوان ایسے ماحول میں پرورش پاتے رہے ہیں جہاں وہ اعلیٰ اسلامی اقدار سے واقف نہیں ہیں اور بچے بھی جن سکولوں میں تعلیم پاتے ہیں وہاں چونکہ مسلمان بہت کم ہیں اس لئے ماں باپ کو یہ اندازہ نہیں ہو سکتا کہ کن باتوں کا وہ اثر قبول کر چکے ہیں.یہ وہ خطرات ہیں جن کے پیش نظر مقامی جماعت کو انتظامی لحاظ سے بہت سی ایسی کوششیں کرنی ہوں گی کہ ہماری نوجوان نسلیں نہ صرف سنبھلیں بلکہ دین کے ساتھ ان کی ذاتی محبت پیدا ہو.ایک ذاتی لگاؤ پیدا ہو اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں بلکہ اسلام کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک ولولہ ان کے دل میں پیدا ہو جائے.اندرونی طور پر مضبوطی ہی پیدا نہ ہو بلکہ بیرونی لحاظ سے بھی ان کے اندر مضبوطی اور پیش قدمی کی صلاحیتیں پیدا ہو جائیں.یہ اگر ہم کرنے میں کامیاب ہو جا ئیں تو جیسا کہ میں نے تمہیدی بیان میں بتایا ہے یہاں کی سرزمین میرے نزدیک صالح سرزمین ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ جو اچھا بیج اس زمین میں بویا جائے وہ نشو ونما پائے.آئرلینڈ میں میرے علم میں ابھی تک کوئی مرد تو ایسا نہیں جس نے اسلام قبول کیا ہو لیکن بعض خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اگر چہ آغاز میں اس کا ذریعہ ان کی شادیاں بنیں لیکن محض اس لئے وہ مسلمان نہیں ہوئیں کہ کسی احمدی مسلمان سے ان کی شادی ہوئی تھی بلکہ پورے غور اور تدبر کے بعد لمبے عرصے تک اسلام کی چھان بین کے بعد پھر انہوں نے یہ قدم اٹھائے.ایسی دو خواتین کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں.ایک ماریشس میں ہیں اور ایک انگلستان میں تھیں اور اب مجھے معلوم نہیں وہیں ہیں یا کہیں اور چلی گئی ہیں لیکن خدا کے فضل سے دونوں کا دینی معیار نہایت بلند اور ایسا بلند تھا کہ میں اس سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا.اپنے بچوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی وہ نہایت اچھی مائیں بنی ہوئی تھیں اور مجھے امید ہے کہ ہمیشہ اچھی مائیں بنی رہیں گی.ان کی اولاد میں

Page 212

خطبات طاہر جلد ۸ 207 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلے کے ساتھ غیر معمولی اخلاق کے آثار نظر آتے تھے اور ایک خاتون جو ماریشس میں رہتی ہیں ان کا ایک بچہ تو واقف زندگی ہے اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی جسم کا مبلغ ہے اور بہت ہی غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والا نوجوان ہے، نہایت مخلص، فدائی ، دین کا عاشق نمونے کے لحاظ سے ایک پکا اور خالص مسلمان.تو اس لئے میں جو اندازے لگا رہا ہوں یہاں کے جو ہر قابل کے متعلق وہ اندازے محض نظری نہیں ہیں بلکہ ان نظری اندازوں کو تجربے نے تقویت بخشی ہے.پس اگر یہاں کی بعض خواتین اسلام قبول کرنے کے بعد جلد جلد تیزی کے ساتھ اسلامی اقدار میں ترقی کر سکتی ہیں تو یہاں کے مردوں میں بھی یقیناً یہ جو ہر موجود ہو گا صرف رابطے کی ضرورت ہے اور اب میرے آنے کے نتیجے میں اخبارات میں جو احمدیت کے ذکر چلیں گے اور چل چکے ہیں ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے.ہم بعض دفعہ بعض کامیابیوں سے خوش ہوکر ان کامیابیوں کے مزے لینے لگ جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کامیابیاں وقتی مزوں کی خاطر نہیں بلکہ اس خاطر خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے کہ ان کے سائے میں ہم آگے بڑھیں اور ان سے استفادہ کر کے مستقل طور پر ان علاقوں میں نیک اثرات قائم کریں.اب اگر میں یہاں دو تین دن کے بعد واپس چلا گیا جیسا کہ ارادہ ہے تو یعنی دو تین دن یہاں گزار کر واپس چلا جاؤں گا جیسا کہ ارادہ ہے تو یہ نہ ہو کہ میرے جانے کے بعد آپ کی چھوٹی سی جماعت اسی لطف میں گم سم رہے اور مگن رہے کہ چھوٹی سی جماعت ہے لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے اتنا بڑا فضل فرمایا، اتنے تذکرے ہوئے ، ایسے ایسے اچھے مضامین اخبار میں آئے ، ایسے ایسے اچھے لوگوں سے ہمارے رابطے بڑھے اور یہ سمجھا کہ یہ فضل بس یہیں تک تھا.حالانکہ یہ فضل اس نوعیت کا فضل ہے جس کے نتیجے میں آپ کو آگے بڑھنے کی قوت عطا ہوئی ہے.اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں گے.اگر آپ نے میرے جانے کے بعد ان سے رابطہ نہ رکھا اور ان کی جو طلب کی پیاس بھڑ کی ہے اسے آسمانی پانی مہیا کر کے سیراب کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ پیاس بھی زیادہ دیر باقی نہیں رہے گی.ان کی تو جہات زندگی کے دوسرے پانیوں کی طرف منتقل ہو جائیں گی.پیاس کی نوعیتیں بھی بدل جائیں گی اور چند دن کے تذکرے کہانیاں بن کر آپ کی تاریخ میں باقی رہ جائیں گے اور کوئی ٹھوس فائدہ جماعت کو نہیں پہنچے گا.اس لئے یہ وقت ہے کہ فوری طور پر یہاں کی جماعت تیاری کرے اور وسیع پیمانے پر ان لوگوں

Page 213

خطبات طاہر جلد ۸ 208 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء سے رابطے قائم کرنے کی سکیمیں بنائی جائیں.اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ساری دنیا میں ہم غیر اسلامی دنیا سے رابطہ پیدا کرنے کی جو سکیمیں بنا چکے ہیں، جو ارادے باندھ چکے ہیں، جو تیاریاں مکمل کر چکے ہیں ان سے یہاں بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.انگلستان میں وسیع پیمانے پر ایسا لٹریچر شائع ہو چکا ہے جس کو تمام انگلستان کے مختلف حصوں میں نئے نئے لوگوں تک پہنچایا جائے گا تا کہ احمدیت میں اور اسلام میں دلچسپی کی نئی راہیں کھلیں.اس لٹریچر سے بہت حد تک یہاں بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے.جہاں تک میرا علم ہے آئرش زبان اتنے وسیع پیمانے پر یہاں نہیں بولی جاتی جتنا انگریزی زبان بولی جاتی ہے.اگر چہ تلفظ میں فرق ہے لیکن بنیادی طور پر زبان وہی ہے اور تحریری زبان کے لحاظ سے قطعا کوئی فرق نہیں.اسی طرح یہ علاقہ جہاں ہم نے مشن قائم کیا ہے اگر چہ یہ آئرش زبان بولنے والا علاقہ کہلاتا ہے لیکن یہاں بھی ہر فرد کو ہر بڑے چھوٹے کو انگریزی پر پورا عبور حاصل ہے.صرف تلفظ میں فرق ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ سمجھنے میں دقت پیدا ہوتی ہے تو ان لوگوں تک انگریزی لٹریچر کا پہنچانا یہ کوئی ایسا کام نہیں جس کے لئے آپ کو کوئی تیاری کرنی پڑے.یعنی لٹریچر شائع کرنے کی تیاری کرنی پڑے.لٹریچر کثرت سے موجود ہے، خصوصیت کے ساتھ صد سالہ جوبلی کے پروگرام کے تابع قرآن کریم کے چیدہ چیدہ اقتباسات انگریزی ترجمے کے ساتھ کثرت سے شائع کئے جارہے ہیں.احادیث نبویہ کے چیدہ چیدہ اقتباسات کثرت کے ساتھ جس طرح دوسری زبانوں میں شائع کئے جارہے ہیں انگریزی زبان میں بھی شائع کئے جارہے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات اسی طرح انگریزی زبان میں بکثرت شائع کئے جارہے ہیں.ابھی دو تین دن کی بات ہے ایک دوست نے مجھے خط میں یہ مطلع کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات میں پڑھ کر اپنے بعض دوسرے دوستوں کو سنارہا تھا جو انگریزی دان تھے تو ایک شخص تو وجد میں جھو منے لگ گیا.اس نے کہا ایسا پاکیزہ ، ایسا اعلی، ایسا سچائی پر مبنی ہسچائی میں گوندھا ہوا کلام ہے کہ سیدھا میرے دل میں اُترتا چلا جا رہا ہے اور وہ کلام سوائے قرآن اور حدیث کے کسی اور چیز پر مبنی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ کلیۂ قرآن اور حدیث کے مضمون پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی وہ تفاصیل دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے جس کی اس زمانے کو

Page 214

خطبات طاہر جلد ۸ 209 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء ضرورت ہے.پس وہ سب تیاریاں مکمل ہیں جن کی آپ کو ضرورت ہے.ایسا لٹریچر بھی موجود ہے جو غیر معمولی طور پر وسعت کے ساتھ نئے زمانوں کے مسائل کو حل کرنے والا ہے.بڑی بڑی علمی کتابیں انگریزی زبان میں موجود ہیں، تفاسیر موجود ہیں.اس لئے کام تو بہت کرنے والے ہیں اور کام کرنے کے لئے اوزار بھی مہیا ہیں ، ہتھیار بھی دستیاب ہیں.صرف آپ لوگوں کو اپنی ہمت جوان کرنے کی ضرورت ہے، عزم بلند کرنے کی ضرورت ہے، نیک ارادے باندھنے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت دعاؤں کی مدد کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت عمدگی سے پوری ہو سکتی ہے.ایک جسکے کی بات ہے.تبلیغ کے معاملے میں تو آغاز ہے جس میں انسان بہت دفعہ تر درد محسوس کرتا ہے لیکن ایک دفعہ جب آغاز ہو جائے تو پھر تو ایسا چسکا پڑ جاتا ہے کہ تبلیغ کرنے والا پھر اس سے باز نہیں رہ سکتا.ابھی تین دن ہوئے ہیں ایک احمدی خاتون انگلستان کی رہنے والی ہیں جو وہاں لندن ملاقات کے لئے اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ تشریف لائی تھی تو او پر میری اہلیہ سے ملنے بھی گئیں.ان سے باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا آپ کس طرح وقت گزارتی ہیں، کیا کرتی رہتی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ پہلے جب تبلیغ نہیں کیا کرتی تھی اس وقت تو یہ سوال ہوسکتا تھا اور واقعہ ہی یہ مسئلہ بھی تھا کہ کیسے وقت گزارا جائے لیکن جب سے یہ تبلیغ کی تحریک چلی ہے اور دعوت الی اللہ کے پروگرام چلے ہیں اس وقت سے تو مجھے ایسا مشغلہ مل گیا ہے کہ نہ مجھے بعض دفعہ خاوند کی ہوش رہتی ہے نہ بچوں کی ہوش رہتی ہے.اتنا مزہ ہے اس کام میں انہوں نے بتایا کہ مجھے تو لت لگ گئی ہے تبلیغ کی اور اللہ کے فضل سے اس کے نیک نتائج بھی ظاہر ہورہے ہیں.بہت سے لوگ جن کو اسلام کے متعلق کچھ بھی علم نہیں تھا اب گہری دلچسپی لینے لگ گئے ہیں.تو آغاز کی بات ہے.آغاز آپ کر دیں اور انجام خدا تعالیٰ کے سپردکریں اور واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں ایک نیک قدم اٹھاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دس قدم اٹھانے کی توفیق بخشتا ہے.جو چل کر آگے بڑھتے ہیں ان کو دوڑنے کی توفیق عطا فرماتا ہے.جو دوڑ کر جاتے ہیں ان کی رفتاروں میں نئی تیزیاں عطا کرتا ہے.زمین پر چلنے والوں کو آسمانی پروازوں کی قوت بخشتا ہے.تو نیکی کے کام میں آگے بڑھنا خدا ہی کے سپرد ہوا کرتا ہے لیکن پہلا قدم اٹھانا اور نیک ارادے کے ساتھ آگے قدم بڑھانا یہ انسان کا فرض ہے.آپ کی جماعت ہر چند کہ بہت چھوٹی ہے.ایک صحافی نے مجھ سے سوال کیا یہاں آپ کی

Page 215

خطبات طاہر جلد ۸ 210 خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء جماعت کی کتنی تعداد ہے؟ تو میں نے اس کو بتایا کہ اس سے زیادہ ہیں جتنے حضرت مسیح اپنے علاقے سے الگ ہونے سے پہلے اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے.یعنی وہ بارہ تھے جن میں سے دومرتد ہو گئے.وقتی طور پر ہی سہی لیکن مرتد ضرور ہوئے تھے اور دس مخلصین باقی رہ گئے تھے.میں نے کہا یہاں اس وقت جماعت کی تعداد آغاز کے وقت سولہ ہے.تو وہ جو تاثر پیدا ہونا تھا تھوڑا ہونے کا وہ تو پیدا نہیں ہوا لیکن ان کے چہرے پر میں نے ایک بشاشت دیکھی اور انہوں نے اس جواب کو پسند کیا کہ ہاں آپ کے ارادے مضبوط اور بلند نظر آتے ہیں اور یہ تھوڑی سی تعداد عقلاً جو صلاحیت رکھ سکتی ہے یہ دنیا میں عظیم انقلاب بر پا کرے گی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ یہاں کی جماعت صدسالہ جو بلی کے پروگراموں سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس خصوصی سال سے اور اس سال کے پروگراموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کام شروع کر دے گی جو آج سے دسیوں سال پہلے تک یہاں رہنے کے باوجود وہ نہیں کر سکی.تو اس افتتاح کو جو آج میں کر رہا ہوں اسے رسمی افتتاح نہ رہنے دیں بلکہ ایک ٹھوس اور حقیقی افتتاح بنا دیں اور ایسا ہو کہ جب میں اور میرے ساتھی دوبارہ یہاں آپ کے پاس حاضر ہوں تو مقامی طور پر ہمیں یہاں مخلصین جماعت ایسے دکھائی دیں جو آئر لینڈ کے حقیقی باشندے ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ اپنی قوم میں پھر احمدیت اور اسلام کے پیغامبر بن جائیں.اس ضمن میں باقی دنیا کی جماعتوں سے بھی میں یہ گزارش کرنی چاہتا ہوں کہ یہ سال جس کا آغاز ۲۳ مارچ کو ہوا ہے یعنی ہماری احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا سال یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.۲۳ / مارچ کے جشن یا چند دن کے جشن دراصل ایسے جشن نہیں ہیں جن کو منا کر ، خوش ہو کر پیچھے چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ ایسے جشن ہیں جن کا گہرا اثر آئندہ صدی پر پڑنا ہے اور ان کا سایہ اگلی پوری صدی پر محیط ہو جانا ہے اور یہ ہیں بھی چند دن کے جشن نہیں بلکہ پورے سال کے جشن ہیں.اس لئے یہ خیال دل سے نکال دیں کہ ۲۳ / مارچ اور اس کے ارد گرد قرب کے چند ایام ہی جشن کے ایام تھے.ہمارا سارا کام تو اس سال پر آگے پھیلا پڑا ہے.بے حد کام ہیں جو جماعت کو اس جشن منانے کے سلسلے میں پورے کرنے ہیں.مثلاً لٹریچر جس کا میں نے ذکر کیا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک سو اٹھارہ یا کم و بیش ، ایک سوسترہ یا ایک سو انہیں اتنی زبانوں میں شائع ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے.قرآن کریم کے

Page 216

خطبات طاہر جلد ۸ 211 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء کے تراجم تو ایک سو سے زائد زبانوں میں تمام دنیا تک پہنچا دیئے گئے ہیں.احادیث کے تراجم جن کو قرآن کریم کے بعد دوسری اہمیت دی گئی وہ بھی ایک بڑی تعداد میں پہنچائے گئے ہیں لیکن بہت سا کام ابھی ہونا باقی ہے.یعنی تراجم مکمل ہو چکے ہیں، بعض پریس میں جاچکے ہیں، بعض پر نظر ثانی ہو رہی ہے لیکن پروگرام یہی ہے کہ انشاء اللہ آئندہ دو تین ماہ کے اندر تمام قرآن کریم کے تراجم اور تمام احادیث کے تراجم جماعتوں تک پہنچ چکے ہوں گے اور اسی طرح تیسرے درجے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کے تراجم ہیں وہ اہمیت کے لحاظ سے چونکہ ان کو تیسرے درجے پر رکھا تھا اس لئے ان میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے لیکن ان کے متعلق بھی مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ اس سال چھ مہینے کے اندر مکمل ہو کر ساری دنیا کی جماعتوں میں تقسیم ہو چکے ہوں گے.اس سلسلے میں ایک پروگرام تو یہ ہے کہ ہم مختلف کتب کے میلوں میں ان کی نمائش کریں اور اس کے لئے مختلف علاقوں میں مختلف لائبریریوں میں یا کتب کے میلوں میں جگہیں با قاعدہ ریز رو کروائی جا چکی ہیں اور جماعت اس نمائش میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہے.ایک ہے مستقل نمائش یعنی جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تو فیق دی ہے وہاں بڑے ہال تعمیر کر کے یا بڑی بڑی عمارتیں سال بھر کے لئے کرائے پر لے کر ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سارے لٹریچر کی نمائش کا انتظام ہے جو اس صدی کے پہلے سال میں ہمیں کرنی مقصود ہے اور یہ نمائش بھی انشاء اللہ تعالیٰ جہاں جہاں ہوگی اس کے بڑے نیک اثرات مرتب ہوں گے لیکن کام صرف یہیں تک ختم نہیں ہوگا.کثرت سے ایسا لٹریچر شائع کیا گیا ہے جسے تقسیم کروانا ہے.تقسیم کروانے کا کام اس ایک سال کے اندر مکمل ہونا ہے اور یہ کام معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑا کام ہے اور بڑی حکمت کے ساتھ کرنے والا ہے.اس ضمن میں پہلے بھی میں خطبات میں جماعت کو متوجہ کرتا رہا ہوں لیکن آج چونکہ وقت تھوڑا ہے اور بھی باتیں کرنے والی تھیں لیکن میں صرف اس حصے کو ہی لے سکوں گا کیونکہ ہمارے بعد کے کچھ اور پروگرام ہیں باقی انشاء اللہ بعد میں بیان کرنے کی توفیق ملے گی.یہ جو لٹریچر تقسیم کرنے والا حصہ ہے اس کو جماعتیں دو طرح سے کر سکتی ہیں یا تو ڈاک کے ذریعے بھجوا دیں اور یا رابطے قائم کر کے خود لٹریچر پیش کریں.جہاں تک ڈاک کے ذریعے بھجوانے کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت تیزی کے ساتھ تھوڑے وقت میں آپ ایک ذمہ داری ادا کر سکیں گے لیکن کچھ پتا نہیں کہ وہ خط جن تک پہنچیں گے،

Page 217

خطبات طاہر جلد ۸ 212 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء وہ کتابیں اور رسائل جن تک پہنچیں گے وہ ان میں کس حد تک دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں؟ پڑھتے بھی ہیں یا نہیں یا اٹھا کر رڈی میں پھینک دیتے ہیں.اس لئے ڈاک کے ذریعے جہاں ایک فائدہ ہے وہاں یہ بہت بھاری نقصان بھی ہے.کچھ سمجھ نہیں آئے گی آپ کو اس لٹریچر کا کیا بنالیکن اگر محنت کریں جماعتیں اور تقسیم کار کریں.نوجوانوں کو بھی شامل کریں، بوڑھوں کو بھی شامل کریں ، بچوں کو بھی شامل کریں اور ترتیب کے ساتھ ایسا پروگرام بنا ئیں کہ علاقہ علاقہ اس لٹریچر کو ذاتی طور پر پیش کرنے کا پروگرام بنایا جائے.اس سلسلے میں کچھ دقتیں ہیں مثلاً تعارف کا نہ ہونا.بعض جگہ جماعتیں بہت چھوٹی ہیں علاقے بہت وسیع ہیں کس طرح ان تک پہنچا جائے ؟ تو اس مشکل کا حل سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جتنی بڑے مشکل ہو اتنا ہی زیادہ حکمت اور تفصیل کے ساتھ منصوبہ بنایا جائے.منصوبہ بنانے میں جو آپ وقت خرچ کرتے ہیں اتنا ہی تعمیل سے خرچ بچاتے ہیں.یہ بنیادی اصول ہے کہ جتنا محنت اور تفصیل کے ساتھ آپ منصوبہ بنائیں گے ، جتنا اس پر معنی خیز وقت خرچ کریں گے اتنا ہی تعمیل کے وقت آپ کا وقت بچے گا.مثلاً وہ لوگ جو اچھے انجینئر ہیں وہ عمارت بنانے سے پہلے اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں اور اسے سیاہ وسفید میں عداد وشمار میں اُتار کر ایک ایسا وسیع منصوبہ بنا لیتے ہیں کہ کام کرنے والوں کو کسی مرحلے پر بھی دشواری پیش نہیں آتی یا یہ سوال ان کے سامنے نہیں اُٹھتے کہ اس اینٹ کو یوں رکھنا ہے کہ یوں رکھنا ہے، کس رنگ کی اینٹ استعمال کرنی ہے، کس قسم کا سیمنٹ لگانا ہے اور کہاں پانی کی نالیاں رکھنی ہیں، کہاں بجلی کے لئے سوراخ رکھنے ہیں، کس قسم کی تاریں استعمال کرنی ہیں وغیرہ وغیرہ.تمام تفصیلات ایک منصوبے کی شکل میں وہ طے کر لی جاتی ہیں اور انجینئر ز کو اس پر بڑی محنت کرنی پڑتی ہے.بعض دفعہ کئی کئی سال تک بعض عمارتوں کے منصوبے بنتے ہیں اور وہ عمارتیں چھ مہینے کے اندر اندر کھڑی ہو جاتی ہیں اور نوک پلک درست ہوتی ہے کوئی خامی نہیں نظر آتی ، ہر ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے.تو جہاں کام میں وقتیں ہوں وہاں منصوبہ بندی ضروری ہے اور یہ منصوبہ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ ایسا نہیں ہے جو مرکز سے بنا کر مختلف جماعتوں کو بھجوایا جائے کیونکہ یہ منصوبہ ایسا ہے جس کا ہر جماعت میں تیار ہونا ضروری ہے.آپ قریب سے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں، آپ قریب سے مسائل پر نگاہ ڈال رہے ہیں.آپ کو اپنی کمزوریاں اس سے زیادہ معلوم ہیں جتنا مرکز کے علم میں ہیں.اسی طرح آپ کو اپنی طاقتیں بھی زیادہ معلوم ہیں جتنا مرکز

Page 218

خطبات طاہر جلد ۸ 213 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء کے علم میں ہیں.بعض دفعہ ایک چھوٹی جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی طاقتیں ہوتی ہیں.ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے وسیع تعلقات ہوتے ہیں.ایسے دماغ عطا ہوتے ہیں ان کو جن کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے جو ہر قابل موجود ہوتا ہے لیکن بعض جماعتیں تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود اندرونی کمزوریاں رکھتی ہیں.اس لئے یہ منصوبہ ایسا منصوبہ نہیں ہے جسے مرکز بنا بنا کر جماعتوں کو بھجوائے.اپنے حالات کے مطابق، سوسائٹی کے رد عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور وہ ذرائع سوچتے ہوئے جو بہترین رنگ میں کسی سوسائٹی میں قبولیت اختیار کر سکیں گے آپ اپنے منصوبے کو مقامی طور پر بنائیں.پس آئر لینڈ میں بھی یہ منصوبہ اسی طرح بنانا چاہئے جس طرح باقی ملکوں میں بنایا جائے گا اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بھی جو دنیا کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں.لفظ دور دراز تو ہم اس نسبت سے استعمال کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں کے مقابل پر دور دراز ہیں ورنہ جس ملک میں آپ بیٹھیں گے وہاں سے دوسرے ممالک دور دراز دکھائی دیں گے.تو ان معنوں میں دور دراز سے مراد میری یہ ہے مثلاً نجی میں پسیفک آئی لینڈ (Pecific Island) میں یا سلومن آئیس لینڈ میں کری باس ، میں یا (Papaya Newguniea) پاپایا نیوگنی میں یا جنوبی امریکہ کے بعض ممالک میں ، برازیل میں ، پین میں ایسے ممالک میں جہاں نسبۂ جماعتیں تھوڑی ہیں میں ان کا ذکر کر رہا ہوں.ان سب ممالک میں گہرے منصوبے کے ذریعے اپنی عددی کمزوری کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور مقصود یہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ ہم نے سوسائٹی کے ہر حصے میں نفوذ کرنا ہے.طالبعلموں میں بھی نفوذ کرنا ہے، دانشوروں میں بھی نفوذ کرنا ہے،اخبار نویسوں میں بھی نفوذ کرنا ہے، وکلاء میں بھی نفوذ کرنا ہے، تاجروں میں بھی نفوذ کرنا ہے، سیاستدانوں میں بھی نفوذ کرنا ہے، زمینداروں میں بھی نفوذ کرنا ہے، صنعت کاروں میں بھی نفوذ کرنا ہے، لیبر میں بھی نفوذ کرنا ہے اور مالکان میں بھی نفوذ کرنا ہے.تو جتنے بھی یہ انسانی طبقات آپ کو دکھائی دیتے ہیں ان سب تک اس سال میں ہم نے آئندہ صدی کے لئے بیج بو دینے ہیں.یہ اہمیت ہے اس سال کو.اس لئے جتنے زیادہ سے زیادہ طبقات اور زمینیں آپ پیش نظر رکھیں گے اور جتنا حکمت کے ساتھ وہاں اسلام کا پیج بوئیں گے اتناہی زیادہ پھل اگلی صدی میں پیدا ہوگا.پس کچھ کام تو ایسے ہیں جو گزشتہ ایک سو سال میں اُبھر کر ہمارے سامنے آئے ، کچھ ایسے

Page 219

خطبات طاہر جلد ۸ 214 خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۸۹ء منصوبے ہیں جن کی بنیادیں گزشتہ ایک سوسال میں ہمارے لئے ہم سے پہلے بزرگوں نے رکھیں.ان پر جو عمارتیں تعمیر ہوئیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان عمارتوں کو مزید بلند کرنا ہمارا کام ہے لیکن کچھ ایسے کام بھی ہیں جن کا آغاز ہوا ہے اس صدی کے لئے، کچھ ایسی بنیادیں بھی ہیں جن کو جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے نئی جگہوں پر اور نئے منصوبوں کے تحت رکھا ہے.ان پر تمام کی تمام عمارت تعمیر ہونے کا کام ابھی باقی ہے.پس یہ سال بہت ہی اہمیت کا سال ہے جہاں پرانی بنیادوں پر استوار عمارتوں کو بلند کرنا اور نئی بنیادوں کو مضبوطی کے ساتھ قائم کرنا اور ان پر نئی عمارتیں بنانا اور نئی عمارتوں کا آغاز کرنا ہمارا کام ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ دنیا بھر کی جماعتیں اس پروگرام کو بڑی لگن اور ذاتی تعلق اور جذبے کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں گی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر ملک کا کام اب یہ رہ گیا ہے کہ اپنے ملک میں وہ تمام سوسائٹی میں نفوذ کرے اور آئندہ صدی کے لئے اسلام میں دلچسپی کے ایسے دروازے کھول دے جن کے رستے پھر جوق در جوق قو میں اسلام میں داخل ہونا شروع ہوں.ایک وقت کی نسبت سے چونکہ اب میرے پاس وقت کم ہے اس لئے آئندہ جو بات کہنی چاہتا تھا وہ انشاء اللہ خدا توفیق دے گا تو اگلے کسی جمعہ میں بیان کروں گا ابھی اس مضمون کے کچھ حصے باقی ہیں.بہر حال میں یہاں آنے پر بہت خوش ہوں، یہاں کی جماعت چھوٹی ہے لیکن آثار یہ دکھائی دیتے ہیں کہ ان میں نفوذ پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور جو ہر قابل جماعت کے اندر بھی موجود ہیں.پس بلدة طيبة و رب غفور کا منظر ہمیں یہاں دکھائی دینا چاہئے.لوگ اچھے ہیں، آپ لوگ اچھے ہیں، جن لوگوں تک پیغام پہنچانا ہے وہ نیک فطرت ہیں اور بلدۃ طیبہ ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بلدۃ طیبہ ہو یعنی ایک شہر طیب شہر ہو، اچھے لوگوں پر مشتمل ہوتو ہمیشہ رب اس شہر پر غفور ہو جایا کرتا ہے.ایسے شہر کے لئے غضب ناک خدا کا کوئی تصور نہیں ہے.ایسے شہر کے لئے طبعی نتیجہ یہ ہے کہ رب غفور نیک دل لوگوں کے لئے ہمیشہ رب غفور ہی ظاہر ہوتا ہے.پس خدا کرے کہ اس علاقے کے لئے رب غفور اپنے جلوے دکھائے ہماری کمزوریوں سے درگز رفرمائے اور جن خوبیوں سے اس نے ہمیں نوازا ہے انہیں اور چمکائے اور علاقے میں کثرت کے ساتھ اسلام کے پھیلانے کے سامان پیدا فرمائے.آمین

Page 220

خطبات طاہر جلد ۸ 215 خطبہ جمعہ ۷ اپریل ۱۹۸۹ء اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ كى لطيف تفسیر رمضان میں خدا کے ہو جائیں (خطبہ جمعہ فرموده ۷ اپریل ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت کی : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقره: ۱۸۲) پھر فرمایا:.قرآن کریم میں جن آیات میں رمضان شریف کا ذکر موجود ہے ان میں سے یہ ایک آیت ہے جس کی آج میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اور ظاہر بات ہے کہ کیوں کی ہے.کیونکہ کل سے انشاء اللہ تعالی انگلستان میں رمضان مبارک شروع ہونے والا ہے.قرآن کریم نے رمضان سے متعلق جو مختلف روشنی ڈالی ہے اس میں سب سے زیادہ اہم بات اس بابرکت مہینے سے متعلق یہ بیان فرمائی کہ اس میں قرآن کریم نازل ہوا.هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى

Page 221

خطبات طاہر جلد ۸ 216 خطبہ جمعہ ۷۷ اپریل ۱۹۸۹ء تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے.وَبَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدی صرف اس میں عام ہدایت ہی نہیں بلکہ بہت کھلی کھلی اور غیر معمولی شان رکھنے والی ہدایت بھی موجود ہے.وَ الْفُرْقَانِ اور ایسی ہدایت ہے جو کھوٹے کھرے میں تمیز کرنے والی ہے.سچ کو جھوٹ سے نکھارنے والی ہے، روشنی کو اندھیروں سے ممتاز کر کے دکھانے والی ہے.گو یا ہدایت کا کوئی پہلو ایسا باقی نہیں جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو اور یہ ہدایت رمضان شریف میں اتاری گئی.جیسا کہ پہلے بھی اس سے متعلق میں روشنی ڈال چکا ہوں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام قرآن کریم رمضان مبارک کے مہینہ میں ہی نازل ہوا اور مکمل طور پر ایک ہی مہینے میں اس مبارک کلام کا نزول ہوا بلکہ مراد یہ ہے ( یعنی بہت سی باتوں میں سے ایک یہ بھی مراد ہے ) کہ رمضان مبارک میں اس وحی کا آغاز ہوا ہے اور پھر رمضان مبارک میں جتنا جتنا قرآن کریم نازل ہوتا رہا اس کی باقاعدہ دہرائی ہوتی رہی اور ہر اگلے رمضان میں جب قرآن کریم کا آغاز ہوا ہے اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور اس وقت تک جتنی وحی نازل ہو چکی ہوتی تھی اسے دہراتے تھے.( بخاری کتاب فضائل القران حدیث نمبر :۴۶۱۴) اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شروع ہی سے قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ترتیب کا ایک دور جاری تھا اور وہ ساتھ ساتھ ہوتی چلی جا رہی تھی.پھر آخر یہ جب قرآن کریم مکمل ہوا ہے تو جو رمضان بھی اس کے بعد آیا ہے اس میں مکمل قرآن کریم ایک ہی مہینے میں دہرایا گیا.ایک تو یہ مطلب ہے اس آیت کا.دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ رمضان وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم اتارا گیا ہے.اب یہ بڑا ایک انوکھا اور عجیب سا مضمون ہے.قرآن کریم کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دنیا جہان کے ہر قسم کے مسائل جن سے انسان کو دلچسپی ہو سکتی ہے یا دلچسپی نہ بھی ہو تو انسان کے لئے ضروری ہیں وہ بیان فرما دیئے گئے ہیں.تو انسانی مسائل پر جو کتاب محیط ہو اور اس کا کوئی پہلو بھی ادھورا نہ چھوڑے اس کے متعلق یہ کہنا کہ ایک مہینے کے بارے میں نازل کی گئی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ اس مضمون پر غور کرتے ہوئے میری توجہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے ایک ارشاد کی طرف مبذول ہوئی جس میں آنحضور علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان دنیا میں جتنی بھی نیکیاں کرتا ہے یا دوسرے اعمال بجالاتا ہے وہ اپنی خاطر کرتا ہے لیکن روزے الله

Page 222

خطبات طاہر جلد ۸ 217 خطبہ جمعہ ۷ اپریل ۱۹۸۹ء میری خاطر رکھتا ہے اور روزے کی جزا میں خود ہوں.یہ حدیث ہے حضرت ابو ہریرہا کی روایت اورصحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل الصیام سے لی گئی ہے.آپ فرماتے ہیں روزہ کے علاوہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہوتا ہے.صرف روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کستوری کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے.ایک مسئلہ حل کرنے کے لئے میری توجہ جس ارشاد نبوی کی طرف مبذول ہوئی وہ اپنی ذات میں بھی ایک مسئلہ پیش کر رہا ہے اور خیال کو ایک دعوت دیتا ہے فکر کی کہ آخر یہ فرق کیوں دکھایا گیا ہے.ہر عبادت انسان کی اپنے لئے ہے اور صرف روزہ خدا کے لئے.اس کا کیا مطلب ہے؟ میرے نزدیک اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرآن کا مضمون اس حدیث میں بیان ہوا ہے اور اب میں آپ کو فرق بتا تا ہوں کہ وہ کیا فرق ہے جس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے باقی ساری عبادات کو یا حکم کی بجا آوری کو یا مناہی سے رکنے کو انسان کے اپنے لئے قرار فرمایا اور روزے کی عبادت کو خالصہ اپنے لئے مقرر فرمایا.اگر آپ غور کریں تو خواہ وہ عبادتیں ہوں یا بعض اعمال کے کرنے کے احکام ہوں یا بعض برائیوں سے رکنے کا ارشاد ہو ان تمام امور کا بنی نوع انسان کے فائدے سے تعلق ہے اور ایک بھی حکم ایسا نہیں جو زائد ہوان معنوں میں کہ انسان کو اس کی ضرورت نہیں لیکن محض خدا کی خاطر وہ بجالائے.چنانچہ جتنی چیزیں حرام ہیں ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جس کی حرمت توڑنے کے نتیجے میں انسان کو نقصان نہ ہو.جتنی چیزیں فرمائی گئی ہیں کہ تمہیں کرنی چاہئیں خواہ وہ عبادات سے تعلق رکھتی ہوں یا معاملات سے تعلق رکھتی ہوں وہ تمام کی تمام بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ہیں.تو اس حدیث نے ایک عظیم الشان مضمون ہمارے سامنے کھول دیا.یہ غور کرنے کے لئے کہ جتنی بھی عبادات ہیں یا احکامات ہیں یا بعض باتوں سے رکنے کے متعلق ارشادات ہیں ان تمام چیزوں کا بنی نوع انسان کے فوائد سے تعلق ہے اور جہاں بھی آپ ان میں سے کسی سے اعراض کریں گے کسی حکم کو توڑیں گے اس کی بجا آوری میں غفلت کریں گے وہاں بنی نوع انسان کے لئے کوئی نہ کوئی دکھ کا سامان پیدا کر دیں گے.اس پہلو سے جب میں نے غور کیا تو میں حیران رہ گیا کہ ایک بہت ہی عظیم الشان تفصیلی مضمون ہے کہ قرآن کریم کے احکامات اور سنت نبوی کی تشریحات میں ایک ادنی سی چیز بھی ایسی معلوم نہیں

Page 223

خطبات طاہر جلد ۸ 218 خطبہ جمعہ ۷ اپریل ۱۹۸۹ء ہوتی، معمولی سی چیز بھی ادنی تو لفظ اس شان کے اوپر اطلاق ہونا ہی نہیں چاہئے.ایک چھوٹی سی چیز جسے ہم بظاہر چھوٹی دیکھتے ہیں وہ بھی ہمیں ایسی دکھائی نہیں دیتی جس کو ترک کرنے کے نتیجے میں بنی نوع انسان کو کوئی نقصان نہ پہنچ رہا ہو.پس بنی نوع انسان کی جنت شریعت کی حدود میں رہنا اور اس پر عمل کرنا ہے اور جس وقت یہ جنت اختیار کر لی جائے (لازم تو ہو جاتی ہے شریعت کے ذریعے جب یہ اختیار کر لی جاتی ہے ) تو بنی نوع انسان کی سوسائٹی جنت بن جاتی ہے اور جنت نشان ہو جاتی ہے.پس وہ لوگ جو اپنے لئے اس دنیا میں جنتیں پیدا کرتے ہیں یقیناً خدا تعالیٰ ان کے لئے اسی جنت کے مشابہ لیکن اس سے بہت بہتر مُتَشَابِهًا کا لفظ کو پیش نظر رکھ کر میں یہ بات بیان کر رہا ہوں.اس جنت سے مشابہ لیکن اس سے بہت بہتر اخروی زندگی میں جنت کا سامان مہیا فرماتا ہے اور ان کے لئے جنت پیدا کر دیتا ہے.یہ تو مضمون ہے عام احکامات سے تعلق رکھنے والا.روزے میں وہ خاص کیا بات ہے جو اس کے علاوہ ہے؟ چنانچہ جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساری چیزیں جو روز مرہ کی زندگی میں انسان کے لئے جائز ہیں اور ان کو چھوڑنے کا حکم نہیں ہے وہ ساری چیزیں رمضان شریف میں خدا کی خاطر چھوڑی جاتی ہیں.یعنی اگر وہ نہ بھی چھوڑی جائیں تو بنی نوع انسان کو ان کے انفرادی لحاظ سے یا اجتماعی لحاظ سے اور باہمی معاملات کے لحاظ سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا (الاعراف :۳۲) کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو.اگر رمضان نہ بھی ہوتا اور انسان اس تعلیم کے علاوہ اس کے بغیر بھی كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا پر عمل درآمد کرتے رہتے تو انسانوں کے لئے کوئی نقصان نہیں تھا.کیونکہ اسراف کے نہ کر کے یعنی اعتدال کے اندر رہتے ہوئے انسان کھائے اور پینے اس کے فائدے کی چیز ہے.تو رمضان میں جو چیز اس نے چھوڑی وہ اپنی خاطر نہیں چھوڑی.وَلَا تُسْرِفُوا کے تابع جو چیز اس نے چھوڑی وہ اپنی خاطر چھوڑی تھی مثلاً کھانا کھاتے کھاتے حد اعتدال سے گزر کر جو چیز وہ کھاتا ہے وہ اس کے لئے نقصان دہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کھاؤ پیچ درست ہے لیکن حد اعتدال سے نہ گزرو.جب وہ ایک مقام پر آ کر اپنے ہاتھ روک لیتا ہے مثلاً آنحضرت علیہ نے فرمایا کہ مومن کو چاہئے کہ جب وہ کھائے تو بھوک تھوڑی سی رکھ کر کھانا چھوڑ دے.اس حد تک نہ کھاتا

Page 224

خطبات طاہر جلد ۸ 219 خطبہ جمعہ ۷ ۷ اپریل ۱۹۸۹ء چلا جائے کہ سیری ہو جائے اور پھر طبعا اس کا دل کھانے سے پھر جائے بلکہ ہمیشہ ایسی حالت میں کھانا چھوڑے کہ ابھی کچھ اشتہاء باقی ہو.یہ ہے وَلَا تُسْرِفُوا کی وہ تفسیر جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلى الله نے ہمارے سامنے بیان فرمائی.نہایت ہی حسین تفسیر ہے اور علم طب کے لحاظ سے اس سے بہتر مشورہ انسان کو نہیں دیا جا سکتا کھانے پینے کے معاملات میں.کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب ہم سیر ہوتے ہیں اس سے کچھ عرصہ پہلے جب کہ ابھی بھوک باقی ہوتی ہے ہمیں اپنی ضرورت کا کھانامل چکا ہوتا ہے اور جو درمیان کا وقفہ ہے تھوڑا سا اس میں جسم کو مہیا شدہ کھانا جو جسم کے اندر داخل ہو چکا ہے وہ مل تو چکا ہوتا ہے لیکن اس کی اطلاع جسم کے دوسرے نظام تک ابھی نہیں پہنچی ہوتی اس لئے کہ وہ میٹھے میں تبدیل ہو کر دوسری بعض چیزوں میں محلول ہو کر ا بھی جسم کو پوری طرح یہ مطلع نہیں کرتا کہ ہاں تمہاری ضرورت پوری ہو چکی ہے.جب ایسی حالت میں انسان کھانا چھوڑ دیتا ہے کہ ابھی کچھ بھوک باقی ہے تو تھوڑی دیر میں یہ تھوڑا سا جو وقت لگتا ہے اطلاعیں پہنچنے کا وہ مکمل ہو جاتا ہے اور اس وقت انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ میں بھوکا نہیں اٹھا بلکہ میں پوری طرح سیر ہو چکا ہوں.اگر سیر ہو کر کھانا کھالے یعنی اپنی اطلاع کے مطابق جو براہ راست مل رہی ہے اس کو، تو دراصل وہ کچھ زیادہ کھا چکا ہوتا ہے اور اس کے بعد جو بوجھ پڑتا ہے طبیعت میں اور کسل پیدا ہو جاتا ہے اور انسان اب سمجھتا ہے کہ میں کچھ دیر کام کے قابل نہیں رہا یہ اس حکم کی نافرمانی کے نتیجے میں ہے.پس اگر اس حکم کے اندر رہتے ہوئے یعنی وَلَا تُسْرِفُوا کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان روز مرہ کھانا کھائے تو ہرگز اس کے لئے نقصان کا موجب نہیں ہے.جب یہ بھی چھوڑ دے تو اپنے لئے تو نہیں چھوڑ رہا.خدا کی خاطر چھوڑ رہا ہے.اسی طرح روز مرہ کی عبادتوں کے لئے جو اس نے وقت مقرر کیا ہوا ہے وہ اس کے لئے موزوں اور مناسب ہے اس کی جسمانی صحت کے لئے بھی اس کی روزمرہ کی عادات کے لئے بھی ضروری ہے کیونکہ لفظ صلوۃ میں ورزش کا معنی بھی پایا جاتا ہے.آپ پانچ وقت جب وضو کرتے ہیں، کلی کرتے ہیں، حوائج سے فارغ ہوتے ہیں اور یہ ساری چیزیں آپ کی ذات آپ کی صحت پر ایک نمایاں اثر پیدا کر رہی ہوتی ہیں.پھر اس کے بعد عبادت میں آپ کو اٹھنا بیٹھنا پڑتا ہے مختلف شکلوں میں جسم کو مروڑ نا تر وڑنا پڑتا ہے.جن لوگوں کو پانچ وقت اسلامی نماز کی عادت نہ ہو ان کے اعضاء میں کئی پہلو سے سختی پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ میں نے دیکھا ہے بعض نو مسلم جب آکر بیٹھتے ہیں تو بڑی مصیبت

Page 225

خطبات طاہر جلد ۸ 220 خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۸۹ء پڑتی ہے بیچاروں کو.ایک ہارٹلے پول میں جب میں گیا تو ایک بوڑھے انگریز نومسلم نے مجھے بتایا کہ میں نے جب اسلام کو قبول کر لیا اور میں نے نماز شروع کی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ میں کیسے کروں گا.یعنی دل چاہتا تھا لیکن جسم میں یہ استطاعت ہی نہیں تھی کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو موڑ سکے اور نماز کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جو لچک چاہئے وہ موجود نہیں تھی.پھر اس نے بتایا پھر میرے ساتھ ایک معجزہ ہوا کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا کے نتیجے میں نہ صرف مجھے یہ طاقت مل گئی بلکہ اس سے پہلے کے جو آزار تھے وہ بھی دور ہو گئے.اس کے علاوہ میں نے بعض دوسرے دوستوں کو بھی دیکھا ہے جب وہ نیا نیا اسلام قبول کرتے ہیں تو ان کے لئے سجدے میں جانا، التحیات بیٹھنا تو بہت ہی مصیبت بن جاتا ہے اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں.پس یہ جوروزمرہ کی عبادت ہے ہماری اس میں جسمانی صحت کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے اور وہ لوگ جو باقاعدہ وضو کر کے نمازیں پڑھتے ہیں اور با قاعدگی کے ساتھ نمازوں کا حق ادا کرتے ہیں سکون کے ساتھ ہر نماز کے جز میں ٹھہر ٹھہر کر نماز کو ادا کرتے ہیں ان کی جسمانی صحت نماز نہ پڑھنے والوں کی نسبت ہمیشہ بہتر رہتی ہے.پس ان سب امور میں جو عبادات بھی ہیں انسان کے اپنے فوائد موجود ہیں.پھر روز مرہ کی عبادات میں جس حد تک آپ نے جاگنا ہے آپ جاگ لیتے ہیں اپنے آپ کو عادت ڈال لیتے ہیں اور وہ جاگنا آپ کے لئے روز مرہ کے دوسرے فرائض ادا کرنے میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی جب عبادت کے مفہوم پر آپ غور کریں تو یہ بہت وسیع مضمون ہے کہ عبادت کرتے وقت جو جو دعائیں آپ کرتے ہیں، جو جو آیات قرآنی آپ تلاوت کرتے ہیں یا دیگر ارکان کو ادا کرنے کے لئے ہدایات پر عمل کرتے ہیں ان سب کا آپ سے اور بنی نوع انسان کے فوائد سے براہ راست تعلق ہے اور اگر آپ وہ نہ کریں تو شدید نقصان میں مبتلا ہو جائیں گے لیکن رمضان کی زائد عبادتیں اگر آپ نہ بھی کریں تو کوئی نقصان نہیں ہے.آپ نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے.قرآن کریم نے جو رمضان کی زائد ذمہ داریاں ڈال دی ہیں وہ ایک ایسا حصہ ہے کہ اس کے بغیر بھی بنی نوع انسان نہایت عمدگی کے ساتھ اپنے معاملات کو سلجھاتے ہوئے زندگی گزار سکتے ہیں لیکن رمضان میں کچھ زائد عبادتیں، زیادہ ذمہ داریاں ڈال دیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ہی مہینے میں قرآن کریم کی بار بار تلاوت کی جائے.عام وقتوں میں یہ آپ کے لئے

Page 226

خطبات طاہر جلد ۸ 221 خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۸۹ء ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ (المزمل:(۲۱) تھوڑ اسا جتنا بھی میسر آئے تم قرآن پڑھ لیا کرو کافی ہے تمہارے لئے.تو کافی ہونے کے بعد کی جو چیز ہے جس کے بغیر بھی آپ آسانی سے زندہ رہ سکتے ہیں وہ آپ محض خدا کے لئے کرتے ہیں.وہ لوگ جن کو بعض دفعہ سارے سال میں بھی قرآن کریم ختم کرنے کی توفیق نہیں ملتی.رمضان کے ایک مہینے میں بار بار اس کا دور کرتے ہیں.پھر ایسے جائز حقوق ہیں جن کو آپ چھوڑتے ہیں محض خدا کی خاطر اور ان کو چھوڑ نا بنی نوع انسان کے لئے ضروری نہیں.مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جهر بالسوء کو پسند نہیں فرماتا.اونچی آواز سے سختی کلامی کو پسند نہیں کرتا.سوائے اس کے کہ کسی پر زیادتی کی جائے.اگر وہ مظلوم ہے اور اس پر کسی نے زیادتی کی ہے تو اس کا یہ حق ہے کہ وہ اسی طرح اونچی آواز میں اس سے سختی سے کلام کرے اور اپنا بدلہ لے لے اگر وہ چاہتا ہے.عام حالات میں اگر یہ مضر بات ہوتی تو خدا اس کو روک دیتا.یعنی بنی نوع انسان کی حفاظت کے لئے ، ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے بعض دفعہ یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کسی سخت کلام انسان کو کچھ نمونہ چکھانے کے لئے اسی قسم کی سختی کا معاملہ اس سے کیا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے کلام میں جہاں کہیں سختی کی ہے وہاں اس حکمت کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ بنی نوع انسان کے معاملات کی اصلاح کی خاطر اور لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لئے کہ دوسروں کے بھی احساسات ہیں بعض دفعہ کچھ سخت کلامی سے بھی پیش آنا پڑتا ہے ان لوگوں کے لئے جو بد کلامی میں حد سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.تو عام حالات میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے.رمضان کے دنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں کہ تم یہ حق بھی چھوڑ دو اور جب کوئی تم سے سخت کلامی کرے تو اس سے زیادہ کچھ نہ کہا کرو کہ میں تو روزے دار ہوں ، خدا کے لئے میں نے روزہ رکھا ہوا ہے.پس خدا کے لئے رمضان کا ہونا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ گیارہ مہینوں میں زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے جتنے احکامات تھے وہ اپنی ذات میں مکمل ہیں ان میں کوئی کمی نہیں ہے.اگر اس مہینے میں بھی آپ ان پر عمل کرتے ہوئے وقت گزار لیتے تو بنی نوع انسان کو کوئی نقصان نہیں تھا.یہاں جو زائد آپ اپنے اوپر ذمہ داریاں ڈال رہے ہیں وہ اپنی خاطر نہیں کر رہے کیونکہ اس کے بغیر بھی آپ کی زندگی اچھی گزرتی تھی.محض خدا کی خاطر زائد تحفے کے طور پر محبت کے رنگ میں.پس خدا سے محبت کا مضمون ہے جو رمضان ہمیں سکھاتا ہے.تمام

Page 227

خطبات طاہر جلد ۸ 222 خطبہ جمعہ ۷۷ اپریل ۱۹۸۹ء ضرورت کی چیزیں ہماری پوری ہو گئیں لیکن پھر اس سے زیادہ کچھ کر کے ہم اپنے رب کو خوش کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ جتنی طاقتیں اس نے ہمیں دی ہیں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ اس کو لوٹاتے ہیں.وہ تمام ہماری تکالیف جن کو دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے عظیم الشان نظام بنایا ہوا ہے اور ہمیں اجازت دی ہوئی ہے کہ جائز طریق پر ان تکالیف کو دور کریں.ہم کچھ عرصے کے لئے ان تکالیف کو دور نہیں کرتے بلکہ خود اپنے اوپر سہیڑ لیتے ہیں.غیر معمولی گرمی میں پیاس کو برداشت کرنا انسانی صحت کے لئے نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ بعض دفعہ سخت مضر ثابت ہوتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ روزہ انسان کے اپنے لئے ہے یہ غلط ہے.بعض صورتوں میں بھوک کا مسلسل برداشت کرنا اتنا مضر ہوتا ہے کہ جو ماہر ہیں معدے اور انتڑیوں کے ڈاکٹر ان میں سے ایک ہمارے سامنے بھی بیٹھے ہوئے ہیں آج وہ کہہ دیں گے ایسے لوگوں کو کہ تم روزہ نہ رکھنا بھٹی کیونکہ معدے میں السر ز ہو جائیں گے، تیز اب بڑھ جائے گا اور کئی قسم کی مصیبتیں پیدا ہوں گی.تو بعض ایسی باتیں بھی رمضان میں ہمارے سامنے آتی ہیں جن کے متعلق انسانی علم ہمیں بتا رہا ہے کہ انسان کی اپنی خاطر نہیں ہے جو بہت موٹے اور اچھے معدے والے لوگ ہیں ان کو تو روزہ ضمنا فائدہ بھی دے دیتا ہے لیکن عام آدمی جس کا جسم پہلے ہی ہلکا پھلکا ہے اور جس کو کچھ تکلیف بھی ہے معدے کی ، زیادہ اس کا حساس معدہ ہے اس کا روزہ رکھنا تو ایک مصیبت سہیڑ نے والی بات ہے.تو مختلف قسم کی ایسی رمضان آزمائشیں لے کے آتا ہے جن کے متعلق انسان عقلاً یہ کہ سکتا ہے کہ ہمارے لئے مفید نہیں ہے.مگر خالصہ اللہ کرتا ہے.اس کے سوا ایک بھی عبادت نہیں جس کے متعلق آپ عقلاً یہ کہ سکیں کہ ہمارے لئے مفید نہیں ہے.جہاں جس حد تک وہ مفید نہیں ہوتی وہاں وہ اس حد تک خدار عایت دیتا چلا جاتا ہے اور رمضان میں بھی ایک موقع پہ جاکے رعایت فرما دیتا ہے.یہ فرما دیتا ہے کہ اچھا تم میری خاطر کرنا تو چاہتے ہو لیکن مجھے بھی تو تمہاری خاطر مقصود ہے.اس لئے جہاں سختی ذرا حد سے بڑھے وہاں میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ اچھا اب نہ رکھو بعد میں رکھ لینا لیکن رکھنا ضرور تا کہ تمہیں پتا تو لگے کہ میری خاطر آرام چھوڑ نا کیا ہوتا ہے اور میری خاطر بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرنا کیا ہوتا ہے؟ پس یہ جو مضمون ہے جسے قرآن کریم نے اس آیت میں ہمارے سامنے پیش فرمایا اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس مضمون کو ہمارے لئے حل کر دیا کہ یہ وہ ایسا مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے.

Page 228

خطبات طاہر جلد ۸ 223 خطبہ جمعہ ۷۷ اپریل ۱۹۸۹ء اب میں اس مضمون کو اس کے ساتھ متعلق کر کے بتاتا ہوں.رمضان شریف کے مہینے میں روز مرہ کی عبادات اور روزمرہ کے انسانی حقوق اور روزمرہ کی انسانی ذمہ داریاں ادا کرنے کے علاوہ خدا سے تعلقات بڑھانے کے لئے تعلیم کا جو بھی معراج ہے وہ بیان ہو گیا ہے اور اس تعلیم کی آخری حدوں تک انسان عمل کرتا ہے.اس سے باہر دین کا کوئی جز باقی نہیں رہتا.رمضان شریف میں ہر انسان اپنے دین کی آخری حدوں کو چھورہا ہوتا ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم درجہ کمال تک بنی نوع انسان کو پہنچانے کے لئے جو کچھ پیش کرسکتی ہے ہر انسان کے لئے رمضان شریف میں وہ قرآن کریم کی تعلیم اپنی مکمل صورت میں اس کے سامنے آ جاتی ہے.پس رمضان کے متعلق قرآن کریم کے نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں جو انسان زندگی گزارتا ہے وہ انسانی زندگی کا معراج ہے اور قرآن کریم تمہیں اپنے معراج تک پہنچانے کے لئے آیا ہے.اس پہلو سے اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر شخص کا رمضان ہر دوسرے شخص سے مختلف ہے اور ہر شخص کا معراج الگ الگ ہے لیکن قرآن کریم ہر شخص کو اس کے معراج تک پہنچانے کی قدرت اور استطاعت رکھتا ہے.اگر اس سے آگے وہ تعلیم پیش کرتا ہے اور انسان اس کو قبول نہ کر سکے اور آگے نہ بڑھ سکے تو انسان کا قصور ہے.قرآن کریم میں ہر پہلو سے انسان کی انتہائی ترقی کے لئے جو کچھ ممکن ہوسکتا تھا اس کے متعلق تعلیم موجود ہے اور چونکہ یہ انتہائی ترقی رمضان شریف میں ہو سکتی ہے اور رمضان شریف ہی میں ہوتی ہے اور روزوں سے اس کا گہرا تعلق ہے اس لئے گویا قرآن کریم رمضان کے بارے میں نازل ہوا ہے.یعنی ایک دوسرے کے ساتھ یہ منطبق ہو جاتے ہیں.باقی گیارہ مہینوں کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے بارے میں نازل ہوا ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ حصہ باقی گیارہ مہینوں میں ایسارہ جائے گا جو رمضان میں ہوگا لیکن ان میں موجود نہیں ہو گا.قرآن کریم کے بعض پہلو رمضان ہی میں انسان کو معلوم ہوتے ہیں اس کے علاوہ معلوم ہو ہی نہیں سکتے.تو یہ مہینہ دراصل قرآن کا متبادل ہے یعنی قرآنی تعلیم عملی طور پر جس مہینے میں اپنائی جا سکتی ہے یہ وہ مہینہ ہے.پس اس پہلو سے اس آیت کا مطلب یہ بنا کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَني مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ یہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نازل فرمایا گیا اور اس مہینے میں بنی نوع انسان کی ہدایت اور ہدایت میں سے بھی اعلیٰ بینات اور کھلے کھلے

Page 229

خطبات طاہر جلد ۸ 224 خطبہ جمعہ ۷ اپریل ۱۹۸۹ء روشن نشانات اور فرقان جو کھوٹے کھرے میں اور ظلمات اور روشنی میں تمیز کرنے والی چیزیں ہیں وہ ساری نصیب ہو سکتی ہیں.پس وہ لوگ جو عام حالات میں گیارہ مہینوں میں صرف پہلی منزل پا سکتے ہیں یعنی هُدًى لِلنَّاسِ کی منزل - رمضان مبارک ان کو آگے بڑھا کر بَيْتٍ مِّنَ الْهُدی اور پھر اس سے آگے بڑھ کر فرقان کے عظیم الشان مراتب بھی عطا فرماتا ہے.پس اس مہینے کی اس پہلو سے غیر معمولی قدر کی ضرورت ہے مگر افسوس ہے کہ عام طور پر لوگ اس قدر اس مہینے کی قدر نہیں کرتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ محض بھوک پیاس کو برداشت کر لینا اور کچھ دیر کے لئے کھانے پینے سے رک جانا یہی رمضان ہے.یہ رمضان نہیں ہے یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.رمضان قرآن کریم ہے.قرآن کریم کی ساری تعلیمات ہیں.چھوٹی تعلیمات بھی اور بڑی تعلیمات بھی معمولی نظر آنے والی بھی اور نہایت اعلیٰ درجے کی بھی ، فرضی تعلیمات بھی اور نوافل کی تعلیمات بھی اس لئے ان تعلیمات میں خصوصیت کے ساتھ رمضان میں عمل کرنا جن کو انسان عام حالات میں ترک کر دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں ان کے بغیر زندہ نہیں رہوں گا یہ ہے رمضان.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ اگر چہ آپ گیارہ مہینے بھی رمضان کے علاوہ بھی ہمیشہ بے حدسخی ہوتے تھے، بے حد غرباء کی خدمت کرنے والے اور ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنے والے، محتاجوں پر رحم اور شفقت کرنے والے اور کثرت کے ساتھ ضرورت مندوں کو عطا کرنے والے ہوتے تھے مگر رمضان کے متعلق راوی بیان کرتے ہیں کہ یوں لگتا تھا جس طرح آندھی چل پڑی ہے.آنحضرت ﷺ کی خیرات کی رفتار میں رمضان میں داخل ہو کر اتنی تیزی پیدا ہو جاتی تھی جیسے سبک رفتار ہوا چل رہی ہو وہ ایک دم آندھی میں بدل جائے.یہ وہ فرق ہے جس کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیت ہمیں متوجہ کر رہی ہے کہ رمضان گویا قرآن کا متبادل ہے.یوں تمہیں رمضان میں سے گزرنا چاہئے گویا سارے قرآن میں سے گزر گئے ہو.گویا قرآن کریم اسی مہینے کی خاطر نازل ہوا.قرآن کی ساری تعلیمات پر اس مہینے میں عمل کرنے کی کوشش کر لو کیونکہ عام مہینوں میں شاید تمہارے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا.پس اگر قرآن کریم کی ساری تعلیمات پر اس ایک مہینے میں عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے تو

Page 230

خطبات طاہر جلد ۸ 225 خطبہ جمعہ ۷ ۱۷اپریل ۱۹۸۹ء آپ اندازہ کریں کہ کتنی ذمہ داریاں ہماری وسیع ہو جاتی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ نوافل کی ادائیگی کی طرف غیر معمولی توجہ کی ضرورت سامنے آتی ہے.تب ہی میں نے گزشتہ رمضان میں احمدی خواتین کو نصیحت کی تھی کہ اپنے بچوں کو صرف روزے کی عادت نہ ڈالیں بلکہ سحری کھانے سے پہلے نوافل کی عادت ڈالیں اور مجھے معلوم ہوا بعض ماؤں کی طرف سے اطلاع ملی ، بعض بچوں کی طرف سے یہ ملی کہ ہمیں بڑا مزا آیا ہم نے نوافل شروع کر دیئے ہیں.مگر بالعموم میرا یہ تاثر ہے کہ مغربی دنیا میں جواحدی خاندان بس رہے ہیں ان میں بچوں کو تہجد کی عادت نہیں ڈالی جاتی اور رمضان شریف یہ نعمت لے کر ہمارے سامنے آتا ہے.بہت ہی اچھا موقع پیش کرتا ہے.رمضان شریف میں جو ہم سیکھتے ہیں اس میں سے کچھ حصہ باقی سارا سال پر بھی حاوی ہو جانا چاہئے.اس طرح منزل بہ منزل رمضان شریف ہمارا معیار بلند کرتا چلا جاتا ہے.یہ وہ خصوصیت کے ساتھ نصیحت ہے جسے آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.پس کل جب ہم رمضان میں داخل ہوں گے جن احمدی ماؤں تک میری آواز پہنچی ہے یا والدین تک یا بچوں تک براہ راست پہنچی ہے وہ خصوصیت کے ساتھ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ ایک بھی احمدی دنیا میں ایسا نہ ہو جس کو رمضان شریف میں تہجد کی عادت نہ ہو.بعض لوگ اپنی مرضی کی بات تو قبول کر لیتے ہیں اور جو ذرا مشکل ہو یا مرضی سے باہر ہو وہ ان کو سنائی نہیں دیتی.رمضان میں اصل میں سحری کھانا رمضان نہیں ہے بلکہ سحری سے پہلے روحانی غذاء کھانا یعنی نفل پڑھنا اصل رمضان ہے لیکن سحری کے متعلق بھی ہدایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے.چنانچہ ایک دفعہ ایک بوڑھیا عورت کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ با قاعدگی کے ساتھ اُٹھ کر سحری کھایا کرتی تھی اور روزہ کوئی نہیں رکھتی تھی تو اس سے کسی نے پوچھا کہ بی بی تم یہ سحری کھانے اٹھتی ہو روزہ بھی رکھ لیا کرو.کہنے لگی روزہ تو مجھ سے رکھا نہیں جاتا مگر سحری نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں کچھ تو برکت لینے دو مجھے لیکن اصل برکت سحری کھانے میں نہیں ہے.اصل برکت ان نوافل میں ہے جو رات کے وقت اٹھ کر خدا کے حضور انسان کھڑے ہو کر ادا کرتا ہے اور ان کا روزمرہ کی زندگی سے ایسا تعلق نہیں کہ ان کے بغیر انسان روحانی طور پر زندہ نہ رہ سکے.وہ محض خدا کی خاطر ہوتے ہیں.پانچ وقت کی نمازیں جو ہیں وہ بنی نوع انسان کے معاشرے، اس کے اخلاق ، اس کی دینی صحت کی

Page 231

خطبات طاہر جلد ۸ 226 خطبہ جمعہ ۷ ۷ اپریل ۱۹۸۹ء حفاظت کے لئے اس حد تک ضروری ہیں کہ اگر وہ نہیں کرے گا تو اپنے لئے کوئی روحانی بیماری مول لے لے گا.کسی عارضے میں مبتلا ہو جائے گا، کوئی کمزوری پیدا ہوگی اس کے نتیجے میں.مگر اگر نفل نہ پڑھے تہجد کے وقت تو اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اگر پڑھے تو غیر معمولی فوائد ہیں.وہ فوائد کیا ہیں رمضان مبارک سے تعلق رکھنے والے؟ ان کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان کے علاوہ روزے کے علاوہ جتنی نیکیاں انسان کرتا ہے اس کی جزائیں مقرر ہیں اور اس کے بدلے اس کو دیئے جاتے ہیں لیکن چونکہ میری خاطر رمضان سے گزرتا ہے اور روزے رکھتا ہے اس لئے رمضان کی نیکیوں کی جزا میں ہوں.کتنا عظیم الشان فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کے حضور مناجات میں عرض کرتے ہیں.و آنچه می خواهم از تو توئی.اے میرے آقا مجھے تو اور کسی ثواب کی حاجت نہیں ہے.و آز چھہ می خواهم از تو تولی کہ میں تو جو تجھ سے چاہتا ہوں تو ہی ہے تو میرا ہو جا.پس جو شخص قرآن کے اعلیٰ مطالب کو پالیتا ہے اس کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ میرا اجر خدا ہواور خدا اجر بنانے کے لئے روزے رکھنا اور رمضان میں سے اس کے تمام فرائض اور نوافل کا خیال رکھتے ہوئے ان کا حق ادا کرتے ہوئے اس سے گزرنا یہ ضروری ہے.اس کے بغیر خدا جزا نہیں بنا کرتا.پس جب آپ رمضان سے اس طرح گزریں کہ خدا آپ کو مل جائے تو یہ وہ رمضان ہے جو سچا رمضان ہے.اگر رمضان سے اس طرح گزر جائیں کہ خدا کو پائے بغیر پھر دوبارہ عام مہینوں میں داخل ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے رمضان دیکھا ہی نہیں.فَمَنْ شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ جو شخص تم میں سے رمضان کو دیکھتا ہے وہ روزے رکھے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے روزے رکھے جس کی جزا میں ہوں.یعنی آنحضرت علیہ کے ارشاد کے مطابق.پس یہ وہ آخری فیصلہ کن مرحلہ ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ہر رمضان سے گزرنے کے بعد آپ کو خصوصیت کے ساتھ اپنے سامنے یہ سوال اٹھانا چاہئے کہ کیا یہ رمضان جس طرح آپ نے گزارا اس کی جزا خدا تعالیٰ ہے؟ کیا میں نے محسوس کیا ہے کہ اس رمضان کے بعد خدا میرا ہو گیا ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ملتا ہے اور انکسار کے طور پر آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ محسوس ہوتا ہے.میں نہیں کہ سکتا یقینا کہ خدا میرا ہو گیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ خدا میرا ہورہا ہے

Page 232

خطبات طاہر جلد ۸ 227 خطبہ جمعہ ۷۷ اپریل ۱۹۸۹ء تو پھر یقینا آپ کا رمضان سچا ہے ورنہ اس رمضان میں کوئی ایسی خامیاں ہیں کہ اسے عام مہینوں سے مختلف نہیں کیا جاسکتا.اس بات پر غور کرتے ہوئے ایک آسان حل میں نے سوچا ہے وہ زیادہ آسانی کے ساتھ معلوم ہوسکتا ہے.بجائے اس کے کہ آپ یہ سوچیں کہ خدا میرا ہو گیا ہے کہ نہیں اگر آپ رمضان کے دوران اور رمضان کے بعد بھی یہ سوچیں کہ آپ خدا کے ہو گئے ہیں کہ نہیں تو اس کا جواب آپ آسانی سے پاسکتے ہیں کیونکہ اپنے نفس کے حوالے سے یہ جواب ہے.ایک ایسی چیز کے حوالے سے جواب ہے جو آپ کے قبضہ قدرت میں ہے.آپ کے ذاتی علم میں ہے اس سے زیادہ کسی اور کے علم میں نہیں سوائے خدا کے.پس اگر آپ خدا کے ہو چکے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا یقینا آپ کا ہو چکا ہے.اس لئے کسی فرضی خیالی اندازے کی ضرورت نہیں ہے.اپنے روز مرہ کے حالات پر جب آپ غور کریں گے رمضان شریف میں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا ایکدم نہیں بنا کر تا کسی کا اور نہ آپ خدا کے یکدم بنا کرتے ہیں.یہ تو ایک ایسا سفر ہے جو قدم قدم بھی کیا جاتا ہے اور تیز رفتاری کے ساتھ بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن اس کی منازل معین طور پر طے ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.قطعی طور پر انسان کو معلوم ہوتا ہے.آپ جب خدا کے ہوں گے تو آپ کو وہ علامتیں معلوم ہوں گی جن کے نتیجے میں آپ خدا کے بن رہے ہیں.خالصہ خدا کی خاطر آپ بعض اپنی کمزوریاں دور کر رہے ہوں گے، خالصہ خدا کی خاطر آپ بعض نیکیاں اختیار کر رہے ہوں گے اور اٹھتے ہوئے قدم معلوم ہوں گے.اس میں کونسے اندازے اور فرض کی بات ہے کہ شائد میں ہو گیا ہوں اور شائد میں نہیں ہو گیا.آپ خدا کے بن رہے ہوں گے آپ کو معلوم ہورہا ہو گا کہ آپ خدا کے بن رہے ہیں.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اس میں ایک ادنی ذرہ بھی شک کا نہیں ہے کہ جس جس معاملے میں آپ خدا کے ہورہے ہوں گے اس اس معاملے میں خدا یقیناً آپ کا ہو رہا ہوگا.جب آپ خدا کے ہو جاتے ہیں تو خدا پھر آپ کا ہوتا ہے تو پھر وہ اس میں اپنے بعض نشان ظاہر بھی فرماتا ہے.اپنے پیار کی بعض علامتیں ظاہر کرتا ہے.قطعی طور پر انسان اپنی ذات کے حوالے سے پہلے فیصلہ کر سکتا ہے کہ کہیں میں خیالی دنیا میں تو نہیں رہ رہا لیکن اس کے بعد جو کچھ خدا کی طرف سے ملتا ہے وہ روحانی رزق کے طور پر عطا ہوتا ہے اور پھر سارا سال انسان رمضان میں سے گزر کر اس رزق کو کھاتا رہتا ہے اور پھر ایسی چیز نہیں ہے جو

Page 233

خطبات طاہر جلد ۸ 228 خطبہ جمعہ ۷ اپریل ۱۹۸۹ء اپنا تعلق بعد میں آپ سے توڑ لے.پس کل جو رمضان شروع ہونے والا ہے اس میں ان نصائح کے پیش نظر دعا کرتے ہوئے داخل ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان کو صحیح معنوں میں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس طرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے متوجہ فرمایا ہے.یہ رمضان ہم حقیقہ خدا کی خاطر گزاریں اور اس کے نتیجہ میں خدا ہمارا ہو جائے اور اس میں یہ پیغام مضمر ہے کہ تمہیں خدا کا ہونا پڑے گا اس رمضان میں اس کے بغیر خدا تمہارا نہیں ہوسکتا.اس شان کے ساتھ اگر ہم ساری جماعت احمد یہ اس رمضان سے گزرجائے تو اس سے بہتر اگلی صدی کا پہلا رمضان آپ نہیں منا سکتے.سب کچھ آپ کو مل گیا وہ وعدے جو ایک سو سال کے بعد پورے ہونے ہیں جن کی خوا ہیں آپ دیکھتے ہیں یا ہزار سال کے بعد پورے ہونے ہیں یا دس ہزار سال کے بعد پورے ہونے ہیں.آپ کی ذات میں اس دن پورے ہو جائیں گے جس دن آپ خدا کے ہو چکے ہوں گے.جب سب کچھ آپ کا ہو گیا پھر موجیں ہی موجیں ہیں پھر آپ کو اور کیا ضرورت ہے.پھر ہوں یا نہ ہوں اس سے آپ بے نیاز ہو جائیں گے.آپ کو یقین ہے کہ وہ وعدے ضرور پورے ہوں گے لیکن آپ اس لحاظ سے ان سے ضرور بے نیاز ہو چکے ہوں گے کہ آپ نے اپنی ذات میں وہ وعدے پورے ہوتے دیکھ لئے ہیں.پس یہ وہ اہم رمضان ہے جس کے لئے میرے دل میں ایک طوفان اٹھا ہوا ہے کہ کسی طرح جماعت کو یہ بتا دوں کہ اس اگلی صدی کے پہلے رمضان میں نہ آپ اس رمضان کو ختم ہونے دیں جب تک آپ کا وجود اپنے لئے ختم نہ ہو جائے اور خدا کے لئے نہ ہو چکا ہو.پھر آپ دیکھیں کہ کس شان کے ساتھ خدا آپ کا بنتا ہے اور کس شان کے ساتھ دنیا پھر آپ کی سچائی کے تحت اقدام بچھتی چلی جاتی ہے.کوئی مشکل مشکل باقی نہیں رہے گی.کوئی پہاڑ کی بلندی پہاڑ کی بلندی نظر نہیں آئے گی.آپ کے قدموں کے نیچے بلندیاں ہوں گی.آپ کے قدموں کی برکت سے زمین کی وہ چوٹیاں بنائی جائیں گی.آپ وہ ہوں گے جو بلندیاں عطا کرنے والے ہوں گے.آپ بلندیاں مانگنے والے نہیں رہیں گے.پس خدا کرے کہ آپ کو اور مجھے اس قسم کا رمضان نصیب ہو جس کے بعد خدا ہمارا ہو جائے.جب خدا ہمارا ہوگا تو خدا کی دنیا پھر ہماری ہے کسی اور کی نہیں ہوسکتی.آمین.

Page 234

خطبات طاہر جلد ۸ 229 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء جماعت کلمہ توحید سے چمٹ جائے ننکانہ اور ۵۶۳ گ ب جڑانوالہ میں ہونیوالے مظالم کا ذکر (خطبه جمعه فرموده ۱۴ را پریل ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوحِ ) وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ وَشَاهِدِ وَ مَشْهُودٍ قُتِلَ أَصْحَبُ الْأخْدُودِةُ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِن إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودُهُ وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودُهُ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ جَنْتُ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ إِنَّهُ هُوَ يُبْدِي وَيُعِيدُ وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُودُ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ فَقَالُ لِمَا يُرِيدُهُ.(البروج: اتا۱۷)

Page 235

خطبات طاہر جلد ۸ 230 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء چند دن پہلے صبح نماز فجر کے بعد تلاوت کے دوران جب میں ایک آیت کے اس ٹکڑے پر پہنچا قَالُوا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ (البقره: ۱۵۷) تو بڑی شدت کے ساتھ جیسے ایک خیال میخ کی طرح دل میں گڑھ جائے.یہ القاء ہوا کہ کوئی ایسی خبر پہنچنے والی ہے جس کے نتیجے میں مجھے خدا نے تلقین فرمائی ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں کا اسوہ اختیار کرتے ہوئے اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ پڑھوں اور اس کے مضمون کی طرف متوجہ ہوں.چنانچہ اسی رات عبدالباقی ارشد صاحب کے ذریعے شیخو پورہ سے وہ اطلاع ملی جس میں بتایا گیا کہ ایک واقعہ ایسا ہوا جس کے نتیجے میں چک ۶۳ ۵ گ ب تحصیل جڑانوالہ میں دشمنان احمدیت نے احمدی گھروں پر حملہ کیا ، اُن کولوٹا ، أن کو آگیں لگا ئیں اور اس کے بعد ان کا ارادہ نکانہ صاحب میں بھی اسی قسم کی کارروائیاں کرنے کا ہے.دو دن کے بعد پھر وہ ننکانہ صاحب کی اطلاع مکرم چوہدری انور حسین صاحب نے دی جس کی تفصیل آپ کو معلوم ہو چکی ہے.سوائے تین گھروں کے جن کا شریروں کو علم نہیں ہو سکا باقی تمام گھروں کو یا آگ لگا دی گئی یا ان کے سامان نکال کر لوٹ لئے گئے اور آگ لگادی گئی اور یا منہدم کر دئے گئے.مسجد کو بھی منہدم کر دیا گیا اور آگ لگائی گئی اور مسجد کے ساتھ جو مسجد کے خادم کا کوارٹر تھا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا.آگ لگانے کے وقت انہوں نے یہ احتیاط کی کہ دوسرا لٹریچر اور دوسرا سامان ایک طرف ڈھیری کر کے اس کو آگ لگاتے تھے اور قرآن کریم کو الگ ڈھیری کر کے اس کو آگ لگاتے تھے.اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے یعنی ایک فوری جو ظاہری پس منظر ہے وہ یہ ہے کہ چک ۶۳ ۵گ ب میں معلم نے مسجد کی صفائی کی غالبا رمضان کے خیال سے اور جو پرانے کاغذات ایسے تھے جن کی ضرورت نہیں تھی ان کو تلف کرنے کی خاطر ایک جگہ ڈھیری کر کے ان کو آگ لگائی.وہاں ایک ایسا شخص جس کے والد احمدی ہو چکے ہیں اور وہ اپنے والد کے احمدی ہونے کے نتیجے میں بڑا مشتعل تھا وہ پہنچا اس نے ان سے پوچھا انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ہے.اس نے اسی وقت واویلا مچا دیا اور سارے گاؤں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ احمدی قرآن کریم کو آگ لگا رہے ہیں.چنانچہ اس کے بعد سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اس گاؤں سے نہیں بلکہ ننکانہ صاحب ہی سے چند پیشہ ور اس مزاج کے اس کماش کے لوگوں کو اکٹھا کر کے اور بعض دوسرے دیہات سے باقاعدہ گاؤں پر حملہ کیا گیا اور ایک چھوٹی سی قیامت صغریٰ وہاں ٹوٹ پڑی.

Page 236

خطبات طاہر جلد ۸ 231 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء صلى الله پھر جو واقعہ اس کے بعد نکانہ صاحب میں ہوا ہے اس میں اب جو تازہ تفصیل آئی ہے اس کے مطابق یہ بات قابل توجہ ہے جو غالباً پہلے آپ کے علم میں نہیں کہ ڈی ایس پی اسلم لودھی صاحب پولیس کی سرکردگی میں خود عوام کو ساتھ لے کر آ گئیں لگوا رہے تھے اور ایک طرف اے سی صاحب بھی اسی شغل میں مصروف تھے اور بعض دفعہ وہ خود سامان نکال کے پولیس والے ان کو پکڑ اتے تھے کہ یہ چیز رہ گئی ہے اس کو بھی ڈھیری میں ڈالو اور آگ لگاؤ.جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے میں نے پہلے بھی بار ہا توجہ دلائی ہے کہ ایسی باتوں کو سن کر عموماً اپنی قوم کے خلاف اپنے جذبات کو بے لگام نہیں ہونے دینا چاہئے.امت محمدیہ میں بدقسمتی سے بہت سی کمزوریاں آگئی ہیں لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نام ایسا بابرکت ہے وہ کلام جو آپ پر نازل ہوا وہ ایسا بابرکت ہے کہ گئے گزرے مسلمان بھی جو بے عمل ہو چکے ہوں ان کے اندر بھی شرافت کی بہت سی ایسی قدریں باقی ہیں جو دیگر قوموں میں بہت شاز دکھائی دیتی ہیں.اشتعال کی حالت میں دیگر قوموں میں عورتوں کی عزتوں پر ہاتھ ڈالے جاتے ہیں اور بہت سی بے حیائیوں کی باتیں کی جاتی ہیں اور انسان گرکر بہیمانہ سطح پر اتر کر ان کو بھی شرمندہ کر دیتا ہے یعنی جو جنگل کے جانور ہیں ان سے بھی آگے گزر جاتا ہے لیکن امت محمدیہ ﷺ پر قرآن کی تعلیم کا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم کا یہ فیض ہے کہ سخت اشتعال کی حالت میں بھی انسانی شرافت کی بنیادی قدریں اکثر لوگوں میں زندہ رہتی ہیں اور بعض لوگ جو ملائیت سے مغلوب ہو چکے ہیں ان کے متعلق تو خود حضور اکرم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ شــر مــن تــحــت اديــم السـمـاء ( مشکوۃ کتاب العلم الفضل صفحہ ۳۸) اس لئے ان پر یہ استثناء صادق نہیں آتا لیکن وہاں کی رپورٹوں سے یہ پتا چلا ہے کہ ہمسایوں نے اور دیگر محلہ داروں نے اس موقع پر انسانی شرافت کا سلوک کیا.ان کو سہارا دیا وقتی طور پر ان کی روزہ کشائی کے لئے سامان مہیا کئے.جہاں تک ننکانہ صاحب کی جماعت کا تعلق ہے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے عظیم کردار سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا سر بلند رکھا ہے.کوئی بھاگ کر کہیں نہیں گیا.اپنے جلے ہوئے مکانوں میں ، اپنے بچوں کو لے کر وہیں بیٹھ ر ہے اور کلیہ دشمن کی اس کوشش کو رد کر دیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی بزدلی دیکھیں اور ان کو اپنے منہدم مکانوں اور جلے ہوئے مسکنوں سے اجاڑ کر باہر نکال دیں.انہی جگہوں پہ اُسی جگہ وہ بیٹھ رہے اور جیسا کہ میں نے جماعت کو ان حالات میں تلقین

Page 237

خطبات طاہر جلد ۸ 232 خطبه جمعه ۱۴ / اپریل ۱۹۸۹ء کی ہوئی ہے صبر کا کامل نمونہ دکھایا.یہاں تک کہ دوسرے دن جب باہر کی جماعتوں سے لوگ وہاں پہنچے ہیں تو اگر چہ فوری طور پر ان کی مددکا انتظام جماعت کی طرف سے کیا گیا لیکن یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ مقامی دوستوں نے انسانی قدروں کو مرنے نہیں دیا اور بعض جگہ تو بہت ہی غیر معمولی شفقت اور رحمت کا سلوک کیا ہے.یہ میں اس لئے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ واقعات ایسے ہیں جو جذبات میں ایک قیامت مچادیتے ہیں اور جتنی محبت احمدی کو احمدی سے ہے اس کی کوئی مثال دنیا میں نظر نہیں آتی.دنیا کے کونے کونے میں زمین کے کناروں تک جب یہ خبر پہنچی ہے یا پہنچے گی تو اس طرح جماعت کرب میں مبتلا ہو جائے گی جس طرح ان کے عزیز ترین پیاروں، رشتہ داروں کو کسی نے ظلم کا نشانہ بنایا ہے.فاصلے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، قوموں کے فرق کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، جغرافیائی تقسیمیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.ایک جماعت ہے مد مصطفی میلے کے غلاموں کے صدقے ساری دنیا کی جماعت بھائیوں کی طرح ایک ہو چکی ہے.اس ضمن میں جہاں تک جماعت کے رد عمل کا تعلق ہے پہلے ایک رد عمل میں بیان کرتا ہوں اور باقی باتیں بعد میں جس کا مزید پس منظر بیان ہونے والا ہے اس کے بعد پھر بات کروں گا.ایک رد عمل تو وہی ہے جس کی تمہید میں باندھ چکا ہوں.جو الہی جماعتوں میں لہی محبت پائی جاتی ہے اس کے نتیجے میں اگر ایک جز کو تکلیف پہنچے تو دوسرا حصہ اس تکلیف سے بھاگتا نہیں بلکہ اس کی طرف لپکتا ہے اس عضو کی طرف جس کو تکلیف پہنچی ہے.ہر زندہ نظام میں یہ قدر مشترک ہے.زندگی کی جتنی بھی شکلیں دنیا میں موجود ہیں ان میں یہ بات آپ ہمیشہ مشترک پائیں گے کہ اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو باقی جسم کا حصہ اس کو چھوڑ کر اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتا بلکہ اس کی طرف بے اختیار لپکتا ہے اور بعض دفعہ یہ ردعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ محبت ہی مصیبت بن جاتی ہے اور خون کا دوران اس تیزی سے اس ماؤف حصے کی طرف جاتا ہے کہ اس کا زیادہ جانا تکلیف کا موجب بن جاتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ پھر ڈاکٹروں کو ایسے چوٹ والی جگہ پہ اور ماؤف جگہ پر برف کی پٹیاں کرنی پڑتی ہیں ٹھنڈا کرنے کے لئے کہ دیکھو اتنا تم زیادہ جوش نہ دیکھاؤ تمہارا یہ جوش تمہارے اس ماؤف حصے کی تکلیف میں اضافے کا موجب ہے.پس اس حیثیت سے میرا بھی یہی کام ہے کہ زندہ روحانی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے میں ان کے مزاج کو خوب سمجھتا ہوں.کبھی مجھے اس بات کی

Page 238

خطبات طاہر جلد ۸ 233 خطبه جمعه ۱۴ را پریل ۱۹۸۹ء ضرورت پیش نہیں آئی نہ کبھی آئے گی کہ میں جماعت کو کسی واقعہ کے بیان کے بعد مشتعل کرنے کی کوشش کروں، ان میں ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کروں.میرا کام ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو ڈاکٹر جسم کے ماؤف حصے کے لئے کرتا ہے کہ ایسے جسم کے ماؤف حصے کے لئے جس میں زندگی کی ساری قوتیں پائی جاتی ہیں.وہ بجائے اس کے کہ اس کو گرم کرے اس کو ٹھنڈا کرتا ہے.اسے سمجھاتا ہے، اس کو توازن دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارا یہ رد عمل مزید تکلیف کا موجب نہ بن جائے.پس اس پہلو سے جب ایک احمدی کا گھر جلا تو ساری جماعت اپنے گھر جلوانے کے لئے تیار بیٹھی ہے کوئی پیٹھ دکھا کر نہیں جا رہا.مجھے ان کو سمجھانا پڑ رہا ہے کہ اپنے رد عمل کو تو ازن بخشو اور اپنے جوش نکالنے کی خاطر دوسروں کو تکلیف میں مبتلا نہ کرو.اس پہلو سے جو بھی آخری فیصلہ ہوگا وہ تو خوب غور اور فکر کے بعد اور مشوروں کے بعد ہو گا کہ جماعت کو آئندہ کیا ردعمل دکھانا ہے؟ لیکن یہ تو بہر حال قطعی بات ہے کہ ہمارا رد عمل قرآنی تعلیم کے تابع ہوگا اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں ڈھالا جائے گا.اب میں اس کا کچھ اور پس منظر اس واقعہ کا آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ کوئی اتفاقی اچانک ہونے والا واقعہ نہیں ہے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو سال تک بے انتہاء فضلوں سے نوازا ہے.اتنے کرم فرمائے ہیں ایسی رحمتوں کی بارشیں برسائی ہیں کہ ہم ان قطروں کو گنے کا کیا سوال ان کے شکر کے عمومی تصور سے بھی قاصر ہیں یعنی جس رنگ میں شکر ادا ہونا چاہئے اس کا حقیقت میں حق ادا کرنا تو بہت دور کی بات ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ اس کے تصور سے بھی ہم قاصر ہیں کہ کس حد تک خدا نے ہم پر فضل نازل فرمائے ہیں اور ہم کس طرح شکر ادا کریں.جیسا کہ میں نے اپنے پہلے خطبے میں بیان کیا تھا میں جب اس کی تفصیلات پر غور کرتا ہوں تو محض ایک بڑے بیان کے طور پر نہیں کہ اونچی آواز میں اونچا دعوی کر دیا جائے بلکہ جب میں تفاصیل پر غور کرتا ہوں تو کلیۂ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے تصور سے مغلوب ہو جاتا ہوں.نہ بیان کی طاقت رہتی ہے نہ تفصیل سے ان کو سوچنے کی استطاعت رہتی ہے.اس لئے جہاں تک خدا کے فضلوں کا تعلق ہے جماعت احمد یہ بھی پوری طرح ان سے شناسا نہیں ہے.انفرادی طور پر احمدیوں کی زندگی میں کس طرح بار بار اللہ نے فضل فرمائے ہیں اور روز مرہ کی عام زندگیوں میں کیسی غلطیوں سے ان کو بچایا، کیسی غلطیوں کی پاداش سے محفوظ رکھا اور کیسی کیسی مصیبت کے وقتوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے کام آئی.یہ تو ہر احمدی گھر

Page 239

خطبات طاہر جلد ۸ 234 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء میں گزرنے والی روز مرہ کی داستانیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں تو یہ داستانیں اس کثرت سے تھیں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کچی رویا ظاہر ہوتی تھی ، سچی رؤیا ان کو دکھائی جاتی تھی اور جیسا کہ محاورہ ہے بچے نبوت کرتے تھے.یعنی اللہ تعالیٰ سے خبریں پا کر آگے بیان کیا کرتے تھے.تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.دشمن کو بھی اس تفصیل کا تو علم نہیں لیکن کامیابی کے سو سال گزرنے کی اتنی تکلیف ہے، اتنی تکلیف ہے کہ نہ خدا کے فضلوں کا تصور کر سکتے ہیں نہ دشمن کی تکلیف کا تصور کر سکتے ہیں اور یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ، ہمیشہ سے ایسا ہی ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے زمانے میں بھی کلام الہی میں یہ بتایا گیا کہ تم کیا با تیں کر رہے ہو اپنی تکلیفوں کا تمہیں احساس ہے یہ نہیں سوچتے کہ دشمن کسی تکلیف میں مبتلا ہے.اس کو تو آگ لگی ہوئی ہے اور تمہاری کامیابیوں کی وجہ سے آگ لگی ہوئی ہے.تمہیں دکھ دے دے کر بھی اس کی وہ آگ نہیں بجھتی اور ایک جہنم ہے جو ہر هَلْ مِنْ مَّزِيدٍ (ق: ۳۱) اس کا مطالبہ کرتی چلی جارہی ہے.پس وہ آگ جو ۵۶۳ پر اگلی گئی یا ننکانہ کے معصوم احمدیوں کے گھروں پر برسائی گئی.یہ تو پتا کریں کہ وہ آگ آئی کہاں سے تھی ان کے دلوں سے نکلی ہے، ان کے دلوں سے نکل کر ان گھروں پر لپکی ہے.اس نے ہماری جائیدادوں کے ظاہر کو تو جلایا لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایک بھی احمدی نہیں ہے جس کے دل پر وہ آگ لپک سکی ہو.دلوں سے کھولتی ہوئی اگلی ہے جیسے لا وہ اُگل پڑتا ہے اور ہمارے گھروں کے ، ہماری جائیدادوں کے، ہمارے بعض جسموں کے ظاہر کو تو اس نے جلایا لیکن دلوں پر حملہ کرنے کی اس کو توفیق نہیں دی گئی.دل اس آگ سے مامون اور محفوظ ہیں کیونکہ جن دلوں میں خدا کی محبت ہے اور خدا کا پیار ہے اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی ہے ان کو کوئی دنیا کی آگ جلا نہیں سکتی لیکن ان کو میں یہ مطلع ضرور کرتا ہوں کہ ایک اور آگ ہے جس کا خدا تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور وہ دلوں پر لپکتی ہے.وہ انسان کی بنائی ہوئی آگ نہیں ہے جیسا کہ تم نے بنائی تھی.وہ خدا کی آگ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَلِعُ عَلَى الْآفَبِدَةِ ( الهمزه: ۸۰۷) خبر دار ہم تمہیں ایک ایسی آگ سے ڈراتے ہیں جو خدا نے تیار کی ہے اور وہ جسموں پر نہیں وہ دلوں پر لپکتی ہے اور دلوں کو خاکستر کر دیا کرتی ہے.پہلے بھی تم اسی آگ میں جل رہے ہواب اور بھی زیادہ اپنے لئے اس آگ کو بھڑکانے کے مزید سامان کر رہے ہو.اس لئے وہ لوگ جو نادانی

Page 240

خطبات طاہر جلد ۸ 235 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء اور جہالت میں یہ کام کر رہے ہیں ان کی حالت بذات خود قابل رحم ہے.ایک آگ نے تم کو جلا رکھا ہے وہی آگ تھی جو باہر نکلی ہے لیکن ان کی خاطر ہم دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا تو چھوڑ نہیں سکتے.ان کی خاطر ہم شاہرائے ترقی اسلام کی راہ پر قدم آگے بڑھانا تو نہیں چھوڑ سکتے.اس لئے یہ واقعات ہوں گے اور بھی ہوں گے اور بڑے بڑے بدار ادے ہیں جو ہمارے علم میں ہیں لیکن جماعت احمدیہ عالمگیر ان اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے دل میں درد تو محسوس کرے گی، ان کے لئے دعائیں بھی کرے گی، ہر قربانی کے لئے بھی تیار رہے گی ان کے دل ان کی طرف لپکیں گے ان سے بھاگیں گے نہیں تا کہ ان کی تکلیفوں میں حصہ پا کر اپنے لئے تسکین کا سامان پیدا کریں.وہ زندہ صحت مند جسم کی طرح جو ماؤف حصے کی طرف لپکتا ہے اس طرح ہمارے دل، ہمارے جسم ان مظلوموں کی طرف لپکتے رہیں گے اور جب بھی توفیق ملے گی ہم ان کی تکلیفوں میں حصے لے کر اپنے لئے تسکین قلب کا سامان پیدا کریں گے لیکن جلن کا نہیں.احمدی دلوں کو خدا کی آگ سے بچایا گیا محفوظ رکھا گیا ہے اور مامون قرار دیا گیا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو احمدی دلوں کو جلا سکے.اس کا دوسرا ایک پس منظر ہے وہ بھی میں جماعت کے سامنے کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ پس منظر سیاسی پس منظر ہے.جماعت احمد یہ پاکستان میں اس وقت بلیک میلنگ کے لئے استعمال ہو رہی ہے.آہستہ آہستہ اس ملک میں اخلاقی قدروں کی بھی قیمت اُٹھتی چلی جارہی ہے.ہر نیکی کا تصور وہاں معدوم ہوتا چلا جارہا ہے، ظلم اور سفا کی بڑھ رہے ہیں.اس حد تک بداخلاقی کی حالت ہے کہ چند دن ہوئے اخبار میں یہ دردناک خبر شائع ہوئی کہ شب برأت کے موقع پر فیصل آباد جو اس وقت جماعت کی مخالفت میں پیش پیش شہروں میں سے ہے.فیصل آباد میں لوگوں نے بھنگڑے ڈال کے اور ناچ کر کے اور نہایت ہی خلاف اسلام حرکتیں کر کے یہاں تک کہ شرا ہیں پی کے شب برأت منائی.یہ اس ملک کا حال ہو چکا ہے بد قسمتی سے.کراچی شہر جلتا ہے، بار بار جلتا چلا جاتا ہے.ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے گلے بھی کاٹتا ہے بلکہ زندہ آگ میں جلا دیتا ہے.حیدر آباد میں جو واقعات بار بار رونما ہو رہے ہیں اور پاکستان کے شہروں اور گلیوں سے جس طرح امن اُٹھ رہے ہیں بچے اغواء ہورہے ہیں ہر قسم کے مظالم کو وہاں کھلی چھٹی ہے لیکن کوئی چیز اتنی ارزاں نہیں جتنی احمدی کی دولت ، احمدی کا مال، احمدی کی جان اور احمدی جسم ارزاں ہیں.جب احمدی کا

Page 241

خطبات طاہر جلد ۸ 236 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء سوال آئے پھر تو جس طرح نیلامی بولی جاتی ہے اس طرح سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے بڑھ کر نیلامی بولتے ہیں کہ ہم اس سے زیادہ ظلم کرنے کے لئے تیار ہیں تم کیا باتیں کر رہے ہو.اسمبلیوں میں مقابلے ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں کہ تم چیز کیا ہو؟ تم کہاں تک ظلم کر سکتے ہو جو ہم نے کئے اور جو ہم کریں گے تمہارے تو خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتے.جس ملک کی اخلاقی قدریں یہ ہوں جس کی سیادت کا یہ حال ہو کہ دیوالیہ پٹ چکا ہو وہاں یہ توقع رکھنی سیاست سے اور سیاسی راہنماؤں سے کہ وہ اخلاقی قدروں کی بناء پر جماعت احمدیہ کی حفاظت میں کوئی قدم اٹھا ئیں گے بالکل ایک جھوٹا اور لغو خیال ہے اسی لئے میں نے آغاز ہی میں جب یہ سیاسی تبدیلی پیدا ہوئی اپنے پہلے خطبے میں جماعت کو متنبہ کیا تھا.ایک پہلو سے خوشی کا وقت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک لمبے عرصے کے بعد ایک استبدادی آمریت کا خاتمہ ہوا ہے اور جس رنگ میں ہوا اس میں چونکہ ہماری دعاؤں کا بھی دخل تھا، اس میں ہماری گریہ وزاری کا بھی دخل تھا اس لئے اس پہلو سے ہمارے لئے خوش ہونا ایک طبعی اور فکری عمل ہے لیکن سیاسی افق پر جو نئے نقوش اُبھر رہے ہیں ان کو دیکھ کر تم اپنی تقدیر کے فیصلے نہ کرنا، یہ نہ سمجھ لینا کہ صبح صادق آگئی ہے.چنانچہ بڑی تفصیل سے میں نے جماعت کو سمجھایا کہ بہت سے اندھیرے ابھی باقی ہیں اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے.چنانچہ ان حالات پر نہ صرف یہ کہ با قاعدہ میں نے باریکی سے نظر رکھی بلکہ رابطہ رکھا اور بار بار موجودہ قومی سیادت کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بعض وہ بیوقوفیاں دوبارہ نہ کرنا جو پہلے سرزد ہو چکی ہیں کیونکہ ان کے نتائج نہ صرف یہ کہ وہی نکلیں گے بلکہ اس دفعہ زیادہ بھیا نک نکلیں گے لیکن دراصل سیاست خود غرض ہوتی ہے.خواہ کتنا ہی ذہین اور فہیم سیاستدان ہو سیاست کی اس بنیاد سے نہیں ہٹ سکتا اسی پر قائم رہتا ہے، اسی پر اس کی سیاست کی عمارت تعمیر ہوتی ہے کہ سیاست خود غرض ہے.پس جس کی بنیاد میں خود غرضی ہو اس کی عمارت خواہ کتنی بلند ہو، کتنی تعلیم یافتہ دکھائی دے، کتنی ذہانت کے قمقمے روشنیاں وہاں جل رہی ہوں یہ بنیاد بہر حال اپنا رنگ آخر تک بلندی کی انتہاء تک پہنچا دیتی ہے اور اس کی خود غرضی اس کی ہر اینٹ میں ، اس کے سیمنٹ کے ہر حصے میں اپنے جلوے دکھا رہی ہوتی ہے.پس سیاست خودغرض ہے اس کو یا درکھیں.صرف پاکستان کی سیاست کا سوال نہیں ، ہندوستان کی سیاست بھی خود غرض ہے، انگلستان کی سیاست بھی خود غرض ہے ، امریکہ کی سیاست بھی خود غرض ہے، روس کی سیاست بھی خود

Page 242

خطبات طاہر جلد ۸ 237 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء غرض ہے.پس ایک سیاست سے دوسری سیاست کی طرف جماعت نہیں جاسکتی.ایک سیاستدان کو چھوڑ کر دوسرے سیاستدان کی طرف رُخ اس اُمید میں نہیں کر سکتی کہ وہاں اس کو امن ملے گا اور وہاں اسے فیض نصیب ہوگا اور یا درکھیں کہ خود غرضی اندھی ہوتی ہے اس لئے جب بظاہر بڑے بڑے تعلیم یافتہ سیاستدان انتہائی حماقت کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں جو ایک عام سادہ مومن کو بھی نظر آ رہی ہوتی ہیں کہ یہ حماقت کی باتیں ہیں تو دراصل وہ ساری حماقتیں خود غرضی پر بنی ہوتی ہیں.یہ ایک ایسا تجزیہ ہے جس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.سیاستدان کی ہر غلطی خود غرضی پر مبنی ہوتی ہے اور چونکہ خود غرضی اندھی ہے اس لئے اندھے کو تو دکھائی نہیں دیتا اس کو تو اپنا ہاتھ بھی نہیں دکھائی دے سکتا.یہ وہ پس منظر ہے سیاسی جس کے جلو میں یہ سب واقعہ ہوا ہے.پنجاب کی حکومت نے پہلے ملاں کو اٹھانا شروع کیا اور بڑے زور کے ساتھ یہ اعلان کئے کہ ہماری سیاست ملاں کی سیاست ہے اور ملاں ہمارے ساتھ ہے اور ملاں نے بھی خوب ان کی تائید کی اور اسلام کو جیسا کہ ہمیشہ وہ ظلم کا نشانہ بناتے رہے ہیں اب بھی ظلم کا نشانہ بنایا اور یہ آواز اسلام کے نام پر اٹھائی کہ عورت سربراہ نہیں ہوسکتی.اس کے نتیجے میں مرکزی سیاست نے جو خود غرضانہ قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دوسرے صوبے کا مولوی خرید لیا اور ایسا مولوی خریدا جس کے اثرات اور کانٹے پنجاب میں بھی موجود ہیں اور کافی گہرے ہیں.یعنی ملتان میں بھی ان کا ہیڈ کواٹر ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہے اور ان کے ساتھ سودا بازی ہوئی جن کا انہوں نے کھلم کھلا اعتراف کیا اور ان سودا بازیوں کے نتیجے میں یہ طے پا گیا کہ عورت کی سربراہی کا جو اسلامی تصورتم رکھتے ہو اس سے دستبردار ہو جاؤ گے.یعنی تم رکھتے تو ہو تمہیں کامل یقین ہے کہ قرآن کریم کی یہی تعلیم ہے اور رسول کریم ﷺ نے اسی پر زور دیا کہ عورت سربراہ نہیں ہو سکتی اور تم یہ کہتے ہو کہ ایسا ملک ہلاک ہو جایا کرتا ہے جس کی سربراہ عورت ہوتی ہے لیکن آؤ ہم سودا کرتے ہیں تم اس چیز سے باز آ جاؤ اور مقابل پر جتنا احمدی خون چاہئے ، جتنی احمدی عزتیں چاہئیں، جتنے احمدی سر چاہئیں وہ سب تمہارے حضور حاضر ہے.یعنی کسی کی عزت کا سودا ہورہا ہے ان کو کیا فرق پڑتا ہے اور اس طرح پنجاب کے سامنے انہوں نے ایک بڑا بھاری جوابی مسئلہ کھڑا کر دیا.انہوں نے کہا اچھا اگر تم نے احمدیوں کی نیلامی بولنی ہے تو ہم سے نیلامی کر کے دیکھ لو.تم ایک قدم جاؤ گے ان کو مارنے کے لئے ہم دس قدم آگے بڑھیں گے.نہ تم میں کوئی غیرت ہے نہ ہمیں کوئی

Page 243

خطبات طاہر جلد ۸ 238 خطبه جمعه ۱۴ را پریل ۱۹۸۹ء غیرت ہے.نہ تمہیں کوئی انسانی عزت اور انسانی اخلاق اور قدروں کا کوئی پاس ہے نہ ہمیں کوئی انسانی عزتوں اور اخلاق اور قدروں کا پاس ہے.اس لئے اس مقابلے میں تو ہم تم سے شکست نہیں کھا سکتے.چنانچہ یہ وہ سودا ہوا جس کے ہوتے ہی وہ آگ جو دلوں میں بند تھی وہ بھڑک کر باہر نکلی ہے اور مزید منصوبے بنائے جارہے ہیں کہ احمدیوں کے لئے مسائل کھڑے کر کے مرکز پنجاب کو نیچا دکھائے اور پنجاب مرکز کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے کہ ہم زیادہ سفاک اور ظالم ہیں اور احمدیوں کو جہاں تک دکھ پہنچانے کا تعلق ہے ہم تم سے آگے بڑھ جائیں گے.یعنی یہ ارادے لے کر پنجاب کا رروائیاں کرے اور یہی ارادے باندھ کر مرکز جوابی کارروائی یہ کرے کہ اچھا احمدیوں کو اور بھی ہم مارتے ہیں.یہ تو ہے انسان کی بنائی ہوئی تقدیر.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ جماعت احمد یہ خدا کے نام پر کوئی سودا نہیں کر سکتی ، ناممکن ہے اور خدا تعالیٰ نے جو اپنی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دی ہے اور اپنے محبوب ترین رسول حضرت محمد مصطفی علی کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دی ہے وہ ایسی گہری ہماری ذات کے ساتھ ، ہمارے وجود کے ساتھ پیوستہ ہو چکی ہے کہ ہمارے وجود کا ایک انمٹ حصہ بن گئی ہے.اسے الگ کرنا ہمارے قبضہ قدرت میں نہیں، ہمارے اختیار میں نہیں ہے.اس برتھ مارک کی طرح جس کے متعلق میں نے ایک دفعہ پہلے بھی آپ کو سنایا تھا قصہ کہ ایک برتھ مارک کسی خوبصورت چہرے پر تھا اور وہ خاتون جس کے چہرے پر وہ برتھ مارک تھا اس کا عاشق ایک سائنسدان تھا.وہ چاہتا تھا کہ وہ چہرہ کامل ہو جائے اور ہر داغ اور ہر عیب سے پاک دکھائی دے.چنانچہ اس نے ساری عمر اس پر تحقیق کی اور تحقیق کرنے کے بعد برتھ مارک دور کرنے کے لئے ایک دوا ایجاد کی اور وہ دوا اس نے اس عورت کو دینی شروع کی.جوں جوں قطرہ قطرہ اس کے جسم میں وہ دوا سرایت کرتی جاتی تھی وہ برتھ مارک ہلکا ہوتا چلا جا تا تھا اور ہلکا اور مدہم پڑتا چلا جاتا تھا.یہاں تک کہ جب وہ برتھ مارک غائب ہو گیا تو اس عورت کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کر گئی.یہ خلاصہ ہے اس کہانی کا جو یہ بتانے کے لئے لکھی گئی کہ بعض عادتیں انسانی فطرت کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں ان کو تم مٹا نہیں سکتے.ان کو مٹانا زندگی کومٹانے کے مترادف ہو جایا کرتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے عورت کی نزاکت اور اس کے نخرے کا ذکر کرتے ہوئے نہایت ہی پیارے رنگ میں فرمایا کہ عورت پسلی سے بنائی گئی ہے اور پسلی کو تم سیدھا نہیں کر سکتے توڑ

Page 244

خطبات طاہر جلد ۸ 239 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء سکتے ہو.پس بعض عورت کے نخرے تمہیں برداشت کرنے پڑیں گے بلکہ ان کے ساتھ اس طرح رہنا پڑے گا کہ اس کا لطف اٹھاؤ.ان کی کبھی میں بھی ایک حسن ہے اور مثال کتنی خوبصورت ہے پہلی.پہلی کی کجی بدزیب دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کا حسن ہی اس خم میں ہے جس کو خدا تعالیٰ نے خاص تقدیر کے ساتھ بنایا ہے.تو ہمارا تو برتھ مارک ہے آنحضرت ﷺ اور خدا کی محبت اسے کس طرح مٹاؤ گے؟ ہمارے گھروں کو جلا دو، ہمارے جسموں کو جلا دو، ہمارے اموال لوٹ لو، ہماری عورتوں، بچوں، مردوں کو فنا کر دو مگر خدا کی قسم محمد مصطفیٰ کے خدا کی قسم اور کائنات کے خدا کی قسم کہ احمدیت کے دل میں جو محمد مصطفی اور اللہ کی محبت کا برتھ مارک ہے اس کو نہیں مٹا سکتے تم.تمہیں طاقت کیا، استطاعت کیا ہے کہ ان دلوں تک پہنچ سکو.تمہاری آگئیں جسموں تک جا کر ختم ہو جائیں گی.ہاں دلوں تک پہنچنے والی ایک آگ ہے جو خدا جلاتا ہے اور وہ جب فیصلہ کرے گا تمہارے دل پر وہ برسائی جائے گی تو کوئی دنیا کی طاقت تمہیں اس آگ کے اثر سے بچ نہیں سکتی.اس سلسلے میں میں نے قرآن کریم کی ایک آیت چنی ہے جو نمونۂ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مومن کا ایسے حالات میں کیا رد عمل ہوتا ہے اس کے اوپر قرآن کریم نے مختلف مواقع پر مختلف رنگ میں روشنی ڈالی ہے.فرماتا ہے فرعون نے ان لوگوں کو دھمکی دی جو موسیٰ پر ایمان لے آئے تھے اور کہا فَلَا قَطِعَنَ أَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُوصَلِّبَنَّكُمْ في جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَا اَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى (۷۲:۴) کہ میں تمہارے ہاتھ کاٹ دوں گا اور تمہارے پاؤں کاٹ دوں گا مخالف سمتوں سے.یعنی ایک طرف سے تمہارے بازو کاٹوں گا تو دوسری طرف سے تمہارے پاؤں کاٹ دوں گا، تمہاری ٹانگیں کاٹ دوں گا اور اس حالت میں کلیۂ بے بس کر کے تمہیں پھینک دوں گا.تم ہوتے کون ہو میری اجازت کے بغیر موسیٰ اور اس کے خدا پر ایمان لانے والے.یہ فرعونیت کی آواز جو ہے یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اسی طرح رہی اور ہمیشہ یہ اسی طرح رہے گی.خدا اس کے بھیجے ہوؤں پر ایمان لانے کے لئے قوموں کی اجازت کا پابند کیا جاتا ہے.ان قوموں کی اجازت جو حاکم ہوں اور ان بادشاہوں کی اجازت کا پابند کیا جاتا ہے جو حا کم وقت ہوں.ان کی مرضی کے بغیر تم کون ہوتے ہو خدا پر ایمان لانے والے اور خدا کے بھیجے ہوؤں پر ایمان لانے والے.یہ سوال تھا جو اس وقت بھی اٹھا تھا، آج بھی اٹھا ہے،

Page 245

خطبات طاہر جلد ۸ 240 خطبه جمعه ۱۴ / اپریل ۱۹۸۹ء آئندہ بھی اٹھتا رہے گا.پس خدا کی جماعتیں ہمیشہ اس سوال سے اسی طرح نبرد آزما ہوتی رہیں گی جس طرح حضرت موسیٰ کے وقت میں نبرد آزما ہوئی تھیں.اس کے جواب میں ان کا جو رد عمل قرآن کریم نے محفوظ فرمایا وہ یہ ہے قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَ نَا مِنَ الْبَيِّنَتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضِ (طہ:۷۳) کہ اے جابر بادشاہ ہم ہرگز تجھے ان بینات کے مقابل پر ترجیح نہیں دیں گے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بھیجی ہیں.ان روشنیوں کے مقابل پر جو خدا نے نازل فرمائی ہیں ہم ہر گز تمہیں ترجیح نہیں دے سکتے.وَالَّذِي فَطَرنا اور اپنے رب کے مقابل پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہم کیسے تمہیں ترجیح دے سکتے ہیں.فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضِ ہمارا جواب یہ ہے پھر جو کچھ تو کر سکتا ہے کر گزر.اگر یہ سودا ہے کہ ہم اپنے ایمان کو چھوڑ دیں تمہاری تکلیفوں سے بچنے کے لئے تو پھر ہمارا جواب یہ ہے کہ پھر جو تکلیفیں تمہارے تصور میں آتی ہیں دیتے چلے جاؤ اور دیتے چلے جاؤ لیکن خدا کی قسم ہم اپنے خدا اور اس نور کو نہیں چھوڑیں گے جو خدا نے ہمارے لئے نازل فرمایا ہے.اِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا بیوقوف تو تو صرف اس دنیا کی قضاء و قدر پر کچھ قدرت رکھتا ہے سارے کی ساری تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ إِنَّا آمَنَّا بِرَبَّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطينَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللهُ خَيْرٌ و ابقی (طہ:۷۴) ہم تو اپنے رب پر ایمان لائے ہیں اس نیت اور اس خواہش کے ساتھ ، ان امیدوں کے ساتھ کہ وہ ہمارے گناہ بخش دے گا اور ہماری خطائیں معاف فرمائے گا اور جو کچھ تو نا جائز باتوں پر ہمیں مجبور کرتا رہا ہے یعنی تیرا معاشرہ جو گندہ معاشرہ تھا جس سے ہم نکل کر آئے ہیں اس لئے ہم سے جو گناہ کروائیں ہیں اس معاشرے نے ان کو سحر کے طور پر بیان فرمایا.سحر کا ایک معنی جھوٹ.تو جھوٹی تحریک کے لئے قرآن کریم نے یہاں لفظ سحر استعمال فرمایا ہے اور ان لوگوں کے ذکر میں فرمایا ہے جو تھے بھی جادو گر.اس لئے قرآنی فصاحت و بلاغت کا کمال ہے.ان جادو گروں کے ذکر میں لفظ سحر ایک وسیع معنوں میں استعمال فرمایا.وَ اللهُ خَيْرٌ وَ اَبْقَى تو تو باقی نہیں رہے گا.تیرے صرف وہی نشان باقی رہیں گے جو عبرت کے نشان بنا دیے جائیں گے.وَاللهُ خَيْرٌ وَ اَبقی اللہ بہتر ہے اور اللہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے.پس تم ایک عارضی فنا ہونے والی قدر کو کیسے ایک بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی قدر کے مقابل پر ترجیح دیں.اس کے ساتھ ہی

Page 246

خطبات طاہر جلد ۸ 241 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء قرآن کریم نے بعض کمزوروں کی باتیں بھی محفوظ رکھیں جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے شکوے کیا کرتے تھے.ان میں ایک یہ تھا قَالُوا أَ وَ ذِيْنَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِتَنَا (الاعراف: ۱۳۰) کہ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم تکلیف دیئے گئے تھے.اب تو آ گیا ہے تو کونسا ہماری تکلیفوں میں کمی آگئی ہے مِن بَعْدِ مَا جِثْتَنَا تو آیا ہے تو ابھی بھی وہی تکلیف جاری ہے.دیکھیں کتنا نمایاں فرق ہے.ایک رد عمل یہ ہے جو شکوؤں اور شکایتوں کا رد عمل کہ تجھے مان کر تیرے آنے سے ہمارے کون سے حالات اچھے ہو گئے ہیں کیا بدلہ ہے؟ پہلے بھی مصیبتوں میں مبتلا تھے اب بھی مصیبتوں میں مبتلا ہیں اور ایک یہ رد عمل ہے جس کو میں نے بیان کیا کیسا روشن اور کیسا عظیم الشان، کیسا ہمیشہ کی زندگی پانے والا رد عمل ہے کہ جو کچھ تو نے کرنا ہے کر گز رہم خدا اور آسمانی نور کو تیری خاطر چھوڑ نہیں سکتے.تجھے بقا نہیں ہے تو فنا ہونے والی قدر ہے اور خدا اور اس کے نور باقی رہنے والی قدریں ہیں اور پھر بہتر ہیں ہر لحاظ سے اس لئے ایسے گندے سودے کی طرف ہمیں نہ بلاؤ.آنحضرت اللہ کے زمانے میں بھی قرآن کریم نے ایسی ہی حالت بیان کر کے دور د عمل محفوظ فرمائے ہیں یعنی کلام الہی ہمیں ان رد عمل کی تفاصیل سے آگاہ فرماتا ہے کہ دو مختلف قسم کے رد عمل ہیں.ایک تو وہ ہے جس میں احزاب کے موقع پر جب غیر معمولی طور پر مشکلات کا سامنا تھا اور خطرات ہر طرف سے اور بڑے محیب خطرات تھے.مسلمانوں کو گھیرے میں لئے ہوئے تھے اور دن بدن قریب آتے چلے جاتے تھے اور ایسے حالات سے یوں لگتا تھا کہ اسلام کی صف لپیٹ دی جائے گی.اسلام کا تمام خلاصہ مدینہ میں محصور ہو چکا تھا اور تمام عرب کے جاہل اور جنگجو قبائل مدینے کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے اور یہ ارادہ کر کے آئے تھے کہ ہم واپس نہیں جائیں گے جب تک محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں کو صفحہ ہستی سے کلیۂ مٹانہ دیں.یہ فیصلے کر کے آئے تھے کہ آج اس قضیے کو چکا دینا ہے.آج ہمیشہ کے لئے اس جھگڑے کو ختم کر دینا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے بعض کمزور ایسے بھی تھے جن کی حالت یہ تھی فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ (الاحزاب:۲۰) کہ جب وہ خوف کے دن آئے تو تو دیکھتا ہے کہ بعض ان میں سے تیری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ ان کی آنکھیں خوف و ہر اس سے گھوم رہی ہیں.كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ اس طرح

Page 247

خطبات طاہر جلد ۸ 242 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء وہ گھوم گئی ہیں جس طرح ایسا شخص جس پر موت کی غشی طاری ہو تو اس کی آنکھیں پھر جاتی ہیں اور سفیدی دکھائی دینے لگتی ہے اور اس کی سیاہی کا مرکزی حصہ نظر نہیں آتا.یہ حالت ہوگئی تھی ڈر کے مارے ان لوگوں کی.اس کے مقابل پر فرمایا کچھ ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے کہا وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا ( الاحزاب :۲۳) کہ خدا کے ایسے بھی عظیم الشان مومن بندے تھے کہ جب انہوں نے احزاب کو گروہ در گروہ حملہ آوروں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو کہا یہی تو تھا جس کا خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ تم ایسے ایسے خوفناک ابتلا ؤں میں ڈالے جاؤ گے اور آزمائشوں میں سے گزارے جاؤ گے.وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ خدا کی قسم اللہ اور اس کے رسول نے سچ ہی فرمایا تھا.وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا ایمان اور تسلیم کے سوا سپردگی کے سوا ان کو وہ حملہ کسی اور چیز میں بڑھانہ سکا.یعنی خوف کی بجائے وہ پہلے سے بھی زیادہ بہادر ہو گئے اس عہد میں پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہو گئے کہ وہ خدا کے حضور اپنا سب کچھ حاضر کر دیں گے اور ان کے ایمان کو بھی عظیم الشان تقویت ملی کہ کچھ ایسے بھی خدا کے پاک بندے اور عظیم انسان ہوا کرتے ہیں الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ( آل عمران : ۱۷۳) کہ دکھ اٹھانے کے باوجود، زخم کھانے کے باوجود پھر وہ آگے بڑھتے ہیں اور خدا اور رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہیں.یعنی موت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیں.دشمن سے گزند اٹھا چکے ہوتے ہیں کوئی بات ان کو بھولی ہوئی نہیں ہوتی ، تجربوں میں سے گزر کر آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہاں اب بھی ہم لبیک کہیں گے اور اب بھی ہم لبیک کہیں گے.فرمایا یہ لوگ جو نیک اعمال کرتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم اجر ہے جو ان کے لئے لکھا گیا ہے.فرمایا الَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا (آل عمران : ۱۷۴) ان کو لوگوں نے آ آ کے کہا کہ دیکھولوگ تمہیں مٹانے کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں.قوم در قوم لوگ ہجوم در ہجوم لوگ تمہیں مٹانے کے لئے انڈ آئے ہیں.فَاخْشَوْهُمْ ان کا خوف کرو فَزَادَهُمْ إِیمَانا ان کا خوف کرنے کی بجائے وہ ایمان میں اور بھی ترقی کر گئے.وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران : ۱۷۴)

Page 248

خطبات طاہر جلد ۸ 243 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء انہوں نے کہا اللہ ہی ہمارا حسیب ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے اور ہماری بہترین وکالت وہی کرے گا.ان کو آنحضور ﷺ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام پا کر یہ سجھایا قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلنَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (التوبة: (۵) کہ دیکھو ہمارے نصیب میں جو بھی دکھ ہیں اور جو تکلیفیں ہیں وہ بظاہر تم عائد کر رہے ہو مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا کی حکمت بالغہ نے انہیں ہماری اصلاح کے لئے اور ہماری بہتری کے لئے مقدر فرمایا ہے.اس لئے چونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر ہماری تقدیر ڈھالی نہیں جاسکتی.ہماری تقدیر تمہارے قلم نہیں لکھیں گے، تمہارے ظلم ہماری تقدیر نہیں بنانے والے.ہماری تقدیر تو آسمان پر بنتی ہے اور خدا نے بنانی ہے.اس لئے بالآ خر خدا کی اجازت کے بغیر ہمیں دکھ پہنچ نہیں سکتے.پس اگر اس کی رضا یہی ہے کہ ہمیں دکھ پہنچیں اس کی راہ میں تو ہمیں بنانے کے لئے دکھ آئیں گے بگاڑنے کے لئے نہیں آسکتے.کیونکہ انسان کے بنائے ہوئے دکھ بعض دفعہ قوموں کو بگاڑ دیا کرتے ہیں جن کا ان قوموں کو جن کے پیچھے خدا نہ ہو لیکن وہ تو میں جن کی تقدیر خدا بناتا ہے ان کو کوئی دنیا کا دکھ بگاڑ نہیں سکتا.یہ وہ فلسفہ ہے جو اس میں بیان فرمایا گیا.قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ (التوبۃ :۵۲۰) اوران سے کہہ دے کہ کیا تم اس کے سوا ہم سے کیا توقع، کیا امید رکھ سکتے ہو کہ دو نیکیوں میں سے ایک نیکی تو تم ہمیں ضرور دے جاؤ گے.دوحسین چیزوں میں سے ایک چیز تم ہمارے لئے لے کے آئے ہو اور ان دو کے سوا تم اور چیز ہمیں دے ہی نہیں سکتے.شکست ہم تم سے کھا نہیں سکتے اس لئے یا تو غازی بن کے نکلیں گے اور وہ بھی حسن ہے اور یا پھر خدا کی راہ میں شہید ہوں گے اور ہم اپنے مقصد کو پا جائیں گے اور شہادت کے وقت ہر شہید ہونے والا فزت برب الکعبه کانعرہ بلند کرے گا کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا.پس یہ دو نیکیاں جن کے لئے مقدر ہوں یہی ہے تقدیر الہی.یہ دکھ کی شکل میں آئیں یا آرام کی شکل میں آئیں دونوں طرح یہ حسن ہی حسن ہیں ان کے سوا تم ہمیں کچھ نہیں دے سکتے لیکن ہم جو تمہارے متعلق خطرہ رکھتے ہیں وہ اور ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عذاب کا خطرہ ہے.پس وہ لوگ وہ بیچارے بیوقوف اور جاہل جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے نام پر جو قو میں کھڑی ہوتی ہیں اور خالصہ اللہ دنیا کے مصائب برداشت کرنے کے لئے ایک غیر معمولی عزم اور حوصلہ پاتی

Page 249

خطبات طاہر جلد ۸ 244 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء ہیں اور وہ پاتی ہیں اس لئے کہ وہ خود ان کے اپنے کسی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ان کو یہ توفیق عطا ہوتی ہے ورنہ جن حالات کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے دنیا کی قوموں کو حوصلہ مل نہیں سکتا ان حالات میں.کوئی روشنی بظاہر دور دور تک دکھائی نہیں دیتی.نسلاً بعد نسلا اپنے آپ کو ، اپنے ماضی کو کمزوریوں میں سے گزرتا ہوا دیکھتی ہیں اور پھر آئندہ بھی دور تک ظلم کے سائے محیط دیکھتی ہیں.ایسے حالات میں حوصلہ رکھنا سوائے خدا کے فضل کے کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا.تو دراصل یہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کے حوصلے کو پست کر دیں گے جن کو خدا نے حوصلہ دیا ہے.پہلے ان کی کیا حالت ہے اور جو یہ سمجھتے ہیں اور اگر یہ ان کی نیت ہے کہ وہ ہمیں تکلیف دے کر یہ دنیا کو بتائیں کہ دیکھو ان کا مباہلہ الٹا پڑ گیا اور مباہلے کے بعد دیکھوان کو تکلیفیں پہنچائی ہیں ہم نے.انسان کی دی ہوئی تکلیفوں کو لعنت قرار دینے والے بہت ہی دنیا میں پرلے درجے کے احمق لوگ ہیں کیونکہ انبیاء کے مقدس گروہ کو ہمیشہ انسانوں نے تکلیفیں پہنچائی ہیں اور آخری وقت تک ان کو تکلیفیں پہنچتی رہی ہیں اور عذاب وہ ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہو اور اس کی نشانی یہ ہے کہ عذاب مٹادیا کرتا ہے قوموں کو.ان کو ذلیل ورسوا کر دیا کرتا ہے، ان کے حوصلے پست کر دیا کرتا ہے، ان کے دل شکست کھا جاتے ہیں مگر وہ قومیں جو خدا کے لئے ، خدا کی طرف سے ابتلاؤں میں ڈالی جاتی ہیں ان پر ان علامتوں میں سے ایک بھی صادق نہیں آتی.نہ ان کے سرنگوں ہوتے ہیں، نہ ان کے حوصلے پست ہوتے ہیں، نہ ان کے دلوں پر مایوسی کے سائے پڑتے ہیں.وہ انتہائی ظلمات کے وقت بھی اپنے دل سے ایک ابلتا ہوا نور دیکھتے ہیں اور اس نور سے وہ آگے بڑھتے ہیں اس کی روشنی میں وہ آگے چلتے ہیں.یہ وہ تقدیر ہے جو جماعت احمدیہ کی تقدیر ہے پہلوں نے بھی آزمایا تھا تم بھی آزمالو تمہاری اگلی نسلیں بھی آزماتی چلی جائیں مگر جماعت احمدیہ کی ترقی کو م نہیں روک سکتے.جماعت احمدیہ کا قدم ہمیشہ آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے.قربانی کے ہر میدان میں ہم لبیک کہیں گے.میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ جماعت کو اس موقع پر کیا ہدایت دوں؟ کیا وہ یہ ہدایت دوں کہ تم قانونی حق کو اختیار کرتے ہوئے پھر جو کچھ بھی ہے تم اپنا دفاع کرو اور خدا پر توکل رکھو اور ہر قسم کی ابتلاء کے لئے تیار ہو جاؤ یا یہ ہدایت دوں کہ تم ابھی صبر سے کام لو اور مزید صبر سے کام لو اور مزید صبر سے کام لو اور خدا کی رحمت کے امیدوار رہو جیسا کہ تم ہو اور دشمن جو کچھ کر سکتا ہے اس کو کر گز رنے دو.

Page 250

خطبات طاہر جلد ۸ 245 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء یہ فیصلہ تو جب بھی ہوگا میں جماعت کو مطلع کر دوں گا لیکن وہ آیات جو فرعون کے متعلق میں نے پڑھی ہیں ان کو پڑھنے کے بعد اور بعض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی روشنی میں سر دست میرا رجحان یہی ہے کہ میں جماعت کو مزید صبر کی تلقین کروں کیونکہ قرآن کریم میں بارہا فرعون کا ذکر تو ملتا ہے اور اس کے مظالم کا ذکر ملتا ہے لیکن کہیں بھی اس کے مقابل پر حضرت موسی“ کو اور آپ کی قوم کو دفاعی حق استعمال کرنے کی تلقین نہیں ملتی اس میں کوئی حکمت ہے.ہاں جب اس کے ظلم کے پنجوں سے حضرت موسیٰ اور آپ کے غلام آزاد ہو گئے تو پھر خدا نے ان کو بعض دفاعی حق دیئے بلکہ بعض دفعہ یہ حق ان پر فرض کئے گئے.اس لئے اگر یہ وہی دور ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں ذکر ملتا ہے تو پھر میرا رجحان اسی طرف ہے لیکن ابھی غور ہو گا، دعائیں ہوں گی ،مشورے ہوں گے اور جو بھی آخری فیصلہ ہوگا مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کا حامل ہوگا اور جماعت اس پر قائم رہے گی.میں یہ فیصلہ اس لئے نہیں کر رہا کہ مجھے جماعت کی طرف سے بزدلی کا خوف ہے ہر گز نہیں.میں احمدیوں کو خوب جانتا ہوں وہ میرے دل میں بس رہے ہیں ان کے دل کی سرسراہٹ میرے دل میں محسوس ہو رہی ہے.میں جانتا ہوں کہ یہ وہ وفادار ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کی یاد تازہ کرنے والے ہیں.آنحضرت ﷺ پر ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جیسا بعد میں یعنی فرعون کے ظلموں سے آزاد ہونے کے بعد حضرت موسی پر بھی آیا یعنی تلوار سے اپنے دفاع کی اور مقابلے کی اجازت دی گئی تھی.حضرت موسی“ پر جب وہ وقت آیا تو بد قسمتی امرد سے ان کی قوم نے آپ کو مخاطب کر کے یہ کہا یمُوسَى إِنَّا لَنْ نَّدْ خُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيْهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَاهُهُنَا قُعِدُونَ (المائدہ:۲۵) کہ تیرے خدا نے بے شک تجھے یہ پیغام دیا ہے کہ قوت کے ساتھ اس شہر میں داخل ہو جاؤ جو خدا تمہیں عطا کرنے والا ہے لیکن چونکہ وہ واقعہ کمزور تھے اور خدا کی تائید کی عظمت سے ناواقف تھے، ناشناسا تھے اس لئے انہوں نے ظاہر میں دیکھا کہ طاقتور قوم کے مضبوط قلعہ میں ایک کمزور اور بیابانوں میں صحرا نورد جماعت کو داخل ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے.ان کے قدم اس سے رک گئے اور انہوں نے جواباًیہ کہا کہ اے موسیٰ جا تو اور تیرا خدا لڑو ہم بیٹھ کے انتظار کرتے ہیں جب تم فتح پا جاؤ گے تو پھر ہمیں آواز دے دینا پھر ہم تمہارے پیچھے پیچھے شہر میں داخل ہو جائیں گے.

Page 251

خطبات طاہر جلد ۸ 246 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء ایک اسی قسم کا وقت جنگ بدر کے موقع پر حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں پر بھی آیا.اس وقت آنحضرت ﷺ نے بار بار جب صحابہ سے مشورہ مانگا اور آپ کی مراد یہ تھی کہ انصار مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں.تو مقداد بن اسوڈ نے آنحضور ﷺ کی خدمت میں یہ بات عرض کی اور یہ بات ایسی ہے جو ہمیشہ کی زندگی پاگئی ہے، انمٹ ہے.دنیا میں اور باتیں خدا اور رسولوں کی باتوں کے علاوہ مٹ جائیں مگر یہ بات کبھی نہیں مٹ سکتی.ایسی اس میں عظمت ، ایسی محبت، ایسی والہیت ، ایسا عشق، ایسی وفا ہے کہ اسلام سے وابستہ کوئی انسان کبھی اس کو بھول نہیں سکتا نہ بھلانے دے گا.انہوں نے عرض کیا لا نقول كما قال قوم موسى اذهب انت و ربك فقاتلا كه اے ہمارے آقا ہم ہرگز یہ نہیں کہیں گے جو موسیٰ کی قوم نے موسیٰ سے کہا تھا.اذهب انت و ربك فقاتلا جاتو اور تیرا خدا لڑتے رہو لڑتے پھرو.ہم کون ہیں، ہمارے جذبات کیا ہیں؟ انہوں نے عرض كيا ولكـنـانـقاتل عن يمينك و عن شمالك و بين يديك وخلفك ( بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر: ۳۹۵۲) اے ہمارے آقا ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، آپ کے بائیں بھی لڑیں گے، آپ کے آگے بھی لڑیں گے، آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن نہیں پہنچ سکتا آپ تک جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.سی وہ جواب تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو آپ کے انصار نے دیا تھا اور میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے سخت وقتوں کی طرف جماعت کو بلایا تو یہی وہ جواب ہے جو ساری جماعت مجھے دے گی کیونکہ میری اپنی ذات میں کوئی بھی حیثیت نہیں میں محمدمصطفی ﷺ کا پیغام ، آپ کے قرآن کا پیغام، آپ کی سنت کا پیغام پہنچانے کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور میں جانتا ہوں کہ جماعت احمدیہ آنحضرت ﷺ اور اللہ کے عشق میں ایسی مگن ہے اور ایسی وفادار ہے کہ جواب بعد میں آنے کی تو دور کی بات ہے یا دیر کی بات ہے.میں آپ کو ایک بات بتا تا ہوں جب میں نے یہ بات سوچی تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتا شہد کی ملکہ کوگھیر کر چاروں طرف سے سفر کر رہا ہوتا ہے اس وجہ سے ایک عجیب بھنبھناہٹ کی آواز آ رہی ہوتی ہے جو دل پر غیر معمولی اثر کرنے والی ہے.اس میں ایک قوت ہے، ایک شوکت ہے، ایک رعب ہے اور جس نے بھی وہ آواز سنی ہے اس سے مرغوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.میں نے جب یہ بات سوچی تو میرے گوشئہ تصور میں ، میرے روحانی

Page 252

خطبات طاہر جلد ۸ 247 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء کانوں نے تمام دنیا سے جماعت احمدیہ کی یہ بھنبھناہٹ سنی جو مجھے پیغام دے رہی تھی کہ لبیک لبیک یا سیدی لبیک.اے محمد مصطفی" کے غلام آپ کی غلامی میں جو تو ہمیں پیغام دے گا ہم تجھے یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس نام کی عظمت کی خاطر آگے بھی لڑیں اور پیچھے بھی لڑیں گے، دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور کوئی دنیا کی طاقت ہمیں نا کام اور نا مراد نہیں کر سکتی.آج بھی میرے آگے لڑنے اور میرے پیچھے لڑنے اور میرے دائیں لڑنے اور میرے بائیں لڑنے کا وقت نہیں ہے.کلمہ توحید کے آگے لڑنے اور پیچھے لڑنے اور دائیں لڑنے اور بائیں لڑنے کا وقت ہے.اس لئے میں نے آپ کو بار بار یہ سمجھایا کہ وہی آواز ہے جو پہلی آواز ہے.آج ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ تم کلمہ توحید سے اپنا تعلق تو ڑلو.آج ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ ہم سب آسانیاں تمہارے لئے پیدا کر دیں گے اگر تم یہ کہہ دو کہ خدا ایک نہیں ہے اور محمد رسول اللہ اس کے بچے رسول نہیں ہیں.پس یہ وہ پیغام ہے یہ محمد مصطفی کی عزت ہے، یہ تو حید کا مقام اور مرتبہ ہے ہم جس کے آگے بھی آج لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو اس لحاظ سے ہمیں شکست دے سکے.کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو ہمیں اور قدروں کو اس قدر پر ترجیح دینے پر آمادہ اور مجبور کر سکے.پس ہمارا جواب تو وہی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں کا جواب تھا اور پھر وہی جواب ہے جو ان نیک اور متقیوں کا جواب تھا جن کو جب فرعون نے ڈرایا تو انہوں نے یہ جواب دیا فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ جو کچھ کر سکتے ہو کر لو تم ہمیں نا کام نہیں کر سکتے.کوئی دنیا کی طاقت ہمیں ناکام اور نا مراد نہیں کر سکتی.اس کا دوسرا پہلو اب چونکہ وقت گزر چکا ہے، زیادہ ہو گیا ہے اس مختصر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ وہ آیات جو میں نے تلاوت کی تھیں میرے نزدیک ان کا جماعت کے اس دور سے گہرا تعلق ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں.ان آیات میں یہ نقشہ کھینچا گیا ہے کہ بعض خدا کے پاک بندوں نے جب ربنا اللہ کا دعوی بلند کیا تو بعض ظالموں نے ان کو گڑھوں میں اتارا یا ان کے اموال اور سامانوں کو اکٹھا کیا اور آ گئیں لگائیں اور تماشے دیکھے اور وہ شہید تھے اس بات کے گواہ تھے اور دیکھ رہے تھے اور مزے اُڑا رہے تھے.یہ جو واقعہ نکانہ صاحب میں گزرا ہے یہ بالکل اسی واقعہ کی یاد دلاتا ہے جو سر گودھا میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں گزرا تھا بالکل وہی نقشہ تھا اسی طرح پولیس

Page 253

خطبات طاہر جلد ۸ 248 خطبه جمعه ۱۴ راپریل ۱۹۸۹ء اور حکومت کے افسران اپنے سامنے احمدی گھروں کو جلوا رہے تھے اور پھر تماشے دیکھ رہے تھے تو قرآن کریم نے جو نقشے پرانی قوموں کے کھینچے ہیں اور پرانے متقیوں کے کھینچے ہیں ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جن پر وہ نقشے اطلاق پا رہے ہیں اور نکانہ صاحب کی جماعت وہ خوش نصیب جماعت ہے جو اس صدی کی پہلی جماعت ہے.چک نمبر 563 اور 565 کو بھی شامل کر لیں جو آئندہ صدی کے لئے جماعت کے عزم کا نشان بن گئے ہیں.کوئی دنیا کی آگ ان کو مغلوب نہیں کر سکتی یہ فیصلہ ہوا ہے اور یہ فیصلہ آئندہ صدیوں تک بھی محیط رہے گا لیکن ایک اور فیصلہ بھی ہے جس کا قرآن کریم نے اس سورۃ میں ذکر کیا ہے جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ خدا بھی گواہ ہے تم نہیں صرف اللہ بھی شہید ہے ان باتوں کا جو تم کر رہے ہو.وہ غالب بھی ہے اور رحم کرنے والا بھی ہے.وہ تمہیں موقع دے گا لیکن اگر تم نے ظلم کی تکرار کی تو یاد رکھو کہ خدا بھی تکرار کرنا جانتا ہے.فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ تم تکرار کرو گے تو خدا بھی تکرار کرے گا اور پھر دوہری آگ میں تمہیں جلائے گا اور دوہرے عذاب میں تمہیں مبتلا کرے گا.پس ہم تو کمزور اور نہتے اور بے بس اور فقیر لوگ ہیں.ایک وقت کے مسیح کی آواز پر ہم نے لبیک کہا اس لئے مسیحی علامتیں ہم میں پائی جاتی ہیں چاہے تم تکبر سے حقارت کی نظر سے ہمیں دیکھو اور سمجھو کہ ہم ذلیل ورسوا ہو چکے لیکن پھر بھی مقابل پر کچھ بھی نہیں کر رہے.یہی طعنے مسیح کی قوم کو بھی پہلے دیئے گئے تھے لیکن خدا کی تقدیر نے کچھ اور نظارے دکھائے.وہ کمزور اور مغلوب اور نہتے اور آگوں میں جلائے جانے والے اور ظالموں کے سامنے پھینکے جانے والے لوگ تمام دنیا پہ غالب کر دیئے گئے اور پھر وہ قو میں جنہوں نے ان سے سلوک کیا ان کو بار بار سزائیں دی گئیں.پس یہ وہ تقدیر ہے جس کا ذکران آیات میں ملتا ہے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس تقدیر الہی کوتم تبدیل نہیں کر سکو گے.دوبارہ آزمائش میں ڈالے گئے ، دوبارہ تمہیں موقعے ملے پھر تم نے وہی حرکتیں کیں جو پہلے کر چکے ہو اور خدا پھر تم سے وہی سلوک کرے گا جو ہمیشہ خدا کی تقدیر کو چیلنج کرنے والوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے اور غلطیوں کا اعادہ کرنے والوں سے سلوک کیا جاتا ہے.ہماری تو اب بھی یہی دعا ہے کہ اللہ تمہیں عقل دے اور سمجھ دے اور ہمارے پیارے وطن کے دن پھر جائیں اور بجائے اس کے کہ وہ خدا کی ناراضگی کے موجب ہونے والے ہوں اللہ کی رحمتوں کی بارش ہمارے اہل وطن پر نازل ہو اور برسیں.آمین

Page 254

خطبات طاہر جلد ۸ 249 خطبه جمعه ۲۱ را پریل ۱۹۸۹ء صد سالہ جوبلی کے سلسلہ میں ہونے والی تقریبات کا ذکر اور خدا کے فضلوں کا تذکرہ (خطبه جمعه فرموده ۲۱ را پریل ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ صد سالہ جشن تشکر کی جور پورٹیں دنیا کے مختلف ممالک سے موصول ہو رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی بہترین توقعات سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے جماعتی تقریبات کو اپنے فضل سے نوازا اور برکتیں عطا فرما ئیں.اگر چہ یہ رپورٹیں ابھی دنیا کے تقریباً1/10 ممالک سے ملی ہیں یعنی ایک اندازہ ہے، کم و بیش دسواں حصہ رپورٹوں کا موصول ہوا ہے اور باقی رپورٹیں کچھ بن گئی ہوں کچھ رستے میں ہوں گی لیکن تمام رپورٹوں میں بلا استثناء اس حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تقریبات کو اتنی مقبولیت عطا ہو گی اور اس کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کا پیغام تمام ملک ملک کے کونے کونے میں پہنچ جائے گا.ایک تعجب کی بات یہ ہے کہ جن جن ممالک میں ریڈیو موجود تھے یعنی ریڈیو کا نظام موجود تھا وہاں ہماری کوششوں کے بغیر ایک دم ریڈیو والوں نے رابطے پیدا کئے اور جہاں جماعتیں سمجھتی تھیں کہ ہماری آواز اس ملک کے اس حصہ میں پہنچ سکتی نہیں کیونکہ اس سے پہلے ان کا رویہ نہ صرف غیر دوستانہ تھا بلکہ بعض جگہ معاندانہ بھی تھا.تو ان کی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ ہم حیران رہ گئے کہ وہ ریڈ یو جو پہلے معاندانہ پراپیگنڈے میں خاص طور پر آگے اور نمایاں تھے انہوں

Page 255

خطبات طاہر جلد ۸ 250 خطبه جمعه ۲۱ را پریل ۱۹۸۹ء نے اچانک اپنا رویہ تبدیل کیا اور خود ہم تک پہنچ کر وہ پیغام لیا جوصد سالہ جو بلی کا میں نے اپنی آواز میں بھروایا تھا اور جماعت احمدیہ کے متعلق دوسری معلومات لے کر انہیں کثرت کے ساتھ نشر کرنا شروع کیا اور جہاں ٹیلی ویژن تھی وہاں خلاف توقع ٹیلی ویژن والوں نے کثرت کے ساتھ جماعت کے پروگرام نشر کئے اور پھر ایک ملک کے حصے سے دوسرے ملک کے حصے کے ٹیلی ویژنوں نے ان کو پکڑا اور پھر اس کو آگے پہنچایا اور تمام ملک کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں ٹیلی ویژنز موجود تھے وہاں ٹیلی ویژنز کے ذریعے جماعت کا پیغام پہنچا.ہندوستان کے متعلق خود قادیان کے پہلے اندازے یہ تھے کہ اتنا بڑا ملک ہے اور تقسیم کے بعد کیونکہ تناسب کے لحاظ سے جماعت کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے اس لئے ہمارا اس ملک سے کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے اور ہم دہلی سے درخواست تو کر رہے ہیں اور اسی طرح جالندھر والوں سے درخواست کر رہے ہیں لیکن ہمیں یہ توقع نہیں کہ ہم سے بھر پور تعاون ہو گا اس لئے ایک آدھ خبر میں بھی اگر ذکر آ جائے تو ہم ممنون ہوں گے.یہ تمہید باندھ کر انہوں نے یہ درخواست کی کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم لکھوکھہا روپیہ خرچ کر کے بعض ٹیلی ویژنز اور بعض ریڈیو اسٹیشنز کو اس بات پر آمادہ کریں کہ اشتہار کے طور پر ہمارا ذکر کر دیں.میں نے ان سے کہا کہ ایک پیسہ بھی اشتہار پر خرچ نہیں کرنا یا تو جماعت کا رسوخ ہو اور اس رسوخ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بعض ممالک کے متعلقہ شعبے تعاون کریں یا پھر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے.اشتہار بازی کے پراپیگنڈے کا میں قائل نہیں ہوں.چنانچہ ایک پیسے کی بھی میں نے ان کو اشتہار بازی کی اجازت نہیں دی لیکن جو واقعہ گزرا ہے وہ حیرت انگیز ہے.ہندوستان کے کونے کونے سے یہی خبریں مل رہی ہیں کہ ٹیلی ویژن والے خود پہنچے اور اتنی تشہیر کی اور بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پوری تصویر دکھائی گئی اور ایسے اچھے انداز میں ذکر ہوا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت جب یہ نظارے دیکھتی تھی تو زار زار خوشی سے روتی تھی کہ کہاں ہم اور کہاں ہماری کوششیں اور کہاں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کو ٹیلی ویژن پر دیکھتے تھے تو دل بلیوں اچھلتے تھے اور بے اختیار ہو جاتے تھے بچے ، بڑے، مرد، عورتیں سارے خوشی سے زور زور سے روتے تھے.کہتے ہیں ایسا نظارہ ہم نے دیکھا ہے کہ ساری زندگی میں وہم و گمان میں

Page 256

خطبات طاہر جلد ۸ 251 خطبه جمعه ۲۱ راپریل ۱۹۸۹ء بھی نہیں تھا کہ اتنی عظیم روحانی مسرتیں ہمیں نصیب ہوں گی.اور پھر ایک جگہ یہ واقعہ ہوا اس ٹیلیویژن نے دوسرے ٹیلی ویژن کو یہ اپنی فلمیں بھجوائیں انہوں نے ان کو دکھایا.پھر انہوں نے سنٹر میں بھجوائیں انڈیا کے دہلی میں اور دہلی سنٹرل ٹیلی ویژن یا نیشنل ٹیلی ویژن نے پھر ان نظاروں کو دکھایا اور سارے ملک میں اس کا چرچا ہوا اور یہاں تک کہ بمبئی میں جہاں کی جماعت کی تعداد بہت ہی مختصر، بہت ہی چھوٹی ہے اور بہت بڑا شہر ہے.ایک عظیم الشان شہر ہے.بمبئی کے بعض حصے تو یورپ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہروں کا مقابلہ کرتے ہیں اور بعض حصے اتنے پسماندہ ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت وہاں جانوروں سے نچلی سطح پر بس رہی ہے اور بے شمار انسان ہے جو کہ سڑکوں پر پھیلا پڑا ہے.وہیں رہتا ہے، وہیں سوتا ہے، وہیں جاگتا ہے، وہیں اپنی ضروریات پوری کرتا ہے.اس پہلو سے بھی وہاں کوئی حیثیت نہیں جماعت کی جہاں دس دس پندرہ پندرہ لاکھ کے جمگھٹ ہیں سڑکوں پر بسنے والے وہاں جماعت کا نام ہی نہیں پہنچ سکتا، کوئی سن ہی نہیں سکتا ان علاقوں میں جماعت کو رسائی نہیں ہے اور جہاں اتنی دنیاوی عظمتیں ہوں اور شانیں ہوں وہاں بھی جماعت کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی لیکن مجھے جو رپورٹ کل ملی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلسل تین دن تک ٹیلی ویژن پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر اور پھر میرا پیغام اور تصویر کے ساتھ پھر بار بار جماعت کے تذکرے، جماعت کے جو غیر معمولی کام ہیں بنی نوع انسان کی خدمت کے سلسلے میں، جماعت کے مقاصد کیا ہیں اور جماعت کے عقائد کا باقیوں سے فرق کیا ہے؟ کون سے اصول ہیں جن پر جماعت ہمیشہ سے قائم ہے؟ کیا کیا عظیم قربانیاں دیتی رہی ہے اور دیتی چلی جارہی ہے؟ یہ تمام باتیں بار بار دہرائی گئیں.تو یہ رپورٹیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ یہ خدا کے فضل کے ساتھ آسمان کی تحریک ہے انسانوں کا اس میں کوئی دخل نہیں.افریقہ کے بعض ایسے ممالک جہاں سوائے ہماری دشمنی کے اور کوئی پراپیگنڈا کرنے کی اجازت نہیں تھی ، جہاں ہمارے مبلغ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑتی تھیں ادنی سی بات کے اوپر ان کو جیلوں میں گھسیٹا جاتا تھا اور بہت ہی تکلیفیں دی جاتی تھیں ایسے بھی بعض ممالک ہیں افریقہ میں اور اچانک وہاں کا یا پلٹ گئی، فضا تبدیل ہوگئی اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن تو وہاں نہیں ہے غالباً لیکن ریڈیو اور اخبارات نے بہت نمایاں طور پر جماعت کی خبریں نشر کرنا شروع کر دیں.D:\Tabir Foundation\1989\2nd Proof 01 April 21-01-1989

Page 257

خطبات طاہر جلد ۸ 252 خطبه جمعه ۲۱ را پریل ۱۹۸۹ء یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ساری دنیا میں جو تحریک چلی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجے میں ہے.جماعت کی کوششوں کا اگر کوئی دخل ہے تو صرف اتنا کہ جماعت درمندانہ دعائیں کرتی رہی.سب سے پہلے تو میں آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تدابیر کو اختیار کرنا ہمارا فرض ہے، تدابیر کو حد امکان تک آگے بڑھانا اور کوشش کو اس کے منتہا تک پہنچا دینا یہ ہمارا فرض ہے لیکن تدبیروں میں سب سے اعلیٰ تدبیر دعا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم پر یہ نقطہ کھولا اور بار بار کھولا کہ دعا کو تدبیر سے الگ نہ کرو.دعا تد بیر کا حصہ ہے اور تدبیروں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ کی تدبیر دعا ہے.کیونکہ تدبیر کے نتیجے میں عام تدبیر کے نتیجے میں تقدیریں نہیں بدلا کرتیں لیکن دعا ایک ایسی تدبیر ہے کہ جو تقدیروں کو تبدیل کر دیا کرتی ہے.پس اس سے زیادہ اعلیٰ پایہ کی تدبیر مکن نہیں ہے جس کا براہ راست تقدیر الہی سے گہرا تعلق ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ جماعت کو یہی نصیت کی کہ تمام تدابیر میں دعا کی تدبیر کوسب سے زیادہ اہمیت دو اور اسلام کی عظیم الشان ترقی کا اور اسلام کے عظیم الشان غلبے کا یہی تجزیہ پیش فرمایا کہ یہ فانی فی اللہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے اسلام کے عظیم الشان غلبہ کا معجزہ دکھایا.پس آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے جو یہ غیر معمولی خدا کے فضلوں اور رحمتوں کے نظارے دیکھ رہے ہیں اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ گویا آسمان کی تقدیر ہم پر رحمتیں برسانے کے لئے جھک گئی ہے جس طرح کوئی رحمت کی گھٹا آتی ہے اور جب وہ پانی سے بوجھل ہو جاتی ہے تو زمین کی طرف جھک جاتی ہے.بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ آسمان سے بادل اتر آئے ہیں اور ہمارے گھروں میں داخل ہو گئے ہیں.پس یہ وہ دور ہے جس میں ہم نے خدا کی رحمت کو اس طرح گھٹاؤں کی طرح اور بوجھل گھٹاؤں کی طرح اپنے اوپر اتر تے دیکھا ہے اور ہر ملک میں جماعت احمد یہ یہی مشاہدہ کر رہی ہے اور یہی جو نظارے ہیں یہ خالصہ دعاؤں کے نتیجے میں ظاہر ہوا کرتے ہیں اور دعاؤں کی مقبولیت کا نشان ہوا کرتے ہیں.پس اس اصل کو اس بنیاد کو کبھی بھی بھلانا نہیں ہے اور اس اصل اور اس بنیاد سے کبھی ٹلنا نہیں ہے.ہمارا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے.اس ضمن میں میں اہل پاکستان کو بھی متوجہ کرتا ہوں.ان کو بھی جو دوست ہیں اور ان کو بھی

Page 258

خطبات طاہر جلد ۸ 253 خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۸۹ء جود شمن ہیں.کہ تم دنیاوی تدابیر سے ہماری شکست کے خواب تو دیکھ سکتے ہو لیکن وہ بھی درست نہیں وہ بھی پورے نہیں ہوں گے کیونکہ مومن کی فراست کی تدابیر تمہاری تدابیر پر غالب آنے کے لئے مقرر کی گئی ہیں.مومن کی فراست والی تدابیر پر تمہاری تدابیر کو غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا لیکن یہ وہم تو پھر بھی تم اپنے دل میں رکھ لو پال لو کہ طاقتور تدابیر کے ذریعے تم ہماری تدابیر کو نا کام بناؤ گے لیکن اپنی تدابیر کے ذریعے تم خدا کی تقدیر کو کیسے نا کام کر سکتے ہو؟ بالکل بے بس اور بے اختیار ہو کر رہ گئے ہو تم آج.کوئی تمہاری پیش نہیں جاتی.زیادہ سے زیادہ تیر جو تم نے مارا ہے وہ اہل ربوہ کی خوشیاں ان کے دلوں سے نوچنے کی کوشش کی ہے.اب تمہارے دل گواہ ہیں کہ تم اس میں ناکام رہے ہو.جو آگ لگی ہے، وہی آگ بھڑ کی ہے ننکانہ صاحب اور بعض دوسری جگہوں پر.وہ آگ گواہ ہے کہ خدا کی قسم تم نا کام کر دیئے گئے اور نا مراد بنا دیئے گئے ہو.کوئی تدبیر تمہاری کامیاب نہیں ہوئی اور اہل ربوہ کو میں یہ کہتا ہوں کہ جب تم یہ نظارے دیکھو گے کہ تمام دنیا سے اکٹھے ہو کر تمہارے لئے پیش کئے جائیں گے تو وہ تھوڑا سا غم جو تمہارے دل کو لگا تھا تم اس کو بھی بھلا دو گے اور خدا کے حضور شکرانے کے آنسو برساؤ گے کہ اے خدا ہمارے دل میں اگر شکوے کی میل آئی بھی تھی تو ہمیں معاف فرما دے اس کثرت سے تم نے فضل فرمائے ہیں اور اس کثرت سے فضل فرما تا چلا جارہا ہے کہ اس راہ میں ایک چھوٹا سا کانٹا جب جائے تو اس پر انسان شکوے لے کر بیٹھ جائے اور منہ بسور کے کہے کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہو گیا؟ ہم نے اتنی دیر تیاری کی تھی، ہمارے قمقمے نہیں جل سکے، ہماری جھنڈیاں نہیں لگائی جاسکیں وہ کیا صدمہ ہے؟ ان خوشیوں کو دیکھو جو سارے عالم پر محیط ہو گئی ہیں.ان کا میابوں کو دیکھو جو جماعت کو دنیا کے ہر ملک میں کونے کونے میں نصیب ہو رہی ہیں.جن کی تفاصیل کا بتانے کا تو یہ وقت نہیں ہے اور کچھ تو انشاء اللہ ویڈیوز اور ریسٹس کی صورت میں اور بڑے خوبصورت رسالوں کی صورت میں اور کتابوں کی صورت میں جماعت تک پہنچیں گی لیکن میں ایک چھوٹی سی جھلکی آپ کو بتاتا ہوں.ایک اور جھلکی بتا تا ہوں یعنی دکھاتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح جماعت کے دل ان نظاروں کو دیکھ کر خدا کے حضور جذبہ تشکر سے جھکتے تھے اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے شکر کے آنسو بہتے تھے.کینیڈا میں جو مرکزی تقریب ہوئی جشن تشکر کے سلسلے میں وہاں ایک تو پرائم منسٹر کا پیغام بھی سنایا گیا دوسرے بڑے بڑے لوگ حاضر ہوئے اور بڑی فراخدلی کے ساتھ جماعت کی عظمتوں کا

Page 259

خطبات طاہر جلد ۸ 254 خطبه جمعه ۲۱ راپریل ۱۹۸۹ء اقرار کیا لیکن جو سب سے زیادہ جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والی بات تھی وہ یہ تھی کہ ایک وزیر نے مڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کو دیکھا اور آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے آج سے ایک سو سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا آج میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ شخص سچا تھا اور واقعہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات پوری ہو گئی اور ایک شخص نے کہا کہ غالباً وہ وزیر تھایا کوئی اور نمائندہ اس نے کہا کہ تم آج کی ایک صدی کے آخر پر تو دیکھ رہے ہو کہ کیا ہو رہا ہے دنیا میں مگر تم اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ اگلی صدی کے آخر پر خدا تعالیٰ کے کتنے فضل تمہارے انتظار کر رہے ہوں گے.ایسے واقعات ایک ملک میں نہیں ہوئے ملک ملک میں ، دیس دیس میں خدا کے فضل اسی طرح نازل ہوئے ہیں اور غیروں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تحریک کے تابع ، اس کے فرشتوں کی تحریک کے تابع جماعت احمدیہ کی عظمت اور اسلام کی عظمت اور سر بلندی کا اقرار کیا ہے.پس یہ ساری خبریں جب اکٹھی ہوں گی تو ایک وقت میں تو بتائی بھی نہیں جاسکتیں اور ایک وقت میں ہمارے دل برداشت نہیں کر سکتے.پتا نہیں کتنے سال تک اس کے تذکرے اور چلنے ہیں لیکن ابھی تو یہ آغاز ہے اور میں آپ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے جشن کے چند دن نہیں تھے ایک پورا سال ہم نے ان جشنوں کو منانے کا مقرر کیا ہے ایک جشن نہیں ہے بے شمار جشن ہیں.گزشتہ سو سال کا ہر سال ایک جشن کا پیغام لے کر آیا تھا.کون سا ایسا سال ہے جس میں آپ نے اللہ کے فضلوں کے نظارے نہیں کئے ، کون سا ایسا سال ہے جو شکر کے لئے اپنی طرف متوجہ نہیں کر رہا.پھر ہر سال کے مہینے تھے ہر مہینے میں خدا کے فضل نازل ہوتے دیکھے گئے.پھر ہر مہینے کے ہفتے تھے اور ہر ہفتے کے دن اور پھر راتیں.کوئی ایک لمحہ بھی ان دنوں ان راتوں ان ہفتوں، مہینوں اور ان سالوں کا ایسا نہیں جس میں خدا تعالیٰ نے جماعت کے اوپر اپنے احسانات اور فضلوں کی بارشیں نہ برسائی ہوں.تو ایک جشن تو نہیں ہے.یہ تو انگنت جشن ہیں جو ہم نے منانے ہیں اور اس سال کے اندر جو ہم نے پروگرام بنائے ہیں وہ ان عظیم جشنوں کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے لیکن وہ پروگرام بھی جو ان جشنوں کے مقابل پر ان جشنوں کا حق ادا کرنے کا جہاں تک تصور ہے ان کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں اتنے ہیں کہ جماعت کو ان کو منانے کے لئے پوری ہمت درکار ہوگی، بڑی محنت کرنی

Page 260

خطبات طاہر جلد ۸ 255 خطبه جمعه ۲۱ راپریل ۱۹۸۹ء پڑی گی ، منصوبے بنانے ہوں گے، کوششیں کرنی ہوں گی.یہ چند دن کی بات نہیں ہے سارا سال ابھی ہمارے کام باقی ہیں اور جس طرح ہم نے دنیا کے سامنے جماعت کے حالات پیش کرنے ہیں اس کے منصوبے بھی بڑی دیر سے تیار ہوئے ہیں اور ان کے اوپر عمل درآمد ہورہے ہیں.کچھ حصے ایسے ہیں جن پر عمل مکمل ہو گئے کچھ حصے ہیں جن پر دوران سال عمل ہوتے رہیں گے لیکن جس جس حصے کو بھی مکمل کیا جائے گا اس کے ساتھ جماعت کے کام کا آغاز ہوگا اور ایسا کوئی کام نہیں ہے جو کمل ہو تو اختتام کو پہنچے.ہر کام اس رنگ کا ہے کہ جب وہ مکمل ہوگا تو کام کا آغاز کرنے والا ہوگا مثلاً ایک سو سے زائد زبانوں میں جو قرآن کریم کے تراجم کئے گئے مکمل یا بعض حصوں کے ، تقریباً ایک سو اٹھارہ زبانوں تک تو بات پہنچ چکی ہے.ابھی اور بھی کوشش کر رہے ہیں اسی طرح احادیث نبویہ کے تراجم اتنی ہی زبانوں میں کئے گئے یا کئے جارہے ہیں اور اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے جو تراجم ہیں ان کا ابھی ایک حصہ جماعتوں تک پہنچ سکا ہے اور باقی جیسے کہ کہا جاتا ہے پائپ لائن میں ہے یعنی ابھی یا تو پریس میں جاچکا ہے یا آخری اس کی نوک پلک درست کرنے والی باقی تھی اس کی طرف توجہ کی جارہی ہے.خواہش اور کوشش تو یہی تھی کہ ۲۳ / مارچ تک یہ کام مکمل ہو جائیں اور جماعتیں اپنے ہاں نمائشوں میں ان کو سجا سکیں لیکن بہت سی مشکلات در پیش تھیں.ایک سو بیس ممالک کی ایک سو بیس زبانوں میں یا چند اس سے کم ممالک کی ایک سو میں زبانوں میں تراجم کرنا اس کے لئے مناسب آدمی تلاش کرنا پھر ترجمے کی یعنی مضمون کی عظمت کے لحاظ سے جو احتیاطیں ضروری ہیں ان کو اختیار کرنا، بار بار دہرائی کرنا اور عالم تلاش کر کے ان سے رائے معلوم کرنا بہت بڑا کام ہے اور بعض جگہ اور بھی ایسی مشکلات درپیش تھیں جن کے اوپر ہمارا کوئی اختیار نہیں تھا مثلاً افریقہ کی بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن کو پرنٹ کرنے کا کوئی انتظام نہیں اور ایک ایک لفظ کو خود اپنے ہاتھ سے کاغذ پر اتارنا پڑتا ہے یا نقش جمانا پڑتا ہے.پھر ماہرین بہت کم ہیں ان زبانوں کے.بعض زبانوں میں تو بہت ہی محنت کے بعد مشکل سے کوئی ماہر ملا.پھر جماعت کا کوئی ایسا شخص ڈھونڈنا پڑتا ہے جو صاف لکھے یہ احتیاط کرے کہ ترجمے میں غلطی نہ کر رہا ہو کوئی اور پھر اس کے بعد اس کی کتابت کے مسائل پھر آگے پریس نہیں ملتا.پریس والے کہتے ہیں ان حروف کو چھاپنے کے لئے ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں ہے.کئی قسم کی

Page 261

خطبات طاہر جلد ۸ 256 خطبه جمعه ۲۱ راپریل ۱۹۸۹ء وقتیں ہیں لیکن بہر حال اللہ کے فضل سے یہ دقتیں حل ہوئیں اور ہورہی ہیں.۲۳ / مارچ تک تو ہم اس کام کا 113 حصہ بھی جماعت تک نہیں پہنچا سکے لیکن یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ کام ہو چکے ہیں.جو وقت طلب اور دقت طلب باتیں تھیں وہ حل ہو چکی ہیں.اب صرف آخری چھپنے کی رسوم باقی رہ گئی ہیں.وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیزی کے ساتھ جاری ہیں اور اگلا قدم جو ہے بھجوانے کا وہ بھی کافی دقت والا قدم ہے اور کافی خرچ چاہتا ہے.شپمنٹ اگر بھجوائیں تو اس میں بعض ممالک میں تین تین مہینے لگ جاتے ہیں.اگر ہوائی جہاز کو استعمال کیا جائے تو جتنی کتا بیں ہم بھجوانا چاہتے ہیں اس کے اخراجات بہت زیادہ اٹھتے ہیں.بعض جگہ طباعت سے بڑھ کر اس کے اخراجات آجاتے ہیں.یہ ساری دقتیں ہیں ان کو لوظ رکھ کر بعض فیصلے کرنے پڑتے ہیں.کہیں وقت کو قربان کر کے پیسے بچائے جاتے ہیں کہیں پیسے قربان کر کے وقت بچایا جاتا ہے لیکن با قاعدہ پوری ہوش مندی کے ساتھ جہاں تک اللہ تعالیٰ نے عقل عطا فرمائی ہے یا ہمت عطا فرمائی ہے ہم اس کام پر مستعدی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور میں جماعتوں کو مطلع کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس سال کے آخری حصے تک یہ سارا کام مکمل ہو چکا ہوگا لیکن جو کتابیں آپ تک پہنچ رہی ہیں ان کے متعلق آپ ساتھ ساتھ کام شروع کر دیں اور انتظار نہ کریں کہ یہ کمل ہو تو پھر آپ نمائشیں لگائیں.کیونکہ سارا سال آپ نے کثرت کے ساتھ دوستوں کو یہ کام دکھانے ہیں اور اختتام تک اگر آپ نے تکمیل کا انتظار کیا تو پھر سال کا اکثر حصہ آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا اور یہ ایسا کام نہیں ہے جس کو ایک دم ہزار ہا آدمیوں کو دکھایا جا سکے.یہ کام ایسا ہے جو مستقل مسلسل محنت چاہتا ہے اور ہر ہفتے جماعت کو کام کرنا ہوگا اور اس کے لئے با قاعدہ گروہ بندیاں کرنی ہوں گی ، چھوٹے چھوٹے طبقوں میں ان لوگوں کو تقسیم کرنا ہو گا جن کو آپ نے یہاں بلانا ہے اور جن کو جماعت کے کاموں سے متعارف کروانا ہے.پھر ان کے ساتھ رابطے پیدا کرنا ، ان کو دعوتیں دے کر سارے سال کا پروگرام بنانا اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے ان کے ساتھیوں کی دیکھ بھال، آؤ بھگت کے لئے ٹیمیں مقرر کرنا، ان مشہور ہستیوں کے لئے جو اس موقع پر آپ سے تعاون کرتی ہوئی خوشی سے آنا قبول فرما ئیں ، ان کے لئے مناسب پبلسٹی کا انتظام کرنا.بعض ایسے لوگ بھی آئیں گے جن کے اوپر خود ٹیلی ویژن چاہے گی کہ ہمیں وقت پر اطلاع دی جائے تا کہ ہم حاضر ہوں.تو اسی طرح ریڈیو والے بھی ہوں گے ، اخبار جن کو کور کرنا چاہیں گے، ایسے لوگ

Page 262

خطبات طاہر جلد ۸ 257 خطبه جمعه ۲۱ را پریل ۱۹۸۹ء بھی ہوں گے.بہت بڑا کام پڑا ہوا ہے.اس کے علاوہ ایک کام ایسا ہے جس کے متعلق پہلے بھی میں نے متوجہ کیا تھا لیکن ابھی تک عام ممالک سے جوا طلا ئیں آ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغام پوری طرح سمجھا نہیں گیا.میں نے یہ کہا تھا کہ ہر ملک میں دنیا کے بہت سے ممالک کے نمائندے موجود ہیں اور جب آپ کو ایک سو اٹھارہ یا اس سے زائد زبانوں میں اسلام کے متعلق لٹریچر مہیا کیا جاتا ہے صرف یہ تین چیزیں ہیں جو میں نے بیان کی ہیں اور بھی کثرت کے ساتھ لٹریچر ہے جو بھجوایا جارہا ہے اور کوشش یہ ہے کہ ان نمائشوں میں دنیا کی تمام اہم زبانوں سے متعلق اسلام کا پیغام پہنچایا جا سکتا ہواور مختلف مضامین پر ان میں جو کچھ بھی سلسلے کا لٹریچر شائع ہوا ہے پہلے یا اب ہو رہا ہے وہ مہیا کیا جائے.تو ایک بہت بڑی نمائش بن جاتی ہے.اب اس کو آپ اگر صرف نمائش کے طور پر رکھ لیں اور ایک ملک کے لوگوں کو دکھائیں جس ملک میں آپ رہتے ہیں تو باقی زبانوں سے تو ان کو دلچپسی بھی کوئی نہیں ہوگی وہ صرف ایک تحسین کے رنگ میں نظر ڈال لیں گے اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہو گا لیکن آپ کا کام ہے کہ تلاش کریں کہ مختلف زبانیں بولنے والے کون سے طبقات آپ کے ملکوں میں رہتے ہیں.Ambassies ہے مثلاً ، تاجر ہیں بہت سے ممالک کے جو مختلف ممالک میں اپنی اغراض کی خاطر پہنچے ہوئے ہیں وہاں انہوں نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں.ان لوگوں سے رابطے کرنا اور رابطے کے وقت ان کی اپنی زبان کے تحفے ان کی خدمت میں پیش کرنا اور ان کو بتانا کہ دیکھیں آپ کی زبان کو بھی ہم نے کور کیا ہے.اس سے طبیعتوں میں بہت خوشی پیدا ہوتی ہے.چنانچہ جہاں جہاں بھی حکمت کے ساتھ جماعت نے یہ تجربے کئے ہیں ان کی رپورٹیں بڑی خوشکن موصول ہو رہی ہیں.عام طور پر رشیا کو جماعت احمدیہ کے متعلق کوئی خاص واقفیت نہیں ہے.بہت ہی کم ہے اگر ہے تو.لیکن ہر جگہ سے یہ رپورٹ ملی ہے کہ جہاں بھی ہم نے رشین قرآن کریم یعنی رشین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ پیش کیا وہاں ایمبیسی کا سٹاف تھا یا تاجر تھے انہوں نے حیرت انگیز خوشی کا اظہار کیا اور نہ صرف یہ کہ مطالبہ کیا اور تراجم کا بلکہ خود خواہش ظاہر کی کہ ہمیں بھی بلا ؤوہاں اور دکھاؤ کیا کیا کچھ ہو رہا ہے.اسی طرح ایسٹرن یورپین ممالک کے متعلق بھی اسی قسم کی اطلاعیں مل رہی ہیں کہ ایسے ایسے ممالک جہاں جماعت کا کبھی تذکرہ ہی نہیں ہوا تھا کبھی مثلاً بلغاریہ ہے اور ویسے بھی وہ مسلمانوں کے

Page 263

خطبات طاہر جلد ۸ 258 خطبه جمعه ۲۱ ر ا پریل ۱۹۸۹ء شدید مخالف ہے ریاست کے طور پر لیکن وہاں جب جماعت کی خبر پہنچی اورلٹریچر دکھایا گیا تو ایمبیسیڈر صاحب نے خود خواہش کا اظہار کیا کہ آپ کے مبلغ مجھے آکر ملیں میں تو حیران رہ گیا ہوں یہ دیکھ کر اور جب وفد گیا تو اس ملاقاتوں کے نتیجے میں انہوں نے خود اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ تو ایسی عظیم الشان چیز ہے کہ ہم پسند کریں گے کہ ہمارے ملک میں کثرت سے اس کا تعارف کروایا جائے اور ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں کہ وہاں عوام تک یہ بات پہنچے.تو کوشش باقی ہے ابھی اور بڑی تفصیلی کوشش باقی ہے.جو پہلی محنت ہے وہ اگلی کوشش کے لئے ایک غذا کے طور پر ہے اور اصل کام یعنی اس محنت کو آگے پہنچانا اور اس سے استفادہ کرنا یہ سارا ابھی باقی پڑا ہوا ہے.بعض مبلغ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہیں کہ ان کو ایک دفعہ جب بات پہنچ جائے تو وہ پھر اس کو فراموش نہیں ہونے دیتے اور بعض ایسے ہیں جو فراموش تو نہیں کرتے لیکن رسمی طور پر اس کا حق ادا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو آیت ہے قرآن کریم کی لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: ۲۸۷) اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی توفیق تو پہلے ہی چھوٹا سمجھ لیں اور پھر یہ کہیں کہ ہماری تو توفیق ہی اتنی تھی.جب ان سے پوچھا جائے کہ میاں یہ کام آپ نے کیوں نہیں اس حد تک کیا تو کہتے ہیں دیکھیں ہماری توفیق جتنی تھی وہ ہم نے کر دیا.اس سے بڑھ کر تو خدا بھی ہمیں مکلف نہیں کرتا آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ لیکن یہ تو درست ہے کہ جسے خدا مکلف نہیں کرتا اسے بندہ کہاں مکلف کر سکتا ہے لیکن خدا نے جو توفیق دی ہوئی ہے جماعت احمدیہ کو اسے چھوٹا سمجھنا بہت ہی بڑی بیوقوفی ہے.بہت عظیم الشان توفیقیں عطا فرمائی ہیں.اس سے پہلے بھی میں نے یہ مضمون کھولا تھا جب حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ کو جب آپ تنہا تھے ، ایک تھے یہ فرمایا گیا کہ ساری دنیا کو تم نے فتح کرنا ہے اور ساری دنیا کے دل جیت کے میرے قدموں میں ڈالنے ہیں.تو کیا اس وقت یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا کا مضمون کہاں خدا بھول گیا ؟ ایک شخص کے نازک کندھوں کے اوپر یہ بوجھ ڈال رہا ہے کہ آج کی دنیا نہیں بلکہ ساری دنیا، رہتے وقتوں تک کی دنیا کے لئے تم نے یہ سارا کام کرنا ہے لیکن خدا جانتا تھا کہ محمد مصطفی ﷺ کو توفیق ہے اور آپ کی توفیق کا راز یہ ہے کہ وہ بڑھنے والی توفیق ہے، پھیلنے والی توفیق ہے، کام کے ساتھ ساتھ آگے آگے چلتی چلی جاتی ہے اور جتنا اس تھیلی میں ڈالو اتنا ہی وہ وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے.کہانیوں میں تو آپ نے سنا ہوا تھا کہ عمر و عیار

Page 264

خطبات طاہر جلد ۸ 259 خطبه جمعه ۲۱ راپریل ۱۹۸۹ء کی ایک زنبیل ہے جس میں جتنا ڈال دو وہ سمیٹ لیتی ہے لیکن بالکل جھوٹ ہے ایسی کوئی چیز نہیں لیکن ہاں ایک ایسی چیز ضرور ہے جس کے متعلق ہرایسا تصور سچا ثابت ہوتا ہے اور وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی قلبی، روحانی اور عملی وسعتیں ہیں.تمام دنیا کے بوجھ اللہ تعالیٰ ان پر ڈالتا چلا گیا اور آپ کی توفیق بڑھتی چلی گئی اور آج بھی جو جماعت احمدیہ کی توفیق ہے وہ وہی توفیق ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تو فیق تھی اور ہے اور ہمیشہ رہے گی.اتنی عظیم تو فیق کو چھوٹا سمجھ لینا یہ بہت بڑی بیوقوفی ہے اور میرا تجربہ ہے بالکل ایسے لوگ جو معمولی حیثیتوں کے لوگ ہوں اور بظاہران سے کوئی تو قعات نہ ہوں جب وہ خدا کا نام لے کر خدا پر تو کل کرتے ہوئے عظیم کا موں پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ عظیم کام ان کے لئے آسان ہونے لگ جاتے ہیں.پس ہر مبلغ کو، ہرا میر کو اور ہر کارکن کو خواہ وہ عہدیدار ہو یا نہ ہواس تو فیق کو پیش نظر رکھ کر کام کرنا ہو گا.اس کو اپنی عظمت کا احساس چاہئے ورنہ اس کی توفیقیں ضائع چلی جائیں گی.بعض ایسے مبلغ ہیں جو میں نے دیکھا ہے جن کو جب کوئی کام کہا جائے تو اپنا بنا لیتے ہیں.میری فکر ان کی فکر ہو جاتی ہے.وہ ایسے مبلغ ہیں جن کے لئے بے اختیار دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت بھی بہت ڈالتا ہے اور وہ کوئی چیز بھولتے نہیں ہیں.اصل کام کرنے کا طریق یہ ہے کہ جب آپ ایک پیغام سنیں تو اس پیغام کو اپنی فکر بنالیں.یہ طریق ہم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ سے ہی سیکھا ہے.اس حد تک آپ اگر فکروں کا لفظ خدا کے لئے بولا جاسکتا ہے تو خدا کی فکروں کو اپنی فکریں بنا لیتے تھے کہ خدا کو یہ فکر ہو جاتی تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ اس فکر میں اتنے کیوں غلطاں ہو گئے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء: ۴) میں یہی تو پیغام ہے.خدا نے ایک کام سپرد کیا وہ ایسا اپنے دل کو لگا لیا کہ اس پیغام میں گھلنے لگے، دن رات اس غم میں اپنے نفس کو ہلاک کرنے لگے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے کہا تو تھا کہ یہ کام کر لیکن اتنا تو نہ کر کہ اپنے نفس کو خطرے میں ڈال لے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ کیا تو اپنے نفس کو ہلاک کر لے گا.أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ بعینہ وہی بات ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.یہ بوجھ ڈالا گیا کہ ساری دنیا کو مومن بنانا ہے اور اس قدر دل کو لگالیا، چمٹا لیا اپنی ذات سے، اپنے وجود کا حصہ بنالیا اس فکر کو کہ جب دیکھتے تھے کہ انکار کرتے ہیں

Page 265

خطبات طاہر جلد ۸ 260 خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۸۹ء تو اس غم میں گھلنے لگ جاتے تھے کہ میں تو اپنی طاقت کے مطابق جتنا مجھے کرنا چاہئے تھا نہیں کر رہا یہ احساس پیدا ہوتا تھا اور خدا بتاتا تھا کہ کر رہا ہے تو.تو اپنی حد استطاعت تک پہنچ چکا ہے ہرگز فکر نہ کر.یہ ہے رنگ کام کرنے کے اس طرح اگر جماعت کام کرے تو آج جو ہماری توفیق ہے یہ اس سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور بہت زیادہ پھیل جائے گی اور آپ کی توفیق کی وسعتوں کے لحاظ سے آپ کو وسعتیں عطا ہوتی ہیں.آپ کی ہمتوں کی بلندی کے لحاظ سے آپ کو سر بلندی نصیب ہونی ہے اس لئے اس سال اپنی توفیق کو بڑھانے کے پروگرام بنائیں.ہرگز یہ وہم نہ کریں کہ آپ چھوٹے ہیں تھوڑے ہیں کام بہت زیادہ ہے.آپ کا موں پر ہاتھ ڈلیں اور کام آسان ہوتے چلے جائیں گے.نئی نئی راہیں کھلتی چلی جائیں گی نئی ہمتیں آپ کو عطا ہوتی چلی جائیں گی.یہ جو میں نے ایک دفعہ اعلان کیا تھا کہ مختلف ممالک کے لوگ آپ کے ہاں بستے ہیں ان تک پہنچنے کا انتظام کریں.اب تک میں نہیں جانتا کہ کن کن ممالک میں سنجیدگی سے یہ کوششیں کی گئی ہیں مگر ایک ایسے مبلغ ہیں جن کے متعلق میں جانتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے وہ ہمیشہ میری فکر کو اپنی فکر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ امام کمال یوسف صاحب ہیں.بعض ایسی باتیں ہیں جو بعض دفعہ میں بھول بھی چکا ہوتا ہوں اور جب ان کی رپورٹ آتی ہے تب مجھے یاد آتا ہے کہ ہاں میں نے چار سال پہلے یہ بات کی تھی لیکن اس شخص نے بھلائی نہیں.اس طرح سارے مبلغوں کو کام کرنا چاہئے.اس میں رقابت کی بات نہیں ہے.جس مبلغ کی جو خوبی ہے اللہ کے فضل سے میری اس پر نظر رہتی ہے اور میں اس کا احسان مند رہتا ہوں، اس کے لئے دعا کرتا ہوں.میں مقابلے کی خاطر نہیں آپ کو بتا رہا، میں آپ کو بتارہا ہوں کہ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو بہت ہی زیادہ مجھے پیاری ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ خدا کو بھی بہت پیاری ہے کیونکہ یہ خوبی سب سے زیادہ محمد رسول اللہ ﷺ میں موجود تھی.اس لئے ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کی اس خوبی پر محبت اور پیار سے نظر نہ پڑتی ہو.آپ سب اس خوبی کو اپنا ئیں.جو فکریں آپ کو جماعت احمدیہ کے امام کی طرف سے جو بھی ہوں، ہلتی ہیں.ان فکروں کو اپنی بنالیا کریں، ان فکروں میں غلطاں رہا کریں یہ سوچا کریں کہ کس طرح ہم نے ان باتوں کو پورا کرنا ہے.پھر دیکھیں کہ کتنی آپ کو عظمتیں نصیب ہوں گی کتنی برکتیں ملیں گی اور کس تیزی کے ساتھ جماعت ہر سمت میں ہر جہت میں پھیلتی چلی جائے گی.انہوں نے ابھی حال ہی میں مجھے ایک تفصیلی

Page 266

خطبات طاہر جلد ۸ 261 خطبه جمعه ۲۱ راپریل ۱۹۸۹ء رپورٹ اس بات کی بھجوائی یعنی کمال یوسف صاحب نے آجکل کیونکہ سویڈن میں چونکہ وہ مقرر ہیں کہ سویڈن میں دنیا کی مختلف قومیتیں کتنی کتنی آباد ہیں اور اس کو پڑھ کر میں حیران ہو گیا.مجھے بھی نہیں اندازہ تھا کہ چھوٹے سے ملک میں جو عموماً غیر ملکیوں کو پناہ دینے کی پالیسی کو پسند نہیں کرتا.سوائے چند یورپین ممالک کے عموماً سویڈن کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ غیر ملکی یہاں نہ بس سکیں لیکن وہاں بھی اس کثرت سے دوسری قومیں آباد ہیں مختلف عرب ممالک کے نمائندے، افریقن ممالک کے نمائندے، مشرقی یورپ کے نمائندے، مشرق بعید کے نمائندے ، بعض سینکڑوں میں ، بعض ہزاروں میں ، بعض لاکھوں میں موجود ہیں.پاکستان کے لوگ ہیں، افغانستان کے لوگ ہیں.اب اس پر مجھے خیال آیا کہ جب ہم نے مطالبے کئے تھے کہ آپ بتا ئیں آپ کو مختلف زبانوں میں کتنا کتنا لٹریچر چاہئیے ؟ تو جو جواب آیا اسی سے اندازہ ہو گیا کہ کتنی ہمت ہے.وہ زبان جو ان کے ملک میں بولی جاتی ہے بعض نے اس کے متعلق بھی اتنا چھوٹا مطالبہ کیا کہ حیران رہ گیا میں.میں نے کہا آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ ہم کہتے ہیں آپ زیادہ مانگیں اور آپ تھوڑا سا مانگ کر ہمت ہار بیٹھے ہیں صرف اس لئے کہ کام کرنا پڑے گا.اب ہندوستان کے لئے پانچ ہزار کا مطالبہ کوئی بات ہے؟ یعنی اتنی کروڑ کی آبادی شائد اس سے بھی زیادہ ہوگئی ہو.اتنا عظیم الشان ملک اور وہاں مطالبہ یہ آرہا ہے جی آپ فلاں زبان ہمیں پانچ ہزار بھیج دیں اور فلاں زبان پانچ ہزار بھیج دیں اور فلاں دو ہزار بھیج دیں ہمارا گزارہ چل جائے گا.جس طرح غریب کہتا ہے چلو ایک روٹی کا سوال ہے بھوکے ہی سہی چلو گزارہ ہی کرنا ہے.تو گزارہ کیسا چلے گا؟ پیغام خدا تعالیٰ نے جو پہنچایا ہے وہ تو اسی کروڑ کو پہنچادیا اور طلب پیدا کر دی استی کروڑ کے دل میں اور آپ کی ہمت یہ ہے کہ دو ہزار، چار ہزار، پانچ ہزار دے دیں ہمارا کام چل جائے گا.کیسے چلے گا کام؟ ہمت بڑھا ئیں تقسیم کریں گے تو اور طاقت ہوگی پھر اور تقسیم کریں گے اور طاقت نصیب ہو گی.یہ وقت ایسا ہے کہ جہاں کروڑوں کی تعداد میں ہمیں اپنے لٹریچر کو غیروں تک پہنچا دینا چاہئے.تو طلب پیدا ہوگی تو اس طلب کی پیاس بجھانی چاہئے اور بڑی سعید روحیں ہیں جو صرف پیغام نہ پہنچنے کے نتیجے میں اندھیروں میں بھٹک رہی ہیں.بڑا ہی سیراب کن پیغام ہے، پیاسیں بجھانے والا پیغام ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا پیغام ہے.اسے مسیح موعود کی زبان سے آج ہم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں.

Page 267

خطبات طاہر جلد ۸ 262 خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۸۹ء پس بہت بڑے کام پڑے ہوئے ہیں اپنے اپنے ملکوں میں جائزے لیں اگر انگلستان کی جماعت انگلستان ہی کا جائزہ لے لے کہ یہاں کتنے لوگ موجود ہیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ ہم نے جو کہا ہمیں صرف چار نمونے بھیج دیں چینی ترجمے کے اور آٹھ بھجواد میں آپ جاپانی ترجمے کے ہمارا کام ہو جائے گا.کام کیسے ہو جائے گا ؟ لاکھوں ہیں ایسے لوگ یہاں جو چینی زبان کے جاننے والے، جاپانی زبان جاننے والے ، دوسری زبانوں والے موجود ہیں اگر ان سے آپ رابطے پیدا کرنے شروع کریں، ان کو معزز مہمانوں کے طور پر اپنی نمائشوں میں بلا نا شروع کریں، ان کی ایک فہرست تو بنائیں کم سے کم.پھر ان کی لیڈرشپ کیا ہے، کہاں رہتی ہے؟ ان کے دفاتر کہاں ہیں؟ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انگلستان میں اس کثرت کے ساتھ غیر قو میں موجود ہیں اور غیر قوموں کے بڑے بڑے لیڈرز موجود ہیں.ان کے ایسے مراکز ہیں جو عالمی مراکز بنے ہوئے ہیں اور لنڈن میں ہیں.ان سے آپ رابطے پیدا کریں تو پھر آپ کو پتا چلے گا کہ کتنی کھلی سرزمین ہے خدا تعالیٰ کی، کتنے کام کے نئے نئے رستے ہیں جو آپ کے سامنے کھڑے آپ کے منتظر ہیں قدم بڑھانے کی دیر ہے.کام کرنے والے خدا عطا فرماتا ہے آپ خود کام کرنے والے بننا شروع ہو جائیں پھر دیکھیں کس طرح آپ کے دائیں بائیں کام کرنے والے نصیب ہونا شروع ہو جاتے ہیں.میں نے تو یہی دیکھا ہے اللہ کا سلوک.کوئی کام پکڑ لو کوئی اس کام کے واقف نہ بھی ہوں آپ شروع کر دیں پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت کی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.کوئی دائیں سے کوئی بائیں سے کوئی کسی ملک سے کوئی کسی ملک سے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ سلطان نصیر عطافرما تا چلا جاتا ہے اور اپنی توفیق کومحمد مصطفیٰ کے غلاموں کی توفیق کے طور پر پیش کریں پھر دیکھیں آپ کہ خدا تعالیٰ اس توفیق کو کتنا بڑھائے گا اور اس کو کتنی برکتیں دے گا.پس نمائش کے کام ہیں اور نمائش کے علاوہ تقسیم لٹریچر کے کام ہیں جن میں بہت خلا باقی ہیں ابھی ، بہت سی محنتیں کرنے والی ہیں اور جہاں تک لٹریچر کی سپلائی کا تعلق ہے ہم نے تمام اصل پلیٹیں وغیرہ ہر زبان کے لٹریچر کی محفوظ رکھی ہوئی ہیں اور منتظر بیٹھے ہیں.کسی ملک سے ختم ہونے کی اطلاع ملے یا قریب الاختتام ہونے کی اطلاع ملے انشاء اللہ نیا لٹریچر چھپ جائے گا بلکہ بعض جگہ ہم پلیٹیں بھجوا دیں گے بعض جگہ کیمرہ ریڈی کا پیز بھجوا دیں گے.اگر زیادہ ضرورت ہے تو تم خود چھاپتے چلے جاؤ

Page 268

خطبات طاہر جلد ۸ 263 خطبه جمعه ۲۱ را پریل ۱۹۸۹ء اور اللہ کے فضل سے اس کے لئے روپیہ بھی اللہ تعالیٰ عطا فرما تا چلا جائے گا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس پہلو سے اس صدی کو منانے کے لئے اب اس نئی ہمت، نئے عزم ، نئے تو کل الی اللہ اورنئی دعاؤں کے ساتھ کام کے منصوبے بنا ئیں اور پھر ان پر عمل درآمد شروع کر دیں.انشاء اللہ تعالیٰ اس ایک سال کے اندر اتنا پیغام ہم نے دنیا میں پہنچانا ہے کہ گزشتہ سوسال میں اتنا پیغام نہیں پہنچایا گیا ہو اور بعض صورتوں میں اتنا پیغام پہنچانا ہے کہ گزشتہ چودہ سوسال میں بھی نہیں پیغام پہنچایا گیا ہو.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ زبانیں جن میں ہم نے حضرت رسول اکرم علی کے کلام کے ترجمے کئے ہیں اس سے پہلے ان کا تیسرا حصہ بھی ترجمہ نہیں ہوا اور بھاری آبادیاں ہیں دنیا کی جو کلام محمد مصطفی علیہ سے نا آشنا ہیں.قرآن کریم اس کی نسبت کئی گنا زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن آج بھی غیر قوموں میں قرآن کریم کی اشاعت کا کام اتنا تشنہ ہے، اتنے خلا ہیں اس میں کہ جب نظر پڑتی ہے کہ کس طرح عیسائیوں نے بائبل کو دنیا میں پہنچایا ہے تو شرم سے انسان غرق ہو جاتا ہے.انسانی وجود کا، غیرت اسلامی کے وجود کا انگ انگ دکھنے لگتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے پیغام کو بگڑنے دیا اور تو حید کو شرک میں تبدیل کر دیا ان کو تو اتنی محبت ہے اس بگڑے ہوئے پیغام سے بھی کہ آج دنیا کی تقریبا نو سو زبانوں میں وہ بائبل مکمل یا اس کے ایک حصے کا ترجمہ کر کے پیش کر چکے ہیں اور ہم ہیں جو ایک سو بیس کی باتیں کر رہے ہیں اور اللہ کا فضل ہے اس کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن گزشتہ چودہ سو سال میں ایک سو میں تو چھوڑیں بمشکل ساٹھ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم دنیا کے سامنے پیش کئے گئے اور وہ بھی بدقسمتی سے بعض زبانوں میں تو غیر معمولی شان کے ساتھ اور کثرت کے ساتھ اس میں کوئی شک نہیں لیکن بہت سی ایسی زبانیں ہیں ان میں سے جن میں ایک دفعہ ترجمہ شائع ہوا پھر نظر سے غائب ہو گیا اور کسی نے مڑ کے یہ نہیں دیکھا کہ وہ ترجمہ اس لائق بھی ہے کہ قرآن کریم کا پیغام صحیح معنوں میں دنیا کو پہنچا سکتا ہے.آج ایسے تراجم تو ہیں جو روی زبان میں مثلاً جو گزشتہ صدی میں یا اس سے پہلے کئے گئے یا چند سال پہلے بھی کئے گئے تو گزشتہ صدی کی زبان میں کئے گئے.اس مولویانہ ذہنیت کے ساتھ کئے گئے کہ ترجمہ اس طرح کرو کہ پڑھنے والے کے پلے کچھ نہ پڑے اور تم یہ کہہ سکو کہ ہم نے عربی کی لفظاً لفظاً تقلید کی ہے جہاں نقطہ تھا وہاں نقطہ ڈال دیا ہے جہاں حرف تھا وہاں حرف ڈال دیا اور یہ ہم نے ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے.قرآن کریم تو ایک پیغام

Page 269

خطبات طاہر جلد ۸ 264 خطبه جمعه ۲۱ راپریل ۱۹۸۹ء اور ایک عظیم الشان پیغام ہے.فصاحت و بلاغت کا مرقع اور سرتاج کلام ہے.ایسے کلام کو اس طرح پیش کرنا کہ پڑھنے والا الجھن محسوس کرے ذہنی اور دل پہ بوجھ محسوس کرے اور سمجھ نہ آئے کہ مجھے کیا ا کہا جارہا ہے؟ یہ قرآن کریم سے وفا نہیں اس سے بڑی بے وفائی ہے.جو تر جسے ہم پیش کر رہے ہیں ان میں کوشش یہی ہے کہ کامل وفاداری کے ساتھ کامل قرآن کریم کا ترجمہ بہترین زبان میں پیش کیا جائے لیکن میں جانتا ہوں اس میں بہت سے نقص ہوں گے ابھی.ہم اس بات سے غافل نہیں ہیں جو ترجمے شائع ہورہے ہیں ان پر نظر ثانی کا کام نظر ثالث کا کام نظر چہارم کا کام ہوتا چلا جارہا ہے ساتھ ساتھ اور کئی نقص نظر آتے ہیں جن کو ہم دور کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ تو ایک یہ جاری کام ہے.کبھی بھی دنیا میں کوئی انسان قرآن کریم کا کوئی ایسا ترجمہ پیش نہیں کر سکتا جسے وہ مکمل اور کامل اور بہترین ترجمے کے طور پر پیش کر سکے.کیونکہ قرآن کریم تو ایک ایسی کتاب ہے جس کا کامل ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا نہ ممکن ہے.عربی کو خدا تعالیٰ نے بنایا ہی اس لئے تھا کہ اس میں کلام مجید نازل ہوگا اور اس نقطہ نگاہ سے اس کلام کو سنبھالنے اور اس کا ظرف بننے کا حق صرف عربی زبان کو ہے.مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ہم کوشش کرتے چلے جائیں گے اور موجودہ تراجم بھی خدا کے فضل سے اس پہلو سے گزشتہ اکثر تراجم سے بہت ہی بہتر ہیں.تو یہ سارے کام ہم نے دنیا میں کرنے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.ان کے لئے بڑی ہمت درکار ہے.ابھی اس کام کو آگے دنیا میں پہنچانے والا کام جو ہے یہ فکرمندی کا کام ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت اس سال اتنا پیغام پہنچا دے گی دنیا کو کہ کونے کونے میں تو حید گونجنے لگے گی اور حضرت محمد مصطفی عملے کی عظمت کے گیت گائے جانے لگیں گے اور دنیا کو معلوم ہوگا کہ وہ کیا تھا جس سے وہ محروم رہے ہیں.کون سی سعادتیں تھیں جواب تک ان کے نصیب میں نہیں آئی تھیں.بہت سی زمینیں ہیں جو فتح ہونے والی ہیں اسلام کے لئے.آج تک بعض ایسے مذاہب ہیں جوا کیلے مسلمانوں سے زیادہ تعداد میں ملتے ہیں.اس لئے اس کام کے انجام کا تو سوال ہی نہیں آغاز کے بھی ابتدائی پہلو ہیں ، ابتدائی قدم ہیں جو ہم نے اٹھائے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے کہ ان کاموں کے تمام حق ادا کریں اور اس طرح ادا کریں حق کہ اللہ تعالیٰ کی پیار کی نگا ہیں ہم پر پڑنے لگیں.

Page 270

خطبات طاہر جلد ۸ 265 خطبه جمعه ۲۸ را پریل ۱۹۸۹ء نئی صدی کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ گھروں کو جنت نشان بنا دیا جائے ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ را پریل ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں: ج هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُه هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحن اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحشر: ۲۳-۲۵) پھر فرمایا:.جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا رمضان گزر رہا ہے اور آج ہم اس رمضان مبارک کے آخری عشرہ میں داخل ہو رہے ہیں.یہ وہ عشرہ ہے جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی علی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کے مطابق راتوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے.ویسے تو حضور اکرم ﷺ کی ہر رات ہی زندہ رات ہوا کرتی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑھ کر اس بات کا اور کون گواہ ہو سکتا ہے پھر وہ کیا خاص بات تھی جو آپ نے ان آخری

Page 271

خطبات طاہر جلد ۸ 266 خطبه جمعه ۲۸ راپریل ۱۹۸۹ء راتوں میں دیکھی؟ کہ وہ بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ رمضان مبارک کے آخری عشرہ میں تو آنحضرت ﷺ اپنی راتوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے.پس مراد یہ ہے کہ آپ کی پہلی راتوں کی زندگی کے مقابل پر ایک ایسی نئی چمک ان راتوں میں آیا کرتی تھی کہ بے اختیار انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جا تا تھا کہ گویا اب راتیں زندہ ہوئی ہیں.یہ فصاحت و بلاغت کا کمال ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضور ﷺ کے ہر رمضان مبارک کے ہر آخری عشرہ کی تعریف میں بیان فرمایا.اس موقع پر میں نے سوچا کہ جماعت احمدیہ کو کس دعا کی خصوصیت سے تلقین کروں اور کس نیکی کی طرف خصوصیت کے ساتھ بلاؤں.ویسے تو جماعت ان دنوں نہایت ہی اہم تاریخی لمحات میں سے گزر رہی ہے اور صرف ایک ہی ملک میں نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ممالک میں جماعت کو کئی قسم کے مصائب اور شدائد کا سامنا ہے اور پہلا دھیان جو ذہن میں آتا ہے وہ یہی آتا ہے کہ ان مظلوم بھائیوں کی استقامت کے لئے دعا کی تلقین کی جائے جو ان مصائب کا مردانہ وار مومنانہ صداقت کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں اور پھر ان کے دلوں کی ڈھارس کی دعا کی تلقین کی جائے.ایسی ڈھارس کی دعا کی تلقین کی جائے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اور انسانی کوشش اور جدوجہد کا اس سے تعلق نہیں غرضیکہ ان باتوں کو سوچتے ہوئے بالآ خر میرا ذہن جس بات پر ٹھہرا اور جم گیا وہ یہ بات تھی کہ میں توحید کی طرف جماعت احمدیہ کو بلاؤں اور تو حید ہی کے ضمن میں دعاؤں کی تلقین کروں.یہ دور جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں یہ دور آتے ہیں اور چلے جایا کرتے ہیں اور بہت سی برکتیں اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں یہ غم عارضی ہیں جو خوشیاں ان کے بعد آنے والی ہیں وہ دائمی ہیں اور ہر اس غم کے پیچھے جو خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کیا جائے لازماً ایک دائمی خوشی پیچھے رہ جایا کرتی ہے اور اسی کا نام جنت ہے.یہی وہ جنت ہے جو اس دنیا میں مشاہدہ کریں وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے فضل کے ساتھ ان کو اگلی دنیا میں بھی یہ جنت نصیب ہوگی.پس یہ باتیں جو غم کے بھیس میں آیا کرتی ہیں یہ ہمیشہ مومنوں کو خوشیوں کا اور تقویٰ کا لباس پہنا کر چلی جایا کرتی ہیں لیکن ایک چیز جس کی ہمیں بہت شدید ضرورت ہے اور تمام دنیا کی جماعتوں کو، جماعت کے ہر فردکو ضرورت ہے وہ تو حید خالص کو اختیار کرنا ہے.اس کا ان وقتی آزمائشوں سے کوئی تعلق نہیں.یہ ایک مستقل مضمون ہے، یہ وہ مقصد اعلیٰ ہے جس کی خاطر مذاہب قائم کئے جاتے ہیں.یہ انسانی زندگی کا

Page 272

خطبات طاہر جلد ۸ 267 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء معراج ہے جسے ہم نے حاصل کرنا ہے اور جیسا کہ آپ نے بار ہا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ رت سے سنا کہ اگلی صدی غلبہ توحید کی صدی ہو گی.اس لئے اس صدی کے آغاز ہی میں اس پہلے رمضان مبارک کے آخری مبارک عشرہ میں میں نے سوچا کہ میں توحید ہی کی تلقین کروں اور توحید کے غلبہ کی تیاری سے متعلق آپ کو کچھ نصیحت کروں اور اسی ضمن میں کثرت کے ساتھ دعائیں کرنے کی تلقین کروں.توحید کا مضمون بظاہر بہت ہی آسان ہے اور عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا اعلان توحید کے غلبے کو ظاہر کرتا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار انسان کو جہاں توحید کا مضمون سکھاتا ہے وہاں توحید کے سب سے اعلیٰ وسیلے کی طرف بھی اس کی راہنمائی کرتا ہے.اس بات سے تو انکار نہیں کہ یہ دونوں باتیں درست ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون اتنا سطحی نہیں جتنا دکھائی دے رہا ہے.اتنا آسان بھی نہیں کہ جس طرح اس فقرے میں جو میں نے بیان کیا آپ کو سمجھ آ گیا کہ ہاں یہ تو حید ہوا کرتی ہے اور یہ رسالت کا اقرار ہوتا ہے.بہت ہی گہرا مضمون ہے جو مسلسل جد وجہد کو چاہتا ہے.اس کا سمجھنا بھی درحقیقت لمبے تجارب کے بعد نصیب ہوا کرتا ہے اور اس کو سمجھنے کے بعد پھر تو حید کو اپنے نفس پر جاری کرنا ایک بہت ہی مشکل مضمون ہے اور اسی کا نام جہادا کبر ہے اور یہی وہ جہاد ہے جس کی قرآن کریم نے کثرت کے ساتھ اور شدت کے ساتھ تلقین فرمائی ہے.پس ہم جنہوں نے یہ آج یہ دعوی کیا ہے کہ ہم اس صدی میں داخل ہو رہے ہیں جو غلبہ توحید کی صدی ہے اگر ہم نے اس توحید کو خود نہ سمجھا اور خود اپنے دلوں پر اور اپنے نفوس پر اور اپنی رگ جان میں جاری نہ کیا تو پھر ہمارے دعوے بھی محض کھو کھلے اور بلند بانگ دعاوی تو ثابت ہوں گے جن کے پیچھے حقیقت کوئی نہیں ہوگی.یعنی دعووں کی آواز تو بہت بلند ہو جائے گی لیکن وہ اعمال جوان دعووں کو رفعت دینے کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں ان اعمال سے یہ دعاوی خالی ہوں گے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے چونکہ یہ بہت وسیع مضمون ہے میں نے اس کا ایک حصہ آج چنا ہے اور وہ ہجرت کا مضمون ہے.توحید کے ساتھ ایک ہجرت کا تعلق ہے جس کا قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر ملتا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس پر بارہا بہت ہی بلند حکمت اور عرفان کے ساتھ روشنی ڈالی ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں قرآن کریم فرماتا

Page 273

خطبات طاہر جلد ۸ 268 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء ہے قَامَن لَهُ نُوطٌ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرُ إِلى رَبِّ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (العنکبوت: ۲۷) که لوط ابراہیم پر ایمان لے آئے اس وقت ابراہیم نے یہ کہا کہ میں تو اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں اِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یقیناً وہ عظیم الشان غلبے کا مالک خدا ہے اور بہت ہی حکیم ہے، بہت معزز ہے اور بہت صاحب حکمت ہے.یہاں میں نے یہ ترجمہ کیا اني مُهَاجِر میں ہجرت کرنے والا ہوں.عموماً یہی ترجمہ قرآن کریم کے تراجم میں ملتا ہے لیکن ایک اور تر جمہ بھی ممکن ہے اور میرے نزدیک وہی زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں تو ہمیشہ اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا چلا جاتا ہوں اور ایک لمحہ بھی میری زندگی میں ایسا نہیں آتا کہ میں اپنے رب کی طرف مہاجر نہ ہوں یعنی ہجرت نہ کر رہا ہوں.یہ ترجمہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تصدیق کی سند رکھتا ہے.چنانچہ اس ضمن میں میں وہ حدیث بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ مہاجر کی صحیح تعریف کیا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہجرت کی دو نشانیاں ہیں.ایک یہ ہے کہ تو برائیاں چھوڑ دے اور دوسری یہ ہے کہ تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرے اور یہ ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک تو بہ قبول نہیں کی جاتی اور تو بہ اس وقت تک مقبول ہوتی رہے گی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو ( مسند احمد بن حنبل جلد اول حدیث نمبر : ۱۶۷۱) یعنی تو بہ کی مقبولیت کا مضمون بھی ابدی ہے اور یہ خیال کر لینا کہ کوئی ایسا وقت آئے گا انسانی زندگی پر جب اس کی توبہ قبول اور اس کے بعد اس کو مزید تو بہ کی ضرورت نہ رہے گی.یہ ایسا ہی خیال ہے جیسے کوئی انسان سوچے کہ سورج مغرب سے نکل آئے گا.آنحضرت علیہ نے جس سورج کے مغرب سے نکلنے کا ذکر فرمایا ہے وہ اور مضمون ہے.یہاں طرز بیان یہ ہے کہ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ مادی سورج کبھی مشرق کو چھوڑ کر مغرب سے طلوع کر جائے ویسے یہ بھی ناممکن ہے کہ انسان تو بہ کی اس آخری حالت کو پالے جس کے بعد کسی اور تو بہ کی ضرورت باقی نہ رہے اور چونکہ یہ ممکن نہیں ہے اس لئے انسانی ہجرت کا سفر کبھی بھی طے نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کو آنحضور علہ نے مقبولیت تو بہ سے باندھ دیا.پس جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام یہ عرض کرتے ہیں خدا کے حضور یا بندوں کو یہ بتاتے ہیں کہ اني مُهَاجِر میں اپنے رب کی طرف مہاجر ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ میں ہر لمحہ، اپنی زندگی کا

Page 274

خطبات طاہر جلد ۸ 269 خطبه جمعه ۲۸ اپریل ۱۹۸۹ء ہر سانس خدا کی طرف ہجرت کر رہا ہوں.اس کا توحید سے کیا تعلق ہے؟ دراصل اس کا توحید سے بڑا گہرا تعلق ہے اور تو حید کا جو پہلا اعلان ہے ، اعلان کا پہلا حصہ ہے اس کے اوپر اس مضمون سے روشنی پڑتی ہے.آپ کہتے ہیں لا اله الا اللہ پہلے لا اللہ کا اعلان ہے پہلے اللہ کے ثبات کا اقرار نہیں.لا اللہ کے بغیر اللہ تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے اور لا الہ کا مضمون یہ ہے کہ انسان ہر غیر اللہ کو پہلے کا لعدم کر دے اور جب مصنوعی خدا مرنے لگیں اور ان کا خلا پیدا ہونا شروع ہو جائے تو کائنات میں ہر سمت میں سوائے خلا کے اور کچھ دکھائی نہیں دے گا اور سہارے کے لئے خدا کی ذات کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا.یہ ہے توحید خالص اور ہجرت کا مضمون یہ ہے کہ باری باری انسان اپنے نفس پر غور کرتے ہوئے ، اس کا محاسبہ کرتے ہوئے ان تمام موجودات سے بے نیاز ہوتا چلا جائے جن کی طرف وہ مشکل کے وقت اور ضرورت کے وقت جھکا کرتا ہے.ویسے تو خدا کی کائنات سے کوئی بے نیازی ممکن نہیں لیکن یہ ایک معنوی کیفیت ہے یعنی ظاہری طور پر بے نیاز نہ ہوتے ہوئے بھی حقیقی اور عارفانہ طور پر ایک انسان ایک چیز سے بے نیاز ہوسکتا ہے.بسا اوقات انسان کسی چیز سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہ چیز اگر اس سے تعلق تو ڑلے تو اس کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.ان معنوں میں خدا تعالیٰ بے نیاز ہے.ان معنوں میں بے نیاز نہیں کہ اس کا کسی چیز سے تعلق نہیں.تو جب خدا کا اپنی کا ئنات کے ہر ذرے اور ہر وجود سے ایک گہرا تعلق ہے تو ہم اسے بے نیاز کیسے کہہ سکتے ہیں؟ انہی معنوں میں کہ وہ چیز اگر خدا سے روگردانی کرے، اس سے تعلق توڑے تو خدا تعالیٰ کی ذات کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.پس انہی معنوں میں انسان کو تمام کائنات کے ہر وجود سے بے نیاز ہونا پڑتا ہے تب لا الہ کا مضمون پیدا ہوتا ہے.ورنہ تو ہر طرف الہ ہی اللہ آپ کو دکھائی دیں گے.اتنے اللہ ہیں کہ آپ ان کا شمار ہی نہیں کر سکتے ، آپ کے دلوں میں بھی پیدا ہونے والے ہیں ، آپ کے ماحول میں بھی پیدا ہونے والے ہیں.ہر طرف آپ کو الهوں کا ایک انبار نظر آئے گا، ایک ہجوم کثیر دکھائی دے گا، ایک انبوہ کثیر دکھائی دے گا نہ ختم ہونے والا لیکن بطور اللہ کے آپ ان کو پہچانتے نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ بطور الہ کے ان کو اہمیت دیں لیکن جب بھی ابتلا آئے اور جب بھی مشکل وقت پڑتے ہیں اس وقت انسان کے ذہن میں ان کی اہمیتیں ابھرنے لگتی ہیں.اس میں بھی کوئی حرج نہیں یہ بھی شرک نہیں لیکن اگر

Page 275

خطبات طاہر جلد ۸ 270 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء ان کی اہمیت اتنی ثانوی رہے.ثانوی کا لفظ بھی پوری طرح اس پر اطلاق نہیں پاتا اگر ان کی اہمیت ، اہمیت کے باوجود اتنی بے حیثیت ہو کہ وہ ہو یا نہ ہوا گر خدا آپ کے ساتھ ہے تو آپ کو اس کا کوئی فرق نہ پڑے.یہ مضمون اگر ہر ابتلاء کے وقت ہر اس موقع پر جب آپ نے دو چیزوں میں سے ایک اختیار کرنی ہے آپ کے ذہن میں نمایاں ہو کر ابھرتا ہے اور کامل یقین کے ساتھ آپ ایک فیصلہ کرتے ہیں کہ میرا انحصار اس چیز پر نہیں ہے، میرا انحصار خدا پر ہے تو اس حصے سے آپ کی خدا کی طرف ہجرت ہو جاتی ہے.یہ ہجرت کا مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اتنا آسان نہیں ہے.اکثر انسان اس کو تفصیل کے ساتھ اپنی زندگی کے تجارب پر وارد ہی نہیں کر سکتے اور بہت سے خوش نصیب ایسے ہیں جو یہ مضمون سمجھتے ہیں اور آہستہ آہستہ موحد بننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے لا الہ کا دائرہ اپنے قریب کے دائرے سے باہر رہتا ہے.دور کے علاقوں میں تو لا الہ کا مضمون ان کو دکھائی دینے لگ جاتا ہے مگر جتنا اپنے ماحول کے قریب آتے ہیں اتنا ہی اللہ نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں اگر وہ دیکھنا چاہیں تو.مثلاً کسی بہت ہی پیارے کی جدائی کا صدمہ ہے بعض ماؤں کے اکلوتے بچے فوت ہو جاتے ہیں اس وقت در حقیقت ان کی توحید آزمائی جاتی ہے.صدمہ ضرور ہوتا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کسی چیز سے تعلق رکھنا یہ اس بات کے خلاف نہیں ہے کہ انسان موحد ہو کسی سے تعلق رکھنا بے نیازی کے مضمون کے مخالف نہیں ہے.ورنہ خدا کا کائنات میں کسی چیز سے کوئی تعلق نہ رہے لیکن اس تعلق کے وقت جہاں ایک خلا پیدا ہوتا ہے کیا وہ خلا خدا بھر دیتا ہے یا نہیں؟ یہ مضمون ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہی وہ مضمون ہے جو انبیاء علیہم السلام کو عظیم الشان صبر عطا کرتا ہے اور فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاعراف:۳۶) کا یہی دراصل مضمون ہے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انبیاء پر خوف کے وقت نہ آئیں؟ خوف کے وقت تو آتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ملے پر بھی بڑے بڑے خوف کے وقت آئے اور حزن کے وقت بھی آئے اور بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے خود فرمایا کسی بات پر کہ اس وجہ سے میں محزون ہوں لیکن قرآن کریم اعلان کر رہا ہے فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ تو اس سے مراد کیا ہے؟ اس سے مراد یہی ہے کہ کوئی خوف ایسا ان کی زندگی پر نہیں آتا جو ان کو مغلوب کر لے کیونکہ ہر خوف کے وقت خدا ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے.ہر خلا کو پُر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی ہستی ہر لمحہ ہر آن ان

Page 276

خطبات طاہر جلد ۸ 271 خطبه جمعه ۲۸ اپریل ۱۹۸۹ء کے ساتھ موجود رہتی ہے.چنانچہ حضرت موسی نے بھی جب قوم کو خوف در پیش تھا، آپ کو بھی خوف در پیش تھا.آپ نے فرمایا میرا رب میرے ساتھ ہے وہ میری ہدایت کرے گا.آنحضرت ﷺ نے غار ثور میں فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبۃ: ۴۰) اے ابو بکر کوئی غم نہ کر خدا ہمارے ساتھ ہے.تو غم تو تھا لیکن اس توحید کامل نے اس غم کو کالعدم کر دیا ، اس کو بے حیثیت کر دیا.پس ہر طرف پہلے خلا پیدا کرنے پڑیں گے مواحد بننے کے لئے.اپنے ہر تعلقات کے دائرے پر نظر کرنی پڑے گی ، اپنے نفوس کا جائزہ لینا ہوگا، یہ دیکھنا ہوگا کہ کس حد تک وہ ایسے وجود ہیں جو کسی حالت میں بھی آپ کو چھوڑ نہیں سکتے یعنی آپ ان کو چھوڑ نہیں سکتے اور اگر وہ ہاتھ سے جائیں تو آپ کے اندر بے اختیار واویلے کی اور نوح کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور وہ غم ہو سکتا ہے آپ کو مغلوب کر لے اور نڈھال کر دے.اگر کوئی ایسی شکل ہے تو پھر وہاں جھوٹے خدا موجود ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنا یہ تو حید کامل ہے.اسی کا نام اللہ کی طرف ہجرت کرنا ہے.اس مضمون کا آغاز برائیاں چھوڑنے سے ہوتا ہے.جب ہم کہتے ہیں برائیاں چھوڑ و تو در حقیقت اس کا ہجرت ہی سے تعلق ہے اور تو حید ہی سے تعلق ہے.اب برائیوں کے اوپر آپ جب غور کریں کہ آپ کیوں ان کو نہیں چھوڑتے ؟ تو ہر تجزیے کے وقت یہ بات سامنے آئے گی کہ ایک چھوٹا سا بت ہے جس کی آپ پوجا کر رہے ہیں.عمداً بالا رادہ نہ سہی غیر ارادی طور پر ہی سہی ایک نفس کی مجبوری کی حالت کے طور پر ہی سہی ، بعض عادتوں کے آپ غلام بن چکے ہیں، مجبور ہو گئے ہیں لیکن وہ بت بہر حال اپنی جگہ قائم رہتے ہیں اس لئے وہ شخص جو موحد کامل نہ ہو وہ کبھی بھی برائیوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتا.پس وہ جتنی نصیحتیں میں نے جماعت کو کی ہیں نئی صدی میں داخل ہونے کے لئے ان کا دراصل تو حید ہی سے تعلق ہے.بارہا میں نے کہا کہ اپنے چھوٹوں سے شفقت کا سلوک کریں، اپنے گھروں کو جنت نشان بنائیں، اپنی بیچاری مظلوم بیویوں کا بھی خیال کریں.وہ بھی کسی کی بیٹیاں تھیں ناز و نعم سے پلنے والی.آپ کے زیر اثر آگئیں ان کو اس حالت میں نہ چھوڑیں کہ فرعون کی بیوی کی طرح ان کے دلوں سے دعائیں نکلیں کہ اے خدا ہم مظلوم اور مجبور ہیں، ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے، تو ہمیں ان مظالم سے بچا.یہ ساری باتیں اور اس کے علاوہ بے شمار معاشرے کی برائیاں ہیں جن کو میں نے گزشتہ چند سالوں میں ایک ایک کر کے لیا اور جماعت کے سامنے رکھا.ان باتوں کو کچھ چھوڑنے

Page 277

خطبات طاہر جلد ۸ 272 خطبه جمعه ۲۸ اپریل ۱۹۸۹ء والے خوش نصیب بھی ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو آج تک ان کو چھوڑ نہیں سکے.ہزاروں لاکھوں ایسے دکھ ہیں جماعت میں ابھی تک جو میری طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں کوئی مظلوم ہے، کسی کے پیسے کھائے گئے ہیں، کسی کی جائیداد چھینی گئی ہے، کسی کو دوسرے اور طریق سے حقوق سے محروم کیا گیا ہے، کسی بیوی نے خاوند سے بدسلوکیاں کی ہیں، کسی خاوند نے بیوی سے بدسلوکیاں کی ہیں، کوئی ماں باپ ہیں جو بچوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے، ان کے ساتھ مناسب شفقت اور رحمت سے پیش نہیں آرہے.کچھ بچے ہیں جو ماں باپ سے باغی ہو رہے ہیں، کچھ ماں باپ ہیں جو نرمی کو اس حد تک پہنچا دیتے ہیں کہ بچوں میں برائیاں سرایت کرتی چلی جاتی ہیں وہ خدا سے بھی غیر ہوتے چلے جاتے ہیں ان کو کوئی فکر نہیں ہوتا.یہ سارے جتنے مظاہر ہیں یہ شرک کے مظاہر ہیں اور جب تک جماعت توحید پر قائم نہیں ہوتی اس وقت تک ان مصائب اور برائیوں سے نجات ممکن نہیں ہے اور نجات حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا اپنے شعور کو زیادہ تیز کریں اور اپنے مطالعہ کو وسیع بھی کریں اور گہرا بھی کریں.دور کی نظر بھی رکھیں اور قریب کی نظر بھی رکھیں.مشکل یہ ہے کہ روحانی طور پر بھی انسان کو کم و بیش ویسی ہی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں جیسے جسمانی طور پر لاحق ہوا کرتی ہیں.میں نے دیکھا ہے جیسے مادی دنیا میں بعضوں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے اور بعضوں کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے.روحانی دنیا میں بھی بعینہ یہی نظارے ملتے ہیں.بعض لوگوں کو وہ خطرات دکھائی نہیں دیتے روحانی جو کچھ فاصلے پر کھڑے ہوں.آئندہ آنے والی نسلوں کو در پیش ہونے والے ہوں اُن سے بالکل وہ لوگ اندھے رہتے ہیں.جب خطرات آجاتے ہیں سر پر پہنچ جاتے ہیں بعض اوقات گھیرا ڈال لیتے ہیں اس وقت ان کو دکھائی دینے لگتے ہیں.بعضوں کی قریب کی نظر اندھی ہوتی ہے دور کی تیز ہوتی ہے تو دور کے خطرات بھی دیکھ لیتے ہیں اپنے ماحول کے دور دور کی برائیاں بھی دیکھ لیتے ہیں اور خاص طور پر غیروں کی برائیاں دیکھنے میں تو نظر اتنی تیز ہوتی ہے کہ انسان حیرت سے ان کی نظر کی تیزی کو دیکھتا ہے کہ باریک سے باریک برائیاں جو ابھی ظاہر بھی نہیں ہوتیں وہ ان کو دکھائی دینے لگ جاتی ہیں اور جتنا قریب آتے جائیں اتنی نظر اندھی ہوتی چلی جاتی ہے.نہ اپنی برائی دکھائی دیتی ہے، نہ اپنی بیوی کی ، نہ اپنی بیٹیوں کی ، نہ اپنے بیٹوں کی ، نہ اپنے پوتوں پڑپوتوں کی ، نہ اپنے دوستوں کی.بس اس قریب کے ماحول میں سب کچھ ٹھیک ہے باہر نکلتے ہی نگاہ تیز ہو جاتی ہے.

Page 278

خطبات طاہر جلد ۸ 273 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء تو جب تک آپ اپنی نگاہ کو تیز نہ کریں اور دور کی نظر کو بھی تیز نہ کریں اور قریب کی نظر کو بھی تیز نہ کریں اور اپنی فراست کو روشنی نہ عطا کریں اس وقت تک آپ کو یہ بت دکھائی نہیں دیں گے اور جب بت دکھائی ہی نہیں دیں گے تو آپ ان کو توڑیں گے کیسے؟ اس لئے اس صدی کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہم تو حید کامل کے مضمون کو سمجھیں اور اس کے ساتھ چمٹ جائیں اور اس کے ساتھ وابستہ ہو جائیں.قرآن کریم کے مطالعہ سے بارہا یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہماری جتنی مشکلات اور جتنی مصیبتیں ہیں ان کا حل تو حید ہے اور تو حید آپ کے سارے مصائب کا ازالہ کرنے کے لئے کافی ہے.وہ مصائب اور وہ مشکلات جو جماعت کو در پیش ہیں اگر جماعت بڑی شدت وقوت کے ساتھ تو حید کے مضمون کو پکڑ کر بیٹھ جائے تو وہ ساری مصیبتیں دور ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے قرآن کریم میں کہ میں موحدین کے مقابل پر مشرکوں کو نہیں جیتنے دوں گا.کامل غلبے کا یقین دلایا ہے موحدین کو اور بار بار اس مضمون کو بیان فرمایا کہ ممکن ہی نہیں ہو ہی نہیں سکتا کہ مشرک موحدین پر غالب آجائیں اور چونکہ انبیاء کی جماعتوں کے دشمن خواہ منہ سے توحید کا اقرار کرنے والے ہوں فی الحقیقت وہ مشرک ہو چکے ہوتے ہیں.اس وقت اس مضمون کی تفصیل میں جانے کا ذکر نہیں آئندہ جب اس مضمون کو چھیٹروں گا تو میں آپ کو بتاؤں گا کہ کس طرح دو اور دو چار کی طرح یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ یہ جتنے بھی سچائی کے دشمن ہوتے ہیں وہ اپنے وقت میں مشرک ہو چکے ہوتے ہیں.ان کی ہر بات میں شرک داخل ہو چکا ہوتا ہے.پس شرک کے مقابل پر توحید کی طرف دوڑنا یہ ہجرت ہے اور یہ وہ دراصل روحانی ہجرت ہے جس کی قرآن کریم میں بار بار تاکید فرمائی گئی ہے.اس کے بغیر خالی جسمانی ہجرت کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی.اوّل ہجرت یہ ہے اور یہ ہجرت اگر ہو جائے تو پھر انسان مقام محفوظ میں داخل ہو جایا کرتا ہے ورنہ آجکل تو جسمانی ہجرت کے راستے ویسے ہی مسدود ہیں.آجکل کے زمانے میں ایسے ایسے قوانین بن گئے ہیں کہ کبھی اپنے وطن والے آپ کو ہجرت نہیں کرنے دیتے، کبھی دوسرے قبول نہیں کرتے.ہزار مصیبتوں میں سے گزر کر بعض دفعہ بعض لوگ فریب دہی سے کام لے کر پھر ہجرت کرتے ہیں اب وہ خدا کی خاطر ہجرت تو نہیں ہو سکتی.کہیں قرآن کریم میں آپ کو فریب اور ہجرت کا مضمون اکٹھا نہیں ملے گا.وہ ہجرت اپنی تن آسانی کے لئے ہو سکتی ہے، بعض جسمانی مصیبتوں سے بھاگنے کے لئے

Page 279

خطبات طاہر جلد ۸ 274 خطبه جمعه ۲۸ اپریل ۱۹۸۹ء ہو سکتی ہے، رزق کی کشائش کی خاطر ہو سکتی ہے مگر یہ وہ ہجرت نہیں ہے جس کا قرآن کریم نے ہجرت الی اللہ کے طور پر ذکر فرمایا ہے.یہ وہ ہجرت نہیں ہے جس کا مضمون آنحضرت ﷺ نے بارہا مختلف رنگ میں کھول کے ہمارے سامنے پیش فرمایا اور جس کا عرفان اپنی امت کو آپ نے عطا فرمایا ہے.ہجرت ہوتی ہے خوف سے امن کی طرف اور حقیقت یہ ہے کہ اگر جسم خوف کی حالت میں بھی رہیں اور روح خدا کی طرف ہجرت کر جائے تو انسان کو امن نصیب ہو جایا کرتا ہے.پھر یہ دنیا کے Tarif دنیا کے قوانین، دنیا کی روکیں اور پاسپورٹ اور ویزوں کے جھگڑے ایسے انسان کو مقام امن میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتے کیونکہ خدا کی طرف ہجرت کے لئے کوئی روک نہیں ہے سوائے نفس کی ان دیواروں کے جو انسان خود اپنے ارد گرد کھڑا کرلیا کرتا ہے.پس حقیقت میں آج کے مصائب کا حل بھی، آج کی ان مشکلات کا حل بھی جو مختلف جماعتوں کو مختلف ممالک میں دکھائی دے رہی ہیں اور جن میں سے ان کو گزرنا پڑ رہا ہے وہ یہی ہے کہ وہ ہجرت کر جائیں اور ہجرت شرک سے توحید کی طرف ہوا کرتی ہے.اگر آپ تو حید کی طرف ہجرت کر جائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قرآن کریم آپ کے حق میں یہ گواہی دے گا کہ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ان کے اوپر کوئی خوف نہیں رہا اور کوئی حزن ان پر باقی نہیں.ہے.یہ مقام مامون میں داخل ہو گئے ہیں ، مقام محفوظ میں داخل ہو گئے ہیں اور اس ہجرت کو اختیار کرنے کے لئے آپ کو کسی قسم کی دقتوں، مصیبتوں میں سے گزرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر قدم جو اس ہجرت کی راہ میں آپ اٹھاتے ہیں وہ راحت کا قدم ہے، طمانیت کا قدم ہے.وہ لوگ جن کو برائیوں سے بالا رادہ نجات حاصل کرنے کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ پہلے اس سے بہت مشکل دکھائی دیا کرتی ہے لیکن جب انسان عزم کر کے خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ایک فیصلہ کرتا ہے، اس سے مدد مانگتے ہوئے وہ برائی کو چھوڑنے کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو اچانک ساری مشکلات اس کی غائب ہو جاتی ہیں.وہ بڑے ہی راحت اور اطمینان کی فضا میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر جب مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ میں کن چیزوں میں مبتلا تھا کس مصیبت میں میں مبتلا تھا.وہ نجات کا دن ہے لیکن جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کوئی ایک دن ایسا نہیں ہے جسے آپ نجات کا دن قرار دے کر پھر ہمیشہ کے لئے اس سے چھٹی کر جائیں، اس کوشش کو ترک کر دیں اور اس میں ایک لطف کی

Page 280

خطبات طاہر جلد ۸ 275 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء بات بھی ہے.نجات میں لطف ہے اور مزہ ہے.اگر ایک ہی نجات کا دن ہوتا تو آپ کے لطف اور مزے کا دن آپ کی زندگی میں بہت پیچھے رہ جایا کرتا، محض اس کی یاد میں رہ جایا کرتیں لیکن اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ اس نے انسان کو یہ مضمون باریکی سے سمجھنے کی ایسی توفیق عطا فرمائی، ایسی قابلیت بخشی ہے کہ ہر روز اس کے لئے کسی نہ کسی نجات کا دن ہوسکتا ہے اور جتنا وہ نجات حاصل کرتا چلا جاتا ہے ان بندھنوں کے پیچھے جن کو وہ تو ڑتا ہے کچھ اور بندھن بھی اس کو دکھائی دینے لگتے ہیں.پھر وہ ان سے آزاد ہوتا ہے پھر ان کے پیچھے کچھ اور بندھن اس کو دکھائی دینے لگتے ہیں، پھر اس کے پیچھے کوئی اور بندھن دکھائی دینے لگتے ہیں اور تب انسان کو سمجھ آتا ہے کہ کس طرح عارف کامل حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہجرت کا مضمون کبھی ختم نہیں ہو سکتا.جس طرح بعض دفعہ پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے ایک چوٹی کے بعد دوسری چوٹی پھر دوسری کے بعد تیسری دکھائی دیتی ہے اور انسان حیران ہوتا چلا جاتا ہے میں اپنی طرف سے سب سے بلند نظر آنے والی چوٹی کے سر پہ پہنچ گیا ہوں اس آگے جا کر پھر ایک چوٹی ہے.یہ چوٹیاں تو ختم ہو جایا کرتی ہیں.ماؤنٹ ایورسٹ پر آپ پہنچ سکتے ہیں.ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد پھر آپ کو آسمان کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا لیکن وہ چوٹیاں جن کو سر کرنے کا قرآن مجید میں ذکر ملتا ہے وہ ہجرت اور توبہ کی چوٹیاں یہ نہ ختم ہونے والی ہیں.تمام عمر کا سفر ہے لیکن اس سفر کے ساتھ ہر دفعہ جب ایک چوٹی کو سر کرتے ہیں تو ایک عجیب راحت محسوس کرتے ہیں، ایک عجیب لذت پاتے ہیں.یہ لذتیں آپ کی زندگی میں پیچھے نہیں رہا کرتیں بلکہ آپ کا ساتھ دیتی چلی جاتی ہیں اور ہر لذت کا تنوع اس کے ساتھ آیا کرتا ہے.ہر بدی سے نجات کا ایک اپنا لطف ہے اس کا ایک اپنا مزہ ہے جو دوسری بدیوں سے نجات کا نہیں ہے بلکہ اور قسم کی لذت آپ کو نصیب ہوتی ہے اور یہ تجربہ اگر آپ اختیار کریں Consiously یعنی بالا رادہ تو پھر آپ کو پتا لگے گا کہ میں کیا کہ رہا ہوں.بعض دفعہ انسان Machanicaly یعنی رسمی طور پر اور جس طرح ایک مادی چیز کے ساتھ ایک انسان سلوک کرتا ہے بعض بدیاں چھوڑ دیا کرتا ہے بغیر کسی روحانی تجربے کے.یہاں پچھلے دنوں ٹیلی ویژن کے اوپر ایسے پروگرام آرہے تھے کہ اب یہ تمباکونوشی ترک کرنے کا ہفتہ ہے اور بعض لوگ بتارہے تھے کہ ہم نے تمباکونوشی ترک کی اور اس طرح ان تجربوں میں سے ہم گزرے اور بعض نے اپنی لذتوں کا بھی بیان کیا لیکن جو ہجرت الی اللہ کی خاطر

Page 281

خطبات طاہر جلد ۸ 276 خطبه جمعه ۲۸ اپریل ۱۹۸۹ء بدیاں ترک کی جاتی ہیں ان کی لذتیں اس سے بہت زیادہ عظیم الشان ہوا کرتی ہیں.وہ عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ لذتیں کیا ہیں؟ اس لئے اس ارادے اور اس واضح احساس اور شعور کے بغیر تو ہر انسان کوئی نہ کوئی بدی چھوڑتا ہی ہے.میں کہتا ہوں کہ توحید کے مضمون کو سمجھ کر اس کے ساتھ وابستہ کر کے اپنی بدیاں چھوڑنے کا پروگرام بنائیں اور اللہ کی طرف ہجرت اختیار کریں.یہ ہجرت اگر آپ اختیار کریں اور میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت میں ہزاروں لاکھوں ایسے ہوں گے جو ہمیشہ اس ہجرت کی طرف کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن اگر اس کی رفتار کو تیز کر دیں، اگر بالا رادہ اپنا محاسبہ شروع کریں اور بتوں کی نشاندہی کریں اور پھر ان بتوں کو توڑیں اور ابراہیمی صفات کو اپنے اندر جاری کریں.پھر قرآن کریم کو پڑھیں اور دیکھیں کہ قرآن کریم جب ابراہیم کی بت شکنی کا ذکر کرتا ہے کیوں اس شان سے ذکر کرتا ہے؟ بت شکنی ہوتی کیا ہے؟ تب آپ کو معلوم ہوگا کہ توحید کامل کا مضمون کتنا عظیم الشان اور کتنا سر بلند کرنے والا ہے.یعنی سروں کو بلند کرنے والا ہے اور اس کا عجز کے ساتھ بھی تعلق ہے اور سر بلندی کے ساتھ بھی تعلق ہے اور بعض دفعہ یہ دونوں کیفیتیں بیک وقت جمع ہو جایا کرتی ہیں.مجھے پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا ہمیشہ سے شوق رہا ہے بچپن میں.اب تو وقت نہیں ملتا لیکن میں ہائیکنگ بھی کیا کرتا تھا اور پہاڑوں پر بھی چڑھتا تھا.مجھے پتا ہے کہ سر بلندی کے ساتھ ایک انکسار بھی عطا ہوا کرتا ہے.جب انسان کسی بلند چوٹی کوس کرتا ہے تو اس وقت روح خدا کے آستانے پر بچھ جایا کرتی ہے اپنی بے حقیقتی ، اپنی بے بضاعتی ، اپنی بے بسی انسان پر غالب آجایا کرتی ہے.اس وقت تکبر کی بجائے کہ ہم اتنی بلندی پہ پہنچ گئے ہیں اس وقت اسے اپنی بے حیثیتی ، بے بضاعتی کا احساس ہوتا ہے، اپنی بے بسی کا اور کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے.پس تو حید کامل کا سفر بہت ہی عظیم الشان سفر ہے اور نا قابل بیان لذتیں اپنی راہوں کی ہر منزل پر رکھتا ہے آپ کے لئے.صرف آپ نے آگے بڑھنا ہے اور ان لذتوں سے فیض یاب ہونا ہے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے.خدا پر توکل کرتے ہوئے ، دعائیں کرتے ہوئے آپ کے لئے لازم ہے کہ آپ یہ سفر اختیار کریں.اگر یہ نہیں کریں گے تو آپ نہ مصائب سے نجات حاصل کر سکتے ہیں نہ دنیا پہ کسی قسم کا حقیقی غلبہ حاصل کر سکتے ہیں.عددی غلبہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک اس عددی غلبے کے پیچھے غلبہ تو حید نہ ہو اور غلبہ تو حید نعرہ ہائے تکبیر کو بلند کرنانہیں ہے بلکہ غلبہ ہائے توحید

Page 282

خطبات طاہر جلد ۸ 277 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء اس مضمون کا نام ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.پہلے تو حید سے اپنے نفس کو مغلوب کرلیں، اپنی ذات میں خلا پیدا کرنا شروع کریں اور ہر خلا کو خدا سے بھر دیں پھر آپ موحد کامل بنیں گے اور اگر آپ موحد کامل بن جائیں تو کوئی دنیا کی طاقت آپ پر غالب نہیں آسکتی.نہ امریکہ آپ پر غالب آ سکتا ہے، نہ روس آپ پر غالب آ سکتا ہے، نہ چین غالب آ سکتا ہے، نہ جاپان غالب آ سکتا ہے.ان ممالک کی کیا حیثیت ہے جو اپنی بقاء کے لئے ان ممالک سے لٹکے ہوئے ہیں.وہ کیسے آپ پر غالب آ سکتے ہیں؟ اس لئے ایک ہی امن کا رستہ ہے.تیزی کے ساتھ اس امن کی طرف دوڑیں.فَفِرُّوا اِلَی الله (الذاریات: ۵۱) کے مضمون کو سمجھیں اور خدا فرماتا ہے.فرار اختیار کرو، خطرات ہیں تمہیں چاروں طرف سے ان خطرات سے بچنے کے لئے خدا کی طرف بھا گواور وہ خدا کہاں ہے؟ وہ آپ کے نفس میں موجود ہے.آپ کی حبل ورید سے بھی قریب تر ہے.اس میں ڈوبنے کی ضرورت ہے اس میں نہاں ہونے کی ضرورت ہے اور محض یہ کہنا کافی نہیں کہ میں خدا میں ڈوب گیا اور میں خدا میں نہاں ہو گیا کیونکہ یہ سارے جھگڑے اور دلت رلے کر انسان خدا میں نہیں ڈوب سکتا.جس طرح بعض دفعہ آپ نے دیکھا ہے باہر سے واپس آتے ہیں سفر کر کے ، شکار کر کے یا ویسے گندی سڑکوں سے، کیچڑ سے گزرتے ہوئے تو اپنے گھر میں بھی آپ ان بوٹوں کے ساتھ داخل نہیں ہوا کرتے.بعض دفعہ اس لباس کے ساتھ بھی داخل نہیں ہوا کرتے.بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے انگریز زمینداروں کو کہ زمیندارے کے کام سے فارغ ہوکر لدھے پھندے اپنے گند کے ساتھ اور خاص قسم کے لباس کے ساتھ جو گندہ ہو جایا کرتا ہے.گھر میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے آواز دیتے ہیں گھر میں کہ لاؤ میرے دوسرے کپڑے لاؤ، میرے دوسرے بوٹ لاؤ، میرے لئے پانی لاؤ.وہاں اپنے پرانے کپڑے اتارتے ہیں ، صفائی کرتے ہیں ، پھر وہ داخل ہوتے ہیں.تو خدا تعالیٰ میں داخل ہونے کے لئے اس سے بھی زیادہ نظافت کی ضرورت ہے ، صفائی کی ضرورت ہے اور ان گناہوں کی ڈھیریوں کے ساتھ اور گندگیوں کے ساتھ انسان یہ کہ کر خدا میں داخل نہیں ہوسکتا کہ اے خدا میں تجھ میں داخل ہو گیا.نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں ( در شین صفحه: ۵۰)

Page 283

خطبات طاہر جلد ۸ 278 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء یہ مضمون کہنے میں آسان ہے لیکن اسے ایک عارف باللہ ہی حقیقت میں بیان کرسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام واقعہ خدا میں نہاں ہو جایا کرتے تھے کیونکہ آپ کے ساتھ غیر اللہ کا تعلق باقی نہیں رہا تھا.غیر اللہ سے جڑے ہوئے آپ کس طرح خدا میں نہاں ہو جائیں گے؟ اور جب تک آپ خدا میں نہاں نہ ہوں گے غیروں کے واروں سے آپ بچ نہیں سکتے.غیروں کے حملے سے آپ پناہ میں نہیں آسکتے.آپ کے وجود کا کچھ نہ کچھ حصہ اس محفوظ فصیل سے باہر رہ جائے گا جو خدا کی حفاظت کی فصیل ہے.پس آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم تو حید کے مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھیں اور اس رمضان مبارک میں کثرت کے ساتھ یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا کامل موحد بندہ بنا دے اور تمام جماعت کے لئے بھی یہی دعائیں کریں.اس دعا میں ساری دعا ئیں آجاتی ہیں.اس دعا میں اپنے مظلوم بندوں کی حفاظت کی دعا بھی آجاتی ہے.کیونکہ آپ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے.آپ جو چاہیں کر لیں آپ میں طاقت نہیں ہے.اگر آپ میں طاقت ہوتی تو ان ظالموں کو جرات نہ ہوتی کہ آپ کے بھائیوں کو اس قسم کے دکھ دیں اور اس قسم کی تکلیفیں پہنچائیں.پس ایک ہی راہ ہے آپ ان کی حفاظت کے لئے ایک ہی اقدام ہے جو کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے تو حید کامل کے حصول کی دعا کریں اور خود موحد کامل بن جائیں کیونکہ اگر آپ موحد کامل بن جائیں گے تو آپ کی ہر درد کی پکار آسمان پر سنی جائے گی.آپ کی ہر التجاء مقبول ہوگی یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کے دکھوں کا دکھ جو آپ کے دل کو حاصل ہو گا اس پر خدا رحمت اور شفقت کی نگاہ نہ کرے.بارہا میں نے دیکھا ہے کہ ایسے ایسے خوفناک مصائب یوں آنا فا نائل جاتے ہیں جیسے بعض دفعہ آندھیاں بادلوں کو بکھیر دیا کرتی ہیں.اگر دل میں ایک شدید درد کی لہر دوڑے اور انسان اس کو محسوس کر لے کہ خدا کی رحمت کی نظر اس پر پڑ گئی ہے.بعض دفعہ ابتلاء کچھ دیر لیے بھی ہو جایا کرتے ہیں.یہ بھی الگ مضمون ہے لیکن جو موحد ہو جائے پھر وہ اس بات سے بے نیاز ہو جایا کرتا ہے کہ جلدی سنی گئی ہے یا دیر میں سنی گئی کیونکہ یہ بھی ایک تو حید ہی کی علامت ہے.توحید میں سپردگی کا مضمون ہے نہاں ہونے کا مضمون ہے.جب آپ اپنے وجود کو خدا کے سپرد کر دیتے ہیں پھر اس پر چھوڑ دیتے ہیں.پھر جانتے ہیں کہ اب جو کچھ بھی ہونا ہے خدا تعالیٰ کی اعلیٰ اور باریک دربار یک حکمتوں کے نتیجے میں ہونا ہے اور وہ بہتر سمجھتا ہے کہ کس طرح

Page 284

خطبات طاہر جلد ۸ 279 خطبه جمعه ۲۸ / اپریل ۱۹۸۹ء ہماری دعاؤں کو قبول کرے گا اور کونسی چیز ہمارے لئے بہتر ہے لیکن اس مضمون کے ساتھ پھر بے چینی غائب ہو جاتی ہے، تکلیف کے ازالے ہو جاتے ہیں، انسان اپنے آپ کو امن میں محسوس کرتا ہے.تو یہ بقیہ رمضان خصوصیت کے ساتھ تو حید کے لئے دعائیں کریں.ہم نے تمام دنیا کو توحید سے فتح کرنا ہے.اس کے بغیر عددی غلبہ اور سیاسی غلبہ کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا.سچے مومن کو ان غلبوں کی ایک جوتی کی نوک کے برابر بھی پرواہ نہیں ہوا کرتی.غلبہ وہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور خدا کی تو حید کو بنی نوع انسان کے دلوں پر قائم کر دے اور بنی نوع انسان کو اس توحید کے جلال سے مغلوب کر دیں.پس ہمارا سفر اس صدی میں اب شروع ہو چکا ہے اس سفر کا منتہاء یہ رہنا چاہئے اور اس سفر کا قبلہ ہمیشہ یہی رہنا چاہئے اور کبھی بھی ہم میں اس قبلے سے رو گردانی نہیں کرنی چاہئے کہ اس صدی کے اختتام سے پہلے پہلے لازماً خدا کی تو حید دنیا پر غالب آجائے.ان علاقوں میں اور ان قوموں پر بھی غالب آ جائے جہاں توحید کے نعرے تو بلند ہوتے ہیں مگر دل توحید سے خالی ہیں.ان علاقوں اور ان قوموں میں بھی غالب آجائے جہاں توحید کے تصور کے ساتھ مشرکانہ تصور مل جل گئے ہیں اور توحید کا تصور بھی خالص نہیں رہا اور ان علاقوں میں بھی تو حید غالب آ جائے جہاں ابھی تک خدا کا تصور بھی دوبارہ قائم نہیں ہو سکا یعنی پہلی نسلوں سے اس تصور کو مٹا دیا گیا اور اب اندھی نظریں ایسی پیدا ہو رہی ہیں.کروڑ ہا کروڑ انسان ایسے پیدا ہو رہے ہیں جو اپنے خالق کے وجود کے احساس سے ہی عاری ہیں.بہت بڑا کام ہے اتنا بڑا کام ہے کہ ہمارا اپنی موجودہ حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہ اعلان کرنا کہ ہم یہ کام کر لیں گے ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.بارہا میں نے تجربہ کیا ہے بڑے بڑے دانشور مجھے ملنے آتے ہیں جب ان کو میں بتاتا ہوں کہ یہ ہمارا پروگرام ہے تو بعض دفعہ کہتے ہیں واقعی آپ کو یقین ہے کہ آپ ایسا کر لیں گے؟ میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہاں ہمیں یقین ہے اور اس یقین کی وجوہات ہیں.میں ان کو ماضی میں لے جاتا ہوں اور پرانے زمانوں کے سفر کرا تا ہوں، ان کے مسیح کے زمانے کی سیر کراتا ہوں، ان کو بتا تا ہوں کہ دیکھو پہلے بھی ناممکن تھا، ناممکن تو ضرور ہے لیکن ہو جایا کرتا ہے یہ ناممکن.یہ ناممکن وہ نہیں جو اس کو تم دنیا کی نظر سے ناممکن سمجھتے ہو، یہ اور مضمون ہے.وہ ہمدردی میں بعض دفعہ شرافت میں خاموش تو ہو جاتے ہیں لیکن مجھے نظر آتا

Page 285

خطبات طاہر جلد ۸ 280 خطبه جمعه ۲۸ راپریل ۱۹۸۹ء ہے کہ ان کی آنکھوں میں بے یقینی باقی رہی ہے کیونکہ یہ دانشور لوگ ہیں یہ جانتے ہیں کہ اس چھوٹی سی جماعت کی کوئی حیثیت نہیں ہے.ٹھیک ہے ایک سو بیس ممالک میں پھیل گئی مگر کہاں تک پھیلی ، کتنا نفوذ کیا؟ ایک بھی تو ایسا ملک نہیں جہاں ان کو واقعی غلبہ اور قوت نصیب ہوگئی ہو اس لئے وہ اپنے اندازے لگاتے ہیں ، اربع لگاتے ہیں اور کہتے ہیں ہاں نیک ارادے ہیں آگے بڑھو لیکن یہ دنیا تمہارے اختیار کی دنیا نہیں، تمہاری طاقت سے باہر نکل چکی ہے.جس رفتار سے تم اس دنیا کو تو حید کی طرف لاؤ گے اس سے سینکڑوں گنا زیادہ رفتار سے یہ دنیا غیر موحد اور مشرک اور بے دین بچے پیدا کر رہی ہوگی.اس لئے عقل کے ناخن لو تم کیسے ایسے بڑے دعوے کرتے ہو؟ اگر دنیا کے کمپیوٹرز میں ان دلائل کو ڈالا جائے تو کوئی شبہ نہیں آج دنیا ہمیں دیوانہ اور ان تو حید کے غلبے کے انکار کرنے والوں کو فرزانہ قرار دے گی لیکن ایک اور کمپیوٹر ہے اور وہ مذاہب کا کمپیوٹر ہے، مذاہب کی تاریخ کا کمپیوٹر ہے، وہ تقدیر الہی کا کمپیوٹر ہے.اس میں اگر آپ یہی واقعات ڈالیں اور یہی مواز نے کریں تو ہمیشہ یہ جواب آئے گا کہ یہ دیوانے، یہ کمزور جن کو دنیا بجھتی ہے کہ آج نہیں تو کل مٹا دیے جائیں گے انہوں نے ضرور غالب آتا ہے اور یہ بلند بانگ دعاوی جو تمہیں دکھائی دیتے ہیں یہ ضرور سچے نکلیں گے.اس لئے کہ تو حید کا مضمون ہی ایسا ہے.غالب نے کہا ہے کہ عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا (دیوان غالب صفحه : ۹۶) اس نے تو اور رنگ میں کہا ہے مگر میں اس کو ہمیشہ توحید کے مضمون پر اطلاق پا کر کے اس کی لذت حاصل کرتا ہوں.ہم ایک قطرہ ہیں ہمارے مقابل پر سمندر ہیں.ہماری عشرت یہ نہیں ہے کہ ان شور سمندروں میں غائب ہو جائیں اور ان کے ساتھ یکجہتی اختیار کر کے ان کی عظمتوں کو اپنی عظمت سمجھنے لگیں.یہی پیغام ہے جو آج پاکستان ہمیں دے رہا ہے.یہی پیغام ہے جو آج بعض دوسرے عرب ممالک اور دیگر مسلمان ممالک خواہ عرب ہوں یا غیر عرب ہوں ہمیں دے رہے ہیں اور وہ یہی کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہیں عشرت قطرہ بتاتے ہیں.تم ہمارے مقابل پر ایک قطرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور قطرے کی لذت یہ ہو جایا کرتی ہے کہ وہ سمندر میں غرق ہو جائے اور اپنے وجود کو ، اپنی

Page 286

خطبات طاہر جلد ۸ 281 خطبه جمعه ۲۸ اپریل ۱۹۸۹ء انفرادیت کو کھودے.پھر تم ہم جیسے ہو جاؤ گے، ہماری موجوں کے ساتھ موجیں مارو گے، ہمارے غلبوں کے ساتھ ساحلوں پہ غلبے حاصل کرو گے.میں ان سے کہتا ہوں کہ نہیں ہم اور قسم کے قطرے ہیں ہم وہ قطرے ہیں جو توحید میں فنا ہونے والے ہیں.تمہارے سمندروں کے تو کنارے موجود ہیں مگر تو حید باری تعالیٰ بے کنار ہے اس کی کوئی حدیں نہیں اگر تمہارے سمندر میں غرق ہونے سے ایک قطرہ تمہارے سمندر کی سی عظمتیں حاصل کر سکتا ہے تو کیوں غور نہیں کرتے کہ توحید باری تعالیٰ کے سمندر میں غرق ہونے سے ایک قطرہ کتنی عظیم الشان عظمتیں حاصل کر سکتا ہے، کتنی نا قابل بیان عظمتیں حاصل کر سکتا ہے.پس وہ عشرت ہے جس کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں، اپنے وجود کے حقیر ذرے کو، اپنی جماعت کے ایک قطرے کو آپ تو حید باری تعالیٰ کے نا پیدا کنار سمندر میں غرق کر دیں پھر آپ نے غالب آنا ہی آتا ہے کوئی دنیا کی طاقت آپ پر غالب نہیں آسکتی.یہ سمندر پھر آپ کی منتیں کریں گے کہ اے قطرہ تو حید ہمیں اپنے اندر داخل کر لوہم اپنی شوریدگیوں سے تنگ آئے بیٹھے ہیں، ہمیں اپنے وجود کا حصہ بناؤ، ہمیں پاک کرو تا کہ ہم تمہارے ساتھ مل کے خدا کی توحید کے عظیم سمندر کا ایک حصہ بن جائے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 287

Page 288

خطبات طاہر جلد ۸ 283 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۹ء حجۃ الوداع کے خطبہ میں ہمارے لئے امن اور صلح کا ایک عظیم الشان لائحہ عمل موجود ہے (خطبه جمعه فرموده ۵ مئی ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج اس رمضان مبارک کا آخری جمعہ ہے.اسے جمعتہ الوداع کہا جاتا ہے اور تمام دنیا میں مسلمان اس جمعہ کو نہایت احترام اور جذبات تقدیس اور عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں.یہ وہ نماز ہے جو مسجد میں ادا کی جانے والی نمازوں میں سب سے زیادہ مسلمانوں کو مرغوب ہے اور ایسے مسلمان بھی جو سارا سال نماز کے لئے مسجد میں نہیں پہنچتے وہ اس جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد آ جایا کرتے ہیں.اس لئے مساجد بھر جاتی ہیں، نمازی مساجد سے باہر جہاں جہاں تک ان کو توفیق ملاتی ہے صفیں بچھا کر دور دور تک پھیل جاتے ہیں اور سال بھر میں پڑھی جانے والی نمازوں میں سے یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی نماز ہے.اس ضمن میں آج آپ یہ توقع رکھ رہے ہوں گے کہ جمعتہ الوداع کی برکتوں کے متعلق میں کچھ مضمون بیان کروں گا لیکن میں اسی مضمون کو مکمل کرنا چاہتا ہوں جو میں نے گزشتہ جمعہ میں شروع کیا تھا.اب بظاہر سرسری نظر سے آپ کو اس مضمون کا جمعتہ الوداع سے تعلق نظر نہیں آئے گالیکن جوں جوں میں بات کو آگے بڑھاؤں گا یہ بات کھلتی چلی جائے گی کہ دراصل اس مضمون کا جمعۃ الوداع سے ایک گہرا تعلق ہے.

Page 289

خطبات طاہر جلد ۸ 284 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء میں نے آپ کے سامنے کلمہ توحید اور کلمہ شہادت کا مضمون چھیڑا تھا.میں نے ذکر کیا تھا کہ لا اله الا اللہ میں پیغام یہ ہے کہ اللہ تک پہنچنے سے پہلے اپنے ماحول، اپنے گردو پیش، اپنی دنیا کے سارے تعلقات اور سارے نظریات کو کالعدم کرنا پڑتا ہے اور جب کلیۂ ہر دوسری چیز پرفتا آ جائے گویا کائنات انسان کے لئے باقی نہ رہے تب وہ خدا تک پہنچنے کا اہل بنتا ہے اور تب حقیقت میں پورے عرفان کے ساتھ وہ الا اللہ کا نعرہ لگا سکتا ہے.گویا ساری دنیا سے وہ منقطع ہو جاتا ہے اور دنیا کا کچھ بھی اس کے لئے باقی نہیں رہتا اور سوائے ایک خدا کی ذات کے اس محو کچھ اور دکھائی نہیں دیتا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اس کے بعد پھر اسی طرح زندگی گزارتا ہے اور کیا پھر اس کے دنیا کے ساتھ تعلقات کبھی بحال نہیں ہوتے؟ اس کا جواب ان محمدا عبدہ ورسولہ میں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف تبتل اختیار کر لے اور تمام دیگر کائنات کے وجود کو لذیذ دیکھتے ہوئے بھی محض ایک خیال اور واہمہ شمار کرنے لگے.جب اپنے تعلقات کے سارے دائرے اپنی ذات سے الگ کر دے اور سارے رشتے منقطع کر دے.اس کے بعد پھر وہ دنیا کی طرف کیسے رجوع کرے؟ اس کا جواب اس میں ہے کہ اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده ورسولہ.دنیا کے دوبارہ جو تعلقات قائم ہوتے ہیں وہ رسالت کے ذریعے قائم ہوتے ہیں اور تعلقات کا ایک نیا مضمون پیدا ہوتا ہے.رسالت کے بغیر جو دنیا کے تعلقات ہیں ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں.وہ محض فساد ہیں، وہ محض بنی نوع انسان کے تمام تعلقات کے دائروں میں فساد پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں اور رسالت کے بغیر بنی نوع انسان کے تعلقات خواہ وہ فرد فرد کے درمیان ہوں یا قوموں اور قوموں کے درمیان ہوں ان کی فساد کے سوا اور کوئی بھی حقیقت نہیں رہتی.پس رسالت کے مضمون کو نکالتے ہی تمام دنیا فساد اور ظلم سے بھر جاتی ہے.پس جب آپ اللہ تک پہنچتے ہیں اور گردو پیش اور ماحول کو کلیۂ مٹا کر نابود کر دیتے ہیں پھر خدا دوبارہ آپ کو اس دنیا کی طرف واپس بھیجتا ہے مگر رسالت کے واسطے سے.حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے وسیلے سے اس سے پہلے بھی مختلف رسول وسیلہ بنے مگر آج اگر کوئی وسیلہ ہے تو صرف حضرت اقدس محمد مصطفی ملے ہیں.پس ہمیں نئے تعلقات عطا ہوتے ہیں اور اس مضمون پہ جب آپ غور کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ خاوند کے بیوی سے تعلقات بھی وہی تعلقات ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے آپ

Page 290

خطبات طاہر جلد ۸ 285 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء کو ملتے ہیں اور آپ کے وسیلے سے آپ کو ملتے ہیں.اگر یہ وہ تعلقات نہ ہوں تو محض وہ فساد ہے اور کوئی امن نہیں ہے ان تعلقات میں کوئی تسکین کی ضمانت نہیں.باپ کو بیٹی کے ساتھ جو تعلقات نصیب ہوتے ہیں وہ بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں.باپ کو بیٹے کے ساتھ جو تعلقات عطا ہوتے ہیں وہ بھی اسی وسیلے سے ملتے ہیں.بیٹیوں کو ماؤں کے ساتھ اور باپوں کے ساتھ اور بہنوں کو بھائیوں کے ساتھ اور بھائیوں کو بھائیوں کے ساتھ اور بہنوں کے ساتھ.چچا زاد بھائیوں کے تعلقات ہوں یا خالہ زاد بھائیوں کے تعلقات ہوں یا قریب کے رشتوں کے تعلقات ہوں یا دور کے رشتوں کے تعلقات ہوں.خاندانی تعلقات کو جتنا چاہیں آپ پھیلا لیں ہر تعلق میں آپ کے لئے رسالت کی طرف سے ایک پیغام ہوگا اور ان تعلقات کا ایک تصور آپ کے سامنے رکھا گیا ہے.پھر وہ تعلقات رشتوں سے باہر نکل جائیں اور مالک اور مملوک کے درمیان ہوں ، آقا اور ملازم کے درمیان ہوں یا ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ ہوں ، محلہ داری کے تعلقات ہوں یا شہری حقوق سے تعلق رکھنے والے تعلقات ہوں، بین الاقوامی تعلقات ہوں.اب اس مضمون کو جتنا چاہیں پھیلاتے چلے جائیں زمین کے کناروں تک نظر ڈال لیں وہی تعلقات آپ کو صحیح تعلقات دکھائی دیں گے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رسالت کے وسیلے سے آپ کو عطا ہوتے ہیں.پس لا الہ کا مضمون پہلے ساری دنیا کو باطل کر کے آپ کی نظر سے غائب کر دیتا ہے.الا اللہ کا مضمون آپ کو خدا کی طرف لوٹاتا ہے اور خدا کے سوا اور کوئی ہستی باقی نہیں رہتی.پھر خدا کی طرف سے آپ کو دنیا میں ایسے رستے سے لٹایا جاتا ہے جو رسالت کا رستہ ہے اور اس رستے سے جو نئے تعلقات عطا ہوتے ہیں اسی کا نام جنت ہے.تمام دنیا میں جتنی بھی خرابیاں ہیں وہ ان تعلقات کو چھوڑ کر ان سے الگ تعلقات قائم کرنے کے نتیجہ میں ہوا کرتی ہیں.اب یہ مضمون تو بہت ہی وسیع ہے.اس کی تفاصیل میں تو میں یہاں نہیں جاسکتا لیکن میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ جب تک ہم کلمہ توحید اور کلمہ شہادت کے اس مضمون کا عرفان حاصل کر کے اپنی زندگیوں میں ایک نیا انقلاب پیدا نہیں کرتے ہم بنی نوع انسان کے لئے وہ مفید وجود نہیں بن سکتے جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : 1) اے محمد مصطفی ﷺ کی امت ان تمام امتوں میں سب سے بہتر ہو جو آج تک بنی نوع انسان کے

Page 291

خطبات طاہر جلد ۸ 286 خطبه جمعه ۵ارمئی ۱۹۸۹ء فائدے کے لئے نکالی گئی تھیں.کیونکہ تم خالصہ ان کی بہبود کے لئے وقف ہو اور جب تک یہ امت کا رشتہ محمد علی کے ساتھ ہے اس وقت تک تم خیر امت کہلا ؤ گے.جہاں جہاں ان رشتوں میں رخنے پڑیں گے، جہاں جہاں ان رشتوں میں کمزوریاں واقع ہوں گی وہاں وہاں آپ کا خیر امت ہونا مشکوک اور مجروح ہوتا چلا جائے گا.آپ فی الحقیقت خیر امت کہلانے کے مستحق باقی نہیں رہیں گے.پس یہ جمعہ جو ہمارے لئے ایک اور بھی اہمیت رکھتا ہے یعنی احمدیت کی نئی صدی کے پہلے رمضان کا آخری جمعہ ہے.اس جمعہ میں میں نے سوچا کہ آپ کو یہی نصیحت کروں کہ کلمہ شہادت کے مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر قائم ہو جائیں اور اس مضمون کی اگر چہ تفاصیل میں جانے کا وقت تو نہیں لیکن چند بنیادی باتیں میں آپ کے سامنے ضرور رکھوں گا.رسالت کی روح اور رسالت کی جان کیا ہے؟ سب سے پہلی چیز اس میں صداقت ہے اور دوسری چیز امانت ہے.کوئی رسول ، رسول بن نہیں سکتا جب تک وہ خالصہ سچا اور اپنے نفس کی گہرائی میں سچا نہ ہو.جب تک اس کے وجود کا ذرہ ذرہ سچائی پر مبنی نہ ہو اس وقت تک وہ رسول بننے کا اہل نہیں ہوا کرتا.اسی طرح اس کے لئے امین ہونا ضروری ہے، امانت دار ہونا ضروری ہے.کیونکہ دنیا میں جتنے پیغام انسان دوسرے تک پہنچایا کرتا ہے ان پیغاموں میں ان دو بنیادی صفات کا ہونا ضروری ہے ورنہ وہ پیغام بگڑ جایا کرتے ہیں.پس رسالت کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ کی نظر ایسے وجود پر پڑتی ہے جو سچائی میں بھی کامل ہو اور امانت میں بھی کامل ہو اور ان دو پہلوؤں سے حضرت اقدس محمد مصطفی معہ بچپن ہی سے مشہور تھے.آپ صدوق بھی کہلاتے تھے، صدیق بھی کہلاتے تھے اور امین بھی کہلاتے تھے.سارا عرب گواہ تھا کہ عرب میں اس سے بڑھ کر سچا بچہ کبھی پیدا نہیں ہوا اور اس سے زیادہ امانت دار بچہ کبھی پیدا نہیں ہوا.اس لئے بچپن سے بڑی عمر تک پیشتر اس کے کہ آپ کو رسالت عطا ہو آپ عرب میں ایک بچے انسان اور ایک امانت دار یعنی امین انسان کے طور پر مشہور و معروف تھے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی وساطت سے آپ کو جو بنی نوع انسان کے ساتھ تعلقات عطا ہونے ہیں ان میں یہ دو تعلقات ایسے ہیں جن کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے.اگر جماعت احمد یہ سچائی کو چھوڑ دے اور اپنے چھوٹوں ، اپنے بڑوں ، اپنے مردوں ، اپنی عورتوں میں سچائی کے مضمون کو کثرت کے ساتھ دن رات عام گناہ کرتی رہے تو خطرہ ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ

Page 292

خطبات طاہر جلد ۸ 287 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء ہم سچائی کے اعلیٰ معیار پر قائم نہیں رہیں گے.اسی لئے بسا اوقات جب بچوں میں بھی میں دیکھتا ہوں کہ مذاق کے طور پر ان سے کہا جاتا ہے کہ کوئی بات نہیں یوں کہہ دو یا یوں کہہ دو تو اس سے مجھے بڑا صدمہ پہنچتا ہے، بہت تکلیف ہوتی ہے اور میں بچوں کو پیار سے سمجھاتا ہوں کہ مذاق میں بھی جھوٹ کو استعمال نہ کریں.بچپن میں ہم بھی باتیں بیان کرتے وقت مبالغہ آمیزی میں بھی مبتلا ہو جایا کرتے تھے لیکن اب جب میں نظر ڈال کر دیکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت بھی یہ غلطی تھی اور آئندہ نسلوں کو اگر ہم یہ کرنے دیں گے تو یہ بھی غلطی ہوگی.لطائف میں ، وہ لطائف جو لطائف کی خاطر بیان ہونے ہوتے ہیں ان کا واقعات سے تعلق نہیں ہوتا.کہانیوں میں جو کہانیوں کی خاطر بیان کی جاتی ہیں ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، سچ اور جھوٹ کے مضمون کا کوئی دخل نہیں ہے اس لئے غلط فہمی سے ان امور کی طرف ابھی توجہ نہ لے جائیں میری مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کوئی لطیفہ دوسرے کے سامنے بیان نہ کریں اس خیال سے کہ یہ پتا نہیں سچا تھا یا جھوٹا تھا.کہانیاں بھی سچ اور جھوٹ کے مضمون سے الگ ہوا کرتے ہیں.لطائف بھی سچ اور جھوٹ کے مضمون سے الگ ہوا کرتے ہیں.مگر جب آپ اپنے بھائی ، اپنے دوست کے متعلق لوگوں کو ہنسانے کی خاطر کوئی ایسی بات بیان کرتے ہیں جس میں مبالغے کا پہلو داخل کرنا پڑتا ہے ورنہ لوگ ہنسیں گے نہیں اس کے نتیجے میں آپ دو گنا ہوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے جھوٹ بولا اور جھوٹ سے جونفرت چاہئے اس نفرت کا آپ نے اس طرح خیال نہیں رکھا جس طرح ایک سچے مومن کو رکھنا چاہئے اور جب ایک دفعہ قابل نفرت چیزوں سے تعلقات قائم ہو جائیں تو پھر وہ تعلقات بعض دفعہ خطرناک صورت بھی اختیار کر جایا کرتے ہیں.پس قابل نفرت چیزیں چھوڑنے کے لئے ہوا کرتی ہیں.ان کی ہر شکل چھوڑنے کے لئے ہوا کرتی ہے.تھوڑی بھی چھوڑنے کے لائق ہوا کرتی ہے اور زیادہ بھی چھوڑنے کے لائق ہوا کرتی ہے.اسی لئے فقہاء نے جو حرمت شراب کا مضمون بیان کیا ہے.اس میں وہ کہتے ہیں کہ جس چیز کی کثرت آپ کو نشہ پیدا کر دے اس کی قلت بھی حرام ہے.جس کا زیادہ بُرا ہے اس کا کم بھی حرام ہے.پس جھوٹ کو حرام چیزوں میں سب سے زیادہ حرام سمجھیں.شراب جھوٹ کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی لیکن عجیب حالت ہے کہ بہت سے ایسے لوگ جو شراب کے تصور سے بھی گھبراتے ہیں اور کسی کو اگر وہ شراب کی عادت میں مبتلا دیکھیں تو سمجھتے ہیں کہ اس کے

Page 293

خطبات طاہر جلد ۸ 288 خطبه جمعه ۵ارمئی ۱۹۸۹ء اوپر جہنم لازمی ہو چکی ہے.جھوٹ سے پر ہیز میں وہ شدت نہیں رکھتے اور سچائی کا وہ احترام نہیں رکھتے.اس لئے سب سے بڑا جہاد جو اس صدی کے سر پر آپ کو کرنا ہے وہ جھوٹ کے خلاف ہے.ور نہ آپ رسالت کے ساتھ وفاداری کا حق ادا نہیں کر سکتے.آپ کے سارے تعلقات پر اس چیز نے اثر انداز ہونا ہے اور تمام بنی نوع انسان کو جو آپ نے نئے تعلقات عطا کرنے ہیں یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کے وسیلے سے آپ نے جو نئے تعلقات ادا کرنے ہیں ان میں سب سے زیادہ اہمیت سچائی کو ہے.کیونکہ رسالت کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اہمیت سچائی کو دیتا ہے.دوسرا حصہ امین ہونے کا ہے.اگر ہم ایک دوسرے کے اموال کے امین نہیں ہیں، اگر ہم ایک دوسرے کی عزتوں کے امین نہیں ہیں، اگر ہم پیغاموں کے امین نہیں ہیں تو جوں جوں وقت گزرتا چلا جائے گا ہماری قدریں تبدیل ہوتی چلی جائیں گی.ملاوٹیں پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی چیز خالص نہیں رہے گی.پس جس طرح دودھ کی حفاظت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس میں کوئی دوسری چیز نہ مل جائے اسی طرح سب سے زیادہ پیغام محمد مصطفی ﷺ کی حفاظت کی ضرورت ہے تا کہ انسانی نفس کے ملونی اس پیغام میں شامل نہ ہو جائے اور اس پیغام کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس پیغام کے نتیجے میں جو انسانی تعلقات قائم ہوتے ہیں ان کی حفاظت کی ضرورت ہے اور ان کی پاکیزگی کی حفاظت کی ضرورت ہے اور امین ہونا ہمارے لئے تقریباً روزانہ آزمائشیں لے کر آتا ہے کیونکہ بعض امانتوں میں ہم سمجھتے ہیں کہ بہت ہی مقدس امانتیں ہیں ان کو چھیڑنا نہیں چاہئے لیکن بعض امانتوں میں ہم بے پرواہ ہو کر خیانتیں شروع کر دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ بنیادی طور پر جب آپ کسی ایک پہلو سے بھی خائن بننا شروع ہو جائیں تو امین سے آپ کے تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی عملہ سے آپ کی محبت اور عشق کے اوپر حرف آ جاتا ہے.پس جب اموال آپ کے سپرد کئے جائیں اور آپ امین نہ رہیں، جب آپ لوگوں سے اموال اس نیت سے لینا شروع کر دیں کہ ہم جب چاہیں، جب موقع ملے گا اس میں سے کچھ استعمال بھی کر لیں گے شرط یہ ہے کہ اس کو پتا نہ چلے.تو پھر یہ معاملات آگے بڑھتے ہیں پھر اس کے بعد انسان خائن سے ڈا کو بننے لگتا ہے پھر غاصب ہو جاتا ہے پھر عام آدمیوں کے حق غصب کرنے کے علاوہ مظلوموں اور محروموں کے حق مارنے لگتا ہے، کمزوروں کے حق مارنے لگتا ہے.آج کل تیسری دنیا میں جو کچھ ہورہا

Page 294

خطبات طاہر جلد ۸ 289 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۹ء ہے وہ اسی خیانت کی تصویر میں ہیں جو دن بدن زیادہ بھیا نک ہوتی چلی جارہی ہیں ، زیادہ سیاہ ہوتی چلی جارہی ہیں، زیادہ مکروہ ہوتی چلی جارہی ہیں اور خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں تو بد دیانتی سے گلی گلی ، شہر شہر، گھر گھر بھر گئے ہیں.کوئی کسی زندگی میں ، زندگی کے کسی پہلو میں کسی جگہ بھی تسکین اور طمانیت نہیں ہے ، اعتماد اُٹھ گئے ہیں.اس لئے کہ کم و بیش کا ہر شخص خائن بن چکا ہے.پس خیانت کا مضمون بھی بہت ہی اہمیت رکھتا ہے یعنی خیانت سے بچنے کا مضمون اور امانت پر قائم رہنے کا مضمون غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی یہ دو بنیادی صفات ایسی ہیں جن کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھنا ہوگا.جس طرح ظفر نے کہا تھا کہ ھے میں نے چاہا تھا اس کو کہ روک رکھوں میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں (کلیات ظفر) اس طرح ان دونوں صفات حسنہ سے چمٹ جائیں اور وابستہ پختہ ہو جائیں.اگر آنحضرت ﷺ سے سچی محبت ہے تو یہ سوچیں کہ وہ کیوں محبوب وجود بنے ؟ یہ دو بنیادی صفات تھیں جو محد کی تخلیق کا آغاز بن گئیں.کیونکہ ان کے ساتھ محمد مصطفی ﷺ کی مٹی گوندھی گئی ہے.یہ وہ ضمیر ہے الله جس سے رسول اکرم ﷺ کی رسالت تشکیل پائی ہے.پس اس خلاصہ کو اپنا حرز جان بنالیں ،اپنے وجود میں ، اپنے رگ و پے میں داخل کر لیں.کیونکہ آپ نے باقی دنیا کو اور آئندہ آنے والی دنیا کو بہت سے پیغام پہنچانے ہیں، بہت سی نیک خلصتیں ان کی نسلوں میں منتقل کرنی ہیں، نسلاً بعد نسل منتقل کرنی ہیں.آپ کو خدا نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ اس صدی کے سر پر آپ کھڑے ہیں اور یہ بہت ہی بلند مقام ہے اور بہت ہی ذمہ داری کا مقام ہے.پس اس خطبتہ الوداع میں جو جمعۃ الوداع کا خطبہ ہے میں آپ کو سچائی اور امانت کی طرف خصوصیت کے ساتھ بلاتا ہوں اور یہ دو چیزیں جب آپ کی ذات میں اکٹھی ہو جا ئیں تو آپ لازماً مسلم بن جاتے ہیں کیونکہ مسلم کی جو تعریف آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی خطرہ نہ رہے، کوئی گزند نہ پہنچے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ سچائی پر قائم ہوں اور اگر آپ امین ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ سے خوف نہیں کھا سکتی.ان معنوں میں خوف نہیں کھا سکتی کہ آپ سے کوئی گزندان کو نہیں پہنچے گا آپ پر کامل اعتما داس کو پیدا ہو جائے گا.ہاں دوسرے

Page 295

خطبات طاہر جلد ۸ 290 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء معنوں میں آپ سے خوف کھا سکتی ہے ، آپ کی عظمتوں سے خوف کھا سکتی ہے،اس بات سے خوف کھا سکتی ہے کہ ان دو قوتوں کے ساتھ جو آپ کے وجود میں شامل ہو چکی ہیں آپ نے لازماً غالب آنا ہے کیونکہ سچائی اور امانت کو کبھی شکست نہیں ہوا کرتی.اس پہلو سے آپ پر لازم ہے کہ ان دو صفات کو پکڑ کر بیٹھ جائیں تب آپ سچے معنوں میں مسلم بن جائیں گے.پھر ساری دنیا شور مچاتی چلی جائے کہ آپ غیر مسلم ہیں، غیر مسلم ہیں، غیر مسلم ہیں خدا کے فرشتے ان آوازوں کو لعنت کے ساتھ رد کرتے چلے جائیں گے کیونکہ محمد مصطفی ﷺ کی رسالت کی دو بنیادی صفات جن لوگوں میں ہوں ان کو تمام دنیا کا شور و غوغا بھی غیر مسلم نہیں بنا سکتا.مسلم وہ ہے جس کے وجود سے امن وابستہ ہے سلامتی وابستہ ہے اور اپنے کام اور اپنوں کی سلامتی بھی وابستہ ہے اور غیروں کا امن اور غیروں کی سلامتی بھی وابستہ ہے.چند دن ہوئے سلمان رشدی کے غلیظ ناول کے سلسلے میں ایک ڈنمارک سے آنے والے صحافی نے میرا انٹرویو لیا.ضمناً بہت لمبا انٹرویو تھا آج انہی کے ساتھی آئے ہیں اور وہ تصویریں کھینچ رہے ہیں.اس ضمن میں اسلام کی امانت کی بات بھی آئی اور اسلام کی سلامتی کی بات بھی آئی.میں نے اس سے کہا کہ یہ ایسا جاہل انسان ہے اور مغرب کی لاعلمی اور جہالت سے فائدہ اٹھا رہا ہے.یہ کہہ کر کہ اسلام میں پابندیاں بہت ہیں.اسلام یہ بھی بتاتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے یہ کرو اور بائیں ہاتھ سے وہ کرو اور یہ تفریق کرتا ہے اور ایسی ایسی بار یک باتوں میں دخل دیتا ہے کہ کسی انسان کے لئے زندگی اجیرن ہو جائے ، یہ کیا مذہب ہے یہ تو مصیبت ہے.یہ تاثر آزاد منش مغرب کے ذہن پر جب نقش ہوتا ہے تو اسلام کو قبول کرنے کی راہ میں شدید تر ڈر پیدا ہو جاتا ہے.کیونکہ یہ لوگ فرضی آزادیوں کے قائل ہو چکے ہیں، اخلاقی آزادیوں کے قائل ہو چکے ہیں جسے عام اردو محاورے میں کہتے ہیں مادر پدر آزاد شخص.تو اب نئی نسلوں میں خصوصاً مغرب میں مادر پدر آزادی کا ایک تصور قائم ہو رہا ہے کیونکہ اسلام سے متنفر کرنے کے لئے ایک یہ بھی طریق ہے کہ کہا جائے کہ اسلام تو آپ کی.ނ روز مرہ کی آزادی میں دخل دیتا ہے.آپ کوئی حرکت نہیں کر سکتے جب تک پہلے محمد مصطفی عملی پہلے پوچھ نہ لیں کہ یہ حرکت کیسے کرنی چاہئے؟ چنانچہ دائیں اور بائیں کا فرق ، یہ چیزیں بھی اس نے تمسخر کے ساتھ بیان کی ہیں.میں نے کہا میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان کا فلسفہ کیا ہے تب آپ سمجھیں اور غور کریں تب آپ کو پتا چلے گا کہ کیسے مسلم بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں آیا آپ کی آزادی پر حرف

Page 296

خطبات طاہر جلد ۸ 291 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء آتا ہے یا آپ کی روز مرہ کی زندگی میں سلاست اور صفائی اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے.میں نے کہا آج کی دنیا سائنس کی دنیا ہے اور یہاں سپیشلائزیشن (Specialisation) کے دور ہیں اور اس قدر زور ہے سپیشلائزیشن کا کہ اس بارے میں لطیفے بھی گھڑ لئے گئے ہیں.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ایک خص نے کسی کا کسی سے ڈاکٹر کے طور پر تعارف کروایا.اس نے کہا ڈاکٹر ٹھیک ہے لیکن کیسا ڈاکٹر ؟ Drinity کا یا سائنس کا ؟ اگر سائنس کا ہے تو کیمسٹری کا یا فرکس کا یا کسی فلاسفی کا یا علمی الا بدان سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر ، شفاء سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر، ڈاکٹر کیا مطلب، بتاؤ تو سہی؟ اس نے کہا نہیں علم الا بدان یعنی شفاء سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر.اس نے پھر پوچھا یہ بھی تو بڑا وسیع مضمون ہے.وہ فزیشن ہے یا سرجن ہے، جراح ہے یا عام طبیب ہے؟ وہ بھی تو پتا ہونا چاہئے.انہوں نے کہا یہ جراح ہیں.اس نے کہا جراحی کا مضمون بھی تو بہت وسیع ہے.جسم کے کس حصے سے تعلق رکھنے والے جراح ہیں؟ اس نے کہا آنکھ ، ناک اور کان.اس نے کہا آنکھ ناک اور کان وہ تو پرانے زمانے کی باتیں ہوئیں.اب تو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آنکھ سے تعلق ہے ان کا یا ناک سے یا کان سے.اس نے جواب میں کہا کہ ناک سے تعلق ہے.تو پھر اس نے پوچھا کہ کس نتھنے سے؟ اگر ناک سے تعلق ہے تو نتھنے کی بھی سپیشلائزیشن ہو گی.یہ وہ بظاہر ایک لطیفہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جس جدید ترین رجحانات سپیشلائزیشن کی طرف ہیں اور جتنا زیادہ انسان عقل اور فکر اور تد بر آگے بڑھتا ہے اتنا ہی وہ سپیشلائزیشن کی طرف مائل ہوتا چلا جاتا ہے.اسلام وہ مذہب ہے اور وہ شاندار مذہب ہے اور تمام مذاہب میں ایک ہے جس نے انسان کو سپیشلائزیشن سکھائی اور اسی میں مسلمان کا مسلمان ہونا دکھائی دیتا ہے.یعنی مسلم ہے اس سے آپ کو امن ہے اس سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں.میں نے کہا جب میں آپ سے دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرتا ہوں چونکہ میرے آقا محمد مصطفی عملے نے مجھے بتایا ہے کہ دائیں ہاتھ سے کوئی گندی چیز نہیں پکڑنی.اس لئے میں آپ کے لئے ایک امین کے طور پر آپ کو مجھ سے کوئی خوف نہیں ہے.آپ بے تکلفی سے ہاتھ بڑھا کر میرے دائیں ہاتھ کو تھام سکتے ہیں جانتے ہوئے کہ محمد مصطفیٰ" کا غلام ہے لازما یہ ہاتھ صاف ہو گا لیکن آپ نے نہ دائیں کی تمیز سکھی نہ بائیں کی تمیز سیکھی.ہوسکتا ہے آپ دائیں ہاتھ سے طہارت کر کے آئے ہوں، دائیں ہاتھ سے ناک صاف کیا ہو، دائیں ہاتھ سے کوئی گند اٹھایا ہو، کسی کتے کے منہ میں ڈالا ہو.مجھے تو آپ سے کوئی امن نہیں

Page 297

خطبات طاہر جلد ۸ 292 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء ہے.اخلاق کی خاطر اور تہذیب کی خاطر مصافحے تو میں کرتا ہوں لیکن واپس جا کر میں اس ہاتھ سے کھانا نہیں کھا سکتا جب تک اسے اچھی طرح صاف نہ کرلوں.تو یہ ہے مقام محمد مصطفی ﷺ.آپ نے ہمیں انسانیت کی اعلیٰ اقدار سکھائی ہیں، آپ نے ہمیں عظیم الشان تہذیب عطا کی ہے.یہ جاہل اور بیوقوف اور سفلی لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اگر ان باتوں پر ہنستے ہیں تو ان کو ہنسنے دو.آپ امین بنائے گئے ہیں اور یہ ہے امانت کا مقام کہ کوئی شخص آپ سے خوف نہیں کھائے گا کیونکہ اس کی عزت آپ کے ہاتھوں میں محفوظ ہوگی ، اس کی شرافت آپ کے ہاتھوں میں محفوظ ہے، اس کا نام آپ کے ہاتھوں میں محفوظ ہے، اس کی ملکیت آپ کے ہاتھوں میں محفوظ ہے، اس کے بچے ، اس کی بیٹیاں، اس کی بیوی، اس کے اور عزیز سارے آپ کے ہاتھوں میں محفوظ ہیں، اس کی ملکیتیں ہر قسم کی آپ کے ہاتھوں میں محفوظ ہیں.کوئی خطرہ آپ کی طرف سے نہیں ہے.یہاں تک کہ ہاتھ سے ہاتھ جب ملاتا ہے تب بھی وہ جانتا ہے کہ محمد مصطفی " کے غلام کے صاف ہاتھوں سے ہاتھ میں ملا رہا ہوں مجھے اس سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے.یہ ہے وہ پیغام جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری حج کے خطبہ میں دیا تھا اور اس پیغام کو حجتہ الوداع کے خطبہ کے طور پر ہم تمام دنیا کے مسلمان خوب جانتے ہیں لیکن اس حد تک جانتے ہیں کہ ان کو علم ہے ایک پیغام تھا.اس حد تک نہیں جانتے کہ اس پیغام کا مقصد یہ تھا کہ یہ پیغام ہماری زندگیوں میں داخل ہو جائے ، ہمارے خون میں دوڑنے لگے، ہمارے رگ و پے میں سرائیت کر جائے.اس پہلو سے بدقسمتی سے آج مسلمان بالکل غافل ہوا پڑا ہے.آپ نے اس قدر رکو دوبارہ زندہ کرنا ہے، آپ نے اس پیغام کی اہمیت کو اپنی زبان سے نہیں اپنے اعمال سے دنیا کو پہنچانا ہے اور محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کو بھی دوبارہ اس پیغام کی طرف واپس لے کے آنا ہے.یہ وہ کام ہے جو اس صدی کا جو آپ کے سامنے پھیلی پڑی ہے سب سے زیادہ اہم کام ہے اس لئے میں حجتہ الوداع کے خطبے میں سے چند اقتباسات آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور ان سے آپ سمجھیں گے که در حقیقت سچائی کیا ہوتی ہے، امانت کیا ہوتی ہے اور اسلام کس کا نام ہے؟ اور آنحضور علی بنی نوع انسان سے جدا ہونے سے پہلے اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف لوٹنے سے پہلے جو آخری نصیحت ہمیں کر گئے ہیں اس نصیحت کا احترام جتنا بھی ممکن ہے تصور میں اتنا کرنا ہر عاشق محمد مصطفی ﷺ کا

Page 298

خطبات طاہر جلد ۸ 293 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء فرض ہے.اس کے بغیر اس کے عشق کا دعوی سچا ہی ثابت نہیں ہوسکتا.آنحضور ﷺ نے فرمایا.اس خطبے میں سے وہ مضمون میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں جس کا اس خطبے کے بیان کردہ کے مضمون سے تعلق ہے.فرمایا: الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونؤمن به ونتوكل عليه و نعوذ بالله من شرور انفسنا و من سيئات اعمالنا من يهدى الله فلا مضل له و من يضلله فلا هادي له تمام تعریفیں صرف خدا ہی کے لئے ہیں جس کی ہم تعریف کرتے ہیں اسی سے مدد چاہتے ہیں، اسی سے تو بہ اور استغفار کرتے ہیں.ہم اپنے نفسوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے خدا کی پناہ میں آتے ہیں.یہ دعا جو آنحضرت ﷺ نے اس وقت مانگی اس کے پیچھے جو جذ بہ تھا اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.مگر جس حد تک تصور ممکن ہے اس کو محوظ رکھ کر آج آپ اس دعا میں شامل ہو جائیں اور دل کی گہرائیوں سے اس دعا کو عاجزانہ خدا کے حضور اس طرح پیش کریں گویا آپ رسول اکرم ﷺ کے پیچھے، آپ کے ساتھ اس دعا کو دُہرا رہے ہیں.تمام تعریفیں صرف خدا ہی کے لئے ہیں جس کی ہم تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد چاہتے ہیں ، اسی سے تو بہ اور استغفار کرتے ہیں.ہم پنے نفسوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے خدا کی پناہ میں آتے ہیں.کتنا عظیم الشان کلام ہے.ہم اپنے نفسوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے خدا کی پناہ میں آتے ہیں.دنیا میں جتنی برائیاں پھیلتی ہیں وہ انسانی نفوس کی برائیاں اچھل کر باہر نکلا کرتی ہیں اور دنیا کے لئے دکھ کا موجب بن جایا کرتی ہیں.پس فرمایا کہ دوسروں کو نہ دیکھو تم اپنی برائیوں سے خدا کی پناہ مانگو.اگر تم اپنی برائیوں سے خدا کی پناہ میں آجاؤ گے تو سوسائٹی تمہاری برائیوں سے پناہ میں آ جائے گی.اس کے بغیر سوسائٹی کی نجات کا اور کوئی رستہ نہیں.ہم اپنے نفسوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے خدا کی پناہ میں آتے ہیں جس کو خدا ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں.پس آپ مسلمان ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو غیر مسلم قرار نہیں دے سکتی اور جس کو وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں.گمراہ شخص کے متعلق ساری دنیا اور ساری دنیا کی حکومتیں اپنی آواز کی بلند ترین قوت کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ یہ سچا مسلمان ہے اگر خدا کے نزدیک وہ نہیں ہوگا تو وہ نہیں بن سکے گا.میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں سوا خدا کے جو اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ

Page 299

خطبات طاہر جلد ۸ 294 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء اور اس کا رسول ہے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ).یہ سب سے زیادہ عظیم الشان گواہی جو دی گئی ہے وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اپنی زبان سے تھی اور یہ حضور اکرم ﷺ حج وداع کے موقع پر خود گواہی دے رہے تھے.میں گواہی دیتا ہوں ( آپ فرما رہے تھے کہ ) محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے.اے اللہ کے بندو! میں تم کو تاکید کرتا ہوں اور ابھارتا ہوں کہ تم اس کی اطاعت کرو.میں نیکی سے ابتداء کرتا ہوں.پھر اس کے بعد اے لوگو! تم میری سنو میں تم کو کھول کر بتاتا ہوں کہ شائد اس سال کے بعد اس جگہ مجھ سے تم پھر ملاقات نہ کر سکو.اے لوگو! تمہارے آپس کے خون اور مال تم پر حرام ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملو.جس طرح سے یہ دن اور تمہارا یہ شہر اور تمہارا یہ مہینہ حرام یعنی بزرگ ہے.دیکھو میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا.اے اللہ ! تو بھی گواہ رہنا.پس جس کے پاس جس کی کوئی امانت ہو اس کو اس کے مالک کو پہنچا دے.جس کے پاس جس کی کوئی امانت ہو اس کو اس کے مالک تک پہنچا دے.بہت ہی عظیم الشان اور وسیع مضمون ہے.خدا نے ہمیں آپس کے تعلقات میں امین مقر رفرمایا ہوا ہے اور جس کا جو حق ہے اس تک پہنچانا یہ امانت داری ہے اور یہ وہ آخری پیغام ہے جس میں حضور اکرم ﷺ نے اسے سب سے نمایاں کر کے آپ کے سامنے رکھا.پس جس کے پاس جس کی کوئی امانت ہو اس کو اس کے مالک کو پہنچا دے.جاہلیت کا تمام سودی کاروبار آج سے ممنوع قرار پاتا ہے.پھر عورتوں سے تعلقات کے متعلق اور عورتوں کے مردوں پر حقوق اور مردوں کے عورتوں پر حقوق سے متعلق آپ نے نصیحت فرمائی اور چونکہ اس ضمن میں جماعت میں ابھی سے بہت سی کمزوریاں داخل ہو چکی ہیں جو انتہائی تکلیف کا موجب بنتی ہیں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ میں اس حصے کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا لوگو! عورتوں کے تم پر حقوق ہیں اور تمہارے عورتوں پر حقوق ہیں.ان پر تمہارے یہ حقوق ہیں کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی دوسرے کو نہ سونے دیں اور تمہاری اجازت کے بغیر ایسے لوگوں کو گھروں میں نہ آنے دیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو اور بے حیائی کی باتیں نہ کریں.اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو جدا کر سکتے ہو،الگ سُلا سکتے ہو اور نرم مار مار سکتے ہو سخت نہیں.آنحضرت ﷺ کو جیسی شفقت تھی عورتوں پر اتنی بڑی برائی بیان کرنے کے باوجود جب مار کی اجازت دی تو فرمایا نرم مار مار سکتے ہو سخت مار نہیں.پس اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری تابعدار ہو جائیں تو تم پر ان کی خوراک، ان کا پہناوا، نیکی اور مقررہ طریق پر واجب ہے.

Page 300

خطبات طاہر جلد ۸ 295 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۹ء پھر دیکھیں کس شفقت کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی معہ عورتوں کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف متوجہ فرماتے ہیں.فرماتے ہیں تمہارے ساتھ عورتیں مجبور آتی ہیں.بے اختیار اور بے بس ہوتی ہیں ، ماں باپ اپنے گھروں سے رخصت کر دیتے ہیں اور تمہارے سپردکر دیتے ہیں.یہ بھی دراصل امانت کا مضمون ہے.وہ جو ماں باپ کے گھر ناز و نعم سے پلتی تھیں وہ تمہارے ساتھ بے بس اور مجبور ہو کر آ جاتی ہیں اب تم ان کے امین ہو جو خود کچھ نہیں کر سکتیں تم ان کو خدا کی امانت کے طور پر حاصل کر سکتے ہو.بظاہر مضمون ماں باپ کی امانت سے شروع ہوا ہے لیکن آنحضرت علیہ نے اس کو آخری مقام تک پہنچا دیا ہے.فرمایا بے بس ہو کر آئیں تم ان کے امین ہومگر یا درکھو تم ان کو خدا کی امانت کے طور پر حاصل کر سکے ہو کیونکہ خدا کی اجازت سے آئی ہیں اور خدا کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع آئی ہیں.اس لئے بڑا گہرا معرفت کا فقرہ ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم ان کو خدا کی امانت کے طور پر حاصل کر سکے ہو اور اس کے نام سے تم نے ان کو جائز کیا ہے.پس ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ان کے لئے بھلائی سوچا کرو.لوگو! میں نے تبلیغ کر دی ہے.اے اللہ ! تو بھی گواہ رہنا.بار بار اس موقع پر حضرت اقدس محمد مصطفی عملے نے اس قسم کے فقرے دہرائے کہ لوگو ! میں نے تبلیغ کر دی ہے اور اے اللہ ! تو گواہ رہنا.کیا مطلب ہے؟ مطلب ہے کہ میں نے امانت تو امانت دار کے سپر د کر دی ہے.اے خدا تو نے مجھے جس بات کا امین بنایا تھا میں نے اس امانت میں خیانت نہیں کی.جس طرح تو نے فرمایا، جو کچھ تو نے فرمایا ایک ایک لفظ ، ایک ایک حرف ایک ایک شوشہ ، ایک ایک نقطہ میں نے بنی نوع انسان تک پہنچا دیا ہے اور یہ کہہ کر آپ فرماتے تم بھی گواہ ٹھہر و اور پھر پوچھا کہ بتاؤ میں نے امانت تمہارے سپرد کردی یا نہیں کر دی؟ سب نے کہا یا رسول اللہ بالکل صحیح فرمایا.آپ نے خوب امانت کا حق ادا کیا، آپ نے پیغام پورے کا پورا ہم تک پہنچا دیا.فرمایا لوگو! تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں.کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی کا مال بغیر اس کی مرضی کے لینا جائز نہیں ہے.دیکھنا میں نے تبلیغ کر دی ہے.اے اللہ ! تو بھی گواہ رہ اور اے لوگو! تم بھی گواہ ٹھہرو، میں نے تبلیغ کر دی ہے.میرے بعد تم لوگ کافر نہ بن جانا، ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو.آج بدقسمتی سے عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس خطبہ وداع کی ٹوٹل Negation ہے.کلیۂ اس کے مضمون کے برعکس صورت حال ہمیں مسلمان

Page 301

خطبات طاہر جلد ۸ 296 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء ممالک کے معاشرے میں دکھائی دے رہی ہے.اس گزشتہ چند سالوں میں جتنے مسلمانوں نے ، جتنے مسلمانوں کی گردنیں ماری ہیں گزشتہ ایک ہزار سال میں انہوں نے غیروں کی گردنیں اتنی نہیں ماریں.صرف ایران ، عراق جنگ میں مسلمانوں نے مسلمانوں کی اتنی گردنیں ماری ہیں کہ جو میں بیان کر رہا ہوں اس میں کوئی مبالغہ نہیں.گزشتہ ایک ہزار سال میں غیروں کی گردنیں اتنی نہیں ماریں اور آج بھی یہ سلسلہ خونریزی کا مسلمان مسلمان کے درمیان اسی طرح جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے.فرمایا میرے بعد تم لوگ کافر نہ بن جانا.کافر کی تعریف فرمائی.ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو.میں تمہارے پاس ایک ایسی چیز چھوڑ چلا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کیا اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے.وہ اللہ کی کتاب ہے.خبر دار میں نے تبلیغ کر دی ہے.اے اللہ! تو بھی گواہ ٹھہر کہ میں نے تبلیغ کر دی ہے.اے لوگو! تمہارا رب ایک ہی ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہی ہے، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی کا پتلا تھا.یعنی انسان کو نہ صرف یہ کہ انسانی وحدت کی تعلیم دی اور چونکہ ہم تو حید کی صدی میں اس رنگ میں داخل ہو رہے ہیں کہ بنی نوع انسان کو بھی امت وحدہ بنانا ہے.اس لئے خطبے کا بڑا گہرا تعلق ہے آج کے مضمون سے.آئندہ صدی کے لئے، ہمارے لئے ایک لائحہ عمل ہے ایک عظیم الشان لائحہ عمل ہے، ایک ایسا خوبصورت چارٹر ہے بنی نوع انسان کے تعلقات کو امن اور صلح پر قائم کرنے کے لئے اس سے زیادہ خوبصورت چارٹر کبھی دنیا میں کہیں نہیں لکھا گیا.فرماتے ہیں تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی کا پتلا تھا.مٹی کا پتلا کہنے میں عجز کی طرف اشارہ ہے.عجز کی تعلیم دی گئی ہے کہ تم بڑی بڑی ڈینگیاں مارتے ہو، تھوڑی سی طاقتیں حاصل کر کے متکبر ہو جاتے ہو، تھوڑی سی دولت پا کر تم بے راہ روی اختیار کرنی شروع کر دیتے ہو تو سنو کہ تم مٹی کے بنائے گئے تھے اور یہ مضمون اس میں شامل ہے کہ مٹی کی طرف لوٹ جاؤ گے.بے شک بزرگ تو اللہ کے نزدیک تم میں سے وہی ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پر ہیز گار ہے.عربی کو عجمی پر کوئی وجہ فضیلت نہیں ہے.پہلے آپ نے عرب کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ حضرت محمد مصطفی ملے عربوں میں سے پیدا ہوئے تھے اس لئے اگر کسی قوم کی فضیلت کا تصور جواز رکھ سکتا تھا تو عربوں کی فضیلت کا تصور ہے جو جواز رکھ سکتا تھا.کیونکہ کائنات کا سب سے مقدس اور سب سے معزز وجود اور سب سے زیادہ متقی وجود عربوں میں پیدا ہوا تو یہ دعوی فرمانے کے بعد یہ فصاحت و بلاغت بھی دیکھئے

Page 302

خطبات طاہر جلد ۸ 297 خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۸۹ء حضوراکرم ﷺ کی کہ کتنے عظیم مقام کتنی بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہے.فرمایا تم میں سب سے زیادہ معزز شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے اور آپ دوسری جگہ فرما چکے ہیں کہ سب سے زیادہ پر ہیز گار میں ہوں، سب سے زیادہ متقی میں ہوں.تو معا خیال آیا کہ اس عزت کا ، اس اکرام کا تعلق عرب قوم سے نہ باندھ دیا جائے اور یہ نہ شروع ہو جائے کہ عرب اپنی فضیلت اور اپنی برتری کا دعویٰ کرنے لگے کہ چونکہ دنیا کا سب سے معزز انسان ہم میں پیدا ہوا تھا اس لئے بحیثیت قوم ہم سب سے معزز ہیں.فرمایا عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے مگر تقویٰ اور پر ہیز گاری سے.آج بھی اگر عرب متقی ہوگا تو وہ اس حد تک معزز ہوگا اور اگر آج بھی کوئی عجمی متقی ہو گا تو اسی حد تک معزز ہو گا.اے لوگو! میں نے تبلیغ کر دی ہے اور اے اللہ ! تو بھی گواہ رہ کہ میں نے تبلیغ کر دی ہے.لوگو! تم سے عنقریب اللہ تعالیٰ میری بابت سوال کرے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے ہم تک پیغام پہنچا دیا اور حق رسالت ادا فرما دیا اور امت کو نصیحت کرنے میں کوئی فروگزاشت نہیں کی اور تمام حجابات اٹھا دیئے.امانت الہی کو ٹھیک ٹھاک طریقے سے ہم تک پہنچا دیا.اس پر آپ نے بڑے اطمینان سے فرمایا کہ اے لوگو! گواہ رہو اور اے اللہ ! گواہ رہ کہ یہ سب لوگ میری رسالت اور امانت کی گواہی دیتے ہیں.پس اس سے زیادہ بہتر ، اس سے زیادہ حسین ، اس سے زیادہ اصلاح نفس کرنے والا اور کوئی پیغام میں سوچ بھی نہیں سکتا اور اس آخری جمعہ پر میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی وہ جماعت کی یہی نصیحت پہنچاتا ہوں اور جس طرح آپ نے اس کے بعد فرمایا کہ اے وہ لوگو! جو حاضر ہواس پیغام کولوگوں تک پہنچاتے چلے جاؤ جو غیر حاضر ہیں اور وہ آگے پھر ان لوگوں تک پیغام پہنچاتے رہیں جو غیر حاضر ہیں.اس لئے وہ سب لوگ جو اس پیغام کو سنتے ہیں یا بعد میں پڑھیں گے یا سنیں گے ان سب کو میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ اس پیغام کو آگے پہنچاتے چلے جائیں اور پھر پہنچاتے چلے جائیں.اپنی نسلوں میں پہنچاتے چلے جائیں اور اپنی نسلوں کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ وہ ہمیشہ اس پیغام کو زندہ رکھیں، الفاظ میں نہیں بلکہ اپنے اخلاق میں، اپنے کردار میں ، اپنے اعمال میں یہاں تک کہ ان کے خون کا ذرہ ذرہ اس بات کی گواہی دے کہ ہم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کی امانت کا حق ادا کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.

Page 303

Page 304

خطبات طاہر جلد ۸ 299 خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۸۹ء ایک عالمگیر سازش کے ذریعہ جماعت احمد یہ کونشانہ بنانے میں سعودی حکومت کا سیاسی کردار (خطبه جمعه فرموده ۱۲ مئی ۱۹۸۹ء بمقام ناصر باغ فرینکفرٹ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ ایک خطبے میں میں نے پاکستان کے تازہ حالات سے متعلق تبصرہ کیا تھا اور ان چند اندرونی محرکات کا ذکر کیا تھا جن کے نتیجے میں سیاستدان ایک دفعہ پھر جماعت احمدیہ پر ظلم کرنے پر تلے بیٹھے ہیں.اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے میں بعض مزید وضاحتیں کرنی چاہتا ہوں تا کہ تمام دنیا کے احمدیوں کو خوب اچھی طرح معلوم ہو کہ ان سے کیا ہو رہا ہے، کیوں ہورہا ہے؟ کون سی طاقتیں اس فلم میں ملوث ہیں اور آئندہ ان کو کس قسم کے خطرات سے متنبہ رہنا چاہئے اور ان کے خلاف ابھی سے تیاری کرنی چاہئے.دنیا میں سیاست جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اندھی ہوتی ہے کیونکہ خود غرضی کی آنکھیں نہیں ہوتیں.خود غرضی کی آنکھ اندر کی طرف کھلتی ہے اور باہر کی کوئی آنکھ نہیں ہوا کرتی.اس لئے سیاستدان خواہ کتنا ہی شاطر کیوں نہ ہو، کتنا ہی ہوشیار اور صاحب تجربہ کیوں نہ ہو جب اس کا ذاتی مفاد دنیا کے دیگر مفادات اور تقاضوں سے ٹکراتا ہے تو ہمیشہ اس کی آنکھ اپنے ذاتی مفاد کی طرف لگ جاتی ہے اور اسے اس وقت کچھ اور دکھائی نہیں دیتا.یہ وہ سیاست کی بنیادی کمزوری ہے جس نے پاکستان کے حالات بگاڑنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے اور یہی وہ سیاست کی بنیادی کمزوری ہے

Page 305

خطبات طاہر جلد ۸ 300 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء جو عالمگیر سطح پر قوموں کے تعلقات بگاڑنے اور دنیا کے امن خراب کرنے کی ذمہ دار ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جماعت احمد یہ تو صرف پاکستان کے اندرونی دشمنوں سے واسطہ ہی نہیں اور محض ان علماء تک بات نہیں ٹھہرتی جنہوں نے گویا قسمیں کھا رکھی ہیں کہ ہر صورت میں، ہر قیمت پر جماعت احمدیہ کی مخالفت کریں گے بلکہ ان علماء کو آج سیاستدانوں کی ایسی پشت پناہی حاصل ہے جیسے اس گزشتہ ایک سو سال میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی.نہ صرف یہ کہ ان کو اندرونی طور پر سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے بلکہ یہ ایک نیا مضمون پاکستان کے سیاست کے افق پر ابھرا ہے کہ وہ لوگ جو صاحب حکومت ہیں ان کی حمایت بھی ملاں کو حاصل ہے اور وہ لوگ جو حکومت پر قابض لوگوں کے مخالف ہیں ان کی پشت پناہی اور حمایت بھی ملاں کو حاصل ہے اور صرف اندرونی سیاستدان ہی کی نہیں بلکہ بیرونی سیاستدانوں کی بھی.اندرونی طاقت کی ہی نہیں بلکہ عظیم الشان بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی بھی بالواسطہ ملاں کو نصیب ہے.اس سلسلے میں میں کوشش کروں گا کہ بات کو اس طرح وضاحت کے ساتھ آپ کے سامنے رکھوں کہ آسانی سے ہر ذہن کو خواہ اس کا علمی معیار کیسا ہی کیوں نہ ہو بات سمجھ آجائے.مرکزی نقطہ اس مسئلے کا سعودی عرب ہے.سعودی عرب کو آج کی دنیا میں ایک غیر معمولی سیاسی مقام نصیب ہوا ہے جو اس سے پہلے کسی اسلامی ملک کو اس طرح مرکزی حیثیت سے نصیب نہیں ہوا تھا.سعودی عرب کو تمام مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت اور پشت پناہی نصیب ہے.اس سے پہلے مسلمان ممالک کا یہ حال ہوا کرتا تھا کہ کچھ بیرونی طاقتیں ان کی دوست ہوا کرتی تھیں اور کچھ دشمن ہوا کرتی تھیں.کچھ مغربی طاقتیں ان کی دوست ہوا کرتی تھیں اور کچھ مغربی طاقتیں ان کی دشمن ہوا کرتی تھیں لیکن اس وقت سعودی عرب کو ایک غیر معمولی مقام حاصل ہے جو مشرق اور مغرب کی آپس کی رقابت کے نتیجے میں ہے.وہ تمام مغربی طاقتیں جو مسلمان ممالک میں نفوذ چاہتی ہیں ان کی کوشش یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک میں سعودی عرب کا نفوذ پھیلے اور جہاں تک مسلمان ممالک کا تعلق ہے خواہ وہ کلیہ مسلمان ہوں یا بعض ممالک میں مسلمانوں کی بھاری تعداد موجود ہوان کو جو آواز بھی مکے اور مدینے کے میناروں کی سنائی دیتی ہے.وہ اپنے خلوص میں، اپنے ایمان میں، اپنے دین سے محبت کے نتیجے میں یہی سمجھتے ہیں کہ یہ خدا اور محمد مصطفی ﷺ کی آواز ہے جو ان مقدس مقامات

Page 306

خطبات طاہر جلد ۸ 301 خطبه جمعه ۱۲ارمئی ۱۹۸۹ء کے مقدس میناروں سے سنائی دے رہی ہے.پس سب سے زیادہ نفوذ اگر کوئی ملک اسلامی دنیا میں کر سکتا ہے تو وہ سعودی عرب ہے.اس سے پہلے بھی سعودی عرب کو یہ عظمت کا مقام حاصل ہونا چاہئے تھا لیکن اس لئے نصیب نہیں ہوا کہ وہ ایک غریب ملک تھا جو خو دلوگوں کی امداد پر پل رہا تھا اور ایک بہت لمبا عرصہ تک انگریزی حکومت نے اس ملک کو سہارا دیا.ان کی سیاست کے نقوش بنائے، ان کی بیرونی یعنی خارجہ پالیسی کو تشکیل کیا اور انگریز کی امداد ہی پر اس ملک کا نظم ونسق چلتا رہا.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے آج دنیا کا ہر مؤرخ تسلیم کر چکا ہے کسی کو اس سے انکار نہیں.ایک لمبا عرصہ تک موجودہ سعودی خاندان کو اپنی حکومت کے بقاء کے لئے کلیہ انگریز پر منحصر رہنا پڑا اور با قاعدہ وہ معاہدے جواب چھپ کر عوام کے سامنے آچکے ہیں ان میں یہ باتیں تفصیل سے لکھی ہوئی ہیں، وہ شرائط مذکور ہیں جن کے نتیجے میں یہ کبھی بھی اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد نہیں ہوسکتا تھا.اس کے بعد پھر ایک ایسا وقت آیا جب کہ اس ملک میں تیل کی دولت نکل آئی اور تیل کی دولت نے اس کو ایک قسم کا ایک آزادی کا مقام عطا کیا.اقتصادی طور پر اب یہ کسی دوسرے ملک کا مرہون منت نہیں رہا اور تیل کی دولت اتنی تھی کہ اس ملک کے لئے ناممکن تھا کہ اس دولت کو خود سنبھال سکے.چنانچہ مجبوراً امریکہ کی طرف رجوع کرنا پڑا اور تقریباً تمام تر دولت امریکہ کے بنکوں کے سپرد کر دی گئی.چونکہ اس خاندان کو اپنی سیاسی بقاء کے لئے بھی اس غیر معمولی دولت کی وجہ سے غیر معمولی خطرات در پیش ہوئے اس لئے ان کے لئے لازم تھا کہ اپنی بقاء کی خاطر بھی کسی غیر ملک کی طرف رجوع کریں اور ان کا سہارالیں.پس جس کے پاس کسی کے پیسے ہوں اسی کی طرف رجوع کیا کرتا ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اپنی امانت کسی اور کے پاس رکھوائی ہو اور دوستیوں کی پینگیں کسی اور سے بڑھائی جائیں.پس یہ دو باتیں ایک مقام پر اکٹھی ہو گئیں اور دن بدن سعودی عرب کا انحصار امریکہ پر زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا گیا.اسی طرح ان مغربی قوموں پر جن کے پاس ان کی دولت کا کچھ حصہ تھا یا جن سے تعلقات کے نتیجے میں ان کو فوجی امداد اور حمایت حاصل ہونے کی توقع تھی ان کے تعلقات بڑھنے شروع ہوئے.پس ایک طرف یہ صورتحال تھی کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مرکزی ملک اور سب سے بڑا قابل احترام ملک ان لوگوں کی طرف دوستیوں کے ہاتھ بڑھاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا جن کی اسلام دشمنیاں تاریخی طور پر ثابت ہیں اور ایک بڑا بھاری تضاد دکھائی دینے لگا تھا جس کو مسلمان ممالک کے

Page 307

خطبات طاہر جلد ۸ 302 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء باشندے یقیناً تعجب اور حیرت کے ساتھ دیکھتے کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام کا قلعہ وہ عظیم الشان ملک جس کو خدا نے آغاز ہی سے اسلام کی خدمت کے لئے چنا تھا.اس کا تمام تر انحصار اس کی دوستیاں ، اس کے تعلقات ،اس کے روابط سب اسلام دشمن طاقتوں سے ہیں.اس صورتحال کا ایک ہی حل ممکن تھا کہ سعودی عرب کے مسلمان ہونے کی تصویر کو نمایاں کر کے مسلمان ممالک کے سامنے پیش کیا جائے اور غیر معمولی طور پر اسے اسلام کا نمائندہ ، اسلام کا حمایتی، اسلام کا پشت پناہی کرنے والا ملک بنا کر دکھایا جائے.چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کو تشکیل دیا گیا اور اس تشکیل میں بہت بڑی بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے.رابطہ عالم اسلامی کے ذریعے سعودی عرب کی معرفت غریب مسلمان ممالک کو بہت سی دولتیں تقسیم کی گئیں اور صرف یہی نہیں تھا بلکہ ایسی حیرت انگیز چالا کی اور ہوشیاری کے ساتھ یہ منصوبہ بنایا گیا کہ اس کے نتیجے میں محض دولت ہی دوسرے ملکوں تک نہ پہنچے بلکہ سعودیہ کا مذہبی رسوخ بھی ان تک پہنچے.یعنی ایک تو اگر ویسے ہی کوئی ملک کسی کو دولت دے تو اس کے لئے دل میں نرم گوشے پیدا ہو ہی جایا کرتے ہیں لیکن صرف یہی نہیں کیا گیا بلکہ دولت کو اس طریق پر ان ملکوں میں استعمال کیا گیا کہ جس کے نتیجے میں سعودی فرقے یعنی وہابیت کو بھی فروغ نصیب ہو.چنانچہ اس سعودی روپے کے ذریعے ان غریب ممالک میں بھی جہاں شدید اقتصادی بحران تھے، جہاں انڈسٹری یعنی کارخانوں کا کلی فقدان تھا اور ملک اپنی بقاء کے لئے ترقی یافتہ مغربی ممالک پر انحصار کرتے تھے ان کو بھی سعودی روپیہ ان کی انڈسٹری کو تقویت دینے کے لئے نہیں دیا گیا بلکہ ان کے ہاں مسجد میں بنانے اور مدارس بنانے پر استعمال ہوا.اس سے سعودی حکومت کے پشت پناہوں کو دوہرا فائدہ نصیب ہوا.اوّل یہ کہ اگر یہ روپیہ جو بے انتہاء ہے.آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے عام حالات میں کہ سعودی دولت کتنی بڑی ہے.اگر یہ روپیہ یا اس کا بہت معمولی حصہ بھی تیسری دنیا کے غریب ممالک کو اقتصادی طور پر مغربی چنگل سے چھڑانے پر استعمال کیا جاتا تو بلاشبہ سعودی عرب کو ایک غیر معمولی ہر دلعزیزی تو نصیب ہوتی لیکن سعودی عرب کے دوستوں کے مفاد کے یہ بات خلاف تھی اور ان کو شدید نقصان پہنچتا کیونکہ آج کی دنیا میں ترقی یافتہ قو میں حکومتیں بھی کرتی ہیں تو اقتصادی مقاصد کے لئے محض حکومت کے شوق میں نہیں کرتیں.تمام دنیا کی سیاست اقتصادیات کے ساتھ اس طرح باہم اُلجھ چکی ہے کہ سیاست اور اقتصادیات گویا ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں.پس سعودی عرب نے غریب ممالک کو خصوصاً

Page 308

خطبات طاہر جلد ۸ 303 خطبه جمعه ۱۲ارمئی ۱۹۸۹ء ان ممالک کو جہاں مسلمانوں کی کثرت تھی یا ایک بھاری تعداد موجود تھی اس طرح رو پی دینا شروع کیا کہ وہاں عظیم الشان مساجد تعمیر کی گئیں اور پھر ان مساجد کو آباد کرنے کے لئے دینی مدارس قائم کئے گئے اور دینی مدارس کے ذریعے جو بھی علماء فارغ التحصیل ہوا کرتے تھے ان کو سعودی رو پے پر مختلف مساجد میں امام بنایا گیا.چونکہ سعودی عرب کو دولت کی فراوانی کی وجہ سے باقی تمام مذہبی جماعتوں پر ایک فوقیت حاصل ہے اس لئے کوئی اور مذہبی جماعت ان فارغ التحصیل ائمہ کو اتنی رقوم تنخواہوں اور گزاروں کی صورت میں نہیں دے سکتی تھی جتنا سعودی عرب دے سکتا تھا چنانچہ کثرت کے ساتھ ان ممالک نے بھی سعودی نفوذ کا جال پھیلا دیا گیا جہاں اس سے پہلے وہابیت کا لفظ قابل نفرت سمجھا جاتا تھا.جماعت احمد یہ کیسے اس مضمون میں داخل ہوئی؟ اگر چہ جتنا حصہ میں نے مضمون کا بیان کیا ہے ابھی تشنہ تکمیل ہے اور بہت لمبی اور گہری سازش ہے، بہت وسیع سازش ہے جس کو بیان کرنے کے لئے ایک لمبا وقت درکار ہے لیکن کیونکہ میں دراصل اس مضمون پر گفتگو نہیں کر رہا بلکہ جماعت احمدیہ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ اس بین الاقوامی تعلقات کے روابط میں کیسے داخل ہوئے اور کیوں آپ کو خاص طور پر مظالم کا نشانہ بنانے کے لئے چن لیا گیا؟ سعودی عرب نے جس ملک میں بھی نفوذ کیا ہے وہاں اگر براہ راست علماء کو خریدتا یا براہ راست ان کو وہابیت کی تعلیم دیتا تو ہر گز بعید نہیں تھا کہ سعودی عرب کی ان کوششوں کے خلاف وہاں کے مسلمانوں میں شدید رد عمل پیدا ہو جاتا.مثلاً ترکی ہے.ترکی کی سعودی عرب سے قدیم رقابتیں ہیں اور بڑی شدید رقابتیں ہیں، سیاسی سطح پر بھی اور مذہبی سطح پر بھی.ترکی ایک حنفی المسلک ملک ہے اور ترکیوں کو شفی مذہب سے بے حد محبت ہے اور وہ سمجھتے ہیں وہابیت حفیت کی دشمن ہے.پھر ترک وہ قوم ہے جنہوں نے سال ہا سال بلکہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں سال تک اسلام کے لئے ایک عظیم قلعہ کا کام دیا ہے اور ایک وقت میں یہ اتنی عظیم الشان سیاسی طاقت کے طور پر دنیا پر ابھرے کہ اسلامی ممالک اور مغربی ممالک کے درمیان اگر کوئی فصیل تھی تو وہ ترکوں کی فصیل تھی اور عرب ممالک پر بھی دیر تک انہوں نے حکمرانیاں کیں.سعودی عرب نے جب یہ انگریزوں کے زیر اثر تھا خاص طور پر ترکوں کی حکومت کو عربوں میں کمزور کرنے کے لئے نمایاں کردار ادا کیا اور ان کے جو گورنر مقرر تھے

Page 309

خطبات طاہر جلد ۸ 304 خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۸۹ء مختلف مسلمان ممالک میں جب وہاں بغاوتیں کروائی گئیں تو ترکی سے وہاں تک کہ رابطے چونکہ لمبے تھے فاصلوں کے لحاظ سے اس لئے بیچ میں سعودی عرب کے سپاہی کہہ لیں یا تخریب کا رکہہ لیں لیکن جو بھی ان کی شکل تھی وہ گروہ در گروہ ترکی قافلوں پر حملے کر کے ان کی مواصلات کو تباہ کرتے تھے اور یہ بات بھی ایک تاریخی مسلمہ حقیقت ہے اس کو کوئی الزام تراشی نہیں کہ سکتا.دنیا کا کوئی مؤرخ بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ اسی طرح ہوا اور انگریز کی ایما پر ایسا ہوا.چنانچہ ترک اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتے تھے اور ایک بہت لمبا عرصہ تک عرب دنیا سے جب ترکوں کو دوری اختیار کرنا پڑی ان حالات کی وجہ سے اس میں سب سے زیادہ نفرت ان کو سعودی عرب سے تھی.پس یہ دو نفرتیں اکٹھی تھیں یعنی مذہبی نفرت اور سیاسی نفرت اس لئے اگر سعودی عرب وہاں براہ راست داخل ہو تو ظاہر بات ہے کہ اس کے خلاف شدید ردعمل ہوں گے لیکن اگر سعودی عرب اپنے روپے سے اینٹی احمد یہ لٹریچر تقسیم کروانا شروع کر دے اور جماعت کے خلاف نہایت گندے الزامات پر مشتمل کتابوں کی کثرت سے اشاعت کروائے خواہ وہ جماعت اسلامی کو اس غرض سے استعمال کرے یا کسی اور جمیعت کو استعمال کرے تو جن علماء تک وہ روپیہ پہنچتا ہے وہ اسے خوشی سے قبول کریں گے اور وہ سمجھیں گے کہ یہ تو ساری کوششیں ان کے نزدیک جو اسلام کی دشمن جماعت ہے اس کے خلاف ہو رہی ہیں اور جو ملک بھی ان کوششوں کی سر براہی کرے گا وہ اسلام کا دفاع کرنے والا ملک شمار ہوگا اور اسلام کا حمایتی شمار ہو گا.پس اس سلسلے میں جب مختلف جگہ پر اڈے قائم ہوں گے، ان کو روپیہ دینا پڑے گا تو بلا خوف لومتہ لائم کسی ملامت کرنے والے کے خوف سے بے نیاز ہوکر اس روپیہ کو قبول کیا جاسکتا ہے.اسی طرح مصر میں بھی ایسا ہی کیا گیا، اسی طرح افریقن ممالک میں بھی ایسا ہی کیا گیا اور مختلف راستوں سے جو ہمیشہ ایک نہیں تھے.کبھی کسی تنظیم کے تابع ، کبھی کسی دوسری تنظیم کے تابع.سعودی عرب نے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ایک نمایاں کردار ادا کرنا شروع کیا.اگر یہ نہ ہوتا تو افریقہ میں بھی سعودی عرب کو کوئی نفوذ حاصل نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ مالکی بھی وہابیت سے بہت سخت متنفر اور اس کے عروج سے خائف ہیں.چنانچہ آج بھی باوجود اس کے کہ احمدیت کی مخالفت کی شکل میں وہاں سعودی عرب نفوذ کر رہا ہے.مالکیوں میں ابھی ایک بے چینی کی لہر دوڑ چکی ہے اور وہ سمجھتے ہیں

Page 310

خطبات طاہر جلد ۸ 305 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء کہ ان کے ملک کو سعودی نفوذ غیر مستحکم کر رہا ہے.پس سعودی نفوذ کی خاطر کوئی ایک ان کو ایسا مظلوم نشانہ چاہئے تھا جس کے اوپر حملے کرتے چلے جائیں اور عوام الناس مسلمان پر یہ اثر ڈالیں کہ یہ اسلام کی سب سے دشمن جماعت ہے اسے ہم نے جب نشانہ بنایا ہے تو گویا ہم اسلام کے بچے ہمدرد اور خیر خواہ اور اسلام کی حمایت کرنے والے اور پشت پناہی کرنے والے ہیں.اس طریق پر ان ممالک کے علماء کو پتا بھی نہیں لگا کہ ہم کن ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ چنانچہ آپ انڈونیشیا میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں.پاکستان کے متعلق تو آپ واقف ہی ہیں.وہاں ہر اینٹی احمد یہ فساد کے لئے سعودی عرب استعمال ہوا ہے، سعودی عرب کا روپیہ استعمال ہوا ہے.ملائیشیاء میں آپ ان حالات کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے وہاں بھی بعینہ یہی شکل اُبھری ہے اور بنگلہ دیش میں بھی بعینہ یہی شکل اُبھری ہے اور مزید کوششیں مسلسل جاری ہیں.پس جہاں بھی جماعت احمدیہ کے خلاف منافرت پھیلائی جاتی ہے اور کثرت سے پیسہ استعمال کیا جاتا ہے وہاں سعودی عرب کا ہاتھ آپ کو دکھائی دے گا.اور جب ایک دفعہ اسلام کے چمپیئن کے طور پر یہ ایک ملک میں نفوذ شروع کر دیتے ہیں تو پھر حکومتوں کو اس طرح مجبور کر دیتے ہیں اپنے ساتھ تعاون پر کہ ملین بعض دفعہ بلین ڈالر ان کو دیتے ہیں کہ یہ ہم تمہارے ملک میں اسلام کی ترقی کی خاطر خرچ کرنا چاہتے ہیں.بڑی بڑی شاندار مساجد بناؤ، بڑی بڑی یونیورسٹیاں بناؤ، بڑے بڑے مدارس قائم کرو اور ان کا سارا خرچ ہم برداشت کرتے ہیں.ڈالرز میں تم ہم سے یہ رقم لے لو اور اپنی کرنسی میں جو بھی مقامی کرنسی ہے خرچ کرو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی پرواہ نہیں ہے.چنانچہ تیسری دنیا کے ممالک جو غریب ہیں اور بہت حد تک ڈالر کے محتاج ہیں ان کو اس سے بہتر اور کیا سود انظر آ سکتا ہے کہ ان کو ڈالر ملیں اور ان ڈالرز کے ذریعے اپنی کرنسی خرچ کر کے، ڈالرز کو اپنی بیرونی خرید و فروخت کے لئے استعمال کریں اور اپنی کرنسی خرچ کر کے مساجد اور مدارس بنوائیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا.چنانچہ گزشتہ تقریباً بیس سال سے یا شاید بعض جگہ اس سے بھی زائد عرصہ سے مسلسل یہی کام ہے جو مختلف ممالک میں ہو رہا ہے اور سعودی نفوذ اور احمدیت کی دشمنی ایک ہی چیز کے دو نام بنے ہوئے ہیں.اب جہاں جہاں یہ سعودی نفوذ پھیلتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا جو بھی آواز وہاں بلند ہوتی ہے یہی سمجھا جاتا ہے کہ مکے اور مدینے کے میناروں سے آواز بلند ہورہی ہے.

Page 311

خطبات طاہر جلد ۸ 306 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء مغربی طاقتیں اس لئے خوش ہیں کہ ان کو اس سے دوہرا فائدہ حاصل ہوتا ہے.اوّل یہ کہ مسلمان ممالک کو براہ راست وہ اپنے قابو کرنے کی کوشش کریں، ان کو اپنے تسلط میں لانے کی کوشش کریں تو یہ بہت ہی مشکل کام ہے.جہاں جہاں مغربی ممالک نے براہ راست مسلمان ممالک کو زیر اثر لانے کی کوشش کی ہے ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ وہیں وہیں اس تسلط کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوئے.مثلاً آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جن کو یاد ہوگا کہ ایک وقت تھا کہ جب امریکہ نے براہ راست ڈیفنس پیکٹس کے ذریعے ، دفاعی معاہدوں کے ذریعے مسلمان ممالک کی صف بندی کرنے کی کوشش کی اور سکیم یہ تھی کہ روس کے مقابل پر ایک دیوار قائم کر دی جائے جس میں سارے مسلمان ممالک جو امریکن فوجی امداد کے ذریعے طاقت حاصل کریں ایک نمایاں کردار ادا کریں.چنانچہ سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) بنا بغداد پیکٹ ہوا.نیٹو کا ایک حصہ بھی اسی دائرے سے تعلق رکھتا ہے.ان سارے ٹیکٹس کے نتیجے میں ان ممالک کی مسلمان حکومتوں کو کچھ فوجی تقویت تو حاصل ہوگئی لیکن امریکہ کا مقصد حاصل نہیں ہو سکا اور عوام الناس میں امریکہ کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہو گیا لیکن سعودی نفوذ کے نتیجے میں امریکہ کے خلاف رد عمل نہیں پیدا ہوسکتا کیونکہ سعودیت کو ایک مذہبی تعلق ہے مسلمان ممالک سے اور مسلمان ممالک ہمیشہ سعودیہ کی طرف عزت اور احترام سے دیکھتے ہیں خصوصاً اس وقت جب کہ سعودیہ ان کو پیسے بھی دے رہا ہو تو وہ عزت اور احترام بہت بڑھ جاتا ہے.پس کثرت کے ساتھ ان ممالک میں سعودی پیسے سے علماء پیدا ہونے شروع ہوئے جو دوڑتے تھے سعودیہ کی طرف مزید مالی منفعتوں کے لئے اور ان کے اخراجات پر اعلیٰ دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے.یہ وہ دور ہے جو مذہب کے نام پر دنیا کی طرف مسلمان ممالک کی جاری ہوئی جس میں سعودی عرب نے ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے.اب آپ یہ سوچئے کہ تمام مسلمان ممالک اگر عالم اسلام کی توحید کے نام پر سعودی عرب کے جھنڈے کے تلے جمع ہو جائیں اور اس کی آواز پر لبیک کہنا شروع کریں تو بظاہر یہ کتنا عظیم الشان اتحاد ہے عالم اسلام کا جس سے زیادہ خوبصورت تصویر ایک عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا.وہ یہ کہتا ہوگا کہ ہماری بلا سے اس کے پیچھے مغربی طاقتیں ہیں یا کوئی اور لوگ ہیں.ہمیں تو یہ پتا ہے کہ سعودی عرب نے وہ کام کر دکھایا جو گزشتہ سینکڑوں سالوں میں کوئی اور حکومت نہ کر سکی تھی اور بکھرے ہوئے

Page 312

خطبات طاہر جلد ۸ 307 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء تمام دنیا کے مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور اس کے لئے بے شمار روپیہ خرچ کیا، دین کی طرف متوجہ کیا، دینی مدارس قائم کئے ، مساجد آباد کرنے کی کوشش کی غرضیکہ سارے عالم اسلام کو ایک لڑی میں منسلک کر دیا اور پرو دیا.یہ ظاہری تصویر ہے جو ساتھ ساتھ اُبھرتی چلی جارہی ہے اور نظریں ملے اور مدینے سے آگے نہیں جاتیں.بہت کم باشعور اور صاحب فکر لوگ ہیں جو یہ جان سکیں ، جو یہ پہچان سکیں کہ وہ آواز میں جو ملگے اور مدینے کے میناروں سے وہ سن رہے ہیں وہ لاؤڈ سپیکر کی آوازیں ہیں اور وہ مائیکروفون جو لاؤڈ سپیکروں کو پیغام دے رہے ہیں وہ واشنگٹن میں نصب ہیں یا دیگر مغربی ممالک کے ان مقامات پر نصب ہیں جہاں اسلام کے خلاف حیرت انگیز اور نہایت خوفناک سازشیں ہو رہی ہیں.ایک وہ ملک ہے سعودی عرب جو کامل طور پر مغرب کا غلام ہو چکا ہے اور اتنا بے اختیار غلام ہے کہ ہزار کوشش بھی کرے وہ اس غلامی کے بندھن سے آزاد نہیں ہو سکتا.اس کا تمام اقتصادی سرمایہ سو فیصد مغربی ممالک کی تجوریوں میں جمع ہے اور خصوصاً امریکہ میں اور اس کا تمام تر سیاسی بقاء کا انحصار مغربی ممالک کی پشت پناہی پر ہے.تمام وہ ہتھیار جو فوجوں کے بقاء کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں وہ سعودیہ کو مغربی طاقتوں سے مل رہے ہیں اور جس دن یہ چاہیں اپنا ہاتھ روکنے کی کوشش کریں اسی دن ان کی فوجی طاقت ختم ہو جاتی ہے.صرف یہی نہیں بلکہ ان کی انٹیلی جنس کا کلیۂ انحصار مغربی طاقتوں کی انٹیلی جنس پر ہے.جن کے تانتا اسرائیل سے ملتے ہیں اور دنیا خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ آج امریکہ کی حکومت کی پالیسی واشنگٹن میں نہیں بلکہ اسرائیل میں وضع ہوتی ہے اور یہ وہ بات ہے جو ایک موقع پر ایک امریکی صدر نے اسرائیل کو مخاطب کر کے کہی تھی.اس نے تو اپنی طرف سے یہ کہا تھا کہ ہم یہ بات نہیں مانیں گے لیکن دنیا کو یہ معلوم ہو گیا کہ ایسی بات ہو رہی ہے.چنانچہ ایک امریکن صدر نے ایک موقع پر اسرائیل کی مداخلت سے تنگ آکر یہ کھلم کھلا اعلان کیا جو اخباروں میں چھپا، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر Announce کیا گیا کہ اگر اسرائیل کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی وہ طے کرے گی تو ہم ان کو بتا دیتے ہیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے.منہ سے تو یہی کہا لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ خارجہ پالیسی طے وہیں ہوتی ہے.صرف اسرائیل کی بات نہیں ہے امریکہ کی تمام طاقت کے سرچشمے بلا اشتباء یہودی ہاتھوں میں ہیں.کوئی ایک ایسا طاقت کا سرچشمہ نہیں ہے جو حکومت کی پالیسی کنٹرول کرنے میں استعمال ہوتا ہو

Page 313

خطبات طاہر جلد ۸ 308 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء جو اسرائیلی یا یہودی گرفت سے باہر ہو.پس وہ ملک جو ایک ایسے ملک کا غلام ہو جائے اور کلیۂ اس کی بقاء اس پر منحصر ہو جائے جو خود آگے یہودیت کا غلام بن چکا ہو اور ساری دنیا جانتی ہو کہ وہ غلام بن چکا ہے اور اگر چاہے بھی تو یہودیت کے بندھن سے وہ چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا اس ملک کے میناروں سے جو آوازیں بلند ہوں گی وہ در حقیقت اسلام کے سب سے بڑے دشمنوں کی آوازیں ہوں گی جو اسلامی دنیا تک پہنچائی جارہی ہوں گی اور اسلامی دنیا کا یہ حال ہے اور یہ ان کی سادگی ہے کہ جب وہ ان آوازوں کو سنتے ہیں تو سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے ہوئے ان کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ ایک اور آقا کی آوازیں ہیں، محمد مصطفی ﷺ کی آوازیں نہیں ہیں.حضرت محمد مصطفی ﷺ تو تمام دنیا کے آزادوں میں سب سے بڑے آزاد انسان تھے کیونکہ وہ شخص جو کامل طور خدا کے سامنے جھکنا جان لے سیکھ لے اور جس کا سر خدا کے سوا کسی اور کے سامنے جھکنے سے انکار کر چکا ہو وہی کامل آزاد ہے لیکن وہ قومیں خواہ وہ اسلام کا نام جیتی ہوں جب وہ قومیں جو دنیاوی طاقتوں اور اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے جھکنا سیکھ چکی ہوں نہ صرف سیکھ چکی ہوں بلکہ مجبور ہو چکی ہوں اور چاہیں بھی ان کی غلامی سے سر اونچا کرنے کی کوشش کرنے کی خواہش بھی ان کے دل میں ہو، چاہیں بھی کہ ان سے آزاد ہو جائیں لیکن نہ ہو سکیں ان کو کون آزاد کہ سکتا ہے.پس یہ وہ عالمگیر سازش ہے جس میں جماعت احمدیہ ان کے لحاظ سے ایک بڑا اہم کردار ادا کر رہی ہے.چنانچہ آپ ایک طرف تو امریکہ کے یہ نعرے سنتے ہوں گے اور کسی حد تک ان میں درستگی بھی ہوگی کہ وہ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور روس اور امریکہ کی آپس کی جو گفتگو بار بار ہوتی چلی آئی ہے ابھی بھی ہوتی ہے یعنی سربراہوں کی آپس میں گفتگو ان میں آپ یہ سنتے ہوں گے کہ امریکہ روس کو بار بار یہ بات سمجھاتا ہے کہ انسانی حقوق کے تعلقات درست کرو.انسانی حقوق کے معاملات میں اپنا Image جو تصویر تم نے بنائی ہوئی ہے اس کو درست کرو تب ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے.لیکن عجیب بات ہے کہ وہ تمام ممالک جو بیک وقت سعودی اور امریکہ کے اثر کے نیچے آ جاتے ہیں ان کو انسانی حقوق کا سبق ایسا بھول جاتا ہے جیسے کبھی یاد ہی نہیں ہوا تھا اور اسلام کے نام پر یہ مظالم کئے جاتے ہیں.

Page 314

خطبات طاہر جلد ۸ 309 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء پس ایک تو بڑا بھاری فائدہ مغربی طاقتوں کو جو کھلم کھلا نظر آ رہا ہے یہ ہے کہ احمدیت کو نشانہ بنا کر سعودی عرب کے لئے مسلمان ممالک میں ہر دلعزیز ہونے کے لئے ایک نہایت آسان موقع مہیا ہو جاتا ہے.گویاوہ احمدیت کے اوپر پاؤں رکھ کر اپنا قد بلند کر لیتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا سیاست اندھی ہے.مغربی ممالک کو آپ سے براہ راست کوئی دشمنی نہ بھی ہو تب بھی چونکہ اس میں ان کا فائدہ ہے اس لئے ایک طرف جب آپ ان تک بات پہنچاتے ہیں، اپنی مظلومیت کی داستانیں ان کو سناتے ہیں، سچی ہمدردی بھی آپ سے رکھتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا.پاکستان کے جہاں تک حالات ہیں آپ نے یہ تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے.ضیاء کے پہلے گیارہ سال ہوں یا ضیاء کے یہ دوسرے سال ہوں جو اس کے مرنے کے بعد اسی طرح جاری ہیں.دونوں ادوار میں فرق کوئی نہیں ہے لیکن اس گزشتہ گیارہ سال کے عرصے میں اور اس ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں جو اس کے بعد آیا ہے بارہا مغربی طاقتوں کو یہ مواقع میسر تھے کہ اگر وہ دیانتداری سے چاہتیں تو احمدیوں کے خلاف جو آرڈینینس جاری کیا گیا تھا اسے ختم کروا سکتی تھیں لیکن ہر جوڑ پر جب سیاسی جوڑ توڑ ہوئے اور طاقت کا ایک حصے سے دوسری کی طرف انتقال ہوا اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ جہاں تک احمدیوں کے خلاف آرڈینینس کا تعلق ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور باقی رکھا جائے گا.اگر وہ ایک آمر کے آرڈینینس کے طور پر نہیں تو ایک Eighth Emendment کے ایک حصے کے طور پر زندہ رہے گا.اسمبلی کے فیصلے کے طور پر زندہ رہے گا مگر اس بات کو یقینی بنایا گیا ہر دفعہ کہ یہ آرڈینینس ایسا مقدس ہے کہ اس کو کوئی ہاتھ نہ لگا سکے کیونکہ اس کا بین الاقوامی دائروں سے تعلق ہے.اس میں صرف پاکستان کی سیاست کارفرما ہیں بلکہ دنیا کے بہت بڑے بڑے ممالک اور طاقتور ممالک کے مفادات اس سے وابستہ ہیں.دوسرا فائدہ ان کو یہ پہنچتا ہے کہ عالم اسلام میں اگر کوئی ایک جماعت ہے جو عیسائیت کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کر سکتی ہے اور ان بڑے بڑے ممالک میں ان علاقوں میں جہاں عیسائیت نے باقی تمام مذاہب کو مغلوب کر رکھا تھا یہی وہ جماعت ہے جو پانسہ پلٹ سکتی ہے اور اچانک اس کے ظاہر ہونے سے اس کے وہاں نمودار ہونے سے، اس کی کوششیں شروع ہونے کے نتیجے میں وہاں آپ دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ لوگ کثرت سے مسلمانوں کو چھوڑ چھوڑ کر عیسائی ہور ہے ہوں یا

Page 315

خطبات طاہر جلد ۸ 310 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء Pagans کو چھوڑ چھوڑ کر عیسائی ہو رہے ہوں وہ عیسائیت کو چھوڑ چھوڑ کر مسلمان ہونے لگ جاتے ہیں.یہ وہ ایک تاریخ کی گواہی ہے جو گزشتہ ایک سوسال کے اندر کہ جس کے متعلق بھی کوئی اختلاف نہیں ہے.ابھی حال ہی میں جو صد سالہ جو بلی یعنی جشن تشکر کے سلسلے میں افریقہ میں جلسے ہوئے ہیں ان میں بعض بڑے بڑے صاحب اقتدار سیاستدانوں نے بھی ہمارے جلسوں میں شمولیت کی اور کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کیا کہ احمدیت وہ طاقت ہے جس نے عیسائیت کے خلاف ایک قلعہ قائم کر دیا اور صرف قلعہ ہی قائم نہیں کیا جس کے اندر بند ہو کر ہم عیسائیت کے حملوں سے محفوظ رہ سکتے تھے بلکہ پھر یہ جارحانہ طور پر باہر نکلے ہیں اور رُخ پلٹ دیئے ہیں.وہ علاقے جہاں کثرت کے ساتھ مسلمانوں میں سے عیسائی ہو رہے تھے آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کثرت کے ساتھ عیسائیوں میں سے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں.یہ وہ عظیم الشان کامیابی احمدیت کی ہے جس کو ان ممالک کے سر براہوں نے بھی دوسروں نے بھی بڑی تحسین کی نظر سے دیکھا اور کھلم کھلا اس کا اعتراف کیا.بعض سربراہوں کے پیغامات میں بھی اس بات کا ذکر ہوا اس لئے عیسائیت کے خلاف جو جماعت نبرد آزما ہے اور بڑی قوت اور کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہے اگر اس کی راہیں روک دی جائیں تو وہ ممالک جن کو عیسائیت سے اگر مذہبی محبت نہیں تو سیاسی محبت ضرور ہے.ان کو اس سے دوہرا فائدہ پہنچتا ہے.اس لئے ان کو اور اس سے زیادہ کیا چاہئے کہ ایک طرف ان کا دوست ملک جو کامل طور پر ان کا وفادار رہنے پر مجبور ہے اس کا نفوذ پھیلے گا دنیا میں.دوسری طرف وہ جماعت جو عیسائیت کے خلاف سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار رکھتی ہے اس جماعت کی سرگرمیوں کے اوپر پابندیاں عائد ہو جائیں گی اور اس کو بے بس اور نہتا کر دیا جائے گا.پس یہ وہ عالمی سازش ہے جس کے نتیجے میں صرف پاکستان کا سوال نہیں ہے تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کو بڑھتے ہوئے خطرات درپیش ہیں.چنانچہ اس صورت حال کو پیش نظر رکھ کر آپ کو اپنی دفاعی کارروائی کرنی چاہئے جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے اس کے متعلق میں وضاحت کرنی چاہتا ہوں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ عیسائی دنیا کے ساتھ آپ کی کوئی دشمنی نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ عیسائی دنیا خود مذہب سے ایسی تیزی سے متنفر ہوتی چلی جارہی ہے کہ اگر آپ ان کو نہ سنبھالیں اور خدا کی محبت دوبارہ ان کے دلوں میں قائم نہ کریں تو وہ کچھ بھی نہیں رہیں گے.اس لئے جو رقابت ہے

Page 316

خطبات طاہر جلد ۸ 311 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء دراصل وہ مذہبی طور پر عیسائیت سے نہیں ہے وہ ایک سیاسی رقابت ہے.کیونکہ یہ وہ قومیں ہیں جو تیسری دنیا میں عیسائیت کو اپنے سیاسی نفوذ بڑھانے کے لئے استعمال کرتی ہیں اور زیادہ تر وہیں ہماری کوششوں پر پابندیاں ہیں.جرمنی میں کوئی پابندی نہیں ہے جو بھاری تعداد اکثریت کے لحاظ سے عیسائی ملک ہے اتنا قوی عیسائی ملک ہے، اتنا قانون کے لحاظ سے، اتنا کڑا عیسائی ملک ہے کہ آج تک یہاں اسلام کو ایک مذہب کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا گیا جبکہ یورپ کے دوسرے ممالک میں اسلام ایک مذہب کے طور پر تصدیق شدہ حقیقت ہے.سپین میں بھی مسلمان مساجد کو یہ حق حاصل ہے حالانکہ وہاں ایک لمبا عرصہ مسلمانوں کی سپین کے باشندوں سے رقابت رہی ہے مگر باوجود اس کے آج بھی مساجد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کا اعلان کرسکیں اور اسے درست مذہبی نکاح تسلیم کیا جاتا ہے.اسی طرح دیگر ممالک میں مثلاً ڈنمارک ہے وہاں گنتی کے چند مسلمان ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں مساجد کو با قاعدہ یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ نکاح کا اعلان کریں اور اسے با قاعدہ مذہبی نکاح تسلیم کیا جاتا ہے.خواہ قانونی طور پر رجسٹریشن بھی ضروری ہو.یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن مغربی جرمنی اتنا کٹر عیسائی ہے قانون کے اعتبار سے کہ یہاں کسی مسلمان مسجد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نکاح کا اعلان کرے اور اس اعلان کی مذہبی حیثیت حکومت تسلیم کر لے لیکن اس کے باوجود آپ کو تبلیغ کی اجازت ہے.ایسی آزادی ہے جس کا سوواں حصہ بھی آپ کو پاکستان میں نصیب نہیں.اسی طرح دیگر عیسائی ممالک ہیں خواہ وہ کٹر عیسائی ہوں یا نسبتا کم کٹر عیسائی ہوں آپ کو کھلی اجازت ہے لیکن ہر اس ملک میں جہاں عیسائیت کے سیاسی مفادات ہیں وہاں آپ کی زمین تنگ کی جارہی ہے اور وہاں حکومتی سطح پر شدت کے ساتھ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ احمدیت پر اتنی پابندیاں لگا دی جائیں جیسے پاکستان میں لگائی گئیں کہ یہ بالکل مجبور اور بے کس ہو کر اس طرح ان ملکوں میں ہو جا ئیں جیسے اسیر ہوتا ہے، آزادی کے باوجود وہ قیدی بھی ہوتا ہے، اپنی مرضی کے ساتھ ، اپنی زندگی کی دلچسپیوں میں حصہ نہیں لے سکتا.احمدیت کی زندگی کی دلچسپیاں تو ہیں ہی خدا اور خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور حضرت محمد مصطفی عمل اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے.پس اگر یہاں ہمارے اوپر اس نوع کی پابندیاں عائد ہو جائیں تو اس کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان ممالک کو براہ راست فائدہ پہنچتا ہے جو عیسائیت کے نفوذ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ انڈونیشیا میں ایسا ہو چکا

Page 317

خطبات طاہر جلد ۸ 312 خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۸۹ء ہے.آپ یہ سن کے حیران ہوں گے کہ وہاں ہر سال بعض اطلاعوں کے مطابق لاکھوں مسلمان عیسائی ہو رہے ہیں اور کسی ملاں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی.کوئی اس کو فکر نہیں ہوتی لیکن اگر چند ہزار احمدی ہو جائیں تو آگ لگ جاتی ہے، سارے ملک میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں، یہ وہی تنظیمیں ہیں جو سعودی عرب سے پیسہ کھا رہی ہیں اور سعودی عرب اور پاکستان کے اثرات کے تابع وہ جماعت احمدیہ کو بے بس اور بے کار کر دینا چاہتی ہیں اور یہ تضاد اتنا نمایاں ہے وہ جماعت جو عیسائیت کا مقابلہ کر سکتی ہے اس کو تو آپ باندھ کے رکھ دیں اور جو اسلام پر حملہ کرنے والے ہیں اور کثرت کے ساتھ آپ کا دین بدل رہے ہیں ان کے ساتھ دوستیوں کی، تعلقات کی پینگیں بڑھائی جائیں.چند سال ہوئے جب میں نے انڈو نیشیا جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہاں کی حکومت نے کہا کہ آپ یہاں کے لوگوں کو منظور نہیں ہیں.اس لئے کہ مذہبی جذبات کی اس سے انگیخت ہوگی اور جب تک پاکستان کی حکومت ہمیں یہ درخواست نہ کرے کہ آپ کو آنے کی اجازت ہے اس وقت تک ہم حکومتی سطح پر آپ کو اجازت نہیں دے سکتے لیکن عیسائی بڑے بڑے ممالک کے سربراہ وہاں جاتے ہیں اور سرخ قالین ان کے رستوں میں بچھائے جاتے ہیں، ہر قسم کی خاطر و مدارات کی جاتی ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کے نفوذ کے بڑھنے سے عیسائیت کا نفوذ بڑھتا ہے تو دراصل مذہبی معاملات نہیں ہیں.یہ سیاست کی کھیلیں ہیں اور بے دین سیاست کی کھیلیں ہیں.اس لحاظ سے آپ ان لوگوں کو جو آپ کے دشمن ہیں خدا کا خوف بھی نہیں دلا سکتے.خدا کا خوف کس کو دلائیں گے؟ ان لوگوں کو تو خدا کا خوف دلا سکتے ہیں جو خدا کے نام پر ، خدا کی محبت کی وجہ سے آپ سے دشمنی کر رہے ہیں.غالب نے کہا ہے کہ قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے (دیوان غالب صفحه: ۳۱۵) کہتا ہے کیسی مصیبت میں میں مبتلا ہو گیا کہ میرا محبوب میرے رقیب کا ہم سفر ہو گیا ہے حالانکہ مجھے تو اتنا بھی اعتماد نہیں کہ اس کا فر کو خدا کے سپر د کر دوں.بظاہر یہ گستاخی ہے کہ خدا کے سپرد

Page 318

خطبات طاہر جلد ۸ 313 خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۸۹ء کرنے سے بہتر اور کونسی ضمانت ہو سکتی ہے لیکن غالب چونکہ قادر الکلام تھا اس لئے اس گستاخی کے حملے سے بچنے کے لئے اس نے اپنے لئے بہانے اکٹھے کئے ہوئے تھے.وہ کہتا ہے کہ وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے اگر وہ مومن ہو تو اس کو تو خدا کے سپر د آدمی کر دے جو خدا سے ہی منکر ہے اس کو کس طرح خدا کے سپر د کرو گے.تو ہمارے دشمنوں کے اوپر تو اسی سلسلے کا اطلاق ہورہا ہے کہ وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے کیونکہ ساری دشمنیاں سیاسی ہیں اور دنیا کی اغراض کی خاطر ہیں.خدا کی محبت میں نہیں ہیں اور خدا کے خوف سے نہیں ہیں اس لئے آپ ان کو کس خدا کے سپر د کریں گے، کس خدا کا خوف دلائیں گے.یہ وہ حالات ہیں جماعت احمدیہ پر، جماعت احمد یہ عالمگیر پر جن میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اور ان کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرتے ہوئے ، سمجھتے ہوئے ہم کو دفاعی کا روائی کرنی ہے.جہاں تک دفاعی کارروائی کا تعلق ہے اس کی تفاصیل ہیں تو اس میں میں نہیں جاسکوں گا لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کے دور کے کونے میں بھی احمدیت کے خلاف ایک پتا بھی کھڑ کے تو میں اس کی آواز سنتا ہوں اور جس حد تک خدا نے مجھے طاقت عطا فرمائی ہے بڑی بیداری کے ساتھ فوری طور پر اس کی جوابی کارروائی کی کوشش کرتا ہوں اور جماعت میں جس حصے کے ساتھ بھی اس جوابی کارروائی کا تعلق ہوتا ہے میرا تجربہ ہے کہ جب بھی میں ان کو آواز پہنچا تا ہوں وہ ہمیشہ لبیک کہتے ہیں اور بڑی وفاداری کے ساتھ ، بڑے خلوص کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور کبھی بھی انہوں نے اس بارے میں کو تا ہی نہیں کی اس لئے ہم اپنے لائحہ عمل سے غافل نہیں ہیں، ہم دشمن کے حالات پر بھی گہری نظر رکھ رہے ہیں اور دشمن کی چالوں سے بھی خوب اچھی طرح باخبر ہیں اور اس کے مقابل پر ان کی چالوں کو ناکام بنانے کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کر رہے ہیں لیکن بعض تدبیریں جو ہم نے اختیار کیں تجربے نے بتایا کہ ان کا کوئی اثر نہیں ہے اس لئے ان تدبیروں کے رُخ بدلنے پڑے.بار ہا آپ نے دیکھا ہوگا کبھی اس بات پر زور دیا جاتا ہے کبھی دوسری بات پر زور دیا جاتا ہے.اس ضمن میں ایک بات میں اس وقت آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں کہ ہم نے اس سے

Page 319

خطبات طاہر جلد ۸ 314 خطبه جمعه ۱۲ارمئی ۱۹۸۹ء خصوصیت کے ساتھ گیارہ سالہ دور میں بڑی ہمت کے ساتھ کوشش کی کہ بڑے بڑے سیاسی لیڈروں راہنماؤں، سفارتکاروں تک پاکستان کے حالات رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اخبارات میں بھی ان کو شائع کریں تا کہ رائے عامہ کو ان مظالم کے خلاف بیدار کیا جا سکے.اس لمبے تجربے نے ہمیں ایک بات ضرور سکھائی کہ انسانی سطح پر ہم سے ضرور ہمدردیاں کی گئی ہیں ، ہم اس بات کا انکار نہیں کر سکتے.انسانی سطح پر تو خصوصاً جرمنی نے اتنی ہمدردی کی ہے، آج یورپ کے ممالک میں سب سے زیادہ مہاجرین کو قبول کرنے والا ملک جرمنی ہے.اس لئے تقویٰ اور انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں بعض شکوے کئے جائیں وہاں بعض احسانوں کو بھی اظہار تشکر کے ساتھ قبول کیا جائے تسلیم کیا جائے اور بتایا جائے کہ ہم آپ کے زیرا احسان ہیں.آپ سارے جو اس وقت یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یورپ کے تمام ممالک میں سب سے بڑھ کر انسانی ہمدردی کا سلوک جس ملک نے کیا ہے وہ جرمنی ہے.اس لحاظ سے جو ہماری ذمہ داریاں ہیں شکریہ کا حق ادا کرنے کی وہ تو ایک الگ مضمون ہے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں اس کے باوجود اور باوجود اس کے کہ جرمن حکومت کو بارہا صورتحال سے مطلع رکھا گیا اور تمام مظالم کی تفاصیل، سازشوں کی تفاصیل پہنچائی جاتی رہی اور باوجود اس کے کہ جرمن حکومت کی طرف سے غالباً ان کے سفیروں کے ذریعے پاکستان حکومت کو سمجھانے کی بھی کوشش کی جاتی ہوگی لیکن عملاً اس آواز میں وہ طاقت نہیں تھی ، وہ زور اور وہ سنجیدگی نہیں تھی جس کے نتیجے میں کوئی دوسرا ملک اپنی پالیسی کو بدلنے پر مجبور ہو جائے.اظہار ہمدردی تو ہو ہی جایا کرتا ہے لیکن اظہار ہمدردی کے بھی طریق ہوا کرتے ہیں.بعض دفعہ ایک انسان ایک بات کو نا پسند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جی مجھے پسند نہیں.مائیں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتی ہیں وہ شرارتیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں نہیں نہیں رہنے دور بہنے دو اور وہ کرتے چلے جاتے ہیں.آپ کئی دفعہ ایسے بد تہذیب گھروں میں بھی مہمان ٹھہرے ہوں گے جہاں ان کے بچے آپ کے اوپر کیچڑ اچھال رہے ہیں، سالن گرا رہے ہیں، آپ کے کپڑے خراب تھوک رہے ہیں اور مائیں بڑی نرمی سے کہہ دیتی ہیں نہ نہ نہ بچے ایسا نہ کرو بری بات ہے اور بچوں کو اثر ہی کوئی نہیں ہوتا.اس لئے بچے جانتے ہیں کہ اس ناپسندیدگی میں اور سچی ناپسندیدگی میں ایک فرق ہے.وہ گھر جہاں مہمانوں کا احترام صحیح معنوں میں کیا جاتا ہے جہاں بچوں کو صحیح معنوں میں ادب سکھایا جاتا ہے وہاں ایک آواز باپ کی خواہ

Page 320

خطبات طاہر جلد ۸ 315 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء وہ زور سے بھی نہ بلند ہوئی ہو بچوں کو فوراً اپنا مقام سکھا دیتی ہے.وہ شرارت سے فوراً پیچھے ہٹ جاتے ہیں.آوازمیں تو اُٹھتی ہیں ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے لیکن سوال یہ ہے کہ کس حد تک ان آوازوں میں سنجیدگی ہے، کس حد تک ان میں وقار ہے، کس حد تک ان میں قوت ہے؟ آج تک ایک مغربی ملک نے بھی پاکستان کو پوری سنجیدگی اور پوری قوت کے ساتھ یہ پیغام نہیں دیا کہ ہم اس بات کو برداشت نہیں کریں گے تم ظلم میں حد سے بڑھتے چلے جارہے ہو.اگر دیا ہوتا تو جس قسم کا ہم جانتے ہیں وہاں کا حال ہے بیچاروں ، تیسری دنیا کے ملکوں کا وہ تو فوراً اپنے پچھلے کئے ہوئے پر تھوکتے اور توبہ کرتے اور اپنے حالات کو بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل کرتے.ان کی نظریں تو ان آقاؤں کو خوش کرنے پر لگی ہوئی ہیں.ہمارا ملک ہے قابل شرم بات ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ کہتے ہوئے بڑی شدید تکلیف ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے.اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے.تو آپ نے دیکھ لیا کہ گیارہ سال کی بے انتہاء منظم ، مربوط کوششوں کے باوجود عالمی سیاست میں کوئی تبدیلی واقعہ نہیں ہوئی اور آزاد دنیا کے سیاستدانوں نے آپ کے معاملے کو ادنی سی سنجیدگی سے بھی نہیں لیا لیکن اگر روس میں ایک یہودی کا حق مارا جائے ، ایک سائنسدان کو اس کی آزادی سے محروم کر دیا جائے تو ساری مغربی دنیا میں شور قیامت برپا ہو جاتا ہے.اس قدر شدت کے ساتھ روس کو مذموم کیا جاتا ہے متہم کیا جاتا ہے کہ آئندہ ایسی باتیں کرنے سے روس کو دوہری ، چو ہری بعض دفعہ بیسیوں گئی زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے اور بہت سے انفرادی صورت میں ایک ایک قیدی ایسے ہیں جن کو ان کے دباؤ نے آزاد کروا دیا لیکن کتنے احمدی قیدی ہیں ایک احمدی قیدی بتائیں جن کو مغربی طاقتوں کے دباؤ نے آزاد کروایا ہو، ایک بھی نہیں ہے.جب یہ پاکستان کے حالات تبدیل ہوئے اور بظاہر جمہوریت کا سورج بلند ہوا تو اس سے اس کے آثار کو دیکھتے ہوئے صدر پاکستان نے تمام ان موت کے قیدیوں کی سزا معاف کر دی جن کو مارشل لاء نے موت کی سزا سنائی تھی.یہ کوئی انسانی ہمدردی کا واقعہ نہیں تھا یہ ایک سیاسی چال تھی.ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی نے آ کے اگر مارشل لاء کے قیدیوں کی سزائیں معاف کیں تو سارا سہرا ان کی طرف چلا جائے گا اور یہ ملک میں ہر دلعزیز ہو جائیں گے تو کیوں نہ ہم ان کے آنے سے پہلے یہ اقدام کر لیں لیکن ایک استثناء رکھا وہ چار قیدی جو واقعہ معصوم تھے، جن کو محض مذہب کی دشمنی کے نتیجے

Page 321

خطبات طاہر جلد ۸ 316 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء میں موت کی سزا سنائی گئی تھی.اس حکم میں ان کو مستغنی کر دیا گیا اور اس بخشش کا فیض ان تک نہیں پہنچا.کہاں تھے وہ مغربی آزادی کے علمبردار ممالک جب انہوں نے یہ دیکھا تو کیوں اس بات پر شور نہ مچایا ؟ کیونکہ ایسا واقعہ تھا جو بڑی کراہت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش ہو رہا تھا کہ سارے قیدیوں کو جو واقعہ مجرم ہیں، جو قاتل ہیں، جو زانی ہیں، جنہوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنی ہوس پورا کرنے کی خاطر مظالم کئے اور پھر ان کو قتل کر دیا.ان سب کی سزا ئیں تو انہوں نے معاف کر دیں اگر وہ مارشل لاء نے جاری کی تھیں لیکن چار احمدی قیدیوں کو تم معاف نہیں کر سکے، جن کا کوئی قصور نہیں تھا.بعد میں جو واقعہ ہوا ہے وہ اس طرح ہوا کہ پھر پیپلز پارٹی کے پاس سوائے اس کے چارہ نہیں رہا کہ اچھا اگر مارشل لاء کے موت کے سزا پانے والے معاف نہیں ہوتے تو باقی سب کو معاف کر دیا جائے اور اس عام معافی میں ان چار کو بھی اللہ تعالیٰ نے نجات بخشی.پس یہ خدا تعالیٰ کی غیر معمولی مدد تھی کسی غیر ملک کی سیاسی دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا.اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ایک رستہ تو وہ ہے جو میں آخر پر ابھی ذکر کروں گا اور ایک یہ ہے کہ اس پالیسی کو تبدیل کر کے ہمیں لازماً عوام الناس تک پہنچنا ہوگا.آج کی سیاست اپنے ملکوں میں کمزور بھی ہے اور عوام الناس کی مرضی کے خلاف آج کا سیاستدان کوئی کارروائی نہیں کر سکتا.آپ اگر ان سے درخواست کریں گے یا انسانی ہمدردی کے نام پر کوئی دردناک واقعات ان کے سامنے لا کر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے تو ایسا نہیں ہو سکتا لیکن اگر ان کو یہ خطرہ ہو کہ ہماری اپنی Constituencies ہمارے اپنے حلقہ انتخاب میں عوامی دباؤ اس بات کے خلاف بڑھ رہا ہے اور اس کا اثر ان کے ووٹوں پر پڑے گا تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا وہ انکار نہیں کر سکتے اور اب تک ہم نے ان آزاد ممالک کے عوام تک براہ راست بات پہنچانے کی ویسی کوشش نہیں کی جیسے کہ حق تھا.اس لئے آج کے بعد سے میں نے منصوبہ بنایا ہے اور میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ اس پر عمل درآمد کرنے کے سلسلے میں پورا تعاون کریں گے جیسا ہمیشہ کرتے ہیں اور مجھے کوئی شکوہ نہیں ہے.اس کے نتیجے میں امریکہ میں بھی اور مغربی یورپ کے ممالک میں بھی اور دیگر مغربی ممالک میں بھی اور مشرقی ممالک میں بھی اس قوت کے ساتھ ہم نے اس آواز کو بلند کرنا ہے کہ سیاستدانوں تک اس کی بازگشت براہ راست ہمارے ذریعہ نہیں بلکہ اپنے ووٹروں کے ذریعے پہنچنی شروع ہو جائے.وہ

Page 322

خطبات طاہر جلد ۸ 317 خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۸۹ء اخلاقی دباؤ ڈالنا شروع کریں کہ یہ ظلم ہو رہا ہے، ہمارا ملک آزادی کا علمبردار ہے ، انسانی حقوق کی حفاظت کا علمبردار ہے اس لئے ہم یہ بدنامی مزید برداشت نہیں کر سکتے.تو کوشش اور جد و جہد ہے ہم تو جاری رکھیں گے، ہم تو ڈرنے والی قوم نہیں ہیں.ہم وہ لوگ نہیں ہیں جن کی تخلیق میں ناکامی کا میر ہو.کوئی دنیا کی طاقت احمدیت کا سر نہیں جھکا سکتی یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں.ہر قربانی کے لئے ہم تیار ہیں.خدا کی تقدیر جو ہم سے چاہتی ہے ہم اس کے سامنے سرتسلیم تم کریں گے لیکن غیر کے سامنے کبھی نہیں کریں گے.لڑائی ہے تو ٹھیک ہے جاری رہے گی ،سوسال جاری رہے، خدا کی تقدیر جب تک چاہے ہم خدا کے حضور اپنے سر جھکاتے ہوئے اس عظیم جہاد میں ہمیشہ مصروف رہیں گے اور اپنی طاقت کو پہلے سے زیادہ بڑھاتے چلے جائیں گے.لیکن یہ محض اس لئے کریں گے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنی کوششوں کو ان کے منتہا ء تک پہنچاؤ ، آخری حد تک.ہمارا انحصار ان کوششوں پر نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کر لینے کے بعد جو میں آپ کو بتا رہا ہوں اور اس کے علاوہ بہت سی کا رروائیاں کرنے کے باوجود ہم تھوڑے ہیں اور نا طاقتی ہی ایک ایسی چیز ہے جس پر طاقتور کو ہمیشہ غصہ آتا ہے.ہم کمزور ہیں، ہماری تعداد اتنی نہیں ، ہمارے پاس نہ دولت ہے، نہ سیاسی قوتیں ہیں اس لئے دنیا کے ایک ملک میں بھی جماعت احمد یہ کواتنی بھاری تعداد حاصل نہیں ہوئی کہ وہاں کی سیاست آپ کی حمایت پر مجبور ہو چکی ہو.اس لئے کوشش تو کی جائے گی اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک آسمان پر آپ حرکت نہ پیدا کریں اور وہ حرکت آسمان سے زمین پر منتقل نہ ہو اور یہی وہ مضمون ہے جسے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور اپنے کمزور اور بے بس اور نہتے بندوں کے متعلق یہی حکم ہے جواس نے صادر فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذلكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا ( محمد :۱۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ اللہ ان لوگوں کا مولیٰ ہے جو ایمان لے آئے.وَأَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَولیٰ لَهُمْ اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں ہے.اب کہنے کو تو یہ مضمون بڑا آسان ہے اور سنتے ہی سمجھ آجاتا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بہت مشکل مضمون ہے جو یہاں بیان ہوا ہے.آج واقعات کی دنیا میں ہمارا کوئی مولی دکھائی نہیں دے رہا.نہ مشرقی طاقتیں آپ کی

Page 323

خطبات طاہر جلد ۸ 318 خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۸۹ء مولیٰ ہیں نہ مغربی طاقتیں آپ کی مولی ہیں، نہ ملک پاکستان کی اندرونی طاقتیں آپ کی مولی ہیں، نہ پاکستان سے باہر کی بیرونی طاقتیں آپ کی مولی ہیں.تو قرآن کریم یہ کیا فرما رہا ہے؟ انَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ امَنُوْاوَاَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلى لَهُمْ آپ کے دشمنوں کے سارے مولیٰ بنے ہوئے ہیں.بڑی بڑی دنیا کی عظیم سلطنتیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں.اب یہ معاملہ ایک ملک کے ملاں تک محدود نہیں رہا بلکہ عظیم سیاسی طاقتوں تک جا پہنچا ہے اور خدا کہتا ہے ان کا کوئی مولیٰ نہیں اور وہ جن کا کوئی مولیٰ نہیں ان کے متعلق فرماتا ہے اللہ ان کا مولیٰ ہے.اس میں دو پیغامات ہیں.ایک یہ کہ باوجود اس کے کہ دنیا تمہیں ہر طرف سے چھوڑ دے اور دھتکار دے، نہ تمہارے دائیں بازو پر کوئی حمایتی کھڑا ہو نہ تمہارے بائیں بازو پر کوئی حمایتی کھڑا ہو لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہ کرنا کہ تم اکیلے ہو.کائنات کا خدا جو ساری قوتوں کا سر چشمہ اور مالک ہے ، وہ تمہارے ساتھ ہے اس مضمون کو کبھی تم نے نہیں بھلانا اور دوسری طرف یہ بھی خیال کرنا کہ جن کے متعلق تم سمجھ رہے ہو کہ آج ان کے دائیں پر بھی ایک مضبوط طاقت کھڑی ہے اور ان کے بائیں پر بھی ایک مضبوط طاقت کھڑی ہے.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ بے وفا طاقتیں ہیں.ایسے حالات پیدا ہوں گے اور خدا ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ وہ ان کے کسی کام نہیں آئیں گی.تب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بیان کردہ عظیم الشان خوشخبری تم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھو گے اَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ تم سمجھتے تھے کہ آج امریکہ بھی ہمارا دوست ہے اور سعود یہ بھی ہمارا دوست ہے اور مغربی طاقتیں بھی ہمارے ساتھ ہیں اور بعض مشرقی ممالک بھی ہمارے ساتھ ہیں تم دیکھو گے کہ وہ بالکل نہتے اور بے سہارا اور بے دوست اور بے یار و مددگار رہے.پس یہ وہ نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں، یہ وہ بات میں بیان کر رہا ہوں جو خدا کی تقدیر ہمیشہ ایسا کیا کرتی ہے.اگر ان لوگوں نے تو بہ نہ کی ،اگر انہوں نے استغفار سے کام نہ لیا، اگر انہوں نے اپنے جرائم سے تو بہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے سرنہ جھکائے اور خدا تعالیٰ سے بخشش طلب نہ کی تو یہ وہ مقدر ہے جوان کے لئے لکھا گیا ہے.پس آپ کو کس بات کا خوف ہے؟ کوئی خوف نہیں ہے.زمینی کوششیں ضرور کریں گے اور ہمیں کرنا چاہئیں کیونکہ خدا کا یہ حکم ہے لیکن ہمارا انحصار ہمیشہ آسمان کی کوششوں پر ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک خدا ہے جو تمہارا مولیٰ ہے.تم ضرور کوششیں کرنا یہ بھی دیکھ لینا کہ تمہاری ہوشیاریاں، تمہاری حکمتیں،

Page 324

خطبات طاہر جلد ۸ 319 خطبه جمعه ۱۲ارمئی ۱۹۸۹ء تمہارے منصوبے کیا کیا کر دکھاتے ہیں؟ جب ہر طرف سے تم کوشش کر کے تھک چکے ہو گے تب تمہیں خدا بتائے گا کہ تمہاری طاقت کا سرچشمہ یہ دنیا کی طاقتیں نہیں بلکہ میں تھا اور ہمیشہ سے میں ہوں اور میں کبھی تمہیں بہتا نہیں چھوڑوں گا.اس لئے آپ جیتی ہوئی قوم ہیں، آپ کو کسی پہلو سے مغلوب اور مفتوح ہونے کے تصور کو قبول نہیں کرنا چاہئے ، دھتکار دینا چاہئے اس وہم کو.اپنے سر بلند کر کے پھریں، ایک معمولی بادشاہ کی حمایت کسی کو حاصل ہو جاتی ہے تو وہ دیکھا نہیں کہ اس کا سرکتنا بلند ہو جاتا ہے تکبر سے.چار پیسے مولوی کو مل جائیں تو وہ موٹر میں لے کر پھرتا ہے سمجھتا ہے کہ میں نے ساری دنیا کے اوپر قبضہ کر لیا ہے.وہ جس کو یقین ہو اور کامل اعتماد ہو کہ خدا میرے ساتھ اس کو کتنا بڑا حوصلہ نہیں ہونا چاہئے ، اس کے عزم کا سرکتنا بلند ہو جانا چاہئے اس بات پر غور کریں.اس لئے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ وہم دل میں نہ لائیں کہ آپ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست دے سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ آپ کا مولیٰ ہو اور اللہ کوموٹی بنانے کے لئے آپ کو بھی تو اس کا مولی بنا پڑے گا.یہ نہیں ہوا کرتا کہ آپ کسی دوست سے بے وفائیاں کریں، اس کی طرف پیٹھ پھیر کے دوڑیں، اس کے ہر حکم کی نافرمانی کریں اور پھر یہ کہیں کہ وہ میرا دوست ہے.کچھ دیر تک شرفاء اپنے تعلق کو قائم رکھا کرتے ہیں.بعض دفعہ بعض اور رشتوں اور تعلقات کی خاطر قائم رکھتے ہیں اور فورا ان کی ناراضگی دکھائی نہیں دیتی.ایک امیر دوست جس کے بہت سے تعلقات ہوں جب وہ مر جاتا ہے تو بعض دفعہ اس کے بچوں سے ان کی نالائقیوں کے باوجود دوسرے امیر ساتھی اور دوست اچھے تعلقات رکھتے ہیں، حسن سلوک سے کام لیتے ہیں مگر آخر کب تک.اس لئے یہ درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونا خود ہمارے لئے ایک بہت بڑی تائید الہی کی ذمہ داری ہے، تائید الہی کے نشانی ہے اور تائید الہی اس کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان قوموں کو بھی چھوڑ دیا کرتا ہے جو نیک ناموں کی طرف منسوب ہوں اور خود اس خدا سے تعلق منقطع کر دیں.وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللهَ فَانْسَهُمْ أَنْفُسَهُمْ (الحشر:۲۰) دیکھو ان لوگوں کی طرح نہ بننا کہ جنہوں نے خدا سے تعلق قائم کر کے اس کو بھلا دیا لیکن ایک ایسا وقت آتا ہے کہ خدا بھی ان کو بھلا دیا کرتا ہے اور اس طرح بھلاتا ہے کہ وہ اپنے فائدے اور نقصان سے بھی غافل ہو جایا کرتے ہیں.

Page 325

خطبات طاہر جلد ۸ 320 خطبه جمعه ۲ ارمئی ۱۹۸۹ء پس آپ سب لوگ جو میری آواز کو براہ راست سن رہے ہیں یا بعد میں کیسٹس کے ذریعے - یا چھپے ہوئے خطبات کے ذریعے میرا پیغام ان تک پہنچے گا ان کو میں آخری نصیحت یہی کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دور جس میں سے ہم گزر رہے ہیں بہت ہی نازک دور ہے.تمام دنیا کی طاقتوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے.ایک خدا کی طرف سے آواز ہے کہ ہاں میں تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں اور میں تمہارے ساتھ رہوں گا.اس خدا کو اگر آپ نے ناراض کر لیا تو آپ نہ دنیا کے رہیں گے نہ آخرت کے رہیں گے، کچھ بھی آپ کا باقی نہ رہے گا.اس لئے اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے اعمال کی نگہداشت کریں اور پہلے سے بڑھ کر ان پر نگران ہو جائیں اور کوشش کریں کہ آپ سے کوئی حرکت ایسی سرزد نہ ہو جس کے نتیجے میں آپ خدا کی ناراضگی مول لینے والے ہوں اور پھر یہ دعویٰ نہ کر سکیں کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے.بہت بڑا دعوی ہے اللہ ہمارا مولیٰ ہے“.اس معمولی سی تبدیلی کے نتیجے میں جو ہر شخص کے لئے اندرونی طور پر آسان ہے، ناممکن نہیں ہے، ایک فیصلہ کرنے کی دیر ہے.آپ دیکھیں گے کہ دفعہ دنیا کے اندر حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے شروع ہونگے عظیم الشان ایسی باتیں وجود میں آنے لگیں گی جن کا آپ کی کوششوں سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوگا اور میں نے اس بات کا بارہا مشاہدہ کیا ہے.ہم ایک سمت میں کوششیں کرتے رہتے ہیں، کرتے رہتے ہیں کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہوتا اور جب دعا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ دوسری سمتوں سے ایسے حیرت انگیز فضل نازل فرماتا ہے کہ انسان کے وہم وگمان میں بھی وہ نہیں ہوتا.اس مضمون سے متعلق میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ پر بھی کچھ گفتگو کروں گا اور اب چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے، کافی زیادہ ہو رہا ہے میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں.باقی انشاء اللہ نصف گھنٹہ تقریباً ہے نمازیں ختم ہوتے ہوتے تک پندرہ منٹ رہ جائیں گے تو پندرہ منٹ کے بعد جمعہ ختم ہونے کے بعد آپ دوست کوشش کریں کہ دوبارہ اس پنڈال میں پہنچ چکے ہوں.پھر افتتاحی اجلاس ہوگا انشاء اللہ اور اس کے بعد پھر کوئی اور پروگرام نہیں ہے سوائے اس کے وہ ملاقاتیں ہوں گی جن کا اعلان کیا جاچکا ہے.اگر پندرہ منٹ نا کافی ہوں تو کچھ دیر اور چند منٹ انتظار کیا جاسکتا ہے.حضور نے امیر صاحب سے استفسار فرمایا.What you propose here fifteen minutes enough after we finish

Page 326

خطبات طاہر جلد ۸ 321 خطبه جمعه ۲ ارمکی ۱۹۸۹ء here or you would require some more time? Here may be some pople who want to go to toilet or do some thing.Better reach here within half an hour.آدھا گھنٹہ انشاء اللہ جمعہ ختم ہونے کے بعد سے شروع ہوگا.آدھا گھنٹہ تک ہم آپ کو دیتے ہیں یعنی ہم سب یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم فارغ ہو جائیں گے باقی اپنی ضروریات سے اور واپس یہاں پہنچ جائیں گے انشاء اللہ.اس میں دیر نہ کریں پھر.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا :- میرے ساتھ مسافر بھی قصر کریں گے یعنی عصر کی اور مقامی دوست بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو کر اپنی چار رکعتیں پوری کریں گے.

Page 327

Page 328

خطبات طاہر جلد ۸ 323 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء بہائیت کے حملے سے نمٹنے کے لئے جماعت احمد خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح مستعد ہے ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ارمئی ۱۹۸۹ء بمقام بیت الحمودز یورک سوئٹزرلینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں: وَاسْتَفْزِزُ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَحِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدُهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَنُ إِلَّا غُرُورًا إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا پھر فرمایا:.(بنی اسرائیل : ۶۶،۶۵) یہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی طرف سے اپنے نیک بندوں کی نمائندگی میں ایک چیلنج کرتا ہے.بہت ہی عجیب اور بہت ہی روح اور دل پر اثر کرنے والی آیت ہے.بسا اوقات آپ نے خطبات میں سنا ہے کہ جو جماعت احمدیہ پر کئی قسم کے مصائب توڑے جاتے ہیں، خطرات کا سامنا ہوتا ہے.تو میں جماعت کی نمائندگی میں دشمن کو کہتا ہوں کہ جو چاہتے ہو کر لوتم لا زمانا کام ہو گے اور اس طرز بیان سے جماعت کو ایک خاص لطف محسوس ہوتا ہے.وہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ایمان کی عظمت کا ہمارے امام کو

Page 329

خطبات طاہر جلد ۸ 324 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء احساس ہے.اس سے اندازہ کریں کہ اس آیت کا مومن کو کس حد تک لطف نہ آتا ہو گا.جب ایک مومن اس آیت کی تلاوت کرتا ہے تو حقیقت میں اس کی روح وجد میں آجاتی ہے.خدا اپنے بندوں کی طرف سے شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے وَاسْتَفْزِزُ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بصوتك تو جس کو چاہتا ہے ان میں سے شوق سے فریب دے دے کر اپنی طرف بلا وَ اجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِك اور ان پر اپنے گھوڑوں کے ذریعے اور اپنے پیادہ فوجوں کے ذریعے چڑھ دوڑ اور پوری قوت سے ان پر حملہ کر دے اور پھر ان کو حرص بھی دے، لالچیں بھی دے وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ ان کو مال کی لالچ بھی دے اور اپنے اموال میں شامل کر وَالْأَوْلَادِ اور اپنے وسیع خاندان میں اس طرح شامل کر لے گویا وہ تیری ہی اولاد ہوں.یعنی اکثریت کے اندر ضم کر کے ان کو قوت کے حساب سے اجازت دے وَ عِذْهُم اور ہر قسم کے وعدے ان سے کر یعنی جو کچھ ممکن ہے کسی ذریعے سیکسی دوسرے کو فریب سے، دھوکے سے،خوف دلا کر ،لالچیں دے کر اپنے ساتھ ملانے کی، ان کو اپنے ایمان سے ہٹانے کی وہ ساری کوششیں کر گزر.فرمایا وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَنُ إِلَّا غُرُورًا لیکن یا درکھو کہ بندوں کو شیطان جو بھی وعدے دیتا ہے وہ محض دھو کے کے وعدے ہوا کرتے ہیں.اِنَّ عِبَادِی لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ ياد رکھ اپنی تمام کوششیں کر دیکھ جو بندے میرے ہیں وہ میرے ہی رہیں گے.لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلطن تجھے ہرگز کبھی کسی قسم کا کوئی غلبہ مجھ سے محبت کرنے والے، مجھ پر ایمان لانے والے بندوں پر نصیب نہیں ہوگا.وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا اور یہ فرمانے کے بعد حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو یہ سکینت کا پیغام بھی عطا ہوتا ہے وَ كَفى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا کہ تیرا رب تیرے لئے بہت کافی ہے وکیل.اس آیت کا پچھلے مضمون سے کیا تعلق ہے؟ تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جو تیری وکالت کر رہا ہوں.مجھ سے بہتر اور کون وکالت کر سکتا ہے؟ میں تیرا رب ہوں اب تیرے معاملے کو میں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اس لئے کلیۂ مطمئن ہو جا کہ شیطان کے مقابل پر تیرا ایک وکیل ہے جو ہر طرح تیری وکالت فرمائے گا اور تیری نمائندگی کرے گا اور تجھے سہارا دے گا اور تو اس پر تو کل کرے گا اور شیطان کی طرف سے تجھے اور تیرے ماننے والے، تیرے غلاموں کو قطعاً کوئی خطرہ نہیں.

Page 330

خطبات طاہر جلد ۸ 325 خطبه جمعه ۱۹ مئی ۱۹۸۹ء اس آیت کا اطلاق آج دنیا میں بعض ممالک میں ہو رہا ہے جن میں سب سے زیادہ پاکستان میں اس کا اطلاق دکھائی دیتا ہے.جب سے دشمنوں کو میں نے جماعت احمدیہ کے امام کی حیثیت سے آپ سب کی نمائندگی میں مباہلے کا چیلنج دیا ہے اور جب سے انہوں نے یہ دیکھا کہ چیلنج کے معا بعد خدا تعالیٰ کی تقدیر نے بار بار اپنی تجلیات جماعت کی تائید میں دکھا ئیں اُس وقت سے ان کے اندر ایک خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور شدید خطرات محسوس کر رہے ہیں کہ بقیہ عرصہ میں جو بھی چیلنج کا عرصہ باقی ہے کہیں خدا تعالیٰ مزید تائیدات سے ان کو نہ نوازے اور کہیں دنیا یہ دیکھ نہ لے کہ خدا ان کے ساتھ ہے.یہ وہ خطرات ہیں جن کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنی شرارت میں بڑھتے چلے جارہے ہیں گویا وہ خود خدا ہیں.گویا چیلنج ان کے نام یہ تھا کہ تم ہمیں کسی قسم کا کوئی نقصان شرارت اور حسد کے ذریعہ نہیں پہنچاؤ گے.ہرگز ایسی کوئی بات نہیں تھی.چیلنج یہ تھا کہ جو خدا کا ہے وہ اس کی تائید میں خدا حیرت انگیز نشانات دکھائے گا اور تمام دنیا میں اس کو غالب کرتا چلا جائے گا، اس کی بدیوں کو نیکیوں میں تبدیل کرتا چلا جائے گا اور ان کے اندر سے خدا کے ولی پیدا ہوں گے اور ایسی جماعت جو خدا کی ہے اس مباہلے کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ہر پہلو سے تم ان کو نیکیوں میں ترقی کرتا ہوا دیکھو گے اور جہاں تک دشمن کی شرارت کا تعلق ہے مباہلے میں یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ اگر فریقین میں سے کسی کی شرارت سے کسی کا نقصان ثابت ہو تو اس کو خدا کی تجلی کا نشان نہیں سمجھا جائے گا بلکہ وہ بندے کا عناد دشمنی اور شرارت ہے اس کو خدا کے کام کیسے قرار دے سکتے ہو؟ پس اپنے ہاتھ میں انہوں نے جماعت کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری لے کر فی الحقیقت اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ ان کا کوئی خدا نہیں جو ان کی نمائندگی میں جماعت کو نقصان پہنچائے.ان کا کوئی ولی ایسا نہیں جو ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کی طرف سے جماعت کو ایذاء پہنچائے.اس لئے انہوں نے کہا خدا نے تو ہمارے لئے کرنا کچھ نہیں ہم کیوں نہ اپنے ہاتھ میں لے لیں امن و امان کے حالات اور جبر و تشدد کے ہتھیار اور ان ہتھیاروں سے مظلوم احمدیوں کے امن اور سکون کو بربادکر دیں اور پھر دنیا کو یہ کہیں کہ دیکھو مباہلے کے نتیجے میں ان کو کیا کیا نقصان پہنچے ہیں؟ یہ ہے وہ فتنہ جو آج کل پاکستان میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے اور طرح طرح کے مظالم اور شرارت کے شاخسانے چھوڑ کر کوشش کی جارہی ہے کہ احمدیوں کے خلاف ایک عام طوفان بدتمیزی کھڑا ہو جائے اور اسی قسم کے

Page 331

خطبات طاہر جلد ۸ 326 خطبه جمعه ۹ ارمکی ۱۹۸۹ء کثرت کے ساتھ پھیلے ہوئے فسادات بر پا ہوں جیسے ۱۹۵۳ء میں یا اس سے پہلے ۳۳ء،۳۴ء وغیرہ میں برپا ہوتے رہے.اس کے جواب میں میں نے غور کیا کہ میں ان کو کیا پیغام دوں تو میری توجہ اس آیت کی طرف مبذول ہوئی.مجھے خیال آیا کہ خدا تعالیٰ نے تو ایسے موقع پر وکالت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے.اب تو خدا اور شیطان کا مقابلہ ہے.پس بجائے اس کے کہ میں اپنی آواز میں آپ کی نمائندگی کر کے اس دشمن کو کوئی پیغام دوں.میں نے سوچا کہ اسی آیت کی رو سے اسی آیت کے الفاظ میں جو خدا تعالیٰ نے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہی موقع کے لئے صادر فرمائی ہے، ایسے ہی موقعوں پر اطلاق پانے کے لئے صادر فرمائی ہے.میں دشمن کو جواب دوں کہ جو کچھ تم سے ہوسکتا ہے کر گزرو.اپنے سوار بھی دوڑ دو احمدیوں پر ، اپنے پیدل بھی دوڑ دو.آواز میں دے کر ، ان کو دھوکا دے کر ان کو اپنی طرف بلاؤ ، ان کو لالچیں دو، ان کو ہر قسم کے تحفظات مہیا کرنے کی کوشش کرو، ان کو بتاؤ کہ تم اگر اکثریت میں شامل ہو گے تو تم ہماری اولاد کی طرح ہو جاؤ گے، ہماری کثرت میں حصہ دار بن جاؤ گے اور جو دھوکا دینے کے وعدے ہیں تم کر گز رو لیکن اوّل یہ کہ خدا متنبہ فرما رہا ہے کہ شیطان کے سارے وعدے دھو کے اور فریب کے وعدے ہوا کرتے ہیں اور یہ امر واقعہ ہے ہم نے اس سے پہلے دیکھا ہے.بارہا فتنوں اور فسادوں کے وقت بعض لوگوں کو احمدیت کے دشمنوں نے سہارے دیئے ہیں، جھوٹے وعدے دیئے ہیں اور اچانک اٹھا کر زمین سے آسمان تک پہنچا دیا ہے اور پھر ایسا چھوڑا ہے کہ مڑکر دیکھا بھی نہیں ان کی طرف اور ان کی ساری زندگی ذلت اور رسوائی میں گزری ہے.پس خدا تعالیٰ نے ضمناً ہمیں یہ بھی مطلع فرما دیا ہے کہ جو لوگ بیوقوفی میں ان کے وعدوں اور لالچوں کے دھوکے میں مبتلاء ہوں گے ان کا کوئی انجام نہیں ہے، یہ لوگ بے وفا لوگ ہیں ، یہ اپنوں کا جن کو اپنا سمجھتے ہیں ان کا ساتھ دینے والے بھی نہیں، ان کو چھوڑ دیا کرتے ہیں.چنانچہ ایک نہایت ہی عبرتناک واقعہ جماعت کی تاریخ میں محفوظ ہے کہ عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے ساری عمر جماعت احمدیہ کی مخالفت میں زبان چلائی اور حد کر دی ظلم اور سفا کی کی.زبان سے جس حد تک ظلم تو ڑا جا سکتا ہے عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے ساری عمر ایسا ہی کیا اور مسلمانوں نے جب تک ان میں جان تھی ، جب تک بولنے کی ہمت تھی خوب ان کا ساتھ بھی دیا.

Page 332

خطبات طاہر جلد ۸ 327 خطبه جمعه ۹ ارمکی ۱۹۸۹ء بڑے بڑے عظیم الشان جلسے ہوئے اور بہت بہت مال اور دولت بھی ان پر نچھاور کئے گئے لیکن انجام بالآخر ایسا ہوا کہ جب وہ بوڑھے ہو گئے تو سب نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا.جب وہ فالج سے بیمار ہو گئے اور حالت یہ تھی کہ بمشکل زبان چلتی تھی اور جسم فالج زدہ تھا.تو احمدی تو ان کی عیادت کے لئے جاتے تھے اور ان کو پوچھتے تھے اور پوچھا کرتے تھے کہ کوئی ضرورت ہو مدد کی تو ہمیں بتائیں لیکن باقی سارے جو ان کو مجاہد اعظم کہتے تھے اور آج بھی کہہ رہے ہیں ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے.چنانچہ مولانا غلام باری صاحب سیف نے واقعہ ایک مضمون کی صورت میں لکھا ہے اور بارہا سنایا بھی کہ وہ ایک دفعہ خود اپنے بعض ساتھیوں کو لے کر عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی عیادت کے لئے گئے اور ان سے حال پوچھا تو انہوں نے اپنی زبان نکال کر انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کتیا جب تک بھونکتی رہی اس وقت تک میں قوم سے داد پا تا رہا.جب اس کتیا میں بھونکنے کی سکت باقی نہیں رہی تو سب نے مجھے کو چھوڑ دیا.ایسے عبرتناک الفاظ انہوں نے اپنے متعلق کہے، اپنے منہ سے زبان کو کتیا کہہ کر فصیح و بلیغ تو تھے اور جس قسم کی فصاحت و بلاغت تھی اس کا اظہار اسی ایک فکرے سے ہو جاتا ہے لیکن اس میں ایک بڑا بھاری عبرت کا نشان ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَنُ إِلَّا غُرُورًا شیطان وعدے تو دیتا ہے اور دے گا لیکن دھو کے اور فریب کے سوا اس کے وعدوں کی کوئی حقیقت نہیں.وفا اگر ہے تو خدا میں ہے جو تمہارا مولیٰ ہے.خدا کے سوا کسی میں کوئی وفا نہیں.یہ کہنے کے بعد کتنے عزم اور کتنی شان کے ساتھ مومنوں سے اپنی توقعات کا اظہار فرماتا ہے.یہ ہے اس آیت کی شان جس پر دل فدا ہو جاتا ہے خدا کی عظمت اور اس کے جلال اور اس کے جمال کے حضور فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ - اے بیوقوف ،اے دھوکہ دینے والے خود کس دھو کے میں مبتلا ہو تجھے کیا خبر میرے بندے ہیں کیا ؟ وہ مجھ سے کبھی بے وفائی نہیں کریں گے.وہ کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑیں گے.جو چاہتا ہے کر گز رمیرے بندے میرے رہیں گے تجھے ان پر کسی قسم کا کوئی غلبہ نصیب نہیں ہو گا.سلطان کو نکرہ رکھ کر یہ شان پیدا کر دی گئی کہ مضمون کو بہت وسیع فرما دیا.مطلب یہ ہے کہ پورا غلبہ تو الگ دور کی بات ہے تجھے میرے محبت کرنے والے مجھ پر فدا ہونے والے، مجھ پر ایمان رکھنے والے بندوں پر ادنی سا غلبہ بھی نصیب نہیں ہو گا.کبھی تیرے نہیں ہو سکتے.وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا اور اسے محمد تیرا رب

Page 333

خطبات طاہر جلد ۸ 328 خطبه جمعه ۱۹ رمئی ۱۹۸۹ء تیرا وکیل ہے.وہ تیری وکالت کرے گا، وہ شیطان کے مقابل پر اپنی آسمانی فوجیں لے کر آئے گا اور اس کے ہر حربے کو نا کام کر کے دیکھا دے گا.پس جماعت احمدیہ پاکستان ہو یا بنگلہ دیش ہو یا دیگر ایسی جماعتیں ہوں جو نہایت ہی خطرات کے حالات سے گزر رہی ہیں میں ان کو خدا کے کلام کی زبان میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ خدا ان کو کبھی نہیں چھوڑے گا.وہ اپنے عزم اپنے حوصلے کی حفاظت کریں اور خدا سے ثبات کی دعا کریں.خدا سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ثبات قدم نصیب فرمائے.پس ساری دنیا کی جماعتوں کو ان کے لئے ایسی ہی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ ہر قوم میں کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں اور اس آیت کے علاوہ ایک اور آیت میں ذکر بھی موجود ہے کہ جن کو انسان ظاہری طور پر خدا کے بندے سمجھتا ہے ان میں بعض ایسے کمزور انسان بھی نکل آتے ہیں کہ جن کے دل میں نفاق ہوتا ہے، جن کے دلوں میں بیماریاں پائی جاتی ہیں اور زلازل کے وقت وہ جھڑ جاتے ہیں اس لئے یہ مراد ہر گز نہیں کہ الہی جماعتوں میں سے کبھی کوئی ٹھو کر نہیں کھائے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ اس وقت جو خدا کے ہیں وہ پہچانے جاتے ہیں، وہ الگ اور ممتاز ہو کر الگ نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور جو شیطان کا گندہ مال ہے وہ الگ ہو جاتا ہے اور دنیا دیکھ لیتی ہے کہ خدا کے بندے کون تھے اور غیر اللہ کے کون بندے تھے.چنانچہ بعض دفعہ بہار کے دنوں میں بھی آپ نے دیکھا ہو گا درختوں پر بعض پتے سوکھے ہوتے ہیں.ویسے تو پتا نہیں لگتا بہار ہی بہار دکھائی دیتی ہے لیکن جب تیز آندھیاں چلتی ہیں تو انہی سبز پتوں میں سے بعض سوکھے ہوئے پتے جھڑ کے نیچے گر جاتے ہیں.تو زلازل کے وقت بعض نقصان پہنچتے ہیں، بعض لوگوں کوٹھوکر ضرورلگتی ہے اور جو خدا کا ہے وہ خدا کا ہو کر سامنے آجاتا ہے، جو شیطان کا ہے وہ شیطان کا ہو کر سامنے آجاتا ہے.پس ہمیں اس موقع پر ان کمزوروں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اللہ ان کو بھی ٹھوکروں سے بچائے ، ان کی حفاظت فرمائے.اس موقع پر دشمن نے جو سازشوں کا جال پھیلایا ہے اس سازش کے جو نقوش اب نکل کر سامنے آ رہے ہیں.ایک تو یہ ہے کہ وہ جگہ جگہ ایسے احمدیوں پر قاتلانہ حملے کروا رہے ہیں جوان حالات میں اپنے دفاع کی طاقت نہیں رکھتے اور اس پہلو سے وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے نو جوان جو لمبے صبر کے دور سے گزر رہے ہیں اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے اور ان دردناک قتلوں کو

Page 334

خطبات طاہر جلد ۸ 329 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء برداشت نہ کرتے ہوئے وہ بھی جوابی حملے شروع کریں گے اور اگر ایک دفعہ انہوں نے ایسا کیا تو وہ سمجھتے ہیں کہ پھر ہم ساری قوم کو دھوکہ دیں گے اور ان کو کہیں گے کہ دیکھو احمدیوں نے یہ ظلم کئے ، تمہارے فلاں کو مار دیا، تمہارے فلاں کو مار دیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر احمدی مقابل پر نکلیں تو کمزور ہونے کے باوجود وہ تعداد میں، بھاری تعداد میں بڑی اکثریت پر بھی غالب آنے کی طاقت رکھتے ہیں.اس سے پہلے ہندوستان کی تاریخ میں جب ابھی جماعت بہت چھوٹی تھی ایسے بارہا واقعات ہو چکے ہیں.دہلی کے جلسے میں جو واقعہ گزرا ، مصلح موعود کے جلسے میں میں بھی وہاں موجود تھا.چند ہزار احمدی تھے اس کے مقابل پر دلی کا لکھوکھا کا عظیم شہر تھا اور اس میں سے مسلمان ، بعض بد قسمت مسلمان علماء کے اکسائے ہوئے اور انگیخت کئے ہوئے لاکھوں مسلمان تھے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ایک انموہ کثیر ہے جس نے جلسے کو گھیرے میں لے لیا تھا.اس وقت ان سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے عورتوں کے خیمے پر حملہ کر دیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریر کے وقت جب یہ دیکھا کہ عورتوں کی طرف ان کا رخ ہو گیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے صبر کا پیمانہ بہت وسیع ہے لیکن اس کی ایک حد ہے.اگر ہماری عورتوں کی طرف تم نے بد نظر سے دیکھا اور ہاتھ اُٹھایا تو ہم کسی قیمت پر اس کو برداشت نہیں کریں گے.پھر جو کچھ ہو گا ہو جائے.آپ کا یہ کہنا تھا کہ احمدی نوجوان اس خیمے کی طرف لپکے ہیں اور آنافا نا اس انبوہ کثیر کے پاؤں ایسے اکھڑے ہیں جیسے سیلاب کی موجیں کسی چیز کو بہا کر لے جارہی ہوں.ہر طرف بھگدڑ مچ گئی.ایسا عجیب نظارہ تھا، اس کا ایسا رعب تھا کہ دوسرے یا تیسرے دن دتی کے اسٹیشن پر جب میں جارہا تھا ، داخل ہونے لگا تو میں نے اپنا ٹکٹ نکالا دکھانے کے لئے تو وہ جو اسٹیشن کا کارڈ تو نہیں مگر جو بھی افسر موجود تھا ٹکٹ دیکھنے کے لئے اس نے مجھے کہا کہ میاں آپ احمدی ہیں آپ کا ٹکٹ دیکھنے کی میں جرات نہیں کر سکتا جو ہم سے ہو چکی ہے پہلے مجھے پتا ہے.یعنی یہ رعب کی کیفیت تھی.اتنا بڑا شہر، اتنا عظیم شہراور اتناطاقتور شہر.پس یہ کوئی احمدیت کا کمال نہیں ہے.یہ خدا کی طرف سے ایمان کو ایک رُعب دیا گیا ہے، ایمان کو ایک ہیبت عطا کی گئی ہے.جب بھی ایمان ٹکراتا ہے غیر ایمانی جہالت سے اور جوشوں سے تو ایمان کو ہمیشہ غلبہ نصیب ہوتا ہے.اس لئے علماء کو یہ بھی پتا ہے کہ اگر احمدی نوجوان اٹھیں گے تو لازماً اپنے مقابل کو زیادہ سخت ماریں گے اور اس کے نتیجے میں پھر یہ فسادات پھیلا دیں گے ہر طرف اور بہت سے ایسے علاقے ہیں

Page 335

خطبات طاہر جلد ۸ 330 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء جہاں چند احمدی بستے ہیں، بڑے بڑے دیہات میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں.چنانچہ ان کی نیت یہ ہے کہ ایسے دیہات میں یا ایسے قصبوں میں پھر زیادہ سے زیادہ احمدیوں کے گھر جلائے جائیں، ان کے اموال لوٹے جائیں، ان کو قتل کیا جائے وغیرہ وغیرہ.پس یہ وہ خطرات ہیں جو اس وقت پاکستان کو درپیش ہیں.حال ہی میں سکرنڈ میں اس صدی کا پہلا شہید ہوا ہے.منور احمد صاحب بٹ ان کا نام ہے.ابھی پرسوں مجھے اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے جام شہادت نوش کیا.یہ اسی ظلم اور سفا کی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے.منور احمد صاحب کے متعلق میں یہ آپ کو بات بتادوں کہ گزشتہ چند سال سے ان کے ساتھ میری خط و کتابت رہی ہے اور اس سے ان سے پہلے ان کے والد بھی شہید کئے گئے ، ان کے بھائی بھی شہید کئے گئے ، غالباً ایک اور خاندان کے فرد بھی شہید کر دیئے گئے.سکرنڈ کی جماعت چھوٹی سی جماعت ہے جس میں یہ گھر ہے جو خاص طور پر احمدیت کی فدائیت میں نمایاں ہے.دیہات میں ارد گرد بھی احمدی ہیں ان پر بھی حملے ہوئے ، بہت سے لوگوں نے زمینیں چھوڑ دیں ، بیچ کر دوسری جگہ منتقل ہو گئے.منور احمد صاحب اور ان کی ہمشیرہ کے بارہا مجھے خط ملے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے لیکن اس دشمن کو یہ خوشی نہیں دینگے کہ احمدی جگہ چھوڑ کر بھاگ گئے.اس لئے میں ہر وقت تیار بیٹھا ہوں.اس سے پہلے ان پر حملہ ہوا اور پولیس کو پتا ہے، حکام کو پتا ہے کون خبیث لوگ تھے جنہوں نے حملہ کیا، کونسی مسجد ہے جہاں سے وہ حملہ آور آئے تھے اور پکڑے بھی گئے اور پھر کچھ نہیں بنا.چنانچہ ان حکومت کی حوصلہ افزائیوں کے نتیجے میں ابھی چند دن پہلے وہی قاتلوں کا گروہ آیا ہے اور دن دیہاڑے ان پر فائرنگ کر کے وہیں ان کو جام شہادت عطا کر دیا.عطا تو خدا نے کیا لیکن ان کا وہ ایک ذریعہ بن گئے جس کے ذریعے ان کو جام شہادت نصیب ہوا.پس اس قسم کے قتل کی کوششیں اور جگہ بھی ہو چکی ہیں.بعض جگہ نا کام ہوئی ہیں کلیہ ، بعض دفعہ شدید زخمی حالت میں احمدیوں کو چھوڑا گیا ہے اور عمومی فساد کی کوششیں بھی بہت ہو چکی ہیں.ننکانہ صاحب کے واقعات آپ کو پتا ہیں کہ چک ۵۶۵،۵۶۳ پھر سرگودھا کے ساتھ چک ۹۸ شمالی ہے، پھر نوابشاہ کے واقعات ہیں.یہ ایک دم جو تیزی سے اس باسی کڑی میں اُبال آیا ہے اس کا یہ پس منظر ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے.ان کو شدید بے چینی اور فکر ہے کہ وقت گزر رہا ہے اور جماعت اپنے ایمان

Page 336

خطبات طاہر جلد ۸ 331 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء اورا خلاص میں ترقی کرتی چلی جارہی ہے، ساری دنیا میں پھیل رہی ہے.دیکھتے دیکھتے نئے نئے ملکوں میں خدا تعالیٰ ان کو عظمتیں اور غلبے نصیب فرما رہا ہے.ہم کیا منہ دکھائیں گے قوم کو کہ مباہلے کے نتیجے نکلا کرتے ہیں.کافی انتظار کیا، آٹھ دس مہینے گزر گئے، گیارہ مہینے ہو گئے خدا حرکت میں نہیں آ رہا.اس لئے اپنے ہاتھ میں فیصلے لو خدا پر بیٹھے رہے تو کچھ بھی نہیں بننا احمدیوں کا.یعنی ہماری طرف سے ان پر کوئی حجت تمام نہیں ہو سکتی.لیکن میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ ہمارا خدا صرف ہماری تائید کا خدا صرف ان معنوں میں نہیں ہے کہ ہم پر رحمتیں اور فضل نازل فرماتا ہے بلکہ وہ دشمن کو ہلاک کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے.دشمن کو رسوا اور ذلیل کر دینے کی طاقت بھی رکھتا ہے.اس لئے یہ دشمن جو بڑے ناز اور فخر کے ساتھ اس وجہ سے ناز اور فخر کرتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ ہے.مرکز کی حکومت بھی ان کے ساتھ ہے، پنجاب کی حکومت بھی ان کے ساتھ ہے.اس وجہ سے ناز اور فخر میں مبتلاء ہیں کہ دنیا میں احمدیوں کا کوئی نہیں رہا.ان کو میں بتا دیتا ہوں کہ جس خدا کا یہ کلام ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کے سنایا ہے وہ خدا ہمارے لئے کافی وکیل ہے اور ہمیشہ سے وہ اپنے پاک بندوں کی وکالت کرتا چلا آیا ہے اس لئے ہم سے تمہیں کوئی خوف نہیں.احمدی نوجوان جب تک میں ان کو کہتا رہوں گا صبر کے نمونے دکھائیں گے اور صبر پر قائم رہیں گے اور تمہاری یہ ناپاک سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے کہ احمدیوں کا صبر تو ڑ کر ان پر اپنے مظالم توڑنے کے بہانے نکالولیکن خدا ہے جس کی برداشت لا متناہی سہی لیکن وہ خود فرماتا ہے کہ ایک حد کے بعد پھر میں اپنا صبر خود تو ڑ دیا کرتا ہوں اور جب میں فیصلہ کرتا ہوں کہ اب قوم کو کافی مہلت مل چکی ہے تو پھر اس قوم کو کوئی بچانے والا نہیں ہوا کرتا.وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءٍ فَلَا مَرَدَّ لَهُ (الرعد :۱۲) جب خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسی قوم کی ہلاکت کے دن آگئے ہیں تو اس قوم سے اس برائی کو روکنے والا کوئی نہیں ہوا کرتا.پس ہم تمہیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے، خدا کے نام پر ڈراتے ہیں.اشتعال پھیلانے اور حکومت کو احمدیت پر ظلم پر اکسانے کے لئے ان کے دماغ جس طرح چلتے ہیں اور کیسی کیسی احمقانہ باتیں ان کو سوجھتی ہیں اس کی ایک مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.صد سالہ جشن تشکر کے متعلق جب پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ احمدیوں کو کسی رنگ میں بھی جشن تشکر نہ منانے دیا جائے.یہاں تک کہ ان کے بچوں کو مٹھائی کھانے سے بھی باز رکھا جائے،

Page 337

خطبات طاہر جلد ۸ 332 خطبه جمعه ۱۹ارمئی ۱۹۸۹ء اچھے صاف ستھرے کپڑے پہنے سے بھی منع کیا جائے.معلوم ہوا کہ ایک طرف تو مرکزی حکومت نے ہدایت دی تھی خود پنجاب حکومت کو کہ ایسا کرو تا کہ یہ سہر وہ اپنے سر باندھ سکیں.دوسری طرف پنجاب حکومت یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ یہ سہرا ہمارے سر ہے.اس کھینچا تانی میں یہ بتانے کے لئے کہ ہے اصل میں کس کا سر.پنجاب حکومت کے ایک خاص پروردہ مولوی ہیں جو نہایت دریدہ دہن انسان ہیں، ایک منحوس صورت انسان ہیں.انہوں نے یہ اعلان کیا کہ میں تمہیں بتا تا ہوں کہ اصل کہانی کیا ہے.ہوا یہ کہ میں تھا پنجاب کی طرف سے جو ایک وفد لے کر مرکزی وزراء کے پاس پہنچا اور ان کو میں نے ایک سادہ سی بات سمجھائی.وہ سادہ بات یہ تھی کہ تم سو سالہ جشن منانے کی اجازت دے رہے ہو ان لوگوں کو تم جانتے نہیں کہ یہ سو سالہ جشن ہے کس چیز کا؟ وزراء نے پوچھا آپ فرمائیے مولانا کہ یہ کس چیز کا جشن ہے.تو انہوں نے بتایا کہ وہ جشن اس بات کا ہے کہ سو سال پہلے نعوذ باللہ من ذالک مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ ڈالا تھا اور وہ ڈاکے کا مال اس وقت سے ان کے ساتھ ہے اور سو سال میں جو ڈا کے کا مال بڑھتا رہا ہے اس کی خوشی میں یہ سارا جشن منایا جا رہا ہے.تو کیا تم اپنے دنیاوی قانون کے لحاظ سے کبھی ڈاکوکو جشن منانے دیا کرتے ہو کہ میں نے اتنا مال لوٹا قوم کا اس لئے مجھے جشن منانے دیا جائے اور یہ بات مرکزی وزراء کی عقل میں آگئی ، ان کو سمجھ آ گئی، انہوں نے کہا مولانا اب ہمارا مسئلہ حل ہو گیا ہے اب ہم حکم دیتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو جشن منانے کی اجازت نہ دی جائے.بات سمجھانے والے کی عقل بھی اور بات سمجھنے والے کی عقل بھی ایک خاص حیثیت کی عقل ہے جس کا اگر دنیا کے عظیم الشان سائنسدانوں کو علم ہو جائے تو شائد وہ تجزیہ کریں، دماغ کھول کر دیکھیں کہ کس قسم کی عقل اس دماغ میں بھری ہوئی ہے.دنیا کے کسی منطق سے بھی آپ اس مسئلے پر غور کر کے دیکھیں اور اسلامی غیرت کے نقطہ نگاہ سے بھی آپ اس پر بات کر کے دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ وہ کیسے جاہل لوگ ہیں جنہوں نے یہ دلیل بنائی اور وہ کیسی عقلیں تھیں جنہوں نے اس دلیل کو قبول کر لیا.سب سے پہلے ایمانی غیرت کا تقاضا تھا یہ سوچتے کہ حضرت محمد مصطفی عمل اللہ کی نبوت پر ہے کون جو ڈاکہ ڈال سکتا ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تجھے یہ پیغام دیا ، ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں.وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ: ۶۸) خدا ہر قسم کے انسانی حملوں سے تجھے محفوظ رکھے گا.تیرے کلام کی حفاظت فرمائے گا،

Page 338

خطبات طاہر جلد ۸ 333 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء تیری نبوت اور تیرے تقدس کی حفاظت فرمائے گا.اتنے قوی وعدوں کے بعد اور یہ بتا کر کہ شیطان کو تیری وحی میں کوئی دخل نہیں ہے پھر ان علماء کا ان باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہ دینا کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ پڑ گیا ہے.اتنی بے حیائی، اتنی گستاخی کہ تعجب ہے کہ حکومت پاکستان بھی ایسے غلیظ الزام لگانے والے ملانوں کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے اورمحمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق کوئی غیرت نہیں دکھائی.یہ کیوں نہیں کہا ان کو کہ اے بے غیر تو ! محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والا ہے کون، کون پیدا ہوا ہے جو محمد رسول صلى الله اللہ علیہ کی نبوت پر ڈاکہ ڈال سکے؟ پھر یہ کہ اگر نبوت کا دعویٰ جھوٹا ہے تو وہ تو خدا پر ڈاکہ ہے اور قرآن کریم نے یہی فرمایا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اس کو ہلاک کروں.دشمن کا کام نہیں ہے، یہ انسان کا کام نہیں ہے.پس خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے میرے تقدس پر اور میری عظمت پر اور میری سچائی پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.میں اس کوشش کو ناکام بنا دیتا ہوں.ایسے شخص کو ہلاک کر دیا کرتا ہوں.پس دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی.اگر کوشش کی گئی تھی تو خدا فرماتا ہے کہ میں اس کوشش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا لیکن ایسی شکل نہیں ہے.نبوت کا معاملہ بندے اور خدا کے درمیان ہے اور دراصل نبوت کے دعوے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے خدا نے کچھ کہا اور میں خدا کا امین بن کر ، خدا کے پیغام کا امین بن کر اس کا پیغام تمہیں پہنچارہا ہوں.اس صورتحال میں اصل ڈا کہ خدا تعالیٰ کے تقدس اور اس کی عظمت پر ان معنوں میں ہے کہ ایک بیہودہ بات کی کوشش کی گئی.اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.چنانچہ خدا فرماتا ہے میرا کام ہے پھر ایسے لوگوں کو ذلیل و رسوا کروں اور اپنی سچائی کے تقدس کی حفاظت کروں.چنانچہ قرآن کریم میں فرعون کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ کے دعوے سے اشتعال کھا کر.اُس زمانے میں بھی بڑے اشتعال کھانے والے علماءموجود تھے.یہ دیکھ کر کہ ایک شخص کہتا ہے میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ساری قوم کو اشتعال آ گیا اور فرعون کو سب سے بڑھ کر اشتعال آیا اور ان کے بڑے بڑے لوگ اکٹھے ہوئے اس مجلس میں اور انہوں نے سوچا کہ یہ شخص خدا کا پیغامبر بندہ ہے اس سے زیادہ اشتعال دینے والی اور کونسی

Page 339

خطبات طاہر جلد ۸ 334 خطبه جمعه ۹ ارمکی ۱۹۸۹ء بات ہوسکتی ہے.پس یہ نبوت کے نام پر اشتعال کوئی نئی چیز نہیں ہے.تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اس شخص کو قتل کر دیں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے.اس فیصلے کے بعد یا اس فیصلے کے دوران اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک شخص ان کی طرف آیا جو صاحب فہم اور اولوالالباب میں سے تھا.اس نے ان سے کہا کہ خدا کا خوف کرو، عقل کے ناخن لو تم کیا فیصلے کر رہے ہو؟ وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه، اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے، اگر یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے تو تمہارا کام نہیں ہے کہ تم اس کو ہلاک کرو، خدا کا کام ہے کہ اس کو ہلاک کرے اور اگر کوئی شخص خدا پر جھوٹ بولتا ہے تو اس کا عذاب ان لوگوں پر نہیں ٹوٹا کرتا جن کو وہ مخاطب ہوا کرتا ہے.تو تمہیں تکلیف کیا ہے؟ جھوٹ ایک شخص بول رہا ہے خدا پر بول رہا ہے، اللہ اس کو پکڑے، ہلاک کرے ،نہ کرے اس کی مرضی ہے.تمہیں نقصان کونسا ہے اس کا.جھوٹا تو خود اپنی موت مر جائے گا لیکن یہ یاد رکھو کہ اگر چہ تم جھوٹا سمجھتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور یہ سچا نکلا وَإِنْ يَكُ صَادِقًا تُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ (المؤمن: ۲۹) پھر ضرور جن عذابوں اور جن تکلیفوں سے یہ تمہیں ڈرا رہا ہے خدا کی ناراضگی کے عذابوں سے وہ تمہارے پیچھے لگ جاہیں گے اور تمہیں نہیں چھوڑیں گے اس لئے کیوں جہالت کی بات کرتے ہو؟ ایسے معاملے میں کیوں دخل دیتے ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ، کوئی اختیار نہیں ہے؟ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی ان دوصورتوں میں سے ایک ہی صورت ہو سکتی ہے.اگر جھوٹ بولا ہے تو خدا پر جھوٹ بولا ہے اور ایسی صورت میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ پھر تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ انتظار کرو اور دیکھو کہ خدا اس سے کیا سلوک کرتا ہے.اگر تم نے خود خدائی کو اپنے ہاتھ میں لیا.خود ایک شخص کو جھوٹا سمجھتے ہوئے اس کو سزاد ینے کی کوشش کی تو یا درکھو اگر یہ سچا نکلا تو پر تم ضرور ہلاک ہوگے اور ضرور تمہیں خدا کا عذاب پہنچے گا.یہ ہے عقل کی بات، یہ ہے خدا کا کلام.کیا یہ اس کلام کو نہیں پڑھتے ؟ کیا پڑھتے ہیں تو ایسی صورت میں پڑھتے ہیں کہ ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہوتے ہیں ان کو کوئی سمجھ نہیں آتی.پس یہ ایک تمسخر ہے محض اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.جہالت کی حد ہے اس قسم کی دلیلیں پیش کرنا اور پھر جہالت کی حد ہے اس قسم کی دلیلیں قبول کر لینا.اس دلیل کو آگے بڑھا ئیں کئی لوگ ہیں جو جھوٹے خداؤں کی عبادت کرتے ہیں یا خدا ہونے کے دعوے کرتے ہیں.اگر رسول کی عزت اور غیرت کا سوال ہے تو خدا کی

Page 340

خطبات طاہر جلد ۸ 335 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء عزت اور غیرت کا سوال اس سے بڑھ کر ہے.پھر کیوں تم ان لوگوں پر حملہ نہیں کرتے ، کیوں ان پر ٹوٹ نہیں پڑتے ، کیوں ان کو جشن منانے دیتے ہو؟ ہر سال ہندوستان میں میلے لگتے ہیں اپنے بتوں کے نام پر کبھی کسی دیوی کے نام پر کبھی کسی دیوی کے نام پر اور دیوالیاں منائی جاتی ہیں.مسلمان علماء کو چاہئے کہ چڑھ دوڑیں ہندوستان کے اوپر اور کہیں کہ تم ڈاکے کے جشن منارہے ہو، تم نے ہمارے خدا کی خدائی پر ڈاکے ڈالے ہوئے ہیں.ہم ہر گز تمہیں یہ جشن نہیں منانے دیں گے.اس وقت ان کی غیرت کہاں چلی جاتی ہے؟ جھوٹ بولتے ہیں.الف سے کی تک ان کے دعوے جھوٹے ، ان کے اعمال جھوٹے ، ان کی غیر تیں جھوٹی محض فساد کی نیت ہے اس کے سوا ان کی کوئی نیت نہیں.ایک طرف تو اس قسم کے حملے جماعت پر ہورہے ہیں اور دوسری طرف بین الاقوامی سازشیں جماعت کی طرف ہر طرف سے سراٹھا رہی ہیں.کچھ ایسی سازشیں ہیں جن کا آپ کو علم ہے یعنی میں نے باتیں پہلے بھی کی ہوئی ہیں.کچھ ایسی ہیں جن کا آپ کو ابھی پورا علم نہیں لیکن جماعت ان کی نگرانی کر رہی ہے اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بیان کیا تھا امر واقعہ یہ ہے زمین کے کسی دور کے ملک میں بھی اگر کسی سوکھے ہوئے پتے کے نیچے بھی مخالفت کا کوئی کیڑا سرکتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسا انتظام فرما دیتا ہے کہ اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے اور اس کے خلاف دفاعی کارروائیوں کے لئے میں مستعد ہو جاتا ہوں اور ساری جماعت میرے ساتھ مستعد ہو جاتی ہے اس لئے ہم غافل نہیں ہیں.ہم عالم الغیب والشہادہ کے غلام ہیں اور اسی کے علم اور اس کے غیب اور شہادت کے علم کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بصیرت عطا فرماتا ہے اس لئے جماعت ہر طرف سے مستعد اور ہوشیار ہے اور میں جماعت کو مزید مستعد اور ہوشیار کرنا چاہتا ہوں.ان سازشوں کا ایک نیا شاخسانہ بہائیت کا جماعت احمدیہ پر حملہ ہے.جماعت احمدیہ کو دنیا کی نظر میں ذلیل کرنے کے لئے اور یہ دکھانے کے لئے کہ بہائیت بھی ان سے آدمی نوچ سکتی ہے.پاکستان میں ایک ایسی سازش کی گئی جس کی جڑیں دراصل غیر ملکوں میں ہیں اور اس سازش کا اصل شکار مسلمان عامتہ الناس ہیں اور ان کو پتا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے ان کے ساتھ.جب سے امریکہ کا غلبہ ہوا ہے پاکستان پر ہر قسم کے جاسوسی کے اڈے وہاں قائم ہوئے ہیں اور ان میں ایک بہائیت بھی ہے اور وہ بہائیت جو پہلے سر ٹیک کر خاموشی سے با مشکل اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی تھی اب اپنی حدود

Page 341

خطبات طاہر جلد ۸ 336 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء سے اچھل اچھل کر پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں میں نمودار ہورہی ہے.توجہ ان سے پھیر کر جماعت کی طرف منتقل کرنے کے لئے یہ سازش کی گئی کہ علماء کو یہ بتایا جارہا ہے کہ ہمارا حملہ جماعت احمدیہ پر ہے اس لئے تم ہمارا ساتھ دو.چنانچہ اس سے پہلے ایک واقعہ ہوا جس میں دو تین بدنصیب اور پہلے سے معلوم شدہ منافقین نے بہائیت کو قبول کر لیا اور اس کو بڑی شان کے ساتھ پاکستان کے اخباروں میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ پیش کیا اور ان سرخیوں کے لگوانے میں علماء شامل تھے.گویا یہ فخر ہورہا ہے کہ بعض لوگ یعنی چند دو تین چار حضرت محمد مصطفی میلے کی غلامی سے نکل کر اور خدا تعالیٰ کی واحدانیت کے تصور سے نکل کر بہاء اللہ کو خدا ماننے والے پیدا ہو گئے ہیں اس لئے جشن مناؤ.امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے سوا اس کے کوئی معنے نہیں بنتے.اس واقعہ کے اور شاخسانے چونکہ پھوٹ رہے ہیں اس لئے میں آج مختصر آپ کو بہائیت کے متعلق بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی اس فتنے پر نظر ہے اور گزشتہ چار پانچ سال سے میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا مطالعہ کروارہا ہوں اور ان کی سازشوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی کہنہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں.ان کے پیچھے کیا ہے اور ان کی حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ دن بدن ایسے شواہد سامنے آتے چلے گئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یا سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں یا یہود کے ایجنٹس ہیں اور عالمی سازش ہے ایک دنیا میں جاسوس بنانے کی اور ان کا نظام الف سے کی تک دھوکہ دہی اور لالچ پر مبنی ہے.اس کی تفاصیل میں اس وقت جانے کا وقت نہیں لیکن مختصر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ امریکہ میں ان کا سب سے بڑا معبد ہے اور اتنا عظیم الشان، اتنا شاندار کے اس پر کروڑوں روپیہ خرچ ہوا ہے اور گنتی کے جس کو پنجابی میں ڈھائی ٹوٹرو کہتے ہیں گنتی کے چند انگلیوں پر گنے جانے والی تعداد ہے وہاں بہائیوں کی اس سے زیادہ نہیں.سوال یہ کہ روپیہ کہاں سے آیا؟ ایک چھوٹی سی جماعت جس کا مالی نظام اس طرح قربانی پر نہیں چل رہا جس طرح جماعت احمدیہ کا مالی نظام چل رہا ہے.اچانک شکاگو میں اتنا بڑا معبد بنانے کی توفیق کیسے پا جاتی ہے؟ پھر جب میں نے ان کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں یہ بڑے عظیم اپنے معبد بنا رہے ہیں وہاں ان کی گنتی کی چند ایک کے سوا زیادہ تعداد نہیں اور یہ و ہیں وہیں نفوذ پارہے ہیں جہاں جہاں امریکہ کا نفوذ بڑھ رہا ہے.چنانچہ South Pacific میں پایا نیوگنی میں ،Soleman Iceland میں اور ایسے

Page 342

خطبات طاہر جلد ۸ 337 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء چھوٹے چھوٹے دور دراز جزائر میں یہ اپنی کوششیں کر رہے ہیں اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں اس وقت امریکن دفاعی اڈے قائم ہورہے ہیں.اسی طرح بعض دوسرے اور ممالک میں جن کے متعلق ہم پوری تفصیل سے جائزہ لے رہے ہیں وہاں بہائیت اپنی جڑیں قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جڑیں تو نہیں کہنا چاہئے، عمارتیں بن رہی ہیں وہاں اور دکھاوے ہورہے ہیں لیکن عملاً تعداد وہی چند ایک سے زیادہ نہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی میں جب تحقیق کی تھی پہلی دفعہ مجھے ان سے یہ نسخہ ملا کہ بہائیوں کو جس ملک میں آپ پوچھیں کہ یہاں تو آپ دو چار ہیں صرف اتنی بڑی طاقت آپ کے پاس کہاں سے آ گئی، اتنا پیسہ کہاں سے آ گیا ؟ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم یہاں نہیں ہم فلاں جگہ طاقتور ہیں اور فلاں جگہ طاقت کا حال جاکے دیکھو کہ وہاں جواب ملتا ہے کہ ہاں یہاں نہیں ہم فلاں جگہ ہیں اس لئے جہاں جہاں آپ ان کے پیچھے پہنچیں گے وہاں سے آگے کوئی اور جگہ بتائیں گے کہ ہم وہاں طاقتور ہیں اور اس پہلو سے جب میں نے جائزہ لیا تو سو فیصدی حضرت مصلح موعود کا یہ تخمینہ درست نکلا ہے.پاکستان میں آجکل امریکی اڈوں کے نفوذ کی وجہ سے ان کا نفوذ بڑھا ہے اور اب جو آخری حملہ انہوں نے ربوہ پر کرنے کی کوشش کی ہے اس کی تفصیل میں آپ کو بتا تا ہوں.اس سے مزید اس خیال کو تقویت ملی کہ ان کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے.وہاں ایک ایسا خاندان آباد ہے جس کے گھر کی مالکہ ایرانین ہیں.نوابشاہ ضلع میں ایک مخلص احمدی ہوا کرتے تھے آغا عبداللہ خان ان کی ایک شادی ایران میں ہوئی تھی اور اس ایرانی خاتون نے احمد بیت قبول کی اور وہاں ان کی وفات کے بعدر بوہ میں آباد ہوئیں ان کے ہر قسم کے بچے ہیں.ایک امریکہ میں بچہ ڈاکٹر ہدایت ہیں ان کو تو میں جانتا ہوں.اللہ کے فضل سے نہایت مخلص اور نمونے کے ڈاکٹر ، بنی نوع انسان کے بچے ہمدرد اور خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والے جماعت کی خاطر قربانیاں کرنے والے اس لئے اس ذکر میں ان کو کہیں متہم نہ مجھ لیں اس لئے میں تفصیل سے ان کا دفاع کر رہا ہوں.باقی اولاد کچھ کسی قسم کی ، کچھ کسی قسم کی میں تفصیل سے نہیں جانتا.کچھ دن ہوئے ان کے گھر میں بہائیوں کی ایک میٹنگ ہوئی اور اس میں بہائیوں کا جوسب سے بڑا سر براہ تھا وہ امریکن تھا اور وہ مرتد جس کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اپنے ایک دوساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور یہ

Page 343

خطبات طاہر جلد ۸ 338 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء امریکن ان کی سرپرستی میں وہاں گیا اور انہوں نے سکیم یہ بنائی وہاں بیٹھ کے ربوہ کے قریب سیدوں کو لالچ دے کر غیر معمولی روپیہ دے کر وہاں سے کچھ زمین حاصل کی جائے.وہاں ایک دس بیڈ کا ، دس بستروں کا ہسپتال قائم کیا جائے.اس ہسپتال کا سر براہ حیدر قریشی جو پہلے احمدی کہلاتا تھا اور مرتد ہے وہ اس کا نگران اعلیٰ بھی ہو اور اس کا روپیہ کمانے والا بھی وہی ہو اور اس طرح ایک فتنے کا جال پھیلا کر جو کمزور اور غریب احمدی ہیں اور جو دلوں کے بیمار ہیں ان کو خرید لیا جائے ، ان کو لا لچھیں دی جائیں اور اس طرح دکھایا جائے دنیا کو کہ احمدیت پر بہائیت نے بہت ہی کامیاب حملہ کیا ہے اور اس طرح وہاں جاسوسی کا اڈا بھی امریکہ کا قائم ہو جائے گا.یعنی یہ اندازے ہیں لیکن حالات اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہی مقصد ہے لیکن سیکیم جو میں نے بتائی ہے یہ نقوش جو آپ کے سامنے رکھے ہیں یہ درست ہیں.یہ سازش وہاں کی گئی.جہاں تک جماعت احمدیہ کے رد عمل کا تعلق ہے ہم دیگر علماء کی طرح خدا کے بندوں کو اپنی جاگیر نہیں سمجھتے اور اپنی ملکیت نہیں سمجھتے.دین کے معاملے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہر شخص آزاد ہے لیکن اگر غربت سے فائدہ اٹھا کر کسی کا دین خریدنے کی کوشش کی جائے تو تکلیف ضرور ہوتی ہے لیکن اسی آیت میں اس بات کا بھی جواب ہے.اگر چند کمزور اور منافق احمدی جو ہر مجلس میں ہر قوم میں ہوا کرتے ہیں، ہر شہر میں ہوا کرتے ہیں.یعنی احمدی کے لحاظ سے نہیں منافقت کے لحاظ سے میں کہتا ہوں ایسے لوگ ہر جگہ ملتے ہیں.مدینے کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرما رہا ہے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی موجودگی میں وہاں منافقین ہوا کرتے تھے.تو غلام آقا سے تو بڑھ سکتا ہی نہیں اس کے پاؤں کا غلام ہوتا ہے ، اس کی جوتیوں کا غلام ہوتا ہے اس لئے اس سے آقا کے مقابل پر بڑا سلوک نہیں ہوسکتا.اس لئے اگر چہ اہل ربوہ نے بڑی ہمت دکھائی ہے، غیر معمولی شجاعت دکھائی ہے، بڑی وفا کے کام کئے ہیں لیکن یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان میں کوئی بھی شیطان کا بندہ نہیں ہے.ان میں منافقین ہوں گے اور وہی منافقین ہیں جن پر یہ حملہ ہوا اس لئے ہماری کوشش تو یہی ہوگی کہ ان کو بھی بچایا جائے لیکن اگر کچھ ان کے ساتھ چلے جاتے ہیں تو جن کو خریدنا چاہتے ہیں شوق سے خرید لیں.جو ان کا امام بنا ہے وہ بھی تو خریدا ہی ہوا تھا.اس شخص کے متعلق میں آپ کو بتاؤں کہ کیا واقعہ ہوا؟ وحید قریشی اس قسم کا ایک انسان ہے جس نے بار بار جماعت میں نفوذ حاصل کرنے کی

Page 344

خطبات طاہر جلد ۸ 339 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء شدت کے ساتھ کوشش کی.اللہ تعالیٰ شفیع اشرف صاحب مرحوم کو جزا دے وہ بڑے زیرک انسان تھے.بحیثیت ناظر امور عامہ وہ مجھے رپورٹیں کرتے رہے کہ یہ شخص شدید منافق ہے اور کوئی چال ہے اور کوئی سازش ہے اس لئے اس کو او پر نہیں آنے دینا اور یہ شدید ان کے خلاف گالیوں کے خط لکھتا رہا اور شکایتیں کرتا رہا کہ ایسے ایسے لوگوں کی وجہ سے جماعت ٹھوکریں کھاتی ہے اور فتنے پیدا ہوتے ہیں.کس قسم کے ناظر تو نے بنائے ہوئے ہیں جو تقویٰ اور انصاف سے خالی ہیں وہ اچھے لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتے اور وحید قریشی کا خیال تھا کہ اس قسم کی یکطرفہ باتوں سے وہ مجھے بیوقوف بنالے گا، گمراہ کر لے گا اور میں شفیع اشرف صاحب کو حکم دوں گا کہ فوری طور پر اس کو جماعت میں بہت آگے لے آیا جائے اور اس کے سپرد یہ کر دیا جائے.یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا لیکن ایک بات میں مجھے شفیع اشرف صاحب سے اختلاف تھا اور میں نے ان سے صاف کہا کہ یہ بات میں آپ کی نہیں مانوں گا.جہاں غربت کی وجہ سے مالی مدد کی ضرورت تھی وہاں میں نے امور عامہ کو کہا کہ آپ منافق سمجھتے ہیں مجھے بھی یہی غالب گمان ہے کہ یہ چالیس منافقانہ ہیں لیکن منافق اگر غریب ہو تو اس کا انسانی حق بہر حال ہے کہ اس کی مدد کی جائے.اس لئے آپ کے مشورے کے خلاف میں جانتے ہوئے کہ یہ کیا ہے اور کیا کر رہا ہے.میں اس کی مدد ضرور کروں گا.چنانچہ جب ضرورت پڑی اس کی مدد کی گئی.پھر اس شخص نے مجھ پر براہ راست رعب ڈالنے کے لئے پاکستان حکومت کی طرف سے جو الزامات کے شاخسانے چھوڑے گئے تھے ان کے خلاف ایک نہایت ہی مؤثر جواب لکھا اور ایک بڑی موٹی کتاب لکھی اور مجھے بھجوائی کہ آپ میرے نام سے اس کو شائع کروا دیں تا کہ دنیا کو پتا لگے کہ احمدیت کے کیسے کیسے مجاہدین ہیں.اب چونکہ امور عامہ کی طرف سے ان کے متعلق تفصیلی رپورٹیں تھیں میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس نام پر کوئی کتاب شائع نہیں کی جائے گی.اب اندازہ کریں کہ اگر یہ شائع ہو جاتی تو پھر انہوں نے بہائیوں نے اعلان کرنا تھا کیونکہ اطلاعیں ایسی مل رہی تھیں کہ پہلے سے ان کا وہاں واسطہ تھا اور ربوہ میں شرارت کے اڈے بنائے جار ہے ہیں.انہوں نے اعلان کر دینا تھا کہ اتنا عظیم الشان عالم دین جس نے حکومت پاکستان کا جواب لکھا تھا بالآخر بہائی ہو گیا ہے.اے مسلم احمدی نوجوانو! آ جاؤ اس کے پیچھے چھوڑ دو احمدیت کو.اس سے زیادہ اور کون احمد بیت کو جان سکتا ہے.یہ تھی اصل خباثت اور سازش جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی ہماری حفاظت

Page 345

خطبات طاہر جلد ۸ 340 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء فرما دی اور باوجود بار بار ان کے لکھنے کے اور اس انداز میں شکوے آ رہے تھے کہ گویا میری ساری محنتیں ضائع گئیں آپ نے کچھ بھی نہیں کیا.میں نے کہا جن سے میں جواب لکھوا رہا ہوں ان کو میں نے ابھی جواب دے دیا کہ اگر کوئی اچھا نقطہ ہے تو لے لیں اس میں سے اور جو جواب مجھے خود سمجھا رہا ہے وہ میں خطبوں میں دے رہا ہوں مجھے کیا ضرورت ہے آپ کی کتاب شائع کرنے کی؟ پھر یہ بالآخر بہائی ہو گئے اور ربوہ سے بھاگ کر کسی قصبے میں جا کر بہائیت کا اعلان کیا اور ان کی بیوی کا رونے پیٹنے کا دردناک خط آیا کہ کیا قیامت آگئی ہے.اس پر یا ان کی طرف سے لکھا ہوا تھا ، مجھے اب یاد نہیں بیوی کا خط ہے یا انہوں نے لکھا تھا کہ میری بیوی کا یہ رد عمل ہے اور گھر میں ایک کہرام مچا ہوا ہے اور وہ دعائیں کر رہی ہے.میں نے ان کو لکھا میں نے کہا میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہوں، آپ بیمار ہیں جو کچھ بھی ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ آپ کا حقیقی اور دائمی نقصان ہو کیونکہ جس خاندان سے آپ تعلق رکھتے ہیں ان میں نیکیاں تھیں.آپ کے والد نے بڑی قربانیاں دی ہوئی ہیں احمدیت کے لئے ، آپ کی والدہ نیک خاندان سے تعلق رکھتی ہیں.ان کے بھائی واقف زندگی ہیں یعنی اس کے ماموں اور لمبے عرصے سے وفا سے سلسلے کی خدمت کر رہے ہیں.میں نے کہا میں نہیں چاہتا کہ آپ کا نقصان ہواس لئے میں بھی دعا کر رہا ہوں اللہ آپ کو ہدایت دے.کچھ دنوں کے بعد خط آیا کہ مجھے ہدایت مل گئی ہے اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بہائیت جھوٹی تھی اور اب میں احمدیت میں دوبارہ شامل ہونا چاہتا ہوں مجھے شامل کر لیا جائے.تو میں نے دعائیہ خط لکھا میں نے کہا شامل ہو جائیں لیکن یا درکھیں کہ ایمان کے بعد ارتداد اور ارتداد کے بعد پھر ایمان اور پھر ارتداداگر ہو اور اسی حالت میں انسان ہلاک ہو تو بہت ہی بڑا خطرناک سودا ہے.اللہ آپ کو استقامت بخشے، سچے دل سے ایمان نصیب فرمائے.ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ پیشکش کر دی کہ میں اب بہائیت کے خلاف ایک عظیم الشان کتاب لکھنا چاہتا ہوں اور میں نے پہلے اس سے لکھا تھا کہ بتائیں کونسا آپ کا عالم ہے جو میرے مقابل پر احمدیت کو سچا دکھائے میں بہائیت کے متعلق مناظرہ کروں گا اور وہ احمدیت کے متعلق مناظرہ کرے اور میرا چینج ہے جس کو چاہیں میرے مقابل پر لے آئیں.شفیع اشرف صاحب کا نام خاص طور پر تھا.میں نے کہا تمہاری کوئی حیثیت ہی نہیں.بہائیت کی کوئی حیثیت نہیں.مجھے کوئی ضرورت نہیں اس قسم کے تم سے مناظرے کروانے کی اور جب دوبارہ احمدیت قبول کی تو مجھے لکھا

Page 346

خطبات طاہر جلد ۸ 341 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء کہ اب مجھے بہائیت کا پتا لگ گیا ہے.اب آپ دیکھیں کیسا عظیم الشان جواب لکھتا ہوں بہائیت کے لئے.میں نے ان کو کہا تمہاری مرضی ہے لکھو، جو چاہو کر ولیکن احمدیت کا انحصار نہیں ہے آپ جیسے لوگوں پر.اللہ آپ کو توفیق دے، اللہ آپ کو استقامت بخشے اور پھر یہ اعلان ہو گیا کہ اپنے ساتھ دو تین اور منافقوں کو لے کے یہ صاحب بہائی بن گیا اور سارے پاکستان میں اخبارات میں شائع ہو گیا ایک عظیم الشان عالم دین جماعت کا سربراہ بہائیت اختیار کر گیا.اب یہ اس سازش کا اگلا شاخسانہ تھا.تو ایسے لوگوں کو میرا یہی جواب ہے کہ تم جو چاہو کر لو.امریکہ کی طاقت تمہارے پیچھے ہو یا روس کی طاقت ہو، یہودی ہوں یا عیسائی ہوں جو کچھ تم سے ہوسکتا ہے کر گز رو جو خدا کے بندے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ احمدیوں میں بھاری اکثریت اور بہت بھاری اکثریت خدا کے بندوں پر مشتمل ہے.تمہاری تمام شیطانی طاقتیں، تمہارے سارے شیطانی منصوبے ناکام جائیں گے.احمدیوں کے ایمان کے پہاڑ سے سر ٹکر اٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گے ، ذلیل و رسوا ہوں گے.جس طرح عظیم چٹانوں سے سمندر کی لہریں سر ٹکر اٹکرا کرنا کام ہو جایا کرتی ہیں اسی طرح تم بھی ٹکراؤ گے اور بکھر جاؤ گے، احمدیت کا کوئی نقصان نہیں کر سکو گے.گندے اور منافق چند ہیں وہ ہمارے ہیں ہی نہیں وہ سوکھے ہوئے پتے سنبھال لو، سوکھے ہوئے پتے تو ایندھن ہوا کرتے ہیں آگ کا ، بٹھیار نہیں ان کو اکٹھا کرتی ہیں اور بھیوں میں جھونک دیا کرتی ہیں.پھر بھی ان کو پکڑ اور جس بھی میں چاہو جلا لولیکن خدا کے بندوں پر تمہاری آگ حرام کر دی گئی ہے.اہل ربوہ کو غریب نہ سمجھو، ان میں غریب ہیں لیکن نفس کے لحاظ سے بڑے بڑے امیر، بڑے بڑے عظیم قربانیاں کرنے والے ہیں.بے شمار ان کو لا لچھیں دی گئی ہیں پہلے بھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا ہے.وہ جماعت جس نے گھر جلوائے ہوں اپنی آنکھوں کے سامنے، ایمان سے نہ پھری ہو وہ تمہارے گھر عطا کر دینے پر کیسے مان جائیں گے؟ وہ جنہوں نے اپنے بچے ذبح کروائے ہوں اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے ایمان سے نہ کھیلے ہوں ان کو تم کون سے ڈراوے دو گے جس کے نتیجے میں تم سمجھتے ہو کہ ان کو اپنے دین سے بہکا دو گے؟ ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا.لیکن میں یہ بتا تا ہوں کہ یہ پردہ تمہارے لئے شدید نقصان کا سودا ہے.تمام دنیا میں جماعت احمدیہ پہلے سے زیادہ مستعدی کے ساتھ اب بہائیت پر جوابی کارروائی کرے گی.پہلے تو ہم ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں سمجھتے تھے جس

Page 347

خطبات طاہر جلد ۸ 342 خطبه جمعه ۹ ارمئی ۱۹۸۹ء طرح ایک معمولی خش و خاک کی حیثیت ہوتی ہے.دلچسپی تھی کہ ہو کیا رہا ہے، کون لوگ ہیں، کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ لیکن تمہارے اس حملے پر مجھے حضرت مسیح کے متعلق وہ خدا کا کلام یاد آ گیا جس میں کہا گیا تھا مسیح کے متعلق کہ یہ کونے کا پتھر ہے وہ جس پر گرے گا وہ اس کو پاش پاش کر دے گا اور جو اس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا.پس مجھے خیال آیا کہ مسیح اول جو موسیٰ کا مسیح تھا اگر اس کی یہ شان ہے تو مسیح ثانی جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مسیح ہے اس کی کیا نشان نہیں ہوگی.پس تم ہم پر گرے ہو، ہمیں چکنا چور کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ تم چکنا چور کر دیئے جاؤ گے اور انتظار کرو اور دیکھو کہ ہم تم پر گریں گے اور اس قوت سے گریں گے کہ تمہیں چکنا چور کر دیں گے.پس اے شیطان اور شیطانی طاقتو جو تمہارے گھوڑے ہیں وہ دوڑ الا ؤ اور جو تمہارے پیارے ہیں چڑ ھالا ؤ، لالچیں ، حرص و، جو کچھ تم سے ہو سکتا ہے کر گزرو، دغا اور فریب سے کام لو، جھوٹے وعدے کرو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی بڑی بھاری اکثریت خدا کے ان بندوں پر مشتمل ہے جن کے متعلق پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن اے شیطان اور اے شیطان کے ٹولوخدا کے بندوں پر تمہیں کوئی سلطان عطا نہیں کیا گیا.وہ کامیاب ہوں گے اور تم نامراد اور خائب و خاسر کر دیے جاؤ گے.

Page 348

خطبات طاہر جلد ۸ 343 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء اگر آپ جبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ایمان کی حفاظت فرماتا رہے گا ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ مئی ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقْتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ ايْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ وَأُولَيكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ يَوْمَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهُ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ ، وَأَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ

Page 349

خطبات طاہر جلد ۸ 344 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء فَفِي رَحْمَةِ اللهِ ۖ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (آل عمران : ۱۰۳ - ۱۰۸) اور پھر فرمایا:.آج ۲۶ مئی کا دن ہے اور یہ دن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کا دن ہے.یوں تو انبیاء کی پیدائش کے دن اور وفات کے دن جہاں تک مذہبی تاریخ کا تعلق ہے ان کی قوموں نے نہیں منائے.یعنی اس مستند تاریخ کا جہاں تک تعلق ہے جو قرآن کریم میں ملتی ہے اور جو صحف مقدسہ گزشتہ سے ملتی ہے.جہاں تک روایات کا تعلق ہے اور بعد میں جاری ہونے والی عادات کا تعلق ہے یہ دن ضرور منائے گئے اور آج بھی منائے جاتے ہیں.پس اس پہلو سے سب سے پہلے تو میں جماعت کے سامنے یہ مضمون کھولنا چاہتا ہوں کہ انبیاء کی پیدائش اور وصال کے دنوں کی اپنی ایک عظمت ضرور ہے اور وہ دن شعائر اللہ میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہ دن منانے ہوں تو شعائر کی نسبت کے ساتھ اسی شان کے مطابق منانے چاہئیں.یعنی ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کا ذکر بلند کرنا چاہئے اور اس پیغام کو پیش نظر رکھنا چاہئے جو پیغام لے کر یہ خدا کے برگزیدہ لوگ دنیا میں آیا کرتے ہیں.محض شمعیں روشن کرنا یا اچھے کپڑے پہنایا اور خوشیوں کے اظہار گلیوں میں نکل کر کرنا ہرگز ان دنوں کے شایان شان نہیں ہے.پس اس پہلو سے ہمیشہ ہی جماعت احمدیہ کا یہی مسلک رہا ہے اور اگر چہ بعض اوقات ظاہری طور پر بھی جماعت احمدیہ نے آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے دن روشنیاں بھی جلائیں اور جھنڈیاں بھی لگائیں لیکن کچھ عرصے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اس رواج کو اسی خطرے کے پیش نظر ختم کر دیا کہ کہیں جماعت احمدیہ بھی ظاہری رسم و رسوم کا شکار ہو کر نہ رہ جائے اور ان مقدس ایا م کو جو شعائر اللہ ہیں، اس احترام کے ساتھ منانا چھوڑ دے جو در حقیقت ان کا حق ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے دن کی مناسبت سے میں نے آج قرآن کریم کی ان آیات کا انتخاب کیا ہے جن میں اس موقع کی مناسبت سے جماعت احمدیہ کے لئے اہم پیغامات ہیں اور اس مضمون پر غور کرتے ہوئے میں نے یہ سمجھا کہ دراصل اس میں حضرت اقدس محمد مصطفی علی کے وصال کی پیشگوئی کی گئی تھی جو قریب آچکا تھا.یہ آیات سورہ آل عمران سے لی گئی ہیں اور

Page 350

خطبات طاہر جلد ۸ 345 خطبه جمعه ۲۶ مئی ۱۹۸۹ء آل عمران کا اکثر حصہ آنحضور ﷺ کی آخری عمر میں نازل ہوا ہے اور بعض آیات تو آپ کے وصال سے کچھ دن پہلے نازل ہوئیں.پس معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کا تعلق آنحضرت ﷺ کے وصال کے قرب سے تھا اور اسی نسبت سے بعض اہم نصائح مسلمانوں کی گئیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے دن بھی میں نے یہی مناسب سمجھا کہ ان آیات کی زبان میں آپ کے سامنے خدا تعالیٰ کا منشاء رکھوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُونَ کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کر وایسا تقویٰ جیسا کہ تقویٰ کا حق ہے.وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اور ہر گز نہیں مرنا جب تک کہ کامل طور پر مسلمان نہ ہو چکے ہو.یہاں دراصل حَقَّ تُقتِہ سے آنحضرت ﷺ کے تقویٰ کی طرف اشارہ تھا اور اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بہت سے مفسرین نے بہت ٹھوکریں کھائیں اور بعض بنیادی غلطیاں کیں جس کا عالم اسلام کو نقصان پہنچا.ایک طرف وہ اس آیت کو پڑھتے تھے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ ایسا اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ کا حق ہے.دوسری طرف اس آیت کو پڑھتے تھے کہ فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن : ۱۷) اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جہاں تک توفیق ہے.چنانچہ انہوں نے اس مضمون کو نہ سمجھ کر کہ پہلی آیت میں کس کے تقویٰ کا ذکر ہو رہا ہے یہ سمجھ لیا کہ بعد میں خدا نے آسانی پیدا کر دی اور مَا اسْتَطَعْتُم والی آیت نے حَقَّ تُقتِه والی آیت کو منسوخ کر دیا ہے.چنانچہ بڑے بڑے اعلیٰ پائے کے مفسرین بھی اس غلطی میں مبتلا ہوئے اور جیسا کہ عام طور پر رواج ملتا ہے بعض غلط احادیث حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کر کے بیان کی جاتی ہیں.تو ایک روایت حضرت ابن عباس کی طرف بھی منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مَا اسْتَطَعْتُم والی آیت نے حَقَّ تُقیّه والی آیت کو منسوب کر دیا.حالانکہ دوسری اس سے زیادہ مستند حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ملتی ہے کہ ہرگز ان میں تضاد نہیں ہے اور کسی آیت نے دوسری کو منسوخ نہیں کیا.بہر حال جو غلطی کھانے کی وجہ ہے وہ دراصل یہی ہے کہ اس مضمون کو نہیں سمجھ سکے کہ یہاں حق تقیہ سے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی مثال پیش کی جارہی ہے اور چونکہ آپ کی وفات کا وقت قریب تھا اور آپ ہی وہ کامل مسلم تھے جو وفات پانے

Page 351

خطبات طاہر جلد ۸ 346 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء والے تھے اس لئے اس عظیم واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا گیا کہ اس راہنما کے تم متبع ہونے کا دعوی کرتے ہو جس نے خدا کے تقویٰ کا حق ادا کر دیا ہے اور جس کی وفات کامل اسلام پر ہوئی.پس تمہیں بھی چاہئے کہ تم اس کی پیروی کی کوشش کرو.پس دوسری آیت میں مَا اسْتَطَعْتُم سے مراد یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جس طرح تقویٰ کا کامل حق ادا کیا اس طرح تم وہ حق ادا کرنے کی کوشش کرو جہاں تک توفیق ہے.پس ایک آیت دوسری پر روشنی ڈال رہی ہے نہ کہ متضاد ہے اور مراد یہ ہے کہ تم لوگوں کی استطاعتیں مختلف ہیں.حَقَّ تُقيّه اصل مضمون ہے جہاں جا کر بات کامل ہوتی ہے.تم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق نہیں مل سکتی بلکہ شاذ ہی کسی کو یہ توفیق مل سکتی ہے کہ آنحضرت علی کی طرح تقویٰ کا حق ادا کر سکو.پس تم پر یہ فرض ضرور ہے کہ یہ حق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو اور اس حالت میں جو بھی مرے گا وہ اس آیت کے دوسرے حصے کو بھی پورا کرنے والا ہو گا کہ لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ يعنى مسْلِمُونَ کا ایک معنی المسلمون ہے یعنی کامل طور پر مسلمان اور ایک معنی ہے اطاعت اور فرمانبرداری صلى الله کی حالت میں جان دینے والے.پس مراد یہ ہے کہ اگر تم حضور اکرم علی ، یعنی محمد مصطفیٰ لے کے تقوی کونمونہ بناتے ہوئے ہمیشہ اس تقویٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو ایسی صورت میں جس حالت میں تم جان دو گے وہی حالت تمہاری مسلم کی حالت ہوگی اور تم خدا کے مطیع اور فرمانبردار بندوں میں شمار ہو گے.اب جہاں تک وفات کے مضمون کا تعلق ہے اس کے بعد لازماً ایسے خطرات قوموں کو در پیش آتے ہیں جس میں افتراق اور پھوٹ پڑنے کے ابتلا ءسامنے آئیں اور نفاق پیدا ہوں اور قو میں جو ایک ہاتھ پر اکٹھی ہوئی ہیں پھر منتشر ہونے لگیں.ہر بڑے راہنما کے وصال کے بعد ہر قوم کو یہ خطرات لاحق ہوا کرتے ہیں اور مذہبی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ انبیاء کے گزرنے کے بعد قوموں کو بڑے ابتلا آیا کرتے ہیں کیونکہ اس شان کا راہنما پھر دوسرا دکھائی نہیں دیتا.فوراً بعدا اتنا بڑا خلاء دکھائی دیتا ہے کہ قومیں جس طرح کوئی بعض شہر یا ملک زلزلوں کا شکار ہو جایا کرتے ہیں اس طرح روحانی طور پر قوموں پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے.تو اس کے معا بعد ایسی ہی نصیحت ہونی چاہئے تھی کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے وصال کے بعد تم لوگ افتراق کا شکار نہ ہو جانا بلکہ مضبوطی سے خدا

Page 352

خطبات طاہر جلد ۸ 347 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء کی رسی کو تھام لینا.پس یہ ایسا ہی کیا گیا اور ان آیات میں اس مضمون کے بعد یہی مضمون باندھا گیا فرمایا وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا دنیا کا سب سے بڑا متقی جو تقویٰ میں درجہ کمال کو پہنچنے والا تھا وہ کامل اسلام کی حالت میں خدا کے حضور حاضر ہونے والا ہے.تم اگر افتراق سے بچنا چاہتے ہو، اگر چاہتے ہو کہ اس کے وصال کے بعد وہ بلائیں تمہیں گھیر نہ لیں جو عموماً ایسے حالات میں قوموں کو گھیر لیا کرتی ہیں تو ایک ہی علاج ہے کہ ویسا تقویٰ پکڑنے ، ویسے تقویٰ کے رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرو اور اس کے بعد اس کے نظام کی رسی کو اور وہ قدرت ثانیہ جو اس کے بعد ظاہر ہونے والی ہے اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو.تقویٰ کا بھی یہی طریق ہے، تقویٰ اختیار کرنے کا بھی یہی رنگ ہے اور اختلاف سے بچنے کا بھی یہی گر ہے.پس فرمایا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تمام لو وَلَا تَفَرَّقُوا اور ہر گز افتراق نہ کرو.وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمُ اِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ اس نعمت کے ذکر کا وقت اس وقت آتا ہے جب وہ نعمت ہاتھ سے جا رہی ہوتی ہے.پس نعمت سے مراد نبوت ہے اور حبل اللہ سے مراد نبوت بھی ہے کیونکہ اول حبل اللہ وہی ہوتی ہے لیکن اس مناسبت سے اس مضمون کے تسلسل میں یہاں خلافت مراد ہے.فرمایا اس نعمت کو یاد کرو یعنی محمد مصطفی ﷺ جو نبوت لے کر آئے اور آپ بذات خود ایک مجسم نعمت تھے.اِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ کہ جب تم لوگ شدید دشمنیوں میں مبتلا تھے.ایک دوسرے کے ساتھ سخت عنادر رکھتے تھے اور بھائی بھائی سے بٹا ہوا تھا اس وقت اس خدا کی نعمت نے تمہیں ایک ہاتھ پر اکٹھا کر دیا.پس آنحضرت ﷺ کی زندگی میں کسی اختلاف کا خطرہ نہیں تھا.نہ حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں کوئی اختلاف دکھائی دیتا ہے.یہاں مفسرین نے ایک اور ٹھوکر کھائی ہے اور جیسا کہ عادت پڑ چکی ہے اکثر مفسرین کو وہ فورا آیت کی شان نزول ڈھونڈتے ہیں اور شان نزول اگر نہ ملے تو بعض بنانے والے وضعی شان نزول بنا لیا کرتے ہیں.چنانچہ وہ فتنہ جو آجکل دنیا میں پھیلا ہوا ہے سلمان رشدی کے نام پر وہ اسی قسم کی مصنوعی شان نزول کے نتیجے میں پھیلا ہوا ہے.یعنی آیت کا انطباق اور حالات پر ہو رہا ہے اور مستقل نوعیت کی آیت ہے اس کو ایک فرضی واقعہ کے ساتھ باندھ کر ایک نہایت ہی فتنے کا مضمون پیدا کر دیا گیا.

Page 353

خطبات طاہر جلد ۸ 348 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء پس یہاں بھی مفسرین عموماً ایک ایسی روایت کو قبول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کے غلام ، انصار اور مہاجر سب اکٹھے بیٹھے ہوئے بڑی محبت سے ایک دوسرے سے پیار کی باتیں کر رہے تھے، ایمان کے تذکرے ہو رہے تھے ، خدا کا ذکر چل رہا تھا کہ ایک یہودی وہاں پہنچا اور اس کو شدید تکلیف ہوئی.چنانچہ اس نے زمانہ جاہلیت کے وہ اشعار پڑھنے شروع کر دئیے جن کے نتیجے میں اوس اور خزرج قبائل کی پرانی دشمنیاں بیدار ہو گئیں اور وہ ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پر تیار ہو گئے.یعنی ایسا نازک ایمان تھا ان کا ، ایسی عارضی محبت تھی نعوذ باللہ من ذالك کہ وہ خدا کے ذکر میں مگن اور مدہوش اور خدا کے پیار کی باتیں کرنے والے اور حضرت اقدس محمد مصطفی امی ﷺ کے عہد بیعت میں ایک جان ہوئے بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شریر نے پرانے زمانے کے اشعار پڑھ کے ان کی دشمنیاں بھڑ کا دیں.ایسی فرضی، بیہودہ، بے سروپا روایات نے اسلام کی تاریخ کو داغ داغ کیا ہوا ہے اور کم فہمی کی وجہ سے باوجود نیکی کے ، سادگی کی وجہ سے کہنا چاہئے بعض مؤرخین نے ، بعض مفسرین نے آنکھیں بند کر کے یہ روایت قبول کر لی اور دشمن کو نا واجب حملوں کا موقع دیا.پس یہاں یہ مراد نہیں نہ اس آیت سے یہ منطوق دکھائی دیتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں اس نعمت کے ہوتے ہوئے شدید اختلاف پیدا ہو جائیں بلکہ فرمایا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ یہ محمد مصطفی علی وہ نعمت کا ملہ ہیں ایک وقت آئے گا کہ تمہیں ان کو یاد کرنا ہوگا اور وہ دن یاد کرنے ہوں گے جب خدا نے یہ نعمت تم پر نازل فرمائی اور ان کے طفیل تمہاری دشمنیوں کو محبتوں میں تبدیل کر دیا اور تمہیں ایک جان کر دیا اور ایک رسی میں تم باندھ دیئے گئے ، ایک لڑی میں تم پروئے گئے.یہ وہ حالات ہیں ان کو یاد کرتے ہوئے جب خدا کے فضل کے ساتھ تم بھائی بھائی بن گئے ، یہ بھی یاد کرو کہ حضرت رسول اکرم علی ہے اس وقت تشریف لائے جب كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا تم گویا آگ کے کنارے پر کھڑے تھے.اس وقت آنحضور ﷺ نے اللہ کے فضل کے ساتھ تمہیں اس کنارے سے کھینچ لیا.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ ايْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اسی طرح خدا تعالیٰ تم پر اپنے نشانات کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم ہدایت پا جاؤ.صلى الله

Page 354

خطبات طاہر جلد ۸ 349 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء پس یہاں مضمون کی مناسبت سے میں یہی سمجھتا ہوں کہ پہلی آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے آنحضور ﷺ کے وصال کی پیشگوئی تھی اور ایک انسان جو کامل وصال حاصل کر سکتا ہے جس کا آخری سانس رہتی دنیا کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے ایک کامل نمونہ بن سکتا ہے اس رنگ میں اس وصال کا ذکر کیا.جو اتنا کامل تھا کہ مفسرین نے دھو کہ کھا لیا کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کوئی شخص تقویٰ کا حق ادا ہی نہیں کر سکتا اس لئے یہ آیت منسوخ ہونی چاہئے اور ایک دوسری آیت سے جس میں مَا اسْتَطَعْتُم کا ذکر تھا اس کو منسوخ بھی سمجھ لیا.حالانکہ اگر آنحضور ﷺ پر نظر جاتی تو ان کو معاً یہ یقین ہو جا تا اور اطمینان ہو جاتا کہ ہاں ایک شخص ایسا ضرور تھا جو حَقَّ تُقتِہ کے مطابق تقویٰ کا کامل حق ادا کر چکا تھا.بہر حال اس وصال کے بعد جو فتنے پیدا ہونے چاہئیں ، عقل ان کو تسلیم کرتی ہے کہ ایسا ہونا چاہئے ، دنیا کی تاریخ بتاتی ہے، ہر راہنما کے بعد افتراق ہوا کرتا ہے اسی افتراق کا ذکر ہے اور پھر نصیحت کی گئی ہے کہ اس افتراق کا اعلاج یہ ہے کہ اس عظیم نعمت کو یاد کرنا جس کے ہاتھ پر تم اکٹھے ہوئے تھے ، جس نے تمہیں ہر قسم کی ہلاکت سے بچالیا تھا اور اس کی یاد تمہیں ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے پر مجبور کر دے.چنانچہ اختلاف کے وقت دراصل انبیاء کی محبت ہی ہوتی ہے جو اختلاف پر غالب آیا کرتی ہے اور اس کی محبت کے نتیجے میں جو تقویٰ پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ سے انسان فتنوں سے بچ جاتا ہے.چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اکٹھا ہونے میں آنحضور ﷺ کاعشق دراصل کارفرما تھا.اتنا گہرا صدمہ تھا آنحضور ﷺ کے وصال کا کہ جہاں ایک طرف فتنے بھی سراٹھا رہے تھے وہاں مومن اس وقت ان لمحوں میں کسی اختلاف کی سوچ ہی نہیں سکتے تھے.چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متفقہ انتخاب میں آنحضرت ﷺ کی محبت دراصل کارفرما تھی اور و ہی نعمت تھی جس نے دوبارہ مسلمانوں کو فتنے سے بچایا.اسی طرح ہماری تاریخ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے معا بعد تمام جماعت جو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہوئی ہے اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کا رفرما تھی اور وہی نعمت تھی جو دوبارہ مسلمانوں کی حفاظت اور مومنوں کو فتنے سے بچانے کے لئے کام آئی.ورنہ فتنے کی جڑیں پہلے لگ چکی ہوئی ہوتی ہیں.بعض لوگ اختلاف کی تیاریاں پہلے ہی کر چکے

Page 355

خطبات طاہر جلد ۸ 350 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء ہوتے ہیں.چنانچہ آنحضور ﷺ کے وصال کے بعد خلافت ثانیہ کے دور میں ہی معلوم ہوتا ہے وہ فتنے دوبارہ جاگنے شروع ہو گئے تھے اور مؤرخین جو مجموعی طور پر آنحضرت ﷺ کے عہد اور بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں وہ ایک تسلسل کے ساتھ بات بیان کرتے ہیں کہ کس طرح عربوں کی پرانی دشمنیاں اور قبائل کی ایک دوسرے کے ساتھ رقابتیں پہلے ہی سے بعض دلوں میں جڑ کر چکی تھیں اور وہ منتظر تھے کہ کب ان کو موقع ہاتھ آئے تو ان چیزوں کو ہاتھ میں لے کر اُچھال کر ، دوبارہ زندہ کر کے پھر ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکیں.پس معا بعد رسول اکرم ﷺ کے معا بعد یا دیگر انبیاء کی وفات کے معا بعد گزرے ہوئے نبی کی محبت دوبارہ قوم پر احسان کرتی ہے اور وہی نعمت ہے جو ان کو دوبارہ فتنوں سے بچانے کا موجب بنا کرتی ہے.جماعت احمدیہ کو اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جس اتفاق پر زور دیا گیا ہے یہ اتفاق دراصل ایمان کی نشانی ہے اور حبل اللہ سے چھٹے رہنے کی ایک ظاہری علامت ہے ورنہ ہر شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے میں اس سے جدا نہیں ہوتا.اگر ہر شخص اپنے اس دعوی میں سچا ہو تو ایسی جماعت میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا، ناممکن ہے.جہاں حبل اللہ پر ہاتھ کمزور ہو جائے اور گرفت ڈھیلی پڑ جائے وہیں سے انسان سرکنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اختلاف کی راہیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں.پس آنحضرت ﷺ کے بعد مجھے کامل یقین ہے کہ خلافت راشدہ ہی حبل اللہ تھی اور اس حبل اللہ کے ساتھ تعلق میں جب بدقسمتی سے بعض لوگوں نے کمزوری دکھائی تو سب فتنے پیدا ہوئے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے دن سب سے اہم نصیحت جو جماعت کو کی جاسکتی ہے وہ وہی ہے جو قرآن کریم نے حضرت رسول اکرم ﷺ کے وصال کے تعلق میں مومنین کو کی تھی.آپ لوگ مضبوطی کے ساتھ خلافت کی رسی کو پکڑ لیں اور کسی قیمت پر اس رہی سے الگ نہ ہوں.اختلاف تو ضرور پیدا ہوا کرتے ہیں قوموں کے درمیان.ایک گھر میں اختلاف ہو جایا کرتے ہیں لیکن گھروں کے اختلاف بھی تبھی دور ہوا کرتے ہیں اگر گھر کے معزز اور بڑے ایسے شخص کے ساتھ ہر گھر کے ہر شخص کا تعلق ہو جو اس گھر میں بڑے گھر کے طور پر ایک خاندان کے طور پر بستا ہے.مثلاً اگر ایک دادا ہے بڑی عمر کا اور اس کے سب بچے بھی اس گھر میں رہ رہے ہیں جس طرح

Page 356

خطبات طاہر جلد ۸ 351 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء بعض دفعہ اجتماعی خاندانوں میں ملتا ہے کہ سب لوگ اکٹھے رہتے ہیں.اگر اس دادا کی عظمت دلوں میں قائم ہے، اس کا رعب دلوں میں قائم ہے اور اس کی محبت دلوں میں قائم ہے تو بھائیوں کے لاکھ اختلاف ہوں اس کے باوجود وہ خاندان اکٹھا رہا کرتا ہے.بعض دفعہ بعض خواتین خاندان کو اکٹھا رکھتی ہیں.ایک باپ کی وفات کے بعد یا دادا کی وفات کے بعد جو گھر کی بڑی خاتون ہے اگر اس کے اندر سلیقہ اور شعور ہو اور سعادت ہو تو اس کے نتیجے میں اولاد نے بھی وہی سلیقہ اور شعور اور سعادت پیدا ہو جاتے ہیں اور اس خاتون کی ایسی عظمت دلوں پر قائم رہتی ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے بھائی بھائی آپس میں یا بہن بھائی آپس میں اختلاف کر ہی نہیں سکتے.ابھی جرمنی کے دورے کے وقت ایک وہاں سکھ دوست ہیں جو بہت ہی جماعت سے محبت رکھتے ہیں اور حقیقت ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے عاشقانہ تعلق ہے.ایک دفعہ ایک احمدی دوست نے ان کی موجودگی میں مجھے فون کیا تو ایک دم انہوں نے اُٹھ کر کہا کہ تم بیٹھے ہوئے فون کر رہے ہو، میں نے تو آج تک اُن کو بیٹھ کے فون نہیں کیا تم کھڑے ہو جاؤ فورا.اب ہم تو ایسی رسموں کے قائل نہیں ہیں لیکن میں ان کی محبت کا اظہار بتانا چاہتا ہوں.بے اختیار انہوں نے اتنے جذبے سے کہا کہ وہ بیچارہ بھی فوراً ڈر کے مارے کھڑا ہو گیا کہ ان پر بُرا اثر نہ پڑے تو یہ ان کے عشق کا حال ہے.انہوں نے اصرار کیا کہ آپ ہمارے گھر ضرور آئیں.وہ ایک بڑا خاندان ہے اور اس خاندان کے متعلق مجھے علم ہے اُن کے ذریعے بھی ، دوسرے ذریعے سے بھی کہ وہ آپس میں اکٹھے ہیں اور بہت ہی محبت کا تعلق ہے.میں گھر گیا تو وہاں مجھے پتا چلا کہ اصل وجہ کیا ہے.ان کی والدہ زندہ ہیں ، نہایت نیک فطرت خاتون ہیں اور جس طرح آپ کے تصور میں ہمارے معاشرے میں پرانے زمانے کی بزرگ خواتین آسکتی ہیں ویسی ہیں وہ اور سارے بچوں کا ان سے ایسا احترام اور محبت کا تعلق ہے کہ کوئی اختلاف بھی ہو ان کے ایک لفظ پر ختم ہو جاتا ہے.چنانچہ انہوں نے وہیں ہنستے ہوئے مجھے واقعہ سنایا کہ ان کی جائیداد تھی ، ان کی کمائی ہوئی چیز تھی کسی بھائی نے فون پر کہا اپنی والدہ کو کہ وہ میں نے لینی ہے، انہوں نے کہا ہاں جی ہوگئی لے لو.کہتے ہیں میں منہ سے نکالنے ہی لگا تھا کہ یہ کیا بات؟ تو فور میں نے کہا نہیں نہیں آپ نے کہہ دیا تو ہوگئی، جو آپ کہیں وہ اسی وقت ہو جاتا ہے.تو ایک خاندان میں اگر ایسی مثال ملتی ہے تو وہ روحانی خاندان جس کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ

Page 357

خطبات طاہر جلد ۸ 352 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء نبوت کی نعمت سے تم اخواہ بن گئے.اس سے بہتر مثال کیوں نہ پائی جائے اور امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت کے بعض فیصلے فقہی نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ خاندان کے ایک سربراہ کی طرح ایسے فیصلے ہوا کرتے تھے کہ جس کے متعلق آپ جانتے تھے کہ ہر شخص لا ز ما محبت سے قبول کرے گا.اب آجکل کی دنیا میں اگر فقہی جھگڑے شروع ہو جا ئیں ماں، بیٹوں اور باپ کے درمیان تو کوئی قاضی نہیں ہے جو بیٹے کی جائیداد کو کلیہ باپ کے سپر د کر دے اور بیٹے کو کہے کہ تمہارا کوئی حق ہی نہیں ہے.مگر آنحضرت ﷺ کے زمانے میں آپ کے ایک صحابی کے بیٹے نے آپ سے شکایت کی کہ میرا صلى الله باپ مجھ سے یہ کرتا ہے اور یہ کرتا ہے، میرا پورا حق ادا نہیں کرتا.جب آنحضور ﷺ نے باپ کی طرف دیکھا وہ خاموش کھڑے تھے کوئی لفظ بھی نہیں بول رہے تھے.آپ نے کہا بتاؤ تم تو کچھ بولو کیا بات ہے؟ اس پر انہوں نے عربی کے بعض اشعار پڑھے جن کا مطلب یہ تھا کہ یہ چھوٹا تھا، اس کو چلنا نہیں آتا تھا، میں نے پیار اور محبت سے اس کو چلنا سکھایا، میں اس کی ٹانگیں بنا.اس کو ہاتھوں سے کام لینا نہیں آتا تھا ، لقمے منہ میں میں ڈالا کرتا تھا اور اس کے ہاتھ میں بن گیا.اس کو بولنا نہیں آتا تھا میں اس کی زبان ہوا اور پھر اس کو میں نے بولنا سکھایا.اسی طرح وہ اشعار مضمون کو آگے بڑھاتے رہے اور اس کے بعد اس نے کہا کہ اب یہ جب طاقتور ہو چکا ہے،اس کو چلنا آ گیا، اس کو ہاتھوں کا استعمال آ گیا، اس کو تیر چلانے میں نے سکھا دیئے تو اب میں ہی اس کا نشانہ بن رہا ہوں.آنحضور فرط جذبات سے مغلوب ہو گئے اور اس بیٹے کو گریبان سے پکڑا اور کہا جا تو اور تیرا جو کچھ ہے وہ سارا تیرے باپ کا ہے اور اس بیٹے نے ایک لفظ احتجاج کا بلند کئے بغیر فوراً اس فیصلے کو قبول کر لیا.اب ظاہر بات ہے یہ کوئی فقہی فیصلہ نہیں ہے.یہ محبت اور عشق کا فیصلہ ہے جو آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ ان دونوں باپ بیٹا کو آپ سے ہے اور اس فیصلے کے بعد یہ جھگڑا نہیں تھا کہ انصاف کیا کہتا ہے اور فلاں بات کیا کہتی ہے، کس کی کمائی تھی اور کس کی نہیں تھی ؟ ورنہ آجکل کے خاندانی جھگڑوں میں تو یہی چل رہا ہے کہ میرے باپ نے نہیں کمایا تھا اور میں نے کمایا تھا اور باپ کہتا ہے کہ میری کمائی میں.اس کو میں نے خاص طور پر دیا تھا جو امانت ہے اور باقی بھائیوں کو یہ دے نہیں رہا.اس قسم کے روز جھگڑے چلتے رہتے ہیں لیکن خلافت کا مضمون ایک ایسا ہے جو آنحضرت ﷺ کی غلامی اور آپ کی برکت سے ان سب جھگڑوں کو طے کر سکتا ہے اگر وہی تعلق خلافت سے قائم ہو جو تعلق نبوت سکھاتی ނ

Page 358

خطبات طاہر جلد ۸ 353 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء ہے اور عطا کرتی ہے.خلافت نہ سکھاتی ہے نہ عطا کرتی ہے نبوت کا فیض پاتی ہے اور وہی فیض ساری جماعت میں عام ہو جاتا ہے.میرا یہ تجربہ ہے کہ بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ جناب ہم تو آپ کے ایسے عاشق اور فدائی ہیں کہ جو آپ کہیں ، آپ ہمیں کہیں کہ ہماری ساری جائیداد کسی کی ہو جائے تو ہم وہ کر دیں گے اور جب ان کا قضائی جھگڑا چل پڑے تو میں فیصلہ کروں تو کہتے ہیں اچھا یہ انصاف ہے؟ اس گدی پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں، کہتے ہیں انصاف کرو، انصاف کرو اور خود انصاف نہیں آتا اور منتیں کر کے کوشش کر کے مجھے مجبور کر رہے ہوتے ہیں کہ آخری اپیل ہماری آپ سن لیں کیونکہ پچھلے لوگ سارے غیر متقی تھے اور آخری تقویٰ آپ کے پاس ہے ہم آپ کی بات مانیں گے.تو فیصلہ ان کے خلاف بھی ہو جاتا ہے تو اگر آپ نے اتفاق سے رہنا ہے، اگر ایک امت واحدہ بننا ہے اور اس ساری صدی میں ساری دنیا کو امت واحدہ میں تبدیل کرنا ہے تو حبل اللہ کو اس طرح پکڑیں جس طرح اول حبل اللہ کو صحابہ نے پکڑا تھا اور جب وہ حبل اللہ جدا ہونے والی تھی تو بعد میں آنے والی حبل اللہ کی پیشگوئی کی گئی اور اسی پیشگوئی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قدرت ثانیہ کے طور پر پیش کیا ہے.اگر آپ سب یہ سمجھیں اور یقین رکھیں جیسا کہ واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت ہر ایک میں برابر ہے اور ہر ایک سے محبت کرتا ہے اور بعض دفعہ وہ ایسے فیصلے بھی کر سکتا ہے اور میں نے کئے ہیں جن میں انصاف کے جھگڑوں سے بالا ہو کر محبت کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، اپنائیت کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعضوں پر بلند تو قعات رکھتے ہوئے کہ وہ اس وقت قربانی کریں گے، ایسے فیصلے کرتا ہوں کہ جن کے متعلق میں جانتا ہوں کہ اس کے بغیر حل ممکن نہیں ہے اور وہ انصاف کا فیصلہ اس قسم کا نہیں جو قضائی فیصلہ ہے ہرگز نہیں.ہاں جب قضائی فیصلوں کا وقت آتا ہے تو پھر یہ مضمون الگ ہو جاتا ہے.اس وقت میں خالصہ قضائی فیصلے کرتا ہوں لیکن وہ لوگ جو قضائی فیصلوں میں بھی نا انصافی کے الزام لگاتے ہیں وہ دوسرے فیصلے سننے کے مجاز ہی نہیں ہو سکتے وہ تو برداشت ہی نہیں کر سکتے کوئی ایسا فیصلہ جس میں خاندان کے سربراہ کے طور پر محبت اور پیار کے فیصلے کئے جائیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے بعض موقع پر کئے.تو حبل اللہ کے مضمون کو آپ سمجھیں اگر آپ نے اتفاق اور محبت سے دنیا میں رہنا ہے تو خلیفہ وقت سے جو بھی ہو، جب بھی ہوا ایسا تعلق قائم کریں جس تعلق کا ایک نمونہ وہ سکھ خاندان دکھا رہا

Page 359

خطبات طاہر جلد ۸ 354 خطبه جمعه ۲۶ مئی ۱۹۸۹ء ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے جو جرمنی میں آباد ہے اور خدا کے فضل سے لکھوکھہا کے مالک ہیں، کروڑہا کے مالک ہیں لیکن کسی بھائی بھائی کے درمیان کسی بھائی بہن کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں.کیونکہ وہ بزرگ ماں زندہ ہے جس کا لفظ ان کے لئے قانون بنا ہوا ہے.بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ایک انصاف کا تقاضا پورا کیا جائے تو جھگڑے طے نہیں ہو سکتے کیونکہ بعض لوگ ضدی ہوتے ہیں اور فساد قائم رہتا ہے.اس وقت اس خیال سے کہ ایک شخص زیادہ شریف سعید فطرت ہے اگر اس کے خلاف بھی فیصلہ کیا جائے تو وہ مان جائے گا.ایسا فیصلہ کرنا پڑتا ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے قضائی نہیں بلکہ اس کی محبت پر اعتماد کرتے ہوئے ، اس پر بھروسہ کرتے ہوئے.اپنے گھر میں بچوں کے اختلافات میں میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے اس طرح.ایک دفعہ دو بچیوں کی آپس میں لڑائی شروع ہو گئی کسی بات پر میں نے ایک فیصلہ کیا اس بچی نے کہا کہ ہیں اتا یہ کیا ؟ آپ تو کہتے ہیں سچی بات کروں گا.میں نے کہا یہ سچی بات ہی ہے مجھے پتا ہے کہ تم مان جاؤ گی اور تم قربانی کرو گی ، اس پہ مجھے اتنی امید نہیں.فوراً اس نے سر پھینک دیا اس نے کہا بالکل ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے.تو توقعات کے بلند ہونے سے معاملہ انصاف سے بڑھ کر احسان میں آجاتا ہے لیکن اگر کوئی انصاف کا مطالبہ کر دے گا تو پھر لازماً خلیفہ وقت کو تنزل کر کے انصاف کے مضمون میں اُترنا پڑے گا، انصاف کی منزل پر واپس آنا پڑتا ہے پھر لیکن عموماً ایسے موقعوں پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ جہاں پتا ہے کہ وہ فریق انصاف کا مطالبہ کرے گا نہیں بلکہ احسان کی فضاء میں ہی سانس لینا اپنے لئے زیادہ پسند کرے گا.پس یہ وہ مضمون ہے جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں.میں ہوں یا میرے بعد دوسرے خلفاء ہوں ان کے ساتھ ایسا تعلق قائم کریں جو ایک خاندان کے ایسے سربراہ کے ساتھ ہوا کرتا ہے کہ انسان اپنی چیز سمجھتا نہیں، ہر چیز اس کی سمجھتا ہے اور اس کے فیصلوں کو پھر اس نظر سے دیکھتا ہے، ایسی صورت میں کبھی جماعت میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا.اختلاف ہوں گے لیکن وہ ہٹ جایا کریں گے ، دور ہو جایا کریں گے.دوسری نصیحت اس ضمن میں یہ ہے کہ اپنے ذاتی اختلافات کو جماعت کی طرف منتقل نہ کیا کریں.یہ ایک بہت ہی خطرناک عادت ہے کہ بعض لوگ اپنے خاندانی جھگڑوں کو، اپنے ذاتی تعلقات کو نظام جماعت کی طرف منتقل کر دیتے ہیں.یعنی جب وہ نظام جماعت میں کسی عہدے پر

Page 360

خطبات طاہر جلد ۸ 355 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء فائض کئے جاتے ہیں تو گروہ بندی اپنے تعلقات کی بناء پر کرتے ہیں یا بعض لوگ ان سے اطاعت کا تعلق تو ڑلیتے ہیں اس لئے کہ وہ دوسرے گروہ سے ان کے نزدیک تعلق رکھتا ہے.خواہ وہ حقیقت میں رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو.ایسی جماعتوں میں میں نے دیکھا ہے سب سے لمبے فساد چلتے ہیں اور اکثر ایسی جماعتیں جہاں ہمیشہ جھگڑے ہوتے ہی چلے جاتے ہیں ٹھیک ہی نہیں ہوتے ان میں بنیادی نقص یہی ہوتا ہے کہ بعض جماعتیں خاندانی تعصبات اور گروہوں میں بٹ چکی ہوتی ہیں اور جب کوئی عہدیدار آئے وہ سمجھتا ہے کہ اب مجھے وقت مل گیا ہے کہ میں اس عہدے کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے خاندان کو نیچا دکھاؤں یا اگر کوئی متقی اوپر آ جائے تو دوسرے اعتماد نہیں کرتے پھر.وہ اس کی ہر بات پر بدظنی کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ یہ چونکہ فلاں گروہ سے فلاں خاندان سے تعلق رکھتا ہے اس نے ہمیں نیچا دکھانا ہی دکھانا ہے.پس تقویٰ سے کام لیں ، یہ مضمون ہی تقویٰ سے شروع ہوا ہے اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ اگر تم تقویٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش نہیں کرو گے تو پھر تمہارے اختلاف کبھی دور نہیں ہوں گے.پس پہلی آیت میں اختلاف دور کرنے کے لئے یا اختلافات سے بچنے کے لئے ایک بہت ہی گہرا اور دائمی سبق عطا فرما دیا گیا جس کا استعمال کبھی بھی انسان کو مایوس نہیں کر سکتا.اختلاف دور کرنے کی جان تقویٰ ہے اور آنحضرت ﷺ چونکہ تقویٰ کے اعلیٰ مراتب پر فائض تھے بلکہ کائنات کے سب سے زیادہ متقی انسان تھے اس لئے اس تقویٰ کی برکت ہی تھی کہ آپ نے لڑتے ہوؤں کو ایک کر دیا.پس جو خود متقی ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خود لڑائی کا موجب بن جائے.جس کا تقویٰ اس عظمت کا حامل ہو کہ دوسروں کو ایک کر رہا ہو ایسے شخص سے افتراق کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.پس تقویٰ کا اعلی تقاضا یہی ہے کہ آپ لوگ خدا کے نام پر اکٹھے ہوں اور اپنے فیصلوں میں کبھی بھی جنبہ داری اور رشتہ داری یا آپس کے اختلافات کو جماعتی حالات میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں.اور ہر موقع پر ہر صورت میں وہاں انصاف پر قائم رہیں.پس پہلا مضمون احسان کا مضمون ہے خلافت کے ساتھ تعلق میں اور یہ مضمون انصاف کا مضمون ہے اور عدل کے اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں.نظام جماعت میں آپ ہمیشہ عدل کے اعلیٰ تقاضے پورے کریں.یہ مضمون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ

Page 361

خطبات طاہر جلد ۸ 356 خطبه جمعه ۲۶ رمئی ۱۹۸۹ء إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے کہ جس کا کام صرف یہ ہو کہ وہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور نیک باتوں کی تعلیم دے اور بدی سے رو کے اور یہی لوگ کا میاب ہونے والے ہیں.یہاں اُن کا معنی عموماً مفسرین یہ لیتے ہیں کہ تم میں سے ایک حصہ ہو صرف.یعنی باقی لوگ بے شک نصیحتیں نیک کاموں کی نہ کریں، برے کاموں سے نہ روکیں لیکن تم میں سے ایک حصہ ہو جو یہ کام کرے.میں سمجھتا ہوں کہ اُن میں جونکرے کا استعمال ہے وہ عظمت کے لئے ہے.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُم تم میں ایک عظیم قوم ایسی پیدا ہو جانی چاہئے ، اپنی کثرت کے لحاظ سے اور اپنے تقویٰ کی بلندی کے لحاظ سے اور کثرت کے ساتھ پر خلوص صیحتیں کرنے کے اعتبار سے ایک ایسی قوم ہو جس کو اُم کہا جائے یعنی ایک عظیم الشان قوم.يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کہ وہ ہمیشہ خیر کی طرف بلائیں اور اچھے کاموں کا ، نیک کاموں کا ،حسن معاشرت کا ، معروف میں ساری چیزیں آ جاتی ہیں ،حسن معاشرت کا حکم دیں وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور برے کاموں سے روکنا شروع کریں.وأوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی وہ لوگ ہیں جو در حقیقت نجات پانے والے ہیں.یہ مضمون بیان کر کے پھر اختلاف کا مضمون دوبارہ شروع کیا گیا ہے.یہ بتانے کے لئے کہ جن قوموں میں نصیحت کرنے والے کثرت کے ساتھ ہوں اور ان کی نصیحتوں میں عظمت پائی جائے.بُرے کاموں سے روکنے والے کثرت سے موجود ہوں اور ان کے روکنے میں ایک قوت پائی جائے ، وہ قو میں ہلاک نہیں ہوا کرتیں اس لئے اختلافات سے بچنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تم لوگ گونگی شرافت کی بجائے ایک بولنے والی شرافت اختیار کرو.تمہاری شرافت میں انفرادیت نہیں ہونی چاہئے بلکہ تمہاری شرافت باہر نکلے اور لوگوں کو شریف بنانے والی شرافت ہو.ایسی شرافت نہ ہو کہ جی ٹھیک ہے جو کچھ ہورہا ہے ہورہا ہے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا.اس مضمون کو پرانے مفسرین میں سے تو کبھی کسی نے غلط نہیں سمجھا لیکن آجکل کے مفسرین اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ زبردستی بھی لوگوں کو روکو اور ڈنڈے مار مار کے نمازیں پڑھاؤ ، ڈنڈے مار مار کے فلاں بری باتوں سے روکو حالانکہ اس مضمون میں دور کا اشارہ بھی اس بات کا نہیں یعنی اس آیت میں اس مضمون کا کوئی اشارہ نہیں.نصیحت کا اشارہ ہے اور نصیحت کی

Page 362

خطبات طاہر جلد ۸ 357 خطبه جمعه ۲۶ مئی ۱۹۸۹ء عظمت کا ذکر ہے.کثرت کے ساتھ نصیحتیں کرو.اپنے معاشرے پر نظر رکھو، برائیوں سے روکو، اچھے کاموں کی تلقین کرو.یہ اگر تم کرو تو پھر اس کے نتیجے میں ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ تم لازم نجات پانے والے ہو گے.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ بر گز ایسے لوگ نہ بن جانا جو بکھر گئے ، متفرق ہو گئے وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ اور کھلے کھلے نشانات پانے کے باوجود، ان نشانات کے آنے کے بعد پھر انہوں نے آپس میں اختلاف شروع کر دیئے.وَأُولَكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیم ان کے لئے بہت بڑا عذاب مقدر ہے اور عَذَابٌ عَظِیم کی ایک شکل تو اس دنیا میں بھی ہو سکتی ہے مگر اگلی آیت جو شکل بتا رہی ہے وہ آخرت سے تعلق رکھنے والی ہے.وہ ہے یومَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ایک ایسا دن آنے والا ہے کہ جب بعض چہرے سیاہ ہو جائیں گے اور بعض چہرے سفید اور روشن دکھائی دیں گے.فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ پس وہ چہرے جو سیاہ ہوں گے ان کو مخاطب کرتے ہوئے گویا ہم کہیں گے آكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُم کیا تم ایمان لانے کے بعد کا فر ہو گئے تھے اور فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ.پس اس عذاب کو چکھو.وہی عذاب جو پہلے جس کا ذکر ہے عَذَابٌ عَظِیم دراصل اسی طرف اشارہ ہے.اس عذاب کو چکھو جس کا تم بوجہ اس کے کہ تم نے انکار کر دیا اور تم نے کفر کی حالت اختیار کر لی وَأَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ اللَّهِ ۖ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے اور سفید ہوں گے ان کے متعلق خوشخبری یہ ہے کہ وہ اللہ کی رحمت میں ہیں اور ہمیشہ اس رحمت میں رہیں گے.کیونکہ اختلاف کا مضمون چل رہا ہے اس لئے یہاں مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی رسی کو پکڑے رکھیں گے ان کے اوپر کفر کوغل بہ نہیں ہوگا اور وہ لوگ جو خدا کی رہی کو چھوڑ دیں گے ان کے جو باہمی اختلافات ہیں جو شروع میں آپ کو نجی اور معمولی دکھائی دیں گے، وہ اختلافات رفتہ رفتہ ان کو کفر کی طرف دھکیل دیں گے.پس آپ کے ایمان کی ضمانت حبل اللہ کو پکڑے رہنے میں ہے.اگر آپ حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے تو لازماً آپ کے ایمان کی حفاظت کا وعدہ ہے اور قیامت کے دن آپ روشن چہروں کے ساتھ دوبارہ اُٹھائے جائیں گے.اگر اس رسی کو چھوڑ دیا تو اس کا لازماً نتیجہ یہ ہے کہ بالآ خر آپ کفر میں مبتلا ہوجائیں گے اور اس کفر کے بعد

Page 363

خطبات طاہر جلد ۸ 358 خطبه جمعه ۲۶ مئی ۱۹۸۹ء پھر چونکہ ایمان پانے کے بعد کفر نصیب ہوا ہے اس کا ایک بہت بڑا عذاب مقدر کیا گیا ہے یعنی سیاہ چہروں کے ساتھ منحوس ایسے چہروں کے ساتھ جن پر گویا رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہو ، دوبارہ ایسی حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ دیکھنے والوں کو بھی ان کے چہرے سیاہ دکھائی دے رہے ہوں گے.پس یہ سزا بہت ہی دردناک سزا ہے اور بہت ہی خوفناک عذاب ہے.اس سے بچنے کا طریق پہلے ہی بیان فرما دیا گیا ہے کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا تم ایک قوم بنے رہو گے اور قیامت کے دن روشن چہروں کے ساتھ تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے.فرماتا ہے تِلْكَ أَيْتُ اللهِ تَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَمَا اللهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَلَمِينَ (آل عمران : ۱۰۹) یہ آیات ہیں جو ہم حق کے ساتھ تجھ پر تلاوت کر رہے ہیں.اے محمد ﷺ یہ صیحتیں ہیں جو ہم تجھے کر رہے ہیں اور بہت ہی کچی نصیحتیں ہیں ان کو معمولی نہ سمجھا جائے.وَمَا اللهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَلَمِینَ یہ جو خوفناک عذاب بتایا گیا ہے اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو ان نصیحتوں کو سننے کے بعد ان کا انکار کریں گے اور ان سے اعراض کریں گے ورنہ اللہ دنیا میں اپنی مخلوق پر ظلم نہیں کیا کرتا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ یہ دن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کا دن ہے اور اس نئی صدی کا پہلا دن ہے جو آج ظاہر ہوا ہے.اس کے بعد آپ کے وصال کے دن آتے رہیں گے لیکن اس دن کو تاریخی لحاظ سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ اگلی صدی میں داخل ہونے کے بعد یہ پہلا جمعہ ہم نے دیکھا ہے جو ۲۶ مئی کو واقع ہو رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کا دن ہے.پس اس دن کو یا در کھتے ہوئے ہمیشہ ان نصائح کو پیش نظر رکھا کریں جو قرآن کریم کی ان آیات میں بیان کی گئی ہیں اور خلافت کے ساتھ وفا کے عہد کو دہرایا کریں اور خدا کی اس رسی کو جو آپ کے لئے دائمی کر دی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں مجھ سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ قیامت تک اب یہ رسی قائم رہے گی.اس قدرت ثانیہ کے ساتھ چھٹے رہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ آپ کے سارے اختلافات دور فرما دیا کرے گا اور آپ کو وحدت کی لڑی میں پروئے رکھے گا اور ہمیشہ آپ کے ساتھ حسن اور احسان کا معاملہ کرتا رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کے ساتھ اب میں اس خطاب کو ختم کرتا ہوں.آپ

Page 364

خطبات طاہر جلد ۸ فرماتے ہیں: 359 خطبه جمعه ۲۶ مئی ۱۹۸۹ء سواے عزیز و! جب کہ قدیم سے سُنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے ( بہت ہی عظیم الشان خوشخبری دی گئی ہے.وہ قدرت دائی ہے ) جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.( الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ : ۳۰۵) پس میں امید رکھتا ہوں کہ یہ قدرت جو ہمیشہ جماعت احمدیہ کے ساتھ رہے گی جماعت احمدیہ کا ہر فرد بھی اس قدرت کے ساتھ رہے گا اور کبھی اس سے بیوفائی نہیں کرے گا.

Page 365

Page 366

خطبات طاہر جلد ۸ 361 خطبه جمعه ۲ / جون ۱۹۸۹ء صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں منعقدہ نمائشوں میں یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲ جون ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) / تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جب سے احمدیت کی دوسری صدی کا آغاز ہوا ہے ہم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب دو مہینے پورے کر کے تیسرے مہینے میں داخل ہوئے ہیں.دنیا کے مختلف ممالک سے جور پورٹیں مل رہی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ بعض ممالک تو چند دن کی خوشیاں منا کر آرام کرنے لگے ہیں اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ صد سالہ جشن کی تقریبات بس وہیں تک محدود تھیں کہ لوگوں کو دعوتوں پر بلایا جائے، جھنڈیاں لگائی جائیں، چراغاں کئے جائیں، کچھ نمائش کا بھی اہتمام ہو اور کچھ ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے جماعت کا تعارف ہو جائے لیکن اس کے برعکس بعض ممالک ایسے بھی ہیں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو بڑی ذمہ داری اور بڑی مستعدی کے ساتھ بقیہ سال کے بہترین استعمال کے لئے کوشاں ہیں، منصوبے بنارہے ہیں، باقاعدہ مختلف گروہوں میں جماعت کو باندھ کر ان کے سپرد ذمہ داریاں کر رہے ہیں اور ان کی رپورٹیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی امید افزا ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ دن بدن جشن کے تشکر کا کام بڑھتا چلا جائے گا نہ کہ کم ہو گا.اس لئے میں نے سوچا کہ جماعت کے اس حصے کو بھی جنہوں نے جشن کا غلط تصور سمجھا اور عارضی طور پر خوشیاں منا کر اب وہ آرام کی طرف مائل ہو گئے ہیں اس طرف متوجہ کروں کہ ہمارا بڑا بھاری کام ابھی باقی

Page 367

خطبات طاہر جلد ۸ 362 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ دنیا کی ایک سو چودہ یا ایک سو اٹھارہ مختلف تراجم، مختلف تعداد میں شائع ہورہے ہیں.بہر حال زیادہ سے زیادہ جو ہم نے ترجمے کئے ہیں اب تک وہ قرآن کریم کے اقتباسات کے ایک سو اٹھارہ زبانوں میں ہو چکے ہیں اور احادیث کے بھی کم و بیش اتنی ہی زبانوں میں ہو جائیں گے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی منتخب تحریرات کے تراجم ابھی پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ اولیت پہلے دو تراجم کو دی گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے انشاء اللہ وہ تراجم بھی کم و بیش اسی تعداد میں تمام دنیا کو مہیا کر دیے جائیں گے.ان تراجم سے متعلق مجھے فکر یہ ہے کہ ان کے سٹاک بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ڈھیریاں اونچی ہورہی ہیں.حالانکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی متوجہ کیا تھا دنیا کی ضرورت اتنی ہے کہ جتنی تعداد میں ہم نے یہ تراجم شائع کئے ہیں مطالبے یہ آنے چاہئے تھے کہ اور بھیجو اور بھیجو اور بھیجو اور وہ جماعتیں جو مستعد ہیں وہ یہی مطالبے کر رہی ہیں.چنانچہ ہندوستان سے بنگلور کی طرف سے آج ہی ایک چٹھی ملی جس میں انہوں نے وہاں کی جماعت کے ایک مستعد خدمت کرنے والے احمدی نے لکھا ہے کہ ہمیں جتنے تراجم بھیجے گئے وہ بھی کم ہیں، جتنا لٹریچر بھجوایا گیا وہ بھی کم ہے، علاقہ بہت وسیع ہے اور غیر معمولی طور پر طلب پیدا ہو چکی ہے اس لئے ہمیں کثرت کے ساتھ لٹریچر مہیا کیا جائے.اسی طرح پرتگال کے مبلغ نے بھی یہی لکھا، بعض اور مبلغین کی طرف سے بھی اسی قسم کے مطالبے آنے شروع ہو گئے ہیں لیکن بالعموم مجھے علم ہے کہ جو لٹریچر یہاں سے بھجوایا گیا تھا اس کا بھاری حصہ بغیر تقسیم کے ابھی تک جماعتوں میں پڑا ہوا ہے اور مطالبہ آنے کی بجائے وہ یہ رپورٹ بھی نہیں بھیجتے کہ اس لٹریچر کا انہوں نے کیا کیا.پس ان کی خاموشی ان کی زبان بن جاتی ہے اور بسا اوقات خاموشی زبان بن جایا کرتی ہے اگر دیکھنے والا غور سے ،توجہ سے خاموشی کا جائزہ لے اور اس کے پس منظر حالات کو وہ سمجھنے کی کوشش کرے.پس وہ تمام جماعتیں جور پورٹ نہیں بھجوار ہیں مجھے علم ہے کہ انہوں نے کچھ ستی کی ہے.الا ما شاء اللہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو کام کرتے ہیں لیکن مزاجا ر پورٹ بھجوانے میں سُست ہو جاتے ہیں.عموماً انسانی فطرت کا یہ رجحان ہے کہ جو نہ کام کیا ہو اس کی بھی رپورٹ بھجوائے اور رپورٹ میں مبالغہ کرے.پس جب بالعموم رپورٹیں نہ ملیں تو اس کا یہ نتیجہ نکالنا قطعی معقول نتیجہ ہے کہ کام نہیں ہوا اس لئے خواہ آپ رپورٹ بھجوائیں یا نہ بھجوائیں جو اطلاع مجھے ملنی چاہئے وہ مل جاتی ہے.اس لئے آپ رپورٹوں کی

Page 368

خطبات طاہر جلد ۸ 363 خطبه جمعه ۲ / جون ۱۹۸۹ء طرف توجہ کریں اور تمام دنیا کی جماعتیں جہاں لٹریچر پہنچا ہے یا پہنچنا چاہئے تھا وہ اس وقت میری مخاطب ہیں.تمام دنیا کے ایک سو بیس ممالک کی جماعتیں میری مخاطب ہیں جہاں خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ قائم ہو چکی ہے اور ان میں وہ سب جماعتیں ہر ملک کی وہ جماعت شامل ہے جس جماعت میں کوئی تصنیف و اشاعت کا مرکز قائم کیا گیا ہے یا نمائش کا انتظام کیا گیا ہے.جو باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ان پہلوؤں سے مجھے اطلاع بھجوائی ہے.پہلی بات یہ کہ آپ کو اب تک کتنی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ملے ہیں، منتخب آیات کتنی ہیں اور مکمل قرآن کریم کے تراجم کتنے ہیں اور کتنی کتنی تعداد میں ہیں؟ دوسری بات یہ کہ حدیث نبوی ﷺ کتنی زبانوں میں ملی ہے اور اس میں بھی تعداد کتنی اور تیسری بات جو ہے وہ سب پہ مشترک ہوگی لیکن پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس کے متعلق بات کر لوں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے متعلق کتنی زبانوں میں ملے ہیں اور کتنی تعداد میں؟ تیسری اہم بات اس کے بعد یہ ہوگی کہ آپ نے تقسیم کا کیا انتظام کیا ہے اور آیا جس تعداد میں آپ کو یہ لٹریچر ملا ہے وہ تھوڑی ہے آپ کے نزدیک یا زیادہ ہے یا کافی ہے؟ زیادہ کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ دنیا اتنی وسیع ہو چکی ہے، اتنی کثیر ہو چکی ہے کہ جس تعداد میں ہم لٹریچر شائع کر رہے ہیں، دنیا کے سوویں حصے کو بھی پورا نہیں آسکتا.اس لئے وہ تو غلطی سے میرے منہ سے نکل گیا کہ زیادہ ہے، زیادہ کا تو کوئی سوال نہیں ہے، کم ہے تو کتنا ہے؟ کم میں ان معنوں میں نہیں کہ رہا کہ تمام ملک کی ضرورت سے کتنا کم ہے.کم سے میری مراد یہ ہے کہ آپ میں خدا تعالیٰ نے جتنی طاقت رکھی ہے کہ اس لٹریچر کوتقسیم کر سکیں اس طاقت کے مقابل پر کتنا کم ہے اس لئے یہ بات لکھنے سے پہلے یہ جائزہ لینا ضروری ہوگا کہ آپ کی جماعت کی زیادہ سے زیادہ استطاعت کیا ہے؟ کس کس زبان میں وہ کتنی تعداد میں لٹریچر تقسیم کرنے کی توفیق رکھتے ہیں.پہلے وہ تو فیق مقرر کریں پھر مجھے لکھیں کہ ہماری توفیق سے یہ اتنی کم تعداد ہے ہمیں مزید لٹریچر مہیا کیا جائے.علاوہ ازیں اس لٹریچر کے علاوہ بھی بہت سا لٹریچر ایسا ہے جو مختلف زبانوں میں، مختلف موضوعات پر تیار ہے اور اس لٹریچر کے ساتھ تقسیم ہونے کے لئے وہ صد سالہ جو بلی کا پیغا م بھی ہے جو

Page 369

خطبات طاہر جلد ۸ 364 خطبه جمعه ۲ / جون ۱۹۸۹ء آپ کی نمائندگی میں بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ میں نے سب دنیا کو دیا ہے وہ بھی ساتھ جانا چاہئے.تو یہ کام بہت بڑا ہے اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ جلد اس کی طرف جماعتوں کو متوجہ ہونا چاہئے.جہاں تک نمائشوں کا تعلق ہے کچھ نمائشیں مجھے دیکھنے کا موقع ملا ابھی یورپ کے سفر میں اور میں نے محسوس کیا کہ نمائشوں میں بھی ابھی یکسانیت پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے.بعض جگہ پتا چلا کہ مرکز نے ان کو پورا لٹریچر ہی نہیں بھجوایا، بعض جگہ دیکھا کہ وہ تصویر میں پوری نہیں ہیں کہیں کچھ اور تصویریں ہیں، کہیں کچھ اور تصویریں ہیں اس لئے مرکزی نظام کو تو میں نے متوجہ کیا ہے کہ وہ اچھی طرح جائزہ لے کر تمام ملکوں کو بنیادی ضروری لٹریچر بھی اور بنیادی ضروری تصاویر بھی مہیا کریں تو اس پہلو سے یکسانیت ہونی چاہئے.اس کا بھی مجھے تبھی علم ہو گا جب آپ لوگ یعنی آپ سے مراد ہے وہ تمام احمدی جماعتیں جنہوں نے نمائش کے مراکز قائم کئے ہیں مجھے مطلع کریں کہ ان کو کیا کیا چیزیں مل چکی ہیں اور کیا کیا نہیں ملیں کا تو پھر ان کو پتا ہی نہیں لگے گا کہ کیا ملنا چاہئے تھاوہ میں خود اندازہ کرلوں گا لیکن یہ دیکھیں کہ کیا کیا چیزیں مل چکی ہیں اور جو چیزیں مل چکی ہیں ان کو مناسب طریق پر نمائشی ہالوں میں یا کمروں میں آویزاں کیا گیا ہے یا نہیں ؟ اس ضمن میں ایک اور اختلاف میں نے یہ دیکھا ہے کہ بعض جماعتوں نے تو بڑی محنت اور مستعدی کے ساتھ ہر کتاب کے نیچے اس زبان میں اس کا تعارف مختصر کر وا دیا ہے جو زبان وہاں بولی جاتی ہے.مثلاً اگر جرمن علاقے میں نمائش ہے تو جرمن زبان میں نیچے بڑے خوبصورت لفظوں میں ٹائپ کیا ہوا ہے اس کتاب کا ٹائٹل کیا ہے اور مختصر تعارف اگر ضروری ہے کہ مضمون کیا ہے اور اگر کسی انسان کی تصنیف ہے تو کس کی تصنیف ہے.اس طرح ایک نظر میں گزرنے والے کو اندازاہ ہو جاتا ہے کہ یہ کیا کچھ ہے اور بعض جگہ اس کا ذکر نہیں ہے.چنانچہ اس سفر کے دوران میں نے متوجہ کیا منتظمین کو کہ اس پہلو سے بھی سب جگہ یکسانیت ہونی چاہئے اور ہر نمائش میں ہر کتاب کے نیچے مختصر تعارفی کلمات درج ہونے چاہئیں جو کھلے کھلے لکھے ہوں تا کہ دیکھنے والا ان کو پڑھ سکے.پھر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ بعض جگہ تو رضا کاروں کو اچھی طرح تربیت دی گئی ہے وہ مہمانوں کو ساتھ لے جا کر دکھاتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ یہ کیا کچھ ہے.اس پہلو سے جرمنی کا انتظام ما شاء اللہ بہت ہی عمدہ ہے اور وہاں انہوں نے سلائیڈز کی نمائش کا بھی انتظام کیا ہوا ہے کلون میں اور ریکارڈنگ بھی کی گئی ہے تا کہ ہر شخص جو وہاں جائے وہ اگر کارکن کوئی مہیا نہ ہوتو

Page 370

خطبات طاہر جلد ۸ 365 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء ریکارڈنگ کے ذریعے معلوم کر سکے کہ کیا ہو رہا ہے ، کہاں کیا چیز ہے اور اس کا مقصد کیا ہے.تو پورا تعارف جتنا کہ ہونا چاہئے وہ وہاں کروایا جارہا ہے اور اللہ کے فضل سے اس پہلو سے جو مہمان آتے ہیں بہت متاثر ہو کر جاتے ہیں.تو تمام دنیا میں یہ انتظام ہونا ضروری ہے کہ بعض کارکنوں کو تربیت دی جائے وہ نمائش دکھانے کے لئے باری باری اپنے وقت پیش کریں اور جو وہاں ڈیوٹی پر ہو اس کو پتا ہو کہ کس طرح دکھانی ہے اور کیا بتانا ہے.مثلاً شہداء کی تصاویر ہیں اور اسیران راہ مولیٰ کی تصاویر ہیں وہاں یہ تو لکھا ہوگا یہ شہید ہیں، یہ اسیر ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جا سکتا تفصیل سے کہ جرم کیا تھے، کس طرح واقعہ ہوا؟ تو اگر پتا ہو تو بعض شہداء کی تصویروں کے سامنے اُنگلی اٹھا کر دکھایا جاسکتا ہے یہ اس کا پس منظر ہے، اس طرح شہادت ہوئی اور یہ جو بتایا جاتا ہے اس کا غیر معمولی اثر پڑتا ہے.نظری طور پر دیکھ کر دل نرم پڑتے ہیں لیکن ساتھ کان جب یہ سن رہے ہوتے ہیں کہ اس کا پس منظر کیا ہے، کیوں ایسا ہوا؟ تو اس کا غیر معمولی اثر پڑتا ہے.فرانس میں بعض مہمانوں کو خود مجھے نمائش دکھانے کی توفیق ملی اور اس دوران ہی بعض مہمانوں نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ ہمیں تو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ جماعت احمد یہ چیز کیا ہے اور کتنی عظمت اختیار کر چکی ہے اور ان تصویروں کے پیچھے کیا کیا کہانیاں اور کیا کیا چیزیں ہیں؟ حالانکہ میرے پاس وقت زیادہ نہیں تھا لیکن نمونہ کچھ نہ کچھ مجھے یہ دکھانے کا موقع ملا کہ اس طرح نمائش دکھانی چاہئے.چنانچہ اس کو دیکھ کر وہاں کے ہی ایک ذہین مخلص نو جوان کو خیال آیا اس نے مجلس سوال و جواب میں اٹھ کے یہی بات اُٹھائی کہ آج ہمیں پتا چلا ہے کہ نمائش پیش کرنا کافی نہیں نمائش کو دکھانے کا سلیقہ ہونا چاہئے اور پتا ہونا چاہئے کہ کس طرح دکھائی جاتی ہے.اس لئے آپ تمام دنیا کی جماعتوں کو تاکید کریں کہ وہ بھی ایسا کیا کریں.چنانچہ ان کی دراصل تحریک ہی تھی جس کی وجہ سے مجھے اب موقع مل رہا ہے کہ میں تمام جماعتوں کو سمجھاؤں کہ اسی چیز کا اثر جو آپ دکھا رہے ہیں چند گنا ہو سکتا ہے، دس گنا زیادہ ہو سکتا ہے اگر دکھانے کا سلیقہ ہو اور دکھانے کے سلیقے میں پہلے تحریریں مکمل کرنا ضروری ہے، خوبصورتی کے ساتھ ان کے عنوانات لگائے جائیں، کھلے لفظوں میں لکھا جائے کہ یہ کیا چیز ہے اور اس میں بہر حال اختصار کرنا پڑے گا اور پھر تربیت یافتہ نو جوان ساتھ چل کر ان کو دکھا ئیں یہ کیا کیا واقعات ہیں، یہ تصویر میں کن بزرگوں کی ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی تصاویر ہیں.یہ بتایا جاتا ہے کہ کون لوگ ہیں تو ان کا

Page 371

خطبات طاہر جلد ۸ 366 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء غیر معمولی اثر پڑتا ہے.بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے نظریں گھڑی رہ جاتی ہیں ان کی چہروں پر.کس قسم کے لوگ تھے، کس قسم کے عشاق تھے اور پرانے وقتوں میں جماعت کس حال سے گزر رہی تھی.افریقہ کے مبلغین کی پرانے زمانوں کی تصویریں ہیں.جب تک آپ وہ دکھا کر پھر آگے نہیں بڑھیں گے تو موجودہ زمانے میں جو اللہ تعالیٰ نے ترقی عطا فرمائی ہے اس کا موازنہ نہیں ہوسکتا.تو ٹھہر ٹھہر کے دکھانے والی چیز ہے یہ نمائشیں ایسی نہیں ہیں جو تیزی کے ساتھ گزرکر دیکھی جاسکیں.اگر اس مضمون پر با قاعدہ تربیت دی جائے کارکنوں کو تو کئی دن میں یہ تربیت پوری ہوگی.ان کو مختصر تاریخ بتانی پڑے گی.یہ نذیرعلی صاحب ہیں ہمارے پرانے مجاہد واقف زندگی.یہ فلاں جگہ دفن ہیں، اس طرح یہ گئے تھے، ان حالات میں انہوں نے مقابلے کئے اور یہ آج کا سیرالیون ہے.جس میں دورہ کیا جاتا ہے خلیفہ وقت کی طرف سے تو حکومت کی طرف سے نمائندے مقرر ہیں، وزیر حاضر ہیں خدمت میں، تمام ریڈیو، ٹیلی ویژن کے وسائل پیش خدمت ہیں، زمین آسمان کا فرق ہے لیکن یہ فرق تب نظر آئے گا جب یہ پتا لگے کہ قربانیوں کنہوں نے دیں تھیں، کن لوگوں کی قربانیوں کا پھل ہے جو ہم آج کھا رہے ہیں.ورنہ اگر یہ دکھائے بغیر آپ عجلت سے آج کے نظاروں کی طرف دنیا کو لے جائیں تو آپ کی نمائش تو ہو جائے گی لیکن نہ خدا صحیح معنوں میں راضی ہوگا نہ آپ پرانے بزرگوں کی خدمت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.نہ آپ کو یہ احساس ہو گا کہ اصل عظمتیں ہیں کیا ؟ اصل عظمتیں حکومتوں کے متوجہ ہونے میں نہیں، اصل عظمتیں خدا کو راضی کرنے میں ہیں اور خدا کی خاطر خدمتیں کرنے میں ہیں اور وہ خدمتیں ضائع نہیں جاتیں اس کے ثبوت کے طور پر دکھائیے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے ایک سوسال کے اندر کا یا پلٹ دی ہے، نظام بدل دیئے ہیں، رجحانات تبدیل کر دیئے ہیں اور عظیم الشان جماعت کی طرف توجہ ہوئی ہے بڑی بڑی قوموں کو ملکوں کو ، حکومتوں کو، حکومتوں کے سر براہوں کو اور ایک سو سال کے اندر ایک بالکل نئی کیفیت دکھائی دے رہی ہے جو آئندہ سوسال کے لئے بنیاد بنی ہے.اس رنگ میں اس نمائش سے استفادہ کرنا ضروری ہے ورنہ یہ نمائشیں اگر محض تصویر میں یا چارٹ بن کر لگی رہ جائیں تو جتنا فائدہ ان کا پہنچنا چاہئے اس کا سوال کیا ہزارواں حصہ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گیں.پھر یہ نوجوان جس کی آپ تربیت کریں گے اور وہ نو جوان یا بڑے چھوٹے جو ساتھ لے کر آئیں گے مہمانوں کو ان سب کی تربیت ہوگی.جماعت احمدیہ کی ایک نسل کا اخلاص

Page 372

خطبات طاہر جلد ۸ 367 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء اس جوڑ میں ان کی طرف منتقل ہو رہا ہوگا.جیسے Blood Transfusion کیا جاتا ہے.ایک کے خون کی رگ سے دوسرے کے خون کی رگ کا تعلق باندھ دیا جاتا ہے تو اس طریق پر آپ کی پہلی نسلوں کا پاکیزہ خون آپ کی نئی نسلوں میں دوڑنے لگے گا اور آئندہ نسلوں میں وہ پاکیزہ خون منتقل ہونے لگ جائے گا.یہ ہم نے جو نمائش کی کوشش کی ہے یہ کوئی محض دکھاوے کا رنگ نہیں رکھتی نہ اس خاطر ایسی کوشش فائدہ دے سکتی ہے بلکہ مذہبی جماعتوں میں تو یہ بعض دفعہ ایک مہلک زہر بن جاتی ہے.جہاں جہاں دکھاوے کا رنگ آ جائے اور روح غائب ہو جائے وہیں مذہبی جماعتوں کی ہلاکت کا آغاز ہو جاتا ہے.اس ضمن میں ایک اور نصیحت میں جماعت کو یہ کرنی چاہتا ہوں کہ تصاویر کا دور ہے اور تصاویر کے ذریعے ہم بڑے بڑے فائدے اٹھانا چاہتے ہیں لیکن تصاویر میں بعض نقصان کے پہلو بھی ہوتے ہیں اور ان میں ایک پہلو یہ ہے کہ جو بزرگوں کی تصاویر ہیں ان کے طرف شرک کا رجحان پیدا ہو جائے اور یہ رجحانات بعض دفعہ بہت ہی باریک راہوں سے داخل ہوتے ہیں اور جب تک ایک منتقی انسان یا جب تک خدا کسی انسان کو توفیق نہ عطا فرمائے اس وقت تک وہ بعض دفعہ متنبہ ہی نہیں ہو سکتا کہ میں نے جو اس تصویر کو دیکھا، میرے دل پر جو اس کا اثر پڑا وہ تقویٰ کے مطابق تھا یا مشرکانہ رنگ رکھتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدس رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں یہی وجہ ہے کہ تصویروں کا رواج نہیں دیا گیا خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ ایجادات ہی بعد میں ہوئیں جن ایجادات کے ذریعے آج ہم تصویری زمانے میں داخل ہوئے ہیں.آنحضرت ﷺ کا پاک وجود اور آپ کا روحانی اور نورانی چہرہ اتنی عظمت رکھتا ہے کہ ہرگز بعید نہیں تھا کہ اگر وہ تصویر میں محفوظ ہوتیں تو ان کی عبادت شروع ہو جاتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس خطرے کو محسوس کیا اور جماعت کو تاکید کی کہ میں جو تصویریں اپنی کھینچوا رہا ہوں صرف اس لئے کہ دنیا چہروں کو دیکھ کر اندازے لگایا کرتی ہے اور بعض زیرک لوگ چہروں کے نقوش پڑھ کر دل کی صداقت کے نقوش دیکھنے لگ جاتے ہیں ، ان تک ان کی نظر پہنچ جاتی ہے.اس لئے اس غرض سے میں نے تصویر میں شائع کی ہیں، یہ مقصد نہیں ہے کہ نعوذ باللہ تم لوگ ان تصویروں کو دیکھ کر میرے متعلق نامناسب عظمت کے جذبات اپنے دل میں پیدا کرو کیونکہ یہ شرک ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور پرانے

Page 373

خطبات طاہر جلد ۸ 368 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء بزرگوں کی تصویروں کے ساتھ یہ تاکید ضروری ہے ، خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصاویر کے ساتھ کہ اپنے نفوس کا جائزہ لیا کریں کہ ان سے کسی طرح کوئی دور بعید کا شرک کا تصور تو نہیں پیدا ہورہا.جب میں شرک کا تصور کہتا ہوں تو آپ میں سے غالباً تمام یہ سوچیں گے کہ نعوذ بالله من ذالك ہم تو موحد جماعت ہیں، تو حید کی خاطر قائم کئے گئے ، تمام دنیا کو امت واحدہ بنانا ہے، خدائے واحد کے قدموں میں اکٹھا کرنا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم جو مواحد جماعت ہیں اور دنیا کو تو حید سکھانے کے لئے نکلے ہیں.ہم مشرکانہ خیالات میں مبتلا ہو جائیں لیکن میں آپ کو بتا تا ہوں کہ قرآن کریم نے مطلع فرمایا ہے، متنبہ کیا ہے کہ شیطان ایسی ایسی جگہوں سے حملے کرتا ہے جن کے متعلق آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ چھپ کے اپنی کمین گاہوں سے آپ پر حملے کرتا ہے اور بسا اوقات شرک کا آغا ز محسوس بھی نہیں ہوتا.ایک دفعہ مجھے خود ذاتی طور پر اس قسم کے ایک حملے کا تجربہ ہوا.ربوہ کی بات ہے بہت پرانی کوئی چھپیں تھیں سال کی بات ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر، اول تو میں اسی وجہ سے لگاتا نہیں تھا پہلے اپنے گھر میں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عموماً اس کو پسند نہیں فرمایا، پھر چونکہ دیکھا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس کی عادی ہو چکی ہے اور ایک عام تصویر کے طور پر دیکھتی ہے اس کے ساتھ کسی قسم کی غیر معمولی عظمت کا خیال منسلک نہیں کرتی اور پھر اُنے والوں کے لئے اور اس خیال سے کہ بچے دیکھیں اور ان کو پتا تو ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کون تھے اور ان کی پاکیزہ صورت سے ان کے دل پر نیک اثر پڑے.میں نے بھی تصویر لگائی لیکن ایک دفعہ جب میں اس کمرے میں کپڑے بدل رہا تھا اچانک مجھے شرم سی محسوس ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کے سامنے اور وہ پہلی خطرناک الارم کی گھنٹی تھی جو میرے اندر بجی.مجھے خیال آیا کہ یہ کیسی مشر کا نہ بات ہے.تصویر سے اس خیال سے میں شر ما رہا ہوں کہ میں تصویر کو دیکھ رہا ہوں حالانکہ تصویر کی کوئی حقیقت نہیں ہے.تصویر کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ ہم اس تصویر کے سامنے بری باتیں نہ کریں.پھر یہ ساری باتیں پھر میرے ذہن میں اُبھرنی شروع ہوئیں.تصویر کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہو کہ بعض حالتوں میں تصویر الٹی کر دی جائے ، بعض میں سیدھی کر جائے ، کوئی بیہودہ حرکت کرنی ہو تو تصویر کو الگ کر دیا جائے یہ سارے شرک اسی رستے سے داخل ہوتے ہیں اور

Page 374

خطبات طاہر جلد ۸ 369 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء رفتہ رفتہ دلوں پر قبضہ کر لیتے ہیں.اس وقت مجھے خیال آیا کہ اصل تو تقویٰ نام ہی اس بات کا ہے کہ سوائے خدا کے حاضر ناظر ہونے کے تصور کے اور کوئی تصور نہ ہو.چنانچہ سارے قرآن میں تمام احادیث میں تمام کلام مسیح موعود علیہ السلام میں آپ کو اللہ کے تقویٰ کے سوا کسی کے تقویٰ کا ذکر نہیں ملے گا.خدا کا تقویٰ لیکن رسول کا تقویٰ نہیں، رسول کی محبت، رسول کا ادب ، رسول کی اطاعت لیکن کہیں بھی آپ کو رسول کے تقوے کا کوئی محاورہ نظر نہیں آئے گا.پس وہ شخص جو ہمیشہ خدا کی نظر میں ہے اگر وہ کوئی بیہودہ حرکت کرتے ہوئے خدا سے نہیں شرما رہا اور ایک تصویر سے شرما رہا ہے تو یہ اگر بت پرستی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اس لئے ظاہری طور پر آپ چاہے اپنے آپ کو شرک پر آمادہ نہ پائیں لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں سچ فرمایا ہے کہ شیطان ایسا ظالم ہے کہ وہ اس طرح چھپ کر اپنی کمین گاہوں سے حملہ کرتا ہے کہ آپ دفاع کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے اور آپ کے دلوں پر حملہ ہو چکا ہوتا ہے.پس اس تصویری نمائش نے میری توجہ اس طرف بھی مبذول کی کہ جماعت کو تو حید کی طرف دوبارہ متوجہ کروں.یہ تمام تصویر میں محض تصویر یں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں.یادوں کو تازہ کرنے والی بعض باتیں ہیں ، اس سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں.وہ کام جو آپ خدا کی موجودگی میں تنہائی میں نہیں کر سکتے وہی ہے جو خدا کی خاطر رکنے والی بات ہے.جو کام آپ خدا کے تصور کی وجہ سے تنہائی میں نہیں کرتے وہ نیکی ہے اور جو کرتے ہیں اس کے باوجود وہ آپ کی کمزوری اور گناہ ہے لیکن اگر آپ کسی تصویر کے سامنے یا کسی اور کے سامنے رُک جاتے ہیں تو وہاں سے پھر گناہ نہیں بلکہ شرک کا مضمون شروع ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ تو وہ ، قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ خدا سے تو ڈرتے نہیں بنی نوع انسان سے ڈرتے ہو.وہ بھی اتنا شرک نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں اس کو اگر باریکی سے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو اس کے بہت سے ایسے عوامل ہیں کہ جو معاملے کو مبہم کر دیتے ہیں اور قطعی طور پر آپ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شرک ہے.خدا کے سامنے تو انسان کی مجبوری ہے بیچارے کی.وہ تو دیکھ ہی رہا ہے ہر وقت ، اس سے تو چھپا جا سکتا ہی نہیں.اس لئے جس سے چھپا جا سکتا ہے اس سے چھپ جاتے ہیں اس کا ایک یہ پہلو بھی ہے.تو وہ مضمون جو ہے کہ لوگوں سے ڈرتے ہو اور خدا سے نہیں ڈرتے وہ ذرا اور مضمون ہے اس کا اس وقت تفصیل کا وقت نہیں ہے لیکن اگر تصویر کے

Page 375

خطبات طاہر جلد ۸ 370 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء سامنے آپ رُک جاتے ہیں تو یہ یقیناً شرک ہے.اس کا کوئی جواز نہیں.لوگوں کے سامنے رُکنا ایک طبعی حیاء کے نتیجے میں بھی ہوتا ہے اور حیاء وہیں پیدا ہوتی ہے جہاں روکا جاسکتا ہے.روز مرہ آپ کو دیکھنے والا ہے وہاں حیاء رہتی کوئی نہیں.بیویوں کو خاوندوں سے حیاء نہیں رہتی ، خاوندوں کو بیویوں سے حیاء نہیں رہتی لیکن وہی باتیں جب باہر نکلتے ہیں تو باعث حیا بن جاتی ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کا اور بندے کا معاملہ ہے.ایسی بے اختیاری ہے کہ انسان بے حیا تو نہیں کہہ سکتے لیکن مجبوری ہے، بے بسی ہے ، خدا کے سامنے اپنے کمزوریاں ظاہر کرنے پر انسان مجبور بنا بیٹھا ہے لیکن بندوں کے سامنے یہ بات نہیں اس لئے وہ چھپتا بھی ہے.میں سمجھتا ہوں کمزوری کہہ لیں اس کو لیکن شرک نہیں لیکن جب اگر تصویر کے سامنے آپ چھپتے ہیں یا حیا محسوس کرتے ہیں یا تصویر کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اوہ تیرے سامنے میں بیٹھا ہوں، تو مجھے کیا کہتی ہوگی، یا میرا دل یہ کہتا ہے کہ تو یہ تھا اور میں کیا ہوں؟ تو یہ ساری باتیں شرک خفی بن جاتی ہیں جو آگے جا کے قوموں کو ہلاک کر سکتی ہیں.اس لئے جماعت کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ تصویروں کو تصویروں کی حد تک رہنے دیں ایک ذرہ بھی اس سے زیادہ ان کو اہمیت نہ دیں اور جہاں ایک ذرہ بھی شرک کی طرف مائل کرنے والی ہوں وہاں ان تصویروں کو الگ کر دیں.ان کا مقام پھر بند ہونے میں ہے ظاہر ہونے میں نہیں.ان کو خاص موقعوں کے لئے ، بعض مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے رکھ لیں ورنہ ان کو نہ رکھیں.میری تصویروں کا بھی رواج بڑھ رہا ہے مجھے اس چیز سے اس کا بھی خیال آیا کہ بعض لوگوں کے متعلق پتالگاوہ باقاعدہ اس کو سجا کے رکھتے ہیں.نعوذ بالله من ذالك.جو نہایت ہی بیہودہ حرکت ہے.اس خیال سے میں پاکستان میں لوگوں کو بھیج دیتا ہوں کہ دیر ہوئی دیکھے ہوئے اور بچوں کو بھی دکھانا ہوتا ہے.وہ ایک ایسا جذبہ ہے جو نیکی پر مبنی ہے لیکن اگر آپ اس کو ایسی اہمیت دینے لگ جائیں نعوذ باللہ کہ پھولوں میں سجا کے رکھا ہوا ہے تو نہایت ہی خطرناک مشرکانہ حرکت ہے، نہایت قابل نفرت حرکت ہے اور مجھے بھی آپ اپنے ساتھ گناہگار کرتے ہیں.اگر میرے علم میں آئے اور میں اس کو نہ روکوں تو میں جواب دہ بن جاتا ہوں.اس لئے جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے یہ بات کر دی ہے تو میری اور دیگر خلفاء کی پھر کوئی بھی حیثیت نہیں رہتی.ہمارے اوپر یہ مضمون بھی اسی طرح صادق آتا ہے بلکہ حیثیت کے لحاظ سے ہماری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں.اگر

Page 376

خطبات طاہر جلد ۸ 371 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصاویر کے ساتھ آپ کا کوئی بھی دور کا بھی مشرکا نہ تعلق نہیں ہے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ خلفاء کے لئے بھی آپ کے دل میں کوئی نا جائز جذ بہ نہیں ہوگا.اس نصیحت کے علاوہ اب میں ایک اور مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.ہم نے دنیا میں تو حید کو پھیلانا ہے اور تمام بنی نوع انسان کو ایک کرنا ہے.اس سلسلے میں ایک خطرہ ہے جو بار بارسر اٹھاتا ہے اور بار بار اس کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ قومی اور ملکی اور جغرافیائی اختلافات کو احمدیت کی پجہتی کی راہ میں حائل ہونے دیا جائے.یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو بعض دفعہ دب جاتا ہے بعض دفعہ سر اُٹھاتا ہے.بعض ملکوں میں فتنے پیدا ہوتے ہیں تو وہاں سر اٹھا لیتا ہے.بعض خلافتوں کے دوران یہ دب جائے گا اور بعض خلافتوں کے دوران دوبارہ اُٹھے گا.یہ تفصیلی مضمون ہے اس کی وجوہات میں اور اسباب کے پس منظر میں جانے کی ضرورت نہیں مگر میں جماعت کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہم امت واحدہ ہیں.ایک خدا کے بندے ہیں، ایک خدا کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ہماری وحدت کی جو بنیاد ڈالی ہے اس میں خلل نہیں واقع ہونے دینا اور نسلی تفریق اور قومی تفریق اور جغرافیائی تفریق، کالے، گورے اور سفید کی تفریق.یہ تفریق نہیں پیدا ہونے دینی.جن جن ملکوں میں احمدیت پھیل رہی ہے وہاں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ پاکستانیت کے اوپر حملہ کر کے اس بات کو اٹھایا جائے کہ احمدیت تو اسلام ہے یعنی عالمگیر ہے.یہ پاکستانی کلچر، یہ پاکستانی مزاج ، یہ پاکستانی عادات ہمیں قبول نہیں ہیں احمدیت کے نام پر.یہ دیکھنے میں بالکل معقول اور جائز بات ہے اس سے انکار نہیں ہوسکتا لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی چیز پاکستانیت ہے اور کونسی نہیں ہے اور کیا واقعی احمدیت پاکستانیت ٹھونس رہی ہے یا نہیں ٹھونس رہی اگر صرف اتنا سوال ہو تو پھر خطرہ نہیں ہے لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ دین اسلام ہے اور تمام دنیا کا واحد مشترک دین ہے اور پاکستان سے آنے والے ایک ملک کے نمائندہ ہیں تو پھر آئندہ بہت سے خطرات کے رستے کھل جاتے ہیں اور یہاں سے آغاز ہو کر پھر تفریق کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ نہیں ہم پاکستانیت کو قبول نہیں کریں گے، فلاں بات قبول نہیں کریں گے.ایک باغیانہ رجحان ایک نفرت کا رجحان ،ایک قومیت کی تفریق کا رجحان پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہ رجحان ضروری نہیں کہ سفید ملکوں میں ہو کالے ملکوں میں بھی ہو جاتا ہے، زرد ملکوں میں بھی ہو جاتا ہے.ہر ملک میں یہ خطرہ ہے کیونکہ یہ

Page 377

خطبات طاہر جلد ۸ 372 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء رجمان شیطان پیدا کرتا ہے اور شیطان ہر جگہ ایک ہی مزاج رکھتا ہے.اس نے وحدت پر حملہ کرنا ہے اور اس کے لئے بڑا بہانہ ہے.چنانچہ اسلام کی تاریخ میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے ملکوں میں جب اسلام پھیلا ہے تو یہی حملہ اسلام پر کیا گیا تھا کہ یعنی اب بھی اسلام ہی ہے لیکن اسلام کے آغاز پر بھی کیا گیا تھا اور ایرانی نے یہ سوال اٹھا دیا کہ کون سی بات اسلام ہے اور کونسی ایرانیت ہے.کون سے مزاج اسلامی مزاج ہیں اور کون سے عرب مزاج ہیں جن کو ہم قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے، پھر ان کے خلاف بغاوت کریں گے اور کئی ایرانی مزاج اسلام میں داخل کئے گئے.حالانکہ اگر عرب مزاج کو قبول نہیں کرنا تھا تو اس ایرانی مزاج کا کیا حق تھا کہ اسلام میں داخل ہو جاتا.اسلام تو پھر بے مزاج کے ایک فلسفے یا بلا نظریہ حیات کے طور پر قائم رہنا چاہئے تھا لیکن یہ دوسری چیز اس کے تتبع میں ضرور آیا کرتی ہے.جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستانی نہیں تو پھر کوئی اور چیز اس کی جگہ ہے حالانکہ یہ بحث ہی ظالمانہ اور جھوٹی اور شیطانی بحث ہے.ہر احمدی کا دنیا کے ہر ملک میں یہ حق ہے کہ یہ مطالبہ کرے کہ مجھے سمجھاؤ کہ کوئی چیز اسلام ہے اس کو میں قبول کروں گالازما اور مجھے یہ سمجھاؤ کہ کون سی چیز رواج ہے جو اسلام کا لازمی حصہ نہیں یہ تو ہر شخص کا حق ہے اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی عادات کو اسلام کے طور پر پیش نہ کرے اور جہاں اگر یہ ایسا اختلاف پیدا ہو وہاں ضروری ہے ہر ایک کے لئے کہ وہ مرکز کو متوجہ کرے بجائے اس کے کہ یہ بخشیں اٹھائی جائیں اور ایک قوم کا مزاج خراب کیا جائے.آسان حل یہ ہے کہ جہاں بھی اس قسم کا اختلاف ہو خواہ جرمنی میں ہو، انگلستان میں ہو، نائیجریا یا گھانا میں ہو فوری طور پر خلیفہ وقت کو لکھا جائے کہ یہ بات ہے جو مبلغ کہہ رہے ہیں اور بعض جماعت کے ممبروں کا خیال یہ ہے کہ یہ اسلام نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیم کا ایک پاکستانی اظہار ہے جو نائیجیرین یاغانین اظہار بھی ہو سکتا ہے یعنی اسلام کی روح سے منحرف ہوئے بغیر اسی چیز پر عمل کرتے ہوئے ہم نے ایک نائیجیرین اظہار بھی کر سکتے ہیں ، غانین اظہار بھی کر سکتے ہیں، جرمن اظہار بھی کر سکتے ہیں اور انگلستانی یعنی برٹش اظہار بھی کر سکتے ہیں.اس سے کوئی انکار نہیں لیکن اگر تقویٰ اور صداقت شعاری کے ساتھ یہ بات پوچھ لی جائے اور بات حل کروالی جائے تو اس سے کوئی خطرہ نہیں لیکن معین بات کئے بغیر جب عمومی بخشیں آپ چھیڑتے ہیں تو اکثر لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم بات کیا کر رہے ہیں.صرف ایک نفرت اور تفریق کے جذبات ہیں جن سے وہ کھیلنے لگ جاتے ہیں پھر وہ

Page 378

خطبات طاہر جلد ۸ 373 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء جذبات ان سے کھیلنے لگ جاتے ہیں.پھر وہ ان جذبات کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں ، پھر وہ جس طرف چاہیں ان کو لے جائیں اور اس کا آغاز شیطان سے ہوتا ہے کیونکہ شیطان حملہ کرتا ہے عموماً ان جگہوں سے جہاں سے انسان کو نظر نہیں آتا.تو جہاں تو حید کا مضمون چلا ہے وہاں میں یہ بھی آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس قسم کے خطرات جماعت کے پھیلنے کے ساتھ بڑھنے شروع ہوں گے.کیونکہ غیر تربیت یافتہ لوگ آئیں گے اور بعض لوگ اپنی نادانی میں خواہ وہ پاکستان کے ہوں یا ہندوستان کے یا کسی اور ملک کے اپنے ملک کے کلچر کو اس شدت کے ساتھ بھی پیش کریں گے کہ گویا وہی اسلام ہے.وہ بھی غلط ہے لیکن خطرات ہیں اور غلطی خواہ کسی کی بھی ہو دوسرے فریق کو محتاط ہو جانا چاہئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ حملہ شیطانی حملہ ہے اس کے دفاع کے لئے ہمیشہ مستعد رہنا چاہئے.ہم نے دنیا کو امت واحدہ بنانا ہے اور اس کے لئے ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور یہ عزم لے کر اُٹھے ہیں کہ کسی قیمت پر بھی اسلام کی ، انسانیت کی وحدت کو منقسم نہیں ہونے دینا.کیونکہ میرا کامل ایمان ہے، میرا دین یہ ہے کہ توحید کامل کے نتیجے میں انسانی وحدت حاصل ہوتی ہے اور اگر انسانی وحدت نہ رہے تو توحید کا تصور بھی منقسم ہو جاتا ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک ایسا پیغام جو انسان کو اکٹھا نہ کر سکے وہ تو حید کا پیغام ہو.لازماً اس پیغام میں رخنے پڑتے ہیں.بعض دفعہ پیغام غلط سمجھا جاتا ہے اس کے نتیجے میں تو میں تقسیم ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ تو میں متفرق ہونے لگتی ہیں تو پیغام کو منقسم کر دیتی ہیں.تو توحید سے وفا کا تقاضا یہ ہے کہ ان چیزوں کے اوپر ہمیشہ متنبہ اور مستعد اور نگران رہیں.کسی قیمت پر بھی انسان کو انسان سے الگ نہ ہونے دیں اور قومیت کے تصور کو جاہلانہ باطل اور شیطانی تصور سمجھیں.اس ضمن میں ایک اور ہدایت مجھے یاد آ گئی جو میں نے صد سالہ جشن کی تقریبات کے سلسلے میں دی تھی مگر مجھے کہیں وہ سنائی نہیں دی.وہ ہدایت ایسی ہے جس کا شنوائی سے تعلق تھا.میں نے تاکید کی تھی کہ نمائشوں کے دوران حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایسا کلام جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد کا ذکر ہو یا حمد پر مشتمل کلام ہو یا نعتیہ کلام ہوں آنحضرت ﷺ کے عشق میں یا بنی نوع انسان کی ہمدردی پر مشتمل کلام ہو وہ اچھی آواز میں پڑھ کے سنایا جائے اور جسے کہتے ہیں بیک گراؤنڈ میوزک.تو بیک گراؤنڈ میوزک کے طور پر وہ چلتا رہے.اس کا طبیعتوں پر بہت عمدہ اثر پڑتا ہے.

Page 379

خطبات طاہر جلد ۸ 374 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء چنانچہ اس سلسلے میں ساری دنیا میں تحریک کر کے بعض اچھی آواز والوں کی آواز میں کیسٹس یہاں منگوائی گئیں اور ان کا جائزہ لے کر کم سے کم ہدایت ضرور میں نے کی تھی ان کو دوبارسب دنیا میں بھجوایا جائے یعنی ایک دفعہ اکٹھا کیا جائے پھر چن کر دوبارہ منتشر کیا جائے تا کہ اچھی آواز میں صحیح تلفظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ان نمائشوں میں پڑھا جایا کرے.اس کے ساتھ ہی ایک یہ بھی تاکید کی تھی کہ چونکہ یہ صدی غلبہ توحید کی صدی کے طور پر ہم منا رہے ہیں اس لئے خاص طور پر وہ نغمہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جس میں ہے لا الہ الا اللہ.مصرعہ تو نہیں ہر مصرعے کے آخر پر یا ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر پر آتا ہے.ہے دست قبله نما لاالہ الا اللہ ( کلام محمود صفحه : ۹۰) وہ بھی ایسی نظم ہے جو بہت ہی عمدہ ترنم کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے.ویسے تو ہر شعر ترنم سے پڑھا جاتا ہے لیکن بعض اشعار کے زیر و بم کو موسیقیت کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہوتی ہے اور یہ نظم ایسی ہے جس کا ترنم تمام دنیا کے انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے.اس کو بھی لگانا چاہئے.کچھ میں نے منگوائے تھے نمونے مگر ابھی تک مجھے کوئی ایسا دل کو لگا نہیں کہ بہت ہی غیر معمولی ہو.حالانکہ یہ نظم ایسی ہے جس کو بہت ہی اعلیٰ ، بہت ہی موثر آواز میں پڑھا جاسکتا ہے.تو یہ اگر نظم بھی اس وقت دہرائی جائے ،اس کے ساتھ مجھے خیال آیا ہے کہ آپ کو ان اشعار کا ترجمہ بھی کرنا چاہئے اور وہ بھی موسیقی کے اثر میں زیادہ گہرائی پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مثلاً کلام ہے اے خدا اے کار ساز و عیب پوش و کردگار ( در شین صفحه: ۱۲۵) اس کو ایک شخص شعر میں پڑھتا ہے تو اس کے بعد اس کا ترجمہ ایک باوقار اثر انداز آواز میں سنایا جائے ٹھہر ٹھہر کے بجائے اس کے کہ مسلسل نظم ہو رہی ہے یا اس سے پہلے پڑھ لیں وہ ترجمہ.آواز میں اگر نثر کے انداز میں بھی کوئی بات کہی جائے تو بعض دفعہ ایک آواز میں موسیقی ہوتی ہے اور آواز میں وقار ہوتا ہے اور بعض پڑھنے والے ایسے انداز میں نثر پڑھتے ہیں کہ اس کا اثر نغموں کا سا پڑتا ہے.ایسے دوست دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں.افریقہ میں تو میں جانتا ہوں.میں نے اپنے دورے

Page 380

خطبات طاہر جلد ۸ 375 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء میں دیکھا ہے.خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی عظیم الشان با اثر آوازیں ان لوگوں کو عطا کی ہیں اور وہ عام جب گفتگو بھی کرتے ہیں تو ان کی آواز میں ایک دبدبہ، ایک شوکت ہے.ایسے کلام کو بجائے اس کے که صرف اردو زبان میں پڑھ کر سنایا جائے یا منظوم کرنے کی کوشش کی جائے جو بہت ہی مشکل کام ہے.نثر میں ترجمہ کر کے اور نغماتی طریق پر اس سے پہلے ایک آرٹسٹ کی طرح پڑھ کر سنایا جائے اور پھر وہ شعر شروع ہو جائے اُردو نظم کا اور اس کے بعد جب اس کا اثر ہو جائے اس کو دہرایا بھی جاسکتا ہے پھر ایک ترجمہ اور پھر وہ شعر تو اس طرح آپ کی نمائش جو ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہو جائے گی اور ان باتوں سے مزین ہو جائے گی ، غیر معمولی اس کے اندراثر پیدا ہو جائے گا.جہاں تک رپورٹوں کا تعلق ہے آخری بات اس ضمن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمام جماعتیں اس بات کی نگرانی کریں ملکی سطح پر کہ ان کے ہاں کی رپورٹیں پہنچ رہی ہیں اور وہ نگرانی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ ان کو یہ تاکید کریں کہ جور پورٹ وہ مجھے بھجواتے ہیں اس کی ایک نقل ان کو بھجوائیں اور دوسرے مجھے براہ راست ملک بھی رپورٹیں بھجوائیں کہ ہم نے جو جائزہ لیا ہے ہمارے ملک میں اس میں لٹریچر کی یہ کیفیت ہے.تو مختلف مقامات جہاں انتظام ہیں وہ براہ راست رپورٹیں بھجوائیں اور ملک اپنی اجتماعی رپورٹ براہ راست بھجوائیں اور ان کی نقول وہ ایک دوسرے کو بھجوا دیں.تا کہ ہر ایک کو پتا چلے کہ کیا ہو رہا ہے.مثلاً ہندوستان ہے، ہندوستان میں اگر گیارہ یا بارہ مراکز ہیں جہاں نمائش ہونی ہے، جہاں لٹریچر کی تقسیم کے سنٹر بنائے گئے ہیں اگر ہندوستان کی رپورٹ ان سارے مراکز کے متعلق مجھے آ رہی ہے اور ساتھ ہر مرکز کو بھی جارہی ہے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر مرکز کو معلوم ہوگا کہ دوسرا مرکز کیا کام کر رہا ہے اور کون کتنا آگے بڑھ چکا ہے.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ ایک سے دوسرے کی راہنمائی بھی ہو گی اور جذ بہ رشک پیدا ہو کر آگے بڑھنے کے لئے انسان پہلے سے زیادہ مستعد ہوں گے.اس کے ساتھ ساتھ ایک رپورٹ اور بھی داخل کر لیں کہ بعض مراکز کے تعمیر کا کام دیر سے شروع کیا گیا تھا اور ابھی تک وہ مراکز مکمل نہیں ہوئے یا اگر مکمل ہو چکے ہیں تعمیری لحاظ سے تو ان کے اندر جو اندرونی سیٹنگ ہوتی ہے وہ نہیں ہو سکی.مجھے علم نہیں ہے کہ اس وقت کس حالت میں کونسا مرکز ہے.بعض ہیں جو براہ راست رپورٹ بھیج دیتے ہیں اور بعض ہیں جو نہیں بھیجتے نہ ان کے ملک کی

Page 381

خطبات طاہر جلد ۸ 376 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء طرف سے آتی ہے.مثلاً کل سرینگر کی طرف سے مجھے رپورٹ ملی ہے اور وہاں وہ بھی اس لحاظ سے مستعد جماعت ہے.وہ ساتھ ساتھ مجھے بتا رہے ہیں کہ جس ہال کی منظوری لی گئی تھی وہ ان مراحل سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچ چکا ہے، اب تعمیر کا یہ کام ختم ہو گیا ہے اور کتا میں سجانے کے لئے شیلف بنائے جارہے ہیں، دوسرے فرنیچر وغیرہ کی تیاری، اس قسم کی تفصیلی رپورٹ وہ بھیجتے رہتے ہیں.میرے علم میں رہتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے لیکن بہت سے ممالک ہیں انہوں نے اشارہ بھی نہیں کبھی کیا کہ کیا ہو رہا ہے؟ بعض باتوں میں بڑے مستعد ہیں اور بعض باتوں میں بالکل غافل ہو جاتے ہیں.افریقہ کے کئی ممالک ہیں تبلیغ کے لحاظ سے نہایت اعلی لیکن کبھی نہیں بتایا کہ جس مرکز کی تعمیر کی ، جس نمائش کے ہال کی تعمیر کی اجازت دی تھی جس پہ بڑے بڑے اخراجات کی اجازت ملی ہوئی ہے اس کو ہو کیا رہا ہے.اب تک کتنی کارروائی ہوئی ہے، کتنا کام آگے بڑھا؟ کچھ پتا نہیں.تو یہ خیال نہ کریں کہ میں بھول جاتا ہوں، مجھے کچھ پتا نہیں لگتا.اگر بھول بھی جاؤں تو آپ میں سے بعض یاد کر وا دیتے ہیں.اس لئے خلیفہ وقت کے بھولنے کا سوال ہی نہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ ساری جماعت ایک وقت میں نہیں سوتی.اگر دس سوئے پڑے ہیں تو ایک بیچ میں سے جاگا ہوگا اور وہ توجہ مبذول کروادیتا ہے خلیفہ وقت کی کہ میں جاگا ہوا ہوں دیکھیں باقی اور کون کون سویا ہوا ہے.اس لئے یہ خدا نے نظام ہی ایسا قائم کر دیا ہے.یہ ہمہ وقت نگرانی کا نظام ہے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی.اس لئے یہ تو و ہم بھی نہ کریں کہ آپ کی غفلتیں اور کمزوریاں اگر آپ پردہ ڈالنا بھی چاہیں تو چھپ جائیں گی.خدا تعالیٰ نے نظام خلافت کی یہ برکت رکھی ہے جو انشاء اللہ آئندہ عالم میں پھیلتی چلی جائے گی کہ ایک مرکزی ایسی نظر پیدا کر دی ہے جس کو روشنی دنیا بھر کی احمدی نظروں سے ملتی ہے اور وہ اپنی بصیرت سے خلیفہ وقت کو حصہ دیتے چلے جاتے ہیں.اسی لئے میں نے ایک دفعہ آغاز ہی میں یہ خطبہ دیا تھا کہ جماعت کا مجموعی تقوی خلیفہ وقت کے تقویٰ جمع ساری جماعت کے تقویٰ پر مشتمل ہے اور یہ مجموعی طور پر خلیفہ کی ذات میں منعکس ہونے لگ جاتا ہے.اسی طرح آپ کی بصیرت مجھ سے جدا نہیں ، میری بصیرت آپ سے جدا نہیں.ہم سب کی مجموعی بصیرت کا نام خلافت احمد یہ ہے.اس لحاظ سے ایک عظیم الشان نظام ہے جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں.بڑی سے بڑی حکومتیں بھی ہوں وہاں بھی اس قسم کے بصیرت افروز نظام قائم نہیں ہیں.پس چھپنا تو آپ نے ہے نہیں اور پھر مجھ سے چھپ بھی

Page 382

خطبات طاہر جلد ۸ 377 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء جائیں فرض کریں تو ہمارا نظام تو ہے ہی اس بات پر کہ خدا دیکھ رہا ہے.وہی بات جس سے میں نے آغا ز کیا تھا اسی پر ختم کرتا ہوں.خدا ہمہ وقت ہمیں دیکھ رہا ہے اس سے چھپنے کا کوئی سوال نہیں ہے.ہم خدا کی خاطر سارے منصوبے بناتے ہیں، خدا کی خاطر ان پر عمل درآمد کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے اس تصور کو ہمیشہ زندہ رکھیں ، اس احساس کو ہمیشہ زندہ رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے تمام فرائض کو بہترین رنگ میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے گا.آخر پر ایک دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.آپ کو علم ہے کہ ہمارا مباہلے کا سال قریباً قریب الاختتام ہے اس پہلو سے کہ ۱۰ جون جمعتہ المبارک کو میں نے تمام دنیا کے مکذبین اور مکفرین کے آئمہ کو یعنی ان میں سے جو چوٹی کے سربراہ ہیں ان کو چیلنج دیا تھا.ان میں سے بعض نے قبول کیا، بعض نے نہیں کیا اور جنہوں نے قبول کیا انہوں نے شرطیں ایسی لگا دیں کہ عملاً نہ قبول کرنے کے مترادف تھا.بعضوں کو خدا نے پکڑا اور عبرت کا نشان بنا دیا، بعض ابھی باقی ہیں لیکن اس مضمون پر میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں روشنی ڈالوں گا.کیونکہ وہ 9 تاریخ کا خطبہ ہو گا یعنی اس وقت سال پورا ہو چکا ہوگا.جو سال دس کو شروع ہو وہ نو کو پورا ہوتا ہے اور نو کو بھی جمعہ ہے اس لئے انشاء اللہ اس وقت مختصراً کوشش کروں گا کہ عمومی تبصرہ کروں کہ اس سال میں کیا ہوا اور آئندہ کیا ہونا ہے؟ کیونکہ بعض لوگوں نے چیلنج دیر سے قبول کیا.جہاں تک میرا اور جماعت کا تعلق ہے اس سال میں خدا نے ہم سے کیا سلوک کیا وہی نشان بنے گا ہماری صداقت کا اور کیا کیا خدا کی رحمتیں اور عنایات نازل ہوئیں، ہم کس حد تک سچائی کے قریب گئے ہیں اصل تو یہ نشان ہے مباہلے کی کامیابی کا.تو یہ میں مختصر روشنی ڈالوں گا پھر تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ اگر موقع ملا تو جلسہ سالانہ پر بھی گفتگو ہو جائے گی لیکن بہر حال آئندہ خطبہ میں میں یہ بیان کرنے لگا ہوں.جو بات میں آج کہنا چاہتا ہوں اس سے متعلق وہ یہ ہے کہ ان آئندہ چند دنوں میں مخالفین علماء کی طرف سے شدید بے چینی کا اظہار ہوگا.شدید بے اطمینانی کا اظہار ہوگا کیونکہ وہ یہ سمجھیں گے که سال گزر چکا اب چند دن رہ گئے ہیں خدا تعالیٰ نے تو ان لوگوں پر کوئی لعنت نہیں ڈالی.بلکہ یہ ترقی کرتے چلے گئے ہیں.اسی مباہلے کے سال میں ان کا صد سالہ جو بلی کا سال آ گیا، ساری دنیا میں ترقی ہوئی ، بے شمار خدمات کی توفیق ملی عظیم الشان خدا تعالیٰ نے ان پر رحمتیں نازل فرما ئیں اور جس

Page 383

خطبات طاہر جلد ۸ 378 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء چیز کے ہم منتظر تھے وہ ہمیں نہ دکھایا.تو اگر خدا ہی غیرت نہیں رکھتا اُن کے نزدیک نعوذ بالله من ذالک.اگر خدا ہی سچائی کے لئے غیرت نہیں رکھتا تو پھر ہم ہی غیرت دکھا ئیں پھر.تو کیوں نہ ہم اپنے ہاتھ میں لیں اس نظام کو اور ان کو تکلیفیں پہنچائیں.یہی وہ جذبہ تھا جس کے نتیجے میں ننکانہ صاحب والا دردناک واقعہ ہوا اور اسی آگ میں جلتے ہوئے انہوں نے ایک اور منصوبہ بنایا تھا کہ ۲۵ جون کو دوبارہ سارے پاکستان میں صرف ایک دو قصبوں میں نہیں احمدیوں کے گھر جلانے، اموال لوٹنے اور ان کے خلاف عام فساد برپا کرنے کی کوشش کی جائے گی.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے ایسے انتظام رکھتے ہیں کہ ہر قسم کے ان کے منصوبوں کی اطلاع ملتی رہتی ہے.اب ان کا ایک یہ منصوبہ ہے کہ 9 تاریخ یا ۱۰ تاریخ کو ، ۹ کو جمعہ ہے ہوسکتا ہے 9 کو شروع کریں اور ۱۰ چونکہ وہ دن یاد کرواتا ہے مباہلے کا دن.یعنی ۱۰ تاریخ وہ دن یاد کرواتی ہے اس لئے بعضوں کا خیال ہے.اکو ہی چنیں گے.ایک دفعہ پھر یہ اپنی یہ رذیل کوشش کریں گے کہ جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچا ئیں ، فسادات کریں اور اس طرح گویا کہ خدائی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا کو یہ دکھا ئیں کہ دیکھو مباہلہ جماعت کو کتنا مہنگا پڑا ہے اور کتنا نقصان دہ ثابت ہوا.جہاں تک ان کی اس خواہش کا تعلق ہے یہ خواہش تو لازماً جھوٹی نکلے گی.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جو ترقی دینے کے فیصلے کئے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے جماعت پر فضل نازل فرمانے کے فیصلے کئے ہیں ان کی راہ میں تو کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا.کوئی دنیا کی طاقت روک نہیں بن سکتی.یہ آسمان کی بارشیں ہیں جو چھتریوں سے رکا نہیں کرتیں.چھتوں سے بھی نہیں رکا کرتیں.ساری کائنات سے جب ساری زمین پر خدا کی بارشیں نازل ہو رہی ہوں کون ہے جو عمارتیں کھڑی کر کر کے یا چھتریاں تان کر یا سائبان لگا کر اس بارش کی رحمت کو روک سکے اور خدا کے غضب کی بجلیاں بھی جب کڑکیں تو ان کو بھی دنیا کی کوئی طاقت روکا نہیں کرتی نہ روک سکتی ہیں.ہاں انسان کے غضب کی بجلیوں کی راہ میں خدا کی تقدیریں ضرور حائل ہو جایا کرتی ہیں اور اپنے پاک بندوں کو ان سے بچالیا کرتی ہیں.اس لئے ہمارا توکل خالصہ اللہ پر ہے.اس عرصے میں دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ نے جہاں ہم پر بے انتہاء احسانات فرمائے ہیں اور سارے عالم میں رحمتوں کی بارشیں نازل فرما رہا ہے وہاں ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بھی ان دشمنوں کے شر اور شرارت اور ان کے غضب کی بجلیوں سے بچائے اور یہ دعا کریں

Page 384

خطبات طاہر جلد ۸ 379 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء کہ ان کو خدا اتنی عقل دے کہ یہ خدا کے غضب کی بجلیوں سے بچ سکیں ور نہ جتنا یہ غصہ دکھا ئیں گے اتنا ہی خدا اور زیادہ ان پر غضبناک ہوگا اور زیادہ ان کو اپنی قہری تجلیوں کا نشانہ بنائے گا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی دنیا میں تبدیل نہیں کر سکتا.جب احمدی پر ظلم ہوتا ہے مجھے ان کی تکلیف ہوتی ہے، ان کے تصور سے تکلیف ہوتی ہے کہ انہوں نے خدا کے غضب کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے لئے بلایا ہے خود اور جب خود خدا کے غضب کو کوئی قوم بلاوے دینے لگے تو پھر بسا اوقات وہ غضب نازل ہوتا ہے.خدا غضب میں دھیما ضرور ہے لیکن اس قسم کے باغیانہ رویے کو کبھی قبول نہیں کیا کرتا اور ایسے باغیانہ رویے کی خطرناک سزائیں دیتا ہے جو قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا کرتی ہیں.اسی لئے مجھے تو اس بات کا ڈر ہے.بہر حال آپ دعائیں کریں اور جہاں تک پاکستان کے احمدیوں کا تعلق ہے میں ان کو متوجہ کرتا ہوں جس حد تک ان کو توفیق ہے وہ اپنے دفاع اور اپنی حفاظت کے انتظامات کریں اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے وہ ان کے فتنے سے بچنے کے لئے پوری طرح مستعد ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ان کو اپنی امان میں رکھے کیونکہ انسانی دفاع کی کوششیں خصوصاً کمزور لوگوں کی دفاعی کوششیں جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.پس وہ دعا ئیں بھی کر رہے ہیں اور ظاہری کوششیں بھی اختیار کریں گے.آپ خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کے ذریعے اپنے ان بھائیوں کی مدد کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ان حالات کو تبدیل کر دے اور دن بدن روشنی بڑھنی شروع ہو اور اندھیرے پیچھے ہٹنے شروع ہو جا ئیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ میں نے خطبے میں ۲۵ مئی کہنا تھا ۲۵ / جون کہہ دیا غلطی سے.منصوبہ ۲۵ رمئی کا تھا اور اب وہ ملتوی کر کے انہوں نے ۹ یا ۰ ارجون پر ڈال دیا ہے.بہر حال اصل ہمارا مولیٰ نگران خدا ہے.یہ بات میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بار بار یہ مضمون فرماتا ہے کہ وہ لوگ مکر کرتے ہیں، وہ لوگ تدبیر کرتے ہیں لیکن اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے، اللہ بہترین مکر کرنے والا ہے.اس لئے آپ یہ خیال نہ کریں کہ خدا آپ کو چھوڑ دے گا.ہمارے تصور بھی ان باتوں تک نہیں پہنچ سکتے جو خدا کی تقدیر ہمارے لئے کر رہی ہے.حیرت انگیز انتظام کر رہی ہوتی ہے اچانک یہ کچھ اور سوچ کر اٹھتے ہیں اور کوئی اور آفت پڑ جاتی ہے جو ان کی توجہ کو

Page 385

خطبات طاہر جلد ۸ 380 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء کھینچ لیتی ہے.کہیں احمدیت کے خلاف فساد کرتے کرتے آپس میں فسادات میں مبتلاء ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے منصوبے چل رہے ہیں اور اس کا مکر یعنی خدا کا مکر جیسا کہ قرآن کریم میں لکھا ہے وه خَيْرُ الْمُكِرِينَ (آل عمران : ۵۵) ہے وہ لازماً غالب آنے والا مکر ہے.اس لئے اصل انحصار دعاؤں پر ہے.اگر ہم دعائیں کریں گے تو آپ یا درکھیں کہ خدا تعالیٰ ان کی تدبیریں ان پر الٹ دے گا اور ان کی تدبیریں خدا کی تقدیر پر غالب نہیں آسکتیں.ایک اور دعا کی تحریک میں بھول گیا تھا وہ بھی خطبہ ثانیہ سے پہلے کر دیتا ہوں.وہ سیرالیون کے لئے خصوصیت سے دعا کی تحریک ہے.وہاں کے صدر محترم جو بہت نیک دل انسان ہیں ، خدا کا خوف رکھنے والے اور خدا پر ایمان رکھنے والے ہیں.انہوں نے عام سیاسی دستور سے ہٹ کر اپنے ملک کی اقتصادی بدحالی سے تنگ آ کر اب یہ تحریک کی ہے کہ آئمہ مساجد اور دیگر مذہبی لوگ سیرالیون کے لئے دعا مانگیں اور دعاؤں کے ذریعے ہماری مدد کریں کیونکہ ہم جو کوششیں کر سکتے تھے کر رہے ہیں، کر چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا اور دن بدن ہم زیادہ سے زیادہ مفلوک الحال ہوتے چلے جارہے ہیں اور اقتصادی حالت ہمارے دائرہ اختیار سے نکل چکی ہے ہم سنبھال نہیں سکتے اس کو.چونکہ جماعت احمدیہ کے امام کو بھی ان کی طرف سے خصوصی پیغام پہنچا اور وہاں کے جو ہمارے امام ہیں اور وزیر مذہبی امور نے ان کو پریذیڈنٹ کی یہ خواہش پہنچائی کہ تمام احمدی مساجد میں دعا کا اعلان کروایا جائے.اس سے مجھے خیال آیا کہ تمام دنیا کی جماعتوں کو ان کے لئے دعا کی تحریک کروں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ان کے حالات درست کرے اور جو بھی مخفی محرکات ہیں جو دن بدن ان کی اقتصادی حالت کو گراتے چلے جارہے ہیں ان پر خدا کا اختیار ہے، بندے کا اختیار نہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ حالات بدل دے اور ان کو سکون اور امن کے دن نصیب ہوں.بہت دردناک حالت ہے.یہاں تک کہ بعض غریب استاد جن کو پہلے ہی بہت معمولی گزارے ملتے تھے ان کو چھ چھ مہینے تک کی حکومت تنخواہیں بھی نہیں دے سکی.ایک ایسے ہی استاد نے تمام دنیا میں چٹھیاں لکھنی شروع کر دیں کہ ہم مر گئے بھوک سے کچھ کرو ہمارے لئے اور بے بسی کا عالم ہے، بالکل بے اختیاری ہے.اس لئے خصوصیت سے آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس دعا کے نتیجے میں وہاں حالات کو تبدیل فرمادے، ایک نہایت عمدہ پاکیزہ انقلاب بر پا ہو جائے.اس سے پہلے ہم ایک

Page 386

خطبات طاہر جلد ۸ 381 خطبہ جمعہ ۲ / جون ۱۹۸۹ء تجربہ کر چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں خدا کے فضل سے غیر معمولی کامیابی بھی ہمیں نصیب ہو چکی ہے.غانا کے متعلق آپ کو یاد ہوگا کہ ایک وقت تھا جب قحط عام ہوتا چلا جارہا تھا، خشک سالی تھی، بارشوں کے کوئی آثار نہیں تھے ، دن بدن لوگ بھوک کا شکار ہورہے تھے اور خیال تھا کہ جس طرح سوڈان کے بعض حصوں میں یعنی ابی سینیا وغیرہ میں نہایت خوفناک قحط پھیلے ہیں وہاں بھی قحط پھیل جائے گا.قحط تو پھیلا ہوا تھا اور بڑھ جائے گا.اس وقت وہاں کے امیر نے مجھے خاص طور پر دعا کی تحریک کی اور میں نے خطبے میں ربوہ میں غانا کے لئے خصوصیت سے دعا کی تحریک کی اور عجیب بات ہے کہ اس کے قریباً ہفتہ یا دس دن کے بعد مجھے خط ملا امیر صاحب کا کہ جہاں تک موسموں کے پنڈتوں کا تعلق ہے انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بارش کے آثار نہیں ہیں بلکہ سارا سال خشک سالی کا سال گزرے گا لیکن جس وقت آپ وہاں خطبہ دے رہے تھے اس وقت اچانک بادل اُٹھے ہیں اور اس زور سے بارش ہوئی تھی کہ جل تھل ہو گیا اس بارش سے اور اس دن کے بعد سے غانا کے حالات تبدیل ہونا شروع ہو گئے.تو ہمارا خدا قادر مطلق خدا ہے.اسی طرح وہ اپنے وجود کا ثبوت عطا فرماتا ہے.پس آپ اگر سنجیدگی سے دعائیں کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالی سیرالیون کے حالات بھی تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے.

Page 387

Page 388

خطبات طاہر جلد ۸ 383 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء مباہلہ کا سال مکمل ہونے پر احمدیت کی کامیابی اور ظاہر ہونے والے عظیم نشانوں کا ذکر نیز منظور چنیوٹی کی ذلت اور رسوائی کی پیشگوئی ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ جون ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.آج سے ایک سال پہلے ۱۰ رجون ۱۹۸۸ء کو جماعت احمد یہ عالمگیر کی نمائندگی میں جو مباہلے کا چیلنج میں نے دشمنان احمدیت کے سربراہوں اور مکفرین اور مکذین کے امراء کو دیا تھا اس پر آج ایک سال گزرتا ہے.اس دوران میں جو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نشانات ظاہر ہوئے ان میں سے چند کا تذکرہ آج میں کروں گا لیکن اس سے پہلے کچھ وضاحتیں کرنی ضروری سمجھتا ہوں.مباہلے کی تاریخ کا آغاز ۱۰ جون سے ہوتا ہے اور ۹ / جون کو ایک سال یعنی آج وہ سال پورا ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ مباہلے اس دوران پیدا ہوئے ہیں.چونکہ ایک سال کی مدت میں نے نئے مکذبین ، مفکرین کے امراء کو دے رکھی تھی اس لئے اس سال کے دوران ہی جب انہوں نے قبول کرنے کا اقرار کیا تو میں نے اسے تسلیم کر لیا اس لئے جہاں تک احمدیہ جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے چیلنج دینے کا تعلق ہے ہمارا یہ سال آج پورا ہو رہا ہے.جہاں تک دشمنان احمدیت کے اس چیلنج کو قبول کرنے کا تعلق ہے بعض نے عمومی طور پر اسی وقت قبول کیا اور

Page 389

خطبات طاہر جلد ۸ 384 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء اخبارات میں اس کا اظہار کیا لیکن ساتھ شرطیں ایسی لگائیں جن کے نتیجے میں ان کے لئے فرار کی راہ کھلی تھی اور یہ کہنے کا موقع باقی تھا کہ ہم نے تو یہ کہا تھا کہ فلاں جگہ پہنچو تو مباہلہ ہوگا اور فلاں جگہ پہنچو تو نہیں ہوگا.اُن مباہلوں کو میں مباہلوں میں شمار نہیں کرتا لیکن اس کے علاوہ جن لوگوں نے مثلاً انگلستان کے بعض علماء نے مشارکت زمانی کہہ کر یعنی یہ کہہ کر کہ اگر چہ ایک جگہ ہم اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن زمانے میں مشترک ہو سکتے ہیں اس لئے فلاں تاریخ کو آپ بھی دعائیں کریں، ہم بھی دعائیں کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہ مباہلہ ہو جائے گا.تو اس کو میں مباہلہ تسلیم کرتا ہوں ان معنوں میں کہ دونوں طرف سے برابر کا مباہلہ ہے اور دونوں کی طرف سے خوب وضاحت کے بعد اس ذمہ داری کو قبول کر لیا گیا ہے.اسی طرح ہندوستان میں ابھی چند دن پہلے ایک مباہلہ میری اجازت سے ہوا اور وہ بھی چونکہ اس سال کے اندر ہوا اس لئے اسے بھی بطور مباہلہ کے ہم تسلیم کر چکے ہیں اور بعد کے آنے والے حالات کا انشاء اللہ تعالیٰ جائزہ لیں گے.اس دوران بعض انفرادی واقعات بھی ہوئے ہیں جن کا جماعت کی طرف سے اجتماعی مباہلے سے تعلق نہیں تھا لیکن اس مباہلے کے سائے میں اس سے جرات اور حوصلہ پا کر بعض احمد یوں نے انفرادی طور پر بعض دوسرے غیر احمدی مخالفین کو انفرادی طور پر چیلنج دیا اور وہ انہوں نے قبول کیا.اس کی تاریخ بھی ہم باقاعدہ منضبط کر رہے ہیں، محفوظ کر رہے ہیں اور بہت سے ایسے نشانات ظاہر ہو چکے ہیں جو حیرت انگیز ہیں، کچھ اور انشاء اللہ ہوں گے پھر اس بارے میں بھی میں علیحدہ بعد ازاں کسی وقت جماعت کو مطلع کروں گا.آج جو گفتگو کر رہا ہوں اس کا اس سال کے عمومی حالات سے تعلق ہے اور مباہلے کی دعا سے تعلق ہے.مباہلے کی دعا میں میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس عرصے میں کوئی احمدی نہیں مرے گا اور سارے دشمنان احمدیت مر جائیں گے.ایسی لغو بات میں کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ خدا کی تقدیر میں دخل دینے والی بات ہے اور مباہلے کے مضمون کو حد سے آگے بڑھانے والی بات ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی دشمن کی موت کی معین خبر دے.مباہلے کو معین کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے.اس لئے جیسے کہ میں آپ کے سامنے اب عبارت پڑھ کے سناؤں گا آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جو دعا میں نے تجویز کی تھی اور جس کو لحوظ رکھ کر دشمنوں نے

Page 390

خطبات طاہر جلد ۸ مباہلے کوقبول کیا ہے وہ دعا یہ تھی: 385 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء ”اے قادر و توانا عالم الغیب والشہادۃ خدا! ہم تیری جبروت اور تیری عظمت، تیرے وقار اور تیرے جلال کی قسم کھا کر اور تیری غیرت کو اُبھارتے ہوئے تجھ سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو فریق بھی ان دعاوی میں سچا ہے جن کا اوپر ذکر گزر چکا ہے اس پر دونوں جہان کی رحمتیں نازل فرما، اس کی ساری مصیبتیں دور کر، اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے، اس کو برکت پر برکت دے اور اس کے معاشرہ سے ہر فساد اور ہر شر کو دور کر دے اور اس کی طرف منسوب ہونے والے ہر بڑے اور چھوٹے مرد و عورت کو نیک چلنی اور پاکبازی عطا کر اور سچا تقویٰ نصیب فرما اور دن بدن اس سے اپنی قربت اور پیار کے نشان پہلے سے بڑھ کر ظاہر فرما تا کہ دنیا خوب دیکھ لے کہ تو اُن کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور ان کی پشت پناہی میں کھڑا ہے اور ان کے اعمال ، ان کی خصلتوں اور اُٹھنے اور بیٹھنے اور اسلوب زندگی سے خوب اچھی طرح جان لے کہ یہ خدا والوں کی جماعت ہے اور خدا کے دشمنوں اور شیطانوں کی جماعت نہیں ہے.اور اے خدا! تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر ایک سال کے اندر اپنا غضب نازل فرما اور اسے ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کی نشانی بنا اور اس طور سے ان کو اپنے عذاب کی چکی میں پیس اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ یہ سب عجائب کام دکھلا رہا ہے.اس رنگ میں اس جھوٹے گروہ کو سزا دے کہ اس سزا میں مباہلہ میں شریک کسی فریق کے مکر وفریب کے ہاتھ کا کوئی بھی دخل نہ ہو اور وہ محض تیرے غضب اور تیری عقوبت کی جلوہ گری ہو ، تا کہ سچے اور جھوٹے

Page 391

خطبات طاہر جلد ۸ 386 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ظالم اور مظلوم کی راہیں جُد اجد ا کر کے دکھائی جائیں اور ہر وہ شخص جو تقویٰ کا بیج اپنے سینے میں رکھتا ہے اور ہر وہ آنکھ جو اخلاص کے ساتھ حق کی متلاشی ہے اس پر معاملہ مشتبہ نہ رہے اور ہر اہل بصیرت پر خوب کھل جائے کہ سچائی کس کے ساتھ ہے اور حق کس کی حمایت میں کھڑا ہے.(آمین یا رب العالمین ) (مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج صفحہ ۱۵،۱۴) اس ضمن میں مزید بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ دعا میں انسان کبھی کوئی کمی نہیں رکھتا اور دعا مانگتے ہوئے خدا تعالیٰ پر حدیں قائم نہیں کیا کرتا.اسی لئے جب میں یہ دعا تحریر کر رہا تھا تو با وجود اس کے کہ میرا ذہن بار بار اس طرف گیا کہ ایسی دعا مانگنا کہ ہر احمدی کے ساتھ یہ سلوک ہو، ہر احمدی بچہ ، بوڑھا، جوان نیک ہو جائے اور تمام مصیبتیں دور ہو جائیں یہ میں اپنے آپ کو باندھ رہا ہوں اور دشمن کو اعتراض کا موقع مہیا کر رہا ہوں اور خدا کی تقدیر کو بظاہر گویا مجبور کر رہا ہوں کہ وہ ہم سے ایسا سلوک کرے جو اس سے پہلے کبھی دنیا میں کسی سے سلوک نہیں ہوا.اس کے باوجود میں نے یہ عبارت تحریر کی.اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے مجھ پر یہ بات روشن تھی کہ انبیاء نے دعاؤں میں کنجوسی نہیں کی اور کمی نہیں کی اور خدا نے قبولیت کے وقت اپنی قدرت کا نشان دکھایا ہے، اپنی مالکیت کا ثبوت دیا ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دیکھیں اور خصوصیت سے وہی دعا میرے پیش نظر تھی کہ اپنی اولاد کے لئے قیامت تک کے لئے یہ دعا کی کہ وہ سارے نیک اور پارسا ہوں کوئی بھی ان میں بد نہ نکلے اور پھر ان کو آئمہ بنا اور پھر ان کے ساتھ یہ سلوک فرما.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا لَا يَنالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ (البقرہ: ۱۲۵) اے ابراہیم تو مجھے بہت پیارا سہی ، ساری کائنات کا آج تو خلاصہ ہے اور یہ فقرہ میں نہیں کہہ رہا خدا تعالیٰ نے آپ کو امت کہہ کر یہی بیان فرمایا کہ تو ایک ہوتے ہوئے امت ہے.یعنی اس وقت ساری کائنات کا خلاصہ تو ہے.پھر بھی میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا.چنانچہ اسی لئے میں جماعت کو اس سال کے دوران اس دعا کے باوجود یہ نصیحت کرتا رہا کہ ہوش سے قدم اٹھائیں.اگر اس سال میں انہوں نے اپنی برائیاں دور کرنے کی کوشش نہ کی اور بدیوں پر قائم

Page 392

خطبات طاہر جلد ۸ 387 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء رہے تو خدا کی تقدیر ان کو معاف نہیں کرے گی.اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں، چونکہ مباہلے کی دعاسب پر حاوی دکھائی دیتی ہے اس لئے وہ جو چاہیں کریں اُن سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی.یہ وجہ تھی جو میں نے دعا میں بظاہر اپنے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی.کیونکہ میرا تو کل خدا پر تھا اور دعا خدا سے مانگ رہا تھا اور سنت انبیاء مجھے یہی دکھا رہی تھی کہ دُعا میں کامل ہو جاؤ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل جتنا بھی نازل ہو اس کو خوشی سے قبول کرو اور تسلیم رضا کے ساتھ اس پر راضی ہو جاؤ.پس یہ ہے اس کا پس منظر لیکن جہاں تک حالات کے فرق ہونے کا تعلق ہے.حالات کے جدا جدا ہونے کا تعلق ہے یا جدا جدا کر دکھانے کا تعلق ہے، یہ ایسا مضمون ہے جس میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رکھا کرتا اور کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، اتنی برکتیں نازل ہوئی ہیں اس دور میں کہ دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں احمدیوں کو نمایاں طور پر یہ احساس نہیں ہوا کہ ہاں ہم ایک نئے وجود کے طور پر ابھر رہے ہیں اور جہاں غیروں نے ان کے ساتھ پہلے سے بہت بڑھ کر محبت اور تعظیم کا سلوک نہیں کیا اور وہ ممالک جہاں ان کو پوچھتا بھی کوئی نہیں تھا، وہاں بڑے بڑے لوگوں کی ، اخبارات کی، ٹیلی ویژنز کی ، ریڈیوز کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی اور حالات پلٹ گئے.ابھی کل ہی کی بات ہے مشرقی افریقہ سے ایک دوست تشریف لائے جو آج خطبے میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں قریشی عبدالمنان صاحب وہ اخبارات کے تراشے لائے اور کچھ اصل اخبارات لائے اور مجھے بتایا کہ ہمارے آنے سے قبل یعنی اسی سال جواس ملک کے حالات تھے ، جو احمدیوں کی وہاں عزت تھی یا احمدیوں سے تعارف تھا لوگوں کو کہتے ہیں اس کا حال آپ نے خود دیکھ لیا تھا ایک مجلس میں جب ایک بہت ہی معزز اور معروف جج نے منصف نے آپ کو یہ کہا کہ میں نے تو پہلے احمدیت کا کوئی ذکر نہیں سنا اور آج یہ حال ہے کہ ملک کا بچہ بچہ احمد یت کو جانتا ہے.اخبارات میں تشہیر ہوئی اور ایسی زبر دست اتنی خوبصورت.حضرت مسیح موعود علیہ ا والسلام کی تصاویر خلفاء کی تصاویر نہایت ہی عمدہ رنگ میں دے کر اور بہت بڑے بڑے پوسٹرز کی صورت میں اخبارات میں احمدیت کے متعلق یہ اعلانات شائع ہوئے اور پھر ریڈیو نے بھی وہ باتیں سنائیں دنیا کو اور ٹیلی ویژن نے بھی بلکہ پورا پیغام جو میں نے دیا تھا وہ بھی پڑھ کے سنایا.تو یہ عجیب الصلوة اللہ کی شان ہے کہ مباہلے کا سال وہی مقرر فرمایا جو جماعت احمدیہ کا نئی صدی میں داخل ہونے کا سال

Page 393

خطبات طاہر جلد ۸ 388 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء تھا اور اس کے نتیجے میں محض تمام دنیا میں حیرت انگیز تائید کے کرشمے ہی نہیں دکھائے بلکہ اس کے نتیجے میں احمدیوں کو خاص طور پر اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ فرما دیا.کیونکہ یہ احساس صدی کے اختتام کے ساتھ ساتھ احمد یوں میں بڑھتا چلا گیا کہ ہم نے اگلی صدی میں اپنی پہلی برائیوں کے ساتھ داخل نہیں ہونا اور احمدی بڑوں نے بھی اور بچوں نے بھی نہ صرف کوششیں کیں بلکہ مجھے مسلسل دعا کے بھی خط لکھتے رہے کہ ہم نے فیصلے کئے ہیں جو بعض برائیاں ہیں ان کو لے کر ہم نے اگلی صدی میں سانس نہیں لینا.بعض ایسی برائیاں ہیں جو ہم پر قابض ہو چکی ہیں، ہماری زندگی کا ساتھ تھیں ان کو جدا کرنا آسان کام نہیں اس لئے ہم بھی دعا کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں ، آپ بھی دعائیں کریں.مجھے بار بار اس سے یہ محسوس ہوتا رہا کہ یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ اس نے مباہلے کی دعا ایسے سال میں کروائی جب کہ تمام حالات کا رُخ احمدیوں کی اصلاح کی جانب تھا اور وہ اس مباہلے کی کامیابی میں ممد ثابت ہوئے.چنانچہ اس سے پہلے سالوں کی آپ ڈاک کا مطالعہ کریں جو ربوہ جایا کرتے تھے باہر سے وہ ربوہ کے غم کا اظہار تو کیا کرتے تھے ، ان کی تکلیف کا بھی مگر یہ نہیں لکھا کرتے تھے کہ ہم نے ربوہ کی مساجد میں غیر معمولی رونق دیکھی لیکن اب جو بھی جاتا ہے واپس آ کر بتائے یا وہاں سے خط لکھے وہ یہ لکھتا ہے کہ سب سے زیادہ اثر طبیعت پر اس بات کا پڑتا ہے کہ ربوہ کی مساجد اتنا آباد ہیں ، ایسی پر رونق ہیں کہ ہم نے پہلے کبھی زندگی میں یہ نظارے نہیں دیکھے تھے.پس خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کے اندر غیر معمولی اصلاح کی توجہ پیدا ہوئی اور غیر معمولی اصلاح کی توفیق ملی.ابھی کچھ دن ہوئے انگلستان کی جماعت کے ہی ایک دوست مجھے ملنے آئے تو ان کو میں نے دیکھا کچھ پہلے سے موٹے ہوئے ہوئے تھے.میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا مجھے ساری زندگی سگریٹ پینے کی عادت تھی میں نے فیصلہ کیا کہ نئی صدی میں سگریٹوں کے ساتھ داخل نہیں ہونا.یہ تو میں چھوڑ بیٹھا ہوں اس لئے اس کے رد عمل کے طور پر مجھے کچھ موٹاپے کی طرف رجحان پیدا ہوا ہے لیکن اب میں آہستہ آہستہ اس کے اوپر قابو پا رہا ہوں.تو ہر شخص نے کچھ نہ کچھ سوچا ہوا تھا اور ہر شخص کو اپنی سوچ اور ہمت اور توفیق کے مطابق اللہ تعالیٰ اصلاح کی طاقت عطا فرما تارہا.پس آج ہم بالعموم تمام دنیا کی جماعتوں کی نمائندگی میں یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ مباہلے کے اس سال میں جماعت احمدیہ کے اکثر افراد کو اس توجہ اور غیر معمولی انہماک کے ساتھ اپنی برائیاں

Page 394

خطبات طاہر جلد ۸ 389 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء چھوڑنے اور نیکیاں اختیار کرنے کی توفیق ملی ہے کہ اس سے پہلے شاذ کے طور پر بھی کبھی ایسا واقعہ ہوا ہو.مختلف وقتوں میں خلفاء کی تحریک پر جماعتیں اصلاح کی طرف متوجہ ہوتی ہیں مگر ایک عالمگیر حیثیت سے کہ تمام دنیا میں ہر ملک میں ، ایک سو بیس ممالک میں یہ توجہ بڑی نمایاں شان کے ساتھ بیدار ہوئی ہو اور اس کا گہرا اثر دور دور تک مردوں ، عورتوں اور بچوں پر پڑا ہو.یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور خدا کی غیر معمولی توفیق کے بغیر ہو ناممکن نہیں ہے.میں نے کئی دفعہ ان علماء کو چیلنج کیا ہے کہ بھئی! اگر تم نیکی کے علمبردار ہو اور واقعی اسلام سے محبت رکھتے ہو تو ایک شہر کو چن لو پاکستان میں چنیوٹ لے لو، فیصل آباد لے لو اور ساری قوتیں وہاں مجتمع کر لو اور وہاں سے برائیاں دور کرنے کی کوشش کرو.یہ مقابلہ ہے، یہ مسابقت کی روح ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.پھر دیکھو کہ خدا تمہیں توفیق عطا فرماتا ہے یا ہمیں توفیق عطا فرماتا ہے.کہاں یہ کہ ساری دنیا میں ایک سو بیس ممالک میں پھیلی ہوئی ہزار ہا بلکہ لاکھوں بستیوں میں پھیلی ہوئی جماعت کو خدا تعالیٰ یہ توفیق بخشے کہ ہر جگہ خدا اصلاح کے کرشمے دکھائے، اصلاح کے معجزے دکھائے.پس خدا کا یہ بہت عظیم الشان احسان ہے مگر میں جماعت احمدیہ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اصل معجزہ اصلاح کا معجزہ ہی ہوا کرتا ہے.میں دوسری قسم کے معجزے کا بھی ذکر کروں گا لیکن آپ یاد رکھیں کہ سب سے بڑا معجزہ دنیا میں صداقت کے ثبوت کے لئے اصلاح کا معجزہ ہوا کرتا ہے.باقی ساری باتیں آنے جانے والی ہیں، باقی ساری باتیں وقت کے تماشے ہیں یا ایک وقت میں ایمان افروز باتیں ہی ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک وقتی ہے، ایک عارضی حیثیت ہے.وہ آتی ہیں دل پر نیک اثر چھوڑ کر چلی جایا کرتی ہیں لیکن نیکیوں کو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیشہ البقيتُ الصُّلِحُتُ (الکہف: ۴۷ ) کے طور پر پیش فرماتا ہے.جو نیکیاں آپ نے اختیار کر لیں وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے نہ صرف آپ کے وجود کو سنوار گئیں بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہونی شروع ہو جائیں گی اور اگر نسلاً بعد نسل کسی قوم کو نیکیاں اختیار کرنے کی توفیق ملے تو وہ عادتوں کا حصہ بن جایا کرتی ہیں اور پھر وہی ہیں جو Genetic Symbols میں منتقل ہو جاتی ہیں اور خدا نے جو نظام وراثت کا قانون بدن کے اندر جاری فرمایا ہے اس نظام وراثت کا حصہ بن جایا کرتی ہیں.اس لئے اس سال کی نیکیوں کو اس سال کے آخر پر بھلا نا نیکی نہیں ہے بلکہ سارے ماحصل کو

Page 395

خطبات طاہر جلد ۸ 390 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء ضائع کرنے والی بات ہے.آپ یہ کوشش کریں کہ ان نیکیوں کو جن کو آپ نے اختیار کیا ہے نہ صرف ان کو صبر کے ساتھ پکڑ کر بیٹھیں اور ہر گز ضائع نہ ہونے دیں بلکہ ان نیکیوں کا ایک اور فائدہ اٹھائیں کیونکہ کہا جاتا ہے اور تجربہ یہی ہے اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیکیاں دوسری نیکیوں کو پیدا بھی کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر بار ہا جماعت کو نصائح فرما ئیں اور الفضل میں عام طور پر جو آج کل اقتباسات شائع ہورہے ہیں ان میں بھی ایک اسی مضمون سے تعلق رکھنے والا بہت ہی عمدہ اقتباس شائع ہوا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متوجہ فرمایا کہ بدیاں بھی بدیاں پیدا کرتی ہیں، نیکیاں بھی نیکیاں پیدا کرتی ہیں.بہت کم بدیاں ہیں جو لا ولد ہوں اور بہت کم نیکیاں ہیں جو لا ولد ہوں.جس طرح انسانوں میں بعض بانجھ ہوتے ہیں اور بعض صاحب اولا داسی طرح نیکیوں کا حال ہے.بعض نیکیاں بڑی صاحب اولاد ہوتی ہیں اور بعض بدیاں بھی بڑی صاحب اولاد ہوتی ہیں اور اس کے برعکس بھی نظارے دیکھنے کو آتے ہیں.اس لئے اب آپ نیکیوں کو بڑھانے کی طرف متوجہ ہوں اور ان نیکیوں کی توفیق سے مزید توفیق خدا سے مانگیں کیونکہ اصلاح کا تو کوئی کنارہ نہیں ہے.یہ ایک ایسا نظام ہے جس کو ہم روز مرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں.مثلاً آپ نے دیکھا ہو گا ہمارے ملک میں قوموں کے ساتھ بعض مزاج منسلک کر دیئے گئے ہیں کہ یہ میراثی ہے اس میں مزاح ضرور ہوگا ، یہ فلاں قوم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس میں فلاں خصلت ہو گی.قومی طور پر اسلام کسی کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا لیکن بعض قومی عادات ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں کہ واقعہ ان میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے.کہتے ہیں ایک دفعہ ایک مسلمان بادشاہ کے ساتھ اس کے وزیر نے اسی مضمون پر گفتگو کی اور بادشاہ اس بات کا قائل نہیں تھا کہ خاندانوں کی بعض عادات ورثہ میں آجاتی ہیں اور وزیر اس بات کا قائل تھا کہ ہاں یہ مشاہدہ ہے اس سے انکار نہیں ہوسکتا.چنانچہ تجربے کے طور پر انہوں نے اس زمانے میں جو بھی حاضر جواب وہاں کی قوم تھی اور مزاح میں مشہور تھی ان کا ایک بچہ شروع ہی سے ماں باپ سے الگ کر دیا اور بالکل مختلف ماحول میں اس کی پرورش کی.جب وہ بڑا ہو گیا اور کچھ ہوش مند ہوا تو کھانے پر بیٹھے ہوئے سب کے سالن جو بھی پلیٹوں میں تھے ان پر پلیٹیں الٹا کر رکھی ہوئی تھیں تا کہ کوئی مکھی یا کوئی اور چیز نہ آ پڑے.اس کی پلیٹ میں ایک جوتی رکھ دی گئی.یہ دیکھنے کے لئے کہ اس کا رد عمل

Page 396

خطبات طاہر جلد ۸ 391 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء Spontaneous خود بخود بے اختیار کیا ہوتا ہے؟ کیا واقعی اس نے کچھ ورثے میں یہ حاضر جوابی پائی بھی ہے کہ نہیں.تو جب سب نے اپنی اپنی پلیٹیں الٹائیں اس نے دیکھا کہ پلیٹ میں جوتی ہے تو بے اختیار رو پڑا.انہوں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ کہتا ہے آپ دودو میرے لئے ایک.بڑا ظلم ہے یعنی تم دو دو جوتیاں کھاؤ اور میں ایک.تو یہ حاضر جوابی جو ہے وہ اس کے خون میں آچکی تھی.تو آپ کے خون میں نیکیاں آجانی چاہئیں.وہ نیکیاں جو ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے خاندانوں کا حصہ اور طرہ امتیاز بن جائیں.وہ احمدیت کا نشان بن جائیں اور امتیازی شان احمدیت ان نیکیوں کے ذریعے دنیا میں ظاہر ہونے لگے.یہی میری دعا تھی ، اس دعا کو خدا نے بڑی شان کے ساتھ، بڑے وسیع پیمانے پر قبول فرمایا ہے لیکن ابھی بہت سفر باقی ہے اور ابھی بہت سی کمزوریاں ایسی ہیں جنہیں ہمیں گرانا ہے اپنے وجود سے اور بہت سی نیکیاں ہیں جنہیں داخل کرنا ہے اور سینے کے ساتھ لگانا ہے اس لئے میں جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مباہلے کے سال کی برکتوں کو دائمی کرنے کی کوشش کریں.اس عرصے میں خصوصاً ان علاقوں میں جو ہماری مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں اور ان علماء کے دائروں میں جہاں احمدیت پر بے حد گندا چھالے گئے ، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب میں ہر حد اعتدال سے تجاوز کیا گیا اور انتہائی بے باکی سے آپ پر ناپاک حملے کئے گئے.اتنی بدیاں پھیلی ہیں اس عرصے میں، اتنی بدامنی ہوئی ہے، اتنے فساد بڑھے ہیں ،اس طرح گھر گھر کا، گلی گلی کا امن اُٹھ گیا ہے کہ جو پاکستان جاتا ہے وہ اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور خوفزدہ ہو کر واپس آتا ہے.بعض لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ جس پاکستان کو آپ چھوڑ کر آئے تھے اس کا خیال بھول جائیں.اب ایک اور جگہ ہے وہاں جہاں درندگی ہے، جہاں وحشت ہے، جہاں خود غرضی ہے، جہاں مستقبل پر اعتماد اُٹھ چکا ہے اور اخبارات میں ایسے روز مرہ واقعات چھپتے رہتے ہیں جن کو پڑھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ وہ ملک جو ساری دنیا میں اپنے اسلام کا ڈنکا بجارہے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ ہم اسلام کے مجاہد ہیں، ہم اسلام سے محبت کرنے والے ہیں وہاں اس قسم کی بدیاں اس کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہوں.ڈرگز ہیں تو وہ ہاتھ سے بے قابو ہوتی جارہی ہیں اور دوسری بدیاں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ خبر بھی شائع ہوئی اخبارات میں جس کی کوئی تردید

Page 397

خطبات طاہر جلد ۸ 392 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء شائع نہیں ہوئی کہ ستائیسویں رات رمضان المبارک کو انڈین ایمبیسی کی دعوت پر بہت سے پاکستانی عمائدین تشریف لے گئے اور ساری رات شراب پیتے گزاری.یہاں تک کہ بعض کو جس طرح لاشوں کو اُٹھا کر ڈھیریوں کے طور پر منتقل کیا جاتا ہے اس طرح اٹھا اٹھا کر ان کی ڈھیریاں موٹروں میں ڈالی گئیں.ان میں یہ بھی طاقت نہیں تھی کہ وہ خود ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ ہی اپنی موٹر تک پہنچ سکیں لیکن صرف یہی نہیں بے انتہا دردناک حالات ہیں.ان کی تفصیل میں بیان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ دکھ کی باتیں ہیں اور اس ضمن میں میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ جو دعا تھی اس میں فرق ظاہر کرنے کے لئے مجبوراً یہ بددعا بھی دینی پڑی مگر خدا گواہ ہے کہ ہمیں اس میں کوئی خوشی نہیں ہے.صرف ایک تفریق کی خاطر ، ایک امتیاز کی خاطر ، دشمن کے دکھوں سے تنگ آ کر بعض دفعہ انسان ایسی بات کر دیتا ہے.جب میں نے دوبارہ اس کو پڑھا تو ہمیشہ مجھے تکلف ہوئی اور بعض دفعہ میں نے کہا کاش یہ میں نے نہ کہا ہوتا صرف یک طرفہ بات ہی کہہ دیتا.اس لئے اس پر آپ خوش نہ ہوں ورنہ یہ خوشی آپ کے دلوں کو زنگ لگائے گی.امت مصطفی ملالہ میں برائیاں کسی رنگ میں بھی بڑھیں وہ ہمارے لئے دکھ کا موجب ہونی چاہئے ، ہمارے لئے تکلیف کا موجب ہونی چاہئیں.اس کے ذمہ دار یہ علماء ہوں یا دیگر محرکات یا واقعات ہوں لیکن ایک بچے اسلام سے محبت کرنے والے کے لئے اس میں خوشی کا کوئی مقام نہیں ہے.ہاں استغفار کا مقام ہے.پس جہاں تک خدا کی تقدیر کا تعلق ہے اس نے بڑے وسیع پیمانے پر اس معاملے کو کھول کر رکھ دیا ہے لیکن اس کے علاوہ بعض انفرادی نشانات بھی ظاہر ہوئے ہیں اور وہ ایسے نشانات ہیں جن کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ بعض لوگ ان وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے نشانات کے مطالعہ کی بصیرت نہیں رکھتے.ان کی نظر میں یہ توفیق نہیں ہوتی ، نگاہیں محدود ہوتی ہیں.یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اس عالمی حیثیت سے ان نشانات کا مطالعہ کریں اور موازنہ کریں اور اس طرح صداقت اور جھوٹ میں تفریق کر کے دیکھ سکیں.پس ان کے لئے پھر خدا تعالیٰ بعض نشانات کی انفرادی چوٹیاں قائم کرتا ہے.ایسے لوگ جن پر ان کی نظر ہوتی ہے ان کے ساتھ خاص سلوک کرتا ہے اور وہ سلوک دیکھ کر پھر بعض دفعہ وہ عبرت کا نشان بنتے ہیں، بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جاتے ہیں کہ اس طرح خدا تعالیٰ کی برکتیں

Page 398

خطبات طاہر جلد ۸ عطا کی جاتی ہیں.393 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء اس پہلو سے سب سے زیادہ اہم ذکر ضیاء الحق صاحب سابق صدر پاکستان اور سابق ڈکٹیٹر پاکستان کا ہے.اس کی تفاصیل میں اب دوبارہ جانا مناسب نہیں لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ مباہلے کا چیلنج جو دراصل جس کا آغا ز رمضان مبارک ۱۹۸۸ء مئی میں ہوا تھا غالبا ۴ ارمئی یا کے ارمئی کو یہ پہلی دفعہ درس میں میں نے اس کا ذکر کیا تھا لیکن چیلنج با قاعدہ ۱۰ جون کے خطبے میں یعنی بروز جمعہ دیا گیا.اس کے بعد بار بار مرحوم صدر کو یہ توجہ دلائی جاتی رہی کہ آپ اگر چیلنج قبول کرنے میں سیکی محسوس کرتے ہیں، کسی قسم کی خفت محسوس کرتے ہیں اس خیال سے کہ آپ بہت بڑے آدمی ہیں اور میں بالکل بے حیثیت اور چھوٹا انسان ہوں یا جماعت کی آپ کی نظر میں کوئی بھی قدرو قیمت نہیں ہے تو کم سے کم ظلم سے باز آجائیں.اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میری دعا یہ ہے کہ خدا کی نظر میں یہ مباہلہ قبول سمجھا جائے.یعنی خدا کی نظر میں آپ کی حیثیت مباہلہ قبول کرنے والے کی شمار ہو اور پھر خدا کا عذاب آپ پر نازل ہو.اس لئے میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں.ہاں اگر آپ ان چیزوں سے باز آجائیں تو آپ کا پیغام ہمیں یہی ہوگا کہ ہاں میں مباہلہ قبول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا یعنی مباہلہ قبول کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے میں اپنے ظلموں سے تو بہ کر رہا ہوں.ایسی صورت میں ہم یہ دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر فضل فرمائے ، آپ کو مزید ہدایت عطا کرے.نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس نصیحت پر عمل نہیں کیا بلکہ مخالفانہ عمل کیا اور شرارت میں بڑھنا شروع ہوئے.یہاں تک کہ مرنے سے چند دن پہلے ایک مبہم ساذ کر بھی کیا کہ میں عنقریب ایک خوشخبری اور سناؤں گا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا خباثت پنپ رہی تھی جس کو پایہ تکمیل پر پہنچنے سے پہلے ہی خدا نے نوچ کر پھینک دیا مگر بہر حال وہاں سے جو اطلاعات مل رہی تھیں اس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ جو انہوں نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے علماء کی کانفرنس بلائی تھی جس میں یہ وعدہ کیا تھا خوشخبری کا اس میں کچھ احمدیوں کے خلاف سازشیں ہوئی تھیں اور انہیں پھر مزید قوانین کی صورت میں ڈھال کر احمدیوں کا عرصہ حیات مزید تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا.یعنی گیارہ اور بارہ کی درمیانی رات.میں نے اس سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس خطبے میں میں یہ ذکر کروں گا کہ ضیاء الحق صاحب نے عملاً یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مباہلے کو تخفیف کی نظر سے دیکھتے ہیں ، حقارت سے دیکھ رہے ہیں اور چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مخالفانہ

Page 399

خطبات طاہر جلد ۸ 394 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء کوششوں میں بڑھ رہے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو لازماً بد انجام تک پہنچائے گا لیکن اسی رات یہ عجیب رویا میں نے دیکھی کہ وہ تفصیل آپ جانتے ہیں صرف خلاصہ اس کا یہ ہے کہ خدا کے غضب کی چکی جس طرح پہلے دشمنوں کو پیستی رہی ہے اس طرح لازما اب بھی چلے گی اور کوئی دنیا کی طاقت اس قانون کو روک نہیں سکتی.جو دشمنوں کے ساتھ خدا کے سلوک کی تاریخ آپ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں وہ آج بھی دہرائی جائے گی.چنانچہ اس رؤیا سے جرات پاتے ہوئے اور یقینی طور پر اس کی یہی تعبیر سمجھتے ہوئے کہ چونکہ ضیاء صاحب میرے ذہن میں تھے اور خطبے کا موضوع بننے والے تھے اس لئے ان کے متعلق ہی ہے میں نے کھل کر آپ کے سامنے ذکر کیا کہ اب خدا کی تقدیر سے یہ شخص بچ نہیں سکتا اور لازماً وہ جاری وہ ہو گی.چنانچہ دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز یہ نشان دکھایا.۱۲ اگست کا یہ خطبہ ہے اور سترہ تاریخ کو وہ ایک دھماکے کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے.بعد ازاں میں نے پرانے احمدیوں کی بھیجی ہوئی رؤیا کے رجسٹر کا مطالعہ کیا اور وہ مضمون بہت ہی دلچسپ ہے وہ انشاء اللہ بعد میں کسی وقت یا بیان کروں گا یا وہ شائع کر دیا جائے گا.حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اسی انجام کے متعلق پہلے ہی باخبر کر دیا تھا.ایک خاتون نے لکھا کہ میں نے دیکھا کہ ضیاء صاحب آسمان کی طرف اُٹھتے ہیں اور ایک غبارے کی طرح پھٹ کر تباہ ہو جاتے ہیں.اب ایک آدمی کے عام تصور میں یہ بات نہیں آتی کہ آسمان کی طرف اٹھے اور غبارے کی طرح پھٹ کر تباہ ہو جائے اور بالکل ایسا ہی واقعہ ہوا ہے.ایک شخص نے رویا میں دیکھا کہ شیخ مبارک احمد صاحب امریکہ والے جو آج کل امریکہ میں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ضیاء کا جہاز ہوا میں تباہ ہو جائے گا اور یہ ساری رؤیاء پہلے لکھ کر انہوں نے بھیجی ہوئی ہیں.ایک شخص نے لکھا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے واضح طور پر خبر دی جائے کہ ۱۹۸۸ء کا سال ضیاء کے انجام کا سال ہے.پس اور بھی اب میں مطالعہ کروا رہا ہوں رجسٹروں کا.ان کی تاریخیں خط کس تاریخ کو ملے کون کون صاحب ہیں ساری پتا جات کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے ازدیاد ایمان کے لئے اور دنیا کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنانے کی خاطر انشاء اللہ ان چیزوں کو شائع کر دیا جائے گا.اب میں ایک ایسے شخص کا ذکر کرتا ہوں جس کے انجام کی جماعت احمد یہ انگلستان گواہ ہے اور یہ بھی ایسا انجام ہے جو اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا گہرا مباہلے سے تعلق ہے.ضمنا میں

Page 400

خطبات طاہر جلد ۸ 395 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء آپ کو یہ بتا دوں کہ دنیا میں لوگ مرتے ہی رہتے ہیں، احمدی بھی فوت ہوئے اس عرصے میں، غیر احمدی بھی کثرت کے ساتھ فوت ہوئے.سینکڑوں احمدی ہوئے تو لکھوکھہا غیر احمدی بھی فوت ہوئے.نہ کبھی میں نے سوچا نہ آپ کو سوچنا چاہئے کہ مباہلے کے نتیجے میں لوگ مررہے ہیں.اس معاملے میں احتیاط ضروری ہے.خدا تعالیٰ کی تقدیر جتنا نشان دکھائے اُسی کو قبول کرنا چاہئے اور اپنی طرف سے نشان بنا بنا کر خدا کی طرف منسوب نہیں کرنے چاہئیں.یہ ایک بہت ہی جاہلانہ طریق ہے کہ ہم سوچ سوچ کے آپ ہی خدا نے نشان نہیں دیئے ہم بنالیتے ہیں.جس طرح مولویوں نے کیا کہ خدا نے ان کو نہیں مارا ہم مارتے ہیں.اس کو تو ہم ایک جہالت کے طور پر رڈ کرتے ہیں.نہایت ہی بیوقوفوں والا طریق ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرنی چاہئیں.اتنی بات کریں جس کے متعلق آپ کامل یقین کے ساتھ شواہد پر قائم ہوتے ہوئے دنیا کو بتاسکیں ، خود یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے.پس ان میں سے ایک میں نے چنا ہے بعض اور بھی ہیں جن کا ذکر بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ یا کیا جائے گا زبانی یا شائع کیا جائے گا.ایک مولوی محمود احمد صاحب میر پوری یہاں ہوا کرتے تھے.سیکرٹری جنرل اسلامک شریعت کونسل برطانیہ، ناظم اعلی مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ، ایڈیٹر صراط مستقیم برمنگھم برطانیہ.مباہلے کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے یہ اعلان شائع کیا کہ مباہلہ تو یونہی فضول بات ہے لوگ مر بھی جاتے ہیں خوامخواہ پھر احمدیوں کو عادت پڑتی ہے بتانے کی کہ یہ اس کی وجہ سے مر گیا.ضیاء بھی اسی طرح اتفاقاً مرا ہے اور دیکھ لو احمدیوں نے کیا کہنا شروع کر دیا ہے.اس لئے یہ لغو بات ہے اور پھر یہ بھی کہا کہ مباہلہ کے چیلنج دینا تو صرف نبیوں کا کام ہے اور مرزا طاہر احمد کا دعوی ہی نہیں نبوت کا اس لئے اس کو کیا حق ہے مباہلے کا چیلنج دینے کا.اس کے بعد یہ واقعہ ہوا جو بظاہر حیرت انگیز تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ خدا کی تقدیر ظاہر ہوئی ہے کہ ایک ایسا حادثہ ہوا جس کے متعلق سب کو تعجب ہے کہ حادثہ ہونا چاہئے ہی نہیں تھا.اس کی تفاصیل اخبارات میں بڑی درد ناک چھپی اور جب ان کی لاش گھر لائی گئی اور ان کے ساتھ ان کے عزیزوں کی ساس کی اور بچے وغیرہ کی تو جس جگہ وہ لاش رکھی گئی تھی وہ صحن ہی گر کر نیچے گر پڑا اور اس کے نتیجے میں پھر کثرت سے لوگ زخمی ہوئے ، واویلا پڑ گیا، کہرام مچ گیا.تو یہ واقعہ ایسا تھا جس سے مجھے خیال ہوا کہ اس کی تحقیق کروانی چاہئے کہ اگر ایک شخص

Page 401

خطبات طاہر جلد ۸ 396 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء مباہلے کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے تو اس کے اوپر خدا تعالیٰ کیوں ایسا ایکدم غضبناک ہوا.اس کے لئے کوئی وجہ ہونی چاہئے ، اس کی تحقیق ہونی چاہئے.چنانچہ جب میں نے تحقیق کی تو ایک حیرت انگیز بات یہ معلوم ہوئی کہ انہی مولوی صاحب نے ۷ / مارچ ۱۹۸۵ء کو مجھے چیلنج دیا تھا اور وہ چیلنج چھپا ہوا روز نامہ جنگ میں موجود ہے.وہی شخص جو کہتا ہے کہ نبوت کے دعوی کے سوا کوئی چیلنج دے ہی نہیں سکتا، وہی شخص جو کہتا ہے کہ یہ بہانہ خوریاں ہیں اور یہ کوئی نشان نہیں وہ اس سے پہلے مجھے چینج دے چکا تھا.پس جب میں نے وہ چیلنج دیا معا دونوں فریق میں مقبولیت ہوگئی اس کی.کیونکہ وہ پہلے ہی چیلنج دے چکا تھا اس میں ذکر کرتا ہے کہ جب وہ قبول کرے گا اسی وقت مباہلہ ہو جائے گا.پس یہ وجہ تھی ، خدا کی تقدیر یونہی بے وجہ کوئی کام نہیں کیا کرتی.اب میں اس پس منظر میں ان کا یہ چیلنج پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح خدا کی تقدیر بار یک نظر سے فیصلے فرماتی ہے.وہ لکھتے ہیں : میں مرزا طاہر احمد کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ اس بات پر مباہلہ کریں کہ مرزا غلام احمد سچا نبی تھا یا جھوٹا.ہمارا دعویٰ اور ایمان ہے کہ سرور دو عالم علی آخری نبی ہیں اُن کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا اور کذاب ہوگا.وہ حضرات جو بیچارے کسی لالچ وطمع کی بناء پر قادیانیت قبول کر لیتے ہیں انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے مرزا صاحب سامنے آ جائیں تا کہ ایک ہی بار فیصلہ ہو جائے.“ یہ ۷ / مارچ ۱۹۸۵ء کو ان کا چیلنج شائع ہوا ہوا تھا اور قطعاً میرے علم میں نہیں تھا لیکن جب میں نے تحقیق کروائی ، اس وجہ سے کروائی کہ یہ جس قسم کے واقعات ہیں یہ کوئی اتفاقی حادثات نظر ہی نہیں آتے.صاف پتا چل رہا ہے کہ مباہلے کا کوئی اثر ہے.تب پتا چلا کہ وہ اس بدبختی کی وجہ سے مارا گیا ہے.مجھے کہتا ہے کہ جماعت کو قربانی کا بکرا نہ بناؤ خود کیوں نہیں بنتے تا کہ ایک دفعہ قصہ پاک ہو جائے.پس خدا تعالیٰ نے اس کو قربانی کا بکرا بنادیا اور وہ قصہ ہمیشہ کے لئے پاک کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر اس کی یہ ہلاکت ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق بن کر ثبت ہو چکی ہے.کوئی طاقت اب دنیا میں نہیں جو اس صداقت کی گواہی کو مٹا سکے.

Page 402

خطبات طاہر جلد ۸ 397 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء جو دوسرے حوالے جن سے مجھے تعجب ہوا تھا جس میں اس نے انکار کیا ہوا ہے وہ ہیں صراط مستقیم برمنگھم جولائی ۱۹۸۸ء.اس میں لکھتا ہے: اس لئے اب مرزا طاہر احمد کو مرزا صاحب کی نمائندگی کرنے یا فریق بننے کی کوئی ضرورت نہیں.کیونکہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا وہ اپنے اعلان یا دعا کے انجام سے دوچار ہو چکا ہے.“ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب پر اس نے تلبیس کی تھی یعنی تضحیک کی خاطر حق کی تلبیس کی تھی حق کو چھپایا تھا اور پہلے خود پیلنج دے بیٹھا تھا اس لئے خدا کی سزا سے بیچ نہیں سکا.اس میں ایک بات اور لکھی جہاں تک مباہلہ کا تعلق ہے وہ تو نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہی دے سکتا ہے.گویا پہلا مباہلہ جب اس کا چیلنج دیا تھاوہ نبوت کا دعوی کر رہے تھے اس وقت اور جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والا ویسے ہی ہلاک ہو جایا کرتا ہے.۱۰ راکتو بر ۱۹۸۸ء کو اس کار کے حادثے کی خبر چھپی ہے واقعہ سیہ بھی ایک دردناک خبر ہے اس پر ہمیں خوشی نہیں ہے.پھر برمنگھم کے Daily News میں جو واقعہ شائع ہوا ہے غم زدہ بیوہ کو ایک اور حادثہ سے دو چار ہونا پڑا اور اس طرح سوگواروں کا ہجوم ( یہ انگریزی اخبار میں شائع ہوا اس کا ترجمہ کیا گیا ہے.ہجوم کا ہجوم تہہ خانے میں جاپڑا اور پھر اس سے بہت سے زخمی ہوئے قریباً پچیس کے قریب اور واویلا پڑ گیا.اس پر ہمیں کوئی خوشی نہیں، حقیقت ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ تکلیف دہ واقعہ ہے اور کسی کی تکلیف پر مومن خوش نہیں ہوا کرتا لیکن خدا کے نشان پر ضرور خوش ہوا کرتا ہے.اب میں آپ کے سامنے ایک دوسرے شخص کا ذکر کرتا ہوں جو دریدہ دینی میں آج اپنی مثال آپ ہے اور ان صاحب کا نام ہے منظور احمد چنیوٹی.انہوں نے ایک اعلان شائع کیا مباہلے کے جواب میں اور اخبار جنگ لندن میں ایک سرخی لگی.۲۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو اگلے سال ۱۵رستمبر تک میں تو ہوں گا قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی ، مولانا منظور احمد چنیوٹی کا جوابی چیلنج.جب یہ بات شائع ہوئی تو اس کے جواب میں میں نے ایک خطبہ پڑھا اور خطبے میں اس کا ذکر کیا اور میں نے کہا منظور چنیوٹی صاحب ہمیشہ بہانے سے کسی نہ کسی طرح اپنے فرار کی راہ اختیار کر لیا کرتے تھے اب

Page 403

خطبات طاہر جلد ۸ 398 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء قابو آ گئے ہیں کھلم کھلا انہوں نے یہ کہ دیا، اعلان یہ کیا جماعت احمدیہ نہیں رہے گی اور اس اعلان کی مماثلت کے طور پر مجھے لیکھرام یاد آیا اور اُس کا بھی میں نے ذکر کیا کہ اس نے بھی اسی قسم کا ایک اعلان کیا تھا کہ حضرت مرزا صاحب تو جھوٹے نکلیں گے اور میں اس طرح سچا نکلوں گا کہ جس عرصے میں یہ کہتے ہیں کہ میں مٹنے والا ہوں جماعت احمد یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی.تو میں نے کہا ایک وہ لیکھر ام تھا ایک آج لیکھرام پیدا ہوا ہے جس نے یہ چیلنج کیا ہے.اس کے نتیجے میں بعد میں ان کو بڑی سخت گھبراہٹ ہوئی کہ یہ تو میں ایسے چیلنج کر بیٹھا ہوں کہ جو بظاہر پورا ہوتے دکھائی نہیں دیتا تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں شائد یا ویسے ہی کسی جگہ اعلان کیا اور روز نامہ جنگ لاہور میں ۳۰/جنوری ۱۹۸۹ ء کی اشاعت میں یہ آپ اس کو پڑھ سکتے ہیں.منظور احمد چنیوٹی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء تک صرف مرزا طاہر احمد کے ختم ہو جانے کی بات کی تھی ساری جماعت احمدیہ کی نہیں.چلیں ایک یہ بھی اُن کو وقت کے اوپر تو بہ کی وضاحت کی توفیق مل گئی.اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ منظور احمد صاحب چنیوٹی کے ساتھ جو خدا کا سلوک ہوا اور جو ان کے متعلق میں نے کہا تھا وہ کیا تھا؟ انہوں نے بعد میں بہت واویلا کیا کہ جماعت احمدیہ کے امام نے میرے متعلق قتل کی پیشگوئی کی ہے اور جس طرح ضیاء کو انہوں نے قتل کروایا ہے اس طرح میرے قتل کے بھی درپے ہیں.اس لئے انہوں نے اعلان کیا اپنے خطبات میں کہ میں اس کا نوٹس صدر پاکستان کو بھی دے چکا ہوں، پرائم منسٹر کو بھی دے چکا ہوں باقی پولیس کے سب افسران کو بھی دے چکا ہوں کہ اگر میں قتل ہوا تو میرا قاتل مرزا طاہر احمد ہوگا کیونکہ اس نے یہ اعلان کروا دیا ہے.یعنی مباہلہ تو جھوٹ اور بیچ پر تھا اور جواب میں جھوٹ بولا جا رہا ہے وہ بھی کھلا کھلا اور چھہ دلاور است دز دے کہ ہ بر مکلف چراغ دارد “ بھی کہا کہ میرے کف میں ان کی وہ کیسٹ ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا اور آپ سب سن چکے ہیں اس خطبے کو وہاں ہرگز یہ اعلان نہیں کیا گیا تھا.کھلم کھلا جھوٹ.وہ اعلان کیا تھا میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں پھر دیکھیں آپ کہ خدا تعالیٰ نے وہ باتیں سچی کر دکھا ئیں یا نہیں جو ان کے متعلق میں نے کہی تھیں.میں نے یہ کہا تھا کہ وو یہ مولوی لازماً اب اپنی ذلت اور رسوائی کو پہنچنے والا ہے.( یہ ہے پیشگوئی ) یہ مولوی لازماً اب اپنی ذلت اور رسوائی کو پہنچنے والا ہے کوئی دنیا کی

Page 404

خطبات طاہر جلد ۸ 399 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء طاقت اب اس کو اس ذلت اور رسوائی سے بچا نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ مباہلہ میں جھوٹ بولنے والے باغیوں کے لئے مقدر کر چکا ہے اور لعنت الله عَلَى الْكَذِبِينَ (آل عمران : ۶۲) کے اثر سے اور اس کی پکڑ سے اب کوئی دنیا کی طاقت اسے بچا نہیں سکتی.پس انشاء اللہ ستمبر آئے گا اور ہم دیکھیں گے کہ احمدیت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے.ہر زندگی کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر زندہ ہو چکی ہے.اگر مولوی منظور چنیوٹی زندہ رہا ( یہ الفاظ ہیں ) تو ایک ملک بھی اس کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مرگئی ہو.“ اس کے متعلق کہتا ہے کہ وہ قتل کے متعلق میرے دھمکی دی گئی ہے.اگر منظور چنیوٹی زندہ رہا تو ایک ملک بھی اس کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مرگئی ہو اور کثرت سے ایسے ملک دکھائی دیں گے جہاں پر احمدیت از سر نو زندہ ہوئی ہے یا احمدیت نئی شان کے ساتھ داخل ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ مردوں کو زندہ کر رہی ہے.پس ایک وہ اعلان تھا جو منظور چنیوٹی نے کیا تھا ایک یہ اعلان ہے جو میں آج آپ کے سامنے کر رہا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے ، خدا کی خدائی میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ منظور چنیوٹی سچا ثابت ہو اور میں جھوٹا نکلوں.منظور چنیوٹی جن خیالات و عقائد کا قائل ہے وہ بیچے ثابت ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عقائد ہمیں عطا فرمائے ہیں آپ اور میں جن کے علمبردار ہیں یہ عقائد جھوٹے ثابت ہوں یہ ممکن نہیں ہے.اس لئے ی شخص بڑی شوخیاں دکھاتا رہا اور جگہ جگہ بھا گتا رہا.اب اس کی فرار کی کوئی راہ اس کے کام نہیں آئے گی اور خدا کی تقدیر اس کے فرار کی ہر راہ بند کر دے گی اور اس کی ذلت اور رسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے.انشاء اللہ “ ( خطبه جمعه ۲۵ رنومبر ۱۹۸۸ء) اس کے بعد جو واقعات رونما ہوئے.روز نامہ ملت ۶ / مارچ ۱۹۸۹ ءلندن میں یہ خبر شائع

Page 405

خطبات طاہر جلد ۸ 400 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء ہوئی.پنجاب اسمبلی میں بحث کے دوران خواجہ یوسف نے کہا کہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے مولانا اسلم قریشی کی گمشدگی کے موقع پر دعوی کیا تھا کہ وہ بازیاب ہوئے تو میں پھانسی چڑھ جاؤں گا.ایک اور نشان کی طرف بھی اشارہ کر دیا.ایک غیر احمدی اسمبلی کے ممبر نے.اب یہ خدا نے اس کے دل میں ڈالی ہے بات ورنہ کسی کو اس ماحول میں کیسے جرات ہوئی کہ احمدیوں کی تائید میں ایسی بات ایسی جرات سے کرے.کہتا ہے کہ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ بازیاب ہوئے تو میں پھانسی پر چڑھ جاؤں گالیکن وہ اس وعدے پر پورا نہ اترے اسی لئے زیر بحث معاملہ میں بھی ان کے دعوی کو تسلیم کرنا مشکل ہے.یہ زیر بحث معاملہ کیا تھا ؟ سنیئے ! وہ کہتے ہیں قادیانی جماعت کے سر براہ مرزا طاہر احمد نے ایک من گھڑت خبر کو بنیاد بنا کر اپنے خطبہ جمعہ میں تقریر کرتے ہوئے ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء سے قبل میرے قتل کی پیشگوئی کی ہے اور میں تحریک استحقاق پیش کرتا ہوں.تو وہ ہے تو جھوٹا ہی آپ جانتے ہیں.یعنی خدا نے اسمبلی کے ممبروں سے اس کا جھوٹ ہونا ثابت کر وایا حالانکہ ان کو علم نہیں تھا کہ یہ جھوٹا ہے لیکن کیسا عمدہ استدلال کیا اس نے کہ یہ شخص اتنا جھوٹا ہے کہ کہتا تھا اسلم قریشی کو مرزا طاہر احمد نے قتل کروا دیا اور اگر وہ زندہ ثابت ہو جائے ، نکل آئے دوبارہ تو بر سر عام میں پھانسی چڑھ جاؤں گا پھر ابھی تک زندہ ہے سامنے بیٹھا ہوا ہے.اتنا جھوٹا شخص اس کا اعتبار کیا جا سکتا ہے.تو لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ تو پڑ گئی.پھر ان کے متعلق ایک مولوی صاحب نے بیان دیا علامہ سید زبیر شاہ صاحب بخاری ۲۹ اپریل ۱۹۸۹ء کو مساوات میں یہ اعلان شائع ہوا ان کی طرف سے کہ منظور چنیوٹی عملاً اسمبلی کی رکنیت کھو چکے ہیں اب وہ صرف چنیوٹ کے کھال فروش قصاب کے سوا کچھ نہیں ہیں.جو اپنی عزتوں کے اتنے دعوے کیا کرتا تھا کہ میں سارے پاکستان کا مولوی ہوں اور درباروں تک میری رسائی ہے، اس کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے.پھر جو کہتا تھا کہ میں حملہ کرواؤں گا خود اس کو تسلیم ہے کہ میں نے نہیں کروایا مگر خدا کی تقدیر نے حملہ ضرور کروا دیا اس پر اور روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ نومبر ۱۹۸۸ء کی خبر ہے.منظور چنیوٹی پر قاتلانہ حملہ بیٹا اور بھتیجا زخمی.مولانا کے اظہار دعوت ارشاد پر مخالفین کی فائرنگ اور پتھراؤ.چنیوٹی کے لڑکے ثناء اللہ اور بھتیجے امیر حمزہ کو قاضی صفدر علی کے حامیوں نے کافی مارا پیٹا.کوئی اشتباہ بھی کسی کے ذہن میں پیدا ہوا نہ مقدمہ میرے خلاف درج کروانے کی اس کو توفیق ملی اور واقعہ جو اس کے منہ سے بات نکلی تھی وہ خدا نے اس طرح پوری کی کہ

Page 406

خطبات طاہر جلد ۸ 401 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء اس کو جھوٹا کرتے ہوئے پوری کی اس کو سچا کرتے ہوئے نہیں کہ قتل کا ارادہ تو ہوا قتل کی کوشش بھی کی گئی لیکن میں نے نہیں کروائی خدا نے وہیں بعض لوگوں سے کوشش کروائی.جنگ لندن ۲۲ / دسمبر کو یہ خبر شائع ہوئی ایک اسمبلی کی روئداد کے متعلق ایک صاحب نے یہ اعلان کیا.پنجاب اسمبلی کے اندر ہونے والا واقعہ یہ بھی.وہاں ایک ممبر نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ مولا نا منظور احمد چنیوٹی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انہیں بے گناہ طور پر پکڑا گیا تھا اور انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا.اس پر اپوزیشن (Opposition) کے رکن محمود الحسن ڈار نے کہا کہ میں ان کا ہمسایہ ہوں یہ اخلاقی جرم میں اندر گئے تھے.یہ اسمبلی کی گواہی ، مہر لگ گئی اس کے اوپر.ہنگامی اجلاس چنیوٹ بارایسوسی ایشن روز نامه حیدر راولپنڈی ۱۳ جنوری ۱۹۸۹ء.منظوری چنیوٹی اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں اور انہوں نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے.مقامی انتظامیہ اور پولیس منظور چنیوٹی کی نازیبا الفاظ پر مبنی تقاریر سے خوفزدہ ہو کر جان بوجھ کر بے گناہ لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کر رہی ہے.متفقہ قرارداد بار ایسوسی ایشن چنیوٹ.یعنی جس جگہ کے یہ ہیں اور جس فخر کے ساتھ جس کے نمائندہ بنتے ہیں وہاں کی بار ایسوسی ایشن کی متفقہ قرار داد ہے.منظور چنیوٹی اور اس کے بیٹے کے خلاف ۱۸۲.ت پ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے اور منظور چنیوٹی کو تحفظ امن عامہ کے تحت فوری طور پر گرفتار کیا جائے.اب سنیئے روز نامہ حیدر راولپنڈی کی خبر ( تاریخ دیکھنے والی ہے ایک منٹ.میں نے ان کو تاکید کی تھی کہ وہ تمام خبریں جو ایسی ہیں وہ مباہلے کے بعد کی ہونی چاہئیں پہلے کی نہیں اس لئے میں احتیاطاً چیک کر رہا ہوں یہ بڑا ذمہ داری کا کام ہے کہیں خدانخواستہ کوئی تاریخ کی غلطی نہ ہو جائے.یہ جو ہے خبر کا ٹکڑا یہ اس سے پہلے کا معلوم ہوتا ہے اس کو چیک کریں دوبارہ.) جہاں تک عمومی طور پر ان علماء کا تعلق ہے جو بڑے کروفر کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور ایسے ایسے مقامات سے حصہ لے رہے تھے جہاں تاریخی طور پر وہ پہلے منتخب ہوتے چلے آئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مقامات ان کی جاگیریں ہیں مثلاً کراچی، حیدر آباد اور بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں کے مسلسل پاکستان کے بنے کے بعد مولویوں کا اثر بڑھتا رہا اور بعض ایسی سیٹیں تھیں جن پر وہ ہمیشہ سے قابض ہوئے چلے آرہے تھے.انتخابات کے بعد روز نامہ حیدر راولپنڈی ۲۷ نومبر ۱۹۸۸ء کو یہ خبر شائع ہوئی.پاکستان کے عام انتخابات میں مولویوں کی اکثریت

Page 407

خطبات طاہر جلد ۸ 402 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء کی ناکامی.انجمن سادات جعفریہ اسلام آباد کے سیکرٹری نشر واشاعت ملک اختر جعفری اور جنرل سیکرٹری سید تقی حسین کاظمی نے عام انتخابات میں مذہبی سیاستدانوں کی شکستِ فاش کو ضیاء ازم کے خاتمے کی طرف ایک بڑی پیش قدمی قرار دیا ہے.( کچھ اقتباسات میں نے چنے تھے وہ بھول گئے ہیں پیش کرنا.پھر بعد میں سہی کبھی.وہ رائیٹر وغیرہ کی خبریں تھیں جس میں تبصرہ کیا گیا تھا کہ ان انتخابات میں کیا ہوا ہے اور ضیاء ازم کے متعلق کہا گیا تھا کہ تین مہینے کے اندر اندر ضیاء کا نام ونشان مٹ گیا ہے وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہی کہیں.) تو میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مباہلے کا جو پہلا راؤنڈ ہے یعنی وہ سال جو آج ختم ہو رہا ہے اور وہ چیلنج جو ہم نے دیا تھا وہ عظیم الشان کامیابی کے ساتھ روز روشن کی طرح ظاہر ہو کر تمام دنیا پر احمدیت کی سچائی کو روشن کر رہا ہے.اس سچائی کے نور کو بڑھانے میں آپ نے بھی کچھ کام کرنا ہے اور وہ ہے آپ کی نیکی، آپ کا تقویٰ ، آپ کی دعائیں.یہ وہ سورج نہیں ہے جو نکلنے کے بعد پھر ایک وقت کے بعد مدھم پڑا کرتے ہیں.جو سچائی کے نشان کے طور پر خدا کی طرف سے سورج اُبھرا کرتے ہیں وقت کے ساتھ ان کی روشنی بڑھتی رہتی ہے اور ان کا نور پھیلتا چلا جاتا ہے.وہ نشانات جو حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے زمانے میں کور باطن دشمن نزدیک سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور جن کی شہرت زیادہ سے زیادہ مکہ کے اردگرد تک پہنچی تھی آج دنیا کے کناروں تک وہ شہرت پاچکے ہیں اور دنیا کی عظیم قوموں تک بھی وہ نشان اپنی روشنی پہنچارہے ہیں اور دن بدن اپنی چمک میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.اس لئے مباہلے کا یہ جو نشان ہے یہ بھی آج اور کل تک کا نشان نہیں نہ پرسوں تک کا نشان ہے یہ ہمیشہ ہمیش کا ایک نشان ہے جس کی روشنی بڑھ سکتی ہے اور اس کا احمدیت کے کردار سے گہرا تعلق ہے.پس اپنے کردار کو جتنا روشن کریں گے، اپنے سینے کو جتنا منور کریں گے اتنا ہی احمدیت کی صداقت کا سورج روشن تر ہوتا چلا جائے گا.پس میری آپ سے یہی اپیل ہے کہ خدا کا شکر بھی کثرت سے کریں اس نے بے انتہاء ہم پر فضل نازل فرمائے ، بے انتہاء برکتیں دیں، جماعت کو اتنی ترقی دی اور جماعت کی تاریخ میں ایسے ایسے دن آئے جن کی کوئی مثال اس سے پہلے نظر نہیں آتی.مثلاً اسی سال چند دن پہلے ایک ملک سے یہ اطلاع ملی جہاں صرف پانچ سو احمدی تھے کہ آج خدا تعالیٰ نے یہ ہمیں دن دکھایا ہے کہ تیرہ ہزار آٹھ سو کچھ احباب بیعت کر کے

Page 408

خطبات طاہر جلد ۸ 403 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء با قاعدہ جماعت احمدیہ میں داخل ہورہے ہیں.اس سے پہلے دس ہزار تک کی خبر تو ہم نے سنی ہوئی تھی غالباً پرانے زمانے میں کہیں لیکن وہ بھی اس قسم کی تھی کہ ایک قبیلے میں جاکے اعلان کیا اور اندازہ لگایا کہ وہ دس ہزار ہوگا لیکن یہ کہ دس ہزار با قاعدہ افراد ہوں یہ واضح نہیں تھا اب پوری گنتی بتائی گئی ہے.تیرہ ہزا ر اتنے سو افراد جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور ہر طرف یہی نظارہ ہے.خدیجہ نذیر صاحبہ جن کو میں نے بیعتوں کے اوپر مقرر کیا ہے جب آتی ہیں وہ ان کی بشاشت سے ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے.کہتی ہیں اب تک خدا کے فضل سے وہ دگنا ہونے کا جو آپ نے کہا تھاوہ خدا تعالیٰ پورا کر کے دکھا رہا ہے.پچھلے سال اگر چودہ ہزار تھی تو آج اٹھائیس ہزار ہو چکی ہے ایک خطے میں اور کل کی پچاس ہزار ہونے کی توقعات بڑی نمایاں ابھی سے نظر آ رہی ہیں.تو اس طرح خدا تعالیٰ نے اس سال جماعت پر فضل کثرت سے نازل فرمائے ہیں اور بعض ایسے ممالک میں جماعت کو از سرنو زندہ کیا ہے جہاں ہمارا کوئی اختیار نہیں تھا.میں نے اس مباہلے کی دعا میں یہ بھی کہا تھا کہ تم دیکھو گے اگر تم زندہ رہو گے.میں نے منظور چنیوٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ جماعت مرنے کی بجائے بعض ملکوں میں از سر نو زندہ ہو جائے گی.چنانچہ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں خدا کے فضل سے پچھلے چند دنوں میں از سر نو جماعت زندہ ہوئی ہے اور نہ صرف یہ کہ چین میں کئی جگہ جماعت قائم ہوئی ہے بلکہ چین سے باہر جو بعض علماء نکلے تھے انہوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا اور مجھے ان کے خط موصول ہوئے ہیں کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم واپس جائیں گے تو احمدیت کے بڑے زور سے پر چار کریں گے اور وہ اپنے علاقوں کے بڑے لوگ ہیں.عجیب اتفاق ہے اور یہ اتفاق نہیں، خدا کی تقدیر ہے کہ ہمارے عثمان چینی صاحب کے خسر چند دن ہوئے چین سے آئے وہ اپنے علاقے کے بڑے عالم ہیں اور اسمبلی کے ممبر ہیں وہاں کی پراونشل اسمبلی کے اور جماعت کے بڑے سخت مخالف.ان کی بیٹی مخلص احمدی ہو گئی لیکن خود مخالف.جب یہاں تشریف لائے تو بیٹی تنگ آگئی تھی ان کی مخالفت سے میرے پاس آ کے رونے والی ہوگئی.باپ کو ساتھ لے کے آئی کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا میں کروں کیا.آپ میرے لئے خدا کے لئے دعا کریں میں تو بہت پریشانی میں مبتلا ہوگئی ہوں.میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں ان کے بات پہلے ہی بات نہیں پڑتی.ان کو میں نے کچھ سمجھایا، کچھ دعا کی اور عثمان چینی صاحب کو بھی بلالیا کہ بقیہ کسر وہ

Page 409

خطبات طاہر جلد ۸ 404 خطبہ جمعہ ۹ / جون ۱۹۸۹ء پوری کریں چنانچہ عجیب اتفاق ، میں اس اتفاق کہ دیتا ہوں مگر اس کو کہنا چاہئے خدا کی تقدیر ہے.ایک دوست ان دنوں میں میرے پاس تشریف لائے لاہور سے تھے انہوں نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھی ہے کہ علماء بعض آپ کے پاس آ رہے ہیں دوسرے ملکوں کے بڑے دور دور سے اور غالباً چین کا بھی اس کا ذکر تھا میں چیک کر کے بعد میں بتاؤں گا اور وہ ایسے علماء ہیں جو اپنے علاقے پر بڑا اثر کھتے ہیں اور آپ کے پاس چند دن ٹھہر کے احمدیت قبول کر کے واپس چلے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں پھر آگے احمدیت کے چرچے چل پڑتے ہیں.تو میں نے ان کو کہا کہ ایک عالم تو آج کل یہاں پہنچا ہوا ہے.اب دیکھیں چنانچہ جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے سارے شکوک صاف ہوئے انہوں نے بیعت کی ، آ کے مجھے دعا کے لئے تاکید اور ساتھ میں یہ وعدہ کیا کہ آپ دیکھیں گے کہ میں اپنے عہد پر پورا اترنے والا انسان ہوں، میں جا کر اپنی ساری کوشش صرف کروں گا کہ وہ سارا علاقہ عنقریب احمدیت کے نور سے منور ہو جائے.تو یہ مباہلے کا ایک یہ بھی پھل ہے.میں نے کہا تھا اگلی صدیاں اس کے پھل پائیں گی انشاء اللہ.پس چین میں جواز سر نو احمدیت زندہ ہوئی ہے اس کا پھل تو اگلی صدیاں کیا قیامت تک انشاء اللہ چین کے لوگ کھاتے رہیں گے اور استفادہ کرتے رہیں گے.پس الحمد للہ جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے لیکن ابھی دعا ئیں جاری رہنی چاہئیں اور نیک اعمال کے ساتھ مباہلے کے نشان کو روشن تر کرنے کی ضرورت باقی ہے.

Page 410

خطبات طاہر جلد ۸ 405 خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۸۹ء اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کی حفاظت اور بقاء کے لئے پہلے اپنے آپ کو اسلامی اخلاق سے مزین کرنا ضروری ہے (خطبه جمعه فرموده ۶ ارجون ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.سورہ رحمن میں ایسے دوسمندروں کا ذکر ملتا ہے جن کے درمیان ایک ایسی برزخ ہے جس نے ان دونوں کو جدا کر رکھا ہے لیکن جن کے متعلق قرآن کریم نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ وہ ایک دن آپس میں ملنے والے ہیں.اس دوسمندروں کا ذکر دوسری جگہوں پہ بھی ملتا ہے اور قرآن کریم کے بیان کے مطابق ان دونوں سمندروں کے پانی کا مزہ مختلف ہے.ایک کا کڑوا، کسیلا اور زہریلا مزا اور ایک میٹھے پانی کا سمندر ہے.جہاں تک واقعاتی دنیا کا تعلق ہے اگر چہ یہ کہا جاتا ہے کہ ظاہری طور پر بھی یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی میٹھے پانی کا سمندر میرے علم میں نہیں اور میرے خیال میں کسی اور انسان کے علم میں بھی نہیں.پانی سمندر کے کڑوے ہی ہوا کرتے ہیں.کچھ کم کڑوے کچھ زیادہ کڑوے اس لئے قرآن کریم نے جن دوسمندروں کا ذکر کیا ہے اس سے انسانی سمندر مراد ہیں اور تہذیبی سمندر مراد ہیں اور مذہبی سمندر مراد ہیں اور قرآن کریم نے انصاف کی نظر سے دونوں کی خوبیوں کا بھی ذکر فرما دیا.فرمایا کہ ایک سمندرکھارا ہے، کڑوے پانی کا ہے لیکن اس میں بھی تم موتی اسی طرح پاؤ گے جس طرح میٹھے پانی کے سمندر میں تم موتی پاتے ہو.وہاں بھی خوراک کے سامان ویسے ہی ہیں اور مچھلیاں بھی ہیں اور دیگر انسانی ضرورت کی مفید چیزیں ہیں جس

Page 411

خطبات طاہر جلد ۸ 406 خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۸۹ء طرح میٹھے پانی کے سمندر میں یہ چیزیں ملتی ہیں.اس کے باوجود دونوں کا مزہ مختلف ، دونوں کے رنگ مختلف، دونوں کے مزاج مختلف اور جو کڑواہٹ ہے ایک کھارے پانی کے سمندر کی وہ اپنے جگہ قائم رہتی ہے ایک موقع پر قرآن کے بیان کے مطابق یہ سمندر ملنے والے ہیں.ایسی صورت میں کیا ہوگا راس عظیم الشان اختلاط کے کیا نتائج ظاہر ہوں گے؟ آج میں ان سے متعلق آپ سے گفتگو کرنی چاہتا ہوں.میرے نزدیک یہ سمندر اسلام کا سمندر ہے جس کا لامذہب دنیا سے یا اسلام سے مخالفت رکھنے والے مذاہب سے ایک موقع پر ٹکراؤ اور اختلاف ہونے والا ہے.یہ ایک ایسے وقت کے متعلق پیشگوئی ہے جہاں یہ کہنا کہ نیکی کلیہ مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں رہ گئی ہے اور غیر اس سے کلیۂ محروم ہو چکے ہیں غلط ہو گا.یہ ایک ایسے زمانے کے متعلق پیشگوئی ہے جس میں یہ خیال کر لینا کہ اسلام تو بنی نوع انسان کے لئے فوائد رکھتا ہے اور ان فوائد کے نتیجے میں بہت اچھے اچھے لوگ پیدا کر رہا ہے مگر غیر اسلامی دنیا ان اچھے لوگوں سے کلیہ محروم ہو چکی ہے غلط ہو گا.ایک ایسے وقت کے متعلق یہ پیشگوئی ہے جہاں عملاً مذاہب کے ماننے والے اپنے کردار اور اپنے اخلاق کے ذریعے ایک دوسرے سے قریب تر ہو جاتے ہیں اور مذہب کے فلسفے اور بلند نظریات کا اور ان کی روز مرہ کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہتا.ایسی صورت میں اعلیٰ اقدار کا کسی ایک حصے کے لئے خاص ہو جانا بعید از عقل بات ہے اور بری اقدار کا کسی ایک حصے کے لئے خاص ہو جانا بھی بعید از عقل بات ہے.عام انسانی قوانین پھر اس وقت کارفرما ہو جاتے ہیں اور جس طرح ہر قسم کے سمندر میں نسبتا کم میٹھا پانی کا ہو یا نسبتاً زیادہ میٹھے پانی کا ہو ہر قسم کی مخلوقات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور اچھے اور بُرے جانور، اچھی اور بُری چیزیں ہر جگہ پیدا ہوتی رہتی ہیں اسی طرح اس پیشگوئی کا تعلق ایک ایسے زمانے سے ہے جہاں انسان بحیثیت انسان گھاٹا پانے والا ہوگا اور میٹھے اور کھارے کا وہ فرق نہیں رہے گا جیسا کہ ہونا چاہئے.اس وقت یہ خیال کر لینا کہ نیکیاں کسی ایک کے حصے میں رہ گئی ہیں اور بدیاں دوسرے کے حصے میں یہ غلط ہوگا.ایسے موقع پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انتظام ہو گا کہ اسلام کا سمندر از سرنو اپنے غلبے کے لئے زور مارنا شروع کرے اور وہ وقت میرے نزدیک آج کا وقت ہے.ایسی صورت میں اس عظیم اختلاف کے نتیجے میں کیا کیا فوائد پیش نظر رہنے چاہئیں اور کیا کیا نقصانات اور احتمالات سامنے رہنے چاہئیں ان

Page 412

خطبات طاہر جلد ۸ 407 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء سے متعلق میں آج آپ کے سامنے کچھ مزید باتیں کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.جن خوبیوں یا برائیوں کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اب بنی نوع انسان کی مشترکہ وراثت بن چکی ہے.اُن میں مذہبوں کی تفریق کا آپس میں دراصل کوئی تعلق نہیں رہا.اگر نظریاتی دنیا سے اتر کر واقعاتی دنیا میں سچائی کی نظر سے آپ اس دنیا کا مطالعہ کریں تو آپ یہ دیکھ کر خوش ہوں یا غم محسوس کریں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ رہے گی کہ انسان ایک دوسرے سے بالکل مشابہ ہو چکے ہیں.اسلامی دنیا میں بھی اسی طرح بد اخلاقیاں ہیں جس طرح غیر اسلامی دنیا میں بداخلاقیاں ہیں، اسلامی دنیا میں بھی اسی طرح کرپشن ہے جس طرح غیر اسلامی دنیا میں کرپش ہے.بعض صورتوں میں ، بعض کر پشن یعنی بددیانتی کی شکلیں مسلمان ممالک میں زیادہ دکھائی دیتی ہیں یہ نسبت غیر مسلم ممالک کے.اسی طرح بعض دوسری اخلاقی برائیاں ہیں جو غیر مسلم ممالک کی نسبت اسلامی ممالک میں کم دکھائی دیتی ہیں.تو کچھ پہلوکسی ایک کے زیادہ خراب ہیں، کچھ پہلو کسی دوسرے کے زیادہ خراب ہیں لیکن بالعموم انسان ایک جنس بن چکا ہے.آج آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بدھسٹ دنیا زیادہ پاک اور صاف ہے یا ہند و دنیا زیادہ پاک اور صاف ہے یا مسلمان دنیا زیادہ پاک اور صاف ہے یا عیسائی دنیا زیادہ پاک اور صاف ہے.سارا انسان بحیثیت مجموعی بعض برائیوں میں ملوث ہو چکا ہے اور اس کا ملوث ہونا دن بدن زیادہ خطر ناک صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے.پاکستان کے حالات پر آپ نظر ڈال کر دیکھیں تو آپ کو یہ حقیقت خوب اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گی کہ اس کثرت سے اگر چہ وہاں اسلام کا نام لیا گیا اور گیارہ سال اسلام کا ایسا چرچہ رہا اس شدت اور زور کے ساتھ کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس ملک کا ذرہ ذرہ مسلمان ہو چکا ہو گا لیکن اس شدت کے اصرار کے باوجود روز مرہ کی انسانی زندگی پر اسلام کا ایک ادنی سا بھی اثر دکھائی نہیں دیتا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ دوسطحوں پر کام ہو رہا ہے.ایک نظریاتی سطح ہے جہاں اسلام بڑی زور سے جلوہ گری دکھا رہا ہے اور ایک اخلاقی عملی سطح ہے جس پر اس نظریاتی سطح کا عکس تک بھی نہیں پڑا.چنانچہ جرائم اس گیارہ سالہ ضیاء الحق کے دور میں کم ہونے کی بجائے ہر دائرہ حیات میں بڑھتے چلے گئے.ہر زندگی کی قسم میں جرائم زیادہ شدید ہوتے چلے گئے تعداد میں بھی، یعنی کمیت کے لحاظ سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی پہلے سے زیادہ بھیانک شکل ظاہر ہوتی چلی گئی.اب یہ ایک واقعاتی مشاہدہ ہے جس سے دنیا کی کوئی طاقت انکار نہیں کرسکتی.

Page 413

خطبات طاہر جلد ۸ 408 خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۸۹ء پس دوسمندر جن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے یہ دو طریق سے مل سکتے ہیں.اول یہ کہ مشرقی دنیا کے سمندر یا مشرقی مذاہب سے تعلق رکھنے والے سمندر جب مغربی دنیا اور مغربی مذاہب کے ساتھ آپس میں اختلاط کریں تو دونوں اپنی اپنی برائیاں دوسرے میں سرایت کر دیں اور ایک یہ پہلو بھی ہو سکتا ہے کہ نسبتاً جو اچھی باتیں کسی ایک سمندر کا خاصہ دکھائی دیتی ہیں وہ دوسرے سمندر میں سرایت کرنے کی کوشش کریں.یہ وہ مقام ہے جو نہایت ہی حساس مقام ہے اور انسانی تاریخ کے جوڑوں میں اس سے زیادہ اہم اور نازک جوڑ شاید ہی کبھی پہلے آیا ہو.اس مقام پر جماعت احمدیہ کو ایک کردار ادا کرنا ہے اور جماعت احمدیہ کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی ہے کہ جہاں جہاں اسلام کا سمندر غیر اسلامی اقدار سے ملتا ہے وہاں اسلام کا سمندر نیکیاں سرایت کرنے والا سمندر بنے اور بدیاں قبول کرنے والا سمندر نہ بنے.اس پہلو سے یہ دوسمندر عملاً چار سمندر دکھائی دیں گے.ایک تو وہ سمندر جو ظاہری دنیا میں ، ظاہری صورت میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں یعنی قوموں کے بڑے بڑے گروہ جو سمندر کی طرح عظمتیں اختیار کر چکے ہیں اور جو ہمیشہ ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے رہتے ہیں.ایک کی موجیں دوسرے کی طرف حملہ آور ہوتی ہیں اور دوسرے کی موجیں پہلے کی طرف حملہ آور ہوتی ہیں اور پھر بسا اوقات یہ گہرا ایک دوسرے کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات کو متاثر کرتے ہیں.ایک اور دوسمندر ہیں جواسی آیت کی تفصیل میں تصور میں لائے جا سکتے ہیں اور وہ تصور ہیں اسلام کو سچائی کا علمبر دار تصور کرتے ہوئے اسلام کی ایسی روحانی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو محض نظریاتی نہ ہو بلکہ بعض مسلمانوں کی عملی زندگی میں سرایت بھی کر چکی ہو.اس سمندر کا مقابلہ اس بیرونی دنیا کے سمندر سے کیا جائے جوسب کے سب اپنی مجموعی حیثیت سے اسلام کی اعلیٰ کردار کے خلاف کسی رنگ میں کوشش کر رہے ہیں.اس دوسرے پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے اوپر سب سے زیادہ عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ احمدی جوان سمندروں میں بس رہے ہیں جن میں سے ایک سمندر کا نام کینیڈا ہے اور ایک اور سمندر کا نام امریکہ ہے اور ایک اور سمندر چھوٹے چھوٹے سمندروں پر پر مشتمل ایک بڑا سمندر بننے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ یورپین ممالک ہیں.اسی طرح اشترا کی ممالک کے سمندر ہیں جہاں جہاں احمدیت داخل ہوتی ہے ، سرایت کرتی ہے وہاں يَلْتَقِینِ کے مناظر دکھائی دے رہے ہیں.وہاں

Page 414

خطبات طاہر جلد ۸ 409 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء فیصلہ کن امر یہ ہوگا کہ ہم اپنی اخلاقی اور روحانی قدروں کو ان سمندروں میں سرایت کرنے والے بن رہے ہیں جن کے ساتھ ہمارے رابطے پیدا ہو رہے ہیں یا ان کی قدروں کو اپنانے والے بن رہے ہیں.اس صورت میں پھر قرآن کریم کی اس انتہائی منصفانہ وضاحت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ یہ کہہ دینا با وجود اس کے کہ آپ بچے اسلام کے علمبردار ہیں یہ کہہ دینا کہ آپ صرف خوبیاں رکھتے ہیں اور بدیاں نہیں رکھتے اور غیر کلیۂ بدیوں کے علمبردار اور خوبیوں سے محروم ہیں یہ درست نہیں اور یہ سچائی کے خلاف بات ہے.ان قوموں نے جن میں آپ بسے ہوئے ہیں ان میں بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جو موتیوں کی طرح چمک رہی ہیں.ان قوموں میں جن میں آپ زندگی گزار رہے ہیں بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جو انسانی زندگی کی بقاء کے لئے مسیحوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور قرآن کریم نے جب سمندروں کی مثال پیش کی تو دراصل ایک بہت ہی گہری بات کی ہے کیونکہ تمام کائنات کی بقاء ، تمام انسانی اور حیوانی زندگی کی بقاء سمندروں پر منحصر ہے.ہر توانائی کا اصل سرچشمہ سمندر ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے نہایت گہری اور مرکزی اور بنیادی مثال آپ کے سامنے رکھی.تو انسانی بقاء کے لئے اس کی روحانی، اخلاقی قدروں کی بقاء کے لئے اور اس کی دنیاوی بقاء کے لئے یہ سمندر جن کو آپ کھارے پانی کے سمندر سمجھ رہے ہیں یہ بھی کچھ نہ کچھ پیش کرنے کی توفیق پاتے ہیں.ان کے اندر بنیادی خوبیاں ایسی موجود ہیں جو Contribute کر رہی ہیں، جو عملاً حصہ لے رہی ہیں نہ صرف انسان کی ظاہری بقاء میں بلکہ اس کی روحانی اور اخلاقی بقاء میں بھی.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ Fanatics کی طرح نہیں ان مذہبی جنونیوں کی طرح نہیں جو سچائی کو اپناتے اور باقیوں کو اس سے کلیہ محروم کرنے کے دعوے کیا کرتے ہیں بلکہ سچائی کے پرستار ہوتے ہوئے کیونکہ خدا کا نام سچائی ہے.اس کی عبادت کرتے ہوئے اس کے ساتھ اس طرح وابستہ ہو جائیں کہ حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں.بُرے کو بُرا د یکھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں.اچھے کو اچھا دیکھنے اور تسلیم کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں.اس پہلو سے آپ کے اندر وہ سائنسی نظام جاری ہونا چاہئے جو Valves کا نظام ہے.والوز سسٹم جس طرح سائنس کی ہر سطح پر مختلف صورتوں میں قدرتی طور پر بھی اور انسان کی بنائی مشینوں میں بھی کارفرما ہے اس سے آپ کو سبق سیکھنا چاہئے.بعض وائرل ہیں جو بعض قسم کی برقی تموجات کو یار یڈیشن کو روک

Page 415

خطبات طاہر جلد ۸ 410 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء لیتے ہیں اور بعض قسم کی برقی تموجات کو دوسرے جسم میں داخل ہونے دیتے ہیں.اسی طرح ایک جسم سے دوسرے جسم میں حرکت کرنے والے اور سرایت کرنے والے اثرات کے اوپر بھی Valves مقرر کئے جاتے ہیں کہ دنیا میں جتنی بھی آپ برقی مشینیں دیکھ رہے ہیں یہ سارے Valves پر کام کر رہی ہیں.کمپیوٹر کی دنیا ہے آج کمپیوٹر میں بھی والوز ہیں جو کام کر رہے ہیں اگر یہ والوز نہ ہو تو کوئی دنیا کا کمپیوٹر چل ہی نہیں سکتا، اس کا تصور قائم نہیں ہو سکتا.پس روحانی دنیا میں بھی ایسے ہی والوز کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور جہاں تک نظام زندگی کا تعلق ہے ہمیں خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام زندگی سے استفادہ کرنا چاہئے اور Valves کا نظام وہاں سے سیکھنا چاہئے.جب سمندروں کے ملنے کی بات ہوئی تو اس ضمن میں میرا خیال Osmotic Pressure پریشر کی طرف گیا.قانون قدرت جس رنگ میں کارفرما ہے اس پر سائنسدانوں نے بڑا گہرا غور کیا ہے، اس کے تجزیئے کئے ہیں اور نباتاتی زندگی ہوں یا دوسری زندگی ہر قسم کی زندگی کے انحصار اور اس کے باقی رہنے اور اس کے قائم رہنے کے معاملے میں ایک سائنس کا قانون Osmotic Pressure سب سے زیادہ بنیادی کام کر رہا ہے اور سب سے زیادہ خاموش کام کر رہا ہے.Osmotic Pressure سے مراد یہ ہے کہ جب دو مائع چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو وہ مائع چیز جس کے اندر نمکیات زیادہ ہوں وہ مائع چیز اس چیز کا اثر قبول کرتی ہے جس میں نمکیات کم ہیں اور پانی جہاں نمکیات کم ہیں وہاں سے اس چیز کی طرف حرکت کرتا ہے جس میں نمکیات زیادہ ہیں.اب یہ بظاہر عام آدمی کے لئے عجیب سی بات نظر آتی ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اس کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ لیکن جب میں آپ کو تفصیل سے سمجھاؤں گا تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ ساری دنیا میں ہر قسم کی زندگی کا انحصار اس بنیادی قانون پر ہے.زندگی کے خلیے ہمیشہ ہر روز ہرلحہ اسی قانون کے تابع اپنے طبعی جو ہر دکھا رہے ہیں اور ان کی بقاء کا انحصار اس قانون کے اطلاق پر ہے.چنانچہ اب آپ دیکھیں کہ ساری زندگی جو بھی ہو اس کا آخری انحصار نباتات پر ہے اور نباتات کی بقاء اس قانون پر ہے.جب ایک چھوٹا سا پودا زمین میں جڑیں داخل کرتا ہے تو اگر اس پودے کے اندر جو خلیے ہیں ان کا پانی پتلا ہو اور باہر کا پانی گاڑھا ہو تو اس قانون کے تابع خلیوں کے اندر کا پانی لازماً باہر کی طرف حرکت کرے گا اور وہ پودے سوکھ جائیں گے.یہ ایسا قانون ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی،

Page 416

خطبات طاہر جلد ۸ 411 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء کوئی دنیا کی طاقت اس رخ کو بدل نہیں سکتی.اس لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ کھارے پانی میں پودے پرورش نہیں پاتے اسی لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ زمینیں جو کلر کہلاتی ہیں وہاں زمیندار بیچارے زور مارتے رہ جاتے ہیں لیکن کچھ پیش نہیں جاتی.جو بھی فصل وہاں لگا ئیں اگر وہ نمو بھی دکھائے بڑی خوبصورت تو دیکھتے دیکھتے مر جاتی ہے، سوکھ جاتی ہے.وجہ یہ ہے کہ پودوں کے اندر کا پانی نسبتا پتلا ہوتا ہے اور باہر کا کھارا پانی جس میں نمکیات زیادہ ہیں وہ زیادہ کھارا ہوتا ہے.اس لئے قانون قدرت سے کوئی دنیا کی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی.اندر کا پانی بجائے اس کے کہ باہر سے جذب کرے کسی چیز کو وہ اپنے وجود کو چھوڑ کر باہر جانا شروع کر دیتا ہے.اب قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ جو دو مثالیں دی ہیں ان میں اسلام کی مثال ایسے میٹھے پانی سے دی ہے جس میں نمکیات کا لجز کم ہے.اسے اثر قبول کرنے والا نہیں بنایا اثر دینے والا بنا دیا ہے.اثر سرایت کرنے والے صلاحیت اس کے اندر رکھ دی یہ بیان فرما کر کہ ایک طرف کھارا پانی ہے اور ایک طرف میٹھا پانی ہے اور یہ ایک دن ملنے والے ہیں اور اس میں اسلام کی آخری فتح کی خوشخبری بھی عطا کر دی گئی.اب اسی بات کی طرف واپس لوٹتے ہوئے یعنی Osmotic Pressure کی طرف میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جتنی بھی زندگی کی قسمیں ہیں وہ کلیۂ اس بات پر منحصر ہیں کہ زندگی کے اندر جو خلیوں سے اندر کا پانی باہر کے پانی کی نسبت گاڑھا ہوتا کہ باہر کا میٹھا پانی اندر کی طرف رُخ کر سکے اور پتلا پانی گاڑھے پانی کی طرف جائے گا.روحانی ابتلاء میں ہم یہ کہیں گے کہ باہر کا پانی اندرونی وجود کی بقاء اور اس کے حیات کے لئے ضروری ہے.اگر وہ نہ جائے تو وہ وجود مر جائے گا.پس وہ سمندر جو کھارے پانی پر مشتمل ہیں اگر ان میں اسلام سرایت نہ کرے تو زندگی کی جتنی قسمیں وہاں موجود ہیں ان کے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے.وہ بالاآ خرتباہ و برباد ہو جانے والی ہیں.ایک پہلو سے اس مثال کا تجزیہ ہم اس طرح کر سکتے ہیں لیکن ایک اور پہلو بھی ہے جس پہلو سے جب اس مثال کا تجزیہ کرتے ہیں تو بات بالکل اور زاویہ سے دیکھی جاتی ہے اور میں اس کی طرف آپ کو اب متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اب آپ اپنے آپ کو ایک ایسے پودے کے طور پر شمار کریں جو ماحول سے زندگی کا پانی جذب کر رہا ہے.جب یہ پانی آپ جذب کرتے ہیں تو اگر یہ اسی حالت میں رہے جس حالت میں اندر داخل ہوا تھا تو اس کے اندر یہ اپنی خرابیاں اس پودے میں داخل کر لے گا اور وہ پودا

Page 417

خطبات طاہر جلد ۸ 412 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء پھر بھی بقاء نہیں پاسکتا، اس کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی جب تک اس پانی کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اس میں نہ ہو اور اپنے جزو بدن بنانے کی صلاحیت نہ ہو.یہ مثال صرف پانی پر ہی اطلاق نہیں پاتی بلکہ ٹھوس چیزوں پر بھی اطلاق پاتی ہے اس لئے اس کا Osmotic Pressure سے اس طرح تعلق نہیں کہ گویا کلیہ اس قانون کے تابع کام کر رہی ہے اس لئے دراصل مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ اب میں ایک اور مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ کو سمجھانے کی خاطر کہ آپ نے یہاں کیا کرنا ہے؟ وہ مثال یوں لے لیجئے کہ زندگی جس قسم کی بھی ہو وہ اپنی ذات میں قائم نہیں رہ سکتی اس کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ ماحول سے کچھ قو تیں جذب کرتی رہے.آپ لوگ جو یہاں آئے ہیں یا امریکہ، یورپ کے دوسرے ملکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں آپ کے لئے ناممکن ہے کہ ماحول سے زندگی کی قوتیں حاصل کئے بغیر یہاں اپنے وجود کو قائم رکھ سکیں لیکن اگر نظام حیات کا آپ مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے یہ قانون ایسا بنارکھا ہے کہ جو چیز بھی جسم میں داخل ہوتی ہے وہ ایک نظام ہضم میں سے گزر کر داخل ہوتی ہے.نظام ہضم بعض چیزوں کو رڈ کر دیتا ہے بعض چیزوں کو قبول کر لیتا ہے اور جن چیزوں کو قبول کرتا ہے اُن کو پہلے اپنے جسم کا حصہ بناتا ہے پھر وہ باقی اجزاء تک اس کا اثر پہنچنے دیتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو کھانے پینے کے ذریعے ہی زندگی ہلاک ہو جائے.اب آپ مثلاً جو کھانا روزانہ کھاتے ہیں ابھی بھی جمعے کو آئے ہیں تو بعض لوگ کھانا کھا کے آئے ہوں گے.وہ کھانا اگر براہ راست خون میں داخل کیا جائے تو بلا استثناء سارے آدمی مر جائیں حالانکہ وہ قوت ہے، حالانکہ توانائی کا سر چشمہ ہے لیکن آپ شور با براہ راست بلڈ میں Transfusion کر دیں یا گوشت کے ٹکڑے یا سبزی کے ٹکڑے خون کی رگوں میں داخل کرنے کی کوشش کریں.وہ اگر بلاک کر کے نہ بھی ماریں تب بھی لازمأموت کا پیغام لے کے آئیں گے.اس لئے خدا تعالیٰ نے بہت ہی باریک نظام بنایا ہے کہ جو چیزیں صحت کے لئے قابل قبول بھی ہیں وہ بھی براہ راست جسم کا حصہ نہیں بنا کرتیں بلکہ ایک نظام میں سے گزر کر ایک تربیت پاتی ہیں اور تربیت پانے کے بعد پھر وہ اس نظام کے اندر جذب ہونے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں پھر ان کو اجازت ملتی ہے کہ وہ جسم کا حصہ بنیں.اس کے لئے بڑے کارخانے بنے ہوئے ہیں اندر، بڑی خاموشی کے ساتھ کام کر رہے ہیں.ہڈیوں کا گودا ہے وہ اس میں کام کر رہا ہے، انتڑیاں تو بہر حال

Page 418

خطبات طاہر جلد ۸ 413 خطبہ جمعہ ۱۶/ جون ۱۹۸۹ء کرتی ہی ہیں، انتڑیوں سے گزرنے کے بعد بھی جو چیز جسم میں داخل ہوتی ہے وہ براہ راست خون کا حصہ نہیں بنا کرتی وہ جگر میں سے گزرتی ہے، جگر میں فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں کیمسٹری کی ، کیمیکلز کی یعنی Pharmaceutical انڈسٹری ہے کہ اتنی بڑی انڈسٹری ہے کہ ایک عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا.ایک سائنٹسٹ جس نے اس انڈسٹری پر غور کیا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ ابھی تک اس کے ہر پہلو پر وہ حاوی نہیں ہو سکا.بے شمار چیزیں ہیں جن میں ابھی تک سائنٹسٹ کو کوئی جواب نہیں مل سکا.ایک جگر ہے جس کو آپ بعض جگہ بکرا ذبح کرتے ہیں تو دو منٹ میں بھون کے کھا جاتے ہیں اور کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا چیز کھا گئے ہیں.جگر کے اندر اتنا عظیم الشان Pharmaceutical کام ہو رہا ہے یعنی کیمیات کا ایک کارخانہ نہیں بلکہ بیسیوں کارخانے قائم ہیں بلکہ سینکڑوں کہنا بھی غلط نہیں ہو گا جو کیمیا کے باریک سے باریک فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسانی ضرورت کی کیمیا کو پیدا کرتی ہیں اور باقی جس کو وہ Reject کرتی ہیں ان کو جسم سے نکالنے کا اور باہر پھینکنے کا الگ انتظام خدا تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہوا ہے.تو یہ ایک جگر ہے جو اپنی جگہ کام کر رہا ہے پھر دوسرے گلینڈز (Glands) ہیں جو اسی قسم کے کام کر رہے ہیں.پھر خون کا گودا ہے جس کو آپ کہتے ہیں بلڈ کینسر ہو گیا کسی بیچارے کو.وہاں فرق یہ ہوتا ہے کہ گودے نے وہ کام کرنا چھوڑ دیا ہے یا غلط رنگ میں اس نے پروڈکشن شروع کر دی ہے.بجائے اس کے کہ صحت مند وجود میں انہضام شدہ انرجی کو یعنی طاقت کو بنائے وہ اس رنگ میں خام کام کرتا ہے کہ وہ توانائی جو جسم میں داخل ہوئی ہے وہ ہڈیوں کے گودے سے بھی زہر بن کر ہی نکلتی ہے.اس لئے خدا کے بنائے ہوئے قانون پر اگر غور کریں ہرا لگ الگ قانون، Osmotic Pressure کا قانون ہے وہ ایک الگ پیغام آپ کو دے رہا ہے اور انہضام کا قانون ہے وہ ایک الگ پیغام آپ کو دے رہا ہے.ہر پیغام میں آپ ڈوب کر دیکھیں تو آپ کو بڑی بڑی گہری حکمتیں اس میں کارفرما دکھائی دیتی ہیں.تو چونکہ یہاں دو نظاموں کے ملنے کا سوال ہے اس لئے دو قانون خاص طور پر میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا.سب سے پہلے یہ کہ آپ نے لازماً ان میں سرایت کرنا ہے.اس پہلو سے آپ کا مزاج لطیف ہونا چاہئے.اگر آپ کا مزاج کثیف ہوا یہ قومیں آپ کو ر ڈ کر دیں گی یہ قانون قدرت ہے اور مزاج کی لطافت سے مراد یہ ہے آپ کے اندر اخلاق ایسے لطیف ہوں کہ نفرت کرنے والوں کے

Page 419

خطبات طاہر جلد ۸ 414 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء اندر بھی سرایت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں.جو آپ کے قریب آئے وہ مجبور ہو جائے آپ کا اثر قبول کرنے میں.ان معنوں میں آپ کا سمندر میٹھے پانی کا سمندر بنار ہے گا اور ان معنوں میں آپ ان قوموں میں نفوذ کرنے کی ابتدائی شرط پوری کرنے والے ہوں گے ورنہ اگر آپ صرف نظریات کو یہاں پہنچانے کی کوشش کریں اور لطیف اور پاکیزہ اخلاق کا سہارا نہ لیں تو یہ سوسائٹی ان نظریات کو رڈ کر دے گی کیونکہ ان کے نزدیک وہ کثیف ہیں.دنیا میں ہمیشہ نظریات کو قبول کرنا مشکل کام ہوا کرتا ہے.ان کو ایسے لطیف مائع صورت میں ڈھالنا پڑتا ہے جو دوسرے کے اندر جذب کرنے کی استطاعت اور صلاحیت رکھتا ہو.پس جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے کوئی دنیا کا سچا مذہب اخلاق کے بغیر غیر قوموں میں سرایت نہیں کر سکتا.اعلیٰ اخلاق ہی تھے جو حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی عظیم الشان کامیابی کا موجب بنے.قرآن کریم نے بارہا ان عظیم الشان اخلاق کا ذکر کیا ہے اور اسلام کی غیر اسلامی طاقتوں سے جو ٹکر تھی اس میں سب سے بڑا کردار جس چیز نے ادا کیا وہ حضرت محمد مصطفیٰ کے اعلیٰ اور لطیف اخلاق تھے.وہ اخلاق چونکہ قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ایسا انجذاب کر چکے تھے.اس طرح مل جل گئے تھے کہ یہ ناممکن تھا وہ اخلاق تو سرایت کر یں اور قرآنی تعلیم سرائیت نہ کرے.اس لئے جہاں جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق داخل ہوئے ہیں وہاں لازمی طور پر طبعی قانون کے طور پر قرآن کی تعلیم بھی داخل ہوئی.اس راز کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا.چنانچہ ایک مرتبہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت محمد مصطفیٰ کے اخلاق کے متعلق ہمیں کچھ بتا ئیں تو آپ نے فرمایا کسان خلقه القرآن آپ کے اخلاق قرآن کریم تھے.( مسند احمد بن حنبل جلد ۸ حدیث نمبر: ۲۵۱۰۸) یعنی آپ ایک ایسا وجود تھے جہاں نظریات کا روزمرہ کی زندگی کے ساتھ کوئی تفاوت نہیں رہتا کوئی فاصلے نہیں رہتے.جہاں نظریات اور تعلیمات انسانی وجود کا ایک ایسا حصہ بن جاتی ہیں کہ ان دونوں کو جدا جدا نہیں کیا جاسکتا اور انسانی وجود کا اظہار اس کے اخلاق سے ہوا کرتا ہے.پس قرآن کریم آپ کا اخلاق بن گئے اور اخلاق میں ہی یہ صفت ہوتی ہے یہ ایک لازمی صفت اس کے اندر خدا نے رکھی ہے کہ وہ اگر لطیف ہوں تو ضرور سرائیت کرتے ہیں.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ نے دعاؤں کے بعد اگر کسی قوت سے کام لیا ہے جس نے مخالفانہ طاقتوں پر کامل غلبہ پالیا تو وہ اخلاق ہی کی قوت تھی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ

Page 420

خطبات طاہر جلد ۸ 415 خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۸۹ء الصلوۃ والسلام نے جو عارفانہ نظر سے اسلام کے اولین دور کے غلبے کا تجزیہ فرمایا وہاں سب سے پہلے دُعا کو رکھا اور پھر اخلاق کو اور بار بار اس بات پر زور دیا کہ اگر تم اخلاق فاضلہ سے کام نہیں لو گے تو تم دنیا میں کبھی بھی پنپ نہیں سکتے کجا یہ کہ دوسروں پر غالب آجاؤ.پس پہلی بات اخلاق پر زور دینے کی ہے جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ وہ لطیف پانی ہے.دوبارہ میں اُس پہلی اصطلاح کی طرف واپس لے جاتے ہوئے آپ کو بتا تا ہوں.یہ وہ لطیف پانی ہے جس نے لازماً کثیف پانی میں سرایت کرتا ہے لیکن اگر اس لطیف پانی میں آپ کی بدخلقیاں شامل ہو جائیں اور بد کرداریاں شامل ہو جائیں اور بد معاملکیاں شامل ہو جائیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ کا اندرونی پانی اتنا گاڑھا ہو جائے کہ بجائے اس کے کہ غیروں میں سرایت کرے اُن کی بدیوں والا پانی آپ کے اندر سرایت کرنا شروع ہو جائے اور وہی سلوک ہو آپ کے ساتھ جیسے کلر شور میں ایک پودا لگایا جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ باہر سے پانی کھینچے وہ اپنا پانی بھی کلر شور کے سیال کو دے دیتا ہے اور خود زندگی سے محروم ہو جایا کرتا ہے.یہ وہ سب سے بڑا خطرہ ہے جو میں مغربی دنیا کے سفر میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں.پس آپ کا ایک پہلو سے یہ فرض ہے کہ اپنے اخلاق کی حفاظت کریں اور لطیف وجود کے طور پر ان قوموں کے سامنے ظاہر ہوں جن کی مہک، جن کی خوشبو، جن کی پاکیزگی سرایت کئے بغیر رہ نہ سکے اور اس کے ساتھ ساتھ ہی آپ کے نظریات بھی ان لوگوں میں نفوذ پانے لگیں اور سرایت کرنے لگیں اور یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعے دراصل روحانی قو میں غالب آیا کرتی ہیں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان سے جو کچھ آپ نے لینا ہے کیونکہ آپ نے اپنی بقا کے لئے لازماً ان سے کچھ لینا ہے.سب سے پہلے تو Selective ہوں اور اچھی چیزیں لیں.جس طرح جب ایک آدمی کو بھوک لگتی ہے تو غیروں کا محتاج ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جس سے وہ توانائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کے جسم کے لئے ایک غیر ہے.میٹھا ہو یا نمک ہو یا سبزی ہو یا گوشت ہو یا مچھلی ہو، انڈا ہو جو کچھ بھی ہو وہ جسم کے لئے غیر ہے یہ یادر کھیئے اور اس کا غیر ہونا اس بات سے ثابت ہے کہ اگر وہ براہ راست جسم میں داخل ہو تو جسم کی ہلاکت کا موجب بن جائے گا.پس اُس غیر کو اپنا بنا کر اپنے اندر داخل کریں.اُن کے اندر سے وہ چیزیں لیں جو نسبتا اچھی ہوں پہلے اُن چیزوں کو چنیں پھر اُن کو مزید اسلامی بنائیں.اپنے

Page 421

خطبات طاہر جلد ۸ 416 خطبہ جمعہ ۱۶/ جون ۱۹۸۹ء اسلامی تصورات کے مطابق ان کو ڈھالیں اور ان کی تربیت کریں اور پھر ان کا انہضام کریں.یہ نظام ہمیں بعض دوسری قوموں میں بھی نظر آتا ہے جواب مزاجا اور عادتا اور روایہ یہ سلوک کرتی ہیں باہر سے آنے والے نظریات سے.جاپان اُن میں سے ایک ہے.جاپان میں جو بھی مذہب جائے یا جو بھی طرز زندگی جائے وہ اس کو پہلے جینا ئز (Japanize) کرتے ہیں اور پھر اس کو قبول کرتے ہیں.آج وہاں عیسائیت کی جو شکلیں ملتی ہیں وہ بھی جپائیز ڈ (Japanized) عیسائیت کی شکلیں ملتی ہیں.اس لئے بجائے اس کے کہ یہ لوگ اسلام کو ویسٹر نائیز (Westernize) کرلیں آپ کا فرض ہے کہ ان کی خوبیوں کو اپنائیں اور ان کو اسلامائیز (Islamize) کرلیں.ان کے نظام میں جو اچھی چیزیں ہیں ان کو اپنے لئے ذریعہ حیات بنائیں، ذریعہ تقویت بنا ئیں.وہ Selective ہوں، احتیاط کے ساتھ ، چناؤ کرتے ہوئے اُن کی اچھی باتوں کو اپنا ئیں اور ہضم کرنے سے پہلے اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھال کر اُن کو صاف ستھرا کر کے اپنے وجود کا پاکیزہ حصہ بناتے ہوئے ان کو ہضم کریں.یہ وہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف مغربی ملکوں میں بسنے والی جماعتیں جو ہیں ان کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اس کا ایک اور پہلو بھی ہے.جب ہم یہ مثالیں دیتے ہیں تو یہ مراد نہیں ہوا کرتی کہ ظاہری طور پر ہر مثال کا ہر پہلو صورتحال پر اطلاق پا جائے.واقعہ مثالوں میں سے بعض حصے چسپاں ہوتے ہیں اور بعض حصے چسپاں نہیں ہوا کرتے.اس لئے بعض دفعہ مضمون بدل بدل کر ایک چیز سمجھانی پڑتی ہے.ایک دوسرا پہلو جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب آپ اخلاقی قدروں کو نہیں صرف بلکہ ان کے افراد کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کریں گے تو اُس وقت بھی یہی اصول کارفرما ہونا چاہئے.جب مغربی قوموں سے لوگ آپ کے اندر داخل ہوتے ہیں تو اُن کو Islamize کرنا بہت ضروری ہے.اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو پھر یہ اپنے اثرات آپ کے اندر داخل کر کے آپ کو کھینچ کر اپنا وجود بنا لیں گے کیونکہ جب وسیع پیمانے پر اختلاط ہو گا تو لازماً یہ جد و جہد اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہے.یا آپ ان کے ہو جائیں گے یا یہ آپ کے ہو جائیں گے.بظاہر یہ مسلمان بھی ہو رہے ہوں گے لیکن اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ اس طرح مسلمان ہوں کہ ان کی ناقابل قبول قدروں کو آپ نے صاف اور ستھرانہ کیا ہو اور وہ قدریں آپ کے وجود میں داخل ہو جائیں اور اس وجود کا حصہ بن جائیں.یہ وہ

Page 422

خطبات طاہر جلد ۸ 417 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء خطرہ ہے جس کی طرف سورہ نصر ہمیں توجہ دلاتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (انصر ۲۰-۴) کہ دیکھو ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب کہ قومیں وسیع تعداد میں اسلام میں داخل ہوں گی اور جب وہ داخل ہوں گی تو یا درکھنا کہ تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم ان کو اپنے وجود کا حصہ بناؤ.اگر تم نے ان کو اپنے وجود کا حصہ نہ بنایا تو خطرات لاحق ہوں گے اور اس کے لئے ہم تمہیں تسبیح اور استغفار کی طرف متوجہ کرتے ہیں.تسبیح اور استغفار یہ دو باتیں ہیں جن کی طرف خصوصیت سے اس موقع پر توجہ دلائی گئی.تسبیح میں انسان خدا تعالیٰ کو سب برائیوں سے پاک سمجھتا ہے اور حمد کی طرف بھی توجہ دلائی گئی.ظاہر ہے فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَتِكَ وَاسْتَغْفِرْهُ تیج کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کوسب برائیوں سے پاک قرار دیتا ہے.قرار دینے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اگر وہ فتویٰ دے تو نعوذ باللہ خدا تعالیٰ پاک نہیں ہو گا.مراد یہ ہے کہ اپنی نظر وسیع کرتا چلا جاتا ہے اور خدا کا عرفان بڑھاتا چلا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی سوچ کا رُخ ہمیشہ اس طرف رہتا ہے کہ جوں جوں اس کا مطالعہ وسیع ہو وہ یہ دیکھتا چلا جاتا ہے کہ ہر دوسری چیز برائیوں والی ہے.اس میں کوئی نہ کوئی برائی موجود ہے لیکن خدا کی ذات ہر برائی سے پاک ہے.پس برائیوں کا شعور جہاں بڑھتا ہے وہاں خدا کے تقدس کا شعور بھی ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے.دوسرا فرمایا بِحَمْدِ رَبَّك کہ اپنے رب کی حمد کا تصور بھی ساتھ باندھ لو.جہاں تسبیح کا تصور باندھتے ہو وہاں یہ بھی سوچو کہ وہ ساری خوبیوں کا مالک ہے اور جتنی تمہاری نظر وسیع ہوتی چلی جائے گی.ساری کائنات پر نظر ڈال کر دیکھ لو کوئی خوبی تمہیں ایسی دکھائی نہیں دے گی جس کا اصل منبع اور مرجع دونوں لحاظ سے خدا ہی ہے.آغاز بھی وہی ہے اور انجام بھی وہی ہے.یہ وہ دو چیزیں ہیں جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے آنے والی قوموں کا استقبال کرو، یہ ہے تعلیم.مطلب یہ ہے کہ جب تم اس بات کا پوری طرح شعور حاصل کر لو گے کہ خدا برائیوں سے پاک ہے اور تم خدا کی طرف بلا رہے ہو تو لازما تمہیں آنے والوں کو برائیوں سے پاک کرنا چاہئے اور اگر تم نے خود اپنے آپ کو برائیوں سے پاک نہیں کیا تو تم خدا کی طرف بلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے.ایک طرف یہ کہتے ہو کہ اے خدا تو ہر برائی سے پاک ہے اور ہم تیرے نام پر تیری طرف دنیا کو بلاتے ہیں.دوسری طرف خود

Page 423

خطبات طاہر جلد ۸ 418 خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۸۹ء نہ اپنے وجود کو برائیوں سے پاک کر رہے ہو نہ آنے والوں کو برائیوں سے پاک کر رہے ہو تو تمہارا داعی الی اللہ بننے کا حق ہی نہیں رہتا.پھر اگر تمہاری حالت وہی رہتی ہے اور تم اپنے اندر مزید خوبیاں پیدا نہیں کرتے اس خیال سے کہ جس سے دوستی باندھی ہے یعنی خدا کی ذات وہ تو تمام خوبیوں سے مرصع ہے اس لئے اگر اس کے قریب ہونا ہے تو کچھ اس جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب اپنی ذات میں تم یہ شعور بیدار کر لو گے اور باشعور طور پر اس کی کوشش کرو گے تو ہر آنے والے کے لئے بھی تمہیں اسی پہلو سے فکر کرنا ہوگا، غور کرنا ہو گا اور اُن کو خوبیاں عطا کرنے کے لئے بھی ضرور کوشش کرنی ہوگی.اس کے بعد فرمایا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ان باتوں کے باوجود تم سے کمزوریاں رہ جائیں گی کیونکہ یہ جو ہے یعنی یہ بنیادی دعویٰ کہ خدا کے سوا ہر شخص کمزور ہے، داغدار ہے، اور ہر چیز برائیوں والی ہے یہ تم پر بھی تو اطلاق پاتا ہے.تمہاری کوئی کوشش بھی غلطیوں سے پاک نہیں ہوسکتی.اس لئے جب تمہاری کوششیں غلطیوں سے پاک نہیں ہوسکتیں تو ہو سکتا ہے اس کے بداثرات آنے والی قوموں پر مترتب ہوں.پس ضروری ہے کہ تم خدا سے دعا اور استغفار کے ذریعے مدد مانگو اور اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرتے رہو کہ اے خدا! ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کر لی لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں خود.جب ہم نے اقرار کر لیا کہ تیرے سوا کوئی پاک نہیں تو ہم بھی تو پاک نہیں.اس لئے ہماری کوششوں سے پا کی کسی کو عطا ہو جائے یہ ممکن نہیں ہے جب تک تیری مدد شامل حال نہ ہو.پس استغفار کا مضمون اپنی غلطیوں سے بخشش مانگنا ہی نہیں بلکہ کمزوریوں کو ڈھانپنا ہے.ہماری برائیاں چھپ جائیں اور دوسروں پر اثر انداز نہ ہوں اور اُن کو داغدار نہ کریں.یہ وہ طریق ہے جس پر ہمیں مغرب میں زندہ رہنا ہے.اگر ہم نے اس طریق کو اختیار نہ کیا تو دوسمندر جو یہ مل رہے ہیں انہوں نے قانون قدرت کے مطابق جو باتیں میں نے بیان کی ہیں اُن پر ضرور عمل پیرا ہونا ہے.اگر آپ سرایت کرنے والے نہ بنیں تو یہ آپ میں سرایت کر جائیں گی.اگر آپ نے ان کے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا نہ کی تو یہ لا ز ما آپ کو تبدیل کرلیں گے.آج صبح ایک پریس انٹرویو میں مجھ سے یہی سوال کیا گیا تھا.ایک پریس کے نمائندے نے کہا آپ جن قوموں میں آکے بسے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ اس کے کیا نتائج ہیں اور کیا کیا خدشات ہیں؟ کیا آپ اس طرح جماعت کو یہاں رہنے کی تلقین کریں گے کہ وہ اپنے اصولوں کا سودا کر لیں

Page 424

خطبات طاہر جلد ۸ 419 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء اور ان قوموں میں جذب ہو جائیں اور اگر نہیں تو پھر آپ یہاں کیسے زندہ رہیں گے؟ میں نے مختصراً اس کو یہی جواب دیا کہ ہمارا زندہ رہنے کا فارمولا یہ ہے کہ ہم نے ہر گز اصولوں پر سودا نہیں کرنا.تمہاری خوبیاں اپنانے کی کوشش کرنی ہے اور اپنی خوبیاں تمہیں دینی ہیں تا کہ ہم دونوں کے لئے آپس میں ملنے کا ایک مقام پیدا ہو جائے ، جہاں ایک دوسرے کے ساتھ ، مفاہمت کے ساتھ ہم اکٹھے ہو سکیں.پس ضروری نہیں ہوا کرتا کہ اصولوں کے سودے کے ذریعے ایک قوم دوسرے میں جذب ہو بلکہ اعلیٰ اصولوں کی حفاظت کرتے ہوئے بھی ایک ایسا فارمولا طے کیا جاسکتا ہے، ایسا افہام و تفہیم کا ایک باہمی معاملہ طے کیا جا سکتا ہے کہ جس کے ذریعے ہم دونوں اکٹھے بھی ہوں اور بعض پہلوؤں سے جدا جدا بھی ہوں.پس اس کا سوال اتفاقی تھا، اس سے پہلے میرے ذہن میں یہی مضمون تھا جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے.میں آپ کو اب سمجھانا چاہتا ہوں کہ بہت ہی بنیادی اور اہم بات ہے، آپ نئی صدی میں داخل ہوئے ہیں بہت سے ایسے نئے گھرانے یہاں آ کے آباد ہوئے ہیں جن کا پس منظر مشرقی ہے اور مشرقی پس منظر لازماً اسلامی نہیں ہے یہ بھی یاد رکھیئے.جو خطرات ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ مشرقی پس منظر کی برائیوں کو لے کر یہاں آئیں اور یہ اس کو اسلامی پس منظر سمجھتے رہیں اور اسلام کے خلاف رد عمل دکھا ئیں اس لئے بہت ہی نازک معاملہ ہے اور پھر یہ بھی خطرہ ہے کہ اس مشرقی پس منظر کی بعض روایات ادنیٰ ہوں اور زندہ رہنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوں اور خود آپ اس بارے میں ابہام کا شکار ہو چکے ہوں.آپ کو یہ نہ پتا ہو کہ یہ اسلام نہیں ہے بلکہ بعض مشرقی قدریں ہیں اور ان کی مقابلہ اعلیٰ قدروں سے آپ شکست کھا کر ایک احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں، یہ بھی ایک بڑا حقیقی خطرہ ہے.اس لئے بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ اسلام کو الگ رکھیں ، مشرقی روایات اور مشرقی قدروں کو الگ رکھیں.اسلام کے اخلاق سے مزین ہوں کیونکہ ان میں عالمی ہونے کی صلاحیت موجود ہے.اپنے میل جول ، اپنے طریق کار میں لطافت پیدا کریں.ایسی لطافت جو دوسروں پر لازماً اثر انداز ہو جائے.اس سے Penetration کی طاقت ہے اور Penetration کے ذریعے آپ اُن کو اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں اور جب آپ مائل کرتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح کی کوشش شروع کر دیں، ان کو اسلام کی اعلیٰ قدریں سکھانی شروع کر دیں اور کوشش کریں کہ ان کی بدیوں سے متاثر نہ ہوں لیکن بدیوں سے اگر آپ نے متاثر نہیں

Page 425

خطبات طاہر جلد ۸ 420 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء ہونا تو لازم ہے کہ ان کی خوبیوں کا بھی اعتراف کریں ورنہ آپ کو یہ لوگ متعصب اور جاہل اور اندھے سمجھیں گے.بہت سی باتوں میں جیسا کہ قرآن کریم نے متوجہ فرمایا ہے کھارے پانی کے سمندر میں بھی فائدے کی چیزیں ہیں، یہاں بھی مچھلیاں ہیں، یہاں بھی خوراک کے اعلیٰ سے اعلیٰ سامان موجود ہیں، یہاں بھی موتی ہیں مثلاً سچائی کا جہاں تک تعلق ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ آج اکثر مسلمان ممالک کی نسبت روز مرہ کی زندگی میں عیسائی ممالک میں زیادہ سچائی دکھائی دے رہی ہے.یہ اعتراف کتنا کڑوا کیوں نہ محسوس ہو.ہو سکتا ہے کوئی مسلمان سن کر اتنا مغلوب الغضب ہو جائے کہ وہ کہے کہ جس شخص نے یہ کہا اس کو قتل کر دینا چاہئے ، بڑی سخت اسلام کی ہتک کی ہے.اسلام کی ہتک سچائی کی بہتک سے اور جھوٹ کی عزت افزائی سے ہوتی ہے.پس یہ ایک حقیقت ہے اسے ہر احمدی کو تسلیم کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرنا چاہئے.اس کی جرات پیدا کرنی چاہئے ،حوصلہ پیدا کرنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی اس احساس سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ تمام سچائیوں کا سر چشمہ اسلام ہے.مسلمان اسلام نہیں ہے.آج کا مسلمان یقیناً اسلام نہیں ہے.اگر کوئی اسلام تھا تو حضرت محمد مصطفی ع تھے.یعنی زندگی کی شکل میں انسانی صورت میں اگر کوئی اسلام کا مجسمہ تھا تو حضرت اقدس محمد مصطفی امی تھے یا وہ صحابہ تھے جن کو آپ نے پیدا فرمایا.پس اسلام اگر کبھی شخصیتوں میں ڈھل سکتا ہے تو اس وقت ڈھلا تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا زمانہ تھا اور قرون اولیٰ کا زمانہ تھا.یعنی پہلی پہلی صدیوں کا زمانہ تھا جس میں ابھی اسلام کی سچائی مسلمانوں کے وجود کا حصہ بنی ہوئی تھی.اب صورتحال بدل چکی ہے اس لئے اسلام پر حرف نہیں ہے بلکہ ان بدنصیبوں پر حرف ہے جنہوں نے اسلام کو سچائی کے طور پر قبول کرتے ہوئے بھی جھوٹ کے ساتھ رابطے بڑھا دیئے.تو صرف ایک نہیں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں ان ملکوں میں.روزمرہ کی زندگی میں ایفائے وعدہ یہاں بہت زیادہ پایا جاتا ہے، روز مرہ کی زندگی میں حسن ظن یہاں پایا جاتا ہے، بے وجہ تجسس نہیں پایا جاتا، بے وجہ بدظنیاں نہیں پائی جاتیں، بے وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا کر لڑائی جھگڑے کرنا یہاں عموماً مفقود ہے.بعض علاقوں میں بعض صورتوں میں پایا جاتا ہے.تو یہ خوبیاں بھی یہاں ہیں.اس کے مقابل پر بڑی بڑی خطرناک بدیاں بھی ہیں تو آپ کو Selective ہونا پڑے گا.سچائی کے ساتھ جڑے رہیں گے تو آپ ان کی خوبیاں قبول کریں گے لیکن احساس کمتری کا شکار نہیں

Page 426

خطبات طاہر جلد ۸ 421 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء ہوں گے.ان کی خوبیاں اس اصول کے تابع آپ قبول کریں گے کہ الـــحـــكـــمـة ضـــــالة المومن (الترندی کتاب العلم حدیث نمبر ۲۶۱).کہ حکمت کی چیز مومن کی گمشدہ اونٹنی اور گمشدہ چیز کی طرح ہی ہے.وہ دراصل اس کی ملکیت تھی.پس ہر سچائی کا منبع اگر اسلام ہے تو جو سچائیاں یہاں بکھری پڑی ہیں آپ ان سے کیسے نفرت کر سکتے ہیں.وہ اسلام ہی کی سچائیاں ہیں.انہیں آپ کو اپنا نا پڑے گا اور جو بچے ہیں ان سے اس سچائی کے مطابق کسی حد تک پیار کرنا پڑے گا.ان کی خوبیوں کا اعتراف کرنا ہوگا اور اس ذریعے سے وہ آپ کے اندر زیادہ دلچسپی لیں گے کیونکہ سب سے بڑی طاقت اثر انداز کرنے والی سچائی ہوا کرتی ہے.اگر احمدیوں میں یہ تو میں بچے لوگوں کو دیکھیں، وہ دیکھیں کہ یہ اچھی بات کا اعتراف کرنے والے ہیں ، بُری باتوں کو رڈ کرنے والے ہیں اور جو حقیقت جیسی بھی ہے خواہ ان کے لحاظ سے وہ کڑوی ہو یا میٹھی ہو یہ اس حقیقت کو قبول کرنے کی صلاحیت اور جرات رکھتے ہیں تو لازماً یہ قومیں آپ کی طرف عظمت و احترام سے دیکھنے لگیں گی اور آپ کے نظریے میں دلچسپی لینے لگیں گی.تو اس پہلو سے آپ کا روحانی طور پر نفوذ کرنا اور پھیلنا ضروری ہے.بچوں کے ذریعے آپ ضرور پھیلیں کوئی اس سے منع نہیں کرتا بلکہ میں تو تحریک کر رہا ہوں کہ وقف نو کی خاطر بھی بچے پیدا کریں لیکن بچوں کے ذریعے پھیلنا کافی نہیں ہے.میں جب یہاں آیا تو میں نے بعض لوگوں سے اندازے پوچھے کہ کتنے احمدی ہیں تو اکثر نے جو جواب دیا اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس وقت تو زیادہ نہیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ تین سال کے عرصے میں انشاء اللہ کافی ہو چکے ہوں گے.جب میں نے پتا کیا کہ کس طرح کافی ہو چکیں گے تو پتا لگا پیدائش کے ذریعے سے لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ روحانی ذریعے سے اسلام کی خوبیوں کے نفوذ کے ذریعے سے ، اپنے اعلیٰ اور لطیف اخلاق کے نفوذ کے ذریعے سے ہم لازماً بڑھنے والے ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت ہمیں روک نہیں سکتی.کسی نے یہ جواب نہیں دیا.اُس سے مجھے فکر پیدا ہوئی، اسی سے میرا ذ ہن اس خطبے کی طرف مائل ہوا کہ آپ کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ کی جسمانی پیدائش تعداد میں برکت تو دے سکتی ہے مگر آپ کے نظریے کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کر سکتی اگر اس سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آپ روحانی طور پر بڑھنا نہ سیکھیں.یہ قومیں اگر آپ پر غالب نہیں آئیں گی تو آپ کی نسلوں پر غالب آجائیں گی اگر

Page 427

خطبات طاہر جلد ۸ 422 خطبہ جمعہ ۶ ارجون ۱۹۸۹ء آپ نے ان پر غالب آنا نہ سیکھا.یعنی روحانی اور اخلاقی لحاظ سے.اس راز کو آپ کو سمجھنا چاہئے یہ زندگی کا راز ہے.میں زیادہ وقت لے کر آپ کو سمجھا رہا ہوں آپ میں سے شائد بعض کو نیند بھی آ رہی ہومگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت گہری بات ہے آپ کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے یہ.اس راز کو سمجھیں یہ زندگی کا سر چشمہ ہے.آپ کو روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر صاحب نفوذ بنا ہو گا یہ صلاحیتیں پیدا کرنی ہوں گی کہ ان سوسائٹیوں میں سرایت کر جائیں اور پھر انہی دھاگوں کے ذریعے جو اخلاق کے دھاگے ہیں ان کو کھینچ کر اسلام میں داخل کرنا ہوگا اور داخل کرتے وقت ان کی نوک پلک درست کرنے ہوں گے، ان کی صفائی کرنی ہو گی جس طرح آپ فیکٹریوں میں را میٹریل (Raw Material) کی خام مال کی صفائیاں کی جاتی ہیں پھر کارخانوں میں داخل کیا جاتا ہے، جس طرح نظام انہضام میں باہر سے کا رسے لی گئی خوراک کی صفائی کرنی پڑتی ہے اس کو لطیف اور باریک بنانا پڑتا ہے اس طریق پر آپ ان کو لیں.پس ان کو لینے کا ان کو کھینچنے کا اصل ، آخری گر آپ کے لطیف اعلیٰ قدروں والے اخلاق ہیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم ہوں اور اسلام کی تعلیمات گویا آپ کی ذات بن جائیں، آپ کا وجود بن چکی ہوں اور آپ کے خلق اور آپ کے اسلام میں کوئی فرق نہ رہے.اس پہلو سے جس پہلو سے آنحضرت ﷺ ایک زندہ قرآن تھے آپ اپنے اخلاق کی ڈوریاں ان میں پھینکیں.اخلاق کی ڈوریاں لطیف ہوا کرتی ہیں.اخلاق کی ڈوریاں بڑی نازک ہوا کرتی ہیں بعض دفعہ دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان میں طاقت بڑی ہوا کرتی ہے.کسی شاعر نے کہا ہے کچے دھاگے سے چلی آئے گی سرکار بندھی وہ کچا دھاگہ کیا ہے؟ وہ جذبہ عشق اور جذبہ خلق ہے.دیکھنے میں کچا دھاگہ ہے مگر بڑی بڑی طاقتوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا کرتا ہے.پس آپ کے اخلاق کی باریک اور نازک ڈوریاں ہیں جنہوں نے ان قوموں کو باندھنا ہے اور باندھ کر سچائی اور خدا اور خدا کے رسول کے قدموں میں لا ڈالنا ہے.اس کے سوا اور کوئی طاقت آپ کے پاس نہیں ہے.جہاں تک ظاہری مضبوط زنجیروں کا تعلق ہے، جہاں تک ظاہری مضبوط بندھنوں کا تعلق ہے وہ ان قوموں کے پاس ہے اور آپ کے پاس کچھ نہیں ہے.پس اخلاق کے نازک اور لطیف دھاگوں کے ذریعے، اخلاق کی ڈوریاں پھینک کر، اخلاق کی کمندیں ڈال کر ان قوموں پر قبضہ کریں ورنہ یہ تو میں آپ پر قبضہ کر لیں گی اور آپ کی نہیں تو آپ کی اگلی نسلوں کی اور اگلی نسلوں کی حفاظت اور بقاء کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکے گی.

Page 428

خطبات طاہر جلد ۸ 423 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء نوع انسانی کو فائدہ پہنچانے کا سب سے بڑا طریق یہ ہے کہ اپنی ذات میں خدا کی محبت کے کرشمے دکھائے جائیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء بمقام یونیورسٹی آف میری لینڈ ا مریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: مذاہب اور Cult میں ایک نمایاں فرق ہے لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کو آگے بڑھاؤں میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ انگریزی میں ترجمے کا انتظام ہے یا نہیں.مذاہب میں اور Cults میں ایک نمایاں فرق ہے.آجکل مغربی دنیا میں کلٹس بہت متعارف ہیں اور کچھ سال پہلے تو Cults فیشن بنی ہوئی تھی اور یہی فرق ہے جو مذاہب اور کلٹس میں ہے کہ کلٹس فیشن کی حیثیت رکھا کرتی ہیں اور مذاہب مستقل قدریں ہوتے ہیں.مذاہب آ کر ٹھہر جایا کرتے ہیں اور آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں.کلٹس آکرگزرجانے والی چیز میں ہیں جو اپنی قدروں کو آئندہ نسلوں میں منتقل نہیں کیا کرتیں.پس یہاں امریکہ ہی میں کچھ سال پہلے مختلف قسم کی کلٹس آئیں اور چند سالوں میں بہت شہرت پاگئیں.لکھوکھہا امریکیوں نے بعض دفعہ چھٹے ہاتھوں میں پکڑ لئے اور چھٹے بجانے ہی کو دین سمجھنے لگے، بعض دفعہ انہوں نے بال بڑھالئے اور سکھ بننے میں ایک روحانی لذت محسوس کی.غرض یہ کہ بہت سی Cults جو باہر کی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں یعنی مشرقی دنیا سے یا مغربی دنیا سے وہ یہاں آتی رہیں اور کچھ کمائیاں کر کے خواب کی طرح مٹ جاتی رہیں اور کوئی مستقل تعبیریں پیچھے نہیں چھوڑ گئیں.

Page 429

خطبات طاہر جلد ۸ 424 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء اس کے مقابل پر مذاہب جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک سنجیدہ خدمت کے لئے دنیا میں قائم کئے جاتے ہیں.یہ دو لفظ سنجیدہ اور خدمت ان دونوں کا مذاہب کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور اسی لئے ان میں وزن پایا جاتا ہے.یہ دنیا میں اس لئے آتے ہیں کہ آ کے ٹھہر جائیں اور اس پہلو سے ان میں اتنا وزن ہوتا ہے کہ بسا اوقات مذاہب کی قدریں گزر بھی جائیں تب بھی وہ دنیا میں باقی رہ جاتے ہیں.اسی لئے ان کو قرآن کریم نے اس آیت میں ایک موسلا دھار بارش کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان فرمایا.فرمایا اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيَّا فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (الرعد: ۱۸) کہ دیکھو خدا تعالیٰ بعض دفعہ موسلا دھار بارشیں برساتا ہے جو ایسی غیر معمولی بارشیں ہوتی ہیں کہ ان کے نتیجے میں وادیاں بھر جاتی ہیں اور جب وادیاں بھرتی ہیں تو ان پانیوں پر جن سے وادیاں بھرتی ہیں آپ جھاگ بھی دیکھتے ہیں اور کثرت سے جھاگ تیرتی ہوئی ہر طرف دکھائی دیتی ہے.فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء لیکن جھاگ جو ہے وہ بالآ خر سوکھ کر مٹ جایا کرتی ہے اور وہ چیزیں جو بنی نوع انسان کے فوائد کی ہیں وہ زمین میں بیٹھ جاتی ہیں.پس ہر سیلاب کے بعد آپ یہی نظارہ دیکھتے ہیں کہ سیلابوں کے ساتھ جھا گیں بھی اُٹھتی ہیں جو چند دن نظر آتی ہیں جبکہ زمین میں بیٹھنے والی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں.ان میں نمائش نہیں پائی جاتی.جھاگ سب سے زیادہ انسان کی نظر کو پہلے پکڑتی ہے کیونکہ وہ سطح پر تیرتی ہے اس میں ایک نمائش کا پہلو پایا جاتا ہے لیکن چند دن کے بعد جھاگ کا وجود تو نہیں رہتا لیکن وہ سیلاب کا پانی اپنے پیچھے بعض قیمتی چیزیں بعض اجزاء، بعض نمکیات، بعض اور بہت سی مٹی کی ایسی قسمیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے جو ان علاقوں کی ذرخیزی پر غیر معمولی اثر ڈالتی ہیں.چنانچہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سیلابوں کے بعد ان علاقوں کی مٹی بہت ذرخیز ہو جاتی ہے.اس پہلو سے جب میں نے غور کیا کہ امریکہ جیسے ملک میں جہاں جماعت احمدیہ کو آئے ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران بہت سی کلٹس (Cults) آ ئیں اور چلی بھی گئیں.بعض ایسے وقت بھی آئے کہ جب لوگوں نے متوجہ کیا دیکھو احمدیت کو آئے ہوئے تو اتنی مدت ہوگئی اور ابھی گنتی کے چند امریکن احمدیت میں شامل ہوئے ہیں جبکہ دیکھتے دیکھتے لکھوکھا سکھ بنے ، دیکھتے

Page 430

خطبات طاہر جلد ۸ 425 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء دیکھتے ہری کرشنا والوں کو بہت شہرت حاصل ہوئی ، مونہیں آئے اور اسی طرح دوسری کلٹس بھی کہ Let us join hands and die آؤ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر خود کشی کر لیں اس قسم کی کلٹس (Cults) بھی آئیں اور بظاہر بڑی مقبول ہوئیں لیکن واقعہ بظاہر مقبول ہوئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ ان کی کیفیت جھاگ کی سی تھی اور آئندہ بھی کلٹس کی حیثیت جھاگ ہی کی رہے گی.وہ نظر کے سامنے نمایاں طور پر آتی ہیں اور ہلکی ہونے کی وجہ سے ان کے اندر نہ فائدہ ہے، نہ وزن ہے، نہ سنجیدگی ہے ، نہ بنی نوع انسان کے لئے فوائد ہیں.وہ آتی ہیں اور مٹ جایا کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی میری توجہ اس آیت کے اس حصے کی طرف بھی منتقل ہوئی وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ کہ اگر تم واقعہ دنیا میں قائم رہنا چاہتے ہوا ور ہمیشگی اختیار کرنا چاہتے ہو تو تمہارے اندر بنی نوع انسان کے لئے فوائد ہونے چاہئیں.اس پہلو سے جب میں نے مزید غور کیا تو مجھے یہ حقیقت بھی سمجھ آگئی کہ کیوں بسا اوقات جماعت امریکہ کے بعض حصوں میں پھیلی اور پھر جلدی ختم ہو گئی ؟ وہ جھاگ کی طرح تو نہیں لیکن پھر بھی جو قرآن کریم نے یہ صفت بیان فرمائی ہے مذاہب کی کہ وہ ٹھہر جایا کرتے ہیں اور وقتی جوش اور وبال کے بعد مٹ نہیں جایا کرتے.یہ صفت احمدیت کے اوپر امریکہ کے بعض حصوں میں اطلاق نہیں پاتی.یہ فکر تھی جس کے نتیجے میں سوچتے سوچتے میرا مضمون اس آیت کی طرف منتقل ہوا اور میں نے جب غور کیا تو مجھے یہ راز سمجھ آیا کہ یہاں جب تک جماعتوں میں بنی نوع انسان کے فوائد کی صفات کو اُبھارا نہ جائے اور خصوصیت کے ساتھ ان کی طرف توجہ نہ دی جائے یہاں جماعتوں کا استقلال پکڑنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا اور جب آپ اس نقطہ نگاہ سے وسیع جائزہ لیتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ واقعہ بنیادی کمزوری یہی ہے.جہاں بھی دنیا میں جماعتیں بنی نوع انسان کے فوائد کے کام کرتی ہیں اور بنی نوع انسان کے فوائد ان کے ساتھ وابستہ ہو جایا کرتے ہیں وہاں جماعتیں آکر گزر جانے والی ہواؤں کی طرح نہیں ہوا کرتیں بلکہ ان پانیوں کی طرح جو اپنے پیچھے غیر معمولی وزنی اقدار چھوڑ جایا کرتے ہیں وہ وہاں مستقل طور پر قیام پذیر ہو جایا کرتی ہیں، وہ وہاں جڑیں پکڑ جاتی ہیں.پس اس مضمون کے ساتھ ہی افریقہ کی جماعتوں کی طرف میری توجہ مبذول ہوئی اور میں نے دیکھا کہ واقعہ افریقہ میں بھی بہت سی تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور ہوا میں چلتی ہیں کبھی مشرق

Page 431

خطبات طاہر جلد ۸ 426 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء سے مغرب کو کبھی مغرب سے مشرق کو ، مذاہب کی طرف توجہ بھی ہوتی ہے، مذاہب سے توجہ ہٹ بھی جایا کرتی ہے لیکن جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے مسلسل وقت کے گزرنے کے ساتھ جماعت زیادہ مضبوط ہوتی چلی گئی ہے اور زیادہ مضبوط ہوتی چلی جارہی ہے اور جماعت کے پاؤں زیادہ گہرے جمتے چلے جارہے ہیں لیکن انہی حصوں میں جہاں بنی نوع انسان کے فوائد ان سے وابستہ ہیں، جہاں بنی نوع انسان کے نظر آنے والے فوائد ان سے وابستہ نہیں ہیں وہاں ایسی مضبوطی کی کیفیت دکھائی نہیں دیتی.چنانچہ مغربی افریقہ میں جہاں جہاں سکولز ہیں، ہسپتال ہیں،اس کے علاوہ جماعت میں خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے، بنی نوع انسان کی خدمت کے جذبے کی روح جماعت میں زندہ ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کوئی انقلاب بھی جماعت کے اوپر برا اثر نہیں ڈالتا.حکومتیں آتی ہیں چلی جاتی ہیں، بعض دفعہ جمہوری حکومتیں قائم ہوتی ہیں ، بعض دفعہ فوجی حکومتیں قائم ہوتی ہیں اور بعض دفعہ بڑے خطرناک قسم کے بھی انقلاب آتے ہیں.وہ دوسری چیزوں پر اثر انداز ہو جاتے ہیں مگر جماعت پر اثر انداز نہیں ہوتے.چنانچہ اب جو صد سالہ جو بلی کے سلسلے میں وہاں مختلف ممالک میں اُن کے بڑے بڑے لوگوں نے یعنی دنیا کے نقطہ نظر سے بڑے لوگوں نے حکومت کے نمائندوں نے وزراء نے ، بڑے بڑے چیفس نے جماعتی تقریبات میں حصہ لیا اُن کی جو رپورٹیں مجھ تک پہنچتی ہیں ان میں یہ بات سب سے نمایاں نکلی کہ ہر مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ جماعت بنی نوع انسان کے فائدے کی جماعت ہے اور بعض نے اپنے بچپن کے واقعات بتائے کہ ہماری یادیں جماعت کے ساتھ اس وقت سے وابستہ ہیں جب ہم نے ان کے مبلغین کو یہ نیک کام کرتے دیکھا، ان کے اساتذہ کو اس طرح محنت کر کے ہمارے بچوں کو پڑھاتے دیکھا اور ان کے ڈاکٹروں کو اتنی قربانی کر کے ہمارے بیماروں کو شفاء دیتے دیکھا اور یہ جو فوائد ہیں ان فوائد کے ذکر میں ان کی نگاہیں روحانی فوائد پر بھی پڑنے لگی ہیں اور یہ جو دنیاوی فوائد ہیں اس کے نتیجے میں ان کی نظر زیادہ گہرا اُتر کر جماعت کی روحانی حیثیت پر بھی پڑنے لگی ہے.چنانچہ کثرت سے اس بات کا بھی افریقہ میں اقرار کیا گیا کہ باوجود اس کے کہ ظاہری طور پر ان کے ہسپتال دوسرے ہسپتالوں کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، باوجود اس کے کہ دنیا کے جو جدید ترین آلات ہیں جراحی کے یا دوسرے خون وغیرہ کے امتحان لینے کے وہ ان

Page 432

خطبات طاہر جلد ۸ 427 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء کے پاس موجود نہیں تھے بلکہ بعض اوقات عملاً کوئی بھی ایسی چیز نہیں تھی جو جان بچانے کے لئے ضروری ہو.ایسے حالات میں بھی جبکہ مریض کو میز پر لٹا کر آپریشن کرنا اُس کی جان لینے کے مترادف سمجھا جانا چاہئے ، نہ بجلی ہے، نہ روشنی نہ Sterilize کرنے یعنی جراثیم سے پاک کرنے کے لئے ضروری آلات مہیا ہیں، ضروری سامان مہیا ہیں اور بتی جلائی اور وہاں ڈاکٹر نے اس کا پیٹ چاک کرنا شروع کر دیا اور Anti Biotics بھی پوری موجود نہیں تھی لیکن ایسے علاقے ہیں جہاں ہزار ہا آپریشن ہوئے لیکن کوئی جان ضائع نہیں گئی اور اتنی شہرت ہوئی ایسے ڈاکٹروں کی کہ ان کی شہرت کے نتیجے میں بڑے بڑے امریکن ہسپتال اور یورپین ہسپتالوں کو چھوڑ کر لوگ دور دور سے ان ہسپتالوں میں آنے لگے.تو یہ اقرار بھی اب عام ہونے لگا ہے.پہلے دبی زبان میں ہوا کرتا تھا اب کھلی زبانوں میں کھلی محافل میں بھی یہ اقرار ہونے لگا ہے کہ ان لوگوں کی دعاؤں میں بھی برکت ہے، ان کی توجہ میں بھی برکت ہے، ان کی روحانیت جسمانی شفاء کا موجب بھی بن جاتی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ نگاہیں جو ظاہری فوائد پر پڑ کر وہیں ٹھہر جایا کرتی تھیں اب وہ ان سے پرے سرایت کر کے روحانی فوائد کو بھی دیکھنے کے قابل بن چکی ہیں.لیکن مضمون وہی ہے جب تک آپ بنی نوع انسان کے لئے مفید نہیں بنیں گے آپ کے بقاء کی کوئی صورت نہیں ہے.ممکن ہے کہ وقتی طور پر ایک علاقے میں احمدیت پھیل جائے لیکن جو دنیا کا قانون ہے وہ ضرور اپنا اثر دکھائے گا.ان کی بقاء کی یہی صورت ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے.اگر وہ اس پر قائم نہ رہے تو نیچے وہ نہیں تو ان کی نسلیں ان سے ہٹ کر واپس اسی ماحول میں جذب ہو جائیں گی جس ماحول سے آپ لوگ یعنی پہلی نسلیں آئے تھے.یہ وہ خطرہ ہے جو پہلے بھی در پیش تھا اور بارہا اس خطرے نے مقابلہ اس زمانے سے آئندہ نسلوں کو بہت شدید نقصان پہنچایا.یہ وہ خطرہ ہے جواب بھی درپیش ہے اور اس کے لئے جماعت کو باشعور طور پر ضرور کچھ کوشش کرنی ہو گی.یہ درست ہے کہ اس علاقے میں جہاں تک فوائد کا تعلق ہے یہ لوگ جن میں باہر سے آنے والے پاکستانی آباد ہیں یا افریقن امریکن جن میں سے زیادہ تر خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہوئے ہیں وہ آباد ہیں اُن کے مالی وسائل خواہ وہ پاکستانی ہوں جو امریکہ میں آباد ہوئے یا جو افریقن ہوں جو امریکن افریقن کہلاتے ہیں دونوں کے مالی وسائل کے مقابل پر سوسائٹی بہت ہی زیادہ امیر ہے

Page 433

خطبات طاہر جلد ۸ 428 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء اور حکومت کی دولت کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا.کوئی نسبت نہیں ہے نہ ان کی تعداد کے مقابل پر نہ ان کی دولت کے مقابل پر ہم کسی شمار میں آ سکتے ہیں.اس لئے ظاہری خدمت اگر کرنی ہے تو کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور یہی وہ سوال ہے جس پر آپ کو غور کرنا چاہئے.خدمت کے بہت سے راستے نکل سکتے ہیں اور باشعور جماعتیں جو زندہ ہوں ان کی زندگی کی طاقت دراصل وہ طاقت ہے جو بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچایا کرتی ہے.ظاہری دولت اور ظاہری تعداد ضروری نہیں.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ زندگی کی علامتیں بخشی ہیں اور وہ زندگی کی علامتیں ہی ہیں جو بنی نوع انسان کے فوائد میں استعمال میں لائی جاسکتی ہیں.مثلاً وقار عمل کی جو روح جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے وہ آج دنیا کی بڑی سے بڑی آزاد قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، بڑی سے بڑی ترقی یافتہ قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے.میں پہلے انگلستان کے متعلق باتیں بیان کیا کرتا تھا کہ خدا کے فضل سے وقار عمل کی بڑی روح ہے.کینیڈا آیا تو وہاں بھی یہی نظارہ دیکھا، امریکہ آیا تو وہاں بھی یہی نظارہ دیکھا.کوئی ایک جماعت نہیں جہاں میں ٹھہراہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقار عمل کے لحاظ سے نمایاں اور دل پر غیر معمولی اثر کرنے والی خدمات کو میں نے آنکھوں سے نہ دیکھا ہو.پس یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل سے وہ زندگی کی علامتوں کا جہاں تک تعلق ہے وہ امریکہ کی جماعت میں بھی بھر پور طور پر موجود ہیں.مالی قربانی کا یہاں بیان کا موقع نہیں وہ بھی زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے لیکن اس کے علاوہ بنی نوع انسان کی خدمت بھی تو وقار عمل کی ایک شکل ہے.مثلاً اندھوں تک پہنچنا اور ان کی سوسائٹی سے رابطے پیدا کرنے اور ان کی خدمت کرنا بہت سے ایسے گرے پڑے لوگ ہیں یہاں جو دولت میں رہتے ہوئے بھی بھوکے ہیں.لکھوکھا ایسے آدمی ہیں جو بے گھر ہیں، بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تنہا ہیں اُن کو سوسائٹی نے چھوڑ دیا ہے، بہت سے بوڑھے ہیں جن کی اپنی اولادیں ان سے قطع تعلق کر چکی ہیں.اسی طرح بہت سے نوجوان ہیں جن کو اپنے ماں باپ کا پیار نصیب نہیں ہے اور جو لوگ ان سوسائٹیوں سے احمدی ہوتے ہیں وہ جب خط لکھتے ہیں تو ان سے مجھے یہ ساری باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ بعض افریقن احمدیوں میں سے ان افریقن امریکنز میں سے احمدی ہوئے تو انہوں نے مجھے لکھا کہ یہ میرے حالات ہیں.بعض دفعہ

Page 434

خطبات طاہر جلد ۸ 429 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء بڑے دردناک حالات ہوتے ہیں.ایک نوجوان ہے جو بچپن سے بے سہارا رہا ہے اور اس سے کسی ایفر وامریکن نے یعنی ہمارے رنگ دار بھائی نے جو امریکن ہیں پیار کا سلوک کیا ، اسی سلوک سے متاثر ہو کر وہ احمدیت کی طرف مائل ہوا اور احمدیت قبول کی پھر مجھے خط لکھا کہ یہ میرے حالات ہیں.تو جہاں تک دکھوں کا تعلق ہے وہ تو دنیا کی امیر ترین سوسائٹی میں بھی موجود ہیں.بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بعض پہلوؤں سے امیر سوسائٹی میں دُکھ زیادہ ہیں صرف ٹولنے کی بات ہے.بہت سے ایسے دوست آپ کو چلتے پھرتے نظر آئیں گے جو بظاہر خوش ہوں گے اور رقص و سرود کے عادی یا شراب کے دھنی لیکن جب آپ ان کو ٹول کر دیکھیں گے تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ ان کے سینے مختلف قسم کے غموں اور فکروں سے چھلنی ہوئے ہوئے ہیں.پس بنی نوع انسان کے فوائد کے معاملے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ فائدہ پہنچانے والی قوم اس قوم سے امیر ہو جس کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے بلکہ وہ خواص جو زندہ مذاہب کے نتیجے میں انسانوں کو عطا ہوتے ہیں وہ خواص ہی اپنی ذات میں فوائد کا سر چشمہ بن جایا کرتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کے غلاموں کے متعلق فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : ) کہ اے امت محمد یہ ا تم جب سے دنیا میں امتیں پیدا کی گئی ہیں اس وقت سے ہمیشہ کے تمام زمانوں کو شامل کر کے تم بنی نوع انسان کے لئے بہترین امت ہو جو نکالی گئی ہو.اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ نے اس مضمون کو حل کر دیا کہ کیوں بہترین ہو.فرمایا اس لئے کہ تم ان کے فائدے کے لئے ہو.اب جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس زمانے میں تو اسلام کو کوئی دنیا کی دولت نصیب نہیں تھی.اس زمانے میں بعض مسلمان جو مسجد سے وابستہ تھے اصحاب الصفہ کہلاتے تھے ان میں سے بعض کو کئی کئی وقت کے فاقے پڑا کرتے تھے اور بالعموم مسلمان غریب تھے تو اس آیت نے یہ ہمیں دکھا دیا کہ بنی نوع انسان کے فوائد کا جہاں تک تعلق ہے اس کا دولت سے تعلق نہیں ہے بلکہ ایک رجحان سے تعلق ہے اور آگے جو مثال دی وہ بھی عظیم الشان مثال ہے اس میں بھی کسی دولت کی ضرورت نہیں.تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران : ۱۱۱) که سب سے بڑا بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا طریق یہ ہے کہ ان کو نیک باتوں کی نصیحت کرو اور بُری باتوں سے روکو.اب اس میں کون سے پیسے لگتے ہیں.پس سوسائٹی جو دکھوں سے بھری ہو اور جہاں

Page 435

خطبات طاہر جلد ۸ 430 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء بد عادات پیدا ہو رہی ہوں.جہاں معاشرے بگڑ رہے ہوں اور اس حد تک بگڑ رہے ہوں کہ ان کی آئندہ نسلوں کے لئے بقاء کا سوال پیدا ہو جائے کہ وہ زندہ بھی رہیں گی کہ نہیں ایسی صورت میں جماعت احمدیہ کے لئے روپے پیسے کا انتظار کرنا کہ روپیہ پیسہ ہو تو ہم خدمت کریں نہایت بیوقوفوں والی بات ہوگی.آپ کے پاس روحانی دولت موجود ہے، آپ کے پاس وہ اخلاقی اقدار موجود ہیں.جہاں تک کچھ خدمت کا یعنی مادی خدمت کا تعلق ہے اس کی ایک دو مثالیں میں نے دی ہیں وہ بھی کی جاسکتی ہیں لیکن اس کے علاوہ جو بڑی خدمتیں قرآن کریم ہمارے سپر د کرتا ہے اگر ان خدمتوں میں لگ جائیں تو آپ پر لازماً اس آیت کا اطلاق ہوگا کہ وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ في الْأَرْضِ کہ دیکھو خبر دار وہ لوگ وہ تو میں یا وہ افراد یا وہ چیزیں جو بنی نوع انسان کے لئے فوائد رکھتی ہیں وہ باقی رہا کرتی ہیں ان کو خدا تعالیٰ مٹنے نہیں دیا کرتا.پس جہاں تک سیلاب کے نظارے کا تعلق ہے وہ تو ایک قدرتی خودرو چلنے والا ایک نظارہ ہے.جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے اس میں ایک اور عنصر بھی داخل ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کا عنصر ہے اور اس کے وعدے کا عنصر ہے.پس جہاں جہاں جماعتیں موجود ہیں اگر وہ یہی پروگرام بنا ئیں کہ اپنے معاشرے کی تکلیفوں کا جائزہ لینے کے بعد ، ان کی بد عادات کا جائزہ لینے کے بعد ، ان کے خلاف ایک جہاد شروع کریں اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کو پہلے احمدی بنا ئیں.یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ مذہب اختیار کر لیں خواہ اسلام ہو یا غیر اسلامی مذہب ہو.یہاں قرآن کریم اس قسم کی کوئی تفریق نہیں کرتا.قرآن کریم صرف یہ ایک تقاضا کرتا ہے کہ اگر تم خیر امت بننا چاہتے ہو، اگر تم اپنے بہتر ہونے کے مضمون کو ثابت کرنا چاہتے ہو اور اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہو تو یہ کام تو ضرور تم کر سکتے ہو اور وہ فوراً شروع کر دو کہ ماحول پر نظر رکھتے ہوئے ان کی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش شروع کر دو اور ان کے اندر خوبیاں پیدا کرنے کے لئے ایک جہاد کرو.اب یہ ایسا عظیم الشان مضمون ہے بظاہر سادہ اور بے خرچ لیکن بہت ہی گہرا اور بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے اور ایسے ملکوں میں جیسے امریکہ ہے یا برازیل اور مغربی ممالک ہیں جماعت کی بقاء کے لئے بہت ہی زیادہ ضروری ہے.وہ شخص جو غیروں کو نصیحت کرتا ہے اس کا غیروں میں جذب ہو کر ضائع ہونے کا کوئی احتمال نہیں رہا کرتا.اگر بچہ بھی

Page 436

خطبات طاہر جلد ۸ 431 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء نصیحت کرنی شروع کر دے تو اس کا نصیحت کرنا ہی اس کے لئے حفاظت کا سامان پیدا کر دیا کرتا ہے اور اگر ایک با قاعدہ منصوبے کے مطابق ہر جماعت میں جو امریکہ میں موجود ہے نصیحت کے گروہ بنائے جائیں ، بدیوں سے روکنے کے گروہ بنائے جائیں، چھوٹے بچوں کو بھی اس میں ملوث کیا جائے جو سکول میں ہیں وہ سکول کے ان بچوں کے لئے نصیحت کے پیغام دیں جو بیچارے معصومیت میں ڈرگ اڈکشن Drug Addiction کے جال میں پھنتے چلے جاتے ہیں اور طرح طرح کی برائیاں سکھانے کے لئے باقاعدہ یہاں مافیا قائم ہیں.بہت بڑے بڑے دولت کے شکنجے ہیں جن کے اندر بدیاں سکھانے کی تربیت دی جاتی ہے اور پھر ان شکنجوں میں آ کر تو کوئی انسان باہر نکل نہیں سکتا.ان سب باتوں پر نظر رکھتے ہوئے حکمت اور عقل کے ساتھ اگر اس معاشرے کو جو یہاں آپ دیکھتے ہیں بظاہر خوبصورت اور چمکدار اس کے اندر چھپے ہوئے دکھوں کو دور کرنے کی آپ کوشش کریں گے تو یقینا آپ خدا کے نزدیک ان قوموں میں شمار ہوں گے جن کو خدا کی تقدیر لازماً دنیا میں باقی رکھا کرتی ہے.پھر یہ نظارے، یہ دردناک نظارے دیکھنے میں نہیں آئیں گے کہ بعض جگہ جماعتیں قائم ہوئیں اور کچھ عرصے کے بعد اگر وہ پیچھے نہیں ہے تو ان کی اگلی نسلیں پیچھے ہٹ گئی ہیں.اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ نصیحت کے معاملے میں بدیوں سے روکنا اور اچھی بات کی تلقین کرنا اس میں تمام امریکہ کی جماعتیں غیر معمولی جدوجہد کے ساتھ ، منصوبے کے تحت کام کریں.دوسرا پہلوظاہری فوائد کا یہ ہے یعنی ظاہری فوائد کی دوسری قسم، دوسری تو نہیں کہنا چاہئے چند قسموں میں سے ایک قسم یہ ہے کہ یہاں جتنے بھی گروہ نیک کاموں میں ویسے مصروف ہیں ان سے رابطے پیدا کریں اور ان سے تعلقات بڑھا کر ان کی خدمت میں اپنے آپ کو اپنے نام پیش کریں اور پھر با قاعدہ جماعتی نظام کے تابع ان کی خدمت کریں.ہر قسم کے ایسے خدمت کرنے والے گروہ یہاں قائم ہیں جو منظم طور پر کام کرتے ہیں اور اگر ان کو روپے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کے لئے وہ روپیہ مہیا کرنے والے بھی موجود ہیں.اس کے لئے آپ کو اپنی جیب سے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑے گا.ان گروہوں سے رابطے پیدا کرنے اور ان کو منظم کا رکن مہیا کرنے یہ ایک بہت گہرا اثر رکھنے والا کام ہے جس کے نتیجے میں دل بھی جیتے جاتے ہیں اور کام کرنے والوں کے اندر بھی اپنی عظمت کا احساس بیدار ہوتا ہے اور وہ نیکیوں پر پھر مستقل طور پر قائم ہو جایا کرتے ہیں.اس ضمن میں میں نے کینیڈا میں دیکھا وہاں جماعت نے

Page 437

خطبات طاہر جلد ۸ 432 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء تعلقات کے دائرے بڑھائے ہیں اور مختلف لوگوں کی مختلف رنگ میں خدمتیں شروع کی ہیں.چنانچہ وہاں جو دعوت دی گئی مجھ سے ملاقات کروانے کی خاطر جس کو آپ Reception کہتے ہیں تو وہاں جن کو دعوت دی تھی شاذ ہی کوئی ایسا تھا جو نہ آیا ہو اور جو بھی آیا اس نے جب مجھ سے ملاقات کی اس بات کا ضرور ذکر کیا کہ احمدی بہت اچھے لوگ ہیں.ان میں بڑا خدمت کا جذبہ ہے اور بے لوث خدمت کرنے والے ہیں.پس وہ معمولی سی خدمت جس میں یقیناً کوئی مالی قربانی شامل نہیں تھی بلکہ محض کوئی چند کام کسی کے کر دینے، کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اپنی خدمات پیش کرنا ، اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوں گی.اس کا بھی اتنا گہرا اثر تھا کہ بعض بڑے بڑے آدمیوں نے مجھے بتایا کہ ہم تو جماعت کا کردار دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں.اس قسم کے لوگ یہاں دوسری دنیا میں ملتے نہیں ہیں.ہمیں بالکل عجیب جماعت لگی ہے یہ.اس مضمون سے متعلق کچھ اور باتیں میں انشاء اللہ بعد میں آپ کے سامنے رکھوں گا مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ جماعت جو بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہو قرآن کریم کے بیان کردہ اصولوں کے تابع اس کو ضرور مواقع مل جاتے ہیں.یہ کہنا درست نہیں ہے کہ امریکہ جیسے عظیم الشان ملک میں جو تمام دنیا کو روٹی کھلا رہا ہے اور تمام دنیا کی روپے پیسے سے اور ہتھیاروں سے مدد کر رہا ہے یہ چھوٹی سی غریب جماعت کیا خدمت کر سکتی ہے؟ بہت بڑا فرق ہے ان خدمتوں کا جو سیاسی حکومتیں کیا کرتی ہیں اور ان خدمتوں کا جو بنی نوع انسان کے فوائد کی خاطر مذہبی جماعتیں کیا کرتی ہیں.سیاسی خدمتوں میں ہمیشہ کچھ بندھن کچھ الجھنیں ہوتی ہیں، کچھ ذاتی مقاصد ہوتے ہیں ان قوموں کے جو خدمتوں کا مزاج بگاڑ دیا کرتے ہیں لیکن وہ قومیں جو مذہبی جذبے سے مامور ہوکر خدمت کرتی ہیں وہ اللہ کی رضا کی خاطر خدمت کرتی ہیں.ایک اعلیٰ پیغام کو پھیلانے کی خاطر خدمت کرتی ہیں اور خدمت کرنے والوں کے ذاتی مفادات اس میں کوئی وابستہ نہیں ہوا کرتے.پس ان چیزوں میں بہت بڑا فرق ہے.اس کے علاوہ ایک اور خدمت ایسی ہے جو ایکدم ظاہری طور پر تو نظر نہیں آتی لیکن وہ لطافت کے آخری درجے پر ہے اس لئے تیسرے حصے پر میں اُس کا ذکر کرتا ہوں.میں نے بیان کیا کہ کچھ ظاہری خدمتیں ہیں جو نظر کو دکھائی دیتی ہیں، جو بدن کو محسوس ہوتی ہیں کہ غریبوں کے پاس

Page 438

خطبات طاہر جلد ۸ 433 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء پہنچنا، ان کی ہمدردی کرنا کسی بھوکے کو روٹی کھلا دینا، کسی معذور کے لئے بیساکھی مہیا کر دینا، کسی تھکے ہوئے نڈھال اکیلے انسان کے لئے رفاقت مہیا کرنا، اس کے پاس بیٹھ کر اس سے پیار کی باتیں کرنا یہ ساری خدمتیں وہ ہیں جو پہلے درجے کی خدمتوں سے تعلق رکھتی ہیں.پھر دوسری خدمت وہ ہے جو اعلیٰ اخلاق کے ذریعے پیغامات کے ذریعے کی جاتی ہے نیکی کی نصیحتوں کے ذریعے بدیوں سے روکنے کے ذریعے ، وہ خدمت ظاہری شکل تو کوئی نہیں رکھتی لیکن ایک انسان کے اعلیٰ کردار کو دوسروں تک منتقل کرنے میں ممد ثابت ہوتی ہے اور اس خدمت کا بھی بڑا نیک اثر پڑتا ہے.تیسری خدمت وہ ہے جو دعا کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ وہ خدمت ہے جو اجتماعی طور پر ہی نہیں انفرادی طور پر بھی ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.کیونکہ اس کے بغیر کسی احمدی کی روحانی زندگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور اس کے بغیر ذاتی طور پر آپ کے ماحول میں بسنے والے ارد گرد کے لوگ یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ آپ خدا والے ہیں.پس سب سے زیادہ اس خدمت کو پیش نظر رکھنا چاہئے جس کا میں سب سے آخر پر ذکر کر رہا ہوں.میرا وسیع تجربہ ہے کہ ہمیشہ وہی لوگ تبلیغوں میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور انہی کی نسلوں کی خاص طور پر حفاظت کی جاتی ہے جو دعا گو ہوں اور سچی ہمدردی سے اپنی دعاؤں کا فیض دوسروں کو پہنچائیں.یہ وہ فیض ہے جو دوسری دنیا میں کسی میدان میں آپ کو دکھائی نہیں دے گا.اس لئے جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ ہر قسم کی نیکیوں کے میدانوں میں آپ کو دوسری دنیا بھی دکھائی دے گی.وہاں ان کے ساتھ آپ کا مقابلہ ہے لیکن تعلق باللہ کا اللہ سے محبت اور پیار اور دعائیں کر کے اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا میدان کھلا پڑا ہے آپ کے لئے.گویا یہ آپ ہی کا میدان رہ گیا ہے.اس میں کھل کر دوڑیں اور خوب خدا تعالیٰ کی محبت کے جلوے دیکھیں اور دوسروں کو دکھا ئیں.یہ وہ حصہ ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ مغربی دنیا میں بسنے والے خصوصاً امریکہ میں بسنے والے احمدیوں کی حفاظت کے لئے اور ان کی نسلوں کی حفاظت کے لئے بہت ہی ضروری ہے.وہ ماں باپ جو خدا کے نام پر اپنے ایک پرانے دوسرے مذہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب میں داخل ہوئے ہوں اور ان کے اندر ایسی نمایاں تبدیلی پیدا نہ ہوئی ہو کہ وہ محسوس کریں کہ پہلے وہ

Page 439

خطبات طاہر جلد ۸ 434 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء بے خدا تھے اب باخدا ہو گئے ہیں.اگر ایسا ہے تو یہ یقیناً ایک خطرناک علامت ہے اور نظام جماعت کو نگران رہنا چاہئے اور ذاتی طور پر ہر شخص میں دلچسپی لینی چاہئے.جب بھی کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے یا مسلمانوں میں سے احمدیت میں داخل ہوتا ہے اُس کی ذاتی نگرانی کا جماعتی انتظام ہونا چاہئے اور بڑی باریک نظر سے یہ مطالعہ کرنا چاہئے کہ اس کے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں یا نہیں جو اسے باخدا بناتی ہیں مثلاً اس کی دعا میں مقبول ہو رہی ہیں یا نہیں، اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبت میں وہ ترقی کر رہا ہے یا نہیں اور اس محبت کے مقبولیت کی علامتیں دیکھ رہا ہے کہ نہیں.اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میرا وسیع تجربہ ہے کہ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ اس حد تک تعلق قائم ہو جائے کہ وہ اس تعلق کے ذریعے غیروں کو فائدے پہنچانے لگیں ان پر اس آیت کا اطلاق سب سے زیادہ ہوتا ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ اور تمام مذہبی تاریخ، تمام نبوت کی تاریخ اس بات پر گواہ کھڑی ہے.انبیاء جب دنیا میں پیغام لے کر آتے ہیں تو ان کے ساتھ بظاہر کوئی ظاہری فائدہ بھی قوم کو میسر نہیں آتا.کچھ بھی ان کی ذات سے وابستہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جب آتے ہیں وہ تو ایسے پیغام دیتے ہیں کہ جو دولت مند تھے وہ فقیر ہو جایا کرتے ہیں، ان کے اموال لوٹ لئے جاتے ہیں، جو گھر والے تھے وہ بے گھر ہو جایا کرتے ہیں، جو وطن رکھتے تھے وہ بے وطن ہو جایا کرتے ہیں، ان کی عزتیں لوٹ لی جاتی ہیں، ان کے ساتھ قوم ایسا ظلم کا سلوک کرتی ہے کہ گویا ساری زندگی کی کمائیاں خواہ وہ عزت کی کمائیاں ہوں یا مقام اور مرتبے کی دوسری کمائیاں ہوں یا دولتیں ہوں یا گھر ہوں بعض دفعہ سب سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے تو دیکھئے بظاہر ایک ایسا شخص آیا جس نے بجائے اس کے کہ آپ کو عظیم الشان فوائد پہنچا تا آپ کے پاس جو کچھ تھا وہ بھی آپ کے پاس نہ رہنے دیا.اگر چہ براہ راست ایسا نہ کیا لیکن اس کے پیغام نے وہی کام کر دکھایا گویا اس نے آپ سے سب کچھ چھین لیا.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کے پاس ایک مرتبہ ایک معزز صحابی حاضر ہوئے جو ماحول کے مظالم اور ذلت آمیز سلوک سے تنگ آگئے تھے.عرب لوگ بڑے با غیرت تھے اور عرب سردار تو غیرت رکھنے میں حد اعتدال سے بھی آگے بڑھ چکے ہوتے تھے اور عربوں میں یہ کہانیاں، ایسی نظمیں، ایسے اشعار عام معروف تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک معمولی سی بے عزتی کے نتیجے میں اپنے اپنے خاندان کو خوفناک جنگوں میں جھونک دیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ نسلاً بعد نسل

Page 440

خطبات طاہر جلد ۸ 435 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء سینکڑوں سال تک ایک چھوٹی سی بے عزتی کا بدلہ اتارنے کے لئے وہ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے دنیا کے مفادات کو اس آگ میں جھونک دیا اور کچھ بھی پرواہ نہ کی اور امر واقعہ یہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر قبائل میں ایسی جنگیں چھڑیں جو دو دوسوسال تک جاری رہیں.وہ قبائل جو غیر معمولی عظمت رکھتے تھے وہ مٹتے مٹتے صفحہ ہستی سے مٹنے کے کنارے تک پہنچ گئے لیکن اس جھوٹی غیرت نے پھر بھی چین نہ لیا اور اس کی پیاس نہ بھی.ان قوموں سے وہ صحابہ آئے تھے جن کو حضرت محمد مصطفی امی نے صبر سکھایا تھا، جن کو راضی برضا رہنا سکھا دیا تھا، جن کو بتایا گیا تھا کہ خدا کی عزت کے سوا اور کوئی عزت نہیں ہے اور خدا کے نام پر صبر کرنے سے بہتر اور کوئی عظمت نہیں ہے جو انسان حاصل کر سکتا ہے.بہر حال ان کے اپنے ایک پس منظر کے نتیجے میں کسی کا پیمانہ بعض دفعہ لبریز بھی ہو جایا کرتا تھا.پس اس صحابی کا پیمانہ بھی لبریز ہوا اور اس نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جا کر عرض کیا.یا رسول اللہ! ہم تو بڑے معزز ہوا کرتے تھے اور ایسے قوم میں معزز تھے کہ کسی کی مجال نہیں تھی کہ میلی آنکھ سے ہمیں دیکھے آج آپ کو قبول کرنے کے بعد دنیا کے ذلیل ترین لونڈے، گلیوں کے بچے ہم پر آوازیں کستے ہیں، ہم پر پتھر اٹھاتے ہیں، ہمیں ذلیل ورسوا کرتے ہیں.ایک سال نہیں ، دو سال نہیں سال پر سال گزرتے چلے جارہے ہیں اور اس حالت کو ہم برادشت کرتے چلے رہے ہیں آخر کب تک ایسا کریں گے؟ کیوں ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم اپنے انتقام کے لئے اپنی تلوار اٹھائیں اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہم پر گزرتی ہے اسے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں گے ہم.یہ جب آنحضرت ﷺ نے بات سنی تو حضور اکرم ﷺ کا چہرہ جوش سے تمتمانے لگا.آپ نے فرمایا کہ دیکھو تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے خدا کے نام پر ہرقسم کی بے عزتیاں برداشت کیں، ہر قسم کے دکھ اُٹھائے.یہاں تک کہ ان میں ایسے بھی تھے جن کی کھالوں کولو ہوں کے آنکڑوں سے جس طرح کنگھی کی جاتی ہے بالوں پر اس طرح لوہے کے کنگوں سے ان کی جلدیں نوچی گئیں.یہاں تک کہ ان کے بدن ننگے ہو گئے اور پھر ان کے گوشت نوچے گئے یہاں تک کہ ہڈیاں دکھائی دینے لگیں لیکن انہوں نے اُف نہیں کی اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.ان میں ایسے بھی تھے جن کو بعض درختوں سے باندھ کر ان کے سر پر آرے چلائے گئے اور سر سے لے کر نیچے تک دو نیم کر دیا گیا جس طرح شاخیں دو کائی جاتی ہیں، جس طرح لکڑیاں کائی جاتی ہیں لیکن انہوں نے کامل صبر کے

Page 441

خطبات طاہر جلد ۸ 436 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء ساتھ اور کامل رضا کے ساتھ ان تکلیفوں کو برداشت کیا صرف اس لئے کہ وہ خدا کو راضی کرنا چاہتے تھے اور خدا کی خاطر سب کچھ چھوڑ بیٹھے تھے.وہ ایسے لوگ تھے.جب اُس صحابی نے یہ بات سنی آنحضرت ﷺ کے دل کی یہ کیفیت دیکھی تو شرمندگی کے ساتھ اور پیشمانی کے ساتھ بالکل پانی ہو گئے ، بے اختیار ہو گئے اور اس کے بعد پھر کبھی کسی صحابی کے منہ سے آنحضرت ﷺ نے کوئی شکوہ نہیں سنا.یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّا میں اے محمد مصطفیٰ ! کے غلاموں بظاہر تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن تم خیر امت ہو.اس دنیا ہی کی نہیں ، صرف عربوں کی نہیں بلکہ ارد گرد کی تمام دنیا کی اس ساری دنیا کی بھلائیاں تم سے وابستہ کی جاچکی ہیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کی بھلائیاں بھی تم سے وابستہ کی جا چکی ہیں.اُن بھلائیوں کا راز دراصل ان کے تعلق باللہ میں تھا اور تعلق باللہ ہی تھا جو سب سے زیادہ بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کو عطا کیا گیا تھا.یعنی تعلق باللہ تو محمد رسول اللہ ﷺ کے دل میں تھا لیکن وہ تعلق پھیلا ، نور ایسا تھا جو ایک سینے میں رہنے والا نہیں تھا دوسرے سینوں میں منتقل ہوا اور آخری مقصد یہ تھا کہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچے.پس دیکھئے کہ جب رسول دنیا میں آتے ہیں تو ان کے آغاز میں کسی قسم کی دنیاوی شوکت یا برتری ان کو نہیں ملا کرتی.ایک رسول تنہا دنیا میں آتا ہے ساری دنیا اس کی مخالفت کرتی ہے اور وہ بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے سب سے زیادہ اہم وجود ہوا کرتا ہے اپنے زمانے میں.پس وہ کونسی چیز ہے اُس رسول میں جس سے بنی نوع انسان کے فوائد وابستہ ہو جاتے ہیں.وہ اس کا تعلق باللہ ہے، وہ اللہ سے اُس کا پیار ہے، اللہ سے اس کی محبت ہے اور اس کے جواب میں اس کی دعاؤں کی مقبولیت ہے.پس یہ تیسری چیز ہر دوسری چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے.اگر نئے ہونے والے احمدیوں کو یا جو پرانے احمدی ہیں ان کو بھی اور جو بچے احمدیوں میں پیدا ہورہے ہیں ان کو بھی اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے کہ کتنے ان میں سے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق قائم کر لیا ہے اور ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.اگر اس پہلو سے جائزہ لیا جائے اور تربیت کا انتظام کیا جائے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مغربی دنیا میں اور امریکہ میں بسنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے.اُن کو اس ملک

Page 442

خطبات طاہر جلد ۸ 437 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء سے گھبرا کر بھاگنے کی ضرورت نہیں ، ان کو اس فکر کی ضرورت نہیں کہ ہماری نسلوں کا کیا بنے گا ؟ ظاہری تعلیم و تربیت کا انتظام نہ بھی ہو.اکیلا بھی ایسا شخص ایک بہت بڑے شہر میں بستا ہو جو برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہوتب بھی اگر خدا کا تعلق اُس کو حاصل ہے تو اس نے ضرور فتح یاب ہونا ہے.اس کی نسلوں کو دنیا میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی.پھر میرا ذہن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی طرف منتقل ہوتا ہے.آپ نے ایسی ہی دنیا میں تو قدم رکھا تھا جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۲۲) یعنی فساد ایسا غالب آچکا ہے کہ نہ اس نے خشکی کو چھوڑا نہ تری کو چھوڑا، ہر قسم کے لوگ خواہ وہ مذہبی تھے یا غیر مذہبی تھے فساد سے مغلوب ہو چکے ہیں.آنحضرت علی کو اس فساد سے کوئی خطرہ نہیں تھا.وہ فساد جس نے ساری دنیا کو مغلوب کر لیا تھا اس فساد کو مغلوب کرنے کے لئے ایک رسول بھیجا گیا وہ تنہا تھا اور اس وقت اس کے ساتھ اور کوئی نہیں تھا سوائے خدا کی محبت کے.پس یہی وہ زندگی کا نسخہ ہے جو پہلے کامیاب ہوا تھا اور آج بھی کامیاب ہوگا.اس نسخے کے سوا اور کوئی نسخہ کامیاب ہو نہیں سکتا اس لئے جماعت امریکہ کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس شخص کو یہ ذاتی تجربہ ہو کہ خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اُس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے وہ اپنے فیض کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا کرتا.میں ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا جو دکھاوے کی خاطر یہ بتانے کے لئے کہ مجھ سے اللہ کا تعلق ہے بڑھ بڑھ کر مجالس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ اس طرح خدا مجھ سے سلوک کرتا ہے.میں اُن لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو جانتے ہیں کہ خدا کا اُن سے تعلق ہے اس حد تک کہ وہ ذرہ نوازی فرماتے ہوئے ان سے پیار کا سلوک کرتا ہے جب اُن کی نظر کسی دکھی پر پڑتی ہے تو خواہ اس کو بتا ئیں یا نہ بتائیں بے اختیار ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے اور پھر ایسے لوگوں کی خوشبو ماحول میں پھیلنے لگتی ہے خود بخود.کہتے ہیں مشک کی خوشبو چھپائے چھپتی نہیں.مشک آنست که خود ببویدنه که عطار بگوید.مُشک تو وہ ہوتا ہے جو خود بخود اپنی بو پھیلاتا ہے بجائے اس کے کہ عطار بتائے اس میں خوشبو ہوتی ہے.تو وہ لوگ جو خدا کی محبت سے معطر ہو چکے ہوتے ہیں، جو خدا کی رضا کے عطر سے ممسوح ہو چکے ہوتے ہیں اُن کی خوشبوخود بخود پھیلتی ہے.وہ چھپائیں تب بھی پھیلتی ہے.وہ نہ دکھانا چاہیں تب بھی لوگوں کو نظر آتی ہے اور پھر لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، لوگ ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی کچھ کرو، ہمارے

Page 443

خطبات طاہر جلد ۸ 438 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء لئے بھی دعا کرو، ہمارے لئے بھی چارہ جوئی کرو اور ان کے خدا کے تعلق کے نشانات دیکھ کر پھر کثرت کے ساتھ ان کا حلقہ وسیع ہونے لگتا ہے اور لوگ ان کی طرف مائل ہوتے ہوتے ان کے مذہب کو قبول کرتے ہیں.تبلیغ کا بھی سب سے بڑا اور سب سے مؤثر یہی ذریعہ ہے.انبیاء کی قبولیت کا راز اسی بات میں ہے.اسی وجہ سے جب بھی کوئی کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں لوگ کہتے ہیں کہ معجزہ دکھاؤ.دلیل پہلے نہیں مانگا کرتے پہلے معجزہ مانگتے ہیں کیونکہ ہر انسان کے دل میں یہ بات جاگزین ہے کہ جو خدا کی طرف سے ہے اس کے ساتھ خدا کی تائید کے نشان ہونے چاہئیں.پس آپ نے بھی تو اس دنیا میں یہی دعویٰ کرنا ہے اور یہی آپ کا دعویٰ ہے.اگر یہ دعوی نہیں تو پھر احمدیت کا یہاں پھیلا نا ایک بالکل بے کار اور بے معنی کوشش ہوگی کیونکہ پیسے آپ نے ان سے مانگنے کوئی نہیں ، آپ کا اس مصیبت میں مبتلا ہونا پھر کیا فائدہ رکھتا ہے؟ آپ ہری کرشنا والوں کی طرح کے تو نہیں کہ چھٹے بجائیں اور ان سے پیسے وصول کر کے محلات کھڑے کریں.آپ نے تو اپنے پاس سے پیسے دے کر ان کے اوپر خرچ کرنے ہیں.کیا مقصد ہے، کیوں کرنے ہیں؟ اگر خدا کا تعلق نہیں ہے، اگر خدا کے ساتھ آپ کو محبت نہیں ہے اور خدا آپ سے پیار نہیں کرتا تو آپ کیوں ایسا کام کریں گے؟ پس اگر ایسے کام نہیں ہور ہے تو اس کے پیچھے ایک پس منظر میں ایک تکلیف دہ منظر بھی تو دکھائی دیتا ہے.اگر کسی جماعت میں یہ آثار دکھائی نہ دیتے ہوں تو میری نظر سطح پر نہیں ٹھہر تی بلکہ میں پر لی طرف جھانک کر دیکھتا ہوں اور میں اس بارے میں سخت بے چین ہو جاتا ہوں کہ خدا کے تعلق میں کمی کیوں ہے؟ کیوں ابھی تک وہ اس خدا سے آشنا نہیں ہوئے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میرا بس چلے تو ڈھنڈورے پیٹوں دنیا میں، دفیں بجاؤں اور اس بلند آواز سے دنیا میں منادی کروں کہ لوگوں کے کان پھٹ جائیں کہ دیکھو تمہارا ایک خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات اس خدا سے وابستہ ہیں.وہی ہماری بہشت ہے.پس بنی نوع انسان کو اگر آپ فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تو فائدے کی آخری شکل جس سے بلند تر فائدہ کوئی متصور نہیں ہوسکتا وہ ان کو اپنے خدا میں شریک کرنا ہے.خدا کا تو کوئی شریک نہیں لیکن خدا کے بندے اپنے خدا میں دوسروں کو شریک کرتے چلے جاتے ہیں اور محض اپنے لئے نہیں رکھا کرتے ؟ یہ علم خدا کی ایک ایسی دولت ہے جس کے ساتھ ساری دنیا کو

Page 444

خطبات طاہر جلد ۸ 439 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء بھی شریک کر لیں تو وہ دولت ختم نہیں ہو سکتی.یہ علم ان کو اس بات سے بے نیاز کر دیتا ہے کہ اس دولت میں اور شریک ہوں گے تو میرا کیا بنے گا؟ بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دولت ایسی ہے جس میں اگر آپ دوسروں کو شریک کریں گے تو آپ کی دولت بڑھے گی.وہی لوگ خدا سے زیادہ محبت پاتے ہیں، وہی لوگ خدا کی نظر میں بلند تر مراتب حاصل کرتے چلے جاتے ہیں جو خدا کے تصور کو دوسروں میں پھیلاتے ہیں اور خدا کی دولت کو دوسروں میں بانٹتے ہیں.پس اپنی دولت بڑھانے کا بھی تو یہاں یہ طریق ہے کہ اپنی دولت بانٹی جائے.یہ وہ روحانی نظام ہے جس کو سمجھ کر ، جس کو جاری کر کے حقیقت میں امریکہ میں احمدیت کامیاب ہو سکتی ہے ورنہ اور کوئی ذریعہ نہیں.اتنا خطرناک ملک ہے، یہاں کی فضاء زہریلی ہے، یہاں لوگ ظاہری Pollution کی باتیں کرتے ہیں وہ بھی بہت ہے.اس میں شک نہیں کہ ہمسایہ ملک بھی امریکہ کی ظاہری پولوشن سے بڑے سخت نالاں ہو چکے ہیں اور یہ شکوے وہاں سے اب کھلی آواز میں سنائی دینے لگے ہیں کہ امریکہ جو انڈسٹری کے ذریعے فضا میں سلفر کا تیزاب پھیلاتا ہے وہ ہمارے ملک میں زہر کی بارش بن کے برستا ہے.پس یہ تو ایک نظر آنے والی بیماری ہے.وہ روحانی بیماریاں جن سے یہاں کی فضاء آلودہ ہے اتنی خطرناک ہیں اور اس طرح دوسرے ملکوں میں برس رہی ہیں کہ دور دور تک ہلاکت کا پیغام پہنچا رہی ہیں جس طرح بظاہر بارشیں زندگی کی خاطر آیا کرتی ہیں لیکن ان میں اگر تیز اب شامل ہو جائے تو وہ موت کا پیغام بن کر پانی برسا کرتا ہے.اسی طرح بظا ہر علم اور فیض کے دوسرے ناموں پر امریکن اثرات دوسرے ملکوں میں پہنچ رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل چونکہ ایک بے خدا تہذیب ہے اور کئی قسم کی برائیوں سے بھیگ چکی ہے پوری طرح، بوجھل ہو چکی ہے.اس لئے جب یہ برستی ہے تو اس کے ساتھ زہر برستا ہے.سو قسم کی بدیاں برستی ہیں اور بہت دور دور تک وہ قو میں بھی ان برائیوں سے متاثر ہو رہی ہیں جو بڑی بڑی قو میں اور آزاد قو میں ہیں اور وہ قو میں بھی جو غریب تو میں اور پسماندہ قومیں ہیں.تو اس ملک میں رہتے ہوئے آپ کی حفاظت کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ خیال کر لینا کہ ایک مربی مقرر کر دیا جائے جو آپ کے بچوں کو ظاہری تعلیم دے دے بچگانہ خیال ہے.جن بچوں کو چاروں طرف سے گندہ ماحول اور زہریلا ماحول ہر وقت اپنی طرف کھینچ رہا ہے، جن بچیوں پر گلی کے ہر قدم پر ابتلاء آتا ہے، جہاں گندگی ہے، جہاں ننگا پن ہے،

Page 445

خطبات طاہر جلد ۸ 440 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء جہاں ٹیلی ویژن ہر قسم کی گندگی پھیلا رہی ہے دنیا میں ، جہاں رقص و سرود اور گانوں میں اپنے ہوش و حواس ڈبو دینے کے سوالذت کا اور تصور باقی نہیں رہا.اگر ہے تو وہ اس سے زیادہ بھیا نک جرائم میں ہے، ڈرگز میں ہے، معصوم بچوں کی عزتیں لوٹنے میں میں قتل و غارت میں ہے.ہر قسم کے جرائم اس سوسائٹی میں نشو و نما پارہے ہیں اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے لئے مربی مہیا ہو جائے یا سکول کی کلاسز لگ جائیں تو آپ بچ جائیں گے تو یہ غلط خیال ہے.وہ اپنی جگہ ضروری ہے جب بھی توفیق ہو جماعت کو ایسا کرنا چاہئے.ایک علاج ہے وہی علاج ہے جو علاج حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وجود کی صورت میں ہم نے کارفرما ہوتے دیکھ لیا ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کے منظر میں وہ رسول اس دنیا میں آیا اور جس گندگی میں قدم رکھا اُس گندگی کو پاک کرتا چلا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ لوگ گوبر کی طرح تھے.تیری قوت قدسیہ سے یہ گوبر پاکیزہ سونے کی ڈلیوں میں ڈھل گیا اور ہر گندان کا ہر حسن میں تبدیل ہونے لگا.پس بجائے اس کے کہ آپ خوفزدہ ہوں اس سوسائٹی سے اور آپ کو یہ خطرہ ہو کہ یہ سوسائٹی آپ کے اندر نفوذ پا جائے اگر آپ باخدا بن جائیں تو آپ کا فیض اس سوسائٹی کو بچانے لگے گا.آپ کے اردگرد جزیرے بنے شروع ہو جائیں گے.ایسے جزیرے بنیں گے جو خدا کی محبت اور پیار اور اس کے ذکر کے جزیرے ہوں گے جہاں شیطان کو دخل کی اجازت نہیں ہوگی.پس اس ملک میں زندہ رہنا ہے تو بنی نوع انسان کے فوائد کے ساتھ زندہ رہیں گے ورنہ زندہ نہیں رہ سکتے.باقی سب جھوٹی باتیں ہیں حکمتوں کا سرچشمہ قرآن کریم ہے اور قرآن کریم نے ہمیں یہ راز سمجھایا ہے اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا سب سے بڑا طریق خود باخدا ہونا ہے اور خدا کی محبت کو دلوں میں جاگزین کرنا ہے اور خدا کی محبت کے کرشمے دکھانے ہیں یہاں تک کہ باہر کے لوگ اُس خدا کو دیکھنے لگ جائیں جو آپ کے وجود کے اندر بستا ہے اور وہ خدا اپنے کرشموں کے ذریعے دکھائی دیا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ٤ قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے ( در مشین صفحه : ۱۵۸)

Page 446

خطبات طاہر جلد ۸ 441 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت سے اپنی ذات کے ثبوت دیتا ہے.پس وہ لوگ جو سچ مچ خدا کے ہوں خدا کی قدرت کے نشان بن جایا کرتے ہیں ، خدا کی قدرت کے مظہر بن جایا کرتے ہیں اور ہو نہیں سکتا کہ خدا کی محبت ان کی ذات میں اس طرح چھپ جائے کہ دنیا کو دکھائی نہ دے سکے اور یہ فیض میں نے دیکھا ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں بھی لوگوں کو پہنچ رہا ہے اور سب سے بڑا ذریعہ احمدیت کی تبلیغ کا یہی فیض ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کا اور اس قبولیت دعا کا فیض ہے.بعض دفعہ خدا تعالیٰ عجیب عجیب سامان خود مہیا فرما دیتا ہے.میں آج بعض دوستوں سے ذکر کر رہا تھا، آج یا کل کی بات ہے کہ افریقہ میں تبلیغ کے معاملے میں سب سے زیادہ مؤثر چیز مقبول دعائیں ہیں.چنانچہ ایک مثال میں نے ان کو دی.ایک دفعہ ایک ایسے چیف نے مجھے دعا کے لئے خط لکھا جو پیراماؤنٹ چیف بننا چاہتے تھے اور وہ مسلمان نہیں تھے، احمدی نہیں تھے کوئی بھی تعلق نہیں تھا اُن سے ہمارے، پتا نہیں یا بیگن تھے یا عیسائی تھے یا جو بھی تھے.انہوں نے کہا میں نے سُنا ہے کہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ میں معمولی چیف ہوں اور پیرا ماؤنٹ چیف بننا چاہتا ہوں جبکہ میرے مقابل پر مجھ سے بہت طاقتور موجود ہیں اور میرا پیراماؤنٹ بنے کا کوئی چانس نہیں ہے.عقلی لحاظ سے، دنیا کے لحاظ سے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس کے باوجود میرے دل میں ہے.یقین ہے کہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ دعا قبول ہوتی ہے یہ سچی بات ہے اور میں احمدی یا مسلمان نہیں ہوں لیکن میرے دل میں یہ بھی یقین ہے کہ آپ سچے لوگ ہیں اس لئے آپ میرے لئے دُعا کریں.اس کا لکھنے کا انداز ، اس کی سادگی بہت ہی مجھے پیاری لگی.میرے دل پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ دعاؤں کا چونکہ اثر سے تعلق ہے اس لئے بڑی شدت سے اس کے لئے دعا نکلی اور ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ مجھے یقین تھا کہ یہ دعا ضرور مقبول ہوئی ہے.چنانچہ میں نے اس کو لکھ دیا حالانکہ مجھے کوئی الہام نہیں، کوئی خواب نہیں ، کوئی اور واضح اشارہ ایسا نہیں تھا مگر دل یقین سے بھر گیا تھا اس لئے میں نے تو کل کرتے ہوئے اس کو لکھ دیا کہ آپ مطمئن رہیں آپ خدا کے فضل سے ضرور پیراماؤنٹ چیف ہوں گے.وہ خط اس نے سنبھال لیا اور جب الیکشن ہوا تو اس کا نمبر تیسرا تھا.یعنی پیرا ماؤنٹ چیف تو بنا در کنار جو پیرا ماؤنٹ چیف بن رہا تھا اس کے بعد نمبر دو جو تھا اس سے بھی پیچھے ووٹ تھے لیکن کوئی اس کو حادثہ پیش آیا یا کیا بات ہوئی کہ مجبور ہوگئی حکومت دوبارہ الیکشن کروانے پر اور جو اؤل

Page 447

خطبات طاہر جلد ۸ 442 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء آرہا تھاوہ میدان سے نکل گیا.جب دوبارہ الیکشن ہوا تو پھر بھی ووٹ برابر برابر ہو گئے اور ٹائی پڑگئی لیکن یہ پہلا واقعہ دیکھنے کے بعد اس کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ خط دکھاتا پھرتا تھا سب کو کہ مجھے خط آ گیا ہے میں نے جیتنا ہی جیتنا ہے.اس وقت اس حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک نمائندہ مقرر کیا جائے جس کو یہ اختیار دیا کہ میرٹ کی بات نہیں ہے تم جاؤ جس پہ تمہارا دل مطمئن ہو اس کو بنا دو.جھگڑا ختم اور پریذیڈنٹ سے یہ اختیار لے کر وہ آدمی وہاں پہنچا اور اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ شخص احمدی تھا.اب یہ عجیب بات ہے کہ پریذیڈنٹ نے اس موقع پر چنا بھی تو ایک احمدی کو چنا اور اس نے جب خط دیکھا تو فیصلہ ہو چکا تھا.اب یہ خدا کی تقدیر ہے ، یہ شروع سے آخر تک یہ سارا سلسلہ اس قسم کا ہے کہ دیکھنے والے کو نظر آتا ہے کہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہو رہا، کوئی اتفاقات کی بات نہیں ہے بلکہ خدا کی تقدیر چل رہی ہے.چنانچہ نہ صرف یہ کہ وہ خود احمدی ہوئے بلکہ اس علاقے میں اس کا اتنا اثر ہوا کہ اس علاقے میں پھر دعوتیں دی گئیں ہمیں کہ آپ اپنے مبلغین بھیجیں اور پیراماؤنٹ چیفس نے ایک نہیں بلکہ دو تین اوروں نے بھی دعوتیں دیں اور پھر شکوے کئے کہ پہلے ہمارے پاس کیوں نہیں آدمی بھیجے؟ اور ایک علاقے میں یا وہ ان کا اپنا علاقہ تھایا ان کے ساتھ کا مجھے یقینی طور پر یاد نہیں لیکن اسی کے نتیجے میں جو پھل ملے ہیں ان میں سے ایک پھل تھا.ایک علاقے میں جب وہ ہمارے مبلغین کی ٹیمیں پہنچی ہیں تو ایک کے بعد دوسری دفعہ یہ مہمات چلیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک ہفتے میں ایک دفعہ آٹھ ہزار، دوسرے ہفتے دوسری دفعہ سات ہزار کچھ یعنی پندرہ ہزار سے زائد بیعتیں اس علاقے میں ہو گئیں اور مبلغین یہ کہتے ہیں کہ ہماری اپنی کمزوری یا ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں ، ہم تعداد میں بھی تھوڑے ہیں، دوسرے علاقوں میں بھی جانا ہے ورنہ سارا علاقہ تیار بیٹھا ہے.صرف ہم یہ انتظار کرتے ہیں کہ جائیں ، اُن کو سمجھائیں ، ان کے علماء سے باتیں کریں اور وہ مطمئن ہو جائیں تو ایک دعا اور وہ بھی ایسی جو لکھنے والے کی وجہ سے خاص رنگ پکڑ گئی ہو اور اس کے نتیجے میں خدا نے اتنے پھل دیئے ہیں.اس کے علاوہ بھی ایسے کرشمے روز افریقہ میں دکھائی دیتے ہیں جہاں دعاؤں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کثرت سے جماعت کو پھیلا رہا ہے.جب میں جہاز میں آرہا تھا تو ایک دوست کینیڈین تھے اُن کو اس بات میں دلچسپی پیدا ہوئی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے ہم عیسائی اتنی دولت خرچ کر رہے ہیں دوسری بڑی بڑی

Page 448

خطبات طاہر جلد ۸ 443 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء قومیں ہیں، مسلمان حکومتیں ہیں اس کے باوجود آپ کو کامیابی ہو رہی ہے ہمیں نہیں ہو رہی ؟ تو میں نے کہا جو چیز ہمارے پاس ہے وہ تمہارے پاس نہیں ہے.کیا کیا جائے اب؟ مذہب کی اصل دولت، مذہب کی روح اور مذہب کی جان تو خدا ہوا کرتا ہے اگر کسی کے پاس خدا ہو تو اس نے کامیاب ہونا ہی ہونا ہے.کوئی طاقت دنیا کی اس کو روک نہیں سکتی اور جس کے پاس نہیں ہے وہ ظاہری ذرائع سے دنیا کے اپنی دولتوں اور دنیاوی قوتوں کے ذریعے بظاہر کامیابیاں حاصل کرتا ہے لیکن جو کچھ پیدا کرتا ہے وہ خدا والے لوگ نہیں ہوا کرتے بلکہ محض ایک جمیعت ہوتی ہے ایک بے جان جمیعت ہوا کرتی ہے.آپ بے شک جائزہ لے کر دیکھ لیں ایسی تحریکات جن کے نتیجے میں تعداد بڑھ رہی ہوتی ہے محض تعداد بڑھتی ہے خدا تعالیٰ کی محبت کے اثر نہیں پھیلتے.پس یہاں آپ نے یہ کر کے دکھانا ہے.آپ کی بقاء کے لئے ضروری ہے، امریکہ کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک میں جولوگ احمدی بستے ہیں ان پر اس ملک کی وفا ضروری ہے اور اس وطن سے محبت ان کے ایمان کا حصہ بنائی گئی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے اور اس محبت کا اس وفا کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے زیادہ قیمتی چیز جو آپ کے پاس ہے وہ ان کو دیں اور وہ دینے سے پہلے آپ کے پاس ہونی چاہئے.پس اس پر اگر آپ غور کریں اور سنجیدگی کے ساتھ کام شروع کر دیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دوسرے سارے کام، ساری کوششیں اس ایک کوشش کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.وہ معمولی اور ادنی باتیں آپ کو دکھائی دیں گی اور باقی سب کوششوں میں محنت کرنی پڑتی ہے بہت.باقی سب کوششوں میں وقت بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے، روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے، توجہ دینی پڑتی ہے، جسمانی تکلیفیں اُٹھانی پڑتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے کم سے کم آغاز میں کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی.یعنی عبادت بھی بعد میں پیدا ہوتی ہے پہلے محبت پیدا ہوتی ہے.خدا سے پیار بڑھا ئیں، اللہ سے تعلق پیدا کریں، اس سے دعائیں مانگیں اور عاجزانہ بے تکلفی کے ساتھ خود مانگیں اپنے بچوں کو سکھائیں کہ دیکھو ان باتوں میں اپنے اللہ کی طرف توجہ کیا کرو.پھر جب آپ خدا کے پیار کے نمونے دیکھیں گے تو بعد میں جو مشقتیں کرنی پڑیں گی ان کی طاقت خدا دے گا.اس لئے مسلسل یہ رستہ آسان رہتا ہے اور مسلسل دیکھنے والوں کو یہ مشکل دکھائی دیتا ہے.جو راہ سلوک پر چلا کرتے ہیں ان اور کے لئے ہر قدم اگلے قدم کو آسان کر دیا کرتا ہے اور دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ بڑی مصیبت ہے، بڑی

Page 449

خطبات طاہر جلد ۸ 444 خطبه جمعه ۲۳ / جون ۱۹۸۹ء مشکل راہوں پر قدم مارے جارہے ہیں.پس آسان ترین راہ اللہ کی محبت کی راہ ہے جو مشکل را ہوں کو بھی آسان بنا دیا کرتی ہے اور اسی میں آپ کی بقاء کا راز ہے.اسی نصیحت کے ساتھ میں خطبے کو ختم کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر وہ شخص جو اس بات کو سن رہا ہے خواہ وہ مقامی ہے یا بیرونی وہ اپنے دل کو اس نقطہ نگاہ سے ٹولے اور خدا کی محبت کے لئے آج ہی سے کوشش شروع کر دے اور اس کے لئے کسی تصنع کی ضرورت کیا ؟ تصنع حرام ہے اس چیز میں.یہ وہ کوشش ہے جو بے تکلفی سے پیدا ہوگی ، جو سیدھی سادھی بات کرنے سے کہ اے اللہ! مجھے تجھ سے پیار ہو گیایا میں کرنا چاہتا ہوں میری مددفرما اور میں تیری خاطر رہنا چاہتا ہوں اور میں تیری خاطر اپنی اولاد کی تربیت کرنا چاہتا ہوں تو میری مددفرما.اتنی سی بات کرنے میں بھلا کون سی تکلیف ہے؟ بلکہ لذت ہے.یہ بات کرتے کرتے آپ تجربہ کریں گے کہ آپ کے دل میں ایک عظمت پیدا ہو چکی ہوگی.یہ دعا کرنے کے ساتھ ہی اس کی قبولیت کا نشان اپنے اندر جذباتی تحریک کی صورت میں دیکھیں گے.پس اس راہ پر آپ قائم ہو جائیں اللہ آپ کے ساتھ ہو ہمیشہ آپ میں خدا والے لوگ پیدا ہوں اور کثرت سے پیدا ہوں اور اگر امریکہ کی وہ جماعت جو آج موجود ہے یہ خدا والی بن جائے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سارے امریکہ کی تقدیر بدل کے رکھ سکتی ہے.وہ کام جو آپ کو دور کا کام دکھائی دیتا ہے یا ناممکن دکھائی دیتا ہے وہ ضرور ہو کے رہے گا کیونکہ خدا جن کے ساتھ ہو جائے ان پر کوئی دنیا کی قوم غالب نہیں آیا کرتی اور خدا جن کے ساتھ ہو جائے وہ لازم دنیا کی ہر قوم پر غالب آجایا کرتے ہیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.After Juma I will say the Asar Prayer as well as you already know.Those who are on journey they will say two Rakats of Asar like I will do and say Asalam-o-Alekum with me.Those who are the local people without saying Asalam-o-Alekum they will standup and complete the four Rakats of Asar.

Page 450

خطبات طاہر جلد ۸ 445 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء سان فرانسسکو امریکہ میں احمد یہ مشن کا بابرکت افتتاح ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء بمقام پٹرگ سان فرانسسکو) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جماعت احمد یہ سان فرانسسکو کے لئے یہ دن ایک خاص مبارک اور تاریخی دن ہے کیونکہ ایک لمبے عرصے کے بعد جماعت احمدیہ کو جس مشن کی ضرورت تھی وہ مشن انہیں مہیا ہوا اور آج خدا کے فضل سے اس کا رسمی طور پر افتتاح کیا جارہا ہے.جماعت احمد یہ سان فرانس سکواگرچہ بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور عملاً ایک جماعت نہیں بلکہ تین جماعتوں میں منقسم ہے بلکہ غالباً ایک چوتھی چھوٹی سی جماعت بھی اس کے پاس منسلک ہو چکی ہے اس لحاظ سے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسی جگہ کی تلاش تھا جو مختلف جماعتوں کے لئے کم و بیش برابر فاصلے پر ہو اور دوسرے ضرورت یہ تھی کہ رقبہ اتنا بڑا ہو کہ آئندہ کی ضروریات کو پوری کر سکے اور جلد ہی یہ احساس نہ پیدا ہونا شروع ہو جائے کہ ہم نے چھوٹی اور تنگ جگہ لے لی اور بعد میں آنے والے ہم پر شکوے کریں.اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہمیشہ جماعت کے ساتھ چلا آ رہا ہے کہ کھلے اور وسیع حو صلے کے ساتھ جو جگہ بنائی جاتی ہے خدا تعالیٰ جلد جماعت کو وسیع کر کے اس جگہ کو بھر دیتا ہے.اس پہلو سے بھی میرا رجحان ہمیشہ اسی طرف رہا ہے کہ جب بھی کوئی مسجد بنائی جائے، کوئی مشن بنایا جائے تو جماعت کی وقتی تعداد سے بہت زیادہ کشادہ جگہ لی جائے اور تجربہ یہی ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ جگہ خدا کے فضل سے بھر جاتی ہے.اس میں جو طاقت کارفرما ہے، جو اس کے پیچھے راز ہے وہ اخلاص اور تقویٰ ہے.اگر خدا کی خاطر کوئی جگہ لی جائے اور محض اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اس کے نام کی

Page 451

خطبات طاہر جلد ۸ 446 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء سر بلندی کے لئے کوئی مرکز بنایا جائے تو خدا تعالیٰ اس جذبے کو قبول فرماتا ہے اور اپنے گھر کی رونق کا سامان خود ہی مہیا کیا کرتا ہے لیکن ایک پہلو سے وہ رونق ان نمازیوں پر بھی منحصر ہے جو ایسی جگہوں میں خدا کی عبادت کے لئے حاضر ہوتے ہیں.اسی لئے میں نے کہا کہ سب سے پہلا طاقت کا سر چشمہ مومن کے دل سے پھوٹتا ہے اور اس کا تعلق اس کے اخلاص اور اس کی خدا تعالیٰ سے محبت پر مبنی ہے.جہاں تک اس جذبے کی قبولیت کا تعلق ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قبول ہونے کے بعد زائد فضل کی صورت میں مومن پر برستا ہے.یہی مضمون ہے جسے قرآن کریم نے ان معنوں میں بیان فرمایا کہ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف:۳۲) کہ مسجد میں تو تم بنا دیتے ہولیکن مسجدوں کو زینت بخشا تمہارا کام ہے.مسجدوں کی زینت سے تم حصہ نہیں لو گے اگر وہ ظاہری زینت ہے بلکہ مسجدوں کو زینت تم نے بخشنی ہے.یہ حیرت انگیز اعلان ہے جس کے متعلق میں پہلے بھی کئی دفعہ روشنی ڈال چکا ہوں لیکن بار بار جماعت کو اس مضمون کو یاد دلانا ضروری ہے.تبھی مساجد کے افتتاح کے موقع پر اور مشنز کے افتتاح کے موقع پر میرا دھیان ہمیشہ اس آیت کریمہ کی طرق منتقل ہو جاتا ہے.آجکل دنیا میں بڑی بڑی عظیم الشان حکومتیں ہیں جن کے پاس بے شمار دولت ہے اور اس نقطہ نگاہ سے جماعت احمدیہ کا ان کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں.زمین اور آسمان کا فرق ہے، دولت اور قوت کے لحاظ سے اور ایسی حکومتیں جو دنیا میں دولت کے لحاظ سے مشہور ہو چکی ہیں ان میں مسلمان حکومتیں بھی ہیں، ان کا اصل زرا اپنی جگہ قائم رہتا ہے لیکن جو سودان کو میسر آتا ہے وہ بھی دولتوں کے پہاڑ بنادیتا ہے اور ان کو سمجھ نہیں آتی کہ اس روپے کو کہاں خرچ کرنا ہے.اس کا ایک حصہ وہ مساجد کی تعمیر پر خرچ کرتے ہیں اور ان کا زور اس بات پر ہے کہ بہت ہی خوبصورت اور حسین اور عظیم الشان فلک بوس عمارتیں تعمیر کی جائیں جو آرکیٹیکچر کے نقطہ نگاہ سے ایک عظیم الشان تعمیری نمونے بن جائیں اور اسلام کے حسن کا ایک ظاہری Symbol نظر آئیں.یہ کوششیں قرآن کریم کی اس آیت کے مفہوم سے متصادم ہیں.قرآن کریم نے کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ مساجد اپنی ظاہری شان وشوکت کے نتیجے میں مومن کو زینت بخش سکتی ہیں.ہاں یہ فرمایا کہ مساجد کو مومن زینت بخشتا ہے.کتنا عظیم الشان کلام ہے، کتنا عارفانہ کلام ہے اور خدا کے تعلق کی روح کو کس شان کے ساتھ اس میں بیان فرما دیا

Page 452

خطبات طاہر جلد ۸ 447 خطبہ جمعہ ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء گیا.اس نقطہ نگاہ سے آج کی وہ عظیم الشان مساجد جو بڑی بڑی حکومتوں کی دولت سے تعمیر ہوتی ہیں ان پر نظر ڈالیں اور جو نمازی ان میں نماز پڑھتے ہیں ان کے حالات پر غور کریں اور اس مسجد نبوی کا تصور باندھیں جو کچی اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھی جس کی چھت گھاس پھوس کی تھی ، جس میں جب بارش برستی تھی تو ٹپک کر مسجد کے صحن کو بھی کیچڑ میں بدل دیا کرتی تھی.اس مسجد کی زینت حضرت اقدس محمد مصطفی عمل تھے اور وہ پاکباز وجود تھے جن کو آپ کے تقویٰ نے زینت بخشی اور اپنے اپنے رنگ میں اس تقویٰ سے انہوں نے حصہ پایا.کوئی نسبت بھی ہوسکتی ہے اس مسجد کی زینت کو ان مساجد کی زینت سے جن کی فلک بوس عمارتیں تمام دنیا پر ایک رعب اور ہیبت طاری کرتی ہیں.یہی حال دیگر عبادت گاہوں کا ہے خواہ وہ گرجے ہوں، کیتھیڈ رل ہوں یا بڑے بڑے ٹیمپل ہوں دنیا دار کی نظر عمارت کے ظاہر پر پڑتی ہے اور خدا کی نظر ان دلوں پر پڑتی ہے جو ان عمارتوں میں خدا کی عبادت کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں.اس پہلو سے سب سے پہلے تو میں جماعت احمد یہ سان فرانسسکو کو مبارکباد کے ساتھ اس امر کی طرف متوجہ کرنی چاہتا ہوں کہ آپ اس مشن ہاؤس کو اپنے وجود کے تقویٰ سے زینت بخشیں، اپنے دلوں کے تقویٰ سے زینت بخشیں.جب بھی یہاں آیا کر میں خدا کی خاطر آیا کریں اور یہ فیصلہ کر کے آیا کریں کہ آپ کی نیکی یہاں آکر دوسرے بھائیوں کی نیکی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت نظارہ پیش کرے گی.امر واقعہ یہ ہے کہ نیکیاں نیکیوں کے ساتھ مل کر ایک عظیم الشان قوت بن جایا کرتی ہیں.ایک شخص کی اکیلی نیکی اپنی جگہ خوبصورت ہے لیکن جب متفرق نیک لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں تو ان کی نیکی کی اجتماعی قوت سے ایک غیر معمولی عظیم الشان روحانی قوت پیدا ہوتی ہے جس کا اثر ان کے ماحول پر بھی پڑتا ہے.ایک دوسرے پر ان کا اثر پڑتا ہے.تبھی انفرادی دعاؤں کی ایک اپنی حیثیت اور ایک اپنا مقام ہے لیکن اس کے باوجود اجتماعی دعاؤں کی جو شان اور جو شوکت ہے یعنی روحانی معنوں میں اس کا بعض صورتوں میں انفرادی دعاؤں سے مقابلہ نہیں ہوسکتا.پس اس مسجد کو آپ نے اپنے تقویٰ کی اجتماعی شکل سے زینت بخشنی ہے.یہ مضمون بھی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے بیان فرمایا.آپ نے فرمایا کہ ایک موقع پر ایک جگہ خدا کے کچھ بندے اس کے ذکر کے لئے اکٹھے ہوئے اور ان کے اکٹھا ہونے کا اور کوئی مقصد نہیں تھا تو خدا کے وہ فرشتے جو دن رات انہی

Page 453

خطبات طاہر جلد ۸ 448 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء باتوں پر مامور ہیں.کیا مراد ہے ان فرشتوں سے ہم اس کی تفصیل نہیں جانتے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ قانون قدرت کے پیچھے کچھ تو تیں کارفرما ہیں اور ان کے سپر د بعض دائرے ہیں جن میں وہ اپنا کام ادا کرتے ہیں.پس اپنے اپنے دائرہ کار سے تعلق رکھنے والے فرشتوں میں سے کچھ ایسے فرشتے بھی ہیں جو خدا کے ان بندوں پر نظر رکھتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے مامور ہوں اور جو ذکر الہی کے لئے اکٹھے ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں خبر دی اور یہ وہ خبر ہے جو خدا نے آپ کو دی کہ ایک موقع پر ایسے ہی کچھ خدا کے درویش بندے اس سے محبت کرنے والے اکٹھے ہوئے اور وہ فرشتے جو ان باتوں پر مامور ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ان کا ذکر کیا.اب یہ بھی ایک روحانی تمثیل ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو عالم الغیب والشہادہ ہے.فرشتوں کو کچھ بھی علم نہیں سوائے اس کے کہ خدا ان کو عطا کرے.پس یہ نہ سمجھیں کہ گویا خدا اس علم کا محتاج ہے بلکہ اس قسم کی باتیں اس لئے بیان کی جاتی ہیں تا کہ بعض عارفانہ باتوں پر مومن کی نگاہ پڑے اور خدا کے فرشتے جو خدا سے ہمکلام ہوتے ہیں اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جو جواب دیتا ہے دراصل وہ مقصود ہے.ورنہ فرشتوں کا خدا کو اطلاع دینا اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اس پہلو سے اس روایت پر غور ہونا چاہئے کہ فرشتوں نے خدا کی خدمت میں جو رپورٹ پیش کی وہ رپورٹ مقصود نہیں تھی بلکہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فرمان ظاہر ہوتا ہے وہ مقصود ہے.بہر حال اس تمہید کے ساتھ اب میں اصل واقعہ کی طرف واپس آتا ہوں.حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان فرشتوں نے خدا کی خدمت میں یہ رپورٹ کی کہ کچھ ایسے لوگ تھے جو محض تیرے ذکر کی خاطر اکٹھے ہوئے تھے.ان کے اکٹھے ہونے کا کوئی اور مقصد نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی بخشش میرے ذمہ ہے.وہ نجات یافتہ لوگ ہیں ، وہ بابرکت لوگ ہیں.اس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ اے خدا! ان میں ایک شخص بھی تھا جوراہ چلتے ان کے پاس بیٹھ گیا تھا اس کو کچھ علم نہیں تھا کہ یہ مجلس کس لئے ہے.گزر رہا تھا اور گزرتے ہوئے اس نے ستانے کے لئے کچھ لوگوں کو اکٹھے بیٹھے دیکھا تو ساتھ بیٹھ گیا.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ خدا کے بندے جو میری خاطر، میری محبت کی خاطر ا کٹھے ہوتے ہیں یہ ایسے بابرکت وجود ہیں کہ ان کی برکتوں سے ان کے ساتھی بھی حصہ پاتے ہیں.پس وہ بھی میری رحمت کا مورد بنے گا جو اتفاقاًان کے پاس بیٹھ گیا اور کچھ عرصہ ان کی صحبت سے اس نے حصہ پایا.

Page 454

خطبات طاہر جلد ۸ 449 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء یہ مضمون میں آپ کو ایک خاص مقصد کی خاطر آپ کو بتا رہا ہوں اور وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جب خدا کی خاطر ا کٹھے ہوتے ہیں، اجتماعی منصوبے کرتے ہیں یاذ کر الہی کرتے ہیں تو ان کے اندر کچھ اجتماعی برکت کی طاقتیں پیدا ہوتی ہیں جو محض لوگوں کو بتانے سے، لوگوں کے علم میں نہیں آتیں بلکہ وہ برکتیں ان کے ماحول میں سرایت کرتی ہیں.ان کا ماحول ان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اس پہلو سے بھی وہ مفید وجود بن جاتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ملتا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : 1) تم دنیا کی بہترین امت ہو جو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی.پس اس مشن میں آپ کا اکٹھا ہونا کچھ تو خود آپ کے لئے برکت کا موجب ہوگا کیونکہ یہاں اکٹھے ہوں گے خدا کے ذکر کے لئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ رحمتیں جذب کرنے والے ہوں گے، ایک دوسرے کے تقویٰ سے آپ کے اندر ایک نئی قوت پیدا ہوگی ، ایک اجتماعی طاقت آپ کے اندر اُبھرے گی جو پہلے انفرادی زندگی کی حیثیت میں آپ نے محسوس نہیں کی ہوگی اور یہ امر واقعہ ہے ساری دنیا میں جہاں بھی جماعت کو مساجد بنانے کی توفیق ملتی ہے اور مشن ہاؤس بنانے کی توفیق ملتی ہے وہاں اکٹھے ہونے کی برکت سے جماعتوں کے اندر ایک نئی زندگی اور نئی روح پیدا ہو جاتی ہے.یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے بلکہ امر واقعہ ہے ان برکتوں کا ہم نے مشاہدہ کیا.لیکن جو دوسرا پہلو ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے یہاں اکٹھے ہونے کے نتیجے میں آپ کی برکت سے آپ کے ہمسایوں کو بھی حصہ ملنا چاہئے.آپ کی برکت سے آپ کے شہر کو بھی حصہ ملنا چاہئے ، آپ کی برکت سے اُس سارے ماحول کو حصہ ملنا چاہئے جو ماحول آپ کے ساتھ رابطہ پیدا کرتا ہے یا آپ جس ماحول سے رابطہ پیدا کرتے ہیں.اس ضمن میں ہماری وہ جماعتیں جو کینیڈا میں موجود ہیں یا امریکہ کے بعض اور علاقوں میں موجود ہیں انہوں نے عملاً اس بات کو ثابت کیا ہے کہ یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے واقعہ تھوڑوں کے فیض سے بعض دفعہ بڑی تعداد کے لوگ فیض پایا کرتے ہیں.چنانچہ حال ہی میں جو کینیڈا کا دورہ کرنے کی مجھے توفیق ملی ، مجھے دیکھ کر تعجب ہوا کہ بعض جگہوں میں جماعت کی تعداد شہر کی تعداد کے مقابل پر اتنی تھوڑی ہے کہ کسی ذکر اور شمار میں اس کا لانا ہی ممکن نہیں.دو یا تین گھروں کی ایک جماعت لاکھ سے زائد آبادی میں بس رہی ہے اور اس آبادی کے تمام معززین اس بات پر گواہ ہیں کہ

Page 455

خطبات طاہر جلد ۸ 450 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء یہ لوگ ہماری سوسائٹی کے لئے مفید وجود ہیں.یہاں تک کہ بعض ایسی جماعتوں کے جشن صد سالہ کے موقع پر اُن کے گورنرز نے ، ان کے چیف منسٹرز نے ، ان کے MPS نے یا شرکت کی یا پیغام بھیجے اور اس بات کا اقرار کیا کہ یہ جماعت تھوڑی تو ہے لیکن غیر معمولی صلاحیتوں سے مزین ہے اور اس کی وجہ سے ہماری سوسائٹی کو بہت سے فوائد پہنچ رہے ہیں.پس آپ کا تھوڑا ہونا اس راہ میں کوئی عذر نہیں کہ آپ سے اتنا عظیم الشان شہر سان فرانسسکو کو جو ساری دنیا میں مشہور ہے اور ساری دنیا میں ایک بہت ہی طاقتور اور با اثر شہر کے طور پر اس کے تذکرے چلتے ہیں اس میں یہ چھوٹی سی جماعت اثر پیدا کر سکے اس راہ میں آپ کا یہ عذر کافی نہیں کہ ہم تو بہت ہی تھوڑے ہیں ، ہماری تو کوئی گنتی نہیں ، ہمارا تو کوئی شمار نہیں ، ہم غریب لوگ ہیں، ہم میں سے اکثر باہر سے آنے والے ہیں اور اس سوسائٹی پر ہم کیا اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اخلاق حسنہ وہ اخلاق جو تقویٰ سے پیدا ہوتے ہیں، وہ شخصیتیں جو تقویٰ کی بناء پر تعمیر پاتی ہیں ، وہ لوگ جو اللہ کی محبت دل میں رکھتے ہیں اور اس محبت کے نتیجے میں خدائی وجود بن جاتے ہیں وہ یقیناً با اثر اور بارسوخ وجود ہوتے ہیں.ان کی تعداد کی کمی ان کے رسوخ کی راہ میں حائل نہیں ہوا کرتی.چنانچہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کینیڈا کے سفر میں مشرق سے مغرب تک جہاں جہاں میں گیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کی جماعتوں کی یہ غیر معمولی خوبی مجھے دکھائی دی.ممبرز آف پارلیمنٹ (Members of Parliament)، وہاں کے میٹر ز ، وہاں کے ایلڈرمین (Eldermen) غرض یہ کہ جتنے مختلف قسم کے شہر کے نمائندے یا علاقوں کے نمائندے تھے جب وہ مجھ سے ملے تو انہوں نے بطور خاص اس بات کا ذکر کیا کہ ہم آپ کی جماعت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں سے اتنا متاثر ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جماعت نشو ونما پائے ، ہم اس جماعت کے ممنون ہیں کہ اس جماعت نے ہماری سوسائٹی میں نئے رنگ بھرنے میں ایک عظیم الشان کردار ادا کرنا شروع کیا ہے.تھوڑے ہونے کے باوجود ہماری نظر ان پر تحسین کے ساتھ پڑ رہی ہے اور ہم اپنے پر لازم سمجھتے ہیں کہ بحیثیت امام جماعت احمد یہ آپ کے اس دورے پر خصوصیت کے ساتھ آپ کا شکریہ ادا کریں کہ آپ نے اتنی حسین جماعت کی تعمیر میں ایک کردار ادا کیا ہے.یہ احساس کوئی معمولی احساس نہیں ہے.اس احساس کا اعتراف اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے.کینیڈا امریکہ کے برابر تو نہیں، امریکہ سے بہت معمولی طاقت کا ملک سہی لیکن ساری دنیا

Page 456

خطبات طاہر جلد ۸ 451 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء میں ایک عظیم الشان ملک ہے.دنیا کی باقی طاقتوں کے مقابل پر ایک بہت ہی وسیع اور خدا تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی معدنی دولتیں پانے والا ملک ہے.علاوہ ازیں سائنس کے لحاظ سے بھی یہ غیر معمولی ترقی یافتہ ملک ہے.پس امریکہ کے سائے کی وجہ سے بظاہر آپ کو چھوٹا دکھائی دیتا ہو یعنی اپنے قد و قامت میں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی قوموں کے لحاظ سے کینیڈا کو ایک بہت عظیم حیثیت حاصل ہے اور اس کے آگے بڑھنے کے بہت ہی وسیع امکانات ہیں.پس ایسے عظیم ملک کے بڑے بڑے سیاسی راہنماؤں اور حکومت کے اعلیٰ افسروں کا ایک چھوٹی سی جماعت کے متعلق یہ اعتراف کرنا جہاں ان کے اعلیٰ خلق کے اوپر ایک بے لاگ تبصرہ ہے، جہاں ان کے اعلیٰ خلق کو داد تحسین دیتا ہے وہاں اس جماعت کے حسن خلق کے متعلق بھی ایک عظیم شہادت ہے.کیا وجہ ہے کیوں وہ لوگ اتنا متاثر ہوئے؟ اور کیا وجہ ہے کیوں آپ اپنے ماحول کو ایسے متاثر نہیں کر سکتے ؟ یہ دوسراسوال ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اگر آپ مسجدوں میں اپنی زمینیں لے کے آئیں جو قرآن کریم کی روح سے تقویٰ ہے، اللہ کی محبت ، اللہ کا پیار اور اس خوف میں مبتلا رہنا کہ ہماری کسی حرکت سے خدا ناراض نہ ہو جائے اس کا نام تقویٰ ہے.عجیب بات ہے کہ دنیا میں اکثر لوگ اس خوف سے تو زندگی گزارتے ہیں کہ کہیں دنیا ہم سے ناراض نہ ہو جائے ، کہیں معاشرہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ، کہیں ہماری کمزوریاں اور بدیاں دوسروں کو نظر نہ آجائیں اور اس کے نتیجے میں لوگوں کا رویہ ہم سے تبدیل نہ ہو جائے تو دنیا کے تقویٰ میں، دنیا کے خوف میں مبتلا ، دنیا کی اکثر آبادی اپنی زندگیاں ضائع کر دیتی ہے اور کچھ بھی ان کو حاصل نہیں ہوتا.جہاں دنیا نے ناراض ہونے کا فیصلہ کیا وہاں وہ ناراض ہوگی اور کوئی بھی اور طاقت اس کو روک نہیں سکتی.جہاں منہ سے وہ چند تعریفیں کر لیں وہ تعریفیں بھی آپ کی اندرونی شخصیت کو تبدیل نہیں کر سکتی مگر اللہ کا تقویٰ ایک عظیم الشان طاقت ہے اور اس تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا مقصد یہ ہے، اس کی روح یہ ہے کہ آپ ہمیشہ یہ سوچا کریں کہ ایک ذات ایسی ہے جس سے میں کچھ چھپا نہیں سکتا.میرا اندرونہ، میرے اندرونے کی پاتال تک اس کی نگاہ ہے.وہ وہ باتیں بھی میرے متعلق جانتا ہے جو ابھی شعوری طور پر ، کانشس طور پر میرے دماغ کے شعوری حصے پر نہیں ابھریں مگر غیر شعوری حصے میں وہ دبی پڑی ہیں.کبھی خوابوں کی صورت میں مجھے دکھائی دے دیتی ہیں، کبھی

Page 457

خطبات طاہر جلد ۸ 452 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء تو اہمات کی صورت میں ان کی جھلکیاں میں دیکھتا ہوں لیکن خدا کی ان پر نظر ہے.اس خدا کے سامنے زندگی گزارتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ میری کسی حرکت سے میری کسی سوچ سے، میری کسی نیت سے خدا تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے اور میں اس کی محبت سے محروم نہ رہ جاؤں یہ ہے تقویٰ کی روح اور تقویٰ کا مضمون.اس پہلو سے جہاں تک مقامی جماعت کا تعلق ہے جتنا مختصر سا رابطہ میرا اس جماعت سے ہوا ہے میں خوشی سے اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے آپ کی جماعت کو تقویٰ کی بنیادی صفت سے مزین فرمایا ہوا ہے.میں نے آپ کے اندر بہت اچھے اور نیک لوگ دیکھے ہیں.باوجود اس کے میں یہ اقرار کر رہا ہوں کہ امریکہ کی اور کینیڈا کی جماعتوں میں بظاہر آپ کی جماعت کو کوئی حیثیت حاصل نہیں، بظاہر آپ کی جماعت نہ منتظم ہے، نہ اجتماعی کوششوں میں کوئی ایسا حصہ لے رہی ہے جو جماعت کے لحاظ سے، دنیا کے لحاظ سے قابل ذکر ہو لیکن اس کے باوجود آپ کا خمیر اچھا ہے، آپ میں ایسے لوگ بھی جن کا جماعت سے تعلق نہیں مثلاً احمدیوں کی غیر احمدی بیویاں.ان کے اندر بھی میں نے سعادت دیکھی اور یہ جذ بہ اور روح دیکھی کہ ہم جماعت کے اجتماعی نظام سے سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں بلکہ بعض نے شکوے کئے کہ ہم اگر چہ مسلمان نہیں لیکن ہم اپنے خاوندوں کی وفادار ہیں اور اپنے بچوں کی بہبود کا تقاضا بھی ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ان کو اچھا مسلمان بنا ئیں.اس پہلو سے نظام جماعت ہماری کوئی مددنہیں کر رہا اور نظام جماعت کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ہمارے بچے بار بار آ ئیں اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہو سکیں ، اسلامی آداب سیکھ سکیں.تو یہ احساس بہت ہی پسندیدہ احساس ہے نہ صرف احمدیوں میں بلکہ غیر احمدیوں میں بھی موجود ہے.نہ صرف مسلموں میں بلکہ غیر مسلموں میں بھی موجود ہے.پس میں نے جس نظر سے آپ کو دیکھا ہے میں اطمینان کے ساتھ یہاں سے روانہ ہوں گا.مجھے یقین ہے کہ آپ کے اندر جو ہر قابل موجود ہے.اس کے علاوہ میں نے تقویٰ کی ایک علامت یہاں پائی کہ دکھا وا نہیں ہے یہاں.اس مشن پر جس کو آپ آج دیکھ رہے ہیں اگر آپ میں سے کچھ لوگ جو نہیں جانتے کہ اس کی کیا حالت تھی.آج سے دو چار مہینے پہلے اس کو دیکھتے تو حیران ہو جاتے کہ محض ایک اجاڑ سی جگہ تھی ، ایک ویرانہ سا تھا اور بہت ہی بدصورت نظر آنے والی عمارت

Page 458

خطبات طاہر جلد ۸ 453 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء تھی.ایک Barn ہے جو آپ کے سامنے ہے اب اس میں Barn والی کوئی شکل نہیں بلکہ اسے ایک با قاعدہ مسجد یا ہال کی شکل میں تبدیل کیا جارہا ہے.خاموشی کے ساتھ بغیر کسی ریا کاری کے دن رات بعض لوگوں نے یہاں خدمتیں کی ہیں اور مجھے بھی یہاں آنے کے بعد پتا چلا کہ وہ کون لوگ تھے؟ کس طرح انہوں نے دن رات یہاں محنتیں کی ہیں، کس طرح وقار عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل.جماعت کا بے شمار روپیہ بچایا اور پھر اس خدا کے گھر کو یا جماعت کے مرکز کو رونق دینے میں اتنا غیر معمولی حصہ لیا.پھر وہ جو یہاں خاص طور پر قابل شکریہ ہیں یعنی ہمارے یہاں کی جماعت کے پریذیڈنٹ محم فیروز صاحب ان سے جب میں نے بات کی تو یہ عجیب بات دیکھی کہ بجائے اس کے کہ وہ فخر سے یہ کہیں کہ میں نے یہ کام کئے ہیں، یا میں نے کام کروائے ہیں.امر واقعہ یہی ہے کہ انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے.وہ بار بار میری توجہ دوسروں کی طرف مبذول کرواتے رہے کہ ٹھیک ہے میں بھی شامل ہوں لیکن اصل یہ کام کرنے والے ہیں ان کو عزت دیں، ان کے ساتھ پیار کریں، ان کے ساتھ اظہار تحسین کریں، ان کی دلداری کریں.یہ لڑ کے ہیں جنہوں نے دن رات محنت کی ہے، یہ بوڑھے ہیں جنہوں نے دن رات محنت کی ہے، یہ ساتھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ ہیں جو اعزاز کا حق رکھتے ہیں.یہ ہے تقویٰ کی روح.پس میں کیسے غیر مطمئن ہو کر یہاں سے جاسکتا ہوں جبکہ میں نے اپنی آنکھوں سے آپ کے دلوں میں تقویٰ کی علامتیں دیکھی ہیں.ایک موقع پر میں نے کل جب مجلس ہوئی محمد فیروز صاحب کو اپنے ساتھ بٹھایا.دوسری مجلس کے وقت انہوں نے بڑے ہی ادب اور بڑے ہی لجاجت کے ساتھ مجھ سے درخواست کی کہ اس دفعہ مجھے نہ بٹھائیے ، ہماری ساتھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ نے بہت محنت کی ہے یہاں ان کا بھی حق ہے، ان کو بٹھائیے.اب ظاہر بات ہے کہ خلیفہ وقت کے ساتھ بیٹھنے کی ہر دل میں تمنا ہوتی ہے، ایک محبت ہے جو مجھے ان سے ہے اُن کو مجھ سے ہے اور اس لئے ایک دوسرے کے قرب سے ہم لذت پاتے ہیں.ایسے موقع کو اس ایثار کے ساتھ چھوڑنا ، اس خیال کے ساتھ کہ میں ہی نہیں ہوں اور بھی ہیں یہاں خدمت کرنے والے.یہ بات صاف بتا رہی ہے کہ ان کے دل میں تقویٰ ہے اور جب دوسروں سے میں نے پوچھا تو ہر ایک نے یہی کہا کہ وہ کام کرنے والا ہے یا فلاں کام کرنے والا ہے.اپنی ہی طرف توجہ مبذول نہیں کراتے رہے.

Page 459

خطبات طاہر جلد ۸ 454 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء پس خدا نے آپ کو وہ اندرونی دولت عطا فرمائی ہے جو عظیم الشان کام سرانجام دے سکتی ہے.یہاں صرف نظام کی کمی ہے، یہاں صرف اجتماعیت کی کمی ہے.ایک حصہ اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج اس مشن کی صورت میں پورا ہو گیا ہے یعنی جب تک کوئی جگہ اکٹھے اٹھنے بیٹھنے کی نہ ہو اس وقت تک نظام پوری طرح کام نہیں کیا کرتے.گھروں گھروں میں پھر کر پیغام دینا اور گھروں گھروں سے رابطے کر کے ایک اجتماعی شکل پیدا کرنے کی کوشش کرنا، ایک کوشش تو ہے لیکن حقیقت ہے کہ ایسی نتیجہ خیز کوشش نہیں بن سکتی جب تک کہ ایسا مرکز نہ ہو جہاں سب جگہ سے لوگ اکٹھے ہوں، ذاتی تعلق پیدا کریں، مختلف قسم کی مجالس میں وہاں اکٹھے ہوں.اطفال کی تربیت کے لئے کلاسز لگائی جائیں، ناصرات کی تربیت کے لئے وہاں درس قائم کئے جائیں.اسی طرح لجنہ اور خدام الاحمد یہ اس مرکز کو بار بار آ کر رونق دیں اور اپنی اجتماعی زندگی کا محور بنادیں.یہ وہ ضروری چیز ہے جو اللہ کے فضل سے آپ کو اب مہیا ہو گئی ہے.اگر چہ جماعتوں کے فاصلے زیادہ ہیں لیکن اگر دلوں کے فاصلے نہ ہوں تو یہ فاصلے طے ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے میں آپ کو اب یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے اس احسان سے پورا پورا فائدہ اٹھا ئیں.وہ ہمارے احمدی بھائی یا بہنیں جنہوں نے پہلے اس مشن کو رونق بخشنے میں حصہ نہیں لیا وہ اب اس کمی کو باقی وقتوں میں پورا کرنے کی کوشش کریں.وہ جن کا نظام جماعت سے واجبی سا رابطہ ہے.احمدی ہیں جب ان کے پاس کوئی پہنچ جائے تو قربانی بھی کر دیتے ہیں مگر آزاد اور الگ رہتے ہیں.ان کے لئے اب الگ رہنے کا کوئی عذر نہیں رہا.ان کو چاہئے کہ وہ اپنی خدمات اپنے پریذیڈنٹ صاحبان کی خدمت میں پیش کریں اور میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دنیاوی لحاظ سے بھی بڑی قابلیتیں رکھتی ہے.مالی لحاظ سے بھی بعضوں کو وسعتیں ملی ہیں بعضوں کو مزید وسعتیں ملنے کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں اس لئے آپ کی جماعت میں وہ تمام بنیادی صلاحیتیں موجود ہیں کہ آپ ایک عظیم جماعت کے طور پر یہاں اُبھریں اور اردگرد ماحول پر ایک نیک اثر قائم کریں.اس پہلو سے میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ خدا جب بھی مجھے دوبارہ یہاں آنے کی توفیق عطا فرمائے ، جس طرح گزشتہ آمد کے مقابل پر آج میں پہلے سے بہت زیادہ خوشی محسوس کر رہا ہوں، اسی طرح میری انگلی آمد کے وقت بھی آپ میں ایسی روحانی اور پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہو چکی ہوں کہ

Page 460

خطبات طاہر جلد ۸ 455 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء میں بہت ہی زیادہ خدا کے حضور اپنی روح کو جھکاتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہوئے یہاں سے رخصت ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ جماعت ترقی کی لامحدودرا ہوں پر گامزن ہو چکی ہے.اس سلسلے میں اجتماعیت کو یاد رکھیں ، اجتماعیت میں انسان کی زندگی ہے.فرد کی اکیلی زندگی کوئی حیثیت نہیں رکھتی.آپ کی انفرادی طاقتیں قطروں کی حیثیت رکھتی ہیں کہ قطرے اکٹھے ہوں گے تو دریا بنیں گے.اگر نہیں تو خشک زمینیں یہاں ہر طرف ایسی پھیلی پڑی ہیں جو قطروں کو جذب کریں گی اور جذب کر کے اس کی رسید تک نہیں دیں گی.ان قطروں کو اپنالیں گی ، ان کے اندر جوخدا نے تاثیر پیدا کرنے کی صلاحیتیں رکھی ہیں ہیں وہ تاثیریں ظاہر نہیں ہوں گی جو اجتماعیت سے پیدا ہوتی ہیں.اگر آپ لوگ اجتماعیت اختیار کریں، نظام جماعت سے وابستہ رہیں، اپنی خدمتیں پیش کریں اور خدمتیں نہ لینے کے نتیجے میں تکلیف محسوس کریں ، کوشش کریں کہ آپ کے اوپر جماعت کے تقاضے بڑھیں ، آپ پر جماعت بوجھ ڈالے اور آپ خوشی سے قبول کریں اور اگر بوجھ نہ پڑے تو تکلیف محسوس کریں.یہ وہ روح ہے جو ابراہیمی روح ہے اور اس ابراہیمی روح کے نتیجے میں خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیامت تک کی برکتوں کے وعدے کئے تھے.اس روح کا چھوٹا سا نظارہ کل سوال و جواب کے وقت ہوا جب ایک نوجوان نے اٹھ کر یہ شکوہ کیا کہ ہم سے کم خدمت لی جارہی ہے آپ کی نگہداشت کے سلسلے میں اور لاس اینجلس سے جو لوگ تشریف لائے ہیں ان کو زیادہ خدمت کا موقع دیا جا رہا ہے.یہ بات انہوں نے جیلسی کے نتیجے میں یعنی جلن کے نتیجے میں نہیں کہی بلکہ صاف ظاہر تھا کہ خدمت کا شوق تھا جس کی وجہ سے بے اختیار انہوں نے یہ بات کہی.یہ روح اپنی ذات میں بہت ہی قیمتی روح ہے.اس بات کی تمنا کرنا کہ خدا ہمیں خدمت کی توفیق بخشے اور خدمت نہ ہونے پر افسوس کرنا ، خدمت ہونے پر افسوس نہ کرنا.اس کو میں نے ابراہیمی روح اس لئے قرار دیا کہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی تھی کہ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا (البقرہ: ۱۲۹) یہ ایسی عظیم الشان دعا ہے جس کا اور کہیں آپ کو ذکر نہیں ملے گا.خاص ابراہیم کی دعا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا ہمیں اور قربان گا ہیں دکھا.جو قربان گاہیں، Alters قربانی کی ہمیں آپ نے بتا ئیں ان پر تو ہم تیرے فضل اور تیری توفیق کے ساتھ پورے اتر رہے ہیں لیکن دل کی پیاس نہیں بجھی.میں چاہتا ہوں کہ اے میرے آقا! تو مجھے اور قربان گاہوں کی

Page 461

خطبات طاہر جلد ۸ 456 خطبه جمعه ۳۰ / جون ۱۹۸۹ء طرف اشارہ کرتا کہ میں دوڑتا ہوا ان کی طرف بھی بڑھوں اور ہر قربان گاہ پر تیرے حضور قربانیاں دوں.یہ ابراہیمی روح تھی جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے غیر معمولی برکتوں کے وعدے کئے ورنہ انبیاء تو دنیا میں ہر قسم کے ہیں ایک دوسرے پر فضیلت رکھنے والے ان کے ساتھ وہ سلوک دکھائی نہیں دیتا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا اور یہی خاص ابراہیمی روح تھی جس کے نتیجے میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺے کو آپ کی ذریت میں پیدا کیا گیا ہے.وہ عظیم الشان قربان گا ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے وجود سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس دعا کے ساتھ ایک گہرا رابطہ رکھتی ہیں.پس آپ کے اوپر ابراہیمی ہونے کی حیثیت سے اور محمد مصطفی علہ کے غلام ہونے کی حیثیت سے یہ غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا یہ بہت ہی حسین اور پیاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ بھی خدا کے حضور یہی سلوک کی راہ اختیار کریں اور اللہ سے یہ عرض کرتے رہیں کہ اے خدا جماعتی ذمہ داریوں پر ہمارے دل میلے نہ ہونے دینا.جماعتی بوجھ جب ہم پر ڈالے جائیں تو ہمیں ایسا بد نصیب نہ بنانا کہ ہم سمجھیں کہ یہ کیا مصیبت پڑ گئی ہے.ہم پر کیوں یہ بوجھ ڈالے جارہے ہیں بلکہ ہمارے دل میں ہمیشہ یہ تمنا جاری رکھنا اور بے قرار تمنا جاری رکھنا کہ ہم جب ایک کام کرلیں تو خلا سے گھبرائیں جب ایک مصروفیت سے فارغ ہوں تو دوسری مصروفیت کے لئے تمنادل میں پیدا کریں اور اس بات میں زیادہ خوشی محسوس کریں کہ ہم تیری خدمت کر رہے ہیں بہ نسبت اس کے کہ ہم دنیا کے کاموں میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور خدا کرے کہ یہ جماعت جلد جلد بڑھے اور نظام جماعت کے ساتھ موتیوں کی طرح منسلک ہو جائے.ایسے موتیوں کی طرح نہیں جو زینت کے لئے استعمال ہوتے ہیں، جو دکھاوے کے لئے استعمال ہوتے ہیں بلکہ ایسے موتیوں کی طرح جو تسبیح کے دانے بن جاتے ہیں اور جن کے ساتھ جب انگلیاں حرکت کرتی ہیں تو ہر حرکت کے ساتھ خدا کا نام بلند ہوتا ہے اور انسان اس کی حمد اور ثناء کے گیت گاتا ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.نماز جمعہ کے بعد نماز عصر بھی ادا کی جائے گی ساتھ ہی.میں مسافر ہوں دورکعتیں پڑھوں گا مقامی دوست سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو کر عصر کی چار رکعتیں پوری کریں گے.آپ میں سے جو مسافر ہیں وہ میرے ساتھ ہی سلام پھیریں گے.

Page 462

خطبات طاہر جلد ۸ 457 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء مسجد میں بناتے وقت ظاہری زینت پر زور دینے کے بجائے تقویٰ کو مدنظر رکھنا چاہئے.لاس اینجلس اور گوئٹے مالا کی مساجد کے افتتاح کا ذکر (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء بمقام لاس اینجلس امریکہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :.آج کا دن بہت ہی مبارک دن ہے اور خوشیوں کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا دن ہے اور اس لحاظ سے سب سے زیادہ مبارک کے لائق یہ جماعت یعنی لاس اینجلس کی جماعت ہے جن کے شہر میں ایک نہایت ہی خوبصورت مسجد میں مجھے آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خطبہ دینے کی سعادت نصیب ہورہی ہے.پھر اس خوشی میں تمام جماعت امریکہ بھی شامل ہے اور جماعت امریکہ کے ساتھ تمام دنیا کی ۱۲۰ ممالک کی جماعتیں بھی شامل ہیں کیونکہ جہاں بھی جماعت احمدیہ کو خدا کا گھر بنانے کی توفیق عطا ہوتی ہے، ساری جماعت امت واحدہ کی طرح اس خوشی میں شریک ہو جاتی ہے.لیکن بالخصوص ان دنوں جبکہ پاکستان میں جماعت احمدیہ پر ایسی پابندیاں عائد کی گئیں کہ خدا کے گھر مسمار کئے گئے اور خدا کے گھروں کو خدا کے نام پر مساجد کہنا خلاف قانون قرار دے دیا گیا، یہاں مساجد کی نئی تعمیر میں بہت سی روکیں ڈالی گئیں.ایسے حالات میں میں نے ابتداء ہی میں جماعت کو یہ نصیحت کی تھی کہ ایک سچے مومن کی طرح ردعمل دکھا ئیں اور جہاں ایک مسجد گرائی جاتی ہے وہاں سو مسجد میں بنانے کی

Page 463

خطبات طاہر جلد ۸ 458 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء کوشش کریں.اس سے بہتر ، اس سے مؤثر ، اس سے زیادہ ایمان افروز جواب نہیں دیا جا سکتا.پس الحمد للہ کہ جماعت احمد یہ جو اطاعت کے جذبے سے سرشار ہے اور تمام کائنات میں اس وقت حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی بنائی ہوئی امت کہلانے کی مستحق ہے بہت ہی عمدہ رنگ میں ہرا پیل کا جواب دیتی ہے.اس نے اس اپیل پر بھی توجہ کی اگر چہ یہ مسجد اپنی نمایاں خوبصورتی کے لحاظ سے، اپنی بڑائی کے لحاظ سے، اس لحاظ سے کہ دنیا کے ایک بہت ہی امیر اور بہت ہی اثر رکھنے والے شہر میں تعمیر کی جارہی ہے آج نمایاں طور پر ہمارے سامنے آرہی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ افریقہ کے غریب ممالک میں ، چھوٹے چھوٹے دیہات میں، دوسرے تیسری دنیا کے ممالک میں جماعت نے کثرت کے ساتھ مساجد تعمیر کی ہیں اور آج کے دن کی خوشی میں میں نے سوچا کہ ان مساجد کا ذکر بھی شامل کر لوں جن کو ظاہری دنیا کے لحاظ سے کوئی عظمت عطا نہیں ہوئی.میں نے ایسی غریبانہ مساجد بھی دیکھی ہیں افریقہ میں جو گھاس بھوس کی بنی ہوئی ہیں، معمولی پتھر کی بنی ہوئی ہیں.ایسی مساجد بھی دیکھیں جن میں دس دس سال سے جماعت محنت کر کے اینٹیں جوڑ کر ، کچھ پیسے جوڑ کر کچھ دوسرا سامان خرید کے وقار عمل کے ذریعے جتنی توفیق ملتی ہے اس مسجد کو کچھ آگے بڑھا دیتی ہے اور بعض ایسی مساجد دیکھیں جو چھتوں تک مکمل ہو گئیں تھیں لیکن چھت کے ان کے پاس پیسے نہیں تھے.کچھ ایسی مساجد دیکھیں جن میں چھتیں پڑ چکی تھیں لیکن دروازوں کے ان کے پاس پیسے نہیں تھے.ایسی مساجد دیکھیں جہاں دروازے تو تھے مگر فرش بنانے کے لئے پیسے نہیں تھے، دریاں خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے لیکن عظمت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ دنیا کی کسی دوسری مسجد سے پیچھے نہیں تھیں اور کئی پہلوؤں سے وہ تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے اپنے اندر اعلیٰ مثالیں رکھتی تھیں.ایسی کثرت سے مجھے جماعتیں دکھائی دیں جنہوں نے آج تک مرکز سے ایک آنے کی امداد کا بھی مطالبہ نہیں کیا.نہ صرف مرکز سے بلکہ اپنے ملک کے ہیڈ کواٹر سے بھی اور اگر میں وہاں تفصیلی دورہ نہ کرتا اور گاؤں گاؤں جا کر مختلف جماعتوں کے حالات دیکھنے کی توفیق مجھے نہ ملتی تو میرے علم میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ افریقہ کے لوگ خدا کے گھر بنانے میں کیسی مسلسل قربانیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کیسے خلوص کے ساتھ وہ خدا کے گھر بنانے میں مسلسل محنت سے کام لے رہے

Page 464

خطبات طاہر جلد ۸ 459 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء ہیں.بہت بڑی بڑی خوبصورت مساجد بھی ہیں ان میں سے لیکن ان کا پس منظر بھی یہی ہے کہ مقامی لوگ مل کر جب خدا توفیق دیتا ہے کسی کو کوئی تجارت میں فائدہ ہوتا ہے، کسی اور زمیندارے میں اچانک خدا کی طرف سے ان کی جھولی فضلوں سے بھری جاتی ہے تو ایک بڑا حصہ اس میں سے وہ مساجد کے چندے کے طور پر الگ کرتے ہیں اور ان کو ایک دلی لگن ہے اس کام سے.پس کثرت سے ایسی مساجد ہیں جو کسی ذکر میں اور کسی شمار میں نہیں آئیں اور بنانے والوں نے کبھی اس رنگ میں سوچا بھی نہیں کہ یہ مساجد دنیا میں قابل ذکر مساجد ہیں یا ان کے ذکر کی خاطر ہمیں مرکز کو لکھنا چاہئے کہ وہ ہماری مساجد کا نام بھی لیں.پس وہ مساجد بعید نہیں کہ بعض بڑی بڑی شاندار مساجد کے مقابل پر خدا کے نزدیک زیادہ مقبول ہوں اور مساجد کی مقبولیت کا فیصلہ دراصل آغاز کی نیتیں ہی کیا کرتی ہیں.میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ یہ مسجد اپنے پیچھے پاک نیتیں نہیں رکھتی.میں صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ عمارتوں کی ظاہری عظمت بعض ایسی عمارتوں کو لذت سے پوشیدہ کر دیا کرتی ہے جن کی اندرونی عظمت ظاہری عظمت کے مقابل پر بہت زیادہ ہوا کرتی ہے.ہم چونکہ ایک زندہ جماعت ہیں ، ہم چونکہ ایک موحد جماعت ہیں، ہم چونکہ جسم ہی کے نہیں بلکہ روح کے قائل ہیں اس لئے ہمیشہ ہمیں اس بات کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.دوسری بات مساجد کو عظمت دینے والی نمازی ہوا کرتے ہیں اگر نمازیوں کے دل میں خدا کا خوف ہو، خدا کی محبت ہو، خدا کی تو حید موجزن ہو تو ایسی مساجد کو رونق ملتی ہے.پس یہ بہت سے ایسے امور ہیں جن کے متعلق کچھ میں پہلے بھی ذکر کرتا رہا ہوں، کچھ آج شام کو جب با قاعدہ اس مسجد کا ایسا افتتاح ہوگا جو رسمی رنگ رکھتا ہے لیکن اس خیال سے میں نے اسے کو قبول کیا ہے کہ ایسے موقع پر غیروں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے ورنہ میں نہ تو کسی مسجد کے افتتاح کا قائل ہوں نہ رسمی طور پر مجالس بلانے کا قائل ہوں کیونکہ جہاں تک میرا تاریخ اسلام کا علم ہے میرے نزدیک حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے زمانے میں کسی مسجد کا افتتاح نہیں ہوا بلکہ یہ ذکر ملتا ہے کہ صحابہ حضرت اقدس محمد مصطف امی سے درخواست کیا کرتے تھے کہ ہماری مسجد میں بھی کوئی نماز ادا کریں، دو نفل ادا کر دیں تا کہ ہماری مسجد کو وفق ملے اور ان کی مراد غالباً قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کرنا ہوتی تھی

Page 465

خطبات طاہر جلد ۸ 460 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف :۳۲) کہ تم لوگ ہر مسجد میں اپنی زمینیں ساتھ لے کر جایا کرو اور یہاں زینت سے مراد تقویٰ ہے.پس چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو تمام کائنات میں اگلوں اور پچھلوں سے زیادہ تقویٰ نصیب ہوا پس صحابہ یہ درخواست بالکل قرآنی تعلیم کے مطابق کیا کرتے تھے لیکن کوئی افتتاح کی رسم نہیں منائی گئی.اس لئے جب بھی مجھے امریکہ ہو یا دوسری جگہوں پر مساجد میں افتتاح کرنے کے لئے کہا جائے تو میرے دل میں ہمیشہ اس طرح سے تر در پیدا ہوتا ہے اور بعض جگہ تو میں نے اس بات پر ناراضگی کا بھی اظہار کیا کہ ایک سال سے آپ اس مسجد میں نمازیں پڑھ رہے ہیں اور آج آپ نے لوگوں کو بلایا ہے یہ کہہ کر کہ مسجد کا افتتاح ہو گا.آپ مجھ سے بھی دھوکا کر رہے ہیں، دنیا سے بھی دھوکا کر رہے ہیں یہ کوئی انصاف کا طریق نہیں ہے.مسجد کا افتتاح تو اسی دن ہو گیا جس دن کسی ایک نمازی نے وہاں نماز پڑھ لی.ہاں ! آپ یہ اعلان کیا کریں، یہ خط لکھا کریں دوستوں کو کہ ہم نے مسجد بنائی بہت خوشی ہوئی.اس موقع پر شکرانے کے طور پر ہم ایک تقریب منانا چاہتے ہیں جس میں آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی شامل ہوں اور آپ معلوم کریں کے مسجد کیا ہوتی ہے کس لئے بنائی جاتی ہے اور اس موقع پر کیونکہ فلاں شخص بھی آرہا ہے اس لئے آپ کو اس سے ملنے کا بھی موقع مل جائے گا یہ معقولیت ہے، یہ حقیقت ہے.پس اس مسجد کے متعلق جو تقریب منائی جارہی ہے اس کا بھی یہی پس منظر ہے جس کی وجہ سے میں نے قبول کیا.مسجد کے افتتاح کے طور پر اگر دعوت نامہ دیا گیا تھا تو وہ درست نہیں تھا لیکن میرے علم میں جہاں تک بات ہے وہ یہی ہے کہ دوستوں کو بلایا گیا ہے کہ چونکہ مسجد تعمیر ہو چکی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں توفیق ملی اور یہ عبادت کے لئے استعمال ہو رہی ہے.اس موقع پر چونکہ جماعت احمدیہ کا امام بھی آرہا ہے اس لئے ہم خوشی کی ایک تقریب منانا چاہتے ہیں.پس اگر یہ نہیں بھی ہوا تو آئندہ میں اس خطبے کے ذریعے جماعتوں کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ مساجد کی تعمیر کے وقت ان سب باتوں کو ضرور پیش نظر رکھا کریں.افریقہ کی مثال چونکہ سنت نبوی پر ہے اس لئے وہ مثال میں نے آپ کے سامنے پیش کی اس لئے نہیں کہ افریقہ کی پیروی کریں بلکہ اس لئے کہ افریقہ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کی ہے اور آج کے زمانے میں اس سنت کو زندہ کیا ہے.

Page 466

خطبات طاہر جلد ۸ 461 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء مسجدیں بنانے کے وقت تقویٰ سب سے پہلی شرط ہے اور تقویٰ کے مطابق خدا کا گھر بناتے وقت یہ خیال کبھی بھی دامن گیر نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اسے زیادہ خوبصورت بناسکیں گے یا کم خوبصورت بناسکیں گے.زیادہ شاندار دکھائی دینے والی مسجد بنائیں گے یا کم شاندار دکھائی دینے والی مسجد بنائیں گے.اول نیت اس بات کی ہونی چاہئے کہ ہمیں خدا کے نام پر کسی ایک جگہ عبادت کرنے کے لئے اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے اور وہ جگہ سب کے لئے کھلی ہونی چاہئے.اس لئے ہمیں جس قسم کی جگہ بھی میسر ہو ہمیں لازماً اپنی کوشش کے ساتھ ایک ایسی جگہ کی تعمیر کرنی چاہئے جو خدا کے نام پر ہو، خدا کی خاطر ہو وہاں عبادت کے لئے سادگی کے ساتھ ہم اکٹھے ہو سکیں.اس کے علاوہ اگر تزئین بھی ہو سکے ظاہری ، صاف ستھری خوبصورت نظر آنے والی چیز ہو تو یہ خلاف ایمان بات نہیں کیونکہ زینت کا ایک ظاہر سے بھی تعلق ہے.اگر اندرونی زینت کو آپ پیش نظر رکھتے ہوئے بیرونی زینت کا کچھ سامان کر سکیں تو ہرگز مضائقہ نہیں اور یہ قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں ہے لیکن اول شرط یہی ہے کہ تعمیر کے وقت تقویٰ پیش نظر ہونا چاہئے اور خالصتہ اللہ کی عبادت کا مقصد پیش نظر ہونا چاہئے.یہ بات مجھے بار باراس لئے بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ آج کل دنیا میں بعض بہت بڑی بڑی مساجد بنائی گئی ہیں اور بنائی جا رہی ہیں اور جماعت کے دوست ان مسجدوں کو دیکھتے ہیں اور بڑے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے دل میں یہ جذ بہ اٹھتا ہے کہ ہمارے پاس دولت ہو ہم اس سے بڑی اور شاندار مساجد بنائیں حالانکہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ مسجدیں، تقویٰ سے خالی ہیں، عبادت کرنے والوں سے خالی ہیں محض ایک دکھاوا ہے ایک عظیم الشان عمارت ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.پس مسجد کی فضلیت آپ کے دلوں کے ساتھ ہے، مسجد کی زینت آپ کے تقویٰ کے ساتھ ہے مسجد کی پہلی اینٹ قرآن کریم کے مطابق تقوی پر رکھی جانی چاہئے.یہ وہ مضمون ہے جس کو بار بار جماعت کے سامنے بیان بھی ہونا چاہئے اور جماعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اس کے بعد جب تقویٰ پر بنیاد رکھی جائے تو ظاہری زینت سے نہ اسلام منع کرتا ہے نہ حضرت اقدس محمد مصطفی او نے منع فرمایا.آپ کے اپنے لباس میں بھی یہی عادت تھی کہ سادہ اور مناسب ضروری لباس پہنا کرتے تھے مگر اگر کوئی ظاہری زینت کا لباس بھی دے دیتا تھا تو اسے بھی استعمال فرما لیتے تھے اور قرآن کریم نے واضح تعلیم دی ہے کہ زینت کو اختیار کرنا یعنی ظاہری زینت کو اور نعمتوں کو استعمال کرنا ایمان کے

Page 467

خطبات طاہر جلد ۸ 462 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء خلاف نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اول طور پر یہ نعمتیں اپنے مومن بندوں ہی کے لئے پیدا کی ہیں.پس اس وضاحت کے ساتھ چونکہ مجھے یقین ہے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی اور زائد حسن جو ہمیں دکھائی دیتا ہے اس کی بھی خدا نے تو فیق عطا فرمائی.اس لئے میں آج بہت خوش ہوں کے ایک ایسی مسجد میں مجھے آج خطبہ دینے کی توفیق مل رہی ہے جس کی بنا تقویٰ پر تھی اور اس کے ساتھ اس کو ظاہری زینت بھی خدا نے عطا فرما دی.اس ظاہری زینت کا جہاں تک جماعت کے ساتھ تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ نہ بھی ہو تو اس کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں.مجھے اپنے سفروں کے دوران خصوصاً پاکستان میں سفروں کے دوران بعض دفعہ ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنے کا موقع ملتا تھا جو سادہ تھیں جسے ہم پنجابی میں تھڑا کہتے ہیں ایک تھڑ ا سا بنا کر اس کے ارد گرد کچی اینٹوں کی دیوار کھڑی کر کے گھاس پھوس کی چھت ڈال دی گئی اور کسی نے مسافروں کے لئے رستہ چلتے ہوئے مسجد بنادی.بعض دفعہ ایسی مساجد میں نماز کا اتنا لطف آیا کہ بڑی سے بڑی شاندار مسجد میں بھی اس رنگ میں نماز کا لطف نہیں آیا کیونکہ اس کی سادگی میں ایک حسن تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے خدا سے محبت کرتے ہوئے، نماز سے محبت کرتے ہوئے رستہ چلنے والوں کا خیال کر کے ان کی خاطر یہ کام کیا ہے.اس کے مقابل پر انہی سفروں کے دوران مجھے بعض دفعہ ایسی مسجدوں میں بھی نماز پڑھنے کا موقع ملا جن کے باہر مولوی ڈبے لے کر پیسے مانگتے اور ڈبے بجاتے اور کوشش کرتے کہ زیادہ خوبصورت دکھائی دینے والی مسجد بنائیں.نماز کا لطف تو نمازی کے اوپر ہے لیکن بعض دفعہ ماحول اس پر اثر انداز ہوتا ہے.اس پہلو سے ان مسجدوں میں نماز کے وقت مجھ پر کوئی خاص کیفیت طاری نہیں ہوئی کیونکہ میں جانتا تھا کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے مسجد میں بنائی گئی ہیں.ہمیں ضرورت ہے اس لئے ہم اس مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہو گئے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تقویٰ پر اگر اینٹ رکھی جائے یعنی تقویٰ کی اینٹ پر اگر بنیا درکھی جائے تو مسجد میں اس کے ماحول میں ضرور اثر پیدا ہو جاتا ہے.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ وہ مسجد بنانے والے بہت سے غیر احمدی تھے لیکن ان کی طرز سے مجھے خدا کی محبت نظر آئی.مجھے اس مسجد میں داخل ہوتے ہوئے احساس ہوا کہ جس نے بھی یہ کام کیا ہے اللہ کے پیار کی وجہ سے کیا ہے.اس لئے یہ خیال کبھی میرے دل کے کونے میں بھی نہیں آیا کہ چونکہ غیر احمدیوں نے مسجد بنائی ہے اس لئے اس مسجد کا کم

Page 468

خطبات طاہر جلد ۸ 463 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء اثر ہوگایا نعوذ بالله من ذالک یہاں نماز ٹھیک نہیں ہوسکتی.یہ جاہلانہ خیال ہے.قرآن کریم فرماتا ہے: أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا (الجن:۱۹) کہ سب مسجدیں خدا کے لئے بنائی جاتی ہیں.کسی کی بھی مسجد ہوا اگر وہاں تمہیں عبادت کی توفیق ملتی ہے تو اللہ کو پکار واور اس کے سوا کسی اور کونہ پکاروبس یہ شرط ہے.اس لئے جہاں تک جماعت کا تعلق ہے ہم نے کبھی بھی دوسروں کی بنائی ہوئی مسجدوں سے غیریت نہیں کی لیکن وہ مساجد جو خالصۂ دکھاوے کے لئے بنائی جائیں ان میں نماز پڑھنے کے لئے طبیعت مائل نہیں ہوتی اور یہی مضمون قرآن کریم میں مسجد ضرار سے متعلق بیان ہوا ہے.مسجد ضرار بنائی گئی جو خدا کی خاطر نہیں تھی بلکہ کسی اور فساد کی نیت سے اور دکھاوا دے کر مومنوں کو دھوکا دینے کے لئے بنائی گئی تھی.آنحضرت ﷺ سے جب بار بار ان لوگوں نے درخواست کی کہ آپ آکر ہماری مسجد میں نماز پڑھیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ دستور تھا تو آپ کے دل میں تردد تھا لیکن بار بار ٹالتے رہے لیکن آنحضرت ﷺ کے مزاج میں بے حد حیا تھی اور بعض دفعہ یہ بار بار کی درخواست کے اثر سے آپ قبول فرمالیا کرتے تھے خواہ دل میں تردد بھی ہو.قرآن کریم میں آپ کی اس حیا کا بھی ذکر ملتا صلى الله ہے کہ مومن جب تمہیں دعوت پر بلاتے ہیں تم کھانا کھا کر فارغ ہو کر چلے جایا کرو آنحضرت ﷺ کو عادت تھی کہ کھانے سے فارغ ہو کر عبادت میں مصروف ہوا کرتے تھے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ حیا کی وجہ سے تمہیں کہہ نہیں سکتے تو بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں حیا مانع ہو جایا کرتی تھی.انسان ایک چیز کو بعض دفعہ نا پسند کرتا ہے.ناپسندیدگی کا اظہار حیا کی وجہ سے نہیں کر سکتا.بعض دفعہ حیا کی وجہ سے پسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کر سکتا.تو اس لئے حضور اکرم ﷺ نے بالآخر اس کو قبول فرمالیا حالانکہ آپ کی فراست آپ کو بتا رہی تھی کہ یہ مسجد اس لائق نہیں ہے کہ آپ اس میں جا کر نماز پڑھیں.خدا نے بعد میں منع فرمایا لیکن یہ الگ بات ہے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض مساجد سے جہاں منافقت کی بوہو، جہاں ریا کی بو ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی فطرت میں ایک تردد پیدا ہو جاتا ہے اور ایک کراہت پیدا ہو جاتی ہے یہ ایک الگ مضمون ہے لیکن ہرگز یہ مراد نہیں کہ مسجد کو دیکھ کر پہلے یہ سوچا جائے کہ کس فرقے نے بنائی ہے.آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے کہ عیسائی وفد آپ کے پاس ملنے کے لئے حاضر ہوا اور

Page 469

خطبات طاہر جلد ۸ 464 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء مذہب پر گفتگو کر رہا تھا نماز کا وقت ہوا تو وہ اٹھ کر جانے لگا یعنی ان کی نماز کا وقت ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو بیٹھو.انہوں نے کہا نماز کا وقت ہو چکا ہے اس لئے ہم باہر کسی گرجے میں یا کسی جگہ جا کر اپنی عبادت کریں گے.آپ نے فرمایا یہ بھی تو عبادت کا گھر ہے اللہ کی عبادت کی خاطر بنایا گیا ہے یہیں نماز پڑھ لو.تو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کے اسوہ سے تو پتا چلتا ہے کہ مساجد میں صرف فرقوں کا تو سوال ہی نہیں تھا اس وقت مذاہب کی تفریق حائل نہیں ہونی چاہئے.اگر خالصہ اللہ کی عبادت کوئی کرنا چاہے تو ہر جگہ کر سکتا ہے ایسے گھر میں جو خدا کی خاطر بنایا گیا ہو.پس اس مسجد کی افتتاح کی تقریب یعنی ان معنوں میں جن معنوں میں میں نے بیان کیا ہے وہ تو بعد میں ہوگی اور جہاں تک مجھے توفیق ملی میں انشاء اللہ مہمانوں کو مسجد کے مقاصد سے متعارف کرواؤں گا لیکن آج میں آپ کے سامنے اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت نے اس دور میں جو ہمارے لئے بڑا ہی دکھوں کا دور تھا کثرت کے ساتھ مساجد بنا کر بار بار مومنوں کی خوشیوں کے سامان کئے ہیں اور ہر مسجد جو دنیا میں کہیں بنی ہے وہ ساری جماعت کی خوشیوں میں اضافے کا موجب بنی ہے خصوصاً اس دور میں ،اس پس منظر کے نتیجے میں.پس وہ ساری مساجد جو افریقہ میں بنی ہیں ، نا معلوم ہیں یا انڈونیشیا میں بن رہی ہیں اور نا معلوم ہیں ، جو بنگلہ دیش میں بن رہی ہیں اور نا معلوم ہیں، ہندوستان میں بن رہی ہیں اور نا معلوم ہیں آج ہم ان سب مساجد کو اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں گے اور نماز میں جو دعا کی جائے گی اس میں اس مسجد کے اوپر خدا کے حضور صرف سجدہ تشکر ادا نہ کیا جائے بلکہ اس سارے عرصے میں خدا نے جو عظیم الشان توفیق ہمیں عطا فرمائی ہے للہ مساجد بنانے کی اس سب مضمون کو پیش نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے.اس ضمن میں ایک اور مسجد کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں یعنی گوئٹے مالا کی مسجد جس کا اسی رنگ میں افتتاح ہم نے چند دن پہلے کیا ہے، تین یا چار دن پہلے.گوئٹے مالا ایک ایسا ملک ہے جو خالصہ نہیں تو اکثریت شکل میں کیتھولک ہے اور اتنی بھاری تعداد کیتھولک کی ہے کہ دوسرے جو عیسائی فرقے ہیں وہ گنتی کے چند ہیں اور ان کو کوئی اپنے ملک میں عظمت حاصل نہیں.کیتھولک ہونے کے

Page 470

خطبات طاہر جلد ۸ 465 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء لحاظ سے میرا یہ تاثر تھا کہ یہ لوگ تعصب دکھا ئیں گے اگر ایک مسلمان ملک میں مساجد پر پابندی ہو جائے تو لازمی بات ہے کہ جیسے کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاج کو بھی پھونک پھونک کے پیتا ہے.مجھے یہ ڈر تھا کہ کیتھولک ملک میں تو بہت ہی زیادہ تعصب دکھایا جائے گا لیکن میں حیران رہ گیا دیکھ کر کہ ہر منزل پر ہر قدم پر ان لوگوں نے اتنا تعاون کیا ہے.حکومت نے بھی ، وہاں کے انجینئر ز نے بھی یہاں تک کہ وہاں کے معماروں اور مزدوروں نے بھی.باوجود اس کے کہ غریب ملک ہے اور مزدور بہت ہی تھوڑی اجرت پاتے ہیں اور زائد وقت کام کریں تو ان کے مطالبے ہونے چاہئیں کہ ہمیں زائد پیسے دو لیکن چونکہ افتتاح کا وقت قریب آرہا تھا اور مسجد کا بہت سا کام ہونا باقی تھا اس لئے جب ان سے یہ درخواست کی گئی کہ دن رات کام کرو زیادہ محنت سے کام کرو تو اس طرح انہوں نے کام کیا ہے جس طرح جماعت بعض دفعہ وقار عمل مناتی ہے اس جذبے کے ساتھ انہوں نے کام کیا اور وہ سارے کیتھولک تھے اور حکومت نے ایسی گہری دلچسپی لی اور ایسا تعاون سے بڑھ کر کہنا چاہئے محبت کا اظہار کیا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا وسیع حوصلہ دنیا کی کوئی حکومت دکھا سکتی ہے.مقامی طور پر وہاں ابھی ایک بھی احمدی نہیں لیکن وہاں کے پریزیڈنٹ صاحب نے میری ملاقات کے وقت بتایا کہ میری خواہش تھی کہ میں خود آکر اس تقریب میں شامل ہوں لیکن ایک انتہائی ضروری Executive کی میٹنگ تھی اس کی وجہ سے میں نہیں آسکا تو میں نے اپنے وائس پریزیڈنٹ کو بھجوایا.اس وقت مجھے سمجھ آئی کہ وائس پریزیڈنٹ صاحب کیوں آئے ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ جائیں اور اس میں شامل ہوں لیکن میری ذاتی خواہش تھی کہ میں آتا اور دوسرے بعض وزراء اس میں شامل ہوئے اور مقامی لوگ جن کو بھی دعوتیں دی گئیں تھیں بڑے بڑے ہر قسم کے وہ وہاں تشریف لائے اور اس تقریب کو بہت ہی انہوں نے رونق بخشی اور جماعت کی طرف سے جب مسجد کے متعلق اور اس کے مقاصد کے متعلق مختصر اذکر کیا گیا تو بہت ہی گہرا اثر انہوں نے قبول کیا بعد میں کچھ عرصہ بیٹھے بھی کچھ لوگ ان میں سے آکے اور بار بار اپنی محبت کا اور خوشی کا اظہار کرتے رہے.اس لئے مجھے اس ملک سے بڑی توقع پیدا ہوئی ہے کہ چونکہ انہوں نے خدا کے گھر بنانے میں غیر معمولی تعاون کیا ہے اور محبت کا اظہار کیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اسلام کے لئے ان کے دل کھولے گا اور اس کے آثار بھی ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.اتنی جلدی، اتنی گہری دلچسپی اسلام

Page 471

خطبات طاہر جلد ۸ 466 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء میں لینی شروع کر دی ہے انہوں نے کہ جس کے متعلق کسی اور ملک میں مجھے ایسا تجربہ نہیں ہوا.ہر تم کے صاحب حیثیت یا عامتہ الناس یعنی ہر قسم کے لوگ مسجد میں ہی دلچسپی نہیں لے رہے بلکہ جماعت احمدیہ کے پیغام میں دلچسپی لے رہے ہیں.چنانچہ وہاں حکومت کی طرف سے جو نمائندے ہماری دیکھ بھال کے لئے مقرر ہوئے تھے اور وہ کافی با اثر لوگ تھے ان سب نے مجھ سے چلنے سے پہلے درخواست کی کہ ہمیں اسلام میں گہری دلچسپی پیدا ہوگئی ہے اس لئے آپ ہمیں ضرور وقت دیں تا کہ ہم کچھ سوال کر سکیں.اس دلچسپی کی وجہ کیا تھی ؟ دلچسپی کی وجہ یہ تھی ہمارے ایک ساتھی نے ان سے پوچھا پہلے کے تم متاثر نظر آرہے ہو بتاؤ سب سے زیادہ تمہیں کس چیز نے متاثر کیا ہے.تو ان کے جوافسر اعلیٰ تھے انہوں نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ ہمیں آپ کی نماز نے متاثر کیا ہے، آپ کی عبادت نے متاثر کیا ہے اور ایسا گہرا اثر ہمارے دل پر ڈالا ہے انہوں نے خود بتایا کہ میری بیوی بڑی سخت کیتھولک ہے اور میں عام سا عیسائی ہوں خاص مجھے ایسی کوئی دلچسپی نہیں.میری بیوی ہمیشہ مجھے آکر بنایا کرتی تھی کہ چرچ میں بعض دفعہ کوئی اچھا مقرر آتا ہے تو دل پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور ایک روحانی لذت ہے جس سے تم محروم ہو.تو پہلی دفعہ جب میں نے آپ کی نمازیں دیکھیں تو میں نے بیوی کو کہا کہ تمہیں پتا ہی کچھ نہیں کہ روحانی لذت ہوتی کیا ہے؟ میں جو آج دیکھ کے آیا ہوں تمہارے خوابوں میں بھی یہ لذت نہیں آسکتی.چنانچہ اس نے درخواست کی کہ میں مسلمان تو نہیں ہوں مگر مجھے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے.چنانچہ میں نے کہا سو بسم اللہ شوق سے تشریف لائیں اور اس نماز میں اس نے با قاعدہ ہمارے ساتھ اسی طرح اسی انداز سے جس طرح مسلمان نماز ادا کرتے ہیں نماز ادا کی اور دروازہ کھلا رکھا اس کمرے کا تا کہ دوسرے اس کے ساتھی افسران بھی دیکھیں اور وہی دیکھ کر دراصل ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا.چنانچہ کافی دیر تک ان سے مجلس لگی رہی اور ان میں سے ہر ایک نے یہ کہا کہ ہم اسلام کی صداقت کے قائل ہو گئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں رہا.اب ہمیں اتنا وقت دیں کہ ہم اپنے بیوی بچوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیں تا کہ جب ہم آئیں تو ہمارے گھر میں پھوٹ نہ پڑے ہم اکٹھے مل کے آئیں.تو وہ مساجد جو خدا کی خاطر بنائی جاتی ہیں اور وہ عبادت جو خدا کی خاطر ادا کی جاتی ہے اس میں ایک گہرا روحانی اثر ہوا کرتا ہے اور اگر کسی قوم میں روحانیت زندہ ہو تو سب سے زیادہ اس قوم کو

Page 472

خطبات طاہر جلد ۸ 467 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء اپنے مذہب کی طرف مائل کرنے کا یہی ذریعہ بنتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ گوئٹے مالا کی مسجد بھی چونکہ خالصہ للہ بنائی گئی تھی اس لئے وہاں نمازیوں کا انتظام خدا تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جلد ہی وہاں وہ مسجد جواس لحاظ سے بہت بڑی ہے کہ صرف باہر سے آئے ہوئے دو پاکستانی احمدی وہاں ہیں.ایک ہمارے مبلغ اور ایک وسیم صاحب جو کینیڈا سے گئے تھے اور مسجد کے کام میں انہوں نے بہت ہی محنت کی ہے.اس کے باوجود مجھے امید ہے کہ جلد ہی انشاء اللہ وہ مسجد بھی نمازیوں سے بھر جائے گی اور چھوٹی ہو جائے گی.یہ ایک آخری بات ہے جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اس کے بعد خطبے کو ختم کروں گا لیکن اس سے پہلے ایک اپیل بھی کروں گا.مسجدیں ہم جتنی وسیع بنا ئیں اگر وہ تقویٰ پر مبنی ہوں اور اللہ کی خاطر بنائی جائیں تو ایک علامت اس کی ضرور ہم پوری ہوتے دیکھتے ہیں کہ وہ مسجد جلد جلد نمازیوں سے بھرنے لگتی ہے اور وہ مسجدیں جو دکھاوے کے لئے بنائی جائیں ان کو آپ دیکھیں گے کہ سالہا سال تک بنی رہتی ہیں اور خالی رہتی ہیں جس طرح ایک بڑے لفافے میں چھوٹی سی چیز ڈال کر اس کو کھنکایا جائے ویسی کیفیت ان کی دکھائی دیتی ہے.تو یہ دوسرا قدم جو ہے یہ اٹھانے کی ہر جگہ ضرورت ہے مسجد میں بڑی بنا ئیں اس دعا کے ساتھ بڑی بنائیں کے خدا جلد بھر دے اور پھر خود عبادت کے لئے اس میں زیادہ آیا کریں ، اپنے بچوں کو ساتھ لایا کریں تا کہ جتنی آپ کی توفیق ہے اس حیثیت سے آپ اس مسجد کو ضرور رونق بخشنے کی کوشش کریں.باقی کام خدا پر چھوڑمیں اور مجھے یقین ہے اب تک تو خدا کا ہمیشہ یہی طریق رہا ہے، ہم سے یہی سلوک رہا ہے کہ مسجد خواہ ہم کتنی بڑی بنا ئیں وہ دیکھتے دیکھتے چھوٹی ہو جاتی ہے.پس خدا کرے کہ یہ مسجد بھی دیکھتے دیکھتے چھوٹی ہو جائے اور آج جیسا کہ مجھے دکھائی دے رہا ہے اللہ کے فضل سے اس وقت یہ مسجد بھری ہوئی ہے اور نمازی جو صف بندی کر کے کھڑے ہوں گے وہ انشاء اللہ اس پوری مسجد کو بھر دیں گے لیکن یہاں اس وقت باہر سے آئے ہوئے دوست موجود ہیں.بڑی دور دور سے سفر کر کے بعض امریکن مخلصین جن کو خدا نے توفیق بخشی ہے آج اس تاریخی موقع میں جمعہ میں شامل ہونے کے لئے تشریف لائے ہیں.مگر میں یہ چاہتا ہوں جماعت لاس اینجلیس

Page 473

خطبات طاہر جلد ۸ 468 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء اب یہ کوشش کرے کہ خود اس مسجد کو بھرے اور پھر یہ دعا کرے اس مسجد میں کہ اللہ اس مسجد کو اور متقی نمازی عطا کرے.پھر معمولی کوشش بھی وہ کریں گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کثرت کے ساتھ ان کے پیغام میں برکت ڈالے گا اور یہ مسجد بھی چھوٹی ہو جائے گی.اب مسجد کے چھوٹے ہونے کی دعا بظا ہر بڑی عجیب لگتی ہے کہ ہم خود دعا کریں کہ اے خدا! اس مسجد کو چھوٹا کر دے لیکن میں نے پہلے بھی کئی دفعہ اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ وہ مائیں جو اپنے بچوں سے پیار کرتی ہیں وہ یہ دعا نہیں کیا کرتیں کہ ان کے کپڑے کبھی بھی چھوٹے نہ ہوں.کپڑے چھوٹے نہ ہوں تو ان کے سینے میں غم کی آگ لگ جاتی ہے وہ فکر میں مبتلا ہو جاتی ہیں ، گھلنے لگ جاتی ہیں کہ ہمارے بچے کے وہی کپڑے ہیں جو دو سال پہلے پہن رہا تھا تو یہی ہمارا رجحان خدا کے گھروں کی طرف ہونا چاہئے.جب وہ چھوٹا ہوگا تو اللہ تعالیٰ پھر وسیع مساجد بھی عطا کر دے گا.پس مساجد بنائیں اور بڑی بنائیں.کوشش کریں کے وہ جلد سے جلد چھوٹی ہو جائیں.پھر خدا سے دعا کریں کے اے خدا اب اور مسجدمیں دے ہمارے کپڑے اور بڑے کر دے تا کہ ہم ان میں پورے آسکیں.یہ وہ مضمون ہے اس کو سمجھ کر دعائیں کرتے ہوئے، بجز کے ساتھ آپ ان را ہوں پر آگے بڑھیں تو ہر نئے سال خدا کی نئی شان آپ دیکھتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ایک آخری بات جو اپیل کے متعلق میں کہنی چاہتا تھا وہ مسجد واشنگٹن کے لئے اپیل کرنی ہے.مسجد واشنگٹن مرکزی ہونے کی حیثیت سے سب سے زیادہ امریکہ کی جماعت کے لئے لائق توجہ ہونی چاہئے.اب تک جو صورتحال ہے بعض دوسری جگہ مثلاً پورٹ لینڈ میں ، لاس اینجلس میں مساجد بڑی اچھی اچھی بن چکی ہیں لیکن ابھی تک واشنگٹن میں کوئی مسجد نہیں بنی.پھر بہت سے مراکز قائم کئے گئے ہیں گھر خرید کر اور زمینیں خرید کر جن میں عمارتیں موجود تھیں اور ان کو مساجد میں تبدیل کیا گیا ہے.اس دفعہ جب میں امریکہ میں داخل ہوا تھا تو Rochester میں ایک ایسا ہی گھر تھا جو خریدا گیا اور بہت ہی اچھی جگہ پر خوبصورت گھر ہے جس کے ایک حصے کو مستورات کے لئے مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے ایک حصے کو مردوں کے لئے مسجد میں تبدیلی کیا گیا ہے.اس قسم کی بہت سی مساجد امریکہ میں موجود ہے لیکن واشنگٹن میں جو پہلا مشن تھا ( اور بہت پرانی بات ہے ) جب وہ مشن

Page 474

خطبات طاہر جلد ۸ 469 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء بنایا گیا تھا، بہت تھوڑی ضرورت کے پیش نظر بنایا گیا تھا وہ و ہیں تک محدود ہے اور اس کے بعد کوئی مسجد اور نہیں بنی.یہ Newjercy اور New York ہے وہاں اللہ کے فضل سے بن گئی ہے.آتی دفعہ شمالی نیو جرسی میں بھی ان کا مرکز میں نے دیکھا ، خدام نے بڑی محنت کر کے اور انصار نے بھی، لجنہ نے بھی بڑا خوبصورت بنا دیا ہے اس عمارت کو اور وہاں بھی جماعت کا مرکز قائم ہو گیا ہے.تو واشنگٹن میں ضرورت ہے کیونکہ آپ سب امریکہ سے وہاں اکٹھے ہوتے ہیں اپنے سالانہ اجتماعات کے لئے اور سب سے زیادہ ضرورت اگر مسجد کی ہے امریکہ میں تو واشنگٹن میں ہے.اس پہلو سے میں آپ کے سامنے یہ تحریک کرنی چاہتا ہوں کے خدا تعالیٰ نے کچھ انتظام تو فوری طور پر کر دیا ہے یعنی لجنہ اماءاللہ نیویارک کو تحریک ہوئی کہ وہ اس موقع پر یعنی صد سالہ جشن کی خوشی میں میری پہلی دفعہ یہاں آمد کے موقع پر مجھے تمیں ہزار ڈالر کا چیک پیش کریں تا کہ میں اپنی مرضی سے جہاں چاہوں خرچ کروں.وہ چیک میں نے سوچا کہ سب سے زیادہ مستحق مسجد واشنگٹن ہے کہ اس کے لئے پیش کیا جائے.اس کے بعد جب میں یہاں لاس اینجلس آیا تو یہاں ہمارے پرانے مخلص دوست ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے اسی تمنا کا اظہار کیا کہ میں نے بڑی دیر سے یہ سوچا ہوا تھا کہ صد سالہ جو بلی کا سال آئے تو میں اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ایک لاکھ ڈالر آپ کی خدمت میں پیش کروں کہ آپ جس نیک کام میں چاہیں خرچ کریں لیکن کچھ مشکلات ایسی پڑگئیں کہ نقد وہ سارا نہیں دے سکے پچاس ہزار کا چیک انہوں نے مجھے دیا اور باقی پچاس ہزار کا وعدہ ہے کہ وہ اس سال کے اختتام تک پیش کر دیں گے.تو وہ بھی میں نے مسجد واشنگٹن کے لئے وقف کر دیا ہے.اس طرح ممکن ہے اور جماعتوں کے احمدیوں کے دلوں میں بھی اس قسم کے خیال ہوں اور بعضوں کی طرف سے آبھی رہے ہیں.اول تو یہ اس سال کی غیر معمولی خوشی کے موقع پر جس نے بھی امریکہ سے اس نیت سے روپیہ مجھے پیش کیا وہ میں انشاء اللہ مسجد واشنگٹن ہی کو دوں گا لیکن اس کے علاوہ بھی ایک عمومی تحریک کی ضرورت ہے.ہم نے جائزہ لیا ہے اس وقت مہنگائی اتنی ہو چکی ہے کہ مسجد واشنگٹن اگر ایک سال سے سولہ مہینے کے اندر اندر تعمیر کی جائے تو پچیس لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے اور جماعت نے جو جائزہ لیا ہے اب تک اس کی رو سے سالانہ مسجد واشنگٹن کے لئے پچیس ہزار ڈالر

Page 475

خطبات طاہر جلد ۸ 470 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء ملتے ہیں.جس کا مطلب ہے اگر انتظار کیا تو دس سال میں اڑھائی لاکھ اور سوسال میں چھپیں لاکھ.یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.سو سال میں جو پچھپیں لاکھ ملیں گے آپ کو اس وقت تک تعمیر کا خرچ ایک کروڑ ہو چکا ہو گا.جہاں تک سود لے کر اس رقم کو ضرورت کو پورا کرنے کا تعلق ہے میں اس کا قائل ہی نہیں کہ مسجد کے لئے سودی روپے لئے جائیں.یہاں شروع ہو گئی تھی رسم ، کینیڈا میں بھی یہی رسم چلی تھی اور جماعت قرضوں کے اندر دب رہی تھی اور کوئی بھی برکت نہیں رہی تھی.ان کو میں نے سختی سے روکا اور فوری طور پر ان کے قرضے ادا کئے اور کہا آئندہ آپ نے ایک آنہ بھی سود پر نہیں لینا جو توفیق ہے اس کے مطابق آپ مسجد میں بنائیں.چنانچہ اللہ کے فضل سے اتنی بڑی بڑی زمینیں وہاں خدا نے عطا کی ہیں، ایسے ایسے شاندار مراکز عطا کئے کہ دل ان کو دیکھ کر جذ بہ تشکر سے بھر جاتا ہے.ابھی کیلگری سے میں آیا ہوں وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت ہی خوبصورت مسجد خدا نے بنادی یعنی بنا ان معنوں میں دی کہ ایک چرچ تھا جو اس موقع پر بک رہا تھا اور اس چرچ کا رخ قبلہ کے طرف ہی تھا یعنی اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی.صرف شرط میں نے یہ قائم کی تھی کہ جب تک چرچ کے مالک تحریری طور پر یہ نہ لکھ کے دیں کہ ہم بخوشی اجازت دیتے ہیں کہ آپ اس کو مسجد میں تبدیل کریں اس وقت تک ہم اس چرچ کو نہیں خریدیں گے کیونکہ میں ہر گز پسند نہیں کرتا کہ کسی کی عبادتگاہ کو اس کی مرضی کے خلاف کسی اور عبادت گاہ میں تبدیل کیا جائے.انہوں نے بخوشی یہ لکھ کر دے دیا تو اب وہ بنی بنائی مسجد ہمیں مل گئی.پھر اس کے ساتھ ایک بڑی وسیع زمین بھی خدا نے دی ہے.تو میں چاہتا ہوں کہ امریکہ میں بھی آپ ان باتوں میں اس طرف سوچیں بھی نہیں کہ سود پہ قرضے لے کر آپ خدا کے گھر بنائیں اس میں ایک بڑا تضاد ہے.سوچنا چاہئے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ پہلی اینٹ جو خدا کے گھر کے لئے رکھی جائے وہ تقویٰ کی اینٹ ہونی چاہئے اور اس اینٹ سے پہلے آپ سود کی اینٹ رکھ چکے ہوں گے اس کے نیچے.سود کی اینٹ پر تقویٰ کی اینٹ کیسے قائم ہوسکتی ہے.اس لئے اس بات کو آپ بالکل بھول جائیں کہ سودی روپے لے لے کر آپ مساجد تعمیر کریں گے.اگر بڑی شاندار مسجد نہیں بن سکتی تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سادہ بنالیں بعد میں توفیق ملے تو بنا لیں لیکن کوشش ضرور کریں کہ اچھی کھلی مسجد بنے اور اس لحاظ سے ضرور دیدہ زیب ہو کہ غیروں کی

Page 476

خطبات طاہر جلد ۸ 471 خطبہ جمعہ ۷/ جولائی ۱۹۸۹ء توجہ کا مرکز بنیں.وہ آئیں اور ان کے پوچھنے کے نتیجے میں ہمیں ان کو اسلام پہنچانے کی توفیق ملے.خوبصورت مرکز قائم کئے جاسکیں تو اچھی بات ہے.تو بہر حال پچیس لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کے اگر جماعت امریکہ یہ سال خصوصیت سے واشنگٹن کی مسجد کا سال منائے تو جتنی رقم بھی اکٹھی ہو ایک سال کے اندر وہ ابتدائی ضرورت کے لئے انشاء اللہ پوری ہو جائے گی لیکن ساتھ ہی میں تمام دنیا کی جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ واشنگٹن کی مسجد میں وہ بھی حصہ ڈالیں کیونکہ میں نے جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بیان کیا تھا شاید اطلاع مل گئی ہے.میں عنقریب اگلی صدی کے لئے ایک خاص مقصد کے لئے جماعت سے ایک اپیل کرنے والا ہوں اگر امریکہ کی جماعت نے اپنے سارے وسائل ، اپنی ساری جو تو فیق ہے وہ مسجد واشنگٹن پہ ہی خرچ کر دی تو پھر وہ بعد میں کہیں گے کہ اب ہم کیا کریں ہمارا تو دل چاہتا ہے اس خاص تحریک میں بھی حصہ لیں.اس لئے اب بہتر یہ ہے کہ امریکہ کی مدد کی خاطر تمام دنیا کی جماعتوں کو بھی اس مبارک مسجد کی تعمیر میں شامل کر لیا جائے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس اپیل کے نتیجے میں ہم سال سے سولہ ماہ کے اندر جیسا کہ تخمینہ پیش کیا گیا ہے یہ مسجد بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.ایک اور میرے سامنے تجویز رکھی گئی ہے کہ آج کل مارکیٹ میں چونکہ ڈیپریشن (Depression) ہے اور تعمیری کاموں میں کچھ سستی آگئی ہے اس لئے بعض کمپنیاں غالباً ہم سے یہ سودا کرنے پر تیار ہوں گی کہ وہ اپنے خرچ پر فوری بنادیں اور پھر معقول قسطوں میں ہم ان کو چند سالوں میں باقی رقم ادا کر دیں.اگر یہ ہو جائے تو پھر اور بھی سہولت انشاء اللہ پیدا ہو جائے گی لیکن جہاں تک جماعت امریکہ کا تعلق ہے اس مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو میں نے وضاحت سے بیان کر دیا ہے کوشش یہ کرنی چاہئے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ رقم امریکہ ہی سے پوری ہو سکے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور خدا تعالیٰ ہمیں کثرت کے ساتھ مساجد بنانے کی توفیق بخشے.مساجد کے ساتھ ہماری زندگی ہے یہ میں آپ کو بتا تا ہوں.بچپن سے میرے دل میں خدا نے یہ جذبہ ڈال رکھا ہے.بے حد محبت مسجد کی عطا کی ہے.میں خدام الاحمدیہ میں تھا سائق تھا، زعیم

Page 477

خطبات طاہر جلد ۸ 472 خطبہ جمعہ ے جولائی ۱۹۸۹ء تھا، مختلف عہدوں پر ترقی کرتا ہوا صدر بنا.انصار اللہ میں گیا لیکن ہمیشہ مجھے اس بات کا جنون رہا کہ جہاں بھی جاؤں مسجد میں بھرنے کی تلقین کروں کیونکہ یہ نظارہ میں برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ ہمارے گھر آباد ہوں اور خدا کے گھر خالی ہوں اس لئے جب مسجدیں بنا ئیں تو اس بات کو نہ بھولیں کے ان مسجدوں کو بھرنا بھی ہم نے ہے.مسجدیں بنا کر خالی چھوڑنا بہت ہی ایک ویران منظر پیش کرتا ہے، بہت ہی تکلیف دہ بات ہے اور یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ خدا کے گھر بھریں گے تو اللہ آپ کے گھر بھرے رکھے گا.جو خدا کے گھروں کو رونق بخشتا ہے اس کے گھروں کو ضرور رونق عطا ہوا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھیں کہ اپنے گھر کی رونق چھوڑ کر مسجد میں رہ جایا کرتے تھے، مسجد کی صفوں میں لیٹے جایا کرتے تھے بعض دفعہ اور دیکھیں خدا نے کتنی برکت ڈالی ہے آپ سب کے گھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر ہیں.کتنی عظیم الشان برکت ہے ساری جماعت میں.دنیا کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ عظیم الشان بابرکت گھر عطا کر رہا ہے جماعت کو مسجدیں بھی اور مشن ہاؤس بھی اور ذاتی گھر بھی ہم سب کا تو سب کچھ ایک ہی ہے اور ہر چیز جماعت ہی کی ہے.پس اس پہلو سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسجدیں بنانے کے ساتھ اگر آپ مسجدیں آباد کرنے کی نیت داخل رکھیں گے اس میں اور پوری وفا کے ساتھ خدا کے گھروں کو آباد کرنے کی کوشش کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کے گھروں کو ویران نہیں کر سکتی، کوئی دنیا کی طاقت آپ کی رونقیں چھین نہیں سکتی.جو اپنی زیشنیں لے کر مسجدوں میں حاضر ہو جائے خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے کیسے ممکن ہے کہ خدا دنیا کو یہ توفیق دے کہ ان کی زمینیں چھین لے.پس مضمون کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اس میں آپ کی زندگی کا راز ہے اور زندگی کا سر چشمہ ہے اس بات میں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی عبادت کے حق ادا کرنے والے اس کے منظور نظر بندے بنیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع ہوگی.مسافر میرے ساتھ دورکعتیں پڑھیں گے اور مقامی لوگ بغیر سلام پھیرے جمعہ کے بعد عصر کی چار رکعتیں پڑھیں گے.دوسری ایک بات یہ ہے کہ نماز عصر کے فوری بعد کچھ بیعتیں ہوں گے.کل شام کے ایک مخلص دوست جن سے گزشتہ آمد کے وقت

Page 478

خطبات طاہر جلد ۸ 473 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۸۹ء تعارف ہوا تھا وہ تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں اور ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ جمعہ کے مبارک موقع پر آج کے جمعہ میں خصوصیت سے میری بیعت لی جائے.عموماً تو ہمارا دستور یہی ہے کہ جمعہ کے فوراً بعد دوسرے فنکشنز نہیں رکھے جاتے یعنی بیعت وغیرہ بھی اس موقع پر نہیں لی جاتی لیکن ان کے خاص پر خلوص جذ بے کی خاطر میں نے یہ منظور کر لیا ہے.اس کے ساتھ ہی ایک امریکن نوجوان تھے انہوں نے بھی خواہش ظاہر کی ہے اور بھی مجھے معلوم ہوا ایک خاتون آئی ہو ئیں تھی امریکن وہ بھی شامل ہونے کی خواہش کر رہی ہیں.تو یہ بیعت ہوگی آج کی پہلی بیعت.اللہ تعالیٰ اس بیعت کو بارش کا پہلا قطرہ بنائے اور پھر کثرت کے ساتھ جماعت لاس اینجلس اور جماعت امریکہ بیعتوں کی بارش دیکھے.آمین.

Page 479

Page 480

خطبات طاہر جلد ۸ 475 خطبہ جمعہ ۴ ار جولائی ۱۹۸۹ء مساجد ومشن ہاؤسز کے لئے بڑی جگہ خریدیں جماعت آسٹریلیا کو دعوت الی اللہ کی خصوصی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۱۴؍ جولائی ۱۹۸۹ء بمقام آسٹریلیا) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا یہ میرے حق میں احسان ہے کہ یہ مسجد جس کی بنیاد آج سے تقریبا چھ سال پہلے میں نے رکھی تھی اب اللہ کے فضل اور احسان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور اگر چہ کچھ معمولی کام باہر صحن میں بھی اور کچھ شاید عمارت میں بھی ہونے والے باقی ہیں لیکن بالعموم یہ بہت ہی خوبصورت عمارت اور بہت ہی وسیع عمارت مکمل ہو چکی ہے اور مسجد کے لحاظ سے ہر طرح سے استعمال کے قابل ہے.جب اس مسجد کے حجم سے متعلق انجینئر ز کے مشورے ہو رہے تھے تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آسٹریلیا میں تو جماعت کی تعداد بہت تھوڑی ہے اس لئے بہت ہی چھوٹی سی جگہ بھی ایک لمبے عرصے کے لئے کافی ہوگی اور کوئی ضرورت نہیں کہ بوجہ اس عمارت پر روپیہ صرف کیا جائے لیکن شروع ہی سے میرا رجحان یہ رہا ہے کہ جب بھی ہم خدا کا گھر بنائیں حتی المقدور زیادہ سے زیادہ وسیع گھر بنا ئیں کیونکہ اپنا گھر بھی جب انسان بناتا ہے تو اپنی موجودہ ضرورتوں سے زیادہ بنانے کی کوشش کرتا ہے.بسا اوقات میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھر بناتے وقت صرف اپنی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس خیال سے کہ بچے بڑے ہوں گے، اُن کی شادیاں ہوں گی ، بہو ئیں گھر لائیں گے پھر وہ بیٹیاں شادی کے بعد اپنے میاں اور بچوں کو ساتھ لے کے آیا کریں گی اس خیال سے نشو و نما کے خیال سے

Page 481

خطبات طاہر جلد ۸ 476 خطبہ جمعہ ۴ ار جولائی ۱۹۸۹ء بڑے گھر بنایا کرتے ہیں.تو جب خدا کے گھر کی باری آئے تو میں سمجھتا ہوں بہت زیادہ وسیع نظر کے ساتھ گھر بنانا چاہئے کیونکہ انسانی کنبے کے بڑھنے کے کاروبار اور ہوا کرتے ہیں لیکن خدا کی جماعتوں کے بڑھنے کے رنگ ڈھنگ اور ہوا کرتے ہیں.اس لئے میں نے اصرار کیا کہ جیسا کہ میں نے عمومی طور پر جماعت میں اس پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے کہ جب جگہ لیں تو وسیع لیں اور ہرگز اس کا فوری ضرورت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہونا چاہئے.مثلاً اگر کسی جگہ ایک کنال میں بھی ضرورت پوری ہو سکتی ہے تو میری ہدایت یہ ہے کہ اُس کی بجائے اگر دس ایکڑ مل سکتی ہو تو دس ایکڑ لے لیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جس رنگ میں جماعت کو دنیا میں وسعت دینا چاہتا ہے اگر آج آپ چھوٹی چھوٹی جگہیں لے کر راضی ہو گئے تو کل کو آنے والے آپ پر شکوے کریں گے کہ بڑا تیر مارا تھا، اتنی سی جگہ لے کے چلے گئے اور ہمارے لئے مشکل پڑ گئی.اب شہر پھیل گیا ہے وہی جگہیں مہنگی ہوگئی ہیں اُس زمانے میں ذرا حوصلہ دکھاتے تو آج ہم لوگوں کو یہ مشکل نہ پڑتی.یہ باتیں کوئی فرضی باتیں نہیں میں نے خود ایسی باتیں سنی ہیں بعض مشنوں کے متعلق.اپنے لحاظ سے بعض لوگوں نے بڑے تیر مارے تھے لیکن اب ہم دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اتنے چھوٹے مشن ہیں کہ وہ جماعت کی ضرورت کا دسواں حصہ بھی پورا نہیں کر سکتے.بعض دفعہ پچاسواں حصہ بھی پورا نہیں کر سکتے.اب جرمنی میں آپ جا کر دیکھیں فرینکفرٹ کا مشن ہے وہ جماعت کی ضرورت کے مطابق لگتا ہے ایک چھوٹا سا کمرہ ہے.کوئی بھی اُس کی حیثیت نہیں ہے.حالانکہ جب بنایا گیا تھا تو وہ سالہا سال تک اُس کے بعد یوں لگتا تھا کہ شاید یہ مسجد کبھی بھرے ہی نا.تو یہ وہ فلسفہ ہے جس کے پیش نظر میں نے اصرار کیا کہ آسٹریلیا میں جگہ بھی بڑی لی جائے اور مسجد بھی بڑی بنائی جائے.تو آج اللہ کے فضل سے یہ جگہ جس کا رقبہ تقریباً اٹھائیس ایکڑ ہے یہ جماعت کی جو نظر آنے والی ضروریات ہیں میرے نزدیک تو اُس کے مطابق ہے.میں تو سمجھتا ہوں خدا وہ وقت جلد لائے گا کہ جماعت ہم لوگوں کے دیکھتے دیکھتے اتنی ترقی کرے گی کہ یہ مسجد اور یہ علاقہ انشاء اللہ جماعت کی ضروریات کے مطابق ثابت ہو گا لیکن اگر آپ سمجھیں کہ یہ مبالغہ ہے یا بہت زیادہ خوابوں کی دنیا میں بسنے والی بات ہے تو آج نہیں کل نہیں تو دس پندرہ ہیں سال کے اندر انشاء اللہ یہ علاقہ جماعت کے لحاظ سے بارونق ہو جائے گا.لیکن مسجد کا اب جہاں تک تعلق ہے ابھی مجھے لگتا ہے کہ فوری طور پر اس

Page 482

خطبات طاہر جلد ۸ 477 خطبہ جمعہ ۴ ار جولائی ۱۹۸۹ء مسجد کے بھرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے اور یہ مجھے اس لئے لگ رہا ہے کہ آپ کی جماعت تبلیغ میں بہت پیچھے ہے.جب میں گزشتہ مرتبہ یہاں آیا تھا اس وقت جو چہرے دیکھے تھے آج اُس سے زیادہ ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ وہ چہرے ہیں جو بعد ازاں پاکستان سے یا بعض دیگر ممالک سے ہجرت کر کے آسٹریلیا آئے ہیں روحانی نشو ونما کا نتیجہ نہیں.یا کوئی اولا د میں اللہ نے اتنی برکت ڈالی ہو تو اُس کی وجہ سے کچھ بچوں کے چہرے زیادہ ہو گئے ہوں تو میں کہہ نہیں سکتا لیکن بالعموم جو جماعت کی وسعت ہے وہ انتقال مکانی پر منحصر ہے.انتقال مکانی سے اگر ایک جگہ برکت پڑتی ہے تو دوسری جگہ کمی بھی تو آتی ہے اس لئے اُس کو رونق کہنا درست نہیں.رونق وہی ہے جو نشو ونما کے ذریعے حاصل ہوتی ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے بڑھنے کا جو نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھینچا ہے وہ اولاد کے بڑھنے کے نقشے کی صورت میں کھینچا ہے.آپ فرماتے ہیں دعاؤں میں حق پر شار ہوویں مولی کے یار ہوویں با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں ( در شین صفحه: ۳۸) اس طرح جماعت بڑھے کہ فرماتے ہیں جیسے باغوں میں ہو شمشاد.اس طرح جماعت بڑھے جس طرح بہار آئی ہوچمن پر اور باغوں میں شمشاد ہر طرف شاخیں نکال رہے ہوں اور پھول پھل رہے ہوں.ایک ایک ہزار ہزار ہو جائے.یہ دعا ئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولا دکو دی تھیں اس اولاد میں آپ سب شامل ہیں اور میں سمجھتا ہوں اول طور پر تمام جماعت احمد یہ ان دعاؤں کی مستحق ہے اور خاندان میں سے بھی وہی مستحق ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی جماعت میں داخل ہیں ورنہ وہ اس دعا سے کوئی حصہ نہیں پاسکتے.پس اک سے ہزار ہونے کے ذریعے اگر آپ اس مسجد کو بھرنے کی کوشش کریں تو دیکھتے دیکھتے یہ مسجد آپ کو چھوٹی دکھائی دے گی اور اس کے پیچھے جو وسیع جگہ ہم نے رکھی ہوئی ہے وہ اُسی مقصد کی خاطر رکھی ہے کہ جب مسجد کی وسعت کا وقت آئے تو پیچھے تنگی محسوس نہ ہو بلکہ اس مسجد کو پیچھے کی طرف بڑھایا جائے چنانچہ یہ بھی جو آپ نے ڈیزائن میں بات دیکھی ہے کہ نسبتا پتلی لیکن چوڑی بہت ہے.اس میں حکمت یہی تھی کہ جب بعد ازاں اس کو پیچھے بڑھایا جائے گا اگر پہلے چھوٹی ہو اور گہری ہو تو پیچھے تو گیلری نظر آئے گی

Page 483

خطبات طاہر جلد ۸ 478 خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۸۹ء ساری کی ساری.اتنا لمبا سا ایک کمرہ مستطیل سا دکھائی دے گا جو اچھا نہیں لگتا.اب یہ مسجد ہم نے اللہ کے فضل سے چھوڑ رکھی ہے تا کہ اگر اس کو پیچھے دگنا یا تگنا بھی کیا جائے تب بھی بد زیب نظر نہیں آئے گی جس طرح مسجد مبارک ربوہ ہے یا مسجد اقصیٰ ربوہ ہے اُن کو چوڑائی کی نسبت سے گہرا کرنے کی گنجائش تھی اور اب گہرا کرنے کے باوجود بہت ہی خوبصورت لگتی ہے.مگر اصل بات تو آپ پر ہے.آپ اس مسجد کو خو بصورت بنائیں ، آپ اس مسجد کے لئے خدا کے حضور نمازی کھینچ کر لائیں تبلیغ کے ذریعے نشو و نما کے ذریعے کمز ور احمدیوں کو مضبوط احمدی بنا کر اس مسجد سے تعلق رکھیں تو پھر یہ بات جو بظاہر دور کی بات دکھائی دیتی ہے کہ مسجد کب بھرے گی اور کب اس سے ہمیں اس کو پھیلانے کا خیال آئے گا یہ نزدیک کی بات ہو جائے گی.ابھی میں جب امریکہ کے دورے پر گیا تھا تو لاس انجلیز کے متعلق بھی یہی تبصرہ تھا لوگوں کا اس میں جانے سے پہلے کہ مسجد بڑی پیاری ، بڑی خوبصورت لیکن بہت وسیع ہے لیکن جب میں نے وہاں افتتاحی طور پر خطاب کیا ہے تو پہلے خطاب ہی میں مسجد خدا کے فضل سے بھری ہوئی تھی.اس میں باہر کی جماعتوں سے آنے والے بھی شامل تھے لیکن اس کے با وجود مقامی طور پر بھی خدا کے فضل سے برکت تھی، پھیلاؤ تھا.تبلیغ کی طرف بھی اب اس جماعت کو توجہ ہے چنانچہ وہیں اُسی روز ہی اللہ کے فضل سے بیعتیں بھی ملیں.مردوں میں سے بھی عورتوں میں سے بھی.پاکستانی بھی تھے اُس میں، امریکن بھی تھے اور امریکی عورتوں میں سے ایک بڑی قابل وکیل بھی تھیں اُن میں.تو نشو و نما ہی کے ذریعے در اصل مسجد میں بھری جاتی ہیں اور جو انسان خدا کے گھر آباد کرنے کی کوشش کرتا ہے خود حاضر ہو کر، اپنے بچوں کی حاضری دلا کر ، دوستوں کو کھینچ کر لاتا ہے اور پھر تبلیغ کے ذریعے نمازیوں میں اضافہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُس کی کوششوں میں غیر معمولی برکت عطا کرتا ہے.لاس اینجلیز کی مسجد سے پہلے میں گوئٹے مالا گیا تھا اس کے متعلق مزید تفصیلات تو آپ کو گزشتہ خطبے کے پہنچنے سے معلوم ہو جا ئیں گی یا انشاء اللہ جلسہ سالانہ پر بعض باتیں بیان ہوں گی لیکن ایک بات میں آپ کو بتاتا ہوں کہ گوئٹے مالا میں ایک بھی احمدی مسلمان نہیں تھا اور ہم نے مسجد بنادی اور میری سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر مبلغ اکیلا وہاں بیٹھا ر ہے جو مقرر کیا گیا ہے تو اتنی خوبصورت ، اتنی پیاری اور وسیع مسجد میں ایک آدمی اکیلا اذان دے گا ، وہی تکبیر کہے گا، وہی نماز پڑھے گا یہ تو کوئی اچھا نہیں لگتا اس لئے اس کا کچھ سامان ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے اُس کا ایسا انتظام

Page 484

خطبات طاہر جلد ۸ 479 خطبہ جمعہ ۴ ار جولائی ۱۹۸۹ء فرمایا کہ حکومت کی طرف سے ہماری سیکورٹی کے لئے جو گارڈز کا دستہ مقررتھاوہ وہاں کا نہایت ہی کہنہ مشک سیکورٹی کا ماہر دستہ ہے اور اُس کا انچارج پریذیڈنٹ گوئٹے مالا کا ذاتی حفاظتی منتظم تھا اور اُس کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ وہ ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر بھی جب بھی پریذیڈنٹ دورے پر جاتے ہیں تو وہ اُن کے ساتھ جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے از خود ہی باوجود اس کے کہ وہ عیسائی ملک ہے اور بڑا سخت کٹر عیسائی ملک یعنی کیتھولک عیسائی ملک ہے اُن کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ ان سے تعاون کرو.چنانچہ پریذیڈنٹ نے اپنے نائب کو اور دیگر وزراء کو ہماری مسجد کے افتتاح پر بھجوایا اور خود اپنا چیف حفاظت کرنے والا منتظم جو تھا اُس کو بھجوایا اور مسلسل جب تک ہم رہے ہیں، جہاں بھی ہم گئے ہیں یہ اُن کے حفاظتی دستے ساتھ رہے.اس ظاہری شان وشوکت سے تو ہمیں کچھ نہیں ملنا تھا.اگر ہم اسی حالت میں یا خوش ہو کر کہ خدا نے یہ دن دکھایا، یہ عزت افزائی کی واپس آ جاتے تو چند دن کا یہ تماشہ تھا اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن میرے دل میں تو یہ فکر تھی کہ خدایا اس کے بعد کیا ہو گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُسی رحمت کے کرشمہ سے ایک اور چشمہ پھوڑ دیا اور وہ سارے کا سارا دستہ جو ہمارے ساتھ رہا ہے جو اٹھارہ پولیس افسران پر مشتمل تھا اور اُن کے ساتھ اپنی کاریں، اپنے موٹر سائیکل سب کچھ جماعت کے نہیں بلکہ سب اُن کے اپنے انتظام تھے اُن سب کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی تھی اور اتنی حیرت انگیز محبت پیدا ہوئی دو تین دن کے اندر اندر کہ اُن کے دستے کے چیف نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھنی چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے اُس کو اجازت دی شوق سے ہمارے میجر محمود صاحب نے مجھے بتایا.میں نے کہا ٹھیک بڑے شوق سے تشریف لائیں اُنہوں نے پیچھے نماز پڑھی اور پھر مسجد کا کمرہ جہاں نماز پڑھ رہے تھے اُس کا دروازہ کھلا رکھا تا کہ باقی سیکیورٹی والے بھی دیکھیں ، آنے جانے والے دیکھیں کہ اُن کا چیف نماز پڑھ رہا ہے.اُن کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کے دل میں بھی تحریک پیدا ہوگئی اور ان سب نے میرے آنے سے ایک دن پہلے یہ درخواست دی کہ ہمیں موقع دیا جائے ہم اسلام کے متعلق سوال کرنا چاہتے ہیں.وہاں جب سوال و جواب ہوئے تو معلوم ہوا کہ اُن کے دل تو پہلے سے ہی پچھلے ہوئے ہیں.اتنا غیر معمولی اثر تھا اُن پر مسلمانوں کی عبادت کا کہ آدھے سے زیادہ مسلمان وہ دیکھ کر ہی ہو چکے تھے.چنانچہ انہوں نے اس قسم کی باتیں شروع کر دیں کہ ہمیں چند دن کا موقع دیں ہم اپنے بیوی بچوں کو سمجھا لیں تا کہ اگر

Page 485

خطبات طاہر جلد ۸ 480 خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۸۹ء ایک دم ہم نے اعلان کیا تو اُن کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو.ہم چاہتے ہیں کہ بیوی بچے بھی ساتھ آئیں اور یہ جو چیف صاحب تھے انہوں نے بڑی دلچسپ بات سنائی.اُنہوں نے کہا کہ میں نے تو اپنے گھر جا کر اپنی بیوی سے جو کٹر عیسائی ہے یہ کہا کہ تم جو باتیں کیا کرتی تھی کہ چرچ میں فلاں پادری آیا اور میرے دل پہ اثر ہوا، فلاں پادری آیا تو دل پہ اثر ہوا تمہیں تو پتا ہی کچھ نہیں کہ روحانی اثر ہوتا کیا ہے.اگر تم مسلمانوں کو عبادت کرتے دیکھ لو جس طرح میں دیکھ کے آیا ہوں تو تم وہم و گمان بھی نہ کرو کہ تمہارے دل پر پہلے کوئی روحانی اثر ہوا تھا.یہ روحانی اثر ہے جو میں نے دیکھا ہے اور باوجوداس کے کہ میں مذہبی نہیں ہوں میرا دل بالکل اس اثر سے موم ہو چکا ہے.پھر ان لوگوں نے کچھ سوال جواب کئے.ظاہری بات ہے ایک دن میں چند دن کی نمازیں دیکھ کر مسائل تو حل نہیں ہو جایا کرتے لیکن چونکہ اُن کے دل مائل ہو چکے تھے اس لئے دو گھنٹے کی مجلس میں اُن کے سارے مسائل حل ہو گئے.جو سوال اُنہوں نے کیا اُس کا میں نے پیار سے جواب سمجھایا اور ساتھ ساتھ وہ تصدیق کرتے رہے کہ ہاں بالکل ٹھیک ہے یہی اصل دین ہے.خدا کی وحدانیت کا اعلان انہوں نے کیا اور پھر کہا کہ ہمارے چرچ میں تو کچھ بھی نہیں ہے اصل اگر دین اور سچائی ہے تو یہی ہے.پھر آخر پر مجھ سے درخواست کی اور وہی میرے دل کی تمنا تھی جو اُن کی زبان سے نکلی کہ ہمیں کسی کے سپر د کر کے جائیں، ہم تو مسجد آیا کریں گے وہاں کوئی ہمیں سمجھانے والا تو ہو.میں نے اُسی وقت مبلغ کو بلایا اُن کو کہا کہ یہ اب یہاں ہمارے پیچھے رہیں گے آپ فکر نہ کریں.چنانچہ وہ مسجد جس پہ مجھے طلبہ تھا کہ اُس کی آبادی کے لئے سوائے مبلغ کے کوئی نہیں ہوگا.ہمارے آنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے اُس کی آبادی کے سامان کر دیئے اور چونکہ یہ لوگ بااثر ہیں اس لئے اُس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اور بھی انشاء اللہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں گے اور ہر گز بعید نہیں کہ جب اگلی دفعہ خدا مجھے توفیق دے تو مقامی مسلمان باشندوں سے وہ مسجد بھری ہوئی ہو.ایک ایسی جگہ جہاں کوئی بھی مسلمان نہیں، جہاں کوئی پاکستانی یا دوسرے ملکوں سے آنے والا مسلمان احمدی نہیں ہے وہاں اگر ایک دل کی گہرائی سے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ اتنی جلدی پھل دیتا ہے یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.آپ کیوں اس طرح بیقراری سے دعا نہیں کرتے اور اپنی تبلیغ کے لئے خدا سے مدد کیوں نہیں مانگتے.اگر آپ اسی درد دل سے دعا کریں اور خدا سے مدد مانگیں تو

Page 486

خطبات طاہر جلد ۸ 481 خطبہ جمعہ ۴ ار جولائی ۱۹۸۹ء آپ کی تعداد تو بہت ہے.اس وقت بھی اللہ کے فضل سے تین صفوں میں آپ اس وقت سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اگر ہر شخص اس جذبے سے معمور ہو، اللہ کے حضور دعا کرے تو انہیں لوگوں میں سے اللہ کے فضل سے آپ کو عبادت کرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے مسلمان عطا کرے گا اور یہ مسجد دیکھتے دیکھتے بھر نے لگ جائے گی.پس یہ وہ میرا پیغام ہے آپ کو بھی اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے دنیا کے احمدیوں کو بھی کہ اب وقت آ گیا ہے جب سے ہم نئی صدی میں داخل ہوئے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا تیزی سے قبولیت کی ہوائیں چلا رہا ہے.نئے نئے ملکوں میں جماعت کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.ایسے ملکوں میں جہاں جماعت پہلے تھی لیکن خاموش اور بے اثر تھی وہاں اللہ کے فضل سے غیر معمولی طاقت جماعت کو نصیب ہو رہی ہے اور غیر معمولی احترام کی نظر سے جماعت دیکھی جانے لگی ہے.یہ کوئی اتفاقی حادثات نہیں ہیں یہ عالمی ہوا، خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے جو ظاہر ہو رہی ہے کہ میں نے جماعت کو اب ضرور ترقی دینی ہے.اس تقدیر کے ساتھ آپ نے انگلی ہلانی ہے.کچھ ذراسی کوشش کرنی ہے اُس کے نتیجے میں آپ دیکھیں گے کہ کثرت سے پھل آپ کی جھولی میں گریں گے.میں ایک دفعہ پہلے بھی یہ مثال بیان کر چکا ہوں اور میں آپ کو دوبارہ یہ مثال بیان کر کے متنبہ کرنا چاہتا ہوں.کہتے ہیں ایک شخص گھوڑے پر کہیں جارہا تھا تو رستے میں ایک درخت کے نیچے اُس نے دو آدمیوں کو سوئے ہوئے دیکھا.گھوڑے کی ٹاپ سے ایک شخص کی آنکھ کھل گئی اور اُس نے آواز دی کہ اوسوار بھائی ! ذرا ادھر آنا مجھے تمہاری ضرورت ہے.وہ بیچارہ اُتر ا اُس نے ایک جگہ گھوڑا باندھا اور اُس سے جا کے پوچھا کہ بھٹی کیا بات ہے، کیا تکلیف ہے؟ اُس نے کہا تکلیف یہ ہے کہ یہ بیری جس کے نیچے ہم لیٹے ہوئے ہیں وہاں سے ایک بڑا اچھا میٹھا بیر گرا ہے جس کو میں کن اکھیوں سے دیکھ رہا ہوں میرے ساتھ ہی پڑا ہوا ہے.ذرا تکلیف فرماؤ اور وہ اُٹھا کے میرے منہ میں ڈال دو.اُس نے اس کو گالیاں دیں، اُس نے کہا تم بڑے ظالم بیوقوف آدمی ہو، جاہل ہو اور حد سے زیادہ نکھے.مجھے راہ چلتے ہوئے گھوڑے سے اُتارا اور مجھے کہہ رہے ہو کہ میں بیر اٹھا کے تمہارے منہ میں ڈال دوں.تمہیں اتنی شرم نہیں آئی کہ خود ہی اُٹھا کر وہ بیر اپنے منہ میں ڈال لو.تو دوسرے ساتھی نے یہ باتیں سنیں تو اُس نے کہا جناب آپ کو نہیں پتا یہ اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنا آپ سمجھ رہے

Page 487

خطبات طاہر جلد ۸ 482 خطبہ جمعہ ۴ ار جولائی ۱۹۸۹ء ہیں.ساری رات کتنا میرا منہ چاہتا رہا ہے اس بدبخت نے شمی تک نہیں کیا، اتنا نکما انسان ہے.تو جہاں بیر گر رہے ہوں ہاتھ بڑھانے کی بات ہو وہاں ہاتھ بھی نہ آپ بڑھا ئیں اور پھر یہ شکوہ رہے کہ ہم بڑھ نہیں رہے، ہمیں برکت نہیں مل رہی.آج خدا کے فضل سے ایک بیر نہیں تمام دنیا میں خدا کے رحمتوں کے پھلوں کی بارشیں ہو رہی ہیں.خدا کی تقدیر خود تیار ہے کہ ان پھلوں کو آپ کے دائیں بھی برسائے ، آپ کے بائیں بھی برسائے ، آپ کے آگے بھی برسائے ، آپ کے پیچھے بھی برسائے صرف آپ میں ہمت کی ضرورت ہے، کوشش کی ضرورت ہے.افریقہ کے ایک ملک میں جب میں دورے پر گیا تھا تو وہاں ایک احمدی عورت نے ایک سو احمدی بنائے تھے.اُس کا میں نے ذکر کیا ایک ساتھ کے ملک سے آنے والے دوست سے اُنہوں نے کہا کہ جی اگر ایک عورت سو بناتی ہے تو میں تو مرد ہوں اور مجھے بھی خدا کے فضل سے بڑی محبت ہے دین سے میں وعدہ کرتا ہوں میں پانچ سو بناؤں گا اور اللہ نے اُس کے دل کے جذبے کو ایسا قبول کیا کہ اُسی ملک سے چند مہینے پہلے تار آئی کہ ہمیں فوری طور پر بیعت فارم بھجوائیں ہزار ہا چھپوا کر بھجوائیں کیونکہ ایک دن میں تیرہ ہزار آٹھ سو کچھ بیعتیں ہوئی ہیں.اور جہاں پانچ سو کا دعوی بڑا عجیب لگتا تھا کہ بہت ہی بڑی ڈینگ ماری گئی ہے کہ پانچ سو بیعتیں میں کرؤں گا وہاں تیرہ ہزار آٹھ سو کچھ یا اس کے قریب کی تعداد تھی کہ وہ بھجوا دیں ہمیں فارم ہماری بیعتیں ہو چکی ہیں صرف فارم نہیں ہیں.تو جو میں کہتا ہوں کہ اللہ کا فضل ہوائیں چلا رہا ہے اب پھل گرا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے.سب دنیا میں نئی صدی میں داخل ہونے کے ساتھ میں ایک عظیم الشان تبدیلی دیکھ رہا ہوں.رحمت کی ہوائیں چل رہی ہیں ، اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہمارے لئے کام کر رہے ہیں.ان ہواؤں سے آپ نے فائدہ اُٹھانا ہے.اس نئے بدلے ہوئے موسم کے پھل آپ نے کھانے ہیں.کچھ تو کوشش کریں ، دُعا کریں، محنت کریں، اپنے ساتھیوں کو ، اپنے ماحول میں احمدیت کا صاف پیغام پہنچانا شروع کریں لیکن جب تک آپ باخدا نہیں ہوں گے آپ کو یہ پھل نصیب نہیں ہوں گے.اصل بات وہیں آ کے اصل تان وہیں ٹوٹتی ہے کہ وہ دعا جو اللہ کی محبت میں دل سے نکلے یا وہ بظاہر شیخی کی ڈینگ جو بہت بڑی دکھائی دے مگر خوب خالص اللہ کی محبت کے نتیجے میں اور جذبہ ایمانی کے نتیجے میں اُسے اللہ ضائع نہیں کرتا.ورنہ آپ لاکھ تقریریں کرتے رہیں لاکھ آپ اپنے علم کے زور سے اور اپنی

Page 488

خطبات طاہر جلد ۸ 483 خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۸۹ء چالا کیوں کے زور سے دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کریں کوئی آپ کی بات نہیں مانے گا.ایک شرط ہے آپ سب کو خدا والا بنا ہوگا.اللہ کا سچا پیار اپنے دل میں پیدا کرنا ہوگا.اللہ کے نام کی خاطر ہر کام صبح ہو یا شام ہو جس حالت میں ہو خدا کو یاد کرتے ہوئے ہر کام کرنا ہوگا.ایسی آپ کیفیت پیدا کر لیں تو آپ میں سے ایک ایک ایسا ہے جو ولی اور قطب بن سکتا ہے.آپ میں سے ایک ایک ایسا ہے جو اس علاقے کی تقدیریں بدل سکتا ہے.تو یہی میرا آپ کو خطاب ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ دنیا کے احمدی بھی اس طرف توجہ کریں گے اور اپنے اندر جلد جلد ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ دنیا اُن کو خدا کے نمائندے کے طور پر دیکھے اور جن کو خدا اپنا نمائندہ بنائے اُن کو طاقتیں بھی وہی عطا کیا کرتا ہے، اُن کو جذب بھی وہی عطا کیا کرتا ہے اور اُن کو تا شیریں بھی وہی عطا کیا کرتا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جمعہ کے ساتھ ہی انشاء اللہ عصر کی نماز بھی پڑھائی جائے گی.میں چونکہ مسافر ہوں اس لئے عصر کی نماز قصر کروں گا یعنی دوگانہ پڑھوں گا اور جو مسافر ہیں وہ میرے ساتھ ہی سلام پھیریں گے لیکن مقامی باشندے بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو کر دورکعتیں مزید پڑھیں اور عصر کی چار رکعتیں پوری کریں.یہ بتانا پڑتا ہے بار بار کیونکہ بعض بچے جوان ہور ہے ہوتے ہیں.نئے نئے شامل ہوتے ہیں اُن کو ان مسائل کا پتا نہیں ہوتا.آپ میں سے اکثر تو غالبا پہلے سے جانتے ہیں.

Page 489

Page 490

خطبات طاہر جلد ۸ 485 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء سکندر میں احمدیوں کی عظیم قربانیوں کا ذکر تین شہادتیں ہوئیں اور سو سے زائد گھر جلائے گئے (خطبہ جمعہ فرموده ۲۱ / جولائی ۱۹۸۹ء بمقام بیت الذکر طہ سنگا پور ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی :.وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج فى وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ وَشَاهِدِقَ مَشْهُودٍن قُتِلَ اَصْحَبُ الْأَخْدُودِةُ النَّارِ ذَاتِ الْوَقَوْدِن إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودُةٌ وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودَة وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (البروج :٣ -١٠) امسال جو جماعت احمدیہ کی انگلی صدی کا پہلا سال ہے اور قربانیوں کی عید جس دن آئی وہ وہی دن ہے جس دن اس صدی کی بلکہ اس دور کی سب سے عظیم شہادت واقع ہوئی یعنی حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحب کو ۴ جولائی ۱۹۰۳ء کو شہید کیا گیا اس کے بعد یہ ہماری اگلی صدی کی پہلی قربانیوں کی عید کے دن بعینہ وہی تاریخ تھی اس وجہ سے میں نے عید کے خطبہ کا موضوع یہی شہادت بنایا اور میرے دل پر اس بات کا گہرا اثر تھا اور میں سمجھتا تھا کہ یقیناً اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی

Page 491

خطبات طاہر جلد ۸ 486 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء حکمت اور پیغام ہے اور یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں.اسی وجہ سے اس خطبہ میں میں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہوسکتا ہے جماعت احمدیہ کو اس غرض کے لئے تیار کیا گیا ہو اور ذہنی طور پر ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی جارہی ہو کہ ہماری قربانیوں کا دورا بھی ختم نہیں ہوا اور جیسی شہادت حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید نے خدا کے حضور پیش کی تھی اسی قسم کی شہادتوں کا مطالبہ ابھی آسمان کی طرف سے جاری ہے.اس کے ساتھ ہی اس میں ایک خوشخبری بھی ہے اور وہ خوشخبری بھی بہت ہی عظیم ہے.خوشخبری یہ ہے کہ عید جن قربانیوں کی یاد میں ہم مناتے ہیں اس قربانی اور ان قربانیوں کو جو اس پہلی قربانی کے نتیجے میں بعد میں پیدا ہوئیں ان کو اللہ تعالیٰ نے اجر کے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ قربانیوں کی نسبت سے غیر معمولی اجر دنیا کو عطا فرمایا.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام جو اپنے ایک پیارے بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہوئے تھے اس کے بدلے آپ کو تمام دنیا ہی کا نہیں تمام انبیاء کا باپ قرار دیا گیا.پس اس پہلو سے جہاں جماعت کو قربانیوں کے لئے تیار رہنے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے وہاں یہ یقین بھی دلایا گیا ہے کہ کسی قیمت پر کسی صورت میں تمہاری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم الشان پھل عطا کرے گا اور انہی قربانیوں کے نتیجے میں تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کے غلبہ کے سامان پیدا ہوں گے.عید کے خطبہ کے دوران مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ میرا یہ اندازہ اتنی جلد درست ثابت ہوگا جتنی جلد بعد کے حالات نے دکھایا کہ یہ اندازہ درست تھا.چنانچہ عید کے تین ایام ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ پاکستان میں جماعت احمد یہ چک سکندر گجرات کو ایک ایسی عظیم الشان اور تاریخی قربانی پیش کرنے کا موقع عطا ہوا کہ جس کی مثال دنیا میں کم ملتی ہے.جماعت احمد یہ چک سکندر کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصہ سے یعنی ایک سال سے بھی زائد عرصہ ہوا مسلسل اس بات کی اطلا میں مل رہی تھیں کہ وہاں احمدیت کا دشمن نہایت گندے اور بھیا تک منصوبے بنارہا ہے اور دن رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے اور احمد یوں کو گلیوں میں چلتے ہوئے طعنے دے کر اور مختلف قسم کے تمسخر کا نشانہ بنا کر ذلیل ورسوا

Page 492

خطبات طاہر جلد ۸ 487 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بچیوں کو بھی چھیڑا جاتا ہے ،لڑکوں کو اور بچوں کو بھی چھیڑا جاتا ہے اور بار بار جماعت کی طرف سے مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے اس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا کہ ہمیں قربانی کی اجازت دی جائے.ہم زیادہ دیر تک اس قسم کی ذلت اور رسوائی کو برداشت نہیں کر سکتے.ہم اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن چونکہ ہمیں امام کا حکم نہیں اس لئے ہم مجبور ہیں.تھوڑے ہیں تب بھی کوئی حرج نہیں ہم سب قربانی کے لئے حاضر ہیں صرف ہمیں اجازت چاہئے.چک سکندر میں جماعت احمدیہ کے حالات یہ ہیں کہ وہاں اکثر نوجوان گاؤں سے باہر جا چکے ہیں.چنانچہ جرمنی جب میں دورے پر گیا تو بہت سے میں نے نوجوان چک سکندر کے دیکھے ان میں سے ایک نوجوان جس کے کچھ عزیز پیچھے رہ گئے تھے بہت ہی دردناک طریق پر مجھ سے لپٹ کے رویا اور اس نے اس فکر کا اظہار کیا کہ یہاں میرا اس لئے دل نہیں لگ رہا کہ میرے ماں باپ یا کوئی عزیز جو اس نے بتائے چک سکندر میں ہیں اور ان کو شدید خطرہ ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی جا کر اپنی جان اس خطرے میں پیش کروں اور اگر ان کو بچانے کے لئے کچھ کوشش ہو سکتی ہے تو میں بھی کوشش کروں.میں نے ان کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور جو قربانیاں جماعت کی خدا تعالیٰ نے پاکستان میں لینی ہیں اس تقدیر کو تو آپ بدل نہیں سکتے اس لئے آپ یہاں رہیں اور جو خدمت دین یہاں رہ کر سر انجام دے سکتے ہیں وہ ادا کرتے رہیں.چنانچہ وہ نوجوان میری اس نصیحت کے نتیجے میں واپس نہیں گئے.اس کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان میں آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ چک سکندر میں سوائے چند بوڑھوں کے اور عورتوں اور بچوں کے الا ما شاء اللہ چند جوان بھی تھے باقی سب جماعت کمزوروں پر منحصر تھی اور اس کے باوجود ان کے خطوط سے قطعاً کسی قسم کے خوف کا کوئی بھی اظہار نہیں ہوا کبھی بھی نہیں ہوا بلکہ ہر خط سے غیر معمولی جرات اور حوصلہ اور قربانی کی خواہش عیاں ہوتی تھی.پس خدا تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ عید کے تین دن ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ جماعت کے مخالفین نے ایک ایسا بھیانک اور ظالمانہ منصوبہ جماعت کے خلاف بنایا اور اس پر عمل کیا کہ جو دنیا کے کسی اخلاقی معیار کی رو سے بھی کسی بھی انسان کو زیب نہیں دیتا خواہ وہ بھی کسی دنیا کے

Page 493

خطبات طاہر جلد ۸ 488 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء کسی مذہب سے بھی تعلق رکھتا ہو یا کسی مذہب سے بھی تعلق نہ رکھتا ہو اور یہ جو نہایت ہی خوفناک بہیمانہ ذلیل حرکت کرنے کی ان کو توفیق ملی یہ قربانی کے دن ملی یعنی جس دن حضرت ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام اپنے بچے کی قربانی پیش کرنے کے لئے خدا کے حضور حاضر ہوئے تھے اس دن معصوموں کی قربانی لینے کا یہ بہیمانہ منصوبہ بنایا گیا اور اس واقعہ کا حضرت ابراہیم کی قربانی سے ایک اور بھی تعلق ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی آگ میں پھینک کر زندہ جلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس گاؤں میں بھی سو سے زائد احمدی گھروں کو آگ لگا کر احمدیوں کو ان گھروں میں زندہ جلانے کا منصوبے بنایا گیا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی.چنانچہ ۱۶ تاریخ کی صبح کو مینڈھوں کی لڑائی کے بہانے سارے گاؤں کو باہر ا کٹھا کیا گیا اور سکیم یہ تھی کہ وہاں اکٹھے ہو کر سارے گاؤں کی ناکہ بندی کی جائے اور پھر جماعت پر حملہ کیا جائے.اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر تھی کہ اس سکیم کا علم جماعت کو اس سے کچھ عرصہ پہلے اس طرح ہوا کہ ابھی وہ وہاں اکٹھے تھے کہ جماعت احمدیہ کے پریزیڈنٹ مظفر احمد صاحب کا وہاں سے گزر ہوا اور کچھ لوگ برداشت نہ کر سکے اور بجائے اس کے کہ انتظار کر کے جیسا کہ منصوبہ تھا اچانک حملہ ہوتا انہوں نے مظفر احمد صاحب پر پہلے حملہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ وہ جان بچا کر ان کے نرغے سے نکل کر گاؤں پہنچ گئے اور اس کے علاوہ باوجود اس کے کہ کثرت سے لوگ مقابل پر تھے اپنے مقابل کے ایک آدمی کو بھی انہوں نے زخمی کیا اور واپس پہنچ کر گاؤں میں جماعت کو متنبہ کر دیا کہ کیا ہونے والا ہے.چنانچہ جب یہ ناکہ بندی کر کے اور مختلف گروہ گاؤں سے نکلنے کے رستوں پر مقرر کر کے کہ کوئی احمدی بیچ کے نکل نہ سکے واپس گاؤں میں پہنچ کر حملہ آور ہوئے تو جماعت احمد یہ اپنے دفاع کے لئے تیار تھی اور باوجود اس کے کہ ان کو میں نے مسلسل صبر ہی کی تلقین کی لیکن گزشتہ ایک خطبہ میں میں نے یہ بھی عام اعلان کر دیا تھا کہ میں اب آپ کو اپنے دفاع سے نہیں روکتا.صبر کریں جہاں تک ممکن ہے برداشت کریں گالیاں ذلت ہر چیز خدا کے نام پر برداشت کرتے چلے جائیں لیکن اگر آپ پر اور آپ کی عورتوں پر خصوصیت سے حملہ ہو تو ہر گز آپ نے اپنے دفاع کا حق نہیں چھوڑنا اور پھر جو بھی ہوگا خدا کی تقدیر چلے گی لیکن اپنے دفاع کے حق سے آپ باز نہیں آئیں گے.چنانچہ اللہ کے فضل سے باوجود اس کے کہ تعداد میں بہت تھوڑے تھے اکثر بوڑھے تھے اور عور تیں تھیں انہوں نے خدا کے فضل

Page 494

خطبات طاہر جلد ۸ 489 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء سے ایسا دفاع کیا کہ گاؤں والوں کو اپنی کثرت کے باوجود یہ توفیق نہ ملی کے آگے بڑھ کر احمدی گھروں کو آگ لگا سکیں.چنانچہ اس وقت تک جس وقت پولیس وہاں پہنچی ہے اور یہ منصوبے کا دوسرا حصہ تھا کہ پولیس با قاعدہ پہنچ کر اپنی نگرانی میں جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچانے کی کارروائی جاری رکھوائے اور جماعت کو نہتا کر کے پھر ظالم دشمنوں کے سپردان کو کر دے یہ تھی دراصل سکیم.چنانچہ جب تک پولیس نہیں پہنچی اس وقت لڑائی کے نتیجے میں ایک غیر احمدی ہلاک ہو چکا تھا اور مقابل پر چند احمدی عورتیں زخمی ہوئی تھیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مردوں کے مقابل پر جماعت احمدیہ کی عورتیں دفاع کر رہی تھیں اور بڑی بہادری کے ساتھ وہ ڈٹی ہوئی تھیں اور ہر گز کسی ظالم کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر احمدیوں کے گھروں میں داخل ہو سکے.چنانچہ پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق پولیس فورس وہاں پہنچی اور اس کے ساتھ ایس.پی یعنی سپر نٹنڈنٹ پولیس بھی ساتھ آیا اور ڈی.آئی.جی بھی وہاں پہنچا اور اسٹنٹ کمشنر بھی پہنچا اور وہاں پہنچ کر انہوں نے پہلی کاروائی تو یہ کی کہ بعض احمد یوں کو ان کے گھروں سے ا تارا اور نہتا کیا اور اس وقت ان پر دشمن نے فائرنگ کر کے ان کو موقع پر شہید کیا.چنانچہ تین شہادتیں اس طرح ہوئیں کہ جو لڑائی کے دوران نہیں بلکہ پولیس کا رروائی کے نتیجے میں پولیس کی نگرانی میں ان کو نہتا کرنے کے بعد دشمن کو موقع دیا گیا کہ ان پر فائرنگ کر کے ان کو ہلاک کرے.ان میں سے بھی جو فہرست ہے ایک ہیں نذیر احمد صاحب ساقی.ایک ہیں مکرم محمد رفیق صاحب ولد مولوی محمد خان صاحب اور ان میں سے بھی ایک بچی ہے یعنی عزیزہ نبیلہ بنت مکرم مشتاق احمد صاحب.تو یہ تین شہادتیں جو ہوئی ہیں یہ نہتا کرنے کے بعد پولیس نے یقتل کی کارروائی کروائی ہے.جب یہ ہو چکا اس کے بعد پولیس نے ہر گھر پہنچ کر جماعت احمدیہ کو نہتا کیا اور پھر عام ہلہ بولنے کی دوسروں کو دعوت دی.چنانچہ اب تک جو اطلاع ملی ہے ایک سو سے زائد احمدی گھر جلائے گئے اور جو مویشی احمدیوں کے تھے ان کو بھی ہلاک کیا گیا اور یہ عجیب بات ہے کہ عید کی قربانی کا یہ بہیمانہ تصور غیر احمدیوں نے اپنے اسلام کا دنیا کے سامنے پیش کیا کہ معصوم لوگوں کی جانیں عید والے دن لی جائیں اور ان کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں زندہ جلانے کی کوشش کی جائے اور ان کے جانور ہلاک کئے جائیں تا کہ ان کی

Page 495

خطبات طاہر جلد ۸ 490 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء معیشت کی جڑیں کاٹ دی جائیں.یہ بہیمانہ واقعہ تمام کا تمام پولیس کی نگرانی میں ہوا اس لئے اس کو فساد نہیں کہا جا سکتا بلکہ پولیس آپریشن کہنا زیادہ مناسب ہے ویسا ہی پولیس آپریشن ہے جیسا اس سے پہلے نکانہ صاحب میں آپ لوگ دیکھ چکے ہیں کہ واقعہ ہوا تھا.اس واقعہ کے بعد وہاں کرفیو لگا دیا گیا اور جماعت احمدیہ کے کسی آدمی کو اب تک ( یعنی جب سے میں یہ خطبہ دے رہا ہوں ) اب تک وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور ہم نہیں جانتے کے اندر بعد میں کیا واقعات ہوئے ہیں لیکن جو اطلاعیں اب تک ملی ہیں ان کے مطابق پولیس کی کارروائی کے نتیجے میں تین آدمی شہید ہوئے اور پولیس کی کارروائی سے پہلے کل نو احمدی زخمی ہوئے تھے جن میں سے ایک ماسٹر عبدالرزاق صاحب ہیں ان کے پھیپھڑے میں گولی لگی اور ان کی حالت اس وقت تک خطر ناک بتائی جارہی ہے اگر چہ آپریشن ہوا ہے.اللہ فضل فرمائے ان کو نئی زندگی عطا کرے.ایک مرد ہے جو زخمیوں میں شامل ہے آٹھ عورتیں ہیں.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ پاکستان کے حوصلے کتنے عظیم الشان اور کتنے بلند ہیں اور پاکستان کی احمدی عورتیں بھی ان کے بڑے بڑے مردوں اور مرد کہلانے والوں کو شکست دے سکتی ہیں.جس دن یہ واقعہ ہوا ہے اس کی اطلاع آنے سے پہلے اسی دن مجھے انگلستان سے ڈاک موصول ہوئی جو پاکستان کی ڈاک انگلستان پہنچی تھی اور پھر ایک احمدی دوست مرزا عبدالرشید صاحب جواب یہ ڈاک لے کے آئیں ہیں وہاں ڈاک لے کر آئے ہوئے تھے.اس ڈاک سے مجھے پتا چلا کہ محمد رفیق صاحب جو شہید ہوئے ہیں وہ فوج میں حوالدار تھے اور رخصتوں پر آئے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے خط لکھا کہ یہاں کے حالات ایسے خطرناک ہیں میرا دل نہیں چاہتا کہ واپس جاؤں دعا کریں کے اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب کرے.چنانچہ ان کی شہادت کی دعا کی درخواست والا خط جس دن ملا ہے اس دن خدا کی تقدیر کے مطابق ان کو شہادت کا عظیم الشان رتبہ نصیب ہو چکا تھا.پس جہاں تک ہمارے شہیدوں کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی مراد کو پاگئے اور جیسا کہ میں نے گزشتہ ایک خطبہ میں ننکانہ صاحب کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر دشمن کا یہ وہم ہے کہ ایک ننکانہ کو جلانے کے نتیجے میں وہ جماعت احمدیہ کو خوفزدہ کر کے جماعت احمدیہ کو ارتداد پر مجبور کر دے گا تو وہ باطل خیال ہے ، جھوٹا ہے ، شیطانی وہم ہے.جماعت احمد یہ خدا

Page 496

خطبات طاہر جلد ۸ 491 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء کے فضل سے مومنوں کی جماعت ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت اپنے ایمان سے متزلزل نہیں کرسکتی.ایک ننکانہ تم نے جلایا ہے پاکستان کی ساری احمدی بستیاں شوق کے ساتھ خدا کی راہ میں جلنے کے لئے تیار بیٹھی ہیں.تم آؤ اور آزمائش کر کے دیکھ لو.چنانچہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے او پر میری جو توقعات تھیں اور کہا جاتا ہے مان تھا.مجھے یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت دنیا کی کسی مذہبی جماعت سے کبھی بھی پیچھے نہیں رہ سکتی.چنانچہ اللہ نے اس ایمان اور اس یقین اور اس ارمان اور مان کو پورا کر دکھایا اور مجھے اس پر قرآن کریم کی وہ آیت یاد آئی کہ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب :۲۴) که محمد مصطفی ﷺ کے غلام ایسے عظیم الشان ہیں کہ کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنی شہادتوں کی آرزوؤں کو پورا کر دکھایا ہے اور باقی ڈرے نہیں بلکہ اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ان کی تمنا ئیں بھی پوری ہوں.پس وہ جماعت جو خدا کی راہ میں قربانیوں کی آرزوئیں اور امنگیں لئے بیٹھی ہو دنیا کی کوئی شیطانی طاقت اس جماعت کو نا کام نہیں کر سکتی.جہاں تک پولیس کارروائی کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ سارا ظلم پاکستان کی پنجاب کی پولیس نے کروایا ہے اور اس وقت وہاں جو آئی جی پولیس ہیں پنجاب میں یہ وہی ہیں جن کی زیر نگرانی ۱۹۷۴ء میں سرگودھا میں احمدیوں کے گھر جلائے گئے تھے اور یہی آج کل آئی جی ہیں.اس لئے دماغ بھی وہی ہے،سازشیں بھی وہی ہیں کارستانیاں بھی وہی ہیں.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا خدا بھی وہی خدا ہے جس نے ہمیشہ ذلیل دشمنوں کو نا کام اور رسوا اور ذلیل کر کے دکھایا ہے اور کبھی بھی خدا کی جماعتیں ان شیطانوں کے مقابل پر شکست نہیں کھاتیں نہ اب ایسا واقعہ ہو گا اس لئے جہاں تک جماعت کی ہمت اور جماعت کے حو صلے کا تعلق ہے وہ خدا کے فضل سے نہ سرنگوں ہوا ہے نہ آئندہ کبھی سرنگوں ہوگا.سارے ضلع کی انتظامیہ اس خبیثانہ اور ظالمانہ فعل میں پوری طرح ملوث اور ذمہ دار ہے اور خدا کے حضور جوابدہ ہے.اس دنیا میں کوئی ان کی جواب طلبی کرنے والا اگر نہیں پیدا ہوا تو دنیا کو پیدا کرنے والا خدا یقینا ان کی جواب طلبی کرے گا.ان میں سر فہرست DC گجرات ہے جس کا نام رانا شوکت علی ہے اور پھر ( SP) سپرنٹنڈنٹ پولیس گجرات ہے جس کا نام شیم احمد ہے اور AC کھاریاں جس کا نام قاضی جاوید لودھی

Page 497

خطبات طاہر جلد ۸ 492 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء ہے.قاضی جاوید لودھی کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا کہ عملاً کس حد تک اس نے حصہ لیا لیکن ڈپٹی کمشنر اور SP کسی طرح بھی اس معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دئے جاسکتے.اس کا رروائی کے بعد پولیس نے جو عمل کیا ہے وہ یہ ہے کہ غیر احمدی شریروں اور حملہ آوروں میں سے ایک شخص کو بھی قید نہیں کیا گیا اس کے مقابل پر کثرت کے ساتھ احمدیوں کو حراست میں لیا گیا جس میں سے تیرہ یا چودہ ابھی تک ان کی زیر حراست ہیں اور غالبا ان کی نیت ان کے خلاف مقدمہ بنانے کی ہے.میں نے جو قرآن کریم کی آیات آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان کا ان حالات پر بہت گہرا اطلاق ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سورۃ بروج میں فرماتا ہے کہ بعض ایسے بد بخت لوگ تھے جنہوں نے مومنوں کو آگ میں جلانے کی کوشش شروع کی اور اور آگ کی کھائیاں بنا ئیں اور پھر کھڑے ہو کر ان کا تماشا دیکھتے رہے.مومنوں کا جرم اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ انہوں نے خدا کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے نام پر پکارنے والے کے اوپر ایمان لے آئے اس کے نتیجے میں جو ظلم ان پر بر پا ہوا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے قرآن کریم میں کہ ہم اس کو خوب اچھی طرح دیکھ رہے ہیں.ایک طرف لفظ شہید ان لوگوں پر اطلاق پاتا ہے جنہوں نے آگئیں لگا ئیں اور تماشہ دیکھنے کے لئے بیٹھے.دوسری طرف خدا فرماتا ہے کہ میں بھی شہید تھا میں بھی دیکھ رہا تھا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو.اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم اس ظلم سے باز نہ آئے اور اس ظلم کو دہراتے رہے تو خدا تعالیٰ بھی بہتر جانتا ہے کہ کس طرح اپنے عذاب کو دہرائے اور پہ در پے تمہیں آگ کے عذاب میں مبتلا کرے.یہ اس سورۃ کا مضمون ہے اس کی تفصیل مزید کچھ آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں مگر یہ ترجمہ ہو جائے گا تو پھر بیان کروں گا.شہادت کے لفظ سے استعمال کا جو میں نے ذکر کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے: وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ که وہ جو مومنوں سے کارروائی کر رہے تھے آگئیں لگانے کی وہ خوب اچھی طرح دیکھ رہے تھے اور شہود کا مطلب ہے اپنے سامنے ایک ظلم کر کے پھر اس کا تماشہ دیکھنا.اس کے مقابل پر یہ آیت یہاں ختم ہوتی ہے وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ وہ تو صرف اپنی لگائی ہوئی آگوں کا تماشہ دیکھ رہے تھے مگر خدا ہر چیز پر شاہد ہے.اس کے سامنے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں یعنی تمہاری سازشیں ان کا پس منظر کون کون ذمہ دار ہے، کون کون شامل ہے، کون کون سزا کا مستحق ہے اور کون کون کتنی سزا کا مستحق ہے یہ

Page 498

خطبات طاہر جلد ۸ 493 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء ساری باتیں خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں مگر تمہارے علم میں نہیں ہیں.جہاں تک حکومت کے ملوث ہونے کا تعلق ہے اس میں تو ایک ذرہ بھی شک نہیں.اب سوال یہ ہے کہ کون سی حکومت ملوث ہے مرکزی حکومت یا پنجاب کی حکومت ، دونوں کے ملوث ہونے کے امکانات کو ہم بعید از قیاس قرار نہیں دے سکتے.دونوں امکانات معقول اور موجود ہیں.جہاں تک حکومتوں کی پارٹیوں کا تعلق ہے یہ دونوں اس سے پہلے جماعت احمدیہ سے اپنے اپنے وقت میں مظالم کر چکی ہیں.اس لئے جو بھی ان میں سے مظالم دہرائے گاوہ قرآن کریم کی اس آیت کے نیچے آئے گا کہ اگر تم باز نہ آئے اور اپنے ظلم کو ہرایا تو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کس طرح تمہیں بھی دہرا آگ کا عذاب دے.ایک پارٹی جو پنجاب پر مسلط ہے وہ مسلم لیگ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ سب سے پہلے منظم طور پر حکومتی سطح پر اگر کسی سیاسی پارٹی نے جماعت احمدیہ پر مظالم ڈھائے ہیں تو وہ پنجاب کی مسلم لیگ کی حکومت تھی یعنی دولتانہ کی سربراہی میں ۱۹۵۳ء میں جو نہایت ہی ہولناک Anti Ahmadiyya agitation ہوئی یعنی جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات ہوئے ان کی کلیپڈ مکمل ذمہ داری پنجاب کی مسلم لیگ کی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ فیصلہ میرا یا آپ کا فیصلہ نہیں بلکہ منیر انکوائری رپورٹ جو پاکستان کے چیف جسٹس اور ایک اور سپریم کورٹ کے جسٹس نے مل کر انکوائری کی تھی اور بعد میں رپورٹ شائع کی ان کی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری حقیقت میں پنجاب مسلم لیگ کی حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کے سر براہ دولتانہ تھے.جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ۱۹۷۴ء کے جو فسادات ہوئے اس کے متعلق ساری دنیا کو معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اس میں ملوث تھی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی شہ پر وہ فسادات ہوئے اور اس لئے یہ دونوں پارٹیاں جو امکانا ذمہ دار ہوسکتی ہیں پہلے بھی ذمہ دار ہو چکی ہیں.پہلے بھی جماعت احمدیہ کے خلاف مظالم میں یقینی طور پر ملوث ہوچکی ہیں.پس قرآن کریم کی اس آیت کا اطلاق حیرت انگیز طور پر ان حالات پر ہوتا ہے.آگ کے عذاب کا دہرایا جانا اور حکومتوں کی سطح پر مخالفت کا منتظم ہونا اور منصوبے بنائے جانا اور ایسی حکومتوں کا اس وقت صوبے میں یا مرکز میں مسلط ہونا جو اس سے پہلے یقینی طور پر جماعت احمدیہ کے خلاف

Page 499

خطبات طاہر جلد ۸ 494 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء فسادات میں ملوث ہو چکی ہیں.اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے وہ کون ہے جو اس کا ذمہ دار ہے.بظاہر تو پنجاب معلوم ہوتا ہے کیونکہ پنجاب کی انتظامیہ کی تفاصیل میں مرکز دخل نہیں دیا کرتا اور چونکہ پنجاب اور مرکز کی آپس میں دشمنی بڑی نمایاں ہو چکی ہے اس لئے غالباً پنجاب کی حکومت یہ پسند نہیں کرتی یا نہیں کرے گی کہ مرکز براہ راست ان کے اضلاع میں دخل دے.اس پہلو سے جو غالب احتمال ہے کہ یہ ذمہ داری پنجاب کی ہے لیکن ایک اور پہلو سے بھی مرکز کو بھی کلیہ بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ جو آئی جی پولیس پنجاب میں مقرر ہے یہ مرکز کا نمائندہ ہے.مرکز نے اس کو اپنی پسند کے مطابق مقرر کیا ہے اور یہ بات بعید از عقل معلوم ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ پولیس انتہائی بہیمانہ کارروائی کرے اور شہریوں کے حقوق بچانے کی بجائے اپنی نگرانی میں ان کو نہا کر کے ان کے گھر جلوائے اور آئی جی پولیس کو اس کی کوئی خبر نہ ہو اور آئی جی پولیس اس میں بالکل بے عمل اور بے دخل ہو.اس وجہ سے امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں پر ذمہ داری پڑنے کے امکانات برابر ہیں یا کم و بیش دونوں کے امکانات موجود ہیں.خواہ پنجاب کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوں.اس لئے ہماری آخری بات یہی ہے کہ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ اللہ ہی ہے جو بہتر جانتا ہے کہ کون کس حد تک اس سفا کی اور اس ظلم کا مرتکب ہے اور اس میں ملوث ہے اور کس حد تک خدا کے عذاب کا سزاوار ہے.جہاں تک مولویوں کی ذمہ داری کا تعلق ہے وہ تو ظاہر ہے.ملاں جب بگڑ جائے تو شرارت میں حد سے بڑھ جایا کرتا ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے آئندہ زمانے کے حالات کی جو پیشگوئیاں فرمائیں ان میں سب سے خطر ناک پیش گوئی یہ تھی کہ اس زمانے کا مولوی آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوگا.شر من تحت اديم السماء (مشكوة كتاب العلم والفضل صفحہ نمبر ۳۸) کا مطلب ہے بدترین مخلوق یا شریرترین مخلوق.اس کے شر سے دنیا میں کوئی بچ نہیں سکے گے.اس لئے جو مقدر ملاں کا ہے وہ تو ہے ہی لیکن ملاں تنہا کافی نہیں ہے.ملاں ایک ایسی قوم ہے جو بنیادی طور پر بزدل ہے اور بیچارے معصوم سادہ لوح عوام الناس کو بھڑکا کر ہمیشہ خطروں میں دھکیل دینے والی قوم ہے اور خود پیچھے رہتی ہے.اسی طرح ملاں کا کردار عام معروف اور معلوم ہے کہ جب تک حکومت کی یا کسی طاقت کی سر پرستی نہ حاصل ہو، جب تک کسی جگہ سے کوئی پیسہ نہ ملتا ہو اس وقت تک یہ عملاً بیکار اور بے

Page 500

خطبات طاہر جلد ۸ 495 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء اثر ہوتے ہیں.اس لئے ملاں کا ملوث ہونا وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن تنہا ملاں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا جب تک اس کے پیچھے کوئی شریر طاقتور لوگ نہ ہوں مولوی کو تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں ان کے ساتھ بار ہا نبٹے ہوئے ہیں.ان میں نہ اخلاقی قوت ہے نہ کوئی انسانی قدریں ہیں.اس لحاظ سے یہ تنہا کچھ بھی نہیں کر سکتے.سوائے شرارت کے، سوائے گالیاں دینے کے سوائے گندا چھالنے کے، سوائے معصوم عوام الناس مسلمانوں کو دھوکا دے کر مشتعل کرنے اور آگ میں دھکیلنے کے ان کا کوئی کام نہیں ہے.حالت یہ ہے کہ ۱۹۷۴ء میں ایک دفعہ نہیں بارہا یہ واقعہ ہوا کہ مولویوں نے جب عوام الناس کو بھڑکا کر جلوس نکال کر بعض دیہات پر حملہ کرنے کے لئے ان کو آمادہ کیا اور جلوس جب احمدی گاؤں پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا تو کسی ایک کو خیال آیا کہ مولوی صاحب کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے مولوی کو پکڑ کر آگے لانے کی کوشش کی.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں تو بندوق چلانا ہی نہیں جانتا مجھے پیچھے رہنے دو.اس پر انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تمہیں سکھا دیتے ہیں کوئی بات ہی نہیں.تم جو ہمیں گھسیٹ کر لائے ہوئے گھروں سے شہادت کے شوق میں تو آپ کیوں شہادت سے پیچھے رہ رہے ہو چلو آگے بڑھو اور قافلے کو لیڈ کر و قیادت کرو اس قافلے کی.مولوی تھر تھر کانپنے لگ گیا.ہاتھ جوڑ دیئے کہ بابا مجھے پیچھے رہنے دو میں اس کے بغیر ہی اچھا ہوں.چنانچہ ساراوہ جو جلوس تھا یہ واپس چلا گیا اپنے گاؤں کو لعنتیں ڈالتا ہوا مولوی پر کہ عجیب انسان ہے جو شہادت کا شوق دلا کر ہمیں گھروں سے نکال کے لایا ہے اور اب جب کے موقع ہے اس کے لئے شہید ہونے کا تو آپ پیچھے بھاگ گیا ہے.یہ واقعہ صرف پنجاب میں نہیں ہوا بلکہ صوبہ سرحد میں بھی ہوا.مردان کے علاقے میں بھی یہ واقعات رونما ہوئے.پس ہم جانتے ہیں ملاں کو جتنی بھی اس کی حیثیت اور جتنی طاقت اور جتنا ایمان اور جتنی اس کے اندر بہادری ہے.اگر حکومت دنیا کے سامنے یہ عذر پیش کرتی ہے کہ مولوی بڑا خطرناک ہے اس کے سامنے ہماری پیش نہیں جاتی ہم مجبور ہیں، اگر حکومت اس عذر میں کچی تو ہمیں الگ کر دے اور مولویوں کو الگ چھوڑ دے اور یہ خبیثانہ فعل چھوڑ دے کے حکومت کے امن برقرار رکھنے والے ادارے احمدیوں کے دشمن کے ساتھ شامل ہو کر حکومت کی طاقت کو احمدیوں کے خلاف استعمال

Page 501

خطبات طاہر جلد ۸ 496 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء کرے.پولیس ہٹ جائے اور پھر دیکھے کے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس شان کے ساتھ اپنا دفاع کرتی ہے اور کس شان کے ساتھ اپنے شوق شہادت کو پورا کرتی ہے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ مولوی کہیں کسی میدان میں آپ کو دکھائی نہیں دے گا.جب بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا کو پاکستان کے حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کس طرح حکومت براہ راست مظالم میں ملوث ہے ہمیشہ حکومت یہ بہانہ بناتی ہے کہ ہمارے مولوی بڑے خطرناک ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں ان کو ٹھنڈا کرنے کی مگر وہ ہمارے قابو نہیں آتے اس لئے ہمیں وقت دیں ہم کچھ نہ کچھ ٹھیک کریں گے.یہ سب جھوٹ ہے، سب بہانے ہیں ان میں ایک ذرہ بھی حقیقت نہیں ہے.مولوی کی حیثیت کیا ہے وہاں.ایک تھانے دارسارے ضلع کے مولویوں کو لگا میں دینے کے لئے کافی ہے.ایک ڈپٹی کمشنر اگر یہ فیصلہ کر لے کہ کسی مولوی کو خباثت کی اجازت نہیں ہوگی تو مجال نہیں کسی مولوی کی کہ وہ زبان کھولے.اس کے برعکس دن رات مولویوں کو کھلے جلسوں میں احمدیوں کے قتل کے فتوے دینے کی کھلی چھٹی ہے.دن رات بکواس کرنے کی اجازت ہے.جب ڈپٹی کمشنر یا دوسری انتظامیہ کو توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ بات سننے کے باوجود ایک ذرہ بھی کارروائی نہیں کرتے.پس جس ملک میں ملاں کو یہ چھٹی ہو کہ دن رات اس ملک کے شہریوں کے حقوق کے خلاف عوام الناس میں اشتعال پیدا کرتا رہے اور گند بکتا رہے اور گالیاں دیتار ہے اور اکساتا رہے اور یہاں تک کہے کہ اگر تم کسی احمدی کو قتل کرو گے، اس کے گھروں کو آگ لگاؤ گے، احمدی کی عزت لوٹو صلى الله گے تو تم سیدھا جنت میں جاؤ گے مرنے کے بعد اور آنحضرت ﷺ نعوذ بالله من ذالك اس خبیثانہ کاروائی کو سراہتے ہوئے تمہارا استقبال کریں گے.جہاں ایسی جہالت اور ایسی خباثت ہورہی ہو اور حکومت ٹس سے مس نہ ہو وہاں حکومت کا یہ عذر کہ مولوی جب حملہ کر دیتے ہیں اشتعال ہو جاتا ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے بالکل جھوٹ ہے اگر حکومت چاہے تو ایک دن میں ان کو دبا سکتی ہے.ان کا نام ونشان باقی نہیں رہ سکتا اس ملک میں جہاں حکومت یہ فیصلہ کرے کہ ان کو ملک کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی

Page 502

خطبات طاہر جلد ۸ جائے گی.497 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء اس لئے میرے نزدیک تو یقیناً تمام حکومت ذمہ دار اور جوابدہ ہے اور آئندہ وقت آپ کو بتائے گا اور خدا کی تقدیر آپ کو بتائے گی کہ کس حد تک خدا کے نزدیک کون جوابدہ تھا اور کون سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ پاکستان کو نصیحت کرنے کا تعلق ہے میری نصیحت یہی ہے کہ صبر سے کام لیتے چلے جائیں، دعائیں کرتے رہیں، اللہ پر تو کل رکھیں وہ بھی آپ کو ضائع نہیں کرے گا.اس نے کبھی صبر کرنے والوں کا ساتھ نہیں چھوڑا.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگر دشمن حکومت کی شہ پر یا کسی اور برتے پر آپ کے گھروں پر حملہ کرتا ہے آپ کے بچوں اور عورتوں کی جانوں سے سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے تو آپ کو مکمل دفاع کی اجازت ہے اور آپ دیکھیں گے کہ کمزور ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا اور آپ کی حفاظت کے سامان پیدا فرمائے گا اور اس راہ میں اگر آپ کو قربانیاں دینی پڑیں گی تو ہر قربانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو عظیم الشان فتوحات عطا فرمائے گا اور اس دنیا میں بھی اجر عطا کرے گا اور دوسری دنیا میں بھی اجر عطا کرے گا.احمدی شہداء کا خون ضائع ہونے والا نہیں ہے.اس کے ایک ایک قطرے کا ظالموں سے حساب لیا جائے گا اور اس کا ایک ایک قطرہ جماعت احمدیہ کے لئے نئی بہاریں لے کر آئے گا اور نئے چمن کھلائے گا اور نئی بستیوں کی آبیاری کرے گا اور تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کے نشو و نما کے لئے یہ قطرہ باران رحمت کے قطروں سے بڑھ کر ثابت ہوگا.اس شہادتوں کا جواب ہوئی ہیں اور ان واقعات کا مجھے کوئی شبہ نہیں کہ حضرت صاحبزادہ عبد الطیف صاحب شہید کی شہادت سے ایک گہرا تعلق ہے اور بہت سے امور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اتفاقی نہیں ہے.اس لئے افغانستان کے سوسال جس عذاب میں گزرے ہیں اس شہادت کے بعد اس سے پاکستان کو سبق لینا چاہئے.اگر پاکستان نے اس بات سے سبق نہ لیا تو جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس کی ترقی کو کوئی دنیا کی طاقت روک نہیں سکتی.جب سے پاکستان نے مخالفت شروع کی ہوئی ہے جماعت اگر چل رہی تھی تو تیزی سے دوڑ رہی ہے ، اگر دوڑ رہی تھی تو اڑتی چلی جارہی ہے.کوئی دنیا کا ایسا ملک نہیں جہاں جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے

Page 503

خطبات طاہر جلد ۸ 498 خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۹ء پہلے سے بیسیوں گنا زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہی.اس لئے جماعت کی تقدیر تو آسمان پر لکھی ہوئی ہے.تمہارے ذلیل اور رسوا ہا تھ آسمان پر لکھی ہوئی تقدیر کو ٹا نہیں سکتے.تمہاری رسوائی کی تقدیر اس زمین پر بھی لکھی جائے گی اور اگر تم اپنے ظلم اور سفاکی سے باز نہ آئے تو تمہیں خدا کی تقدیر عبرت کا نشان بنادے گی اور تم ماضی کا حصہ بن جاؤ گے، مستقبل میں آگے بڑھنے والی قوموں میں شمار نہیں کئے جاؤ گے.ایک بات میں بیان کرنی بھول گیا تھا وہ جو تین احمدی شہید ہوئے ہیں مکرم نذیر احمد صاحب ساقی، مکرم محمد رفیق صاحب ولد مولوی خان محمد صاحب اور عزیزہ نبیلہ بنت مکرم مشتاق احمد صاحب ان کی نماز جنازہ غائب ابھی مسجد میں عصر کی نماز کے معاً بعد ہوگی اور اسی طرح حاجی ڈینیل مورا یوسف صاحب جو سباملائیشیا سے تعلق رکھتے تھے وہ بھی یہاں آنے کے بعد میری ملاقات سے پہلے ہی اچانک تقدیر الہی کے مطابق وفات پاگئے.اللہ تعالیٰ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ان کی نماز جنازہ غائب بھی شہداء کے ساتھ ہی پڑھوں گا.علاوہ ازیں کچھ اور نام بھی ہیں جو درخواستیں آئیں ہوئی تھیں بعض صدر انجمن احمد یہ نے سفارش کر کے بھیجی ہیں ان کے نام میں پڑھ دیتا ہوں ان کی بھی نماز جنازہ غائب ہوگی.مکرمہ اہلیہ صاحبہ میٹھی احسان الحق صاحب لاہور مکرم حکیم عبد العزیز صاحب ساکن چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ مکرمہ اہلیہ صاحب فضل الرحمان صاحب بسمل ربوه اور مکرم چوہدری احمد جان صاحب سابق امیر جماعت ضلع راولپنڈی.

Page 504

خطبات طاہر جلد ۸ 499 خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۸۹ء جایا نیوں کے دل حسن اخلاق اور اعلیٰ نمونے سے جیتیں جاپانی قوم کے اخلاق کا تذکرہ نیز واقعہ چک سکندر خطبه جمعه فرموده ۲۸ / جولائی ۱۹۸۹ء بمقام نا گویا جاپان ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :.جماعت احمدیہ کے صد سالہ تشکر کے سال میں تمام دنیا کی جماعتوں کی یہ خواہش تھی کہ میں اگر وہاں نہیں جا سکتا تو کم سے کم ان کے قریب کسی ملک میں آجاؤں تا کہ زیادہ سے زیادہ احمدی دوستوں کو اس خاص سال میں ملاقات کا موقع مل سکے.اس سلسلہ میں یہ تو ممکن نہیں تھا کہ بیک وقت ساری دنیا کے ممالک کا یا ان ممالک کا دورہ ہی کیا جا سکے جو بطور مراکز مقرر کئے جائیں لیکن یہ ممکن تھا اور یہی کیا گیا کہ مختلف حصوں میں یہ دورہ مکمل کیا گیا.افریقہ کا دورہ تو گزشتہ صدی کے آخر پر ہی شروع کیا گیا تھا تا کہ کچھ وقت بچ جائے اور گزشتہ صدی کے آخر پر آئندہ صدی کی تیاری کے سلسلہ میں ان کو ہدایات دی جاسکیں.کچھ یورپ کا دورہ نئے سال میں شروع کیا گیا اور سب سے پہلا دورہ آئر لینڈ کا تھا جہاں نیا مشن کھولا گیا تھا.اس کے بعد یہ World Tour شروع ہوا ہے جس میں جاپان وہ آخری ملک ہے جو اس دورے میں شامل کیا گیا.اس کے بعد انشاء اللہ جلسہ سے فراغت کے بعد پھر بقیہ دنیا کے جن ممالک تک بھی رسائی ہو سکتی ہے انشاء اللہ وہاں جانے کی کوشش کی جائیگی لیکن سب سے اہم دورہ میرے نزدیک ہندوستان کا ہوگا اگر حالات سازگار رہے ،اگر حکومت ہندوستان نے اجازت دی جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اجازت دیں گے اور اگر ایسے امکانات ہوئے کہ پاکستان سے بھی

Page 505

خطبات طاہر جلد ۸ 500 خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۸۹ء کثرت سے دوست وہاں تشریف لاسکیں تو میرے نزدیک اس سارے سال کا سب سے اہم سفر قادیان کا سفر ہوگا کیونکہ ایک سوسال کے بعد وہاں پھر جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق ملے گی جس میں جماعت کی نمائندگی میں خلیفتہ اسیح خود شامل ہو اور باقی جماعت کے نمائندگان بھی شامل ہوں.اس سلسلہ میں پہلے تو میں دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اس بات کو یا درکھیں اور خصوصیت سے پاکستان کے حالات کے لئے دعا کریں کہ وہاں حالات ایسے سازگار ہو جائیں کہ جلسہ پر تشریف لانے والوں کے لئے کوئی وقتیں نہ ہوں ورنہ ایک بہت ہی تکلیف دہ شکل پیدا ہو جائے گی کہ جلسہ پر آنے والوں سے مقامی ملاں اپنا انتقام لے رہے ہوں گے اور ان کو ہر طرح سے دکھ پہنچانے کی کوشش کریں گے.یہ وہ فکر ہے جس کی وجہ سے طبیعت میں کچھ تر دورہتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حالات بدل دے اور یہ یقین ہو کہ پاکستانی احمدی بغیر تکلیف کے اس جلسہ میں شرکت کر سکیں گے تو میرے نزدیک یہ بہت ہی اہم جلسہ ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اب پیشتر اس کے کہ میں جاپان کے سفر کے متعلق کچھ باتیں کہوں میں چک سکندر کے ہولناک اور دردناک واقعہ سے متعلق آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنی چاہتا ہوں.مجھ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ چک سکندر کے متعلق تفصیلات بتائیے.یہ مضمون ایسا مشکل ہے بیان کرنا کہ اس مجلس میں تو میں نے ٹال دیا اور بلکہ یہ جواب دیا کہ پہلا خطبہ اس موضوع پر ہے آپ اس کو سن لیجئے.وہ خطبہ انشاء اللہ یہاں پہنچ جائے گا اس میں عمومی تفاصیل ہے.مزید میں یہاں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس خطبہ میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان سے پتا چلتا ہے کہ جماعت پر اس قسم کے حالات آئیں گے کہ ان کو آگ کا عذاب دیا جائے گا اور آگ سے ان کے گھروں کو جلانے کی کوشش کی جائے گی اور جو لوگ اس بات کو دہرائیں گے ان پر خدا کا عذاب بہت شدت سے نازل ہو گا اور ان کو بہت سختی سے خدا تعالیٰ کی ملامت کا نشانہ بنایا جائے گا اور خدا تعالیٰ اپنی پکڑ کو دہرائے گا جس طرح عذاب دہرانے والوں نے اپنے عذاب کو دہرایا ہے.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے میں نے یہ بتایا تھا کہ دو Aspects دو مشکوک جماعتیں ہیں جن کے متعلق یہ شک کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے پہلے فعل کو، پہلے ظلم کو دہرائیں اور عجیب اتفاق ہے

Page 506

خطبات طاہر جلد ۸ 501 خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۸۹ء کہ موجودہ حالات میں وہی دونوں جماعتیں اس وقت حکومت میں ہیں.سب سے پہلے مسلم لیگ جس نے پنجاب میں ۱۹۵۳ء میں یہ مظالم کا دور شروع کیا اور با قاعدہ مولویوں کی سر پرستی کر کے کثرت کے ساتھ احمدی گھروں کو جلایا گیا اور ہر طرح سے ان کو عذاب دینے کی کوشش کی گئی.دوسرا پیپلز پارٹی جس نے باوجود اس کے کہ جماعت کے اس پارٹی پر بے انتہا احسانات تھے احسان فراموشی کا ایک تاریخی مظاہرہ کیا اور ۱۹۷۴ء میں اسی پارٹی کی حکومت میں سرگودھا کے کثرت سے گھر جلائے گئے اور اس وقت پنجاب کی حکومت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی.تو میں نے کہا یہ پچھلے خطبہ میں جو باتیں بیان کیں ان میں ایک یہ بھی بات تھی.یہ اتفاقی حادثات نہیں ہیں.قرآن کریم کی آیات ان حالات پر بعینم چسپاں ہو رہی ہیں.کوئی ایسی جماعتوں کا ذکر ہے جو ایک دفعہ جماعت کے گھر جلائیں گی اور پھر دوبارہ طاقت پکڑیں گی اور دوبارہ وہی کام کریں گی اور ان کے لئے شدت سے عذاب کی خبر ہے.اس وقت مجھے چونکہ پورے حالات کا علم نہیں تھا اس لئے میں نے کہا کہ ہو سکتا ہے پیپلز پارٹی بھی ملوث ہو اس کی مرکزی حکومت کیونکہ آئی جی پولیس ان کا مقرر کردہ ہے.اور چونکہ جماعت چک سکندر پہ مظالم میں سب سے بڑا دخل پولیس کا تھا جب تک پولیس نہیں آئی ہماری احمدی عورتوں نے دشمن کے چھکے چھڑائے ہوئے تھے اور بڑا بھاری دباؤ تھا ان پر.ان کو جرات نہیں تھی کہ گھروں کے قریب آسکیں اور صرف احمدی عورتیں مقابلہ کر رہی تھیں چند ایک نوجوان تھے باقی چونکہ بوڑھے اور کمزور لوگ ہیں اکثر نو جوان ہجرت کر چکے ہیں اس لئے مقابلہ ان بظاہر مردوں کا چند عورتوں کے ساتھ تھا لیکن پولیس نے آکر پھر خود تمام احمدیوں کو نہتا کیا.آٹھ زخمی عورتیں تھیں ان کو قید کیا گیا اور باقی احمد یوں کو بھی قید کر کے صرف چند ایسے لوگ پیچھے چھوڑ دئے گئے جو کسی طرح بھی مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.پھر دشمن کو دعوت دی کہ جو کچھ ظلم کرنا ہے کرو اور ظلم اور سفا کی کی حد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جہاد کے موقع پر بھی جہاں جائز دفاع ہے جو ہدایات دی ہیں ان میں سے ہر ایک کی نافرمانی کی گئی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ گئے.آپ نے فرمایا عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھانا، بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھانا، کمزوروں اور بوڑھوں کو کچھ نہیں کہنا اور وہاں بظاہر یہ اسلامی جہاد کرنے والوں کا حملہ عورتوں، بوڑھوں اور بچوں پر تھا اور بچی بھی ایک شہید ہوئی اور مرد بھی بعض شہید ہوئے لیکن اصل مقابلہ احمدی بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کا تھا جو ان کے مرد کہلانے والوں سے الله

Page 507

خطبات طاہر جلد ۸ ہو رہا تھا.502 خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۸۹ء دوسرا پہلو یہ کہ سفا کی کہ حد یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مظالم میں بھی جانوروں کو نہیں مارا جاتا لیکن انہوں نے چن چن کے احمدی جانوروں کو مارا اور پھر ان کو آگیں لگائیں اور ان کے پنجر ہمارے جو نمائندگان تھے پر لیس کے انہوں نے جا کر دیکھے اور انہوں نے تصویر میں شائع کی ہیں.تو جو سفا کی کی حد ہوتی ہے وہ اس تک پہنچ چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نقشہ کھینچا تھا کہ ایک جاہل وحشی قوم ہے جو میرے باغ پر حملہ کر رہی ہے، اس کو اجاڑنے کی کوشش کر رہی ہے وہ تصویر بعینہ ان حالات پر صادق آتی ہے.اس لئے جو خدائی نصرت کے وعدے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں خبر تھی کہ میں انتقام لوں گا اس کے پورا ہونے کے متعلق کوئی احمدی واہمہ بھی نہیں کر سکتا کہ نہیں ہوگا.کوئی دور کا بھی شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ چودہ سو سال پہلے جو کلام نازل ہوا ہے حضرت محمد مصطفی می پر اس نے جو نقشہ کھینچے ہیں بعینہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو پورا ہوتے دیکھ لیا ہے.صرف اب ہم نہیں کہہ رہے جب یہ حالات گزر چکے ہیں بلکہ ۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن کریم کی اسی سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا کہ آج تک امت مسلمہ میں یہ واقعات نہیں گزرے اور یہ قرآن کریم کی دراصل پیشگوئی ہے اور یہ پیشگوئی جماعت احمدیہ کے اوپر پوری ہونے والی اور جماعت احمدیہ کے گھر جلائے جائیں گے، ان کے سامان جلائے جائیں گے اور دشمن بیٹھ کر تماشے دیکھیں گے اور جب یہ اس فعل کو دہرائیں گے تب خدا کی پکڑ ان پر نازل ہوگی.اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب واقعہ ہو گیا تو تم نے اپنی طرف منسوب کر لیا.۱۹۴۵ء میں اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا جماعت کو اور حکومت بھی اس وقت غیر جانبدار حکومت تھی اور جو مرضی انگریز کو کہیں اس میں انصاف ضرور تھا.ان حالات میں حضرت مصلح موعود کا قرآن کی تفسیر کر کے اتنی وضاحت کے ساتھ آئندہ زمانے کے متعلق یہ بیان کرنا آپ وہ تفسیر پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں.یوں لگتا ہے جو حالات گزرے۱۹۵۳ء میں یا بعد میں.اب وہ حضرت مصلح موعودؓ کے سامنے فلم کی صورت میں چل رہے تھے اور تفسیر صرف قرآن کریم کی اس سورۃ کی کر رہے تھے جس کی میں نے پچھلے جمعہ میں تلاوت کی تھی.

Page 508

خطبات طاہر جلد ۸ 503 خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۸۹ء جو حالات بعد میں سامنے آئے مزید ان سے پتا چلتا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ مرکزی حکومت کا اس میں دخل نہیں ہے بلکہ خالصہ پنجاب کی مسلم لیگ کی حکومت کا جماعت اسلامی کے ساتھ جوڑ ہوا ہے اور ان دونوں نے یہ سازش پکائی ہے با قاعد حکومت کی سطح پر اور اس ظلم میں ڈی سی اور ایس پی پوری طرح شامل تھے اور مقامی ممبر پارلیمنٹ پنجاب کا وہ ان کو ہدا یتیں دے رہا تھا اور پنجاب کی حکومت کے احکامات ان تک منتقل کر رہا تھا.اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلم لیگ نے اس بات کو دہرایا ہے اور ۱۹۵۳ء میں بھی وہی ذمہ دار تھی.ایک لمبا عرصہ قریباً چھتیس سال خدا تعالیٰ نے اس جرم میں ان کو ذلیل و رسوا کیا اور اتنی بڑی پارٹی جو پاکستان کے قیام کا موجب بنی جس نے سارے ہندوستان میں مخالفت پر فتح پائی.ہندوؤں اور سکھوں کی عظیم طاقت کو تو ڑ کر پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئی.احمدیت پر مظالم کے نتیجے میں ایسی ذلیل و رسوا ہوئی کہ یوں لگتا تھا کہ سیاست سے اس کی ہمیشہ کے لئے صف لپیٹ دی گئی ہو لیکن جیسا کہ قرآن کی پیشگوئی سے پتا چلتا تھا ان کو دوبارہ موقع ضرور ملنا تھا اور دوبارہ انہوں نے آزمائے جانا تھا اور اس آزمائش پر یہ پورے نہیں اترے اور وہی جہالت ، وہی سفا کی ، وہی بے حیائی انہوں نے دوبارہ ظاہر کی جو اس سے پہلے ایک دفعہ کر چکے تھے اور عجیب اتفاق ہے کہ اس وقت بھی جماعت اسلامی ان کے ساتھ تھی.یعنی نام نہاد جماعت اسلامی جس کا اسلام سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں اور اب بھی وہی ہے ان کا کرتا دھرتا اور ان کی مشیر.تو حالات بعینہ اسی طرح دوبارہ ظاہر ہوئے ہیں.ایک اور چیز جو میں نے بیان کی تھی اس میں بھی درستی ضروری ہے.مجھے اس وقت یہ خیال آیا تھا کہ چونکہ یہ عید کے موقع پر واقعہ ہوا ہے اور قربانی کی عید کے موقع پر ہوا ہے اور کیونکہ وہ عید اس دن واقع ہوئی جس دن حضرت صاحبزادہ عبد الطیف صاحب کی عظیم شہادت واقعہ ہوئی اس لئے اس میں خدا کی طرف سے جماعت کو کوئی پیغام تھا کہ تمہارے لئے ابھی قربانیوں کا دور باقی ہے اور ان قربانیوں کا بدلہ ہم دیں گے تمہیں جزا کی صورت میں اور تمہارے دشمنوں کو سزا کی صورت میں کیونکہ صاحبزادہ عبدالطیف صاحب کو شہید کرنے والوں پر خدا تعالیٰ نے پھر اپنی پکڑ ڈھیلی نہیں کی فوراً بعد بھی ان کو عذاب میں مبتلا کیا اور آج تک جو افغانستان میں گزر رہا ہے یہ ساری ان کی وہی بد بختی ہے کہ ایک عظیم الشان معصوم کو انہوں نے شہید کیا تھا.

Page 509

خطبات طاہر جلد ۸ 504 خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۸۹ء میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہو سکتا ہے اللہ معاف کرے پاکستان پر بھی ایسے ہی حالات ہوں لیکن بعد میں جب میں نے مزید غور کیا اور طبیعت بھی دعا کی طرف مائل ہوئی کیونکہ دل نہیں چاہتا کہ ہمارے وطن پر ویسے ہی حالات پیدا ہو جائیں تو مجھے یہ تسلی ہوئی کہ پاکستان سے خدا تعالیٰ کی تقدیر یہ سلوک نہیں کرے گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس کا جہاں تک تعلق ہے وہ اس جرم میں شامل نہیں ہیں.ہر جگہ جہاں بھی موقع ملا ہے پاکستان کے عوام الناس کو انہوں نے مولویوں کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی باتوں میں کھیلنے سے انکار کر دیا ہے اور باوجود اس کے کہ فوراً بعد یہ لوگ کھاریاں پہنچے اور دیگر دیہات میں جا کر اشتعال کی کوشش کی انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم اس ظلم میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوں گے.اس طرح کثرت سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ مظالم کے وقت ہمسایوں نے مدد کی.شہر کے لوگوں نے ہر طرح سے خیال رکھا.تو اس لئے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک سلوک کرنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو ان لوگوں سے ہوتا ہے جہاں قوم کی قوم کے دل سخت ہو چکے ہیں.تو ہمیں دعا بھی کرنی چاہئے اور امید بھی رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ظلم میں اس حد تک بڑھنے سے روک دے گا جس کے بعد قوموں کی ہلاکت کے فیصلے کئے جاتے ہیں اور اس ملک کو خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے دین کی اشاعت کا از سر نو مرکز بنادے گا..اب میں جماعت احمد یہ جاپان کو جاپان سے متعلق کچھ نصیحت کرنی چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے اپنے دورے میں بیان کیا ہے مختلف مجالس میں پریس کانفرنسز میں یہ اتنی با اخلاق قوم ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے بہت دنیا پھری ہے، بہت قریب سے دنیا کو دیکھا ہے آج تک میں کسی قوم کے اخلاق سے اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا جاپانی قوم کے اخلاق سے متاثر ہوا ہوں.ان کے اندر سچائی ہے، اور اتنی واضح ہے ان کی سچائی کہ شاید ہی کسی قوم میں اس کثرت سے بیچ بولنے والے موجود ہوں جتنی جاپانی قوم میں ہیں.ان کے اندر باوجود دنیا کی عظیم بڑائیوں کے بڑے بڑے ممالک کو انہوں نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے.پھر بھی انکسار موجود ہے اور یہ ایک بہت ہی بڑا خلق ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ پیار اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہے.تکبر سے خدا کو نفرت ہے اور انکسار سے محبت ہے اور حضرت رسول اکرم ﷺ نے بار بار

Page 510

خطبات طاہر جلد ۸ 505 خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۸۹ء اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے.تو خدا سچ ہے اور سچائی سے محبت کرتا ہے.اس قوم میں سچائی موجود ہے.خدا اپنی بڑائی کے باوجود اپنے ذلیل ترین بندوں پر بھی رحمت سے جھکتا ہے.یہ خدا کے انکسار کی ایک شکل ہے اور اس قوم میں انسانی نقطہ نگاہ سے ہر قسم کے انکسار کی خوبیاں پائی جاتی ہیں.پھر یہ اپنے معاملات میں صاف ہیں اور معصوم ہیں.اعتماد کرتے ہیں کیونکہ یہ خود وعدوں کے سچے ہیں.اس پہلو سے بعض بد قسمت قوموں نے ان کو نقصان بھی پہنچایا اور یہاں آکر بد مثالیں بھی قائم کیں اور چونکہ وہ لوگ اب اکثر مسلمان ممالک سے تعلق رکھتے تھے اس لئے اسلام کی بہت ہی گندی اور بھیانک تصویر یہاں قائم کی گئی ہے.جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے، آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ یہ تینوں اخلاق جن کی میں نے بات کی ہے ان سب میں آپ ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کے پیچھے ایک عظیم الشان مذہب کی تعلیم ہے.انہوں نے یہ اخلاق اپنے لمبے انسانی تجربے سے سیکھے ہیں.اس لئے آپ کا فرض ہے کہ ان کی اسلام کی غلط تصویر کو اپنے اعلیٰ حسن اخلاق کے ذریعے مٹائیں اور اس کی بجائے بہتر نقش ان کے دلوں پر جمائیں.یہی ایک رستہ ہے جس کے ذریعے جو گزشتہ مظالم کئے گئے ہیں اسلام پر ان کی تلافی ہو سکے.پھر خمینی کا قصہ، پھر دوسرے اس قسم کے معاملات، کچھ اوپر سے مغربی قوموں کا زبردست پروپیگنڈا.یہاں تو اسلام کی تصویر ایسی بھیا نک بن چکی ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح ان کے دل صاف کئے جائیں.پس سوائے اس کے میرے نزدیک اور کوئی چارہ نہیں کہ احمدی ان اخلاق میں ان سے آگے بڑھیں جن اخلاق میں یہ دنیا کے لئے نمونہ بن چکے ہیں اور حسن سلوک اور محبت اور پیار سے ان کو سمجھائیں کہ اصل اسلام یہ ہے جو ہم تمہارے سامنے اپنے نمونہ سے پیش کر رہے ہیں.ایک اور چیز اس قوم کے متعلق میں نے محسوس کی ہے وہ حد سے زیادہ ذہین ہیں اور ذہانت اور خلق جب دونوں مل جائیں تو اس کے نتیجے میں قوموں کو بہت بڑی عظمت حاصل ہو جاتی ہے.میں آج پریس کے انٹرویو میں یہ ذکر ان سے کر چکا ہوں کہ میرے نزدیک آپ کی انڈسٹری کی کامیابی کی بہت بڑی وجہ اعلیٰ اخلاق اور ذہانت ہیں.یہ دونوں جب صنعت میں اپنا جلوہ دکھاتے ہیں تو دنیا کی دوسری قو میں اس صنعت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.اخلاق کی وجہ سے ان کے اندر یہ ہر وقت خواہش ہوتی

Page 511

خطبات طاہر جلد ۸ 506 خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۸۹ء ہے کہ دوسرے کو خوش کریں اور ذہین ہونے کی وجہ سے ان کو طریقہ معلوم ہو جاتا ہے کون سی بار یکی اختیار کریں کہ دوسرا خوش ہو جائے گا.ان کے کیمروں میں ، ان کی ویڈیوز میں ، ان کی کاروں میں Digits جتنی بھی بنائی جاتی ہیں وہ اس اخلاق کی ذہانت کے ساتھ جو بندھن پیدا ہوتا ہے اس کے نتیجے میں بنتی ہیں اور Digits کے معاملے میں یہ ساری دنیا کو لیڈ کر رہے ہیں.کوئی چیز جاپانی ہو یہاں تک کہ ٹائلٹ میں بھی آپ چلے جائیں تو وہاں جاپانی ذہانت آپ کو دکھائی دے گی.یہ چاہتے ہیں کہ خوش کریں اور کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور چونکہ ذہین ہیں اس لئے وہ رستہ سوچ لیتے ہیں کہ ہاں یہ ہم کریں گے تو یہ آرام رہے گا اور آنے والا، استعمال کرنے والا خوش ہوگا.یہ خلق باقی قوموں میں نہیں ہے.سخی ہیں، اعلیٰ اخلاق بھی پائے جاتے ہیں انفرادی طور پر لیکن قومی طور پر نہیں اور قومی طور پر ذہانت کا وہ معیار نہیں ہے جو جاپانی قوم میں پایا جاتا ہے.اس لئے ان کو کوئی دنیا کی قوم شکست نہیں دے سکتی.اب اگلا قدم یہ ہے کہ اگر ذہین ہیں تو خدا کا سچا تصور اگر پیش کیا جائے ، اگر مذہب کا ایسا تصور پیش کیا جائے جو عقلوں کو بھی مطمئن کرتا ہے تو یہ قو میں اس کو قبول کرنے کے لئے پہلے سے تیار بیٹھی ہیں.آدھی جنگ تو یہ جیت چکے ہیں یعنی اخلاق کی جنگ اور عملی نمونہ سے یہ مسلمان ہو چکی ہیں اب اگلا قدم ہے خدا سے ان کا تعلق قائم کرنا وہ آپ کا کام ہے آپ یہ تعلق قائم کروا ئیں اور اسلام کو جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں ایک نہایت ہی معقول دلائل سے بھرا ہوا مذہب جو عقل اور منطق سے اپنی صداقت کو منوانے کی طاقت رکھتا ہے.اس رنگ میں اگر آپ اسلام کو ان کے سامنے پیش کریں تو چونکہ ذہین (Intelligent) قومیں ہیں یہ اس اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گی.اگر ایسا آپ نے نہ کیا تو ان کی اگلی نسلیں مذہب سے اور ان اخلاق سے بھی دور ہٹ جائیں گی کیونکہ میں یہاں دیکھ رہا ہوں کہ مغربی قوموں کے بد اخلاق اور مادہ پرستی کے اثرات جاپان میں ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.ان کی نئی نسلوں میں نہ صرف دہریت بڑی کھلم کھلا آرہی ہے ، مذہب سے دوری بلکہ ان کی نئی نسلوں میں مغربی چمک دمک سے متاثر ہونے کے رجحانات بڑھتے جارہے ہیں اور وہ گندی عادتیں جو وقتی لذت کی خاطر ان قوموں نے اختیار کی ہیں کہ جس طرح بھی ہو اپنی حیوانی تمناؤں کو پورا کیا جائے اور چاہے اس کے نتیجے میں سوسائٹی درہم برہم ہو جائے ، یہ رجحانات ان کی نوجوان نسلوں میں داخل ہونا شروع ہو چکے ہیں.اس لئے اگر

Page 512

خطبات طاہر جلد ۸ 507 خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۸۹ء جماعت احمدیہ نے اس سے پہلے کہ یہ تو میں ان بدیوں کے ہاتھ میں فروخت ہو جائیں ان تک اسلام کا سچا پیغام نہ پہنچایا تو ان کی آئندہ نسلوں کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی.ان بدیوں میں مبتلا ہونے کے بعد جاپانی اخلاق کی حفاظت نہیں ہو سکتی.ان کے ساتھ یہ تصادم رکھتی ہیں یہ بدیاں اور جب یہ سرایت کریں گی تو آہستہ آہستہ ان کا پرانا معاشرہ ان کی ، ان کا روائتی حسن خلق ، ان کی ذہانت تک بھی برے رنگ میں اس سے متاثر ہوگی.اس لئے جماعت احمدیہ سے چونکہ انہوں نے حسن سلوک کیا ہے آپ کا فرض ہے کہ اس حسن سلوک کا بہتر حسن سلوک سے جواب دیں اور ان کو تیزی کے ساتھ سچے مذہب کی طرف مائل کریں اور خدا کی طرف مائل کریں اور اپنے نمونے سے بتائیں کے ہم اہل خدا ہیں، ہم خدا والے لوگ ہیں ، خدا ہماری دعاؤں کو سنتا ہے ، ہم سے محبت رکھتا ہے ہماری باتوں کا جواب دیتا ہے اور یہ نمونہ ایسا ہے جو تم بھی اپنی ذات میں دیکھ سکتے ہو.ہم کسی دور کے خدا کی بات نہیں کر رہے.ایسے خدا کی بات کر رہے ہیں جو تمہارے دل سے بھی زیادہ قریب ہے.اس رنگ میں آپ ان کو خدا کے قریب کریں تو مجھے یقین ہے کہ یہ اس مقصد کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور اگر جاپان اللہ کے فضل سے احمدی مسلمان ہو جائے تو دنیا میں عظیم تغیر بر پا ہو سکتے ہیں.اتنے عظیم الشان تغیر بر پا ہو سکتے ہیں کہ آپ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کس تیزی کے ساتھ دنیا میں عظیم انقلاب رونما ہوں گے.تو اس لحاظ سے اسلام کی محبت کا بھی یہی تقاضا ہے.ان قوموں کے حسن خلق کی جزا کا بھی یہی تقاضا ہے کہ آپ سب جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اپنے آپ کو ہرگز پاکستان کا نمائندہ نہ بنائیں بلکہ خدا اور اسلام کا نمائندہ بنائیں.جہاں کہیں سے بھی آئیں خدا کے نمائندے کے طور پر آئیں اور اپنی زندگی کو اس رنگ میں ڈھالیں جو خدا کے نمائندے کے لئے زیب دیتی ہو.اس کی شان کے خلاف نہ ہو.اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ ہی لوگوں میں سے خدا وہ خوش نصیب پیدا کرے جوان قوموں کے دل فتح کرنے والے ہوں.

Page 513

Page 514

خطبات طاہر جلد ۸ 509 خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۸۹ء صد سالہ جوبلی کے موقع پر کئے گئے دوروں سے ترقی کے جو دروازے کھل رہے ہیں یہ کسی انسانی ہاتھ کا کام نہیں خطبه جمعه فرموده ۴ را گست ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد آج میں اس مسجد میں دوبارہ یہ خطبہ دے رہا ہوں اور یہ ڈیڑھ مہینے کا عرصہ دنیا کے اس سفر پر مشتمل رہا جو اس نئی صدی کے پہلے سال میں اس نئی صدی کی اغراض سے تعلق رکھنے والا سفر تھا.دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت ایک سو بیس ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور اگر چہ یہ مکن نہیں ہے کہ اس سال جو جماعت کی تاریخ میں خصوصیت رکھتا ہے، غیر معمولی امتیاز رکھتا ہے تمام ان ممالک کا دورہ کیا جا سکے جہاں احمدیت قائم ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر سے احمدیوں کی اس تمنا کا علم ہوتا رہتا ہے کہ اس سال میں ہمیں کسی جگہ اکٹھا ہونے کا موقع مل سکے.اس غرض سے میں نے جو دوروں کا پروگرام بنایاوہ دوتین حصوں پر مشتمل تھا.گزشتہ صدی کے آخر پر اور اس صدی کے آغاز پر افریقہ کے ممالک کو دورے میں شامل کیا گیا اور نئی صدی کے آغاز سے پہلا حصہ یورپ کے کچھ ممالک پر مشتمل تھا پھر اب دنیا کے بہت سے ممالک پر مشتمل یہ سفر گز را ہے اور پھر آخر پر امید ہے اور جس کے لئے کوشش ہو رہی ہے کہ بعض اور ممالک کے سفر کے بعد ان تمام سفروں کا منتہی اقادیان میں ہو اور آخری ہمارا جلسہ اس دور کا اور اگلی صدی کا پہلا جلسہ قادیان میں ہو.یہ ایک ایسی تمنا ہے جو ایک پہلو سے تو پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے.ایک دوسرے پہلو

Page 515

خطبات طاہر جلد ۸ 510 خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۸۹ء سے اس کی راہ میں مشکلات ہیں.اس سلسلے میں احباب کی خدمت میں دعا کی تحریک کے بعد پھر اپنا دوسرا مضمون جو سفر سے تعلق رکھتا ہے دوبارہ شروع کروں گا.جہاں تک ہندوستان کی حکومت کا تعلق ہے انہوں نے بڑے کھلے لفظوں میں اور بڑے کھلے دل کے ساتھ اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہم ضرور قادیان میں جلسہ کریں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ہمارا حق ہے کہ وہ جگہ جہاں سے احمدیت کا آغاز ہوا وہاں ایک صدی کا جشن منانے کا جلسہ منایا جائے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا اعزاز ہوگا اور باوجود اس کے کہ بہت سے ممبر ز پارلیمنٹ اور دیگر افسران جن سے روابط ہوئے وہ ہندو یا سکھ ہیں لیکن بلا استثناء ہر ایک نے اس خیال کو بڑے شوق کے ساتھ سینے سے لگایا اور بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ یہ ہمارے لئے ، ہمارے ملک کے لئے فخر کا موجب ہوگا اور جہاں تک قادیان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے ممبر ہیں انہوں نے تو از خود بغیر ہماری تحریک کے ایک جلسہ کے موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس سال امام جماعت احمدیہ کو ہندوستان کی طرف سے دعوت دی جانی چاہئے کہ وہ یہاں آئیں تا کہ ہماری نئی نسلیں جو ایک عرصے سے جماعت احمدیہ کے امام کو دیکھنے سے محروم ہیں ان کی یہ خواہش پوری ہو اور ان کو معلوم ہو کہ قادیان سے کیا آواز اٹھی تھی اور اس جماعت کی سربراہی کیا ہوتی ہے یعنی اس قسم کے مضمون کا انہوں نے اپنے الفاظ میں ذکر کیا.یہ تو امید افزا پہلو ہے.دوسرا پہلو ہے پاکستان میں اس کا رد عمل اور حکومت پاکستان کا اس سلسلے میں جماعت سے تعاون یہ پہلو نہ صرف مشکوک ہے بلکہ بہت سے خطرات پر مشتمل ہے.جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے پاکستان کے پاسپورٹ پر ہندوستان کا اندراج بالعموم دستور کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ خاص درخواست دے کر اندراج کروانا پڑتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دس پندرہ ہزار احمدی پاکستان سے قادیان جانا چاہیں تو یہ ایک ایسا اہم واقعہ ہوگا اور اتنا وسیع اثرات والا واقعہ ہوگا کہ جب تک حکومت پاکستان ایک پالیسی کے طور پر یہ فیصلہ نہ کرے کہ احمدیوں کے پاسپورٹس پر ہندوستان کا اندراج کیا جائے اس وقت تک یہ ممکن نہیں.پھر پنجاب کے حالات سے آپ باخبر ہیں.وہاں جو شدید دشمنی اور نہایت ہی خوفناک مظالم کی لہر دوڑی ہے اگر چہ اس کا پس منظر سیاسی ہے لیکن بہر حال اسے مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے اور

Page 516

خطبات طاہر جلد ۸ 511 خطبه جمعه ۴ راگست ۱۹۸۹ء جماعت احمدیہ کو مظالم کا خصوصیت سے نشانہ بنایا جارہا ہے.اس صورت میں حکومت پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پنجاب میں اس قسم کے فیصلے کا کیا رد عمل ہوتا ہے اور بالعموم حفاظت کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنا ہوگا اس لئے ان سب باتوں کو پیش نظر رکھ کر دعا تو کریں لیکن اپنی امیدوں کو اتنا نہ بڑھائیں کہ اگر یہ جلسہ منعقد نہ ہو سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچے.دونوں پہلو میں نے کھول کر آپ کے سامنے رکھ دئے ہیں کیونکہ اس سے پہلے جب میں بار بار اس جلسے کے امکانات کا ذکر کرتا تھا تو جماعت میں اس کے نتیجے میں بہت زیادہ امیدیں پیدا ہو جاتی تھیں اور بہت سے ایسے دوست ہیں جنہوں نے اس وجہ سے اس جلسے پر آنے کا اراداہ ترک کر دیا کہ وہ یہ پسند کرتے تھے کہ اگر ایک دفعہ ہی خرچ برداشت کرنا ہے تو قادیان کے جلسے کے لئے خرچ برداشت کیا جائے.اب تو ان کے لئے بہر حال تاخیر ہو چکی ہے لیکن جن ممالک میں میں گیا ہوں ان کو میں نے اپنے طور سے سمجھایا کہ صورتحال یہ ہے اس لئے یہ فیصلہ سوچ کر کریں کہ یہ جلسہ جس میں اب ہم شریک ہونے والے ہیں یہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے.اس نقطہ نگاہ سے یہ نہ ہو کہ اسے چھوڑ دیں اور اگلا جلسہ بھی نہ دیکھ سکیں.تو بہر حال یہ سارے حالات میں نے آپ کے سامنے کھول کر رکھ دیئے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کثرت سے دعائیں کریں گے اور ان دعاؤں کے نتیجے میں حالات تبدیل ہو جائیں گے.یہ ہے خواہش اور تمنا اور اسی کی میں دعا کی درخواست کرتا ہوں.لیکن اگر حالات اس حد تک تبدیل ہو جائیں کہ پھر اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر ربوہ میں بھی تو جلسہ ممکن ہوگا اور اگر ربوہ میں جلسہ ممکن ہو تو جب تک ہجرت سے واپسی نہ ہو اس وقت تک ربوہ کا جلسہ ایک خاص اہمیت اپنے رنگ میں بھی رکھتا ہوگا.تو سارے یہ خیالات ہیں میرے ذہن میں ابھرنے والے ،سوچوں کا حصہ ہیں جو میں آپ کے ساتھ اس وقت (اس کو انگریزی میں کہتے ہیں) Share کر رہا ہوں تا کہ آپ بھی انہی سوچوں کے مطابق اپنی دعاؤں کو ڈھالیں.جہاں تک اس سفر کا تعلق ہے اگر چہ ہمیشہ میں نے دیکھا ہے کہ سفر کے موقع پر خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی رحمت اور تائید شامل حال رہتی ہے اور یہ دعا کہ و اجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا (بنی اسرائیل: ۸۱)

Page 517

خطبات طاہر جلد ۸ 512 خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۸۹ء غیر معمولی رنگ میں پوری ہوتی ہے لیکن اس سفر میں میں نے اس سے بھی بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات دیکھی ہیں اور جس ملک میں بھی میں گیا ہوں وہاں کی جماعت کو بھی یہ شدت سے احساس پیدا ہوا ہے کہ گزشہ سفروں سے یہ سفر مختلف ہے اور اتنے حیرت انگیز طور پر خدا کی تائید کے نشانات ظاہر ہوئے ہیں کہ اس کی چمک سے نظر خیرہ ہو جاتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ ایسے ممالک بھی جہاں جماعت کا بعض جگہ تو اتنا ابھی اثر نہیں تھا کہ اخبارات یا ٹیلی ویژن یا عوام الناس جماعت کے وجود سے بھی واقف ہوں لیکن سارے ملک میں جس طرح حیرت انگیز محبت کا اظہار کیا اور کھلے بازؤوں کے ساتھ استقبال کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں جہاں جماعتوں کی کوشش سے کامیابی ہوئی ہے ان کوخدا کا یہ پیغام ہے کہ ان کوششوں کو ہم نے برکت دی ہے اور ہمارے فضل کے ساتھ تمہاری کوششوں کو کامیابی ہوئی ہے ورنہ جہاں تمہاری کوششوں کا کوئی بھی دخل نہیں تھا وہاں کس نے حیرت انگیز تائید کے نشانات دکھائے.اب مثال کے طور پر نیوزی لینڈ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس سفر کی تفصیلی خبریں تو انشاء اللہ بعد میں مختلف مواقع پر حسب حالات بیان کرتا رہوں گالیکن نیوزی لینڈ وہ جگہ ہے جہاں حال ہی میں جماعت قائم ہوئی ہے اور بہت تھوڑی تعداد ہے وہ زیادہ ترنجی کے باشندے ہیں جو نبی کے حالات خراب ہونے کے نتیجے میں نیوزی لینڈ تشریف لے گئے.سفر کے آغاز پر نیوزی لینڈ ہمارے ذہن میں نہیں تھا اور اس کے لئے کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں تھا.ہم جائزہ لے رہے تھے کے شاید نیوزی لینڈ چلے جائیں.چنانچہ سفر کے دوران ہی یہ فیصلہ ہوا کہ چاہے ایک دن کے لئے نیوزی لینڈ جائیں لیکن وہاں کی جماعت کے حالات پر غور کرنے کے لئے اور ملکی حالات کا جائزہ لے کر جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے منصوبہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے.چنانچہ ہنگامی طور پر پروگرام بنائے گئے.اس کے نتیجے میں کچھ ائر لائنز کے ساتھ کچھ مشکلات بھی پیش آئیں لیکن چوبیس گھنٹوں سے کم کا یہ پروگرام تھا.تقریباً سولہ گھنٹے کا پروگرام تھا.اس سولہ گھنٹے کے اندر اندر جو خدا تعالیٰ نے نشانات دکھائے ہیں حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ سارے کام اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کئے.جماعت احمدیہ کی اتنی بھی واقفیت نہیں تھی کہ کسی صاحب اثر آدمی کو مل کر اس سے درخواست کرتے کہ آپ یہاں تشریف لائیں.چنانچہ انہوں نے

Page 518

خطبات طاہر جلد ۸ 513 خطبه جمعه ۴ راگست ۱۹۸۹ء ٹیلی فون کی ڈائریکٹری اٹھائی اور جو جو نام انہوں نے پسند کئے ان کے نام انہوں نے چٹھیاں ڈال دیں.جب ہم ائر پورٹ پر پہنچے ہیں تو اچانک باہر نکلتے وقت جو ایک خصوصی جگہ ہے جہاں جن لوگوں کو رعائت دیتے ہیں ان کو وہاں سے گزارتے ہیں بجائے عام مسافروں کے.ایک تو یہ کہ وہاں ایک افسر تشریف لائے ہوئے تھے جنہوں نے ہمیں اسی رستے سے گزارا حالانکہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نیوزی لینڈ جیسے ملک میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی کسی قسم کی تکریم کی جائے لیکن بہر حال جو اصل قصہ ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم نکلنے لگے تھے اور آخری ہال میں پہنچے ہیں تو اچانک ایک حیرت انگیز نغمے کا شور بلند ہوا اور دیکھا تو کچھ لوگ اپنے مقامی لباس میں ملبوس مرد عور تیں اور بچے انہوں نے موری زبان جو نیوزی لینڈ کی پرانی زبان ہے اس میں ہمیں خوش آمدید کہی اور نغمے کی صورت میں وہ خوش آمدید کہی.وہ اچانک ایک دم شور جو بر پا ہوا تو میری اہلیہ جو ساتھ تھیں وہ ڈر گئیں کہ یہ کیا ہوا ہے لیکن دیکھا تو وہ با قاعدہ ایک بڑے خوبصورت طائفہ کی شکل میں کھڑے تھے اور ہمیں لفظ تو سمجھ نہیں آرہے تھے لیکن بہت ہی گہرا اثر تھا ان کی آواز میں اور خوش آمدید میں بڑی ایک قسم کی نرمی اور محبت کے جذبات تھے.مجھے کچھ سمجھ نہ آئے کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں ان کو کچھ ٹپ دینی چاہئے یا نہیں دینی چاہئے اور چونکہ میں ان کے حالات سے واقف نہیں تھا اس لئے بڑا مترد درہا اور یہ خدا کا شکر ہے کہ میں نے ٹپ نہ دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ بعد میں پتا چلا کہ وہ صاحب جو تشریف لائے تھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ وہاں کے سب سے بڑے چیف ہیں اور سارے نیوزی لینڈ میں ان کا بڑا احترام ہے، بڑے معزز انسان ہیں اور ایک سینئر پروفیسر ہیں.بہت چوٹی کے عالم آدمی ہیں اور یہ محض ان کا حسن خلق تھا کہ وہ میرے جیسے اجنبی مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لئے با قاعدہ رسمی طور پر وہاں پہنچے اور بہت ہی پر اثر رنگ میں انہوں نے خوش آمدید کا نغمہ پڑھا.اس کے بعد تو پھر وہ سولہ گھنٹے یوں گزرے جس طرح ایک تیز گھومنے والے پلیٹ فارم پر انسان سفر کر رہا ہو.ٹیلی ویژن ، ریڈیو، اخبارات، ان کے انٹرویوز مسلسل یہ سلسلہ چل رہا تھا.یہاں تک کہ ایک ریڈیو کے انٹرویو میں جو وہاں کا ایک بڑا پاپولر ریڈیو ہے اس نے پہلے آدھے گھنٹے کا وقت لیا.انٹرویو کے دوران درخواست کی کہ آپ پندرہ منٹ ہمیں اور دے دیں.اس وقت تھوڑا سا وقت تھا لیکن چونکہ پریس کا نفرنس شروع ہونے والی تھی میں نے کہا پیغام بھیج دیں چند منٹ ہم لیٹ پہنچیں

Page 519

خطبات طاہر جلد ۸ 514 خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۸۹ء گے.پندرہ منٹ ان کو اور دیئے پھر انہوں نے کہا پندرہ منٹ اور دے دیں کیونکہ اتنے مطالبے آرہے ہیں ٹیلی فون پر کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اور وقت دیں.تو میں نے ان سے کہا کہ کہ اب تو بالکل مجبوری ہے دوسرے پر لیس والے انتظار کر رہے ہیں اس کے بعد ایک اور ریڈ یوٹیشن پہ جانا ہے.وہاں سے ہم جلدی جلدی دوسرے انٹرویو کے لئے پہنچے تو وہاں سے پھر ایک تیسرے ریڈیوٹیشن پر پہنچے جو نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا ریڈیو سٹیشن ہے اور لکھوکھہا آدمی وہ ریڈیو سنتے ہیں.وہاں جو انٹرویو ہوا وہ بھی اسی طرح.تھوڑی دیر کے لئے لیا گیا وہ پنتالیس (۴۵) منٹ تک جاری رہا اور جو انٹرویو کی انچارج خاتون تھی.ایک معمر خاتون ہیں جن کو مذاہب کی بڑی واقفیت ہے ،اس کی ماہر ہیں.وہ اس کے بعد ہمارے دو پہر کے کھانے پہ بھی تشریف لائیں اور کچھ مزاحیہ رنگ میں کچھ اپنے Approval کے اظہار کے رنگ میں یہ کہا کہ میں نے تو فیصلہ کیا ہے کہ وہ سارا ۴۵ منٹ کا انٹرویو میں براڈ کاسٹ کروں گی چاہے مجھے Sank ہی کر دیں مطلب یہ ہے کہ مجھے نکال ہی دیں.یہ تو مطلب نہیں تھا کہ نکال دیں گے کہ اس کا ایک اظہار تھا کہ مجھے بڑا پسند آیا ہے اور میں اس کو ضرور شائع کروں گی.پھر جب ہم کھانے پہ گئے جہاں دعوت دی ہوئی تھی دوستوں کو تعجب ہوا کہ ایک نیوزی لینڈ کے منسٹر جو وہاں کے بہت ہی ہر دلعزیز منسٹر ہیں وہ اسی دعوت کے اوپر تشریف لے آئے جو انہوں نے رسمی طور پر بھیجی تھی اور ان کو پتا ہی نہیں تھا کہ کس کس کو بھیج رہے ہیں اور بہت ہی قابل آدمی ، بہت ہی جلدی انہوں نے جماعت کے حالات سمجھ کر اس میں گہری دلچسپی لینی شروع کی اور کھانے سے اٹھنے سے پہلے مجھ سے انہوں نے کہا کہ میں انگلستان آؤں گا تو آپ کے پاس ضرور آؤں گا اور دیگر مضامین کے متعلق بڑی دلچسپی کے سوالات شروع کر دئے.وہاں مجھے مزید محسوس ہوا کہ اگر میں ان صاحب کو جو تشریف لائے تھے ٹپ دیتا تو مجھے شرمندگی اٹھانی پڑتی کیونکہ وہ میرے بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے یہ منسٹر صاحب دائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے.ان کی جب مجھ پر نظر پڑی تو ایک دم احترام سے اٹھ کر دونوں ہاتھوں سے ان سے مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ کو تو یاد نہ ہو گا لیکن آپ میرے پروفیسر رہے ہیں اور میرے دل میں آپ کا بڑا احترام ہے.چنانچہ اس معیار کے وہ دوست تھے.اب انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ انشاء اللہ وہ جلسہ پر

Page 520

خطبات طاہر جلد ۸ 515 خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۸۹ء بھی تشریف لائیں گے اور شرکت کریں گے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ دعوت دی ہے کہ ان کا جو (نیشنل ) سب سے چوٹی کا ادارہ ہے جس کی سربراہ کو ملکہ کہتے ہیں، جو خاتون ہیں،Queen کہلاتی ہیں، وہ تمام پرانے طرز کا مرکزی ادارہ ہے جس کو سارے ملک کی نمائندگی حاصل ہے.وہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ با اثر ہیں اس ادارے کی طرف سے میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ وہاں تشریف لا کر ہمیں مخاطب ہوں اور ہمیں بتائیں کہ کیوں ہم احمدی ہوں اور کیا دلائل ہیں ، کس وجہ سے.یہ بات اس نے اس لئے کہی کہ جو باتیں میں نے ان سے کہیں تھی وہ ان کے دل پر اثر کر گئیں اور انہوں نے برملا کہا کہ آپ کے پیغام میں قوت ہے، سچائی ہے اس لئے ہمیں اس کو سوچنا پڑے گا پھر کچھ سوچنے کے بعد انہوں نے یہ مشورہ اس لئے دیا تا کہ جو ان پر اثر پڑا ہے وہ باقیوں پر بھی پڑے تو اس کے نتیجے میں پھر ساری قوم ذہنی طور پر تیار ہو سکے.اب یہ جو دروازے نئے نئے کھلے ہیں یہ کسی انسانی ہاتھ کا کام نہیں ہے، کسی انسانی کوشش کو اتنی غیر معمولی برکت ہو نہیں سکتی اور پھر جو کوشش کی ہی نہ گئی ہو اس کو کیسے برکت مل سکتی ہے.ہم زمیندار ہیں ہمیں پتا ہے کہ بیج ڈالتے ہیں بعض دفعہ برکت بڑی پڑتی ہے بعض دفعہ نہیں پڑتی لیکن جہاں بیج نہ پڑا ہو وہاں کوئی برکت نہیں پڑتی.خدا کے کام عجیب ہیں، عجیب رنگ ہیں اس کی رحمتوں کے جو بیج ہم نے نہیں ڈالے وہاں بھی برکت ڈال دی اور اتنی فصلیں اگائیں کہ دل خدا کی حمد سے بھر گیا اور ایک جگہ نہیں یہ واقعہ مسلسل اس سفر میں اسی طرح ہوتا رہا، واقعات ہوتے چلے گئے اور ہر جگہ کی جماعت نے محسوس کیا کہ یہ خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کا سفر ہے.اس سفر کے دوران بعض دردناک واقعات کی اطلاع بھی پاکستان سے ملی اور جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں دیکھیں وہاں خدا کی تقدیر پر صبر اور شکر کرنے کے لئے بھی بڑی گہری آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا اور خدا نے توفیق بھی بخشی.جو دوسری چیز میں نے محسوس کی جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے بھی میرا ہمیشہ سے یہی خیال تھا لیکن اس سفر کے بعد تو کامل یقین دل میں اس بات کا گڑ گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سب سے بڑا معجزہ آپ کی جماعت ہے.اس سے بڑا معجزہ کوئی دنیا کی طاقت نہیں دکھا سکتی جب تک خدا سے کسی کا گہرا تعلق نہ ہو وہ ایسی جماعت پیدا نہیں کر سکتا.ساری دنیا میں ساری جماعت ایک ہی رنگ میں رنگین ہے اور ان سے مل کر

Page 521

خطبات طاہر جلد ۸ 516 خطبه جمعه ۲۴ را گست ۱۹۸۹ء رنگ اور نسل کے احساسات یوں مٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں.جغرافیائی تفریقیں اور حدیں بھی غائب ہو جاتی ہیں ساری دنیا میں اگر کوئی ایک قوم ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے.نہ رنگ ، نہ نسل، نہ زبان ، نہ جغرافیائی حدود کوئی چیز بھی جماعت احمدیہ کے ایک حصے کی دوسرے حصے سے تفریق نہیں کرسکتی.اور جاپان جب میں گیا تو وہاں ایک سوال کے جواب میں میں نے ان سے کہا کہ میرا تو یہ احساس ہے اور یہ احساس ذاتی مشاہدے پر مبنی ہے کہ میں ایک ملک سے نکالا گیا ہوں لیکن دیگر ایک سوا نیس ممالک میرے گھر بن گئے ہیں کیونکہ جس ملک میں جاتا ہوں صرف ایک گھر نہیں بلکہ بعض دفعہ سینکڑوں ہزاروں گھر اپنے گھر لگتے ہیں اور کبھی بھی زبان رستے میں حائل نہیں ہوئی کبھی بھی رنگ ونسل رستے میں حائل ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیئے اور یہ صرف میرا احساس نہیں ساری جماعت کا یہی احساس ہے.یہ وہ معجزہ ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس دنیا کا سب سے بڑا معجزہ ہے.یہ دنیا بٹی ہوئی ہے مختلف نفرتوں میں مختلف حدود میں اور سوفتم کی تفریقیں ہیں جو انسان کو انسان سے الگ کر رہی ہیں.ان سب کو یکسر ملیا میٹ کر کے ان کے وجود کو مٹاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے ساتھ ایک جماعت جو بنا دیا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے جو آنحضرت ﷺ کے معجزوں کے سمندر کا ایک قطرہ ہے اور اسی کا فیض ہے.پس جماعت احمدیہ کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت خود جماعت احمد یہ ہے اور اس پر مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر یاد آیا یہ سوچتے ہوئے اور تب میں نے محسوس کیا کہ آپ کے دل کی کیا کیفیت ہوگی جب آپ نے یہ شعر کہا تھا کہ : اگر خواهی دلیلی عاشقش باش محمد هست برہان ( در متین فارسی : ۱۴۱) صلى الله اے محبت کے خواہش مند ! اے سوچنے والے! کہ محمد رسول اللہ سے محبت کے لائق ہیں کہ نہیں اگر کوئی دلیل چاہتے ہو تو محمد مصطفیٰ کو دیکھو وہی اپنی دلیل آپ ہیں.دیکھو اور عاشق ہو جاؤ.

Page 522

خطبات طاہر جلد ۸ 517 خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۸۹ء اس کے سوا اور کوئی منزل راہ میں نہیں ہے.پس میں نے جب غور کیا جماعت کی محبت میں جماعت کے متعلق اور اسے ایک معجزہ سمجھا اور میں جب اس نتیجے پر پہنچا کہ جماعت احمد یہ خود اپنی صداقت کی دلیل ہے تو میرا ذہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذہن اور آپ کے دل کی طرف منتقل ہوا اور میں نے سوچا کہ کس گہری صداقت کے ساتھ آپ نے حضرت محمد مصطفی اللہ کے حسن عشق کو دیکھا ہے اور کس طرح اپنے دل میں اس کو محسوس کیا ہے اس کے بغیر یہ شعر ممکن نہیں تھا.اس دورے میں جب ہم جاتے تھے تو جماعت کی بے ساختہ محبت مجھے اور ہمارے سب سفروں کو مغلوب کر دیتی تھی اور ہم نے محسوس کیا کہ خصوصیت کے ساتھ اس غموں کے دور میں جماعت احمدیہ نے ہر جگہ غیر معمولی اخلاص پیدا ہوا ہے اور قربانی کی روح پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے.کوئی اس کی نسبت ہی نہیں رہی.میں نے ۱۹۸۳ء میں بھی سفر کیا تھا اس وقت بھی جماعت احمدیہ کو بہت مخلص پایا کوئی شک ہی نہیں بڑی محبت کرنے والی تھی لیکن اب کے جو حالات دیکھے ہیں وہ اس سے مختلف ہیں.اس دوران جماعت ایک جگہ کھڑی نہیں رہی بلکہ مسلسل سفر کرتی رہی ہے ساتھ ساتھ اور پیچھے نہیں رہی.اس وقت مجھے حضرت مصلح موعود کی وہ رویا یاد آئی جب آپ نے رویا میں دیکھا تھا کہ وہ دوڑ رہے ہیں اور جماعت پیچھے رہ گئی ہے.مجھے یہ احساس ہوا کہ یا تو میری رفتار کم ہے یا پھر جماعت کی رفتار بہت بڑھ گئی ہے اور اس دفعہ یقیناً میں خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ جماعت نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا اور میری رفتار کے ساتھ ساتھ بھاگی ہے اور قدم سے قدم ملا کے آگے بڑھی ہے اور کسی جگہ بھی مجھے یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ کچھ لوگ پیچھے رہ گئے ہوں.یہ وہ معجزہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو آگے بڑھتے بڑھتے اب اپنی تکمیل کے مراحل تک پہنچ رہا ہے اور اس کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ جماعت احمد یہ عالمی غلبہ کے لئے تیار کھڑی ہے اور ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے جو سارے اس عالم کے افق پر ابھر رہا ہے.ایک نئے قسم کا کرہ نور ہے جوا ابھر کر اس تمام عالم پر اپنی روشنی پھینکے گا اور حضرت محمد مصطفی اللہ کے نور سے اس پورے عالم کو بھر دے گا یہ یقین لے کر میں اس سفر سے لوٹا ہوں اور مجھے یقین ہے انشاء اللہ تعالیٰ دن بدن حالات تیزی کے ساتھ اس امید کی تعبیر کی طرف بڑھیں گے اور اس یقین کی تعبیر کی طرف بڑھیں گے.

Page 523

خطبات طاہر جلد ۸ 518 خطبه جمعه ۴ راگست ۱۹۸۹ء سفر کے دوران جہاں جماعت نے محبت سے، اخلاص سے خوش آمدید کہا وہاں الوداع کے مناظر بھی بڑے تکلیف دہ تھے لیکن جو پیچھے رہ گئے ان کے لئے تو یہ تکلیف لمبے عرصے تک محسوس ہوتی ہوگی لیکن ہم ایک تکلیف سے دوسری خوشی میں منتقل ہو رہے تھے.ایک طرف جدائی کا احساس تھا تو دوسری طرف وہ جماعت جو منتظر ہوتی تھی اس کے ولولے، اس کے جذبے کو دیکھ کر ، اس کی محبت کو دیکھ کر وہ پہلا غم مٹ کر ایک دوسری خوشی میں تبدیل ہو جاتا تھا.مسلسل یہ عرصہ اسی طرح گزرا اور جب بھی یہ واقعہ ہوتا تھا مجھے پچھلی جماعت یاد آتی تھی اور ان کی محبت اور ان کی تکلیف کے احساس سے ان کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک پیدا ہوتی تھی.پس آپ بھی ان سب جماعتوں کو جو اس سفر میں خوشیاں بھی محسوس کرتی رہیں اور لکھی محبت میں تکلیف بھی محسوس کرتی رہیں ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.پھر باوجود اس کے کہ ان سے جدائی اپنی جگہ تکلیف دہ تھی لیکن ایک وقت ایسا آیا جبکہ پاکستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے واپس آنے کو دل بہت تیزی سے چاہنے لگا ، بہت شدت سے چاہنے لگا کیونکہ یہاں جو احساس ہے رابطے کا جو سفر کے دوران کسی بھی ملک میں ویسا نہیں رہتا اور جب پریشانی کے حالات ہوں تو دل چاہتا ہے کہ انسان ایسے مرکز کی طرف لوٹے جہاں فوری روابط ہوں ، ہر وقت کی خبریں تازہ تازہ مل سکیں اور جو انسدادی کاروائی یا جو اس قسم کی اصلاحی کا روائی کرنے کی توفیق ہے وہ اختیار کی جاسکے.تو یہ جب احساس زیادہ بڑھا تو اس وقت مجھے ایک دفعہ ۱۹۵۵.۱۹۵۶ء کا انگلستان کا زمانہ یاد آگیا.ان دنوں میں یہاں ایک انگریزی گانے کا بہت رواج تھا جسے Banana Boat Song کہا جاتا تھا.وسطی امریکہ میں Banana Boat Song مشہور ایک گانا ہے جسے خاص ان کے اپنے تلفظ میں پڑھا جاتا ہے.وہ گانا ان دنوں اتنا مشہور تھا کہ گلی گلی میں اس کی آوازیں آتی تھیں بلکہ سیر وتفریح کے لئے جاؤ تو لوگوں نے اپنے کیسٹس پلیئرز کے اوپر کیسٹس پلیئر تو غالبا نہیں تھے ان دنوں میں لیکن جو بھی تھا ٹیپ ریکارڈر وغیرہ اس کے اوپر لگائے ہوتے تھے.شور پڑا ہوتا تھا اور وہ گانا یہ تھا اس کے ایک دو مصرعے صرف مجھے یاد ہیں کہ : Come Mr Tally man tell me Banana

Page 524

خطبات طاہر جلد ۸ 519 خطبه جمعه ۴ راگست ۱۹۸۹ء Day light come and I want to go home.Tally کرنا دراصل کسی چیز کو قسطوں پر فروخت کرنے کو کہتے ہیں.اگر کوئی تاجر اپنا مال تھوڑ اسا کسی کو دے دے اور کہے کہ کما کر ہفتہ وار یا ماہانہ مجھے اس کی قیمت ادا کرو تو اس کو ٹیلی کرنا کہتے ہیں اور ٹیلی کا ایک حسابی لفظ بھی ہے یہاں وہ معنی نہیں ہیں اور جب وہ خریدتا ہے تو اس وقت پیسے نہیں دیتا لیتا جب وہ کماتا ہے تو پھر لیتا ہے.تو غالبا وہاں رواج یہ تھا کہ ویسٹ انڈیز میں کہ کیلوں کے مالک مزدوروں کو بلایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ تم سے جتنے کیلے توڑے جاتے ہیں تو ڑ لو اور پھر ان کا نکلتے وقت ٹیلی مین کو حساب دو اور جاؤ بیچو اور پھر کما کر اس کے پیسے واپس کرو.تو یہ کام غالبا رات کو ہوتا تھا کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اوٹیلی مین ! آؤ اور میرا حساب کر لو کیونکہ رات گزر چکی ہے صبح طلوع ہورہی ہے اور میں گھر جانا چاہتا ہوں.یہ احساس میرے لئے اور بہت سے احساسات کو پیدا کرنے کا موجب بن گیا.میں نے سوچا کہ میں تو گھر جانا چاہتا ہوں میرے بہت سے اسیران راہ مولا ہیں وہ بھی گھر جانا چاہتے ہیں.میرا سفر تو تھوڑا ہے اور ان کو مدتیں گزر گئیں وہ خدا کی راہ میں قید ہیں اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے.بہت سے ایسے ہیں جو ان آسمانی ابتلاؤں میں اور زمینی مصیبتوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی اختیار نہیں.تو وہ جو میرا دل کا شوق تھا کہ صبح ہو گئی آؤ واپس چلیں وہ ان کے لئے دعاؤں میں بدل گیا.میں نے کہا اے خدا! ان کی بھی صبح کر ان کی راتیں لمبی ہوگئی ہیں کیونکہ جب تک ان کی صبح نہ آئے ہمارے لئے بھی کوئی صبح طلوع نہیں ہو سکتی.ایک غیر مسلم مصنف نے جماعت احمدیہ کے حالات کے متعلق اور عقائد کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے اس میں اس نے یہ لکھا ہے کہ ضیاء الحق کے ظالمانہ آرڈینینس کے ذریعے جس میں اس نے علماء کے شدید ترین مطالبات میں سے اکثر قبول کر لئے ایک احمدی کی روز مرہ کی زندگی جرم بن چکی ہے.مجھے خیال آیا کہ اس کی نظر تو صرف ظاہر پر وہاں جا کے ٹھہری ہے اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس واقعہ سے دنیا بھر کے احمدیوں کی زندگی وہاں کے قانون نے جرم بنادی ہے کیونکہ وہ معصوم پاکستان میں بسنے والے جن کی زندگی وہاں کے قانون نے جرم بنادی ہے، پاکستان سے باہر بسنے والے احمدی اپنی آزادی کو جرم سمجھنے لگے ہیں.ان کی روز مرہ کی زندگی ایک اور قسم کا جرم بن چکی ہے.

Page 525

خطبات طاہر جلد ۸ 520 خطبه جمعه ۲۴ راگست ۱۹۸۹ء.نہایت درجہ عذاب میں اور تکلیف میں دن گزارتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بھائیوں کے دکھ سے الگ زندگی بسر نہیں کر سکتے.یہ کیسا واقعہ ہے کہ ایک ملک میں ظلم ہوا اور ساری دنیا کی جماعتوں میں ان کی زندگی کی طرح ان کی اپنی زندگیاں بھی جرم بن گئیں.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک معجزہ ہے ، یہ بھی ایک صداقت کا عظیم الشان نشان ہے.آج کی مادہ پرستی کے دور میں، آج کے نفسانفسی کے عالم میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ایک ایسی جماعت پیدا ہوسکتی ہے کہ ایک ملک کا دکھ ایک سو ہیں ممالک میں محسوس کیا جائے اور ہر ایک اپنے بھائی کے دل کا دکھ اپنے دل کا دکھ بنالے اور اس کی آزادی سے محرومی اس کی اپنی زندگی سے آزادیوں سے محرومی بن جائے.پس اس خیال کے آتے ہوئے میرا اپنا خیال کہ میں جلدی واپس جاؤں وہ سب غائب ہو گیا اور ساری توجہ اپنے معصوم بھائیوں کی طرف منتقل ہو گئی.پس میں آپ سے بھی یہ درخواست کرتا ہوں کہ یہ سال خاص سال ہے ابتلاؤں کا بھی خاص سال ہے اور انشاء اللہ خدا کی طرف سے جزاؤں کا بھی خاص سال بنے والا ہے.اگر آپ صبر سے کام لیں اور خدا کی رضا پر راضی رہیں اور شکوہ زبان پر نہ لائیں اور دل میں بھی پیدا نہ ہونے دیں اس کی جزا ئیں اور اس کی برکتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی.سوسال تک آگے آنے والی دنیا آپ کے صبر کے پھل کھائے گی.ہمت سے اس پر قائم رہیں اور خدا کی رضا پر ہمیشہ نظر رکھیں اور خدا کی رضا پر نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کے دکھوں کو خدا کی رضا کی خاطر نظر انداز کرتے چلے جائیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.سندھ سے ابھی دو تین دن پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب قاضی احمد کی شہادت کی بھی اطلاع ملی تھی.وہ بہت ہی بزرگ نیک سیرت انسان تھے بڑے مخلص، فدائی ، منکسر المزاج اور بڑے بہادر اور سارے علاقے میں بڑا نیک اثر رکھنے والے تھے.ان کی نماز جنازہ تو ادا ہو چکی ہے ان کو ویسے میں خطبہ میں تحریک کرتا ہوں کہ جماعت اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے ان کو اور ان کے پسماندگان کو یادر کھے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا:.جلسے کے خصوصی مہمان جو یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں ان کی کثرت ہے اور انہوں نے واپس اپنے گھروں کو جانا ہو گا اس لئے آج جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نما ز جمع ہوگی.

Page 526

خطبات طاہر جلد ۸ 521 خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء اپنے دل سے غیر اللہ کے نقش کو مٹائیں اور توحید خالص کو جگہ دیں تب ہی ہم تمام عالم کو امت واحدہ بنا سکتے ہیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۱ را گست ۱۹۸۹ء بمقام اسلام آباد ٹیلفورڈ، برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جماعت احمد یہ جس دوسری صدی میں داخل ہوئی ہے ابھی اس کا پہلا سال گزر رہا ہے اور جماعت احمدیہ کے لئے دوسری صدی کا ایک لمبا سفر سامنے کھلا پڑا ہے.چونکہ یہ جلسہ سالانہ جس میں آج ہم شریک ہورہے ہیں ایک پہلو سے خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے میں نے اس صدی کے سب سے اہم جلسہ سالانہ کے خطبہ کے موضوع کے طور پر تقویٰ کو چنا ہے.اگر چہ یہ کہنا ابھی شاید درست نہ ہو کہ یہ جلسہ اس صدی کا سب سے اہم جلسہ ہے کیونکہ اگر ہمیں توفیق عطا ہوئی اور قادیان میں ہم اس سال جلسہ منا سکے جس کا بہت حد تک انحصار پاکستان کے حالات سدھرنے پر ہے تو پھر یقینا وہی وہ جلسہ ہو گا جو اس صدی کا یا اس صدی کے سر پر سب سے اہم جلسہ ہو گا.تاہم اس کے امکانات فی الوقت روشن نہیں یعنی پاکستان میں حالات تبدیل ہوتے ہوئے بظاہر دکھائی نہیں دے رہے اس لئے اگر قادیان میں ہمارا وہ جلسہ جس کی ہمیں تمنا ہے نہ ہو سکا تو یقیناً یہی جلسہ اس صدی کے سر پر سب سے اہم جلسہ شمار ہوگا.تقویٰ کا مضمون میں نے اس لئے چنا ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب سفر پر چلو تو زادراہ ساتھ لے کر چلا کرو.خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى (البقرہ:۱۹۸) اور تقویٰ بہترین زادراہ ہے.پس چونکہ ہم نے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں نے اس صدی میں جو ہمارے سامنے کھلے

Page 527

خطبات طاہر جلد ۸ 522 خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء ہوئے راستے کی طرح پڑی ہے بہت لمبے سفر کرنے ہیں بہت سی مسافتیں طے کرنی ہیں، بہت سی منازل سر کرنی ہیں اس لئے میں جماعت کو اس موقع پر خوب اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کروا دینا چاہتا ہوں کہ تقویٰ کے زادراہ کے سوا ہم ایک قدم بھی منزل کی طرف نہیں بڑھ سکتے.زادراہ مختلف قسم کے ہوا کرتے ہیں بعض کی ضرورت چوبیس گھنٹے میں دو یا تین دفعہ پیش آتی ہے.بعض کی ضرورت نسبتاً زیادہ جلدی یعنی پانی یا اسی قسم کے دوسری مائع غذا ئیں نسبتاً زیادہ جلدی استعمال کرنی پڑتی ہیں لیکن زاد میں وہ ہوا بھی تو ہے جس کے بغیر ایک پل بھی انسان کا گزارہ نہیں.پس تقویٰ کا زادراہ ان تمام قسم کی ضرورتوں پر حاوی ہے اور تقویٰ کے بغیر نہ صرف سفر آگے نہیں بڑھ سکتا بلکہ انسانی زندگی کا کلیۃ انحصار ہی تقویٰ پر ہے اس لئے ایک سانس بھی ہم تقویٰ کے بغیر لے نہیں سکتے.تقویٰ کا مضمون جیسا کہ میں پہلے بارہا اس پر روشنی ڈال چکا ہوں بہت ہی وسیع اور تفصیلی مضمون ہے لیکن آج اس پہلو سے میں آپ کے سامنے تقویٰ کا مضمون رکھنا چاہتا ہوں کہ تقویٰ اور توحید در حقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور توحید خالص ہی ہے جو تمام تقویٰ کے مضامین پر حاوی ہے اور اس سے باہر تقویٰ کی کوئی شاخ نہیں ملتی.پس توحید خالص کے قیام کے لئے یہ صدی ہمارے سامنے کھڑی ہے اور تمام دنیا میں جب ہم اسلام کے غلبہ کا نام لیتے ہیں تو در حقیقت ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تو حید خالص کو تمام دنیا میں غالب کریں گے اور یہ مضمون اگر چہ بظاہر آسان اور فورا سمجھ میں آنے والا مضمون ہے لیکن جب اس پر آپ مزید غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ بہت ہی گہر ا مضمون ہے اور اس کے بھی بے انتہا پہلو ہیں.آج کے خطاب کے لئے میں نے ایک ایسا پہلو چنا ہے جس کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے.ایک سادہ سا دو مصرعوں کا شعر ہے جس میں ایک بہت ہی گہری عرفان کی بات فرما دی گئی ہے جس سے تقویٰ کے اور توحید کے مضمون کو سمجھنے میں بے حد آسانی ہو جاتی ہے اور حقیقت میں بہت سے مضامین کے نئے میدان آنکھوں کے سامنے کھل جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی سر جھکا بس مالک ارض و سماء کے سامنے ( در متین صفحه: ۱۵۷)

Page 528

خطبات طاہر جلد ۸ 523 خطبه جمعه اراگست ۱۹۸۹ء تقویٰ کا یا توحید کا یہ مضمون بہت کم آپ نے بیان ہوتے ہوئے سنا ہوگا یا کسی کی تحریر میں پڑھا ہو گا لیکن نظم کے ایک شعر میں یعنی دو مصرعوں میں آپ نے اس مضمون کو بڑی عمدگی اور وضاحت کے ساتھ کھول کر بیان فرما دیا.توحید سے مراد یہ نہیں کہ ہم یہ دعوی کریں کہ خدا ایک ہے بلکہ حقیقت میں قلب پر جب تک نقش تو حید ثبت نہ ہو جائے اس وقت تک زبان سے تو حید کا دعوی کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور وہ قومیں جنہوں نے تمام دنیا میں توحید کے غلبہ کا عزم باندھا ہو اور یہ فیصلہ کیا ہو کہ توحید کے غلبہ کے لئے دنیا کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ کی وحدت کے جھنڈے گاڑ دیں گے ان قوموں کا زبانی دعوی کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتا جب تک وہ خود موحد نہ بن چکی ہوں اور موحد بننے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ نسخہ بہترین نسخہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسا نسخہ ہے جس کے سوا چارہ کوئی نہیں.ناممکن ہے کہ اس نسخے کو نظر انداز کر کے کوئی حقیقی معنوں میں موحد بن سکے.آپ فرماتے ہیں: چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی تمہیں چاہئے کہ تم اپنے دل سے دوئی کا نقش مٹا ڈالو.اس کے بغیر تم خدا کی وحدانیت کو نہ سمجھ سکتے ہو نہ اس سے استفادہ کر سکتے ہو.یہ نقش دوئی کیا چیز ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے دو تین ایسے نکات میرے سامنے آئے جو میں آج آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.اس کے دوسرے مصرعے میں دراصل نقش دوئی کی کچھ تشریح خود فرما دی یعنی شعر کے دوسرے مصرعے میں.آپ فرماتے ہیں:.سر جھکا بس مالک ارض و سماء کے سامنے که زمین و آسمان بظاہر دو حقیقتیں دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کا ایک ہی مالک ہے اور یہی توحید خالص ہے کہ زمین کی طاقتوں کو خدا کی آسمانی طاقتوں سے جدا نہ سمجھا جائے اور سر جھکانے کے لئے دو الگ الگ آستان نہ ہوں.ایک زمین کا آستان جو کسی اور کے سامنے سر جھکا رہا ہو اور ایک آسمان کا.آستان جو خدائے واحد کے سامنے سر جھکا رہا ہو یا درکھو کہ دونوں کا مالک ایک ہے.پس اگر نقش دوئی کو مٹانا ہے تو زمین اور آسمان کے فرق کو مٹانا ہوگا.وہی خدا جو آسمان پر ہے وہی زمین کا خدا بنانا ہوگا یعنی اپنے لئے بنانا ہوگا اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی.

Page 529

خطبات طاہر جلد ۸ 524 خطبه جمعها الراگست ۱۹۸۹ء پس نقش دوئی کی پہلی منزل یا نقش دوئی کا مٹانے کا پہلا قدم کہنا چاہئے وہ آسمان اور زمین کے لئے خدائے واحد کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا ہے.جب آپ نے سر جھکانے کا محاورہ استعمال فرمایا تو اس میں عبادتیں بھی آگئیں اور حاکمیت کا مضمون بھی آگیا.یہ درست ہے کہ دنیا میں کم لوگ ہیں جو انسانوں کی عبادت کرتے ہیں وہ قو میں بھی درحقیقت جو کسی زمانے میں انسانی عبادت کے عقائد رکھتی تھیں اب انسانی عبادت کے تصور سے متنفر ہو چکی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک سر جھکانے کا تعلق ہے یہ نہ صرف ظاہر میں موجود ہے جو ایک رسم ہے جس کی دراصل کوئی حقیقت نہیں بلکہ باطن میں، انسان اپنے تعلقات کے دائرے میں اس کثرت کے ساتھ انسان کے سامنے سر جھکاتا ہے کہ مالک ارض و سماء کے درمیان ایک تفریق کر دیتا ہے.ایک سروہ رکوع میں اور سجدے میں جھکاتا ہے جو مالک سماء کے سامنے جھکاتا ہے اور ایک سروہ زمینی طاقتوں کے سامنے جھکاتا ہے جو مالک زمین کے سامنے جھکاتا ہے جو خدا نہیں ہوتا.اس تفریق کو دور کرنا موحد کا کام ہے اور یہ پہلا جہاد ہے جو جماعت احمدیہ کو اپنے نفسوں سے شروع کرنا ہوگا.جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ تو حید خالص پر قائم ہے لیکن یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کو بار بار سمجھانے کی ضرورت ہے اور سمجھانے کے بعد اس کی نگرانی کی ضرورت ہے کہ اس مضمون کو سمجھنے والے اس پر کلی عمل پیرا ہیں؟ پاکستان میں جو حالات گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں ان حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف اس مضمون کو بجھتی ہے بلکہ ہر غیر اللہ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر چکی ہے اور اس انکار کی جماعت احمدیہ کو بڑی بھاری دنیاوی قیمتیں ادا کرنی پڑی ہیں اور آج بھی وہ قیمتیں ادا کرتی چلی جارہی ہے.پس در حقیقت اس پہلو سے آپ تمام دنیا کی مذہبی جماعتوں کا جائزہ لے کر دیکھیں آپ کو جماعت احمدیہ کے سوا کوئی ایسی جماعت نہیں نظر آئے گی جو تو حید خالص پر عمل پیرا ہونے کی قیمت ادا کر رہی ہو اور مسلسل بڑی بہادری کے ساتھ تمام غیر اللہ کی طاقتوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے یہ توحید خالص کی خاطر قربانیاں دیتی چلی جا رہی ہو.پس یہ وہ آغاز ہے ہماری صدی کا میں یہ چاہتا ہوں، میری یہ تمنا ہے کہ یہی اس صدی کا انجام بھی ہو اور مسلسل آغاز سے انجام تک

Page 530

خطبات طاہر جلد ۸ 525 جماعت احمد یہ نقش دوئی کو مٹانے والی ہو اور تو حید خالص پر قائم رہنے والی ہو.خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء امر واقعہ یہ ہے کہ انسان جب اپنے نفس کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لیتا ہے تو پھر بعض اور ایسے ہلکے نقش بھی دکھائی دینے لگتے ہیں جن میں دوئی کے نشان ملتے ہیں.اب یہ جو دوسرا پہلو ہے اس کی طرف میں جماعت کو خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں.نقش دوئی مٹانے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ جب کھلم کھلا لا اله الا اللہ سے تعلق توڑنے پر مجبور کیا جائے تو ہر قربانی دے کر بھی اس تعلق کو قائم رکھا جائے بلکہ اس کے اور بہت سے بے شمار پہلو ہیں ان پہلوؤں میں جماعت میں یکسانیت نہیں ہے.بعض مختلف معیار پر کھڑے ہیں بعض کوئی اور مختلف معیار پر کھڑے ہیں بعض اعلیٰ پائے کے موحد ہیں بعض نسبتا ادنیٰ درجہ کے موحد ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو بغیر شعور کے بعض جگہ ٹھوکریں کھاتے ہیں اور توحید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں.میری مراد یہ ہے کہ جب آپ روزانہ اپنے دل کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کے ہر اہم موڑ پر جہاں آپ نے بعض زندگی کے اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں وہاں کیا توحید خالص آپ کے فیصلے پر نگران اور حکمران ہوتی ہے یا آپ کی دل کی ایسی تمنائیں جو خدا کے سوا لبعض قوتوں سے متاثر ہوتی ہیں آپ کے فیصلوں پر حکمران ہو جایا کرتی ہیں.یہ وہ مسئلہ ہے جس کا آپ جس قدر تفصیل سے جائزہ لیں اسی قدر یہ مضمون آپ پر مزید کھلتا چلا جائے گا اور بعض مقامات پر انسان یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ شاید کوئی بھی دنیا میں موحد خالص نہیں ہے.چھوٹے چھوٹے بت ہر انسان کے سینے میں بسے ہوئے ہیں.چھوٹے چھوٹے خوف غیر اللہ کے انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے چلے جاتے ہیں.خوف بذات خود شرک نہیں لیکن وہ خوف جو خدا کے خوف سے ٹکراتا ہے اور اس ٹکرانے کے وقت خدا کے خوف کو منہدم کر دیتا ہے اور خود غالب آجاتا ہے یہ وہ خوف ہے جو تو حید خالص کے خلاف ہے بلکہ اس خوف کے غلبہ کے ساتھ انسان کی زندگی پر شرک کے دروازے کھل جاتے ہیں.دنیا میں بہت سی تو میں ہیں جو سچائی کو پانے سے محض اس لئے محروم رہیں کہ ان کے سینے میں چھپے ہوئے شرک کے بت موجود ہیں.بسا اوقات مجھے پاکستان سے ایسے خطوط ملتے ہیں کہ لکھنے والا لکھتا ہے کہ میں غیر احمدی ہوں.میرے دل میں جماعت احمدیہ کی سچائی جاگزیں ہو چکی ہے لیکن میں ماحول سے ڈرتا ہوں اور مجھ میں وہ طاقت نہیں کہ میں کھل کر اپنے

Page 531

خطبات طاہر جلد ۸ 526 خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء عقیدے کا اظہار کر سکوں.اور بعض مجھے یہ بھی لکھتے ہیں کہ کثرت کے ساتھ ایسے لوگ پاکستان میں ہر جگہ موجود ہیں جو موجودہ مشکلات کے باعث کھل کر جماعت احمدیہ کی حمایت نہیں کر سکتے مگر ان کا دل جماعت کے ساتھ ہے اور جماعت کی سچائی پر مطمئن ہے.یہ سارے وہ لوگ ہیں جو اپنے ماحول میں سے نسبتاً زیادہ بچے ہیں، زیادہ صاحب بصیرت ہیں کیونکہ انہوں نے جھوٹ کے غلبہ اور جھوٹے پروپیگنڈے کے غلبہ کے باوجود سچائی کو دیکھ لیا اور سچائی کی صداقت کا کم سے کم مخفی طور پر اظہار کرنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن چونکہ نقش دوئی دل سے نہیں مٹ سکا اس لئے ہدایت سے محروم رہ گئے.امر واقعہ یہ ہے کہ نقش دوئی مٹائے بغیر کوئی ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی.اسی لئے قرآن کریم نے آغا ز ہی میں تقویٰ کی یہ تعریف فرما دی کہ تقویٰ کے بغیر قرآن کریم بھی کسی کے لئے کوئی ہدایت مہیا نہیں کر سکتا.ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ في (البقرہ:۳) کوئی شک نہیں اس کتاب میں کہ یہ وہی کامل اور عظیم کتا ب ہے جس کے وعدے دیئے گئے تھے جس کی امتیں انتظار کر رہی تھیں مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ متقیوں کے سوا کوئی اس ہدایت سے استفادہ نہیں کر سکتا.اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.پس و متقی کون ہیں؟ وہی جن کے دل سے نقش دوئی مٹ جاتے ہیں اور ایسے لوگ صرف اسلام میں ہی نہیں باہر کی دنیا میں بھی کثرت سے ملتے ہیں بلکہ بعض ایسی تو میں میں نے دیکھی ہیں جن میں اگر چہ ابھی اسلام نہیں آیا تھا مگر ان کے دل میں توحید موجود ہے اور بہت کم نقش دوئی ان کے دلوں پر پایا جاتا ہے.ایسی قومیں دراصل اسلام کی راہ دیکھ رہی ہیں اسلام کا نقش جمنے کی دیر ہے وہ کامل مسلمان کے طور پر دنیا میں ظاہر ہونے والے ہیں اور اس مضمون پر میں انشاء اللہ تعالیٰ بعد میں کسی وقت روشنی ڈالوں گا لیکن بہر حال یہ خیال کر لینا کہ توحید خالص اسلام کی ان معنوں میں اجارہ داری ہے کہ مسلمانوں کے سوا تو حید خالص کہیں نہیں ملتی یہ درست نہیں ہے.اگر آپ کثرت سے مسلمان دنیا کا جائزہ لیں تو آپ کو یہ دیکھ کر ، یہ محسوس کر کے شدید دھچکا لگے گا کہ بہت سے مسلمان ممالک کی اکثر آبادیاں توحید خالص سے عاری اور محروم ہیں اور بہت سے دنیا کے بت ہیں جو ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے چلے جاتے ہیں اور حاکم کی طرف ان کی نگاہ رہتی ہے اور دولتمند کی طرف ان کی نگاہ رہتی ہے ان مفادات کی طرف نگاہ رہتی ہے جو سیاست سے

Page 532

خطبات طاہر جلد ۸ 527 خطبه جمعه اار اگست ۱۹۸۹ء وابستہ ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کے بھاری بلکہ بھاری اکثریت کے فیصلے خدا کی خاطر نہیں بلکہ دنیا طلبی کی خاطر ہوتے ہیں.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ فرمایا کہ: چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی تو تو حید خالص کے مضمون کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا اور یہ بتایا کہ یہ جنگ ایسی نہیں جو آسانی سے جیتی جا سکے بلکہ مسلسل اپنے دل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ اس بات کی نگرانی کی ضرورت ہے کہ غیر اللہ کے نقش کچھ باقی تو نہیں رہ گئے.یا کوئی نئے نقش تو نہیں ہیں غیر اللہ کے جواب دل پر قائم ہوتے چلے جارہے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک اگر اس نظر سے اپنے دل کا جائزہ لے گا تو اسے ضرور کوئی نہ کوئی نقش دوئی دکھائی دینے لگے گا.صرف وہی لوگ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دل نقش دوئی سے پاک ہو چکے ہیں جن کو یا خدا تعالیٰ اس بات سے خبر دے اور اطمینان دلائے کہ تیرا دل خدا کے سوا اب کسی اور کا نہیں رہا یا وہ بے وقوف ہیں اور وہ دھندلائی ہوئی نظر رکھنے والے لوگ ہیں جن کو خود اپنے دل کی بھی خبر نہیں ہوتی.اس کے سوا تیسری کوئی قسم میرے علم میں نہیں.نقش دوئی مٹتے مٹتے بھی بہت وقت لگا کرتا ہے، عمر گزر جاتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نہ بتائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ رعونت سے پاک ہو اور خود اپنے متعلق یہ اعلان نہ کرے اور وہ نقش دوئی کو مٹاتے مٹاتے تو حید خالص کے قریب پہنچ چکا ہو یہ تو ممکن ہے مگر خدا سے علم پانے کے بغیر کسی کا یہ دعوی کرنا کہ میں توحید خالص پر قائم ہو چکا ہوں اور ہر غیر اللہ کانقش میرے دل سے مٹ چکا ہے یہ سراسر جھوٹ ہے اور تکبر کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.پس اپنے آپ کو اس پہلو سے نقش دوئی سے پاک نہ سمجھیں.صرف ایک دن اگر آپ تفصیل سے اپنے دلوں کا معائنہ کریں اور نگرانی کریں تو آپ کو بار ہا نقش دوئی اٹھتے ہوئے دکھائی دیں گے یا جمتے ہوئے دکھائی دیں گے اگر آپ ان کو نظر انداز نہیں کرتے تو پھر وہ نقش کے طور پر دل پر رہ جائیں گے اور یہ نقش ہلکے بھی ہوتے ہیں اور گہرے بھی ہوتے ہیں.جولوگ بار بار خدا کے سوا دوسری طاقتوں کے سامنے سر جھکا کر فیصلے کرنے کے عادی بن جاتے ہیں ان کے یہ نقوش گہرے بنتے بنتے ان کی زندگی کا جزو بن جاتے ہیں اور پھر وہ فساد کی راہوں میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں

Page 533

خطبات طاہر جلد ۸ 528 خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء اور دن بدن پہلے سے بڑھ کر گناہ گار ہوتے چلے جاتے ہیں.پس اس خیال سے کہ ہم چونکہ تو حید خالص کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں ہرگز اس غلط منہمی میں مبتلا نہ ہوں آپ نے بہت عظیم الشان ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور جب تک احمدیوں کی بھاری اکثریت اپنے دلوں سے نقش دوئی مٹانے پر مستعد نہ ہو جائے اور مسلسل اس کے اس نقش دوئی کے خلاف جہاد نہ شروع کرے اس وقت تک ہم اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے اہل نہیں بن سکتے کہ تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کریں.ایک اور پہلو نقش دوئی کو مٹانے کا ہے وہ ہے ظاہر اور باطن کا ایک ہونا.پہلی بات کا تعلق اس بات سے تھا کہ جو خدا آسمان کا ہے اس کو زمین کا خدا بھی سمجھا جائے اور کامل یقین کیا جائے کہ اس سے روگردانی کر کے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے اور اس کی طرف دوڑے بغیر کسی خوف سے امن میں نہیں آسکتے اور دنیا کے خوف کو خدا کے خوف کے سامنے بے حقیقت سمجھا جائے یہاں تک کہ دنیا کا خوف اگر سر پر چڑھ بھی دوڑے تب بھی انسان اس کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دے.یہ تو حید خالص کا ایک پہلو ہے کہ نقش دوئی کو مٹانے کا ایک طریق ہے.دوسرا یہ ہے کہ اپنے ظاہر و باطن کو ایک کرے.یہ مضمون بھی بڑی تفصیل کے ساتھ توجہ کا محتاج ہے.ظاہر و باطن کو ایک کرنا بعض دفعہ غلط بھی ہو سکتا ہے بعض دفعہ اچھا بھی ہو سکتا ہے اس لئے محض یہ کہ دینا کہ کسی کا ظاہر و باطن ایک ہے یہ کافی نہیں.بعض لوگ بڑے بدصورت ہوتے ہیں بیچارے، ان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اپنی صورت پر لیکن اس کے باوجود اس سے انکار نہیں کہ بدصورت ہوتے ہیں ان کو اگر کہا جائے کہ تمہارا ظاہر و باطن ایک ہے تو یہ تو کوئی تعریف نہیں ہوگی.ہاں اگر کسی حسین شخص کو جس کا ظاہری حسن اگر کامل نہیں تو درجہ کمال کے قریب تر پہنچا ہو اس کو اگر یہ کہا جائے کہ تمہارا ظاہر و باطن ایک ہے تو یقینا ایک بہت بڑی تعریف ہے.پس نقش دوئی مٹانا صرف یہ معنی نہیں رکھتا کہ ظاہر و باطن ایک ہو جائے بلکہ ظاہر و باطن کے حسن کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اس مضمون کو اسلامی اصطلاح میں سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے انسان خدا کے تصور کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے مضمون کو سمجھے اور

Page 534

خطبات طاہر جلد ۸ 529 خطبه جمعه ا ار اگست ۱۹۸۹ء نقش دوئی مٹانے کی یہ دوسری منزل ہے جس کے بغیر ظاہر و باطن ایک کرنا بے معنی ہو جاتا ہے.جب آپ خالص خدا کے ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ کا نقش دل میں جمانا شروع کریں اور غیر اللہ کے نقوش کو ان معنوں میں مٹانا شروع کریں کہ آپ کی عادتیں ، آپ کی سوچیں ، آپ کی زندگی کا اٹھنا بیٹھنا آپ کا سونا جاگنا ، آپ کا زندہ ہونا اور مرنا سب کچھ خدا کے لئے ہو جائے اور آپ کے دل پر کامل خدا کا نقش جم جائے.یہ وہ دوسری منزل ہے نقش دوئی کو مٹانے کی پھر اس کو ظاہر و باطن ایک کرنے میں تبدیل کیا جائے.یہاں یہ حرکت باہر سے اندر کی طرف نہیں چلتی بلکہ اندر سے باہر کی طرف چلتی ہے.جب دلوں پر خدا کے نقش جم جاتے ہیں تو وہ خدا انسان کی اداؤں میں اس کی حرکتوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے.اس کی نگاہوں میں خدا دکھائی دینے لگتا ہے.اس کی بول چال میں خدا کی ادائیں آجاتی ہیں اور یہ مضمون وہ ہے جو اندر سے پھوٹ رہا ہوتا ہے اور انسان کے ظاہر کو اندر کے مطابق بنا رہا ہوتا ہے ورنہ وہ دوسرا رخ بہت ہی خطرناک ہے جو باہر سے شروع ہو اور اندر کی طرف حرکت کرے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایک دکھاوے والا جانور ہے.انسان کی فطرت میں دکھاوا اور نفس پرستی اس حد تک داخل ہیں کہ اپنے ظاہر کو وہ ہمیشہ دنیا کے سامنے ٹھیک کر کے دکھانے کی کوشش ضرور کرتا ہے.سوائے ان بعض بد بختوں کے جو جرم کرتے کرتے ڈھیٹ ہو چکے ہوتے ہیں جن کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں رہتی کہ دنیا ہمیں کیا دیکھ رہی ہے، کیا سمجھ رہی ہے.ان بدبختوں کے سوا جہاں تک انسانی سوسائٹی کا تعلق ہے خواہ وہ شمال کی ہو یا جنوب کی ہو ،مشرق کی ہو یا مغرب کی ہو آپ کو تمام انسانوں میں یہ قدر مشترک دکھائی دے گی کہ وہ سب کے سب اپنے ظاہر کو درست کر کے دکھانے کی کوشش کریں گے.وہ مصنوعی حسن جو کوشش سے بنایا جاتا ہے اگر اس کا نقش دل پر جسے تو دل میں کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ظاہری حسن ہے ایک سطحی چیز ہے جو دل کی سطح پر تو قائم ہوسکتی ہے اس کے اندر ایک حسین گہرا نقش بن کر جم نہیں سکتی.پس اس پہلو سے یا درکھیں کہ نقش دوئی کو مٹانے کا جہاد دل سے شروع ہوگا اور دل میں خدا کے نقش جمانے پڑیں گے غالباً اسی قسم کا مضمون کسی بزرگ صوفی کو سوجھا اور اس کے نتیجے میں نقش بندی فرقہ پیدا ہوا جو صوفیا کا ایک فرقہ ہے لیکن انہوں نے ایک ٹھوکر کھائی.انہوں نے یہ خیال کیا کہ خدا کا تصور تو پوری طرح دل میں جم نہیں سکتا ہاں شیخ کا تصور دل میں جم سکتا ہے اور وہ شیخ جو

Page 535

خطبات طاہر جلد ۸ 530 خطبه جمعه ا ار اگست ۱۹۸۹ء خدا کا مظہر ہواگر اس کا تصور دل پہ جمایا جائے تو گویا یہ خدا کا تصور جمانے والی بات ہوگی.اس بظاہر نیک خیال سے ایک فرقے کا آغاز ہوا جو دراصل حقیقت سے بہت دور جا پڑا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ظاہر کو خدا کا ظاہر قرار دینا اس نیک نیتی کی بنا پر یا اس حسن ظنی کی بنا پر کہ وہ شخص خدا والا ہے یہ درست نہیں ہے.حقیقت میں حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے سوا کسی شخص کے متعلق کامل یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا ظاہر خدا کا مظہر بن چکا ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ کی پیروی کا مضمون تو سمجھ آجاتا ہے لیکن شیخ کا نقش دل میں جمانے کا مضمون انسان کو سمجھ نہیں آسکتا اور یہ بے حقیقت بات ہے.قرآن کریم میں کسی شیخ کے تصور کو دل میں جمانے کا کوئی مضمون نہیں باندھا گیا.آنحضرت ﷺ کو کامل طور پر مظہر خدا بتلاتے ہوئے بھی آپ کی پیروی کی تلقین تو فرمائی لیکن آپ کا نقش دل میں جمانے کا کوئی مضمون قرآن کریم میں بیان نہیں ہوا ہاں ذکر اللہ کا مضمون بیان ہوا اور کثرت کے ساتھ بیان ہوا یہ فرمایا گیا کہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو دن رات سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے صبح اور شام خدا کو یاد کرتے ہیں اور خدا کے ذکر اپنے دلوں پہ جماتے ہیں مگر کسی انسان کے ذکر کو دل پر جمانے کا کوئی مضمون آپ کو قرآن کریم میں نہیں ملے گا.پس اس پہلو سے نقش دوئی مٹانے کا مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دل سے شروع ہو گا اور خدا کا نقش دل پہ جمانا ہو گا کسی استاد کا نقش دل میں جمانے کی نہ ضرورت ہے نہ یہ نقش جمانا آپ کو فائدہ دے سکتا ہے.سچی پیروی اور بات ہے.اس کا دل پر نقش جمانے سے تعلق نہیں ہے بلکہ سچی پیروی کا مضمون بتا رہا ہے کہ خدا کے سوا کسی کا نقش دل پر نہیں جانا.جب قرآن کریم فرماتا ہے: اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران:۳۲) تو اس مضمون کو خوب کھول دیا کہ خدا سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں سے کہہ دے کہ اگر تم اپنے دعوئی میں بچے ہو تو صد الله چونکہ میں سب سے زیادہ سچی محبت کرنے والا ہوں اس لئے میری پیروی کرو اور آنحضرت ﷺ نے خدا کے سوا کسی کا نقش اپنے دل پر نہیں جمایا.پس یہ پیروی کا مضمون بتارہا ہے کہ غیر اللہ کانقش دل میں جمانامشرکانہ بات ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.پس خدا کا نقش اپنے دل پر جمائیں اور اس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے.قرآن کریم

Page 536

خطبات طاہر جلد ۸ 531 خطبه جمعه ا ار ا گست ۱۹۸۹ء خدا تعالیٰ کی صفات کے مضمون سے بھرا ہوا ہے اور صفات باری تعالیٰ کے مضمون پر غور کرتے ہوئے اس کو اپنے دل میں جاگزیں کرنے کی کوشش کریں اور یہ سوچتے رہیں کہ کس حد تک آپ خدا کی صفات کے قریب تر ہو چکے ہیں اور یہ مضمون اگر چہ بہت وسیع ہے لیکن ہر انسان اپنی توفیق کے مطابق روزانہ اس پر عمل کر سکتا ہے اور ایسا مضمون ہے جو اپنے درجہ کمال تک پہنچے ہونے کی وجہ سے آپ کو مایوس کر دے اور آپ کی ہمت تو ڑ دے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خدا کی طرف سفر کر سکوں.خدا تعالیٰ کی طرف سفر ہر روز ہوتا ہے اور قدم قدم ہوتا ہے اور ہر قدم اٹھانے کے نتیجے میں خدا تعالیٰ آپ سے اتنازیادہ قریب آتا چلا جاتا ہے کہ آپ کی منزلیں چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہیں.میں نے پہلے بھی یہ مضمون ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ کھول کر بیان کیا ہے مگر یہ ایسا مضمون ہے جسے بار بار جماعت کے سامنے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے.آپ خدا کی طرف جو حرکت کرتے ہیں تو جب تک خدا آپ کی طرف حرکت نہ کرے آپ کچھ بھی پانہیں سکتے.کیونکہ محدود کی حرکت نہ لا محدود کی طرف کوئی حقیقت نہیں رکھتی جب تک لا محدود محدود کی طرف حرکت نہ کرے.پس چاہے خدا تعالیٰ کے عرفان کا مضمون ہو یا اس کی صفات کو اپنانے کا مضمون ہو جب آپ یہ کوشش کریں گے کہ خدا کی طرف کوئی قدم اٹھائیں تو اللہ تعالیٰ خود آپ کی کوششوں کو آسان فرمادے گا اور خود آپ کی طرف جھک جائے گا اور خدا کے نقش بڑی تیزی کے ساتھ آپ کے دل پر جمنے شروع ہو جائیں گے.اب خدا کا نقش جمانے کا مضمون آسان بہت ہے لیکن مشکل بھی بہت ہے.قدم قدم پر آپ کے سامنے غیر اللہ کے بت کھڑے ہو جائیں گے اور اپنے نقش مٹانے پر احتجاج کریں گے.ہر احتجاج پر آپ کو تکلیف محسوس ہوگی.ایک صداقت کا مضمون ہی ہے.کتنے ہم میں سے ایسے ہیں جو بیچ پر قائم ہیں اور بیچ کی باریکیوں پر قائم ہیں.بہت سی ایسی قومیں میں نے دیکھی ہیں جو سچائی پر قائم ہونے کے باوجود سچائی کی باریکیوں پر قائم نہیں.اس لئے صرف ایک جھوٹ کا بت توڑنے کے لئے اور اس کے نقش دل سے جدا کرنے کے لئے ایک ساری زندگی کی جدو جہد کی ضرورت ہے لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم میں سے کمزور سے کمزور انسان بھی اگر خالصہ اللہ سچائی کی طرف حرکت شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ خود اس کی طرف حرکت شروع کر دیتا ہے اور اس کی ہر آنے والی زندگی کا لمحہ اس کی زندگی کے ہر

Page 537

خطبات طاہر جلد ۸ 532 خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے.پس تو حید خالص کا قیام صرف زبان سے نہیں ہو گا.تو حید خالص کے مضمون کو باریکی سے سمجھنے کے بعد اسے روزانہ اپنے دل پر جاری کرنے سے ہوگا.پس خدا رحمان ہے، خدا رحیم ہے، وہ مغفرت کرنے والا ہے ، وہ درگزر کرنے والا ہے اور وہ پکڑ کرنے والا بھی ہے.بعض موقعوں پر وہ بخشش سے کام نہیں لیتا.وہ کون سے موقعے ہیں جہاں بخشش سے کام لینا خدا کی صفات کے خلاف ہے.وہ کون سے مواقع ہیں جہاں درگزر کرنا خدائی صفات کے مطابق ہے.اس مضمون کو سمجھنے کے لئے آپ کو لازماً سیرت کے مضمون کو پڑھنا ہو گا.آنحضرت ﷺ نے کن مواقع پر دینی غیرت کے نتیجے میں بخشش سے کام نہیں لیا.کن مواقع پر آپ نے بظاہر سنگین ترین حالات ہونے کے باوجود بخشش سے کام لیا.ان دو مواقعوں کی تفریق کیا ہے.وہ کون سی باریک راہیں ہیں جو ایک کو دوسرے سے جدا کرتی ہیں.اس مضمون کو سمجھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے.سوائے اس کے کہ وہ حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کی زندگی کے آئینے میں اس مضمون کو دیکھے اور سمجھنے کی کوشش کرے.آنحضرت ﷺ کی بخشش کا جب ہم مضمون بیان کرتے ہیں تو دل حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے.ایک ہی موقع جو بار بار پیش کیا جاتا ہے وہ فتح مکہ کا موقع ہے مگر یہ ایک ہی موقع نہیں.لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (يوسف) (۹۳) تک بہت سے مقررین کی نظر پہنچتی ہے پھر وہاں ٹھہر جاتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کی سیرت میں مسلسل بخشش کا مضمون ایک بہتے ہوئے پانی کی طرح چلتا ہے.ایسے پانی کی طرح جو بلندیوں سے اترائیوں کی طرف چل رہا ہو.جو پہاڑوں سے کھائیوں کی طرف روانہ ہو.آپ کی بخشش آپ کے بلند مقام سے کم تر لوگوں کی طرف مسلسل جاری رہی ہے لیکن بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں اچانک ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ایک اور شخصیت ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میری بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرتی تو میں اسی طرح اس کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرتا جس طرح اس فاطمہ کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کر رہا ہوں جس نے چوری کی ہے.وہاں اچانک بخشش کا مضمون بدل کے ہٹ جاتا ہے اس کی بجائے خدا تعالیٰ کی پکڑ کا مضمون ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بخشش کے مضمون کی پوری طرح جگہ لے لیتا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ پر یہ جب وہ ظالمانہ جھوٹا الزام لگا تو آنحضرت ﷺ نہایت درجہ حسن ظن

Page 538

خطبات طاہر جلد ۸ 533 خطبه جمعه ا ار اگست ۱۹۸۹ء رکھنے کے باوجود، نہایت درجہ حلیم ہونے کے باوجود ایک مہینہ تک اس قدر گہرے صدمہ میں مبتلا رہے کہ آپ نے ان سے عملاً قطع تعلقی کر لی اور کلام کرنا بند کر لیا.جب آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہ کی معصومیت کی خبر دی تو اس وقت آپ مسکراتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا کہ عائشہ تم معصوم ہو گئی ہو خدا نے خبر دی ہے اس لئے آج میں تمہارے گھر دوبارہ داخل ہو رہا ہوں اور یہ قطع تعلقی آج سے ختم ہوئی.حضرت عائشہ بھی آپ ہی کی پروردہ تھیں.آپ ہی کی تربیت یافتہ تھیں.آپ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ کا مجھ پر کیا احسان ہے.جہاں تک انسانی جذبے کا تعلق ہے آپ نے مجھے معاف نہیں کیا تھا.اس گناہ کے تصور سے ہی آپ ایسی کراہت محسوس کرتے تھے کہ اس خیال سے کہ شاید یہ سچی بات ہے آپ نے مجھ سے قطع تعلقی کر لی تھی.میں آپ کی احسان مند نہیں میں اپنے خدا کی احسان مند ہوں جس نے میرے دل کی دردناک حالت پر نظر کرتے ہوئے خود میری معصومیت کی آپ کو اطلاع کی.پس آنحضرت ﷺ کا جو پکڑ کا مقام ہے اور بعض موقع پر معاف نہ کرنے کا جو خلق آپ سے ظاہر ہوا ہے وہ خلق بتاتا ہے کہ آپ کی رضا کلیۂ خدا کی رضا کے تابع تھی اور امر واقعہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جہاں خدا نے بخشش کی اجازت نہیں دی وہاں آپ بخشش کا سلوک نہیں فرماتے تھے او روہ مضامین جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے بخشش کی اجازت ہے وہاں آپ سے بڑھ کر کوئی بخشنے والا آپ کو دنیا میں دکھائی نہیں دے گا.اتنے فیاض ، اتنے بے انتہا ، جو دسخا کہ ایک بحر قلزم ، ایک بحر قلزم کیا ساری دنیا کے سمندر بھی آنحضرت ﷺ کی جو دوسخا کے مضمون کو بیان نہیں کر سکتے.کوئی سننے والا کہے گا کہ یہ مبالغہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انسانی دنیا میں مثالیں سمندروں کی ہی دی جاتی ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ سمندر کے پانی ختم نہ ہونے والے ہیں تو انسانی خلق پر جب اس مضمون کا اطلاق کیا جاتا ہے تو واقعہ بعض انسانوں کے خلق کا مضمون بے کنار ہوا کرتا ہے.اس کا کوئی کنارہ دکھائی نہیں دیتا.آنحضرت یہ اتنے بھی تھے.کچھ بھی اپنے پاس اپنے لئے نہیں رہنے دیا.جو کچھ آیا وہ خدا کی راہ میں خدا کی خاطر تقسیم کر دیا لیکن ایک موقع پر آپ کے ایک نواسے نے زکوۃ کی کھجور میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی آنحضرت ﷺ جھپٹے اس کی طرف اور انگلی ڈال کر اس کے منہ سے وہ کھجور نکال لی.وہاں آپ کی سخاوت نے وہ رنگ نہیں دکھایا جو تمام دنیا کی دولتیں تمام دنیا پر نچھاور

Page 539

خطبات طاہر جلد ۸ 534 خطبه جمعهااراگست ۱۹۸۹ء کر سکتا تھا اس نے اپنے ایک معصوم بچے کے منہ سے وہ کھجور نکال لی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ زکوۃ خدا تعالیٰ کی ایک ایسی امانت ہے جو آپ کی اپنی اولاد پر خرچ نہیں ہونی چاہئے.پس نقش دوئی مٹانے کے لئے آپ کو خدا کا نقش دل پر جمانا ہوگا اور خدا کا نقش دل پر جمانے کے لئے آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو سمجھ کر اس کی پیروی کرنی ہوگی.صرف اسوۂ حسنہ کی پیروی کی طرف میں آپ کو نہیں بلا رہا.میں یہ کہتا ہوں کہ اسوہ حسنہ کو سمجھ کر اس کی پیروی کرنی ہوگی اور یہ مضمون بڑا گہرا ہے اور بڑے تفصیلی مطالعہ کو چاہتا ہے.باریک فرق کرنے پڑتے ہیں.کہیں آپ کو بخشش کی اجازت ہوگی ، کہیں بخشش کرنا خلق محمد مصطفی ﷺ کے خلاف ہوگا یعنی دوسرے لفظوں میں منشائے الہی کے خلاف ہو گا.پس یہ صرف بخشش کا سوال نہیں اس قسم کے بے شمار انسانی خلق ہیں جن میں حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کو ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے نمونہ بنا دیا گیا.پس نقش تو خدا کا دل پہ ثبت کرنا ہے لیکن اس مضمون کو آنحضرت ﷺ سے سیکھنا ہے.جب یقش آپ کے دل پر جمے گا تو ی نقش خود بخود آپ کے کردار میں ظاہر ہونا شروع ہوگا اور یہ حرکت اندر سے باہر کی طرف ہوگی اس لئے کوئی تصنع نہیں ہوگا اور پھر یہ حسن آپ کے چہرے پر آپ کے کردار میں، آپ کے مسکرانے میں ، آپ کی خاموشی میں، آپ کی گفتار میں ، آپ کے رونے میں آپ کے بننے میں ظاہر ہو گا وہ دراصل خدا کا خلق ہے.یہ وہ خلق ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ظاہر و باطن کو ایک حسن کا سمندر بنا گیا تھا اور اس پہلو سے آپ کے ظاہر و باطن میں کوئی فرق نہیں تھا.ورنہ ظاہر و باطن کا ایک ہونا ہمیں آج کل کی ایسی قوموں میں بھی تو ملتا ہے جو بدیوں کا شکار ہو چکی ہیں.وہ اپنی بدیاں چھپاتی نہیں ہیں.وہ کھل کر اپنی بدیوں کو ظاہر کرتی ہیں اور اس پہلو سے آپ ان کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے.جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ ظاہر کر دیتے ہیں.اگر وہ بعض گناہوں میں ملوث ہیں، شرا ہیں پیتے ہیں، عورتوں کی طرف جاتے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کی روایات کے لحاظ سے یا ان کے معاشرے کے لحاظ سے یہ چیزیں بری ہیں تو کم سے کم وہ جھوٹ نہیں بولتے اور جو کچھ ہے وہ ظاہر کرتے چلے جاتے ہیں.اس لئے آپ ان کو جھوٹا تو نہیں کہہ سکتے لیکن ان کا ظاہر و باطن ایک ہونا ان کے حسن کی علامت نہیں ہے.بدقسمتی سے ہماری جو تیسری دنیا کی قوموں میں نہ صرف یہ کہ ظاہر و باطن ایک نہیں رہا بلکہ جھوٹ نے اس پر قیامت برپا کر رکھی ہے.اتنا جھوٹ ہماری تیسری دنیا کے

Page 540

خطبات طاہر جلد ۸ 535 خطبه جمعه ا ار اگست ۱۹۸۹ء معاشرے میں سرایت ہوتا جارہا ہے کہ اس نے قوموں کی ترقی کی ساری راہیں مسدود کر دی ہیں.ابھی پچھلے دنوں ہی جاپان کے دورے کا موقع ملا.جوسب سے زیادہ اثر کرنے والی بات تھی وہ ان کی سچائی تھی.اتنا گہرا میں ان کی سچائی سے متاثر ہوا ہوں کہ بہت کم میں کسی قوم کی سچائی سے اس حد تک متاثر ہوا ہوں.نہ صرف یہ کہ ان کا ظاہر و باطن ایک ہے بلکہ گہرے طور پر وہ سچی قوم ہے.سچائی کی پیروی کرنے والی ہے.اس کے نتیجے میں ان کے اندر ایک معصومیت بھی پیدا ہوگئی ہے.ایک حسن ظن بھی پیدا ہو گیا ہے.جاپانی قوم یہ خیال بھی نہیں کر سکتی کہ دوسرے لوگ باہر سے آتے ہیں اور ان سے جھوٹی باتیں کرتے ہیں.اسی وجہ سے شروع شروع میں جب بد قسمتی سے بعض پاکستان کے مفاد پر ست وہاں پہنچے تو انہوں نے جاپانی قوم سے بے حد فائدے اٹھائے.جھوٹی کہانیاں بنائی، جھوٹی تجارتوں کے باغ دکھائے اور وہ ساری باتیں بعد میں جھوٹی نکلیں اور اس کے نتیجے میں جاپانی قوم کے بہت سے افراد کو بڑا گہرا نقصان پہنچا.لیکن بچے بھی ہیں اور ذہین بھی ہیں.اس لئے ان کی ذہانت نے دراصل ان کو آخر میں بیچا لیا اور اب ان کی طرف سے پاکستان سے آنے والوں کے متعلق شدید رد عمل پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کس حد تک یہ شخص واقعہ سچا ہے اور احتیاط وہ اسی بات میں سمجھتے ہیں کہ ہر ایک کو جھوٹا سمجھ لیا جائے.تو دنیا میں جھوٹ بھی ایک لعنت ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ جھوٹ اور ظاہر و باطن کا ایک ہونا یہ دونوں باتیں ایک نہیں ہیں.بعض بچے بھی ایسے ہیں جن کا ظاہر و باطن ایک ہے اور وہ برا ہے.بعض جھوٹے بھی ایسے ہیں جن کا ظاہر و باطن ایک ہے اور وہ برا ہے.لیکن ہماری قوموں میں، تیسری دنیا کی قوموں میں جو سب سے بڑی لعنت ہے وہ یہ ہے کہ جھوٹ بھی ہے اور ظاہر و باطن بھی ایک نہیں ہے کیونکہ ہم دنیا کا خوف اس حد تک رکھتے ہیں کہ اپنی برائیوں کو برائی سمجھنے کی وجہ سے اسے دنیا سے چھپاتے ہیں یہاں تک کہ سینے کے اندر بعض گند جمع ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور وہ سارے کردار کو گھن کی طرح کھا جاتے ہیں اور ظاہری طور پر کیونکہ ہم خوبیوں کی قیمت ضرور سمجھتے ہیں اس لئے اپنا ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ گویا ہم نہایت ہی اعلیٰ اخلاق کے حسین ، سچ بولنے والے اور با اخلاق لوگ ہیں.چونکہ دنیا کے اکثر احمدی اس تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں اس

Page 541

خطبات طاہر جلد ۸ 536 خطبه جمعها الراگست ۱۹۸۹ء لئے مجھے اس مضمون کو بار بار کھول کر بیان کرنے کی ضرورت پہلے بھی پیش آئی ہے اور آج بھی میں اسی وجہ سے اسے دوبارہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آپ کا ایک ماحول ہے جو اسلامی نہیں رہا.جس ملک سے بھی آپ آئیں ہیں اگر وہ تیسری دنیا کا ملک ہے تو اس کی اکثریت ان برائیوں میں مبتلا ہو چکی ہے اس لئے آپ کو اپنی حفاظت غیر معمولی طور پر کرنی پڑے گی.ظاہر و باطن ایک کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ ظاہرداری سے سفر شروع کریں اور اپنے دل پر اپنے ظاہر کے نقوش جمائیں.آپ کو خالصہ دل میں سچا ہونا پڑے گا.خالصہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے دلوں پر نقش کرنا ہوگا.اس کے بعد وہ صفات پھر خود بخود پھوٹیں گی کیونکہ جس طرح مشک اپنی خوشبو دیتا ہے اسی طرح صفات باری تعالیٰ بھی اپنی خوشبو دیتی ہیں اور وہ دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ ایک عظیم قوت کے ساتھ انسان کے ظاہر میں ابھرنا شروع کرتی ہیں اور ایسے باخدا انسان حقیقی مواحد بنتے ہیں جو دنیا میں تو حید خالص کو قائم کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں.پس اس صدی میں جماعت احمدیہ کو مسلسل یہ جد و جہد کرنی چاہئے کہ وہ اپنے دل سے نقش دوئی کو مٹائے.خدا کے نقوش اپنے دل پر قائم کرے اور اس کے نتیجے میں تمام دنیا میں موحد خالص بن کر ظاہر ہو اور تمام دنیا کے شرک کو دور کرے اور خدا تعالیٰ کی توحید خالص کے نقوش سب دنیا کے دلوں پر جمانے کی کوشش کرے.منافقت کا ذکر چل پڑا ہے.میں نے کہا کہ ظاہر و باطن ایک ہونا کافی نہیں بلکہ ظاہر و باطن کا ایک ہونا تب اچھا ہے جب ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہولیکن بد قسمتی سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہمارے ملکوں میں منافقت بہت پائی جاتی ہے اور یہ منافقت بار یک نقوش کے طور پر ان قوموں میں بھی پائی جاتی ہے جو بظاہر سچی ہیں.اس پہلو سے اس مضمون کو مزید کھول کر آپ کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.وہ مغربی ترقی یافتہ قو میں جو آج بالعموم سچائی پر قائم ہیں اور جن کا ظاہر و باطن جیسا بھی ہے وہ ایک دکھائی دیتا ہے ان کے اندر بھی بعض دوئی کے نقوش ملتے ہیں جن کی طرف میں ان کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.یہ خیال کر لینا کہ ان کی سچائی یا ان کا ظاہر و باطن کا ایک ہو جانا زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے یہ ایک سادگی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب اکثر مغربی قو میں تیسری دنیا کے ملکوں سے سلوک کرتی

Page 542

خطبات طاہر جلد ۸ 537 خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء ہیں تو وہ سلوک ہمیشہ خود غرضی پر مبنی ہوتا ہے اور جب بھی قومی طور پر ان کو یہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں کہ کسی غریب گری پڑی قوم کے ساتھ کس رنگ میں تجارت کی جائے ، کس قسم کے اقتصادی معاملات کئے جائیں تو لازما ہمیشہ ان معاملات کا فائدہ خودان کو پہنچتا ہے اور اس کے بغیر یہ کسی قسم کے معاملات رکھنے کے روادار نہیں ہوتے.یہ بات اپنی ذات میں کوئی ایسی بری دکھائی نہیں دیتی.ہر انسان سمجھتا ہے کہ اپنے فائدے کا سودا کرے گا.ہر تاجر کا حق ہے کہ وہ اپنے فائدے کا سودا کرے.مگر جب یہ مضمون آگے بڑھتا ہے تو بعض دفعہ ظلم کی حد تک پہنچ جاتا ہے.چنانچہ جاپان میں ایک اخباری نمائندے کو اسی قسم کے سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ میں جاپان کی سچائی سے ضرور متاثر ہوں مگر یہ سچائی ان کی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی نہیں ہے.بہت سی ایسی باتیں ہیں جہاں جاپان کو اپنے نفوس کا جائزہ لینا چاہئے.افریقہ کی مثال میں نے ان کو دی.میں نے کہا آپ ایک تجارتی قوم ہیں آپ افریقہ سے تجارت کر رہے ہیں جس طرح آپ دوسرے ملکوں سے بھی تجارت کر رہے ہیں لیکن اس بات کو بھول رہے ہیں کہ افریقہ اقتصادی لحاظ سے اس حد تک ڈوب چکا ہے کہ اب آپ ان سے جائز منافع حاصل نہیں کر رہے بلکہ ان کا خون چوسنے لگے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ آپ اس ظلم میں پوری طرح شامل ہو چکے ہیں اور اس بات کو بھلا رہے ہیں کہ ان کے خون کے قطرے چوستے چوستے آخر یہ قومیں مر جائیں گی.ان میں کچھ بھی طاقت نہیں رہے گی آپ سے کچھ خریدنے کی.اس لئے کم سے کم عقل سے کام لیں اگر انسانیت سے کام نہیں لیتے ان کو زندہ رکھنے کے لئے کچھ تو ان کی مدد کریں تو ان کے ہاں انڈسٹری قائم کریں، کچھ اور ان کو سہولتیں ایسی دیں کہ وہ قومیں زندگی کے سانس لیتی رہیں اور اپنی معصومیت میں اپنا سب کچھ آپ کے ہاتھوں لٹا نہ بیٹھیں.جو اخباری نمائندہ تھا وہ اس علاقے کا سب سے بڑا ایک معزز اخبار تھا.اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اس مضمون کو قوم کے سامنے ضرور پیش کرے گا اور پھر دوسری بعض مجالس میں بھی میں نے اس مضمون کو ان کے سامنے رکھا.پس میں آپ کے سامنے یہ حقیقت کھولنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک نقش دوئی کا تعلق ہے وہ دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی رنگ میں ملتا ہے.بعض ترقی یافتہ قوموں کی سیاستیں خود غرض ہیں اور وہ بعض باتوں میں بے انتہا حساس ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اسی قسم کی بعض باتوں میں ان کی حس یوں

Page 543

خطبات طاہر جلد ۸ 538 خطبه جمعها الراگست ۱۹۸۹ء لگتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے مرچکی ہے.انسانی قدروں کا جہاں تک تعلق ہے بعض جگہ آپ کو بہت نمایاں دکھائی دیں گی بعض ویسے ہی حالات میں وہ انسانی قدریں بالکل غائب دکھائی دیتی ہیں.اگر پولینڈ میں، اگر رشیا میں ، اگر چائنا میں کچھ مظالم ہو جائیں تو آپ دیکھیں ان قوموں کا رد عمل کتنا زبر دست ہوتا ہے.انسانیت کے نام پر یہ ساری دنیا میں شور مچادیتی ہیں لیکن فلسطین میں اگر اسرائیل بے انتہا مظالم کرے تو اس وقت یہ خاموشی سے چند سطحی باتیں کر کے اس بات کو بھلا دیتے ہیں.پاکستان میں احمدیوں پر کتنے بڑے مظالم ہوں ، ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی.یہاں تک ظلم کی حد ہے کہ چک سکندر میں ایک سو سے زائد مکان جلائے گئے اور بے انتہا مظالم کئے گئے اور پولیس نے اپنی موجودگی میں یہ سب کچھ کروایا اور ایک بھی اخباری نمائندہ جو مغرب سے تعلق رکھتا تھا موقع پر پہنچا بھی نہیں.یہاں تک ان کی منتیں کی گئیں کہ یہ واقعہ سچا ہے ہم آپ کو ائیر کنڈیشنڈ کاریں مہیا کرتے ہیں.آپ کو ہر قسم کی سہولتیں دیں گے.آپ تو وہ لوگ ہیں جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر روس پہنچ جاتے ہیں، چین پہنچ جاتے ہیں کہ وہاں کا کوئی ہنگامہ آپ دیکھ سکیں اور اپنے ملکوں کو آگاہ کر سکیں.یہاں اتنی بڑی قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور ہم آپ کو ہر قسم کی سہولت مہیا کرتے ہیں آپ چل کے دیکھیں تو سہی.ہر ایک نے انکار کر دیا.ایک مغربی نمائندہ بھی چک سکندر نہیں گیا.کسی نے ظاہری تکلیف کا بہانہ بنایا، کسی نے کوئی اور بہانہ بنا دیا.پس نقش دوئی یہاں بھی ملتا ہے.اس لئے وہ احمدی جو مغرب سے تعلق رکھتے ہیں یا ترقی یافتہ قوموں سے تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ نقش دوئی کو مٹانے کے مضمون سے غافل نہ ہوں.سچی توحید انسان کو ایک ہی رنگ بخشتی ہے اور نسلوں کے رنگوں کے امتیاز مٹا دینے والی ہے.یہی کچی تو حید ہے جو تمام عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا موجب بنے گی.اس کچی تو حید کے مضمون کو سمجھے بغیر اور اس کے نقش کو اپنے دل پر جمائے بغیر اور ہر قسم کے نقش دوئی کو دل سے مٹائے بغیر آپ نہ دنیا میں تو حید کو قائم کر سکتے ہیں نہ انسان کو امت واحدہ بنا سکتے ہیں.اس مضمون پر آپ غور کریں گے تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ جوں جوں اس مضمون کو سمجھ کر آپ اپنے وجود میں سرایت کرتے ہیں اسی حد تک آپ کی تفریقیں مٹنی شروع ہو جاتی ہیں ایک خدا کے رنگ میں رنگین ہو کر نہ آپ کو کالے اور گورے کی تمیز باقی رہتی ہے، نہ زرد اور سرخ کی تمیز باقی رہتی ہے، نہ شمال نہ جنوب کی،

Page 544

خطبات طاہر جلد ۸ 539 خطبه جمعها اراگست ۱۹۸۹ء نہ مشرق نہ مغرب کی آپ ایک وجود ایک انسان کے طور پر ابھرتے ہیں.پس اے جماعت احمد یہ ! اس اگلی صدی پر یہ سب سے اہم پیغام ہے جو میں تمہیں دینا چاہتا ہوں.تمام دنیا کو امت واحدہ بنانا ہے تو اپنے دل سے نقش دوئی کو مٹانا ہوگا.خواہ آپ مشرق کے باشندے ہوں یا مغرب کے ہوں.خواہ آپ کالے ہوں یا گورے ہوں.جب تک ایک خدا کے رنگ میں رنگین نہ ہو جائیں جس کا نور نہ شرقی ہے نہ غربی ہے اس وقت تک آپ نہ دنیا کو تو حید کا سبق سکھا سکتے ہیں نہ دنیا کو امت واحدہ میں تبدیل کر سکتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو سمجھ کر اپنے نفوس اور اپنے اعمال اور اپنے کردار میں جاگزیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس صدی کے آخر تک تمام دنیا کو امت واحدہ اور خدائے واحد کے پرستار بنانے میں کامیاب ہوسکیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 545

Page 546

خطبات طاہر جلد ۸ 541 خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۸۹ء مباہلہ کے نتیجے میں عظیم الشان کامیابیوں کا ذکر خدا تعالیٰ نے جشن تشکر کا سال احمدیت کی کامیابی کا سال بنا دیا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء بمقام اسلام آبا د بیلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ اس صدی کا جونئی صدی جماعت احمدیہ کی شروع ہوئی ہے اس کا وہ جلسہ جسے ہم کئی پہلوؤں سے مرکزی جلسہ قرار دے سکتے ہیں بڑی عمدگی کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور رحمتوں کا مظہر بنتے ہوئے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے.اس جلسے پر آنے والے جس محبت اور شوق اور ولولے اور اخلاص سے آئے ہیں ان کی کیفیات کو ماپنے کا کوئی پیمانہ تو ہمارے پاس نہیں لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ ان کیفیتوں سے آشنا چلی آرہی ہے.یہ ایک دو یا چند سالوں کی بات نہیں.جب سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا ہے آپ کے ساتھ محبت اور عشق رکھنے والی جماعت اپنی سوچوں، اپنی قلبی کیفیات میں تمام دنیا سے ممتاز ہو چکی ہے اور جو خلوص کے جذبے ان کے پہلوؤں میں جنم لیتے ہیں اور پرورش پاتے ہیں ، جو ان کے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں باہر کی دنیا ان کا تصور بھی نہیں کر سکتی لیکن بسا اوقات دیکھنے والے بعض پہلوؤں کو دیکھ کر متعجب ضرور ہوتے ہیں.چنانچہ پاکستان سے آنے

Page 547

خطبات طاہر جلد ۸ 542 خطبه جمعه ۱۸/اگست ۱۹۸۹ء والوں میں سے جس جس نے بھی British Embassy کے Immigration آفیسرز کو انٹرویو دیاوہ بڑے متعجب تھے کہ یہ لوگ کیوں اس قدر غیر معمولی ولولے اور جذبے کے ساتھ دور دراز ملکوں میں جارہے ہیں جن میں سے اکثر غریب تھے اور ان کے پاس ان افسروں کو دکھانے کے لئے کوئی بینک بیلنس نہیں تھا لیکن بڑی پختگی اور عزم کے ساتھ یہ وعدے کر رہے تھے کہ ہم صرف جلسے میں شرکت کر کے اور اپنے امام کی زیارت کے بعد واپس آجائیں گے.باوجود اس کے کہ بظاہر شکوک اور شبہات کی بڑی گنجائش موجود تھی لیکن ان کی صداقت کے زور نے ان انٹرویو لینے والوں پر یہ بات بہر حال ثابت کر دی تھی کہ یہ سچ بولنے والے لوگ ہیں اور جو کہہ رہے ہیں درست ہے لیکن ان کو پھر بھی یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے.چنانچہ پروفیسر محمد علی صاحب (وہ پروفیسر نہیں جو معروف ہیں ایک شاعر کے طور پر بلکہ صوبہ سرحد سے ایک محمد علی خان صاحب ہیں جو صوبہ سرحد کے امیر بھی تھے اور پی اے ایف میں یعنی Pakistan Air Force میں یہ لیکچرار ہوا کرتے تھے سائیکالوجی کے مضمون پر.سائیکالوجسٹ ہیں ) ان کا جب انٹریو ہوا تو امیگریشن آفیسر نے ان سے کہا کہ آپ تو بڑے قابل سائیکولوجسٹ ہیں مجھے ایک بات سمجھائیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ میں نے اپنی زندگی میں ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا.سادہ لوح لوگ غریب عورتیں، مرد، بچے ان کو کیا سو بھی ہے کہ اتنا بے شمار روپیہ خرچ کر کے اتنے دور دراز ملک کا سفر کرنے جارہے ہیں اور کوئی دنیاوی مقصد نہیں.مجھے بتائیں نفسیاتی لحاظ سے یہ کیا واقعہ ہورہا ہے.تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ میں سوچ میں پڑ گیا میں نے کہا نفسیاتی لحاظ سے تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ ایک ہی لفظ میں اس کا جواب دوں میں نے کہا اس سے Love یہ صرف محبت کے کرشمے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے محبت سے متعلق جو فارسی میں چند اشعار کہے میرا دل ان کی طرف منتقل ہوا کہ اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی و مرحم بَرہ یار تو یکساں کر دی تا نه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احساں کر دی (در مشین فارسی صفحه : ۲۱۷)

Page 548

خطبات طاہر جلد ۸ 543 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء یہ واقعی محبت والے ہی جانتے ہیں کہ محبت کیا ہوتی ہے اور اگر پر و فیسرمحمد علی صاحب کو خود محبت کا تجربہ نہ ہوتا تو خدا جانے وہ کیا اوٹ پٹانگ سا جواب دیتے اور نفسیاتی لحاظ سے ان کیفیات کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے لیکن یہ بھی اس راہ سے گزرے ہوئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے بروقت ان کو صحیح جواب سمجھایا.جو شعر میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ: ” اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی“ وو اے محبت تو نے حیرت انگیز نشان ظاہر کر دئے ہیں.زخم مرحم بَرہ یار تو یکساں کر دی تو نے تو یار کی راہ میں زخم اور مرحم کو ایک سا بنادیا ہے.اس راہ میں جو زخم لگتے ہیں ہمیں اس سے بھی ہم لذت پاتے ہیں اور پر جو تو مرحم عطا کرتی ہے یعنی اے محبت ! اس سے بھی ہم لذت پاتے ہیں.”تا نہ دیوانہ شدم جب تک میں عشق میں دیوانہ نہیں ہو گیا.” ہوش نیامد سرم میرے سر کو ہوش نہیں آئی.اے جنوں گرد تو گردم “.اے جنوں عشق میں تیرے گرد طواف کرتا چلا جاؤں.کہ چہ احسان کر دی تو نے عجیب احساں کر دیا ہے.پس وہ مہمان جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق میں اور اس عشق میں جو آپ سے انہوں نے سیکھا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا سچا عشق اور پھر اس عشق میں جو حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ نے دنیا کو سکھایا یعنی خدائے واحد و یگانہ کا پاک اور بے لوث عشق.اس میں کوئی دنیا کی کوئی غیر اللہ کی ملونی نہیں ہوتی.وہ جماعت جو اس عشق میں سرشار ہو کر یہاں پہنچی ہے اس کی دنیا کوسمجھ نہیں آسکتی.آنے والے بھی ایسے ہی ہیں اور جانے والے بھی ایسے ہی ہیں.بہت سی خواتین ، بہت سے ایسے غرباء مجھے ملے جنہوں نے اپنے گاؤں سے باہر کسی دوسرے علاقے کو نہیں دیکھا تھا اور کسی طرح اپنے عزیزوں کی ، اپنے امیر دوستوں کی منتیں کر کے انہوں نے زادراہ باندھا اور یہاں تشریف لائے.جہاں ان کو اتار دیا گیا وہاں سے باہر قدم نکال کے نہیں دیکھا اور جب میں نے ان سے باتیں کیں تو انہوں نے کہا ہمیں کچھ پتا نہیں کون سا ملک ہے کون سی جگہ ہے ہمیں تو اس سے کوئی غرض نہیں ہے.ہماری تمنا پوری ہوگئی کہ ہم موت سے پہلے ایک دفعہ اس جلسے میں شرکت کریں جس میں آپ بھی ہوں اور اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھیں.

Page 549

خطبات طاہر جلد ۸ 544 خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۸۹ء ایک جانے والا لکھ کر ایک پیغام میرے نام چھوڑ گیا کہ جب میں آیا تھا تو اور لوگوں کی طرح مجھے بھی خیال تھا کہ کہیں جب وقت ملا خدا نے توفیق دی تو باقی دنیا بھی دیکھ لیں گے لیکن اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اسی طرح واپس چلا جاؤں کیونکہ جو نشہ مجھے اس جلسے کا آیا ہے میں نہیں چاہتا کہ اس میں کوئی اور ملونی ہو جائے.لیکن سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ اس عشق نے جو جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس نے غیروں کو بھی متاثر کر دیا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں محمود ایاز ایک صف میں کھڑے ہو گئے ہیں.چنانچہ بہت سے غیر احمدی دور دراز کا سفر کرنے والے بھی اسی قسم کا اپنا تاثر بیان کر کے گئے ہیں.بعضوں نے کہا جو بڑے بڑے اپنے ملکوں کے عہدیدار تھے بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے انہوں نے کہا ہم اب کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے اور جو کیفیت ہے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ اس کا بیان کر سکیں لیکن یہ جانتے ہیں کہ کچھ ہمیں ہوا ہے اور جو کچھ ہم نے دیکھا ہے ایسی دنیا میں کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی تھی اور ہم جانتے ہیں کہ ایسی اورکوئی چیز دنیا میں کہیں ہے بھی نہیں.موری قبیلے کے جو بہت عظیم راہنما نیوزی لینڈ سے تشریف لائے جس دن انہوں نے جانا تھا اس سے ایک دن پہلے انہوں نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ مجھے اور میری بیوی کو ملنے کا موقع دیں.چنانچہ میں نے کہا آپ تشریف لے آئیں رات کھانا میرے ساتھ ہی کھا ئیں.بہت ہی محبت کا انہوں نے اظہار کیا بڑی دلچسپ باتیں بتائیں.موری قبائل کے رسم و رواج بتائے اور مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ وہ خدائے واحد و یگانہ کے قائل لوگ ہیں اور ان کے ہاں بھی نبوت کا تصور ویسے ہی ہے جیسا کہ اسلام میں نبوت کا تصور پایا جاتا ہے اور انہوں نے بتایا کہ ہماری جماعت میں بھی ہمارے قبائل میں بھی جو لوگ ابھی تک اپنے آبائی مذہب پر قائم ہیں ان کے اندر بہت سے خصال جماعت احمدیہ کے سے ہیں اور اب جب آپ تشریف لائے تو ہم آپ کوسب تعارف کروائیں گے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ پہلے ہی سے بہت حد تک اس پیغام کو قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.جب بہت سی دلچسپ باتیں ہو چکیں تو آخر پر میں نے ان سے کہا کہ آپ کا اب کیا ارادہ ہے اگر کچھ ٹھہر جاتے تو انگلستان کے کچھ حصے بھی دیکھ لیتے بڑا خوبصورت ملک ہے.انہوں نے

Page 550

خطبات طاہر جلد ۸ 545 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء دراصل آنے سے پہلے خود اس بات کا اظہار کیا تھا اور یہاں آنے کے بعد بھی منتظمین سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ ہم جلسے سے فارغ ہو کر کچھ دن یہاں ٹھہریں اور Lake District اور دوسری جگہیں جو مشہور ہیں ان کی سیر کر کے واپس جائیں.تو میں نے اسی خیال سے کہ شاید ان کا انتظام نہ ہو اس وجہ سے واپس جا رہے ہوں ان سے پوچھا کہ آپ کی تو خواہش تھی جب آئے ہوئے ہیں تو دیکھ لیں.تو کچھ دیر وہ سوچتے رہے کہ کیا جواب دوں.پھر انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے جولذت یہاں پائی ہے اور جو کچھ دیکھا اس سے دل پہ جو کیفیت طاری ہے اس سے ایک نشے کا عالم ہے اور جس طرح ایک بہت اچھا کھانا کھانے کے بعد انسان پسند نہیں کرتا کہ اس کے مزے میں غیر مزے کی ملاوٹ ہو جائے اسی طرح اب میری یہ خواہش ہے کہ اس نشے اور اس مزے میں کوئی اور ملاوٹ نہ ہو اور میں جلد واپس جا کر اپنی قوم کو اور اپنے خاندان کو اور اپنے عزیزوں کو بتاؤں کہ یہ روحانی لذت کیا چیز ہے.جب ان کا یہ جواب سنا تو ان کی بیگم صاحبہ نے قہقہہ لگایا اور وہ قہقہہ بہت خوشی کا قہقہہ تھا یعنی بے اختیار ان کے دل سے پھوٹا.میں نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا میں نے کہا کیا بات ہے انہوں نے کہا میں سوچ رہی تھی کہ اب میرا خاوند پھنس گیا ہے.دیکھیں کیا جواب دیتا ہے لیکن اس نے وہی جواب دیا جو میرے دل کا جواب تھا اور اس بات پر بے اختیار مجھے خوشی سے ہنسی آگئی کہ کتنے مزے کی بات ہے میرے خاوند نے وہی بات کہی جو میرے دل کی بھی کیفیت ہے.اب یہ تو احمدی لوگ نہیں.یہ تو مسلمان بھی نہیں لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عشق جماعت کو عطا فرمایا ہے وہ ماحول میں سرایت کر رہا تھا اس کے لئے الفاظ کی ضرورت نہیں تھی.ہر آنے والا یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ قوم اور قوم ہے، ان کی کیفیات اور کیفیات ہیں اور خود بخودان جذبوں سے متاثر ہو رہا تھا.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے نشان کے طور پر یہ ایک جلسہ بھی ہے جسے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں.اور اگر چہ ہر جلسے میں اسی قسم کی کیفیات کا انسان مشاہدہ کرتا ہے مگر سب آنے والوں نے جنہوں نے مجھ سے ملاقات کی ہے یا جن سے اور لوگوں نے باتیں کی ہیں ان سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ ہر شخص کی یہی کیفیت ہے کہ جلسے ہمیشہ ہی غیر معمولی اثر کرنے والے ہوتے ہیں اور جماعت کا مرکزی جلسہ انسان کو نئے ولوں اور نئے جذبوں کے ساتھ واپس بھیجتا

Page 551

خطبات طاہر جلد ۸ 546 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء ہے لیکن یہ جلسہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ مینار پر مینار قائم کر دیا گیا ہو نئی بلندیاں عطا ہوئی ہیں اس کو اور ہر شخص نے یہ بیان کیا کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس قسم کی چیز بھی کوئی دنیا میں ہوسکتی ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی غیر معمولی شان ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ.چند دنوں میں آپ نے دیکھا یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے اپنی مختصر تقریر میں یعنی جسے میں مختصر سمجھ رہا تھا لیکن لوگ لمبی سمجھ رہے تھے آنے والے.اس تقریر میں میں نے بیان کیا اور بہت سی باتیں نہیں بیان کیں.اس سے آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ تمام دنیا میں کوئی الہی نقد ریتھی جو کام کر رہی تھی.دلوں پر تصرف کر رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں عظیم الشان نشانات ظاہر ہورہے تھے اور ایک ایسی عجیب کیفیت میں یہ سفر مکمل ہوا ہے کہ ساری زندگی میں کبھی اس قسم کا عجیب تجربہ نہیں ہوا اور جس طرح یہاں سے لوٹنے والے ایک نشے کی کیفیت میں لوٹ رہے ہیں میں اس سفر سے اسی قسم کی ایک نشے کی کیفیت میں یہاں لوٹا تھا.میں یہ سمجھتا ہوں جس طرح بعض دوسرے دوستوں نے بھی متوجہ کیا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان اس مباہلے کے چیلنج سے بھی تعلق رکھتا ہے جو گزشتہ سال کے وسط میں میں نے دیا تھا اور یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی ایک عظیم الشان تصرف تھا جس کے نتیجے میں وہ مباہلے کا چیلنج دیا گیا اور اس کے ساتھ پھر خدا تعالیٰ نے ہمارے صدی کے آخری سال کے کچھ حصے اور نئے سال کے کچھ حصے کو اکٹھا کر دیا اور اس مباہلے کے چیلنج کے بعد خدا تعالیٰ نے اس کثرت سے جماعت کے ساتھ رحمت اور فضلوں کا سلوک کیا ہے،اس کثرت سے اعجازی نشان دکھائے ہیں کہ جیسا کہ میں نے اس مباہلے میں دعا کی تھی کہ اے خدا جو سچا ہے اس پر اپنے فضلوں کی بارشیں نازل فرما.ان کے حالات اچھے کر دے ان کے دلوں میں دین کی محبت بڑھا دے ان کو عبادت گزار بنا اور ان کو ایسی ترقی دے کہ دنیا حیران رہ جائے اور کسی انسانی کوشش کا دخل اس میں نہ ہو.پس اس جلسے پر جو کچھ آپ نے دیکھا ہے یہ کچھ ان دعاؤں کا پھل بھی ہے لیکن اسے اور یقینی بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے ان مد مقابل لوگوں کے جلسے کو اس بری طرح ناکام اور ذلیل کر دیا ہے کہ یہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا.جو جلسہ انہوں نے ہمارے مقابل پر بڑی شان وشوکت

Page 552

خطبات طاہر جلد ۸ 547 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء سے ابھی منایا ہے نعوذ بالله من ذالك آنحضرت ﷺ کی ناموس کے نام پر گو اس سے پہلے بھی جلسہ ہوتا رہا ہے بڑی بڑی دور سے بسیں بھر کے آیا کرتی تھیں سینکڑوں بسیں یہ بھرنے کی کوشش کرتے تھے.کچھ خالی رہ جاتی تھی کچھ بھر جایا کرتی تھیں.چھ چھ ہزار تک ان کی حاضری ہو جایا کرتی تھی.اس جلسے پر انگریزی اخباروں نے تو تین سو حاضری بتائی ہے لیکن جماعت احمدیہ کے نمائندے جن کو میں نے کہا تھا وہ گنیں وہ چونکہ سچ بولنے کے عادی ہیں اور سچی بات ہی کرتے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ شروع میں ڈیڑھ سوتھی ، پھر تین سو ہوئی، پھر اور حد سے زیادہ جو حاضری ہوئی ہے وہ پانچ سو ساٹھ بستر کے لگ بھگ تھی اس سے زیادہ حاضری نہیں گئی اور ہمارے جلسے کی حاضری خدا کے فضل سے چھ سات ہزار سے بڑھ کر انگریزی اخباروں کے مطابق پندرہ ہزار تک پہنچی اور یہاں انفرادی گنتی کے لحاظ سے چودہ ہزار کچھ سو تک گئی ہے.اب یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک حیرت انگیز نشان ہے موازنے کا.یادرکھیں یہ وہ سال ہے جس سال کے متعلق گزشتہ جلسوں میں ان لوگوں نے مباہلے کے بعد اعلان کیا تھا کہ یہ وہ سال جس کو یہ جماعت احمدیہ کی ترقی کا سال کہہ رہے ہیں اور سو سالہ جشن کا سال کہہ رہے ہیں یہاں اس ملک میں ہم جماعت احمدیہ کو دفن کر کے دکھا ئیں گے اور اسی ملک میں ان کی ساری شان و شوکت دفن کر دی گئی ہے اور ان کے سارے دعاوی جو ہیں وہ ذلیل ورسوا اور خائب و خاسر کر کے دکھائے گئے.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سب نشانات ہیں جن میں عقل ہو ، جن میں سمجھ ہو ، جنہیں بصیرت ہوان کے لئے تو یہ ایک ایسا تاریخی زمانہ ہے جو شاذ کے طور پر انسانوں کو دیکھنے میں ملتا ہے.اس کے برعکس بعض دوسری طرف سے شور و غا ہے.کوئی کہتا ہے کہ ہم نے مباہلے میں ان کو ہرا دیا، کوئی کہتا ہے یہ مباہلے کا چیلنج ہے وہ قبول کر کے دکھاؤ اور جھوٹی باتیں ہماری طرف منسوب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم دنیا پر یہ اثر ڈالیں گے کہ گویا مباہلے میں ہم جیت گئے ہیں.اسی جلسے میں ایک مقرر ہیں جس کا نام لیتے ہوئے بھی گھن آتی ہے.اس کی ایسی گندی عفونت والی طبیعت ہے کہ جب بولتا ہے گندگی پھیلاتا ہے.اس نے یہ اعلان کیا کہ دعا یہ کرو میرے لئے کہ میں پندرہ ستمبر تک زندہ رہوں کیونکہ مرزا طاہر ( نام تو میر انہیں لیا ایک اور نجاست بولی ) اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ میں پندرہ ستمبر سے پہلے لازما مر جاؤں گا.بالکل جھوٹ آپ لوگ وہ خطبہ سن چکے ہیں جس میں میں

Page 553

خطبات طاہر جلد ۸ 548 خطبه جمعه ۱۸/اگست ۱۹۸۹ء نے کہا تھا.میں نے کہا تھا اس شخص نے یہ اعلان کیا ہے کہ جماعت احمد یہ پندرہ ستمبر تک زندہ نہیں رہے گی اور جماعت احمد یہ دنیا سے نیست و نابود ہو جائے گی اور جب اس کو میں نے پکڑا اسی خطبہ میں تو اس کے بعد کچھ عرصہ کے بعد یہ اعلان کیا کہ مرزا طاہر زندہ نہیں رہے جماعت احمدیہ کو میں کیسے مار سکتا ہوں.کم سے کم اتنا تو اپنی شکست کا اعتراف کر لیا کہ کوئی دنیا میں ایسا پیدا نہیں ہوا جو جماعت احمدیہ کو مار سکے اور اب خود اس بات کو ، تیسرا جھوٹ، الٹا کر یہ بنالیا گویا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ یہ پندرہ ستمبر تک مرجائے گا.تو جن کے مباہلے کی بنا جھوٹ پر ہو وہ تو جھوٹے ثابت ہو گئے اور کون سا مباہلہ باقی ہے پھر.مباہلے بچے جھوٹے کی تمیز کے لئے آیا کرتا ہے.جومباہلے کے بعد کھلم کھلا جھوٹ بولےاوراس کا جھوٹ پکڑا جائے اس کے اوپر تو موت آگئی اور وہ تو اس مباہلے میں ہلاک ہو گیا ہے.اسی قسم کی ایک خبر کل پاکستان سے ملی کے حافظ آباد کے ایک علاقے میں ایک شخص نے تیاری شروع کی ہے جشن منانے کی اپنے جیتنے کی.اس کا قصہ یہ ہے کہ حافظ آباد کے قریب ہے ایک گاؤں مانگٹ اونچا اس کے ایک احمدی نوجوان نے بغیر کسی اجازت کے بغیر کسی بات کے، بغیر اللہ تعالیٰ سے کوئی خبر پائے از خود اس سے یہ معاہدہ کر لیا، مباہلہ کیا اپنی طرف سے اور مباہلے کی شرط یہ تھی کہ اگر وہ شخص جس تاریخ کو وہ بات کر رہے ہیں ایک سال کے اندر اندر نہ مرا تو اس کا سچا ہونا ثابت ہو جائے گا.جب مجھے یہ اطلاع ملی تو میں حیران ہوا میں نے کہا کوئی عقل کے ناخن لو یہ تم کیا بات کر رہے ہو.اول تو یہ کہ بار بار میں سمجھا چکا ہوں مباہلہ ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے ، نہ انفرادی طور پر یہ کوئی ایسا نظام ہے جسے ہر شخص استعمال کرتا پھرے.اگر ہر شخص اس طرح استعمال کرے اور چیلنج دے یکا یک تمام دنیا کے جھوٹے مر جائیں پھر ایک سال کے اندر اندر اور صرف بچے باقی رہ جائیں.اگر ایسا ہونا ہوتا تو آنحضرت یہ کے زمانے میں کیوں نہ یہ واقعہ ہو گیا جب سب سے زیادہ ضرورت تھی.کئی شرطیں ہیں.قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے وہ لوگ جن پر حجت تمام ہو چکی ہو، جو تمام چھان بین کر چکے ہوں اور سب تحقیق کے بعد عد جھوٹ بول رہے ہوں اور پھر وہ قوم کے راہنما ہوں اور پھر ان کو چیلنج دیا جائے اور پھر وہ اس چیلنج کو آنکھیں کھول کر قبول کریں.تو نہ وہ کسی قوم کا راہنما، نہ ہمارا احمدی کسی قوم کا راہنما اور آپس میں اس بیہودہ شرط پر مباہلہ

Page 554

خطبات طاہر جلد ۸ 549 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء کیا.مجھے جب پتا لگا تو میں نے نظارت اصلاح وارشاد کو کہا اس کو سمجھائیں یہ پاگل پن کی حرکت ہے ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.یہ کوئی مباہلہ نہیں ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.خدا پابند نہیں ہے.ہر شخص بڑیں مارتا رہتا ہے اس کے اوپر تقدیر خود بخود تو حرکت میں نہیں آتی.اس نے اصرار کیا کہ نہیں میں تو ضرور کروں گا.میں نے کہا اچھا پھر اس سے یہ کہیں جو باتیں میں نے لکھی ہیں کہ مولوی کہتے ہیں احمدیت یوں، احمدیت یوں ہے ، احمدیت یوں ہے ان کو با قاعدہ پھر اخبار میں شائع کرائے اور بتائے کہ یہ باتیں سب سچی ہیں.تو اس نے کہا کہ نہیں وہ بھی نہیں.میں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کا مباہلہ کروں گا.میں نے ان کو کہلا کے بھجوایا کہ اگر چہ اس شخص نے بغیر اجازت کے خود بخود یہ بات کی ہے لیکن اس کو کہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حقیقۃ الوحی والے مباہلے کو وہ قبول کرنا چاہتا ہے تو اس کی شرطیں پوری کرے.حقیقۃ الوحی پڑھے اور پڑھنے کے بعد جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے چند ملکی اخباروں میں اشتہار دے تا کہ اس کی کم سے کم نمائندگی تو کچھ ثابت ہو اور دنیا کو پتا لگے ورنہ ہر کس و ناکس کے لئے خدا ایسے نشان تو نہیں دکھایا کرتا.اس نے یہ کتاب لے کے دو تین دن کے بعد واپس کی اور کہا میں نے پڑھ لی ہے لیکن دینے والے نے جب مجھ سے سوال کئے تو اس نے کہا کہ ہر بات کا جواب جھوٹا تھا اس کو پتا ہی نہیں کہ یہ کتاب ہے کیا.یعنی نہ صرف یہ کہ پڑھی نہیں بلکہ جھوٹ بولے مسلسل اور اس کے جھوٹ بھی پکڑے گئے اور پھر جب کہا کہ اخبار میں شائع کرو تو اخبار میں کوئی شائع نہیں کروایا اور اس پہلے واقعہ سے اب اس کو ایک سال گزرا ہے اور وہ نہیں مرا تو وہاں جشن منارہے ہیں وہ لوگ کہ ہم جیت گئے.میں نے ان کو کہلا کے بھجوایا کہ جس شخص کی موت کی خبر نہیں دی گئی اس شخص کی زندگی کیسے نشان بن گئی.اگر ان میں کوئی شرافت اور حیا ہوتی تو جس موت کی خبر دی گئی تھی اس موت کے واقعہ ہونے پر اس وقت انہوں نے کیوں تو بہ نہیں کی ، کیوں احمدیت کی سچائی کا اعلان نہیں کیا.اس کی موت کی خبر تو نہ میں نے دی نہ اس احمدی نے دی جس کے ساتھ یہ باتیں ہو رہی تھیں.یک طرفہ بڑ تھی اور بس اور ضیاء الحق کی موت کی خبر، اس کی ہلاکت کی خبر اس سے تین چار دن پہلے مجھے خدا تعالیٰ نے بتائی اور میں نے ان خطبہ میں اعلان کے ساتھ ، وضاحت کے ساتھ کہا کہ نہ صرف یہ کہ چونکہ یہ شرارت میں آگے بڑھ گیا ہے اس لئے خدا کے نزدیک مباہلہ مقبول ہوا ہے بلکہ مجھے رات خدا نے یہ

Page 555

خطبات طاہر جلد ۸ 550 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء رو یا دکھائی ہے وہ ساری تفصیل میں نے بتائی اور اب کوئی دنیا کی طاقت اس کو ہلاکت سے بچا نہیں سکتی.اگر تقویٰ ہوتا ان لوگوں میں تو جس شخص کی موت کی خبر دی گئی تھی اور جو پاکستان کا سب سے طاقتور، صاحب استبداد انسان تھا.جس کو ساری قوم زور لگا چکی تھی لیکن اپنے تخت سے متزلزل نہیں کر سکی تھی.اس کی آسمانی ہلاکت پر اس حیرت انگیز نشان پر تو ان لوگوں کو توفیق نہیں ملی کہ وہ صداقت کو قبول کریں اور ایک شخص جو بڑیں مار رہا ہے جھوٹ بول رہا ہے اس کا جھوٹ ثابت ہے بار بار وہ نہیں مرا کہ اب یہ ان کی صداقت کا اور نعوذ باللہ احمدیت کے جھوٹے ہونے کا نشان ہے.جو دعا مباہلے میں میں نے کی تھی اس میں تو یہ تھا کہ ساری دنیا میں خدا تعالیٰ احمدیت کے او پر برکتیں نازل فرمائے اور رحمتیں نازل فرما ئیں گے اور یہ لوگ ذلیل ورسوا ہوتے چلے جائیں اور ہو رہے ہیں.میں نے جیسا کہ واضح کیا تھا گالیاں دینا ہر گز عزت نہیں ہے.کوئی دشمن جتنی مرضی گالیاں دیتا چلا جائے اس سے شرفاء کی عزت پر حرف نہیں آتا.اگر غیر جانبدار لوگ اس کی عزت افزائی کرتے چلے جائیں اور اس کی عزت اور اکرام میں بڑھتے چلے جائیں تو یہ خدا کی طرف سے سچا عزت کا نشان ہوا کرتا ہے.پس ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے جوا کرام دیا ہے اس سال اور غیر معمولی اکرام دیا ہے وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اب اس بات کا ثبوت بن کر آسمان صداقت پر ایک سورج کی طرح چمکتا رہے گا.یہ جماعت بچے کی جماعت ہے.یہ جماعت خود ایک کچی جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات نے نازل ہو کر ان کی سچائی کو ثابت کر دیا ہے.میں نے آپ کے سامنے بعض واقعات رکھے تھے.مالی کے متعلق بتایا کہ یہ وہ سال ہے جس میں یہ کہتے تھے ہم احمدیت کو دفن کر دیں گے اور احمدیت مرجائے گی اور جوابا میں نے کہا تھا کہ تم اگر زندہ رہو گے تو دیکھو گے کہ احمدیت زیادہ زندہ ہو کر ظاہر ہوگی اور جن ملکوں میں کمزور ہے ان میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے بڑھے گی.اب مالی وہ ملک ہے جس میں جماعت احمد یہ ایک کمزور جماعت تھی.جہاں تک میرا اندازہ ہے ایک ہزار کے لگ بھگ احمدی ہوں گے کل اور اب جب وہ صاحب تشریف لائے وہاں سے میرے سامنے اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں جلسے میں ایک بہت بڑے مسلمان راہنما ہیں جن کو سارے ملک میں اور خصوصیت سے ایک علاقے میں بہت عزت و احترام کے ساتھ

Page 556

خطبات طاہر جلد ۸ 551 خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۸۹ء دیکھا جاتا ہے.انہوں نے بتایا ہے کہ آپ نے جو تیرہ ہزار کچھ سوکا اندازہ بتایا تھا وہ تو غلط ہے.چھتر گاؤں ہیں جن کے متعلق میرا محفوظ اندازہ ہے کہ چالیس ہزار ایسے دوست ہیں جو اس وقت دھڑا دھڑ بیعت فارم بھر رہے ہیں اور وقت لگ رہا ہے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے میں.اب اس بات کے اظہار کے طور پر کہ یہ واقعہ اتفاقی نہیں ہوا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک صداقت کے نشان کے طور پر ظاہر ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک اور عظیم الشان نشان دکھایا.عمر معاذ ہمارے مبلغ مالی لکھتے ہیں کہ مالی کے ایک مذہبی دوست جو بڑے سخت کٹر وہابی تھے وہ حج کی نیت سے سعودی عرب جانے کے لئے روانہ ہوئے.رستے میں جب چاڈ ملک میں پہنچے تو انہوں نے یہ رویا دیکھی ، ان کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت مسیح وفات پاچکے ہیں“.یہ وہ صاحب ہیں جن کو کوئی اس بات کی خبر بھی نہیں تھی کہ جماعت احمد یہ بھی دنیا میں موجود ہے اور ہمارا کیا عقیدہ ہے.رؤیا دیکھی کہ حضرت مسیح وفات پاچکے ہیں.جس امام مہدی نے آنا تھا وہ آچکا ہے اور اس کی آمد پر پورے سو سال گزرچکے ہیں.یہ رویا دیکھی تو اپنے حج کے ساتھیوں کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا یہ شخص پاگل ہو گیا ہے کیونکہ آج تک ایسی بات نہ ہم نے سنی نہ اس نے کبھی بات ایسی کی.اس لئے اس کو زنجیروں سے باندھ دو اور پاگل خانے پہنچا دو.چنانچہ اس کوز نجیروں میں جکڑ کے پہلے گاؤں بھجوایا گیا پھر ایک پاگل خانے، پھر دوسرے پاگل خانے اور پھر اس کو نائجیریا کے ایک پاگل خانے بھجوایا گیا اور ہر جگہ وہ وہی باتیں کرتا تھا میں پاگل نہیں ہوں مجھے خدا تعالیٰ نے یہ بات بتائی ہے میرے علم میں نہیں کہ وہ کون سی جماعت ہے لیکن خدا نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ ہو چکا ہے اس لئے میں اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا.نائجیر یا کے ماہرین نے جب اس کا معائنہ کیا تو یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ یہ ہرگز پاگل نہیں ہے.جو یہ سمجھتا ہے خدا نے بتایا ہے اس کو بتایا ہے ہم اس میں کیا کر سکتے ہیں.واپس ملک میں جا کر کچھ دیر اس کو باندھ کے رکھا پھر اس کی خبر ملک کے پریزیڈنٹ کو بھی پہنچی پھر اور وہاں انکوائریاں ہوئیں یہاں تک کہ اس کو پھر یہ سمجھ کر کہ نہ یہ جھوٹا ہے، نہ یہ پاگل ہے اس کو آزاد کر دیا.اور وہ پھر اس تلاش میں نکلا کہ خدا نے جو خبر دی ہے وہ ہیں کون لوگ اور کہاں ہیں.وہ اس تلاش میں پھر رہا تھا اور ملک ملک پھر رہا تھا کہ جب وہ آئیوری کوسٹ پہنچا تو وہاں اس کو کسی نے کہا کہ جو سوالات تم کہہ رہے ہو اور جس قسم کی جماعت کی تم تلاش میں ہو وہ یہاں آئیوری کوسٹ میں موجود ہے.مالی میں بھی ہے.

Page 557

خطبات طاہر جلد ۸ 552 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء بورکینا فاسو میں بھی ہے لیکن وہ ہیں جھوٹے لوگ.اس نے کہا مجھے تم ملاؤ تو سہی.تو آئیوری کوسٹ میں جب جماعت کے مرکز میں پہنچا اور اس نے ان سے سوال کئے کہ تمہارے کیا کیا عقیدے ہیں.پہلے بتائی نہیں خواب اپنی.جب انہوں نے بتائے کہ یہ ہیں.یہی سوال کیا کرتا تھا وہ ہر ایک سے تا کہ کچی جماعت تک وہ پہنچ سکے.تو انہوں نے بتایا تو اس نے کہا آمنا و صدقنا یہی تو مجھے خدا نے بتایا تھا اور اسی وقت بیعت کر لی.اب وہ واپس جا کر اپنے علاقے میں بے حد تبلیغ کر رہا ہے اور وہاں سے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ اس کے زیر اثر بھی خدا کے فضل کے ساتھ کثرت سے لوگ تیار ہو رہے ہیں.تو اب یہ جو خدا نے مالی کو اپنے فضلوں کے لئے چنا ہے یہ جو دوست عمر کانتے تشریف لائے ہیں ان کا قبول احمدیت اور اس کے نتیجے میں کثرت سے لوگوں کا احمدی ہونا یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے.ا ان دنوں باتوں کا اکٹھا پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس سال کو خدا تعالی نے اپنے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کی صداقت کا ایک عظیم الشان سال بنانا تھا جو بنادیا گیا ہے یہ روشنی کا مینار قائم کر دیا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ الہام ایک دفعہ پھر بڑی شان سے پورا ہوا ہے کہ: پائے محمد یاں برمنار بلند محکم تر افتاد ( تذکره صفحه: ۷۷) یعنی یہ جماعت اس لئے قائم کی گئی ہے کہ عرصہ بہ عرصہ یہ بلند ہوتی چلی جائے اور یہ روشنی کا مینار بنتی چلی جائے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا قدم اس کندھے پر اور بلند اور اونچا ہوتا چلا جائے اور یہ مینار جتنا بلند ہو اتنی آنحضرت ﷺ کی شان زیادہ بلندی زیادہ رفعت کے ساتھ تمام دنیا پر روشن ہوتی چلی جائے.سیروہ حالات ہیں جو صرف مالی ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی بکثرت ظاہر ہور ہے ہیں.جلسہ کی تقریر میں بھی وقت کم تھا اور میں تفصیل سے اس مضمون پر روشنی نہیں ڈال سکا لیکن انشاء اللہ بہت سے کوائف ہیں جو با قاعدہ رپورٹ میں شائع ہوں گے تو جماعت کے لئے بہت ہی از دیا دایمان کا موجب بنیں گے.سیرالیون بھی ایک وہ ملک ہے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے شدید مخالفت کے باوجود جو سعودی عرب کی طرف سے کی جا رہی ہے اور بے انتہا روپیہ پھیلانے کے باوجود کسی طور بھی وہ

Page 558

خطبات طاہر جلد ۸ 553 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء جماعت کے قدم ترقی کی طرف روک نہیں سکے.بالکل بے اختیار ہو کے رہ گئے ہیں اور ان کی مخالفت کے علی الرغم ان کے جماعت بڑھتی چلی جارہی ہے، پھیلتی چلی جارہی ہے اور جو خطبے میں دیتا ہوں اس موضوع پر وہ فوراً پہنچتے ہیں پاکستان کے مولویوں کے ذریعے رابطہ عالم اسلامی تک اور دوسری جگہوں پر.پھر وہ شرارتیں سوچتے ہیں اور منصوبے باندھتے ہیں کہ اب تو انہوں نے بتا دیا ہے کہ کہاں ترقی ہو رہی ہے اب وہاں زور لگاؤ.پہلے تو میں حکمت سے کام لیتا تھا پھر مجھے خیال آیا کہ یہ خدا پر چھوڑو حکمتیں اسی پر ہمارا تو کل ہے اگر وہ ترقی دے رہا ہے تو وہ یہ روک کیسے سکتے ہیں.ان کو یہ تاب و تواں کہاں ہے کہ جس جماعت کو خدا ترقی دینے کے فیصلے کرلے اس کی ترقی کی راہ میں روک ڈال سکیں اور اس کی ترقی کی راہ میں حائل ہوسکیں.پس مجھے اب کوئی پرواہ نہیں میں بتا دیتا ہوں کیا ہو رہا ہے کہاں ہو رہا ہے.آؤ اور زور لگاؤ اپنا.جو تمہارے لشکر ہیں وہ چڑھا لا ؤ لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم یقیناً ناکام و نا مرادر ہو گے.خائب و خاسر رہو گے.خدا نے جماعت احمدیہ کی ترقی کے فیصلے کر لئے ہیں اور یہ فیصلے جو آسمان کی تحریریں ہیں زمین پر پوری ہوتی ہوئی تعبیروں کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں.کوئی دنیا کی طاقت اب آپ کی ترقی کو روک نہیں سکتی.ہاں اپنے ایمان کی حفاظت کریں.اپنے اخلاص کی حفاظت کریں.اپنے صبر کی حفاظت کریں.اپنے عزم اور حوصلے کی حفاظت کریں.سر بلند کرتے ہوئے غیر اللہ کے خوف کے بغیر خدا پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ترقی کی تمام راہیں آپ کے لئے اب کشادہ کھلی پڑی ہیں اور یہ نئی صدی آپ کے لئے ایسے عظیم الشان پیغام لے کے آئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ ترقیات کے نقشے خدا نے مختلف رنگ میں اس جلسے پر ہمیں دکھا دئے ہیں.جو مختلف ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقیات ہو رہی ہیں میں نے ان میں سے سیرالیون کا ذکر کیا لیکن صرف سیرالیون کا قصہ نہیں ہے.ہر ملک میں حیرت انگیز ہوائیں چل رہی ہیں.ایک مسمرہ چیف ڈم کے متعلق میں اس سے پہلے اعلان کر چکا ہوں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ پہلے پیرا ماؤنٹ چیف کو توفیق عطا فرمائی پھر اس کے پیچھے اس کے ماننے والوں میں سے آٹھ ہزار کچھ سو ایک دفعہ ہوئے ، سات ہزار کچھ سو ایک دفعہ ہوئے اور اب وہ خدا کے فضل

Page 559

خطبات طاہر جلد ۸ 554 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء سے سارے کا سارا علاقہ احمدیت کی آغوش میں آچکا ہے.اس سے پھر دوسرے چیفس کی طرف سے پیغام ملنے شروع ہوئے کہ ہمارے پاس بھی آؤ اور ہمیں بھی ہدایت کا پیغام دو.وہ مہم اب جاری ہے اور ایک اور چیف جو یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں وہ ایک ویسے کسی علاقے کے چیف تو نہیں ہیں لیکن ایک بڑی ہی منظم اور قربانی کرنے والی مذہبی جماعت کے راہنما ہیں اور اس کے جنرل سیکرٹری ہیں بانکو بانا (Banco Bana) غالبا اس کا نام ہے.جب میں دورے پر سیرالیون گیا تو وہاں سے واپسی پر مجھے ایک خط ملا جو غالبا انہی کی طرف سے تھا کیونکہ وہ سیکرٹری بانکا بانا کی طرف سے تھا.اس میں انہوں نے لکھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے آپ کے دوروں کا اور بعض ایسے نشان ہمیں معلوم ہوئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمد یہ کچی ہے.اس لئے ہماری طرف بھی توجہ کریں.ہماری طرف بھی اپنے نمائندے بھیجیں.ہم دس ہزار کی ایک جماعت ہیں جو اسلام سے گہری محبت رکھتی ہے اور منظم جماعت ہے.ہمارے بڑوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جہاں تک ظاہری اندازوں کا تعلق ہے یہ جماعت سچی ہے اس لئے ان سے رابطہ کیا جائے اور اگر گفتگو کامیاب ہو تو پھر با قاعدہ جماعتی طور پر اس جماعت میں شامل ہوا جائے.چنانچہ جب میں نے مبلغ کو وہاں بھجوایا ان کے ساتھ چند دوستوں کو تو گفت وشنید کے بعد وہاں ان کی جماعت کے بعض حلقوں کی طرف سے قبولیت شروع ہوگئی اور یہ سلسلہ اب چل رہا ہے آگے.یعنی یہ نہیں کہ سارے ملک کی طرف سے اکٹھا کسی نے اعلان کیا ہو.افریقین لوگ بڑے سمجھدار ہیں اور باوجود اس کے کہ آپ کو شاید یہ تاثر ہو گا کہ بڑے لیڈروں کے پیچھے چُپ کر کے چلے جاتے ہیں یہ نہیں ہوتا.پہلے لیڈ ر قبول کرتا ہے پھر وہ مواقع فراہم کرتا ہے اپنے ماننے والوں کو اور گفتگو کرواتا ہے اور دیکھتا ہے کہ مناسب ماحول میں امن کے ساتھ باقاعدہ گفت و شنید ہو اور کوئی نا جائز حرکت نہ ہو.یہ وہ ضمانت دیتا ہے.پھر اللہ کے فضل سے گاؤں گاؤں ایسی مجلسیں لگتی ہیں اور پھر گاؤں والے خود فیصلے کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے.چنانچہ اب تک چار ہزاران کی جماعت کے احمدی ہو چکے ہیں اور باقی مسلسل ابھی کام جاری ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ وہاں سے بھی انشاء اللہ مزید کثرت سے بیعتوں کی اطلاع ملے گی.

Page 560

خطبات طاہر جلد ۸ 555 خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۸۹ء اور بھی کئی Chiefdoms ہیں جہاں خدا تعالیٰ نے بڑے پیار اور فضل کے نشان ظاہر فرمائے ہیں.گیمبیا میں بھی یہی صورت ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا وہ جماعتیں جو بارہ سے بھی کم تھیں کچھ سال پہلے وہ اب ۰۷ اہو چکی ہیں.میں نے جلسے پر ۱۰۸ کہا تھا مگر بعد میں مجھے مربی صاحب نے بتایا کہ غلطی سے میں نے ۱۰۸ بیان کیا تھا میں نے گنا ہے تو ے، انکلی ہیں.مگر ۱۰۸، ۱۰۷ کا تو معمولی فرق ہے اصل فرق یہ ہے کہ اس سے پہلے چند سال پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو کل تعداد آٹھ تھی اور اب خدا نے اس کو بڑھا کر ۱۰۷ کر دیا ہے.وہاں بھی ایک بیان کرنے میں غلطی ہوئی تھی.میں نے غالباً بتائی تھی تعداد شروع میں.وہ انہوں نے بتایا ہے کہ جب آپ یہاں آئے ہیں اس وقت ۶ نہیں تھی اس وقت آٹھ تعداد تھی اور اب ان چند سالوں میں تقریباً ایک سو یا نناوے کا اضافہ ہو چکا ہے.گیمبیا کے جو مختلف مبلغ خط لکھتے ہیں رپورٹیں بھیج رہے ہیں ان میں سے ایک حفیظ شاہد صاحب کی رپورٹ میرے سامنے ہے وہ کہتے ہیں ان دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں.صرف گزشتہ دو ماہ میں خاکسار کو اپنے حلقے میں ۲۲ نئی جماعتیں قائم کرنے کی توفیق ملی ہے.اس کے علاوہ ۲۱ نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے.اس عبارت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جماعتوں سے مراد یہ نہیں ہے کہ جہاں ایک آدمی آجائے تو وہ جماعت بن گئی.ہوتا یہ ہے کہ نئی نئی جگہوں پہ جماعت کا پودا لگتا ہے پھر وہاں تبلیغ ہوتی ہے.پھر ایک خاصی تعداد وہاں جب قبول کر لیتی ہے تو اس کے بعد پھر جماعت قائم کی جاتی ہے.تو عملاً جہاں تک دیہات کا تعلق ہے ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے جو بیان کی گئی ہے اور کہتے ہیں کہ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعے تیرہ سو پچانوے بیعتیں ہو چکی ہیں.جہاں مختلف قسم کے اعزاز ملے ہیں جماعت کو ان میں ایک میں نے بتایا تھا کہ سیرالیون میں ہی ایک جگہ ہمارے مربی کو فوجی دستے نے سلامی دی ہے اور اس کے علاوہ جماعت کے جوسکول کے بچے تھے انہوں نے ان کے بڑے لوگوں کو سلامیاں دیں اور بڑی محبت اور پیار کے ماحول میں یہ ایک دوسرے کے ساتھ عزت افزائی کا سلوک کیا گیا.جو تقریریں اس موقع پر ہوئی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں.اتنی باریکی سے ان حالات کو وہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ خیال نہ کریں کہ وہ سادہ لوگ ہیں ان کو پتا ہی کچھ نہیں کیا ہو رہا ہے.تمام مخالفت کے حالات کو سمجھتے ہیں تمام عناصر کو جانتے ہیں جو مخالفت پر

Page 561

خطبات طاہر جلد ۸ 556 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء تلے ہوئے ہیں.اس کے باوجود انہوں نے اپنی تقاریر میں یہ اعلان کئے ہیں کہ وہ لوگ جو احمدیت کا تعاقب کرنے کے لئے یہاں پہنچتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولویوں کی زبان ان تک پہنچی ہے کیونکہ یہ خاص ان کا محاورہ ہے ان کی دلچسپی کا کہ ہم احمدیت کا ہر جگہ تعاقب کریں گے.تو ایک بہت بڑے پولیس افسر نے جسے ہمارے سکول کی سلامی دی تھی ایک موقع پر انہوں نے اس کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ جو لوگ احمدیت کے تعاقب کے نام پر یہاں پہنچ رہے ہیں میں ان کو بھی خبر دار کرتا ہوں اور سیرالیون کے بسنے والے باشندوں کو بھی خبر دار کرتا ہوں کہ وہ احمدیت کا تعاقب نہیں بلکہ ہر سیرالیونی کا تعاقب کرنے یہاں پہنچ رہے ہیں اور ہم انہیں نا کام کردیں گے.ایسے ایسے عظیم الشان خراج تحسین جماعت کو دئے گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.بڑے کھل کے حکومت کے نمائندوں اور افسران نے کہا کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے ہمیں آکے بچایا.جس نے ہم پر احسانات کئے.اب ہم آج کے آنے والوں کی خاطر ان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں.اس موقع پر جو ایک خبر سے مجھے بہت ہی خوشی ہوئی وہ یہ ہے کہ (Rocopoor) میں جہاں حضرت الحاج نذیر احمد صاحب علی نے احمدیت کا پیغام پہنچایا تھا اور بڑی قربانیاں دی تھیں سب سے پہلے جس مکان میں وہ آ کے اترے تھے جو سڑک اس مکان کے پاس سے گزرتی ہے وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف نے سوسال پورے ہونے کی خوشی میں اس سڑک کا نام الحاج نذیر احمد علی سٹریٹ رکھ دیا ہے اور وہ سڑک آگے جا کر دو بڑی سڑکوں سے ملتی ہے.تو اس جنکشن کا نام بھی کچھ اور تھا انہوں نے اب اس جنکشن کا نام بھی الحاج نذیر احمد علی جنکشن رکھ دیا ہے.ہر جگہ خدا تعالیٰ غیر معمولی عزت افزائیاں فرما رہا ہے جماعت کی اور مبلغ وغیرہ سب لکھتے ہیں کہ ہمیں تو نہیں کچھ سمجھ آتی کہ ہو کیا رہا ہے ہماری تو عقل سے بالا ہیں یہ باتیں.یوگنڈا میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی قسم کے بے شمار واقعات ہو رہے ہیں.راجہ نصیر احمد صاحب ناصر نے اپنی رپورٹ میں ایک جگہ لکھا کہ ہمارے دائین نے مائیو گوے نامی گاؤں کے کئی دورے کئے.وہاں تبلیغی مجالس ہوئیں.اب خدا کے فضل سے تینتالیس (۴۳) افراد وہاں شامل ہوئے ہیں اور ایک مسجد بھی ساتھ لائیں ہیں اور دو ایکڑ زمین بھی ساتھ لائے ہیں لیکن اس کے علاوہ جو ان کی رپورٹیں تھیں میرے پاس اس وقت وہ کاغذ نہیں رہے.اس میں بیک وقت سینکڑوں کے قبول احمدیت

Page 562

خطبات طاہر جلد ۸ 557 خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۸۹ء کے ذکر بھی ہیں اور بعض گاؤں کے گاؤں خدا کے فضل سے احمدیت میں شمال ہوئے ہیں.اسی طرح داؤ داحمد حنیف صاحب کی گیمبیا کی بڑی بڑی دلچسپ رپورٹیں ہیں مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس وقت تو اتنا وقت میرے پاس نہیں کہ ان سب رپورٹوں کا اکٹھا تذکرہ کر سکوں لیکن جو ایمان افروز واقعات وہاں سے آتے ہیں انہیں پڑھ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی شان کے تصور سے اس کی رحمتوں اور فضلوں کے تصور سے روح سجدہ ریز ہوتی ہے اور دل حمد و ثناء سے بھرا رہتا ہے.وہ صاحب جن کا میں نے ذکر کیا تھا کہ جنرل سیکرٹری ہیں بانکو بانا کے ان کا نام مسٹر محمد ایستورے ہے.یہ بھی یہاں جلسے پر تشریف لائے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ انشاءاللہ ان کے جانے کے بعد اور زیادہ تیزی سے جماعت احمد یہ میں شمولیت کا رجحان بڑھے گا.آخر پر میں ایک یہ بات بھی آپ کو بتاؤں کہ یہ جو میں نے واقعہ بتایا ہے رویا کے ذریعہ کسی کا احمدیت کی صداقت کو پانا یہ کوئی انفرادی یا اتفاقی واقعہ نہیں ہے بلکہ بعض اس اس نوع کے واقعات ہیں جو میرے دورے کے وقت جگہ جگہ دہرائے گئے ہیں اور ان کی شکل آپس میں ایک دوسرے سے اتنی ملتی ہے کہ سوائے اس کے کچھ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر ظاہر ہو رہی ہے.مثلاً جب میں گیمبیا گیا تو وہاں ایک ایسا غیر معمولی ستارہ طلوع ہوا اور وہ ستارہ عین چاند کی گود میں تھا کہ ویسی کوئی چیز کسی نے پہلے نہیں دیکھی تھی اور بعض اخباری نمائندوں نے اس کی تصویر میں بھی کھینچی اگر چہ وہ اچھی نہیں آئیں لیکن اخبارات میں شائع ہوئیں اور اس کی تعبیر ان کو سمجھ نہیں آتی تھی.مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ نئی روشنی نہیں لے کے آئے بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں لے کے سورج کی روشنی ہی ہے جو اس چاند میں منعکس ہو رہی ہے تو اس ستارے سے مراد اس وقت کا خلیفہ ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گود میں پل رہا ہے.کیونکہ وہ تصویر ایسی بنی تھی کہ چاند کی گود میں ایک ستارہ ظاہر ہوا ہے اور نہ اس سے پہلے کسی نے ویسا ستارہ دیکھا نہ اس کے بعد کسی نے دیکھا.جب میں گھانا گیا تو وہاں بھی ایسا ہی واقعہ ہوا کہ ایک غیر احمدی مسلمانوں کے بڑے راہنما نے پیشتر اس کے کہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ کون آنا ہے ، کیا بات ہونی ہے اس نے دیکھا کہ چاند ہمارے شہر پر جھک گیا ہے اور اس کی اتنی روشنی ہے کہ کبھی ہم نے اس سے پہلے چاند کی ایسی روشنی نہیں دیکھی

Page 563

خطبات طاہر جلد ۸ 558 خطبه جمعه ۱۸ را گست ۱۹۸۹ء تھی.اس نے بعد میں خود ذکر کیا کہ جب مجھے پتا لگا کہ جماعت احمدیہ کے امام آرہے ہیں تو اس وقت مجھے خیال آیا کہ یہ اسی واقعہ کی طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ معلوم ہوتا ہے.اسی طرح جس جس ملک میں میں گیا ہوں وہاں خدا کے فضل سے کوئی نہ کوئی آسمانی نشان ایسا ظاہر ہوا جس سے غیروں کو اطلاع ملی ہے.یعنی اپنوں کو تو بعض دفعہ محبت کے نتیجے بھی اچھی خواہیں آجاتی ہیں اور جب تک خدا کی طرف سے خاص علامتیں ظاہر نہ ہوں ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ تمناؤں کی خواب ہے یا خدا کی طرف سے غیر معمولی نشان ہے لیکن جب کثرت سے غیر ایک ہی طرح کے خوابیں دیکھ رہے ہوں تو اس کو تصور یا تمنا کی خواب قرار دینا جہالت ہوگی.میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا ہے کہ جب میں وہاں گیا گوئٹے مالا تو وہاں ایک منجم نے جو بہت بڑے صحافی بھی ہیں انہوں نے جب زائچہ نکالا تو انہوں نے دیکھا کہ جس تاریخ کو میں پہنچ رہا ہوں وہ گوئٹے مالا کی تاریخ کا سب سے معزز دن ہے اور اسی وجہ سے ان کو دلچسپی پیدا ہوئی ، اسی وجہ سے انہوں نے اخبارات میں جماعت کے متعلق مضامین لکھے اور سارے ملک میں اچانک جماعت احمدیہ کا تعارف ہو گیا جبکہ ہمارا اس وقت ایک بھی مسلمان وہاں موجود نہیں تھا.تو خدا کے کام ہیں جو کرتا ہے.اب مجھے ایک دلچسپ بات نائجیریا کے متعلق معلوم ہوئی جو پہلے نہیں تھی یہ سنا کر پھر میں اس خطبے کو ختم کروں گا.اس کا بھی اسی قسم کے ایک منجم کی پیشگوئی سے تعلق ہے.آپ یہ جانتے ہیں منجم تو ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں لیکن بعض دفعہ خدا تعالیٰ ان کے زیر اثر لوگوں کو ہدایت دینے کی خاطر ان کے منہ سے بھی کچی باتیں نکلوا دیتا ہے.جس طرح ایک دفعہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں ایک ایسے ہی انکل سے باتیں کرنے والا اس باغ کے قریب پہنچا جہاں حضور اکرم آرام فرما رہے تھے اور وہ باڑ میں سے آپ کو دیکھ رہا تھا.تو حضور اکرم ﷺ نے سنا ہوا تھا کہ یہ انکل پچھ سے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے دیکھوں یہ کیا چیز ہے کہیں دجال تو نہیں.اس پر آپ نے سورہ دخان کا مضمون ذہن میں باندھا اور اس میں بڑی حکمت یہ تھی کہ اگر دجال ہوا تو چونکہ دخان کا مضمون دجال سے تعلق رکھتا ہے اور یہ بھاگ جائے گا اور اگر ویسے ہی ہوا کوئی اٹکل والا تو اندازہ ہوگا کہ اس کو کچھ پتا بھی لگتا ہے کہ نہیں.تو اس شخص میں کچھ خدا نے روشنی ضرور رکھی تھی.چنانچہ جب حضور اکرم ﷺ نے سورہ دخان کا مضمون باندھا ہے ذہن میں اور یہ کہنے لگ گیا دخ دخ دخ..

Page 564

خطبات طاہر جلد ۸ 559 خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۸۹ء یعنی صرف دخ تک پہنچا ہے اس سے آگے نہیں بڑھ سکا.(مسلم کتاب الفتن حدیث نمبر : ۷۳۴۵) اب مجھے پورے الفاظ تو یاد نہیں لیکن غالباً اس قسم کا حضور کا تبصرہ تھا کہ مجھے تمہاری پہنچ کا پتا چل گیا ہے بس دخ تک ہی ہو تم.تو اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایسے لوگوں کو بھی دوسروں پر اثر انداز ہونے کے لئے سچی باتیں بتا دیتا ہے.نائجیریا کے سب سے بڑے مسلمان چیف پہلے جن چیف سے میں ملا تھا بہت ہی معزز اور وہاں کے بادشاہ کہلاتے ہیں.مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ ان سے بھی اوپر کا مقام ہے ان کا بہت ہی معزز ہیں اور صدر مملکت ان کا بڑا حترام کرتے ہیں.ان سے کچھ احمدی ملے جشن تشکر کے سلسلے میں دعوت دینے کے لئے گئے اور ضمناً ذکر کیا کہ دیکھیں وہ دوسرے چیف اتنے بڑے چیف ہیں لیکن بہر حال آپ کے جیسے تو نہیں.وہ جب ہمارے امام آئے تو ان سے ملنے آئے ، ان کو دعوت دی اور بہت بڑا اعزاز کیا اور دعائیں لیں تو آپ کیوں خاموش بیٹھے رہے ہیں.اس نے کہا بات یہ ہے کہ مجھ سے ایک دھوکا ہو گیا.کہتے ہیں کہ مجھے خود پریزیڈنٹ کی طرف سے یہ پیغام ملا تھا کہ اس طرح ہمارے ایک معزز مہمان آرہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی ان کے استقبال کرنے والوں میں شامل ہوں اور چونکہ وہ مسلمان را ہنما ہیں وہ پریذیڈنٹ بڑے صاحب حکمت ہیں.وہ یہ چاہتے تھے کہ دوسرے مسلمانوں پر یہ اثر ہو کہ اتنا بڑا مسلمان را ہنما بھی جو عزت افزائی کر رہا ہے تو پھر ان سے ملنے جلنے اور تعلق بڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے.غالبا ان کے پیش نظر یہ حکمت ہوگی لیکن وہاں کے ایک منجم نے یہ اخبار میں خبر شائع کر دی کہ تیرہ فروری کو جس دن میں نے وہاں پہنچنا تھا اس دن ایک بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے اور خود پریذیڈنٹ صاحب گھبرا گئے کہ کہیں کوئی فساد نہ ہو جائے چنانچہ انہوں نے ان کو فون کیا کہ دیکھیں میں نے آپ سے خود کہا تھا لیکن آپ چپ کر کے بیٹھے رہے کیونکہ تیرہ فروری کو کوئی بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے.ان کو یہ نہیں پتا تھا کہ اس دن میں نے آنا تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے وہ دن بھی دکھا دیا ان کو.تو بہر حال وہ واقعہ ہو کے گزر بھی گیا لیکن بعد میں یہ خدا تعالیٰ نے اس روایت کو محفوظ کرانے کے لئے ہم تک اس بات کو پہنچا بھی دیا.تو ہر دفعہ ہر طرف سے یہ اطلاع مل رہی ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اس میں خدا کی تقدیر کا ہاتھ تھا اور ہماری ہوشیاریوں اور چالا کیوں کا کوئی دخل نہیں ہے.ہماری کوششوں اور منصوبوں کا دخل نہیں ہے

Page 565

خطبات طاہر جلد ۸ 560 خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۸۹ء لیکن خدا کی تقدیر بھی بے وجہ تو ظاہر نہیں ہوا کرتی.میں اس یقین سے بھر چکا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے دل میں خدا نے تقویٰ دیکھا ہے.جماعت احمدیہ کے دل میں خدا تعالیٰ نے خود للہی محبت پائی ہے.ایسا خلوص دیکھا ہے جو تقدیروں کو ڈھالا کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی رحمتیں آسمان سے زمین پر جھک جایا کرتی ہیں.پس نئی صدی میں آگے بڑھنے والو! اسی یقین اور کامل خلوص اور تقویٰ اور توکل کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاؤ کہ یہ صدی تمہاری اور غلبہ اسلام کی صدی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی کیونکہ یہ آسمان پر لکھی ہوئی تقدیر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر اور ہمیں تقویٰ کی راہوں پر قدم آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ایک لمبی فہرست ان کتب کی بھی ہے جو اس موقع پر یعنی اس سال کے دوران خصوصیت سے شائع کی گئی ہیں ان میں ایک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت پر ایک کتاب ہے جو Mr.lain Adamson نے جو یہاں کے ایک مشہور صحافی تھے اور آج کل ریٹائر ڈ ہیں اور بڑے مقبول مصنف ہیں انہوں نے تحریر کی ہے اور یہ کتاب ایسی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.بہت ہی عمدہ اس مضمون پر میرا خیال ہے انگریزی میں اس سے پہلے ایسی اچھی کتاب نہیں لکھی گئی.تو جو دوست یہ کتاب اور دوسرا لٹریچر لے جانے کے خواہش مند ہوں ان کے متعلق میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ یہ سارا لٹریچر وہ ہے، قیمتی لٹریچر اس میں بڑا جو قیمتا فروخت کیا جاتا ہے مگر جلسے پر آنے والے مہمانوں کے لئے یہ میں تحفہ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں.اس لئے جو دوست یہاں سے جاتے ہوئے ان نئی شائع شدہ کتب میں سے لینا چاہیں اپنے لئے ، گھر واپس لے جانے کے لئے تو جو سٹال پر بیچنے والے ہیں وہ ان کو تحفہ پیش کریں.جو زائد اپنے طور پر خدمت کے لئے رقم دینا چاہیں وہ بے شک قبول کریں لیکن فرض نہیں ہے اور ایک کتاب ساتھ لے جانے کا حق ہے آپ کا.اگر وہ مہیا ہوئی تو انشاء اللہ آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی.

Page 566

خطبات طاہر جلد ۸ 561 خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۸۹ء ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعہ تربیتی خلا کو پُر کریں جلسہ سالانہ کے میزبانوں اور مہمانوں کو نصائح خطبه جمعه فرموده ۲۵ را گست ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے غیر معمولی احسان اور رحم کے ساتھ ہمارا جلسہ سالانہ اختتام کو پہنچا اور اس کے بعد جلسہ سالانہ کے پیچھے رہنے والے اثرات اور ان برکات کو سمیٹنے کا وقت آگیا ہے جو یہ جلسے لے کر آیا کرتے ہیں.یوں تو ہر جلسہ سالانہ اپنے فضل کے ساتھ بہت سی برکات لے کر آتا ہے مگر یہ جلسہ کیونکہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا اس لئے اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل نازل فرمائے جن کی لذت دلوں میں موجود بھی ہے اور عرصہ تک موجود در ہے گی اور یہاں سے واپس جانے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں خدا کے فضلوں کے منادی بن کر واپس جائیں گے.بہت سے جاچکے ہیں بہت سے جانے والے ہیں.اس ضمن میں چند نصائح آپ کو کرنا چاہتا ہوں.انگلستان والے میز بانوں کو بھی اور جانے والے مہمانوں کو بھی.جہاں تک انگلستان کے میزبانوں کا تعلق ہے آپ نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی ہمت اور بڑی جانکا ہی سے، بڑی کوشش اور محنت سے اور اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھاتے ہوئے انہوں نے دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کیا اور بہت سے ایسے باہر سے آنے والے بھی تھے جو اپنے شوق کے جذبے سے خدمت میں شامل بھی ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل

Page 567

خطبات طاہر جلد ۸ 562 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء سے وہ مہمان بھی تھے اور میزبان بھی.ایسے مواقع پر بعض اوقات کچھ تلخیاں بھی پیدا ہو جایا کرتی ہیں.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے ایسے مواقع کم آئے اور شاذ کے طور پر آئے لیکن بعض دفعہ منتظمین ایک لمبے عرصے سے کام کے نتیجے میں اعصابی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور تھک جاتے ہیں اور ایسے وقت میں کوئی مہمان کوئی ان سے مطالبہ کرے یا کوئی بات پیش کرے تو بعض دفعہ وہ اپنے تحمل کی حدیں پھلانگ کر ایسی بات کر جاتے ہیں جو مہمانوں کے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے.ایسے موقع پر بعض دفعہ چھوٹی سی بات اتنی کڑوی ہو جاتی ہے کہ مہمان جن کے دل ہمیشہ نازک ہوتے ہیں وہ اس کڑواہٹ کو برداشت نہیں کر سکتے اور خاص طور پر اس جلسے میں چونکہ بہت دور دراز کے سفر کر کے غیر معمولی کلفت اٹھا کر بہت مشقت اور محنت کے ساتھ اپنی جمع شدہ پونجیاں خرچ کر کے دوست یہاں پہنچے اس لئے خاص طور پر یہ دلداری کے محتاج تھے اور محتاج ہیں.پس اگر جماعت احمدیہ انگلستان کے کسی کارکن کی طرف سے کوئی ایسی کڑوی بات ہوئی جس نے تلخی پیدا کی تو میں ان کی طرف سے آپ سے معافی چاہتا ہوں کیونکہ مہمانوں کے جذبات بہت ہی قابل قدر ہوا کرتے ہیں، ان کے دل بہت نازک ہوا کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں آنے والے مہمان تو واقعہ سر آنکھوں پر بٹھانے کے لائق ہیں اس لئے ان کی طرف سے اگر کچھ کبھی زیادتی بھی ہو جائے یا ایسا بوجھ ڈالیں جو دستور کے مطابق نہیں ڈالا جاتا تب بھی حوصلہ اور صبر اور حلم کے ساتھ ایسی چیزوں کو برداشت کرنا چاہئے اور اُف نہیں کہنا چاہئے.حضرت اقدس محمد مصطفی امی ﷺ کے ارشادات سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ بہت ہی نیک اور برگزیدہ لوگوں سے بھی جن کی نیکی اور برگزیدگی میں کوئی شک نہیں ہوتا.جن کے اخلاص میں کوئی شک نہیں ہوتا.جن کی لہی خدمت میں کوئی شک نہیں ہوتا.ایک ایسی بات نکل جاتی ہے جو اپنی تلخی اور کڑواہٹ میں آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق سمندر میں بھی ڈالی جائے تو اس کو کڑوا کر دیتی ہے.ایسے موقعے جیسے کہ جلسہ سالانہ کے موقعے ہیں.ایسے موقع پر اس قسم کی بات بعض دفعہ غیر معمولی طور پر ساری مہمان نوازی میں کڑ اوہٹ پیدا کر دیتی ہے اس لئے کسی کو متہم کرنے کی بجائے کسی ایک کی بات کرنے کی بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ آنے والے مہمانوں سے اس بات کی معافی چاہوں اور اگر کسی کارکن سے کوئی ایسی بات ہوئی ہے تو وہ مجھ سے معافی مانگنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف

Page 568

خطبات طاہر جلد ۸ 563 خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۸۹ء رجوع کرے اور استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہی اور غفلت کی معافی چاہے.کچھ مہمان تو ابھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جانے والے ہیں عنقریب اور غالباً اکثریت اس جمعہ اور اگلے جمعہ کے درمیان رخصت ہو چکی ہو گی لیکن کچھ مہمان شاید ابھی یہاں ٹھہریں.کچھ ایسے مہمان ہیں جن کو حکومت نے لمبا عرصہ ٹھہرنے کی اجازت دی ہے اور ان کے عزیز اور اقرباء خود نہیں چاہتے کہ وہ جلدی رخصت ہوں.ایسے مہمانوں کا تعلق انفرادی طور پر بعض خاندانوں سے ہے اور اپنے وعدوں کی پابندی کی حدود میں رہتے ہوئے اگر قانون شکنی کے بغیر وہ ٹھہر نا چاہیں تو کسی کو ایسے ٹھہر نے والوں پر اعتراض کا حق نہیں.کچھ ایسے ہیں جو بعض مجبوریوں کے پیش نظر قانون کی حدود میں رہتے ہوئے جماعت کی اجازت سے یہاں کچھ عرصے کے لئے ٹھہر رہے ہیں.ان کے بھی اگر اپنے کچھ ٹھکانے ہوں.اپنے عزیزوں اور دوستوں کی طرف وہ ٹھہر سکتے ہوں تو میں ان دوستوں اور عزیزوں سے خود درخواست کرتا ہوں کہ چونکہ یہ غیر معمولی حالات میں آئے ہوئے اللہ کے مہمان ہیں اس لئے ان کے ساتھ غیر معمولی مہمان نوازی کا سلوک کیا جائے اور جو بھی تکلیف اس راہ میں پہنچے اسے اللہ کی خاطر برداشت کرنے کی کوشش کریں اور وسیع حوصلہ دکھا ئیں.انصار نے تو اپنی آدھی آدھی جائدادیں مہاجرین کی خدمت میں پیش کر دی تھیں اور مستقلاً اپنے گھر پیش کر دئے تھے.ان آنے والوں کے مطالبے تو کوئی نہیں میری طرف سے یہ مطالبہ ہے کہ جن کو بعض جماعتی ضروتوں کے پیش نظر یا بعض ایسے حالات کی بناء پر کچھ عرصہ یہاں ٹھہر نا پڑے جو قانونی حدود کے اندر ہو اور جماعت کی اجازت سے ہو تو ان کے لئے جہاں تک مقامی انگلستان کے احمدیوں کا تعلق ہے وہ لہی خدمت کے جذبے سے مہمان نوازی کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور چند ماہ کی بات ہے اس کے بعد انشاء اللہ یہ لوگ بھی جیسا کہ باقی سب مہمان رخصت ہو گئے ہیں جہاں بھی خدا نے ان کے لئے مقدر بنایا وہاں رخصت ہوں گے.نظام جماعت کی طرف سے بھی اگر ان کا کچھ انتظام ہوسکتا ہے تو اس سلسلہ میں میں نے ایک کمیٹی مقرر کی ہے جو حالات کا جائزہ لے کر مشورہ دے گی کہ جماعت کس حد تک مزید ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہے.بہر حال جو مہمان تشریف لائے ہیں ان کو بھی اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہی کوشش کرنی چاہئے کہ کم سے کم بوجھ بنیں.اللہ تعالیٰ نہایت ہی عمدگی کے ساتھ بہت پاکیزہ محبت

Page 569

خطبات طاہر جلد ۸ 564 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء کے ماحول میں ان معاملات کو طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جلسے کے تاثرات سے متعلق ایک اہم بات میں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں اس میں جانے والے مہمان بھی خصوصیت سے پیش نظر ہیں مگر یہاں کے مقامی انگلستان کے احمدی بھی اس نصیحت کی ذیل میں آتے ہیں.آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب ہوا اور اس میں بعض نئی خدا کی شان کے جلوے ہم نے دیکھے جن کی وجہ سے دل حمد سے بھرے ہوئے ہیں اور تمام جلسے پر بے اختیار لوگ خدا تعالیٰ کی حمد سے مغلوب ہو کر جب ان کے دل چھلکتے تھے تو نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے تھے اور مختلف قسم کے نعرہ تکبیر زندہ باد اور کئی قسم کے ایسے نعرے آپ نے سنے جو عام جلسوں میں بھی سنے جاتے ہیں مگر اس جوش اور اس کثرت کے ساتھ اور اس شدت کے ساتھ پہلے نہیں سنے گئے.یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی جو مجھے مستورات نے بتایا ہے ہماری خاندان کی بعض بچیوں نے کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی بے اختیار کھڑے ہو کر ہاتھ اپنا بلند کر کے نعرے لگاتے تھے اور جو باہر سے آنے والے مہمان تھے وہ حیرت کے ساتھ دیکھتے تھے کہ کس قسم کے لوگ ہیں کیسا جذبہ ہے.اس دوران مجھے کچھ فکر بھی پیدا ہوئی اور اسی فکر کا میں اب ذکر کرنا چاہتا ہوں.آپ کو یاد ہوگا میں نے جلسے میں بتایا تھا کہ جب مجھے اندازہ ہوا کہ کس قسم کے مہمان آرہے ہیں اور کس قسم کا ایک نیا ماحول پیدا ہو گا تو مجھے سخت فکر پیدا ہوئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی صحابی یہاں نہیں ہے.چنانچہ فوری طور پر پیغام پہنچایا گیا کہ اگر چہ حضرت مولوی محمد حسین صاحب علالت کے باعث انکار کر چکے تھے لیکن ایک دفعہ میری طرف سے ان کو پیغام دیا جائے اور کوشش کی جائے کہ وہ ضرور پہنچیں.چنانچہ اللہ کے فضل سے ان کی مشکلات بھی ساری آسان ہو گئیں.سفر خدا نے اپنے فضل سے اچھا گزار دیا اور وہ ہم میں موجود تھے.میری پریشانی اس بات کی تھی کہ اگر چہ یہ جودنیا کی چمک ہمیں یہاں دکھائی دی ہے یہ ذاتی طور پر ہماری مقصود نہیں تھی اور دنیا کی چمک کی وجہ سے ہم مرعوب نہیں ہورہے تھے بلکہ اس وجہ سے اللہ کی حمد کے ترانے گا رہے تھے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دئے گئے وعدے پورے ہور ہے تھے اور بڑی بڑی حکومتیں بھی اور بڑے بڑے صاحب ثروت لوگ جماعت کی طرف مائل ہوتے نظر آرہے تھے اور اس وجہ سے جو حد کے جوش میں نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے وہ در حقیقت دنیا کی چمک سے مرعوب ہو کر نہیں

Page 570

خطبات طاہر جلد ۸ 565 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء بلکہ اس لئے ہوئے کہ دنیا کی چمک صداقت سے مرعوب ہو چکی ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت نے یہ جلوے دکھائے ہیں کہ دور دور سے دنیا کے اکابرین کھچے ہوئے چلے آئے اور کس محبت اور جوش کے ساتھ انہوں نے جماعت احمدیہ کی تائید میں اپنے خیالات کا اظہار کیا.یہ جو فرق ہے یہ ہمیشہ میرے سامنے رہا اور مجھے یقین ہے کہ آپ سب کے سامنے بھی رہا ہو گا لیکن یہ خدشہ ضرور ہے کہ بعض لوگ اس چمک سے مرعوب ہو کر اس چمک کی طرف ہی مائل نہ ہو جائیں اور ان کی نگاہیں اس شیشے پر نہ ٹھہر جائیں جس میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کا انعکاس ہوا تھا.شیشہ تو ایک ایسی چیز ہے جو اپنی ذات میں نہ کوئی رنگ رکھتی ہے نہ کوئی نقش رکھتی ہے بلکہ اگر کسی بدصورت آدمی کو اس میں دکھایا جائے تو وہ بدصورتی پیش کرے گا ، اگر کوئی حسن دکھایا جائے تو وہ حسن پیش کرے گا.جولوگ جو یہاں آئے ان کو شیشوں کے طور پر دیکھنا چاہئے.اپنی ذات میں ان شیشوں سے محبت نہیں ہونی چاہئے اگر چہ شیشے کی احسان مندی ایک الگ مسئلہ ہے جس نے بڑی خوبصورتی سے ایک جلوے کو آپ کے سامنے پیش کیا لیکن نظر جلوے پر جا کر ٹھہرنی چاہئے.یہ شیشے دنیا کی چمک کو بھی دکھانے والے ہیں.یہی شیشے مختلف ماحول میں مختلف قومی یا بین الاقومی مواقع پر کچھ اور مناظر بھی پیش کرتے ہیں جو ایک مومن کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہو سکتے.اس لئے محبت شیشوں سے نہ کریں بلکہ محبت اس جلوے سے کریں جوان شیشوں نے آپ کو دکھایا اور وہ اللہ کے نور کا جلوہ تھا خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا جلوہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کے دنیا میں پھیلنے کا جلوہ تھا اور اس کے بعد چونکہ ایک حد تک کچھ نہ کچھ ملونی، دنیا کی چمک بھی ہم نے دیکھ لی اس لئے استغفار کی طرف مائل ہونا بہت ضروری ہے اور یہی ہے جو میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور بڑی فکر سے اس کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.یہاں سے جب آپ لوٹیں گے اور خدا کے فضلوں کے منادی بنیں گے تو جماعتوں کو بھی بتائیں کہ حکومتوں کے تعلق سے ہمارے دل مرعوب نہیں ہیں.حکومتوں کے تعلق سے ہمارے رستے نہیں بدل سکتے.ہمارے رخ خدا کی طرف ہیں اور خدا ہی کی طرف رہنے چاہئیں اور کوئی اس سفر کے دوران ایسی منزل جہاں غیر آکر آپ کے مقام پر کچھ دیر ستائیں آپ کو اپنی طرف مائل کرنے والے نہ بنیں اور اپنے رستوں سے ہٹانے والے نہ بنیں.

Page 571

خطبات طاہر جلد ۸ 566 خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۸۹ء یہ مضمون ہے جس کو آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اور کثرت سے استغفار کرنی چاہئے اور اگر اس موقع پر آپ کے نعروں اور آپ کے جوش میں کوئی دنیا کی ملونی شامل ہو گئی تھی تو خصوصیت کے ساتھ استغفار کی ضرورت ہے.تبھی میں نے حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو وہاں پیش کر کے بتایا کہ کچھ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حکومتوں اور دنیا کی عظیم قوموں کے نمائندے کے طور پر آئے ہیں وہ ہمارے لئے بحیثیت مہمان بہت معزز ہیں لیکن ہماری اصل عزت اس بزرگ کی ذات میں ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پائی تھی اور جن کی برکتیں آپ حاصل کریں تا کہ آئندہ صدی میں ان برکتوں کو پھیلانے والے بن جائیں اور آئندہ صدی ان تابعین سے برکت پائے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ سے برکت پائی ہو.اس ضمن میں مزید غور کرتے ہوئے بعض مشوروں کے دوران میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ جماعت کی ٹھوس تربیت کی طرف جتنی توجہ ہونی چاہئے وہ ابھی تک کما حقہ نہیں ہوئی.اس ضمن میں جب میں نے مزید غور کیا تو اس رنگ میں اس بات کو پیش کیا ہی نہیں جا سکتا.امر واقعہ یہ ہے کہ کبھی بھی دنیا میں تربیت کا حق ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا.یہ ایک لا متناہی سلسلہ ہے اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے.اس لئے ہر مقام پر جب ہم ترقی کی راہوں میں سفر کرتے ہوئے پہنچیں گے تو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے آئندہ بھی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ کوئی مقام بھی ہماری آخری منزل نہیں ہے اور گزشتہ سفر کے نتیجے میں جو سبق ہم نے سیکھے ہیں ان سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ماضی سے روشنی لیتے ہوئے مستقبل کے لئے ہمیں روشنی تلاش کرنی چاہیئے اور مستقبل کے لئے زیادہ بہتر لائحہ عمل طے کرنا چاہئے.اس لئے جب میں نے کہا کہ ہم تربیت کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کر سکے تو میری مراد یہ نہیں تھی کہ نعوذ باللہ جماعت تربیت سے غافل رہی ہے.میری مراد یہ ہے کہ جب جس منزل پر بھی میں دیکھتا ہوں مجھے بہت سے خلا دکھائی دیتے ہیں.اپنی ذات میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی اور میرا یقین اور زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی کامل نہیں ہے اور خدا کی طرف حرکت کرنا ہی کمال ہے اس لئے جماعت کو خدا کی طرف متحرک رکھنے کے لئے اور ہمیشہ جماعت کا قدم آگے بڑھانے کے لئے موثر پروگرام اور نہایت عمدہ پر حکمت منصوبے بناتے رہنا چاہئے اور اس ضمن میں ہر درجے کوملحوظ

Page 572

خطبات طاہر جلد ۸ رکھنا چاہئے.567 خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۸۹ء جہاں تک عمومی اخلاقی تعلیم کا تعلق ہے گزشتہ چند سالوں سے میں اپنے خطبات میں اس بات پر زور دیتا رہا ہوں لیکن مجھے اپنے ماضی کے تجارب پر غور کرتے ہوئے یہ بات یاد آئی کہ ابھی بنیادی ٹھوس تربیت میں بہت سی کمی موجود ہے اور اگر ہم اپنے دیہات کے احمدیوں اور چھوٹے بچوں اور نو جوانوں کو بھی سامنے رکھیں تو آپ یہ بات معلوم کر کے یقینا دکھ محسوس کریں گے کہ ایک اچھے احمدی مسلمان کا جو معیار ہونا چاہئے علمی اور روزانہ کے دستور کا وہ اس بنیادی سطح پر آپ کو تسلی بخش صورت میں دکھائی نہیں دے گا.میں جب سفر کیا کرتا تھا وقف جدید کے سلسلے میں یا خدام الاحمدیہ کے یا بعد میں انصار اللہ کے سلسلے میں تو اکثر میرا رجحان اس طرف ہوا کرتا تھا کہ بجائے اس کے کہ تقریر کر کے اور جوش دلا کے واپس آجاؤں مجالس میں بیٹھ کر پوچھا کرتا تھا کہ آپ کلمہ سنائیں.سورۃ فاتحہ سنائیں اور نماز کا ترجمہ بتائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے حالات سے متعلق کوئی سوال کر دیا.اس دوران مجھ پر یہ ایک انکشاف ہوا کہ اس پہلو سے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور دیگر تنظیموں کو ابھی بہت محنت کرنا باقی ہے اور اسی دوران مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ صحیح تلفظ میں بہت نقائص پائے جاتے ہیں اور سورۃ فاتحہ جن کو آتی بھی ہے یا نماز کا باقی حصہ جن کو از بر بھی ہے وہ بھی صحیح عمدہ تلفظ کے ساتھ اس کو ادا نہیں کر سکتے اور اسی طرح ان کو تر جمہ میں بھی یا تو دقتیں پیش آتی تھیں یا بعض لوگوں کو تر جمہ آتا ہی نہیں تھا.تو اصل تربیت تو نماز نے کرنی ہے.اگر ہم اپنی نمازوں کے لوازمات درست نہ کریں تو باوجود اس کے کہ ہم تعلق باللہ پر زور دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا لطف اٹھا ئیں نماز میں مگر وہ لطف اٹھانے کا جو طریق آنحضرت ﷺ نے سکھایا تھا اس سے غافل رہتے ہوئے ہم ہرگز اس لطف اٹھانے کے متعلق وہ توقعات نہیں رکھ سکتے جو ایک آنحضرت مہ کے مکتب میں پڑھے ہوئے تربیت یافتہ متعلم یا ایسے طالب علم کو حقیقی روحانی لذتیں حاصل ہو سکتی ہیں اور یہ ترقیات اس کو نصیب ہوسکتی ہیں.ان کے ساتھ ایک ایسا شخص مقابلہ نہیں کر سکتا جو ان باتوں کے ذاتی علم سے عاری ہوا اور نماز جو وہ پڑھتا ہے اس کے مطالب سے ناواقف ہو اور محض محبت کے نام پر خدا تعالیٰ سے کچھ

Page 573

خطبات طاہر جلد ۸ 568 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء باتیں کرتا ہو.محبت دونوں صورتوں میں ضروری ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں.خواہ ایک بہت ہی بڑا عالم جو نماز کے ایک ایک لفظ کی تہہ تک بھی پہنچ سکتا ہو اور اس کے ہر قسم کے مطالب پر اس کو عبور ہواگر نماز پڑھے اور خدا کی محبت سے عاری ہو تو اس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا لیکن یہ کہنا کہ صرف محبت کافی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے سکھائے ہوئے طریق سے الگ رہ کر وہ محبت کافی ہوسکتی ہے یہ درست نہیں.کیونکہ محبت بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی سے ہم نے سیکھنی ہے اور نماز میں جو آپ نے قرآن کریم کی آیات چینی یا مثلاً سورۃ فاتحہ یا اور قرآن کریم کے مضامین اور مطالب سے دعائیں لے کر نماز میں داخل فرمائیں یا جو تسبیح تحمید ہمیں نماز میں پڑھنے کی ہدایت فرمائی یہ سارے امور محبت الہی پرمبنی تھے اور محبت الہی کے مختلف پہلوؤں کی طرف متوجہ کرنے والے تھے.اس لئے محبت اگر ایک شخص کی انفرادی ہو اور وہ صاحب عرفان نہ ہو تو وہ محبت اس کو بہت زیادہ بلند مقام تک نہیں پہنچا سکتی.محبت کی بھی تو بے شمار منازل ہیں.محبت بھی تو ایک لا متناہی چیز ہے.کیسے محبت کرنی ہے یہ مضمون ہے جس کو اگر آپ پیش نظر رکھیں تو قرآن کریم سے صاف پتا چلتا ہے کہ ویسے محبت کرنی ہے جیسے آنحضرت ﷺ نے کی تھی.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : ۳۲) اے محبت کے دعویدارو! اگر تم خدا سے محبت کرنا چاہتے ہو فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ میری طرح کرو جس طرح میں کرتا ہوں تب خدا تم سے محبت کرے گا.یعنی محبت کا جو آخری پھل ہے وہ تمہیں مل جائے گا.خالی ایک طرف کی محبت کے کیا معنی ہیں.اگر جس سے محبت ہے وہ منہ موڑے رکھے اور اس کا وصل نصیب نہ ہو تو یک طرفہ محبت تو صحرا میں آوازیں دینے کے مترادف ہے.اس لئے قرآن کریم کی آیت اتنی کامل ایسی حسین ہے کہ بارہا میں نے اس کا ذکر کیا ہے مگر میں تھکتا نہیں.کیسا عمدہ کلام ہے فرمایا اے خدا کی محبت کے دعویدارو! اگر تم محبت کرنا چاہتے ہوئے تو اے محمد ! ان سے کہہ دے کہ میری طرح کرو اور اس کا کیا نتیجہ ہو گا خدا تم سے محبت کرے گا.کتنا عظیم الشان پھل ہے لیکن اگر آنحضرت ﷺ کی طرح محبت نہیں کریں گے تو کچھ نہ کچھ تو خدا کا پیارمل سکتا ہے لیکن اس آیت کا کوئی مومن مصداق نہیں بن سکتا.اس لئے نمازوں کے اوپر مزید گہری توجہ کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں جیسا کہ میں نے

Page 574

خطبات طاہر جلد ۸ 569 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء بیان کیا ہے ہر احمدی بچے بڑے کو سو فیصدی نماز کا ترجمہ آنا چاہئے ، اس کے آداب آنے چاہئیں، نماز کے سلسلے میں جو لوازمات ہیں وہ معلوم ہونے چاہئیں اور متعلقہ مسائل معلوم ہونے چاہئیں.اس سلسلے میں ہمارے پاس جو کمی ہے وہ اساتذہ کی ہے.وقف جدید کے معلمین بھی اسی خاطر دیہات میں پھیلائے گئے تھے کہ وہ جا کر اس تربیت کی کمی کو دور کریں گے لیکن ایک تو مشکل یہ ہے کہ خود وقف جدید کے جو معلمین تھے ان کا اپنا معیار اتنا بلند نہیں تھا اور دوسرا یہ کہ وہ بہت ہی تھوڑے ہیں جماعت کی تعداد کے مقابل پر.جماعت کی تعداد تو اب کثرت سے پھیلتی ہی چلی جارہی ہے اور وقف جدید کے معلمین تو پہلے بھی پورے نہیں آسکتے تھے ایک پاکستان میں ہی آپ دیکھ لیں ہزاروں جماعتوں میں ایک سو سے کم معلمین کس طرح اپنے فرائض ادا کر سکتے ہیں اور ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں اور دنیا کے اکثر حصوں میں وقف جدید ہے بھی نہیں.ایسے معلم کہاں سے آئیں گے.اس کا ایک حل میرے ذہن میں آیا جس کے متعلق میں نے اپنے مرکز سے آنے والے ناظم وغیرہ کونصیحت کی ہے کہ ٹیسٹس سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں اور اس کمی کو دور کر سکتے ہیں.اس ضمن میں میں اب اس خطبہ کے ذریعے ساری دنیا کی جماعتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کیسٹس میں تربیتی پروگرام اور تعلیمی پروگرام اس طرح بھر میں جیسے ایک بالکل چھوٹے بچے اور ان پڑھ کو کوئی چیز سکھائی جا رہی ہے اور یہ نہ سوچیں کہ ایک ٹیسٹس میں آپ تیزی سے کوئی مضمون بھر دیں اور توقع رکھیں کے لوگ بار بار سنیں گے بلکہ تھوڑی بات پھیلا کر کریں اور بار بار کریں.یہاں تک کی ایک کیسٹ اگر پوری جماعت کو نہیں سنبھال سکتی تو نہ سہی دو کیسٹس لگالیں تین لگا لیں لیکن جو شخص بھی لیسٹس سننا شروع کرے ساتھ ساتھ اس کو بات یاد ہوتی چلی جائے.اس کا مضمون ذہن نشین اور دل نشین ہوتا چلا جائے.اس مقصد سے تمام دنیا میں خصوصاً دیہاتی علاقوں میں ٹھوس تربیت کے پروگرام مرتب ہونے چاہئیں اور افریقہ میں ہر زبان میں جو افریقہ میں بولی جاتی ہے اسی طریق سے ٹیسٹس تیار کئے جائیں یعنی جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں اس کثرت سے اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں احمدیت کی طرف رجحان ہوا ہے کہ خوشی اور تشکر کے جذبات کے ساتھ اسی قدر فکر کے جذبات نے بھی دل کو گھیر لیا ہے ان لوگوں کی تربیت ہم کیسے کریں گے.

Page 575

خطبات طاہر جلد ۸ 570 خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۸۹ء تو میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہ نئے زمانے کی ایجادات اسلام کی خدمت کے لئے ہی دراصل انسان کو عطا ہوئی ہیں اس لئے ان سے پورا استفادہ کرنا چاہئے.گزشتہ چند سالوں سے ہم نے افریقہ میں ہر قسم کے جدید آلات جماعتوں کو مہیا کرنے شروع کئے ہوئے ہیں اور ٹیسٹس کے علاوہ ویڈیوز بھی اور آڈیو ویڈیو کے دوسرے جو بھی نئے ذرائع انسان کو عطا ہوئے ہیں ان سے جماعت کو بھی مستفید کرنے کے لئے پروگرام بھی ہیں اور ساتھ ساتھ جس حد تک توفیق مل رہی ہے وہ آلات مہیا بھی کئے جارہے ہیں.تو جہاں تک آڈیو ویڈیو کا تعلق ہے، ویڈیو کے ذریعے پیغام دکھانے کا افریقہ اور بعض دوسرے غریب ممالک میں وہ شاذ کے طور پر استعمال تو ہو سکتے ہیں.چند مجالس میں تو استعمال ہو سکتے ہیں روز مرہ کی زندگی میں وہ کارآمد نہیں ہو سکتے.روزمرہ کی زندگی کے لئے آڈیو کیسٹس وہ جن کا صرف سننے سے تعلق ہے تصویریں ساتھ نہیں ہوتیں بالکل ہلکے چھوٹے چھوٹے کیسٹس ریکار ڈرنکل آئے ہیں جو ایک فیملی کی ضرورت کو تو بہت عمدگی سے پورا کر سکتے ہیں لیکن بعض غریب ممالک ایسے ہیں جہاں یہ بھی پوری طرح موجود نہیں اور بڑے بڑے علاقے ہیں جہاں بہت کم آڈیو ٹیسٹس لوگوں کے پاس موجود ہیں.اس لئے جہاں تک ان غریب ممالک کا تعلق ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس نئی تحریک کے نتیجے میں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی تھی افریقہ اور ہندوستان کے غریب علاقوں کے لئے ہم ٹیسٹس پر بھی خرچ کریں گے اور تربیت کے لئے جو بھی ضرورتیں ہیں وہ انشاء اللہ پوری کریں گے لیکن آڈیو کی ضرورت اس لئے زیادہ ہے کہ اکثریت ان علاقوں کی پڑھنا بھی نہیں جانتی اور معلمین بھجوا کر ان کی تربیت کرنا بہت مشکل ہے.اس لئے جماعتی نظام کے تابع ہر احمدی جماعت کے لئے بالآخر ایک ایسا لیسٹس ریکارڈر مہیا ہو جانا چاہئے جو مضبوط ہو.دیہاتی علاقوں میں چونکہ اس کا استعمال بعض دفعہ نازک نہیں ہوتا بلکہ تختی کے ساتھ کیا جاتا ہے.استعمال میں ملائمت نہیں ہوتی بلکہ خفی پائی جاتی ہے.اس لئے نازک مشینیں ٹوٹ جاتی ہیں اور بڑی جلدی ضائع ہو جاتی ہیں.اس لئے تحریک جدید کے اس شعبہ کو جس نے یہ کام کرنا ہے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ دیہات کی مناسبت سے وہ آلات چنیں جائیں اور ٹھوس آلات ہوں، بڑی آواز والے ہوں تا کہ دیہاتی تربیت کے لئے ایک مسجد میں بچوں کو اور بڑوں کو اکٹھا کر کے ان کی تربیت کے پروگرام بنائے جائیں اور ان سے وہ سب مستن

Page 576

خطبات طاہر جلد ۸ 571 خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۸۹ء ہوں.اگر بیک وقت سارے علاقوں میں ہر گاؤں میں ایسی چیزیں مہیا نہ ہو سکتی ہوں جو آہستہ آہستہ ہو جائیں گی انشاء اللہ پھر علاقوں کو چھوٹے چھوٹے حلقوں میں تقسیم کر لیا جائے اور ایک حلقے میں دو تین چار پانچ گاؤں رکھے جاسکتے ہیں اور اس میں ایسا پروگرام رکھا جاسکتا ہے کہ باری باری یہی مشین اپنی کیسٹس کے ساتھ گھومنا شروع کرے.جب ایک پروگرام پہلے دے دیا اور پھر اگلے پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے وہی پہلا پروگرام دوسرے راؤنڈ میں شروع کرا دیا.چکر لگا کے واپس پہنچے تو پہلا پروگرام پھر سنایا اور اس کی یاددہانی کے طور پر اسے پھر دوبارہ سنایا اور اگلے پروگرام کا پہلاسبق دے دیا.اس ضمن میں ایک بہت اہم بات بتانے والی یہ ہے کہ اتنا Ambitious پروگرام، اتنا وسیع ولولے والا پروگرام پہلے نہ بنائیں کہ وہ ہضم نہ ہو سکے لوگوں کو.چھوٹے پروگرام پہلے بنائیں اور ان کو عام کر دیں.اس کے بعد آرام سے بیٹھ کر پھر دوسرا پروگرام سوچیں اور پھر اس کو ٹیسٹس میں بھر کر پھر مہیا کرنا شروع کریں.ایک نماز سے شروع کریں تو پھر نماز کے بعد اگلے قدم بھی اٹھا ئیں.نماز کے علاوہ روز مرہ کے مسائل جو ایک مسلمان کو معلوم ہونے چاہئیں ان پر تربیتی پروگرام ریکارڈ کئے جائیں.پھر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے حالات ، آپ کے صحابہ کے حالات پر سادہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہر عشق کا دعویٰ کرنے والے کو ضرور معلوم ہونی چاہئیں وہ بیان کی جائیں اور اس طرح یہ جو سال کا بقیہ حصہ ہے اس میں کم سے کم اتنے پروگرام ہمارے تیار ہو جائیں کہ ہم پھر اطمینان سے کہہ سکیں کہ اگلی صدی میں ہم ایک تربیت کا نہایت عمدہ اور قابل عمل پروگرام لے کر داخل ہوئے ہیں.امید ہے اس سلسلے میں جماعتیں جا کر اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہوں گی.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان کی جماعتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود اپنے بوجھ اٹھانے کے قابل ہیں اس لئے میں نے پاکستان کا نام نہیں لیا تھا اس تحریک میں.ایک ہمارے معزز بزرگ ہیں جنہوں نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ نے افریقہ اور ہندوستان کے نام تو لے لئے لیکن پاکستان کا نام بھول گئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ان کی توجہ دلانے سے خیال آیا.ہو سکتا ہے اور دلوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو.نعوذ باللہ کسی ناراضگی کے نتیجے میں نہیں بلکہ خوش اعتقادی کے نتیجے میں یہ بات ہوئی ہے مجھے پورا یقین ہے پورا اعتماد ہے کہ پاکستان کی جماعتیں اللہ کے فضل سے خود کفیل ہیں نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ جب تک حکومت کے قوانین اجازت دیتے تھے وہ دنیا کی جماعتوں کے

Page 577

خطبات طاہر جلد ۸ 572 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء بوجھ بھی اٹھائے ہوئے تھی.اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے بوجھ خود نہ اٹھا سکیں.تو جہاں تک پاکستان کی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اللہ کے فضل کے ساتھ اپنی ساری ضرورتیں خود پوری کرتی رہیں گی اوران ضرورتوں کو وہ خاص طور پر پیش نظر رکھیں گی.قرآن کریم کے متعلق ایک دفعہ پھر میں بتاؤں کہ نماز اس طرح سکھانی شروع کرنی ہے کہ پہلے نماز کے کچھ لوازمات بتائے جائیں اور نماز کا مختصر تعارف کروایا جائے.پھر اس کے بعد کہا جائے کہ اب تیار ہو نما زیاد کرنے کے لئے اور پھر نماز کی ایک ایک سطر یا ایک ایک آیت جو بھی صورت ہو وہ آہستگی سے پڑھ کر سنائی جائے.جو غلطیاں عموماً ان علاقوں میں تلفظ کی پائی جاتی ہیں ان کی طرف ساتھ ہی توجہ بھی دلائی جائے اور متنبہ کیا جائے کہ بعض لوگ “ کو ”ب“ پر جاتے ہیں اور ”ب“ کو 6699 وو 66 و بڑھ جاتے ہیں.اسی طرح ”ش“، ”س“ میں فرق نہیں کر سکتے اور بھی بہت سے علاقائی تلفظ کے رجحانات ہیں جو روز مرہ قرآن کریم کی تلاوت میں دقتیں پیدا کر دیتے ہیں.تو جس علاقے میں جو تلفظ کی غلطیاں پائی جائیں بتایا جائے کہ ہم نے یہ پڑھایا تھا.بسم اللہ الرحمن الرحیم ، وسم اللہ نہیں ہے یا بشم اللہ نہیں ہے.آپ غور سے سنیں اس کو اس طرح ادا کرنا ہے اور جہاں ٹھہرنا ہے وہاں ٹھہر کے بتایا جائے کہ یہاں ٹھہرنا ہے.جہاں نہیں ٹھہر نا وہاں یہ بتایا جائے کہ یہاں نہیں ٹھہرنا اور رفتہ رفتہ آہستگی کے ساتھ خوب اچھی طرح تلفظ سمجھاتے ہوئے ایک دفعہ نماز کے ایک حصے سے گزار دیا جائے پھر کہا جائے کہ اب ہم آہستہ آہستہ اس کی رفتار کو کچھ تیز کریں گے آپ ہمارے ساتھ شامل ہوں.پھر رفتہ رفتہ اس کی رفتار تیز کر کے ان کو بتایا جائے.پھر کچھ دیر کے بعد کہا جائے کہ اب ہم اچھی تلاوت کی آواز کے ساتھ اسی چیز کو دوبارہ پڑھ کے سناتے ہیں.آپ میں اگر کوئی ترنم کا جذبہ ہے، ترنم کا شوق ہے تو آپ اس آواز کی نقل کی کوشش کریں یا اسی طرز پر پھر اپنی آواز میں جو آپ کو پسند ہے وہ ترنم کے ساتھ نماز کی تلاوت کر کے دیکھیں کم سے کم قرآن کریم کے حصے کی.بلکہ اس کی ہونی چاہئے باقی کی تو ترنم کی ضرورت نہیں ہے.تو یہ سکھایا جائے.پھر اس کے بعد نماز کے ترجمے کی طرف متوجہ ہوں.آہستہ آہستہ اسی طریق پر ترجمہ سکھائیں، آخر تک پہنچیں، کچھ کمتیں بیان کریں اور یہ جو کورس ہے یہ کم سے کم دس پندرہ دن تک جاری رہنا چاہئے.یہ ایسا کورس نہیں ہے جو ایک دن میں ختم ہو سکے یا چند دنوں میں بھی ختم ہو سکے.میرا اندازہ

Page 578

خطبات طاہر جلد ۸ 573 خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۸۹ء ہے کہ اگر اس طریق پر اچھی طرح سمجھا کر پیار کے ساتھ کیسٹس تیار کی جائیں اور روزانہ آدھ گھنٹہ کوئی شخص متوجہ ہو یا وقت دے سکے تو غالباً پندرہ دن کے اندر ہم یہ پہلی منزل طے کر سکتے ہیں.پھر دوسرے حصے میں قرآن کریم کی بعض چھوٹی سورتیں اختیار کر کے ان کو اسی طریق پر آہستگی سے سمجھا سمجھا کر صحیح تلفظ کے ساتھ یاد کروائی جائیں وہ سورتیں اور پھر ان کا ترجمہ پڑھا جائے.ترنم کے ساتھ کسی اچھے قاری سے اس کی تلاوت کروائی جائے اور سمجھایا جائے کہ جب بھی آپ کوئی آیت پڑھتے ہیں تو ہمیشہ مضمون پر نگاہ رکھا کریں کیونکہ ایسے قاری جو مضمون کو بھلا کر قراءت کرتے ہیں ان کی قراءت عموماً مصنوعی سی ایک مشینی آواز کی طرح محسوس ہوتی ہے لیکن جو آیات کے مضمون میں دل ڈالتے ہیں ان کی تلاوت دل سے نکلتی شروع ہو جاتی ہے کیونکہ دل آیات کے مضمون میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور اس سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف یہ کہ ان کو نئے نئے مطالب نصیب ہوتے رہتے ہیں بلکہ سننے والے بھی اس لذت کو محسوس کرتے ہیں جو دل کی تلاوت میں پائی جاتی ہے دوسری تلاوت میں آنہیں سکتی.تو اس مضمون پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کی ، بچوں کی ، بڑوں کی تربیت کرنی چاہئے لیکن یہ خیال نہ کریں کہ آپ کے بڑوں کو سب کچھ آتا ہے اس لئے بچوں کی کلاسیں لگائیں گے.میرا یہ تجربہ ہے کہ ہماری بعض بڑی نسلیں بھی ان چیزوں سے ناواقف ہیں اور جب ہم بچوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو بڑے خالی رہ جاتے ہیں.پھر بعض دفعہ بڑوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو مسجد میں چونکہ اکثر مرد آتے ہیں عورتیں محروم رہ جاتی ہیں اس لئے یہ پروگرام ایسے ہونے چاہئیں جس میں جماعت کا کوئی طبقہ بھی محروم نہیں رہنا چاہئے اور عورتوں کو خصوصیت سے یہ باتیں یاد کرانی اس لئے ضروری ہیں کہ اگر ان کو یاد ہو جائیں تو پھر اگلی نسلوں کی تربیت وہ خود سنبھال سکتی ہیں.بچیوں کو اگر یہ چیزیں یاد ہو جائیں تو آئندہ کی نسل کی حفاظت ہو جائے گی.تو یہ پروگرام صبر آزما ہے، محنت طلب ہے، وقت چاہتا ہے لیکن اتنا ضروری ہے کہ اس کو ہر پروگرام پر اب اولیت دینی چاہئے.تمام دنیا میں، دنیا کی تمام ایسی زبانوں میں جہاں احمدی موجود ہیں.اس قسم کی تربیت کی لیسٹس تیار ہوں، مقامی لوگوں کی اچھی آواز میں کوئی تلاوتیں سنائی جائیں اور قرآن کریم کی چیدہ چیدہ آیات اور بعض چھوٹی سورتیں حفظ کروائی جائیں اور پھر ان کے مطالب

Page 579

خطبات طاہر جلد ۸ 574 خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۸۹ء ساتھ بیان کئے جائیں.یہ پروگرام جب آگے بڑھے اور یہ حصہ آپ طے کر چکیں پھر اس طرف متوجہ ہوں یا بعض صورتوں میں بیک وقت بھی ایک اور پروگرام ساتھ چلایا جا سکتا ہے جلسے میں اور ٹیسٹس میں بھر کر دیہات میں پہنچائے جائیں.یہ تجربہ میں نے وقف جدید میں کیا تھا اور اگر چہ تھوڑے پیمانے پر ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں ہوا اس سے بہت ہی شاندار اور حوصلہ افزا نتائج نکلے.جلسے سے مراد میری یہ ہے کہ ہم عموماً جب معلمین کو ، انسپکٹر ان کو یا دیگر جماعتی نمائندوں کو دوروں پر بھجواتے ہیں تو یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ معیاری جلسہ وہاں منعقد کر اسکیں گے اور جماعت پوری طرح اس سے استفادہ کر سکے گی.حالانکہ بہت سے ایسے آپ کے سلسلے کے کارکن ہیں یا خدام اور انصار کے نمائندہ ہیں جن کی اپنی تلاوت اچھی نہیں ہے یا تلاوت صحیح کر سکتے ہیں تو آواز بھونڈی ہے.بے اختیاری ہے بیچاروں کی اس میں اختیار ہی کسی کا کوئی نہیں.جو آپ نے سنے ہوں گے قصے کہ وہ آواز اچھی کرنے والی گولیاں ملتی ہیں بازاروں میں یہ سب جھوٹ اور قصے ہیں محض.آواز اللہ کی طرف انعام ہے، اس کی طرف سے ایک تحفہ.جس بیچارے کو نصیب نہ ہو مجبور ہے.بعض تو میں نے دیکھا تلاوت ایسی خوفناک کرتے ہیں کہ لوگ بھاگتے ہیں اس سے.وہ آپ نے سنا ہو گا قصہ ایک جگہ کہتے ہیں ایک بہت ہی خوش الحان اذان دینے والا اذان دیا کرتا تھا ہندو آبادی تھی اور اس کا ایسا اثر تھا اس کی آواز کا ایسا جادو تھا کہ جن ہندو گھروں تک وہ آواز پہنچتی تھی وہ اسلام کی طرف مائل ہونے لگ گئے.ایک ہندوسا ہو کار کی بیٹی یہ روزانہ سنتی تھی اور اس کی دن بدن حالت بدلتی چلی گئی اور اسلام کی محبت اس کے دل میں بھر گئی.تب اس کے باپ کو خیال آیا کہ اس کا کچھ کرنا چاہئے یہ نصیحتوں سے تو مانے گی نہیں.اس نے اس مؤذن کو بہت سے پیسے دئے کہ میاں تم یہ گاؤں چھوڑ جاؤ اور ایک نہایت ہی بد آواز والے شخص کو پیسے دئے کہ تم یہاں مؤذن بن جاؤ اور چند دن میں ہی دیکھتے دیکھتے اس کا سارا اثر زائل ہو گیا.یہ لطیفہ کے طور پر سنا ہوا ہے قصے کے طور پر لیکن محض قصہ نہیں ہے ان باتوں میں بڑی گہرائی ہے.اس لئے ایسے مربیان یا ایسے معلمین یا الگ دوسرے نمائندگان جو مختلف جماعتوں میں جاتے ہیں ہر گز ضروری نہیں ہے کہ ان کی تلاوت اچھی ہو، ان کی آواز اچھی ہو اور وہ اثر پیدا کر سکیں پھر ان کی تقریر کے انداز بھی الگ الگ ہوں گے اور

Page 580

خطبات طاہر جلد ۸ 575 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء ایک سلسلے کے عالم کی تقریر کا مقابلہ تو وہ نہیں کر سکتے اور پھر علماء علماء میں بھی فرق ہے.اس لئے ان باتوں کو سوچتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ پورا جلسہ ریکارڈ کراؤں.چنانچہ اس زمانے میں نیا نیا کیسٹ ریکارڈر ایجاد ہوا تھا اس میں میں نے ایک جلسہ بنایا.ایک بہت اچھی تلاوت میں کسی سے نظم پڑھائی پھر ایک مضمون پر خاص موضوع چن کے اس میں تقریر بھروائی اور خیال تھا کہ جب یہ مقبول ہوا اور اس کے اچھے اثرات ہوئے تو پھر مختلف موضوعات پر جلسے بنادئے جائیں گے.A جلسہ ، B جلسہ ، C جلسہ کبھی ایک جلسہ ہو جائے اور پھر اگلی دفعہ دوسرا جلسہ اس گاؤں میں ہو جائے اور اگر ترتیب کے ساتھ ہم سارے دیہات کو تقسیم کر لیں نمبروں کے لحاظ سے تو ہر نیا نمائندہ اپنے ساتھ ایک گاؤں میں ایک نیا پروگرام لے کر پہنچ سکتا ہے اور بہت سے ایسے مضامین جوان دیہاتوں تک نہیں پہنچتے اور جلسے میں بھی سب کو کہاں توفیق ملتی ہے بہت معمولی حصہ ہے جو جلسوں تک پہنچ سکتا ہے.دور دور کی جماعتوں کے لوگ تو بہت بھاری تعداد میں محروم رہ جاتے ہیں پھر جلسے پر آنے والے بھی ہر وقت جلسہ نہیں سنتے.مصروفیات ہیں کئی قسم کی ، پھر وہ جب سن رہے ہوتے ہیں تو تو جہات ادھر ادھر ہو جاتی ہیں.پھر جلسے کی تقریروں کے انتخاب میں مقاصد اور ہوتے ہیں بعض دفعہ اور ٹھوس بنیادی تربیت مسلسل جلسے کی تقریر کا مقصد نہیں ہوتی.تو اس پہلو سے اگر اچھے مضامین کا انتخاب کیا جائے اچھی نظمیں پڑھنے والے کی نظمیں اس میں ریکارڈ کی جائیں اور ایک جلسہ بنالیا اس کو پہلے پھیلا دیا پھر اس سلسلے میں ایک اور جلسہ بنالیا اور یہ جلسے ہر علاقے کی ضرورتوں کے مطابق مختلف ہوں گے ایک پروگرام ہر جگہ نافذ نہیں ہوسکتا لیکن ایک طرز ضرور نافذ ہو سکتی ہے.تو امید ہے کہ اس پہلو سے بھی جماعتیں متوجہ ہوں گی اور گاؤں گاؤں میں بستی بستی میں ایسے تربیتی اجلاس شروع ہو جائیں گے.جہاں تک تبلیغی اجلاسوں کا تعلق ہے پاکستان جیسے ملک میں یا بعض اور ممالک میں ان پر تو پابندی ہو بھی سکتی ہے کسی حد تک اور دخل اندازی کی جاتی ہے تو تربیت کے پہلو سے بھی کریں گے وہ لیکن الا ماشاء الله اکثر دیہات میں اس کی سہولت ہوگی اور میں نہیں سمجھتا کہ اس پروگرام کو نافذ کرنے میں پاکستان جیسے ملک میں بھی کسی قسم کی دقت ہو اور اگر ہو تو جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کے میدانوں میں بڑی ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہر قسم کے دباؤ کو بڑی مومنانہ

Page 581

خطبات طاہر جلد ۸ 576 خطبه جمعه ۲۵/اگست ۱۹۸۹ء جرأت اور بہادری سے رد کر رہی ہے اور مقابلوں کے لئے دن بدن اور زیادہ آمادہ ہوتی چلی جارہی ہے.اس لئے یہ پروگرام اپنی ذات میں اتنے مفید اور اتنے گہرے اور ضروری ہیں کہ اگر ان کے نتیجے میں جیسے کہ پہلے جماعت کو قربانی دینی پڑی ہے کہیں کچھ قربانی دینی پڑے تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کی جماعت اس معاملے میں کسی قسم کا تر دکا اظہار کرے.جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے جو آزاد دنیا ہے جہاں انسانی قدروں کی حفاظت کی جاتی ہے جہاں انسانی قدروں کی قدر کی جاتی ہے یہ ساری دنیا وسیع پڑی ہے آپ کے سامنے اور احمدیت کے صداقت کے تحت اقدام ہے.احمدیت کی صداقت کے قدموں کے نیچے ہے.تو یہاں تو کسی قسم کی روک کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.کھلے دل کے ساتھ خدا پر توکل کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ آگے قدم بڑھاتے رہیں اور ٹھوس تربیت کا یہ بقیہ سال منا دیں اور بقیہ سال نہیں بلکہ اس ساری صدی کو ٹھوس تربیت کی صدی بنانا ہے اور یہ جو آپ کام کریں گے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اس کے بہت ہی نیک اثرات اور ٹھوس اثرات مدتوں تک نسلاً بعد نسل ظاہر ہوتے چلے جائیں گے اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاتے رہیں گے.اور اس کے سوا اب ہمارے لئے اور چارہ بھی کوئی نہیں.کثرت سے غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں قو میں داخل ہو رہی ہیں اور اس سال جو آپ نے نظارہ دیکھا ہے یہ ایک ابتدائی نشان ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے.ایک نمونہ ہے چھوٹا سا.آئندہ ایک ایک سال میں لکھوکھا آدمیوں کو قبول کرنے کے لئے آپ نے تیار ہونا ہے.جو نئی نسل کے واقفین ہیں ان کو بڑے ہونے میں وقت لگے گا وہ جب انشاء اللہ بڑے ہوں گے تو اپنی ذمہ داریوں کو ضرور سنبھالیں گے لیکن ان کے آنے سے پہلے پہلے جو درمیان میں ایک خلا ہے اس کو ساری جماعت نے مل کر پر کرنے کی کوشش کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور آئندہ صدی کی تمام ذمہ داریوں کو اس شان کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ خدا کی پیار کی نگا ہیں ہم پر پڑیں خواہ دنیا ہم سے راضی ہو یا نہ ہو.آمین.

Page 582

خطبات طاہر جلد ۸ 577 خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۸۹ء مغربی قومیں اپنی ہلاکت کے سامان خود تیار کر چکی ہیں جماعت احمدیہ کا تمدن ہی زندہ رہنے والا ہے (خطبہ جمعہ فرموده یکم نمبر ۱۹۸۹ء بمقام کیسٹا نٹائن نو وانا رتھ ویلز برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کیں: إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَ إِنَّا لَجْعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا أَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوْا مِنْ أَيْتِنَا عَجَبًا إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (الکھف ۱۱۳۸) اور پھر فرمایا: قرآن کریم کی یہ جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں یہ سورہ کہف کے پہلے رکوع سے لی گئی ہیں ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ زمین پر ہے اُسے بے حد کشش کا موجب بنایا، زینت کا موجب بنایا ہے.لیکن ہم ان تمام زیتوں کو کلیہ تباہ کر دیں گے اور جو کچھ بھی زمین پر ہے اُسے ویرانہ بنا کر چھوڑ دیں گے.اس کے معابعد پھر فرمایا کہ کیا اس بات پر تو تعجب کرتا ہے کہ خدا کے کچھ بندے ایسے بھی تھے جنہوں نے غاروں میں رہنا زیادہ پسند کیا بجائے اس کے کہ وہ زمین کی سطح پر رہتے اور ان لوگوں کی دعا یہ تھی کہ اے خدا! تو ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما

Page 583

خطبات طاہر جلد ۸ اور اسی رحمت کے ہم محتاج ہیں.578 خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۸۹ء یہ آیات اصحاب الکہف سے تعلق رکھتی ہیں اور تاریخی لحاظ سے اکثر قرآن کریم کے مطالعہ کرنے والے یا تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آغاز میں عیسائیت پر ایک ایسا دور آیا تھا جب زمین کی سطح پر رہنا اُن کے لئے ناممکن ہو گیا تھا.ایسے ایسے مظالم کا ان کو سامنا تھا کہ ان کو زمین کی سطح پر رہنے کی بجائے غاروں میں رہنا زیادہ عافیت کا موجب دکھائی دیتا تھا.اس وقت زمین کی سطح پر بسنے والے دنیا کی رونقوں، دنیا کی لذتوں میں اپنے آپ کو فراموش کئے ہوئے تھے اور اس فراموشی میں دراصل خدا کو بھول چکے تھے.ان حالات میں جبکہ مادہ پرستی اپنے زوروں پر تھی خدا تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے تھے جنہوں نے سطح زمین کی بجائے زیرزمین غاروں میں رہنا پسند کر لیا تھا.یہ مضمون ہے جو تاریخی لحاظ سے اکثر تاریخ دانوں پر روشن ہے لیکن قرآن کریم کی ان آیات کا آپس میں جوڑ کیا ہے اور کیوں یہ باتیں بیان ہوئی ہیں.ان کا ایک پہلو تمدنی بھی ہے اور تمدنی پہلو اتنا گہرا، اتنا ز بر دست اور اتنے اہم پیغامات لئے ہوئے ہے کہ آج میں اسی پہلو سے ان آیات پر روشنی ڈالوں گا.سر دست اس بات کو بھول جائیے کہ کچھ لوگوں پر اتنے مظالم ہوئے کہ ان کو زمیر ز مین رہنا پڑا.قرآن کریم کی یہ جو آیات ہیں ان میں کسی مظالم کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ تاریخی طور پر ہم جانتے ہیں کہ ایسا واقعہ ہوا تھا اس لئے از خود مظالم کا مضمون ہمارے ذہن میں ابھر آتا ہے لیکن اس بات کو کچھ عرصے کے لئے بھلا کر جب ان آیات کا مطالعہ کریں تو دراصل یہ انسان کی بعض تمدنی حالتوں کا نقشہ پیش کرتی ہے اور یہ آیات مادہ پرستی کے بعض اہم ادوار پر بحث کرتی ہیں.بسا اوقات انسانی تاریخ میں ایسا دور آتا ہے کہ سطح زمین پر ہر قسم کی لذتیں ، ہر قسم کی دنیاوی چمک انسان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اور اس کی توجہ خالصہ دنیا طلبی میں اور دنیا کی لذتوں کی جستجو میں منہمک ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں یہ ناممکن ہے کہ وہ انسان جو دنیا کی رونقوں اور دنیا کے ظاہری حسن سے عشق لڑا بیٹھا ہو اور اُس کی محبت میں فریفتہ ہو چکا ہو وہ خدا کو یا درکھ سکے.ایسے موقعہ پر جب سطح زمین پر سطح زمین کی رونقیں انسانی دل اور انسانی جذبات کو کلیۂ اپنی طرف مائل کر لیتی ہیں.ایسے وقت میں ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ خدا کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو زیر زمین رہنا پسند کرتے ہیں.اس تمدنی تفاوت پر جب آپ غور کرتے ہیں تو یہ بہت ہی خوبصورت مضمون ہماری

Page 584

خطبات طاہر جلد ۸ 579 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے وہ لوگ جو دنیا کے جدید تقاضوں کو پورا نہ کرتے ہوں ، وہ لوگ جو دنیا کے جدید تمدن پر فریفتہ نہ ہوں اُن کی روح کو دنیا والے پرانے زمانے کا کہا کرتے ہیں اور کچھ لوگ اُن کو ایسے دکھائی دیتے ہیں جو غاروں کے بسنے والے زمانے کے لوگ ہیں چنانچہ اس تمدنی تقابل کے نقطہ نگاہ سے جب ہم قرآن کریم کی ان آیات پر غور کرتے ہیں.تو دنیا میں بسا اوقات ہمیں انسانی تاریخ ایسے ادوار سے گزرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ جس میں دو قسم کے خدا کے بندے ظاہر ہوتے ہیں.ایک وہ جو دنیا کی ظاہری نعمتوں اور رونقوں پر فریفتہ اور اپنی زندگی کا مقصد کلیۂ ظاہری حسن کی پیروی بنا لیتے ہیں، ظاہری حسن کے پیچھے بھاگتے ہیں، ظاہری لذتوں کے پیچھے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں اور اُن کا رہنا، اُن کا اٹھنا ، اُن کا بیٹھنا اور اُن کا بسنا ان کی زندگی کا ہر مقصد ان ظاہری لذتوں کا تعاقب کرنا ہوتا ہے اور ایسے وقتوں میں خدا کے کچھ ایسے بندے بھی ظاہر ہوتے ہیں جو ان چیزوں سے منہ موڑ کر کچھ کچھ تمدن اختیار کرتے ہیں جو دنیا کی نظر میں پرانے زمانے سے تعلق رکھنے والا تمدن ہوا کرتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگلے وقتوں کے وقت یہ غاروں میں بسنے والے انسانوں کے زیادہ مشابہہ ہیں بہ نسبت آج کے جدید دور سے تعلق رکھنے والے انسانوں سے.ایسی صورت میں خدا تعالیٰ کی تقدیر کیا فیصلہ فرماتی ہے اس کا ذکر ہے جو ان آیات میں کیا گیا ہے.وَإِنَّا لَجُعِلُوْنَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو خدا سے منہ موڑ کر دنیا کی لذتوں کی پیروی کرتے ہیں اُن کو اور اُن کے معاشرے کو ہم ملیا میٹ کر دیں گے اور سطح زمین کو اُن سے خالی کر دیں گے اور اُن کی ہڈیوں کے سمیت اُن کو مٹادیں گے اور وہ دنیا کی سب لذتیں جنہوں نے اُن کو اپنی طرف مائل کر لیا تھا اُن کو ویرانہ بنادیں گے.ایسے موقع پر ایک نئی تہذیب ابھرے گی اور وہ غاروں میں بسنے والوں کی تہذیب ہوگی یعنی غاروں میں بسنے والوں سے مراد یہ ہے کہ یہ خدا کی خاطر پسماندہ کہلائے وہ خدا کی خاطر پرانے وقتوں میں شمار کئے گئے.فرماتا ہے اُس وقت پھر سب کچھ اُن کا ہوگا اور وہ خدا سے یہ دعا کریں گے کہ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيْنُ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا اے خدا ہم تو پہلے بھی تیری رحمت کے طالب تھے اور اب بھی تیری ہی رحمت کے طالب ہیں.ہمیں تو نے جو نیا تمدن عطا کرنا ہے وہ اپنی مرضی اور اپنی رحمت کے مطابق عطا فرما اور اپنی طرف سے ہمارے لئے ہدایت کے راستے کھول دے اور ایک ایسی تہذیب

Page 585

خطبات طاہر جلد ۸ 580 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء عطا فرما جور شد کی تہذیب ہو، عفو کی تہذیب ہو اور اس تہذیب کے نتیجے میں انسان اپنی ترقیات سمیت دنیا سے مٹانہ دیا جائے بلکہ وہ خدا کی خاطر خدا کی ذات سے وابستہ ہوکر زندہ رہنے کا گر سیکھ لے.یہ وہ پیغام ہے جو ان آیات میں ہمیں دیا گیا ہے اور اب اس نقطہ نگاہ سے ذرا تاریخ عالم پر نگاہ ڈالتے ہیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ یہ کسی ایک زمانے کے انسان کا ذکر نہیں ، نہ ایک زمانے کے سطح زمین پر بسنے والوں کا ذکر ہے ، نہ ایک زمانے میں زیر زمین غاروں میں بسنے والوں کا ذکر ہے بلکہ تمام انسانی تاریخ بار بار اپنے آپ کو اس نقطہ نگاہ سے دھراتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.بسا اوقات ایسی قو میں سطح زمین پر ابھریں جنہوں نے دنیاوی ترقیات کیں اور اُن ترقیات کے بعد خدا تعالیٰ نے اُن کو جو آسائش کے ساتھ رہنے کا موقع عطا فرمایا مگر وہ اس آسائش میں ایسا ڈوب گئے کہ محض دنیا کی زینت کے غلام بن کر رہ گئے اور خدا کو انہوں نے بھلا دیا اور پھر اسی دور میں یعنی ہر ایسے دور میں خدا کے ایسے بندے بھی آپ کو دکھائی دیں گے جن کو ان دنیا کی لذتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا یعنی دنیا میں رہتے ہوئے بھی وہ اس زمانے کے نہیں بلکہ قدیم زمانوں کے انسان دکھائی دیا کرتے تھے.خدا تعالیٰ نے ان جدید دنیا کے لذت پرستوں کو مٹا دیا اور ان قدیم زمانے میں بسنے والے انسانوں کو زندہ رکھا.یہ وہ بار بار تاریخ کا دھرایا جانے والا سبق ہے جو ان آیات میں ہمیں ملتا ہے.آج کے دور پر جب ہم ان آیات کو چسپاں کرتے ہیں تو بعینہ یہی تفاوت سامنے آتا ہے.آج خصوصیت کے ساتھ مغربی تہذیب ایسے تمدن کی فریفتہ ہو چکی ہے جو دنیا کی ظاہری لذتوں سے تعلق رکھتا ہے اور کلیۂ اس لذت یابی میں اور اس کی جستجو میں منہمک ہو چکی ہے.عملاً اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس درجہ دنیاوی لذتوں کی غلام ہو چکی ہے یہ مغربی دنیا کہ اس سے رہائی اور چھٹکارے کی بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی.آج جب آپ ان کو یہ پیغام دیں کہ خدا کی خاطر خدا کے فرمان کے تابع تم شراب نوشی سے پر ہیز کرو تم ناچنے سے پر ہیز کر وہ تم گانے سے پر ہیز کرو اور تم ایک سادہ عام پاکیزہ معاشرے کی طرف واپس لوٹ آؤ تو وہ آپ کو اس طرح دیکھیں گے جیسے آپ پاگل ہو چکے ہیں.وہ آپ کو اس طرح دیکھیں گے جیسے آپ کسی پرانے زمانے سے غاروں سے نکل کر آنے والے انسان ہیں اور آپ کو علم نہیں کہ دنیا ہوتی کیا ہے.یہ کیسی پاگلوں جیسی باتیں کرتے ہیں وہ کونسا جدید ترقی یافتہ معاشرہ ہے جو شراب کے بغیر زندہ رہ سکے.یہ کونسا معاشرہ ہے جس سے میوزک کو تم

Page 586

خطبات طاہر جلد ۸ 581 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء نکالتے ہو جس سے تم ناچ گانے کے تصور کو نکال دو اور اس کے بغیر ایک بیہودہ لغوسی زندگی کی طرف واپس چلے جاؤ وہ اس طرح آپ کو دیکھیں گے جس طرح آپ پاگل ہو گئے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کی راہیں سب سے زیادہ روشن ہیں.آپ دیگر تمام عوامل پر غور کر کے دیکھ لیں وہ تمام بظاہر جو فرق ہیں اسلام میں اور دیگر مذاہب میں ان فرقوں پر غور کر کے دیکھ لیں عقلاً ان دوسری قوموں پر یہ ثابت کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اسلامی تعلیم زیادہ معقول ، زیادہ دلنشین اور زیادہ اس لائق ہے کہ انسان اس تعلیم کو عقلی لحاظ سے اپنائے چنانچہ جہاں تک عقلی تقاضوں کا تعلق ہے.اسلامی تعلیم کی برتری غیروں پر ثابت کرنا ہر گز مشکل نہیں.وہ لوگ جو مغربی دنیا میں بسنے والے کو تبلیغ کرتے ہیں اُن کو بارہا اس بات کا تجربہ ہوتا ہے کہ نظریاتی لحاظ سے اسلام کی پیش کردہ تو حید کو اُن کی مسخ شدہ توحید کے تصور سے بہتر دکھایا گیا ہے اور اُن پر ثابت کر دیا گیا کہ اسلام کا توحید کا تصور زیادہ حسین، زیادہ کامل اور زیادہ قبول کرنے کے لائق ہے اور جس توحید کا تم تصور باندھے ہوئے ہو وہ دراصل تصور تو حید نہیں بلکہ اُس کے اندر بہت سے رخنے پڑ چکے ہیں بظاہر وہ ختم ہو چکی ہیں اور اُسے کامل تو حید کہنا عقل اور منصف کے خلاف ہے.یہ بات ثابت کرنا کچھ مشکل نہیں کہ ایک ایک ہی ہے اور ایک تین نہیں ہوسکتا تین ایک نہیں ہو سکتے اور آج کل کے زمانے کے جو نئے جوان ہیں وہ ان باتوں کو سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ خود عیسائیت کے قدیم تصورات سے باہر کی طرف نکل چکے ہیں اور عیسائیت کے جو اعتقادی حصے ہیں اُن پر عملاً آج کے مغربی نوجوان کو اعتماد نہیں رہا اس لئے نظریاتی لحاظ سے آپ آسانی سے یہ بات اُن کے لئے ثابت کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان ہونے کو تیار نہیں.کیوں نہیں ہوگا اس لئے کہ وہ اُس معاشرے کے اندر جکڑا ہوا ہے جس معاشرے کا قرآن کریم نے نقشہ کھینچا ہے.وَإِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً کہا کہ اتنی کشش پیدا کر دی ہے ہم نے سطح زمین پر رونما ہونے والی چیزوں میں کہ لوگ اس کشش سے قلبی طور پر اس طرح وابستہ ہو جاتے ہیں کہ گویا اُس کے غلام ہو چکے ہیں اور اُس غلامی سے چھٹکارے کی کوئی شکل نظر نہیں آرہی.اب اس نقطہ نگاہ کو جب آپ مزید کھنگالیں ، جب آپ مزید تجزیہ کریں تو ایک بڑی دلچسپ صورت یہ سامنے آتی ہے کہ ایک ہی چیز کا نام آزادی بھی رکھا جا سکتا ہے اور اسی چیز کا نام

Page 587

خطبات طاہر جلد ۸ 582 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء غلامی بھی رکھا جا سکتا ہے.جب آپ ان کو اسلام کے نام پر یا خدائے واحد کے نام پر اس معاشرے سے روگردانی کرتے ہوئے اسلام کے سادہ اور پاکیزہ معاشرے کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ تم ہماری آزادی پر قدغن لگاتے ہو.تم کہتے ہو کہ ہم تمہارے نظریات کو قبول کرتے ہوئے اپنی روز مرہ زندگی کو ان پابندیوں کی نظر کر دیں.ہماری خواہشات پر پابندی ہے، ہمارے ملنے جلنے پر پابندی ہے، ہم کس طرح کمائیں اُس پر پابندی ہے، کیا کھائیں اور کیا نہ کھا ئیں اُس پہ پابندی ہے، ہر بات پر تو تم پابندیاں لگا رہے ہو اور ہم آزاد منش قوم ہیں.ہم صرف اُسی پیغام کو قبول کرنے پر تیار ہیں جو انسانی آزادی کا علمبر دار ہوا اور بے وجہ پابندیوں میں نہ جکڑے.پس اس نقطہ نگاہ سے اسلام کی تعلیم اُن کو پابندیوں کی تعلیم دکھائی دیتی ہے.تم نے شراب نہیں پینا، تم نے بیوی پر زیادہ بختی نہیں کرنی تم نے سور نہیں کھانا تم نے سود نہیں کھانا تم نے یہ نہیں کرنا تم نے وہ نہیں کرنا.عورت کے خلاف نہیں کرنا.جگہ جگہ ، قدم قدم پر روزانہ کی زندگی میں پابندیاں ہی پابندیاں ہیں.پس اس معاشرے کی خوبصورتی پر فدا ہونے والے لوگ اپنی آزادی کے خلاف یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے نام پر انہیں پابندیوں کی طرف بلایا جارہا ہے لیکن قرآن کریم جس نقطہ نگاہ سے ان باتوں کو پیش کرتا ہے اس کے لحاظ سے اسی منظر کا ذرا زاویہ بدل کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ تو غلام ہیں.ہر وہ چیز جس کے ساتھ انسان اپنی زندگی کو اس طرح وابستہ کر لے کہ اُس سے تعلق نہ توڑ سکے یہ ایک قسم کی محض خوفناک غلامی ہوتی ہے اور یہ غلامی شراب کی عادت میں جو ان کو ملتی ہے یہ غلامی جو میوزک کی عادت میں آپ کو ملتی ہے.یہ غلامی اور بعض کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ یہاں تک کہ کافی پینے سے بھی وابستہ ہوتی ہے اور آپ مزید غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جوں جوں معاشرہ زیادہ Sufisticate ہوتا چلا جائے گا، زیادہ تیز دار ہوتا چلا جاتا ہے.انسانی زندگی روزمرہ مزید گرفتار ہوتی چلی جارہی ہے یا چلی جاتی ہے اور اُس معاشرے کی عادتوں سے ہٹ کر انسان زندگی نہیں گزار سکتا چنا نچہ اُن لوگوں کو اپنی روز مرہ کی عادتوں سے ہٹا کر کسی الگ جگہ ایسی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جائے جہاں یہ روز مرہ کی عادتیں پوری نہ ہو سکیں تو بے آرام ہو جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی پر ظلم ہو گیا چنانچہ در اصل جس کو یہ آزادی کہہ رہے ہیں وہ غلامی ہے بعض لذتوں کی اور لذتوں کی غلامی سے انسان کو خدا تعالیٰ نجات دلانا چاہتا ہے.یہ جو غلامی کی عادت ہے ان کی اس نے ان کو ہر قسم کے نشے

Page 588

خطبات طاہر جلد ۸ 583 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء میں مبتلا کر دیا ہے، شراب نوشی محض چند لمحات کی بدنی لزتوں کا نام نہیں بلکہ شراب نوشی دن بدن ان کی زندگی کے اندر گہرے طور پر سرایت کرتی چلی جارہی ہے اور ان میں ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو شراب نوشی کا غلام بن کر رہ گیا ہے چنانچہ ڈرگ کی عادت جو ان قوموں میں زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہے یہ بھی اسی غلامانہ رجحان کی بڑھی ہوئی شکل ہے.ایک چیز کی جب انسان عادت اختیار کر لیتا ہے تو اس کی زنجیروں میں باندھا جاتا ہے اور پھر وہیں بات ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ عادت اپنی ذات میں مزید عادتوں کی طرف انسان کو لے جاتی ہے جن چیزوں میں پہلے لذت ملتی تھی اُن چیزوں میں رفتہ رفتہ لذتیں کم ہو جاتی ہیں یقینا ایک دن ایسا آتا ہے کہ انسان اللہ کو بھلا کر ایک اور عادت میں مبتلا ہوتا ہے اور جب اُس عادت کا غلام بن جائے اور اُس سے پھر ا گلا قدم اٹھتا ہے اور ایک اور عادت کا غلام بن جاتا ہے.چنانچہ یہ زنجیریں ایسی ہیں جو بڑھتی چلی جاتی ہیں اور زیادہ بوجھل ہوتی چلی جاتی ہیں.سارا معاشرہ بوجھل ہو جاتا ہے اور انسانی زندگی نئی نئی عادتوں اور نئی بداخلاقیوں کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے.اور یہی وہ چیز ہے جو بالآخر ان معاشروں کو اور ان تمدنوں کو ہلاک کرنے کا موجب بنتی ہے.یہی وہ چیز ہے جب وہ آگے بڑھتی ہے تو اسی سے ان تمدنوں کی ہلاکت کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اس صورت حال کو گہری نظر سے دیکھنے سے آپ کو خوب اچھی طرح معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ ہم دنیا کی لذتوں کو ، دنیا کی سطح پر بسنے والی چمک کو ملیا میٹ کر دیں گے اور تباہ کر دیں گے اور ویران بنا دیں گے.اُس سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ خود آسمان سے دنیا کو مٹائے گا اور آسمان سے کچھ تباہیاں نازل کرے گا جو ان کو ہلاک کریں گی اور اس سے مراد یہ ہوا کرتی ہے کہ تمہارا معاشرہ جن باتوں پر مبنی ہے یا اس قسم کا تمدن جن بنیادوں پر قائم ہے وہ بنیاد میں کھوکھلی ہیں اور وہ معاشرے کا تانا بانا اپنی ذات میں ہلاک ہونے والا ہے چنانچہ اس نقطہ نگاہ سے اب میں آپ کے سامنے اس تشریح کو زیادہ روشن کر کے پیش کرتا ہوں.تو آپ دیکھنے لگ جائیں گے کہ کیوں اس تمدن سے کسی تمدن کی ہلاکت کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.جوں جوں بعض قوموں کو زیادہ Sufisticated چمک دمک والی اور تیز دار زندگی بسر کرنے کی عادت پڑتی چلی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ اُن کی اقتصادیات اُن کی لذت یابی کی غلام ہوتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ ھل من مزید

Page 589

خطبات طاہر جلد ۸ 584 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء کی طرح اپنی ان عادات کو زندہ رکھنے اور اُن کی بقا کے لئے اُن کو مزید اور پھر مزید دولت کی ضرورت پڑتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ ان کی زندگی کی طرز بے ربط ہوتی جاتی ہے.آج کی مغربی دنیا کا رہن سہن گزشتہ دس سال کی مغربی دنیا کے رہن سہن کے مقابل پر بہت زیادہ ہے بہر حال اور آج اُن کی لذت یابی جن چیزوں کی محتاج ہے آج سے دس سال یا بیس سال یا اُس سے پہلے آپ دیکھیں ہرگز اس حد تک محتاج نہیں تھی بلکہ بعض چیزوں کا تصور بھی نہیں تھا.آج جس کثرت سے بعض ایسی ایجادات ہوئی ہیں جس سے اُن کے رجحانات جو حصول لذت کے رجحانات ہیں اُن کو تقویت ملتی رہی ہے ایسی ایجادات آج سے دس سال یا بیس سال پہلے موجود نہیں تھیں.تو روز بروز لذت کے حصول کے لئے معاشرہ اپنی تمام اقتصادیات کا رُخ اس طرف پھیرتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ اُن کے رہن سہن کے لئے جو بنیادی ضروریات ہیں وہ اُن کی آمد کا ایک بہت معمولی حصہ رہ جاتا ہے اور اُن کی آمد کا بہت بڑا حصہ اُس ظاہری چمک دمک کوزندہ رکھنے اور اُس کی بقا کے لئے استعمال ہونے لگتا ہے.یہ رُخ ساری مغربی دنیا میں آپ کو بڑھا ہوا دکھائی دے گا.ایک بھی استثناء نہیں اور پھر مغربی دنیا میں بلکہ تیسری دنیا میں بھی ، غریب ملکوں میں بھی افریقہ میں بھی ، پاکستان میں بھی ، ہندوستان میں جہاں جہاں یہ مغربی چمکتی تہذیب پہنچی ہے وہاں یہ رجحانات آپ کو نمایاں ہوتے دکھائی دیں گے ان میں انسانی زندگی کا جو رُخ ہے وہ مزید لذت اور پھر مزید لذت اور پھر مزید لذت کی طرف اتنا آگے بڑھ جاتا ہے.معاشرہ کے وہ حصے جو غریب ہیں ان کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور یہاں تک کہ خود غرضی شدت کے ساتھ اتنا انسانی زندگی کے خیالات اور اس کے جذبات پر قابض ہو جاتی ہے کہ ایسا انسان جس کو اس قسم کی لذتوں کی عادت پڑی ہو اس کو کچھ بھی پروانہیں رہتی کہ جس وقت وہ لذت میں مگن اور محو ہے اُس وقت ہزاروں لاکھوں بعض دفعہ کروڑوں انسان بھوکے مر رہے ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے معصوم ایڑیاں رگڑ رہے ہوتے ہیں اُن کو کھانا تو در کنار بعض دفعہ پینے کا پانی بھی میسر نہیں آرہا ہوتا لیکن جس قوم کو اس معاشرے کی عادت پڑی ہوان کے لئے ناممکن ہے کہ وہ قربانی کر کے اپنے غریب ہم جنس بھائیوں کے لئے کچھ دیر کے لئے لذتوں سے منہ موڑ لیں.میں نے اس کی مثالیں پہلے بھی دی ہیں یہاں انگلستان میں مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب افریقہ بھوکا مر رہا تھا تو

Page 590

خطبات طاہر جلد ۸ 585 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء افریقہ کو کھانا پہنچانے کے لئے انہوں نے میوزک سے کام لیا.یہ بڑی دلچسپ بات ہے اس لحاظ سے کہ انسانی ہمدردی کے اظہار کے لئے وہی چیز اختیار کی جو دراصل انسان کی تباہی کا موجب ہے اور وہ جانتے تھے کہ اگر محض انسانی ہمدردی کی خاطر اُن سے پیسے مانگے جائیں گے تو وہ پیسے نہیں دیں گے چنانچہ بعض میوزیشن (Musition) نے اپنا وقت مفت دیا اور چوبیس گھنٹے سے زیادہ عرصہ مسلسل وہ گاتے بجاتے اور ناچتے رہے اور اس میوزک کی خاطر اس کثرت سے لوگ آئے اور جو کچھ بھی پیسے لئے انہوں نے اس دوران وہ اُنہوں نے افریقہ کے لئے اُن بھوکوں کی بھوک مٹانے کے لئے استعمال کئے تو ناچ گانے کے ذریعے انہوں نے انسانی ہمدردی کا اظہار کیا اور جتنی رقم اکٹھی ہوئی اس کا بڑاذکر کیا گیا.ساری دنیا میں اس کا شور پڑا اس طرح تھیں گھنٹے یا جتنا وقت تھا مسلسل یہ جو Troops تھے یہاں سے جانے والے Troops تھے انہوں نے انسان کی خاطر قربانی کی.ٹھیک ٹھاک انہوں نے پیسے دیئے میں نے جب حساب کیا تو پتا لگا کہ وہ ساری دولت جو انہوں نے سارے یورپ اور امریکہ سے اکٹھی کی تھی افریقہ کے لئے وہ اُس سے کم تھی جو ایک دن میں اہل برطانیہ شراب پر لگاتے ہیں.اس لئے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ دنیا کی لذت یابی کی عادت کیسی خوفناک چیز ہے اور کس طرح قوموں کو جکڑ دیتی ہے اور اچک بھی لیا کرتی ہے.یہاں تک کہ اگر وہ انسانی ہمدردی میں کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ وہ انسانی ہمدردی بھی لذت یابی کی شکل میں ہی ظاہر ہوئی ہے چنانچہ یہ گانے بجانے والے اس طرح مسلسل چو بیس یا پچیس گھنٹے نہ گاتے تو افریقہ کے لئے پیسے نہیں اکٹھے ہو سکتے تھے اور اگر آپ یہ خیال کریں کہ سارا یورپ ایک دن کے لئے شراب سے باز آجاتا اور یہ کہتا کہ ہم اپنے غریب بھوکے ننگے بھائیوں کے لئے ایک دن شراب نہیں پئیں گے تو یہ تحریک کامیاب نہ ہوتی.کیونکہ جس طرح وہ تحریک کامیاب نہیں ہوئی اس سے یہ پتا چلا ہے کہ یہ تو جکڑے گئے ہیں دنیا کی لذتوں میں اور دنیا کی لذتوں کے ذریعہ ہی ان کی انسانی ہمدردی کے جذبات ابھرتے ہیں ورنہ نہیں ابھرتے جب یہ حالات ہو جائیں قوموں کے تو لازماً پھر اقتصادی بحران آیا کرتے ہیں.یہ بڑا تفصیلی اور گہرا مضمون ہے میں خطبہ کو لمبا نہیں کرنا چاہتا مگر میں اس مضمون پر میں اپنی مجالس سوال و جواب میں مختلف مواقع پر روشنی ڈال چکا ہوں.یہ سارا معاشرہ اس وقت مصنوعی لذت یابی میں اس

Page 591

خطبات طاہر جلد ۸ 586 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء طرح فنا ہو چکا ہے اور اس طرح غرق ہو چکا ہے کہ اب اس نے پیچھے نہیں ہٹنا اس لئے جہاں ان کے اقتصادی حالات کم اب گریں گے وہاں یہ جرائم کر کے بھی ان لذتوں کے حصول کی کوشش کریں گے اور جہاں جہاں ان کی اقتصادی حالت گرے گی وہاں امن اٹھتا چلا جائے گا ایک دوسرے کا گلہ کاٹیں گے، ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کریں گے، بچوں کی عزت لوٹیں گے لیکن ایسی گندی عادت پڑ چکی ہے کہ دنیا کی لذتوں کے حصول کی اب اس سے بچ نہیں سکتے ان کے بس کی بات نہیں.یہ حالات تمام مغربی ممالک میں ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں اور جو اقتصادیات کے ماہرین ہیں وہ دیکھنے لگ گئے ہیں کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جبکہ اُن کی اقتصادی ترقی ایک مقام پر آ کر کچھ دیر کھڑی ہوگی پھر وہاں سے گرنا شروع ہو جائے گی اور بہت سی وجوہات کے علاوہ ان میں ایک وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تجارت کے ذریعے اور انڈسٹریل پروڈکشن کے ذریعہ یہ دنیا کی دولت کھینچتے ہیں.جب میں جاپان گیا تو یہ نصیحت کی تھی کہ مغربی ممالک کی طرح تم بھی افریقہ سے دور ہوتے چلے جارہے ہو اور اب حالت یہ ہے کہ اُس میں مزید کوئی باقی نہیں رہا.خون کا آخری قطرہ جب چس جاؤ تو یہ چیزیں کس کے پاس بیچو گے.افریقہ میں تو انتہائی خوفناک اقتصادی حالات ظاہر ہورہے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد یا وہ ملک خطر ناک قسم کی خانہ جنگی میں مبتلا ہو جائیں گے افریقہ کے ممالک یا کسی اور صورتحال میں مبتلا ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں جو موجودہ شکل ہے وہ آگ سے تبدیل ہو جائے گی.تیسری دنیا کے بہت سارے ممالک ہیں جو خود ترقی کر رہے ہیں اور بہت سی چیزیں جن میں وہ محتاج تھے مغرب کے.مغرب کے اب وہ اس حد تک محتاج نہیں رہے.بہت سے ایسے اور عناصر ظاہر ہور ہے ہیں جن کے نتیجے میں ان کی انڈسٹریل ترقی ایک موقع پر رکنے والی ہے یا بعض جگہ رک چکی ہے اور اب ترکی کی حکومت نے ایک لمبے عرصے سے اپنی معاشیات اور اقتصادیات کو مضبوط بنارہے اور نیشن ٹوٹی ہوئی اور جس حد تک ہمارے زمانے میں ترقی ہوئی ہے اس سے پہلے نہیں ہوئی.یہ باتیں ٹھیک تھیں ایک حد تک لیکن وہ عناصر جن کا میں ذکر کر رہا ہوں اُن کو کوئی بھی ان کی حکومت شکست نہیں دے سکتی.یہ ایسے قدرتی عناصر ہیں جو اپنے وقت پر ضرور سر اٹھاتے ہیں اور پھر ایسی حکومتیں خواہ کتنی حکمت سے کام لیں ان سے نبرد آزما نہیں ہوسکتیں.اب یہی حکومت ہے Conservative کی کہ جس نے یہ محسوس کر کے کہ اب Inflation ہاتھ سے نکل رہی ہے

Page 592

خطبات طاہر جلد ۸ 587 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء بنگ کا سود بڑھانا شروع کر دیا ہے اور جب بنک کا سود بڑھنا شروع ہوا Real Estate یعنی جو عمارات کی خرید و فروخت کے کاروبار ہیں ان پر دباؤ آنا شروع ہو گیا پھر یہی نہیں بلکہ پاؤنڈ کو سہارا دے کر مہنگارکھا گیا ہے.اس لئے باہر کی منڈیاں ہاتھ سے نکلنی شروع ہو گئیں جب منڈیاں نکلیں اور یہاں کاروبار مندا ہوا تو بعض کارخانے بند ہونے لگے.چنانچہ ابھی حال ہی میں ایک بہت بڑی انڈسٹری پر اسی قسم کا زوال انہوں نے ہزار ہا اپنے ملازم فارغ کر دیئے ہیں اور جب ہزار ہا ملازم فارغ ہوں گے اس کے جو بد اثرات معاشرے پر ظاہر ہوئے ہیں ان کو بھی آخر لذت یا بی کی عادت پڑی ہوئی ہے.انہوں نے بھی اپنی شراب کی عادتیں پوری کرنی ہیں، انہوں نے بھی اپنی ناچ گانے کی عادتیں پوری کرنی ہیں، انہوں نے بھی بظاہر بہت ہی حسین لذت یابی والے معاشرے کا تعاقب کرنا ہے وہ کیسے کریں گے ، جرائم بڑھیں گے اور بہت سے بداثرات ظاہر ہوں گے.اقتصادیات پر مزید بداثر پڑیں گے.یہ وہ ایسے حالات ہیں جن کا بہت ہی مختصر نقشہ میں نے آپ کے سامنے کھینچا ہے لیکن اگر آپ مزید غور کریں تو آپ یہ معلوم کر کے خوفزدہ ہو جائیں گے کہ ساری مغربی ترقی جو ہے یہ ہلاکت کی طرف منہ موڑ چکی ہے اور یہ اقتصادی بحران جب مزید آگے بڑھتے ہیں تو پھر یہ عالمی جنگوں پر منتج ہوا کرتے ہیں.اُس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا.کوئی دنیا میں بڑی جنگ ایسی لڑی نہیں گئی جس سے پہلے اس قسم کے اقتصادی بحران ظاہر نہیں ہوئے اور یہ اقتصادی بحران اب اُن کے اختیار میں نہیں ہیں.اگر ایک مسلمان قوم جو اسلامی معاشرے پر قائم ہو، اسلامی تمدن اختیار کئے ہوئے ہو تو اُن کے پاس زائد پیسہ ہوگا کیونکہ ان کی ضرورتوں سے زیادہ ہے.اُس میں اگر کمی بھی آئے تو اُس کے رہن سہن پر کوئی اثر نہیں پڑتا.ایک احمدی ہے جس کو کوئی گندی عادت نہیں ہے، نہ سگریٹ پیتا ہے، نہ شراب پیتا ہے، نہ وہ ناچتا گاتا ہے ، وہ تو سادہ زندگی بسر کر سکتا ہے خواہ وہ آرام کی زندگی ہی کیوں نہ ہو.اُس پر میر اخرچ نہیں ہوا کرتا لیکن جو لذت یابی کی اور عیاشی کی زندگی ہے یہ بہت زیادہ دولت کھینچتی ہے اس لئے ایسی قومیں جن کا تمدن صاف اور پاکیزہ ہو وہ تو خطر ناک سے خطرناک اقتصادی بحران کا بھی بڑے آرام سے مقابلہ کر سکتی ہے کیونکہ ان کے اندر گرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہیں پس یہ غلام ہیں دراصل جس کو یہ کہتے ہیں آزادی ہے ہماری تم ہماری آزادی میں دخل

Page 593

خطبات طاہر جلد ۸ 588 خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۸۹ء دے رہے ہو.دراصل یہ اپنے تمدن کے غلام ہو چکے ہیں یہ دنیا کی لذتوں کے ایسے غلام ہو چکے ہیں کہ اُن سے چھٹکارا نہیں پاسکتے اور ان لذتوں کو جاری رکھنے کے لئے یہ ہر قسم کی قربانی دوسروں سے لیں گے اور خود قربانی دینے کے اہل نہیں.یعنی اپنے بچوں تک پر ظلم کر جائیں گے اپنی لذتوں کے حصول کے لئے مگر قربانی دینے کے اہل نہیں بغیر لذتوں کے رہ نہیں سکتے.کہتے ہیں ہماری زندگی بور ہوگئی ہے.پس قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچا ہے.یہ لفظ لفظاً درست ہے اور بہت ہی گہرا نقشہ ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں یہی چیز آپ کو ظاہر ہوتی اور پھر ہلاک ہوتی دکھائی دیتی ہے اور یہ قومیں جو تباہ ہو جاتی ہیں اُن کے فتنوں سے پھر نئی تو میں ابھرتی ہیں پھر وہ نیک رہتی ہیں، پھر وہ خدا کی طرف آجاتی ہیں، پھر بد قسمتی سے ان باتوں کو بھول کر آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے وہ بھی دنیا کی لذتوں کا شکار ہو جاتی ہیں.پس ان باتوں کو سمجھتے ہوئے میں آپ کو خصوصیت سے جو یہاں کی ایک بہت چھوٹی سی جماعت کیسٹنٹائن کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے معاشرے کو صرف اعتقادی لحاظ سے اسلام کی برتری سے آگاہ نہ کریں.بلکہ ان کو تنبیہہ کریں، انذار سے کام لیں اور ان کو بتائیں کہ تم غلط راستوں پر چل پڑے ہو.منطقی نتائج کے طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے کہ تمہارا انجام ہلاکت ہے.اس لئے تمہیں لازماً واپس لوٹنا ہو گا.صرف اسلامی معاشرہ اور تمدن ہے جو دل کا سچا امن تمہیں عطا کر سکتا ہے اُس کے سوالذتیں تو ہیں لیکن دل کا امن تمہیں نصیب نہیں ہوسکتا.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس پر اگر آپ غور کریں تو ان لوگوں پر خود ثابت کر سکتے ہیں کہ آپ کی ان لذتوں کے باوجود دل کا امن زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوتا چلا جا رہا ہے.بے چینی بڑھتی چلی جارہی ہے.تلاش اور جستجو ایسی چیزوں کی کرتے ہیں جس کو یہ سمجھتے بھی نہیں کہ وہ کیا چیز ہے، بھوک زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہے.خلا کا احساس پیدا ہو رہا ہے.پس احمدیوں کو ان قوموں کو سمجھا کر اسلام کی طرف بلانا چاہئے ان کو بتانا چاہئے کہ تمہارا تمدن تمہارا معاشرہ تمہاری تہذیب یہ زندہ رہنے کے لائق نہیں رہے اور اگر تم اسی طرح بڑھتے چلے گئے تو قرآن کریم کی یہ پیشگوئی لازما پوری ہوگی کہ ہم نے جو کچھ بھی زمینیں زمین پر بنائی ہیں ایک دن

Page 594

خطبات طاہر جلد ۸ 589 خطبه جمعه یکم ستمبر ۱۹۸۹ء ہم ان سب کو ہلاک کرنے والے ہیں اور چٹیل میدان بنادیں گے.ان چٹیل میدانوں کے لئے تیاری تو یہ ساری کر چکے ہیں.ایسے ایسے خوفناک ہلاکت کے بم ایجاد کر چکے ہیں جن میں سے اگر سوواں حصہ بھی چل جائیں تو زمین کا بڑا حصہ ریگزاروں میں اور چٹیل میدانوں میں تبدیل ہو جائے گا یہاں تک کہ سطح زمین سے زندگی اٹھ جائے گی.پس با وجود اس کے کہ جماعت احمد یہ بظاہر ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی ہے جو غاروں کا معاشرہ ہے جو پرانے زمانے اور غاروں کے زمانوں میں بسنے والے انسانوں کا معاشرہ آپ سمجھ لیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا رہا ہوں کہ یہی وہ تمدن ہے جو دنیا میں زندہ رہے گا یہی وہ تمدن ہے جس نے آئندہ تمدنوں کی بنیاد ڈالنی ہے.اس سے پہلے مڑ کر تاریخ پر آپ نگاہ ڈال کر دیکھیں کہ ان جیسی تہذیبیں جیسی آج آپ کے سامنے ہے بارہا دنیا سے مٹتی ہیں اور بار ہا مٹادی جائیں گی اس کے لئے کوئی جواز نہیں.پس خدا کی طرف لوٹنا خدا سے محبت میں لذت حاصل کرنا ہی زندگی کا راز ہے.جو اس دنیا کی زندگی کی ضمانت دیتا ہے اور دوسری دنیا کی زندگی کی بھی ضمانت دیتا ہے.

Page 595

Page 596

خطبات طاہر جلد ۸ 591 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۹ء قول حسن اور اعلیٰ کردار کے حامل داعی الی اللہ کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی (خطبه جمعه فرموده ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ چند سالوں سے میں جہاں جماعت احمدیہ کو دعوت الی اللہ کی طرف مسلسل توجہ دلا رہا ہوں وہاں ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیتا چلا آرہا ہوں کہ اپنے کردار کو عظیم بنانے کی کوشش کریں.کیونکہ قرآن کریم سے متعدد جگہ یہ واضح ہدایت ملتی ہے کہ جب تک کردار میں عظمت نہ ہو نہ بات میں عظمت پیدا ہو سکتی ہے نہ دعا میں عظمت پیدا ہو سکتی ہے.ایک جگہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ تمہاری دعا آسمان کی طرف رفعت اختیار نہیں کر سکتی ، آسمان کی طرف بلند نہیں ہو سکتی جب تک تمہارا کر دارا سے بلند نہ کر رہا ہو.اس میں قبولیت دعا کا ایک بہت گہرا راز ہے اور دوسری جگہ ایک موقع پر یہ فرمایا کہ قول حسن بہت چیز ہے اس کے بغیر دعوت الی اللہ ممکن نہیں مگر شرط یہ ہے کہ ساتھ عمل اچھے ہوں.تو در حقیقت یہ دونوں مضمون ایک ہی مرکزی فلسفہ سے تعلق رکھتے ہیں.یعنی دعا میں بھی خدا بھی بات اسی وقت سنتا ہے جب اس کے پیچھے عظمت کردار موجود ہو اور اس کے بغیر دعا میں طاقت پیدا نہیں ہوتی.تو بندے کیسے تمہاری بات سن لیں گے جو خدا کی نسبت کم رؤف و رحیم ہیں، کم توجہ کرنے والے ہیں.خدا کی نسبت بہت ہی کم یعنی کوئی نسبت ہی نہیں در حقیقت.تمہاری غلطیوں سے در گزر کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ تو بعض کمزوروں کی دعا بھی سن لیتا ہے، بعض دفعہ بد کرداروں کی

Page 597

خطبات طاہر جلد ۸ 592 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۹ء دعا بھی سن لیتا ہے لیکن بندوں میں یہ بات کم دکھائی دیتی ہے.خودان کا کیسا بھی کردار ہوا گر کسی اچھے کام کی طرف بلانے والے میں معمولی سانقص بھی پائیں تو اکثر وہ اس نقص کو ابھار کر پیش کرتے ہیں اور اس کی ساری اچھی باتوں کو اس وجہ سے رد کر دیتے ہیں کہ کہنے والے کے اندر یہ خرابی موجود ہے.تو قرآن کریم سے جب یہ پتا چلا کہ دعا کا بھی بنیادی طور پر عظمت کردار سے تعلق ہے اور استثنائی طور پر تو خدا کی رحمت لا محدود ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جب چاہے جس کی چاہے دعاسن لے یہ اس کی نفی نہیں ہو رہی مگر بندے بالعموم زیادہ سخت دل ہوتے ہیں، زیادہ تنقید کرنے والے ہوتے ہیں اور ان پر وہی اچھا قول اثر کرتا ہے جس کے ساتھ عظمت کر دار موجود ہو.اس لئے مبلغ بنے کے لئے جماعت کو اپنے کردار کو بلند کرنے کی نہایت ضرورت ہے اور جہاں دعوت الی اللہ کے وعدے ملتے ہیں وہاں مجھے یہی فکر شروع ہو جاتی ہے کہ دعوت الی اللہ کرنے والوں نے اپنے اندر کوئی پاک تبدیلی پیدا بھی کی ہے کہ نہیں.جہاں کرتے ہیں وہاں پھل لگنے شروع ہو جاتے ہیں.جہاں اس ضمن میں کوئی مؤثر اقدام نہیں ہوتا نہ جماعت کی انتظامیہ کی طرف سے نہ انفرادی طور پر وہاں فہرستیں تو بن جاتی ہیں مگر ان کو پھل نہیں لگتا.اس معاملے کی اہمیت کا ایک مشاہدہ میں نے اپنے گزشتہ سفر ویلز میں کیا.ویلز میں چند دن کے لئے گیا تھا وہاں جماعت نے علاقے کے معززین کو سوال و جواب کی مجلس کے لئے بلایا ہوا تھا.میرے ساتھ بائیں ہاتھ وہاں کے شہر کے ایک بہت ہی ہر دلعزیز دوست اور میٹر بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے جو گزشتہ دفعہ یہاں تقریب منعقد کروائی تھی جس میں قرآن کریم کے ویلش ترجمہ کی نقاب کشائی کی گئی تھی اس میں ایک لمبا سا آدمی جو انگریز تھا اور Yorkshire کی طرف سے آیا تھا وہ کون تھا.میں نے ان کو بتایا کہ وہ نعمان نیومین ہیں اور ویلز سے ہی تعلق رکھتے ہیں.ویلش احمدی ہیں اور غالبا اس لحاظ سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں کہ پہلے ویلش احمدی ہیں.تو اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک وہ مجھے بار بار یہی کہتا رہا کہ اس شخص کے چہرے پر ایک ایسی صداقت تھی اور اس صداقت کا ایک ایسا گہرا اثر میرے دل پر پڑ رہا تھا کہ اس سے باتیں کرتے کرتے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ شخص سچا ہے اور جو بات کہہ رہا ہے اس میں دھوکا نہیں ہوسکتا.اس نے کہا میرے دل پر اتنا گہرا اثر چھوڑا ہے اس شخص نے حالانکہ تھوڑی باتیں ہوئیں لیکن میں نے جب ان کی چال ڈھال

Page 598

خطبات طاہر جلد ۸ 593 خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء دیکھی ، ان کی باتوں کی طرز دیکھی ، ان کی آنکھوں کے اندر روشنی پائی تو مجھے وہ سرتا پاسچائی دکھائی دیا.انہوں نے بتایا کہ اس وقت سے لے کر اب تک میں ہر مجلس میں یہ کہتا ہوں کہ تم جو بعض مسلمان ممالک کے رویے کے نتیجے میں اسلام Condemn کرتے ہو یہ درست نہیں ہے.اس نے کہا میں ان کو کہتا ہوں کہ میں نے ایسے مسلمان دیکھیں ہیں جن سے تم سبق سیکھ سکتے ہو.جو کر دار اور اخلاق میں ایک معیار ہیں اور ایک نمونہ ہیں.اس لئے سنجیدگی سے اسلام کی تحقیق کی طرف توجہ کرو اور تمہیں اس میں بہت سی سچی باتیں دکھائی دیں گی.پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ جو کتابیں مجھے دی گئی تھیں میں ان کا مطالعہ کر رہا ہوں اور آئندہ بھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں دلچسپی لوں گا.باوجود اس کے کہ میرا سیاسی کردار مجروح ہو رہا ہے اور لوگ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ تو مسلمانوں کی طرف مائل ہو گیا ہے اور باوجود اس کے کہ بعض لوگ یہاں ایسے جاہل ہیں کہ جب میں ان کو سمجھاتا ہوں تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ تم Devil کے اثر کے نیچے آگئے ہولیکن میں ان کو کہتا ہوں تمہاری یہ جہالت اصل میں Devil کا اثر ہے کیونکہ سچائی کی تلاش کا نہ ہونا جہالت ہے اور سچائی کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا اور اس امکانی رستے کو ہمیشہ کے لئے بند کر دینا کہ تمہارے علاوہ بھی سچائی پائی جاسکتی ہے اس نے کہا میرے نزدیک یہ شیطانیت ہے اور واقعہ یہ بات درست ہے.تو یہ جو نیک اثر اتنا اچھا چھوڑا ہمارے ایک احمدی مخلص انگریز دوست نے یہ اس شخص پرختم نہیں ہوا جس پر یہ اثر پڑا تھا بلکہ آگے وہ اس اثر کا مشعل بردار بن گیا ہے اور با اثر ہونے کی وجہ سے خدا کے فضل سے بڑے بڑے اچھے حلقوں میں وہ باتیں پہنچ رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ دوست جواب اس مجلس میں آئے تھے ان کے اندر بھی ایک نمایاں تبدیلی میں نے دیکھی.دلچپسی پائی اور بھاری اکثریت نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم اس دلچسپی کو مستقل کرنا چاہتے ہیں اور یہ عارضی ملاقات نہیں ہوگی بلکہ ہم ( انشاء اللہ ، انشاء اللہ تو انہوں نے نہیں کہا تھا میں اپنی طرف سے داخل کر رہا ہوں کہ ) ہم ضرور جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کریں گے.چنانچہ ایک دوست نے ہم جب دوسرے دن روانہ ہوئے ہیں تو اس رستے میں ایک جگہ تھوڑی دیر کے لئے رکے وہاں انہوں نے اپنے احمدی دوست کو کہا ہوا تھا کہ جب وہ آئیں تو مجھے ضرور ملا ئیں میں نے ساتھ تصویر بھی کھنچوانی

Page 599

خطبات طاہر جلد ۸ 594 خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء ہے اور باتیں بھی کرنی ہیں.چنانچہ انہوں نے بھی اس قسم کے نیک خیالات کا اظہار کیا.تو جماعت کے لئے جو دلچپسی پید اہورہی ہے وہ اسلام کے لئے ایک عظیم دروازہ کھل رہا ہے اور یہی وہ رستہ ہے جس سے لوگوں نے دراصل اسلام میں داخل ہونا ہے.ارد گرد دیوار میں کھڑی کر دی گئی ہیں.بہت سے مسلمان ممالک نے اپنے جاہلانہ رویے کے نتیجے میں اسلام کو بدنام کیا ہے اور جگہ جگہ ان رستوں کو بند کر دیا گیا ہے جن رستوں سے لوگ اسلام میں داخل ہو سکتے تھے.اس لئے اب دروازہ اگر کوئی ہے تو جماعت احمدیہ کا دروازہ ہے.لیکن اس دروازے کو وسیع کرنا یہ بنیادی مسئلہ ہے اور یہ دروازہ اس طرح تو نہیں ہے جس طرح ہماری اس مجلس کے سامنے دروازہ ہے یا آپ کے گھروں کے دروازے ہوتے ہیں.یہ ایک تمثیلی دروازہ ہے جو وسعت اختیار کرسکتا ہے اور یہ وسعت احمدیوں نے اپنے عظمت کردار کے ذریعے پیدا کرنی ہے ورنہ یہ دروازہ تنگ رہے گا اور کھلے گا نہیں.ایک نعمان کی ضرورت نہیں ہے لاکھوں کروڑوں نعمانوں کی ضرورت ہے جو مختلف ملکوں میں پیدا ہوں اور اپنی عظمت کردار کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کریں اور ان کے دل کے رستے سے لوگ پھر اسلام میں داخل ہونا شروع ہوں.ان کی آنکھوں کی راہوں سے وہ اسلام کے حسن کا مطالعہ کریں.اس نقطہ نگاہ سے داعین الی اللہ کی ضرورت کی شدت محسوس ہو رہی ہے مگر اس نوع کے داعی الی اللہ جن کا میں بیان کر رہا ہوں کہ ان کے ساتھ ان کے کردار میں ایک حسن اور کشش ہو.بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا کردار ٹھیک ہے.ہم نمازیں پڑھتے ہیں ، ہم جھوٹ نہیں بولتے ، ہم کسی کا حق نہیں مارتے اور یہی تبلیغ ہے لیکن یہ غلط نہی میں دور کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے عظمت کردار کی اہمیت بیان کرنے کے باوجود قول حسن کو پہلے رکھا ہے.وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ (حم السجدہ : ۳۴) اور گونگی شرافت کا نام نہیں لیا اور انبیاء کی تاریخ جو ہمارے سامنے پیش کی ہے اس میں کہیں بھی گونگی شرافت دکھائی نہیں دیتی بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ شرافت کو دیکھ کر اگر وہ گونگی ہو تو مخالفت ختم ہو جایا کرتی ہے اور لوگ یہ اصرار کرتے ہیں کہ تم شریفانہ زندگی بسر کر ولیکن منہ سے کچھ نہ بولو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے.تو دعوت الی اللہ محض عظمت کردار سے نہیں ہوا کرتی اس کے لئے زبان کا حرکت میں آنا بہت ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں شرافت کے باوجود پھر مخالفتیں پیدا ہوتی ہیں لیکن جو

Page 600

خطبات طاہر جلد ۸ 595 خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء شریف دل ہیں ان کو شرافت جیت لیتی ہے جو بد کردار لوگ ہیں یا کبھی رکھنے والے لوگ ہیں وہ اپنے دل کے مرض کا شکار ہو جایا کرتے ہیں لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ ایسے داعین الی اللہ کی ضرورت ہے جن کی زبان بھی قول حسن پر قائم رہے اور قول حسن کی تعریف میں پہلے بارہا کر چکا ہوں.اس میں دلیل کی بات نہیں ہے صرف اس میں حسن کلام کی بات ہے یعنی ایسے رنگ میں بات کی جائے جس میں دلکشی پائی جائے.پس بات کے انداز میں دلکشی ہو اور کردار اعلیٰ اور مضبوط ہو اور کردار لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والا ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی.یہ دوشرطیں خدا تعالیٰ نے لگا دی ہیں اس کے بعد فرمایا ہے کہ جاؤ میدان میں کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی.وہ جو تمہاری جان کے دشمن ہیں یہاں تک یہ آیت فرماتی ہے آگے جا کے وہ جاں نثار دوست بن جائیں گے لیکن ایک اور شرط ساتھ یہ لگائی کہ صبر بھی ساتھ رکھنا وہ لوگ جوصبر کے ساتھ ان باتوں پر قائم رہیں گے یعنی قول حسن کے ذریعے خوبصورت کلام کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے رہیں گے اور ان کا کردار ان کے کلام کو جھٹلانے والا نہیں بلکہ تقویت دینے والا ہوگا ان کو یہ خوشخبری ہے کہ اگر وہ صبر کے ساتھ استقامت کے ساتھ اس طریق پر کارگر ہوں تو ان کے لئے کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں اور دشمنی کا ذکر ضرور فرمایا کہ قول حسن اور اعلیٰ کردار کے باوجود دشمنی ہوا کرتی ہے.فرمایا تم اس پر قائم ہو جاؤ دشمنیاں تبدیل کرنا ہمارا کام ہے اور ہم دشمنوں کے دلوں سے رحمت کے چشمے پھوڑ دیں گے یہاں تک کہ وہ لوگ جو تمہارے خون کے پیاسے ہیں تم پر خون نچھاور کرنے میں اپنا فخر سمجھیں گے.کتنا عظیم الشان پیغام ہے اور کتنے مختصر الفاظ میں خدا تعالیٰ نے اس سارے مضمون کو وہ جو ایک سمندر کی طرح ہے ایک کوزے میں بند کر دیا ہے.پس داعین الی اللہ کے لئے بڑا ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے کردار کا محاسبہ کریں اور اپنے طرز کلام کا بھی محاسبہ کریں.بہت سے مبلغین میں نے ایسے دیکھے ہیں جو زندگیاں تبلیغ میں صرف کرتے ہیں لیکن ان کی بات کاٹنے والی ہوتی ہے.وہ جب آگے سے کوئی سختی کی بات سنتے ہیں یا تیزی دیکھتے ہیں تو جواب میں بھی وہ تیزی پیدا کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں دشمن کو شکست دینا ہمارا کام ہے حالانکہ دشمن کو شکست دینا ہر گز کام نہیں ہے دشمن کا دل جیتنا کام ہے.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيدٌ ( حم السجدہ : ۳۵) یہ مقصد بنا دیا ہے

Page 601

خطبات طاہر جلد ۸ 596 خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء خدا تعالیٰ نے تبلیغ کا اور کتنا واضح مقصد ہے.یہ نہیں فرمایا کہ پھر تم دشمن کو شکست پر شکست دیتے چلے جاؤ گے.فرمایا کہ پھر یہ ہو گا اور یہ ہونا چاہئے کہ شدید دشمن بھی تمہارا محب اور جان نثار دوست بن جائے.جس کو آپ نے دوست بنانا ہو اس کو تیز کلام کے ذریعے تو دوست نہیں بنایا جا سکتا.گھروں میں بچوں میں میں نے دیکھا ہے جب گفتگو چلتی ہے اگر کوئی ایک بچہ دوسرے کو تیزی سے جواب دے تو وہ دوسرا اور تیزی سے جواب دیتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں ایک دوسرے کو جو ہاتھ میں آئے مارنا شروع کر دیتے ہیں.تو وہ لوگ جو پہلے ہی آپ کی جان کے دشمن ہیں قرآن کریم فرماتا ہے ہیں جان کے دشمن ان کے ساتھ آپ تیز کلامی سے کس طرح مقابلہ کریں گے.ان کے اندر جو بدر جحانات ہیں ان کو اور بھی آپ آگ لگا دیں گے.ان کے اندر جو مخالفتوں کا تیل ہے ان کو تیلی دکھا ئیں گے اس لئے قرآن کریم نے بہت ہی حسین اور بہت ہی کامل کلام فرمایا ہے.فرمایا یہ سب کچھ کرو مگر مقصد یہ پیش نظر رکھنا کہ تم نے دشمنوں کے دل جیتنے ہیں اور قول حسن اس تعریف کے تابع ہے.قول حسن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم غالب آجاؤ بحث میں کیونکہ بحث میں غالب آنے کے نتیجے میں دل ضروری نہیں کے جیتے جائیں بعض دفعہ مخالفتیں بڑھ جایا کرتی ہیں ، بعض دفعہ دشمن چھوٹا محسوس کرتا ہے اپنے آپ کو ذلیل محسوس کرتا ہے اور ردعمل میں اور زیادہ سختی کرتا ہے.تو فرمایا تمہاری طرز کلام حسین ہونی چاہئے یعنی دل جیتنے والی ہو اور عمل کے متعلق تو پہلے ہی میں نے بتا دیا ہے وَعَمِلَ صَالِحًا ( حم السجدہ : ۳۴) جب اعمال حسین ہوں تو قول کے اندر نہ صرف یہ کہ مزید حسن پیدا ہوتا ہے بلکہ وزن پیدا ہو جاتا ہے.اس کے بغیر حسین قول کھوکھلا ہوتا ہے اس میں جذب کی طاقت نہیں ہوتی.انفرادی طور پر تو ہمیں ضرورت ہے ہی لیکن اب قومی طور پر نئی صدی کے ساتھ اتنے بڑے بڑے رستے کھل رہے ہیں کہ صرف یہ سوال نہیں ہے کہ ہم اپنے دروازے کھولیں خدا تعالیٰ کی تقدیر لوگوں اور قوموں کے دلوں کے دروازے کھول رہی ہے اور بعض ایسی قوموں کی طرف سے جماعت احمدیہ کے ساتھ رابطے ہو رہے ہیں جن میں پہلے کبھی تبلیغ کے لئے کوئی دروازہ نہیں کھولا گیا تھا اور مطالبے شروع ہو گئے ہیں.چین کی طرف سے بجائے اس کے کہ ہماری کوششیں کارآمد ثابت ہوتیں یا بار آور ثابت ہوتیں مسلسل ایسے لوگوں کی طرف سے رابطے ہورہے ہیں جن سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں

Page 602

خطبات طاہر جلد ۸ 597 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۹ء تھا لیکن اس کا آغاز بھی ایک اچھے احمدی کے اعلیٰ کردار کے نتیجے میں ہوا.ایک چینی افسر، ایک چینی سکالر باہر آئے ہوئے تھے ایک پروفیسر باہر آئے ہوئے تھے اس طرح رابطے ہوتے ہیں.اس نے ایک ایسے احمدی کو دیکھا جس کو اس نے مختلف پایا اور وہ ایسا احمدی تھا جس کی شرافت گونگی نہیں تھی بلکہ بولنے والا تھا.اس کے کردار میں دلچسپی لی اس نے زبانی اس کو بتانا شروع کیا کہ میں کیوں مختلف ہوں ، ہمارا کیا اخلاقی ضابطہ ہے جس کے نتیجے میں جس کی پیروی کے نتیجے میں تم میرے اندر ایک فرق دیکھ رہے ہو.چنانچہ اسلام کا تعارف ، احمدیت کا تعارف اور اس کے نتیجے میں ایک خاص مثال بھی میرے سامنے ہے اس نے وسیع پیمانے پر چونکہ صاحب اثر آدمی تھا چین سے رابطے شروع کئے.شروع میں ان رابطوں کا منفی نتیجہ نکلا اور اس کو بڑی سختی سے ہدا یتیں آئیں کہ خبردار اس فرقے کے قریب نہ جانا یہ تو بڑا خطرناک فرقہ ہے اور مرتد لوگ ہیں اور جو باتیں انہوں نے سنی ہوئیں تھیں وہ دہرانی شروع کیں.میں نے بھی ان سے رابطہ اپنا قائم رکھا ان کو کہا کہ آپ یک طرفہ باتیں سن کر ٹھنڈے نہ ہوں دشمن یہ کیا کرتے ہیں ایسی باتیں.خدا تعالیٰ نے ہدایت کے رستے میں شیطان بھی لگائے ہوئے ہیں وہ آوازیں دیتے چلے جاتے ہیں کہ نہیں یہ غلط رستہ ہے ادھر آؤ ، ادھر آؤ.کان میں باتیں پھونکتے ہیں پس پردہ یا پیٹھ کے پیچھے باتیں کرتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں دوسروں سے بات کرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں تم ہماری بات سنو اور سمجھ لو کہ یہ شیطانی لوگ ہیں ان کے قریب بھی نہیں جانا اس لئے آپ لٹریچر کا مطالعہ ضرور کر لیں.ان کو موقع دیں ہمیں بھی موقع دیں.چنانچہ بعض چیز میں ان کو بھجوائیں گئیں.انہوں نے مطالعہ کیا اور ان کے دل کی کایا پلٹ گئی انہوں نے پھر دوبارہ رابطے کئے اور اب مجھے اطلاع ملی ہے کہ ان رابطوں کے نتیجے میں ان لوگوں نے بھی وہاں تحقیق کی اور ان کے بڑے بااثر رہنماؤں میں سے بعض نے ان کو لکھا ہے کہ ہم نے اب جو تحقیق کی ہے تو پتا چلا ہے کہ یہی جماعت ہے دراصل جو در حقیقت اسلام کی علمبردار ہے اور ہمیں اس تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہی جماعت ہے جو امن پرست ہے اور تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ محبت کے ذریعے اور پیغام کے ذریعے دلوں کو فتح کرنے کا شعار رکھتی ہے.یہ ان کا کردار ہے اس لئے ہمیں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے اور بعض لوگ اب وہاں سے کوشش کر رہے ہیں کہ جس قدر جلد موقع ملے وہ

Page 603

خطبات طاہر جلد ۸ 598 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۹ء یہاں آئیں کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں اور جماعت کے متعلق مزید معلومات حاصل کریں.اسی طرح روس میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے وسیع پیمانے پر رابطوں کے دروازے کھولے جا رہے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی توفیق عطا فرما دی کہ ان قوموں کے لئے جو لٹریچر کا خلا تھا اسے پورا کرنا شروع کریں اور اس وقت ہم خدا کے فضل سے پہلے ہی اس مقام پر کھڑے ہیں کہ جب مطالبہ آئے ان کو کچھ نہ کچھ ضرور پہنچا دیں خصوصیت کے ساتھ قرآن کریم ان کی زبان میں کیونکہ اس سے بہتر اور کوئی لٹریچر مہیا ہو ہی نہیں سکتا.اسلام تو ہے ہی لیکن دنیا بھر کے لڑ پچر میں قرآن سے بہتر کوئی کتاب نہیں اس لئے قرآن کریم میں تو ہم خدا کے فضل سے اس معاملے میں خود کفیل ہو چکے ہیں.کثرت کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اور سٹاک میں بھی موجود ہے لیکن اس کے علاوہ بھی لٹریچر تیار کیا گیا ہے جو متفرق امور سے متعلق ان سے تعارف کروائے گا.تو اس ضمن میں میں آپ کو بتا رہا ہوں، متنبہ نہیں خوشخبری دے رہا ہوں کے باہر سے دروازے کھلنے شروع ہو گئے ہیں اور دیوار میں ٹوٹ رہی ہیں آپ اپنے دروازوں کو کیوں تنگ رکھیں گے.اگر ان کھلتے ہوئے دروازوں کے مقابل پر آپ نے بھی اپنے دروازے کشادہ نہ کئے اور وسیع تر نہ کرتے چلے گئے تو پھر اسلام کے نہ پھیلنے کی ذمہ داری آپ پر ہو گی پھر آپ خدا کے سامنے ضرور جواب دہ ہوں گے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوازے کھلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے Contact Points زیادہ ہوں یعنی بجائے اس کے کہ ایک مبلغ یا دس یا سو مبلغ یا سو دائین الی اللہ یا ہزار دا عین الی اللہ اسلام کے لئے کھلے رستے بن جائیں اور اسلام کے لئے لوگوں کو داخل ہونے کے لئے اپنے دلوں کے راستے پیش کریں لاکھوں کی ضرورت ہے اور ہر جگہ ان رابطوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے.اس ضمن میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے ہمیں ان قوموں کی طرف ان ملکوں سے باہر توجہ کرنی چاہئے.ملکوں کے جو دروازے کھلیں گے اور کھل رہے ہیں اللہ کے فضل سے ان سے تو ہم جماعتی اور انتظامی سطح پر رابطے کریں گے اور جہاں تک توفیق ہوگی ان رابطوں کو موثر بنائیں گے.لیکن جب میں کہتا ہوں ان قوموں کے دروازے کھل رہے ہیں تو مراد یہ ہے کہ ایسے دروازے بھی ہیں جو ان ملکوں سے باہر ہیں.کروڑوں چینی ہیں جو چین سے باہر زندگی بسر کر رہے ہے اور لاکھوں

Page 604

خطبات طاہر جلد ۸ 599 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۹ء روی ہوں گے یا مشرقی کمیونسٹ دنیا کے بسنے والے لوگ لکھو کھہا ایسے ہیں جو اپنے ملکوں سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں اس لئے جور جحانات وہاں پیدا ہور ہے ہیں اس سے بڑھ کر رجحانات ان ملکوں سے باہر پیدا ہونے کے عقلی امکانات ہیں.پہلے تو جب آپ کسی چین سے تعلق رکھنے والے چینی سے بات کرتے تھے تو یہ خوف اس کو دامن گیر ہو جاتا تھا کہ اگر یہ سچائی بھی ہے اور میں اس کو قبول بھی کرلوں تو میرا ملک اسے برداشت نہیں کرے گا.ایک روسی سے جب آپ بات کرتے تھے تو وہ خوفزدہ ہو جایا کرتا تھا.مجھے یاد ہے کالج کے زمانے میں احمد یہ ہوٹل کے زمانے میں نہیں اس کے بعد کی بات ہے پارٹیشن کے معا بعد جب میں میو ہوٹل رہتا تھا ایک روسی وفد آیا ہوا تھا.ہم کچھ طلبامل کر احمد یہ لٹریچر تقسیم کرنے کے لئے ان تک پہنچے اور روسی لٹریچر تو ہمارے پاس نہیں تھا مگر انگریزی اور بعض دوسرے لٹریچر کیونکہ وہ لوگ انگریزی جانتے تھے وہ ان کو دیا تو ہم سب نے محسوس کیا کہ وہ شخص خوفزدہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی اس کے نائب کے طور پر تھا ہوسکتا ہے کہ وہ انٹیلی جنس کا آدمی ہو کیونکہ ان دنوں میں خصوصیت سے جب روسی وفد باہر جایا کرتے تھے تو ان کے ساتھ انٹیلی جنس آفیسر ضرور جایا کرتے تھے اب نسبتا بہت فرق پڑ چکا ہے.وہ اس کی طرف دیکھتا تھا اور اس کی آنکھوں میں خوف تھا اور اس نے معذرت کی کہ نہیں میں یہ قبول نہیں کر سکتا.اس کے مقابل پر بہت سے دوسرے تھے جنہوں نے قبول کر لیا.جہاں تک مجھے یاد ہے رشین نے یا قبول کیا ہی نہیں تھا یا سرسری سی دلچپسی ایک آدھ چیز لی ہوگی مجھے تو یہ یاد ہے کہ قبول نہیں کیا اب وہ قبول کرتے ہیں اب مطالبے کرتے ہیں اب جہاں جہاں رشین Ambassador سے ایمبیسی سے ہمارے دوستوں نے رابطے کئے ہیں انہوں نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور ایک Ambassador تو نہیں تھے مگر افریقہ کے دوران ایمبیسی کے ایک سینئر افسر تھے یا Deputy Ambassador تھے ان کو پہلے ہی پہنچ چکا تھا قرآن کریم.ا انہوں نے مجھ سے بہت ہی تعریف کی یہ تو ایسا اعلیٰ درجہ کا ترجمہ ہے کہ اس سے دل پر گہرا اثر پڑتا ہے اور آپ کو اس کو روس میں پھیلانا چاہئے.تو روسی ہوں یا چینی ہوں یا وہ ان ملکوں کے بسنے والے جہاں تک ہماری رسائی نہیں تھی اور ابھی تک پوری طرح نہیں ہے ان کے جگر گوشے جو باہر بس رہے ہیں ان تک تو آپ کی رسائی ہوسکتی

Page 605

خطبات طاہر جلد ۸ 600 خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء ہے.بہت سے احمدیوں کو جن کو بھی توفیق ملے ان علاقوں کے باہر کے احمدیوں کو ان کو اپنا یہ مشن بنانا چاہئے کہ ہمارے ذریعے ان قوموں سے اسلام کے رابطوں میں اضافہ ہو جائے اور ہم وہ دروزہ بن جائیں جن سے یہ اسلام میں داخل ہوں.پس اس طرح اسلام کا دروازہ وسیع ہوگا اور جتنے احمدی زیادہ اس میں شامل ہوں گے اتنے ہی اس میں وسعت پیدا ہوتی چلی جائے گی.اس ضمن میں ایک اور بہت ضروری نصیحت یہ ہے پہلے بھی کی تھی لیکن دوست عموماً بھول جاتے ہیں اس لئے بعض نصیحتیں بار بار کرنی پڑتی ہیں.وہ مخلصین ، وہ سعادت مند احمدی جنہوں نے توفیق پائی کہ اگلی صدی کے لئے اپنے بچے ہدیہ اسلام کو پیش کریں وہ بارہا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم ان کی تربیت کس طرح کریں.ان کو سمجھانے کے لئے ، ان کو طریقے سکھانے کے لئے ، ان کی مزید راہنمائی کے لئے ایک باقاعدہ شعبہ قائم کر دیا گیا ہے اور تحریک جدید کو میں نے سمجھا دیا ہے کہ کس قسم کا لٹریچر تیار ہو، کس قسم کی تربیتی نصائح ہونی چاہئیں ماں باپ کو.یعنی بچوں کو تو وہ کریں گے ہم نے تو ماں باپ کو ابھی کرنی ہے اور کیا راہنمائی ہونی چاہئے وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے مطابق کام شروع کر دیں گے جلد.پھر ان کو یہ بھی سمجھایا ہے کہ ان بچوں کے لئے اس کے دوسرے قدم کے اوپر لٹریچر تیار کرنا ہے اور مختلف زبانوں میں تیار کرنا ہے تا کہ شروع سے ہی جس رنگ میں ہم تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے گھروں میں وہ تربیت شروع ہو جائے.اس ضمن میں میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ جن واقفین نو کی پیشکش کرنے والوں کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوئی ہیں ان کو کیا سکھائیں.بیٹیوں کے لئے وہ سہولت نہیں ہے جو بیٹوں کے لئے ہوسکتی ہے کہ میدان میں جہاں مرضی ان کو پھینک دو.ان کے اپنے کچھ حفاظت کے تقاضے ہیں، کچھ ان کے اپنے نوعی تقاضے ہیں جن کے پیش نظر ہم ان سے اسی طرح کام نہیں لے سکتے جس طرح ہر واقف زندگی مرد سے کام لے سکتے ہیں.اس لئے ان کو میں نے یہ کہا تھا کہ ایسی بچیوں کو تعلیم کے میدان میں آگے لائیں علمی کام سکھائیں.علم تو بڑھانا ہی ہے لیکن علم سکھانے کا نظام جو ہے جس کو بی ایڈ یا ایم ایڈ کہا جاتا ہے.ایسی ڈگریاں جن میں تعلیم دینے کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے ان میں ان کو داخل کر میں آئندہ بڑے ہو کر لیکن ابھی سے ان کی تربیت اس رنگ میں شروع کریں.

Page 606

خطبات طاہر جلد ۸ 601 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۹ء پھر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.خواتین ڈاکٹروں کو خدا تعالیٰ اگر توفیق دے تو وہ بہت بڑی خدمت کر سکتی ہیں اور بہت گہرا اثر چھوڑ سکتی ہیں اور اس رستے سے پھر وہ اسلام کے پیغام دینے میں بھی دوسروں پر فوقیت رکھتی ہیں اس لئے احمدی خواتین کو ڈاکٹر بن کر اپنی زندگیاں پیش کرنی چاہئیں یا ان بچیوں کو ڈا کٹر بنایا جائے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف نو میں پیدا ہوئی ہیں.اس طرح میں نے زبانوں کا کہا تھا اور جن زبانوں کی ہمیں ضرورت پڑنے والی ہے ان میں روسی اور چینی دو زبانیں خصوصیت کے ساتھ اہمیت رکھتی ہیں.جماعت احمدیہ میں جن زبانوں میں کمی ہے ان میں ایک سپینش ہے مثلاً اس کی طرف توجہ شروع کر دی گئی ہے خدا کے فضل سے.فرانسیسی میں ہمارے بہت سے فرنچ سپیکنگ افریقین ممالک ہیں جہاں کثرت سے اچھی فرانسیسی بولنے والے ہمیں مہیا ہو سکتے ہیں اور ہورہے ہیں خدا کے فضل سے لیکن چینی زبان میں اور روسی زبان میں ہم بہت کمی محسوس کرتے ہیں.اسی طرح Italian میں بھی کمی ہے مگر سب سے بڑی ضرورت اس وقت اور عظیم ضرورت چینی اور روسی زبان جاننے والے احمدیوں کی ہے.اس لئے جہاں نوجوان جن کو یہ سہولت حاصل ہو تعلیمی اداروں میں اس طرف توجہ کر سکیں ان کو بھی میری یہی نصیحت ہے کہ وہ توجہ کریں لیکن یہ جو نئے پیدا ہونے والے بچے ہیں ایسے ملکوں میں جہاں چینی اور روسی زبان سکھانے کی سہولتیں موجود ہوں ان کو بچپن سے ان کو سکھانا چاہئے اور ان کی ایمبیسی سے رابطہ کر کے اگر کچھ ٹیسٹس وغیرہ مہیا کی جاسکیں ، ویڈیوز مہیا کی جاسکیں ، بچوں کے چھوٹے چھوٹے رسالے، کہانیوں کی کتابیں وغیرہ یہ مہیا کی جائیں.تو بہت بچپن سے اگر زبان سکھائی جائے تو وہ اتنے گہرے نقش دماغ پر قائم کر دیتی ہے کہ اس کے بعد بچے اہل زبان کی طرح بول سکتے ہیں اور بڑی عمر میں سیکھی ہوئی زبان خواہ آپ کتنی محنت کریں وہ اہل زبان جیسی زبان نہیں بنتی.طوعی اور فطری طور پر جو ذہن سوچتا ہے وہ بچپن سے اگر سیکھی ہوئی زبان ہے تو وہ سوچ اس کی بے ساختہ ہوتی ہے، قدرتی اور طوعی ہوتی ہے لیکن اگر بعد میں زبان سیکھی جائے تو سوچ پہ کچھ نہ کچھ قدغن رہتی ہیں، کچھ نہ کچھ پابندیاں رہتی ہیں اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانا پڑتا ہے.بعض لوگ نسبتاً تیز بڑھاتے ہیں بعض آہستہ مگر وہ جوطبعی فطری روانی ہے وہ پیدا نہیں ہو سکتی.اس لئے اہل زبان بنانے کے لئے بہت بچپن سے زبان سکھانی پڑتی ہے.اگر

Page 607

خطبات طاہر جلد ۸ 602 خطبہ جمعہ ۸/ستمبر ۱۹۸۹ء پنگھوڑوں میں زبان سکھائی جائے تو یہ بھی بہت اچھا ہے بلکہ سب سے اچھا ہے.ایسی اگر دائی مل جائے ، ایسی نرس مل جائے اور جو تو فیق رکھ سکتے ہیں ایسی نرسوں کو رکھنے کی وہ رکھیں جو چینی نرس ہو تو وہ بچوں کو بچپن سے گود میں کھلاتے کھلاتے چینی زبان سکھا سکتی ہے.روسی زبان جاننے والی اہل زبان کوئی عورت مل جائے تو بچے اس کے سپرد کئے جاسکتے ہیں.تو یہ تو باتیں حسب توفیق ہوں گی مگر جن کو توفیق ہے ان کو چاہئے کہ وہ بہت بچپن سے اپنے بچوں کو چینی اور روسی زبان سکھانے کی کوشش کریں.اس سلسلے میں میں کوئی پابندی نہیں لگا تا کہ ہمیں سو کی ضرورت ہے یا ہزار کی ضرورت ہے.واقعہ یہ ہے کہ اتنی بڑی قومیں ہیں اور ان کو اتنی عظمت حاصل ہے اس وقت دنیا میں کہ اگر یہ دونوں قومیں مثلاً دنیاوی لحاظ سے اکھٹی ہو جا ئیں تو ساری دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے یعنی ان کے حق میں ہو جائے اور باقی دنیا کے خلاف ہو جائے اور بہت سی بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں پیدا ہو جائیں.ان کا اس وقت الگ الگ ہونا ہی بعض قوموں کے لئے خوش قسمتی ہے اور وہ زبردستی بھی دخل اندازی کر کے اس خوش قسمتی کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض دفعہ غلطیاں کرتے ہیں اور الٹے نتیجے نکلتے ہیں.مگر جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں ان کے لڑنے یا نہ لڑنے ، دشمنی یا دوستی سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اسلام دونوں کے لئے برابر ہے اور ہم نے جو اسلام کا پیغام پہنچانا ہے اس کے لئے ہمیں زبان دانوں کی ضرورت ہے ہر قسم کی زبان دانوں کے ضرورت ہے جو تحریر کی مشق بھی رکھتے ہوں، بولنے کی مشق بھی رکھتے ہوں، ترجموں کی طاقت بھی رکھتے ہوں، تصنیف کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں.اس لئے جتنے بھی ہوں کم ہوں گے.یعنی ایک ارب کے لگ بھگ یا شاید اس سے زائد اب چین کی آبادی ہے اور روس اور روسی زبان جاننے والوں کی آبادی بھی بہت وسیع ہے.مجھے اس وقت پوری طرح یاد تو نہیں لیکن پچاس کروڑ سے زائد ہوں گے جو روسی زبان جاننے والے لوگ ہیں یا بولنے والے.اس لئے اگر سارے واقفین بھی یہ زبان سیکھ لیں تو وہ کوئی زیادہ نہیں ہو گا.بچوں کو بھی سکھائیں لیکن بیٹیوں کو خصوصیت سے کیونکہ علمی کام میں ہمیں واقفین بیٹیاں بہت کام آسکتی ہیں.انہوں نے میدان میں نہیں جانا ہو گا لیکن وہ تصانیف کریں گی ، وہ گھر بیٹھے ہر قسم کی خدمت کے کام اس طرح کر سکتی ہیں کہ اپنے خاوندوں سے ان کو الگ نہ ہونا پڑے.اس لئے ان کو ایسے کام سکھانے

Page 608

خطبات طاہر جلد ۸ 603 خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء کی خصوصیت سے ضرورت ہے.بچوں کو تو ہم سنبھال لیں گے.ہم ان کو کسی جامعہ میں داخل کریں گے کسی خاص ملک میں ان کا تعین ہوگا تو اس زبان کے اوپر ان کو ماہر بنانے کی کوشش کی جائے گی لیکن بچیوں پر ہمارا ایسا اختیار نہیں ہو سکتا.نہ مناسب ہے نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ اس طرح بچپن میں ان کو الگ کر کے پوری طرح جماعتی نظام کے تابع کیا جائے.اس لئے والدین کا دخل بچیوں کے اوپر لازمی جاری رہے گا یا بعد میں ان کے خاوندوں کا.اس لئے اگر وہ زبانیں سیکھ لیں تو گھر بیٹھے بڑی آرام سے خدمت کر سکتی ہیں اور جب زبانیں سیکھیں تو جس وقت ان کے اندر صلاحیت پیدا ہوان کو پھر اس زبانوں میں ٹائپ کرنا بھی سکھایا جائے اور ان زبانوں کا لٹریچر ان کو پڑھایا جائے.یہ نہ سمجھیں کہ زبان بولنا چالنا کافی ہوتا ہے یا لکھنے پڑھنے کا سلیقہ آجائے تو یہ کافی ہے.لٹریچر جتنا زیادہ پڑھا جائے اتنا ہی زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے.اس لئے پھر کثرت کے ساتھ ان کو رشین کلاسیکل ناول پڑھانے پڑیں گے، رشین کلاسیکل مضامین، کلاسیکل شعراء، ماڈرن شعراء اور یہی حال چینی زبان میں بھی ہوگا تا کہ بچپن سے ہی ان کا علمی ذخیرہ اتنا وسیع ہو جائے کہ وہ بڑی سہولت کے ساتھ ، ایک فطری رو کے ساتھ از خود علمی کاموں میں آگے بڑھتے چلے جائیں.تو میں امید رکھتا ہوں کہ واقفین زندگی اس پیغام کو اچھی طرح ذہن نشین کریں گے اور آخری بات یہی ہے پھر بھی کہ اس کے ساتھ ان کی عظمت کردار کے لئے ابھی سے کوشش شروع کر دیں.بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں دراصل.اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے.وہ محاورہ ہے کہ لوہا گرم ہو تو اس کو موڑ لینا چاہئے لیکن یہ جو بچپن کا لوہا ہے یہ خدا تعالیٰ ایک لمبے عرصے تک نرم ہی رکھتا ہے اور اس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کر دیتے ہیں وہ دائمی ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے یہ وقت ہے تربیت کا اور تربیت کے مضمون میں یہ بات یاد رکھیں کہ ماں باپ جتنی چاہیں زبانی تربیت کریں اگر ان کا کردار ان کے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزوری کو لے لیں گے اور مضبوط پہلو کو نہیں لیں گے.یہ دو نسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جس کو بھلانے کے نتیجے میں قومیں ہلاک بھی ہو سکتی ہیں اور یا درکھنے کے نتیجے میں ترقی بھی کر سکتی ہیں.ایک نسل اگلی نسل پر جواثر چھوڑا کرتی ہے اس میں عموماً یہ اصول کارفرما ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ کی کمزوریوں کو

Page 609

خطبات طاہر جلد ۸ 604 خطبہ جمعہ ۸/ستمبر ۱۹۸۹ء پکڑنے میں تیزی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.اگر باتیں عظیم کردار کی ہوں اور بیچ میں سے کمزوری ہو تو بچہ بیچ کی کمزوری کو پکڑے گا.اس لئے یا درکھیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے آپ کو اپنی تربیت ضرور کرنی ہوگی.ان بچوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو! تم سچ بولا کرو تم نے مبلغ بننا ہے، تم بددیانتی نہ کیا کرو تم نے مبلغ بننا ہے تم غیبت نہ کیا کرو تم لڑا جھگڑا نہ کرو اور یہ باتیں کرنے کے بعد پھر ماں باپ ایسالڑیں جھگڑیں، پھر ایسی مغلظات بکیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی بے عزتیاں کریں پھر وہ کہیں کہ بچے کو تو ہم نے نصیحت کر دی ہے اب ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں یہ نہیں ہوسکتا.جو ان کی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی بنے گی.جو فرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ بچہ یہ کرو، بچے کو کوڑی کی بھی اس کی پرواہ نہیں ہوگی.ایسے ماں باپ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ لاکھ بچے کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہو ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے تم خدا کے لئے بیچ بولا کر وسچائی میں زندگی ہے.وہ بچہ کہتا ہے ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ بولے گا.اس لئے دو نسلوں کے جوڑ کے وقت یہ اصول کارفرما ہوتا ہے اور اس کو نظر اندار کرنے کے نتیجے میں آپس میں خلا پیدا ہو جاتے ہیں.جن یورپین ممالک میں میں نے سفر کیا ہر ایک یہ شکایت کرتا ہے کہ ہماری نسل اور اگلی نسل کے درمیان ایک خلا پیدا ہو گیا ہے اور میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ خلا تم نے پیدا کیا ہے.تم نے زبانی طور پر ان کو اعلیٰ اخلاق سکھانے کی کوشش کی.تم نے زبانی طور پر ان کو اعلیٰ کردار سمجھانے کی کوشش کی تم نے کہا کہ اس طرح خلط ملط نو جوانوں سے ٹھیک نہیں ، اس طرح تمہیں یہ حرکتیں کرنا مناسب نہیں ہے لیکن تمہاری زندگیوں میں اندرونی طور پر انہوں نے یہی باتیں دیکھی تھیں جن کے اوپر کچھ ملمع تھا، کچھ دکھاوے کی چادر میں پہنائی گئی تھیں اور درحقیقت یہ بچے جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ تم خود ان چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہو اس لئے وہ وہ بنے ہیں جو تمہاری اندرونی تصویر ہے اور تم جو خلا محسوس کر رہے ہو اپنی بیرونی تصویر سے محسوس کر رہے ہو.وہ تصویر جو تم دیکھنا چاہتے تھے ان میں جو تمہارے تصور کی دنیا تھی تمہارے عمل کی دنیا بن گئی لیکن تمہارے تصور کی دنیا کی کوئی تعبیر نہیں پیدا ہوئی اس لئے تم بظاہر اس کو خلا سمجھ رہے ہو حالانکہ یہ تسلسل ہے.برائیوں کا تسلسل ہے جس کی چوٹیاں بلند تر ہوتی چلی جا رہی ہیں یا اگر گہرائی کی اصطلاحوں میں

Page 610

خطبات طاہر جلد ۸ 605 خطبہ جمعہ ۸/ستمبر ۱۹۸۹ء باتیں کریں تو قعر مذلت کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے.تو جماعت احمدیہ کو اگلی نسلوں کے کردار کی تعمیر میں اس اصول کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا ورنہ وہ ہمیشہ دھو کے میں مبتلا رہیں گے اور اگلی نسلوں سے ان کا اختیار جاتا رہے گا.وہ ان کی باتیں نہیں مانیں گے.خصوصاً واقفین نو کے بچوں پر بہت ہی گہری ذمہ داری آجاتی ہے.یہ پانچ ہزار یا زائد بچے جتنے بھی اس دور میں پیش ہوتے ہیں.انہوں نے اگلی دنیا سنبھالنی ہے.اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے.نئے قوموں کے چیلنجوں کا سامنا ہے اور اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے بڑے بڑے مقابلے کرنے والے لوگ ہیں.بڑے بڑے معرکے سر کرنے ہیں.آپ اگر اس مضمون کو بھول کر عام غفلت کی حالت میں اپنی سابقہ زندگی بسر کرتے چلے جائیں گے تو آئندہ پیدا ہونے والے واقفین پر آپ کے بداثرت مترتب ہو جائیں گے اور پھر جماعت جتنا بھی کوشش کرے گی ان کی ویسی اصلاح نہیں کر سکتی.میں نے دیکھا ہے جامعہ میں جو بد عادتوں والے بچے آتے ہیں لاکھ زور ماریں استادان کی بد عادتیں کچھ نہ کچھ مدہم پڑ جاتی ہیں مگر مٹتی نہیں.بد عادت کو مٹانا بہت مشکل کام ہے.ہاں اندرونی طور پر بعض لوگوں میں ایک دم تقویٰ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے خدا کا خوف پیدا ہو جاتا ہے وہ پھر اس اندرونی طاقت کے ذریعے خدا کے فضل سے اپنی ساری بدیوں کو اتار پھینکتے ہیں لیکن اس کو انقلاب کہا جاتا ہے.میں اس وقت ایسے انقلاب کی بات نہیں کر رہا میں اس تربیت کے اصولوں کی بات کر رہا ہوں.تو جہاں تک تربیت کا تعلق ہے آپ نے اگر یہ واقفین اچھی حالت میں سلجھی ہوئی طبیعتوں کے ساتھ جماعت کے سامنے پیش کئے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس جو ہر قابل سے بہت عظیم انقلابات برپا ہوں گے اور جماعت ان سے بڑے بڑے عظیم فوائد حاصل کر سکے گی لیکن اگر معمولی کجیوں والے بھی آئے تو بعض دفعہ وہ کجیاں پھر بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں.بعض دیواروں میں رخنے پڑتے ہیں وہ سیٹھی ہوتے ہیں اور انجینئر دیکھتے ہیں کہتے ہیں کوئی خطرے کی بات نہیں.مگر بعض گہرے ہوتے ہیں اور وہ وقت کے ساتھ پھٹنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر چھتیں بھی ان کی وجہ سے گر جاتی ہیں.تو بنیادی اخلاقی کمزوریاں ان گہرے رخنوں کے مشابہ ہوا کرتی ہیں.ان کو اگر ایک دفعہ آپ نے پیدا ہونے دیا تو آئندہ نسلوں کی چھتیں گرا دیں گی.اس لئے خدا کا خوف کرتے ہوئے،

Page 611

خطبات طاہر جلد ۸ 606 خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۸۹ء استغفار کرتے ہوئے اس مضمون کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کریں اور دلنشین کریں اور اپنے کردار میں ایک پاکیزہ تبدیلی پیدا کریں تا کہ آپ کی یہ پاکیزہ تبدیلی اگلی نسلوں کی اصلاح اور ان کی روحانی ترقی کے لئے کھاد کا کام دے اور بنیادوں کا کام دیں جن پر عظیم عمارتیں تعمیر ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا.آج ہم ایک سفر پر روانہ ہونے والے ہیں اس لئے احباب دعا میں بھی یادرکھیں اور سفر کے پیش نظر جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی جمع ہوگی.

Page 612

خطبات طاہر جلدے 607 خطبه جمعه ۱۵ر ستمبر ۱۹۸۹ء تقدیر الہی کا انسانی تدبیر اور دعا سے تعلق خدا تعالیٰ کے وجود کی وسعتوں کو جاننے کی کوشش کریں (خطبه جمعه فرموده ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء بمقام ناصر باغ فرینکفرٹ جرمنی ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.چند دن پہلے مجھے نن سپیٹ ہالینڈ میں جماعت احمدیہ ہالینڈ کو ان کے سالانہ جلسے میں خطاب کرنے کی توفیق ملی اس ضمن میں کہ آئندہ صدی کے لئے اور خصوصیت سے اس سال کے بقیہ حصے میں جماعت احمدیہ کو کیا کرنا چاہیئے میں نے ایک مضمون کی تمہید وہاں باندھی تھی.وہ مضمون تو آپ کیسٹس کی صورت میں مہیا ہو گا تو سن سکیں گے.اس کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اس موقع پر میں نے تین بنیادی ایسے اسباب کا ذکر کیا جو جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور جن کے باہمی تعلق کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور وہ تین اہم اسباب جو قوموں کی ترقی کے لئے نہایت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ ہیں تقدیر الہی اور انسانی تدبیر اور دعا.ان تینوں کے درمیان کیا باہمی رشتہ ہے.کس کو کس پر فوقیت حاصل ہے اور کیسے مومن اس نظام کو اور ان کے باہمی تعلقات کو سمجھ کر اپنے لئے نہایت ہی عمدہ اور مفید لائحہ عمل تجویز کر سکتا ہے.دعا کے ضمن میں میں نے یہ بھی بتایا کہ دعا کی قبولیت کے لئے انسانی اعمال کو بہت گہرا دخل.ہے اور اعمال میں سے وہ حصہ اعمال جن کا خدا تعالیٰ کی طرف بڑھنے سے تعلق ہے.جب تک کسی کے ساتھ کوئی دوستی کا تعلق قائم نہ ہو اس وقت تک وہ اس کی آواز پر لبیک نہیں کہتا.آواز پر لبیک کہنے کے لئے گہرے رشتے ہونے ضروری ہیں اور جتنا زیادہ یہ رشتہ گہرا ہو گا اتنا ہی زیادہ طبعی جوش کے

Page 613

خطبات طاہر جلدے 608 خطبه جمعه ۵ ار ستمبر ۱۹۸۹ء ساتھ انسان دوسرے کی آواز پر لبیک کہتا ہے جس طرح ایک بچے کی پکار پر ماں لبیک کہتی ہے اس طرح آپ کو دنیا کے رشتوں میں کوئی اور مثال دکھائی نہیں دے گی لیکن وہی نرم دل ماں جو اپنے بچے کے لئے بعض اوقات اتنا بے قرار ہوتی ہے کہ اپنی زندگی کے ہر آرام کو جہنم میں جھونک دینے کے لئے تیار ہو جاتی ہے غیروں کی آواز میں سنتی ہے تو اس کے دل میں وہ حرکت پیدا نہیں ہوتی.یہ جو تعلق ہے یہ درجہ بدرجہ ہر انسانی رشتے پر پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے.قومی تعلقات میں بھی ہمیں اسی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں.اب مثلاً جرمنی میں حال ہی میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے اس انسانی فطرت کے پہلو پر مزید روشنی پڑتی ہے.جرمن قوم مظلوم لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دینے میں ایک خاص مقام پیدا کر چکی ہے اور اس لحاظ سے اسے دنیا میں ایک شہرت حاصل ہے لیکن ان پناہ دینے والوں اور پناہ لینے والوں کے درمیان ایک فرق ہے کچھ ایسے پناہ لینے والے یہاں آتے ہیں جو یورپ سے تعلق رکھتے ہیں.کچھ ایسے پناہ لینے والے آتے ہیں جو مشرقی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں.پناہ تو دونوں کو دی جاتی ہے مگر پناہ دینے کے انداز میں اور پناہ لینے میں جس قسم کا جذ بہ دکھایا جاتا ہے ان دونوں میں فرق ہے.پس میں شکوے کے رنگ میں یہ بات بیان نہیں کر رہا بلکہ آپ کو سمجھانے کی خاطر یہ بات بیان کر رہا ہوں کہ حال ہی میں آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ مشرقی جرمنی سے ہزار ہا لوگ بعض دوسرے یورپین ممالک میں پہنچے کیونکہ براہ راست وہ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی نہیں آسکتے تھے کیونکہ اس راہ میں زیادہ روکیں ہیں.تو انہوں نے یہ ترکیب اختیار کی کہ وہ دوسرے مشرقی یورپ کے ممالک میں چلے گئے اور وہاں سے پھر مغربی جرمنی کا رخ کیا اور اس کے اوپر جو مغربی جرمنی نے حیرت انگیز محبت اور خلوص کا اظہار کیا ہے وہ دل پر اثر کرنے والی بات ہے.بجائے اس کے کہ وہ یہاں پہنچتے ، ان کی طرف سے درخواستیں دی جاتیں کہ ہمارے لئے گھروں کا انتظام کرو، ہماری پناہ کا انتظام کرو، ہمیں بعد میں پاسپورٹس کی سہولتیں دیں.تمام ایسی سہولتیں مہیا کرنے والے ادارے بارڈرز پر ان کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے اور پروگرام یہ ہے کہ آئندہ دس سال تک مسلسل ان آنے والوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہے گا اور پاسپورٹس کی درخواست دینے کی بجائے پاسپورٹس کے دفاتر وہاں سرحدوں کے اوپر کھل گئے اور ہر آنے والے کو اسی وقت اس کا پاسپورٹ بنا کر اس کے سپرد کیا گیا.

Page 614

خطبات طاہر جلدے 609 خطبه جمعه ۵ ار ستمبر ۱۹۸۹ء اب دیکھئے کتناز مین آسمان کا فرق ہے.جذبہ ہمدردی بظاہر وہی ہے جو انسان کے گہرے فطری تقاضوں سے تعلق رکھتا ہے.یعنی مظلوم کی مدد کی جائے مگر کہاں وہ مظلوم جو دور کے ملکوں سے آنے والے ہیں کہاں اپنے وہ بھائی جو مشرقی جرمنی سے تعلق رکھتے ہیں ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے لیکن یہ انسانی فطرت ہے.اس فطری تقاضے کو مٹایا نہیں جاسکتا.جماعت احمدیہ کی اپنی ایک شخصیت ہے جو کوئی ملکی شخصیت نہیں وہ ایک بین الاقوامی شخصیت ہے.ایک سو بیس ممالک سے تعلق رکھنے والی یہ جماعت ہے لیکن اس کے باوجود ایک سو بیس ممالک میں سے ہر ملک جماعت کی شخصیت پر اپنے رنگ میں بھی اثر انداز ہوتا ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں ان شخصیتوں کوملحوظ رکھا جاتا ہے.اس مشکل کو دور کرنے کے لئے وہی ذریعہ ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کے دعا کے ذریعے خدا سے تعلق باندھا جائے جو جماعت احمدیہ کی طرح عالمگیر ہی نہیں بلکہ ساری کائنات کا مالک ہے اور اس کے ساتھ ایسا تعلق باندھا جائے کہ ہر دوسرے انسانی تعلق سے وہ تعلق بڑھ جائے.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس غیر معمولی تعلق کے بعد خدا آپ کے ساتھ وہ سلوک نہ کرے جو قو میں اپنے ہم قوموں کے ساتھ سلوک کیا کرتی ہیں ، جو مائیں اپنے بچوں کے ساتھ سلوک کیا کرتی ہیں.وہ سلوک ان سب رشتوں سے بڑھ کر ہوگا لیکن اس کے لئے انسان کو اپنے اندر کچھ پاک تبدیلیاں پیدا کرنی پڑتی ہیں اور خدا کے جیسا ہونے کی کوشش کرنی پڑتی ہے.یہ مضمون بھی سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے اور بڑے غور سے آپ کو اس کو سمجھنا اور دلنشین کرنا چاہئے.جتنی بھی مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھیں یا اور مثالیں جو آپ سوچ سکتے ہیں ان میں ایک بات غور کے نتیجے میں آپ پر خوب کھل جائے گی کہ وہ تعلقات جن میں مشابہت پائی جاتی ہے وہ زیادہ مؤثر ہوتے ہیں اور جتنی زیادہ تعلقات میں مشابہت بڑھتی چلی جائے گی اتنی ہی زیادہ وہ مؤثر ہوتے چلے جائیں گے.ماں اور بچے کے درمیان حد سے زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے.یہ دونوں ایک ہی وجود کا حصہ ہوتے ہیں، ایک ہی جیسی سوچیں سوچنے والے فطرتا اور ایک ہی جیسے خون کے مالک ہوتے ہیں.ان کے دماغ بھی ملتے ہیں، ان کے دل بھی ملتے ہیں، ان کے اعضاء بھی ملتے ہیں، چہروں کے نقوش بھی ملتے ہیں لیکن اگر ظاہری نقوش نہ بھی ملیں تب بھی آپس میں اشتراک کی

Page 615

خطبات طاہر جلدے 610 خطبه جمعه ۱۵ارستمبر ۱۹۸۹ء اتنی قسمیں موجود ہیں اور اتنے زیادہ اشتراکات موجود ہیں کہ اس سے بڑھ کر انسانی یا حیوانی رشتوں میں اشتراکات سوچے نہیں جاسکتے.پس در حقیقت ماں کی محبت اس اشتراک کی بناء پر ہے.مغربی جرمنی نے اگر مشرقی جرمنی کے باشندوں سے محبت اور پیار کا سلوک کیا ہے تو واضح بات ہے کہ ان کے درمیان اشتراکات ہیں اور جب ہم جنس ہم جنس کے ساتھ مل کر بیٹھیں تو ان کے جذبات اور تعلقات کی صورت اور ہوا کرتی ہے جب غیر جنس غیر جنس کے ساتھ مل کر بیٹھتا ہے تو اس کے تعلقات اور جذبات کی صورت اور ہوا کرتی ہے.یہ ایسی بات نہیں ہے جس کا سوچ سے تعلق ہے ، یہ ایسی بات نہیں ہے جس کا انسانی اخلاق سے تعلق ہے، یہ فطرت کے گہرے تقاضے ہیں.چنانچہ فارسی میں کہا جاتا ہے: کند هم جنس باہم جنس پرواز کہ تم دیکھو گے کہ ایک جنس کے پرندے اسی جنس کے پرندوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں.کبھی آپ نے مرغابیوں کو کوؤں کے ساتھ پرواز کرتے نہیں دیکھا ہو گا.کبھی آپ نے فاختاؤں کو مگھوں یا بازوں کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا.یا تو وہ اکیلے اکیلے پرواز کرتے ہیں یا جب بھی اکٹھے پرواز کریں ہم جنس پرندے اپنی ہی جنس کے دوسرے پرندوں کے ساتھ مل کر یعنی دونوں ہم جنس باہم پرواز کرتے ہیں.اب اس میں اخلاق کی تو کوئی بات نہیں.اگر کوئی شارک کوؤں کے ساتھ مل کر پرواز کرنا چاہے اور کوے اس کو پرواز نہ کرنے دیں تو شارک کا یہ حق تو نہیں ہے کہ وہ شکوے کرے کہ دیکھو تم ہم سے برا سلوک کر رہے ہو یا غلط سلوک کر رہے ہو.اگر وہ ساتھ مل کے پرواز کرنے دے تو ان کا احسان ہے.پس جہاں تک قوموں کے طبعی فطری رجحانات کا تعلق ہے اس میں شکوے کی کوئی جانہیں ہے.آپ اس قسم کی باتیں ہرگز نہ کریں کہ جرمن قوم نے جرمن قوم سے تو اتنا اچھا سلوک کیا اور ہمیں بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال گزر جاتے ہیں اور پاسپورٹ کے لئے دھکے کھانے پڑتے ہیں لیکن پاسپورٹ نہیں ملتا.یہ کوئی سوچی سمجھی تدبیر کے نتیجے میں نہیں ہے.نہ تو اسے ہم Race کے فرق کے طور پر کہہ سکتے ہیں جیسا کہ میں نے مثال دی ہے کہ گہرے فطری تقاضے ہیں جن کا زندگی کی ہر نوع سے تعلق ہے.لیکن جتنا ہم غور کریں وہاں یہ بات ضرور دکھائی دے گی کہ اشتراک ہونے چاہئیں اور

Page 616

خطبات طاہر جلدے 611 خطبه جمعه ۱۵ر ستمبر ۱۹۸۹ء جہاں جہاں اشتراک پائے جائیں گے وہاں یہ فطری تقاضا ضر ور کارفرما ہوگا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کے مضمون میں بھی یہی بات سکھائی ہے کہ تم میرے ساتھ اپنی قدر مشترک پیدا کرو.یہ نہ ہو کہ تم غیر کے بنے رہوا اور پھر مجھے پکارو اور پھر یہ خیال کرو، یہ وہم دل میں لاؤ کہ میں ضرور تمہاری پکار کا جواب دوں گا.آنحضرت میﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى (البقره: ۱۸۷) جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں فَإِنِّي قَرِيب تو میں تو قریب ہوں.یہاں لوگ بعض دفعہ لفظ عبادی کا مفہوم نہ سمجھنے کے نتیجے میں غلط نتیجے نکال لیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ عبادی سے مراد ہر کس و ناقص ہر قسم کا انسان عبادی کے ذیل میں آجاتا ہے خواہ اس کا وہ گندا ہو، خواہ وہ گمراہ ہو، خواہ وہ خدا کی ہستی کا منکر یا اسے گالیاں دینے والا ہو، خواہ وہ بندوں پر ظلم کرنے والا ہو.عِبَادِی کی ذیل میں وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کے انسان شامل ہو جاتے اور خدا کا ان کو جواب یہ ہے کہ میں تمارے قریب ہوں حالانکہ واقعہ ہرگز ایسی بات نہیں ہے.خدا اسی کے قریب ہوتا ہے جو خدا کے قریب ہو اور عِبَادِی سے مراد یہاں وہ غلام ہیں جو عبادت کے ذریعے خدا کے رنگ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ جب پوچھیں کے ہمارا خدا کہاں ہے تو خدا جواب دیتا ہے فَانِي قَرِيبٌ میں تو تمہارے ساتھ رہتا ہوں.پس پہلے قرب شخصیت کا ہونا چاہئے ، پہلے قرب خصلتوں کو ہونا چاہئے ، عادات کا ہونا چاہئے ، مزاج کا ہونا چاہئے ، انسانی رجحانات کا قرب ہونا چاہئے.ان سارے قرب کے ذریعوں کو استعمال کرتے ہوئے آپ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کریں تو پھر آپ عبد بنیں گے اور اگر آپ خدا کے مزاج کے مطابق اپنا مزاج ڈھالنے کی کوشش کریں تو پھر دیکھیں کہ کس طرح خدا آپ کے قریب ہے.انسان جب انسان کے قریب ہوتا ہے یا حیوان حیوان کے قریب ہوتا ہے تو جیسا کہ میں نے مثالیں دی ہیں ان میں آپس میں ایک محبت اور دوستی کا گہراتعلق پیدا ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کے لئے پھر وہ مدد کرنے پر بھی آمادہ ہوتے ہیں اور قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا سلوک اپنے بندوں سے اس سے بھی بڑھ کر ہے.وہ لوگ جو خدا کے بن جاتے ہیں اور خدا کی صفات اپنے اندر جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی دعاؤں کو غیر معمولی قبولیت عطا کی جاتی ہے اور ان کو خدا اتنی فوقیت دیتا ہے دوسروں پر کہ ان کی خاطر بعض دفعہ بڑے بڑے

Page 617

خطبات طاہر جلدے 612 خطبه جمعه ۱۵ر ستمبر ۱۹۸۹ء انسانی گروہ ہلاک کر دئے جاتے ہیں اور اس میں کوئی نا انصافی نہیں.وہاں یہ نہیں کہا جا سکتا جیسے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کیا گیا کہ اے خدا! ہم بھی تو تیرے بندے تھے ہم سے تو نے کیوں امتیازی سلوک برتا ہے؟ کیوں نوح اور اس کے چند ماننے والوں کی خاطر تو نے اتنے بڑے اور اتنے وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے انسانی گروہ کو ہلاک کر دیا ؟ ویسا ہی سوال ہے جیسا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سے کیوں ایک استثنائی سلوک کیا گیا.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک فطری سلوک ہے اور یہ فطرت زندگی کو خدا سے عطا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات میں اس کی صفات حسنہ میں یہ صفت شامل ہے کہ جو اس جیسا ہوگا اس کے ساتھ وہ زیادہ محبت اور پیار کا سلوک کرے گا.جو ان جیسا نہیں ہو گا وہ دور ہو جائے گا اور نزدیک سے جو سلوک ہوتا ہے وہ دور سے نہیں ہوا کرتا.پس فاصلے خدا پیدا نہیں کرتا.فاصلے پیدا کرنا بڑھانا یا کم کرنا یہ انسان کے بس میں ہے اور انسان کے اختیار میں یہ بات رکھی گئی ہے.پس اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعائیں قبول ہوں اور جس طرح دنیاوی قومیں اپنی ہم جنس قوموں کی طرف محبت اور شفقت سے لپکتی ہیں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اسی طرح خدا اپنی رحمت کے ساتھ آپ کی طرف لپکے اور آپ کی ضروتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے اور آپ سے اپنے قرب کا سلوک آپ کو بھی دکھائے اور دنیا کو بھی دکھائے تو پھر آپ کے لئے ضروری ہے کہ یہی فطری طریق اختیار کریں جو خدا نے ہمیں سکھایا ہے اور ساری کائنات میں زندگی کی ہر قسم اس سلوک کا مظہر ہے.پس احمدی نو جوانوں کو خصوصیت کے ساتھ اس عمر میں جبکہ ابھی زندگی بھر پور ہے.انسان کی تمنائیں بھی زندہ ہوتی ہیں، اس کے جذبات بھی جو بن پر ہوتے ہیں ،اس کی محبتیں بھی جو بن پر ہوتی ہیں، اس کی نفرتیں بھی جو بن پر ہوتی ہیں انسان میں.جسمانی لحاظ سے بھی یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جس طرف چاہے اپنی زندگی کا منہ موڑ لے اور پھر بڑی قوت کے ساتھ ان رستوں پر سفر شروع کرے جو اپنے لئے معین کرتا ہے.یہ جو نو جوانوں کو فضیلت حاصل ہے وہ دوسری عمر کے لوگوں کو ایسی نہیں.نہ بچوں کو ان باتوں میں جوانوں کا مقابلہ کرنے کی توفیق مل سکتی ہے نہ بوڑھوں کو اپنے ہم جنس ، اپنے ساتھیو، اپنے بچوں وغیرہ کے ساتھ اس قسم کا مقابلہ کرنے کی توفیق مل سکتی ہے.

Page 618

خطبات طاہر جلدے 613 خطبه جمعه ۱۵ر ستمبر ۱۹۸۹ء پس چونکہ یہ آج کا جمعہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا جمعہ ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ میں نو جوانوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے اعمال کو اس رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں کہ ان کے خدا کے تصور کے قریب تر ہو جائیں.یہاں جو میں نے ان کے خدا کے تصور کے قریب تر کا لفظ استعمال کیا ہے یہ عمداً کیا ہے ورنہ خدا تو ایک ہی ہے.اس کا تصور وہی ہے جو بنیادی تصور قرآن کریم نے پیش کیا ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کو اس معاملے میں آگے قدم بڑھاتے ہوئے خدا کا جب مزید عرفان حاصل ہو گا تو آپ یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ جائیں گے کہ ایک خدا ہونے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ وہی تصور ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے پھر بھی ہر انسان کا تصور دوسرے سے مختلف ہوا کرتا ہے اور اس کی توفیق کے مطابق یہ تصور بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے.ہر انسان پر خدا ایک طرح ظاہر نہیں ہوا کرتا.بعض انسانوں کی سوچیں محدود ہوا کرتی ہیں ، بعضوں کے اخلاق ابھی اتنے بلند نہیں ہوتے کہ وہ خدا کی صفات کے لطیف اور ارفع پہلوؤں کو پہچان سکیں.اس لئے ہر شخص اپنے خدا کا ایک خاص تصور رکھتا ہے اور جب وہ اس تصور کے مطابق خواہ وہ نامکمل ہی کیوں نہ ہو، خواہ وہ ناقص ہی کیوں نہ ہو اعلی تصور کے مقابل پر دیانتداری سے اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے تصور میں بھی ایک ارتقاء شروع ہو جاتا ہے.پھر اس پر ہر روز ایک نیا خدا ظاہر ہونے لگتا ہے اور خدا کی ہر ظاہر ہونے والی شان پہلی شان سے بڑھ کر ہوتی ہے.پس قرآن نے جب یہ فرمایا کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنِ (الرحمن:۳۰) کہ ہر روز ہر لمحہ خدا کی شان تبدیل ہوتی رہتی ہے تو اس سے یہی مراد ہے.یہ مراد تو نہیں ہے کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ بدلتا رہتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہستی تو تبدیلی سے پاک ہے اور تبدیلی سے بالا ہے.کوئی ایسی ہستی جواز لی بھی ہو اور ابدی بھی ہو وہ تبدیل نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر وہ تبدیل ہوگی تو نہ تو وہ ازلی رہے گی نہ وہ ابدی رہے گی.اس نقطے کو سمجھتے ہوئے ہزار ہا سال سے فلاسفروں نے اس پر بحث کی اور دنیا کے مختلف ممالک کے قدیم اور جدید فلسفی اس نتیجے تک پہنچے اپنی عقل کی سوچوں کے ذریعے ، اپنی عقل کی کا وشوں کے ذریعے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی میں تبدیلی ممکن نہیں اور مذاہب کے مطالعہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ خدا کی ہستی میں تبدیلی اس کے ازل پر بھی حملہ کرتی ہے اس کے ابد پر بھی حملہ کرتی ہے.پس قرآن کریم جب فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ تو ہرگز یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ خدا

Page 619

خطبات طاہر جلدے 614 خطبه جمعه ۵ ار ستمبر ۱۹۸۹ء تعالی تبدیل ہوتا رہتا ہے.ہاں اس کی وہ شان ضرور بدلتی ہے اور ہر لمحہ بدلتی ہے جو اپنی مخلوق پر ظاہر ہو رہی ہوتی ہے.مثلاً موسموں کی تبدیلی کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کی شانیں بدلتی ہیں لیکن حقیقت نہیں بدلتی خدا کی شان کا اظہار بدل رہا ہوتا ہے.اگر موسم گرم ہو تو کیا خدا کی ذات میں کوئی تبدیلی ہوگی.اگر موسم ٹھنڈا ہو تو کیا خدا کی ذات میں کوئی تبدیلی ہوگی.اگر موسم انتہائی طور پر دلوں پر ایک تاریکی پیدا کرنے والا ہو اور ان کے جذبات کو مضمحل کرنے والا ہو جیسا کہ بعض دفعہ Depression پیدا کر دیتے ہیں موسم تو کیا خدا کی ذات میں کوئی تبدیلی پیدا ہوگی اور اگر موسم خوشگوار ہو اور انسان کی سوئی ہوئی مضمحل کیفیتوں کو بیدار کرنے والا اور تازہ کرنے والا ہو تو کیا خدا کی ذات میں کوئی تبدیلی پیدا ہو گی؟ ہرگز نہیں.لیکن ہاں آپ کے خدا کے تصور میں ضرور فرق پیدا ہوں گے.مختلف موسموں کے اثرات سے آپ اور طرح خدا کو یاد کریں گے اور یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کا دنیاوی تعلقات سے بھی ایک رشتہ ہے.شعراء جب ہمارے ملکوں میں جہاں گرمی کا بہت اثر ہوتا ہے ایسی گھٹاؤں کو دیکھتے ہیں جو ٹھنڈے پانی برسانے والی ہوتی ہیں تو اس وقت بے اختیار ان کی طبیعت شعروں کی طرف مائل ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں ہاں اب شعر کے اور موسیقی کے موسم آگئے اور بعض لوگ کہتے تھے پینے پلانے کے موسم آگئے.جو شاعر نہ بھی ہوں ان کے دلوں میں بھی نئی امنگیں پیدا ہوتی ہیں.دیہات میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض دفعہ پینگیں چڑھ جاتی ہیں اور سہیلیاں مل کے گانے گانے لگتی ہیں اور پکوان پکانے لگتی ہیں.تو یہ سارے موسم، بدلے ہوئے موسموں کے اثرات خدا تعالیٰ کی صفات کی جلوہ گری ہے.پس جلوؤں کی تبدیلی سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ خدا تبدیل ہوتا ہے لیکن جلوؤں کی تبدیلی سے انسان کے دل پر مختلف اثرات ہوتے ہیں.اس مضمون کو جب آپ انسان کے عرفان کے ساتھ جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو ہر انسان کے عرفان کی ترقی کے ساتھ ساتھ خدا کے جلوے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ایک نیا خدا انسان پر ظاہر ہونے لگتا ہے.پس اس پہلو سے جب آپ خدا سے تعلق باندھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ جتنے اخلاص کے ساتھ آپ خدا جیسا بننے کی کوشش کریں گے اتنا ہی خدا کا تصور اور زیادہ پھیلتا اور بڑھتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ کوئی بھی ایسا مقام نہیں آسکتا کہ آپ یہ سمجھیں کہ ہم اب خدا کے اتنے قریب ہو گئے

Page 620

خطبات طاہر جلدے 615 خطبه جمعه ۵ ار ستمبر ۱۹۸۹ء ہیں کہ ہم نے اس کو پالیا ہے ہم نے اس کو پکڑ لیا ہے.کیونکہ خدا کا تصور عرفان کے ساتھ ساتھ پھیلتا ہے اور جتنا آپ زیادہ خدا والے بنیں گے اتنا ہی خدا اور زیادہ پھیلتا ہوا دکھائی دے گا اور زیادہ وسیع تر دکھائی دے گا.پس جتنا خدا آپ کے لئے وسعت اختیار کرتا چلا جائے گا اتنا ہی آپ کے جذبہ محبت میں اور زیادہ جوش پیدا ہوتا چلا جائے گا.یہ اس لئے ضروری ہے اس بات کو سمجھنا کہ اگر آپ خدا کو جامد سمجھتے ہوئے خدا کی طرف بڑھیں تو آپ کی محبت ایک مقام پر جا کر رک جائے گی.دنیا کے تعلقات میں بھی دیکھا گیا ہے بعض لوگ کسی انسان کے حسن پر فریفتہ ہو جاتے ہیں جب تک اس کو نہیں پاتے ان کی محبت میں آگ لگی رہتی ہے جب اس کو پالیتے ہیں تو کچھ دنوں کے بعد محبت بجھ جاتی ہے.انسان سمجھتا ہے کہ بس یہی کچھ تھا جو میں نے پالیا اور تھوڑی دیر کے بعد جوحسن قرب کی لذت بخشتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے بعض دفعہ کہ وہ قرب کی لذت بخشنے کی بجائے قرب کے نتیجے میں بے چینی پیدا کرنا شروع کر دے.انسان بور ہونے لگ جاتا ہے.ایک ہی جیسی چیز ہر روز آپ کو ملے تو کیسے آپ کی زندگی مزے سے کٹ سکتی ہے.بعض لوگوں کو مرغا پسند ہوتا ہے ، بعضوں کو دال پسند ہوتی ہے، بعضوں کو آلو گوشت پسند ہے، بعضوں کو کریلے گوشت پسند ہے.ہر قسم کے کھانے ہر قسم کی پسند لیکن ایک ہی کھانا جو آپ کی پسند کا ہوا گر آپ روزانہ کھانا شروع کر دیں تو کچھ دنوں کے بعد وہ منہ کو آنے لگے گا.پس یاد رکھیں کہ ایسا کوئی خطرہ بندے اور خدا کے تعلق کے درمیان واقع نہیں ہوسکتا کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کا مضمون ہمیں یہ سمجھا رہا ہے اور ہمیں یہ یقین دلا رہا ہے کہ جتنا چاہو خدا کی طرف بھا گو اور جتنا چاہو اسے اپناؤ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ ایک بھی دن ایسا نہیں آئے گا کہ جب تم خدا کے حسن سے بور ہونے شروع ہو جاؤ اور یہ سمجھو کہ بس ہم نے دیکھ لیا جو دیکھنا تھا.ہر روز وہ نئے جلوے دکھائے گا.اس مضمون پر ایک دفعہ پہلے بھی میں نے ایک شعر آپ کو سنایا تھا غالباً احمد ندیم قاسمی کا ہے لیکن جس کا بھی ہے وہ بہت عمدہ شعر ہے.وہ کہتا ہے کہ: جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

Page 621

خطبات طاہر جلدے 616 خطبه جمعه ۵ ار ستمبر ۱۹۸۹ء اے میرے دوست میں نے تو جب بھی تجھے دیکھا ہے ایک نیا جلوہ تیرے اندر دیکھا ہے.تیر اشنا سا ہونے کا جتنی میں کوشش کرتا ہوں میں تیرا شناسا نہیں ہوسکتا کیونکہ جب میں سمجھتا ہوں کے میں تجھے پہچان گیا ہوں تو تیرا ایک اور حسن مجھ پر ظاہر ہوتا ہے تو ایک اور جلوہ نمائی کرتا ہے.کسی انسان کے متعلق تو یہ شعر نہیں کہا جا سکتا سوائے ان خدا رسیدہ انسانوں کے متعلق جو خدا کے جلوؤں میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں کہ عام انسان ان کی جتنی بھی پیروی کرے ان کے جلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکتا.اس لئے خدا نہ ہوتے ہوئے بھی عام انسانوں سے وہ اتنا فرق رکھتے ہیں کہ ہر انسان اگر ان کا شناسا ہونے کی کوشش کرے تو اپنی عمر گزار دے گا ان کی کننہ کو، ان کے حسن کی وسعتوں کو پا نہیں سکتا.پس اگر دنیا میں یہ شعر کسی پر صادق آسکتا ہے تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر آ سکتا ہے کیونکہ آپ کی ذات پر ہرلمحہ خدائی شان سے ظاہر ہوتا رہا اور جس شان سے بھی خدا آپ پر ظاہر ہوا آپ نے ہر اس شان کو اپنا لیا ، ہر اس شان سے چمٹ کر بیٹھ گئے اس کو اپنے وجود کا حصہ بنالیا.پس اگر کوئی شخص حضرت محمد مصطفی امی کو دیکھتے ہوئے مسلسل یہ کہتا چلا جائے کہ : جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا اس شعر کا ایک ایک لفظ حقیقت کے طور پر آنحضرت ﷺ پر صادق آتا چلا جائے گا اور ایک بھی زندگی کے سفر کا قدم ایسا نہیں ہو سکتا جس میں آپ آنحضرت ﷺ کو دیکھیں اور آپ میں جلوہ نو نہ دیکھیں.چنانچہ قرآن کریم نے اس بات کی گواہی دی ہے.قرآن کریم فرماتا ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولى (الضحی : ۵) اے محمد ! تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوتا چلا جا رہا ہے.اس کی کیا وجہ تھی ؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے خدا کو کسی جامد حالت میں نہیں پایا بلکہ پھیلتے ہوئے اور آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جوں جوں حضرت اقدس محمد مصطفی یہ اپنے محبوب آسمانی آقا سے شنائی حاصل کرے چلے گئے جوں جوں آپ عرفان میں بڑھتے چلے گئے وہ خدا بھی آگے بڑھتا رہا اور مزید وسعت اختیار کرتا رہا اس لئے حضور اکرم ﷺ کے ہرلمحہ ایک نیا ظاہر ہونے والا خدا تھا جس کے جلوے سے آپ مد ہوش ہوتے رہے.

Page 622

خطبات طاہر جلدے 617 خطبه جمعه ۱۵ر ستمبر ۱۹۸۹ء پس خدا کا عشق حقیقی ہے کیونکہ اس عشق کی راہ میں کوئی بھی ایسی روک نہیں ہے کوئی ایسی منزل نہیں ہے جہاں یہ عشق کھڑا ہو جائے اور اس عشق کے کھڑے ہونے کے نتیجے میں ایک قسم کی بوریت پیدا ہو جائے.انسان میں اکتاہٹ پیدا ہونی شروع ہو جائے.بوریت کا غالباً بہتر ترجمہ اردو میں اکتاہٹ ہی ہے.تو خدا کی محبت میں اکتاہٹ کا کوئی سوال نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ انسان جس خدا کو پائے اسے اپنائے اسے اپنی فطرت میں داخل کرے.اگر آپ نے خدا کو دیکھا اور اپنایا نہیں تو آپ کا خداو ہیں ٹھہر جائے گا اور آپ کی ترقی کی ساری راہیں بند ہو جائیں گی.اس لئے یہ راز ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ کو دیکھ کر اگر اس کی طرف آگے نہیں بڑھیں گے تو وہ نعمت کا انکار ہے.خدا تعالیٰ کو دیکھ کر اس کی طرف آگے بڑھنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسے اپنا ئیں اور اسے اپنی ذات میں جاری کرنے کی کوشش کریں.اس کی صفات حسنہ سے لذت پاتے ہوئے محض تعریف نہ کریں محض زبان سے نہ کہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتح (۲) بلکہ اپنے اعمال سے کر کے دکھا ئیں کہ ہاں ہمیں یہ صفات پسند ہیں ہمیں حقیقتاً پیاری لگتی ہیں اسی لئے ہم اپنی ذات میں بھی ان کو جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جہاں آپ نے یہ قدم بڑھایا وہاں ایک اور خدا آپ پر ظاہر ہونے لگے گا اس کی اور صفات حسنہ آپ کے آگے کھڑی ہو جائیں گی اور آپ کو بلائیں گی کہ ہاں میری طرف بھی آؤ.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو سمجھنا جماعت احمدیہ کے لئے اور خاص طور پر نو جوانوں کے لئے ضروری ہے کیونکہ وہ ایک جذباتی دور سے گزر رہے ہیں.محبت کرنے کے سلیقے جانتے ہیں.محبت کرنے کی طاقتیں خدا نے ان کو عطا کی ہوئی ہیں.پس ان طاقتوں کو دنیا میں کھونے اور ضائع کرنے کی بجائے اگر وہ اپنے خدا کی طرف لگا دیں گے تو پھر ان پر دعا کا حقیقی مضمون بھی واضح ہو گا.پھر ان کو معلوم ہوگا کہ کس طرح خدا ہر روز ان کی دعا کو پہلے سے زیادہ قبول کرتا چلا جاتا ہے پہلے سے زیادہ ان کی فکر کرتا ہے، پہلے سے زیادہ ان کی بیتاب پکار کا جواب دیتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کئے بغیر ہم تمام دنیا کے دلوں کو خدا کی خاطر فتح کرنے کا خواب اگر دیکھیں بھی تو وہ پورا نہیں ہوسکتا.خواب تو یہ ہم سب دیکھ رہے ہیں لیکن اس کی تعبیر انہیں رستوں سے آپ کو ملیں گی جو میں نے آپ کو بتا ئیں ہیں.پس ہمیشہ باشعور طور پر ان معنوں میں اپنے خدا کے قریب ہونے کی کوشش شروع کر دیں

Page 623

خطبات طاہر جلدے 618 خطبه جمعه ۱۵ر ستمبر ۱۹۸۹ء کہ خدا کا جو حسین تصور بھی آپ نے باندھا ہے وہ آپ کے سفر کا پہلا مقام ہے.اس تصور کو اپنی ذات میں جاری کرنا شروع کریں اور اپنا جائزہ لیا کریں کہ کیا آپ کے وجود میں کوئی مزید حسن پیدا ہوا ہے کہ نہیں.کیا دیکھنے والوں نے آپ کے اندر کوئی نئی پاک تبدیلی پائی ہے یا نہیں پائی.اگر آپ کا حسن بڑھ رہا ہے اور خدا کے قریب ہو رہے ہیں تو جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے خوب کھول کر بات رکھ دی ہے خدا بھی آپ کے لئے اور بڑا اور اور بھی زیادہ وسیع تر وجود اختیار کرتا چلا جائے گا اور اس کی عظمت سے آپ حصہ پائیں گے کیونکہ جتنا خدا زیادہ عظیم ہو کر آپ پر ابھرے گا اور جتنا آپ اس کے قریب ہونے کی کوشش کریں گے اتنا ہی آپ کے انسانی دائرے بھی پھیلتے چلے جائیں گے اور آپ کا وجود ایسی وسعت بھی اختیار کر سکتا ہے کہ عام انسان بھی آپ کو حیرت سے دیکھیں.پس اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں اور دعا کی طاقت بڑھانے کے لئے اس نسخے پر بھی عمل کریں جو میں نے آپ کو بتایا ہے.اس کے بعد پھر ہمارے سامنے بہت سے کام ہیں، بہت سے لائحہ عمل ہیں جن کو ہم نے اختیار کرنا ہے اور خصوصیت کے ساتھ آئندہ صدی کے لئے ہم نے نمونے بنا کر پیش کرنے ہیں کہ اس طرح خدمت دین ہوا کرتی ہے اس طرح دنیا میں روحانی انقلاب بر پا کئے جاتے ہیں.اس رنگ میں ایسا کام کریں کہ جس طرح صدیاں گزرے ہوئے مجددین کو دیکھتی ہیں اس طرح آپ کی اس نسل کو آئندہ آنے والی صدی مجددین کے طور پر دیکھے.وہ یہ سمجھے کہ آپ کا مقام ان کے مقابل پر ایسا تھا جیسے مجددین کا مقام ہوا کرتا ہے.آپ نے ان کے لئے راہیں طے کرنے کے اسلوب روشن کئے ہیں.آپ نے ان راہوں پر چل کر آگے بڑھ کر ان کے لئے نمونے دکھائے ہیں اور ان کو بتایا ہے کہ کس طرح خدا اور بندے دونوں کی طرف بیک وقت سفر ہوا کرتے ہیں اور کس طرح ان کے فاصلوں کو انسان آپس میں اپنی دعاؤں اور کوششوں کے ذریعے کم کرتا چلا جاتا ہے.یہ جو آخری بات ہے اس کے متعلق انشاء اللہ آئندہ پھر بھی میں کسی موقع پر بات کروں گا یعنی فاصلے کم کرنے کی بات.ایک فاصلے کے متعلق تو میں نے آپ کے سامنے بات کھول دی ہے کہ آپ کے اور خدا کے فاصلے کم ہونے چاہئیں مگر کم ہونے سے یہ مراد نہیں کہ واقعی کم ہو جائیں گے.کم ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپ آگے بڑھیں گے اور خدا بھی آگے بڑھے گا لیکن اس کے باوجود جہاں تک آپ کی خاطر پیار سے جھکنے کا تعلق ہے وہ فاصلے کم ہوتے ہوتے بالکل مٹ جائیں گے اور ایسے

Page 624

خطبات طاہر جلدے 619 خطبه جمعه ۵ارستمبر ۱۹۸۹ء مٹ جائیں گے کہ آپ عملاً اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ وہ آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم آئندہ نسلوں کے لئے ، آئندہ صدیوں کے لئے ایک ایسا نور چھوڑ جائیں جس کی روشنی میں وہ ہمیشہ خدا اور خدا کے بندوں کی طرف آگے بڑھتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 625

Page 626

خطبات طاہر جلد ۸ 621 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء سکینڈے نیویا کی مذہب سے عدم دلچسپی کا یہی علاج ہے کہ سارے احمدی باخدا اور پھر خدا نما وجود بن جائیں (خطبه جمعه فرموده ۲۲ /ستمبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت النور ناروے) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: امسال مجھے خدا تعالیٰ نے پھر ناروے کی جماعت میں آنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور یہ سفر خصوصیت کے ساتھ صد سالہ جو بلی کے ضمن میں منائے جانے والے جشن تشکر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس سال مجھے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ دنیا بھر کی بہت سی جماعتوں کے دورے کی توفیق عطا ہوئی اور ہر جگہ میں نے جماعت کے اندر ایک نیا ولولہ اور نئی زندگی پائی اور صرف جماعت ہی کے اندر نہیں بلکہ اردگرد کے ماحول میں بھی خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے جماعت کے حق میں میلان پیدا فرمائے اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا سفر کسی ایک ملک کا بھی نہیں جس کے متعلق میں کامل یقین کے ساتھ یہ کہہ نہ سکوں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے جماعت ہی کے اندر نہیں بلکہ جماعت کے باہر بھی تائید کی ہوائیں چلائی تھیں اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہی حال اس ناروے کے دورے کا بھی ہو گا اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس سفر کے بھی انشاء اللہ بہت عمدہ اور دیر پا نتائج ظاہر ہوں گے.گزشتہ ممالک میں جہاں بھی سفر کی توفیق ملی وہاں سے متعد د خطوط مسلسل موصول ہو رہے ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ خدا کے فضل سے سفر کے اختتام کے بعد بھی لوگوں کی توجہ غیر معمولی طور پر جماعت میں بڑھتی چلی جارہی ہے اور اس کے بہت سے نیک پھل نصیب ہورہے ہیں.جہاں تک ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کا تعلق ہے جماعت کو یہاں آئے ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور

Page 627

خطبات طاہر جلد ۸ 622 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء اگر چہ جماعت کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن بہت حد تک یہ اضافہ پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین کے ذریعہ ہوا ہے.چنانچہ اس ناروے ہی میں آج ہم جس جگہ اکٹھے ہوئے ہیں یہ مسجد اس سے پہلے اتنی بڑی معلوم ہوتی تھی کہ چند گنتی کے آدمی سامنے کے کمرے میں جہاں میں اس وقت خطبہ دے رہا ہوں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اور یہی سب کچھ جماعت تھی لیکن اب جیسا کہ مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ اس کمرہ سے پچھلا ہال بھی بھرا ہوا ہے اور اس سے پیچھے جو کمرہ ہے وہ بھی بھرا ہوا ہے اور خواتین کا انتظام اس کے علاوہ ہے.ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ پہلو کے جو کمرے ہیں ان میں بیٹھے ہوں تو جہاں تک جماعت کے پھیلاؤ کا تعلق ہے ایک پہلو سے تو ناروے کی جماعت میں نمایاں پھیلا ؤ دکھائی دے رہا ہے مگر جہاں تک نارو تسکین لوگوں کا جماعت کی طرف متوجہ ہونے کا تعلق ہے، اس پہلو سے ابھی تک کوئی نمایاں خوشخبری مجھے نہیں ملی.اس جمعہ میں آج کے خطاب میں میں جماعت احمد یہ ناروے کو خصوصیت کے ساتھ اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ نارویجین قوموں میں سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سعید روحیں تلاش کریں اور ان پر توجہ دیں اور دعاؤں سے کام لیں کہ اللہ تعالیٰ بکثرت اس قوم کے دل اسلام کی طرف پھیر دے.یہی میری تلقین دیگر سیکنڈے نیوین ممالک کو بھی ہے کہ وہاں کی جماعتوں کو بھی اس طرف اب خصوصیت سے توجہ دینی چاہئے.اس سے پہلے اب تک ہماری جو بھی تبلیغی پالیسی رہی ہے اس کی رو سے عموماً جماعتیں دلائل کے ذریعہ تبلیغ کرتی تھیں اور یہی طریق سیکنڈے نیوین ممالک کے لئے بھی اب تک اختیار کیا جاتا رہا ہے مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ دور اب دلائل کا دور نہیں رہا بلکہ اس سے بڑھ کر خدا نمائی کا دور ہے.جب تک جماعت احمدیہ میں خدا رسیدہ اور خدا نما وجود پیدا نہیں ہوتے ہم ان ممالک میں کوئی روحانی انقلاب برپا نہیں کر سکتے.دلائل کے لحاظ سے ان قوموں سے بات کی جاتی ہے جو اپنے مذہب کو اچھی طرح سمجھتے ہوں اور دلائل کی رو سے اپنے مذہب کے عقائد پر قائم ہوں مگر آج کی دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں اور یورپین ممالک میں تو ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو دلائل کی بنیاد پر عیسائیت پر قائم ہوں.ایک پرانا طبقہ ہے جن کو ابھی تک نئے زمانے کی ہوائیں نہیں لگیں وہ عیسائیت پر اس وجہ سے قائم ہیں کہ انہوں نے اپنی وراثت میں عیسائیت کو پایا، ان کی کوشش کا اور ان کی عقلوں

Page 628

خطبات طاہر جلد ۸ 623 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء کا عیسائیت کے ساتھ چمٹے رہنے سے کوئی بھی تعلق نہیں.ایسے طبقے کو جب آپ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو بالعموم یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ وہ لوگ دلائل کی بنا پر عیسائیت کے ساتھ نہیں چھٹے ہوئے اس لئے دلائل کی رو سے ان کو الگ بھی نہیں کیا جاسکتا.ان کے اندر ضد پائی جائے گی ،ان کے اندر ہٹ دھرمی پائی جائے گی.آپ بائبل کے حوالوں سے عہد نامہ قدیم کے حوالوں سے اور عہد نامہ جدید کے حوالوں سے اور عقل کے حوالوں سے ان کو سمجھانے کی کوشش کریں تو بات کے سمجھنے کے باوجود بھی وہ ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور اکثر وہی طبقہ اس وقت عیسائیت پر مضبوطی سے قائم ہے جو عقل کو رخصت دے کر ایک ضد کے طور پر ایک مذہب کو اپنائے ہوئے ہے اور ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ دلائل مذہب کی موجودہ شکل کو سچا دکھاتے بھی ہیں یا نہیں.پس ایسے لوگوں سے تو دلائل کی بات ہو نہیں سکتی.وہ لوگ جو اس وقت بھاری اکثریت میں ہیں یعنی یورپ کا نوجوان طبقہ خصوصیت کے ساتھ سیکنڈے نیویا میں نوجوان ہی نہیں بلکہ بڑی عمر کے بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو عیسائیت کے قائل ہی نہیں.کسی مذہب کے بھی قائل نہیں.خدا کی ہستی پر اگر ایمان ہے تو ایک سرسری سا دور کا ایمان ہے ورنہ عمداً یہ ایک دہریت کی زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں.ان قوموں میں ان حالات میں آپ عیسائیت کے خلاف یا عیسائیت کی صحیح تصویر دکھانے کے لئے سچی عیسائیت کے حق میں کیا دلائل دیں گے.جو بھی آپ دلائل دیں گے ان کی سمجھ اور دلچسپیوں سے بالا تر ہیں.وہ سمجھیں گے کہ آپ پتانہیں کس زمانے کی باتیں کر رہے ہیں.اب تو دور بدل چکا ہے ہم لوگ نئے میدانوں میں نکل آئے ہیں.نئی دلچسپیوں کی تلاش میں ہیں.ہمیں ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں کہ عیسائیت کیا تھی کیا ہے، کیا ہونی چاہیئے ؟ پس اس پہلو سے آپ کے دلائل اکثر و بیشتر ایسے کانوں میں پڑتے ہیں جن کو ان باتوں میں بنیادی طور پر کوئی دلچسپی نہیں.ابھی ناروے میں داخل ہوتے ہی رات کو جو کچھ غیر مسلم دوست ملنے کے لئے تشریف لائے تھے ان کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ ان کو اسلام اور احمدیت کے اسلامی نقطۂ نظر میں دلچسپی ہے.ایک دو باتوں سے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بات درست نہیں ہے.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں آپ کو ان لوگوں میں دلچسپی تھی جو آپ کے ہاں آکر آباد ہوئے اور آپ ان سے جو سوال کرتے ہیں وہ محض ایک تجسس کے طور پر کرتے ہیں کہ پتا تو چلے کہ تم لوگ کیا ہو، کیا سوچتے ہو، کیا

Page 629

خطبات طاہر جلد ۸ 624 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء تمہارے عقائد ہیں اس سے زیادہ آپ کو دلچسپی نہیں.انہوں نے ہنس کے کہا کہ ہاں بالکل یہی بات ہے.یہ بھولے آدمی ہمارے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کے دین میں دلچسپی ہے.ہمیں کوئی دلچسپی نہیں.ہمیں صرف تجسس ہی ہے اور اپنے تجس کی بنا پر ہے کہ پتا تو کریں کہ یہ نئے نئے قسم کے لوگ جو باہر سے آ رہے ہیں ان کا اسلام کیا ہے اور دوسرے قدیم مسلمانوں کا اسلام جس کے متعلق ہمارے علماء نے ہمیں بتایا ہوا ہے کہ وہ کس قسم کا اسلام کا تصور رکھتے ہیں.ان میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ یہ بھی خمینی کے مزاج سا مزاج رکھتے ہیں یا اسی قسم کے بعض دیگر مسلمان سیاسی راہنماؤں کا مزاج رکھتے ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے.پس یہ دلچسپی ہے کہ یہ معلوم کریں کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں لیکن جب بات کھولنے کے بعد میں نے انہیں احمدیت کے متعلق کچھ وہ باتیں بتائیں جن کا خدا کی ہستی اور مذہبی تاریخ سے گہرا تعلق ہے تو اچانک ان کے اندر ایک دلچسپی پیدا ہوئی اور بالآ خر بہت ہی واضح طور پر انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ جو باتیں آپ نے بتائی ہیں اس میں ہمیں دلچسپی ہے.پس امر واقعہ یہی ہے کہ اس وقت مغربی دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود ایک دلیل بننے کی ضرورت ہے.خود خدا نما ہونے کی ضرورت ہے.آپ کے اندر البی صفات پائی جانی چاہئیں، آپ کے اندروہ قوت پیدا ہونی چاہئے جو خدا سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ انسان کے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں.ان میں سے ہر ایک کے اپنے مسائل ہیں ان میں سے کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ دعا ایک طاقت ہے اور دعاؤں کے ذریعے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں.ان کے اندر اچھی انسانیت کی جستجو ہے ان کو یہ علم نہیں کہ اچھی انسانیت مذہب سے عطا ہوتی ہے بلکہ اس کے برعکس یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب انسانیت کے برے نمونے پیش کرتا ہے.ایسے ایک لمبے دور سے یہ خود گزرے ہوئے ہیں.جہاں عیسائیت کے راہنماؤں نے ان کے سامنے بداثرات چھوڑے اور جس طرح ہمارے ملک میں ملاؤں کے خلاف مذاق ہوتے ہیں ان کے متعلق دلچسپ قصے سنائے جاتے ہیں ان کی منافقت کے بارہ میں لطائف بیان کئے جاتے ہیں.اس طرح کا ایک ایسا دور تھا جب عیسائیت کے راہنماؤں سے متعلق بھی یہی باتیں ہوتی تھیں اور بہت سے لطائف مشہور تھے کہ یہ ہمارے مذہبی راہنما ہیں، یہ ان کے اخلاق ہیں اور یہ ان کے کردار ہیں.پھر ان کے تعصبات ان کی

Page 630

خطبات طاہر جلد ۸ 625 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء تنگ نظری ، سخت مزاجی ان سب باتوں نے مل کر اہلِ مغرب کو رفتہ رفتہ مذہب سے دور کرنا شروع کیا.پس ان کے ہاں جو مذہب کا تصور ہے وہ انسانیت کے مقابل پر ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ انسانیت اور انسانی قدریں ایک چیز ہیں اور مذہب اور مذہبی قدریں اس کے مد مقابل دوسری چیز ہیں اور جتنا انسان مذہبی ہوتا چلا جائے گا اتنا اس کا کردار اجنبی اور کھوکھلا اور مصنوعی ہوتا چلا جاتا ہے اور اس میں ایسی خوبصورت کشش نہیں پائی جاتی جس کے ذریعہ انسان اس سے متاثر ہوں تو دراصل عام انسانی قدروں کی طرف بڑھنے کے نتیجے میں یہ مذہب کے اس تصور سے دور ہوتے چلے گئے.اس پہلو سے اس تجزیہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ کو مذہب کو اس رنگ میں یہاں پیش کرنا ہوگا کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار مذہب کے ساتھ وابستہ دکھائی جائیں.ان کو معلوم ہو کہ مذہب سے مراد نہایت اعلیٰ درجہ کے انسانی اخلاق اور ضابطہ حیات ہے جو انسان کی زندگی بدل دیتا ہے اس کے نتیجے میں انسان ایک بہتر انسان کے طور پر دنیا میں اُبھرتا ہے.یہی وہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت رسول اکرمیں اللہ کے عظیم معجزے کے نقوش کی صورت میں بیان فرمایا.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم الشان معجزہ نے جو نقوش دنیا پر قائم کئے ان میں سے پہلا یہ تھا کہ جو جہلاء تھے جو حیوانوں کی سی زندگی بسر کر رہے تھے انہیں انسان بنایا، پھر ان انسانوں کو باخدا انسان بنایا، پھر ان با خدا انسانوں کو خدا نما انسان بنا دیا یہ ساری منازل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کے معجزے نے چند سالوں میں طے کروا دیں اور یہی وہ منازل ہیں جن کو طے کئے بغیر آج بھی یہ معجزہ رونما نہیں ہو سکتا.یہی وہ منازل ہیں جن کو طے کرنے کے بعد آج بھی یہ معجزہ رونما ہوسکتا ہے.پس ان قوموں کے ساتھ اپنے روابط میں اپنے نفس کے ساتھ رابطہ قائم کریں اور اپنا تجزیہ کریں اور یہ معلوم کریں کہ آپ کس حد تک اعلیٰ درجہ کے انسان بنے ہیں کیونکہ کوئی انسان صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بن سکتا جب تک وہ پہلے اعلیٰ درجے کا انسان نہ بنے.پس پہلے اپنے آپ کو انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے مزین کریں.اپنے آپ کو وہ حسن بخشیں کہ جو عام انسانوں کی نظر میں بھی حسن لگتا ہے.قطع نظر اس کے کہ مذہب کیا ہے یا رنگ کیا ہے یا نسل کیا ہے؟ اُس حسن کے ساتھ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑیں یا جیسا کہ میں نے پہلے ایک خطبے میں بیان کیا تھا کہ خدا تعالیٰ سے تعلق

Page 631

خطبات طاہر جلد ۸ 626 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء جوڑنے کے نتیجے میں یہ حسن پیدا کریں.ایسی صورت میں آپ کا یہ حسن گہرا ہوگا اور دائمی ہوگا.کسی سطحی کردار سے تعلق نہیں رکھے گا.ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے گا ، آپ مدد کرے گا اور آپ جوں جوں باخدا بننے شروع ہو جائیں گے خدائی تقدیر آپ کو خدا نما بنانا شروع کر دے گی.خدا نمائی کی منزل با خدا بننے کے بعد آیا کرتی ہے.خدا نمائی کی منزل میں پھر اعجاز شامل ہو جاتا ہے.دعاؤں کی قبولیت شامل ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی روحانی عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.آج بھی جب میں آ رہا تھا تو سفر کے دوران ڈاک دیکھنے کی توفیق ملی جو کل لندن سے پہنچی تھی.ساری ڈاک تو ناممکن تھا دیکھنا مگر جس حد تک مجھے موقع ملا میں نے دیکھا، اس میں مختلف ممالک سے بہت ہی دلچسپ خطوط ملے ہیں ان میں ایک خط ایک بڑی قوم کے سربراہ کے متعلق تھا.وہ جماعت احمدیہ سے آشنا تو تھے مگر کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن وہ ایک بہت بڑی مضبوط قوم کے سر براہ ہیں ان کی لمبے عرصے سے یہ خواہش تھی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہولیکن باوجود اس کے کہ ہر قسم کے علاج بھی انہوں نے کروائے ، بڑے بڑے پیروں فقیروں کے پاس بھی گئے لیکن ان کی یہ آرزو بر نہ آئی.یہاں تک کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ شاید میں چھوٹی عمر کی عورت سے شادی کروں تو میری تمنا پوری ہو جائے اس پر کسی نے ان کو کہا کہ ایک اور رستہ بھی آپ آزما کر دیکھ لیں.جماعت احمدیہ کے امام کو دعا کا خط لکھیں اور اپنے ہاتھ سے لکھیں اور سنجیدگی سے پورے خلوص کے ساتھ لکھیں کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں اس لئے آپ میرے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک بیٹا عطا فرمائے اور ایسی صورت میں میں یہ عہد کرتا ہوں کہ ہمیشہ جماعت احمدیہ کے لئے اپنے دل میں ایک محبت کا گوشہ رکھوں گا.یہ تو نہیں کہا کہ میں ایمان لے آؤں گا لیکن یہ کہ میں بہت ہی خدمت کا تعلق رکھوں گا.انہوں نے جو خط کے ذریعہ مجھے اطلاع دی وہ حیرت انگیز ہے.بالعموم میں تو یہی کہا کرتا ہوں کہ میں دعا کروں گا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے لیکن بعض دفعہ خدا دعا میں ایسی حالت پیدا کر دیتا ہے کہ دُعا کرنے کی بجائے اُسے خوشخبری دے دیتا ہوں اور یہ بسا اوقات سوچی سمجھی تدبیر کے مطابق نہیں بلکہ خود بخود ہو جاتا ہے چنانچہ ان کو میں نے لکھا انہوں نے جو مجھے حوالہ بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک بیٹا عطا فرمائے گا اس کا نام اعجاز احمد رکھنا.چنانچہ یہ خط ملنے کے بعد اُسی حمل

Page 632

خطبات طاہر جلد ۸ 627 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء میں اللہ نے ان کو بیٹا عطا فرمایا اور انہوں نے اس کا نام اعجاز احمد رکھا اور وہ خط سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور سارے علاقے کے معززین جو بھی مبارک باد دینے آتے ہیں ان کو کہتے ہیں کہ یہ خط پڑھ لو کہ خدا نے یہ بچہ مجھے کس طرح عطا کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ دعا ایک ایسا اعجاز ہے جو ہر احمدی کو عطا ہوا ہے.اس میں صرف خلیفہ وقت کا امتیاز نہیں یہ وہ اعجاز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زمانے کا ایمان زندہ کرنے کیلئے ہمیں عطا کیا ہے اور یہی معنی ہیں اس بات کے کہ لو كان الايمان معلقا بالثريا لناله رجال اؤ رجل من هولاء ( بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر : ۴۵۱۸) که اگر ایمان ثریا تک بھی چلا گیا یعنی زمین کلیۂ چھوڑ گیا تب بھی ان لوگوں میں سے وہ ایک شخص پیدا ہوگا یا بعض اشخاص پیدا ہوں گے جو ریا سے ایمان کو کھینچ لائیں گے.پس دعاؤں کے نتیجے میں ہی ایمان ثریا سے اترا کرتے ہیں اور یہ کام ایک شخص کا نہیں بلکہ رجال کا ہے اور میرے نزدیک رجال سے مراد جماعت احمدیہ کے رجال ہیں اور وہ سارے خدا پرست لوگ خدا رسیدہ لوگ ، خدا نما لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق باندھتے ہیں اور سچا اخلاص کا تعلق باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو یہ اعجاز عطا کرتا ہے کہ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اپنے فضل کے ساتھ ان دعاؤں کے طفیل وہ دنیا میں آسمان پر گئے ہوئے ایمان کو واپس کھینچ لاتے ہیں.پس ان قوموں کو آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے.صرف بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں ہے اور دعاؤں کی ضرورت سے یہ مراد نہیں کہ اپنے ہونٹوں سے سرسری دعائیں کریں یا الگ بیٹھ کر دعائیں کریں خواہ دل کی گہرائی سے دعائیں ہوں بلکہ وہ دعائیں کریں جن کا میں نے ذکر کیا ہے جو خدا کے پائے قبولیت میں جگہ پاتی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نشان بنا دیا کرتا ہے.ایسی دعائیں ان قوموں کے حالات بدل سکتی ہیں اور اس کے بغیر نہیں.چنانچہ اس مضمون پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آئندہ زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے یہ پیشگوئی فرمائی کہ مسیح نازل ہوگا اور اس کے ساتھ ہی ایک حدیث میں جو بہت تفصیلی ہے اور مسلم میں بھی ہے اور سنن ابی داؤد میں بھی ہے.اس میں یہ ذکر ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسیح پر وحی نازل فرمائے گا اور یہی وہ حدیث ہے جس میں چار دفع آنے

Page 633

خطبات طاہر جلد ۸ 628 خطبه جمعه ۲۲ ستمبر ۱۹۸۹ء والے مسیح کو نبی اللہ فرمایا گیا ہے اس پر وحی نازل فرمائے گا اور اسے کہے گا کہ اس زمانے میں ہم نے دو ایسی طاقتور قو میں نکالی ہیں جن سے مقابلہ کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں کسی انسان کی مجال نہیں کہ ان قوموں سے مقابلہ کر سکے.پس تم بھی دنیاوی ہتھیاروں سے ان قوموں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور وہ دو قو میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ساری دنیا جانتی ہے مشرق اور مغرب کے دو بلاکس ہیں.ایک کیپیٹلسٹ بلاک Capitalist block) ہے اور ایک ( Socialist block) سوشلسٹ بلاک ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دُنیا کی کسی طاقت میں اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں کہ ان دونوں عظیم طاقتوں کا دنیاوی ہتھیارں سے مقابلہ کر سکے.پھر اس کے بعد فرمایا یعنی خدا تعالیٰ حضرت مسیح سے فرمائے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ اس لئے تم پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ پہاڑ کے دامن میں پناہ لو اور دعا کرو.دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان قوموں کو پگھلا دے گا اور اسلام کو فتح نصیب کرے گا.مجھے پہلے کئی دفعہ یہ خیال آیا کرتا تھا کہ یہاں کسی اور جہاد کا ذکر نہیں استدلال کا ذکر نہیں، دلائل کے ذریعے اور لٹریچر کے ذریعے فتح حاصل کرنے کا ذکر نہیں صرف دُعا کا کیوں ذکر ہے پھر لمبے تجربہ کے بعد مجھے یہ مفہوم سمجھ آیا کہ یہ لٹریچر اور یہ ساری تبلیغی کوششیں اگر مقبول دعاؤں کے بغیر ہوں تو ان کی کوئی بھی قیمت نہیں.آپ لاکھ لٹریچر شائع کر لیں ان پر کوڑی کا بھی اثر نہیں پڑے گا لیکن اگر یہ روحانی لوگ دیکھیں گے، اگر یہ خدا سے تعلق والے لوگوں کا خود مشاہدہ کریں گے، دعائیں کرنے والے لوگ دیکھیں گے تو پھر یقینا ان کے حالات بدل جائیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اسلام کی طرف متوجہ ہوں گے.اس لئے یہ نکتہ جو آج میں نے آپ کو میں نے بتایا ہے یہ اپنے آقاو مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان فرمودہ نکتہ ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جو آپ کے بیان کے مطابق خود خدا تعالیٰ مسیح موعود کو سمجھائے گا اور خود خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو سمجھایا.پس یہ وہ ہتھیار ہے جس کو آج آپ کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے اور یہ ہتھیار ہر شخص کے قبضہ قدرت میں ہے.اگر وہ اسے لینا چاہے اور اپنانا چاہے اور اگر نہ اپنانا چاہے تو کسی کے ہاتھ میں نہیں آسکتا.اس لئے آپ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس نئے نسخہ کو آزمائیں، اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں اور خود خدا نما بن جائیں.ایسی دعائیں کریں جو خدا کے حضور مقبولیت کی

Page 634

خطبات طاہر جلد ۸ 629 خطبه جمعه ۲۲ / ستمبر ۱۹۸۹ء جگہ پائیں اور اس کے نتیجہ میں آپ کے گرد و پیش ماحول میں لوگ محسوس کرنے لگیں گے کہ ہمارے اندر ایک خدا رسیدہ انسان آ گیا ہے اور آپ کی دعاؤں کی برکت کے کرشمے وہ دیکھیں اور ان کے ماحول میں جو پاک تبدیلیاں آپ کی دعاؤں کے نتیجے میں ہوں وہ انہیں مجبور کر دیں کہ وہ رستہ اختیار کر لیں جس رستے پر خدا ملتا ہے اور جس کا مشاہدہ وہ خود اپنی آنکھوں سے کر چکے ہوں.پس یہ وہ ایک طریق ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ لازماً کامیاب ہوگا.اس کے ناکام ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.یہی وہ طریق ہے جو پہلے بھی کامیاب ہوا تھا اور یہی وہ طریق ہے جو دوبارہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سمجھایا گیا اور یہی وہ طریق ہے جس کی طرف آج میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں.سارے سیکنڈے نیویا کی مذہب سے عدم دلچسپی کا ایک ہی علاج ہے کہ یہاں آئے ہوئے احمدی با خدا انسان بن جائیں اور پھر خدا نما بن جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد بعض معلومات کی اصلاح کرنی ہے.آپ کو یاد ہوگا کہ سکرنڈ میں ایک احمدی ڈاکٹر منور احمد صاحب شہید ہوئے تھے اس کے علاوہ اسی نام کے ایک احمدی کنڈیارو میں بھی رہتے ہیں جو بٹ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.ان کے خاندان میں پہلے شہادتیں ہو چکی ہیں اور جیسا کہ میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا بہت ہمت اور حیرت انگیز صبر کے ساتھ اور وفا کے ساتھ وہ نہ صرف جماعت کے ساتھ تعلق میں قائم ہیں بلکہ ہر قسم کے خطرے کے پیش نظر اور اس کے باوجود اس خاندان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس علاقے کو ہم نے نہیں چھوڑنا.جب مجھے اطلاع ملی تو غلطی سے امور عامہ کی طرف سے یا جس کی طرف سے بھی اطلاع آئی منور احمد بٹ لکھا گیا اس لئے میرا ذہن کنڈیارو کے خاندان کی طرف گیا اور اپنے خطبے میں میں نے کنڈیارو کا تعارف ہی کرایا.بعد میں مجھے ان کے بعض رشتہ داروں کی طرف سے اطلاع ملی کہ ان کا نام منور احمد جٹ تھا اور اطلاع دینے والے نے غلطی سے آپ کو بٹ لکھ دیا، غالباً اسی لئے وہ ٹھیک نہیں سمجھے اسی لئے سکرنڈ کی بجائے میرا ذہن کنڈیارو کی طرف چلا گیا تو یہ جو منور احمد شہید ہیں یہ منور احمد جٹ کہلاتے تھے ، جاٹ خاندان سے تعلق تھا اور سکرنڈ کے رہنے والے تھے.یہ جماعتوں میں جہاں جہاں میرے خطبے کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے، احباب اس کو درست کر لیں.

Page 635

Page 636

خطبات طاہر جلد ۸ 631 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء خدا گواہ ہے کہ جماعت پر اتنے فضل نازل ہونگے کہ جواب تک ہوئے ہیں آپ ان کو بھول جائیں گے ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الحمد الموسویڈن ) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.احمدیت گزشتہ ایک لمبے عرصے سے جس غیر معمولی ابتلاء میں سے گزر رہی ہے یہ ابتلاء کا دور ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور تاریخ ساز ہے، وہ تمام مذاہب کی تاریخ جو مختلف کتب مقدسہ میں پڑھا کرتے تھے اور جن کا ایک بہت ہی عمدہ ریکارڈ قرآن کریم نے محفوظ فرمایا اور یکجائی صورت میں تمام بنی نوع انسان کی مذہبی تاریخ کے اہم نکات کو اکٹھا کر دیا.اس کے مطالعہ کے وقت ہم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ظہور تک کی سب تاریخ کے اہم نکات سے واقف ہو چکے ہیں اور وہ سارے امور جو مختلف انبیاء کے زمانوں میں ظہور پذیر ہوئے جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے دیکھے اور اس زاویے سے رونما ہوتے دیکھے جس زاویے سے گزشتہ زمانوں میں انبیاء کی جماعتیں دیکھا کرتی تھیں.اس زاویے سے نہیں جس زاویے سے انبیاء کے دُشمن اس تاریخ کے خاص دور کو ملاحظہ کیا کرتے تھے.پس دو ہی دائرے ہیں جن میں مذہبی تاریخ مختلف وقتوں میں عملی صورتوں میں رونما ہوتی رہی ہے ایک صداقت کا دائرہ جو اس آواز سے شروع ہوتا تھا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور خدا نے مجھے بنی نوع انسان کے لئے یا بنی نوع انسان کے ایک حصے کے لئے نمائندہ بنا کر بھیجا ہے.جس

Page 637

خطبات طاہر جلد ۸ 632 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء طرح پانی میں آپ ایک پتھر پھینکیں تو اس سے دائرہ کی شکل میں لہریں بننی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ لہریں پھیلتی چلی جاتی ہیں اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک انسان ایک دعویٰ کرتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ایک نمائندہ بنا کر بھیجا گیا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں جن میں بظاہر سطح پر کسی قسم کی کوئی ہر دکھائی نہیں دیتی تھی ایک پتھر پھینک دیا گیا ہے اور اس پتھر کے نتیجے میں چاروں طرف لہروں کا تموج پھیلتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے.اس تموج کے ساتھ ساتھ وہ آواز بھی پھیلنے لگتی ہے اور اس آواز کی پہنچ کے دائرے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں.پھر اس کے برعکس ہم اور کثرت سے اس پانی کی جھیل کے اوپر پتھر برستے ہوئے دیکھتے ہیں اور وہ پھر مخالفانہ لہریں پیدا کرنے والے پتھر ہوا کرتے ہیں اور اس کثرت کے ساتھ ان کی بوچھاڑ ہوتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی لہریا پہلی لہروں کا تموج کلیہ نئے پتھروں کی بارش کی طرح جاری کردہ لہروں میں ڈوب جائے گا اور صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا.سی وہ خاص تاریخ کا دور ہے جسے میں تاریخ ساز دور کہتا ہوں اور جس میں سے اب ہم گزر رہے ہیں اور جب آپ وسیع نظر سے اپنے ماضی کو دیکھیں آپ یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ ہمیشہ وہ پہلا پتھر جس نے لہروں کا آغاز کیا تھا باوجود اس کے کہ اس کی مخالفانہ اُٹھنے والی لہر میں اس سے بہت زیادہ تموج میں شدید ہوا کرتی تھیں، باوجود اس کہ ایک چھوٹے سے پتھر کی پیدا کردہ لہر کے مقابل پر یوں معلوم ہوتا ہے کہ چٹانیں اس پانی پر برسنے لگی ہیں اور مخالفت کا ایک طوفان برپا ہو چکا ہے لیکن حیرت کے ساتھ آپ ہمیشہ یہ بات مشاہدہ کریں گے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تموج کی شدید لہریں جو خدا کے نام پر جاری شدہ آواز کے مقابل پر پیدا ہوتی تھیں وہ مٹنے لگتی ہیں اور وہ کمزوری آواز جو ایک ہلکی سی خوش نما لہر کی صورت میں اُٹھی تھی وہ دن بدن طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی لہروں میں مزید توانائی آنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ بڑے بڑے طوفانی تموج پر غالب آ جاتی ہے لیکن یہ بعد میں ہونے والی باتیں ہیں اور ہمیشہ بہت دور کا انسان جب زمانے میں مڑ کر دیکھتا ہے تو اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے اور تمام مذاہب کی آغاز کی تاریخ اور آغاز کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور ان واقعات کے بعد کی پھر لمبی تاریخ بالکل اسی مضمون کو دہراتی چلی جاتی ہے جو میں نے آج ایک تمثیل کی صورت میں آپ کے سامنے بیان کیا ہے.

Page 638

خطبات طاہر جلد ۸ 633 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء جس زمانے میں اس جدو جہد کا آغاز ہوتا ہے اس زمانے میں کوئی انسان یہ کہہ نہیں سکتا کہ یہ باریک کمزوری پہر جو پہلے پتھر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی تھی یہ کسی طرح بھی ان مخالفانہ لہروں کے اوپر غالب آجائے گی.چنانچہ آپ کسی بھی مذہب کے آغاز میں جا کر دیکھیں اور کسی مذہب کے اندر پیدا ہونے والی نئی الہی تحریکات کا جائزہ لیں ہمیشہ آپ کو بلا استثناء یہی بات دکھائی دے گی کہ جس تموج کے دور کا میں ذکر کر رہا ہوں یعنی آغاز کا دور اس میں آپ کی عقل یہی نتیجہ نکالے گی کہ مخالفانہ لہریں بہت زیادہ ہیں، بہت شدید ہیں، بہت قوی ہیں اور اس شدت اور جوش کے ساتھ یہ پہلی آواز کو دبانے کے لئے اُٹھ رہی ہیں کہ پہلی آواز کی بقاء کا کوئی سوال باقی نہیں لیکن بلا استثنا ہر دفعہ یہ فتوی جھوٹا نکلتا ہے.بلا استثنا ہر دفعہ تاریخ آخریہی گواہی دینے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ خدا کی طرف سے اُٹھنے والی آواز لازماً غالب آتی ہے اور اس کی قوت وقت کے گزرنے کے ساتھ مٹنے کی بجائے اور زیادہ مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے اور زیادہ بلند ہوتی چلی جاتی ہے اور زیادہ شدید ہوتی چلی جاتی ہے جبکہ دنیا کا دستور یہ ہے کہ جب لہریں اٹھتی ہیں تو وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں پس یہ پہچان ہے الہی طاقت سے اُٹھنے والی لہروں کی اور دوسری یعنی وقت کے ساتھ مٹ جانا یہ پہچان ہے مخالفانہ لہروں کی نوعیت کی.ان کی نوعیت سے آپ پہچان سکتے ہیں.پس اسلام کی تاریخ پر بھی ان حالات کو چسپاں کر کے دیکھیں حضرت مسیح“ کی تاریخ پر مسیحیت کی تاریخ پر ان حالات کو چسپاں کر کے دیکھیں بلا استثناء آپ کو یہی نقشہ ابھرتا دکھائی دے گا پھر بعض نقوش مٹتے دکھائی دیں گے اور بعض نقوش اُبھرتے دکھائی دیں گے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب آج سے تقریباً سو سال پہلے یہ اعلان فرمایا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں تو اس ایک آواز کے مقابل پر اس قدر شدید مخالفت کی لہریں اُٹھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس آواز کو قادیان کے دائرے سے باہر نکلنے نہ دیا جائے گا اور اس کا گلا اسی گھر میں گھونٹ دیا جائے گا جس گھر سے یہ آواز اُٹھی تھی یہ تاریخ کی پہلی کو ہی تھی لیکن اس کے برعکس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کچھ اور فرمایا.اور فرمایا کہ میں نے تجھے ایک پیغام عطا کیا ہے میں ہی اس کے پھیلانے کا ذمہ دار ہوں اور میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.

Page 639

خطبات طاہر جلد ۸ 634 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء آج سے سو برس پہلے جن حالات کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں یہ دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی تھی کوئی وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اتنی شدید مخالفت کے باوجود اس آواز کو کسی قسم کی بقاء نصیب ہو.کجا یہ کہ یہ مخالفانہ آوازوں پر غالب آنا شروع ہو جائے.اس پہلو سے جب آپ احمدیت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو کسی اور صداقت کے پیمانے کی ضرورت نہیں رہتی.یہ اپنی ذات میں اتنا یقینی سیچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے والا پیمانہ ہے کہ جو نتیجہ یہ پیمانہ نکالتا ہے وہ کبھی جھوٹا نہیں نکلتا کیونکہ ساری دُنیا کی، ہر مذہب کی تاریخ اسی پیمانے پر جانچی جاسکتی ہے اور سچ اور جھوٹ کی تمیز اسی طرح ہو سکتی ہے.اب دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل پر کون کون سی آواز میں تھیں اس بات کو آپ یادرکھیں اور ہمیشہ اس کو یا درکھیں تا کہ آپ کو اپنے مخالفت کے دور کے وقت کسی قسم کی مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اپنے ماضی پر نگاہ کریں.خدا کے اس سلوک کو پیش نظر رکھیں جو اس نے ہمیشہ جماعت احمدیہ سے کیا اور پھر اس سے طاقت حاصل کر کے اپنے ابتلاء کے دور کو اپنے لئے آسان بنانے کی کوشش کریں.یہ سبق ہے جو میں آج آپ کو دینا چاہتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو بحیثیت مسلمان کوئی گروہ نہیں تھا جس نے آپ کی تائید کی ہو جو دوست تھے وہ دشمن ہو گئے ، ایسے دوست جو جان فدا کرنے والے تھے وہ جان کے دشمن بن گئے ، ایسے ایسے علماء جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اتنا حسن ظن رکھتے تھے ان میں سے بعض نے جیسا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اعلان کیا کہ جب سے حضرت رسول اکرم ﷺ کا وصال ہوا ہے اسلام کے دفاع میں اس شان کا لڑنے والا مجاہد ساری اسلامی تاریخ میں کبھی پیدا نہیں ہوا اور اس نے لکھا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں نے مبالغے اور ایشیائی مبالغے سے کام لیا ہے تو کوئی ایک نکال کر تو دکھاؤ جو تیرہ سو برس کے اندر اس شان کا مجاہد کسی دنیا کے ملک یا کسی مسلمانوں کی جماعت میں پیدا ہوا یعنی یہ الفاظ تو اس کے نہیں ہیں مگر یہی مضمون اس سے زیادہ قوت کے ساتھ جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی تحریرات میں لکھا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا تو اچانک ایسی کا یا بیٹی کہ اس نے ببانگ دہل یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ میں نے اس شخص کو اٹھایا تھا اور اب میں ہی اس کو گرا کے دکھاؤں گا اور جو کچھ میں نے اس کی تائید میں لکھا تھا اس کے برعکس اس قدر زور لگاؤں گا،

Page 640

خطبات طاہر جلد ۸ 635 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء ایسی کوشش کروں گا کہ اس کا نام دنیا سے مٹا کر چھوڑوں گا اور اپنے اس دعوی میں اس نے اپنی ساری عمر گنوا دی اس حد تک، اس شدت کے ساتھ اس نے بظاہر اپنے کئے پر پانی پھیرنے کی کوشش کی.اپنے بنائے ہوئے کو مٹانے کی کوشش کی کہ مذہب کی دشمنی کی تاریخ میں آپ کو کم ہی ایسے لوگ ملیں گے جو اس طرح ایک مقصد کے لئے خواہ وہ اچھا ہو یا بُراکلیۂ وقف ہو چکے ہوں.مولوی محمد حسین صاحب کے سارے سفر اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کے سفر بن گئے.وہ عرب دُنیا تک پہنچا جہاں تک اس کی آواز پہنچ سکتی تھی وہاں پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف فتوے حاصل کئے اور مخالفت کی آگیں لگائیں.ہندوستان کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک مشرق سے مغرب تک مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفت کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس پانی میں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز نے ایک ہلکا تموج پیدا کیا تھا ایک بھاری چٹان گرادی گئی ہے اور اس مخالفت کی طوفانی لہریں جو پہاڑوں کی طرح سر بلند ہیں وہ اُٹھ رہی ہیں تا کہ اس ہلکی سی لہر کو دبا دیں لیکن نتیجہ ! مولوی محمد حسین کی زندگی میں دن بدن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پھیلتا چلا گیا اور پھیلتا چلا گیا اور جن جن ممالک تک وہ پہنچا تھا وہ ان ممالک کے دائروں سے آگے نکل گیا اور مشرق اور مغرب میں دور دور تک الہی تائید سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی تائید میں آوازیں بلند کرنا شروع کیں یہاں تک حال ہوا ان مولوی صاحب کا کہ جب دور دراز سے لوگ سفر کر کے حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے شوق میں قادیان آیا کرتے تھے تو بٹالہ سٹیشن پر وہ اتر کر وہاں سے پھر ، یا پیدل سفر کرتے تھے قادیان تک جو کہ بارہ میل تھا یا پھر یکے لے لیا کرتے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ وہ ہر گاڑی پر پہنچا کرتے تھے جب تک وہاں موجود رہتے اُترنے والے مسافروں سے متعلق معلوم کیا کرتے تھے کہ کون قادیان کی نیت سے آیا ہے اور اسے کہا کرتے تھے کہ میں اس شخص کو زیادہ جانتا ہوں، بچپن سے اس کا ساتھی ہوں مجھے پتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے، یہ خدا پر جھوٹی باتیں کرتا ہے، اس لئے تم یہ ارادہ چھوڑ و، قادیان جانے کی کوئی ضرورت نہیں اپنا ایمان بچاؤ اور یہیں سے واپس چلے جاؤ.ایسے ہی ایک موقعہ پر ایک دیہاتی مخلص احمدی کو ، جب اس نے روکنے کی کوشش کی تو اس نے بہت ہی عمدہ جواب دیا.اس نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو پکڑ لیا اور جس کو پنجابی

Page 641

خطبات طاہر جلد ۸ 636 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء میں کہتے ہیں چھا مارنا ، جھا مار کے آواز دی کہ لوگو! آجاؤ اور دیکھ لو کہ شیطان کیسا ہوتا ہے.نیکی کے رستوں سے روکنے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں اور پھر اس نے ایک بڑا خوبصورت موازنہ کیا.اس نے کہا کہ مولوی صاحب ہم لوگوں کی جوتیاں گھس گئی ہیں قادیان جاتے جاتے اور تمہاری جوتیاں گھس گئی ہیں جانے والوں کو روکتے روکتے لیکن جانے والوں کے قافلے تم سے رُک نہیں سکے.وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں، دور دراز سے لوگ مسلسل آتے چلے جارہے ہیں.یہ خدائی قافلے ہیں ان کو تم نہیں روک سکتے.یہ وہ زمانہ تھا مخالفت کا جبکہ مسلمانوں کی طرف سے صرف ایک محمد حسین نہیں بلکہ بہت سے کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے ہندوستان کے طول وعرض میں مخالفت کا ایک طوفان بر پا کر دیا.پھر دوسری بڑی قوت ہندوؤں کی قوت تھی اور ایک پہلو سے وہ مسلمانوں سے بھی زیادہ قوی تھے کیونکہ تعداد کے لحاظ سے ان کو مسلمانوں پر ایک بھاری غلبہ نصیب تھا.انہوں نے بھی مخالفت میں کوئی کمی نہیں کی بعض پہلوؤں سے مسلمانوں سے بھی آگے بڑھ گئے.بڑے بڑے راہنما ان میں پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت میں وقف کر دیں.انہی میں وہ لیکھرام پیدا ہوا جس نے یہ اعلان کیا کہ یہ کہتا ہے کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ میں تیری آواز کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.مجھے تو خدا نے بتایا ہے کہ اس کی آواز قادیان کے کناروں سے باہر نہیں نکل سکے گی اور حد سے حد دو تین سال تک جاری رہے گی اور اس حالت میں کرے گا کہ جو اولاد یہ چھوڑے گا وہ اولا د بھی مر چکی ہو گی جو اولا داس کی پیدا ہوگی وہ بھی اس کی زندگی میں مر چکی ہوگی اور قادیان میں بھی اس کا نام زیادہ سے زیادہ چند سالوں تک یاد کیا جائے گا وہ بھی ذلت کے ساتھ.یہ ایک مقابلے کی پیشگوئی تھی اور آریہ دھرم کو اس زمانے میں ہندوستان میں ایک بہت بڑی طاقت حاصل تھی لیکن دیگر ہندو فرقے بھی اپنے اپنے رنگ میں مخالفت میں پیش پیش رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی راہ روکنے کے لئے انہوں نے بھی گھیرے بنائے اور گھیرے تنگ کرتے چلے گئے لیکن آپ جانتے ہیں کہ کس طرح لیکھر ام اور اس جیسے اور مخالفین کی آواز میں جھوٹی نکلیں وہ آواز میں مر گئیں، وہ اپنے اپنے دائرے میں محدود ہوتی چلی گئیں یہاں تک کہ

Page 642

خطبات طاہر جلد ۸ 637 خطبه جمعه ۲۹/ ستمبر ۱۹۸۹ء ہندوستان کی اکثر آبادی ان کے ناموں سے ناواقف ہوگئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پھیلتے پھیلتے آج واقعہ زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.جب میں نجی گیا تو وہاں کے ایک سکھ مذہبی راہنما نے ایک بہت ہی عمدہ بات کی اور میں حیران ہوا ان کی بات سے اس نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس زمانے میں ہندوستان میں تین بڑے مذہبی راہنما پیدا ہوئے ہیں.ایک مرزا غلام احمد صاحب قادیان ، ایک دیا نند اور ایک اور کسی سکھ لیڈر کا اس نے نام لیا اور کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان تینوں نے یہ دعوے کئے تھے کہ وہ دُنیا کے کناروں تک پہنچ جائیں گے لیکن باقی دونوں تو اپنے اپنے دائروں میں سمٹ کر محدود ہونا شروع ہوئے.ان کو وقتی شہرت ملی اور وہ شہرت جلد مر گئی لیکن عجیب بات ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب کا دعویٰ ہر پہلو سے سچا نکلا اور اس نے کہا آج میں اگر چہ احمدی نہیں ہوں مگر میں سکھ ہوں ایک سکھ لیڈر ہوں مگر نجی جو زمین کے کناروں میں شمار ہوتا ہے وہاں میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اے مرزا غلام احمد ! تیری آواز سچی نکلی اور واقعی تیری آواز کو خدا نے زمین کے کناروں تک پہنچا دیا.ایسی پیاری عمدہ بات اس نے کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فرشتوں کی تحریک سے ایسی بات کی گئی ہے.پھر سکھ تھے جو ماحول میں غیر معمولی اثر اور قوت رکھتے تھے ان کی قوت کا یہ حال تھا کہ اس خاندان کو جس خاندان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وابستہ تھے بار ہاسکھوں کی طاقت کے نتیجہ میں اکھاڑ کر قادیان سے باہر نکال دیا گیا.جب آپ نے دعوئی فرمایا کہ تمہارے بانی حضرت گرو بابا نا نک ایک بہت ہی بڑے خدا پرست ولی تھے لیکن کسی نئے مذہب کے بانی نہیں تھے بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عاشق صادق اور آپ ہی کے غلام تھے.تو سکھوں میں بھی شدید مخالفت کی ایک لہر اُٹھ پڑی اور بعض دفعہ یہ مخالفت اتنی شدید ہو جایا کرتی تھی کہ احمدیوں کے لئے عام سودا لینے کے لئے بھی قادیان سے نکل کر دوسرے گاؤں میں جانا مشکل ہوا کرتا تھا اور یہ مخالفتیں بھی باقاعدہ منظم صورت اختیار کر گئیں، بڑے بڑے وہاں جلسے اور مناظرے ہوا کرتے تھے.سکھوں کے ساتھ مقابلوں میں مجھے یاد ہے ہمارے بچپن کے زمانے تک یہ حال تھا کہ کئی دفعہ سکھ لاٹھیاں اور گنڈا سے لے کر حملہ آور ہو جایا کرتے تھے اور جب وہ دلائل میں شکست کھاتے تھے تو اپنے غصہ کو پھر وہ اپنے اپنے رنگ میں اتارنے کی کوشش کرتے تھے لیکن بالعموم میں نے یہ بھی دیکھا کہ سکھ راہنمابات نسبتاً جلدی سمجھ جایا کرتے تھے.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ

Page 643

خطبات طاہر جلد ۸ 638 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء بڑا سخت اشتعال پیدا کیا گیا لیکن جب مقابل پر کسی احمدی عالم نے سمجھانے کی کوشش کی اور بتایا کہ تمہارے خود گر و جن کو تم اتنا بڑا مقدس جانتے ہو وہ اس قسم کے طرز عمل کے خلاف تھے تم انسانیت سے کام لو، مخالفت کرنی ہے تو حکمت سے کرو.بعض دفعہ بہت مشکل صورت حال قادیان میں آجایا کرتی تھی اور آگ ٹھنڈی پڑ جایا کرتی تھی مگر بہر حال مخالفت تھی اس میں کوئی شک نہیں.پس اس پہلو سے سکھوں کو بھی اپنا دشمن بنالیا.عیسائی حکومت تھی اور یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ عیسائی حکومت کے بوتے پر ،اس کے سائے میں آپ نے کوئی دعوی کیا ہو لیکن عجیب بات ہے کہ عیسائی حکومت کا اس زمانے میں ہندوستان میں عیسائیت پھیلانا مقصد اوّل تھا.اور وہ جانتے تھے کہ عیسائیت کے پھیلانے سے ان کی حکومت کو استحکام نصیب ہو گا اور وہ تجربہ رکھتے تھے کہ جن جن ملکوں میں بھی انہوں نے حکومت کی ہے وہاں عیسائیت کے فروغ کے نتیجے میں ان کی حکومتوں کو استحکام ملا ہے اور دوام عطا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عجیب دعوی کیا اور وہ دعوئی عام مسلمانوں کے مشترکہ عقیدہ کے خلاف تھا.وہ دعوئی یہ تھا کہ مسیح جسے عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں، جسے خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں وہ ایک عام نبی اللہ تھا اور بحیثیت ایک نبی اللہ باقی نبیوں کی طرح وہ بھی کر چکا ہے وہ زندہ نہیں رہا اور آپ نے فرمایا کہ میں اس بات کو قرآن کریم سے بھی ثابت کرتا ہوں، حدیث سے بھی ثابت کرتا ہوں اور بائبل کی رو سے بھی ثابت کرتا ہوں.چنانچہ عیسائی پادریوں کی طرف سے اس کے نتیجے میں اتنا شدید رد عمل ہوا کہ بعض دفعہ آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے ، بعض دفعہ آپ کو جھوٹے قتلوں میں ملوث کرنے کے لئے با قاعدہ سازشیں کی گئیں اور اس کا ریکارڈ خود انگریزی عدالتوں میں محفوظ ہے اور خود انگریز جوں نے جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ عیسائی پادری تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف قتل کے جھوٹے مقدمے بنائے ہوئے ہیں.اب بتائیے وہ شخص کس کے سہارے زندہ رہا، ایک آواز اس تنہا شخص کی تھی جو کہتا تھا کہ خدا میرے ساتھ ہے، خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے اور اس کے مقابل پر ہندوستان میں اس کے گرد و پیش تمام طاقتور آواز میں اس ایک آواز کو دبانے پر وقف ہو چکی تھیں.آج آپ کہاں ہیں ، اس مقام سے کتنا آگے سفر کر چکے ہیں، آج وہ آواز قادیان میں دبنے کی بجائے ہندوستان کے گوشے گوشے تک

Page 644

خطبات طاہر جلد ۸ 639 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء پھیل چکی ہے.ہندوستان سے نکلی اور اس زمانے میں امریکہ تک پہنچی.ہندوستان سے نکلی اور اس زمانے میں لندن میں سنائی دینے لگیں، مشرق و مغرب میں ہر طرف وہ اہرمیں پھیلتی دکھائی دینے لگیں اور مخالفت کی وہ طاقتور لہریں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اثر میں کمزور ہوتی چلی گئیں.نتیجہ حاصل کرنے میں بے سودر ہیں.پس اتنی بڑی عظیم الشان تاریخ آپ کے پیچھے کھڑی ہے جو آپ کو بقاء کی ضمانت دے رہی ہے.آپ کو یقین دلا رہی ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں آپ کی مخالف ہو جائیں.نتیجے کے لحاظ سے آپ لازماً غالب ہوتے چلے جائیں گے اور قوی تر ہو کر اُبھرتے چلے جائیں گے.اس تاریخ کو بھلا کر جس کی پشت پناہی پر سارے مذاہب کی تاریخ ہے.اس تاریخ کو بھلا کر جس کی پشت پناہی پر تمام انبیاء کی تاریخ ہے کس طرح پاکستان یا کسی اور چھوٹے سے ملک کی مخالفتوں سے مرعوب ہو سکتے ہیں.کون سا آپ کو حق ہے، آپ کا ضمیر کس طرح اس بات کو برداشت کر سکتا ہے کہ مخالفت کے وقتی دور سے گزرتے ہوئے اس کی تاریکیوں سے دب کر آپ قدم آگے بڑھانا چھوڑ دیں اور منافقین کے اس زمرے میں شمار ہوں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ روشنی ہوتی ہو تو یہ چل پڑتے ہیں، جب اندھیرے طاری ہو جاتے ہیں تو ان کے قدم رُک جاتے ہیں.آپ مومنوں کی جماعت ہیں آپ نے اس صفائی کے ساتھ احمدیت کی صداقت کا مشاہدہ کیا ہے کہ ایک سوسال کا ایک ایک لمحہ احمدیت کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے.آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا نے کبھی آپ کو نہیں چھوڑا ، آپ نے اپنے کانوں سے سُنا کہ خدا کی تائید کی آوازیں ہمیشہ آتی رہیں اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹھوس تعبیروں میں ڈھلتی رہیں.اس کے باوجود پھر اگر کوئی حصہ جماعت کا مایوسی کا شکار ہو تو اس سے بڑا ظلم اور کوئی متصور نہیں ہوسکتا.آج پاکستان میں مخالفت پہلے سے بھی زوروں پر ہے.مجھے یہ تسلیم ہے لیکن تاریخ کے پیمانوں کو جانچ کر دیکھئے تو اتنا معمولی ساتھوڑا سا دور ہے اور زمین کے ایک تھوڑے سے ٹکڑے پر ہے.تاریخ میں اس سے بہت زیادہ لمبے مخالفتوں کے دور آئے ہیں.جن میں سے کمزور جماعتیں نکل کر طاقتور ہوکر اُبھرتی رہی ہیں اور عظیم تر ہو کر وہ اپنی مخالفتوں پر بالآخر غالب آتی رہی ہیں.آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ گیارہ سال ضیاء کی مخالفت کے ہوئے اس سے پہلے ۱۹۷۴ء سے بھٹو صاحب کی

Page 645

خطبات طاہر جلد ۸ 640 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء مخالفت اور ان کی پارٹی کی مخالفت تھی اور اب ضیاء کے بعد بھی وہی حال ہے ہمارا کون پرسان حال ہے؟ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہی پرسان حال ہے جس نے تین سو سال تک عیسائیت کی اس کے مخالفت کے دور میں حفاظت فرمائی اور بظاہر وہ مخالفت کا دور مٹا نہیں بلکہ بار بار مخالفت کی مختلف شکلوں میں اُبھرتا رہا، زور پکڑتا رہا لیکن خدا نے اپنے بندوں کی حفاظت فرمائی ، ان کے ایمان کی حفاظت فرمائی ، ان کے استقلال کی حفاظت فرمائی ، ان کو ثبات قدم عطا فر مایا اور تین سو سال کے بعد ایک ایسا دور آیا کہ وہ حکومتیں جو اس پیغام کو مٹانے کے درپے تھیں اس پیغام کی ایسی زبر دست علمبردار بن گئیں کہ تمام دنیا تک اس پیغام کو دنیا میں نافذ کر کے چھوڑا اور پھر ساری دنیا پر ان حکومتوں نے حکومت کی.تمام بنی نوع انسان کو اس پیغام سے مغلوب کر لیا.وہ مسیح موسوی تھا.اس مسیح کو ماننے والوں نے یہ ثبات قدم دکھایا اور اس طرح خدا کے وعدوں پر کامل ایمان رکھا اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی.ان کو درندوں کے سامنے پیش کیا گیا، بیسیوں بار سینکڑوں بار ایسے واقعات ہوئے کہ تماشا دیکھنے والوں نے سٹیڈیم میں بیٹھ کر بڑے سج دھج کر یہ تماشا دیکھا کہ ایک طرف پنجروں سے بھوکے شیروں، بھیڑیوں اور دوسرے درندوں کو آزاد کیا جاتا تھا اور دوسری طرف حضرت مسیح کے ماننے والوں کو اس میدان میں چھوڑا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ ان کا مقابلہ کرو تم.تو ایسے کمزور اور ایسے بے بس ہو کہ ان جانوروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہم سے ٹکرانے نکلے ہو.یہ پیغام تھا اور دیکھتے دیکھتے جنگل کے جانور انہیں چیر پھاڑ دیا کرتے تھے.ان کی ہڈیاں چبایا کرتے تھے اور سارا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھتا تھا دیکھو کتنا عظیم الشان غلبہ خدا نے ہمیں عطا کیا اور ان سچائی کے دعویداروں کو ہم نے کس طرح ذلیل اور رسوا اور نا کام اور نا مراد بنا کر دکھا دیا.بار ہا ایسے وقت آئے کہ جس طرح آج پاکستان میں احمدی گھروں کو جلایا جاتا ہے ایک دو گاؤں میں نہیں سارے ملک میں یہ احکامات جاری کئے گئے کہ تمام عیسائیوں کو ان کے گھر میں زندہ پھونک دو اور گھروں میں آگ لگاؤ لیکن ان گھروں میں بسنے والوں کو باہر نہ نکلنے دو.Diclaration ۲۶۴ یا ۲۶۸ء ہے.دونوں سالوں میں سے غالباً کوئی سال ہے اس میں ایسا ہی کوئی ایک حکم جاری کیا تھا لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی آگ مسیحیت کو جلا نہیں سکی ، کوئی مخالفت کی آگ مسیحیوں کے ایمان کو جلا کر خاکستر نہیں کر سکی.وہ ہر آگ سے کندن بن کر نکلتے چلے گئے اور محمدی اء

Page 646

خطبات طاہر جلد ۸ 641 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء مسیح نہیں بلکہ موسوی مسیح کے ماننے والوں نے کردار کا یہ عظیم الشان نمونہ دکھایا.آپ نے محمدی مسیح کے غلام اور تابع ہیں آپ نے تو اس کا دامن پکڑا ہے جو حضرت محمد کو ایک مسیح کے طور پر عطا ہوا ہے.آپ کا کردار تو ہر پہلو سے پرانی مسیحی قوم کے کردار سے زیادہ اعلی ، زیادہ شاندار اور زیادہ مضبوط اور زیادہ قوی ایمان پر قائم رہنا چاہئے ، زیادہ قوی بنیادوں پر قائم رہنا چاہیئے اس لئے میں آپ کے سامنے یہ باتیں دہرا رہا ہوں کہ پاکستان میں ابھی مظالم کا دور جاری ہے اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کب تک جاری رہے لیکن جب آپ اس عظیم تاریخ کی روشنی میں ان واقعات کا مشاہدہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کا حال خدا کے فضل سے گزشتہ بہت سی قوموں کی نسبت بہت بہتر ہے.تھوڑی آزمائشوں کے نتیجے میں خدا آپ پر بہت زیادہ فضل نازل فرما رہا ہے اور اتنی جلدی جلدی فضل نازل فرما رہا ہے کہ اس کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں.اب تو غیر بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ جو قیمت ہم پاکستان میں ادا کر رہے ہیں اس سے بہت زیادہ ہمیں اس کی جزامل رہی ہے.چنانچہ آج صبح سویڈن ٹیلی ویژن کی ایک نمائندہ خاتون جو انٹرویو کے لئے آئیں پاکستان کے حالات کے متعلق چند باتیں معلوم کرنے کے بعد انہوں نے کہا لیکن ایک بات تو ہے کہ جو کچھ آپ پارہے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو آپ کھورہے ہیں.کیا یہ درست نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں درست ہے اور اس سے زیادہ درست ہے جو تم جانتی ہو.اس طرح خدا کے فضلوں کی بارشیں ہم پر نازل ہوئی ہیں کہ ہم اس کا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتے.مخالفت کے ان چند سالوں میں دنیا میں جماعت نے ترقی کی اور جیسا وقار قائم کیا ہے اور جس طرح اس کو عظمت نصیب ہوئی ہے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج زمین کے کناروں تک عزت سے یاد کیا جارہا ہے اس کا عشر عشیر بھی پاکستان میں ہم نے نہیں لگایا.تب اس خاتون نے کہا کہ ہاں آپ بالکل سچ کہتے ہیں.مجھے جو یہ خوش نصیبی مل رہی ہے کہ میں آج انٹرویو کے لئے آئی ہوں یہ بھی پاکستان کی مخالفت کی ہی مرہون منت ہے.اگر پاکستان میں مخالفت نہ ہوتی تو مجھے کبھی وہم بھی نہیں آ سکتا کہ میں آپ کے آنے پر انٹرویو کے لئے حاضر ہوتی.یہ سب خدا کے پھل ہیں لیکن بڑی ذہین خاتون تھیں.انہوں نے کہا کہ ہاں اس کے ساتھ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ جو درد کی لہریں آپ کے دل میں

Page 647

خطبات طاہر جلد ۸ 642 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء اٹھتی ہیں وہ ان رحمتوں کو دیکھ کر کمزور نہیں پڑتیں بلکہ اور زیادہ نمایاں ہوتی چلی جاتی ہیں اور یہ درد تو جاری رہے.میں نے کہا کہ خدا تمہارا بھلا کرے تم بہت ہی ذہین خاتون ہو.تم نے بالکل دل کی بات جانچ کی ہے لیکن اسے یہ پتا نہیں کہ یہ درد کی لہریں ہی تو ہیں جو خدا کا فضل بن کر نازل ہوتی ہیں.یہ درد کی لہریں ہی تو ہیں جو د عا بن کر دل سے اُٹھتی ہیں اور فضلوں کی گھٹا بن کر ہم پر برستی ہیں.اس لئے اے احمدی! تو اپنے درد کی لہروں کی حفاظت کر اور اس سے مایوس نہ ہو.ہاں ان درد کی لہروں کو تو دعاؤں کے بخارات میں تبدیلی کرتا چلا جا.شہادت کی جتنی خبر میں ہمیں پاکستان سے موصول ہوتی ہیں جیسا کہ رات موصول ہوئی ایک بہت ہی بزرگ ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کوکل نوابشاہ میں ظالمانہ طور پر شہید کر دیا گیا جبکہ اس سے تھوڑا عرصہ پہلے ان کے چھوٹے بھائی کو بھی شہید کیا گیا تھاوہ بھی ڈاکٹر تھے اور دونوں کو ایک ہی طریق پر ایک ہی جتھے اور ایک ہی گروہ نے کروایا ہے، اپنی طرف سے مروایا اگر چہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی عطا کی.وہ ایسے سادہ دل، ایسے سادہ لوح ڈاکٹر تھے کہ جانتے تھے کہ ہر دفعہ دشمن یہی طریق اختیار کرتا ہے کہ ایک مریض کرنے والا ہے اس کو دیکھنے کے لئے چلو اور جب انسان باہر نکلتا ہے انسانی ہمدردی میں تو بعض قاتل جو چھپے ہوئے اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں وہ اچانک حملہ کر کے احمدی ڈاکٹروں کو شہید کر دیتے ہیں.یہ اچھی طرح جانتے تھے ان کی شہادت سے چند دن پہلے مجھے ان کا خط موصول ہوا.اس میں انہوں نے کہا کہ میرا بھائی شہید ہوا ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے نتیجے میں ڈرے نہیں کمزور نہیں پڑے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا جذبہ شہادت پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے.انہوں نے میرا ایک بھائی شہید کیا ہے مگر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری ساری اولا دبھی اس راہ میں شہید ہوتی چلی جائے تو مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں ہوگا اس لئے میرے متعلق آپ ہرگز فکر نہ کریں.کتنا سچا انسان تھا، کیسی اس کی دل کی گہرائی کی آواز بلند ہوئی.جب اس کی شہادت کی اطلاع مجھے ملی تو بے اختیار میری زبان پر قرآن کریم کی وہ آیت جاری ہوئی فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب: ۲۴) ان خدا کے بندوں میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی نیتوں کو پورا کر دکھایا.جو اپنے قول اور اپنی تمناؤں میں سچے نکلے لیکن صرف یہی نہیں ہیں اور بھی بہت سے ہیں جو اسی قسم کے نمونے دکھانے والے موجود ہیں.جب بھی ابتلاء آئیں گے وہ ان کو

Page 648

خطبات طاہر جلد ۸ 643 خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ء مغلوب نہیں کر سکیں گے بلکہ وہ ہر مخالف پر غالب آئیں گے.اپنی صداقت کے ذریعے ، اپنی سچائی کے ذریعے، اپنے نیک ارادوں کے ذریعہ، اپنی قربانیوں کے جذبے کے ذریعے.پس ان جذبوں کو زندہ رکھو، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں وہی نمونہ زندہ رکھنے کے لائق ہے جو ڈاکٹر عبدالقدوس نے دکھایا تھا کہ کوئی شہادت ہمیں مرعوب نہیں کر سکتی بلکہ شہادت کی تمناؤں کو اور زیادہ بڑھا جائے گی.ایک انسان کی جان لیں گے تو سارا خاندان جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.اس وفا کے ساتھ آپ احمدیت پر قائم رہیں میں آپ کو خدا کی قسم کھا کر یقین دلاتا ہوں کہ اتنے بےشمار خدا کے فضل آپ پر نازل ہوں گے کہ جواب تک ہوئے ہیں ان کو آپ بھول جائیں گے.کثرت کے ساتھ خدا آپ کو بڑھاتا چلا جائے گا اور آپ ہیں اور آپ ہی کی سچائی ہے جس نے دنیا پر غالب آنا ہے باقی ہر بات جھوٹی ہے، ہر بات قصہ ہے.یہی وہ حقیقت ہے، یہی وہ حقیقت ہے جسے ہم محمدی حقیقت کہہ سکتے ہیں، یہی وہ حقیقت ہے جسے ہم عیسوی حقیقت کہہ سکتے ہیں، یہی موسوی حقیقت تھی ، یہی ابراہیمی حقیقت تھی ، یہی حقیقت نوح کی حقیقت تھی.پس اگر نوح کی طرح آپ کے مقابل پر اتنی عظیم قو میں کھڑی ہوئیں جن پر بظاہر نوح کے پیغام کا غالب آنے کا کوئی سوال نہ رہا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ نوحی قومیں مٹا دی جائیں گی اور آپ کو زندہ رکھا جائے گا کیونکہ آپ پوری سچائیوں پر قائم ہیں جو ہمیشہ سے خدا کی طرف سے نازل ہوا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے ، آپ کے ایمان کی حفاظت فرمائے ، آپ کے دل کو اور آپ کے ایمان کو نئی جلا بخشتا چلا جائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا :- ابھی نماز جمعہ اور عصر کے بعد انشاء اللہ ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کی نماز جنازہ غائب بھی ہوگی.

Page 649

Page 650

خطبات طاہر جلد ۸ 645 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء رسول اکرم علیہ کا اصل جہاد نصیحت کا جہاد ہے حضرت مسیح موعود کی نفس امارہ کے خلاف جہاد کی عظیم تعلیم (خطبه جمعه فرموده ۶ اکتو بر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: خدا تعالیٰ جن بندوں کو مبعوث فرماتا ہے کہ وہ دنیا کی اصلاح کریں وہ اس اصلاح کے کام کو مختلف رنگ میں سرانجام دیتے ہیں اور دو پہلوؤں سے نمایاں طور پر ان کے اصلاحی کام دو مختلف جہتوں سے الگ الگ اور ممتاز دکھائی دیتے ہیں.دونوں ہی جہاد ہیں مگر جہاد کی دو الگ الگ قسمیں ہیں.ایک اصلاحی کام تو غیروں سے مخاطب ہو کر کیا جاتا ہے اور اسے مجادلہ بھی کہتے ہیں یعنی جب غیر اپنی قوت بازو سے خدا کے پیغام کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے اور طرح طرح کے حملے اس سچائی پر کرتا ہے تو جو جوابی کارروائی خدا کے مبعوث بندوں کی طرف سے کی جاتی ہے اسے ہم مجادلہ کہتے ہیں.غیروں کے ساتھ اور جہاد بھی اسی کا نام ہے.لیکن جہاد کی ایک قسم ہے عرف عام میں جہاد کو انہی معنوں میں محدود سمجھا گیا ہے.حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جہاد کی محض ایک قسم ہے.دوسرا اصلاح کا ذریعہ نیک نصیحتیں ہیں اس میں غیر بھی مخاطب ہوتے ہیں اور اپنے بھی اور زیادہ تر ان کا رخ اپنوں کی طرف ہوتا ہے.پس یہ دو نمایاں پہلو ہیں، دو الگ الگ دکھائی دینے والے میدان ہیں جن میں انبیاء اپنی پوری کوششیں صرف کر دیتے ہیں اور یہ دونوں ہی جہاد کی قسمیں ہیں.جہاں تک جہاد کی پہلی قسم کا تعلق ہے میں نے جو تاریخ انبیاء کا جائزہ لیا ہے تو بڑی نمایاں طور پر یہ حقیقت میرے سامنے آئی کہ انبیاء پر سب سے زیادہ حملے پہلی قسم کے جہاد کے میدان میں

Page 651

خطبات طاہر جلد ۸ 646 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء ہوتے ہیں یعنی مراد میری یہ نہیں کہ جب وہ مجاہدہ کر رہے ہوتے ہیں یا مجادلہ کر رہے ہوتے ہیں اس وقت دشمن ان پر حملے کرتا ہے.میری مراد یہ ہے کہ جب یہ دور ختم ہو جاتے ہیں تو بعد میں آنے والی نسلیں بھی دیر تک بلکہ نسلاً بعد نسل خدا کے ان مرسل بندوں کے جہاد پر حملے کرتی ہیں اور ان کے کردار کو ایک خشونت کا کردار بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں اور انہیں جبر کا مدعی بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں اور انہیں اس طرح دنیا کے سامنے ظاہر کرتی ہیں کہ جیسے وہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو اپنے زور بازو کے ساتھ اور قوت شمشیر سے دنیا میں غالب کرنے کی کوشش کرتے رہے.اسی قسم کا اعتراض ان کے اس مجادلے پر بھی اطلاق پاتا ہے جو مجادلہ زبان کا مجادلہ ہوتا ہے، کلام کا مجادلہ ہوتا ہے.اس میں منطق اور دلائل کی رو سے اور انبیاء گزشتہ کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے دشمن سے مقابلہ کیا جاتا ہے.یہ مجادلہ ایک پہلو سے مناظرہ بھی کہلاتا ہے اور کبھی یہ مباہلے کا بھی رنگ اختیار کر جاتا ہے.چنانچہ جب خدا کے مرسل بندے مناظروں اور مباہلوں میں مصروف ہوتے ہیں تو یہ اسی قسم کا جہاد ہے جیسے قتال کے میدان میں جہاد کیا جاتا ہے اور اس جہاد کا اس دوسرے جہاد سے ایک نمایاں فرق ہے جو خالصہ نصیحت کا جہاد ہے.آنحضرت ﷺ کی زندگی پر آپ غور کر کے دیکھیں.حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے بیک وقت یہ دونوں جہا دسر انجام دیئے اور سب سے زیادہ حملہ دشمن کی طرف سے آپ کے اس جہاد پر ہوا ہے جو غیروں کے ساتھ قتال کی صورت اختیار کر گیا اور دیکھنے والوں نے اور مؤرخین نے آپ کی ذات اقدس پر جتنے حملے کئے وہ اس جہاد کے میدان میں کئے ہیں اور دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ گویا آپ جبر کے قائل تھے، آپ زور شمشیر سے اپنے پیغام کو پھیلانے کے حق میں تھے اور جو کچھ بھی فتوحات آپ نے حاصل کیں وہ جبر کی قوت سے حاصل کی ہیں.یہی مضمون مناظرے اور مباہلے کے جہاد پر بھی اطلاق پاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اوپر بھی جتنے حملے ہوئے ہیں ان کی بھاری تعداد، ان کی بھاری اکثریت اس جہاد سے تعلق رکھتی ہے جو آپ نے مناظروں اور مباہلوں کی صورت میں غیروں سے کیا ہے.چنانچہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اوپر حملے کرنے والی کتب کا مطالعہ کر کے دیکھیں اکثر آپ کی ان تحریروں پر اعتراضات ملیں گے جو آپ نے اس مجاہدے کے دوران یعنی مناظرے کے دوران اور مباہلے کے دوران دشمن

Page 652

خطبات طاہر جلد ۸ 647 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء کے مقابل پر لکھیں اور وہاں آپ پر خشونت کا بختی کا سخت کلامی کا اور کئی جگہ نہایت بد اخلاقی کے الزام لگائے گئے ہیں.پس یہ دونوں قسم کے الزام دراصل ایک ہی نوعیت کے ہیں.وہ انبیاء جن کو خدا نے تلوار سے اپنے دفاع کی اجازت دی اس لئے کہ تلوار سے ان پر حملے ہورہے تھے انہوں نے جب تلوار سے جواب دیا تو بعد میں آنے والے دشمنان نے وہ پہلو نظر انداز کر دیا جسے دشمن نے اختیار کیا تھا اور اس میں پہل کی تھی.دشمن کی زیادتیاں سب بھلا دیں.تاریخ کا وہ حصہ جس میں سراسر دشمن ظلم کرتا ہوا اور تعدی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس پر اس طرح ہاتھ رکھ دیا گویا وہ تاریخ کا باب ہی کوئی نہیں اور صرف ان صفحات کو اُبھارا ہے جن پر انبیاء کی جوابی کارروائی درج ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جارہا ہے.آپ کے مناظروں کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے جب دشمن کی سختیوں کے جواب میں آپ سختی کرتے ہیں، جب دشمن کے حملوں کے جواب میں آپ بعض قسم کی حکمت عملی سے کام لیتے ہیں تو وہی دشمن پھر اس پہلو پر بھی حملہ آور ہوتا ہے اور اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کردار کو داغ دار کر کے دنیا کے سامنے دکھانے کی کوشش کرتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے دفاع میں جماعت احمد یہ جو عالمی جہاد کر رہی ہے اس کا بڑا حصہ اسی میدان سے تعلق رکھتا ہے.سلمان رشدی نے جو کچھ گند اُچھالا ہے یا اس سے پہلے دوسرے مستشرقین جو گند اچھالتے رہے ہیں ان میں نمایاں پہلو حضرت اقدس محمد مصطفی مے کے کردار پر جبر کے الزام سے تعلق رکھتا ہے اور کس طرح آپ نے خونریزی سے کام لیا اور کس طرح آپ نے دشمنوں کو اپنی قوت بازو سے ذلیل و رسوا کر دیا اور پھر فتوحات کے بعد بہت سی ان کے نزد یک انتقامی کارروائیاں کیں.بعض ان کے نزدیک ایسے غزوے بھی آپ کے ہوئے جن میں بظاہر دشمن کی طرف سے پہل نہیں تھی اور آپ نے دشمن کے مقابل پر بڑی شدت اختیار کی.غزوہ خیبر ہے ، اسی طرح مدینے میں یہود کے ایک قبیلے کو سزا دینے کا معاملہ ہے، یہ سارے معاملات وہ ہیں جو اسی میدان جہاد سے تعلق رکھتے ہیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور جس پر بعد ازاں دشمن مسلسل حملہ کرتا چلا جاتا ہے اور وہ جہاد ایک نئی شکل میں بعد میں جاری ہو جاتا ہے.انبیاء کی جماعتیں پھر اس دفاع میں مصروف ہوتی ہیں اور دشمن کے ہر حملے کو غلط اور بے معنی اور بے حقیقت دکھانے میں

Page 653

خطبات طاہر جلد ۸ 648 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء مصروف ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بڑی شدت کے ساتھ یہ جہاد کیا تھا اور آپ پر جو حملے ہوئے وہ بھی اسی جہاد پر ہوئے ہیں.اس مضمون کو آپ آنحضرت ﷺ کے جہاد کے تعلق سے ملا کر دیکھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک عجیب کردار نظر کے سامنے اُبھرتا ہے.آپ پر جتنے حملے ہوئے وہ اپنے آقا کے جہاد کے دفاع کے میدان میں ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ سخت حملے بد قسمتی سے خود مسلمان علماء نے آپ پر کئے.چنانچہ اس کی مثال ایک یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج دنیا میں حضرت مسیح کی ہتک کرنے والے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور عیسائی ممالک میں خصوصیت کے ساتھ ، بکثرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ اقتباسات پھیلائے جا رہے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کے قول کے مطابق حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام پر بڑے سخت حملے کئے ہیں اور آپ کو ایک نعوذ بالله من ذالک ایک بد کردار انسان کے طور پر ظاہر کیا ہے.یہ وہ میدان جہاد ہے جس کے متعلق کچھ روشنی ڈالنی ضروری ہے اور ایک فرق کر کے دکھانا ضروری ہے تا کہ جب بھی جماعت احمدیہ کو خصوصاً مغرب میں ایسے معاملات سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھ جائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کونسی حکمت عملی استعمال فرمائی، کیوں سختی کی اور اس سختی کی بنیاد کیا ہے؟ بنیاد وہی ہے جس کا میں ذکر کر چکا ہوں.عیسائی دنیا جب آنحضرت ﷺ کے جہاد پر حملہ آور ہوتی تھی اور اس کے علاوہ آپ کے ذاتی کردار پر حملہ آور ہوتی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے یہ بات برداشت کرنا کسی طرح ممکن نہیں تھی.ایسی شدید محبت تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات سے کہ آپ کی محبت میں آپ فنا تھے.اس کے مقابل پر کوئی دوسری چیز آپ کو دکھائی نہیں دیتی تھی.پس کیسے ممکن تھا کہ ایسے گندے اور شدید حملے دشمن کی طرف سے مسلسل کئے جاتے رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاموش رہیں.یہ وہ دور ہے جبکہ برطانوی حکومت کا تقریباً تمام دنیا پر راج تھا یعنی اس حد تک دنیا پر راج تھا کہ ان کا سورج دنیا پر غروب نہیں ہوتا تھا.دنیا کا کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ضرور تھا جس کے طول وعرض

Page 654

خطبات طاہر جلد ۸ 649 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء میں جہاں برطانیہ کی حکومت کا عمل دخل تھا اور ایسے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جہاد کا ذرا نقشہ ذہن میں جما کر دیکھیں.ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جو نہ صرف غلام ملک تھا بلکہ بالکل دنیا کے ممالک میں ایک بے طاقت اور بے حیثیت ملک بن چکا تھا.جہاں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ آئے دن پنجاب میں مثلاً وہ سکھ جو اس دور میں مطلق العنان چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا بیٹھے تھے اور آپس میں بھی لڑتے تھے اور مسلمانوں کے خلاف بھی نبرد آزما تھے وہ مسلمانوں پر اس قدر شدید مظالم کر رہے تھے کہ ان کے دفاع میں کوئی ان کی طرف سے لڑنے والا نہیں تھا، کوئی ان کو امن دینے والا نہیں تھا، کوئی ان کی بات سنے والا نہیں تھا اور نہایت ہی مفلوک الحال زندگی بسر کر رہے تھے.دوسری طرف ہندوستان میں انگریز نے چونکہ قبضہ کر لیا تھا اس لئے ہندوؤں کو مسلمانوں کے مقابل پر اُٹھا رہا تھا اور ہندو بھی بہتر حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے انگریزی تعلیم میں ترقی کر رہے تھے.انگریزوں کے ساتھ اس زمانے میں بکثرت ہاں سے ہاں ملاتے ہوئے ان کی حکومت میں ان کے مددگار بن رہے تھے.چنانچہ تعلیم کے تمام میدانوں میں مسلمان پیچھے رہ گئے اور ہندو آگے نکل گئے اور اس کے نتیجے میں انگریزوں نے اپنی حکومت چلانے کے لئے جو ہندوستانی کارندے استعمال کئے ان پر ہندوؤں کی بڑی بھاری اکثریت تھی.ایسی حالت میں آپ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اعلان کیا کہ مجھے خدا نے عیسائیت کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے اور حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے دفاع کے لئے مقرر فرمایا ہے.اب آپ دیکھئے کہ کیسی کس مپرسی کی حالت ہے.ہندوستان جیسے مغلوب ملک میں ایک ایسی قوم سے تعلق رکھنے والا شخص جو خو داس ملک کے اندر بھی مغلوب ہو چکی ہو اور پھر ایسے علاقے میں پیدا ہوا ہو جہاں چاروں طرف جبر کی ایسی حکومت ہو کہ وہاں مسلمانوں کو دم مارنے کی اجازت نہ ہو کام یہ سپرد ہو گیا کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتور حکومت کے مذہب کے خلاف تم نے جہاد کرنا ہے اور جہاد بھی ایسی قوم سے کرنا تھا جو آنحضرت ﷺ پر حملوں میں نہایت درجہ بے رحم اور ظالم تھی اور ایسے سفا کا نہ حملے تھے کہ کوئی مومن جو آنحضرت ﷺ سے معمولی محبت بھی رکھتا ہو وہ بھی ان حملوں کو برداشت نہیں کر سکتا لیکن پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دل جو ہمیشہ عشق میں پگلا ہوا ایک سمندر بنارہتا تھا آپ کے لئے اندازہ کریں کہ کتنی مشکل در پیش ہوگی.ایسے موقع پر آپ نے ایک ایسی عظیم الشان حکمت عملی سے کام لیا ہے کہ بعد میں آنے والا

Page 655

خطبات طاہر جلد ۸ 650 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء مؤرخ اس کو حیرت سے دیکھے گا اور میدان جنگ کے کارناموں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حکمت عملی کو اتنے عظیم الشان خراج تحسین پیش کئے جائیں گے آئندہ دنیا میں کہ مجادلے اور مناظرے کے میدان میں اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہوگی.اب دیکھئے سب سے پہلی حکمت عملی آپ نے یہ اختیار فرمائی کہ انگریز کی حکومت کو عیسائیت سے الگ اور ممتاز کر کے دکھا دیا.آپ نے فرمایا کہ جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے یہ دجل خالص ہے دھوکہ اور فساد ہے، ظلم ہی ظلم ہے، اندھا مذ ہب ہے ،اس میں کوئی جان نہیں، کوئی حقیقت نہیں، خدا کا کوئی بیٹا نہیں ہے، خدا ہر قسم کے عیب سے پاک ہے.اس قدرشان کے ساتھ اسلام کو عیسائیت کے مقابل پر پیش کیا اور اس قوت کے ساتھ عیسائیت کے دجل والے پہلو پہ حملے کئے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انگریزی حکومت کے متعلق فرمایا یہ امن کی علمبر دار ہے، یہ انصاف پر قائم ہے اور انصاف کو قائم کرنے والی حکومت ہے.اس نے مسلمانوں کو دوبارہ وہ حقوق عطا کر دیئے ہیں جو ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں سے چھینے گئے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انگریزوں کی جہاں بھی تعریف کی اس پہلو سے کی اور اس مجادلے میں جب آپ ان دونوں چیزوں کا موازنہ کرتے ہیں تو آپ حیران رہ جاتے ہیں یہ دیکھ کر کہ تعریف ان باتوں کی کی جو حق تھیں اور کہیں بھی چاپلوسی سے کام نہیں لیا.ملکہ وکٹوریہ کو اس زمانے میں دنیا میں یہ شہرت حاصل تھی اور انگلستان کے تمام حکمرانوں میں اسے ہمیشہ یہ امتیاز حاصل رہے گا کہ وہ ایک رحم دل، مشفق ملکہ تھی جو انصاف پر قائم تھی اور مظلوموں کی مدد کرنے والی تھی اور مظلوموں کے لئے ہمدردی رکھتی تھی اور مذہبی معاملے میں خصوصیت کے ساتھ اس نے انصاف کو قائم کیا اور مسلمانوں اور عیسائیوں سے معاملہ کرنے میں کوئی تفریق نہیں کی.یہ وہ پہلو ہیں جن کے متعلق دنیا کا ہر مؤرخ ہمیشہ یہی گواہی دیتا چلا جائے گا اور کوئی متعصب سے متعصب انسان بھی ملکہ وکٹوریہ پر یہ داغ نہیں لگا سکتا کہ اس نے انصاف کا دامن چھوڑا ہو یا اس نے مسلمانوں اور عیسائیوں میں اس پہلو سے تفریق کی ہو کہ اس کا مذہب اور ہے اور اس کا مذہب اور ہے.یہاں تک ملکہ وکٹوریہ پر بعض عیسائیوں نے یہ الزام تو لگائے کہ یہ مسلمان ہو رہی ہے

Page 656

خطبات طاہر جلد ۸ 651 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء اندراندر اور مولوی عبدالکریم نامی ایک شخص سے قرآن کریم پڑھتی ہے اور اسلامی تعلیم پڑھتی ہے اور اس کا دل بیچ میں سے مسلمان ہورہا ہے لیکن یہ الزام کبھی کسی نے نہیں لگایا کہ یہ مسلمانوں کی دشمن ہے اور بطور خاص عیسائیت کے مقابل پر مسلمانوں کو کچلنا چاہتی ہے.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ تعریف کرنا کہ یہ حکومت امن کی علمبردار ہے، انصاف کی علمبر دار ہے اس نے مسلمانوں کو وہ حقوق دے دیئے کہ اس حکومت کے سائے کے نیچے رہتے ہوئے پھر بھی یہ اسلام کا دفاع کرے.اس پہلو سے آپ نے ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کو خدا کا سایہ قرار دیا اور امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کا سایہ انہیں باتوں سے تو پہچانا جاتا ہے.بدامنی تو خدا کا سایہ نہیں ہوسکتی، ظلم اور تعدی تو خدا کا سایہ نہیں کہلا سکتی، نا انصاف کو کون خدا کا سایہ کہتا ہے؟ خدا کے سائے اُس کی صفات سے پہچانے جاتے ہیں اور خدا کی صفات جس انسان میں بھی ظاہر ہوں وہ خدا کے سائے کے طور پر ہی ظاہر ہوتی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں جہاں ملکہ وکٹوریہ کو خدا کا سایہ رکھنے والی ملکہ قرار دیا وہاں یہ تشریح فرمائی کہ کیوں یہ خدا کا سایہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ انصاف کی علمبردار ہے، یہ مسلمانوں سے حسن سلوک کرنے والی ہے، اپنے ملک میں مسلمانوں کو عیسائیت کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت دینے والی ہے اور ہر طرح سے غریب پروری کرنے والی اور مظلوموں کی ہمدرد ہے.یہی صفات ہیں جو خدا کا سایہ کہلاتی ہیں اور بھی خدا کی بہت سی سائے ہیں لیکن اس پہلو سے یقین ملکہ وکٹوریہ کی ذات میں بعض اعلیٰ صفات تھیں.جب وہ اس سلطنت میں جاری ہوئیں تو خدا کے سائے کے طور پر جاری تھیں.مسلمان علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو حملے کئے ہیں وہ اسی جگہ کئے ہیں، انہی امور پر کئے ہیں جہاں آپ اسلام کے حق میں جہاد کر رہے تھے اور آنحضرت ﷺ کا دفاع کر رہے تھے.اس مضمون میں آگے بڑھ کر آپ دیکھیں کہ اس کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مسلسل عیسائیت سے نبرد آزمار ہے اور عیسائیت کے متعلق کسی ایک جگہ بھی آپ نے یہ نہیں کہا کہ عیسائی قوم کی موجودہ حالت خدا کا سایہ ہے بلکہ اسے دجل کہا.فرمایا حضرت رسول اکرم نے جس دجال کی پیش خبریاں کی تھیں وہ اسی عیسائیت کے متعلق پیشگوئیاں تھیں جو آج عیسائیت کے عروج کی صورت میں دنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں.پس کیسی عظیم الشان حکمت عملی تھی کہ

Page 657

خطبات طاہر جلد ۸ 652 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء ایک ایسی حکومت کے سائے تلے جس کا ایک خاص مذہب تھا اس کو ناراض کئے بغیر اس کے مذہب پر شدید حملے کئے اور اسلام کا دفاع اس کے سائے میں اس طرح کیا کہ اس کو کوئی عذر نہ دیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسلام کے دفاع کی راہ میں حائل ہو سکے.یہ عظیم الشان Strategy ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ نمایاں اور روشن ہوتی چلی جائے گی.اب اسی پہلو سے آنحضرت کی غیرت کے تقاضے کے طور پر آپ نے حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر حملہ نہیں کیا لیکن اس تصور پر ضرور حملہ کیا ہے جس تصور کی خود عیسائی عبادت کرتے تھے اور یہ بھی ایک ایسی عظیم الشان اور باریک فرق ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بہت سے مسلمان علماء خود بھی مشتعل ہوئے اور آج عیسائی دنیا کو احمدیت کے خلاف مشتعل کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مسیح کے تصور کو دوحصوں میں تقسیم کیا.ایک وہ تصور جو قرآن کریم پیش فرماتا ہے اور اس کی اتنی تعریف کی کہ اس سے زیادہ تعریف آپ کے لئے حقائق کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہی نہیں تھی اور اس پہلو سے آپ نے اپنے آپ کو مثیل مسیح قرار دیا اور مسیحیت کے بچے تصور کی ایسی عظیم الشان آپ نے تفسیر فرمائی ہے کہ جب آپ اس کو پڑھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.پہلی دفعہ مسیحیت کی عظمت کا تصور انسان کے دل پر قائم ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ مسیحیت کی روح ہے جو نہ صرف ایک دفعہ ظاہر ہوئی بلکہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں جو رحمت عالم جاری ہوئی ہے اس میں بھی مسیحیت کی روح کی دعاؤں اور التجاؤں کا دخل تھا.پھر آپ نے فرمایا کہ میں بھی اسی روح کی دعاؤں اور التجاؤں کا نتیجہ ہوں.پھر آپ نے فرمایا کہ آئندہ بھی یہ روح اپنے جلوے دکھاتی رہے گی اور وہ مسیح جس کو قرآن کریم نے بیان فرمایا اس کا ایسا ادب آپ کی تحریروں میں پایا جاتا ہے ایسی اس سے محبت پائی جاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک ایسا گہرا فطری اور روحانی تعلق آپ کی ذات کو تھا کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا.اس پہلو سے آپ نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا.پس وہ شخص جو سیخ کا ایسا احترام دل میں رکھتا ہو اور مسیحیت کی معرفت ایسی رکھتا ہو کہ اس سے پہلے کبھی مسیحیت کی حقیقت پر کسی نے ایسی روشنی نہ ڈالی ہو.جو شخص یہ کہتا ہو کہ میں اس کا مثیل ہوں وہ اس کی ذات پر گندے حملے کیسے کر سکتا ہے.ان بیوقوفوں کو یہ بات سمجھ نہ آئی.آپ نے جس بات پر حملہ کیا وہ بالکل اور چیز تھی.جب حضرت

Page 658

خطبات طاہر جلد ۸ 653 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء رسول اکرم ﷺ کی ذات پر عیسائی پادری حملے کرتے تھے اور نہایت گندے حملے کرتے اور نہایت گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے تھے تو اپنے دکھ کو دور کرنے کے لئے آپ نے یہ حکمت عملی استعمال فرمائی.آپ نے فرمایا وہ مسیح جو قرآن کا مسیح ہے جو حقیقت کا مسیح ہے وہ ان تمام عیبوں سے پاک تھا جو تم اس کے متعلق بیان کرتے ہو مگر تمہاری بائیبل تمہارے اپنے بیانات ،تمہارے اپنے مؤرخین اس مسیح کے اندر یہ یہ بد اخلاقیاں پاتے ہیں اور ان کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک درست نہیں ہے.جن کا قرآن کریم نے ذکر نہیں فرمایا لیکن تمہاری اپنی کتابیں اس یسوع کو جس کی تم پوجا کرتے ہو، جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں کیونکہ خدا کا کوئی بیٹا نہیں تھا.اس فرضی یسوع کو جس کی تم پوجا کرتے ہو خود اپنی تحریروں میں جس طرح دکھا رہے ہو وہ تو ایک عام انسان کے اخلاق میں بھی اگر پائی جائیں وہ باتیں تو وہ اخلاق مجروح ہو جاتے ہیں.ایک انسان کو حق ہو جاتا ہے کہ ان پر طعن کرے تو اس تصویر کو کیوں تم نہیں سمجھتے جو تم نے خود مسیح کی بنارکھی ہے.یہ تصویر خود داغ دار ہے اور اس تصویر کے ہوتے ہوئے تمہیں کیا حق ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں حملہ آور ہوں.آپ کی شان میں زبان گستاخی دراز کرو.یہ وہ مضمون تھا جس کی بہت بڑی تفصیل ہے لیکن میں نے خلاصہ آپ کے سامنے رکھا ہے کہ یہ حکمت عملی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کہ آپ نے مسیح کی ذات پر حملہ نہیں کیا.یسوع جس کو وہ خدا کا بیٹا کہتے تھے جس کا کوئی وجود نہیں تھا اس کے اس پہلو پر اس کی شخصیت کے اس پہلو پر حملہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک ایک فرضی پہلو تھا لیکن مد مقابل کے ایمان میں وہ ایک حقیقت تھی.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمہارے اپنے عقائد کے مطابق ، اپنے ایمان کے مطابق جس شخص کی تم عبادت کرتے ہو وہ ان نقائص سے پاک نہیں تھا اور اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس پر حملہ کرنے کی جرات کرتے ہو.یہ وہ مضمون ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں پھر مسلمان علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر حملے کئے.اب آپ اکثر کتابیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شدید گالیاں دی جاتی ہیں آپ کی ذات پر گند اچھالا جاتا ہے پڑھ کر دیکھیں آج کل بھی ایسا لٹریچر کثرت سے پاکستان میں بھی تقسیم ہو رہا ہے اور مغربی دنیا میں بھی تقسیم ہو رہا ہے آپ یہ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سختی فرمائی ہے عیسائیوں کے مقابل پر وہاں ہمیشہ آنحضرت علی کی

Page 659

خطبات طاہر جلد ۸ 654 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء ذات اقدس کے دفاع میں سختی فرمائی ہے اور یہ ظالم اس پر بھی حملہ کرتے ہیں.اسی طرح آپ کا جو مناظرے کا کلام غیر احمدی علماء سے ہے اس میں سے بہت سے اقتباسات پیش کر کے لوگوں کو آپ کے متعلق بدظن کیا جاتا ہے کہ آپ نے غلیظ زبان استعمال کی، آپ نے گالیاں دیں، آپ نے علماء کی شان میں یہ یہ گستاخیاں کیں ان کے قول کے مطابق وہ ساری آپ تحریرات پڑھ کے دیکھیں تو یہ اس قسم کا حملہ دکھائی دے گا جیسے آج مغربی دنیا آنحضرت کے قتال والے جہاد پر کرتی ہے کہ دیکھو انہوں نے جہاد میں ایسی ایسی سختیاں کیں.وہ تیرہ سال مکتے کی مظلومیت بھول جاتے ہیں جن میں مسلسل یکطرفہ حملے ہوتے چلے گئے اور اتنے شدید مظالم ہوئے کہ آج بھی ان مظالم کو پڑھتے ہوئے انسان کا دل خون ہو جاتا ہے.جن لوگوں کے حال کو چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی پڑھتے ہوئے دل کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جنہوں نے وہ تاریخ بنائی تھی، جنہوں نے وہ مظلومیت کی داستانیں اپنے خون سے تحریر کی تھیں، جوان ظلم کے تجربوں میں سے ہو کر گزرے تھے.اس سارے زمانے کو بھلا کر جب بالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دفاع کی اجازت دی اس وقت کے دفاع پر یہ لوگ پھر حملے کرنے لگ جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے بعد جو مسلسل سلوک آپ سے آپ کے منکروں نے کیا اور جس قسم کے ظالمانہ حملے آپ کی ذات پر کئے گئے وہ ایک لمبی تاریخ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب مثال کے طور پر غیر احمدی علماء کے پیچھے مکذبین اور مکفرین کے پیچھے احمدیوں کو نماز پڑھنے سے منع فرمایا وہاں آپ نے مختصراً اس کا ذکر فرمایا ہے.اتنے سال ہو گئے ہیں تیرہ یا جتنے سال بھی گزرے مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں لیکن ایک لمبی مدت تھی مسلسل یہ لوگ میری ذات پر حملے کرتے چلے جاتے ہیں اور میری تکفیر کرتے چلے جاتے ہیں اور میں صبر سے اس کو برداشت کرتا آیا ہوں لیکن میرا ایک مقام ہے جو میں نے اپنا نہیں بنایا میرے خدا نے بنایا ہے اور وہ وقت کے امام کا مقام ہے.وقت کے امام پر حملہ کرتے چلے جانا اور مسلسل کلیۂ شرم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہوئے اس کو اپنے مظالم کا نشانہ بناتے چلے جانا ایک لمبے عرصے تک میں نے برداشت کیا لیکن اب میں خدا کی ہدایت کے تابع یہ اعلان کرتا ہوں.ان مفکرین اور مکذبین کے پیچھے جنہوں نے خدا کے بنائے ہوئے امام کا انکار کر دیا ہے تمہاری نمازیں

Page 660

خطبات طاہر جلد ۸ 655 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء اب جائز نہیں رہیں.کیونکہ یہ لوگ دنیا کے بنائے ہوئے امام ہیں اور مجھے خدا نے امام بنایا ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کے بنائے ہوئے امام ہوں وہ خدا کے بنائے ہوئے امام کا انکار کرنے کی تو جرات کرتے ہوں لیکن وہ جو خدا کے بنائے ہوئے امام کو تسلیم کر چکے ہوں اس پر ایمان لے آئے ہوں وہ ان کے پیچھے پھر بھی اپنی نمازیں پڑھیں اور ان کو اپنا امام تسلیم کرتے چلے جائیں.یہ موازانہ آپ نے کر کے دکھایا.آپ نے فرمایا کہ یہ عقل کے خلاف بات ہے، غیرت کے خلاف بات ہے، ایمانی تقاضوں کے خلاف بات ہے کہ دنیا کے امام تو خدا کے بنائے ہوئے امام پر حملے کریں اور اس کو ر ڈ کر دیں اور اس امام کے ماننے والے ان کو ر ڈ کرنے کی جرأت نہ کرسکیں اور ان کو اپنا امام تسلیم کرنے سے انکار نہ کر سکیں.یہ ہے اصل مضمون جس کو سمجھنے کے بعد نمازیں نہ پڑھنے کا مسئلہ اور بعض دیگر اسی قسم کے مسائل سمجھ میں آجاتے ہیں.اب اس سارے پس منظر کو ایک طرف رکھتے ہوئے بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ دور جو جہاد کا تھا وہ تو گزر گیا لیکن اب ایک اور شروع ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس جہاد اور اس جوابی کاروائی پر حملہ شروع ہو گیا.پس انبیاء جب بھی غیروں سے جہاد کرتے ہیں ان کے جہاد پر بھی حملے ہوا کرتے ہیں اور خدا پھر ایسے بندے پیدا کرتا چلا جاتا ہے جو ان حملوں کے جواب دیتے ہیں.آج جماعت احمدیہ کے اوپر دوذمہ داریاں ہیں.اولین ذمہ داری یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کے جہاد پر جو حملے کئے گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متابعت میں مسلسل ان حملوں کے جواب دینے پر ہم مستعد رہیں.جہاں دنیا میں کوئی سلمان رشدی پیدا ہو وہاں ہزاروں مسیح موعود کے غلام ایسے کھڑے ہو جائیں جو اس کے حملوں کو رد کریں اور اسلام کے دفاع میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دفاع میں اپنی تمام قوتوں کو بروئے کار لے آئیں اور کلمیڈ ان حملوں کو کچل کے اور نا کام اور نا مراد بنا کر دکھا دیں.دوسرا پہلو ہماری ذمہ داری کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقا کی محبت میں جو دفاعی کارروائیاں کیں اور پھر ان کارروائیوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ان کے دفاع میں بھی ہم مستعد ہو جائیں اور ہمیشہ جس طرح کہ قرآن کریم فرماتا ہے سرحدوں پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو.جہاں حملہ ہو وہیں اس حملے کا جواب دیں اور آج بڑی شدت کے ساتھ ان دونوں

Page 661

خطبات طاہر جلد ۸ 656 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء پہلوؤں سے احمدیوں کو دفاع کی ضرورت ہے اور دفاع پر تیار ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے خوب غور سے دیکھیں کہ وہ حکمت عملی کیا تھی جس کے تابع آپ نے غیروں سے مقابلے کئے ہیں اور کیوں ان پر سختیاں کی اور اس سختی کے اندر کون سی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اس کے ساتھ اس لٹریچر کا بھی مطالعہ کریں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں ذکر ملتا ہے یا اس سے آشنا ضرور ہوں جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی قدر سختی سے کام لیا.اسی طرح جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اسلام کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنا دفاع عظیم الشان کر دیا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا وہ حصہ پڑھ لیں تو کوئی غیر اسلامی طاقت آپ پر غالب نہیں آ سکتی.ایسا خزانہ ہمارے سپرد کر دیا ہے آپ نے علموں کا کہ جس علمی خزانے کے بعد آپ کو کسی اور خزانے کی تلاش نہیں رہے گی اسی پر آپ عبور حاصل کر لیں تو آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام کے دفاع کے لئے ایک عظیم الشان عالم بن کر ابھریں گے.آپ کی شخصیت میں ایک حیرت انگیز علمی جلا پیدا ہو جائے گی.پس وہ پہلو بھی پیش نظر رکھیں اور احمدیت کے دفاع کا یہ پہلو بھی پیش نظر رکھیں.ان بار یک باتوں کو سمجھیں الحرب خدعة ( بخاری کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر: ۳۰۳۰) آنحضرت کا ارشاد ہے.اس ارشاد کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حد تک خدعہ سے کام لیا ہے جس خدعہ کی اسلام اجازت بلکہ تعلیم دیتا ہے اور وہاں پہنچ کر بعض دفعہ احمدی نادان بھی سمجھ نہیں سکتے کہ کیا بات ہے؟ یہ بہت ہوشیاری سے جواب دیا جا رہا ہے.حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جب غیروں کے ساتھ شدید قسم کا مجادلہ ہورہا ہو تو آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق مومن کے لئے نہ صرف اجازت ہے مومن کو بلکہ اس کے لئے فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے خدعہ سے کام لے.آنحضرت علے کے اس ارشاد پر بھی حملے ہوئے.اس کثرت سے غیروں نے اس بات کو اچھالا کہ آپ جب پرانے متکلمین کا کلام پڑھتے ہیں تو وہاں یہ بات خاص طور پر آپ کو زیر بحث دکھائی دے گی غیر حملہ کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو دھوکہ دہی کی اجازت دی

Page 662

خطبات طاہر جلد ۸ 657 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء ج اور یہ فرما دیا کہ لڑائی میں دھو کے اور فریب سے کام لو ،لڑائی میں ایسے ہی ہوا کرتا ہے.بعض نادانوں نے تو یہ مجھ لیا کہ واقعہ یہی تعلیم تھی اور بعض علماء نے اس کا دفاع فرمایا اور کہا کہ ہرگز ی تعلیم نہیں تھی اس کا اور مطلب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی مناظروں میں جس حکمت عملی سے کام لیا ہے وہ یہی خدعہ ہے مگر اس خدعہ کو سمجھنا چاہئے.آنحضرت ﷺ کوئی بھی ایسا کلام نہیں فرماتے تھے جس کی بنیاد قرآن میں نہ ہو.چنانچہ قرآن کریم نے اس لفظ خدعہ کی تفصیل فرما دی ہے.اور اسی طرف آنحضرت ﷺ کا اشارہ تھا جسے نہ سمجھنے کے نتیجے میں غیروں نے بھی ٹھو کر کھائی اور اپنوں نے بھی غلطی کی یعنی بعض اپنوں نے بھی.قرآن کریم فرماتا ہے يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمُ (البقره: ١٠ ) وه اللہ تعالیٰ سے خدعہ کرتے ہیں اور يُخْدِعُونَ اللہ کا مطلب ہے اللہ بھی ان سے خدعہ کرتا ہے.یقاتلون میں جس طرح ایک فریق نہیں ہوا کرتا بلکہ دوفریق ہوتے ہیں اور دونوں پر قتل کا عمل صادق آتا ہے.اسی طرح لفظ خدعہ کا تعلق یہاں صرف غیروں سے نہیں بنتا بلکہ خدا سے بھی بن جاتا ہے.يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وہ مخادع کر رہے ہیں یعنی دونوں طرف سے خدعہ ہو رہا ہے.منافقین خدا سے بھی خدعہ کر رہے ہیں اور مومنوں سے بھی خدعہ کر رہے ہیں اسی طرح خدا منافقین سے بھی خدعہ کر رہا ہے اور مومن بھی منافقین سے خدعہ کر رہے ہیں.اب یہ وہ خدعہ ہے جس کا ذکر آنحضرت ﷺ نے فرمایا الحرب خدعة جب لڑائی ہوتی ہے تو پھر خدعہ سے کام لینا پڑتا ہے.تو کیا خدا فریب کر رہا ہوتا ہے، خدا جھوٹ بول رہا ہوتا ہے؟ نعوذ باللہ من ذالک.خدا مکر سے کام لے رہا ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں.اس خدعہ کو سمجھنا چاہئے.وہ خدعہ جو خدا کرتا ہے وہ اوّل تو خدعہ کے جواب میں ہوتا ہے یعنی فریب کے جواب میں اور دھو کے کے جواب میں.وہ مومن اسی طرح کا جو خدعہ کرتے ہیں وہ بھی خدا کے اس خدعہ کے تابع ایک جوابی کارروائی کرتے ہیں اور یہ جوابی کارروائی جھوٹ اور فریب سے پاک ہوتی ہے لیکن دشمن کے کو اس پر الٹادینا اس جوابی کارروائی کی روح ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے جو منافقین سے خدعہ کیا اس کی تشریح قرآن کریم میں بہت سی جگہ پر ملتی ہے.مطلب یہ ہے اس کا یہاں بھی فرما ديا في قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا یہ خدعہ تھا.ان کے دل میں خدعه لا ج

Page 663

خطبات طاہر جلد ۸ 658 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء مرض تھا وہ سمجھ نہیں رہے تھے اس مرض کو اور خدا نے ان کو اپنے دھو کے میں اس طرح مبتلا کر دیا کہ ان کی لاعلمی میں وہ مرض بڑھتا چلا گیا اور جب وہ بڑھ کر غالب آ گیا ان کی ذات پر تب ان کو پتہ لگا کہ وہ تو بالکل مجبور ہو چکے ہیں.یہ خدا کا خدعہ ہے جس میں دشمن کی طاقت کو دشمن کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے.باہر سے فریب کاری نہیں کی جاتی دشمن کو اپنی ہی حالت میں ، اپنی غفلت میں مبتلا رہنے دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی بیماری خود اس پر غالب آ جائے.اسی قسم کے خدعہ کی مثال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایک روایت سے ملتی ہے.ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مصافحہ کیا دو ہاتھ سے جس طرح ہمارے ہاں ابھی بھی رواج ہے دو ہاتھ سے اور ادب کے اور احترام کے اظہار کے طور پر مصافحہ کیا جاتا ہے اور سر بھی جھکایا.اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے دو ہاتھ سے مصافحہ کیا اسی طرح ادب اور احترام کے رنگ میں اس کے سامنے تھوڑ اسا سر بھی جھکایا.یعنی سر جھکانے کا ذکر تو نہیں ملتا مگر یہ ذکر ملتا ہے کہ اسی طرح بالکل بعینہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے سلوک فرمایا.ایک شخص جو د یکھ رہا تھا اور وہ دوسرے شخص کا حال جانتا تھا اس نے حضرت ابو بکڑ سے مخاطب ہوکر کہا اس کے جانے کے بعد کہ آپ نہیں جانتے کہ یہ تو بڑا سخت منافق شخص تھا.یہ دھو کے سے آپ سے اس طرح کر رہا تھا.آپ نے فرمایا میں جانتا تھا جس طرح اس نے مجھ سے کیا میں نے بھی تو اسی طرح اس سے کیا.یعنی آپ نے اس کو دھوکہ نہیں دیا آپ نے اس کو اپنے دھو کے میں مبتلا کر دیا.اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق پر یہ اثر پڑے کہ میں بہت ہی نیک اور مخلص ہوں اور میں دل میں ان کے خلاف کوئی بغض نہیں رکھتا.آپ نے بالکل اسی قسم کی کارروائی کو دہرایا ہے جو اپنی طرف سے تو کوئی دھوکا نہیں بلکہ اخلاق کا تقاضا تھا کہ جس طرح کوئی شخص ملے اسی طرح اس سے ملو لیکن جواثر وہ آپ کی ذات پر پیدا کرنا چاہتا تھا اس کی ذات پر قائم ہوا اور وہ دھوکہ نہیں دے سکا کیونکہ حضرت ابوبکر اس کے دل کا حال جانتے تھے اور اگر مبتلا ہوا تو خود اپنے دھوکے میں مبتلا ہو گیا.یہ ہے مومنوں کا خدعہ.رض پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جہاں مناظروں میں خدعہ سے کام لیا ہے وہاں اسلامی خدعہ سے کام لیا ہے.اس خدعہ سے کام لیا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے اور جس سے اللہ کام لیتا ہے اور اس کے بندے کام لیتے ہیں.اس بات کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں

Page 664

خطبات طاہر جلد ۸ 659 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء بعض دفعہ بعض احمدی بھی ان تحریروں کو پڑھتے ہیں اور پھر بعد میں پوچھتے ہیں کہ اچھا یہ کیا ہوا، یہ کیا ہوا ؟ دشمن نے جو چالیں چلیں ان چالوں کو بغیر قریب کے، بغیر دھوکے کے دشمن پر الٹادینا یہی وہ اسلامی خدعہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.اور آج کل اس کی ایک نئی شکل عام جسمانی جدوجہد میں بھی ہمیں نظر آنی شروع ہوئی ہے.وہ غالبا ہے تو پرانی لیکن آجکل دنیا میں بہت زیادہ معروف ہو رہی ہے وہ مارشل آرٹس کہلاتی ہے.چین اور جاپان وغیرہ میں، کوریا اور جاپان وغیرہ میں خصوصیت سے مارشل آرٹس پر بڑا زوردیا جارہا ہے اور مارشل آرٹس اسلامی اصطلاح میں اس خدعہ کو کہ سکتے ہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے.یعنی دشمن کے فریب ، دشمن کے حملے، دشمن کی طاقت کو اس کے اوپر الٹا دو.خواہ تم کمزور بھی ہو اس صورت میں تم دشمن پر غالب آ سکتے ہو.چنانچہ جتنا فن آپ کرائے وغیرہ میں مشاہدہ کرتے ہیں اس کی بنیاد اسی بات پر ہے کہ دشمن کی طاقت کو اس طرح اس پر الٹاؤ کہ جس طرح آواز کی بازگشت آتی ہے اور باہر سے آتی ہوئی اپنے کانوں کو سنائی دیتی ہے حالانکہ وہ اپنے گلے سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے اسی طرح دشمن کی طاقت کی بازگشت دشمن کو مغلوب کر دے.یہ وہ فن ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے وقت میں ایک نہ صرف کمال دکھایا بلکہ حیرت انگیز معجزے دکھائے.اس طرح دشمن کو اس کے اپنے مکر وفریب کے ذریعے مغلوب کیا ہے کہ فَبُهِتَ الَّذِى كَفَرَ (البقرہ:۲۵۹) کے نظارے سامنے آتے ہیں.یہ ایک پہلو ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو پوری طرح ہماری جماعت کے پیش نظر رہنا چاہئے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے مطالعہ کے وقت آپ کی ذات سے پوری طرح سے واقف نہیں ہو سکتے.دوسرا پہلو ہے بغیر اس مقابلے کے آپ کی اپنی اندرونی شخصیت کو سمجھنا.یہ سب سے زیادہ ضروری ہے.یہ جو دوسرا پہلو ہے یہ پاک نصیحت والے مجادلے کے ذریعے دکھائی دیتا ہے.میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا انبیاء دوطرح سے اپنے مقاصد کو ادا کرتے ہیں.ایک غیروں سے مقابلے کی شکل میں اور اس مقابلے کے وقت غیروں کو پھر کئی قسم کے حملوں کا موقع مل جاتا ہے.کیونکہ لڑائی لڑائی ہے اس میں مقابلے بھی ہوتے ہیں ، اس میں سختیاں بھی ہوتی ہیں ، اس میں خــدعــہ سے بھی کام لینا پڑتا ہے.جس قسم کی میں نے تعریف کی ہے اس کی روشنی میں.اس طرح پھر غیر دوبارہ حملے کرتے ہیں.

Page 665

خطبات طاہر جلد ۸ 660 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء ایک انبیاء اور مرسلین کی شخصیت یہ ہے جو غیروں سے مقابلہ نہیں کر رہی ہوتی بلکہ محض خدا کی ذات کے حسن کو اپنی ذات میں ظاہر کر رہی ہوتی ہے اور منعکس کر رہی ہوتی ہے.اس کے کلام سے، اس کی گفتار سے ،اس کے کردار سے خدا کے جمال کی شان دکھائی دیتی ہے.پس پہلا حصہ جلال سے تعلق رکھتا ہے.انبیاء کا دوسرا پہلو جمال سے تعلق رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل شخصیت کو اگر آپ نے سمجھنا ہے تو دشمن کے مقابل پر لڑتے ہوئے نہ دیکھیں بلکہ نیک نصیحت کے ذریعے وہ پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے دیکھیں جو انبیاء کی آمد کا اولین مقصد ہوا کرتا ہے.وہ تمام تحریرات جیسی ملفوظات میں ہمیں مالتی ہیں یا آپ کی کتب میں قرآن کریم کے مضامین پر روشنی پڑتی ہے.آنحضرت علﷺ کی احادیث کی معرفت کا بیان ہے یا خدا تعالیٰ کی ذات اور حضرت رسول اکرم عمل اللہ کی ذات سے محبت کا بیان ہے یا عموماً سادہ الفاظ میں مگر بڑے طاقت ور الفاظ میں پاک نصیحتیں ہیں.ان کو آپ پڑھیں تو ایک بالکل نئی شخصیت آپ کے سامنے اُبھرتی ہے.وہ اصل انبیاء کی شخصیت ہوا کرتی ہے.مقابلے کے وقت کی شخصیت میں دشمن کے ہتھیاروں کا استعمال اور دشمن کی طرز عمل کسی حد تک مقابلے میں منعکس ہونا ضروری ہوا کرتی ہے اور اس کے ذریعے اصلی بنیادی کردار صحیح سمجھ میں نہیں آ سکتا.مثلاً ایک جگہ اگر لڑائی میں ایک دشمن یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دے یا جراثیمی ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دے.ایسی حکومت جو بنیادی طور پر اس بات کی قائل نہ بھی ہو اس کا اخلاقی معیار اس بات سے بلند ہو کہ کیمیاوی ہتھیار استعمال کرے یا جراثیمی ہتھیار استعمال کرے وہ مجبور ہو گی اپنے دفاع پر.پس دشمن کے ہتھیار استعمال کرنے کی بعض دفعہ انبیاء کوضرورت پیش آتی ہے اور قرآن کریم اس قسم کے دفاع کا حق دیتا ہے.ایسی صورت میں ان کی اپنی شخصیت ظاہر نہیں ہورہی ہوتی بلکہ دشمن کی شخصیت کے بعض پہلو مجبورا منعکس ہو رہے ہوتے ہیں.دفاعی جنگوں میں ہر جگہ آپ کو یہی چیز دکھائی دے گی لیکن اس کے باوجود ایک فرق ہوتا ہے وہ تو بڑا نمایاں فرق ہے لیکن بعض کمزور انسان اس فرق کو نہیں دیکھ سکتے اس لئے اس کی وضاحت کی ضرورت پیش آتی ہے.مگر بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اور تمام دیگر انبیاء کی ایک دوسری شخصیت بھی ہے جو خدا کی صفات کو اپنی ذات میں ظاہر کر کے خدا کی صفات کو اپنی ذات میں سموکر اس

Page 666

خطبات طاہر جلد ۸ 661 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء کی جلوہ گری کی شخصیت ہے.وہ آپ انبیاء کے کلام میں دکھائی دیتی ہے، ان کے کردار میں دکھائی دیتی ہے اس میں ملائمت پائی جاتی ہے، اس میں نرمی پائی جاتی ہے، اس میں بادصبا کا سا رنگ ہے جو پھول کھلاتی ہے، جو گلستانوں پہ بہار لے آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام کو آپ پڑھیں تو بے اختیار دل آپ کی محبت میں اچھلنے لگتا ہے اور بے اختیار انسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حسن و جمال پر فریفتہ ہونے لگتا ہے.اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام کا مطالعہ بھی بہت ضروری ہے اور نئی نسلوں کو خصوصیت سے اس کلام سے روشناس کروانا ضروری ہے.ورنہ یہ پہلا گر نظر انداز ہو گیا تو آپ صحیح معنوں میں اسلام کے حسن کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے اہل نہیں بن سکیں گے.مجادلہ تو آپ سیکھ سکتے ہیں ان تحریروں سے جو مناظراتی تحریریں ہیں لیکن دلوں کو فتح کرنے والی اور تحریر میں ہیں اور وہ یہی تحریریں ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں جہاں پاک، نیک نصیحت ہے.جہاں فطرت اپنے طبعی حسن کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق کا پیوند اتنا نمایاں طور پر دکھائی دینے لگتا ہے کہ کوئی شخص اگر وہ تعصب سے اندھا نہ ہوا ہوضرور اس حسن کو دیکھ کر اس سے مرعوب ہوگا.اس کے نتیجے میں اس کے دل میں محبت پیدا ہوگی.الفضل میں میں جو مطالعہ آج کل کر رہا ہوں اس پہلو سے مجھے سب سے زیادہ حسین چیز یہی دکھائی دیتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے اقتباسات کو چن کر پہلے صفحے پر شائع کیا جاتا ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باخدا بنانے والی شخصیت نمایاں ہوتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ان اقتباسات کو جو تو ہر جگہ کتابوں میں موجود ہیں لیکن جس عمدگی کے ساتھ انتخاب کیا گیا ہے اس سے تمام دنیا کی جماعتوں کو استفادہ کرنا چاہئے اور جتنی زبانوں میں بھی جماعت احمدیہ کے رسائل یا اخبارات شائع ہورہے ہیں ان میں وہ اقتباسات شائع کرنے چاہیں.کیونکہ وہ انتخاب جہاں تک میں نے غور کیا ہے بہت پُر حکمت انتخاب ہے اور بہت سے ایسے اقتباسات بھی چنے گئے ہیں جو آجکل کے مسائل پر خصوصیت سے روشنی ڈالنے والے ہیں.پہلے اگر اس معاملے میں کچھ غفلت ہوئی ہے تو آئندہ سے نہ صرف تازہ اقتباسات کو اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے اپنے اخبارات میں شائع کرنا چاہئے بلکہ پرانے اقتباسات میں سے بھی اس حد تک

Page 667

خطبات طاہر جلد ۸ 662 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء انتخاب کریں جس حد تک آپ اب اپنے رسائل میں ان کو سمو سکتے ہیں اور اس پہلو سے تمام دنیا کی مختلف زبانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ شخصیت نمایاں کر کے پیش کرنی چاہئے.تمام دنیا کے احمدیوں کی تربیت کے لئے یہ نہایت ضروری ہے.انگریزوں کو حق ہے کہ انگریزی زبان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے اقتباسات کا ترجمہ ہو، افریقنوں کو حق ہے کہ ان کی زبانوں میں یہ ترجمے ہوں اور یوگوسلاویز کا حق ہے کہ ان کی زبانوں میں ترجمے ہوں غرضیکہ دنیا کی ہر زبان میں اس قسم کے اقتباسات کے ترجمے بہت ضروری ہیں کیونکہ دشمن نے دوسری قسم کی تحریرات پر حملے شروع کئے ہوئے ہیں اور اس پہلو سے دنیا میں غلط فہمی پیدا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں.ساری دنیا سے جہاں سے اطلاعیں آ رہی ہیں معلوم ہورہا ہے کہ بعض مسلمان حکومتوں کے روپے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جہاد پر حملہ ہورہا ہے اور ان تحریرات کو خصوصیت سے نمایاں کر کے دکھایا جا رہا ہے جن میں درشتی اور سختی دکھائی دیتی ہے.اس کے مقابل پر جب یہ تحریر میں احمدیوں کی نظر میں آئیں گی اور وہ اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے پیش کریں گے تو یہ تحریریں اپنی ذات میں ایک دفاع ہیں.ان میں اتنی قوت ہے، ایسی گہری صداقت پائی جاتی ہے کہ کوئی انسان جس میں کوئی شرافت کا شائبہ بھی ہو اور حق پرستی سے کوئی تعلق بھی رکھتا ہو وہ ان تحریروں کو پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی نے تکلف سے،جھوٹ سے بنائی ہوئی ہیں.ان کے اندر ایک سچائی کا حسن ہے جو اپنی ذات میں ایک چمک رکھتا ہے.ہیرے جواہر بھی چمکتے ہیں لیکن وہ دوسری روشنی کی چیزوں سے روشنی پا کر چھکا کرتے ہیں.وہ منعکس کرنے والی چیزیں ہیں.کچی تحریروں میں ایک ذاتی روشنی پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایسی تحریروں میں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں ایک ذاتی قوت اور ایک ذاتی روشنی پائی جاتی ہے جس کو کسی اور روشنی کی ضرورت نہیں اپنی ذات میں وہ چمکتی ہے.اس پہلو سے ایسی تحریرات کو کثرت کے ساتھ احمدیوں میں روشناس کروانا نئی نسلوں میں روشناس کروانا اور پھر احمدیوں کے ذریعے غیروں میں روشناس کروانا موجودہ دور کی حکمت عملی کا اولین تقاضہ ہے.آپ کے سامنے الفضل کی ساری تحریریں تو پڑھنی ممکن ہی نہیں لیکن الفضل نے خود بھی تو بہت تھوڑے تھوڑے سے انتخابات کئے ہوئے ہیں ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی

Page 668

خطبات طاہر جلد ۸ 663 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء ملفوظات جو کئی جلدوں پر پھیلی پڑی ہیں ان کا آپ مطالعہ کر کے دیکھیں ایک ایک صفحے پر آپ کو ایسی حیرت انگیز چکا چوند کرنے والی سچائی کی روشنیاں دکھائی دیں گی اور دلوں کو مغلوب کرنے والی اور اپنی محبت میں مبتلا کرنے والی تحریریں ملیں گی کہ کوئی شریف فطرت انسان ان کو پڑھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی ذات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ فیصلہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا کی طاقت سے بولنے والا انسان ہے اس کی روح کو خدا کی روح سے پیوند ہے اور یہ دنیا کا انسان نہیں ہے جس کی زبان سے یا جس کے قلم سے یہ کلام جاری ہو رہا ہے.ایک صرف تحریر میں پڑھتا ہوں.کس رنگ میں آپ نے باریک بینی کے ساتھ ہمیں اپنے نفس کی طرف اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے اور ایک صاحب عرفان انسان ہی ایسی باتیں لکھ سکتا ہے.ایک جھوٹے کو یہ توفیق نہیں مل سکتی کہ اپنی خوابوں میں بھی ایسی باتیں سوچے.آپ فرماتے ہیں: و نفس تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک نفس امارہ، ایک لؤ امہ اور تیسرا مطمئنہ.پہلی حالت میں تو صم بکم ہوتا ہے.کچھ معلوم اور محسوس نہیں ہوتا کہ کدھر جا رہا ہے.امارہ جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۸۱) اب آپ دیکھیں کہ دنیا کے اکثر انسانوں کی یہی حالت ہے.وہ دنیا طلبی میں، دنیا کی لذتوں میں ان کے حصول میں ایسا محو، ایسا گم ہے کہ ان کو کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ ان کی زندگی کیسی بسر ہورہی ہے، کیوں بسر ہو رہی ہے، کون سا ان کا رخ ہے، کس جہت میں آگے بڑھ رہے ہیں؟ وہ اپنی ذات کی فوری ضروریات میں محو اور ان ضروریات کے حصول کے لئے کوشاں اور دنیا طلبی سے اس قدر مغلوب ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کو گرد و پیش کی کسی انسانی جذبے کی ہوش ہی نہیں رہتی.تمام زندگی ان کی مطلب پرستی میں گزر رہی ہوتی ہے اور ان کو پتا ہی نہیں لگتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں.جھوٹ بولتے ہیں تو اپنے جھوٹ کا پتا نہیں لگتا.بد کرداری کر رہے ہوتے ہیں تو بد کرداری کا پتا نہیں لگتا.ظلم اور تعدی سے کام لے رہے ہوتے ہیں اس کی ہوش نہیں ہوتی.آپ فرماتے ہیں ان کی حالت بگم کی ہوتی ہے.اب آپ دیکھیں صُمٌّ بُکھ میں آپ نے اس پہلو پر کتنی عظیم الشان روشنی ڈال دی کیونکہ آپ نے یہ قرآن کریم سے مستعار لی ہے اصطلاح.قرآن کریم ایسے لوگوں کے متعلق جن پر کوئی نصیحت اثر نہیں کر سکتی جو اپنی بد کر دریوں پر پختہ ہو چکے ہوتے ہیں فرماتا ہے

Page 669

خطبات طاہر جلد ۸ 664 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء صُمٌّ بُكْمٌ عُلَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ( البقرہ: 19) یہ صُمٌّ بُكْمٌ عُنی ہیں.یہ بہرے اور گونگے اور اندھے ہو چکے ہیں.فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ یہ نہیں لوٹیں گے.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ قیامت کے دن یہ خدا کے سامنے نہیں جائیں گے حالانکہ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ ہر چیز خدا کی طرف لوٹائی جائے گی.يَرْجِعُونَ سے یہاں مراد ہدایت کی طرف لوٹنے کا معاملہ ہے.یہ لوگ نور اور روشنی کی طرف لوٹائے نہیں جائیں گے.ہر چیز دراصل نور سے نکلی ہے.ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوا ہے.اپنی اس فطرت کی پاکیزہ حالت کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے یہ مراد ہے.پس صُمٌّ بُكْم کہہ کر آپ نے اس ساری حالت کا نقشہ کھینچ دیا ان لوگوں کا جو نفس امارہ کے غلام ہوتے ہیں.اب آج کل کے علماء کو دیکھ لیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اور جماعت احمد یہ یہ حملے کرتے ہیں.پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے سب جانتے ہیں کہ سراسر جھوٹ سے کام لے رہے ہیں.ہر احمدی کے اوپر جو مقدمہ بنایا جاتا ہے وہ سارا جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے، تمام گواہیاں جھوٹی ہوتی ہیں اور تمام قصہ ہی جھوٹ کا بنایا ہوا ہوتا ہے.ایسے احمدی جو اس موقع پر موجود ہی نہیں ہوتے جو جہاں کوئی جرم ہوا ہے یا جہاں کوئی واقعہ گزرا ہے ان کو دور دور نزدیک سے سمیٹ کر اس جگہ حاضر کر دیتے ہیں اپنے بیانات میں اور جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور اس کے باوجود مباہلے کر رہے ہیں کہ ہم سچے ہیں اور تم جھوٹے ہو.دن رات جھوٹ بول رہے ہیں پتا ہی کچھ نہیں.یہ حالت اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتی کہ صُمٌّ بُكْم ہو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان دو لفظوں میں ان کے سارے نقشہ کھینچ دیئے.ان بیچاروں کو اپنی حالت کی خبر ہی کوئی نہیں.جو مرضی کرتے پھریں، قوم برباد ہو رہی ہے، ہر قسم کی برائیوں کا شکار ہورہی ہے، جھوٹ ، زنا، فساد، ظلم، سفا کی، ایک دوسرے کو قتل کرنا، بچوں کا اغواء کرنا یہ ساری چیزیں ہورہی ہیں لیکن اگر آنکھیں ہی نہ ہوں دیکھنے والی یا کان سننے والے نہ ہوں تو کسی آدمی کو کیا پتا کہ کیا ہورہا ہے.جہاں تک علماء کا تعلق ہے ان کا یہی حال ہے.کوئی رد عمل نہیں، بالکل خاموش اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جس طرح وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا صرف احمدیت ہو رہی ہے اور کچھ نہیں ہو رہا پس ان لوگوں کو آپ کیا ہدایت دیں گے.یہ نفس امارہ کے پوری طرح غلام بن چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس

Page 670

خطبات طاہر جلد ۸ کے بعد فرماتے ہیں: 665 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء کچھ معلوم اور محسوس نہیں ہوتا کہ کدھر جا رہا ہے.امارہ جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے 66 اپنے نفس کے غلام بنے ہوئے ،اس کے ہاتھ میں نوکیلیں دیئے ہوئے، جدھر وہ چاہتا ہے ان کو ہانکی پھرتا ہے اور کچھ پتا ہی نہیں لگتا ان کو.” اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے تو معرفت کی ابتدائی حالت میں تو امہ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور نیکی میں فرق کرنے لگتا ہے.گناہ سے نفرت کرتا ہے مگر پوری قدرت اور طاقت عمل کی نہیں پاتا.“ ی وہ حالت ہے جس پر مومنین اپنی ابتدائی حالت میں پائے جاتے ہیں اور جماعت احمدیہ کی اکثریت کی میں یہی حالت دیکھ رہا ہوں.یہ نہیں کہ وہ گناہوں سے پاک ہو چکے ہیں سب سے پہلی نعمت جو احمدیت عطا کرتی ہے وہ اپنے نفس کا شعور ہے.کثرت کے ساتھ لکھوکھا کی تعداد میں ایسے احمدی موجود ہیں جو باوجود اس کے کہ بعض پہلوؤں سے گناہوں میں ملوث ہیں لیکن گناہ کا شعور پیدا ہو چکا ہے اور اپنے نفس کی معرفت کا شعور پیدا ہو چکا ہے.بے چین رہتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان گناہوں سے چھٹکارا حاصل کریں.دعائیں کرتے ہیں اور دعاؤں کے لئے خط لکھتے ہیں.یہ تو امہ کی کیفیت ہے جو خوش نصیبوں کو ملا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایک دوسری جگہ کہ تم نے احمدیت میں داخل ہو کر جو پایا ہے وہ یہ نہیں پایا کہ تم ہر طرح سے روحانیت سے سیراب ہو چکے ہو بلکہ احمدیت تمہیں اس شفاف چشمے کے کنارے پر لے آئی ہے جہاں اگر تم آگے قدم بڑھاؤ اور ہاتھ آگے بڑھا کر چلو بھر بھر کر پانی پینا چاہو تو تمہیں اس بات کی توفیق مل چکی ہے لیکن یہ تمہیں خود کرنا ہو گا.اس لئے یہنفس لو ام پیدا کرنا یہ ایمان کا پہلا کام ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے جماعت کی بھاری اکثریت کو نفس لوامہ عطا ہو چکا ہے لیکن تو امہ ایک ایسا نفس نہیں جس پر آپ ٹھہرے رہیں اور اس پر ٹھہرنے کے نتیجے میں آپ کا مستقبل محفوظ ہو سکے.یہ ایک سفر کی عارضی منزل ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

Page 671

خطبات طاہر جلد ۸ 666 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء مگر پوری قدرت اور طاقت عمل کی نہیں پاتا.نیکی اور شیطان سے ایک قسم کا جنگ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ کبھی یہ غالب ہوتا ہے اور کبھی مغلوب ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ حالت آ جاتی ہے کہ یہ مطمئنہ کے رنگ میں آجاتا ہے پھر گناہوں سے نری نفرت ہی نہیں ہوتی بلکہ گناہ کی لڑائی میں یہ فتح پالیتا ہے اور ان سے بچتا ہے اور نیکیاں اس سے بلا تکلف صادر ہونے لگتی ہیں.پس اس اطمینان کی حالت پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تو امہ کی حالت پیدا ہو اور گناہ کی شناخت ہو.گناہ کی شناخت حقیقت میں بہت بڑی بات ہے جو اس کو شناخت نہیں کرتا اس کا علاج نبیوں کے پاس نہیں ہے.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۸۲) کیسا عظیم کلام ہے، کیسا عارفانہ کلام ہے.کوئی شریف النفس دنیا کا انسان اس تحریر کو پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی دجال کی تحریر ہے ، خدا پر جھوٹ بولنے والے کی تحریر ہے.قرآن کی گہری معرفت کے نتیجے میں یہ تحریر پیدا ہوئی ہے.اس کی جڑیں قرآن میں پیوستہ ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے جو فرمایا صمٌّ بُكْم عَلَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ، سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ صلى الله تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( البقرہ:۱۹) یہاں آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرما دیا.فرمایا اے محمد ! جو نبیوں کا سردار ہے جس سے بڑی نبوت کسی کو عطا نہیں ہوئی یہ جو صُمٌّ بُكْمُ عُنی لوگ ہیں تیرے لئے برابر ہے چاہے ان کو نصیحت کر چاہے نہ نصیحت کر یہ ایمان نہیں لائیں گے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ نبیوں کے پاس ان کا علاج نہیں اس کی بنیا د قرآن کریم میں ہے.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ نبیوں کے سردار کے پاس بھی ان کا علاج نہیں.جب تک اس حالت سے نکل کر تو امہ کی حالت میں نہیں آتے اس وقت تک کوئی علاج ممکن نہیں ہے اور تو امہ کی حالت میں آنے سے پہلے اپنے نفس کی بیداری ضروری ہے.اپنے گناہوں کا شعور ضروری ہے.فرمایا جو اس کو شناخت نہیں کرتا اس کا علاج نبیوں کے پاس نہیں ہے.نیکی کا پہلا دروازہ اسی سے کھلتا ہے کہ اول اپنی کو رانہ زندگی کو سمجھے اور پھر بُری مجلس اور بُری صحبت کو چھوڑ کر نیک مجلس کی قدر کرے.اپنی بد حالت کو پا تو لے کہ ہے کیا، اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنا شروع کرے اور جب یہ شروع کرے گا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بڑی لمبی منازل ہیں اس سفر میں.ایک تہہ کے نیچے

Page 672

خطبات طاہر جلد ۸ 667 خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء دوسرے گناہ کی تہ نظر آئے گی دوسرے گناہ کے نیچے تیسرے گناہ کی تہہ نظر آئے گی.ظلمات کے پر دے دکھائی دیں گے جو انسان کے نفس پر پڑے ہوئے تھے.پس جس کو خدا ہی کہتا ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ایک ہی پردہ ہے آنکھ پر جس کو آپ اُتار کر پھینک دیں تو نظر روشن ہو جائے گی.عملاً بہت سے پردے ہوتے ہیں اور ہر عارف باللہ اس مضمون میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے تو اس کی نظر تیز ہوتی چلی جاتی ہے.اس کے ایک پردے کے پیچھے جب اس کو دوسرا اندھیرے کا پردہ دکھائی دیتا ہے تو پھر اس کو دور کرتا ہے.پھر وہ تیسرے پر دے کو دور کرتا ہے یہاں تک کہ بالآ خر تمام پر دے جب صاف ہو جائیں تو وہ نفس مطمئنہ پانے والا وجود بن جاتا ہے.کامل روشنی کا وجود پھر اس کی آنکھ کے سامنے کوئی میل باقی نہیں رہتی.فرمایا: پھر اول اپنی کورانہ زندگی کو سمجھے اور پھر بُری صحبت کو چھوڑ کر نیک مجلس کی قدر کرے“ یہ ایک بہت ہی ضروری بات ہے احمدیوں کے لئے جب ان کے دل میں پاک تبدیلی پیدا ہو تو وہ لوگ جن کے دل میں پاک تبدیلی پیدا نہیں ہوتی طبعی طور پر ان کو چھوڑتے ہیں.ان کی مجلسوں میں ان کو لطف نہیں رہتا.جب اپنی حالت گندی ہوتی ہے اور جہالت کی ہوتی ہے تو ایسی بد مجلسوں سے وہ لطف اٹھاتے ہیں جہاں تنقید میں ہو رہی ہیں جہاں تمسخر ہورہے ہیں، جہاں ٹھٹھے ہورہے ہیں.پاک لوگوں پر گندی زبانیں کھولی جارہی ہیں وہ بیٹھے رہتے ہیں مزے سے سنتے رہتے ہیں.جب اپنے نفس کا حال ان پر روشن ہونے لگتا ہے، اپنی گندگیوں سے آگاہ ہونے لگتے ہیں تو گناہ سے وہ نفرت پیدا ہوتی ہے جو ان کے اندر نیا شعور پیدا کر دیتی ہے پھر یہ مجلسیں ان کو اچھی نہیں لگتیں ، تکلیف دینے لگ جاتی ہیں کیونکہ اپنے اندر بھی وہ ایسی ہی کمزوریاں پار ہے ہوتے ہیں جیسے کمزوریوں پر دوسرے ٹھٹھہ اُڑاتے ہیں.اس کا یہی کام ہونا چاہئے کہ جہاں بتایا جائے کہ اس کے مرض کا علاج ہوگا وہ اس طبیب کے پاس رہے اور جو کچھ وہ اس کو بتا وے وہ اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تیار ہو.دیکھو بیمار جب کسی طبیب کے پاس جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ طبیب کے ساتھ ایک مباحثہ شروع کر دے بلکہ اس کا فرض یہی

Page 673

خطبات طاہر جلد ۸ 668 خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۸۹ء ہے کہ وہ اپنا مرض پیش کرے اور جو کچھ طبیب اس کو بتائے اس پر عمل کرے.اس سے وہ فائدہ اٹھائے گا.اگر اس کے علاج پر جرح شروع کر دے تو فائدہ کس طرح ہوگا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۸۳) پس یہ ایک پہلو ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمارے سامنے کھولا ہے لیکن اس مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بہت کچھ تحریر فرمایا ہے اور کئی قسم کے علاج ہمارے سامنے رکھے ہیں.پس جماعت احمدیہ کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی ایسی تحریروں کا مطالعہ کریں جن میں آپ بغیر کسی مد مقابل کے نفس امارہ کو مد مقابل رکھ کر پاک نصیحتوں کے ذریعے ہمارا علاج کرتے ہیں اور آپ کا سچا ،اندرونی ، فطری حسن بے اختیار چھلکنے لگتا ہے ان تحریروں سے اور ہر سعید فطرت انسان اس قطعی یقین تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ شخص خدا کی زبان سے کلام کرنے والا ہے.اس کا پیوند خدا کی ذات سے ہے.ان تحریروں کو پڑھ کر آپ نے اور آپ کی اولاد میں نئی پاکیزگی پیدا ہوگی اور بدیوں سے مقابلے کی نئی طاقت عطا ہو گی.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 674

خطبات طاہر جلد ۸ 669 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء لا غلبن انا و رسلی کا وعدہ ضرور پورا ہوگا پاکستانی احمدیوں کو مظالم پر صبر کرنے کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.لَتُبْلَوُنَّ فِى اَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ( آل عمران: ۱۸۷) پاکستان سے جو اطلاعیں مسلسل موصول ہو رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمد یہ کے دشمنوں نے اپنی ایذاء رسانی کی مہم بہت زیادہ تیز کر دی ہے اور کثرت سے مختلف جگہوں سے جو خطوط ملتے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ حد سے زیادہ بد کلامی اور بدزبانی کے ذریعے جماعت احمدیہ کے صبر کو آزمایا جا رہا ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسا منصوبہ ہے کہ جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ احمدی نوجوان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے کوئی ایسی جوابی کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ان کو یہ بہانہ ہاتھ آجائے کہ گویا تشدد میں احمدیوں نے پہل کی ہے.اس کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کو جماعت احمدیہ کو خصوصا پاکستان میں پیش نظر رکھنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جب اس قسم کے حالات پیدا

Page 675

خطبات طاہر جلد ۸ 670 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء ہوئے تو آپ نے نصیحت فرماتے ہوئے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ دیکھو ! تمہاری بے صبری سے کہیں باقی قوم کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائے اس لئے تمہارا انفرادی صبر دراصل ساری قوم کی نمائندگی میں صبر ہے اور اس پہلو سے صبر کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے.بعض مقامات پر جماعت کے حالات نسبتنا طاقت کے ہیں اور وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے غیور اور طاقتور احمدی نوجوان موجود ہیں کہ جب چاہیں وہ اپنے جذبات کو غالب آنے دیں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ اب اس کے بعد ہم مزید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہتک برداشت نہیں کریں گے.ان کے اختیار میں ہیں اور ان کا ان علاقوں میں رعب بھی ہے جب چاہیں وہ اپنے ذاتی بدلے اپنے مختصر دائرے میں لے سکتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غالباً اسی امکان کے پیش نظر یا احتمال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی کہ جب بھی تم اپنے جذبات سے مغلوب ہو تمہیں یا درکھنا چاہئے کہ تمہارے اور بھی بھائی بہن اور قوم کے دوسرے ایسے افراد ہیں جو کمزور ہیں اور ان کی ذمہ داری تم پر عائد ہوگی.اس لئے جہاں تک صبر کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کر صبر کا دامن تھام لینا چاہئے اور اس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے کہ مومن جب ہدایت پاتے ہیں تو ایک مضبوط کڑے پر ہاتھ ڈال لیتے ہیں جس کے لئے ٹوٹنا مقدر نہیں ہے.پس صبر کے ساتھ بھی ایسا ہی تعلق قائم کریں اور کسی قیمت پر اور کسی بدخلقی کے حد سے بڑھنے کے نتیجے میں بھی آپ اپنے صبر کوزخمی نہ ہونے دیں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض جگہ جماعت کے نوجوان بے چینی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں اتنی دیر ہوگئی یہ لوگ بدکلامی میں حد سے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ظلم پر ظلم توڑتے ہیں اور پھر اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گستاخیاں کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ دیکھو ہم سچے ہیں ہم نے سب کچھ کر لیا جو تمہارے خلاف کیا جاسکتا ہے اور تمہاری مددکوتمہارا کوئی خدا نہیں آیا.یہ دلیل دے کر وہ اور زیادہ ان کے دلوں پر چر کے لگاتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمد یہ پاکستان کو غیر معمولی استقامت عطا فرمائی گئی ہے اور مذہب کی تاریخ میں کم ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں اس طرح وسیع پھیلے ہوئے علاقے میں لکھوکھا خدا کے بندوں کو اس قدر مستقل مزاجی کے ساتھ صبر اور استقامت کی توفیق ملی ہے.یہ خدا کا غیر معمولی فضل ہے لیکن اس کے با وجود کچھ کمزور طبیعتیں ہوتی ہیں کچھ ایسے مزاج ہوتے ہیں جو وساوس کا شکار ہو جایا کرتے ہیں.

Page 676

خطبات طاہر جلد ۸ 671 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء پس ایسے ہی بعض لوگ جو مجھے خطوں میں یہ باتیں لکھتے ہیں کہ ہم کیا کریں اور اس کا کیا جواب دیں ہمارا دل شدید بے چین ہے.کیونکہ یہ لوگ ایک تو ظلم کرتے ہیں اس سے اوپر پھر ایسی باتیں کرتے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ یہ ہم مباہلہ جیت گئے ہیں دیکھ لو.کیونکہ ہم گند بک رہے ہیں اور اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ ہمیں کوئی سزا نہیں دے رہا.اس کا اصل جواب تو اس تاریخ میں مضمر ہے جو قرآن کریم نے ہمارے لئے محفوظ فرمائی ہے اور بکثرت گزشتہ انبیاء کی تاریخ کو دہراتے ہوئے خدا تعالیٰ بار بار ایسی قوموں کے حالات کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جنہوں نے بعینہ یہی رویہ اختیار کیا جو آج جماعت احمدیہ کے مخالفت اختیار کر رہے ہیں اور اسی قسم کے انہوں نے بلند بانگ دعاوی بھی کئے کہ ہم دیکھ لوخدا کی غیرت کو للکار رہے ہیں تم پہ ظلم پر ظلم کرتے چلے جارہے ہیں اور اس کے باوجود تم مغلوب ہو اور ہم غالب ہیں.اس قسم کی تاریخ قرآن کریم میں آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ کے زمانے تک کے واقعات کی محفوظ فرمائی اور مومنوں کو بارہا اس کی طرف متوجہ کیا.اس تاریخ میں جو بنیادی طور پر سبق دیا گیا ہے وہ تو صبر ہی کا ہے لیکن اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے طرز عمل اور خدا تعالیٰ کی سنت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے.اس دور میں اسے سمجھنا بہت ہی ضروری ہے ورنہ ہوسکتا ہے کہ دماغ بہک جائیں اور غلط نتیجے نکالا کریں.جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے یہ آل عمران کی ۱۸۷ آیت ہے.اس میں مومنوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا لَتُبْلَوُنَّ فِي اَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ تم ضرور آزمائے جاؤ گے اپنے مالوں کے نقصان کے ذریعے بھی اور جانوں کے نقصان کے ذریعے بھی اور صرف اسی پر دشمن بس نہیں کرے گا تمہارے مال لوٹے گا، تمہارے اموال کو جلائے گا یا نقصان پہنچائے گا اور تمہاری جانیں تلف پر تلف کرے گا اور اس کے بعد وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ضرور تمہیں بڑی شدت کے ساتھ ان لوگوں کی طرف سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں کی طرف سے جو درحقیقت مشرک ہو چکے ہیں شدید تکلیفیں پہنچائی جائیں گی زبان کے ذریعے بھی.وَلَتَسْمَعُنَّ کا مطلب ہے تم سنو گے ان سے تکلیفیں تم ان کی طرف سے نہایت تکلیف دہ اور دل آزار باتیں سنو گے.

Page 677

خطبات طاہر جلد ۸ 672 خطبه جمعه ۱۳ را کتوبر ۱۹۸۹ء وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ہماری نصیحت یہ ہے کہ اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو یقین یا درکھو کہ یہ بہت ہی عظیم خوش نصیبیوں میں سے ایک خوش نصیبی ہے.یہاں امور سے متعلق امور کا معنی یہاں باتیں نہیں بلکہ غیر معمولی نصیب ہے.تو یہ بات ہر ایک کے مقدر میں نہیں یہ غیر معمولی عظیم مقدر رکھنے والے لوگوں کو تو فیق ملتی ہے کہ وہ پہلے اپنے اموال لٹائیں پھر جانوں کا نقصان دیکھیں پھر اس سے اوپر ان شیخی بگارنے والے بد تمیز لوگوں سے نہایت ہی دل آزار باتیں سنیں اور اس کے باوجود صبر کریں.اس آیت کی طرف خصوصیت سے میری توجہ اس لئے مبذول ہوئی ہے کہ آج بھی چک سکندر کے ایک مظلوم کی طرف سے مجھے خط ملا جس میں یہی باتیں بیان ہوئی تھیں اور اس نے لکھا کہ ہمارے سامنے ہمارے اموال لوٹے گئے ، ہمارے گھر جلائے گئے ، ہمارے مویشی ہلاک کئے گئے اور ہماری جانیں تلف کی گئیں اور اس کے بعد اب مسلسل وہاں اتنا گند اچھالا جارہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اتنی گستاخی کی جارہی ہے کہ دل پھٹتا ہے اور طبیعت میں حوصلہ نہیں رہتا ہمت نہیں رہتی کہ ان باتوں کو برداشت کر سکیں اور اس ضمن میں انہوں نے لکھا کہ جب سے نبوت کی تاریخ کا ہمیں علم ہے اس سے پہلے کبھی کسی قوم کے ساتھ ایسی زیادتی نہیں کی گئی اور اس سے پہلے کبھی انبیاء کی ایسی بے عزتی اور گستاخی نہیں کی گئی.اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت انسان اپنے محدود دائرے میں رہتے ہوئے اپنی دنیا کو باقی سب دنیا پر غالب سمجھ لیا کرتا ہے ، اپنی کا ئنات کو ساری کا ئنات سمجھ لیتا ہے اس لئے لکھنے والے کی نہ تو تاریخ پر نظر ہے نہ قرآن کریم کی ان آیات پر نگاہ ہے الله جس میں ایسی انبیاء کی تاریخ کے حوالے دئے گئے ہیں، نہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ دشمنوں نے جو سلوک کیا اس پر تفصیلی نگاہ ہے.اسی قسم کا ایک سوال آنحضرت ﷺ سے بھی کیا گیا تھا.مکہ کے تیرہ سال جو انتہائی اذیت کے ساتھ تھے اور قوم نے گستاخی کی حد کر دی تھی اور تمام حدیں پھلانگ دی تھیں در حقیقت.ایسے موقع پر حضرت رسول اکرم ﷺ کے ایک صحابی جو بڑے غیور تھے اور اسلام لانے سے پہلے بے حد معزز تھے انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب تو معامله حد برداشت سے باہر ہو چکا ہے.ہم لوگ جو اسلام سے پہلے معزز تھے ہمیں انتہائی ذلیل ، کیا جا چکا ہے.ہم جو یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی میلی آنکھ سے ہماری طرف دیکھے.اب ہم ہر

Page 678

خطبات طاہر جلد ۸ 673 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء قسم کے ظلم اور سفاکی کو برداشت کرتے چلے جارہے ہیں اور اس پر مسلسل ہماری تخفیف کی جارہی ہے، ہمیں بے عزت کیا جا رہا ہے، ہمیں رسوا کیا جا رہا ہے.آخر کب تک ہم ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جائیں.آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ دیکھو! تم میرے غلام ہو.تم سے پہلے ایسی قو میں تھیں جنہوں نے اپنے انبیاء اور ان کے ماننے والوں سے ایسا ظالمانہ سلوک کیا کہ ابھی تم نے وہ باتیں نہیں دیکھیں اور وہ سلوک یہ تھا کہ لوہے کے آنکڑوں سے ان کی چمڑیاں ادھیڑ دی گئیں، ان کی کھالیں ادھیڑ دی گئیں اور ان کے سروں کو آروں کے ساتھ چیرتے ہوئے دو نیم کر دیا گیا لیکن ان لوگوں نے خدا کی خاطر صبر کیا اور اُف نہیں کی.کیا تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو اس صبر کا نمونہ نہیں دکھا سکتے.الفاظ یہ نہیں لیکن تاریخ میں اسی مضمون کا واقعہ ہمیشہ کے لئے انمٹ حروف میں ثبت ہو چکا ہے اور آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت کا ایسا گہرا ان کے دل پر اثر پڑا کہ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد پھر بھی میرے دل میں اُف کا خیال تک نہیں آیا.پس ہم بھی تو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی غلاموں ہی میں سے اس دردناک دور میں سے گزررہے ہیں.ہمیں بھی وہی نمونہ دکھانا چاہئے جو محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کو زیبا ہے جو زیب دیتا ہے ان کو جومحمد رسول اللہ اللہ کے غلام کہلانے کی خاطر یہ سارے دکھ برداشت کر رہے تھے.پس قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ تم سے پہلے بھی ایسا ہوا ہے اور تم سے بھی ایسا ہی ہوگا.وہ لوگ جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی وہ لاز ما تمہیں دکھ پہنچائیں گے اور کسی بات پر ٹھہریں گے نہیں.ہر ظلم کے بعد ایک اور ظلم کی راہ تلاش کرتے چلے جائیں گے اس ضمن میں حضرت اقدس محمد مصطفی منہ سے جو سلوک ملکہ کی گلیوں میں ہوا کرتا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ الانبیاء کی ۳۷ ویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا رَاكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا اهُذَا الَّذِي يَذْكُرُ الهَتَكُمْ ۚ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كُفِرُونَ (الانبياء: ۳۷) کہ اسے محمد نے جب یہ لوگ تجھے دیکھتے ہیں جن لوگوں نے کفر کیا ہے تو سوائے اس کے کہ تجھ سے ٹھٹھہ کریں اور تجھے مذاق کا نشانہ بنائیں اور کچھ نہیں کر سکتے.اَهذَا الَّذِي يَذْكُرُ الهَتَكُمْ ي وہ شخص ہے دیکھو ذرا اس کی حالت تو دیکھو یہ باتیں کرتا ہے تمہارے معبودوں کے متعلق ہے.کیسا تحقیر

Page 679

خطبات طاہر جلد ۸ 674 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء کا جملہ ہے؟ کس قدر شدت کے ساتھ تذلیل کی جارہی ہے؟ اور اِذَا رَاكَ کے مضمون سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ روز مرہ کا یہ دستور تھا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ مکہ کی جس گلی سے گزرتے تھے آپ سے یہی سلوک ہوا کرتا تھا اور تیرہ سال تک مسلسل یہ سلوک ہوتا رہا ہے آپ نے تو اُف نہیں کی، آپ نے تو خدا سے شکوہ نہیں کیا.خدا نے اس تذلیل کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں پر تو بجلی نہیں گرائی جو حضرت اقدس محمد مصطفی ملے پر بجلیاں گرایا کرتے تھے جن کی خاطر کا ئنات کو پیدا کیا گیا.اس لئے آج اس سے مختلف سلوک خدا کا آپ نہیں دیکھیں گے.وہی سلوک ہوگا جو اس سے پہلے خدا قوموں سے کرتا چلا آیا ہے اور اگر آپ کی آنکھیں کھلی ہیں تو آپ وہ سلوک دیکھ سکتے ہیں کہ ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ قوم کی آنکھیں کھلیں یا یہ قوم زندہ رکھنے کے لائق نہ سمجھی جائے.پھر قرآن کریم ایک عمومی مضمون بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ (الحجر :۱۲-۱۳) کہ ان کے پاس کبھی کوئی رسول نہیں آیا یا آتا اِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ مگر یہ بد بخت ہمیشہ اس سے تمسخر کیا کرتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اگر تمسخر کرتے ہیں تو خدا کے ہر پاک بندے کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ہے اور یہ آپ کی صداقت کی نشانی ہے نہ کہ جھوٹا ہونے کی نشانی.وہ لوگ جو گند اچھالنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے جا ملتے ہیں جو تاریخ میں انبیاء کے مقابل پر کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ان بروں میں جاکے شامل ہو جاتے ہیں اور انبیاء کا گروہ ہمیشہ آپ کو وہی دکھائی دے گا جو مظلوم ہے جس کے خلاف زبانیں دراز کی جارہی ہیں، گندا چھالے جارہے ہیں، ہرقسم کی بکواس کی جارہی ہے، ہر قسم کی ذلت اور رسوائی ان پر ٹھونسی جا رہی ہے اور یہ یک طرفہ مضمون چلتا چلا جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خدا اپنے انبیاء کی غیرت کے معاملے میں بےحس ہو چکا ہے لیکن خدا بے حس نہیں ہوا کرتا خدا کا جواب ہمیشہ بالآخران لوگوں پر غالب آیا کرتا ہے اور یہ

Page 680

خطبات طاہر جلد ۸ 675 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء قو میں خود ہمیشہ کے لئے تاریخ میں تمسخر کا نشانہ بن جایا کرتی ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ جو معاملہ ہوگا اس میں ان کی بازی الٹا دی جائے گی.اس وقت مؤمن ان کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح دنیا میں یہ مومنوں کو دیکھا کرتے تھے اور فرمایا دنیا میں ان کا کیا حال تھا.اِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِن الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ (المطففين:۳۰) صرف انبیاء ہی سے نہیں بلکہ ہر اس شخص سے یہ مذاق کیا کرتے تھے جو ایمان لے آیا.پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہم میں نہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والوں کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے جو سلوک انبیاء کے ساتھ کیا جاتا ہے.قرآن کریم نے مومنوں کا ذکر بطور خاص فرمایا ہے انبیاء کا نہیں إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا یقیناوہ لوگ جو مجرم ہوئے كَانُوْا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وہ ہمیشہ ایمان لانے والوں سے تمسخر کیا کرتے تھے.وَإِذَا مَرُّوا بِهِمُ يَتَغَامَزُونَ (المطففین : ۳۸) جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مٹکاتے تھے اور آنکھیں مارتے تھے ( جس کو کہتے ہیں ) اور ایک دوسرے کو اشارے کیا کرتے تھے کہ دیکھو جی یہ مرزائی ، یہ قادیانی، یہ بد بخت لوگ کیا ان کا حال ہو گیا ہے آج.وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِيیں اور جب وہ گھروں میں لوٹتے تھے تو گھر میں لوٹ کے یہ باتیں کیا کرتے تھے.بڑی بڑی باتیں کرتے تھے اور بڑے بڑے مذاق اڑاتے تھے کہ آج ہم نے دیکھا ہے رستے میں چلتا ہوا ایک شخص کسی طرح مفلوک الحال، بے نفس، بے یارو مددگار اور ہم اس کے اوپر یہ باتیں سناتے رہے اور اس کو کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ جوابا ہمارے متعلق کوئی زبان کھول سکتا.وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَائُونَ (المطففین :۳۳) اور یہ باتیں کر کے ان باتوں کو اپنی صداقت کا نشان بتاتے ہیں اور یہ بتایا کرتے تھے کہ دیکھو ہم نے یہ سب کچھ کیا، ہم بچے اور یہ جھوٹے نکلے.یہ گمراہ لوگ ہیں.جن کے خلاف ہم یہ یہ زیادتیاں کر رہے ہیں اور ان کی کچھ پیش نہیں جارہی.آج پاکستان میں یہی صداقت کا نشان یہ لوگ آج پیش کر رہے ہیں جو کل ان کے کذب اور ذلت کے نشان بن کے قیامت کے دن ان کے سامنے پیش کیا جائے گا لیکن قیامت کس نے

Page 681

خطبات طاہر جلد ۸ 676 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء دیکھی ہے.بے چین اور مضطرب لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا اس دنیا میں بھی تو خدا ہمیں کچھ دکھائے.میں ان کو بتاتا ہوں کہ اس دنیا میں بھی خدا ان کو دکھاتا ہے اور ہمیشہ دکھاتا چلا آیا ہے.صرف ان کی آنکھیں کھلنی چاہئیں اور ہوش کی اور بصیرت کی آنکھوں سے اگر وہ دیکھیں تو خدا تعالیٰ کا سزا جزا کا قانون مستقل جاری و ساری رہتا ہے اور خدا کی تقدیر ہر وقت عملاً متحرک رہتی ہے.جب سے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے متعلق قوم نے بالعموم یہ رویہ اختیار کیا ہے اور جب سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف تمسخر اور تضحیک میں یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں اس وقت سے ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے.جنہوں نے احمدیوں کے امن لوٹے ان کے اپنے گھروں کے امن اٹھ چکے ہیں.جنہوں نے احمدیوں کی جانوں سے کھیلنا جائز سمجھا روز مرہ ان کی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے.جنہوں نے احمدی عورتوں کی چا درا تارنے کی کوشش کی ان کی اپنی عورتوں کی چادر میں اتاری جارہی ہیں.کوئی پاکستان کا علاقہ نہیں اس وقت جسے آپ مامون کہ سکیں.ہر جگہ سے امن اٹھ گیا ہے اور اٹھتا چلا جا رہا ہے.بچے اغوا ہو رہے، ہیں، عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں.ہر قسم کے جرائم آزاد ہو چکے ہیں اور حکومت جانتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو بے دست و پاتی ہے.وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت پر حملے کئے انہوں نے یہ بات پیش نظر نہیں رکھی کہ یہ لوگ شعائر اللہ ہوتے ہیں.یعنی وہ خدا کے بھیجے ہوئے بندے شعائر سے تعلق رکھتے ہیں جو اللہ کے شعائر ہیں اور اس کے مقابل پر دنیا نے بھی بعض شعائر بنائے ہوئے ہوتے ہیں.خدا کے شعائر دنیا کو دکھائی نہیں دیتے اور ان کی بے حرمتی میں وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اور بے باک ہو جاتے ہیں مگر پھر ان کے شعائر پر بھی ان کے سامنے حملہ کیا جاتا ہے اور وہ اسی طرح بے بس ہوتے ہیں.آج پاکستان میں یہ بات بھی ہو رہی ہے.کوئی چیز جو پاکستان کی نظر میں شعائر سے تعلق رکھتی ہے آج پاکستان میں محفوظ نہیں رہی.کسی عورت کی حرمت محفوظ نہیں، کسی بچے کی حرمت محفوظ نہیں، پاکستان کے جھنڈے کی حرمت محفوظ نہیں ، اول سے لے کر آخر تک ایک ایسی خوفناک حالت جس طرح ان قوموں کے نشان ہوا کرتے ہیں جو مٹنے کے کنارے پر پہنچے ہوئے ہوں لیکن یہ

Page 682

خطبات طاہر جلد ۸ 677 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء ہمارے لئے اطمینان کا موجب نہیں ہونا چاہئے ، ہمارے لئے بے چینی کا موجب ہونا چاہیئے.یہ باتیں میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ آپ پہلے سے بڑھ کر اس قوم کے لئے دعائیں کریں یہ بات سمجھنے کے بعد کہ خدا تعالیٰ آپ کے حال سے غافل نہیں ہے، یہ بات سمجھ لینے کے بعد کہ خدا کی تقدیر حرکت میں آچکی ہے اور روز بروز وہ تقدیر اپنے غلبہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور بالآخر خدا کا یہ قانون لازماً جاری ہوگا کہ: لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِي (المجادلہ: ۲۲) خدا نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب آئیں گے یہ ہو نہیں سکتا کہ دنیا کی طاقتیں ہمیں مغلوب کر دیں.پس جب میں نے کہا کہ خدا کی تقدیر غلبہ کی طرف بڑھ رہی ہے تو مراد میری اسی آیت کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ خدا کی تقدیر ہمیشہ غلبہ کی طرف بڑھا کرتی ہے لیکن اس کے غلبہ کی طرف بڑھنے کے دو معنی ہوا کرتے ہیں.ایک یہ کہ قوم بالآخر اس پیغام سے مغلوب ہو جاتی ہے، اس کو سمجھ لیتی ہے، اس کی عزت اور توقیر کرتی ہے اور اپنے پچھلے عمل پر پچھتاتی اور پشیمان ہوتی ہے اور بالآخر حق کو قبول کر لیتی ہے.ایک غلبہ کا یہ معنی ہے اور ایک غلبہ کا یہ معنی ہے کہ وہ قوم دن بدن خدا کی تقدیر کے نیچے پستی چلی جاتی ہے اور اس دوران اگر پھر بھی وہ عقل اور ہوش کے ناخن نہ لے تو صفحہ ہستی سے مٹا دی جاتی ہے.ان دوغلبوں کے سواند ہب کی تاریخ میں ہمیں اور کوئی شکل دکھائی نہیں دیتی.تمام انبیاء گزشتہ کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو ان میں سے ایک بات ضرور ہو کر رہی ہے یا ان قوموں کے تکبر مٹ گئے اور انہوں نے عاجزانہ طور پر اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کر دیا یا ان قوموں کے وجود صفحہ ہستی سے مٹادئے گئے اور پھر ان کا نام ونشان صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے اور وہ بھی حسرت کے ساتھ.جیسا کہ قرآن میں فرمایا: يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ریس: ۳۱) دیکھو ان بندوں پر کیسی حسرت ہے.اگر وہ قومیں غالب آتیں تو وہاں حسرت کا مضمون اطلاق نہیں پاسکتا تھا.مراد یہ ہے کہ یہ استہزاء کرنے والے ہمیشہ مغلوب ہوئے ہیں.اس لئے یا تو پھر بعد میں دیر میں آتے ہیں اور شرمندہ ہوتے ہیں اور پچھتاتے ہیں اور روتے ہیں اور گریہ وزاری کرتے ہیں اور استغفار سے کام لیتے ہیں اور یا پھر خود ان کی عظمتیں مٹا دی جاتی ہیں.پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا ہمیں وہ نشان دکھائے جو دلوں کے غلبہ کا نشان ہے اور

Page 683

خطبات طاہر جلد ۸ 678 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء ہماری اس قوم کو ایمان لانے والوں میں شامل کر لے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی زمانے کے متعلق غالباً میرا تو یہی یقین ہے کہ اسی زمانے کے متعلق فرمایا ہے خدا کرے کہ یہ بات ہم اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھ لیں.امروز قوم من نه شناسد مقام من روزی به گریه یاد کند وقت خوشترم ( در مشین فارسی: ۱۱۱) کہ میری اس قوم نے آج میرے مقام کو نہیں پہچانا اور ظلم اور تعدی میں حد سے بڑھ چکی ہے لیکن ایک دن آنے والا ہے کہ میرے خوش تر وقت کو حسرت سے یاد کیا کریں گے کہ کاش ہم اس زمانے میں ہوتے.پس خدا کرے کہ یہ دوسرا وقت ہم اپنی آنکھوں سے آتا ہوا دیکھ لیں اور اس قوم پر خدا کی تقدیر اپنے فضل کے ساتھ غالب آئے ، اپنی رحمتوں کے ساتھ غالب آئے ، ہدایت ان پر غلبہ پالے اور ان کے دلوں کی سب کجیاں دور ہو جائیں اور وہ تقدیر ہم اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی نہ دیکھیں یعنی خدا فضل فرمائے اور ہمیں اس دکھ سے بیچائے کہ اس قوم کو خدا کی تقدیر کی چکی کے اندر پستے ہوئے دیکھیں اور پارہ پارہ ہوتے ہوئے دیکھیں یہاں تک کہ صفحہ ہستی سے ان کا نشان مٹا دیا جائے.اس وقت قوم کی جوحرکتیں ہیں وہ اسی طرف جارہی ہیں اور شدید بے چینی کے ساتھ دعا کی ضرورت ہے.بار بار کی نصیحتوں کے باوجود یہ لوگ باز نہیں آئے اور پشیمان نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے کچھ دبے دبے آثار پشیمانیوں کے بھی ظاہر ہورہے ہیں اس لئے معاملہ بالکل یک طرفہ بھی نہیں.قوم میں بالعموم جب آپ کرید کر دیکھتے ہیں تو ایسے شریف النفس آدمی دکھائی دیتے ہیں جو اس بات کو اٹھانے لگ گئے ہیں، اپنی آواز کو دبانے کی بجائے بعض دفعہ اپنے ماحول میں یہ بات سنانے لگ گئے ہیں کہ دیکھو یہ ظلم ہو رہا ہے اور اسی ظلم کے نتیجے میں خدا ہم سے ناراض ہے.یہ زیادہ دیر تک بات چلنے والی نہیں اور یہ آواز چھوٹے طبقوں میں بھی اٹھ رہی ہے اور دنیا کے لحاظ سے بڑے طبقوں میں بھی اٹھ رہی ہے اور صاحب اقتدارلوگوں میں بھی رفتہ رفتہ اس بات کا شعور پیدا ہو رہا ہے.پس اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ اسی شعور میں ہے.اس لئے دعاؤں سے اپنی قوم کی مدد

Page 684

خطبات طاہر جلد ۸ 679 خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۸۹ء کریں کہ خدا اس شعور کی روشنی کو صبح صادق کی روشنی بنادے جس کے بعد دن چڑھ جایا کرتا ہے.جس کے بعد اندھیرے اور روشنی میں پھر کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا کرتا.اس طرح اس قوم پر یہ بات روشن ہو جائے کہ خدا کی ناراضگی کے نتیجے میں خود یہ اپنے ہی قوم اور اپنے وجود کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور اپنی ان کی بداعمالی ہی ہے جو دراصل خدا کے ناراض ہونے کی صورت میں ان پر نازل ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو تقویٰ کے ساتھ اپنے اعمال میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ احمدیوں کو بھی اس وسیع مذہبی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے کردار کو پہلے سے زیادہ بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جتنا یہ ظلم اور سفا کی میں آگے بڑھتے ہیں اتنا ہی زیادہ احمدیوں کو خدا کی ذات میں نہاں ہونے کی ضرورت ہے.یہ ہی ایک علاج ہے اس کے سوا اور کوئی علاج نہیں.صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور جتنا یہ گندا اچھالتے ہیں اتنا ہی آپ خدا والے بنے کی کوشش کریں، خدا کی صفات اپنے اندر جاری کرنے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ کے لئے یہ گر سکھا دیا ہے کہ: عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں ( در شین: ۵۵) ہم اپنے یار نبہانی میں جو دل میں بسا کرتا تھا پہلے تو وہ ہمارے اندر چھپا ہوا تھا پھر ایک ایسا وقت آیا کہ جب دشمن نے شور شرابا کیا تو ہم اپنے یار میں چھپ گئے اور اس کے اندر غائب اور پنہاں ہو گئے.پس دنیا کے شوروغوغا سے گھبرا کر اگر آپ نے دوڑنا ہے تو خدا کی طرف دوڑیں، اگر چھپنا ہے تو خدا کے وجود میں چھپ جائیں اور جو لوگ خدا کے وجود میں چھپ جایا کرتے ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی وہ لازماً غالب آیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو تقویٰ اور نیکی اور طہارت اور نیک اعمال اور خدا کی محبت میں پہلے سے بہت زیادہ بڑھا دے.آمین.

Page 685

Page 686

خطبات طاہر جلد ۸ 681 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ وہ جماعت کے ذریعہ دنیا کی ہدایت کے عظیم سامان پیدا کرنے والا ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ /اکتوبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں جو احمدیوں کے ساتھ نہایت سفا کا نہ اور بہیمانہ سلوک ہو رہا ہے اور جس کے متعلق زیادہ سے زیادہ شواہد مہیا ہوتے چلے جارہے ہیں کہ ان مظالم میں با قاعدہ سوچے سمجھے منصوبے بنا کر حکومت کو ان میں ملوث کر کے پھر جماعت کے خلاف کاروائیاں کی گئیں ہیں اور خصوصیت کے ساتھ پنجاب حکومت بلاشبہ ان منصوبوں میں آلہ کار بنائی گئی ہے.جو اطلاعات مل رہی ہیں اور مزید اور بھی ملیں گی ان سے پتا چلتا ہے کہ یہ منصوبہ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں بنایا گیا اور جماعت اسلامی کی طلباء کی جو تنظیمیں ہیں ان کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا اور جماعت اسلامی کے طلباء کی مرکزی تنظیم نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا ہے اور حکومت پنجاب ان کا آلہ کار بنی رہی ہے.اطلاعات کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا ہے اور بھی معلومات حاصل ہو رہی ہے کہ پنجاب کے ہر ضلع میں جماعت اسلامی کا ایک کارندہ یا پولیس میں یا ایڈ منسٹریشن کے دوسرے شعبوں میں موجود ہے اور بہت سی جگہوں پر ایک سے زائد نمائندے بھی موجود ہیں اور با قاعدہ تنظیم کے تحت ان کو سارے صوبے میں پھیلایا گیا ہے اور حکومت کے تعاون کے ساتھ ایسے لوگوں کی تقرری وہاں کروائی گئی ہے کہ پنجاب کے ہر ضلع میں جہاں بھی جماعت اسلامی کوئی شرارت

Page 687

خطبات طاہر جلد ۸ 682 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء کروانی چاہے وہاں انتظامیہ میں کوئی نہ کوئی ان کا ایسا نمائندہ موجود ہے جو اس شرارت پر عمل درآمد کروانے میں ان کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرے.ایسے لوگوں کی فہرستیں بھی اکٹھی کی جارہی ہیں تا کہ ان لوگوں کی شرارت پر نظر رہے.جہاں تک جماعت احمد یہ عالمگیر کا تعلق ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں دعاؤں کے ذریعے اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کر رہی ہے وہاں کوششوں میں بھی کسی طرح بھی غافل نہیں رہی اور خصوصیت کے ساتھ انگلستان کی جماعت اور امریکہ کی جماعت اور کینڈا کی جماعت ان امور میں پیش پیش ہے اور دنیا کی رائے عامہ کو ان حالات سے پوری طرح باخبر رکھنے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی مستعدی سے یہ جماعتیں کام کر رہی ہیں.اب کچھ دنوں سے کچھ ایسے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب جماعت اسلامی کے اس حد تک زیر اثر نہیں رہی اور کچھ جماعت اسلامی کے پنجہ سے نکلنے کا احساس پیدا ہو رہا ہے.چنانچہ حال ہی میں ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو اور مجلس انصار اللہ مرکزیہ کو جو مرکزی اجتماع منعقد کرنے کی اجازت دی گئی ہے یہ بھی اسی رجحان کی نشاندہی کرنے والی باتیں ہیں.اس سے پہلے ایک لمبے عرصے تک اجتماعات کا انقطاع رہا.اب بھی جو اجازت دی گئی ہے وہ بہت ہی بوجھل دل کے ساتھ اور بے دلی کے ساتھ دی گئی ہے.چنانچہ خدام الاحمدیہ کو یہ تاکید ہے کہ آپ کا اجتماع بیت الاقصیٰ میں ہو اور اس سے باہر کوئی اجتماع نہ ہو اور اس پر بھی پابندی یہ ہے کہ کسی قسم کا لاؤڈ سپیکر استعمال نہ ہو.اب یہ عقل کے خلاف بات ہے کہ پاکستان بھر کے نو جوانوں کا اجتماع ہو اور وہ ایک مسجد کے اندر سما جائے.بیت الاقصیٰ خصوصیت کے ساتھ اتنی چھوٹی ہو چکی ہے کے ربوہ کے باشندوں کے لئے بھی پوری نہیں ہوتی اور وہاں اس اجتماع کا سما جانا یہ عقل کے خلاف بات ہے.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہتری کی طرف چھوٹا ہی سہی کچھ قدم ضرور ہے.اسی طرح انصار اللہ کے اجتماع کو بھی بڑے لمبے عرصے کے بعد اجازت دی گئی ہے.جہاں تک ہمارا تو کل ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے اور جہاں تک ان مظالم کے خلاف فریاد ہے وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کے حضور میں ہے اور اگر چہ یہ ایک بہت معمولی سا فرق ہے ایسا فرق نہیں جس کے نتیجے میں دل بے ساختہ ممنون احسان ہونے لگیں.مگر ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو تعلیم دی ہے وہ یہ

Page 688

خطبات طاہر جلد ۸ 683 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے ، ادنی سے ادنی احسان کو بھی جذ بہ شکر کے ساتھ قبول کرنا چاہئے.اگر چہ یہ احسان ابھی اتنا معمولی ہے کہ عدل کی حدود بھی پوری نہیں کرتا ہے اس لئے صحیح معنوں میں لغوی اعتبار سے اس کو احسان کہنا درست نہیں ہے لیکن وہ جگہیں یا وہ ممالک جہاں سے عدل اٹھ چکا ہو وہاں عدل کا آغاز بھی ایک رنگ میں احسان کا آغاز ہوا کرتا ہے.پس اگر چہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ حکومت پنجاب کا یہ فعل ابھی عدل کے تقاضے پورے کرنے سے بھی بہت پیچھے ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جوحسن و احسان کی تعلیم دی گئی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جس طرح اپنے غلاموں کی تربیت فرمائی ہے ہمیں اس چھوٹے سے احسان کو بھی نظر تشکر سے دیکھنا چاہئے.اگر چہ یہ ممکن ہی نہیں بلکہ غالب گمان ہے اس جذ بہ تشکر کی کوئی قدر نہیں کی جائے گی.اگر چہ حالات یہی بتاتے ہیں کہ اس چھوٹے سے نیک قدم کے بعد یہ خطرہ ہے کہ پھر اس قدم کو واپس کھینچنے کے لئے ایک مہم شروع کی جائے گی اور وہ جماعت احمدیہ کے دشمن جو حکومت کو ڈرا دھمکا کر اپنے خاص ہتھکنڈوں کے ذریعے جماعت احمدیہ سے عدل کا سلوک کرنے سے باز رکھتے ہیں وہ اس معمولی سے اظہار عدل کے بعد ایسی مہم شروع کریں گے جس کے نتیجے میں یہ خطرہ موجود ہے کہ حکومت ان سے مرعوب ہو جائے.لیکن امتثال امر میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع کہ جو شخص بندوں کا ممنون نہیں ہوتا وہ میرا بھی ممنون نہیں ہوتا اس لئے جماعت احمدیہ کو اس پر بھی خدا کے شکر کے علاوہ اس حکومت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے عدل کی طرف کچھ معمولی سی حرکت کی ہے.اس شکر کے نتیجے میں ان سے تو ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں ، کسی احسان کی توقع نہیں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر میرے شکر گزار بندے بنو گے تو میں تمہیں اسکے نتیجے میں بہت دوں گا.لَا زِيدَنَّكُمْ (ابراهیم:۸) کا وعدہ اور لَأَزِيدَنَّكُمْ میں بڑی شدت کے ساتھ ایک قوت کا اظہار پایا جاتا ہے.لَا زِيدَنَّكُمْ میں ہوں جو بڑھانے والا ہوں اور میں یقین لا ز ما تمہیں بہت بڑھ چڑھ کر دوں گا اگر تم میرے شکر گزار بندے بنو گے.پس چونکہ ہمارے اس جذبہ تشکر میں دراصل خدا کی شکر گزاری کا جذ بہ کارفرما ہے اور وہی محرک ہے اسی لئے اس جذ بہ تشکر کے ساتھ جب ہم خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گائیں گے اور اس پر

Page 689

خطبات طاہر جلد ۸ 684 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء بہت بہت خدا کا شکر ادا کریں گے تو مجھے اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہت ہی جزا دینے والا خدا اس جذ بہ تشکر کو بھی قبول فرمائے گا اور اس کی بڑھ چڑھ کر ہمیں جزا عطا فرمائے گا.میں نے مختلف قسم کے فقیر دیکھتے ہیں.بعض فقیر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو آپ زیادہ بھی دے دیں تو ان کے چہرے سے شکر اور خوشی کے جذبات ظاہر نہیں ہوتے.ان کے ماتھے پر سلوٹیں ہی پڑی رہتی ہیں.بعض دفعہ پرانے زمانے میں میں نے دیکھا ہے کسی فقیر کو ایک روپیہ بھی دو اس زمانے میں روپیہ بڑی چیز ہوا کرتا تھا.تو وہ کہتا تھا بس ایہ دتا اے؟“ یہی تھا تمہارے پاس اور کچھ نہیں تمہارے پاس.اور بعض فقیر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو ایک معمولی سی چیز بھی دے دو تو وہ فدا ہونے لگتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں ، اگلی نسلوں کو بھی دعائیں دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ عطا کرے، یہ عطا کرے ہم نے فقیر کا دل خوش کر دیا ہے ایسے فقیر کے لئے سب کچھ دے دینے کو جی چاہتا ہے.اگر انسان کے اندر یہ جذبہ موجود ہے تو یقیناً یہ دراصل خدا تعالیٰ سے ہم میں آیا ہے کیونکہ انسانی فطرت کو خدا تعالیٰ کے مزاج سے ایک ربط ہے.ویسا ہی ربط ہے جیساہر خالق کے ساتھ اس کی تخلیق کو ایک ربط ہوا کرتا ہے.کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پہ پیدا کیا.اس کا یہ مطلب تو یہ ہرگز نہیں کہ نعوذ باللہ ہم خدا کی صفات میں شریک ہو گئے ہیں اور خدا جیسے ہیں بلکہ اس کا یہ معنی ہے کہ جیسے ہر مصور اپنے مزاج اور اپنے تصور کی انتہائی چھلانگ کے مطابق ایک تصویر بناتا ہے اور اس تصویر کے نقوش اس کے ذہن کے نقوش سے ملتے ہیں.اسی طرح خالق کا اپنی تخلیق کے ساتھ ایک گہرا رابطہ ہے.پس جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میں تمہارے شکر کو قبول کرتے ہوئے تمہیں بہت زیادہ دوں گا تو یہ دراصل اللہ تعالیٰ کے شکر کا انداز ہے اور یہی جذبہ تشکر ہے جو نیک فطرت لوگوں میں پایا جاتا ہے خواہ وہ امیر ہوں خواہ وہ غریب ہوں، خواہ وہ عطا کرنے والے ہوں خواہ وہ فقیر ہوں.جنہوں نے خدا کے اس حسن سے حصہ پایا ہو ان کے اوپر تھوڑ اسا احسان بھی بڑے بڑے رنگ جماتا ہے اور وہ جذبہ تشکر سے مغلوب ہو کر دعائیں دیتے ہوئے اس احسان کو قبول کرتے ہیں.پس خدا کی خاطر اگر ہم خدا کے شکر گزار بندے بنیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عطا کرنے والے سے بہت بڑھ کر جس کی عطا کے نتیجے میں کوئی فقیر اس کو دعائیں دیتا ہے، اس کا شکر گزار بنتا ہے اس سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ اس جذبے کو قبول فرمائے گا.اس فقیر کی دعاؤں کے

Page 690

خطبات طاہر جلد ۸ 685 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء نتیجے میں جو دل میں بشاشت پیدا ہوتی ہے اور محبت پیدا ہوتی ہے اور معطی کے دل میں مزید دینے کی تمنا پیدا ہوتی ہے.اس سے بہت بڑھ کر اتنا بڑھ کر اس سے کوئی نسبت نہیں خدا تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں کو مزید عطا کرنے کے لئے ایک جوش رکھتا ہے اور بہت ہی زیادہ حسن و احسان کے ساتھ جذبہ تشکر کو قبول فرماتا ہے.پس جماعت احمد یہ اگر شکر گزار بنے جیسا کے شکر گزار ہے اور یہ سال تو ہے ہی خدا تعالیٰ کے فضلوں پر اس کے حسن و احسان پر اس کی حمد وثناء کے گیت گانے کا سال.مگر یہ سال کہنا بھی غلط ہے کہ ہماری تو ساری زندگیاں خدا کے فضلوں کے گیت گاتی ہوئی گزر جائیں تو حق شکر ادا نہیں ہوسکتا مگر خصوصیت کے ساتھ اس بدلتے ہوئے دور کے ابتدائی آثار کو جذ بہ تشکر کے ساتھ قبول کریں اور خدا سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان آثار کے پیچھے وہ رحمتوں کی بارش لے آئے یہ جن کی ابتدائی نشانیاں معلوم ہوتی ہیں.یہ جذ بہ بھی ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ سے ہی سیکھا ہے.آپ کے متعلق روایت آتی ہے کہ جب بعض دفعہ لمبے انقطاع کے بعد بادل گھر کے آتے تھے اور بارش کا پہلا قطرہ گرتا تھا تو حضور اپنے رب کی محبت اور پیار میں جذبہ تشکر کے طور پر زبان باہر نکال کر اس قطرہ کو اپنی زبان پر لیا کرتے تھے اور حمد وثنا کے گیت گایا کرتے تھے خدا کی اس رحمت پر.تو بعید نہیں کہ اگر حضرت محمد مصطفی میہ کی غلامی اور آپ کے عشق میں آپ بھی اسی طرح اس احسان کو جو بظاہر احسان بھی نہیں احسان سمجھتے ہوئے اس نیکی کے پہلے قدم کو شکر کے ساتھ قبول کریں گے اور اپنی زبان خدا کے حضور نکال کر اس کی رحمت کے قطرے کے طور پر اس کے حضور پیش کریں گے کہ اے خدا ! یہ رحمت کا قطرہ ہماری زبان پر گرے اس لئے کہ پھر اس کے بعد کثرت سے بارش برسنے لگے.تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جذ بہ کو خدا تعالیٰ قبول فرمائے گا.اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے میری توجہ آج رات ایک رؤیا کے ذریعے مبذول کروائی گئی.اس رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے یہ دکھایا کہ جماعت احمدیہ کو دراصل خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنا چاہئے اور التجائیں کرنا چاہئے اور نتیجے کے لحاظ سے اپنی دعاؤں پر ہی تو کل کرنا چاہئے.شاید اس کا پس منظر یہ ہو کہ کل مجھے بعض ایسی اطلاعیں ملیں کہ جن کے نتیجے میں معلوم ہوتا تھا کہ ہماری دنیا

Page 691

خطبات طاہر جلد ۸ 686 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء کی بعض جماعتوں نے حکومت پاکستان پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لئے غیر معمولی کارروائیاں کی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں سمجھایا کہ دنیا کی کاروائیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں تم دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم رکھو اور اسے بڑھاؤ اور اسے مضبوط کرو.تو خدا تعالیٰ یقیناً اپنے فضل اور رحم کے ساتھ تمہارے حالات کو تبدیل فرمادے گا اور بے انتہار حمتیں نازل فرمائے گا.رویا میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کلام ایک خاص انداز سے پڑھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ کون وہ بد بخت ہوگا جو خدا کے در پر مانگنے جائے اور پھر نامراد واپس لوٹے اور اگر چہ اکثر یہ کلام ہمارے سامنے پڑھا جاتا ہے لیکن اس کلام کے بعض ایسے مصرعے جو رویا میں مجھے یادر ہے اور میں بار بار پڑھتار ہا بیداری کی حالت میں یاد نہیں رہے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ایک خاص پیغام تھا.ان مصرعوں میں سے ایک مصرعہ خصوصیت کے ساتھ جو بار بار زبان پر جاری ہوا اور دل پر نقش ہو گیا اس کا مضمون یہ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی پر قادر ہے.جب وہ چاہے گا حیرت انگیز قدرت کے کرشمے دکھائے گا.اس لئے دعاؤں کے ذریعے اس پہ تو کل کرتے ہوئے اس کی رحمت کے قدموں سے چمٹے رہو اور امید رکھو کہ وہ اپنے فضل کے ساتھ حیرت انگیز قدرت کے نشان دکھائے گا اور پھر ایک مصرعہ وہ جو خاص طور پر میں نے بار بار پڑھا اور دو چار مصرعوں کے بعد پھر وہ مصرعہ زبان پر آجا تا رہا وہ یہ تھا کہ؛ ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی اور ساتھ پھر وہ دوسرے مصرعہ میں یہ شعر کہا تھا: فسبحان الذي اخزى الاعادى لیکن فسبحان الذي اخزى الاعادى والا مصرعہ ہر دفعہ نہیں پڑھا لیکن یہ مصرعہ جو ہے ”ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی“ یہ تو اس کثرت کے ساتھ میں ساری رات اپنے زعم میں گنگناتا رہا ہوں اور بار بار پڑھتا رہا ہوں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ بار بار دوسرے مصرعوں سے توجہ اس طرف منتقل ہو جاتی ہے.اس کی تعبیر میں نے یہ کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے مہدی بنایا ہے اور خدا کا ہادی کے طور پر آپ پر ظاہر ہونا یہ بتاتا ہے کہ خدا جو بھی قدرت نمائی فرمائے گا اس سے

Page 692

خطبات طاہر جلد ۸ 687 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء بہتوں کے لئے ہدایت کے سامان پیدا ہوں گا اور بار بار اس کا ہادی کے طور پر ظاہر ہونا یہ بتاتا ہے، یہ بڑی عظیم خوشخبری اپنے اندر رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دنیا کی ہدایت کے عظیم سامان پیدا کرنے والا ہے.اس کے ساتھ ہی میں نے ایک بچھڑی کو ذبح کرنے کے متعلق بھی نظارہ دیکھا اور اسی حالت میں جب میں یہ شعر پڑھ رہا ہوں ایک آدمی ایک اچھی خوبصورت بچھڑی لے کر آتا ہے.بچھڑا ہے لیکن ذہن میں زیادہ بچھڑی کا تصور ہے اور جو بہت خوبصورت بے داغ ،صاف ستھری بچھڑی ہے اور اس کو ذبح کرنے کے لئے میری توجہ کو اپنی طرف نہیں کھینچا گیا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اپنے حال میں مصروف رہنے دیا گیا ہے مگر ساتھ ہی جس طرح تبر کا چھری لگا دی جاتی ہے جسم کے ساتھ اور پھر ذبح کیا جاتا ہے جانور کو اس طرح جو شخص بھی اس گائے یا بچھڑی کو لے کے ذبح کرنے کے لئے لے جارہا ہے وہ پاس سے گزرتا ہے اور چھری لمس کرتا ہے میرے بدن کے ساتھ اور پھر آگے جا کر ( میرے دل میں یہ ہے کہ ) اس نے گائے کو ذبح کرنا ہے لیکن وہ کسی انذاری رنگ میں محسوس نہیں ہوتا بلک خوشی کے اظہار کے طور پر اس گائے کو ، یعنی یہ میرے ذہن میں آتا ہے کہ وہ گائے ذبح کی جائے گی یعنی خوشی کے اظہار کے طور پر نہ کہ صدقے کے رنگ میں لیکن چھری کالمس کرنا یہ عموماً صدقے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس لئے ہو سکتا ہے اس میں دونوں پہلو موجود ہوں.ہو سکتا ہے بعض فتنے ابھی کروٹیں بدل رہے ہوں اپنی ابتدائی حالت میں اور ظاہر ہونے کے لئے تیاری کر رہے ہوں.اس پہلو سے خدا تعالیٰ کا اس رویا میں یہ توجہ دلانا مقصود ہو کہ صدقات بھی دو، دعائیں بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھو.میں نے ربوہ یہ پیغام تو بھجوا دیا ہے کہ میری طرف سے ایک گائے ذبح کی جائے لیکن چونکہ یہ ایک جماعتی خوشخبری معلوم ہوتی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کے ہر ملک میں جہاں جہاں جماعتیں موجود ہیں وہاں گائے کی قربانی بھی دی جائے اور صرف اسی پر اکتفانہ کیا جائے بلکہ گائے کی قربانی میں توحید کا مضمون ہے.قرآن کریم میں جہاں گائے کی قربانی کا ذکر ملتا ہے وہاں دراصل اسی قسم کی بچھڑی کا ذکر ملتا ہے جیسی میں نے رویا میں دیکھی بعینہ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہی رنگت ہے لیکن جوان اور باکرہ اور خوب خوبصورت رنگ کی اور اچھی پلی ہوئی بچھڑی.اس سے میری توجہ اس طرف بھی مبذول ہوئی کہ دعاؤں کو خالص کرنے کا حکم ہے اور

Page 693

خطبات طاہر جلد ۸ 688 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء غیر اللہ کی ملونی کو کلیۂ دل سے نکال دینے کا حکم ہے اور ہمیں یہ نصیحت فرمائی گئی ہے کہ یہ دور تو حید کے ساتھ چمٹ جانے کا دور ہے.اپنے دلوں کو شرک کی ملونی سے ہر طرح سے پاک کر دو اور کلیۂ خالصہ خدا کے ہو جاؤ.اسی کے حضور دعائیں کرو، اسی پر توکل کرو اور ہر وہ امید جو غیروں سے وابستہ ہے اسے خدا کی راہ میں اس رنگ میں ذبح کر دو کہ کوششیں تو امتثال امر میں ہوتی رہیں مگر تو قعات محض خدا کے فضل پر ہوں کسی دنیاوی امید سے وابستہ نہ ہوں.پس اس رؤیا کا یہ پیغام سمجھتے ہوئے میں تمام جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کے اصل گائے جو ذبح کرنے والی ہے وہ دلوں میں پیدا ہونے والے شرک کے موہوم خیالات ہیں اور اس گائے کو ہم سب کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ذبح کرنا ہوگا.یہ نئی صدی کا سر ہے اور اس پہلو سے آج دوبارہ ہمیں تو حید خالص پر بڑی قوت اور بڑی شدت اور بڑی وفا کے ساتھ قائم ہونے کی ضرورت ہے.پس یہ رویا جو میں نے رات دیکھی میں خوب جانتا ہوں کہ یہ رو یا کوئی عام رو یا نہیں تھی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی پیغامات پر مشتمل رؤیا تھی.یہ فیصلہ در حقیقت رؤیا دیکھنے والا کر سکتا ہے کہ یہ اوہام کے نتیجے میں ہے طبعی رجحانات کے نتیجے میں ہے یا خاص کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغام کا رنگ رکھتی ہے.تو میں نے رؤیا کے دوران بھی یہ محسوس کیا تھا کہ یہ عجیب رؤیا ہے جس کا عام طور پر دیکھنا کم سے کم میرے حالات میں بعید نظر آتا ہے.میری سوچوں، میری فکروں کے ساتھ اس مضمون کا اس رنگ میں تعلق نہیں تھا.یعنی دعا کے ساتھ تو تعلق تھا لیکن جس طرح مجھے دکھائی گئی ہے وہ ایک خاص رنگ رکھتا تھا، ایک خاص انداز تھا جس کے ذریعے انسان کو یقین دلایا جارہا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے پیغام ہے.اسے تم اتفاقی واقعہ نہ سمجھنا.پس اس کامل یقین کے ساتھ میں جماعت کی امانت جماعت کے سپرد کرتا ہوں.یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل آنے والے ہیں، خوشیاں نصیب ہونے والی ہیں اس کی تیاری شروع کریں اور دعاؤں کو تیز کر دیں اور خدا کے ساتھ کامل وفا کے ساتھ وابستہ ہو جائیں اور اپنے دلوں کو خدا کے لئے خالص کر دیں.شرک کی ہر ملونی سے ان کو پاک کر دیں اور پھر یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ فضا میں عظیم تبدیلیاں پیدا ہونے والی ہیں اور ان تبدیلیوں کا معراج یہ ہوگا کہ ہادی خدا ہم پر نازل ہوگا اور اس کثرت کے ساتھ دنیا میں ہادی کے طور پر نازل ہوگا کہ جماعت کے ذریعے،

Page 694

خطبات طاہر جلد ۸ 689 خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۸۹ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کے ذریعے کثرت کے ساتھ قوموں کی ہدایت کے سامان پیدا ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور جو پاک تبدیلوں کے آثار ہم دیکھ رہے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کا حق شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ بارش کا قطرہ جو ہم اپنے دلوں کی زبانوں پر لینے والے ہیں اور لے رہے ہیں اس قطرے کے بعد خدا تعالیٰ کثرت سے رحمتیں اور فضلوں کی بارشیں نازل فرمائے اور سارے موسم بدل جائیں.رُت بدل جائے اور ہم خدا کے فضلوں کے گیت گاتے ہوئے اس کی مزید رحمتوں کے نظارے دیکھنے والے ہوں.آمین.

Page 695

Page 696

خطبات طاہر جلد ۸ 691 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء آج کا دور مذہبی تاریخ میں عظیم الشان دور شمار ہوگا.تحریک جدید کے سال نو کا آغاز (خطبه جمعه فرموده ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ بتایا تھا کہ اس دفعہ پنجاب حکومت نے جماعت احمدیہ کو ربوہ مرکز سلسلہ میں ایک لمبے عرصے کے انقطاع کے بعد خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی اجازت دے دی ہے.اگر چہ اجازت اپنی ذات میں بہت ہی کنجوسی کے ساتھ دی گئی ہے.کئی ایسی شرائط عائد کی گئی ہیں جن کی رو سے جو اجازت کے نتیجے میں بشاشت پیدا ہونی چاہئے تھی ویسی نہیں ہو سکتی لیکن بہر حال اجازت ضرور ہے.تو اس پہلو سے میں نے جماعت کو تاکید کی کہ اس پر بھی شکر واجب ہے اور خدا کا شکر تو ہم ہمیشہ کرتے ہی ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے مگر پنجاب حکومت نے جو معمولی سی شرافت کا اظہار کیا ہے اس کے نتیجے میں اس حکومت کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے.ساتھ ہی میں نے یہ بتایا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ علماء یعنی پاکستان کے وہ معاندین جو علماء کہلاتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے در پے آزار رہتے ہیں ان کو یہ اجازت بہت تکلیف دے گی اور اس کا وہ شدید ردعمل دکھا ئیں گے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ حکومت پنجاب پر اس کا کیا اثر پیدا ہوتا ہے.ان دونوں باتوں میں سے پہلی بات اصلاح طلب ہے.جو اجازت حکومت پنجاب کی طرف منسوب کی گئی تھی معلوم ہوتا ہے وہ ڈپٹی کمشنر نے دی تھی اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ اپنے بالا افسروں

Page 697

خطبات طاہر جلد ۸ 692 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء سے انہوں نے پوری احتیاط کے ساتھ ، وضاحت کے ساتھ اجازت حاصل نہیں کی تھی.چنانچہ اجازت دینے کے معا بعد جب علماء نے یہ شور مچایا یعنی ان لوگوں نے جن کو علماء کہا جاتا ہے انہوں نے شور مچایا تو پہلے دن ہی حکومت پنجاب نے شدید رد عمل دکھایا احمدیوں کے خلاف اور ڈی سی نے زبانی پیغام بھجوایا اے سی کو کہ وہ فوری طور پر دھونس جما کر جس طرح بھی ہو اس اجازت کو منسوخ کروا کر یہ اجتماع بند کروادیں.اے سی اور پولیس والے نمائندے جماعت پر زور دیتے رہے لیکن جماعت نے یہ موقف لیا کہ جب تک آپ با قاعدہ تحریری طور پر اپنی تحریری اجازت کو منسوخ نہیں کرتے اس وقت تک آپ کا کوئی حق نہیں کہ ہم سے توقع رکھیں کہ ہم ایک جاری اجتماع کو بند کر دیں جس میں شمولیت کے لئے ہزار ہا نو جوان دور دراز کا سفر طے کر کے آئے ہیں.لیکن انہوں نے اپنا دھونس کا طریق جاری رکھا اور دباؤ ڈالنے کے لئے ناظر صاحب امور عامہ مرزا خورشید احمد صاحب کو اور ان کے بھائی جو اس وقت ناظر اصلاح وارشاد ہیں یعنی ایک حصہ کے ناظر اصلاح و ارشاد مرزا غلام احمد صاحب کو پکڑ لیا بغیر کسی وارنٹ کے بغیر کسی تحریری حکم نامے کے اور ان کے ساتھ دو امور عامہ کے کارکنان کو اور اس کے علاوہ کچھ اور لوگوں کے پکڑنے کے لئے انہوں نے کوششیں شروع کر دیں اور ان کو رات کو چھاپہ مار کے وہاں چنیوٹ تھانے میں پہنچادیا گیا جہاں سے دوسرے دن با قاعدہ جیل میں منتقل کیا گیا.ان کی حماقت کی حد یہ ہے کہ جماعت کو یہ پیغام بھی دیا کہ اگر آپ ان دونوں کو چھڑوانا چاہتے ہیں تو ان کے بدلے کوئی اور احمدی دے دیں اور مجھے یہ پیغام فون کے ذریعے ملا.میں نے پیغام دینے والے سے کہا آپ نے سوچا کیوں نہیں یہ پیغام کوئی دینے والا پیغام ہے.میرے لئے سارے احمدی برابر ہیں بلکہ وہ دو خدا تعالیٰ کے فضل سے سعادت پارہے ہیں میں کیوں ان کی اس سعادت میں مخل ہوں.اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آپ کو فوراً انکار کر دینا چاہئے تھا.جماعت احمدیہ کے کسی فرد کو خواہ وہ کسی مقام سے تعلق رکھتا ہواگر خدا کی خاطر اذیت دی جا رہی ہو تو اس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں ہے.اس کا ہی حق ہے اسی کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے اور اس کی سعادت میں مخل ہونے کا مجھے بھی کوئی حق نہیں.چنانچہ میں نے کہا ان کو کہیں مزے کریں اور مجھے بڑی خوشی ہوئی اس پہلو سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کو بھی اس بابرکت دور

Page 698

خطبات طاہر جلد ۸ 693 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء میں اس تھوڑی سی اذیت کی جو بالکل معمولی ہے توفیق عطا ہوئی.اس کے بعد جب دوسرے دن بھی جماعت احمدیہ نے اجتماع بند کرنے سے انکار کر دیا تو ایک وفداے سی کے پاس پہنچا کہ پولیس اس طرح دباؤ کر رہی ہے آپ یہ ظلم کر رہے ہیں آپ آخر کیا چاہتے ہیں.جب تک تحریری حکم نامہ نہیں ملے گا ہم ہرگز اس اجتماع کو منسوخ نہیں کریں گے.اس نے کہا ہم نے آپ کو تحریری اجازت ہی نہیں دی تھی.ہم نے تو صرف یہ اجازت دے تھی کہ آپ کھیلیں کریں.آپ نے ہم سے دھوکا کیا ہے اور کھیلوں کے نام پر اجازت لے کے آپ نے تربیتی اجتماع بھی شروع کر دیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ کھیلوں کے لئے آپ نے مسجد اقصیٰ میں اجازت دینی تھی.وہ کون سی کھیلیں تھی اور جسمانی مقابلے تھے اور دوڑیں تھیں جو مسجد میں منعقد کی جاتیں اس لئے آپ عقل سے کام لیں اور ساتھ انہوں نے اس اجازت نامہ کی فوٹوسٹیٹ کا پی دکھائی کہ یہ اجازت نامہ دیکھیں ہماری درخواست یہ تھی کہ ہم تعلیمی، تربیتی اجتماع کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ کھیلوں کا بھی انعقاد ہو گا اور ہر قسم کے ورزشی مقابلے بھی ہوں گے.ان سب کے اوپر ڈپٹی کمشنر نے تحریری اجازت دی ہوئی ہے.اس کے بعد آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں.انہوں نے کہا اچھا مجھے دکھاؤ اور دیکھ کر اسی کے اوپر آر ڈرلکھ دیا کہ میں منسوخ کرتا ہوں.بہر حال نصف تک وہ اجتماع ہو چکا تھا.تو میں نے تو کہا تھا کہ ایک قطرہ پہلا ہے بارش کا.بظاہر تو یہ نصف قطرہ لگتا ہے لیکن دراصل یہ قطرہ پنجاب حکومت کی طرف سے آیا ہی نہیں.اس بیابان میں تو اتنے بھی بخارات نہیں ہیں کہ سارے مل کر آسمان پر جا کر ایک قطرہ بن کے برس سکیں.پس وہ تھا تو قطرہ ہی مگر خدا کے فضل کا قطرہ تھا اور اب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا کے فضل کا یہ قطرہ بارش ضرور بنے گا اور کوئی دنیا کی طاقت اس بارش کی راہ میں روک نہیں بن سکتی کیونکہ اس سے پہلی رات مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی جو میں نے آپ کو بتائی تھی کہ اگر تم دعاؤں میں ثابت قدم رہو اور چمٹے رہو دعاؤں کے ساتھ تو خدا تعالیٰ آج بھی قدرت نمائی کر سکتا ہے اور وہ ضرور کرے گا.اس لئے ہرگز کسی پہلو سے مایوسی کی بات نہیں ہے.اس لئے جہاں تک قطرے اور فضل کے مضمون کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ قائم ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی سامان ہوئے ہیں.اگر کوئی دھوکا ہوا ہے ان کو ہماری درخواست سمجھنے میں تو یہ بھی

Page 699

خطبات طاہر جلد ۸ 694 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء بعض دفعہ فرشتوں کی طرف سے لوگوں کی عقلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں وہ پوری طرح تحریر بھی نہیں پڑھ سکتے کہ کیا لکھا ہوا ہے.مگر جو کچھ ہوا یہ تقدیر کے نتیجے میں ہوا ہے اور کسی اتفاقی غلطی کی طرف اس کو منسوب نہیں کیا جا سکتا اور اس نصف اجتماع میں بھی جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے حوصلے ہوئے اور بہت جو اجتماع کے پیغام ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ خدام بہت خوش گئے ہیں اور بڑی مدت کے بعد ان کی یہ آرزو پوری ہوئی کہ اجتماع کی خاطر ربوہ مرکز سلسلہ میں جمع ہوسکیں.جب مخالفتوں کا آغاز ہوا تھا پاکستان میں تو ۱۹۸۴ ء ہی میں میں نے ایک خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آر ہے اور دن بدن فتنوں میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور کوشش یہ ہے کہ جماعت کو ہر لحاظ سے نیست و نابود کر دیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خوشخبریاں مل رہی ہیں اور قرآن کریم کے مطالعہ سے جو ظا ہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کثرت کے ساتھ جماعت پر اپنے فضلوں کی بارشیں برسائے گا اور ساتھ میں نے اس ضمن میں یہ مثال دی تھی کہ کبھی چھتریوں سے بھی بارشوں کے پانی رو کے جاسکتے ہیں، کبھی چھتوں کے ذریعے بھی بارشوں کے اثرات سے زمین کو محفوظ کیا جا سکتا ہے.کتنے سائبان تان لو گے.جب خدا کے فضل کی بارش برسے گی تو لازماً بر سے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی.چنانچہ وہاں انہوں نے اپنی طرف سے بہت سائبان تانے.سارے ملک میں احمدیوں کو اس فضلوں کی بارش سے محروم کرنے کی کوشش کی لیکن جماعت گواہ ہے کہ یہ فضل کئی کئی طریق سے نازل ہوتے رہے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اتنا غیر معمولی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم کے ساتھ جماعت کے اخلاص کو بڑھایا.اس کے ایمان کو بڑھایا، اس کے نیک اعمال کی طاقت کو بڑھایا، اس کی وفا کو ثبات قدم عطا فر مایا اور نئے حوصلے دئے اور ایک ایسی عظیم مذہب کی تاریخ قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس کی قربانیاں ہمیشہ قیامت تک کے لئے قربانیوں کے آسمان پر روشن ستاروں کی طرح چمکتی رہیں گی.ایک نیا قربانیوں کا آسمان تعمیر کیا گیا ہے اس دور میں اگر آپ غور کریں اور پرانے مذاہب کی تاریخ سے موازنہ کر کے دیکھیں تو آپ حیران ہو جا ئیں گے کہ اس تھوڑے سے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اپنے فضل کے ساتھ کتنی عظیم الشان تاریخی قربانیوں کی تو فیق عطا فرمائی ہے.کتنے وسیع پیمانے پر قربانیوں کی توفیق عطا فرمائی ہے اور کتنے حو صلے اور صبر اور ضبط اور

Page 700

خطبات طاہر جلد ۸ 695 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء وفا کے ساتھ ان قربانیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.یہ جو پہلو ہے یہ بعد کی دنیا زیادہ شان اور وضاحت کے ساتھ دیکھ سکے گی.جس دور میں تاریخ بن رہی ہو وہاں اس قدر وضاحت کے ساتھ یہ باتیں دکھائی نہیں دیا کرتیں کیونکہ ہم ان تکلیفوں میں ملوث ہو چکے ہیں اور ان تکلیفوں کی لذت بھی محسوس کر رہے ہیں.دکھ کے ساتھ ساتھ لذت کا پہلو بھی مسلسل جاری ہے اس لئے ہم جو اس دور میں اس وقت ملوث ہیں ان کھلاڑیوں کی طرح جو کھیل میں مصروف ہوں وہ سارے کھیل کے مجموعی نظارے کو اس طرح نہیں دیکھ سکتے جس طرح باہر کے بیٹھے ہوئے تماشائی دیکھ سکتے ہیں.تو یہ تاریخ کے تماشائی بعد میں آیا کرتے ہیں.وہ جب مڑ کر دیکھیں گے اور جماعت احمدیہ کے اس دور پر نظر کریں گے تو حیرت کے ساتھ دیکھیں گے کہ یہ کیسی جماعت تھی کیسے لوگ تھے.کیسے صبر آزما مشکل وقتوں میں خدا تعالیٰ نے ان کو ثبات قدم کی توفیق بخشی اور کتنے وسیع پیمانے پر اتنے بھاری ابتلا اور اتنے بھاری تشد داور دباؤ کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائی ہے.تو وہ یقیناً اس دور کو مذہب کی دنیا میں ایک عظیم الشان دور کے طور پر شمار کیا کریں گے اور یہ امر واقعہ بھی ہے.تو میں نے یہ کہا ان سے کہ تم لوگ کیا کوشش کر رہے ہو کبھی خدا کے فضلوں کی بارش کو بھی کسی نے روکا ہے.ناممکن بات ہے اور یہ بارش اگر پاکستان تک محدود رہتی تو پھر بھی ان کی دخل اندازی کے نتیجے میں ہم کہیں کہیں رخنے پیدا ہوتے دیکھ لیتے.بعض چھتوں کے نیچے خشکی دکھائی دیتی بعض سائبانوں کے نیچے ہم سمجھتے کہ پانی کا اثر نہیں پہنچا مگر خدا نے تو اس بارش کو ایک عالمی بارش بنادیا.تمام دنیا میں اس زور کے ساتھ یہ برکھا برسی ہے اور اس شان کے ساتھ برستی چلی جارہی ہے کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں.کہاں ان کی طاقت ہے، کہاں ان کی مجال ہے، کہاں ان کے اندر یہ استطاعت ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں جا کر جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک سکیں اور جس تیزی سے یہ ترقیات اپنی رفتار میں بڑھ رہی ہیں وہ ایک حیرت انگیز نظارہ ہے.بعض خوشخبریاں ایسی ہیں جو انشاء اللہ میں بعد میں آپ کو بتاؤں گا جو اس وقت اپنے تخلیق کے مراحل میں ہیں اور بہت ہی عظیم الشان خدا تعالیٰ کی طرف سے آئندہ کے لئے خوشخبریوں کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں اور بنیاد میں قائم ہو رہی ہیں جو کچھ جلسہ سالانہ تک ہو چکا تھا اس کے کچھ نظارے

Page 701

خطبات طاہر جلد ۸ 696 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء آپ نے دیکھے اور کچھ بعد میں پاکستان میں اور دوسرے ممالک میں ویڈیو کے ذریعے دکھائے گئے.ان کو دیکھنے کے بعد اس کثرت سے خط مل رہے ہیں کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے کتنی ترقی عطا فرما دی ہے اور کسی تیزی سے ترقی عطا فرما تا چلا جا رہا ہے.بعض لوگوں نے لکھا کہ یہ ساری ویڈیو ہم نے روتے روتے دیکھی اور یہ سارے خوشی کے اور تشکر کے آنسو تھے.کہتے ہیں ہم کھولتے تھے گھر والے اور لمبا عرصہ تھا بار بار دیکھنی پڑتی تھی اور ہمارے آنسو رواں ہو جاتے تھے اور ہم خدا کے شکر کے سجدے بجالاتے تھے کہ اے خدا! تو نے کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے اور کتنی عظیم الشان فتوحات کے آغا ز فرما دئے ہیں.ابھی تو دروازے کھلے ہیں، ابھی تو نئے ایوان ہمارے سامنے آئے ہیں ابھی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس انگلی صدی میں ان نئے ترقی کے راستوں پر چل کر ہم نے بہت سی فتوحات حاصل کرنی ہے اور اب صدیوں کے حساب سے نہیں سالوں کے لحاظ سے سفر طے ہونے والے ہیں.ایسے سفر سالوں میں طے ہوں گے جو قو میں صدیوں میں طے کیا کرتی ہیں اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی طرف سے جو بھی خوشخبری ملتی ہے وہ ضرور پوری ہو کے رہتی ہے کوئی دنیا کی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی اور یہ خوشخبریاں پاکستان کے حق میں بھی ضرور جماعت احمد یہ پوری ہوتی دیکھے گی یعنی اپنے حق میں پاکستان میں پوری ہوتی دیکھے گی اور جو چاہے دنیا زور لگالے خدا کی اس تقدیر کو نہیں بدل سکتے نہیں بدل سکتے ، ہرگز نہیں بدل سکتے.جہاں تک پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مالی قربانی کا تعلق ہے وہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بارہا بیان کیا ہے ہر پہلو سے ہر مشکل دور میں ہمیشہ قدم آگے بڑھا ہے.ایک بھی سال ایسا نہیں آیا جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ کسی شق کے لحاظ سے پاکستان کی جماعت نے مالی قربانی میں پیچھے قدم اٹھایا ہو یا اس کے قدم رک گئے ہوں.بلکہ ترقی کی رفتار بھی ہمیشہ اللہ کے فضل اور رحم کے ساتھ آگے بڑھتی چلی گئی.ہے.تحریک جدید کے نقطہ نگاہ سے بھی خدا کے فضل سے اب تک پاکستان دنیا بھر میں قربانی کے میدان میں صف اول میں پہلا ہے اور جہاں تک تعداد کا تعلق ہے یعنی چندہ دہندگان کی تعداد کے لحاظ سے اس میں بھی خدا کے فضل سے ساری دنیا میں پہلا ہے اور پاکستان کے چندہ دہندگان کی

Page 702

خطبات طاہر جلد ۸ 697 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء تعداد یہ سال جو گزرا ہے اس میں اٹھتر ہزار (۷۸،۰۰۰) ہو چکی تھی اور باقی ساری دنیا میں تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی تعداد اٹھتر ہزار (۷۸،۰۰۰) ابھی تک نہیں ہوئی.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ جو مشکلات اور ابتلاؤں کے دور ہیں یہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی کمر توڑنے کی بچائے اسے اور مضبوط کر گئے ہیں اور غیر معمولی طور پر خدا کی خاطر قربانی کرنے کا ر جذ بہ جماعت میں پیدا ہو چکا ہے.ایک کینیڈا کے مشہور مستشرق پاکستان تشریف لے گئے تھے سال ڈیڑھ سال پہلے اور اب انہوں نے ایک کتاب شائع کی ہے اسی موضوع پر کتاب لکھی ہے جس کا عنوان یہ ہے کہ Coercion and Conscience غالبا اس کا عنوان ہے کہ انسانی ضمیر اور جبر وتشد داور یہ کتاب انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق لکھی ہے کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے ان کے ساتھ اور ان کا کیا رد عمل ہے.اس کتاب میں انہوں نے یہ دونوں باتیں بیان کی ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں، اپنے رنگ میں انہوں نے پیش کی ہیں.ایک یہ کہ قربانی کے دور میں جماعت احمد یہ کسی پہلو سے بھی میدان سے پیچھے نہیں ہٹی اور ان کے اندر نئے عزم پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں اور دوسرا یہ کہ قربانی کرنے والوں کو ایسا مزہ آتا ہے قربانی کا کہ میں نے جیلوں میں جا کر بڑے بڑے بوڑھوں کے ساتھ بھی بات چیت کی، جوانوں سے بھی بات کی اور میں یہ دیکھ کے حیران ہوتا تھا کہ ان کو لذت کس بات کی آرہی ہے.وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ خدا کی خاطر قربانی کا مزہ ہے لیکن جو کچھ انہوں نے سمجھا اس کے باوجود یہ اس کو پوری طرح بیان نہیں کر سکے اپنی کتاب میں.تعجب کا بیان کر دیا ہے لیکن وہ کیا چیز تھی جس کی وہ لذت محسوس کرتے تھے جس کو وہ پوری طرح نہیں سمجھ سکے اور دوسرا انہوں نے یہ لکھا ہے کہ قربانی کے ہر میدان میں جماعت آگے بڑھ رہی ہے اور دشمن اس پہلو سے جماعت کو شکست دینے میں بالکل نا کام اور نامراد رہا ہے.کوئی ایک پہلو بھی نہیں ہے جس میں جماعت احمدیہ نے اپنا قدم پیچھے ہٹالیا ہو.پس اس پہلو سے یہ پاکستان میں جو جماعت احمدیہ کی قربانیوں کی عظیم الشان تاریخ بن رہی ہے یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے اور اسی سعادت کا یہ ایک پھل ہے جو بیرونی دنیا میں بھی ہم کثرت کے ساتھ خدا کے فضلوں کی بارش نازل ہوتے دیکھتے ہیں.

Page 703

خطبات طاہر جلد ۸ 698 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء اب جہاں تک مختلف پہلوؤں سے تحریک جدید کا جائزہ لینے کا تعلق ہے اس کے بیان سے پہلے میں آپ کو مختصراً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ دور اول کا یہ ۶ ۵ واں سال ہے جواب شروع ہو رہا ہے.یعنی آج سے پچپن سال پہلے اس تحریک کا حضرت مصلح موعودؓ نے آغا ز فرمایا تھا اور اس میں دفتر اول یعنی پہلے جو اس میں شامل ہوئے تھے ان کا یہ ۶ ۵ واں سال گزر رہا ہے.یعنی ۵۵ واں سال گزر رہا ہے اور ۶ ۵ واں چڑھنے والا ہے.دفتر دوئم جو بعد میں قائم کیا گیا اس کا یہ ۴۶ واں سال ہے اور دفتر سوئم کا ۲۵ واں اور دفتر چہارم کا پانچواں سال ہے.اس ضمن میں جو اعداد وشمار میں آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے متعلق یہ یاد رکھیں کہ یہ اعدادوشمار ہر لحاظ سے مکمل نہیں ہیں.یعنی جو اطلاعات وصولی کی یا تعداد کی مل چکی ہیں ان کے لحاظ سے درست تو ہیں یعنی ان سے کم تعداد نہیں اور ان سے کم وصولی نہیں لیکن زیادہ کے متعلق ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ بہت سی جماعتیں آخری رپورٹ بھجوانے میں دیر کر دیتی ہیں اور کچھ ان کو یہ بھی عذر ہے کہ ابھی وصولی کے لئے تین ماہ باقی ہیں.اس لئے سو فیصدی اطلاع اب تک کے لئے نہیں دی جاسکتی یہ درست ہے لیکن جو اطلاع دی جاسکتی ہے اس میں بھی سنتی دکھائی جاتی ہے.اس وجہ سے اعداد و شمار اپنی آخری قطعی صورت میں آپ کے سامنے پیش نہیں کئے جاسکتے.مجموعی طور پر یہ میں آپ کو ایک موازنہ بتا دیتا ہوں کہ ۸۸.۱۹۸۷ء میں جو وصولی کی اطلاع ہمیں ملی تھی وہ چار لاکھ پچاس ہزار تین سو اکتالیس (۴٬۵۰،۳۴۱) پاؤنڈ تھی.یعنی اس وقت جو گزشتہ سال وصولی کی اطلاع تھی اس کی رو سے چار لاکھ پچاس ہزار تین سو اکتالیس (۴٬۵۰،۳۴۱ ) پاؤنڈ یا اس کے متبادل دوسری کرنسی میں رقمیں مل چکی تھیں اور ۸۹-۸۸ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ وصولی بڑھ کر سات لاکھ بچاس ہزار آٹھ سونواسی (۷،۵۰،۸۷۹ ) ہو چکی ہے.جس کا مطلب یہ ہے که تقریباً پچاس فیصد یا چالیس سے پچاس کے درمیان اتنے فیصد خدا کے فضل سے صرف تحریک جدید میں اضافہ ہوا ہے اور یہ ایک غیر معمولی اضافہ ہے کیونکہ یہ سال جماعت کے اوپر بہت زیادہ مالی دباؤ کا سال تھا.اس سال تمام دنیا میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ صد سالہ جو بلی کے جو وعدے بقایا رہ گئے ہیں وہ پورے کئے جائیں اور بہت زیادہ زور تھا اس طرف.اس ضمن میں وعدوں کے علاوہ بھی دیگر اخراجات اٹھ رہے تھے، بہت سے سفر کرنے پڑے احباب جماعت کو صد سالہ جوبلی کے جشن منانے

Page 704

خطبات طاہر جلد ۸ 699 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء کے سلسلے میں.کاموں کے سلسلے میں بہت سے وقت دینے پڑے اور کئی پہلوؤں سے وقت کی قربانی مالی قربانی بھی بنتی رہی.لیکن اس کے باوجود یہ اضافہ بتاتا ہے کہ خدا کے فضل سے اس سال کو خدا تعالیٰ نے تحریک جدید میں بھی ایک سنگ میل بنا دیا ہے اور غیر معمولی اضافہ بتا رہا ہے کہ انشاء اللہ آئندہ صدی میں اسی طرح ہمیشہ غیر معمولی اضافہ ہوتے چلے جائیں گے.میں نے اضافہ غلطی سے کم بتایا تھا یہ لکھنے والے نے جولکھا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ساٹھ فیصداضافہ بنتا ہے.سات لاکھ بچاس ہزار بٹا چارلاکھ پچاس ہزار کیا جائے اس پہلو سے میں نے تخمینہ بنایا تھا لیکن اگر چارلاکھ پچاس ہزار کے اوپر یہ جمع کیا جائے یہ تین لاکھ تو ٹھیک ہے ساٹھ فیصدی اضافہ بنے گا.مختلف پہلوؤں سے جو ممالک کی دوڑ ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ بھی بتادوں کے اکثر افریقین ممالک کو میں نے اس میں شمار نہیں کیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ افریقہ میں اس وقت اکثر ممالک میں شدید اقتصادی بحران ہے اور گزشتہ دو تین سال سے میری یہ کوشش ہے کہ افریقہ کے ممالک چندے کے نظام میں یعنی لازمی چندے کے نظام میں تمام دنیا کی جماعتوں کے مطابق اسی طریق کو اختیار کرلیں جو باقی جماعتوں میں کیا جا رہا ہے.اس سے پہلے افریقہ میں یہ طریق تھا اجتماعات کے موقع پر Sacrifice کے نام پہ قربانی کے نام پر چندے کا اعلان کیا جا تا تھا اور بغیر کسی حساب کے جس نے جو چاہا دے دیا اور وہ چادریں اکٹھی کر کے جو بھی روپیہ بناوہ جماعت کا سالانہ چندہ بن جایا کرتا تھا.تو پہلے بھی میں ان کو لکھتا رہا لیکن کسی نے توجہ نہیں کی.گزشتہ سفر میں خصوصیت سے میں نے اس بات کی تاکید کی یہ نہیں چلے گا.افریقہ کی جماعت ساری دنیا کی جماعت کا ایک حصہ ہے اور وہی رسمیں یہاں چلیں گی جو باقی دنیا کی جماعتوں میں چلتی ہیں.ہم نے تمام دنیا کو ایک وحدت عطا کرنی ہے ظاہری لحاظ سے بھی اور اس پہلو سے ایک جیسی ادا ئیں، ایک جیسی رسمیں، ایک جیسے رواج سب دنیا میں قائم کرنے ضروری ہیں.چنانچہ وہ با قاعدہ اب مالی نظام جس طرح آپ کے ہاں یا دوسری جماعتوں میں قائم ہے اسی طرح افریقہ میں قائم کیا جا رہا ہے اور اس کی راہ میں بہت سی دقتیں ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جب تک یہ نظام پوری طرح مضبوطی کے ساتھ راسخ نہ ہو جائے اس وقت تک دوسرے طوعی چندوں کی طرف ایسی توجہ نہ کی جائے.ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ریڑھ کی ہڈی قائم ہوگئی تو اس کے اوپر پھر گوشت پوست

Page 705

خطبات طاہر جلد ۸ 700 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء بھی اور دیگر اعضاء بھی بڑی عمدگی کے ساتھ بننے شروع ہو جائیں گے.چنانچہ افریقہ کی طرف سے جو اطلاعات ہیں وہ اتفاقی قربانیوں کے نتیجے میں ہیں.اتفاقی یا انفرادی کہنا چاہئے.بعض ایسے ایسے مخلصین افریقہ میں موجود ہیں جو جماعت ان کو تاکید کرے یا نہ کرے خود پتا کر کے کہ کون سی تحریکات ہیں وہ ضرور اس میں چندے دیتے ہیں.اور اس پہلو سے یعنی انفرادی قربانی کی عظیم الشان مثالوں کے لحاظ سے افریقہ دنیا کے کسی اور خطے سے پیچھے نہیں ہے اور میں جب دورے پر گیا ہوں تو بعض قربانی کے نمونے دیکھ کے میں حیران رہ گیا کہ کس طرح ان غریب ممالک میں جہاں شدید اقتصادی بحران ہے انفرادی طور پر ایسی ایسی عظیم الشان قربانی کی مثالیں ہیں کہ وہ دنیا کے کسی ملک کے لئے بھی قابل رشک قرار پانی چاہئیں.بہر حال افریقہ کے اعداد و شمار اس میں شامل نہیں ہیں.تعداد چندہ دہندگان کے لحاظ سے پاکستان کو خدا کے فضل سے سب پر فوقیت حاصل ہے اور اٹہتر ہزار (۷۸،۰۰۰ ) چندہ دہندگان کی تعداد ہو چکی ہے.انڈونیشیا میں بھی اب تعداد کے اضافے کی طرف رجحان ہے اور آٹھ ہزار چالیس (۸،۰۴۰) انڈونیشا کے چندہ دہندگان کی تعداد ہے.تیسرے نمبر پر جرمنی آتا ہے اس میں خدا کے فضل سے تین ہزار دو سواڑسٹھ (۳٬۲۶۸) افراد شامل ہو چکے ہیں.چوتھے نمبر پر برطانیہ ہے جہاں دو ہزار اسی (۲۰۸۰).پانچویں پر بنگلہ دیش جہاں ایک ہزار سات سو پچھتر (۱،۷۷۵) اور چھٹے نمبر پر کینیڈا جہاں ایک ہزار پانچ سو پینتیس (۱،۵۳۵) اور ساتویں نمبر پر ماریشس جہاں نوسو چیں (۹۲۵) چندہ دہنگان تحریک جدید میں حصہ لے رہے ہیں.امریکہ ماریشس کے بعد پانچ کی تعداد سے پیچھے رہ گیا ہے.یہاں کل تعداد نو سو بیس (۹۲۰) ہے لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ فرضی تعداد ہے.اسی طرح بنگلہ دیش کی تعداد بھی مجھے فرضی لگتی ہے اور برطانیہ کی تعداد بھی فرضی دکھائی دے رہی ہے.فرضی اس لئے کہ گزشتہ سال بھی یہی تعداد دکھائی گئی تھی اور یہ ناممکن ہے کہ بعینہ اتنی ہی تعداد میں لوگ حصہ لیں کیونکہ بعض دفعہ گر جاتی ہے تعداد.کچھ لوگ ملک چھوڑ جاتے ہیں، کچھ وفات پا جاتے ہیں، کچھ نئے بچے شامل ہوتے ہیں ، نئے لوگ شامل ہوتے ہیں.اس لئے کم ہونا تو کسی طرح برداشت کیا جا سکتا ہے مگر بعینہ اتنی تعداد یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ایک فرضی بات ہے جو تحریک جدید کا سیکرٹری تھا اس نے گزشتہ ریکارڈ دیکھ کر وہی تعداد دوبارہ لکھ دی ہے.

Page 706

خطبات طاہر جلد ۸ 701 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء تو یہ جو تعداد ہے امریکہ کی یہ نوسو بیس (۹۲۰) بھی فرضی ہے اور بنگلہ دیش کی بھی اور برطانیہ کی بھی.نبی پانچ سو بیالیس (۵۴۲) نویں نمبر پر ہے.ناروے تین سو ساٹھ (۳۶۰) دسویں نمبر پر.ڈنمارک دوسو پچاس (۲۵۰) گیارویں اور سویڈن دوسواڑ میں ( ۲۳۸) بارویں نمبر پر ہے.زیادہ سے زیادہ چندہ دینے والے ممالک میں پاکستان خدا کے فضل سے ہمیشہ کی طرح صف اول کا پہلا ہے اور دوسرے نمبر پر اب جرمنی آگے آچکا ہے اور باقی سب مغربی دنیا کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کی وصولی ایک لاکھ چار ہزار چھیاسٹھ (۱۷۰۴۰۰۶۶) پاؤنڈ تھی اور چونکہ جرمنی میں جونو جوان ہیں ان کی مالی حالت غیر معمولی طور پر اچھی نہیں اور اپنے دوسرے چندوں میں بھی ماشاء اللہ بہت باقاعدہ ہیں.اس لئے یہ ایک غیر معمولی سعادت نصیب ہوئی ہے جرمنی کو جو خاص طور پر اس بات کی مستحق ہے کہ ہم ان کے لئے اور بھی دعائیں کریں.برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے جہاں اکاسی ہزار دوسود و (۸۱،۲۰۲ ) وصولی ہوئی اگر چہ ان کا وعدہ اسی ہزار (۸۰۰۰۰۰) کا تھا لیکن خدا کے فضل سے ایک ہزار دوسو دو (۱۲۰۲) زائد دینے کی توفیق ملی.امریکہ چوتھے نمبر پر ہے جہاں پینسٹھ ہزار چھ سو چھپیں پاؤنڈ (۶۵،۶۲۵ ) کے لگ بھگ امریکن ڈالر یعنی کہ متبادل امریکن ڈالر عطا کرنے کی توفیق ملی.کینیڈا کو بیالیس ہزار آٹھ سوسولہ (۴۲،۸۱۶) پاؤنڈ کے متبادل ڈالرز عطا کرنے کی توفیق عطا ہوئی.اور انڈونیشیا کو چونتیس ہزار تین سو تین (۳۴٬۳۰۳).انڈونیشا بھی خاص طور پر مبارکباد کا مستحق ہے کیونکہ وہاں کی اقتصادی حالت بھی کافی خراب ہے اور لاکھوں روپے کے چند پاؤنڈ بنتے ہیں.تو اس لئے انڈونیشیا کی جو مالی قربانی کا معیار ہے وہ خدا کے فضل سے قابل تعریف اور اس لائق ہے کہ ان کو بھی خصوصی دعا میں یا در کھا جائے.Per capita چندے کے لحاظ سے یعنی فی چندہ دہندہ کتنا چندہ کسی ملک کے تحریک جدید کے مجاہد نے ادا کیا.امریکہ نمبر ایک ہے.گزشتہ سال ان کی اوسط چونسٹھ پاؤنڈ پچپن پینس بنتی تھی چندہ دہندہ.امسال اکہتر پاؤنڈ اور تیس پینس بنتی ہے لیکن چونکہ ان کی تعداد میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا اس لئے ان کی نسبت گری نہیں ہے لیکن ایسے ممالک جنہوں نے تعداد بڑھانے کی کوشش کی ہے.اس پہلو سے اگر چہ ان کا چندہ بڑا ہے لیکن پھر بھی نسبت کم ہو گئی ہے.ہالینڈ نمبر دو پہ آتا ہے اور اس لحاظ سے تعجب انگیز ہے.۳۲ پاؤنڈ ۸۸ پینیس ان کی گزشتہ کی

Page 707

خطبات طاہر جلد ۸ 702 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء اوسط فی چندہ و ہند تھی امسال پیالیس پاؤ نہ دس پنس ہو گئی ہے اور سوئٹزر لینڈ تیسرے نمبر پر ہے.گزشتہ سال ستائیس پاؤنڈ پچاسی نیس فی چندہ دہندہ اوسط تھی اور امسال بیالیس تک پہنچے ہی.دس پینس صرف پیچھے رہ گئے ہیں ہالینڈ سے.برطانیہ گزشتہ سال پینتیس پاؤنڈ ستاون پنس تھی امسال انتالیس پاؤنڈ ہوئی ہے لیکن چونکہ یہ تعداد فرضی ہے اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ واقعہ فی اوسطاً انہوں نے کچھ اضافہ کیا ہے کہ نہیں اگر تعداد میں اضافہ ہوا تھا تو یہ اوسط گر گئی ہوگی.آسٹریلیا کی رپورٹ بھی درست نہیں لگتی کیونکہ یہ واحد ملک ہے جہاں امسال پچھلے سال کی نسبت نصف وصولی دکھائی گئی ہے تقریباً.پچھلے سال بنتیس پاؤنڈ بیالیس پہنس کے حساب سے انہوں نے آسٹریلین ڈالر ادا کئے تھے.امسال سترہ پاؤنڈ ا کہتر نہیں کے لحاظ سے.تو یہ نا قابل فہم ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ دنیا میں کسی جگہ بھی جماعت احمد یہ آگے ترقی کا قدم بڑھانے کی بجائے گر جائے یا اتنا گر جائے کہ نصف کے قریب پہنچ جائے یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے لازماً اس رپورٹ میں کوئی غلطی ہے.مغربی جرمنی فی کس چندہ دہندہ کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر ہے.پچھلے سال بیتیں پاؤنڈ ا کٹھ پنس تھی اس سال اکتیس پاؤنڈ چوراسی پنس فی چندہ دہندہ ان کی قربانی ہے.یہ بظاہر چھٹے نمبر پر ہے لیکن عملاً یہ خدا کے فضل سے آگے شمار ہونا چاہئے کیونکہ جرمنی کے احمدیوں کی فی کس آمد باقی جو ممالک میں نے جن کی فہرست پڑھی ہے ان کے مقابل پر کم ہے.اس پہلو سے بھی خدا کے فضل سے ان کو ایک فوقیت نصیب ہوئی ہے اور ایک اور پہلو سے کہ انہوں نے تعداد میں نمایاں اضافہ کیا تھا پچھلے سال سے تو جب تعداد میں اضافے ہوتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل کر لئے جاتے ہیں اور ان میں فی چندہ دہندہ چندہ زیادہ نہیں بڑھتا لیکن تعداد بڑھتی ہے اور اوسط کم ہو جایا کرتی ہے تو اس کے باوجود اللہ کے فضل سے ان کو ایک خاصی اچھی رقم فی چندہ دہندہ عطا کرنے کی توفیق ملی.کینیڈا ساتویں نمبر پر آتا ہے اور یہاں بھی چونکہ تعداد بڑھانے پر زور دیا گیا تھا اگر چہ چندہ بڑھ گیا ہے لیکن اوسط کم ہوگئی اور میں پاؤنڈ فی کس سے گر کر ستائیس انا نوے ہوگئی.سویڈن آٹھویں نمبر پر ہے جہاں چھپیں تہتر سے گر کر میں باون ہو گئی ہے امسال.تعداد میں

Page 708

خطبات طاہر جلد ۸ 703 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء کوئی ایسا اضافہ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس کا جواز ہو.معلوم ہوتا ہے کہ سیکرٹری تحریک جدید نے نمایاں کام نہیں کیا.ڈنمارک ہیں اکہتر سے بڑھ کر بائیں نوے یہ نویں نمبر پر ہے اور ناروے سترہ اکہتر تھا امسال ستر ہشیں ہے لیکن چونکہ تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس لئے یہ قابل فہم ہے اور یقینا اچھی کوشش ہے.پس مجموعی طور پر جو عمومی مقابلہ دیکھا جائے اضافہ کے لحاظ سے تو نمبر ایک جرمنی ہے جس نے گزشہ سال کے مقابل پر سب سے زیادہ اضافہ دکھایا ہے.نمبر دو کینیڈا ہے اور نمبر تین امریکہ ہے.اب تک کینیڈا نے نئے سال کا جو وعدہ کیا ہے وہ ایک لاکھ کینیڈین ڈالر کا وعدہ ہے.یو کے نے نئے سال کا وعدہ اسی ہزار سے بڑھا کر نوے ہزار پاؤنڈ کر دیا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ باقی سب جماعتوں کی طرف سے جب وعدے وصول ہوں گے تو یہ جو غیر معمولی ترقی کا رجحان ہے یہ انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہے گا.آخر پر میں ایک عمومی تبصرہ اس رپورٹ پر کرنا چاہتا ہوں جس کا تعلق جماعتی نظام سے ہے.میرا یہ تجربہ ہے کہ جماعتی نظام کی جو شاخ مستعد ہو اسی جماعت میں وہ بہتر نتائج پیدا کر دیتی ہے.ایک اچھا سیکرٹری تحریک جدید آجائے تو باقی جماعت کے حالات ویسے ہی رہیں تب بھی وہ تحریک جدید کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے.ایک اچھا سیکرٹری وقف جدید آئے تو یہی بات وہاں ظاہر ہوتی ہے.اگر چہ ہم مقابلہ تو کرتے ہیں لیکن بالعموم میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام نے جو جماعت پیدا کی ہے یہ زمین کے لحاظ سے ہر جگہ زرخیز ہے.دنیا کے کسی کونے میں بھی آپ چلے جائیں وہاں زرخیز جماعت ہی ملے گی.اگر پیدوار میں فرق پڑتا ہے تو وہ کسان کی قابلیت اور کام کرنے والے کی قابلیت کا مظہر ہوتا ہے.پس یہ بات یادرکھیں کے آگے پیچھے دوڑ میں تو ضرور کچھ لوگ آگے نکلیں گے کچھ پیچھے رہیں گے لیکن بعض لوگوں کا پیچھے رہ جانا عین ممکن ہے کہ ان کی اپنی ستی اور غفلت کی وجہ سے ہو جماعت کے عمومی اخلاص کی کمی کا مظہر نہ ہو اور مجھے یقین ہے کہ یہ ایسی ہی صورت ہے.الصلوة اس ضمن میں دو باتیں خاص طور پر میں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ امراء جو اس بات کے عادی ہوں کہ جب تک وہ توجہ دیں اس وقت تک وہ کام ہوتے رہیں

Page 709

خطبات طاہر جلد ۸ 704 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء اور جب ان کی نظر دوسری طرف ہو تو کام ہونے بند ہو جائیں ان کے ہاں جماعتوں میں متوازن ترقی نہیں ہوتی.بعض امراء اپنا وقت رکھتے ہیں کہ یہ اتنا حصہ میں فلاں کام پر دوں گا اور سب کو اس کام کی طرف مائل کر دیتے ہیں اور پھر وہ وقت دیتے ہیں دوسرے کام کے لئے ، پھر تیسرے کام کے لئے اور جماعت کے کام اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی توجہ ہر طرف ہو نہیں سکتی اور سال میں کسی نہ کسی پہلے سے کوئی نہ کوئی کام تشنہ تکمیل رہ جاتا ہے.اصول یہ ہے کہ امیر اپنے ماتحت تمام شعبوں کو ہمیشہ بیدار ر کھے اور تربیت دے کام کرنے والوں کو کہ وہ امیر کی توجہ کے بغیر بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنے ضمیر کی روشنی سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور ہمیشہ اپنا محاسبہ خود کرتے رہیں.ایسے منتظمین اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ اچھے نتائج ظاہر کرتے ہیں جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں ، اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھیں.وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ سارا بوجھ ہم پر ہے، ہم جوابدہ ہیں خدا کے سامنے.پس قطع نظر اس کے کہ ان کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے یا نہیں وہ ہمیشہ مستعد ہو کر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایسی جماعتیں جن میں یہ نظام جاری ہیں وہ اللہ کے فضل سے سب شعبوں میں متوازن کام کر رہی ہیں.پاکستان میں کراچی کی ایک مثال ہے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.گزشہ دسویوں سال سے مسلسل پورے استقلال اور ثبات قدم کے ساتھ ہر شعبے میں متوازن کام ہو رہا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ نظام جماعت کو جس طرح نافذ کرنا چاہئے تھا اس طرح خدا کے فضل سے وہاں کے امراء کو یکے بعد دیگرے یہ توفیق ملی کہ وہ نافذ کرتے چلے جائیں اور عمومی نگرانی رکھیں.یہ مضمون ہمیں قرآن کریم سکھاتا ہے اور قرآن کی روشنی میں میں اس کو مزید واضح کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے زمین اور آسمان کو چھ دنوں میں پیدا بھی کیا اور ٹھیک ٹھاک بھی کر دیا اور اس کے بعد ساتویں دن ہم عرش پر استویٰ کر گئے ، ہم عرش پر قرار پکڑ گئے.اب جہاں تک آرام کا تعلق ہے خدا کے لئے تو آرام کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ تو ایک انتھک وجود ہے اس لئے اس میں کیا پیغام ہے ہمارے لئے.پیغام ہمارے لئے یہ ہے کہ جب ایک اچھا منتظم نظام کے ہر پہلوکو درست کر کے جاری کر دیتا ہے تو اس کے بعد وہ ایک بلند حیثیت اختیار کر جاتا ہے.وہ ان سب باتوں پر پھر ایک آفاقی نظر ڈال رہا ہوتا ہے اور ہر چیز کی سطح پر نیچے اتر کے پھر اس کو دخل دینے کی

Page 710

خطبات طاہر جلد ۸ 705 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء ضرورت نہیں رہتی.عرش پر بلند ہونا یا عرش پر استوئی پکڑنا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ خدا اپنی تخلیق میں ایک کامل نظام پیدا کرتا ہے اور جب وہ نظام جاری کر دیتا ہے تو اس کی نوک پلک درست کر کے اس کو اس طرح چلا دیتا ہے کہ پھر وہ جاری و ساری ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو پھر یہ جس طرح انسانی سطح پر ہم سوچیں تو بھاگنے دوڑنے کی پھر ضرورت کوئی نہیں کہ او ہو ہو ہو! فلاں شعبہ ختم ہورہا ہے، فلاں جگہ یہ نقص پڑ رہا ہے اور فلاں جگہ یہ کام ہورہا ہے.وہ سارا نظام اپنی ذات میں ٹھیک ٹھاک درست ہو کر جاری وساری ہو جاتا ہے اور کوئی شور اس کا سنائی نہیں دیتا.یہ بہترین نظام کی تصویر ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھینچی ہے.وہ امراء جو اپنے ماتحت شعبوں کو شروع میں محنت کر کے اور توجہ کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتے ہیں اور جاری وساری کر دیتے ہیں اس کے بعد وہ پھر اپنی توجہ منتقل کرتے ہیں ایک اور شعبہ کی طرف ، پھر ایک اور شعبہ کی طرف پھر ایک اور شعبہ کی طرف اور پھر رفتہ رفتہ جب سب نظام درست ہو جاتا ہے تو ان کو بھی خدا تعالی کی طرح ایک عرش نصیب ہوتا ہے اور وہ دنیا کی سطح سے بلند سطح کا ایک عرش ہوتا ہے اور وہ اپنی جماعت میں ایک ایسی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں جس طرح خاندان کا ایک بزرگ جس کے بچے اس کے لئے کام کر رہے ہوں اور بظاہر وہ بیچ میں کاموں میں ملوث نہ ہو ان سے اوپر بالائی سطح پر بیٹھا نظارہ کر رہا ہولیکن در حقیقت یہ اس کی عمر بھر کی محنت اس کا سلیقہ اس کی عقل ہی ہے جو اولاد میں اس قسم کے کام کی ہمت اور کام کا سلیقہ عطا کرتے ہیں.آپ بھی بحیثیت امراء اس طرح کام کریں.تحریک جدید کا شعبہ مثلاً ہے.میں نے گزشتہ چند سالوں سے خاص طور پر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ آخری وقت تک رپورٹیں نہیں آرہی ہوتیں.جب ان کو یاد دہانی شروع کروائی جاتی ہے.تقریبا دو مہینے خطبے سے پہلے میں توجہ دلانی شروع کر دیتا ہوں اور اس کے باوجود وقت پر رپورٹیں نہیں پہنچتیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ توجہ نہیں کرتے کیونکہ جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اطاعت کی روح ہے.وہ توجہ ذرا دیر سے شروع کرتے ہیں.جب تک ان کو جگایا نہ جائے ہوش نہ دلائی جائے ان کو پتا نہیں لگتا کہ ہم نے کیا کرنا تھا اور پھر شرم مانع ہو جاتی ہے.بعض جگہ وہ رپورٹیں پی جاتے ہیں کہ خاموشی اختیار کر جاؤ ہے ہی کچھ نہیں بیان کرنے کے لئے.ہر جگہ وہ دیر سے کام شروع کر کے وقت کے او پر ختم نہیں کر سکتے.اس لئے کچھ تو

Page 711

خطبات طاہر جلد ۸ 706 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء افراتفری میں بھیج دیتے ہیں رپورٹ اور کچھ وہ بعد میں بھیجتے ہیں اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ نے تو جلدی ڈالی ہوئی تھی اب ہم کیا کریں.پوری رپورٹ نہیں بن سکتی پھر گویا کہ سارا قصور یاد دلانے والے کا تھا کہ کیوں اس نے جلدی ڈالی کہ جلدی کرو، جلدی کرو.اب رپورٹ میں رخنہ رہ گیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں.ان کی مثال وہی قصے والی ہے کہ ایک شخص کے ہاں کوئی مہمان آیا تو اس نے اپنے نوکر سے کہا کہ کھانے کا وقت ہو گیا ہے دو پہر کا تو تم بھاگ کر دو آنے کی دہی لے آؤ.کیونکہ اس وقت ہمارے گھر میں اور کوئی چیزیں نہیں ہیں تو دہی کے ساتھ ذرا تھوڑا سا ایک نیا ذائقہ پیدا ہو جائے گالیکن ذرا جلدی کرنا.اس نے کہا حضور! میں بس ابھی آیا.جب وہ چلا گیا وہاں جا کے دہی والے کے پاس کھڑا ہوا پھر باتیں شروع ہو گئیں وہ بھول ہی گیا کہ میں کس لئے آیا تھا.کافی دیر ہوگئی اس کو اور جب اس کو یاد آیا تو پتا لگا کہ کھانے کا وقت تو گزر چکا ہے.اس نے کہا پھر آج جاتے ہی نہیں کل جائیں گے دو پہر کو جب کھانے کا وقت ہو گا.چنانچہ اس نے اندازہ لگایا کہ اب کھانے کا وقت ہو گا مالک بیٹھنے والا ہو گا اس نے دو آنے کی دہی لی اور پلیٹ لے کے بھاگا بھاگا جب کمرے میں داخل ہورہا تھا تو ٹھوکر لگی اور زمین پر جا پڑا ، دہی بھی گر گئی.تو مالک کو مخاطب کر کے اس نے کہا ” تواڈی کالیاں نے ماریا کہ تمہاری جلدی نے مروا دیا ہمیں نہ تم جلدی کرتے نہ میں گرتا نہ یہ دہی ضائع ہوتی.تو ایک دن بعد بھی ابھی وہ جلدی تھی.تو ایسے تحریک جدید کے سیکرٹری جو افراتفری میں لکھتے ہیں کہ آپ نے کیا مشکل ڈالی ہوئی ہے اتنی جلدی ہم نہیں کر سکتے اب خام رپورٹ ہے تو خام ہی صحیح.ان کی ایسی مثال ہے.لیکن ان کو اگلے سال بھی ہوش نہیں آتی یہ صرف فرق ہے.تو ایک دن بعد ہی صحیح ، اگلے سال ہی اگر وقت کے اوپر رپورٹ بھیج دیں تو میں سمجھوں گا ان کی ان سے ملتی جلتی کچھ مثال تھی لیکن اٹھتے ہی نہیں.آج سے ان کی نگرانی شروع کر دیں.اس لئے امراء کا فرض ہے کہ آج سے ان کو جگائیں.آج سے ان کو کام کا سلیقہ سکھائیں آج سے ان کی نگرانی شروع کر دیں.ان کو بتائیں کہ تم نے آئندہ سال فلاں وقت سے ایک مہینہ پہلے ہی رپورٹ تیار کر کے مجھے پکڑانی ہے اور اس میں یہ لکھنا ہے کہ اعداد و شمار اب تک رونما ہو چکے ہیں اور ان کے رونما ہونے کی توقع ہے اور پھر آخری وقت میں پھر ٹیلیگرام کے ذریعے فیکسز (Faxes) کے ذریعے آخری ہنگامی اطلاع پہنچائی جا

Page 712

خطبات طاہر جلد ۸ 707 سکتی ہے کہ ان اعداد و شمار کو درست کر لو یہ با تیں بعد میں پیدا ہوئی ہیں.خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء تو اس پہلو سے جماعت کو بہت ضرورت ہے کہ اپنے نظام میں توازن پیدا کرے.بہت سی جماعتیں بہت اچھے کام کر رہی ہیں بعض شعبوں میں لیکن توازن نہ ہونے کی وجہ سے بعض شعبوں میں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں.دوسری بات یہ بیان کرنے والی ہے کہ بارہا میں توجہ دلاتا ہوں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بھول جاتے ہیں.دعا کا مضمون ایسا ہے جو ساری انسانی زندگی کی دلچسپیوں پر حاوی ہے اور عمومی دعائیں نہیں بلکہ خاص معاملات کے متعلق خاص توجہ سے دعا کرنا ضروری ہوا کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس میں برکت ملتی ہے.اس لئے امراء محض نظام کے خشک نگران نہ بنیں بلکہ ایک زندہ نظام کے زندہ نگران بنیں اور روحانی لحاظ سے ان کا دعا گو ہونا ضروری ہے ، ان کا دعا پر ایمان رکھنا کامل یقین رکھنا ضروری ہے اور ہر مشکل کے وقت دعا کے ساتھ ان کو کام شروع کرنا چاہئے اور دعا کے ساتھ مشکل کشائی کے لئے خدا کے حضور گرنا چاہئے.اس طرح آپ کے ہر شعبے میں خدا کے فضل سے غیر معمولی برکت پڑے گی.جو لوگ دعا کے مضمون کو بھولتے نہیں ان کے کاموں میں بے انتہا برکت ہوتی ہے اور اس سے پہلے میں نے مثلاً تبلیغی میدانوں میں بھی دیکھا ہے جہاں امراء صرف خشک نظام قائم کرتے ہیں ان کے تنظیمی نظام میں برکت نہیں پڑتی جہاں دعا گوامراء ہیں اور دعائیں کرتے بھی ہیں اور عاجزی کے ساتھ دوسروں کو بھی دعا کی تلقین کرتے رہتے ہیں ، درخواستیں کرتے رہتے ہیں ان کے ہاں غیر معمولی برکت پڑتی ہے.پس اپنے جماعتی نظام کو خشک Mechanical دنیاوی نظام نہ بننے دیں.اس کو اپنی دعاؤں سے، اپنے آنسوؤں سے، اللہ کی محبت سے تر رکھیں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے کاموں میں حیرت انگیز برکتیں پڑنی شروع ہو جائیں گے.آپ کے وقت میں برکت پڑے گی.آپ کے کاموں کے پھلوں میں غیر معمولی برکت پڑے گی.ان کے ذائقے میں برکت پڑے گی ، ان کی مٹھاس میں برکت پڑے گی ، ان کے باقی رہنے کی صلاحیت میں برکت پڑے گی.پس یہ دو صیحتیں میں آپ کو کرنی چاہتا ہوں یعنی نظام جماعت کے لحاظ سے توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں اور خدا کے نظام سے سلیقہ سیکھیں اور اس عرش کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو ہر اچھے

Page 713

خطبات طاہر جلد ۸ 708 خطبه جمعه ۲۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء منتظم کے مقدر میں ہوا کرتا ہے.وہ نظام مکمل کر دیتا ہے اور پھر عرش پر بیٹھ جاتا ہے لیکن آپ جس عرش پر بیٹھتے ہیں وہ خدا کے عرش کے قدموں میں رہے گا اور جب تک دعا کے ذریعے اس کا خدا کے عرش سے تعلق قائم نہ ہو وہ عرش کامل نہیں ہوسکتا یعنی آپ کا عرش بے معنی اور بے حقیقت ہو جائے گا.پس اس مضمون کو سمجھتے ہوئے عاجزی کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھیں اللہ تعالیٰ ہمارا سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں صحیح معنوں میں دین کا حقیقی عرفان عطا کرے اور اس عرفان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 714

خطبات طاہر جلد ۸ 709 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء آئندہ ہر ملک کی ذیلی تنظیموں کے صدران براہ راست خلیفہ وقت کو جوابدہ ہوں گے (خطبه جمعه فرموده ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.وقت کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی چلی جارہی ہیں اور جہاں تک نظام خلافت کا تعلق ہے بظاہر بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کے نتیجے میں اس کو براہ راست پھیلتے ہوئے کاموں سے واسطہ نہیں رہنا چاہئے اور سلسلہ وار بیچ میں دوسرے واسطوں کو پیدا ہونا چاہئے کیونکہ یہی دنیا کا نظام ہے اور اسی طرح دنیا کے نظام بڑھتے اور پھیلتے ہیں لیکن جماعت احمد یہ میں یہ صورت نہیں ہے.خلافت کے ساتھ نظام کے ہر جز وہ ہر شعبہ کا ایک ایسا گہرا براہ راست تعلق ہے کہ یہ تعلق محض نظام جماعت کے شعبوں ہی سے نہیں ان سے پار اتر کر ہر فرد بشر سے بھی جہاں تک ممکن ہے یہ تعلق قائم ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ تعلق کے دائرے پھیلتے چلے جاتے ہیں.بظاہر یہ بات ناممکن دکھائی دیتی ہے اور دنیا کے دانشور جنہوں نے غور اور قریب سے جماعت احمدیہ کا مطالعہ کیا ہے وہ یہی نتیجہ نکالتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ ممکن ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ اس کی ضرورت اور بھی زیادہ شدت سے محسوس ہو رہی ہے.ابھی حال ہی میں ایک ایسی کتاب کینیڈا سے شائع ہوئی ہے جسکا میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا.پروفیسر Nino Gultairy نے ایک کتاب لکھی ہے Conscience and Coercion.اس میں جماعت احمدیہ کے نظام کا مطالعہ کرتے

Page 715

خطبات طاہر جلد ۸ 710 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء ہوئے معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے بہت گہرائی میں اترے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خلافت کا جماعت کے ساتھ رابطہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرے لئے یہ ایک نا قابل یقین چیز تھی کہ مگر میں نے غور سے دیکھا تو یہ نا قابل یقین چیز واقعہ موجود پائی.وہ کہتے ہیں میرے لئے بہت مشکل ہے کہ میں صحیح معنوں میں بیان کر سکوں جو میں نے دیکھا ہے مگر خلاصہ یہ کہ سکتا ہوں کہ خلافت اور جماعت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور دونوں اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ باہم پیوست ہیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ شخصیت کے طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا.اپنے محبت کے تعلق میں ، اپنے نظام کے تعلق میں اپنے مسائل کے تعلق میں ایک ہی وجود بن گیا ہے اور اس ضمن میں وہ ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ لکھتے ہیں کہ میں نے جب خلافت کے کاموں پر غور کیا تو مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ ناممکن چیز ہے یہ نہیں ہوسکتا.لیکن جب میں نے قریب سے دیکھا اور ملاقاتیں کیں تو مجھے پتا لگا کہ واقعہ یہ ناممکن ممکن بنا ہوا ہے.بہت سے احمدیوں سے میں نے سوال کیا کہ آخر یہ کیوں ہوا ہے تو انہوں نے کہا یہ معجزہ ہے اور خدا کی ہستی کا ثبوت ہے اور اس بات سے ہمارے یقین زندہ رہتے ہیں اور ایمان تازہ ہوتے ہیں کہ جو چیزیں دنیا کی نظر میں ناممکن ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے جماعت میں ممکن کر دکھائی ہیں.تو وہ لکھتے ہیں کہ جو چیزیں ایک بیرونی نظر سے دیکھی جائیں لا یــنــحــل دکھائی دیتی ہیں ان کا حل جماعت احمدیہ کے نزدیک یہی ہے کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے جس کا جماعت سے تعلق ہے اور وہ جماعت کے لئے ناممکن کاموں کو ممکن بناتا چلا جاتا ہے.میں ان کے اس مطالعہ سے بڑا متاثر ہوا کیونکہ میں نے کبھی کسی مستشرق کو بیرونی جائزہ کے سوا گہرائی میں اترتے نہیں دیکھا.بڑے بڑے عالموں کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں لیکن ان کے تمام مطالعے سرسری ہوتے ہیں اور جلد سے نیچے نہیں اترتے.اس مصنف نے حیرت انگیز زکاوت کا ثبوت دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے ان کے اندر کوئی روحانیت کا مادہ ہے جس کی وجہ سے ان کو خدا تعالیٰ نے اندر اترنے کی بصیرت عطا فرمائی.بالعموم نظام جماعت کا ان کا مطالعہ درست اور قابل اعتماد ہے اور اس پہلو سے یہ کتاب نہ صرف پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے بلکہ غیر از جماعت دوستوں اور غیر مسلموں کو بھی جماعت کا تعارف کروانے کے لئے ایک بہت اچھی کتاب ہے.جہاں تک عقائد کی تفاصیل کا تعلق ہے، جہاں تک اختلافات کا تعلق ہے بہت معمولی بعض

Page 716

خطبات طاہر جلد ۸ 711 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء جگہیں ایسی ہیں جہاں انسان چاہتا ہے، دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر یہ اس بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیل سے گفتگو کر لیتے تو شاید یہ ایک آدھ سقم بھی نہ باقی رہتا لیکن یہ چیزیں تو ہر مصنف کی کتاب میں خواہ وہ کیسا ہی گہرا محقق کیوں نہ ہو پائی جاتی ہے لیکن ان کی کتاب میں سب سے کم پائی جاتی ہیں.اس ذکر کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ جماعت احمدیہ کے ذیلی نظام پر غور کرتے ہوئے میں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اس کے روابط میں کچھ تبدیلی پیدا کی جائے اور اس تبدیلی کا رجحان اسی طرف ہے جو میں نے بیان کیا اور جو اس مصنف نے بھی محسوس کیا کہ ہر نظام کے ہر شعبے کا ایک براہ راست واسطہ خلیفہ وقت کے ساتھ پایا جاتا ہے جو کام کے پھیلنے کے باوجود درمیان میں منقطع نہیں ہوتا اور کسی اور تعلق کا محتاج نہیں رہتا.چنانچہ انہوں نے ایک مثال یہکھی کہ جن دنوں میں میں انگلستان آیا ہوا تھا.نیو یارک سے غالبا ایک انجینئر پہنچے ہوئے تھے وہ ایک احمدیہ مسجد کا تفصیلی نقشہ اور اس کی ساری پلان اور مستقبل کے متعلق کیا کیا وہاں ہو گا وہ سب چیزیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے ان کو بتایا کہ جب تک ہم خلیفہ وقت کو دکھا کر اس سے تمام تفاصیل منظور نہ کروالیں اور مزید ہدایت نہ حاصل کر لیں ہمیں تسلی نہیں ہوسکتی.اس لئے ہم مجبور ہیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں دنیا بھر میں اتنے کام اس طرح ہورہے ہیں تفصیل کے ساتھ اور یہ سارے ایک ذات میں اکٹھے کیسے ہو سکتے ہیں.چنانچہ اس ضمن میں انہوں نے بات چھیڑی.خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے نظام میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ایک رخنہ پیدا ہوا ہے جو واسطے کی کمی کا رخنہ ہے اور وہ اس طرح کہ اب تک مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دفاتر اور انصار اللہ مرکزیہ کے دفاتر اور لجنہ کے دفاتر ربوہ میں تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ان معنوں میں مرکز یہ ہیں کہ تمام دنیا کی مجالس کے اوپر وہ نظر رکھتے ہیں اور نظر رکھنی چاہئے ان کو اور ان کے مسائل سے واقف ہیں اور ان کی رہنمائی کر رہے ہیں.میں نے چند سال پہلے یہ محسوس کیا کہ یہ بات درست نہیں ہے.اور بھی بہت سے رخنے وقت کے ساتھ مطالعہ کے نتیجے میں میرے سامنے آنے شروع ہوئے.اول یہ کہ دنیا کے اکثر ممالک کے حالات پر ان ذیلی مجالس کے دفاتر کی نہ نظر ہے ، نہ ہوسکتی ہے کیونکہ وہ بہت مختصر سا نظام رکھتے ہیں اور جو جماعتیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں ان کے مسائل کی تفاصیل ان کے حالات سے باخبری یہ

Page 717

خطبات طاہر جلد ۸ 712 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء ایک بہت ہی بڑا کام ہے جس کے لئے بہت گہرے روابط اور مسلسل روابط کی ضرورت ہے اور محض ایک رابطہ کی رو کافی نہیں بلکہ مختلف رویں چلنی چاہئیں ہر طرف سے جو را بطے کو ایک مضبوط دھارے کی شکل میں تبدیل کر دیں.خدام الاحمدیہ کے مرکز میں اگر صرف خدام الاحمدیہ کے بعض شعبوں کی طرف سے یا بعض مجالس کی طرف سے اطلاعیں آتی رہیں تو ان کو کچھ پتا نہیں کہ لجنہ میں وہاں کیا ہو رہا ہے.وہاں انصار اللہ میں کیا ہو رہا ہے.وہاں جماعت کے عمومی رجحانات کیا ہیں اور وہ اس باریک دھارے سے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں ایک نتیجہ اخذ کرتے اور اس کے اوپر بعض احکامات جاری کرتے تو اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں جو خرابی دکھائی دی وہ ایک معنی میں خوبی بن گئی.چونکہ روابط کم تھے اس لئے غلط فیصلے بھی کم ہوئے اور بہت کم ایسے مواقع پیش آئے کہ مجالس مرکز یہ نے مختلف ممالک کے بارے میں اپنی ذیلی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ایسے فیصلے کئے جو بعد میں مشکلات کا موجب بن سکتے.یعنی اول تو فیصلے ہی بہت کم ہوئے مگر جو فیصلے ہوئے ان میں ایسی مثالیں شاذ شاز پیش آتی رہیں.اس کا نتیجہ یہ نکلا کے تحریک جدید نے خلافت کے سامنے اپیل کی کہ مجلس خدام الاحمدیہ یا مجلس انصار اللہ یا مجلس لجنہ اماءاللہ یہ اپنی ذات میں ایسے فیصلے کر لیتے ہیں ان کو حالات کا پتا ہی کچھ نہیں اور وہ جماعت کے لئے مضر اور نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں.چنانچہ ایک اور راستہ بیچ میں قائم کر دیا گیا یعنی مجالس کے صدران تو وہی رہے لیکن وہ رفتہ رفتہ اس بات کے پابند کر دئے گئے کہ تحریک جدید کو اپنا مشیر سمجھیں اور اس کے نتیجے میں ایک انوکھی سی شکل پیدا ہوگئی.تحریک جدید انجمن کا رنگ رکھتی ہے اور نظام جماعت کے اوپر جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے، بیرون ہندوستان یا بیرون بنگلہ دیش بھی شامل کر لینا چاہئے سارے نظام کی ذمہ دار تحریک جدید ہے.لیکن یہاں ذیلی تنظیموں کے ایک قسم کے نائب کے طور پر یا مشیر کے طور پر کام کرنے لگی اور ذیلی تنظیموں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ یہ مشیر اتنا طاقتور ہے کہ اس مشیر کو ہم لگام نہیں دے سکتے اور جو مشیر تھا وہ عملاً نگران بن گیا لیکن عملاً نگران اس رنگ میں بنا کہ وکیل التبشیر بھی تفصیل سے ان باتوں پر غور کرنے کے بعد مشورے نہیں دیتا تھا بلکہ ایک دفتری طور پر ایک قسم کی دخل اندازی سی شروع ہو گئی اور دونوں جگہ بے اطمینانی کا احساس بڑھنے لگا.

Page 718

خطبات طاہر جلد ۸ 713 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء جب اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد یہ ذمہ داری فرمائی تو مجھے یہ خیال آیا کہ مرکزی تنظیموں کے وقار کو بحال کرنے کے لئے جب تک یہ دنیا کے قائدین مقرر ہیں ان کو کچھ نہ کچھ اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ دنیا سے تعلق رکھو اور رابطے بڑھاؤ اور سفر اختیار کرو اور معلوم تو کرو کہ کیا ہو رہا ہے.اس کے بعد جب اہم فیصلے کرو تو تحریک جدید سے ضرور مشورہ کرو لیکن بالعموم جو ہدایتیں تمہیں خلافت سے ملتی ہیں وہ جاری کرو دنیا میں اور اگر مرکزی کہلانا ہے تو مرکزی بنو.چنانچہ جب انہوں نے مرکزی بننا شروع کیا تو پھر بعض اور خامیاں سامنے آنی شروع ہوئیں.بہت سے ایسے غلط فیصلے ہونے شروع ہوئے جو پہلے کام نہ ہونے کے نتیجے میں نہیں ہوتے تھے.اب جب کام کھل کے ہونا شروع ہوا تو پتالگا کہ یہ محدود دائرے کی اطلاعیں اور محدود دائرے کی اطلاعات جب مرکز میں پہنچتی ہیں تو مرکزی دماغ ان معلومات پر صحیح فیصلہ کرنے کا اہل نہیں بنتا.اس لئے لازماً اس سارے نظام کو خلافت سے وابستہ کرنا پڑے گا اس طریق پر جس طریق پر دنیا کے باقی نظام وابستہ ہیں اور بیچ سے یہ جو واسطے ہیں یہ ہٹانے پڑیں گے.چنانچہ امسال جلسہ سالانہ کے بعد میں نے مرکز یعنی پاکستان سے آئے ہوئے سلسلے کے مختلف بزرگوں اور انجمن اور تحریک اور بعض ذیلی تنظیموں کے نمائندوں سے مشورہ کیا تو سب کی بالا تفاق رائے یہی تھی کہ اس نظام میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہے.چنانچہ آج میں اس تبدیلی کے متعلق اعلان کرنا چاہتا ہوں.نظام میں تبدیلی سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدام الاحمدیہ کے نظام اور بحیثیت نظام کے تبدیل کئے جارہے ہیں صرف رابطے میں تبدیلی کا نظام مراد ہے.تو فیصلہ یہ ہے کہ آئندہ سے جس طرح پاکستان کا صدر خدام الاحمدیہ انجمن کا نمبر بھی ہوتا ہے اور باقی ناظروں کی طرح براہ راست خلیفہ وقت کو جوابدہ ہوتا ہے اور اس سے ہدایات لیتا ہے اور اس کے سامنے اپنے مسائل رکھتا ہے اس طرح باقی دنیا کے صدران مجلس خدام الاحمدیہ بھی براہ راست خلیفہ وقت سے تعلق رکھیں اور اپنی مرکزی مجالس کا واسطہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے.یہ نظام اس لئے بھی ضروری ہے کہ آگے مجلس خدام الاحمدیہ مثلا یا دوسری مجالس بھی ہیں ان میں تفصیلی طریق کار یہ ہے کہ ایک منتظم بیرون بنایا جاتا ہے اور منتظم بیرون کی اپنی علمی حیثیت یا جماعت سے واسطے کی حیثیت کا کام کے تجربے کی حیثیت بالعموم ایسی نہیں ہوتی کہ وہ تمام دنیا کی مجالس پر جو دن بدن پھیلتی چلی جا رہی ہیں اور بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور قوی تر ہوتی جا رہی ہیں ان پر نظر بھی رکھے ان کے

Page 719

خطبات طاہر جلد ۸ 714 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء حالات سے واقف ہو اور صحیح مشورہ صدر کو دے سکے.اول تو اپنی ذات میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے معلومات کا دھارا تنگ اوپر سے صدر اور مجالس کے درمیان ایک اور واسطہ پڑ جائے جو مجلس بیرون کے سیکرٹری کا واسطہ ہو اس کو مہتم کہا جاتا ہے یا انصار اللہ میں غالباً کوئی اور نام ہے.بہر حال اس بیچارے کو کچھ پتا لگ ہی نہیں سکتا کہ کیا ہورہا ہے میں نے کیا فیصلے کرنے ہیں.یا تو من وعن ہر رپورٹ کو اسی طرح قبول کرتا چلا جائے گا اور اس میں بعض غلط مشورے آئیں گے تو اس کو پتا نہیں لگے گا کہ اس کو قبول کرنا ہے یا نہیں کرنا.چنانچہ ایسے فیصلے بعض دفعہ ہو گئے غلطی سے کہ ایک ایسا شخص جس کے متعلق خلیفہ وقت کو تو علم تھا کہ وہ ایک بیرونی خطر ناک تنظیم کا نمائندہ بن کے جماعت میں داخل کیا گیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے تحریک کو بھی علم نہیں تھا.وہ سارے ملک کا صدر منتخب ہو جاتا ہے اور مجلس مرکزیہ کی طرف سے منظوری کی اطلاع چلی جاتی ہے یا جانے لگتی ہے تو علم میں بات آجاتی ہے.ایسا ایک واقعہ اس زمانے میں ہوا جب میں خود تحریک جدید میں عارضی طور پر وکیل التبشیر کے طور پر کام کر رہا تھا.چنانچہ ایک شخص کے متعلق میرا ذاتی تاثر ( میں دورہ کر کے آیا تھا دنیا کا اپنے ذاتی طور پر ) اس کے متعلق ایسا تھا جب اس کی اطلاع ملی کہ یہ بننے لگا ہے کچھ اہم عہد یدار تو میں نے ذکر کیا حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے.آپ کی معلومات اس سے بہت زیادہ تھیں جو میرا تاثر تھا آپ نے بتایا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.فوری طور پر تحریری حکم دو کہ یہ کام نہیں ہوگا اور ان کو سمجھاؤ کہ ایسے معاملات میں مشورہ کیا کریں پہلے جو بڑے اہم فیصلے ہیں.اور بعد میں بھی ایسے اکا دکا واقعات ہوتے رہے.تو اس وجہ سے عملاً جو قیادت ہونی چاہئے دنیا کی وہ دنیا کو نصیب نہیں ہے.یعنی خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ کو جو ذاتی حق ہے کہ مرکزی قیادت ان کو حاصل ہوا اور خلیفہ وقت براہ راست ان سے تعلق رکھتا ہوان کے حالات پر نظر رکھتا ہو اس سے وہ محروم ہونے کی وجہ سے کاموں سے محروم رہ گئے ہیں اور الا ما شاء لله وہ چند مجالس جہاں خلیفہ وقت کا بار بار آنا جانا ہے یا عارضی قیام ہے وہاں خدا کے فضل سے ایک بڑی نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ باوجود اس کے کہ نظام تبدیل نہیں ہوا عملاً ان مجالس نے براہ راست رابطے قائم کئے ہوئے ہیں.اس لئے خدا کے فضل

Page 720

خطبات طاہر جلد ۸ 715 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء سے وہاں یہ کمزوریاں محسوس نہیں ہور ہیں مگر ایک سو بیس ممالک میں پھیلی ہوئی جماعت میں پھیلی ہوئی ظیمیں موجودہ نظام کے مطابق تو سنبھالی جاہی نہیں سکتیں.لاز ماہر ملک کی ذیلی تنظیم کو براہ راست خلیفہ سے واسطے کا حق ہے اور اس کا یہ حق بحال ہونا چاہئے.جہاں تک بڑھتے ہوئے بوجھ کا تعلق ہے میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ خود را ہنمائی فرماتا چلا جاتا ہے اور بوجھ ہلکے بھی کرتا چلا جاتا ہے اور کاموں کو آسان کر دیتا ہے.اس سلسلے میں میں نے جب غور کیا تو زندگی کی مثال اپنے سامنے رکھی.میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ نے جو نظام پیدا کئے ہیں وہ اتے تفصیلی اتنے گہرے ہیں کہ ایک شخصیت کا مرکزی نقطہ یعنی اس کی Consciousness اس کا شعور بیک وقت کس طرح اس سارے نظام کی نگرانی کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسا ہی ہے.زندگی کے ہر جنس کے ہر جز ، میں یہی نظام کارفرما آپ کو دکھائی دے گا کہ مرکزی نقطہ اگر اسے کہیں تو اس کا براہ راست سارے نظام سے واسطہ ہے.اگر اسے دماغ کہیں تو اس کا بھی براہ راست سارے نظام سے واسطہ ہے اور وہ جگہ جہاں دل اور دماغ اکٹھے ہو جائیں اس آخری نقطہ کا نام روح ہے اور اس کا بھی سارے نظام سے واسطہ ہے.یہ کیسے ممکن ہے؟ اس بات پر غور کرتے ہوئے مجھے ایک بہت ہی لطیف نقطہ سمجھ آیا.میں Conscious Mind (Unconscious Brain Conscious Brain یا Unconscious Mind کے مسئلے پر غور کیا تو ایک معمہ میرے لئے حل ہو گیا کہ نظام کس طرح جاری ہے اور کس طرح Unconscious Mind بنتا ہے اور کیسے بنتا ہے.چنانچہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ بات سمجھا دی کہ آغاز زندگی کا Conscious Mind سے ہوا ہے کوئی چیز Unconscious نہیں تھی.پہلی حرکت زندگی نے جو کی ہے وہ Conscious Mind کے ذریعے ہوئی ہے اور جب Conscious Mind نے یعنی ایک آخری احساس جسے ہم شعور کہہ سکتے ہیں اس نے جب ایک نظام مکمل کر لیا اور اس کی نگرانی خوب ایسی کی کہ وہ اپنی ذات میں جاری وساری ہو گیا تو اس کی توجہ پھر اگلے قدم کی طرف خدا نے پھیری اور جو پہلا حصہ تھا اس کو لا شعور دماغ بنا دیا.وہ تھا اسی دماغ کا حصہ لیکن دب کر نیچے اتر آیا اور اس وقت تک یہ واقعہ نہیں ہوا جب تک سو فیصدی اطمینان اور کمال حسن کے ساتھ وہ حصہ نظام کا جاری نہیں ہوا.

Page 721

خطبات طاہر جلد ۸ 716 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء اس پہلو سے جب میں نے انسانی زندگی پر غور کیا تو میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کے کہ زندگی کے وہی شعبے صرف شعور کی طرف منسوب ہیں یا شعور سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ابھی درجہ کمال حاصل نہیں ہوا.جو اپنی ذات میں کلیہ آزادانہ جاری وساری ہونے کی صلاحیت اختیار کر چکے ہیں ان کا تعلق بھی دماغ سے ہے مگر لاشعوری دماغ سے رہ گیا شعوری دماغ سے نہیں.تو شعوری دماغ کی ترقی کے ساتھ لاشعوری دماغ کی ترقی ہوتی ہے اور یہ ترقی اسی وقت ہوتی ہے جب نظام کا ایک حصہ کامل ہو جائے اور اپنے درجہ کمال کو پہنچ کر مستقل حرکت شروع کر دے اس کے بعد تفصیل سے اس کی نگرانی کی ضرورت نہ رہے.اس نقطہ کا تفصیلی ذکر اس لئے ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ میں بھی کام بڑھنے کے ساتھ یہی واقعہ ضرور ہونا ہے اور بعض پہلوؤں سے ہو رہا ہے.اگر آپ چاہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا شعور بغیر زیادہ بوجھ اٹھائے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے تو جن باتوں میں وہ شعوری توجہ کا محتاج ہے ان میں اس کی توجہ پر بوجھ کم کرنے کے لئے اس نظام کو کامل کر دیں اور خودرو بنادیں.جتنا نظام درجہ کمال کو پہنچتا چلا جائے گا اور خود رو ہوتا چلا جائے گا خلیفہ کی براہ راست توجہ کا محتاج نہیں رہے گا اور اس کی توجہ جو سابق میں تھی یا کئی خلفاء کی توجہ جو سابق میں رہی ان کا مجموعی فائدہ جماعت کو یہ پہنچے گا کہ اپنی ذات میں وہ نظام چل پڑے گا اور الا ماشاء اللہ شعوری دخل کی ضرورت نہیں رہے گی اور پھر وہ شعوری دماغ اور حصوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے آزاد ہوتا چلا جائے گا.اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے گزشتہ خطبہ والا مضمون میرے ذہن میں پھر حاضر ہو گیا جب میں نے بیان کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں جو یہ بتایا ہے کہ ہم نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اسے مسخر کیا ، اس کو کامل کیا اور جب وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا اور جاری وساری ہو گیا پھر ہم عرش پر بیٹھ گئے.تو یہ بھی ویسی ہی ایک مثال ہے.انسانی دائرے میں عرش دماغ کے اس آخری حصے کو کہہ سکتے ہیں آخری نقطہ عروج کہہ سکتے ہیں جس پر روح مسلط ہے اور اس کا عرش بھی اسی طرح بنا ہے.ارب ہا ارب سال کی مسلسل ترقی کے ساتھ رفتہ رفتہ زندگی نے قدم آگے بڑھائے اور ایک نظام کا دائرہ مکمل ہوا تب اس کا اونچا Next قدم قائم ہوا ایک نیا درجہ ظاہر ہوا جو رفعت میں پہلے سے بلندتر تھا اور اس طرح شعوری دماغ اپنے پیچھے ایک نظام کا ایک جلوس چھوڑ تا چلا گیا.یہاں تک کہ انسان

Page 722

خطبات طاہر جلد ۸ 717 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء کے درجے تک پہنچتے پہنچتے یہ اتنا وسیع نظام ہو چکا ہے کہ اگر آپ کو اس نظام کے ایک معمولی سے حصے کے متعلق بھی میں پوری معلومات حاصل کرنے کے بعد بتانا شروع کروں تو بیسیوں خطبے گزر جائیں گے لیکن وہ ذکر مکمل نہیں ہوگا.حیرت انگیز نظام ہے اور آخر پر ایک ہی دماغ ہے.ایک ہی شعور ہے جو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کا آخری نگران ، اور ہے بھی آخری نگران، لیکن از خود کام ہوتے چلے جارہے ہیں.سارا ہمارا جو نظام ہے پیدائش کا نظام، سانس لینے کا نظام انہظام کا نظام، بے شمار نظام میں گردوں کا کام کرنا اور کئی قسم کے تیزابوں اور زہروں کو جسم سے نکالنے کا نظام، دفاع کے مختلف نظام.ان میں سے ہر نظام کا ہر حصہ اتنا پیچیدہ اور اتنا توجہ کا محتاج ہے کہ ناممکن ہے کہ بغیر توجہ کے یہ خود بخود کام کرے لیکن مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ یہ توجہ رفتہ رفتہ ایک ایسے نظم و ضبط کی شکل اختیار کر گئی جس کو ہم غیر شعوری دماغ کہتے ہیں اور اس لمبے عرصے کی کمائی کا نتیجہ ہے کہ یہ نظام جاری ہے.یہ سوچتے ہوئے میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کی یہ ایک عظیم الشان دلیل ہے.اگر انسانی زندگی کے تجربہ میں بھی یہ ناممکن ہے کہ لمبے عرصے کی شعوری کوشش کے بغیر کوئی نظام جاری رہ سکے.تو ساری کائنات کا جو نظام چل رہا ہے یہ غیر شعوری کوشش کے بغیر کیسے ہو گیا.اس لئے جو خود بخود چل رہا ہے جس طرح ہمارے جسم میں خود بخود چلنے والا نظام بھی ارب ہا ارے سال پہلے شعوری طور پر چلایا جارہا تھاور نہ از خود چلنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی.اس طرح ساری کائنات کا نظام بھی جو از خود چلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے بہت ہی لمبے عرصے تک شعوری طور پر چلایا گیا ہے اور اس شعور نے پھر آگے مختلف در جے اختیار کر لئے ہیں اور سلسلہ وار اس کا آخری درجہ خدا سے ملتا ہے اور یہ سلسلہ وار شعوری نظام یا اگر انسانی اصطلاح میں بات کریں تو بعض پہلو سے غیر شعوری بھی کہہ سکتے ہیں اس کو.یہ جو جاری ہوا ان سلسلوں کا نام فرشتے ہیں اور بے شمار فرشتے ہیں جو سلسلہ وار اس کام کو چلاتے چلے جارہے ہیں اور پھر خدا تک ان کا تعلق ہے اور وہ آخری فرشتہ جو اس میدان میں سب سے بلند مرتبہ رکھتا ہے اور خدا سے تعلق رکھتا ہے اس فرشتہ کا نام ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے یا بعض جگہ ذکر ملتا ہے اور تفصیل سے نام نہیں ملتا لیکن یہ ضرور پتا چلتا ہے قرآن کے مطالعہ سے اور حدیث کے مطالعہ سے

Page 723

خطبات طاہر جلد ۸ 718 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء بھی کہ ایسے فرشتے ہیں جو نظام کی ہر تفصیل کی آخری رپورٹ خدا کے حضور پیش کر رہے ہوتے ہیں.پس نظام کا بڑا ہونا فی ذاتہ کوئی چیز نہیں ہے، کوئی بوجھ نہیں ہے.اس نظام کا صحیح ہونا ضروری ہے.اگر نظام صحیح ہو جائے اور چل پڑے تو ساری کائنات کا خدا بھی عرش پر مسلط ہوسکتا ہے اور جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے اس کو علم ہے کہ اس کی تفصیلی توجہ کی اس طرح اب ضرورت نہیں ہے وہ نظام اس کی توجہ کی برکت سے آگے چل پڑا ہے اور چلتا رہے گا اور ذیلی توجہ کرنے والے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں.اس لئے خدام الاحمدیہ کا نظام ہو یا لجنہ کا یا انصار اللہ کا ان میں ابھی وہ پختگی نہیں آئی وہ روانی نہیں آئی کہ خلیفہ وقت کی ذاتی براہ راست توجہ کے بغیر یہ پوری طرح جاری وساری ہو سکیں اور اپنی ذات میں Sub Conscious دماغ کے سپرد کئے جاسکیں.خصوصاً وہ علاقے جہاں پہلے ہی رابطے کمزور ہیں ان میں ان کو اپنی کامل روح کے ساتھ جاری کرنے کی ضرورت ہے وہاں لازماً خلیفہ کو اپنی شعوری توجہ کو ان کی طرف منتقل کرنا پڑے گا اور شعوری توجہ کا رابطہ ان سے لمبے عرصے تک رکھنا پڑے گا.پس آج کے اس خطبے کے ذریعے میں یہ اعلان کرتا ہوں کے آئندہ سے تمام ممالک کی ذیلی مجالس کے اسی طرح صدران ہوں گے جس طرح پاکستان کی ذیلی مجالس کے صدران ہیں اور وہ اسی طرح براہ راست خلیفہ وقت کو اپنی آخری رپورٹیں بھجوائیں گے جس طرح پاکستان کے صدران اپنی رپورٹیں بھجواتے ہیں.اس کام کو ہلکا اور آسان کرنے کی خاطر میں نے یہ سوچا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے شعبہ کے ساتھ ایک شعبہ ذیلی مجالس قائم کیا جائے اور سر دست وہاں مستقل نائب پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کرنے کی بجائے انگلستان کی جماعت سے کچھ مستعد احباب جماعت کو چن کر ان کو اس معاملے میں اپنی مدد کے لئے مقرر کروں.وہ ان سب رپورٹوں کا مطالعہ کریں جو اس شعبہ کو موصول ہوتی ہیں اور ان کے متعلق مجھ سے وقت لے کر زبانی مجھ سے گفتگو کیا کریں اور ان خاص باتوں کو Highlight کریں یعنی نمایاں کریں جہاں میری خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.پھر میں ان رپورٹوں کی تفصیلات کو بھی پڑھ سکتا ہوں لیکن سر دست اس طرح کام آگے بڑھایا جائے گا اور میں نے یہ سوچا ہے کہ بہت سے ایسے کام ہمیں دنیا میں اب کرنے ہیں جن میں ان تنظیموں کو سب دنیا میں

Page 724

خطبات طاہر جلد ۸ 719 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء زندہ اور فعال بنانے کی ضروت ہے اور ان کا رابطہ اپنی امارتوں کے ساتھ بہترین بنانے کی ضرورت ہے تا کہ کسی قسم کے رخنہ کا کوئی سوال نہ رہے.پس یہ نظمیں اپنی امارتوں سے کیا تعلق رکھتی ہیں اور محبت اور ادب اور وفا کا تعلق ہے یا کوئی اور تعلق ہے اس پر بھی میری نظر بھی رہ سکتی ہے اگر ان کی رپورٹیں مجھے مل رہی ہوں اور میں پہچان رہا ہوں کہ ان میں کیا کیا باتیں پیدا ہو رہی ہیں، کیار جحانات ہیں.پس آئندہ سے انشاء اللہ تعالیٰ اس طریق پر کام ہو گا تبھی میں نے اس دفعہ ربوہ میں ہونے والے مرکزی اجتماعات کے موقع پر جو انتخاب ہوئے ان میں یہ واضح ہدایت بھیجی تھی کہ آپ اپنے اپنے ملک کے صدر کا انتخاب کریں اور وہاں عمداً مرکزی لفظ استعمال نہیں کیا تھا.میں نہیں جانتا کہ ان کو میرا یہ پیغام سمجھ آیا یا نہیں لیکن ہدایت کے مطابق جو جو صدر بھی منتخب ہوئے ہیں وہ پاکستان کے صدران ہیں اور باقی دنیا کے تمام ذیلی تنظیموں کے آخری عہدیداران آج کے بعد صدر مجلس کہلائیں گے.یعنی انگلستان میں صدر مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان ، صدر مجلس انصار الله انگلستان ، صدر مجلس لجنہ اماءاللہ انگلستان ہوگا اور اسی طرح باقی دنیا کے ملکوں کا حال ہوگا.اس سلسلے میں میں دعا کی بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ جو قدم اٹھایا ہے یہ صرف لمبے مشوروں کے بعد نہیں بلکہ بہت لمبی دعا کے بعد اور بہت غور کے بعد اور تامل کے بعد اٹھایا ہے اور اس آخری شکل میں جب تک مجھے پوری طرح شرح صدر نصیب نہیں ہوا میں نے اس فیصلے کا اعلان نہیں کیا حالانکہ جلسے پر مشورہ دینے والے کہتے تھے کہ بالکل ٹھیک ہے: در کار خیر حاجت استخاره نیست فوراً اعلان کر دیں لیکن میرے دل پہ ابھی ایک بوجھ تھا کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے پوری فراست نصیب نہ ہو جائے اور پوری طرح شرح صدر نہ ملے اور دعاؤں کے ذریعے اس میں خیر نہ طلب کرلوں اس وقت تک یہ اعلان نہیں کرنا.تو آپ سے یعنی ساری جماعت سے میری درخواست ہے کہ دعا کے ذریعے میری مدد کریں کہ اللہ تعالی اس فیصلے کو درست اور بابرکت ثابت فرمائے اور کثرت کے ساتھ جماعت اس کی خیر کا پھل کھائے اور نظام جماعت تیزی کے ساتھ اپنی تکمیل کے وہ مراحل طے کرے جس کے بعد

Page 725

خطبات طاہر جلد ۸ 720 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء نظام کے ہر حصے کو غیر شعوری دماغ کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے اور نظام جماعت کا عرش بلندتر ہوتا چلا جائے گا.یہی وہ نظام ہے جس کے ذریعے ہم مزید رفعتیں حاصل کر سکتے ہیں.اس کے بعد میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ایک غم کی خبر بھی ہے مگر رضائے باری تعالیٰ کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کے سامنے سرتسلیم خم کریں.غم جدائی کا تو ہے لیکن اپنی ذات میں جن کی وفات کا میں ذکر کرنے لگا ہوں وہ ایک نہایت ہی نیک انجام کو پہنچے اور کسی پہلو سے بھی ان کی اس وفات کے اوپر کسی کے لئے شکوہ کی کوئی جانہیں.حضرت ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمد یہ جو ۱/۲۵ اکتوبر کو۲ بجے کینیڈا میں وفات پاگئے ہیں ان کی وفات کا اعلان کرتے ہوئے ان کا مختصر ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں.ملک صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی علم عطا فرمایا، غیر معمولی فراست عطا فرمائی، غیر معمولی اطاعت کی روح عطا کی اور ایسا حسین ذہن اور قلب کے درمیان توازن عطا کیا کہ جو شاذ شاذ بندوں میں پایا جاتا ہے.ایک بہت ہی ایک دلر با وجود تھے.میں ان کے ساتھ مختلف تعلق رکھتا رہا ہوں خصوصیت کے ساتھ جامعہ کے زمانے میں شاگرد کی حیثیت سے جب میں نے ان کو دیکھا تو ان کے وجود کی عظمت مجھ پر ظاہر ہونی شروع ہوئی.نہایت منکسر المزاج لیکن بہت گہرا علم رکھنے والے اور بہت ہی اپنے طلباء سے شفقت کا سلوک کرنے والے اور اتنے ذہین کہ مشکل سے مشکل مسائل کو اس طرح سمجھاتے تھے کہ کم سے کم مجھے تو پھر کبھی دوبارہ کتاب اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.جو کچھ ان سے میں نے پڑھا وہ آسانی سے یاد ہوتا چلا گیا.مثلاً صرف اور نحو شروع میں انہوں نے مجھے پڑھائی اور باوجود اس کے صرف و نحو کو عربی جامعات میں بہت ہی مشکل مضمون سمجھا جاتا ہے اور لوگ رٹے لگاتے ہیں اور صرف کے متعلق تو کہتے ہیں کہ اس کے لئے کتے کا دماغ چاہئے.یعنی مولویوں نے محاورہ بنایا ہوا ہے.جس طرح کتا بھونکتا رہتا ہے اس طرح ایک لفظ بار بار بھونکنا شروع کر دو تو پھر صرف یاد آتی ہے لیکن ملک صاحب کو چونکہ خدا نے دماغ کا سلیقہ عطا کیا تھا اس لئے آپ اس طرح اس کو نظام کے طور پر سمجھتے تھے اور اس طرح سمجھانے کی اہلیت رکھتے تھے کہ از خود وہ چیز یا د ہونی شروع ہو جاتی تھی کبھی کسی رٹا لگانے کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی.چنانچہ جب میں نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے حکم پر جامعہ سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر کے اندر ہی مولوی فاضل کا امتحان دیا تو باقی

Page 726

خطبات طاہر جلد ۸ 721 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء طلباء جو مولوی فاضل کے تھے وہ اکثر صرف ونحو میں فیل ہوا کرتے تھے اور قریب آنے کی وجہ سے امتحان بہت رٹے لگاتے تھے اور مجھے پڑھنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی اس حصے کو کیونکہ وہ ملک صاحب سے پڑھا ہوا تھا.پھر ملک صاحب نے جس حد تک فقہ کی تعلیم دی یادوسری بعض علوم کی شاخوں میں ہمارے استاد بنے ان حصوں میں مجھے خوب یاد ہے کہ کبھی محنت کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ ملک صاحب سے پڑھا ہوا تھا.یادرکھیں جہاں استاد محنت کرنے والا ہو، جہاں استاد کا شعور روشن ہو اور وہ اپنے مضمون کے نظام کو سمجھتا ہو اس کی روح سے واقف ہو اس کے طلباء کو بہت کم محنت کی ضرورت پیش آتی ہے.جتنا زیادہ محنت کرنے والا طالب علم ہے وہ ضروری نہیں کہ استاد کے اوپر حرف آئے لیکن اکثر صورتوں میں معلوم ہوتا ہے کہ استاد کا کوئی قصور رہ گیا ہے.بہر حال ملک صاحب کے متعلق تو میں ذاتی گواہ ہوں کہ یہ نہیں کہ ہر لیکچر پہ محنت کرتے تھے جب پڑھا تھا انہوں نے تو اس توجہ کے ساتھ پڑھا تھا اور اس محنت کے ساتھ پڑھا تھا کہ ان کے دماغ میں اس مضمون کا جہان روشن ہو چکا تھا.پھر اسی روشنی سے انہوں نے باقیوں کو حصہ دیا اپنے طلباء کو اور وہ مضمون آسان ہوتے چلے گئے.جامعہ احمدیہ کو بھی ملک صاحب کی ان نیک صفات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے علوم کی تعلیم اور تدریس میں اس نقطہ کو سمجھنا چاہئے اور ملک صاحب کا یہ فیض ان کے بعد بھی ہمیشہ جامعہ میں جاری رہنا چاہئے.تمام اساتذہ کوشش یہ کریں کہ اس طرح اپنے طلباء کو پڑھائیں کہ طلباء اس مضمون کو عقلاً ذہناً خود بخود جذب کرتے چلے جائیں اور ان کے شعور کا ایک ایسا حصہ بن جائے کہ پھر اس کے بعد ان کو خاص غیر معمولی محنت کی ضرورت نہ پڑے.بعض نئے لفظوں کو یاد کرنے میں ضرور محنت کرنی پڑتی ہے مگر یہ ضمنی باتیں ہیں.بعض تاریخیں یاد کرنی پڑتی ہیں.بعض Sequence بعض دفعہ یاد کرنے پڑتے ہیں یعنی آگے پیچھے کون سی چیز پہلی تھی کون سی بعد میں.معمولی توجہ سے یہ چیزیں یاد ہو جاتی ہیں لیکن اگر اچھا پڑھانے والا ہو تو جلدی یاد ہو جاتی ہیں.دوسری بات ان کے متعلق قابل ذکر یہ ہے کہ یہ مجلس احرار سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تھے.جب یہ قادیان آئے ہیں اور غالباً یہ ۳۳ ۱۹۳۴ء کا واقعہ ہے مجلس احرار جب زوروں پر تھی اور ان جلوسوں میں سے بعض کی راہنمائی کرنے والے تھے جو نہایت ظالمانہ گند بکتے ہوئے قادیان پر حملہ آور تھے اور یہ دعویٰ لے کر قادیان پر یلغار کی تھی کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا

Page 727

خطبات طاہر جلد ۸ 722 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء دیں گے.ملک صاحب کے زندگی کے حالات کچھ الفضل میں پیچھے شائع ہوئے ممکن ہے آپ میں سے بعضوں نے پڑھے ہوں اور بعض نے نہ پڑھے ہوں اگر نہیں پڑھے تو وہ پڑھنے چاہئیں.بڑے دلچسپ حالات ہیں ان سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح ان کو خدا نے ذہنی ارتقاء نصیب فرمایا.اب دیکھیں کیسا نیک اور پاک انجام ہے کہ اگر خدانخواستہ اسی حالت میں یہ اپنی باقی زندگی بسر کرتے تو ایک نہایت غلیظ گند بکنے والے ملاں کے طور پر مرتے جس کی زندگی کا مقصد ، جس کے اسلام کی خدمت کا تصور سوائے اس کے کچھ نہیں کہ سارا دن گند بولو اور گالیاں دو اور غلاظتیں پھیلا ؤ اور دشمنیاں پیدا کرو اور خدا کے بندوں کے قتل و غارت کی تعلیم دو اور مسجدوں کو منہدم کرنے کی تلقین کیا کرو.کیسا بد انجام ہے.اس انجام سے نکال کر، اندھیروں سے خدا ان کو روشنی میں لے آیا اور یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مجلس احرار سے آنے کے باوجود اپنی زبان میں بعد میں ایسے پاکیزہ ہوئے کہ کبھی ساری زندگی کسی سے سخت کلامی نہیں کی.نرم رو اور نرم گفتار تھے اور طلباء کے طور پر بھی ہم جانتے ہیں کہ ہم سے بہت غلطیاں ہوئیں، بعض دوسرے اساتذہ بعض دفعہ زبان کی سختی بھی کیا کرتے تھے.بعض اساتذہ ایسے بھی تھے جن کے منہ سے بعض دفعہ ایسے کلمے بھی نکل جاتے تھے جنہیں طلباء گالی کہ دیتے تھے.وہ کہتے تھے کہ گالی نہیں حقیقت ہے مگر بہر حال وہ گالی کے قریب قریب مضمون پہنچ جایا کرتا تھا لیکن ملک صاحب کی زبان سے کبھی کسی نے کبھی ساری زندگی ایسا کلمہ نہیں سنا جس کے متعلق آپ کہہ سکیں کہ اس نے دل پر بوجھ ڈالا ہے.پس یہ روحانی پاک تبدیلی ہے جو خدا تعالیٰ نے ان کی ذات میں فرمائی اور انجام ایسا نیک کے ساری اولاد، سات بچے ہیں چار بیٹیاں اور تین بیٹے سارے ہی اللہ کے فضل سے نہایت مخلص اور فدائی احمدی سلجھے ہوئے ، با اخلاق لوگ اور دنیا میں بھی ہر جگہ بہترین زندگی گزارنے والے اور اچھے مناصب پر فائز ، اچھی جگہ بچیوں کی شادیاں ہوئیں، سارے گھر خوش اور آباداللہ کے فضل کے ساتھ اور کبھی کسی جماعت سے میں نے ان کے بچے کے خلاف کبھی کوئی شکایت نہیں سنی بلکہ جب بھی سنا ہے تعریف سنی ہے کہ خدا کے فضل سے صف اول کی خدمت کرنے والے ہیں.وفات کے وقت آپ کی عمر اناسی سال سے کچھ اوپر تھی اور آخری کام جو انہوں نے کیا ہے وفات سے پہلے وہ مجھے خط لکھا دعا کا جو مجھے ان کی وفات کے بعد ملا.بہت دعاؤں کے مستحق ہیں اور

Page 728

خطبات طاہر جلد ۸ 723 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء چونکہ ایسے متبحر علماء دنیا میں کم کم پیدا ہوتے ہیں اس لئے ان کے خلا کو بھرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصے تک جماعت کو یہ خلاضرور محسوس ہوگا.اس لئے اس عرصے میں ہماری نوجوان نسلوں کو اپنی علمی کمزوریاں دور کرنی چاہئیں، اپنے اندورنی خلا بھرنے چاہئیں تا کہ جماعت کا یہ خلا ان کے وجود سے بھر سکے.اس سلسلے میں جہاں ان کے لئے دعا کی تحریک کرتا ہوں ان کی اولاد کے لئے بھی دعا کی تحریک کرتا ہوں اور سلسلے کے تمام علماء کے لئے بھی دعا کی تحریک کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحیح معنوں میں علم اور علم کا عرفان نصیب کرے اور جماعت کو کبھی بھی دنیا میں علماء کی کمی محسوس نہ ہو.ان کی نماز جنازہ غائب آج میں جماعت انگلستان کے مخلص دوست عبدالرشید صاحب کی نماز جنازہ حاضر کے ساتھ پڑھا چکا ہوں اس لئے آخر پر صرف یہی ایک درخواست ہے کہ دوست ملک صاحب اور ان کی اولا د اور سلسلے کے بزرگوں کو ہمیشہ دعاؤں میں یادر کھتے رہیں.ایک چیز جس کا ذکر کرنا تھا میں بھولنے لگا تھا میری اب نظر پڑ گئی وہ یہ ہے کہ ملک صاحب مرحوم نے اپنے وصال سے تقریباً چودہ پندرہ سال پہلے ایک بند تحریر ہادی علی صاحب کے سپرد کی.انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ یہ عیدالاضحیہ کا دن تھا اور مجھے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میرے کتبہ پر یہ تحریر ہولیکن یہ لفافہ بند ہے تم نے نہیں پڑھنا.جب میر ا وقت آئے تو اس وقت کے خلیفہ کو یہ پیش کر دینا.آگے ان کی مرضی ہے وہ چاہیں تو اسے قبول کریں چاہے تو نہ کریں لیکن میری تمنا ان تک پہنچ جانی چاہئے.وہ تحریر یہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اپنے اعمال کے لحاظ سے اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جاؤں لیکن مولیٰ کریم کے فضلوں سے نا امید بھی نہیں ہوں کیونکہ میری ساری زندگی اس کے فضلوں کے سہارے ہے ورنہ من آنم کہ من دانم.بہر حال اگر اس کا یہ فضل ہو کہ بہشتی مقبرہ میں جگہ ملے تو میری لوح مزار پر مندرجہ ذیل آیت لکھی جائے.قَالَ لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِى مِنَ الْمُكْرَمِينَ (لیس: ۲۷.۲۸) جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے کاش ! میری قوم کو معلوم ہو سکتا یا معلوم ہو جائے بما غفر لی رب کہ خدا نے مجھے بخش دیا ہے اور

Page 729

خطبات طاہر جلد ۸ 724 خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ اور مجھے معزز لوگوں میں شمار فرما دیا.اگر اس کی اجازت نہ ملے تو پھر یہ شعر لکھا جائے.ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اے میرے مولا اس طرف دریا کی دھار (در نمین صفحه: ۱۲۸) اگر اس کی اجازت بھی نہ ملے تو پھر بابا طاہر اصفہانی کی یہ رباعی لکھی جائے: یا رب! ز گناه زشت خود منفعلم و از فعل وئے بخود فیلم بد فیض بدلم ز عالم غیب رساں تا محو شود خیال باطل ز دلم جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے میرے رب ! میں اپنے گندے گناہوں کے بارے میں خود بہت شرمندہ ہوں اور اپنے بدخو فعل سے سخت خجالت محسوس کر رہا ہوں.فیض بدلم ز عالم غیب رساں“.عالم غیب سے میرے دل کو ایک فیض پہنچا دے.” تا محو شود خیال باطل ز دلم تا که خیال باطل میرے دل سے ہمیشہ کے لئے محو ہو جائے.جماعت کو یعنی ربوہ کے نظام جماعت کو میری تاکید ہے کہ اگر موجودہ زمانے کے بدخو علماء کی وجہ سے جو از خود خدا بنے بیٹھے ہیں جماعت کو یہ اجازت نہ ہو کہ احمدیوں کے کتبوں پر قرآن کریم کی آیات کندہ کی جائیں تو جب تک اللہ تعالیٰ ان حالات کو تبدیلی نہیں فرماتا اس وقت تک یہ آیت لکھنے کی بجائے اس کی جگہ چھوڑ دی جائے اور جب بھی خدا زمانے کے حالات تبدیل فرمائے پھر اس آیت کو کندہ کر دیا جائے اور باقی عبارت من و عن اسی طرح درج کر دی جائے.البتہ شروع میں مختصر ملک صاحب کا تعارف جیسا کہ دستور ہے وہ انجمن کی طرف سے تجویز ہوکر منظوری کے لئے مجھے بھجوا دیا جائے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: آج اور آج کے بعد جب تک دن چھوٹے ہیں جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز بھی ساتھ جمع ہوا کرے گی کیونکہ خطبے کی وجہ سے اتنا وقت ہو جاتا ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اس لئے جب تک یہ مجبوری در پیش ہے اس وقت تک نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع ہوا کرے گی.

Page 730

خطبات طاہر جلد ۸ 725 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء احمدیت سے منحرف ہونے والوں اور ایمان لانے والوں کے درمیان فرق کا نہایت ایمان افروز تذکرہ خطبه جمعه فرموده ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کا یہ پہلا سال جسے ہم تمام دنیا میں جشن تشکر کے طور پر منا رہے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو لے کے آیا ہے وہاں ان فضلوں کے نتیجے میں دشمن کا عناد بھی بہت بڑا ہے اور لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ (افتح ۳۰) کی آیت کا اطلاق ان پر ہوتے ہوئے ہم نے.لیہ دیکھا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو نشو ونما عطا فرماتا ہے وہ لہلہاتے ہوئے سبزوں کی طرح بڑھتے اور پھولتے اور پھلتے ہیں اور تناور ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ اس لئے بھی ہے تا کہ دشمن اپنے غیظ میں بڑھے اور اپنی بے اختیاری کو محسوس کرے اور بے بسی کو محسوس کرے اور جان لے کہ اس کا غلیظ اس کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اس لئے وہ اپنے غیظ میں کوشش تو ضرور کرتا ہے اور کوشش میں بڑھتا ہے پہلے سے لیکن اس کے باوجود خدا کے فضلوں کو روکنے میں کلیہ نامراد اور نا کام رہتا ہے.یہ نظارہ بھی ہم نے اس سال میں بڑی شان کے ساتھ دیکھا ہے.کبھی گزشتہ مخالفت کے سالوں میں ارتداد کی اتنی کوشش منظم طور پر نہیں کی گئی جتنی امسال دشمن کی طرف سے کی گئی ہے اور جہاں تک میں نے پاکستان میں تشدد کے حالات کا جائزہ لیا ہے بڑی واضح طور پر یہ بات دکھائی دیتی ہے کہ یہ حض تشدد کی ایک مہم نہیں تھی بلکہ اس تشد د کوارتداد میں تبدیل کرنے کی مہم تھی اور ہر جگہ تشدد کے بعد Follow Up کے طور پر اس کے پیچھے آنے والے ایک منظم منصوبے کے طور پر ارتداد کی

Page 731

خطبات طاہر جلد ۸ 726 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء کوشش کی گئی ہے.چنانچہ چک سکندر میں جو واقعات ہوئے یا فیصل آباد میں اور بہت سی جگہوں پر جو واقعات گزرے ہیں ان میں یہ دشمن کی سازش بڑی کھل کر نمایاں ہو کر ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.چک سکندر میں جو کچھ مظلوم باقی رہ گئے تھے ان پر مسلسل اور شدید دباؤ ڈالتے ہوئے ان کو مرتد بنانے کی کوشش کی گئی اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے احمدیت سے بے تعلقی کا اظہار بھی کیا لیکن بہت سے مراد میری یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ چک سکندر کی اکثریت کیونکہ بھاری اکثریت نے تو عظیم الشان قربانیاں دیں اور کلیہ ان کی ان کوششوں کو رد کر دیا لیکن وہ چند عورتیں اور بچے جو پیچھے رہ گئے ان کا یہ حال ہے کہ ان پر دباؤ ڈال کے ان کے ارتداد کا اعلان کرایا گیا اور یہ جو تاخیر ہورہی ہے احمدیوں کی واپسی کی اس میں بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ مل کر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں احمدیوں کو لا کر دباؤ کے نیچے مرتد بھی کیا جائے پھر دوسرے لائے جائیں پھر ان کو مرتد کیا جائے اور اس شرط کے اوپر کوئی احمدی وہاں واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہے.یہ جو واقعات گزر رہے ہیں ان سے مجھے خیال آیا کہ آج جماعت کو ارتداد اور ایمان کے فرق سے متعلق کچھ باتیں بتاؤں.دیکھنے میں جو آپ کو ارتداد نظر آتا ہے ان کے لئے ایمان ہے.یعنی وہ کہتے یہی ہیں کہ اتنے لوگ جو بے ایمان تھے وہ ایمان لے آئے ہیں اور جو ہمیں ایمان دکھائی دیتا ہے ہم سمجھتے ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ لوگ احمدیت کو قبول کر کے ایمان میں داخل ہورہے ہیں وہ ان لوگوں کو ارتداد دکھائی دیتا ہے.تو کیا یہ محض نظر کا دھوکا ہے.کیا محض زاویہ بدلنے سے اشتہات پیدا ہور ہے ہیں یا حقیقت حال اپنی ذات میں بھی کوئی حیثیت رکھتی ہے اور جسے پہچانا جا سکتا ہے.یہ مضمون ہے جو جماعت کے سامنے بڑے واضح طور پر پیش ہونا چاہئے تاکہ ان میں سے ہر ایک کا دل گواہی دے کے جو احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں وہ اللہ کے فضل سے ایمان قبول کر رہے ہیں اور اندھیروں سے روشنی میں آرہے ہیں جو احمدیت سے باہر جارہے ہیں ان کے اوپر قرآنی اصطلاح کے مطابق ارتداد کا لفظ صادق آتا ہے.اس مضمون کو بیان کرنا کچھ مشکل نہیں چند ایک نکات میں نے آج کے خطبہ کے لئے اختیار کئے ہیں.سب سے پہلی بات جو قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ارتداد اس ایمان کی تبدیلی کو کہتے ہیں جس میں دباؤ شامل ہو.جس میں جبر اور تشد دشامل ہو.پس قرآن کریم نے اس

Page 732

خطبات طاہر جلد ۸ 727 خطبه جمعه ۱۰ار نومبر ۱۹۸۹ء مضمون کو بار ہا اتنا کھول کر بیان کیا ہے کہ کوئی کلیۂ عقل کا اندھا ہو تو اسے یہ دکھائی نہیں دے گا یا جس کے دل پر مہر لگ گئی ہو اس کو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی ورنہ قرآن کریم تو اس مضمون کو اتنا کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور تاریخ مذاہب کے حوالوں سے اتنی وضاحت کے ساتھ یہ بات کھلی کھلی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ جبر کے نتیجے میں اگر ایمان تبدیلی کیا جائے تو اسے ارتداد کہتے ہیں اور ایمان اس کے برعکس ایک اور تفسیر رکھتا ہے.جبر کے باوجود اگر اپنا دین بدلا جائے تو اس کو ایمان کہتے ہیں.یعنی ایک طرف سے جبر اور تشد د موجود ہے اس کے ہوتے ہوئے ایک انسان اپنادین تبدیل کر لیتا ہے.ایسی تبدیلی ایمان کی علامت ہے.قطع نظر اس بات کے کہ فی ذاتہ اس کا یہ فعل درست تھا یا غلط تھا لیکن ایک بات بہر حال اس سے ثابت ہو جاتی ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والا اپنی ذات میں سچا ہے اور جو تبدیلی اس نے اختیار کی ہے وہ ایمان کے نتیجے میں ہے.تشدد اور دباؤ کے نتیجے میں نہیں تشد داور دباؤ کے خلاف ہے.ایک وجہ یہ قرآن کریم پیش کرتا ہے جو سب سے زیادہ مؤثر نظر آتی ہے یعنی تاریخ میں اس سے زیادہ مؤثر اور کوئی وجہ ارتداد کی دکھائی نہیں دی.چنانچہ آج کے حالات میں جو پاکستان پر گزر ہے ہیں قرآن کریم کی اس کسوٹی پر ان کو پرکھ کر دیکھیں تو خوب کھل جائے گا کہ کس کا ایمان ہے اور کس کا ارتداد ہے.سارے پاکستان میں جو گنتی کے چند احمدی وہ مرتد کرنے میں کامیاب ہوئے ان میں بلا استثناء جبر بھی تھا، دباؤ بھی تھا اور ایک اور بھی چیز تھی جس کا قرآن کریم دوسری جگہ ذکر فرماتا ہے اور وہ ہے لالچ اور لالچ کا ذکر بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے.شیطان ان کو لالچ دیتا ہے، ان کو دھو کے دیتا ہے ان کو بتا تا ہے تمہارے دنیاوی فوائد ہمارے ساتھ وابستہ ہیں، تم گھانا کھاؤ گے اگر دوسرے مذہب کی طرف جاؤ گے.تو دوسرا مضمون قرآن کریم نے لالچ کا بیان کیا ہے اور یہ بھی ہمیں پاکستان کے حالات میں ہر جگہ صادق آتا دکھائی دیتا ہے.ایک تیسرا مضمون یہ بیان فرمایا ہے کہ بعض لوگ دل کے گندے ہوتے ہیں اور ان کے اندر مرض موجود ہوتا ہے.حالات کی وجہ سے وہ مرض نمایاں ہو جاتا ہے.اس مضمون کو ارتداد کے حوالے کے بغیر بھی بیان فرمایا گیا ہے اور ارتداد کے مضمون بیان ہوتے ہوئے بھی اس مضمون کا ذکر فرمایا گیا ہے.چنانچہ یہ آیت جو يَمِينَ الْخَيْثَ مِنَ الطَّيِّب ( آل عمران : ۱۸۰) کے الفاظ ہیں کہ یہ

Page 733

خطبات طاہر جلد ۸ 728 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء فتنے پیدا ہوتے ہیں، ہچکولے آتے ہیں طرح طرح کی آزمائشیں پڑتی ہیں ان کی اور انبیاء کے آنے کے ساتھ یہ زلازل واقع ہوتے ہیں.اس وجہ سے انبیاء آتے ہیں تا کہ خبیث کو طیب سے الگ کر دیں.چنانچہ وہ لوگ جو مومنوں کی جماعت میں بھی بطور خبیث شامل ہو چکے ہوتے ہیں ان کے دو طرح کے اظہار ہوتے ہیں.ایک وہ کہ وہ منافق بن جاتے ہیں جب تک رہتے ہیں منافقانہ باتیں کرتے ہیں اور علیحدگی اختیار کئے بغیر جماعت کے اندر رہتے ہوئے بھی ان کا نفاق وقتاً فوقتاً پھوٹتا رہتا ہے اور نفاق خود سب سے گندی قسم کا جھوٹ ہے.نفاق اور ایمان کا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں.نفاق کا مطلب یہ ہے کہ دل کسی اور بات کی گواہی دے رہا ہے اور عقل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ بات ظاہر نہیں کرنی، کرنی ہے تو خاص شرارت اور خاص مکر کے تابع کرنی ہے ورنہ اپنے اعتقاد کے خلاف ایک سوسائٹی کے اندر اس سوسائٹی کا حصہ بن کر رہنا ہے.تو یہ جھوٹ کی ایک نہایت مکروہ شکل ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایسے لوگ یا وہ منافق ہو جاتے ہیں یا پھر وہ ارتداد اختیار کرتے ہیں ایسی حالت میں کہ ان کا گند بہت بڑھ چکا ہوتا ہے اور خبیث اور گندے لوگ ہیں جو سوسائٹی سے باہر پھینکے جاتے ہیں.ایسے لوگوں کی تاریخ بھی جماعت کے سامنے کھلی پڑی ہے.اکثر یہ وہ لوگ ہیں جن کے باہر نکلنے سے پہلے جماعت نے ان کو کھوٹے پیسے کے طور پر رد کر دیا تھا.ان کے خلاف نظام جماعت حرکت میں آچکا تھا.ان کے خلاف قضا حرکت میں آچکی تھی.ان کی بددیانتیاں ثابت تھیں لین دین میں یا اور ایسی باتیں جو مکروہات سے تعلق رکھتی ہیں یا شنیعہ حرکتیں جو گنا ہوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کے ظاہر ہونے کے نتیجے میں جب نظام جماعت نے ان پر ہاتھ ڈالا تو پھر وہ باہر نکلے اور ارتداد کا اعلان کیا.تو ایک طبقہ ان کا جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے وہ گندے اور کھوٹے لوگوں کا ہے.اس کے برعکس قرآن کریم سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ایمان لانے والے لالچ کے نتیجے میں نہیں بلکہ اس کے برعکس حالات میں ایمان لاتے ہیں.ایک طرف مرتد ہونے والوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم ہمارے اندر شامل ہو جاؤ.ہم تمہیں اعلیٰ نوکریاں دلوائیں گے.تم پر خرچ کریں گے.تمہیں رزق عطا کریں گے یا کئی قسم کی نوکریاں یا جائدادیں یا تنخواہیں لگا دیں گے.غرضیکہ لالچ سے اس قسم کے ارتداد کا گہرا تعلق ہوتا ہے.اس کے برعکس ایمان کی یہ شان ہے کہ وہ لوگ جو ایمان اختیار کرتے ہیں ان کو مالی

Page 734

خطبات طاہر جلد ۸ 729 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء قربانی دینی پڑتی ہے اور ان کو کچھ لٹوانا پڑتا ہے اور کثرت کے ساتھ پاکستان اس بات کا گواہ ہے کہ اس شدت کی مخالفت کے دور میں جو دوست احمدی ہوئے ہیں وہ سارے کے سارے کچھ نہ کچھ مالی قربانی کر کے احمدی ہوئے ہیں.بعضوں کو تو کلیہ اپنے تمام اموال سے بے دخل کر دیا گیا.بعضوں کے چلتے چلتے کاروبار بند کرا دئے گئے ، ان کے ٹوٹل بائیکاٹ ہو گئے.بعضوں کے اموال لوٹ لئے گئے بلکہ بیویاں بھی چھین لی گئیں اولادیں بھی چھین لی گئیں.بعضوں کو نوکریوں سے نکالا گیا، بعضوں کو ترقیوں سے محروم کیا گیا.غرضیکہ تمام احمدی ہونے والے اس بات پر گواہ بن گئے اور ان کے حالات ان پر گواہ بن گئے کہ وہ مومن ہیں کیونکہ مومن کی یہ نشانی خدا تعالیٰ نے بتائی ہے کہ وہ قربانی دے کر ایمان لاتا ہے.کسی سے پیسے لے کر یا جائداد میں قبول کر کے یا نوکریاں لے کر ایمان نہیں لایا کرتا.تو وہ چیز جو پہلے آپ کو مشتبہ دکھائی دیتی تھی یا متشابہ دکھائی دیتی تھی یہ سمجھتے تھے کہ اچھا ایک طرف سے ایمان ہے دوسری طرف سے ارتداد ہے دونوں میں سے سچائی کیا ہے.اب دیکھیں قرآن کریم کے مطالعہ کی روشنی میں کس طرح کھل کر الگ الگ واضح ہو کر دکھائی دینے والی چیزیں ہیں.ارتداد کی اور صفات ہیں، ایمان کی اور صفات ہیں اور ان دونوں میں کوئی اشتباہ نہیں ہے.جس طرح دن اور رات میں اشتباہ نہیں ہو سکتا اس طرح ایمان اور ارتداد میں کوئی اشتباہ نہیں ہوسکتا.لالچ دینے کا جہاں تک تعلق ہے کثرت کے ساتھ مجھے ایسے خط ملتے رہتے ہیں جہاں نوکر پیشہ احمدی لکھتے ہیں کہ ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ تم صرف تو بہ کر لو اور ہم تمہیں انگلی ترقی دے دیتے ہیں بلکہ جو پہلے تمہارے حقوق چھینے گئے تھے وہ سارے واپس کر دیں گے لیکن ہمارا ان کو جواب یہ ہے کہ ہم ان ترقیات کے منہ پر تھوکتے بھی نہیں.پھر ایسے خط ملتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہیں نوکری سے نکالنے لگے ہیں اب وقت ہے کہ تم تو بہ کر لو اگر تم تو بہ کر لیتے ہو تو تمہاری نوکری بچ جاتی ہے.سینکڑوں ایسے احمدی ہیں جنہوں نے نوکریوں کو ٹھوکریں مار دیں اور ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کی اور یہ جواب دیا کہ ہمارا رازق ہمارا خدا ہے تم ہمارے رازق نہیں ہو.نوکریوں کے بدلے اور رزق کے بدلے ہم اپنے ایمان کو بیچ نہیں سکتے.اب یہ دیکھیں کتنا فرق ہے ارتداد اور ایمان میں.مذہب تبدیل کروانے کی خاطر لا لچھیں

Page 735

خطبات طاہر جلد ۸ 730 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء دینا ارتداد سے تعلق رکھتا ہے اور مذہب تبدیل کرتے ہوئے اپنے حقوق کو قربان کر دینا یہ ایمان سے تعلق رکھتا ہے.پس پاکستان میں کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں دکھائی دیتی ہیں.پھر قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ یہ ردی لوگ ہیں جو ادھر چلے جاتے ہیں اور آنے والے جو ہیں وہ اچھے ہوتے ہیں.اس پہلو سے بھی آپ دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ جماعت احمدیہ میں جتنے شامل ہوتے ہیں وہ ان کے ردی لوگ نہیں ہوتے.دو قسم کے آنے والے ہیں لیکن ایک قسم وہ ہے میں دوسری قسم کا بھی ابھی ذکر کروں گا اور اس میں بھی علامتیں بالکل واضح ہوں گی.ایک قسم وہ ہے جو ان میں سے بہترین ہیں.ان کی اپنی سوسائٹی جانتی ہے کہ وہ نسبتا سچے لوگ ہیں صاف گولوگ ہیں، ایماندار لوگ ہیں اور ان کے اندر کچھ ایسی خوبیاں ہوتی ہیں جن کو سوسائٹی میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.جب وہ ایمان لاتے ہیں تو ایک اضطراب پیدا ہو جاتا ہےسوسائٹی میں.وہ کہتے ہیں تم تو ا چھے بھلے تھے.جس طرح حضرت صالح کو ان کی قوم نے کہا تم تو مر جو تھے.تم سے تو امیدیں وابستہ تھیں تمہیں کیا ہو گیا.یہ کیا حرکت کر بیٹھے اور جماعت میں سے جو ادھر جاتا ہے اس کے متعلق ہمیشہ یہ اطلاع ملتی ہے کہ یہ صاحب تو کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے.یہ گند تھا فلاں گند تھا کبھی چندہ نہیں دیا، کبھی نماز نہیں پڑھی.فسادات میں سب سے آگے.پارٹی بازی میں پیش پیش تو ان کو تو پہلے نکال دینا چاہئے تھا.میں امور عامہ کو پھر بعض دفعہ لکھتا ہوں کہ ” نکال دینا چاہئے تھا اب کیوں بتاتے ہو.بہتر یہ تھا کہ پہلے وقت پر بتاتے اور اس معاملے میں جماعت کو پاک اور صاف کرنے کی آج کل شدید ضرورت ہے کیونکہ پاک اور طیب میں تمیز کرنا بھی انبیاء کا ایک کام ہے اور وہ لوگ جو جماعت کے اندر داخل ہوتے ہیں ان کو پاک ہونا پڑے گا.اگر وہ پاک ہورہے ہیں تو پھر ان پر کوئی اعتراض نہیں خواہ وہ درجہ کمال تک نہ پہنچیں لیکن اگر وہ پاک ہونے کی بجائے خبیث ہورہے ہوں، دن بدن ان کی گندی عادتیں بڑھ رہی ہوں اور نظام جماعت خاموش بیٹھا ر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظام جماعت نے وہ فرض ادا نہیں کیا جو قرآن کریم نے انبیاء کے سپر داس پہلو سے کیا ہے کہ تم ان میں سے خبیث اور طیب میں تمیز کیا کرو اور ایک کو دوسرے سے الگ کرتے رہو.دوسرا طبقہ جو غیروں سے آتا ہے اس میں ایک حصہ گندوں کا بھی ہے.میں نے دیکھا ہے

Page 736

خطبات طاہر جلد ۸ 731 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء ڈا کو بھی آجاتے ہیں.چور بھی آجاتے ہیں.بڑے بڑے لفنگے بھی جو اپنی سوسائٹی میں لفنگے سمجھے جاتے ہیں وہ بھی آتے ہیں اور بعض دفعہ جماعت میں سے نسبتاً اچھے دکھائی دینے والے لوگ بھی غیروں میں چلے جاتے ہیں.اگر چہ ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے لیکن یہاں بھی بڑی واضح اور قطعی تمیز ممکن ہے.چنانچہ غیروں میں سے جو گندے ہوں ، شرابی کبابی یا اور گناہوں میں ملوث ہوں جب وہ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں وہی تطہیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور ایسا آدمی جو جماعت میں داخل ہو اور اس سے پہلے گندا ہو یقیناً جماعت میں داخل ہونے کے بعد اصلاح شروع کر دیتا ہے اور بعض تو انقلابی اصلاح کرتے ہیں.ایک دفعہ سندھ کے دورے پر مجھے ایک دوست کا تعارف کرایا گیا کہ وہ ہر شرعی عیب میں مبتلا ڈاکو اور ظالم اور سفاک انسان تھا اور سارے علاقے میں ان کا رعب تھا اور ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس سے زیادہ گندہ انسان اور اس سے زیادہ ظالم انسان کوئی نہیں.احمدی ہوا تو ایک دفعہ ان ساری بدیوں کو خیر باد کہ بیٹھا.خیر باد تو نہیں جہنم رسید کر بیٹھا اور ایسی کامل تو بہ کی کہ وہی شخص اس علاقے میں ولیوں میں شمار ہونے لگا.یہ مضمون جو ہے ”چوروں قطب بنانا جس کو پنجابی میں کہتے ہیں، یہ وہ مضمون ہے.تو ایمان تو اپنی واضح علامتیں رکھتا ہے.اگر اندھیرا روشنی کے ساتھ مشتبہ نہیں کیا جاسکتا تو کیسے ممکن ہے کہ ارتدادکو ایمان کے ساتھ مشتبہ کر دیا جائے.اس کے برعکس جو احمدی یعنی پہلے احمدی تھے اور بظاہر وہ اچھے نظر آتے تھے وہ جب غیروں کے ساتھ جا کر ملتے ہیں تو آپ ان کے حالات کا جائزہ لے کر دیکھیں بلا اشتباہ ان کے اندرا اعمال کا انحطاط شروع ہو جاتا ہے.ان کے اندر نہ صرف اپنی ذات میں انحطاط شروع ہوتا ہے بلکہ اکثر صورتوں میں ان کی اولادیں مذہب سے ہی بھاگ جاتی ہیں اور میں نے جہاں تک ان مرتدوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے جو جماعت میں بظاہر کوئی مقام رکھتے تھے ان کی اولا دوں کی بھاری اکثریت دہر یہ ہو چکی ہے اور کوئی بھی دین سے یا مذ ہب سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہا.تو کون کہہ سکتا ہے کہ ایمان اور ارتداد ایک ہی جیسی چیزیں ہیں صرف زاویہ بدلنے سے مختلف دکھائی دیتی ہیں.علاوہ ازیں جہاں تک لالچ کا تعلق ہے ایک اور بات بڑی نمایاں قرآن کریم پیش کرتا ہے

Page 737

خطبات طاہر جلد ۸ 732 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء کہ یہ لوگ جو لالچ دیتے ہیں اس کے نتیجے میں اکثر تو دھوکا ہے لیکن بعض دفعہ رزق ان کے لگا بھی دئے جاتے ہیں لیکن رزق ان لوگوں کے لگتے ہیں جو گند بولنے میں زیادہ بڑھے ہوئے ہوں اور تکذیب میں آگے جائیں.غریب کے رزق نہیں لگتے وہ صرف دھوکا ہے ان کے ساتھ.چنانچہ میں نے اس بات کا بھی گہری نظر سے جائزہ لیا ہے اور وسیع نظر سے جائزہ لیا ہے.احمد یوں میں سے جو مرتد ہوتا ہے اس نے اگر اپنا رزق لگوانا ہے ان لوگوں سے تو اسے دن بدن زیادہ بکواس کرنی پڑے گی.جتنا زیادہ وہ گند بولے گا اور تکذیب میں آگے بڑھے گا اتنے اس کے لئے رزق کے امکانات ہوں گے اور کچھ دروازے کھولے جائیں گے جہاں وہ خاموش ہو کے بیٹھا وہاں ردی کے طور پر پھینک دیا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (الواقعہ: ۸۳) کیسے جاہل اور بے وقوف لوگ ہواس بات پہ رزق لگا بیٹھے ہو کہ تم تکذیب کرو لیکن یہ مرتد ہونے والے ہوتے ہی بے وقوف ہیں.ان بیچاروں کو اپنے نفع نقصان کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا تو وہ رزق کی خاطر پھر گند بولتے ہیں اور دوسروں کو بھی لالچ دیتے ہیں کہ آؤ تا کہ ہم تمہارا رزق لگائیں.اس کے برعکس مومنوں کی یہ شان ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ قربانی کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ اپنے اموال غیروں کے سامنے لٹواتے ہیں بلکہ مومن ہونے کے بعد ہر حالت میں وہ دین کی خاطر خرچ کرنے لگ جاتے ہیں.الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ (آل عمران : ۱۳۵) یہ ایسے لوگ ہیں جوا چھے حال میں ہوں تب بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگ حال میں ہوں تب بھی خرچ کرتے ہیں اور مرتدین میں آپ کو کوئی بھی ایسا دکھائی نہیں دے گا.آپ سارے مرتدین کے حالات پر نظر ڈال کے دیکھ لیں وہ غیروں سے لینے والے تو ہیں ان کی خاطر دینے والے کچھ نہیں ہیں.جس مذہب کو بظاہر وہ سچا کہ کر قبول کرتے ہیں اس مذہب کی خاطر کوئی قربانی نہیں کر رہے ہوتے.پس قرآن کریم نے تو اتنا کھول کھول کے یہ مضمون واضح فرما دیا ہے کہ کسی موٹی سے موٹی عقل والے کے لئے بھی یہ بات مشکل نہیں رہنے دی کہ ارتداد کیا ہوتا ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے؟ پس ان لوگوں نے جہاں تک زور لگایا جماعت کے اندر رخنہ پیدا کرنے کا اور ارتداد پیدا کرنے کا اس کا نتیجہ ماحصل صرف یہ ہوا کہ کچھ لوگ ایسے ان کو ملے جن سے جماعت ناراض تھی اور ان کے ساتھ ان

Page 738

خطبات طاہر جلد ۸ 733 خطبه جمعه ۱۰ار نومبر ۱۹۸۹ء کی بدکرداری کی وجہ سے جماعت نے خفگی کا اظہار کیا اور بعض دفعہ انتظامی کارروائیاں کیں.ایسے لوگ ان کی طرف گئے اور جن کو خالصہ پیسے کی لالچ دی گئی اور پیسے کی لالچ اختیار کرتے ہوئے انہوں نے تکذیب کو پیشہ بنالیا اور دل ان کے ایمان سے خالی تھے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہاں جا کر جس کو ایمان کے طور پر قبول کیا اس کی خاطر کبھی کوئی مالی قربانی نہیں کی بلکہ لینے والے مومن ہیں یہ دینے والے اور خرچ کرنے والے مومن نہیں ہیں.غرضیکہ اس پہلو سے آپ تفصیلی جائزہ لیتے چلے جائیں تو آپ کو خود پاکستان ہی میں اس ارتداد کی مہم کے سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے حیرت انگیز نشان ابھرتے ہوئے دکھائی دیں گے.ہر ارتداد کے واقعہ میں قرآن کریم کی صداقت کا اعلان بھی ہے اور جماعت احمدیہ کی صداقت کا اعلان بھی ہے کیونکہ بلا استثناء ان ارتداد کے واقعات پر قرآن کریم کی کوئی نہ کوئی آیت گواہ کھڑی ہے کہ تم مرتد ہو مومن نہیں ہو اور ہر وہ شخص جو ان سے روگردانی کر کے احمدیت میں داخل ہوتا ہے اس کے اوپر بھی قرآن کریم کی ایک نہیں کئی آیات گواہ کھڑی ہو جاتی ہیں کہ تمہیں مرتد کہنا جھوٹ اور ظلم ہے تم مومن ہو کیونکہ تم میں قرآن کریم کی بیان کردہ مومنانہ صفات پائی جاتی ہیں.اور ان سب کے علاوہ اس وہم کو دور کرنے کے لئے کہ شاید ابھی کوئی شبہ باقی ہو ایمان اور ارتداد میں قرآن کریم نے ایک عظیم الشان مضمون بیان فرمایا ہے جو روز روشن کی طرح سورج جس طرح چڑھ جاتا ہے کھلے دن میں یا کھلا دن جس طرح سورج کی روشنی میں پیدا ہوتا ہے اس طرح ایمان اور ارتداد کے فرق کو نمایاں کر دینے والی ایک میزان ہے.قرآن کریم فرماتا ہے: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَا بِمِ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المائده: ۵۵)

Page 739

خطبات طاہر جلد ۸ 734 خطبه جمعه ۱۰ار نومبر ۱۹۸۹ء اے ایمان لانے والو! اگر تم میں سے کوئی مرتد ہو جاتا ہے تو بالکل اس کے نتیجے میں پریشان نہ ہو (یعنی یہ Implied ہے یہ فقرہ جو میں بول رہا ہوں لفظی ترجمہ میں شامل نہیں لیکن مضمون یہی ہے کہ ) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو ہرگز پریشانی کی ضرورت نہیں کیوں؟ اس لئے کہ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ تُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ ایک ایک مرتد کے بدلے خدا تمہیں تو میں عطا کرے گا اور وہ قومیں ایسی ہوں گی جو کوئی نفاق نہیں رکھتی ہوں گی وہ تم سے محبت کرنے والی ہوں گی تم ان سے محبت کرنے والے ہو گے.اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِینَ کہ مومنوں کے لئے بے انتہا منکسر المزاج اور رحمت کرنے والی اور شفقت کرنے والی اور منکرین اور کافروں کے لئے وہ بہت ہی سخت ہوں گی اور وہ تمہارے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف جہاد شروع کر دیں گی.وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَا بِمِ اور کسی لعنت ملامت کرنے والے کی لعنت ملامت سے کوئی خوف نہیں کھائیں گی.یہاں ایک اور مضمون بھی بیان کر دیا کہ ارتداد کی وجہ ایک لعنت ملامت بھی ہوا کرتی ہے اور اس میں Implied ہے یہ بات.اس کے اندر یہ بات مضمر ہے.فرمایا کہ نئے آنے والے وہ صفات نہیں رکھیں گے جو جانے والوں کی صفات تھیں.گویا جانے والوں کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ وہ اس لئے مرتد ہوئے کہ معاشرے نے ان کے اوپر لعنتیں ڈالیں جیسا کہ اس وقت پاکستان میں کثرت کے ساتھ ہر احمدی پر اس کے ماحول کے رہنے والے لعنتیں ڈال رہے ہیں ، ملامتیں پھینک رہے ہیں ان پر.ان کو کہہ رہے ہیں کہ تم ذلیل اور رسوا ہور ہے ہو اور کیوں ہم میں واپس نہیں آجاتے آؤ ہم سے عزتیں حاصل کرو.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ ان میں سے بعض کمزور اس وجہ سے بھی غیروں میں شامل ہوئے ہوں گے کہ وہ دنیا کی لعنتوں اور ملامتوں سے ڈر گئے اور انہوں نے یہ قبول کر لیا کہ ہم چاہے جھوٹ ہی ہو لیکن اکثریت کے جھوٹ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور دنیا کی عزتیں ہمیں حاصل ہو جائیں گی.فرمایا ایسے لوگوں کے بدلے خدا تم سے وعدہ کرتا ہے کہ ایک ایک کے بدلے تمہیں قومیں عطا کرے گا اور وہ ایسی قومیں ہوں گی جو ہر اس برائی سے پاک ہوں گی جس برائی کے نتیجے میں بعض لوگ تم میں سے مرتد ہوئے.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا

Page 740

خطبات طاہر جلد ۸ 735 خطبه جمعه ۰ ارنومبر ۱۹۸۹ء فضل انسانوں سے بنایا نہیں جایا کرتا.اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کتناعظیم الشان چیلنج ہے.اللہ کا فضل ہے جسے چاہے گا وہ دے گا اور زبردستی تم اس فضل کو تبدیل نہیں کر سکتے.خدا کی تقدیر میں تمہیں کوئی دخل دینے کی جانہیں ہے.پس اگر یہ معلوم کرنا ہے کہ مومن کون ہے اور مرتد کون ہے تو دیکھو فضل کس پر نازل ہوتے ہیں اور کون اس پہلو سے فضلوں سے محروم ہے.میں نے گن گن کر ان مرتدوں کا جائزہ لیا جو اس نہایت شدید مخالفت کے دور میں اس اہم سال میں ارتداد اختیار کر گئے ہیں اور ان کے مقابل پر فی مرتد ایک ایک ہزار بیعتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں ہمیں.یہ سال پورا ہو جائے میں آپ کے سامنے اعداد و شمار رکھوں گا آپ حیران ہو جائیں گے.اب تک تو ایک ہزار سے کم نہیں ہیں.جتنے بدنصیب پاکستان میں مرتد ہوئے ہیں ان دباؤں کے نتیجے میں، لالچوں کے نتیجے میں، عزتوں کی حفاظت کے نتیجے میں جو جو بھی ان کے منشایا مقاصد تھے ان کے نتیجے میں وہ مرتد ہوئے ان میں سے ہر ایک کے بدلے میں خدا نے دنیا میں ایک ایک ہزار احمدی عطا کیا ہے اور یہ پہلو میرے سامنے اب آیا ہے یعنی اس آیت کے مطالعہ کے بعد کہ وہ جو آنے والے لوگ ہیں وہ انشاء اللہ بہت اچھے ثابت ہوں گے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ میں صرف تعداد پوری نہیں کروں گا.اصل جھگڑا تعداد کا نہیں تھا بلکہ Quality کا اس کی حیثیت کیا تھی جانے والے کی؟ اور قرآن کریم کے نزدیک اصل نقصان حیثیت کا ہوا کرتا ہے نہ کے تعداد کا.تو یہ قرآن کریم کی عظمت کا ایک نشان ہے اس آیت میں کس فصاحت و بلاغت کے ساتھ اصل مضمون کو ابھار کر ہمارے سامنے رکھ دیا.یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایک کے بدلے تمہیں قو میں عطا کروں گا.فرمایا ایک ایک گندے کے بدلے اچھے، صالح لوگ پاکیزہ لوگ عطا کروں گا کیونکہ اگر صرف تعداد کا مقابلہ ہو تو پھر تو مومن ہارے ہی ہوئے ہیں کیونکہ دنیا کی بھاری اکثریت ان کو جھوٹا سمجھتی ہے ان سے روگردانی کرتی ہے ان میں سے ایک حصہ ان پر ظلم کرتا ہے تو تعداد کا اگر خالی مقابلہ ہو تو پھر تو ایمان اور ارتداد میں فرق کرنا مشکل ہو گا.تو خدا تعالیٰ نے اس ایک آیت میں ایمان اور ارتداد کا کیسا نمایاں فرق کر دیا ہے.فرمایا دیکھو جتنے جانے والے لوگ تھے وہ بزدل کمینے آپس میں دشمنیاں کرنے والے اور غیروں سے ڈرنے اور ان کے سامنے جھکنے والے اور پھر اس کے علاوہ لَوْمَةَ لابِپھر سے ڈرنے والے لوگ تھے.اب

Page 741

خطبات طاہر جلد ۸ 736 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء آپ ان صفات کو مرتدین پر اطلاق کر کے دیکھ لیں ہر جگہ یہ آپ کو اطلاق پاتی ہوئی دکھائی دیں گی.فرمایا جو آنے والے ہیں وہ ایسے نہیں ہوں گے یہ میرا وعدہ ہے.پس خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ سال جو مولویوں نے احمدیت کو مٹانے کا سال بنایا تھا اور یہ منظور چنیوٹی وغیرہ اس قماش کے مولوی بڑی بڑی شان سے یہ دعوے کر رہے تھے کہ تم دیکھنا یہ سال احمدیت کے مٹنے اور نابود ہونے کا سال ہوگا.فلاں ستمبر کی تاریخ تک میں تو ہوں گا جماعت احمد یہ دنیا میں نہیں ہو گی.اس قسم کے دعوے کر رہے تھے.آج دیکھ لیں کیسی ذلت کے سامان خدا نے ان کے لئے مہیا فرمائے.ہر جگہ ان کے نزدیک جو مومن ہوئے ہیں ان کے اوپر قرآن کریم کی ارتداد کی علامتیں صادق آ رہی ہیں.ہر جگہ ان کے نزدیک جو مرتد ہوئے ہیں ان کے اوپر قرآن کریم کے مطابق ایمان کی علامتیں صادق آ رہی ہیں.پس یہ کوئی گھٹیا کوئی نقصان والا سودا نہیں ہے.جہاں تک انگلستان کی جماعت کا تعلق ہے اللہ کے فضل سے دن بدن بڑھ رہی ہے.یہاں باہر سے آیا ہوا ایک شخص صرف اس سال مرتد ہوا اور اس کے ارتداد کی وجہ بھی جو سب لوگوں کو علم ہے کہ اس ارتداد سے پہلے جماعت نے اس کی بعض بیہودگیوں کی وجہ سے اس کے اوپر ایکشن لیا.اس کو ناراضگی کا نشانہ بنایا اور پھر وہ بھاگا ہے اپنی انتقامی کارروائی کے طور پر لیکن چند دن ہوئے مجھے اس کا ایک واقعہ معلوم ہوا جس سے مجھے بہت لطف آیا کہ کس طرح اس نے اپنے ایک فعل سے اپنا شیطان ہونا ثابت کر دیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ شیطان لالچیں دے کر اپنے ساتھ شامل کرتا ہے.چنانچہ اس شخص نے دو عرب نو جوانوں کے لئے ایک موٹر بھجوائی اور کہا کہ تمہاری بہت عزت افزائی ہوگی تم ہمارے پاس آجاؤ.ان نو جوانوں نے رد کر دیا کہ بالکل نہیں ہمیں تمہارے پاس آنے کی کوئی ضرورت نہیں.پھر ان کو دوبارہ کار بھجوائی اور پیغام بھیجا کہ منظور چنیوٹی سے ملاقات ہوگی اور یہ یہ تمہارے لئے ہم رزق کے سامان کریں گے.جو تمہیں اب نوکری میں مل رہا ہے اس سے بہت زیادہ ہم تمہیں دیں گے اور انہوں نے کہا ہمیں تمہارے رزق کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہمیں جوتی کی بھی پرواہ نہیں ہے اور آئندہ ہمارے پاس ایسے پیغام نہ بھیجنا.تو سوال یہ ہے کہ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ ایمان بدلنے کے لئے شیطان لالچ دیا کرتا ہے.پس وہ مرتد ہونے والا اپنی شیطانیت پر گواہ بن گیا کیونکہ لالچ دے کر اس نے قرآن کریم کی

Page 742

خطبات طاہر جلد ۸ 737 خطبه جمعه ۱۰ار نومبر ۱۹۸۹ء آیت کے مصداق بنے ہوئے اپنے اس گند کا ثبوت مہیا کر دیا کہ قرآن کے نزدیک وہ حرکت جو شیطانوں کی حرکت ہے وہ میں کر رہا ہوں اور یہی مضمون ہے جو سارے پاکستان میں آپ کو دکھائی دے گا مسلسل شیطان احمدیوں کو لالچیں دے رہا ہے.کہیں دباؤ ڈال رہا ہے کہیں لالچ دے رہا ہے اور اس کے سوا ان کو کوئی تبلیغ کا ذریعہ معلوم نہیں.یہی دو ذریعے رہ گئے ہیں جس کے ذریعے یہ احمدیت کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور خدا کے فضل کے ساتھ جس شان کے ساتھ جماعت احمدیہ پاکستان نے استقامت کے نمونے دکھائے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مذاہب کی تاریخ میں شاذ ہی ایسے واقعات ہوئے ہوں گے.ایک حیرت انگیز تاریخ بن رہی ہے آج.کبھی دنیا کی کسی قوم نے جو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب نہ ہوتی ہو اس شان کے ثبات قدم کے نمونے نہیں دکھائے جس شان کے ساتھ آج پاکستان میں جماعت احمد یہ دکھا رہی ہے.چنانچہ قرآن کریم یہ بھی فرماتا ہے کہ بعض کمزوران میں سے وقتی طور پر ظاہراً ارتداد اختیار کر لیتے ہیں لیکن محض اس لئے کہ ان کو سخت مجبور کر دیا گیا.ان لوگوں پر کوئی حرف نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے کمزور بندے بھی ہیں.پس ان لوگوں میں ایسے بھی ہیں کچھ.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ ايْمَانِةِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَيِنٌ بِالْإِيْمَانِ وَلَكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النحل: ۱۰۷) کہ دیکھو وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ایمان لانے کے بعد.ان پر خدا کا غضب نازل ہوگا اور عذاب عظیم ان کو ملے گا لیکن ان میں استثنا ہیں.اِلَّا مَنْ أُكْرِهَ سوائے اس کہ جو مجبور ہو چکا ہو لیکن واقعہ وہ دل میں مومن ہو وَ قَلْبُهُ مُطْمَيِن بِالْإِيْمَانِ اس کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہو، مجبور کر دیا گیا ہو من أكرة و شخص مجبور کر دیا گیا ہے وَلَكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ ہاں وہ لوگ جن کا دل کفر پر کھل گیا ہے ان لوگوں کو سزا ملے گی.انچہ ایسے لوگوں کی بھی کثرت سے اطلاعیں مل رہی ہیں اور ایک طرف یہ لوگ اعلانات

Page 743

خطبات طاہر جلد ۸ 738 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء اخبارات میں شائع کرتے ہیں کہ فلاں مرتد ہو گیا، فلاں مرتد ہو گیا، فلاں مرتد ہو گیا.جب تحقیق کی جاتی ہے تو بہت سے ان میں احمدی ہوتے ہی نہیں.جو ہوتے ہیں ان پر وہ حالات صادق آتے ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں اور ان میں سے بعض پھر بہت جلدی بڑے بڑے دردناک خط لکھتے ہیں معافی کے لئے اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم اب ہر تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں لیکن جب سے ہم نے مجبور ہو کر احمدیت سے تو بہ کی ہے ہم ایک جہنم میں مبتلا ہو گئے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن پر یہ آیت صادق آتی ہے مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيْمَانِةٍ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ سوائے اس کے کوئی شخص مجبور کر دیا گیا ہو وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنَّ بِالْإِيْمَانِ اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو ، وہ لوگ پھر وہاں ٹھہر ہی نہیں سکتے.پس جانے والوں کی خبریں تو دے رہے ہیں جو آرہے ہیں ان کی خبریں نہیں شائع کر رہے.حالانکہ مسلسل ان لوگوں میں سے آبھی رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی حیرت انگیز خطوط ملتے ہیں کہ بیویاں اور بچے لکھتے ہیں کہ ہمارے خاوند نے یا باپ نے یہ حرکت کی ہے ہمارا اس سے یہ کوئی تعلق نہیں رہا.ہم اس کو چھوڑ کر الگ آکے بیٹھ گئے ہیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں جو کچھ ہم سے ہوتا ہے لیکن ہم اپنے خاوند کی طرح بز دل نہیں بن سکتے یا اپنے باپ کی طرح بزدل نہیں بن سکتے.ابھی چند دن ہوئے ہیں چک سکندر سے ایک خط کسی طرح سمگل کر کے کسی نے بھجوایا بچوں نے.اسی مضمون کا بڑا دردناک خط ہے.بچے لکھتے ہیں کہ ہمارے متعلق بھی آپ کو اطلاع ملی ہوگی کہ ہم مرتد ہو گئے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہمارا باپ ہوا ہے اور ہم نہیں ہوئے.ہم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظمیں گھر میں پڑھتے ہیں تو ہمیں سخت مارتا ہے اور تشدد کرتا ہے اور اس کے بعد ہم روتے پیٹتے کچھ دیر کے لئے چپ کر جاتے ہیں پھر ہم شروع کر دیتے ہیں اس لئے ہمارے متعلق ہرگز یہ گمان نہ کرنا کہ ہم بھی اپنے مرتد باپ کے ساتھ شامل ہیں.ہمیں کوئی پرواہ نہیں جب تک اس معاشرے کا دباؤ ہے ہم کھل کر باہر نہیں آسکتے مگر ہمارے دل مومن ہیں اور ہمارے اعمال بھی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہی ہیں.اس قسم کا یعنی الفاظ یہ نہیں مگر اس مضمون کے خط ان کے ملے اور پھر کھاریاں سے بھی اسی قسم کا ایک خط ملا اور بھی ایسے آنے شروع ہوئے ہیں.پس وہاں جہاں دباؤ کے ذریعے مرتد کیا جا رہا ہے وہاں اللہ کے فضل کے ساتھ ایک احمدیت میں واپسی کی اور بڑی شرمندگی کے ساتھ

Page 744

خطبات طاہر جلد ۸ واپسی کی رو بھی شروع ہو چکی ہے.739 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء پس میں آپ سے اس وقت آخر پر اس دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ یہ سال جو جماعت احمدیہ کے لئے ایک تین کا سال ہے.کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے والا سال ہے اور ہر پہلو سے خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز اور جدا کر کے دکھا رہا ہے اور جماعت احمدیہ کے ایمان پر خدا تعالیٰ کے کلام کی تصدیق کی مہریں لگتی چلی جارہی ہیں.پس اس سال میں خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ پاکستان کے احمدیوں کو مزید ثبات قدم عطا فرمائے ان کو حو صلے دے، ان کی برداشت کی طاقت کو بڑھائے.وہ جو شدید قسم کی زبانی اذیتیں ان کو پہنچائی جا رہی ہے یا تحریری اذیتیں ان کو پہنچائی جارہی ہیں ان اذیتوں کا ان کو سب سے زیادہ صدمہ ہے اور یہ وہ دکھ ہے جو بعض لوگ کہتے ہیں ہم سے برداشت نہیں ہوتا اور اکثر جو شکایتیں ملتی ہیں وہ جسمانی جبر اور تشدد کے خلاف نہیں بلکہ اس قسم کے جبر و تشدد کے خلاف ہیں جہاں احمدی طلباء کو گندی گالیاں دی جارہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف روزانہ بکواس کی جا رہی ہے ان کے سامنے کلاس روم میں، باہر، کھانے کے کمروں میں.ہر قسم کے پلید لفظ ان کے لئے بولے جا رہے ہیں.گلیوں میں ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے، شہروں میں، دیہات میں.یہ وہ تکلیف ہے اور عذاب ہے جس کو وہ بڑے حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں اور لَوْمَةَ لَا بِھ سے نہیں وہ ڈار ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ خاص طور پر دردناک دعاؤں کے ذریعے ان کی مدد کریں کہ صبر کی ایک انتہا ہوتی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں ہماری انتہا ہو چکی ہے.اب ہم کیا کریں اور.اس لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سے یہ صبر کا ابتلاء اب ٹال دے اور جزا کا جو نظام ہمارے لئے دنیا میں جاری ہے وہ پاکستان میں بھی جاری فرمائے.وہاں بھی ایسے حالات تبدیل فرمادے کہ یہ لوگ کھل کر اپنے دلوں کی امنگیں ظاہر کر سکیں کھل کر اپنے دماغ کے خیالات ظاہر کر سکیں کھل کر اپنے زندہ رہنے کے حق استعمال کریں اور خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر جو امنگیں ان کے سینوں میں مچل رہی ہیں اور باہر نکلنے کی راہ نہیں پار ہیں اللہ تعالیٰ ان کی روکیں دور فرمائے اور یہ کھل کر اللہ کے فضل کے ساتھ اس کے دین کی خدمت میں ہر میدان میں آگے دوڑنا شروع کر دیں اور ان کی تمام روکیں دور ہو جائیں ، ان

Page 745

خطبات طاہر جلد ۸ 740 خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۸۹ء کی تمام سلاسل ٹوٹ جائیں ، ان کی تمام پابندیاں ختم ہو جائیں اور خدا ایک نیا دور پھر ایک کے بدلے ہزار عطا کرنے کا پاکستان میں بھی جاری فرمائے.ہم تو ان کو باہر سے بتارہے ہیں لیکن ان کے دل کی تمنا تو یہی ہوگی کہ خدا ہمیں یہاں دکھا.اس ملک میں جہاں ہم سے یہ ظلم ہورہا ہے یہاں اپنے فضل نازل فرما اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور اپنے سینے ٹھنڈے کریں.پس یہ دعائیں ہیں جن میں خصوصیت سے احباب جماعت پاکستان کو ہمیں یا درکھنا چاہیئے اور مظلوموں کے لے بھی دعائیں کریں، ان بچوں کے لئے ، ان عورتوں کے لے جو بڑی کس مپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن شکوہ زبان پر نہیں لاتے.اللہ ان کے سارے غم دور فرمائے ان کےسارے نقصانات جو ہیں وہ لامتناہی فوائد کی صورت میں ان پر نازل ہوں اور جو کچھ کھویا ہے اس سے ہزاروں گنا زیادہ پانے والے ہوں.آمین.

Page 746

خطبات طاہر جلد ۸ 741 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء کیرالہ (بھارت) میں ہونے والے مباہلہ کا ذکر مکذب قومیں انحطاط اور دنیاوی آفات کا شکار ہو جاتی ہیں (خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ار نومبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :.کل کیرالہ سے ہمارے مبلغ انچارج مکرم مولوی محمد ابو الوفا صاحب کا ایک خط ملا ہے جس میں انہوں نے کیرالہ میں ہونے والے ایک مباہلہ کا ذکر کر کےخصوصیت کے ساتھ دعا کی تحریک کی ہے.اس مباہلہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب گزشتہ سال میں نے ایک مباہلے کا چیلنج دیا جس میں اولین مخاطب تمام منکرین اور مکذبین کے سردار جنرل ضیاء الحق تھے اور ان کے ساتھ جو دوسرے علماء شامل تھے ان کا بھی ذکر کیا گیا اور تمام دنیا میں ان لوگوں کو مخاطب کیا گیا جو مکذبین اور مکفرین کے سردار ہیں اور ان کے پیچھے کچھ گروہ ہیں اور یہ اعلان کیا گیا کہ جو چاہے اس مباہلے کو قبول کرے.اس ضمن میں جو واقعات پہلے بیان ہو چکے ہیں ان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں.کوڈ یو تھور جو کیرالہ میں ایک جگہ ہے وہاں کچھ علماء ہیں جنہوں نے جماعت کے اوپر زور دیا کہ ہم مباہلہ تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اس طرح نہیں جس طرح کے مباہلہ کا چیلنج دیا گیا ہے.ان کا یہ موقف تھا کہ وہ مباہلہ جو آمنے سامنے نہ ہو اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور میرا نام لے کر انہوں نے کہا کہ اس نے جو مباہلہ کا چیلنج دیا ہے وہ چونکہ غیر شرعی ہے اور غیر حقیقی ہے اس

Page 747

خطبات طاہر جلد ۸ 742 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء لئے اس کا تو کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اس لئے ہم جو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہیں ہماری شرطوں کے ساتھ قبول کرو تو پھر نتیجہ ظاہر ہو گا.چنانچہ جب ان کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی تو اگر چہ بالعموم میں اس قسم کی پیشکش کو رد کرتا رہا ہوں اور یہ موقف اختیار کرتا رہا ہوں کے قرآن کریم کی رُو سے مباہلے میں ہرگز آمنے سامنے کھڑے ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے.تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَابْنَاءَكُمْ ( آل عمران :۱۲) والی آیت میں یہ مضمون خوب کھل گیا ہے کہ نہ صرف آمنے سامنے ہونے کی شرط نہیں بلکہ آمنے سامنے ہونے کا اس وقت امکان بھی کوئی نہیں تھا کیونکہ وہ عیسائیوں کے نمائندگان جو اس وقت وہاں حاضر تھے ان کے اہل وعیال ، ان کے مرد ، ان کی عورتیں تو سب پیچھے اپنے وطن میں رہتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی حاضر نہیں تھا.اس لئے تعالوا کا معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں جس طرح ہم ہر زبان میں ہر محاورے میں استعمال کرتے ہیں کہ تم بھی اپنوں کو آواز دو کہ وہ تمہارے ساتھ ہوں اور اور ہم بھی اپنوں کو آواز دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہوں اور معنوی لحاظ سے وہ ہمارے ساتھ شرکت کریں.چنانچہ اسی جگہ آگے بڑھ کر قرآن کریم فرماتا ہے قُلْ يَاهْلَ الْكِتب تَعَالَوْا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اس سے صاف کھل گیا کہ یہاں تعالوا كا معنی جسمانی طور پر حاضر ہونا نہیں کیونکہ اِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٌ بَيْنَنَا کے لفظ نے خوب مضمون کھول دیا کہ معنوی شراکت کی ضرورت ہے کسی جگہ کی شراکت نہیں اس کلمے کی طرف آؤ، اس کلمے کی طرف آؤ جو ہم دونوں کے درمیان مشترک ہے.تو تَعَالَوْا کا چونکہ یہ مفہوم خوب اچھی طرح واضح ہے اس لئے میں نے اصرار کیا اور ہمیشہ کرتا رہا کہ یہی طریق درست ہے اور دوسرے آج کل کے زمانے میں بھی باوجود اس کے کہ سفر کی بہت سی سہولتیں ہیں یہ ناممکن ہے کہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے معاندین کے پاس میں جگہ جگہ دوڑا پھروں اور ایک ایک کے سامنے اپنے بیوی بچے لے جا کر ان کے بیوی بچے منگواؤں اور پھر اس طرح مباہلہ ہو ( ویسے ہی ایک لغوسی شکل بنتی ہے ) لیکن چونکہ وہاں علماء نے جماعت پر بہت زور دیا اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ جماعت بھاگ رہی ہے چنانچہ میں نے ان کو اجازت دے دی.جب مباہلہ کی اجازت دی تو انہوں نے اس تحریر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جو جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی تھی اور باوجود اصرار کے ان الزامات پر دستخط نہیں کئے جو بڑی

Page 748

خطبات طاہر جلد ۸ 743 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء وضاحت کے ساتھ ہم نے شائع کئے تھے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں جو تم لگاتے ہو تو مؤکد بعذاب قسم کھا کر خدا کے حضور حاضر ہو اور مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرو.میں نے یہاں تک بھی ان کو سہولت دی تھی کہ اگر تمہارے نزدیک سارے الزام سچے نہیں ہیں تو جتنے سچے ہیں ان پر نشان لگا دو اگر ایک الزام کو بھی سچا سمجھتے ہو اس پر بھی نشان لگا دو.تو پہلی تو ان کی شکست اس بات سے ظاہر ہوئی کہ انہوں نے اس تحریر میں سے ایک الزام پر بھی تصدیق کرنے کی جرات نہ کی اور ایک الزام کو بھی درست قرار دیتے ہوئے اس کے اوپر مباہلہ کرنے کی جرات نہ کی.تو وہاں جو اہل بصیرت ہیں ان پر یہ بات کھل جانی چاہئے تھی کہ یہ علماء جو ہر روز انہی باتوں پر جماعت کے خلاف گند بکتے ہیں اگر یہ اپنی بات میں بچے ہوتے تو مباہلے کے وقت ان الزامات کو مباہلے میں شامل کرتے لیکن شامل نہ کیا بلکہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب پر مباہلہ کیا یعنی جماعت احمد یہ آپ کی تصدیق کرے اور وہ تکذیب کریں.وہ الفاظ جو مباہلے کے ہیں وہ میں ابھی آپ کو پڑھ کر سناؤں گا کیونکہ مباہلے کی مدت ختم ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے اور ۲۸ نومبر کو ان کی آپس کی مقرر کردہ مدت ختم ہو رہی ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں آپ کو وہ الفاظ پڑھ کر سناؤں اس خط کے مضمون سے مزید کچھ مطلع کرنا چاہتا ہوں.اس خط میں کچھ پریشانی کا اظہار تھا اور وہ اس طرح کہ انہوں نے لکھا ہے کہ یہاں تین گروہوں میں لوگ بٹ چکے ہیں.جوں جوں وقت قریب آرہا ہے چہ مگوئیاں ہورہی ہیں اور چونکہ یہ مباہلہ بہت تشہیر پا گیا تھا اخبارات وغیرہ میں ریڈیو میں کثرت کے ساتھ چرچے ہوئے اور سارے صوبے میں یہ بات شہرت پکڑ گئی کہ جماعت احمدیہ کا اس کے مخالفین سے مباہلہ ہوا ہے.تو انہوں نے لکھا ہے کہ تین قسم کے گروہ ہیں.ایک وہ گروہ جوان علماء کا بھی دشمن ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر اس باہلے کے نتیجے میں کچھ بھی نہ ہوا تو دونوں ہی جھوٹے.ایک وہ گروہ ہے جو ان علماء کا پیروکار ہے.پہلے ان کی شیخیاں اور تھیں اب یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ نہ ہوا تو جماعت جھوٹی اور ایک تیسرا گروہ ہے جو خدا کے منکرین کا ہے کیونکہ کیرالہ میں Communism بہت ہیں اور وہاں دہریت بھی بہت ہے.تو دہریے کہتے ہیں کہ اگر مباہلے کے نتیجے میں کچھ ظاہر نہ ہوا تو خدا ہی نہیں ہے.تو اب وہ کہتے ہیں کہ ان تینوں گروہوں کا کس طرح منہ بند کریں اور کیا بات ان کے سامنے پیش کریں

Page 749

خطبات طاہر جلد ۸ کہ دل مطمئن ہوں.744 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء اس سلسلے میں سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ مباہلے کے الفاظ دیکھے جائیں وہ کیا تھے.ان الفاظ کی رو سے جو بات فریقین پر صادر ہونی واجب ہو وہ ضرور ہونی چاہئے اور اگر ان الفاظ کی رو سے کچھ بھی نہیں ہوتا تو یہ نتیجہ نکالنا بھی درست نہیں کہ دونوں فریق جھوٹے.یہ نتیجہ بھی نکالنا درست نہیں کہ نعوذ باللہ خدا بھی نہیں ہے اور دہریت کو تقویت ملے کیونکہ ایک اور تیسرا نتیجہ بھی تو نکالا جاسکتا ہے کہ تمہارا مباہلہ بے معنی تھا اور خدا کے ہاں مقبول نہیں ہوا اور اس صورت میں ذمہ دار وہ فریق ہوگا جس نے پہلے مباہلے کور د کیا اور اپنا مباہلہ ٹھونسا اور یہ اصرار کیا کہ یہ درست مباہلہ ہے اور پہلا درست مباہلہ نہیں ہے.ایسی صورت میں ایک منظمند کو یہ تجزیہ کرنا ضروری ہوگا کہ جس مباہلے کو انہوں نے رد کیا تھا کیا وہ بے نتیجہ ثابت ہوایا اس کا نتیجہ نکلا اور جس مباہلے کو انہوں نے درست مباہلہ قرار کر کے جماعت پر ٹھونسا تھاوہ درست ثابت ہوا کہ نہیں.تو اگر کوئی صاحب فہم ہو اور عقل کے ساتھ حکمت کے ساتھ تجزیہ کرے تو یہی ایک عقلی نتیجہ نکلتا ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے لیکن اس کا نتیجہ نکلا بھی ہے وہ میں ابھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جہاں تک مباہلے کے الفاظ کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک عبارت پڑھی گئی اور اسی طرح منکرین کی طرف سے ایک عبارت پڑھی گئی.جماعت احمدیہ کی طرف سے عبارت یہ ہے: بسم الله الرحمن الرحيم.صلى الله.الحمد لله رب العلمين نصلى على محمد آل محمد یہ عبارت کا آغاز ہے آگے ہے ) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسلمانوں کے لئے امام مہدی اور موعود مسیح ابن مریم ہیں.وہ حضرت محمد کے تابع غیر تشریعی امتی نبی اور رسول ہیں.یہ ہمارا دلی اعتقاد ہے.ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کا اعلان کرتے ہیں.حضرت احمد القادیانی علیہ السلام کی طرف سے پیش کردہ تمام الہامات اور وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ان کے منکر خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی سزا کے مستحق ہیں جو دیگر

Page 750

خطبات طاہر جلد ۸ 745 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء مامور من اللہ انبیاء کے منکروں کے لئے قرآن کریم نے بیان کی ہیں.(یعنی ان سزاؤں کے مستحق ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں ) ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں آپ کے تابع غیر تشریعی امتی نبی آسکتا ہے.اے قادر ومطلق خدا اگر ہمارا یہ قول اور یہ اعتقاد جھوٹا ہے تو ہم پر سخت سزا نازل فرما.( یہ الفاظ بہت خاص طور پر توجہ سے سننے کے لائق ہیں.اگر ہمارا یہ قول اور یہ اعتقاد جھوٹا ہے تو ہم پر سخت سزا نازل فرما ) لعنت اللہ علی الکاذبین.ورنہ اگر ہم بچے ہوں تو ہم پر نہایت رحمت نازل کر کے ایسا نشان دکھلا جس سے حق ظاہر ہو جاوے.“ تو جہاں تک جماعت احمدیہ کے مباہلے کا تعلق ہے، جماعت احمدیہ کی تحریر مباہلہ کا تعلق ہے اس میں یہ نشان مانگا گیا کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت ڈال اور اگر ہم بچے ہیں تو ہماری تائید میں کوئی نشان ظاہر فرما.یہ اصرار کرنا کہ اس کے نتیجے میں دشمن فلاں تاریخ سے پہلے پہلے مر جائیں یہ سراسر زیادتی اور افترا ہے کیونکہ اس تحریر میں اشارہ بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ایسی صورت میں دشمنوں کو فلاں مدت سے پہلے پہلے مار دے.ہاں انبیاء کے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ قرآن کریم میں متفرق جگہ پر بیان ہوا ہے اور وہ بعض دفعہ صدیوں پر پھیلا ہوا سلوک ہے.بعض دفعہ ہزاروں سال تک پھیلا ہوا سلوک ہے اور وہ ایک ایسی جاری تقدیر ہے جسے کوئی دنیا کی طاقت روک نہیں سکتی.ان کی بالآخر نا کا می مقدر بن جاتی ہے ان کا اور خدا تعالیٰ کے پاک لوگوں اور بچے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا تائیدات ملتی ہیں بے انتہا ان پر فضل نازل ہوتے ہیں ، رحمتیں نازل ہوتی ہیں، برکتیں نازل ہوتی ہیں.وہ دشمنوں کے دیکھتے دیکھتے ، بڑھتے پھیلتے پھولتے پھلتے چلے جاتے ہیں کوئی نہیں جو ان کی راہ روک سکے، کوئی نہیں جو ان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو سکے وہ بالآخر ضرور غالب آتے ہیں اور یہ آخرت میں غالب آنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ دور کے مستقبل میں غالب آتے ہیں بلکہ ان کا ہر قدم غلبہ کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے.ان کے حال میں ان کے مستقبل کی تصویر میں دکھائی دیتی ہیں.ان کے حال کے آئینے میں مستقبل کے عکس روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور جس آنکھ نے دیکھنا ہو اس کو مستقبل کے انتظار کی ضرورت نہیں رہتی.ہر آنکھ دیکھ سکتی ہے پہچان سکتی ہے یہ بڑھنے

Page 751

خطبات طاہر جلد ۸ 746 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء والے اور غالب آنے والوں کی علامتیں ہیں.پس یہ وہ نشان تھا جو در حقیقت جماعت احمدیہ نے مانگا اور یہ نشان جماعت احمدیہ کو ہر جگہ عطا ہوا.خود کیرالہ میں ہی اس مباہلے کے بعد اسی جگہ تین ایسے معززین جماعت احمد یہ میں داخل ہو چکے ہیں جن کا ان سے پہلے جماعت کی متشدد مخالف جماعتوں سے تعلق تھا اور چونکہ ان کو یہ احساس ہوا کہ اس میں ہماری ذلت ہے اس لئے انہوں نے پورا زور لگایا.ایک صاحب کو تو اغوا کر کے گھیراؤ کر کے ان کے اوپر علماء کے بے حد دباؤ ڈالے، مناظرے کئے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ سارے قائم رہے اور خدا نے ان کو استقامت بخشی اور دشمنوں کے دلوں پر اس کے نتیجے میں ضرور ایک قسم کا عذاب نازل ہوا ہے کیونکہ بار بار ان کی طرف سے ان تینوں کے احمدیت میں شمولیت کے نتیجے میں بے چینی کے اظہار ہوئے لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جو نسبتا چھوٹے پیمانے کی چیز ہے اور ایک دشمن کہہ سکتا ہے کہ اتنے بڑے علاقے میں تین احمدی ہو جائیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے.دنیا میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں کوئی ادھر چلا جاتا ہے کوئی ادھر چلا جاتا ہے.لیکن جہاں تک جماعت کی اطلاعوں کا تعلق ہے اس چیز کو مباہلہ کرنے والوں کے دل جانتے ہیں کہ انہوں نے کس شدت سے محسوس کیا ہے لیکن جس نشان کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ اور ہے.وہ یہ ہے کہ مباہلہ کا اصل مقصد کسی کا سچا یا جھوٹا ثابت کرنا ہوتا ہے اور اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے ان کے اپنے ہاتھوں سے ان کے جھوٹا ہونے کے ایسے سامان کر دیئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کی صداقت صرف و ہیں نہیں بلکہ دنیا کے اور ملکوں میں بھی روشن ہوگئی ہے.اب دیکھئے کیسی ان کی عقل ماری گئی اور کیسی ان سے جہالت کی بات ہوئی کہ مباہلہ میں ابھی پورے دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ انہوں نے اخباروں میں یہ خبریں شائع کر دیں کہ جماعت احمدیہ کیرالہ کے امیر ڈاکٹر منصور احمد صاحب اور ان کے چیف مبلغ مولوی محمد ابو الوفا صاحب مباہلے کے دوسرے روز ہی وفات پاگئے.اب دیکھیں کیا ضرورت تھی جھک مارنے کی.انتظار کرتے دیکھتے کیا ہوتا ہے اور دوسرے روز وفات کا اعلان کر رہے ہیں دو مہینے کے بعد اور سعودی عرب میں بھی یہ اعلان ہوا اور پاکستان میں بھی یہ اعلان ہوا اور اخباروں کے علاوہ ایک امروز کا جانتے ہیں آپ مشہور اخبار ہے اس کے 9 جون

Page 752

خطبات طاہر جلد ۸ 747 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عظیم الشان خدا تعالیٰ کی طرف سے علماء کیرالہ کی صداقت کا نشان ظاہر ہوا ہے اور صداقت کا نشان یہ ہے کہ دو احمدیوں کا نام لے کے جو چوٹی کے تھے وہاں اس علاقے میں ان کی موت کا جھوٹا اعلان ان کی صداقت کا نشان ہے.مجھے تعجب ہے کہ وہاں جماعت کو اور اب کیا انتظار ہے.دو باتیں ثابت ہوئیں.دہریوں کے لئے بھی منہ بند کرنے کے لئے ان کے پاس خدا نے ایک نشان دیا اور ان کا منہ بند کرنے کے لئے بھی ایک نشان دیا جو یہ کہتے تھے کہ دونوں ہی جھوٹے ہیں.جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے جو طریق مباہلہ بیان کیا تھا وہ درست تھا اور خدا کے نزدیک وہی طریق مباہلہ تھا جس کو ان کو قبول کر لینا چاہئے تھا.اس سے فرار کی راہ اختیار کی.ان سارے الزامات سے پیچھے ہٹ گئے جو ساری دنیا میں جماعت پر لگاتے پھرتے ہیں.پس جماعت احمدیہ کے لئے جو نصرت کے نشان بھی ہوئے ہیں وہ عالمی حیثیت کے ہیں اور یہ سال جو مباہلے کا تھا خواہ وہ میرے والا سال شمار کر لیں یا ان کا سال بھی بیچ میں شامل کر لیں.اس کثرت سے خدا کے فضل جماعت پر نازل ہوئے ہیں کہ کوئی بالکل ہی اندھا ہو تو وہ نہ دیکھ سکے مگر اگر اس میں ٹولنے کی طاقت بھی ہو تو اس کو پتا لگ سکتا ہے.اتنا امتیازی سال ہے یہ نشانات کا کہ انسان کی عقل حیرت زدہ ہو کہ رہ جاتی ہے.اس کے علاوہ ایک اور بہت اہم قابل توجہ بات یہ ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک اگر جماعت احمد یہ جھوٹی ہوتی تو سب سے بڑی پکڑ تو جماعت احمدیہ کے سربراہ پر آنی چاہئے تھی.جس نے یہ جرات کی کہ ساری دنیا کو چیلنج کیا ہے اور سب سے زیادہ فضل اس شخص پر نازل ہونے چاہئے تھے جس کو اولین مخاطب کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن دیکھیں وہ سال تو بے نتیجہ نہ نکلا.وہ مباہلہ تو بے اثر ثابت نہ ہوا.بلکہ اگر آپ غور کریں تو بہت عظیم نشان ہے جو تاریخ میں شاذ کے طور پر ظاہر ہوا کرتا ہے.اس میں بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ابھی آپ کی نظر میں نہیں لیکن بعد میں ظاہر ہوں گے.دوطریق پر خدا نے فوری طور پر جماعت احمدیہ کی سچائی کے نشان ظاہر فرمائے.اول ایک ایسے شخص کو جس کی وہ موت کا اعلان کر رہے تھے بلکہ یہ کہہ رہے تھے کہ مرزا طاہر کے ہاتھوں سے یا اس کے ایماء پر اس کے مقرر کردہ قاتلوں کے ہاتھوں سے وہ قتل کیا گیا ہے اور اگر یہ بات جھوٹ نکلے تو ہمیں سر عام

Page 753

خطبات طاہر جلد ۸ 748 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء پھانسی دو اور ہم سے یہ کرو اور وہ کرو.ایک مہینے کے اندر اندر اس مردے کو خدا نے زندہ کر دیا ہے.پس اگر ان کے اندر ذرا بھی شرافت اور دیانت ہوتی اور عقل سے کام لیتے تو ان کو یہ پتا چلتا که در اصل و ه دشمن زندہ نہیں ہوا بلکہ احمدیت زندہ ہوئی ہے.خدا نے احمدیت کو اس کی زندگی کا نشان دکھا کر ایک نئی شان سے زندہ کیا ہے ورنہ ہمیشہ کے لئے خلافت احمدیہ پر یہ الزام لگا رہ جاتا.احمدی لاکھ کہتے کہ ہم جانتے ہیں ہمارے یہ طور طریق نہیں ہیں مگر دشمن یہی کہتا رہتا کہ ایک خلیفہ تمہارا قاتل تھا.اب دیکھیں خدا تعالیٰ نے اس کو اس لاعلمی کی حالت میں بھی مرنے نہیں دیا.بلوایا وہاں سے پاکستان میں ان دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے دکھایا کہ تم جھوٹے ہو تمہاری لعنتیں تم پر پڑ چکی ہیں اور یہ جو دشمن تم نے سازش میں ساتھ شامل کیا ہوا تھا جس کی موت کا جھوٹا اعلان کر کے تم نے ایک معصوم خص پرقتل کے الزام لگائے ہوئے تھے خدا نے ظاہر کر دیا کہ تم سب لوگ جھوٹے تھے اور وہ بچے تھا.تو یہ اپنی ذات میں کوئی معمولی نشان تو نہیں.اگر ہمارا مباہلہ بھی بے اثر جاتا اور ایک پھو کے کارتوس کی طرح چلتا مگر کچھ تماشہ نہ ہوتا کوئی آواز نہیں آتی تو پھر دشمن احمدیت یا د ہر یہ کہہ سکتے تھے کہ دیکھ لو نہ وہ مباہلہ چلا نہ یہ مباہلہ چلا خدا بھی نہیں ہے یونہی گئیں یہ ہیں یا یہ کہ دونوں فریق جھوٹے ہیں.لیکن وہ مباہلہ تو چلا ہے اور بڑی شان کے ساتھ چلا ہے.پھر ضیاء الحق کی موت کسی شخص کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی اور ایسی غیر معمولی موت جس میں سرگردانی کے باوجود آج تک کسی کو کوئی نشان نہیں مل سکا کہ یہ کیا واقعہ ہوا ہے.جس کو ہوائی قلعہ کہتے تھے اس جہاز میں سوار اس کے پر نچے اُڑ گئے اور کم و بیش وہی حالت پیدا ہوئی جیسی خدا نے ایک دفعہ میرے منظوم کلام میں ظاہر فرمائی تھی گوالہام تو نہیں تھا وہ میرے اپنے ہی شعر تھے لیکن بعض دفعہ خدا زبان سے ایسی بات جاری فرما دیتا ہے جس کی سچائی کے اوپر پھر وہ ضامن بن جاتا ہے.وہ دیکھ لیں وہ نشان تو پورا ہوا اور اس نشان کے ساتھ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت سے مخفی نشانات ہیں جو وقت کے ساتھ ظاہر ہوں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح اس ایک مردے کی زندگی کے ساتھ دراصل ساری جماعت میں زندگی پڑگئی وہ غم اور فکر دور ہوئے ، وہ تفکرات دور ہوئے ، وہ تو ہمات ختم ہوئے.بڑی بے چین تھی جماعت، بڑے ان پر تکلیفوں کے سائے پڑے ہوئے تھے کہ ہم جانتے ان ہیں کہ اس نے کوئی ظلم نہیں کیا اور ساری دنیا کی نظر میں اس کو ظالم بنایا جارہا ہے.ساری جماعت بڑی

Page 754

خطبات طاہر جلد ۸ 749 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء گہری طور پر منتظر تھی.اتنا ز بر دست پرو پیگنڈا تھا کہ برٹش حکومت تک بھی اس بات کو غور سے سننے لگی تھی کہ ہاں امکان موجود ہے اور ان کے بعض وزراء نے بعض احمدیوں سے ذکر کیا کہ وہ تو یہ کہتے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کو ایک مجرم کے طور پر ہمارے سپرد کیا جائے.تو دیکھئے خدا نے کس شان کے ساتھ جماعت کو ایک نئی زندگی کا چھینٹا دیا ہے.کیسی ان کی روحیں تازہ ہوئیں.کس طرح بے اختیار خدا کی حمد کے ترانے ساری دنیا میں جماعت نے گائے.یہ کوئی معمولی نشان ہے؟ اور پھر ضیاء کی ایک زندگی میں ان سب ملاؤں کی زندگی تھی.آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی موت کے ساتھ ان کے دلوں پر کیا کیا بلائیں پڑیں ہیں.کیا کیا انہوں نے خبیثانہ منصوبے بنائے ہوئے تھے.کیا کچھ کرنا ابھی باقی تھا.ان کے ساتھ تو وہی ہے فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ (البقرہ: ۱۸) جب انہوں نے سمجھا کہ ما حول روشن ہو گیا ہے اب ہمارے لئے تو ان کی آنکھوں کا نور خدا لے گیا.آنحضرت ﷺ کے وصال پر جس طرح ایک محبت کرنے والے عاشق نے یہ کہا تھا کہ تو میری آنکھ کی پتلی تھی آج تو گیا ہے تو میری آنکھیں اندھی ہو گئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ آج کے علماء کی آنکھوں کی پتلی ضیاء الحق تھا.اس کی موت کے ساتھ ان کی پتلیاں اندھی ہو گئیں اور ان کی آنکھوں کا نور جاتا رہا.بالکل قرآن کریم کے بیان کے مطابق فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ کا معاملہ ان کے ساتھ ہوا ہے اور وہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے.یہ جو بعد میں جماعت احمدیہ کو مارنے ، جماعت احمدیہ کے گھر جلانے ، ان کے اوپر گندا چھالنے کی جو خوفناک مہم جاری ہوئی ہے یہ ان کے دل کا غضب ہے جو ننگا ہو رہا ہے، ان کے کینے باہر آرہے ہیں.جھلا گئے ہیں کچھ ان کی پیش نہیں جا رہی.اس لئے وہ کہتے ہیں اچھا خدا نہیں تو ہمارے ہاتھ تو ہیں ہم ان کو مارتے ہیں.ایک اور بات جو وہاں بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم سچے ہیں تو جماعت احمدیہ پر لعنتیں پڑیں اور جماعت احمدیہ کے ساتھ یہ ہو وہ اب اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور یہ اعلان کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں کچھ نہ ہوا تو ہم سچے نکلیں گے.وہی منظور چنیوٹی والا حال.ایک منظور چنیوٹی کو چھپاؤ دوسرے نکل آتے ہیں ہر جگہ یہی حال ہے.نہ شرافت ہے، نہ صداقت ہے، نہ عقل ہے وہ تحریر تو دیکھو کیا تھی جس پر دستخط کئے گئے ہیں.کس کی

Page 755

خطبات طاہر جلد ۸ 750 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء تو طرف سے کیا مطالبے تھے.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کی صداقت کا تعلق ہے وہ تو روز روشن کی طرح ساری دنیا میں ظاہر ہوئی ہے اور تم خود اپنے ہاتھوں جھوٹے ثابت ہو چکے ہو.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تم گالیاں دیتے ہو اور اس کے باوجود خدا نے تمہیں پکڑا نہیں تو یہ بھی تمہارے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے کیونکہ آج تک میں نے کبھی دنیا کی کسی مذہبی کتاب میں گالیاں دینے کو سچائی کی دلیل کے طور پر نہیں پڑھا.کیسی جہالت، کیسی بے وقوفی کیسی حماقت ہے کہ پاکستان کے علماء بھی اور وہاں ہندوستان کے علماء بھی بے انتہا گند بکتے ہیں اور آخر پر اعلان کر دیتے ہیں کہ دیکھو ہم نے اتنی گالیاں دی ہیں اور ہم پر خدا کا عذاب نازل نہیں ہوا اس لئے ہم بچے اور یہ جھوٹے ہیں.گالیاں بکنے والے تو خود عذاب میں مبتلا ہیں گالیاں ظاہر کرتی ہیں کہ سینوں میں آگئیں لگی ہوئی ہیں.جب کچھ پیش نہ جائے تو جھلا کر لوگ اس قسم کی بکو اس کیا کرتے ہیں ، عورتیں پاگل ہو جاتی ہیں جن کا بس نہیں چلتا.وہ وہ پھکڑ تولتی ہیں، وہ گند بولتی ہیں اپنے دشمن پر کہ شریف آدمی سن بھی نہیں سکتا.ایک نفسیاتی معاملہ ہے اس کو کیوں نہیں سمجھتے کہ گالیاں دینے والا گالیاں دے کر یہ بتاتا ہے کہ میرے دل میں کیا آگ لگی ہوئی ہے.اسے کوئی سکون نصیب نہیں ہوتا.پس جتنا کوئی نیکوں اور پاکوں کو گالیاں دیتا ہے اتنا اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہے.اس کا سچا ہونا ثابت ہو کیسے ہو سکتا ہے.اور جماعت احمدیہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا کے بچوں کے مکذبین کے ساتھ جوسلوک ہوتا ہے وہ کیا جائے.اب مجھے بتاؤ کہ کن گالیاں دینے والوں پر خدا کی طرف سے بجلیاں نازل ہوئیں.قرآن کریم تو یہ فرماتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کے دشمن یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ آسمان سے پتھراؤ کیوں نہیں کرواتا ہم پہ ، کیوں خدا ہم پر پتھر نازل نہیں کرتا ؟ اس لئے کہ ہم محمد رسول اللہ کی تکذیب کر رہے ہیں دیکھ لو ہم بچے ہیں.یہ اشارہ موجود ہے قرآن کریم کی ایک آیت میں اور واقعہ یہ ہے کہ وہ ابو جہل تھا جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ دیکھو میں سب سے بڑا مکذب، سب سے بڑا شیطان، سب سے زیادہ گالیاں دینے والا اور کوئی آسمان سے پتھر نازل نہیں ہوتے.تو وہ لوگ جو گالیوں کے نتیجے میں سزا مانگتے ہیں اور فوری سزا مانگتے ہیں خدا کی تقدیر کو بدل نہیں سکتے اس کے طریق مختلف ہیں.چنانچہ قرآن کریم تعجب سے ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے

Page 756

خطبات طاہر جلد ۸ 751 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء فرماتا ہے یہ کیسے بے وقوف ہیں کہ رحمت میں جلدی کرنے کی بجائے عذاب میں جلدی کر رہے ہیں اور کہتے ہیں خدا جلدی سے کیوں عذاب ظاہر نہیں کرتا.پس جہاں تک خدا کے عذاب کا تعلق ہے وہ ہوا کرتے ہیں نازل مختلف رنگ میں نازل ہوتے ہیں کئی قسم کے گند ہیں جو قوم کے ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں کئی قسم کی اخلاقی موتیں ہیں جو واقعہ ہونی شروع ہو جاتی ہیں.بحیثیت مجموعی مکذب قو میں انحطاط کا شکار ہو جایا کرتی ہیں.طرح طرح کی دنیا وی آفات میں مبتلا ہونے لگ جاتی ہیں.ایک پورا وسیع مضمون ہے جو ایک یا دو افراد کی موت سے نہیں بلکہ ایک سیلاب کی طرح ساری قوم پر چڑھ دوڑتا ہے اور قو میں خدا کے غضب کا نشان بن جایا کرتی ہیں اس غضب کی علامتیں بن کے ظاہر ہوا کرتی ہیں.صلى الله ی نشان پاکستان میں بھی کثرت سے ظاہر ہورہا ہے اور ہندوستان میں بھی کثرت سے ظاہر ہو رہا ہے.جب تک قوم ان علماء کا دامن نہیں چھوڑتی، جب تک ان مکذبین کا دامن نہیں چھوڑتی مسلمان قوم کے لئے جہاں جہاں اس قسم کے علماء کے ساتھ وہ چھٹے ہوئے ہیں کوئی امن اور سکون نہیں.جو چاہیں وہ کر لیں جب تک ان کی نحوست کے سائے سے چل کر باہر نہیں نکلتے اس وقت تک وہ کبھی چین نہیں یا ئیں گے کبھی ان کا کچھ نہیں بن سکے گا.ان کی تقدیر بننے کی بجائے بگڑتی چلی جائے گی.یہ ہے وہ سلوک جو ہمیں پتا چلتا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق خدا کے بچوں کے منکرین سے ہوا کرتا ہے اور ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے ورنہ اگر آسمان سے پتھر گرنے ہوتے اور کسی شخص نے اپنی گندگی کے نتیجے میں معاہلاک ہونا ہوتا تو کیوں آنحضرت ﷺ کے مکذبین کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوا.مغربی دنیا کی صدیاں اس بات پر گواہ کھڑی ہیں.ایسے ایسے بد بخت پیدا ہوئے ہیں انہوں نے آنحضرت کو ایسی ایسی غلیظ گالیاں دی ہیں کہ چند سطریں پڑھ کر انسان سے برداشت نہیں ہوسکتا کہ مزید اس بات کو آگے پڑھ سکے.بعض دفعہ جواب لکھنے کے لئے یا اطلاع پانے کی خاطر کہ ان بد بختوں نے حضرت محمد مصطفی حملے سے کیا کیا سلوک کیا ہے مجبوراً پڑھنا پڑھتا ہے لیکن انتہائی تکلیف دہ اور دردناک حالت پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے ان کے اوپر تو کہیں خدا کی طرف سے کوئی پتھر نہیں گرے، کئی ایسے ہیں جو لمبی عمریں پا کر اور طبعی عمر وفات پاگئے.تو جماعت احمدیہ نے تو وہ سلوک مانگا تھا جو خدا کے انبیاء

Page 757

خطبات طاہر جلد ۸ 752 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء کے منکرین سے ہوا کرتا ہے اور اس سلوک میں سب سے نمایاں سلوک یہ ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَّ آنَا وَ رُسُلِي (المجادلہ: (۲۲) زور جتنا مرضی لگا کے دیکھ لو تم دن بدن ہارتے چلے جاؤ گے اور میرے لوگ جو محمد مصطفی میں ان کے ساتھ ہیں وہ غلبہ پاتے چلے جائیں گے.یعنی الفاظ تو یہ ہیں اَنَا وَ رُسُلِی میں اور میرا رسول لازماً غالب آئیں گے مگر رسول کے اندر ساری جماعت شامل ہوتی ہے پس یہ ہے وہ سلوک جو دشمن سے ہوتا ہے کہ وہ پورا زور لگاتا ہے اور وہ زور لگانے کے با وجود دن بدن نا کام اور نامراد مرتا چلا جاتا ہے.پھر قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ دن بدن ان کی زمینیں تنگ ہوتی چلی جارہی ہے.یعنی دوسرے معنوں میں محمد مصطفی ﷺ کی زمین وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے.کون سا دنیا میں ایسا مقام ہے جہاں تم احمدیت کی زمین تنگ کر سکے ہو.ہاں ہر جگہ مقابل پر تمہاری زمین تنگ ہوتی گئی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جہاں جماعت کے پھیلاؤ کو تم روک سکے ہو اور یہی وہ تکلیف ہے جس نے آگ بن کر تمہیں ایک عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے.آخری بات یہی ہے.پس تمہاری گالیاں دینا تو تمہارے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے.اگر تم غالب آئے ہوتے تو تم نے گالیاں چھوڑ دینی تھیں تم نے تو ہنسنا اور قہقہے لگانا تھا اور خوش ہو جانا تھا پھر احمدی گالیاں دیتے تمہیں.جو جھوٹے ہوتے اور جن کی کچھ پیش نہ جاتی انہوں نے پھر آخر تنگ آکر گالیاں ہی دینی تھیں بیچاروں نے.تو تھوڑے ہو کر ، کمزور ہو کر، بے بس اور بے اختیار ہو کر ان کے دلوں پر تو طمانیت نازل ہوتی ہے خدا کی طرف سے ان کو تو صبر کا نشان دیا جاتا ہے.ان کو وہ ساری علامتیں عطا ہوتی ہیں جو خدا کے سچے انبیاء کے ماننے والوں کو عطا ہوا کرتی ہیں اور تمہیں جھوٹوں کی علامتیں عطا ہوتی ہیں.پھر یہ کیسے ہو گیا کہ تم سچے نکلے اور ہم جھوٹے.دیکھو آنحضرت ﷺ نے ایک سادہ سے فقرہ میں ہمیشہ کے لئے اس بات کا فیصلہ فرما دیا کہ سچا کون ہوتا ہے اور جھوٹا کون ہوتا ہے.آخری زمانے کے حالات بیان کرتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ بہتر (۷۲) فرقے ہو جائیں گے.کـل هـم فــی النار وہ سارے کے سارے آگ والے ہوں گے سوائے ایک جماعت کے جو بچی ہوگی جسے

Page 758

خطبات طاہر جلد ۸ 753 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء خدا کھڑا کرے گا.یہ جو جماعت سچی ہوگی کی خوشخبری دی اس کے متعلق جب ایک پوچھنے والے نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیسے ہم پہچانیں کہ وہ بچے ہیں.فرمایا ما انا علیه و اصحا بی ترندی کتاب الایمان حدیث نمبر: ۲۶۴۱) تم دیکھنا جو میرا حال ہے، جو میرے ماننے والےاور میرےصحابہ کا حال ہے وہی ان کا ہوگا.تو دیکھو تم نے گند بکنے کے بعد کس جماعت میں شامل ہونا ثابت کر دیا ہے.کیا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زندگی اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں تم ایک بھی مثال ایسی دے سکتے ہو کہ جس طرح تم مسجد و محراب سے انتہائی مغلظات بکتے ہو اور جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے ہو نعوذ باللہ من ذالک ایک دن بھی آنحضرت ﷺ کے کسی صحابی نے بھی یہ مسلک اختیار کیا ہو.ہاں آپ کے خلاف جھوٹ بولے جاتے تھے.آپ لوگوں کو گندی گالیاں دی جاتی تھیں.آپ کے خلاف افتر اکئے جاتے تھے.تو پھر دیکھو کہ سچا تو وہی ہے جس کی شکل حضرت رسول اکرم ﷺ اور آپ کے غلاموں کی بنتی چلی جا رہی ہے اور یہ شکل خود تو تم بنا رہے ہو اپنے ظلموں کے ذریعے.قرآن کریم سے بچوں کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لو اور پھر دیکھو کہ کس طرح جماعت احمدیہ کیرالہ کی دعا کو خدا نے سنا ہے.انہوں نے تو یہ مانگا تھا کہ اے خدا! رسول کے دشمنوں سے جو تو کرتا چلا آیا ہے جو ان کے حالات ہوتے ہیں وہی ان کے کر دے.چنانچہ اب دیکھ لو کہ آنحضرت ﷺ کی حدیث نے اس مضمون کو خوب واضح کر دیا اور کھول دیا.آپ کی مسجدیں منہدم کی جاتی تھیں.آپ کے گھروں کو آگ لگائی جاتی تھی.آپ کے صحابہ کو تکلیفیں دی جاتی تھیں.گالیاں دی جاتی تھیں دن رات گند بکے جاتے تھے.ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا تھا.عبادت نہیں کرنے دی جاتی تھی.کلمہ نہیں پڑھنے دیا جا تا تھا.حج سے روکا جاتا تھا.یہ اعلان کرنے سے باز رکھا جاتا تھا کہ ہم مسلمان ہیں.سو فیصدی یہ تصویر حضرت محمد مصطفی امیے کے غلاموں کی آج جماعت احمدیہ کو زندہ کرنے کی توفیق ملی ہے.ان سے یہ مظالم ہوئے اور وہ صبر کے ساتھ قائم رہے.عبادتوں سے روکے گئے لیکن عبادتیں کرتے چلے گئے اور عبادتوں میں پہلے سے بڑھ گئے.کلمہ توحید سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن قربانی پر قربانی دیتے چلے گئے اور کلمہ توحید سے جان سے بڑھ کر چھٹے رہے.جانیں گنوادیں مگر کلمہ تو حید کو اپنے دل سے نکلنے نہ دیا.یہ

Page 759

خطبات طاہر جلد ۸ 754 خطبہ جمعہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۹ء وہ جماعت ہے جس نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانے کے وہ تمام اعلیٰ اخلاق دہرا دیئے ہیں اور تمہاری آنکھوں کے سامنے دہرا رہی ہے.اس کردار کو زندہ کر کے آپ پوری دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے جو کبھی تاریخ کے صفحوں میں پڑھا جاتا تھا.اور تم وہ ہو ہاں ! تم وہ بد نصیب ہو جس نے محمد رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے ہر کردار کو اپنا لیا.آپ کے دشمنوں کے ہر وطیرے کو دوبارہ اختیار کیا اور آج تم بھی ایک تاریخ لکھ رہے ہو ہماری طرح دنیا کی آنکھ جو دیکھنے کی آنکھ ہے وہ گواہ ہے اور ہمیشہ گواہ رہے گی کہ ہم نے اپنی قربانیوں اور اپنی وفا اور اپنے خون سے اور اپنے گھر جلا کر اور اپنی اولا دیں قربان کر کے جو تاریخ آج اس زمانے میں لکھی ہے یہ وہی تاریخ ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں نے اسی طرح اپنی وفا کے ساتھ، اپنی قربانیوں کے ساتھ ، اپنے نیک اعمال کے ساتھ لکھی تھی اور تم وہ ہو جو وہ تاریخ لکھ رہے ہو جو مخالفین محمد مصطفی سے لکھتے چلے گئے یہاں تک کہ خدا نے ان کو مغلوب کر دیا اور ان کو بے اختیار کر دیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے دین اسلام پھیلتا چلا گیا.پس آج بھی وہی اسلام پھیلے گا جو محمد رسول اللہ ﷺ کا اسلام ہے اور اس اسلام کے نقوش دن بدن واضح ہوتے چلے جارہے ہیں.

Page 760

خطبات طاہر جلد ۸ 755 خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۸۹ء ذیلی تنظیموں کو پانچ بنیادی اخلاق، قیام نماز اور تلاوت قرآن کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تلقین (خطبه جمعه فرموده ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :.وہ لوگ جو بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں ان کو یہ رجحان پیدا کرنا چاہئے کہ ابتدائی باتوں کی طرف خصوصی توجہ دیں.بعض دفعہ بعض بہت ہی بلند بانگ منصوبے بنانے والے اور بلند بانگ دعاوی کرنے والے ابتدائی باتوں سے بے خبر رہ جاتے ہیں اور وہ چیزیں جو ان کی نظر میں ابتدائی ہیں در حقیقت بنیادی حیثیت رکھنے والی باتیں ہوا کرتی ہیں اور جب تک بنیادیں قائم نہ ہوں کوئی بلند عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی.یہ ایک ایسا قانون ہے جسے کوئی دنیا کا انجینئر ، کوئی ما ہرفن نظر انداز نہیں کر سکتا.قوموں کی تعمیر میں اور میری مراد مذہبی تو میں ہیں مذہبی قوموں کی تعمیر میں دو باتیں بہت ہی بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور انہی کے گر دسا را فلسفہ حیات گھومتا ہے یعنی بندے سے تعلق اور خدا سے تعلق.ان دونوں تعلقات میں اسلام نے بہت ہی وسیع تعلیمات دی ہیں اور بہت ہی بلند منصوبے پیش کئے ہیں لیکن ان منصوبوں پر عمل تبھی ممکن ہے جب ان کے ابتدائی حصوں پر خصوصیت سے توجہ دی جائے اور صبر کے ساتھ پہلے بنیادیں تعمیر کی جائیں پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے توقع رکھی جائے کہ ان بنیادوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر ہوں گی.جماعت احمدیہ کا جو موجودہ دور ہے یہ غیر معمولی اہمیت رکھنے والا دور ہے اور جیسا کہ میں

Page 761

خطبات طاہر جلد ۸ 756 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء نے بار ہا پہلے توجہ دلائی ہے ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی صدی سے دور ہورہے ہیں.یعنی زمانے اور وقت کے لحاظ سے دور ہورہے ہیں لیکن عین ممکن ہے بلکہ قرآن کریم نے اس کی معین پیشگوئی بھی فرمائی ہے کہ زمانے کی دوری پائی جاسکتی ہے، عبور ہوسکتی ہے اگر اخلاق کو دور نہ ہونے دیا جائے ، اگر اعمال کو دور نہ ہونے دیا جائے.واخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمع : ٤) میں یہی تو پیغام ہے اور یہی تو خوشخبری ہے جس کو پورا ہوتے دیکھ کر ہمارے ایمان پھر زندہ ہوئے ہیں.پس بہت ہی اہم بات ہے.ہم نے آخرین ہو کر قرآن کریم کی اس پیش گوئی کا مصداق بنتے ہوئے قطعی طور پر یہ دیکھ لیا اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ زمانے کی دوری کو اخلاق کی قربت کے ذریعے مٹایا جا سکتا ہے اور نیک اعمال کے نتیجے میں زمانے کے فاصلے ماضی میں بھی طے ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں بھی طے ہو سکتے ہیں.پس اس پہلو سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر صدی کے قدم پر یہ دیکھیں کہ ہمارا قدم پچھلی صدی کے ساتھ ملا ہوا ہے یا نہیں اور ہمارا اخلاقی اور عملی فاصلہ کہیں بڑھ تو نہیں رہا.پس آگے بڑھنا دو طرح سے ہوگا.ایک زمانے میں آگے بڑھناوہ تو ایسی مجبوری ہے جس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں اور ایک آگے بڑھنا یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے تو میں بظاہر آگے بڑھتی ہیں لیکن بنیادی طور پر انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں.اخلاقی قدروں کے لحاظ سے انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں.وہ آگے بڑھنا تو تنزل کی علامت ہے اس پہلو سے ہم نے آگے نہیں بڑھنا بلکہ واپس جانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جو سب سے بڑا معجزہ دکھایا ، جو سب سے عظیم الشان کارنامہ کر کے دکھایا وہ واپسی کا کارنامہ ہے آگے بڑھنے کا کارنامہ نہیں.تیرہ سو سال کے فاصلے حائل تھے.کس طرح ایک ہی جست میں آپ اس زمانے میں جا پہنچے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا زمانہ تھا.پس ہر صدی کی زمانی جست کے ساتھ ہمیں ایک واپسی کی جست بھی لگانی ہوگی اور بڑے معین فیصلے اور بڑے قطعی فیصلے کے ساتھ ایسا پروگرام طے کرنا ہوگا کہ جب ہم وقت میں آگے بڑھیں تو اخلاقی اور اعمالی قدروں میں واپس جارہے ہوں.اس پہلو سے اس دور میں جب میں چاروں طرف دیکھتا ہوں تو جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اور بھی مسائل بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیزی سے

Page 762

خطبات طاہر جلد ۸ 757 خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۸۹ء بڑھ رہی ہے اور اس کی رفتار ہر طرف پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے.پس بڑی جماعتوں میں رفتار کا پھیلاؤ جہاں مبارک بھی ہے وہاں خدشات بھی پیدا کرنے والا ہے اور فکریں بھی پیدا کر نے والا ہے.اسی طرح بڑی جماعتوں میں نسل پھیلتی ہے تولید کے ذریعے جماعتیں بڑھتی ہیں اس پہلو سے بھی ساتھ ہی تربیتی فکر میں بڑھنے لگتی ہیں.پس جب میں نے مجلس خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ کو تمام ملکوں میں براہ راست اپنے تابع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس میں یہ ایک بڑی حکمت پیش نظر تھی تا کہ میں ان مجالس سے براہ راست ایسے کام لوں جن کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری تربیتی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ محض خوابوں کے محل تعمیر نہ کریں بلکہ چھوٹے چھوٹے ایسے اقدام کریں جن کے نتیجے میں غریبانہ سر چھپانے کی گنجائش تو پوری ہو.یہ وہ ضرورت ہے جس کے پیش نظر جیسا کہ میں نے بیان کیا مجھے یہ اقدام کرنا پڑا.اس سلسلے میں میں آج میں دو ابتدائی پروگرام جماعت کے سامنے رکھتا ہوں اور یہ تینوں مجالس خصوصیت کے ساتھ میری مخاطب ہیں ان کو تنظیمی ہدایات انشاء اللہ تعالیٰ پہنچتی رہیں گی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ، چھوٹے چھوٹے آسان حصوں میں ان کے سپر د عملی پروگرام کئے جائیں گے لیکن جو بنیادی باتیں میرے پیش نظر ہیں وہ میں آپ سب کے سامنے پہلے بھی مختلف حیثیتوں میں رکھتا رہا ہوں آج پھر ان باتوں میں سے بعض کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں.مذہبی قو میں بغیر اخلاقی تعمیر کے تعمیر نہیں ہوسکتیں اور یہ تصور بالکل باطل ہے کہ انسان بداخلاق ہو اور باخدا ہو اس لئے سب سے اہم بات مذہبی قوموں کی تعمیر میں ان کے اخلاق کی تعمیر ہے اور یہ تعمیر جتنی جلدی شروع ہو اتنا ہی بہتر اور اتنی ہی آسان ہوتی ہے.پس اس پہلو سے لجنہ اماءاللہ نے سب سے ابتدائی اور بنیادی کام کرنے ہیں اور یہی ابتدائی اور بنیادی کام عمر کے دوسرے حصوں میں خدام کے سپر دبھی ہوں گے اور انصار کے بھی سپر د ہوں گے لیکن بنیادی طور پر ایک ہی چیزیں ہیں جو مختلف عمر کے حصوں میں مختلف مجالس کو خصوصیت سے سرانجام دینی ہیں.سب سے پہلی بات سچ کی عادت ہے.آج دنیا میں جتنی بدی پھیلی ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا خرابی کا عنصر جھوٹ ہے.وہ قومیں جو ترقی یافتہ ہیں جو بظاہر اعلیٰ اخلاق والی کہلاتی ہیں وہ بھی

Page 763

خطبات طاہر جلد ۸ 758 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء اپنی ضرورت کے مطابق جھوٹ بولتی ہیں، اپنوں سے نہیں بولتی تو غیروں سے جھوٹ بولتی ہیں.ان کے فلسفے جھوٹ پر مبنی ہیں.ان کا نظام حیات جھوٹ پر مبنی ہے.ان کی اقتصادیات جھوٹ پر مبنی ہے.غرضیکہ اگر آپ بار یک نظر سے دیکھیں تو اگر چہ بظاہر ان کے زندگی کے کاروبار پر Civilization اور اعلیٰ تہذیب کے ملمعے چڑھے ہوئے ہیں لیکن فی الحقیقت ان کے اندر مرکزی نقطہ جس کے گرد یہ تو میں گھوم رہی ہیں اور ان کی تہذیبیں جن کے او پر مبنی ہیں وہ جھوٹ ہی ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے مجھے تو اس وقت جماعت احمدیہ کے اندر دلچسپی ہے اور جماعت احمدیہ کے بچوں کے اوپر خصوصیت کے ساتھ میں نظر رکھتا ہوں اور میرے نزدیک جب تک بچپن سے سچ کی عادت نہ ڈالی جائے بڑے ہو کر سچ کی عادت ڈالنا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے اپنے بعض خطبات میں تفصیل سے بیان کیا ہے سچ بولنا بھی مختلف درجات سے تعلق رکھتا ہے، مختلف مراحل سے تعلق رکھتا ہے اور کم سچا اور زیادہ سچا اور اس سے زیادہ سچا اور اس سے زیادہ سچا اتنے بے شمار مراحل ہیں سچ کے بھی کہ ان کو طے کرنا بالآخر نبوت تک پہنچاتا ہے اور صدیق کے مرحلے سے آگے سچائی کا جو خدا تعالیٰ نے مقام مقرر فرمایا ہے اسی کو نبوت کہا جاتا ہے.ایسا سچا کہ جس کا کوئی پہلو بھی جھوٹ کی ملونی اپنے اندر نہ رکھتا ہولیکن یہ ہیں بڑے اور اونچے اور بلند منصوبے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کئے ہیں.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًان (النساء: (۷۰) کتنے عظیم الشان اور بلند منصوبے ہیں لیکن ان کا آغاز بیج سے ہوتا ہے اور کوئی شخص صالح بھی نہیں بن سکتا جب تک وہ سچا نہ ہو.اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ ہم اپنے بچوں کو شروع ہی سے نرمی سے بھی اور سختی سے بھی سچ پر قائم کریں اور کسی قیمت پر ان کے جھوٹے مذاق کو بھی برداشت نہ کریں.یہ کام اگر مائیں کر لیں تو باقی مراحل جو ہیں قوم کے لئے بہت ہی آسان ہو جا ئیں گے اور

Page 764

خطبات طاہر جلد ۸ 759 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء ایسے بچے جو بچے ہوں اگر وہ بعد میں لجنہ کی تنظیم کے سپرد کئے یا خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے سپرد کئے جائیں ان سے وہ ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں کیونکہ سچ کے بغیر وہ Fiber میسر نہیں آتا وہ تانا با نانہیں ملتا جس کے ذریعے آپ بوجھ ڈال سکتے ہیں یا منصوبے بنا کر ان کو ان میں استعمال کر سکتے ہیں.جھوٹی قو میں کمزور ہوتی ہیں ان کے اندر اعلیٰ قدریں برداشت کرنے کی طاقت ہی نہیں ہوا کرتی لیکن یہ ایک بڑا لمبا تفصیلی مضمون ہے اس کو آپ فی الحال نظر انداز فرمائیں.یہ یقین رکھیں کہ سچ کے بغیر کسی اعلیٰ قدر کی کسی اعلیٰ منصوبے کی تعمیر ممکن نہیں ہے.اس لئے جماعت احمدیہ میں بچپن سے ہی سچ کی عادت ڈالنا اور مضبوطی سے اپنی اولادوں کو سچ پر قائم کرنا نہایت ضروری ہے اور جو بڑے ہو چکے ہیں ان پر اس پہلو سے نظر رکھنا اور ایسے پروگرام بنانا کہ بار بار خدام اور انصار اور لجنات اس طرف متوجہ ہوتی رہیں کہ سچائی کی کتنی بڑی قیمت ہے اور کتنی بڑی جماعت کو اس وقت اور دنیا کو جماعت کی وساطت سے ضرورت ہے.دوسرا پہلو تربیت کا نرم اور پاک زبان استعمال کرنا اور ایک دوسرے کا ادب کرنا ہے.یہ بھی بظاہر چھوٹی سی بات ہے ابتدائی چیز ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے وہ سارے جھگڑے جو جماعت کے اندر جی طور پر پیدا ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں ان میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا.ان کی زبان میں درشتگی پائی جاتی ہے.ان کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے جس سے بسا اوقات وہ باخبر ہی نہیں ہوتے.جس طرح کانٹے دکھ دیتے ہیں اور ان کو پتا نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اسی طرح بعض لوگ روحانی طور پر سوکھ کے کانٹے بن جاتے ہیں اور ان کی روزمرہ کی باتیں چاروں طرف دکھ بکھیر رہی ہوتی ہیں، تکلیف دے رہی ہوتی ہیں اور ان کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں.ایسے اگر مرد ہوں تو ان کی عورتیں بے چاری ہمیشہ فلموں کا نشانہ بنی رہتی ہیں اگر عورتیں ہوں تو ان مردوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے.یہ بات بھی ایسی ہے جس کو بچپن سے ہی پیش نظر رکھنا ضروری ہے.گھر میں بچے جب ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں اگر وہ آپس میں ادب اور محبت سے کلام نہ کریں.اگر چھوٹی چھوٹی بات پر تو تو میں میں ہو اور جھگڑے شروع ہو جائیں تو آپ یقین جانیں کہ آپ ایک گندی نسل پیچھے چھوڑ کر

Page 765

خطبات طاہر جلد ۸ 760 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء جانے والے ہیں.ایک ایسی نسل پیدا کر رہے ہیں جو آئندہ زمانوں میں قوم کو تکلیفوں اور دکھوں سے بھر دے گی اور آپ ذمہ دار ہیں اس بات کے.جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں نے ایک دوسرے سے زیادتیاں کیں ،سختیاں کیں، بدتمیزیاں کیں اور آپ نے ان کو ادب سکھانے کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور صرف یہی نہیں بلکہ ایسے بچے پھر ماں باپ سے بھی بدتمیز ہوتے چلے جاتے ہیں اور ماں باپ جن کے جلد بچوں کی تعزیر کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں ان کے بچوں کے پھر ان پر ہاتھ اٹھنے لگتے ہیں.اس روز مرہ کے حسن سلوک اور ادب کی طرف غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ بھی گھروں میں بچپن ہی میں اگر تربیت دے دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی آسانی کے ساتھ یہ کام ہو سکتے ہیں لیکن جب یہ اخلاق زندگی کا جزو بن چکے ہوں، جب ایسے بچے بڑے ہو جائیں تو پھر آپ دیکھیں گے کہ سکول میں جائیں تو کلاسوں میں یہ بچے بدتمیزی کے مظاہرے کرتے شور ڈالتے ایک دوسرے کو تکلیفیں پہنچاتے اور اساتذہ کے لئے ہمیشہ سر دردی بنے رہتے ہیں.یہی بچے جب اطفال الاحمدیہ کے سپرد ہوں یا لجنات کے سپر د بچیوں کے طور پر ہوں تو وہاں ایک مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں.ان بچوں کی تربیت کرنا بہت مشکل کام ہے اور ہم نے جو تربیت کے بڑے بڑے کام کرنے ہیں وہ ہو ہی نہیں سکتے اگر ابتدائی طور پر یہ مادہ تیار نہ.مادہ تیار ہو تو پھر اس کے اوپر جتنا کام آپ کرنا چاہیں، جتنا سجانا چاہیں اتنا سجا سکتے ہیں لیکن وہ مٹی ہی نرم نہ ہو اور اس کے اندر ڈھلنے کی طاقت نہ ہوتو پھر کیسا بڑا اصناع ہی کیوں نہ ہو وہ اس مٹی کو خوبصورت شکلوں میں تبدیل نہیں کر سکتا.پس اس پہلو سے نرم کلامی ادب اور احترام کے ساتھ ایک دوسرے سے سلوک کرنا یہ بہت ہی ضروری ہے.بڑے بڑے خطر ناک جھگڑے اس صورتحال کی طرف توجہ نہ دینے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ مجھ تک ساری دنیا سے مختلف نزاع کبھی بالواسطہ کبھی بلا واسطہ پہنچتے رہتے ہیں اس لئے میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک بچپن سے ہم اپنی اولا د کو زبان کا ادب نہیں سکھاتے اس وقت تک آئندہ بڑے ہو کر قوم میں ان کے کردار کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے اور ان کی بد خلقیاں بعض نہایت ہی خطرناک فساد پیدا کرسکتی ہیں.جن کے نتیجے میں دکھ پھیل سکتے ہیں جماعتیں بٹ سکتی ہیں، منافقتیں پیدا ہوسکتی ہیں، سلسلے سے انحراف کے واقعات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں جن کے اوپر آئندہ قوموں کی تعمیر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت

Page 766

خطبات طاہر جلد ۸ بڑے بڑے واقعات رونما ہو جاتے ہیں.761 خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۸۹ء تیسری چیز وسعت حوصلہ ہے.بچپن ہی سے اپنی اولا دکو یہ سکھانا چاہئے کہ اگر تھوڑی سی تمہیں کسی نے کوئی بات کہی ہے یا کچھ تمہارا نقصان ہو گیا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنا حوصلہ بلند رکھو اور یہ حوصلہ کی تعلیم بھی زبان سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عمل سے دی جاتی ہے.بعض بچوں سے نقصان ہو جاتے ہیں، کوئی گھر کا برتن ٹوٹ گیا کوئی سیاہی کی دوات گر گئی، کھانا کھاتے ہوئے پانی کا گلاس الٹ گیا اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں نے دیکھا ہے کہ بعض ماں باپ برافروختہ ہو کر بچوں کے اوپر برس پڑتے ہیں، ان کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں، چپیڑ میں مارتے ہیں اور کئی طرح کی سزائیں دیتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ جن قوموں میں یا جن ملکوں میں ابھی تک ان کا ایک طبقہ یہ توفیق رکھتا ہے کہ وہ نوکر رکھے وہاں نوکروں کے ساتھ تو اس سے بھی بہت بڑھ کر بدسلوکیاں ہوتی ہیں.تو ان جگہوں میں جہاں نوکروں سے بدسلوکیاں ہو رہی ہوں ، ان گھروں میں جہاں بچوں سے بدسلوکیاں ہو رہی ہوں وہاں آئندہ قوم میں بڑا حوصلہ پیدا نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اپنے بچوں کی تربیت کی وہ محض کلام کے ذریعے نہیں کی بلکہ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کے ذریعے کی ہے.حضرت مصلح موعودؓ جب بچے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک بہت ہی قیمتی مقالہ جو آپ نے تحریر فرمایا تھا اور اس کو طباعت کے لئے تیار فرمایا تھاوہ آپ نے کھیل کھیل میں جلا دیا اور سارا گھر ڈرا بیٹھا تھا کہ اب پتا نہیں کیا ہوگا اور کیسی سزا ملے گی.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں خدا اور توفیق دے دے گا.ال حوصلہ اپنے عمل سے پیدا کیا جاتا ہے اور وہ ماں باپ جن کے دل میں حوصلے نہ ہوں وہ اپنے بچوں میں حوصلے پیدا نہیں کر سکتے اور نرم گفتاری کا بھی حوصلے سے بڑا گہرا تعلق ہے.چھوٹے صلے ہمیشہ بدتمیز زبان پیدا کرتے ہیں.بڑے حوصلوں سے زبان میں بھی تحمل پیدا ہوتا ہے اور زبان کا معیار بھی بلند ہوتا ہے.پس محض زبان میں نرمی پیدا کرنا کافی نہیں جب تک اس کے ساتھ حوصلہ بلند نہ کیا جائے اور وسیع حوصلگی جماعت کے لئے آئندہ بہت ہی کام آنے والی چیز ہے.اس کے غیر معمولی فوائد ہمیں

Page 767

خطبات طاہر جلد ۸ 762 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی نصیب ہو سکتے ہیں لیکن وسیع حوصلگی کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نقصان کو برداشت کیا جائے اور نقصان کی پرواہ نہ کی جائے.یہ ایک فرق ہے جو میں کھول کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اس کے دائرے کے اندر اس کو سمجھ کر ان دونوں باتوں کے درمیان توازن کرنا پڑے گا.نقصان ایک بری چیز ہے.اگر نقصان کا رجحان بچوں میں پیدا ہو تو ان کو سمجھانا اور عقل دینا اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا فرمائی ہیں وہ ہمارے فائدے کے لئے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ چھوٹی سی چھوٹی چیز کا بھی نقصان نہ ہو.وضو کرتے وقت پانی کا بھی نقصان نہیں ہونا چاہئے.منہ ہاتھ دھوتے وقت پانی کا نقصان نہیں ہونا چاہئے.برتن دھوتے وقت پانی کا نقصان نہیں ہونا چاہئے.کپڑے دھوتے وقت پانی کا نقصان نہیں ہونا چاہئے.صرف ایک پانی ہی کو لے لیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہماری قوم میں اور بعض ترقی یافتہ قوموں میں بھی نقصان کا کتنا رجحان ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ ٹوٹیاں کھول کر کھڑے ہو جاتے ہیں ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ گرم پانی یا ٹھنڈا پانی جیسا بھی ہے وہ اکثر ضائع ہو رہا ہے اور بہت تھوڑا ان کے کام آ رہا ہے.حالانکہ پانی خدا تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کی قدر کرنا ضروری ہے اور قطع نظر اس سے کہ اس سے آپ کا مالی نقصان کیا ہوتا ہے یا قوم کا مجموعی نقصان کیا ہوتا ہے یہ بات ناشکری میں داخل ہے کہ کسی نعمت کی بے قدری کی جائے.تو حو صلے سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ نقصان کی پرواہ نہ کرنے کی عادت ڈالی جائے.یہ دو با تیں پہلو بہ پہلو چلنی چاہئیں.حوصلہ سے مراد یہ ہے کہ اگر اتفاقا کسی سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس پر برداشت کیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور جن کے حوصلے بلند ہوں وہ پھر بڑے ہو کر بڑے نقصان برداشت کرنے کے بھی زیادہ اہل ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ آفات سماوی پڑتی ہیں اور دیکھتے دیکھتے انسان کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں.جن کو چھوٹی چھوٹی باتوں کا حوصلہ نہ ہو وہ ایسے موقعوں کے اوپر پھر خدا سے بھی بدتمیز ہو جاتے ہیں اور بے حوصلگی کے ساتھ ایک خود غرضی کا رشتہ ایسا گہرا ہے کہ اس خود غرضی کے نتیجے میں ہر دوسری چیز اپنی تابع دکھائی دینے لگتی ہے.اگر وہ فائدہ پہنچارہی ہے تو ٹھیک ہے ذرا سا بھی نقصان کسی سے پہنچے تو انسان حوصلہ چھوڑ بیٹھتا ہے اور جب بندوں سے بے حوصلگی شروع ہو تو بالآخر خدا سے بھی انسان بے حوصلہ ہو تو

Page 768

خطبات طاہر جلد ۸ 763 خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۸۹ء جاتا ہے.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں یہ گر سمجھایا کہ : من لم يشكر الناس لا يشكر الله ( كنز العمال حدیث نمبر : ۶۴۴۰ ) کہ جو بندے کا شکر ادا نہ کرنا سیکھے وہ خدا کا کہاں کرسکتا ہے.جو بندے کا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا.یہ جو گہرا فلسفہ ہے یہ ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں.حوصلہ پر بھی اسی بات کا اطلاق ہوتا ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ یہ معمولی بات نہیں بڑے ہو کر اس کے بہت برے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.وہ نقصان جس میں انسان بے اختیار ہو اس پر صبر کا نام حوصلہ ہے.نقصان کی طرف طبیعت کا میلان ہونا یہ حوصلہ نہیں ہے یہ بے وقوفی ہے، جہالت ہے اور بعض صورتوں میں یہ خود ناشکری بن جاتا ہے.اس لئے بچوں کو جب حوصلہ سکھاتے ہیں تو چیزوں کی قدر کرنا بھی سکھائیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اب یہاں بھی انگلستان میں میں نے دیکھا ہے پانی کا نقصان اور گرمی کا نقصان یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو عام قوم میں پائی جاتی ہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی.ہمارے خود پاکستان سے یہاں آ کے جو بسنے والے ہیں بے ضرورت ہیٹر جلاتے ہیں.بے ضرورت آگ جلتی رہتی ہے اس کے اوپر پھیلی ہو یا نہ ہوعورتیں پرواہ نہیں کرتیں، بے ضرورت پانی بہتے رہتے ہیں.اس سے بہت کم میں انسان اپنی ضرورت کو پوری کر سکتا ہے اور قومی طور پر جو فائدہ ہے وہ تو ہے لیکن بنیادی طور پر ہر انسان کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کے نتیجے میں اپنی اخلاقی تعمیر میں مددملتی ہے اور بچوں کی تربیت میں اس سے بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے.بجلیوں کو دیکھ لیجئے.میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں بے وجہ بجلیاں جلتی چھوڑ جاتے ہیں لوگ.ریڈیو آن کیا ہے یا ٹیلی ویژن آن کیا ہے تو کمرے سے چلے گئے اور خالی کمروں میں بجلیاں بھی جل رہی ہیں، ریڈیو آن ہیں یا ٹیلی ویژن آن ہیں.کئی دفعہ میں اپنے گھر میں اپنے بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ ہمارے گھر جن ہیں کیونکہ میں کمرے میں گیا وہاں بجلی جل رہی تھی اور ٹیلی ویژن چلا ہوا تھا.معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی غیر مرئی مخلوق ہے ما ہے جو آکے یہ کام کر جاتی ہے.انسانوں کو تو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح بے وجہ خدا کی نعمتوں کو ضائع کریں.تو بارہا یہ دیکھا ہے تربیت کرنی پڑتی ہے لیکن صبر کے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ نہیں اور یہ جو دو باتیں ہیں یہ اکٹھی چلیں گی یعنی حوصلے کی تعلیم اور نقصان سے بچنے کا رجحان کسی قسم کا قومی نقصان نہ ہو اس کے نتیجے میں اندرونی طور پر بھی آپ کی ذات کو، آپ کے خاندان کو فوائد پہنچیں گے اور

Page 769

خطبات طاہر جلد ۸ 764 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء بڑے ہو کر تو اس کے بہت ہی عظیم الشان نتائج نکلتے ہیں.وہ لوگ جن کو چھوٹے چھوٹے نقصانوں کی پرواہ نہیں ہوتی جب وہ تجارتیں کرتے ہیں تو اپنی طرف سے وہ حوصلہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ اچھا یہ ہو گیا کوئی فرق نہیں پڑتا ، اچھا وہ نقصان ہو گیا کوئی فرق نہیں پڑتا ہم اور آگے کمالیں گے.یہ جہالت کی باتیں ہیں اچھے تاجر وہی ہوتے ہیں جو چھوٹے سے چھوٹا نقصان بھی برداشت نہ کریں اور حوصلہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اپنے نقصان کو آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھیں اور روکنے کی کوشش نہ کریں.چوتھی بات غریب کی ہمدردری اور دکھ دور کرنے کی عادت ہے.یہ بھی بچپن ہی سے پیدا کرنی چاہئے.جن بچوں کو نرم مزاج مائیں غریب کی ہمدردی کی باتیں سناتی ہیں اور غریب کی ہمدردی کا رجمان ان کی طبیعتوں میں پیدا کرتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مستقبل میں ایک عظیم الشان قوم پیدا کر رہی ہوتی ہیں.جو خَيْرَ أُمَّةٍ بنے کی اہل ہو جاتی ہیں لیکن وہ مائیں جو خودغرضانہ رویہ رکھتی ہیں اور اپنے بچوں کو ان کے اپنے دکھوں کا احساس تو دلاتی رہتی ہیں غیر کے دکھ کا احساس نہیں دلاتی وہ ایک خود غرض قوم پیدا کرتی ہیں جو لوگوں کے لئے مصیبت بن جاتی ہیں.اس لئے انسانی ہمدردی پیدا کرنا نہ صرف نہایت ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر آپ اپنے اس اعلیٰ مقصد کو پا نہیں سکتے جس کے لئے آپ کو پیدا کیا گیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران: 11) تم دنیا کی بہترین امت ہو جس کو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے پیدا فرمایا ہے اس لئے ہم اپنی زندگی کا قومی مقصد کھو دیں گے اگر ہم بچپن ہی سے اپنی اولا د کولوگوں کی ہمدردی کی طرف متوجہ نہ کریں اور عملاً ان سے ایسے کام نہ لیں یا ان کو ایسے کام نہ سکھائیں جس کے نتیجے میں غریب کی ہمدردی ان کے دل میں پیدا ہو اور اس کی لذت یابی بچپن ہی سے شروع ہو جائے.لذت یابی سے مراد میری یہ ہے کہ اگر کسی بچے سے کوئی ایسا کام کروایا جائے جس سے کسی کا دکھ دور ہو تو اس کو ایک لذت محسوس ہوگی.اگر محض زبانی بتایا جائے تو وہ لذت محسوس نہیں ہوگی اور جب تک نیکی کی لذت محسوس نہ ہو اس وقت تک نیکی دوام نہیں پکڑا کرتی اس وقت تک یہ محض نصیحت کی باتیں ہیں.اس لئے اس کے دو پہلو ہیں ایک تو آپ اپنے بچوں کو اچھی کہانیاں سنا کر سبق آموز نصیحت کر کے یا سبق آموز واقعات سنا کر غریبوں کی ہمدردی کی طرف مائل کریں دکھ والوں کے دکھ دور

Page 770

خطبات طاہر جلد ۸ 765 خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۸۹ء کرنے کی طرف مائل کریں.ہر وہ شخص جو مصیبت زدہ ہے کسی تکلیف میں مبتلا ہے یہ احساس پیدا کریں کہ اس کی مصیبت دور ہونی چاہئے اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خدمت کا جذ بہ ان کے اندر پیدا کریں بلکہ اس کے ساتھ مواقع بھی مہیا کر یں.یہاں عام طور پر ایسے مواقع میر نہیں آتے یعنی روز مرہ کی زندگی میں کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلے بہت ہیں.یا درمیانے طبقے کے لوگوں کے درمیان اور غریبوں کے درمیان بہت فاصلے ہیں لیکن ہمارے ملکوں میں یعنی غریب ملکوں میں تیسری دنیا کے ملکوں میں تو غریب اور امیر ساتھ ساتھ رہتے ہیں.ہر روز ان کی گلیوں، ان کے بازاروں میں غربت تکلیف اٹھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور محسوس ہوتی ہے.وہاں تو نہ صرف یہ کہ یہ کام بہت آسان ہے کہ عملاً بچوں کو بچپن ہی سے لوگوں کی تکلیفیں دور کرنے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مشکل بھی ہے کہ تکلیفیں اتنی ہیں کہ انسان کے حد استطاعت سے بہت بڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے.ایسے ہی ملکوں کے متعلق غالباً ایسے ہی ماحول میں غالب نے یہ کہا تھا کہ : کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند کس کی حاجت روا کرے کوئی (دیوان غالب صفحه : ۳۳۰) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ چونکہ حاجتیں پوری کرنا ہمارے بس سے بڑھ گیا ہے اس لئے ہم حاجت پوری کرنا چھوڑ دیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کس کس کی کریں دل یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک کی کریں.پس جس کسی کی بھی جتنی حاجت بھی آپ دور کر سکتے ہیں خود بھی کریں اور بچوں سے بھی کروائیں اور بچپن میں اگر اس کی عادت پڑ جائے تو اس کے نتیجے میں بچہ جو لذت محسوس کرتا ہے وہ اس کی نیکی کو دوام بخش دیتی ہے اور پھر بڑے ہو کر خدام الاحمدیہ میں جا کر بالجنہ کی بڑی عمر کو پہنچ کر پھر ان تنظیموں کو ان میں محنت نہیں کرنی پڑے گی اور بنے بنائے با اخلاق افراد قوم کو میسر آئیں گے جو پھر بڑے بڑے کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو مستعد اور تیار پائیں گے.آخر پر پانچویں بات آج کے خطاب کے لئے جو میں نے چنی ہے وہ مضبوط عزم اور ہمت

Page 771

خطبات طاہر جلد ۸ 766 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء ہے.مضبوط عزم اور ہمت اور نرم دلی اکٹھے رہ سکتے ہیں.اگر یہ اکٹھے نہ ہوں تو ایسا انسان کمزور تو ہوگا با اخلاق نہیں ہو گا.نرم دلی جب آپ پیدا کرتے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسا نرم دل انسان اور ایسا نرم خو انسان مشکلات کے وقت گھبرا جائے اور مصائب کا سامنا کرنے کی طاقت نہ پائے.حضرت ابوبکر صدیق اکبر ہمیشہ ہمیش کے لئے تاریخ میں ایک کامل نمونہ کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں.یہ نمونہ اگر چہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہی سے حاصل کیا مگر آپ کی زندگی میں ایک ایسا مقام آیا جہاں اس خلق نے نمایاں ہو کر ایک ایسا عظیم الشان کردار ادا کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہمیشہ کے لئے ہم آپ کی مثال دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں.بے حد نرم خو اور نرم دل ہونے کے با وجود جب اسلام پر آپ کی خلافت کے پہلے دن ہی عظیم مصیبت واقع ہوئی ہے اور مشکلات کا دور شروع ہوا ہے تو وہ شخص جو دنیا کی نظر میں اتنا نرم دل تھا، اتنا نرم خو تھا کہ معمولی سی تکلیف سے ہی اس کے آنسو رواں ہو جایا کرتے تھے.کسی کی چھوٹی سی تکلیف بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا.اتنے حیرت انگیز عزم کے ساتھ ان مشکلات کے مقابل پر کھڑا ہو گیا ہے کہ جیسے سیلاب کے سامنے کوئی عظیم الشان چٹان کھڑی ہو جاتی ہے.ایک ذرہ بھی اس کے سرکنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.اس طرح حضرت ابو بکر صدیق نے اس وقت اپنے نرم دل سے عظمت کا ایک پہاڑ نکلتا ہوا دکھایا دنیا کو.پس نرم دلی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان مشکلات کے وقت کمزور ہو یا بڑھتی ہوئی مشکلات کے سامنے ہمت ہار جائے.پچپن سے یہ خلق پیدا کرنا چاہئے کہ ہم نے شکست نہیں کھانی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ جو فقرہ ہے ایک عظیم الشان فقرہ ہے جو آپ کے اس عظیم خلق پر روشنی ڈالتا ہے کہ:.” میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں بہت ہی بلند تعلیم ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عظیم خلق پر روشنی ڈالنے والا یہ ایک بہت ہی پیارا فقرہ ہے کہ:.” میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں“ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہونے والوں کی سرشت میں بھی ہرگز ناکامی کا خمیر نہیں ہونا چاہئے اور یہ عزم اور ہمت بچپن ہی سے پیدا کئے جائیں تو پیدا ہوتے ہیں.وہ

Page 772

خطبات طاہر جلد ۸ 767 خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۸۹ء لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمتیں ہار جاتے ہیں.امتحان میں فیل ہو جا ئیں تو زندگی سے بیزار ہو جاتے ہیں.کوئی زندگی کی مراد پوری نہ ہو تو ان کا سارا فلسفہ حیات ایک زلزلے میں مبتلا ہو جاتا ہے.وہ سوچتے ہیں پتا نہیں خدا بھی ہے کہ نہیں.ان کی چھوٹی سی کائنات تنکوں کی بنی ہوئی ہوتی ہے اور معمولی سازلزلہ بھی اس کی خاک اڑا دیتا ہے.اس لئے وہ قومیں جنہوں نے بہت بڑے بڑے دنیا میں کام کرنے ہیں عظیم الشان مقاصد کو حاصل کرنا ہے اور عظیم الشان ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے.جن کا مشکلات کا دور چند سالوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ صدیوں تک پھیلا ہوا ہے.ہر مشکل کو انہوں نے سر کرنا ہے، ہر مصیبت کا مردانگی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے.ہر زور آور دشمن سے ٹکر لینی ہے اور اس کو نا کام اور نا مراد کر کے دکھانا ہے.ایسی قوموں کی اولاد میں اگر بچپن ہی سے عزم کی تعلیم نہ پائیں تو آئندہ نسلیں پھر اس عظیم الشان کام کو سرانجام نہیں دے سکیں گی.اس لئے بہت ہی ضروری ہے کہ جہاں نرم کلام بچے پیدا کریں، جہاں نرم دل بچے پیدا کریں، جہاں نرم خُو اولاد پیدا کریں جو دوسروں کی ادنی سی تکلیف سے بھی بے چین اور بے قرار ہو جائیں اور ان کے دل کسی دوسرے کے دل کے غم سے پگھلنا شروع ہو جا ئیں اس کے باوجود اس اولاد ا کو عزم کا پہاڑ بنادیں اور بلند ہمتوں کا ایک ایسا عظیم الشان نمونہ بنادیں کہ جس کے نتیجے میں قومیں ان سے سبق حاصل کریں.ید وہ پانچ بنیادی اخلاق ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تنظیموں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے تربیتی پروگرام میں پیش نظر رکھنے چاہئیں.ان پر اگر وہ اپنے سارے منصوبوں کی بناء ڈال دیں اور سب سے زیادہ توجہ ان اخلاق کی طرف کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا فائدہ آئندہ سو سال ہی نہیں بلکہ سینکڑوں سال تک بنی نوع انسان کو پہنچتا رہے گا کیونکہ آج کی جماعت احمد یہ اگر ان پانچ اخلاق پر قائم ہو جائے اور مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے اور ان کی اولادوں کے متعلق بھی یہ یقین ہو جائے کہ یہ بھی آئندہ انہی اخلاق کی نگران اور محافظ بنی رہیں گی اور ان اخلاق کی روشنی دوسروں تک پھیلاتی رہیں گی اور پہنچاتی رہیں گی تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم امن کی حالت میں اپنی جان دے سکتے ہیں سکون کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر سکتے ہیں اور یقین رکھ سکتے ہیں کہ جو عظیم الشان کام ہمارے سپرد کئے گئے تھے ہم نے جہاں تک ہمیں توفیق ملی ان کو سرانجام دیا.

Page 773

خطبات طاہر جلد ۸ 768 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء دوسرا پہلو مختصر عبادات کا پہلو ہے.اس سلسلے میں میں بارہا جماعت کو پہلے بھی متوجہ کر چکا ہوں کہ ابتدائی چیزوں کی طرف بہت ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان میں سب سے ابتدائی اور سب سے اہم نماز ہے.ہماری نمازوں میں ابھی کئی قسم کے خلا ہیں جو بلند تر منازل سے تعلق رکھنے والے خلا ہیں ان کا میں تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں لیکن اب میں آپ کو اس بنیادی کمزوری کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ہمارے اندر آج کی نسلوں میں بھی بہت سے بچے ایسے ہیں جن کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت نہیں ہے.بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت ہے.بہت سے بوڑھے ایسے ہیں جن کا پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت نہیں ہے اور یہ بات ہمیں روز مرہ نظر آنی چاہئے اور ہمیں اس سے بے چین ہو جانا چاہئے.تنظیمیں کیوں اس سے بے چین نہیں ہوتیں، تنظیمیں کیوں یہ کمزوری نہیں دیکھتیں اور کیوں خصوصیت کے ساتھ ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں.نماز پڑھنا صرف کافی نہیں نماز ترجمہ کے ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے اور نماز کا ترجمہ ہر احمدی کو آنا چاہئے خواہ وہ بچہ ہو ، جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کا ترجمہ جانتا ہو اور اس حد تک یہ ترجمہ رواں ہو کہ جب وہ نماز پڑھے تو سمجھ کر نماز پڑھے.عبادت کے مضمون میں تو بہت ہی وسیع باتیں ہیں.بہت سی باتیں ہیں جو اپنے اندر پھر اور بہت سی منازل رکھتی ہیں لیکن سب سے بنیادی بات یہی ہے کہ ہم اپنی جماعت کو مکمل طور پر نماز پر قائم کر دیں.کسی اور نیکی کی اتنی تلقین قرآن کریم میں آپ کو نہیں ملے گی جتنی قیام عبادت کی تلقین ہے، قیام صلوة کی تلقین ہے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی تلقین بھی ہمیشہ اس کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم کی رویہی ہے کہ ہم اپنی عبادات کو کھڑا کر دیں اور اپنے پاؤں پر مضبوطی کے ساتھ ان کو اس طرح مستحکم کر دیں کہ کوئی ابتلا، کوئی زلزلہ، کوئی مشکل ہماری نمازوں کو گرانہ سکے.اس کے لئے پہلا بنیادی قدم یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص نماز باترجمہ جانتا ہو اور نماز پانچ وقت پڑھنے کا عادی ہو اور ساتھ ہی دوسری چیز اس کے ساتھ ملانے والی ضروری ہے کہ صبح تلاوت کی عادت ڈالیں.ہر شخص جو نماز پڑھتا ہے اس کو یہ عادت پڑ جائے کہ کچھ نہ کچھ تلاوت ضرور کرے.یہ بنیا دا گر قائم ہو جائے تو اس کے اوپر پھر عظیم الشان عبادات کی عمارتیں قائم ہوسکتی ہیں.منازل نئی سے نئی بن سکتی ہیں.نئی رفعتیں عبادتوں کو حاصل ہوسکتی ہیں.مگر یہ بنیاد نہ ہوں تو اوپر کی

Page 774

خطبات طاہر جلد ۸ 769 خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۸۹ء منزلیں بن ہی نہیں سکتیں.اس لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنات کو اپنے آئندہ کے پروگراموں میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دینی چاہئے کہ ان کی مجالس کے اندر ایک بھی فرد نہ رہے جو نماز کا ترجمہ نہ جانتا ہوا اور پنجوقتہ نماز پر قائم نہ ہو.باقی ساری باتیں انشاء اللہ رفتہ رفتہ سکھائی جائیں گی.میرا پروگرام یہ ہے کہ تمام مجالس پر اس پہلو سے نظر رکھوں اور ان کی رپورٹوں کو سر دست مختصر بنا دوں.ان سے یہ توقع رکھوں کہ آپ لمبی تفصیلی رپورٹیں مجھے نہ کریں جن سے میں خود براہ راست گزر نہ سکوں بلکہ مجھ تک جو آپ کام پہنچانا چاہتے ہیں وہ مختصر کر دیں اور بجائے اس کے کہ یہ بتائیں کہ آپ نے کتنے پیر لگائے اور کتنی محنتیں کیں اور کس طرح ان پودوں کو تناور درختوں میں تبدیل کیا مجھے صرف یہ بتا دیا کریں کہ پھل کتنے لگے.پیڑوں سے مجھے غرض نہیں ہے.تو پھلوں کے لحاظ سے ان پانچ عادات کے متعلق رپورٹ مل جائے کہ آپ نے کتنے احمدیوں میں یہ عادات راسخ کرنے میں کام کیا ہے، کتنے بچوں نے ، بڑوں نے ، مردوں اور عورتوں نے عہد کیا ہے کہ وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے اور اس سلسلے میں آپ نے کیا کارروائیاں کی ہیں.سر دست یہ بتائیں صرف یعنی نظر رکھنے کے لئے کیا کارروائیاں کی ہیں.عادتوں کو مزید راسخ کرنے کے لئے کیا کارروائیاں کی ہیں.اتنا حصہ بے شک مزید بھی بتا دیں جو پھلوں کی حفاظت سے تعلق رکھنے والا حصہ ہے.پھل پیدا کریں ، ان کی حفاظت کا انتظام کریں اور وہ حفاظت کی جو کارروائیاں ہیں مختصر وہ اپنی رپورٹ میں بے شک لکھ دیا کریں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ پتا لگ جایا کرے کہ عرصہ زیر رپورٹ میں کتنے ایسے احمدی بچے، بڑے تھے جو نماز پنجوقتہ نہیں پڑھتے تھے جن کو آپ نے نماز پنجوقتہ کی عادت ڈالی ہے.کیا کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے اور آپ نے ایک یا دو نمازوں کی عادت ڈالی ہے.صرف یہ تعداد کافی ہے.انگلی رپورٹ میں ان کا ذکر نہ ہو بلکہ مزید جو آپ نے اس میں شامل کئے ہوئے ہیں ان کا ذکر ہو.یا اگر دو پڑھتے تھے اور تین پڑھنے لگ گئے تو ان کا ذکر ہو سکتا ہے اور اسی طرح یہ ذکر ہو کہ کتنے ایسے احمدی تھے جن کو نماز کا ترجمہ نہیں آتا تھا اور ان کو آپ نے کسی حد تک ترجمہ پڑھایا ہے.اس کے بھی مختلف مراحل ہیں.کسی کو ترجمہ شروع کر وا دیا گیا ہے، کسی کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے.تو دوحصوں میں بیان کیا جا

Page 775

خطبات طاہر جلد ۸ 770 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء سکتا ہے کہ اتنے ترجمہ پڑھ رہے ہیں اور اتنے ایسے خوش نصیب ہیں جو اگر چہ پہلے ترجمہ نہیں جانتے تھے اور اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کو تر جمہ آ گیا ہے.تو یہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں ان کی طرف ساری مجالس اپنی ساری توجہ مبذول کر دیں.ان کے علاوہ جو دوسرے کام ہیں سر دست وہ جاری تو رہیں گے مگر ان کو مقابلہ ثانوی حیثیت دیں.اس سے میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی عظیم الشان تعمیر کی ایسی بنیادیں قائم ہو جائیں گی جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تمام دنیا میں اسلام کی عمارت کو مستحکم اور بلند تر کرنے میں عظیم الشان کارنامے سرانجام دے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 776

خطبات طاہر جلد ۸ 771 خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۸۹ء ساری دُنیا کومحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فتح کرلو آئندہ واقفین نو بچوں پر بھاری ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں ( خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر ۱۹۸۹ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.پاکستان سے انگلستان کی طرف عارضی ہجرت کرنے کے بعض فوائد ایسے تھے جو رفتہ رفتہ روشن ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت واضح ہوتی چلی گئی.ان بہت سے فوائد میں سے جو خدا کی تقدیر کے مطابق ہمیں لازماً اس طرح عطا ہونے تھے جیسے بچے کو دوا دی جاتی ہے اور اس کی شفاء کے لئے اور اس کی زندگی کے لئے اس کی بقا کے لئے وہ دوا ضروری ہوا کرتی ہے خواہ کیسی ہی کڑوی کیوں نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس طرح ہمیں رحمتیں گھوٹ گھوٹ کر پلائیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض خدمت کے ایسے میدان نظر کے سامنے اُبھرے جن کی طرف پہلے کوئی توجہ نہیں تھی.مثلاً ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود مشرقی دُنیا جو اشترا کی دُنیا کہلاتی ہے یعنی مشرق کا وہ حصہ جو اشتراکیت کے قبضہ میں ہے، اس میں بسنے والے اربوں انسانوں کے لئے ہم نے کوئی تیاری نہ کی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ خوشخبری عطا فرمائی تھی کہ میں تجھے روس میں اس کثرت سے مسلمان عطا کروں گا کہ آپ نے اس نظارے کو یوں بیان فرمایا جیسے ریت کے ذرے ہوں اور اس کے علاوہ روس کا عصا آپ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا جو رویا میں یوں معلوم ہوا جیسے اس کے اندر دو نالی بندوق ہوتی ہے.یعنی عصا ایسا جو دور مار ہو اور دور اثر ہو.

Page 777

خطبات طاہر جلد ۸ 772 خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء جب تک انگلستان آنے کی تقدیر یا انگلستان لائے جانے کی تقدیر ظاہر نہیں ہوئی ان امور پر ان معنوں میں تو نظر تھی کہ یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ خوشخبریاں تھیں اور ہر احمدی کا دل مطمئن تھا کہ یقیناً یہ پوری ہوں گی لیکن کیسے ہوں گی اور انہیں پورا کرنے کے لئے مومن کو جو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے وہ ہم کیسے ادا کریں گے.ان چیزوں پر نظر نہیں تھی نہ ان حالات میں ہوسکتی تھی.یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے کاموں میں سے ایک یہ کام کرنے کی توفیق ملی کہ اشترا کی مشرقی دُنیا میں جتنے ممالک ہیں ان کی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے چھوٹے چھوٹے رسالے اور کتابیں تیار ہونا شروع ہوئیں اور قرآن کریم کے بعض مکمل ترجمے ان زبانوں میں کرنے کی توفیق ملی اور بعض زبانوں میں اقتباسات شائع کرنے کی توفیق ملی.اسی طرح احادیث نبویہ میں سے منتخب احادیث جو ہم نے سوچا کہ اس زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اور انسان کی ضرورتوں کے لحاظ سے پیاس بجھانے کے لئے اہمیت رکھتی ہیں ان کا ترجمہ کرنے کی اور ان کی اشاعت کی توفیق ملی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے اقتباسات جو قرآن کریم کی آیات اور احادیث کے مضمون سے مطابقت رکھتے تھے اور انہیں کی تفسیر تھے ان کی اس نقطہ نگاہ سے چنے کی توفیق ملی کہ ایک پڑھنے والا جب قرآن کریم کے مضامین سے گزر کر احادیث کے مضامین سے ہوتا ہوا حضرت مسیح موعود کے اقتباسات تک پہنچتا ہے تو اسے پہلی دونوں تحریروں کا زیادہ لطف آنے لگے اور اس کا ذہن زیادہ عمدگی کے ساتھ ان کے مطالب کو پاسکے اور اس کے اندر یہ احساس قوی تر ہوتا چلا جائے کہ قرآن کریم کی تفسیر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں ہے.تو اس طرح ان کے درمیان ایک تطبیق پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی.کسی حد تک اس کی توفیق ملی اور پھر ان کے تراجم کئے گئے اور کتابیں اشاعت کے لئے تیار ہو ئیں.یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن کچھ علم نہیں تھا کہ ان کتابوں کو ، اس لٹریچر کوان ملکوں تک پہنچانے کے سامان کیسے میسر آئیں گے.صرف یہی نہیں اور بھی بہت سے مضامین پر رسالے شائع کئے گئے تراجم تیار کئے گئے اور ان کی طباعت کروائی گئی.آپ شاید ہی اندازہ کرسکیں کہ یہ کام کتنا مشکل تھا اور کتنا ذمہ داری کا کام تھا.کیونکہ صحیح آدمی کی تلاش کرنا اور اس سے رابطہ کرنا اور اس کو تیار کرنا کہ ان کتب کا ترجمہ کرے یا ان رسائل کا ترجمہ کرے اور پھر یہ نگاہ رکھنا کہ وہ ترجمہ

Page 778

خطبات طاہر جلد ۸ 773 خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء درست اور اصل کے مطابق ہے جب کہ ہم خود ان زبانوں سے نابلد ہیں.اس کے لئے متبادل ماہرین کی تلاش کرنا، ایسے جن میں سے بہتوں کی عربی پر بھی نظر ہو اور اسلام کی اصطلاحات سے بھی واقف ہوں.یہ ایک بہت ہی وسیع کام تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی سے اس کو آسان فرما نا شروع کر دیا.اسلام آباد میں ہمارے ایک نوجوان روسی زبان سیکھ رہے تھے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈال دی کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دیں.چنانچہ انہوں نے وقف کیا اور میں نے اسے قبول کر لیا اور پھر وہ یہاں انگلستان تشریف لے آئے اور اس کے بعد سے مسلسل ان کے ذریعے سے ہمارے رابطے وسیع ہونے شروع ہوئے.پہلا کام روسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کا کام تھا اور اس کو ہم سب سے زیادہ اہمیت دے رہے تھے.ان کا نام خاور صاحب ہے.اگر چہ روسی زبان تو یہ کچھ سیکھ چکے تھے لیکن اتنا عبور کہ قرآن کریم کا ترجمہ کر سکین اور ذمہ داری سے کر سکیں یہ تو بہت بڑی بات تھی لیکن ابتدائی کاموں میں مرد اور مددگار بہت ثابت ہوئے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک اور سامان پیدا فرما دیا اور یہ چند مثالیں جو آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح خدا کی تقدیر کام کرتی ہے.بندوں کے ہاتھ حرکت تو کرتے ہیں مگر خدا کے ہاتھوں میں بندوں کے قدم آگے تو اُٹھتے ہیں لیکن خدا کی طاقت سے آگے اُٹھتے ہیں اور تمام وہ امور جو دین کے لئے سر انجام دینے کی توفیق ملاتی ہے ان پر جب آپ آفاقی نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو جابجا خدا تعالیٰ کی تقدیر کار فرما دکھائی دیتی ہے.نظر آنے لگتی ہے کہ کس طرح کسی موقع پر خدا کی تقدیر نے کیا سامان پیدا فرمایا؟ چنانچہ انگلستان میں روسی زبان کا ایسا ماہر ملنا جو عربی کا بھی ماہر ہو یا دینی اصطلاحات کو سمجھتا ہو یہ بہت مشکل کام تھا لیکن ایک اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ ہندوستان سے ایک ایسا ماہر احمدی عالم مل گیا جس نے روس میں روسی زبان میں پی ایچ ڈی کیا تھا.ان کے والد صاحب اتفاق سے ان دنوں میں کراچی تشریف لائے جن دنوں میں میں بھی وہاں گیا ہوا تھا اور ان سے چند مجالس ہوئیں.وہ ویسے تو بڑے مخلص فدائی آدمی تھے لیکن اس کے بعد ان کے دل میں غیر معمولی طور پر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میرا یہ بیٹا جو روسی زبان سیکھ کے آیا ہے یہ بھی دین کی خدمت میں آئے.چنانچہ انہوں نے مجھے خط لکھنے شروع کئے کہ یہ تو دین سے بالکل بے بہرہ ہو چکا ہے اور خالی ہو کے واپس لوٹا ہے اور میری بڑی تمنا ہے کہ کسی طرح یہ خدمت دین میں کام آئے.چنانچہ ان کے لئے دُعا کی بھی

Page 779

خطبات طاہر جلد ۸ 774 خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۸۹ء توفیق ملی.ان سے رابطہ بھی ہوا اور وہ پروفیسر صاحب خود انگلستان تشریف لائے.اپنا وقت وقف کیا اور ان کی کایا پلٹ گئی.وہ جن کو ان کے والد کہتے تھے کہ مجھے ان کا دل خالی دکھائی دیتا ہے وہ نو رایمان سے بھر گیا.اخلاص سے بھر گیا.بہت ہی وقت انہوں نے قربان کیا.لمبا عرصہ یہاں بھی ٹھہرے اور واپس جا کے بھی مسلسل قرآن کریم کے روسی ترجمے پر محنت کی اور اس کے بعد پھر ہمیں بعض پروفیسروں کو دکھانے کی توفیق ملی تاکہ وہ اسے اور چمکائیں اور زبان کے لحاظ سے کوئی سقم رہ گئے ہوں تو وہ ان کو دور کریں.اس رنگ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں مختلف تراجم کی بھی توفیق عطا فرمائی اور جیسا کہ میں نے مثال دی ہے خود بخود سامان مہیا فرما تا رہا ہے.خاور صاحب ( کلیم خاور نام ہے ان کا ) یہ کسی اور کام کے سلسلے میں کسی پروفیسر سے ملنے جاتے ہیں وہاں ان کا دوست ایک پروفیسر مشرقی یورپ کا کسی زبان کا ماہر آ جاتا ہے.تعارف ہوتا ہے تو اچانک یہ ان کو کہتے ہیں کہ بھئی! ہمیں تو آپ کی تلاش تھی اور اس طرح ایک انسان کی تلاش میں دوسرا انسان مدد کرتا چلا جاتا ہے اور یہ رابطے اس طرح پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں گویا مقدر تھے.معین طور پر ان کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور سارے امور پر جب آپ نگاہ ڈالیں تو کوئی احمق سے احمق بھی یہ نہیں کہ سکتا، اگر اس کے دل میں سچائی کا شائبہ ہو کہ یہ سارے بے شمارا تفاقات ہیں.تقدیر یہ مہرے چلا رہی تھی اور اس تھوڑے سے عرصے میں حیرت انگیز طور پر کثرت کے ساتھ مشرقی یورپ کی زبانوں میں اسلام کا لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی.روسی زبان میں لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی ، چینی زبان میں لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی اور ہم انتظار میں بیٹھے رہے کہ اب دیکھیں خدا آئندہ کیا سامان کرتا ہے؟ بہت بڑی بڑی دیوار میں رستے میں حائل تھیں لیکن اب دیکھیں کہ آپ کے دیکھتے دیکھتے وہ دیوار میں ٹوٹنی شروع ہو گئیں.جب دیوار برلن گر رہی تھی اور ٹیلی ویژن پر لوگ دیکھ رہے تھے اور عجیب عجیب رنگ میں اپنی خوشیوں کے اظہار کر رہے تھے اور جوش کا اظہار کر رہے تھے تو میرا دل اللہ کی حمد کے ترانے گا رہا تھا.وہ سمجھتے تھے کہ ان کی خاطر دیوار برلن گرائی جارہی ہے.میں جانتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر دیوار برلن گرائی جارہی ہے اور اب اسلام کے ان ملکوں میں پھیلنے کے دن آ رہے ہیں اور وہ تیاریاں جو خدا کی تقدیر نے ہم سے کروائی تھیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گی.ان کو خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں مکمل فرمایا اور ایسے وقت

Page 780

خطبات طاہر جلد ۸ 775 خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۸۹ء میں مکمل فرمایا جب کہ دوسری طرف سے روکیں توڑنے کے سامان بھی تیار تھے اور جونہی ہم یہاں خدمت کے لئے تیار ہوئے خدا تعالیٰ نے وہ حائل روکیں ساری دور کرنی شروع کر دیں.یہ وہ زندہ خدا ہے جو احمدیت کا خدا ہے جس نے ہمیشہ احمدیت کی پشت پناہی فرمائی ہے اور ہر قدم پر ہماری مدد فرمائی ہے.کون دُنیا کی طاقت ہے جو اس خدا کی محبت ہمارے دل سے نوچ کر پھینک سکتی ہے.کون ہے جو ہمارے دل میں شکوک پیدا کر سکتا ہے.ہم خدا کی اس تقدیر کو روزمرہ ہمیشہ ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں.مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں.کبھی کبھی بکھری ہوئی مختلف صورتوں میں ظاہر دیکھتے ہیں اور کبھی کبھی ان صورتوں کا اجتماع ہوتا دیکھتے ہیں اور ایک نہایت ہی خوبصورت منظم شکل ان تدبیروں کی نظر آتی ہے اور اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ ہم جب سوئے ہوئے ہوتے ہیں، جب ہم بعض باتوں سے غافل ہوتے ہیں تو ہمارا خدا واقعی جاگتا ہے اور واقعی ان کاموں کو ہمارے لئے کرتا ہے جن کاموں سے ہم غافل ہوتے ہیں جن کاموں کو کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہوتی.پس خدا کی تقدیر نے ایک طرف وہ کام ہمارے لئے آسان کر دیے جو کام بہت مشکل تھے اور اب بھی جب ماہرین ان باتوں کو دیکھتے ہیں تو یقین نہیں کرتے کہ اتنے تھوڑے عرصے میں اتنے حیرت انگیز کام کیسے انجام دینے کی توفیق ملی لیکن ان کو نہیں پتا کہ دراصل یہ اللہ کی قدرت کا ہاتھ ہے، اس کی محبت اور رافت اور شفقت کا ہاتھ ہے جو ہر مشکل کو آسان کرتا چلا جاتا ہے اور اب جو نئے سامان پیدا ہوئے ہیں ان کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کے غلبے کا یہ دوسرا دور بڑی تیزی کے ساتھ اثر پذیر ہو جائے گا.دوسرے دور سے مراد آخرین“ کا دور ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دور ہے اور تیزی کے ساتھ اثر پذیر ہونے سے مراد میری یہ ہے کہ اب اس رفتار میں مزید تیزی پیدا ہوگی اور وہ علاقے جواب تک خالی تھے اور وہ دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ان علاقوں کی تعداد باقی دنیا کے علاقوں سے اگر زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہوسکتی.کیونکہ انہیں علاقوں میں سارے چین کی آبادی شامل ہے.سارے روس کی آبادی شامل ہے، سارا مشرقی یورپ ہے.پھر اور ایسی مشرقی طاقتیں ہیں یا مشرقی ممالک ہیں جو اشتراکیت کے دام میں آئے ہوئے ہیں.تو بہت بڑی وسیع آبادی ہے.نصف دنیا کے قریب انسانوں کی ایسی آبادیاں ہیں جن تک پہلے اسلام کا پیغام پہنچنے کے کوئی سامان نہیں تھے تو اس لئے جہاں ان باتوں کو دیکھ کے دل شکر

Page 781

خطبات طاہر جلد ۸ 776 خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۸۹ء اور حمد سے بھر جاتا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کام خدا ہی کے ہیں خدا ہی نے کرنے ہیں.وہاں ذمہ داریوں کا احساس بھی بڑھتا ہے اور انسان کی یہ تقدیر سامنے آ جاتی ہے کہ ایک بوجھ اُترتا ہے تو دوسرا سر پر آجاتا ہے، ایک مشکل آسان ہوتی ہے تو دوسری مشکل سر پر آن پڑتی ہے.اب فکر اس بات کی ہے کہ ان نئے کھلتے ہوئے راستوں میں داخل کرنے کے لئے وہ کون سی فوج ہے ہمارے پاس جس سے ہم کام لیں گے؟ اور وہ کون سے ایسے واقفین ہیں جو ان نئی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ سر دست تو ہمارے پاس ان زبانوں کے ایسے ماہرین نہیں ہیں جو وہاں پہنچ کر خدمتیں سرانجام دے سکیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلے دور میں تو ہمیں اشاعت لٹریچر کے ذریعے وہاں دلوں کو آمادہ کرنا ہوگا اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بار ہا توجہ دلائی ہے.باہر کی دنیا کے وہ لوگ جن میں ان ملکوں کے باشندے نقل مکانی کر کے بس چکے ہیں ان کا بہت بڑا کام ہے کہ ان سے روابطہ پیدا کریں.ان سے تعلقات بڑھائیں اور انہیں میں سے وہ مجاہدین تلاش کریں جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنے اپنے ممالک میں خدمت دین کے جذبے سے بھر جائیں اور اپنی زندگیاں پیش کریں.پھر ان کو تھوڑی بہت تعلیم دے کر جس حد تک بھی ان کی ابتدائی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے ضروری ہے ہم ان کو اپنے اپنے وطنوں میں واپس بھجوا سکتے ہیں لیکن اس کے علاوہ جو واقفین نو کی جو فوج ہے اس پر آئندہ میں سال تک بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.اور اس پہلو سے میں جماعت کے اس حصے کو نصیحت کرتا ہوں جس کو خدا تعالیٰ نے وقف نو میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ تحریک جدید کی ہدایات کے مطابق اپنے بچوں کی تیاری میں پہلے سے زیادہ بڑھ کرسنجیدہ ہو جائیں اور بہت کوشش کر کے ان واقفین کو خدا تعالیٰ کی راہ میں عظیم الشان کام کرنے کے لئے تیار کرنا شروع کریں.خدا کی خاطر بچے تیار کرنا اس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جتنا عید پر قربانی کے لئے لوگ جانور تیار کرتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ بعض لوگ دوسری نیکیاں کچھ کریں یا نہ کریں نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن عید کی قربانی کے لئے مینڈھا بڑے پیار سے پالتے ہیں اور بعض دفعہ اس پر بہت بہت خرچ کرتے ہیں.ایسے مزدور بھی ہیں جو اپنے بچوں کا پیٹ پوری طرح پال نہیں سکتے لیکن اپنے مینڈھے کو چنے ضرور کھلائیں گے کیونکہ

Page 782

خطبات طاہر جلد ۸ 777 خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا کی راہ میں قربانی کے لئے پیش کرنا ہے اور پھر اسے سجاتے ہیں اور اس پر کئی قسم کے زیور ڈالتے ہیں، پھول چڑھاتے ہیں، اس کو مختلف رنگ میں رنگ دیتے ہیں اور جب وہ قربانی کے لئے لے کر جاتے ہیں تو بہت ہی سجا سجا کر ، جس طرح دُلہن جارہی ہو اس طرح وہ سجا کر لے جاتے ہیں.یہ بچے قربانی کے مینڈھے سے بہت زیادہ عظمت رکھتے ہیں اور ان کے ماں باپ کو اس سے بہت زیادہ محبت سے ان کو خدا کے حضور پیش کرنا چاہئے جتنی محبت سے خدا کی راہ میں بکرا ذبح کرنے والا اس کی تیاری کرتا ہے یا مینڈھے کی تیاری کرتا ہے ان کا زیور کیا ہے؟ وہ تقویٰ ہے.تقویٰ ہی سے یہ سجائے جائیں گے.اس لئے سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ان واقفین نو کو بچپن ہی سے متقی بنائیں اور ان کے ماحول کو پاک اور صاف رکھیں.ان کے سامنے ایسی حرکتیں نہ کریں جن کے نتیجے میں ان کے دل دین سے ہٹ کر دُنیا کی طرف مائل ہونے لگ جائیں.ان پر اس طرح پوری توجہ دیں جس طرح ایک بہت ہی عزیز چیز کو ایک بہت ہی عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جا رہا ہو اور اس طرح ان کے دل میں تقویٰ بھر دیں کہ پھر یہ آپ کے ہاتھ میں کھیلنے کے بجائے براہ راست خدا کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں اور جس طرح ایک چیز دوسرے کے سپرد کر دی جاتی ہے تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے آپ یہ بچے شروع ہی سے خدا کے سپرد کر سکتے ہیں اور درمیان کے سارے واسطے اور سارے مراحل ہٹ جائیں گے.رسمی طور پر تحریک جدید سے بھی واسطہ رہے گا اور نظام جماعت سے بھی واسطہ رہے گا مگر فی الحقیقت بچپن ہی سے جو بچے آپ خدا کی گود میں لا ڈالیں خدا خودان کو سنبھالتا ہے اور خود ہی ان کا انتظام فرماتا ہے، خود ہی ان کی نگہداشت کرتا ہے.جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدا نے نگہداشت فرمائی.آپ لکھتے ہی ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار (درثمین صفحه: ۱۲۶) آپ نے یقیناً بڑی وسیع نظر سے اور گہری نظر سے اپنے ماضی کا مطالعہ کیا ہوگا تب جا کر اس شعر کا مضمون آپ کے دل سے ہویدا ہوا ہے، ظاہر ہوا ہے.آپ نے غور کیا ہوگا بچپن میں دودھ پینے کے زمانے تک بھی جہاں تک یاد داشت جاتی ہو کہ ابتداء ہی سے خدا کا پیار دل میں تھا.خدا کا تعلق دل میں تھا.ہر بات میں خدا حفاظت فرما رہا تھا، ہر قدم پر اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمارہا تھا اور جس طرح

Page 783

خطبات طاہر جلد ۸ 778 خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء ایک طفل شیر خوار ماں کی گود میں ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! میں تو ہمیشہ تیری گود میں رہا.پس ان بچوں کو خدا کی گود میں دے دیں کیونکہ ذمے داریاں بہت بڑی ہیں اور کام بہت زیادہ ہیں.ہماری تعداد ان قوموں کی تعداد کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی جن کو ہم نے اسلام کے لئے فتح کرنا ہے.ہماری عقلیں ہمارے علوم، ہماری دنیاوی طاقتیں ان قوموں کی عقلوں اور علوم اور دنیاوی طاقتوں کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جن کو ہم نے خدا کے لئے فتح کرنا ہے.پس ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اور اپنے واقفین کے وجود کو خدا کے سپرد کر دیں اور خدا کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں.امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی چیز خواہ کیسی بھی کمزور کیوں نہ ہو اگر وہ طاقتور کے ہاتھ میں ہو تو حیرت انگیز کام دکھاتی ہے.کوئی چیز کیسی ہی بے عقل کیوں نہ ہو اگر صاحب فہم و عقل کے ہاتھ میں ہو تو اس سے عظیم الشان کام لئے جاسکتے ہیں.ہم تو محض مُہرے ہیں اور اس حیثیت کو ہمیشہ سمجھنا اور ہمیشہ پیش نظر رکھنا احمدی کے لئے ضروری ہے.آپ نے دیکھا نہیں کہ شطرنج کھیلنے والے ان مہروں سے کھیلتے ہیں جن میں اتنی بھی طاقت نہیں ہوتی کہ ایک گھر سے اُٹھ کر دوسرے گھر تک جاسکیں.عقل کا کیا سوال شعور کا ادنی احساس بھی موجود نہیں ہوتا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ کس گھر میں جانا ہماری بقاء کے لئے ضروری ہے اور کس گھر میں جانا شکست کا اعلان ہو گا.بے جان، بے طاقت مہرے جو ہل بھی نہیں سکتے جو سوچ بھی نہیں سکتے اور ایک صاحب فہم اچھا شاطر، شطر نج کا ماہر ان کو اس طرح چلاتا ہے کہ بڑے سے بڑے عقل والوں کو بھی شکست دے دیتا ہے اور شکست اور فتح کا فیصلہ ان بے جان مہروں کی بساط پر ہورہا ہوتا ہے جو نہ طاقت رکھتے ہیں نہ عقل رکھتے ہیں.پس خدا کے عظیم کام بھی اسی طرح چلتے ہیں.ہم ان بے جان مہروں کی طرح ہیں.ہمارے سامنے بھی کچھ مہرے ہیں لیکن ان مہروں کی طاقت شیطان کے ہاتھ میں ہے.بے خداؤں کے ہاتھ میں ہے اور کچھ مہرے ایسے بھی ہیں جو خود اپنے آپ کو خدا سمجھ رہے ہیں اور خود چلتے ہیں اور خود سوچنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں.اس کے مقابل پر ہم وہ بے جان مہرے ہیں جن میں نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی دماغ ہے مگر ہم اپنے خدا کے ہاتھ میں ہیں.یہ احساس انکساری جو سچا ہے، جس میں

Page 784

خطبات طاہر جلد ۸ 779 خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۸۹ء کوئی ایسی بات نہیں جو انکساری کی خاطر گرا کر پیش کی گئی ہو.امر واقعہ یہ ہے کہ دُنیا کے مقابل پر ہماری حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہے.ہاں خدا اگر چاہے اور وہ ہم سے کام لینا شروع کرے اور ہم اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیں تو یہ شطرنج کی بازی یقیناً اسلام کے حق میں جیتی جائے گی.دنیا کی کوئی طاقت اس بازی کو اسلام کے خلاف اُلٹا نہیں سکتی.اس پہلو سے ان بچوں کی تیاری کی ضرورت ہے.ان کو خدا کے سپرد کریں اور جہاں تک تحریک جدید کا ان پر نظر رکھنے کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ان کو میں نے ہدایات دی ہیں.وہ تیاری بھی کر رہے ہیں مجھے صرف ڈر یہ ہے کہ اس تیاری میں دیر نہ کر دیں یہ سمجھتے ہوئے کہ ابھی تو چھوٹے بچے ہیں ابھی انہوں نے بڑے ہونا ہے حالانکہ بچپن ہی سے بچوں کو سنبھالیں گے تو سنبھالے جائیں گے.جب غلط روش پر بڑے ہو گئے تو اس غلط روش کو بعد میں درست کرنا بہت ہی محنت کا اور جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے.یہ وقت ہے کہ جب یہ نرم نرم کو نپلیں ہیں اس وقت ان کو جس ڈھب پر چاہیں یہ چل سکتی ہیں.اس وقت ان کی طرف توجہ کریں اور اس وقت ان کو سنبھالیں اور ساری دنیا میں ہر واقف نو کی زندگی پر جماعت کے نظام کی نظر رہنی چاہئے اور ان کے والدین سے رابطے ہونے چاہئیں اور ان کو پتا ہونا چاہئے کہ ہم ایک زندہ نظام کے ہاتھ میں ہیں.جس کے ذریعے خدا کی تقدیر کارفرما ہے.یہ احساس بہت ضروری ہے.یہ احساس تبھی پیدا ہوگا جب تحریک جدید کا مرکزی نظام ان لوگوں سے فعال اور زندہ رابطے رکھے گا اور خبریں لے گا کہ بتاؤ! اس بچے کا کیا حال ہے جو تم نے خدا کے سپر د کر دیا ہے.کتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ تمہارے گھر میں خدا کا ایک مہمان ہے ویسے تو ہم سب خدا کے ہیں لیکن ایسا مہمان ہے جس کو تم خدا کے لئے تیار کر رہے ہو.کیا سوچ رہے ہو؟ کس طرح ان کی پرورش کر رہے ہو؟ ہمیں بتایا کرو.ہمیں اس کے حالات سے باخبر رکھو.اس کی صحت سے باخبر رکھو.اس کی چال ڈھال، اس کے انداز سے باخبر رکھو اور با قاعدہ ان کو ہدایتیں دیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم اس بچے سے یہ کام لو اور اس بچے سے یہ کام لو.اس ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ بچے خصوصیت سے جو مغربی دنیا میں وقف ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دوسری دُنیا کے بچوں کے مقابل پر یہ بہت زیادہ سہولت حاصل ہے کہ وہ مختلف زبانیں سیکھ سکیں.زبانیں سیکھنا بہت مشکل کام ہے اور بچپن ہی سے شروع ہونا چاہئے اور

Page 785

خطبات طاہر جلد ۸ 780 خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۸۹ء زبانیں سکھانا بھی بہت ہی مشکل کام ہے اور بڑے بڑے ماہرین کی ضرورت ہے جنہوں نے زندگیاں اس کام کے لئے وقف کر رکھی ہوں اور بڑی بڑی وسیع تحقیقات میں وہی نہیں بلکہ ان کے بہت سے ساتھی بھی ایک لمبا عرصہ تک مصروف رہے ہوں.ایسی سہولتیں مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں میسر ہیں.اس پہلو سے تحریک جدید کو چاہئے کہ مشرقی یورپ اور اشترا کی دنیا کے ان ممالک کے لئے جہاں عموماً مغربی زبانیں بولی جاتی ہیں اور پھر چین کے لئے اور دوسرے کوریا، شمالی کوریا اور ویت نام وغیرہ کے لئے جہاں مشرقی زبانیں بولی جاتی ہیں، معین طور پر بچوں کو ابھی سے نشان لگا دیں جس کو انگریزی میں Ear Mark کرنا کہتے ہیں اور اگر فی الحال ان کی نظر میں دس کی ضرورت ہے تو ہیں یا تھیں تیار کریں.اب تو یہ اعداد و شمار دیکھ کر فیصلہ ہوگا کہ کس ملک کے لئے کتنے بچے تیار کئے جا سکتے ہیں لیکن ابھی سے یہ کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً اگر پولینڈ کے لئے ہم نے کچھ بچے تیار کرنے ہیں تو ایسے ممالک سے جہاں پولش زبان سیکھنے کی سہولت ہے، واقفین بچے لینے چاہئیں.جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کافی تعداد میں موجود ہے اور جرمنی کی جماعت چونکہ اللہ کے فضل سے قربانی میں بھی بہت پیش پیش ہے.وہاں ایک بڑی تعداد ایسے جوڑوں کی ہے جنہوں نے اپنے بچے وقف کئے ہیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں تو ایسے بچوں سے جو کسی خاص زبان سیکھنے کی سہولت رکھتے ہوں وہی کام لینے چاہئیں جو ان کے مناسب حال ہیں.اس پہلو سے اور بھی بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن کا جرمنی سے تعلق ہے اور جرمن قوم ان سے پرانے تاریخی روابط رکھتی ہے.پھر انگلستان میں بھی بہت سی زبانیں سیکھنے کا انتظام ہے.یہاں بھی کچھ بچے خاص زبانوں کے لئے تیار کئے جاسکتے ہیں، شمالی یورپ میں سیکنڈے نیویا میں بھی بعض خاص زبانیں سیکھنے کا انتظام باقی جگہوں سے زیادہ ہے.وہاں خصوصیت سے بعض گروہ بعض خاص ملکوں کے لئے تیار کئے جا سکتے ہیں.غرضیکہ یہ ایک ایسا کام ہے جس کو عمومی نظر سے دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تفصیلی نظر سے سب بچوں پر لڑکوں پر اور لڑکیوں پر نظر ڈالتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے فلاں ملک کے لئے دس یا ہیں یا تمیں واقفین زندگی تیار کرنے ہیں.ان میں سے اتنی لڑکیاں ہوں گی جو علمی کاموں میں گھر بیٹھے خدمت دین کر سکتی ہوں.ان کو اس خاص طرز سے تیار کرنا ہوگا.اتنے لڑکے ہوں گے جن کو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ آگے ان میدانوں میں جھونکنا ہے.پھر ان کو صرف وہی

Page 786

خطبات طاہر جلد ۸ 781 خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۸۹ء زبان نہیں چاہئے جس زبان کے لئے ان کو تیار کیا جارہا ہے بلکہ اردوزبان کی بھی شدید ضرورت ہوگی تا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لٹریچر خود اردو میں پڑھ سکیں.عربی زبان کی بنیادی حیثیت ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ عربی میں ہیں.عربی زبان بھی سکھانے کی ضرورت پڑے گی.پس تین زبانیں تو کم سے کم ہیں یعنی اس کے علاوہ کوئی زبان سیکھے تو چاہے جتنی چاہے سیکھے لیکن تین زبانوں سے کم تو کوئی سوال ہی نہیں اس لئے یہ بھی بتانا ہوگا کہ جہاں تم پولش سیکھ رہے ہو یا ہنگیرین سیکھ رہے ہو، چیکوسلواکین سیکھ رہے ہو یا پولش سیکھ رہے ہو یا رومانین سیکھ رہے ہو یا البانین سیکھ رہے ہو.ساتھ ساتھ لازما تمہیں اُردو اور عربی بھی سیکھنی ہوگی اور اس کے بھی جہاں تک میر اعلم ہے ان ممالک میں انتظامات موجود ہیں.اگر نہیں ہیں تو تحریک جدید کو تو میں آغاز ہی سے یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ اُردو اور عربی سکھانے کے لئے ویڈیو کیسٹس تیار کریں اور آسان طریق پر ایسی ویڈیو تیار کریں جن کا جماعت کے لٹریچر سے تعلق ہو اور اس میں اسلامی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہوں کیونکہ اگر ہم بازار سے زبانیں سیکھنے کی بنی بنائی ویڈیوز لیں یا آڈیوٹیسٹس لیں تو جو زبان اس میں سکھائی جاتی ہے وہ اکثر ہمارے کام کی نہیں ہے.اس میں وہ تو یہ بتائیں گے کہ Pork (سؤر کا گوشت.ناقل ) کس طرح مانگا جائے گا اور شراب کس طرح مانگی جائے گی اور ہوٹل میں کس طرح جا کر ٹھہرنا ہے اور ناچ گانے کے گھروں کی تلاش کس طرح کرنی ہے روز مرہ کی اپنی زندگی کے مطابق انہوں نے زبان بنائی ہوئی ہے.اس زبان سے ہمارے بچوں کو تبلیغ کرنی کیسے آسکتی ہے؟ اس لئے زبان کا ڈھانچہ تو وہ سیکھ سکتے ہیں لیکن اس زبان کو معنی خیز الفاظ سے بھرنے کا کام لازماً جماعت کو خود کرنا ہوگا اور وہ ایک خاص منصوبے کے مطابق ہوگا.تو دیر ہورہی ہے.اب یہ بچے کھیلنے لگ گئے ہیں.بعض دفعہ ان کی تصویر میں آتی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ جو چار سال پہلے بچہ پیدا ہوا تھا جو وقف زندگی تھا اب وہ باتیں کرتا دوڑتا پھرتا اور ان کے ماں باپ بڑی محبت کے ساتھ ان کی تصویریں بھجواتے اور بعض دفعہ وہ اپنے ہاتھ سے چھوٹے موٹے خط بھی مجھے لکھتے ہیں.بعض ایسے بھی خط لکھتے ہیں کہ شروع سے آخر تک صرف لکیریں ڈالی ہوتی ہیں اور بچہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے خط لکھا ہے.مگر اس خط کا بڑا مزہ آتا ہے کیونکہ ایک واقف زندگی کو شروع سے ہی خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنے کا یہ بھی ایک گر ہے اس کے دل میں محبت ڈالنے کا کہ

Page 787

خطبات طاہر جلد ۸ 782 خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء ذاتی تعلق پیدا ہو جائے.بہر حال یہ کام تو ہو رہے ہیں لیکن جلدی اس بات کی ہے کہ ان کو سنبھالنے کے لئے جو ٹھوس تیاری ہونی چاہئے اس میں مجھے ڈر ہے کہ ہم پیچھے رہ رہے ہیں.اس لئے اس کام کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور جب تک تحریک جدید معین طور پر واقفین زندگی کو مطلع نہیں کرتی کہ تم نے یہ کام کرنے ہیں، دو کام تو ان کو پتا ہی ہیں دو نہیں، تین.اوّل تقویٰ کی بات میں نے کی ہے.بچپن سے ان کے دل میں تقویٰ پیدا کریں اور خدا کی محبت پیدا کریں اور دو زبانیں جو سیکھنی ہیں عربی اور اُردو وہ تو سب پر قدر مشترک ہیں.اس میں کوئی تفریق نہیں ، کوئی امتیاز نہیں.ہر احمدی واقف نوعربی سیکھے گا اور اُردو بھی سیکھے گا.اس پہلو سے جہاں جہاں انتظامات ہو سکتے ہیں وہاں وہاں وہ انتظامات کریں اور تیاری شروع کر دیں.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اور جب میں نے یہ سوچا کہ ہم تو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں بے طاقت اور بے عقل وہ مہرے ہیں جیسے شطرنج کی بازی پہ کھیلے جاتے ہیں تو مجھے اپنی ایک پرانی رویا یاد آ گئی.جس کا آج کل کے حالات سے تعلق ہے.مجھے یاد نہیں کہ میں نے پہلے آپ کے سامنے بیاں کی تھی یا نہیں لیکن وہ ہے دلچسپ اور اب جو اس کی تعبیر ظاہر ہوئی ہے وہ زیادہ واضح ہے.جن دنوں میں ایران کا انقلاب آ رہا تھا ابھی شروع ہوا تھا ۷۸-۱۹۷۷ء کی بات ہے.افغانستان میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں ، ایران میں بھی یہ ان دنوں کی بات ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ نظارہ کر رہا ہوں لیکن سب کچھ دیکھنے کے باوجود گویا میں اس کا حصہ نہیں ہوں، موجود بھی ہوں.دیکھ بھی رہا ہوں لیکن بطور نظارے کے مجھے یہ چیز دکھائی جارہی ہے.ایک بڑے وسیع گول دائرے میں نوجوان کھڑے ہیں اور وہ باری باری عربی میں بہت ہی ترنم کے ساتھ ایک فقرہ کہتے ہیں اور پھر انگریزی میں گانے کے انداز میں اس کا ترجمہ بھی اسی طرح ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور باری باری اس طرح منظر دلتا بدلتا ہے.پہلے عربی پھر انگریزی پھر عربی پھر انگریزی.اور وہ فقرہ جو اس وقت یوں لگتا ہے جیسے قرآن کریم کی آیت ہے.لا یعلم الا هو لا يعلم الا ھو.کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے، کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے اور یہ جو مضمون ہے یہ اس طرح مجھ پر کھلتا ہے کہ نظارے دکھائے جا رہے ہیں.میں نے جیسا کہ کہا ہے میں وہاں ہوں بھی اور نہیں بھی.ایک پہلو سے سامنے یہ نو جوان گا رہے ہیں اور پھر میری نظر پڑتی ہے عراق کی

Page 788

خطبات طاہر جلد ۸ 783 خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء طرف ،شام مجھے یاد ہے ، عراق یاد ہے اور پھر ایران کی طرف، پھر افغانستان پھر پاکستان مختلف ملک باری باری سامنے آتے ہیں اور مضمون دماغ میں یہ کھلتا ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے جو عجیب واقعات رونما ہورہے ہیں جو انقلابات آ رہے ہیں ان کا آخری مقصد سوائے خدا کے کسی کو پتا نہیں ہم ان کو اتفاقی تاریخی حادثات کے طور پر دیکھ رہے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ اتفاقاً رونما ہونے والے واقعات ہیں مگر رویا میں جب وہ مل کر یہ گاتے ہیں تو اس سے یہ تاثر زیادہ قوی ہوتا چلا جاتا ہے کہ یہ اتفاقاً الگ الگ ہونے والے واقعات نہیں ہیں بلکہ واقعات کی ایک زنجیر ہے جو تقدیر بنارہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہورہا ہے.لا یعلم الا ھو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا.جس کا ہاتھ یہ تقدیر بنا رہا ہے تو یہ وہ رویا تھی جو چوہدری انور حسین صاحب ان دنوں میں تشریف لائے.ان کو بھی میں نے سُنائی.بعض اور دوستوں کو بھی کہ یہ عجیب سی بات ہے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑے بڑے عظیم واقعات ان واقعات کے پس پردہ رونما ہونے والے ہیں.ان کے پیچھے پیچھے آئیں گے.ہم جو سیاسی اندازے کر رہے ہیں یہ کچھ اور ہیں جو خدا کے اصل مقاصد ہیں وہ کچھ اور ہیں.تو میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے ساتھ روس کی تبدیل شدہ پالیسی کا گہرا تعلق ہے.کچھ سبق انہوں نے وہاں سیکھے ہیں کچھ اور ایسی باتیں ان تجربوں میں ظاہر ہوئی ہیں کہ جن کے نتیجے میں یہ بعد کے عن انقلابات پیدا ہونے شروع ہوئے.پس یہ جتنے بھی واقعات آج کی دنیا میں رونما ہورہے ہیں دنیا کا ایک مؤرخ ، دنیا کا ایک سیاستدان ان کو اور نظر سے دیکھتا ہے اور فہم سے سمجھتا ہے.مومن کے لئے تو ہر انگلی خدا کی تقدیر کی طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہے اور مومن ان سے اور پیغام لیتا ہے اور ان پیغاموں کی روشنی میں اپنے آپ کو مستعد کرتا ہے اور اپنے آپ کو تیار کرتا ہے.پس خدا کی انگلی جو اشارے کر رہی ہے وہ اب واضح تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور وہ اشارے یہ ہیں کہ آگے بڑھو اور ساری دنیا کو محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فتح کر لو کیونکہ آج یہ دنیا اپنے دروازے تمہارے لئے کھول رہی ہے.پس اے اسلام کے جیالو! اور اے خدمت دین کا دعویٰ کرنے والو! ان مواقع سے فائدہ اُٹھاؤ اور آگے بڑھو اور تمام دنیا کو اسلام اور اسلام کے خدا کے لئے سر کولو.خدا ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 789

Page 790

خطبات طاہر جلد ۸ 785 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء منحرف فلسطینی عرب حسن عودہ کے ارتداد کی حقیقت مولوی منظور چنیوٹی کا کھلم کھلا جھوٹ اور جماعت کی صداقت کا شاندار نشان ( خطبه جمعه فرموده ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.کچھ عرصہ پہلے یہاں انگلستان میں ایک فلسطینی عرب نے جماعت احمدیہ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا.ان کا نام حسن عودہ ہے اور اس کے بعد ان کے متعلق بڑی مضحکہ خیز خبریں اخبارات میں شائع ہونی شروع ہوئیں لیکن میں نے اس معاملے کو درخور اعتناء نہ سمجھا اور اس لائق نہ جانا کہ ان کے ارتداد کو اپنے خطبے کا موضوع بناؤں لیکن کچھ عرصہ پہلے ہی ایک چنیوٹی مولوی صاحب نے ان کے اس ارتداد کو اچھالتے ہوئے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا اور اس بیان میں یہ دعویٰ کیا کہ حسن عودہ کا ارتداد مرزا طاہر احمد سے میرے مباہلہ کی کامیابی کا پہلا نشان ہے اور چونکہ انہوں نے اس کو مباہلہ کی کامیابی کا نشان بنایا اور نشان بتایا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس سارے موضوع کو آج اچھی طرح کھنگال کھنگال کے جماعت احمدیہ کے سامنے پیش کروں کیونکہ اس کے ساتھ ہی پاکستان سے بعض خطوط بھی موصول ہونے شروع ہوئے.معلوم ہوتا ہے وہاں اس بات کی بہت تشہیر کی گئی اور ایک تصویر بھی شائع کی گئی جس میں حسن عودہ صاحب نے دو مولویوں کے کندھے پر ہاتھ

Page 791

خطبات طاہر جلد ۸ 786 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء رکھا ہوا ہے اور جیسا وہ تصور میں آتا ہے ناں کہ دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے مسیح نازل ہوگا اس طرح گویا ان کا مسیح نازل ہو رہا ہے.ایک طرف منظور چنیوٹی صاحب کے کندھے پر ہاتھ ہے اور ایک طرف ایک اور اسی قسم کے مولوی صاحب کے کندھے پر ان کا ہاتھ ہے.بہر حال یہ تو ایک ضمنی بات ہے.پہلے تو میں ان کا پس منظر آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور یہ پس منظران دعاوی کی روشنی میں سُننا چاہئے جو یہاں اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں.یہاں یہ دعویٰ کیا گیا کہ حسن عودہ میرا دست راست تھا Right hand man اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ میرا پرائیویٹ سیکرٹری تھا.کبھی بھی یہ صاحب میرے پرائیویٹ سیکرٹری نہیں رہے اور ساری جماعت جانتی ہے اس لئے اس قسم کے جھوٹ کے اعلان اور تشہیر سے جماعت احمدیہ کے ایمان کو مزید تقویت ملتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب لغو اور جھوٹے پروپیگنڈے ہیں ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں.دست راست ہونے اور سب سے اہم معتمد ہونے کا جہاں تک تعلق ہے ان کا جو پس منظر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اس پر آپ غور کریں تو اس سے آپ کو ان کی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا اور یہ جو باتیں میں آپ کے سامنے بیان کروں گا ان کا تحریری ریکار ڈ کمل، جس میں بہت سے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اعترافات شامل ہیں ، ہمارے ریکارڈ میں موجود ہیں.کبابیر سے ۱۹۸۵ء میں اس وقت کے مبلغ شریف احمد صاحب امینی نے سب سے پہلے ان کا نام اس سفارش کے ساتھ بھجوایا کہ ان سے انگلستان بلوا کر سلسلے کا کوئی کام لیا جائے اور وجہ یہ بیان کی کہ یہاں یہ ہمارے قابو کے نہیں.بداخلاقی کرتے ہیں اور اعتراض کی بہت عادت ہے لیکن چونکہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو مخلص ہے اور عربی دان بھی ہیں اور اُردو کا بھی کچھ ملکہ رکھتے ہیں اس لئے وہاں یہ سلسلے کے لٹریچر کی اشاعت میں اور عربی خط وکتابت میں کام آسکتے ہیں اور انہوں نے یہ حسن ظنی ظاہر کی کہ گویا یہاں آکر یہ سنبھل جائیں گے اور اپنی بد عادات سے باز آ جائیں گے.جنوری ۱۹۸۶ء میں ان کو عربک ڈیسک کا انچارج مقرر کیا گیا جو با قاعدہ تبشیر کے تابع مختلف ڈیسکوں میں سے ایک ڈیسک ہے.چند ماہ کے اندر ہی ان کے مزاج کی کبھی کئی رنگ میں ظاہر ہونا شروع ہوئی.سب سے پہلے انہوں نے ایک شخص کے متعلق سفارش کی کہ یہ غزہ کے ایک مخلص احمدی ہیں اور

Page 792

خطبات طاہر جلد ۸ 787 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء بہت ہی قابل اور رسالوں کے مدیر رہے ہیں زبان پر بڑا عبور ہے ، صاحب علم و فضل انسان ہیں ان کی خواہش ہے کہ یہ اپنی زندگی سلسلے کی خدمت میں پیش کریں اور میں پُر زور سفارش کرتا ہوں کہ ان کو یہاں بلوالیا جائے اور اگر کوئی عربی رسالہ شائع کرنا مقصود ہو تو یہ اس کے لئے بہترین مدیر ثابت ہوں گے.چونکہ مجھ پر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ کہا بیر فلسطین سے خبریں منگوا ر ہے ہیں اور جو بھی باتیں بیان کر رہے ہیں وہ وہاں کی جماعت کے علم میں ہیں، میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا کیونکہ اس سے پہلے ان کے جھوٹ کا اور کبھی کا کوئی تجربہ نہیں تھا.جب وہ یہاں تشریف لے آئے ، غزہ کے یہ دوست تو تھوڑی دیر بعد ہی فلسطین کی جماعت کی طرف سے ایک بہت زور کا احتجاج موصول ہوا اور اُنہوں نے کہا کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو جماعت احمدیہ کی کچھ خدمت سپرد کی ہے جس کا جماعت احمدیہ سے تعلق ہی کوئی نہیں.یہ وہ صاحب ہیں، ان کے بیان کے مطابق جنہوں نے حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کے زمانے میں احمدی ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا لیکن احمدی ہوتے ہی انہوں نے جماعت کہا بیر سے مالی مطالبات شروع کر دئیے.جب وہ مطالبات رد کر دئیے گئے تو انہوں نے باقاعدہ جماعت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور عدالت میں حاضر ہوکر یہ بیان دیا کہ میرا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس اعلان کو وہاں ایک اخبار میں شائع کروایا اور ان کے معاملے میں خود حسن عودہ صاحب کے والد بھی وہاں گئے اور تحقیق کے بعد ساری جماعت کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس شخص کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں باوجود علم کے عودہ نے یہ ایک جھوٹا تصور پیش کیا کہ ایک نہایت ہی مخلص احمدی جو خدمت کے لئے آمادہ اور تیار اور خواہشمند ہے، اس کو یہاں بلوالینا چاہئے.بہر حال اسی وقت ان کو فارغ کر کے واپس بھجوادیا گیا.یہ واقعہ جون ۱۹۸۶ء کا ہے یعنی آنے کے چند ماہ بعد 4 مہینے کے اندر اندر اور جب میں نے عودہ صاحب کو بلا کر یہ سرزنش کی کہ آپ نے اتنا واضح جھوٹ بولا، ایسا دھوکے سے کام لیا، آپ کیسی سلسلے کی خدمت کریں گے؟ تو اس پر پہلے تو صاف انکار کر دیا کہ میرے تو علم میں ہی نہیں تھا.یہ مجھ پر جھوٹا الزام ہے کہ مجھے علم تھا کہ ی شخص مرتد ہو چکا ہے.جب جماعت کہا بیر کے پیش کردہ حقائق سامنے پیش کئے تو ار دسمبر ۱۹۸۶ء اور پھر ۲ / دسمبر ۱۹۸۶ء کو تحریری طور پر اپنی غلطی کا اقرار کیا اور یہ بھی لکھا کہ میرے والد صاحب کو بھی اس کے ارتداد کا علم تھا اس لئے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے اور معاف کر دیا جائے.

Page 793

خطبات طاہر جلد ۸ 788 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء یہ ہیں معتمد صاحب جو ان لوگوں کے نزدیک میرے دست راست کہلاتے ہیں.فوری طور پر ان کی فراغت کا فیصلہ کر کے ان کو واپس بھجوانے کا حکم دیا گیا.اس پر انہوں نے نہایت عاجزانہ معافی مانگی اور ایک نہایت مخلص عرب دوست کو اپنا سفارشی بنایا اور انہوں نے ایک بہت ہی پُر زور سفارش کا خط لکھا اور کہا کہ یہ عدم تربیت یافتہ ہے غلطی ہوگئی ، معاف کر دیں، آئندہ سے کبھی اس قسم کی بیہودہ حرکت نہیں کرے گا.چنانچہ میں نے ان کے اصرار پر اور کچھ اس لئے کہ ان کے والدین کی میرے دل میں بہت عزت تھی اور ہے وہ دیر سے سلسلے سے بڑے اخلاص سے وابستہ ہیں میں نے اس لئے اس کو معاف کر دیا اور دوبارہ جماعت کی خدمت پر مامور کر دیا.ان کے سپر د کام یہ تھا کہ عربوں سے خط و کتابت کریں اور بعض مضامین کے تراجم کریں.عربوں کی ہماری تین بڑی جماعتیں ہیں.ایک شام میں ، ایک فلسطین میں اور ایک مصر میں.اس کے علاوہ خدا کے فضل سے دوسرے ممالک میں بھی عرب موجود ہیں لیکن کثرت سے نہیں.یہاں بھی بہت زیادہ بڑی تعداد میں جماعتیں تو نہیں لیکن فلسطین میں مثلاً بہت بڑی ایک جماعت ہے.سارے کا سارا گاؤں خدا کے فضل سے احمدی ہے تو یہ تین بڑی جماعتیں ہیں جن سے خصوصیت کے ساتھ خط و کتابت کا کام ان کے سپر دتھا لیکن سب سے پہلے شام سے ہمیں اطلاع ملی کہ یہ صاحب ہم سے خط و کتابت کے اہل نہیں ہیں اور بعض ایسی باتیں لکھتے ہیں جو قابلِ اعتراض ہیں.اس لئے مہربانی فرما کر ان کو حکم دیا جائے کہ آئندہ آپ کے درمیان ہمارے ساتھ واسطہ نہ بنیں.چنانچہ ان کو ۱۹۸۶ء میں ہی ۲۵ مئی ۱۹۸۶ء کو تحریری حکم کے ذریعہ روک دیا گیا.بعد ازاں فلسطین کی جماعت کی طرف سے بھی ایسے ہی شدید احتجاجی خطوط موصول ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آپ ان سے اور کام لے لیں لیکن اپنے درمیان اور ہمارے درمیان ان کو تحریر کا رابطہ نہ بنائیں کیونکہ آپ کے نام کا پیڈ استعمال کرتے ہیں اور غلط باتیں لکھتے ہیں.چنانچہ میں نے تحقیق کروائی تو دفتر سے بغیر اجازت کے میرا لیٹر پیڈ اُٹھا کر لے گئے تھے اور اس پر انہوں نے خط وکتابت شروع کی ہوئی تھی.وہاں سے اس کی فوٹو کا پیز ہمیں ملیں.چنانچہ ان کو تحریر ۱۳ جون ۱۹۸۶ء کوحکم دیا گیا کہ آئندہ آپ نے فلسطین سے بھی کوئی خط و کتابت نہیں کرنی.ہاں اس حکم کے باوجود انہوں نے کہیں کہیں بعض لوگوں کے ساتھ جماعت کی نمائندگی میں خط و کتابت جاری رکھی.جماعت چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 794

خطبات طاہر جلد ۸ 789 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء بیدار مغز ہے اور کسی بات کو وہ چھپا نہیں رہنے دیتی اس لئے ہمیں اطلاعیں ملیں کہ یہ ابھی بھی بعض لوگوں سے خط و کتابت کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو جماعت کا نمائندہ ظاہر کر کے خط و کتابت کرتے ہیں.چنانچہ وکیل التبشیر نے پھر ۱/۲۰ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو اس بات کا سختی سے نوٹس لیا اور ان کو حکم دیا کہ آئندہ آپ نے ہرگز فلسطین کے احمدیوں سے جماعت کی نمائندگی میں کوئی خط و کتابت نہیں کرنی.پھر ۹۸۶ء میں ہی ان کی بعض اور بد عادات ظاہر ہوئیں جن میں سے کچھ تو مالی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں اور تبشیر کو ۱۹ار اپریل ۱۹۸۶ء اور ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو تحریر ان کو نوٹس دینے پڑے اور مجھے بھی ان کو سمجھانا پڑا کہ آئندہ اگر آپ نے اس طرح بغیر اجازت کے کوئی خرچ کیا تو میں منظور نہیں کروں گا.اب تک میں برداشت کرتا چلا آرہا ہوں لیکن آئندہ سے یہ نخرے برداشت نہیں ہوں گے.اس لئے پہلے تحریری اجازت لیں اپنے افسران سے پھر خرچ کریں.پھر ایک مستقر سے یعنی جس جگہ پر مقرر تھے وہاں سے بغیر اجازت کے غائب ہونا شروع ہو گئے.چنانچہ ۳ / دسمبر ۱۹۸۶ء تحریراً انہیں اس بات کی بھی تنبیہ کرنی پڑی.یہ پہلے ۶ مہینے کے شگوفے ہیں جو انہوں نے یہاں چھوڑے اور جن کے اوپر جماعت نوٹس تو لیتی رہی لیکن ان سے مغفرت کا سلوک رہا.جس کی وجہ میں نے بیان کی ہے کہ میں یہ چاہتا تھا کہ اس نو جوان کی اصلاح ہو جائے اور جس حد تک محفوظ طریقے سے اس سے کام لیا جا سکتا ہے اس سے کام لیا جائے.۱۹۸۶ء میں ہی ان کو ایک نہیں بلکہ بار بار تنبیہات بھی کرنی پڑیں کہ آپ اپنے افسران کی نہ صرف حکم عدولی کرتے ہیں بلکہ واضح بد تمیزی سے کام لیتے ہیں اور یہ بات نا قابلِ برداشت ہے.اس لئے آپ کو اس سے تو بہ کرنی چاہئے.۱۹۸۷ء کے آغاز میں مصر سے بھی احتجاجی خط موصول ہوئے کہ یہ صاحب جو ہم سے خط و کتابت کر رہے ہیں، مہربانی فرما کر ان کو روک لیں آپ اور ذریعہ اختیار کر لیں لیکن ان صاحب کو بیچ میں نہ ڈالیں تو تین بڑی عرب جماعتیں ہیں اور تینوں نے احتجاج کر کے ان کو جماعت کی نمائندگی سے رکوا دیا.یہ ہیں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب جن کے اوپر یہ غیر احمدی ملاں جو جماعت کے معاند ہیں بڑی شوخیاں دکھا رہے ہیں اور شیخیاں بگھا رہے ہیں کہ اتنا بڑا معرکہ انہوں نے سر کیا ہے.اس شخص کو انہوں نے قابو کر لیا ہے.

Page 795

خطبات طاہر جلد ۸ 790 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء اب آگے سنئے ! عدم تعاون اور افسران سے نافرمانی کے رویے کے متعلق وکیل التبشیر نے پھر ان کو ۲۷ رمئی کو سختی سے نوٹس دیا کہ آپ اس سے باز نہیں آرہے اپنے رویے کوٹھیک کریں ورنہ ہمیں آپ کو فارغ کرنا پڑے گا.۱۸ / جولائی ۱۹۸۷ء کو پھر مجھے تنبیہ کرنی پڑی.پھر ۳۱ مئی ۱۹۸۸ء کو ان کی بار بار کی کجیوں کی وجہ سے بالآخر جب میں نے سمجھایا اور بہت اچھی طرح قرآن کریم اور حدیث اور سنت کے حوالے دے کر سمجھایا کہ آپ اپنی اصلاح کریں.میں بار بار آپ سے عفو کا سلوک محض اس لئے کر رہا ہوں کہ آپ کی اصلاح ہو جائے لیکن آپ باز نہیں آرہے اس پر بھی ان کا معافی کا خط ملا جو ہمارے ریکارڈ میں موجود ہے.رساله التقوی کا ان کو مدیر بنایا گیا لیکن رسالہ التقویٰ میں بھی انہوں نے بعض ایسی حرکتیں شروع کیں اور بار بار کی نافرمانیاں شروع کیں کہ جس کے نتیجے میں ۷ / مارچ ۱۹۸۹ء کو ان کو رسالہ کی ادارت سے بھی فارغ کر دیا گیا.یہ ہیں معتمد صاحب جن کے سپر د جو کام کئے بالآخر واپس لینے پڑے.یہاں تک کہ رسالہ کی ادارت سے بھی یہ فارغ کر دئیے گئے.ایک کام خطبات کے ترجمے کا تھا وہ یہ صرف کرتے تھے لیکن سیریا (Syria) سے خطبات کے ترجموں کے متعلق بھی احتجاج موصول ہوا اور ایک صاحب ہیں جو انگریزی دان بھی ہیں اور بہت اچھے عربی ادیب ہیں.اُنہوں نے مجھے لکھا کہ یہ خطبہ ! یہاں میں نے اس کی اشاعت روک دی ہے کیونکہ بعض دفعہ مجھے انگریزی کا ترجمہ بھی پہنچا ہے، عربی ترجمہ بھی پہنچا ہے اور مجھے یہ احساس ہے کہ انہوں نے اصل مضمون سے واضح طور پر انحراف کیا ہے اور غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.چنانچہ ان کے ترجمے کے اوپر بھی پھر میں نے دوبارہ ہدایت کی کہ اب کڑی نظر رکھی جائے ، جب تک پورا تر جمہ ہمارے بعض احمدی علماء جو خدا کے فضل سے عربی کا بہت ملکہ رکھتے ہیں اور یہاں موجود ہیں وہ نظر نہ ڈال لیں اس وقت تک ان کے ترجمے کو بھی اب استعمال نہ کیا جائے.یہ ے مارچ ۱۹۸۹ء کا واقعہ ہے.یہ آخری کام جب ان سے واپس لے لیا گیا تو پھر انہوں نے بعض اور پر پرزے نکالنے شروع کئے جن پر ہم براہ راست اس طرح تو نظر نہیں رکھ سکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مختلف ذرائع سے یہ اطلاعات بھجوانے کا انتظام فرما دیا کہ اس کے بعد انہوں نے اپنے بغض کا اظہار کرنا شروع کر دیا.یہ پروپیگنڈا شروع کیا بعض نواحمدیوں میں کہ جماعت جو ہے یہ پاکستانیت کو دوسروں پر مسلط کر رہی ہے.اس واسطے

Page 796

خطبات طاہر جلد ۸ 791 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء Racialism کا بہانہ بنا کر جب لوگوں سے انہوں نے دیکھا کہ کچھ توقع ہے کہ وہ ہاں میں ہاں ملا ئیں گے ان سے پھر یہ بات کرنا شروع کی اسی تین مہینے کے عرصے میں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیوں کے متعلق مجھے شک ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئیں اور اس رنگ میں ان کو انہوں نے بد کا نا شروع کیا.جب اس کی اطلاع جون میں یعنی تین مہینے کے اندراندر ایک ایسے شخص کے ذریعے پہنچی جو پوری طرح گواہ بن گیا جس نے تحریری طور پر یہ اطلاع دی کہ مجھ سے اس نے یہ یہ باتیں کی ہیں تو اس پر ان پر کمیشن مقرر کیا گیا جس کے صدر ایک نہایت مخلص عرب مصری احمدی تھے، بشیر احمد خاں صاحب رفیق اس بورڈ کے ایک ممبر تھے اور عبدالرحیم صاحب ماریشس والے ایک ممبر تھے، انہوں نے متفقہ طور پر یہ رپورٹ پیش کی کہ یہ شخص منافق ہے، جھوٹ بولتا ہے اور ہرگز اس لائق نہیں کہ ایک منٹ بھی اس کو جماعت کے کسی کام پر رکھا جائے.اس لئے ہم متفقہ سفارش کرتے ہیں کہ جب کہ اس کے جرائم ثابت ہیں اور بار بار کی مغفرت اور عفو کے سلوک نے ایک ذرہ بھی اصلاح پیدا نہیں کی اس لئے اس کو فوری طور پر فارغ کر دینا چاہئے.ے جون کو میں نے کمیشن مقرر کیا ہے اسی روز کے جون کو انہوں نے تحریری طور پر مجھے لکھا اور یہ خط ہمارے پاس محفوظ ہے کہ میں بہت شرمندہ ہوں کہ اپنے شکوک کا اظہار نہ کبھی آپ سے کیا نہ علمائے سلسلہ سے بات کی.تحریر تو لمبی ہے یہ ایک فقرہ یادرکھنے کے لائق ہے تاکہ میں اس پر بعد میں تبصرہ کرسکوں.اخبارات میں انہوں نے یہ بیان دیا کہ جماعت احمدیہ کے متعلق مجھے بڑی مدت سے شکوک پیدا ہورہے تھے جب میں ( میرا نام لے کر ) کہ اس کے سامنے ان کو پیش کرتا تھا تو وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے تھے.بالآخر میں نے آمنے سامنے کر کے چیلنج کیا کہ یہ جماعت جھوٹی ہے اور اس کے باوجود وہ مجھے مطمئن نہ کر سکے تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں جماعت کو چھوڑ دیتا ہوں اور یہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ۷/ جون ۱۹۸۹ ء کا ہے کہ میں شرمندہ ہوں کہ اپنے شکوک کا اظہار نہ کبھی آپ سے کیا ، نہ علمائے سلسلہ سے یہ بات کی.اب اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنا بڑا معرکہ مارا گیا ہے جو ایسے شخص کو اپنی تحریر سے واضح طور پر قطعی جھوٹا ثابت ہے اور بد دیانت ثابت ہے اور منافق ثابت ہے.اس کو انہوں نے جیت لیا ہے.رہا منظور چنیوٹی صاحب کا یہ دعویٰ کہ میری تبلیغ سے یہ مشرف بہ اسلام ہوا ہے تو اس تحریر

Page 797

خطبات طاہر جلد ۸ 792 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء سے ہی ثابت ہے کہ اس حد تک وہ ان کی تبلیغ سے مشرف بہ اسلام ہوا ہے.حیرت انگیز بات ہے.جماعت جو کچر با ہر پھینکتی ہے اس کو یہ سینے سے لگا لیتے ہیں اور پھر اعلان کرتے ہیں کہ ہماری فتح ہوئی، ہمارا غلبہ ہوا.اب میں منظور چنیوٹی صاحب کے مباہلے کی حیثیت آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اسی شخص کے متعلق.مولانا منظور چنیوٹی صاحب ۲۲ نومبر ۱۹۸۹ء کو یعنی پچھلے مہینے کی ۲۲ تاریخ کو یہ اعلان کرتے ہیں جو پاکستان کے اخباروں میں شائع ہوا.میں نے یہ اقتباس نوائے وقت سے لیا ہے.” مرزا طاہر احمد نے دُنیا بھر کے مسلمانوں کو جو دعوت مباہلہ دی تھی ( الفاظ غور کے لائق ہیں....دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو دعوت مباہلہ دی تھی ) اس کا پہلا نتیجہ حسن عودہ ہے.“ جو دعوت مباہلہ ۱۰رجون ۱۹۸۸ء کو پچھلے سال دی گئی تھی اور اس کا سال ۹رجون ۱۹۸۹ء کو ختم ہو رہا تھا اس لئے وہ سارے ملاں جھوٹے ہو گئے.ان کے نزدیک جو یہ دعوی کرتے تھے کہ اس عرصے میں ہماری تائید میں نشان ظاہر ہوئے ہیں اور مرزا طاہر احمد اور جماعت کی تائید میں کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اور اس مباہلے کی تاریخ گزرنے کے پانچ مہینے بعد منظور چنیوٹی صاحب اعتراف کر رہے ہیں کہ پہلا نشان ظاہر ہوا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ جس وقت یہ اقرار ہے اس سے پہلے خود ان کے ذاتی مباہلے کی تاریخ ۱۵ ستمبر کوختم ہو چکی تھی لیکن بہر حال یہ ارتداد تو چونکہ اس سے پہلے کا ہے.ارتداد بھی نہیں کہنا چاہئے اس کی تفصیل میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ان صاحب کو جب ہم نے فارغ کیا ہے اور حکم دیا کہ یہاں سے واپس چلے جائیں تو اس وقت یہ سزا پانے کے بعد جماعت سے علیحدہ ہوئے ہیں.ہمارے رڈ کرنے کے بعد گئے ہیں اس لئے اس ارتداد کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہوا کرتی جس کو آپ نکال کر پھینک دیں اس کا ارتداد کیا اور عدم ارتداد کیا.جس کو ہم نے قبول ہی نہیں کیا، جس کی بیعت ہی فتح کر دی، اس کا بعد میں یہ کہنا کہ میں مرتد ہوں بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہے.اچھا اب یہ اعلان ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو جو دعوت مباہلہ دی تھی ، اس کا پہلا نتیجہ حسن عودہ ہے.سبحان اللہ کیا نتیجہ ہے یہ؟ کتنا عظیم الشان عالمگیر نشان ان کے حق میں ظاہر ہوا ہے.

Page 798

خطبات طاہر جلد ۸ 793 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء جماعت احمدیہ کے حق میں تو یہ سال ایسا رحمتوں اور برکتوں کا سال گزرا ہے کہ یوں لگتا تھا کہ ایک لیلۃ القدر ہے جو سارے سال پہ پھیل گئی ہے.پہلا سال ہے جس میں کم و بیش ایک لاکھ بیعتوں کا تخمینہ ہے.اس میں سے اکثر پوری ہو چکی ہیں اور باقی وقت ابھی باقی ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ سال ختم ہونے سے پہلے ایک لاکھ تک احمدی ہو چکے ہوں گے یعنی اس سال کے اور سینکڑوں علماء 66 ہیں.سینکڑوں جو اپنی مساجد اور اپنی جماعتوں سمیت داخل ہوئے ہیں اور وہ اپنے ہاں مر جو “ لوگ تھے ، ان سے اعلیٰ تو قعات تھیں.علاقے میں اچھی شہرت رکھنے والے لوگ تھے، ایسے نیک تھے کہ جب انہوں نے اعلان کیا کہ جماعت کچی ہے تو ساری قوم ان کے ساتھ آئی ہے اور اس کے مقابل پر یہ پہلا نشان ان کے حق میں ظاہر ہوا ہے.اور آگے سنئے ! اب میں اسی نشان کو منظور چنیوٹی صاحب کے جھوٹا ہونے کے نشان کے طور پر پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود کے سامنے جب عبداللہ آتھم نے بعض لولے لنگڑے پیش کئے تھے کہ ان کو اچھا کر کے دعوی مسیحیت کی صداقت کا ثبوت دو تو حضرت مسیح موعود نے ان لولے لنگڑوں کو واپس ان کے سامنے پیش کر دیا تھا کہ میری صداقت کا ثبوت تو بعد میں آئے گا تم پہلے اپنی مسیحیت کی سچائی کا ثبوت دے دو تو میں یہی لولا لنگڑا جو انہوں نے میرے حضور پیش کیا ہے میں واپس مولانا کے پاس بھیجتا ہوں کہ اب اس کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر ظاہر کر کے دکھا دیں.دنیا کو بتادیں کہ کس طرح یہ شخص آپ کی صداقت کا نشان ہے.منظور چنیوٹی صاحب نے ۲۱ جون ۱۹۸۸ء کو اعلان کیا کہ ( یہ اخبار کی خبر ہے روز نامہ امروز میں ۲۱ / جون ۱۹۸۸ء کو شائع ہوئی.میں ان کے الفاظ میں پڑھتا ہوں ): مولانا منظور احمد چنیوٹی نے قادیانی جماعت کے سر براہ مرزا طاہر احمد کو چیلنج مباہلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مرزا طاہر احمد کے باپ دادا اور بھائی کو دعوت مباہلہ دی تھی.“ اب میں پوچھتا ہوں کہ اپنے اس نئے چیلے سے گواہی لیں کہ کیا آپ نے کبھی میرے دادا کو مباہلے کا چیلنج دیا تھا.اگر یہ گواہی دے دے تو وہ سارے عرب احمدی، جن کو یہ پھسلانے کی ناکام کوشش کر چکا ہے اس پر لعنت ڈالیں گے اور کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے تم جھوٹ بولتے ہو.وہ تو پیدا بھی

Page 799

خطبات طاہر جلد ۸ 794 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء نہیں ہوا تھا جب حضرت مسیح موعود وفات پاچکے تھے.اس نے کہاں سے حضرت مسیح موعودؓ کو مباہلے کا چیلنج دے دیا اس لئے ایک یہ گواہی اس سے لے کے دکھا ئیں.پھر منظور چنیوٹی صاحب نے اعلان کیا جو جنگ لندن ۲۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء کو شائع ہوا کہ اگلے سال ۱۵ ستمبر تک میں تو ہوں گا، قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی.اپنے اس مباہلے کے نشان سے یہ گواہی دلوا دیں کہ آج واقعی دنیا میں کہیں احمدی جماعت کا کوئی نشان باقی نہیں رہا.پھر ۱۹ / اگست ۱۹۸۹ء کو خود ہی اس اعلان کو یاد کر کے ان کو خیال آیا کہ یہ تو دُنیا کہے گی تم جھوٹے ہو گئے تو میں کیوں نہ اعلان کر دوں کہ جماعت ختم ہو چکی ہے.چنانچہ ۱۹ راگست ۱۹۸۹ء کوملت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ منظور چنیوٹی صاحب نے بیان دیا ہے کہ سلطنت برطانیہ کی طرح جماعت احمدیہ کا سورج بھی غروب ہو چکا ہے.کسی ملک میں اس کا کوئی وجود نہیں.اب اپنے اس نئے چیلے سے جو خدا نے آپ کو نشان کے طور پر دیا ہے یہ گواہی لے دیں کہ کیا دُنیا کے کسی ملک میں احمدیت کا کوئی وجود نہیں رہا اور اپنے والدین اور اپنے دیگر بزرگوں کے متعلق خصوصیت سے گواہی دیں کہ ان کا کیا حال ہے.پھر اخبار میں ان کا اعلان شائع ہو گیا ہے کہ مولوی جو یہ کہتے تھے کہ چھ سو احمدی، اسرائیلی فوج میں بھرتی ہیں اس کے متعلق جب اخبار نویس نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا نہیں ایک بھی احمدی فلسطین میں اسرائیلی فوج میں نہیں ہے اور یہ اعلان کر کے منظور چنیوٹی کے جھوٹے ہونے پر مہر ثبوت پہلے ہی ثبت کر چکے ہیں.ایک جھوٹی بات تو ایسی ہے جس کا شاید یہ کہیں کہ مجھے علم نہیں مگر بہر حال آپ کی دلچسپی کے لئے بیان کر دیتا ہوں.یہ اعلان ان کا جنگ لندن ۳۰ جولائی ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا تھا کہ یہ بات سرکاری ریکارڈ میں موجود ہے کہ ربوہ میں حکومت پاکستان کے افسروں نے چھاپہ مار کر اسلحہ کے بے شمار ذخائر کا سراغ لگا لیا ہے“.اس لئے یہ بھی میں نے رکھا تھا کہ ان سے پوچھوں مگر چونکہ اس کا تعلق ربوہ سے ہے اس لئے کہیں گے کہ مجھے علم نہیں.منظور چنیوٹی صاحب کسی وقت ثابت کر دیں تو ہم ان کے ممنون ہوں گے.انہوں نے جماعت احمدیہ کے اوپر ایک یہ بہتان باندھا کہ ”قادیان عرصہ دراز سے یہ

Page 800

خطبات طاہر جلد ۸ 795 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء ،، پرو پیگنڈہ کر رہے ہیں کہ چودہویں صدی آخری صدی ہے اور اس کے بعد کوئی صدی نہیں ہے“.جو پرو پیگنڈا خود مولوی کیا کرتے تھے وہ جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کر دیا.اب یہ صاحب، حسن عودہ صاحب اپنے اس نئے پیر کے حق میں گواہی دیں کہ ہاں میں بھی یہی پروپیگنڈا کیا کرتا تھا اور میرا یہی ایمان تھا.پھر منظور چنیوٹی صاحب نے یہ اعلان کیا کہ ”مجاہد اسلام اسلم قریشی کی گمشدگی کے سلسلے میں مرزا طاہر کو شامل تفتیش کیا جائے انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو چھ آدمیوں کے نام تفتیش کے لئے دیئے تھے جن میں مرزا طاہر احمد بھی شامل ہے.اگر ان چھ میں ملزم برآمد نہ ہو تو ہم سر بازار گولی کھانے کو تیار ہیں.تو عودہ صاحب سے گواہی لیں کہ ہاں آپ نے بالکل سچ فرمایا تھا اور بہت سچے آدمی ہیں اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مرزا طاہر احمد نے اس کو اغواء کروا کے قتل کروادیا تھا.عودہ صاحب کی گواہی تو بعد میں آئے گی.اس سے پہلے ان کے ایک سابق یار اور اسی قماش کے ایک مولوی کا بیان میں آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں جن کا نام مولانا اللہ یار ارشد صاحب ہے.مساوات لا ہور۴ رنومبر ۱۹۸۸ء کو ( یہ اس سے کچھ پہلے کا عرصہ ہے جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ میرے حق میں عظیم الشان نشان ظاہر ہو چکا ہے.جو ان کے حق میں نشان ظاہر ہوا تھا وہ وہاں ہوا ہے یہاں نہیں ہوا وہ نشان یہ تھا کہ اللہ یارارشد صاحب نے اعلان کیا کہ ”مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ختم نبوت کے نام کو بیچ کر قوم سے ووٹ حاصل کئے اور پنجاب اسمبلی میں جو مذموم کردار ادا کیا، وہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے رسوائی کا سبب بن گیا.(پوری ملت اسلامیہ کے لئے رسوائی کا سبب بنا.انہوں نے کہا کہ یہ شخص مذہب کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور فتوی بازی اس کا مشن ہے.انہوں نے کہا کہ قوم کے ساتھ یہ دھوکہ بازی ہم ہرگز نہیں چلنے دیں گے.انہوں نے کہا کہ جھوٹ اس کا مشن ہے، دھو کہ اس کا پیشہ ہے.پنجاب اسمبلی میں معافی مانگ کر اس شخص نے ختم نبوت کے پروانوں

Page 801

خطبات طاہر جلد ۸ 796 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء کے سروں کو جھکا دیا ہے.انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کے نام پر قوم سے چندہ بٹور کر اس نے اپنی ذاتی جاگیر اور ڈیرے بنائے ہوئے ہیں.مساوات لاہور ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء) یہ ہے نشان مباہلے کا.اس نشان کو چھپا گئے ہیں اور جو نشان بنتا ہی نہیں اگر بنتا ہے تو اور رنگ میں یعنی ان کے مباہلہ ہارنے کا نشان بنتا ہے.اس کو یہ اپنے حق میں پیش کر رہے ہیں.اب میں کچھ اور امور مختصر منظور چنیوٹی صاحب کو یاد کرواتا ہوں تا کہ اپنے اس مرید سے وہ کچھ گواہیاں لے کر اپنے حق میں شائع کروادیں.یہ کہتے ہیں کہ مباہلہ جس کو انہوں نے قبول کیا، جس کے نتیجے میں یہ کہتے ہیں کہ عودہ مجھے ایک نشان کے طور پر ملا ہے.اس مباہلے میں بہت سی باتیں میں نے پیش کی تھیں کہ علماء سراسر جھوٹے الزام جماعت پر لگاتے ہیں.بالکل جھوٹ ہے.خدا گواہ ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے اور لعنۃ اللہ علی الکاذبین کے بعد میں نے اس مضمون کو ختم کیا.اس میں سے چند الزامات آج میں مثال کے طور پر دھرا رہا ہوں.چونکہ منظور چنیوٹی صاحب نے اس مباہلے کو قبول کیا ہوا ہے اس لئے اب ان کا فرض ہے کہ ان کے نزدیک جو ان کے حق میں نشان ظاہر ہوا ہے اس سے ان باتوں میں گواہی لے لیں.اس میں لکھا ہوا تھا کہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود نعوذ باللہ خدا تھے.جماعت احمدیہ کے عقیدے کے مطابق خدا کا بیٹا تھے.جماعت احمدیہ کے عقیدے کے مطابق خدا کا باپ تھے.یہ تین الزام جو مولوی جماعت پر دھرتے ہیں یہ میں نے مباہلے میں ذکر کئے ہیں اور لعنۃ اللہ علی الکاذبین پر اس بات کو ختم کیا.اب یہ اپنے اس نئے چیلے سے گواہی لے کر بتائیں کہ یہ جب تک یہ شخص ان کے نزدیک تو بہ کر کے ”مشرف بہ اسلام نہیں ہوا کیا اس کا حضرت مسیح موعود کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ آپ خدا تھے ، خدا کا بیٹا تھے ، خدا کا باپ تھے اور کیا اس کے باقی عزیزوں اور رشتے داروں کا ، اس کے والدین کا اب تک یہی عقیدہ ہے.پھر اس میں ایک الزام یہ بھی درج تھا کہ ” جماعت احمدیہ کے نزدیک تمام انبیاء سے حضرت مسیح موعود حتی کہ بشمول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم افضل اور برتر تھے.اب چنیوٹی صاحب اپنے اس مرید سے گواہی لیں کہ واقعہ اس کا ” مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے یہی عقیدہ

Page 802

خطبات طاہر جلد ۸ 797 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء تھا اور کیا اس کے عزیزوں اور بزرگوں کے اب تک یہی عقائد ہیں؟ پھر اس میں ایک الزام درج تھا کہ ان کی عبادت کی جگہ عزت واحترام میں خانہ کعبہ کے برابر ہے.اب یہ اس گواہ سے گواہی لے کر بتائیں کہ واقعہ جب تک یہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوا اس وقت تک اس کا یہی عقیدہ تھا کہ جماعت احمدیہ کی عبادت گاہیں عظمت اور احترام کے لحاظ سے خانہ کعبہ کے برابر ہیں.پھر ان الزامات میں ایک یہ بھی تھا کہ ”بانی سلسلہ احمدیہ نے شرعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور نئی شریعت لے کر آئے اور قرآن کریم کے مقابل پر احمدیوں کی کتاب تذکرہ ہے جسے وہ قرآن کے ہم مرتبہ قرار دیتے ہیں.پوچھیں اب اس گواہ سے، یہ اعلان کرے چنیوٹی صاحب کی صداقت کا کہ واقعہ جب تک میں منظور چنیوٹی صاحب کے ہاتھ پر تائب ہوکر مشرف بہ اسلام نہیں ہوا، میرا یہی عقیدہ تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ شرعی نبی ہیں اور نئی شریعت لے کر آئے ہیں اور وہ نئی شریعت کی بھی نشاندہی کرے کہ کون سی نئی شریعت لے کر آئے ہیں اور پھر یہ بھی بتائے کہ ہاں میرے والدین اور میرے دیگر بزرگ ابھی تک اسلام کے سوا اس نئی شریعت پر کار بند ہیں.پھر یہ بھی دعوی تھا کہ احمدیوں کا کلمہ الگ ہے مسلمانوں والا نہیں.وہ کلمہ پڑھ کر سنائے.اعلان کرے چنیوٹی کے حق میں کہ ہاں یہ سچ کہا کرتا تھا اور واقعتا کلمہ الگ ہے اور یہ کلمہ میں پڑھا کرتا تھا اور یہی کلمہ میرے بزرگ آج تک پڑھتے ہیں.پھر اس میں یہ الزام شامل تھا کہ ” جب احمدی مسلمانوں والا کلمہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں یعنی جب ظاہر پڑھتے ہیں تو دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں اور محمد سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں.اب یہ اس نشان سے گواہی لیں اور اس کا اعلان شائع کریں کہ یہ جب تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوا حضرت رسول کریم ﷺ کا نام جب کلمہ میں پڑھتا تھا اگر پڑھتا تھا تو ہمیشہ اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیا کرتا تھا اور اس کے بزرگ آج تک یہی کام کرتے ہیں.پھر اس میں یہ الزام تھا کہ احمدیوں کا خدا وہ خدا نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کا اور قرآن کا خدا ہے.گواہی دے اب یہ نشان کہ واقعہ جب تک میں نے تو بہ نہیں کی میرا خدا وہ خدا نہیں تھا جو

Page 803

خطبات طاہر جلد ۸ 798 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء محمد رسول اللہ اللہ اور قرآن کا خدا ہے.66 پھر یہ الزام تھا کہ قادیانی جن ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں وہ ملائک نہیں جن کا قرآن وسنت میں ذکر ملتا ہے.اب یہ اعلان کرے کہ ہاں واقعہ میں گواہ ہوں میں نے بطور قادیانی کے ایک مدت گزاری.میرا تصور ملائکہ کا بھی بالکل اور تھا اور قرآن وسنت میں وہ تصور نہیں ملتا.ایک الزام یہ بھی تھا کہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ مرزا طاہر احمد نے اسرائیل کا دورہ کیا.یہ اب وہ تاریخیں بتائے ورنہ اعلان کرے کہ منظور چنیوٹی جھوٹا ، آخر تک جھوٹا ہے.وہ سراسر جھوٹے دعووں پر مبنی باتیں تھیں جن کو سچا بیان کرتے ہوئے اس نے مباہلے کو قبول کیا ہے.اب اس کی شرافت، اس کے اخلاق ، اس کی سچائی کا بھی امتحان ہو جائے گا.اگر خدا کے خوف کا کچھ ایک بیج بھی اس میں باقی ہے تو کسی قیمت پر خدا کی اس لعنت کو قبول نہیں کرے گا کہ برسر عام کھڑے ہو کر یہ اعلان کرے کہ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو احمدیوں کے عقائد میں شامل ہیں.جو میرے بھی عقیدے ہوا کرتے تھے جو آج تک میرے ماں باپ کے عقیدے ہیں اور اگر اس میں شرافت کا بیج ہے تو پھر اس کا یہ فرض ہے کہ اب اعلان کرے کہ اے میرے نئے استاد! اے میرے نئے پیرا میں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو چھوڑ کر جو تیرے ساتھ ، تیرے دامن کو پکڑا ہے اور تیرے پاؤں کو چھوڑا ہے میں اعلان کرتا ہوں تو سرتا پا جھوٹ ہے.تیری ہر بات جھوٹی ، تیرا ہر دعوئی جھوٹا ہے اور جماعت احمدیہ کے متعلق جو تو آج تک اعلان کرتا آیا ہے اور تشہیر کرتا آیا ہے میں گواہ ہوں کہ اس میں سے ایک ایک لفظ جھوٹا تھا اور اس میں سچائی کا شائبہ بھی نہیں ہے.اب اس لولے لنگڑے سے گواہی لیں یا اس کو چھپالیں تیسرا کوئی حل اس کا مجھے نظر نہیں آتا.اگر ان کے نزدیک کوئی حل ہے تو وہ پیش کر کے دکھا ئیں.پس جس نشان کو انہوں نے اپنی صداقت بنا کر پیش کیا ہے، تمام دنیا کی جماعت اس بات پر گواہ ہوگئی ہے اور اب تمام دنیا اس بات پر گواہ ٹھہرے گی.عودہ کے Reaction کے بعد کہ ہاں منظور چنیوٹی جھوٹا نکلا اور یہ نشان اس کے حق میں ظاہر نہیں ہوا بلکہ اس کے جھوٹ کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے ظاہر ہوا ہے.اگر یہ شخص اس عرصے میں تھوڑے عرصے میں ہی اپنی بدنصیبی اور بدبختی میں اتنی ترقی کر چکا ہے کہ ان ساری باتوں

Page 804

خطبات طاہر جلد ۸ 799 خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۸۹ء پر صاد کر دے گا اور کہہ دے گا کہ ہاں میرا یہی عقیدہ ہوا کرتا تھا اور میرے ماں باپ کا یہی عقیدہ ہوا کرتا تھا تب بھی منظور چنیوٹی کے اوپر یہ لعنت پڑ جائے گی کیونکہ جن عرب احمدیوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس کو استعمال کیا جا رہا ہے وہ سارے اس پر اور اس نے مرشد پر لعنتیں ڈالیں گے وہ کہیں گے کہ جھوٹ بولتا ہے، جھوٹ بولتا ہے.ہم گواہ ہیں اور دنیا کے ایک کروڑ احمدی گواہ ہیں کہ ہرگز جماعت احمدیہ کے یہ عقائد نہیں تھے اور جماعت احمدیہ کو از راہ ظلم و تعدی محض افتراء کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو مطمئن ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عظیم الشان سال میں اگر کوئی نشان ظاہر ہوا ہے تو بار بار جماعت احمدیہ کی صداقت کا نشان ظاہر ہوا ہے.اگر خدا کی طرف سے آسمان سے کوئی روشنی اُتری ہے تو وہ جماعت احمدیہ کی صداقت کو روشن تر کر کے دکھانے کے لئے اُتری ہے.اگر فضل نازل ہوئے ہیں تو احمدیوں کے شانوں پر فضل نازل ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ تمام دنیا میں ترقی پر ترقی کرتی چلی جارہی ہے اور اس تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے کہ اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.یہ نشان ہیں جو حقیقۂ خدا کی طرف سے ظاہر ہوئے ہیں اور جو نشان اس کے برعکس بتائے جارہے ہیں وہ دراصل ہمارے دشمن کی ذلّت کے نشان ہیں اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے.

Page 805

Page 806

خطبات طاہر جلد ۸ 801 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء يَاهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ پھر فرمایا:.کے اصول پر آپس میں تعلقات استوار کرو (خطبه جمعه فرموده ۱۵ دسمبر ۱۹۸۹ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی.قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا (آل عمران: ۶۵) بِأَنَّا مُسْلِمُونَ سورہ ال عمران حق اور باطل کے درمیان مجادلے کو تین مختلف ادوار کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتی ہے اور ان ادوار کی ایک خاص ترتیب مقرر ہے.سب سے پہلے استدلال کا دور ہے سب سے پہلے حجت کا اور اتمام حجت کا عرصہ ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سورۃ آل عمران اُس دور میں اپنے مخالفین سے بحث مباحثے میں مصروف دکھاتی ہے اور بڑے بھاری اور قوی استدلال کے ذریعے اور ناقابل تردید حجت کے ذریعے ان مخالفین کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سچائی کی راہ دکھاتے ہیں.یہاں تک کہ وہ کج بحثی میں انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں.یہاں تک کہ ہر پڑھنے والے پر یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ یہ مخالف فریق اب دلیل ،

Page 807

خطبات طاہر جلد ۸ 802 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء استدلال، حجت، عقل و خرد کے ذریعے بات کو سمجھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا.اس وقت ل لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ (الشوری:۱۲) کا اعلان ہوتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اب اس کے بعد تمہارے بڑوں اور ہمارے سر براہوں کے درمیان حجت کا دور ختم ہو چکا.پھر مباہلے کی بات چلتی ہے، پھر پہلی مرتبہ قرآن کریم حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت فرماتا ہے کہ رابطے اب بھی قائم رہیں گے مگر اور نوعیت کے رابطے بن کر قائم ہوں گے.اب ان کو تو مباہلے کا چیلنج دے اور ان سے کہہ کہ جو فیصلے استدلال کی دنیا میں طے نہیں ہو سکے وہ آسمان کی عدالت میں پیش کئے جائیں اور آسمان سے ان کے فیصلے چاہے جائیں.جماعت احمدیہ میں بھی ، جماعت احمدیہ کی اس تاریخ میں بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ظاہر ہوئی ہم نے انہیں دو ادوار کو اسی طرح یکے بعد دیگرے رونما ہوتے دیکھا.مباہلے کے دور کے بعد بظاہر یہ تاثر پڑتا ہے کہ اب رابطے کلیہ منقطع ہو چکے ہیں مگر قرآن کریم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ رابطے منقطع نہیں ہوتے بلکہ ایک نئے دور میں داخل ہو جاتے ہیں.چنانچہ عقل بظاہر یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ جب عدالت عالیہ یعنی خدا تعالیٰ کی عدالت میں معاملہ پیش کر دیا گیا تو پھر اب کون سے رابطے کی راہ باقی رہ جاتی ہے مگر جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے یہ مباہلے کے بعد کی آیت ہے اور مباہلے کے بعد خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتا ہے کہ اب تیسری قسم کی رابطے کی یہ صورت اختیار کرو.حجت کی راہ ختم ہو گئی.مباہلے کا اثر دیکھ لیا گیا.اب تو ان سے کہہ یاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةِ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ بہت ہی عظیم الشان پیغام ہے.گہری حکمتیں ہیں.اُن قوموں کے لئے جو دوسری قوموں سے کسی نظریاتی دنیا میں نبرد آزما ہوتی ہیں.فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (یعنی نام تو نہیں لیا گیا مگر مخاطب آپ ہی کو فرمایا گیا ہے ) تو اب ان سے کہہ دے کہ اے اہلِ کتاب اختلافی باتیں اب بھول جاؤ.اختلاف طے کرنے کی دو ہی راہیں تھیں ایک استدلال کے ذریعے دوسرے خدا تعالیٰ کی عدالت میں بات کو پہنچا کر.یہ دونوں راہیں ہم نے اختیار کر لیں اب تعاون کی بات کرو.اُن باتوں میں تعاون کی بات کرو جن پر ہم دونوں یقین رکھتے ہیں، جہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں.جو باتیں تمہیں بھی درست تسلیم ہیں اور جو باتیں ہمیں بھی درست تسلیم ہیں اُن میں

Page 808

خطبات طاہر جلد ۸ 803 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء روٹھنے کا کیا مقام ہے یا اُن میں روٹھنے کا کیا جواز بنتا ہے.آپس میں تعلقات کو اب اس اصل پر استوار کرو کہ جو اچھی باتیں تم بھی تسلیم کرتے ہو اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں تم بھی انہیں حق سمجھتے ہو اور ہم بھی انہیں حق سمجھتے ہیں اُن اچھی باتوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور بنی نوع انسان کے فائدے کی کوئی صورت بنا ئیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ بھی انہیں تین ادوار کی صورت میں یکے بعد دیگرے ظاہر ہوئی اور آپ کی ساری زندگی کی جد وجہد کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ آپ کے جہاد کا آغاز مجادلے سے ہوا اور مناظرے سے ہوا اور استدلال سے ہوا اور حجت سے ہوا.چنانچہ براہین احمدیہ آپ کی وہ پہلی کوشش تھی جس کے ذریعے آپ نے اسلام کو، اسلام کے مد مقابل لوگوں کے سامنے بڑے بھاری استدلال اور برہان کے ذریعے پیش کیا.جب یہ دور اپنے طبعی نقطۂ معراج کو پہنچا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محسوس کیا کہ اب مناظروں سے فائدہ کوئی نہیں تو آپ نے اعلان فرمایا کہ اب میں مزید مناظروں میں نہیں الجھوں گا.تب آپ نے مباہلے کا طریق اختیار کیا اور یہ مباہلے کا دور بھی ایک لمبے عرصے تک جاری رہا اور اس کے نتائج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس رنگ میں بھی ظاہر ہوئے آج تک جماعت اُن سے استفادہ کرتی چلی جارہی ہے اور آئندہ ہمیشہ مباہلے کے اُس عظیم الشان دور سے جماعت استفادہ کرتی رہے گی.اس دور کے اختتام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی وہی تیسری راہ اختیار کی جو قرآن کریم نے دکھائی تھی اور آپ کا آخری پیغام اپنے معاندین اور مخالفین کے نام ”پیغام صلح کا پیغام تھا یعنی وہ پیغام جو آپ کے آخری رسالہ ”پیغام صلح میں طبع ہوا لیکن اُس سے پہلے آپ نے مختلف رنگ میں بار ہا دشمنوں کو تعاون کی طرف بلایا اور یہ پیشکش کی خصوصیت سے مسلمانوں کو کہ جن باتوں میں تم بھی ایمان رکھتے ہو اور میں بھی ایمان رکھتا ہوں.جن باتوں میں تم بھی اسلام کے لئے خیر خواہی کے خواہاں ہو اور ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں اور میں بھی خیر خواہی کا خواہاں ہوں اور تمہیں اس بارہ میں مجھ سے کوئی اختلاف نہیں، اُن باتوں میں مل کر اسلام کی خدمت کیوں نہ کریں اور اگر مل کر خدمت نہیں کر سکتے تو کم سے کم تم مجھ سے لڑنا جھوڑ دو.مجھے کچھ عرصہ مہلت دو کہ میں تنہا اسلام کے دو..جری پہلوان کی طرح اسلام کے ہر دشمن کے مقابلہ کے لئے ہر لڑائی کے میدان میں نکل کھڑا ہوں.تم

Page 809

خطبات طاہر جلد ۸ 804 خطبہ جمعہ ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو نہ کرو لیکن دشمنی اور فساد سے اپنے ہاتھ روک لو اور پیٹھ پیچھے سے خنجر گھونپنے کا کام بند کرو.یہ آپ کا پیغام تھا جو مختلف شکلوں میں مختلف وقتوں میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا رہا اور آخر اس رسالے پر منتج ہوا جس کا نام ”پیغام صلح ہے اور اس میں آپ نے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں ، دنیا کی تمام قوموں کو قدر مشترک پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی اور فرمایا کہ امن اور اور صلح اور آشتی کے ساتھ ہم بھلائی کی خدمت کریں اور فساد کو دنیا سے مٹا دیں.اُن نیک کاموں پر اکٹھے ہو جائیں جن نیک کاموں کو ہم سب نیک کام ہی سمجھتے ہیں.پس دیکھئے اسلام کتنا عظیم الشان مذہب ہے اور قرآن کریم کی ایک ایک سورۃ کتنی حیرت انگیز گہرائیاں اپنے اندر رکھتی ہے.سورہ آل عمران کا آپ نے بار ہا مطالعہ کیا ہو گا لیکن شاید ہی کبھی یہ خیال گزرا ہو کہ ایک مومن کے مجادلے کی ساری زندگی کو تین ادوار میں سمیٹ کر یہ پیش کر رہی ہے اور ہر دور کا دوسرے دور کے ساتھ ایک طبیعی تعلق ہے اور اس ترتیب کو بدلا نہیں جاسکتا.اگر انسان کے دماغ کی بات ہوتی تو اس نے مباہلے کو سب سے آخر پر رکھنا تھا اور وہاں بات تو ڑ دینی تھی مگر یہ خدا کا حکیمانہ کلام تھا جہاں انسانی استدلال کو راہ نہیں ہے اور انسانی استدلال وہاں تک پہنچ نہیں سکتا.چنانچہ کیسی عظیم الشان ترتیب قائم کی ہے که بنی نوع انسان کے درمیان کبھی بھی روابط منقطع نہیں ہوں گے.مباہلے تک بات پہنچنے کے بعد بھی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنا ایک مومن کا فرض ہے اور اسی خاطر مومن کو کھڑا کیا گیا ہے.پس جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے اگر کسی دل میں یہ وہم پیدا ہورہا ہو کہ اب مباہلہ ہو چکا.اب ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا، اب ہمارے تعلقات ٹوٹ گئے.اب جدائیوں کی فصیلیں حائل ہو گئیں تو یہ خیال جھوٹا ہے.یہ تین مجادلوں کا دور بار بار ظاہر ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی یہ دور اسی شکل سے اسی ترتیب سے ظاہر ہوتا رہا ہے اور گزشتہ اسلام کی تاریخ میں بھی ہم اسی قسم کے نظارے سنتے ہیں کہ رابطے کبھی بھی نہیں ٹوٹے اور جب بھی رابطے دوبارہ قائم ہوئے ، اسی تدریج سے اور اسی ترتیب سے قائم ہوئے.پہلے برہان کو استعمال کیا گیا اور استدلال کو استعمال کیا گیا پھر خدا کی عدالت میں مقدمے پیش ہوئے اور بالآخر اس قدر مشترک کی طرف قوموں کو بلایا گیا جو سب کے ایمان کا مشترک جزء ہے.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے مجادلے کا دور ختم نہیں ہوا اور میں تمام عالمگیر جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اپنے

Page 810

خطبات طاہر جلد ۸ 805 خطبه جمعه ۱۵ر دسمبر ۱۹۸۹ء روٹھے ہوئے ، اپنے ناسمجھ، غلط فہمیوں میں مبتلا بھائیوں کو یہ نہ کہا کریں کہ اب ہم نے تمہارا معاملہ عدالت عالیہ میں پہنچا دیا ہے.اب اپنی ہلاکت کا انتظار کرو ہمیں ہرگز ہلاکت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا.ہمیں مارنے کے لئے نہیں، ہمیں زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہ وہ جماعت احمدیہ کی بنیادی شخصیت ہے، مرکزی شخصیت ہے جس پر کسی قیمت پر آنچ نہیں آنے دینی چاہئے.اس لئے اپنے تعلقات کو منقطع نہ کریں.اپنے تعلقات کو بڑھائیں، ان میں زیادہ محبت پیدا کریں، زیادہ خلوص پیدا کریں اور نیکی کی ایسی باتوں کی طرف لوگوں کو بلائیں جن میں ان کے اور ہمارے درمیان عقائد کا کوئی اختلاف نہیں ہے.اس پہلو سے اگر آپ اسلام کی تعلیم کا جائزہ لیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ بہتر فرقے جو آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور مختلف قسم کے عقائد پر ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں، بنیادی نیکی کے تصور میں ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح متحد اور متفق ہیں، بنیادی نیکی کا تصور ہر جگہ ایک ہی ہے.اخلاق حسنہ کے تصور میں الا ماشاء اللہ سوائے اس کے بعض مزاج بگڑ چکے ہوں، بعض فطرتیں مسخ ہو چکی ہوں، کوئی فرق نہیں ہے.پاکستان میں بھی جہاں مسلمان علماء نیکی کے تصور کو بھی مروڑ تروڑ کر اور مسخ کر کے اہل پاکستان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور یہ بتانے کی اور یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے نام پر کسی کی جان لینا ظلم کرنا، عورتوں پر ہاتھ اُٹھانا، ان کی عزتیں لوٹنا، لوگوں کے گھر جلانا، ان کے مال لوٹنا اور ہر طرح سے خدا کے نام پر نفرتیں پھیلانا جائز ہے بلکہ باعث ثواب ہے.اُن لوگوں کی بات میں نہیں کر رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے عوام الناس کا مزاج اُن کے اس دعوے کو قبول نہیں کرتا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہر شریف النفس اور مُنصف مزاج انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا.میں نے ایک دفعہ پہلے بھی جماعت کو اس بات پر متوجہ کیا تھا کہ پاکستان کے چند علماء کی شدید دشمنی اور شدید عناد کے نتیجے میں آپ جود کھ محسوس کرتے ہیں وہ اپنی جگہ بجا ہے لیکن اس دکھ کے رد عمل میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمان عوام کے خلاف اپنے دل میں نفرت نہ پیدا ہونے دیں.امر واقعہ یہ ہے کہ اُن کا مزاج سادگی کے ساتھ اسلام پر ہے اور ان میں سے بھی ایک بہت ہی تھورا طبقہ ہے جو ان علماء کی بات پر کان دھرتا اور ان کے کہنے پر قتل و غارت کے لئے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے ورنہ قوم کی بڑی بھاری اکثریت ، بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جو ان کی باتیں سنتی ہے اور ان پر کان نہیں دھرتی.ایسی

Page 811

خطبات طاہر جلد ۸ 806 خطبه جمعه ۱۵ر دسمبر ۱۹۸۹ء بھاری اکثریت جن کے دل میں ان کے جھوٹ سُن سُن کر آپ سے شدید نفرت بھی پیدا ہو چکی ہے اور اس بات کو آپ خوب اچھی طرح سمجھ لیں.میں یہ نہیں کہ رہا کہ اُن کے جھوٹوں کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا اور وہ آپ سے نفرت نہیں کرتے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں ایک بھاری اکثریت ایسی ہے جس نے مسلسل الزام تراشیاں دیکھ کر اور بہتان سُن سُن کر جماعت کی ایک ایسی خوفناک تصویر دل میں بٹھالی ہے کہ وہ اس تصویر سے نفرت کرتے ہیں اس کے باوجود ان کی فطرت کی سچائی جو صدیوں سے اسلام نے اُن کے اندر داخل کر کے اُن پر اسلام کی سچائی کی چھاپ لگا دی ہے وہ سچائی ان کو بتاتی ہے کہ یہ سب اپنی جگہ لیکن خدا کے نام پر خون کا خرابہ، خدا کے نام پر قتل و غارت ، خدا کے نام پر فساد یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.پس وہ اپنے علماء کی اس آخری دعوت کو رد کر دیتے ہیں.باوجود اس کے کہ اُن کے الزامات کو قبول کرتے ہیں.یہ وہ ایسی چیز ہے جو ایک گہرے تجزیے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے.پس یہ ممکن ہے اور عملاً ایسا ہو رہا ہے کہ پاکستان کی بھاری اکثریت آپ سے نفرت کرنے کے باوجود ظلم پر آمادہ نہیں ہے اور وہ بہت تھوڑے لوگ ہیں جو ظلم میں ملوث ہوئے اور جنہوں نے علماء کی باتوں میں لگ کر جماعت احمدیہ کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا.ان کا کیا قصور ہے ان کی نفرت بھی ان کے بھولے پن کی دلیل ہے.ان کی سادگی کی دلیل ہے.ان کی نفرت میں بھی دراصل بنیادی طور پر ایک محبت کارفرما ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے مسلمان کو اتنی محبت ہے کہ خواہ اسے دین کا کچھ بھی علم نہ ہو وہ وہ کبھی نماز کے قریب تک نہ بھٹکا ہواس نے کبھی محرمات سے پر ہیز نہ کیا ہو.خواہ اس نے کبھی کوئی نیکی نہ کی ہومگر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اس کے ایمان کا جز ہے.اس کے رگ و پے میں پیوستہ ہے.وہ یہ مجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ میں خواہ کچھ بھی نہ کروں یا ہر قسم کے گناہ کروں یہ محبت میری بخشش کا موجب بن جائے گی.پس دشمن جب آپ پر حملہ کرتا ہے تو اس محبت کی راہ سے حملہ کرتا ہے اور یہی محبت ہے جب وہ ان کے نزدیک امر واقعہ کے خلاف زخمی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں وہ آپ سے نفرت کرتے ہیں.ان کی سادگی ہے.ان کی جہالت ہے.ماحول کی بدبختی ہے.حکومت کی بدنصیبی ہے کہ جھوٹ کو پرورش کرنے کی کھلی اجازت دیتی ہے اور جھوٹ کی تشہیر کی سر پرستی کرتی ہے لیکن ان عوام الناس کا کوئی قصور نہیں پس ان کو تعاون کے لئے ضرور بلائیں.ہر نیک کام میں ان سے تعاون کے لئے اپنے

Page 812

خطبات طاہر جلد ۸ 807 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء آپ کو پیش کریں خواہ اس تعاون کی راہ میں آپ کو قربانی بھی دینی پڑے.یہ امر واقعہ ہے کہ جہاں نفرتیں پنپ رہی ہوں وہاں تعاون کی وجہ سے بھی بعض دفعہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں.ابھی حال ہی میں بہاولپور سے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں احمدی طالب علموں کی اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم جو علاقے میں محض بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے کیمپ لگایا کرتی تھی اور غریب اور نادار مریضوں کے لئے دوائیاں بھی خود لے کر جاتی تھی تا کہ ان کی تشخیص بھی کرے اور مفت علاج بھی مہیا کرے.ان میں سے ایک ٹیم کے متعدد افراد اس الزام میں قید کر لئے گئے ہیں کہ تم نے خدمت خلق کا یہ کیمپ کیوں لگایا ہے؟ اس سے مسلمانوں کے دل مجروح ہوئے ہیں اور ان کی بڑی سخت بے عزتی ہوئی ہے یعنی حد سے زیادہ ان کی دل آزاری کی گئی ہے کہ احمدی اٹھ کے بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے نکلے ہیں.جو بھی بہانہ بنایا گیا، جو بھی عذر تراش کیا گیا.بنیادی نقطہ یہی ہے کہ علماء اس بات پر آگ بگولہ ہو گئے که احمدی بنی نوع انسان کی خدمت کیلئے نکلتے ہیں پس نیکی پر تعاون سے بھی بعض اوقات سز املا کرتی ہے لیکن یہ سزا ہمارے مقدر میں ہے.یہ سزائیں ہمارے راستے روک نہیں سکتیں اس لئے اور جو چاہیں حکمت کی راہ اختیار کریں نیکی میں تعاون کی راہ میں اگر بعض حائل ہو اگر تعصبات حائل ہوں، اگر نفرتیں حائل ہوں، اگر دکھ بھی اٹھانے پڑیں تو نیکی میں تعاون سے باز نہیں آنا بلکہ اس تعاون کے دائروں کو بڑھاتے چلے جانا ہے.یہ کام احمدی کو صرف پاکستان میں ہی نہیں، ساری دنیا میں کرنا ہے اور ہم سب دنیا میں مختلف رنگ میں کر رہے ہیں لیکن اب جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ہم تیسرے دور میں داخل ہوئے ہیں تو اپنے بھائیوں کو اب یہ پیغام نہ دیں کہ آؤ اور ہم سے بخشیں کرو.اگر چہ کچھ عرصہ کے بعد یہ دور پھر شروع ہو جائے گا.یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جب مباہلے کے بعد تعاون کے لئے بلایا تو پھر ہمیشہ کے لئے مناظرے کی راہیں بند ہو گئی تھیں.میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ان ادوار میں مجادلے بار بار حرکت میں آتے ہیں.انہیں ادوار میں اور اسی ترتیب سے بار بار روحانی اور مذہبی مقابلے ہوا کرتے ہیں.پس یہ ترتیب پھر بھی جاری ہو گی مگر اس وقت ہم جس دور میں ہیں، یہ تیسرا دور ہے پس قرآن کریم کے حکمت کے پیغام کو سمجھیں اور اس میں گہری حکمت پوشیدہ ہے.اس پیغام میں ہمارے لئے بہت ہی فوائد مضمر ہیں.ہر موسم کے مطابق کام کئے جاتے ہیں.موسم کے مطابق فصلیں ہوئی جاتی ہیں موسم کے مطابق باغ لگائے جاتے

Page 813

خطبات طاہر جلد ۸ 808 خطبه جمعه ۱۵ارد سمبر ۱۹۸۹ء ہیں اور موسموں کے مطابق ہی فصلوں کو پھل لگتے ہیں اور باغوں کو پھل لگتے ہیں.اب مباہلے کے بعد یہ موسم آ گیا ہے کہ آپ نیکیوں میں تعاون کی پیشکش کریں اور دوبارہ اپنے رُوٹھے ہوئے بھائیوں میں تعاون کی راہ سے داخل ہوں.ان کی خدمتیں کریں اور اچھے کاموں میں ان کو خدمت کے لئے بلائیں کیونکہ تعاون سے مراد یہ نہیں کہ یک طرفہ خدمت کریں.یہ وہ پہلو ہے جسے جماعت کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر وہ کیمپ لگانے والے احمدی لفظ تعاون پر پورا غور کرتے اور ان کو یہ پیشکش کرتے کہ ہم خدمت کر رہے ہیں آؤ دوسرے ڈاکٹر ز جو احمدی نہیں ہو، دوسرے نیک دل طالب علمو جو کچھ طبابت کا فن جانتے ہو، تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.بنی نوع انسان کی بھلائی کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم مل کر ان کی خدمت کریں اور کوئی اختلافی عقائد زیر بحث نہ لائیں تو قرآن کریم کی تعلیم کے عین مطابق ہوتا اور اس صورت میں آپ کی حفاظت کے بھی بہتر سامان ہوتے.پس اب تعاون کی راہ کو اختیار کریں کیونکہ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ میں در اصل تعاون کی تعلیم دی گئی ہے.چنانچہ سورۂ آل عمران کے بعد سورہ مائدہ میں اسی مضمون کو تعاون کے رنگ میں کھول کر بیان فرما دیا گیا جیسا کہ سورہ مائدہ آیت ۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور وہ مضمون جس کی انتہا تعالوا إلى كَلِمَةٍ پرٹوٹی تھی ، اُسے قرآن کریم نے سورہ مائدہ کے آغاز ہی میں پھر اُٹھا لیا اور ان لفظوں میں مخاطب ہوا.وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدۃ:۳) دیکھئے! یہ مضمون کتنی وضاحت کے ساتھ اور کتنی عمدگی کے ساتھ جماعت احمدیہ کے حالات پر صادق آتا ہے.آپ نے بار بار امت محمدیہ کے لئے قربانیاں دیں.تمام دنیا میں اسلام کے جہاد کا آغاز اس دور میں جماعت احمدیہ نے کیا.مُلک مُلک اور براعظم سے براعظم اس جہاد کو پہنچایا.جب اس خدمت کے لئے آپ میدان میں نکلے تھے تو اور کوئی آپ کا شریک، کوئی سانبھی، کوئی رقیب نہیں

Page 814

خطبات طاہر جلد ۸ 809 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء تھا.کوئی تیل کی دولت سے امیر ہونے والی اسلامی مملکت نہیں تھی جس کو یہ خیال آیا ہو کہ ہم بھی دین اسلام کی خدمت کے لئے نکلیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد یہ سارا میدان احمدیوں کے سوا خالی پڑا تھا.احمدی ہی تھے جو اس میدان میں ہر طرف آگے بڑھ رہے تھے.غریب تھے ، کمزور تھے، بے طاقت تھے لیکن اس کے باوجود وہی تھے جو اسلام کے مجاہد بن کر ان میدانوں میں ہر طرف پھیل گئے ہیں.افریقہ بھی پہنچے، یورپ بھی پہنچے، امریکہ بھی پہنچے، چین بھی پہنچے، جاپان بھی پہنچے جہاں جہاں احمدیت کے جیالوں کو خدا نے توفیق بخشی وہ اسلام کا پیغام لے کر نکل کھڑے ہوئے کوئی اور میدان میں نہیں تھا.پھر ادوار بدلے، پھر دولتیں عطا ہوئیں.بعض ایسے ملکوں کو جو دوسرے ممالک کے محتاج تھے خدا نے ان کو اپنے خاص فضل کے ساتھ مالی لحاظ سے اتنا نوازا، اتنا نوازا کہ اُن کے خزانے بھر گئے.اُن کے خزانے بھر بھر کر بہنے لگے.اُن کی دولتوں سے غیروں کے خزانے بھر گئے اور ساری دنیا میں اُن کو دلت کی ایک ایسی طاقت نصیب ہوئی کہ جس کے ذریعہ اگر وہ چاہتے تو بہت اچھے اچھے کام کر سکتے تھے لیکن بہر حال یہ ایک الگ کہانی ہے.بتانا میں آپ کو یہ چاہتا ہوں کہ اب اس کے بعد یعنی یہ دور جو آپ کے تنہاء خدت کا دور تھا یہ دور ختم ہوا اور بہت سے اسلام کے خدمت کرنے والے اس میدان میں آئے اور جب آپ کے ساتھ رقابت شروع ہوئی، جب آپ کے ساتھ مقابلے شروع ہوئے تو دو طرح سے انہوں نے آپ کا مقابلہ کیا.یعنی بجائے اس کے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوی سے کام لیتے اُنہوں نے نیکیوں میں آپ کو پیچھے دھکیلنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی.یہ دور بھی سمجھنے کے لائق ہے اور توجہ کے لائق ہے تا کہ آپ اس کی روشنی میں اپنے لئے بہتر لائحہ عمل تجویز کر سکیں.یہ وہ دور ہے جس میں یہ اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ اب ہمیں خدا نے توفیق دی ہے ہم بھی اسلام کی خدمت کریں گے، ہم بھی اُن سب میدانوں میں احمدیوں کا مقابلہ کریں گے اور زیادہ بلد آواز سے، زیادہ دلکش آواز سے لوگوں کو اسلام کی طرف بلائیں گے جس اسلام کو ہم اسلام سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے آپ کی راہیں روکنے کی کوشش کی.ہر نیکی کی راہ میں کھڑے ہو گئے اور کہا کہ صرف ہم نیکی کریں گے تمہیں نیکی نہیں کرنے دینی.آپ کی نمازوں کی راہوں میں حائل ہو گئے ، آپ کی اذانوں کی راہوں میں حائل ہو گئے ، آپ کے کلمے کی راہ میں حائل ہو گئے ، آپ کی حج کی راہ بند کر دی.

Page 815

خطبات طاہر جلد ۸ 810 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء حج چونکہ عبادتوں کا معراج ہے اس لئے قرآن کریم نے حج کے مضمون میں یہ سارے مضامین بیان فرما دیئے ہیں.فرماتا ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.اے خدا کے بچے اور مخلص بندو! یاد رکھ کسی قوم کی یہ دشمنی کہ اس نے تمہیں نیکی کے معراج سے روک دیا ہے وہ تمہارے اور حج کے درمیان کھڑی ہو گئی ہے اور تمہاری حج کی راہیں بند کر دی ہیں.یہ بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اُن سے تم کسی قسم کی زیادتی کرو.یوں معلوم ہوتا ہے جس طرح احمدیوں کو سامنے رکھ کر یہ آیت نازل ہوئی ہے اور احمدیوں کو مخاطب ہو کر ایک نصیحت کر رہی ہے.فرمایا.ان کی سب دشمنیوں کے باوجود، باوجود اس کے کہ انہوں نے تمہاری نیکی کی ہر راہ روکنے کی کوشش کی ہے.تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَی.تمہاری شان یہ ہے، یہ میرا تمہیں پیغام ہے اور یہی میری تم سے توقعات ہیں کہ تم نیکی کی ہر بات میں ان لوگوں سے تعاون کرو گے جو نیکی کی ہر بات میں تمہارے سے دشمنی کر رہے ہیں اور عدم تعاون نہیں بلکہ نیکی کی راہیں روکنے کے لئے چھاتیاں تان کے تمہارے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں.تم نے ایسا نہیں کرنا.وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.گناہوں میں اور زیادتیوں میں ان سے تعاون نہیں کرنا.اب یہ دونوں پیغام دراصل جماعت احمدیہ کے اس دور پر کمال صداقت کے ساتھ اور کمال شان کے ساتھ اور کمال وضاحت کے ساتھ اطلاق پارہے ہیں.پیغام یہ ہے کہ جب تم سے یہ بدی کی توقع رکھتے ہوں ، جب اس بات میں تعاون مانگیں کہ تم مسجدوں پر لکھے ہوئے کلمات مٹا دو.لَا إِلَهَ إِلَّا الله محمدٌ رَّسُولُ اللهِ مٹادو.بِسمِ الله کے لکھے ہوئے فلیگ اتار پھینکو یا سینے سے وہ بیج نوچ لوجن پر خدا کا نام لکھا ہوا ہے یا مسجدیں آباد کرنی بند کر دو یا نمازیں پڑھنی ختم کر دو.ہر قسم کی نیکیاں جن کے متعلق یہ تم سے تعاون مانگ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے تعاون کرو اور امن کی خاطر اور فساد کو دور کرنے کی خاطر تم ان سب نیکیوں سے باز آ جاؤ تو پھر ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس ملک میں امن قائم کر دیں گے.فرمایا.یہ وہ باتیں ہیں جن میں ان سے ہرگز تعاون نہیں کرنا.کسی قیمت پر اس سے تعاون نہیں کرنا ہاں نیکیوں میں تعاون کے لئے اب بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے پیش کرو اور ہر وہ اچھی بات جو یہ کرتے ہیں اس میں آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ بٹانے کی کوشش کرو.پس دنیا میں جہاں جہاں بھی اسلام کے غیر قوموں سے مقابلے ہورہے ہیں یا بنی نوع انسان کی

Page 816

خطبات طاہر جلد ۸ 811 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء ہمدردی میں کسی قسم کے اجتماعی کام کی ، اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے وہاں جماعت احمدیہ کو اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں سے خصوصیت کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے.مغربی دنیا میں عیسائی ہوں یا یہودی ہوں، جہاں وہ نیکی کا کام کرتے ہیں جماعت احمدیہ کو آگے بڑھ کر اُن سے تعاون کرنا چاہئے.جہاں بھی مسلمان تنظیمیں کسی قسم کی نیکی کا کام کر رہی ہیں.اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے اور ان سے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنا چاہئے.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ قرآن کریم کے اس واضح پیغام کو سمجھنے کے بعد جماعت اب تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوی کے دور میں داخل ہوگی اور بلند آواز سے ان کو دعوتیں دے گی کہ یاهْلَ الكِتبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا بَيْنَكُم کہ اے اہل کتاب! ہم تمہیں اس قدر مشترک کی طرف بلاتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہے اور وہ ساری نیکی کی باتیں جن کو تم بھی تسلیم کرتے ہو اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں، ہم تمہیں اُن نیکی کی باتوں میں تعاون کی دعوت دیتے ہیں اور تعاون کا یقین دلاتے ہیں.آپ یہ سب کچھ کریں گے.مجھے یقین ہے کہ کریں گے اور خدا سے جزاء پائیں گے مگر جہاں تک احمدیت کے معاندین کا تعلق ہے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ اپنی راہ بدلنے والے نہیں.وہ جس ضد پر قائم ہو چکے ہیں اُن کو صرف ایک چیز ہے جو اطمینان بخش سکتی ہے وہ ہے احمدیت کا کلیۂ صفحہ ہستی سے مٹ جانا اور جہاں تک ان کی اس مراد کا تعلق ہے ہم مجبور اور بے بس ہیں.اس پہلو سے ہم اُن کے سینے ٹھنڈے نہیں کر سکتے بلکہ اس پہلو سے ہمارے مقدر میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ ہم دن بدن بڑھتے چلے جائیں گے اور ترقی کرتے چلے جائیں گے اور ان کے سینوں کی یہ آگ اور زیادہ ، اور زیادہ بھڑکتی چلی جائے گی.اس لئے نہیں کہ ہم اُن کو جلانا چاہتے ہیں اس لئے نہیں کہ ہم دنیا کو تکلیف دینے کے لئے بنائے گئے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ ایک بے اختیاری ہے خدا کی راہ میں آگے بڑھنا یہ ایک ایسا امر مجبوری ہے جس سے ہم باز نہیں آ سکتے.اس کے بغیر ہماری زندگی بے حاصل اور بے معنی بن جاتی ہے.پس ترقی کی راہوں میں آپ آگے بڑھتے چلے جائیں، تعاون کی روح کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جائیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ مخالفتیں پھر بھی کم نہیں ہوں گی.یہ نہ سمجھنا کہ اس کے بعد مخالفتیں ٹھنڈی پڑ جائیں گی اور دشمن کو چین نصیب ہوگا.دشمن کو صرف ایک چیز ہے جو چین دے سکتی ہے اور وہ آپ کی موت ہے.آپ کی موت ہے جو دشمن کے دل کا سکون بن سکتی ہے لیکن آپ

Page 817

خطبات طاہر جلد ۸ 812 خطبه جمعه ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء زندہ رہنے کے لئے اور لوگوں کو زندہ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں.اس لئے دشمن کا سکون آپ کے بس میں نہیں ہے، آپ کے اختیار میں نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس مجادلے کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے.جس مجادلے میں آپ ہمیشہ ہر پہلو سے لحظہ لحظہ مصروف رہے اور یہ الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، یہ اپنی ذات میں جامع مانع اور بات کو درجہ کمال تک پہنچانے والے ہیں.پس ہوگا وہی جو اس تحریر میں لکھا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو اس تحریر کو مٹادے مگر اس کے باوجود ہمیں جہاں تک ہمارا بس چل سکتا ہے، ممکن ہو سکتا ہے، ہر پہلو سے نیکی میں اپنے معاندین اور مخالفین سے بھی تعاون کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.میں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جو میں اس دنیا میں گزر جاؤں میں اپنے اس حقیقی آقا کے سواء دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا اور وہ ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا.فالحمد لله اولا و اخرًا ظَاهرا وباطناً هو ولي في الدنيا و الآخرة و هو نعم المولى ونعم النصیر اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور وہ مجھے ہرگز ہرگز ضائع نہیں کرے گا.اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا.میں نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں.میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں.اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کانپتے ہیں.خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے.اُس کے سوا کوئی خدا نہیں اور ضروری ہے کہ وہ

Page 818

خطبات طاہر جلد ۸ 813 خطبہ جمعہ ۱۵/دسمبر ۱۹۸۹ء اس سلسلہ کو چلا دے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلاوے.ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگا دے اور پھر 66 دیکھے کہ انجام کا روہ غالب ہوایا خدا...کتنی عظیم تحریر ہے اور سوائے اس کے کہ ایک عارف باللہ جو کامل خدا کی تائید پر یقین رکھتا ہو، وہ یہ تحریر نہیں لکھ سکتا.یہ بھی ایک معجزہ ہوتا ہے.وہ سچائی کا معجزہ جو تحریر میں سچائی کو اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دیتا ہے کہ ہر لفظ سچائی کی طاقت سے ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتا ہے اور یہاں دیکھیں یہ نہیں فرمایا کہ پھر دیکھے کہ انجام کا روہ غالب ہوا یا میں بلکہ فرمایا ”پھر دیکھے کہ انجام کا روہ غالب ہوایا خدا کیونکہ آپ جانتے ہیں اور کامل یقین رکھتے ہیں کہ خدا آپ کے ساتھ ہے اور آپ کو تباہ کرنا در اصل خدا کو تباہ کرنے کے ارادے کے مترادف بن جاتا ہے.پھر فرماتے ہیں: وو پہلے اس سے ابو جہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے مگر اب وہ کہاں ہیں وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتا ہے؟ پس یقینا سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہوسکتاوہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے.بدقسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفی ۲۹۵،۲۹۴)

Page 819

Page 820

خطبات طاہر جلد ۸ 815 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء دنیا میں مسلمانوں کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سب سے زیادہ دُکھ احمدی کو ہوتا ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو ظلم و تعدی کی تحریک بڑے زور وشور سے جاری ہے اس سے متعلق مختلف وقتوں میں میں جماعت کے سامنے حالات رکھتا رہتا ہوں.آج کے خطبے میں میں نے یہ موضوع چنا ہے کہ اس تحریک کا وہ پس منظر کیا ہے جو خالصہ دینی حیثیت رکھتا ہے اور جس کا تعلق احمد یوں کو مسلمانوں کے اسلام کے دائرے سے خارج کر کے غیر مسلم بناتا ہے.غالبًا اس سے پہلے میں نے بعض خطبوں میں ان امور کی طرف اشارہ کیا ہے یا بعض ابتدائی خطبوں میں تفصیلی بحث بھی کی ہوگی لیکن چونکہ ہماری نئی نسلیں اور نئے آنے والے احمدی زیادہ تر اس پس منظر سے بے خبر ہیں اس لئے کبھی کبھی ان باتوں کو ہرانا اور یاد کرانا مفید ہوسکتا ہے..جماعت احمدیہ کے خلاف ایک دور تو وہ تھا کہ جب محض فتووں پر بناء کی جاتی تھی اور کثرت کے ساتھ تمام ہندوستان کے علماء ہی نہیں بلکہ ارض حجاز کے علماء سے اور دیگر ملکوں کے علماء سے بھی فتوے لئے گئے اور شائع کئے گئے جن کے ذریعے عوام الناس کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ احمدی قطعی طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں.۱۹۵۳ء کی تحریک میں بھی زیادہ تر بناء انہیں فتاوی پر تھی لیکن جب ۱۹۵۴ء میں منیر انکوائری کمیشن ۱۹۵۳ء کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے مقرر کیا گیا تو پہلی بار

Page 821

خطبات طاہر جلد ۸ 816 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء اس کمیشن نے جو عدلیہ کے بہت ہی ممتاز اور غیر معمولی قابلیت رکھنے والے دو منصفین پر مشتمل تھا یعنی اور دوم جسٹس محمد منیر اور جسٹس کیانی تو انہوں نے پہلی بار اس سوال کو ایک اور نقطہ نگاہ سے کھنگالا اور علماء کے سامنے معین طور پر یہ مسئلہ رکھا کہ جب تم کسی کو غیر مسلم قرار دیتے ہو تو تمہارے لئے لازم ہے کہ اس سے پہلے مسلمان کی تعریف کرو اور جب تک تم کسی چیز کی تعریف نہیں کرتے اور یہ ثابت نہیں کرتے کہ وہ تعریف اس شخص پر صادق نہیں آ رہی جس کو تم اس تعریف سے باہر قرار دے رہے ہو ، اس وقت تک تمہارا قانونی حق نہیں بنتا کہ کسی کے متعلق اپنی رائے کو ہی قانون بنالو.چنانچہ معین طور پر۱۹۵۳ء کے فسادات کے متعلق عدالتی تحقیقات کے دوران جو ۱۹۵۴ء میں دراصل کی گئی اس زمانے کے چوٹی کے نو علماء سے جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے اسلام کی تعریف سے متعلق معین سوالات کئے.یہ بہت ہی دلچسپ باب اور Report of the court of inquiry consituted under Punjab act 11 of 1954 to enquire into the Punjab Disturbances of 1953.یہ ہے ٹائیٹل اس کتاب کا جو ۱۹۵۴ء میں گورنمنٹ پرنٹنگ پنجاب پریس سے شائع ہوئی.اس کے صفحات ۲۱۵ سے ۲۱۸ پر یہ دلچسپ بحث موجود ہے.اس کا خلاصہ میں نے تیار کیا ہے تا کہ آپ کے علم میں مسلمان کی تعریف کا وہ پس منظر لے کر آؤں جو اس زمانے تک بعض علماء کے نزدیک سمجھی جا رہی تھی.سب سے پہلے وہ ذکر کرتے ہیں کہ مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری سے جب یہ سوال کیا گیا کہ مسلمان کی کیا تعریف ہے؟ تو انہوں نے ۶ نکاتی جواب دیا.خلاصہ اس کا یہ ہے.انہوں نے کہا توحید پر ایمان لاتا ہو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتا ہو، قرآن کریم پر ایمان کہ یہ خدا کا کلام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ، رسول اللہ کے احکامات کو واجب التسلیم یقین کرتا ہو اور قیامت پر ایمان لاتا ہو.اس تعریف کی کوئی بنیاد انہوں نے بیان نہیں کی.قرآن اور سنت کی رو سے کس بات پر انہوں نے بناء رکھی ہے جس کی رُو سے یہ تعریف بنائی اور اس تعریف میں اور اُس تعریف میں جو بالعموم مسلمانوں میں رائج چلی آتی تھی یعنی تفصیلی تعریف.اس میں بعض بنیادی فرق ہیں مثلاً

Page 822

خطبات طاہر جلد ۸ 817 خطبه جمعه ۲۲ / دسمبر ۱۹۸۹ء قرآن کریم پر ایمان کا ذکر ہے مگر دیگر کتب سماوی پر ایمان کا کوئی ذکر نہیں ، ملائکہ پر ایمان کا کوئی ذکر نہیں ، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان کا تو ذکر ہے مگر کل انبیاء کی رسالت پر ایمان کا کوئی ذکر نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک کے علماء کے نزدیک اسلام کی کوئی واضح تعریف تھی ہی نہیں اور جس شخص کے منہ میں جو بات آئی اس نے اس موقعہ پر کر دی.دوسرے نمبر پر وہ مولانا احمد علی صاحب جمیعت علمائے اسلام کے نمائندے کا جواب درج کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی قرآن پر ایمان لاتا ہے، رسول اللہ کی حدیث پر ایمان لاتا ہے تو اسے مسلمان کہلانے کا حق ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ کسی اور چیز پر ایمان لاتا ہے یا نہیں لاتا.اس لئے باقی ارکانِ اسلام جو تھے ان کا صفایا انہوں نے کر دیا اور منجملہ یہ کہنا کافی سمجھا اگر صفایا نہیں کیا کہ چونکہ قرآن کریم پر ایمان لے آیا، ساری باتیں اس میں شامل ہو گئیں اس لحاظ سے ایک جامع تعریف تو بنتی ہے لیکن قرآن کی تمام تفاصیل پر ایمان لانے کی جب بحث اُٹھ جائے تو ایک اتنا لمبا قضیہ شروع ہو جاتا ہے کہ اس کو مسلمان کی تعریف کہنا ہی غلط ہے کیونکہ جسٹس منیر نے جو ایسے سوالات کئے ان سوالات سے پہلے انہوں نے تعریف کر کے ان کو بتایا کہ تعریف اس کو کہتے ہیں جو کم سے کم الفاظ میں کسی چیز کی تصویر کافی صورت میں بیان کر دے تو کم سے کم الفاظ تو ہیں لیکن اس کے اندر یہ بات مضمر ہے کہ قرآن کریم کی تفصیلی بحثیں اُٹھائی جائیں گی اور قرآن کریم کے کسی ادنی سے حکم پر بھی اگر کوئی عمل نہیں کرتا یا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی کسی حدیث پر عمل نہیں کرتا تو دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا.تیسرا سوال مولوی مودودی صاحب، ابوالاعلیٰ کہلانے والے مودودی صاحب سے کیا گیا اور ان کا جواب اس میں کوئی شک نہیں کہ مدلل تھا.صحیح سند رکھتا تھا اور کافی وشافی سمجھا جانا چاہئے تھا کیونکہ انہوں نے پانچ ارکانِ اسلام ہی بیان کئے.اس سے زائد کوئی بات نہیں کی.انہوں نے فرمایا جو شخص تو حید پر ایمان لاتا ہو، انبیاء پر منجملہ ایمان لاتا ہو، تمام الہی کتابوں پر ایمان لاتا ہو، ملائکہ پر ایمان لاتا ہو ، یوم الآخر پر ایمان لاتا ہو ، وہ مسلمان ہے.چونکہ اس میں ختم نبوت کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور کوئی ایسی شق وہ زائد نہیں کر سکے کیونکہ قرآن و سنت اس کی اجازت نہیں دیتے تھے جس کی رُو سے وہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے

Page 823

خطبات طاہر جلد ۸ 818 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء سکتے.تو اس لئے تعجب سے عدالت نے ان سے یہ معین سوال کیا کہ کیا ان باتوں پر ایمان لانا مسلمان کہلانے کے لئے کافی ہے اور کسی اور چیز کی ضرورت نہیں اور وہ اسلامی سلطنت میں مسلمان کہلائے گا ؟ تو جواب تھا: ہاں.پھر سوال ہوا کہ اگر کوئی ان پانچوں باتوں پر ایمان لا تا ہو تو کیا کسی کو حق ہے کہ اس کے ایمان کے وجود پر اعتراض کر سکے؟ تو جواب تھا کہ جو پانچ ضروریات میں نے بیان کی ہیں یہ بنیادی ہیں.اگر کوئی ان میں تبدیلی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے باہر نکل جائے گا.گویا اس سے پہلے علماء کے جواب میں جہاں جہاں ان پانچ باتوں سے انحراف کیا گیا ہے اور تعریف میں تبدیلی کی گئی ہے یا بعد میں آنے والے علماء نے ان پانچ باتوں کے علاوہ کچھ بیان کیں یا ان میں کوئی تبدیلی کی تو وہ بھی مولانا صاحب کی اس تعریف سے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے لیکن جیسا کہ آخر پر ظاہر ہو گا، احمدی خارج نہیں ہوئے اور باقی سب علماء چونکہ اس تعریف سے انحراف کرتے رہے ہیں وہ خارج ہو جاتے ہیں.یہ کہنا شاید درست نہ ہو کہ احمدی خارج نہیں ہوتے ، باقی ہو جاتے ہیں کیونکہ جماعت احمدیہ نے جو بیان دیا ہے وہ کلمہ توحید اور کلمہ رسالت کا اقرار کرنا ہے اور اس کی تفصیل یہ بیان نہیں کی جو یہ پانچ نکات ہیں.اس لئے مولانا مودودی کی تعریف کی رُو سے سوائے ان کی ذات کے باقی سارے جماعت اسلامی والے بھی جو اس کے سوا کوئی تعریف کرتے ہوں دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں.غازی سراج الدین صاحب نے بس اسی پر اکتفا کی کہ جو شخص لا اله الا الله مـحـمـد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہے اور رسول اللہ کی پیروی کرتا ہے تو وہ مسلمان ہے.عدالت نے علماء کے سامنے یہ سوال بار بار اٹھایا کہ پیروی کرنے کی شرط اگر ضروری ہے تو عملاً جو شخص احکام اسلام کے بعض حصوں پر عمل پیرا نہیں ہے اس کے متعلق کیا فتویٰ ہے؟ تو باقی سب علماء نے جن سے بھی یہ سوال کیا گیا یہ فتویٰ دیا کہ وہ پھر بھی مسلمان رہتا ہے لیکن غازی سراج الدین کی تعریف سے یہ بات نکلتی ہے کہ کوئی شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا کسی معاملے میں وہ دائرہ اسلام سے باہر نکل جاتا ہے.مفتی محمد ادریس صاحب جامعہ اشرفیہ نے ایک لمبی تعریف کی اور ساتھ یہ بھی اقرار کیا کہ میرے لئے ان تمام امور کا ذکر تقریباً ناممکن ہے جو مسلمان بنانے کے لئے ضروری ہیں کیونکہ انہوں

Page 824

خطبات طاہر جلد ۸ 819 خطبه جمعه ۲۲ / دسمبر ۱۹۸۹ء نے بناء رکھی ضروریات دین پر کہ جو ضروریات دین پر ایمان لاتا ہو وہ مسلمان ہے.جب عدالت نے یہ سوال کیا کہ ضروریات دین ہیں کیا ؟ تو اس موقع پر آ کر انہوں نے اقرار کیا کہ یہ اتنی لمبی فہرست ہے کہ میرے لئے ناممکن ہے.لفظ استعمال کئے ہیں، تقریباً ناممکن ہے کہ میں ان تمام ضروریات کو بیان کرسکوں.گویا کہ جواب مہم رہا.شیعہ عالم حافظ کفائت حسین صاحب نے جو ادارہ حقوق تحفظ شیعہ سے تعلق رکھتے تھے تین باتیں بنیادی طور پر بیان کیں ” توحید، نبوت، قیامت.اس کے سوا کتب پر ایمان لانا، ملائکہ پر ایمان لانا، یہ انہوں نے ضروری نہیں سمجھا.ان کے علاوہ ضروریات دین پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور ضروریات دین کی تفصیل بیان کی.مولانا عبدالحامد بدایونی صاحب کا جواب یہ تھا کہ جو ضروریات دین پر ایمان لائے وہ مؤمن ہے اور جو مؤمن ہے وہ مسلمان بھی ہے.ان سے بھی عدالت نے معین سوال کیا کہ ضروریات دین ہیں کیا ؟ اس کا جواب یہ تھا کہ جو شخص پانچ ارکانِ اسلام پر ایمان لاتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہو وہ ضروریات دین کو پورا کر دیتا ہے تو عملاً ان کی تعریف وہی بن گئی کہ جو پانچ ارکانِ اسلام ہیں.و ہی دراصل کسی کو مسلمان بنانے کے لئے کافی ہیں.ان پر ایمان لانا مسلمان بنانے کے لئے کافی ہے.اس پر عدالت نے سوال کیا کہ کیا اس کے علاوہ اور بھی ایسے امور ہیں جو کسی کے مسلمان ہونے یا دائرہ اسلام سے باہر ہونے پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ تو جواب تھا کہ ہاں اور بھی ہیں.سوال ہوا کہ کیا آپ ایسے شخص کو مسلمان نہیں کہیں گے جو ارکانِ خمسہ اور رسالت پر تو ایمان لاتا ہولیکن چوری کرتا ہو، امانت میں خیانت کرتا ہو، ہمسایوں کی بیویوں پر گندی نظریں ڈالتا ہو اور حد سے بڑھی ہوئی احسان فراموشی کا مرتکب ہو؟ جواب تھا کہ چاہے وہ یہ ساری باتیں کرے، اگر وہ ارکانِ اسلام پر ایمان لاتا ہے تو مسلمان ہے.محمد علی کا ندھلوی صاحب نے بیان دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں جوضروریات دین پر عمل کرتا ہے وہ مسلمان ہے.یہاں صرف ایمان کی بات نہیں اُٹھائی بلکہ عمل کی بات اُٹھائی.سوال ہوا کہ ضروریات دین

Page 825

خطبات طاہر جلد ۸ 820 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء کیا ہیں؟ تو اس کا جواب تھا کہ ضروریات دین وہ تقاضے ہیں جو ہر مسلمان کو معلوم ہیں خواہ وہ عالم دین ہو یا نہ ہو.یعنی ضروریات دین اسلام کا وہ ظاہر و باہر تصور ہے جو دنیا کے ہر مسلمان کو معلوم ہے خواہ وہ عالم دین ہو یا نہ ہو.جب سوال ہوا کہ وہ ضروریات دین گنوائیے تو سہی تو جواب دیا کہ میں نہیں جانتا.میں تمام ضروریات کو بیان کرنے کا اہل نہیں ہوں.کیسا تمسخر ہو رہا ہے یہ اسلام سے اور یہ وہ چوٹی کے علماء سمجھے جاتے تھے جو اینٹی احمد یہ ایجی ٹیشن یعنی جماعت کے خلاف تحریک کے سربراہ تھے.مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا.ایک سیاسی مسلمان اور ایک حقیقی مسلمان.سیاسی مسلمان کی دس شرطیں گنوائیں اور سیاسی مسلمان بننے کے لئے جو شرطیں ان کے نزدیک ضروری ہیں وہ یہ ہیں: توحید، ختم نبوت، تقدیر خیر وشر، ایمان بالآخرة ، قرآن آخری کتاب، ( دیگر کتب پر ایمان ضروری نہیں ہے ) ، حج ، زکوۃ ، مسلمانوں کی طرح نماز کی ادائیگی، تمام ظاہری قوانین جو اسلامی معاشرہ پر لاگو ہوتے ہیں اُن سب پر عمل پیرا ہونا.(ملائکہ پر ایمان بیچ میں کھا گئے ہیں اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی ) اور روزہ.فرماتے ہیں یہ دس باتیں کرنے کے باوجود وہ صرف سیاسی مسلمان بنے گا.ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان پر ایمان لانا ہی کافی ہے.ان پر عمل کرنا سیاسی مسلمان ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے.سوال: کیا آپ کے نزدیک سیاسی اور حقیقی مسلمان میں یہی فرق ہوگا کہ جو ایمان لائے اور عمل نہ کرے وہ سیاسی اور جو ایمان لائے اور عمل بھی کرے وہ حقیقی مسلمان؟ تو جواب تھا: میرا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ عمل ضروری ہے لیکن اگر کوئی ان باتوں پر عمل نہ بھی کرے تو وہ سیاسی مسلمان کی تعریف سے باہر نہیں نکلتا پھر عدالت نے سوال کیا : اگر کوئی سیاسی مسلمان آپ کی ان دس باتوں سے اتفاق نہ کرے یعنی یہ کہے کہ آپ نے جو دس باتیں ضروری قرار دی ہیں مجھے ان سے اتفاق نہیں ہے.میں نہیں مانتا اس تعریف کو تو کیا آپ اس کو بے دین کہیں گے.جواب نہیں نہیں.میں اُس کو بے عمل کہوں گا.یہ ہے خلاصہ اور آخر پر وہ لکھتے ہیں دسویں نمبر پر کہ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے جو تعریف تحریری طور پر موصول ہوئی ہے وہ یہ ہے جو رسول اللہ کی امت میں سے ہو اور کلمہ طیبہ پر ایمان

Page 826

خطبات طاہر جلد ۸ 821 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء لاتا ہو.یہ مختصر تعریف جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کی گئی.اس تعریفی بحث کے بعد جو ۱۹۷۴ ء تک کا عرصہ گزرا ہے ظاہر بات ہے کہ اس عرصے میں کوئی نیا دین نازل نہیں ہوا.قرآن کریم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.کوئی ایسی احادیث منکشف نہیں ہوئیں جو پہلے ان علما کے علم میں نہیں تھیں.گزشتہ علماء کی کتب میں جو قرونِ وسطیٰ کے علماء ہیں، کوئی ایسا اضافہ نہیں ہوا جس کی بناء پر ان کو نئی تعریفیں معلوم ہوگئی ہوں.غرض یہ کہ اسلام کی علمی دُنیا خودان کے نزدیک اُس وقت تک پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی اور کوئی ایسی نئی راہنمائی اُن کو حاصل نہیں ہوئی جس کی رو سے یہ اپنی تعریفیں تبدیل کر سکتے لیکن چونکہ علم پر بنا ممکن نہیں تھی اس لئے سازش پر بناء کی گئی اور یہ سارے فرقے جن میں سے بعض کی نمائندگی ان نو علماء نے کی اور بعض دوسرے فرقے بھی جن کی نمائندگی نہیں ہوئی، ان سب نے اس سازش پر اتفاق کیا کہ ہمیں صرف وہی تعریف منظور ہوگی جس کی رو سے اور کوئی دائرہ اسلام سے خارج ہو یا نہ ہو جماعت احمد یہ قطعی طور پر دائر کا اسلام سے خارج ہو جاتی ہے.چنانچہ اس تعریف کا ذکر کرتے ہوئے ممتاز حسین شاہ صاحب ایڈووکیٹ جنہوں نے ایک بہت ہی دلچسپ اور عالمانہ اور خیال انگیز کتاب حال ہی میں شائع کی ہے اس کا عنوان ہے آمریت کے سائے یہ کتاب شاہین لاء بک ہاؤس نے شائع کی.۲۸.سیفی بلڈنگ نز دلائٹ ہاؤس سینما ایم.اے جناح روڈ کراچی اس کا پتا ہے یعنی ملنے کا پتایا اشاعت کا پتا.اس میں یہ بحث اُٹھاتے ہیں اور ” مسلمان کی تعریف اور آئین میں ترامیم کے تحت لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل نمبر ۲۶۰ میں ترمیم کر کے مسلم اور غیر مسلم کی تعریف اس طرح کی: مسلم : جو شخص اللہ کی وحدانیت اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھتا ہو.آپ کو آخری نبی مانتا ہو اور آپ کے علاوہ کسی بھی شخص کو نبی یا مصلح تسلیم نہ کرتا ہوہ مسلم ہے.غیر مسلم ( کی تعریف یہ کی ) جو شخص مسلم نہ ہو یا جس کا تعلق عیسائی یا ہندو، سکھ، بدھ یا پاری فرقوں سے ہو وہ غیر مسلم ہے.(آمریت کے سائے صفحہ ۳۷۳) اس پر لکھتے ہیں: یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ قادیانی جماعت کو غیرمسلم بنانا خاصا مشکل کام تھا اس لئے کہ مسلمان کی تعریف تو صرف یہ تھی کہ جو شخص تو حید و رسالت پر ایمان لے آئے وہ مسلمان ہے یعنی جو شخص بھی کلمہ طیبہ پڑھ لے

Page 827

خطبات طاہر جلد ۸ 822 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء اور لَا إِله إِلَّا الله محمد رسول اللہ اپنی زبان سے ادا کرے وہ مسلمان ہو جاتا ہے.ایک مسلمان کے لئے جن باتوں پر ایمان لانا ضروری تھا ان میں توحید، رسالت، فرشتوں، آسمانی کتابوں، خیر وشر کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا اور حیات بعد الموت شامل ہیں.قادیانی جماعت ان جملہ باتوں پر ایمان رکھتی ہے.(آمریت کے سائے ۳۷۴،۳۷۳) اس لئے کوئی آسان کام نہیں تھا کہ جماعت احمدیہ کو اس تعریف کی رُو سے باہر نکالا جاسکے.پس ضیاء الحق صاحب نے یا اس سے پہلے ۱۹۷۴ء میں علماء نے مل کر جو سازش تیار کی وہ یہ تھی کہ ایسی تعریف کریں جس میں لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کو اور پانچ ارکانِ اسلام کو مسلمان بنانے کے لئے کافی نہ سمجھا جائے اور ایک ایسی زائد شرط لگا دی جائے جس کی رُو سے احمدی جماعت باہر نکل جائے.باقی دوسرے فرقے بیچ میں رہیں یہ نہ رہیں.اس سے قطع نظر لیکن اس تعریف پر مزید گفتگو سے پہلے میں ایک اور دلچسپ بات آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.اس بحث کے آخر پر یہی مصنف لکھتے ہیں کہ مسلمان کی تعریف کے ہی سلسلہ میں جناب ارشاد احمد حقانی صاحب ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے اپنے کالم روز نامہ جنگ لاہور مورخہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء میں تحریر کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس ایم.آر کیانی نے علماء سے مسلمان کی تعریف دریافت کی تو علماء نے آپس مشورہ میں کے بعد کہا تھا کہ ”ہمیں اس کے لئے کچھ مہلت دیجئے ( تا کہ وہ تعریف بنا سکیں ) تو جسٹس موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ آپ کو ڈیڑھ ہزار سال کی مہلت مل چکی ہے اس سے زیادہ کی مہلت دینا اس عدالت کے اختیار میں نہیں“.(آمریت کے سائے صفحہ ۳۰۵) تو جس قوم کو ڈیڑھ ہزار سال میں اپنی ماہیت کی تعریف نہ معلوم ہوئی ہو اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال یا چودہ سو سال کے انتظار کے بعد ایک نئی تعریف ایجاد کرے جو سابقہ تمام تعریفوں کو نا کافی اور نا اہل قرار دے دے.یہ ہے بنیادی بحث جس کی طرف اس دلچسپ تبصرے

Page 828

خطبات طاہر جلد ۸ 823 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء میں اشارہ کیا گیا ہے اور جسٹس کیانی کو آپ میں سے بہت سے جانتے ہوں گے کہ بڑے ہی ذہین اور فطین انسان تھے اور بہت دلچسپ تبصرے کیا کرتے تھے.ان کے تبصروں میں یہ تبصرہ ایک شاہکار ہے کہ مولا نا پندرہ سو سال آپ کو ملے ہیں، ڈیڑھ ہزار سال اور اب مزید مہلت دینا عدالت ہذا کے اختیار میں نہیں.اب سوال یہ ہے کہ اس چودہ سو سال یا پندرہ سوسال ( پندرہ سو سال تو عموماً انہوں نے ایک راونڈ فگر کے طور پر بیان کئے ) عملاً چودہ سو سال سے کچھ عرصہ کم گزرا تھا.اس عرصے میں جو تعریف پر ا کٹھے نہ ہو سکے اور اس وقت تک اتنا اختلاف رہا کہ جسٹس منیر یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے.انہی تعریفوں کے ذکر کے بعد کہ اب صورتِ حال یہ واضح ہوتی ہے کہ اگر ہم ان نو علماء کی تعریف سے اتفاق نہ کریں اور اپنی ایک الگ تعریف بنالیں تو ان سب کے نزدیک متفقہ طور پر ہم دائر کا اسلام سے خارج ہو جائیں گے.یہ وہ آخری شکل تھی ۱۹۷۴ ء تک وسیع اسلامی تاریخ پر پھیلے ہوئے ان سارے موضوعات کی بحثوں کا جو خلاصہ علماء نے بیان کیا وہ آپ کے سامنے جسٹس منیر نے ان کے جوابات کی صورت میں رکھ دیا اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے متفق نہیں تھا.اب سوال یہ ہے کہ اس ۱۹۵۳ء کے بعد سے لے کر ۱۹۷۴ء تک وہ کون سی نئی شریعت ان پر نازل ہوئی ہے جس کی رُو سے انہوں نے ایک متفقہ تعریف بنالی.بہر حال جو تعریف بھی بنائی گئی اس میں پھر اس مصنف کے نزدیک ضیاء الحق صاحب نے ترمیم کی اور ترمیم شدہ صورت تعریف کی یہ نکلی کہ ”جو شخص اللہ کی وحدانیت اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھتا ہو.آپ کو آخری نبی مانتا ہو اور آپ کے علاوہ کسی بھی شخص کو نبی یا مصلح تسلیم نہ کرتا ہو وہ مسلم ہے“.اس تعریف کی رو سے تمام وہ مسلمان جو اس سے پہلے قرونِ اولیٰ سے اب تک گزرے ہیں وہ سارے غیر مسلم بن جاتے ہیں کیونکہ اسلام کی تعریف جو قرآن نے کی ہے اس کی رُو سے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے.اسی طرح ملائکہ کا ذکر نہیں، یوم آخر کا ذکر نہیں، دیگر کتب پر ایمان لانے کا ذکر نہیں تو وہ سب جو ان باتوں پر ایمان لایا کرتے تھے اس تعریف کی رُو سے وہ دائرہ اسلام سے باہر نکل جاتے ہیں تو یہ کوئی آسان بات نہیں تھی.بہر حال ایک سازش ہوئی اور اس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مل کر یہ تعریف کی کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ کا انکار کرے وہی مسلم ہوگا اور محض کلمہ توحید کا اقرار اور کلمۂ رسالت کا اقرار جسے

Page 829

خطبات طاہر جلد ۸ 824 خطبه جمعه ۲۲ / دسمبر ۱۹۸۹ء ہم کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادۃ کہتے ہیں وہ کافی نہیں ہے.پس تعریف میں دو جز شامل ہوئے ایک لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار جو دراصل جامع ہے.ان تمام باتوں پر جو اسلام کی تفصیلات میں آتی ہیں یعنی اس میں اگر چہ ملائکہ کا ذکر نہیں اور کتب کا ذکر نہیں ، دوسری چیزوں کا ذکر نہیں لیکن کلمہ اپنی ذات میں جامع مانع ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صداقت کی شہادت دینا ان تمام امور پر جامع ہوتا ہے جن پر ایمان لانا آپ نے ضروری قرار دیا.اس پہلو سے تو ضیاء الحق کی تعریف ہو یا کسی اور کی قابلِ اعتراض نہیں بنتی لیکن جب اس تعریف کو کافی نہ سمجھا جائے اور مزید اضافے کئے جائیں تو پھر جن اہم امور کو چھوڑ دیا جاتا ہے وہ قابلِ اعتراض بن جاتے ہیں.یہ بنیادی نکتہ ہے جس کو ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے.ہمارے نزدیک کلمہ تو حید سارے اسلام پر حاوی ہے.کلمہ توحید اور کلمہ رسالت یعنی جن کو ملا کر کلمہ شہادت کہتے ہیں جن لوگوں نے اس کو کافی نہ سمجھا اور اس لئے کافی نہ سمجھا کہ احمدی بھی یہ پڑھتے ہیں انہوں نے اضافوں کی کوشش کی.جب اضافوں کی کوشش کی تو تمام ضروریات بیان نہ کیں بلکہ بعض ضروریات بیان کر دیں اور تعریف کو نا مکمل اور نا کافی بنا کر دکھا دیا.اس تعریف کی رُو سے آپ یا در کھیئے دو شقیں بنتی ہیں کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ( بانی سلسلہ) کا انکار اب اس کے نتیجے میں پاکستان میں آرڈینینس میں جماعت احمدیہ کے جو حقوق غصب کئے گئے ان قوانین کا اس تعریف سے ایک بنیادی اندرونی ٹکراؤ ہے جس کو میں روشنی میں لانا چاہتا ہوں.پاکستان میں احمدیوں پر سب سے زیادہ مظالم کلمہ شہادۃ کے اقرار پر اور اس کے حق میں گواہی دینے پر ہوئے ہیں اور علماء نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ احمدی ہمارے نزد یک مسلمان نہیں اس لئے ان کو کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پڑھنے کا حق نہیں ہے اور چونکہ ضیاء کا آرڈینینس وضاحت کے ساتھ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے اور غیر مسلم کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی پہلو سے بھی مسلمانوں کی مشابہت اختیار کریں ، قول سے یا فعل سے اس لئے چونکہ کلمہ طیبہ مسلمانوں کی بنیادی پہچان ہے اس لئے جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو جب یہ کلمہ پڑھتے ہیں تو عملاً مسلمانوں کی مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ان کے اوپر آرڈینینس کی رُو سے وہ سزائیں واجب ہو جاتی ہیں جن کا آرڈنینس میں ذکر کیا گیا ہے.یہ ہے

Page 830

خطبات طاہر جلد ۸ 825 خطبه جمعه ۲۲ / دسمبر ۱۹۸۹ء ان کا استدلال لیکن یہ استدلال فی ذاتہ محض بودا اور نکما استدلال ہے.اس میں اس کی غلطیوں کے بہت سے پہلو ہیں جو بعض سابقہ خطبوں میں میں آپ کے سامنے رکھتا رہا ہوں لیکن آج تعریف کے نقطہ نگاہ سے ایک بات کھولنی چاہتا ہوں.تعریف کے ایسے اجزاء بھی ہوا کرتے ہیں جو عام ہوں اور ایسے اجزاء بھی ہوتے ہیں جو تخصیص پیدا کرتے ہیں اور امتیاز پیدا کرتے ہیں مثلاً آپ جب کہتے ہیں کہ انسان کی تعریف یہ ہے کہ وہ حیوان ناطق ہو یعنی اس کا حیوان ہونا تو ضروری ہے لیکن اس کا حیوان ہونا کافی نہیں ہے اگر حیوان ہونا انسان کی تعریف کے لئے کافی ہو تو ناطق کی شرط بے معنی اور بے ضرورت ہو جاتی ہے اور جیسا کہ جسٹس منیر نے بڑی قابلیت سے شروع میں علماء کو سمجھایا تھا کہ پہلے تعریف کی تعریف سمجھ لو.کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ واضح اور قطعی بات کرنا جس کا اطلاق اس نوع پر ہو جائے جس نوع کی تعریف کی جارہی ہے اور اس نوع کے علاوہ کسی اور پر اس کا اطلاق نہ ہوتا ہو.یہ ہے دراصل مسلمان کی تعریف.اس کو اپنے لفظوں میں جسٹس منیر نے علماء کے سامنے رکھا.اب اس تعریف کی رو سے جب یہ کہا گیا کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پڑھنا ضروری ہے لیکن اسے کافی نہیں سمجھا گیا تو تعریف کا یہ حصہ عام ہو گیا.جس طرح حیوانِ ناطق میں حیوان کا لفظ عام ہے لیکن کافی نہیں ہے.ناطق وہ لفظ ہے جس نے امتیاز پیدا کیا ہے اور ناطق کے بغیر تعریف مکمل نہیں بنتی.پس جب بھی علماء نے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے اوپر اس بات کا اضافہ کیا کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کا انکار کرے تو یہ تسلیم کر لیا کہ یہ تعریف عام ہے اور محض اس سے کسی کا اسلام ثابت نہیں ہوسکتا.اس لئے ضروری ہے کہ اس میں یہ مزید اضافہ کیا جائے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا انکار کرے تب وہ تعریف مکمل ہوگی.اب اس کی رُو سے ہم واپس کوٹ کر اس مثال کو پھر دیکھتے ہیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی حیوان ناطق.اگر کوئی یہ قانون بنے کہ انسان کے سواکسی اور جاندار کو ایسی حرکتیں کرنے کا حق نہیں جو اس کو انسان سے مشابہہ قرار دیتی ہوں تو ہر حیوان جو انسان کے ساتھ بہت سی قدر مشترک رکھتا ہے اور انسان کی تعریف میں سے تعریف کا بھاری حصہ ہر دوسرے حیوان پر بھی صادق آتا ہے اس کو ایسی حرکتوں سے روکا نہیں جاسکتا جو انسان کے ساتھ مشترک ہیں کیونکہ تفریق کرنے والی علامت ناطق ہے.پھر اگر ایسا قانون بنایا جائے کہ جو شخص

Page 831

خطبات طاہر جلد ۸ 826 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء انسان کے مشابہ حرکات کرے اس میں ہر حیوان کو یہ حق مل جائے گا کہ وہ حیوانیت کی قدر مشترک میں بے شک جتنا چاہے انسان بنے لیکن نطق اختیار نہ کرے.اگر اس کی سزا میں پھانسی ملتی ہو تو صرف طوطے ذبح کئے جائیں گے یا پھانسی پر چڑھائے جائیں گے.ان کے متعلق الزام لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ناطق کی نقل کی اور اس نطق کی سزا میں ان کے اوپر یہ سزا لا گو ہونی چاہئے.بعینہ یہی صورت حال ان کی اسلام کی نئی تعریف پر صادق آ رہی ہے.جب انہوں نے کہالا اله الا الله محمد رسول اللہ اپنی ذات میں کافی نہیں ہے اس لئے کہا کہ یہ جانتے تھے اور آج بھی جانتے ہیں کہ تمام احمدی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں اور کلمہ شہادت ان کے دین کا بنیادی جز ہے.ان کو خارج کرنے کے لئے جب انہوں نے اس کی تعریف کا عام حصہ قرار دے دیا اور اس پر امتیازی یہ شرط لگادی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار بھی کرے تو اس عمومیت کو اسلام کی نمائندگی قرار دینے کا ان کو حق ہی باقی نہیں رہتا.وہی حیوانیت والی بات ہے.محض حیوان بننا کسی جانور کو ہرگز اس بات کا سزا وار نہیں ٹھہرا تا کہ وہ گویا انسان بن رہا ہے.جب تک تعریف کا دوسراحصہ یعنی ناطق اس پر اطلاق نہ کرے یا وہ ناطق پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرے، اس وقت تک کسی حیوان پر یہ الزام نہیں آسکتا.پس اگر کلمہ طیبہ کافی ہے تو پھر احمدی ویسے ہی مسلمان بن جاتا ہے اور اس کو باہر نہیں نکال سکتے.جب ناکافی سمجھتے ہیں تو فی ذاتہ کلمہ طیبہ اسلام کی علامت نہیں رہتا جب تک دوسری شرط کے ساتھ اس کو گانٹھا نہ جائے.پس اب قانونی شکل یہ بنتی ہے کہ جو بھی احمدی کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں، ان کے اوپر قانون ہرگز یہ حکم نہیں لگا سکتا کہ تم نے مسلمان بننے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ مسلمان کی تعریف بتاؤ.کس طرح مسلمان بنے کی کوشش کی ہے؟ وہ جب تعریف کریں گے تو کہیں گے اس طرح لا اله الا الله محمد رسول اللہ پر ایمان لانا اور مرزا غلام احمد کی نبوت کا انکار کرنا مسلمان بناتا ہے تو ایک احمدی جواب دے گا کہ میں نے تو ہر گز لا اله الا الله پڑھ کر مرزا غلام احمد قادیانی کا انکار نہیں کیا.اس لئے تمہاری تعریف مجھ پر صادق نہیں آتی اور میں تمہاری تعریف میں مخل نہیں ہوا.تمہاری تعریف کی رُو سے مجھ پر مسلمان بنے کا جرم اس وقت تک عائد نہیں ہوسکتا یا الزام عائد نہیں ہو سکتا جب تک میں لا الہ الا اللہ کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کا انکار نہ کروں.پس جب تک میں وہ مسلمان نہ بنوں جو تمہاری تعریف کی رُو سے مسلمان کہلاتا ہے اس

Page 832

خطبات طاہر جلد ۸ 827 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء وقت تک تمہارا کوئی قانون مجھے سزا نہیں دے سکتا.یہ ہے آخری اور بنیادی بات جس کے بعداب جیسے کہا جاتا ہے کہ بال (Ball) ان کی کورٹ میں ، دوسرے کی کورٹ میں چلا گیا.اب ان کا فرض ہے کہ ہمیں ثابت کر کے دکھا ئیں کہ کس طرح اس احمدی پر مسلمان کی تعریف صادق آجاتی ہے جو صرف لا اله الا اللہ پڑھے اور محمد رسول الله کہے اور یہ کہنے کے جرم میں یہ حکم اس پر لگ جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنے آپ کو مسلمان بتایا، مسلمان ظاہر کیا.پس جب تک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور آپ کی صداقت کا اقرار کرتا چلا جاتا ہے ان کے بنائے ہوئے قوانین کی زد سے باہر رہتا ہے اور جب وہ انکار کر دیتا ہے تو ان میں شامل ہو جاتا ہے.سزا پھر بھی اس کو نہیں مل سکتی.دیکھیں ! انسانی بنائے ہوئے قوانین کتنے بے معنی اور ناکارہ اور بے حقیقت ہوا کرتے ہیں، سازشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، محض دشمنیوں اور بغضوں کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں اور کوئی نہ کوئی نفسانی ایسے محرکات ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں اکثر انسانی قوانین بنتے ہیں.اس لئے وہ کھو کھلے ہوتے ہیں، بودے ہوتے ہیں، بے معنی ہوتے ہیں.قانون وہی ہے جو خدا بنائے.اب انسانی قوانین کی حقیقت کسی نے اگر دیکھنی ہو یا یہ دیکھنا ہو کہ کیسے بے حقیقت قوانین ہوا کرتے ہیں تو پاکستان میں جو کچھ گزرا ہے وہ اس کی بہترین مثال پیش کرتا ہے.ساری قوم نے مل کر ایک بنیادی دستور بنایا جسے۱۹۷۳ء کا دستور کہا جاتا ہے، متفقہ طور پر.اس دستور میں ایک قانون یہ تھا کہ جوشخص بھی اس دستور پر حملہ کرے گا اور کسی طرح بھی اس دستور کی خلاف ورزی کرے گا وہ پھانسی کا سزاوار ہے اور سب سے بڑی بغاوت جو ملک کے خلاف کی جاسکتی ہے اس کا وہ سزا وار ٹھہرے گا.یہ تھاوہ دستور اور اس دستور کی حفاظت کے لئے یہ شق رکھی گئی تھی.ایک شخص اُٹھتا ہے وہ سارے دستور پر تبر رکھ دیتا ہے اور جس دستور کی رُو سے وہ گردن زدنی ہے اسی دستور کو منسوخ کر دیتا ہے اور قوم بالکل بے اختیار ہو جاتی ہے اور ساری عدلیہ ملک کی ساری عدلیہ تو نہیں مگر انصاف پرست جو منصفین تھے وہ تو احتجاج میں الگ ہو گئے تھے لیکن بعد میں جو عد لیہ پیدا ہوئی، آج تک رہی وہ ساری عدلیہ بالکل بے بس اور نہتی ہوگئی اور ایسے ظالم شخص کے متعلق کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکی جس نے وہ قانون منسوخ کیا جس نے اس کی جان لینی تھی اور جس نے اپنے قتل کے خلاف قانون منسوخ کر دیا.اس کے مقابل پر بالکل

Page 833

خطبات طاہر جلد ۸ 828 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء بے اختیار ہو کر بیٹھ گئی.اس شخص نے آٹھویں ترمیم کے نام پر، اکیلے نے ایک آرڈینینس بنایا اور جبراً اس وقت کے ملکی نمائندگان پر وہ قانون بعد میں ٹھونس دیا اور ساری قوم بھی مل کر اب اس ایک آدمی کے بنائے ہوئے قوانین کو منسوخ نہیں کر سکتی.یہ تو انسانی قوانین کا حال ہوا کرتا ہے.قانون وہی ہے جو خدا بنائے اور خدا کے بنائے ہوئے قانون کے سوا اور کوئی قانون دنیا میں در حقیقت پیروی کے قابل نہیں ہے.اسی حد تک ہم اس کی پیروی کرتے ہیں جس حد تک خدا کا قانون ہمیں مجبور کرتا ہے اور خدا کے قانون میں ایسی شقیں بھی ہیں جس کی رُو سے بہت سے حالات میں ہمیں دُنیا کے قوانین کو بھی ماننا پڑتا ہے.خواہ وہ معقول ہوں یا غیر معقول ہوں.ہاں جہاں وہ خدا کے قانون سے ٹکرا جائیں وہاں ہم پر فرض نہیں رہتا کہ اس پر عمل کریں اور جہاں وہ واجبات سے ٹکرا جائیں وہاں ہمیں اجازت نہیں ہے کہ ہم ان قوانین کی پیروی کریں.پس یہ ہے خلاصہ اس ساری صورتِ حال کا جتنا بھی انہوں نے زور لگایا، جیسے جیسے بھی قوانین بنائے اور احمدیوں پر تبرر کھنے کی کوشش کی یہ نا کام ہو چکے ہیں کلیڈ اور ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے.جو شخص لا الہ الا اللہ پڑھے ، اس کے متعلق یہ الزام لگ ہی نہیں سکتا کہ تم مسلمان بن رہے ہو جبتک اگلی شق پوری نہ کرے.جب اگلی شق پوری کرتا ہے تو اُن کے قانون کی زد سے ویسے ہی نکل جاتا ہے اس لئے بالکل حقیر اور بے معنی قانون ہے.آخر پر میں ایک معاملے میں ساری دنیا کے مسلمانوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں.پاکستان میں گزشتہ ۲۰، ۲۵ سال میں یا زیادہ عرصہ ہوا.۱۹۵۳ء میں تو خاص طور پر یہ بات نمایاں ہوئی ہے تو اب تو تمہیں اور پانچ ، ۳۵ سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے.۱۹۵۳ء سے شروع ہو کر یا ۱۹۵۲ء سے شروع ہو کر کہنا چاہئے جب وہ تحریک نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے جس کے ذریعے جماعت احمدیہ کو طرح طرح کے الزامات کا نشانہ بنایا گیا اور بالآ خر کوشش کی گئی کہ جماعت احمدیہ کو اسلام سے خارج کر دیا جائے.اس تحریک سے لے کر اب تک مسلسل جو کوشش کی جارہی ہے اس کے نتیجے میں ایک بات زیادہ واضح اور نمایاں ہوتی چلی جارہی ہے کہ متشد د علماء، باوجود اس کے کہ ایک دوسرے سے شدید نفرت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے بنیادی باتوں میں اختلاف کرتے ہیں، اس بات میں ایکا کر چکے ہیں کہ ہم شریعت کے نام پر اس ملک میں حکومت کریں اور ہر ایک کی یہی خواہش ہے.ہر ایک نے یہ زور لگانے کی کوشش کی ہے.ہر ایک آج بھی زور لگا رہا ہے کہ شریعت کے نام پر میں اس ملک پر حاکم ہو

Page 834

خطبات طاہر جلد ۸ 829 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء جاؤں.اب تک ایسا نہیں ہو سکا تو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ آپس میں ان کے اختلافات ہیں جو طے نہیں ہوتے اور ہر ایک ان میں سے چاہتا تو یہی ہے کہ شریعت کے نام پر میں نافذ ہو جاؤں لیکن ساتھ ہی یہ پسند نہیں کرتا کہ شریعت کے نام پر میرا کوئی رقیب اس ملک پر نافذ ہو جائے.نافذ کی بجائے کہنا چاہئے ” مسلط ہو جائے.پس یہی جھگڑا چل رہا ہے.جس طرح غالب نے کہا تھا رات کے وقت مے پیئے ساتھ رقیب کو لئے آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں رات کا وقت ہو، مے پیئے ہوئے میرا دوست آ رہا ہو.دل تو یہی چاہتا ہے کہ اس طرح ہو لیکن رقیب کو ساتھ لے کر آئے یہ نہیں مجھے پسند.یہ نہ ہو.اب یہ جب شریعت لاتے ہیں تو رقیب بھی ساتھ آ جاتے ہیں اور اپنے بدمست رقیبوں کو یہ دیکھ نہیں سکتے.اب تک تو یہی روک رہی ہے لیکن اب بالعموم سنی علماء نے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ سنی شریعت جس کو وہ شریعت سمجھتے ہیں اس کو ملک میں ضرور نا فذ کر دیا جائے.پھر بعد میں ہم آپس میں لڑتے رہیں گے کہ کون سنی مولوی اس شریعت کی رُو سے مطلق العنان حاکم بنتا ہے یا کون نہیں بنتا.یہ سازش یہاں تک پہنچ گئی ہے لیکن جو حصہ نہایت ہی خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ اس سازش کا ایک منفی اثر ساتھ کے وسیع ملک ہندوستان پر بھی پڑا اور جس طرح ایک مثبت پول یعنی Positive Pole بجلی کا بنتا ہے اس کے مقابل پر لازماً ایک نیکٹیو پول بھی بن جایا کرتا ہے.ایک مرکز اگر مثبت بنتا ہے تو خالی مثبت مرکز کوئی چیز نہیں.لازماً اس کے اثر میں اس کے عکس ، اس کے پر تو کے طور پر ایک منفی نقطہ ضرور ظاہر ہوتا ہے جس کو ہم نیکٹیو پول کہتے ہیں سائنسی اصطلاح میں.تو ان باتوں کا اثر غیر مسلم دنیا پر لازم پڑنا تھا اور سب سے زیادہ اثر طبعا ہندوستان پر پڑنا تھا جو کہ بڑی مدت سے پاکستان کا رقیب چلا آ رہا ہے.چنانچہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے جہاں انہوں نے نفاذ شریعت کے نام پر دراصل اپنی حکومت مسلط کرنے کی کوششیں کی ہیں، ہندو انتہا پسندوں کو بھی ایک نکتہ ہاتھ آ گیا.انہوں نے سوچا کہ اگر شریعت کے نفاذ کے ذریعے ، ہم لوگ جن کو سیاست میں پوچھتا کوئی نہیں اور دوٹوں کے وقت کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا.پاکستان میں مذہبی متشدد اور انتہا پسند سیاست میں اوپر آ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہ آکر دیکھیں.چنانچہ ہندوؤں کا وہ انتہا پسند ٹولہ جس کی پہلے سے کبھی

Page 835

خطبات طاہر جلد ۸ 830 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء ہندوستان کی سیاست میں کوئی حیثیت نہیں رہی اس رد عمل کے طور پر اس طرح اُبھرا ہے کہ انہوں نے بڑی شدت کے ساتھ منافرت کے ہتھیار اُٹھا کر ہندو شریعت کے نفاذ کی مہم چلائی اور جس طرح جاہل عوام خواہ وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں ان باتوں کے فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہوا کرتے بلکہ ان کی نفرتوں کے مزاج سے جو شخص بھی کھیلنے لگ جائے ، نفرتوں کے رجحان سے کھیلنے لگ جائے وہ تقویت پکڑ جاتا ہے تو ہندوستان میں بھی نفرت کی یہی ہولی کھیلی جانے لگی ہے اور یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ اتنی بھاری تعداد میں ہندو انتہا پرست طبقہ سیاست کے افق پر ابھرا ہو.چنانچہ پانچ سو کچھ کی اسمبلی میں ۸۲ انتہا پسند منتخب ہوئے ہیں اور یہ ابھی آغاز ہے تو اگر خدانخواستہ وہاں یہ رجحان بڑھنا شروع ہو جائے جیسا کہ بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور وہی حرکتین جو پاکستان میں کی جارہی ہیں وہاں اور شدت سے اختیار کی جانے لگیں جیسا کہ بابری مسجد کا واقعہ ہے تو ہمارے لئے تو یہ انتہائی تکلیف کا موجب ہوگا کیونکہ در حقیقت مسلمانوں کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سب سے زیادہ دُکھ احمدی کو پہنچتا ہے.اگر اس کو دکھ نہیں پہنچتا تو وہ سچا احمدی نہیں ہے.میں تو تصور بھی نہیں کر سکتا ایک ایسے احمدی کا جس کو دنیا میں کہیں بھی مسلمان کے دُکھ سے راحت پہنچتی ہو.مجھے یاد ہے جب ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کئے جا رہے تھے تقسیم کے وقت تو سب سے زیادہ شدت کے ساتھ ان مظالم کے خلاف جو عالمی مہم چلائی ہے وہ حضرت مصلح موعودؓ نے چلائی ہے اور تمام مبلغین جو دنیا میں کہیں بھی تھے یا اگر کہیں مبلغین نہیں تھے اور احمدی بستے تھے تو ان سب کو حضرت مصلح موعودؓ نے ہدایات جاری فرمائیں اور اس کثرت سے ہندوستان کی حکومت پر دباؤ ڈالے گئے اور مسلمانوں پر مظالم کی داستانیں شائع کروائی گئیں اور تمام دنیا کے بسنے والوں کو اس سے مطلع کیا گیا کہ اس کے مقابل پر ہزارواں حصہ بھی پاکستان کی حکومت نے نہیں کیا.اس لئے میں آپ کو یہ تاریخ یاد دلا رہا ہوں اور خصوصیت سے اس سارے پس منظر میں یہ آپ کو یہ متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان ظلموں کے نتیجے میں جو آپ پر ہوتے رہے آپ اپنے دل کو ٹیڑھا نہ ہونے دیں.اپنے دل کو غلط طور پر انتقام پرست نہ بنائیں.اپنی اخلاقی قدروں کی حفاظت کریں.امت مسلمہ سے جو سچی محبت احمدی کو ہونی چاہئے اس بچی محبت پر آنچ نہ آنے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کو ہمیشہ صح نظر بنائے رکھیں اور حر ز جان بنائے رکھیں.

Page 836

خطبات طاہر جلد ۸ 831 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء اے دل تو نیز خاطر ایں ناں نگاہ دار آخر کنند دعوی حب پیمبرم کہ اے میرے دل تو ہمیشہ اس بات کو نگاہ میں رکھنا کہ آخر یہ لوگ جو تیرے دشمن ہیں وہ تیرے آقا، تیرے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کے دعویدار ہیں ہمیں دُنیا کے کونے کونے میں جہاں جہاں بھی مسلمان بستا ہو خواہ وہ دشمنی میں آپ سے انتہا بھی کر رہا ہوا گر وہ آپ کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویدار ہے تو یہی بات اس کے لئے کافی ہے کہ آپ اس کے لئے دُعائیں کریں اور اس کے دُکھ میں شریک ہو جائیں، اس کی خوشی سے خوش ہوں، اُس کے غم سے مغموم ہو جایا کریں.پس ہندوستان کے افق پر جو خطرات اُبھر رہے ہیں ہر چند کہ وہ ان ظالموں کے کردار کی ایک تصویر ہے جو وہ پاکستان میں بنارہے ہیں.اس کے باوجودان اُبھرتے ہوئے خطرات کے نتیجے میں اگر عالم اسلام کو کوئی نقصان پہنچا تو سب سے زیادہ اس کا دُکھ احمدی کو ہونا چاہئے اور ابھی سے اس کے خلاف اس کو تیاری کرنی چاہئے.ابھی سے اس کے خلاف رائے عامہ کو تیار کرنا چاہئے.پس جہاں آپ دنیا کی رائے عامہ کو یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ان ظالموں نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے وہاں آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ دنیا کی رائے عامہ کو بتائیں کہ اب یہی بد بختیاں ہندوستان میں بھی ظاہر ہونی شروع ہو گئی ہیں اور دس کروڑ مسلمانوں کی عزت اور جانیں خطرے میں ہیں اور اگر مذہب اور شریعت کے نام پر مظالم کو چھٹی دی گئی تو جس طرح پاکستان میں اس کے شدید نتائج ظاہر ہوئے ہیں اور بہت ہی مظالم مقدس ناموں پر انسانوں پر کئے گئے ، اس سے بہت بڑھ کر دردناک مظالم ،اس سے بہت بڑھ کر سفاکی کے ساتھ اور بہیمانہ رویے کے ساتھ پاکستان کے ہمسائے ملک میں مسلمانوں پر توڑے جانے کا خطرہ درپیش ہے اور یہ خطرہ ایک فرضی خطرہ نہیں، ایک بہت بڑا حقیقی خطرہ بن چکا ہے.اس لئے تمام دنیا کی رائے عامہ کو جماعت احمدیہ کو بیدار کرنا چاہئے اور صرف پاکستان ہی پر نہیں، ہندوستان پر بھی یہ دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ ایسی تحریکات کو اپنے ہندوستان کے مفاد میں اور دنیا کے مجموعی مفاد میں یعنی اپنے ملکی مفاد میں اور دنیا کے مجموعی مفاد میں کلیۂ کچل کر رکھ دیں اور ہندوستان پر یہ داغ نہ لگنے دیں کہ یہاں سیاست کے نام پر ایسی قوم اُبھری ہے جو خدا کا نام لے

Page 837

خطبات طاہر جلد ۸ 832 خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۹ء کر خدا کے بندوں پر شدید ظلم توڑنے کی تیاری کر رہی ہے.اس ضمن میں جو خبریں اب تک میرے علم میں آئی ہیں وہ بہت ہی خطرناک ہیں اور ایسی نہیں ہیں جن کو ایک احمدی نظر انداز کر دے.مجھے ہندوستان کی بالغ نظر سیاست پر یہ توقع ہے یا ہندوستان کے بالغ نظر سیاستدانوں پر کہ وہ اس تحریک کو آگے نہیں بڑھنے نہیں دیں گے.مجھے توقع ہے کہ وہ پاکستان کی گزشتہ تاریخ سے سبق حاصل کریں گے اور پوری طرح اس بات کا زور لگائیں گے (اور ) اس بات پر متفق ہو جائیں گے کہ ہندو شریعت کے نام پر مسلمانوں پر ظلم توڑنے کی جو تحریک یا سازش جنم لے رہی ہے اس کو آگے نہ بڑھنے دیں.اب تک ہندوستان کے سیاستدانوں نے جو رد عمل دکھایا ہے وہ نہایت معقول اور مبنی بر انصاف ہے اور باوجود اس کے کہ موجودہ حکومت اقلیت میں ہے اور باوجود اس کے کہ اس حکومت کو شدید ضرورت تھی کہ ان ہندو انتہاء پسندوں کو اپنے ساتھ شامل کرے اور اس کے لئے خطرہ تھا کہ اصولوں پر ان سے سودا کر لے لیکن یہ خوش کن بات بھی ہمارے سامنے آنی چاہئے اور دنیا کے سامنے ہمیں یہ بات بھی رکھنی چاہئے.انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں خطرات سے اور غلط باتوں سے آگاہ کیا جائے وہاں اچھی باتوں کی تعریف کی جائے اور ان کو بھی ساتھ ہی شہرت دی جائے.موجودہ سیاستدان جو ہندوستان کی سیاست پر نئے انتخاب میں اُبھرے ہیں ان میں سے اکثریت نے اس سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور باوجود اس کے کہ شدید دباؤ تھا موجودہ حکومت پر، انہوں نے کھلم کھلا ان انتہا پسند ہندوؤں کو کہہ دیا ہے کہ ہم اصولوں میں تم سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اس کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ ایک نیا الیکشن ہو.تو جب میں کہتا ہوں کہ ہندوستان کے ان حالات سے دنیا کو باخبر کریں تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ جہالت کے ساتھ کریں اور آپ بھی ایک انتقامی کارروائی کا حصہ بن جائیں.میرا مطلب ہے ان حالات کو دنیا کے سامنے صداقت کے ساتھ رکھیں ، کھول کر صاف صاف بیان کریں.ان کو بتائیں کہ خدا کے فضل کے ساتھ سر دست ہندوستان کی سیاست میں یہ بالغ نظری موجود ہے، یہ شرافت موجود ہے کہ انہوں نے باوجود شدید دباؤ کے ان انتہاء پسندوں کے ساتھ اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن اگر پاکستان میں ایسی تحریکات بڑھیں تو نفسیاتی لحاظ سے ہندوستان میں ایسی فضا قائم ہونا ضروری ہے جس کے نتیجے میں آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں یہ انتہاء پسند غالب آنا شروع ہو جائیں گے اور اگر یہ اتنا غالب

Page 838

خطبات طاہر جلد ۸ 833 خطبه جمعه ۲۲ / دسمبر ۱۹۸۹ء آگئے اور اگر خدانخواستہ اس وقت تک کوئی بد دیانت یا ضمیر فروش سیاستدان ، خواہ ان سے تعلق نہ بھی رکھتے ہوں وہ سیاست میں اُبھرے اور اپنی حکومت کی خاطر ان سے سمجھوتوں پر آمادہ ہو گئے تو پھر ہندوستان میں نہایت خطرناک حالات ظاہر ہوں گے.دس یا گیارہ یا بارہ مسجدوں کے منہدم ہونے کا سوال نہیں رہے گا پھر خطرہ ہے کہ لاکھوں، کروڑوں مسجدیں منہدم کی جائیں.پھر دو یا چار یا سو کو زبر دستی مرتد بنانے کا سوال نہیں رہے گا پھر کروڑوں کی تعداد میں وہاں مسلمانوں کو مرتد بنایا جائے گا.گلی گلی میں ، قصبے قصبے میں، شہر شہر میں، صوبے صوبے میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی.یہ وہ خطرات ہیں جو نہایت خطرناک صورت میں ہندوستان کے افق پر مجھے اُبھرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں.ان کو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صداقت پر قائم رہتے ہوئے، انتظامی جذبات سے پاک ہو کر صاف صورت میں نکھار کر دنیا کے سامنے پیش کریں اور رائے عامہ کو اس کے خلاف آمادہ کریں اور ہندوستان کے احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ سمجھدار سیاستدان سے رابطے پیدا کر کے ان کو وہاں اپنے ملک میں ان باتوں سے آگاہ کریں.غالبا وہ آگاہ ہیں لیکن مزید وضاحت کے ساتھ بتا ئیں کہ آج تمہارے ملک کی وفا کا تقاضا یہ ہے کہ تم انتہاء پسندوں کو یہاں اُبھرنے نہ دو.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ اسلام کے خلاف جہاں بھی دنیا میں کوئی خطرہ در پیش ہو اس کے دفاع میں ہم ہمیشہ سب سے اوّل صف میں، سب سے زیادہ نمایاں، سب سے زیادہ خلوص کے ساتھ ہمیشہ سینہ سپر رہیں.آمین.

Page 839

Page 840

خطبات طاہر جلد ۸ 835 خطبه جمعه ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء 1989 ء کا سال تاریخ انسانی میں ایک ایسا بلند اور ممتاز سال بن کر اُبھرا ہے کہ اسے قیامت تک مؤرخ بھلا نہیں سکے گا (خطبه جمعه فرموده ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.یہ جمعہ جس کی ادائیگی کے لئے آج ہم اکٹھے ہوئے ہیں ، سال ۱۹۸۹ء کا آخری جمعہ ہے اور دوروز تک یہ سال اختتام پذیر ہونے والا ہے.یہ سال نہ صرف یہ کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک غیر معمولی سال ہے بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی یہ سال ایک غیر معمولی سال بن کر ابھرا ہے اور اس میں خدا تعالی کی گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں.آپ کو یاد ہو گا جب ہم ربوہ میں ۲۳ / مارچ کا دن خوشی کے دن کے طور پر منانا چاہتے تھے تو جماعت کے دشمنوں نے پورا زور لگایا کہ وہ ربوہ میں یا دوسری جگہوں پر بھی جماعت احمدیہ کو اس دن کی خوشی نہ منانے دیں لیکن خدا کی تقدیر نے ان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ سارے ملک میں وہ دن خوشیوں کے دن کے طور پر منائیں اور ۲۳ تاریخ یوم پاکستان کی ایسی تاریخ ہے جسے پاکستان کبھی نظر انداز نہیں کرسکتا.تو بہت لمبا عرصہ پہلے جب ۲۳ / مارچ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لدھیانہ میں بیعت لی ، اس بات کو پاکستان بنانے والوں نے یا پاکستان کی راہ میں خدمتیں کرنے والوں نے تو کبھی سوچا بھی نہ ہوگا اور ۲۳ / مارچ کا دن یوم پاکستان مقرر ہونا ایک ایسا فعل ہے جس میں پاکستان کی تحریک سے تعلق رکھنے والوں کا کوئی بھی عمل دخل نہیں.تقدیر نے یہ دن ان پر مسلط کر

Page 841

خطبات طاہر جلد ۸ 836 خطبه جمعه ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء دیا ، ان پر ٹھونس دیا.جب تک وہ اس دن کو جماعت احمدیہ کی خوشیوں کے دن کے طور پر نہیں مناتے ، یہ دن ان پر مسلط ہو چکا ہے اور جب وہ اس کو پہچان جائیں گے تو پھر وہ اصلی خوشیوں کا دن ابھرے گا ، جب ۲۳ / مارچ کو پاکستان کے قیام کا دن بھی ہو گا اور احمدیت کے قیام کا دن بھی ہوگا.اور یہ دونوں خوشیاں مل کر عید میں بن جایا کریں گی.اسی طرح کی ایک حکمت اس سال میں بھی پوشیدہ ہے.اس سال میں ایسے حیرت انگیز تغیرات بر پا ہوئے ہیں کہ دنیا کے دانشوروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا.یورپ میں جو کچھ ہوا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے اور اسی طرح دنیا کے دیگر بعض ممالک میں تبدیلیوں کے جو آثار ظاہر ہورہے ہیں.یہ وہ سب تبدیلیاں ایسی ہیں جن میں سیاستدانوں کا کوئی عمل دخل نہیں.ان کے لئے یورپ میں ہو نیوالی عظیم تبدیلیاں اور اشتراکی ممالک میں ہونے والے انقلابات اسی طرح تعجب انگیز تھے جس طرح باقی دنیا کے لئے تعجب انگیز تھے.ان کی کوششوں کا جہاں تک دخل ہے وہ کوششیں تو چین میں کی گئی تھیں اور انسانی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور ساری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سیاست دانوں نے مل کر چین میں جو انقلاب بر پا کرنے کی کوشش کی تھی اس میں وہ کلیہ ناکام رہے.وہاں انقلابات ہوئے جہاں محض خدا کی تقدیر کو دخل تھا.جہاں انسانی کوششوں کا کوئی بھی ہاتھ نہیں تھا.اس لئے ابھی سے دانشور یہ لکھنے لگے ہیں اور مختلف مواقع پر یہ بیان دینے لگے ہیں کہ یہ سال جو ۱۹۸۹ء کا سال ہے، یہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا بلند اور ممتاز سال بن کر ابھرا ہے کہ اسے قیامت تک مؤرخ بھلا نہیں سکے گا.ایک غیر معمولی شان ہے اس سال میں اور آئندہ کیلئے بنیاد یں ڈالنے والا سال ہے.پس اس کی بلندی محض اپنی ذات کی بلندی نہیں بلکہ آئندہ دنیا کی سر بلندی کے لئے اس سال میں بنیادیں قائم کی گئی ہیں.اور یہ وہی سال ہے جس کو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا عالمی جشن تشکر قرار دیا.اب اس میں ہماری اور آپ کی ، انسانوں کی کوششوں کا ظاہر ہے کہ کوئی ادنی سا بھی دخل نہیں.اللہ تقدیر بنا رہا ہے اور تمام دنیا کو مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کے سال کو کبھی نہ بھلا سکے اور ہمیشہ اس سال کو سنہری حروف سے لکھتی چلی جائے.پس خدا کی بہت سی تقدیر میں مخفی طور پر ایسے کام کر رہی ہوتی ہیں کہ سطح پر ان کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوتے

Page 842

خطبات طاہر جلد ۸ 837 خطبه جمعه ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء اچانک جس طرح سمندروں میں جزیرے ابھر آتے ہیں اس طرح جب وہ خدا کی تقدیر آخری صورت میں ابھرتی ہے تو دنیا حیرت سے اس کو دیکھنے لگتی ہے.پس ان دونوں باتوں میں حکمت ہے.یہ دونوں باتیں اتفاقی نہیں ہیں.۲۳ / مارچ کے دن کو پاکستان کی خوشیوں کا دن قرار دے دینا اور صد سالہ جشن تشکر کے سال کو تمام عالم کی خوشیوں کا سال قرار دے دینا اور اس سال میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرنا اور حیرت انگیز تبدیلیوں کی بنیاد میں قائم کرنا یہ ایسی باتیں تو نہیں ہیں جو اتفاقا اکٹھی ہوگئی ہیں.ان کے اندر خدا کی تقدیر کار فرمادکھائی دیتی ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس کثرت کے ساتھ فضل کبھی نازل نہیں ہوئے جتنے اس سال نازل ہوئے ہیں اور اس میں کسی حد تک تو آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم نے جشن تشکر کی تیاریاں کی تھیں، اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تو ہونا ہی تھا لیکن خدا کے جن فضلوں کا میں پہلے ذکر کرتا چلا آیا ہوں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا ہماری تیاری سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں تھا.خدا کی طرف سے آسمان سے فضل نازل ہوئے ہیں اور اُن کو ہم نے نازل ہوتے دیکھا ہے اور ہر پہلو سے جماعت کو اس سال میں غیر معمولی عظمت عطا ہوئی ، غیر معمولی تقویت نصیب ہوئی اور ہمارے دشمنوں کو غیر معمولی ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا یہ سب باتیں اتفاقی تو نہیں ہوسکتیں.بہت ہی جاہل ہو گا جو اس ساری تصویر کو اکٹھی دیکھے اور پھر کہے کہ اتفاقاً یہ نقوش بنتے چلے گئے.یہاں تک کہ ایک معنی خیز تصویر ابھر آئی.یہ وہ سال ہے کہ جب بیعتوں کے لحاظ سے بھی اس کثرت سے خدا تعالیٰ نے لوگوں کو جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطاء فرمائی ہے کہ جب آپ اس کا گراف دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.یوں لگتا ہے جیسے ایک بلند ہوتی ہوئی سڑک پراچانک مینار بنادیا گیا ہو اور مینار کے ساتھ وہ سڑک اٹھنی شروع ہو جائے لیکن یہ بھی مجھے یقین ہے.میں خدا کے فضل سے یہ امید رکھتا ہوں کہ چونکہ یہ اتفاقی واقعہ نہیں اس لئے یہ جو ترقی کی رو ہے یہ آگے بڑھے گی اور پیچھے نہیں ہٹے گی.دنیا کی تاریخ میں تو یہ سال ابھرا ہے اور ابھر کر پھر کسی حد تک نیچے گرنے والا ہے مگر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں اور اسی کے لئے آپ کو دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دعا یہ کریں کہ مڑ کر دیکھیں تو اس سال کے پیچھے گہرائی دکھائی دے مگر آگے دیکھیں تو پھر اور اٹھتے ہوئے بلند

Page 843

خطبات طاہر جلد ۸ 838 خطبه جمعه ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء تر مینار دکھائی دیں اور یہ سال آئندہ ترقی کے لئے رفتاریں سیٹ کرنے والا Pace Maker بنے جس طرح دوڑوں میں سب سے اگلا کھلاڑی جو سب سے زیادہ توانا ہوتا ہے اور چست و چالاک ہوتا ہے اور رفتار میں سب سے زیادہ نمایاں طور پر آگے بڑھنے کی توفیق پاتا ہے،ایسے کھلاڑی کو کہتے ہیں اس نے Pace سیٹ کر دی یعنی اس نے باقی کھلاڑیوں کے لئے رفتار معین کر دی ہے.اب وہ اس کا ساتھ دے سکیں گے تو ساتھ رہیں گے ورنہ پیچھے رہ جائیں گے.تو خدا کرے کہ یہ سال آئندہ سالوں کے لئے Pace سیٹ کرنے والا سال ثابت ہو اور اس سال کے بعد میں آنے والے سال گویا اس سال سے سبق سیکھتے ہوئے اسی رفتار سے آگے بڑھیں جس رفتار سے یہ سال اللہ کے فضل وکرم کے ساتھ آگے بڑھا ہے.اس موقعہ پر ہمیں خاص طور پر دعا کرنی چاہئے کہ یہ جو عالمی تغیرات ظاہر ہوئے ہیں، جن کے متعلق ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے نئی بنیادیں قائم کی ہیں یا نیا موڑ موڑا ہے.اس موڑ پر کھڑے ہو کر جو آئندہ دنیا ہمیں دکھائی دیتی ہے، اس کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور ان دعاؤں کی ضرورت ہے کہ خدا کی تقدیر نے ترقی کے یہ جو آثار باندھے ہیں، ہم اس بات کے اہل ہوں کہ ان سے پوری طرح استفادہ کر سکیں.ہم اس بات کے اہل ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے جو نئے دروازے کھولے ہیں.نئے ایو نیو، نئے ایوان ہمارے لئے ہم پر روشن کئے ہیں.ان تک پہنچنا ہم پر آسان فرمادے، ان سے بھر پور استفادے کی ہمیں توفیق ملے.اور جس جس طرف سے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیں آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے، جس طرح تیز ہوائیں پیچھے سے دھکیلتی ہیں تو جس کو دھکیلا جارہا ہے اس کی کوشش کا بھی کوئی دخل ہوا کرتا ہے.یہ تو درست ہے کہ بعض دفعہ آندھیاں اتنی تیز بھی چلتی ہیں کہ کوئی جانا چاہے یا نہ چاہے ، اس سمت میں اس شخص کو دھکیلتی ہوئی لے جاتی ہیں.لیکن اگر دوڑنے والا اس سمت میں دوڑنا چاہے اور دوڑنے کی پوری کوشش بھی کرے تو پیچھے سے آنے والی ہوائیں اس کو بہت تیزی سے آگے بڑھاتی ہیں.پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ تبدیلیاں اس قسم کی ہواؤں کا حکم رکھتی ہیں جو خاص سمتوں میں چلائی جا رہی ہیں.اگر آپ دوڑنے کی نیت رکھتے ہیں تو دوڑنے کے لئے کمر کسیں اور تیار ہو جائیں کیونکہ اب یہ وقت چلنے کا وقت نہیں رہا بلکہ تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے آگے بڑھنے کا وقت

Page 844

خطبات طاہر جلد ۸ 839 خطبه جمعه ۲۹/دسمبر ۱۹۸۹ء ہے اور اپنی سابقہ مستیوں کا ازالہ کرنے کا وقت ہے.جو کچھ ہم سے غفلتیں ہوئیں ان پر استغفار کا وقت ہے اور خدا کی طرف سے چلنے والی ان ہواؤں سے پورے استفادے کا وقت ہے.بادبانی کشتیاں جس طرح ہواؤں کے رخ پر بڑھا کرتی ہیں اسی طرح آپ کی رفتار بھی اس تیزی سے بڑھنی چاہئے جس طرح بغیر ہوا کے بادبانی کشتیاں چپو سے چل رہی ہوں اور اچانک ایک پاکیزہ ہوا، عمدہ ہوا جس میں خطرات نہ ہوں بلکہ مبشرات ہوائیں ہوں.ایسی ہوا چلنی لگ پڑے.اور بادبانی کشتیاں تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف آگے بڑھنے لگیں.قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے متعلق یہ مثال دی گئی ہے کہ ان کا بڑھنا اس طرح تھا جیسے ہوا کے گھوڑوں پر کوئی سوار ہو اور تیز ہوائیں ان کے دن کے سفر کو بھی مہینے کا سفر بنا دیا کرتی تھیں اور ان کے رات کے سفر کو بھی مہینے کا سفر بنا دیا کرتی تھیں.یہ تو پرانے زمانوں کی باتیں ہیں.ہم تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں.یہ دعائیں کریں کہ ہمارے لئے خدا ایسی ہوائیں چلائے کہ ہمارے دن کا سفر بھی ایک سال کے سفر کے برابر ہو جائے اور ہماری راتوں کا سفر بھی ایک سال کے برابر ہو جائے اور اس تیزی کے ساتھ ہم دنیا میں ترقی کرتے ہوئے خدا کی توحید کا پیغام تمام عالم کو پہنچائیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی مے کے حسن سے کل عالم کو خیرہ کر دیں.دعاؤں کے ساتھ کوشش کے ساتھ، محکم عزم کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اب ہمیں بہت تیز رفتار سے آگے بڑھنا ہے اور خدا کرے کہ ہمارا اگلا سال یہ ثابت کرنے والا ہو کہ ہم ۱۹۸۹ء کے سال کو مڑ کر ایک بلندی کے سال کے طور پر نہیں بلکہ بلندیاں پیدا کرنے والے سال کے طور پر دیکھا کریں گے.اس کے بعد میں اسی خطبے میں آئندہ سال کی جماعت احمدیہ کو مبارک باد بھی دیتا ہوں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کی ترقی کی رفتاروں کے پیمانے بدل چکے ہیں.اب یہ بات نہیں رہی کہ پچھلے سال سے اتنے فیصد زیادہ یا اتنے فیصد زیادہ پیمانے تبدیل کئے گئے ہیں.اس لئے آپ دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اللہ آپ کیساتھ ہو.اللہ حفاظت فرمائے.ہماری بلاؤں کو ٹال دے اور بلاؤں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جواجر کے وعدے ہیں ان کو ہماری توقعات سے بھی بہت زیادہ پورا کرے.جو ہم میں سے دکھی ہیں ان کے دکھ دور فرمائے.جن کے سروں پر خطرات منڈلا رہے ہیں ان خطرات کو جھوٹا اور باطل ثابت کر دے اور

Page 845

خطبات طاہر جلد ۸ 840 خطبہ جمعہ ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء ہمارے نقصانوں کو اپنے فضل سے پورا کرے اور ہمارے نفعوں کو بڑھادے اور ہر پہلو سے جماعت کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت کے لحاظ سے بھی یہ آنے والا سال پہلے سال سے بہت بہتر ثابت ہو.یہ چونکہ سال کا آخری خطبہ ہے اس لئے روایات کے مطابق میں اسی خطبے میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان بھی کرتا ہوں.جیسا کہ آپ کو معلوم ہے وقف جدید کی تحریک پہلے پاکستان اور ہندوستان میں کلیۂ محدود تھی.ان معنوں میں کہ چندہ بھی انہی دو ملکوں سے وصول کیا جا تا تھا اور خرچ بھی انہی دو ملکوں پر کیا جاتا تھا.گزشتہ چند سال سے میں نے یہ تحریک کی کہ تمام دنیا پر ہند اور پاکستان کے احسانات ہیں اور ایک لمبا عرصہ گزر گیا تقریبا ایک صدی ہوگئی کہ ہندوستان اور پاکستان سے خدا کی راہ میں عظیم مالی قربانی کرنے والوں نے تمام دنیا میں پیغام حق کا بوجھ اٹھایا تو جذ بہ تشکر کے طور پر ایک تھوڑا سا ٹوکن اس بات کا ان کے حضور پیش کریں.یعنی ٹوکن سے مراد ہے کہ ایک مثال کے طور پر کچھ قربانی کا نمونہ ان کے سامنے پیش کریں اور باقی دنیا کی جماعتیں یہ کہیں کہ ہم بھی تمہارے لئے کچھ چندہ اکٹھا کرتے ہیں جو تم پر خرچ ہو گا.اس پہلو سے وقف جدید کی مالی تحریک کو سارے عالم پر ہم نے محیط کر دیا تھا.سارے عالم پر اس کا اطلاق کر دیا تھا اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ سب جماعتیں کچھ نہ کچھ ہندوستان اور پاکستان میں چلنے والی اس تحریک کی مدد کریں.اس تحریک کے بعض خاص ایسے پہلو ہیں جن کو جماعت کو پیش نظر رکھتے رہنا چاہئے.یہ تحریک غیر معمولی چندے طلب نہیں کرتی لیکن اس کا زور اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی حسب توفیق بشاشت کے ساتھ اور خوشی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور خدا کی راہ میں پیش کریں.باقی تحریکات میں زیادہ تر مقابلے اس بات کے ہوتے ہیں کہ کون آگے بڑھتا ہے اور کون زیادہ خدا کی راہ میں لٹاتا ہے.اس تحریک میں ملکوں کے مقابلے ہیں کہ کتنے زیادہ افراد خدا کی راہ میں مالی قربانی میں شامل ہوتے ہیں.بچے بھی عورتیں بھی ، مرد بھی ، بڑے بھی چھوٹے بھی سب مل کر اور جہاں تک شمولیت کا تعلق ہے، جتنی بھی کوئی توفیق پاتا ہے اس کی دی ہوئی رقم کو خوشی سے قبول کیا جاتا ہے.وقف جدید کے لئے جو کم سے کم معیار پاکستان میں مقرر تھا وہ چھ روپے کا تھا لیکن اس چھ روپے کے متعلق بھی ہم نے یہ اجازت دی تھی کہ اگر ایک غریب خاندان ہے جو سال میں چھ روپے بھی نہیں دے سکتا.مثلاً ایسے خاندان میں چھ افراد ہیں.ان میں سے ہر شخص چھ روپے نہیں دے سکتا تو

Page 846

خطبات طاہر جلد ۸ 841 خطبه جمعه ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء سارے مل کر ایک ایک روپیہ سال کا دے دیں.اور مشترکہ طور پر کم سے کم معیار کو پورا کر دیں.باہر کی دنیا کے لئے کم سے کم کوئی معیار با قاعدہ تو مقر ر نہیں لیکن مال کے شعبے کی طرف سے مشورہ یہ کہا جاتا ہے کہ دو پاؤنڈ مثلاً انگلستان کے لئے یا اس کی متبادل رقم یورپین امیر ملکوں کے لئے اگر ہو جائے تو یہ کم سے کم معیار سمجھنا چاہئے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، با قاعدہ کوئی فیصلہ نہیں ہے.اگر آپ اپنے بچوں کو اس میں شامل کرنا چاہیں اور مالی مشکلات راہ میں حائل ہوں تو اگر پچاس پینس بھی ایک بچے کی طرف سے ادا ہو گا.تو اس کا نام مجاہد وقف جدید کے طور پر لکھا جانا چاہئے اور آپ جماعتی لحاظ سے چھوٹی رقم دیکھ کر انکار نہ کریں.سب سے بڑی برکت چندہ دینے والے کو اس کے رجحان کے نتیجہ میں ملتی ہے، چندے کی مقدار بھی اہمیت رکھتی ہے.جماعت کو اس وقت بہت بڑے بڑے خرچوں کی ضرورت ہے.اس میں شک نہیں لیکن جہاں تک چندہ دینے والے کا تعلق ہے، اس کے رجحان، اس کے خلوص کا اس کے ثواب سے بہت زیادہ تعلق ہے.بنسبت اس کے کہ وہ کتنی رقم پیش کر سکتا ہے.ایک غریب آدمی جو خدا کی محبت میں محض اللہ اپنی کسی ضرورت کو کاٹ کر چند پیسے بھی خدا کے حضور پیش کرتا ہے تو اس کا ایک خاص مرتبہ ہے جس مرتبے کو خدا پہچانتا ہے.بندے اس کو پہچانیں یا نہ پہچانیں اور اس پہچان کے مطابق وہ اس سے سلوک فرماتا ہے.اس لئے وقف جدید میں خصوصیت کے ساتھ میرا زور ہمیشہ اس بات پر رہا ہے کہ تعداد بڑھائیں اور کثرت کے ساتھ دوستوں کو اس میں شامل کریں کیونکہ بہت سے ایسے احمدی ہوں گے جو کسی چندے میں شامل نہیں ہیں.اگر ان کو کسی ایک چندے میں بھی شمولیت کی معمولی توفیق مل جائے تو میرا یہ تجربہ ہے کہ پھر وہ تو فیق اپنی توفیق کو خود بڑھاتی رہتی ہے اور توفیق سے اور توفیق پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.نیکی میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے اور بدی میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے.ایک قدم آپ بدی کی طرف بڑھا ئیں تو بدی کی ڈھلوان آپ کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتی ہے.ایک قدم آپ نیکی کی طرف بڑھا ئیں تو بلندی کے باوجود آپ میں مزید توانائی پیدا ہوتی ہے اور مزید اوپر چڑھنے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا شوق پیدا ہو جاتا ہے پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے مجھے بار ہا یہ محسوس ہوا کہ شروع میں جب دیکھا کہ بہت ہی بلند چوٹیاں ہیں تو ہمت جواب دیتی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی بلندی تک ہم اتنے وقت میں پہنچ جائیں گے لیکن جب انسان قدم اٹھانے شروع کر دے تو پھر اس کو پتا چلتا

Page 847

خطبات طاہر جلد ۸ 842 خطبه جمعه ۲۹/دسمبر ۱۹۸۹ء ہے کہ ہر قدم اگلے قدم کے لئے ایک طاقت کا ذریعہ بن جاتا ہے،حوصلہ پیدا کرتا ہے اور جوں جوں آپ آگے قدم بڑھاتے جاتے ہیں اور مڑ کر دیکھتے ہیں کن نچلی سطحوں سے آپ کوشش کر کے اوپر ابھرے ہیں تو نیچے دیکھنا بھی آپ کے لئے تقویت کا موجب بنتا ہے اور اوپر دیکھنا بھی حوصلوں کو انگیخت کرتا ہے بجائے بجھانے کے.سفر شرط ہے.پس چندوں میں بھی میرا یہ وسیع تجربہ ہے اپنے متعلق بھی اور دوسروں کے متلعق بھی کہ جب بھی آپ خدا کی راہ میں کچھ پیش کر نیکی تو فیق پاتے ہیں تو وہ توفیق آپ کی توفیق بڑھاتی ہے اور اس کے علاوہ ایک اور خدا کا فضل ہے جو ہمیشہ چندے دینے والوں پر نازل ہوتا ہے کہ ان کی مالی حیثیت بھی پہلے سے بہتر ہونی شروع ہو جاتی ہے.ان کے قرضوں کے بوجھ کم ہونے شروع ہو جاتے ہیں.ان کو جو روز مرہ کی چٹیاں پڑتی رہتی ہیں اس میں کمی آجاتی ہے.کئی قسم کی مصیبتوں سے وہ بچائے جاتے ہیں پس میرے علم میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چندہ دینے والا چندہ دینے کی وجہ سے نقصان میں رہا ہو یعنی جزا کا وہ مفہوم جو خدا کی رضا سے تعلق رکھتا ہے یا آخرت سے تعلق رکھتا ہو، اس کے علاوہ بات کر رہا ہوں.وہ تو اپنی جگہ ہے.انسان جب خدا کی راہ میں کچھ پیش کرتا ہے تو رضا کی خاطر کرتا ہے اور وہی چندہ ہے جو قبول ہوتا ہے اور اسی کے نتیجے میں دنیا بھی سنورتی ہے.پس جہاں تک نیتوں کا تعلق ہے، نیت یہ ہونی چاہئے کہ محض اللہ خدا کی رضا کی خاطر ہم یہ دے رہے ہیں اور جب آپ اس نیت کے ساتھ دیتے ہیں تو اللہ کی رضا صرف آخرت کی جزا نہیں دیتی بلکہ دنیا میں بھی آپ کو جزا دیتی ہے اور چندہ دینے والا جانتا ہے یقینی طور پر اس کو علم ہو جاتا ہے کہ بہت سی ایسی برکتیں اس کو نصیب ہوئی ہیں جو پہلے حاصل نہیں تھیں.اس لئے دنیا میں لکھوکھا احمدی ذاتی طور پر اس بات کے گواہ ہیں، بچے بھی گواہ ہیں، مرد بھی عورتیں بھی.سب دنیا میں جماعت کے ساتھ خدا تعالیٰ یہی سلوک کرتا ہے کہ اخلاص کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ پیش کرنے والے کی قربانی کی توفیق بھی بڑھتی ہے اور مالی وسعت بھی اس کو عطا ہوتی ہے.پس وقف جدید میں جب ہم افراد کی تعداد میں اضافے پر زور دیتے ہیں تو میری نیت اس میں ہمیشہ یہی ہوتی ہے تاکہ وہ احمدی بھی جواب تک مالی قربانی کی لذت سے محروم ہیں اور اس کی

Page 848

خطبات طاہر جلد ۸ 843 خطبه جمعه ۲۹/دسمبر ۱۹۸۹ء برکتوں سے محروم ہیں، ان کو اس بہانے ایک موقعہ میسر آجائے اور پھر خدا کے فضل کے ساتھ وہ ہر دوسری تحریک میں بھی خود بخود آگے بڑھنے لگیں.اس پہلو سے بہت سا کام ابھی ہونا باقی ہے.اگر چہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس سال خدا کے فضل کے ساتھ ہر پہلو میں جماعت میں اضافہ ہوا ہے.وقف جدید کے چندے میں بھی اضافہ ہوا ہے.وقف جدید کی قربانی کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن گنجائش ابھی بہت موجود ہے.افریقہ کے ممالک میں خصوصیت کے ساتھ بہت بڑی گنجائش موجود ہے.افریقہ کے ممالک میں جو امراء یا مربیان کام کرتے ہیں وہ بعض دفعہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی ! غریب ہے ملک.اس میں قربانی کی توفیق اتنی نہیں مگر جہاں تک میرا جائزہ ہے.میں ان ملکوں میں پھر کے آیا ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ غربت کے باوجود افریقہ میں مالی قربانی کی روح بڑی نمایاں ہے اور قربانی کے لحاظ سے افریقین قوم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں بلکہ بعض پہلو سے بہت آگے ہے یعنی بعض دفعہ میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نہایت غریب لوگ جن کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی تھی ، جن کو چوبیس گھنٹے میں صرف ایک کھانا ملتا تھا تو وہ غنیمت سمجھتے تھے ، وہ بھی جماعت کے لئے مالی قربانی کا جذبہ رکھتے تھے اور ہمیشہ چندہ میں شوق سے شامل ہوتے تھے.غریب سے غریب نہایت ہی غریب گاؤں میں میں نے دیکھا کہ بڑے ذوق وشوق سے مسجدیں بنارہے ہیں بغیر کسی سے کچھ مانگے سالہا سال مسلسل محنت کرتے چلے جارہے ہیں جو کسی کو توفیق ملتی ہے وہ مسجد کے لئے پیش کر دیتا ہے.پس جماعت افریقہ پر جماعت کے منتظمین کو بدظنی کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ بدظنی ان کو نقصان پہنچائے گی اور یہ بدظنی آئندہ نسلوں کو بھی نقصان پہنچائے گی.افریقہ میں جس تیزی کے ساتھ احمدیت پھیل رہی ہے اسی تیزی کے ساتھ افریقہ کی نئی آنے والی نسلوں کو یا نئی پیدا ہونے والی نسلوں کو بھی اور نئے آنے والے افراد کو بھی فوری طور پر بلا تاخیر مالی قربانی کا چسکا ڈال دینا چاہئے.مالی قربانی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے واقعی ایک چسکا ہے.دنیا والے جس طرح آج کل Drug Addiction میں مبتلاء ہورہے ہیں.میں نے دیکھا ہے جماعت احمدیہ میں بہت سارے احمدی ایسے ہیں جن کو چندے کی ایڈیکشن ہوگئی ہے اور یہ ایڈیکشن ، پھر اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ان کو سنبھالنا پڑتا ہے روکنا پڑتا ہے کہ بھٹی انٹھہرو ذرا بس کرو تمہارے اپنے عزیز

Page 849

خطبات طاہر جلد ۸ 844 خطبہ جمعہ ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء ہیں، قریبی ہیں.ان کا بھی کچھ خیال کرو اور خلیفہ وقت کو یہ بھی نظر رکھنی پڑتی ہے کہ کون توفیق سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن یہ ایسا نشہ ہے کہ جن کو پڑ جاتا ہے، واقعی نشہ بن کے چمٹ جاتا ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ ہم اپنی نسلوں کو دنیا کے نشوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ مول لیں ان کو یہ اچھے نشے لگادیں.یہ ایسے نشے ہیں جو پھر ان کو سنبھال لیں گے.آئندہ نسلوں کو سنبھال لیں گے اور اللہ کے فضل کے ساتھ جیسا کہ میں نے کہا ہے، ایک نیکی کا قدم دوسری نیکیوں کے قدم اٹھانے کی توفیق دیتا چلا جائے گا.اس وقت جور پورٹ میرے سامنے ہے.جو اعداد وشمار میرے سامنے ہے، ان کی رو سے جواول، دوئم ، سوئم ممالک کے متعلق میں اعلان کروں گا غالباً یہ ترتیب تو الا ماشاء اللہ قائم رہے گی لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ حصوں میں تبدیلی ہو جائے کیونکہ بہت سے کوائف ابھی تک موصول نہیں ہوئے.یہ جو کوائف میں آپ کے سامنے پیش کرنے والا ہوں یہ نامکمل ہیں کیونکہ ابھی تک وقف جدید کے معاملے میں پوری تندہی کے ساتھ ، مستعدی کے ساتھ جماعتیں رپورٹ نہیں بھجوا تیں.اس وقت تک جو کوائف ہیں.پاکستان کے کوائف کا جہاں تک تعلق ہے حسب سابق کراچی خدا تعالیٰ کے فضل سے سرفہرست ہے.پچھلے سال بھی سر فہرست تھا اور پچھلے سال سے خدا کے فضل سے نمایاں طور پر بڑھ کر کراچی نے حصہ لیا اور ربوہ مجھے یاد نہیں کہ پچھلے سال دوئم تھا یا نہیں لیکن اس سال دوسرے نمبر پر ہے اور ر بوہ میں چونکہ اکثر آبادی غرباء پر مشتمل ہے اس لئے ربوہ کا سارے پاکستان میں دوسرے نمبر پر آنا خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک خاص اعزاز ہے جو اہل ربوہ کو نصیب ہوا.لاہور خدا کے فضل سے چندوں میں بہت اچھا ہے.لیکن وقف جدید میں تیسرے نمبر پر ہے.کراچی کا قدم بہت نمایاں طور پر آگے ہے.ربوہ اس سے کئی قدم پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود دوئم پوزیشن حاصل ہے اور لا ہور کراچی سے یوں کہہ لینا کہ اگر کراچی نے تین قدم اٹھائے ہیں تو لاہور نے دو اٹھائے ہیں، یہ نسبت ہے ان کی آپس میں اور فیصل آباد امسال سیالکوٹ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے.سمجھ نہیں آئی کہ سیالکوٹ اپنے گزشتہ سال کے مقابل پر کیوں پیچھے ہٹا ہے اور یہ ایک استثنائی مثال ہے ورنہ بالعموم ہر ضلع آگے بڑھتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہاں سے رپورٹیں آنے میں کچھ کمی رہ گئی ہے ورنہ مجھے سیالکوٹ پر حسن ظن ہے، خدا تعالیٰ نے اس کو جو یہ تقدم عطا فرمایا تھا ، اولیت عطا فرمائی تھی ، اس کو یہ

Page 850

خطبات طاہر جلد ۸ 845 خطبه جمعه ۲۹/دسمبر ۱۹۸۹ء انشاء اللہ قائم رکھے گا اور امیر صاحب سیالکوٹ کو خصوصیت کے ساتھ یہ توجہ کرنی چاہئے کہ کسی قیمت پر بھی اپنے اس سال کو گزشتہ سال سے ہارنے نہ دیں.ابھی وصولی کے کچھ دن باقی ہیں کیونکہ وقف جدید کی وصولی دسمبر میں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ عموماً جنوری کا پورا مہینہ اور فروری کا کچھ حصہ سال گزشتہ کی وصولی میں شمار ہوتا رہتا ہے.اس لئے ویسے بھی مومن کو چاہئے کہ اس کا ہر قدم آگے بڑھے لیکن یہ سال چونکہ غیر معمولی خصوصیت کا سال ہے اس سال دنیا کی کسی جماعت کو بھی اپنے اخلاص پر یہ داغ نہیں لگنے دینا چاہئے کہ جب ساری دنیا میں ۱۹۸۹ء کا سال نمایاں شان سے آگے بڑھ رہا تھا تو ہمارے پاس سے جب یہ سال گزرا تو اس کے قدم ڈھیلے پڑ گئے اور پچھلے سال سے بھی پیچھے رہ گیا.پس اس مسابقت کی روح کے ساتھ جو سالوں کے درمیان بھی چلنی چاہئے آپ اپنے اس سال کو پیچھے نہ ہٹنے دیں.دفتر اطفال بھی وقف جدید کا ایک دفتر ہے.یعنی بڑوں کے چندے کے علاوہ اطفال کے چندے بھی الگ وصول کئے جاتے ہیں.اس پہلو سے بھی خدا کے فضل کے ساتھ کراچی اول ہے لیکن لاہور ربوہ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور اگر چہ بہت معمولی فرق ہے جس کو گھڑ دوڑ کی اصطلاح میں کہتے ہیں.گردن کا فرق رہ گیا یا سر کا فرق رہ گیا تو اتنا تھوڑا سا فرق ہے.آگے جا کر ممکن ہے ، بدل جائے کیونکہ ابھی آخری لائن نہیں آئی جہاں سے گزرنا ہے تو بہر حال لا ہور ، ربوہ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے.اور راولپنڈی چوتھے درجے پر اور سیالکوٹ اس پہلو سے فیصل آباد کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور آگے نکل گیا.الحمد للہ.اور اپنے پچھلے سال سے بھی نمایاں ترقی کی ہے.اس لئے مجھے خیال ہے کہ غالباً اعداد و شمار کی غلطی ہوگی ورنہ وقف جدید کے لحاظ سے اگر اطفال میں سیالکوٹ کا قدم آگے ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بالغان میں بھی وہ قدم آگے نہ بڑھے.ہاں تعداد کے لحاظ سے پاکستان کی رپورٹیں نہیں موصول ہوئیں.بعض جگہ تعداد کا ذکر ہے بعض جگہ نہیں ہے اس لئے میں نے پاکستان میں شامل ہونے والوں کے اعداد و شمار آپ کے سامنے پیش نہیں کئے.وقف جدید کو چاہئے کہ وہ بعد میں گزشتہ سال کے موازنے کے ساتھ تیار کر کے مجھے بھجوائے.جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے، اس میں امسال خدا کے فضل سے شمولیت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے.جیسا کہ آپ کو علم ہے یہ تحریک بیرونی دنیا کے لحاظ سے ابھی نئی

Page 851

خطبات طاہر جلد ۸ 846 خطبه جمعه ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء ہے کچھ اجنبیت رکھتی ہے اور اس کو پوری طرح متعارف کرانے میں ابھی جماعتوں کو بہت محنت کرنا ہوگی لیکن اس کے باوجود نمایاں فرق ہے یعنی گزشتہ سال بیرون پاکستان اور بیرون ہند شمولیت کرنے والوں کی تعداد سات ہزار ایک صد چوالیس تھی اور امسال گیارہ ہزار آٹھ صد انچاس ہو گئی ہے لیکن گیارہ ہزار کی یہ تعداد بھی اور گزشتہ کے ہزار کی تعداد بھی یقیناً آخری نہیں کیونکہ یہ چند جماعتوں کے، چند ملکوں کے اعداد و شمار سے خلاصہ تیار کیا گیا ہے جو گزشتہ سال بھی نامکمل تھا اور امسال بھی نامکمل ہے لیکن جہان تک عمومی موازنے کا تعلق ہے وہ ہم کر سکتے ہیں.کم و بیش اتنی ہی رپورٹوں پر گزشتہ سال یہ تعداد۱۴۴، ۷ تھی اور امسال ۱۱،۸۴۹ا ہے گویا خدا کے فضل سے ۶۵ فیصداضافہ ہے.آمده رپورٹ میں ۲۰ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں شامل ہونے والے بچوں کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں کیا.اس کو الگ ظاہر کرنا چاہئے.صرف ۶ ایسے ممالک ہیں جنہوں نے بچوں کی شمولیت کا علیحدہ ذکر کیا ہے.صرف ۲۰ ممالک ایسے ہیں جن کی آخری شکل میں رپورٹ اب تک موصول ہوئی ہے اور باقی ممالک کی رپورٹیں یا تو ابھی ڈاک میں ہی چل رہی ہوں گی.کرسمس کی وجہ سے بھی بعض دفعہ دیر ہو جاتی ہے اور یا ممکن ہے کہ وہاں سے چلی ہی نہ ہوں اس لئے اگلے مہینے تک شاید آجائیں.اس اطلاع کے مطابق حسب ذیل ۲۰ ممالک ہیں جنہوں نے رپورٹ اب تک کی مکمل بھجوادی ہے.جرمن، ہالینڈ، سیرالیون ، مسقط، سپین، کینیڈا، انڈونیشیا، گی آنا، تنزانیہ، ناروے، جاپان، آئر لینڈ ، گوئٹے مالا ، زائیر ، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ ، ساؤتھ افریقہ، کویت ، امریکہ اور برطانیہ.اب اس میں چھوٹے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں.بعض بڑے بڑے بھی ہیں بعض بڑے بڑے نہیں ہیں اور اسی طرح چھوٹے چھوٹے بھی بہت سے تعداد میں ہیں جو ابھی تک ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہو سکے.وعدہ جات کے لحاظ سے ۱۹۸۹ء میں ۱۹۸۸ء کے مقابل پر نمایاں فرق ہے.۱۹۸۸ء میں ۲۷۳ ۴۲ سٹرلنگ پاؤنڈ کے وعدے موصول ہوئے تھے اور ۱۹۸۹ء میں ۳۸۸ ،۶۰ سٹرلنگ پاؤنڈز کے وعدے موصول ہوئے ہیں.یہ اضافہ بھی خدا کے فضل سے نمایاں ہے یعنی ۴۳ فیصد.وصولی میں بھی کم و بیش یہی شکل ہے.وصولی گزشتہ سال ۴۲،۲۷۳ کے مقابل پر ۴۲،۴۳۲

Page 852

خطبات طاہر جلد ۸ 847 خطبه جمعه ۲۹/دسمبر ۱۹۸۹ء تھی.باوجود اس کے بعض ممالک نے وعدے کے مطابق ادا ئیگی نہیں کی پھر بھی وصولی وعدے سے کچھ بڑھ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض ممالک نے یا تو وعدہ نہیں بھجوایا تھا صرف وصولی بھجوائی ہے یا وعدے سے بڑھ کر وصولی کی.۱۹۸۸ء میں وصولی ۴۲۰،۴۳۲ تھی اور ۱۹۸۹ء میں ۶۱،۵۵۲ یعنی ۳۸۸ ،۶۰ کے وعدے سے بھی زیادہ ۶۱،۵۵۲ وصولی ہوئی ہے اور یہاں اضافے کی شرح تھوڑی سی بڑھ گئی ہے وعدوں کے مقابل پر یعنی وصولی کے اعتبار سے گزشتہ سال پر ۴۵ فیصد اضافہ ہوا ہے.ممالک کی جو باہمی دوڑ ہے اس میں اول پوزیشن پہ جرمنی ہے اور گزشتہ چند سال سے جرمنی ساری دنیا کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھر رہا ہے اور وہ بعض بڑے بڑے امیر ممالک جو پہلے جرمنی کو بہت پیچھے دیکھا کرتے تھے.ان کو میں نے متنبہ کرنا شروع کیا تھا کہ ” آیا ای آیا اور اب یہ بڑھنے لگا ہے لیکن باوجود اس Warning کے اس تنبیہ کے وہ آگے بڑھنے والے کو پیچھے نہیں ہٹا سکے اور وقف جدید میں بھی خدا کے فضل سے جرمنی اول آیا ہے.برطانیہ دوئم ، کینیڈا بھی ایک ابھرنے والی جماعت ہے جس نے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.وہ سوم نمبر پر آیا ہے اور امریکہ چہارم ہے.انڈونیشیا پنجم.ناروے ششم سوئیٹزرلینڈ ہفتم ، ڈنمارک ہشتم اور ماریشس نہم اور مسقط دہم.ماریشس کے متعلق میرا یہ خیال ہے کہ رپوٹ درست نہیں کیونکہ اس رپوٹ کے جو اعدادوشمار ہیں وہ ماریشس کے لحاظ سے ناقابل یقین ہیں.میں جانتا ہوں کہ ماریشس کی جماعت میں امسال ہر پہلو سے ترقی ہوئی ہے اور اخلاص کے لحاظ سے، جذبہ قربانی کے لحاظ سے تبلیغ کے لحاظ سے اور چندوں کے لحاظ سے ، ملک میں وقار اور عظمت اور عزت کے لحاظ سے بہت غیر معمولی طور پر ماریشس کی جماعت آگے بڑھی ہے لیکن یہ اعداد و شمار مجھے یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وقف جدید میں پچھلے سال سے بہت پیچھے رہ گئی ہے گزشتہ سال ان کا وعدہ ۱۸۷۳ء پاؤنڈ سٹرلنگ تھا اور اس کے مقابل پر ادائیگی انہوں نے ۲۰۱۲۲ کی تھی اور امسال یہ اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ وعدہ ۲٬۵۵۸ اور وصولی صرف ۱،۱۹۴.تو یقیناً کوئی غلطی ہوگئی ہے یا سیکرٹری صاحب وہاں ایسے آگئے ہیں جو سارا سال سوئے رہے ہیں.بہر حال میں امید رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ماریشس یہ داغ اپنے اوپر نہیں لگنے دے گا اور وعدے سے بڑھ کر وصولی کر کے اپنی پوزیشن کو بحال کرے گا.مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سے بھی بعض ممالک کو خدا کے فضل سے بڑی نمایاں طور پر قربانی کی توفیق ملی ہے.اللہ تعالیٰ ان

Page 853

خطبات طاہر جلد ۸ 848 خطبه جمعه ۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ء سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے.پس اس اعلان کے ساتھ کہ وقف جدید کا نیا سال شروع ہو رہا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت جس طرح باقی چندوں میں ہمیشہ مسلسل آگے بڑھنے والی رفتار کے ساتھ قربانیاں کرتی چلی آرہی ہے اور اس کی نیک جزا ئیں اس دنیا میں بھی پاتی ہے اور آخرت پر اس سے بڑھ کر تو قعات رکھتی ہے اسی جذبے کے ساتھ وقف جدید کے اس نئے سال میں بھی ہم پہلے سے بڑھ کر قربانیوں میں حصہ لیں گے.اللہ تعالیٰ یہ نیا سال ساری دنیا کے لئے مبارک کرے.جماعت احمدیہ کے لئے خصوصیت کے ساتھ مبارک کرے کیونکہ ساری دنیا کی برکتیں آج جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہیں.آمین.

Page 854

اشاریہ خطبات طاہر جلد ۸

Page 855

حضرت آدم علیہ السلام آڈیو کیسٹ آیا اچھے مضامین کا انتخاب کر کے جلسوں کیلئے آڈیو کیسٹ تیار کروائیں آزادی ضمیر مغرب کا آزادی ضمیر کا غلط تصور اشاریہ ۶۷۱،۶۳۱،۲۹۶ اسلام آزادی ضمیر اور آزادی تقریر کا حقیقی علمبردار آزادی تقریر کا حق غیر محدود نہیں ہو سکتا آسٹریلیا آسٹریلیا جماعت میں زیادہ تر پاکستانی احمدی ہیں جماعت آسٹریلیا کو دعوت الی اللہ کرنے کی خصوصی تحریک جگہ بڑی لینے اور مسجد بڑی بنانے کی ہدایت آفتاب احمد خان آواز ۵۷۵ ۱۲۳ ۱۲۲ ۱۲۴ ۷۰۲،۴۷۵ مسٹر آئین ایڈمسن سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کتاب لکھی آیات قرآنیہ ( ترتیب بلحاظ قرآن کریم ) الفاتحة الحمد لله رب العالمین (۲) البقره ذلك الكتب لا ريب فيه هدى للمتقين (۳) يخدعون ا الله والذين امنوا و مايخدعون.........(1+) ۵۶۰ ۶۱۷ ۶۵۷،۹۹ في قلوبهم مرض فزاد هم الله مرضا (۱۱) فلما اضاءت ماحوله ذهب الله بنورهم (۱۸) ۷۴۹ ۱۸۹ صم بكم عمى فهم لا يرجعون ۱۴ ۵۷۴ ۸۴۶،۴۹۹،۲۱۳ آندھرا پردیش خوش الحان آواز کا دلوں پر اثر ہوتا ہے آئرلینڈ ملک کے حالات اور مذہب ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام سے نفرت نہیں دو آئرش احمدی خواتین کا ذکر خیر جنوبی آئر لینڈ کے پہلے مشن کا افتتاح جماعت کے حق میں چھپنے والے تعارفی مضمون اور صحافی آئرلینڈ کے احمدیوں کو نصائح جماعت کی تعداد کے سوال کا حکیمانہ جواب آئیوری کوسٹ ۲۰۴ ٢٠٣ ۲۰۵ ۲۰۷ ۲۱۰ ۵۵۲،۵۵۱ لا ينال عهدی الظلمین (۱۲۵) وارنامناسكنا و تب علينا (۱۲۹) انا لله وانا اليه راجعون (۱۵۷) (۲۰،۱۹) ۶۶۶۶۶۴ ۳۸۶ ۴۵۵ ۲۳۰،۱۹۷ شهر رمضان الذي انزل فيه القرآن......(۱۸۶) و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب (۱۸۷) الزاد التقوى (۱۹۸) خير ۲۲۶،۲۲۳،۲۱۵ ۶۱۱ ۵۲۱ من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا...(۲۴۶) ۸،۵،۴،۳،۱ لا اکراہ فی الدین (۲۵۷) ۱۲۱ فبهت الذي كفر (۲۵۹) لا نفرق بين احد من رسله (۲۸۶) لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (۲۸۷) ۲۳ ۲۵۸،۱۰۸

Page 856

آل عمران ربنا لا تزغ قلوبنا بعداذ هديتنا......(۹) ۳۳ ولا تسبواا لذين يدعون من دون الله الاعراف (1+9) ان كنتم تحبون الله فاتبعونی...(۳۲) ۵۶۸،۵۳۰ خذوا زينتكم عند كل مسجد وكلو او اشربوا خیر الماکرین(۵۵) تعالوا ندع ابناء نا وابناء كم(٦٢) لعنت الله على الكذبين(٦٢) ۳۸۰ ۷۴۲ ۴۰۰،۳۹۹ ياهل الكتب تعالوا الى كلمة...(۶۵)۷۴۲، ۸۰۲،۸۰۱ بلی من اوفى بعهده واتقى فان الله....(۷۷) يايها الذين امنوا اتقوا الله حق : 1 تقاته.۱۵۵ ولا تسرفوا (۳۲) ۱۲ ۴۶۰،۴۴۶،۲۱۸،۱۵۷ فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون (۳۶) ۲۷۴،۲۷۰ قالوا اوذينا من قبل ان تاتينا و من.....(۱۳۰) التوبه (۱۰۳تا۱۰۸) لا تحزن ان الله معنا (۴۰) ۲۴۱ ۲۷۱ ۳۴۳، ۳۴۶،۳۴۵،۳۴۴، ۳۴۷، ۲۵۷،۳۵۶،۳۵۵،۳۲۸ قل لن يصيبنا الاماكتب الله لنا هو مولنا....(۵۱) ۲۴۳ تلک ایت الله نتلوها علیک بالحق.....(۱۰۹) ۲۵۸ قل هل تربصون بنا الا احدى الحسنين(۵۲) ۲۴۳ کنتم خيرا امة اخرجت للناس (١١١) ۴۴۹،۴۲۹،۲۸۵،۴۳۶،۷۶۴ الذين ينفقون في السراء والضراء (۱۳۵) الذين استجابو الله والرسول من....۱۷۳) ۷۳۲ ۲۴۲ ۲۴۲ ۷۲۷ الذين قال لهم الناس ان الناس.....(۱۷۴) يميزا لخبيث من الطيب (۱۸۰) لتبلون في اموالكم و انفسكم.....(۱۸۷) ۶۷۲،۶۷۱،۶۶۹ النساء ومن يطع الله والرسول فاولئك مع الذين....(۷۰) ۷۵۸ اذا سمعتم ايت الله يكفر بها ويستهزأ بها.....(۱۴۱) ۱۳۹،۱۳۸ وبكفرهم وقولهم على مريم بهتاناً عظیماً (۱۵۷) ۱۳۷ المائدة ولايجر منكم شنان قوم (۳) ۸۱۱،۸۱۰،۸۰۹٬۸۰۸ يموسى انا لن ندخلها ابداما داموا فيها (۲۵) ۲۴۵ من يرتد منكم عن دينه....(۵۵) والله يعصمك من الناس (۲۸) الانعام ۷۳۴ ،۷۳۳ ۳۳۲ يوسف لا تثريب عليكم اليوم (۹۳) الرعد واذا اراد الله بقوم سوء فلا مردله (۱۲) انزل من السماء ماءً فسالت اودية بقدرها......(۱۸) ۵۳۲ ٣٣١ ۴۳۴ ،۴۳۰،۴۲۵،۴۲۴ ابراهيم لا زيدنكم (۸) الحجر وما يا تيهم من رسول الا كانوابه يستهزء ون..۶۸۳ ان من شيء الا عندنا خزائنه و ما ننزله الا بقدر معلوم (۲۲) النحل ۶۷۴ ۱۸۶ ن كفر بالله من بعد ايمانه الا من اكره (۱۰۷) ۷۳۸،۷۳۷ من بنی اسرائیل واستفز ز من استطعت منهم بصوتك واجلب عليهم بخیلک (۶۶،۶۵) ۳۲۳، ۳۲۴، ۳۲۷، ۳۴۲ الذين يخوضون في ايتنا (۷۰،۶۹) ۱۴۳،۱۴

Page 857

واجعل لي من لدنك سلطناً نصيراً (۸۱) الكهف وينذر الذين قالوا اتخذا الله ولداً مالهم به من علم ولا لا يا يهم..(۲۵) فلعك باخع نفسك (۷) انا جلعنا ما على الارض زينة لها (٨ تا ١ ١ ) ۵۱۱ ۱۴۳ ۲۴۱ (۲۰) فاذا جاء الخوف رايتهم ينظرون اليك ولما را المومنون الاحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله رسوله و صدق الله و رسوله....(۲۳) فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر (۲۴) سبا بلدة طيبة ورب غفور (١٦) ۲۴۲ ۶۴۲،۴۹۱ ۲۱۴ البقيت الصلحت (۴۷) مریم ۵۸۱،۵۷۹،۵۷۷ ۳۸۹ السلم على يوم ولدت ويوم اموت ويوم ابعث حياً (۳۴) ۱۸۹ طه فلا قطعن ايديكم وارجلكم من خلاف......(۷۲) ۲۳۹ قالوا لن نؤ ثرك على ماجاء نا البينت......(۷۳) انا امنا بربنا (۷۴) ویسئلونک عن الجبال فقل ينسفها ربى نسفا......(۱۰۲ تا ۱۰۹) الانبياء واذا راك الذين كفروا ان يتخذونک الا هزوا......(۳۷) ۲۴۷،۲۴۰ ۲۴۰ ۶۷۳ يس قال يليت قومى يعلمون......(۲۸۲۷) يحسرة على العباد (۳۱) المومن وان یک کاذباً فعلیه کذبه و ان یک صادقاً يصبكم بعض الذي يعدكم (۲۹) حم السجدة وعمل صالحاً (۳۴) ۷۲۴ ،۷۲۳ 722 ۳۳۴ ۵۹۶ ومن احسن قولا ممن دعا الى الله.....(۳۴) ۵۹۵٬۵۹۴ الله..الشورى لا حجة بيننا و بينكم (١٦) محمد ۸۰۲ ذلك بان الله مـولــى الـذيـن امــنــواوان الكفـريـن ۳۱۸،۳۱۷ الشعراء لعلک باخع نفسك الا يكونوامومنين (۴) الروم ظهر الفساد في البر والبحر (۴۲) السجدة ۲۵۹ ۴۴۰،۴۳۷ تتجا في جنوبهم عن المضاجع....(۱۷) ۳۳،۲۶،۲۵ الاحزاب لا مــــولــى لهـم (۱۲) الفتح ليغيظ بهم الكفار (۳۰) ق هل من مزيد (٣١) الذاريات ففروا الى الله (۵۱) ۷۲۵،۱۹۷ ۲۳۴ ۲۷۷۱۷

Page 858

النجم الذين اجر مو كانوا من الذين امنوا...(۳۰) واذا مراو بهم يتغامزون (۳۱) ۶۷۵ ۶۷۵ ۶۷۵ ۳۲ ۲۴ ثم د نافتدلى فکان قاب قوسین او ادنی (۱۰۹) فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقى (۳۳) الرحمن كل يوم هو في شان (۳۰) الواقعة وتجعلون رزقكم انكم تكذبون (۸۳) المجادلة ۶۱۵،۶۱۳ كتب الله لا غلبن اناو رسلی (۲۲) الحشر ۷۳۲ ۷۵۲،۶۷۷ ولا تكونوا كالذين نسوا الله فانسهم انفسهم (۲۰) ۳۱۹ هو الله الذي لا اله الا هو علم الغيب (۲۳تا۲۵) ۲۶۵ واذا انقلبوا الى اهلهم انقلبوا فكهين (۳۲) واذا راو هم قالو ان هؤ لاء لضآلون (۳۳) البروج و السماء ذات البروج واليوم الموعود......( ١ تا ١ ) ۴۹۴،۴۹۲ ،۴۸۵،۲۴۸،۲۲۹ الطارق انهم يكيدون كيداً واكيد كيدا...( ۱ تا ۱۸) ۷۰، ۷۱ الغاشية انما انت مزكر لست عليهم بمصيطر (۲۳۲۲) ۴۴ الضحى وللأخرة خير لك من الاولى (۵) الهمزة ۶۱۶ الجمعة واخرين منهم لما يلحقوا بهم (۴) التغابن فاتقوا الله ما استطعتم ( ١ ) الجن ۷۵۶ ۳۴۹،۳۴۶،۳۴۵ ان المسجد لله فلا تدعوا مع الله احداً (۱۹) ۴۶۳ المزمل تبتل إليه تبتيلا (۹) المطففين ۲۵ نار الله الموقدة التي تطلع على الافئدة(۸،۷) النصر اذا جاء نصر الله والفتح....۲ تا ۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام ۲۳۴ ۴۱۸،۴۱۷ ۲۷۶،۲۶۸،۲۶۷ ،۱۶۵،۱۱۵ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی اولاد کے حق میں دعا کی وسعت آپ کو قیامت تک کی برکتوں کے وعدے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی آپ کو آگ میں پھینک کر زندہ جلانے کا منصوبہ بنایا حضرت ابراہیم ( فرزند حضرت نبی کریم) ۳۸۶ ۴۵۶،۴۵۵ ۴۸۶ ۵۸۸

Page 859

آپ کو قبر کی لحد میں اتارتے ہوئے آنحضرت کے آنسو جاری ہونا حضرت ابن عباس ابوالاعلی مودودی مولانا ان کی مسلمان کی تعریف حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابوبکرصدیق" کا خدعہ تاریخ میں کامل نمونہ ابو جہل ۲۸ روز مرہ کے ادب اور حسن سلوک کی افادیت ۳۴۵ اخلاق کی حفاظت سب پر فرض ہے MIZ ۲۷۱،۱۱۷ ۷۶۶ اخلاق فاضلہ کے بغیر دنیا میں پنپا نہیں جاسکتا ۴۱۵ ۴۱۵ سچاند ہب اخلاق کے بغیر غیر قوموں میں سرایت نہیں کر سکتا ۴۱۴ بنیادی اخلاقی کمزوریاں گہرے رخنوں کے مشابہ ہوا کرتی ہیں ۶۰۵ ارتداد ارتداد جبر و تشدد کے نتیجہ میں ایمان میں تبدیلی اس کا نشان کا مطالبہ ابولہب حضرت ابو ہریرہ اٹک اجتماعیت اجتماعیت میں زندگی ہے اجتماعی طاقت کی برکت مساجد کو اپنی اجتماعی زندگی کا محور بنا ئیں مولانا احمد علی صاحب جمعیت علمائے اسلام احمد ندیم کا قاسمی معروف اردو شاعر ملک اختر جعفری سیکرٹری انجمن سادات اسلام آباد اختلاط وسیع پیمانے پر اختلاط کے بدنتائج اخلاق اعلیٰ اخلاق کے حصول کا طریق اخلاقی قدروں کی افادیت بنیادی خلق وسعت حوصله مضبوط عزم اور ہمت ۸۱۳،۲۰۰ ۷۵۰ ۷۹۲ ۵۳۸،۵۳۷ ارتداد کی حقیقت قرآن کریم میں ارتداد کا ذکر ۷۳۷،۷۳۶،۷۳۵ ،۷۳۴ ،۷۳۳۷۳۲۷۲۹،۷۲۷ ۱۳ پاکستان میں ارتداد کی مہم کا تذکرہ ۲۱۷ ۴۵۵ ۴۴۹ 11 ۷۳۹،۷۳۷،۷۳۶،۷۳۵،۷۳۴۷۳۳ جماعت احمدیہ کو خوفزدہ کر کے ارتداد پر مجبور کرنے کا پروگرام تشدد کوارتداد میں تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں ۴۹۰ ۷۲۵ مرتدین غیروں سے لینے والے ہوتے ہیں دینے والے نہیں ۷۳۲ مومن اور مرتد کی امتیازی علامت ایک ایک مرتد کے بدلے قو میں عطا ہونے کا وعدہ ۴۵۴ فی مرتد ایک ایک ہزار بیعتیں عطا ہونے کا تذکرہ ۷۳۵ ۷۳۴ ۷۳۵ MIZ ۶۱۵ ۴۰۲ ۴۱۶ ۲۲ ۷۵۷ ۷۶۱ ارشاد احمد حقانی کالم نگار استغفار خدا سے دعا اور استغفار کے ذریعہ مدد مانگو استغناء استغناء کے معنی اور پنجاب کی استغناء کی آخری شکل استهزاء خدا کے ہر پاک بندے کے ساتھ تمسخر کیا گیا پاکستان میں احمدیوں سے استہزاء کا سلوک استہزاء کرنے والے ہمیشہ مغلوب ہوئے ہیں حضرت اسحاق علیہ السلام اسد اللہ خان غالب دوسروں کی تکلیف کا احساس اور حاجت روائی کرنا ۷۶۵ ان کی شاعری محض شاعری نہیں بلکہ مسائل تصوف ہیں ۸۲۲ ۴۱۸ ۲۱ ۶۷۴ ۶۷۶۶۷۵ ۶۷۷ ۱۶۵ ۲۸۰،۸۲ ۱۶۳

Page 860

اسلام میں داخل ہونے کا جماعت احمدیہ بہترین دروازہ ہے ۵۸۴ اسلام کی ترقی کے لئے ایک عظیم دروازہ کھل رہا ہے اسلام آباد اسلام آباد (انگلستان) اسلامی جمعیت طلباء جماعت کے خلاف منصوبہ کی آلہ کار مولوی اسلم قریشی اسلم قریشی کی پر اسرار گمشدگی مباہلہ کے نتیجہ میں اس مردے کو خدا نے زندہ کیا خدا نے احمدیت کو اس کی زندگی کا نشان دکھا کر ایک نئی شان سے زندہ کیا ہے اسلم لودھی ڈی ایس پی ۵۹۴ ال،۴۰۲،۱۵۲،۱۵۰ 129 ۶۸۱ ۴۰۰ ۷۹۵ ۷۴۸ ،۷۴۷ ۷۴۸ ۲۳۱ ۳۱۶،۳۱۵ ۲۰۱ ۴۲۹ ۷۶۰ ۴۵۴ حضرت اسماعیل علیہ السلام اسیران راه مولی اسیران راہ مولیٰ اور ان کی جلد رہائی کیلئے دعا کی تحریک اصحاب الصفہ ۷۹۴،۵۳۸،۳۰۸،۳۰۷ ۱۲۲ ۱۴۶ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۲۶ ۱۲۷ ٣٠٣ ۵۳۰،۵۲۹ ۵۷۰ ۵۸۱ ۵۸۱ ΟΛΙ ΟΛΙ اسرائیل اسلام آزادی ضمیر اور آزادی تقریر کا اسلامی تصور مغربی حملوں کیلئے مسلمانوں کو عالمی رائے عامہ اور اقتصادی ہتھیار کے استعمال کا مشورہ حضرت علی کے خلاف قیصر روم کو فو جیں جمع کرنے پر معاویہ کے انتباہ کا تاریخی واقع آنحضرت کی حرمت کے دفاع کیلئے عالم اسلام کو عالمی مشاورت کا مشورہ رشدی کی کتاب پر مسلمانوں کے غلط رد عمل کا نقصان اسلام کے حق میں مولوی کی غلط تحریکات کا نتیجہ وہابیت حنفیت کی دشمن فرقہ نقش بند یہ صوفیا کا ایک فرقہ نے زمانہ کی ایجادات اسلام کی خدمت کیلئے ہیں اسلام اور دنیا کے دیگر مذاہب میں فرق اسلامی تعلیم کی برتری غیروں پر ثابت کرنا ہرگز مشکل نہیں اسلام کی معقول، حسین اور دلنشیں تعلیم اسلام کی پیش کردہ توحید کی برتری غلبہ اسلام کا وعدہ ضرور پورا ہوگا ۶۶۹ دیوار برلن کا گرنا اور اسلام کا ان ملکوں میں پھیلنے کی تیاری ۷۷۴ مسیح موعود کا دور اسلام کے غلبہ کا دور آخرین اسلام کی ترقی کے نئے ایونیو مالکی بھی اس وہابیت سے سخت متنفر اور اس کے عروج سے ۷۷۵ ۸۳۸ بعض کو کئی کئی وقت کے فاقے پڑا کرتے تھے اطفال الاحمدیہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے ذریعہ بچوں کی تربیت اطفال کی تربیت کے لئے کلاسز لگائی جائیں اعجاز احمد خلیفہ المسیح الرابع کی دعا سے پیدائش ۶۲۸ ،۶۲۷ افریقہ ۱۳۰،۹۱،۸۳،۵۵،۱۳،۱۰ ۵۸۵،۴۹۹،۳۷۴ ،۲۵۵،۲۵۱ ،۱۷۹،۱۳۳ افریقی ممالک میں احمدیت کے خلاف ۳۰۴ ۳۰۴ ۴۲۲،۴۲۱ ۴۲۱ خائف ہیں اسلام نہایت ہی معقول دلائل سے بھرا ہوا ہے.روحانی اور اسلام کی خوبیوں کے نفوذ کے ذریعہ غلبہ سچائیاں جہاں بھی ملیں وہ اسلام کی سچائیاں ہیں تمام سچائیوں کا سر چشمہ اسلام ہے اسلامی اخلاق سے مزین ہوں ۴۲۰ ۴۱۹ سعودی عرب کے پیسے سے سازشیں افریقہ کے کئی ممالک تبلیغ کے لحاظ سے نہایت اسلام کو الگ رکھیں اور مشرقی روایات اور قدروں کو الگ رکھیں ۴۱۹ قوموں کے وسیع پیمانے پر اسلام میں داخل ہونے کی پیشگوئی ۴۱۷ اعلی لیکن کام کی رپورٹ نہیں بھجواتے

Page 861

۱۹ < ° ۲۲ ۲۲ ۵۲۳ ۵۳۱ ۵۶۶ ۶۰۷ ۶۰۹ ۶۱۳ افریقہ میں ایک مخلص خاتون کے ذریعہ سوبیعتیں افریقہ کی ہر زبان میں تربیتی ٹیسٹس تیار کریں ۴۸۲ ۵۶۹ افریقہ میں تربیت کیلئے جدید آلات سے استفادہ کیا جائے ۵۷۰ افریقہ سے غربت اور بھوک ختم کرنے کیلئے جدو جہد افریقہ کو کھانا پہنچانے کیلئے میوزک شو کا انعقاد افریقی ممالک میں خطر ناک خانہ جنگی کی پیشگوئی ۵۸۴ ۵۸۵ ۵۸۶ افریقہ میں انتہائی خوفناک اقتصادی حالات ظاہر ہورہے ہیں ۵۸۹ افریقن ممالک میں اقتصادی بحران کے باوجود مالی قربانیاں ۶۹۹ افریقہ میں انفرادی قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں افریقی قوم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں افریقہ میں مالی قربانی کی نمایاں روح افریقہ میں جماعت احمدیہ کے ہسپتالوں میں برکت امریکن اور یورپین ہسپتالوں کی نسبت جماعت احمدیہ کے ہسپتالوں کی شہرت افریقہ میں جماعت احمدیہ کا نفوذ جماعت احمدیہ کے ذریعہ افریقہ میں روحانی اور جسمانی شفاء 2•• ۸۴۳ ۸۴۳ ۴۲۷ ۴۲۷ ۴۲۶،۴۲۵ ۴۲۷ ۴۲۶ ۵۹۹ ۶۰۱ ۲۶۱،۸۰ ۷۹ ۷۸ افریقہ میں جماعت کے سکولوں اور ہسپتالوں کی خدمات افریقہ میں رشین ایمبیسڈر سے ملاقات فرینچ سپیلنگ افریقن ممالک افغانستان اس کو در پیش دو بڑے خطرات یہاں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا تذکرہ ایک عظیم الشان معصوم کو شہید کرنے کی وجہ سے بدبختی افغانستان کے گزشتہ سو سال کے حالات سے پاکستان کو سبق لینا چاہئے اقتصادیات افغانستان کے واقعات کے ساتھ روس کا گہرا تعلق مغربی ممالک کی اقتصادی ترقی رکنے کی پیشگوئی اقوام متحدہ الف لیلیٰ ۷۸۳،۷۸۲ ۵۰۳ اللہ تعالیٰ خدا کو مومنوں سے مالی قربانی لینے کی کیا ضرورت ہے؟ خدا کے لامحدود فضلوں کے سلوک کا فلسفہ صفت غناء اور اس کی وضاحت صفات الہیہ پر غور کرنے کا فائدہ خدا کی ذات کی طرح خدا کی ہر صفت لامتناہی ہے زمین و آسمان بظاہر دو حقیقتیں لیکن ان کا ایک ہی مالک صفات باری تعالیٰ کو اپنے دل میں جاگزیں کرنے کی کوشش کریں خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کرنا ہی کمال ہے خدا کے وجود کی وسعتوں کو جاننے کی کوشش کریں خدا تعالیٰ عالمگیر ہی نہیں بلکہ ساری کائنات کا مالک ہے خدا کی صفات کے لطیف اور ارفع پہلوؤں کی معرفت خدا تعالیٰ کے عرفان میں ترقی کریں ہر روز ہر لمحہ خدا کی شان تبدیل ہوتی رہتی ہے موسموں کے اثرات خدا تعالیٰ کی صفات کی جلوہ گری ہے خدا کا تصور عرفان کے ساتھ ساتھ پھیلتا ہے خدا کا عشق حقیقی ہے خدا تعالیٰ سے محبت کے سلیقے خدا تعالیٰ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب اب دلائل کا دور نہیں رہا بلکہ خدا نمائی کا دور ہے خدا نمائی کی منزل با خدا بننے کے بعد آیا کرتی ہے خدا کی طرف سے اٹھنے والی آواز لازماً غالب آتی ہے خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی پر قادر ہے خدا کے در سے کوئی نامراد نہیں لوشا مشکل کشائی کیلئے خدا کے حضور گرنا چاہئے ۵۸۶ خدا تعالی کی نظر دلوں پر پڑتی ہے ۱۴۶ خدا کی ذات ہر برائی سے پاک ۴۹۷ ۷۸۳ ١٠٣ جس کو خدا اہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ۶۱۳ ۶۱۴۶۱۳ ۶۱۴ ۶۱۵ ۶۱۷ ۶۱۸،۶۱۷ ۶۱۹ ۶۲۲ ۶۲۶ ۶۳۳ ۶۸۶ ۶۸۶ ۷۰۷ ۴۴۷ ۴۱۷ ۲۹۳

Page 862

۴۲۷ ۴۲۳ پاکستانی اور افریقن امریکن احمدی لکھوکھہا امریکیوں نے چھٹے بجانے ہی کو دین سمجھ لیا ۴۳۹،۴۳۶،۴۲۵ ،۴۲۴ ۴۳۳ ۴۰۰ ۸۲۰ امریکہ میں احمدیت امریکہ میں بسنے والے احمدیوں کی حفاظت امیر حمزہ (بھتیجا مولوی منظور احمد چنیوٹی ) مولانا امین احسن اصلاحی مسلمانوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا ۸۴۷،۸۴۶،۷۰۱ ،۷۰۰ ، ۴۶۴ ،۱۳ ۳۱۲،۳۱۱،۳۰۵ انڈونیشیا جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ انڈیا دیکھئے ہندوستان انگلستان ،۶۳،۵۷،۳۶،۵۳،۱۵،۱۳ ،۲۰۶ ،۱۷۹۱۶۸ ،۱۴۸ ،۱۴۷ ، ۱۴۵ ،۱۲۷ ، ۱۲۶،۱۲۴،۱۱۳،۶۸،۶۷ ،۵۴۴،۵۱۸ ،۵۱۴ ،۴۹۰۳۹۴ ،۳۸۸ ،۳۷۲،۲۳۶،۲۱۵،۲۰۹،۲۰۸ ،۷۱۹ ،۷۱۸ ،۷۱۱ ،۷۰۳ ،۷۰۲ ،۷۰۱ ،۷۰۰،۶۸۲ ،۵۸۴ ،۵۴۵ ۸۴۷ ،۸۴۶،۷۹۴،۷۸۶،۷۸۵ ، ۷۷۴ ،۷۷۱ ،۷۲۳ ۱۲۳ ۷۹۵ ۷۲ ۶۳۶،۶۳۳ 190 ۵۵۲ ۵۳۹،۵۲۱ 2.2 2.2 مولوی اللہ یا ر ارشد الهام الہام کیسے ہوتا ہے؟ حضرت مسیح موعود کا الہام میں ” تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ خلیفتہ امسیح الرابع کا صدی کا پہلا الہام پائے محمد یاں بر منار بلند محکم تر افتاد ( آپ کا الہام) امت واحده تمام دنیا کو امت واحدہ بنانے کا گر امراء جماعت دعا گو امراء کے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑتی ہے امراء زندہ نظام کے زندہ نگران بنیں امراء جماعت نظام جماعت کو مستحکم کریں امراء جماعت ماتحت شعبوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں امراء سیکرٹریان کو کام کرنے کا سلیقہ سکھائیں امریکہ ۷۰۴،۷۰۳ ۷۰۵ ،۲۱۳،۱۵۱ ۱۴۸،۱۳۳،۱۳۰،۱۲۷ ،۱۲۰ ،۱۱۷ ،۹۹ ، ۹۱،۸۰۰۷۷ ،۱۳ برطانیہ کا بلا شیمی کا قانون جلسہ سالانہ کے میزبان نے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کیا ۵۶ ۲۳۶، ۲۷۷، ۳۰۱، ۳۰۶، ۳۰۷، ۳۰۸، ۳۱۶، ۳۳۵، ۳۳۶ ، انگلستان کے احمدی مہمانوں کو یہی جذبہ سے خدمت کریں ۵۶۳ ۳۳۷، ۳۳۸، ۳۷۴، ۴۵۲،۴۵۱،۴۵۰،۴۴۹،۴۱۲،۴۰۸ ، ۴۵۷ برطانیہ جب اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۷۰۰ ۶۸۲ ،۵۸۵ ، ۴۷۸ ، ۴۷۳ ،۴۷۱، ، ، ۴۷۰ ، ۴۶۹ ،۴۶۸ ۸۴۷،۸۴۶،۷۰۳۷۰۱ امریکہ کا سالانہ Deficit ملکہ وکٹوریہ کے انصاف کا دور انگلستان کی جماعتی ترقی کا تذکرہ ۱۱۹ وقار عمل کی روح ۶۴۹،۶۴۸ ۶۵۰ ۷۳۶ ۴۲۸ ۷۶۳ 225 ۳۰۶ پانی ضائع کرنے کی عادت ۳۰۷ انگلستان ہجرت کے فوائد ۳۰۷ ۵۱۸ انسان بنی نوع انسان کی جنت شریعت کی حدود میں رہنا اور اس پر عمل کرنا ہے ۲۱۸ انسانی فطرت کا حصہ بنے والی عادات کو مٹانا زندگی کومٹانا ہے ۲۳۸ انسان کے بدن کے اندر نظام وراثت کا قانون ۳۸۹ ۴۳۲ ۴۳۱،۴۳۰ ۴۲۸ امریکہ کے خلاف شدید رد عمل طاقت کا سر چشمہ یہودی ہاتھوں میں امریکہ کی پالیسی اسرائیل میں بنتی ہے وسطی امریکہ کا مشہور گانا Banana Boat Song امریکہ جیسے امیر ممالک میں خدمت کے مواقع امریکہ جماعت نصیحت کے گروہ بنائے جائیں امریکہ جماعت میں وقار عمل کی روح

Page 863

۱۱۹ ۵۳۸،۱۳۰،۹۲،۹۱ ۳۵۷ ۷۲۶ ۷۳۶ ۶۳۷ ۶۳۷ ۱۸۸ ۴۰۷ ۲۸۹ ۷۶۱ ۸۲۱ 11 انسانی سوسائٹی میں صرف اپنے ظاہر کو درست رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے انسانی تاریخ کا ارتقاء تمدنی تفاوت کی وجہ سے خدا کے کچھ بندے زیر زمین رہنا پسند کرتے ہیں ۵۲۹ ۵۷۸ ۵۷۹،۵۷۸ ۵۸۰ غاروں میں بسنے والوں کی نئی تہذیب ابھرنے کی پیشگوئی ۵۷۹ تمام انسانی تاریخ بار بار اپنے آپ کو دہراتی ہے انسانی فطرت کو مٹانا ناممکن ہر انسان کے عرفان کی ترقی کے ساتھ ساتھ خدا کے جلوے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں انسان کو فائدہ پہنچانے کیلئے امیر ہونا ضروری نہیں بقاء کیلئے بنی نوع انسان کیلئے مفید وجود بنیں نوع انسانی کو فائدہ پہنچانے کا سب سے بڑا طریق بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے طریق انصار الله ۶۰۹ ۶۱۴ ۴۲۹ ۴۲۷ ۴۲۳ ۴۲۹ ۴۶۷ ،۴۷۲ ۷۶۹ ،۷۵۹،۷۵۷ ،۷۱۹ ،۷۱۴ ، ۱۲ ۱۱ ربوہ میں اجتماع کرنے کی اجازت ملنا انوار الاسلام (تصنیف حضرت مسیح موعود ) چوہدری انور حسین صاحب آپ کی رویا کا تذکرہ اوکاڑہ اہل کتاب اہل کتاب کو تعاون کی پیشکش انہظام نظام انہظام پر تفصیلی بحث ایبٹ آباد ایران امیران میں اسلامی انقلاب ۶۸۲ ۲۳۰ ۷۸۳ ۱۲ ۸۰۲ اس کا چار سو بلین جنگ کیلئے ہتھیاروں پر خرچ کرنا ایشیاء ایمان ایمان کی ضمانت حبل اللہ کو پکڑے رہنے میں ہے ارتداد اور ایمان میں فرق ایمان بدلنے کیلئے شیطان لالچ دیا کرتا ہے حضرت بابا گرونانک بہت ہی بڑے خدا پرست ولی آپ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام تھے باہری حمید بد اخلاقی اسلامی دنیا میں اسی طرح بد اخلاقیاں ہیں جس طرح غیر اسلامی دنیا میں بد دیانتی تیسری دنیا میں بددیانتی کی کثرت بدسلوکی نوکروں سے بدسلوکیاں بدھ بدین برازیل برتھ مارک عاشق سائنسدان کا اپنی خوبصورت معشوقہ کے چہرے سے برتھ مارک ختم کرنے والا قصہ ۱۲ ہمارا برتھ مارک آنحضرت اور خدا کی محبت برطانیہ دیکھئے انگلستان ۴۱۳،۴۱۲ ۱۵۰،۱۴۸ ،۱۴۵،۱۴۴ ، ۱۲۸ ،۱۱۶ ۷۸۳،۷۸۲ ۴۳۱،۴۳۰،۲۱۳ ۲۳۸ { } ۲۳۱

Page 864

برکات احمد سید مرحوم برلن برمنگھم مولوی محموداحمد میر پوری کی ہلاکت کی خبر شائع ہوئی بزرگان جماعت بزرگوں کی نیکیوں کو یا در کھنے اور دعائیں کرنے کے خلق کو ہر گھر میں رائج کرنا چاہئے بزرگوں کے حالات زندگی چھپوانے سے قبل نظام جماعت سے اجازت کی تاکید بش امریکی صدر ۱۳۱ 223 ۳۹۷ ۱۷۶ IZA ۱۴۴ پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب زندگی ہے دست قبلہ نما لا الہ الا اللہ حافظ بشیر الدین صاحب عبید الله مبلغ کبابیر بلاسفیمی برطانیہ کا بلاشمی کا قانون مصر سے بلاغیمی پر کسی کوقتل نہ کرنے کا فتویٰ آیات اللہ کے انکارو تمسخر پر غیرت مند مسلمان کا رد عمل گستاخ باتوں والی مجالس سے اٹھ جانے کا حکیمانہ قرآنی حکم خدا کا گستاخ کی سزا کا معاملہ اپنے پاس رکھنے میں حکمت بلغاریہ حضرت بشیر احمد مرزا ( فرزند حضرت مسیح موعود ) انسانی ہلاکت کیلئے خوفناک بم ایجاد ہو چکے ہیں بچوں کی تربیت میں آپ کا اہم کردار اور آپ کا طریق تربیت ۵۳ بمبئی بشیر احمد خان رفیق ۷۹۱ بنگلور حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفة المسح الثانی بنگلہ دیش آپ کی بچپن کی ایک غلطی آپ کی ایک پرانی رؤیا کا تذکرہ گورنر کی طرف سے مصلح موعودؓ کی گھر کی تلاشی کا حکم ۷۲۰،۲۰۰،۸۸ بورکینا فاسو ۷۶۱ بہاولپور ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف عالمی مہم چلائی ۵۱۷ خدمت خلق کا کیمپ لگانے پر قید بہاولنگر ۱۹۹ بہاؤ ۳۷ بہائیت آپ کا عبدالرحیم صاحب در دکو قائد اعظم کو ہندوستانی سیاست حضرت مصلح موعود کی تحقیق میں کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے ارشاد ۳۷ ۱۰۸ بھٹو ذوالفقار علی سابق صدر پاکستان آپ کی امیر گھرانوں کو اپنے واقفین کی مالی مدد کی تحریک بے صبری آپ کی ہدایت پر دہلی کے جلسہ میں عظیم الشان قوت کا مظاہرہ ۳۲۹ بے صبر کی وجہ سے مشکلات کا امکان حضرت مصلح موعود کی موجودہ حالات کے بارہ میں پیشگوئی ۵۰۲ آپ نے جماعت کو رسم و رواج کا شکار ہونے سے روکا حضرت مصلح موعود کے اشعار کے مطابق احرار کے متعلق دعا کی تحریک آپ کا منظوم کلام ۳۴۴ بیعت عبد بیعت اصل اور حقیقی عہد ۷۲ ۱۹۸۹ء میں ایک لاکھ بیعتیں اے ۳۷۴ 2^2 ۱۲۳ ۱۲۸ ۱۳۸ ۱۴۱ ۲۵۷ ۵۸۹ ۲۵۱،۱۵۲ ۳۶۲ ۷۰۱ ،۷۰۰ ، ۴۶۴،۴۲ ۵۵۲ ۸۰۷ ۱۲ ۳۳۷ ۶۳۹ ۶۷۰ 171 ۷۹۳ ۲۰۷

Page 865

پاپایا نیوگنی پارسی پاکستان مخالفت سے مرعوب نہیں ہوں گے پاکستان کی پرزور مخالفت ۲۱۳ پاکستان میں احمدی گھروں کو جلانا ۱۲۸ جماعت مخالف لٹریچر کی کثرت سے اشاعت ۶۳۹ ۶۴۲،۶۴۱ ، ۶۴۰،۶۳۹ ۶۴۰ ۶۵۳ احمدیوں پر جھوٹے مقدمات بنائے جارہے ہیں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیاں پاکستان کا کوئی علاقہ اس وقت مامون نہیں خدا کی تقدیر غلبہ کی طرف بڑھ رہی ہے احمدیوں کے ساتھ نہایت سفاکانہ اور بہیمانہ سلوک ۶۶۴ ۶۶۹ ۶۷۶ ۶۷۷ ΥΛΙ پنجاب حکومت بلاشبہ جماعت کے خلاف منصوبوں میں آلہ کار ۶۸۱ ۴۸ ،۴۶،۴۵ ، ۴۴ ،۴۲،۳،۴۲،۴۲۱ ، ۲۴۰ ،۳۶،۳۵،۱۶،۱۵،۱۳،۱۲،۱۱،۱۰ ۲۵۲،۲۳۶،۲۳۵ ،۱۹۸ ،۱۹۵،۱۵۰،۱۳۰ ، ۱۱۴ ،۱۰۳ ،۱۰۲ ،۷۴،۷۰ ،۵۳۵ ،۵۲۵ ، ۴۹۹ ،۴۰۱ ،۴۰۰ ، ۳۸۹ ،۳۷۹،۳۷۸ ،۳۷۳،۲۸۰ ،۷۱۹،۷۱۸ ،۷۱۳،۷۱۲ ،۷۰۴،۶۹۷ ،۶۹۶۶۹۵،۶۹۴،۶۹۱ ،۵۳۸ ۸۴۵،۸۴۴ ،۷۵۱،۷۵۰ ،۷۴۶ ۳۸ مذہبی جماعتوں کی پاکستان کی مخالف افغانستان کو لاحق خطرات کے پاکستان پر بداثرات اینٹی احمد یہ آرڈینینس ۳۰۹ ۳۰۵ ۳۱۵،۳۱۴،۳۱۲،۳۱۱ ہرا مینٹی احمد یہ تحریک کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ سیاست پر تبصره احمدیوں کے خلاف طوفان بدتمیزی ۳۲۸،۳۲۶،۲۳۵ ۳۴۱،۳۳۷،۳۳۶،۳۳۳ ۳۹۱ پاکستان میں درندگی ، وحشت اور خود غرضی کی انتہاء پاکستان کے پریشان کن حالات کا تذکرہ پاکستان میں حالات تبدیل ہونے کیلئے دعا پاکستان بے ضرورت آگ جلتے رکھنا عوام الناس شریف النفس ہیں تعصبات کی وجہ سے نیکی میں تعاون سے باز نہیں آنا جماعت احمدیہ کے خلاف ظلم وتعدی پاکستان میں مذہبی تشدد اور انتہا پسندی ۲۳ مارچ کی اہمیت پاکستان کی خوشیوں کا دن ۲۳ مارچ ۷۲۷ ۷۴۰ ،۷۳۹ ۷۶۳ ۸۰۶،۸۰۵ ۸۰۷ ۸۱۵ ۸۲۹ ۸۳۵ ۸۳۷ پاکستان بدیوں کی کثرت اور ڈرگز بے قابو ہورہی ہیں ۳۹۱ عوام الناس کی اکثریت جماعت کے خلاف ظلم میں شریک نہیں ۵۰۴ ستائیسویں رمضان المبارک کی رات انڈین ایمبیسی میں روز مرہ کی انسانی زندگی پر اسلام کا ادنی سا بھی اثر دکھائی نہیں دیتا ۴۰۷ ۳۹۲ حالات بہتر ہونے کے لئے دعا کی تحریک شراب کی محفل اگر تم ظلم اور سفا کی سے باز نہ آئے تو تمہیں خدا کی تقدیر پاکستان سے خدا تعالیٰ کی تقدیر افغانستان والا سلوک نہیں عبرت کا نشان بنا دے گی پاکستان میں خدا کے گھر مسمار کئے جارہے ہیں ۴۹۸ کرے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۴۵۷ پیشمرگ (امریکہ) پنجاب جلسہ سالانہ قادیان کا منعقد ہونا پاکستان کے حالات پر منحصر ہے ۵۱۰ مخدوش حالات کی وجہ سے واپس آنے کو دل بہت تیزی سے چاہنے لگا ۵۵۰ ۵۰۴ ۱۹۵،۱۹۳،۱۵۹ ،۷۰،۳۹،۱۴ ۶۹۳،۶۹۲،۶۹۱،۲۳۸ ،۳۲۷ ،۲۰۰ ،۱١٩٦، ١٩٨، ٩٩ پاکستان میں مخالفانہ حالات کا تذکرہ نفس دوئی مٹائے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی چک سکندر کے مظالم کا تذکرہ ۵۱۸ ۵۲۴ ۵۳۶،۵۲۶ ۵۳۸ نہایت ہی خوفناک مظالم کی لہر حکومت پنجاب کا شکریہ جشن تشکر پر پابندی کا فیصلہ ۵۱۰ ۶۸۳ ۳۳۲،۳۳۱ حکومت پنجاب کا احمدیوں کو جشن جو بلی منانے پر پابندی کا فیصلہ

Page 866

پولیس افسران کا انتظامیہ کو جشن تشکر نہ منانے کا حکم اور اس تبتل الی اللہ پر حضور کا پیغام جشن تشکر نہ منانے کا ڈ پٹی کمشنر کا حکم نامہ صد سالہ جشن تشکر پر پابندی کے حکم نامہ کی تفصیل پنجاب اسمبلی لاہور پولینڈ پیپلز پارٹی احسان فراموشی کا تاریخی مظاہرہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ۱۹۷۴ء میں سرگودھا میں جماعت کے کثرت سے گھر جلائے گئے اس کے بعض سیاستدانوں سے ۱۹۷۳ء کے آئین کی ایک شق پر گفتگو پیپلز پارٹی ۱۹۷۴ء کے فسادات میں پوری طرح ملوث پیدائش ایک خوبصورت عورت کے برتھ مارک کا قصہ پسیفک آئی لینڈ پیشگوئی قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی آنحضرت کے غلبہ کی قرآنی پیشگوئی کا ظہور ۱۹۴ ۱۹۷ ۱۹۸ تبتل الی اللہ کی تفصیلی وضاحت تجل الی اللہ سے مراد تبتل الی اللہ کی نسبت ایک غلطی فہمی کا رفع ۷۹۵ تبتل الی اللہ اختیار کرنے کا صحیح وقت ۵۳۸ ۵۰۱ آنحضرت کا تنتبل الی اللہ، ایک انتہائی تنہائی کا مقام تبلیغ تبلیغ میں حکمت سے کام لینے کی قرآنی تعلیم دعا گولوگوں کی تبلیغ میں برکت ۵۰۱ قول حسن اور اعلیٰ کردار کے ذریعہ تبلیغ اسلام تحریکات ۴۶ ۴۹۳ ۲۳۸ ۲۱۳ ۱۹۷ ۱۷۰ ۵۰۱ وسیع پیمانے پر اسلام میں قو میں داخل ہونے کی پیشگوئی غاروں میں بسنے والوں کی نئی تہذیب ابھرنے کی پیشگوئی ۵۷۹ نائیجیریا میں منجم کی پیشگوئی آئندہ ایک ایک سال میں لکھوکھہا بیعتوں کی پیشگوئی مغرب کی اقتصادی بدحالی کی پیشگوئی دنیا کی لذتوں اور چمک دمک ملیا میٹ ہونے کی پیشگوئی بے شمار فضل نازل ہونے کی بشارت بیٹا عطا ہونے کی خوشخبری عظیم الشان خوشخبریاں تاریخ اسلام ( از اکبر شاہ نجیب آبادی) ۵۵۹،۵۵۸ آسٹریلیا کو دعوت الی اللہ کرنے کی خصوصی تحریک ۲۶ ۲۸ [ < 2 E ۲۹ ۳۱ ۷۱۴۷۱۳ ΔΙ ۴۳۸،۴۳۳ ۵۹۵ ۴۷۷ ، ۴۷۵ ، ۴۸۰،۴۸۱ نئی نسلوں کو مقامی زبانوں کا ماہر اور اخبار نویس بنانے کی تحریک ۱۳۰ محققین کو رشدی کی کتاب کے مضامین کا مطالعہ کرنے اور ان کے دفاع میں مضامین لکھنے کی ہدایت ۱۳۱ آئندہ آنے والی اولا دوں کو نیکیاں اختیار کرنے کی وصیت ۱۶۵ احباب جماعت کو جماعتی حوالے سے اپنی عظمت کا احساس کرنے کی ہدایت لٹریچر کی تیاری اور تقسیم کے متعلق ہدایات تمام انسانی طبقات میں احمدیت کے نفوذ کی تحریک احمدی خواتین ڈاکٹر بن کر اپنی زندگیاں خدمت اسلام کیلئے پیش کریں ۵۷۶ جو بلی کے کاموں میں تیزی اور جماعتی مفادات کیلئے دعا ۵۸۷،۵۸۶ کی تحریک ۵۸۳ ۶۴۳ ۶۲۶ سب سے بڑا جہا دجھوٹ کے خلاف احمد یوں کو عربوں سے تعلقات بڑھانے کی تحریک جماعت کو ابتلاؤں میں ثابت قدم رہنے کی تلقین ۶۹۶،۶۹۵ آپ کا ہتھیار تقویٰ کا ہتھیار ہے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ۱۴۹ ۲۵۹ ۲۰۸ ۲۱۳ ۶۰۱ ۶۸ F ۲۸۸ ΔΙ ۵۰،۴۹ ۱۹۳ ۳۴۳

Page 867

۱۳ آپس کے اختلافات کو جماعتی فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دیں ۳۵۵ اسیران راہ مولا اور ان کی جلد رہائی کے لئے دعا کی تحریک ربوہ اور دیگر ملکوں میں گائے کی قربانی کرنے کی تحریک اخلاق میں پانچ بنیادی اخلاق قائم کریں تمام دنیا کو اسلام اور اسلام کے خدا کے لئے سر کرلو ۷۶۷ ۷۸۳ مسجد واشنگٹن کی تحریک ۲۰۱ ۶۸۷ ۴۷۱،۴۶۹،۴۶۸ ساری دنیا کو حضرت محمد مصطفی اللہ کیلئے فتح کر لو ۷۸۳ بچوں کو اپنے ہاتھ اور جیب خرچ سے چندہ وقف جدید عالمگیر تحریک کا اعلان خدا کی صفات اپنے اندر جاری کرنے کی کوشش کریں ۶۷۹ دینے کی تحریک اور اس کا فائدہ دعاؤں کے ذریعہ اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور تو کل کرنے کی تلقین ۶۸۵ تربیت کے سلسلہ میں زیادہ زور دعا پر دینے کی تحریک صدقات اور دعاؤں کی تحریک حضرت مصلح موعود کے اشعار کے مطابق احرار کے متعلق دعا کی تحریک افغانستان میں ایک اچھے انقلاب کے لئے دعا تمام جماعتی مصالح اور مفادات کے لئے دعا کی تحریک افغان قوم کے لئے خاص دعا کی تحریک عرب دنیا کے لئے دعا کی تحریک ۶۸۲ ۸۷ وقف نو کا عرصہ مزید دو سال بڑھانے کا اعلان اور پانچ ہزار ۷۲ ۶۸ ۷۹ ۸۰ ۱۶،۱۵ ۸۴۰ ۱۰۹ واقفین نو پیش کرنے کی خواہش کا اظہار ۸۴ یورپی ممالک کی زبانیں سیکھنے کی تحریک تحریک جدید 21.تحریک جدید میں پاکستان کی صف اول کی قربانی ۷۰۱،۷۰۰،۶۹۶ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی تعداد تحریک جدید کے ۵۴ ویں سال کا اعلان ذیلی تنظیموں کو پانچ بنیادی اخلاق کی طرف خصوصی توجہ دینے حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے تحریک جدید کا آغاز کی تلقین اشترا کی ممالک میں بولی جانے والی زبانیں سیکھیں چینی زبان سیکھیں ۷۵۵ ۷۸۰ ۷۸۰ ۷۸۰ ۷۸۰ ۶۹۷ ۶۹۸ ۶۹۸ ۷۰۰،۶۹۹،۶۹۸ تحریک جدید کی آمد میں غیر معمولی اضافہ تحریک کے نظام کو ذیلی تنظیموں کے فیصلوں پر تحفظات بیرون پاکستان سارے نظام کی ذمہ دار تحریک جدید تحریک جدید وکالت سمی بصری تدبیر تدابیر کو اختیار کرنا اور منتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے مومن کی فراست والی تدابیر کا یقینی غلبہ کوریا کی زبان سیکھیں ویٹ نام کی زبان سیکھیں شدھی کے خلاف جہاد کی تحریک اور مسلمانوں کو مرتد کرنے کی حالیہ ہند و کوششوں کا ذکر صد سالہ جوبلی کے لئے مالی قربانی کی تحریک ۱۴ ۶۹۸ بد عادات چھوڑنے کے بچوں اور اپنے نفس سے وعدے لینے یا درکھیں کہ خدا تعالیٰ ان کی تدبیریں ان پر الٹ دے گا اور اس سلسلہ میں دعا کرنے کی تحریک قادیان میں جلسہ سالانہ منعقد ہونے کے لئے دعاؤں کی تحریک تربیت بچپن کی تربیت قوم کے کردار کی ضمانت ۵۱۱،۵۱۰٬۵۰۹ سبق آموز کہانیوں کے ذریعہ تربیت پہلی صدی کے بقیہ ایام دعاؤں میں وقف کرنے کی تحریک تربیت کرنا صرف مربی کا کام نہیں الفضل میں مسیح موعود کے شائع ہونے والے اقتباسات کے تراجم کے مشتہر کرنے کی تحریک ترکی ۵۵ ترکی حنفی المسلک ملک ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی تحریک ۱۷۶ ترکی نے عرب ملکوں پر بھی حکومت کی ترکی کی سعودی عرب سے قدیم رقابتیں ۷۱۲ ۷۱۲ ۵۷۰ ۲۵۲ ۲۵۳ ۳۸۰ ۷۶۰ ۷۶۴ ۴۴۰،۴۳۹ ٣٠٣ ٣٠٣ ٣٠٣

Page 868

۱۴ تنزانیہ تصاویر تصاویر کے دور سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہئے ۳۶۷ تصاویر سے مشرکانہ خیالات کے امکان سے بچیں ۳۷۰،۳۶۹،۳۶۸ توحید تعلق ۶۰۷ جتنا زیادہ گہرا رشتہ ہو گا اتنا ہی زیادہ طبعی جوش ہو گا تفسیر والله يقبص و يبصط کی تغییر انزل فيه القرآن کی لطیف تفسیر ولا تسرفوا کی حسین تغییر خذوا زينتكم عند كل مسجد کی حکیمانہ تفسیر تقدير تقدیر الہی کا انسانی تدبیر اور دعا سے تعلق خدا تعالیٰ کی تقدیر کس طرح کام کرتی ہے؟ تقوی تقوی کا زادراہ لیں اور اس کا معیار بڑھائیں ۸۴۶ آیات قرآنیہ سے توحید کے ساتھ ہجرت کے تعلق کی وضاحت ۲۶۷ جماعت کو تو حید اور اس کے ضمن میں دعاؤں کی تلقین جب تک جماعت توحید پر قائم نہیں ہوتی مصائب اور برائیوں سے نجات ممکن نہیں ۳ تا ۵ صدی کی اہم ذمہ داری تو حید کامل کو سمجھنا اور اس کے ساتھ ۲۱۶ ۲۱۹ ۱۵۷ ۶۰۷ وابستہ ہونا ہے توحید کامل کا سفر بہت ہی عظیم الشان سفر ہے اپنے اور جماعت کے کامل موحد بننے کی دعا کی تحریک ہم نے تمام دنیا کو تو حید سے فتح کرنا ہے ۲۶۶ ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۶ ۲۷۸ ۲۷۹ اگر انسانی وحدت نہ رہے تو توحید کا تصور منقسم ہو جاتا ہے ۳۷۳ جماعت احمدیہ خالص توحید پر قائم جماعت زندگی کے ہراہم موڑ پر تو حید خالص سے کام لیں ۶۶ مسلمان دنیا کی اکثریت تو حید خالص سے عاری اور محروم تقویٰ کے ہتھیار کو اختیار کرنے اور اس کے معیار کو بلند توہین رسالت دیکھئے بلا شیمی کرنے کی تلقین تقویٰ پر موت کی حقیقت ۱۹۳ ۳۵۵،۳۴۷ ،۳۴۶،۳۴۵ جماعت کا مجموعی تقوی خلیفہ وقت کے تقویٰ جمع ساری جماعت کے تقویٰ پر مشتمل ہے مسجدیں بناتے وقت تقویٰ کو مد نظر رکھنا چاہئے تقوی بهترین زادراه اللہ تعالیٰ کا تقومی عظیم الشان طاقت ہے اخلاق حسنہ تقوی سے پیدا ہوتے ہیں انسانی زندگی کا کلیۃ انحصار ہی تقویٰ پر ہے تقویٰ اور توحید ایک ہی چیز کے دو نام تکبر سے خدا کو نفرت اور انکسار سے محبت ہے متکبر قوموں کے وجود صفحہ ہستی سے مٹادیئے جاتے ہیں تہجد تہجد کے وقت نفل پڑھنے کے غیر معمولی فوائد ۳۷۶ رمضان میں بچوں کو سحری کے وقت تہجد پڑھنے کی عادت ۴۵۷ ڈالنے کی نصیحت ۵۲۱ تہجد کے وقت شیطان کا بزرگ کو پھسلانا اور ان کا سوجانا ۴۵۲،۴۵۱ ۴۵۰ ۵۲۲ ۵۲۲ ۵۰۴ 122 تہذیب مغربی تہذیب دنیا کی ظاہری لذتوں کی فریفتہ ہو چکی ہے مغربی آزادی یا خوفناک غلامی افریقہ، پاکستان اور ہندوستان میں بھی مغربی چمکتی تہذیب پہنچی ہے مغربی تہذیب اور معاشرہ زندہ رہنے کے لائق نہیں تھر پارکر ۵۲۴ ۵۲۵ ۵۲۶ ۲۲۶ ۲۲۵ ۱۶۴ ۵۸۰ ۵۸۲ ۵۸۴ ۵۸۸ 11

Page 869

H4 ۲۱۶ ۴۲۲ ۱۲۷ ،۱۲۴ حضرت جبرائیل علیہ السلام جذبہ جذ بہ عشق اور جذ بہ خلق کے ذریعہ نفوذ ۱۷۹ جرمنی ۴۷۶،۲۷۳۱۹۱،۱۸۱،۱۳۳،۱۳ ۸۴۶،۷۰۳،۷۰۲۷۰۱ ،۷۰۰ ۳۱۴،۳۱۱ ۳۶۴ ۶۰۸ ۶۰۸ ۶۱۰ ۷۸۰ ۸۴۷ جماعت پر کوئی پابندی نہیں اگر جر من علاقہ میں نمائش ہے تو جرمن زبان میں مختصر تعارف ساتھ تحریر کریں جرمن قوم کی مظلوم لوگوں کو اپنے ہاں پناہ جرمنی کا ہم قوموں کے ساتھ حسن سلوک مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی کے درمیان اشتراکات جرمنی جماعت قربانی میں پیش پیش جرمنی جماعت ساری دنیا کیلئے چیلنج ماریشس اور جرمنی کی جماعتوں کا صدی کا پہلا خطبہ براہ راست ۴۴۷ 11 ۴۰۰ ۱۸۹ ٹلفورڈ ٹمپل ٹو بہ ٹیک سنگھ ثناء اللہ بیٹا مولوی منظور چنیوٹی ثناء اللہ خان ج جاپان جاپان میں مذہب ۸۴۶،۶۵۹،۵۱۶،۲۷۷ ، ۱۴۴ ، ۱۳۳۱۳۰،۱۲۷ مغربی بدیوں میں مبتلا ہونے کے بعد جاپانی اخلاق کی حفاظت نہیں ہو سکتی ۴۱۶ ۵۰۷ جاپان میں بھی مغربی چمک دمق سے متاثر ہونے کا رجحان ۵۰۶ جاپان اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مسلمان ہوا تو دنیا میں عظیم تغیر بر پاہو سکتے ہیں جماعت احمد یہ جاپان کو نصائح جاپانی قوم میں ترقی کرنے کی صلاحیت ۵۰۷ ۴۰۵ ۵۰۴ ۵۰۵ سننے کا انتظام جڑانوالہ جشن تشکر ( دیکھیں صد سالہ کے تحت) جلسه سالانه صدی کا سب سے اہم جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے تاثرات ۱۸۲ ۲۳۰ جلسہ سالانہ انگلستان کی روحانی لذت جلسہ سالانہ کی برکات جاپانیوں کے دل حسن اخلاق اور اعلیٰ نمونے سے جیتیں ۴۹۹ میزبان جلسہ سالانہ اور مہمانوں کو نصائح جاپانی قوم کی مثالی سچائی ہے ۵۲۱ ۵۴۴،۵۴۳ ۵۴۵ ۵۶۱ ۵۶۱ ۵۳۵ جلسہ کے مہمان واقعہ سر آ نکھوں پر بٹھانے کے لائق ہیں ۵۶۲ جاپانی قوم ذہانت اور حسن خلق میں مثالی ۵۶۲ ۵۶۴ مہمانوں کے دل ہمیشہ نازک ہوا کرتے ہیں جلسہ سالانہ کے بارہ میں تاثرات جماعت احمدیہ ۷۴۹ ،۷۴۶،۷۴۴ ،۷۴۲،۷۰۳،۶۹۴،۶۹۴،۶۹۳،۶۹۲۶۹۱ ۲۶۷ جماعت کی دوسری صدی غلبہ توحید کی صدی ہے ۶۳۷ ۵۸۶ ۲۵۰ جاپانی قوم کی افریقہ سے تجارت میں خود غرضی جاپان حکومت کو افریقہ کے غرباء کی مدد کرنے کی نصیحت ۴۹۲،۴۹۱ ۷۲۱،۷۲۰،۶۰۵،۶۰۳ جالندھر قاضی جاوید لودھی A.C کھاریاں سانحہ چک سکندر میں ملوث جامعہ احمدیہ

Page 870

۱۶ احمدیوں کو واجب القتل کے اعلانات پر مغرب کی چپ ۱۲۱ جماعت احمدیہ پاکستان کی مالی قربانی احمدیوں کو اپنا اثر و رسوخ اسلام اور آنحضرت کے حق میں استعمال کرنے کی ہدایت ۱۵۱ ۶۹۶ ۷۰۳،۶۹۷ ،۶۹۶۶۹۵ 2+9 جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں میں وقت کے ساتھ اضافہ رشدی کی کتاب جن ملکوں اور کمپنیوں نے شائع کرنے کی اجازت جماعت میں اطاعت کی مثالی روح نہیں دی انہیں شکریہ کے خطوط لکھے اور ان کیلئے دعا کی ہدایت ۱۳۲ ۱۹۸۹ء جماعت احمدیہ کیلئے نہین کا سال رشدی نے جن روایات کی بنا پر کتاب لکھی انہیں احمدیت جماعت میں شامل ہونے والے سوسائٹی کے اعلیٰ لوگ جماعت کو پاک اور صاف رکھنے کی شدید ضرورت نے رد کیا تھا ۱۱۳ رشدی کی کتاب کے سلسلہ میں احمدیوں کو صورتحال کے تجزیہ جماعت احمدیہ پاکستان کی استقامت کے نمونے اور موثر کارروائی کی تلقین جماعت کے ذریعہ دنیا کی ہدایت کی خوشخبری احباب جماعت کو جماعتی حوالے سے اپنی عظمت کا احساس مباہلہ کے سال میں جماعت احمدیہ کی تائید اور نصرت کرنے کی ہدایت لٹریچر کی تیاری اور تقسیم کے متعلق ہدایات چک ۶۳ ه گ ب اور ننکانہ میں احمدیوں پر ہونے والے ۱۳۰ ۲۵۹ ۲۰۸ ۲۳۰ جماعت احمدیہ کی دوذمہ داریاں احمدیت تمہیں شفاف چشمے کے کنارے پر لے آئی احمدیت اپنے نفس کا شعور عطا کرتی ہے احمدیت کی صداقت کا مشاہدہ مظالم کے واقعہ کا پس منظر احمدیت کا پرسان حال اللہ تعالیٰ سج دھج کر عظیم الشان گیٹ سے گزرنے والا احمدیت کا عظیم قافلہ تمام جماعت اور آئندہ کے احمدیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ ۱۹۱ احمدیت کو دنیا کی کوئی طاقت ناکام و نامراد نہیں کر سکتی منافقین اور جماعت احمدیہ جماعت احمد یہ اور بہائیت کے حملے ۱۹۵ ۳۳۸ ۳۳۶،۳۳۵،۳۲۳ ۳۴۱،۳۴۰،۳۳۹،۳۳۸،۳۳۷ پاکستان کے اندر اور باہر سے جوڑ کر کے مخالفت مخالفت کا مرکز سعودی عرب جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سعودی حکومت کا کردار جماعت احمدیہ کے خلاف بین الاقوامی سازش احمدیت کی عظیم الشان کامیابی عیسائیت کا مقابلہ کرنے والی واحد جماعت اتفاق حبل اللہ سے چمٹے رہنے کی ظاہری علامت وسیع حوصلگی جماعت کی بنیادی ضرورت ۳۰۰ ۳۰۰ ۲۹۹ ۳۱۳،۳۰۹،۳۰۸۳۰۳ ۳۱۰ ۳۰۹ ۳۵۰ ۷۶۱ ۷۵۷،۷۵۶ ۷۸۸ جماعت کی تیز رفتار ترقی اور خدشات قوموں کے مقابلہ میں جماعت کی کمزور حیثیت احمدیت کی تاریخ کا مطالعہ خدا تعالیٰ کا جماعت احمدیہ سے پیار کا سلوک احمدیت تو اسلام ہے یعنی عالمگیر ہے جماعت کا تمدن ہی زندہ اور قائم رہنے والا ہے آئندہ صدی میں جماعت احمدیہ کا کردار جماعت احمدیہ کی ترقی کیلئے تین بنیادی اسباب جماعت احمدیہ کے لئے صداقت کے نشانات تاریخ انسانی میں بلند اور ممتاز سال ۱۹۸۹ء جماعت کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا سال بیدار مغز جماعت جماعت کا ولولہ اور بیداری جماعت احمدیہ کو خدا نما وجودوں کی ضرورت جماعت احمد یہ خدارسیدہ اور خدا انما وجود تیار کرے خدا نما وجود بنیں ۷۰۵ ۷۳۹ ۷۳۰ ۷۳۰ ۷۳۷ ۶۸۱ ۷۴۷ ۶۳۹ ۶۴۰ ۶۳۴ ۶۳۴ ۳۷۱ ۵۷۷،۵۸۹ ۶۰۷ ۶۰۷ ۷۹۹ ۸۳۶،۸۳۵ ۷۹۳ ۷۸۹ ۶۲۱ ۶۲۴ ۶۲۲ ۶۲۴ ۵۵۰ ۸۲۲،۷۹۹ ،۷۹۷۷۹۶ جماعت احمدیہ کا ساری دنیا میں اکرام جماعت احمدیہ کے عقائد جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلمان کی تعریف ۸۲۰

Page 871

۳۷۱ ۵۶۵ All All All ۳۹۰ ۹۵ ۳۵۵،۳۵۴ ۷۰۷ ۱۷ جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا ۸۲۴٬۸۲۱،۸۱۷ قومی ہلکی اور جغرافیائی اختلافات کو احمدیت کی پیجہتی کی راہ ارض حجاز سے فتوے جنوبی آئر لینڈ میں جماعت کے پہلے مشن کا افتتاح احمد یوں کو عربوں سے تعلقات بڑھانے کی تحریک جماعت کو ابتلاؤں میں ثابت قدم رہنے کی تلقین ۸۱۵ میں حائل ہونے نہ دیا جائے ΔΙΟ ٢٠٣ ΔΙ ۵۰،۴۹ دنیا کی ظاہری چمک سے مرعوب نہ ہوں مسلمان بھائیوں سے خصوصیت سے تعاون کرنا چاہئے آپ کا ہتھیار تقویٰ کا ہتھیار ہے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ۱۹۳ ۳۴۳ آپس کے اختلافات کو جماعتی فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دیں ۳۵۵ اخلاق میں پانچ بنیادی اخلاق قائم کریں تمام دنیا کو اسلام اور اسلام کے خدا کے لئے سر کرلو ساری دنیا کو حضرت محمد مصطفی حملہ کیلئے فتح کر لو ۷۶۷ ۷۸۳ ۷۸۳ ۶۷۹ تعاون کی روح کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جائیں دشمن کو صرف آپ کی موت چین دے سکتی ہے نیکیوں کی توفیق سے مزید نیکیاں کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ سے مانگیں نظام جماعت کا احترام اورگھروں میں اس کے متعلق شکوہ سے اجتناب کی تاکید خاندانی جھگڑوں کو نظام جماعت کا نام نہ دیں جماعت کو نظام میں توازن پیدا کرنے کی تلقین خدا کی صفات اپنے اندر جاری کرنے کی کوشش کریں دعاؤں کے ذریعہ اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور توکل کرنے کی تلقین صدقات اور دعاؤں کی تحریک ۶۸۲ ۶۸۵ ۶۸۷ سو سال تک آگے آنے والی دنیا آپ کے صبر کے پھل کھائے گی ۵۲۰ جماعت احمدیہ کو اپنے نفسوں سے جہاد شروع کرنا ہوگا تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرے سرحدوں پر گھوڑے باندھے رکھو اپنے درد کی حفاظت کرو اور کبھی مایوس نہ ہونا ۵۲۴ ۵۲۸ ۶۵۵ ۶۴۲ نہایت عمدہ اور قابل عمل تربیتی پروگرام لے کرنئی صدی میں داخل ہوں ۵۷۱ پاکستان کی جماعتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے تربیتی لحاظ سے سے لحاظ خود فیل ہیں تربیتی پروگراموں سے جماعت کا کوئی طبقہ محروم نہ رہے ہمارے بلند بانگ دعاوی دیوانوں کی برا نہیں بلکہ ان کے پیچھے کلام الہی اور تاریخ انبیاء ہے تعداد کو آپ نے معیار ترقی سمجھ لیا تو نجات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۵۷۲،۵۷۱ ۵۷۳ ۱۶۹ ۱۸۱ دنیا کی طاقت احمدیت کا سر نہیں جھکا سکتی ۳۱۷، ۳۲۰،۳۱۹،۳۱۸ جماعت میں کالے گورے اور سفید کی تفریق نہ پیدا ہونے دی جائے ۳۷۱ جماعت کو اخلاقی قدروں کے لحاظ سے انحطاط کا شکار نہ خدا کی ذات سے وابستہ ہو کر زندہ رہنے کا گر سیکھیں خدا تعالیٰ کے ساتھ قدر مشترک پیدا کرو خدا کے مزاج کے مطابق اپنا مزاج ڈھالنے کی کوشش کریں آپ کے اور خدا کے فاصلے کم ہونے چاہئیں ۵۸۰ ۶۱۱ ۶۱۱ ۶۱۸ ہونے دیں ۷۵۶ ہمارا اخلاقی اور عملی فاصلہ گزشتہ صدی سے پیچھے نہیں ہونا چاہئے ۷۵۶ جماعت احمدیہ انتہائی غیر معمولی اہمیت والے دور سے گزر رہی ہے آپ کو خالصہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے دلوں پر نقش کرنا ہو گا ۵۳۶ احمدیت کا زنده خدا جماعت احمدیہ پاکستان کو صبر کی تلقین حضرت مسیح موعود کی اولاد میں آپ سب لوگ شامل ہیں ۴۹۷ ۶۴۳ نوحی قو میں مٹادی جائیں گی اور آپ کو زندہ رکھا جائے گا آپ میں سے ہر ایک ایسا ہے جو ولی اور قطب بن سکتا ہے ۴۸۳ حکومتوں کے تعلق سے ہمارے دل مرعوب نہ ہوں جماعت کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف متحرک رہنا چاہئے ۵۶۵ ۵۶۶ خدا تعالیٰ کا جماعت کیلئے ناممکن کاموں کو ممکن بنانا خدا تعالی کثرت کے ساتھ جماعت پر اپنے فضلوں کی مارش برسائے گا ۷۵۵ ۷۷۵ 21.۶۹۵،۶۹۴ جولوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں انہیں پاک ہونا پڑے گا ۷۳۰ جماعت چھوڑنے والوں کی ذات میں انحطاط کا عمل شروع ہوتا ہے ۷۳۱

Page 872

۱۸ احمدیت سے منحرف ہونے والوں اور ایمان لانے والوں کے درمیان فرق کا تذکرہ خدا کی جماعتیں شیطان کے مقابل پر شکست نہیں کھاتیں ۷۲۵ خدا تعالی تیزی سے قبولیت کی ہوائیں چلا رہا ہے جماعت احمدیہ کی صداقت روز روشن کی طرح ساری دنیا میں پاکستان کی جماعت ہر قسم کے دباؤ کا بڑی مومنانہ جرأت ظاہر ہوئی ہے صبر اور مستقل مزاجی کی تعریف ساری دنیا میں ساری جماعت ایک ہی رنگ میں رنگین ہے ۷۵۰ اور بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے ۶۷۰ ۴۹۱ ۴۸۱ ۵۷۶ پاکستان کی جماعت ثابت قدمی سے ترقی کی طرف گامزن ۵۷۵ ۵۱۵ جماعت احمد یہ اسلام کے لئے جہاد کر رہی ہے رنگ نسل ، زبان اور جغرافیائی حدود کوئی چیز نہیں ہیں ۵۱۶ جماعت کی حج کی راہیں بند کر دی گئیں جب تک خدا تعالیٰ سے کسی کا گہرا تعلق نہ ہو وہ ایسی جماعت مجادلہ کا دور ختم نہیں ہوا پیدا نہیں کر سکتا جماعت احمدیہ کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت خود جماعت احمد یہ ہے قربانی کی روح پہلے سے بڑھ چکی ہے جماعت احمد یہ عالمی غلبہ کیلئے تیار کھڑی ہے جماعت احمد یہ ایک سو بیس ممالک میں ایک ملک کا دکھا ایک سو بیس ممالک میں محسوس کیا جاتا ہے جو کچھ آپ پا رہے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو آپ کھورہے ہیں زندہ رہنے اور زندہ کرنے کیلئے بنائی گئی ۵۱۵ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ترقیات کا سال پاکستان میں احمدیوں کی جانی اور مالی قربانیاں ۵۱۷،۵۱۶ پاکستانی احمدیوں کو مظالم پر صبر کی تلقین ۵۱۷ ۵۱۷ پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کی زندگیاں وہاں کے قانون نے جرم بنادی ہے ۵۰۹ دنیا کے اکثر احمدی تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں آٹھویں ترمیم میں جماعت پر مظالم کی ایک شق ۵۲۰ ۶۴۱ ۸۱۲ ہماری عزت و آبرو کی وجہ جماعت احمدیہ کی قربانیاں اور ان کے حصول جزا کے طریق جماعت کی اصول کی خاطر سیاست سے کنارہ کشی ۸۰۸ ۸۱۰ ۸۰۴ ۴۰۳،۴۰۲ ۷۳۰۷۲۹ ۶۷۰،۶۶۹ ۵۱۹ ۵۳۵ ۴۵ ۸۲ ۵۹ ام احمدیت کے خلاف فساد کرتے کرتے آپس میں فسادات قائد اعظم کا احمدیوں کو مسلم لیگ کی ممبر شپ دینے کا اصولی فیصلہ ۳۹ میں مبتلا ہو جاتے ہیں پاکستانیت کے اوپر حملہ کر کے جماعت میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے ۳۸۰ کیا واقعی احمدیت پاکستانیت ٹھوس رہی ہے یا نہیں ٹھوس رہی ۳۷۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تعلق باندھنے والوں کو اللہ تعالیٰ اعجاز عطا کرتا ہے ۶۲۷ دنیاوی تبدیلیوں سے امیدوں کو وابستہ کرنے والے پاکستانی احمد یوں کو انتباہ دعا کا اعجاز ہر احمدی کو عطا ہوا ہے پاکستان کی احمدی عورتیں بڑے بڑے مرد کہلانے والوں کو شکست دے سکتی ہیں احمدی شہداء کا خون ضائع ہونے والا نہیں جماعت کا مالی نظام اعتماد اور دیانت کی وجہ سے جاری ہے شدید مخالفتیں بھی جماعت کی ترقی میں روک نہیں بن سکیں ۵۵۳ جماعت احمد یہ کی اپنی کوئی ملکی شخصیت نہیں بلکہ بین الاقوامی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی ترقی کے فیصلے کر لئے ہیں مسلمانوں کے دکھ کا سب سے زیادہ احساس ہمیں ہوتا ہے ۵۵۳ ΔΙΟ شخصیت ہے ۴۸ ۴۹۰ 종종 ۴۹۷ ۹۴ ۶۰۹ ۸۱۵ افریقہ میں جماعت احمد یہ بنی نوع انسان کی خدمت پر مامور ۴۲۶ ہمارے نزدیک کلمہ توحید سارے اسلام پر حاوی ہے ۸۲۴ مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی ترقی ہمیں مارنے کیلئے نہیں بلکہ زندہ کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۸۰۵ اپنی ذات میں خدا کی محبت کے کرشمے دکھا ئیں جماعت احمدیہ کی ترقی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۴۹۷ روحانی طور پر نفوذ اور پھیلنا ضروری ہے ۴۲۶ ۴۲۳ ۴۲۱

Page 873

۱۹ آئندہ نسلوں کی حفاظت کیلئے اپنے آپ کو اسلامی اخلاق سے جمعۃ الوداع کا تقدس اور عقیدت مزین کرنا ضروری ہے ایک دوسرے کے اموال کے امین بنیں صفات حسنہ سے چمٹ جائیں تراجم قرآن کریم میں خود کفیل جماعت احمد یہ ہی حقیقی اسلام کی علمبر دار ہے جماعت احمد یہ اگلی نسلوں کے کردار کی تعمیر کریں آپ اپنے آپ کو ہرگز پاکستان کا نمائندہ نہ بنائیں اور خدا اور اسلام کا نمائندہ بنائیں ۴۰۵ ۲۸۸ ۲۸۹ ۵۹۸ جمہوریت جمہوریت کا مقصد اور اس کی طاقت کا استعمال جنازه ۵۹۷ جنازہ بھی ایک رحمت کا موجب ہے کا ۵۰۷ جنازہ غائب ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب شہید نواب شاہ ۲۸۳ ۴۰ ۱۸۹ ۶۴۳ چوہدری احمد جان صاحب سابق امیر جماعت ضلع راولپنڈی ۴۹۸ جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ بنیادی اخلاق میں ترقی کرنے اہلیہ صاحب فضل الرحمن بسمل صاحب ربوہ کی کوشش کرے ۵۰۵ حکیم عبد العزیز صاحب ساکن چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ احمدی خواتین ڈاکٹر بن کر اپنی زندگیاں خدمت اسلام کیلئے اہلیہ صاحبہ سیٹھی احسان الحق صاحب پیش کریں جماعت پر بے شمار فضل نازل ہونے کی پیشگوئی خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق پیدا کریں نظام جماعت کونگر ان رہنا چاہئے جماعت امریکہ کی تقدیر بدل سکتی ہے نظام جماعت کے ساتھ موتیوں کی طرح منسلک ہو جائیں جماعتی نظام کے بارہ میں تجربہ کراچی نظام جماعت کی تعریف نظام جماعت کے ہر پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت نظام جماعت کا بلند ترین عرش جماعت احمدیہ کے ہر نظام کے ہر شعبہ کا خلیفہ وقت سے براہ راست رابطہ ضروری ہے جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیموں کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت جماعت اسلامی اس کے مرکز منصورہ میں جماعت کے خلاف منصوبہ بندی جماعت اسلامی کا ہر ضلع میں اپنے کارندوں کے ذریعہ ۶۰۱ ۶۳۱ ۴۳۶ ۴۳۴ ۴۵۶ ۷۰۳ ۷۰۴ ۷۰۴ ۷۲۰ نذیر احمد ساقی صاحب شہید چک سکندر محمد رفیق صاحب ولد مولوی خان محمد صاحب شهید چک سکندر نبیلہ بنت مکرم مشتاق احمد صاحب شہید چک سکندر حاجی ڈینٹل مورا یوسف صاحب سبا ملائیشیا مغربی اقوام پر جنسیات کے قبضہ کا نتیجہ جنسیات جنگ ایران عراق جنگ میں کشت و خون جوبلی جماعتی کاموں اور مفادات کیلئے دعا کی تحریک جہاد جہاد کی مختلف اقسام ۶۸۱ اصل جہاد نصیحت کا جہاد صدی کا سب سے بڑا جہاد جھوٹ کے خلاف ۶۸۲۶۸۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جہاد جماعت کے خلاف منصوبہ بندی پنجاب حکومت کا جماعت اسلامی کے اثر سے نکلنا ۶۸۲ جماعت احمدیہ کا عالمی جہاد جمعۃ الوداع مباہلہ کا جہاد کم کم کم کم ۴۹۸ ۴۹۸ ۴۹۸ ۱۲۵ ۲۹۶ ۶۸ ۶۴۶،۶۴۵ ۶۴۵ ۲۸۸ ۶۴۸ ۶۴۷ ۶۴۶

Page 874

جہالت سچائی کی تلاش نہ کرنا جہالت ہے جھنگ چک ۶۵ ۵گ.ب تحصیل جڑانوالہ ۵۹۳ چکوال ۱۹۸ ،۱۹۷ ،۱۹۴۱۲ ۵۳۵ ۲۸۷ ۵۴ چنده چندہ کی برکات ۲۴۸ ۱۲،۱۱ ۸۴۲ چندہ دینے والا چندہ دینے کی وجہ سے کبھی نقصان میں نہیں رہا ۸۴۲ ۶۹۲۴۰۰،۳۸۹ ۴۹۳ چنیوٹ چیف جسٹس آف پاکستان چین ۷۷۵،۶۵۹،۵۳۸ ،۴۰۴،۴۰۳ ،۲۷۷ ،۱۷۰،۱۳۰ جھوٹ دنیا میں جھوٹ کی لعنت جھوٹ سب سے زیادہ حرام چیز ہے جھوٹ کے دفع کرنے اور اس کا قلع قمع کرنے کی تاکید آنحضرت کی ایک شخص کو جھوٹ چھوڑنے کی نصیحت جھوٹ نے تیسری دنیا کی قوموں میں قیامت برپا کر رکھی ہے جھوٹ سب سے بڑا خرابی کا عنصر جھوٹ ترقی یافتہ قوموں کا نظام حیات جھوٹ مذاق کے طور پر بھی برداشت نہ کریں چ ۵۳۵،۵۳۴ ۷۵۷ ۷۵۸ ۷۵۸ چین کے لوگوں کی طرف سے رابطہ چین میں انقلاب برپا کرنے کی ناکام کوشش کروڑوں چینی جو چین سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کو دعوت الی اللہ چاؤ چک سکندر ہولناک اور دردناک واقعہ کا تذکرہ کرفیو کا نفاذ چک سکندر میں احمدیوں کی عظیم قربانیوں کا ذکر چک سکندر میں مظالم کی داستان ۵۵۱ ۷۳۸،۷۲۶ ۵۰۱،۵۰۰ ۴۹۰ ۴۸۶،۴۸۵ حافظ آباد (پاکستان) حبل اللہ حبل اللہ سے مراد حبل اللہ کو پکڑے رکھو تم ایک قوم بنے رہو گے حجاز ۴۹۲،۴۹۱،۴۹۰،۴۸۹،۴۸۷، ۵۸۸ | حدیث احادیث چک سکند رسانحہ میں حکومت ملوث ۶۷۲ ۴۹۳ في الرفيق الا على.فزت برب الكعبة لولاک لما خلقت الافلاک شر من تحت اديم السماء چک سکندر سارا ظلم پنجاب کی پولیس نے کروایا پولیس کا نہتا کرنے کے بعد تین شہادتیں ۴۹۱ ۴۸۹ لو كان الايمان معلقا بالثريا لناله رجل.پولیس کی نگرانی میں احمدیوں کے گھر جلائے جانے کی کارروائی ۴۸۹ تین احمدی شہید سو گھر جلائے گئے چک ۵۶۳ گ.تحصیل جڑانوالہ یہاں پر گھروں پر حملہ کرنے اور آگ لگانے کا واقعہ اور اس کا پس منظر ۴۸۵ ۲۴۸ ۲۳۰ الحرب خدعة كل هم في النار ما انا عليه واصحابی من لم يشكر الناس لا يشكر الله ۵۹۷،۵۹۶ ۸۳۶ ۵۹۹،۵۹۸ ۵۴۸ ۳۵۳،۳۴۷ ۳۵۸ ۱۲۸ ۲۹ ۲۴۳،۱۷۴ ۱۸۱ ۴۹۴ ۶۲۷ لا نقول كما قال قوم موسیٰ اذهب انت و ربک ۷۵۲ ۷۵۳ ۷۶۳

Page 875

۲۱ فقاتلا ولكن نقاتل عن يمينك.كان خلقه القرآن حدیث بالمعنى ۲۴۶ ۴۱۴ دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے مسیح نازل ہوں گے ۷۸۶ حسن عوده جماعت پر الزامات ۷۹۷،۷۹۶،۷۹۵،۷۹۲،۷۹۰ حدیث قدسی کہ دنیا کو بتا دو کہ تمہارے اگلے پچھلے سب لوگ جماعت پر Rationalism کا الزام لگانا بد بخت ترین آدمی کے دل کی مانند ہو جائیں تو یہ بات میری حسن عودہ کی سرزنش بادشاہت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں کر سکتی ۲۰ ۲۱ خطبات کا عربی ترجمہ کرنے کے کام سے فراغت جو شخص صحرا میں مال و اسباب سے لدی اونٹنی کے گم ہو جانے کے التقویٰ کی ادارت سے فراغت بعد اچانک ملنے پر خوشی محسوس کرتا ہے خدا اپنے گناہگار بندے اس کے خلاف کمیشن قائم کرنا کے واپس آنے پر اس سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے جماعت سے علیحدگی کا اعلان اس کے ارتداد کی حقیقت بیوی کے منہ میں لقمہ اس خیال سے ڈالنا کہ میرا اللہ راضی ہوگا ۳۱ آنحضرت کا ہدایات جاری فرمانے کا طریق ۲۱ ۵۳ مکرم حفیظ احمد شاہد صاحب مبلغ گیمبیا آپ کی ایک شخص کو جھوٹ چھوڑنے کی نصیحت جس کے نتیجہ میں مکرم ڈاکٹر حمیدالرحمن صاحب اس کی ساری بدیاں ترک ہو گئیں میری آنکھیں سو جاتی ہیں مگر میرا دل کبھی نہیں سوتا جبرائیل کا رمضان المبارک میں قرآن کریم کی نازل شدہ وحی کا دہرانا انسان جتنی نیکیاں کرتا ہے وہ اپنی خاطر کرتا ہے لیکن روزہ میرے لئے ہے اس کی جزا میں خود ہوں مومن کو چاہئے کہ جب وہ کھائے تو تھوڑی سی بھوک رکھ کر کھانا چھوڑ دے رمضان میں کسی کے سخت کلامی کرنے پر کہنا کہ میں تو روزے دار ہوں رمضان میں آنحضرت کی خیرات کی رفتار اتنی تیز ہوتی جیسے تیز رفتار ہوا چل رہی ہو سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے عورت پسلی سے بنائی گئی ہے پسلی کو تم سیدھا نہیں کر سکتے توڑ سکتے ہو ۵۴ ۱۸۵ ۲۱۶ ۲۱۷ ،۲۱۶ ۲۱۸ ۲۲۱ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۳۸ آنحضرت کا رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کو زندہ کرنا ۲۶۵ ہجرت کی دو نشانیاں ایک برائیاں چھوڑنا اور دوسری اللہ اور رسول کی طرف ہجرت جس کی کثرت نشہ پیدا کرے اس کی قلت بھی حرام ہے ۲۶۸ ۲۸۷ حیدر آباد خ خدام الاحمدیہ ۷۹۱ ۷۸۸ ،۷۸۷ ۷۹۰ ۷۹۰ اور ۷۹۱ ۷۹۵،۷۸۶،۷۸۵ ۵۵۵ ۲۳۵،۱۱ ۷۶۹،۷۵۹،۷۵۷ ،۷۱۹،۷۱۴ ،۷۱۳۷۱۲،۷۱۱ ،۵۶۷ ، ۴۷۲،۴۵۴ ربوہ اجتماع کرنے کی اجازت ملنا خدام الاحمدیہ اجتماع کی مشروط اجازت اجتماع کا تحریری اجازت نامہ منسوخ کیا جانا مکرمه خدیجہ نذیر صاحبه خضر حیات خلافت نظام خلافت کی برکات نظام خلافت اور بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں خلافت کا نظام کے ہر جزو اور شعبہ سے براہ راست تعلق خلافت اور جماعت ایک ہی چیز کے دو نام خلافت احمدیہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور کسی قیمت پر اس سے الگ نہ ہو ے ۶۸۲ ۶۹۱ ۶۹۲ ۴۰۳ ۳۹ 2.9 2.9 21 • ۳۵۲،۳۵۱،۳۵۰

Page 876

۶۹ ۶۲۴ ۲۷۸ ۳۲ E ۲۲ قدرت ثانیہ (خلافت) قیامت تک رہنے کی پیشگوئی ۳۵۸ ہونے والا تعلق ۳۷۶ دعا ایک عظیم طاقت ہے ہم سب کی مجموعی بصیرت کا نام خلافت احمد یہ ہے خلیفہ وقت سے اطاعت اور محبت کا تعلق قائم کریں ۳۵۴٬۳۵۳ خلیفہ وقت سے خاندان کے سربراہ سے بڑھ کر تعلق قائم کریں ۳۵۴ خلیفہ وقت کی چندہ دینے والوں پر نظر خلیفہ وقت کے ساتھ بیٹھنے کی ہر دل میں تمنا خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنے کا ٹر ۸۴۴ ۴۵۳ ZɅr دعا کے دو طرح کے کرشمے اپنے اور جماعت کے کامل موحد بننے کی دعا فرار الی اللہ کے سفر کے لئے دعا کی ضرورت و اہمیت اور دعا کرنے کی تاکید مالی قربانیوں کے مقبول ہونے کے لئے دعا پیرا ماؤنٹ چیف بننے کے لئے خلیفہ وقت سے دعا خلیفہ وقت کا شعور بغیر زیادہ بوجھ اٹھائے اپنی ذمہ داریوں دعا گولوگوں کی نسلوں کی حفاظت کو ادا کر سکتا ہے خمینی امام ۷۱۶ ۱۴۹،۱۴۸ ،۱۴۵،۱۲۹ ،۱۲۸ ،۱۱۹ ،۱۱۶ اس کا بھیانک اسلامی تصور اور اسلام کو پہنچنے والا نقصان اس کا رشدی کے قتل کا فتویٰ اور مغرب کارد عمل اس کے فتویٰ کا مغربی اقوام کا زبردست پرو پیگنڈا رشدی کے قتل کے فتویٰ پر یورپ کے بارہ ممالک کا احتجاج صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب خیر پور و، و، ز داؤ د احمد حنیف صاحب مبلغ سلسلہ گیمبیا دشمن دشمن کو شکست دنیا نہیں بلکہ دل جیتنا ہمارا کام ہے دشمنان احمدیت کا مقدر نا کامی اور نامرادی جماعت احمدیہ کی ترقی دشمن کا غیظ و غضب ۱۱۸ ۱۲۰ ♡♡ ۱۴۴ ۶۹۲ 11 ۵۵۷ ۵۹۵ ۷۵۲ ۷۲۵ دعا کے ذریعہ اجتمائی اور انفرادی خدمت دعا کے ذریعہ خدا سے پختہ تعلق باندھا جائے 2 ง ۴۴۲ ۴۴۱ ۴۳۳ ۴۳۳ دل سے نکلنے والی دعائیں قوموں کی تقدیریں بدلا کرتی ہیں ۶۲۷ دعاؤں کے ذریعہ ہی ایمان ثریا سے اترا کرتے ہیں دعا کا ہتھیار ہر شخص کے قبضہ قدرت میں ہے قبولیت دعا کی ضمانت قبولیت دعا کا فیض دعا کی قبولیت کا عظمت کردار سے تعلق قبولیت دعا کا ایک بہت گہرا راز دعا کی قبولیت میں انسانی اعمال کا دخل ایسی دعائیں کریں جو خدا کے حضور مقبولیت کی جگہ پائیں جوخدا دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ کے کام میں مزا ۶۲۷ ۶۲۸ ۵۱ ۴۴۱ ۵۹۲ ۵۹۱ ۶۰۷ ۶۲۹ ۲۰۹ اگر تم برائیوں سے پاک نہیں تو پھر داعی الی اللہ بنے کا حق نہیں ۴۱۸ دل کی گہرائی سے اگر دعائیں کی جائیں تو اللہ تعالیٰ جلد پھل دیتا ہے اپنی تبلیغ کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد کیوں نہیں مانگتے آپ اپنی چالا کیوں کے زور سے دنیا کو قائل نہیں کر سکتے دشمن خدا کے فضلوں کو روکنے میں کلیہ نا کام اور نامرادر ہتا ہے ۷۲۵ دائمین الی اللہ اپنے کردار اور طرز کلام کا محاسبہ کریں دشمن کی زمین تنگ ہونا تدبیروں میں سب سے اعلیٰ تدبیر دعا ہے دعا کا تقویٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہے دعا کے ذریعہ قضا وقد راور جذبات کے درمیان قائم ۷۵۲ ۲۵۲ ۱۹۳ داعی الی اللہ کی طرز کلام حسین ہونی چاہئے قول حسن اور اعلیٰ کردار کے حامل داعی الی اللہ داعی الی اللہ اپنے آپ میں پاک تبدیلی پیدا کریں دعوت الی اللہ کے لئے صرف گونگی شرافت کافی نہیں کروڑوں چینی جو چین سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ۴۸۰ ۴۸۰ ۴۸۳ ۵۹۵ ۵۹۶ ۵۹۱ ۵۹۲ ۵۹۴

Page 877

ZIA ۷۵۷ ۷۶۹ ۱۴ ۱۲،۱۱ ۲۳ ان کو دعوت الی اللہ کریں ۵۹۹،۵۹۸ کو اپنی آخری رپورٹیں بھجوائیں داعیان الی اللہ کو دلائل کی نہیں بلکہ خود دلیل بنے کی ضرورت ہے ۶۲۸ دائین الی اللہ پاک تبدیلی پیدا کریں اور خدا نما وجود بن جائیں دکھ دیکھ تو دنیا کی امیر ترین سوسائٹی میں بھی موجود ہوتے ہیں ذیلی تنظیموں کا تربیتی پروگرام ۲۸ ذیلی تنظیموں کے ذریعہ بلند اخلاق قائم کریں ذیلی تنظیموں کے لئے پروگرام قیام نماز کے بنا ئیں ۴۲۹ راجهستان را جن پور ۲۵۱،۲۵۰ ۶۳۷ ۲۸۰،۱۶۳،۱۶۲،۱۰۷ ،۸۲ دہلی پنڈت دیانند دیوان غالب ڈبلن ڈبلیو.ایچ.سمتھ (W.H.Smith) ڈرگ ڈرگ کی عادت غلامانہ رجحان کی بڑھتی ہوئی شکل ڈنمارک اس کی مقامی آبادی میں سعید روحیں تلاش کریں ڈنمارک میں مسلمانوں کو حقوق حاصل ہیں ڈنمارک صحافی کو انٹرویو ڈیرہ اسماعیل خان ذیلی تنظیمیں ز ۸۴۵،۴۰۱،۱۲،۱۱ ۳۳۸،۳۳۷،۳۵۳،۱۹۶،۱۹۵،۱۹۴،۱۰۵،۷۰،۱۱ ۲۰۵ راولپنڈی ربوه ۸۴۵،۸۴۴،۷۱۹ ،۷۱۱ ،۳۹۱،۳۸۸ ،۳۸۱،۳۶۸ ،۳۴۱ ،۳۳۹ ۱۳۳ ۵۸۳ ربوه جلسه سالانہ منعقد کرنے کی خواہش کا اظہار ربوہ میں بے شمار اسلحہ کے ذخائر کا جھوٹا الزام ۸۴۷،۸۴۶،۱۳ ذیلی تنظیموں کے کاموں میں رابطہ کی کمی کی وجہ سے رخنہ ۶۲۲ ۳۱۱ ۲۹۰ ۲۳۷ ،۱۲ رحیم یارخان رفیق الرحمن رمضان المبارک روزه / صوم رمضان کیا ہے؟ رمضان میں خدا سے تعلقات بڑھانے کیلئے تعلیم کا معراج رمضان المبارک میں عام دنوں کی نسبت زائد عبادات ۵۱۱ ۷۹۴ ۱۲۱۱ ۱۸۹ ۲۲۴ ۲۲۳ 중국 ۲۲۰ ذیلی تنظیموں کے مختصر نظام کی وجہ سے رابطوں میں مشکلات رمضان میں بچوں کو تہجد پڑھنے کی عادت ڈالنے کی تلقین ۲۵۵ ذیلی تنظیموں کی معلومات کی کمی کی وجہ سے فیصلہ سازی کے عمل میں مشکلات ذیلی تنظیموں کے محدود دائرے کو نظام خلافت سے وابستہ کرنے کی افادیت آئندہ سے تمام ممالک کی ذیلی تنظیمیں برادر است خلیفہ وقت کو جوابدہ ہوں گی ہر ملک کی ذیلی تنظیم کو براہ راست خلیفہ سے واسطہ کا حق ہے اور اس کا یہ حق بحال ہونا چاہئے ذیلی تنظیموں کو خلیفہ وقت کی توجہ کی ذاتی ضرورت تمام ممالک کی ذیلی تنظیمیں براہ راست خلیفہ وقت رمضان المبارک میں قرآن کریم کے نزول سے مراد ۲۱۶ ۷۱۲ اللہ کا روزے کی عبادت کو خالصہ اپنے لئے مقررفرمانے کی وجہ ۲۱۷ ۷۱۳ ۷۱۳ ۷۱۵ ZIA رمضان کا آخری عشرہ اور آنحضرت کا اسوہ رواج ایک جیسے رواج سب دنیا میں قائم کرنے ضروری ہیں روایات مسیح موعود نے ایسی روایات کور دفرمایا جو اسلام کی بھیانک تصویر پیش کرتی تھیں روس ۲۶۵ ۶۹۹ ۱۱۳ ۷۷۵،۳۱۵،۲۷۷ ،۲۵۷ ،۲۳۶،۱۴۴ ،۱۱۹ ،۷۹،۷۷

Page 878

۲۴ لاکھوں روسی ہوں گی جو روس سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ۵۹۹ ہنگیرین زبان روس میں تبلیغ کے وسیع امکانات روم روياء حضرت مسیح موعود کے ایک رویاء کا ذکر رویاء کے ذریعہ احمدیت کی صداقت پانا ایک عظیم الشان رویاء کا تذکرہ ز زائیر زبان عربی زبان کی خصوصیت روسی اور چینی زبانوں کی خصوصی اہمیت زبانیں سیکھ کر جماعت کی خدمت کریں ۵۹۸ | علامہ سید زبیر شاہ صاحب ۱۷۰،۱۴۹ ۵۰۲ زندگی زندگی کا قومی مقصد جوانی کی عمر کی فضلیت ۵۵۷ خدا کی طرف لوٹنا یہی کامیاب زندگی کا راز ہے ۷۸۳۷۸۲ انسانی زندگی نئی نئی عادتوں اور بد اخلاقیوں کا شکار ۸۴۶ ۲۶۴ ۶۰۲۶۰۱ حضرت سارہ علیہا السلام سان فرانسسکو.امریکہ س مان فرنسسکو امریکہ میں احمد یہ مشن کا افتتاح سانگھڑ ۲۰۱ ساؤتھ افریقہ اشترا کی ممالک میں بولی جانے والی زبانیں سیکھیں ۷۸۰ | سال چینی زبان سیکھیں کوریا کی زبان سیکھیں ویٹ نام کی زبان سیکھیں 2M ۴۰۰ ۷۶۴ ۶۱۲ ۵۸۹ ۵۸۳ ۱۱۵ ۴۵۰،۴۴۷ ، ۴۴۵ ۴۴۵ ۷۸۰ ۱۹۸۹ء کے نئے سال کی مبارک اور اس کی اہمیت کا ذکر ۷۸۰ دنیا کی سربلندی کی بنیادیں ڈالنے والا سال ۷۸۰ سپین ۷۸۱،۷۸۰ پولش زبان سیکھنے کیلئے واقفین نو بچے چاہئیں شمالی یورپ کی زبانیں سیکھیں انگلستان میں زبانیں سیکھنے کا انتظام سیکنڈے نیویا میں زبانیں سیکھنے کا بہترین انتظام ۲۰ از بانوں میں صد سالہ کے سلسلہ میں تراجم کا ذکر تمام دنیا کی زبانوں میں اقتباسات کے تراجم شائع کئے جائیں اسلام آباد میں روسی زبان سیکھنے والا نو جوان ہندوستان سے روسی زبان کا پی ایچ ڈی مل جانا اٹالین زبان کے ماہرین کی کمی ہے سپینش زبان آئیش زبان ۷۸۰ ۷۸۰ ۶۶۲ ۷۷۳ ۷۷۳ ۶۰۱ ۶۰۱ ۲۰۸ سپین میں مسلمان باشندوں سے رقابت سچ سچ بولنے کی عادت بچپن سے ڈالیں بیچ تمام ترقیات کا زینہ مائیں سچ کی عادت بچوں کو ڈالیں سچ تمام نیکیوں کی جڑ غازی سراج الدین صاحب سرحد صوبہ سرگودہا 11 ۸۴۶ 1 ۸۳۶ ۸۴۶،۲۱۳ ۳۳۱ ۷۵۸ ۷۵۸ ۷۵۸ ۷۵۹ ΔΙΔ ۱۸۹ ۳۳۰،۲۴۷ ،۱۹۴،۱۱ سرگودھا ۱۹۷۴ء میں احمدیوں کے گھر جلائے جانے کا تذکرہ ۴۹۱ چیکوسلواکین زبان ۷۸۱ سرینگر

Page 879

۱۳۳ اور کمپنیاں ۲۵ ۳۰۳۳۰۲،۳۰۱،۳۰۰،۲۹۹ ، ۱۵۱ ،۱۴۸ ،۱۲۰ سعودی عرب ۷۴۶،۵۵۲٬۵۵۱،۳۰۵،۳۰۴ امریکہ میں کتاب کے اقتباسات ریڈیو اور ٹی وی پر سنائے جانا ۱۲۷ سعودی عرب کا دوسرے ملکوں میں نفوذ کا طریق سعودی عرب کا پاکستان میں نفوذ ٣٠٣ ۳۰۱ انگلستان اور جاپان کا اس کتاب کو ردکرنا اس کی کتاب پر مینی کا اس کے قتل کا فتویٰ سعودی عرب کا نفوذ اور احمدیت دشمنی ایک ہی چیز کے دو نام ۳۰۵ حضرت سلمان فارسی سعودی عرب کے ذریعہ وہابیت کو فروغ ٣٠٢ سعودی عرب اسلام کا قلعہ اور دوستیاں اسلام دشمن طاقتوں سے حضرت سلیمان علیہ السلام سعودی عرب کے ذریعہ مساجد کے اماموں کو بڑی تنخواہیں ۳۰۳ حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا کے گھوڑوں پر سوار سعودی روپیہ مسجدیں بنانے اور مدارس بنانے میں استعمال ۳۰۳:۳۰ آپ کی عدالت میں ایک بچہ کی دو دعویدار ماؤں کے اس کا اپنے ذریعہ سے اینٹی احمد یہ لٹریچر تقسیم کروانا سعودی حکومت کی بقاء کے لئے امریکہ سے تعلقات سعودی عرب کی دولت امریکہ میں سعودی حکومت کا فحاشی کے الزام میں شہزادی کو قتل کروانے پر عالمی میڈیا کی مبالغہ آرائی سکرنڈ (نواب شاہ) سکھ پنجاب میں سکھوں کا دورحکومت ۳۰۴ جھگڑے کے فیصلہ کا واقعہ ۳۰۱ ۳۰۱ لا ۶۲۹،۳۳۰ ۸۲ ۶۴۹ سلومن آئس لینڈ سمندر ہر توانائی کا اصل سرچشمہ سمندر ہے میٹھے پانی کے سمندر سے مراد اسلام کا سمندر ہے سندھ سوئزرلینڈ سویڈن ۱۲۷ ۱۲۰ ۱۱۷ ،۱۱۶ ۸۳۹ ۹۷ ۲۱۳ ۴۰۹ ۴۱۴۴۰۶ ۷۳۱ ۸۴۶،۷۰۲،۱۳ ۲۴۱،۲۶۱ ۶۲۲ ۲۳۶ ۲۹۹ } } ۸۵ ۴۳ کے لے لے ۴۲ سلمان رشدی 11 ۱۱۴ ۱۴۸،۱۴۵،۱۳۹،۱۲۶،۱۲۲،۱۱۶ انگلستان آمد اور دہریانہ، بے ہودہ ماحول میں پرورش سلمان رشدی کے ناپاک حملے سلمان رشدی کا فتنہ مسلمانوں سے معافی کا اعلان اور ہٹ دھرمی اس کی کتاب پر تبصرہ اس کی شیطانی کتاب کا پس منظر ۶۵۵،۶۴۷ ۳۴۷ ۱۲۹ ،۱۲۸ ۲۹۰،۱۱۵،۱۱۴ کتاب تصنیف کرنے کے پیچھے سازش کا پس منظر اس کی کتاب غلط روایات پر مبنی نہایت غلیظ اور گندی زبان والا ناول ہے جواب کی خاطر رشدی کی کی کتاب کا مطالعہ کرنے کی محققین کو نصیحت ۱۱۵ ۱۱۳ ۱۴۳ مقامی آبادی میں سعید روحیں تلاش کریں سیاست سیاست خود غرض ہوتی ہے دنیا کی سیاست اور خود غرضی سیاست میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا فقدان اور ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی سیاست میں فرق تیسری دنیا کی سیاست میں خود غرضی کا مشتر کہ رجحان پاکستان کے سیاسی حالات کی نوعیت اور سیاستدانوں کے وقتی مفاد کود یکھنے کی عادت پاکستانی سیاست کو تباہ کرنے والا سیاسی بحران ہمارے ملک اور مغربی سیاست میں فرق ملکی سیاست اور سیاستدانوں کی عدم استحکامی اس کی کتاب شائع کرنے سے انکار کرنے والے بعض ممالک حکومتی سیاسی پارٹی کا وعدہ اور منشور

Page 880

حکومتی پارٹی کے اندر سیاستدانوں کی تین اقسام ۴۲ ۲۶ پاکستانی سیاست کو تباہ کرنے والا ہاتھ سیاستدانوں کو سمجھانے والی بات ہندوستانی سیاست کی بالغ نظری اور شرافت ہندوستانی سیاست پر ابھرتے خطرات ۴۵ ۴۷ ۸۳۲ ۸۳۳ برصغیر میں سیاست کے نام پر مذہبی جنونیت ابھرنے کا خطرہ ۸۳۱ شرک کے مظاہر ۲۷۲ خوف کے غلبہ کے ساتھ شرک کے دروازے کھلتے ہیں ۵۲۵ چھوٹے چھوٹے بت ہر انسان کے سینے میں بسے ہوئے ہیں ۵۲۵ شرک کی ہر ملونی سے اپنے آپ کو پاک کریں سچائی کے دشمن اپنے وقت کے مشرک ہوتے ہیں انگلستان میں ہندوستانی پارسی کا اخبار سے فائدہ اٹھا کر کامیابی قرآن میں خدا کا وعدہ ہے کہ موحدین کے مقابل ۱۴۷ مشرکوں کو جیتنے نہیں دوں گا ۱۲،۱۱، ۸۴۵،۸۴۴،۱۷۷ | شریک ہومز ( جاسوسی ناول نگار ) حاصل کرنے کا واقعہ سیالکوٹ سیرالیون مربی کو فوجی دستے کی سلامی سیرالیون کے صدر کی طرف سے خصوصی دعا کی درخواست ۸۴۶٬۵۵۶،۵۵۵٬۵۵۳٬۵۵۲ | مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ کبابیر ۵۵۵ ۳۸۰ شعر (اردو) تم مرے پاس ہوتے ہو گویا حضرت ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمد یہ وگر نہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے آپ کی وفات کا تذکرہ سیلاب سیلابوں کے بعد مٹی کا زرخیز ہونا ش شام شاہجہان پور شاہ نواز چوہدری شاہین لا بک ہاؤس پبلشر شدھی ۷۲۴،۷۲۲،۷۲۱ ،۷۲۰ ۴۲۴ گر می سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر رات پی زم زم پر سے اور صبح دم نہ کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا میں نے چاہا تھا اس کو کہ روک رکھوں قیامت ہے کہ ہو وے مدعی کا ہمسفر غالب کچے دھاگے سے چلی آئے گی سر کار بندھی ۱۷۷ چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے ۷۹۰۷۸۸،۷۸۳،۱۴۹ شدھی کے خلاف جہاد کی تحریک اور مسلمانوں کو مرتذ کرنے کی حالیہ ہند وکوششوں کا ذکر ۱۴ ۸۲۱ ۱۴ کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند رات کے وقت مئے پیئے ساتھ رقیب کو لئے شعر (فارسی) ۶۸۸ ۲۷۳ ۱۰۳ ZAY ۳۱ ۸۲ 1+2 { { { ; ۲۸۰ ۲۸۹ ۳۱۳،۳۱۲ ۴۲۲ ۵۲۷،۵۲۳۵۲۲ ۶۱۶،۶۱۵ ۷۶۵ ۸۲۹ شراب شراب جھوٹ کے مقابل پر بے حیثیت شرافت گونگی شرافت کی بجائے بولنے والی شرافت اختیار کرو اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی ۲۸۷ یا رب! از گناه زشت خود منظم محاوره ۳۵۶ در کار خیر حاجت استخاره نیست ۵۴۳،۵۴۲ ۷۲۴ ۷۱۹

Page 881

۲۷ شعور لاشعوری اور شعوری دماغ کی مثال شکاگو (امریکہ) شکر شکر کی عادت ۷۱۶،۷۱۵ ۳۳۶ اس کے کاموں کی مختلف شقیں اور ممالک کا مستعدی اور ست روی کے لحاظ سے مختلف رو عمل ۵۲ تفصیلی ہدایات پر مشتمل ویڈیو تیار کر کے تمام ممالک کو بھجوایا جانا ۶۵ صد سالہ جو بلی کے پروگرامز سے استفادہ کرنے کی تلقین جشن تشکر خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء کے گیت گانے کا سال ۷۶۳ ماریشس اور جرمنی کی جماعتوں کا صدی کا پہلا خطبہ براہ راست کا اور بزرگ کا خدا کے احسانات کا شکر بجالاتے ہوئے لڈو کھانے کا واقعہ ۱۸۵ سننے کا انتظام جو شخص بندوں کا ممنون نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی ممنون نہیں ہوتا ۶۸۳ ہر ملک میں مختلف زبانیں بولنے والے افراد کی تلاش کر کے شمیم احمد SP گجرات سانحہ چک سکندر میں ملوث رانا شوکت علی D.C گجرات سانحہ چک سکندر میں ملوث تھا شہید اشہداء احمدی شہدا کے خون کے ایک ایک قطرے کا ظالموں ۱۰ ان تک لٹریچر پہنچانے کی ہدایت ۴۹۱ ۴۹۱ آیات قرآنیه احادیث نبویہ اور اقتباسات حضرت مسیح موعود کے ۲۰ از بانوں میں تراجم کا ذکر جوبلی کے چندہ کے بقایا کی یاددہانی اور وصولی کے لئے مزید پراظہار خوشنودی سارا سال پروگرام پر عمل کریں ۲۱۰ ۶۸۵ ۱۸۲ ۲۵۷ ۲۵۵ سے حساب لیا جائے گا شیخوپورہ شیطان ۴۹۷ ۲۳۰،۱۲ ایک سال کا اضافہ جوبلی کے کاموں میں دنیا کی جماعتوں کی ہمہ تن مصروفیت ۶۴ ۶۷ جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے پہلے سال کا جشن تشکر ۷۲۵ ۳۶۱ جشن تشکر کے جلسہ سالانہ میں صحابی حضرت مسیح موعود کی شرکت ۵۶۴ جشن تشکر کی نمائشوں میں یکسانیت پیدا کریں صد سالہ جشن تشکر اور ترقیات کے نئے دروازے کھلنا ۳۶۱ ۵۰۹ شیطان کا ایک بزرگ کو تہجد اور نماز فجر سے محروم رکھنے کا واقعہ ۱۶۴ ابتلاؤں کا خاص سال جزاؤں کا بھی خاص سال بنے والا ہے ۵۲۰ ص حضرت صالح علیہ السلام صحابه رسول صحابہ آنحضرت علی کی قربانیاں حیرت انگیز خدا کی تائید کے نشانات مختلف ممالک کے دورے ۷۵۴۷۵۳ یورپ کے بعض ممالک کا دورہ ۴۳۶،۴۳۵،۴۳۴ افریقی ممالک کا دورہ ۵۱۲ ۴۹۹ ۵۰۰ ۵۰۹ ۵۰۹ ۷۳۰ سب سے اہم سفر ۴۹۹ ۲۴۹ ۲۶۳ ۲۵۳ ۲۵۰ صحابہ حضرت رسول کریم ﷺ پر مظالم کی داستان ۶۷۲ ہندوستان کے دورہ کی خواہش کا اظہار انصار کی اپنی آدھی آدھی جائیدادیں مہاجرین کی خدمت مختلف ممالک سے صد سالہ جشن تشکر کی ملنے والی رپورٹس میں پیش کرنا صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوه صد سالہ جو بلی صد سالہ جشن تشکر ۵۶۳ ۸۲۰ اور خدا کے فضلوں کا تذکرہ صد سالہ جوبلی منانے کیلئے نئے عزم ، تو کل علی اللہ اور دعاؤں کے ساتھ منصوبے بنانے کی ہدایت کینیڈا کی مرکزی تقریب پر ہونے والے فضل الہی کا ذکر ۸۳۷،۸۳۶ | ٹیلی ویژن پر حضرت مسیح موعود کی تصویر دکھایا جانا

Page 882

۲۸ کینیڈا کے وزیر کا آپ کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے آپ کی صداقت کا اقرار حکومت پنجاب کا احمدیوں کو جشن جو بلی منانے پر پابندی کا فیصلہ پولیس افسران کا انتظامیہ کو جشن تشکر نہ منانے دینے کا حکم اور اس پر حضور کا پیغام جشن تشکر نہ منانے کا ڈپٹی کمشنر کا حکم نامہ صد سالہ جشن تشکر پر پابندی کے حکم نامہ کی تفصیل صدی (جماعت احمدیہ ) احمدیت کی پہلی صدی کے انجام دوسری کے آغاز کا ذکر نئی صدی کے آغاز سے قبل انتظامات مکمل کرنے کی تلقین پہلی صدی کا جمعۃ الوداع نئی صدی میں بارہ سو واقفین نو کی ولادت ۲۵۴ ۷۰ آئندہ ساری صدی کو ٹھوس تربیت کی صدی بنانا ہے احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا جمعہ نئی صدی کا پہلا خطبہ نکاح جماعت کے لئے نئی صدی کا پہلا پیغام ۱۹۴ نئی صدی کا پہلا قرار دیا گیا بچہ ۱۹۷ نئی صدی کا پہلا الہام جو حضور کو ہوا ۱۹۸ ۲۰۱ ۵۱ قاضی صفدر علی ضرب الامثال ۱۹۷ باسی کڑی میں اُبال ۸۲ مشک آنسبت کم خود.دوسری صدی میں واقفین نو کے سلسلہ میں دو طرح کی تیاریاں دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے پہلی صدی سے سر جھکا کر نکلیں اور انگلی صدی میں عجز وانکسار کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کے ساتھ داخل ہوں ۱۷۲ نر گدا اور خرگدا صدی کے گیٹ سے گزرنے سے پہلے ہمیں ہر لحاظ سے اپنا جنرل ضیاء الحق سابق صدر پاکستان جائزہ لینا چاہئے ۱۶۳ نئی صدی میں داخل ہونے سے پہلے ایک کمزوری دور کرنے کا عہد ۱۶ نئی صدی پر تمام احمدیوں کو مبارکباد اور اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا تحفہ ۱۸۲ خدا سے تعلق جوڑنے والوں کو ہر قدم نئی بلندیوں کی طرف لے کر جائے گی ۱۸۰ ۱۷۹ ۱۸۸ ۱۸۸ 53 ۱۸۹ ۱۹۰ ۴۰۰ ٣٣٠ ۴۳۷ ۴۶۵ ۶۱۰ ۶۸۴ ۸۲۴،۸۸۲۷۴۱،۸۳۹ ،۴۰۷ ،۱۲۸ ۳۱۵،۳۱۴،۳۰۹ اس کا گیارہ سالہ دور حکومت اس کے بنائے ہوئے ۱۹۸۴ء کے بدنام زمانہ آرڈینینس کا تذکرہ ۵۱۹ ضیاءالحق کی موت مباللہ کا نشان جنرل ضیاء الحق کی موت پر ایک رؤیا کا تذکرہ اس صدی کو شکر اور خدا کے احسانات کو یا در کھنے اور پہچاننے خدا تعالیٰ نے اس کی موت کی خبر رؤیا میں دی کی صدی بنانا ہے حقیقی فتح قربانی کا دن ہے پس قربانی کے حوصلے بلند ۱۸۳ ۷۴۸،۳۹۴،۳۹۳ ۳۹۴ ۵۵۰،۵۴۹ ۷۴۹ جنرل ضیاء الحق آج کے علماء کی آنکھوں کی پتلی تھا b طاقتور کمزور چیز طاقتور کے ہاتھوں میں حیرت انگیز کام دکھاتی ہے ۷۷۸ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ۷۹۸ ،۷۹۵ ، ۷۹۲،۷۸۵ ، ۷۴۷ ، ۵۴۸،۵۴۷ ، ۴۰۰ ۱۷۴ ۲۷۳ ۲۶۷ ۶۱۸ ۵۶۰ ۵۶۶ کرتے ہوئے اگلی صدی میں داخل ہوں دوسری صدی کی سب سے اہم ذمہ داری دوسری صدی غلبہ توحید کی صدی ہے آئندہ صدی کے لئے اپنے آپ کو نمونہ بنا کر پیش کریں آئندہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے آئندہ صدی تابعین سے برکت حاصل کرے گی

Page 883

۲۹ آپ کا صدی کا پہلا الہام وقف جدید میں بیس سال خدمت کا ذکر پہاڑوں پر چڑھنے کے شوق اور ہائیکنگ کا ذکر شیخ مجیب الرحمن سے تفصیلی گفتگو کا ذکر آپ کے دل سے دعائیں لینے والے مبلغ رشدی کی کتاب پر بورڈ مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار 11 ۴۲ ۲۵۹ ۱۳۲ ننکانہ کے احمدیوں پر مظالم کا سیاسی پس منظر اس واقعہ کا جماعتی تاریخ کے حوالہ سے پس منظر ننکانہ کے احمدیوں پر مظالم کے مقابل جماعتی رد عمل آنحضرت کے زمانہ میں شدید مشکلات کے وقت قرآن ۲۳۵ ۲۳۳ ۲۳۲ ۲۴۱ کے بیان فرمودہ دورد عمل مظالم و مشکلات کے وقت قرآن میں بیان کردہ مومن کارد عمل ۲۳۹ چک سکندر میں احمدیوں کی عظیم قربانیوں کا ذکر آپ کی زبان پر حضرت مصلح موعود کے اشعار جاری ہونا اے ۱۲۰ ۴۸۶،۴۸۵ ۵۸۸ ،۴۹۲،۴۹۱،۴۹۰،۴۸۹،۴۸ ۷ آپ کے سر کی چالیس ہزار پاؤنڈ قیمت ڈالی جانا چک سکندر میں مظالم کی داستان علماء کے ابھارنے پر آنحضرت کی عزت کی خاطر شہید ہونے والوں چک سکند رسانحہ میں حکومت ملوث کے اہل و عیال کے حالات معلوم کرنے کی جماعت کو ہدایت ۱۵۲ چک سکندر سارا ظلم پنجاب کی پولیس نے کروایا میں خدام الاحمدیہ میں سائق ، زعیم رہا اور صدر بنا بچپن سے میرے دل میں مسجد کی بے حد محبت ہے ایک رویاء کا تذکرہ ۴۷۱ ۶۸۷،۶۸۶،۶۸۵ جماعت کو اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کی اجازت ۴۸۸ عادات ع ۶۷۲ ۴۹۳ ۴۹۱ انسانی فطرت کا حصہ بنے والی عادات مٹانا زندگی کومٹانا ہے ۲۳۸ دنیا کے کونے میں بھی احمدیت کے خلاف ایک پتا بھی کھڑ کے عادات ورثہ میں آجاتی ہیں ایک سبق آموز کہانی تو میں اس کی آواز سنتا ہوں میرے لئے سارے احمدی برابر ہیں میں ایک ملک سے نکالا گیا ہوں لیکن دیگر ایک سوا نفیس ممالک میرے گھر بن گئے ۳۱۳ ۶۹۲ ۵۱۶ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ پر ظالمانہ جھوٹا الزام لگنا عبادت عبادات میں انسان کے ذاتی فوائد خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جماعت میری رفتار کے ساتھ ساتھ عبدالباقی ارشد صاحب بھاگی ہے پاکستان میں قبل از خلافت تربیتی سفر نئی صدی کے پہلے سال کا پہلا سفر صد سالہ جشن تشکر کے ضمن میں دنیا کے سفر فرانس میں بعض مہمانوں کو خودنمائش کا تعارف کروایا ۵۱۷ ۵۶۷ ۶۲۱ ۳۶۵ ۵۱۹ ۳۹۱،۳۹۰ ۴۱۴ ،۲۶۶،۲۶۵ ۵۳۳،۵۳۲ ۲۲۰ ۲۳۰،۱۸۸ ۸۱۹ ۱۸۸ مولانا عبد الحامد بدایونی ڈاکٹر عبدالحمید عبدالرحیم صاحب ماریشس والے اور حضرت مولانا عبد الرحیم درد گھر جانے کے خیال سے اسیران راہ مولا کا خیال آنا حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر آپ کا قائد اعظم کو ہندوستان حضرت طلحہ ظ ۱۳۱ ۲۳۲ کی سیاست میں واپس آنے پر آمادہ کرنا ماسٹر عبدالرزاق صاحب چک سکندر کے واقعہ میں زخمی مرزا عبدالرشید صاحب ۳۷ ۴۹۰ ۷۲۳

Page 884

انگلستان کے مخلص احمدی دوست محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب عبد السلام خان صاحب آپ کا ذکر خیر ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نواب شاہ آپ کو ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب قاضی احمد کی شہادت ۷۲۳،۴۹۰ ۷۹۸ ۱۸۸ اس کا آخری عمر میں اعتراف حقیقت علماء دینی تعلیم میں وسعت کا ایک طریق ۱۸۹ وسیع علم کی بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دیں ملائیت سے مراد اور سیاست پر اس کے اثر کا نتیجہ ۶۴۳۶۴۲ ۵۲۰ ۳۳۰،۳۲۷،۳۲۶ ۹۰ ۹۱ ۴۵ احمدیوں کے مخالف علماء کا سیاستدانوں کو مرعوب کرنے کا طریق ۴۰ پاکستان کے معاند علماء پاکستانی علماء کا مکر اور بے چینی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید افغانستان نهایت متشد د اور تنگ نظر علماء آپ کا یوم شہادت آپ کا واقعہ شہادت شہادت سے قبل آپ کا بادشاہ کو انتباہ عبد اللہ آنقم دشمن احمدیت ۴۸۶،۴۸۵ ۵۰۳ ZA ۷۹۳ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ملاں کی غلط تحریک سب سے بدقسم کا عالم برصغیر میں پیدا ہونے میں حکمت عظیم الشان بیرونی طاقتوں کی ملاں کی پشت پناہی عورت کی سر براہی اور ملاں کا کردار ۶۹۱ 2.۱۲۷ ۷۴ ۳۰۰ ۲۳۷ ۷۵،۷۴ ۸۰ ۱۴۹،۱۱۷ ۱۴ لا ۱۱۷ ۵۵۲ ۵۵۱ ۲۳۷ ۲۳۸ ۷۲۳ ۱۲۳ ۲۰۴ نیک دل پاکباز علماء اور ان کی خاموشی اکثریت عرب علماء کی شریف ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ ۲۶۸ ۳۳۷ ۳۸۷ 112 علی گڑھ حضرت عمر فاروق ۴۰۳ عمر کانتے حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص آغا عبداللہ خان.نواب شاہ ان کی ایرانی بیوی نے احمد بیت قبول کی قریشی عبدالمنان صاحب مشرقی افریقہ کے ایک احمدی دوست حضرت عثمان بن عفان محترم عثمانی چینی صاحب عراق ۷۸۳،۲۹۶،۱۲۰ ۲۸۰،۲۶۱،۲۴۱ ،۱۷۱ ،۱۷۰ ، ۱۶۹ ، ۱۴۷ ، ۱۲۸ ،۱۲۰ ۱۱۹ ۸۰ عربوں کیلئے خاص دعا کی تحریک عرب قوم کی خوبیاں اور عربوں سے محبت کے تعلقات قائم کرنے کی تحریک عربوں اور ترکوں کی نفرت عزم عزم اور ہمت بچپن کا بنیادی خلق اولاد کو عزم کا پہاڑ بنا دیں عطاء اللہ شاہ بخاری ΔΙ ۳۰۴ ۷۶۶ مالی کے مخلص احمدی عمر معاذ مبلغ سلسله مالی عورت عورت کی سر براہی اور ملاں کی دورخی پالیسی حدیث میں بیان کردہ عورت کی نزاکت عید الاضحیہ عیسائیت ۷۶۷ برطانیہ کا عیسائیت کے حق میں بلاسفیمی کا قانون ۳۲۷ کیتھولکس میں مذہبی معاملات میں سنجیدگی موجود ہے

Page 885

۵۵ ۵۴۶،۵۴۵ ۳۷۹،۷۳۳ ۷۹۳ ۵۴۱ ۳۵۸،۳۵۰،۳۴۴ ۵۵۲ ۵۱۵ ۵۱۶ ۷۵۶ ۷۶۱ ۷۶۱ ۳۱ بعض شریف عیسائی یا در یوں کا Penguin Series بچوں کو آپ کی تحریریں پڑھانے کی تاکید کے بائیکاٹ کا اعلان عیسائیت پر مظالم کا دور عیسائیوں پر مظالم کی داستان عیسائی دنیا کی مخالفت کی وجہ ۱۵۱ آپ کی صداقت کا عظیم الشان نشان ۵۷۸ آپ کی صداقت کے حیرت انگیز نشانات ۶۴۰ ۶۴۸ آپ کے سامنے لولے لنگڑے پیش کرنا جماعت کا والہانہ عشق اور محبت عیسائیوں کے عقائد پر مغربی نو جوانوں کا عدم اعتماد ۵۸۱ آپ کی وفات کا دن صرف پر انا طبقہ دلائل کی بنیاد پر عیسائیت پر قائم ہے دلائل کے ذریعہ لوگوں کو عیسائیت سے الگ کرنا مشکل ہے ۶۲۲ ۶۲۳ آپ کی حکمت عملی کو عظیم الشان خراج تحسین پائے محمد یاں بر منار بلند محکم تر افتاد ( آپ کا الہام) آپ کا سب سے بڑا معجزہ آپ کی جماعت ہے عیسائی حکومت کا مقصد اول ہندوستان میں عیسائیت پھیلانا ۶۳۸ نجران کے عیسائی وفد نے مسجد نبوی میں عبادت کی ۴۶۴۴۶۳ آپ نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ حضرت عیسی مسیح ناصری علیہ السلام برطانیہ کا صرف آپ کیلئے بلا شیمی کا قانون ۶۵۲،۲۷۹،۲۱۰،۱۴۳،۱۳۴،۱۲۵،۱۲۴ ۱۲۳ ۱۸۹ ۱۳۸،۱۳۷ ۳۴۲ قرآن میں مسیح کی موت کے دن پر سلام آپ کی بن باپ ولادت پر یہود کی گستاخی حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ۶۲۸ حضرت مسیح کا فرمانا پہاڑ کے دامن میں پناہ لو اور دعا کرو ایک جماعت بنا دیا ہے آپ کا سب سے بڑا معجزہ درگزر کی عادت اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ تربیت غ غار ثور غزه ( فلسطین) غلام محمدی مسیح کے غلاموں کا موسوی مسیح سے بڑھ کر کردار آپ سے زمانہ کی دوری اخلاق کے ذریعہ پائی جاسکتی ہے ا۷۷ روس کا عصا آپ کے ہاتھوں تھمایا گیا آپ کے غلاموں کے ذریعہ کثرت سے قوموں کی ہدایت کے سامان آپ کے ماننے والوں کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو دیگر انبیاء کے ساتھ ہوتا آیا ۲۷۱ لدھیانہ میں پہلی بیعت 221 ۶۸۹ ۶۷۵ ۸۳۵ ۷۸۷،۷۸۶ آنحضرت سے شروع ہونے والے عہد بیعت کی آپ نے تجدید کی ۱۶۱ ۶۴۱ آپ مسلسل عیسائیت سے نبرد آزمار ہے انگریز حکومت کی تعریف کرنا اپنی اولاد کے حق میں دعائیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ،۲۰۸،۱۹۱،۱۸۱،۱۸۰،۸۸ ،۸۱،۷۹ ،۷۲،۷۰ ،۶۲،۵۹ ،۴۹،۶،۵ ،۶۹۲۶۵۶،۶۳۷ ،۶۲۵ ،۳۳۴،۲۳۲،۲۶۱،۲۵۵ ،۲۴۵،۲۳۴ ۸۲۷،۸۲۶،۸۲۵،۸۰۹۰۸۰۳٬۸۰۲۷۹۸ ،۷۹۷ ،۷۰۳ مسیح موعود کا اس دور میں عظیم الشان احسان مسیح موعود کے عربی لٹریچر کی غیر احمدی عرب علماء کی تعریف آپ کی دعا اور تدبیر کے متعلق تعلیم کا ذکر ۱۱۳ ۱۰۵ ۲۵۲ آپ کا کلام نمائشوں میں پڑھا جایا کرے زمین کے کناروں تک شہرت پانا آج وہ آواز دینے کی بجائے قادیان سے دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ گئی آپ کی تبلیغ امریکہ اور لندن پہنچنا اے مرزا غلام احمد تیری آواز سچی نکلی اور واقعی دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی ۶۵۱ ݁ܬ1 ۳۷۴ ۶۴۱ ۶۳۸ ۶۳۹ ۶۳۷

Page 886

۵۶۱ ۶۷۹ ۶۸۶ ۷۲۴ 222 ۵۰ 22 ۲۲۶ ۵۱۶ ۶۷۸ ۸۳۱ ۶۹۲ ۱۹ ۲۱ ۸۹ ۴۲۴ ۱۲۸ ۱۲۰ ۷۰۱،۲۱۳ ۶۳۷ ۲۷۷ ۲۲ ۳۲ سخت زبان استعمال کرنے کی وجوہات ۲۲۱، ۶۴۸ ۶۵۴ اے خدا اے کارساز وعیب پوش و کردگار آپ پر سخت کلامی کے الزامات آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام پر حملوں کا دفاع فرمایا آپ کی تحریروں پر اعتراضات آپ کا اردو زبان میں لٹریچر ۶۴۷ حق پر شار ہو دیں مولی کے یار ہوویں ۶۴۸ ۶۴۶ ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی عد و جب بڑھ گیا شور وفغاں میں ۷۸ ہوا مجھے پر وہ ظاہر میرا ہادی نئی نسل کو آپ کے کلام سے روشناس کروانا ضروری ہے ۶۶۱، ۶۶۸ ایک عالم مر گیا تیرے پانی کے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مجادلہ آپ کے ذریعہ ایمان ثریا سے زمین پر آنا غیروں سے مناظرے اور مباہلے عیسائی پادریوں کی شدید مخالفت آپ کے دعوی سے عیسائی مخالف ہو گئے ہندوؤں نے بڑی شدت سے آپ کی مخالفت کی اس ایک آواز کے مقابل پر شدید مخالفت کی لہریں اٹھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ قادیان کے دائرے سے باہر نکلنے نہ دیا جائے گا جان فدا کرنے والے دوست جان کے دشمن بن گئے آپ کو اپنے مخالفت کے دور کے وقت کسی قسم کی مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑا معاندین اور مخالفین کے نام پیغام صلح، اشتعال انگیزی پر صبر کی تلقین ” میری سرشت میں ناکامی کا ضمیر نہیں آپ کی رویاء کا ذکر ۸۱۳٬۸۱۲ ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کے ۶۲۷ فارسی منظوم کلام ۶۴۶ من نه آنستم که بروز جنگ بینی پشت من ۶۳۸ کا فرکنند دعوی حب پیمبرم ۶۳۸ و آنچه می خواهم از تو توئی ۶۳۶ اگر خواهی دلیل عاشقش باش ۶۳۳ ۶۳۳ ۶۳۴ ۶۳۴ ۸۰۳ ۶۷۰ ۸۶۶ ۵۰۲ امروز قوم من نه شناسد مقام من اے دل تو نیز خاطر ایں ناں نگاہ دار صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے غناء تعلق باللہ سے پیدا ہونے والی سچی غناء غناء کا ایک غلط مطلب اور اس کی وضاحت واقفین نو میں غناء پیدا کرنے کی ضرورت ف فائدہ مند ارد و منظوم کلام بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر جگر کا ٹکڑ ا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار دل ہمارے ساتھ ہیں گومنہ کریں بک بک ہزار اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا جس کی فطرت نیک ہوگی آئے گا وہ انجام کار نہاں ہم ہو گئے یا ر نہاں میں قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت فائدہ مند چیزوں کو دوام حاصل ہوتا ہے 19 فتوی ۱۸ ۷۳ ۷۵ مصر سے بلا شیمی پر کسی کو قتل نہ کرنے کا فتویٰ امام خمینی کارشدی کے قتل کا فتوی نجی جزائر ۱۸۷ ایک سکھ مذہبی راہنما سے ملاقات ۲۰۵ ۲۷۷ ۴۴۰ فرار الی اللہ فرار الی اللہ کی وضاحت و تلقین ایک مومن کا فرار الی اللہ

Page 887

۳۳ فرار اور تبتل الی اللہ کا صحیح مفہوم ۲۵ برطانیہ کا بلانشیمی کا قانون فرار الی اللہ کے سفر کیلئے دعا کی ضرورت اور دعا کرنے کی تاکید ۳۲ قائد اعظم ( دیکھئے حمد علی جناح) فرار الی اللہ کی منازل و مراحل اور جماعت کو انہیں طے قرآن کریم کرنے کی تلقین فرانس فرشتے ۳۲ ۱۳۳ فرشتوں کو کچھ علم نہیں سوائے اس کے کہ خدا ان کو عطا کرے ۴۴۸ فرشتوں کی طرف سے لوگوں کی عقلوں پر پردہ فرعون فرینکفرٹ (جرمنی) خدا تعالیٰ کے فضل کا پہلا قطرہ فلسطین فلسطین میں اسرائیلی مظالم کی انتہاء فیصل آباد ق حکمتوں کا سر چشمہ قرآنی فصاحت و بلاغت کا کمال ۱۲۳ ۴۴۰ ۲۴۰ ۲۶۴ قرآن کریم فصاحت و بلاغت کا مرقع اور سرتاج کا کلام ہے قرآن کے مطابق تمام مسائل اور مصائب کا حل توحید ہے ۲۷۳ ۶۹۴ قرآن کریم اور اس کی جامع و مانع تعلیم ۲۴۵،۲۳۹، ۸۱۳،۲۷۱،۲۴۷ کسی کے بزرگوں پر حملہ کی اجازت نہ دینے کی قرآنی تعلیم ۶۹۳ ۷۹۴،۷۸۸ ۵۳۸ ۸۴۵،۸۴۴ ،۷۲۶،۳۸۹،۲۳۵،۱۲ ۱۵۰ ۱۲۱ مقدس بزرگوں کی بے حرمتی کے متعلق غیر مبہم قرآنی تعلیم ۱۳۶ عیسائیت کا اللہ کی طرف بیٹا منسوب کر کے تقدس البہی پر حملہ اور اس پر قرآنی تعلیم قرآن کریم میں انبیاء کے متبعین کو صبر کی تلقین قدر مشترک میں تعاون کی تلقین قرآن کریم بنی نوع انسان کی مذہبی تاریخ کا جامع قرآن کریم کے اقتباسات ایک سو اٹھارہ زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں ۱۳۶ ۶۷۱ All { } ۶۳۱ ۳۶۲ ۱۰۵،۱۴، ۵۱۱،۵۱۰۵۰۹،۲۵۰،۱۷۷ انگلستان ہجرت کے نتیجہ میں قرآن کریم کے تراجم کی تو فیق ۷۷۲ ۶۳۶،۶۳۵، ۷۹۴۶۳۸،۶۳۷ تراجم قرآن کریم کا مشکل مرحلہ قادیان قادیان جلسہ سالانہ جشن تشکر کے لئے کوششیں سکھوں کی شدید مخالفت قاضی احمد (سندھ) قانون قانون وہی ہے جو خدا بنائے انسان کے بنائے ہوئے قانون بے معنی اور بے حقیقت ۵۲۱ ۶۳۷ ۵۲۰ ۸۲۷ ۷۷۳،۷۷۲ انگلستان سے روسی ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت ۷۷۳ ۷۷۴ تلاوت قرآن کریم رمضان میں تلاوت قرآن کی عبادت کی زائد ذمہ داری ۲۲۰ ۵۷۳ ترنم کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت سکھائی جائے قرآن کریم دفاع کا حق دیتا ہے قرآن کریم کو خدا کا کلام یقین کرنا قرآن کی پیشگوئی کہ زمانہ کی دوری کو اخلاق کی قربت ۸۱۶ ہوا کرتے ہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے دفاع اور اپنی حفاظت کے انتظامات کریں ۱۹۷۳ء کے آئین کی ایک شق اور اس پر تبصرہ ۸۲۷ ۴۶ کے ذریعہ مٹایا جا سکتا ہے قربانی قربانیوں کا فلسفہ ۷۵۶ آٹھویں ترمیم میں جماعت پر مظالم کی شق اور ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم ۴۵ خالصہ اللہ اور سطحی قربانیاں اور خدا کا سلوک تعزیرات پاکستان ۲۹۸سی ۷ ۱۹۸ بعثت مسیح موعود کے وقت احباب جماعت احمدیہ کی مالی قربانیاں ۶۵

Page 888

۳۴ قانون قدرت کے حوالہ سے مومنوں سے مالی قربانی لینے کی ضرورت ۳ الوصیت (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ایک پچھڑی کو ذبح کرنے کے متعلق نظارہ قربانیوں کا آسمان تعمیر کرنے کی توفیق قربانی کرنے والوں کی لذت میزبان اور نوکر کا قصہ ایک کا ہل گھوڑ سوار کی کہانی ایک خوبصورت عورت کے برتھ مارک کا قصہ قناعت قناعت اور غناء میں فرق قوم مذہبی قوموں کی تعمیر اور ترقی کے ذرائع ۶۸۷ ۶۹۴ ۶۹۷ 2+Y ۴۸۱ ۲۳۸ الفضل روز نامه ربوه بائیل ۳۵۹ ۶۶۲۶۶۱،۶۹،۵۵ ۲۶۵،۱۱۵،۶۵ براہین احمدیہ ہر چہار حصص (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۸۰۳ براہین احمدیہ حصہ پنجم (تصنیف حضرت مسیح موعود ) ۸۱۳ پیغام صلح (تصنیف حضرت مسیح موعود علیه السلام) ۸۰۴٬۸۰۳ جنگ روز نامه ۱۸ حید روز نامہ راولپنڈی ۸۲۲،۴۰۰،۳۹۸،۷۰ حقیقۃ الوحی تصنیف ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۴۰۱ ۵۴۹ ۷۵۵ در مشین (منظوم کلام حضرت مسیح موعود ) ۲۷۷ ،۷۵،۱۹ جن قوموں میں نصیحت کرنے والے کثرت سے ہوں در تمین فارسی ( منظوم کلام حضرت مسیح موعود ) وہ قو میں ہلاک نہیں ہوا کرتیں متکبر قوموں کے وجود صفحہ ہستی سے مٹادیئے جاتے ہیں مکذب قومیں خدا کے غضب کا نشان بن جایا کرتی ہیں مکذب قو میں انحطاط کا شکار ہو جایا کرتی ہیں قیصر روم کارڈ مینل ک رشدی کے خلاف اس کا بھر پور تبصرہ کائنات کائنات کا نظام ۳۵۶ ۶۷۷ ۷۵۱ ۷۵۱ ۱۴۹ ۱۳۳ 212 دیوان غالب طبری سنن ابی داؤد مساوات روز نامہ لاہور مسلم صحیح منیر انکوائری رپورٹ 22 ۲۸۰،۱۶۳،۱۶۲،۱۰۷ ،۸۲ 117 ۶۲۷ ۷۹۶،۷۹۵ ،۴۰۰ ۶۲۷ ،۲۱۷ ۸۱۶،۴۹۳ ملفوظات حضرت مسیح موعود ۶۶۳۶۶۰، ۶۶۶، ۶۶۸ ۱۱۲ کبابیر (فلسطین) سارے کا سارا گاؤں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہے آمریت کے سائے التقومی (عربی رسالہ) کتابیات اس نے بے احتیاطی سے بعض لغو روایات اکٹھی کیں ۷۸۷،۷۸۶ ملت روز نامہ لنڈن ۳۹۹ ۷۸۸ ۸۲۲،۸۲۱ موضوعات کبیر کراچی کردار ۱۸۱ ۸۲۱،۷۷۳،۲۳۵،۱۵۲،۱۱ ۷۹۰،۱۰۵،۸۱ کورشن اینڈ کانٹنٹس (از نینوگلیری) ۷۰۹،۶۹۷

Page 889

۳۵ عظیم کردار کی طاقت کری باس کسری حافظ کفایت حسین ممتاز شیعه عالم دین کلام محمود ( مجموعہ کلام حضرت مصلح موعود ) کلٹس (Cults) امریکہ میں کلٹس کی شہرت کلٹس آتی ہیں اور جلد مٹ جاتی ہیں کلمہ طیبہ مسلمانوں کی بنیادی پہچان کلمہ توحید اور کلمہ شہادت کا مضمون کلیم خاور صاحب روسی زبان کے ماہر احمدی دوست ۵۹۱ ۲۱۳ ۱۷۰ ۸۱۹ ۷۲ 4 ۴۲۳ ۴۲۵ ۸۴۷،۸۴۶،۷۰۳،۷۰۲۷۰۱ ،۷۰۰ ، ۶۸۲،۴۷۰،۴۶۷ ۴۳۲،۴۳۱ ۴۵۰ ۴۲۸ کینیڈا جماعت کے وسیع تعلقات غیر معمولی صلاحیتوں سے مزین کینیڈا میں وقار عمل کی مثالی روح کینیڈا جماعت کی مثالی ترقی اور برکت ۴۵۲،۴۵۱،۴۵۰،۴۹۹ گجرات گرجے ۱۲ है ۴۴۷ گناه گ ۸۲۴ گناہ کی بد عادت اور اس کے ساتھ شیطان کی ایک مماثلت ۲۸۴، ۲۸۵ ایک غافل انسان کو گناہ نہ کر سکنے کا صدمہ زیادہ ہوتا ہے گوجرانوالہ گولوے (آئرلینڈ) کمال یوسف امام صاحب مبلغ سلسله ۲۶۰، ۲۶۱ گوئٹے مالا ۶۶ ۱۶۴ ۱۲۱۱ ٢٠٣ ۸۴۶،۴۷۹،۴۷۸ ۴۶۴ ۴۶۴ ۵۵۸ 24.۵۵۷،۳۸۱،۳۷۲ ۸۴۶ ۵۵۷،۵۵۵ ۶۲۹ بڑا سخت کٹر کیتھولک عیسائی ملک گوئٹے مالا میں مسجد کا افتتاح ۶۵۹ گوئٹے مالا کے ایک منجم کی پیشگوئی ۷۴۱ ۸۴۶ ۷۳۸ ۵۰۴ بچپن کی تربیت کا بہترین ذریعہ کھانا (غانا) گی آنا ۴۴۷ گیمبیا کنڈیارو (سندھ) کوریا کو ڈیو تھور ( بھارت) کویت کھاریاں مولویوں کی جماعت کے خلاف اشتعال انگیزی کیتھیڈرل ۷۵۳،۷۴۶،۷۴۳۷۴۱ کیرالہ (انڈیا) کیرالہ بھارت میں ہونے والے مباہلہ کا ذکر کیسٹنٹائن ( نارتھ ویلز) کیلگری ( کینیڈا) کینیا کینیڈا ۴۷۲،۷۴۱ ۷۵۳،۷۴۴،۷۴۳ لاس ام لاس اینجلس (امریکہ) ۴۵۵، ۴۶۹،۴۶۸،۴۶۷،۳۵۷ ۵۸۸ لاہور ۴۷۰ ایک احمدی دوست کی خواب کا تذکرہ 129.127 ۴۰۸،۲۵۳،۱۳ لڑ پچر ۸۴۵،۸۴۴،۸۲۲،۱۰۴،۱۲،۱۱ لٹریچر کی تیاری و ترسیل اور نکاس کے متعلق ہدایات ۴۰۴ ۶۱

Page 890

۳۶ لٹریچر کی تقسیم کے دوطریق شائع شدہ لٹریچر کو ٹاک کرنے کی بجائے زیادہ تعداد میں تقسیم کر کے اور مطالبہ کریں اشات لٹر پیر اور تقسیم کی معین رپورٹس ارسال کریں اشاعت لٹریچر کی توفیق ملنا ۲۱۱ ۳۶۲ ۳۶۳ ۷۷۲ ۷۷۴ آپ سے مسیح موعود کی گہری محبت حضرت شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ امریکہ مباہلہ مباہلہ کی حقیقت مباہلہ کی عبارت مباہلہ کی دعا کا مشن ۷۱۲،۷۱۱،۴۶۹،۴۵۴، ۷۱۴، ۷۱۹، ۷۵۹،۷۵۱، ۷۶۰، ۷۶۹ مباہلہ کا چیلنج اور شدید مخالفت ۱۸۹ مباہلہ کا چیلنج عظیم الشان تصرف الہی چینی زبان میں لٹریچر لجنہ اماء الله لطیف الرحمن لطیفه لطیفہ کا مطلب لکھنو ۸۸ ۱۴ لندن ۱۵۵،۱۱۱،۸۳،۵۱،۳۷،۳۵،۱۷،۱، ۲۰۹،۱۷۹،۱۶۷ حضرت لوط علیہ السلام پنڈت لیکھرام لیکھرام کا چیلنج لیکھرام کا اعلان لیون (Layons) مارشل آرٹس ماریشس مالی ۶۲۵،۲۶۵،۲۶۲،۲۴۹ ،۲۲۹،۲۱۵ ۲۶۸ ۳۹۸ ۶۳۶ ۱۸ ۳۹۴ ۸۰۸،۸۰۷،۸۰۲ ہندوستان میں ہونے والے مباہلہ کے چیلنج کا تذکرہ انگلستان کے بعض علماء کا مشارکت زمانی کا مباہلہ کا چیلنج مباہلہ کے ثمرات مباہلہ کے نتیجے میں عظیم الشان کا میابیاں مباہلہ کے سال میں عظیم الشان نشانوں کا تذکرہ مباہلہ کے سال میں حیرت انگیز تائید کے کرشمے مباہلہ کا سال وہی مقرر ہوا جو جماعت احمدیہ کا نئی صدی میں داخل ہونے کا سال تھا.مباہلہ کے سال کا شاندار اختتام ہے قرآن کریم کی رُو سے مباہلے میں ہر گز آمنے سامنے ۱۳۳ کھڑے ہونے کی شرط نہیں ہے ۶۵۹ ۸۴۷،۷۰۰،۲۰۷ ، ۲۰۶ ، ۱۹۱ ،۱۸۲،۵۸،۱۳ مالی میں چالیس ہزار بیعتیں مانگٹ اونچا ( پاکستان ) مخالف کی طرف سے مباہلہ کا چیلنج ماؤنٹ ایورسٹ (مشہور پہاڑ ) ۵۵۱ ۵۴۷ ۲۷۵ تَعَالَوُا کا معنی جسمانی طور پر حاضر ہونا نہیں مباہلہ کا اصل مقصد کسی کو سچا یا جھوٹا ثابت کرنا ہوتا ہے مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج خلیفہ وقت کے دل سے دعائیں لینے والے مبلغ کامیاب مبلغ کے لئے عظمت کردار کی ضرورت مثنوی مولانا روم مجادله مجادلہ کی حقیقت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد (فرزند حضرت مسیح موعود ) مجلس احرار ۷۴۵ ، ۷۴۴ ۳۸۶،۳۸۵ ۳۲۵ ۵۴۶ ۳۸۴ ۳۸۴ ۵۴۶ ۵۴۱ ۳۸۳ ۳۸۸ ۳۸۸ ۳۷۷ ۷۴۲ ۷۴۲ ۷۴۶ ۲۵۹ ۵۹۲ ۱۰۴ ۶۴۶،۶۴۵ ۷۲۲۷۲۱

Page 891

آپ کے انتہائی تکلیف دہ حالات کا تذکرہ آپ کا کلام قرآن کریم کی تفسیر ۷۵۱ ۷۷۲ کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت کے کلام کی تفسیر ۷۷۲ آپ کے لئے دیوار برلن کا گرنا صحابہ کی تربیت آپ نے دعاؤں کے علاوہ اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ غلبہ پایا آپ صدوق وامین آپ کی کامیابی کا راز اعلیٰ اخلاق ۷۷۴ ۴۱۴ ۲۸۶ ۴۱۴ ۳۷ ۴۳۴۲ ۷۷ ، ۴۴،۲۸ ،۲۱،۲۰،۱ مجیب الرحمن شیخ حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی مت الله ۱۳۴،۱۳۲،۱۳۱،۱۳۰ ، ۱۲۹ ،۱۲۸ ،۱۱۵، ۱۱۴ ، ۱۰ ۷ ، ۱۰۶ ۱۰۵،۸۸۰۸۰ ۱۸۱،۱۸۰،۱۷۸،۱۶۹،۱۶۸ ،۱۶۱،۱۵۸،۱۵۳ ۱۵۲ ۱۵۱ ۱۵۰ ۱۴۸ ،۳۳۷،۲۳۳،۲۳۲،۲۳۱ ،۲۲۸ ۲۲۲ ، ۲۲۱ ، ۲۱۹ ، ۲۱۸ ،۲۰۰، ۱۹۱ ،۲۶۴۲۶۳،۲۶۲،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۹،۲۵۲،۲۴۷ ، ۲۴۵ ،۲۴۱ ،۲۳۸ ،۸۰۶،۸۰۲۸۰۱ ،۷۹۶ ، ۲۷۵ ،۲۷۴ ،۲۷۰ ،۲۶۸ ،۲۶۷ ،۲۶۵ ۸۳۹،۸۰۷ ۵۳ ہدایت دینے کا آنحضرت کا طریق آپ کی دیگر انبیاء سے منفردشان سے پیغام رسانی اور اس کی قبولیت آنحضرت کی توفیق کا راز آنحضرت کا اپنے غلاموں کو سکھایا گیا فتح کا راز نیند سے بیدار ہونے پر آپ کی دعا آنحضرت کا بارش کے پہلے قطرہ کو اپنی زبان پر لینا آنحضرت کے رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کو زندہ کرنے سے مراد ۸۴ ۲۵۸ ۱۷۴ ۱۸۵ ۱۸۹،۱۸۴ ۲۶۶ ۹ اللہ تعالیٰ کا آپ سے لامحدود فضلوں کے سلوک کی حکمت آخری لمحات میں بیماری کی بے قراری کی وجہ اور آخری کلمات ۲۹ آنحضرت کے سید المعصومین ہونے کی وضاحت آنحضرت کادنی فتدلی کا روحانی سفر خدا کے تقدس پر حملے کے رد عمل کے طور پر بیان فرمودہ آنحضرت کارد عمل آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کے مضمون کو کبھی نہ بھولیں آنحضرت کا تقتل الی اللہ آنحضرت کے غلبہ کی قرآنی پیشگوئی کا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات تشکر ۲۳ ۳۲ ۱۳۷ ۷۳ ۳۱،۲۷،۲۶ 12• ۶۸۵ آپ حقوق نسواں کے علمبردار کے آپ کی سخاوت عیسائی پادریوں کے آپ کی ذات پر ناپاک حملے آپ پر جبر اور خون ریزی کے ناپاک الزمات آپ نے یک وقت دونوں جہا دسر انجام دیئے جہاد کے میدان میں آپ پر حملے اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اسی طرح اس کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرتا آپ کو ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے نمونہ بنا دیا گیا آپ کی رضا کلیۂ خدا کی رضا کے تابع تھی آپ کی زندگی کے آئینہ میں توحید خالص کے مضمون کو سمجھنے کی کوشش کریں آپ کا ظاہر خدا کا مظہر بن چکا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک منجم آپ کے وصال کی پیشگوئی ۲۹۵ ۵۳۳ ۶۵۳ ۶۴۷ ۶۴۶ ۶۴۶ ۵۳۲ ۵۳۴ ۵۳۳ ۵۳۲ ۵۳۰ ۵۵۸ ۳۵۰،۳۴۹،۳۴۸ ۳۵۲ ۳۵۵ آپ کے پاس باپ بیٹے کی شکایت اور آپ کا فیصلہ کائنات کے سب سے بڑے زیادہ متقی انسان جو آپ کی پیروی نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ۸۱۹٬۸۱۸ آپ نے حیوانوں کو انسان اور انسانوں کو خد انما انسان بنا دیا ۶۲۵ مسلمان آپ کی محبت کے دعوی دار تو ہیں آپ کے ادنی احسان کو بھی جذبہ تشکر کے ساتھ قبول کرنے کی تعلیم ۶۸۳ آپ کو آخری نبی یقین کرنا جہاد کے موقع پر جائز دفاع کا حق دینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین مکہ کا سلوک ۵۰۱ ۶۷۴ آپ سے دشمنوں کا مطالبہ آسمان سے پتھراؤ کیوں نہیں کردا تا ۷۵۰ آپ ایک زندہ قرآن تھے آپ کیلئے ہر لمحہ ایک نیا ظاہر ہونے والا خدا تھا مولوی محمد ابوالوفا صاحب ۸۳۱ ۸۱۶ ۴۲۲ ۶۱۶ ۷۴۶،۷۴۱

Page 892

۳۸ مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری ۱۶ محمد فیروز خان صدر جماعت سان فرانسسکو مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ محمد اسلم چوہدری صاحب مسٹر محمد ایستوری جنرل سیکرٹری مذہبی جماعت ΔΙΑ 122 ۵۵۷،۵۵۴ حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی مسیح موعود حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی جلسہ سالانہ جشن تشکر کے معزز مہمان مولوی محمد حسین بٹالوی اس کا براہین احمدیہ پر ریویو لکھنا مخالفت کے سفیر خلاف فتوے حاصل کئے اور مخالفت کی آگیں لگائیں ۵۶۴ ۵۶۶ ۶۳۴ ۶۳۶،۶۳۵ ۶۳۵ مکرم میجر محمود احمد صاحب افسر حفاظت خاص ۴۵۳ ۳۹۷،۳۹۶،۳۹۵ ۳۹۶ مولوی محمود احمد میر پوری سیکرٹری اسلامی شریعت کونسل برطانیہ مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاکت ے مارچ ۱۹۸۵ء کو مباہلہ کا چیلنج دینا محمود الحسن ڈار رکن پنجاب اسمبلی مخالفانہ لہریں ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ مٹ جایا کرتی ہیں ۶۳۳ مدینہ منورہ مخالفت مذہب مذہب سے مراد اعلی درجہ کا ضابطہ حیات مذاہب اور Cults میں فرق ۴۰۱ ۳۰۷ ،۳۰۰،۲۴۱ ،۱۵۰،۱۲۸ بٹالہ اسٹیشن پر مسافروں کو قادیان جانے سے روکنا ۶۳۵، ۶۳۶ اچھی انسانیت مذہب سے حاصل ہوتی ہے مذاہب کا مقصد خلق خدا کی خدمت میں نے ہی اس شخص کو اٹھایا تھا اب میں ہی اس کو گرا کے دکھاؤں گا محمد رفیق صاحب ولد محمد خان صاحب شہید چک سکندر محمد سلیم چوہدری صاحب ۶۳۴ ۴۹۰،۴۸۹ مولا نا محمد شفیع اشرف صاحب ناظر امور عامه قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان ایک با اصول قوم کا سچا ہمدرد انسان مغربی ناقدین کا آپ کے متعلق غیر درست تجزیہ آپ کا ہندوستانی سیاست کو خیر باد کرنا اور پھر در دصاحب کی کوششوں سے اس میں واپسی کا اعلان ۶۲۵ ۴۲۳ ۶۲۴ ۴۲۴ مذاہب سنجیدہ خدمت کے لئے دنیا میں قائم کئے جاتے ہیں ۴۲۴ مذہب کی اصل دولت اور روح خدا تعالیٰ کی ذات سے محبت ۴۴۴۴۴۳ ۴۴۲ ۶۳۳،۶۳۲ تمام مذاہب عالم کا آغاز کمزوری سے ہوا ۱۹۹،۱۹۸ مذاہب کی آواز وقت گزرنے کے ساتھ مٹنے کی بجائے ۳۳۹ ۳۶ ۳۶ ۳۷ زیادہ مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۶۳۳ اہل مذہب کی مذہب سے دوری کی وجہ تنگ نظری اور سخت مزاجی ۶۲۵ ۶۲۹،۶۲۱ سیکنڈے نیویا کی مذہب سے عدم دیپسی کا علاج مذہب کے نام پر خون (از حضرت خلیفہ مسیح الرابع) اس کے انگریزی ایڈیشن میں دو نئے ابواب کا اضافہ مرند ۱۳۱ آپ کا جماعت احمدیہ کو مسلم لیگ سے نہ نکالنے کا اصولی فیصلہ مذہب کے نام پر خون میں مرتد کی سزا قتل کے باب کا اضافہ ۱۳۱ اور اس کے نتائج مذہبی جماعتوں کی قائد اعظم اور پاکستان کی مخالفت پروفیسر محمد علی خان لیکچرار پاکستان ائیر فورس مولوی محمد علی کا ندھوی ۳۹،۳۸ ۳۸ ۵۴۳۵۴۲ ۸۱۹ حضرت مریم علیہا السلام یہود کا آپ پر بہتان عظیم مزاح مزاح کی دو طرح کی پاکیزگی اور آنحضرت مسیح موعود ، ۱۴۳ ۱۳۸،۱۳۷

Page 893

۳۹ اور صحابہ کرام کا مزاح ۸۸ مسجد لاس انجلیز امریکہ گھروں میں اچھے مزاح کو جاری اور برے مزاح سے نفرت کی تلقین ۸۹ لاس اینجلس اور گوئٹے مالا کی مساجد کے افتتاح کا تذکرہ مستشرقین مغربی مستشرقین کی انتہائی بد دیانت تحقیقی کوشش اسلامی دنیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر ان کی پالیسی میں تبدیلی کینیڈا کے مستشرق کا دورہ پاکستان مسجد مسجد میں اپنی زینت ساتھ لے جانے کے قرآنی حکم کی حکیمانہ وضاحت مسجدوں کوزینت بخشنا مساجد کی زینت تقومی ہے اپنے وجود کے تقویٰ سے زینت بخشیں مساجد کی خوبصورتی نمازیوں سے ہے خوبصورت حسین اور عظیم الشان مساجد بنانے پر زور اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی رونق کے خود سامان کرتا ہے مسجد نبوی کی گھاس پھوس کی چھت ۱۱۲ ۶۹۷ مسجد مبارک ربوه مسجد اقصے ربوہ ذیلی تنظیموں کو مسجد میں اجتماع کرنے کی اجازت ملنا ۴۷۸ ۴۵۷ ۴۷۸ ۶۹۳،۴۷۸ ۶۸۲ مسجد اقصیٰ ربوہ کے احباب کے لئے بھی چھوٹی ہو چکی ہے ۶۸۲ ۱۱ مسجد ضرار ۱۵۷ فساد اور دکھاوے کی نیت سے بنائی گئی مسجد مسقط مسلم لیگ ۴۴۶ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کا گٹھ جوڑ ۴۶۲،۴۶۱،۴۶۰ مسلمان ۴۴۷ مسلم کی تعریف ۴۴۶ مسلمان کی متفقہ تعریف کرنے کی ناکام کوشش ۴۴۶ ۴۴۶ ۴۶۳ ۸۴۷ ،۸۴۶ ۵۰۳ ۲۹۰،۲۸۹ ۸۲۷،۸۲۶،۸۲۵،۸۲۴،۸۲۳٬۸۲۰،۸۱۹ ،۸۱۸ ،۸۱۷،۸۱۶ مسلم کے وجود سے امن اور سلامتی وابستہ ہے ۲۹۰ ۴۴۷ آیات اللہ کے انکار و تمسخر پر غیرت مند مسلمان کے رد عمل کا ذکر ۱۳۸ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کیا کرتے مشتاق احمد شائق صاحب تھے آپ ہماری مسجد میں دو نفل پڑھ کر رونق بخشیں آنحضرت کے زمانے میں کسی مسجد کا افتتاح نہیں ہوا مساجد کو عظمت دینے والے نمازی ہوا کرتے ہیں ۴۵۹ ۴۵۹ ۴۵۹ مسجد میں عبادت کیلئے مذاہب کی تفریق حائل نہیں ہونی چاہئے ۴۶۴ سود کی اینٹ پر تقومی کی اینٹ کیسے قائم ہوسکتی ہے مساجد آباد کریں پاکستان میں تھڑے کے گردد یوار میں بنا کر بھی سادہ سی مسجد بنالی جاتی ہے ۴۷۰ ۴۷۲ ۴۶۲ پاکستان میں ایک مسجد گرائی جاتی ہے تو ہم سومسجدیں بنائیں گے ۴۵۷ مساجد اور مشن ہاؤسز کے لئے بڑی جگہیں خریدیں خدا کا گھر بہت وسیع نظر کے ساتھ بنانا چاہیئے ۴۷۵ مشن ہاؤس کھلے اور وسیع مشن ہاؤس بنا ئیں مصر احمدیت مخالف کاروائیاں ۵۶ ۴۴۵ ۷۸۹،۷۸۸،۱۲۶ حضرت مصلح موعود د یکھئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد مولوی محمد طفیل مظفر احمد صاحب صدر جماعت احمد یہ سکندر مظفر گڑھ افریقہ میں کثرت سے مساجد کی تعمیر ۴۶۰، ۴۶۴،۴۵۸ | معاشرہ افریقہ میں مساجد مرکز کی امداد کے بغیر تعمیر ہوتی ہیں ۴۵۸ معاشرہ سے تکالیف دور کرنے کے پروگرام بنائیں ۳۰۴ ۱۲۸ ۴۸۸ 11 ۴۳۰

Page 894

صرف اسلامی معاشرہ اور تمدن ہی سچا امن نصیب کر سکتا ہے ۵۸۸ مولوی منظور احمد کی ذلت کرسکتا امیر معاویہؓ معراج معراج مصطفی ﷺ میں پایا جانے والا مضمون مقداد بن اسود جنگ بدر کے موقع پر آپ کا آنحضرت کے مشورہ مانگنے پر آپ کے دفاع کا ولولہ انگیز جواب کا واقعہ مکه مکرمه ۱۴۹ ۲۴ ۹ ۲۴۶ ۴۰۲،۳۰۷ ،۳۰۰،۱۵۰،۱۲۸ فتح مکہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش ملائشیا ملائیت.دیکھئے علماء ملتان ممتاز حسین شاہ ایڈووکیٹ ممتاز محمد خان دولتانہ اس کے وقت میں ۱۹۵۳ء کے فسادات ہوئے مناظرہ مناظرہ کی حقیقت اور حکمت عملی منصوبہ بندی محنت اور تفصیل سے کی گئی منصوبہ بندی کا فائدہ ڈاکٹر منور احمد صاحب شہید سکرنڈ نئی صدی کے پہلے شہید محترم منیر الدین صاحب شمس منیر انکوائری کمیشن جسٹس منیر کیانی موسم ۵۳۲ ہر موسم کے مطابق کام کرنے چاہئے حضرت موسیٰ علیہ السلام ۱۴۴ ۲۳۷ ،۱۲ ۸۲۱ ۳۵ ۴۹۳ ۶۵۸،۶۵۷،۶۴۶ ۲۱۲ مولوی ۷۹۵ ۶۲۹ ۳۰۰ ۶۳ ۸۱۵ ۸۲۵،۸۲۳٬۸۲۲۸۱۶ ۸۰۷ ۸۱۳،۲۷۱،۲۴۵،۲۴۱ ،۲۴۰،۲۳۹،۲۳ مولوی آسمان کے نیچے بدترین مخلوق مولوی بنیادی طور پر ڈرپوک ہے ایک تھانے دار سارے ضلع کے مولویوں کو لگا میں دینے کے لئے کافی ہے مولوی سے ہم اچھی طرح بیٹے ہوئے ہیں مومن مومن کوتد بیر اختیار کرنے کا قرآنی حکم ۴۹۴ ۴۹۵ ۴۹۶ ۴۹۵ ۷۰ نہایت عمد و پر حکمت تربیتی منصوبے بناتے رہنا چاہئے ۵۶۶ مومن کی فراست والی تدابیر کا یقینی غلبہ ٹھوس منصو بہ بندی کے ذریعہ تربیتی خلا کو پُر کریں ۵۶۱ حکمت کی چیز مومن کی گم شدہ اونٹنی کی طرح ہے ہے طاقت کا سر چشمہ مومن کا دل ڈاکٹر منصور احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کیرالہ ۷۴۶ سید منصور شاہ صاحب مولوی منظور احمد چنیوٹی ۱۳۱ ۷۳۶ انبیاء کے ماننے والوں سے ظالمانہ سلوک کی داستان ناروے ن ۴۴۶ 추후 ۴۲۱ ۲۵۲ ۷۴۶،۷۰۳۷۰۱ ،۱۳ ۵ ستمبر تک میں تو ہوں گا قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی ۳۹۸٬۳۹۷ اس کی ذلت اور رسوائی کی پیشگوئی ۴۰۱،۴۰۰،۳۹۹،۳۹۸،۳۸۳ اس کا دعوی اگر میں قتل ہوا تو میرا قاتل مرزا طاہر احمد ہو گا ( نعوذ باللہ) ۳۹۸ نمایاں طور پر ترقی کرنے والی جماعت مولوی منظور چنیوٹی کا کھلم کھلا جھوٹ ۷۹۶،۷۹۳۷۸۶،۷۸۵ | نارو تکین قوموں میں سعید روحیں تلاش کریں ۷۹۹،۸۹۸،۷۹۷،۷۹۵،۷۹۴۷۷۹۱ | ناروے میں نو جوانوں کی مذہب سے عدم دلچسپی جھوٹ پر مینی دعوی ۶۲۲ ۶۲۲ ۶۲۳

Page 895

حضرت مرزا ناصر احمدخلیفة المسح الثالث بیرونی ممالک میں چندہ وقف جدید جمع کرنے کی آپ سے تحریری اجازت آپ کا فرمان کہ آئندہ صدی غلبہ تو حید کی ہوگی ناظر صدر انجمن احمد یہ ناظر اصلاح وارشاد مقامی ناظر صاحب امور عامه صدر انجمن احمد یہ ناصرات الاحمدیہ ناصرات کی تربیت کے لئے درس جاری کئے جائیں نائیجیریا نبی/ انبیاءکرام انبیاء نے اپنی دعاؤں میں کمی اور کنجوسی نہیں کی چار دفعہ آنے والے مسیح کو نبی اللہ فرمایا گیا ہے انبیاء کا اعلان حق اور سوسائٹی کی طرف سے مخالفت تاریخ انبیاء کا جائزہ ۷۱۴ ۱۳ ۲۶۷ ۶۹۲ ۶۹۲ نظارت نظارت اصلاح وارشادصدرانجمن احمد یہ نظارت امور عامه صدرانجمن احمدیہ ۵۴۹ ۷۳۰۶۲۹ نعمان نیومین ویلش مخلص احمدی نوجوان ۵۹۴۵۹۳۵۹۲ نعمت نعمت کی بے قدری ناشکری اور ضیاع نفاق ۷۶۳۷۶۲ ۴۵۴ نفاق سب سے گندی قسم کا جھوٹ نقش دوئی ۳۷۲ نقش دوئی مٹانے کا طریق اپنے ظاہر اور باطن کو ایک کرو ۷۲۸ ۵۲۸ نقش دوئی مٹتے ملتے بھی وقت لگا کرتا ہے عمر گزر جاتی ہے ۵۳۶،۵۲۷ سید تقی حسین کاظمی جنرل سیکرٹری انجمن سادات اسلام آباد ۴۰۴ ۳۸۶ ۶۲۸ ۶۳۲ ۶۴۵ نماز قیام نماز لفظ صلوۃ میں ورزش کے معنی کی وضاحت ۷۶۸ ۲۱۹ انبیاء خبیث کو طیب سے الگ کرنے کے لئے آتے ہیں ۲۸ اصل تربیت تو نماز نے کرنی ہے نبیلہ بنت مکرم مشتاق احمد صاحب شہید چک سکندر نذیر احمد ساقی صاحب شهید چک سکندر حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب سیرالیون کے پرانے مجاہد واقف زندگی نرم گفتاری بلند حوصلہ کا معیار نرم گفتاری بچپن سے اپنی اولا دکو زبان کا ادب سیکھائیں نرم اور پاک زبان کا استعمال نسل آئندہ نسلوں اور آئندہ صدیوں کے لئے نور چھوڑ جائیں ۴۸۹ نمازوں کے اوپر مزید گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۴۸۹ نمازیں جمع کرنے کی رعایت کو عادت بنالینے کی حوصلہ شکنی ایک بزرگ کا شیطان کو نماز فجر سے محروم رکھنے پر بزرگ ۵۵۶،۳۶۶ ۷۶۱ ۷۶۰ کا سارا دن رونا اور ہزاروں نمازوں کے اجر پانے کا واقعہ ہر احمد می بچے کو سو فیصد نماز کا ترجمہ آنا چاہئے صدی کی پہلی نماز جنازہ نمائش ۷۵۹ نمائشوں کو سارا سال موثر بنانے کا طریق ۶۱۹ ماریشس کا ریہرسل کے طور پر نمائش لگانے کا کارنامہ نمائش دکھانے کے لئے رضا کاروں کو تربیت دی جائے ۵۶۷ ۵۶۸ ۱۶۶ ۱۶۴ ۵۶۹ ۱۸۸ ۶۰ ۵۸ ۳۶۵ ۳۶۴ ۵۹ ۳۶۶ ہر ملک میں ملکی زبان میں Captions دیئے جائیں محترم مولا نانسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل ان کے ایک شعر پر تبصرہ راجہ نصیر احمد ناصر مبلغ سلسلہ یوگنڈا ۶۹ ۷۰ ۵۵۶ نمائش میں رکھی جانے والی تصاویر کی تفصیل افریقہ کے ابتدائی مبلغین کی تصاویر نمائشوں میں لگائیں

Page 896

۴۲ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصاویر نمائش میں لگائیں ۶۵ نن سپیٹ (ہالینڈ) ننکانہ مخالفین کا ننکانہ میں مسجد اور مکانات میں لوٹ مار ۶۰۷ والدین اپنے کردار میں پاکیزہ تبدیلی پیدا کریں ۲۳۱، ۴۹۰،۳۳۰،۲۵۳،۲۴۷ والدین اپنے کردار کو مثالی بنا ئیں کرنے اور آگ لگانے کا واقعہ اور اس کا پس منظر یہاں کے احمدیوں کا صبر کا کامل نمونہ ننکانہ صاحب کے درد ناک واقعات کا تذکرہ نواب شاہ (سندھ) حضرت نوح علیہ السلام قوم نوح کی ہلاکت کے اسباب نہرو جواہر لال نیرہ باہری حمید نیک نیک لوگوں کی مجالس میں برکت نینو گلٹیری (Nino Gultairy نیوجرسی (امریکہ) نیوزی لینڈ دورے کے دوران الہی تائیدات کے نظارے سب سے بڑے ریڈ یواسٹیشن کو انٹرویو آپ کے پیغام میں قوت اور سچائی ہے موری قبیلہ کے عظیم راہنما موری زبان میں حیرت انگیز نغموں سے حضور کا استقبال موری قبائل خدا واحد ویگانہ کے قائل نیویارک (امریکہ) واشنگٹن (امریکہ) واقدی (اسلامی مؤرخ) ۲۳۰ ۲۳۲ ۳۷۸ ۶۴۲ ۶۱۲ ۳۶ ۱۸۸ والدین بچوں کی تربیت سے پہلے اپنی تربیت کریں والدین کی جو زندگی ہے وہی بچے کی بنے گی والوز Valves ( والوز ) سسٹم پر تفصیلی تبصره وحدت شیطان ہر جگہ وحدت پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ہم نے تمام دنیا کو ایک وحدت عطا کرنی ہے وسعت حوصلہ بلند حوصلہ سے مراد ۶۰۳ ۶۰۴ ۶۰۴ ۴۱۰ ۳۷۲ ۶۹۹ ۷۶۲ وسیع حوصلگی کا یہ مطلب نہیں کہ نقصان کی پرواہ نہ کی جائے ۷۶۲ وقار عمل ۴۴۸، ۴۴۹ وقار عمل کے لحاظ سے احباب جماعت کی قربانی کا ذکر 209 | جماعت احمدیہ کی وقار عمل کی روح ۴۶۹ ۵۱۲ وقار عمل کے ذریعہ جماعتی وسائل کی بچت وقف جدید وقف جدید کے سال نو کا اعلان لا ۴۲۸ ۴۵۳ ۸۴۵،۷۰۳،۵۶۷ ۸۴۰،۱۰ 11 ۱۵ ۱۳ ۵۱۴ پاکستان میں وقف جدید کی سالا نہ وصولیوں کا ذکر ۵۱۵ وقف جدید میں بچوں کو کثرت سے شامل کرنے کی تحریک بیرونی دنیا میں وقف جدید کے چندوں کی دو وجوہات بیرونی ممالک میں وقف جدید کے چندہ جمع کرنے کی تحریری ۵۴۴ ۵۱۳ ۵۴۴ ۷۱۱ ،۴۶۹ ۴۶۹،۴۶۸،۳۰۷ ۱۱۲ اجازت اور وقف جدید کا اس پر عمل درآمد افریقی ممالک میں ترقی کی کافی گنجائش انگلستان کے لئے کم از کم معیار ایک پاؤنڈ سالانہ کتنے زیادہ افراد شامل ہوئے قبل ازیں برصغیر تک محدود تھی جرمنی بیرونی ممالک میں سرفہرست رہا وقف جدید میں کراچی سر فہرست ۱۴،۱۳ ۸۴۳ ۸۴۱ ۸۴۰ ۸۴۰ ۸۴۷ ۸۴۴

Page 897

۴۳ سالانہ جائزہ جلسوں کے لئے آڈیو کیسٹ تیار کر کے بھجوائی جائیں ۸۴۴واقفین نو بچوں کی بھاری ذمہ داریاں ۵۷۴ واقفین نو بچوں کا زیور تقوی معلمین وقف جدید تربیت کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کریں ۵۶۹ تحریک جدید کے پروگرام کے مطابق تیاری کروائیں وقف زندگی واقف زندگی کے عزیزوں کو اپنے معیار زندگی جیسا جماعت کے نظام کی ان پر نظر رہنی چاہئے ان بچوں کو خدا کی گود میں دے دیں ۷۷۷ ،۹۵ ۷۸۲،۷۷۹،۷۷، ۷۷۹ 227 اس کا معیار زندگی بنانے کی نصیحت وقف نو تحریک اواقفین نو ۱۰۸ اگلی صدی کے لئے اپنے بچے ہلدینہ اسلام کو پیش کریں واقفین نو میں کن اخلاق حسنہ کا ہونا ضروری ہے؟ تحریک وقف نو کا ذکر اور بارہ سود اقفین نو کی ولادت کی خوشخبری ۸۳ علمی کاموں میں واقفین بیٹیاں بہت کام آ سکتی ہیں واقفین نو کو سکھانے والے چند امور واقفین نو کی تیاری کے سلسلہ میں نصائح بدنی صحت کا خیال رکھا جائے ۹۵ واقفین نو بچیوں کو بی ایڈ اور ایم ایڈ کروائیں 1+1 1+1 قوموں کی تاریخ اور ملکوں کے جغرافیہ اور طبعی رجحانات کا خیال ۱۰۲ عربی زبان پر زور دیں ارود کی اہمیت اور سیکھنا مقامی زبان واقفین نو بچیوں کی تربیت کے سوال کا جواب واقفین نو کو خوش اخلاق بنانا چاہئے واقفین نوکووفاسکھائیں بچوں کو غصہ ضبط کرنے کی عادت ڈالیں واقفین نو کو مالی لحاظ سے بہت ہی درست ہونا چاہئے واقفین نو کا جنرل نالج بڑھائیں ۱۰۳ ۱۰۵ ۱۰۵ وکالت ( تحریک جدید) وکالت وقف نو تحریک جدید وکالت تبشیر لنڈن وکیل التبشیر تحریک جدید ملکہ وکٹوریہ (انگلستان) قراردیا ۱۰۷ ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کو خدا کا سایہ قرار دیا مولوی عبد الکریم نامی شخص سے قرآن پڑھنا 1+4 ۹۸ ۹۲ ۹۴ ۹۱ و پیکن ویسٹ انڈیز صاحب جماعتی اخبارات ورسائل میں واقفین نو اور ان سے مکرم ہادی علی چوہدری صاحب وابستہ توقعات پر مبنی مستقل فیچرز کی اشاعت کی تلقین بچوں کو اعلیٰ درجہ کی قرآن خوانی کیسے سکھائی جائے؟ ۸۹ ہارٹلے پول ۶۰۰ ۸۸،۸۷ ۶۰۲ ۶۰۰ ۶۰۰ ۷۹۰ ،۷۸۹ ،۷۸۶ ۷۱۴۷۱۲ ۶۵۱ ۶۵۱،۶۵۰ ۲۰۴ ۵۱۹ ۷۲۳ ۲۲۰ واقف نو بچہ کو بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئیے ۸۷ ہالینڈ ۸۴۶،۲۰۴،۱۸۸،۱۶۷،۱۲۶،۱۲۵،۱۲۳،۱۱۸،۱۰۶،۱۰۱ مختلف زبانیں سیکھیں واقفین نو بچوں کے لئے اردو کی افادیت عربی زبان سیکھیں ہر واقف نو عربی اور اردو سیکھے گا ۷۸۰ 201 ہجرت روحانی اور جسمانی ہجرت ۷۸۱ مہاجر کی صحیح تعریف اور ہجرت کی نشانیاں ۷۸۲ ہجرت خوف سے امن کی طرف ہوتی ہے وقف نو کے سلسلہ میں انتظامیہ اور والدین کی ذمہ داریاں ۸۵ ہجرت الی اللہ کی خاطر بدیاں ترک کرنے آئندہ بیس سال میں عظیم ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں کی لذتیں بہت عظیم ہوا کرتی ہیں ۲۷۳ ۲۶۸ ۲۷۴ ۲۷۶

Page 898

۴۴ ہجرت کا توحید سے کیا تعلق ہے؟ پاکستان سے عارضی ہجرت کے بعض فوائد ہری کرشنا ہری کرشنا والوں کی شہرت ہندو ہند و شریعت کے نفاذ کی مہم ہندوستان ۲۶۹،۲۶۷ ۴۲۵ مغربی ممالک کی دوغلی پالیسی اور اس کی وجہ مد مقابل کے خلاف استعمال کرنے کے مغربی دنیا کے دو بڑے ہتھیار لا ۱۴۶ ۸۲۱ دنیاوی ہتھیاروں سے یورپین قوموں سے مقابلہ مشکل ہے ۶۲۸ ۸۳۰ ۶۳،۴۵،۳۷،۳۶،۱۹،۱۵،۱۳،۱۱،۱۰ ۳۷۳،۲۶۱،۲۵۰،۲۳۶،۱۴۷ ، ۱۳۰ ،۱۰۳۸۸ ،۷۴ ۸۲۹،۷۵۱،۷۵۰ ،۷۱۲،۶۳۹،۴۶۴ ۱۶ ہندوستان کی غیر معمولی اہمیت ہندوستان میں جماعت احمدیہ کی تاریخ ہندوستان حکومت کی طرف سے قادیان جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی پیشکش ہندوستان کے علماء یورپ کا نو جوان طبقہ ملکی مذہب کا بھی قائل نہیں یورپین ممالک میں اکثر نے وراثت میں عیسائیت کو پایا ۱۹۸۹ء کے سال میں حیرت انگیز تغیرات مغربی دنیا کا سلوک تیسری دنیا کے ممالک سے ۳۳۵،۳۲۹ ہمیشہ خود غرضی پر مبنی ہوتا ہے مشرقی یورپ سے یورپین ممالک کی طرف ہجرت ۵۱۰ مشرقی یورپ کی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی تیاری ΔΙΟ ہندوستان کی اکثر آبادی مخالفین کے ناموں سے ناواقف ہوگئی ۶۳۷ آریہ دھرم کو طاقت حاصل تھی ۶۳۶ مشرقی یورپ اشتراکیت کے دام میں یوگنڈا ۶۲۳ ۶۲۲ ۸۳۶ ۵۳۷ ۶۰۸ ۷۷۴ ۷۷۵ ۵۵۶ ۶۴۷ یہود مدینہ میں یہود کے قبیلے کوسزا ☆☆☆ ی ۱۴۴،۱۳۰،۱۲۴،۱۲۰،۱۱۵،۹۱،۸۰،۱۳ ۵۸۵،۴۹۹،۳۶۴ ،۲۵۱،۲۰۵،۱۴۸ ☆☆☆ یورپ

Page 898