Khutbat-eTahir Vol 7 1988

Khutbat-eTahir Vol 7 1988

خطبات طاہر (جلد 7۔ 1988ء)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات طاہر خطبات جمعہ ۱۹۸۸ء فرمودة سید نا حضرت امام امرایی این دراین رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد

Page 2

نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبرے حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ

Page 3

نمبر شمار خطبه فرموده 1 २ 3 ។ ۷ Δ ۹ 1.= 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ΙΔ فہرست خطبات عنوان یکم جنوری ۱۹۸۸ء جمعۃ المبارک کی اہمیت ، خصوصاً مغربی ممالک میں اہتمام کرنے کی تحریک ۱۸ جنوری ۱۹۸۸ء روحانی زندگی کا انحصار وسیلہ پر ہے ، وسیلہ سے مراد آنحضرت اور آپ کی سیرت ہے ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ ء گزشتہ چند سالوں کی مالی تحریکات اور ان پر جماعت کی بے نظیر قربانیوں کا ذکر ۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء گیمبیا اور افریقہ کی ترقی کیلئے نئے منصوبے اور نصرت جہاں تحریک نو کا اعلان ۲۹ جنوری ۱۹۸۸ء سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی خدمات صفحہ نمبر 1 ۲۱ ۳۷ ۵۵ ۶۳ ۵ فروری ۱۹۸۸ ء افریقہ کو اقتصادی ترقی کیلئے مشورے نیز احمدی صنعت کاروں اور ماہرین کو وقف کی تحریک ۷۵ ۱۲ فروری ۱۹۸۸ء غانا کی تاریخ نیز ان کو اقتصادی خود انحصاری کا مشورہ اور تعاون کی یقین دہانی ۱۹ / فروری ۱۹۸۸ء افریقی کردار کی عظمت اور نائیجیرین احمدیوں کو نصائح ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء دورہ افریقہ کے حالات.خلیفہ کے خطبات اور آواز کو براہ راست لوگوں تک پہنچائیں ۱۴ مارچ ۱۹۸۸ء دورہ افریقہ کے حالات نیز افریقہ کے ابتدائی مبلغین کی قربانیوں کا ذکر ار مارچ ۱۹۸۸ء صد سالہ جشن تشکر کی تیاری نیز خلیفہ کی آواز کو تمام لوگوں تک پہنچانے کیلئے ہدایات ۱۸ مارچ ۱۹۸۸ء جماعت پر مظالم کا تذکرہ.جھوٹ کے خلاف جہاد کریں ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ ء بیویوں سے حسن سلوک کی نصیحت اپنے اندر اخلاق حسنہ پیدا کرنے کی کوشش کریں ۸۳ ۹۱ ۱۰۵ ۱۲۵ ۱۵۳ ۱۷۳ ۱۹۱ ۲۱۵ یکم اپریل ۱۹۸۸ء جماعت احمدیہ نے عالمی معاشرہ قائم کرنا ہے.بری عادات مثلاً جھوٹ کو ختم کریں ۱۸اپریل ۱۹۸۸ء وقار عمل سے بنے والی بیت الذکر گلاسکو کا افتتاح.جماعت فیض رساں جماعت ہے.۲۲۹ ۱۵ / اپریل ۱۹۸۸ء رمضان کی اہمیت و برکات طلباء کو روزے رکھنے کی تحریک نیز چاند کی رویت کا مسئلہ ۲۲ اپریل ۱۹۸۸ء رمضان اور تربیت اولاد.اوجڑی کیمپ کے المناک حادثہ کا تذکرہ استغفار کی حقیقت اور اہمیت ۲۹ / اپریل ۱۹۸۸ء ۲۴۵ ۲۶۵ ۲۸۳

Page 4

صفحہ نمبر ۲۹۹ ۳۲۵ ۳۴۷ ۳۶۵ عنوان نمبر شمار خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۸۸ء استغفار کی حقیقت ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ ء پہلی صدی کے آخری رمضان کو دعاؤں اور دکھی انسانیت کی خدمت میں گزاریں ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء بنی نوع انسان کی آزادی احمدیت سے وابستہ ہے ۲۷ مئی ۱۹۸۸ء پاکستان میں جماعت پر ہونیوالے مظالم کی تفصیل اور ان مذموم کوششوں کا انجام ۳/ جون ۱۹۸۸ء ۱۰رجون ۱۹۸۸ء ۷ ارجون ۱۹۸۸ء مخالفین کو مباحصلہ کا چیلنج مخالفین کو مباہلہ کا چیلنج حضور کی رؤیا.مباہلہ معیار عبادت کو بلند کر کے جیتیں ۳۸۷ ۴۰۹ ۴۲۹ ۲۴ جون ۱۹۸۸ء نمازی بنے کی تلقین نیز نماز میں لذت پیدا کرنے کے طریق از تحریرات حضرت مسیح موعود ۴۳۷ کیم جولائی ۱۹۸۸ء مخالفین کے سربراہ کو انتباہ - احمدیت اس قوم کی نجات اور ترقی کی ضمانت ہے ۴۵۹ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء عوام الناس پر بھی خدا کا قہر ٹوٹتا ہے کیونکہ وہ اپنے فاسد دماغ سرداروں کا بدن بنتے ہیں ۴۷۳ ۱۵ر جولائی ۱۹۸۸ء ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے مہمانوں اور میز بانوں کو نصائح قیام نماز اور ہماری ذمہ داریاں ۲۹ جولائی ۱۹۸۸ء صد سالہ جشن تشکر کی تیاری نیز مباہلہ کی کامیابی کے لئے ابتہال کریں ۵/ اگست ۱۹۸۸ء ۱۲ / اگست ۱۹۸۸ء مباہلے کے نشانات کا آغاز اور دعا کی تحریک حضور کی ایک رؤیا کا ذکر.مکذبین کو انتباہ ۴۸۳ ۵۲۱ ۵۳۱ ۵۴۷ ۱۹ اگست ۱۹۸۸ء مبلہ کا اعجازی نشان جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت اور پاکستانی رہنماؤں کو قیمتی نصائح ۵۵۹ ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء آمریت کے نقصانات نیز پاکستان کے نازک سیاسی موڑ پر سیاستدانوں کو مشورے ۵۸۱ ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء ۹ ستمبر ۱۹۸۸ء جماعت کینیا کا ماضی اور حال نیز مالی قربانی کی نصیحت دوره تنزانیہ اور جماعت تنزانیہ کو تین قیمتی نصائح ۶ ار ستمبر ۱۹۸۸ء دورہ ماریشس.احباب کو اخلاقی وروحانی ترقی اور دعوت الی اللہ کی نصیحت ۶۰۱ ۶۱۷ ۶۲۵ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ N ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸

Page 5

نمبر شمار خطبہ جمعہ ۳۹ ۴۰ 3 ۴۲ ३ مم ۴۵ ۴۶ र ۴۷ R ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۲۳ ستمبر ۱۹۸۸ء عنوان دوره ماریشس اور جماعت ماریشس کو نصائح ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء فرعون کی لاش کا ملنا قرآن کریم کی عظیم الشان پیشگوئی اور معجزہ ہے ۱۷۷اکتوبر ۱۹۸۸ء لیکھرام کی موت کا عظیم الشان نشان.دنیا کی دولتوں اور وجاہتوں کو بت نہ بنائیں ۱۴ / اکتوبر ۱۹۸۸ء نیتوں اور مالی معاملات کو درست کریں.کشتی نوح کی تعلیم پر عمل کریں ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء معاشرتی برائیوں بالخصوص مالی بے راہ روی کے خلاف جہاد کریں ۲۸ / اکتوبر ۱۹۸۸ ء معاشرتی برائیوں کا مقابلہ حسن سے کریں.نیز اہالیان ربوہ کو خصوصیت سے نصائح صفحہ نمبر ۶۳۷ ۶۴۹ ΥΛΙ 2+1 ۷۱۹ ۲ نومبر ۱۹۸۸ء تحریک جدید دفتر اول کے کھاتوں کو زندہ رکھیں، اسیران کیلئے دعا کا خصوصی ایک دن ۷۴۱ ار نومبر ۱۹۸۸ء رائے عامہ سے اصلاح کا کام لیں تنقیدی اڈے ختم کرنے کیلئے حکمت سے کام لیں ۷۵۷ ۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء گناہوں کا شعور پیدا کریں.تنقید جذام کا مرض بن جاتی ہے ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء مباہلہ کا حقیقی مفہوم اور طریق کار منظور چنیوٹی کی ذلت اور رسوائی کی پیشگوئی ۲/دسمبر ۱۹۸۸ء احمدیت کی صبح تب ہوگی جب تمام دنیا پر دین مصطفی " پھیل جائے گا.۷۷۵ ۷۹۱ ۸۰۹ ۸۲۵ ۹/ دسمبر ۱۹۸۸ء فالهمها فجورها وتقواها كى لطیف تشریح تقوی کیلئے پہلے فجور کا شعور ضروری ہے ۱۶؍ دسمبر ۱۹۸۸ء فرارالی اللہ کی تشریح ، قناعت کا صفت غنی سے تعلق ، جھوٹ سے بچیں یہ بڑا شرک ہے ۸۴۱ ۲۳ دسمبر ۱۹۸۸ء قناعت کی تشریح نیز مباہلہ میں مشارکت زمانی کی دعوت تسلیم ہے ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء فرار الی اللہ کے ساتھ قناع اور صبر کا تعلق اشتعال کے وقت صبر کی ضرورت ہے ۸۵۹ ۸۷۱

Page 6

خطبات طاہر جلدے 1 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء جمعۃ المبارک کی اہمیت اور اس کی ادائیگی کیلئے خصوصاً مغربی ممالک میں اہتمام کرنے کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده یکم جنوری ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْلَهُوَ انْفَضُّوا إلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَابِما قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللهُ خَيْرُ الرَّزِقِينَ ( الجمعة : ۱۰-۱۲) اور پھر فرمایا:.آج نئے سال کا پہلا دن ہے اور یہ پہلا دن جمعۃ المبارک سے شروع ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ نے جمعہ میں غیر معمولی برکتیں رکھی ہیں اور اس دن کے لئے ہمیں سال بھر کا انتظار نہیں کروایا جا تا بلکہ ہر ہفتہ جمعہ نئی برکتیں لے کر آتا ہے اور مومن کو اپنے کھوئے ہوئے مقامات کو دوبارہ حاصل کرنے میں مدددیتا ہے اور نئی منازل کی طرف بڑھنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بعض لوگوں کا ہاتھ پکڑ کے ان کو نئی منازل کی طرف آگے

Page 7

خطبات طاہر جلدے 2 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء بڑھا بھی دیتا ہے، صرف بڑھنے میں مدد نہیں کرتا ، بڑھنے کی طرف توجہ ہی نہیں دلا تا بلکہ عملاً بہت سے مومن ایسے ہیں جو جمعہ کی برکت سے کئی نئی مسافتیں طے کر لیتے ہیں لیکن یہ جو جمعہ کی برکتیں ہیں یہ عموماً لوگوں کی نظر سے مخفی رہتی ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس مضمون پر بار ہا مسلمانوں کو توجہ دلائی اس مضمون پر بار ہا روشنی ڈالی اور توجہ دلائی کہ جمعہ میں کتنی برکتیں ہیں ، آپ نے فرمایا کہ جمعہ میں جمعہ سے لے کر عصر کے وقت تک ایسی مبارک ساعتیں ہیں کہ جن میں مومن کی ہر دعا قبول ہو جاتی ہے.(ابوداؤد کتاب الصلاۃ حدیث نمبر : ۸۸۴) اور اس کے علاوہ جمعہ کے متعلق حضور اکرم اللہ نے مثبت رنگ میں جو کچھ فرمایا ہے ایک طویل مضمون ہے لیکن خلاصہ کلام یہی ہے کہ مومنوں کے لئے جمعہ کا دن بہت ہی اہمیت رکھنے والا دن ہے، غیر معمولی رحمتوں اور برکتوں کا موجب ہے.پس نئے سال کا آغاز جمعہ سے ہورہا ہو تو اس میں ہمارے لئے دو خوشیاں اکٹھی ہوگئیں لیکن ان خوشیوں کے ساتھ ایک غم کا احساس اور فکر کا احساس بھی شامل ہے اور وہ یہ ہے کہ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے جماعت احمدیہ کے بھی تمام افراد نہ صرف یہ کہ جمعہ برکتوں سے پوری طرح واقف نہیں بلکہ بہت سے ایسے ہیں جو جمعہ کے فرض کی ادائیگی سے بھی غافل ہیں اور ایسے لوگ دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں ، پاکستان میں نسبتا کم ہوں گے بہت کم بھی کہہ لیں تب بھی ایک اتنی بڑی تعداد ضرور موجود ہے جمعہ نہ پڑھنے والوں کی جو جماعت احمدیہ کے معیار کے لحاظ سے کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں اور غیر ممالک میں تو یہ نسبت بہت زیادہ خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے.جہاں جماعتوں کا پھیلاؤ ملک کے پھیلاؤ کی طرح بہت زیادہ وسعت اختیار کر گیا ہے لیکن تعداد تھوڑی ہے وہاں کئی قسم کے مسائل پیش آتے ہیں.جمعہ پڑھنے کے لئے جماعت کو جو جگہ میسر آتی ہے خواہ وہ مسجد ہو یا کسی گھر کا کمرہ ہو وہ عموماً لوگوں کے گھروں سے دور ہوتی ہے کیونکہ پھیلاؤ کے ساتھ اگر تعداد نہ بڑھے تو پھر لوگوں کے درمیان فاصلے بہت حائل ہو جاتے ہیں.چنانچہ امریکہ میں خاص طور پر میں نے دیکھا ہے بعض جگہیں جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہے وہاں بعض لوگوں کو سوسومیل کا سفر کر کے آنا پڑتا ہے.ایک جگہ ایسی تھی جہاں ایک ڈاکٹر صاحب صرف اس وجہ سے جمعہ پڑھ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذاتی جہاز دیا ہوا تھا ورنہ ان کے لئے روزانہ صبح موٹر کے ذریعہ مسجد تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا.تو یہ میرا مطلب ہے کہ جب ملک وسیع ہو جائیں جماعت بھی ملک کے ساتھ ہی پھیلے گی جغرافیائی طور پر ملک کے ساتھ ساتھ ہر طرف کہیں نہ کہیں جماعت کے کچھ افراد موجود ہوں گے لیکن اگر تعداد زیادہ نہ ہو تو پھر خلا

Page 8

خطبات طاہر جلدے 3 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء بیچ میں بہت بڑھ جاتے ہیں اس لئے ایک طبعی روک جمعہ پڑھنے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے لیکن اس روک کے علاوہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک روک یہ ہے کہ اکثر عیسائی ممالک میں بلکہ غالباً تمام عیسائی ممالک میں جمعہ کے روز کوئی رخصت نہیں ہوتی اور اس کے مقابل پر اتوار ہی کو نہیں بلکہ ہفتہ کو بھی رخصت دی جاتی ہے تو مسلمانوں کو کوئی رخصت ایسی نہیں ملتی جس میں وہ سمجھیں کہ آج ہمار ا ند ہی دن ہے اور اسے خالصہ ہم نے مذہبی رنگ میں منانا ہے.جمعہ ایک عام دن کی طرح آتا بھی ہے اور گزر بھی جاتا ہے اور بہت سے ان مغربی ممالک میں بسنے والے احمدی یا دوسرے مسلمان اس کی اہمیت سے اتنے بھی واقف نہیں کہ بسا اوقات ان کو یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ آج جمعہ کا دن ہے.چنانچہ انگلستان ہی کا واقعہ ہے یہاں ایک جمعہ کے موقع پر جسن دن رخصت بھی تھی جب جماعت کے صدر نے پتا کیا کہ بہت سے لوگ جو یہاں نہیں آئے مسجد میں نہیں آئے جمعہ کے لئے وہ کیوں نہیں آئے تو بہت سے احمدیوں نے ان کو یہ جواب دیا کہ اوہو یہ جمعہ کا دن تھا.ہمیں تو پتا ہی نہیں لگا یعنی کاموں میں روز مرہ کے کاموں میں جمعہ کے دن کو کوئی بھی اہمیت حاصل نہیں.ایک عام دن کی طرح آتا اور گزر جاتا رہا اس لئے ان کو قطعا اس بات کا خیال ہی نہیں آیا کہ آج جمعہ کی وجہ سے ہمیں رخصت بھی ہے اس لئے ہمیں مسجد میں پہنچنا چاہئے.چنانچہ یہ جو صورت حال ہے اس نے جب میں امریکہ گیا تو مجھے خاص طور پر بہت پریشان کیا کیونکہ وہاں بچوں کی تربیت اور جماعت کی عمومی تربیت کے سلسلہ میں میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب تک ہم جمعہ کی اہمیت کو پوری طرح جماعت کو سمجھاتے نہیں اور نظام جمعہ کا پورا احترام نہیں کرتے اور اس دن با قاعدہ عبادت کیلئے اکٹھے نہیں ہوتے اس وقت تک ہماری تمام دیگر تربیتی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود مومن کی تربیت کیلئے جمعہ کا دن رکھا ہے اور ہر مذہب کیلئے خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی اجتماعی دن ایسا ضرور رکھا ہوا ہے کہ جس میں اس مذہب کے ماننے والوں کی تربیت ہوتی تھی ، وہ اکٹھے ہوتے تھے نئی زندگی ان کوملتی تھی، پرانے داغ دھونے کا موقع ملتا تھا اور بہت سی دیگر برکتیں اس ایک دن کی وجہ سے نصیب ہوتی تھیں.چنانچہ ہفتہ کا دن یہود کیلئے مقرر تھا اور اسکو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی چنانچہ قرآن کریم نے ہفتہ کے دن ان کے عدم احترام کی وجہ سے ان کا ملعون ہونا بیان فرمایا ہے.ان پر اس لئے لعنت پڑی، اس لئے

Page 9

خطبات طاہر جلدے خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء ان کے دلوں پر مہر لگی اور وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ہفتہ کے دن کا احترام نہیں کرتے تھے.عیسائیوں کیلئے یہ اتوار کا دن ہے اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے عیسائیت کے زندہ رہنے کی اب تک بڑی وجہ اتوار کا دن ہے.اتوار اگر نہ منائی جاتی تو عیسائیت کب کی مرچکی ہوتی.اتوار کے دن ساری قوم کو چھٹی ہوتی ہے بچے تیار ہوتے ہیں، اچھے کپڑے پہن کے، مائیں انکو ساتھ لیکر گر جا گھروں میں جاتی ہیں اور یہ Insititution عیسائیت کو زندہ رکھنے میں بہت ہی مددگار ثابت ہوئی ہے.چنانچہ عیسائیت جب بعض دیگر عوامل کی وجہ سے طبعی موت مرنا شروع ہوئی یعنی ظاہر طور پر عیسائی رہتے ہوئے بھی بہت سے عیسائی عملاً عیسائی نہیں رہے تو اس کا ایک مظاہرہ اس طرح ہوا کہ چرچ خالی ہونے شروع ہو گئے.بڑے بڑے وسیع چرچ جو کسی زمانہ میں پوری طرح آباد ہوا کرتے تھے وہ اتنے خالی ہوئے کہ بالآخر چرچ کی Organizations کو ان جماعتوں جن کی وہ ملکیت تھے ان چرچوں کو بیچنا بھی پڑا اور یہ رجحان صدیوں میں جا کر مکمل ہوا کرتا ہے.مسلمانوں میں بھی ایک زمانہ میں مساجد غیر معمولی طور پر آباد ہوا کرتی تھیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ باوجود اس کے کہ اس زمانے میں جن شہروں میں وہ مسجد میں آج ملتی ہیں نسبتا مسلمان کم تھے ،تب آبادیاں تھوڑی تھیں لیکن مسجد میں اتنی وسیع بنائی گئی ہیں کہ جن سے پتا چلتا ہے کہ لوگ بڑی سنجیدگی کے ساتھ جمعہ کا دن لیا کرتے تھے اور اس دن کے تقاضے پورے کیا کرتے تھے، اکٹھے ہوا کرتے تھے ورنہ اتنی بڑی وسیع مسجدوں کا ان شہروں میں موجود ہونا کوئی مصلحت نہیں رکھتا، کوئی حکمت نہیں رکھتا.چنا نچہ لاہور کی جامع مسجد آپ دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کتنی وسیع مسجد ہے اور وہ سال میں کبھی عید کے دن بھرتی ہے اور عام جمعوں میں اس کا اکثر حصہ خالی رہتا ہے.وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جمعہ کا احترام بہت زیادہ تھا اور بڑی کثرت سے لوگ جمعہ پڑھا کرتے تھے.شاذ ہی کوئی ہوگا جو جمعہ کے دن کسی معذوری کی وجہ سے مسجد تک نہ پہنچتا ہوورنہ ہر آدمی جس کو تو فیق تھی جمعہ پڑھا کرتا تھا اور اب ایک بڑی تعداد ہے جو پاکستان جیسے ملک میں بھی جو اسلامی ملک کہلاتا ہے، جہاں اسلام پر غیر معمولی زور دیا جاتا ہے وہاں بھی ایک بڑی تعداد ہے جو جمعہ کے دن کلیڈ جمعہ سے غافل رہتی ہے اور مسجدوں تک جانا عموماً غرباء کا کام سمجھا جاتا ہے اور غرباء میں سے بھی سب کا نہیں ایک طبقہ ہے غرباء کا جو پہنچتا ہے ورنہ باقی غرباء اپنے دوسرے کاموں میں مصروف رہتے ہیں.چنانچہ آپ جائزہ لیکر دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ بعض دفعہ جمعہ کے دن ایک سینما کا پروگرام ہوتا ہے جسے

Page 10

خطبات طاہر جلدے 5 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء Machni Show کہتے ہیں.وہ کم و بیش جمعہ کے وقت ہی رکھا جاتا ہے اس دن آپ دیکھیں مسجدوں کے پاس سے گزریں تو مسجدوں کے باہر آپ کو کم مسلمان دکھائی دیں گے مسجد کی طرف بڑھتے ہوئے اور Machni Show میں جاتے ہوئے کہیں زیادہ کثرت کے ساتھ ہجوم دکھائی دیں گے یہاں تک کہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ کراچی میں وہ جو وکٹوریہ روڈ کی مسجد تھی وہاں سے جمعہ پڑھ کر ہم واپس جارہے تھے تو آگے سڑک بلاک ہوئی تھی تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے یہ اتنا ہجوم کس بات کا ہے تو پتا لگا کہ کوئی فرلانگ بھر لمبا Queueلا ہوا تھا.اس دن کو ئی فلم دکھائی جانی تھی جو Machni Show کہلاتی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا Machni Show کہتے ہیں.پتہ نہیں کیا مطلب ہے Machni کا وہ دو پہر کے قریب یعنی جمعہ کے وقت لگ بھگ دکھائی جاتی ہے اور مسجدوں کے سامنے کوئی رش نہیں تھا.ویسے بھی میں نے ایک دفعہ جائزہ لیا مساجد کی Capasity کا تو مجھے یہ بڑا تعجب ہوا کہ مسجدوں میں کل رقبہ جو مہیا ہے وہ ایک شہر میں جتنے افراد جمعہ پڑھنے کے اہل ہیں ان سے کہیں کم ہے اگر وہ سارے مسلمان جو کسی شہر میں بستے ہوں جمعہ پڑھنے کیلئے مسجدوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں تو تقریباً دو تہائی یا نصف کم سے کم ایسے ہوں گے جن کو مسجد میں جگہ مل ہی نہیں سکتی کیونکہ پوری طرح گھٹ کر بیٹھیں اور سمٹ کر بیٹھیں تب بھی مسجدوں میں اتنار قبہ ہی نہیں ہے کہ وہ سارے شہر کو سمیٹ سکیں.پھر خواتین بھی جاتی ہیں بعض جگہ، احمد یوں میں خاص طور پر خواتین میں رواج ہے ان کے لئے تو بالکل جگہ ملنے کا سوال باقی نہیں رہتا یہ جو رجحان ہے یہ بہت ہی قابل فکر رجحان ہے.جمعہ کو اتنی اہمیت حاصل ہے آنحضرت مﷺ نے جہاں اس کے مثبت پہلو بیان فرمائے ہیں وہاں جمعہ نہ پڑھنے کے نتیجے میں جو منفی پہلو بیان فرمائے ہیں وہ بہت ہی دل کو ڈرانے والے ہیں.میں ان میں سے چند کا ذکر بھی کروں گا لیکن اس سلسلے میں میں پہلے آپ کو قرآن کریم کی ان آیات کا مطلب بتاتا ہوں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں یہ سورۃ الجمعہ سے لی گئی ہیں آیت ۱۰ ۱۱ اور ۲.اللہ تعالیٰ فرماتا ب يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ الله اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب بھی نماز کے لئے بلایا جائے جمعہ کے دن فَاسْعَوْا إلى ذِكْرِ اللهِ تو دوڑتے ہوئے خدا کے ذکر کے لئے چلے آیا کرو اور وَذَرُوا البيع اور تجارت کو چھوڑ دیا کرو ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ کاش کہ تم جانتے،

Page 11

خطبات طاہر جلدے 6 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء کاش کہ تمہیں خبر ہوتی کہ اس میں کتنی برکت ہے فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ ہاں جب نماز ختم ہو جائے ، نماز سے فارغ ہو جاؤ پھر بیشک زمین میں پھیل جایا کرو وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ اور اللہ تعالیٰ سے فضل چاہو وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور اپنے کاموں میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ ذکر الہی بھی کثرت سے کرتے رہو تا کہ تم نجات سے پاؤ ، تا کہ تم کامیابی حاصل کرو لیکن ذکر الہی کی طرف توجہ دلا کر فرمایا کہ جمعہ کی عبادت کا دن صرف نماز کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ سارا دن ہی عبادت کا دن ہے اس لئے جب تم کاموں میں مصروف ہوا کرو اس وقت بھی کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو آگے فرمایا وَاِذَا رَاَوْ اتِّجَارَةً اَوْلَهُوَ انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَابِمَا.اس آیت کے عربی گرائمر کے لحاظ سے دو ترجمے ممکن ہیں جب ماضی کا صیغہ ہو اس سے پہلے اذا لگایا جائے تو وہ ماضی کو مستقبل میں بدل دیتا ہے اور عربی زبان کے محاورے کے لحاظ سے مضارع میں تبدیل کر دیتا ہے اور مضارع میں حال کے معنی بھی پائے جاتے ہیں اور استقبال کے معنی بھی پائے جاتے ہیں.پس اس آیت کا ترجمہ بھی ہو سکتا ہے.وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً اَوْلَهُوَ انْفَضُّوا إِلَيْهَا کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت دیکھتے ہیں یا کھیل تماشا دیکھتے ہیں اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں وَتَرَكُوكَ قَابِما اور اے محمد ! تجھے خدا کی عبادت میں مصروف اکیلا چھوڑ دیتے ہیں قُل مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهُوِ وَ مِنَ التَّجَارَةِ تو کہہ دے کہ جو خدا کے پاس ہے وہ لہو سے بھی بہتر ہے یعنی کھیلوں اور مشاغل اور دلچسپیوں سے اور تجارت سے بھی بہتر ہے.اور اللہ تعالیٰ بہت بہتر رزق دینے والا ہے.دوسرا ترجمہ اس آیت کے پہلے حصے کا مستقبل کے لحاظ سے یہ ہوگا کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت دیکھیں گے یا کوئی دلچسپی کا مشغلہ دیکھیں گے تجھے چھوڑ دیں گے اکیلا کھڑا ہوا اور اس کی طرف مائل ہو جائیں گے قُل مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ تو کہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے بہت بہتر ہے لہو سے بھی اور تجارت سے بھی.اس آیت کا عموما ترجمہ پہلا کیا جاتا ہے یعنی جب تجھے دیکھتے ہیں یعنی جمعہ کے دن جب لہو ہو یا تجارت دیکھتے ہیں تو تجھے چھوڑ کر اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.میں نے سال ہا سال پہلے لاہور میں جمعہ کے وقت اس مضمون کی طرف توجہ دلائی تھی کہ میرا دل

Page 12

خطبات طاہر جلدے 7 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، نہ تاریخ اسلام اس بات پر کوئی گواہی دیتی ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک عادتاً مسلمان حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے صحابہ اور آپ کے تربیت یافتہ مسلمان آپ کو چھوڑ کر کھیل تماشے کی طرف دوڑ جاتے ہوں اور جمعہ کے دن آپ کو اکیلا چھوڑ جاتے ہوں.جو احادیث میں روایات ملتی ہیں ان سے تو صاف پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے ایک اشارے پر ، آپ کی ایک دعوت پر جوق در جوق لوگ ہر دوسرے کام کو چھوڑ کر آپ کی طرف دوڑے آیا کرتے تھے یہاں تک کہ نہایت ہی خطرناک وقتوں میں بھی انہوں نے اپنی اطاعت کی روح کو زندہ رکھا اور اپنے جسموں کے مرنے کی کوئی پرواہ نہیں کی.چنانچہ جنگ حنین کے وقت یہ نظارہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک موقع پر جبکہ لشکر اسلام کے پاؤں اکھڑ گئے اور آنحضرت ﷺ کے اردگرد سوائے چند گنتی کے صحابہ کے اور کوئی میدان میں کھڑا نہ رہ سکا.اس وقت مختلف صحابہ نے آوازیں دے کر مسلمانوں کو بلانا شروع کیا لیکن وقت ایسا تھا، ایسا زور کا ریلا پڑا تھا کہ اکھڑے ہوئے پاؤں جمتے نہیں تھے اور دوڑتے ہوئے سپاہی واپس نہیں آسکتے تھے.اس وقت حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے غلاموں کو یہ تاکید فرمائی کہ ان کو یہ کہو کہ خدا کا رسول تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے اور یہ اعلان کرتے چلے جاؤ کہ خدا کا رسول تمیں اپنی طرف بلاتا ہے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے کانوں میں یہ آواز پڑی تو کوئی اور ہوش نہیں رہا سوائے اس کے کہ ہر قیمت پر ہم نے واپس جانا ہے.چنانچہ بعض صحابہ روایت کرتے ہیں کہ ہماری وہ سواریاں جو اتنا منہ زور ہو چکی تھیں ، ایسی بھگدڑ پڑی ہوئی تھی کہ سواریوں کو بھی ہوش نہیں رہی تھی.ہم نے اپنی تلوار میں نکال کر ان کی گردنیں کاٹ دیں اور پیدل دوڑتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کی طرف دوڑ پڑے.یہ نظارہ ہو جس جماعت کی قربانی کا اور اطاعت کا.اس کے متعلق یہ تصور کر لینا کہ جمعہ کے دن کھیل تماشے کی خاطر یا تجارت کی خاطر آنحضور ﷺ کو اکیلا چھوڑ کر اس طرف دوڑ جاتے ہوں میری سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے، میرے دل میں جمتی نہیں یہ بات.قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی اس ترجمہ کی تصدیق فرماتی ہے جیسا کہ فرمایا وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان (۳۱) که رسول نے اپنے رب سے عرض کیا کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کریم کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا ہے پس جو قرآن کو چھوڑے گا وہ محمد مصطفی ﷺ کو بھی چھوڑے گا اور قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ واضح طور پر وہ

Page 13

خطبات طاہر جلدے 8 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء مستقبل کی خبر تھی.قرآن کو چھوڑنا اور رسول کو چھوڑنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس یہ آیت جو ہے اس کا بھی مستقبل سے تعلق ہے ایک نہایت ہی خطرناک فتنے کی طرف اس میں اشارہ فرمایا گیا ہے.فرمایا گیا ہے ایسے دن آنے والے ہیں جبکہ مسلمان آنحضرت میے کو چھوڑ دیں گے اور تجارتوں کی طرف ایسے مائل ہوں گے کہ جمعہ کے دن بھی ان کو جمعہ کی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق نہیں ملے گی.یہاں ایک بڑا ہی لطیف رنگ ہے کلام کا.یہ نہیں فرمایا کہ جب خدا کا رسول بلاتا ہے انہیں جمعہ کی طرف کیونکہ خدا کا رسول تو جب جس طرف بھی بلاتا تھا مسلمان دوڑے چلے آتے تھے نو دی رکھ دیا گیا کہ جب بھی بلایا جاتا ہے یعنی مؤذن کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں ہے.جب بھی تمہیں بلایا جائے تمھارے کانوں میں یہ آواز پڑے کہ جمعہ کا دن آگیا ہے اور جمعہ کے دن تمہیں نماز کے لئے اکٹھے ہونا چاہئے.قطع نظر اس کے کہ بلانے والا کون ہے تمہیں خدا کے ذکر کے لئے اکٹھے ہو جانا چاہئے.چنانچہ یہ نداء سارے زمانوں پر حاوی ہو جاتی ہے.قطع نظر اس کے کہ کون بلا رہا ہے کون جمعہ پڑھا رہا ہے، کس کی امامت میں آج نماز ہوگی چونکہ جمعہ کا دن خدا کی یاد کا دن ہے، خدا کی خاطر ا کٹھے ہونا ہے اس لئے آواز دینے والے کا کوئی ذکر نہیں فرمایا جب بھی آواز دی جائے تمہیں لبیک کہنا چاہئے.اس پہلو سے بھی میں نے جماعت کو توجہ دلائی لاہور میں مجھے یاد ہے ان کو کہا کہ آپ یہ نہ دیکھا کریں کہ جمعہ کے دن کون آرہا ہے.اس دن اتفاق سے چونکہ میں غالباً خدام الاحمدیہ کے صدر کی حیثیت سے گیا تھا یا کس حیثیت سے مجھے یاد نہیں لیکن جمعہ میں عام حاضری کی نسبت زیادہ حاضری تھی اور مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ آج اتنی حاضری ہے.تو اس کے نتیجے میں نے جو تجزیہ کیا وہ یہ تھا کہ یا تو ایسے علاقے کے دوست تشریف لے آئے ہوں گے جو دوسری مساجد میں جمعہ پڑھا کرتے تھے اور اس وجہ سے کہ خاص مقصد کے لئے ، خاص نصیحت کی خاطر اکٹھا کیا جارہا اس لئے ہم اس مسجد میں چلے جاتے ہیں اس میں تو کوئی اعتراض نہیں ہے یہ تو بالکل ایک جائز فعل ہے لیکن مجھے یہ بھی خطرہ محسوس ہوا کہ بہت سے ایسے احمدی نو جوان جو عام دنوں میں اس مسجد میں جمعہ پڑھتے ہیں جن کو جمعہ پڑھنا چاہئے اس مسجد میں عام دنوں میں نہیں آتے مگر جب کوئی صدر خدام الاحمدیہ آجائے یا اور مرکز کا عہد یدار یا ناظر آجائے یا حضرت خلیفتہ اسیح اس زمانے میں جب تشریف لاتے تھے ان کے آنے پر جمعہ کیلئے حاضر ہو جائیں یہ قرآن کی روح کے منافی ہے، یہ قرآن کریم کی اس آیت کی روح کے بالکل منافی ہے کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ جب فلاں آدمی

Page 14

خطبات طاہر جلدے 9 خطبہ جمعہ یکم جنوری ۱۹۸۸ء آواز دے تم اکٹھے ہو جایا کرو بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ جمعہ کا دن اہمیت رکھتا ہے.جمعہ کے دن کسی طرف سے بھی آواز تمہارے کانوں میں پڑے کہ وقت آگیا ہے نماز کا ،نماز کیلئے اکٹھے ہو جانا چاہئے.تو جمعہ کی اذان کا توحید سے بڑا گہرا تعلق ہے اذان دینے والے کو نظر انداز فرما دیا گیا ہے اور توحید کامل کی خاطر محض خدا کے نام پر اکٹھا ہونے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اس لئے یہ کہنا کہ اس مسجد میں لندن مسجد میں مثلاً کسی وقت خلیفہ مسیح موجود ہوتے ہیں کسی وقت نہیں ہوتے اور اس کے مطابق جمعہ کی حاضری میں فرق پڑتا ہے یہ کہنا بھی بالکل نا قابل قبول ہے اور یہ تصور بھی نہایت خطرناک ہے کہ ایسے لوگ جو یہاں جمعہ پڑھنے عام حالات میں آ سکتے ہوں جب تک خلیفہ اسیح یہاں جمعہ پڑھاتا ہے وہ آتے رہیں جب وہ چلا جائے تو اس مسجد کی رونق میں فرق پڑ جائے کیونکہ کوئی اور جمعہ پڑھانے آ گیا ہے.سوائے اس کے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ بعض لوگ اس لئے جمعہ کے دن یہاں آتے ہوں باہر کے علاقوں سے کہ ویسے وہ دوسری مسجدوں میں بھی جایا کرتے تھے لیکن اس خیال سے کہ براہ راست خلیفہ وقت کی بات ہم خود سنیں وہ یہاں چلے آئیں، ایسے لوگوں پر کوئی اعتراض نہیں.یہ ان کا فعل جائز ہے لیکن وہ جو خلیفہ وقت کی موجودگی میں جمعہ پر آجاتے ہیں اور ویسے جمعہ پڑھتے ہی نہیں ان کی حالت بڑی خطرناک ہے.اس مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے امریکہ میں یہ تحریک کی اور بڑے زور کے ساتھ یہ تحریک کی کہ جمعہ کے احترام کو قائم کرنا، جمعہ کی عبادت کے نظام کو از سرنو مستحکم کرنا اور ہر احمدی کو عادی کر دینا کہ وہ جمعہ پڑھے.یہ اس دور کی اور اس سال کی خصوصی مہم بن جانی چاہئے.وہاں کے حالات کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی اولادوں کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں لی جاسکتی.یہاں کے متعلق بھی میں جانتا ہوں یورپ میں بھی کہ اگر آپ لوگ ایسا نہیں کریں گے تو آپ کی اولا دوں کے ایمان اور ان کے اعمال صالحہ کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی.امر واقعہ یہ ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ مجھ سے اس بارہ میں کوتاہی ہوئی اور دیر ہوگئی ہے.مجھے بہت پہلے اس مضمون کی طرف توجہ دلانی چاہئے تھی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ تربیت کے مسائل پر غور کرتے کرتے ایک خیال بڑی قوت کے ساتھ دل میں ابھر آتا ہے اور بعض دفعہ اس کی طرف خیال بھی نہیں جاتا اس لئے غلطی تو ہے بہر حال لیکن اب جبکہ میرے دل میں یہ خیال قائم ہوا ہے اور آج جبکہ نیا سال جمعہ ہی سے شروع ہو رہا ہے اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کے اوپر پورے زور کے ساتھ

Page 15

خطبات طاہر جلدے 10 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء نصیحت کروں اور جماعت کو اس اہمیت کی طرف توجہ دلاؤں.جماعت نے اگر اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے، ان کو دیندار بنانا ہے اور ان کو مسلمان رکھنا ہے تو جمعہ کی اہمیت ان پر واضح کئے بغیر ، ان کو جمعہ کا عادی بنائے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے.کیسا درد ناک منظر ہوتا ہے کہ عیسائی بچے تو ایک دن تیار ہورہے ہوتے ہیں چہ چوں میں جانے کیلئے ،عبادت کیلئے اور مسلمان بچوں کو پتا ہی کچھ نہیں ان کی مائیں ان کو سکول کے لئے تیار کر رہی ہوتی ہیں.اور ان کو پتا ہی نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی عبادت کا بھی خاص دن ہے.ایسی نسل جب بڑی ہوگی تو اس کے متعلق یہ توقع رکھنا کہ وہ اسلام پر کار بند ہوگی یا ان کے اندر دین کی اہمیت باقی رہے گی.یہ ایک دیوانے کی خواب ہے اس سے زیادہ اس میں کوئی حقیقت نہیں.بچوں کے اوپر جمعہ کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور یہ جمعہ کا نظام ایسا ہے کہ جمعہ سے پہلے کا حصہ اس میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے.چنانچہ وہ لوگ جو مسلمان ملکوں میں جوان ہوتے ہیں یعنی بچپن گزارتے ہیں اور بڑھتے ہیں.ان کو ہمیشہ بات یاد رہتی ہے کہ جمعہ کے دن خاص طور پر ان کو نہلایا دھلایا جاتا تھا، نئے کپڑے پہنائے جاتے تھے اور اگر وہ بھاگتے دوڑتے تھے کھیلتے تھے تو پکڑ پکڑ کر لایا جا تا تھا اور بعض گھروں میں تو باقاعدہ نہلانے والی نائین آیا کرتی تھیں وہ اپنے خاص طریق کے اوپر پانی گرم کرتیں اور بچوں کو نسل دیتیں.تو یہ جو جمعہ سے پہلے کی تیاری ہے یہ دل پر ایک گہر اثر چھوڑتی تھی اور ایسے نقش جمادیتی تھی جو پھر کبھی مٹ نہیں سکتے.پھر بڑے اہتمام کے ساتھ جمعہ پر جانا اور جمعہ پر بیٹھ کر نصائح ستہیں جمعہ کے آداب سے واقف ہونا اور ایسے مسائل جو روز مرہ کی زندگی میں انسان کے سامنے نہیں آتے جمعہ کے دن انسان تک پہنچ سکتے ہیں اور بچے خود غور سے ان کو سنتے ہیں.چنانچہ جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو مجھے بھی یہ محسوس ہوا کہ بچپن کے زمانہ میں سب سے زیادہ تعلیم وتربیت میں مدا اگر کوئی چیز تھی تو وہ جمعتہ المبارک تھا.حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کے سننے کا موقع ملتا تھا اور تمام دنیا کے مسائل کا اس میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جا تا تھا دین کا بھی دنیا کا بھی ، ان کے باہمی تعلقات کا بھی اور سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے ان مسائل کا بھی ذکر.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس، ہر بڑے چھوٹے، ہر تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیر یا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی

Page 16

خطبات طاہر جلدے 11 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی اس کو حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت سے احمدی طلباء جب مختلف مقابلے کے امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں وہ کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے، ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے، ان کے اندر مختلف علوم کے درمیان ربط قائم کرنے کی زیادہ صلاحیت موجود ہے.اس مسئلے کو ایک دفعہ مولوی ظفر علی خان صاحب نے بھی چھیڑا.ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ تم مرز محمود کا کیا مقابلہ کرتے ہو.مرزا محمود نے جواحمدیوں کی جس طرح تربیت کی ہے جس طرح ان کو تعلیم دیتا ہے.ان کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یہ سمجھتا ہو کہ مجھے بڑی سیاست آتی ہے لیکن اگر اس نے اس نے سیاست بھی سیکھنی ہو تو قادیان سے بٹالہ تک کسی قادیان والے کے یکہ پر بیٹھ کر سفر کرے تب اس کو سمجھ آئے گی کہ سیاست ہوتی کیا ہے.قادیان کا یکہ بان بھی سیاست دانوں کو سیاست کے گر سمجھا سکتا ہے.یہ اس نے حضرت مصلح موعود کو خراج تحسین دیا حالانکہ شدید دشمن تھا اور واقعہ یہ ہے کہ یہ خراج تحسین دراصل جمعہ کی Institution کو تھا.جمعہ کے ذریعے یہ ساری تربیت ہوتی تھی ہر جمعہ پر شوق سے بڑی دور دور سے لوگ اکٹھے ہو کر آیا کرتے تھے.مسجد بھر جاتی تھی Overflow گلیوں میں بیٹھ جاتا کرتا تھا.ہمارے گھر بھی صبح سے شام تک خواتین کا اجتماع رہتا تھا بچے ،عورتیں مسجد کے ایک حصے میں عورتوں کی جگہ تھی اس کے ساتھ ہمارا گھر ملا کرتا تھا.ساتھ کا کوٹھا بھر جاتا تھا وہ سمن بھر جاتا تھا اس سے پر لے صحن تک پہنچ جایا کرتا تھا اور وہ سارا دن کثرت کے ساتھ ہمارے گھروں میں دوسرے لوگوں کے ہجوم کا دن ہوا کرتا تھا.اس سے بچپن میں تکلیف بھی پہنچتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بعد میں عقل دی کہ یہ تو بڑی نعمت تھی جو حاصل رہی.اس سے زیادہ مبارک اور تکلیف کیا ہوسکتی ہے کہ خدا کے ذکر کی خاطر لوگ ہمارے گھروں میں اکٹھے ہوں.اس کی وجہ سے جماعت کی عام تربیت ایسی ہوئی ہے اور احمدی طلباء کی ایسی تربیت ہوئی کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ دنیا کے ہر میدان میں ترقی کے زیادہ اہل ہو گئے اور دشمن یہ حسد کرنے لگا کہ احمد یوں میں کوئی چالا کی ہے، کوئی ہوشیاری ہے یا اپنی طاقت ، اپنی نسبت سے زیادہ نوکریاں حاصل کر جاتے ہیں اپنی نسبت سے زیادہ برکتیں حاصل کر جاتے ہیں دنیا کے مفادات حاصل کر جاتے ہیں حالانکہ ان کو یہ نہیں پتا تھا کہ یہ جمعہ کی برکتیں ہیں اور ایسی جمعہ کی برکتیں ہیں جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ امامت کا نظام جاری ہو چکا ہے.جہاں خلافت کا منصب قائم ہے.ایسے جمعہ میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی

Page 17

خطبات طاہر جلدے 12 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء برکتیں پڑتی ہیں.تو بہر حال حضرت رسول اکرم ﷺ کے ارشادات اور جیسا کہ میں نے قرآن کریم کی آیات میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں اس کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اوپر یہ ابتلا آنا تھا کسی زمانے میں کہ جمعہ کے نظام سے غافل ہو جائیں اور یہ جو غفلت ہے یہ بہت بڑی ہلاکت ہے کوئی معمولی ہلاکت نہیں.آج کل جماعت احمدیہ کو قائم فرمایا گیا ہے تا کہ وہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمتیں دوبارہ حاصل کر کے دیں ، ان کو اس پہلے مقام تک پہنچائیں جس سے وہ گر چکے ہیں اور جمعہ کے معاملے میں میں نہیں سمجھتا کہ ہم ابھی اس بات کے اہل ہیں کیونکہ ہم نے خود بھی وہ مقام ابھی حاصل نہیں کیا یا حاصل کیا تھا تو کچھ حصہ کھو بیٹھے ہیں اور مغربی ممالک میں تو نہایت ہی درد ناک حالت ہے.اکثر بچے آپ جمعہ پڑھنے نہیں آتے ، اکثر عورتیں جمعہ نہیں پڑھنے آتیں.عورتوں کے اوپر تو فرض بھی نہیں بچوں کا یہ بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ فرض نہیں مگر دینی تربیت کی خاطر ان کو زندہ رکھنے کے لئے ایک انتہائی ضروری چیز ہے جس سے اگر آپ ان کو بچپن میں محروم کر دیں گے تو جب جمعہ فرض ہوگا تو اس وقت بھی وہ محروم رہیں گے.چنانچہ آپ یہاں انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں جو بڑی نسلیں جمعہ کے عادی نہیں رہیں ان کے ماں باپ کا قصور ہے کہ انہوں نے بچپن میں ان کو عادی نہیں بنایا.آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ہمارے سکول ہیں ان میں جانا ہوتا ہے اس لئے آپ کیلئے دو Choices یا اختیارات ہیں جس میں سے جس کو چاہیں چن لیں یا تو سکول کو اہمیت دیں دنیا کی تعلیم کو اہمیت دیں یا پھر دین کو اہمیت دیں اور ان کی روحانی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا فیصلہ کرلیں کیونکہ جمعہ سے غافل بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے جماعتی لحاظ سے سوائے اس کے خدا تعالیٰ خاص فضل فرما کر اکا دکا کو واپس لے آئے مگر بالعموم نئی نسلیں آپ کی اقدار سے دور ہونا شروع ہو جائیں گی اور یہ تنزل زیادہ تیز رفتار ہوتا چلا جائے گا وقت کے گزرنے کے ساتھ.اس لئے جمعہ کی طرف غیر معمولی توجہ کرنے کی ضرورت ہے.نظام جماعت کو میں نے ایک ہدایت دی ہے اس کی تفصیلات کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں.وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس بارے میں ایک منظم پروگرام بنائیں گے اور ساری جماعت کے لئے ایک اجتماعی کوشش بھی کریں گے.حکومت سے رابطے کی، اشتہارات کے ذریعے اخبارات میں پرو پیگنڈے کے ذریعے کہ جو سہولتیں مسلمانوں کو ملنی چاہئیں ان کو میسر آنی چاہئیں.اس سلسلے میں جیسا کہ میں نے امریکہ میں بھی دوستوں کو توجہ دلائی تھی ایک بہت ہی اہم بات

Page 18

خطبات طاہر جلدے 13 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء ہے.جماعت کی تاریخ کا ایک اہم حصہ جسے ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ۱۸۹۶ء میں پہلی مرتبہ جمعہ کے نام پر رخصت حاصل کرلے گی تحریک چلائی گئی ہے اور یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود چلائی ہے.میرے علم میں نہیں کہ تاریخ اسلام میں کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو کہ مسلمانوں کی طرف سے اجتماعی طور پر جمعہ کی رخصت کیلئے ایک مہم چلائی گئی ہو اور یہ پہلا واقعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوا اور آپ ہی کو خدا نے یہ توفیق بخشی کہ جمعہ کے تقدس کو قائم کرنے کے لئے ایک ملک گیر تحریک چلائیں اور حکومت کو توجہ دلائیں کہ مسلمانوں کا یہ حق ان کو دے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۹۶ء میں یکم جنوری کو دواشتہار شائع فرمائے اور ایک اشتہار بعد میں شائع فرمایا جس میں تمام مسلمانان ہند کو بھی متوجہ فرمایا گیا اور حکومت انگلستان کو متوجہ فرمایا کہ آپ کا اخلاقی فرض ہے ، آپ کا بحیثیت حاکم کے یہ فرض ہے کہ مسلمانوں کے جمعہ کے تقدس کو قائم کریں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی دعائیں حاصل کریں ، ان کا شکر یہ حاصل کریں اور آپ نے تاریخی لحاظ سے بتایا کہ کس طرح تمام مسلمان ممالک میں اس دن کا تقدس قائم تھا اور خود ہندوستان میں بھی ایک لمبے عرصہ تک قائم رہا لیکن انگریزی حکومت کے آنے کے بعد جمعہ کے تعطیل کی بجائے اتوار کی تعطیل شروع ہوگئی.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اتوار کے دن آپ بے شک چھٹی منا ئیں ، ہندوؤں کو بھی چھٹی دیں لیکن مسلمانوں کو اس بنیادی حق سے آپ کیسے محروم کر سکتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریک کے بعد پھر حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے ۱۹۱۱ء میں دوبارہ اس تحریک کو چلایا اور پہلی مرتبہ حکومت انگلستان یعنی حکومت برطانیہ نے ۱۹۱۳ء میں جمعہ کی رخصت کو جزوی طور پر منظور کیا اور رفتہ رفتہ پھر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ رجحان بڑھنا شروع ہوا اور بالآخر انگریزی حکومت نے بھی مسلمانوں کے لئے جمعہ کے دن جمعہ ادا کرنے کا حق تسلیم کر لیا گو ہر جگہ رخصت کے دن کے طور پر اس کو قبول نہیں کیا گیا حکومت کی طرف بلکہ بعد ازاں بھی جب پاکستان بن گیا ہے تو بہت لمبا عرصہ بلکہ اکثر وقت پاکستان بننے کے بعد اتوار ہی کو چٹھی ہوتی تھی.جمعہ کو نہیں ہوتی تھی یہ تو ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے جمعہ کی رخصت منظور کی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۹۶ء میں یہ تحریک شروع فرمائی تھی اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ وہ بھی یکم جنوری کا دن تھا یعنی ۱۸۹۶ء کو یکم جنوری کو حضرت مسیح موعود

Page 19

خطبات طاہر جلدے 14 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریک فرمائی اور بغیر اس کے کہ مجھے علم ہوتا کہ یکم جنوری کو ایسا ہوا تھا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصرف ہی ایسا ہوا ہے کہ آج خدا تعالیٰ یہ مجھے تو فیق عطا فرمارہا ہے کہ یکم جنوری ۱۹۸۸ء کو میں اس تحریک کو از سر نو شروع کرنے کیلئے جماعت کو نصیحت کرتا ہوں یعنی دو طرح سے آپ کو یہ تحریک چلانی ہوگی اول جیسا کہ نظام جماعت آپ کے سامنے پروگرام رکھے گا آپ اخباروں میں خطوں کے ذریعہ، وفود کے ذریعہ حکومت کے افسروں سے مل کر طلباء کی خاطر حقوق لینے کے لئے مختلف سکولوں میں ان کی انتظامیہ سے مل کر اور دیگر جو بھی ذرائع جماعت تجویز کرے گی ایک عالمگیر مہم چلائیں ساری دنیا میں ہر ملک کے احمدی کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کو جمعہ پڑھنے کا حق ملنا چاہئے.اس پہلے عام طور پر یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ جو لوگ کوشش کرتے تھے وہ کہتے تھے ہم جمعہ تک دفتر رہا کریں گے اور جمعہ کے وقت چھٹی لے کر گھر آجایا کریں گے یعنی نصف دن کی.لیکن قرآن کریم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ پہلے حصہ کی رخصت زیادہ اولیٰ ہے یعنی جمعہ کے بعد بے شک کام پہ چلے جاؤ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ که جب تم جمعہ سے فارغ ہو جایا کرو تو پھر بے شک زمین میں پھیلو اور اپنے روزمرہ کے کام کیا کرو.یہ یہودیوں کی طرح کا سبت کا دن نہیں ہے اور چونکہ گھر کے ماحول میں جمعہ کا دن اگر خاص طور پر رخصت کے طور پر منایا جائے ، گھر کے ماحول میں یہ بہت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے اور بچوں کی تربیت اچھی ہوتی ہے پھر آپ نے بھی نہانا ہے اور کئی قسم کے جمعہ کے دن کے کام ہیں، ذکر زیادہ کرنا ہے، قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی ہے اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جو رخصت سے تعلق رکھتی ہیں.اس سے بہت زیادہ برکت ملے گی اس لئے نصف دن بھی لینا ہو تو تحریک یہ چلانی چاہئے کہ جمعہ تک پہلا حصہ رخصت کا ہوگا.جمعہ کے بعد زیادہ وقت بیٹھ جائیں گے ہم یا نصف وقت کی ہماری بے شک تنخواہ کاٹ لو جو بھی کرنا ہے کرو لیکن ہم نے جمعہ ضرور پڑھنا ہے.یہ تحریک ہونی چاہیئے.اب یہ تحریک آپ حکومت کے سامنے کیسے رکھیں گے اگر آپ کا اپنا عمل نہ ہو، آپ جمعہ سے بالکل غافل ہوں پر واہ ہی کچھ نہ کر رہے ہوں تو لوگ تحریک آگے کیسے جاری کریں گے اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ آپ کو پہلے اپنے جمعوں کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.جماعت کے ہر فرد پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ جمعہ کے بغیر اس کی کوئی زندگی نہیں ہے اور بچوں کو بھی سکول سے اس دن کے لئے رخصت لیکر دینی چاہئے.

Page 20

خطبات طاہر جلدے 15 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء جب میں نے یہ باتیں وہاں مجلس شوری میں چھیڑ میں امریکہ میں تو اس وقت مجھے یاد ہے بعض دوستوں نے بتایا کہ پہلے ہم بھی یہ جمعہ نہیں پڑھا کرتے تھے.ایک دفعہ جب ہم تک آواز پہنچی جمعہ کے متعلق اہمیت کے لئے تو ہم نے یہ تجربہ کیا اپنی کمپنی جہاں ہم ملازم تھے اس سے درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ہم نہیں رخصت دے سکتے تمہارا کوئی حق نہیں.اس پر ایک صاحب نے بیان کیا کہ میں نے ان سے کہا بہت اچھا تم مجھے تنخواہ نہ دواس دن اور میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ لوں گا لیکن جمعہ میں نے نہیں چھوڑنا.چنانچہ زبر دستی اس دن فراغت حاصل کی اور باقاعدہ جمعہ پر جاتے رہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اور برکتیں عطافرما ئیں اس کا بھی انہوں نے ذکر کیا.پھر ایک خاتوں نے ذکر کیا کہ ایک جگہ مسلمانوں کی طرف سے با قاعدہ یہ معاملہ پیش ہوا، عدالت تک پہنچا اور ہمارے حق میں یہ عدالتی فیصلہ ہو چکا ہے کہ مسلمان کو جمعہ کا حق ہے اور اس سے زبر دستی روکا نہیں جاسکتا.اس لئے کسی حد تک امریکہ میں کچھ کام ہوا ہے.یہاں بھی اگر احمدی ماں باپ اپنے بچوں کو سب سے پہلے رو کنا شروع کریں اور پھر وہ وفود لے کر پہنچیں اساتذہ تک اور انتظامیہ تک، اخباروں میں لکھیں جماعت اپنے طور پر انتظام کرے، MPs سے ملے.تو میرے خیال میں بہت بڑی کامیابی ہو سکتی ہے لیکن اگر رخصت حاصل کرنے میں کامیابی نہ بھی ہو تو قربانی کرنی چاہئے.اس کی طرف میں اب جماعت کو بلاتا ہوں.کوشش کریں کہ آپ کو رخصت مل جائے.آپ کے لئے آسانی پیدا ہو جاتے لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے تو اس دن اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیں.نصف وقت کیلئے ان کو کہیں کہ نہیں آئیں گے ہمارا مقدس دن ہے ہم نے ان کو جمعہ ضرور پڑھانا ہے.اور اس دن ان کو نہلائیں دھلائیں خاص طور پر تیار کریں اس سے ان کو نہانے کی اہمیت کی طرف بھی توجہ ہوگی.یہ بھی میں نے دیکھا ہے کہ مغربی ملکوں میں بسنے والے احمدیوں کو پا کی ناپاکی کا بھی اتنا زیادہ احساس نہیں رہتا اور ان کو پتا ہی نہیں کہ بعض دنوں کے ساتھ غسل واجب ہیں بعض امور کے ساتھ نسل کا گہرا تعلق ہے اور جمعہ ان میں سے ایک ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر مسلمان پر غسل واجب ہے ( بخاری کتاب الجمعہ حدیث نمبر : ۸۲۸) اور اس کا اکثر احمدیوں کو بھی پتا نہیں کہ یہ اتنی اہم نصیحت موجود ہے.اس دن بچوں کو نہلایا دھلایا جائے ان کو کہیں کہ آج جمعہ کی تیاری کرنی ہے، آج تلاوت ہوگی ، آج اور نیک باتیں ہوں گی.تمہیں ہم دینی تعلیم دیں گے عام دنوں کی نسبت مقابلہ زیادہ تو میرے خیال میں ایک بہت ہی بابرکت پاکیزہ ماحول پیدا ہو جائے گا اور قانونی طور پر میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں یہ تحفظ ضرور حاصل ہو جائے گا اگر اس مہم کو ہم

Page 21

خطبات طاہر جلدے 16 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء سنجیدگی سے شروع کریں اور قربانی کیلئے تیار رہیں اگر بغیر قربانی کے مفت میں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو ہماری دعاؤں میں اتنا اثر نہیں ہوگا.دعا کریں اور عرض کریں خدا سے کہ ہم تو اب تیار ہو گئے ہیں اب تو ہماری مدد فرما.ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اکثر ابتلاؤں سے بچالیا کرتا ہے اور جو کچھ ابتلا ء پیش بھی آئیں اسکی بہترین جزا عطا فرمایا کرتا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.اب میں آپ کو حضور اکرم کی بعض نصیحتوں سے آگاہ کرتا ہوں تا کہ آنحضور ﷺہے کے اپنے الفاظ میں آپ کو جمعہ کی اہمیت کا علم ہو سکے.آپ نے فرمایا من تــرك الـجمعة ثلاث مرات تهاونا بها طبع الله على قلبه ( ترندی کتاب الجمعہ حدیث نمبر ۴۶۰) آپ نے فرمایا جو تین جمعہ مسلسل چھوڑ دے تهاونا بها یعنی جمعہ کی تخفیف کرتے ہوئے اس کی اہمیت نہ سمجھتے ہوئے.معذوری کی وجہ سے نہیں بلکہ سمجھے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا بے شک چھوڑ دو طبع الله علی قلبه اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے.قرآن کریم میں جب اللہ کی طرف سے لگی ہوئی مہر کا ذکر پڑھتے ہیں تو کیسا کانپ جاتے ہیں اور کیسا خوف کھاتے ہیں ان لوگوں کی اس چیز سے کہ نعوذ باللہ من ذالک کہ کسی کے دل پہ مہر لگے تو یہ دیکھ لیں کہ اتنا بڑا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عتاب کا اظہار ہے اس کا جمعہ عمداً چھوڑنے سے تعلق ہے اور اگر چہ قرآن کریم میں اس ضمن میں یہ موجود نہیں مگر سبت کی بے حرمتی کے نتیجے میں یہود کے دلوں پر مہر لگنے کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے استنباط قرآن کریم سے ہی فرمایا ہے اور اس نصیحت کی جڑ قرآن کریم میں موجود ہے جو قو میں اپنے اہم مذہبی دن سے غافل ہو جائیں اس سے بے حرمتی کا سلوک کریں بالآخر ان کے دلوں پر مہریں لگا دی جاتی ہیں.لينتهين اقوام عن ودعهم الجمعات اوليختمن الله على قلوبهم ثم ليكونن من الغافلين (مسلم کتاب الجمعہ حدیث نمبر: ۱۴۳۲) یہ حیح مسلم میں حدیث ہے مختلف الفاظ میں وہی مضمون بیان ہوا ہے کہ قومیں اس بات سے باز رہیں کہ وہ اپنے جمعوں کو چھوڑ دیں اس سے بھی صاف پتا چلتا ہے کہ مستقبل کے خطرات آنحضرت ﷺ کے پیش نظر تھے اور قرآن کریم میں جو پیشگوئی ہے.وہ مستقبل کی پیشگوئی ہے اس سے آپ کو خیال آیا کہ جب مسلمان کئی قوموں میں بٹ جائیں گے.تو اس وقت یہ خطرات ہوں گے کہ وہ جمعہ کے دن کی اہمیت سے غافل ہو جائیں.فرمایا یا تو وہ اس بات سے باز رہیں کہ وہ جمعہ کو ترک کر دیں یا پھر ضرور خدا تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور پھر وہ غافل ہو جائیں گے.

Page 22

خطبات طاہر جلدے 17 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء صلى الله پھر آپ نے فرمایا: عن جابر قال قال رسول الله ﷺ ان الله قد افترض عليكم الجمعة في مقامي هذا في يومى هذا فى شهرى هذا من عامى هذا الى يوم القيامة فمن تركها في حياتي او بعدى وله امام عادل او جائر استخفافاً بها او جحوداً لها فلا جمع الله له شمله ولا بارك له فى امره الا ولا صلواة له ولا زكواة له ولا حج له ولا صوم له ولابر له حتى يتوب فمن تاب تاب الله علیه (ابن ماجہ کتاب اقام الصلوۃ والسنتہ حدیث نمبر : ۱۰۷۱) ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے حضرت جابر کی طرف سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تم پر جمعہ فرض فرما دیا ہے فی مقامي هذا میرے اس مقام میں فی يومى هذا آج اس دن میں فى شهرى هذا آج اس مہینے میں من عامي هذا آج اس سال میں یعنی اہمیت کی خاطر اس کو بار بار دہرایا کہ یہ کیا ہوا ہے واقعہ.آج اس دن ، اس خاص شہر میں ، اس سال میں جمعہ فرض فرما دیا گیا ہے الی یوم القیامة آج کا واقعہ ہے لیکن قیامت تک کے لئے فرض ہو گیا ہے فمن ترکهافی حیاتی او بعدی پس جس نے بھی اسے چھوڑا خواہ میری زندگی میں چھوڑے یا میری وفات کے بعد چھوڑے ولــه امــام عادل او جائر اور اسے امام میسر ہو خواہ وہ امام نیک ہو انصاف پسند ہویا گناہگار اور بے راہرو ہو اس سے بحث ہی کوئی نہیں.جس طرح تو دِی میں مضمون تھا اس مضمون کو ایک اور رنگ میں آپ نے واضح فرمایا ہے کہ یہ بحث نہیں ہے کہ کون امامت کروانے والا تمہیں میسر ہے.یہ بھی عذر نہیں قبول ہوگا کہ تم سمجھتے تھے کہ گندا امام تھا اس لئے ہم نے جمعہ نہیں پڑھا فر مایا کہ کس قسم کا امام ہو میرے وصال کے بعد ہو تمہیں میسر آئے سہی جمعہ کے لئے اور اگر تم جمعہ نہ پڑھو استخفافاً بها وجحو دا بها خواه جمعہ کو معمولی سمجھتے ہوئے خواہ جمعہ کی اہمیت کا کھلم کھلا انکار کرتے ہوۓ فلا جمع الله شمله ولا بارک له في امرہ میری دعا یہ ہے کہ خدا اس کے بکھرے ہوئے کاموں کو بھی مجتمع نہ کرے یہ عظیم الشان کلام ہے جو اپنی فصاحت و بلاغت کے زور پر ثابت کر رہا ہے کہ خود حضور اکرم ﷺ ہی کا کلام ہے.جمعہ کا مطلب ہے جمع کرنا اور مسلمانوں کا نیکوں کا جمع ہونا اس جمعہ میں بیان ہوا ہے مختلف زمانوں کا جمع ہونا اس جمعہ میں بیان ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں جب ساری دنیا نے جمع ہونا تھا آخری دور میں اس کا اسی سورۃ جمعہ میں ذکر ہے.تو فرمایا کہ جو جمعہ سے غافل ہوتا ہے اس کے لئے تو بہترین دعا یہی بنتی ہے کہ پھر خدا اس کے بکھرے ہوئے کاموں کو کبھی اکٹھا نہ کرے تا کہ اس کو

Page 23

خطبات طاہر جلدے 18 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء احساس ہو کہ اجتماع کا کوئی موقع اس نے ہاتھ سے کھو دیا ہے، اجتماعیت کی برکت سے وہ محروم رہ گیا ہے.اب کیا آپ پسند کریں گے نعوذ باللہ من ذلک آپ کے حق میں آنحضرت ﷺ کی یہ دعا قبول ہو یعنی آپ پر صادق آئے یہ مطلب ہے قبول تو خدا تعالیٰ نے فرمانی ہی ہے ان کی یہ دعا لیکن کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ وہ ہوں جن پر یہ دعا صادق آئے.ولا بارک لہ اور پھر اس کے کسی کام میں برکت نہ رہے.فرمایا خبر دار ! ایسا شخص جو جمعہ کی اہمیت سے غافل ہے لاصلوۃ لہ اس کی کوئی بھی نماز نہیں ہوتی ولا زکواة له، اس کی زکوۃ بھی کوئی نہیں ولا حج له اس کا حج بھی کوئی نہیں ولا صوم له اور اس کا روزہ بھی کوئی نہیں.اتنی اہمیت ہے جمعہ کو جو جمعہ کے دن سے غافل ہو جائے اس کی نماز میں بھی گئیں.اس کے روزے بھی گئے اس کا حج بھی گیا اور وہ جو کہتے ہیں چلو ایک دفعہ حج کر لیں گے سب کچھ بخشا جائے گا.اس مضمون کو بالکل رد فرما دیا ہے اس حدیث نے فرمایا اس کے روزوں کا ابھی کوئی فائدہ نہیں پھر فرمایا اس کی کوئی بھی نیکی کا م نہیں آئے گی.نیکی کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.حتی یتوب یہاں تک کہ وہ تو بہ کرے فمن تاب تاب الله علیه خدا تو تو بہ کرنے والا ہے وہ تو منتظر ہے.اپنے بندوں کی تو بہ کا جو بھی تم میں سے تو بہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا.اس نصیحت کے بعد کچھ بات مزید کہنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ تمام دنیا میں جماعتیں، احمد یہ جماعت کے افراد اور جماعت کے نظام جہاں جہاں بھی قائم ہیں وہ اس سال خصوصیت سے یہ کوشش کریں کہ جمعہ کے احترام کو پہلے اپنے گھروں میں قائم کریں اپنے چھوٹے بڑوں میں قائم کریں.جمعہ کے نظام کو از سر نو زندہ اور مستحکم کرنے کے لئے قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں اور قربانیوں کی جہاں ضرورت پیش آئے وہاں قربانیاں دیں اور دنیا کے نظام کو بدلیں تا کہ اسلام کا نظام غالب آئے دنیا پر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے اس زمانہ کا امام بنایا تھا اور آپ کی امامت کی علامتوں میں سے ایک یہ علامت ہے کہ ایک آپ ہی ہیں جنہیں یہ توفیق ملی تھی کہ جمعہ کے نظام کیلئے ایک عالمگیر تحریک چلائیں.آج آپ کے غلاموں کو ہی یہ توفیق ملنی چاہئے اور ساری امت مسلمہ پر جماعت احمدیہ کا احسان ہوگا کہ اگر ہر جگہ مسلمانوں کو ان کا یہ بنیادی دینی حق میسر آجائے کہ حکومتیں یہ تسلیم کرلیں کہ جمعہ کے دن ان کو کم سے کم اتنی رخصت ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے فرائض سے سبکدوش ہو سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 24

خطبات طاہر جلدے 19 خطبہ جمعہ یکم جنوری ۱۹۸۸ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز کے معا بعد ایک تو حاضر جنازہ ہے ہمارے سلسلہ کے ایک بہت ہی مخلص فدائی کارکن ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب ابن سردار عبد الرحمان صاحب ( مہر سنگھ ) چند دن پہلے وفات پاگئے ہیں.انگلستان کی جماعت ہی صرف ان سے واقف نہیں بلکہ پرانے قادیان کے پروردہ سب احمدی ان کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور مختلف ممالک میں ان کو خدمت دین کی بڑی توفیق ملتی رہی.سادہ لوح ، سادہ دل، بے نفس انسان جن کا ظاہر اور باطن ایک تھا.اس سے زیادہ میرے علم میں ان کی کوئی تعریف نہیں آسکتی.بچے آدمی تھے جو ظاہر تھا وہی باطن تھا.نیک دل، نیک نفس ، خدمت کرنے والے، ہر قسم کے تکبر سے پاک تھے.بہت اچھی طرح اپنے بزرگ باپ کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی عمر بھر کوشش کی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.ان کی اولا دکو بھی ان کے نقش قدم پر چلائے اور ان کے دوسرے بھائیوں اور ان کی اولا د کو بھی اپنے بزرگ حضرت عبد الرحمان صاحب (مہر سنگھ ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اس کے علاوہ اور بہت سے مرحومین ہیں جن کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ڈاکٹر صاحب کے جنازہ کے ساتھ ہی ان کو بھی اپنی دعا میں شامل فرمالیں.خواجہ عبدالوکیل صاحب صدیقی مرحوم کراچی ، ملک منور احمد صاحب طاہر صدر حلقہ کورنگی کے والد تھے.مکرم امیر احمد صاحب ابن مکرم محمد حسین صاحب ربوہ، جرمنی سے ان کے بھانجے ناصر احمد نے یہ درخواست کی ہے.صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ غلام رسول صاحب فیصل آباد.علی محمد صاحب مرحوم موصی سانگلہ ہل ، ساجده حنیف ان کی بیٹی جرمنی میں ہیں انہوں نے درخواست کی ہے.ابوالحکیم صاحب مرحوم ، مکرم منصور احمد مبشر مبلغ سلسلہ ڈنمارک کے نانا تھے.مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ہمبشر احمد صاحب شکیل صاحب آف ہنسلو کے والد تھے اور ہمارے پیر محمد عالم صاحب دفتر P.S لندن کے بہنوئی تھے.چوہدری عزیز الدین احمد صاحب عمر ۸۲ سال ملتان.چوہدری عبد اللہ خان صاحب واہلہ عمر ۹۰ سال چک نمبر ۴۵ سرگودھا.مکرمہ زبیدہ خاتون صاحبه موصیبه ،مکرم شیخ خلیل الرحمان صاحب مرحوم سیکر یٹری ضیافت کراچی کی اہلیہ تھیں.مکرم بشارت احمد صاحب ابن محمد یحیی صاحب عرصہ پندرہ سال سے نظارت خدمت درویشاں میں کام کرتے رہے.سردار نذیر احمد صاحب ڈوگر، یہ بھی موصی تھے ، نانو ڈوگر ضلع لاہور کے مکرمہ اقبال بیگم صاحبہ تاثیر الرحمان صاحب ماڈل ٹاؤن کی والدہ.مکرم

Page 25

خطبات طاہر جلدے 20 20 خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۸۸ء حکیم اللہ دتہ صاحب جراح خانیوال شہر کے سیکریٹری اصلاح وارشاد تھے.مکرم چوہدری محمد حسین صاحب کینیڈا بڑے وہاں کے مخلص دوست جماعت کینیڈا کے عارضی طور پر پاکستان گئے تھے غالباً وہیں ان کو دل کا دورہ پڑا ہے گوجرانوالہ میں وہاں وفات پاگئے.مکرم شیخ محمد انیس صاحب سول انجینئر ریٹائر ڈ ہمارے لندن کے ایک فعال ممبر جماعت احمدیہ شیخ منصور احمد صاحب کے خالہ زاد بھائی تھے.یہاں جلسہ پر بھی پیچھے تشریف لائے تھے.ان سب کی نماز جنازہ غائب مکرم و محترم ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب کی نماز جنازہ حاضر کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائے گی.

Page 26

خطبات طاہر جلدے 21 224 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء تمام تر روحانی زندگی کا انحصار وسیلہ پر ہے صلى الله وسیلہ سے مراد آنحضرت علی اور آپ کی سیرت ہے ( خطبه جمعه فرموده ۸/جنوری ۱۹۸۸ء بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيْلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائده :۳۶) پھر فرمایا: احمدیت کے قیام کو ایک سو سال پورے ہونے میں اب تقریباً ایک سال باقی ہے اور آئندہ سال ہم انشاء اللہ احمدیت کی سوسالہ تاریخ پر اور خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے نزول پر اظہار تشکر کا سال منائیں گے جسے صد سالہ جوبلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.جو بلی کے لفظ پر بعض دوستوں کو اعتراض بھی ہے اس کی تاریخ تلاش کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اس کا مذہبی تہواروں سے یاند ہی معاملات سے تعلق نہیں ہے اس لئے احمدیت کے اظہار تشکر کے سال کے لئے لفظ جو بلی کا استعمال مناسب نہیں مگر یہ باتیں Pedantic مزاج کو ظاہر کرتی ہیں یعنی بعض لوگ علمی لحاظ سے گرائمر کے لحاظ سے علم حاصل کرنے کے نتیجہ میں بہت زیادہ الفاظ پر ان کے Origin یعنی ان کے آغاز پر زور دینے لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ کثرت کے ساتھ انسانی استعمال نے جوان میں نئے رنگ پیدا کر دیئے ہیں ان کو بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں.

Page 27

خطبات طاہر جلدے 22 22 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء امر واقعہ یہ ہے کہ لفظ جو بلی ان دنوں میں یعنی اس زمانہ میں ہرگز کسی غیر مذہبی گزشتہ تاریخ کی کوئی یاد دلانے والا لفظ نہیں بلکہ Jubilation انگریزی میں ایک ایسا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خوشی کا اظہار اور جو بلی خوشی کے اظہار کے سال کو کہتے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ نے جب اس اصطلاح کو استعمال کیا تو صرف انہی معنوں میں استعمال کیا تھا لیکن درحقیقت اس استعمال کے اندر جماعت احمدیہ کے اپنے اصطلاحی معنی بھی پائے جاتے ہیں کیونکہ جب بھی ہم خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو ہمارا ہر خوشی کا اظہار مذہبی رنگ رکھتا ہے.اس لئے لفظ جو بلی کا احمدیہ ڈکشنری کے لحاظ سے یہ ترجمہ ہوگا اظہار تشکر کا سال، یعنی خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء کا سال.اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور رحمتوں کے نازل ہونے کے نتیجہ میں جذبات تشکر کے اظہار کی کوشش کا سال.اظہار کا سال بھی ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ عملاً خدا تعالیٰ کے اتنے احسانات ہیں کہ انسان اگر ہرلمحہ بھی ان احسانات کا تصور کر کے ان کے شکریہ کے اظہار کی کوشش کرے تو اس کے لئے ممکن نہیں ہے.اول تو ہر انسانی لحہ اس کے اپنے اختیار میں نہیں دوسرے دیگر مصروفیات کی وجہ سے اس کی زندگی کے اکثر لمحے دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں یا ضائع ہو جاتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کے تشکر کے اظہار کا حق تو ادا ہو ہی نہیں سکتا.پھر سو سالہ رحمتوں کے اظہار تشکر کے لئے ایک سال کا انتخاب کر کے یہ خیال کر لینا کہ صرف ایک سال میں اظہار تشکر ہو جائے گا.یہ محض ایک بچگانہ خیال ہے لیکن کوشش سنجیدہ ہے.اظہار ممکن نہ بھی ہو لیکن اگر نیت اظہار کی ہونیت پاک ہو محبت پرمبنی ہو ، خلوص پر مبنی ہو حَنِيفًا مسلما ہوتے ہوئے انسان یہ چاہے کہ میں اپنے رب کے تشکر کے اظہار کی پوری کوشش کروں تو یہ ضرور ممکن ہے اور اس کوشش کو بچگانہ کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا.پس ساری دنیا کی جماعتوں نے ، ہر جماعت کے ہر فرد نے اس سال کو خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کے احسانات کے شکریے کے ادا کرنے کی کوشش میں گزارنا ہے اور اس کا بر ملا اظہار بھی کرنا ہے.اظہار کس طرح ہوگا اس کے لئے مختلف منصوبے بنائے گئے ہیں ان پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے بلکہ اتنے مختلف نوع کے منصوبے اس تفصیل سے تیار ہیں کہ خطرہ صرف یہ ہے کہ ان میں سے ہر پہلو پر عمل درآمد کروانے کے لئے جتنا وقت درکار ہے وہ ہمیں اس وقت میسر نہیں اور کئی لحاظ سے خطرہ پیدا ہورہا ہے کہ اس منصوبے کی تعمیل میں خامیاں نہ رہ جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فر مائے

Page 28

خطبات طاہر جلدے 23 23 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء سارے سلسلہ کے کارکنوں کو توفیق عطا فرمائے کہ حتی المقدور خدا کی رضا کے مطابق جس حد تک بھی تحسین کے ساتھ ممکن ہے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لئے کوشش کریں اور ساری جماعت کو اس کے لئے تیار کریں.پھر جو خامیاں رہ جائیں گی.سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را کے تابع اس خدا کے حوالہ ہیں جو بہت ہی رحم کرنے والا، بہت ہی مغفرت کرنے والا، بہت ہی غفلتوں سے صرف نظر کرنے والا اور پردہ پوشی کرنے والا ہے.اس منصوبہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ میں گزشتہ چند سالوں سے جماعت کو بار بار بعض خصوصی نصیحتیں کر رہا ہوں کہ اصل تشکر کا اظہار تو وہ کچھ بنے میں ہے جو خدا تعالیٰ ہمیں بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ ہم نہ کریں تو دوسرے تمام اظہار بے معنی اور لغو اور کھو کھلے ہو کر رہ جائیں گے.اس لئے جماعت کو من حیث الجماعت بھی اور ہر خاندان کی حیثیت سے ہر فرد جماعت کو اپنی انفرادی حیثیت سے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ عمومی طور پر جہاں تک بھی ممکن ہے وہ اپنی تحسین کرے یعنی اپنے اندر وہ حسن پیدا کرنے کی کوشش کرے جو خدا تعالیٰ ہم میں دیکھنا چاہتا ہے اور خصوصی طور پر اپنی ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے جو بعض افراد کے ساتھ خصوصیت سے چمٹ جایا کرتی ہیں.عمومی تحسین کا پروگرام تو جاری رہتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان کے اندر بعض بیماریاں بعض گناہ بعض کمزوریاں ناسور بن جایا کرتی ہیں اور باقی جسم صحت مند بھی ہو تو نا سور ہمیشہ دکھ دینے کا موجب بنے رہتے ہیں اور ضروری نہیں ہوا کرتا کہ انسان جو کسی ناسور میں مبتلا ہو اس کا سارا بدن ہی بیمار ہو.اس لئے بسا اوقات بعض لوگوں کے ناسور چھپے رہتے ہیں.بیرونی نظر سے تو چھپے رہتے ہیں لیکن اندرونی نظر سے وہ نہیں چھپ سکتے اس لئے میں نے عمومی کے مقابلے میں خصوصی طور پر جو بات پیش نظر رکھی ہے وہ یہ کہ ہر فرد اپنی ان کمزوریوں کو نمایاں طور پر اپنی نظر میں اپنے فوکس میں لے کر آئے اور ان کو دور کرنے کے لئے حتی المقدور پوری کوشش کرے.تحسین میں عمل کا جو عمومی پروگرام ہے وہ میں نے مختلف وقتوں میں بیان کیا ہے چونکہ یہ اس سال کا آغاز ہے جو ہمارے اظہار تشکر کے سال سے پہلے کا آخری سال ہے اس لئے میرا خیال

Page 29

خطبات طاہر جلدے لله 24 خطبه جمعه ۸/جنوری ۱۹۸۸ء ہے کہ شروع سال ہی میں انشاء اللہ جہاں تک ممکن ہوا ان پروگراموں کو اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے دو ہرا دوں جو ایک خاص مقصد اور خاص منصوبے کے تحت جماعت کے سامنے کچھ عرصہ سے رکھتا چلا آرہا ہوں تا کہ ان باتوں کی یاد دہانیاں ہوں اور ہم بڑی تیزی کے ساتھ گزشتہ غفلتوں کو دور کرنے کی کوشش کریں.کچھ باتیں بھول گئے ہیں تو وہ یاد آجائیں اور خدا سے دعا مانگتے ہوئے کوشش کریں کہ نئے سال کی محراب سے اس حال میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے گزریں کہ ہمیں خود یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم نے اس جشن کے سال میں داخل ہونے کے لئے اپنے آپ کو اپنے وجود کو بھی رونق بخشی ہے.صرف گیٹ ہی نہیں سجائے ،صرف گلیوں ہی کو زینت نہیں دی بلکہ اپنے وجود کو بھی صاف ستھرا اور پاک کیا ہے اور جہاں تک ممکن ہو سکا ہم نے تقویٰ کے لباس پہن کر زینت اختیار کر لی ہے.یہ صیح اظہار تشکر ہو گا.اس سلسلہ میں جو میں نے پروگرام رکھے تھے ان میں سے آج سب سے پہلا جو اہم پروگرام ہے جو سارے پروگراموں کی جان ہے اس کی یاددہانی کرانا چاہتا ہوں.میں نے جماعت کو پچھلے دوسالوں میں خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کی تھی کہ سیرت نبوی کے دن منائیں اور کثرت کے ساتھ سیرت کے جلسے کریں، سیرت کے مضمون کا مطالعہ کریں، اپنے بچوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے روشناس کرائیں اور جہاں تک تو فیق ملتی ہے درود اور سلام کثرت کے ساتھ اپنا ورد جان بنائیں اور اس ذریعہ سے بہت سی روحانی برکتیں حاصل کریں.جہاں تک جماعت کی رپورٹوں کا تعلق ہے الحمد للہ کہ وہ سال جو گزرا ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ اس کی طرف جماعت نے دنیا میں ہر جگہ توجہ دی ہے اور اس کے بہت سے شیر میں ثمرات ظاہر ہوئے ہیں، بہت سی برکتیں ایسی ملی ہیں جن کا وہ جماعتیں بھی یہ تصور نہیں کر سکتی تھیں جو مجھتی تھیں کہ بہت اچھا پروگرام ہے.چنانچہ بہت سی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ ہمیں یقین تو تھا کہ اس پروگرام کی بہت برکتیں ہوں گی لیکن وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی زیادہ برکتیں ہوں گی.غیروں کے رد عمل میں ان کے تعلقات میں زمین و آسمان کا فرق پڑ گیا ، اپنے اندرونی حالات میں زمین و آسمان کا فرق پڑ گیا، اپنی روحانی کیفیات میں بہت بڑی تبدیلی پیدا ہوئی اور روحانی ترقی نصیب ہوئی اور بہت سی تفصیلات ہیں جو خطوں سے مل رہی ہیں.مگر ایک یہ غلط فہمی بھی معلوم ہورہی ہے وہ یہ

Page 30

خطبات طاہر جلدے 25 25 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء کہتے ہیں کہ یہ سال تھا سیرت نبوی منانے کا گویا اب سال ختم ہو گیا اور اس پروگرام کو دیسی اہمیت اب نہیں دیں گے.یہ درست ہے کہ شروع میں میں نے خصوصی سال کے طور پر ہی کہا تھا لیکن سیرت نبوی کا مضمون تو انسان کی ساری زندگی سے تعلق رکھتا ہے، انسان کی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے، انسانی زندگی کے گزرنے والے ہر لمحہ سے تعلق رکھتا ہے.ہر عمر کے انسان سے، ہر نسل کے انسان سے،ہر رنگ کے انسان سے تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ تو توجہ دلانے کی خاطر تا کہ خصوصی توجہ محنت کر کے اس سال کو سیرت نبوی کے بیان کا اور سیرت نبوی کو اپنانے کا خصوصی سال بنایا جائے.میں نے لفظ سال استعمال کیا تھا مگر یہ پروگرام اب جاری رہنا چاہئے.یہ تو ختم ہونے والا پروگرام ہی نہیں ہے اور اگر بچے جلسے منائے جائیں سیرت النبی کے یعنی بچے جلسوں سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی طرح نمود و نمائش کی خاطر نہیں بلکہ دلی محبت کے ساتھ جلسے منائے گئے ہوں تو پھر ایسے جلسے منانے والا خود ان کو چھوڑ ہی نہیں سکتا، پھر ایسے پروگرام میں شمولیت کرنے والا تو ان کا ہو رہتا ہے.اس کے لئے ویسے ہی ممکن نہیں ہے کہ اس پروگرام سے صرف نظر کر کے اور باتوں کی طرف توجہ کرے.مزید برآں دوسرے جتنے بھی پروگرام میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں وہ سارے کے سارے سیرت نبوی سے تعلق رکھتے ہیں.مسلمان کی زندگی کا کوئی پروگرام بھی ممکن نہیں ہے کہ سیرت نبوی کے حوالہ کے بغیر طے ہو سکے یا اگر سیرت نبوی کے حوالہ کے بغیر طے کرنے کی کوشش کی بھی جائے تو وہ ایک نامکمل کوشش ہوگی، ایک ناقص اور کمزور کوشش ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے تعلق کے بغیر، آپ کی سیرت کے حوالہ کے بغیر کوئی نیکی بھی مکمل نہیں ہو سکتی.اس لئے سیرت نبوی کی مضمون کو جاری رکھنا ضروری ہے اور اس ضمن میں کثرت کے ساتھ ساری دنیا میں جلسے منانے چاہئیں تا کہ با قاعدہ علماء تقریریں اچھی طرح تیار کر کے جماعت کے سامنے اس مضمون کو بیان کریں.گھروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے پہلے سے زیادہ ہونے چاہئیں.آپ کی سیرت کے مختلف پہلو گھروں میں مجالس میں بیان ہونے چاہئیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مضمون سے تعلق رکھنے والا لٹر پچر کثرت سے شائع ہونا چاہئے ،مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہونا چاہئے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیرت کے پہلو جس جس ملک میں ضرورت ہو نمایاں طور پر پیش کئے جائیں.بعض ممالک کی بیماریاں اور ہیں بعض

Page 31

خطبات طاہر جلدے 26 26 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء ممالک کی بیماریاں اور ہیں بعضوں کو کسی خاص پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے کسی خاص پہلو کی ضرورت ہے اس لئے یہ تو ممکن نہیں ہوگا کہ اس تھوڑے سے عرصہ میں دنیا کے ہر ملک میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے تمام پہلو پوری طرح بیان کئے جاسکیں.لیکن بعض ممالک کے لئے بعض حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے خاص پہلوؤں کو نمایاں کیا جا سکتا ہے.اس لئے جماعت کو ایسے کاموں کے لئے لازما منصوبے کے تحت کام کرنا ہوگا اور ہر ملک کا اپنا منصوبہ ہوگا کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انگلستان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے کون سے پہلوؤں کی ضرورت ہے اس کا فیصلہ انگلستان کے لوگ بہتر طور پر کیسے کر سکتے ہیں.یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باقی سیرت کے پہلوؤں کی ضرورت نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ اقتضائے حال کے مطابق ماحول اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر کس پہلو سے زیادہ تشنگی محسوس ہو رہی ہے، کسے اولیت دیتے ہوئے پہلے بیان کرنا ضروری ہے اور ایک دفعہ سیرت کا مضمون شروع ہو جائے اور اس سے تعلق پیدا ہو جائے تو پھر یہ مضمون تو مکمل ہوئے بغیر رہتا ہی نہیں.خود اپنی طلب پیدا کر دیتا ہے مزید کی طلب پیدا کرتا ہے اور یہ جو مزید کی طلب ہے یہ بدی میں بھی قوت پائی جاتی ہے لیکن نیکی میں بھی قوت پائی جاتی ہے.ہر بدی مزید کی طلب پیدا کرتی ہے اسی طرح ہر سچی نیکی بھی مزید کی طلب پیدا کرتی ہے اور درمیانی جو حالات ہیں وہ بالکل بے معنی ہیں جن کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں.دوہی حقیقتیں ہیں اگر سچی نیکی ہے تو اور نیکی کی طلب ضرور پیدا ہوگی اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ (المومنون : ۹۸) اس آیت میں بھی اور دیگر آیات میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے.اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ (هود:۱۱۵) کہ نیکیاں بدیوں کو کھا جاتی ہیں اور نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں اور نیکیاں نیکیوں کو پیدا کرتی ہیں اس قسم کے مضامین قرآن کریم میں کثرت سے بیان فرمائے گئے ہیں.تو اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے جلسے اگر سچے دل سے منائے جارہے ہوں ہمحبت اور پیار کے نتیجے میں منائے جارہے ہوں تولا زمامزید کی طلب پیدا کریں گے اور جو مضمون بھی سیرت کا بیان ہوا گر وہ سچا ہو اور پُر خلوص ہوتو اس کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت بڑھتی چلی جائے گی اور سیرت کے دیگر پہلوؤں سے طبعاً اتنا پیار ہو جائے گا کہ انسان ان کو مزید حاصل کرنے کی کوشش کرے گا.

Page 32

خطبات طاہر جلدے 27 خطبه جمعه ۸/جنوری ۱۹۸۸ء اس ضمن میں ایک بات خصوصیت سے آج جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام قبلہ کا نہیں ہے قبلہ نما کا ہے.آپ خود مقصود بالذات نہیں ہیں بلکہ خدا مقصود بالذات ہے، خدا کی طرف لے جانے والے ہیں.اس پہلو سے قرآن کریم نے آپ کو وسیلہ قرار دیا ہے اس لئے ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق اور آپ کے پیار کو آخری مقام سمجھ لیں اور یہ سمجھیں کہ اس محبت کے نتیجہ میں باقی کام خود بخود ہوں گے اور خدا سے کسی ذاتی تعلق کی ضرورت باقی نہیں رہتی.یہ وہ خطرہ ہے جو پہلی قوموں کو بھی پیش آیا اور بہت سی قو میں اس خطرہ میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوگئیں اور قرآن کریم میں اس کی واضح طور پر نشاندہی فرمائی ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھئے کہ آپ بھی ایک رستہ تھے خدا تک پہنچانے والا اسی لئے بائیبل نے یعنی New Testament نے یہ اعلان کیا حضرت عیسی کی زبان سے کہ میں Way ہوں I am the way میں راستہ ہوں اور عیسائیوں نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ دیکھو حضرت عیسی علیہ السلام تو راستہ تھے باقی کوئی نبی گویا رستہ نہیں ہے.یہ ان کی جہالت ہے اور دنیا کے مذاہب سے لاعلمی کا نتیجہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کا ہر نبی وسیلہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور رستہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا خدا اس کے متعلق اعلان فرماتا ہے کہ یہ وسیلہ ہے اگر مجھ تک پہنچنا ہے تو اس کے رستے سے آؤ لیکن رستہ تو خود منزل نہیں ہوا کرتا اگر رستہ منزل بن جائے تو وہ منزل سے محروم کرنے والی چیز ہو جائے گا نہ کہ رستہ، آرستہ تو اپنے اندر یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ آگے پہنچانے والا ہے.اس لیے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اس بات میں ہے کہ آپ آگے پہنچانے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اندر کی راہ دکھائے ( در شین صفحہ: ۸۳) یہ وہ نبی جو علم و عرفان کے اوپر سے پردے پر دے اٹھاتا ہے اور حضرت احدیت جل شانہ اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب کر دیتا ہے کہ گویا اس کے ساتھ تعلق میں انسان اندر والا کہلانے لگ جائے جس طرح گھر میں کچھ لوگ غیر محرم ہوتے ہیں کچھ اجنبی رہتے ہیں ان کو یہ حق نہیں ہوا کرتا کہ وہ اندر آجایا کریں لیکن جو اپنے ہیں وہ کس بے تکلفی سے دروازے کھولتے ، پر دے اٹھاتے ہوئے اندر داخل ہوتے ہیں.تو اندر کی راہ دکھانے کا یہ مطلب ہے کہ خدا والے بناتا ہے اور خداوالوں میں انسان کا شمار ہونے لگتا ہے اس پہلو سے قرآن کریم نے پرانی قوموں کی غلطی کی طرف

Page 33

خطبات طاہر جلدے 28 88 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء توجہ دلاتے ہوئے فرمایا قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ القُرِ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا (بنی اسرائیل : ۵۷) کہہ دے کہ وہ لوگ جن کو تم خدا کے سوا بلاتے اور خدا کے سوا گویا تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا کہ وہ تو تم سے نہ کوئی تکلیف دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی مصیبت ٹال سکتے ہیں کسی قسم کی کوئی تبدیلی تمہارے اندر پیدا نہیں کر سکتے أُولَيكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إلى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبَّكَ كَانَ مَحْذُورًا (بنی اسرائیل :۵۸) یہی وہ لوگ ہیں جو پکارتے ہیں اللہ تعالیٰ کو دلی خواہش اور تمنا کے ساتھ اور اس کے لئے وسیلہ حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں.خدا تک پہنچانے والے ذریعے کی تلاش میں خود رہتے ہیں اور یہ جو وسیلہ یہاں بیان فرمایا گیا ہے یہ عام رستہ، عام طریق، عام طریق کار نہیں بلکہ بعض زندہ لوگوں کو وسیلہ کے طور پر اس آیت میں پیش فرمایا ہے جو خدا کے مقرب ہیں وہ تلاش کرتے ہیں اِلی رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں وسیلہ بنتے ہیں ان میں سے کون زیادہ قریب ہے وہ خود اس کی تلاش میں رہتے ہیں.اس لفظ أَيُّهُمْ اَقْرَبُ میں فرشتے بھی آجاتے ہیں اور خدا کے محبوب اور مقرب بندے بھی آجاتے ہیں يَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَہ وہ خدا کی رحمت کی تمنار کھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں.اِنَّ عَذَابَ رَبَّكَ كَانَ مَحْذُورًا يقينا تیرے رب کا عذاب ایسا ہے جس کا خوف دلایا جاتا ہے جس سے خوف کھانا چاہئے.اس آیت میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے جو خدا تعالیٰ کو پیارے ہوتے ہیں بعض ظالم لوگ ان کو بھی شریک بنا لیتے ہیں اور جن کو وہ شریک بناتے ہیں وہ خود خدا تعالیٰ کی راہیں تلاش کرنے والے لوگ ہوتے ہیں اس لئے یہاں عام بت مراد نہیں ہیں یا فرضی خدا مراد نہیں ہیں.خدا کے وہ نیک بندے مراد ہیں جن کو بعض دوسرے اپنی جہالت اور لاعلمی کے نتیجہ میں خدا کا شریک ٹھہرا لیتے ہیں.وہ منزل نہیں ہوا کرتے وہ منزل تک پہنچانے والے ہوا کرتے ہیں لیکن ان کو منزلیں بنا لیا جاتا ہے، ان کو مقصود بالذات بنا لیا جاتا ہے تو فرمایا خبر دار ایسی حرکت نہ کرنا ورنہ تم بھی تباہ ہو جاؤ گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے خدا فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو تجھ سے پہلے

Page 34

خطبات طاہر جلدے 29 29 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء گزرے خدا کہ مقربین میں شامل تھے لوگوں کو خدا کی طرف لے جانے والے تھے ان کو مقصود اور مطلوب بنالیا گیا اور یہ تو اب خدا کے حضور حاضر ہو چکے ہیں ان کے اندر کوئی بھی طاقت نہیں کہ وہ لوگ جو ان کو پوجتے ہیں ان کو کسی قسم کا فائدہ پہنچا سکیں ، ان کے حالات میں کوئی تبدیلی پیدا کرسکیں.جب تک یہ لوگ زندہ رہے ان کا اپنا حال یہ تھا کہ خدا کی راہ میں ایسے بزرگوں کے متلاشی رہتے تھے ایسے مقربین کے متلاشی رہے تھے جو انہیں خدا کے اور زیادہ قریب کر سکیں اور یہاں وسیلہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کو خدا کا شریک ٹھہرایا گیا لیکن وہ نیک اور بزرگ لوگ تھے.آپ تاریخ مذہب پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اکثر وہ انبیاء ہی ہیں جو غیب میں بھی فرضی خدا ہیں ان کا تو یہ آیت ذکر ہی نہیں کر رہی نیک اور مقرب لوگوں کا ذکر فرما رہی ہے اور نیک اور مقرب لوگوں میں سے جن کو خدا کا شریک ٹھہرایا گیا ہے وہ انبیاء ہیں چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام اس میں داخل ہیں چنانچہ حضرت کرشن علیہ الصلوۃ والسلام اس میں داخل ہیں اور دیگر انبیاء جن کو ان کی قوموں نے خدایا خدا کا بیٹا اور خدا کا شریک بنالیا یہ سب ان کا ذکر ہے.وہ کون سا وسیلہ ڈھونڈھتے تھے اپنے وقت میں تو وہ خود مقرب تھے.معلوم یہ ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر تمام گزشتہ انبیاء کو دی گئی اور اس بات کے لئے ہمارے پاس بہت سی دیگر اسناد ہیں ، نصوص صریحہ ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہر ہونے کی خبرگزشتہ تمام انبیاء کودی گئی تھی.وہ اس وسیلہ کے متلاشی رہتے تھے کہ کاش ہمیں بھی وہ وسیلہ نصیب ہو جائے جو خدا سے زیادہ قریب ہے اور ہم اس کی وساطت سے خدا کے زیادہ قریب ہو جائیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی وہ آپ سے محبت کرتے تھے.آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کی محبت کے گیت گاتے تھے اور آپ کے اپنے قرب کا اظہار کرتے تھے تا کہ اس طرح خدا تعالیٰ کے اور بھی زیادہ قریب ہو جائیں.اس مضمون کی روشنی میں جب آپ زبور کو پڑھتے ہیں، حضرت داؤد کے گیت جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں گائے گئے یا تو رات میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پڑھتے ہیں یاNew Testament عہد نامہ جدید انجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بڑے پیار اور محبت سے پڑھتے ہیں تو یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ ان سب انبیاء کو

Page 35

خطبات طاہر جلدے 30 30 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء خدا نے پہلے سے ہی آنیوالے وسیلہ کی خبر دی تھی اور اس وسیلہ کے ساتھ اپنی محبت اور تعلق کا اظہار اپنے گیتوں میں بھی کرتے تھے اپنی عبادتوں میں بھی کرتے ہوں گے لیکن اٹھی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان گزشتہ انبیاء کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک روحانی تعلق قائم ہو چکا تھا.سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان کے شریک ٹھہرا ر ہے ہو جو خدا کے ایک ایسے بندے کا قرب ڈھونڈ رہے ہیں جسے خدا نے وسیلہ بنایا ہوا ہے اور جو وسیلہ ہے وہ تو خدا کا شریک بن ہی نہیں سکتا کیونکہ وسیلہ کا مطلب ہے دوسرے کی طرف لیجانے والا.کیسی جہالت ہے تمہاری کہ جوان کا مرغوب اور محبوب تھا جن کو تم نے خدا کا شریک بنالیاوہ تو خود خدا کی راہ دکھانے والا ایک وجود ہے، خدا کی راہ میں ایک انتہائی عاجز بندہ ہے اور اس کے عجز میں ہی اس کی عظمتیں ہیں.وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتا، وہ خدا نما ہے تمہیں خدا کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور اس سے جتنی بھی تمہیں محبت ہے اس وجہ سے ہے کہ وہ خدا نما ہے پس اس مضمون سے قرآن کریم کی ایک اور آیت پردہ اٹھاتی ہے اس وسیلہ کی خود تشریح فرماتی ہے کہ وہ وسیلہ کون ہے.چنانچہ وسیلہ کا لفظ یعنی س کے ساتھ وسیلہ کا لفظ قرآن کریم میں دو جگہ استعمال ہوا ہے ایک اس آیت میں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے دوسرا ذ کر اس آیت میں موجود ہے جس کی میں نے جمعہ کے آغاز میں تلاوت کی تھی فرمایا یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے ایمان لانے والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو وَ جَاهِدُوا فِي سَبِيْلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ خدا کی راہ میں بہت کوشش کرو تا کہ تم نجات پاؤ.یہاں وسیلہ سے مراد حضرت اقدس محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.وسیلہ سے عمومی معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں خدا کے قرب کی راہوں کو بھی وسیلہ کہا جاسکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن مجسم وسیلہ، صاحب شعور وسیلہ جیسا کہ پہلی آیت میں اس کی تشریح بیان فرمائی أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَ يَرْجُونَ رَحْمَتَہ میں وسیلہ کو ایک صاحب شعور وجود کے طور پر پیش کیا ہے اس لئے وہی معنی وسیلہ کا اس وسیلہ کے اوپر بھی اطلاق پانا مناسب ہے بلکہ اولیٰ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ دو ہی جگہ وسیلے کا لفظ آیا ہے ایک اس آیت میں اور ایک یہاں.وہاں وسیلہ کو عام رستوں کے طور پر بیان نہیں فرمایا بلکہ خدا کے مقرب بندوں کے طور پر پیش کیا ہے جو مقرب ہونے

Page 36

خطبات طاہر جلدے 31 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء کی وجہ سے دوسرے کو خدا کی راہ دکھاتے ہیں.تو یہاں بھی وسیلہ کا اول معنی قرآن کی تعریف کے مطابق صاحب شعور وجود کے طور پر کیا جائے گا جو خود مقرب ہونے کے نتیجے میں، جو خود صاحب تجربہ ہونے کے نتیجے میں خود اہل خانہ ہونے کے نتیجے میں اندر کی راہ دکھانے والا ہے.اس مضمون کو مزید تقویت ملتی ہے حدیث نبوی سے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اذان کے وقت کی دعا ہمیں سکھائی اس میں یہی لفظ وسیلہ کا استعمال اپنے اوپر بیان فرمایا.چنانچہ فرمایا کہ جب تم اذان کی آواز سنا کرو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو درود اور سلام بھیجو وہ ان الفاظ میں بھیجواتِ مُحَمداً الْوَسِيلَةَ اے ہمارے رب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنادے، وسیلہ دے دے یا وسیلہ بنادے یا وسیلہ کا مقام عطا فرما.یہ وہی لفظ وسیلہ ہے جو قرآن کریم کی ان آیات میں استعمال ہوا ہے جو ابھی میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں.پس خود حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے یہ خبر دی تھی کہ تم ہی وہ وسیلہ ہو اور صاحب فضیلت بھی آپ تھے اس کے باوجود آپ کا دعا کے طور پر ہمیں یہ بتانا ہمیں یہ سکھانا کہ تم میرے لئے دعا کیا کرو یہ معنی نہیں رکھتا کہ اگر ہم دعانہ کریں تو نعوذ باللہ من ذالک آپ وسیلہ نہیں بن سکتے اور صاحب فضیلت نہیں ہو سکتے.مراد یہ ہے کہ میں تو ہوں تم بھی اس ثواب میں شریک ہو جاؤ گے تمہاری محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے تم اور زیادہ خدا کے قریب ہو گے اگر میرے لئے یہ دعائیں کرو گے کیونکہ جب میں وسیلہ بنوں گا تو تمہیں قریب کرنے کا بھی ذریعہ بنوں گا.جو میرے لئے وسیلہ کی دعا کرتا ہے وہ میری وساطت سے خدا کے قریب ہوتا ہے.پس یہ ہمیں قریب کرنے کا ایک طریق بتایا.اس مضمون پر مزید ایک شاہد نے اپنے آقا مشہود کے لئے گواہی دی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں جو وسیلہ ہونے کی گواہی دی آپ کے الفاظ میں یہ ہے فرمایا: ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے.وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (المائدة: ٣٦)

Page 37

خطبات طاہر جلدے 32 32 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء کہ خدا کی طرف پہنچنے کے لئے وسیلہ ڈھونڈ و، وسیلہ کی تلاش کرو، وسیلہ کی خواہش کرو“ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوستے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھذا بِمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحْمَدٌ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ: ۱۳۱.ح) کہ یہ وہ انعام ہے جو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے.اندرونی راہ سے اور بیرونی راہ سے آنے کا مطلب یہ ہے کہ سیرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باطن میں بھی اختیار کرنا ضروری ہے ظاہر میں بھی اختیار کرنا ضروری ہے اور درود صرف زبان سے نہ پڑھے جائیں بلکہ اندرونی محبت اور عشق کے نتیجہ میں سینے کی گہرائیوں سے نکلنے والے درود ہوں.جب یہ مضمون مکمل ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بن جاتے مضمون ہیں اور ان معنوں میں آپ کو وسیلہ شمار کرنا ہرگز نعوذ باللہ شرک نہیں بلکہ توحید کامل کا ایک من ہے.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لئے محبوب کامل ہیں انسانوں میں سے کہ وہ کامل خدا محبوب از لی وابدی کی طرف لے جانے والے ہیں اور توحید کامل عطا کرنے والے ہیں.آپ کی راہ سے گزرے بغیر یعنی آپ کی سیرت اختیار کئے بغیر اللہ تعالیٰ نصیب نہیں ہوسکتا.اب یہ جو دوسرا پہلو ہے اس کے متعلق انشاء اللہ میں بعد میں روشنی ڈالوں گا.وسیلہ کا تر جمہ جواب تک ہمارے سامنے ظاہر ہوا وہ ہے: خدا کو دکھانے والی ، خدا کو ملانے والی مختلف راہیں، مختلف ذریعے.خدا کو دکھانے والا ، خدا تک پہنچانے والا ایک وجود جو خود مقرب ہے اور خدا کو بہت پیارا ہے اور تیسرا معنی یہ ہے خدا تک پہنچانے والا وہ وجود جو اس سے پہلے تمام مقربین کے لئے بھی ایک وسیلہ تھا اور وہ خدا تک پہنچنے کے لئے اس کی راہیں تلاش کرتے تھے اور اس سے محبت اور پیار کا اظہار کرتے تھے.پس ان معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بن جاتے ہیں لیکن یہ جو وسیلہ کا تصور ہے یہ کوئی ایسا تصور نہیں ہے جیسے صوفی یا پیر آپ کو بعض وظیفہ سکھا دیتے ہیں کہ یہ وظیفے کر لو تو تم فلاں اعلیٰ مقام تک پہنچ جاؤ گے.اس لفظ کی تفصیل پر آپ غور کریں تو

Page 38

خطبات طاہر جلدے 33 33 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ذات میں وسیلہ کے سارے معانی پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے قرب کی تمام راہیں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں مجتمع اور مرتکز ہیں اور جس نے بھی خدا تک پہنچنا ہے جس راہ سے بھی وہ پہنچنا چاہتا ہے وہ ہر راہ محمد مصطفیٰ سے ہو کر گزرے گی یعنی آپ سے بہتر خدا نما اور کوئی نہیں ہے اور خدا تک پہنچنے کے لئے صفات الہی کا اختیار کرنا ضروری ہے مثلاً صفات الہی سے محبت پیدا کرنا ضروری ہے اور سب سے زیادہ صفات الہی کا مظہر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.خدا کی راہ سے گزرنے کے لئے جتنے بھی امکانی رستے ہو سکتے ہیں.بنی نوع انسان سے محبت ، غریبوں کا حق ادا کرنا، مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دلا نا.یہ مطلب ہے وسیلہ کا.کوئی فرضی بات ایسی نہیں ہے کہ صرف زبان سے درود ادا ہو گیا اور آپ خداوالے بن گئے یا خدا کے نام جپ لئے کسی کمرہ میں بیٹھ کر تو آپ خدا والے بن گئے.خدا والا بننے کے لئے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طے شدہ راہوں سے گزرنا ہوگا اور وہ راہیں سارے عالم پر پھیلی پڑی ہیں، انسانی زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی راہیں ہیں ان کا تمام انسانی فطرت سے گہرا تعلق ہے اور چھوٹی سی چھوٹی راہ جو آپ کے ذہن میں آتی ہے وہاں بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش پا آپ دیکھیں گے اور بڑی سے بڑی راہ جو آپ تجویز کر سکتے ہیں وہاں بھی حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوش پا آپ کو نظر آئیں گے.ان قدموں کی پیروی کرتے ہوئے ان کو چومتے ہوئے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعائیں دیتے ہوئے اور آپ پر درود پڑھتے ہوئے آگے بڑھنے کا نام وسیلہ اختیار کرنا ہے.اس لئے جتنے بھی پروگرام میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں وہ حصول وسیلہ کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اس لئے آئندہ بھی جب ان پروگراموں کا ذکر کروں گا تو آپ پر یہ بات روشن ہوتی چلی جائے گی کہ سیرت نبوی کا مضمون کتنا گہرا، کتنا وسیع اور کتنا لازمی ہے.اس کے بغیر زندگی کا کوئی امکان نہیں ہے ہمارے لئے ،روحانی زندگی کا کوئی امکان نہیں رہتا.تمام تر روحانی زندگی کا انحصار وسیلہ پر ہے اور وسیلہ سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی سیرت اپنے تمام جمال و کمال کے ساتھ ہے.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس سال وسیلہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں اور خدا تعالیٰ ہماری نصرت فرمائے اور ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے ، اپنے لئے وسیلہ

Page 39

خطبات طاہر جلدے بنا لینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: 34 === خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء آج نمازوں کے بعد کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.سب سے پہلے تو ہمارے سلسلہ کے بہت ہی مخلص فدائی، بے نفس بزرگ مکرم مرزا عبدالحق صاحب امیر صوبائی پنجاب کی اہلیہ سکینہ بیگم صاحبہ کی نماز جنازہ غائب پڑھانی ہے.مجھے افسوس ہے کہ امریکہ کے سفر کے دوران یا تو یہ خبر مجھے ملی نہیں یا سرسری طور پر بیان ہوئی ہے تو میں پوری طرح سمجھ نہیں سکا اور اس وقت جب صدمہ تازہ تھا اس وقت نماز جنازہ پڑھا دینی چاہئے تھی مگر واپس آکر پھر یہ اطلاع ملی اور پھر مرزا صاحب کا خط بھی ملا ہے انہوں نے بھی تحریک کی ہے.مرزا صاحب کی خدمات اور بے نفس خدمات سلسلہ کی یہ تو ظاہر وباہر ہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں انکا صدمہ ہم سب کا صدمہ ہے جس حد تک بھی ہمارا ان سے تعلق ہے ہم اس میں شریک ہیں اللہ تعالی انکی مرحومہ بیگم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور سایہ رحمت میں جگہ دے.اسی طرح ہمارے ایک اور امیر جماعت ہیں اسلام آباد کے بڑے مخلص فدائی امیر ہیں شیخ عبد الوھاب صاحب انکے والد محترم شیخ عبد الرحمان صاحب کپورتھلوی صحابی تو مجھے علم نہیں مگر موصی تھے یہ ربوہ میں چند دن ہوئے وفات پاگئے ہیں.پھر ہمارے بہت ہی مخلص جوان آغاز پختہ جوانی کی عمر میں تھے ملک رشید احمد صاحب مسقط میں غالباً ہماری جماعت کے صدر تھے اور بہت ہی مخلص بہت اچھے کارکن اور یہاں ایسا اچھا مالی نظام انہوں نے وہاں مستحکم کیا اپنے علاقے میں باوجود بہت ساری دقتوں کے کہ انکی رپورٹیں دیکھ کر بسا اوقات دل سے انکے لئے دعا نکلتی تھی اور میں نے کئی دفعہ اظہار بھی کیا کہ ماشاء اللہ آپ کا کام ایک مثالی کام ہے.انکو پہاڑی سے گر کر ایسی شدید چوٹیں آئیں کہ جس کے نتیجہ میں کچھ عرصہ کے بعد وہ مالک حقیقی سے جاملے اور جانبر نہ ہو سکے.انکی بیوی بچے ابھی چھوٹی عمر کے ہیں.انکے بھائی ملک مسعود احمد صاحب امریکہ میں بڑے مخلص کارکن ہیں سلسلہ کے مرکزی مجلس عاملہ کے ممبر ہیں ملک مبارک احمد صاحب واشنگٹن میں ہیں اسی طرح ملک اعجاز، ملک محمود وغیرہ جتنے بھی بھائی ہیں وہ سارے اللہ کے فضل سے خدمت دین میں پیش پیش ہیں.اس لئے ملک رشید صاحب کو بھی خصوصی دعا میں

Page 40

خطبات طاہر جلدے یا درکھا جائے.55 35 خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۸۸ء ایک میاں فضل کریم صاحب صدر جماعت چک سکندر گجرات کے وصال کی اطلاع ملی ہے.ایک مکرم ریاض احمد صاحب سلیم ہیں فیض احمد مرحوم حضرت مسیح موعود کے صحابی انکے بیٹے.ایک مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ مکرم محمد اسحاق صاحب ورک کی اہلیہ تھیں.محمد اسحاق صاحب فوت ہو چکے ہیں.یہ بھی موصیبہ تھیں مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ.اسحاق صاحب کو قادیان کے لوگ جانتے ہوں گے وہاں انکا بڑے بازار میں ایک جنرل سٹور تھا اور اس زمانے میں اچھی شہرت رکھتے تھے اپنے سلوک کی وجہ سے لین دین میں معاملات کی صفائی کی وجہ سے.بہر حال یہ سارے ہیں مرحومین جنگی نماز جنازہ غائب انشاءاللہ جمعہ اور عصر کی نماز کے بعد ہوگی.

Page 41

Page 42

خطبات طاہر جلدے 37 37 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء گزشتہ چند سالوں کی مالی تحریکات اور ان پر جماعت کی بے نظیر قربانیوں کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ار جنوری ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے صد سالہ اظہار تشکر کے سال کا ذکر کیا تھا کہ بہت قریب آ رہا ہے اور ہمیں اظہار تشکر کی ہر رنگ میں تیاری کرنی چاہئے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ سب سے زیادہ اور سب سے زیادہ دیر پا احسان جو خدا تعالیٰ اپنے بندہ پر فرماتا ہے وہ قربانی کا اجر نہیں بلکہ خود قربانی کی توفیق ہے کیونکہ قربانی کی توفیق انسان کو اور اس کی روح کو جو دائمی عظمت عطا کرتی ہے اس سے بڑا کوئی اجر ہو ہی نہیں سکتا جس کا انسان تصور کر سکے اور ہر اجر کی بنا ء وہ بن جاتی ہے، ہراجر کے حصول کا ذریعہ قربانی بن جاتی ہے.لیکن اجر سے بے نیاز خود قربانی اپنی ذات میں اتنی عظیم عطا ہے کہ اسے نظر انداز کر کے صرف اجر پر نگاہ رکھتے ہوئے یا بغیر اجر، بغیر محنت کے دوسری عطا پر نظر رکھتے ہوئے اظہار تشکر کرنا اس اظہار تشکر کو خام اور نامکمل بنا دے گا.اور اس وقت تک خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ہر میدان میں جو مختلف قربانیوں کی توفیق عطا فرمائی ہے.آغا ز احمدیت سے لیکر اب تک ہر سال خدا تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کے نتیجہ میں مذہب کا آسمان نئے رنگ میں سنوارا اور سجایا جارہا ہے اور احمدیت کی قربانیوں کے چاند ستارے ایک نئے آسمان کو جنم دے رہے ہیں.اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ایک نئی زمین بنا اور ایک نیا

Page 43

خطبات طاہر جلدے 38 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء آسمان عطا فرما تو وہ نئی زمین بھی اسی طرح بنا کرتی ہے اور نیا آسمان بھی اسی طرح سجا کرتا ہے.پس سب سے زیادہ اس بات کی دعا کریں اور سب سے زیادہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کو مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے اور پہلی قربانیوں پر خدا کے احسانات کے ذکر کی توفیق عطا فرمائے.میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں جماعت کی ان مالی قربانیوں کے متعلق ذکر کروں گا جو گزشتہ چند سال میں جماعت نے پیش کی ہیں.اس لئے اب اس تمہید کی روشنی میں میں ان قربانیوں کا ذکر ان معنوں میں کروں گا کہ خدا تعالیٰ نے یہ بہت ہی عظیم الشان توفیق ہمیں عطا فرمائی ہے اور تحریک کے طور پر نہیں کروں گا.پہلے میرا خیال تھا کہ قربانیوں کی مختلف شقیں یاد کروا کر جماعت کو تحریک کروں کہ ان قربانیوں سے متعلق مزید کوشش کریں اور جو خامیاں ہیں وہ پوری کرنے کی کوشش کریں.جب میں نے نظر ڈالی تو جو مالی قربانیوں کی فہرست میرے سامنے آئی ان میں سے بعض ایسی تھیں جو میں خود بھی بھول چکا تھا لیکن گزشتہ پانچ یا چھ سال کے عرصہ میں جماعت احمد یہ کونئی شقوں میں ( جو اس سے پہلے جماعت کے سامنے نہیں تھیں ) جتنی حیرت انگیز ، جتنی عظیم الشان قربانی کی توفیق ملی ہے یہ بذات خود خدا تعالیٰ کی راہ میں شکر کرتے ہوئے بچھ جانے کی طرف انسان کو متوجہ کرتی ہے، بچھ جانے کی آرزو دل میں پیدا کرتی ہے.ممکن ہے ایک آدھ قربانی کی شق میں بھول بھی گیا ہوں لیکن جو اس وقت تک یاد آئی ہیں یا کسی اور نے مجھے یاد کرائی ہیں وہ یہ ہیں:.بیوت الحمد کی تحریک تحریک جدید کے دفتر اول اور دوم کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تحریک، جلسہ سالانہ جوبلی کے لئے متوقع مہمانوں کی آمد کے پیش نظر دیگیں پیش کرنے کی تحریک ، دونئے یوروپین مراکز کے قیام کی تحریک، افریقہ ریلیف فنڈ ، امریکہ میں پانچ مراکز کے قیام کی تحریک جو بعد میں دس مراکز کے قیام کی تحریک پر منتج ہوئی اور پھر اب اس سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے، جدید پریس کے قیام کی تحریک ، وقف جدید کو عالمی تحریک میں تبدیل کرنا اور بیرون ہندو پاکستان کی جماعتوں کو بھی اس قربانی میں شمولیت کی دعوت دینا تحریک جدید کے دفتر چہارم کا آغاز.اگر چہ یہ پرانی تحریک ہے لیکن یہ نئی شق آئی ہے اس میں اور نئی نسل کے بچوں کو اس سے توفیق ملی کہ وہ اس میں بھی شامل ہوں.توسیع مکان بھارت توسیع و بحالی مساجد کی تحریک یعنی وہ مساجد جو جلائی گئیں یا

Page 44

خطبات طاہر جلدے 39 39 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء منہدم کی گئیں یا کسی اور رنگ میں ان کو نقصان پہنچایا گیا نہ صرف یہ کہ ان کو بحال کرنا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ توسیع دینی ہے، زیادہ وسعت کے ساتھ ، زیادہ خوبصورت ، زیادہ مفید عمارت میں تبدیل کرنا ہے، سیدنا بلال فنڈ کی تحریک، دفاع اسلام بمقابلہ تحریک شدھی.یہ بھی وہ تحریک ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جاری فرمائی تھی اور بیچ میں پھر عدم ضرورت کی وجہ سے تقریبا پچاس برس یا اس سے زائد عرصہ کا انقطاع ہوا اور نئی ضرورت کے پیش نظر نئی تحریک کی گئی.دار الیتامی کے قیام کی تحریک اور ایسی جگہوں کے مثلاً ایلسلواڈور کے بچوں کو اپنانے کی تحریک جو یتیم رہ گئے ہوں آسمانی حادثات کے نتیجہ میں مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کی تحریک.اب یہ وہ تحریکیں ہیں جو صرف گزشتہ چند سال کے عرصہ پر پھیلی پڑی ہیں، اس عرصہ میں کی گئی ہیں.اگر عام عقلی حساب لگایا جاتا یا جماعت کی اقتصادی حالت کے پیش نظر یہ سوچا جاتا کہ جماعت اس قابل بھی ہے کہ نہیں کہ اتنے بڑے بوجھ اٹھا سکے تو انسانی عقل تو نہ اس کی اجازت دے سکتی تھی اور نہ ایسی تحریک کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان تھا اور انسانی دل بار بار ایسی تحریکات کے لئے عام حالات میں جرات ہی نہیں رکھ سکتا اور حوصلہ نہیں پیدا ہوتا کہ ایسی جماعت کو جس پر بے شمار بوجھ پہلے ہیں اور دوسرے چندوں میں جو مستقل حیثیت رکھتے ہیں اور ایسی تحریکات میں جو پہلے سے جاری ہیں اور مستقل نوعیت کی ہیں ان میں اضافے کی تو بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی ، ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے کوئی مزید توقع رکھے اور پھر جماعت کو نئی نئی قربان گاہوں کی طرف بلائے.یہ خیال اپنی ذات میں عجیب ہے لیکن جب خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ کسی تحریک کی طرف متوجہ فرماتا ہے تو عقل کے نئے پیمانے عطا کرتا ہے اور دل کو نئے حوصلے بخشتا ہے.اس وقت عام دنیا کی عقل کا حساب نہیں چلتا بلکہ عقل ایسے پرانے تاریخی زمانوں کی طرف لوٹ جاتی ہے جب اسی قسم کی ناممکن باتیں ہمیشہ ممکن کر کے دکھائی گئیں.جب بظاہر جیبیں خالی ہوتی تھیں اور خدا تعالیٰ کے نام پر تحریک کی جاتی تھی تو وہی جیبیں سونا اگلنے لگتی تھیں اور پھر ان کے اندر خدا تعالیٰ نئی برکتیں پیدا فرما دیتا تھا.نئی وسعتیں ان لوگوں کے اموال کو عطا ہوتی تھیں جو بظاہر خدا کی راہ میں خالی ہاتھ رہ جاتے تھے.تو یہ ایک اور قسم کی عقل ہے وہ پیمانے جن پر یہ عقل چیزوں کو نا پتی ہے، وہ پیمانے مختلف ہیں.پس خدا تعالیٰ نے کسی موقع پر بھی مجھے اس خوف میں مبتلا نہیں ہونے دیا کہ میں جماعت

Page 45

خطبات طاہر جلدے 40 40 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء کی طاقت سے بڑھ کر اس پر بوجھ ڈال رہا ہوں.بوجھ کا لفظ بوجھل ہے اس موقع پر کیونکہ حقیقت میں خدا کی خاطر کسی چیز کی توفیق عطا ہونا کسی کام کرنے کی توفیق عطا ہونا یا کسی کام کرنے کی تحریک کرنا لفظ بوجھ کے نیچے نہیں آتا سوائے اس کے کہ تاریخ میں بعض قوموں نے بد قسمتی سے ایسی چیزوں کو بوجھ سمجھا تو پھر خدا نے اس کو بوجھ بننے دیا.تو میں ان معنوں میں بوجھ کا لفظ استعمال نہیں کر رہا.میرے ذہن میں جو مضمون ہے اس کے لئے کوئی اور بہتر لفظ اردو میں ہے نہیں اس لئے مجبوراً میں لفظ بوجھ استعمال کرتا ہوں بار بار مراد یہ ہے کہ ذمہ داری ڈال دینا جبکہ بظاہر انسان میں اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی طاقت نہ ہو.تو جب میں نے ان سب تحریکات پر نظر دوڑائی تو میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جتنا جماعت سے مانگا گیا اس سے بڑھ کر جماعت نے عطا کیا یا یوں کہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی جماعت کو کہ اس سے بڑھ کر دے اور ساری ضرورتیں ان سارے عناوین کے تحت پوری ہو گئیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ابھی بھی ایک مسلسل رو کی طرح یہ قربانیاں جاری ہیں اور اکا دکانٹے شامل ہونے والے ایسی تحریکات میں بھی ہوتے رہتے ہیں جو اپنی طرف سے پوری ہو کر اپنے دروازے بند کر چکی ہیں.مثلاً جدید پریس کی تحریک تھی ، مثلاً یورپ میں دو نئے مراکز کی تحریک تھی.جدید پریس کی تحریک میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ توقع سے بہت بڑھ کر جماعت کو اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کی توفیق عطا فرمائی اور زائد اخراجات جو ہونے تھے اور اس وقت ہمارے ذہن میں نہیں تھے وہ پہلے ہی اپنے فضل سے پورے کر دیے.اس وقت جو میرا تخمینہ تھا وہ یہ تھا کہ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ میں ہم آسانی کے ساتھ ایک جدید پریس بنالیں گے اور شروع کے چند مہینوں کے اخراجات بھی اسی سے مہیا ہو جائیں گے.جب وہ پریس بنانا شروع کیا تو پتا چلا کہ اس کے تو بہت سے ایسے لوازمات ہیں جو ڈیڑھ لاکھ سے بہت زیادہ رقم کے متقاضی تھے اور دو لاکھ سے اوپر رقم اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ درکار تھی لیکن جب تحریک کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ڈیڑھ کی بجائے اڑھائی لاکھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.یہ تحریک بظاہر بند ہو چکی ہے لیکن ایسے خط ملتے رہتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ زندہ دلوں میں کوئی تحریک بھی مرا نہیں کرتی اور بند نہیں ہوا کرتی.ایسے لوگ ہیں جن کو اس وقت توفیق نہیں تھی جن کے دل میں شدید کرب پیدا ہوا کہ کاش ہمیں تو فیق ہوتی تو ہم

Page 46

خطبات طاہر جلدے 41 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء بھی اس تحریک میں حصہ لیتے.وقتا فوقتا انہوں نے خود اپنے آپ کو یاد کرایا خوداپنے ضمیر کو جنجھوڑا کوئی رستہ نکا لوکسی طرح اس تحریک میں شامل ہونے کی کوشش کرو لیکن ایک لمبے عرصہ تک ان کو توفیق نہ مل سکی.پھر جب خدا نے توفیق دی اسی وقت انہوں نے خود بغیر کسی یاد دہانی کے اس تحریک میں حصہ لیا اور پھر مجھے خط لکھا کہ اس طرح ایک تحریک تھی اس میں ہم شمولیت سے رہ گئے تھے خدا تعالیٰ نے ہمارے جذبے کو زندہ رکھا اور اب جبکہ توفیق ملی ہے تو ہم خدا کی راہ میں یہ پیش کر رہے ہیں.یہ جماعت ہے اور یہ خدا کا اس جماعت پر احسان ہے جو سب سے زیادہ شکریہ واجب کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان اس دنیا میں، اس زمانہ میں، اس ساری کائنات پر جماعت کی قربانی کا جذبہ ہے جو خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اور اسی سے اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں ، اسی سے عظیم کردار پیدا ہوتے ہیں اور آئندہ عظیم نسلوں کی بنیاد ڈالی جاتی ہے.قربانی ہی ہے جو روحانی انقلاب برپا کیا کرتی ہے اور بعض اوقات قربانی کرنے والے خود فوری طور پر اپنی بعض کمزوریوں سے دستکش نہیں ہو سکتے اپنی بعض کمزوریوں پر عبور حاصل نہیں کر سکتے لیکن قربانی کے نتیجہ میں ان کے اندر ایک کشمکش جاری ہو جاتی ہے اور نیکی کی توفیق پانے کے نتیجہ میں نئی نیکیوں کی طرف ان کی توجہ مبذول ہو جاتی ہے اور باہر سے دیکھنے والا بعض دفعہ یہ سمجھتا ہے کہ ایک شخص بظاہر مالی قربانی کر گیا ہے لیکن بدی فلاں بھی ہے اس میں، فلاں بدی بھی ہے، فلاں کمزوری بھی ہے اور فلاں کمزوری بھی ہے اس مالی قربانی کا کیا فائدہ؟ جب دیگر امور میں وہ نقصوں سے پاک نہیں ہے.اس باہر کی نظر سے دیکھنے والے کو کیا پتا کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول قربانی کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتی.وہ کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ایک جدوجہد شروع کر دیتی ہے اور خاموش دل کے اندر ایک آگ سی لگ جاتی ہے کہ میں باقی امور میں بھی اپنے معیار کو بلند کروں اور رفتہ رفتہ دعاؤں کے نتیجہ میں پھر بھی آج کبھی کل کبھی پرسوں کبھی اس سال کبھی آئندہ سال خدا کے قربانی کرنے والے بندے برے لوگوں میں سے نکل کر یعنی نسبتا برے لوگوں میں سے نکل کر نسبتاً اچھے لوگوں کی صف میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں.پس قربانی کی توفیق عطا ہونا ایک بہت ہی عظیم الشان نعمت ہے، اتنا بڑا انعام ہے کہ اس کا ذکر بھی اگر تفصیل سے کیا جائے تو گھنٹوں میں بھی یہ مضمون مکمل نہیں ہو سکتا.غیر معمولی اس کی برکتیں ہیں، غیر معمولی اثرات ہیں جو ہر سمت میں جاری ہوتے ہیں اور قوموں کی تقدیر بدلنے کا راز اس بات میں ہے کہ خدا

Page 47

خطبات طاہر جلدے تعالیٰ انہیں قربانی کی توفیق عطا فرمائے.42 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء اس پہلو سے جن تحریکات کا میں ذکر کر رہا ہوں ان تحریکات پر وہ لوگ جن کو خدا نے قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ لوگ سب سے زیادہ اس بات کے گواہ ہیں کہ جب انہوں نے قربانی پیش کر دی تو پھر انہیں خدا نے کیسی لذت عطا کی.ہر قربانی کرنے والا جب قربانی دیتا ہے تو ایک عجیب لذت سے آشنا ہوتا ہے جس کو قربانی نہ دینے والا تصور بھی نہیں کرسکتا.وہ خدا کی راہ میں پیش کرنے کے بعد پچھتاتا ہوا گھر واپس نہیں آتا کہ میں اتنے روپے لیکر گیا تھا اور اب خالی ہو کر واپس لوٹ رہا ہوں بلکہ اتنے روپے لانے والے شخص کے مقابل پر اس کو بہت ہی زیادہ روحانی لذت اور سرور حاصل ہو رہا ہوتا ہے.دنیا میں ایک ہی دن کئی سفر کرنے والے ایسے ہوں گے ایک روپیہ وصول کرنے جارہا ہے اور ایک احمدی دنیا کے کسی کونے میں خدا کی راہ میں اپنے پیسے سے بظاہر ہاتھ دھونے کیلئے جارہا ہے ، اپنا پیسہ خود اپنے ہاتھوں سے لٹانے کے لئے جا رہا ہے.یہ دو بالکل مختلف نوعیت کے سفر ہیں.ایک دولت کھونے والا سفر نظر آرہا ہے اور ایک دولت پانے والا سفر ہے.لیکن دولت پانے والا وجود تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس خدا کی راہ میں دولت کھونے والے وجود کو کتنا مزہ آیا ہے، کتنی اسے لذت محسوس ہوئی ہے اور اس بات کی گواہیاں بھی روزانہ بلا استثناء مجھ تک خطوں کے ذریعہ پہنچتی رہتی ہیں.حیرت انگیز رنگ میں لوگ دین سے اپنی محبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانی کے عطا کرنے کے نتیجہ میں جذبات تشکر کا اظہار کرتے ہیں.کسی کو زبان اچھی آتی ہے کسی کو اچھی نہیں آتی کسی کو کسی محاورے پر عبور ہوتا ہے کسی کو نہیں ہوتا بعض ایسے بھی ہیں جو سیدھی اردو لکھنا بھی نہیں جانتے.پنجابی کے لفظ بھی بیچ میں استعمال کر رہے ہوتے ہیں یا کسی اور زبان کے.ہندوستان سے خط آتے ہیں بعض علاقوں میں مذکر مونث کی تفریق نہیں ہو رہی ہوتی اور اس کے باوجود ہر خط اپنی ذات میں ایک ادب کا شہ پارہ ہوتا ہے کیونکہ وہ قربانی کے ذکر سے زندہ ہوا ہوتا ہے ان کے اندران لفظوں میں ایک روح ہوتی ہے اور روح خواہ پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس ہو خواہ اعلیٰ قسم کے لبادوں میں لیٹی ہوئی ہو جو روح ہے وہ روح ہی ہے وہ زندہ چیز ہے جس کے ساتھ مردہ چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.اسی طرح ادب میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ بعض بڑی مسجع عبارتیں ہوتی ہیں بڑی بھی ہوئی خوبصورت عبارتیں لیکن روح سے خالی ہوتی ہیں.ان کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کھڑکیوں میں بعض

Page 48

خطبات طاہر جلدے 43 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء دفعہ بڑے خوبصورت بت بنا کر ان پر بہت ہی خوبصورت کپڑے پہنائے ہوئے ہوتے ہیں آپ ان کو جس طرح چاہیں پسند کریں، جس تحسین کی نظر سے بھی دیکھیں لیکن آپ کے دل میں ایک ادنی سی بھی تحریک وہ پیدا نہیں کر سکتے اپنی محبت کے لئے یعنی اپنی محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتے اپنے دل میں اور پھر بھی ان کو آپ مردہ ہی سمجھتے ہیں لیکن ایک پھٹے ہوئے کپڑوں میں اور بوسیدہ کپڑوں میں لیٹا ہوا انسان بعض دفعہ اپنی اداؤں کے نتیجہ میں اپنے بعض نقوش کے نتیجہ میں اتنا پیارا لگتا ہے کہ انسان کا دل اڑتا ہوا اس کی طرف مائل ہوتا ہے.اسی طرح میں نے جائزہ لیا ہے ادب کی دنیا کا حال ہے.اچھا ادب وہ ہے جو زندہ ہو، اچھا ادب وہ ہے جس میں صداقت کی روح پائی جاتی ہو اور بظاہر وہ ناقص بھی ہو بظاہر اس ادب کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوں، اس کے الفاظ دریدہ ہوں پھر بھی وہ زندہ ادب زندہ ادب ہے عام ادب کو اس سے کوئی نسبت نہیں.اسی وجہ سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام چودہ سوسال گزرنے کے باوجود زندہ ہے.بعض حدیثیں آپ پڑھیں گے تو جتنی دفعہ چاہیں پڑھیں ان کی لذت ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ زندہ ہے اور زندہ کرنے والا کلام ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کا خلفاء کے کلام سے بھی ایک فرق ہے اور سلسلہ کے دیگر بزرگوں اور اولیاء کے کلام سے بھی ایک فرق ہے.اتنا نمایاں فرق ہے کہ نام مٹا دیئے جائیں تب بھی ہر احمدی یا ہر باشعور انسان ان تحریروں کے فرق کو معلوم کرسکتا ہے.بالکل دنیا ہی اس کی اور ہے.جو نبوت سے زندگی نصیب ہوتی ہے کلام کو وہ کسی اور چیز سے نصیب نہیں ہو سکتی.ایک ایک فقرہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑی بڑی کتابوں کے مضامین پر حاوی ہوتا ہے اس کو پڑھتے ہوئے ، اس کو دیکھتے ہوئے نظر خیرہ ہوتی ہے، انسان کو خود زندگی نصیب ہورہی ہوتی ہے.پس ان خطوں میں جو میں زندگی دیکھتا ہوں وہ اسی مضمون کی زندگی ہے اور جہاں احمدی قربانی کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں ان کی عبارت میں ایک اور شان پیدا ہو جاتی ہے وہی جب دوسرے اپنے مسائل لکھتے ہیں تو بالکل معیار سے گری ہوئی عام عبارت ، اس میں کچھ بھی رونق نہیں ہوتی اور کوئی قابل دید چیز دکھائی نہیں دیتی لیکن جب خدا کی محبت میں قربانی پیش کرنے کا خدا کے فضلوں کا ذکر کرتے ہیں تو اچانک اس عبارت میں ایک نئی زندگی، ایک نئی بلندی پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے لئے خصوصیت سے

Page 49

خطبات طاہر جلدے 44 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء اسی جذبہ سے متاثر ہو کر دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے.تو بیوت الحمد سکیم میں بھی ابھی تک اسی طرح یہ سلسلہ جاری ہے بہت سے دوست ہیں جو تحریک میں شامل نہیں ہو سکے تھے اب وہ لکھ رہے ہیں کہ ہم اس میں ضرور شامل ہوں گے اور اب خدا نے توفیق بخشی ہے دل کی تمنا پوری کرنے کی توفیق مل رہی ہے.بعض جن کو وعدوں کی توفیق تھی لیکن وعدے پورے نہیں کر سکے تھے ان کے بعض دفعہ بڑے دردناک دعاؤں کے خط آتے ہیں کہ ہمیں بھی خدا توفیق عطا فرمائے اس عظیم الشان تاریخی تحریک میں کہ کم از کم ایک سو مکان خدا تعالیٰ کے سوسالہ احسانات کے اظہار تشکر کے طور پر ہم غرباء کے لئے پیش کر سکیں.بعض لوگ لکھتے ہیں کہ وقت آئے گزر جائے گا اور بھی تحریکیں ہوں گی لیکن اس میں شامل ہونے کا جو مزہ اب ہے اس سے ہم محروم ہو جائیں گے.پھر تحریک جدید کے دفتر اول اور دوم کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تحریک ہے یہ بھی سلسلہ جاری ہے ایک طرف تو تحریک جدید کا دفتر کوشش کر رہا ہے اور ایک طرف بعض لوگ خود اپنے طور پر لکھتے ہیں اس کا مجھے بڑا مزہ آتا ہے.ابھی کچھ عرصہ ہوا امریکہ سے ایک خط آیا کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہمارے ماں باپ نے حصہ لیا تھایا نہیں مگر دل چاہتا ہے کہ لیا ہو اور ہم اُن کے کھاتے کو زندہ کریں اس لئے آپ ہماری مدد کریں، آپ ہمیں پتا کر کے دیں کہ وہ کہاں تھے ، کب شامل ہوئے ، شامل ہوئے بھی ہیں یا نہیں ہوئے بہر حال بعض کہتے ہیں کہ اگر نہیں تو ہماری طرف سے کسی اور کے کھاتے کو زندہ کر دیں کم سے کم ہم اس لذت سے محروم تو نہ رہیں.اس ضمن میں میں صرف اتنی بات اور کہنی چاہتا ہوں کہ ان خطوں سے مجھے یہ تحریک ہوئی اور یہ توجہ پیدا ہوئی کہ بار بار جوتحریک جدید میں زور دیتا ہوں کہ وہ کھاتوں کی تلاش کرے.وہ تلاش تو کرتے ہی ہیں اور آئندہ بھی کریں گے.لیکن ایک طریق یہ ہے کہ ساری جماعت کو یہ کہہ دیا جائے کہ وہ خود اپنے بزرگوں کے نام تلاش کریں اور جستجو کریں کہ آیا وہ شامل تھے بھی کہ نہیں.ہر بزرگ کی نسل دنیا میں کہیں نہ کہیں تو ضرور موجود ہوگی اس لئے ان کی جستجو کرنے والے ان کی اولاد میں ایسے لوگ سعید فطرت ضرور مل جائیں گے جو پتا بھی کریں اور خط و کتابت کریں معلومات حاصل کرنے کے لئے پھر جب خدا ان کو توفیق دے تو پھر ان کے کھاتوں کو زندہ کر دیں.اگر اس طرح ساری جماعت ابھی سے کوشش شروع کر دے تو بقیہ ایک

Page 50

خطبات طاہر جلدے 45 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء سال کے اندر عین ممکن ہے کہ صد سالہ اظہار تشکر کا سال طلوع ہونے سے پہلے پہلے ان سب بزرگوں کے کھاتے زندہ ہو چکے ہوں.جلسہ سالانہ کے لئے دیگوں کی تحریک تھی عجیب بات ہے کہ میرے ذہن سے بالکل اتر ہی گئی تھی لیکن بعض خط لکھنے والوں کو یاد ہے وہ لکھ دیتے ہیں کہ میری فلاں دیگ کی تحریک میں اتنا روپیہ رہ گیا تھا خدا نے اب توفیق بخشی ہے.ابھی چند دن ہوئے مجھے ایک خط ملا میں حیران رہ گیا میں نے کہا مجھے تو یاد بھی نہیں تھا کہ یہ تحریک کب کی تھی.میرے خیال میں تحریک ہوئی بھی تھی اور دیگیں پوری بھی ہوگئی تھیں.لیکن دلوں کی بعض آرزوئیں تو پوری نہیں ہوئیں ان کو اس سے غرض نہیں کہ دیکھیں پوری ہوئی ہیں یا نہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل کی تمنا بھی ضرور پوری ہو چنانچہ وہ بھی لکھ رہے ہیں.اب ایسی جماعت دنیا میں کہیں مل سکتی ہے ؟ چراغ لیکر دھونڈ نے کی مثال بیان کی جاتی ہے میں کہتا ہوں سورج لیکر ڈھونڈ وہ تمہیں ساری دنیا میں کہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے بڑھ کر قربانی کرنیوالے اور قربانی سے محبت کر نیوالی جماعت نہیں ملے گی اور یہ سب سے بڑا احسان ہے خدا کا.اتنا عظیم احسان ہے کہ دن رات اس کا ذکر کیا جائے تب بھی طبیعت سیر نہیں ہوگی دن رات اس کا شکر ادا کیا جائے تو شکر کا حق آپ ادا نہیں کر سکتے.ہم میں جو کچھ بھی ہے اسی قر بانی کے جذبے کے نتیجہ میں ہے.دونئے یورپین مراکز کی تحریک کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے یہی سلسلہ ہے.افریقہ میں ریلیف فنڈ کیلئے اگر چہ جماعت کو اتنا روپیہ پیش کرنے کی توفیق نہیں ملی جتنا توقع کی گئی تھی لیکن اس میں جماعت کا قصور نہیں ہے.وجہ یہ ہے کہ خدا کی تقدیر خود بخود چل رہی ہوتی ہے ایک تحریک کی جائے اور بعض دفعہ اس تحریک کا مقصد پورا کرنے کی جماعت کو تو فیق نہیں مل رہی ہوتی اور خود بخود وہ تحریک نظروں سے غائب ہو جاتی ہے.افریقہ ریلیف فنڈ کے سلسلہ میں ہم نے ہر طرح سے کوشش کی کہ بھوک میں مبتلا افریقنوں کی مدد کے لئے جماعت کو اجازت ملے حکومتیں اجازت دیں، ذریعے میسر آئیں جس کے ذریعے ہم اُن تک یہ چیزیں پہنچا سکیں لیکن حکومتوں نے دروازے بند کئے ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ ہم حکومتوں سے گفتگو کریں گے اس سلسلہ میں انفرادی طور پر تم اپنی حکومتوں کو بے شک کچھ رقم پیش کر دو.کچھ رقم جماعت نے حکومتوں کو پیش بھی کی لیکن جماعت

Page 51

خطبات طاہر جلدے 46 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء احمدیہ کو اتنی توفیق ہے ہی نہیں کہ سب دنیا کی دنیاوی ضرورتیں پوری کر سکے یا خاطر خواہ حصہ اس میں ڈال سکے.جماعت کی قربانی کو تو برکت اس لئے ملتی ہے کہ جماعت خود اپنے حاصل کردہ روپیہ کو خرچ کرتی ہے، اس میں کوئی بددیانتی نہیں ہوتی ، ہر منصوبے میں غیر معمولی برکت ملتی ہے، وسیع پیمانے پر رابطے پیدا ہوتے ہیں اور نئی نیکیوں کی توفیق ملتی ہے.دنیا وی بھوک ہی نہیں ملتی بلکہ اس سے روحانی بھوک بھی دنیا کی مٹتی ہے اور جن تک جماعت احمد یہ دنیاوی احسان لیکر پہنچتی ہے اس کے پیچھے پیچھے روحانی احسان بھی خود بخود چلا آتا ہے تو ہمیں تو اس قسم کی تربیت ہے.چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ افریقہ میں باوجود کوشش کے جماعت کو خود غرباء تک پہنچ کر ان چیزوں کی تقسیم کرنے کی یا ان کے دکھ دور کرنے کے لئے کسی تنظیم کے طور پر حصہ لینے کی اجازت نہیں مل رہی تو میں نے بھی یاد نہیں کرایا اور جماعت بھی از خود بھول گئی جیسے ضرورت نہ رہی ہو تو خود بخو دایک چیز رفتہ رفتہ سو جاتی ہے.اس طرح یہ تحریک سو گئی.اس لئے اس کے مقابل پر چونکہ دوسری تحریکیوں میں باوجود توجہ نہ دلانے کے بھی غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ نے جماعت کے دل سے قربانی کو ابال اُبال کر نکالا ہے.اس سے میں سمجھتا ہوں یہ بھی خدا کی تقدیر کے تابع ہی تھا اس میں جماعت کا کوئی قصور نہیں ہے کہ تحریک کی گئی اور اس میں جماعت پورا نہ اتری ہو.پانچ امریکن مراکز کے قیام کے متعلق آپ جانتے ہی ہیں پانچ کی تحریک کی گئی تھی دس بنائے گئے دس سے بات آگے بڑھ کر اب پندرہ کے قریب ہو چکے ہیں اور ا بھی روپے کی ضرورت بھی ہے اور ابھی روپیل بھی رہا ہے اللہ کے فضل سے.اور پہلے تو زمینیں حاصل کرنے کا دور تھا اب جماعت امریکہ یہ عزم لیکر آگے بڑھ رہی ہے کہ جہاں زمینیں حاصل ہوئی تھیں وہاں بہت ہی خوبصورت اور دلکش اور وسیع مساجد بھی بنائی جائیں.یہ کام ایک دو جگہ تو مکمل ہو چکا ہے باقی جگہ ہورہا ہے.اس سفر میں مجھے دو جگہ مکمل مساجد کے افتتاح کی توفیق ملی اور تین جگہ سنگ بنیاد رکھنے کی توفیق ملی.وقف جدید کی تحریک کو ساری دنیا میں وسیع کرنے کا معاملہ بھی اسی قسم کا ہے کہ ہر سال خدا کے فضل سے جماعتوں کی طرف سے اضافہ کے ساتھ وعدے مل رہے ہیں اور نئے سے نئے لوگ شامل ہوتے چلے جارہے ہیں مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ابھی تعداد بڑھانے کی بہت ضرورت

Page 52

خطبات طاہر جلدے 47 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء ہے.بہت سے بچے ایسے ہیں جو ابھی تک اس تحریک میں شمولیت سے محروم ہیں اور باہر کی دنیا میں باقی ذمہ داریوں کے علاوہ پانچ پونڈ سالانہ پیش کرنا کوئی اتنا بڑا کام نہیں یعنی مغربی دنیا میں غریب ممالک میں تو یہ بھی بہت بڑی چیز ہے لیکن اگر کسی خاندان پر یہ بوجھل ہوتو دو بچے مل کر پانچ پونڈ کا وعدہ پیش کر سکتے ہیں، تین بچے مل کر پیش کر سکتے ہیں مگر محروم نہ رکھیں اپنے کسی بچے کو اور کوشش کریں کہ ہندوستان اور پاکستان سے باہر کی دنیا میں ہر احمدی بچہ اس تحریک میں شامل ہو جائے.اس کا بھی خدا تعالیٰ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خود ہی انتظام فرما رہا ہے، خود ہی دلوں میں تحریک بھی کرتا چلا جاتا ہے.بہت سی ایسی مائیں ہیں جو ابھی مائیں بنی بھی نہیں ہوتیں، بچے کی توقع ہوتی ہے تو وہ وقف جدید کی تحریک میں وعدہ لکھوا دیتی ہیں لیکن ایک ماں ایسی بھی ملی جو مستقبل میں شاید ماں بنے.اس کا بچہ پیدا نہیں ہو رہا تھا وہ بہت دعائیں کرواتی رہی ایک دن وہ آئی اور اس نے کہا کہ یہ تحریک جدید میں میرے بچے کی طرف سے میں نے کہا کونسا بچہ ؟ اس نے کہا وہ بچہ جو اللہ مجھے عطا کرے گا.ایسا ایمان ہے ایسا خلوص ہے جماعت کی ایسی ایسی پیاری ادائیں ہیں کہ اس کی کوئی نظیر اور کہیں نظر نہیں آسکتی.تحریک جدید کے دفتر چہارم کے اجراء کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دفتر بھرنا شروع ہو گیا ہے اور یاد دہانی بعض دفعہ کی کمی ہو جاتی ہے نظام جماعت کو یاد دلاتے رہنا چاہئے.توسیع مکان بھارت کا فنڈ بھی اسی طرح زندہ اور جاری ہے کئی عورتیں ابھی بھی زیور لے کر آتی ہیں کہ اس کو توسیع مکان بھارت میں ڈال دو، کوئی چندے باہر سے بھجوا رہا ہے پہلے کی طرح بھر پور تو نہیں مگر ایک TRICKLE کہنا چاہئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک چھوٹی سی ندی ایک روبن کے ابھی تک بہہ رہی ہے.اس میں یاد دہانی کا کوئی سوال نہیں دلوں میں یاد دہانی کرنے والے خدا نے ایسے فرشتے بٹھائے ہوئے ہیں جو جماعت کو کسی تحریک کو بھی بھولنے نہیں دیتے.توسیع و بحالی مساجد کی تحریک میں بھی اسی طرح یہ مضمون چل رہا ہے.خدا کے فضل سے آئے دن کسی دوست کی طرف سے خط آجاتا ہے اور بعض دفعہ چیک ساتھ ہوتا ہے بعض دفعہ یہ اطلاع ہوتی ہے کہ خدا نے مجھے تو فیق عطا فرمائی.اور اس میں بھی جتنی مجھے توقع تھی اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقم میسر آرہی ہے اور مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی ساری

Page 53

خطبات طاہر جلدے 48 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء ضرورتیں پوری ہو جائیں گی.اس میں ایک دلچسپ بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ چند دن ہوئے مجھے جرمنی سے ایک سکھ دوست کا فون آیا.انہوں نے کہا کہ پنجاب سے شائع ہونے والے ایک پنجابی رسالے میں جو گورکھی زبان میں لکھا جاتا ہے.میں نے جماعت پر مظالم کا ذکر پڑھا ہے اور مجھے یہ پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ ظالم مساجد کو آگ لگا رہے ہیں، خدا کے ذکر کے گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور یہ بھی پتا چلا ہے کہ ہالینڈ میں بھی مسجد کو نقصان پہنچایا گیا ہے.اس نے کہا کہ میں جماعت میں شامل تو نہیں مگر مجھے خدا سے محبت بہت ہے اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس طرح خدا کے گھروں کو دنیا میں خدا کے بندے کہلانے والے آگ لگا ئیں.آپ مجھے ضرور موقع دیں کہ میں بھی ایسی جماعت کے لئے کچھ قربانی دوں.میں نے انھیں بڑے پیار سے سمجھایا اور شکر یہ ادا کیا کہ ٹھیک ہے ہم اللہ کے فضل سے خود کفیل ہیں، قربانی دے رہے ہیں ، خدا انتظام کر رہا ہے.انہوں نے فون پر ہی ضد شروع کر دی کہ میں نے ضرور کچھ دینا ہے آپ نہ کر نہیں سکتے.چنانچہ میں نے اسی وقت اپنے مبلغ کو فون کیا کہ یہ انکا نمبر ہے ان سے رابطہ کریں.آج ہی ان کا خط ملا ہے کہ انہوں نے ایک ہزار پونڈ ہالینڈ کی مسجد کی تعمیر نو کیلئے پیش کیا ہے.تو یہ خدا کی عجیب تحریکات ہیں جو خود اپنے فرشتوں کے ذریعہ دلوں میں وہ نازل فرماتا رہتا ہے اور نصرت عطا ہوتی چلی جاتی ہے ہے.سید نا بلال فنڈ کے متعلق بھی یہی مضمون ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت عظیم الشان قربانی کی توفیق ملی جماعت کو اس کے مزید پھل یہ مل رہے ہیں کہ اسی رقم سے جو پاکستان ہندوستان سے باہر سے ملی تھی.اس سے سو زبانوں میں قرآن کریم کے نمونہ کی آیات جو قریباً ۱/۲۰ قرآن کریم پر مشتمل ہوں گی شائع ہونا شروع ہو گئی ہیں اور اب تک خدا کے فضل سے ایک سو آٹھ زبانوں میں تراجم مکمل ہو چکے ہیں.کچھ چھپ چکے ہیں کچھ اس وقت پریس میں ہیں.اس کے علاوہ مزیدمل گئے کئی لوگ نئی زبانوں میں ترجمہ کرنے والے ہیں تو وہ بھی جاری ہے اس لئے امید ہے کہ آئندہ سوسال پورے ہونے سے پہلے ہم انشاء اللہ سو کی بجائے ایک سو پندرہ ہیں زبانوں تک قرآن کریم کے نمونے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے.اس میں سیدنا بلال فنڈ کو بہت بڑا دخل ہے.سارے کے سارے تراجم تو سیدنا بلال فنڈ سے پورے نہیں کئے جائیں گے کیونکہ دوست اپنے طور پر رقمیں بھیج دیتے ہیں اور بہت سی زبانوں میں خدا تعالیٰ نے وہیں کے لوگ ایسے پیدا کر دیئے ہیں جو کہتے ہیں یہ

Page 54

خطبات طاہر جلدے 49 49 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء کام ہمارے خرچ پر چلایا جائے لیکن بڑا حصہ ان زبانوں کا کم و بیش ایک سوز بانوں تک انشاء اللہ سیدنا بلال فنڈ سے پورا ہوگا اور یہ قربانی بظاہر اس وقت جماعت کی اکثریت دے رہی ہے لیکن وہ یہ عہد کر چکی ہے کہ یہ قربانی ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے والوں کی طرف سے جو اس وقت پاکستان میں مصائب میں سے گزر رہے ہیں یا شہید ہونے والوں کی طرف سے ہے یا ان کے ورثاء کی طرف سے ہے اس لئے اس بات کو یا درکھیں کہ یہ تو فیق تو آپ کو ملی ہے لیکن آپ نے خدا سے یہ نیت باندھی ہے کہ اس کا ثواب ان لوگوں کو ملے.دار الیتامی کی تحریک میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ہی دوست کو خدا نے توفیق بخشی تھی کہ موجودہ جو سکیم ہے اس کے مطابق وہ پورا دار الیتامی تیار کرنے کا خرچ دے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا باقی لوگوں کو محروم نہیں کیا جا سکتا اگر کوئی اور شامل ہونا چاہے تو ہو جائے.چنانچہ اس کے متعلق بھی آج ہی ایک جگہ سے ایک خطیر رقم ملی ہے اور ان صاحب نے بھی اصرار کیا ہے کہ مجھے بھی دار الیتامی کی سکیم میں شامل کیا جائے اور بھی پہلے ملتی رہی ہیں چنانچہ وہ سب رقمیں انشاء اللہ دار الیتامی کی تعمیر میں خرچ ہوں گی.Elsalvador کے یتامیٰ کے متعلق اگر چہ جماعتی کوششوں کے باوجود ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہوسکی کہ بحیثیت جماعت ہمیں بیتا میا مل جائیں لیکن بعض لوگوں نے اس تحریک میں شمولیت کی نیت کی تھی تو وہ بعض اور یتیم لے کر پالنے لگ گئے ہیں اور اس کی مجھے اطلاع مل رہی ہے یہ بہت خوشکن رجحان ہے.ساری جماعت کو میں پھر یاد دہانی کرواتا ہوں کہ ضروری نہیں کہ السلواڈور کے یتیم ہوں دنیا میں جہاں بھی یتیم ہے اس کی خدمت کرنا ایک بہت اچھا کام ہے.اگر چہ بظاہر یہ مالی قربانی کی تحریک نہیں تھی مگر عملاً ایک نئے خاندان میں ایک ذمہ داری کا اضافہ کرنا ایک مالی تحریک ہی بن جاتی ہے.مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کی تحریک جو تھی اس نے ایک نئی شکل گزشتہ جلسہ سالانہ پر اختیار کر لی کہ ایک ایک شخص یا ایک ایک خاندان یا بعض صورتوں میں ایک ایک جماعت ایک پورے قرآن کریم کا ترجمہ طباعت واشاعت وغیرہ کا خرچ پیش کرے.یہ تحریک بھی اللہ کے فضل سے ایسی مؤثر اور ایسی بابرکت ثابت ہوئی ہے کہ اپنی ذات میں اس تحریک میں کم و بیش

Page 55

خطبات طاہر جلدے 50 50 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء اتنا ہی روپیہ مہیا ہو گیا ہے جتنا صد سالہ جوبلی کے باہر کے وعدوں کا نصف ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے.صد سالہ جوبلی کے لئے جماعت نے غیر معمولی کوشش سے اپنے آپ کو تیار کیا تھا اپنی جیبیں دیکھیں آئندہ پندرہ سال تک آمد کا حساب لگایا.تب انہوں نے وعدے کئے تھے.اور ان سب تحریکات کے بعد یہ تحریک ہوئی ہے جبکہ بظاہر جیبیں خالی تھیں اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ نہ صرف یہ کہ جتنے قرآن کریم کے لئے اخراجات کا مطالبہ تھا وہ سارے پورے کر دئے بلکہ اس سے آگے پیش کر دیے.اب تو بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ وعدہ آتا ہے تو پھر ہم تلاش کرتے ہیں کہ اب کونسی نئی زبان ڈھونڈی جائے جس کے لئے یہ وعدہ ملا ہے.یہ عجیب احسان ہے خدا تعالیٰ کا بہت ہی عظیم الشان احسان ہے یہ الفاظ میں بیان ہو ہی نہیں سکتا اور لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسا جنون ایسا پیار عطا کر دیا ہے اس کام کے لئے کہ روح کو نئی زندگی عطا کر نیوالے عجیب عجیب خطوط ملتے رہتے ہیں.ایک نوجوان کا پاکستان سے خط آیا ہے ان کو خدا تعالیٰ نے ایک جگہ کام دیا ، اس کام کے لئے انہوں نے پیسے اکٹھے کر کے ضرورت کے مطابق ایک موٹر بھی خریدی.لیکن جب یہ تحریک ہوئی تو اس وقت ان کے پاس پھر کوئی اور پیسہ بچا نہیں تھا.مجھے ان کا خط ملا کہ میں اس بارہ میں سوچتا رہا اور دن بدن زیادہ مجھ پر یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ یہ کوئی عام تحریک نہیں ہے گزشتہ چودہ سو سال میں دنیا کی کسی جماعت کو ایسی توفیق نہیں ملی ، ایسے عجیب کام کی طرف بلایا ہی نہیں گیا کہ چند سالوں کے اندر سوزبانوں میں قرآن کریم کے تراجم پیش کر دو اور تمام دنیا میں قرآن کریم کے تراجم پھیلا دو.اب تک کی تاریخ میں مل کر بھی اتنی زبانوں میں ترجمے نہیں ہوئے.تو میں نے کہا کہ آئندہ تو بہت ہوں گے انشاء اللہ ہر زبان میں دنیا کے چپے چپے میں قرآن کریم کے تراجم ملیں گے لیکن اس وقت کو دنیا ہمیشہ حسرت سے یاد کرے گی کاش ہم بھی اس وقت زندہ ہوتے ، کاش ہمیں بھی توفیق ملی ہوتی.اس نوجوان نے ، وہاں بھی اس کی عبارت ایسی خوبصورت ہوگئی ہے ایسی زندہ ہوگئی ہے عام حالات میں میرا خیال نہیں تھا کہ اس کو اچھی اردو لکھنی آتی ہے لیکن یہاں تو جذبہ ایمان سے زبان بن رہی ہے بہت ہی پر لطف زبان میں اس نے اپنے دل کا ماجرا لکھا ہے کہ یہ یہ میں نے سوچا، یہ یہ میرے دل پر گزرتی رہی.وہ کہتے ہیں کہ آخر ایک دن خدا تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا فرمائی کہ میں نے کار بیچ دی اور پچاس ہزار روپے مجھے اس کے ملے اور وہ میں نے اس تحریک میں

Page 56

خطبات طاہر جلدے 51 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء پیش کر دیئے.میں اس لئے نہیں لکھ رہا کہ میں نے یہ قربانی کی ہے.کہتا ہے میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس سے مجھے اتنا مزہ آیا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے.اس لذت کا بیان میرے احاطہ تحریر میں نہیں آسکتا اور کہتا ہے اب میں سائیکل پر جاتا ہوں اور ہر پیڈل پر مجھے مزہ آرہا ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہوں.یہ ہے اظہار تشکر جو ہم نے منانا ہے سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے احسانات میں سے قربانی پیش کرنے کا احسان ہے اور یہ اپنی ذات میں جزا ہے.بھول جائیں اس بات کو کہ اس کے بعد آپ کو جزا ملے گی.یہ اپنی ذات میں جزا ہے، ایسی جزا ہے جس کی کوئی اور جز ابدل نہیں بن سکتی.انسان کو ایک نئی عظمت عطا کرنے والی چیز ہے، ایک نئی روح عطا کرنے والی چیز ہے.اس پر مجھے وہ زہ والی کہانی پھر یاد آئی کہ دنیا کے معاملات میں تو پھل دیر کے بعد لگا کرتے ہیں جس طرح ایک بعد کے دور کے خلیفہ اور ایک بوڑھے کسان کی آپس کی گفتگو کا ذکر ملتا ہے پھر میرا ذہن اسی طرف چلا گیا کیونکہ وہ واقعہ اس موقع پر خوب چسپاں ہوتا ہے.ایک خلیفہ یعنی خلیفہ نام کے تھے مسلمان بادشاہ تھے وقت کے وہ سیر کے لئے باہر نکلے ہوئے تھے.رستہ میں اس نے ایک کسان کو دیکھا جو بہت بوڑھا تھا اسی نوے سال کی عمر تھی.وہ کھجور کے پودے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہا تھا جس طرح چاولوں کی پنیری کو منتقل کیا جاتا ہے.با دشاہ نے اس کے پاس ٹھہر کر اس سے مذاق کے طور پر پوچھا بڑے میاں ! آپ کی عمر تو اتنی ہوگئی ہے کہ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ اگلے سال تک بھی آپ زندہ رہیں گے اور دیکھ میں یہ رہا ہوں کہ آپ کھجور کے درخت لگا رہے ہیں جن کو پھل تقریبا نو دس سال میں لگتا ہے، تو کیا مقصد ہے اس محنت کا ؟ اپنے آپ کو کیوں مشقت اور تکلیف میں ڈالتے ہیں؟ بوڑھے نے بادشاہ کی طرف دیکھ کر کہا کہ بادشاہ سلامت ! آپ نہیں جانتے میں نے جن درختوں کا پھل کھایا ہے وہ میرے بزرگوں کی محنت تھی.میں چاہتا ہوں کہ میری محنت کا پھل آئندہ نسلیں کھائیں اور اس طرح میں بزرگوں کے احسان کا بدلہ آئندہ آنے والوں پر احسان کر کے چکا دوں.یہ جواب بادشاہ کو اتنا پیارا لگا کہ اس کے منہ سے تحسین کے طور پر لفظ ”زہ نکل گیا اور یہ لفظ ”زہ“ وہ بے ساختہ کسی اچھی بات پر تعریف کے طور پر کہا کرتا تھا لیکن وزیر کو یہ حکم تھا کہ جب میں کسی بات پر زہ“ کہہ دوں تو تم نے فوراً اشرفیوں کی ایک تھیلی اس کو میری طرف سے پیش کرنی ہے.چنانچہ اس کے منہ سے ”زہ “ نکلا اور وزیر

Page 57

خطبات طاہر جلدے 52 59 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء جو ساتھ تھا اس نے اشرفیوں کی تھیلی اس بوڑھے کو پیش کر دی.بوڑھے نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت ! آپ تو کہتے تھے کہ میں اگلے سال تک شاید زندہ نہ رہوں دس سال کے بعد پھل لگتا ہے محنت کو.دیکھو میرے اللہ کا کتنا احسان ہے کہ میری محنت کو تو ابھی پھل لگ گیا.بادشاہ کے منہ سے پھر زہ نکل گیا اور وزیر نے دوسری تحصیلی پیش کر دی.دوسری تحصیلی پیش ہونے پر وہ واہ واہ کر اٹھا اس نے کہا اللہ تیری شان میں کیسے تیری حمد کے گیت گاؤں دنیا کی محنت کو تو سال میں ایک دفعہ پھل لگتا ہے میری محنت کو تو دو دفعہ پھل لگ گیا ہے.بادشاہ نے پھر زہ کہا اور وزیر نے تیسری تحصیلی پیش کی اور فور اوز مرکوکہا کہ دوڑو یہاں سے یہ بوڑھا ہمیں لوٹ جائے گا کچھ نہیں چھوڑے گا ہمارے خزانے میں.لیکن خدا آپ کی قربانیوں کی اداؤں پر جب زہ کہتا ہے تو اسے دوڑنے کی ضرورت نہیں.آپ تمام عمر خدا کے شکر کے گیت گاتے رہیں اور لَا زِيدَنَّكُمُ (ابراهیم (۸) کا وعدہ خدا کو یاد آتار ہے تب بھی اس کے خزانے ختم نہیں ہو سکتے ناممکن ہے کہ اس کی عطاؤں کا اختتام ہو جائے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے تم جو چاہتے ہو مانگ لو تمہارے ذہن میں دونوں جہان کا جو تصور ہے وہ سب کچھ مانگ لو اور خدا تمہیں سب کچھ عطا کر دے تب بھی خدا کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آئے گی ایک عظیم الشان سمندر میں تم سوئی کو بھگو کر نکال لو تو اس کے ناکے کے ساتھ جو پانی لگا ہوا ہوتا ہے جتنا وہ پانی سمندر میں کمی کرتا ہے خدا کے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی.کیسا عظیم الشان آقا ہے زہ کہنے والا اور ساتھ خود یہ کہتا ہے لَا زِيدَنَّكُمْ میرا وعدہ ہے میں ضرور تمہارے ہر شکر کے جذبے کو قبول کرتا ہوا مزید عطا کرتا چلا جاؤں گا، مزید عطا کرتا چلا جاؤں گا.خدا اس جماعت کو ہمیشہ زندہ رکھے اور ہمیشہ شکر کے جذبوں کو ہم اس طرح ادا کریں کہ ہماری روح، ہمارادل، ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ خدا کے شکر میں ڈوب کر خدا کی محبت میں فنا ہو جائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب کی درخواست آئی ہے اس لئے جمعہ اور عصر کی نماز کے معاً بعد ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ا.ایک ہمارے احمدی دوست مکرم ضیاء اللہ صاحب جنہوں نے حضرت خلیفہ امسح الثالث

Page 58

خطبات طاہر جلدے 53 53 خطبه جمعه ۱۵/جنوری ۱۹۸۸ء کی طرف سے جدید پریس کی تحریک پر بعد از ریٹائر منٹ اپنے آپ کو پریس کے لئے وقف کیا تھا.ان کی بیگم موصیہ تھیں اور بہت مخلص آخری وصیت جو انہوں نے مجھے بھجوائی ہے وفات سے پہلے انہوں نے اپنے بچوں کو جو نصیحتیں کی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ وہ خدا سے بہت ہی محبت کرنے والی اور متقی بزرگ خاتون تھیں.لیلی حمیدہ سوکیہ صاحبہ جو عبدالعزیز صاحب سو کیہ مرحوم کی بیگم تھیں.ماریشس سے ان کے بیٹے نے درخواست کی ہے.۳.نساء بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد اسماعیل صاحب لاہور، یہ بھی موصیہ تھیں اور ہمارے مبلغ سلسلہ میاں عبدالحی صاحب کی پھوپھی تھیں..بشیر بیگم صاحبہ مکرم احمد علی صاحب رانجها دار الیمن ربوہ کی ماموں زاد بہن تھیں.انہوں نے درخواست دی ہے.۵.امانت بی بی صاحبہ ماسٹر رشید احمد صاحب مرحوم چونڈہ کی بیگم تھیں لیکن ان کو اس سے بہت زیادہ ذاتی تعلق کے لحاظ سے اس طرح یاد کر سکتے ہیں کہ ڈاکٹر مظفر احمد شہید کی یہ والدہ تھیں.اس خاندان کی نسبتیں اب ڈاکٹر مظفر شہید سے ہی قائم ہوں گی کیونکہ جماعت کو باقی لوگوں کا پتا ہی کچھ نہیں اس لئے خواہ دنیا کے لحاظ سے وہ کوئی بھی مقام رکھتے ہوں لیکن اس خاندان کا اس دور کا ہر فرد اب ڈاکٹر مظفر کی طرف ہی منسوب ہو گا.اس لئے بحیثیت والدہ ڈاکٹر مظفر احمد شہیدان کی نماز جنازہ ہوگی.۶.حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمداسلم خان صاحب والدہ نعیم احمد صاحب عابد دارالرحمت شرقی.یہ چھ نماز جنازہ غائب انشاء اللہ جمعہ کے اور عصر کے معابعد ہوں گے.

Page 59

Page 60

خطبات طاہر جلدے 55 خطبہ جمعہ ۲۲ / جنوری ۱۹۸۸ء گیمبیا اور افریقہ کی ترقی کیلئے نئے منصوبے اور نصرت جہاں نوسکیم کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء بمقام سابا گیمبیا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج جو کہ جنوری کی ۲۲ تاریخ ہے اور جمعہ کا دن ہے.اس وقت میں گیمبیا کی سرزمین پر ایک قصبہ سبا میں خطبہ جمعہ دے رہا ہوں.خطبہ جمعہ میں جہاں بھی ہوں اردو ہی میں دیتا ہوں کیونکہ پاکستان میں سب سے زیادہ دنیا میں بسنے والے احمدیوں کی تعداد اردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں سمجھتی یا تھوڑے لوگ ہیں جو دوسری زبانیں سمجھتے ہیں.اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جن حالات میں مجھے پاکستان چھوڑ نا پڑا اس کی وجہ سے پاکستان کے احمدیوں کے دل میں اس جدائی کا بہت دکھ ہے.پھر یہی ایک رستہ ہے جس سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ گویا آمنے سامنے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں جب وہ میرے خطبے اردو میں سنتے ہیں تو ان کے دل میں بشاشت پیدا ہوتی ہے اور حوصلہ بڑھا ہوتا ہے اس لئے ان کی خاطر میں جس ملک میں بھی ہوں خطبہ اردو میں دیتا ہوں اس کا ترجمہ اس ملک کی زبان میں ہو جاتا ہے.جب سے میں آپ کے ملک گیمبیا میں آیا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسلسل اللہ کی رحمتوں اور اللہ کی برکتوں کے نظارے دیکھ رہا ہوں.ایک سچے مومن کو اپنے رب سے لامتناہی، لا محدود توقعات ہوتی ہیں.اس لئے اس کی توقعات سے بڑھ کر تو اس سے سلوک نہیں ہوسکتا لیکن

Page 61

خطبات طاہر جلدے 56 خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء اپنے سابقہ تجربے کی وجہ سے وہ جانتا ہے کہ خدا کی رحمت کا سلوک کس طرح ہوتا ہے.اس لئے وہ کوئی اندازے ضرور لگاتا ہے کہ مستقبل میں میری یہ کوشش اس حد تک کامیاب ہو جائے گی.پس خدا تعالیٰ کے فضلوں کے گزشتہ تجربہ کوملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے ملک میں آنے سے پہلے میں نے بھی ایک اندازہ لگا دیا کہ خدا تعالیٰ میری کوششوں سے بڑھ کر اس حد تک ہمیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ کامیابی عطا کرے گا مگر مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوئی ہے کہ میرے اندازے سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سفر کو کامیابی عطا فرمائی.احمدی تو اپنے اللہ کے فضل کے ساتھ احمدیت کے رشتہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے بے حد محبت رکھتے ، بے حد اخلاص کا تعلق رکھتے اور ایک دوسرے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں.اس لئے ان کے متعلق تو اس کے سوا توقع ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ میرے اس ملک میں حاضر ہونے پر بے حد محبت اور پیار کا اظہار کریں گے لیکن آپ کے ملک گیمبیا میں آکر معلوم ہوا کہ اس ملک کے باشندے عموماً اتنے شریف النفس لوگ ہیں کہ مذہب کے اختلاف کے باوجود دوسرے ملک سے آنے والے، دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی لیڈروں سے بھی نہایت محبت اور پیارا اور خلوص کا سلوک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بہت ہی زریں ارشاد ہے آپ کا تو ہر لفظ زریں ہوا کرتا ہے.آپ فرماتے ہیں مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّه ( ترندی کتاب البر والصلہ حدیث نمبر : ۱۸۷۷) جو شخص خدا کے بندوں کا احسان ادا کرنے کی یا شکر یہ ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ خدا کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکتا یا دوسرے لفظوں میں خدا ایسے بندوں کے شکریے قبول نہیں کیا کرتا جو خدا کے بندوں کے شکریے ادا نہیں کرتے.اس لحاظ سے نہ صرف مجھ پر آپ کے ملک کے باشندوں کا شکریہ واجب ہے بلکہ خود آپ پر بھی جو اسی ملک کے باشندے ہیں باقی سب اہلِ ملک کا شکریہ واجب ہے کہ انہوں نے احمدیت کی عزت افزائی کی اور نہایت اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھایا.عالمگیر جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ پہلے ہی توفیق عطا فرمارہا ہے کہ اس ملک کی جس حد تک ممکن ہے خدمت کرے.چنانچہ تعلیم کے میدان میں اور صحت کے میدان میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے گیمبیا میں ایسی نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہے کہ یہاں کے جتنے بھی

Page 62

خطبات طاہر جلدے 57 خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء بڑے لوگ ہیں دنیا کی نظر میں بڑے لوگ حکومت کے باشندے ہوں یا دیگر بڑے رتبے رکھتے ہوں جن سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے سب نے اس بات کا خصوصیت سے ذکر کیا اور اس سے وہ بے حد متاثر نظر آتے تھے.پس میں نے یہ فیصلہ کیا ہے جب میں کہتا ہوں تو مراد میں اکیلا نہیں میں جماعت کی نمائندگی میں بولتا ہوں یا یہ کہنا چاہئے کہ دنیا کی عالمگیر جماعت احمدیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک کے ساتھ اپنے تعاون کو پہلے سے زیادہ بڑھائے اور خدمت کی نئی راہیں تلاش کرے اور جس حد تک ممکن ہے اس ملک کے نیک دل باشندوں کو دنیاوی لحاظ سے بھی فائدے پہنچائے صرف مذہبی اور روحانی لحاظ سے ہی نہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ باقی افریقہ کے ملکوں کے دورے کے وقت بھی ایسے امور سامنے آئیں گے جبکہ دل کی گہرائی سے ان ملکوں کے باشندوں کی خدمت کے لئے بھی ارادے بلند ہوں گے اور دعا کی توفیق ملے گی کہ اللہ تعالیٰ ان کے حال بہتر کرے اور ہمیں توفیق بخشے کہ ہم ان کی خدمت میں پہلے سے زیادہ آگے بڑھ جائیں.افریقہ کے ساتھ تاریخ میں، تاریخی نکتہ نگاہ سے جب دیکھا جائے تو جو سلوک ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ باہر سے بہت سی قو میں آئیں اور ترقی کے نام پر انہوں نے یہاں پر بہت سے کام کئے لیکن خلاصہ یہ تھا کہ انہوں نے افریقہ میں کمایا اور باہر کی دنیا میں یہاں کی کمائی خرچ کی.خدا تعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور سے یہ تحریک پیدا فرمائی ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس تاریخ کا رُخ بدل دیا جائے اور تمام عالمگیر جماعت احمد یہ دنیا میں کمائے اور افریقہ میں خرچ کرے اور دوسروں نے ، غیروں نے جو آپ کو زخم لگائے ہیں احمدیت کو خدا یہ توفیق بخشے کہ ان زخموں کے اند مال کا سامان پیدا فرمائے.غیر آپ کی دولتیں لوٹ چکے وہ تو واپس نہیں کریں گے لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے غلاموں یعنی جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائے گا کہ ان کی لوٹی ہوئی دولت جماعت احمد یہ آپ کو واپس کر رہی ہوگی.اس وقت ان سکیموں کی تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں جن کے متعلق اس خطبہ سے پہلے ہی کام شروع ہو چکا ہے.اس وقت میں ان مشوروں کی روشنی میں جو ہو چکے ہیں مثلاً آج آپ کے ملک کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے دوران بھی اس بات کے مختلف پہلوؤں پر غور ہوتا رہا کہ کس طرح ہم گیمبیا کی پہلے سے بہت زیادہ خدمت کر سکتے ہیں.پس ان مشوروں کی روشنی میں میں تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کو سر دست پہلی ہدایت یہ کرتا

Page 63

خطبات طاہر جلدے 58 خطبه جمعه ۲۲ / جنوری ۱۹۸۸ء ہوں کہ وہ کمر ہمت کس لیں اور افریقہ کی ہر میدان میں پہلے سے بڑھ کر محض اللہ خدمت کرنے کی تیاری شروع کریں.مثلاً امریکہ کی احمد یہ ڈاکٹرز ایسویسی ایشن جلد از جلد اپنے نمائندے بھجوائے جو سارے افریقہ کے ان ممالک کا دورہ کریں جن میں جماعت احمد یہ کسی رنگ میں خدمت کر رہی ہے.اور جائزہ لے کر واپس جا کر اپنی مجلس میں معاملات رکھیں اور پھر ان کی مجلس کی طرف سے احمد یہ ڈاکٹرز ایسویسی ایشن امریکہ کی طرف سے مجھے یہ سفارشات ملیں کہ افریقہ میں خدمت کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے یہ یہ تجاویز ہم پیش کرتے ہیں اور ان میں ہماری طرف سے یہ تعاون ہوگا.اسی طرح انگلستان، یورپ اور دیگر ممالک کے ڈاکٹرز کی ایسویسی ایشن بھی مجھ سے رابطہ کریں اور بتائیں کہ وہ اس ضمن میں کیا خدمت کرنے کے لئے تیار ہیں.ڈاکٹروں کو تو میں نے ایک مثال دی ہے اس کے علاوہ بھی دنیا میں جس پروفیشن سے، جس پیشے سے یا جس علمی مہارت سے تعلق رکھنے والے احمدی موجود ہیں ان سب کو اپنے اپنے حالات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ افریقہ کی مظلوم انسانیت کی خدمت کے لئے اپنا کتنا وقت پیش کر سکتے ہیں اور کیا ان کی صلاحتیں ہیں جنہیں وہ افریقہ کے لئے احسن رنگ میں استعمال کر سکتے ہیں.اسی طرح مختلف پیشہ ور ہی نہیں تاجر وہ بھی ایک پیشہ ہی ہے یعنی میرا مطلب ہے فنی مہارت رکھنے والے ہی نہیں بلکہ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مثلاً تاجر ہیں ، صنعتوں والے ہیں.جن کو کسی خاص صنعت کاری کا تجربہ ہے.مثال کے طور پر یہاں اگر مرغی خانوں کے لئے امکانات موجود ہیں.مرغی خانے جاری کرنے کے لئے نئے جدید طریق پر تو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں زیر غور لانا ہوگا اور جن میں جماعت احمدیہ کے صاحب تجر بہ لوگوں کو اپنی خدمات پیش کرنا ہوں گی.پس یہ تحریک روپے پیسے والی دولت سے تعلق رکھنے والی تحریک نہیں ہے بلکہ قابلیت کی دولت سے تعلق رکھنے والی تحریک ہے.پس ہر شخص مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ:۴) کی ہدایت کے تابع اپنی ان اعلیٰ قابلیتوں کو افریقہ کی خدمت میں خدا کی خاطر پیش کرنے کے لئے تیاری کرے اور اپنے کوائف سے مجھے مطلع کرے.ایسے ماہرین احمدی انجینئر ز موجود ہیں جنہوں نے عمر بھر بجلی کے شعبوں میں کام کیا اور بجلی با کرنے کے طریقوں سے بہت اچھی طرح واقف اور دنیا کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں.ایسے احمدی انجینئر اور اوور سئیر زموجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سڑکوں کی تعمیر میں پیدا

Page 64

خطبات طاہر جلدے 59 خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء صرف کیا ہے اور وہ ان مسائل سے خوب اچھی طرح واقف ہیں.اسی طرح ایسے احمدی موجود ہیں دنیا میں جن کی عمر کا بیشتر حصہ جانوروں کے چمڑے کو محفوظ کرنے میں خرچ ہوا.ایسے کارخانوں سے وہ تعلق رکھتے ہیں یا خود ان کی اپنی تجارتیں اس نوع کی ہیں کہ وہ جانوروں کے چمڑے اکٹھے کر کے خشک کر کے محفوظ کرتے ہیں یا اس سے آگے بڑھ کر ان کو جدید طریق کے اوپر اس قابل بناتے ہیں کہ اس سے آگے چمڑے کا جدید سامان بہترین بنایا جا سکے.اسی طرح ایسے احمدی موجود ہیں جن کا جوتے بنانے کی صنعت سے تعلق ہے خواہ وہ چمڑے کے جوتے ہوں خواہ وہ پلاسٹک کے جوتے ہوں اب یہ سب لوگ میرے مخاطب ہیں اس لحاظ سے نہیں کہ یہاں آکر سر مایہ کاری کریں اور اس گزری ہوئی قوموں کے نقش قدم پر چل جائیں جنہوں نے سرمایہ کاری کی اور ملک کولوٹ کر باہر چلے گئے بلکہ اس لحاظ سے یہ مخاطب ہیں کہ اپنے فن کو اپنے علم کو افریقہ کی خدمت کے لئے پیش کریں اپنے اپنے نام پیش کریں اور جماعت کے نظام کے تابع یہاں کے دورے کریں اور یہاں کے لوگوں کو اس قابل بنانے کے لئے منصوبے بنا کر پیش کریں کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر ان کے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ملک کی دولت کو فروغ بھی دیں اور اس سے خود فائدہ اٹھائیں.اسی طرح ایسے احمدی دوست ہیں جو مچھلی کوٹن میں Preserve کرنے کے کارخانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کا اپنا کاروبار یہی ہے ، اسی طرح جوس بنانے کی فیکٹریوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین ہیں یا مالکان ہیں یہ سارے میرے مخاطب ہیں اور میں نام بنام اس لئے ان پیشوں کا ذکر کر رہا ہوں تا کہ غفلت سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جن کے نام لئے گئے وہ تو مخاطب تھے اور ہم باہر رہ گئے ہیں.اسی طرح زراعت سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں خواہ انہوں نے کالجوں سے علم حاصل کیا ہو یا نہ کیا ہو اپنے لمبے تجربہ کی بناء پر وہ بہت کامیاب زراعت کرنے والے لوگ ہیں اور بعض فصلوں کی مہارت رکھتے ہیں.بعض لوگ مونگ پھلی کے فن کو خوب جانتے ہیں کہ کس طرح کاشت کی جاتی ہے بعض لوگ آلو کے ماہر ہیں، اسی طرح دیگر سبزیات کے ماہرین بھی موجود ہیں، اسی طرح باغات لگانے کے ماہر موجود ہیں ، ایسے ماہر موجود ہیں جو بطور مالی لمبا عرصہ کام کرتے رہے لیکن ان کے ہاتھ میں خدا نے یہ فن بخشا کہ وہ آم یا مالٹے کو یا اسی قسم کے اور پودوں کو پیوند کر کے ان درختوں کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کر دیں اور وہ پھل جو ضائع ہورہے ہیں ان کو نہایت قیمتی Export

Page 65

خطبات طاہر جلدے 60 60 خطبہ جمعہ ۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء کرنے کے قابل پھلوں میں بدل دیں.پھر ایسے احمدی ہیں جن کے ذہن اتنے ذرخیز ہیں کہ ایک ملک کی یعنی زراعت سے تعلق رکھنے میں ایک ملک کی آب وہوا کا جائزہ لے کر وہ سوچتے ہیں کہ وہ کو نسے درخت ہیں یا کونسی فصلیں ہیں جو آج کل یہاں نہیں لیکن جغرافیہ کے اعتبار سے اور علم زراعت کے اعتبار سے یہاں بہت اچھی چل سکتی ہیں اور اگر یہاں داخل کر دی جائیں تو اس ملک کے لئے بہت بڑی آمد پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں تو ایسے ذرخیز دماغ والے زراعت کے امور سے واقف لوگ بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں.پس اس قسم کے بہت سے امور ہیں جو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ جو اپنے رنگ میں سوچنا شروع کر دیں گے اور جس کو خدا نے جس حد تک وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ اسی حد تک وقف کر دے گا خواہ عارضی دورے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے یا نسبتا لمبی خدمتوں کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے.اسی طرح جو پہلی تحریکیں چل رہی ہیں اس میں بھی ہمیں شدید ضرورت ہے کہ کثرت سے نئے نام آئیں.اساتذہ ہر معیار اور ہر سطح کے اساتذہ کی ضرورت ہے ڈاکٹرز کی ہر معیار اور ہر سطح کے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے.خدمت کے مطالبے بڑھتے چلے جارہے ہیں اس لئے ان سارے امور میں نصرت جہانِ نو کا میں اعلان کرتا ہوں ایک نئے جذبے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ سابقہ نصرت جہاں کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لئے ایک نیا شعبہ نصرت جہانِ نوان سارے امور میں غور کرے گا اور ان سارے امورکومتر تب کرے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو نئے میدانوں میں افریقہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے گا.یہ عجیب اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے اور گیمبیا کی یہ خاص سعادت اور خوش نصیبی ہے کہ نصرت جہانِ اول کی تحریک بھی اسی ملک یعنی آپ کے ملک سے شروع ہوئی تھی اور حضرت خلیفتہ انسیح الثالث کو خدا نے یہ توفیق بخشی تھی کہ وہ گیمبیا کی سرزمین سے نصرت جہان کی اسکیم کا اعلان کریں.پس اس کے دوسرے حصے کے اعلان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی سرزمین کو یہ اعزاز بخشا ہے اللہ یہ اعزاز آپ کو مبارک کرے اور اس تحریک کو بھی پہلی تحریک کی طرح ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمت کے سایہ تلے بڑھاتا رہے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: (بقیہ ) خطبہ ثانیہ سے پہلے میں دو جنازوں کا اعلان کرتا ہوں جن کی نماز جنازہ غائب ابھی

Page 66

خطبات طاہر جلدے 61 خطبه جمعه ۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء نماز جمعہ اور نماز عصر کے جمع کرنے کے بعد پڑھائی جائے گی.پہلی نماز جنازہ غائب ایسے مرحوم کی پڑھائی جائے گی جنہوں نے نہایت متشد د مخالف خاندانوں سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی.خود یہ جماعت اسلامی کے بڑے پر زور خدمت گار تھے اور احمدیت کی مخالفت میں پیش پیش ہوا کرتے تھے.لیکن جب انہوں نے احمدیت کی مخالفت کے دوران احمد یہ لٹریچر پڑھا اور احمدیوں سے مقابلے کیلئے تیاریاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت عطا فر مادی اور ان کا دل مطمئن ہو گیا کہ یہ سچائی ہے چونکہ دل سچا تھا اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بھی قیمت دنیا کی دینی پڑے میں سچائی کے ساتھ ہوں گا.ان کا نام ارشاد احمد شکیب تھا اور انہوں نے احمدیت جیکب آباد میں قبول کی.ان کا سارا خاندان انکا مخالف ہوا، ان کے دوست سارے مخالف ہو گئے ، ان کے اوپر ہر طرح سے مالی اور دوسرے دباؤ ڈالے گئے لیکن احمدیت میں کمزور پڑنے کی بجائے خدمت میں اتنا آگے بڑھے کہ اللہ کے فضل سے جماعت کی ذیلی تنظیموں میں بھی اور جماعت کی مرکزی تنظیم میں بھی یہ کئی عہدوں پر فائز رہے.چنانچہ ایک لمبے عرصے سے یہ جیکب آباد جماعت احمدیہ کے صدر تھے.کچھ عرصہ پہلے ایک حادثے میں شہید ہوئے.ان کے بیوی بچوں میں سے سوائے ایک بیٹے کے احمدیت قبول نہیں کی اور جس بیٹے نے احمدیت قبول کی اس کو انہوں نے فوراً وقف کر دیا.چنانچہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ میں ایک واقف زندگی کی حیثیت سے دینی تعلیم پارہا ہے.یہ تفصیل میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ اس بچے یعنی عامر ارشاد قریشی طالب علم جامعہ احمدیہ کے لئے خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ان کی نسلیں پھیلانے والا بنائے اور بہت برکت دے.دنیاوی لحاظ سے بھی یہ اپنے باپ کے سچے جانشین بنیں اور دینی لحاظ سے بھی کثرت سے ان کے روحانی وارث پیدا کرنے والے بنیں.دوسرا جنازہ کراچی کے ایک مخلص نوجوان نعیم اللہ خان صاحب کے والد کا ہے ان کی وفات گزشتہ سال ماہ اگست میں ہوئی تھی لیکن کسی وجہ سے ان کا خط میری نظر سے نہیں گزرا اور میں ان کی نماز جنازہ غائب نہیں پڑھا سکا پھر دیر ہو گئی لیکن بار بار ان کی طرف سے اصرار کے خط اور بعض دوسرے احمدیوں کی طرف سے ملے کہ ہمارے والد مرحوم کی نماز جنازہ غائب پڑھا دیں.اس لئے ان کی نماز جنازہ غائب بھی آج اس پہلے جنازہ کے ساتھ ہوگی.

Page 67

Page 68

خطبات طاہر جلدے 63 خطبه جمعه ۲۹ / جنوری ۱۹۸۸ء سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی خدمات ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ جنوری ۱۹۸۸ء بمقام بوسیرالیون کے انگریزی متن کا اردو ترجمہ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے اردو میں فرمایا: الحمدللہ کہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ میرا سیرالیون کا دورہ جس قدر گزر چکا ہے بہت ہی کامیاب رہا اور ہر پہلو سے کامیاب رہا اور میں امید رکھتا ہوں کہ بقیہ ایک دوروز جو مجھے اس ملک میں رہنے کی توفیق ملے گی انشاء اللہ ہر رنگ میں اللہ تعالیٰ اس قیام کو مفید بنادے گا.اس کے بعد حضور نے انگریزی زبان میں خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے: میں بتارہا تھا کہ محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے میرا دورہ سیرالیون اب اختتام پذیر ہو رہا ہے یہ دورہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا ہے.میں بہت خوش اور مطمئن ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ بقیہ دو تین ایام میں بھی اللہ تعالیٰ اس دورہ کو کامیابی بخشے گا.میں دلی محبت کے ساتھ سیرالیون کی حکومت اور سیرالیون کے لوگوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں خصوصاً صدر محترم عزت مآب جوزف موموصاحب کا جنہوں نے ذاتی دلچسپی سے میرے دورہ کو کامیاب کرنے میں مدد دی اور ان کی خصوصی شفقت اور تعاون شامل حال ہونے کے نتیجہ میں یہ دورہ کامیاب رہا.اسی طرح جن سیاسی راہنماؤں ، وزراء کرام ممبران پارلیمنٹ ،شہروں کے میئر صاحبان کو میں دورہ کے دوران ملا انہوں نے بھی اور اسی طرح ہر سطح کے حکومتی افسران خاص طور پر محکمہ پولیس نے پورے ملک میں انتہائی شفقت کا برتاؤ کیا اور ہمیں آرام پہنچایا، بہترین استقبال کیا اور عمدہ طور پر خیال رکھا.یہ اظہار محبت اور شفقت اور مہمان نوازی جہاں ایک طرف آپ کے صدر محترم اور ان کی

Page 69

خطبات طاہر جلدے 64 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء حکومت کی شرافت کا اظہار ہے وہاں یہ ان خدمات کے اعتراف کا اظہار بھی ہے جو جماعت احمد یہ نے اس ملک کیلئے کی ہیں.جماعت احمد یہ سیرالیون نے بالخصوص اور جماعت احمد یہ عالمگیر نے بالعموم پچھلے پچاس سال سے اس ملک کی جو بے لوث اور مخلصانہ خدمت کی ہے اب اس کے نتائج نکلنے شروع ہو گئے ہیں.ہر جگہ لوگ ان خدمات سے باخبر ہیں اور بہت شکر گزار ہیں.پس الحمد للہ جماعت نے پچاس سال پہلے جو کام انتہائی مشکلات اور خطرات میں شروع کیا تھا اب وہ اپنے شاندار منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے.تین شعبوں میں جماعت احمد یہ سیرالیون نے ترقی کے میدان میں تیز رفتاری سے قدم آگے بڑھایا ہے جس کا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں.نمبر : اللہ تعالیٰ کے فضل سے مبلغین اپنے فرائض غیر معمولی وقف کی روح کے ساتھ اور بے نفس ہو کر ادا کر رہے ہیں.انہیں لوگوں سے میل جول میں زبانوں پر پورا عبور نہ ہونے کے باعث بعض مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہو گا لیکن وہ انتہائی محنت سے ان مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں.ان میں سے بعض نے تو حیران کن حد تک مقامی زبانوں میں مہارت حاصل کر لی ہے.مجھے علم ہے کہ بعض ان میں سے کمزور بھی ہیں لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ آج سے وہ مقامی زبانوں کو سیکھنے کیلئے خصوصی توجہ کریں گے اسی مہارت کے ساتھ جس مہارت سے یہ ملک میں بولی جاتی ہیں تا کہ وہ زبان کے لحاظ سے انہی جیسے لگیں.اگر چہ محبت کے حوالے سے وہ ہمیشہ انہی میں سے ایک ہیں.میں خاص طور پر مقامی معلمین کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوا ہوں جو جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم نہیں رہے، جو بد قسمتی سے جامعہ احمدیہ میں تربیت تو حاصل نہیں کر سکے لیکن جو کمی علم میں رہ گئی تھی وہ اسے اپنے جذبہ اور عزم سے پوری کر رہے ہیں.وہ انتہائی پر جوش معلمین ہیں مکمل طور پر وقف شدہ اور مقامی زبانوں میں اتنی مہارت رکھتے ہیں اور اتنے اچھے مقرر ہیں اللہ کے فضل سے کہ جب کبھی بھی میں نے ان کو اپنی مقامی زبان میں بولتے سنا اگر چہ میں براہ راست اسے سمجھ تو نہیں سکتا تھا لیکن وہ بیان سیدھا میرے دل میں اتر جاتا رہا.ان کا پیغام پہنچانے کا انداز بہت عمدہ اور خلوص، وقف اور محبت سے سرشار ہے.اس جذبہ کے ساتھ کہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے.ان کی

Page 70

خطبات طاہر جلدے 65 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء زبان کی مہارت اتنی نمایاں ہوتی کہ میں سننے والے لوگوں کے چہروں پر اس کا اثر دیکھ سکتا تھا.چنانچہ مجھے بہت خوشی ہوئی.اگر چہ نظام تبلیغ میں یہ دوسری صف میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے حقیقت میں یہ کسی لحاظ سے بھی تبلیغ کی صف اول سے کم نہیں ہے.ان کی خدمات کے اعتراف میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سیرالیون میں ایک مکمل جامعہ احمدیہ بنایا جائے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کیلئے ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے اپنے علاقہ میں جگہ دینے کی آمادگی ظاہر کی ہے.وہ جماعت احمدیہ کی خدمات سے بہت متاثر ہیں.انہوں نے کسی دنیاوی سکول یا کالج بنانے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی جماعت کے ساتھ اس کی تیز رفتار ترقی میں تعاون کیا جائے تو یہ اس ملک کی عظیم خدمت ہوگی.تو اس نقطہ نظر سے انہوں نے ایک بہت بڑا قطعہ اراضی دینے کا اعلان کیا ہے اور ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے تا کہ یہاں سیرالیون میں ایک مکمل جامعہ احمدیہ شروع کیا جائے.معاشرے کا دوسرا حصہ جس کی خدمات سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں وہ احمد یہ سکولز کا سٹاف ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں بہت سے احمدی واقفین زندگی ہیں لیکن ان کے علاوہ بہت سے ایسے ہیں جو کہ احمدی بھی نہیں لیکن ان کی ادارے کے ساتھ وفا ایسی ہے کہ وہ ایک احمدی کی روح کے ساتھ خدمت کر رہے ہیں.ان کا جو بھی مذہب ہے میں نے تو عیسائیوں کو بھی احمد یہ سکولز میں احمدیت کے پیغام کے ساتھ مکمل انہاک سے خدمت کرتے ہوئے پایا انہیں نظام احمدیت کے ساتھ تعاون کرنے اور احمد یہ روح کو بچوں میں پروان چڑھانے میں کوئی بھی تحفظات نہیں ہیں.تو یہ بہت خاص خوبی ہے سیرالیون کے لوگوں کی.وہ جس مقصد کیلئے خدمت کرتے ہیں اس کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں اس میں وہ اپنی ذاتی ترجیحات اور مذہب کو خاطر میں نہیں لاتے.احمدی واقفین زندگی جو باہر سے یہاں آتے ہیں وہ انتہائی صبر و قتل اور عزم کے ساتھ خدمات بجالا رہے ہیں اور خواہش مند ہیں کہ وہ ذاتی آرام اور خاندان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خدمات بجالاتے رہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کہ گزشتہ چوبیس سال سے یہاں خدمات بجالا رہے ہیں.ان میں سے بہتوں نے اپنے پیچھے اپنے پیاروں کی جدائی بھی برداشت کی اور اپنے پیاروں کی بیماری یہاں تک کہ ان کی وفات کے موقع پر بھی خاندان والوں سے نہیں مل سکے

Page 71

خطبات طاہر جلدے 66 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء.کہ ان سے تعزیت کر سکیں.تو یہ ایک بہت بڑی قربانی ہے جو جماعت احمد یہ یہاں خاموشی اور صبر کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کیلئے اور خدا کی مخلوق کی خدمت کیلئے کر رہی ہے.پرنسپل صاحبان اور ان تعلیمی اداروں کے سربراہان خصوصی شکر یہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں جو کہ نظام تعلیم کیلئے زبردست خدمات بجالا رہے ہیں.نہ صرف احمدیت کیلئے بلکہ نظام تعلیم کیلئے بھی.جہاں کہیں بھی میں نے دورہ کیا ہے اور جہاں بھی حکومت کے اہم دفاتر کے لوگوں سے یا شہر کی اہم شخصیات سے ملا ہوں ان سب نے احمد یہ سکولز اور کالجز کے اعلیٰ نظم وضبط اور معیار کی میرے سامنے تعریف کی اور اس پر شکریہ ادا کیا.ان تعلیمی اداروں میں جو طلبہ پڑھ رہے ہیں ان کا معیار بہت غیر معمولی ہے.ان میں سے بعض نے تو براہ راست میرے سامنے اس کا اظہار نہ صرف مبارکباد دیتے ہوئے کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ ان کو اور بھی ادارے میسر تھے جو بظاہر دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ معیار کے تھے اور ساز وسامان کے لحاظ سے بھی بہتر تھے لیکن ہم نے اپنے بچوں کو احمد یہ اداروں میں بھجوانے کو ان اداروں پر اعلیٰ اخلاقی نظم وضبط اور معیار کی وجہ سے ترجیح دی.ان باتوں کے علاوہ معیار تعلیم بھی اپنی ذات میں بہت اونچا ہے.تو ان تمام چیزوں کی موجودگی ان اداروں کے سر براہوں کو ایک بہت بڑا خراج تحسین پیش کرتی ہے.اللہ ان پر فضل نازل فرمائے اور ان کی مدد فرمائے کہ وہ یہ غیر معمولی معیار مستقبل میں بھی ہمیشہ برقرار رکھ سکیں.اس موقع پر بجلی میں تعطل پیدا ہو گیا اور ساؤنڈ سسٹم معطل ہو گیا.بجلی بحال نہ ہونے پر حضور نے بغیر لاؤڈ سپیکر کے خطبہ جاری رکھا اور فرمایا:) گزشتہ کچھ عرصہ سے احمد یہ سکولز میں نئے مذہبی نغمات متعارف کروانے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے.ان میں احمدیہ ترانہ بہت مشہور ہے جو کہ پورے ملک میں بہت مقبولیت حاصل کر رہا ہے.تمام طلبہ خواہ وہ کسی مذہب اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں وہ بڑے فخر کے ساتھ اس نغمے میں شامل ہوتے ہیں اور یہ نغمہ قومی ترانے کے بعد بہت مقبول ہورہا ہے.اس کے علاوہ بھی بہت سے ترانے سکولز میں متعارف کروائے جارہے ہیں.میری تجویز ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ کی محبت ان ترانوں کے ذریعہ دلوں میں بٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ افریقہ کے عوام موسیقی کے شوقین ہیں.موسیقی کے آلات کے ذریعہ سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے جو کہ عام تقریروں سے حاصل نہیں

Page 72

خطبات طاہر جلدے 67 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء ہو سکتا.اگر چہ ہم آلات موسیقی پر یقین نہیں رکھتے لیکن ہم موسیقی کو اسلامی اقدار پھیلانے کیلئے ایک آلہ کے طور پر استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں.موسیقی سے میری مراد ترانے کا ردھم وغیرہ ہے.یہ ترانے جو میں نے ہر جگہ سنے ہیں اگر چہ یہ آلات موسیقی کی مدد کے بغیر گائے گئے تھے پھر بھی ان میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ تھی.افریقی آواز کی خوبی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ہی بہت مترنم ہے نیز بہت شاندار اور دل کو لبھانے والی ہے اور آپ کبھی یہ محسوس نہیں کر سکتے کہ کسی چیز کی کمی رہ گئی ہے کیونکہ آواز اپنی ذات میں ہی کافی ہے اس پر مستزاد یہ کہ ہر روح فطرتی طور پر موسیقی مزاج ہے اور انہوں نے اپنی روح اور جذبات کو بہت زیادہ ان نعمات میں ڈالا ہوا ہے.میں بہت ہی زیادہ متاثر ہوا اور خوشی کی لہر میرے دل میں دوڑ گئی جب میں نے مشاہدہ کیا کہ عیسائی بھی احمدی طلبہ کے ساتھ خوشی اور محبت کے ساتھ ان ترانوں میں شامل تھے جو رسول اللہ ﷺ کی مدح میں آپ پر درود بھیجنے کیلئے گائے جار ہے تھے.اللہ کی بہت رحمتیں اور برکات آپ پر نازل ہوں.جب احمدی بچے نعتیں گاتے تھے اور رسول کریم پر ان الفاظ میں درود بھیجے تھے صل علی نبینا صل على محمد صل علی شفیعنا صل علی محمد تو تمام سامعین نہ صرف عیسائی طلبہ بلکہ تمام سامعین ایک فطرتی روانی میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے اور حمدیہ اور محبت کے نغمات میں ان کے ساتھ شامل ہو کر پیغمبر اسلام ﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور وہ سب بیک زبان ہو کر ایک آواز میں گاتے : صل علی نبینا صل علی محمدصل علی شفیعنا صل على محمد صل على رسولنا صل على محمدصل على حبيبنا صل على محمد صلى الله پس میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں اس رجحان کی وسیع تر اور بھر پور انداز میں حوصلہ افزائی کی جائے گی اور احمدی ترانے سیرالیون کے لوگوں کے ترانے بن جائیں گے.میری یہ بھی تجویز ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظموں میں سے جو محبت الہی اور عشق رسول اور انسانی ہمدردی پر مشتمل ہیں ان کا چناؤ کر کے ان کا یہاں کی مقامی زبانوں مثلاً مینڈے ہمنی اور کریول وغیرہ میں ترجمہ کیا جائے اور ان کو احمدی دیہاتوں میں متعارف کروایا جائے جہاں با قاعدگی کے ساتھ صبح اور شام ان ترانوں کو گایا جائے خواہ وہ اس وقت کام کر رہے ہوں یا وہ ان کے آرام کا وقت ہو.یہ طریق احمدیوں کو تمام ملک میں اعلیٰ اخلاق سکھانے میں مدد دے گا.

Page 73

خطبات طاہر جلدے 68 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء اب میں طبی خدمات کا ذکر کرتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے اس ملک میں کی گئی ہیں.یہ ملک جیسا کہ آپ بہتر جانتے ہیں بہت غریب ہے اور بہت سی ان چیزوں سے محروم ہے جو کہ صحت اور حفظان صحت کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہیں.اس ملک کو طبی امداد کی اس سے زیادہ ضرورت ہے جو ا سے اب تک دی گئی ہے.بہر حال احمدی ڈاکٹر ز ز بر دست اور حیرت انگیز کام کر رہے ہیں.انہوں نے یہاں کے تمام طبقہ ہائے زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ میں نے کبھی اس حد تک کسی میڈیکل کوریا طبی شعبے سے متاثر ہوتے لوگوں کو نہیں دیکھا جتنا لوگ جماعت احمدیہ کے ڈاکٹرز اور ان کے عملہ سے متاثر ہیں.ایک ممبر پارلیمنٹ نے پبلک میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ احمدی ڈاکٹر ز جس طرح خدمت کر رہے ہیں وہ نا قابل یقین اور حیرت انگیز ہے.جو آپریشن وہ بغیر ضروری سہولیات اور بغیر مناسب آلات جراحی کے کر رہے ہیں اور جس تعداد میں مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں یہ دماغ چکر ا دینے والا معاملہ ہے.کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ ایک انسان اس حد تک کام کر سکتا ہے.آخر پر اس نے کہا کہ سب سے حیرت والی بات یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں ایک مریض بھی موت کے منہ میں نہیں گیا.یہ کس قدر عجیب معجزہ ہے !جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں میں نے ان کو پہلے بھی بتایا ہے اب بھی بتا تا ہوں کہ یہ اللہ کے فضل کا معجزہ ہے.ہماری تعلیم ہے کہ ہم ہر کام شروع کرنے سے پہلے دعا کرتے ہیں.پس ہر احمدی ڈاکٹر مریضوں کوصرف اس طبی علم کی بنا پر نہیں دیکھتا جو اس نے میڈیکل کالج میں حاصل کیا ہے بلکہ وہ مریضوں کی روحانی علم کے لحاظ سے بھی مدد کرتا ہے جو اس نے بحیثیت ایک ممبر جماعت احمد یہ ہونے کے حاصل کیا ہے تو وہ ان کیلئے دعا کرتا ہے.وہ اللہ سے اس کے رحم کا خواستگار ہوتا ہے.اس کے مریضوں کی بے لوث خدمت اور بھر پور جذ بہ وقف اللہ کے حضور ایک خاموش دعا بن جاتی ہے.یہ وہ بات ہے جس پر میں ضرور زور دونگا.میں چاہتا ہوں کہ ہر احمدی میں یہ خوبی پیدا ہو جائے.اگر آپ لوگوں سے محبت کریں گے، اگر آپ اخلاص اور بے غرضی کے ساتھ ذاتی اجر کو بالائے طاق رکھ کر ان کی خدمت کریں گے تب ان کی بہتری کیلئے خالص وقف اللہ کے حضور محبوب عمل بن جائیگا.اس حالت میں اپنی خدمت کے ساتھ اگر آپ زبانی دعا نہ بھی کر رہے ہونگے تو آپ کی خدمت ایک خاموش دعا بن جائیگی جو اللہ کا فضل طلب کر رہی ہوگی.تو یہ ہے وہ زائد خوبی احمد یہ طبی خدمات میں جو دوسری جگہ

Page 74

خطبات طاہر جلدے 69 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء آپ کو نہیں ملے گی نہ صرف اس ملک میں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی نہیں ملے گی.اب میں سیرالیون کے احمدیوں کی عمومی حالت کا ذکر کرتا ہوں جن کو خوش قسمتی سے مجھے بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے.جہاں کہیں بھی میں نے دورہ کیا ہے وہاں میں نے جماعت احمدیہ کے بہت بڑے طبقہ کے ساتھ ملاقات کی ہے.ان کو میں نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے.میں ان کے ساتھ مجالس سوال و جواب میں گھنٹوں بیٹھا ہوں.میرا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ بہت ہی مستعد اور مخلص احمدی ہیں.وہ اسلام کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں.میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ عمومی طور پر غریب لوگ ضرور ہیں مگر وہ اپنے ایمان اور اخلاص کے معیار سے غریب نہیں ہیں.جہاں کہیں بھی میں نے دورہ کیا میں نے بوڑھوں اور جوانوں دونوں کو برابر ذہین، روشن دماغ اور متحرک پایا.اگر ان کو ان خوبیوں کے استعمال کے مناسب مواقع مل جائیں تو وہ ستاروں کی طرح چمک سکتے ہیں.مگر بد قسمتی سے یہ لوگ ضروری مواقع سے محروم ہیں.پس جماعت احمدیہ کو اپنی خدمات کا دائرہ دوسرے شعبوں تک بھی پھیلانا چاہئے اور مجموعی طور پر ملک کو ہر پہلو سے مدد دینی چاہئے تاکہ یہاں کے غریب عوام کو اپنی اندر موجود صلاحیتیں دکھانے کا موقع مل سکے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاندار خوبیوں سے نوازا ہے اور آپ صلاحیت کے لحاظ سے ایسی قوم ہیں کہ دنیا کی کسی دوسری قوم سے کم نہیں.لیکن جہاں تک اسلامی تعلیمات کے ضمن میں خدمات کو وسیع کرنے کا تعلق ہے، جہاں تک اسلامی تعلیم وتربیت کا تعلق ہے.اس میں بہت زیادہ وسعت اور بہتری کی ضرورت ہے.میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگوں کے ساتھ وسیع رابطہ خاص طور پر نوجوان نسل کے ساتھ رابطہ تسلی بخش نہیں ہے.میں نے لوگوں کو انتہائی بنیادی اور ابتدائی قسم کے سوالات کرتے ہوئے پایا جس کے بارہ میں انہیں پہلے ہی علم ہونا چاہئے تھا.اگر چہ انہوں نے انتہائی گہرے، دلچسپ اور علمی سوالات بھی پوچھے ہیں لیکن عمومی طور پر میں نے محسوس کیا ہے کہ ہم تعلیم وتربیت کے معاملہ میں کمی دکھا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ احمدیت کا پھیلا ؤ جس قدر تیز ہونا چاہئے تھا اس طرح نہیں ہو رہا.جب بھی میں ان کے سوالوں کا جواب دیا میں نے ان کے چہروں پر اطمینان کی مسکراہٹ بکھرتی ہوئی دیکھی اور تسلی کی چمک ان کی آنکھوں میں اجاگر ہوئی.یہ دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اگر سیرالیون کے تمام احمدی بڑوں کو بھی اور

Page 75

خطبات طاہر جلدے 70 خطبہ جمعہ ۲۹ / جنوری ۱۹۸۸ء : صلى الله جوانوں کو بھی اسلامی تعلیمات کی تربیت دی جائے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں ہم دوسرے مسلمان فرقوں سے اسلام کے بارہ میں مختلف رائے رکھتے ہیں جو کہ لازماً قرآنی اصولوں اور پیغمبر اسلام ہے کے بیان کردہ اصولوں پر مبنی ہے.تاہم ابھی بھی کئی علاقے اختلاف رائے کے موجود ہیں.ان علاقوں میں خاص طور پر ان کی تعلیم کا سامان ہونا چاہئے.وہ تمام اطراف سے خوفزدہ ہیں.بہت مشکل اور الجھے ہوئے سوالات دوسرے ملنے والے لوگوں کی طرف سے ان سے کئے جاتے ہیں.چنانچہ اگر انہیں اچھی طرح تربیت نہ دی گئی تو وہ اعتماد کی کمی کا شکار ہو جائیں گے اور کبھی بھی ایسے داعیان الی اللہ کے طور پر نہیں نکلیں گے جس طرح کی مستقبل میں میری خواہش ہے.پس اس بارہ میں خصوصی توجہ دی جانی چاہئے.جوسوالات پوچھے گئے ان میں بیشتر کے جوابات ان کیسٹس میں پہلے ہی موجود تھے جو آپ کے سیرالیون مرکز کو بھجوائی جا چکی ہیں.ان موضوعات پر میری سینکڑوں گھنٹوں کی گفتگو موجود ہے اور متنازعہ امور پر کوئی بھی ایسا سوال نہ تھا جس پر تفصیل کے ساتھ ، ہر پہلو اور ہر نقطۂ نظر سے جواب نہ دیا جا چکا ہو.پس میں انتظامیہ کو ہدایت دے چکا ہوں کہ وہ کمیٹیاں قائم کریں.ایک کمیٹی کریول میں ترجمہ کیلئے دوسری شمنی زبان میں ترجمہ کیلئے اور تیسری مینڈے زبان میں ترجمہ کیلئے.یہ کمیٹیاں میرے سینکڑوں گھنٹوں پر مشتمل سوالوں کے جوابات میں سے ایسے پیرا گراف اور ایسے حصوں کا انتخاب کریں جو اس ملک کے لحاظ سے زیادہ متعلق اور مفید ہوں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ مستقبل قریب میں آپ سب کو وہ ٹیسٹس مہیا ہو جائیں گی ، سیرالیون میں ہر جگہ.جوان سوالات کے جوابات پر مشتمل ہوں گی جن سوالوں کا آپ کو غیر احمدیوں کی طرف سے سامنا کرنا پڑتا ہے.مجھے یقین واثق ہے کہ آپ کی روح اور جذبہ کی فراوانی کی بدولت جس کا میں نے سیرالیون کے عام احمد یوں میں بھی مشاہدہ کیا ہے.اگر تبلیغ کا یہ طاقتور آلہ مہیا کر دیا گیا تو انشاء اللہ یہ سب مستعد اور کامیاب داعیان الی اللہ بن جائیں گے اور یہاں احمدیت کا پھیلاؤ کئی سو گنا زیادہ ہو جائے گا.پس انشاء اللہ آپ جلد وہ دن ضرور دیکھیں گے جب آپ سب کوضروری مواد مہیا کر دیا جائیگا.میں نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اگر کسی غریب جماعت میں غریب دیہات میں لوگوں کو کیسٹ ریکارڈر خریدنے کی استطاعت نہیں ہے تو انہیں یہ مفت مہیا کیا جائے اور اس کے چلانے کے اخراجات بھی ،

Page 76

خطبات طاہر جلدے 71 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء ساتھ دیئے جائیں.پس انشاء اللہ آپ اپنے ہم وطنوں کو تبلیغ کرنے کے قابل بنتے ہیں تو غربت آپ کی راہ میں کھڑی نہیں ہوگی.تعلیم کے میدان میں اور دینی علم اور دینی عمل کی تربیت میں میں نے خاص طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ مدد کی ضرورت ہے تا ہم اپنے بچوں کو نماز سکھانے کے قابل بنا سکیں یعنی عربی الفاظ ترجمہ کے ساتھ.روز مرہ کے معاملات میں مسلم رویوں کا علم بھی ہو.کیسے نماز پڑھنی ہے،اس سے پہلے کیا کرنا ہے.نماز میں کیا نہیں کرنا اور نماز میں اور نماز کے بعد کیا کرنا ہے.آپ اپنی روز مرہ زندگی کو کیسے نمونہ بنا سکتے ہیں، جب آپ سو کر اٹھتے ہیں تو آپ نے کیا دعا کرنی ہے.جب آپ سونے کیلئے جاتے ہیں تو آپ نے کیا دعا مانگنی ہے وغیرہ وغیرہ.روز مرہ کی زندگی میں اس ملک میں ان چھوٹی چھوٹی ہدایات کی بہت ضرورت ہے.اسلامی فقہ کے اور بھی کئی پہلو ہیں جن کے بارہ میں سیرالیون اور افریقہ کے دوسرے ممالک کے احمدی آگاہ نہیں ہیں.تو وہ غیر ارادی طور پر اسلامی اصولوں اور اسلامی شریعت کی خلاف ورزی کر رہے ہیں.محض لاعلمی میں کہ کیا شریعت ہے اور کیا شریعت نہیں ہے.تو کوئی انہیں شعوری طور پر گناہ گار قرار نہیں دے سکتا.لیکن گناہ گناہ ہی ہے خواہ یہ شعوری ہو یا غیر شعوری.پس ہمیں آپ کو زیادہ سکھانے کی ضرورت ہے اور اس انداز اور نظام کے ساتھ کہ سیرالیون میں ہر احمدی طبقہ زندگی تک پہنچ جائے اور کسی قسم کا کوئی خلا یا محرومی باقی نہ رہ جائے.عورتیں روز مرہ کے اخلاق و آداب کے بارہ میں سیکھیں، مرد بھی تربیت دیئے جائیں اور بچوں کی تربیت کا بھی سامان ہو اور میں پھر کہوں گا کہ ہمیں کیسٹس کے عظیم ذریعہ کو تربیت اور تعلیم کیلئے استعمال کرنا چاہئے.انشاء اللہ مرکز ان ہدایات کی روشنی میں اس قسم کی کیسٹس کی تیاری کیلئے کمیٹیاں بنائے گا.آپ کو یہ بات سن کر خوشی ہوگی کہ قرآن کریم کا ترجمہ آپ کے ملک کی دو بڑی زبانوں مینڈے اور ٹمنی میں زیر کارروائی ہے اللہ کے فضل سے منتخب آیات قرآنی کا ترجمہ تو شائع ہو چکا ہے.باقی قرآن کریم کا ترجمہ بڑی توجہ اور کوشش کے ساتھ ہورہا ہے.اگر چہ ملک کا اکثر طبقہ لکھ اور پڑھ نہیں سکتا لیکن کیسٹس کی مدد سے ہم لوگوں کو اس ترجمہ کے ذریعہ ان کی اپنی زبان میں قرآن کریم پڑھانا شروع کر سکتے ہیں.انشاء اللہ قرآن سکھانے کیلئے کیسٹس بھی تیار ہوجائیں گی.یہ کیسٹس نہ

Page 77

خطبات طاہر جلدے 72 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء صرف قرآن کریم کے معانی سکھائیں گی بلکہ ان کے ذریعہ قرآن کریم کی تلاوت بغیر غلطی کے کرنے میں بھی مدد ملے گی.پس اللہ کے فضل سے سال کے اختتام تک آپ کو اسلامی معاملات اور قوانین کے بارہ میں کافی حد تک معلوم ہو چکا ہوگا کہ کس طرح بہتر انداز میں آپ خود کو اسلامی طرز حیات میں ڈھال سکتے ہیں.آخر پر میں سیرالیون کی انتظامیہ کیلئے اور تمام احمدیوں کیلئے اس اظہار محبت پر جو آپ نے کیا، گہرے جذبات شکر کا اظہار کرنا چاہتا ہوں آپ کی مہمان نوازی پر، ان خدمات پر جو آپ نے میری اور میرے قافلہ والوں کی پورے دورہ سیرالیون کے دوران انجام دی ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ان کوششوں پر آپ کا انتہائی قدردان ہوں.میں ہمہ وقت آپ کیلئے دعائیں کرتا رہا ہوں اور آپ کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یا درکھوں گا.میں ان تمام لوگوں سے آگاہ ہوں جو مختلف طریق سے خدمات بجالاتے رہے ہیں.میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو بہت غریب ہیں اور وہ کسی قسم کے اخراجات نہیں کر سکتے لیکن انہوں نے وہ سب کچھ پیش کر دیا جو اللہ نے ان کو دے رکھا ہے.وہ جماعت کی خاطر خدمت کر رہے ہیں اور اس دورہ کی ضرورتوں کے پیش نظر وہ اپنے قیمتی وقت کے ساتھ حاضر ہوتے رہے ہیں.کچھ ایسے نوجوان لڑکے اور بوڑھے بھی ہیں جو کہ پورے دورہ میں ہمارے ساتھ رہے ہیں اور جہاں کہیں بھی ہم نے دورہ کیا ہے مقامی رضا کاران ہماری مدد کیلئے آگے آئے ہیں اور میں ان کے جذ بہ خلوص اور قربانی سے بہت متاثر ہوا ہوں.بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے دن رات لگا تار کام کیا ہے.بدقسمتی سے شروع میں عدم تو جنگی کی بنا پر انہیں کھانا تک بھی مہیا نہیں کیا گیا.یہ بات ہمارے لئے قابل شرم ہے کہ جماعت احمد یہ جو اپنی مہمان نوازی کی روایت اور حسن انتظام کے لحاظ سے بہت اچھی شہرت کی حامل ہے، اس سے اس اہم شعبہ میں کو تا ہی نہیں ہونی چاہئے تھی.لیکن جلد ہی اس غلطی کو درست کر دیا گیا اور پھر اللہ کے فضل سے ہر چیز فطرتی بہاؤ کے مطابق درستگی سے چلتی رہی.تو میں ان تمام خدمات سے پوری طرح آگاہ ہوں.میں ان لوگوں سے بھی پوری طرح آگاہ ہوں جنہوں نے اپنی رقوم فراخدلی کے ساتھ خرچ کیں اور جو کچھ اللہ نے ان کو دیا ہے وہ انہوں نے ہمارے لئے مہیا کر دیا مثلاً موٹر کاریں.اسی طرح بعض دیگر ضروریات کیلئے انہوں نے ذاتی طور

Page 78

خطبات طاہر جلدے 73 خطبہ جمعہ ۲۹/جنوری ۱۹۸۸ء پر قربانی کی ہے.اگر چہ یہ ان لوگوں کے نام لینے کا موقع نہیں ہے لیکن ان لوگوں کے نام میرے دل پر اور میرے قافلہ والوں کے دل پر نقش ہو گئے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم ان کو اپنی دعاؤں میں محبت اور خلوص کے ساتھ یادرکھیں گے.اللہ تعالیٰ آپ پر فضل فرمائے.آمین.انشاء اللہ ہم آپ کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں گے اور میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو یا درکھنا نہ بھولیں جو کہ اپنے ایمان کی خاطر ، شرف انسانی کی حرمت کی خاطر اور اپنے اللہ اور رسول اکرم کی خاطر ایک لمبے عرصہ سے تکالیف سے گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ وہاں ان کے حالات بہتر کرے اور شعور انسانی ، قدر انسانی اور شرف انسانی کی آزادی عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ وہاں ایسی انقلابی تبدیلیاں پیدا فرمائے کہ بجائے اس کے کہ ملک اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اقدار کا دشمن ہو جائے وہ اسلام اور انسانیت کا خدمت گار بن جائے.اللہ ان پر بھی فضل فرمائے اور آپ پر بھی فضل فرمائے.اس کے ساتھ میں آپ کو خدا حافظ کہتا ہوں.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.

Page 79

Page 80

خطبات طاہر جلدے 75 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۸ء اہل افریقہ اقتصادی ترقی کیلئے غیر ملکی اشیاء پر انحصار کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں.احمد کی صنعت کاروں اور ماہرین علوم کو وقف کی تحریک خطبه جمعه فرموده ۵ فروری ۱۹۸۸ء آبی جان ، آئیوری کوسٹ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: سب سے پہلے تو آج میں اس ملک کے جملہ باشندوں ،ان کی حکومت اور تمام احمدی احباب اور خواتین اور بچوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہر لحاظ سے میرے دورہ کو کامیاب اور مفید مطلب بنانے کی کوشش کی.سورۃ فاتحہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اُس میں ہر مومن کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے اور اس کے بعد مومن پر فرض ہے کہ وہ خدا کے بندوں کا بھی شکر گزار بنے.جماعت احمدیہ کی تعداد اس ملک میں بہت زیادہ نہیں لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ وسیع اور کشادہ مسجد اس وقت بھری ہوئی ہے.تاہم یہ تعداد ایسی نہیں کہ حکومت آپ کے آنے والے مہمان کے ساتھ خاص محبت کا سلوک کرتی لیکن اس کے باوجود آپ کے ملک کے نہایت ہی شریف اور نیک نفس پر یذیڈنٹ نے مجھے ملاقات کا موقع عنایت فرمایا.آپ کے صدر سے مل کر مجھے خصوصیت کے ساتھ اس بنا پر خوشی ہوئی کہ وہ ایک نیک نفس اور خدا ترس انسان معلوم ہوتے

Page 81

خطبات طاہر جلدے 16 76 خطبه جمعه ۵/فروری ۱۹۸۸ء ہیں.اپنی گفتگو میں انہوں نے بار بار خدائے واحد و یگانہ کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ ان کے نزدیک تمام دنیا میں فساد کی وجہ خدائے واحد ویگانہ سے محبت میں کمی اور اس سے دنیا کا دور چلے جانا ہے.اب میں اپنے مختصر دورے کے تجربے کے متعلق آپ سے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں.میں نے اس دورہ میں محسوس کیا ہے اس ملک کے باشندے بہت شریف النفس ،صاف گو اور کھلے دماغ کے لوگ ہیں اور تعصبات سے کلیۂ پاک ہیں.بہت سے غیر احمدی دوستوں سے بھی گفتگو کا موقع ملا یعنی انہوں نے جو سوال کئے ان کا جواب دینے کی توفیق ملی اور یہ دیکھ کر میں حیران ہوا کہ باوجود اس کے کہ شروع میں سوال میں شدت پائی جاتی تھی اور سختی محسوس ہوتی تھی.لیکن جواب سن کر فوری طور پر اسکی تائید میں سر ہلانے لگ جاتے اور جو بات سمجھ میں آجاتی اسے بخوشی قبول کر لیتے تھے.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ کوئی قوم تعصبات سے پاک ہو اور جس طرف روشنی نظر آئے اس طرف جانے کے لئے آمادہ ہو اس لحاظ سے میں آپ کی قوم کا مستقبل بہت روشن دیکھ رہا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی قوم کا یہ کردار بنانے میں آپ کے معزز صدر کی ذاتی شرافت اور توجہ اور مسلسل محنت کا بھی بہت حد تک دخل ہے.چنانچہ انہوں نے گفتگو کے دوران مجھ سے بار بار اس بات کا ذکر کیا کہ نہ تو وہ خود کسی قسم کا تعصب رکھتے ہیں نہ کسی قیمت پر اپنے ملک میں کسی تعصب کو فروغ دینے کی اجازت دے سکتے ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ میں خدائے واحد سے سچا پیار کرتا ہوں اور کسی طرح یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ خدائے واحد کے نام پر لوگ آپس میں ایک دوسرے سے لڑیں اور خدائے واحد کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف فتنے پیدا کریں.اس لئے اس ملک میں اس امر کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں.انہوں نے اپنی زندگی کا ایک تجربہ بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میں بہت کم اتنا متاثر ہوا ہوں جتنا اس تجربے سے متاثر ہوا کہ ایک گاؤں میں عیسائیوں نے ایک طرف گر جا بنانے کا پروگرام بنایا اور مسلمانوں نے دوسری طرف مسجد بنانے کا پروگرام بنایا.دونوں نہایت محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے یہاں تک کہ گر جا تیار ہو گیا اور مسجد میں ابھی کام باقی تھا.چنانچہ مجھے بھی دعوت دی گئی کہ میں جا کر وہاں کا افتتاح کر آؤں لیکن عیسائیوں نے انکار کر دیا کہ جب تک ہمارے بھائیوں کی مسجد تیار نہ ہو جائے اس وقت تک ہم اپنا گر جا شروع کرنے کا بھی کوئی پروگرام نہیں رکھتے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ جب دونوں تیار ہو گئے پھر میں افتتاح

Page 82

خطبات طاہر جلدے 77 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۸ء کے لئے وہاں گیا اور جو میں نے انسانی محبت اور بھائی چارے کا وہاں نظارہ دیکھا اور ایک خدا کی محبت میں بنی نوع انسان کا آپس میں ملنے جلنے کا جو نظارہ دیکھا وہ نظارہ میرے جذبات پر غالب آگیا اور مجھے اپنے جذبات پر کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا.چنانچہ تقریباً ۴۵ منٹ ان کی قیام گاہ پر نہایت ہی پرسکون ماحول میں ان سے بہت اچھی گفتگو کا موقع ملا اور اس عرصہ میں بار بار میں ان کے لئے یہ دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس نیک دل، پر خلوص، خدائے واحد و یگانہ سے محبت کرنے والے اور بنی نوع انسان پر مہربان پریذیڈنٹ کولمبی ، با معنی ، خدمت کرنے والی اور کارآمد زندگی عطا فرمائے اور ان کا یہ جذ بہ صرف ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ ساری قوم میں پھیل جائے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کی عادات ، ان کے خیالات اور ان کے دل پر نقش ہو جائے.پس میں تمام احمدی احباب وخواتین آئیوری کوسٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ خصوصیت کے ساتھ اپنے اس نیک دل صدر کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور اس حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں اور تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ صرف اس ملک کے پریذیڈنٹ کو ہی لمبی زندگی اور نیک زندگی عطانہ فرمائے بلکہ دنیا کی سیاست کو بھی انہی کی طرح خدا خوفی عطا کرے کیونکہ جب تک دنیا کی سیاست میں خدا خوفی شامل نہیں ہو جاتی اللہ تعالیٰ کی محبت سیاست پر قبضہ نہیں کرتی اس وقت تک انسان کی نجات کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا.مغربی افریقہ کے اس دورہ میں یہ چوتھا ملک تھا جہاں میں نے مختصر قیام کیا ہے اور تھوڑے سے وقت کے لئے باہر جا کر دیہاتی زندگی کا بھی مشاہدہ کیا ہے.آج شام کو انشاء اللہ جمعہ کے معا بعد میں غانا کے لئے روانہ ہونے والا ہوں.اس مختصر تجربہ کے نتیجہ میں جو افریقہ میں مجھے ہوا میں زیادہ سے زیادہ اس بات کا قائل ہوتا چلا جارہا ہوں کہ افریقہ کو محض روحانی اور مذہبی اور اخلاقی امداد ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جماعت احمدیہ کو بہت سے دیگر شعبوں میں بھی اس مظلوم قوم یعنی افریقن قوم کے لئے ہر طرح کی خدمت کے لئے تیار اور مستعد ہو جانا چاہئے.خصوصیت کے ساتھ افریقہ کو اقتصادی راہنمائی کی ضرورت ہے.جن ممالک کا میں نے دورہ کیا ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ باہر کی دنیا جو ان سے اقتصادی روابط رکھتی ہے وہ سارے خود غرضی پر مبنی ہیں.یہ لوگ دل کے سادہ ہیں اور اعتماد کرنے والے ہیں اس لئے رفتہ رفتہ ان کی اقتصادی باگ ڈور ، اقتصادی نظام کلیۂ بیرونی

Page 83

خطبات طاہر جلدے 78 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۸ء ہاتھوں کے قبضہ میں جاچکا ہے اور ابھی تک وہ ان مظلوموں اور غریبوں کولوٹنے سے باز نہیں آرہے یہاں تک کہ دن بدن ان کی اقتصادی بدحالی بڑھتی چلی جارہی ہے.افریقہ کے تمام ممالک کا کم و بیش یہی حال ہے کہ ان تمام ممالک کی اکثریت زیادہ تعلیم نہیں رکھتی اور جو حصہ تعلیم پا جاتا ہے بدقسمتی سے تعلیم کے ساتھ مغربی اثر کے نیچے چلا جاتا ہے اور مغربی تہذیب اس پر ایسا قبضہ کر لیتی ہے کہ اس کی طرز زندگی بدل دیتی ہے یہاں تک کہ بلا استثناء ہر ملک میں آپ یہ دیکھیں گے کہ مغربی تہذیب کے تابع ،مغربی تہذیب کے غلام بنے ہوئے جتنے بھی لوگ ہیں ان سب کی زندگی کا انحصار اپنے ملک کی پیداوار پر نہیں بلکہ غیر ملکی پیداوار پر اس حد تک ہو چکا ہے کہ اب وہ غیر ملکوں سے اپنے تعیش اور اپنے آرام کی چیزیں منگوائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے.یہ بات ایسی واضح اور دوٹوک نہیں جتنی بظاہر دکھائی دیتی ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت سی پیچیدگیاں وابستہ ہیں، بہت سے الجھاؤ ہیں جن پر نظر ڈالنی ضروری ہے.ایک مذہبی جماعت کے رہنما کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس خرابی کا اس قوم کے اخلاق پر بہت برا اثر پڑنے کا خطرہ موجود ہے اور ایک مذہبی رہنما کے طور پر جماعت احمدیہ کو خصوصیت سے ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان تمام امور میں افریقہ کی ہر طرح سے مدد کے لئے تیار ہو.اس کے متعلق میں کچھ اور مزید روشنی ڈالوں گا.مغربی تہذیب کا اور مغربی طرز زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ بڑی بڑی شاندار عمارتیں ہوں، بہت ہی قیمتی سامان سے مزین ہوں ، نہایت قیمتی صوفہ سیٹ ، نہایت اعلی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تصویر یں اور دیگر آرائش کی بعض چیزیں بہترین کاریں ہوں، نئے سے نئے ماڈل ہوں، ٹیلی وژنز ہوں ، ویڈیو ٹیسٹس ہوں ، ریڈیو ہوں اور ان سب چیزوں کے ساتھ ایسے نہایت گندے اور اخلاق سوز پروگرام بھی ہوں کہ جو لوگوں کی توجہ مادہ پرستی کی طرف کرتے چلے جائیں اور انہیں ایک قسم کی افیم کا عادی بنادیں کہ ان تعیش کی باتوں کے بغیر وہ زندہ نہ رہ سکیں.اسی طرح مغربی تہذیب آپ کے غذاؤں کے ذوق میں بھی ایک نمایاں تبدیلی پیدا کر دیتی ہے.آپ کو مقامی غذاؤں کی بجائے ایک طلب پیدا ہو جاتی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے بنے ہوئے پنیر کے ڈبے، وہاں کے بنے ہوئے چاکلیٹ ، وہاں کی بنی ہوئی آئس کریمیں ، وہاں کے بنے ہوئے کوکا کولا ، وہاں کے بنے ہوئے بسکٹوں کے ڈبے اور ہر قسم کے دوسرے سامان یہ روز مرہ آپ کی زندگی کا حصہ بن جائیں اور جب

Page 84

خطبات طاہر جلدے 79 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۸ء تک آپ یہ چیزیں کھا کر نہ زندہ رہیں اس وقت تک آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ ایک جدید مزاج کے ترقی یافتہ انسان ہیں غرضیکہ افریقہ کی ساری مارکیٹیں ایسی غذاؤں سے بھری پڑی ہیں جو باہر کے ملکوں میں پیدا ہوتی ہیں اور یہاں آکر فروخت ہورہی ہیں.جن کو مقامی طور پر کسی جگہ بھی تیار نہیں کیا جارہانہ اس کی استطاعت ہے، نہ اس کی صنعت موجود ہے.یہ چیزیں کھانی اور استعمال کرنی گناہ تو نہیں ہیں.غذا ئیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں مختلف طریق پر ان کو تیار کیا گیا ہے مگر اقتصادی خود کشی ضرور ہے ان قوموں کے لئے جو یہ چیزیں خود پیدا نہیں کر سکتیں.چونکہ وہ لوگ جو ان چیزوں کو خود پیدا کرتے ہیں ان کے لئے اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ ان کی دولت ہاتھوں سے نکل کر غیر ملکوں کی طرف بہنی شروع ہو جائے.اپنے ملک کی دولت اپنے ملک میں رہتی ہے بلکہ ان چیزوں کو پیدا کرنے کے نتیجہ میں باہر سے بھی دولت کھینچنے کے مواقع میسر آجاتے ہیں لیکن جو غریب تو میں ان کو پیدا نہیں کرتیں ان کے لئے دوہرا نقصان ہے.مذہبی طور پر حرام نہ ہونے کے باوجود قومی طور پر ان کا بے دھڑک استعمال اور حد سے زیادہ استعمال ان کے لئے ایک اقتصادی خودکشی کے مترادف ہو جاتا ہے.ان کا دوہرا نقصان یہ ہے.نمبر ایک وہ قومیں جو یہ چیزیں تیار کرتی ہیں بہت امیر ہیں اور ان کی روزمرہ کی آمد غریب قوموں کی آمد سے بعض دفعہ سو گنا زیادہ ، کہیں پچاس گنا زیادہ کہیں ہیں گنا زائد ہے کیونکہ وہ خود یہ چیزیں تیار کرتی ہیں اس لئے اتنی بڑی آمد کے باوجود وہاں بہت سستی ملتی ہیں.غریب ملکوں کا عجیب حال ہے ان کی آمد ان سے اتنی کم ہے کہ پچاس آدمی مل کے جو کماتے ہیں وہ ایک آدمی وہاں کمارہا ہوتا ہے اس کے باوجود یہاں ان کی بنی ہوئی چیزیں کئی گنا زیادہ قیمت پر وہ خرید رہے ہوتے ہیں آمد تھوڑی چیزیں مہنگی.باہر کی بنی ہوئی اپنے روپ کو باہر بھجوانا یہ کونسی عقل کی بات ہے.پچھلے دنوں مجھے ایک دعوت میں بیٹھنے کا موقع ملا میرے ساتھ ایک وزیر تشریف فرما تھے وہ اپنے ملک کے بڑے معزز وزیر تھے.جب کوکا کولا پیش ہوئی تو میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ کے ملک میں کوکا کولا پیتے ہوئے تو میرا دل بالکل تیار نہیں ہوتا اگر مجھے کوکا کولا کی بجائے کوکونٹ کا پانی مل جائے تو وہ اس سے بدرجہ ہا بہتر ہے.آپ لوگ کیوں کو کونٹ کے پانی کو جو خدا نے بہت ہی عجیب نعمت آپ کو عطا فرمائی ہے چھوڑ کر ایسی ذلیل بے معنی سی چیز خرید رہے ہیں جو آپ کی صحت کے لئے بھی مضر ہے.چنانچہ کوکونٹ کا پانی تو نہیں ملا لیکن اس بات کا یہ اثر ضرور پڑا کہ انہوں نے بھی کوکا کولا پینے سے

Page 85

خطبات طاہر جلدے انکار کر دیا اور ہم دونوں نے پھر سادہ پانی پیا.80 60 خطبه جمعه ۵/فروری ۱۹۸۸ء میں ہرگز مغربی قوموں کا دشمن نہیں.میں خدا کے کسی بھی بندہ کا دشمن نہیں بلکہ خدا کے بندوں سے دشمنی کو حرام سمجھتا ہوں.البتہ میں خدا کے مظلوم بندوں سے محبت کرتا ہوں اور خدا کے غریب بندوں سے زیادہ پیار رکھتا ہوں.اس لئے غیر قوموں کی دشمنی میں ہرگز نہیں بلکہ آپ مظلوم قوموں کی محبت میں میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ آپ کو اپنے طرز معیشت میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.- جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت ہے اور یقین رکھتی ہے کہ سچائی کو پھیلانے کے لئے امن کی فضاء ضروری ہے اس لئے ہر وہ خطرہ جو کسی ملک یا کسی خطہ ارض کے امن کو خطرہ ہو وہ درحقیقت مذہب کی قدروں کے لئے بھی خطرہ بن جاتا ہے اور امن کی فضاء کو جو چیز بھی مکدر کرے اور بر باد کرے وہ مذہبی اقدار کے لئے بھی شدید نقصان دہ ہوتی ہے.اس لئے مستقبل کے بعض خطرات کو بھانپنے کی وجہ سے میں یہ باتیں کر رہا ہوں اور ان کے نتیجہ میں آپ کی خدمت میں کچھ مشورے رکھنا چاہتا ہوں.اس صورت حال کے نتیجہ میں جو خطرات مجھے دکھائی دے رہے ہیں وہ میں آپ کے سامنے بالکل اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے موجودہ رجحان یعنی ایک طبقہ کا دن بدن مغربی اقدار میں رنگین ہوتے چلے جانا اور بھی زیادہ خطرات پیدا کرنے کا موجب بنے گا.یہ طرز زندگی بہت مہنگی ہے.غریب ملک اس طرز زندگی کو قبول کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے.ان کو خدا نے ابھی استطاعت نہیں بخشی اور آپ کی غریب حکومتیں اپنے عہد یداروں کو ، حکومت کے کارندوں کو زیادہ تنخواہیں نہیں دے سکتی اس لئے کہ ایک طرف ان کے Tasteبلند ہونا شروع ہو جائیں گے.ایک طرف ان کے ذوق اونچے ہو جائیں گے، ان کی طلب بڑھ جائے گی ، ٹیلی وژن دیکھ دیکھ کر نئی نئی چیزیں بھی ان کو نظر آئیں گی کہ یہ بھی ہمارے گھر میں ہونی چاہئیں، یہ بھی ہمارے گھر میں ہونی چاہئیں ، دوسری طرف ملک کی غربت ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کر سکے گی.ایسی صورت حال لازماً Corruption پر منتج ہوتی ہے اور ایسی حکومتیں پھر دن بدن زیادہ سے زیادہ Corrupt اور رشوت ستانی کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں.حکومت کے ملازم ہوں یا سیاسی راہنما جوان ملازموں کے افسر ہیں جب وہ کر پٹ ہو جاتے ہیں

Page 86

خطبات طاہر جلدے 81 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۸ء تو وہ صرف اپنے ملک کے باشندوں سے رشوت وصول نہیں کرتے بلکہ غیر قوموں سے رشوت وصول کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور پھر غیر قومیں ان کی بددیانتی کے چور دروازوں سے داخل ہو کر آپ پر حکومت کرنے لگتی ہیں.یہ ایک بہت ہی بڑا خطرہ ہے جو بہت سے تو نہیں مگر بعض افریقی ممالک میں نہ صرف خطرہ ہے بلکہ واقعہ لاحق ہو چکا ہے، رونما ہو چکا ہے اور بہت سے افریقی ممالک کے سر پر ایک تلوار کی طرح لٹک رہا ہے.پس ایسی قوموں کے وہ نمائندگان جو غیر اور امیر قوموں سے اقتصادی یا تعلیمی یا معاشرتی یا فوجی معاہدے کرتے ہیں وہ اپنی بددیانتی کی وجہ سے مجبور ہو جاتے ہیں کہ قوم کے مفادات کو بیچیں اور ایسے معاہدے کریں جو ہمیشہ قوم کے مفاد کے خلاف پڑتے ہوں.چنانچہ اس طریقہ سے غیر قوموں کی غلامی کے چنگل میں دن بدن قوم زیادہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، زیادہ مجبور اور محبوس ہوتی چلی جاتی ہے.یہ وہ خطرہ ہے جو پھر آگے خطروں کو جنم دیتا ہے ملک کے اندر مظلوم لوگ دن بدن اپنے رہنماؤں سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور ان کی نفرت کے اظہار کے لئے اگر ان کے پاس خود کوئی ذریعہ موجود نہ ہو تو پھر غیر قوموں سے مدد مانگتے ہیں.غیر قوموں کے نظریات سے مدد مانگتے ہیں.باہر اشترا کی پر تولے ہوئے بیٹھے ہیں کہ ان کو موقع ملے کسی ملک کے غریبوں میں داخل ہونے کا تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں.دوسری قو میں اپنے اپنے رنگ میں ملکوں میں داخل ہونے کے لئے تیاری کے بیٹھی ہوتی ہیں.چنانچہ ہر طرف سے غیر قوموں کو نفوذ کے نئے نئے رستے مہیا ہو جاتے ہیں اور سارے ملک کا امن درہم برہم اور تباہ ہو جاتا ہے.کیونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے ہم نے جلدی سفر پہ جانا ہے اس لئے اب اس تفصیل میں گئے بغیر کہ اور کیا کیا خطرات اس سے پیدا ہوتے ہیں اور جو بہت زیادہ ہیں یعنی جو میں نے بیان کئے ہیں اس سے بہت زیادہ اور بھی ہیں.میں مختصر ا تمام افریقہ کی احمدی جماعتوں کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ ملک کو پیش آمدہ مستقبل کے خطرات سے بچانے کے لئے اپنے ملک کی محبت میں اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی خاطر وہ کثرت سے لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کریں اور ان کے دماغوں کو روشن کرنا شروع کریں اور اپنی سیاسی قیادت سے مل کر ان کو یہ باتیں سمجھائیں اور پیار اور محبت سے تلقین کریں کہ بجائے اس کے کہ عوام الناس کی طرف سے تحریکیں اٹھیں وہ خود سادگی کی تحریکیں حکومت کے بالا شعبوں سے شروع کریں ،حکومت کے بالا خانوں سے شروع کریں اور بار بار عوام کو

Page 87

خطبات طاہر جلدے 82 خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۸۸ء یقین دلائیں کہ ہم ہرممکن کوشش کریں گے کہ قوم کا احصار غیر قوموں پر دن بدن کم ہوتا چلا جائے اور قوم خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی اہل ہو جائے.تمام دنیا کے احمدیوں سے میں یہ اپیل کرتا ہوں کہ ان میں جتنے بھی Industrialist ہیں صنعتکاری کے واقف ہیں یا Technology کے ماہر ہیں کسی رنگ میں یا اور ایسے علوم پر دسترس رکھتے ہیں جو غریب ملکوں کے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں وہ اپنے نام مجھے بھجوائیں اورلکھیں کہ کیا وہ اپنے خرچ پر افریقہ کے دورے کے لئے اور جائزہ لینے کے لئے آنے پر تیار ہیں یا صرف اپنا وقت دے سکیں گے جماعت احمد یہ ان کے لئے خرچ مہیا کرے گی اور وضاحت کریں کہ کس کس علم کے وہ ماہر ہیں کونسی انڈسٹری کا تجربہ رکھتے ہیں.اس کے بعد جب میں ان کو یہاں بھجواؤں گا تو ان کا یہ کام نہیں ہوگا کہ اپنا سرمایہ یہاں لگائیں کیونکہ افریقہ پہلے ہی باہر کی سرمایہ کاری سے تنگ آیا بیٹھا ہے اور بہت سے لوگوں نے مدد کے بہانے ان کو لوٹا ہے.میں یہ پسند کروں گا کہ وہ اپنا Know How اپنی علمی قابلیت قوم کی خدمت میں پیش کریں اور یہ بات پیش کریں کہ ہم آپ کے لئے صنعتیں لگوانے میں مدد دیں گے صنعتیں آپ کی ہوں گی ، فائدے آپ کے ہوں گے، ہم صرف خدمت کر کے اپنے اپنے ملکوں کو واپس چلے جائیں گے.اس کے بعد میں آخر پر پھر آپ سب احباب کا بہت بہت شکر یہ ادا کرتا ہوں یعنی تمام احمدی احباب ،خواتین اور بچوں کا جو دور دور سے بعض صورتوں میں ملنے کے لئے یہاں تشریف لائے بعض دوسرے ملکوں سے بھی تشریف لائے.مقامی احمدی جماعت کا بھی بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں خصوصاً آپ کے خدام کا جنہوں نے دن رات ایسی مستعدی سے خدمت کی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے لئے وہ نمونہ بنے ہوئے تھے.نہایت اعلیٰ نظم وضبط کے ساتھ انہوں نے مسلسل محنت کے ساتھ فرائض سرانجام دیئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی بہترین جزا دے.آپ کے ملک کے باشندوں کو بھی اور آپ کو بھی دنیا اور آخرت کی بے شمار حسنات عطا فرمائے.آپ کا ہمیشہ ساتھی رہے.آپ کے دل میں اپنی اور اپنی مخلوقات کی سچی محبت پیدا کرے.آپ خیر پھیلانے والے ہوں اور شر کو دور کرنے والے ہوں.اللہ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد نماز عصر ہوگی جو مسافر دوگانہ پڑھیں گے.

Page 88

خطبات طاہر جلدے 83 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۸۸ء غانا کی تاریخ نیز ان کو اقتصادی خود انحصاری کا مشورہ اور تعاون کی یقین دہانی ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ فروری ۱۹۸۸ء بمقام سالٹ پانڈ ، غانا ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: عموماً ایسے ملکوں میں جہاں انگریزی بولی جاتی ہے انگریزی میں ہی میں بات کرتا ہوں لیکن خطبہ کے متعلق میں نے اپنا دستور یہی بنا رکھا ہے کہ چونکہ زیادہ تر احمدی پاکستان میں اردو دان ہیں اور انگریزی نہیں سمجھتے اس لئے ان کی خاطر خطبہ اردو ہی میں دیا کروں.آج پروگرام کے مطابق تو جمعہ کے بعد اختتامی اجلاس ہونا تھا لیکن وقت کی کمی کے پیش نظر میں نے امیر صاحب سے یہی گزارش کی کہ خطبہ کے خطاب ہی کو اس جلسہ کا اختتامی خطاب سمجھ لیا جائے.کل صبح یہاں آنے سے پہلے مجھے غانا کے ایک تاریخی قلعہ جس کو Old Castle کہتے ہیں وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں چیف پروٹوکول آفیسر نے مہربانی فرما کر مجھے اس قلعہ کے وہ تاریخی مقامات دکھائے جہاں آج بھی گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ ثبت ہے.سترھویں صدی سے لے کر آج جبکہ بیسیویں صدی اختتام کو پہنچ رہی ہے مختلف یوروپین قوموں نے غانا میں جو نفوذ کیا اور غانا سے جو سلوک کیا اس کی ساری داستان اس قلعہ پر مرتسم ہے.اس قلعہ میں میں نے وہ سرنگ یعنی زیرزمین Tunnel بھی دیکھی جو قلعہ سے نصف میل دور تک زمین کے اندر بچھائی گئی اور اس کے دوسرے کنارے سے جو ایک جنگل میں کھلتا تھا کثرت سے غانا کے باشندوں کوز نجیروں میں جکڑ کر

Page 89

خطبات طاہر جلدے 84 خطبه جمعه ۱۲ رفروری ۱۹۸۸ء اس قلعہ میں منتقل کیا جاتا تھا.اس قلعہ میں اس سرنگ کا ایک کنارہ کھلتا ہے لیکن اوپر تک سیٹرھیاں نہیں بنی ہوئیں اس لئے اُن مظلوم غلاموں کو زنجیروں سے لٹکا کر اوپر کھینچا جاتا تھا اس سے چند قدم کے فاصلہ پر ایک ایسی Dungeon یعنی غار نما جیل خانہ بنا ہوا ہے جہاں بمشکل ہیں بچھپیں آدمی شریفانہ طور پر رہ سکتے ہیں لیکن Dungeon میں دو دو سوغلاموں کو بیک وقت ٹھونس دیا جاتا تھا.اس وقت تک وہ نہایت ہی دردناک ، نا قابل بیان حالت میں Dungeon میں قید رکھے جاتے تھے جتک کہ کوئی سمندری کشتی جو غلاموں کے کاروبار کے لئے استعمال کی جاتی تھی وہاں پہنچ کر ان کو اس ملک سے دوسری غلام منڈیوں کی طرف منتقل کرنے کے لئے نہ پہنچ جائے.پس ایک طرف تو ساری قوم کو غلام بنانے کے لئے ایک آزادانہ جد و جہد جاری تھی.دوسری طرف خفیہ طور پر ملک کے باشندوں کو ہمیشہ کے لئے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر ساری زندگی نہایت ہی درد ناک طریق پر ان کے کام لینے کے لئے غیر ملکوں میں بیچا جاتا تھا.پس جہاں جہاں یہ غلامی کا کاروبار جاری ہوا رفتہ رفتہ سارا ملک غلامی کے اندھیرے تلے ڈوب گیا لیکن عجب تضاد یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ سفید فام پادری سارے ملک کو ان کی روحوں کی آزادی کا پیغام دیتے ہوئے ملک میں جگہ جگہ پھر رہے تھے.بظاہر یہ ایک بہت ہی خوفناک تضاد ہے کہ جسموں کو غلام بنانے والے روحوں کو کیسے آزاد کرا سکتے ہیں لیکن جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ روحوں کی آزادی کی خاطر وہ یہاں نہیں آئے تھے بلکہ بدنوں کی طرح روحوں کو بھی غلام بنانے کے لئے یہاں پہنچے تھے.یہی وہ حکمت عملی ہے جو یوروپین اقوام نے دنیا میں ہر قوم کے ساتھ اختیار کی یعنی ایک طرف تو ان کے بدنوں کو غلام بنایا گیا، اس کی سیاست کو غلام بنایا گیا، ان کی معیشت کو غلام بنادیا گیا، ان کے معاشرے کو غلام بنایا گیا اور دوسری طرف روحوں کی آزادی کے نام پر ہمیشہ کے لئے ان کی روحوں کو بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا.اس دور میں جبکہ جدو جہد جاری تھی اس ملک کی ایک آزاد منش پر اٹھا کر چلنے والی قوم جو آشانٹی قوم کے نام سے مشہور ہے مسلسل یورپین اقوام سے آزادی کے خلاف جدوجہد کرتی رہی.اس قوم کو سب سے زیادہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی روایتی شان کو ان سے چھیننے کے لئے اور ان کو سر جھکانے کے لئے ہر قسم کے ظالمانہ حربے استعمال کئے گئے لیکن جب دوسرے حربے پوری طرح

Page 90

خطبات طاہر جلدے 85 خطبه جمعه ۱۲ / فروری ۱۹۸۸ء کارگر ثابت نہ ہوئے تو یہ آخری حربہ روحوں کی آزادی کے نام پر ان کے غلام بنانے کا حربہ بہت کام آیا اور سب سے زیادہ اس مظلوم قوم کو اس غلامی کے چنگل میں جکڑنے میں یوروپین قو میں کامیاب ہو گئیں.اس ملک کی تاریخ میں اس صدی کے آغاز پر ایک اور سلسلہ رونما ہوا وہ بھی ایک باہر سے آنے والی قوم سے تعلق رکھتا تھا یعنی جماعت احمدیہ سے.جماعت احمد یہ بھی یہی دعوے لے کر آئی کہ ہم تمہاری روحوں کو آزاد کرنا چاہتے ہیں تمہیں ابدی زندگی کا پیغام دینا چاہتے ہیں تمہاری تعلیم کے لئے جدو جہد کریں گے اور تمہارے بدنوں کی صحت کے لئے بھی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن ان دونوں تاریخ ساز مہمات میں اگر بنظر غور دیکھیں تو زمین و آسمان کا فرق دکھائی دے گا.جماعت احمدیہ کے ساتھ نہ تیز و تفنگ آئے ، نہ تلوار میں اور تو ہیں.کوئی مملکت اپنے سایہ تلے جماعت احمدیہ کو لے کر آگے بڑھنے کے لئے نہیں آئی.جماعت احمدیہ غریبوں کی جماعت بن کر یہاں آئی لیکن روحانی دولت بخشتی رہی تعلیم کی دولت بخشتی رہی، جسموں کی صحت کے لئے کوشاں رہی اور اس کے بدلہ ایک آنہ یا ایک دمڑی کی بھی ملکی دولت کو یہاں سے لے کر باہر کے ملکوں میں نہیں بھجوایا.جماعت احمدیہ کے ساتھ ان تاجروں کے گروہ نہیں آئے جوکوڑیوں کے دام آپ کے ملک کا سونا لے کر اپنے ملک کی زینت کو بڑھاتے رہے بلکہ جماعت احمدیہ کی تاریخ اس سے بالکل مختلف نظارے پیش کرتی ہے.یہ وہ وقت تھا جب ۱۹۲۱ء اور ۱۹۲۲ء کا زمانہ جبکہ قادیان کی غریب بستی میں جماعت احمدیہ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے کہ وہ اپنے مبلغوں کو مسلسل تنخواہ دے سکیں اور بعض دفعہ کئی کئی مہینے اس غربت کی وجہ سے ان کو فاقوں پر گزارا کرنا پڑتا تھا اس کے باوجود جب مصلح موعودؓ نے تمام جماعت کو افریقہ کی آزادی کی جدو جہد کے لئے بلایا اور اس بات کی طرف بلایا کہ مالی قربانیاں اور جسمانی قربانیاں اور اپنی روح اور نفس کی قربانیاں پیش کرو تا کہ ان مظلوم قوموں کی آزادی اور خصوصا روحانی آزادی کے لئے سامان پیدا کرسکو تو سارے ہندوستان کی جماعت نے بیک آواز لبیک کہتے ہوئے بے شمار زندگیاں اس خدمت دین کے لئے پیش کیں، اس خدمت انسانی کے لئے پیش کیں اور اس غریب جماعت کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ سب کچھ افریقہ کی خدمت کے لئے پیش کر دیا.جماعت احمدیہ کے ابتدائی مبلغین کو جن مشکلات کا سامنا تھا آج آپ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے.تمام دنیا کی عظیم الشان حکومتوں کی طاقتیں اور چرچ کی بے شمار دولتیں ان کے مقابل پر

Page 91

خطبات طاہر جلدے 86 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۸۸ء ایک عظیم قلعے اور ایک عظیم دیوار کے طور پر حائل ہو گئیں.یوروپین طاقتیں جو دولت یہاں خرچ کر ہی تھیں آپ لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے اور خود چرچ جو چرچ کی اپنی دولت سے جو روپیہ یہاں خرچ کر رہا تھا.اس کا جماعت احمدیہ کی غریبانہ مساعی سے یہ موازنہ ہے کہ ساری جماعت احمدیہ کی ساری دنیا کی آمدن اتنی نہیں تھی جتنی چرچ کی ایک دن کی آمدن تھی.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ برٹش پارلیمنٹ میں پارلیمنٹ کے ممبرز یہ تجویزیں پیش کر رہے تھے کہ کالونیز کو ہمیشہ کے لئے مستقلاً غلام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کثرت کے ساتھ ان ملکوں میں عیسائیت کی یلغار کر دی جائے اور عیسائی کوششوں کوحکومت کا پوری طرح سایہ حاصل ہونا چاہئے اور ہر قسم کی حمایت اور امداد حاصل ہونی چاہئے.یہ وہ زمانہ تھا کہ جبکہ عالمی چرچ کی کونسل نے یہ منصوبہ پیش کیا کہ افریقہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک مشنریوں کا اور سکولوں کا اور ہسپتالوں کا ایک جال پھیلا دیا جائے تا کہ چند سالوں کے اندراندرسا را افریقہ عیسائیت کے قبضے میں آجائے.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ احمدی در ولیش واقف زندگی مبلغ ایک ایک دودو کر کے افریقہ کے ممالک میں پہنچے تو غیروں نے تو مخالفت کرنا ہی تھی اپنوں یعنی مسلمانوں نے بھی ان سے ایسا دردناک ظالمانہ سلوک کیا کہ بسا اوقات ان کو مار پیٹ کر مردہ سمجھ کر بازاروں میں چھوڑ دیا جایا کرتا تھا.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ دنیا کے دانشور یہ اعلان کر رہے تھے کہ جماعت احمدیہ کی یہ کوشش کہ افریقہ کو عیسائیت کے چنگل سے نجات بخشے ایک احمق کی خواب سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور ان لوگوں کی ساری کوششیں کلیہ ناکام بنادی جائیں گی لیکن آج دیکھو کہ صرف اس غانا میں یہ عظیم الشان مجمع اس بات کی گواہی دینے کے لئے کھڑا ہے کہ خدا کے بندے خدا پر تو کل کرتے ہوئے جب خدا کے کام کے لئے زندگیاں پیش کرتے ہیں اور مصائب کے پہاڑوں کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اللہ کی نصرت آسمان سے بھی نازل ہوتی ہے اور زمین پر سے بھی پیدا ہوتی ہے اور اس کو کامیاب کر کے دکھاتی ہے.بظاہر یہ غلامی کے زمانے گزر گئے اور تاریخ کی باتیں بن گئیں لیکن جب میں نے اس قلعہ میں غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ نہیں ابھی افریقہ کی غلامی کے دن کٹے نہیں.ابھی بہت ہی مشقتوں کا سامنا باقی ہے، ابھی آزادی کی طرف کتنی ہی منزلیں طے کرنا پڑی ہیں.میں نے غور کیا تو مجھے دکھائی دیا کہ روحانی آزادی کا ہی کیا سوال ابھی تک ان کی جسمانی غلامی کے دن بھی پورے نہیں ہوئے.

Page 92

خطبات طاہر جلدے 87 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۸۸ء غلامی کے نام بدل گئے ہیں، زنجیریں تبدیل کر دی گئیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی افریقہ اسی طرح غیر قوموں کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے جس طرح آج سے سو سال یا دوسو سال پہلے تھا.پہلے افریقہ کی جو دولت اقتدار کے برتے پر اور طاقت کے دبدبے سے لوٹی جاتی تھی اب وہ مختلف قسم کے عالمی مالی نظام کے چنگل میں جکڑ کر اب بھی لوٹی جارہی ہے.افریقہ آج بھی بے اختیار اور بے بس ہے اور غربت سے سسک رہا ہے آج بھی افریقہ غیر قوموں کا محتاج ہے.ہر وہ چیز جس کی افریقہ کو ضرورت ہے وہ غیر قوموں سے بن کر آتی ہے اور ہر وہ مال جو افریقہ میں پیدا ہوتا ہے ستے داموں غیر قو میں دن بدن پہلے سے زیادہ کھینچتی چلی جارہی ہیں.اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے مجھے کچھ اور زنجیریں بھی نظر آئیں جو عیسائیت کے ساتھ اور سلطنت برطانیہ یا سلطنت ولندیزی یاجو بھی سلطنتیں باہر سے آئیں ان کے ساتھ ساتھ وہ داخل ہوئیں لیکن آپ میں سے اکثریت کو آج بھی وہ زنجیریں دکھائی نہیں دے رہیں.وہ مغربی تہذیب و تمدن کی زنجیریں تھیں ان زنجیروں کے بندھن میں جس طرح کل افریقہ جکڑا ہوتا تھا آج بھی اس طرح جکڑا ہوا ہے بلکہ وہ بندھن اور بھی زیادہ تنگ اور شدید ہوتے چلے جارہے ہیں.آپ میں سے ایک بھاری طبقہ ایک ایسی طرز زندگی اختیار کرنے کا عادی بنایا جا چکا ہے کہ جن کی اب بس میں نہیں رہا کہ اس طرز زندگی سے چھٹکارا پاسکیں اور اس طرز زندگی کی بقا کا تمام تر انحصار غیر قوموں میں پیدا ہونے والی اجناس اور غیر قوموں میں پیدا ہونے والی صنعتی اشیاء کے ساتھ ہے.چنانچہ میں نے افریقہ کے جن ممالک کا دور کیا انہیں بہت ہی بدحال پایا اور اس لحاظ سے انتہائی درد محسوس کرتا رہا اور انتہائی کسک محسوس کرتا رہا.ان کے بڑوں سے بھی اور ان کے چھوٹوں سے بھی میں نے گفتگو کی اور میں نے محسوس کیا کہ وہ خود جانتے ہیں کہ آج بھی مہذب اور عظیم الشان قومیں امداد کے بہانے اور قرضوں کے بہانے ان کو جن زنجیروں میں جکڑتی چلی جارہی ہیں ان کی آزادی سے سر دست افریقہ کو کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی.آج افریقہ اپنی سڑکوں کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنے پلوں کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے،اپنے کپڑوں تک کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنے جوتوں کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنی ٹوتھ پیسٹ کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے اپنی آئسکریم کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے، اپنی کوکا کولا کے لئے غیر قوموں کا محتاج ہے.کونسی

Page 93

خطبات طاہر جلدے 88 خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۸۸ء زندگی کی وہ ضرورت ہے مجھے بتائیے جس میں آج افریقہ آزاد ہو چکا ہے.اس تہذیبی غلامی کا سب سے بداثر افریقہ کے ان تعلیم یافتہ لوگوں پر پڑا جن کی طرز معاشرت ایسی بن چکی تھی کہ وہ اپنے ملک کی بجائے غیر ملکوں میں اپنے کو زیادہ ترجیح دینے لگے.پس افریقہ کولوٹنے والا ایک ہاتھ نہیں رہا بلکہ ایک اور ہاتھ نمودار ہوا.ایک طرف سفید ہاتھ افریقہ کولوٹ رہا تھا دوسری طرف افریقہ کا اپنا کالا ہاتھ بھی افریقہ کو لوٹنے میں مصروف ہو گیا.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت افریقہ کی تہذیبی اور تمدنی اور اقتصادی آزادی میں سے بڑی روک وہ دوسرا ہاتھ ہے جو افریقہ کے ملک سے تعلق رکھتا ہے لیکن غلامی کی زنجیروں کو مستقل اور پختہ کرنے میں وہ غیر قوموں کی امداد کر رہا ہے.مجھے افریقہ کے بہت سے دانشوروں اور صاحب اقتدار دوستوں سے اس مسئلہ پر گفتگو کا موقع ملا اور حکومت کے با اختیار لوگوں سے ملنے کے بعد میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ وہ اپنی سر توڑ کوشش اس بات کی کر رہی ہیں کہ کس طرح افریقہ کی سیاسی آزادی کو ہی نہیں بلکہ اقتصادی اور معاشی اور تمدنی آزادی کو بھی بحال کریں.وہ عظیم الشان منصوبے اس بات کے بنارہے ہیں کہ افریقہ کی ضرورت کی چیزیں افریقہ ہی میں انڈسٹری کے ذریعہ پوری کی جائیں.وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ سڑکوں کی بحالی کا انتظام ہو اور پل بنائے جائیں تا کہ افریقہ کے جنگلوں کے علاقے سے قیمتی اشیاء آسانی کے ساتھ شہروں کی طرف منتقل ہو سکیں لیکن ان کی راہ میں سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ اس عالمی سرمایہ کاری کے نظام میں سرمایہ حاصل کئے بغیر اس قسم کے ترقیاتی منصوبے جاری نہیں کئے جاسکتے اور سرمایہ کاری کے لئے جب وہ مغربی قوموں سے رابطہ کرتے ہیں تو جن شرطوں پر سرمایہ کاری کے لئے وہ تیار ہوتے ہیں وہ شرطیں صرف حال ہی کو نہیں مستقبل کو بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لئے ایک جال کی طرح کام کرتی ہیں، ایک سازش کی طور پر رونما ہور ہی ہیں.قومی خدمت سے سرشار اور یہ عزم لئے ہوئے کہ ہر قیمت پر افریقہ کی ترقیات کے منصوبے جاری کرنے ہیں.ایک ایسے دوست سے میری ملاقات ہوئی جو حقیقتاً کلیۂ پورے خلوص کے ساتھ غانا کی خدمت پر آمادہ اور صرف آمادہ ہی نہیں بلکہ مستعدد دکھائی دیئے لیکن انہوں نے بڑے پر دردانداز میں مجھے اپنے تلخ تجربوں سے آگاہ کیا کہ کس طرح غیر قوموں سے گفت وشنید کے نتیجہ میں وہ محسوس کرتے رہے کہ جب بھی اقتصادی ترقی کے لئے کوئی منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا

Page 94

خطبات طاہر جلدے 89 خطبه جمعه ۱۲ / فروری ۱۹۸۸ء جاتا ہے تو وہ ایسی شرطیں پیش کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنا مستقبل بھی ان قوموں کے ہاتھ میں بیچ دیں گے.چنانچہ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ہم ہر قسم کے خطرات سے آگاہ ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ مزید نقصان سے بچتے ہوئے ایسے معاہدے کریں جن کے نتیجہ میں افریقہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے یعنی غانا ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے.میں نے ان سے عرض کیا کہ میری دعا یہی ہے کہ آپ کامیاب ہوں.میری دلی تمنا یہی ہے اور اس ملک سے جانے کے بعد بھی میں ہمیشہ درد سے آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا لیکن اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے کبھی بلی چوہے کے کھیل میں یہ نہیں دیکھا کہ چوہے کی کوشش بلی پر غالب آنے میں کامیاب ہو سکی ہو.ہاں میں نے ضرور خود اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک بلی جس کا پیٹ بھرا ہوا تھا ایک چوہے سے کھیلتی رہی وہ چاہتی تو اسے ہرگز اپنے بل میں داخل نہ ہونے دیتی لیکن جب اس نے کھیل کر شوق پورا کر لیا تو خود اپنی رضا سے اسے بل میں داخل ہونے دیا مگر افسوس صد افسوس کہ آج افریقہ کو جن بلیوں سے واسطہ ہے ان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور مستقبل میں بھی اس کے بھرنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے.پس میں نے غور کیا تو مجھے پہلے سے بھی بڑھ کر اس بات کا یقین ہو گیا کہ افریقہ کو خود اپنی ہستی کی شناخت دوبارہ کرنی پڑے گی اور خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا اور دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی پڑے گی اس کے سوا افریقہ کی نجات کا اور کوئی چارہ نہیں.پس میں نے جب یورپ اور افریقہ کے افق پر نظر دوڑائی تو اس بات سے حیران بھی ہوا اور مطمئن بھی کہ غانا کے جولوگ یورپ اور امریکہ میں بس رہے ہیں.ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر وہ اس شعور کے ساتھ بیدار ہو جائیں اس عزم کے ساتھ بیدار ہو جائیں کہ ہم نے اپنی قوم کی خدمت کرنی ہے تو وہ روپیہ بھی جو خود یہاں سے وہ باہر منتقل کر چکے ہیں اور وہ روپیہ بھی جو باہر انہوں نے بیٹھ کر کمایا ہے ملک میں واپس بھیجنا شروع کر دیں تو آپ کو کسی غیر قوم کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.ان تعلیم یافتہ متمول غانین سے بہتر تو پاکستان کے غریب مزدور اپنے ملک سے سلوک کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو اقتصادیات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کی تمام دولت کا 40 فیصد وہ روپیہ ہے جو غریب مزدور باہر کے ملکوں سے کما کر اپنے ملک کو واپس بھیجتے ہیں.یہی حال ترکی کے مزدوروں کا

Page 95

خطبات طاہر جلدے 90 90 خطبه جمعه ۱۲ رفروری ۱۹۸۸ء ہے جو جرمنی اور سوئٹرز لینڈ اور یورپ کے بعض دیگر ممالک سے روپیہ کما کر اپنے ملکوں کو بھیجتے ہیں یہی حال چیکوسلواکیہ کے مزدوروں کا ہے، یہی حال یوگوسلاویہ کے مزدوروں کا ہے، یہی حال مرا کو کے مزدوروں کا ہے، یہی حال الجیریا کے مزدوروں کا ہے.دنیا کی جتنی قو میں میں نے دیکھیں وہ یورپ میں آکر یا امریکہ جا کر روپیہ کما تیں اور واپس اپنے ملکوں کوبھیجتیں ہیں لیکن یہ بدنصیبی اور بد قسمتی صرف افریقہ کے حصہ میں دیکھی ہے کہ یہاں کے لوگ نہ صرف باہر کاروپیہ باہر رکھتے ہیں بلکہ خود اپنے ملک کا روپیہ بھی یہاں سے نکال کر باہر منتقل کر رہے ہیں.پس فی الحقیقت اگر آپ آزادی کی تمنا رکھتے ہیں، اگر فی الحقیقت آپ ان آزاد قوموں کی صف میں شمار ہونا چاہتے ہیں جو تاریخ پر اپنے نام ثبت کر دیا کرتی ہیں تو پہلے اپنے نفسوں کو آزاد کریں اپنے رجحانات کو آزاد کریں، اپنے آپ کو مغربی تہذیب و تمدن کے رعب سے آزاد کریں اس کے بغیر افریقہ کی آزادی ممکن نہیں ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمام دنیا کی جماعتیں اس معاملہ میں آپ کی مدد کریں گی اور اس بارہ میں میں ان کی تفصیلی رہنمائی کروں گا کہ کس طرح افریقن کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے بیدار کرنا ہے اور کس طرح سارے ملکوں میں یہ مہم چلانی ہے کہ جاؤ اپنے ملک کو جاؤ ، وہاں کے غریبوں کے حال کو دیکھو تمہاری آنکھیں جو یہاں کے ناچ گانوں کی مسرت میں پاگل ہوئی ہوتی ہیں اور اندھی ہو چکی ہیں.جائیں اور اپنے غریبوں کی حالت پر جا کر آنسو بہانا سیکھیں.اسی میں زندگی ہے اور اسی میں آپ کا مستقبل ہے.غلامی کی یہ بھیانک رات جو صدیوں سے آپ کے ملکوں پر طاری ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اس رات سے نجات دلانے میں ہر ممکن آپ کی مدد کرے گی، ہر لحاظ سے اس میں کوشش کرے گی لیکن جب تک آپ کے دلوں میں روشنی پیدا نہ ہو اس وقت تک یہ تاریکی کی راتیں دنوں میں تبدیل نہیں ہو سکتیں.

Page 96

خطبات طاہر جلدے = 91 خطبه جمعه ۱۹؍ فروری ۱۹۸۸ء افریقی کردار کی عظمت اور نائیجیرین احمدیوں کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ / فروری ۱۹۸۸ء بمقام او جوکورونائیجیریا کے انگریزی متن کا اردو تر جمہ ) خطبہ سے قبل حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: خطبہ کے دوران نہ تو آپ ہنس سکتے ہیں اور نہ ہی بلند آواز سے خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں.پس یہ آپ خطبہ جمعہ شروع ہونے سے پہلے کرلیں.نائیجیریا سے ایک احمدی نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اس طرح کا لباس (افریقی چوغہ ) پہنا ہوا ہے.ان صاحب کا تعلق بین شہر سے تھا.انہوں نے اپنی خواب پوری کرنے کے لئے یہ لباس مجھے لندن بھجوایا اور مجھ سے درخواست کی کہ جب میں نائیجیریا آؤں تو اس کو ساتھ لاؤں اور اسے پہنوں.میں نے ان سے وعدہ کر لیا.جب میں نے اجو بوڈے کا دورہ کیا تو وہاں ایک احمدی نوجوان نے (جو کہ غالباً کنسٹرکشن کے کاروبار سے منسلک ہیں ) بھی مجھے ایک لباس دیا جس کو میں نے اندر کی طرف پہنا ہوا ہے.میں نے ان سے بھی وعدہ کیا تھا کہ میں اس کو جمعہ کے موقع پر پہنوں گا.پس ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ میں نے وعدہ پورا کر دیا ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے فضل کے ساتھ میرا دورہ افریقہ اب اختتام پذیر ہورہا ہے.افریقہ کا پہلا ملک جس کا میں نے دورہ کیا وہ گیمبیا ہے اور اس دورہ میں نائیجیریا آخری ملک ہے.لیکن میں امید رکھتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میرا یہ دورہ آخری ثابت نہ ہو بلکہ اللہ مجھے توفیق دے کہ میں یہاں بار بار آؤں تا کہ آپ لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں اور آپ کی باتوں کو اپنے کانوں سے سن سکوں.رپورٹ سے سن لینا اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے سے بہت مختلف ہوتا ہے.افریقہ کا جو تصور میں

Page 97

خطبات طاہر جلدے 92 خطبه جمعه ۱۹؍ فروری ۱۹۸۸ء نے یہاں آنے سے پہلے قائم کیا ہوا تھا وہ یہاں آنے کے بعد ڈرامائی طور پر بدل گیا ہے اور بنیادی طور پر اس میں یکسر تبدیلی ہوگئی ہے کیونکہ میں یہاں پر موجود رہ کر آپ کو انتہائی قریب سے دیکھ رہا ہوں اور آپ سے باتیں کر رہا ہوں اور ان مسائل سے آگاہی حاصل کر رہا ہوں جو آپ کو در پیش ہیں.اس حوالہ سے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ دورہ بہت ہی مفید رہا ہے.میں نے افریقہ اور افریقہ کے کردار کے بارہ میں بہت سی اچھی باتیں معلوم کی ہیں.میں نے نائیجیریا اور نائیجیرین کردار کے بارہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں دریافت کی ہیں اور اس دریافت سے میں بہت خوش ہوں لیکن میں نے چند غلط باتوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے جس سے مجھے تکلیف پہنچی ہے جس کے بارہ میں مستقبل میں بہت فکر مند ہوں لیکن نا امید بالکل نہیں.پس میں مختصراً آپ سے ان باتوں کے بارہ میں گفتگو کروں گا تا میں آپ کو آپ کے ملک اور اس براعظم کے بارہ میں آپ کی ذمہ داریاں یاد دلاؤں.دوانتہائی اہم چیزیں جو میں نے افریقہ کے متعلق دریافت کی ہیں:.نمبر ایک یہ کہ افریقی لوگ بہت کشادہ ذہن کے ہیں.وہ عقیدہ کے لحاظ سے کشادہ ذہنی سے کام لیتے ہیں اور تعصب نہیں رکھتے.وہ تنگ ذہن نہیں رکھتے اور جب آپ ان سے دلیل اور حکمت کے ساتھ بات کریں تو وہ ہمیشہ اس کو قبول کرتے ہیں اس حوالہ سے افریقی ممالک دوسرے تمام ممالک سے ممتاز ہیں جن کا میں نے اب تک دورہ کیا ہے.پس وہ لوگ جو آپ کو تاریک براعظم کے لوگ گردانتے ہیں اور کم ذہین لوگ سمجھتے ہیں وہ سب غلط ثابت ہوئے ہیں.آپ روشن لوگ ہیں جن کو بصیرت عطا کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دانائی عطا کی ہے.اللہ نے آپ کو یہ صلاحیت ودیعت کی ہے کہ آپ صحیح کو غلط سے ممتاز کر سکیں.آپ صرف روشن خیال ہی نہیں ہیں بلکہ آپ زندگی کے ہر شعبہ میں لوگوں کے فائدہ کیلئے ترقی کے سامان بھی کر سکتے ہیں.انشاء اللہ جو لوگ دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو صحیح کو غلط سے ممتاز کر سکتے ہیں جو کھری کھری باتیں کر سکتے ہیں تو ان کی یہ استعدادیں ان کے روشن اور بہتر مستقبل پر دلالت کرتی ہیں.دوسری خوبی افریقی کردار کی جس نے مجھے بہت ہی متاثر کیا ہے وہ افریقہ کا صبر قتل ہے.وہ ایسے صابر ہیں کہ جس قدر ملکوں کا میں نے دورہ کیا ہے میں نے صبر کو ان کا علامتی نشان پایا

Page 98

خطبات طاہر جلدے 93 خطبه جمعه ۹ار فروری ۱۹۸۸ء ہے.جوان اور بوڑھے، مرد اور عورتیں ان سب میں یہ زبر دست خوبی موجود ہے کہ وہ صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور خاموش رہتے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور ان کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا.تیسری اہم خوبی جو آپ میں دوسرے افریقی ممالک کی طرح پائی جاتی ہے وہ آپ کا مختلف نظریات کوسنا اور برداشت کرنا ہے.میں نے افریقی ممالک میں عیسائیوں ،مسلمانوں، لامذہب لوگوں جنہیں آپ جو بھی کہیں ان سب کو ایک خاندان میں اکٹھے رہتے ہوئے دیکھا ہے.جو انتہائی پر امن طریق اور ایک دوسرے سے موافقت کے ساتھ رہ رہے ہیں.وہ گھر کے امن کو بھی خراب نہیں کرتے اور نہ علاقے اور ملک کے امن کو خراب کرتے ہیں صرف اس بنا پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں اختلاف رائے رکھتے ہیں اور یہ کہ اللہ ان کے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ کر دیگا.وہ ان باتوں کو اللہ پر چھوڑتے ہیں کہ وہی ان کا فیصلہ کرے گا.وہ خدا نہیں بنتے وہ تنگ ذہن نہیں ہیں کہ صرف اس بات پر کہ لوگ اختلاف عقیدہ رکھتے ہیں انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیں.یہ بہت ہی خوبصورت نقطہ ہے اور بہت ہی خوبصورت افریقی کردار ہے جو کہ دوسری دنیا میں بہت ہی کم ملتا ہے اگر ملتا ہے بھی تو وہ کم طاقت اور کم شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے.افریقی کردار کا چوتھا ہم وصف ان کا شکر گزار ہونا ہے.یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں کیلئے جذبات شکر رکھتا ہو ورنہ اس کا خدا تعالیٰ کیلئے شکر گزار ہونے کا دعویٰ غلط ہوگا.یہ اصل میں وہ بات ہے جو ہمیں حضرت محمد مصطفی امیہ نے سکھائی ہے جب آپ نے فرمایا کہ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله ( ترندی کتاب البر والصله حدیث نمبر: ۱۸۷۷) یعنی وہ شخص جولوگوں اور اپنے ساتھیوں کا شکر ادانہیں کرتاوہ اللہ کا بھی شکر نہیں کرتا.اگر وہ اپنے ساتھیوں کا شکر یہ ادا نہیں کرسکتا.میں نے جہاں کہیں بھی دورہ کیا ہے جذبات شکر کی اس خوبی کو محسوس کیا ہے جس کا اظہار نہ صرف الفاظ سے ہوا بلکہ عمل سے بھی ہوا.مثال کے طور پر جب میں گیمبیا پہنچا تو حکومت نے بہت مہربانی کی.وزراء میرے استقبال کیلئے ایئر پورٹ پر موجود تھے اور ہمہ وقت میرے ساتھ موجود رہے.انہوں نے میرے پاس آنا جانا جاری رکھا اور مستقل طور پر مجھ سے اپنی موجودگی کا تعلق قائم رکھا اور میں نے گیمبیا کا جہاں بھی دورہ کیا یہی معاملہ رہا ہمہبران پارلیمنٹ ،کمشنر ز اور ہر شخص میرے

Page 99

خطبات طاہر جلدے 94 خطبه جمعه ۹ار فروری ۱۹۸۸ء آمد کے انتظار میں کھڑا تھا.میں بہت حیران ہوا میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا.میں ایک مذہبی راہنما ہوں ، سر براہ مملکت نہیں ہوں میں حیران تھا کہ یہ سلوک جو مجھ سے ہورہا ہے یہ تو سر براہان مملکت کے ساتھ کیا جاتا ہے.پولیس ، ٹریفک پولیس ہر شخص بہت ہی مہربان اور شفقت کے ساتھ پیش آ رہا تھا اس سے میں بہت متاثر بھی ہوا اور حیران بھی کہ یہ کیا ہورہا ہے.تب میں نے براہ راست ایک وزیر سے یہ سوال کر دیا کہ آپ یہ سب کچھ میرے ساتھ کیوں کر رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ نے ہمارے ساتھ کیا حسن سلوک کر رکھا ہے.یہ تمام سکولز ہسپتال اور نیک نامی جو احمدی یہاں ساتھ لاتے ہیں یعنی امن کی فضاء، امن کا پیغام اور نیک برتاؤ! آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم ان باتوں کا مشاہدہ نہیں کرتے.ہم آپ کے ممنون احسان ہیں.پس ان انتہائی جذبات شکر کا اظہار نہ صرف الفاظ میں بلکہ عمل کے ذریعہ سے بھی کیا گیا.اس لئے میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر یہ خوبی محض افریقہ کے ساتھ خاص نہیں تب بھی کم از کم افریقی کردار کی خاصیت ضرور ہے.اس قسم کے معاملات ہر جگہ ہوتے ہیں کہیں کچھ اختلاف کے ساتھ لیکن جذبات شکر کھل کر ہر جگہ جہاں میں نے دورہ کیا ہے سامنے آئے.مثلاً جب میں سیرالیون پہنچا تو بہت حیران ہوا کہ سیرالیون کے صدر محترم نے خاص ہدایات دی ہوئی تھیں کہ ان کا ذاتی ہیلی کاپٹر میرے لئے استعمال ہوگا اور میرے انتظار کیلئے انہوں نے ایک وزیر کو مقرر کیا تا کہ وہ میرے دورہ کا خیال رکھے اسی طرح انہوں نے ایک اے، ڈی ہی بھی مقرر کر دیا.تو یہ بہت ہی زیادہ نوازش تھی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس قسم کا سلوک میرے جیسے عام اور عاجز آدمی کیلئے کیا جائے گا یعنی ایک مذہبی رہنما کیلئے جو کہ کسی ریاست سے تعلق نہیں رکھتا.جس وزیر کو اس کام کیلئے مقرر کیا گیا تھا میں نے ان سے استفسار کیا.وہ مذہبی امور کے وزیر اور مسلمان تھے احمدی نہ تھے لیکن انہوں نے واضح الفاظ میں اس بات کو تسلیم کیا.انہوں نے کہا کہ آپ خود بھی صحیح طور پر اس بات کو محسوس نہیں کر سکتے کہ آپ نے اب تک ہماری کیا خدمت کی ہے.پورے ملک میں ۹۷ پرائمری سکول ،۲۶ ہائر ایجوکیشن سکولز جو کہ اس قدر اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ان میں بھجوانے کو ترجیح دیتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم بچوں کو مشن سکولز یا گورنمنٹ کے سکولوں میں بھجوائیں.تو ہم یہ باتیں جانتے ہیں لیکن آپ یہ محسوس نہیں کر سکتے.آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے ایک مہربانی کی اور بھول گئے لیکن ہم اس احسان کو بھول نہیں

Page 100

خطبات طاہر جلدے 95 خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۸۸ء سکتے.تو یہ ایک وجہ ہے آپ کا استقبال کرنے کی اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں.دوسری بات جس کا انہوں نے مجھ سے ذکر کیا اور جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ، انہوں نے کہا کہ دیکھیں اگر سیرالیون میں احمدیت نہ آتی تو یہ سارا ملک عیسائی ہو چکا ہوتا اور اسی طرح پورے افریقہ کیلئے بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے.آپ لوگ پر امن رہتے ہیں ہمحبت کرتے ہیں ، فساد پیدا نہیں کرتے لیکن آپ نے دلیل کے زور پر مسلسل پیچھے لگے رہنے کی طاقت اور محبت کی قوت سے عیسائیت کو شکست دے دی ہے اور ہمیں باور کروایا ہے کہ صرف اسلام ہی دنیا میں آخری مذہب ہے.پس یہ شکست تلوار کے ذریعہ سے نہیں ہوئی بلکہ محبت سے ہوئی ہے.اس چیز نے ہمیں بہت مسرت بخشی اور ہم اس پر ہمیشہ آپ کے شکر گزار ہیں گے.جس چیز نے مجھے مزید حیران کیا وہ یہ کہ عیسائی بھی شکر گزار تھے.وہ بہت مہربان،خوش اخلاق، مہمان نواز اور فراخ دل تھے.انہوں نے اس بات کو قطعا برانہیں منایا کہ اس براعظم میں دراصل ہم ہی ان کے مقابل پر ہیں.انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ مسلمانوں میں سے صرف احمدی ہی ہیں جنہوں نے عیسائیت کے پھیلاؤ کو افریقہ میں روک دیا ہے اور اکثر جگہوں پران کے کام کو پلٹ کے رکھ دیا ہے.وہ پوری طرح اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ آج صرف احمدی ہی ہیں جو اسلام کے لئے عیسائیت پر فتح پارہے ہیں اور وہ دن گئے جب عیسائی مسلمانوں کو فتح کیا کرتے تھے.یہ سب کچھ جانتے ہوئے عیسائی سربراہان مملکت ، عیسائی وزراء، عیسائی عوام، عیسائی مذہبی راہنماؤں کا رویہ بہت ہی مہربان شفیق اور مہمان نواز تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم افریقہ کی خدمت کر رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اتنا ہی افریقی سمجھتے ہیں جتنا کہ مسلمان.جب میں نے سیرالیون کے شمالی علاقہ کا دورہ کیا جو رومن کیتھولک کے کنٹرول میں ہے تو میں بہت حیران ہوا جب میں نے دیکھا کہ بشپ صاحب جو کہ شمالی حصہ کی سب سے بڑی عیسائی شخصیت ہیں دوسرے احمدیوں اور مسلمانوں کے ہمراہ جو کہ میرے استقبال کیلئے اکٹھے ہوئے تھے میرے استقبال کیلئے منتظر کھڑے تھے.صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ وہ میرے خطاب کے دوران پورا وقت بیٹھے رہے اور انہوں نے مجھے کار میں الوداع بھی کیا.جب تک کار چلی نہیں گئی وہ وہاں سے نہیں گئے.یہی معاملہ جنوبی علاقہ میں بھی پیش آیا.جنوبی علاقہ کے بشپ صاحب بھی دوسرے میزبانوں

Page 101

خطبات طاہر جلدے 96 96 خطبه جمعه ۹ار فروری ۱۹۸۸ء کے ہمراہ میرے استقبال کیلئے کھڑے تھے اور وہ ہماری تقریب میں شامل ہوئے اور ہمہ وقت بڑی شفقت اور خوش اخلاقی سے پیش آئے.پس یہ افریقی کردار کی خوبصورتی ہے جس کی بہر حال آپ کو حفاظت کرنی ہے.آپ نے کسی دشمن کو اس خوبصورت کردار کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دینی.اب میں ان نکات کی طرف آتا ہوں جو مجھے پریشان کر رہے ہیں اور ان میں سے ایک کا تو براہ راست تعلق اس آخری نکتہ سے ہے جو ابھی میں نے اٹھایا ہے.یہ امن، یہ باہمی محبت ، یہ کردار کی موافقت جو کہ مغربی افریقہ کا مشترک خاصہ ہے کم از کم جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اب اس کو بعض غیر ملکی عناصر سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں ، بعض سیاسی قوتوں سے جو کہ مذہب کو استحصال کیلئے استعمال کرتی ہیں اور معاشرے کے گروہوں کے درمیان نفرت کے جذبات ابھارتی ہیں.وہ یہ کام محبت کے نام پر اللہ کے نام پر سچائی کے نام پر کرتے ہیں،.وہ لوگوں میں بدصورتی پھیلاتے ہیں، نفرت پھیلاتے ہیں، جھوٹ کو پروان چڑھاتے ہیں.انسانی اخلاق میں بگاڑ کا مظاہرہ اب افریقہ میں شروع ہو چکا ہے.نائجیریا میں، غانا میں، گیمبیا میں، سیرالیون میں، لائبیریا میں، آئیوری کوسٹ میں ان تمام ممالک میں جہاں میں نے دورہ کیا ہے.اسی طرح رپورٹس کے ذریعہ مجھے علم ہوتا رہا ہے کہ افریقہ کے مشرقی حصہ میں بھی یہی کوششیں ہورہی ہیں.تو یہ وہ بات ہے جسے آپ کو ضرور محسوس کرنا چاہئے.لوگ دوسرے ممالک سے آکر کوشش کر رہے ہیں کہ نائیجیرین معاشرہ کے ایک حصہ کی دوسرے کے حصہ کے درمیان نفرت پیدا کر دی جائے.وہ امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.کس لئے ؟ اللہ کے نام پر ! ان کی اس احمقانہ حالت کا اندازہ لگائیے.ابھی بھی معصوم لوگ کسی اور نام کی نسبت ہمیشہ اللہ کے نام پر زیادہ گہری توجہ دیتے ہیں.پس آپ کو بے وقوف بنایا جارہا ہے.آپ کو آپ کے کردار اور آپ کے امن کے خلاف ایک چراگاہ بنایا جارہا ہے.اگر آپ نے ان باتوں کی اجازت دے دی تو وہ دن دور نہیں جب نائیجیرین نائیجیرین کے خلاف اسلام کے نام پر، عیسائیت کے نام پر ، مالکیت کے نام پر، احمدیت کے نام پر ، اس کے نام پر اور اُس کے نام پر جنگ کر رہا ہو گا.پس ایک احمدی ہونے کے ناطے یہ عہد کریں اور احمدیوں کو میں پابند کرتا ہوں کہ وہ اس برائی کے خلاف جہاد کریں اور اپنے ملک کے امن کا دفاع کریں تا کہ نائیجیرین لوگوں کے درمیان موافقت پروان چڑھے خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو.اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو انتہائی

Page 102

خطبات طاہر جلدے 40 97 خطبه جمعه ۱۹؍ فروری ۱۹۸۸ء خوبصورت کردار عطا کیا ہے آپ کو اس کی لازماً حفاظت کرنی چاہئے.آپ کو اپنے ملک کے اندر رواداری کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ اتفاق کے بغیر ملک میں موافقت کی فضا کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی.پس وہ آپ کے ایمان کے دشمن ہیں جو آپ کو نفرت کے جھنڈوں تلے جمع ہونے کیلئے بلاتے ہیں وہ آپ کے اخلاق کے دشمن ہیں، وہ افریقی کردار کے دشمن ہیں اور وہ انسانیت کے دشمن ہیں.ان کی آواز پر کان نہ دھریں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آواز پر لبیک کہیں جو کہ قرآن کریم کی رو سے محبت اور امن کے پیغامبر تھے تمام دنیا کیلئے جیسا کہ قرآن کریم ہمیں بتا تا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء :١٠٨) اے محمد ! ہم نے تجھے صرف مسلمانوں کیلئے رحمت کا سرچشمہ ہی نہیں بنا کر بھیجا بلکہ ہم نے تجھے تمام انسانیت کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.یہ آپ کے مطاع ہیں ان کی پیروی کریں اور اس عظیم ماضی سے روگردانی کرنے کی خود کو قطعاً اجازت نہ دیں.پس میرا آپ کو صرف یہ پیغام نہیں ہے کہ آپ دوسرے مسلمانوں سے نفرت نہ کریں اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ میرا آپ کو پیغام یہ ہے کہ آپ نہ تو عیسائیوں سے نفرت کریں، نہ لادین لوگوں سے نفرت کریں، نہ کسی اور انسان سے نفرت کریں.یہ میرا آپ کو پیغام ہے.آپ اللہ کی مخلوق سے کیسے نفرت کر سکتے ہیں اور دعوی یہ کر رہے ہوں کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں؟ یہ ممکن نہیں ہے، یہ جھوٹ اور افترا ہے.کیا آپ ایک ماں سے محبت رکھ سکتے ہیں جبکہ اس کے بچوں سے نفرت کرتے ہوں پھر بھی آپ ماں سے توقع کریں کہ وہ آپ کے پیار کو قبول کر لے یہ ناممکن ہے.پس وہ لوگ جو اللہ کے بندوں اور اس کی مخلوق سے ایک طرح سے اللہ کی محبت میں نفرت کرتے ہیں تو ان کی محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسترد کر دی جاتی ہے.آپ جانتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺہ تمام نبیوں سے افضل و اعلیٰ بنائے گئے.کیوں وہ صرف عربوں کی بجائے سب انسانیت کیلئے مبعوث ہوئے تھے؟ اس میں راز یہ ہے کہ آپ کی محبت سب کیلئے تھی قطع نظر کسی کے مذہب کے قطع نظر کسی کے جغرافیائی اختلافات کے، بلا تمیز رنگ ونسل و عقیدہ کے.انہوں نے تمام انسانوں سے محبت کی کیونکہ انہیں اللہ سے انتہائی خالص محبت تھی وہ انتہائی پر خلوص ، کامل اور پختہ تھی.تو آپ نے اللہ کی مخلوقات سے محبت کی نہ صرف انسانوں سے بلکہ حیوانوں سے بھی محبت کی ، نہ

Page 103

خطبات طاہر جلدے 98 خطبه جمعه ۱۹؍ فروری ۱۹۸۸ء صرف جانوروں سے بلکہ اللہ کی بنائی ہوئی تمام فطرت سے محبت کی.اس وجہ سے آپ کو رحمتہ اللعالمین کہا گیا.نہ صرف انسانوں کیلئے رحمت بلکہ جو کچھ اللہ نے پیدا کیا اس کیلئے آپ رحمت ہیں.پس اگر آپ سچ مچ اللہ سے پیار کرتے ہیں جس کا مجھے یقین ہے اور آپ کو پہلے ہی معلوم ہے تو آپ خود بخود اللہ کی مخلوق سے محبت کریں گے.لیکن آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ امر واقعہ ہے کہ آپ تعداد میں تھوڑے ہیں آپ طاقت میں کمزور ہیں اگر آپ حقیقت میں اللہ سے محبت کرتے ہوں اور صحیح معنوں میں انسانیت سے پیار کریں تو قطعی پر آپ فتح مند ہو جائیں گے کیونکہ نفرت محبت پر کبھی غالب نہیں آسکتی.ہمیشہ محبت ہی غالب آتی ہے اور نفرت کو شکست دیتی ہے.اب میں دوسرے نکتہ کی طرف آتا ہوں.ایک حقیقی مومن کو سچا محب وطن ہونا چاہئے.یہ وہ بات ہے جس کا درس ہمیں رسول اکرم ﷺ نے دیا ہے.ان کی بنی نوع انسان سے محبت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ محب وطن نہ تھے.حب الوطنی ایمان کا جزو ہے یہ رسول کریم اللہ کا فرمان ہے کہ حب الوطن من الایمان ( سخاوی دارالکتب العربیہ ) کہ تمہارا اپنے وطن سے محبت کرنا تمہارے ایمان کا حصہ ہے.پس اس بات کو کبھی نہیں بھلانا چاہئے کہ آپ کا وطن آپ کی خصوصی خدمت کا ترجیحاً متقاضی رہتا ہے اور یہ بات آپ کے ایمان سے ٹکراتی نہیں بلکہ یہ آپ کے ایمان کا جزو ہے.یہ دوسرا نکتہ ہے جس نے مجھے بہت پریشان کیا ہے کیونکہ میں نے نائیجیریا میں مشاہدہ کیا ہے کہ نائیجیرین اپنے حب الوطنی کے تصور میں الجھن کا شکار ہیں.اس بات میں کہ وہ اپنے وطن کے ساتھ محبت کا اظہار کس طرح کریں.اس بات پر آپ حیران ہوتے ہونگے کہ میں تو نائیجیرین نہیں ہوں اور میں تو یہاں ایک سرسری سے مختصر دورہ پر آیا ہوں یہ بات میں کیسے کہہ سکتا ہوں.آپ یہ نہیں جانتے لیکن ایسا یہاں ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے معاملہ نبی کا ملکہ عطا فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے بات کے نچوڑ تک پہنچانے میں اللہ زیادہ دیر نہیں لگا تا.پس جب میں یہاں آیا تو میں نے حب الوطنی کے بارہ میں نائیجیریا کے لوگوں کو کچھ الجھا ہوا پایا کہ یہ کیا ہے.(اس حصہ کے ترجمہ ہو جانے کے بعد میں اس بارہ میں وضاحت کرتا ہوں).میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ غیر نائیجیرین سے نفرت کرنا حقیقی حب الوطنی ہے یعنی وہ تمام لوگ جو نائیجیرین نہیں ہیں اگر آپ ان سے نفرت

Page 104

خطبات طاہر جلدے 99 خطبه جمعه ۱۹ / فروری ۱۹۸۸ء کریں.اگر آپ ان پر بلند آواز سے آواز میں کہیں، اگر آپ اخبارات میں ان کے بارہ میں مضامین لکھیں یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ ان سب کو نائیجیریا سے نکال دیا جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید حقیقی حب الوطنی ہے.یہ غلط بات ہے.اس نفرت کا حب الوطنی یا کسی اچھائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور بدقسمتی سے یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو نائیجیریا سے باہر غیر ممالک میں بھجوار ہے ہیں.وہ سمگلنگ میں ملوث ہیں، وہ خورد برد میں ملوث ہیں اور نہیں محسوس کرتے کہ یہ حب الوطنی نہیں ہے.اگر وہ سچے محب وطن ہوتے تو وہ کچھ مثبت کام نایجیریا کی خدمت میں کرتے.یہ تو محض احمقانہ بین ہے.یہ یاد رکھیں کہ بد عنوانی اور حب الوطنی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں.یادرکھیں مالی خورد برداور حب الوطنی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں، یا درکھیں سمگلنگ اور حب الوطنی ایک ساتھ نہیں چل سکتی ، یا درکھیں عوامی دولت کا استعمال اور حب الوطنی اکٹھی نہیں چل سکتیں.حب الوطنی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ہم وطنوں اور ملک کیلئے مصروف خدمت ہوں، ملک کی دولت کی حفاظت کیلئے کھڑے ہوں نہ کہ ان کی حفاظت کیلئے جو آپ کے ملک کو لوٹتے ہیں.پس حب الوطنی کا بگڑا ہوا یہ تصور آپ کو اس قدر شدید نقصان پہنچا رہا ہے کہ آج آپ کو اس قدر نقصان نہ کوئی غیر ملک اور نہ کوئی غیر ملکی طاقت پہنچا سکتی ہے.اسے محسوس کریں اور بیدار ہو جائیں اور سمجھیں کہ آپ کے ملک کے ساتھ کیا ہورہا ہے.سب سے زیادہ تو ایک نائیجیرین ہی اپنے ملک کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ذمہ دار ہے.آپ نے اپنے رویوں کی کایا پلٹتے ہوئے تبدیلی لانی ہے.اس کیلئے میں خاص طور پر احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور تمام نائیجیریا کیلئے نمونہ بنیں.انہیں سب سے پہلے خود ایماندار بننا ہوگا.انہیں حکومت کی مدد میں سب سے پہلے آگے آنا ہوگا ہر اس کام میں جو نائیجیریا میں معیار زندگی کو بہتر کرنے کیلئے اٹھایا جارہا ہے.انہیں ان لوگوں کی صف میں کھڑا ہونا ہوگا جو نائیجیریا کی خدمت کیلئے کوشاں ہیں.ان لوگوں میں ہرگز شامل نہیں ہونا جو ملک کو لوٹ رہے ہیں، مالی خورد برد کرتے ہیں اور دولت کو ملک سے باہر بھیجتے ہیں بلکہ انہیں وہ لوگ بننا ہے جو اپنے مال کی قربانی کرتے ہیں.ان کی قوت اور طاقت اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کیلئے ہونی چاہئے.یہ وہ حقیقی حب الوطنی ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اللہ 6*

Page 105

خطبات طاہر جلدے 100 خطبه جمعه ۱۹ / فروری ۱۹۸۸ء کے محبوب بن جائیں تو آپ کو سچا محب وطن بنا ہو گا جیسا کہ اللہ آپ کو دیکھنا چاہتا ہے.الفاظ سے لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا.لوگوں کو کام کی ضرورت ہے.بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم محب وطن ہیں.آپ کو انہیں سمجھانا چاہئے کہ حقیقی حب الوطنی کی بنیاد دو خدمتوں پر ہے یعنی بے نفسی اور ہمدردی خلق پر.پس تمام احمد یوں کو ملک گیر مہم چلانی چاہئے کہ وہ حقیقی اور مثبت حب الوطنی کو پروان چڑھائیں جو کہ آپ کے ملک کیلئے آج انتہائی ضروری ہے، اتنی ضرورت اس کو پہلے کبھی نہ تھی.آپ لوگوں کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ آپ خدا دا د انعاموں کے مالک لوگ ہیں اور آپ کا ملک افریقی علاقے میں خصوصی طور پر انعام یافتہ ہے.آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ میں آپ کا ملک سب سے بڑا ہے.اتنی زیادہ آبادی اور کسی ملک کی نہیں ہے اور یہ بھی یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت زیادہ دولت سے نوازا ہے.یہ دولت زرعی استعداد کی بھی ہے اور معدنی وسائل کی بھی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے دماغ بھی دیئے ہیں ، کردار کی عظمت بھی عطا کی ہے تا کہ آپ اس خدا داد صلاحیت کا درست استعمال کریں.پس آپ کے قدموں تلے معدنی وسائل مہیا ہیں تا کہ آپ ان کو اپنے ملک کی عظمت کیلئے اور اپنی مستقبل کی نسل کی عظمت کیلئے بروئے کار لا سکیں لیکن صرف یہی نہیں بلکہ میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس سے زیادہ بلند ہوں.اگر آپ اپنے ذرائع کو مناسب طریق پر بروئے کار لائیں اور اس سے کافی دولت پیدا کریں تو آپ حیران ہونگے کہ آپ نے بہت زیادہ دولت اور طاقت نائیجیریا میں حاصل کر لی ہے بہ نسبت غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کرتے ہوئے.آپ اپنے دوسرے ہمسایہ ممالک کی مدد کر سکتے ہیں اور ان کے سر پرست بنتے ہوئے آپ ان کی جسمانی ، مادی اور روحانی مدد کر سکتے ہیں اور اسی طرح بڑا بھائی ہونے کے ناطے اپنے چھوٹے بھائیوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں مدد کر سکتے ہیں.پس غریب ہمسایہ ممالک کیلئے آپ بڑے بھائی کا کردار ادا کریں.وہ آپ سے زیادہ غریب ہیں.میں نے ان میں سے چند ممالک دیکھے ہیں اور میں غم کے مارے جذبات سے مغلوب ہو گیا جب میں نے سنا کہ لوگ وہاں بھوک کی تباہ کاری سے بے حال ہوتے جاتے ہیں.یہاں نائیجیریا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ عطا کیا ہے پس دولت کے معاملہ میں تھڑ دلی کا مظاہرہ نہ کریں نہ صرف نائیجیرین کی خاطر بلکہ افریقی لوگوں کی خاطر بھی جو آپ کے اردگر در ہتے ہیں.اس

Page 106

خطبات طاہر جلدے 101 حوالہ سے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں تا انسانیت کی مددکر سکیں اور اللہ کوخوش کر سکیں.خطبه جمعه ۱۹ار فروری ۱۹۸۸ء یہ ان نکات میں سے ایک نکتہ ہے جو مجھے پریشان کئے ہوئے ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ نائیجیرین معاشرے کے ایک طبقہ میں اپنے غریب ہمسایوں کیلئے رعونت کا مزاج پایا جاتا ہے.ان میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے اس پر فخر کرتے ہیں اور اپنے ہمسایوں جنکو ان سے کم ملا ہے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.وہ اپنی بڑائی کی باتیں کرتے ہیں، اپنے تفاخر کی ، اپنی دولت کی ، اپنی صنعت کی ، اپنی سڑکوں ، کاروں اور پڑول کی ایسے جیسا کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے ہاتھوں سے حاصل کیا ہے.جن چیزوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں نائیجیریا کے لوگوں نے کچھ بھی از خود حاصل نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیل کی صورت میں دولت عطا کی ہے آپ تو ان معدنی وسائل سے از خود فائدہ تک نہیں اٹھا سکتے تھے.بیرونی ممالک سے لوگ یہاں آئے اور انہوں نے اس دولت میں آپ سے اشتراک کیا.انہوں نے تیل کے کنویں لگائے انہوں نے تیل نکالا، انہوں نے برآمد اور درآمد کا نظام رائج کیا اور اس عمل کے دوران انہوں نے آپ کو خوب لوٹا.جو کچھ آپ کے لئے بچ گیا آپ نے اس کو غیر ملکی کاروں پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دے دیئے کہ وہ آپ کی سڑکیں بنائیں اور تعیش کی زندگی گزارنا شروع کردی جو کہ ملک کے عام لوگوں سے مختلف تھی.اس کے نتیجہ میں افریقہ میں دو طبقات پیدا ہو گئے.ان میں سے ایک نسبتاً زیادہ امیر اور اکٹر باز جبکہ دوسرا منکسر المزاج اور افریقہ کے عام لوگوں سے تعلق رکھنے والا.اس میں فخر کرنے والی کوئی بھی بات نہیں آپ سے تو یہ تقاضا ہے کہ آپ اللہ کے شکر گزار ہوں اور اس کی معافی کے خواستگار ہوں اس بے انتہا دولت کے زیاں پر جس کے آپ ذمہ دار ہیں یعنی ان غیر ملکی چیزوں کی خرید کے عمل کی وجہ سے بغیر اس کی پرواہ کئے کہ ہم یہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کس طرح یہ دولت خرچ کر رہے ہیں؟ آپ اس کو بہتر انداز میں خرچ کر سکتے ہیں.تاہم میں جو آپ نے کیا ہے اس پر یہاں تنقید کرنے نہیں آیا.میں آپ کو صرف یاد کروارہا ہوں کہ یہ سب کچھ نا یجیریا کے لوگوں کی محنت سے نہیں ہوا یہ محض اللہ کے فضل سے ہوا ہے.اس نے آپ کو یہ مواقع عطا کئے ہیں اور ان میں سے کچھ مواقع آپ زیر استعمال لائے ہیں.پس جو کچھ آپ کو یہاں ملا ہے اپنے اردگرد کے رہنے والے ملکوں کی نسبت کیا وہ فخر کرنے کیلئے ہے؟ اللہ نے ان کو یہ نہیں دیا تو وہ غریب ہی رہے.اس لئے آپ ان سے مہربانی کا

Page 107

خطبات طاہر جلدے 102 خطبه جمعه ۱۹؍ فروری ۱۹۸۸ء سلوک کریں، ان کی خدمت کرنے کا مزاج بنائیں.اپنے کردار کی عظمت دکھا ئیں اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں.صرف اس طریق پر آپ اللہ کو راضی کر سکتے ہیں اور جب آپ اللہ کو خوش کریں گے تو اللہ آپ پر اپنی رحمتوں کے بے انتہا بارش نازل فرمائے گا.وقت کی کمی اور خطبہ کے بعد کی پہلے سے طے شدہ ضروری مصروفیات کے پیش نظر میں اس خطبہ کو ختم کرنا چاہوں گا.لیکن اس سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو بتاؤں کہ جذبات شکر ایسی چیز نہیں ہے جو اظہار تشکر کے بعد ختم ہو جائے بلکہ یہ لامتناہی سلسلہ ہے جو کہ مواقع کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے کیونکہ جب آپ کسی شخص کا شکر یہ ادا کرتے ہیں تو اگر وہ مخلص اور سچا ہے تو شکر گزار شخص خود بھی جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اس کے بدلہ میں آپ سے بھی حسن سلوک کرے تب وہ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہے نہ صرف الفاظ سے بلکہ آپ کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ.تب آپ دوبارہ اس شکریہ پر اس کے لئے محبت محسوس کریں گے.الفاظ کے ساتھ بھی اور اچھے کاموں کے ساتھ اور وہ پھر آپ کے ساتھ یہ سارا عمل دہرائے گا.سو قطعی حقیقت یہ ہے کہ اظہار تشکر ایک نہ مرنے والاخزانہ ہے جو بھی ختم نہیں ہوتا.یہ انسانی خوبی کو بہتر سے بہتر کرتا چلا جاتا ہے اور یہلا زوال خوبی ہے یہ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی.دراصل یہ وہ حقیقت ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لَبِنُ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم :۸) اگر تم میرا شکر ادا کرو تو میں تم پر مزید افضال نازل کرونگا اور اگر اللہ آپ پر مزید فضل نازل کرے تو کیا ہوتا ہے.اگر آپ شکر گزار ہونگے تو اللہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے میرے بندے میرے شکر گزار ہوتے ہیں تو میں کیوں نہ اس کی قدر کروں اور پھر آپ سب اس کی رحمت تلے آجاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہمیں لازما اللہ کا زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے اور پھر اللہ کہتا ہے کہ اگر میرے بندے زیادہ شکر گزار ہیں تو میں کیوں ان پر زیادہ مہربان نہ ہوں تو وہ اپنی رحمتیں اور فضل ان پر جاری رکھتا ہے.اس طرح اللہ نے انبیاء پیدا کئے ہیں.وہ شکر گزار لوگ ہوتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کا چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی شکر ادا کرتے ہیں.بہت ہی معمولی چیزوں پر جو اللہ نے ان کو دیں تو اللہ ان پر اپنے افضال نازل کرتا رہتا ہے بوجہ ان کے شکر گزار ہونے کے اور یہ قطعی بات ہے کہ وہ اپنے شکر میں بڑھتے ہی جاتے ہیں اور اللہ اپنے فضل میں بڑھتا جاتا ہے.پس یہ نہ ختم ہونے والی حقیقت ہے اور اس میں ہمیشہ ترقی کی گنجائش

Page 108

خطبات طاہر جلدے 103 خطبه جمعه ۱۹؍ فروری ۱۹۸۸ء رہتی ہے.یہ وہ بات ہے جو سب سے عظیم اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی مے کے ساتھ واقع ہوئی.آپ سب سے زیادہ شکر گزار بندے تھے جو اب تک زمین میں پیدا ہوئے ہیں اور اسی طرح اللہ بھی آپ کے ساتھ سب سے زیادہ مہربان تھا.پس اللہ نے آپ کو چن لینے میں کوئی بے انصافی نہیں کی.آپ سب سے زیادہ شکر گزار تھے اور اللہ سب سے بڑھ کر آپ پر مہربان تھا.پس یہ نہ ختم ہونے والا عمل ہے کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حضرت محمد مصطفی میت یہ بھی ایک مقام پر کھڑے نہیں رہے.آپ کا ہر دوسر المحہ اللہ کے نزدیک ترقی پا رہا تھا اور ترقی کر رہا تھا اور اب تک کر رہا ہے.یہ مطلب ہے اس آیت كا: وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأولى (الضحی :۵).اے میرے پیارے محمد ؟ تیری زندگی کا ہر آنے والا لمحہ گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوتا ہے.یہ سب شکر گزاری کا پھل ہے.اس بات کو یا در کھتے ہوئے اور اس کا احساس کرتے ہوئے احمدیوں کو ان حکومتوں کا شکر گزار ہونا چاہئے جو ان کے لئے جذبات شکر رکھتی ہیں جو صرف الفاظ سے ہی شکر یہ ادا نہیں کرتیں بلکہ کاموں ، تعاون اور خدمت کے ذریعہ بھی اس کا اظہار ہوتا ہے.لوگوں کو یہ احساس کرائیں کہ اپنے ملک کی حکومت کو مضبوط کرنا ان کا فرض ہے.انشاء اللہ آپ عنایات الہی کے حصول کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ میں داخل ہو جائیں گے نہ صرف یہاں لوگوں کی طرف سے خوشنودی حاصل کریں گے بلکہ اللہ آپ پر اپنی مہربانی نازل کرتا چلا جائیگا.اللہ کرے کہ آپ ایسے روئیے اختیار کریں کہ جن سے اللہ راضی ہو جائے.وہ آپ کو کبھی تنہا نہ چھوڑے، آپ کبھی اس کی ناراضگی کا سبب نہ بنیں.اللہ کرے کہ اس کے فضل سے احمدیت افریقہ کے تمام ممالک میں پھیل جائے اور پورا افریقہ احمدیت کی خوبصورتی اور محبت سے بھر جائے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.شیطان مجھے ایک نہایت ضروری بات بھلانے ہی لگا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یاد دلا دی چنانچہ میں پھر کچھ آخری الفاظ کہنے کیلئے کھڑا ہوا ہوں.میں بھولنے ہی لگا تھا کہ مجھے خاص طور پر نائیجیریا کے احمدیوں کا لازماً شکر یہ ادا کرنا ہے اس پر جو انہوں نے اس دورہ کو کامیاب بنانے کیلئے کوشش کی.آپ کے بوڑھوں اور آپ کے جوانوں، آپ کے مردوں اور آپ کی عورتوں اور آپ کے بچوں سب نے دن رات بہت کام کیا ہے تاکہ اس دورہ کو بہت زیادہ کامیاب بنایا جائے اور وہ سب اس کیلئے دعاؤں میں بھی لگے رہے.جو محبت انہوں نے میرے لئے دکھائی ہے وہ جذبات میں ہلچل

Page 109

خطبات طاہر جلدے 104 خطبه جمعه ۱۹؍ فروری ۱۹۸۸ء پیدا کرنے والی ہے.میں اس بات کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا کہ میں آپ سے کس قدرمحبت رکھتا ہوں.درحقیقت میں جب یہاں نہیں آیا تھا تب بھی آپ سے محبت رکھتا تھا لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اب آپ سے اور زیادہ محبت کرتا ہوں جتنی اس سے پہلے کبھی نہ تھی اور میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ باہمی احساس محبت ، یہ خالص للہی محبت جو میرے اور آپ کے درمیان ہے ہمیشہ کامیاب ہو اور کوئی بھی اس خوبصورت حقیقت میں رخنہ ڈالنے کے قابل نہ ہو سکے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بلند مقام صرف محبت کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے جو کہ جذبہ محبت پر ہی قائم ہو.پس یہ خالص محبت ہی میری بہترین جزا ہے جو میں نے آپ لوگوں سے اس دورہ افریقہ کے دوران حاصل کی ہے.یہ انتہائی پاکیزہ نشان ظفر ہے جو میں آپ سے لے کر واپس جارہا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں آپ کو کبھی اپنی دعاؤں میں نہیں بھولوں گا.اللہ تعالیٰ آپ کے لئے میری ساری دعائیں قبول فرمائے.آمین.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.

Page 110

خطبات طاہر جلدے 105 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء دورہ افریقہ کے حالات.خلیفہ کے خطبات اور آواز کو براہ راست لوگوں تک پہنچائیں اسی میں برکت ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء بمقام بیت النورین سپیٹ ہالینڈ ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ ایک ماہ سے چند دن زائد مجھے افریقہ کے دورے کی توفیق ملی ہے.یعنی سارے افریقہ کی تو نہیں مگر چھ مغربی افریقہ کے ممالک کی اور اس دورے کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل سے مجھے بہت فائدہ پہنچا اور بہت سے ایسے تجارب ہوئے جن کا حقیقی علم رپورٹوں کے ذریعہ سے نہیں حاصل ہوسکتا تھا.جب تک انسان تجربے میں خود نہ گزرے اپنی آنکھوں سے حالات کا مقابلہ جب تک نہ کرے اس وقت تک خواہ رپورٹیں کیسی ہی عمدہ اور کیسی ہی تفصیلی کیوں نہ ہوں ہرگز ویسا فائدہ نہیں حاصل ہو سکتا.چنانچہ بہت سے امور میں اللہ تعالی کے فضل سے نئی راہنمائی حاصل ہوئی اور بہت سے تجربوں سے بعض خامیوں کا علم بھی ہوا،افریقہ میں بسنے والی قوموں کی خاص خوبیوں کی طرف بھی روشنی ملی جن کے متعلق پہلے دور بیٹھ کر اندازہ نہیں ہوسکتا تھا.اگر چہ یہ دورہ تقریباً ایک ماہ چند دن کا تھا لیکن اس کے نتیجے میں جو کام پیدا ہوئے ہیں اور جو نئے منصوبے ابھرے ہیں ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے مہینوں درکار ہوں گے اور جیسا کہ میں نے نائیجیریا میں آخری دورے کے وقت جماعت کو ہدایت کی تھی کہ اصل میں تو کام کا آغاز اب ہو گا.جب دورہ ختم ہورہا ہے اور اس دوران بہت سی ہدایات جو مختلف افریقہ کے ممالک کو دیں ہیں ان

Page 111

خطبات طاہر جلدے 106 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء کو تمام افریقہ کے ممالک تک کیسٹس کی صورت میں پہنچانا، پھر ان کا ان سب باتوں کوسننا اور ان سے راہنمائی حاصل کر کے آئندہ کے لیے منصوبے بنانا بہت زیادہ اتنا کام ہے کہ جو میں پیچھے چھوڑ کے آیا ہوں.اللہ تعالی جماعت کو توفیق بخشے کہ اس دورے سے ہر لحاظ سے استفادہ کر سکے لیکن جو کام پیچھے چھوڑ کے آیا ہوں اتنا ہی کام ساتھ بھی لے کے آیا ہوں یعنی مرکزی جماعت کے عہدیداروں کے لیے بہت سے ایسے کام پڑے ہیں جن کو مہینوں کی محنت کے بعد سمیٹا جا سکتا ہے.جو تجارب ہوئے ان میں ایک افسوسناک پہلو جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ جماعتوں تک حقیقت میں خطبات کے مضمون کو نہیں پہنچایا جارہا.رپورٹوں سے اتنا تو معلوم ہوتا رہا کہ بعض مربیان نے لکھا کہ ہم خطبات کا خلاصہ جماعت تک پہنچا رہے ہیں لیکن دورے کے دوران جو مجالس ہوئی ہیں سوال وجواب کی ان سے یہ اندازہ ہوا کہ نہ صرف یہ کہ خطبات کے مضامین سے پوری طرح ساری جماعت کو آگاہ نہیں رکھا گیا بلکہ مختلف مضامین پر جو سوال و جواب کی مجالس لگتی رہی ہیں.ان میں بہت سے اہم سوالات کے جوابات دیئے جاتے رہے ہیں اور بار بار مختلف رنگ میں ان پر روشنی ڈالی جا چکی ہے ان امور کا بھی جماعت کی اکثریت کو علم نہیں تھا.چنانچہ اکثر مجالس میں وہ تمام سوالات دوبارہ ہوئے جن پر پہلے روشنی ڈالی جا چکی ہے ان تمام امور میں انہوں نے راہنمائی طلب کی جن کے اوپر خطبات میں بکثرت روشنی ڈالی جا چکی ہے، اور اس کا بڑا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ چند سال سے بعض خطبات تو وقتی نوعیت کے تھے یعنی وقتی ضرورتوں سے تعلق رکھنے والے لیکن بہت سے خطبات ایسے تھے جو اللہ تعالی نے ایک منصوبے کے تحت مجھے خطبات دینے کی توفیق بخشی اور آئندہ صدی کی تیاری سے تعلق رکھنے والے خطبات تھے اور مسلسل ایک ایسا خطبے کے بعد خطبہ مضمون وار چلتا رہا جس کے نتیجے میں تمام عالم کی جماعتوں کو یکجہتی عطا کرنے کے لحاظ سے بہت ہی ان خطبات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا اور مقصد بھی ان کا یہی تھا کہ ہم جو امت واحدہ کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں وہ ساری جماعت آئندہ صدی میں داخل ہونے سے پہلے خود عملاً ایک امت واحدہ بن چکی ہو اپنے نظریات کے لحاظ سے، اپنے کردار کے لحاظ سے، اپنی سوچوں کے نہج کے لحاظ سے ، طرز فکر، طرز زندگی کے لحاظ سے ، ہر پہلو سے اسلام نے اس تفصیل سے تعلیم عطا فرمائی ہے کہ اگر اس ساری تعلیم کوملحوظ رکھا جائے تو دنیا کے کسی کونے میں بھی کوئی احمدی مسلمان بستا ہو اس کا کردار بعینہ ویسا ہوسکتا ہے جو دنیا کے کسی

Page 112

خطبات طاہر جلدے 107 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء دوسرے کونے میں بسنے والے احمدی کا ہوگا اور اس پہلو سے یورپ اور افریقہ اور مشرق کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے.اگر یہ فرق باقی رہ جائیں تو اسلام کی عالمی تعلیم عملاً ہمارے کردار میں ظاہر نہیں ہوگی اور جس خدائے واحد کی ہم پرستش کرتے ہیں اس کا پر تو ہماری زندگی پر ایسا یکسانیت سے نہیں پڑے گا کہ اس کے نتیجے میں ہم زمین پر خدا کی تو حید کو ظاہر کرنے والے ہوں اور امت واحدہ بن کر خدا کی تو حید کو عملاً دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں.یہ وہ مقصد تھا جس کے پیش نظر وہ خطبات دیئے گئے لیکن ان میں بھی مجھے محسوس ہوا الا ماشا اللہ بعض مربیان اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور جماعت کی تربیت بھی انہوں نے بہت اچھی کی ہے لیکن اکثر حصوں میں یہ خلا محسوس ہوا اور یہ خلا یورپ میں بھی موجود ہے کئی جگہ اور زبان کی دقت اس کام کی راہ میں حائل ہوتی رہی ہے.یعنی اچھا ترجمہ کرنے والے ساتھ ساتھ خطبات کا ترجمہ کر کے ساری جماعت کو پہنچائیں ان کا یہاں فقدان ہے یا کمی ہے لیکن جہاں تک افریقہ کا تعلق ہے وہاں یہ روک بہر حال نہیں ہے کیونکہ میں نے دنیا میں ایسا اچھا ترجمہ کرنے والے کہیں نہیں دیکھے جیسا افریقن لوگ ترجمہ کرنے کی مہارت رکھتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کو ایسی اعلیٰ ذہنی استعداد میں بخشی ہیں کہ بعض دفعہ مسلسل تیں تھیں چالیس چالیس منٹ تک بغیر روک کے ایک مضمون بیان کیا گیا اور ترجمہ کرنے والے نے مسلسل بغیر کسی روک کے اور بغیر کسی تعطل کے درمیان میں خلا ڈالے بغیر وہ ترجمے کو اسی طرز پہ بیان کیا ہے، اسی طرح جذبات کے ساتھ ابھرتا بھی تھا، پھر ہلکی آواز جہاں ہونی چاہئے تھی وہاں ہلکی آواز اختیار کرتا تھا.اس کے جسم کی حرکتیں اس کے انداز سارے بتاتے تھے کہ وہ مضمون میں ڈوب کر مضمون کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور ایسی اعلیٰ جو خدا تعالیٰ نے انکو قابلیت عطا کی ہے شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں اس کثرت کے ساتھ کسی کو عطا ہوئی ہو.معمولی معلمین جن کا زیادہ علم نہیں تھا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی اچھی ترجمانی کرتے تھے کہ باہر میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے علماء بھی ایسی ترجمانی نہیں کر سکتے.خود ہمارے مبلغین بھی یہاں خود تر جمانی کی کوشش کرتے تھے بعض ان میں سے بہت اچھے بھی تھے لیکن ویسا رنگ پیدا نہیں ہو سکا جیسا عام معلمین مقامی لوگ اپنی زبانوں میں ترجمانی کرتے ہیں اور وہاں زبانیں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں اور ہر زبان میں خطبات کا اور بنیادی امور پر روشنی ڈالنے والی مجالس کی کارگزاری کا ترجمہ ہونا چاہئے اور یہ سب مواد وہاں موجود

Page 113

خطبات طاہر جلدے 108 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء ہے اور ایسے لوگ موجود ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جامعہ میں پڑھ کر ہمارے مبلغین وہاں گئے ہیں وہ اردو سے براہ راست بہت اچھا ترجمہ کر سکتے ہیں.اس لیے یہ عذر کہ ترجمہ کرنے کے لیے ہمارے پاس سامان نہیں تھا یہ عذرتو قابل قبول نہیں ہے.دوسرے وہاں کی جماعتوں کے سامنے جو براہ راست باتیں ہوئیں اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ لوگ اثر کو بہت زیادہ قبول کرنے والے ہیں اور جن امور پر بات انہیں سمجھ آجائے اس پر اس قدر بشاشت سے کھل اٹھتے ہیں اور خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے ہیں کہ اتنی روشن دماغ قوم خدا تعالی کے فضل سے وہاں موجود ہے.میں یہ تو نہیں کہتا کہ Unique ہے دنیا میں اچھی اور قو میں نہیں ہوں گی لیکن روشن دماغی کے لحاظ سے دنیا کی صف اول کی قوموں میں وہ لوگ شمار ہو سکتے ہیں.جانے سے پہلے جو تاثر دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ افریقہ گویا ایک تاریک براعظم ہے اور بڑی جہالت ہے اور اس لحاظ سے شاید مجھے بات بیان کرنی ان تک پہنچانی مشکل ہو جائے لیکن میں نے تو وہاں بڑی روشنی دیکھی ہے.احمدیوں میں بھی اور غیر احمدیوں میں بھی ، عام مسلمانوں میں بھی اور عیسائیوں میں بھی ہر لحاظ سے خدا تعالی نے اس قوم کو روشن دماغ بنایا ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کھلے ہیں دماغ کے تعصبات ہوں بھی تو دلیل سننے کے بعد وہ تعصبات فورا دھول کی طرح اڑ جاتے ہیں بہت جلدی تبدیلی پیدا کرتے ہیں.اتنا زیادہ کام کا موقع وہاں موجود ہے اور اس تیزی سے اسلام کا نور پھیلا نے کے مواقع موجود ہیں کہ شاید ہی دنیا میں کہیں اور ہوں.اگر ان لوگوں تک مثلاً گزشتہ دو، تین سال کے خطبے ترتیب کے ساتھ باقاعدہ پہنچائے جاتے تو اس وقت تک ان کی حالت اور ہوتی.اس ایک مہینے کے اندر اندر ہی اللہ کے فضل سے ان میں اتنی بیداری پیدا ہوئی ہے، اتنی نمایاں روحانی تبدیلی نظر آئی ہے اور بات کو جذب کر کے فوراً اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لحاظ سے وہ سمـعـنـا و اطعنا کا عجیب نمونہ ہیں.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالی نے جو ہمیں مواقع عطا فرمائے ہیں اگر ہم ان سے پورا استفادہ کریں تو عظیم الشان انقلاب کے لیے افریقہ میں احمدیت قائم کی جاسکتی ہیں.اس پہلو سے جب میں نے وہاں جامعہ وغیرہ کا جائزہ لیا تو وہاں بھی علمی لحاظ سے ہمیں کمزوری دکھائی دی جیسا جامعہ کا سٹاف یا عملہ ربوہ میں موجود ہے اس کے عشر عشیر بھی ہم انہیں سر دست علماء وہاں مہیا نہیں کر سکے اور جن حالات میں جامعہ احمدیہ مختلف ممالک میں جاری ہیں بنیادی سہولتوں کے لحاظ سے بھی

Page 114

خطبات طاہر جلدے 109 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء بہت ہی زیادہ کمی ہے اور بعض دفعہ تو تکلیف ہوتی تھی کہ معمولی ادنی ضرورتیں بھی ان کی پوری نہیں ہوئیں.اس کے باوجود ان کے طلباء میں حیرت انگیز صبر ہے، ڈسپلن ہے، اطاعت کی روح ہے.بعض جگہیں میں نے دیکھی جہاں ہوسٹل کی حالت ایسی نا گفتہ بہ تھی کہ اگر پاکستان یا کسی اور قوم کے لوگ ہوتے تو بغاوت کھڑی ہو جاتی وہاں.اگر ظاہری بغاوت نہیں تو کم سے کم شدید نکتہ چینیاں اور اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جاتا لیکن وہ لوگ صبر کا پیکر بنے ہوئے خاموشی کے ساتھ ان حالات کو برداشت کر رہے ہیں اور جب میں نے جائزہ لیا اور تفصیل سے دیکھا تو اس وقت بھی زبان پر ایک لفظ بھی وہ شکوہ کا نہیں لے کے آئے اور جب میں نے انہیں بتایا کہ ہم لوگ یہ کریں گے اس وقت ان کے چہرے پر جو اطمینان تھا وہ دیکھنے کے لائق تھا وہ سمجھتے تھے کہ ہم میں یہ ایک خدا داد چیز ہے ہم حقدار تو نہیں ہیں گویا لیکن اللہ کی رحمت ہے کہ یہ چیزیں بھی ہمیں مل جائیں گی.ایسی صبر اور شکر کرنے والی قوم کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک ہونا چاہئے ، ان تمام امور کے علاوہ بے شمار ایسے امور ہیں جن پر پہلے نظر نہیں تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو نمایاں کر کے سامنے کیا اور ترقی کے بہت سے نئے امکانات روشن ہوئے جو دورے کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ وہ سامنے آتے.اس وقت خصوصیت کے ساتھ میں خطبات کے ترجمے اور کیسٹس کے نظام کو عام کرنے کے متعلق جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.یہ درست ہے کہ جماعت میں اللہ تعالی کے فضل سے بڑے بڑے علماء ہیں جو دنیاوی علوم کے لحاظ سے یا دینی علوم میں، کلاسیکل علوم کے لحاظ سے ان کو ظاہری علوم کہا جاتا ہے وہ مجھ سے بہت زیادہ ہوں گے اور ہیں اس کا مجھے علم ہے بعض ہمارے اساتذہ ہیں جامعہ کے بعض اور پروفیسر ز ہیں اسی طرح سلسلے کے اور تجربہ کار مربیان ہیں جنہوں نے بہت گہراعلم حاصل کیا ہے اور علمی حد تک میں یہ نہیں کہ سکتا کہ میں ان کے مقابل پر علم رکھتا ہوں لیکن اس کے با وجود خدا تعالیٰ کا خلافت سے ایک تعلق ہے اور علوم کی روح سے اللہ تعالی خلفاء کو آگاہ کرتا ہے اور جماعت کی زمانے کے لحاظ سے ضروریات سے خلفاء کو متنبہ کرتا ہے.خلفاء کی نظر ساری عالمی ضروریات پر ہوتی ہے اور جن علوم کی تفسیر کی ضرورت پڑے جیسی روشنی خدا تعالیٰ خود اپنے خلفاء کو عطا فرماتا ہے ویسی ایک علم میں خواہ کسی مقام کا رکھنے والا عالم ہو اس کو اپنے کسی طور پہ نصیب نہیں ہو سکتی.یہ وھبت ہے، اللہ تعالی کی عطا ہے جس میں کوئی کوشش یا جد و جہد کا دخل نہیں نہ حقداری کا دعویٰ

Page 115

خطبات طاہر جلدے 110 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء ہے بلکہ اللہ کو اپنے دین کی ضرورتوں کا بہترین علم ہے اور جن کے سپر د وہ کام کرتا ہے ان پر وہ ضرورتیں روشن فرماتا ہے.اس پہلو سے میں نے بہت زور دیا تھا کہ خطبات کو تمام تر دوستوں تک پہنچانا چاہئے.پھر ایک اور بات بڑی اہم یہ ہے کہ جماعت کا جو ذاتی تعلق خلیفہ وقت سے ہوتا ہے اور خلیفہ وقت کو جو گہری محبت اپنی جماعت سے ہے اس کا کوئی دوسرا عالم دعویٰ نہیں کر سکتا.اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا کہ وہ رشتہ ہے کیا ؟ اس قدر گہرا محبت اور پیار کا رشتہ ہے کہ خونی رشتوں میں اس کی مثال نہیں ملتی اور ایسی فدائیت ہے دوسری طرف سے بھی جماعت کی طرف سے بھی کہ اس کا کوئی نظارہ اور جگہ دکھائی نہیں دے سکتا.اس لئے علماء اگر ظاہری علم میں بیشک مجھ سے بہتر ہوں لیکن وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ان کی باتوں میں زیادہ اثر ہوگا بہ نسبت میری باتوں کے یا جو باتیں میں جماعت کو سمجھا سکتا ہوں وہ Reflect کر سکتے ہیں اور از خود وہ ویسی باتیں اس سے بہتر رنگ میں سمجھا سکتے ہیں.چنانچہ افریقہ میں اس بات کا تجربہ ہوا بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق وہاں تشنگی تھی.روز مرہ کے عام مسائل میں علماء ان پر روشنی ڈالتے رہے ہیں ان کے پاس کتا بیں بھی مہیا ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ علماء نے اس پر روشنی نہیں ڈالی لیکن بہر حال سوالات کے جوابات دیئے ہیں لیکن تشنگی باقی رہی.جب میں نے اپنے رنگ میں ان کو سمجھایا تو ان کے چہرے کے آثار بتاتے تھے کہ ایک دم گویا کا یا پلٹ گئی ہے ان کے دل کی اور بعض دفعہ وہ بے اختیار ہو کے وہ نعرہ تکبیر بلند کرتے تھے کہ اب ہمیں بات کی سمجھ آئی ہے.جن ممالک میں ایسے سوالات جو تشنہ رہ گئے وہ رفتہ رفتہ اس رنگ میں دیکھے جانے لگے کہ گویا وہ معترض ہیں.ان ممالک میں جب میں نے مسائل پر روشنی ڈالی تو معلوم ہوا کہ ہرگز وہ لوگ معترض نہیں.اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی اور وہ سادہ ذہن لوگ ہیں اور صاف گولوگ ہیں، مربیوں سے مبلغین سے وہ سوال کرتے تھے اور مجبورا ان کا جواب دیتے تھے لیکن دلوں کو مطمئن کرنے والے جواب نہیں دے سکتے تھے نتیجا وہ سوال کرتے رہتے تھے اور ان کی تصویر یہاں مرکز میں یہ پیش کی جاتی تھی کہ گویا وہ بڑے معترض ہیں اور ان کے دل میں پورا اطمینان نہیں خلافت سے وابستگی نہیں.اس قسم کے مسائل میں ان کی سوچ ٹیڑھی ہے، بالکل جھوٹ اور بالکل بے بنیاد بات تھی.چنانچہ جن لوگوں کو معترض بنا کر پیش کیا جا تا تھا جب میں ان سے ملا ہوں اور چند

Page 116

خطبات طاہر جلدے 111 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء دن ان کے ساتھ صحبت رہی تو میں نے دیکھا کے وہ انتہائی فدائی اور عاشق سلسلہ ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ ایسا سلوک ان سے کیا گیا منافق بنا کر کہ اگر کسی اور قوم کے لوگ ہوتے تو شاید وہ مرتد ہو جاتے ، بھاگ جاتے اس جگہ کو چھوڑ کر یا جماعت کے ساتھ تعلق میں کمی پیدا کر دیتے لیکن مسلسل سر جھکا کے انہوں نے امیروں کی اطاعت کی ہے اور مبلغین کی باتوں پر سر تسلیم خم کیا ہے.کہیں بھی کوئی باغیانہ روش اختیار نہیں کی لیکن جو بات سمجھ نہیں آئی وہ پوچھے گا انسان.اگر نہیں پوچھے گا تو بیماری گھن بن جائے گی اس لئے اُن کی صاف گوئی کو بدقسمتی سے منافقت سمجھا گیا یا ایک معترض کی عادت بنا دیا گیا کہ گویا ایک معترض ہے اُس کو عادت ہے ہر بات پہ اعتراض کرنے کی ، تو اُس سے مجھے جس بات کی شہادت ملی کہ خدا تعالی خلیفہ وقت کو جس طرح بات سمجھانے کی توفیق عطا فرماتا ہے غیب کے علم سے یہ توفیق مل سکتی ہے اور پھر اُس محبت اور تعلق کی وجہ سے جو میں نے بیان کیا ہے بات سمجھنے کے لیے بہتر ماحول پیدا ہو جاتا ہے ایک ہی بات اگر ایسے رنگ میں کی جائے یا ایسی حالت میں کی جائے کہ جو بات سننے والا ہے اُس کو گہری محبت نہیں ہے.تو اُس بات کا ویسا اثر نہیں پڑسکتا اگر غیریت ہو بیچ میں تو اور بھی زیادہ وہ بات اثر میں کمزور ہو جائے گی.اگر بدظنی پیدا ہو جائے تو وہی بات بالکل بے اثر ہو جائے گی بلکہ بسا اوقات الٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے.اس لیے بعض علماء یہ نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو خلاصہ پیش کر دیا ہے وہی کافی تھا.اتنی لمبی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے اور علم کے لحاظ سے ہم کسی لحاظ سے کم نہیں ہیں ہم خود یہ باتیں بیان کر سکتے ہیں.اُن کو اس بات کا تصور بھی نہیں ہے کہ خلیفہ وقت کو وہ Rotate نہیں کر سکتے.جماعت کی زندگی کی روح خلافت میں ہے اور اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں کا خاص سایہ ہے اس منصب پر اسی لیے ایک آدمی خواہ میرے جیسالا علم ہو، حقیر ہو اس سے بحث نہیں ہے منصب خلافت کو خدا تعالیٰ نے ایک برکت بخشی ہے اور اُس کے ساتھ جماعت کا ایک ایسا تعلق پیدا کیا ہے کہ وہ لا مثال ہے ساری دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اس لئے علم کافی نہیں ہے اُس کے لیے کہ وہ اُس کو Replace کر سکے اُس کی جگہ لے سکے تو بعض مبلغین کو میں نے دیکھا ہے وہ بے تو جگی کی وجہ سے شاید یہ کمزوری دکھا رہے تھے، یا دکھا رہے ہیں.چنانچہ جامعہ کے متعلق میں نے یہ ہدایت جاری کی کہ کچھ عرصہ پہلے کے دنیا میں جتنے بھی جامعہ ہیں ان میں ایک گھنٹہ با قاعدہ لیکچر کا رکھا جائے جس میں میری وہ پیسٹس ان کو سنوائی جائیں جو مختلف مسائل میں سوال.

Page 117

خطبات طاہر جلدے 112 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء و جواب کی مجالس میں تیار کی گئی ہیں اور جس طرح میں چاہتا ہوں مسائل دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں اسی طرح وہ ہمارے طلباء تیار ہوں اور وہی زبان سیکھیں ، وہی طرز اختیار کریں.اُس میں بھی پوری توجہ نہیں دی گئی بلکہ مجھے ایک جامعہ کے پرنسپل صاحب کی طرف سے اطلاع ملی کہ خطبات تو طلباء سنتے ہی ہیں اب آپ کی ہدایت مل گئی ہے تو ہم کلاس میں سنوانا شروع کر دیں گے.گویا بڑا احسان ہو گیا وہ سمجھتے ہیں کہ شاید مجھے شوق ہے کہ میرے خطبے پڑھے جائیں نعوذ بــا الـلـه مـن ذالک میرے تصور میں بھی ایسی کوئی بات نہیں.مگر میں جانتا ہوں کہ خدا نے جماعت کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے.اس لیے جو جس رنگ میں میں تربیت کرنا چاہتا ہوں اسی رنگ میں ہونی چاہئے.جب خدا میرے بعد کسی اور کو خلیفہ بنائے گا تو پھر اُس کے اوپر ذمہ داری ہوگی لیکن علماء کا یہ کام نہیں ہے خواہ کتنے بڑے پروفیسر ہوں کہ وہ ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لیں.جتنی ذمہ داری اُن پر ڈالی ہے وہ ادا کریں.لیکن جب میں چاہتا ہوں کہ براہ راست جماعت کی تربیت کروں بیچ میں کوئی دوسرا نہ پڑے اور خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں یہ انتظام مجھے فرما دیا ہے تو کسی کا کوئی حق نہیں کہ بیچ میں روک پڑے اور جہاں تک علمی درسوں کا تعلق ہے ایک ہی دلیل کو مختلف رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے.ایسے علماء میں جانتا ہوں جن کو بہت ٹھوس علم ہے، بڑے حوالے یاد ہیں لیکن وہ منہ تو بند کرا سکتے ہیں دل نہیں جیت سکتے.اُن کی طرز میں خشکی ہے.خالی علم تو کبھی دنیا میں انقلاب بر پا نہیں کیا کرتا.کس رنگ میں بات کرنی ہے یہ بہت ہی اہم بات ہے.دلیلیں ہرگز کافی نہیں ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے.دلیل کے ساتھ دل جیتنے کا انداز چاہئے ، ایسا انداز چاہئے کہ بات سمجھانے کی جان توڑ کے کوشش کی جائے نہ کہ منہ بند کرانے کی.اس لیے وہ سارے علوم جو دنیا میں ویسے ہی موجود ہیں تخیلی طور پہ بھی موجود ہیں اور ذہنوں میں بھی حفظ ہیں وہ کافی نہیں ہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ایک علم کلام بخشا کرتا ہے اُن لوگوں کو جن پر ذمہ داریاں ڈالتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم کلام دیکھیں وہی دلائل ہیں جو آج آپ بھی پیش کر سکتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس رنگ میں پیش فرمائے ہیں آج تک اُن کی قوت میں کوئی کمی نہیں آئی.زمین و آسمان کا فرق ہے.وہ تحریر ہی اور ہے، وہ زبان ہی اور ہے اور سارا زور اُس میں دل جیتنے پر اور عقلوں کو سمجھانے اور قائل کرنے پر ہے.ہر رنگ میں آپ نے

Page 118

خطبات طاہر جلدے بات بیان کی ہے جیسا کے خود فرمایا 113 اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء تو ڈھب خدا عطا کیا کرتا ہے وہ علم سے نہیں آیا کرتے.ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اپنے خلافت سے پہلے کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور میرے طرز کلام میں فرق ہے.میں عالم ہوں میں جانتا ہوں دینی علوم کو اور میں تو اسلام پر جو اعتراض کرتا ہے دو قدم نہیں چلنے دیتا اُس کا منہ بند کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہی بات اتنے طریقوں سے بیان کرتے ہیں کہ شاید اس رنگ میں وہ سمجھ جائے شاید اُس رنگ میں کوئی سمجھ جائے.منہ بند کرنے کے لیے نہیں بلکہ عقلوں کو پوری طرح مغلوب کرنے کے لیے بات کرتے ہیں.اس لئے آپ دیکھیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں بعض دفعہ لمبے چکر ہوتے ہیں، لمبے رستے اختیار کیے جاتے ہیں بات سمجھانے کے لیے لیکن اُن لمبے رستوں کو اختیار کرنے کے بعد مخاطب پوری طرح گھیرے میں آجاتا ہے.کوئی اُس کے پاس جواز نہیں رہتا پھر کہ دیانت پر قائم رہتے ہوئے اُس مضمون کو سمجھنے سے انکار کر دے.یہ ایک طرز کلام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم کلام چودہ سو سال میں قرآن کریم میں رسول اللہ کے زمانے کے بعد ایک انقلابی علم کلام ہے.اُس کی کوئی مثال آپ کو پہلے علم کلام میں دکھائی نہیں دے گی.تو اُسی طرح خدا تعالیٰ خلفاء کو بھی وقت کی ضرورتوں کے مطابق ایک علم کلام بخشا ہے.چنانچہ اس نیت سے جو تجربہ میں نے دیکھا ہے بڑی بڑی مشکلوں میں متعصب لوگ بھی سامنے آئے.جب پیار سے، محبت سے تفصیل سے بات سمجھا کر اُن کو بتائی گئی تو اُن کے چہرے بدل گئے بالکل.اس افریقہ کے دورے میں بھی یہ ہوتا رہا ہے بلکہ بعض لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنی جلدی ایسی تبدیلی پیدا ہوئی ہے کہ ہم بیان بھی نہیں کر سکتے تھے.میں چاہتا تھا کہ اس طرز پر احمدی مبلغین کی تربیت ہو اور وہ سوال و جواب جو مختلف موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں.اُن کو باقاعدہ ایک گھنٹے کے طور پر پڑھائے جائیں.لیکن بعض اساتذہ سمجھتے ہیں کہ اساتذہ کا تو حق ہے کہ وہ جس طرح سمجھیں خود علم دیں خلیفہ وقت کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی زبان میں طلباء کو پڑھا سکے.گویا کہ یہ اُس کی انانیت ہے یا اُس کی نفس پرستی ہے نعوذ باللہ من ذالك ان لفظوں میں تو وہ نہیں کہتے لیکن جس رنگ میں

Page 119

خطبات طاہر جلدے 114 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء ملائمت سے بات کرتے ہیں اُس کا آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے.بعض مبلغین اپنی ستی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے کوئی انانیت نہیں، کوئی علم کا زعم نہیں ہے لیکن ستی کر رہے ہیں.اُن کو پتا نہیں کہ وہ جماعت کو محروم رکھ رہے ہیں.چنانچہ افریقہ کے دورے کے بعد مجھے اور بھی زیادہ شدت سے اس بات کا احساس ہوا ہے کہ بات کے مرکزی نکتے پہنچا دو حالانکہ بات کے مرکزی نکتے اُس لباس میں لپیٹ کے جب تک نہ پہنچائے جائیں جو اُن کے لیے موزوں ہے اُس وقت تک وہ اثر انداز نہیں ہو سکتے.ایک ہی بات کہی جاتی ہے سچ بولو.ہر مقرر، ہر خطیب اٹھ کر یہ ہی صرف کیوں نہیں کہہ دیتا کہ سچ بولو وہ بیچ بلوانے کے لیے کئی جتن اختیار کرتا ہے، محنت کرتا ہے، سوچتا ہے کہ کس بات کا اثر زیادہ پڑے گا کس بات سے سچ کی محبت پیدا ہو گی ، کس طرح جھوٹ کو زائل کرنے کے لیے، اُس سے نفرت پیدا کرنے کے لیے مضمون کو سجا کر بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے.وہ سمجھتے ہیں یہ چیزیں زوائد ہیں اور بنیادی بات پہنچ گئی بس ٹھیک ہے سچ بولو ، سچ بولیں گے لوگ.قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے سچ بولو آپ کے کہنے کی پھر کیا ضرورت ہے.اُس سے پہلے سارے انبیاء یہی کہتے آئے ہیں کہ سچ بولو جس طرح صلى الله رسول کریم نے سچ بلوایا ہے قرآن کریم کی تفسیر میں ایک نمونہ دکھایا پھر بڑے پیار سے بڑی محبت سے لوگوں کو سمجھایا اُس کا اثر بالکل اور تھا.اسی طرح وقت کے لحاظ سے سچائی ہر قسم کے نئے ابتلاؤں میں سے گزرتی ہے.زمانے کے اثرات ہوتے ہیں اسی خوبی پر جو پہلے کئی ابتلاؤں سے گزر کے ، بیچ کے یہاں تک پہنچی ہوتی ہے یا قریب المرگ ہو جاتی ہے اُس وقت.اُس وقت خدا جن لوگوں کے سپر د کام کرتا ہے پھر اُن کو سمجھاتا ہے کہ اس خوبی کو زندہ کرنے کے لیے زیادہ ذہن نشین کرنے کے لیے نئے زمانے کی ضرورتوں کے پیش نظر، یہ یہ رنگ اختیار کیے جائیں، اس طرح یہ بات پیش کی جائے.اس لحاظ سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سارے عالم کی جماعتوں کو ضرورت ہے افریقہ کو ہی نہیں اور پوری کوشش کرنی چاہئے کہ گزشتہ جو خطبات کا سلسلہ ہے وہ اگلے سال کے شروع ہونے سے پہلے جماعتوں تک پہنچ جائے ، کیسٹ ضروری نہیں ہیں اگر چہ ٹیسٹس کے ذریعے آواز کا ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے جس میں زیادہ محبت کے جذبات ابھرتے ہیں اور انسانی ذہن زیادہ قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے مگر آواز ضروری نہیں ہے اور ہر شخص کے بس میں بھی نہیں ہے کہ ٹیسٹس کو ہی سنتا رہے.اس لیے تحریر میں بھی آنے چاہئیں.دنیا کی تمام ایسی زبانوں میں جہاں احمدی اُن

Page 120

خطبات طاہر جلدے 115 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء زبانوں کے سوا دوسری زبان نہیں سمجھ سکتا ترجمے ہونے چاہئیں اور ان تک بات پہنچنی چاہئے.اُس سے ایک عالمی وحدت پیدا ہوگی اور ایک جیسا کردار پیدا ہوگا ہر جگہ.اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے کہ افریقہ میں ایک اور کام کی بھی ضرورت ہے اور باقی جماعتوں کو بھی اس لحاظ سے متنبہ رہنا چاہئے.مختلف قوموں میں بعض معاشرے انہوں نے ورثے میں پائے ہیں.اُن معاشروں کی اصلاح کے لیے بعض دفعہ فوری اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے، بعض دفعہ حکمت کے ساتھ رفتہ رفتہ اُن کو پیار سے ایک نئی طرز معاشرت کی طرف لے جانا پڑتا ہے.افریقہ میں گزشتہ مبلغین نے بڑی محنت کی ہے اور بڑی عظیم الشان قربانیاں دی ہیں اُن کے نیک اثرات ہر جگہ موجود ہیں.جس طرح چلنے والا نقش پا پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ نقوش پا چھوڑ آئے ہیں اور ہر جگہ جا کر مجھے اندازہ ہو جاتا تھا کہ کونسا سلسلے کا مبلغ خواہ وہ پچاس سال پہلے آیا تھا کیا کیا خوبیاں پیدا کر گیا ہے اور اُس کے برعکس بعض دفعہ تکلیف کے ساتھ یہ بھی محسوس ہوتا تھا کہ کون کون سے خلاء پیچھے چھوڑ گیا ہے اور اُن کی طرف توجہ کرنے کی توفیق ملتی رہی.اُس سے مجھے یہ خیال آیا کہ ساری دنیا کی جماعتوں کو اس بارے میں متنبہ کرنا چاہئے کہ معاشرے اگر چہ مختلف ہیں دنیا کے لحاظ سے مگر جہاں جہاں معاشرہ دین کے ساتھ ایسے مل جاتا ہے بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں معاشرہ اور دین دونوں مل جاتے ہیں اُس حصے کو ہم اسلامی معاشرہ کہیں گے اور وہاں غیر معاشرے کو رد کرنا ضروری ہے.بعض معاشرے کے ایسے پہلو ہیں جن کے دین کے ساتھ کوئی قدر مشترک نہیں ہے.معصوم بعض باتیں ہیں، قوموں میں رواج ہیں تو چلنے دیں اُن کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جہاں کسی قوم کا معاشرہ دین کی حدود میں دخل دے وہاں اُس معاشرے کے رنگ بدلنے ہوں گے اور دین کا رنگ اُن پر غالب کرنا ہو گا.اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے کہ وہاں بعض خلاء محسوس ہوئے اور بعض جگہ ضرورت سے زیادہ سختی اختیار کی گئی ہے بعض چیزوں میں.اس لیے وہاں عجیب قسم کی کھڑی نظر آئی ہے.بعض خوبیاں جو رفتہ رفتہ پیدا کرنی چاہئے تھیں ان سے کچھ غفلت ہوئی اور بعض باتوں میں حد سے زیادہ تشد د اختیار کیا گیا ہے.گویا کہ وہاں کی جماعت اور ہے اور باہر دنیا کی جماعت اور ہے وہاں کا اسلام اور ہے اور باہر کا اسلام اور ہے.شرعی امور میں جو چیزیں منع ہیں وہ ہر جگہ برابر منع ہیں.جن چیزوں کی اجازت ہے اُن کی ہر جگہ برابر اجازت ہے.جو مکروہات ہیں وہ ہر جگہ مگر وہ رہیں گی

Page 121

خطبات طاہر جلدے 116 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء اُن کو حرام نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن افریقہ میں جا کے میں نے دیکھا ہے بعض ایسی چیزیں جو حرام نہیں تھیں مکروہ تھیں اُن کو حرام قرار دے دیا گیا اور بعض عادتیں جو بد ہیں جن کی اصلاح کی طرف توجہ ہونی چاہئے تھی اُن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور بعض جگہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امور میں کوشش ہو رہی ہے اور تبدیلی ایسی ہے جو اچانک پیدا ہو نہیں سکتی.مثلاً پر دہ ہے وہاں بعض علاقوں میں عورتیں بالکل تنگی پھرتی ہیں ان کے اندر وہ احساس ہی نہیں ہے شرم کا نہ معاشرہ اس کو بری بات سمجھتا ہے اور مرد عورت کے خلاء کے معاملے میں بہت ہی زیادہ بے احتیاطیں ہیں اور روایتیں ایسی ہیں جو اسلام کے لحاظ سے نا قابل قبول ہیں.اُن امور میں مبلغین نے محنت کر کے احمدی عورتوں کی حالت کافی بدلی ہے جن کو آپ ویڈیو میں آپ اُن کے حالات دیکھیں گے وہ عورتیں کس طرح آرہی ہیں، جلسوں میں شریک ہو رہی ہیں، استقبال میں کھڑی ہیں یا ادھر اُدھر تو بعض احمدیوں کے دل میں خیال آئے گا کہ اچھا یہ پردہ ہے ان عورتوں کو کس نے اجازت دی تھی حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جس دن لوگوں سے وہ نکل کے آئیں ہیں اُن کے مقابل پر تو زمیں و آسمان کا فرق اُن میں پڑ چکا ہے.وہ ساری احمدی عورتیں غیر احمدی عورتیں بھی بیچ میں ہوتی تھیں ، عیسائی بھی ہوتی تھیں اس لیے جہاں آپ کو نمایاں ننگ نظر آئے گا یا پردے کے لحاظ سے بالکل بے احتیاطی دکھائی دے گی وہاں یقین کریں کہ وہ احمدی عورتیں نہیں ہیں.احمدی عورتوں میں اُن کا لباس ڈھکا ہوا ہے سارا کوئی ننگ ان میں آپ کو دکھائی نہیں دے گا سب نے سروں پر چادریں اوڑھی ہوں گی اور سفید لباس ہو یا دوسرا لباس ہواتنا نمایاں فرق ہے گویا کہ دو مختلف تو میں ہیں باقی افریقہ اور قوم سے تعلق رکھتا ہے اور احمدی افریقہ اور قوم سے تعلق رکھتا ہے.جبکہ باقی دوسرے مسلمانوں میں وہ تہذیب نہیں آئی تو یہ سارے ہمارے معلمین کی محنت کا پھل ہے اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور بہت ہی نمایاں پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہوئیں ہیں لیکن ابھی اس رستے پر سفر کرنا باقی ہے.یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ منزل آخری پہنچ گئی ہے اُن کی لیکن کوئی باہر کا آدمی ان کو دیکھے اور سمجھے کہ وہاں کام ہی کچھ نہیں ہوا تو یہ اس کی بڑی سخت غلط فہمی ہوگی.جا کے آپ باقی افریقہ کو دیکھیں تب آپ کو پتا چلے گا کہ کتنا کام ہوا ہے اور اس سے زیادہ تیز کام کرناممکن ہی نہیں تھا نہ ابھی ممکن ہے کیونکہ وہاں کا جو معاشرہ ہے، وہاں کے اقتصادی نظام اُس میں عورت کو اتنا کام کرنا پڑتا ہے باہر آ کر کہ ہرگز اسلام کا یہ تقاضا نہیں ہو سکتا کہ وہ عورت کو دکھیل کر کمروں میں بند کر

Page 122

خطبات طاہر جلدے 117 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء دو اور روزمرہ کی جائز ضروریات سے محروم کر دو لیکن ہماری قوم میں یعنی ہماری قوم سے مراد ہے پاکستانیوں میں خصوصا اور ہندوستانیوں میں بھی کچھ نظر کی تنگی پائی جاتی ہے.بعض لوگ بالکل آزاد ہو جاتے ہیں.بعض بڑی دقیا نوسی رہتے ہیں اور دوسرے کی ایک ذراسی کمزوری کو بھی وہ برداشت نہیں کر سکتے اپنے اندر خواہ کتنی بھی کمزوریاں ہوں تو افریقہ کو ان کی تنقید سے بچانے کی خاطر میں یہ بات سمجھا رہا ہوں.اس تنقید میں زبان جلدی نہ کھولیں اُن عورتوں کی بڑی عظیم الشان قربانیاں ہیں، حیرت انگیز پاکیزہ تبدیلیاں ہیں.وہاں کے معاشرے میں جو جنسیات کا تصور ہے آپ لوگ یہاں سوچ بھی نہیں سکتے.اُس کے باوجود ان احمدی خواتین نے جو پاک تبدیلیاں پیدا کیں ہیں وہ ان کے چہرے بشرے سے ظاہر ہے وہ نیک اور صاحب عصمت عورتیں ہیں.اس لیے اُن کو باہر دیکھتے ہوئے یا کبھی وہ استقبال میں جوش میں آکر بالکل بے قابو ہو جاتی ہیں اور نعرہ ہائے تکبیر مردوں سے بھی زیادہ جوش میں بلند کرتی ہیں تو باہر سے بیٹھا کوئی مولوی کہے گا کہ لو جی یہ دیکھ لو یہ کیسا پردہ ہے اتنے زبردست نعرے لگا رہی ہیں.نعرہ ہائے تکبیر میں تو کوئی نقصان نہیں ہے اگر ہمارے معاشرے میں یہ بات نہیں تھی تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ باہر اگر کوئی عورت نعرہ ہائے تکبیر بلند کرے یا دین کی محبت میں بے قابو ہو جائے تو اس کو آپ نعوذ باللہ بے حیا سمجھیں یا بے پردہ سمجھیں ہرگز ایسی بات نہیں ہے.بہت اُن میں نیکی ہے، بہت خلوص ہے اور اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ سلسلے کے گزشتہ مبلغین نے ۷۰ ۸۰ سال سے جو خدمت سر انجام دی ہے یہ سب سے بڑا اُن کا کارنامہ ہے کہ افریقہ کی عورت کی حالت بدلی ہے انہوں نے.ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اس میں شک نہیں لیکن جو کیا ہے وہ ہرگز نظر انداز کرنے کے لائق نہیں ہے.بہت ہی عظیم الشان پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں جبکہ عیسائیت نے تعداد جیتی ہے، نفوس حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نفوس کو پاکیزہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی.اتنا گند ہے عیسائی معاشرے میں وہاں تعجب ہے کہ عیسائیت اُس پر راضی کس طرح رہی.اس قسم کے خوفناک جرائم ہیں ان کی سوسائٹیوں میں قدیم سے چلے آنے والے کہ کوئی مذہب بھی اگر وہ سچا ہو اور تقویٰ کے ساتھ خدا کے بندوں میں پاک تبدیلی پید کرنا چاہتا ہو اُن جرائم کو برداشت نہیں کر سکتا یا وہ اُن کو چھوڑنے پر مجبور کرے گا یا اُن کو کہے گا کہ تم ہمارے مذہب میں شامل نہیں ہو سکتے.لیکن عیسائیت نے تعداد کی خاطر چونکہ وہ Colonization کے تابع پاکیزہ تبدیلی

Page 123

خطبات طاہر جلدے 118 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء کی بجائے نفوس میں دلچسپی رکھتے تھے ، تعداد میں دلچسپی رکھتے تھے، اُن کے ہر عیب کو اُسی طرح قبول کیا کوئی اُس میں دخل نہیں دیا.چنانچہ آپ حیران ہوں گے یہ سن کے کہ اسی افریقہ میں جو بظاہر آج کی دنیا کا افریقہ ہے آج سے پانچ ہزار سال پہلے کی وہ شدید ظالمانہ روایات موجود ہیں.جن کو آپ فراعین مصر یا اُس سے پہلے کے زمانوں کے بادشاہوں کے ساتھ منسوب سمجھا کرتے تھے آج بھی موجود ہیں.مثلاً عیسائی افریقہ میں پیکنوں میں تو ہے ہی ،عیسائی افریقہ کی میں بات کر رہا ہوں اُن میں بڑے بڑے اُن کے لیڈر ہیں ، وہ پیرا ماؤنٹ چیفس ہیں جو عیسائیت کے سپوت سمجھے جاتے ہیں وہاں، اُن کا سارا علاقہ اُن کے تابع ہے، چرچ بھی جاتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ جب ایک چیف مرتا ہے تو اس کے پیروکار سینکڑوں لوگوں کے سر جدا کر دیتے ہیں تن سے تا کہ چیف کے ساتھ دفن کریں اور یہ جہالت ہے کہ اگر چیف جائے گا اگلی دنیا میں تو اکیلا تو نہیں جانا چاہئے اُس کو ، چیف کا کیا فائدہ اگر وہ اکیلا چلا جائے.اُس کے خدمت گار ہونے چاہئیں اُس کے ساتھ ایک پورا قافلہ ہونا چاہئے.جتنا بڑا چیف اتنے زیادہ سروں کی ضرورت پڑتی ہے اور آج کل کی دنیا میں ہو رہا ہے اور حکومتیں جانتی ہیں لیکن بے بس ہیں اور بالکل دخل نہیں دیتیں.بعض حکومتوں نے آواز بلند کرنی شروع کی ہے اس کے خلاف لیکن صرف نصیحت کی حد تک ہے قانون بنے ہوئے ہیں لیکن اس لحاظ سے نہیں کہ اُن پر عمل درآمد ہو.جن علاقوں میں یہ رسمیں جاری ہیں آج بھی جاری ہیں بلکہ ایک واقعہ تو مجھے وہاں خدام نے بڑا دلچسپ یہ سنایا.دلچسپ بھی اور افسوسناک بھی کہ ایک بڑا چیف مرا ، اول تو چیف کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو شہر خالی ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن وہ لوگ بھی بڑی ہوشیاری سے اس کو دباتے ہیں واقعہ کو اور چھپائے رکھتے ہیں کہ چیف کی موت کا نہ پتا لگے کسی کو.مگر خبریں نکل ہی جاتی ہیں لوگ بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں بہر حال ایک جگہ چیف جب مرا تو سینکڑوں آدمی نکل کھڑے ہوئے.اُن کے خاص آدمی مقرر ہوتے ہیں بڑی بڑی انہوں نے تلواریں ہاتھ میں پکڑی ہوتی ہیں خاص قسم کی تلواریں چوڑے پھل والی، جس کو بنگلہ دیش میں داؤ کہتے ہیں ، تو جگہ جگہ چھپ کے کھڑے ہو جاتے ہیں کوئی مسافر ملے بچہ بڑا عورت، مردان کو سر چاہئے وہ ایک ہی وار میں سر جدا کر کے تو سرلے کے تن وہیں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور پھر وہ اُن قبروں میں چیف کے ساتھ دفن کرنے کے لیے وہاں پیش کر دیتے ہیں.ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے وہ دفن ہوتے ہیں مجال

Page 124

خطبات طاہر جلدے 119 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء نہیں حکومت کی کہ اُن معاملات میں دخل دے سکے.تو خدام چونکہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اللہ کے فضل سے بہت Active ہیں.وہاں انہوں نے ٹولیاں بنائیں تا کہ اس ظلم کے خلاف لوگوں کو بچائیں اور دیکھیں کوئی شرارت کر رہا ہے تو اسے روکیں.تو بڑی دلیری کے ساتھ ٹولیاں بنا کہ شہر میں پھر رہے تھے تو پتا لگا ایک اُن میں سے ایک نیا ہوا احمدی بھی ایک داؤ لے کے کھڑا تھا کہیں چھپ کے لوگوں کو مارنے کے لیے.انھوں نے اُس سے کہا تم احمدی ہو کہ یہ حرکت کر رہے ہو.وہ بیچارا اتنانیانیا غیر تربیت یافتہ تھا کہ وہ اس کو جرم سمجھ ہی نہیں رہا تھا.اُن سے بحث کر رہا تھا کہ اس میں کیا ہے یہ تو ضروری ہے رسم ہے ایک.چنانچہ انھوں نے زبر دستی اُس کو پکڑ کے قید کر دیا اور جب تک وہ چیف دفن نہیں ہو گیا تھا سر کٹنے بند نہیں ہو گئے اُس کو نہیں چھوڑا انھوں نے.تو اس قدر جہالت کی باتیں موجود ہیں اور عیسائیت نے اُسے پوری طرح اُس سے بے پروائی کی ہے.اس لیے کہ ان کو تو روحوں کی آزادی کے بجائے روحوں کی غلامی پیش نظر تھی.وہ تو چاہتے تھے کہ Colonializm کے تابع ان کو ہر لحاظ سے جکڑ دیا جائے اور اس کی طرف کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ان کا کردار کیا رہتا ہے.اُن کے اندر بے حیائی بڑھتی ہے یا کم ہوتی ہے.اس پہلو سے جب میں نے مزید جائزہ لیا تو یہ مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ موجودہ دور میں اُن کی اکثر جنسی بے راہ روی پرانے افریقہ کی روایت نہیں ہے بلکہ عیسائی جو Colonializm کے ساتھ عیسائیت گئی تھی اور مغربی تہذیب گئی تھی اُس کا ورثہ ہے.انھوں نے وہاں آزادی کے نام پر بے حیائی پیدا کی حالانکہ پرانے افریقہ میں اپنی لڑکیوں کی عصمت کی حفاظت کی طرف غیر معمولی توجہ دی جایا کرتی تھی.آپ پرانے افریقہ کی تاریخ پڑھیں میں نے بعض اُن کے اپنے افریقن سکالرز کی کتابیں پڑھی ہیں اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جو بعض بدر میں عورت کے ختنے کی اس قسم کی جاری ہوئیں اُس کے پیش نظر یہ بات تھی کہ عورت کی عصمت کی حفاظت ہو اور اس معاملے میں بڑی غیرت رکھتے تھے.لیکن مغربی تہذیب جو عیسائیت کے ساتھ ساتھ وہاں پہنچی ہے اُس نے وہاں عیسائیت کے نام پر ایک آزادی دی اور اُس آزادی کے ساتھ جنسی آزادی کا بھی اعلان ہو گیا گویا جو مرضی کرو کوئی فرق نہیں پڑتا.چنانچہ اکثر بے حیائیاں اُن کو مغربی تہذیب نے عطا کی ہوئی ہیں لیکن احمدی اللہ کے فضل سے اس کے مقابل پر بڑی جد وجہد کر رہے ہیں.میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے ابھی بہت ہی محنت کی اور ضرورت

Page 125

خطبات طاہر جلدے 120 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء ہے اور ہمارے مبلغین کو چاہئے کہ بچپن سے عصمت کی حفاظت اور عصمت کی جو خدا تعالیٰ نے ایک صفت عطا کی ہے عورت کو اُس کی عظمت دلوں میں پیدا کرنے کے لیے وہاں کوشش کریں اور یہی مضمون بعض دنیا کی باہر کی آبادیوں پر بھی اطلاق پاتا ہے.انکی بے حیائی ہر جگہ پھیل رہی ہے یورپ میں کم تو نہیں بے حیائی اب اور بلکہ دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے.ہمارے بھی بچے بچیاں غیر معاشرے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے خیالات سے متاثر ہوتے ہیں.اس لیے افریقہ سے بات میں نے حاصل کی لیکن وہ اطلاق دنیا میں ہر جگہ پا رہی ہے.خود ہندوستان اور پاکستان میں معاشرہ بڑی تیزی سے تباہ ہو رہا ہے تو جیسا کہ وہاں ہمیں ضرورت ان برائیوں کے خلاف علم جہاد بلند کریں، باقی دنیا میں بھی اس سے غافل نہیں رہنا چاہئے.جو آپ افریقہ میں دیکھ رہے ہیں وہ اس لیے وہاں زیادہ نظر آتا ہے کہ وہ لوگ بہت سادہ فطرت کے لوگ ہیں اپنی بدی کو چھپانا جانتے ہی نہیں بالکل کھلم کھلا وہ بے تکلفی سے بیان کرتے ہیں.خطوں میں بھی بعض دفعہ مجھ سے بات کرتے ہیں تب تو حیرت ہوتی ہے دیکھ کر کس طرح سادگی کے ساتھ ، صاف گوئی کے ساتھ وہ اپنی باتیں بیان کرتے ہیں.باقی دنیا میں کہیں تہذیب کے نام پر، کہیں کچھ اور روایتیں ایسی چل پڑی ہیں جن کی وجہ سے بہت زیادہ اپنی حالت پر پردہ ڈالنے کی عادت ہے.اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ اپنی برائیوں کو خود بیان نہ کر واس میں کوئی شک نہیں لیکن جب حد سے زیادہ یہ بات پیدا ہو جائے تو پھر وہ منافقت کی حد تک پہنچ جاتی ہے.اس لیے یہ خرابیاں دنیا میں ہر جگہ ہیں یہ خیال کر لینا کہ صرف افریقہ میں ہیں یہ غلط نہی ہے.ان کے متعلق ساری دنیا کی جماعتوں کو کوشش کرنی چاہئے اور یہ کوشش جوانی کے بعد ممکن نہیں ہو گی.جب بچے آپ کے جوان ہو جائیں پھر آپ ہزار کوشش کریں بعض دفعہ وہ آپ کے ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں پھر وہ آپ کی بات نہیں سنیں گے.اُس وقت تو اپنے جذبات میں مغلوب ہو چکے ہوتے ہیں.اگر آپ بچپن سے ایک تربیت کا پروگرام بنا ئیں اور بچپن سے اُن کو بتائیں کہ یہ سب گند ہے، بے معنی چیزیں ہیں ، آخر کا ر انسان کی روح کو تباہ کرنے والی ہیں، اللہ تعالیٰ سے محبت میں کمی پیدا کرنے والی ہیں.ماں باپ اگر بچپن سے تربیت کریں تو وہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اپنے گرد خود وہ فصیل کھڑی کر لیتے ہیں جس کے ساتھ وہ ہمیشہ معاشرے کے مقابل پر محفوظ رہتے ہیں.ورنہ ماں باپ کے لیے یا مبلغین کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر دفعہ جوان لڑکوں کے ساتھ یالڑکیوں کے

Page 126

خطبات طاہر جلدے 121 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء ساتھ پھریں اور ان کو ہر وقت برائی سے روکیں.اس لئے یہ عمر ہے بچپن کی جس میں آپ کو ابھی سے کام کرنا چاہئے.امریکہ میں بھی میں نے جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بیان کیا بہت زیادہ برائی ہے بلکہ وہ افریقہ کو بھی برائی ایکسپورٹ کر رہا ہے کثرت کے ساتھ.بے حیائی کے اڈے وہاں کی فلم انڈسٹری میں بنے ہوئے ہیں اور ساری دنیا میں جو گندی فلمیں اور جرائم کی فلمیں جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور گندی عادتیں Drugs وغیرہ کی افریقہ کو بھی اس وقت اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے.یورپ میں بکثرت یہ رحجان بڑھ رہے ہیں تو ساری دنیا میں یہ جماعتوں کو معلوم کرنا چاہئے یعنی یہ اچھی طرح زیر نظر رکھنا چاہئے اور ذہن نشین کرنا چاہئے کہ بڑے ہونے کے بعد آپ کے ہاتھ سے بچے نکل چکے ہوں گے پھر بہت ہی مشکل کام ہے ان کو سنبھالنا.بچپن میں اُن پر توجہ دیں اور اگر آپ نہیں دیں گے تو پھر بعد میں جب شکایت کریں گے اور ہمارے پاس آئیں گے کہ ان کا کچھ کرو تو میں آپ کو بتادیتا ہوں کہ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کوئی تبدیلی پیدا کر دے تو کر دے مگر بالعموم ایسے بچوں کو پھر سنبھالنا ہت مشکل ہوتا ہے.امریکہ میں میں نے دیکھا ہے بعض احمدی جو اچھی تربیت کر رہے ہیں اُن کے بچے اس قدر مضبوط دیوار میں بن جاتے ہیں اسلامی اقدار کے لحاظ سے کہ کوئی اُن کے اندر نقب زنی نہیں کر سکتا، کوئی اُن کے اندر نفوذ نہیں کر سکتا بلکہ وہ جب جاتے ہیں سکولوں میں نمایاں طور پر وہ اسلام کے علمبر دار بنے رہتے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر سے انھوں نے یہ سیکھا ہوا ہے.تو آپ بھی چھوٹی عمر میں یہاں بھی سکھائیں دنیا میں جہاں جہاں احمدیوں تک آواز پہنچے وہ بچپن کی طرف بہت توجہ دیں ورنہ بہت ہی مشکلات ہیں ہمارے لئے.یورپ میں تو خصوصیت کے ساتھ میں نے دیکھا ہے دن بدن مصیبتیں بڑھ رہی ہیں جماعت کے اسلامی اقدار کو خطرات زیادہ سے زیادہ بڑھتے جارہے ہیں اور یورپ پہ ہی منحصر نہیں ماریشس آپ چلے جائیں وہاں بھی یہ حال ہے، نبی آئی لینڈ چلے جائیں وہاں بھی یہ حال ہے.ایسی گندی تہذیب ہے اور اتنی دور وار کرنے والی تہذیب ہے کہ دنیا کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا انہوں نے جہاں انہوں نے باقاعدہ منظم طریق پہ معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے کوششیں نہیں کیں.اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ دجال کا اثر دنیا میں ہر شخص تک پہنچ جائے گا اور جو اُس سے مغلوب نہیں ہو گا اُس کو دھواں تو دجال کا ضرور پھر بھی ملے گا.

Page 127

خطبات طاہر جلدے 122 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء مطلب یہ ہے کہ کوئی کونہ دنیا کا ایسا نہیں رہے گا.جہاں اس بد تہذیب کے اثرات کسی نہ کسی رنگ میں نہ پہنچے ہوں.چونکہ دجال کو قتل کرنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد ہے اور پیش گوئیوں میں ہمیشہ سے یہی مقدر تھا.اس لیے یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اکیلے کے سپرد ہے.آپ سب کے، ہم سب کے سپرد ہے.اس لیے مغربی معاشرے کے خلاف ہمیں ایک عالمی جہاد کرنا چاہئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بچپن سے ہوگا، بچپن کے بعد Late ہو جاتے ہیں آپ بہت سے بچے میں نے ضائع ہوتے دیکھے ہیں.جہاں بچے بڑے ہو جائیں وہاں اُن کو پھر کم سے کم اتنا تو کریں کہ ان کو خدام الاحمدیہ کہ سپر د کریں اور بچیاں ہیں تو اُن کو لجنہ کے سپر د کریں.جو ماں باپ اپنے بچوں کو جماعت کی تنظیموں کے سپرد کر دیں اُن کے لئے بھی پھر امکان رہتا ہے کہ وہ بچے بیچ جائیں گے لیکن جو نہ خود تربیت کرتے ہیں نہ اُن کو تنظیموں کا مطیع بناتے ہیں.نہ تنظیموں سے اُن کی وابستگی پیدا کرتے ہیں بلکہ یوں سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے تو تنظیموں سے بالا ہیں، کوئی ضرورت نہیں خدام الاحمدیہ کا یہ قائد پتانہیں کیا حیثیت رکھتا ہے، زعیم کیسا ہے،فضول اجلاس ہیں ، وقت ضائع ہوتا ہے.بچے تعلیم کیوں نہ حاصل کریں، پی ٹی کیوں نہ کھیلیں فلاں بات میں کیوں نہ مغز ماری کریں جس سے ان کا مستقبل بن سکے.اس قسم کے خیالات کہیں یا نہ کہیں میں جانتا ہوں انسانی فطرت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں تو جو بڑے ہو کر بچانے کا زمانہ ہے اُس سے بھی وہ غفلت کر جاتے ہیں.اس لیے میں امید رکھتا ہوں کہ ساری دنیا میں جماعتیں ان دونوں امور کی طرف متوجہ ہوں گی اور افریقہ میں خصوصیت کے ساتھ جیسا کہ میں دیکھ کے آیا ہوں خدام الاحمدیہ اللہ کے فضل سے ان معاملوں میں بڑی مستعد ہو چکی ہے اور اس سے پہلے دور میں خدام الاحمدیہ نے ایسا کردار ادا نہیں کیا تھا جواب کر رہی ہے اور ایسے اچھے مستعد خدام ہیں اُن کے متعلق پھر انشاء اللہ میں ذکر کروں گا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ افریقہ کے حالات تو اب جلد جلد بدلیں گے، ساری دنیا کی جماعتوں کو چاہئے کہ اپنے لیے بھی جہاں دعائیں کرتے ہیں.خصوصیت سے افریقہ کو دعاؤں میں یا درکھیں.میرا دل جانے سے پہلے بھی اس یقین سے بھرا ہوا تھا لیکن اب تو بہت ہی زیادہ میں اس معاملے میں پور استحکم یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کی تقدیر کا فیصلہ اسلام کے مقابل پر ہار جیت کا فیصلہ یقیناً اسلام کی جیت ہوگی افریقہ میں ہو گا.افریقہ میں وہ پہلا انقلاب برپا ہوگا جس کے نتیجے میں دنیا اسلام کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو

Page 128

123 خطبه جمعه ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء خطبات طاہر جلدے جائے گی.اس لیے دنیا کی ساری جماعتوں کو خصوصیت سے افریقہ کو اپنی دعاؤں میں یا درکھنا چاہئے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: سفر کے دوران بہت سے ایسے احباب فوت ہوئے یا خواتین فوت ہوئیں جن کے بزرگوں اور تعلق رکھنے والوں نے نماز جنازہ غائب کی درخواست کی تھی لیکن سفر کے دوران وہ وقت پر پہنچی نہیں درخواستیں.اب یہ ایک فہرست ہے ۶ امرحومین کی جن کی نماز جنازہ غائب نماز عصر کی نماز کے معابعد ہوگی.قمر الحق صاحب ابن شیخ نور الحق صاحب بجلی کے پول سے کرنٹ لگنے کے نتیجے میں ۲۲ سال کی عمر میں موقع پر وفات پاگئے.یہ ربوہ کے ہیں نور الحق صاحب کافی معروف آدمی ہیں.مکرم عبداللطیف صاحب ظہور مرحوم موصی تھے لاہور میں وفات ہوئی.مکرمہ سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد صبغتہ اللہ آف بنگلور محمد صبغتہ اللہ صاحب خدا کے فضل سے بہت ہی فدائی احمدی بار ہا کئی کئی مہینے تک وقف کیلئے لندن تشریف لاتے رہے اور بہت انہوں نے محنت سے کام کیا ہے یہاں آکر آنریری ورکرز میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے ان کی اہلیہ کچھ عرصہ سے بیمار تھیں وفات پاگئیں ہیں.بنگلور سے اپنے خرچ پر آتے رہے ہیں ہر سال آکر مسلسل دو چار مہینے ٹھہر کے خدمت دین کر کے واپس چلے جاتے رہے کچھ نہیں دیکھا اور انگلستان کا صرف آئے اور لندن کی مسجد میں بیٹھے کام کیا، واپس چلے گئے.مکرم چوہدری اسماعیل صاحب چک نمبر ۴۵ مر ضلع شیخوپورہ مکرم ستار محمد صاحب میرا بھڑ کا آزاد کشمیر ہمارے مبلغ سلسلہ فضل احمد شاہد رکن شعبہ تاریخ کے والد تھے.مکرمہ سلیمہ بیگم صاحبہ آف کلاس والا ہمکر مہ ممتاز بیگم آف شکاگو،مکر مہ راجہ غلام مرتضی نصیرہ، مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب واہلہ چک ۴۵ جنوبی مکرمہ رفیعہ بیگم اہلیہ مد یوسف بھٹی صاحب عبداللہ پور فیصل آباد، کرمہ طیفاں بی بی صاحبہ اہلیہ محترم برکت اللہ صاحب یہ مرحومہ نعیم الدین صاحب اسیر راہ مولی کی پھوپھی تھیں، کرمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا یعقوب بیگ مرحوم هم ، مرزا اسلم بیگ صاحب کی والدہ مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ، مکرم محمد نواز صاحب معلم وقف جدید کی خوشدامن، مکرم منظور احمد صاحب شکرانی بستی شکرانی بہاولپور، مکرمہ لمتہ الحمید فنی صاحبہ یہ ہمارے پروفیسر عبدالرشید فنی صاحب کی صاحبزادی بالکل جوانی میں بچے کی پیدائش کے سلسلہ میں آپریشن ہوا اس وقت وفات پاگئیں.بشری خانم صاحبہ بنت چوہدری یوسف علی صاحب دارالرحمت شرقی.ان سب کی نماز جنازہ غائب عصر کی نماز کے معأبعد ہوگی.جانگھ

Page 129

Page 130

خطبات طاہر جلدے 125 خطبه جمعه ۴/ مارچ ۱۹۸۸ء دورہ افریقہ کے حالات نیز افریقہ کے ابتدائی مبلغین کی قربانیوں کا ذکر خطبه جمعه فرموده ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: افریقہ کے دورے کی وجہ سے یہ آج میر اچھ جمعوں کے انقطاع کے بعد ساتواں جمعہ ہے جو میں یہاں پڑھا رہا ہوں یعنی گزشتہ چھ جمعے میں انگلستان سے غیر حاضر رہا اور پانچ جمعے مجھے افریقہ میں پڑھنے کی توفیق عطا ہوئی اور ایک ہالینڈ میں واپسی پر افریقہ کے دورے کے تاثرات کے متعلق اگر میں خطبات کا سلسلہ شروع کروں تو ایک بہت سی لمبی داستان ہوگی اور بعید نہیں کہ آئندہ چند ماہ مسلسل بھی اگر میں اس مضمون پر گفتگو کروں تو اس مضمون کو سمیٹنا مشکل ہوگا.پانچ ہفتے تقریباً مجھے افریقہ میں دورے کی توفیق ملی، چھ افریقن ممالک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں جانے کا موقع ملا اور اس کثرت سے وہاں پھرنے ،لوگوں سے ملنے ، اجتماعات سے خطاب کرنے ، احمد یہ جماعت سے رابطہ کرنے کا موقع ملا، غیر از جماعت دوستوں سے رابطہ کا موقع ملا،مسلمانوں سے،عیسائیوں سے، پیگنز سے چھوٹے بڑے ہر قسم کے وہاں کے جو نمائندہ لوگ تھے ان سب سے ملاقات کا موقع ملا اور سکولوں کا جائزہ لینے کا موقع ملا، اپنے ہسپتالوں کا جائزہ لینے کا موقع ملا.وہاں کی حکومت کے نمائندوں ،سیاست دانوں، دانشوروں سے ملنے، ان کے ساتھ مجالس میں جانے کا موقع ملا تو ایک ایک ملک کا دورہ اتنا بھر پور ہوا کرتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گھومتے ہوئے پیسے پر ایک انسان بیٹھ

Page 131

خطبات طاہر جلدے 126 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء کر تیزی سے نکل گیا ہے اور دنوں کا پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کس وقت آئے اور کس وقت نکل گئے.اس کے باوجود ایک عجیب متضاد کیفیت یہ بھی تھی کہ ایک طرف وقت کی تیزی کا احساس ایک طرف تھوڑے وقت میں اتنا زیادہ خدا تعالیٰ نے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ چند دنوں میں مہینوں وہاں ٹھہرے ہیں یعنی وہاں ہم مہینوں ٹھہرے ہیں صرف چند دن نہیں.تو بیک وقت یہ متضاد کیفیات تھیں اور سفر کے بعد بھی یہ احساس ہوا گویا کہ چھ مہینے سال باہر گزار کے واپس آرہا ہوں اور دوسری طرف دوروں کے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک طرف سے دن داخل ہوئے اور دوسری طرف سے نکل بھی گئے.جلسہ سالانہ کی کیفیات یاد آتی تھیں.جلسہ سالانہ میں بھی یہی ہوا کرتا تھا.مدتوں مہینوں انتظار رہتا تھا، انتظامات ہوا کرتے تھے اور جب پہلا دن جلسہ کا پروگرام کا شروع ہوتا تھا تو آخری دن تک پہنچنے میں وقت ہی کوئی نہیں لگتا تھا.ادھر سے داخل ہوئے گویا وہاں رفتار تیز ہو گئی اچانک اور گھومتے ہوئے پلیٹ فارم پر کوئی ایک آدمی چڑھ گیا اور اچانک پرلی طرف سے سر باہر نکالنے کا موقع ملتا ہے.ایسی کیفیت افریقہ کے دورے میں بھی تجربے میں آئی اور اب جب میں نے کل مبارک احمد ساقی صاحب کے ساتھ بیٹھ کر جو سفر کے وقت میرے ساتھ ایڈیشنل وکیل التبشیر کے طور پر تھے.ایک ایک ملک کے متعلق مختصر نوٹس لکھوانے شروع کیے جو کام ہم نے کرنے ہیں تو پتا چلا کہ اس کے لیے بھی کئی گھنٹے کی مجلسیں اُن کے ساتھ درکار ہونگی.محض اشارہ نوٹس لکھوانا کہ یہ یہ کام ہم وہاں وعدے کر کے آئے ہیں یا یہ منصوبے ذہن میں ابھرے ہیں.اُن کا Follow up کرنا ہے، کس طرح کرنا ہے.اُس کے لیے بھی کئی گھنٹے درکار ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دورہ ان معنوں میں تو بہر حال آپ جانتے ہی ہیں کامیاب رہا کہ خدا کے فضل سے ہر پہلو سے دوستوں نے بڑی محبت کا سلوک کیا اور بڑے پیار اور تعاون کا سلوک کیا.احمدیوں نے پیار کا اور حکومتوں نے اور دیگر غیر احمدی عناصر نے تعاون کا اور بعض جگہ پیار کا بھی لیکن دورے کی کامیابی دراصل یہ نہیں ہے.اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جو کام ہیں وہ اصل کامیابی ہے.اس کے نتیجے میں جونئی کھڑکیاں خدا تعالیٰ نے کام کی کھولی ہیں اصل کامیابی وہ ہے اور ان چند ہفتوں کے دورے کے نتیجے میں بہت سے مہینوں بلکہ شاید ایک سال کا بھی کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ ایک سال کا کام ہمارے سامنے ابھر آیا ہے اور ایک سال میں سوچتا

Page 132

خطبات طاہر جلدے 127 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء ہوں تو ایک سال بھی نہیں بلکہ آئندہ دسیوں بیسوں سال کے کام کے لیے خدا تعالیٰ نے رستے کھولے ہیں اور اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر تھی کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے کا آخری سال جو ہے اس میں خدا تعالیٰ نے اس دورے کی توفیق بخشی اور یہ واقعہ ہے کہ افریقہ کو اس دورے کی شدید ضرورت تھی اور آئندہ صدی کے لیے ہمیں بہت سے عظیم الشان منصوبے بنانے تھے جن کی طرف نگاہ جاہی نہیں سکتی تھی یہاں بیٹھے ہوئے.رپورٹوں کے ذریعے ایک ملک کے حالات کا جائزہ لینا یا کتابوں کے ذریعے ایک ملک کے حالات کا تصور باندھنا یہ بالکل اور بات ہے.اپنی آنکھوں سے دیکھنا، اپنے کانوں سے اُن لوگوں کو سننا اُس کے نتیجے میں بالکل ایک نیا ملک سامنے اُبھرتا ہے.نئے مسائل سامنے آتے ہیں، نئی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں.تو اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دورہ اتنا مصروف بھی تھا اور اتنا آئندہ مصروف رکھنے والا دورہ ہے کہ آئندہ کئی مہینے مسلسل ان کاموں کو سمیٹنے پر لگیں گے.اس لیے پہلی بات تو یہ میں جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ اگر خط و کتابت میں کچھ دیر ہو جائے بلکہ بعض صورتوں میں ہو سکتا ہے مجھے دستخطوں کا بھی موقع نہ ملے اور مجھے پرائیویٹ سیکرٹری سے کہنا پڑے کہ کچھ عرصے کے لیے تم میری طرف سے دستخط کر کے ڈاک بھیجا کرو تو اُس پر وہ بدظنی نہ کریں.اس دورے کے معابعد جو مجھے خط ملے ہیں اُس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ بے چین ہو گئے ہیں.بعض لوگوں نے شکوے شروع کر دیئے ہیں کہ ڈیڑھ مہینہ ہو گیا ہے آپ کے دستخطوں کا کوئی خط نہیں آیا.کیا بات ہے ناراض ہیں کیا ہو گیا ہے.تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہرگز ناراضگی کا کوئی سوال نہیں ہے.کسی قسم کی بے اعتنائی کا کوئی سوال نہیں بلکہ کام اس نوعیت کے ہیں کہ اُن کو بہر حال فضیلت دینی ہوگی ذاتی جذبات کے مقابل پر.انفرادی تعلق اپنی جگہ ہیں ساری جماعت سے فرداً فردا ایک تعلق ہے لیکن اس تعلق کے مجموعے کا نام جماعتی تعلق ہے.اس مجموعے پر افراد کو فضیلت نہیں دی جاسکتی.اس لیے جو جماعتی کام ہیں انہیں بہر حال پہلے رکھنا ہوگا اور اس دوران جس حد تک بھی انفرادی طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے وہ کی جائیں گی انشاء اللہ.لیکن اس بارے میں ہر گز بدظنی سے کام نہ لیں.دوسرا یہ بھی میں مطمئن کروانا چاہتا ہوں کہ خطوط سارے پڑھتا میں ہوں اور جو بعض ہیں طلبہ کے خطوط اس قسم کے جن میں سب میں مشترک مضمون ہوتا ہے دعا

Page 133

خطبات طاہر جلدے 128 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء کا.اُن کی فہرستیں بن جاتی ہیں اور ساتھ خطوط بھی مہیا ہوتے ہیں تا کہ اگر کوئی بات دیکھنی ہو تو خود دیکھ سکوں.تو اُن کے سوا جتنے بھی ایسے خطوط ہیں جن کا کسی نہ کسی انفرادی نوعیت کے معاملے سے تعلق ہے.وہ سارے اگر میں خود پڑھتا ہوں.اس لیے یہ وہم نہ کریں کہ میں خط بھی نہیں پڑھ رہا اور گویا کہ اندھیرے میں چلا گیا ہوں.ہرگز ایسی کوئی بات نہیں ہے نہ ہو سکتی ہے.یہ بھی بالعموم ایک ایسی جماعتی ضرورت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.یہ انفرادی ضرورت نہیں ہے مجھے بھی ضرورت ہے اس کی کہ ساری دنیا کی جماعتوں کے حالات سے باخبر رہوں اور نظر رکھوں کہ کیا ہو رہا ہے.کس قسم کے جذبات کیفیات میں سے مختلف دنیا کی جماعتیں گزر رہی ہیں ، کونسے مسائل کا اُن کو سامنا ہے.تو وہ محض خلاصوں سے تو نہیں پتا چل سکتا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض ایسی نوعیت کے خطوط ہیں جن کے خلاصے تیار ہو سکتے ہیں مثلاً طلبہ کی دعا کا مضمون ہے.بعض اور قسم کے مضامین ہیں جن میں خلاصے تیار ہو سکتے ہیں.اُن میں دفتر میری مدد کرتا ہے.یہاں کی خواتین انگلستان کی مدد کرتی ہیں اور کئی ایسے خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے خدمت کرنے والے یعنی Honorary رضا کارانہ خدمت کرنے والے ریٹائر ڈ احمدی ہیں جو بڑی محنت سے یہ کام کر رہے ہیں.تو وہ میرا وقت بچاتے ہیں اس لیے مجھے تو فیق مل رہی ہے کہ میں اس سارے کام کو سمیٹ سکوں.لیکن جواب کے وقت ضرور کمزوری واقع ہوگی اور اُس میں میں اُمید رکھتا ہوں کہ دوست اس کو نظر انداز فرمائیں گے.افریقہ کے متعلق بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مجالس میں یا عام جلسوں میں بیان ہو نہیں سکتیں.اُس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کچھ ایسے منصوبوں پر آگاہی فرمائی ہے، ایسے منصوبے روشن فرمائے ہیں.جن کے متعلق اُن کو عملدرآمد سے پہلے کھول کر دنیا کے سامنے لانا حکمت عملی کے خلاف ہوگا.قرآن کریم ہمیں تاکید فرماتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے فضلوں اور نظروں کے سامنے جب بڑھو گے.تو اُس وقت حاسد کے حسد سے بچنے کی دعا بھی کرنا وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (الفلق : 4 ) میں یہی مضمون بیان ہوا ہے.چنانچہ اُس کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ جب حسد شروع ہو جائے تو دعا کرنا.مراد یہ ہے کہ حسد ہو گا ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں اور اُس حسد کے مقابلے کی تمہیں براہ راست خود طاقت نہیں ہو گی.یہ مطلب نہیں ہے کہ تم نے کوشش نہیں کرنی.جو لوگ یہ مضمون سمجھتے ہیں اُن کو اس آیت کا بلکہ قرآن کریم میں دعا کے مضمون کا کچھ بھی علم نہیں کہ وہ ہے

Page 134

خطبات طاہر جلدے 129 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء کیا.دعا عمل کے بعد شروع ہوتی ہے عمل سے پہلے بھی شروع ہوتی ہے.لیکن عمل کے بغیر نہیں ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جب تو کل کا مضمون بیان فرمایا تو فرمایا تو کل یہ نہیں ہے کہ اونٹ کو کھلا چھوڑ دو جنگل میں اور سمجھو کہ خدا تعالیٰ اُس کی حفاظت فرمائے گا.تو کل یہ ہے کہ اُس کا گھٹنا ضرور باندھو اور پھر وہم میں مبتلا نہ ہو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرو خدا تعالیٰ حفاظت فرمائے گا.( ترندی کتاب صفۃ القیامه حدیث نمبر: ۲۴۴۱) تو دعا کے مضمون میں عمل داخل ہے یہ بات میں خوب اچھی طرح کھولنا چاہتا ہوں.عمل سے پہلے بھی دعا ہے.دعا کے نتیجے میں عمل کی توفیق ملتی ہے.عمل کے بعد بھی دعا ہے.لیکن عمل کو نکال دیں بالکل عمد اترک کر دیں تو دعا کوئی چیز نہیں ہے.وہ ایک قسم کی انانیت ہے.وہ ایک قسم کا خدائی کا دعویٰ ہے اور اپنا تکبر ہے کہ گویا ہم خدا کے قانون قدرت سے بالا ہیں.ہماری خاطر خدا اپنے قانون کو نظر انداز کر دے گا.ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہیں تب بھی خدا ہمارے لئے پورا کرے گا.یہ مضمون شرک بھی ہے، گستاخی بھی ہے، تکبر بھی ہے.اسی لیے انبیاء عمل سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتے تھے.سب کچھ علم ہوتا ہے کہ خدا نے کرنا ہے.بعض باتیں نا ممکن دکھائی دے رہی ہوتی ہیں.ہو ہی نہیں سکتیں.لیکن اُس کے باوجود وہ کرتے رہتے ہیں اور دعا کرتے رہتے ہیں.تو اس لیے جب یہ کہا جائے کہ حسد سے بچنے کے لیے دعا کرو تو یہ مضمون اس میں داخل ہے کہ مقدور بھر کوشش ضرور کرو.یہ نہ خیال کرنا کہ لوگ شرارت نہیں کریں گے.لوگ تمہارے منصوبوں میں دخل اندازی کی کوشش نہیں کریں گے.ایسے فتنے نہیں پیدا کریں گے جس سے تمہارے عظیم الشان منصوبے ناکام بنائے جائیں.وہ ضرور کریں گے لیکن اگر دعا کرتے رہو گے ساتھ یعنی اپنی پوری کوششوں کے بعد دعا سے بھی کام لو گے تو پھر دشمن لازماً نا کام ہوگا یہ خوشخبری ہے اس مضمون میں جو قرآن کریم کی آخری سے پہلی سورۃ میں بیان فرمایا گیا ہے.اس لیے میں اس بات سے باخبر ہوں اور منصوبوں کے سارے حصے جماعت کے سامنے نہیں کھول سکتا لیکن جماعت سے کام بہر حال لینا ہے اور جس کے ساتھ جس مضمون کا تعلق ہوگا اُس سے رابطہ کیا جائے گا.اگر وہ جماعتی طور پر ہو گا تو بعض جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا.اگر انفرادی طور پر ہوگا تو انفرادی طور پر اُن سے رابطہ کیا جائے گا.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ خلیفہ اکیلا کام کرے بلکہ ساری جماعت کا نام ہی خلافت ہے اصل میں.خلافت ایک فرد کے ذریعے ظاہر ہو رہی ہے مگر امر

Page 135

خطبات طاہر جلدے 130 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء واقعہ یہ ہے کہ ساری جماعت خلیفہ ہے خدا تعالیٰ کی اور اُس کی اجتماعیت کے نتیجے میں جو طاقت پیدا ہوتی ہے اُس کا مظہر خلیفہ وقت ہوتا ہے.اس لیے جب میں کہتا ہوں ہم کام کریں گے یا میں کام کروں گا تو ایک ہی بات ہے.میں نے کام کرنا ہے تو آپ نے کرنا ہے، آپ نے کرنا ہے تو میں نے کرنا ہے.اس لحاظ سے ہمارے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے.ہماری مجموعی خدمت، مجموعی اخلاص، مجموعی تقویٰ کا نام خلافت ہے.اور اسی کا دوسرا نام جماعت ہے.تو کام تو بہر حال ہم سب نے مل کے کرنا ہے.اس سلسلے میں مجھے پتا ہے.میرا تجربہ بتا رہا ہے کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کے ایک ایسے اعلیٰ مقام پر کھڑی ہے کہ ہمیشہ توقع سے بڑھ کر تعاون کرتی ہے.توقع سے بڑھ کر خدمت کے میدانوں میں قدم مارتی ہے اور قربانی کے مظاہرے کرتی ہے بلکہ بعض جگہ روکنا پڑتا ہے.بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھایا جا رہا ہے.محض اخلاص میں اور قربانی میں بھی تو مجھے حکما روکنا پڑتا ہے کہ آپ نے یہ کام نہیں کرنا اور یہ فعل بھی سنت پر مبنی ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو بھی بارہا اس طرح کرنا پڑا.بعض عشاق نے نیکی کے شوق میں اپنی طاقتوں سے بڑھ بڑھ کہ نذریں باندھیں اور اپنے آپ کو خدمتوں کے لیے پیش کیا.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے ان کو فرمایا نہیں اتنا نہیں کرنا ، اتنا کرنا ہے.خود اپنے گھر میں اپنی ایک زوجہ مبارکہ کو فرمایا یہ تم نے کیا رسی لٹکائی ہوئی ہے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میں عبادت کرتی ہوں.یہاں تک کے بعض دفعہ ساری ساری رات جاگ کے عبادت کیا کرتی تھی.مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ میں بے ہوش ہو کے گر نہ پڑوں.اُس وقت میں اس رسی پر ہاتھ ڈالتی ہوں.رسول اکرم نے فرمایا ہرگز ایسانہیں کرنا.خدا تعالیٰ کسی کو تکلیف مالا يطاق نہیں دیتا.یہ کوئی عبادت نہیں ہے که زبر دستی خدا کو خوش کرو.کم کر دو، اتنی عبادت کرو جتنی تمہیں بشاشت سے توفیق ہے.اس سے بڑھ کر تم نے عبادت نہیں کرنی ( بخاری کتاب الجمعہ حدیث نمبر: ۱۰۸۲).تو یہ مضمون حضرت اقدس محمد مصطفی نے ہی سکھایا ہے اور چونکہ آپ ہی کی یہ جماعت ہے اس لیے یہاں بھی ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں.تو اس بارے میں مجھے کوئی فکر نہیں ہے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت ضرور لبیک کہے گی.لیکن منصوبے کے بعض حصے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مخفی رکھنے والے ہیں بعض ہیں جو ظاہر

Page 136

خطبات طاہر جلدے 131 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء کرنے والے ہیں اور کھلم کھلا اُن پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے.آج کے خطبے کے لیے میں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو مخاطب ہوتا ہوں.افریقہ میں خدمت کے میدانوں میں آغاز تو بہر حال مبلغین نے کیا اور بہت عظیم الشان قربانیاں دیں لیکن رفتہ رفتہ اُن کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور ڈاکٹروں کا خدمت کا دور بھی شروع ہوا اور اس کے نتیجے میں بہت وسیع پیمانے پر مغربی ممالک میں عوام الناس سے اور خواص سے بھی رابطوں کی توفیق ملی.غلط فہمیاں دور کرنے کی توفیق ملی اور براہ راست تو یہ ادارے تبلیغ کے ادارے نہیں تھے.لیکن ان کے نتیجے میں مبلغین کو بہت زیادہ سہولتیں میسر آگئیں.جو لوگ پہلے نفرت کی وجہ سے بات نہیں سنتے تھے وہ زیر احسان آکر اور نزدیک سے رابطہ رکھنے کے نتیجے میں دل کے لحاظ سے قریب آگئے اور جب دل قریب آتے ہیں تو پھر ذہنوں کے لیے بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا.تو ان اداروں نے بھی بہت عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں اور ابھی بھی ان خدمات کی ضرورت ہے بلکہ پہلے سے بڑھ کر ضرورت ہے.اس دورے میں جو میں نے باتیں محسوس کی ہیں اُن میں سے ایک بات سامنے رکھنے کی ضررورت ہے وہ یہ ہے کہ شروع میں جو احمدی اساتذہ گئے تھے اور احمدی ڈاکٹر ز گئے تھے اُن کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ افریقہ کے حالات کیا ہیں.انہوں نے تو منفی پہلو سے افریقہ کے متعلق سنا ہوا تھا.یہ جانتے تھے کہ وہاں مصیبتیں ہوں گی ، اندھیرے ہوں گے، جانور ہوں گے ، کیڑے مکوڑے ہوں گے.پانی کی تکلیف ہوگی ، خوراک کی تکلیف ہوگی.اس قسم کے خوفناک واقعات انہوں نے افریقہ کے متعلق سنے تھے جو ہمارے دورے پر جانے سے پہلے بھی لوگ ہمارے سامنے بیان کرتے رہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر.پھر انہوں نے ابتدائی مبلغین کی عظیم الشان قربانیوں کے حالات پڑھے ہوئے تھے بعض نے اُن میں سے اور جانتے تھے کہ کس قدر شدید مشکلات میں سے گزر کر انہوں نے وہاں دین کی خدمت کی ہے.اس لیے اُن کی خدمت میں کوئی لاگ نہیں تھی، کوئی نفس کی ملونی نہیں تھی.وہ خالصہ للہ گئے اور خالصہ اللہ انہوں نے شفا خانے بھی قائم کئے اور سکول بھی اور اُس کے نتیجے میں اُسی نسبت سے بہت ہی برکتیں ملیں.پھر بعد میں ایک ایسا دور آیا کہ یہ واقفین بھی جارہے تھے وہاں لیکن ان کے علاوہ کچھ اور احمدی دوست بھی جانا شروع ہوئے کیونکہ انہوں نے سنا کہ افریقہ میں تو مالی لحاظ سے بھی فوائد ہیں.پاکستان میں ڈا کٹرکو کوئی اتنا نہیں پوچھتا جتنا افریقہ میں پوچھا جاتا ہے اور اگر

Page 137

خطبات طاہر جلدے 132 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء ہم وہاں جا کر پریکٹس کریں تو ہماری آمدن اپنے ملک کی نسبت بہت زیادہ ہوسکتی ہے.پھر آگے ایسے رستے نکل سکتے ہیں کہ ہم آئندہ اعلیٰ تعلیم کے لیے پھر انگلستان چلے جائیں یا کسی اور ملک چلے جائیں.اُس کے لیے ایک قسم کا پلیٹ فارم میسر آجائے گا جس سے چھلانگ لگا کر اگلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے یعنی اگلی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے.یہ اُن کے سامنے پیش نظر بات تھی اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ایک انسان کو اگر فائدہ نظر آتا ہے اور کوئی کسی کا نقصان اس میں نہیں ہے تو کوئی حرج نہیں.اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.پھر اساتذہ نے سنا کہ وہاں تو حکومت نے قومیا لئے ہیں سکول اور بڑی بڑی تنخواہیں مل رہی ہیں اور آنے جانے کے فرسٹ کلاس کے کرائے بھی ملیں گے دو دو تین تین سال کے بعد پورے خاندان سمیت تو پاکستان میں اساتذہ کو کون پوچھتا ہے.کیوں نہ وہاں جا کے قسمت آزمائی کی جائے تو یہ لوگ بھی وہاں پہنچے بڑی کثرت کے ساتھ اور ان کے متعلق یہ کہنا چاہئے کہ چونکہ احمدی تھے مخلص احمدی تھے.نیتیں خواہ کچھ بھی تھیں وہاں پہنچ کر انہوں نے اچھے تعلقات قائم کئے ، اچھے اثرات قائم کئے اور خدا کے فضل سے نیک نمونے دکھائے الا ماشاء اللہ اور ان کا بھی نیک اثر پڑا.لیکن بدقسمتی سے اُن ملکوں کے حالات پھر بدلنا شروع ہوئے اس قدر مظلوم تو میں ہیں کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کس طرح دنیا نے اُن کے ساتھ دھو کے کیسے ہیں ، اُن کو لوٹا ہے ، جب امارت آئی خدا کی طرف سے تو اُس وقت بھی اُن کو لوٹا گیا.اب غربت میں بھی اُن کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے.یہ یوں لگتا ہے جس طرح جو نکمیں چھٹی ہوئی ہیں کسی جسم کے چاروں طرف سے.ہر طرف سے خون چوسا جا رہا ہے اور نام یہ ہے کہ ہم خدمت کر رہے ہیں.ہم تمہیں ایڈ دے رہے ہیں.ہم تمہارے لیے کاریں بنا بنا کے بھیج رہے ہیں یا فلاں قسم کی مصنوعات تمہیں مہیا کر رہیں ہیں یہ ہمارا تم پر احسان ہے اور اس احسان کے پردے میں کثرت کے ساتھ اُن کے اقتصادی حالات دن بدن تباہ ہوتے چلے جا رہے ہیں.یہ مضمون تو بہت وسیع ہے لیکن اس کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو کارروائیاں ہیں وہ انشاء اللہ کی جائیں گی.کہنے کا مقصد اس وقت یہ ہے کہ جب یہ حالات بدلنے شروع ہوئے تو وہ اساتذہ بھی ملک چھوڑنے لگ گئے جو خدمت کی نیت سے گئے ہی نہیں تھے ، گئے اس لیے تھے کہ اُن کے حالات کا تقاضا یہ تھا کہ وہاں اُن کے فوائد ہیں ان فوائد سے متمتع ہونے کی خاطر وہ گئے تھے.وہ ڈاکٹر ز بھی جو اس نیت سے گئے تھے.اُن کا دل بھی اُچاٹ ہونے لگا اور رفتہ

Page 138

خطبات طاہر جلدے 133 خطبه جمعه ۴/ مارچ ۱۹۸۸ء رفتہ ان لوگوں نے اُن ملکوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کا رخ اختیار کیا.جس طرح فصلی پرندے خوراک کے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں.جب ایک جگہ خوراک ختم ہو جائے تو پھر وہ وہاں تو نہیں بیٹھے رہتے.آزاد ہیں خدا تعالیٰ نے جہاں اُن کا رزق رکھا ہے وہاں چلے جاتے ہیں اور اُن پر کوئی شکوہ نہیں اسی طرح ان پر بھی کوئی شکوہ نہیں.لیکن وہ واقفین زندگی جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خاطر پیش کی ہوئی تھیں وہ وہیں بیٹھے رہ گئے.جو چیز نفع بخش ہے اُس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (الرعد: ۱۸) وہ زمیں میں ٹھہری رہتی ہے.وہ اپنے فائدے کی خاطر نہیں بدلتی وہ دوسروں کے فائدے کی خاطر پہنچی ہوتی ہے.اس آیت میں بڑے عظیم الشان مضامین ہیں.اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو دوسروں کو نفع پہنچانے کی خاطر جایا کرتے ہیں.وہ اُن کے حالات بدلنے سے وہاں سے بھاگ تو نہیں جایا کرتے ، پیچھے تو نہیں ہٹ جایا کرتے.جو اپنا فائدہ لینے کے لیے جاتے ہیں اُن کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اُن کے سفر بھی اُسی نسبت سے ہوتے رہتے ہیں.جہاں تک کسی قوم سے فائدہ میسر آیا وہاں تک ان سے وفا کی.جب فائدہ ختم ہو گیا تو انہوں نے آگے سفر کر لینا ہے جہاں بھی اُن کو موقع ملے گا وہاں چلے جائیں گے.تو ایسے لوگ باقی رہ گئے جو فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ کے مصداق تھے.بعض معلمین ، بعض واقفین زندگی ڈاکٹر بھی ، دوسرے بھی ، اساتذہ بھی وہ اب تک وہیں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہوں نے کوئی شکوے نہیں کیے.شدید تکلیف میں وقت گزارا بلکہ بعض جگہ مجھے اس کی وجہ سے مبلغ انچارج سے شدید ناراضگی کا بھی اظہار کرنا پڑا کہ تمہیں کیا حق تھا کہ ان کی مصیبت اور میرے درمیان پردہ بن کے بیٹھے رہو.خدا تعالیٰ کے سامنے میں جوابدہ ہوں اتنی تکلیف میں یہ لوگ گزار رہے ہیں وقت اور تمہیں کوئی جس نہیں ہوتی تم اپنی طرف سے اس کو اخلاص سمجھ رہے ہو، تقومی سمجھ رہے ہو کہ مرکز سے مطالبہ نہیں کرنا لیکن بحیثیت امیر تمہارا فرض تھا کہ ان کی مشکلات ان کی مصیبتوں سے مجھے مطلع کرو تا کہ وقت کے اوپر میں خدا کے حضور اپنی ذمہ داری ادا کروں کیونکہ آخری جوابدہی مجھے کرنی ہوگی.تو ایسے بھی تھے جنہوں نے تقویٰ کے ساتھ زبانوں پر مہریں لگائیں، ایسے بھی تھے جنہوں نے تقویٰ کا مفہوم غلط سمجھ کر زبانوں پر مہریں لگائیں اور بڑی تکلیف میں وہاں وقت گزارے اور ابھی بھی وہ خدمت کے میدانوں سے جی نہیں کترار ہے.

Page 139

خطبات طاہر جلدے 134 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء یہ وہ صورتحال ہے ایک پہلو سے جسے میں نے وہاں دیکھا اور میں سمجھتا ہوں کہ افریقہ کو ابھی بہت زیادہ ضرورت ہے اساتذہ کی بھی اور اطباء کی بھی ، ڈاکٹروں وغیرہ کی بھی.اب جو لوگ وہاں جائیں وہ اپنے فائدے کی خاطر نہ جائیں بلکہ خالصہ وقف کی روح سے جائیں اور یہ عزم کر کے جائیں کہ جو کچھ بھی ہو گا جو سر پہ گزرے گی گزر جائے گی لیکن ہم نے خدمت کی راہوں سے پیچھے قدم نہیں ہٹانا.یعنی وقف کی روح کے ساتھ جو لوگ اپنے آپ کو پیش کرنا چاہتے ہیں اُن کو میں بلا رہا ہوں اور اُن کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ افریقہ میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں یہ پرانے واقفین کی قربانیوں سے پیدا ہوئی ہیں.جو حیرت انگیز تبدیلیاں آج وہاں نظر آرہی ہیں.وہ ایسی عظیم الشان ہیں کہ اُن کا تصور وہاں کی جماعتیں بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ کتنی حیرت انگیز ملک کے اندر تبدیلی پیدا ہو چکی ہے.بعض احمدی بڑے بڑے صاحب تجربہ اور اپنے ملکوں کی حکومتوں میں با اثر انہوں نے مجھے بتایا کہ خود ہمیں بھی علم نہیں تھا کہ ہماری قوم احمدیت سے محبت اور تعاون میں اتنا آگے بڑھ چکی ہے اور اتنا زیادہ وہ اس وقت تیار ہے کہ اُسے پیغام پہنچایا جائے.چنانچہ ایک صاحب نے اُن کا نام لینا مناسب نہیں اُن کے ملک کا نام بھی ظاہر کرنا مناسب نہیں.انہوں نے کہا کہ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی یہ ہو کیا رہا ہے کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہماری قوم کو کسی جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی ایسی خدمت کی توفیق ملے گی اور ایسے محبت کے اظہار کا موقع ملے گا، میرے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی.انہوں نے کہا کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے یہاں حکومت کے سر براہوں کے ساتھ تو ہوتا دیکھا ہے اس کے سوا کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں دیکھا اور یہ بھی انہوں نے بتایا کہ اس میں ہماری جماعت کی کوششوں کا دخل نہیں ہے.جو کچھ ہو رہا ہے غیب سے ہو رہا ہے اور حیرت انگیز طریق پر ہورہا ہے.تو یہ جو ساری باتیں تھیں ان کے پیچھے ایک پس منظر ہے قربانیوں کا.دعا کرنے والے قربانیاں کرنے والے لوگ پہلے آئے ہیں اور بظاہر وہ اپنے وقت میں نمایاں طور پر کامیاب دکھائی نہیں دیے لیکن فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ کا یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جو صالحات باقیات ہوتی ہیں جو خدا کی خاطر نیکیاں جاری کی جاتی ہیں.لوگوں کے نفع کی خاطر جو لوگ محض اللہ کام کرتے ہیں وہ چلے بھی جائیں دنیا سے رخصت بھی ہو چکے ہوں تو اُن کی نیکیاں باقی اور قائم رہ جاتی ہیں اور اتنا مستقل وجود بن جاتی ہیں وہاں اس قوم کی زندگی میں کہ انہیں ہٹایا نہیں جا سکتا

Page 140

خطبات طاہر جلدے 135 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ کا مطلب ہے وہ زمین کے ساتھ پیوستہ ہو جاتی ہیں.اس ملک کا حصہ بن جاتی ہیں، اس کی خاک بن جاتی ہیں.اُس سے پھر آگے چیزیں نشو و نما پاتی ہیں.تو یہ منظر بھی میں نے وہاں دیکھا اور ہر ملک میں یہی نظارے نظر آئے تو حقیقت یہ ہے کہ آئندہ بھی جو انقلاب برپا ہوں گے وہ عظیم الشان روحانی قربانیاں کرنے والے فقیر منش بندوں کے ذریعے ہوں گے.جن کی نیتیں خالص ہوں گی.جو اس عہد کے ساتھ جائیں گے کہ اس ملک کے حالات خواہ کیسے بھی ہوں ہم نے بہر حال وہاں خدمت کرنی ہے.اُس کے نتیجے میں پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ ایک نیا برکتوں کا دور شروع کرے گا.چنانچہ جوں جوں میں وہاں پھرتارہا میرے دل پر ایک اور ہی قسم کی روئیداد میرے دل سے گزرتی رہی ہے.کچھ نظارے آنکھیں دیکھ رہی تھیں کچھ دل محسوس کر رہا تھا.ایک سفر میرا جسم اور ظاہری آنکھیں کر رہی تھیں.ایک سفر میری روح اور میری باطنی آنکھیں کر رہی تھیں اور دیکھنے والوں کو بھی معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ میں کیا محسوس کر رہا ہوں اور کیا سوچ رہا ہوں اس وقت یہ جو بھی واقعات رونما ہورہے ہیں.میرے دل پر کیا اثر کر رہے ہیں.اُن میں سے ایک سوچ یہی تھی جو میں نے بیان کی ہے.بے انتہا خلوص کا اظہار ہوا ہے افریقہ کے ہر ملک میں اور آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کس قسم کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں اُس شخص کے دل میں جس کو نظر میں رکھ کر ۱۰، ۱۵ ہزار آدمی جذبات سے بے قابو ہوئے ہوں.اُس کا جو ارتکاز ہوتا ہے ایک دل میں وہ کیا کیفیت پیدا کرتا ہے کوئی دوسرا آدمی سوچ بھی نہیں سکتا.جس طرح لیز ربیم سے ایک قوت پیدا ہوتی ہے.وہی تجر بہ جذبات کے ارتکاز سے رونما ہوتا ہے.بے شمار شعاعیں پھیلی ہوئی جب ایک بار یک بیم کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ایک نکتہ پر اکٹھی ہو جاتی ہیں تو اتنی حیرت انگیز طاقت اُس میں پیدا ہوتی ہے کہ اُس کے نتیجے میں آج کل کی دنیا میں لیز ربیم کے ذریعے آنے والے میزائل کو ہوا میں تباہ کرنے کے منصوبے تقریباً مکمل ہو چکے ہیں.تجربہ ہو چکا ہے اس بات کا کہ اگر ہم لیز ربیم سے استفادہ کریں تو اتنی شدید قوت کی شعاعیں پیدا ہوتی ہیں جو ہزاروں میل دور ہزار ہا میل کی رفتار سے چلنے والی میزائل کو آنافا نا ہلاک کر دیں.تو اس لیے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ سب جو اجتماعات تھے ان کا اُس وقت جس وقت میں اُن

Page 141

خطبات طاہر جلدے 136 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء حالات سے گزر رہا تھا مرکز میں بنا ہوا تھا اور اُن کے جذبات ، ان کی محبت ، ان کے اخلاص کے اظہار سے جوار تکاز ہوتا تھا میرے دل کے اوپر اُس سے کیا کیفیت ہوگی.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص حوصلہ نہ ہوتو انسان اس کو برداشت ہی نہیں کر سکتا.لیکن اگر وہ میرے دل میں ہی رہتے اور وہیں مجتمع ہوتے تو پھر میری جان کو خطرہ تھا.اگر ان قوتوں کو آگے بڑھایا دیا جائے اور اُن کے ساتھ سفر اختیار شروع کر دیا جائے تو پھر کوئی خطرہ نہیں ہوتا.چنانچہ میرا تجربہ مسلسل یہی رہا کہ جب بھی یہ لوگ اپنی محبت اور عشق کا اظہار کرتے تھے اور پھر اظہار کا طریق بھی یہ کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نعرے.نعرہ ہائے تکبیر اور اس قدر خوبصورت آوازوں میں پورے کے پورے ہزار ہا لوگ بیک وقت ہم آہنگ ہو کر جو درود پڑھتے تھے اُس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنا غیر معمولی ارتعاش طبیعت میں پیدا ہو جاتا ہو گا لیکن اُس کے ساتھ اُس کا علاج یہ تھا جو طبعی تھا خدا کی طرف سے تھا کہ میں اپنے آپ کو ان باتوں کا مرکز سمجھتا ہی نہیں تھا.میرا ذہن اُسی وقت ماضی کی یادوں میں منتقل ہو جایا کرتا تھا.ان سب کے تحائف میں اپنے پاس امانت سمجھتا تھا.ان کی محبتوں کو لے کر میں ایک روحانی سفر اختیار کرتا تھا اور ماضی میں اُن بزرگوں کی یادوں تک پہنچتا تھا جنہوں نے نا قابل بیان اور عظیم الشان قربانیاں دیں.بعض دفعہ میں اُن یادوں سے مغلوب ہو کر روتا تھا لیکن دنیا سمجھ نہیں سکتی تھی کہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ اور کن کیفیات سے میں گزر رہا ہوں.آپ کو میں اُن کیفیات سے گزارنا چاہتا ہوں.اس لیے میں یہ ذکر چھیڑ رہا ہوں.آپ کو میں اُن یادوں کی طرف منتقل کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اُس کے بغیر آپ میں دوبارہ قربانیوں کے عزم پیدا نہیں ہوں گے.آپ کو وہ قوت نہیں ملے گی جو قوت درکار ہے اس وقت دوبارہ افریقہ کی خدمت کے لیے.چنانچہ میرا ذہن اُن لوگوں کی طرف منتقل ہوتا رہا مجھے مختلف ملکوں میں مختلف لوگ یاد آئے ، کوئی سرسری طور پر کچھ زیادہ گہرے طور پر.بعض ایسے جہاں جا کر نگاہیں رک جاتی ، ٹک جاتی رہیں اور کچھ دیر گو یا یادوں میں اُن کی معیت میں وقت گزارنے کی توفیق ملی.بعضوں کی پرانے مسکن دیکھے ، وہ پرانے گھر ، دیکھے وہ راستے دیکھے جہاں سے وہ گزرا کرتے تھے.وہ ابتدائی سکول دیکھے جو انہوں نے تعمیر کئے تھے.کئی دور کے مختلف لوگ ہیں اُن میں سے جو تازہ دور میں سے بعض مثالیں ہیں.مولوی نور محمد نسیم سیفی ہیں، صوفی محمد اسحق صاحب ،ابراہیم خلیل صاحب، بشارت احمد بشیر

Page 142

خطبات طاہر جلدے 137 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء صاحب، عطاء اللہ صاحب کلیم محمد صدیق صاحب گورداسپوری محمد افضل صاحب قریشی ، ملک غلام نبی صاحب وغیرہ وغیرہ.یہ بہت سے آئے اور سب کی تو یاد بھی میرے ذہن میں پوری طرح حاضر نہیں.مگر نمونیہ سرسری طور پر کہیں کسی کا نام ذہن میں ابھرتا رہا، کہیں کسی کا نام ذہن میں اُبھرتا رہا، کہیں یاد کر وانے والوں نے یاد کر وایا لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ بھی ایک قسم کا وسیلہ تھے یادوں کی راہ میں منازل تھیں اور آخری سفر پھر اُن عظیم بزرگوں کی طرف تھا جو آغاز میں افریقہ میں خدمت کرنے کے لیے پہنچے تھے.اُن میں سے چند کا بالکل مختصر تذکرہ میں کرنا چاہتا ہوں تا کہ ساری جماعت اُن کے لیے دعائیں بھی کرے اور یہ عہد کرے کہ ان کی قربانیوں کا جو پھل ہم آج کھا رہے ہیں اُس کا بدلہ ہم مستقبل کی نسلوں کو آج کی قربانیوں سے دیں گے.جس طرح پھل دار درخت لگانے والے بسا اوقات اپنے پھل دار لگائے ہوئے درخت سے محروم رہ جاتے ہیں اُس کے پھل سے لیکن آئندہ نسلیں اُن درختوں کا پھل کھاتی ہیں اور انہوں نے پہلی نسلوں کے لگائے ہوئے درختوں کا پھل کھایا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح ایک جاری سلسلہ ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے کائنات میں ایک طرف سے احسان بھی ہوتا دوسری طرف اس احسان کو ادا کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دعاؤں کے ذریعے بھی ہم ان بزرگوں کو ہمیشہ اپنی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کے تحفے بھیج سکتے ہیں یعنی خدا کے حضور گریہ وزاری کر سکتے ہیں کہ ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے ، ان کی اولادوں پر برکتیں نازل فرمائے ، ان کی نیکیوں کو جاری رکھے اور ان جیسے اور کثرت سے لوگ بلکہ ان سے بھی بڑھ کر قربانی کرنے والے عطا کرے.تو جو پہلی نسل کے لوگ تھے جن کی طرف بار بار ذہن منتقل ہوتا رہا ان میں سب سے پہلے بزرگ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر ہیں.انہوں نے ۱۹۰۱ء میں بیعت کی تھی.۱۵؍ جولائی ۱۹۱۹ء کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے ساتھ یہ پہلے انگلستان تشریف لائے اور کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر آپ افریقہ کے لئے روانہ ہوئے.۱۹؍ فروری ۱۹۲۱ء کو فری ٹاؤن سیرالیون میں پہنچے اور یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں افریقہ میں احمدیت کے کسی مبلغ نے قدم رکھے ہوں.سیرالیون میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے پہلے ایک دوست ۱۹۱۵ء میں خط و کتابت

Page 143

خطبات طاہر جلدے 138 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء کے ذریعے احمدی ہو چکے تھے.ان کا نام امام موسیٰ کا ہا تھا اور انہوں نے ہی قادیان سے خط وکتابت کے ذریعے احمدیت قبول کی.خط و کتابت تو ۱۹۱۵ء میں کی تھی لیکن ۱۹۱۶ء میں احمدیت کو قبول کیا.احمدیت بھی قبول کی اور پھر درخواست بھی دی کہ افریقہ میں مبلغ بھیجا جائے.مولا نائیر صاحب کو میں نے اپنے پچپن میں دیکھا ہوا ہے بڑے قریب سے اور آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے یا دنیا میں ایسے ہزار ہا سے بھی زیادہ ، چالیس پچاس ہزار شاید ابھی تک زندہ ہوں اس نسل کے لوگ جنہوں نے قادیان میں ان بزرگوں کو دیکھا ہے اور حضرت نیر صاحب کی شخصیت بڑی دلچسپ تھی اور بہت ہی غیر معمولی اثر ڈالنے والی شخصیت تھی.ویسے تو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہر ایک ہی ستاروں کی طرح روشن تھا اور خاص رنگ رکھتا تھا اپنے لیکن بعض میں بعض انفرادی باتیں خصوصیت کے ساتھ پائی جاتی تھیں جو ایک امتیازی نشان بن جایا کرتی تھیں.آپ کی شکل و صورت آپ کا حلیہ اس فرضی بزرگ سے قریب تر تھا جسے ہم خواجہ خضر کہتے ہیں.عوام الناس میں سبز پوش ایک بزرگ جس کی لمبی ریش اور عصا ہاتھ میں پکڑے ہوئے ایک بزرگ کا تصور پایا جاتا ہے جس کو خواجہ خضر کہتے ہیں اور قرآن کریم میں حضرت موسی کے جس ساتھی کا ذکر ہے وہ سمجھتے ہیں وہی خواجہ خضر تھے.تو ان کا جو تصور ہے وہ کم و بیش اسی قسم کا ذہن میں میں نے جو معلوم کیا ہے پایا جاتا تھا اور حضرت نیر صاحب اس تصور کی ایک زندہ تصویر تھے اور پھر ان کی یاد میں یہ بات تازہ ہو جاتی ہے کہ آپ غالباً جماعت میں پہلے تھے یا ابتدائی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سلائیڈز دکھا کر بہت تبلیغ کی اور نئی نسلوں کی تربیت کی.چنانچہ سلائیڈز کے لحاظ سے بچوں کا ان سے بہت زیادہ تعارف ہوا.قادیان میں جہاں بھی حضرت نیر صاحب سلائیڈز کی مجلس لگایا کرتے تھے اس زمانے میں تو وہ آجکل کی جو ایڈوانس مووی پکچرز ہیں اس کا پتا ہی نہیں لوگوں کو کتنا مزہ آتا ہو گا لیکن ان سلائیڈ ز کا قادیان کے بچوں کو اتنا مزہ آتا تھا کہ میرا خیال ہے کہ آجکل لوگوں کو دوسری پکچرز کا اتنا آہی نہیں سکتا.ہمہ تن ہم اس میں منہمک ہو جایا کرتے تھے اور حیرت سے دیکھا کرتے تھے یہ کتنا عظیم الشان کام ہے جو ہو رہا ہے.نیر صاحب ہر سلائیڈ کے بعد کہتے تھے Next اور یہ جو Next کا محاورہ ہے یہ ہمیں بہت ہی لطف دیتا تھا بچے خوب ہنسا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں Next عام طور پر لفظ اردو میں نہیں استعمال کیا جاتا تھا مگر یہ چونکہ زیادہ دیر انگریزی بولنے والے علاقوں میں تبلیغ

Page 144

خطبات طاہر جلدے 139 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء کرتے رہے اس لئے طبعا منہ سے Next کا لفظ جاری ہوا کرتا تھا.تو ہر Next کے بعد اچانک وہ تصویر بدلتی تھی اور وہ تصویریں تو بدلتی رہیں لیکن نیر صاحب کی تصویر کبھی نہیں بدلی.وہی بزرگ ، وہی شخصیت، وہی بے حد پیار کرنے والی اور جماعت کے معاملات میں بہت ہی زیادہ صرفے سے کام لینے والی شخصیت.اس حد تک کہ جہاں تک جماعتی اموال کا تعلق ہے انہیں خاصا کنجوس کہا جا سکتا تھا لیکن اپنی ذات کے لحاظ سے نہیں جماعتی مصارف کے لحاظ سے.بے حد خیال رہتا تھا کہ ایک پیسہ بھی کہیں غلط جگہ پہ خرچ نہ ہو جائے یا ضرورت سے زیادہ خرچ نہ ہو جائے.یہ تھے جو افریقہ تشریف لے گئے اور جاتے ہی کچھ ان کی شخصیت، ان کی دعاؤں کا اثر کہ بہت ہی جلدی جلدی اور بڑی بڑی کامیابیاں نصیب ہونی شروع ہوئیں اور بعض دفعہ تو تاریں ایسی آتی تھیں کہ ہزار ہا دوستوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے لیکن یہ ابتدائی دور زیادہ دیر جاری نہیں رہا.اس اجتماعی قبولیت کے نتیجے میں اجتماعی حسد بھی پیدا ہوا اور باہر سے لوگ پہنچنے شروع ہوئے شرارت کرنے والے، احمدیت کے خلاف عناد دلوں میں بھرنے والے.کچھ شمال سے جو مالکی فرقہ کے علماء تھے ان کے اوپر شمالی اثرات تھے انہوں نے مسلمانوں کو بھڑ کا نا شروع کیا بلکہ عیسائی چیفوں کو بھی بھڑ کا نا شروع کیا اور اس کے بعد اذیت کا ایک بڑا سخت دور شروع ہوا ہے.اس دور میں سے براہ راست نیر صاحب کے گزرنے کا تو مجھے علم نہیں لیکن اس اول دور کے مبلغین نے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں وہاں اور ان مبلغین سے بڑھ کر وہاں کے مقامی احمدیوں نے.مقامی احمدیوں نے تو اتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں کہ آپ وہم بھی نہیں کر سکتے کہ افریقہ میں کبھی یہ واقعہ ہوا ہو گا لیکن افریقہ کے ہر ملک میں ایسی داستانیں پھیلی پڑی ہیں جہاں ابتدائی احمد یوں نے بہت ہی دردناک حالات دیکھے ہیں اور بلالی صبر اور بلالی شان کا مظاہرہ کیا ہے.مگر اس کے سوا نیر صاحب نے ذاتی تکلیفیں جو غربت کی وجہ سے جماعت کے پیسے کو نہ استعمال کرنے نتیجے میں اپنی ذات پر جماعت کے پیسے کو کنجوسی سے استعمال کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوسکتی ہیں وہ بہت تکلیفیں دیکھیں اور بعض دفعہ یہ بھی ہوا ہو گا کہ کوئی پیسہ ہی نہیں تھا ان کے پاس خرچ کرنے کے لئے.چنانچہ ایک اقتباس میں سناتا ہوں چھوٹا سا جو الفضل ۹ جون ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا.نیر صاحب وہاں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: برادران وہ جو گرمی میں برف اور شربت پی کر پیاس بجھاتے ہیں

Page 145

خطبات طاہر جلدے 140 خطبه جمعه ۴/ مارچ ۱۹۸۸ء ان سے کہہ دیں کہ یہاں احمدی مبلغ کو کنوئیں کا پانی بھی میسر نہیں آتا اور اسے بعض دفعہ پیاس بجھانے کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں.“ واقعہ یہ ہے کہ ابھی بھی وہاں پانی کی بڑی تنگی ہے اور بعض دفعہ اتنا گندہ پانی ہوتا ہے کہ جو نیا جانے والا ہے وہ اگر پی لے تو شدید بیماریوں کا شکار ہو جائے.تو اس زمانے میں بھی یہ تکلیف تھی بلکہ بہت زیادہ تھی آج سے.یہ نہ سمجھیں کہ یہ آرام سے گئے ہیں اور ادھر انہوں نے آواز دی ادھر ہزار ہا لوگ احمدی ہونے شروع ہو گئے گویا کہ کہانی کی کتاب پڑھ رہے ہیں آپ.یہ انقلاب بڑی شدید تکلیفوں میں سے گزر کر بر پا ہوا کرتے ہیں.چنانچہ پھر وہ لکھتے ہیں : اور جوگھوڑوں، بگھیوں ،موٹروں اور بیل گاڑیوں پر پھرتے ہیں ان سے کہہ دیں کہ یہاں داعی اسلام کو گھنے جنگلوں سے پیدل گزرنا پڑتا ہے.“ اور وہاں کے جنگل جس نے دیکھے آج کل تو بہت کم جگہ رہ گئی ہے گھنے جنگلوں کی مگر پرانے زمانے میں تو اکثر جگہ ان ملکوں کی جنگل ہی تھا.وہاں تو پیدل گزرنا ہی ایک امتحان ہے اور نہایت خطر ناک قسم کے جراثیم ، کیڑے مکوڑے، جنگلی جانور اور کانٹے اتنا خطرناک گھنا جنگل ہوتا ہے کہ اس کی زمین نے سالہا سال سے سورج کی روشنی نہیں دیکھی ہوتی اور وہاں گزرنے کے لئے کوئی ایسے اوزار چاہئیں کہ انسان کاٹ کے بعض دفعہ رستے بنائے خود ورنہ گزر ہی نہیں سکتا ناممکن ہے.ایک دیوار کی طرح جنگل کھڑا ہوتا ہے سامنے.تو ان میں سے گزرنا پڑا ہے ان کو یہ نہ سمجھیں کہ بڑی آسانی کے ساتھ یہ انقلاب برپا ہوا ہے.وو وہ جو دودھ گھی وغیرہ سے تیار شدہ مٹھائیاں استعمال کرتے ہیں ان کو بتلائیں کے خادم احمدیت کے لئے یہ چیزیں خواب ہیں کیوں؟“ میں بتارہا ہوں یہ لکھتے ہیں اس لئے نہیں کہ میں گویا اپنا احسان تم پر ظاہر کر رہا ہوں اس لئے کر محض اللہ کی خاطر اس کے رسول کی خاطر حفاظت اور اشاعت اسلام کی خاطر ایک احمدی مبلغ یہ سب چیزیں برداشت کرتا ہے.تو بڑے بھاری عزم کی ضرورت تھی اس وقت، بڑی غیر معمولی فدائیت اور عشق کی ضرورت تھی اور اس عشق کے نمونے جماعت احمدیہ نے اس زمانے میں کثرت سے پیش کئے ہیں.ان کا جیسا

Page 146

خطبات طاہر جلدے 141 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء کہ میں نے بیان کیا ہے ان کی تفصیلی داستانیں بیان کرنے کا تو ذکر نہیں سالہا سال پر قربانیاں پھیلی پڑی ہیں.حکیم فضل الرحمان صاحب ہیں مثلاً دوسرے جن کی قربانیوں سے ہمیشہ ہی میرا دل بہت متاثر رہا ہے اور ایک خاص شان کے وجود تھے.آپ کو افریقہ میں جب آپ مبلغ مقرر ہوئے تو تنیس سال تک افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی اور جس علاقے میں خصوصیت سے انہوں نے تبلیغ ہے وہاں آج تک جماعت کا غیروں پر بہت ہی اچھا اثر ہے.بے حد محبت پائی جاتی ہے ان میں بہت زیادہ احسان مندی کا جذبہ ہے اور نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ جماعت کے ساتھ خاص تعلق رکھتے ہیں اور یہ تعلق ایک دو دن میں پیدا ہونے والا تعلق نہیں ہے.بیسیوں سال کے اچھے سلوک کے نتیجے میں قربانیوں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں میں تبدیلی پیدا فرمائی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں یہ غالباً ۱۹۲۳ء میں گئے تھے.۱۹۲۳ء میں آپ نے حضرت مصلح موعود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پیش کیا اور غانا سب سے پہلے تشریف لے گئے.آٹھ سال متواتر تبلیغی جہاد میں مصروف رہنے کے بعد ۱۹۲۹ء میں کچھ عرصے کے لئے واپس آئے شادی ہوئی ڈیڑھ برس شادی رچائی اور ۱۹۳۳ء میں پھر مغربی افریقہ بھیج دیا گیا جہاں مسلسل چودہ سال رہے ہیں اور واپس پھر وطن کا منہ نہیں دیکھا نہ بیوی بچے وہاں جا سکتے تھے.مجھے یاد ہے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ خطبہ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جماعت کے پاس پیسے ہی نہیں تھے.بھجوانے کے پیسے مشکل سے ملے تھے کجا یہ کہ ان کو بلایا جائے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے یا بیوی بچوں کو وہاں بھیجا جائے.چنانچہ ڈیڑھ سال کی شادی کے بعد چودہ سال گویا ساڑھے پندرہ سال آپ رہے ہیں چونکہ شادی بھی افریقہ جانے کی وجہ سے لیٹ ہوئی تھی تو جب واپس پہنچے ہیں ۱۹۴۷ء کے اواخر میں تو آپ بوڑھے ہو چکے تھے.ان کی بیگم صاحبہ ہمارے گھر میری والدہ کے پاس بہت آیا کرتی تھیں، بہت پیار کا تعلق تھا مجھے یاد ہے ان کی مانگ بھی سفیدہ ہوگئی تھی ، بالوں میں سفیدی آگئی تھی.جس جوان دلہن کو وہ چھوڑ کر گئے ہیں واپسی پر خود بھی بوڑھے اور اس خاتون کو بھی بوڑھا دیکھا اور بچے کس طرح بڑے ہوئے ہیں اس کا کچھ پتا نہیں.کوئی ذریعہ نہیں تھا معلوم کرنے کا.اس زمانے میں خط و کتابت بھی تو بڑی دیر کے بعد ہوا کرتی تھی.نہ ہوائی جہاز اس طرح چلا کرتے تھے.سمندری

Page 147

خطبات طاہر جلدے 142 خطبه جمعه ۴/ مارچ ۱۹۸۸ء جہاز بھی بڑا بڑا وقت لیا کرتے تھے.کوئی بیمار ہوا مرا جیا اس معاملے سے ہمارے مبلغین کا اس زمانے میں کوئی تعلق نہیں تھا.خدا کی خاطر چلے جاتے اور بھول جایا کرتے تھے پیچھے دنیا کو.ان کے ساتھ بھی یہی حالات گزرے.ان کے والد بہت بزرگ صحابی تھی حضرت حافظ نبی بخش صاحب وہ ان کے تبلیغ کے زمانے میں ہی پیچھے دار فانی سے کوچ کر گئے اور کئی قسم کی تبدیلیاں ہوئی لیکن انہوں نے ایک دفعہ مطالبہ نہیں کیا، ایک دفعہ شکوہ نہیں کیا.حضرت مصلح موعود کو یہ نہیں لکھا کہ آپ نے مجھے کس حال میں چھوڑ دیا ہے میں بھی آخر انسان ہوں میرا بھی دل ہے، میری بیوی بچے بھی ہیں اور اتنے تھوڑے عرصے کے بعد اب مجھے بھیج دیا گیا ہے اور پوچھا ہی نہیں کہ دوبارہ واپس بلا نا بھی ہے کہ نہیں.ان حالات میں ان لوگوں نے قربانیاں دی ہیں.اس لئے یہ خیال کر لینا کہ یہ جو واقعات ہیں جو آج ہم نے دیکھے ہیں یہ اتفاقا رونما ہوئے ہیں یا بعد کی نسلوں کی وجہ سے یہ باتیں پیدا ہوئیں یہ بالکل جھوٹ ہے.خدا یہ عظیم الشان تغیر پیدا کیا کرتا ہے انسان کے ذریعے نہیں ہوا کرتے اور اللہ تعالیٰ دلوں پر نظر رکھتا ہے، تقویٰ پر نظر رکھتا ہے، قربانیوں کی روح پر نظر رکھتا ہے.ایک دیوانہ خدا کی راہ میں نکل کھڑا ہو جس کا دل پاک اور صاف ہو اور خدا کی رضا کی خاطر وہ سب کچھ لٹا دینے کے لئے تیار ہو اس میں عظیم الشان انقلابی طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور لاکھوں کروڑوں اگر اس جذبے سے عاری ہوں ، اس تقویٰ کے معیار سے عاری ہوں تو ان کی کوششوں سے کچھ بھی نہیں ہوتا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ وہ ایک تھے جنہوں نے ساری دنیا کو تبدیل کرنا تھا.ان کے اندر یہ صفات پائی جاتی تھیں تبھی خدا نے ان کو چنا تھا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا انتخاب وھی تو ہے لیکن بغیر وجہ کے نہیں.ہے تو تحفہ ہی خدا کا لیکن اس تھنے کے اندر گہری حکمت پائی جاتی ہے.آپ کے اندر وہ عظیم الشان تقوی، وہ عظیم الشان اخلاص ، وہ عظیم الشان اور بے نظیر فدائیت کی روح تھی اپنے رب کی خاطر جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی نظر نے جانچا تھا کہ یہ شخص ساری دنیا میں انقلاب بر پا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور وہی انقلاب ہے جو اب دوسری شکل میں احمدیت کی صورت میں صلى الله ظاہر ہونا شروع ہوا ہے.تو اس لئے حضرت محمد مصطفی ماہ کی مثال سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آج جبکہ مسلمان کروڑہا کی تعداد میں ایک ارب کی تعداد میں پہنچ گئے ہیں ان کی مجموعی طاقت وہ کام نہیں کر سکتی جو رسول کریم ﷺ کی انفرادی طاقت نے کر دکھانے تھے اور کر کے دکھائے.سارے عرب میں

Page 148

خطبات طاہر جلدے 143 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں عظیم الشان معجزہ گزرا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا تقویٰ اور آپ کا عشق الہی تھا.تو آج بھی یہی چیز ہے جو کام آئے گی.جماعت کی تعداد بڑھ گئی ہے لیکن تعداد کام نہیں آئے گی تقوی کام آئے گا اور تقویٰ کی اجتماعی طاقت کو اگر آپ تول لیں یا ناپ لیں یا کسی پیمانے کے او پر اس کو پرکھ لیں اس کا نام جماعت احمد یہ ہے وہ جتنا بڑھے گا جماعت احمد یہ بڑھے گی جتنا عظیم ہوگا اتنی جماعت احمد یہ عظیم ہوگی اس لئے اس بات کو بھلا کر آپ دنیا میں کوئی بھی اچھا کام نہیں کر سکتے.چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جوا کیلے تھے لیکن ہزار ہا پر لاکھوں پر بھاری ہونے کی طاقت رکھتے تھے کیونکہ اللہ کے عاشق تھے اور فدائی تھے اور خالصۂ قربانی کے جذبے سے وہاں گئے تھے کوئی نفس کے فائدے کا شائبہ بھی ان کے دلوں میں نہیں تھا بلکہ شدید ابتلاؤں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ان کو رد کیا ان کو تحقیر کی نظر سے دیکھا ہے ان کی طرف پیٹھ پھیر کر چل پڑے ہیں کوئی پرواہ نہیں کی کہ خدا کی راہ میں کیا کیا مصیبتیں ان پر اتر پڑتی ہیں.پھر اس کے بعد حضرت الحاج مولانا نذیر احمد صاحب علی کا ذکر کرتا ہوں مختصراً.افریقہ میں تیسرے مبلغ تھے یہ ۱۹۲۹ء میں گولڈ کوسٹ میں گئے.پھر ۱۵ رمئی ۱۹۳۳ ء کو قادیان واپس تشریف لائے پھر تین سال کے بعد ۳۶ء میں دوسری مرتبہ گولڈ کوسٹ گئے پھر انکو وہیں سے ایک سال کے بعد سیرالیون نئے مشن کے قیام کے لئے ۲۰ را کتوبر ۱۹۳۷ء کو روانہ کیا گیا جہاں آپ نے آٹھ سال میں عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں.صوفی منش سادہ انسان بہت ہی فدائی اور بے نفس بزرگ تھے.بہت زیادہ دعا گو خدا سے خاص محبت اور تعلق رکھنے والے انسان.کوئی طبیعت میں ریا کاری نہیں ، کوئی دکھاوا نہیں.خاموشی سے قربانیوں کو برداشت کرنے والے.۱۹۴۵ء کے بعد ۵۱ء میں واپس آئے اور پھر تین سال کے بعد ۱۹۵۴ء میں آپ کو بھجوادیا گیا اور سیرالیون ہی میں آپ کی ۱۹ مئی ۱۹۵۵ء کو بقضاء الہی وفات ہوئی بو کے مقام پر آپ کی تدفین ہوئی ہے.ان کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بہت پہلے جانے سے ۱۹۴۵ء میں انہوں نے قادیان میں افریقہ رخصت ہونے سے پہلے ایک بات کہی تھی اور وہ بات دل کی گہرائی سے اس طرح نکلی تھی کہ اس کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمایا اور ان کی وہ خواہش پوری ہوگئی جس کا ذکر انہوں نے ۱۹۴۵ء

Page 149

خطبات طاہر جلدے 144 میں رخصت ہوتے وقت اپنے خطاب میں کیا.کہتے ہیں: خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے جہاں تھوڑی سے زمین احمدیت کی ملکیت ہے یعنی وہ حصہ جس پر ہماری قبر مشتمل ہے.احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچے اور اس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہو گا.پس ہماری قبروں کی طرف سے یہ مطالبہ ہو گا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لئے ہماری جانیں فدا ہوئیں اسے وہ پورا کرتے رہیں.“ یہ جو ان کی خواہش تھی یہ اس طرح پوری ہوئی کہ جب ان کا وصال ہوا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اجازت دی کہ ان کی تدفین وہیں سیرالیون میں کی جائے اور بو(Bo) کے مقام پر یہ عظیم الشان مجاہد احمدیت دفن ہے.میں جب وہاں گیا ہوں تو میری شدید خواہش تھی کہ وہاں جا کے دعا کروں لیکن وہاں کی جماعت نے ایک مصلحت کی خاطر اس قبر کو لوگوں سے آج کل چھپایا ہوا ہے کیونکہ وہ ملک جہاں کسی زمانے میں ان کو ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی منہ پر تھپڑ مارے جاتے تھے گھسیٹا جاتا تھا ہر قسم کی گندی گالیاں دی جاتی تھیں اس ملک میں وہ تو نہیں ہیں لیکن ان کی قبر کی اتنی عزت پیدا ہو چکی ہے کہ علاقے سے دور دور سے لوگ اس قبر سے منتیں مانگنے کے لئے پہنچتے تھے اور شرک شروع ہو گیا تھا اس لئے جماعت نے اس موحد کی قبر کو شرک کا مرکز تو نہیں بننے دینا تھا.چنانچہ انہوں نے عمداً اس قبر کولوگوں کی پہنچ سے الگ کر دیا ہے اور یہی خیال ان کے دل میں آیا کہ اگر میں وہاں چلا گیا تو ہوسکتا ہے لوگوں کا پھر یہ سلسلہ شروع ہو جائے اور لوگ سمجھ نہیں سکیں گے کہ میں کیا کرنے گیا ہوں میں قبر سے مانگنے نہیں گیا قبر والے کے لئے مانگنے گیا ہوں.بہر حال جو بھی تھا یہ مجھے افسوس تو ہے خدا پھر تو فیق دے گا تو جاؤں گا لیکن ان کا ذکر میں پھر بعد میں کرتا ہوں ایک اور مبلغ بہت عظیم الشان خدمت کرنے والے فدائی مبلغین میں سے مولوی الحاج نذیر احمد صاحب مبشر تھے جو اب بھی زندہ ہیں اللہ کے فضل سے.پھر مولا نا محمد صدیق صاحب

Page 150

خطبات طاہر جلدے 145 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء امرتسری مرحوم نے بھی بہت عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں.ان کو بھی حضرت مولانا نذیر احمد صاحب علی کے ساتھ خدمت کی توفیق ملتی رہی ان کے تابع ان کے ساتھ.حضرت مصلح موعود کو مولانا نذیر احمد صاحب علی سے بہت محبت تھی اور چونکہ خدا تعالیٰ نے غیر معمولی بصیرت عطا فرمائی تھی اس لئے انسانوں کی قدریں جانچنے کا غیر معمولی ملکہ تھا آپ کو.چنانچہ آپ نے ان کا جس محبت سے ذکر کیا ہے اور شاید ہی کم کسی اور مبلغ کا اس محبت سے ذکر کیا ہو اور پہلے آدمی ہیں مولانا نذیر احمد صاحب علی جن کو سارے مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ مقرر کیا گیا ہے یعنی وہ صرف ایک ملک کے رئیس نہیں تھے حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو سارے مغربی افریقہ کا رئیس بنا دیا تھا اور ابھی بھی ان کی یہ حیثیت باقی ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی.جب مجھے پتا چلا وہ جگہ روکو پور جہاں خاص طور پر انہوں نے قیام کر کے بہت عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں اور ان کے نام کے ساتھ روکو پور کا لفظ اس طرح مل گیا ہے جس طرح ایک ہی وجود کے دو نام ہوتے ہیں بو میں بھی بہت کام کیا ہے لیکن روکو پور کے ساتھ تو غیر معمولی تعلق تھا اور ان کو آغاز میں انہوں نے وہاں جا کر مشن کھولا تھا.جب مجھے پتا چلا کے وہاں دورہ نہیں رکھا گیا کیونکہ سڑک خراب ہے تو مجھے بڑی تکلیف ہوئی اور یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے کہ اس کا پتا ایک بی بی سی کے نمائندہ سے ملا.اس نے سوالات میں یہ سوال کیا کہ آپ عجیب آدمی ہیں سیرالیون آرہے ہیں اور روکو پور نہیں جا رہے.میں نے کہا کیوں کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا رو کو پورتو مولوی نذید احمد صاحب علی کی خدمات کا مقام ہے خاص ان کی ایسی یادیں وہاں وابستہ ہیں، ایسی عظیم الشان خدمات وہاں سرانجام دی ہیں کہ آپ آئیں گے اور روکو پور چھوڑ کر چلے جائیں گے میں نے کہا ہر گز نہیں.میں تو آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے یاد کرا دیا مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ اس دورے میں انہوں نے رکھا نہیں ہوا.چنانچہ میں نے امیر صاحب سے پوچھا انہوں نے کہا جی! آپ کی تکلیف کی خاطر.میں نے کہا عجیب بات کرتے ہیں.مجھے تکلیف سے بچانے کی خاطر نہ کہیں مجھے تکلیف پہنچانے کی خاطر شاید آپ نے یہ کیا ہو.میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہاں نہ جاؤں اور میرا دورہ سیرالیون مکمل ہو.اس لئے اور تقریبیں ہٹانی پڑیں تب بھی آپ کو وہ دورہ بہر حال رکھنا ہوگا.چنانچہ ایک وہاں فری ٹاؤن کی جو بڑی مجلس انہوں نے رکھی ہوئی تھی خطاب عام اور اس

Page 151

خطبات طاہر جلدے 146 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء میں سارے معززین کو بلایا ہوا تھا میں نے کہا اس کی کوئی حیثیت نہیں اس کے مقابل پر وہ آپ چھوڑ دیں اور یہاں کا دورہ رکھ لیں.چنانچہ وہاں مجھے جانے کا موقع ملا.پہلے احمدی جو ان کے ساتھ تھے جنہوں نے بہت عظیم الشان خدمات سرانجام دی تھیں ان کی قبر پر دعا کی توفیق ملی.بڑے بہادر، بڑے وفادار ان کو خدا نے ساتھی عطا فرمائے تھے.انہی کا گھر تھا جہاں ان کو پہلا کمرہ ملا ہے اس کمرے میں جا کر ان کے لئے خصوصیت سے دعا کی تو فیق ملی.تو حقیقت یہ ہے کہ ان کی قبریں بھی آپ کو بلا رہی ہیں اور ان کی یاد میں جو آج تک زندہ ہیں وہ کبھی بھی مدفون نہیں ہوں گی ہمیشہ زندہ رہیں گی.بعض علاقوں میں خاک کے ذرے ذرے میں وہ یادیں پھر رہی ہیں.وہ ہوائیں اڑاتی ہیں ذروں کو جہاں بھی وہ پہنچاتی ہیں وہاں یہ روحوں کو تازہ کرنے والی زندگی بخش یاد میں یہ آپ سب کو پھر بلا رہی ہیں.آج افریقہ کی سرزمین ان احمدی خدمت کرنے والوں کو پکار رہی ہے جو اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے فائدے کی خاطر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غلامی اور آپ کی تعلیم سے متاثر ہو کر خدا کی خاطر وہاں جانے کے لئے تیار ہوں اور یہ عہد کریں کہ جو بھی تکلیف ہوگی اس کے باوجود وہ وہاں جا کر ان لوگوں کی خدمت کریں گے.چنانچہ وہاں جا کر مجھے ایک شعر یاد آیا جو مجھے یوں محسوس ہوا کہ بعینہ اس صورتحال پر صادق آتا ہے.وہ شعر یہ تھا کہ: کون ہوتا ہے حریف مئے مرد انگن عشق؟ صلى الله ہے مکر رلب ساقی میں صلا ، میرے بعد (دیوان غالب صفحہ: ۱۰۷) غالب کہتا ہے میں تو مر گیا لیکن اپنی زندگی میں اس عشق کی شراب کا مقابلہ میں کیا کرتا تھا جو بڑے بڑے مردوں کی کمر توڑ دیا کرتا ہے.چنانچہ میرے مرنے کے بعد ساقی بار بار یہ اعلان کر رہا ہے کہ کون ہے آج جو آئے اور اس شراب عشق کے مقابلے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے جو بڑے بڑے مردان میدان کی ہمتیں توڑ دیا کرتی ہے.مجھے ان کی آواز ان کی اس قبر سے بھی سنائی دے رہی تھی جو مجھ سے اس وقت دور تھی لیکن ان زندہ یادوں سے بھی سنائی دے رہی تھی اور میں نے سوچا کہ یہی مضمون ہے جو جماعت تک میں پہنچاؤں گا.کون ہوتا ہے حریف مئے مرد انگن عشق؟ ہے مکرر لب ساقی میں صلا ، میرے بعد وہ صلاتو ایک فرضی صلاتھی جو غالب کے ذہن میں آئی اور ویسے عشاق تھے یا نہیں تھے یہ سب فرضی

Page 152

خطبات طاہر جلدے 147 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء قصے ہیں لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے غلاموں میں ایسے عشاق دور اول میں بھی پیدا ہوئے اور دور ثانی میں بھی پیدا ہوئے جن کو کوئی شراب عشق مات نہیں دے سکتی تھیں.وہ شراب اگر زہر کے پیالوں میں بھی بٹتی تب بھی وہ اسے منہ سے لگانے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے تھے اور بڑی ہمت کے ساتھ انہوں نے اس کے مقابلے کئے.چنانچہ احمدیت میں میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی ساقی کے منہ پر مکر کی صدا آئے اور اس کا جواب لبیک صورت میں نہ پیدا ہو.میں جانتا ہوں کہ جب بھی یہ آواز اٹھائی جائے گی کثرت سے ساتھ جماعت کی طرف سے اللھم لبیک اللھم لبیک کی آواز میں آئیں گی کیونکہ وہ صداد دینے والے کو نہیں دیکھیں گے وہ یہ دیکھیں گے کہ دراصل یہ آسمان کے خدا کی آواز ہے جو ایک حقیر بندے کے منہ سے جاری ہوئی ہے.اس لئے یہ خدا کی عاشق جماعت، فدائی جماعت ہو نہیں سکتا کہ اللہ کی طرف سے آواز آئے اور وہ اسے سنے نہ، اس کے مقابل پر اس کے سننے کے بعد اللھم لبیک نہ کہیں.شاعری میں تو ایسا ممکن ہے لیکن عملاً جماعت کی زندگی میں یہ نہیں ہو سکتا.میں جانتا ہوں کہ مجھے مکرر یہ صدا دینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور اسی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے ساری دنیا میں جو لوگ بھی افریقہ میں احمدیت اور اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہتے ہیں پیش کرنے کی توفیق رکھتے ہیں وہ انشاء اللہ ضرور پیش کریں گے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دوسرا وہ دور ہے جو کام کو اپنے آخری نقطہ کے مقام تک پہنچا دے گا.اب اس کے بعد تیسری منزل اور کوئی نہیں یہ دوسری منزل آپ کے سامنے کھڑی ہے جو آخری فتح کی منزل ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور آپ دیکھ لیجئے کل اسی طرح ہوگا خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہ یہ جو دور اب نیا چلنا ہے قربانیوں کا اس کے بعد اب سارا افریقہ حضرت محمدمصطفی ﷺ کی غلامی میں آجائے گا آپ کے قدموں پر نچھاور ہوگا اور افریقہ سے پھر ساری دنیا کو تبلیغ اسلام کے لئے وہ دیوانے نکلیں گے وہ فدائی نکلیں گے جو کبھی باہر سے افریقہ کو جایا کرتے تھے.عظیم طاقتیں اس قوم میں میں نے دیکھی ہیں.حیرت انگیز قربانی کی روحیں ان میں پائی جاتی ہیں.ان کے اندر انکسار ہے ان کے اندر عشق ہے آنحضرت ﷺ کا اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا اور احمدیت کے عاشق زار ہیں وہ بالکل.ان کی قربانیوں کے حالات آپ کو سناؤں تو آپ حیران رہ

Page 153

خطبات طاہر جلدے 148 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء جائیں گے آپ سمجھتے ہیں صرف پاکستانی کا ہی کام ہے کہ وہ قربانیاں دے.بالکل غلط ہے.نہ ہندوستانی کا کام نہ پاکستانی کا کام ہے ساری دنیا کا کام ہے اور افریقہ میں یہ نمونے بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہو چکے ہیں اور ابھی بھی ہورہے ہیں.میں تو ان لوگوں میں پھر کر حیران رہ گیا ہوں دیکھ کر کہ اتنی عظیم الشان قوم ہے.بہت سی ایسی خوبیاں ان کو خدا نے عطا کی ہیں جس سے باہر کی دنیا محروم ہے.پاکستان میں بھی وہ نہیں ، ہندوستان میں بھی نہیں ، امریکہ میں بھی نہیں ، چین جاپان میں بھی نہیں وہ صرف آپ کو افریقہ میں دکھائی دیں گی.اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کے خدا تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے کہ وہ آواز جو قادیان سے بلند ہوئی تھی جسے پہلا پلیٹ فارم ہندوستان کا مہیا کیا گیا تھا اس پر لبیک کہتے ہوئے جو قربانیاں اس خطے کے بسنے والوں نے دیں ان کی قبولیت کے پھل کے طور پر افریقہ عطا ہوگا اور افریقہ خود وہ پھل بن جائے گا جس سے کثرت کے ساتھ وہ بیج پیدا ہوں گے جو ساری دنیا میں وہ شمر دار درخت لگا دیں گے جسے ہم باغ احمد کہہ سکتے ہیں.جس کی شاخیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھیں کہ کل عالم پر محیط ہیں اور بنی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.تو یہ دودور ہیں احمدیت کی ترقی کے.پہلا افریقہ کے دلوں کی فتح ہے اور دوسرا اس کے ذریعے سے سب دنیا کے دلوں کی فتح ہے.جو میں نے دیکھا ہے مجھے تو یہی دکھائی دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس بات پر گواہی دیں گی کہ جو میں نے دیکھا وہ سچ دیکھا تھا.پس خدا تعالیٰ کی تقدیر میں جو پھل ملا کرتے ہیں وہ صرف کھانے کے لئے نہیں ہوا کرتے ہر پھل کے ساتھ بیچ بھی رکھے جاتے ہیں.یہ مضمون ہے جسے ہمیں کبھی بھلانا نہیں چاہئے.جو پھل آج جماعت افریقہ میں کھا رہی ہے ان پھلوں کے اندر پیج مضمر ہیں اور وہ اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ اگر ہم ان کی نگہداشت کریں اور ان کو لگا کر ان کی آبیاری کریں تو پھر ساری دنیا تک آنحضرت یہ کی برکتوں کے پھل پہنچانے کے لئے سامان مہیا ہو جائیں گے اور بہت بڑی وہاں جس کو پنیری کہتے ہیں پتا نہیں اردو میں اس کا کیا نام ہے انگریزی میں Nursery کہتے ہیں افریقہ میں وہ پنیری لگانے یا نرسری بنانے کے لئے بہت بڑی سرزمین موجود ہے اور بیج میسر آچکے ہیں کیونکہ وہ پھل میں نے خود دیکھا ہے جو بیجوں سے لدا ہوا ہے.

Page 154

خطبات طاہر جلدے 149 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء تو اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے گا انشاء اللہ کہ ہم ان چیزوں سے استفادہ کریں اور پھر ساری دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچا ئیں.وہ پیغام جب افریقہ کی شکل میں ابھرے گا اور افریقن قوم اس پیغام کو لے کر نکل کھڑی ہو گی سب دنیا میں تو پھر آپ دیکھیں گے کتنے عظیم الشان انقلاب برپا ہوتے ہیں اور ابھی سے اس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.تو یہ میرا پیغام ہے.میں امید رکھتا ہوں ، امید کیا مجھے یقین ہے ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ یہ وہی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا معجزہ ہے اور اس جماعت سے کبھی بھی کسی خلیفہ وقت کو مایوسی نہیں ہو سکتی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: کچھ مرحومین کی نماز جنازہ کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں.نماز جمعہ کے معاً بعد انشاء اللہ یہ نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے گی.مکرم چوہدری عطاء اللہ خان صاحب ریٹائرڈ ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان حال ربوہ ۱۳ دسمبر کو حرکت قلب بند ہو جانے سے وفات پاگئے.بڑے مخلص فدائی آدمی تھے، بڑے منکسر المزاج ، سادہ.اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے.مکرمہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ سردار محمد یوسف صاحب جو ایڈیٹر نور کے نام کے ساتھ مشہور تھے اور جب تک وہ نور رسالہ ہمیشہ دنیا میں باقی رہے گا پرانے قیمتی مضامین سمیت آپ کا نام بھی باقی رہے گا انشاء اللہ.ان کی بیگم صاحبہ کی وفات کی اطلاع ملی ہے ۲۰ فروری ۱۹۸۸ء کولاہور میں وفات پاگئیں.محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب نائیک ۲۶ فروری کو چنیوٹ ایک بس کے حادثہ میں وفات پائی.انگلستان سے ہی ہمارے ایک دوست تشریف لے گئے تھے اور بڑا دردناک واقعہ یہ ہے کہ ان کی خالہ تھیں ان کو ملنے کے لئے آئی تھیں تا کہ الوداع کہہ سکیں اور غالبا ملنے سے پہلے ہی اس حادثہ میں شہید ہو گئیں.مکرم محمد سلیمان صاحب کھاریاں ، مکرمہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ ملک عبداللہ خان صاحب سمبڑیال، مکرمہ بشری خانم صاحبہ، مبشر احمد صاحب جرمنی میں ہیں انہوں نے درخواست کی ہے ان کی ہمشیرہ تھیں.مکرم سید منور حسین شاہ صاحب ہمارے ایک مخلص انگلستان کی جماعت کے دوست ریحان محمود صاحب کے والد تھے اور ان کی دوسری شادی سید منور حسین شاہ صاحب کی چوہدری فتح محمد

Page 155

خطبات طاہر جلدے 150 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء صاحب سیال کی بیٹی امتہ الشافی سے ہوئی.بہت ہی خدمت کی ہے انہوں نے میں مرحوم کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں ان کے لئے بھی کرتا ہوں ساتھ ہی بہت ہی عظیم الشان خدمت کی توفیق ملی ہے ان کو.بڑے صبر کے ساتھ ، بڑی لمبی بیماری دیکھی اور بڑی وفاداری کا سلوک کیا ہے اور ان کے اپنے سوتیلے بچوں سے بھی ایسا پیار کا نمونہ دکھایا ہے جو بعض دفعہ سگی ماؤں کو بھی اس کی توفیق نہیں ملتی.یہ بھی دعا کی مستحق ہیں.مکرمہ امتہ اللطیف صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب یہ حمید اللہ شاہ صاحب نے کینیڈا سے اطلاع دی ہے ہمارے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے بڑے صاحبزادے تھے ڈاکٹر محمد احمد ان کی اہلیہ امتہ اللطیف صاحبہ ۲۷ ؍ جنوری کو وفات پاگئی ہیں.نماز جنازہ کے علاوہ ایک دعا کی درخواست بھی کرنی چاہتا ہوں ایک مریضہ کے لئے وہ ہماری عزیزہ ہیں سعدیہ بیٹی جو میری بیوی کے مرحوم بھائی کی بیٹی ہیں.امریکہ میں ان کو اچانک دمہ کی تکلیف ہوئی جو اس قدر تیزی سے بڑھی کے پیشتر اس کے کہ ڈاکٹر وہاں پہنچ سکتا وہ اس کی وجہ سے بیہوش ہو کے گری اور پھر کومہ میں چلی گئی ہیں اور ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق تقریباً بیس منٹ تک دل کی حرکت بھی بند رہی ہے اور سانس بھی بند رہا ہے لیکن اس کے باوجود جب ڈاکٹروں نے کوشش کی تو دوبارہ دل کی حرکت جاری ہو گئی.سانس کی مشین پر رکھا ہوا ہے اور ابھی تک وہ جہاں تک دنیا کا سوال ہے ڈاکٹر تو مایوس ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ محض ایک کوشش ہے فرض کے طور پر اس سے زیادہ اس میں کوئی امید نہیں لیکن اللہ تعالیٰ قادر اور توانا ہے اور میں نے دیکھا ہے پہلے کئی دفعہ ایسا ہو چکا ہے کہ ڈاکٹروں نے جس مریض کو کلیۂ لا علاج قرار دیا ہے اسے بھی خدا نے زندہ فرما دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تو جو واقعات ایسی کثرت سے ظاہر ہوئے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ کیسے یہ واقعہ ہوا.ابھی بھی وہی خدا ہے جماعت کے ساتھ ابھی بھی میں نے دیکھا ہے کئی دفعہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں تو مایوسی کا ہمیں حکم نہیں ہے کسی قیمت پر بھی.ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق ایک قسم کا مردہ ہے جسے وہ کچھ عرصے کے لئے گھسیٹ رہے ہیں گویا کہ یعنی زندگی کے بارڈر پر گھسیٹ رہے ہیں عملاً وہ دوسری طرف جا چکا یا لڑھکنے والا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر جب تک آخری صورت میں ظاہر نہ ہو جائے ڈاکٹروں کی تقدیر کا کوئی اعتبار نہیں ہوا کرتا.

Page 156

خطبات طاہر جلدے جب بھی خدا فیصلہ کرے اسی کی چلتی ہے.151 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۸ء اس لئے جب تک خدا کی آخری تقدیر ظاہر نہیں ہوتی ہمیں دعا کا حکم ہے اور دعا کرتے وقت پورے تو کل اور یقین سے دعا کرنی چاہئے یہ نہ سمجھیں کہ چلو دعا کرتے ہیں ورنہ اب کہاں ممکن ہے اس طرح کی دعا نہیں کرنی اس یقین کے ساتھ کریں کہ خدا کے ہاتھ میں طاقت ہے جب چاہے وہ تقدیر بدل دیتا ہے اور اس لئے مجھے بھی جب میں نے دعا کی تو ایک ایسا جواب ملا جس کے بعد انسان سمجھتا ہے کہ اب دعا کا وقت نہیں رہا.لیکن خدا تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ دعا کے لئے تو ہر وقت ہے.جب خدا یہ بھی ظاہر فرمادے کہ نہیں اس وقت بھی وقت رہتا ہے.تو اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ سب دوست بھی اس معاملے میں دعا کے ذریعے اس بچی کی مدد فرمائیں گے.چھوٹی عمر ہے ابھی ایک ڈیڑھ سال ہوا ہے صرف شادی کو غالباً ڈیڑھ یا دوسال اور بڑی نیک فطرت بچپن میں باپ کے سائے سے محروم رہی.بڑی درد ناک زندگی کئی اس لحاظ سے تو خاص دعاؤں کی مستحق ہے.یعنی یہ ان کی والدہ خاص طور پر مجھے ان کا خیال ہے بہت ہی ان کی جذباتی لحاظ سے اس وقت شدید کرب میں سے گزررہی ہیں.

Page 157

Page 158

خطبات طاہر جلدے 153 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء صد سالہ جشن تشکر کی تیاری اور اس کے چندہ نیز خلیفہ وقت کی تحریکات کو تمام لوگوں تک پہنچانے کے لئے ہدایات خطبه جمعه فرموده ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کو اب تقریباً ایک سال باقی ہے.کیلنڈر کے سالوں کے حساب سے تو ۱۹۸۸ ء آخری سال بنتا ہے اس نئے سال سے پہلے جس میں جماعت احمد یہ اپنی دوسری صدی میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ داخل ہو گی لیکن جماعت احمدیہ کا با قاعدہ بیعت کے ذریعے جو اعلان فرمایا گیا اس لحاظ سے ۲۳ / مارچ ۱۹۸۹ء کو جماعت احمدیہ کے سوسال پورے ہوں گے.تو نئی صدی کا آغاز ۲۳ / مارچ ۱۹۸۹ء کو ہو گا.اس سے پہلے بہت سے کام ایسے کرنے والے باقی ہیں جن کے متعلق فکر بڑھتا جا رہا ہے.اگر چہ جماعتیں ہر لحاظ سے کوشش کر رہی ہیں لیکن جہاں تک جماعت کے اند تفصیلی طور پر پروگرام کی اطلاع دینے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں میں سمجھتا ہوں کہ ابھی کمزوری ہے.بہت سے منصوبہ بنانے والے کمیشن بٹھائے گئے سالہا سال سے انہوں نے غور کیا اور منصوبے تیار کئے.ان پر پھر باہم بیٹھ کر ہم نے مزید غور کیا اور یہ غور میرے زمانے سے نہیں بلکہ اس سے پہلے سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے وقت سے شروع ہے اور بہت لمبی محنت آپ نے بھی اس بات میں فرمائی.کمیٹیوں کے ساتھ خود بیٹھے جس میں میں بھی ممبر ہوا کرتا تھا اور بڑی تفصیل سے ان منصوبوں کا جائزہ لیا جو آئندہ صدی کے لئے اظہار تشکر کے طور پر سوچے جا رہے تھے اور اس کے بعد پھر ان کو آخر پر مزید مانجھنے اور چمکانے کا دور شروع ہوا.پھر مختلف ملکوں میں کمیٹیاں

Page 159

خطبات طاہر جلدے 154 خطبہ جمعدار مارچ ۱۹۸۸ء بٹھائی گئیں کہ وہ اپنے اپنے حصے پر غور کریں اور یہ جائزہ لیں کہ ملکی لحاظ سے کس حد تک مزید پہلومنصوبے میں شامل ہونے چاہئیں اور ملکی لحاظ سے جو کام کی ذمہ داریاں ہیں وہ کیسے بانٹی جائیں گی.پھر بیرون پاکستان ایک الگ کمیشن مقرر کیا گیا جو بیرون پاکستان کے کام کو مجتمع کرے اور مرکوز کرے کیونکہ ان دنوں میں پاکستان سے مؤثر رابطہ رکھنا ممکن نہیں تھا.چنانچہ یہ سارے منصوبے یا منصوبوں کے مختلف پہلو بہت حد تک آخری شکل میں تیار ہو چکے ہیں اور ملکی لحاظ سے بھی اور ملکوں کے گروہوں کے لحاظ سے بھی اور پھر ان کے اوپر تمام بیرون پاکستان ملکوں کے مرکزی منصوبے کے لحاظ سے بھی سب جگہ کمیٹیاں بڑی مسلسل محنت کر رہی ہیں اور آپس میں ان کے روابط بھی قائم ہیں لیکن جہاں تک جماعت کے افراد کا تعلق ہے ابھی تک تفصیل کے ساتھ جماعت کے افراد کو اس منصوبے سے یا ان منصوبوں سے آگاہ نہیں کیا گیا اور جس حد تک کام کی ذمہ داریاں بانٹنے کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ جتنے احباب جماعت اس منصوبے کے عملی کاموں میں شامل کر لئے جانے چاہئے تھے اتنے ابھی تک شامل نہیں کئے گئے.اب سوچنے اور غور کا مزید وقت تو باقی نہیں بہت زیادہ ضرورت ہے کہ جو کچھ غور بھی ہو چکا اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس پر فورا عمل درآمد شروع کروایا جائے.اس ضمن میں افریقہ کے دورے میں بھی میں نے یہ محسوس کیا کہ عملی پہلو سے ابھی بہت سی کمزوری باقی ہے.سب سے زیادہ نمایاں طور پر جس طرف توجہ مرکوز ہونی چاہئے وہ ہر ملک میں ایک نمائش کی جگہ کا تقر ر یا بڑے ملک ہوں تو ایک سے زیادہ نمائش کی جگہوں کی تقرری اور پھر اگر ضرورت ہو جیسا کہ بعض ملکوں میں ہوگی وہاں متفرق علاقوں کو Vans کے ذریعے جماعتی معلومات مہیا کرنے کا انتظام اور پریس سے رابطہ، ٹیلی ویژن ، ریڈیو وغیرہ سے رابطہ، ہر ملک کی بڑی بڑی شخصیتوں سے رابطہ اور آخری شکل میں کس طرح وہ حصہ لیں گے اور کہاں لیں گے اور کیا حصہ لیں گے.اس بارے میں معین ان کو اطلاع دینا اور ان سے درخواست کرنا کہ آپ اس پروگرام میں شمولیت فرمائیں.یہ سارے کام ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں عمل کے لحاظ سے.منصوبے کے لحاظ سے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام پہلوؤں پر تفصیلی اور باریک غور ہو چکا ہے.جو تعمیر کا کام ہے اس کے لئے بڑا وقت درکار ہے اور ان منصوبوں میں یہ ایک پہلو بڑا

Page 160

خطبات طاہر جلدے 155 خطبہ جمعدار مارچ ۱۹۸۸ء نمایاں ہے کہ جہاں جہاں جس جس ملک میں یہ توفیق ہو وہاں جماعتی سوسالہ نمائش کے لئے ہال کی تعمیر کی جائے اور اس کو پھر مستقل ایک نمائش گاہ کے طور پر ہمیشہ استعمال کیا جائے.اس پہلو سے خصوصیت کے ساتھ مجھے فکر ہے کہ بہت بڑے بڑے ممالک جن میں یہ کام آج سے بہت پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھے ان میں ابھی اس کا آغاز نہیں ہوا اور جہاں تک جماعت کی استطاعت کا تعلق ہے اس بارے میں کوئی بھی شک نہیں کہ اگر اب بھی آئندہ ایک دو ماہ کے اندران خاص نمائش گاہوں کی تعمیر کا کام شروع کر دیا جائے تو جس طرح جماعت وقار عمل کے ذریعے یا دیگر کوششوں سے حصہ لیتی ہے ہرگز بعید نہیں کہ اسی سال کے آخر تک یہ نمائش گاہیں تیار ہو جا ئیں.ان نمائش کے بڑے ایوانوں میں جو چیز ملحوظ رہنی چاہئے وہ جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک مستقل چیز ہو گی.عارضی طور پر یہ نہیں کہ آپ کتابیں سجائیں اور پھر اس کے بعد ان کو سمیٹ لیں یا جماعت کے چارٹس لگائیں اور پھر اس کے بعد ان کو سمیٹ لیں یا ویڈیوز دکھانے کا انتظام کریں اور پھر اس انتظام کو اکٹھا کر کے کسی اور جگہ منتقل کر دیں بلکہ ایسی عمارتیں جہاں صد سالہ جو بلی کی نمائش ہونی ہے وہ مستقلاً ہمیشہ پھر اس کام کے لئے استعمال ہوں گی.وہاں ہر باہر سے آنے والا ہر وہ شخص جو جماعت میں کسی رنگ میں دلچسپی رکھتا ہے وہ جب بھی آئے اس کے سامنے ساری جماعت کی سوسالہ کارروائی یکجائی صورت میں پیش کی جاسکے.جہاں تک چارٹس کا تعلق ہے، جہاں تک تصاویر کا تعلق ہے، جہاں تک اہم کتب کا تعلق ہے جن کو اس مستقل نمائش میں شامل کیا جاتا ہے وہ تیار کئے جاچکے ہیں.کتب میں سب سے زیادہ اہم اور ہمیشہ کے لئے مستقل اہمیت رکھنے والی چیز قرآن کریم ہے اور قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلے میں اس کے ساری دنیا میں اس وقت تقریباً ایک سو ممالک میں یہ کا روائی ہو رہی ہے اور ترجموں کے او پر نظر ثانی کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے.بہت سے ترجمے اس وقت طبع ہورہے ہیں.ان سب کو جب اکٹھا بھجوانا شروع کیا جائے گا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان جماعتوں پر کتنا بڑا بوجھ اچانک پڑے گا جو پہلے تیار نہ ہوں.قرآن کریم کے پچاس سے زائد زبانوں میں تراجم ہیں اور صرف ایک ایک دو دو نسخے نہیں بھجوائے جائیں گے بلکہ جن ملکوں میں زیادہ ضرورت ہوگی وہاں زیادہ بھجوائے جائیں گے.

Page 161

خطبات طاہر جلدے 156 خطبہ جمعہ ا ا/ مارچ ۱۹۸۸ء جہاں دس یا پندرہ یا ہمیں یا بعض دفعہ پچاس پچاس مراکز ہوں گے نمائش کے وہاں کم از کم اتنی تعداد میں یہ نسخے بھجوائے جائیں گے.پھر ایک سو چودہ زبانوں میں قرآن کریم کے منتخبہ حصوں کی طباعت کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ چند ماہ کے اندر یہ کام بھی مکمل ہو جائے گا.ان سب کو بھی ہر نمائش میں مہیا کیا جائے گا اور اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں جو ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً دو ہزار نسخے دنیا کے ایک سو چودہ ممالک میں تقسیم کئے جائیں گے صرف نمائش کی خاطر جو تقسیم کا کام ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور جو منتخب آیات کے تراجم ہیں ان کے متعلق فیصلہ یہی ہے کہ وہ اس سال یعنی آئندہ سال جب ہمارا سال تشکر شروع ہو گا اس وقت مفت تقسیم کئے جائیں گے تھے.پھر ان کے ساتھ احادیث نبوی کا انتخاب ہے جس کو اسی طرح انہی زبانوں میں ترجمہ کر کے تحفہ دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں میں سے اقتباسات ہیں جو کلیۂ قرآن اور حدیث پر ہی مبنی ہیں لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہدایت فرمائی، جو نور بخشا، جو عرفان عطا کیا اس کی رُو سے وہی قرآن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل سے دیکھا جاتا ہے، دل کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے تو ایسا حسن ظاہر ہوتا ہے جو پہلے عام آنکھ سے مخفی ہوتا ہے.اسی طرح حضرت رسول اکرم ﷺ کی محبت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشقیہ کلام نظم میں ہو یا نثر میں وہ بھی ایک غیر معمولی مرتبہ رکھتا ہے.پھر بنی نوع انسان کے لئے جیسی گہری ہمدردی آپ کے دل میں تھی.کیا چاہتے تھے آپ کیا ہو، کس طرح بنی نوع انسان کے اندر پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہوں وہ کوئی اور بیان کرے تو وہ بات بن نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے کلام میں جو زندگی ہے، جو قوت ہے اس کا کوئی متبادل نہیں.تو دنیا اس بات کی حقدار ہے کہ کم سے کم جہاں تک ممکن ہے دنیا کی ہر آبادی میں اس کی زبان تک قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پہنچ جائے اور جہاں تک ہم نے جائزہ لیا ہے شاذ ہی کوئی ایسا طبقہ باقی ہو گا جس کو صرف ایسی زبان آتی ہو کہ اس میں ہم قرآن کریم اور احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو پیش نہ کر سکیں.تو یہ تقسیم کا کام بھی اتنابڑا کام ہے اور سب سے پہلے تو یہ ہے کہ ان کو رکھا کہاں جائے گا ان

Page 162

خطبات طاہر جلدے 157 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء سب کتب کو، کیا انتظام ہو گا، کس جگہ ان کو سمیٹا جائے گا ،سنبھالا جائے گا، وہ مشینری کیا ہے جو چارج لے گی اس وقت کیونکہ امراء کے پاس تو ممکن ہی نہ ہے اتنا وقت ہو یا ان میں اتنی استطاعت ہو کہ ذاتی طور پر یہ سارا کام سمیٹ سکیں.ابھی سے ان پتہ جات کو مہیا کرنے کا اور مرتب کرنے کا کام ہونا چاہئے جن تک یہ چیزیں تقسیم ہوں گی.اس کے علاوہ بعض ممالک بعض دوسری کتب اور اشتہارات کی تقسیم کا بھی ارادہ رکھتے ہیں.پھر اسی طرح مرکزی طور پر بھی صد سالہ اظہار تشکر کے سال میں بہت وسیع پیمانے پر دنیا کے نام پیغام بھجوایا جائے گا.یہ ساری چیزیں اس وقت تو تیاری کے مرحلے پر ہیں لیکن جب تیار ہو کر مختلف ممالک میں پہنچیں گی ایک، دو، دس، ہیں، پچاس پچاس مراکز کے لئے وہ کیسے ان کو سنبھالیں گے کیسے ان کو تقسیم کریں گے اگر پہلے سے تیار نہ ہوں.کس طرح وہ پتہ جات اس وقت اکٹھے کریں گے پھر ان پتہ جات کے اوپر تقسیم کا کام کیسے شروع ہوگا، کون کتنے حصے کا ذمہ دار ہوگا.یہ سارے کام بہت زیادہ تفصیلی توجہ کو چاہتے ہیں اور ایسی محنت کو چاہتے ہیں جس میں کئی مہینے لگیں گے.اس لئے یہ خاموشی بڑی فکر انگیز ہے.اس وقت تک جس قسم کی ہلچل شروع ہو جانی چاہئے تھی یا بیداری شروع ہو جانی چاہئے تھی وہ ابھی تک شروع نہیں ہوئی اور جن ممالک میں جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی باشعور اور قوی ہیں اپنی عددی قوت کے لحاظ سے بھی وہاں تو خصوصیت کے ساتھ بہت زیادہ کام ہونا باقی ہے اور اسی نسبت سے جتنی ان کو خدا نے عظمت عطا فرمائی ہے اتنی ہی ان پر ذمہ داری بھی پڑنے والی ہے.تو میں ساری دنیا کی جماعتوں کے امراء کو نہیں بلکہ تمام مجالس عاملہ کو مخاطب ہو کے متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان سب امور کی طرف فوری توجہ شروع کریں.کثرت سے نو جوان ہیں جواللہ تعالی کے فضل سے اخلاص رکھتے ہیں، جذبہ رکھتے ہیں، خدمت کے شوقین ہیں اور اسی طرح بوڑھے بھی ہیں، بچے بھی ہیں ، خواتین بھی ہیں.ان میں سے جس حد تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ احباب جماعت اور خواتین جماعت کو عملی کاموں میں شامل کرنا ہوگا اور یہ عملی کاموں میں ان کی شمولیت ان کے لئے بہت بڑی برکت کا موجب ہوگی.اگر کام کو ترتیب دے کر تقسیم کیا جائے تو بڑے سے بڑا کام بھی آسان ہو جاتا ہے.اگر کام کو ترتیب دے کر تقسیم کر لیا جائے تو مالی ذمہ داریاں بھی بہت ہلکی ہو جاتی ہیں اور وقت کے اوپر کام سمٹ جاتا ہے لیکن اگر آپ اچانک سوچیں کہ ہم سب کچھ کر لیں گے تو کبھی

Page 163

خطبات طاہر جلدے 158 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء بھی وہ سب کچھ نہیں ہو سکتا.بہت بڑی جماعت کی محنت ضائع جائے گی اگر اس کام کو جہاں پہنچانا ہے وہاں پہنچانے کا انتظام نہ کیا گیا.تو یہ دو پہلو ہیں خصوصیت سے جن کی طرف اب توجہ دینی چاہئے.ایک ایسے مراکز کا فیصلہ کہاں یہ کتب اکٹھی کی جائیں گی، ان کی حفاظت کا کیا انتظام ہوگا، یہ نقشے ، یہ چارٹس، یہ تصاویر اور یہ ویڈیوز جو تیار ہورہی ہیں ، وہ سلائیڈ ز جو تیار کی جارہی ہیں یہ ساری کس طرح دکھائی جائیں گی ، کہاں کہاں دکھائی جائیں گی ، کیسے سارے ملک میں ان کو اس حد تک پہنچا دیا جائے گا کہ ہر ملک کے حصے کی ان تک رسائی ہو سکے؟ یہ بہت بڑے کام ہیں.پھر تقسیم کے لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دیتی تقسیم کا کیا انتظام ہوگا، ڈاک کے ذریعے تقسیم کا کیا انتظام ہوگا اور ان لوگوں کی فہرستوں کی چھان بین کرنا بھی ایک بہت اہم کام ہے.آنکھیں بند کر کے کتابوں سے پتے اکٹھے کر لینا تو کوئی کام نہیں ہے اس سے بہت حد تک آپ کی محنت ضائع جاتی ہے.آپ کو پتا ہی نہیں کس کو بھیج رہے ہیں تو کس طرح پتا چلے گا کہ وہ شخص اس لائق بھی ہے کہ نہیں کہ اس تک پیغام پہنچایا جائے.اس لئے کچھ حصوں کے متعلق تو ہم جہاں طبقات کی تقسیم کرتے ہیں ان تک تو ان ٹیلی فون ڈائریکٹریز وغیرہ سے یا Whose Who کتابوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن یہ صرف نمونے کے چند لوگ ہوں گے جن کو آپ بے شک آنکھیں بند کر کے یہ کتب بھجوا دیں یا دوسرا لٹریچر ارسال فرما دیں لیکن جہاں تک تفصیلی فائدہ اٹھانے کا تعلق ہے اس میں ضروری ہے کہ آپ کو پتا ہو کہ کون ہے وہ شخص جس کو آپ کوئی چیز بھجوا رہے ہیں.اس کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں، اس کے جماعت کی طرف کیار جحانات ہیں اور اس تیاری کا دعوت الی اللہ کے پروگرام کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.جن جماعتوں میں دعوت الی اللہ کا پروگرام اچھا ہو رہا ہے وہاں رابطے بڑھ رہے ہیں.وہاں اللہ تعالیٰ آنکھوں کو روشنی عطا فرما رہا ہے کون کس قسم کا آدمی ہے، کون اس بات کا حقدار ہے کہ اس کو جماعت کا پیغام براہ راست پہنچایا جائے.کون قرآن کریم کی عزت کرنے والا ہے ،کون ایک گندہ انسان ہے جس تک اس حالت میں قرآن کریم پیش کرنا مناسب ہی نہیں ہو گا.بہت سے فیصلے ہیں جن کا انحصار تفصیلی معلومات پر ہے اور یہ کام بھی بڑی محنت کو چاہتا ہے.اگر آپ باری باری کام شروع کریں تو اس کے لئے تو اگلے پانچ سال بھی کافی نہیں ہوں گے دس سال بھی شائد کافی نہ

Page 164

خطبات طاہر جلدے 159 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء ہوں.اگر بوجھ کو تقسیم کر دیں اور مرتب کر لیں اور مختلف قسم کی ٹیمیں بنالیں اور بیک وقت وہ سب کام شروع کر دیں تو چند ماہ کے اندر اندر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ساری دنیا میں اس کام کی تیاری مکمل ہو سکتی ہے.اس لئے ان دو حصوں کی طرف بڑی خصوصیت کے ساتھ توجہ دینی چاہئے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک کام سپرد کیا کہ اگر کہا جائے کہ دس لاکھ آدمیوں تک اتنی دیر میں تم نے فوراً پیغام پہنچا دینا ہے تو کس طرح کر سکتے ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے توفیق ملی ، ہم نے بیٹھ کر ٹیمیں بنالیں تقسیم کار کر دی اور مختلف علاقوں میں مختلف آدمی ایسے مقرر کر دیئے جو سو سو پرنگران تھے.پھر سو سو نے آگے دس دس تک اپنا لٹریچر پہنچانے کی ذمہ داری قبول کر لی اور ان دس نے آگے پھر پچاس پچاس ، سوسو جتنی ان کو تو فیق تھی ان تک لٹریچر پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرلی.نتیجہ یہ نکلا کہ ایک آدھ مہینے کی محنت اور کوشش کے نتیجے میں وہ سارا ڈھانچہ تیار ہو گیا جس کے نتیجے میں بڑی کثرت کے ساتھ ملک کے ہر حصے میں ، ہر طبقے تک جماعت کی آواز پہنچائی جاسکتی تھی اور خرچ اس لحاظ سے بہت ہی کم ہو گیا کیونکہ بہت سی جگہ جب آخر پر ایک نوجوان تک یہ بات پہنچی کہ تم نے سارے سال میں دس لفافے پوسٹ کرنے ہیں یا دس پارسل بھجوانے ہیں اور ان کے پتہ جات ہم تمہیں مہیا کر دیں گے اور جب تمہیں لٹریچر مہیا کیا جائے گا تم نے آگے بھجوانا ہے تو اس نے یہ پسند نہ کیا کہ اس کو اس کی Postage کا خرچ دیا جائے اور اکثر صورتوں میں یہ کام بھی مفت ہو گیا جس کے اوپر صرف تقسیم کے لئے لاکھوں روپیہ کی ضرورت در پیش تھی.چنانچہ مختصر وقت میں جماعت نے پہلے بھی بڑی تیزی کے ساتھ بڑے وسیع پیمانے پر لٹریچر تقسیم کرنے کا کام کیا ہے جس پر حکومتیں ششدر رہ گئی ہیں.وہ حیران رہ گئے ہیں ان کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایک کمزور سی جماعت جس کو وہ تھوڑا سمجھتے تھے وہ چند دنوں میں اتنا عظیم الشان کام کر سکتی ہے.یہ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ ایسے واقعات ہو چکے ہیں.تو وہی جماعت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو ساری دنیا میں اسی جذبے کے ساتھ موجود ہے صرف اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہے اور ذمہ دار افسروں کا حکمت کا استعمال کرنا سب سے اہم کام ہے.حکمت کے بغیر کوئی محنت کام نہیں کرسکتی.چنانچہ کا موں کوتقسیم کرنا اور مرتب کرنا یہ ہے سب سے اہم ضرورت آج کی جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کرتا ہوں.

Page 165

خطبات طاہر جلدے 160 خطبہ جمعہ ا ا/ مارچ ۱۹۸۸ء دوسرا پہلو ہے مالی قربانیوں کو سمیٹنا.اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اور جو منصوبے ہیں ان وہ کے اوپر بڑی تیزی سے خرچ شروع ہو چکا ہے اور جہاں تک صد سالہ جو بلی کے وعدوں کا تعلق ہے و وعدے تو پندرہ سال پہلے سے لئے گئے ہیں اور اس عرصے میں مختلف تحریکات چلتی رہیں جس کے نتیجے میں ہر سال ایک نئی تحریک کو اولیت دی جاتی رہی بعض سالوں میں دو دو، تین تین تحریکیں اوپر تلے ہوئیں.چنانچہ اس کے نتیجے میں بہت سی جماعتیں ادائیگی میں پیچھے رہ گئیں.آغاز میں جب وعدے ہوئے تو تیزی کے ساتھ ادا ئیگی کی طرف توجہ ہوئی لیکن اس وقت وعدے کرنے والوں نے آئندہ پندرہ سالوں میں اپنی استطاعت کو دیکھا تھا اور اسی حساب سے انہوں نے ادا ئیگی بھی کی کہ ابھی پندرہ سال باقی ہیں ہم آہستہ آہستہ باقی ادا ئیگی کرتے رہیں گے لیکن ان پندرہ سالوں میں جیسا کہ میں نے بیان کیا اللہ تعالیٰ نے جماعت کے سامنے اور بہت سے ایسے منصو بے رکھے جن میں فوری مالی قربانی کی ضرورت ہوا کرتی تھی.تو اس پہلو سے بہت سے احباب ادائیگی میں پیچھے رہ گئے اور بعض جماعتوں پرتو اتنا بڑا بوجھ تھا کہ بظاہر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ پورا کرسکتی ہیں کیونکہ دیگر مالی قربانیوں میں بھی وہ جماعتیں پیش پیش تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بہت فضل فرمایا اور حیرت انگیز طور پر گزشتہ دو تین سال میں اور خاص طور پر ۱۹۸۷ء میں جس حیرت انگیز طریق پر جماعت نے مالی قربانی میں حصہ لیا ہے وہ نا قابل یقین دکھائی دیتا ہے.ان تمام شہری جماعتوں میں میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کراچی کی جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ غیر معمولی اور امتیازی قربانی پیش کرے.اس جماعت کا چندہ بھی بہت بڑا تھا یعنی وعدہ بھی بہت بڑا تھا اور قابل ادا وعدہ پچھلے سالوں میں اتنا اکٹھا ہو چکا تھا کہ اس کا اکثر حصہ واجب الا دا تھا.اس لئے وہاں کے جو سیکرٹری تھے صد سالہ جو بلی کے چوہدری رکن الدین صاحب وہ بار بار مجھے دعا کے لئے خط بھی لکھتے رہے اور بار بار بے چینی اور فکر کا اظہار کرتے رہے کہ کیا بنے گا.ذمہ داری مجھ پر ہے اور اب تین سال ، چار سال باقی رہ گئے ہیں اور اس عرصے میں اتنی بڑی رقوم اکٹھی کرنا جبکہ آپ کی طرف سے دوسری تحریکیں بھی جاری ہیں یہ کیسے ممکن ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ محنت کرنے والے اور توکل کرنے والوں کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور غیر معمولی پھل عطا فرماتا ہے.چنانچہ سارے دو تین سال کے عرصے میں صرف کراچی کی مثال ہی نہیں اور بھی بہت ساری

Page 166

خطبات طاہر جلدے 161 خطبه جمعه ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء جماعتوں کی ایسی مثال ہے جس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر ذمہ دار شخص جس نے ذمہ داری کو قبول کیا ہے خود وہ توجہ کرنے والا ہو اور بار بار یاد دہانی کرانے والا ہو اور دعا کرنے والا ہو اور پھر صاحب عزم ہو، بڑے بوجھ سے ہار جانے والا نہ ہو اور تو کل کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی محنت کو توقع سے بہت زیادہ پھل لگاتا ہے.چنانچہ کراچی کی جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال میں اس طرح داخل ہوئی ہے کہ بیشتر حصہ وعدوں کا ادا ہو چکا ہے بلکہ بعض نئے ادا ئیگی کرنے والے اور بھی شامل ہو گئے ہیں.اس لئے مجھے بھاری امید ہے کہ اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے انشاء اللہ کراچی کی جماعت جس وعدے کی ادائیگی ناممکن سمجھ رہی تھی اس سے بڑھ کر ادا کرنے کے قابل ہو جائے گی.جہاں تک ملکوں کا تعلق ہے ان میں میں سمجھتا ہوں کہ کینیڈا کی مثال بہت ہی شاندار اور قابل تقلید ہے.کینیڈا کی جماعت کا بھی یہی حال تھا کہ پرانے وعدے کئے ہوئے وہ اکثر دوست بھول چکے تھے، ان کے اندروہ انتظام نہیں تھا جو بار بار یاد دہانی کرائے.چنانچہ گزشتہ چند سالوں سے جماعت کینیڈا میں جو عظیم الشان پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں ان کا ایک یہ بھی پھل تھا کہ اس طرف بھی جماعت نے خصوصی توجہ کی.چنانچہ آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں.ایک دو اعدادوشمار میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کل وعدہ ان کا فروری ۸۷ ء تک دو لاکھ پچھتر ہزار نو سو تہتر (۲،۷۵،۹۷۳) ڈالر تھا اور کل وصولی اکاسی ہزار نو سو پچھتر (۸۱،۹۷۵).بہت بھاری رقم قابل وصول پڑی ہوئی تھی.جبکہ دیگر سارے چندے جو اس عرصے میں ادا کرتی رہی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مجموعی رقم تو بہت بڑی بنتی ہے.پھر ایک مسجد ٹورانٹو میں جو بنائی جا رہی ہے اس کا سارا بوجھ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا نے خود اٹھانا ہے اور بڑی حد تک اٹھا رہی ہے.تو اس کے بعد ان کو یہ وہم تھا کہ پتا نہیں کیا بنتا ہے.اتنی بڑی رقم جو گزشتہ چودہ سال میں بھی ایک معمولی حصہ وصول ہوسکی یہ باقی ہم کیسے وصول کریں گیلیکن جب انہوں نے تحریک شروع کی تو ایک سال کے اندراندر سڑسٹھ ہزار دو سو بیالیس ڈالر کے نئے وعدہ موصول ہوئے.پرانے وعدوں کو پورا کرنا تو الگ ہے نئے وعدے موصول ہوئے اور گزشتہ چودہ سال میں اکاسی ہزار نو سو(۸۱،۹۰۰) وصولی کے مقابل پر ایک سال کے اندر اندر یعنی سال گزشتہ میں ایک سال کے اندر ایک لاکھ بائیس ہزار چھ سو

Page 167

خطبات طاہر جلدے 162 خطبہ جمعہ ا ا/ مارچ ۱۹۸۸ء اناسی ڈالر کی وصولی ہوئی اور اکاسی ہزار سے رقم بڑھ کر دولاکھ چار ہزار (۲۰۴۰۰۰۰) تک پہنچ گئی.جس طرح دوستوں نے اس قربانی میں حصہ لیا ہے اس کی چند ایک مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سب سے پہلے تو جو ان کا طریق کار تھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے جو انتظام بنایا اس میں صرف یاد دہانی نہیں کرائی جاتی تھی بلکہ اس خطبہ کی کیسٹ ساتھ بھجوائی جاتی تھی جس میں اس تحریک کے متعلق خصوصیت کے ساتھ جماعت کو توجہ دلائی گئی تا کہ ہر شخص صرف اس تحریری یاد دہانی کے نتیجہ میں ہی اپنے آپ کو تیار نہ کرے بلکہ خلیفہ وقت کی آواز میں خود دوبارہ اس بات کو سنے اور اس کے اجتماعی اثر کے نتیجے میں پھر اس کے اندر جو خدا تعالیٰ تحریک پیدا فرماتا ہے اس سے فائدہ اٹھائے.چنانچہ اس طریق نے خدا تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ امیر صاحب نے اطلاع دی ہے حیرت انگیز اثر دکھایا اور یہاں تک کہ بعض ایسے طالب علم تھے جنہوں نے دس بارہ سال پہلے اپنے بچپن میں جوش میں آکر اتنا بڑا وعدہ لکھا دیا تھا جس کی ان کو توفیق ہی نہیں تھی.مثلاً ایک طالب علم نے پانچ ہزار ڈالر کا وعدہ لکھوادیا تھا اور وہ سارا ہی قابل ادا تھا.جب اس تک یہ آواز پہنچی تو اس نے کچھ تعلیمی قرضہ لیا تھا.اس نے کہا تعلیم تو دیکھی جائے گی، بعد میں ہوتی رہے گی اب مجھے خدا نے توفیق عطا فرمائی ہے اس قرضہ میں سے میں یہ ادا کر دیتا ہوں.چنانچہ اس نے اسی تعلیمی قرضہ میں سے پانچ ہزار ڈالر کا چیک فوری طور پر ان کو بھجوا دیا.یہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انتظام خود فرمائے گا بلکہ بہتر انتظام فرمادے گالیکن جہاں تک ایک طالب علم کی قربانی کا تعلق ہے یہ عظیم الشان قربانی ہے.اس کو نظر آرہا ہے کہ قرض ہے، حکومت نے دیا ہے تعلیم کی غرض سے دیا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے بڑی ہمت کا فیصلہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کو اپنے عہد کو ایفاء کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.ایک دوست ہیں ان کا اور ان کی اہلیہ کا بیس ہزار ڈالر کا وعدہ تھا اور بچوں کا ڈیڑھ ہزار ڈالراس کے علاوہ تھا اور جب تحریک ہوئی ہے دوبارہ یعنی ابھی گزشتہ سال کہ خصوصیت سے اس چندے کی طرف توجہ کرو تو معلوم ہوا کہ ان کی اکثر ادا ئیگی باقی تھی اور وہ بھول چکے تھے اس وعدے کو عملاً.انہوں نے بھی دعا کی اور ہمت کی.اللہ تعالیٰ نے خود ان کا انتظام فرمایا اور گزشتہ سال ہی انہوں نے مکمل ادائیگی ہیں ہزار ڈالر کی کر دی.ایک اور دوست ہیں ان کو جب توجہ دلائی گئی تو پتا چلا کہ ان کا اکیس سو کا وعدہ تھا اور وہ سارا ہی

Page 168

خطبات طاہر جلدے 163 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء قابل ادا تھا.انہوں نے اکیس سو کود گنا کیا اور اکتالیس سوکر کے وہ وعدہ ادا کر دیا.پھر ایک اور دوست ہیں ان کو جب تحریک کی گئی تو ان کے دلچسپ تفصیلی حالات لکھے ہیں اس کی ضرورت نہیں یعنی وہ بیان کر رہے ہیں کس طرح جماعت نے حیرت انگیز طور پر لبیک کہی ہے اور جن کے وعدے نہیں تھے انہوں نے نئے وعدے لکھائے، جنہوں نے سمجھا ہمارے وعدے تھوڑے تھے انہوں نے ان کو دگنا کیا.ایک صاحب نے وعدہ لکھوایا اور غلطی سے دگنا چیک کاٹ دیا اور جب ان کو توجہ دلائی گئی کہ آپ نے تو اتنا وعدہ لکھوایا تھا اور آپ کو شاید تو فیق بھی نہیں اتنا ادا کرنے کی.آپ نے غلطی سے دگنا چیک کاٹ دیا ہے.انہوں نے کہا جو ایک دفعہ خدا کی راہ میں پیش کر دیا جائے اسے واپس کون لے سکتا ہے.اس لئے یہی وعدہ میر سمجھا جائے اور ادائیگی پوری شمار کر لی جائے.بڑے دلچسپ واقعات ان کی طرف سے تفصیلی موصول ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز قربانی کی توفیق عطا فرمائی ہے اور اگر کہیں کوئی جماعت پیچھے رہ گئی ہے تو اس میں جماعت کا قصور نہیں بلکہ ان منتظمین کا قصور ہے جن کا فرض تھا کہ جماعت کو بار بار یاد دہانیاں کراتے رہیں اور انتظار نہ کریں کہ بوجھ اتنا بڑھ جائے کہ پھر ان کی طاقت سے آگے نکل جائے.چنانچہ میں نے تفصیلی طور پر جو نظر ڈالی ہے اپنے دوروں کے وقت خاص طور پر تو میں نے محسوس کیا کہ اس معاملے میں بہت سی غفلت ہوتی رہی ہے.مثلاً بہت سے ممالک میں اور بہت سے مقامات میں امریکہ میں بھی اور افریقہ میں بھی ، سیکرٹری صد سالہ جو بلی کا تقرر ہی نہیں تھا یا اگر تھا بھی تو اس کو پتا ہی نہیں تھا کہ میرا کام کیا ہے.وہ بیٹھا انتظار کر رہا تھا کہ ہاں! مجھے ایک عہدہ ملا ہوا ہے مجھے پتا نہیں کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے.تو جن جماعتوں میں سیکرٹری کا تقرر ہی نہیں ہوایا اسے بتایا ہی نہیں گیا کہ کام کیسے کرنا ہے وہاں کی جماعت کیسے اس قربانی میں حصہ لے سکے گی کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے:.كِرانْ نَفَعَتِ الذكرى (الاعلی :۱۰) نصیحت کر اور نصیحت کرتا چلا جا.شدت کے ساتھ نصیحت کر کیونکہ نصیحت کے ساتھ ہی فائدہ پہنچتا ہے.تو اگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں نہایت اعلیٰ درجہ کے مومنوں کو بھی نصیحت کی ضرورت تھی اور خو درسول اکرم ﷺ کوضرورت تھی کہ بار بار نصیحت فرمائیں تو اس کے بعد ان کے غلاموں کو یہ کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ سمجھ جائیں کہ ایک دفعہ

Page 169

خطبات طاہر جلدے 164 خطبه جمعه ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء آواز پہنچ گئی ہے اور وہی کافی ہے.ہرگز کافی نہیں.انسانی فطرت ہے اس کے اندر مختلف وقت آتے ہیں کوئی مستعدی کا وقت، کوئی کمزوری کا وقت کبھی دل کسی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے، کبھی غفلت پیدا ہو جاتی ہے.وعدہ کرتے وقت اور جذبات ہوتے ہیں، پورا کرتے وقت ان کو مشکلات پیش ہوتی ہیں.پھر بھول جاتے ہیں انسان، پھر خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم آخر پر کر لیں گے.اس لئے بار بار کی نصیحت بہت ہی اہم ہے اور اس پہلو سے بہت سی جماعتوں میں یہ غفلت ہو چکی ہے پہلے ہی کہ صد سالہ جوبلی کے کام کو ایسی اہمیت نہیں دی گئی کہ سیکرٹری کو مقرر کیا جائے یا مقرر کیا جائے تو اس کی تربیت کی جائے اس پر نظر رکھی جائے اور باقاعدہ اس کو اگر توفیق نہیں تو اس کو کام سمجھا کر جس طرح کسی شاگر د کو سکھا کر آگے بڑھایا جاتا ہے اس طرح اس کو آگے بڑھایا جائے.اس کے علاوہ ایک کمزوری جو نظر آئی ہے وہ یہ ہے کہ مختلف وقتوں میں جو میں نے چندوں کی تحریکات کی ہیں ان کو میری زبان میں جہاں پہنچایا جا سکتا تھا وہاں نہیں پہنچایا گیا اور ان خطبوں کو اگر ترجمہ کر کے پیش کیا جا سکتا تھا تو ترجمہ کر کے پیش نہیں کیا گیا اور بہت بڑی تعداد ایسی ہے بعض ممالک میں جنہوں نے خلیفہ وقت کی آواز میں ان تحریکات کو سنا ہی نہیں.چنانچہ اس کے ثبوت اب اس طرح مہیا ہورہے ہیں کہ جب میں نے گزشتہ خطبہ میں تحریکات کا ذکر اکٹھا کیا اور بتایا کہ یہ بھی تحریک تھی ، یہ بھی تحریک تھی تو کثرت سے ایسے خطوط مل رہے ہیں مسلسل جس میں دوست لکھتے ہیں کہ ہمیں پتاہی نہیں تھا کہ یہ تحریک بھی تھی اور ہم تک تو نہیں آواز پہنچی پہلے لیکن ہم محروم نہیں رہنا چاہتے اس لئے باوجود اس کے کہ اب بوجھ زیادہ ہیں لیکن ہم تھوڑا سا حصہ لینا چاہتے ہیں جتنا خدا نے توفیق دی ہے وہ ہی قبول کریں.تو اس پہلو سے یہ جو غفلت ہے یہ دوہرا جرم بن جاتی ہے.جماعتی ضروریات تو ہیں ہی اللہ کے فضل کے ساتھ وہ پھیلتی چلی جارہی ہیں اور خدا ان کو پورا بھی کرتا چلا جارہا ہے لیکن ایک چندہ دینے والے کی اپنی ضرورت ہے وہ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ چندہ دینے والا جب خدا کی راہ میں قربانی کرتا ہے تو اس کا روحانی معیار بلند ہوتا ہے اس کے دل میں ایسی پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جو اس کی روز مرہ کی زندگی پر اچھے رنگ میں اثر انداز ہوتی ہیں اور اس کی حالت تبدیل ہونے لگتی ہے.یہی وجہ ہے کہ میں بار بار اس بات پر زور دیتا رہا ہوں کہ چندے کی رقم پر اتنی نگاہ نہ کریں

Page 170

خطبات طاہر جلدے 165 خطبہ جمعہ ا ا/ مارچ ۱۹۸۸ء جتنی چندہ دینے والوں کی تعداد پر نگاہ کریں.جتنے زیادہ احمدی آپ کسی چندے کی تحریک میں شامل کرتے ہیں اتنا زیادہ آپ احمدیوں کے روحانی معیار کو بلند کرنے میں کامیاب ہوتے چلے جائیں گے.کثرت کے ساتھ بچوں کو ، بوڑھوں کو ، عورتوں کو مردوں کو سب کو ہر تحریک میں کچھ نہ کچھ دینے پر آمادہ کرنا چاہئے اور یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ کسی میں کم توفیق ہے.عملاً میں نے دیکھا ہے کہ بعض بڑی بڑی جماعتوں میں بھی رجحان آخری رقم کی طرف رہتا ہے.چنانچہ بعض ممالک کہتے ہیں ہم نے چھلی دفعہ ہیں لاکھ کا وعدہ کیا تھا اب پچاس لاکھ کا کر رہے ہیں.گویا کہ وہ کہتے ہیں اب بتاؤ اس سے زیادہ کیا چاہتے ہو.پچاس لاکھ ہو گیا بس کافی ہے حالانکہ وہ پچاس لاکھ بعض دفعہ صرف اس جماعت کے متمول لوگوں کی قربانی ہوتی ہے اور ایک بہت بڑی تعداد غرباء کی یا نسبتا کم تو فیق رکھنے والوں کی اس قربانی سے محروم رہ جاتی ہے.ان کی طرف ان کو خیال نہیں ہوتا.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اتنا پیش کر دیا اب اور ہم سے کیا مانگتے ہیں حالانکہ خدا کی راہ میں قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ قربانی کرنے والے کا معیار بلند ہو اور اس کی تربیت ہو اور اس کا اپنے رب سے تعلق ہو.اگر یہ فلسفہ نہ ہوتا تو خدا تو غنی ہے اس کو تو بندے کی قربانی کی کوئی احتیاج نہیں ہے.پھر تو یہ سارا قصہ ہی ایک بہت بڑا الغوقصہ بن جائے گا کہ اللہ کو پیسے کی ضرورت ہے تم پیسے دو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اللہ غنی ہے.وَأَنتُمُ الْفُقَرَآءُ (محمد (۳۹) خدا تو محتاج نہیں ہے تم فقیر ہو اس کی راہ میں.پیسہ دینے والا کس بات کا فقیر ہوا کرتا ہے؟ جو پیسہ دے اسے آپ فقیر کیسے کہہ سکتے ہیں؟ وہ فقیر ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ، وہ محتاج ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا، اس کی محبت اور اس کے پیار کا اور قربانی کے ذریعے اور تحفے کے ذریعے حبتیں نشو ونما پاتی ہیں اور تعلقات استوار ہوتے ہیں.انسانی زندگی میں بھی یہی فلسفہ ہے.آپ اپنے دوست کسی محبوب کے لئے کچھ قربانی کرتے ہیں تو اس کی لذت آپ کو قربانی دینے کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں آپ اس کے قریب جاتے ہیں اور وہ دوست جس کی خاطر آپ قربانی کرتے ہیں وہ آپ کے قریب آتا ہے.تو قربانی دینے والا اگر محبت کے نتیجے میں قربانی دیتا ہے تو وہ ہمیشہ فقیر رہتا ہے.اس بات کا فقیر رہتا ہے کہ جس کے لئے دی جارہی ہے وہ قبول کرے اور اگر وہ رد کر دے تو اسے صدمہ پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک عظیم الشان فلسفہ قربانی کا ہمیں سمجھا دیا کہ تم جب تک

Page 171

خطبات طاہر جلدے 166 خطبہ جمعہ ا ا/ مارچ ۱۹۸۸ء فقیروں کی طرح قربانی نہیں کرتے تمہاری قربانی کے معنی کوئی نہیں اور ان قربانیوں کا خدا محتاج نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو کہ خدا پر احسان کر رہے ہوا سے ضرورت ہے تم نے پیش کر دیا.جب تک قربانی کے اندر ہمیشہ پیش نظر یہ بات نہ رہے کہ تم محتاج ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے بھی کچھ قبول کرے اور اس کے نتیجے میں تمہیں اپنی محبت عطا فرمائے اس وقت تک قربانی کے کوئی معنی نہیں ہیں ، کوئی حقیقت نہیں ہے.ایسا روپیہ ضائع چلا جاتا ہے اور اس پہلو سے بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم کثرت سے جماعت کے بڑوں ، چھوٹوں کو ہر قربانی میں کسی حد تک ضرور شامل کر لیں.چنانچہ وہ مالی تحریکات جو اپنے کامیاب اختتام تک اس رنگ میں پہنچ گئیں کہ جن مقاصد کے لئے وہ تحریکات کی گئی تھیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے ہو گئے مثلاً یوروپین مراکز ہیں.ان میں بھی اگر کسی احمدی نے پہلے حصہ نہیں لیا تو اس کو لینا چاہئے اب چاہے بہت تھوڑا لے.اگر ایک روپے کی توفیق ہے تو ایک روپیہ پیش کرے، ایک آنے کی توفیق ہے تو ایک آنہ پیش کرے اور جماعت کو یہ دیکھنا چاہئے کہ ان تمام تحریکات میں جہاں تک ممکن ہو سکے ساری جماعت حصہ لے لے.اب آپ زور اس بات پر نہ دیں کہ زیادہ دے، اس بات پر زور دیں کہ زیادہ قربانی کرنے والے اس نظام میں شامل ہوں اور اس پہلو سے ہر قربانی کو خوشی کے ساتھ قبول کریں خواہ قربانی قبول کرنے کی راہ میں آپ کا زیادہ خرچ ہوتا ہو بنسبت قربانی کے.ایک آنہ اگر کوئی پیش کرتا ہے اس کو آپ سمیٹتے ہیں کمپیوٹر میں ڈالتے ہیں تو اس کے اوپر زیادہ خرچ ہو جاتا ہے آنے سے بھی لیکن آنہ مقصد نہیں ہے.مقصد یہ ہے اس آنے نے اس کے دل میں یعنی آنہ پیش کرنے والے کے دل میں کیا جذبے پیدا کئے، کیسی خدا کی محبت میں اس نے یہ قربانی پیش کی اور اللہ تعالیٰ اس پر کس طرح پیار کی نگاہیں ڈالنے لگا.یہ وہ مقصد ہے.جب مقصد یہ ہے تو پھر ایسے موقع پر وہ مقدار قربانی کی روپوں پیسوں میں نہیں جانچی جاتی بلکہ اس جذبے کے لحاظ سے پر بھی جائے گی جو اس قربانی کے پیچھے جلوہ افروز ہے.اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ساری جماعتوں کو دوبارہ اس طرح یاد دہانی کرائی جائے کہ ان کو پتا لگ جائے کہ یہ تحریکات ہوئی تھیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا بہت بھاری تعداد ابھی احباب جماعت کی اور خواتین جماعت کی ایسی موجود ہے جن تک مناسب رنگ میں یہ تحریکات پہنچائی نہیں گئیں.اس لئے وہ پوری ہوگئی ہیں یا نہیں ہوئیں اس سے قطع نظر یہ آواز ضرور ہر احمدی کے کانوں

Page 172

خطبات طاہر جلدے 167 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء تک پہنچ جانی چاہئے کہ ایک یہ بھی تحریک تھی اور ایک یہ بھی تھی اور ایک یہ بھی تھی اور ایک یہ ہے ابھی بھی.اس میں جس حد تک خدا توفیق دیتا ہے تم حصہ لو.آواز کیسے پہنچائی جائے؟ اس میں اول تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو سیکرٹری ہے کسی کام کا ذمہ دار اس کی براہ راست امیر کونگرانی کرنی چاہئے اور مجالس عاملہ کو عمومی طور پرہل کر اس کام میں دلچسپی لینی چاہئے اس کی مدد کرنی چاہئے اس کو سمجھانا چاہئے کہ کس طرح یہ کام کیا جاتا ہے.پھر سیکرٹری مال کو بھی متوجہ کر نا چاہئے خصوصیت کے ساتھ کہ دعائیں کرے اور ساری مجلس عاملہ کو بھی تمام عہد یداران جماعت کو اس بارے میں دعا کرنی چاہئے.دعا کو پتا نہیں کیوں لوگ بار بار بھول جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں عمومی دعا ہو رہی ہے حالانکہ ہر کام کو پیش نظر رکھ کر اس کے لئے خصوصیت کے ساتھ توجہ کر کے دعا کرنا بہت زیادہ عظیم الشان فوائد پہنچاتا ہے اور اس تحریک کی کیفیت بدل جاتی ہے جس کے لئے آپ دعا کر رہے ہیں لیکن عمومی دعا سمجھ کے کہ جی اللہ خیر کرے، اللہ جماعت کو اچھا رکھے ، جماعت کو ترقی دے.تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری ساری دعائیں ہو گئیں یہ درست نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے مضمون کو واضح کر کے اس کے سامنے رکھنا چاہئے اس لئے نہیں کہ اس کو علم نہیں ہے اس لئے دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ آپ توجہ سے کریں اور پھر پھل دیکھیں اور پھر خدا سے آپ کی محبت بڑھے.ورنہ تو اللہ کے کام ہیں وہ خود ہی کیوں نہیں کرتا رہتا آپ سے دعا منگوانے کی کیا ضرورت ہے.آپ جو دعا کرتے ہیں تو دعا کا پھل دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے آپ کا ذاتی پیار کا محبت کا تعلق بڑھتا ہے اور پھر شرک پیدا نہیں ہوتا.سب سے بڑا دعا کا فائدہ یہ ہے.غلط نہی نہیں پیدا ہوتی اپنی ذات میں.انسان کو ہمیشہ یادر ہتا ہے کہ خدا کے کام تھے خدا نے کئے ہیں.جب تک میں دعا سے محروم تھا میں پھل سے بھی محروم تھا.جب دعا شروع کی ہے توجہ کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے پھل عطا کرنا شروع کیا ہے.اس کے نتیجے میں جس طرح مالی قربانی کرنے والا مالی قربانی سے خدا کے قریب ہوتا ہے مالی قربانی کی تحریک کرنے والا دعاؤں کے ذریعے خدا کے قریب ہوتا ہے اور اس کے اندر عظیم الشان پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.جتنے پھل اس کو لگتے ہیں ہر پھل کی جزا اس کو نصیب ہو رہی ہوتی ہے اور توجہ اس کی اپنی ذات کی طرف نہیں رہتی خدا تعالیٰ کی طرف رہتی ہے کہ میری طرف سے نہیں ہوا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے.

Page 173

خطبات طاہر جلدے 168 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء تو جہاں بھی دعاؤں میں کمی دیکھی گئی ہے وہاں کام کے نتائج میں ایک لازمی کمی خود بخود واقع ہو جاتی ہے.اس کے علاوہ ان کو رابطہ رکھنا چاہئے خلیفہ وقت سے بھی.اپنے لئے دعا کے لئے لکھنا چاہئے.ایک تو خلیفہ وقت کو معلوم ہوگا کہ وہ کیا کام کر رہے ہیں ان کے لئے پھر دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے.نہ صرف تحریک کے لئے بلکہ اس شخص کے لئے جو یہ کام کر رہا ہے بے چین ہے اس کے لئے اور چاہتا ہے کہ اس کو اچھا پھل ملے اور دوسرا اس کی نظر میں سب کچھ رہتا ہے کہ ساری دنیا میں اس وقت کہاں کیا ہو رہا ہے، کونسی کمی واقع ہوئی ہے، کس قسم کی ضرورتیں در پیش ہیں اور وہ جو دعا کے لئے خط لکھتا ہے اپنے مسائل بھی بیان کرتا ہے.ان مسائل کو حل کرنے میں اس کو خلیفہ وقت سے براہ راست دعا کے علاوہ بھی مددملتی ہے.وہ نظام جماعت کو حرکت میں لاتا ہے.جن لوگوں کی طرف سے غفلت ہو رہی ہے ان کو متوجہ کرتا ہے.جو اچھی قربانی کرنے والے ہیں ان سے رابطہ کرتا ہے، ان کے لئے دعا کرتا ہے، ان کو جو کمزور ہیں ان کو بعض دفعہ سیکرٹری کو پتا بھی نہیں ہوتا وہ براہ راست خط لکھ کر خلیفہ وقت ان کو اپنی محبت اور پیار سے متوجہ کرتا ہے اور اس پہلو سے ان کے اندر بڑی نمایاں اور پاکیزہ تبدیلی پیدا ہوتی ہے جو عام کوششوں سے نہیں ہوسکتی.تو اس بارے میں بھی جن لوگوں نے غفلت کی ہے وہ نسبتا محروم رہے ہیں فوائد سے.پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا خلیفتہ مسیح کی آواز میں اگر بات پہنچائی جائے تو اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے اور یہ کہہ دینا کہ ہم نے خلاصہ پیش کر دیا یا ہم نے یاد کرا دیا یہ ہرگز کافی نہیں ہے.بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے تمام چندے دل سے پھوٹتے ہیں دماغ سے نہیں اور دل جب تک متحرک نہیں ہوں گے ان سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوگی.رسمی یاد دہانیاں تو یہ انکم ٹیکس والوں کا کام ہے.وہ دماغ کو متوجہ کرتے ہیں ان کا دل سے کوئی تعلق نہیں.جتنا زیادہ دماغ یہ سمجھے گا کہ ہاں میں پھنس گیا ہوں مجھے دینا ہی دینا ہے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں رہا اتنا زیادہ وہ ائم ٹیکس کا نمائندہ کامیاب ہوگا لیکن خدا کی راہ میں مالی قربانیاں خالصہ محبت سے تعلق رکھتی ہیں اور محبت کا مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دل سے ہے خشک رسمی تحریکات سے اس کا کوئی بھی رابطہ نہیں ہے.چنانچہ بعض لوگ کہتے ہیں جی! ہم نے تو کر دیا ہے جماعت ہی نہیں کچھ کر رہی.تم نے کچھ کیا ہی نہیں وہم ہے تمہیں کہ تم نے کچھ کر دیا تم نے اطلاع دی ہے ان کو کہ یہ یہ قربانیاں ہیں لیکن وہ سر چشمہ جہاں سے وہ قربانیاں پھوٹنی ہیں اس سر چشمے کو تیار

Page 174

خطبات طاہر جلدے 169 خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۸۸ء کرنے کے لئے تم نے کچھ کام نہیں کیا اور جو کچھ تمہیں مہیا تھا اس سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا.چنانچہ مجھے بار بار شکائتیں ملیں افریقہ میں خصوصیت سے کہ ہم تک آپ کے خطبات پہنچتے ہی نہیں.آسانی سے ان کے ترجمے ہو سکتے ہیں اگر ہم تک پہنچیں جس طرح آپ ہمیں اب باتیں سمجھا رہے ہیں تو ہماری اور کیفیت ہوتی.ہمیں صرف رسمی اطلاع ملتی ہے یا خلاصہ ملتا ہے اس سے وہ بات پیدا نہیں ہوتی دل میں اور دل کی تحریک کا باہمی محبت کے ساتھ ایک تعلق ہے جو یک طرفہ نہیں ہے دو طرفہ ہے.عہدیداران جماعت کے ساتھ جماعت بڑے احترام کا تعلق رکھتی ہے اور بعض صورتوں میں امراء سے بڑی محبت بھی کرتی ہے لیکن یہ خیال کر لینا کہ خلیفہ وقت اور جماعت کے درمیان جو محبت کا تعلق ہے بعینہ وہی چیز ہر عہدیدار اور جماعت کے درمیان ہے یہ غلط ہے.اکثر صورتوں میں تو عشر عشیر بھی نہیں ہے.یہ ایک ایسا نظام ہے دنیا میں جس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے.کوئی دنیا میں مذہبی ہو یا غیر مذہبی لیڈر ایسا نہیں جیسا خلیفہ امیج جماعت احمدیہ کے اندر جو خلیفہ ہے وہ اور اس کے متبعین کے ساتھ یا اس جماعت کے ساتھ جس نے اس کو قبول کیا خلیفہ کے طور پر ان کے درمیان جو تعلق ہے.یہ تعلق بے مثال ہے اس کی کوئی نظیر دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی.اپنے تو خود د جانتے ہیں غیروں کی نظر بھی پڑتی ہے اور حیرت کے ساتھ اس بات پر نظر پڑتی ہے.اس لئے جس قربانی کا دل سے تعلق ہے اس آواز پر وہ دل بہت جلدی لبیک کہے گا جس آواز سے اس کو محبت ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ تحریک کرنے والا مجھ سے محبت رکھتا ہے.یہ جو رشتہ ہے باہمی محبت اور پیار کا اس کے نتیجے میں تحریک میں غیر معمولی برکت پیدا ہوتی ہے، مردہ دلوں میں جان پڑ جاتی ہے اس سے اور وہی آواز کوئی اور پہنچارہا ہے تو وہ اس حد تک نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی جتنی خلیفہ وقت کی آواز ان معاملات میں نتیجہ خیز ہوتی ہے.چنانچہ اس سے استفادہ نہیں پوری طرح کیا گیا.یہی ہے اب ہمارے لئے رستہ کے تمام جماعتیں ان کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں اور فہرستیں بنا ئیں ان خطبات کی جو مختلف تحریکات سے تعلق رکھتے ہیں.جہاں ان کے ترجمے کرانے کی ضرورت ہے وہاں ان کے ترجمے کروائے جائیں اور آغاز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت تک یا چند ایک اور کلمات خلیفہ وقت کی اپنی آواز میں سنا کر پھر اس کے ترجمے سنائے جاسکتے ہیں کیونکہ اگر ساتھ ساتھ آواز بھی ہو اور ترجمہ بھی ہوتو پھر بہت لمبا وقت

Page 175

خطبات طاہر جلدے 170 خطبہ جمعہ ا ا/ مارچ ۱۹۸۸ء ہو جائے گا مگر بہر حال کو ئی شکل نکالنی چاہئے اب اس کی اور یہ دیکھنا چاہئے ایسا انتظام لگانا پڑے گا کہ تحریک نہ کی جائے اب مزید بلکہ وہ خطبات سنا دئے جائیں ایک دفعہ جماعت کو اور پھر اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں کہ وہ خود پھر کیا اس کا نتیجہ پیدا فرماتا ہے.آئندہ چند ماہ میں اگر آپ یہ کام کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس طرح خود بخودولوں سے محبتیں پھوٹیں گی اور محبتوں کے ساتھ خدا کے حضور نذرانے پیش ہوں گے.یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت تک محروم ہیں.مجھے ان کی فکر ہے.بہت ہی عظیم الشان فوائد ہیں چندہ دینے میں یعنی خدا کی خاطر محبت کے ساتھ چندہ دینے میں اور ایسا شخص دن بدن خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کا وہ مقام نہیں ہے جو پہلے تھا اس کا مرتبہ بلند ہوتا رہتا ہے.اس فائدے سے جماعت کی ایک تعداد کو محروم رکھنا یہ بہت بڑی غفلت ہے اگر جرم نہیں تو غفلت تو کم از کم بہت بڑی ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ اس بقیہ حصہ میں سال کے جوابھی اکثر باقی ہے اس کے لئے بھی باقاعدہ ٹیمیں بنائی جائیں گی تنظیم اور ترتیب کے ساتھ کام کیا جائے گا بوجھ کو تقسیم کیا جائے گا اور امیر کی نگرانی میں مجلس عاملہ مل کر ان باتوں پر غور کر کے کاموں کو تقسیم کر دے گی اور کوشش کرے گی کہ ہر شخص تک ہر تحریک خلیفہ وقت کی آواز میں پہنچ جائے یعنی آواز سے مراد یہ ہے کہ جس طرح وہ پہنچانا چاہتا ہے.سنے والا خواہ ترجمہ بھی سن رہا ہو اس کو پتا ہو کہ یہی باتیں تھیں جو خلیفہ وقت نے جماعت کے سامنے پیش کی تھیں اور اگر کچھ کہنا ہے تو صرف یہ کہا جائے کہ اب آپ کے اوپر اکٹھا ان سب باتوں کا بوجھ مشکل ہے.اس لئے یہ نہ سوچیں کہ آپ کتنا دے سکتے ہیں جتنا بھی دے سکتے ہیں خواہ بالکل معمولی ہو وہ دے کر ان تحریکات میں شامل ہو جائیں.اس سے زیادہ تحریک نہ کی جائے یعنی روپیہ بڑھانے کی طرف توجہ نہ رہے بلکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چندہ دینے والوں کی تعداد بڑھانے کی طرف توجہ ہو اور یہ کام آئندہ چند ماہ کے اندر اگر ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ جماعت کی خدمت کرنے والوں کی تعداد میں کتنا بڑا اضافہ ہو گا.وہ سارے لوگ جو ان تحریکات سے متاثر ہو کر خدا کے لئے کچھ پیش کریں گے وہ اپنی جان بھی پھر پیش کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.نیکی میں یہی تو لطف ہے کہ وہ اور نیکیوں کے لئے دل بھی بڑھاتی ہے اور توفیق بھی بڑھاتی ہے اور مزید

Page 176

خطبات طاہر جلدے 171 خطبہ جمعہ ا ا/ مارچ ۱۹۸۸ء بچے پیدا کرتی چلی جاتی ہے.اس لئے جماعت کو جو مجموعی طاقت کی ضرورت ہے آئندہ صدی میں اس میں غیر معمولی اضافہ ہوگا انشاء اللہ تعالی.میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خواہ یہ کام مشکل بھی نظر آتا ہو آسان ہو جائے گا اگر آپ دعا کر کے اس کام کو شروع کریں گے اور اس کے بہت ہی زیادہ وسیع اور پاکیزہ نیک نتائج ظاہر ہوں گے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.نماز جمعہ کے بعد ایک نماز جنازہ غائب ہو گی.میں نے گزشتہ جمعہ میں جس بچی عزیزہ سعدیہ کے لئے دعا کی تحریک کی تھی ساتھ ہی میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ جب میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا جواب ملا کہ جس کے بعد بظاہر کوئی امید کی صورت باقی نہیں تھی لیکن جو بندے کا کام ہے وہ ہمیں تب تک کرنا چاہئے جب تک آخری تقدیر نہیں ظاہر ہو جاتی اس وقت تک دعا سے غافل نہیں ہونا چاہئے.واقعہ یہ تھا کہ عزیزہ سعدیہ میری اہلیہ کی بھتیجی اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اور حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی نواسی تھی.میری کزن ہیں پھوپھی زاد عزیزہ فوزیدان کی بیٹی ہے.بالکل نو جوانی کی عمر میں وفات پائی ہے.جب اس کی شدید بیماری کی اطلاع ملی اور میں نے دعا کی تو سونے سے پہلے ایک نظارہ سامنے آیا کہ ایک وجود ہے جس کے متعلق میں یہ نہیں جانتا کہ مرد ہے یا عورت ہے اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے لیکن وہ تنگ جسم سے چمٹے ہوئے سرخ لباس میں ملبوس ہے اور میں اس وقت تعجب کر رہا ہوں کہ یہ Underwear جس قسم کے میں جانتا ہوں یہ سرخ تو میں نے کبھی نہیں دیکھے سفید ہوتے ہیں یا شاید کوئی اور رنگ کے لیکن یہ سرخ کیوں ہے.تو اس وقت زبان پہ یہ شعر جاری ہوتا ہے اور اسی کیفیت کے اندر ہوش آنے کے بعد نہیں اسی کیفیت میں کہ: سرخ پوش که لب بام نظر می آید نہ بزوری نه بزاری نه بزر می آید یہ سرخ لباس میں ملبوس وجود جولب بام دکھائی دے رہا ہے یہ نہ زور سے واپس آئے گا نہ زر سے واپس آئے گا نہ زاری سے واپس آئے گا جو چاہو کر لو اس کی رخصت کا فیصلہ ہو چکا ہے.یہی وہ شعر ہے جو حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کو خدا تعالیٰ نے جواباً دیا تھا جب انہوں نے میری والدہ

Page 177

خطبات طاہر جلدے 172 خطبہ جمعہ اار مارچ ۱۹۸۸ء مرحومہ کی بیماری میں ان کے لئے دعا کی تھی اور ان کو بھی جوابا اللہ تعالیٰ نے یہی شعر فرمایا کہ:.سرخ پوشے کہ لب بام نظر می آید نہ بزوری نه بزاری نه بزر می آید حضرت مصلح موعود کو بھی بتا دیا گیا تھا لیکن آخر وقت تک دعاؤں سے پھر بھی وہ غافل نہیں رہے.تو اس بچی کی عملاً وفات تو چند دن پہلے ہو چکی تھی ڈاکٹری نقطہ نگاہ سے لیکن امریکہ کے قوانین کے مطابق وہ جب تک E.C جو دماغ کی بجلی کی حرکت دیکھنے کا آلہ ہے اس کے اندر جب تک Flat نہ آ جائے اس وقت تک وہ آرٹیفیشل ، مصنوعی طور پر سانس دلانے کی کوشش چھوڑتے نہیں ہیں کیونکہ ان کو خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی بعد میں مقدمہ کر دے گا کہ زندگی کا امکان تھا اور اس کو مار دیا گیا.تو اس وجہ سے جو گزشتہ چند دن ہیں ان میں ایک مصنوعی طور پر اس کی نعش رکھی گئی تھی ورنہ وہ آج سے چند دن پہلے وفات پاچکی تھی.اب انشاء اللہ اس کی نماز جنازہ ہوگی اور اس کی مغفرت کے لئے ، وہ تو ویسے بھی معصوم بچی تھی دعا تو ہو گی ہی لیکن اس کی والدہ کے لئے بہت دعا کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ اسے صبر جمیل عطا فرمائے.

Page 178

خطبات طاہر جلدے 173 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء جماعت پر مظالم کا تذکرہ.جھوٹ کے خلاف جہاد کریں ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ مارچ ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی :.اِنَّمَا يَفْتَرِى الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِايَتِ اللَّهِ وَأُولَيكَ هُمُ الْكَذِبُونَ (اقل :١٠٢) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً مفتری لوگ تو وہی ہیں جو ایمان نہیں لاتے نہ کہ خدا کی طرف سے ہونے کا دعویدار یعنی یہ مفہوم اس میں شامل ہے گویا وہ لفظوں میں بیان نہیں ہوا.اِنَّمَا يَفْتَرِى الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِايْتِ اللهِ بلا شک یقینا وہی لوگ مفتری ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر اس کے نشانات پر ایمان نہیں لاتے.وَأُولَبِكَ هُمُ الْكَذِبُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو جھوٹے ہیں.پاکستان میں مسلسل جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ہر قسم کے افتراء اور کذب سے کام لیا جارہا ہے اور جو مختلف رنگوں میں مختلف صورتوں میں مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ وقتی طور پر کبھی کچھ دیر کے لئے دیتے ہیں تو پھر دوبارہ اور زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ بند نہیں ہوا.اگر چہ دوسرے اہم مضامین کے بیان کی خاطر بسا اوقات لمبے عرصے تک ان مظالم کی تفصیل کا ذکر خطبوں میں نہیں کیا جاتا لیکن جماعت کی طرف سے خبر ناموں کی صورت میں تمام دنیا کو پاکستان کے حالات سے مطلع رکھا جارہا ہے اور جماعتوں کو بھی مطلع رکھا جارہا ہے، دوسری دنیا کو بھی جن کا جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں اس کو بھی مطلع رکھا جارہا ہے لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان کی مدد کے محتاج ہیں یا اپنے درد ناک حالات بیان کر کے کسی رحم کی توقع رکھتے ہیں.دنیا کے ساتھ ہمارا معاملہ نہیں.ہمارا معاملہ صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.انسان کا فرض ہے کہ دنیا کی

Page 179

خطبات طاہر جلدے 174 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء روز مرہ کی جو کوششیں ممکن ہیں وہ کی جائیں.امتثال امر میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہم ان ذرائع کو اختیار کرتے ہیں لیکن نہ غیر اللہ پرکوئی امید ہے نہ امید رکھنا مومن کی شان کے مطابق ہے اور نہ ہی کبھی غیر اللہ نے اللہ کے ان بندوں کی حقیقہ مدد کی ہے جو خدا کی خاطر دکھ اٹھا رہے ہوں.خدا تعالیٰ خود اپنی تقدیر کے ذریعے مدد کے سامان مہیا فرمایا کرتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہ تقدیر مختلف صورتوں میں نازل بھی ہو رہی ہے لیکن جماعت احمدیہ پاکستان جن حالات سے گزر رہی ہے ان کے پیش نظر عموماً احمدی خدا تعالیٰ کی عقوبت کی تقدیر کا انتظار بھی کر رہے ہیں.یعنی خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کے ذریعے جماعت کے زخموں پر پھائے رکھتا ہے جس طرح زخموں کی مرہم پٹی کی جاتی ہے اس طرح بے انتہا فضل نازل فرما کر ہماری توجہ دکھوں سے خوشیوں کی طرف پھیرتا ہے لیکن اس کے باوجود زخم تو اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور ان کی کسک بھی محسوس ہوتی رہتی ہے اس لئے طبعا جماعت احمدیہ میں بہت سے دوست اس بات کے متقاضی ہیں ہمنی ہیں، راہ دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عقوبت ظاہر ہو، اس کی پکڑ ظاہر ہو اور ان کے دکھتے ہوئے سینوں کو تسکین ملے.اس بارے میں میں جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عقوبت کی تقدیر کی راہ دیکھنا فی ذلتہ بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نمونہ نہیں.خدا تعالیٰ سے خیر کی دعا مانگنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سے یہ دعامانگنی چاہئے کہ جھوٹے اور بچے میں کھلی کھلی تمیز کر کے دکھا دے، یوم فرقان کو جلد لے آئے.لیکن یہ دعا مانگنا اور اس انتظار میں رہنا کہ خدا تعالیٰ کا عذاب کسی قوم کو ملیامیٹ کر دے اور انتقام کے جذبات کو دل میں اس طرح پالنا کہ گو ہم تو اب خود اپنی ذات میں انتقام لینے کے اہل نہیں مگر خدا تعالیٰ ہمارا انتقام لے.یہ رجحان مومن کی اعلیٰ درجہ کی شان کے خلاف ہے.گو بہت سے تاریخی واقعات سے پتا چلتا ہے کہ مومن بعض دفعہ ایسے دن کا انتظار کرتے بھی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ملے جو مکارم الاخلاق پہ فائز تھے یعنی جو چوٹی کے اخلاق ہیں ان کی بلندی پر سرفراز فرمائے گئے.اس لئے ان نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم انتقام کے جذبات سے مغلوب نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہے، جہاں تک کسی انسان کے بس کی بات ہے وہ خدا تعالیٰ سے عفو اور مغفرت اور رحم کی دعا مانگتا ہے.ہاں یہ دعا ضرور کرے کہ خدا تعالیٰ یوم فرقان جلد لے آئے.وہ دن جو کھرے اور کھوٹے میں کھلی کھلی تمیز کر کے دکھا دیتا ہے اور در اصل مومن کا دل یوم فرقان ہی سے ٹھنڈا ہو سکتا ہے.جہاں تک اس تکذیب کا تعلق ہے اور مظالم کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مسلسل جاری ہیں بلکہ بعض لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ سفا کی بڑھتی چلی جارہی ہے.گزشتہ دو ماہ میں بہت سے واقعات جو ہوئے ہیں ان میں سے دو واقعات جو سفا کی اور جھوٹ اور افتراءکا مرقع ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.

Page 180

خطبات طاہر جلدے 175 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء ۱۸ جنوری ۱۹۸۸ء کو اجے دن تین اشخاص ڈاکٹرنصیر احمد صاحب پڈعیدن ضلع نوابشاہ کے کلینک میں داخل ہوئے ، یہ ڈینٹسٹ تھے.ایک ساتھی کے متعلق انہوں نے کہا کہ چونکہ اس کو دانت کی تکلیف ہے اس لئے آپ اس کے دانت کا علاج کریں.چنانچہ انہوں نے کرسی پہ بٹھایا.اس کے دانت کا معائنہ کر رہے تھے کہ اچانک باقی دونوں نے ان پر خنجروں سے حملہ کر دیا اور وہ اپنی کلائیوں سے روکنے کی کوشش کرتے رہے پھر ایک چھاتی پر گہر اوار کیا جس سے وہ گر پڑے تو پھر وہ تینوں یہ نعرے لگاتے ہوئے بھاگے کہ ہم نے ایک سؤر کو ماردیا ہے اور کھلے بازار میں کسی نے ان کو پکڑا نہیں کسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی.کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس نے مزاحم ہونے کے بعد یا مزاحم ہوئے بغیر ہی ان کے متعلق گواہی دی ہو کہ اس قسم کے لوگ تھے.جہاں تک اس دوسرے حصے کا تعلق ہے گواہی کا اس کے متعلق میں یقین سے ابھی نہیں کہ سکتا کیونکہ یہ مقدمہ کی شکل میں جب یہ بات ظاہر ہوگی یعنی آگے چلے گی تو اس وقت پتا چلے گا کہ اس شہر کے، اس قصبے کے ارد گرد کے گواہ اتنی ہمت اور جرات رکھتے ہیں کہ نہیں کہ وہ سچی گواہی دے سکیں.لیکن ایک اور واقعہ اسی نوعیت کا پورے ایک ماہ کے بعد ۱۸ / فروری ۱۹۸۸ء کو بروز جمعرات شام کے بجے ہوا.وہاں بھی ایک میڈیکل سٹور میں یہ واقعہ گزرا.قاضی احمد نوابشاہ کے قریب ایک قصبہ ہے جہاں سے شاہراہ کراچی کی طرف جانے والی گزرتی ہے.اس قصبے میں ہمارے ایک میڈیکل سٹور کے مالک عبدالعزیز صاحب ہیں ان کے سٹور میں اچانک چار حملہ آور داخل ہوئے.ایک نے پیچھے سے ان کو دونوں بازوؤں کو لپیٹ کر اچھی طرح جکڑ لیا تا کہ وہ اپنا دفاع نہ کر سکیں اور تین ان پر خنجروں سے حملہ آور ہوئے.مختلف بڑے گہرے زخم ان کو آئے لیکن وہ باہمت انسان ہیں.جہاں تک ان سے ممکن ہو وہ کوشش کر کے ان خنجر کے وار کے جواصل نشانے تھے ان کو ٹالنے کے لئے ادھر ادھر حرکت کرتے رہے.مثلاً اگر دل کی طرف خنجر کا حملہ ہے تو کوشش کر کے اس وقت ایک طرف ہٹ جاتے تھے تا کہ دل بچ جائے.ایک حملہ ان کی شہ رگ پر کیا گیا.وہ اس کو اس وقت بچانے کی خاطر وہ ایک دم آگے جھکے تو جس شخص نے ان کو پکڑا ہوا تھا وہ بھی آگے جھکا اور میں خنجر کے نشانے پر آگیا اور اس کی اپنی شہ رگ کٹ گئی.اس عرصے میں قریب ہی ایک پکوڑے کی چھابڑی لگانے والا نو جوان تھا.اس کے پاس اور تو کچھ نہیں تھا اس نے وہ جس سے پکوڑے بناتے ہیں، کڑ چھا کہتے ہیں اس کو غالباً پنجابی میں اردو میں میں نہیں جانتا کیا کہتے ہیں، وہ لے کر بھاگا ان کی طرف اور اس نے غالباً ایک وار بھی کیا ان پر لیکن شور سن کر کچھ اور لوگ بھی اکٹھے ہونے شروع ہوئے اور وہ اسی حالت میں چھوڑ کر بھاگ گئے.ان میں سے ایک آدمی جس کو خنجر لگا تھا وہ تقریباً دوسو گز کے اوپر جا کر گر گیا اور وہیں اس نے جان دے دی اور دو آدمی پکڑے گئے اور تیسرا بھاگ گیا.

Page 181

خطبات طاہر جلدے 176 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء اس واقعہ کے بعد جہاں تک زخمیوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے غیر معمولی طور پر نصرت فرمائی اور خود وہ سر جن جن کے پاس یہ دوسرے مریض پہنچے وہ یہ کہ رہے تھے کہ اس کے بچنے کا تو کوئی امکان بھی نہیں.اتفاق سے ان کا خون بھی.یعنی منفی گروپ کا تھا جو بہت شاذ کے طور پر ملتا ہے لیکن قاضی احمد کے عوام کے متعلق یہ کہنا ضروری ہے کہ انہوں نے شرافت کا نہایت اعلی نمونہ دکھایا.کثرت کے ساتھ غیر احمدی تھے جو مد دکو آئے.وہ دین یا جیپ جس میں بھی ان کو زخمی حالت میں لے جایا گیاوہ بھی غیر احمدی دوستوں نے پیش کی.ہسپتال تک کثرت سے وہ پہنچے اور اپنا خون دینے کی پیشکش کی اور اس کے نتیجے میں بکثرت چونکہ لوگ پہنچے ہوئے تھے اتفاق سے دو آدمیوں کا منفی O بھی نکل آیا اور کچھ دوسرے ذرائع استعمال کئے ، گلوکوز وغیرہ دئے گئے.بہر حال وہ وقتی طور پر تو ڈاکٹر نے کہا یہ بچ گئے ہیں لیکن جگر گہری طور پر کٹ چکا تھا اور اتنے کثرت سے گہرے دار آئے تھے کہ ڈاکٹر نے کہا تھا میں نے جو ممکن ہے کر دیا ہے لیکن بچنے کی بظاہر کوئی امید نہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس کو خدا رکھنا چاہے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.چنانچہ ان کی جان بھی بچ گئی اور اردگر دلوگوں کے لئے ایک حیرت انگیز معجزہ بھی تھا اور سارے جو واقف کار تھے وہ حیران تھے کہ یہ کیسے ہو گیا.بہر حال یہ تو ان دو مظلوموں کے ساتھ گزرنے والے واقعات ہیں.جن لوگوں نے یہ ظلم کیا وہ علاقے کے معروف لوگ ہیں.ایک ان میں سے وہی ہیں جنہوں نے سکھر میں مظالم کا سلسلہ شروع کیا تھا اور علاقے کے بڑے مولوی اور پیر سمجھے جاتے ہیں.اسی دن یا دوسرے دن وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر پہنچے اور یہ رپورٹ درج کروانے کی کوشش کی کہ شخص حضرت رسول اکرم ﷺ کی شان میں بکواس کر رہاتھا.یہ چار جو مسلمان تھے یہ برداشت نہیں کر سکے اور یہ کھر کے سکول میں پڑھنے والے اسی سکول میں جہاں سے پہلے مظالم کا سلسلہ شروع ہوا تھا یہ وہاں سے گویا کہ قاضی احمد آئے ہوئے تھے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ اس قدر بے حیائی ہورہی ہے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے اکیلا آدمی دکان میں بیٹھا یہ کر رہا ہے تو انہوں نے اس پر حملہ کیا.اس کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن بہت سارے احمدی غنڈوں نے جو پہلے سے گویا سکیم بنا کر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مزاحم ہونے والوں میں سے ایک کو قتل کر دیا، ایک کواغوا کر لیا اور دو کو پکڑ کے پولیس میں پیش کر دیا.یہ پرچہ ہمارا لکھا جائے.پولیس نے سارے شہر کی گواہیاں تو نہیں لیں مگر سارے شہر کی زبان سے تو پولیس واقف تھی جو اس شہر میں واقعات گزرتے ہیں کسی شہر میں واقعات گزرتے ہیں زبان زد خلائق ہوتے ہیں سب جانتے ہیں کہ کیا ہو گیا ہے.چنانچہ اکثر پہلی رپورٹ میں پولیس اس شہرت کے بالکل مخالفانہ کوئی پر چہ نہیں لیا کرتی.بہر حال پولیس کو خدا تعالیٰ نے اس وقت یہ ہمت دی کہ اتنے بڑے دباؤ کے باوجود انہوں نے وہ جھوٹا پرچہ درج نہیں کیا لیکن جو شخص پکڑے گئے تھے ان میں سے ایک نے خود

Page 182

خطبات طاہر جلدے 177 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء جو پر چہ داخل کرایا وہی دوسرے بیان کی تکذیب کر رہا ہے.اس میں اس نے یہ بیان کیا کہ ہم چار آدمی یہاں آئے تھے اس نیت سے کہ اس کو ماریں گے اور وجہ یہ تھی کہ ہمیں یہ ایسا لٹریچر دیتا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کی شان کی گستاخی تھی اور احمدی بنانے کی کوشش کرتا تھا.چنانچہ ہم اس کو مارنے کی نیت سے آئے لیکن اس دوران اس کے ساتھیوں نے ہمارے ایک ساتھی کو قتل کر دیا اور ایک کو پکڑ کر کہیں لے گئے اور باقی ہم جو ہیں ہم فریاد کے لئے حاضر ہیں.یعنی وہی مجرم جو پکڑے گئے تھے موقع پر یہ ان کی فریاد تھی.یہ سلسلہ پاکستان میں جاری ہے.جھوٹ اور کذب اور افترا کا.مارشل لاء اگر ہوتا تو بعینہ اسی طرح انہوں نے یہ کیس درج کرنا تھا جس طرح پہلے کرتے رہے ہیں.صرف فرق یہ پڑا ہے مارشل لاء کے ہٹ جانے کے نتیجے میں کہ پولیس اب اس طرح بے حیائی کے ساتھ جھوٹ درج نہیں کر سکتی جس طرح مارشل لاء کے زمانے میں فوجی حکومتوں کے کارندے کیا کرتے تھے اور یہ ایک وہاں پہلے کی نسبت اطمینان کی صورت ہے.آگے دیکھیں یہ ان کا دباؤ کیا صورت اختیار کرتا ہے.اس سلسلے میں ایک تو میں جماعت کو دعا کی تلقین کرنا چاہتا ہوں کہ وہاں کسی احمدی کی عزت اور جان مال کی کوئی حفاظت کی ضمانت نہیں ہے.ایک قصبے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اگر شریفانہ سلوک ہوا ہے تو دوسرے قصبوں میں اسی طرح کے سلوک کی عام توقع نہیں ہے اور کسی جگہ بھی احمدی کی نہ جان کی حفاظت کی ضمانت ہے، نہ عزت کی حفاظت کی ضمانت ہے ، نہ اس کے اموال کی حفاظت کی ضمانت ہے اور اس کے علاوہ بڑی کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر اتنا گندا چھالا جارہا ہے کہ دیواریں کالی کر دی گئی ہیں لکھلکھ کہ جھوٹا ہے، جھوٹا ہے اور کئی قسم کے مغلظات بکے جاتے ہیں جلسوں میں اور طرح طرح سے احمدیوں کی ایذاء رسانی کی جاتی ہے.بکثرت احمدی ان حالات سے مجھے مطلع کرتے ہیں اور یہ ملک کے کونے کونے میں سلسلہ جاری ہے لیکن ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ عوام الناس اس آواز پر لبیک نہیں کہہ رہے اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ اپنے معاملات میں مگن ہو چکے ہیں.ان کو اب اس میں دیسی کوئی نہیں رہی کہ احمدی کیا ہیں یا کیا کر رہے ہیں.یہ جو مضمون ہے اس بات کا میں نے بڑے غور سے مطالعہ کیا ہے کہ یہ کیوں ایسا ہو رہا ہے.یعنی عوام الناس کو کیا معلوم ہے کہ یہ مولوی جھوٹے ہیں اس لئے وہ یہ نہیں کر رہے یا کوئی اور وجہ ہے کہ وہ حرکت نہیں کر رہے.میرا تجزیہ مجھے یہ بتاتا ہے اور یہ اطلاعات پر بنی ہے کہ اس دوران یعنی مارشل لاء کے دوران جب سے جماعت احمدیہ کی مخالفت حکومت کی طرف سے منظم طور پر کی گئی ہے کثرت کے ساتھ قوم جرائم کا شکار ہوئی ہے اور مذہب میں بالکل دلچسپی نہیں رہی.جتنازیادہ اسلام کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے اتنا ہی زیادہ عوام الناس اسلام سے پیچھے

Page 183

خطبات طاہر جلدے 178 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء ہے ہیں اور قوم کے کردار کے کسی حصے میں بھی اسلام اب دکھائی نہیں دیتا.اس لئے ان کو احمدیوں کی دشمنی میں یا احمدیوں پر حملہ کرنے میں دلچپسی کا فقدان نہیں ہے کہ وہ سمجھتے ہیں یہ معصوم ہیں.عوام الناس کثرت سے اس پرو پیگنڈے کے نتیجے میں آپ کو شاید واقعہ وہی گندا وجود سمجھتے ہیں جس طرح آپ کے وجود کی تصویر کھینچی جارہی ہے.یہ نہیں کہ وہ مولوی کی بات بالکل نہیں مان رہے بلکہ گندا سمجھنے کے باوجودان کو دلچسپی کوئی نہیں ہے.کوئی ان میں سے یہ نہیں کہتا کہ مولوی جھوٹا ہے.وہ جھوٹا احمدیوں کو ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اس کثرت سے پروپیگینڈا ہے اخباروں میں، کتب کے ذریعے، اشتہارات کے ذریعے دیواروں پر لکھا گیا ہے کہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ عوام الناس اتنا شعور رکھتے ہیں کہ وہ سمجھیں کہ یہ سب جھوٹ اور بکو اس ہے.پروپیگینڈا اپنی ذات میں ایک بہت بڑا قومی ہتھیار ہے اور جو کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے تو وہ یقیناً اثرات پیدا کرتا ہے.اس لئے یہ صحت کی علامت نہیں ہے بلکہ ایک اور بیماری کی نشاندہی کرتی ہے بات کہ وہ کیوں ان باتوں کو ماننے کے باوجود جماعت احمدیہ سے بالعموم وہ بدسلوکی نہیں کر رہے جس کی مولوی توقع رکھتے ہیں.بعض قصبات میں تو دن رات جلسے ہو رہے ہیں، بے انتہا گند اچھالا جا رہا ہے اور عوام الناس ویسے احمدی کو دیکھتے ہیں تو ان کی نگاہوں سے پتا چلتا ہے کہ نفرت سے دیکھ رہے ہیں لیکن جس قسم کے عام فسادات مولوی پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ فسادات نہیں ہو رہے.وجہ اس کی یہی ہے کہ ساری قوم کو اس بد بخت دور نے جھوٹا بنادیا ہے اور ساری قوم کو مجرم بنا دیا ہے.چنانچہ کثرت کے ساتھ یہ اطلاعیں مل رہی ہیں کہ آج سے دس سال پہلے جو نماز کا معیار تھا آج اس کا دسواں حصہ بھی باقی نہیں رہا.جو شروع شروع میں نماز زبر دستی پڑھائی جانے لگی تھی یا حکم جاری ہوئے تھے اور اس کے لئے با قاعدہ رخصتیں بھی دی گئی تھیں اب ان باتوں کا تذکرہ بھی مذاق میں کیا جاتا ہے اور جو پہلے چند نمازی پیدا ہوئے تھے ان احکام کے نتیجے میں وہ اپنے ساتھ بہت سے دوسروں کو بھی ساتھ لے گئے ہیں اور کثرت سے اب بے نمازی پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.شراب کے خلاف مہم تھی محرمات کے خلاف مہم تھی کہ اسلام آ گیا ہے اب شراب یہاں اس ملک میں داخل نہیں ہوگی.اس کثرت سے سنا ہے اب شہروں میں شراب پی جاتی ہے کہ نو جوان عورتیں، مرد ہر تم کے، ہر طبقے کے لوگ بکثرت شراب پیتے ہیں.ایک پاکستان سے آنے والے دوست نے بتایا کہ ہم نے ایک ملازم رکھا اس سے پوچھا کہ کتنی تنخواہ لو گے؟ اس نے کہا مجھے تنخواہ کی ضرورت نہیں ہے مجھے اتنی بوتلیں مہینے کی دے دیا کریں.کہتے ہیں ہم حیران ہو کر اس کا منہ دیکھ رہے تھے یہ کیا کہ رہا ہے اور وہ سنجیدہ تھا اپنی بات میں.اس کو انہوں نے یہی جواب دیا کہ اگر بوتلیں لینی ہیں

Page 184

خطبات طاہر جلدے 179 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء تو کسی اور جگہ جاؤ احمدی کے گھروں میں تمہیں بوتلیں نہیں ملیں گی لیکن یہ واقعہ اپنی ذات میں بہت ہی خطرناک صورتحال کا مظہر ہے.یعنی مارشل لاء نے جو اسلام کے نام پر زندگی حاصل کی اس عرصے میں اسلام کو جو نقصان پہنچایا ہے یہ اس کی داستان ہے اور بعد میں جو بھی حکومت ہے وہ کلیہ اس معاملے میں بے بس ہو چکی ہے.ہے تو وہ سیاسی نام پر مارشل لا نہیں ہے لیکن مارشل لاء کے بہت سے تحفظات اس حکومت کو حاصل ہیں اور خود مارشل لاء ہی کی پیداوار ہے اور انہی طاقتوں نے اس کو قائم رکھا ہوا ہے جو مارشل لاء کے پس پشت تھیں لیکن اس میں طاقت مارشل لاء کے دور سے بہر حال کم ہے اور اصلاح کی طاقت تو بالکل نام و نشان کو بھی نہیں.بالکل بے بسی کا عالم ہے.شراب بہت مضر چیز ہے یعنی شیطانیت کی طرف لے جانے والا ایک آلہ کار ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اس سے بھی بدتر چیز Drug Abuse ہے یعنی ایسی نشہ آور دوائیں جوز ہر کا حکم رکھتی ہیں وہ صرف روح کو زخمی نہیں کرتی بلکہ جسم کو بھی زخمی کرتی ہیں، دماغ کو بھی زخمی کرتی ہیں، انسان کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتیں.اس کے متعلق اطلاعیں مل رہی ہیں کہ پاکستان میں اس قدر ڈرگز پھیل گئی ہیں سکولوں میں، کالجوں میں ، یو نیورسٹیوں میں، گلیوں میں ، مزدوروں میں، آجروں میں، اجیروں میں ہر جگہ یہ ڈرگز کی وبا پھیل گئی ہے اور ارب ہا ارب روپے کی تجارت ہے جواسی پر مبنی ہے.اتنے کثرت سے ڈرگ کے مریض وہاں بڑھتے چلے جارہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اسی نسبت سے جرائم بھی بڑھ رہے ہیں کیونکہ ڈرگ کے عادی کو جب ایک دفعہ عادی بنا دیا جاتا ہے اس کے بعد انہی دواؤاں کو جو پہلے نسبتا کم قیمت پر اس کو دی جاتی ہیں بعد میں زیادہ دام وصول کئے جاتے ہیں.یہ ہے بنیادی اس ریکٹ کا راز.یعنی پہلے ایک آدمی کو مفت بھی دے دیتے ہیں ڈرگ اس کے بعد جب اس کو اس کا مزہ پڑتا ہے تو اس کو تھوڑی سی قیمت وصول کرنی شروع کر دیتے ہیں.پھر جوں جوں وہ عادی اور مجبور ہوتا چلا جاتا ہے اس سے زیادہ پیسوں کا مطالبہ ہونا شروع ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ بہت سے ایسے واقعات جو احمدیوں کے علم میں ہیں جو مجھے بتاتے ہیں ان میں سے اس قسم کے بھی نہایت ذلیل اور خوفناک واقعات ہیں کہ ایک لڑکے کوڈرگ کی عادت پڑی ہے وہ پیسے نہ ہونے کے نتیجے میں شروع میں تو گھر سے مانگ کر لے جاتا رہا پھر اس نے اپنی ماں کو مارنا شروع کیا اور جب بھی ضرورت پڑتی تھی ماں کے اوپر ظلم کر کے اس سے پیسے اگلوا تا تھا.یہاں تک کہ پھر گھر کی چوریاں بھی شروع کیں زیور بیچ دیئے ، دوسری چیزیں اٹھائیں اور چرائیں اور جس حد تک بھی اس کے بس میں تھا ہر قسم کی شیطانی حرکتیں کر کے اس نے اپنی اس طلب کو پورا کرنے کی کوشش کی.اور یہ واقعات ایک دو نہیں ہیں کثرت کے ساتھ سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور گھر پر جب مظالم کے بعد گھروں میں کچھ باقی نہیں رہتا تو یہی لوگ پھر چورا چکے بنتے ہیں،

Page 185

خطبات طاہر جلدے 180 لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں اور کئی قسم کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں.خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء اس صورتحال پر مستزاد یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ ہتھیار ملک میں پھیل گئے ہیں.جو امریکن حکومت کی طرف سے افغانستان کے مجاہدین کے نام پر مدددی گئی تھی خود ان کے ماہرین کی طرف سے جور پورٹیں شائع ہوئی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ مجاہدین تک صرف پچیس فیصد ہتھیار پہنچے ہیں اور جہاں تک روپے کا تعلق ہے ان کا خیال ہے کہ اس سے بھی کم روپیہ مجاہدین تک پہنچا ہے اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہاں کیا حال ہوا ہوگا.ایک ایسے ملک میں کیا حال ہوا ہو گا جہاں دو ارب روپے کے بعض ہتھیار بھجوائے گئے اس میں سے پچھتر فیصد ہتھیار ملک کے اندر کہیں ادھر ادھر تقسیم کر دئے گئے.وہ روپیہ کہاں سے آیا، یہ ڈرگ کے چکر کے ساتھ اس بات کا بھی تعلق ہے اور جو روپیہ امریکہ نے افغانستان کے مجاہدین کے لئے بھجوایاوہ رو پی بھی ملک کے اندرہی تقسیم ہوا ہے اسی روپیہ سے پھر یہ ہتھیار بھی خریدے گئے اور بھی کئی قسم کے ایسے موجبات ہیں جن کے نتیجے میں ملک کے اندر روپیہ بڑھ رہا ہے.ایک طرف غربت اور فلاکت بھی بڑھ رہی ہے بعض طبقوں میں دوسری طرف روپیہ بھی بہت بڑھ رہا ہے.چنانچہ آنے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ساری قوم روپے کے دھندے میں مشغول ہو چکی ہے جس طرح بھی ہو سکے روپیہ کمانا ہے اور بے شمار روپیہ دکھائی دیتا ہے.ہتھیار کثرت سے ہیں ،شراب کثرت سے ہے اور بداخلاقیاں جن کی تفصیل یہاں خطبہ میں بیان کرنا مناسب نہیں وہ کثرت کے ساتھ ہیں.جوا ، قمار بازی یہ کثرت سے ہیں اور نمازوں سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اب تعلق گویا ہمیشہ کے لئے ٹوٹ چکا ہے.جس قوم کا یہ حال ہو وہ مذہبی تحریک کے نتیجے میں کیسے اکسائی جاسکتی ہے.ان کی دنیا بدل چکی ہے، ان کی دلچسپیاں مختلف ہو چکی ہیں اور ہمارے لئے یہ خوشی کی بات نہیں بلکہ ایک نہایت ہی تکلیف دہ خبر ہے کیونکہ جماعت احمدیہ نے تو سچائی پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے، جماعت احمدیہ نے تو اخلاق کو سدھارنا ہے.اگر جماعت احمد یہ سچائی اور اخلاق کی علمبردار نہیں تو پھر مذہب کی کوئی بھی حقیقت نہیں اور جتنی قوم جھوٹ کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے اتنا جماعت احمدیہ کی مشکلات بڑھتی چلی جارہی ہیں.اس لئے ایک طرف بظاہر اطمینان کی صورت ہے کیونکہ ساری قوم جھوٹی ہو چکی ہے، ساری قوم دین سے بیزار ہو چکی ہے، اپنے قول اور اپنے عمل میں پیچھے بہتی چلی جارہی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو مذہب کے نام پر اس طرح مظالم کا نشانہ بنانے کے لئے عوام تیار نہیں ہے.یہ صورت بظاہر مطمئن کرنے والی ہے ایک پہلو سے لیکن جس جماعت کا مدعا ، زندگی کا مقصد یہی ہو کہ اس نے دین کو قائم کرنا ہے، اس نے سچائی کو قائم کرنا ہے، اس نے کھوئے ہوئے اخلاق کو دوبارہ حاصل کرنا ہے اور مٹی ہوئی نیکیوں کو دوبارہ اجاگر کرنا ہے اس جماعت کے لئے کتنی بڑی مشکلات

Page 186

خطبات طاہر جلدے 181 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء پیدا ہو چکی ہوں گی اس ملک میں اس کا تصور کریں.حکومت خود تسلیم کر چکی ہے بار بار، وہی حکومت جس نے یہ دعوی کیا تھا کہ ہم اسلام کی حفاظت کی خاطر آئے ہیں اور جب تک ہم اسلام کی خدمت مکمل نہ کر لیں ہم جانے کے لئے تیار نہیں.وہی سر براہ کھلے بندوں بار بار اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ قوم نہ کردار میں مسلمان ہے نہ مسلمان کہلانے کی مستحق باقی رہی ہے.کسی پہلو سے بھی اس قوم میں مسلمانوں والی کوئی بات نہیں رہی.گویا یہ مقصد تھا ان کے آنے کا اور ابھی تک یہ فرمایا جارہا ہے کہ ابھی میرا مقصد پورا نہیں ہوا.وہ آگے کون سے دن دیکھنے باقی ہیں اللہ بہتر جانتا ہے لیکن صورتحال یہی ہے کہ یہ قوم اپنے قول اور اپنے فعل میں جھوٹی ہو چکی ہے اور جھوٹی زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جارہی ہے.پس وہ احمدی جو یہ لکھتے ہیں کہ بڑے دردناک حالات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی جارہی ہے اخباروں میں، کتابوں میں، رسائل میں.معلموں کی شکل میں اخباروں میں چھپتے ہیں مقمے کے بتاؤ کذاب نبی کون ہے اس زمانے کا اور جو صیح بتائے گا اس کو یہ انعام ملے گا.اس قسم کے حالات گزر رہے ہیں اور ہمارادل دکھ رہا ہے.ان کو قرآن کریم پہلے ہی جواب دے چکا ہے.قرآن کریم ان کو بتا چکا ہے کہ جو مفتری ہوں خود وہ ایمان نہیں لایا کرتے اور جو ایمان نہیں لاتے وہ جھوٹے ہوا کرتے ہیں.یہ دو جگہ قرآن کریم نے اس آیت میں جھوٹ کا ذکر فرمایا ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.فرمایا إِنَّمَا يَفْتَرِى الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالتِ اللہ وہ لوگ جو افترا کے عادی ہو چکے ہوں، جن کی روز مرہ کی زندگی میں جھوٹے مقدمے بنانا، ایک دوسرے پر جھوٹ گھڑنا، جھوٹی باتیں مشتہر کرنا ان کی زندگی کا ایک جزولاینفک بن چکا ہو، ایسا حصہ بن گیا ہو ان کی زندگی کا جو ان کی زندگی کے مزاج کے طور پر داخل ہو چکا ہے.فرمایا لَا يُؤْمِنُونَ وہ اللہ کی آیتوں پر کیسے ایمان لائیں گے کیونکہ جھوٹے لوگ سچائی پر ایمان نہیں لایا کرتے.فرمایا أُولَيْكَ هُمُ الْكَذِبُونَ تمہیں کیوں دکھائی نہیں دیتا کہ یہی لوگ جھوٹے ہیں.یعنی دو جگہ جھوٹ کا ذکر فرمایا ہے.پہلے یہ تجزیہ فرمایا گیا کہ ایمان نہ لانے کی اصل بنیاد یہ ہے کہ پہلے جھوٹے ہو چکے ہیں یہ اور جو دل کا سچانہ ہو اس کو خدا تعالیٰ ایمان لانے کی توفیق ہی عطا نہیں فرماتا.اس کے مزاج کے مطابق نہیں ہوتا ایمان.اسی لئے جس قوم میں آپ کثرت کے ساتھ افتر اپردازی دیکھیں گے اس کے متعلق یہ توقع رکھنی کہ وہ ایمان لے آئے گی یہ غلط ہے قرآن کریم کی اس ازلی ابدی سچائی کے بیان کے خلاف ہے جو یہاں اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے.دوسرے فرمایا کہ یہ بات خود ان کو جھوٹا ثابت کر رہی ہے.یہ کیوں نہیں تم ان کے سامنے بات رکھتے.دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرنے والا جھٹلایا جارہا ہے اگر جھٹلانے والے جھوٹے

Page 187

خطبات طاہر جلدے 182 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء ہیں تو ان کا جھٹلانا اس کی تصدیق ہے.ان کا جھٹلا نا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ سچا ہے.اب دو قسم کے لوگ ظاہر ہوتے ہیں ہر دعویدار کے وقت میں.ایک وہ لوگ جو ایمان لے آتے ہیں ایک وہ لوگ جو جھٹلاتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں.کیسی پیاری، کیسی واضح صاف دلیل قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھ دی کہ ایسی صورت میں دعویدار کی سچائی کو اس طرح پر کھا جائے گا کہ اگر اس پر ایمان لانے والے جھوٹے اور بدکردار لوگ ہیں تو پھر ان کا ایمان اس کو جھٹلائے گا.ان کی تصدیق کوئی بھی معنی نہیں رکھے گی اور اگر اس کے منکرین جھوٹے ہیں اور بد کردار ہیں اور افترا ان کی زندگی کی عادت ہے تو پھر ان کی تکذیب پر تمہیں کیا تکلیف ہوسکتی ہے ان کی تکذیب تو اس کی تصدیق ہے حقیقت میں کیونکہ جھوٹا جس کو جھٹلائے گاوہ فی الواقعہ دراصل اس کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے کیونکہ جھوٹے کی ہر بات جھوٹی ہوتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو جتنا زیادہ جھٹلایا گیا ہے اتنا ہی ان کے جھوٹ کا مرض ظاہر ہوا ہے اور ساری قوم ہر پہلو سے جنگی ہو کر سامنے آگئی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جو ایک دوسری جگہ اس مضمون کو بیان فرمایا اس میں یہی بات دراصل ایک اٹل حقیقت کی طور پر پیش کی گئی ہے فی قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ) کہ ان کے دل کی بیماریاں جو پہلے مخفی تھیں خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ وہ بیماریاں کھل کر منظر عام پر آجائیں، سطح پر ظاہر ہوجائیں.چنانچہ فَزَادَهُمُ الله مَرَضًا خدا نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا.جب مخفی بیماریاں بڑھتی ہیں تو پھر ظاہر ہو جایا کرتی ہیں چھپی نہیں رہ سکتیں.فرمایا ان کے لئے دردناک عذاب مقدر ہے کیونکہ یہ جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں.اس لحاظ سے پاکستان میں جھٹلانے والوں کا دن بدن خود جھوٹا ہوتے چلے جانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق ہے، آپ کی تکذیب نہیں ہے.دن بدن ان کا اور گندے ہوتے چلے جانا اس بات کو کھلا کھلا ثابت کر رہا ہے کہ یہ جھٹلانے والے لوگ خدا کی نظر میں بچے نہیں ہو سکتے اگر بچے ہوتے تو ان کو یہ جزا نہ ملی اللہ کی طرف سے کیونکہ جھوٹے کے خلاف جہاد کرنا اس کے خلاف تحریک چلانا یہ خدا کی نظر میں تو ایک بہت ہی پیارا اور مقبول فعل ہونا چاہئے.جھوٹوں کے خلاف جو لوگ جہاد کرتے ہیں، ان کی تکذیب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے اور دن بدن ان میں زیادہ سچائی کی علامتیں ظاہر فرماتا چلا جاتا ہے.اس لئے اگر ایک وقت میں قوم دو حصوں میں بٹ جائے ، ایک ایمان لانے والا اور وہ سچے ہوں، ایک تکذیب کرنے والا حصہ جو جھوٹا بھی ہو اور دن بدن جھوٹ میں بڑھ رہار ہے تو پھر کسی میں ادنی سی بھی عقل ہو وہ اس

Page 188

خطبات طاہر جلدے 183 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء کے سوا نتیجہ نکال ہی نہیں سکتا کہ جھوٹے کو ماننے والے بچے نہیں ہو سکتے اور جھوٹے کی تکذیب کرنے والے اگر خود جھوٹے ہیں تو جس کی وہ تکذیب کر رہے ہیں وہ پھر جھوٹا نہیں ہو سکتا.اس طرح خدا تعالیٰ ملک میں اس حقیقت کو دن بدن زیادہ کھلا کھلا، زیادہ واضح فرماتا چلا جارہا ہے اور جس یوم فرقان کا میں نے ذکر کیا تھا اس کا اس مضمون سے تعلق ہے.قرآن کریم جو فر ما تا ہے یوم فرقان، ایک ایسا دن آتا ہے جب کھوٹے اور کھرے میں، جھوٹے اور سچے میں تمیز کر کے دکھائی جاتی ہے.وہ دن یوں نہیں آجایا کرتا اچانک جس طرح کوئی بلائے ناگہانی واقع ہو جائے.خدا تعالیٰ کی تقدیر میں اس کی تیاریاں کی جاتی ہیں اور یہ وہ تیاریاں ہیں جو آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہیں.آپ کو خدا یوم فرقان کی طرف لے جارہا ہے.جب خوب بات کھل جاتی ہے اور معاملہ اپی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اس وقت خدا تعالی کی طرف سے پکڑ آیا کرتی ہے وَلَهُمْ عَذَاب الیم کا واقعہ بھی ہو جاتا ہے لیکن مومن کی یعنی اعلیٰ درجہ کے مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس عَذَاب الیم کا انتظار کرتار ہے.مومن کو بصیرت کے ساتھ اور بصارت کے ساتھ ان واقعات کو دیکھ کر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یوم فرقان تو ظاہر ہو گیا.وہ تو خدا تعالیٰ نے فرق کر کے دکھانا شروع کر دیا ہے.اب یہ آگے جا کر کس شکل میں خوب کھل کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عذاب پر منتج ہوگا یہ ایک منطقی نتیجہ ہے اس کے لئے صرف وقت کا انتظار ہے مگر ایسی تو میں جو اس نہج پر چل پڑیں ان کے زندہ رہنے کے کوئی امکان نہیں ہوا کرتے.اس میں کسی مذہبی استدلال کی بھی ضرورت نہیں ہے.اس قسم کے کردار جو اس وقت بد قسمتی سے ہمارے پیارے وطن میں ظاہر ہورہے ہیں.یہ کردار تاریخ میں آپ مطالعہ کر کے دیکھیں جب بھی قوموں میں ظاہر ہوئے ہیں ان کو ہلاکت کی طرف لے گئے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کو ہلا کتیں دیکھنے کے لئے تماش بین کے طور پر پیدا نہیں کیا گیا.آپ کو تو ہلاک ہونے والوں کو بچانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.کسی نے کہا ہے کہ :.نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزہ تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی اگر آپ مئے عرفان کے ساقی ہیں تو گرتوں کو تھا میں اور مرتی ہوئی قوموں کو زندہ کرنے کی کوشش کریں یہ ہے آپ کا مقصد اول اور یہی بچوں کی زندگی کا مقصد ہوا کرتا ہے.اگر آپ اس مقصد کو بھول جائیں گے تو آپ بھی جھوٹ کی طرف سرکنا شروع ہو جائیں گے.یہ اعلیٰ مقصد اتنا عظیم مقصد ہے کہ اس کی حفاظت ضروری ہے اور اس کی حفاظت سب سے پہلے آپ کے دلوں میں ہوگی.اپنے دلوں کو ٹلتے رہا کریں اور سوچیں کے ہمارے دل کس

Page 189

خطبات طاہر جلدے 184 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء طرف مائل ہو رہے ہیں.اگر ان میں ہمیشہ یہ عزم زندہ ہے کہ ہم نے مرتوں کو بچانا ہے، ہم نے گرتوں کو تھامنا ہے، ہم نے بگڑتی ہوئی تقدیروں کو سنبھال کے درست کرنا ہے.تو پھر ایسے لوگ یقینا سچے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو زندہ رکھے جاتے ہیں اور زندہ کرنے کی اہلیتیں ان کو عطا کی جاتی ہیں.جیسا کہ میں نے شروع میں یہ بات کھول دی تھی سارا معاملہ ہی سچ اور جھوٹ کی تمیز کا معاملہ ہے.اس پہلو سے احمدیوں کو میرا یہ سبق ہے کہ اپنے بیچ کی حفاظت کرے.یعنی میری نصیحت ہے اور اس پر میں پہلے بھی زور دے چکا ہوں لیکن اس پہ جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے کہ جب سچائی اور جھوٹ کا مقابلہ ہو تو بہت ہی ضروری ہے کچی جماعت کے لئے کہ اپنے بیچ کی حفاظت کریں.اس پہلو سے میں بہت سے رخنے دیکھتا ہوں ، اس پہلو سے میں بہت سی کمزوریاں دیکھتا ہوں، بہت سے جھگڑے میرے سامنے آتے ہیں، بہت سے اختلافات ہیں جو قضا میں چلے جاتے ہیں پھر ان کے مقدمے میرے سامنے پیش ہوتے ہیں ان سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جو نہایت بلند معیار جس کی جماعت احمدیہ سے توقع کی جاتی ہے اس شان کے ساتھ ہمارے سب احمدیوں میں موجود نہیں بلکہ اس کے برعکس بعض احمدی کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں.اس کے برعکس بعض احمدی افترا سے بھی باز نہیں آتے.چھوٹے چھوٹے ادنی جھگڑوں میں وہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں.خاندانی رشتہ داریوں میں، عائلی تنازعوں میں کھلم کھلا جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں.پیغام دیتے ہیں لڑکیوں کے ساتھ تو وہاں کوئی جھوٹ بول دیتے ہیں یا بعض چیزوں کو چھپالیتے ہیں جو نہیں چھپانی چاہئیں، صاف گوئی سے کام نہیں لیتے.اگر چہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جس قسم کے مناظر دوسری دنیا میں دکھائی دے رہے ہیں ان کے مقابل پر احمدی بہت بلند معیار رکھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن احمدی کا معیار جھوٹوں کو مقابل پر رکھ کر نہیں پر کھا جائے گا.احمدی کا معیار بچوں کو سامنے رکھ کر پر کھا جائے گا اور بچوں میں سے بھی سچائی میں منفر د وجود جس سے زیادہ سچا انسان نہ پیدا ہو نہ ہو سکتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ہے.وہ چائی کا شہزادہ جو سچائی کی دنیا میں منفرد ہوکر چمکا، جوسچائی کی کائنات کا سورج تھا.اس کے سامنے رکھ کر اس کی کسوٹی پر احمدیوں کی سچائی کو پرکھا جائے گا.اس پہلو سے چونکہ معیار بہت ہی بلند ہے ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو اس کسوٹی کے مطابق سچا کہلانے کا مستحق ہو.اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دل کو ٹولنے کی ضرورت ہے.میں چند لوگوں کو الگ نہیں کرتا میں اپنی ذات کو بھی بیچ میں شامل کرتا ہوں اور آپ سب میرے ساتھ اس میں شامل ہیں.ہمارا سچائی کا معیار اللہ تعالیٰ نے اتنا بلند مقرر فرما دیا ہے کہ اگر ہم ساری زندگی اس معیار کو حاصل کرنے کی پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کرتے رہیں تب بھی یہ مکن نہیں ہے کہ کامل طور پر اس کا نمونہ بن سکیں لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ ہمارا ہر آنے والا دن ہمیں

Page 190

خطبات طاہر جلدے 185 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء پہلے سے سچا دیکھتا چلا جائے اور ہم پورے اخلاص کے ساتھ سچائی کی راہوں میں آگے قدم بڑھاتے رہیں یہ ممکن ہے لیکن اس کے مقابل پر جب ان لوگوں کو دیکھا جائے جو واضح جھوٹ بولتے ہیں، کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں، افترا کرتے ہیں، اپنے ادنی مفادات کی خاطر فورا جھوٹے بہانے تراشتے ہیں تو دل دہل جاتا ہے اور انسان حیران ہوتا ہے کہ اگر سچائی اور جھوٹ کا ہی جھگڑا تھا تو ہم اس حالت میں پھر قوم کو کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو چکے ہو اور ہم بچے.اس لئے جس کو ہم سچا کہتے ہیں وہی سچا شمار ہو گا جس کو تم جھوٹا کہتے ہو وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا کیونکہ تم خود جھوٹے ہو.یہی ہے آخری خلاصہ ہمارے جہاد کا ، اسی کے اوپر بات طے ہوئی ہے.اسی کے نتیجے میں یوم فرقان ظاہر ہوگا.اس لئے احمدیوں کو اپنی سچائی کی حفاظت کی طرف پہلے سے بہت زیادہ توجہ کرنی چاہئے لیکن عجیب حالت ہے انسان کی کہ غفلت کی حالت میں دن گزارتا ہے اور جب وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اپنے دفاع میں تو بسا اوقات اس شدت کے ساتھ اس پر قائم ہوتا ہے گویاوہ سچا ہے اور اس کو جھوٹا کہنے والا ایک ظالم ہے.وہ کہتا ہے اچھا مجھے تم جھوٹا کہہ رہے ہو تم ہوتے کون ہے.اتنی بیوقوفی کی حالت ہے انسان کی بعض صورتوں میں کہ وہ اپنے بنائے ہوئے جھوٹ کا بھی غلام بن جاتا ہے اور Behave اس طرح کرتا ہے، رد عمل اس طرح دکھاتا ہے گویا واقعہ سچا ہے.چنانچہ جب میرے پاس بعض مقدمے، بڑے کم آتے ہیں لیکن جتنے بھی آئیں ان میں بعض لوگ اسی طرح اپنے جھوٹ کے اوپر بڑی شدت کے ساتھ قائم ہو کر مطالبے کر رہے ہوتے ہیں.ایک صاحب کا میں نے ذکر کیا تھا پہلے بھی شاید کہ مجھے وہ لکھ رہے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ ساری زندگی میں نے جھوٹ نہیں بولا حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ساری زندگی شاید ہی انہوں نے سچ بولا ہو اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ مجھ سے کہا جس کا مطلب ہے وہ اپنے جھوٹ کے شکار ہو چکے ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ ان کی حالت کیا ہے.ایسی صورت میں بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے کام لیکن اپنے گردو پیش کی حفاظت کرنی چاہئے نصیحت سے کام لینا چاہئے.سب سے اہم بات بنیادی طور پر جھوٹ کے معاملے میں یہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جب بھی انسان کوئی غلطی کرتا ہے اور وہ غلطی پکڑی جاتی ہے تو پہلا رد عمل انسان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کا سہارا ڈھونڈتا ہے.اب جھوٹے کئی قسم کے ہیں.بعض تو پھر وہ بہانے بناتے ہیں، اپنے نفس میں سوچتے ہیں یہ یوں نہیں یوں ہے.اگر یہ کہوں گا تو بات مانی جائے گی مجھے شاید جھوٹ بھی نہ زیادہ بولنا پڑے لیکن دوسر سمجھ جائے گا کہ ہاں اس لئے اس نے ایسا کیا ہو گا.چنانچہ جو نسبتا سچے لوگ ہیں وہ اس قسم کے بہانے تراشتے ہیں اور اگر وہ خود تجزیہ کر کے دیکھیں تو ان کو پتا چلے گا کہ وہ بہانہ شروع سے ہی جھوٹا ہے.سیدھی طرح جرات ہونی چاہئے یہ کہنے کی ہاں ہم سے غلطی ہوئی ہے.

Page 191

خطبات طاہر جلدے 186 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء چنانچہ اکثر صورتوں میں اس قسم کا جھوٹ تو آپ کو اس کثرت سے ملے گا کہ آدمی کی طبیعت منغض ہو جاتی ہے اس کی کثرت دیکھ کر کسی جگہ کوئی آدمی کسی غلط کام میں پکڑا جائے آپ اسے کہیں تم نے یہ کیا کیا.بلا استثناء تو نہیں میں کہ سکتا لیکن بھاری صورتوں میں اس کا رد عمل یہ ہوگا کہ نہیں نہیں یہ نہیں آپ نہیں سمجھے بات کو میں اس لئے کر رہا تھا، اور اس لئے کر رہا تھا.حالانکہ وہ خود جانتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں میں اس لئے نہیں کر رہا تھا میں اس لئے کر رہا تھا.چنانچہ یہ جو پہلا ردعمل ہے کہ میں اپنے آپ کو صاف اور پاک کر کے دکھاؤں اس میں نیت بظاہرا اچھی ہے لیکن طریق کار غلط ہے.انسان دوسرے کے سامنے اچھا بنا چاہتا ہے یہ بنیادی فطرت ہے انسان کی اور اچھا بننے کی خاطر خدا کی نظر میں گندہ بن رہا ہوتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اس کا تجزیہ یہ فرمایا تم لوگوں سے ڈرتے ہو مجھ سے نہیں ڈرتے ، عجیب قسم کے لوگ ہو.چنانچہ جھوٹ شرک سے پیدا ہوتا ہے.اس راز کو آپ اگر سمجھ جائیں تو آپ کو جھوٹ کے خلاف جہاد میں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جھوٹ کو شرک ہی قرار دیا ہے.جب بھی آپ اپنا دفاع کرتے ہیں اس وقت دو وجود ہیں جو آپ پر نظر رکھ رہے ہیں.ایک آپ جیسے انسان جو عالم الغیب نہیں ہیں اور ایک عالم الغیب خدا جو آپ پر نظر رکھتا ہے.آپ ایک کے سامنے اچھا بن رہے ہوتے ہیں دوسرے کے سامنے گندہ بن رہے ہوتے ہیں اور جس کے سامنے آپ گندہ بن رہے ہوتے ہیں وہی ہے اس لائق کے اس کے سامنے اچھا بن کے دکھایا جائے.چنانچہ اس سے پھر جھوٹ کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اگلے جو جھوٹ کے مراحل ہیں وہ اس دبی ہوئی کمزوری کو مزید ظاہر کرتے چلے جاتے ہیں.فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًاى کی تصویر بنی شروع ہو جاتی ہے کہ چونکہ انہوں نے شروع شروع میں جو بہانے بنائے تھے وہ جھوٹے تھے اور دنیا کی نظر میں وہ جھوٹ نہیں آسکا اس لئے خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے دل کے مرض کو اور بڑھنے دے یہاں تک کہ وہ کھل کر سامنے آجائے.پھر یہی لوگ ہیں جن کا اگلا قدم کھلے جھوٹ کی طرف ہوتا ہے اور ہر جھوٹ میں ایک دفاع ہے اپنی ذات کا.اس کے نتیجے میں پھر رفتہ رفتہ ساری قوم جھوٹی ہو جاتی ہے.پھر اپنی ذات کا دفاع نہیں بلکہ دوسرے معصوموں کو پھسانے کے لئے ، ان پر ظلم کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے جس کو افترا کہتے ہیں اور اس وقت جو قوم کی حالت ہے وہ اس درجہ میں بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے.کوئی آپ مقدمہ دیکھ لیں کوئی آدمی کہیں قتل ہوا ہے اس کے نتیجے میں کھلم کھلا واضح جھوٹ بولتے ہوئے بلا استثناء کہوں تو شاید یہ مبالغہ نہیں ہو گا ایسے لوگوں کے نام لکھوائے جاتے ہیں جن کے

Page 192

خطبات طاہر جلدے 187 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء متعلق نام لکھوانے والوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ اس سانحہ کے وقت وہاں قریب بھی نہیں تھے وقوعہ کی جگہ سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا اور ایک آدمی نے اگر ایک آدمی کو مارا ہے تو دس بڑے بڑے مخالف گروہ کے آدمیوں کے نام لکھوائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ بعض بالکل معصوم لوگ پھانسی پہ بھی چڑھا دئے جاتے ہیں کیونکہ جھوٹ کے ذریعے، رشوت کے ذریعے اتنا مضبوط کیس تیار کر دیا جاتا ہے کہ بعض دفعہ معصوم آدمی کی طاقت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنا دفاع کر سکے.یہ مظالم جس ملک میں بڑھتے چلے جائیں وہاں خدا کا فضل کیسے نازل ہو سکتا ہے؟ دن بدن محرومی ہوتی چلی جارہی ہے.اس لئے اس بات کو آپ پیش نظر رکھیں کہ اگر یہ مرض ہے جھوٹ کی تو یہاں نہیں رہے گی جہاں سے آپ نے اس کو شروع کیا تھا یہ بڑھتی رہے گی اور بڑھ کر پھر یہ منظر عام پر اچھلے گی پھر نہایت ہی بھیا نک صورتیں اختیار کر جائے گی اور خدا سے آپ کا جو رشتہ ہے وہ پھر اس طرح منقطع ہو جائے گا کیونکہ ظالم کے ساتھ خدا کارشتہ نہیں رہتا کہ اس سے پھر کسی قسم کی توقع رکھنی یا اس کے پیاروں کے ساتھ پیار کا دعویٰ بالکل سراسر جھوٹ بن جاتا ہے.اب وہ مولوی صاحبان، وہ پیر صاحبان جن کو پتا ہے کہ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں ، جن کو پتا ہے کہ وہ آدمی جو مظلوم ہیں جن کے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا ان کے متعلق یہ کیس بنانا کہ اس نے قتل کروایا ہے اس سے زیادہ بڑا افترا اور کیا ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی وہ پیر ہیں ، پھر بھی وہ مذہبی عالم ہیں.ان کو یہ کیا حق ہو سکتا ہے کہ وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے کا دعوی کریں کجا یہ کہ آپ کی محبت اور آپ کے عشق میں ہم نے کسی آدمی کو مارا ہے.جھوٹ اور سچ کا کوئی بھی واسطہ نہیں آپس میں کوئی بھی تعلق نہیں ، ایک جگہ اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے.اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی محبت اور عشق کے ساتھ جھوٹ اکٹھا نہیں پنپ سکتا ان کی یہ کیفیت ہو چکی ہے.احمدیوں نے بھی اگر فوری طور پر اپنی اس حالت کونہ سمجھا، اپنے دلوں کا تجز یہ نہ کیا اور روزمرہ کی زندگی میں جھوٹ سے بچنے کی باقاعدہ کوشش نہ کی مہم بنا کر سوچ کر بالا رادہ اس وقت تک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی سچائی کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی.معاشرے جس میں رفتہ رفتہ کم تعداد کے لوگوں پر غالب آجایا کرتے ہیں.ان کے مقابلے کے لئے ایک با قاعدہ نیت کر کے جدو جہد کی ضرورت پڑتی ہے ہمنصوبہ بنا کر جدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے.اس لئے ساری جماعت احمد یہ پاکستان کو خصوصیت کے ساتھ ، ساری دنیا کی جماعتوں کو بالعموم لیکن پاکستان کی جماعت کو خصوصیت کے ساتھ جھوٹ کے خلاف منصوبہ بنانا چاہئے اور گھروں سے اس کا آغاز کرنا چاہئے.ایک دفعہ جب آپ جھوٹ کے عادی ہوں جیسے کہ میں نے بیان کیا یہ ہر قسم کی بدیوں میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے.پس جھوٹے عمل سے جھوٹ پیدا ہوتا ہے اس دوسرے راز کو بھی آپ خوب اچھی طرح سمجھ لیں کیونکہ ہر

Page 193

خطبات طاہر جلدے 188 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء دفعہ جب آپ جھوٹ کا تجزیہ کریں گے آپ دیکھیں گے کہ ایک آدمی غلط عمل میں پکڑا گیا اور اس غلط عمل کو سچا دکھانے کی خاطر اس کو جھوٹ بولنا پڑا.اگر یہ بات ہے اور ہے ہی یہ بات تو جب تک احمدی سچا عمل نہیں کرتا اس کی سچائی کی کوئی ضمانت نہیں کیونکہ ایسے بہادر بہت کم دنیا میں ہوتے ہیں جو غلط عمل میں پکڑے جائیں اور پھر سچ بولیں.اس لئے اگر احمدی نے سچا ہونا ہے تو اس کو سچا عمل کرنا ہوگا.جھوٹے عمل کے ساتھ سچائی نہیں رہ سکتی اور امر واقعہ یہ ہے کہ زبان پر جو بات جاری ہوتی ہے وہ پہلے دل میں اور عمل میں بنتی ہے.اگر عمل سچا ہے تو سچائی ظاہر ہوگی اگر عمل جھوٹا ہے تو جھوٹ ظاہر ہو گا.اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ جھوٹ کے خلاف جہاد کرو تو یہ مراد نہیں ہے کہ علامتیں اس کی Suppress کر دو.جو بیماری کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں ان کو دبا دو بلکہ بیماریوں کو جڑوں سے اکھیڑو.ان اعمال کے خلاف جہاد کرو جن کے نتیجے میں جھوٹ نے پیدا ہونا ہی ہونا ہے اور پھر ایک دفعہ جب وہ اعمال پیدا ہو جائیں تو پھر جھوٹ کا مقابلہ کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ بچوں میں شروع میں جرات پیدا کرنی چاہئے.بچوں میں اگر آپ یہ کام زیادہ توجہ سے کریں تو نسبتاً بہت آسان ہے.ماؤں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے، اسی طرح باپ کی بھی اور بڑے بھائیوں اور بہنوں کی بھی کہ بچپن سے بچوں کو سچائی پر قائم رکھیں مذاق میں بھی نہ اس کو جھوٹ بولنے دیں اور جب وہ جرم کرتا ہے اور سچ بولتا ہے تو اس کو معاف کریں، اس پہنچتی نہ کریں کیونکہ اگر آپ نے اس کی سچائی پرخی کی تو وہ خوفزدہ ہو کر جھوٹ کی طرف مائل ہو جائے گا.ایک دفعہ بچہ اگر جھوٹ کی طرف مائل ہو جائے تو پھر اس کو بڑے ہو کر سچائی کی طرف مائل کرنا سچائی کی طرف راغب کرنا بہت ہی مشکل کام ہو جائے گا.بہرحال یہ ایک تفصیلی مضمون ہے اس کی دو بنیادیں میں نے آپ کو بتادی ہیں.پہلی بنیاد جھوٹ کی شرک کے اوپر قائم ہے.غیر اللہ کا خوف اور جب غیر اللہ کا خوف اللہ کے خوف سے ٹکراتا ہے تو اللہ کا خوف دب جاتا ہے اور غیر اللہ کا غالب آجاتا ہے اس وقت لاحول کہنے کی انسان کو پھر کوئی حق باقی نہیں رہتا.جب کہتے ہیں لا حول ولا قوة جب حول غیر کا آ گیا تو الا باللہ کا سوال ہی باقی نہیں رہا.اسی طرح لاالہ کا مضمون بھی اسی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جب آپ نے دوسرے کو الہ مان ہی لیا تو پھر لا الہ الا اللہ کا کوئی مضمون باقی نہیں رہا.تو شرک کے خلاف جہاد اور جھوٹ کے خلاف جہاد اس لحاظ سے ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.دوسری بات جھوٹ کو اگر آپ نے حقیقی ختم کرنا ہے سوسائٹی سے تو نیک اعمال کی طرف متوجہ کریں، جرائم سے باز رکھیں احمدیوں کو.ہر قسم کے جرائم کے خلاف جہاد کریں تا کہ احمدی کی زندگی پاکیزہ ہو اس کو ضرورت ہی نہ پڑے جھوٹ بولنے کی.تیسرے اگر کوئی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے بداعمالی کی وجہ سے تو اس کو خدا کا خوف

Page 194

خطبات طاہر جلدے 189 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء دلائیں اور اس میں انسانی اخلاقی جرات پیدا کریں کہ پھر وہ بد اعمال کے نتیجہ بھگتنے کے لئے تیار ہو اور جھوٹے خدا کا سہارا نہ لے.بات وہی شرک پر ہی ٹوٹتی ہے آکر.یہ بھی شرک کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی بات ہے.اس کے لئے میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے بچپن میں بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جہالت زیادہ ہے اور اور بھی کئی ملکوں میں جہالت ہے لیکن ہماری جہالت کا جھوٹ کے ساتھ ایک گہرا رشتہ ہے اور اکثر مائیں، اکثر بڑے بھائی بہن، اکثر والد بھی اپنے بچوں میں بعض دفعہ جھوٹ دیکھتے ہیں اور ہنتے ہیں اس کے اوپر اور اس کی چالا کیوں پر لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں کہ اس طرح اس نے چالا کی کی اس طرح جھوٹ بولا اور اگلی نسل کی ہلاکت کے ذمہ دار بن جاتے ہیں.بہت بڑا جرم کرتے ہیں خدا اور بنی نوع انسان کے خلاف.تو میں امید رکھتا ہوں کہ جھوٹ کے خلاف جہاد کو ایک باقاعدہ منظم مرتب صورت میں ایک منصوبے کے تحت اختیار کیا جائے گا اور یہ ہر ملک کے مجالس عاملہ کا کام ہے کہ اس بارے میں بھی کبھی بیٹھیں اور غور کریں، جائزہ لیں کہ ہمارے ملک میں کیا حال ہے اور جب اس بات کا جائزہ لینا ہو تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو تنازعات احمدیوں میں پائے جاتے ہیں ان پر غور کر کے دیکھ لیں.اگر تنازعات کے وقت جھوٹ نہیں بولا جارہا تو قوم کچی ہے.اگر تنازعات کے وقت جھوٹ بولا جارہا ہے تو قوم بچی نہیں قرار دی جاسکتی.تنازعات زیادہ ہوں تو زیادہ جھوٹ ہے، تنازعات کم ہوں تو کم جھوٹ ہے یہ بھی ایک علامت ہے.تو جھگڑے جتنے زیادہ جماعتوں میں پائے جائیں گے اتنا جماعت کے اعمال کا رجحان جھوٹ کی طرف ہے.جتنا زیادہ جھگڑوں میں جھوٹ بولا جائے گا اتنا ہی زیادہ یہ جھوٹ نما آئینہ ہوگا قوم کے لئے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ حکمت کے ساتھ مناسب تجزیے کے ذریعے جائزے لیں اور پھر ان برائیوں کی تشخیص کر کے ان کو دور کرنے کی کوشش کریں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.نماز جمعہ کے بعد کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک محمد صادق صاحب ساکن جنگ پور تحصیل و ضلع اوکاڑہ ان کے متعلق چوہدری محمد یعقوب صاحب جن کے غالباً یہ ماموں تھے انہوں نے لکھا ہے بہت نیک مخلص اور سادہ طبیعت انسان تھے ، موصی تھے.بہت دور دور جا کر ان کو جمعہ پڑھنا پڑتا تھا کیونکہ وہاں ان کے گاؤں میں کوئی اور احمدی نہیں تھا.انہوں نے لکھا ہے کبھی جمعہ مس نہیں کرتے تھے اور بھی کئی خوبیاں لکھی ہیں مگر بہر حال اس وقت تفصیل سے بیان کرنے کا وقت نہیں.ایک ہمارے حامد بن ابراہیم صاحب کی جواں سال وفات کی اطلاع ملی ہے.۲۹ سال کی عمر میں دل کے دورے سے وفات پا گئے.یہ ہمارے مرحوم شہید ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر کی بیگم کے بھانجے تھے گویا عون بن عقیل اور

Page 195

خطبات طاہر جلدے 190 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۸ء مسلم بن عقیل یہ دونوں ان کے خالہ زاد بھائی تھے.مکرمہ حبیبہ بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدی محمد دین صاحب مرحوم یہ ہمارے ایک سلسلہ کے خدمت کرنے والے بشیر احمد صاحب اختر سیرالیون میں ایک احمد یہ سکول کے پرنسپل تھے ان کی والدہ کی اچانک وفات کی اطلاع ملی ہے ان کے دو بھائی وحید اور منیر یا ایک دو اور یاد نہیں مجھے نام، تین بھائی جو یہاں ہیں اس وقت انگلستان میں.ملک محمد انور صاحب گوجرانوالہ.ان کے متعلق بھی کسی دوست نے باہر سے لکھا ہے.محمد شمس الدین صاحب کیرالہ انڈیا کے.ان کے بیٹے نے کہا ہے کہ یہ ۱۹۳۴ء میں احمدی ہوئے تھے اور ان کے بیان کے مطابق اس علاقے کے پہلے احمدی تھے اور کیرالہ کی ایک جماعت کے نائب صدر تھے.مکرمہ ناصرہ صاحبہ کراچی.ان کے بیٹے امریکہ میں ہیں وہاں سے انہوں نے اطلاع بھجوائی ہے کہ میری والدہ کی کراچی میں وفات ہو گئی ہے.مکرم رشید احمد صاحب سہیل ان کی وفات امریکہ میں ہوئی ہے بہر حال خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے ہم نے جنازہ کی دعا تو خدا کے حضور کرنی ہے ان کی زیادہ تفصیل نہ بھی معلوم ہو.رشید احمد صاحب سہیل کو بھی جنازہ کی نماز میں شامل کریں.مکر مہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قریشی غلام سرور صاحب خانپور.یہ ہمارے مبلغ سلسلہ جو جرمنی میں اس وقت نائب امیر ہیں عطاء اللہ صاحب کلیم ان کی ہمشیرہ تھیں.ان کے بہنوئی بھی کچھ عرصہ پہلے وفات گئے اب یہ ان کی ہمشیرہ کی بھی ربوہ سے اطلاع ملی ہے اور یہ خود غالب خانپور میں تھیں وفات کے وقت.یہ آٹھ نماز جنازہ غائب ہیں جو انشاء اللہ نماز جمعہ کے بعد پڑھے جائیں گے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: میں ایک تصیح کرنی بھول گیا تھا.گزشتہ جمعہ یا اس سے پہلے جمعہ ایک جنازہ پڑھا گیا تھا ارشاداحمد شکیب صاحب کا.اس جنازے کے اعلان کے وقت میں نے غلطی سے یہ کہا تھا کہ ان کا ایک ہی بیٹا احمدی تھا جو واقف زندگی ہے جنہوں نے وقف کر دیا تھا باقی بھائی احمدی نہیں لیکن وہ غلط اطلاع تھی.لکھنے والے نے ہیں لکھا ہے اس کے او پر نقطہ اس طرح پڑھ گیا ہیں کے شروع میں کہ وہ نہیں پڑھ جاتا تھا.حالانکہ یہ لکھنا چاہئے تھا کہ سارے بچے احمدی ہیں باقی غیر احمدی ہیں اس کی وجہ ایک کو الگ کر کے باقیوں کے متعلق لکھا کہ باقی پانچ بھائی احمدی آگے نہیں پڑھا جا رہا تھا.اس وجہ سے وہ غلطی ہوگئی اور پاکستان سے ان کا احتجاج ملا کہ ہم تو اچھے بھلے احمدی ہیں اللہ کے فضل سے ہمیں حضور کے خطبے میں غیر احمدی بنادیا ہے.تو و غلطی ہوگئی تھی بہر حال اس کی تصحیح ضروری ہے.

Page 196

خطبات طاہر جلدے 191 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء بیویوں سے حسن سلوک کی نصیحت اپنے اندر اخلاق حسنہ پیدا کرنے کی کوشش کریں ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے جھوٹ سے متعلق بہت زیادہ پر ہیز کی ہدایت کی تھی اور جماعت کو یہ نصیحت کی تھی کہ اپنے ارد گرد جھوٹ کے خلاف ایک جہاد شروع کریں جس کا آغاز گھروں سے ہونا چاہئے کیونکہ بالعموم تمام بد عادتیں گھروں میں پرورش پاتی ہیں اور وہاں سے نکل کر پھر گلیوں اور شہروں میں بد مناظر پیدا کرتی ہیں.جھوٹ تو ہر بیماری کی جڑ ہے، ہر فساد کی جڑ ہے.ہر قسم کے گناہوں کا آغاز جھوٹ سے ہوتا ہے اور پھر ان گناہوں کا انجام بھی جھوٹ پر ہوتا ہے.دنیا میں دو قسم کے ایسے دائرے ہیں جو جہاں سے شروع ہوتے ہیں وہیں جا کر مکمل ہوتے ہیں.نیکی کا دائرہ خدا سے شروع ہوتا ہے، سچائی سے شروع ہوتا ہے اور سچائی ہی پر جا کر انجام پاتا ہے.انا لله و انا اليه راجعون کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ وہ شخص جس کا آغاز سفر سچائی سے ہوگا اور خدا تعالیٰ سے ہو گا وہ بالآخر خدا تک ہی پہنچے گا اور اس کی ساری زندگی خدا کی طرف حرکت کرنے کی ایک مثال ہوگی.گویا اس کا ہر قدم جو بظاہر آگے کی طرف اسے لے جا رہا ہے وہ انجام کا راسی منبع تک پہنچ جائے گا جس منبع سے اس کے سفر کا آغاز ہوا تھا.اسی طرح بدیوں کا حال ہے.جس شخص کی زندگی کے سفر کا آغا ز جھوٹ سے ہو اس کا انجام لازماً جھوٹ پر ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے پہلے مضمون کو کھول کر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ کی راہیں اگر تم نے تلاش کرنی ہے تو سفر تقویٰ سے شروع کرنا پڑے گا اور قرآن کریم جو تقویٰ کے سبق

Page 197

خطبات طاہر جلدے 192 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء دیتا ہے اس سے تمہیں کوئی ہدایت نہیں مل سکتی جب تک تمہارا پہلا قدم تقویٰ پر نہ ہو.چنانچہ فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرۃ:۳) یہ ہدایت دینے والی کتاب ہے لیکن متقیوں کے لئے اور سارے اسباق اس کتاب میں تقویٰ کے اوپر ہی مبنی ہیں.تقویٰ ہی کے درس دینے والی کتاب ہے.تو جس مقام سے آغاز ہوا ہے وہی دراصل آئندہ زندگی کی راہیں متعین کرنے والا مقام ہوا کرتا ہے.انما الاعمال بالنيات ( بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر : 1) میں بھی حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے یہی عظیم حکمت کا راز ہمیں سمجھایا کہ نیت کے وقت آغاز سفر کے وقت تم اپنے انجام کو خود ہی طے کر لیتے ہو اور بظاہر تم کسی سمت میں بھی حرکت کرو وہ پہلا قدم جو اٹھا ہے اس نے تمہاری آخری سمت معین کر دی ہے اس سے تم پھر اب ہٹ نہیں سکتے.اس لئے جھوٹ سے سفر کا آغاز کرنے والے کبھی بھی سچائی تک نہیں پہنچتے.ان کی زندگی میں جھوٹ کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور دوسری قسم کی بدیاں جو جھوٹ سے پیدا ہونے والی بدیاں ہیں جھوٹ ہی کے مختلف نام ہیں ان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخر ایسے شخص کا انجام ہمیشہ بد ہوتا ہے جو خدا سے دور ہے.خدا کا نام حق رکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے وہ مجسم سچائی ہے.اگر چہ حق سے مراد سچائی ہے اور سچ بولنے والا نہیں لیکن خدا تعالیٰ حق ہے ان معنوں میں کہ ہر سچائی اسی سے پھوٹتی ہے، تمام سچائیوں کا سرچشمہ ہے.اس لئے جھوٹ کو معمولی برائی سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہے.جھوٹ کے نتیجے میں جو برائیاں پیدا ہوتی ہیں ان کی تفصیل میں یہاں جانے کا وقت نہیں اس سے پہلے بھی بعض خطبات میں اس مضمون پر میں روشنی ڈال چکا ہوں.اب میں عموماً اخلاق حسنہ سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اخلاق حسنہ انسانی زندگی کو سنوارنے کے لئے اور معاشرے کو سنوارنے کے لئے بہت ہی ضروری ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جو شخص اخلاق حسنہ سے مزین نہ ہو وہ کبھی بھی خدا کو نہیں پاسکتا.جس طرح سچائی اور جھوٹ کے درمیان ایک بعد ہے اسی طرح بدخلقی اور خدا کے درمیان ایک بعد ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کو صفات حسنہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے.لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (الحشر: ۲۵) قرآن کریم نے یہ راز ہمیں بتایا کہ اس کے تمام نام حسین ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس خلق میں بھی انسان خدا سے ہٹے گا اسی کا نام بد خلقی ہے اور بدخلقی اور حسن خلق اکٹھے نہیں ہو سکتے

Page 198

خطبات طاہر جلدے 193 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء اور خدا کا ایک بھی نام ایسا نہیں جو بدخلقی کی تعلیم دینے والا ہو.پس جس جس جگہ بھی انسان حسن خلق سے الگ ہوتا ہے کسی قسم کی بدخلقی اپنے اندر پیدا کرتا ہے اسے یہ حقیقت خوب سمجھ لینی چاہئے کہ اس حصے میں اس نے خود خدا سے اپنا تعلق تو ڑلیا.اسی لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کے بعد اخلاق حسنہ پر بے انتہا زور دیا اور بار بار جماعت کو نصیحت فرمائی کہ با خدا انسان بننے سے پہلے با اخلاق انسان بننا ضروری ہے.چنانچہ صلى الله حضرت اقدس رسول اکرم حلیہ کے معجزات میں ایک بہت ہی عظیم معجزہ آپ نے یہ بیان فرمایا کہ جانوروں کو انسان بنایا، انسان کو با اخلاق انسان بنایا اور با اخلاق انسان کو باخدا انسان بنا دیا.پس وہ لوگ جس بدخلقی میں بہت ہی زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں ان کو بہائم قرار دیا جاتا ہے.ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں جانوروں سے مشابہ میں بَلْ هُمْ أَضَلُّ (الاعراف: ۱۸۰) بلکہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں یہ فرمایا کہ جانوروں کو پہلے انسان بنایا اس سے مراد یہی ہے کہ عرب میں بلکہ دنیا بھر میں اس وقت بدخلقی کا ایسا دور دورہ تھا، ایسی حکومت قائم تھی کہ بظاہر انسان نظر آنے والے وجود بھی انسان نہیں رہے تھے بلکہ انسان کے مقام سے گرکر بہیمیت کے مقام میں داخل ہو چکے تھے.ایسے وقت میں حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ نے ان کو انسان بنایا.ہر خلق کے متعلق اگر آپ غور کریں تو کسی خلق کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا کوئی آخری کنارہ ہے.اسی طرح بدیوں کے متعلق بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا ایک آخری کنارہ ہے.بدیاں شروع ہوتی ہیں ہلکی حالت میں اور بسا اوقات انسان ان بدیوں کے باوجود بھی انسان کہلانے کا مستحق رہتا ہے.پھر وہ بڑھتی رہتی ہیں ان میں شرارت کا عنصر زیادہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے فساد کا عصر زیادہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہر بدی بڑھتے بڑھتے کسی ایک جانور کی بدی کے مشابہ ہو جاتی ہے.اس مضمون پر آپ غور کریں تو آج دنیا میں جتنی بدیاں رائج ہیں ان سب کا رخ بہیمیت کی طرف نظر آتا ہے اور بعض ملکوں میں بہیمیت کے مقام تک پہنچ چکی ہیں.اب انسان کو خدا تعالیٰ نے محبت کرنے والا وجود بنایا ہے.انسان کو خدا تعالیٰ نے زوجیت کے ساتھ منسلک ہونے کی تعلیم دی ہے اس کی فطرت میں اس بات کو داخل کیا ہے اور اس کے نتیجے

Page 199

خطبات طاہر جلدے 194 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء میں قرآن کریم فرماتا ہے اسے سکینت بخشی لیکن جن قوموں نے اس مضمون کو بھلا کر اسے محض تعیش کا ذریعہ بنا لیا وہ آگے بڑھتے بڑھتے ایسے مقام تک پہنچ گئیں کہ ان کا عورت اور مرد کا آپس کا سلوک جانوروں کے سلوک کے مشابہ ہوا بلکہ بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ گندہ ہو گیا.یعنی ہر جانور کے طور اور طریق ایک جیسے نہیں ہوتے.بعض جانور بعض طور طریق میں اتنے ادنیٰ حالت کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ جانوروں میں بھی اس کیفیت میں ایک مثال بن جاتے ہیں.پس سور ہے مثلاً اس میں بعض بدیاں ، اس کے متعلق تو بدی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ جانور مکلف نہیں ہے لیکن بعض اس کی عادات اور خصلات ایسی ہیں جو اس نوع کے تعلقات میں تمام دوسرے جانوروں سے آگے بڑی ہوئی ہیں.مثلاً بعض جانوروں میں حیا ہے.بعض جانوروں میں تو اتنی حیا ہے کہ شاذ کے طور پر انسان میں ایسی حیا دکھائی دے گی لیکن بعض جانور ایسے ہیں جن میں بے حیائی بہت زیادہ ہے.سؤر اس کی ایک مثال ہے.بعض پرندے ایسے ہیں جو اپنے تعلقات میں اتنی شرم محسوس کرتے ہیں کہ ان کے متعلق سائنسدانوں نے جب تحقیق کر کے ان کو ان خاص حالتوں میں دیکھنے کی کوشش کی تو بہت ہی زیادہ محنت اور ہوشیاری اور حکمت سے کام لینا پڑا.جن جانوروں کو آپ معمولی ادنی ادنیٰ جانور سمجھتے ہیں ان میں بھی بعض خدا تعالیٰ نے اخلاق کے جو ہر بڑی بلند حالت میں رکھے ہوئے ہیں.ان کے نقطہ نگاہ سے آپ انہیں فطرت کہہ سکتے ہیں اخلاق نہیں کہہ سکتے لیکن انسان کے لئے سبق ضرور ہے.لومڑ ہے اس کے متعلق عام دنیا کا انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس میں بھی انسان کے لئے کوئی سبق ہو گا لیکن لومڑ کے جنسی تعلقات معلوم کرنے کے لئے سائنسدانوں کو اتنا جان جوکھوں سے کام لینا پڑا، اتنی محنت کرنی پڑی کہ عام حالات میں ممکن ہی نہیں تھا ان کے لئے چنانچہ ایسے کیمروں سے کام لینا پڑا جو اندھیرے میں دیکھتے ہیں اور ان کیمروں کو ان جگہوں پہ فکس کرنے کے لئے کہ جہاں ان کا خیال تھا کہ لومڑی کے جنسی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں ان کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑی کیونکہ وہ اتنا ہوشیار جانور ہے کہ اسے اگر شک پڑ جائے کہ کوئی غیر وجود اس کے اندرونی حالات کو دیکھنے کے لئے موجود ہے تو وہ اس جگہ کو چھوڑ دے گا اور کبھی بھی اپنی بے پردگی نہیں ہونے دے گا.چنانچہ اس کے لئے بھی انہوں نے بہت ہی زیادہ حیرت انگیز احتیاطوں سے کام لئے اور بالآخر وہ فلم تیار کی جس سے پتا چلتا ہے کہ لومڑ کی اندرونی زندگی نجی زندگی کیا چیز ہے.

Page 200

خطبات طاہر جلدے اصلى 195 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء تو عام انسان جس کو سمجھتا ہے کہ اس جانور میں کوئی بھی خوبی نہیں وہ بھی انسان کو حیا کا سبق دینے والا جانور ہے.تو اس قسم کے تعلقات میں جب بے حیائی بڑھی تو بڑھتے بڑھتے ایک ایسے مقام تک پہنچ گئی جہاں قانون قدرت نے ان قوموں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو چودہ سو سال پہلے یہ خبر دی گئی کہ وہ تو میں جو جنسی تعلقات میں بے راہرو ہو جاتی ہیں اور پھر بے حیا ہو جاتی ہیں اور بے حیائی میں ایسے مقام کو پہنچ جاتی ہیں کہ وہ خود اپنی بے حیائی کو منظر عام پر لا کر فخر محسوس کرتی ہیں اور دنیا کو دکھاتی ہیں کہ ہم کتنے بے حیا ہیں.ایسی قوموں کے لئے خدا نے ایک سزا مقرر فرمائی ہے کہ ان کے گلے کے بعض غدود پھولیں گے ، گلٹیاں بنیں گی اور ان کے نتیجے میں ایسی بیماری پیدا ہوگی جسے طاعون سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے یا ایک قسم کا طاعون قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ کثرت کے ساتھ بیماری ظاہر ہوگی اور ایسی بے حیا قوموں کو سزا دے گی.اس زمانے میں کسی ایسی بیماری کا کوئی علم نہیں تھا.وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس قسم کی حالت قوموں پر طاری ہو سکتی ہے اور پھر اس کی سزا کے طور پر خدا یہ حربہ استعمال فرمائے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے اس بیماری کے قرب کی خبر دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ آئندہ ایک اور قسم کا طاعون بھی ظاہر ہونے والا ہے اور وہ طاعون اکثر عیسائی ممالک میں پھیلے گا اور بڑی وضاحت کے ساتھ جو نقشہ کھینچا ہے آپ نے وہ ایڈز بیماری کا نقشہ ہے.تو اب یہ جو حالت ہے یہ جانورں کی حالت تک پہنچ کر اس سے آگے بڑھنے والا مقام ہے.یہی میں آپ کو مثال دے رہا ہوں کہ ہر بدی ایک مقام پر کھڑی نہیں ہوا کرتی نہ ہر نیکی ایک مقام پر کھڑی ہوا کرتی ہے.ایک لامتناہی سلسلہ ہے اور ایک دائرہ ہے جس میں وہ سفر کرتی رہتی ہے اور دائروں میں کوئی آخری مقام نہیں ہوا کرتا.جہاں بھی انجام ہوگا وہی بد انجام ہے اور وہی آخری انجام ہے.تو جن قوموں کے سفر بد اخلاقیوں سے شروع ہوتے ہیں وہ بداخلاقیوں کے انتہا تک پہنچ کر رہتے ہیں پھر اور زیادہ قدم آگے بڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا وہ بہیمیت کے مقام تک پہنچ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر ان کی مثال سؤروں اور بندروں جیسی ہو جاتی ہے.پس چھوٹے چھوٹے بدخلقی کے افعال اگر سر زد ہوں تو انہیں معمولی جرم نہیں سمجھنا چاہئے اور

Page 201

خطبات طاہر جلدے 196 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی بداخلاقی کی باتیں ہیں ان سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ ہر بدخلقی ایک اپنے منتہا کی طرف جاری ہونے والی چیز ہے.متحرک چیز ہے.آج آپ اس میں آگے بڑھ کر کسی انتہائی ذلیل مقام تک نہ بھی پہنچیں تو آپ کی اولا دوہاں سے اس بدی کو پکڑے گی جہاں آپ نے چھوڑا تھا اور اسے لے کر آگے بڑھے گی.پھر وہ نسل ختم ہوگی تو اگلی نسل اس بدی کو پکڑے گی اور آگے بڑھائے گی.یہاں تک کہ جس طرح إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ میں نیکیاں اپنے منتہا تک پہنچ جاتی ہیں اس طرح یہ تمام بدیاں بھی اپنے منتہا تک پہنچا کرتی ہیں اور پھر قوموں کی ہلاکت کے وقت آجاتے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ جس کا سفر بہت لمبا ہے اسے ان معاملات پر بہت زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے.وہ قومیں جنہوں نے ایک ہی نسل میں ترقی کرنی ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کر لینا ہے ان کی حالت اور ہوا کرتی ہے.وہ قومیں جنہوں نے بعض دفعہ نسلاً بعد نسل صدیوں میں جا کر اپنے اس مقصد کو حاصل کرنا ہے جس کی خاطر وہ قائم کی گئی ہیں ان کے لئے لمبے سفر والے آداب اختیار کرنے ضروری ہوا کرتے ہیں، ایسے اطوار اختیار کرنے ضروری ہوتے ہیں کہ جو لمبا عرصہ ان کا ساتھ دیں.پس جماعت احمدیہ کے لئے اعلیٰ خلق پر زور دینا بے انتہا ضروری ہے اگر اعلیٰ اخلاق کی جماعت احمدیہ نے اس نسل میں حفاظت نہیں کی تو انگلی نسل کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور اس سے اگلی نسل کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی.خصوصیت سے جو خطرہ مجھے نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ماحول چونکہ بہت تیزی سے گندہ ہو رہا ہے.صرف انگلستان یا جرمنی یا جاپان یا چین یا امریکہ کی بات نہیں ہے ہمارے ان ملکوں میں جنہیں آپ مشرقی ممالک کہتے ہیں ایسے ممالک جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پرانی قدریں ان میں زندہ ہیں تلاش کر کے دیکھیں آپ کو پرانی قدروں کے قبرستان تو وہاں دکھائی دیں گے لیکن پرانی قدریں زندہ صورتوں میں شہروں میں بستی اور چلتی پھرتی دکھائی نہیں دیں گی.اس تیزی سے اعلیٰ اخلاق پر موت وارد ہورہی ہے جیسے وبا پھیل گئی ہو جو قوموں کو ہلاک کرتی چلی جا رہی ہے.ایسی صورت میں جماعت احمدیہ پر اس کے اثرات کا ظاہر ہونا ایک لازمی چیز ہے.بعض لوگ امریکہ میں مجھ سے کہتے تھے کہ ہم کہاں جائیں.یہاں کے حالات بہت خراب ہیں ہم اپنی نسلوں کی حفاظت کیسے کریں.بعض لوگ یورپ میں مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں ہم کہاں جائیں کیوں

Page 202

خطبات طاہر جلدے 197 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء نہ ہم واپس اپنے ملکوں کو چلے جائیں.ان کو میں مختلف رنگ میں نصیحت کرتا رہا ہوں اور یہ بھی بات بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ کس ملک میں آپ جائیں گے.اس ملک میں جائیں گے جسے آپ دس سال پہلے چھوڑ کے آئے تھے.اس کی اب وہ حالت نہیں رہی جو آپ سمجھ رہے ہیں کہ اس کی ہوگی.بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے اور کیفیات میں ساری دنیا میں عظیم تبد یلیاں واقع ہو چکی ہیں.اگر آپ بدیوں کے مقابلے سے بھاگیں گے تو آپ کو آخر پہ پناہ گاہ کوئی دکھائی نہیں دے گی.کوئی جگہ نہیں ہے جہاں آپ کی حفاظت ہو سکے جہاں آپ سمجھیں کہ آپ محفوظ قلعہ میں پہنچ گئے ہیں.بدیوں سے مقابلہ ہی ایک طریق ہے زندہ رہنے کا اور اسی کا نام جہاد ہے.اسی لئے ان معاملات میں بار بار میں لفظ جہاد استعمال کرتا ہوں.یہ قرآنی تعلیم کے مطابق ہے.قرآن کریم نے بدیوں سے بچنے کے لئے جہاد کا مضمون ہمارے سامنے رکھا ہے اور یہی حقیقت جہاد ہے، یہی روح جہاد ہے.اس لئے جس ملک میں ہیں اگر آپ کے پاؤں وہاں سے اکھڑ گئے تو پھر کسی اور ملک میں آپ کے پاؤں نہیں جمیں گے.بھاگنے والا پھر بھاگتا چلا جاتا ہے اور وہ نہیں تو اس کی اگلی نسلیں مغلوب ہوتی چلی جاتی ہیں.اس لئے جہاں بھی کوئی احمدی ہے اسے بدیوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیئے اور یہ جہاد گھر سے شروع ہونا چاہئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ آپ بد اخلاقی سے بچنے کا سامان کریں قرآن کریم نے یہی مضمون ہمارے سامنے رکھا ہے.ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ (المومنون : ۹۷) بدیوں سے جہاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے پھر اگھونپ دیا کسی بدی کے سینے میں.بدی کے خلاف جہاد کا حقیقی معنی یہ ہے کہ آپ اپنے خلاؤں کو پُر کریں اور ان کو نیکیوں سے بھر دیں.جہاں نیکی داخل ہو جائے وہاں بدی نہیں آسکتی.جہاں خلا ہے وہاں بدی نے ضرور داخل ہونا ہے اور نیکی کو اپنائے بغیر آپ کسی بدی کا مقابلہ نہیں کر سکتے.پس اس لئے جب میں حسن خلق کہتا ہوں تو میری یہی مراد ہے کہ اپنے خلاؤں کو پُر کریں، اپنی عادات کو مزین کریں ، حسین بننے کی کوشش کریں، ہر معاملے میں ، خوش گفتاری میں، خوش معاملگی میں جو جو بھی انسان کے انسان سے روابط ہیں ان میں سے ہر رابطے میں اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی کوشش کریں اس کے بغیر نہ آپ بدیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، نہ آپ اس عظیم مقصد کو حاصل

Page 203

خطبات طاہر جلدے 198 خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ء کر سکتے ہیں جس کے لئے آپ کو پیدا کیا گیا ہے یعنی تمام دنیا کی آپ نے اصلاح کرنی ہے اور تمام دنیا میں خلق محمدی کی حفاظت کرنی ہے اور تمام دنیا کوخلق محمدی ﷺ سے مزین کرنا ہے.اتنا بڑا کام ہو اور گھروں میں بدخلقی کی باتیں ہوتی ہیں.یہ ایک ایسا تضاد ہے جسے خدا کی تقدیر معاف نہیں کیا کرتی.چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جنہیں گھروں میں نظر انداز کیا جاتا ہے.سب سے پہلے خاوند کا بیوی سے سلوک ہے.جو خاوند اپنی بیوی سے اخلاق نہیں برت سکتا اس نے دنیا کو کیا اخلاق سکھانے ہیں.جو ماں اپنے خاوند کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتی ، اس سے حسن معاملگی نہیں کرتی اس نے دنیا کو کیا اخلاق سکھانے ہیں.ایسا ماحول جس میں خاوند بیوی کے ساتھ بدتمیزی اختیار کر رہا ہے، بدکلامی اختیار کر رہا ہے، بد خلقی اختیار کر رہا ہے، بیوی اس کے خلاف نشوز کر رہی ہے اور باغیانہ رونہ اختیار کرتی ہے اگر وہ زیادہ جابر ہے تو اس کی عدم موجودگی میں بچوں کے کان ان کے باپ کے خلاف بھرتی ہے اور اپنی مظلومی کا رونا اپنے بچوں کے سامنے رو کر گویا اپنے خاوند کا انتقام لے رہی ہوتی ہے.ایسے ماحول میں جو بچے پلیں گے وہ دنیا کے اخلاق کی حفاظت نہیں کر سکتے.ان کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیت صادق آتی ہے: لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ (الانعام: ۱۵۲) تم اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو قتل کرنے والے ہو ایسا ہر گز نہ کرو.جب تم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اولا د کو قتل کر رہے ہو تو دنیا کو زندہ کرنے کے دعوے کیسے کر سکتے ہو.اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ تمام گھروں میں ہر خاوند اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاملگی کرے ، حسن معاشرت کرے، اس کے جذبات کا خیال رکھے، اس سے نرم کلامی کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سلسلے میں بہت ہی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے.بار بار اس موضوع پر آپ نے لب بھی کھولے اور قلم بھی اٹھایا اور آپ کے ملفوظات میں بھی یہ مضمون کثرت سے ملتا ہے اور آپ کی تحریروں میں بھی یہ مضمون کثرت سے ملتا ہے.اس لئے آج کے لئے خصوصیت سے میں نے اس حصے کو اختیار کیا ہے کہ اپنے گھروں میں خاوند اور بیوی کے تعلقات کو درست کریں ورنہ آپ کے بچوں کے اخلاق کی کوئی حفاظت نہیں ہوسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے پس کوشش کرو

Page 204

خطبات طاہر جلدے 199 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء کے اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ( النساء:۲۰) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اور حدیث میں ہے خیر کم خیر کم لاهله اور اربعین میں یہ روایت یوں بیان ہوئی ہے خیر کم خیر کم باهله) یعنی تم میں اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو.کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد : ۱۷ صفحہ: ۷۵ حاشیہ) پس جتنے بھی قضا میں ایسے معاملات ہیں جن میں نوبت طلاق تک پہنچتی ہے ان سب کا فرض ہے کہ وہ جائزہ لیں کہ انہوں نے کہیں اس فعل میں جلدی تو نہیں کی.کیا اس حد تک صبر سے کام لیا ہے جس حد تک صبر ممکن ہے.کہیں ان کی اپنی بد خلقتی تو نہیں جس کے نتیجے میں نوبت طلاق تک پہنچ رہی ہے.پس ہر انسان کو اپنا جائزہ لینا چاہئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور یہ آپ کا ارشاد آنحضرت ﷺ کے ارشاد پرمبنی ہے کہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.“ اور فرمایا: ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے.اس اتمام نعمت کا شکریہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.( ملفوظات جلد اصفحہ: ۳۰۷) اس معاملے میں مجھے اس کثرت سے شکائتیں ملتی ہیں کہ میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر ہمارے

Page 205

خطبات طاہر جلدے 200 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء گھروں میں اس طرح کے آپس کے معاملات ہیں تو پھر جماعت کی ساری محنت اکارت جائے گی اور اتنے بڑے جو انتظام بنائے جا رہے ہیں ، کارخانے قائم کئے جارہے ہیں دنیا کو اسلام کی طرف لانے کے وہ سارے بے اثر ہو جائیں گے.بدخلق انسان تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے روحانیت سے کوئی بھی علاقہ نہیں رکھتا، کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا اس کا.اور بدخلق آدمی کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ داعی الی اللہ بنے گا یا اس کی دعوت الی اللہ میں کوئی تاثیر ہوسکتی ہے.بدخلقتی تو خدا تعالیٰ کی صفات کے مقابل کی ایک چیز ہے.اسماء الحسنی کے خلاف ایک شیطانی کوشش کا نام بدخلقی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی جوڑ نہیں.صفات باری تعالیٰ اور بداخلاقی یہ ایسے ہی ہیں جیسے رات اور دن ایک کو ہوتے ہوئے دوسرا نہیں ہوسکتا وہاں.اس لئے بدخلقی کرنے والے جو اپنے گھروں میں بدخلقیاں کرتے ہیں ، اپنی بیویوں سے بدسلوکیاں کرتے ہیں ، بات بات پہ بدتمیزی کرتے ہیں حکم کی راہ اختیار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں اس میں ان کی مردانگی ہے.چنانچہ بعض ایسی اطلاعوں کے متعلق جب میں نے اپنے طور پر تحقیق کروائی تو پتا چلا کہ بعض عورتوں نے مبالغہ سے کام نہیں لیا تھا.واقعہ ان کے ساتھ ، بیچاریوں کے ساتھ روزمرہ یہی سلوک ہوتا ہے.بات بات پر جھڑ کنا، بات بات پر بدتمیزی سے ان سے گفتگو کرنا، ان کو حکم دینا کے خبر دار یہاں سے اٹھ کر وہاں بیٹھو، میں جو تمہیں کہتا ہوں یوں کرو تو یوں کرنا چاہئے.وہ باتیں جو انسان اخلاق سے نرمی سے، ملائمت سے کر سکتا ہے اور اپنے گھر کو خود جنت بنا سکتا ہے وہ بدتمیزی اور بدخلقی سے کرنے کے نتیجے میں خود اپنے ہاتھوں سے گھروں کو جہنم بنانے والی بات بن جاتی ہے اور پھر ایسے بچے جو ایسے باپ کو دیکھ رہے ہیں جو آتے ہی گھر میں ایک عذاب لے آتا ہے جس کے جانے سے گھر میں امن آتا ہے، جس کے آنے سے جہنم پیدا ہوتی ہے وہ بچے ہرگز اس باپ کے وفادار نہیں رہ سکتے اس باپ کے فرمانبردار نہیں ہو سکتے اور ایسا باپ جب ان کو نیکی کی نصیحت کرتا ہے تو ان بچوں کے دل میں اس نیکی کے خلاف رد عمل ہوتا ہے.چنانچہ وہ کبھی بھی ایسی اولاد کو نیک تعلیم دے ہی نہیں سکتے.نیکی کے لئے ضروری ہے کہ جس شخص کو نصیحت کی جارہی ہے اس کو نصیحت کرنے والے سے محبت ہو اور جو نصیحت کر رہا ہے اس کو اس سے محبت ہو جس کو وہ نصیحت کر رہا ہے.یہ ایک ایسا بنیادی نقطہ ہے جس کو بھلانے کے نتیجے میں کوئی

Page 206

خطبات طاہر جلدے 201 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء بھی نصیحت کا نظام کارگر ثابت نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ نبیوں کو چلتا ہے یہ درست ہے کہ یہ ایک موهبت ہے، ایک خدا تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے اور کوئی زبر دستی نبوت حاصل نہیں کر سکتا لیکن اللہ تعالیٰ تھے ان کو دیتا ہے جو ان تحفوں کے حقدار ہوتے ہیں خدا کی نظر میں وہ حقدار ٹھہرتے ہیں.چنانچہ ہر نبی اپنے زمانے میں اخلاق کا بہترین نمونہ تھا اور ہر نبی اپنے زمانے میں اپنی قوم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا تھا.چنانچہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سارے عالم کا نبی اس لئے بنایا گیا کہ آپ سارے عالم سے محبت کرتے تھے.ہر انسان کا مرشد اس لئے بنایا گیا کہ ہر انسان سے آپ کو پیار تھا.رحمت للعالمین کا لقب تمام دنیا کی الہی کتابوں میں کسی اور جگہ نہیں ملے گا سوائے قرآن کریم اور یہ لقب حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو خو اللہ تعالیٰ نے عطا فر مایا.پس رحمت کا نصیحت سے تعلق ہے.ایسے والدین یعنی خاوند ہو یا بیوی جو ایک دوسرے سے بدتمیزی کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے بد خلقی سے کام لیتے ہیں ان کے بچوں کے دل میں ان کی محبت ختم ہو جاتی ہے اور ان کے بچوں کے دل میں ہمیشہ باغیانہ خیال پیدا ہوتے ہیں.پھر جب وہ اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہیں تو اس نصیحت میں بھی بدخلقی پائی جاتی ہے، اس نصیحت میں بھی تکبر پایا جاتا ہے اور بدتمیزی پائی جاتی ہے اور بچہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی ذہین چیز ہے.بچے کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ اس کو پتا نہیں لگتا جو خیال کرتے ہیں ان کو نہیں پتا چلتا ہے کہ بچہ ہے کیا.بچے کو خدا تعالیٰ نے پوری ذہنی روشنی عطا کی ہوتی ہے اور بڑوں سے اس معاملے میں اس کو ایک فوقیت ہے کیونکہ روشنی طبع کو گناہ کمزور کر دیتے ہیں اور گناہ روشنی طبع کو دھندلا دیتے ہیں.بچہ چونکہ معصوم ہوتا ہے اس لئے اس کی روشنی طبع اکثر صورتوں میں بالغوں سے بڑھ کر ہوتی ہے اور وہ خود جو نتیجے اخذ کرتا ہے وہ صاف اور روشن نتیجے ہوتے ہیں کیونکہ بچے کے اندر معصومیت پائی جاتی ہے.اسی لئے سب سے زیادہ روشن ضمیر اور روشن طبع انسان خدا کے انبیاء ہوتے ہیں جو معصوم ہیں.معصومیت کا فطری روشنی سے گہرا تعلق ہے.اس لئے وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو اپنے سے بے وقوف سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ بے وقوف ہوتے ہیں کیونکہ بچے تو روشن ضمیر ہیں وہ جو دیکھ رہے ہیں، ان کو پڑھ رہے ہیں ، ان کو پتا لگ رہا ہے کہ گھر میں ہو کیا رہا ہے ، ہمارے ماں باپ کی اصل نیست کیا ہے، ان کی دلی تمنائیں کس سمت مائل ہیں اور یہ کیا چاہتے ہیں.بدی سے محبت کرنے والے لوگ

Page 207

خطبات طاہر جلدے 202 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء ہیں یا نیکی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں.چنانچہ وہ ماں باپ جو بد خلق ہوں ان کے بچے ان کی نصیحت کو نہیں قبول کرتے.کر سکتے ہی نہیں کیونکہ ان کی فطرت ان کو بتا دیتی ہے کہ اس بدخلق نے اپنی بڑائی کی خاطر ہمیں مجبور کرنے کی کوشش کی ہے، ہمیں کمزور سمجھا ہے، ہمیں اپنے سے نیچا دیکھا ہے اور چاہتے ہیں یہ لوگ کہ ہمیں زبردستی اپنے مطابق بنائیں.بچے اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنے رد عمل کو ظاہر نہیں کرتے یعنی بعض دفعہ نہیں کرتے بعض دفعہ پھر جب بہت زیادہ ایسے ماں باپ حد سے بڑھ جائیں تو پھر بد تمیزیاں بھی گھر میں ہونی شروع ہو جاتی ہیں، پھر ان بیچوں بیچاروں کو اور مار پڑتی ہے، بعضوں کی ہڈیاں تو ڑ دی جاتی ہیں مار مار کے کہ ہماری بات کیوں نہیں مانتا حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ بات نہ ماننے کی ذمہ داری خودان والدین پر ہے.انہوں نے بچپن ہی سے شروع سے ہی کچھ ایسا رویہ اختیار کیا ہے گھر میں جس کے نتیجے میں بچوں کے دلوں سے ماں باپ کا اعتما داٹھ گیا ہے اور ماں باپ اس قابل نہیں رہے کہ اس کو نصیحت کر سکیں.بچے پیار اور محبت سے اور خلوص کے ساتھ جو نصیحت کی جاتی ہے اس کے ساتھ بچے پیار اور خلوص کا ماحول بھی ہونا ضروری ہے.آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ باپ نے نصیحت جو کی تھی اس میں تو سچائی تھی لیکن جو باپ سچا نہیں ہے اس کی نصیحت بھی جھوٹی ہو جایا کرتی ہے.جو باپ بد خلق ہے اس کی نصیحت میں نیک اثر نہیں رہتا کیونکہ بدخلق آدمی کی نصیحت کوئی دوسرا شخص قبول نہیں کیا کرتا.اس لئے اپنے گھروں کے معاشرے کو درست کریں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے اوپر تلخیاں پیدا کرنا اور حو صلے ہار بیٹھنا ذراسی کسی کی کمزوری دیکھ کر یہ کوئی مردوں والی صفات نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے: ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.“ کتنے احمدی ہیں جو اس پہلو سے باحیا شمار کئے جاسکتے ہیں اور کتنے احمدی ہیں جو اس پہلو سے بے شرم شمار کئے جاسکتے ہیں.اس کی تفصیل جانچنے کا تو میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے نہ خطبوں میں ایسی تفصیلیں بیان کرنے کا موقع ہوتا ہے لیکن ہر آدمی اپنے آپ کو اس کسوٹی پر پرکھ سکتا ہے اور آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کے نزدیک وہ بے شرموں اور بے حیاؤں میں شمار ہوگا یا با حیا لوگوں میں شمار ہوگا.

Page 208

خطبات طاہر جلدے 203 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء عورتوں پر بعض لوگ اتنی جلدی کرتے ہیں بدتمیزی کرنے میں اور ہاتھ اٹھانے میں کہ حیرت ہوتی ہے اور بعض دفعہ تو مسلسل اس بیچاری کو لونڈی بنا کر یہ سمجھایا جاتا ہے کہ تم مجھ سے نیچے ہو اور تمہیں بنایا اس خاطر گیا ہے کہ تم میری نوکری کرو اور میں تمہارے ساتھ ذلت کا سلوک کروں.خدا تعالیٰ نے جہاں مرد کی فضیلت کا ذکر کیا قرآن کریم میں وہاں اس کی ایک وجہ بھی بیان فرمائی.یہ نہیں فرمایا کہ وہ ویسے افضل ہے فرمایا اس پہلو سے افضل ہے کہ وہ اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہے اس کی حاجات کا خیال رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ گویا ایک پہلو سے مرد و عورت کا نوکر بنا دیا گیا.وہ خدمتیں کرتا ہے ، محنت سے کام لیتا ہے باہر جا کے اس لئے کہ اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرے.خدمت کی فضیلت مراد ہے.اس راز کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھولا چنانچہ میں آگے ایک اقتباس پڑھوں گا اس میں آپ یہ الفاظ دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ اس کا مطلب کیا ہے.مطلب میں نے بتا دیا آپ کو مطلب اس کا یہی ہے کہ جو شخص یعنی خدا تعالیٰ نے مرد کو اس لئے پیدا کیا یا اس کے فرائض میں اس بات کو داخل فرمایا کہ وہ بہت محنت کرے اور اس کی محنت کا آخری مقصود یہ ہو کہ اپنے گھر پر اپنی بیوی کے آرام پر، اس کی آسائش پر، اس کی خواہشات پوری کرنے پر اور اپنے بچوں کی ضروریات پر اس محنت کے ماحصل ، اس کے پھل کو خرچ کریں.تو نوکری اور کیا چیز ہوا کرتی ہے اور سچی نوکری میں ہی فضیلت ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا: سیدالقوم خادمهم (الجهادلا بن المبارک کتاب الجہا د حدیث نبر ۲۰۷) خدمت کے ذریعے سیادت نصیب ہوئی.اس فضیلت کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے.خدمت کی بجائے آپ عورت کے پیسے چھینے شروع کر دیں اور اس کی کمائی پر نظر رکھیں اور شادی کے وقت یہ غور کریں کہ فلاں عورت ڈاکٹر ہے ، فلاں عورت استانی ہے گھر میں آئے گی تو اس کی تنخواہیں لے کر ہم اپنی زندگی سنواریں گے اور اپنے ماں باپ اور اپنے بہن بھائیوں پر خرچ کریں گے تو نہ آپ اس کے نوکر نہ آپ اس کے سردار، آپ تو ایک لٹیرے بن جائیں گے.ایک ایسا تعلق قائم کریں گے جس کی خدا اجازت نہیں دیتا اور انگلستان جیسے ملک میں بھی ایسی اطلاعیں ملتی ہیں کہ بعض لوگ اپنی بیویوں پر خرچ کرنے کی بجائے وہ جو حکومت کی طرف سے ان بیچاروں کو چھ سات

Page 209

خطبات طاہر جلدے 204 خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ء پاؤنڈ ملتے ہیں وہ بھی ان سے چھین لیتے ہیں کہ ہمیں دو ہم انتظام چلا ئیں گے.بازار سے سبزی روٹی لے آئے اور سمجھا کہ ہم نے بیوی کا حق ادا کر دیا ہے.بیوی کے پیسے پر نظر کی تو قرآن کریم اجازت ہی نہیں دیتا سوائے اس کے کہ وہ خوشی سے اپنے شوق سے اپنے پیار اور محبت کے نتیجے میں خود دے اور اس معاملے میں عورتوں کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر بڑا حوصلہ عطا فرمایا ہے.وہ مرد جو اپنی عورتوں سے محبت کرتے ہیں ، ان کا خیال رکھتے ہیں، ان سے حسن خلق سے پیش آتے ہیں وہ عورتیں اپنا کچھ بھی نہیں پھر بیچاری.جو کچھ ہے وہ کھلا ان کے سامنے رکھ دیتی ہیں.اس کی سب سے عظیم الشان مثال ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی میت ہے کے اپنے تعلقات میں نظر آتی ہے.حضرت خدیجہ بہت ہی دولت مند تھیں اور قریش کی غالبا سب سے زیادہ دولتمند عورت وہی تھیں.وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق سے خوب واقف تھیں کیونکہ آپ ان کے ماتحت انہی کا کام کیا کرتے تھے.جب شادی ہوئی ہے تو پہلی رات آپ نے اپنا سب کچھ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا اور اتنے کامل یقین کے ساتھ پیش کیا ، اتنی خلوص نیت کے ساتھ پیش کیا کہ جب حضرت محمد مصطفی امیہ نے وہ سارا مال غرباء میں تقسیم کر دیا تو ایک اُف تک نہیں کی.کبھی شکوہ زبان پر نہیں لائیں کیونکہ آپ کچی خاتون تھیں اور سچائی کے بلند ترین مقام تک پہنچی ہوئی تھیں.اس لئے آپ نے سچائی کو دیکھ کر ایک سچا فیصلہ کیا اور فرمایا اگر ایسا صاحب اخلاق انسان ہے اس نے کبھی بھی میرے مال پر کوئی نظر نہیں کرنی ایک ہی طریق ہے کہ میں اپنا سب کچھ اس کو حاضر کر دوں اور رسول اکرم یہ جانتے تھے کہ یہ بچی عورت ہے.اگر آپ یہ نہ جانتے تو کبھی کارروائی نہ فرماتے جو آپ نے وہ مال لیتے ہی آگے فرمائی.اگر آپ کے دل میں ادنی سا بھی شبہ ہوتا ہے کہ ان کی نیت یہ ہے کہ میں دیتی تو ہوں مگر برابر خرچ کرنا ہے گھر پر تو آپ ہرگز وہ فعل نہ کرتے جو آپ نے کیا.عظیم الشان صداقت کی دو گواہیاں ہیں جو ازدواجی تعلقات میں اتنی روشن ہیں کہ آسمان صلى الله کے ستاروں سے بڑھ کر روشنی رکھتی ہیں اور آنحضرت میہ کے خلق اور حضرت خدیجہ کے خلق کو سمجھنے کے لئے یہ ایک ہی واقعہ صاحب بصیرت کے لئے کافی ہو سکتا ہے.آپ نے حضرت محمد مصطفی میت ہے کے سامنے سب کچھ پیش کر کے نہ صرف یہ ثبوت دیا کہ آپ کے نزدیک سب سے با اخلاق اور اخلاق

Page 210

خطبات طاہر جلدے 205 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء کے کمال تک پہنچنے والا وجود تھا بلکہ آپ کی صداقت کی بھی گواہی دی اور اس کے علاوہ عورتوں کے لئے ایک عظیم الشان نہ صرف نمونہ قائم فرمایا بلکہ عورتوں کا سر ہمیشہ کے لئے بلند کر دیا.یہ بتایا کہ عورتیں صاحب حوصلہ ہوا کرتی ہیں.عورتیں چھوٹے دل کی نہیں ہوتیں.اگر تم چاہتے ہو کہ عورتیں تم سے حسن سلوک کریں تو تم ان سے حسن سلوک کرو.اگر عورتوں کو یہ یقین ہو جائے کہ ہمارا مرد سچا ہے اور صاحب خلوص ہے اور پاک دل رکھتا ہے اور ہماری طرف سے سوائے ہمارے وجود کو اس کو کوئی حرص نہیں ہے تو ایسی عورتیں پھر کبھی غیریت نہیں رکھا کرتیں اور حضرت خدیجہ نے ہمیشہ کے لئے عورتوں کو ایک ایسا خراج تحسین پیش کیا ہے کہ اس کی مثال آپ کو دنیا میں اور کہیں دکھائی نہیں دے گی.پس اس نمونے کو آپ پکڑیں.جتنا آپ حضرت محمد مصطفی امیہ کے اخلاق کے قریب ہوں گے اتنا ہی زیادہ اپنے گھروں پر اپنی بیویوں پر آپ کا نیک اثر پڑتا چلا جائے گا یہاں تک کہ پھر جہاں دونوں طرف سے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہو وہاں یہ غیریت مٹ جایا کرتی ہے یہ سوال ہی نہیں رہا کرتا کہ کون سا مال کس کا ہے.وہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے کا مال ہے اور یہی ہے وہ طریق جس سے گھر میں جنت پیدا ہوتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسی شکایتیں ملتی ہیں جو بعض دفعہ تحقیق کرو تو وہ شکایتیں مبالغہ آمیز بھی ہوتی ہیں لیکن بعض دفعہ بچی بھی نظر آتی ہیں اور بہت تکلیف ہوتی ہے.یہ کیسا مرد ہے کیسا انسان ہے جو بجائے اس کے کہ اپنی بیوی پر خرچ کرے اس کے مال پر اس کی نگاہ ہے اور یہ جو بد نیتیں ہیں ان کا آغاز شادی سے بہت پہلے سے شروع ہو چکا ہوتا ہے.چنانچہ ہمارے معاشرے میں یعنی ہمارے معاشرے سے مراد ہمارا معاشرہ تو عالمی اسلامی معاشرہ ہے میری مراد یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں میں اکثر مشرقی ملکوں میں بدقسمتی سے یہ برائیاں بہت زیادہ جڑ پکڑ چکی ہیں اور روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں.چنانچہ اکثر اگر چہ احمدی اللہ کے فضل سے اس بات سے پاک ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی شکایتیں آتی ہی رہتی ہیں کہ ایک عورت اب کسی لڑکی کو دیکھنے گئی کہ میں اپنے لڑکے کے لئے ایک خوبصورت کی بہولا نا چاہتی ہوں نیک سیرت ، نیک فطرت ہو، ساری خوبیاں ہوں.دیکھا اور خوشنودی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہاں ہمیں منظور ہے اب یہ بتاؤ کہ اس کے ساتھ موٹر آئے گی تو کونسی آئے گی.گھر دو گے یا نہیں دو گے.کونسی جائیداد اس کے نام لکھو گے اور کیا کیا مزید جہیز اس کے ساتھ آنے والا ہے.اس کے لئے اگر تم نے

Page 211

خطبات طاہر جلدے 206 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء اس کو فرنیچر بنا کے دینا ہے تو اس کے بیس پچیس ہزار ہمیں کیوں نہیں دے دیتے ہم اپنی مرضی کا بنا ئیں گے.تمہیں کیا پتا کہ ہماری پسند کیا ہے.اس لئے ہم بہتر جانتے ہیں تم پیسے ہی دے دو اور بے شرمی اور بے حیائی سے وہ پیسے قبول کرتے ہیں پھر اور بعض دفعہ تو ایسا سخت رد عمل ہوتا ہے اس چیز کا کہ ایسے ماں باپ لکھتے ہیں کہ ہماری بیٹی کا یہ ردعمل ہے کہ میں کنواری رہ جاؤں گی میں ایسے ذلیل لوگوں کے گھر نہیں جاؤں گی لیکن بعض لوگ بیچارے ایسے مجبور ہو چکے ہوتے ہیں.ان کی بیٹیاں بڑی ہو رہی ہیں، ان کی عمریں گزر رہی ہیں کہ وہ پھر سر جھکا کر ایسی سب ذلیل اور غیر اسلامی شرطوں کو قبول کر لیتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ ایک قسم کی بلیک میل ہے جو پھر کبھی بھی ان کی بیٹی کا پیچھا نہیں چھوڑتی.ہمیشہ یہ کمپنی نظریں، یہ ذلیل نگاہیں مزید اور مزید کا مطالبہ کرتی چلی جاتی ہیں اور اس بیٹی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اچھا اب فلاں چیز بھی گھر سے لا کر دو، فلاں بات بھی اپنے ماں باپ سے لے کر دو.ایسے لوگ احمدی نہیں ہیں ان کو وہم ہے کہ وہ احمدی ہیں.اگر ان کو اخراج از جماعت کی سزانہ بھی دی جائے تو خدا کی تقدیر ان کو جماعت احمدیہ اور اسلام سے خارج کر چکی ہے کیونکہ جو محمد مصطفی امیہ کے نمونہ سے دور ہے اس کا مسلمان کہلانے کا حق ہی کوئی نہیں رہتا.اس لئے ان باتوں کو معمولی نہ سمجھیں ان کی بیخ کنی کریں اور اگر قطعی طور پر ثابت ہو کہ ایسا واقعہ ہوا ہے تو ان کو ظاہری طور پر بھی جماعت سے خارج کر دینا چاہئے کیونکہ اب مزید ہم اس گند کو ساتھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے.اس کے نتیجے میں پھر ہر قسم کی بدخلقی پیدا ہوتی ہے.ایسے ہی لوگ ہیں جو پھر آگے اپنی بیویوں سے ذلیل سلوک کرتے ہیں پھر آخر ان کی بیویوں کی شہر میں بھی ٹوٹتی ہیں ان کی بھی زبانیں کھلتی ہیں پھر اگلی نسل کے بچے ہمارے برباد ہوتے ہیں.اتنا بڑا نقصان کیسے جماعت برداشت کر سکتی ہے.اس لئے تمام امراء اس بات پر نگران ہو جائیں کہ اگر آئندہ کہیں اس قسم کی بدتمیزیاں ہوں اور بدخلقیاں ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق کمال بے شرمی کے ایسے نمونہ دکھائے جائیں تو ایسے لوگوں کو بلا تاخیر جماعت سے خارج کرنے کی کاروائی کرنی چاہئے.پھر وہ جائیں جہاں دوسرے معاشرے میں جس قسم کے ان کے مطالبے ہیں شاید پورے ہو جائیں وہاں.وہاں بھی شاید ایسی باتیں چلتی ہوں لیکن احمدیت میں ہم ان باتوں کو مزید

Page 212

خطبات طاہر جلدے 207 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء برداشت نہیں کر سکتے.پھر عورتیں ہیں وہ بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ بھی اس قصور میں شریک ہیں کیونکہ اکثر مطالبوں کا آغاز ساسوں سے ہوتا ہے یعنی بیٹے کی ماں کی طرف سے اکثر یہ ہوتا ہے اور جن معاملات میں مجھے تحقیق کا موقع ملا ہے مجھے پتا چلا ہے کہ بسا اوقات ایسے مرد کمزور ہیں جن کی بیویاں یہ مطالبے کرتی ہیں اور ان کے بیٹے ان کے سو فیصدی غلام ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں نیکی اسی بات میں ہے کہ ہر بات میں اطاعت کرو.حالانکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اطاعت اس حد تک فرض ہے جس حد تک خدا کی اطاعت سے تمہیں باہر نہ نکالے.جہاں ماں باپ کی اطاعت تمہیں خدا کی اطاعت سے باہر نکلنے پر مجبور کرے وہاں تم نے خدا کی اطاعت کرنی ہے ماں باپ کی اطاعت نہیں کرنی.یہ واضح حکم موجود ہے اس کے باوجود بعض بے وقوف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ماں کی خواہش ہے ماں کی نیت ہے اس لئے چاہے وہ اسلام کے خلاف مطالبے کرے ہم اس کے ساتھ چلیں گے اور اس کے کہنے کے نتیجے میں پھر بعض اور بچیوں پر ظلم کرنے والے بن جاتے ہیں.تو آغاز عورت سے شروع ہوا ہے ظلم کا اور عورت پر ختم ہوا اور اس کے نتیجے میں پھر ساری سوسائٹی پر سارے معاشرے پر مظالم کی ایک ناختم ہونے والی داستان شروع ہو جاتی ہے.اس لئے بد خلقی کو اگر آپ نے روکنا ہے تو سب سے پہلے گھروں کے ماحول کو سنبھالیں اور گھروں کو بداخلاق بنانے والے جتنے بھی محرکات ہیں ان کا گلا گھونٹیں.ان کو جب تک آپ ختم نہیں کریں گے، نیست و نابود نہیں کرتے محض ایک فرضی جہاد کے کوئی بھی معنی نہیں ہیں.جہاد کا تو مطلب ہے آپ جانتے ہوں کہ دشمن کہاں ہے، کس قسم کے ہتھیار رکھتا ہے، کس قسم کی تلواریں ، توپ و تفنگ سے آپ پر حملہ آور ہے جب تک آپ دشمن کے حالات سے واقف نہ ہوں ، اس کی اداؤں سے واقف نہ ہوں، ان جگہوں سے واقف نہ ہوں جہاں سے اس نے حملہ کرنا ہے، ان اوقات سے واقف نہ ہوں جہاں سے اس نے حملہ کرنا ہے اس وقت تک آپ دفاع کی طاقت ہی نہیں رکھ سکتے یعنی کامیاب دفاع کی طاقت نہیں رکھ سکتے.اس لئے جب میں کہتا ہوں بدیوں کے خلاف جہاد شروع کریں تو یہ مراد نہیں ہے کہ اٹھ کر آپ تقریریں شروع کر دیں کہ بدیوں کے خلاف جہاد کرو.سمجھائیں جس طرح میں آپ کو سمجھانے

Page 213

خطبات طاہر جلدے 208 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء کی کوشش کر رہا ہوں، تجزیہ کریں جس طرح میں تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور معلوم کریں کہ آپ کے اپنے اپنے علاقے میں بدخلقی کے اصل محرکات کیا ہیں؟ کیوں بعض بدخلقیاں رائج ہیں اور ان کو تجزیہ کر کے پھر ان کے خلاف باقاعدہ کا روائی کریں.اگر اس طرح آپ کا رروائی کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ ہماری حالت پہلے سے بہتر ہوتی چلی جائے گی لیکن وقت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگلی صدی میں داخل ہونے کا بہت تھوڑا رہ گیا ہے.صرف ایک سال باقی ہے مشکل سے اور ابھی ہم نے بہت سے کام کرنے ہیں.بد اخلاقی کے ساتھ ہمیں اگلی صدی میں داخل نہیں ہونا چاہئے.تمام بد اخلاقیوں کو، بدرسموں کو، ان جہالتوں کو جو اسلام سے پہلے زمانے کی باتیں ہیں ٹوکریاں اٹھائے لئے پھرتے ہیں گند کی وہ اتار کر پھینک دینا چاہئے.یا درکھیں جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا بدیاں گھروں میں پیدا ہوتی ہیں اور گھروں سے گلیوں میں نکلتی ہیں.گلیاں پھر شہروں کو گندہ کرتی ہیں پھر وہ ملک گندے ہو جاتے ہیں.ایسا ہی ہے جیسے گند کی ٹوکری کوئی گھر سے اٹھائے اور گلی میں پھینک دے.ترقی یافتہ ملکوں میں گلیاں صاف کرنے کے انتظام ہوتے ہیں اس لئے وہاں کی حکومتیں وہاں کا بیرونی نظام ان بدیوں کو بہت حد تک سنبھالتا ہے اور صفائی کرتا ہے اور ان کو جہاں تک اس نظام کی طاقت ہے دور کرتارہتا ہے اس لئے وہ اکٹھی ہو کر اتنی نمایاں دکھائی نہیں دیتیں.جن بدیوں کی طرف بیرونی نظر نہیں ہوتی وہ اکٹھی ہونی شروع ہو جاتی ہیں.ان ملکوں میں بعض بدیاں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ گھروں میں ہی پیدا ہوتی ہیں گھروں سے باہر پھینکی جاتی ہیں گلیوں میں لیکن ان کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں اس لئے وہ اکٹھی ہوتی رہتی ہیں.ظاہری گند کی صفائی کا یہاں انتظام ہے یہاں آپ دیکھیں گے ظاہری گند بہت کم دکھائی دیتا ہے لیکن بعض اور قسم کی بدیاں ہیں ان کی صفائی کا بھی انتظام ہے.اس پہلو سے ان ملکوں میں وہ بریاں کم دکھائی دیتی ہیں لیکن اس بیچارے ملک کا کیا حال ہو گا جن کے گھروں میں بے حساب گند پیدا ہو رہا ہے اور ان کی ٹوکریاں صبح شام باہر گلیوں میں پھینکی جاتی ہیں اور وہاں کی حکومتیں اور وہاں کے معاشرے ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور طرف نظریں لگی ہوئی ہیں.اب مذہبی نظام ہے، علماء کا نظام ہے ان کا کام یہ ہے کہ جو گند گھروں سے باہر نکلتے ہیں وہ گلیوں میں ان کی صفائی کا انتظام کریں.وہ اگر صفائی کی بجائے اپنی ٹوکریاں اور اس میں پھینک رہے ہوں تو ایسے ملکوں کے

Page 214

خطبات طاہر جلدے 209 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء بچنے کا پھر کیا سوال ہے.پس جماعت احمدیہ کو باشعور جماعت کے طور پر ان بدیوں کے خلاف جہاد کرنا چاہئے اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دینے سے پہلے اپنے گھروں کو با اخلاق بنانا چاہئے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی بدخلقی کو برداشت نہ کریں.جس طرح قرآن کریم نے تعلیم دی ہے محبت اور دردمندی سے نصیحت کر کے ہر قسم کی بد خلقی کو دور کرنے کی کوشش کریں.آپس کی گفتگو میں ملائمت اختیار کریں ، تلطف اختیار کریں ،ایک دوسرے کی کمزوریوں کو معاف کرنا سیکھیں اور جہاں تک خدا اجازت نہیں دیتا وہاں معاف کرنے کا آپ کو حق نہیں لیکن جہاں اجازت دیتا ہے وہاں حتی المقدور معافی کا معاملہ کریں، معافی کا سلوک کریں جس سے انشاء اللہ تعالیٰ معاشرہ حسین سے حسین تر ہوتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں.قرآن شریف میں لکھا き ہے.وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ( النساء:۲۰) مگر اب اس کے خلاف عمل 66 ہو رہا ہے." آپ اندازہ کریں کہ اگر آج سے سو سال پہلے اس کے خلاف عمل ہور ہا تھا تو اس وقت کیا ہورہا ہوگا دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیج الرسن کر دیا ہے دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا.“ یہ خوش خلقی نہیں ہے یہ خودکشی ہے کہ اپنے گھروں میں جہاں خدا نے آپ کو قیم بنایا ہے وہاں بدیوں کو پنپنے دیں اور پرواہ نہ کریں اور پوچھیں ہی نہ کہ میں با اخلاق ہوں میں اپنی عورت سے نرمی کر رہا ہوں.وہ جس قسم کی بے حیائیاں کرے ، جس قسم کی گندگی کرے، نماز سے غافل ہو، نماز سے بچوں کو غافل رکھے.شریعت کی حرمتوں کا خیال نہ رکھے کہ میں نرمی کر رہا ہوں اس لئے میں اس کو کچھ نہیں کہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ اسلام نہیں بلکہ یہ جہالت ہے.یہ

Page 215

خطبات طاہر جلدے 210 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء حرکتیں کر کے گھر میں کے شریعت کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں عورتیں، ہرقسم کی بدیاں پھیل رہی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ہم نرمی کا سلوک کر رہے ہیں یہ ہرگز اسلامی تعلیم نہیں ہے.پھر فرماتے ہیں: بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیع الرسن.تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اور کنیز کوں اور بہائم سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتا ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت یہ بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی دوسری پہن لی.یہ بڑی ہی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اللہ ﷺہ ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نا مرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے باوجود یکہ آپ بڑے با عب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک صلى الله کھڑے رہتے جب تک وہ اجازت نہ دے.“ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ: ۳۸۷) پھر اپنے ایک صحابی کو آپ نصیحت فرماتے ہیں.نصیحت جو ہے یہ بھی نصیحت کے مضمون میں ایک شاہکار ہے.بہت ہی سخت قسم کی اطلاعیں ان کی بد خلقی کے متعلق ملیں لیکن بد خلقی کا علاج بدخلقی سے نہیں کیا جاسکتا نرمی اور پیار سے کس رنگ میں سمجھانا چاہئے اس کا میں نمونہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا: باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کے زبانی جو در حقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ

Page 216

خطبات طاہر جلدے شدت رکھتے ہیں.“ 211 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء کیسا پیارا انداز ہے بیان کرنے کا اور ساتھ ہی آپ ان کی طبیعت کو سمجھ رہے تھے کہ وہ جلدی غصے میں آنے والی ہے کہیں وہ دوستوں سے ہی ناراض نہ ہو جائیں کہ کس نے میری شکایت کی ہے.تو پہلے دوستوں کا دفاع فرمایا خود بتایا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں.ایک اور اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ وہ شکایت جو دشمنوں سے پہنچتی ہے وہ لائق تعزیر نہیں ہوتی اس کے نتیجے میں آپ تعزیر نہیں کر سکتے لیکن جو شکایت دوستوں اور محبت کرنے والوں سے پہنچتی ہے وہ سننے کے لائق ہے وہ ایسی ہے کہ اس کی طرف توجہ دی جائے.فرمایا: امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ شدت رکھتے ہیں یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا انداز ملحوظ نہیں رہتا.“ کیسی زبان کو سلجھا کر لطف کے ساتھ نرمی کے ساتھ لپیٹ کرتا کہ ان کی طبیعت میں کہیں بھی تنافر پیدا نہ ہو، جوش پیدا نہ ہو آپ نے اس پیار سے اپنے مرید کو نصیحت کی جو آپ پر ایمان لاتا تھا کہ آپ خدا کی طرف سے ہیں.خدا کے مقرر کردہ امام ہیں.جو آپ سے محبت رکھتا تھا.اس کے متعلق ایسی احتیاطیں فرما رہے ہیں.وہ لوگ جو اپنی نصیحت میں اپنے ہم جولیوں ، اپنے ہم عصروں بلکہ اپنے بڑوں سے بھی بدتمیزی کرتے ہیں ان کی نصیحت کیسے کارگر ہو سکتی ہے.پس نصیحت جب میں کہتا ہوں تو نصیحت کا نمونہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ وہ طریق ہے نصیحت کرنے کا اسے اختیار کریں.پھر فرمایا: میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں.66 ایک اور پہلو بھی نمایاں طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا کہ وہ لوگ جو صرف شکایتیں کرتے ہیں ان کی باتوں کی طرف دھیان نہیں کرنا چاہئے.بچے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ساتھ خوبیاں بھی بیان کرنے والے ہوتے ہیں.خوبیوں سے بھی صرف نظر نہیں کرتے ہیں.جب وہ شکایت کرتے ہیں تو

Page 217

خطبات طاہر جلدے 212 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء ساتھ یہ بھی ان کو خوف رہتا ہے کہ اس شکایت کے نتیجے میں امام کا دل بدظن نہ ہو جائے.تو اسے نرم کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ اس میں یہ برائی تو ہے لیکن ساتھ یہ خوبیاں بھی تو ہیں.اس لئے آپ ناراض نہ ہوں صرف اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کریں.کیسا پاکیزہ ماحول تھا جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قائم کرنے کی توفیق بخشی.یہی وہ ماحول ہے جو زندہ رہنے کے قابل ہے.یہی وہ معاشرہ ہے جس نے آئندہ دنیا کے مردوں کو زندہ کرنا ہے.اس کی حفاظت آپ کو کرنی ہوگی.اس معاشرے کو مرنے دیا تو آپ زندگی کے پیغمبر نہیں بن سکتے.فرماتے ہیں: اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں اور دوسری کیونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سے باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضے سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر چونکہ صلى الله خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ فرماتے ہیں خیــر کـم خیر کم لاهله یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لئے اس قدرتا کید ہے کہ میں اس خط میں نہیں لکھ سکتا.عزیز من انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.“ فرمایا بیوی تو مسکین اور ضعیف ہے لیکن وہ خدا جو نظر رکھ رہا ہے وہ مسکین اور ضعیف

Page 218

خطبات طاہر جلدے 213 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء نہیں ہے.وہ یوں ہی نہیں چھوڑی گئی بلکہ خدا تعالیٰ اس بات پر نظر رکھ رہا ہے، دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمان داری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے.مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے.خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے ، بیویوں پر رحم کرنا چاہئے اور ان کو دین سکھلانا چاہئے.“ معلوم ہوتا ہے وہ اس لحاظ سے کوئی کمزوری شاید انہوں نے دیکھی ہو اور چونکہ وہ خود نیک تھے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ نیکی کو قائم کس طرح کرنا ہے اس لئے اس معاملے میں سختی کی ہے.تو آپ نے فرمایا: ان کو دین سکھلانا چاہئے.درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقع اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرہ درشتی بھی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالے کیا ہے شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں اور میں بہت ڈرتا ہوں کے ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.“ ( الحکم ۷ اراپریل ۱۹۰۵ صفحہ: ۶) یہ ہے نمونہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا.اس نمونہ کو پکڑے بغیر وہ نمونہ زندہ نہیں ہو سکتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ا سے سیکھا.آپ ہی کے مکتب میں یہ شاگرد بڑھا اور جوان ہوا.آپ ہی کے مکتب میں اس نے اخلاق کے بلند ترین مقامات تک رسائی حاصل کی.اسلئے جب میں کہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق ہی دنیا کو زندہ کریں گے تو آج کی دنیا میں اس زمانے میں آپ کا ایک شاگرد کامل پیدا ہو چکا ہے جس نے بتایا ہے کہ وہ اخلاق صرف چودہ سو سال پرانے زمانے کی

Page 219

خطبات طاہر جلدے 214 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۸ء باتیں نہیں تھیں اس زمانے میں بھی وہ زندہ ہو سکتے ہیں اور اس دور میں بھی ان کو زندہ کئے بغیر ہم دنیا کو زندہ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 220

خطبات طاہر جلدے 215 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء جماعت احمدیہ نے عالمی معاشرہ قائم کرنا ہے.اپنی علاقائی غیر اسلامی بری عادات مثلاً جھوٹ کو ختم کریں ( خطبه جمعه فرمودہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء بمقام ناصر باغ فرینکفورٹ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: انگریزی میں ایک مقولہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ مشرق مشرق ہی ہے اور مغرب مغرب ہی اور یہ دونوں کبھی نہیں ملیں گے.اس مقولے کو بہت گہرائی حاصل ہے اور بظاہر یہ سرسری بات ہے لیکن حقیقت میں اس مقولے کی شہرت کی وجہ یہی ہے کہ اس میں مضمون کی بہت گہرائی پائی جاتی ہے اور ایک ایسی پیشگوئی کی گئی ہے جو قومی رحجانات کے گہرے مطالعہ کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے.بظاہر تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مشرق مغرب سے مل رہی ہے اور مغرب مشرق سے.یہاں جو آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک بڑا اجتماع ہو رہا ہے.یہ بھی اس بات کا مظہر ہے کہ مشرق اور مغرب میں ایک دوسرے کے ساتھ امتزاج کے آثار پیدا ہورہے ہیں.اقوام متحدہ میں بھی بظاہر یہی کوشش دکھائی دیتی ہے کہ مشرق اور مغرب ہم آہنگ ہو جائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح امتزاج پکڑ لیں کہ گویا رفتہ رفتہ ایک ہی انسانیت ظہور پذیر ہو.بہت سی غیر قو میں جرمنی میں آکے آباد ہوئی ہیں.ان میں ترک بھی ہیں، ان میں افریقین قو میں بھی ہیں ،ان میں کو ئیز بھی ہیں، ان میں پاکستانی ، ہندوستانی ، بنگلہ دیش سے آئے ہوئے لوگ ،چین کے بھی اور چند ایک جاپان کے بھی غرضیکہ جرمن قوم نے اپنے وسیع حو صلے کے نتیجے میں بہت

Page 221

خطبات طاہر جلدے 216 خطبه جمعه یکم اپریل ۱۹۸۸ء کثرت کے ساتھ مختلف قوموں کو پناہ دے رکھی ہے اور مشرقی یورپ سے آنے والوں کی تعداد تو یہاں غیر معمولی طور پر زیادہ ہے.پولینڈ کے باشندے بڑی کثرت سے یہاں آئے ہوئے ہیں.اس لحاظ سے جرمنی کو یہ خاص اہمیت حاصل ہے کہ یہاں آپ کو مشرق اور مغرب ہی ملتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ شمال اور جنوب بھی اور مختلف نظریات کے ماننے والے بھی یہاں اس عظیم قوم کی پناہ میں اکٹھے ہوتے دکھائی دیتے ہیں.لیکن اس کے باوجود جو اس مقولے کے مفہوم کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ امتزاج ایک ظاہری امتزاج ہے اور اس کے باوجود مشرق مشرق ہی رہے گی اور مغرب مغرب ہی رہے گی.مزید اس بات پر غور کر کے دیکھتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے بہت سی افریقین قومیں مثلاً جرمنی میں بھی آباد ہوئیں، انگلستان میں بھی آباد ہوئیں ،فرانس میں بھی آباد ہوئیں مختلف یورپین ممالک میں بڑی کثرت سے وہ قومیں آئیں اور آباد ہو گئیں اور انہوں نے مغرب کے رنگ ڈھنگ بھی اختیار کر لیے بعض مغربی رجحانات میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے.ناچ گانے کو صرف اپنا یا ہی نہیں بلکہ ناچ گانے میں ایسا کمال بھی حاصل کیا کہ ان میں مغرب کو سکھانے والے استاد پیدا ہوئے اور گانے کے متعلق تو آج دنیا اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ سب سے زیادہ چوٹی کے گوئیے جن کا مشرق اور مغرب سب پر اثر ہے وہ افریقہ نے پیدا کئے ہیں اور کر رہا ہے.شراب کے پینے میں یا دوسری معاشرتی عادات کو اپنانے میں بھی انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کلیۂ مغرب کے رنگ میں رنگین ہوئے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انہوں نے مکمل طور پر امتزاج اختیار کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود جب آپ دیکھتے ہیں تو کالے کالے ہی ہیں اور سفید سفید ہی ہیں.ان دونوں قوموں کے درمیاں ان دونوں رنگوں کے درمیان کوئی امتزاج نہیں ہے، ان کی فطرتوں کے درمیان کوئی امتزاج نہیں.ان کی زندگی کی آرزوؤں کے درمیان کوئی امتزاج نہیں ہے وہ اکٹھے رہ کر ایک جیسے نظر آ کر بھی بالکل الگ الگ ہیں اور کہیں آپ کو مشرق اور مغرب کے درمیان ایسی محبت دکھائی نہیں دے گی گویاوہ ایک ہی خاندان کے دو حصے ہوں یہی معنی ہے اس مقولے کا.چنانچہ وہ سفید فام لوگ جو بعض دفعہ مشرقی رنگ اختیار کر جاتے ہیں ان کے اوپر بھی آپ غور کر کے دیکھیں تو مشرقی عادات اختیار کرنے کے باوجود بھی مغربی ہی رہتے ہیں.بعض یوگا کو پسند کرتے ہیں، بعض بدھ طریقوں کو پسند کرتے

Page 222

خطبات طاہر جلدے 217 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء ہیں، کوئی ہری کرشنا والے بن جاتے ہیں، بعض سکھ بھی ہوئے اور امریکہ میں تو ایک زمانے میں سکھ بنے کا رحجان بہت تھا لیکن اس کے باوجود سفید قو میں سفید ر ہیں اور نیم کالی زرد قو میں ، نیم کالی اور زرد قومیں ہی رہیں اور ان دونوں کے درمیان آپ کو حقیقی امتزاج کوئی دکھائی نہیں دے گا.لیکن ایک امکان ایسا پیدا ہورہا ہے ایک رستہ ایسا کھل رہا ہے جس کے نتیجے میں یہ بہت ہی زیادہ مؤقر نظر آنے والا ، وزنی نظر آنے والا مقولہ غلط ثابت ہوسکتا ہے اور ہو گا.قوموں کے درمیان یعنی مشرق اور مغرب کی قوموں کے درمیان امتزاج کی ایک راہ کھل رہی ہے جو احمدیت کے ذریعے کھل رہی ہے اور وسیع تر ہوتی چلی جارہی ہے یہ راہ، پہلے سے بڑھ کر کشادہ ہوتی جا رہی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر اور ایک مزاج پر اکٹھا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو بھیجا تھا.اس مقولہ بنانے والے کے وسیع تجر بہ پر کوئی شک نہیں لیکن وہ خدا کے نور سے دیکھنے والا انسان نہیں تھا.اس کی بصیرت ان باتوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی جن باتوں کو خدا تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیشہ سے مقدر کر رکھا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ایسا سورج عرب کے صحراؤں میں طلوع ہو چکا ہے جس کی روشنی مشرق اور مغرب میں تمیز کرنے والی نہیں وہ تمام دنیا کا سانجھا سورج ہے، مشترک سورج ہے لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ (النور: ۳۶) اسے ایک پہلو سے مشرق کا بھی کہہ سکتے ہیں اور مغرب کا بھی، بیک وقت دونوں کا سورج اور ایک پہلو سے کہہ سکتے ہیں کہ نہ وہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا.وہ سب کا یکساں سورج ہے.اسی نور کو لے کر آج احمدیت دنیا کے سامنے دوبارہ طلوع ہوئی ہے، دوبارہ ابھری ہے اور ہما را دعوئی یہ ہے کہ ہم ایک ایسے نور کو لے کر آگے بڑھیں گے جو مشرق اور مغرب کے درمیان حائل ہونے والی ہر روک کو دور کر دے گا اور تمام دنیا کو ایک ہی ہاتھ پر اور ایک ہی مزاج پر اکٹھا کر دے گا.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کی بہت ہی عظیم ذمہ داری ہے اور جہاں تک میں دیکھتا ہوں بہت حد تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پہلو سے جماعت احمد یہ اس ذمہ داری کو ادا کر رہی ہے لیکن ہر ملک میں یکساں نہیں اور ہر علاقے میں برابر نہیں.بعض جماعتوں کو زیادہ توفیق ملی ہے، بعض جماعتوں کو نسبتا کم توفیق ملی ہے اسی طرح مغربی قوموں نے بھی احمدیت سے یکساں فائدہ نہیں اٹھایا بعض جگہ ان میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے مغربیت کے Complex اور احساس

Page 223

خطبات طاہر جلدے 218 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء کو یکسر مٹاکر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسلام کے بین الاقوامی مزاج کو اپنا لیا ہے اور اس کے مظاہر آپ کو کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں ملتے ہیں جہاں بھی مشرق اور مغرب احمدیت کے ذریعے اکٹھی ہو رہی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں جو مجمع البحرین کا ذکر ملتا ہے ایک پہلو سے جماعت احمد یہ ہی وہ مجمع ہے جہاں دوسمندر، دوتہذیبوں کے سمندر بالآخر اکٹھے ہوں گے.آپ جرمن احمدیوں کو بھی دیکھیں اور دیگر جرمن اسلام قبول کرنے والوں کو بھی دیکھیں اس پہلو سے آپ کو ایک نمایاں فرق نظر آئے گا کہ جرمن احمد یوں میں سے اکثر اپنے مزاج میں انکسار پیدا کر چکے ہیں.ان کے اندر قومی تکبر اور قومی بڑائی کا اثر یا تو کلیہ مٹ چکا ہے یا تیزی سے مٹتا چلا جارہا ہے.ان میں اسلام کے مزاج کو قبول کرنے کے نتیجہ میں ایک ایسی طبیعت ابھر رہی ہے جو عالمی طبیعت ہے، ایک ایسا مزاج پیدا ہورہا ہے جو عالمی مزاج ہے.چنانچہ یہ جرمن احمدی جو اپنے پاکستانی یا افریقین یا دیگر احمدی بھائیوں سے ملتے ہیں تو ایک ہی سطح پر ملتے ہیں اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ گویا ایک ہی قوم کے دو فرد ہیں.یہ وہ مجمع البحرین ہے جہاں یہ پرانا مقولہ کھلے طور پر جھٹلایا جا رہا ہے.اسی طرح انگلستان کا حال ہے، اسی طرح افریقہ کے ممالک کا حال ہے، امریکہ میں بھی نمایاں طور پر خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ یہ اسلام کا معجزہ نمودار ہو رہا ہے اور احمدیت کے سوا دیگر جگہوں پر نہیں ہورہا، دیگر امتزاجات سطحی ہیں لیکن ایسا فطری امتزاج کہ ایک مغرب کا رہنے والا مشرق کے ساتھ حقیقتہ گہرائی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے وہ اپنی مغربی شخصیت کو بھلا کر ایک ایسی اسلامی شخصیت اختیار کرلے کہ اس کے نزدیک جغرافیائی حدود کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے، اس کے نزدیک رنگ و نسل کی تمیز کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے ، وہ بالکل ایک ہو جائے.اس پہلو سے جرمنی میں آنے والے احمدیوں کی خصوصیت سے بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ اپنی بعض عادات کی وجہ سے وہ اس بڑھتے ہوئے رحجان کی راہ میں روک نہ بن جائیں اور اس اہم ذمہ داری کو ادا کرنے کی بجائے اس رحجان کو الٹا نہ دیں، اس کو برعکس سمت میں روانہ نہ کر دیں.یہ وہ خطرہ ہے جس کے پیش نظر میں آج آپ کو مختصر آیہ بتانا چاہتا ہوں، سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے جس کی راہ میں روک بننے کی بجائے اس کو ادا کرنے کے لیے پہلے سے بڑھ کر اس کی طرف توجہ کریں.

Page 224

خطبات طاہر جلدے 219 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء پاکستان سے آنے والے احمدی مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مختلف علاقوں سے آنے والے ہیں اور بعض ایسی عادات بھی لے کر آئے ہیں جو اسلامی عادات نہیں ہیں بلکہ مقامی عادات ہیں من حیث المجموع اُن کو پاکستانی عادات بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس پہلو سے مختلف عادات پائی جاتی ہیں.گجرات کا ایک اپنا مزاج ہے، اپنی تہذیب ہے اور سیالکوٹ کا ایک اپنا مزاج ہے اور ایک اپنی تہذیب ہے، جھنگ کا ایک اپنا مزاج ہے اور ایک اپنی تہذیب ہے اور بدقسمتی سے ان سب مزاجوں میں ایک بھاری عنصر ایسا داخل ہے جو اسلامی نہیں بلکہ واضح طور پر غیر اسلامی ہے اور ان سب مزاجوں میں ایک قدر مشترک بھی ہے جو نہ صرف یہ کہ اسلامی نہیں بلکہ اسلام کی دشمن ہے اور وہ جھوٹ کی عادت ہے.اس کثرت کے ساتھ پاکستان کے معاشرے میں خواہ وہ گجراتی معاشرہ ہو یاسیالکوٹی ہو یا شیخوپوری یا کسی اور علاقے کا ہو جھوٹ داخل ہو چکا ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں رگ و پے میں جھوٹ سرایت کر گیا ہے.ادنی ادنی باتوں پر بے وجہ جھوٹ ، بڑی باتوں پر بڑی سنجیدگی سے جھوٹ ، اُس سے بڑی باتوں پر منتظم جھوٹ ، سازش بنا کرجھوٹ، جھوٹے گواہ تیار کر کے جھوٹ اور جہاں جھوٹ بولا جانا ہے وہاں بھی پیسے دے کر یا دوسرے اثرات ڈال کر اُس شخص کو یا اُس عہد یدار کو بھی جھوٹ کے لیے آمادہ کرنا، یہ ایسی خوفناک خصلت ہے کہ اگر چہ یقینی طور پر اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام کی دشمن عادت ہے لیکن جب مغربی تو میں آپ کے اس مزاج کو دیکھیں گی اُن میں سے ہر ایک یہ تمیز نہیں کر سکے گا کہ یہ اسلامی معاشرہ نہیں بلکہ اسلام کا ایک دشمن معاشرہ ہے جو بدنصیبی سے بعض مسلمانوں نے اپنا رکھا ہے.یا معاشرہ نہ کہیں تو بعض عادات اور خصال ہیں جو اسلامی نہیں بلکہ قطعی طور غیر اسلامی ہیں.لیکن جب یہ لوگ اس پہلو سے آپ کا جائزہ لیتے ہیں یا آئندہ لیں گے تو ان کے اندر ایک رد عمل پیدا ہوگا جو کئی طرح سے اس بین الاقوامی امتزاج کی راہ میں خطرات پیدا کرتا ہے.مختلف لوگوں کے مختلف رد عمل میں نے دیکھے ہیں، بعض کا رد عمل تو یہ ہوتا ہے کہ وہ پھر اسلام سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں یونہی فرضی باتیں ہیں کہنے کو کچھ اور ہے کرنے کو کچھ اور ہے، ان لوگوں کے خیالات جو قرآن اور حدیث کی طرف سے منسوب کر کے بتاتے ہیں وہ کچھ اور ہیں لیکن ان کے اپنے اعمال اتنے مختلف ،اتنے دور ہیں ان باتوں سے جو معلوم ہوتا ہے یہ ہم پر بھی جھوٹ بول رہے ہیں ان کی باتوں کا

Page 225

خطبات طاہر جلدے 220 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء اعتبار ہی کوئی نہیں ہے.چنانچہ کئی ایسے آدمی میری نظر میں ہیں معین طور پر جو ان گندی عادات کی وجہ سے احمدیت میں داخل ہو کر پھر الٹے پاؤں لوٹ گئے.میں نہیں کہہ سکتا کے اُن کی ٹھوکر کا کوئی ایک معین شخص موجب بنایا بالعموم جائزہ انہوں نے لیا اور اس کے نتیجے میں وہ بد دل ہوئے.لیکن اس کی مجموعی ذمہ داری اس قومی بد قسمت کردار پر عائد ہوتی ہے اور انفرادی ذمہ داری بھی بعض اُن لوگوں پر ضرور عائد ہوتی ہوگی جن کو دیکھ کر ، جن کی عادات سے ٹھو کر کھا کر وہ لوگ اسلام کی نعمت سے محروم ہو گئے.کچھ اور لوگ ایسے ہیں جو ایسا انتہائی رد عمل تو نہیں دکھاتے لیکن وہ معاشرتی لحاظ سے سکڑنے لگتے ہیں، تمدنی لحاظ سے علیحدگی اختیار کرنے لگ جاتے ہیں وہ کہتے ہیں اسلام اپنی جگہ سچا ہے.احمدیت نے جیسے اسلام کو دیکھا وہ بھی برحق ہو گا لیکن یہ لوگ اس قابل نہیں کہ ان کی خوبو اختیار کی جائے ان کے طرز عمل کو اپنایا جائے.اُس پہلو سے ہم ان سے بہت بہتر ہیں اور ہمیں ان سے علیحدہ رہنا چاہئے ورنہ یہ ہمارے مزاج کو بھی بگاڑ دیں گے.چنانچہ وہ جو امکانات پیدا ہوئے تھے دو تہذیبوں کے امتزاج کے امکانات، وہ جو امکانات پیدا ہوئے تھے ایک عالمی تہذیب و تمدن کو جنم دینے کے امکانات وہ سارے ایک خاموش عمل کی زبان نے جھٹلا دیئے اور ہمیشہ کے لیے ان کے امکانات کے راستے بند کر دیے.یہ وہ خطرات ہیں جس کی وجہ سے میں فکر مند رہتا ہوں.خصوصیت کے ساتھ جرمنی میں، مجھے اس بارے میں فکر زیادہ ہے.وجہ یہ ہے کے مختلف قوموں میں جو احمدی گئے ہیں یا مختلف علاقوں میں جو احمدی گئے ہیں.اُن کے حالات مختلف ہیں اور وہ مختلف یعنی ہر جگہ ہر قسم کے دوست گئے ہیں لیکن عمومی لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض جگہ بعض ملکوں میں آنے والے احمدی تمدنی پس منظر کے لحاظ سے یا معاشی پس منظر کے لحاظ سے ایک خاص طبقے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں.بعض دوسری جگہ جانے والے معاشی اور تمدنی اعتبار سے ایک اور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں.اس لئے باوجود اس کے کہ اسلام میں طبقاتی تقسیم نہیں ، لیکن جن جگہوں سے یہ آئے ہیں وہاں طبقاتی تقسیم کے آثار ملتے ہیں اور بعض برائیاں بعض طبقات میں زیادہ ہیں ، بعض عادتیں بعض طبقات میں خاص طور پر دکھائی دیتی ہیں اور اقتصادی ضرورتیں جوگندی عادات پیدا کرتی ہیں وہ بعض جگہ زیادہ ہیں، بعض جگہ بعض جگہ کم ہیں.مثلاً جھوٹ کا بالآخر ایک تعلق غربت سے بھی ہوتا ہے.جس معاشرے میں یا جس اقتصادی پس منظر

Page 226

خطبات طاہر جلدے 221 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء میں کہنا چاہئے غربت نے ایک لمبا عرصہ تک لوگوں کو مجبور کیا ہو کہ وہ جھوٹ سے کام لے کر فائدے اٹھا ئیں.جہاں بدقسمتی سے سارے ملک کی طرز عمل یہ ہو کہ سچ کی قیمت نہ پڑے اور جھوٹ کی قیمت پڑتی ہو ایسے ملکوں میں غربت اور جھوٹ کا ایک گہرا رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور بدقسمتی سے غریب طبقے میں جھوٹ زیادہ پھولنے پھلنے لگتا ہے.چنانچہ یہ وجوہات بھی ہیں اور بھی بہت سے محرکات ہیں جن کے نتیجے میں میرا عمومی تاثر یہ ہے کہ جرمنی میں آنے والے احمدیوں میں بعض وہ کمزوریاں زیادہ ہیں جو بین الاقوامیت پیدا کرنے کی راہ میں حائل ہوسکتی ہیں اور حائل ہو رہی ہیں اور بھی بہت سی بعض عادات ہیں جو براہ راست اُس معاشرے کے نتیجے میں بھی پیدا ہو رہی ہیں اور یہاں آنے کے بعد ان کی بعض مخفی کمزوریاں اور زیادہ بڑھ کر نمایاں ہو کر دکھائی دینے لگی ہیں.کہتے ہیں عصمت بی بی بیچارگی بعض لوگ با عصمت ہوتے ہیں اس لیے کے بیچارے ہوتے ہیں ان کا بس ہی کوئی نہیں ہوتا جہاں بس چلے وہاں وہ مخفی خواہشیں مخفی ارادے ایک دم اُبھر کے سامنے آ جاتے ہیں.چنانچہ بعض نیکیاں جو ہمیں اپنے ملک میں دکھائی دیتی تھیں وہ بیچارگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نیکیاں تھیں.جب ایک غیر ملک میں وہ لوگ آئے اور یہاں آکے انہوں نے دیکھا کہ سب کچھ ہو سکتا ہے کوئی پکڑنے والا نہیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ نہ کرنے کے نتیجے میں زیادہ انسان کمتر سمجھا جاتا ہے.اگر یہ چیزیں کرو تو سوسائٹی میں بڑارتبہ ملتا ہے.تو اچا نک روکیں ٹوٹنے کے نتیجے میں جب بیچارگی نہیں رہتی تو عصمت بھی نہیں رہتی.اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ نیکی جو وہاں نیکی دکھائی دیتی تھی وہ دراصل نیکی نہیں تھی بلکہ بے اختیاری کا نام نیکی تھا بے چارگی کا نام عصمت تھا.اس پہلو سے مجھے کثرت سے اطلاعیں ملتی رہتیں ہیں کہ بعض خاندان جو ہجرت کر کے جرمنی میں آگئے وہاں اُن کے متعلق کسی قابل اعتراض طرز عمل کی اطلاع نہیں ملا کرتی تھی مگر یہاں آنے کے بعد جب انہوں نے سمجھا کہ یہاں کھلا معاشرہ ہے، ہر قسم کی آزادی ہے تو بے اختیار وہ آزاد ہوئے اور بد چیز کو جب آزاد کیا جاتا ہے تو وہ عام حدود سے تجاوز کر کے زیادہ پھیلتی ہے.یہی بم بنانے کا فلسفہ ہے.چھوٹی جگہ کسی طاقتور چیز کو قید کیا جائے تو جب وہ بالآخر پھٹتی ہے تو عام حد سے بھی تجاوز کر کے زیادہ پھیل جاتی ہے.چنانچہ ایسے بعض خاندانوں کا بھی پتا چلا کہ وہاں یعنی پاکستان میں اچھے بھلے شریف اطوار والے خاندان تھے مگر یہاں آتے ہی صرف پردہ ہی نہیں ٹوٹا بلکہ ہر دوسری چیز میں، ہر

Page 227

خطبات طاہر جلدے 222 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء بدی میں، انہوں نے دوڑ لگا دی اور جب اپنی برائیوں کے ساتھ ان نئی برائیوں کو اختیار کیا تو مغربی معاشرے کی برائیوں کے مقابل پر بہت زیادہ آگے بڑھ گئے.ان میں کچھ ایسی برائیاں ہیں جو وہ ساتھ لے کر ویسے ہی آئے تھے کچھ نیکیاں تھیں جو کھوگئی تھیں نیکیوں کے پردے پھٹ گئے اور برائیاں اپنی جگہ قائم رہیں تو اس کے نتیجے میں جو چیز نمودار ہوئی ہے وہ بہت ہی خطرناک اور بدزیب ہے.چنانچہ دیکھنے والے احمدی بھی اور دوسرے بھی اس کے نتیجے میں صرف اسلام سے ہی نہیں بلکہ پاکستان سے بھی شدید نفرت کرنے لگتے ہیں.جب سے میں یہاں آیا ہوں بعض مہمانوں سے بعض معزز مہمانوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ایسے بھی تھے جن کا کثرت کے ساتھ مشرق سے آنے والے لوگوں سے رابطہ ہوتا ہے اور انہوں نے مجھے خود کھل کے یہ کہا کہ ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ کس قسم کے لوگ وہاں پیدا ہو رہے ہیں.بنگال سے آنے والے ہوں یا ہندوستان سے آنے والے ہوں یا پاکستان سے آنے والے ہوں ان علاقوں سے جو بھی آتا ہے وہ یقیناً جھوٹا ہوتا ہے اور یقیناً دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے.کچھ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کس بات پر اعتبار کریں، کس پر نہ کریں.دھوکا ، فریب دہی ، جھوٹ ، خیالی باتیں بنانا، من گھڑت قصے پیش کرنا ، کہتا ہے جب مجھے انہوں نے بتایا یوں لگتا ہے جیسے ان قوموں کی فطرت ثانیہ ہے.ہمیں سمجھائیں کہ ہم کریں کیا، کس طرح اندھیرے اور روشنی میں تمیز کریں کہ جبکہ ایسا ملا دیا گیا ہے کہ جیسے تانا بانا سفید اور کالے دھاگے کا ہو پتا نہ لگے کہ کہاں کالا ہے اور کہاں سفید ہے دیکھنے میں وہ ایک گرے سا دکھائی دینے لگے.یہ وہ تاثرات ہیں جو بعض باشعور لوگوں کے تاثرات ہیں.بہت پڑھے لکھے اور بعض علوم اور فنون کے ماہر ہیں لیکن جو عام طبقہ ہے اُس کے دل میں نفرتیں جنم لیتی ہیں وہ شدید رد عمل دکھاتا ہے ان قوموں کے خلاف اور رفتہ رفتہ اندر اندر ایسی تحریکات پیدا ہونے لگتی ہیں جن کے نتیجے میں پھر بڑے تصادم پیدا ہوتے ہیں.بعض ایسے رد عمل پیدا ہوتے ہیں جس سے پھر قوموں کے درمیان نفرتیں اور بڑھنے لگتی ہیں کالوں اور سفیدوں کے درمیان، کالوں اور زردوں کے درمیان ،سفیدوں اور کالوں کے درمیان ہر جگہ سوسائٹی ہر طرف منتشر ہونے لگتی ہے اور پھر ان کی لڑائیاں ، ان کے جھگڑے، ان کے فساد سارے معاشرے کو گندا اور تکلیف دہ بنا دیتے ہیں اور بدنامی نہ صرف دوسرے ملکوں کی بلکہ خاص طور پر اسلام کی بدنامی بہت ہوتی ہے اور اس معاملے میں ہمارا

Page 228

خطبات طاہر جلدے 223 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء یعنی آنے والوں کا قصور تو ہے ہی کچھ لمبے گہرے اسلام کے خلاف وہ تعصبات بھی ذمہ دار ہیں جوان قوموں میں با قاعدہ منظم طور پر پیدا کئے گئے ہیں یعنی عیسائی راہنماؤں نے سب سے زیادہ نفرت کا نشانہ اگر کسی مذہب کو بنایا ہے تو اسلام کو بنایا ہے.سب سے زیادہ نفرت کی تعلیم اگر کسی مذہب کے خلاف دی ہے تو اسلام کے خلاف دی ہے.اس لئے آپ تعجب کی نظر سے اس بات کو دیکھیں گے کہ جب ہندوستان سے آنے والا کوئی جھوٹ یا فساد اختیار کرتا ہے تو ہندوازم کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلے گی.ہندی ازم کو بدنام کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جاتی ، جب افریقن کوئی ایسی جگہ کا آتا ہے جہاں پیکینزم یعنی لامذہبیت پائی جاتی ہے یا جاہلیت پرستی ہے ، تواہم پرستی ہے تو سارے یورپ میں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں سنیں گے کہ جس کے نتیجے میں جہالت کے خلاف تعصبات کو یعنی نفرتوں کو ہوا دی جائے ، بت پرستی کے خلاف نفرتوں کو ہوا دی جائے جب بدھسٹ قومیں آکر یہاں جھوٹ بولتی ہیں اور فساد ہو جاتے ہیں اور سوسائٹی کو گندا کرتی ہیں.اس طرح مختلف ممالک سے مثلاً کوریا سے یا ہند چینی کے علاقوں سے بسا اوقات کثرت سے بدھ بھی آئے اور دھو کے دے کر یہاں داخل ہوئے بالکل جھوٹے کیس بنا کر انہوں نے اجتماعی طور پر بھی داخل ہونے کی کوشش کی کہیں لیکن کہیں بھی آپ بدھ ازم کے خلاف کوئی آواز نہیں سنیں گے.غرضیکہ دنیا کے کسی مذہب کو آپ دیکھ لیں اس مذہب کے لوگ جب مغربی قوموں میں کسی پہلو سے بود و باش اختیار کرتے ہیں تو اُن کے بداخلاق اُن کے مذہب کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے لیکن اسلام ایک ایسا مظلوم مذہب ہے کہ اگر آپ اسلام سے وابستہ ہیں تو لاز ما اسلام کو نفرتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے.چنانچہ ہر جگہ صرف کسی ملک کا نام نہیں سنتے بلکہ اس کے ساتھ اسلام کا نام بھی سنتے ہیں اگر آنے والا اسلامی ممالک سے تعلق رکھتا ہو.تو اس پہلو سے پاکستانی احمدیوں کی ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے.کئی قسم کے نقصانات وہ اپنی قومیت کو بھی پہنچاتے ہیں، اپنے مذہب کو بھی پہنچاتے ہیں اور ان مقاصد کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے اُن کو پیدا کیا گیا ہے، ان کو کھڑا کیا گیا ہے.اس لئے چھوٹی چھوٹی بظاہر عام روز مرہ کی معاشرتی برائیاں آپ میں پائی جاتی ہیں.یہ وہم نہ کریں کہ یہ آپ کے انفرادی معاملات ہیں، یہ ہرگز انفرادی معاملات نہیں ہیں.یہ قومی معاملات ہیں جنہوں نے احمدیت کی نشو ونما پر ان ملکوں میں گہرے اثر چھوڑنے ہیں اور چھوڑ رہے ہیں.

Page 229

خطبات طاہر جلدے 224 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء اس لئے جہاں تک نصیحت کا تعلق ہے وہ تو اختیار کی ہی جائے گی اور یہاں کی جماعت کو دوسری جماعتوں کو بھی میں نصیحت کر رہا ہوں کہ بہت زیادہ منظم تربیت کے پروگرام بنانے چاہئے اور تمام آنے والوں پر اس پہلو سے بڑی گہری نظر رکھنی چاہئے لیکن اگر یہ تربیت فائدہ نہ دے.اگر اس کے نتیجے میں اپنے اخلاق اور کردار میں باہر سے آنے والے نمایاں پاک تبدیلی پیدا نہ کریں تو پھر لازماً ہمارے لیے آپریشن کے سوا چارہ باقی نہیں رہتا.اس صورت میں بہتر ہے کہ ہم ان کو جماعت سے علیحدہ کر کے کم سے کم اسلام کو اور احمدیت کو بدنامی سے بچائیں اور ان کواس عظیم عالمی پروگرام کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں جو احمدیت میں تمام قوموں کو ایک ہی معاشرے میں تبدیل کرنے کے لیے بنایا ہے.اگلی صدی میں اب ایک سال بھی باقی نہیں رہا کہ وہ شروع ہو جائے گی یعنی احمدیت کی انگلی صدی اور اس پہلو سے جوں جوں وقت قریب آ رہا ہے میری فکریں بڑھ رہی ہیں کہ اگر خدانخواستہ ہم نے غیر معمولی تبدیلی پیدا کئے بغیر یعنی اصلاحی تبدیلی پیدا کئے بغیر اگلی صدی میں قدم رکھا تو اگلی صدی کے بعد میں آنے والوں کا کیا حال ہوگا.یہ کوئی معمولی فکر نہیں ہے اور کوئی معمولی بات نہیں ہے جسے آپ سن کر ٹال دیں کہ ہاں جی یہ بھی ایک فکر ہے.اگر آپ واقعاتی طور پر مشاہدہ کریں تو جس صدی کے آخر پہ ہم پہنچے ہوئے ہیں.اُس صدی کے آغاز پہ پیدا ہونے والے احمدیوں کے عظیم الشان مقامات ہیں.اس صدی کے سر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہیں.اس صدی کے سر پر حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، اس صدی کے سر پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی بچپن سے جوانی میں سر نکال رہے تھے ، اس صدی کے سر پر عظیم الشان صحابہ تھے جو تقویٰ کے مجسمے تھے ، اُن میں سے ایک ایک ایسا تھا جس کو قوم قرار دیا جا سکتا تھا، قوم بننے کی صلاحیت ان میں موجود تھی عظیم الشان قربانیاں کرنے والے عظیم الشان روحانی انقلاب بر پا کرنے والے لوگ تھے.انہوں نے دنیا کو حج کیا.اسلام کی خاطر اور احمدیت کی خاطر اور ہر قربانی کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے بلکہ قربانی پیش کر دی ایسے عظیم الشان وجود اس دور میں پیدا ہوئے کہ آئندہ اس وقت تک انسان کھڑے ہو کے سوچے تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان کی دوسری یا تیسری یا چوتھی نسل میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو ان سب قدروں کو بھلا دیں یا ان کے ہوتے ہوئے اس صدی کے بگڑنے کا کسی قسم کا کوئی سوال پیدا ہولیکن سالوں کا جو گزرنے کا طریق ہے وہ اچھی چیزوں کو مٹاتے چلے جاتے ہیں اور بری

Page 230

خطبات طاہر جلدے 225 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء چیزوں کو نمایاں کرتے چلے جاتے ہیں اس لئے وقت بعض پہلووں سے اچھی چیزوں کا سب سے بڑا دشمن بن جاتا ہے کتنی خوبصورت آپ تعمیر کریں وقت کا ہاتھ رفتہ رفتہ اس کو مٹانا شروع کر دیتا ہے اس کا حلیہ بگاڑنے لگتا ہے.کتنا اچھا لباس آپ بنائیں لیکن گزرتا ہوا وقت بعض اوقات بالکل غیر محسوس طور پر لیکن یقینی طور پر اس لباس کی سج دھج کو اس طرح مٹاتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد چند سالوں کے بعد آپ اسے پہنیں تو پہن کے شرمانے لگیں گے اپنے دوستوں کے سامنے اس لباس میں جانے کے لیے جھجک محسوس کریں گے.اسی طرح قومی کردار کے ساتھ بھی وقت کچھ کھیلیں کھیلتا ہے.اس پہلو سے یہ فکر بہت ہی خطرناک ہے آج اگر ہم آئندہ صدی میں روحانی اور اخلاقی لحاظ سے پوری طرح تیار ہو کر داخل نہ ہوئے تو اس صدی کے آخر کا کیا حال ہوگا.یہ وہ فکر ہے جو میری تنہا فکر نہیں ہونی چاہئے بلکہ آپ سب کی فکر بن جانی چاہئے.یہ وہ فکر ہے جو آپ سب کی فکر بننی چاہئے اور یہ فکر دعاؤں میں تبدیل ہونی چاہئے.ورنہ اتنی بڑی ذمہ داریاں جو ہم پر ڈالی گئی ہیں ہم ہرگز ان کو ادا نہیں کرسکیں گے.اس پہلو سے بالآخر میں اس بات پر مجبور ہوں کہ جماعت کو یہ اختیار دوں کہ وہ سارے دوست یا وہ سارے خاندان جو یہاں آکر بجائے اس کے کہ اپنی بدیاں پیچھے چھوڑ کر آتے اپنی بدیاں بھی ساتھ لے کر آئے اور یہاں کی بدیاں بھی اختیار کرنے لگے.ان کو جماعت سے علیحدہ کر دیں اور جہاں ضروری سمجھیں وہاں مجھ سے پوچھے بغیر پہلے قدم اٹھائیں اور پھر مجھے اطلاع کریں کیونکہ بعض دفعہ ایسی بدنامی کا موجب بنتے ہیں بعض لوگ کہ ان کے لئے انتظار نہیں کیا جاسکتا بعض دفعہ عدالتوں کو اطلاع کرنی پڑتی ہے کہ ہوگا یہ شخص پہلے احمدی، ہو سکتا ہے کہ ہم نے سرٹیفکیٹ بھی جاری کر دیا ہو لیکن اب ہماری نظر میں اس کا احمدیت سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا یا اس خاندان کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں اور جب ہم یہ کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے وہ شخص بگڑ گیا ہے.یہ بات ہم پوری طرح کھولتے ہیں کہ ہر شخص کا حق ہے کہ اپنے آپ کو احمدی کہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سچا سمجھتا ہے وہ کہتا رہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا دنیا میں احمدی کہنے سے لیکن احمد یہ جماعت کا جز بننا یہ ایک الگ بات ہے ، احمد یہ نظام کا حصہ بننا ایک الگ بات ہے.ایک انگلی اگر آپ کاٹ کے پھینک بھی دیں تو انگلی ہی رہے گی.اس انگلی کو آپ کسی بلے یا کتے یا سور کی انگلی تو نہیں کہہ سکتے جو انسان کی انگلی ہے لیکن اسے کاٹ کر جب پھینک دیا جائے تو وہ انسانی وجود کا

Page 231

خطبات طاہر جلدے 226 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء حصہ نہیں رہتی ، فعال حصہ نہیں رہتی.اس لئے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی شخص کے متعلق یا کسی خاندان کے متعلق یہ اعلان کر دیا جائے کے وہ جماعت احمدیہ کا حصہ نہیں ہے تو اس سے صرف یہ مراد ہے.یہ مراد نہیں کہ وہ انگلی کی طرح انگلی کہلانے کا مستحق نہیں رہا.انگلی ہو گی لیکن نظام سے کٹی ہوئی انگلی ، انگلی ہوگی لیکن وہ جو موت کی طرف حرکت کر رہی ہے اور سارے نظام سے تعلق جوڑ کر اس کو جو زندگی کا تحفظ حاصل تھا وہ اب حاصل نہیں رہا یہ اعلان ہے اور اس اعلان کو دنیا تسلیم کرتی ہے.سب دنیا اس حق کو تسلیم کرتی ہے اس میں کوئی نا انصافی کی بات نہیں.بعض لوگ اپنی غلط فہمی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جماعت احمدیہ کو حق ہے تو دوسروں کو کیوں یہ حق نہیں کہ آپ کو غیر مسلم قرار دے.ہم ان کو بتاتے ہیں کہ ان کو یہ حق ہے کہ اپنے نظام کا حصہ ہمیں نہ بنے دیں لیکن ہمارے عقیدے کے خلاف ہمیں غیر مسلم نہیں کہہ سکتے اس لیے ایسے شخص کو جو نظام سے کاٹا جاتا ہے ہم غیر احمدی نہیں کہہ سکتے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص اب احمدی نظام کا حصہ نہیں رہا، خلافت کے نظام سے وابستہ نہیں رہا.اس پہلو سے اب ہمارے پاس وقت اتنا نہیں رہا کہ بہت لمبا انتظار کریں تربیت میں.بعض جگہ آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے اپنی جماعت کی Repotation بچانے کے لئے ، جماعت کے جو تصورات یہاں موجود ہیں باقی لوگوں سے مختلف اور خدا تعالی کے فضل سے بہت سارا طبقہ یہاں ہے جو سمجھ رہا ہے کہ ہم بظاہر پاکستانی ہونے کے باوجود مختلف بھی ہیں یعنی اعلی کردار کے لحاظ سے ہم میں ایک فرق ہے، ہندوستانی ہونے کے باوجود مختلف ہیں، بنگالی ہونے کے باوجود مختلف ہیں.اس احساس کی حفاظت کرنا ضروری ہے.ایک یا دو یا دس یا ہیں خاندانوں کا نقصان تکلیف دہ ضرور ہو گا لیکن اس احساس کا مٹنا اُس سے ہزاروں گنا زیادہ تکلیف دہ ہے کہ جماعت احمد یہ اپنی اعلی قدروں سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے، اپنی بین الاقوامی شہرت سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے.جماعت احمدیہ کا جو عالمی مزاج ہے جس نے ساری دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے وہ زخمی ہو گیا ہے.یہ احساسات بہت زیادہ تکلیف دہ ہیں.اس لئے یہ ایک ایسا قدم ہے جو کر وا صحیح ، تکلیف دہ صحیح مگر جماعت کو اب بہر حال اٹھانا پڑے گا.لیکن اس سے پہلے میں سمجھتا ہوں کہ نظام جماعت کو بہت مستعدی کے ساتھ تربیت کی طرف غیر معمولی توجہ کرنی چاہئے اور اس سال کو جہاں دعوت الی اللہ کا سال منا رہے ہیں وہاں ساتھ ساتھ تربیت کا سال بھی بنائیں اس کے بغیر دعوت الی اللہ بھی

Page 232

خطبات طاہر جلدے 227 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء کامیاب نہیں ہوگی اور قومی امتزاجات پیدا نہیں ہوں گے.احمدیت نے مشرق اور مغرب کو جو اکٹھا کرنا تھا اور یک جان بنانا تھا وہ چیزیں خواب بن جائیں گی لیکن بہر حال ہم نے ہی کرنا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ہمارے سپرد کی ہے.اس لیے میں امید رکھتا ہوں کسی جگہ کچھ دیر کے بعد ، کسی جگہ نسبتاً جلدی بالآخر انشاء اللہ تعالی اسلام کے اس عظیم الشان بلکہ حضرت محمد مصطفی می کے اس عالمی نور سے دنیا متمتع ہو اور اس نور میں رنگین ہو جائے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ - خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے نماز عصر جمع ہوگی اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد جلسہ کی کارروائی ہوگی لیکن نماز عصر کے معابعد منتشر ہونے سے پہلے ہم نے کچھ جنازہ ہائے غیب کی نماز پڑھنی ہیں (1) سب سے پہلے فہرست میں موئے فورے پاہیمیا ہیں یہ ہمارے سیرالیون کے سیکنڈری سکول کے پرنسپل صاحب کے والد تھے، بزرگ انسان تھے ، جماعت احمد یہ میں شروع میں شامل ہونے والے بزرگوں میں سے تھے، ان کے متعلق ان کے بیٹے نے خط میں بڑے درد کا اظہار کیا ہے اور نماز جنازہ غائب کی بھی درخواست کی ہے.(۲) ملک محمد نواز صاحب گوجرانوالہ جن کی 9 مارچ کو وفات ہوئی.یہ گوجرانوالہ جماعت کے محاسب تھے ان کے ایک بیٹے ملک ناصر احمد آجکل جرمنی میں ہیں.(۳) چوہدری محمد حسین صاحب گوندل دار الرحمت شرقی دو روز قبل ربوہ میں وفات پاگئے.ان کی ایک بیٹی قمر رفیق کاہلوں صاحبہ جرمنی میں رہائش پذیر ہیں.(۴) عزیز احمد صاحب مبشر احمد صاحب جنرل سیکریٹری امریکہ کے والد تھے.۸۰ سال کی عمر میں امریکہ میں وفات ہوئی.انکے متعلق یہ بتا نا مناسب ہوگا کہ یہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے بھائی بنے ہوئے تھے اور بچپن ہی سے ان کا بڑا گہرا تعلق تھا اور آپس میں بہت ہی محبت اور پیار تھا.ان کے بیٹے مبشر احمد بھی اپنے باپ کے رنگ میں رنگیں ہوئے بلکہ بعض باتوں میں آگے بڑھے اور اب انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے اور بڑے اخلاص سے جماعت کی خدمت کر رہے ہیں.مبشر احمد آجکل جماعت احمد یہ امریکہ کے جنرل سیکریڑی بھی ہیں.

Page 233

خطبات طاہر جلدے 228 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۸ء (۵) ربوہ سے سید ظہور احمد شاہ صاحب کی وفات کی اطلاع ملی ہے.ان کے دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی جرمنی میں ہیں.انہوں نے درخواست کی ہے.(۶) اشرف حسین قریشی صاحب یہ عبدالباسط صاحب مبلغ کولون جرمنی کے خسر تھے ۱۵؍ مارچ کو لاہور میں اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے وفات پائی.(۷) نذیر بیگم صاحبہ صوفی نذیر احمد صاحب جو آج کل جرمنی میں ہیں اور انکے خاندان کے اور بھی بہت سے افراد جرمنی میں ہیں ان کی اہلیہ تھیں ابھی پرائیویٹ سیکریڑی صاحب کی طرف سے اطلاع ملی ہے ربوہ سے کہ وفات پاگئی ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون ان سب کی نماز جنازہ غائب عصر کی نماز کے معأبعد ہوگی.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: نماز کیلئے صفیں کچھ تنگ کرنی پڑیں گی تاکہ جو دوست باہر رہ گئے ہیں ان کو بھی موقع مل جائے.باہر چونکہ کیچڑ ہے اس لئے دوستوں کیلئے با ہر نماز پڑھنی ممکن نہیں ہوگی.اسلئے کچھ کچھ صفیں تنگ کرلیں.سجدے میں تھوڑی دقت ہوگی لیکن آپ کے دوسرے بھائیوں کو نماز پڑھنے کی سہولت مل جائیگی.

Page 234

خطبات طاہر جلدے 229 خطبه جمعه ۸ / ایریل ۱۹۸۸ء وقار عمل سے تکمیل پانے والی احمد یہ بیت الذکر گلاسکو کا افتتاح.جماعت احمدیہ فیض رساں جماعت ہے.( خطبه جمعه فرموده ۱/۸اپریل ۱۹۸۸ء بمقام بیت الرحمن گلاسکو سکاٹ لینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت بعد حضور نے فرمایا: گلاسکو کی یہ مسجد جسے اس سے پہلے ایک ہال خرید کر بعد میں مسجد کی صورت میں تبدیل کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے وقار عمل اور جماعت احمدیہ کے افراد میں جو خدا تعالیٰ نے خدمت دین کی روح بخشی ہے اس کا ایک نشان ہے.صرف یہی مسجد نہیں بلکہ اس کے ساتھ کے ملحقہ جتنے کمرے یا عمارت کے دیگر حصے ہیں آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ ان کی حالت اس سے پہلے بہت بوسیدہ تھی کیونکہ اس عمارت کو ایک ایسی بیماری نے گھن کی طرح کھانا شروع کیا تھا جو ایک خاص قسم کا گھن ہے اور وہ ایسا خطر ناک اور شدید ہے کہ صرف لکڑی ہی کو نہیں کھا تا بلکہ اینٹ ، پتھر اور سیمنٹ اور مٹی ہر قسم کی چیزوں کو کھاتا ہے اور اس کا سوائے اس کے کوئی علاج نہیں کہ ان تمام بیمار حصوں کو جس طرح کینسر ہوتا ہے جس کو نکال کر باہر پھینکا جاتا ہے، اس کو باہر پھینکا جائے.اس غرض سے جب ہم نے تخمینے لئے تو معلوم ہوا کہ صرف صفائی اور اس گھن کے ایسے علاج کے لئے کہ آئندہ اس کے لگنے کا خطرہ نہ رہے ۸۰ ہزار پاؤنڈ درکار ہیں اور بوسیدہ عمارت کے حصوں کو جب نکال کے باہر پھینکنا تھا تو جو رہائشی حصہ ہے وہ بالکل خالی ہو جاتا اور از سرنو وہاں تعمیر کرنا پڑنا تھا.چنانچہ اس کے اوپر ان کے خرچ کا اندازہ اتنا تھا کہ کل رقم تقریباً دولاکھ چالیس ہزار کے لگ

Page 235

خطبات طاہر جلدے 230 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء بھگ بنتی تھی.اس کے علاوہ ہم نے یہاں ایک بیرونی حصے کے اضافے کا فیصلہ کیا تا کہ جماعت جب بڑھے گی پھیلے گی اللہ کے فضل کے ساتھ تو ضروریات بھی بڑھیں گی ان کو الگ ایک اجتماعی باور چی خانے کی ضرورت پڑے گی اور اسی طرح بعض ایسی ضرورتیں ہیں سامان اکٹھارکھنا وغیرہ اس کے لئے بھی جگہ کی ضرورت تھی.تو یہ اضافہ تقریباً جو عام اندازہ ہے باہر کا اس کے لحاظ سے کل چھپیں ہزار پاؤنڈ کا اضافہ بنتا ہے.تو گویا کل رقم جو جماعت کو درکار تھی وہ دولاکھ پینسٹھ ہزار کے قریب بنتی ہے.پھر اس کے اوپر Furnishing ہے قالین وغیرہ لینے ہیں دوسرے عمارت کے سامان تو کم و بیش یہ دو لاکھ اسی ہزار (۲۸۰،۰۰۰) سے کچھ اوپر رقم بن جاتی تھی جس کی جماعت کے پاس اس وقت ہرگز استطاعت نہیں تھی.چنانچہ مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اصل جماعت کی طاقت تو خدمت دین کے جذبے میں ہے، اس روح میں ہے جو جماعت کی زندگی کا نشان بنی ہوئی ہے.اس لئے تحریک کی جائے اور شمالی جماعتوں کے خدام، انصار، بچوں سے کہا جائے کہ وہ خود آ کر اس گند کو صاف کریں اور ہم ضروری دوائیاں لے لیں اور جو بھی طریق کار ہے وہ سمجھ لیں.چنانچہ اس طرز کے لئے عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ کو میں نے مقرر کیا.چنانچہ انہوں نے جائزہ لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب کام شروع کرایا تو بہت ہی زیادہ گند نکلا ہے.اتنا کہ بعض خدام اور بعض انصار بھی بیمار پڑ گئے.نہایت خطرناک بد بو اور تعفن تھا جسے صاف کرنا پڑا اور خمینے سے بہت زیادہ لا ریاں بھر بھر کے یہاں سے باہر بھیجنی پڑیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا ہرقسم کی احتیاطیں برقی گئیں.جتنا ایک کمپنی نے تخمینہ لگایا تھا اس سے کچھ بڑھ کر کام نکلا اور کچھ اور حصے بھی عمارت کے تلف کرنے پڑے اور ان سب کے بعد پھر از سرنو ہمارے ربوہ سے آئے ہوئے دو بہت ہی عمدہ کام کرنے والے واقفین زندگی نے آکر تعمیری کام شروع کیا.انہوں نے مستقل تو زندگی وقف نہیں کی ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احسان اور عزیز دونوں ہی وقف کی روح کے ساتھ یہاں تشریف لائے تھے اور ان پر کھول دیا گیا تھا کہ آپ کوئی عام مزدوری کرنے والے لوگ نہیں ہیں.اس غرض سے آرہے ہیں کہ خدمت دین کرنی ہے جتنی بھی خدا تو فیق عطا فرمائے.چنانچہ انہوں نے اگر چہ شروع میں چھ مہینے سال کا خیال تھا لیکن انہوں نے ہر گز واپسی کا نہ صرف مطالبہ نہیں کیا بلکہ مسلسل مجھے یاد دہانی کراتے رہے کہ وقف کی روح کے ساتھ آئے ہیں جب تک خدمت کی ضرورت ہے وہ

Page 236

خطبات طاہر جلدے 231 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء یہیں رہیں گے.چنانچہ اللہ تعالی کے فضل سے ان کو موقع ملتا رہا اور ان کے ساتھ خدام نے جو محنت کی ہے وہ ایک لمبی داستان ہے.جنہوں نے دیکھا ہے اور مجھے تاثر بیان کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حیرت ہوتی تھی کس طرح یہ لوگ کام کر رہے ہیں.بہت ہی غیر معمولی ہمت اور استقلال کے ساتھ پینٹنگ بھی پھر سب خود کی اور آج یہ عمارت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بالکل نئی شکل میں ، ایک انفرادی شکل میں ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے اور پہچانا نہیں جاتا کہ یہ وہی عمارت ہے.اوپر میرے لئے جہاں رہائش کا انتظام ہے ، بیوی بھی کہہ رہی تھیں جو میرے ساتھ آئی تھیں پچھلی دفعہ بھی کہ یہ وہی عمارت ہے جس میں ہم پہلے آئے تھے، کوئی نسبت نہیں.وہ تو ماحول ہی بڑھا گھنٹا ہواسا اور بد بو اس وقت بھی تھی لیکن بعد میں جب اکھیڑا گیا گندے حصے کو تو بتایا گیا ہے کہ سخت تعفن پھیل گیا ہے سارے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان سب کو توفیق بخشی اور بہت ہی ایک یادگار خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی.چنانچہ اگر چہ اس عمارت کا افتتاح رسمی طور پر اس سے بہت پہلے ہو چکا ہے لیکن اس خدمت کو خراج تحسین دینے کے لئے میں نے خود اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس نئی عمارت کا از سر نو افتتاح کیا جائے اور وہ سب خدام اور انصار اور بچے جنہوں نے محنت کی ہے ان کے ساتھ اکٹھی تصویر کھنچوائی جائے جسے یہاں آویزاں کیا جائے.اس کے ساتھ ہی مجھے ان امور پر غور کرتے ہوئے ایک اور بھی خیال آیا کہ ہم جو صد سالہ جشن منا رہے ہیں اس میں ایک بہت اہم جماعت کے امتیازی نشانوں میں سے ایک ایسی چیز ہے جسے پیش کرنا چاہئے اور وہ وقار عمل ہے.آج ساری دنیا میں کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کو خدا نے یہ توفیق نہیں بخشی کہ گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصہ سے کوئی اس طرح لگن کے ساتھ مسلسل وقار عمل کے ذریعے اپنے کام خود کرتی ہو اور نہ صرف اپنے کام بلکہ دوسروں کے کام بھی کرتی ہو.بازاروں کو صاف کرنا ، گندے گڑھوں کو دور کرنا اور کئی قسم کے ایسے کام ہیں جو شہری اور دیہاتی ضروریات کے کام ہیں.پاکستان اور ہندوستان میں بھی جماعت نے اس سلسلے میں عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہوئی ہیں.پھر سیلابوں کے دنوں میں سخت عذاب کی صورت پیدا ہو جاتی ہے بعض دفعہ.چنانچہ لاہور میں ایک دفعہ اتنے بڑے سیلاب آئے ، اتنی بارشیں ہوئیں کہ بعض غرباء کی بستیوں کی بستیاں بالکل تباہ ہو گئیں اور کوئی ان کے سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی.نہ حکومت کی طرف سے انتظام تھا نہ اردگر کسی اور کی طرف سے ہمدردی کا اظہار تھا اور ساتھ ہی اس علاقے میں جماعت اسلامی کا مرکز تھا.وہ صرف نفرت کی تعلیم دینے کے لئے ان

Page 237

خطبات طاہر جلدے 232 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء غریبوں کے پاس تو پہنچا کرتے تھے ، ہنگاموں کے لئے ان کو اکسانے کی خاطر تو ان کو تلقین کیا کرتے تھے لیکن جب ضرورت پڑی، جب ان کے سر ننگے ہو گئے اس وقت ان سروں کو ڈھانپنے کے لئے وہاں کوئی نہیں پہنچا.چنانچہ اس وقت مجھے یاد ہے کہ میں قائد خدام الاحمد یہ ربوہ تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے بلایا اور وہ سارا جو نارمل طریق ہے صدر کی معرفت پہنچنا وہ سب نظر انداز فرما دیا.اور مجھے کہا میں تمہیں خود ہدایت دینا چاہتا ہوں فوری انتظام کرو اور اس کام کو بہر حال کرنا ہے اور اس سلسلے میں جوضرور تیں ہیں براہ راست مجھے بتاؤ، کوئی ضرورت نہیں کسی اور انتظامی رستے کو اختیار کرنے کی.اس ضمن میں میں یہ بتا دوں کہ جب نیچے سے اوپر چیز حرکت کرتی ہے تو انتظامی رستہ اختیار کرنا ضروری ہوا کرتا ہے.اس سے کوئی غلط اندازہ نہ نکالے یا غلط نتیجہ نہ نکالے.جو اوپر کا افسر ہے اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ حسب ضرورت عام حالات کے علاوہ جب استثنائی حالات دیکھے تو درمیانی رستے کو نظر انداز کر دے.اس بات کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بسا اوقات انتظامی طور پر اعتراضات میرے سامنے آتے رہتے ہیں کہ فلاں افسر تھا اس نے میرے ماتحت افسر سے براہ راست رابطہ کیا اور مجھے نظر انداز کر دیا.اگر تو ایسا کرنے میں کوئی بد نیتی شامل ہو تو یہ جرم بن جاتا ہے، نہایت ہی ناپسندیدہ بات ہے لیکن یہ کہنا کہ افسر بالا کو اختیار نہیں ہے، یہ غلط بات ہے.اس لئے یہ دیکھنا میرا فرض ہوتا ہے ایسے موقع پر کہ اس میں کوئی بدنیتی یا شرارت یا کسی کو نیچا دکھانا تو مراد نہیں تھی اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو بلکہ معلوم ہو کہ واقعۂ ضرورت تھی تو پھر ہرگز ایسے افسر پر کوئی اعتراض نہیں.چنانچہ اس بنیادی اصول کو حضرت مصلح موعودؓ سب سے بہتر سمجھتے تھے اور ہمیشہ اسی طرح آپ نے عمل فرمایا ہے.اسی وجہ سے آپ نے مجھے اس وقت فوری بلایا اور کہا کہ تم نے تمام راجوں سے جور بوہ میں راجگیر ہیں ان سے اپیل کرنی ہے کہ اپنے آپ کو غریبوں کے گھر بنانے کے لئے مفت پیش کر دیں اور جب تک جماعت ان کو چاہتی ہے وہ خدمت کریں.عموماً خیال تھا کہ ہفتہ کے اندر ہو گا چنانچہ پھر کم و بیش اسی عرصے میں ہی ہمارا کام مکمل ہو گیا تھا اور لاہور کے خدام کو ہدایت کرو اور ربوہ کے مزدور طبقہ خدام کو ہدایت کرو کہ وہ جتنے ساتھ جا سکتے ہیں وہاں جائیں اور سامان کی جو قیمت ہے وہ میں مہیا کروں گا لیکن کام سارا تم لوگوں نے خود کرنا ہے اور وہاں جا کے ان کی بستی کو دوبارہ آباد کرنا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کثرت سے لبیک کہا ہمارے راج گیروں نے اور لکڑی

Page 238

خطبات طاہر جلدے 233 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء کے کام کرنے والوں نے ، مزدوروں نے ، لاہور کے خدام بڑی کثرت سے آئے اور وہاں اتنی رونق لگ گئی دیکھتے دیکھتے گری ہوئی بستی اٹھ کھڑی ہوئی اور ان لوگوں کے حوصلے بھی ساتھ بلند ہوئے.حیران ہو کے آئے کہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھ اور کثرت کے ساتھ لوگوں نے کہا کہ اگر اسلام یہ ہے تو پھر واقعہ یہی اسلام ہے ورنہ وہ اسلامی جماعت ہمارے ساتھ ہی ہے اس میں سے کسی نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ تمہارا حال کیا ہے؟ لوگوں گھر برباد کرانے کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں مدد کے لئے ، جب ہمارے گھر گرے اور منہدم ہوئے اس وقت ان کو کھڑا کرنے کے لئے کوئی نہیں آیا ان میں سے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بہت ہی غیر معمولی طور پر نیک اثر پہنچا.اس لئے جماعت کے ہر طبقے میں یہ روح راج گیری کرنے والوں میں اور ترکھانوں میں اور ہر قسم کے طبقے میں جب وقار عمل کے نام پر اپیل کی جاتی ہے تو سارے اپنے پیشوں کے فرق کو ، اپنی ضرویات کو سب کچھ بھلا دیتے ہیں اور فن کی قیمت نہیں مانگتے بلکہ حسب ضرورت جو ان کی زندگی کے لئے گزراوقات کا وظیفہ ہے وہ جنتنا دے دیں اسی پر راضی ہو جاتے ہیں اور نہ بھی دیں تو کوئی ایسے مواقع بھی ہیں جنہوں نے جیسا کہ میں نے بیان کیا وہاں مفت کام کیا ہے اور صرف روٹی اور کھانا جوسب خدام کو ملتا ہے وہ ساتھ میں ان کو بھی ملتارہا.اس خیال کے ساتھ مجھے خیال آیا کہ یہ تو بہت ہی ایک عظیم الشان امتیازی نشان ہے جسے صد سالہ جو بلی میں پیش کرنا چاہئے.چنانچہ اس کے لئے میں نے ہدایت کر دی ہے مرکز میں بھی، قادیان بھی لکھا گیا ہے اور جماعتوں کو بھی کہ جہاں جہاں کوئی نمایاں خدمت خدام الاحمدیہ کے ذریعے یا جماعت کی طرف سے وقار عمل سے کام ہوئے ہیں اگر ان کی تصویریں موجود ہیں تو وہ مہیا کریں تا کہ ہم صد سالہ جو بلی کے تحائف میں ایک یہ تحفہ بھی رکھیں.اسی دنیا میں جوار بوں کی دنیا ہے اور سارا انحصار حکومتوں پر یا دوسرے ایسے ذرائع پر ہے جہاں پیسہ اور خدمت کہیں اور سے آئے اور کچھ لوگ انحصار کر کے بیٹھے رہیں کہ ہمیں ملے تو ہم کچھ فائدہ اٹھائیں.بالکل برعکس ایک رو خدمت دین کی جماعت احمدیہ میں چلی ہے کہ اپنے طور پر خود کفیل بھی ہیں اور حد سے زیادہ محنت کر کے بہت عظیم الشان کام کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو جماعت کو روپیہ بچتا ہے وہ جب میں آپ سے بیان کروں گا تو آپ حیران ہوں گے کہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا زیادہ روپیہ وقارعمل کے ذریعہ بچایا جاسکتا ہے لیکن یہی نہیں بلکہ پھر وہ دوسروں کی خدمت پر بھی تیار ہیں اور جولوگ وقت آنے پر ان کو گالیاں دیتے

Page 239

خطبات طاہر جلدے 234 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء ، ان کے گھر منہدم کرنے کی کوشش کرتے جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو پھر یہی وقار عمل کرنے والے آکر ان کی بھی خدمت کرتے ہیں.تو امید ہے یہ تصویر میں انشاء اللہ تعالیٰ کچھ اکٹھی ہوں گی.مجھے یاد ہے قادیان میں حضرت مصلح موعود جنہوں نے وقار عمل کی نیک رسم جاری کی تھی جماعت میں ان کی تصویر میں ہوا کرتی تھیں مجھے اب مہیا کہیں سے کرنی پڑیں گی خدا کرے مل جائیں کہیں نہ کہیں سے کہ خود جو کدال سے مٹی کھودرہے ہیں سڑکوں کی تعمیر کے لئے سر پر مٹی کی ٹوکری اٹھائے لئے پھر رہے ہیں.بڑے، چھوٹے انصار، اطفال سب اس وقت ایک جان ہو کر ایک بدن کی طرح اکٹھے خدمت دین کیا کرتے تھے.اب انگلستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ روح بڑی تیزی سے زندہ ہورہی ہے اور بڑے بڑے عجیب اس نے مظاہر دکھائے ہیں.چنانچہ اسلام آباد میں جو انقلاب بر پا ہوا ہے وہ پہنچانی نہیں جاتی جگہ جو ہم نے خریدی تھی اور وہاں نئی عمارتیں بھی کس شان کی بنی ہیں اس کے حساب آپ دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ ان چند پیسوں میں اتنے عظیم الشان کام کیسے ہوئے.وہ خدا تعالیٰ نے آپ کے اندر جو ایمانی روح عطا فرمائی ہے آپ کو جو جذبہ عطا کیا ہے خدمت دین کا یہ اسی کا مظہر ہے.اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ یہاں مثلاً جو خدمت کا موقع ملا ہے خدام اور انصار کو اس کے نتیجہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ساری عمارت کو از سر نو بحال کیا گیا، نئے فلیٹ بنائے گئے ،نئی سیٹرھیاں ، نئی چھتیں، پہلے سب گند نکالے گئے اور جو تخمینہ کم وبیش دولاکھ اسی ہزار پاؤنڈ کا بنتا تھا اس کی بجائے ستر ہزار پاؤنڈ کے اندر یہ سارے کام مکمل ہو گئے ہیں.کچھ شائد قالینوں وغیرہ کا یاFinishing کا کام کرتے وقت ۷۵ بن جائیں لیکن ۸۰ سے اوپر نہیں بڑھتی بات اور ۸۰ کی رقم وہ تھی جو صرف اس گند کو صاف کرنے کے لئے ہمیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا.تو اب تو اس عمارت کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے.جب ہم نے خریدی تھی تو چالیس کے لگ بھگ قیمت تھی اور غالباً اسی لئے ہمیں ستی دی گئی تھی کہ جولوگ جانتے تھے عمارت کے حال کو ان کو پتا تھا کہ اس کو تو ایسا کیٹر لگا ہوا ہے کہ یہ سنبھالی نہیں جائے گی عمارت ساری منہدم ہو جائے گی.ان کو یہ نہیں پتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایک کیڑے مار جماعت بھی پیدا کی ہوئی ہے جو ہر قسم کے گندا اور ہر قسم کے کیڑوں کا مقابلہ کر کے چیزوں کو حیات نو بخشتی ہے اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو جماعت احمدیہ میں اور دوسری دینی کہلانے والی جماعتوں میں اس وقت نمایاں

Page 240

خطبات طاہر جلدے 235 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء ہوتا جا رہا ہے.ان کی ساری توجہ تخریب کی طرف ہوگئی ہے.اب آپ نے باہر جو چند آدمی دیکھتے ہیں ، ان کے حلیہ بھی آپ نے دیکھا ہے.کس شکل وصورت کس قماش کے لوگ تھے اور وہ کھڑے ہوئے سوائے اس کے کہ گندے نعرے لگائیں جماعت کے خلاف، کوئی کام نہیں.جمعہ بھی اپنا چھوڑ کر بیچارے آئے ہوئے ہیں.مصیبت میں باہر کھڑے اور یہی ان کی خدمت دین ہے اور اس کے مقابل پر میں دیکھ رہا تھا جماعت کے سارے احمدی دوست جو آتے رہے ہیں بڑے وقار کے ساتھ ایک ذرہ بھی انہوں نے کسی قسم کی کوئی لغزش نہیں تھی ان کے اندر، کوئی غصہ کا رد عمل نہیں تھا اور لاحول پڑھتے ہوں گے دل میں مگر اونچی آواز سے نہیں اور اسی طرح لاحول پڑھتے اور استغفار کرتے ہوئے بڑے باوقار قدموں سے مسجد میں داخل ہو رہے تھے، ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں کہ باہر یہ کیا ہو رہا ہے.یہ ہے فرق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا ایک نشان ہے.اس نشان کو ہمیں ہمیشہ زندہ رکھنا پڑے گا.دن بدن وہ لوگ جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکر ہیں وہ تخریب کاری کی طرف مائل ہوتے چلے جارہے ہیں اور بعض جگہ اتنا میلان یہ بڑھ گیا ہے کہ اسلام کو تخریب کاری کا نشان قرار دیا جا رہا ہے دنیا میں.اتنی بدبختی اور بدنصیبی ہے کہ وہ دین جن کا نام تھا امن دینا اور ساری دنیا کے امن کی خاطر خدا نے قائم فرمایا تھا اس دین کو آج تخریب کاری کا نشان بنایا جارہا ہے اور یہ سزا ہے اس ایمان کے انکار کی جس کو خدا نے خود مقرر فرمایا تھا.ایمان کی حیثیت سر کی ہوا کرتی ہے.اگر سر کٹ جائے یا سر سے جسم علیحدہ ہو جائے اور اسے قبول نہ کرے تو کچھ دیر جان رہتی ہے، جسم پھڑکتا بھی ہے لیکن اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اور اگر وہ اعصابی رستے کسی طرح خراب ہو جائیں جن کے ذریعے سر جسم پر حکومت کرتا ہے اس کی نگرانی کرتا ہے اور پیغام پہنچنے بند ہو جائیں تو پھر زندہ بھی بڑی دیر تک رہتا ہے لیکن اس کی اپنی حرکتیں بالکل پاگلوں والی اور بے معنی ہو جاتیں ہیں اور اس کے اندر کوئی نظم و ضبط دکھائی نہیں دیتا.ایسے ہی اوقات میں جب خدا تعالیٰ نے کسی مذہب کو زندہ رکھنا ہو تو نئے سر عطا کیا کرتا ہے اور اسی کا نام الہی امامت ہے.جو سر سے قطع تعلق کر لے یا جس تک پیغام پہنچنے کے ذریعے مسدود ہو جائیں اور جس طرح کہ یہ لوگ آج کل کر رہے ہیں یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعے مسدود کئے جاتے ہیں کہ شور مچاتے ہیں کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کا پیغام دوسروں تک نہ پہنچے اور اس کے ذریعے سے جسم کو محروم کرنے کے

Page 241

خطبات طاہر جلدے 236 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء لئے درمیان میں بعض مفسد داخل ہو جاتے ہیں.ان کا کام ہی یہی ہے کہ آواز کو آگے نہ پہنچنے دیا جائے.اس ذریعے سے وہ جسم کو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سر کی برکتوں سے محروم کر دیتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ہر نبی کی دفعہ یہی ہوا.خود آنحضرت ماہ کے وقت یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ جب آپ تلاوت شروع کریں، قرآن پڑھیں تو شور مچا دیا کرو اور کوشش کرو کہ یہ آواز دوسروں تک نہ پہنچے.سچائی کی آواز کا خوف جھوٹ کی علامت ہے اور کبھی بھی آپ دنیا میں یہ نہیں دیکھیں گے کہ سچائی نے شور مچا کر جھوٹ کی آواز دبانے کی کوشش کی ہو.ایک بھی واقعہ ساری کائنات میں کبھی نہیں ہوا ہمیشہ جھوٹ ڈرتا ہے، خوف کھاتا ہے، بیچ میں روکیں حائل کرتا ہے اور کسی حد تک بلکہ شروع میں بہت بڑی حد تک اس کو اتنی کامیابی ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ امام کی آواز وہ لوگوں تک نہیں پہنچنے دیتے اور اس کی وجہ سے ان کے اوپر جتنی مصیبتیں آتی ہیں ان سب کے ذمہ دار قرار دئے جاتے ہیں.بہت ہی بڑی بدبختی ہے کہ انسان کسی کی فلاح کی راہ میں کسی کی بہبود کے رستے میں کھڑا ہو جائے اور جو اس کا حق ہے بقاء کا وہ اس تک پہنچے نہ دے.آج کل جس طرح افریقہ کے بعض ممالک میں جہاں کثرت سے لوگ بھو کے مررہے ہیں بعض لوگ بین الاقوامی مدد کے اور ان کے درمیان میں حائل ہورہے ہیں اور یونائٹیڈ نیشنز کی طرف سے جو خوراک پہنچائی جا رہی ہے وہ اسے وہاں پہنچ نہیں دیتے.یہ تو جسمانی خوراک ہے لیکن جب روحانی خوراک کے رستے میں اس طرح لوگ روکیں بنتے ہیں تو بہت بڑی تباہی آتی ہے اور اس کے نتیجہ میں پھر جسمانی تکلیفیں بھی بڑھتی ہیں، دنیاوی عذاب بھی ایسی قوموں پر آنے لگتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ امتیاز بخشا ہے بجائے اس کہ آپ تخریب کی طرف مائل ہوں آپ کو خدا نے تعمیری طاقتیں عطا فرمائیں ہیں.اس پہلو سے ساری دنیا کے وقار عمل کی جب تصویریں یعنی سب تو نہیں مل سکتیں لیکن نمونہ کی چند تصویر میں جب ایک خوبصورت کتابی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کی جائیں گی تو اس وقت دنیا کو دلائل کی روسے نہیں بلکہ عملی نمونہ کے طور پر معلوم ہو گا کہ جماعت کی روح ہے کیا.کوئی جماعت جو کسی ظالم نے خدا پر دروغ کرنے والے نے بنائی ہو اس کے اندر یہ تعمیری صلاحیتیں پیدا ہی نہیں ہو سکتیں.سب دنیا تخریبی کاموں میں مصروف ہو رہی ہو اور بڑھ رہی ہو اور ایک جماعت دن بدن تعمیر کی طرف مائل ہو رہی ہو.انگلستان میں آپ دیکھ لیں چند سال پہلے تک وقار عمل اگر ہوتا بھی ہوگا تو بہت معمولی ایک آدھ صفائی کہیں کر دی لیکن چند سال

Page 242

خطبات طاہر جلدے 237 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء کے اندر جماعت نے جو تعمیری کاموں میں ترقی کی ہے وہ حیرت انگیز ہے اور وہ نو جوان جن کے متعلق لوگ سمجھتے تھے کہ بدتہذیب کے زیر اثر آکر جماعت سے آنکھیں پھیر رہے ہیں یا رنگ بدل رہے ہیں ان کے رنگ اور رنگ میں بدلنے شروع ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور بہت ہی حیرت انگیز خدمت کرنے والے نوجوان اسی انگلستان کی جماعت سے پیدا ہوئے.پھر میں ابھی جرمنی کا دورہ کر کے آیا ہوں.وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی کثرت کے ساتھ خدمت دین کرنے والے پیدا ہو رہے ہیں اور دن بدن آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں.بہت سے ایسے چہرے میں نے وہاں دیکھے جو پاکستان میں اتنے زیادہ خدمت دین کے کاموں میں دکھائی نہیں دیتے تھے.بہت سے چہرے بالکل ہی اجنبی نظر آئے جو نہ وہاں خدام الاحمدیہ میں کبھی دکھائی دئے ، نہ وقف جدید کے دوروں کے سلسلے میں کبھی دیکھا اور کثرت سے میں پاکستان پھر چکا ہوں، اکثر احمدی دیہات میں پہنچا ہوں.اس لئے بعض دفعہ تعجب سے میں کہتا تھا کہ آپ واقعی احمدی ہیں.وہ کہتے جی ہاں ! ہم احمدی ہیں فلاں کے بیٹے ، فلاں کے بیٹے.پھر میں ان کو پوچھتا تھا کہ اچھا پھر آپ کبھی پہلے نظر نہیں آئے.تو پتا لگا کہ ان کے اندر جو روحانی تبدیلی ہوئی ہے ہجرت کے ساتھ ہوئی ہے اور اس نئے دور میں ان کے چہرے ان کے رنگ ڈھنگ ہی بالکل بدل گئے ہیں.چنانچہ ہمارے جلسے سے پہلے مسلسل بارش تھی ، سردی تھی اس علاقے میں چونکہ گھاس کم ہے اس لئے کیچڑ بہت تھا اور ہزار ہا آدمیوں کے لئے انہیں انتظام کرنا تھا.فرینکفرٹ جیسی جگہ میں جہاں تین ہزار سے زائد مہمان متوقع ہوں بلکہ کل تو چار ہزار سے بھی زائد تھے شامل ہونے والے جلسے میں.وہاں سب کا انتظام کرنا اور پھر خالی جگہ میں مارکیز لگا کر اس کے نیچے بچھٹے بچھانا دوسرے کئی قسم کے ایسے کام کرنا تا کہ مہمانوں کو اور جلسہ میں بیٹھنے والوں کو تکلیف نہ ہو.بہت ہی بڑا کام تھا اور شروع میں تو ان لوگوں کو خود بھی یقین نہیں تھا کہ کام ہو سکے گا، بڑے پریشان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت کوایسی طاقت عطا فرمائی ہے کہ بالکل جن لگتے ہیں اور جنوں کی طرح انہوں نے کام کیا دیکھتے دیکھتے اس جگہ کی کایا پلٹ دی.جب جلسے کا آغاز ہوا ہے تو ہر چیز نہایت سلیقہ کے ساتھ ، انتظام کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بچھائی گئی تھی اور معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چند دن پہلے اس جگہ کا کیا حال تھا.اس کے علاوہ بھی جماعت کے اندر خدمت دین کے لئے مالی قربانی کی روح دن بدن

Page 243

خطبات طاہر جلدے 238 خطبه جمعه ۱/۸اپریل ۱۹۸۸ء بڑھتی چلی جارہی ہے.وہی جرمنی جہاں آنے والے اس سے پہلے اپنے چندوں میں، سارے تو نہیں مگر ایک حصہ بالکل غافل تھا اور ان کے پاکستان سے آنے کے نتیجہ میں پاکستان کی جماعت کے چندوں پر کوئی فرق نہیں پڑا یہ آپ اندازہ کر لیجئے.لیکن جرمنی آکران نو جوانوں نے جو خدمت دین کا نمونہ دکھایا ہے وہ حیرت انگیر ہے.تقریباً پاکستان کا آدھا بجٹ جرمنی کی جماعت پورا کر رہی ہے اور ہر تحریک میں پیش پیش ہے.بہت ہی غریبانہ حالت بھی ہو قربانی کا جذبہ بہت بڑھا ہے اور اتنے ہر وقت مستعد رہتے ہیں لبیک کہنے پر کہ بعض دفعہ مجھے جبر رو کنا پڑتا ہے کہ نہیں اتنی قربانی نہیں میں نے کرنے دینی کیونکہ خدا نے تمہارے اپنے حقوق رکھے ہوئے ہیں.تم محنتیں کر کے کچھ کر رہے ہو اپنے لئے ، اپنے اہل وعیال کے لئے ، اپنے غریب رشتہ داروں کو بھی تم نے بھیجا ہوگا پیچھے.تو روکنا پڑتا ہے لیکن یہ باتیں اس سے پہلے ان لوگوں میں نمایاں نہیں تھیں.ایک دبی ہوئی صلاحیت کے طور پر موجود تھی ضرور ایک ایسے خزانے کے طور پر موجود تھی جو مدفون تھا مگر خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے ان خزانوں کو ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے اور اس نئے دور میں غیر معمولی طور پر ان غریب مہاجرین کو خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے.پھر تبلیغ کا ان کو اتنا شوق ہے.سب کو تو نہیں لیکن جن کو بھی شوق ہے وہ لاعلمی کے باوجود کے اتنا اچھا کام کر رہے ہیں تبلیغ کا کہ جن لوگوں کو وہ جلسوں پر لے کر آئے ہوئے تھے اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ان سے کتنا متاثر ہیں.بہت سے لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے بعض لوگ بالکل بے چارے، علم کے لحاظ ان پڑھ تو نہیں کہنا چاہئے مگر کافی علم نہیں رکھتے ، زبان کے لحاظ سے بھی کمزور لیکن عربوں کو تبلیغ کر رہے ہیں، ترکیوں کو تبلیغ کر رہے ہیں، جرمنوں کو تبلیغ کر رہے ہیں ، یوگوسلاو مینز کو تبلیغ کر رہے ہیں.ان کے اردگرد ایک دوستوں کا جھرمٹ ہے جو ان کے ساتھ بہت پیار کرتا ہے کیونکہ ان کے اندر بعض صلاحیتیں ہیں جس کی وجہ سے وہ دوستی کرتے اور پھر اپنے اندر ایک جذب پیدا کر دیتے ہیں ان کے لئے.بعض لوگوں میں یہ جذب خدا تعالیٰ نے ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے.بعض اس کو مزید جلا بخشتے ہیں اور اس کے بغیر تبلیغ ہو نہیں سکتی.چنانچہ ان نو جوانوں کو جرمنی میں میں نے دیکھا ہے.ان کے اندر عاجزی ہے، انکسار ہے، پیار اور محبت سے بات کرتے ہیں.جانتے ہوئے که مخاطب بہت قابل اور بہت بڑا ہے ان سے ، بڑی جرات کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم تمہیں کچھ دے

Page 244

خطبات طاہر جلدے 239 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء سکتے ہیں ، ہماری بات مانو.تو شروع میں تو بعض لوگ تعجب کی خاطر ہی کہ کس قسم کے لوگ ہیں ذرا دیکھیں تو صحیح ان میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ تبلیغ کا سلسلہ آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.جو ہماری جرمن نو مسلموں کے ساتھ اور بعض دیگر قوموں کے ساتھ میٹنگ تھی اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سو بیس مہمان شامل تھے اور ان میں سے جو احمدی تھے ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا حیرت انگیر معیار تھا اور ابھی سارے تو نہیں آئے بعض جماعتوں کی جماعتیں ایسی تھیں نئی ، جرمن جماعتیں جو وہاں شامل نہیں ہو سکیں کیونکہ ان کے لئے اور قسم کی مشکلات اور دقتیں ہیں کہ رخصتوں کے وقت مثلاً ایسٹر کی رخصتوں کے وقت اپنے رواج کے مطابق ان لوگوں نے بچوں کو لے کر سیر پر بھی جانا ہوتا ہے.اس لئے جلسے میں اس طرح شامل نہیں ہو سکتے جس طرح ہم لوگ خاص طریقے سے شامل ہوتے ہیں.لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی انشاء اللہ جذ بہ بڑھے گا مگر یہ ایک سو بیس اکٹھے آدمی دیکھ کر اور جس دلچسپی کے ساتھ انہوں نے اس مجلس میں سوال و جواب کئے تین گھنٹے کا ان کا وقت مقرر کیا تھا اور تین گھنٹے یوں گزر گئے جیسے پتا ہی نہیں لگا کہ وقت کہاں گیا ہے اور ابھی ان کی تشنگی باقی تھی.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس نئے دور میں جماعت کو اپنے فضل سے ایک ملکہ عطا کیا ہے اور ایک جذ بہ بخشا ہے کہ تبلیغ کرنے کا ڈھنگ سیکھیں اور پھر جوش کے ساتھ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں.اس کے مقابل پر دشمن کا سارا زور گالیاں دینے پر ہے، آپ کو مرتد قرار دینے پر ہے، آپ کے خلاف سازشیں کرنے پر ہے.پاکستان میں جو اس وقت ہو رہا ہے وہ تو آپ جانتے ہیں لیکن مزید ایک لہر دوڑی ہے وہاں شرارت کی اور فتنہ وفساد کی کہ تمام مسجدوں سے ہر قسم کے کلے مٹادئے جائیں اور مسجدوں کے گنبد گرا دئے جائیں ،مسجدوں کے رخ تبدیل کر دئے جائیں.کلمہ مٹانے کے لئے جب پولیس آئے تو جتنے احمدی مسجد میں ہیں سب کو گر فتار کر لیا جائے.یہ عام سلسلہ چند دن سے شروع ہوا ہوا ہے.وہاں سے صدر انجمن کی طرف سے مجھے پیغام ملا ہے کہ آپ گھبرائیں نہیں، پریشان نہ ہوں ہمارے لئے ہم بڑے بہادر ہیں اس معاملے میں کوئی پرواہ نہیں.یہ جو چند آدمی گنتی کے آپ نے بعض دیکھے ہیں آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ اس قسم کی شکلیں جب ایسے ملک میں نمودار ہوتی ہیں جہاں ان کو کھلی چھٹی ہے ہر قسم کے گند اور بکو اس کی اور ہر قسم کی تکلیف دہ صورتحال پیدا کرنے کی.جہاں فساد کی ان کو

Page 245

خطبات طاہر جلدے 240 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء اجازت ہے، جہاں قتل و غارت کی تلقین کی ان کو اجازت ہے، جہاں پتھراؤ کرنے کی ان کو اجازت ہے، جہاں مسجد میں جلانے کی ان کو اجازت ہے وہاں یہ شکلیں کس رنگ میں، کس بھیانک صورت میں ظاہر ہوتی ہوں گی.وہاں جماعت احمدیہ کا یہ کردار کہ آپ ہماری پر واہ نہ کریں ہم بالکل خدا کے فضل سے قائم ہیں اور ثبات قدم ہمیں نصیب ہوا ہوا ہے.ہم بڑی ہمت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے اس ابتلا میں سے گزر رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اس لئے ہمارا کوئی مستقل نقصان نہیں کر سکتا.یہ پیغام وہاں سے آتے ہیں گویا اس کے کہ مجھے ضرورت پڑے کہ ان کو صبر کی تلقین کروں ان کو میر افکر ہے اور باہر کی جماعتوں کا فکر ہے وہ ہمارے غم میں اتنی زیادہ فکرمند نہ ہو جائیں.یہ ساری علامتیں ہیں زندگی کی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جس کو امام مقرر کیا گیا ہو اس کے سوا اس مادہ پرستی کی دنیا میں یہ معجزہ دکھا ہی نہیں سکتا کوئی.ناممکن ہے ایک عام انسان کے لئے کہ اسی مٹی کو پکڑے اور اسی ضمیر سے ایک نئی روح والی ، ایک زندہ جماعت پیدا کر دے جو پرندوں کی طرح آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کی طاقت رکھتے ہوں.یہی مسیحیت کا معجزہ ہے جو کسی نہ کسی شکل میں پہلے بھی نمودار ہوا تھا لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی میلہ کی برکت سے مسیح محمدی کے ہاتھوں بہت بڑی شان کے ساتھ یہ دنیا میں رونما ہو رہا ہے اور دنیا کے ہر ملک میں رونما ہو رہا ہے.افریقہ میں میں نے جاکے دیکھا.وہاں کی جماعت کے اندر ایک ایسا خدا تعالیٰ کے فضل سے روحانی انقلاب آیا ہوا ہے کہ اردگرد کے لوگوں کے مقابلہ پر وہ ایک نئی مخلوق معلوم ہوتے ہیں.چنانچہ بعینہ یہی بات وہاں کے بعض افسروں نے مجھ سے کہی کہ ہم تو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے اردگرد بسنے والے لوگوں میں کیسی پاک تبدیلی کرتے ہیں کہ نئے لوگ بن جاتے ہیں اور ان کے سارے رجحانات خدمت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.نہ کوئی تخریب کاری ، نہ کوئی جرم، نہ کسی اور کوکسی رنگ میں تکلیف دینا بلکہ لوگوں کے دکھوں کے ازالہ کرنا ، ان کی خدمت کرنا اور ملک کی بھی خدمت ، قوم کی بھی خدمت.ہر رنگ میں یہ لوگ وقف ہیں اس کام کے لئے کہ ان کے ذریعے کسی نہ کسی رنگ میں دوسروں کو فیض پہنچے.اور یہ فیض رسانی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے اور اس کا دائرہ پھیل رہا ہے.یہ ایک بہت بڑی چیز ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ اس کو آگے بڑھاتے رہے ہیں اور اس کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے.

Page 246

خطبات طاہر جلدے 241 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء صلى الله جب تک آپ فیض رساں رہیں گے قرآن کریم کا یہ فتویٰ آپ پر صادر آتا رہے گا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : 1) تم چونکہ بنی نوع انسان کی بہبود کے لئے وقف ہو اس لئے تم دنیا کی بہترین امت ہو اور حضرت محمد مصطفی میلہ کی طرف منسوب ہونے کا حق کسی کومل ہی نہیں سکتا جب تک وہ بہترین امت نہ بنے کیونکہ جو رسولوں میں بہترین ہے اس کی طرف منسوب ہونے کا سچا حق صرف اس کو نصیب ہوسکتا ہے جو بہترین امت ہو.اس لئے دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں.اس کو آپ خوب پیش نظر رکھیں کہ اپنے فیض کو بڑھانے کی کوشش کریں اور جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فیض رسانی کے جذبے عطا کئے ہیں انہیں مزید آگے بڑھائیں اور مزید نو جوانوں کو فیض رسانی کے کاموں میں ساتھ شامل کریں.اس سے ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی پاکیزہ زندگی پیدا ہوگی.اس دور میں جماعت احمدیہ نے ایک سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے کیا کچھ کھویا ہے، کیا کچھ پایا ہے اس پر اگر آپ نظر کرتے ہیں تو بعض چیزوں کے لحاظ سے بڑی فکر پیدا ہوتی ہے.میں خطبوں میں بار بار یاد بھی کراتا ہوں کہ اپنی اخلاقی قدروں کو بلند کریں، اپنی بعض صلاحیتیں جن کو آپ نے کھویا ہے ان کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن بعض دوسری صورتوں کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت نے بہت کچھ پایا بھی ہے اور پہلی صدی گویا اس صدی کے سر پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کو از سر نو مردوں میں سے زندہ کر رہے تھے اس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم بعض پہلوؤں سے پوری طرح جذب نہیں ہوئی تھی اور وہ انقلابی تبدیلیاں جو وقت چاہتی ہیں وہ ابھی جماعت میں پیدا نہیں ہوئی تھیں.چندے کا نظام آپ دیکھ لیجئے.باوجود اس کے کہ تقویٰ کے بہت اعلیٰ معیار پر وہ لوگ تھے لیکن چندے کے لئے کوئی باقاعدہ منتظم قربانی کرنے کے لئے ابھی ان کے اندر نہ صلاحیت موجود تھی نہ اس کے انتظامات موجود تھے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک پر کسی نے سب کچھ پیش کر دیا کسی نے کچھ پیش کیا.بڑے خلوص کے ساتھ پیش کیا لیکن منظم طور پر یہ کہنا کہ جماعت کی بھاری اکثریت ان خدمت کے کاموں میں شامل تھی یہ بالکل غلط بات ہو گی.آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت ملک ایسے ہیں جہاں جماعت کی بھاری اکثریت خدمت دین کے لئے مالی قربانی میں پیش پیش ہے.اب یہ وسعت جو ہے

Page 247

خطبات طاہر جلدے 242 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء نیکی کو یہ ایک بہت بڑا حاصل ہے ہمارا جو ایک سو سال میں ہمیں ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اسی طرح وقار عمل کے کام ہیں مثلاً اور کئی قسم کے شعبے ہیں جن میں جماعت احمد یہ کونئی صلاحیتیں بخشی گئیں ہیں.قوت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے جاری ہوئی یعنی تقوی کی قوت.اسی کو نئے نئے پھل لگ رہے ہیں لیکن پھلوں کے وقت ہوتے ہیں، موسم ہوتے ہیں.بعض درخت کچھ دیر کے بعد پھل دیتے ہیں.بعض جلدی دیتے ہیں.تو تقویٰ کی علامتیں ظاہر کرنے والا پہلا درخت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اس طرح پھل پھول لایا ہے، اس طرح اس نے نشو ونما کی ہے کہ بہار کا سماں پیدا کر دیا ہے اور اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو یاد دہانی کی ضرورت ہے.لیکن دیر پا اثر کرنے والے تقویٰ کے جو پھل تھے لیکن دیر سے نمودار ہونے والے جو تقویٰ کے پھل تھے وہ آج ہم میں لگ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے.اس لحاظ سے جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اب یقینی طور پر زندگی پر قائم ہے.پچھلے دنوں یہاں انگلستان میں کینیڈا کے ایک بہت مشہور پروفیسر جو اپنی یونیورسٹی میں مذہب کے ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ہیں.وہ پاکستان جاتے ہوئے ایک دن کے لئے لندن ٹھہرے اور مجھ سے بھی انہوں نے باتیں کیں.پھر احمدی دوستوں سے اردگرد ملے.ربوہ جا کر بھی اور پاکستان میں مختلف شہروں میں جا کر انہوں نے جماعت کے ساتھ بھی رابطہ پیدا کیا.منہدم مساجد بھی دیکھیں، مساجد کی پیشانیوں سے کلمہ مٹانے کے داغ بھی دیکھے، اسیروں سے بھی ملاقاتیں کیں، غیروں سے بھی ملاقاتیں کیں.گویا کہ پورا جائزہ لے کر وہ واپس کینیڈا پہنچے ہیں اور کینیڈا پہنچ کر انہوں نے ایک انٹر ویو دیا وہاں کے سب سے زیادہ ہر دلعزیز ریڈیو کے اوپر اور یہ ابھی پہلا ہے اس سلسلہ کا اور بھی وہ ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعے اپنے تاثرات سارے ملک تک پہنچائیں گے.اس انٹرویو کی نقل ایک احمدی دوست نے مجھے بھجوائی جو آئی دفعہ میں نے کار میں لگا کرسنی اور اس میں ایک بہت ہی دلچسپ بات جس کا آج کے مضمون سے تعلق ہے انہوں نے یہ بیان کی کہ جماعت احمد یہ یہ لوگ، ان کے غیر ، ان کے دشمن، سازشی جس طرح بھی چاہیں دیکھیں اور جتنا چاہیں کہیں یہ اسلام سے دور، کٹے ہوئے اور مرتد ہیں مگر جو میں دیکھ کے آیا ہوں میرے نزدیک اسلام کی زندگی کا انحصار اس جماعت پر ہے.اسلام اسی جماعت کے ذریعے دنیا میں پھیل سکتا ہے، اسی میں وہ طاقت

Page 248

خطبات طاہر جلدے 243 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء ہے ، وہ جذبہ ہے.وہ کہتا ہے کہ میرا خیال تھا سو سال گزر چکے ہیں اور سوسال کے اندر اس جماعت میں غفلت اور کمزوری اور بے دلی کے آثار پیدا ہو چکے ہوں گے.سوسال لمبی مخالفت برداشت کرنا اور پھر Minority اقلیت رہنا اور بے طاقت رہنا.یہ ایسی چیزیں ہیں جس کے نتیجہ میں وہ سمجھتے تھے، انہوں نے اس کا اظہار کیا کہ اب تک میں سمجھتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جولٹریچر سے جماعت کا جوش و خروش اور امام سے محبت اور دینی کاموں میں شغف اس سے جو تاثر ملتا ہے یہ انہوں نے بیان کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ اب بہت ہی اس میں کمی آچکی ہو گی.اس نے کہا پہلا شاک (Shock) تو مجھے لنڈن جا کے پہنچا، حیرت انگیز سر پرائز (Surprise ) ملی کہ وہاں میں نے جس احمدی سے بات کی اس میں سب سے نمایاں چیز اپنے امام سے محبت تھی.حیرت انگیز چیز تھی کہ اس دنیا میں کوئی شخص بغیر رشتے کے کوئی کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت رکھ سکتا ہے اور ایسی عقیدت رکھتا ہے پتا لگا وہاں بھی یہی حال.کہتے ہیں پھر میں پاکستان گیا اور وہاں جا کر بھی میں نے دیکھا کہ یہ جماعت تو بالکل اسی طرح زندہ ہے جس طرح سو سال پہلے تھی.کوئی اس میں موت کے آثار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ جو چاہے ہو جائے آخری فتح یقیناً ہماری ہے.اس نے یہ تو نہیں کہا اپنی طرف سے کہ ہوگی لیکن اس طرح ملا کر دونوں باتوں کو پیش کیا ہے جس سے ہر معقول آدمی اندازہ کر سکتا ہے کہ ضرور انہی کی فتح ہوگی جو سو سال میں مرنے کی بجائے اور بھی زیادہ جو شیلے ہو گئے ہیں اور انتہائی مصائب کے وقت ان کے اندر خدمت کا جذبہ پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے.ایسی جماعت کو دنیا میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ نا کام ہوگی.چنانچہ بہت ہی اچھا ان کا دلچسپ انٹرویو ہے لیکن اس کے علاوہ اپنے خط میں بھی جو انہوں نے اظہار کیا ہے بہت ہی دل پر اثر کرنے والا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ وہاں میرے لئے مشکل ہو جاتا تھا جماعت کے لوگوں کومل کر اپنے جذبات پر کنٹرول کرنا کیونکہ بہت ہی حیرت انگیز اس جماعت میں اخلاص اور اپنے عقیدے اور اپنے مقصد سے پیار ہے.تو اللہ تعالیٰ اس پیار کو ہمیشہ زندہ رکھے اور آگے بڑھاتا رہے.یہی آپ کی زندگی کی علامت ہے.ان لوگوں میں جو باہر آپ نے شور سنے ہیں کچھ بھی نہیں.دن بدن مردہ ہوتے جا رہے ہیں اور ان میں یہ جو طاقت تھی پہلے نفرتیں پھیلانے کی وہ بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے.زیادہ گند بولتے ہیں اور کم لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.اس لئے اس کمی کو پورا

Page 249

خطبات طاہر جلدے 244 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۸ء کرنے کے لئے اور زیادہ گند بولتے ہیں اور زیادہ بغض کا اظہار کرتے ہیں اور پھر جہالت کی حد یہ ہے کہ پتا ہی نہیں کہ دنیا میں اچھی چیزیں ہیں کیا اور کس بات پر رشک کیا جاتا ہے.ربوہ سے جو بھی رپورٹ ملی ہے چند دن پہلے آنحضرت ﷺ کی سیرت کے نام پر جلسہ سے اور اس میں جو ان کا تصور ہے بڑائی اور عظمت کا وہ آپ اندازہ کریں کہ کیا ہے.کس طرح یہ جماعت احمد یہ کو جلانا چاہتے ہیں، جماعت احمدیہ کو حسد کی آگ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں.انہوں کی حلوہ کی دیکھیں وہاں چڑھائی ہوئی تھیں اور بار بار یہ نظم پڑھی جاتی تھی سٹیج سے کہ حلوے مانڈے چاڑاں گے اور مرزائیاں نوں ساڑاں گے.انا للہ وانا الیہ راجعون.تمہارے حلووں سے جماعت احمدیہ کے جلنے کا کیا تعلق ہے.ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ عظمتیں عطا فرما رہا ہے وسعتیں عطا فرما رہا ہے.غیروں کی نظر میں جماعت احمدیہ کا مرتبہ اور مقام بڑھتا چلا جارہا ہے.خدا کے فرشتے تائیدیں کر رہے ہیں نئے نئے ممالک میں جماعت احمد یہ جھنڈے گاڑ رہی ہے.ایسے ایسے حیرت انگیز انقلاب برپا ہو رہے ہیں کہ پرسوں کی بات ہے افریقہ کے ایک ملک کی بہت ہی بڑی شخصیت کا مجھے فون ملا.جو اس ملک کی بہت بڑی اور معروف شخصیتوں میں سے ایک شخصیت ہے.مجھے تعجب ہوا کہ کس طرح آپ نے فون کیا.انہوں نے کہا میں نے فون اس لئے کیا ہے کہ آپ کے دورے کا اتنا Impact ہوا ہے ہمارے ملک پر کہ آج میں نے سوچا کہ میں ضرور مبارک باد کا فون کروں.جس جماعت کو اللہ تعالیٰ ایسی عظمتیں عطا کر رہا ہے، نئے رستے کھول رہا ہے ترقیات کے ان کو سی ایک نا قابل برداشت عذاب ہوگا، ان کے لئے ایک تکلیف ہوگی کہ ربوہ نے کچھ مولویوں نے حلوہ کی دیگیں چڑھائی ہیں.انا للہ.یہ ان کی دماغی حالت ، یہ ان کی پہنچ ، یہ ان کے تصور کی چھلانگ.انہوں نے کیا دنیا میں کرنا ہے.جو کچھ کرنا ہے آپ نے کرنا ہے.تھوڑے بھی ہیں لیکن وہ تھوڑے ہیں جن کے اندر قو میں بنے کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں.آپ ان لوگوں کے غلام اور ان لوگوں کی صلاحیتیں رکھنے والے، ورثہ میں پانے والے ہیں جن میں ایک ایک کو خدا نے امت قرار دیا ہے.اس لئے ہر گز بالکل اپنا دل میلا نہ کریں.خدا نے ترقیات کے لئے ، خدا نے عظمتوں کے لئے ،خدا نے فتح و ظفر کے نشانوں کے لئے آپ کو پیدا کیا ہے.ہاں اپنی صلاحیتوں کو زندہ رکھیں جو دنیا کو فیض پہنچانے کی صلاحیتیں ہیں.اسی میں آپ کی زندگی، اسی میں آپ کی بقا ، اسی میں آپ کے غلبہ کی ضمانتیں ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 250

خطبات طاہر جلدے 245 خطبه جمعه ۱۵ رابریل ۱۹۸۸ء رمضان کی اہمیت و برکات نوجوانوں کو روزے رکھنے کی تحریک نیز چاند کی رویت کا مسئلہ خطبه جمعه فرموده ۱۵ را پریل ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَةٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ - يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدْيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلَيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۴- ۱۸۷) اور فرمایا:

Page 251

خطبات طاہر جلدے 246 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء دو یا تین دن کے اندر رمضان مبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے اس لئے آج کے جمعہ کے لئے میں نے رمضان ہی کو موضوع بنایا ہے.قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے بھی لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے.یہ اس غرض سے ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور بدیوں اور کمزوریوں سے بچو.چند دن کی بات ہے آیا مًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا اور اس میں بھی رخصت یہ ہے کہ تم میں سے اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وہ شہر کر بعد میں روزے رکھ لے.اور وہ لوگ جو بعد میں بھی روزے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک روزہ کے بدلہ ایک غریب اور مسکین کو کھانا کھلا ئیں.یا دوسرا معنی اس کا یہ ہو گا کہ وہ لوگ جو کھانا کھلانے کی طاقت رکھتے ہوں وہ روزے بعد میں رکھنے کے علاوہ رمضان میں ان روزے کے بدلے جو وہ چھوڑتے ہیں غرباء کو کھانا کھلائیں.یہ ان کی طرف سے فدیہ ہو گا.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا پس وہ لوگ جو خوشی سے نیکی کرتے ہیں یا وہ جو خوشی سے نیکی کرتا ہے اس کے لئے یہ بہتر ہے وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اور اگر تم روزے رکھو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے.اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کا ترجمہ یہ یہ کیا جاتا ہے عموماً اگر تم جانتے حالانکہ بہتر تو ہر صورت میں ہے خواہ کوئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو.اِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ کا ایک ترجمہ عربی محاورے کی رُو سے یہ بھی ہو سکتا ہے: کاش کہ تم جانتے.کاش ایسا ہوتا کہ تمہیں خبر ہوتی ، تم بے خبر ہوان باتوں اور بے خبری کے نتیجہ میں اس فائدہ سے محروم ہو گئے ہو.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا.اس کا ایک یہ بھی ترجمہ کیا جاتا ہے.رمضان کا مہینہ جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا.لفظاً اس ترجمہ کی گنجائش ہے کیونکہ فیس کا مطلب اس میں یا اس کے بارہ میں دونوں ہو سکتے ہیں.اس کے بارہ میں ترجمہ اختیار کرنے کی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ جہاں تک تاریخی حقائق

Page 252

خطبات طاہر جلدے 247 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء اور گواہیوں کا تعلق ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رمضان شریف کے علاوہ قرآن کریم دوسرے مہینوں میں نازل نہیں ہوا بلکہ پھر اس کے برعکس قطعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اکثر قرآن کریم کا نزول سارا سال میں مجموعی طور پر ان مہینوں میں زیادہ ہے جو رمضان کے علاوہ ہیں اور ان کے مقابل پر رمضان میں جو قرآن کریم کا نزول ہوا ان گیارہ مہینوں کے مقابل پر کم ہے.اگر چہ دیگر مہینوں کے مقابل پر ایک کے مقابل پر دوسرے مہینے کو اگر رکھیں تو رمضان میں آیات قرآنی کے نزول کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ہر دوسرے مہینے سے زیادہ ہوں گی لیکن اس وقت کو حل کرنے کے لئے جب یہ ترجمہ کیا گیا أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآن قرآن اس کے بارہ میں اتارا گیا تو اس سے پھر کچھ دقتیں پیدا ہوتی ہیں.مثلاً یہ کہ کیا قرآن کریم کے نزول کا مقصد رمضان کے ذکر کے سوا اور کوئی ذکر نہیں اور رمضان کا ذکر تو ہجرت کے بعد ہے.سب سے پہلے رمضان شریف کا ذکر خود اس آیت میں ہجرت کے بعد ہے کیونکہ مدینہ میں شروع میں حضرت اقدس محمد مصطفی اسے صرف عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور قطعی طور پر یہ ثابت ہے بخاری میں بھی یہ حدیث ہے اور دوسری کتب میں بھی کہ جب آنحضرت ﷺ ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں یعنی دسویں محرم کا.اس پر آنحضور ﷺ نے پوچھا کہ کیوں رکھتے ہیں تو کسی نے بتایا کہ اس لئے کہ ان کی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو فرعون کے مظالم سے دسویں محرم کو نجات ملی تھی.(مسلم کتاب الصیام یوم عاشوراء حدیث نمبر : ۲۵۴۵) اس لئے اس دن کو خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرنے کا دن مناتے ہیں اور اس لئے روزہ رکھتے ہیں.اس پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ یہود کے مقابل پر ہمارے زیادہ قریب ہیں.اس لئے یہ اعلان کر دو، غالباً یہ اعلان ہوا ہے اسی دن یعنی جب روزہ تھا، اس سے پہلے ایک رات معلوم ہوا ہے کیونکہ روایت میں پتا چلتا ہے کہ آپ نے یہ اعلان کروایا صبح کے وقت کہ جس شخص نے صبح روزے کا وقت شروع ہونے کے بعد اس اعلان کے سننے تک کچھ نہیں کھا یا وہ کچھ نہ کھائے اور آج عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو کوئی کھا چکا ہے وہ اس کے بدلہ پھر کسی دن عاشورہ کا روزہ رکھے جس طرح رمضان کے روزے بعد میں بھی رکھے جاسکتے ہیں.تو یہ پہلی مرتبہ آنحضور ﷺ نے عاشورہ کا روزہ جو رکھا وہ یہود کی اس روایت پر بنا کرتے ہوئے اور اس کی پہلی مرتبہ تلقین فرمائی لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس سے پہلے خود روزے نہیں

Page 253

خطبات طاہر جلدے 248 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء رکھتے تھے اس سے انکار نہیں ہوتا.اس روایت سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے روزوں کی اپنے متبعین کو جو ہدایت فرمائی ہے وہ پہلی مرتبہ عاشورہ کے روزے کے متعلقفر مائی اور تاکید فرمائی کہ یہ چونکہ موسیٰ کی رہائی کا دن ہے اس لئے ہم سب اس میں روزہ رکھیں گے.اب قرآن کریم کا ایک کثیر حصہ نازل ہو چکا تھا اور اس میں رمضان کا کوئی ذکر نہیں تھا.پھر جب رمضان کے روزے رکھنے کا حکم آیا تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اب اس کے بعد آزادی ہے چاہو تو عاشورہ کا روزہ رکھو چا ہو تو نہ رکھو.خدا نے ہمیں اپنے ہمارے روزے عطا کر دیئے ہیں.( بخاری کتاب الصوم باب الصيام يوم عاشوراء حدیث نمبر : ۲۰۰۱) پس یہ معنی کرنا کہ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ اس کے بارہ میں قرآن نازل کیا گیا اس لحاظ سے بہت ہی وقت طلب ہے، مشکلات پیدا کرتا ہے.ہاں ایک لحاظ سے اس کے معنی ہو سکتے ہیں اس لئے ہم اسے بہر حال غلط نہیں کہہ سکتے.اس لئے کہ روزے میں تمام عبادات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے.روزہ ایک رنگ میں عبادات کا معراج ہے اور تعلق باللہ کے لحاظ سے روزہ بہت ہی زیادہ اہم ہے مومن کی زندگی میں اور جتنا رمضان میں تعلق باللہ کے ذرئع میسر آتے ہیں اور تحریک و تحریص پیدا ہوتی ہے دوسرے دنوں میں ایسا ممکن نہیں.پھر حج میں تو معدودے چند لوگ وہاں پہنچ سکتے ہیں اور رمضان ہر جگہ خود پہنچتا ہے.جو شخص بھی رمضان کا چاند جہاں بھی دیکھے دنیا میں اس پر روزے فرض ہو جاتے ہیں.اس لئے یہ ایک ایسی عبادت ہے جسے دوسری تمام عبادتوں میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے.تو اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کا یہ معنی اگر کیا جائے کہ رمضان کی روح، رمضان کی نیکیوں اور رمضان کے مقاصد کے متعلق ہی قرآن نازل ہوا ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا.لیکن دوسری طرف ایک اور توجیہ بھی موجود ہے اس لئے یہ ترجمہ کرنا ہر گز غلط نہیں قرار دیا جا سکتا کہ رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا کیونکہ قرآن کریم کے آغاز کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ رمضان مبارک میں ہوا.پھر کثرت کے ساتھ رمضان مبارک میں حضرت جبرائیل نازل ہوتے تھے اور جتنا قرآن کریم اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا وہ سب دہراتے تھے اور مسلسل یہ سلسلہ جاری رہا جب تک آنحضرت ﷺ کا وصال نہیں ہوا.( بخاری کتاب فضائل القرآن حدیث نمبر : ۴۶۱۴) تو رمضان میں کثرت کے ساتھ قرآن کا نازل ہونا یا آخری رمضان جو آیا ہو گا اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ پورا قرآن کریم از سرنو نازل ہوا یعنی جمع ہوتا رہا نازل ہوا ہے.تو أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ سے

Page 254

خطبات طاہر جلدے 249 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء ایک یہ مراد ہوسکتی ہے کہ ایک ہی مہینہ ہے صرف جس میں جبرائیل نے مکمل پورا قرآن نازل کیا ہواور اس لحاظ سے کوئی شک کی بات نہیں.اور کسی مہینے کے متعلق کوئی روایت نہیں ملتی کے حضرت جبرائیل تشریف لائے ہوں اور مکمل قرآن کریم نازل کر دیا ہو اور رمضان میں اس کی دہرائی بھی ہوتی تھی یعنچستہ جستہ، جوں جوں آگے بڑھتا رہا مضمون اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم اتنا حصہ نازل ہوتا رہا اور اس لحاظ سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل ہوالیکن ایک مہینہ تو یقیناً ایسا آیا ہے جس میں پورا قرآن کریم دوبارہ نازل ہوا ہے حضور اکرم یہ پر.پس اس کی اہمیت اس لحاظ سے بہت ہی بڑھ جاتی ہے اور رمضان کے مہینے کی اہمیت بیان کرنے کی خاطر ہی یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے.چنانچہ فرمایا أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ تو قرآن کریم بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے اس لئے رمضان کا ہدایت سے بڑا گہرا تعلق ہے یعنی قرآن نازل ہوا اس لئے رمضان کو اہمیت ہے ،اس کی تشریح فرمائی جا رہی ہے.کیوں رمضان کو اہمیت ہے؟ کیونکہ قرآن کریم اس مہینے میں نازل ہوا اور قرآن کریم کا ہدایت سے بہت گہرا تعلق ہے اور ہدایت بھی ایسی کہ بنْتِ مِنَ الْهُدَی عام ہدایت ہی نہیں بلکہ بہت ہی روشن اور کھلی کھلی ہدایت کے نشان لے کر آیا ہے.وَالْفُرْقَانِ اور تمیز کرنے والی آیات پیش کرتا ہے جو حق اور باطل میں تمیز کرنے والی ہوں ، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے والی باتیں ہوں.تو قرآن کریم کی جو تعریف بیان فرمائی جارہی ہے یہ تعریف رمضان کی طرف منتقل ہو رہی ہے.رمضان کی تعریف سے جب مضمون شروع ہوا اور یہاں تک پہنچا کہ قرآن کریم اس میں نازل ہوا اور قرآن یہ ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ ساری باتیں تمہیں رمضان میں میسر آئیں گی اور ان برکتوں کا رمضان سے بہت گہرا تعلق ہے.چنانچہ اس کے بعد فرمایا فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ پس نتیجہ ہے اس کا.یہ ساری باتیں پیش نظر رکھ کر ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمه تم میں سے جو کوئی بھی اس مہینے کو دیکھے وہ روزہ رکھے.شَهِدَ مِنْكُمُ میں مہینہ دیکھنے سے کیا مراد ہے؟ آج کل یہ بحث اٹھ رہی ہے کہ چاند اگر کسی اور ملک میں بھی نظر آئے تو کیا اس گواہی کے پیش نظر اس ملک میں جہاں ہم موجود ہیں روزہ رکھ سکتے ہیں اور ابھی حال ہی میں ایک فتویٰ شائع ہوا ہے جس سے پتا چلتا ہے یہی علماء کا کہ دنیا میں کسی

Page 255

خطبات طاہر جلدے 250 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء بھی دو مسلمان ممالک میں اگر چاند نظر آ گیا تو ہم یہاں اس کے مطابق روزہ شروع کر دیں گے.اگر چہ احناف کا یہی مسلک ہے یعنی حنفی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی جگہ کی جو رؤیت ہے وہ ہر جگہ کے لئے ہو جائے گی اور ہر رؤیت کو الگ الگ شمار نہیں کیا جاسکتا لیکن دیگر بہت سے فقہاء بلکہ اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر شہر، ہر علاقے کی روئیت اپنی ہے.اس لئے ضروری نہیں ہے کہ سارے عالم اسلام کے لئے یا ساری دنیا کے لئے ایک ہی دن رمضان شروع ہو اور ایک ہی دن ہو جائے اور یہ بات جغرافیائی لحاظ سے بھی قطعی طور پر درست ثابت ہوتی ہے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی یہی رواج تھا.چنانچہ حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک تھا کہ جس ملک میں یا ملک کے جس حصے میں جب چاند دیکھا جائے وہ ملک اس کے متابعت پھر اور دوسرا حصہ ملک کا اس کے متابعت کرے.دوسرے ملک کے دوسرے حصے میں جب دیکھا جائے وہ اس کے متابعت کرے.اب اگر آج کل ہم غور کریں مثلاً انڈونیشیا کا افق ہے ، چین کا افق ہے اس کا اور مغرب یعنی یہاں کے افق کا بہت فرق ہے بعض دفعہ دو دن کا بھی فرق پڑ جاتا ہے چاند نکلنے میں.خود ہمارے پاکستان کے ساتھ ہمسایہ ملک افغانستان ہے.بعض دفعہ پاکستان سے دو دن پہلے افغانستان میں روزے شروع ہو جایا کرتے تھے اور اسی طرح کم و بیش دو دن پہلے وہاں عید ہو جایا کرتی تھی.تو وہ مسلک جس کو قانون قدرت غلط ثابت کر دے اس کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے اور جبکہ اکثریت فقہا کی اس پر متفق ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی سنت نے قانون قدرت کی صورت میں ہمارے سامنے ثابت کر دیا که مسلک درست ہے تو جماعت احمد یہ اسی کی پیروی کرنے والی ہے.لیکن شہد سے مراد ظاہری رؤیت ہے یا اس بات کی قطعی گواہی کہ چاند نکل آیا ہے؟ یہ وہ بحث ہے جو مختلف وقتوں میں مختلف رنگ میں اٹھائی گئی اور اس زمانہ کے جو ذرائع تھے چاند کے طلوع کو معلوم کرنے کے ان کے اوپر بحث اٹھائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو خاص طور پر پیش فرمایا کہ زا پنجوں کے ذریعے چاند وغیرہ کے نکلنے کا اگر تعلق درست تسلیم کر لیا جائے تو اس سے بڑا فتنہ اور فساد پیدا ہوگا کیونکہ زائچے خود قابل اعتماد نہیں ہیں.دو منجموں کے زائچے آپس میں نہیں ملتے اور اس لئے رؤیت کو بہت اہمیت حاصل ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رؤیت کے مضمون میں یہ بھی بیان فرمایا کہ مغرب میں جو طرح طرح کے آلات دور بہنیں اور خوردبینیں اور اسی قسم کے ایجاد ہورہے ہیں.وہ جتنی بھی قسمیں ہیں وہ

Page 256

خطبات طاہر جلدے 251 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء رؤیت ہی کی قسمیں ہیں.چنانچہ ان آلات کے استعمال کو اور جدید سائنسی دریافتوں کو آپ نے رؤیت سے خارج نہیں فرمایا بلکہ زائچوں کو اور تخمینوں اور اندازوں کو غلط قرار دیا ہے.آپ نے فرمایا اندازے کے صرف اسی وقت اجازت ہو گی جبکہ دوسرے قطعی ذرائع میسر نہ ہوں.(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۹۲۰ ۱۹۳) چنانچہ آج کل بھی یہ بحث اٹھائی جا رہی ہے کہ رویت کیا ہے.ایک طرف تو علماء اس حد تک رؤیت کی پیروی کرتے ہیں کہ اس کے اصل جو مضمون ہے رؤیت کا اس کو بالکل باطل کر دیتے ہیں.یعنی جغرافیہ دانوں کے سائنسی تخمینوں کو رد کر دیتے ہیں لیکن رؤیت کی خاطر ہوائی جہازوں پر چڑھ کر اتنی بلندی تک پہنچ جاتے ہیں کہ افق ہی بدل جاتا ہے بالکل.یعنی اس جگہ کا وہ افق ہوتا ہی نہیں جس جگہ سے جب وہ اوپر چڑھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں چاند کو تو وہ در حقیقت کسی اور ملک کے افق کا چاند دیکھ رہے ہیں اپنے ملک کا چاند دیکھ ہی نہیں رہے.اس لئے معقولیت کو اختیار کرنا چاہئے، روح کو سمجھنا چاہئے پیغام کی.شہد سے مراد صرف اتنا ہے در حقیقت کہ جب تمہیں قطعی طور پر علم ہو جائے اس وقت شروع کرو اور توہمات میں مبتلا نہ ہو.چنانچہ دوسری حدیثوں سے اسی مضمون کی وضاحت ملتی ہے.حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاند دکھائی نہیں دیتا تو وہموں میں مبتلا ہوکر پہلا روزہ نہیں رکھنا.(مسلم کتاب الصیام حدیث نمبر : ۱۷۹۶) چنانچہ بعض دفعہ اس زمانے میں بعض لوگ ایک دن یا دو دن پہلے روزے شروع کر دیا کرتے تھے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ چاند نکل آیا ہو اور ہم روزے سے محروم رہے جائیں.تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر گز تو ہمات میں مبتلا ہوکر روزہ نہیں رکھنا شہد کا حکم ہے.یعنی قطعیت کا جب علم ہو جائے کہ چاند نکلا ہے تو رکھو ورنہ نہیں اور انداز ہ کا مفہوم اس وقت فرمایا جب کہ انتیس واں دن گزر چکا ہو اور پھر بھی چاند دکھائی نہ دے.اس پر آپ نے قدر و اکا ارشاد فرمایا( بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۶۷).جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں پتا ہی ہے کہ میں سے زیادہ تو مہینہ ہوتا ہی نہیں اس لئے وہاں شہد سے مراد وہاں بھی دیکھنا نہیں ہوگا بلکہ قطعیت ہی ہے.بظاہر لفظ قدّروا استعمال فرمایا ہے لیکن مفہوم وہی بنتا ہے کہ قرآن کریم نے جب شھد کا لفظ فرمایا تو مراد ہے کہ قطعی طور پر علم ہو جائے چونکہ تم چاند نہیں دیکھ سکے اس لئے تمہیں اب اندازہ سے بھی قطعی علم ہوسکتا ہے.اب اس میں ایک اور مضمون ہمارے لئے کھول دیا ہے.تقدیر کے ذریعے جو علم قطعی حاصل

Page 257

خطبات طاہر جلدے 252 خطبه جمعه ۱۵ارا پریل ۱۹۸۸ء ہو جائے اسے رؤیت کا مقام ہو گا.اسی وجہ سے جماعت احمدیہ کا یہ مسلک ہے کہ جغرافیہ دانوں نے جب ترقی کر کے زائچوں کے ذریعے نہیں بلکہ ایک وسیع رؤیت کے تجربے کے ذریعے قطعی طور پر یہ معلوم کر لیا ہے کہ فلاں دن چاند اس حد تک افق سے اونچا ہوگا کہ اگر بادل نہ ہوں تو یقیناً نظر آ جائے گا.اس اندازہ کو قطعیت کا حکم ہے، یہ شہادت کا رتبہ رکھنے والا اندازہ ہے.اس لئے جماعت احمد یہ ایسے اندازہ کو شہادت ہی قرار دیتی ہے اور اس سے اختلاف کرنے کے نتیجہ میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.خود انگلستان میں ہی ایک ایک شہر میں جہاں جماعت کی برکت حاصل نہیں ہے لوگوں کو ، جماعت احمدیہ سے منسلک ہونے کی برکت حاصل نہیں ہے.چار چار، پانچ پانچ الگ الگ عید میں ہو رہی ہوتی ہیں اور رمضان کے شروع ہونے کے بھی دو تین ہوتے ہیں.کسی نے ایک دن پہلے رکھا، کسی نے صحیح دن رکھا، کسی نے ایک دن بعد رکھا.تو یہ جو سارے تفرقے ہیں یہ بتارہے ہیں کہ شہادت ان کے پاس نہیں ہے.یعنی شہادت اگر ہوتی تو تفرقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا.شہادت میں ایک یہ بھی مضمون پایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں تفرقہ ہونا ہی نہیں چاہئے.تفرقہ اور شہادت اکٹھے نہیں رہ سکتے کیونکہ تفرقہ شبہ کے نتیجہ میں ہے اور شہادت ایک قطعی چیز ہے.پس رمضان کا چاند ہو یا عید کا چاند ہو شھد کا مفہوم یہی ہوگا کہ جب تمہیں قطعی طور پر معلوم ہو جائے کہ چاند نکل آیا ہے تو پھر اگر رمضان آنے والا ہے تو روزے شروع کرو اور اگر عید کا دن آنے والا ہے تو عید شروع کرو اور قطعیت میں اندازہ کی قطعیت کو بھی رسول کریم ﷺ نے شامل فرما دیا.یہ تو ایک مسئلے سے تعلق رکھنے والی بات ہے.اب میں آگے چلتا ہوں دوسرے مضمون کی طرف.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ جو کوئی مریض ہویا سفر پہ ہو اس کے لئے دوسرے بعد کے ایام میں روزے رکھنے ہیں.اس میں کسی اور تیسرے شخص کو اجازت نہیں ہے روزہ چھوڑنے کی اور یوں مضمون بیان ہوا ہے جیسے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کوئی اور شخص روزہ چھوڑنے کی بات بھی سوچے گا.فرمایا وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ بس دو ہی صورتیں ہیں پھر روزہ چھوڑنے کی.رمضان شروع ہو گیا، خدا نے فرض کر دیا.یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مومن چھوڑنے کی بات کرے سوائے اس کے کہ اس کو اجازت دی جائے اور اجازت صرف ان دو صورتوں میں ہے.لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بھی توجہ دلائی تھی جماعت احمدیہ میں روزے کا

Page 258

خطبات طاہر جلدے 253 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء معیار اتنا بلند نہیں جتنا بعض صورتوں میں اور بعض علاقوں میں غیر احمد یوں میں ہے.ان میں تو یہاں تک بعض علاقوں میں سختی پائی جاتی ہے کہ سارا سال اگر نماز نہیں پڑھیں گے تو روزہ ضرور رکھیں گے.بعض لوگ شراب پیتے ہیں، شراب سے روزے کی ابتداء کرتے ہیں اور شراب سے افطاری کرتے ہیں لیکن روزہ نہیں چھوڑتے اور بعض جگہ تو اتنی سختی کی جاتی ہے کہ منہ میں مٹی ڈالتے ہیں اگر کوئی بیہوش ہو جائے.اگر وہ مٹی خشک باہر نکل آئے تو پھر اس کو پانی پلائیں گے اور اگر ذراسی بھی نمی ہو اس میں تو کہتے ہیں ابھی تک اس کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو پانی دیا جائے یا بیہوشی میں ہی جان دے دے.جماعت احمد یہ تو افراط تفریط سے پاک ہے کیونکہ خود اسلام افراط تفریط سے پاک ہے.جماعت احمد یہ تو اوسط پر قدم رکھنے والی جماعت ہے.یعنی جو متوسط طریق ہے اس کو اختیار کرتی ہے.لیکن متوسط طریق وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمایا ہے.متوسط طریق یہ بیان کیا ہے کہ سوائے ان دو انتہاؤں کے کہ تم مریض ہو یا سفر پہ ہوتم پر روزہ فرض ہے.بیچ کی راہ صرف روزے کی راہ ہے.اس لئے اگر کوئی مومن خدا تعالیٰ پر ایمان کا دعوی کرتا ہو، واقعی ایمان لاتا ہو اس پر روزہ ضروری ہے.خصوصاً انگلستان کی جماعت یا امریکہ کی جماعت یا یورپ میں بسنے والے دیگر جماعتوں کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ روزے کے او پر خصوصیت سے توجہ دیں.ہماری نئی نسلیں روزے کو بالکل ہلکا پھلکا لیتی ہیں اور نئی نسلوں کے بد قسمتی سے ماں باپ بھی ہلکا پھل کا لیتے ہیں تخفیف کی نظر سے دیکھ رہے ہیں گویا کہ ان کے نزدیک یہ بات زیادہ اہم ہے کہ بچہ پڑھائی کر رہا ہے اس کی پڑھائی پر برا اثر نہ پڑھے.حالانکہ وہ ٹیلی ویژن میں ہزار وقت ضائع کر رہا ہو، ہر قسم کی بیہودہ دلچسپیوں میں حصہ لیتا ہو اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن روزے کے وقت ان کو اتنی شدت سے احساس ہوتا ہے کہیں اس کی صحت نہ کمزور ہو جائے اور ہر دوسری صحت کمزور کرنے والی عادتیں اس میں ہوں اس سے وہ فکر مند نہیں ہوتے.ایک روزہ ہی بے چارہ رہ گیا ہے جس سے ساری صحت برباد ہو جائے گی اور پڑھائی پر برا اثر پڑے گا.بالکل غلط بات ہے محض وہم ہے، قطعاً کوئی اثر برا روزے کے نتیجہ میں پڑھائی پر نہیں پڑتا بلکہ جو لوگ نہیں پڑھنے والے ہیں وہ بھی رمضان میں زیادہ پڑھ لیتے ہیں.خود میں بھی ایسے طالب علموں میں سے تھا جو بہت کم اپنے کورس کی کتابیں پڑھتا تھا لیکن رمضان میں مجھے زیادہ موقع ملتا تھا کیونکہ اور کوئی دلچسپیاں نہیں قرآن کریم پڑھنا ہے یا دینی مطالعہ

Page 259

خطبات طاہر جلدے 254 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء کرنے ہیں اور چونکہ دیگر تمام دلچسپیاں کٹ جاتی ہیں اس لئے پڑھائی کے لئے بھی زیادہ وقت مل جاتا ہے اور پھر اگر وقت کم بھی ملے تو دعاؤں کے ذریعے نمازوں کے ذریعے، رمضان شریف میں تو طلباء برکت لے کے باہر نکلتے ہیں.ان کو علمی نقصان کبھی بھی نہیں ہوسکتا.انہی کو علمی نقصان ہوسکتا ہے جو روزہ چھوڑ دیں رمضان کا اس خیال سے کہ ان کو نقصان نہ ہو.ایسے لوگوں کے علم میں برکت نہیں پڑسکتی اور اگر ظاہری طور پر وہ حاصل کر بھی لیں کچھ علمی فائدہ تو بریکار اور بے معنی ہے.بہت بڑا فائدہ کھوکر انہوں نے بہت معمولی فائدہ لیا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے فرمایا اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کاش ! کہ تمہیں پتا ہوتا کہ کیا کھورہے ہو.اگر تمہیں علم ہوتا تو تم کبھی بھی اس فائدے سے محروم نہ رہتے.اس لئے تمام دنیا میں جماعتوں کو خصوصیت سے رمضان میں تفصیلی نظر ڈالنے کا انتظام کرنا چاہئے.جن بچوں کے ماں باپ کو یہ سعادت حاصل نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تلقین کریں وہاں خدام الاحمدیہ کے ذریعے تلقین کی جائے، لجنہ کے ذریعے تلقین کی جائے ، انصار کے ذریعے کوشش کی جائے.جماعت کوئی بھی نظام مقرر کرے مگر براہ راست ہر احمدی کو یہ پیغام ملنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس مہینہ میں تم پر روزے فرض کر دیئے ہیں.اب بتاؤ تم مریض ہو یا مسافر ہوا گر دونوں میں سے کچھ نہیں تو پھر سوائے روزے کے اور کوئی راہ نہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ خدا تم پر تکلیف نہیں ڈالنا چاہتا.خدا تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے.اس ٹکڑے کو معا بعد رکھا گیا ہے اس آیت کے حصے کے فَعِدَّةٌ مِّنْ آیا پر اُخَرَ ایسے لوگ جو مریض ہوں یا مسافر ہوں ان کو بعد کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت ہے.اس سے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ جہاں تک سہولت دینا چاہتا ہے ہمارا فائدے میں ہے وہ ساری دے دی ہے اور اس کے باوجود مسافر اور مریض کے علاوہ کسی کو روزہ چھوڑنے کی گنجائش نہیں.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْر یا درکھو خدا تمہارے لئے تکلیف نہیں پیدا کرنا چاہتا آسانی چاہتا ہے اور اس آسانی چاہئے کے پیش نظر اس نے مریض کو اور مسافر کو اجازت دی ہے.یعنی جو مریض اور مسافر نہیں ہیں باوجود اس کے کہ اللہ تمہارے لئے تکلیف نہیں چاہتا پھر بھی تمہیں مکلف فرما رہا ہے کہ تم نے روزہ ضرور رکھنا ہے اور اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ روزے ہی میں

Page 260

خطبات طاہر جلدے 255 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء مومن کے لئے آسانیاں ہیں اور عسر نہیں ہے.جو روزہ چھوڑتا ہے اس کے لئے تکلیفیں ہوں گی.یہ مضمون بہت لطیف اور بہت تفصیلی مضمون ہے لیکن دنیا کے لحاظ سے ، ظاہری نظر آنے کے لحاظ سے بھی میرا یہ مشاہدہ ہے کہ ایک مہینہ کے روزے روزہ رکھنے والوں کی صحت پر سارے سال کے لئے خوشگوار اثر چھوڑ جاتے ہیں.اگر روزوں کے مہینے نہ آتے تو وہ لوگ جو موٹے ہوتے چلے جارہے ہیں، بعض لوگ کھانا زیادہ کھانے کی وجہ سے ، بعض لوگ کرسیوں پر بیٹھ کے کام کرنے کے نتیجہ میں، بعض دیگر بیماریوں کے نتیجہ میں ان کا میٹا بولزم Metabolism کا توازن بگڑ چکا ہوتا ہے.ان کے لئے بڑی دقت ہوتی ہے اور سال کے بعد سال ان کے اوپر جسمانی بوجھ چڑھتے چلے جاتے ہیں.ایک مہینہ رمضان کا ان کو ہلکا کر کے چھانٹ کے ان کو پھر دوبارہ زندہ رہنے کے لائق بنا دیتا ہے.جس طرح سال میں ایک دفعہ اچھا مالی درخت کی چھانٹی کرتا ہے، اس کی شاخوں کو کترتا ہے اور بوجھا تارتا ہے اوپر سے رمضان بالکل یہی کام ہر مومن کے لئے کر جاتا ہے.اور اس کے علاوہ بھی روحانی بیماریاں تو ان گنت ہیں جن سے روزہ نجات بخشتا ہے.کسل کی بیماری اور جسمانی بیماریاں جو مختلف نوع کی ہیں، غلط عادتیں آرام کی ، سارا دن دیر تک ایک دفعہ سونا تو صبح دس بجے آنکھ کھلنی اور بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جس سے طبیعت میں کسل پیدا ہوتا ہے، ستی لاحق ہو جاتی ہے اور رمضان کا مہینہ چست و چالاک کر دیتا ہے آدمی کو اور اس کو یہ بتا دیتا ہے کہ تمہارے لئے کتنی نیند کافی ہے.اس سے زیادہ جو ہے وہ تمہاری عیاشی ہے.جہاں تک ضرورت کا تعلق ہے تمہارے لئے یہی کافی ہے.چنانچہ رمضان کا مہینہ بہت ہی زیادہ آسانیاں پیدا کرتا ہے اور اس کی پیدا کردہ آسانیاں پھر سارا سال انسان استعمال کرتا ہے اور بیچ میں جو پھر مزید بوجھ پڑنے شروع ہوتے ہیں پھر رمضان کا مہینہ آکر ان کو صاف کر جاتا ہے.بہر حال یہ مضمون تو بڑا دلچسپ اور تفصیلی ہے کہ رمضان کس قسم کی آسانیاں لے کر آتا ہے اور کس قسم کی مشکلات سے نجات بخشتا ہے.پھر فرمایا وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُ بكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور مناسب یہی ہے کہ تم تعداد پوری کرو اور خدا تعالیٰ کی تکبیر کرو، اس کے نام کی بلندی کا اعلان کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی ہے اور یہی مناسب ہے کہ تم اس کے شکر گزار بنو لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.اس کے بعد اس مضمون کا جو منتہی ہے وہ بیان ہوا ہے.فرمایا وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی

Page 261

خطبات طاہر جلدے 256 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء عَنِّي فَإِنِّي قَرِيب اگر اے محمد ﷺ! تجھ سے میرے بندے یہ سوال کریں کہ میں کہاں ہوں فَإِنِّي قَرِيبٌ میں تو ان کے قریب ہوں أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب بھی کوئی بلانے والا مجھے بلاتا ہے میں اس کی دعوت کا جواب دیتا ہوں فَلْيَسْتَجِيبُوالي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پس ان کو بھی تو چاہئے کہ وہ میری باتوں کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.اس آیت کا اس گزشتہ آیت سے گہرا تعلق ہے، رمضان کے مضمون سے گہرا تعلق ہے.جتنا خدا تعالی رمضان کے مہینے میں بندے کے قریب ہوتا ہے اتنا کسی اور مہینے میں اس کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قربت کی شہادتیں نہیں ملتیں اور رمضان کے مہینے میں ایک یا دو یا تین کے ساتھ یہ قربت کا تعلق ظاہر نہیں ہوتا بلکہ کثرت کے ساتھ عام مومنوں سے یہی سلوک ہوتا ہے.اسی لئے یہ اعلان عام ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ.عِبَادِی سے مراد بندے بھی ہیں اور عبادی سے مراد عبادت کرنے والے بھی ہیں اور اس موقع پر میرے نزدیک یہاں عام عبد مراد نہیں صلى الله بلکہ عبادت کرنے والے بندے مراد ہیں اور وہی تھے جو آنحضرت ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے متعلق پوچھا کرتے تھے.تو فرمایا میرے بندے جو میری عبادت کرتے ہیں اگر وہ سوال کریں تو میں قریب ہوں، ان کی دعوت کا جواب دیتا ہوں اور دوں گا لیکن وہ میری ہدایات کا جواب دیں یعنی میری باتوں کا جواب دیں یعنی ان پر عمل کریں اور مجھ پر ایمان لائیں لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ ہدایت پائیں.یہاں وَلْيُؤْمِنُوا لی جب فرمایا تو اس میں ایک اشتباہ بھی پیدا کر دیا اس لئے اس مضمون کو کھولنا چاہئے.اگر ہم عبادی کے مفہوم میں عبادت کا مفہوم بھی شامل کر لیں تو پھر لْيُؤْمِنُوا ہی کو آخر میں بیان فرمانا عجیب معلوم ہوتا ہے.اور اگر عبادت کا مفہوم نہ بھی شامل کریں عام بندے سمجھ جائیں تو پھر بھی اس آیت کی ترتیب عجیب لگتی ہے فرماتا ہے گویا کہ میں ہر بندے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی پس وہ بھی میری باتوں کا جواب دے ولیو منوا لی اور مجھ پر ایمان لائے.اگر ایمان سے پہلے یہ ساری باتیں گزر جانی ہیں تو پھر ایمان کا کیا سوال ہے؟ جب مکالمہ مخاطبہ شروع ہو جائے ، جب خدا جواب دینے لگے تو پھر تو وہ شہادت کے مقام پر انسان پہنچ جاتا ہے.پھر وَلْيُؤْمِنُوا بِی کیا مقام ہے؟ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

Page 262

خطبات طاہر جلدے تاکہ وہ ہدایت پائیں.257 خطبه جمعه ۵ ارایریل ۱۹۸۸ء اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ جو ایمان کے متعلق علماء بہت سی بحثیں اٹھا چکے ہیں اور بالعموم بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ غالباً اجماع ہے تمام علماء کا کہ ایمان ایک مقام پر کھڑا نہیں رہتا.اجماع تو نہیں ہے بعض علماء نے مجھے یاد آیا ہے اختلاف بھی کیا ہے اس بات پر.وہ سمجھتے ہیں کہ ایمان ہے یا نہیں ہے بس یہ دوہی چیزیں ہیں اور گھٹا بڑھتا نہیں ہے.بعض علماء کہتے ہیں کہ ایمان کی بے شمار منازل ہیں اور وہ کم سے شروع ہوتا ہے زیادہ تک پہنچتا ہے.تو وَلْيُؤْمِنُوا جو ہے اس کا مطلب یہاں یہی لیا جا سکتا ہے کہ پھر وہ ان باتوں کے نتیجہ میں مجھ پر کامل ایمان لے آئیں گے اور ان کو ایمان کی حقیقت معلوم ہو جائے گی ، ایمان کی شیرینی اور اس کی حلاوت محسوس ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بن دیکھے کس طرح کسی مد رخ پہ آئے دل کیسے کوئی خیالی صنم سے لگائے دل دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی ( در تمین صفحه ۱۱۱) حالانکہ اس کے بغیر بھی ایمان کی ایک منزل تو انسان کو نصیب ہو ہی جایا کرتی ہے.بہت سے ایسے بھی خدا پر ایمان لانے والے ہیں جو کسی مذہب کے قائل نہیں لیکن خدا کی ہستی کے متعلق وہ ایمان رکھتے ہیں.اس لئے ایمان کے تو بے شمار مراحل اور بے شمار در جے ہیں.یہاں جس ایمان کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ ہر رمضان کے بعد جو ایک نیا ایمان نصیب ہوتا ہے اس کا ذکر فرمایا گیا ہے اور ہر ایمان کے نتیجہ میں ایک نئی ہدایت کا رستہ کھلتا ہے.جب بھی آپ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے میں ترقی کرتے ہیں اور ایک نیا مضمون اس پر یقین کا آپ کے اوپر کھولا جاتا ہے.اس کے ساتھ ہی آپ کے لئے ترقی کی اور راہیں بھی کشادہ ہوتی ہیں اور نئی راہیں بھی آپ پر کھولی جاتی ہیں.چنانچہ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ سے یہاں یہی مراد ہے.پس جو بھی آپ معنی کریں، عبد سے مراد عام بندے لیں یا عبادت کرنے والے بندے

Page 263

خطبات طاہر جلدے 258 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء لیں دونوں صورتوں میں یہ ایمان کا آخر پر ذکر کرنا برحل اور بجا ہے کیونکہ اس سے مراد عام ایمان نہیں بلکہ ایمان کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے.بہر حال یہ ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر رمضان کے دوران خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کا ایک خاص موقع پیدا ہوتا ہے اور یہ جولیلۃ القدر کا مضمون ہے یہ انشاء اللہ بعد میں پھر اس پر کچھ روشنی ڈالوں گا.اس کے متعلق بھی آپ سب جانتے ہیں کہ یہ بھی رمضان میں رکھی گئی ہے اور جوں جوں رمضان آگے بڑھتا ہے اور رمضان بھیگنا شروع ہوتا ہے.رات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ رات بھیگی.میں نے یہ لفظ رمضان کے متعلق عمداً استعمال کیا ہے کیونکہ رات بھیگتی ہے جب گہری ہو جائے اور آخر پر دن کے قریب پہنچنے لگے اس وقت شبنم سے بھیگتی ہے اور رمضان جب اختتام اور عید کے قریب پہنچے لگتا ہے تو آنسوؤں سے بھیگتا ہے اور جتنا زیادہ آپ رمضان میں آگے بڑھتے ہیں اتنا زیادہ یہ نمدار ہوتا چلا جاتا ہے.اس لئے عام سرسری محاورے کے طور پر میں نے نہیں کہا بلکہ خاص معنی کے پیش نظر کہا ہے کہ جوں جوں رمضان بھیگتا چلا جاتا ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت میں ایک خاص چمک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا گہرا تعلق انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ بعض دفعہ تو وہ سمجھتا ہے کہ یہی میری زندگی کا آخری دن ہوتا تو بہتر تھا کیونکہ خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور پیار کے جلوے اسے نصیب ہوتے ہیں اور یہ جو رحمت کا چھینٹا ہے یہ عام ہے.کبھی کسی اور مہینے میں اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمت کے ایسے چھینٹے نہیں پھینکے جاتے جو دنیا کے ہر کونے میں ، ہر ملک میں برس رہے ہوں اور جس کسی پر بھی پڑیں اسے خوش نصیب بنا دیں.اس لئے رمضان کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے.رمضان مبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں.چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی ، چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے اور دنیا کی زنجیروں میں اور بھی زیادہ پہلے سے جکڑے گئے کیونکہ جو رمضان کی پابندیاں برداشت نہیں کرتا اس کی عادتیں دنیا سے مغلوب ہو جاتی ہیں اور وہ در حقیقت اپنے آپ کو مادہ پرستی کے بندھنوں میں خود جکڑنے کا موجب بن جایا کرتا ہے.دن بدن یہ لوگ ادنی زندگی کے غلام ہوتے چلے جاتے ہیں.اس کے بعد اگر چاہیں بھی تو پھر ان بندھنوں کو توڑکر ان سے آزاد نہیں ہو سکتے.اس لئے بہت ہی ضروری فیصلہ ہے یہ کہ رمضان کی چند دن کی پابندیاں آیا ما مَعْدُو دُتِ خدا نے فرمایا.گنتی کے چند دن ہی

Page 264

خطبات طاہر جلدے 259 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء تو ہیں کر کے تو دیکھو آیا ما مَعْدُودَت کا ایک مطلب تو یہ بھی لیا جا سکتا ہے جن کے اوپر رمضان سخت ہوان کو تسلی دینے کے لئے کہ گنتی کے چند دن ہیں گزر جائیں گے کوئی بات نہیں.تم تجربہ کرو اور تمہیں فائدے پہنچیں گے اور ایک اور مطلب اس کا یہ ہے کہ گنتی کے چند دن ہی تو ہیں تم کر کے دیکھو گے تمہیں معلوم ہوگا کہ اس کے فائدے لا متناہی ہیں.چند دن کی سختیاں بہت وسیع فائدے ایسے پیچھے چھوڑ جائیں گی کہ سارا سال تم ان چند دنوں کی کمائیاں کھاؤ گے.یعنی تھوڑی محنت کے بعد لمبے پھل کا اس میں ذکر فر مایا گیا ہے.اس لئے جماعت کو میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ با قاعدہ منظم طریقے پر ابھی جو ایک دو دن میسر ہیں یا خطبہ جہاں دیر سے پہنچے وہاں ان کو چاہئے کہ جتنا بھی بقیہ رمضان ہو اس میں با قاعدہ جد و جہد کریں کہ ایک بھی احمدی رمضان کی برکتوں سے محروم رہنے والا نہ ہو.جو مریض اور مسافر ہے وہ بھی محروم نہیں رہے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کو اجازت دی ہے.اجازت دینے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ تمہیں میں محروم کر دیتا ہوں.ایسے لوگ اٹھ سکتے ہیں راتوں کو عبادت کے لئے ، دعاؤں میں شامل ہو سکتے ہیں، رمضان کی دیگر نیکیوں میں شامل ہو سکتے ہیں.مثلاً کسی شخص کو اگر سخت کلامی کی عادت ہے اور وہ مریض ہے اور مسافر ہے تو رمضان اس کو روزے سے رخصت تو دیتا ہے لیکن بد کلامی کی اجازت تو نہیں دیتا.اور دیگر بدیوں سے روکنے کا جو رمضان خاص طور پر حکم دیتا ہے اس کا مسافر ہونا یا اس کا مریض ہونا اسے اس حکم سے تو آزاد نہیں کرتا.اس لئے ہر شخص خواہ اسے خدا تعالیٰ نے رخصت عطا فرمائی ہے، خواہ نہیں عطا فرمائی رمضان سے فائدہ حاصل کئے بغیر نہ نکلے.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے ایک دفعہ رمضان کے بعد ایک نظم کہی اور وہ ٹیپ کا ایک مصرعہ مشہور تھا جسے استعمال کیا کہ :- اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے بڑی درد ناک نظم ہے لیکن جن لوگوں کو پتا تھا کہ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کیسے خدا کے عبادت گزار بندے تھے ان کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ عبادت گزار ہیں ان کو بھی رمضان کے بعد یہ فکر ہوتی ہے کہ کاش! ہم اس سے زیادہ حاصل کر سکتے.ان کی تمنائیں بلند ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے حال پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ایک رنگ کی حسرت محسوس کرتے ہیں.

Page 265

خطبات طاہر جلدے 260 خطبه جمعه ۱۵ راپریل ۱۹۸۸ء پس وہ لوگ جنہوں نے نہ روزے رکھے ، نہ عبادتیں کیں ان کی حسرتوں کا کیا حال ہوگا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ یہ بات ہی ہے جو آخر پر منہ سے نکلتی ہے.کاش ! تمہیں پتا ہوتا تم تو بے خبر ہو.جنہوں نے بہت محنتیں کیں اور عارف باللہ ہیں اور باشعور ہیں ان کو بھی آخر پر یہ احساس پیدا ہوا کہ اوہو! برکتوں کا پاکیزہ مہینہ گزر گیا کئی کمزوریاں ہماری پیچھے رہ گئیں ہیں جنہیں ہم دور نہیں کر سکے، کئی بوجھ ہیں جنہیں ہم اتار نہیں سکے، کئی نعمتیں ہیں جن سے ہم ابھی بھی محروم چلے آرہے ہیں، گو خدا نے بہت کچھ عطا کیا لیکن ہماری دل کی طلب پوری نہیں ہو سکی.یہ باخبر لوگوں کا حال ہے.جو بے خبر ہیں ان کو تو بے چاروں کو تو پتا ہی کچھ نہیں کہ کیا چیز ان کے لئے آئی تھی اور کیا گزرگئی.اس لئے باشعور لوگوں کا ، باخبر لوگوں کا کام ہے کہ بے خبر لوگوں کو مطلع کریں، ان کو جھنجوڑ میں، ان کو بیدار کریں، ان کی منتیں کریں کہیں کہ گنتی کے چند دن ہیں تم کر کے تو دیکھو اور بچوں کو بھی عادت ڈالیں ، ایک روزہ مہینے کا ، دوروزے مہینے کے اس طرح آہستہ آہستہ بچپن میں جو ماں باپ عادت ڈالتے ہیں ان کے بچوں کو پھر اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے رمضان سے ان کو محبت پیدا ہو جاتی ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ یہ رمضان ہمارے لئے یہ برکت بھی چھوڑ کر جائے گا کہ کثرت کے ساتھ وہ احمدی جو پہلے روزہ نہیں رکھتے تھے وہ اس رمضان کی برکت سے روزے رکھنے والے احمدی بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ضرورت بھی بہت ہے.اتنی مشکلات کے دن ہیں.کئی قسم کی سختیاں ہیں جماعت پر، پھر کام کے بہت سے دن ہیں آگے نئی صدی کے آنے والے ہیں کام ، ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں، نئی جماعتیں آرہی ہیں.جتنے روزے دار بڑھیں گے اتنے باخدا انسان بڑھیں گے اور جتنے باخدا انسان بڑھیں گے اور خدا سے پیوند زیادہ قائم ہو گا اتنی ہی زیادہ برکتیں نازل ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہماری برکتوں کو وسیع کرے اور ہماری محرومیوں کے راستے بند کر دے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: خطبہ ثانیہ کے دوسرے حصے سے پہلے دو اعلان کرنے والے ہیں.ایک تو میرا خیال تھا جمعہ میں ہی کروں گا کیونکہ میں جرمنی کی جماعت سے ایک قسم کا وعدہ کر کے آیا تھا لیکن یہ بھی ایک جمعہ کا حصہ ہی ہے.میں اس وقت رمضان کے مضمون میں اس پہلو کو نظر انداز کر گیا.جرمنی کے دورے کے وقت مجھ سے یہ شکوہ کیا گیا بعض عہد یداران کی طرف سے بھی اور

Page 266

خطبات طاہر جلدے 261 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء بعض دوسرے جرمن احمدی نوجوانوں کی طرف سے کہ تحریک جدید کے سال کے اعلان کے وقت میں نے UK یعنی انگلستان اور USA امریکہ وغیرہ کی تعریف تو کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص طور پر تحریک جدید میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائی لیکن جرمنی کا ذکر چھوڑ دیا حالانکہ وہ بھی نہ صرف دعاؤں کے محتاج ہیں بلکہ اس پہلو سے سب سے بڑھ کر محتاج ہیں کیونکہ پاکستان کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ سالانہ تحریک جدید کا چندہ جرمنی کی جماعت دے رہی ہے.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ افسوس سے کہ یہ اس وقت میرے علم میں بات نہیں تھی.معلوم یہ ہوتا ہے ان کی اطلاع کہیں رستے میں رہی ہے اور مجھ تک بروقت نہیں پہنچی اس لئے اب اس کو درست کرنا ضروری ہے.جرمنی کا گزشتہ سال کا چندہ انہتر ہزارا کہتر (۶۹،۰۷۱ ) پاؤنڈ تھا اور ڈچ مارک میں دولاکھ پچیس ہزار ایک سوا کاسی (۱۸۱، ۲۲۵) مارک.اس کے مقابل پر انگلستان کا ساٹھ ہزار پاؤنڈ تھا.یونائیٹڈ سٹیٹس کا اڑتالیس ہزار اور کینیڈا کا چھبیس ہزار.تو ان کا شکوہ برحق ہے کہ ان سے پیچھے رہنے والی جماعتوں کا تو ذکر خیر ہو گیا اور دعا کی تحریک ہو گئی اور جو اول آئے ہیں ان کا ذکر ہی نہیں.جرمنی کی جماعت ماشاء اللہ اکثر نو جوانوں پر مشتمل ہے اور بڑے جذباتی ہیں.عمر بھی ایسی ہے لیکن جن حالات میں پاکستان سے نکلے ہیں اس کی وجہ سے بہت جذباتی ہیں اور اس کا نیک اثر یہ ان پر پڑا ہے کہ وہ بعض نیکیاں جن سے وہ اپنے ملک میں محروم میں تھے انہوں نے جرمنی میں آکر اختیار کر لی ہیں اور بہت سے ایسے نوجوان جو چندوں سے غافل تھے، دین کی راہ میں وقت کی قربانی پیش کرنے سے غافل تھے یہاں آکر اللہ کے فضل سے صف اول کے احمدی بن گئے ہیں یا بن رہے ہیں.تو بعض کمزوریاں بھی ہیں.میں ان کے متعلق بھی ان کو نصیحت کر کے آیا ہوں لیکن بالعموم یہ جماعت مجھے بہت ہی پیاری ہے بڑے ہی مخلص ، فدائی نوجوان ہیں اور آواز پر لبیک کہنے کا ایسا ان میں جذبہ ہے، ایسا جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے، ایک دوسرے سے مسابقت کی روح اختیار کرتے ہوئے ہر اس نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرف ان کو بلایا جاتا ہے.جو کمزوریاں ہیں بعض ان کی طرف توجہ دلائی ہے آپ بھی جہاں ان کے لئے یہ دعا کریں کہ اللہ ان نیکیوں پہ انہیں جزا دے اور وہاں یہ دعا بھی ضروری ہے کہ بعض کمزوریاں جو وہاں کے بعض معاشرے کی خرابیاں ساتھ لے آئے ہیں ان سے بھی اللہ تعالیٰ ان کو نجات بخشے اور ہر پہلو سے دین و

Page 267

خطبات طاہر جلدے دنیا کےحسنات عطا کرے.262 خطبه جمعه ۱۵ رابریل ۱۹۸۸ء اب چند جنازوں کا اعلان ہے جن کی نماز جنازہ غائب جمعہ کے بعد پڑھی جائے گی.سب سے پہلے اور سب سے اہم حضرت السید منیر الحصنی صاحب کا ذکر خیر ضروری ہے.یہ دمشق کے رہنے والے اور شام کی جماعت کے امیر تھے.بہت لمبے عرصے سے امیر چلے آرہے تھے.اخلاص اور وفا میں ایک بہت ہی اعلیٰ درجہ کا مقام رکھتے تھے اور مجھے اس بارہ میں شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا یدعون لك ابدال الشام وعبادالـلـه مـن العرب - ( تذکرہ صفحہ ۱۰۰) تو ان ابدال الشام اور عباد الله من العرب میں حضرت السيد منیر احصنی صاحب بھی شامل ہیں.ان کے نام کا تلفظ مختلف لوگوں سے مختلف سنا ہے.کوئی حصنی کہتا ہے، کوئی حصنی کہتا ہے کوئی بھنی.اس لئے جو بھی ہے السید المنير المحصنی یا لکھنی جو بھی کہلاتے ہیں.میں خود بھی ان سے مل چکا ہوں، کئی بار ملنے کا موقع ملا.بہت ہی عاشق تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور سلسلہ کے.تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائز اور بہت ہی فدائی ہمنکسر المزاج بزرگ تھے.آپ کو معلوم ہے کہ دمشق میں بعض وجوہات سے جماعت پر بڑی دیر سے سختیاں ہیں اور بڑی پابندیاں ہیں اس کے باوجود انہوں نے قطعاً ان باتوں کی پرواہ نہیں کی اور جماعت کے شیرازہ کو منتشر نہیں ہونے دیا اور اللہ کے فضل کے ساتھ ان کی ذات کے ارد گر دہی جماعت مضبوطی سے قائم رہی اور ان کی وفات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرما دیا اور ایسے بندے خدا کے پیدا ہو گئے جن کے ذریعے جماعت کمزور ہونے کے اور بھی زیادہ پہلے سے بڑھ گئی ہے، مضبوط ہوگئی ہے اور ترقی کی راہوں پر زیادہ تیزی سے چلنا شروع کر چکی ہے.اس بارے میں منیر الحصنی صاحب نے مجھے اپنی ایک رویا بھی لکھی تھی جس سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو وصال سے پہلے ایسا وقت دکھا دے گا کہ ان کو تسلی ہو کہ جماعت سنبھالی گئی ہے اور ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں.چنانچہ مجھے خوشی ہے اس پہلو سے ان کو پوری طرح اطمینان ہو چکا تھا.وہ جگہ جہاں دیر سے تبلیغ رکی ہوئی تھی اب پچھلے دو تین سال میں اس کثرت سے دوستوں کی توجہ پیدا ہوئی ہے، تبلیغ کا جوش پیدا ہوا کہ شدید مشکلات اور خطرات کے باوجود بھی جماعت نے تیزی سے پھیلنا شروع کیا اور وہ سارے نوجوان اور مخلصین منیر احصنی صاحب سے آکے ملتے بھی تھے بلکہ ان کی تصدیق سے ان کی بیعتیں آیا کرتی تھیں.اس

Page 268

خطبات طاہر جلدے 263 خطبه جمعه ۵ اراپریل ۱۹۸۸ء لئے مجھے بڑا اطمینان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو مبشر وعدہ فرمایا تھا اسے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھنے کی ان کو توفیق عطا فرمائی.۱۹۲۷ء میں حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کے ذریعے آپ کو توفیق ملی تھی احمدیت کے قبول کرنے کی.۱۹۲۸ء میں آپ کو امیر مقرر کیا گیا.یہ مارچ ۱۹۲۸ء میں امیر مقرر ہوئے تھے.گویا میری ساری عمر سے ان کی امارت کی عمر چند مہینے یا نو مہینے قریباً زیادہ تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے متعلق بہت ہی اچھے خیالات کا اظہار فرمایا، بہت ہی اچھی رائے ظاہر فرمائی.ایک موقع پر فرمایا کہ منیر اٹھنی صاحب کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت شام اخلاص میں ترقی کر رہی ہے اور دنیا کی احمدی جماعتوں میں بلند مقام رکھتی ہے.دوسرا جنازہ غائب مکرم میجر جنرل بشیر احمد صاحب راولپنڈی کا پڑھا جائے گا.یہ بھی اپنے آخری ایام میں خصوصیت سے جماعت کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے اور اپنے گھر کو خدمت دین کے لئے پیش کرتے تھے اور مجھے بھی کئی دفعہ راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا ان کے گھر میں ہی مجالس لگا کرتی تھیں سوال و جواب کی چونکہ ان کا اور ان کی اہلیہ کا رسوخ کافی تھا.یہ اپنے دوستوں تعلق والوں کو دعوت دیا کرتے تھے اور بڑی محبت سے جماعت کی خدمت کیا کرتے تھے.مکرم پر و فیسر محمد دین صاحب کو ربوہ کے سب لوگ جانتے ہیں باہر کے بھی بہت سے کیونکہ تعلیم الاسلام کا لج میں ایک لمبا عرصہ تک پروفیسر رہے.اس سے پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بھی استاد تھے.چوہدری علی محمد صاحب، یہ داؤد احمد صاحب نگران تعمیرات صدرانجمن احمدیہ کے والد تھے.دوجے عبداللہ صاحب جماعت انڈونیشا تاسک ملایا کے پریذیڈنٹ تھے.یہ بھی بہت مخلص اور فدائی اور مشکل حالات میں بڑی وفا کے ساتھ جماعت احمدیہ کی خدمت کرتے رہے.مکرم فتح محمد صاحب گجراتی ابتدائی درویشان قادیان میں سے تھے.مکرمہ تقیہ اقبال صاحبه، محمد صفی صاحب قائد انگلستان کی پھوپھی تھی.مکرمہ مقصودہ اختر صاحبہ.یہ موصیہ بھی تھیں.قریشی نورالحسن صاحب کی بیوہ تھیں.مکر مہ رانی بیگم صاحبہ محمد اسلم صاحب بھروانہ قائد ضلع راولپنڈی کی والدہ تھیں.مکرمہ مختار بیگم صاحب بدر عالم اعوان صاحب کی اہلیہ مکرمہ فضیلت نصائح صاحبہ.یہ منیر

Page 269

خطبات طاہر جلدے 264 خطبه جمعه ۱۵ رابریل ۱۹۸۸ء احمد صاحب اوسلو نے درخواست کی ہے جوان کے داماد تھے.مکرم نور محمد صاحب یہ صالح حسین صاحب صدر جماعت صادق پور کے چاتھے، مکرم عبد اللہ خان صاحب ان کے بیٹے مکرم محمود صاحب نے جرمنی سے درخواست کی ہے سمبڑیال کے رہنے والے تھے، مکرم سید ریاض ناصر صاحب.یہ ریحان محمود صاحب ہمارے انگلستان میں بھی رہے ہیں بینک میں ہوتے تھے ان کے بھائی تھے کراچی سے ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے.فرحت رحمان کی والدہ.مرحوم خواجہ عبد الرحمن تھے.(ایک خواجہ عبدالرحمن صاحب تو ہمارےمعروف ہیں پچھلے دو سال ہوئے وفات پائی ہے.ایک ان سے بہت پہلے خواجہ عبد الرحمن صاحب ہوا کرتے تھے ) ان کی بیوہ تھیں.ان کے بچے سارے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بشیر الرحمن وغیرہ بہت مخلص ہیں.ان کی بیوہ خود بڑا محبت اور اخلاص کا تعلق رکھتی تھیں.ان کی بیٹی نے مجھے خط لکھا تھا.ان کی بھی نماز جنازہ غائب ان کے ساتھ ہی ہوگی.

Page 270

خطبات طاہر جلدے 265 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء رمضان کو تربیت اولا د کیلئے خصوصیت سے استعمال کریں.اوجڑی کیمپ کے المناک حادثہ کا تذکرہ (خطبه جمعه فرموده ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ کے موقع پر میں نے جماعت کو یہ نصیحت کی تھی کہ روزہ رکھنے کی عادت نئی نسلوں کو خصوصیت کے ساتھ ڈالنی چاہئے کیونکہ عموماً میرا یہ تاثر ہے کہ ہماری نئی نسلوں میں خاص طور پر وہ جو یورپ اور امریکہ یا دیگر بعض ممالک میں پیدا ہو کے بڑی ہوئی ہیں روزے کا پورا احترام نہیں ہے اور اس کی پوری اہمیت ان پر واضح نہیں اور ماں باپ کا بھی بہت حد تک قصور ہے کہ رمضان شریف آکر گزر جاتا ہے اور وہ اپنے روزے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حق ادا کر دیا حالانکہ جب تک اولاد کو صحیح معنوں میں دین کے فرائض سے آگاہ نہ کیا جائے اور ان کو اختیار کرنے میں، ان پر عمل کرنے میں ان کی مدد نہ کی جائے والدین کا حق ادا نہیں ہوتا.اس تحریک کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جو اطلاعیں مل رہی ہیں وہ بہت امید افزا ہیں، خوش کن ہیں اور انگلستان ہی میں نہیں بلکہ بعض دوسرے ممالک میں بھی خدام الاحمدیہ نے ، انصار اللہ نے ، ذیلی تنظیموں لجنہ وغیرہ نے اپنے اپنے رنگ میں فوری طور پر کوشش کی اور خدا کے فضل کے ساتھ اب تک جو اطلاعیں ملی ہیں ابھی وقت تھوڑا ہے ابھی مزید بھی آئیں گی معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلو سے ایک بیداری پیدا ہوئی ہے، ایک احساس پیدا ہوا ہے اور جماعت نے ہر سطح پر منظم کوشش شروع کر دی ہے.اس ضمن میں کچھ اور باتیں بھی بیان کرنی ضروری ہیں.ان ممالک میں جہاں بچپن سے تربیت کا وہ ماحول میسر نہیں جو بڑے معاشرے کے نتیجے میں ہمیں میسر آجایا کرتا ہے مثلاً ربوہ یا

Page 271

خطبات طاہر جلدے 266 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء قادیان یا دیگر پاکستان کی جماعتیں جہاں جماعت کے افراد کی تعداد اتنی ہے کہ وہ اپنا ایک معاشرہ قائم کر سکیں.ایک معاشرے کا ماحول پیدا کر سکیں.وہاں بچوں کی تربیت از خود ہوتی ہے اور اس کے لئے اتنی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی مگر جہاں جماعت احمدیہ کے افراد بکھرے ہوئے ہوں اور اجتماعی حیثیت کی بجائے بالعموم انفرادی حیثیت میں رہتے ہوں وہاں بچوں کے لئے بہت سی وقتیں پیدا ہو جاتی ہیں کیونکہ معاشرہ غیر ہے بلکہ غیر ہی نہیں بلکہ معاندانہ معاشرہ ہے،اسلامی قدروں کے بالکل برعکس اور ان پر حملہ کرنے والا معاشرہ ہے.اس پہلو سے والدین کو عام حالات کے مقابل پر زیادہ محنت کرنی چاہئے لیکن افسوس یہ ہے کہ عام حالات سے نسبتاً کم محنت کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو خدا تعالیٰ پھل بھی دیتا ہے اور جو اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کی طرف بچپن سے ہی توجہ کرتے ہیں، ان کے دل میں دین کی محبت ڈالتے ہیں ، اچھی عادتیں ان کے اندر پیدا کرتے ہیں ان کو اللہ کے فضل کے ساتھ بڑے ہو کر بھی کوئی خطرہ نہیں رہتا.اس لئے رمضان مبارک میں خصوصیت سے اس گزشتہ کی کو جہاں جہاں بھی محسوس ہو پورا کرنا چاہئے اور رمضان میں صرف روزوں کی تلقین نہیں کرنی چاہئے بلکہ روزوں کے لوازمات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے.میں نے ایک دفعہ سرسری طور پر جائزہ لیا نو جوانوں سے پوچھنا شروع کیا روزہ رکھا ہے کہ نہیں رکھا، کیسا رہا، کس طرح رکھا تو اکثریہ دیکھا گیا یعنی اکثر جواب یہ ملا کہ روزہ صبح سحری کھا کر رکھا اور نفلوں کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں نے تہجد کی سنت اس میں دے کر ( الفاظ تو بعینہ یاد نہیں لیکن مراد یہ ہے کہ) تمہارے لئے مزید برکتوں کے رستے پیدا کر دئے ہیں.(الترغیب والترہیب کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۴۸۷) تو تہجد ویسے بھی بہت اچھی چیز ہے اور قرآن کریم نے اس کو بہت ہی تعریف کے رنگ میں پیش فرمایا ہے اور اس کی بہت سی برکتیں ہیں اور مقام محمود تک لے جانے والی چیز ہے.لیکن رمضان مبارک سے تہجد کا بہت گہرا تعلق ہے.حضرت عائشہ صدیقہ روایت فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے سوا آنحضرت ﷺ کو اتنا لمبا تہجد پڑھتے کبھی نہیں دیکھا کہ قریباً ساری رات بعض اوقات کھڑے ہو کر گزار دیتے تھے.( بخاری کتاب الصلوۃ التراویح حدیث نمبر: ۱۸۸۴)

Page 272

خطبات طاہر جلدے 267 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء تو رمضان کے ساتھ تہجد کا بہت ہی گہرا تعلق ہے.وہ روزے جو تہجد سے خالی ہیں وہ بالکل ادھورے اور بے معنی سے روزے ہیں.اس لئے بچوں کو خصوصیت کے ساتھ روزے کی تلقین کرنی چاہئے.جس ماحول کا میں نے ذکر کیا ہے قادیان یار بوہ میں اس ماحول میں تو عموماً یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا خصوصاً قادیان میں کہ کوئی بچہ اٹھ کر آنکھیں ملتا ہوا کھانے کی میز پر آجائے.اس کے لئے لازمی تھا کہ وہ ضرور پہلے نفل پڑھے اور لازمی ان معنوں میں کہ سب یہی کرتے تھے اس نے یہی دیکھا تھا اور وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا.بعض دفعہ لیٹ آنکھ کھلتی ہے بچے کی یعنی دیر ہو جاتی ہے زیادہ تو کھانا بھی جلدی میں کھاتا ہے لیکن قادیان کے بچے تہجد بھی پھر جلدی میں پڑھتے تھے یہ نہیں کرتے تھے کہ اب وقت نہیں رہا صرف کھانا کھا ئیں بلکہ اگر کھانے کے لئے تھوڑا وقت ہے تو تہجد کے لئے بھی تھوڑا وقت تقسیم کر لیا کرتے تھے.دو نفل جس کو عام طور پر ٹکریں مارنا کہتے ہیں اس طرح کے نفل پڑھے اور اسی طرح کا کھانا کھایا پھر دو لقھے جلدی جلدی کھا لیا لیکن انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ روحانی غذا کی طرف بھی توجہ دیں اور جسمانی غذا کی طرف بھی توجہ دیں اور یہ انصاف ان کے اندر پایا جاتا تھا ان کو بچپن سے ماؤں نے دودھ میں پلایا ہوا تھا.اس لئے وہ نسلیں جو قادیان میں پل کے بڑی ہوئیں ان میں تہجد اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جاتا تھا.کوئی وہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر تہجد پڑھے بھی روزہ ہوسکتا ہے.ہاں کچھ ان میں سے ایسے بھی تھے جو تہجد کے وقت اٹھ نہیں سکتے تھے اور کچھ ایسے تھے جو صرف تہجد نہیں پڑھنا چاہتے تھے بلکہ قرآن کریم کی تلاوت بھی سننا چاہتے تھے.چنانچہ ایسے احباب کے لئے یا مردوزن کے لئے تراویح کا انتظام ہوا کرتا تھا.تراویح کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ تراویح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جاری ہوئی اور تراویح کے متعلق بعض دفعہ بعد میں اعتراضات بھی ہوئے خصوصاً وہ لوگ جو خارجی مزاج رکھتے تھے یا شیعوں میں سے بعض جو حضرت عمر کو پسند نہیں کرتے تھے انہوں نے طعن زنی کے طور پر عمری سنت کہنا شروع کر دیا حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تراویح کی بنیاد خود حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں پڑ چکی تھی.چنانچہ آپ نے باجماعت رمضان شریف میں نوافل پڑھانے شروع کئے صرف چند دن ایسا کیا اور اس کے بعد اس خیال سے کہ امت میں یہ فرض نہ سمجھ لیا جائے اس کو ترک فرما دیا.چنانچہ روایت آتی ہے کہ چوتھے یا پانچویں روز جب صحابہ پھر ا کٹھے ہوئے تو

Page 273

خطبات طاہر جلدے 268 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء صلى الله انہوں نے بلند آواز سے رسول اکرم ﷺ کو جگانے کی خاطر یا یہ خیال کر کے کہ کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں گے صلوۃ صلوۃ کہنا شروع کر دیا، یارسول اللہ وقت ہو گیا ہے لیکن سننے کے باوجود حضور باہر تشریف نہیں لائے اور پھر وضاحت فرمائی دوسرے دن کہ مجھے علم ہے مگر میں عمد ا نہیں آیا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ پھر بعد میں آنے والوں پر بہت بوجھ پڑ جائے گا تکلیف مالا يطاق ہو جائے گی.(مسند احمد ) تو سنت تو رسول اکرم ﷺ نے ڈال دی تھی.اس کے متعلق حضرت عمر نے صرف ان مزدوروں کی خاطر جو بہت تھک جایا کرتے تھے اور صبح ان کے لئے اٹھنا ممکن نہیں ہوتا تھا ایسا کیا کہ صبح تہجد کی بجائے وہ پہلے پڑھ لیا کریں اور بالعموم یہ تراویح کی رکعتیں اس زمانے میں ہیں ہیں تک بھی پڑھی جاتی تھیں جبکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سنت عموماً یہ ہے کہ آٹھ رکعتیں آپ پڑھتے تھے پھر دور کعتیں وتر کی اور پھر ایک رکعت ساری نماز کو وتر بنانے کے لئے.تو گویا گیارہ رکعتوں کی سنت بالعموم ثابت ہے (مسلم کتاب الصلوۃ المسافر وقصرها حدیث نمبر : ۱۲۲۰).اسی لئے جماعت احمدیہ میں بھی قادیان میں ہمیں گیارہ رکعتیں ہی سکھائی جاتی تھیں اور رمضان کے علاوہ اس سے کم کا بھی ذکر ملتا ہے.چار نوافل اور پھر دووتر سے پہلے کی رکعتیں اور پھر ایک وتر بنانے والی رکعت.تو اس طرح چار نوافل اور دو اور ایک تین کل سات کا بھی ذکر ملتا ہے.(مسلم کتاب الصلوة المسافر وقصرها حدیث نمبر : ۱۲۲۰) تو بچوں کو اگر گیارہ کی توفیق نہیں تو یہ سات رکعتوں والے نوافل پڑھانے شروع کر دیں اور ان کو بتائیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی سنت تھی.چنانچہ اس سے ان کے دل میں نوافل کے لئے ایک دو ہری محبت پیدا ہوگی اور ذہن میں یہ بات جانشیں ہوگی کہ اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ ہمارے آقا ومولا حضرت رسول اکرم ﷺ بھی اس طرح پڑھا کرتے تھے.تو تربیت کا بہت ہی اچھا موقع ہے اور اگر بچوں کو اس وقت اس طرح سکھایا جائے تو ہر گز مشکل نہیں ہے.چنانچہ قادیان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تراویح کے وقت بھی بعض لوگ اس لئے اکٹھے ہوتے تھے کہ صبح نہیں اٹھ سکتے یا دقت تھی کسی لحاظ سے مگر کچھ لوگ اس لئے بھی اکٹھے ہوتے تھے کہ تراویح میں پورے قرآن کریم کا دور ہو جائے گا اور ہر روز ایک پارہ سے کچھ زائد سننے کا موقع ملے گا اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو پھر تہجد کے لئے بھی اٹھتے تھے.تو یہ تو اپنی اپنی توفیق کی بات ہے،مصروفیات کی بھی بات ہے جس کو توفیق ملے اس کو تراویح کے لئے بھی لانا شروع کریں اگر تراویح کا انتظام ہے اور جہاں تک اس مسجد

Page 274

خطبات طاہر جلدے 269 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء کا تعلق ہے یہاں پر تراویح کا انتظام ہے مگر تراویح میں یہ جو خیال کیا جاتا ہے کہ ضروری ہے کہ پورا ایک پارہ روزانہ یا اس سے کچھ زائد تا کہ انتیس دنوں میں پورا قرآن کریم ایک دفعہ اس کا دور مکمل کیا جا سکے.یہ خیال سختی کے ساتھ عمل کرنے والا خیال نہیں ہے کہ اس کے بغیر تراویح نہیں ہو سکتی.تراویح کی روح در اصل تہجد کا متبادل ہے.وہ نوافل جو تہجد میں پڑھنے ہیں وہ آپ رات کو پڑھ لیں.تہجد کے متعلق قرآن کریم نے جو اصولی تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ جس قدر بھی قرآن کریم میسر آجائے اور میسر آنے سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص کی اپنی حیثیت ہے، اپنا علم ہے جتنی سورتیں یاد ہیں اس کے مطابق وہ تہجد کے وقت پڑھ سکتا ہے ورنہ کتاب کھول کے تو نہیں پڑھ سکتا.تو یہ سنت جو حضرت عمر کے زمانے میں جاری ہوئی اس میں بھی حضرت عمرؓ نے ایک زائد حسن پیدا کرنے کی خاطر یہ بات پیدا کی.فرمایا کہ اگر باجماعت تراویح کا انتظام کرنا ہی ہے تو کیوں نہ میں ایک قاری کو مقرر کر دوں.چنانچہ ایک قاری جو بہت ہی خوش الحان تھے ان کو آپ نے مقرر فرما دیا.( بخاری کتاب الصلوۃ التراویح حدیث نمبر : ۲۰۱۰) اب یہ بھی قطعی طور پر ثابت نہیں ہے کہ وہ پورا قرآن کریم پڑھ لیا کرتے تھے مگر بالعموم نتیجہ یہی نکالا جاتا ہے کہ ان کو غالبا سارا حفظ ہوگا اور سارے قرآن کریم کا ورد کرتے ہوں گے.تو سارا ضروری بھی نہیں ہے.اس دور کو ضروری سمجھ کر یعنی اس دور کو ضروری سمجھتے ہوئے کہ سارا قرآن کریم مکمل کیا جائے بعض بدعتیں بھی مسلمانوں میں پیدا ہونی شروع ہو گئیں.چنانچہ بعض جگہ قرآن کریم سامنے کھول کر رکھا جاتا ہے اور وہاں سے پڑھ پڑھ کر تراویح کی جاتی ہے حالانکہ باہر سے اگر قرآن کریم پڑھنا ہے تو تہجد تو ختم ہو گیا.تہجد کا تو کچھ بھی باقی نہ رہا.تہجد تو اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ آپ کی توجہ کسی دوسری تحریر کی طرف ہو.اس لئے جو قرآن کریم کی روح اور اس کا منشا ہے اس کو پورا کرنا چاہئے.وہ یہ ہے کہ مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ (المزمل: ۳۱) قرآن کریم سے جو بھی میسر آ جائے اس کو آپ پڑھیں.اس لئے خواہ مخواہ تکلفات سے کام نہ لیں بلکہ جس حد تک بھی حفاظ موجود ہیں اس حد تک قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اور تنوع پیدا کرنے کے لئے اور اس حکمت کے پیش نظر کہ بعض لوگوں کو بعض سورتیں یاد ہوتی ہیں، بعض دوسروں کو دوسری یاد ہوتی ہیں آپ باریاں بدل سکتے ہیں.یعنی بجائے اس کے کہ ایک ہی آدمی ہمیشہ تراویح پڑھائے جماعت جائزہ لے لے ، مختلف

Page 275

خطبات طاہر جلدے 270 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء دوستوں کو جتنی سورتیں یاد ہیں ان کو جمع کر کے یہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کریم اس وقت سننے کا موقع مل جائے.اس ضمن میں ایک اور تربیت کے پہلو سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے.ہمارے بہت سے ایسے ممالک میں پلنے والے بچے جیسے انگلستان یا دوسرے مغربی ممالک ہیں قرآن کریم کی بہت تھوڑی سورتیں حفظ کرتے ہیں اور میں نے جو سرسری جائزہ لیا ہے بعض دفعہ تو سوائے قــل هـو الـلـه کے ان کو کچھ بھی سورۃ یاد نہیں ہوتی اور یہ ایک بہت ہی نا پسندیدہ بات ہے.احمدیوں کو جس حد تک قرآن کریم حفظ ہو سکے حفظ کرنا چاہئے اور بالعموم اتنی کوشش تو کرنی چاہئے کہ سارا قرآن کریم نہیں تو ایک پارہ کے برابر مختلف جگہوں سے حفظ ہو اور اگر اتنی بھی توفیق نہیں تو کم سے کم اتنی چیدہ چیدہ سورتیں یاد ہو جانی چاہئیں بچوں کو کہ وہ مختلف نمازوں میں مختلف سورتیں پڑھ سکیں.اس کمی کی وجہ سے عموم اوہ احمدی جن کی تربیت اس لحاظ سے نہیں ہوئی وہ سورۃ فاتحہ کے بعد ہر رکعت میں قل ھو اللہ ہی پڑھ لیتے ہیں اور اس کے بعد ختم اور وہ بھی ایک ایسی Routine بن جاتی ہے کہ ان کو قل هو الله کی بھی کوئی سمجھ نہیں آتی کہ کیا پڑھ رہے ہیں.تنوع سے ذہن بیدار ہوتا ہے.جب آپ سورۃ فاتحہ کے بعد بدلتے ہیں سورتیں تو اس کے نتیجے میں توجہ خاص طور پر مرکوز ہو جاتی ہے نئے مضمون کی طرف.اب یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پھر سورۃ فاتحہ کا کیوں حکم ہے کہ وہ ہر رکعت میں پڑھی جائے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ ام القرآن ہے اور ہر دوسری سورۃ اس کے اندر شامل ہے لیکن سورۃ فاتحہ ہر سورۃ میں یا ہر آیت میں شامل نہیں ہے.اس لئے سورۃ فاتحہ کے مضامین تو اتنے لامتناہی ہیں، اتنے وسیع ہیں کہ اگر ایک انسان غور کی عادت ڈالے تو ساری عمر غور کرتا رہے سورۃ فاتحہ کے مضامین اس کے لئے ختم نہیں ہو سکتے.نسلاً بعد نسل قوموں کے لئے یہ مضامین ختم نہیں ہو سکتے.قرآن کریم کی دیگر آیات میں بھی بہت گہرائی ہے، بہت وسعت ہے مگر جب قرآن کریم میں سے بعض کا بعض سے مقابلہ کیا جائے تو ہر ایک کے متعلق بعینہ ایک بات صادق نہیں آتی.اس لئے سورۃ فاتحہ تو جان ہے نماز کی اور سارے قرآن کریم کا خلاصہ ہے اسے تو بہر حال ہرصورت میں ہر رکعت میں پڑھنا ہے مگر فرائض کی پہلی دورکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد بچوں کو کم

Page 276

خطبات طاہر جلدے 271 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء سے کم اتنی سورتیں یاد ہونی چاہئیں کے وہ بدل بدل کر پڑھ سکیں اور چھوٹی چھوٹی سورتیں قرآن کریم کے آخر سے لی جاسکتی ہیں.یہ موقع ہے آج کل اس وقت آپ گھر میں مل کر ا کٹھے روزے رکھیں اور بچوں کی تربیت کریں اور ان کو سورتیں یاد کرائیں.معین سورتیں روز دی جاسکتی ہیں اور اس کا تلفظ بھی ساتھ بتانا پڑے گا کیونکہ یہاں تلفظ کی بہت کمزوری ہے.بعض دفعہ جماعتیں لکھ کر بعض چھوٹے چھوٹے پمفلٹس تیار کر دیتی ہیں تر بیتی.مثلاً ہو سکتا ہے انگلستان کی جماعت فوری طور پر بچوں میں بھی کچھ سورتیں چن کر ان کی اشاعت کا انتظام کرے، ان کا ترجمہ ساتھ شائع کر دے اور بعض دفعہ رومن Roman طرز تحریر میں اس کا تلفظ ادا کرنے کی بھی کوشش کی جاسکتی ہے مگر قرآن کریم ایسی چیز ہے جس میں تلفظ میں بہت زیادہ احتیاط چاہئے.اس لئے محض رومن طرز تحریر میں اس کا تلفظ لکھنے پر آپ اکتفا نہ کریں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس طریق پر جو لوگ یہ سمجھ لیں کہ ہمیں تلفظ آ گیا ہے بالکل غلط بھی پڑھ لیتے ہیں اور عربی زبان تو ایسی ہے جہاں زیر زبر کی غلطی یا لمبا اور چھوٹا کرنے کی غلطی کے نتیجے میں بالکل مضمون بدل جاتا ہے.اس لئے جو سورتیں بھی آپ یاد کروانا چاہیں بچوں کو توجہ سے یاد کروائیں.خود کروانی پڑیں گی گھروں میں اور اگر گھروں میں ماں باپ کو توفیق نہیں تو جماعتوں کو ایسے چھوٹے چھوٹے مراکز بنا دینے چاہئیں جہاں زیادہ بوجھ ڈالے بغیر رمضان شریف میں چندسورتیں یاد کروائی جاسکیں اور ان کا تلفظ بھی اچھی طرح سکھایا جا سکے.رمضان میں جو مثبت اقدار ہیں ان میں ایک تو نوافل ہیں جن کا رمضان سے گہرا تعلق ہے دوسرے صدقات ہیں اور غریب کی ہمدردی.یہ مضمون بھی بدقسمتی سے ان علاقوں میں یعنی مغرب کے علاقوں میں فراموش ہو جاتا ہے کیونکہ اکثر ایسا معاشرہ ہے کہ ضرورتیں حکومتیں پوری کر دیتی ہیں اور غربت کا جو تصور ہمارے ہاں ملتا ہے وہ یہاں دیکھنے میں نہیں آتا.جو غریب ہیں وہ اور طرح کے غریب ہیں.کچھ ایسے غریب ہیں جن کو لتیں پڑ گئی ہیں ڈرگز کی اور اس کے نتیجے میں وہ فاقہ کش بن گئے ہیں لیکن ڈرگز نہیں چھوڑیں گے یا شراب کے متوالے ہیں اور ان کا حال یہ ہے ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب میں یہاں طالب علم تھا ایک شخص Hat ہیٹ لگا کے بیٹھا ہوا تھا زمین پر، اس کو میں نے کچھ پیسے دیئے اور میں حیران رہ گیا دیکھ کر کے فوراًوہ Pub اس کے پاس ہی تھی پیسے لیتے ہی Pub میں داخل ہو گیا یعنی شراب خانے میں.تو بعد میں مجھے بعض دوستوں نے بتایا کہ یہ تو بیٹھتے ہی ہیں

Page 277

خطبات طاہر جلدے 272 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء Pub کے ارد گرد تا کہ جو خیرات ملے وہ اور اس کی کچھ پی لیں.ایسے بھی غریب ہیں تو ہم ایسے غریبوں کے لئے تو صدقہ خیرات نہیں کرتے جن کے متعلق علم ہو کہ انہوں نے اپنی جان پر ظلم کرنا ہے ہاں لاعلمی میں جو چاہیں کریں.تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ ایسے ممالک میں صدقہ و خیرات کی اہمیت کا احساس نہیں رہتا اور ذاتی طور پر جو غریب کی ہمدردی پیدا ہوتی ہے اس میں کمی آجاتی ہے لیکن اگر ماں باپ بچوں کی بھوک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو یاد کرا نا شروع کریں کہ دنیا میں خدا کے بندے ایسے بھی ہیں جو شدید بھوک میں مبتلا ہیں، فاقہ کشی کر رہے ہیں ،غربت کا یہ حال ہے.ایسی باتیں کرنی شروع کریں تو ان کے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں اور پھر ان کو صدقات کی طرف متوجہ کریں اور ان سے کچھ لے کر وہ صدقات کی مد میں دیں.بچے بہت ہی جلدی اثر قبول کرتے ہیں اور بعض دفعہ اتنا اثر قبول کرتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ جتنی ضرورت تھی اس سے زیادہ انہوں نے رد عمل دکھا دیا ہے.سب کچھ اپنا فورا پیش کرنے کے لئے بعض دفعہ آمادہ ہو جاتے ہیں.اس لئے آپ بچوں پر اعتماد کریں.خدا تعالیٰ نے ان کے اندر نیکی کا بیج رکھا ہے، نیکی کی نشو ونما کے لئے بڑی زرخیز مٹی عطا فرمائی ہے.خواہ مخواہ لاعلمی کے نتیجے میں یا عدم توجہ کے نتیجے میں رمضان آتا ہے اور چلا جاتا ہے اور آپ اس کو ضائع کر دیتے ہیں اور آپ کے بچے وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں.بعد میں جب رمضان گزر جاتا ہے اس وقت صرف روزے رکھنا کام نہیں آتا کیونکہ روزوں کا وقت گزر چکا ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بس روزے گئے اور سب باتیں ساتھ ہی ختم ہوگئیں.لیکن جو نمازیں آپ ان کو پڑھا دیں گے، جو تہجد پڑھائیں گے، جو سورتیں یاد کرائیں گے، جو غریب کی ہمدردی ان کے دل میں پیدا کریں گے یہ رمضان کے ساتھ چلی جانے والی باتیں نہیں ہیں، میران کی زندگی کا حصہ بن جائیں گی ، ان کی زندگی کا سرمایہ بن جائیں گی.اس لئے رمضان کو اولاد کی تربیت کے لئے خصوصیت سے استعمال کریں.علاوہ ازیں بعض چیزوں سے منع ہونے کا حکم ہے وہ ساری باتیں وہی ہیں جن سے روزمرہ کی زندگی میں بھی پر ہیز لازم ہے.مثلاً جھوٹ ہے ، لغو بیانی ہے، وقت کا ضیاع ہے لیکن بعض چیزیں روز مرہ کی زندگی میں کسی حد تک قابل قبول ہو جاتی ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان ہر چیز کو اپنے بہترین معیار کے مطابق ہر روز ادا کر سکے لیکن رمضان مبارک میں جب معیار بلند کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ جب

Page 278

خطبات طاہر جلدے 273 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء رمضان گزر جائے تو معیار گرے بھی تو اتنا نہ گرے کہ پہلی سطح پر واپس آ جائے بلکہ سطح بلند ہو جائے.اس لئے انفرادی طور پر جب آپ بچوں کو ان امور کی طرف متوجہ کریں گے کہ آپ نے جھوٹ نہیں بولنا تو یہ کہ کر متوجہ کرنا ہے کہ جھوٹ تو رمضان کے بعد بھی نہیں بولنا لیکن رمضان میں اگر بولا تو پھر کچھ بھی حاصل نہیں تمہارے بھوکے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں.اس لئے جب آپ تمہیں دن جھوٹ نہ بولنے کی اہمیت یاد دلاتے ہیں تو ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے رہیں کہ رمضان تو ایک ایسی برکتوں کا مجموعہ ہے جو ایک مہینے کے اندر ختم نہیں ہوتی بلکہ سارے سال کے لئے تمہارے لئے ایک خزانہ لے کے آتی ہیں، ایسا رزق عطا کر جاتی ہیں جسے تم سارا سال کھاؤ.جھوٹ نہیں بولنا کا یہ مطلب ہے کہ رمضان تمہیں متوجہ کر رہا ہے اور رمضان کے گزرنے کے بعد بھی نہیں بولنا اور کوشش کر و اس بات کی طرف کے جب بھی جھوٹ کی طرف ذہن جائے تو یاد کیا کرو کہ آج تو رمضان ہے اور جب رمضان سوچو گے تو ساتھ یہ بھی سوچا کرو کہ یہ تو پریکٹس کا وقت ہے آئندہ بھی نہیں بولنا.اس طرح پیار کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتیں بچوں کو سمجھائی جائیں تو وہ سمجھتے ہیں اور اس کو اچھی طرح سے بعض دفعہ مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں.میرا ذاتی طور پر یہی تجربہ ہے کہ بہت سی ایسی باتیں جو بچپن میں اس طرح سمجھائی گئیں وہ ہمیشہ کے لئے دل پر نقش ہو گئیں اور بعد میں آنے والی جو بڑی بڑی نصیحتیں ہیں وہ اتنا گہرا اثر نہیں کر سکیں جتنا بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتیں جو دل پر اثر کر جاتی ہیں وہ ایک نقش دوام بن جاتی ہیں اور اس عمر سے آپ کو استفادہ کرنا چاہئے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ توجہ دلائی تھی کہ آپ اپنی زندگی پر غور کر کے دیکھیں آپ کی بہت سی خوبیاں جو خدا نے آپ کو عطا کی ہیں ان کی بنیاد میں بچپن میں ڈالی گئی ہیں اور جو رسوم ایک دفعہ دل پر مرتسم ہو جائیں ، جو تحریریں لکھی جائیں بچپن کی لکھی ہوئی تحریر یں وقت کے ساتھ مٹنے کی بجائے مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں اور زندگی کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں.بعد کے زمانے میں تحریریں بنتی بھی ہیں اور مٹ بھی جاتی ہیں لیکن بچپن میں خدا تعالیٰ نے ایک خاص بات رکھی ہے.چنانچہ وہ لوگ جو ذہنی طور پر بعد میں بیمار ہو جاتے ہیں ان کی یاد داشت نہیں رہتی Arterosclerosis کی بیماری میں مثلاً مبتلا ہوتے ہیں.ان سے آپ بات کر کے دیکھیں ان کو کل کی بات یاد نہیں ہو ، گی آج کی بات بھی یاد نہیں ہوگی لیکن بچپن کی باتیں ساری یاد ہوں گی اور ایسی وضاحت کے ساتھ یاد ہوتی ہیں کہ

Page 279

خطبات طاہر جلدے 274 خطبه جمعه ۲۲ را بریل ۱۹۸۸ء آدمی حیران رہ جاتا ہے.ان سے اس وقت آپ جب باتیں کر رہے ہوں بچپن کی آپ وہم بھی نہیں کر سکتے کہ ذہنی طور پر کوئی بیمار ہے لیکن جب وہ آپ سے یہ سوال کرے گا کہ تم نے مجھے کھانا کھلا دیا حالانکہ آدھا گھنٹہ پہلے آپ نے کھانا کھلایا ہوگا یا پانی پلا دیا تھا حالانکہ آپ نے پلایا ہو گا.تب آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیا با تیں کر رہا ہے اس کا ذہن فوری باتیں یا در کھنے کے قابل ہی نہیں رہا.تو اس لحاظ سے خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے یادوں میں یہ سلسلہ پیدا کیا ہے کہ بچپن کی یا دیں وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی جاتی ہیں مٹتی نہیں ہیں اور یادوں سے مراد وہ یادیں ہیں جن کا تعلق محض دماغ سے نہ ہو دل سے ہو گیا ہو.چنانچہ آپ بچپن کی یادوں پر جب غور کریں گے تو ہمیشہ آپ یہ محسوس کریں گے کہ وہی یاد میں پختہ ہیں جن کا دل کے ساتھ کوئی جوڑ پیدا ہو گیا تھا اور وہ مستقل ہو گئی ہیں.جن یادوں کا دل سے جوڑ نہیں ہوا وہ سب کچھ آپ بھول جاتے ہیں.چنانچہ رمضان شریف میں جو یا دیں آپ کو مستقل بنانی ہیں ان کا دل سے تعلق قائم کریں.اللہ تعالیٰ کی محبت کے حوالے سے بات کریں.حضرت رسول اکرم ﷺ کی محبت کے حوالے سے بات کریں.بنی نوع انسان، غریب کی ہمدردی اور اس کی محبت کے حوالے سے بات کریں کہ جو باتیں آپ سکھا دیں گے وہ بچوں کے دل میں ایک دائمی نقش بن جائیں گی وہ کبھی نہیں مٹ سکیں گی.اس لئے یہ جو برائیوں سے روکنے والی باتیں ہیں ان کا بھی اس سے تعلق پیدا کریں.وقت ضائع کرتے ہیں اس کے متعلق کوئی ایسی باتیں جو انبیاء اور بزرگوں کی ذات سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کو بتائی جائیں کہ وہ کس طرح اپنے وقت کا استعمال کرتے ہیں ، وقت ضائع نہیں کیا جاتا اور اچھی چیزوں پر صرف کرنا چاہئے کیونکہ ہر ایک کے اپنے اپنے ڈھنگ ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ڈھنگ عطا فرمایا ہوا ہے اگر وہ بالا رادہ کوشش کرے تو بہت کچھ اپنے بچوں کو اس مہینے میں سکھا سکتا ہے.اس کے نتیجے میں جب یہ مہینہ ختم ہوگا تو آپ حیران ہوں گے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ آپ کی نسل پہلے سے بہت بہتر معیار پر ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا میں جماعتیں ہر رمضان میں پہلے سے اونچے معیار پر آجائیں گی.اس میں شک نہیں کہ رمضان کے بعد معیار ضرور گرتا ہے مگر کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اتنا نہ گرے کہ پہلی منزل سے بھی نیچے چلا جائے.جہاں آپ رمضان میں داخل ہوئے تھے جب رمضان سے نکلیں تو اس مقام سے بالا مقام ہو.اس سطح سے اوپر

Page 280

خطبات طاہر جلدے 275 خطبه جمعه ۲۲ را بریل ۱۹۸۸ء کی سطح ہو.یہ بے مقصد جو پیش نظر رہنا چاہئے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرح روزانہ کچھ نہ کچھ وقت دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اگلی نسلوں کی تربیت کے لئے بہت بہتر انتظام ہو جائے گا.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ پچھلے دنوں پاکستان میں ایک بہت ہی ہولناک حادثہ پیش آیا اوجڑی کیمپ کا واقعہ.آپ نے سنا ہوگا اس حادثہ میں اس قدر خوفناک تباہی ہوئی ۱۰ را پریل کی بات ہے صبح پونے دس کے قریب اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان ایک فوجی اسلحہ کا کیمپ ہے جسے اوجڑی کیمپ کہا جاتا ہے.وہاں کئی قسم کے اسلحہ، راکٹس کے ذخیرے تھے.یہ تو اب نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں شرارت تھی یا حادثہ تھا مگر جو بھی ہوا اس کے نتیجے میں اچانک خود پاکستان کے راہنماؤں کے بیان کے مطابق اس علاقے میں قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی.ایسی حیرت انگیز طریق پر بمباری شروع ہوئی ہے کہ بعض لوگ سمجھے کہ کسی بڑی حکومت نے اچانک حملہ کر دیا ہے.ہزار ہا کی تعداد میں راکٹ بر سے ہیں.جو اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ ان راکٹس کا اکثر حصہ پھٹا نہیں اور بہت تھوڑا حصہ پھٹا ہے.واقعہ اگر وہ پھٹ جاتے تو راولپنڈی اور اسلام آباد کا نشان صفحہ ہستی سے مٹ جاتا کیونکہ ایک لاکھ سے زائد راکٹ ہیں جو زمین سے اٹھے اور آسمان سے برسے اور ان کا ایک بہت ہی تھوڑا حصہ پھٹا ہے اور اس کے نتیجے میں بھی اتنی ہلاکت ہوئی ہے، اتنی تباہی مچی ہے کہ جن لوگوں نے وہ دیکھے ہیں اور مجھے خطوط لکھے ہیں وہ کہتے ہیں سارا وجود کانپ جاتا ہے دیکھ کر کہ یہ کیا واقعہ گزر گیا ہے.گھروں کی لائنوں کی لائنیں محلوں کے محلے بعض جگہ منہدم ہو گئے ہیں جس طرح بڑی ہولناک جنگ کے بعد بعض شہروں کا منظر ہوتا ہے.جہاں تک مرنے والوں کی تعداد کا تعلق ہے حکومت کے اندازے تو سو کے لگ بھگ مرنے والے اور تقریباً آٹھ سو زخمی بتاتے ہیں لیکن بعض پاکستانی رہنماؤں کے جو بیانات اخبار میں آرہے ہیں اور انفرادی طور پر جو خبریں مل رہی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ بہت ہی زیادہ ہلاکت خیزی ہے یعنی اس حادثے سے بہت زیادہ ہلاکت ہوئی ہے.ایک اندازے کے مطابق تقریباً چار یا پانچ سو کے درمیان فوجی اور پانچ اور چھ ہزار کے درمیان Civilians اس میں ہلاک ہو گئے ہیں اور جو زخمی ہوئے ہیں ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے.بعض اندازے اس میں کچھ کمی کرتے ہیں لیکن جو آزاد اندازے ہیں ان میں سے اکثر

Page 281

خطبات طاہر جلدے 276 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء اس کے قریب قریب ہی پہنچ رہے ہیں.تو جو بھی شکل ہے حکومت نے تو اپنی الجھن مٹانے کے لئے یا شرمندگی اور ذمہ داری کو کم کرنے کے لئے اس واقعہ کو دبانا ہے ہی اور کچھ ان کی مجبوریاں ہیں.شاید یہ بھی خیال ہو کے سارے ملک کا حوصلہ نہ بیٹھ جائے مگر بہر حال اس سے غرض نہیں کہ حکومت کن مصالح کے پیش نظر اعداد و شمار کو دبا رہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ خود حکومت کے اپنے بیانات کے مطابق جو لا پتا ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے.اس لئے اب یہ بحث تو بے معنی ہے کہ لاپتا ہو کر وہ کہاں چلے گئے کیونکہ آج بائیس تاریخ ہے تو بارہ دن کا عرصہ گزر گیا ہے.بارہ دن میں آخر وہ لا پتا کہاں چلے گئے اور اگر وہ ملبوں کے ڈھیر میں ہیں جیسا کہ خیال ہے تو پھر ان کو فوت شدہ تصور ر کرنا چاہئے.تو حادثہ بہت ہی زیادہ خوفناک اور المناک ہے.اس سلسلے میں مجھے خوشی ہے کہ ناظر صاحب اعلیٰ ربوہ نے فوری طور پر نہ صرف ہمدردی کا پیغام بھیجا بلکہ کچھ رقم بھی متاثر لوگوں کی خدمت کے لئے بھجوائی اور اس سے بھی ایک اور خوشی کی بات یہ ہے کہ جب تک حکومت کے ادارے مصیبت زدگان کی مدد کے لئے نہیں پہنچے اسلام آباد کی اور کچھ پنڈی (راولپنڈی) کی جماعت کے افراد، خدام اور انصار وغیرہ نے فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر زخمیوں کی مدد کرنی شروع کی اور بچوں کو سنبھالنا اور بہت سی خدمت کے کام شروع کر دئے.اللہ تعالی ان کو بہترین جزا دے.جب حکومت کے کارندے بعد میں آگئے تو پھر چونکہ انتظام میں دخل اندازی مناسب نہیں تھی پھر وہ پیچھے ہٹ گئے لیکن جب تک خدا نے ان کو توفیق دی انہوں نے بہت اچھا ردعمل دکھایا.انگلستان کی جماعت نے بھی ہمدردی کے پیغام کے ساتھ دو ہزار پاؤنڈ کا چیک پیش کیا ہے ایمبیسڈ رصاحب کو.اگر چہ یہ پاکستان کا معاملہ ہے لیکن ایسے حادثات کسی ایک ملک کا معاملہ نہیں رہا کرتے بلکہ وہ سب انسانوں کا سانجھا دکھ اور سانبھی تکلیف بن جاتے ہیں.اس لئے باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ حسب توفیق ہمدردی کا اظہار کرنا چاہئے.جب افریقہ میں بھوک پڑتی ہے یا کوئی قحط سالی کا زمانہ آتا ہے تو کوئی یہ تو نہیں کہا کرتا کہ ہم تو پاکستانی ہے، ہم تو ہندوستانی ہیں ، ہم تو انگریز ہیں یا فلاں ہیں حسب توفیق سب انسانیت اکٹھی ہو کر ہمدردی کی کوشش کرتی ہے.یہ حادثہ جو پاکستان میں گزرا ہے یہ اس نوعیت کا ہے.یہ کوئی چھوٹا سا ملکی حادثہ نہیں ہے.

Page 282

خطبات طاہر جلدے 277 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء اگر چہ بیرونی میڈیا یعنی اخباروں اور ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ نے جیسا کہ حق تھا اس کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا بلکہ وہ جو واقعہ گزرا ہے ایک ہائی جیک کرنے والا اس کو تو اتنا زیادہ اچھالا گیا ہے، اتنا زیادہ اٹھایا گیا ہے کہ گویا ساری دنیا میں سب سے زیادہ خوفناک واقعہ یہ ہو اور جہاں ہزار ہا آدمی مر گئے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے اور شدید مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے ان دو شہروں کے لوگوں کو اس کو سرسری تھوڑا سا ذکر کر کے یہ بھلا بیٹھے ہیں.اس کے متعلق مختلف آراء ہیں.بعض کا یہ خیال ہے کہ چونکہ وہ مہاجرین کے لئے اسلحہ تھا اور امریکہ نے بھجوایا تھا اور اس بے احتیاطی میں امریکہ کے اوپر بھی ذمہ داری آتی ہے.مغربی جو ذرائع خبروں کے وہ عمداً اس کو نہیں اٹھا ر ہے یہ وجہ ہو یا ویسے ہی اور مشرق ، دور کی باتیں ہیں وہاں کے معاملات میں اتنی ہمدردی نہیں.کوئی بھی وجہ ہو اس واقعہ کو دنیا میں نمایاں طور پر اچھالا نہیں گیا اور نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا مگر خطبات کے ذریعے ساری دنیا میں جماعتوں تک یہ اطلاع ملے گی.چنانچہ سب دنیا کی جماعتوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اسے ایک عالمی نوعیت کا انسانی حادثہ سمجھتے ہوئے کچھ نہ کچھ حسب توفیق پاکستان کے ان مصیبت زدگان کے لئے امداد کریں اور جتنی بھی توفیق ملتی ہے اس میں کوئی تعین شرط نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ وہ امداد وہاں پہنچ سکتی ہے کہ نہیں.اس لئے پاکستان کے ایمبیسیڈرز سے مل کر یا جو بھی ان کے نمائندہ ہوں ایمبیسیز کے ان سے مل کے یا بعض جگہ وہ نمائندگان نہیں ہوں گے تو دوسرے ملک سے پاکستان ایمبیسی سے خط وکتابت کے ذریعے رابطہ پیدا کر کے پوچھ لیں کہ ہمیں ہمدردی ہے ہم دعا بھی کر رہے ہیں لیکن ایک ٹوکن کے طور پر کچھ ہم مدد کرنا چاہتے ہیں اگر آپ کے پاس ذرائع ہوں کہ یہ مدد ہم سے لے کر اپنے ملک میں بھجوا دیں تو ہم پیش کرنے کے لئے آگئے ہیں.اس رنگ میں ساری دنیا کو اس سے ہمدردی کا اظہار کرنا چاہئے.لیکن صرف یہی ہمدردی میرے خیال میں کافی نہیں.اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مدت سے پاکستان میں کلمے کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور خدا تعالیٰ کی عبادتگاہوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور خدا کی عبادت سے بندوں کو روکا جارہا ہے اور اس معاملے میں جسارت بے حیائی کی حد تک بڑھ گئی ہے اور بڑے بڑے افسروں کو عام بیان دینے میں بھی کوئی شرم اور کوئی باک نہیں کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں.ایک اسلامی مملکت میں جہاں خدا کے نام

Page 283

خطبات طاہر جلدے 278 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء پر ایک ملک حاصل کیا گیا تھا وہاں کے وزیر بن کر کوئی حیا، کوئی شرم نہیں کہ ہم کیا ہدایت دے رہے ہیں، ہم پبلک میں کیا بیان دے رہے ہیں کہ جو احمدی کلمہ پڑھے اس کے اوپر سخت کارروائی کی جائے، حکومت کہیں غافل نہ رہے، جو آرڈینینس ہے اس کو سختی سے جاری کیا جائے ، ان کی مسجدوں کو بے آباد کرنے کی پوری کوششیں کی جائیں ، کوئی اذان کی آواز نہ آئے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے دشمن تلے بیٹھے ہیں کہ اس کی عبادت کا نام مٹادیں گے اور حیامٹ گئی ہے، احساس مٹ گیا ہے.چنانچہ اس واقعہ سے دو دن پہلے راولپنڈی اور اسلام آباد کی مسجدوں میں یہ بڑی شدت کے ساتھ تحریک کی گئی تھی کہ ان کی مسجدوں سے نہ صرف کلے مٹائیں، ان کی مسجدوں کو منہدم کیا جائے اور تمام عوام الناس ( وہ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ قربانی کے لئے پیش کر رہے ہیں ) اس قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں کہ احمدیوں کی مسجدیں مسمار کرنی ہیں اور ان کے رخ بدلنے ہیں اور ان کے گنبد مٹانے ہیں غرضیکہ جو جس کے دماغ میں باتیں آئیں اس نے ممبر رسول سے چڑھ کر کیں.کوئی حیا نہیں کی کہ کس مقدس منبر پر کھڑے ہو کر میں کیسی نا پاک تعلیم دے رہا ہوں.چنانچہ اس قسم کے واقعات چونکہ ایک غیر معمولی نوعیت کے واقعات ہیں ہر گز بعید نہیں کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا یہ واقعہ مظہر ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو سبق دینے کے لئے سمجھانے کے لئے کہ خدا تعالیٰ کے پاس انتقام کی بے شمار راہیں ہیں تمہارے ہی ہتھیاروں سے تمہیں ہلاک کر سکتا ہے، تمہاری اپنی طاقتوں کے ذریعے تمہیں سزا دے سکتا ہے.اس لئے اپنی طاقتوں کے گمنڈ میں متکبر نہ ہو اور خدا کے بندوں پر جو عبادت کرنے والے بندے ہیں ، خدا کی محبت میں اور اس کے رسول کی محبت میں جو کلے کے پیج اپنے سینوں پر لگاتے ہیں یا اپنی مسجدوں پر لکھتے ہیں ان کی دشمنی کر کے یہ نہ سمجھو کہ تم خدا کی پکڑ سے بچ سکتے ہو.یہ پیغام ہے جو مجھے اس میں نظر آرہا ہے اور اس خیال کو مزید تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ اس واقعہ سے پہلے مختلف جگہوں میں احمدیوں نے بالکل اسی مضمون کی خواہیں دیکھیں.خود پاکستان سے ایک دوست نے اس واقعہ سے تقریباً ایک ماہ پہلے خواب دیکھی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ وہ جگہیں جہاں سے احمدیوں کی مسجدیں برباد کرنے اور کلمے مٹانے کی سازشیں ہو رہی ہیں ان جگہوں پر میں آسمان سے آگ برساؤں گا یا راکٹ برساؤں گا اور اس کے نتیجے میں سزا دوں گا ان لوگوں کو.اسی طرح جرمنی سے ایک نوجوان نے مجھے خواب لکھی جو بالکل اسی مضمون کی تھی

Page 284

خطبات طاہر جلدے 279 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء اور مجھے اب یاد نہیں کسی اور جگہ سے بھی اسی مضمون کی خواب آئی تھی مگر وہ بالکل ایسی نہیں ملتی جلتی خواب تھی.تو اس سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے اور یہ نا راضگی کا اظہار تو اب غیروں کو بھی محسوس ہونے لگا ہے.پاکستان سے جو اخبارات مل رہے ہیں ان میں مختلف فکر ونظر کے لوگوں کے ایسے بیانات چھپ رہے ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ خدا تعالیٰ ناراض ہے اور یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے محض حادثہ نہیں ہے.ناراض کیوں ہے؟ اس سلسلے میں ان کے اندازے ہم سے مختلف ہوں گے.چنانچہ بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جی! اس لئے ناراض ہے کہ احمدیوں کو ابھی تک پوری طرح ہلاک نہیں کیا لیکن جب احمدیوں کو برابر کے انسانی حقوق حاصل تھے اس وقت پھر زیادہ ناراض ہونا چاہئے تھا اس وقت خدا کیوں پاکستان سے ناراض نہیں ہوا.یہ عجیب ناراضگی ہے کہ جب آپ احمدیوں کے خلاف ظلم میں بڑھتے چلے جائیں اس وقت خدا تعالیٰ کی ناراضگی زیادہ ظاہر ہونی شروع ہو جائے اور یہ ناراضگی زندگی کی ہر سطح میں ظاہر ہو رہی ہے.اتنا جرم بڑھ گیا ہے اور اتنی بد امنی ہے کہ عالمی اندازوں کے مطابق گزشتہ سال ساری دنیا کے ممالک میں پاکستان کو بدامنیوں کے لحاظ سے نمبر ایک پر شمار کیا گیا ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جو وہم و گمان میں بھی نہیں کبھی پہلے آسکتی تھی.پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا تھا جہاں امن مستحکم ہے، جہاں اس قسم کی بدامنی کے قصے وہم و گمان میں بھی نہیں کسی کے آیا کرتے تھے اور اب یہ ساری دنیا میں نکاراگوا وغیرہ سب کو شمار کر لیا ہے انہوں نے اور جنوبی امریکہ کے ممالک، یہاں تک کہ لبنان کو بھی شامل کیا ہے اور اس کے مقابل پاکستان کو بدامنی کے لحاظ سے نمبر ایک قرار دیا ہے.پھر جرائم کے لحاظ سے، اتنے زیادہ جرائم بڑھ چکے ہیں، بد امنی کے جرائم کے علاوہ بھی یعنی ڈرگز پینا ، بد دیانتی ایک دوسرے سے کرنا ، ایک دوسرے کی حق تلفی کرنا ،گلیوں میں گالی گلوچ اور پھر دنیا پرستی بالعموم یعنی مذہب تو ایک صرف اخباروں میں چھپنے والا نام رہ گیا ہے.عام طور پر انسانی زندگی میں مذہب کا بہت تھوڑا حصہ دکھائی دیتا ہے سوائے اس کے کہ کچھ مذہبی لباس پہنے ہوئے مولوی آپ کو نظر آنے شروع ہو جائیں وہ ہر جگہ نظر آتے ہیں.ان کو پیسہ ملتا ہے کچھ لوگ ان کو استعمال کرتے ہیں ، ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں ، موٹرمیں ملتی ہیں ، موٹر لے کر پھرتے ہیں ، موٹر سائیکل ملتے ہیں تو موٹر سائیکلوں پر چڑھے پھرتے ہیں لیکن یہ پتا لگ رہا ہے کہ ان

Page 285

خطبات طاہر جلدے 280 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے جو ان کو دولت دے رہا ہے اور کسی مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے.مذہب کی بیداری کے نتیجے میں یہ لوگ نظر نہیں آرہے، اگر مذہب کی بیداری کے نتیجے میں نظر آئیں تو مذہب دکھائی دینا چاہئے ، اعلیٰ اخلاق دکھائی دینے چاہئیں مسجدیں آباد ہونی چاہئیں، غریبوں کی ہمدردی کے کام ہونے چاہئیں، ڈرگ اور شراب نوشی اور بدکاریوں سے پر ہیز ہونا چاہئے ، معاشرے میں اچھی باتیں سننے میں آنی چاہئیں ، ملک و قوم سے محبت بڑھنی چاہئے.ان سب باتوں کا فقدان ہو ، چوریاں بڑھ جائیں ، ڈا کے بڑھ جائیں، ایک دوسرے کے مال غصب کرنے کے واقعات بڑھ جائیں ، رشوت ستانی اتنی عام ہو جائے کہ اوپر سے نیچے تک کوئی خلا دکھائی نہ دے رہا ہو ، ساری قوم گویا کہ رشوت میں مبتلا ہوگئی ہو، حرص اور لالچ بڑھ جائے تو ان داڑھیوں اور اونچی شلواروں اور اس خاص قسم کے لباس کو آپ مذہب کے علمبر دار یا مذ ہب کا نشان قرار نہیں دے سکتے کیونکہ جب مذہب کی سطح بلند ہوتی ہے اس وقت اگر یہ چیزیں نظر آئیں تو بہت پیاری دکھائی دیں گی.اگر واقعہ مذہبی اقدار بڑھ رہی ہوں تو پھر جتنی داڑھیاں آپ دیکھیں گے وہ چہروں پر زیب دیں گی ، بہت ہی حسین دکھائی دیں گی کیونکہ وہ سنت کا نشان ہے لیکن اگر بدکاریاں بڑھ رہی ہوں تو پھر یہ داڑھیاں ریا کاری کا نشان بن جاتی ہیں کیونکہ وہ مذہب کے نتیجے میں نہیں ہوتیں ان کی جڑیں کسی اور چیز میں ہیں.اس لئے ہر پہلو سے ملک میں خوفناک حالت ہے جو دل ہلا دینے والی ہے.تو اس موقع پر میں آپ کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ اس قوم کے لئے بچنے کی دعا کریں.یہ حادثہ تو خدا کی ناراضگی کا مظہر ہے.اس ناراضگی کے جو موجبات ہیں وہ کثرت کے ساتھ قوم میں ہر جگہ پھیلے پڑے ہیں صرف احمدیت کی مخالفت کا سوال نہیں رہا قوم ظالم ہوگئی ہے، قوم بددیانت ہوتی چلی جارہی ہے، قوم کے اندر وہ سارے جرائم بڑھ رہے ہیں جن کے نتیجے میں تو میں پھر زندہ نہیں رہا کرتیں.اس لئے اس کی فکر کریں اور اس رمضان مبارک میں خصوصیت کے ساتھ قوم کی روحانی اور اخلاقی زندگی کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو ہلاکت سے بچائے.احمدیوں کو اگر کوئی ایسی چیز نظر آئے جس کے نتیجے میں خدا کی سزا کا ہاتھ دکھائی دیتا ہو تو وقتی طور پر ان کے دل میں ممکن ہے اطمینان بھی پیدا ہو، وہ سمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے آخر انتقام لیا لیکن یہ چیز

Page 286

خطبات طاہر جلدے 281 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء ایسی نہیں جو آپ کا اجر ہو.آپ کا اجر تو اسی بات میں ہے کہ قوم بچ جائے ، آپ کا اجر تو اسی بات میں ہے کہ قوم کی اصلاح ہو اور تکذیب کے گناہ سے وہ محفوظ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ احساس ندامت اس کے دل میں پیدا کرے، استغفار کی طرف متوجہ فرمائے اور توبہ کی توفیق دے یہ ہے احمدیت کا پھل.اس لئے انتقام کو اپنا پھل نہ سمجھیں بلکہ مثبت چیزوں کی طرف متوجہ ہوں یہ دعا کریں کہ خدا اس قوم کو جلد سے جلد احمدیت کی طرف متوجہ کرے اور یہ احساس پیدا کرے کہ کسی محرومی کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کا شکار بن رہے ہیں.ابھی کل ہی مجھے پاکستان کے ایک بہت ہی بڑے لکھنے والے شاعر اور ادیب کا خط ملا ہے یہ احمدی نہیں ہیں لیکن انہوں نے یہی بات لکھی ہے.وہ کہتے ہیں اب تو دن بدن یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے ہم سوچنے والوں کے دلوں میں کہ ہم نے کسی بڑی ہستی کا انکار کر دیا ہے اور خدا کی غیرت کو بھڑ کا یا ہے کچھ لوگوں پر ظلم کر کے اور اس رنگ میں انہوں نے باتیں کیں جن سے صاف ظاہر ہے وہ کیا کہنا چاہتے ہیں لیکن کھل کر بات بھی بیان نہیں کی لیکن مجھ پر بہر حال ظاہر کر دیا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں.اس قسم کے احساسات اسی رنگ میں اٹھ رہے ہیں اور اس لحاظ سے یہ ان کی علمی شخصیت کی بالکل صحیح تصویر ہے.وہ جو بیان کرنا چاہتے ہیں وہ یہ نہیں بیان کرنا چاہتے صرف کہ مجھے پتا لگ گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے.وہ ایک ایسے شخص کے طور پر اپنے مافی الضمیر کو بیان کر رہا ہے جس کا شعور بیدار ہوتا چلا جا رہا ہے، دن بدن اسے کچھ محسوس ہو رہاے لیکن پوری طرح معین نہیں ہو سکا.یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہے خدا ناراض اور اسی قسم کی باتوں سے ناراض ہے.یہ آخری فیصلہ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کے نتیجے میں ناراض ہے یا آخری فیصلہ کہ کلمے کے خلاف مہم چلانے کے نتیجے میں ناراض ہے یا عبادتوں میں مخل ہونے کی نتیجہ سے ناراض ہے یہ پوری طرح نظر کر قوم کے سوچنے والوں کے سامنے نہیں آیا مگر اس نہج پر سوچ چل پڑی ہے.اس لئے دعا کریں کہ اس سوچ کو آگے قدم بڑھانے کی خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور ساری قوم میں کھل کھل کر اور نظر کر یہ احساس بیدار ہو جائے کہ ہم نے بہت ظلم کیا ہے کہ وقت کے امام کو جھٹلایا ، اس کی تضحیک کی، اس میں بے حیائی کے ساتھ آگے بڑھے، ہر جسارت کی خدا پر اور خدا کے

Page 287

خطبات طاہر جلدے 282 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۸ء معصوم بندوں کو اس کی عبادت سے روکا یہ احساس پیدا ہو گیا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قوم بچ جائے گی اور احمدیت کی ترقی کے لئے ایک نیا دور شروع ہو جائے گا ملک میں اور یہ دونوں چیزیں اب لازم وملزوم ہیں.یہ قوم بچے گی تو احمدیت کی وجہ سے بچے گی اور اگر احمدیت سے ان کا یہ سلوک جاری رہا تو پھر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی طرف سے ہر دکھ سے محفوظ رکھے.

Page 288

خطبات طاہر جلدے 283 خطبه جمعه ۲۹ راپریل ۱۹۸۸ء استغفار کی حقیقت اور اہمیت ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ اپریل ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں : الَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا أَمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الصَّبِرِينَ وَالصَّدِقِينَ وَالْقَنِيِّينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ ( آل عمران : ۱۷ - ۱۸) پھر فرمایا: یہ دو آیات جو میں نے آج پڑھی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے پس تو ہمارے گناہ بخش اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.یہ کون لوگ ہیں الشیرین وَالصُّدِقِينَ وَالْقَنِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ یہ وہ لوگ ہیں جو صبر کرنے والے ہیں اور بچے لوگ ہیں ، وَالصَّدِقِين ہیں وَالْقُتِيْن اور عجز کرنے والے ہیں، بجز کے ساتھ خدا کے حضور مناجات کرنے والے ہیں و المتفقین اور خدا کی راہ میں اپنی طاقتیں اور اپنے رزق خرچ کرنے والے ہیں وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ اور خدا سے بخشش طلب کرنے والے ہیں صبح کے وقت.ان آیات کریمہ میں بہت سے مضامین بیان ہوئے ہیں جن میں سے خصوصیت کے ساتھ میں دوسری آیت میں بیان کردہ صفات سے متعلق ابتداء میں کچھ کہوں گا اس کے بعد اس استغفار سے

Page 289

خطبات طاہر جلدے 284 خطبہ جمعہ ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء متعلق کچھ مزید باتیں آپ کے سامنے بیان کروں گا.صبر اور صداقت اور قنوت اور انفاق فی سبیل اللہ یہ چار صفات ہیں جو مومن کی بیان فرمائی گئی ہیں اس کے بعد فرمایا وَ الْمُسْتَغْفِرِيْنَ بِالْأَسْحَارِ اور یہ وہ لوگ ہیں جو صبح کے وقت خدا سے صلى الله بخشش طلب کرتے ہیں.سب سے پہلے تو میں صبح سے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بخشش کے لیے بخشش طلب کرنے کے لیے صبح کا ہونا تو ضروری نہیں ہے.قرآن کریم سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ ہر وقت استغفار کرنی چاہئے صبح بھی شام کو بھی دن کو بھی ، رات کو بھی اور خصوصیت کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر استغفار کرنے کا تو بہت ذکر احادیث میں ملتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی سے کی عبادات کا استغفار سے بہت گہرا تعلق تھا اور بعض دفعہ صحابہ نے تعجب سے پوچھا بھی کہ یا رسول اللہ ! آپ کیوں راتوں کو ایسی کڑی عبادت کرتے ہیں اللہ سے استغفار کرتے ہیں کیا خدا نے آپ کے سارے گناہ بخش نہیں دیئے آپ نے فرمایا کہ ہاں لیکن کیا میں عبد شکور نہ بنوں کیا میں خدا کا شکر کرنے والا بندہ نہ بنوں ( بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر : ۴۴۶۰) اور اس شکر میں استغفار بھی داخل تھا.یہ تعجب کی بات ہے کہ استغفار کا جو معنی حضرت اقدس محمد مصطفی یہی ہے.کھولا گیا اس کا شکر سے بھی گہرا تعلق ہے.اس مضمون سے متعلق میں مزید بعد میں کچھ کہوں گا.سر دست یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں بِالْأَسْحَارِ میں ایک بہت ہی لطیف نکتہ پوشیدہ ہے جس کو ہمیں پیش نظر رکھنا چاہئے.انسان جس قسم کے خیالات کے ساتھ رات بسر کرتا ہے صبح اٹھ کر سب سے پہلے وہی خیال اس کے ذہن میں اجاگر ہوتا ہے.چنانچہ آپ اگر پریشانیوں کی حالت میں رات بسر کریں، پریشانیوں کو سوچتے ہوئے تو آنکھ کھلتے ہی پہلے اسی پریشانی کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے.آپ کسی دوست کے متعلق سوچتے ہوئے رات بسر کریں تو صبح جب آنکھ ھلتی ہے تو پہلے اس دوست کا خیال آتا ہے.کسی خاص سفر کے پیش نظر آپ کے ذہن پہ بوجھ ہو کوئی خاص اور کام ایسا ہو جو غالب آ گیا ہو ذہن پر تو صبح اٹھتے ہی پہلے ان باتوں کا خیال آتا ہے.تو بِالْأَسْحَارِ کے متعلق یہاں بھی فرمایا اور ایک اور جگہ بھی.بِالْأَسْحَارِ کے ساتھ استغفار کو لگا کر یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ خدا کے مومن بندے صرف جاگتے ہوئے ہی استغفار نہیں کرتے بلکہ سوتے میں بھی استغفار کرتے ہیں اور نیند کی حالت میں بھی ان کے لاشعور میں ہر وقت استغفار کا مضمون گھومتا رہتا ہے.اس لیے جب آنکھ

Page 290

خطبات طاہر جلدے 285 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء کھلتی ہے تو سب سے پہلے استغفار کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے اور وہ استغفار شروع کر دیتے ہیں.پس یہاں اس اسحار سے یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اللہ کے بندے صبح تو استغفار کرتے ہیں اور باقی سارا وقت دوسرے کاموں میں مشغول رہتے ہیں یا یوں سمجھیں کہ باقی سارا وقت تو گناہ کرتے رہے اور صبح استغفار کر لیا.اب رہا یہ مضمون که الصّبِرِينَ وَالصَّدِقِيْنَ وَالْقَنِيِّينَ وَالْمُنْفِقِينَ کا ذکر پہلے کیوں فرمایا گیا.استغفار کا تعلق انسانی عمل کی ایک کوشش سے ہے اگر انسانی عمل کی کوشش ساتھ شامل نہ ہو تو استغفار بے معنی اور بے حقیقت ہو جاتا ہے.اس لیے جو یہ کہتے ہیں کہ أَمَنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے ہیں اس لیے ہمارے گناہ بخش دے وہ صرف زبان سے یہ نہیں کہتے بلکہ ان کے اعمال یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی گہری توجہ گناہ بخشوانے کی طرف ہے اور وہ اپنی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.چنانچہ وہ صفات حسنہ جن کا استغفار سے گہرا تعلق ہے جو استغفار کی دعا کو حقیقت بخشتی ہیں، اس کو جسم عطا کرتی ہیں، ٹھوس بنا دیتی ہیں.ٹھوس ان معنوں میں کہ اس کو تصور سے وجود کی دنیا میں اتار دیتی ہیں وہ صفات حسنہ یہ ہیں کہ صبر کرنے والے ہیں اور صبر کے معنی یہاں غموں پر اور دکھوں پر صبر نہیں وہ بھی ہو گا لیکن اس موقع پر خصوصیت سے یہاں صبر کے معنی برائیوں سے بچنا ہے.چنانچہ یہ تفسیر خود حضرت اقدس محمد مصطفی امی یہ ہی کی تفسیر ہے کہ صبر کا ایک معنی اور بہت اہم معنی برائی سے بچنا ہے.جس حالت پر انسان ہے اس حالت پر قناعت کر جائے تو یہاں صبر اور قناعت کے مضمون ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَابِةٍ اَزْوَاجًا مِّنْهُمُ (الحجر:۸۹) والا مضمون اس میں داخل ہو جاتا ہے کہ جو چیزیں تمہیں میسر نہیں ہیں انہیں فائل کھیل کر قانون شکنی کر کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو اور جو کچھ ہے اس پر صبر کر کے بیٹھ جاؤ یہ صبر کا مضمون اس موقع پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے اور زیادہ برمحل ہے.اس لیے یہاں الصُّبِرِین کے معنی خصوصیت سے یہ لینے ہوں گے کہ وہ لوگ جو نیکیوں پر قائم ہو جاتے ہیں اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور جو کچھ ان کو میسر ہے خدا تعالی کے فضل میں سے اس پر صبر کر کے بیٹھے رہتے ہیں.

Page 291

خطبات طاہر جلدے 286 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء والصدقین اور وہ بچے لوگ ہیں.سچائی کا ہر نیکی سے ایک گہرا تعلق ہے لیکن استغفار کے ساتھ بھی اس کا ایک خاص تعلق ہے اس لیے یہاں الصُّدِقِین کے دوسرے معنوں کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ ایک معنی چسپاں ہوں گے.وہ شخص جو سچا ہو وہ اپنی کمزوریوں کے معاملے میں بھی سچائی کی راہ اختیار کرتا ہے اور اسی کو حقیقت میں اپنے گناہوں کے اعتراف کی توفیق ملتی ہے اگر ایک انسان جھوٹا ہو تو وہ اپنے گناہوں کے اعتراف کی توفیق ہی نہیں پاتا اور استغفار کے لیے ضروری ہے کہ استغفار سے قبل انسان اعتراف گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور اعتراف گناہ کرنے کی توفیق پاتا ہو.پس یہاں صادق سے مراد خصوصیت کے ساتھ میں یہ مجھتا ہوں کہ وہ لوگ جو اپنی کمزوریوں سے باخبر رہتے ہیں اور اتنی ان کے اند رسچائی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر خود پردہ نہیں ڈالتے جب خدا کے حضور کھڑے ہوتے ہیں تو خوب کھول کر اپنی کمزوریاں اس کے حضور پیش کرتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کے معاملے میں کامل سچائی سے کام لیتے ہیں.اس مضمون کو آپ اچھی طرح سمجھ جائیں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے استغفار کرنے والے جو استغفار کے جواب سے محروم رہ جاتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے.اس سلسلے میں میں دوبارہ پھر اس مضمون کو اٹھاؤں گا کچھ آگے چل کر کیونکہ بہت ہی اہمیت رکھنے والا مضمون ہے.والقنتین آپ جب وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں تو دعائے قنوت کہنا ایک قسم کا ایک ہی مضمون کو دو دفعہ بیان کرنے والی بات ہے.قنوت کے معنوں میں دعا اور عاجزانہ دعا شامل ہے.اس لیے جب ہم کہتے ہیں وانقنتين تو مراد یہ ہے کہ ان کے اندر بہت ہی بجز پایا جاتا ہے اور الصدقین کے مضمون کو جس طرح میں نے بیان کیا ہے جب اس قنوت کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو اس وقت یہ مضمون اور زیادہ واضح ہو جاتا ہے.یہ لوگ جب اپنے گناہوں پر غور کرتے ہیں اور پوری صداقت کے ساتھ ان کو محسوس کرتے ہیں تو سارے تکبر ختم ہو جاتے ہیں.خدا کے حضور پھر وہ بچھ جاتے ہیں.اس طرح کھڑے ہوتے ہیں کہ کھڑے ہوتے ہوئے بھی قیام کی حالت میں بھی ان کی روح ایک سجدے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ گر جاتے ہیں خدا کے سامنے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ گناہ گار ہیں اور گناہ گاری کا احساس صداقت سے ملتا ہے اور اس احساس کے نتیجے میں وہ بجز پیدا ہوتا ہے جو سچا استغفار پیدا کرتا ہے.

Page 292

خطبات طاہر جلدے 287 خطبه جمعه ۲۹ راپریل ۱۹۸۸ء وَالمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ چوتھی صفت ان کی یہ بیان فرمائی گئی کہ والمسنفِقِينَ انفاق کا مضمون یہاں اس لیے بیان فرمایا گیا کہ خدا تعالیٰ نے تو بہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے مضمون کو باندھا ہے یعنی وہ لوگ جو تو بہ کرتے ہیں اگر وہ خدا کی راہ میں خرچ کریں تو اس سے ان کی تو بہ کو تقویت ملے گی.اس پہلو سے اس مضمون میں ایک نئی شان پیدا ہو جاتی ہے اور نئی وسعت پیدا ہو جاتی ہے.آپ کو اگر اپنا احساس ہے جوں جوں وہ احساس بڑھے گا آپ کی توجہ استغفار کی طرف مائل ہوگی لیکن وہ لوگ جو اپنے لیے استغفار چاہتے ہیں اگر اپنے بھائی کی طرف ان کی نگاہ نہ ہو، اپنے بھائی کے لیے ان کے دل میں ہمدردی نہ ہو، اپنے بھائی کے لیے ان کے دل میں نیک جذبات نہ ہوں تو ان کے استغفار میں طاقت پیدا نہیں ہو سکتی.اس لیے ان کی ایک خاص خوبی بیان فرمائی گئی ان کا فیض عام ہوتا ہے اور محض خود غرضی کی وجہ سے وہ استغفار نہیں کرتے بلکہ ان کے احساس کے دائرہ میں بنی نوع انسان اور دیگر ذی شعور وجود داخل ہو جاتے ہیں.ہر وہ چیز جس میں حس ہے ان کے احساس کے ساتھ متعلق ہو جاتی ہے اور ان کے دکھ دور کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں.یہاں المتفقین سے مراد یہ ہے ان کی کمزوریاں دور کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں ، ان کے دکھ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے دکھ بانٹتے ہیں.غریب کا دکھ بانٹنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ غریب کے لیے صرف دکھ محسوس کریں.غریب کا دکھ بانٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خاطر کچھ آپ بھی غریب بنیں.جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ اس کو دیں اور اس طرح دکھ بانٹا کرتے ہیں.لفظوں میں نہیں دکھ بانٹا کرتے وہ ساری شاعری ہے یا افسانہ طرازی ہے کہ جی میں تمہارا دکھ بانٹنا چاہتا ہوں یا میں دکھ بانٹ نہیں سکتا.یہ سب قصے ہیں.قرآن کریم جو حقیقت کی کتاب ہے جو سچائیوں کی کتاب ہے اس نے اس مضمون کو کھول دیا ہے کہ دکھ بانٹے جاسکتے ہیں.اپنے بھائی کی خاطر جب آپ تکلیف اُٹھاتے ہیں، جب اس کے دُکھ کو دور کرنے کے لیے جب اپنا وقت خرچ کرتے ہیں جب اُس کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے اُس پر محنت کرتے ہیں اس لحاظ سے التنفقین کا لفظ بہت وسعت اختیار کر جاتا ہے.ایک ایسی خاتون جو بچوں کو قرآن کریم پڑھا رہی ہے ان کی کمزوری دور کرنے کے لیے وہ بھی المتفقین میں داخل ہو جاتی ہے، ایک ایسا شخص جو ہمیشہ غرباء کی خبر گیری میں رہتا ہے وہ

Page 293

خطبات طاہر جلدے 288 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء بھی المتفقین میں داخل ہو جاتا ہے، ایک ایسا شخص جو بیماروں کی تیمارداری کرتا ہے وہ بھی المستنفِقِينَ میں داخل ہو جاتا ہے، ایک ایسا ڈاکٹر جو محض فیس کی خاطر نہیں بلکہ ایک تکلیف دور کرنے کی خاطر کسی کی مرض پر محنت کرتا ہے اور اُس کے لیے شفاء حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے یعنی اپنے رب سے شفا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.ایسا ڈاکٹر بھی المتفقین میں داخل ہو جاتا ہے غرضیکہ منفقین کا دائرہ بہت وسیع ہے اور جتنا جتنا یہ دائرہ وسیع ہو گا اتنا اتنا استغفار کے اندر قوت پیدا ہوتی چلی جائے گی.یہ وہ باتیں ہیں جنہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی استغفار کو ہر دوسرے انسان کی استغفار سے ایک الگ روح اور ایک الگ وجود بخش دیا اور ایک بالکل نیا مضمون پیدا کر دیا آپ کے استغفار میں کیونکہ آپ سے بڑھ کر صبر کرنے والا کوئی نہیں تھا ، نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا.آپ سے بڑھ کر صادق کوئی نہیں تھا، نہ تھا، نہ ہے، نہ ہو گا.آپ سے بڑھ کر قانت کوئی نہیں تھا، نہ تھا ، نہ ہے، نہ ہو گا اور آپ سے بڑھ کر منفق کوئی نہیں تھا ، نہ تھا ، نہ ہے اور نہ ہوگا.اس پہلو سے ہر اس صفت میں آپ نے درجہ کمال حاصل کر لیا جو یہاں بیان ہوئی اور وَالمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ کا مضمون بھی سب سے زیادہ شان کے ساتھ آپ کے وجود پر صادق آیا اس لیے آپ کے استغفار میں سب دنیا کے لیے استغفار شامل ہوگئی.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جس طرح خدا کے فرشتے مامور ہیں اس کے کمزور بندوں کے لیے استغفار کرنے پر اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفی امی یہ بھی مامور تھے کہ خدا کے کمزور بندوں کے لیے استغفار کریں اور جو کفارہ کا حقیقی اور سچا مضمون ہے وہ یہی ہے باقی سب قصے ہیں.مسیحیت کا جو کفارہ کا تصور ہے بالکل بے معنی ہے یہی کفارہ ہے اصل میں کہ انسان جوان صفات کا مالک ہو جائے اور پھر دوسروں کے لیے اپنی روح کو اپنے وجود کو وقف کر دے اور اُن کا دکھ اپنائے ان معنوں میں کہ جہاں تک توفیق ہو وہ دکھ دور کرنے کی کوشش کرے اور جہاں تک وہ دکھ اُٹھا کر دور کیا جا سکتا ہے دکھ اٹھا کر دور کیا جائے.آپ تکلیف میں مبتلا ہو کر بھی ایک دوسرے کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کی جائے.یہ وہ سارے مضامین ہیں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات میں اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئے.اس پہلو سے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے استغفار پر مامور فرمایا گیا اور خصوصیت سے مومن بندوں کے لیے اور خصوصیت سے ان کے لیے جو ان صفات میں آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں.

Page 294

خطبات طاہر جلدے 289 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء اس مضمون کو اگر آپ سمجھیں تو استغفار کا وہ مضمون جو حضور اکرم ﷺ کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے وہی سمجھ نہیں آتا بلکہ شفاعت کا مضمون بھی سمجھ آجاتا ہے.جب ان صفات میں سے مومن حضور اکرم کے ساتھ ملنا شروع ہوتا ہے، جب ان چاروں صفات میں وہ جوڑ قائم کر لیتا ہے اور پھر وَالمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ میں بھی شامل ہو جاتا ہے تو وہاں سے شفاعت کا ایک امکان روشن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت میں شامل ہونے کا ایک استحقاق پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان صفات میں کوئی خدا کا بندہ کس حد تک حضور اکرم ہے کے ساتھ پیوند اختیار کر گیا ہے اور کس حد تک وہ پیوند حقیقی ہے اور دائمی ہے.پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم چونکہ ان سب امور میں کوشش کر رہے ہیں اس لیے ہم شفاعت حضرت محمد مصطفی امیہ کے مستحق ہو گئے ہیں.استحقاق کا فیصلہ خدا ہی کرے گا مگر رستہ خدا نے بتا دیا ہے کہ اگر آپ یہ رستہ اختیار کریں گے تو آپ استغفار کے مستحق بھی ہوں گے اور استغفار کے بعد پھر شفاعت کا صلى الله مضمون بھی جاری ہوسکتا ہے.اس پہلو سے اگر ہم دیکھیں تو رمضان کو ایک خاص تعلق استغفار سے ہے اور اسی لیے آج میں نے استغفار کا مضمون چنا ہے.اگر چہ اس سے پہلے ربوہ میں بھی چند سال پہلے استغفار کے مضمون پر اور تو بہ کہ مضمون پر دو تین خطبے دے چکا ہوں لیکن یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ اسوقت بھی مجھے تشنگی کا احساس تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر رمضان میں بھی اس موضوع پر لب کشائی کی جائے تو تب بھی یہ مضمون ختم ہونے والا نہیں.بہت ہی اس کے پہلو ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں تو یہ مضمون اتنا گہرائی کے ساتھ اتنی وسعت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک فقرے میں ڈوب کر انسان مضامین کا ایک جہان پا جاتا ہے اور وہاں سے پھر اسی سیر میں اتنی باتیں ہاتھ جاتی ہیں اگر ان کا ذکر کیا جائے تو ایک خطبہ اس کے لیے مشکل سے کافی ہو گا.اس لیے اختصار سے تو بہر حال کام لینا پڑتا ہے لیکن بعض جگہ پھر کچھ تفصیل بھی بیان کرنی پڑتی ہے.تاہم مقصد میرا یہ ہے کہ آپ بھی استغفار کے مضمون پر غور کیا کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ ایک خطبہ سن لیا تو آپ نے استغفار کے مضمون کو پالیا یا دو خطبے سن لیے تو استغفار کا مضمون آپ کو سمجھ آ گیا.یہ مضمون ساری زندگی پر حاوی ہے اس کا تمام انسانی مفادات سے گہرا تعلق ہے اور یہ سابق سے بھی

Page 295

خطبات طاہر جلدے 290 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء تعلق رکھنے والا مضمون ہے اور مستقبل سے تعلق رکھنے والا بھی مضمون ہے.ہر قسم کے انسانی فوائد خواہ وہ روحانی ہوں خواہ وہ دنیاوی ہوں استغفار کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس لیے استغفار کا تفصیل.سمجھنا نہایت ضروری ہے.رمضان شریف میں بِالْأَسْحَارِ چونکہ استغفار کا خاص موسم آجاتا ہے اس لیے رمضان میں تو خصوصیت سے اس موضوع پر غور ہوتے رہنا چاہئے.با وجود اس کے کہ اس آیات میں بِالأَسْحَارِ فرمایا گیا لیکن مراد یہ نہیں ہے کہ باقی وقت استغفار کے نہیں ہیں.اسی طرح جب میں کہتا ہوں کہ رمضان استغفار کا موسم ہے تو یہ ہرگز مراد نہیں کہ باقی اوقات استغفار کے اوقات یا استغفار کے موسم نہیں ہیں.دیکھیں چیزیں ہر موسم میں اگتی رہتی ہیں اور ہر موسم میں مرتی بھی رہتی ہیں لیکن پھر بھی بہار کا بھی ایک موسم ہے اور خزاں کا بھی ایک موسم ہے.اس لیے گناہوں سے بخشش حاصل کرنے کے لیے اگر کسی مہینے کو موسم قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ رمضان ہی کا مہینہ ہے.میں نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ الصدقین کا جو لفظ ہے وہ بہت اہمیت رکھتا ہے باقی سب الفاظ بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن الصدقین کے مضمون کے متعلق میں کچھ مزید بیان کروں گا.جہاں تک میں نے غور کیا ہے بہت سے استغفار غیر حقیقی ہو جاتے ہیں اور بے اثر اور بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں اگر صداقت کا معیار بلند نہ ہو اور صداقت کے معیار کے ساتھ ایک روشنی کا مضمون بھی ہے اور وَالمُسْتَغْفِرِيْنَ بِالْأَسْحَارِ میں اس روشنی کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے جس کا صداقت کے ساتھ تعلق ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ صداقت اور شعور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گہرا رابطہ رکھتے ہیں اور شعور کے لیے بھی نئی نئی ہمیں آتی رہتی ہیں اور بسا اوقت انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں باشعور ہوں لیکن حقیقت میں وہ باشعور نہیں ہوتا بلکہ اچانک اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ ایک اور شعور میں میں داخل ہو گیا اس کے مقابل پر جو پہلا شعور تھا وہ نیند کی حالت تھی.اس طرح وَالمُسْتَغْفِرِيْنَ بِالْأَسْحَارِ کا یہ مطلب بنتا ہے کہ وہ صداقت شعار لوگ جو اپنے حالات پر اپنے گناہوں کے بارے میں اپنی کمزوریوں کے متعلق غور کرتے رہتے ہیں ان کے غور کا ماحصل ایک مقام پر نہیں کھڑا رہتا جوں جوں ان کا شعور بیدار ہوتا رہتا ہے، جوں جوں خدا تعالیٰ ان کو لطافتوں کی نئی بجیں عطا فرماتا رہتا ہے.ہر وہ نئی صبح ان کے لیے استغفار کی طرف متوجہ کرنے والی

Page 296

خطبات طاہر جلدے 291 خطبه جمعه ۲۹ راپریل ۱۹۸۸ء ہوتی ہے کیونکہ ان کو اپنی بعض اور چیزوں کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اپنی بعض اور کمزوریوں کا احساس پیدا ہو جاتا ہے.تو یہ وہ جبیں ہیں جو خصوصیت کے ساتھ یہاں مراد ہیں.اس پہلو سے آپ جب ایک عام انسان کے حالات کا جائزہ لیں تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے جس سے میں نے یہ اخذ کیا ہے.آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو گناہ کرتے بھی ہیں تو احساس نہیں ہوتا اور ان کا شعور اس حد تک مر چکا ہوتا ہے یا غفلت کی حالت میں ہوتا ہے کہ گناہ کرتے کرتے بھی ان کو اس کا احساس نہیں ہوتا.چنانچہ ایک موقع پر قرآن کریم فرماتا ہے فِي جَنْبِ الله (الزمر: ۵۷) کہ اللہ کے پہلو میں گناہ کر رہے ہیں لوگ اور ان کو کوئی خیال نہیں.چنانچہ سب سے پہلے جو صبح طلوع ہوتی ہے ایک استغفار کرنے والے پر وہ اس کی ابتدائی حالت بالکل یعنی اس کو کہنا چاہئے.Crude حالت ہے یعنی بعد کی حالتوں کے مقابل پر کثیف ہے اور لطافت کا وہ مقام نہیں رکھتی وہ تو گناہ کا احساس ہے جو عام گناہ ہیں عرف عام میں.وہ گناہ جس کو ہم گناہ کبائر کہہ سکتے ہیں یا دوسرے بڑے بڑے گناہ بد اخلاقیاں وغیرہ ایسی جو غیر مذہبی دنیا میں بھی گناہ یا کمزوریاں کہلاتے ہیں ان کا احساس پیدا ہونا یہ پہلی صبح ہے جو انسان کو نصیب ہو تو وہ استغفار کی طرف مائل ہوتا ہے اس کے بعد ان صبحوں کی پھر کوئی حد نہیں رہتی اور انسان جوں جوں اپنے نفس میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اپنے حالات کا جائزہ لیتا چلا جاتا ہے اس کو ہمیشہ اپنی بعض اور کمزوریاں دکھائی دینے لگتی ہیں جو اس کو پہلے نظر نہیں آیا کرتی تھیں بڑے بڑے بااخلاق لوگ ہیں جو بہت سی اخلاقی قدروں سے عاری بھی ہوتے ہیں اور جب دوسرے لوگ ان کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھیں یہ کیسا منافق آدمی ہے با اخلاق ہے اُدھر سے با اخلاق ہے اور ادھر سے یہ حالت ہے.چنانچہ وہ ان کے اخلاق کے دیگر دائروں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس مضمون کو نہیں سمجھتے کہ بیداری کی حالت ضروری نہیں کہ ہر جگہ ایک جیسی ہو.بعض پہلوؤں سے زندگی کے بعض شعبوں میں انسان بیدار ہو جاتا ہے بعض دوسرے شعبوں میں سو بار ہتا ہے اور بیدار ہی نہیں ہوتا.چنانچہ بعض دفعه بعض خواتین اپنے خاوندوں کے شکوے کرتی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ بڑا وہ نیک بنا پھرتا ہے بڑا با اخلاق سمجھا جاتا ہے باہر اُس کا یہ حال ہے باہر اپنے دوستوں میں فدا اور قربانیاں کرنے والا اور ادھر یہ حال ہے کہ بیوی کا گلا کاٹتا، بچوں پر ظلم کرتا اور خشونت سے پیش آتا یہ تو منافق انسان ہے بعض ایسے

Page 297

خطبات طاہر جلدے 292 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء آدمیوں کا ذکر وہ کرتی ہیں جن کو میں ذاتی طور پہ جانتا ہوں اور جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھے فہم عطا فرما یا ہے میں جانتا ہوں کہ وہ منافق اور جھوٹے بہر حال نہیں.اُس وقت مجھے سمجھ آتی ہے کہ ان بیچاروں کی بیداری کی حالت جزوی ہے.بعض پہلوؤں سے بیدار ہو گئے ہیں اور اُن کو خلق نصیب ہو گیا ہے اور بعض پہلوؤں سے وہ سوئے ہوئے ہیں ابھی تک اور کسی دن اچانک وہ جاگ سکتے ہیں اگر دعا کی جائے اور اُن کو نصیحت کی جائے تو ہو سکتا ہے وہ اچانک جاگ اُٹھیں.تو اس پہلو سے قارعہ ہم سب کے لیے ضروری ہے صرف خدا کے دشمنوں کے لیے نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے ضروری ہے اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا (الحدید : ۱۷) تو جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ کیا یہ لوگوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ وہ اپنے گناہوں کے لیے بیدار ہو جائیں اور وہ محسوس کریں کہ وہ کیا کر رہیں ہیں کس حالت میں ہیں اور خدا تعالیٰ سے سچی توبہ کریں.یہ وہ مضمون ہے جو بعض دفعہ قارعہ کی طرح لوگوں کے دل پہ ابھرتا ہے اور اُن کو بیدار کر دیتا ہے.قارعہ سے مراد ہی یہی ہے وہ ایسی آواز جو دل ہلا دینے والی ہو جو خواب غفلت سے جگا دینے والی ہو، دروازے کھٹکھٹانے والی ہو.بعضوں کی نیند کچی ہوتی ہے بعضوں کی پکی ہوتی ہے اور مختلف قسم کی قارعہ اُن کو چاہئیں بعض قارعہ دُکھوں کی صورت میں نازل ہوتی ہیں اور مصائب کی صورت میں نازل ہوتی ہیں اس لیے اُس وقت بھی ایک موسم آتا ہے استغفار کا اور خصوصیت کے ساتھ اُس وقت استغفار کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.تو اصل بات یہ ہے کہ مومن کو ایسی صبحوں کی تلاش میں رہنا چاہئے اور اپنے نفس کے محاسبے کا معیار بلند کرتے رہنا چاہیئے.اس کا ایک تعلق ایک اور صبح سے بھی ہے جو لطافت طبع کی صبح کہلا سکتی ہے.جتنا کسی شخص کی صداقت کا معیار بلند ہو اور اُس کی لطافت طبع کی صبح زیادہ روشن ہو اس حد تک وہ اپنے گناہوں کا جائزہ لینے کی زیادہ اہلیت رکھتا چلا جاتا ہے.چنانچہ عام انسان کے گناہوں کے تصور اور ایک عارف باللہ ، ایک ولی کے گناہوں کے تصور اور ایک نبی کے گناہوں کے تصور میں اسی صبح کی روشنی کے تصور میں فرق پیدا ہوتا ہے.آپ بجلی کی روشنی جب رات کو دیکھتے ہیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ اتنی روشنی ہوگئی ہے کہ اس میں ہر چیز نظر آ جائیگی لیکن جب سورج کے وقت اُس روشنی کو دیکھیں تو وہ روشنی اندھیری نظر آتی ہے اُس میں کوئی نور نہیں آتی.اسی طرح بعض دفعہ آپ چاندنی میں سمجھتے ہیں کہ ایسی روشنی ہے کہ ہر چیز کھلی صاف دکھائی دے رہی ہے اور جب آپ کوئی چیز تلاش کرنے لگیں تو اس وقت پتا چلتا

Page 298

خطبات طاہر جلدے 293 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء ہے کہ اس چاندنی میں تو اتنا نور نہیں ہے.اسی طرح صبح کی پہلی روشنی میں فرق ہے سورج نصف النہار کو پہنچ جائے اُس وقت فرق پڑ جاتا ہے یہ تو ہماری حدود ہیں جو مادی لحاظ سے ہیں.روحانی لحاظ سے یہ مضمون اس سے بہت زیادہ منازل رکھتا ہے بلکہ لامتناہی کہنا چاہئے کیونکہ جس سورج سے ہم روشنی پاتے ہیں وہ خدا کا نور ہے اور اُس کی کوئی انتہا نہیں.اس لیے وہ عالی ظرف لوگ یا وہ عارف با اللہ بزرگ اولیاء ہوں یا انبیاء ہوں اُن کے اندر درجہ بدرجہ احساس گناہ کا شعور اس صبح سے نصیب ہوتا ہے اور یہ میں اُن کو بھی مزید ملتی چلی جاتی ہیں اس کے لیے بھی اُن کا کوئی دائی مقام نہیں ہے اور جتنی وہ صبح روشن ہو جائے اتنا اُن کو وہاں گناہ دکھائی دیتا ہے جہاں عام انسان کو دکھائی ہی نہیں دے سکتا.آپ حیران ہو کے دیکھتے ہیں کہ یہ اتنے بزرگ لوگ اور استغفار استغفار سارا دن صبح شام ہر وقت استغفار کرتے رہتے ہیں پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ان کو گناہ کون سا انہوں نے کیا ہے اور جب وہ زبان اپنے متعلق استعمال کرتے ہیں تو جس طرح حضرت داوؤد نے زبور میں کی یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے کلام میں کی تو جاہل آدمی تو بعض دفعہ نفرت کی نگاہ ڈالنے لگتا ہے اچھا یہ مامور من اللہ بنا پھرتا ہے، یہ خدا کی طرف سے ہمیں نصیحت کرنے آیا ہے اور اپنا اعتراف یہ ہے کہ: کرم خا کی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ( در تمین صفحه : ۱۲۵) پھر یہ غلیظ دنیا کہ کیڑے ٹھٹھا کرتے ہیں ان بزرگوں پر جن کی صبح کا تصور بھی ان کے ذہن میں نہیں کبھی آ سکتا.اندھیروں کی مخلوق ہوتے ہوئے یہ روشنی کی مخلوق پر بنتے ہیں اور مذاق اُڑاتے ہیں کہ دیکھو ان کو وہ چیز نظر آرہی ہے اپنی.وہ سمجھتے ہیں کہ جس گند میں ہیں اس نسبت سے بات کر رہے ہیں اور پھر ساتھ اس گناہ کو دیکھنے کے باوجود کہتے ہیں ہم مصلح ہیں ہم لوگوں کی اصلاح کی خاطر بھیجے گئے ہیں.پھر وہ داؤد سے ٹھٹھا کریں یا اس زمانے کے امام سے حضرت امام مہدی سے ٹھٹھا کریں جو بھی صورت ہو جہالت یہ ہے کہ وہ رات کے رہنے والے ہیں اور صبح سے ناواقف ہیں اس لیے جب یہ فرمایا وَ المُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ تو یہ مضمون اس میں باندھا گیا ہے کہ اُن کو خدائی نئی سنجیں عطا کرتا چلا جاتا ہے اور ہر صبح ان کی کمزوریاں ان پر کو روشن کرتی چلی جاتی ہیں اور جتنا زیا دہ صبح کے بندے ہوں گے جتنا زیادہ خدا کے نور میں چلنے والے ہوں گے اتنا زیادہ ان کو استغفار کی

Page 299

خطبات طاہر جلدے 294 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء طرف بھی توجہ ہو گی اور ان کے استغفار میں لطافتیں ہوں گی.ایسے باریک مضمون داخل ہو جائیں گے جس کا وہم و گمان بھی کوئی دوسرا نہیں کر سکتا.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق جو یہ تین جھوٹ والی حدیث بیان کی جاتی ہے یا تو یہ حدیث ہی غلط ہے کیونکہ خدا کہ نبی تو جھوٹ نہیں بولا کرتے یا پھر انہی معنوں میں وہ حدیث کچی ہے کہ تم لوگ جس چیز کو کامل سچائی سمجھتے ہو بعض انبیاءاتنا روشن ضمیر رکھتے ہیں کہ ان کے اندر بھی بعض ایسے پہلو پائے جاتے ہیں کہ اُن کے معیار کے مطابق وہ سچائی نہیں ہو سکتی سچائی نہیں کہلاتی اور یہ جو مضمون ہے یہ جب آگے بڑھ جاتا ہے تو ایسے لوگ جو بہت ہی بار یک نظر سے اپنے بعض بیانات کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بیچ کے معیار پر پورا نہ اترا ہو وہ لوگ خدا کی نظر میں صدیق کہلا رہے ہوتے ہیں.چنانچہ وہی ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام جن کے متعلق حدیث سے پتا چلتا ہے کہ تین مواقع پر گویا انہوں نے جھوٹ بولے وہاں لفظ گو یا کو داخل کرنا ضروری ہے اُسی ابراہیم کے متعلق قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ صدیق نبی تھا.پس یہ جو اعتراف حقیقت ہے اس کا تعلق صداقت سے بھی ہے اور اسحار سے بھی ہے اس لیے اس رمضان میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ صداقت نصیب ہو بعض لوگوں کو صداقت صرف یہ دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے کی کمزوریوں پر نظر رکھیں اور چونکہ عالم الغیب نہیں ہیں وہ بعض دفعہ جہاں کمزوریاں دیکھ رہے ہوتے ہیں وہاں کمزوری نہیں ہوتی بلکہ کوئی اور وجہ ہوتی ہے اور یہ نہیں سمجھتے کہ وہ شخص جو اپنی کمزوری نہیں دیکھ سکتا اس کو یہ توفیق کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ کسی دوسرے کی کمزوری دیکھ سکتے.اس لیے روشن ضمیری ضروری ہے گناہوں کے اعتراف کے لیے اور دوسرے کی کمزوریاں نہیں دکھائی دے سکتیں حقیقی معنوں میں اور کچے معنوں میں جب تک انسان اپنی کمزوریاں دیکھنے کا اہل ثابت نہ ہو.پس اپنے وجود کی طرف توجہ کریں بجائے اس کے کہ دوسرے کے وجود کی طرف توجہ کریں اور رمضان بارک میں یہ اندرونی روشنی حاصل کرنے کی کوشش کریں جس کے نتیجے میں آپ کو خدا تعالیٰ نئی میں عطا فرما تا چلا جائے گا.اب میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات اور بعض واقعات کی روشنی میں اس مضمون پر کچھ اور روشنی ڈالتا ہوں.یہ قرآن کریم کے جتنی صحیں سے میں آپ کو دکھا رہا ہوں یہ سب قرآن کریم کی وہ آیات ہیں جو اس مضمون کے مختلف پہلوؤں پر روشنی

Page 300

خطبات طاہر جلدے 295 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء ڈالنے کے لیے میں نے اکٹھی کی تھیں لیکن ایک ہی آیت میں اتناوقت گزر چکا ہے کہ میرا خیال ہے کہ اب پھر کبھی آئندہ وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں انشاء اللہ.ہو سکتا ہے کہ اگلا خطبہ بھی اسی مضمون پر دیا جائے کیونکہ رمضان کا موسم خصوصیت سے استغفار سے تعلق رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اس کے دل میں اسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام بُرا کیا اچھا نہیں کیا لیکن وہ ایسے القا کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیو نکہ اُس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے“ یہ جو لفظ نور قلب ہے اس کی بنیاد المُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ میں ہے وہ ہیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے یہاں اسی نور قلب کی بات ہورہی ہے، اسی صبح کی بات ہو رہی ہے بعضوں کا نور قلب یعنی بعضوں کی سجیں اتنی دھندلائی جاتی ہیں کہ جسے کہتے ہیں کہ صبح کا ذب ہے ان کی اتنی معمولی روشنی ہوتی ہے کہ ان کو اپنے موٹے موٹے گناہ بھی دکھائی نہیں دیتے حالانکہ خدا تعالیٰ کی آواز بتا بھی رہی ہوتی ہے.یہاں آواز اور نور کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقابل فرمایا ہے یہ بہت دلچسپ ہے.جتنا انسان نور قلب سے محروم ہوتا چلا جائے اتنا وہ دوسرے کی ہدایت کا محتاج ہوتا چلا جاتا ہے آواز کے ذریعہ.چنانچہ اندھے کے لیے آواز ہی روشنی کا کام دیتی ہے تو فرمایا ایسے لوگ ہیں جو دل کے اندھے ہیں اور اُن کو آواز بھی فائدہ نہیں دیتی کیونکہ وہ آواز تو سنتے ہیں خدا تعالیٰ کی کہ تم ٹھوکر کے مقام پر جارہے ہو یہاں گرو گے یا تکلیف پہنچے گی لیکن دل کے ایسے اندھے ہوتے ہیں اور ایسی خود پرستی اُن کے اندر داخل ہو جاتی ہے کہ وہ اُس آواز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور خود سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے.اور عقل بھی ضعیف یعنی ان کا نور قلب بھی ضعیف ہو جاتا ہے عقل بھی ضعیف ہوتی چلی جا تی ہے اور قوت بہیمیہ یعنی نفسانی قوت اور جو حیوانی قوت ہے وہ غالب اور نفس طالب ہوتا چلا جاتا ہے یہ قوت جتنی غالب ہوا تنی نفس کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے.یہ چھوٹے چھوٹے فقرے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بلکہ بعض الفاظ ہیں اُن سب کا قرآن کریم اور احادیث کے مضامین سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے اور ہر ایک کی جڑیں یا قرآن میں ہیں یا سنت میں ہیں.اب طالب ہوتا چلا

Page 301

خطبات طاہر جلدے 296 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء جاتا ہے اس مضمون کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم کی اس آیت کو سمجھنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنم کہے گی کہ هَلْ مِنْ مَّزِيدِ ( ق : ۳۱) جتنی گناہوں کی طلب بڑھے گی اُتنا ہی مزید کی خواہش بڑھتی چلی جاتی ہے اور عذاب میں بھی اُتنا ہی زیادہ انسان خود اپنے عذاب کو طلب کے ذریعے گویا بڑھاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب ہو جاتا ہے آپ نے صرف لفظ طالب فرمایا: سو اس طور کی طبیعتیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں جن کا وجو دروز مرہ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے اُن کے نفس کا شورش اور اشتعال جو فطرتی ہے کم نہیں ہوسکتا کیونکہ جو خدا نے لگا دیا اُس کو کون دور کرے ہاں خدا نے اُن کا ایک علاج بھی رکھا ہے.وہ کیا ہے؟ تو بہ واستغفار اور ندامت یعنی جبکہ بُر افعل جوان کے نفس کا تقاضا ہے ان سے صادر ہو یا حسب خاصہ فطرتی کوئی بُرا خیال دل میں آوے تو اگر وہ تو بہ واستغفار سے اس کا تدارک چاہیں تو خدا اس گناہ کو معاف کر دیتا ہے.جب وہ بار بار ٹھو کر کھانے سے بار بار نادم اور تائب ہوں دیتا ٹھوکر تو وہ ندامت اور تو بہ اس آلودگی کو دھو ڈالتی ہے.یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی مضمون کو کفارہ بیان فرمارہے ہیں کہ کفارہ کا باقی جو مضمون ہے وہ تو محض وہمہ ہے یہی ہے حقیقی کفارہ.اسی طرف اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ الله يَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء ) یعنی جس سے کوئی بدعملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو خدا کو غفور و رحیم پائے گا.اس لطیف اور پر حکمت عبادت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس نا قصہ کا خاصہ ہے جو اُن سے سرزد ہوتا ہے اس کے مقابل پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت اور رحم ہے اور اپنی ذات میں وہ غفور و رحیم ہے یعنی اُس کی مغفرت

Page 302

خطبات طاہر جلدے 297 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء سرسری اور اتفاقی نہیں بلکہ وہ اس کی ذات قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اور جو ہر قابل پر اُس کا فیضان چاہتا ہے یعنی جب کبھی کوئی بشر بر وقت صد در لغزش و گناه به ندامت تو به خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے اور یہ رجوع الہی بندہ نادم اور تائب کی طرح ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائمی ہے اور جب تک کوئی گناہ گار تو بہ کی حالت میں اُس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں ہے کہ جو ٹھو کر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھو کر نہ کھاویں یا جولوگ قوائے بہیمیہ یا غصبیہ کے مغلوب ہیں اُن کی فطرت بدل جاوے بلکہ اس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ تو بہ اور استغفار کر کے بخشیں جائیں (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد نمبر اصفحہ ۱۸۶.۱۸۷ حاشیہ ) یہ مضمون چونکہ بعض پہلوؤں سے دقیق ہے اور مزید تفصیل چاہتا ہے اس لیے انشاء اللہ آئندہ خطبے میں اسی مضمون کو یہاں سے اُٹھاتے ہوئے اس سلسلے میں چند مزید باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا.مقصد میرا یہ ہے کہ استغفار کے مضمون کو آپ اچھی طرح سمجھ جائیں کیونکہ جوں جوں آپ استغفار کے مضمون سے واقف ہوتے چلے جائیں گے آپ اُس سے استفادہ کے زیادہ اہل ہوتے چلے جائیں گے ورنہ خالی استغفر اللہ کہنے سے ویسے تو خدا ما لک ہے بخش سکتا ہے جب چاہے جس طرح چاہے بخش دے لیکن ویسا استفادہ نہیں ہو سکتا جیسا کسی چیز کی حقیقت کو سمجھنے سے استفادہ ہوسکتا ہے.مشرق اور مغرب میں جو عظیم الشان ترقیات کا فرق ہے یہاں تک کے مشرق کے بعض ممالک کو Third World کہا جاتا ہے وہ یہی فرق ہے کہ یہاں مغرب کے لوگوں نے قانون قدرت کو سمجھنے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ کی مخلوقات کی کنہ کو دریافت کرنے کی جدوجہد کی اور ڈوبتے چلے گئے مضامین کے اندر اور اُن اجسام کی جو زندگی بھی نہیں رکھتے تھے اُن کی بھی عادات دریافت کرنے لگے

Page 303

خطبات طاہر جلدے 298 خطبه جمعه ۲۹ را پریل ۱۹۸۸ء جو عادات پھر قوانین کی دریافت پر منتج ہوئیں اور اسی طرح یہ مضمون بڑھتا چلا گیا.لہذا بہت معمولی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو جب انہوں نے دریافت کرلیں تو ان سے غیر معمولی استفادہ کیا.یہ جو آج کل کمپیوٹرز نکلے ہوئے ہیں یہ جو الیکٹرونکس کا مضمون چل رہا ہے ہماری دنیا کی اکثر چیزیں اب اس کمپیوٹرز کی اور الیکٹرونکس کی محتاج ہو گئی ہیں اس میں چھوٹی چھوٹی معلومات ہی ہیں کہ کوئی چیز کس طرح Behave کرتی ہے، کس طرح وہ ایک دوسرے کے ساتھ رد عمل دکھاتی ہے ان چیزوں ان عادات کو سمجھنے کے نتیجے میں، ان خصلتوں کو سمجھنے کے نتیجے میں کتنی عظیم الشان ترقی ہوئی ہے.پس روحانی ترقیات کے لیے استغفار کے مضمون کو خصوصیت کے ساتھ سمجھنا بڑا ضروری ہے.اس مضمون پر اگر آپ کی گہری نظر ہو تو آپ کو اس سے استفادہ کے بہت سے نئے مواقع ہاتھ آجائیں گے جو پہلے نہیں تھے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی روحانی حالت دن بدن پہلے سے زیادہ اور نمایاں ترقی کرتی چلی جائے گی.اس لیے انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں اس کے دوسرے حصے کو بیان کروں گا اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 304

خطبات طاہر جلدے 299 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء استغفار کی حقیقت خطبه جمعه فرموده ۶ رمئی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں : اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَعُيُونِ أخِذِينَ مَا الهُورَتُهُم اِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذلِكَ مُحْسِنِينَ كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا جَعُوْنَ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الذاريات: ١٢ - ١٩) پھر فرمایا: گزشتہ خطبے میں نے ذکر کیا تھا کہ ہر چیز کے ایک موسم ہوا کرتے ہیں اور رمضان کے آنے سے ہمارے لیے استغفار کے موسم آگئے.موسموں میں بھی ایک سی حالت نہیں ہوا کرتی بلکہ آپ نے دیکھا ہو گا بعض دفعہ خزاں سے بھی ایک نئی خزاں پھوٹتی ہے اور وہ موسم یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہر طرف ایک موت کا سا سماں پیدا ہو گیا ہے.اُس طرح بہاروں سے بھی نئی بہاریں پھوٹتی ہیں اور بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہار قابو میں نہیں رہی.پھول پھل سب بے قابو ہو جاتے ہیں.نہ زمیندار سے سنبھالے جاتے ہیں نہ دیکھنے والے اُن سے استفادہ کی پوری طاقت رکھتے ہیں اور ایسے ہی موسموں میں آپ نے انگلستان میں بھی دیکھا ہوگا کہ بہت سے زمیندار ایسے وقت میں پھر عام دعوت دے دیتے ہیں کہ جس کا بس چلتا ہے آئے اور آ کے ہماری فصلوں سے جس حد تک استفادہ کر سکتا ہے کرے.کچھ معمولی پھل وہ قیمت کے طور پر اپنے لیے بھی رکھتے ہیں لیکن ایسے دنوں میں سارے یورپ میں رواج ہے قافلوں کے قافلے ایسے موقعوں پر پھلوں کے باغوں میں یا سبزی کے باغوں میں

Page 305

خطبات طاہر جلدے 300 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء جا کر جس حد تک ان کو توفیق ملتی ہے استفادہ کرتے ہیں.وہ رمضان کے یہ دن جن میں اب ہم داخل ہورہے ہیں ان کا ایسا ہی اسی مضمون سے تعلق ہے اور رمضان کے استغفار کے موسم میں سے گویا ایک نیا استغفار کا موسم پھوٹنے والا ہے یعنی وہ آخری دہا کا رمضان کا جو خاص بخشش کی طلب اور دعاؤں کا زمانہ ہے اس میں ہم داخل ہونے والے ہیں.یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی بِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ کا مضمون بیان ہوا ہے کہ خدا کے مومن پاکیزہ بندے یا پاکیزگی طلب کرنے والے بندے صبحوں میں اپنے لیے استغفار کرتے ہیں.لیکن اس آیت میں وہ پہلا حصہ مضمون کا بیان ہوا ہے اُس کا خصوصیت سے رمضان کے اس آخری عشرہ سے تعلق ہے.فرمایا اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَعُيُونٍ متقی وه لوگ ہیں جو تسکین بخش سایہ دار باغوں میں ہوں گے جہاں چشمیں پھوٹ رہے ہوں گے اخِذِينَ مَا أَتُهُم رَبهُمُ الله تعالیٰ جو کچھ بھی اُن کو عطا فرمائے گا وہ اُسے قبول کر رہے ہوں گے إِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ.اس سے پہلے یہ لوگ محسن تھے.محسن تو ہمیشہ خدا ہی رہتا ہے لیکن اس موقع پر بندوں کا ذکر محسن کے طور پر کرنا بھی خدا کے احسان کی ایک انتہاء ہے اور تلطف کی انتہاء ہے.یہاں محسن کا لفظ اُن معنوں میں تو استعمال نہیں ہوسکتا نہ کیا گیا ہے جن معنوں میں ہم عام طور پر لفظ احسان استعمال کرتے ہیں کہ کسی طرح احسان کرنا مگر ایک طرف یہ فرمایا کہ ہم اب اُن کو دے رہے ہیں اور وہ لینے والے ہیں.اس سے پہلے ایک وقت تھا کہ وہ محسن تھے اس طرز بیان میں نہایت ہی درجہ تلطف پا یا جاتا ہے اور اگلی آیت اس مضمون کو کھول دیتی ہے كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ.بہت تھوڑا وہ راتوں کو آرام کیا کرتے تھے اور احسان کی یہ تعریف فرمائی گئی کہ وہ جو خدا کی عبادت میں اتنا بڑھتا ہے کہ اپنے آرام کو بھول جاتا ہے اپنے آرام کو خدا کی خاطر ترک کر دیتا ہے اور راتوں کو بہت تھوڑا آرام کرتا ہے اور اُٹھتا ہے.اللہ تعالیٰ اُسے محسن شمار فرماتا ہے محسنین میں شمار فرماتا ہے.خدا پر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا اور سب جانتے

Page 306

خطبات طاہر جلدے 301 خطبه جمعه ۶ مئی ۱۹۸۸ء ہیں کسی احسان کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا لیکن اس لطیف رنگ میں خدا کی عبادت کرنے والوں کا ذکر بھی احسان کا ایک معراج ہے اور بہت ہی لطیف اس میں احسان کے مزید اشارے کھلتے ہیں.تو وہ موسم جس میں عام انسان بھی جس کو عام طور پر راتوں میں خدا کی عبادت کے لیے اٹھنے کی توفیق نہیں ملتی وہ بھی اب ایسے موسم میں داخل ہو رہے ہیں جہاں چند دن ایسے ہیں جن دنوں میں یا یوں کہنا چاہئے کہ چند راتیں ایسی ہیں کہ جن راتوں میں وہ اس آیت کے مصداق بن سکتے ہیں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے جو عام دنوں میں بھی بہت عبادت فرمایا کرتے تھے.رمضان میں اُس عبادت میں مزید اضافہ فرما دیا کرتے تھے اور جب آخری عشرہ میں داخل ہوتے تھے تو گویا عبادت کے لیے اس طرح وقف ہو جاتے تھے کہ دیکھنے والے کو احساس ہوتا تھا کہ پہلی عبادت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے.بظاہر تو یہ سوچنے کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ عام عبادت پر رمضان میں کیسے اضافہ فرماتے ہوں گے اور پھر رمضان کی عبادت میں مزید اضافہ لیکن دیکھنے والے پر یہی تاثر ہوتا تھا کہ آپ نے اور بھی زیادہ عبادت کو بڑھا دیا ہے.پس یہ وہ دن آرہے ہیں اور وہ راتیں آرہی ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ استغفار کے موسم پوری شان کے ساتھ ، پوری بہار کے ساتھ ہم پر ظاہر ہورہے ہیں اور ان دنوں سے اور ان راتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.قَلِيلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ کا مضمون چند دن میں انسان پر صادق آجائے تو اللہ تعالیٰ کا فضل آئندہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کر سکتا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ کرتا ہے جن پر ہمیشہ یہ مضمون صادق آتا ہے.اس کے آخر پہ پھر فرمایا بِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ایک تو اس آیت میں یہ بھی ایک عجیب حسن ہے کہ وہ جن کی راتیں جاگ کے کٹتی ہیں اُن کی صبحیں بھی اُن کے جسمانی آرام کے لیے نہیں آتیں گویا کہ راتیں تو جاگ کے کاٹیں اور صبح ہوئی تو پھر استغفار شروع کر دیا.ان کی صبحوں کا تصور اُس شاعر کی صبحوں کی تصور سے کتنا مختلف ہے.جو کہتا ہے کہ: عہد جوانی رورو کاٹا پیری میلی آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

Page 307

خطبات طاہر جلدے 302 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء تو یہ خدا کے بندے عجیب ہیں.جن کا صبح کو بھی آرام کا تصور استغفار ہی ہے اور گویا استغفار میں ان کو آرام جان ملتا ہے اور امر واقعہ یہی ہے کہ ایک مومن کو استغفار میں اُسی طرح آرام و جان ملتا ہے جس طرح ایک تھکے ہوئے بدن کو نیند میں آرام ملتا ہے.اس مضمون کو مزید بیان کرنے کے لیے میں اُسی آیت کی طرف دوبارہ متوجہ ہوتا ہوں جس کی تفسیر میں میں چند مضمون آپ کے سامنے پیش کر رہا تھا.میں یہ بیان کر رہا تھا کہ طبیعت کا صدق اور فطرت کی سچائی ہے جو درحقیقت نئی صبح پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے اور اُسی کے نتیجے میں باقی صفات پر گہرا اثر پڑتا ہے یعنی صبر کے ساتھ بھی صدق کا تعلق ہے، قنوت کے ساتھ بھی صدق کا تعلق ہے، انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ بھی صدق کا تعلق ہے اور ان سب کے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں مومن کے لیے ہمیشہ استغفار کی نئی مجیں پھوٹتی رہتی ہیں.صدق کے مضمون سے متعلق بہت تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے لیکن وقت کی رعایت سے میں ایک دو مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ یہاں قرآن کریم صدق کن معنوں میں استعمال کر رہا ہے.اس مضمون پر آپ جتنا غور کرتے چلے جائیں خود آپ پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدق کے اطلاق کے نئے نئے مواقع روشن ہوتے چلے جائیں گے اور آپ آسانی کے ساتھ ایک ایسے سفر میں داخل ہو جائیں گے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شعور کی نئی صبحیں آپ کو عطا ہوتی چلی جائیں گی.ایک انسان کا صدق اُس کو دوسرے کو دیکھنے اور سمجھنے کی بھی توفیق بخشتا ہے اور اُس آئینے میں پھر اپنی ذات کا مشاہدہ کرنے کی بھی توفیق بخشتا ہے.جہاں تک صدق کے نتیجے میں دوسرے کی ذات کے مشاہدے کا تعلق ہے یہ فی ذاتہ کافی نہیں اور اس کے نتیجے میں استغفار پیدا نہیں ہوتا لیکن جب دوسرے کے آئینے میں انسان خود اپنے وجود کو دیکھنے لگتا ہے تب اُس کے نتیجے میں استغفار کا مضمون پیدا ہوتا ہے.مثلاً آپ ایک مقرر کو دیکھیں جو آپ کو نصیحت کرتا ہے آپ اُس کے احوال سے خوب باخبر ہیں.آپ جانتے ہیں کہ وہ دوسروں کو نصیحت کر رہا ہے لیکن جتنی نصیحت دوسروں کو کر رہا ہے خود اُس پر وہ مضمون صادق نہیں آتا.اگر آپ کا یہ مشاہدہ سچائی پر بنی ہے تو کوئی گناہ نہیں.اگر یہ دشمنی اور حسد پر مبنی ہے تو پھر صدق کا مضمون آپ پر کسی طرح بھی صادق نہیں آ سکتا.

Page 308

خطبات طاہر جلدے 303 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء پس میں صرف صدق کی بات کر رہا ہوں ہو سکتا ہے.ایک مشاہدہ کرنے والا پوری سچائی کے ساتھ ایک نصیحت کرنے والے کو اس حال میں دیکھتا ہو کہ وہ نصیحت تو کرتا ہے لیکن خود اُس پر اس نصیحت کا اثر اس رنگ میں دکھائی نہیں دیتا جیسا وہ دوسرے سے توقع رکھتا ہے.وہ نصیحت کرنے والا بھی دوسروں کے حالات پر نظر رکھ کر اُن کو نصیحت کر رہا ہے اور جہاں تک اُس کے مشاہدے کا تعلق ہے وہ بھی سچا ہے.اس لیے ان دونوں کا جہاں تک آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے کا تعلق ہے اس کے نتیجے میں استغفار پیدا نہیں ہو سکتا.لیکن وہ نصیحت کرنے والا جب اپنے دل میں ڈوب کر وہ مشاہدہ اپنی ذات میں شروع کرتا ہے جو غیر نے اُس کی ذات میں مشاہدہ کیا تو پھر یہاں سے استغفار کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.وہ نصیحت کرنے والا دیکھتا ہے کہ خود مجھ میں کیا کمزوریاں ہیں اور کتنی خامیاں ہیں اور کتنے خلاء ہیں.اس سفر میں اُس کو کئی صبحیں عطا ہوتی ہیں اور بالآخر وہ ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر اُس سوئی کی مثال صادق آتی ہے جو دوسروں کے لیے تو کپڑا بن کر اُن کے تن ڈھانپنے کا کام کرتی ہے، انتظام کرتی ہے.اُس کے لیے محنت کرتی ہے لیکن میں خود نگا ہوں.یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے شروع میں ہی حضرت آدم کے واقعہ کے اوپر چسپاں کر کے بیان فرمایا.فرمایا آدم اُن عارف باللہ لوگوں میں سے تھا جو اپنی ذات میں اپنی کمزوریوں کا مشاہدہ کرتا تھا اور اُس نے خود اپنی کمزوریوں پر جب اطلاع پائی تو اپنے رب کے حضور اپنے آپ کو ننگا پایا تب اوراق الجنۃ سے اُس نے اپنی کمزوریوں کو ڈھانپنے کی کوشش کی یہ اوراق الجنۃ ہیں جو استغفار ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے پھر اُس کی مدد فرمائی اور اس کو وہ کلمات عطا فرمائے.جن کے نتیجے میں واقعہ اس کی رسائی ان پتوں تک ہوئی جو اس کا بدن ڈھانپنے کی تو فیق رکھتے تھے، طاقت رکھتے تھے.پس اس مضمون کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یعنی اس قسم کے صدق کا استغفار سے بہت ہی گہرا تعلق ہے اور اسی کے نتیجے میں سچا استغفار عطا ہوتا ہے اور یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے جس سے قرآن کریم کی تعلیم کا آغاز ہوا ہے پھر وہ شخص جو دوسرے نصیحت کرنے والے کا مشاہدہ کر رہا ہے.جب وہ اپنے حال پر نظر کرتا ہے تو اچانک اس کے اوپر بھی یہ نئی صبح میں طلوع ہونا شروع ہو جاتی ہیں.وہ محسوس کرتا ہے اپنے بڑھتے ہوئے شعور کے ساتھ کہ میں اپنے گھر میں اپنی بیوی کو نصیحت کرتا ہوں.اس سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اس قسم کا معاملہ کرے، اس طرح میرے حقوق ادا کرے، اس

Page 309

خطبات طاہر جلدے 304 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء طرح میرا خیال رکھے، اس طرح اپنی پاکیزگی کا خیال رکھے، اپنے جسم کو ڈھانپے، اپنی نظر کو سنبھالے، اپنی زبان کو ادب سکھائے.یہ ساری تو قعات میں اپنی بیوی سے رکھتا ہوں لیکن بیوی کے مقابلے میں اس کے حقوق کے معاملے میں میں ان چیزوں سے خود عاری ہوں تو وہی ننگے پن کا احساس اس کے دل میں بھی پیدا ہو نا شروع ہو جاتا ہے.وہ محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے بچوں کو نصیحت کرتا ہوں اور چونکہ یہ نصیحت صدق پر مبنی ہوتی ہے اس لیے اس صدق کے نتیجے میں پھر وہ صبحیں پیدا ہوتی ہیں جو نفس کے ساتھ شناسائی عطا کرتی ہیں.چنانچہ وہ غور کرتا ہے کہ میں نے جب اپنے بچوں کو نصیحت کی تو میں اس نصیحت میں جھوٹا نہیں تھا.واقعہ میرا دل چاہتا تھا کہ ان بچوں کی اصلاح ہو اور یہ اعلیٰ مراتب اور اعلیٰ مقامات تک پہنچیں.لیکن اس کے باوجود میں خودان مراتب سے عاری ہوں ناصرف عاری ہوں بلکہ اُن کی طرف سفر کرنے کے لیے چند قدم بھی میں نے نہیں اُٹھائے.اس احساس کی بیداری سے پھر وہی ننگا پن کا احساس زیادہ کھلتا چلا جاتا ہے.چنانچہ رات نے جو بدن ڈھانپ رکھا تھا صبح نے ان کمزوریوں سے پردے اتار دیئے اور صبح کے نتیجے میں یعنی ان اسحار کے نتیجے میں جن کا قرآن کریم یہاں ذکر فرمارہا ہے.اُن کو اپنی کمز دوریاں خوب کھل کر نظر آنا شروع ہوگئیں.پھر وہ استغفار کا مضمون شروع ہوا، پھر وہ ستاری کا مضمون شروع ہوا.جس نے ان سگے بدنوں کو ڈھانپ دیا.یہ وہ مضمون ہے جو ساری زندگی ہر انسان کے ساتھ چلتا ہے.انبیاء کے ساتھ بھی چلتا ہے جو معصوم ہیں کیونکہ انبیاء میھم السلام کا معیار اپنے نفس کو جانچنے کا بہت زیادہ بلند ہوتا ہے اور بہت زیادہ لطیف ہوتا ہے.اس لیے وہ جس استغفار میں داخل ہوتے ہیں.عام بندے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ بھی ذکر کیا تھا جہالت میں بعض لوگ ان کو مذاق اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں یہ نبی بنے ہوئے ہیں جو خو د استغفار کر رہے ہیں ، آپ گناہ گار ہیں ، دوسروں کو کیا نصیحت کریں گے.چنانچہ عیسائی جہلا خصوصاً گزشتہ صدیوں میں آنحضرت ﷺ کے متعلق بڑی کثرت کے ساتھ زبان طعن و تشنیع دراز کرتے رہے اور بڑے گہرے چر کے حضور اکرم ﷺ سے محبت کرنے والے کے دلوں کو لگاتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی وجہ سے بعض دفعہ ان لوگوں پر سختی کی ہے کیونکہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ آنحضرت ﷺ پر اس طرح بے باکانہ حملے کیے جائیں مگر خود چونکہ گناہ گار دل رکھتے تھے اور خود چونکہ ان پر استغفار کی سجیں طلوع نہیں ہوئی

Page 310

خطبات طاہر جلدے 305 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء تھیں.اس لیے اس مضمون سے بے خبر اپنی جہالت میں آنحضرت ﷺ پر حملے کرتے رہے.یہی بدنصیبی آج کے دور کے اُن علماء کی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مقام سے غافل ہیں کیونکہ خود اپنے وجود سے غافل ہیں.اپنے نفس سے اُن کو شناسائی نہیں ہے.اس لیے اُن کے لیے کوئی بھی صبح نہیں.وہ ایک مسلسل رات میں زندگی گزارنے والے لوگ ہیں اور اسی جہالت کے نتیجے میں وہ خدا کے پاک بندوں پر حملے کرتے ہیں.اس سلسلے میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے بعض اقتباسات کی روشنی میں آپ کو استغفار کے بعض نئے مضمون سمجھانے کی کوشش کی ہے.جو اقتباس میں نے شروع کیا تھا.اُس کے متعلق میں نے گزارش کی تھی کہ میں انشاء اللہ دوبارہ اس مسئلے پر کچھ روشنی ڈالوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا جو میں اقتباس پڑھ رہا تھا.وہ اس عبارت سے شروع ہوا تھا کہ کوئی چور یا خونی ، چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اُس کے دل میں اُسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام بُرا کیا اچھا نہیں کیا.لیکن وہ ایسے القا کی ، کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیونکہ اُس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.جس سے کوئی بد عملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا.اس لطیف اور پر حکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس نا قصہ کا خاصہ ہے جو ان سے سرزد ہوتا ہے اُس کے مقابل پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے اور اپنی ذات میں وہ غفور و رحیم ہے.یعنی اُس کی مغفرت سرسری اور اتفاقی نہیں بلکہ اُس کی ذات قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اور جو ہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے.یعنی جب کبھی کوئی بشر بر وقت صد در لغزش و گناه به ندامت و تو به خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اُس کی

Page 311

خطبات طاہر جلدے 306 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء طرف رجوع کرے اور یہ رجوع الہی بندہ نادم تائب کی طرف ایک یا دومرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائی ہے اور جب تک کوئی گناہ گار تو بہ کی حالت میں اُس کی طرف رجوع کرتا ہے.وہ خاصہ اُس کا ضرور اُس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے.پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں کہ جو ٹھو کر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھو کر نہ کھاویں یا جو لوگ قوائے بہیمیہ یا غضبیہ کے مغلوب ہیں اُن کی فطرت بدل جاوے بلکہ اس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ تو بہ اور استغفار کر کے بخشیں جائیں“.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اصفحہ : ۱۸۶.۱۸۷ حاشیہ) یہ مضمون بہت ہی گہرا ہے اور عبارت ایسی ہے کہ جسے اردو کا عام معیار رکھنے والا انسان صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتا.پھر اس سے بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں.اسی لیے میں نے گزشتہ خطبے میں کہا تھا کہ میں دوبارہ اس عبارت کی طرف لوٹوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو بیان فرما رہے ہیں.اُس سے ایک یہ تاثر بھی پیدا ہوسکتا ہے کسی کے ذہن پر کہ آپ کا مطلب یہ ہے کہ گناہ سے مستقل تو به کروانا منشاء الہی نہیں ہے بلکہ چونکہ وہ غفور و رحیم ہے اور بار بار مغفرت سے ظہور فر ما تا ہے.اس لیے یہ گویا کہ مقدر ہے کہ ہر انسان بار بار گناہ کرتا چلا جائے اور خدا بار بار بخشتا چلا جائے.یہ ہرگز یہاں مراد نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک خاص مزاج اور طبیعت کے لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں جو ناقص مزاج رکھتے ہیں جو انسانیت کے نسبتا ادنیٰ مقام پر ہوتے ہیں اور اُن کے ساتھ خدا کے معاملے کا ذکر فرما رہے ہیں.ہر انسان مختلف حالتوں میں پایا جاتا ہے اور ہر انسان ایک حالت میں نہیں رہتا.اسی طرح مختلف معاشرے ہیں جو رفتہ رفتہ کثیف حالت سے لطیف حالت کی طرف ترقی کر رہے ہوتے ہیں.کچھ انسان جن کا پس منظر کثیف معاشرے کا پس منظر ہووہ طبعاً بہت ٹھوس بن جاتے ہیں.ان کے اندر لطافتیں کم ہوتی ہیں اور سختی زیادہ پائی جاتی ہے اور مزاج میں بہیمیت بعض دفعہ پیدا ہو جاتی ہے.اُن کی پرورش بچپن میں ایسی ہوتی ہے کہ بعض مغلوب الغضب ہو جاتے ہیں.بعض بہیمانہ مزاج رکھتے ہیں اور ظلم اور تعدی کی طرف ان کا میلان رہتا ہے.

Page 312

خطبات طاہر جلدے 307 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ میلان اگر بہت گہرا طبیعت میں پایا جائے تو ایسے شخص کو ہم ہمیت سے مغلوب یا غضب سے مغلوب کہہ سکتے ہیں.استغفار اُن لوگوں کے لئے ہر ہر صبح ایک نئی خوشخبری لاتا ہے کہ جو جو غلطیاں ان سے اپنی مغلوبیت کی حالت میں سرزد ہوتی چلی جاتی ہیں.اگر وہ مستقل استغفار کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے گناہ بخشتا رہتا ہے.چنانچہ ایسے لوگوں کو مایوس نہیں ہونا چاہئے اور مسلسل جد و جہد کرتے رہنا چاہئے.استغفار بہر حال اس نیت سے ہو گا کہ میں گناہ سے نجات پاؤں اس نیت سے نہیں ہو گا کہ چونکہ خدا غفور و رحیم ہے اس لیے میں بار بار گناہ کروں.یہ تو ایک شاعر کا مضمون تو کہلا سکتا ہے.ایک عارف باللہ کا مضمون نہیں کہلا سکتا.غالب تو کہہ سکتا ہے کہ رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم دھوئے دھبے جامہ احرام کے (دیوان غالب صفحه : ۲۸۱) لیکن ایک عارف باللہ یہ مضمون بیان نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود یہی فرما رہے ہیں کہ تم بے شک گناہ کرتے رہو اور گناہ کے بعد ہر صبح استغفار کر لیا کرو.گویا کہ صبح کے استغفار سے یہ مراد ہے که ساری رات گناہ میں کئے اور ساری صبح استغفار ہوتا رہے.یہ ہرگز مضمون نہیں ہے کیونکہ صبح سے پہلے یعنی استغفار کی صبح سے پہلے جو مضمون خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے قرآن کریم میں وہ تو یہ ہے کہ وہ راتوں کو بہت تھوڑا سوتے ہیں، بہت تھوڑا آرام کرتے ہیں.گناہ کے لیے تو مراد نہیں ہے کہ گناہ کی خاطر جاگے رہتے ہیں اسی لیے وہ صبح استغفار کرتے ہیں.مراد یہ ہے کہ نیکیوں میں رات بسر کرتے ہیں یا نیکیوں میں رات بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر بھی صبح کو استغفار کرتے ہیں.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مضمون کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے جن باتوں پر زور دیا ہے اُن کو خاص طور پر اپنی نگاہ کے سامنے رکھیں.فرمایا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو مغلوب ہیں بہیمیت کی وجہ سے اور اپنی فطری کمزوریوں کی وجہ سے غضب کے تابع ہو جاتے ہیں.چنانچہ آپ دیکھ لیں جو صاحب غضب لوگ ہیں میں نے بھی دیکھا ہے کہ بڑے بڑے نیک ہونے کے باوجود اُن کی غضبی حالت ان کو کبھی بھی نہیں چھوڑتی.یہ ایک امر واقعہ ہے ایک ایسا مشاہدہ ہے.صحابہ میں بھی مختلف مزاج کے مختلف طبیعتوں کے مالک تھے بعض بڑی جلدی غصہ میں

Page 313

خطبات طاہر جلدے 308 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء آنے والے تھے وہ مسجد میں بھی قابو نہیں پاتے تھے اپنے غصے پر اور ایک دم بلند آواز سے وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا کرتے تھے.بعض لوگوں کے ہاتھ کھلے ہوتے تھے وہ بچوں کو بھی فوراً چپیڑ ماردی اور دھکا دے دیا اور بعض صحابہ تھے جو بہت ہی نرم دل اور بچوں سے بھی اس طرح مخاطب ہوا کرتے تھے جیسے کسی اپنے بزرگ سے مخاطب ہو رہے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری فطرت کے تمام پہلوؤں پر نظر ہے اور حقیقت شناس نگاہ ہے.ایک فرضی اور رومانی باتوں کا تعلق نہیں ہوا کرتا انبیاء سے.آپ حقیقت کی بات بیان کرتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مزاج کے لوگوں کی بحث کر رہے ہیں کہ وہ جس مقام پہ بھی چلے جائیں اُن کی جو بنیادی فطری حالت ہے وہ ان کو نہیں چھوڑتی وہ بختی کے ساتھ اُن کی طبع ثانیہ بن چکی ہوتی ہے.فرمایا ایسے لوگوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں.اُن کا کام ہے کہ وہ توجہ کے ساتھ انہماک کے ساتھ اور صبر کے ساتھ استغفار کرتے رہیں.پس یہاں اُن کی سچائی کا پیوند مبر کے ساتھ ہو جاتا ہے سبھی قرآن کریم میں و الصابرین سے مضمون کو یہاں شروع کیا ہے کہ صبر کا بھی استغفار سے ایک گہرا تعلق ہے.وہ لوگ جن کی برائیاں دور نہیں ہو سکتیں اُن کا صبر یہ ہے کہ وہ استغفار پر صبر کریں اور بار بار اپنے نفس کو پہچانے اس کا تجزیہ کریں اور بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ اے خدا ہمارے بس میں یہ بات نہیں ہے تو اگر خاص فضل فرمائے تو ہماری بخشش بھی ہو سکتی ہے اور اگر تو اپنا اعجازی نشان دکھائے تو پھر یہ گہری کمزوریاں دور ہو سکتی ہیں فرماتے ہیں :.پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں جو ٹھو کر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھوکر نہ کھاویں.یا جو لوگ قومی بہیمیہ یا غصبیہ کے مغلوب ہیں اُن کی فطرت بدل جاوے بلکہ اُس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں.وہ تو بہ اور استغفار کر کے بخشے جائیں.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اصفحہ : ۱۸۷ حاشیہ ) پس یہ مغفرت کے عظیم ہونے اور ہر دوسری صفت پر خدا کی صفت غفوریت کے غالب ہونے کا ایک مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.جہاں تک تو بہ کا تعلق

Page 314

خطبات طاہر جلدے ہے آپ فرماتے ہیں.309 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء تمہارا یہ کام ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے آئندہ وعدوں کو یاد کر کے ترساں اور لرزاں رہو اور قبل از وقت سنبھل جاؤ ، نت نئی تو بہ کرو جوتو بہ کرتا ہے وہ نیکی کی طرف رجوع کرتا ہے.جو تو بہ نہیں کرتا وہ گناہ کی طرف جاتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس بندے سے محبت کرتا ہے جو بہت تو بہ کرتا ہے.تو بہ نہ کرنے والا گناہ کی طرف جھکتا ہے اور گناہ آہستہ آہستہ کفر تک پہنچادیتا ہے.پس وہ پہلے مضمون کو اس مضمون سے خلط نہیں کرنا چاہئے.اسی لیے میں نے یہ اقتباس اُس پہلے اقتباس کے معا بعد رکھا ہے.لکھا ہے کہ صلى الله ایک بار آنحضرت ﷺ کھڑے ہوئے پہلے بہت روئے اور پھر لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا یا عباداللہ خدا سے ڈرو آفات اور بلیات چونٹیوں کی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.ان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں.بجز اس کے کہ سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہو جاؤ.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحه نمبر : ۶۰۷) قرآن کریم اس مضمون کو یوں بیان فرماتا ہے.الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبيرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَاكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ اَنْتُمُ أَجِنَّهُ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ ۚ فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم :۳۳) کہ خدا کے وہ جو بندے کبائر گناہ سے اجتناب کرتے ہیں اور فواحش سے بھی.لیکن ابھی کمزوری کی حالت میں ہیں یا جن کا نفس ان پر اس طرح غالب ہے جس طرح حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے.اور کم میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں.یعنی گناہوں سے اتنا دور نہیں

Page 315

خطبات طاہر جلدے 310 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء ہٹ سکتے کہ گناہوں کے ساتھ اُن کا رابطہ ہی نہ ہو بلکہ بار بار گناہ مس کرتے رہتے ہیں اُن کو خواہ وہ پوری طرح گناہوں کو قبول نہ کریں.فرمایا اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ.ایسے لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ خدا بہت ہی وسیع مغفرت والا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ اگر تم اپنی فطری کمزوریوں کی وجہ سے مجبور ہو.گناہوں سے کلیۂ اجتناب نہیں کر سکتے کہ اُن سے دور ہی بھاگ جاؤ اُن سے مس بھی نہ ہو.وہ مایوس نہ ہوں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا و اسِعُ الْمَغْفِرَةِ بـ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ اَنْشَاكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وه ہے نہ صرف یہ کہ تمہاری ذاتی زندگی سے واقف ہے بلکہ تمہاری نوع سے بھی واقف ہے، تمہاری جنس سے واقف ہے اُس وقت سے تم سے واقف ہے جبکہ زمین سے تمہارا نشو و نما شروع ہوا تھا.جس طرح کہتے ہیں کہ میں فلاں اور اُس کے پوتروں سے بھی واقف ہوں مطلب یہ ہے کہ بچپن میں جس نے کسی کہ پوترے دھوئے ہوں یا دیکھے ہوں اُس کی کمزوریاں اُس کے سامنے کھل جاتی ہیں.اردو میں محاورہ ہے کہ وہ تو اُس کے پوتروں سے واقف ہے اُس سے وہ کیا بات چھپائے گا.تو اللہ تعالیٰ بات اُس سے بھی بہت پہلے سے شروع کرتا ہے.فرماتا ہے تم تمہارے سے پہلے جتنی مخلوقات آئیں وہ ہم نے ہی پیدا کیں تھیں.اُن مخلوقات کا آغاز جو ہوا ارب ہا ارب سال پہلے وہ ہم ہی نے ہی کیا تھا.اس لیے ہر قسم کی نوعی، فطری، اندرونی کمزوریوں سے رحجانات سے ہم واقف ہیں.وَإِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ اور اس کے بعد فرمایا اور ہاں ہم تمہاری ذاتی حیثیت سے بھی اُس وقت سے واقف ہیں جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں جنین کے طور پر زندگی گزار رہے تھے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ.میرے سامنے اپنے تقویٰ کی باتیں نہ کرو، میرے سامنے یہ اظہار نہ کرو گویا تم اپنی طاقت سے متقی اور پاک بن سکتے ہو.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقُى اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون متقی ہے.تو مراد یہ ہے کہ جس خدا کی انسان کی اندرونی بار یک دربار یک کمزوریوں پر نظر ہے اور اُس کی فطری اور نوعی کمزوریوں پر بھی نظر ہے، اُس کی تاریخی کمزوریوں پر بھی نظر ہے.اُس خدا کے سامنے تو سیدھا سادہ طریق یہ ہے کہ کامل صدق کے ساتھ اُس کے سامنے انسان بے ہتھیار ہو جائے سب کچھ ڈال دے اُس کی راہ میں اور کہہ دے کہ میں کچھ بھی اپنا نہیں رکھتا تو بہتر جانتا ہے کہ میری کیا کیفیت ہے اور اس حالت میں مجھ پر رحم کی نظر فرما.حضرت مسیح موعود علیہ

Page 316

خطبات طاہر جلدے الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.311 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء پس استغفار کیا چیز ہے یہ اُس آلہ کی مانند ہے جس کی راہ سے طاقت اُترتی ہے.تمام راز تو حید کا اسی اصول سے وابستہ ہے کہ صفت عصمت کو انسان کی ایک مستقل جائیداد قرار نہ دیا جائے.“ اس لیے یہ خیال کہ انبیاء بھی صفت عصمت ذاتی جائیداد کے طور پر رکھتے ہیں یہ باطل خیال ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف یہ کہ صفت عصمت اُن کو عطا ہوتی ہے بلکہ اس صفت کی حفاظت کے لیے ،اس کے دوام کے لیے، اس کے استقرار کے لیے انبیاء کو مسلسل جد و جہد کرنی پڑتی ہے.ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں ، عبادتیں کرنی پڑتی ہیں.اس لیے انبیاء کا استغفار اپنی مستقبل کی مناسبت سے ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ صفت عصمت اُن کی ذاتی جائیداد نہیں ہے، ذاتی ملکیت نہیں ہے.پس اُن کو خدا کی عطا کو سنبھالنے ، اُس کی قدر کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور اُس سے ادنی درجہ کے جتنے انسان ہیں.اُن کو جتنی بھی عصمت نصیب ہوتی ہے کسی کو ایک گناہ سے عصمت نصیب ہوتی ہے کسی کو دوسرے گناہ سے عصمت نصیب ہوتی ہے.اُس کو چاہیے کہ اُس کی حفاظت کے لیے بھی وہ اسی طرح کوشش کرے.یہ وہ مضمون ہے جو اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے جسے ہمیں سمجھنا ضروری ہے.عصمت گلی تو انبیاء کا حصہ ہے اور دیگر انسان جتنے ہیں ان کو بھی خدا ہی سے عصمت ملتی ہے.بعض دفعہ پیدائشی عصمت نصیب ہوتی ہے.بعض دفعہ ماحول میں رفتہ رفتہ آزمائشوں کے ذریعے عصمت عطا ہوتی ہے لیکن جس قسم کی بھی عصمت ہے وہ انبیاء کے علاوہ باقی انسانوں کو جزوی ہے.چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض لوگ بعض گناہوں سے پوری طرح بچنے کی اہلیت تو رکھتے ہیں اور استطاعت رکھتے ہیں اُن کو اُس بارے میں کوئی خوف نہیں ہوتا.بعض دوسرے گناہوں کے معاملے میں وہ بالکل کمزور ثابت ہوتے ہیں.اس لیے جب آپ نیکوں کی زندگی کا اپنے گردو پیش میں مطالعہ کریں گے تو آپ حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ عصمت گلی کسی کو بھی نصیب نہیں.کوئی اور نہیں تو اپنی زبان کی تختی کی مار کھا جاتا ہے اور نیکی کے تقاضوں کے خلاف وہ بعض دفعہ اُس کی زبان میں بد کلامی داخل ہو جاتی ہے.بعض بخشش کے معاملے میں کمی دکھاتے ہیں، بعض اپنے خود پرستی کی کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.جن کا تعلق خود پرستی سے ہے اور وہ ان کی روز مرہ کی زندگی میں

Page 317

خطبات طاہر جلدے 312 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے اور اُن کو پتا نہیں ہوتا.تو عصمت کا جو مضمون ہے وہ بھی بہت ہی غور سے سمجھنے کے لائق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بحیثیت عارف باللہ جونکتہ بیان کر دیا جو جان ہے اس مضمون کی وہ یہ ہے کہ عصمت خدا کی طرف سے نصیب ہوتی ہے اور کسی کی ذاتی جائیداد نہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اپنی عصمت کی حفاظت نہیں کریں گے اور خدا سے مزید عصمت نہیں طلب کریں گے.تو جن جگہوں پہ آپ کو عصمت نصیب ہے وہ بھی رفتہ رفتہ نقصان کا شکار ہو سکتی ہے.جس طرح بعض دفعہ طغیانی میں خشک حصوں پر بھی پانی چڑھ جاتا ہے.اسی طرح گناہوں میں بھی بعض دفعہ طغیانی کے دن آتے ہیں طغیانی کے ماحول پیدا ہو جاتے ہیں اور جن لوگوں کو عصمت نصیب نہ ہو ان کو کوئی کشتی اُس سیل سے نہیں بچاسکتی کیونکہ پھر فطرت کے ہر حصے پر گناہ کی طغیانی غلبہ پا جاتی ہے.پس عصمت کی حفاظت کے لیے استغفار کی ضرورت ہے.فرمایا تمام راز توحید کا اسی اصول میں ہے.آپ دیکھیں کتنی گہری بات ہے.فرمایا تو حید کاملہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا ہی ہے جو نیک ہے.جس طرح حضرت مسیح نے کہا کہ وہی ایک ہے جو نیک ہے اور کوئی نیک نہیں.یہ مراد ہے نیکی کی ، اُس کے اکیلا نیک ہونے سے یہ مراد ہے کہ کسی اور کی نیکی اس کی ذاتی ملکیت نہیں خدا ہی کی طرف سے نیکی عطا ہوتی ہے اور جو تو حید کامل کے مضمون کو سمجھ جاتا ہے وہ اپنی عصمت کی طلب خدا سے کرتا ہے اور عصمت مانگنے کے لیے استغفار کی ضرورت ہے.فرمایا: بلکہ اس کے حصول کے لیے محض خدا کو سر چشمہ سمجھا جائے.ذات باری تعالیٰ کو تمثیل کے طور پر دل سے مشابہت ہے جس میں مصفی خون کا ذخیرہ جمع رہتا ہے اور انسان کامل کا استغفار ان شرائن اور عروق کی مانند ہے جو دل کے ساتھ پیوستہ ہیں اور خون صافی اُس میں سے کھینچتی ہیں اور تمام اعضاء پر تقسیم کرتی ہیں جو خون کی محتاج ہیں.‘ ریویو آف ریلیجنز ار دوجلد اول صفحہ: ۱۹۵) ایک اور عصمت کا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا کہ عصمت کو اپنے ہر گناہ کی عصمت کو صاف رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے.جس طرح آپ کو بدن کی صفائی کی ضرورت پڑتی ہے، آپ کو گھر کی صفائی کی ضرورت پڑتی ہے، ہر قسم کی میل اُس پر آتی رہتی ہے اور اُس سے زیادہ گہری بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ تمہارے خون کی بھی صفائی کی ضرورت ہے جس کا عام

Page 318

خطبات طاہر جلدے 313 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء لوگوں کو پتا بھی نہیں.وہ لوگ جو انسانی جسم کی ماہیت سے باخبر ہیں اُن کو پتا ہے کہ ہر لحظہ خون گندہ ہوتا رہتا ہے اور ہر لحظہ خون کی صفائی کی ضرورت پڑتی ہے اور دل ہے جو صفا خون کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے اور گندے خون کو صفا خون سے الگ کرنے کے لیے ایک مرکزی مقام رکھتا ہے.فرمایا اس پہلو سے انسانی دل کو خدا تعالیٰ سے ایک مماثلت ہے.پس جب تک خدا کو اپنے دل میں داخل نہیں کرو گے تو روحانی طور پر تمہارے روحانی خون کی صفائی کا انتظام نہیں ہو سکتا.اس لیے اگر تم عصمت چاہتے ہو تو وہ کچی عصمت جو خدا سے ملتی ہے تو اپنے دل کو خدا کا دل بناؤ ، خدا کی آماجگاہ بنا لو اور خدا جب دل میں داخل ہوگا تو وہ اُسی طرح کام کرے گا روحانی لحاظ سے جس طرح تمہارا جسمانی دل تمہارے جسمانی خون کی صفائی کا کام کرتا ہے.فرمایا استغفار اور توبہ کا یہ مطلب نہیں جو آج کل لوگ سمجھ بیٹھے ہیں.استغفر اللہ استغفر اللہ کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا جبکہ اس کے معنی بھی کسی کو معلوم نہیں.‘“ اسی لیے میں نے پچھلے خطبے کی تمہید میں یہ بات عرض کی تھی کہ استغفار کے معنی کو سمجھے بغیر اس کے مفہوم پر اطلاع پائے بغیر آپ زبان سے استغفار کہتے ہیں.تو ایک نیکی کی طرف میلان کا اظہار تو ہو جاتا ہے.لیکن حقیقت میں اُس سے استفادہ نہیں کر سکتے.فرمایا استغفر الله ایک عربی زبان کا لفظ ہے.اُن لوگوں کی تو چونکہ یہ مادری زبان تھی اور وہ اس کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھے ہوئے تھے اس لیے تو ان کے لیے کوئی مشکل اور اُلجھن نہیں تھی.استغفار کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ سے اپنے گزشتہ جرائم اور معافی کی سزا سے حفاظت چاہنا ایک یہ ہے اور آئندہ گناہوں سے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا.استغفار انبیاء بھی کرتے تھے اور عوام بھی“.پس یہ ایک اور فرق انبیاء اور عوام کی استغفار کا آپ نے بیان فرما دیا اور اُس پہلو کی طرف ہماری توجہ دلا کر یہ مضمون خوب روشن کر دیا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہے کیوں کثرت سے استغفار

Page 319

خطبات طاہر جلدے 314 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء فرماتے تھے.عام طور پر جو مفسرین اس بحث میں الجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جب عرض کرتے ہیں.خدا کے حضور استغفر الله ربی من کل ذنب تو اس کا مطلب کیا یہ بنتا ہے کہ آپ سے گناہ سرزد ہوئے تھے اور چونکہ غیروں نے بڑے شدید حملے اس راہ سے کیے ہیں.اس لیے اس راہ کو بند کرنے کے لیے وہ ذنب کی تعریف کو نرم کرتے کرتے اتنا نرم کر دیتے ہیں کہ گویا ذنب کا مطلب صرف بشری کمزوریاں ہیں.ایک پہلو سے یہ بات درست ہے کہ ذنب کا مطلب بشری کمزوریاں بھی ہیں.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب اس مضمون کو آنحضرت ﷺ پر چسپاں فرمایا تو ان معنوں میں کیا کہ ذنب کی تعریف ہر شخص کے مطابق بدلتی چلی جائے گی.ایک عام انسان جو گناہ گار الله ہے جب وہ استغفر اللہ ربی من کل ذنب کہتا ہے تو اس کے ذنب میں بہت سے گناہ کبیرہ بھی داخل ہو جاتے ہیں اور شدید قسم کی لغزشیں بھی داخل ہو جاتی ہیں.اُس کی لغزشیں بھی شدید ہوتی ہیں.جو انبیاء کے نکتہ نگاہ سے گناہ کبیرہ شمار کی جا سکتی ہیں.مگر ذنب جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر اطلاق پاتا ہے.یعنی ان معنوں میں کہ آپ خدا سے عرض کر رہے ہیں کہ میں اپنے سب گنا ہوں سے بخشش چاہتا ہوں تو اُس سے مراد یہ ہے کہ وہ لطیف بشری کمزوریاں جو اتنی لطیف ہیں کہ انسان کی نگاہ اُن کو پکڑ نہیں سکتی.مگر ایک کامل نبی جب خدا کے حضور کھڑا ہوتا ہے تو خدا کی نگاہ کے سامنے اپنے آپ کو نگا محسوس کرتا ہے اور اُس وقت اُس روشنی میں اُس کو اپنی بعض کمزوریاں دکھائی دیتی ہیں.یعنی ذنب کا یہ مطلب آنحضرت ﷺ کے استغفار پر صادق آتا ہے لیکن ایک دوسرا مضمون جو حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں کھولا ہے.اُس کے بعد اس ذنب کی تعریف کو چھیڑنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ہے.آپ فرماتے ہیں: دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئندہ گناہوں کے سر زد ہونے سے حفاظت مانگنا.استغفار انبیاء بھی کرتے تھے ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ نمبر: ۵۰۷) یہ فوراً اس کے ساتھ کہنا یہ بتا رہا ہے کہ جب انبیاء استغفار کرتے تھے تو ان معنوں میں کیا کرتے تھے.کہ وہ آئندہ ہونے والے گناہوں سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں گناہ کے اثر سے.جس طرح سردی کے مقابل پر کپڑا اوڑھا جاتا ہے یا گرمی کے مقابل پر کپڑا اوڑھا جاتا ہے یا گندگی کے مقابل پر اپنے جسم کو بچانے کے لیے کپڑا اوڑھا جاتا ہے.پس استغفار اُس کپڑے کی

Page 320

خطبات طاہر جلدے 315 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء طرح کام کرتا ہے کیونکہ استغفار کا مطلب ہے اپنے آپ کو ڈھانپنا.دفاع کرتا ہے آئندہ گنا ہوں سے تو استغفر الله ربی من کل ذنب واتوب اليه جب حضور اکرمہ فرماتے ہیں.یا دیگر انبیاء تو مراد یہ ہے کہ آئندہ ہر قسم کے گناہوں سے ہم بخشش طلب کرتے ہیں.پس سابقہ کے متعلق تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذنب ان معنوں میں ہے کہ وہ لطیف بشری کمزوریاں جو انسان کے مقام کے لحاظ سے الگ الگ تعریف پیدا کرتی چلی جاتی ہے الگ الگ تعریف میں داخل ہوتی چلی جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم جب یہ فرماتا ہے رسول اکرم ﷺ کے متعلق لِّيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَرَ (الفتح بس) تو اُس کا یہ معنی نہیں ہے کہ تو آئندہ گناہ کرتا چلا جائے نعوذ باللہ من ذالک اور خدا تعالیٰ تجھے معاف فرما تا چلا جائے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جس طرح ماضی میں خدا نے تیری گناہوں سے حفاظت فرمائی اسی طرح مستقبل میں بھی خدا تیری حفاظت فرماتا چلا جائے گا یا ماضی کی نسبت سے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ماضی میں بہت ہی لطیف بشری کمزوریاں تجھ سے ظاہر ہوئیں جن سے خدا نے درگز رفرمائی آئندہ بھی اگر کبھی کوئی لطیف بشری کمزوریاں تجھ سے ظاہر ہوئیں تو خدا تعالیٰ تجھ سے بخشش کا سلوک فرمائے گا.ایک اور بہت ہی لطیف معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذنب کا ایسا بیان فرمایا ہے جس کا آج کل کی سائنسی دریافتوں سے تعلق ہے.ایک موقع پر سیرت مہدی جلد سوئم صفحہ: ۱۵ اپر ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تقریر میں فرمایا ، میرے علم میں وہ تقریر نہیں کہ وہ کہاں طبع ہوئی ہے لیکن سیرۃ مہدی میں حوالہ ہے تو وہ ضرور ملفوظات میں یا کہیں اُس کا ذکر ہوگا.آپ نے فرمایا کہ یہ جو استغفر الله ربى من كل ذنب واتوب اليه پڑھنے کا " کثرت سے ذکر آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے انسان کو گویا ایک ذنب یعنی دم لگ جاتی ہے جو کہ حیوانی عضو ہے اور یہ انسان کے لیے بدنما اور اُس کی خوبصورتی کے لیے ناموزوں ہے.اس واسطے حکم ہے کہ انسان بار بار یہ دعا مانگے اور استغفار کرے تا کہ اُس حیوانی دم سے بیچ کر اپنی انسانی خوبصورتی کو قائم رکھ سکے اور ایک مکرم انسان بنار ہے.“ (سیرۃ المہدی جلد اول حصہ سوم، روایت نمبر ۴۷۸ صفحه: ۵۰۸)

Page 321

خطبات طاہر جلدے 316 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء جولوگ ارتقاء کے مضمون سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ارتقاء کے نظریہ کی تائید میں سائنسدانوں نے ایک بڑا اہم ثبوت یہ پیش کیا کہ انسان جب رحم مادر میں مختلف شکلیں بدلتا ہے تو اُس کی ابتدائی سب شکلیں جب تک وہ انسانی شکل کے مقام تک نہیں پہنچ جاتا حیوانی شکلوں سے مشابہ ہوتی ہیں اور یہاں تک وہ مشابہت ہوتی ہے کہ ایک موقع پر باقاعدہ جس طرح بندر کی دم نکلی ہوتی ہے بچے کی دم بھی آپ کو دکھائی دے سکتی ہے اگر آپ اُس وقت ماں کا پیٹ چیر کے دیکھیں.یا آج کل جو آلے نکل آئیں ہیں ان کی رو سے اگر آپ ایکسریز لیں یعنی High Resolution کے ایکسرے میں دیکھیں گے تو آپ کو پتا لگ جائے گا کہ ایک وقت میں بچے کی شکل جانور سے اس طرح مشابہ ہے کے باقاعدہ اس کی دم نکلی ہوئی ہے اور پھر جب وہ ترقی کرتا ہے تو وہ دم غائب ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ عرفان عطا فر مایا کہ ذنب کے اُن معنوں کی طرف توجہ ہوئی جو ظاہری معنے ہیں یعنی دم.ذنب کا ایک ظاہری معنی دم ہے.تو آپ نے ان معنوں پر غور کر کے اس عظیم نفقہ کو پالیا ہے.فرمایا کہ ذنب سے مراد یہ ہے کہ انسان جب بھی حیوانی صفات کی طرف لوٹتا ہے تو وہ مکرم نہیں رہتا وہ کمزوریاں جو خدا نے جھاڑ دی تھیں اس سے یا اس لائق بنادیا تھا کہ وہ ان حیوانی کمزوریوں سے نکل کر ایک کامل اور خوبصورت انسان کے طور پر ظاہر ہو وہ کمزوریاں اُس کے اندر اُس دم کی طرح ظاہر ہو جاتی ہیں.اس لیے لفظ ذنب ایک داغ کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے.تو ان معنوں میں جب خدا تعالیٰ کے عارف باللہ اور مقدس لوگ استغفار کرتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اے خدا! ہمیں ہر قسم کی ایسی بشری کمزوریوں سے الگ رکھنا جن کے نتیجے میں تیرے حضور ہمیں کچھ بد زیب ہو کہ تو جب اپنی آنکھ سے ہمیں دیکھے تو اُس دم کے آثار کو پالے جو دم ماضی میں ہم چھوڑ آئیں ہیں.یعنی ایسا ہونا چاہئے کہ ہم ان دموں کو ماضی میں چھوڑ آئے ہیں اور اب ہمارے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہو لیکن جب ہم ذنب کرتے ہیں تو دوبارہ اُن دموں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، دوبارہ وہ ڈ میں اگنی شروع ہو جاتی ہیں.تبھی جو انسان بدنصیبی میں، گناہوں میں بڑھ جاتے ہیں اُن کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ كُونُوا قِرَدَةً خَبِينَ (البقرہ: ۲۶) اگر تم نے اصرار کرنا ہے ان گناہوں پر پھر تو تمہاری ڈ میں اُگ آئی ہیں اب اور اُس کے نتیجے میں یہ طبعی سزا تمہارے لیے ہے کہ قِرَدَةً خَسِيْنَ کی ادنیٰ حالت کی طرف لوٹ جاؤ اسفل السافلین میں بھی یہی مضمون ہے

Page 322

خطبات طاہر جلدے 317 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء قِرَدَةً خَسِيْنَ میں بھی یہ ضمون ہے اور شر من تحت اديم السماء (مشكوة كتاب العلم والفضل صفحہ: ۳۸) میں بھی یہی مضمون ہے.کہ پھر یہاں ٹھہرتے نہیں ہیں وہ لوگ بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں اور ساری حیوانی کمزوریاں جن کو وہ اپنے طویل ماضی کے سفر میں پیچھے چھوڑ آئے تھے وہ دوبارہ اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور روحانی لحاظ سے حیوان صفت ہوتے چلے جاتے ہیں.یہ مضمون بہت ہی لمبا ہے میں نے جیسا کے کہا تھا کہ میں انشاء اللہ چند نمونے آپ کے سامنے رکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی عبارتوں کی مدد سے آپ کو یہ مضمون سمجھاؤں گا.اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ استغفار کا مضمون اتنا وسیع ہے کہ روحانی لحاظ سے ہی صرف فوائد کا موجب نہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے اور کثرت استغفار سے آپ کو ہر قسم کے منافع حاصل ہو سکتے ہیں.اس لیے اپنی دعاؤں میں استغفار کو غیر معمولی طور پر پیش نظر رکھا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ” آپ نے فرمایا کہ استغفار پڑھنے سے گناہ کی تحریک مٹ جاتی ہے اور نیکی کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے.اس لیے بجائے اس کے کہ اُس مقام پر راضی رہیں کہ گناہ بار بار ہو اور بار بار مغفرت کے طالب رہیں یہ مقام محفوظ یا مقام عصمت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ استغفار کے ذریعے نصیب ہوسکتا ہے کہ گناہ کی تحریک منی شروع ہو جائے اور نیکی کی طرف رغبت ایک فطری جوش کے طور پر پیدا ہونی شروع ہو.پھر فرمایا ۱۹۰۶ء کی بات ہے یہ روایت بھی سیرت المہدی میں ہے کہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے کہ ایک سائل نے جو اپنے آپ کو نوشہرہ ضلع پشاور کا بتا تا تھا اور مہمان خانہ قادیان میں مقیم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھا کے میری مدد کی جائے مجھ پر قرضہ ہے.آپ نے جواب لکھا کہ قرض کے واسطے ہم دعا کریں گے اور آپ بہت استغفار کریں اور اس وقت ہمارے پاس ایک روپیہ ہے جوار سال ہے.“ (سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر ۸۰۷ صفحه: ۷۳۵ ) ایک روپیہ جو کچھ بھی تھا آپ کے پاس وہ آپ نے دے دیا.جانتے تھے کہ اُس روپے سے تو اُس کے قرضے نہیں اتر سکتے فرمایا یہ میر اسرمایہ سارا یہی تو نہیں میرے پاس ، میرے پاس تو خدا کے حضور التجاؤں کا سرمایہ ہے.چنانچہ اس سرمائے سے میں تمہاری مددکروں گا لیکن تم اپنی مدد استغفار کے ذریعے کرو.

Page 323

خطبات طاہر جلدے 318 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں اول یہ کہ استغفار کے ذریعے قرضوں کے بوجھ اُتر سکتے ہیں اور استغفار کے ذریعے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اُن کی معافی ہوسکتی ہے.یہ قرضوں کے ساتھ ان معنوں میں تعلق ہے.استغفار ایک معنوں میں گناہ کے بعد ہوتا ہے پس قرضے کی مثال ایسی ہی ہے پھر جیسے گناہ سرزد ہو چکا ہو.آپ روپیہ لے بیٹھے اُس کو غلط مصرف میں استعمال کر بیٹھے.ایسی تجارت میں ڈال دیا جہاں سے اُس کے واپس آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی.چھٹی پڑ گئی کسی لحاظ سے بھی آپ قرضوں میں مبتلا ہو گئے یہ سابقہ کے گناہ کی طرح ہے.اگر سابقہ کی غلطیاں بخشی جاہی نہیں سکتیں تو پھر ایسے شخص کے لیے کوئی امید نہیں.مگر وہ خدا جو گناہ بخشتا ہے اُس میں طاقت ہے اور وہ آپ کی ذاتی مادی کمزوریوں میں اور روزمرہ کے لیں دین کی کمزوریوں میں بھی اُسی طرح بخشش کی طاقت رکھتا ہے.ایک بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے جس سے خدا کی بخشش کا مضمون ثابت ہوتا ہے.عیسائی جو یہ کہتے ہیں کہ خدا فی ذاتہ بخشش کی گویا طاقت نہیں رکھتا اُس کا بطلان ہے اس مثال کے ذریعے.آپ قرضوں میں مبتلا ہیں جو غلطیاں کہیں پیچھے سرزد ہو گئیں جن تک اب آپ کی رسائی نہیں رہی.جو کچھ ہو چکا ہو چکا آپ کی اپنی بے وقوفی تھی کسی دوست نے دھوکا دے دیا.وہ ایسے حالات ہیں جو ماضی کا حصہ بن گئے آپ اُن کو تبدیل نہیں کر سکتے.سوائے استغفار کے کوئی رستہ نہیں ہے.اس لیے استغفار کے ذریعے جب آپ خدا سے رحم کے اور بخشش کے طالب ہوں گے اور خدا تعالٰی اس دنیا میں آپ کو ان مالی مشکلات سے نجات بخشے گا تو قطعی طور پر آپ اس بات پر زندہ ثبوت بن جائیں گے کہ اسلامی تعلیم سچی ہے اور عیسائیت نے خدا پر بدظنی کی تھی.پس ان معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس مدد کے طالب کو کہا کہ خدا سے مدد طلب کرو اور خدا سے مدد استغفار کے ذریعہ طلب کرو.دوسرا استغفار میں یہ مضمون ہے کہ اُن امور پر غور ضروری ہے جن کے نتیجے میں آپ نے ٹھوکریں کھائیں اور آپ کو معلوم بھی ہونا چاہئے کہ کیا غلطیاں ہوئیں تھیں.یہ تو مناسب طریق نہیں ہے کہ بار بار آپ روپیہ ہاتھ میں پکڑیں اور پھینک دیں.جیسے کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے اور پھر اپنے دوستوں سے مدد مانگتے رہیں ہر وقت یا خدا سے مدد کے طالب رہیں.یہ عادت استغفار کے رحجان کے منافی ہے.استغفار کی سچائی کے منافی ہے.چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آپ کے وہ دوست اور تعلق والے جو بار بار روپیہ ضائع کرتے ہیں

Page 324

خطبات طاہر جلدے 319 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء پھر آپ کے پاس پہنچتے ہیں شروع میں اُن کے لیے دل کے گوشے نرم ہو جاتے ہیں، شروع میں آپ کے دل میں رحم پیدا ہوتا ہے.آخر آپ اُن کی صورتوں سے بیزار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں آیا یہ مصیبت لے کر.اب پھر روپیہ کہیں ضائع کر بیٹھا ہے.چنانچہ ایسے لوگ پہلے اپنی جائیداد میں تباہ کرتے ہیں.پھر اُس کے بعد قرضے لے لے کر دوسروں کی جائیدادیں بھی تباہ کرنے لگ جاتے ہیں.ان لوگوں سے یہ دور بھاگتے ہیں.تو استغفار کے مضمون بتا کر یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ تم اپنی غلطیوں کی طرف بھی متوجہ ہو اور معلوم کرو کہ وہ کونسی کمزوریاں ہیں جن کے نتیجے میں تم نے مصیبت کے یہ دن دیکھے.تیسرا اس میں یہ نصیحت بھی فرما دی کہ انسان کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی عادت اچھی نہیں ہے سائل کو ڈانٹنا تو جائز نہیں ہے، آپ نے ڈانٹا نہیں لیکن بختی.اسے ورے، ورے رہتے ہوئے نرمی کے ساتھ جو بات سمجھائی جاسکتی تھی وہ سب سمجھا دی اور ایک استغفار کہہ کر یہ تینوں مضمون اُس پر کھول دئے گویا کہ کھولنے کی کوشش فرمائی کہ دیکھو تم انسان کے سامنے جو ہاتھ پھیلاتے ہو کہاں تک انسان تمہاری حاجت روائی کرے گا.میرے پاس آئے تھے میرے پاس بھی ایک روپیہ ہی نکلا ہے.میں اس سے زیادہ تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں اور ایسے اور بھی ہوں گے جن کے پاس ایک روپیہ ہو گا مگر وہ ایک روپیہ بھی نہیں دیں گے اور اُن کے لیے جائز ہوگا.ایسے بھی ہوں گے جن کے پاس لاکھوں ہوں گے تب بھی اُس میں سے بھی ایک روپیہ نہیں دیں گے.تو انسانوں کی طرف متوجہ نہ ہو خدا سے بخشش کے طالب رہو استغفار کرو اور یقین رکھو کہ استغفار کے نتیجے میں جیسے روحانی گناہ دھلتے ہیں اُس طرح عام دنیاوی لغزشیں بھی دھوئی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل اُن پر غالب آجاتا ہے اور اللہ مغفرت کا سلوک فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہ استغفار کو کثرت سے مختلف رنگ میں استعمال فرماتے تھے.چنانچہ اس میں ایک ایسی مثال میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو دلچسپی کی وجہ سے میں نے چینی ہے.یہ مطلب نہیں کے ہر طالب علم اب یہی کام شروع کر دے جس کی میں اب بات کرنے لگا ہوں.مگر یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے تو کل کا کیا مقام تھا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب وہ باتیں سنتے تھے تو کتنے کامل یقین کے ساتھ اُن پر پھر وہ عمل شروع کیا کرتے تھے اور ان کے لیے کوئی بھی Limit

Page 325

خطبات طاہر جلدے 320 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء نہیں تھی کوئی بھی حد بندی پھر نہیں رہتی تھی.کوئی نسخہ ملا ہے تو ہر جگہ وہ اس کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے.چنانچہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب مہر سنگھ ہمارے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب مرحوم کے والد بڑے دعا گو اور صاحب کشف و الہام تھے اور اس قسم کے چٹکلے ان کی ذات کا حصہ تھے.عموماً اس قسم کی روایتیں انہی کے ساتھ وابستہ ہیں.ان کا ایک اپنا خاص مزاج تھا اور اللہ تعالیٰ کا بھی اُن سے اسی مزاج کے مطابق سلوک تھا.چنانچہ ایک دفعہ تعلیم السلام ہائی سکول میں ماسٹر صاحب کے سپر دایک ایسی جماعت ہوئی جو انگریزی میں بہت کمزور تھی اور ماسٹر عبدالرحمن مہر سنگھ صاحب کو ناز تھا کہ ان کی انگریزی بہت اچھی تھی.اس لیے اُن کو اب یہ خطرہ کہ میں استاد بن گیا اس کلاس کا جو سابقہ غلطیاں کر بیٹھے ہیں ان کا تو ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے اور بد نامی میری ہو گی.چنانچہ اس کا علاج آپ نے یہ سوچا کہ استغفار کی طرف مائل ہوئے اور کثرت کے ساتھ استغفار شروع کر دی.اب خدا تعالیٰ کا سلوک دیکھیں کہ استغفار کے نتیجے میں آپ کو خواب میں بتلایا گیا کہ ۲۶ ویں اور ۳۰ ویں سبق میں سے امتحان ہو گا.اب سابقہ غلطیاں اُس طرح تو دھلنی مشکل تھیں.اللہ تعالیٰ کی شان کریمی دیکھیں کہ ایک بندہ مجھ سے اتنی توقع رکھتا ہے.دوسروں کے گناہوں کی خاطر آپ معافیاں مانگ رہا ہے.غلطی کلاس نے کی ہے اور ان کا بُرا حال ہے استغفار کر کے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا پھر یہ علاج ہے کہ چھبیسویں اور تیسویں سبق میں سے امتحان ہوگا.چنانچہ ماسٹر صاحب نے طلبا کو کہا کہ وقت نہیں باقی پڑھنے کا تم یہ دو سبق پڑھو اور بالکل باقی باتیں بھول جاؤ اور وقت ہی نہیں رہا.چنانچہ انہوں نے خوب رٹے، چھبیسواں اور تیسواں سبق خوب رٹا اور انسپکٹر صاحب جب تشریف لائے تو انہوں نے انہی دوسبقوں میں سے سوال کیے اور کسی سبق سے نہیں کیا.اور بہت ہی اچھے ریمارکس دیئے کہ ایسی اعلیٰ کلاس میں نے کبھی نہیں دیکھی.تو یہ بھی ایک لطیفہ ہے اور اس سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی حد کوئی نہیں ہے.بعض دفعہ آپ بچوں کی طرح اُس سے ناز کریں تو اللہ بھی ناز برداریاں فرماتا ہے اور اسی قسم کا آپ سے پیار اور محبت کا سلوک فرماتا ہے.اس لیے بہت زیادہ ٹینس Tense ہو کر اور بہت ہی زیادہ سنجیدگی سے استغفار کی بھی ضرورت نہیں نرمی بھی دل میں پیدا کریں.خدا سے کھیل کھیلیں، خدا سے پیار کی باتیں کریں اور اس کی راہ میں بچھ جایا کریں کہ ہمارے

Page 326

خطبات طاہر جلدے 321 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء پاس تو کچھ بھی نہیں ہے.جس طرح ہمیں مانگنا آئے گا ہم تجھ سے مانگتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی وظیفہ کے متعلق پوچھتا تھا کہ وظیفہ بتا ئیں تو آپ سب سے پہلے استغفار کا ذکر فرمایا کرتے تھے.فرماتے تھے استغفار کیا کریں سورہ فاتحہ پڑھا کریں.درود شریف پر مداومت اختیار کریں.اسی طرح لاحول اور سبحان اللہ پر مداومت کریں اور فرماتے تھے کہ بس ہمارے تو یہی وظائف ہیں.پھر روایت آتی ہے کہ جب کوئی پوچھتا تھا کہ کوئی وظیفہ بتائیے تو آپ فرماتے مثلاً ایک صاحبنے سوال کیا کہ یا حضرت ہم کو نسا وظیفہ پڑھا کریں تو حضور فرماتے الحمد للہ اور درود شریف اور استغفار اور دعا پر مداومت اختیار کرو اور دعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کثرت سے پڑھا کرو.(ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر ۴۰۲) بہر حال یہ استغفار کا مضمون اور یہ نئی ٹی میں طلوع ہونے کا مضمون انسان کی زندگی میں ہمیشہ اس کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے اور بعضوں کی زندگی میں جن کی ترقی معکوس ہوتی ہے وہ واپس کی طرف ان کے قدم لوٹنے شروع ہوتے ہیں اور وہ دن بدن روشنی سے اندھیروں میں داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں.اس لیے تو بہ کو ہمیشہ مداومت کے ساتھ پکڑے رہنا ایک باشعور انسان کے لئے ضروری ہے.تو بہ کے متعلق قرآن کریم میں مختلف مضامین بیان فرمائے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ ایسی تو بہ کرتے ہیں کہ ان گناہوں کے طرف جن سے متعلق وہ تو بہ کر چکے ہوتے ہیں پھر مڑ کر نہیں دیکھتے.خدا پر فرض ہے کہ ان کی توبہ قبول کرے.پس یہ وہ سابقون ہیں تو بہ میں جن کے متعلق خدا نے یہ حتمی وعدہ دے دیا ہے کہ مجھ پر فرض ہو گیا ہے کہ میں تمہاری تو بہ کو قبول کروں اور تمہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں.پھر فرمایا ایسے لوگ بھی ہیں جو عمل صالح کو بُرے اعمال کے ساتھ ملا دیتے ہیں.آج تو بہ کی کل ٹوٹ گئی پھر تو بہ کی استغفار کیا پھر لغزش ہوگئی.ایسے لوگوں کے ساتھ قطعی مغفرت کا وعدہ تو نہیں لیکن خدا تعالیٰ جو واسع المغفرۃ ہے اور وہ چاہے تو اُن کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے.پس ایسے لوگوں کو جدو جہد کرتے رہنا چاہئے تو بہ پر مداومت اختیار اور استغفار کے ذریعے خدا سے بخشش طلب کرنے اور اس مضمون میں وہ صابر ہو جائیں کرنے کی.اس مضمون میں وہ صبر اختیار کریں اور پکڑے رہیں اور پھر خدا سے خیر کی امید رکھیں.

Page 327

خطبات طاہر جلدے 322 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء پھر ایک تیسرے قسم کے بدنصیب وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اس آیت میں فرمایا: وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّاتِ ۚ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ النَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَيكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (النساء:۱۹) کہ تو بہ اُن کے لیے نہیں ہے تو ان کی تو بہ کیا معنی رکھتی ہے جو مسلسل بدیوں میں مبتلا رہتے ہیں.یہاں تک کہ موت اُن کو آلیتی ہے اس وقت وہ کہتے ہیں اِتی تُبَتُ السن اے خدا اب میں تو بہ کرتا ہوں وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارُ اور نہ اُن کے لیے کوئی تو بہ ہے جو کامل غفلت کی حالت میں زندگی اس طرح گزار دیتے ہیں کہ موت آتی ہے تو وہ انکار کی حالت میں ہوتے ہیں ،کفر کی حالت میں اُن پر موت آجاتی ہے.پہلے مضمون میں خدا کے وہ کمزور بندے ہیں جو ایمان لانے کے باوجود کمزور رہتے ہیں اور تو بہ سے غافل رہتے ہیں.دوسرے حصے میں وہ لوگ بیان ہوئے ہیں جو کفر کی حالت میں مرجاتے ہیں.فرمایا ان کے لیے کوئی تو بہ نہیں ہے أُولَيْكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيما ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب مقرر کر رکھا ہے.یعنی اس کی وجہ کیا ہے کہ اُن کے لیے تو بہ کوئی نہیں.اس کی وجوہات بھی قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں.فرمایا ایک تو یہ کہ پہلی دفعہ انہوں نے موت کو نہیں دیکھا.بار بار خدا نے مختلف زندگی کی حالتوں میں ان کو موت کے قرب کے نمونے چکھائے اور بار بار اُن کی توجہ تو بہ کی طرف کروائی گئی اور تو بہ کا موقع پانے کے باوجود پھر یہ شدت کے ساتھ اپنی پہلی حالتوں کی طرف لوٹ جاتے رہے.چنانچہ فرمایا اَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُونَ وَلَا هُمْ يَذْكُرُونَ (التو به ۱۲۶) کہ وہ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ان میں سے ہر شخص ایک دفعہ یا دو دفعہ ایسے ابتلاؤں میں ڈالا جاتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ان کی طبیعت تو بہ کی طرف مائل ہو جانی چائے ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ اس کے باوجود تو بہ نہیں کرتے وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ اور کوئی نصیحت نہیں پکڑتے.پھر فرمایا جب ان کی حالت دائمی ہو جاتی ہے اور گناہ اُن کی زندگی کا جزولاینفک بن جاتا ہے.اس وقت اُن پر موت آتی ہے اس لیے پھر خدا تعالیٰ اُن کی توبہ قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنے

Page 328

خطبات طاہر جلدے 323 خطبه جمعه ۶ مئی ۱۹۸۸ء صلى الله گناہ میں ایک دائی حالت اختیار کر چکے ہوتے ہیں.بار بار کے مواقع کے باوجود تو بہ کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے.چنانچہ فرمایا وَلَوْ تَرَى اِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا تُكَذِّبَ بِايْتِ رَبَّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بَلْ بَدَالَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ ) (الانعام ۲۸ - ۲۹) کہ کیا تو نہیں جانتا ایسے لوگوں کو کیا تو نہیں دیکھتا ایسے لوگوں کو ، مطلب یہ ہے کہ ہم تجھے خبر دے رہے ہیں کہ ایسے لوگ ان لوگوں پر ایک ایسی حالت آئے گی وَلَوْ تَرَى إِذْ وَقِفُوا یعنی مخاطب کا صیغہ ہے مگر مراد یہ نہیں کہ اُس وقت رسول کریم ﷺ یا مومن دیکھ رہا ہو گا مراد یہ ہے کہ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ خدا تمہیں پہلے ہی آگاہ نہیں فرما چکا ان لوگوں کی ایسی حالت سے جو ان پر آنے والی ہے اِذْ وَقِفُوا عَلَى النَّارِ کہ جب یہ آگ کے سامنے پیش کیے جائیں گے فَقَالُوا يُلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِايْتِ رَبَّنَا - کاش ایسا ہو کہ ہمیں لوٹا دیا جائے اور ہم پھر ہرگز خدا تعالیٰ کی آیات کا اپنے رب کی آیات کا انکار نہیں کریں گے.وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اور یقیناً مومنین میں سے ہوں گے.فرمایا: بَلْ بَدَ الهُمْ مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ اس سے پہلے اپنی جو حالتیں وہ چھپائے ہوئے تھے.وہ اب اُن کے لیے ظاہر کر دی گئی ہیں.مراد یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مومن ہی شمار کر رہے ہوتے تھے ، اپنے آپ کو ایمان والوں میں گنا کرتے تھے.آج پر دے اُٹھنے کا وقت آیا ہے.پس دو قسم کے پردے ہیں ایک استغفار کا پردہ ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور وہ ستاری کی چادر میں لپیٹتا ہے ایک خواب غفلت کا پردہ ہے جو انسان اپنے ارد گرد لپیٹ لیتا ہے اور خود اپنے حال سے پھر بے خبر ہو جاتا ہے.فرمایا آج وہ پر دے اٹھنے کا دن آیا ہے، آج تمہاری اصلی حالت تمہیں دکھائی گئی ہے اور معافی کا سوال اس لیے نہیں وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ خدا جانتا ہے کہ اگر ان کو آج بھی لوٹا دیا جائے تو بالکل وہی باتیں پھر دوبارہ کریں گے جو پہلے کرتے آئے ہیں.اتنے پکے ہو چکے ہیں اپنی کج روی میں کہ اس راہ کو اب وہ چھوڑ نہیں ست و إِنَّهُمْ لَكُذِبُونَ جھوٹ بول رہیں ہیں.پس اس لیے وہ جو آخری صبح ہے وہ بھی طلوع ہوتی ہے اور کچھ لوگ اُس وقت بھی استغفار

Page 329

خطبات طاہر جلدے 324 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۸ء کرتے ہیں.یعنی وہ صبح جو موت کی صبح ہے جب ایک نئی زندگی طلوع کرنے والی ہوتی ہے انسان پر.اُس وقت بھی انسان کی توجہ استغفار کی طرف مائل ہوتی ہے بلکہ اُس وقت تو بڑے سے بڑے گناہ گار کی توجہ بھی استغفار کی طرف مائل ہو جاتی ہے.فرعون ایک بہت ہی بڑا گناہ گار تھا جو گناہ گاری میں ایک مثال بن گیا ہے ہمیشہ کے لیے اور گناہ گاری بھی ایسی جس میں بغاوت اور ضد اور تعصب ، ظلم اور جبر اور سب باتیں پائی جاتی تھیں.آنکھیں کھول کر خدا سے ٹکر لینے والا یہ دعوے کرنے والا کہ ہوتا کون ہے خدا میں بھی ایک اونچی عمارت بنا کر دیکھوں گا تو سہی کہ وہ کہاں ہے اور کس قسم کی چیز ہے.ایسی باتیں کرنے والا جب موت کو اپنے سامنے دیکھتا ہے تو اُس وقت کہتا ہے کہ میں آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أَمَنَتْ بِهِ بَنُو ا اِسراءیل (یونس:۹۲) میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں یا جن پر بنی اسرائیل ایمان لے آئے اس کی ذات پر ایمان لاتا ہوں.اس کا جواب ہے آنٹی اب کون سا وقت ہے.پس بِالْأَسْحَارِ هُمُ يَسْتَغْفِرُونَ کا ایک مضمون یہ بھی ہے کہ پھر وہ لوگ جو ساری زندگی ایسی صبحوں سے ناواقف بسر کرتے ہیں جن میں استغفار کی طرف توجہ پیدا ہوا کرتی ہے وہ بھی اس مضمون سے باہر نہیں رہتے.چنانچہ ایک صبح اُن پر ایسی طلوع ہوتی ہے جو ان کی موت کی صبح ہے اور اُن کو ایک نئے جہان میں داخل کرنے والی صبح ہے.اُس وقت بڑے سے بڑے گناہ گار بھی استغفار پر مجبور ہو جایا کرتا ہے لیکن چونکہ پہلی صفات سے وہ عاری ہیں.اس لیے اُس وقت ان کو استغفار کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.پس استغفار میں ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ ہمیں اُس صبح سے پہلے استغفار کی صجیں نصیب کر جن صبحوں میں استغفار کے معنے ہیں، جن صبحوں میں استغفار قبول ہوا کرتے ہیں اور ہمارے وجود سے متعلق نئی سے نئی شناسائی عطا فرما تا.اپنی کمزوریوں پر خود ہماری نگاہیں زیادہ بار یک بینی کے ساتھ پڑنی شروع ہوں جو کمزوریاں غیروں کو نظر نہیں آتی وہ ہمیں دکھائی دینے لگیں.یہاں تک کے ہر روز ہم نئے داغوں کو دور کرنے کے لیے تیرے حضور آنسو بہائیں نئی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے تجھ سے مدد مانگیں اور تجھ سے طاقت طلب کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے یہ رمضان ہمارے لیے استغفار کی نئی میں لے کر آئے اور دائمی صبحیں ہمارے لیے چھوڑ جائے.آمین.

Page 330

خطبات طاہر جلدے 325 خطبه جمعه ۳ ارمئی ۱۹۸۸ء جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کے آخری رمضان کے آخری ایام خصوصی دعاؤں اور دکھی انسانیت کی خدمت میں گزاریں ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ مئی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت تلاوت کی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَيْكَ الَّذِيْنَ هَدبُهُمُ الله وَ أُولَيكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ ) ( الزمر : ١٩) پھر فرمایا: یہ آیت کریمہ سورۃ الزمر کی 19 ویں آیت ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس سورۃ کے شروع میں قرآن کریم میں راتوں کو اُٹھ کر عبادت کرنے والوں کا خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے اور بار بار مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (الاعراف: ۳۰) کا ذکر فرمایا ہے.وہ راتوں کو اُٹھ کر عبادت کرنے والے جو اپنے دین کو خدا کی خاطر خالص کر لیتے ہیں.اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا سلوک فرماتا ہے.پھر اُس کے بعد قرآن کریم ان عبادت کرنے والوں کی بعض صفات بیان فرماتا ہے تا کہ اُن میں اور کھوکھلی اور سطحی عبادت کرنے والوں میں فرق ظاہر ہو جائے کیونکہ بسا اوقات راتوں کو اُٹھ کر عبادت کرنے والے ایسے طبقات سے، ایسے گروہوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں جن کی عبادتیں اُن کی روح میں جذب ہو کر ان میں کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں کرتی.چنانچہ قرآن کریم نے ایسے ہی گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے ،ایسے عبادت کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ

Page 331

خطبات طاہر جلدے 326 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ) ( الماعون : ۵-۶) ایسے نمازیوں پر ہلاکت ہے، ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے کہ جو نمازی تو ہیں مگر نمازوں سے غافل ہیں.یعنی نمازیں جو نیک اثر پیدا کرتی ہیں اُن اثرات سے محروم ہیں یعنی نمازوں کا حق ادا کرنے سے غافل ہیں.چنانچہ ایک ایسی تعریف بھی ایسے نیک بندوں کی کی گئی جن کی عبادتیں خدا کے ہاں مقبول ہوتی ہیں ، جو اپنا نیک اثر دکھاتی ہیں کہ بچے عبادت کرنے والے اور فرضی عبادت کرنے والوں کے درمیان یہ ایک نمایاں تفریق کرنے والی علامت بن جاتی ہے.فرمایا :.الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَيكَ الَّذِينَ هَاهُمُ اللهُ وَأُولَيكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ.یہ وہ لوگ ہیں جو جب بھی کوئی بات سنتے ہیں توجہ سے سنتے ہیں اور پھر اُس میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں.أُولَيكَ الَّذِينَ هَدهُمُ اللهُ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا ہدایت عطا فرماتا ہے.وَ اُولَيكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ اور یہی صاحب عقل لوگ ہیں.اس میں يَسْتَمِعُونَ القَولَ کو ہم عام معنوں میں بھی لے سکتے ہیں اور مخصوص معنوں میں بھی لے سکتے ہیں.یعنی ایسے لوگ عادتاً، مزاجاً جو بھی اُن سے بات کہی جائے قطع نظر اس کے کہ بات کہنے والا کون ہے.اس بات پر غور کرتے ہیں اور سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کہنے والے نے کیا کہا ہے.محض کسی شخص کے بائیکاٹ کے نتیجے میں کسی شخص سے نفرت کے نتیجے میں وہ اُس کی بات سننے سے انکار نہیں کرتے.وہ اچھی باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں.چنانچہ فرمایا قطع نظر اس کے کہ بات کہنے والا کون ہے.اُس کا ذکر بھی قرآن کریم نہیں فرماتا.فرماتا ہے:.يَسْتَمِعُونَ الْقَول ان کی عادت ہے کہ جب باتیں بیان کی جاتی ہیں تو وہ سنتے ہیں.پھر فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ جو بُری باتیں ہیں اُن کو رد کر دیتے ہیں اُن سے اعراض کرتے ہیں اور جو اچھی بات اُن کو ہاتھ آجائے اسے اختیار کر لیتے ہیں.جیسے ریت کو چھاننے والے سونا نکالتے ہیں.بظاہر زیادہ وقت اُن کا ریت کے اوپر صرف ہورہا ہوتا ہے جس کو وہ الگ کرتے ہیں کیونکہ سونے کے مقابل پر وہ ہزاروں گنا زیادہ وزن رکھتی ہے اور بڑی محنت اُن کی ریت پر ہی صرف ہو رہی دکھائی دیتی ہے.لیکن اُس کے نتیجے میں جو تھوڑا سا سونا اُن کے ہاتھ میں آتا ہے.وہ اُن کی محنت کا کافی سے زیادہ بدلہ بن جاتا ہے.تو فرمایا وہ ہر قسم کی بات سُن لیتے ہیں اور پھر تلاش میں رہتے ہیں کہ اس میں سے اچھی

Page 332

خطبات طاہر جلدے 327 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء بات کون سی ہے اور پھر اُس کو سُن کے اُس کی پیروی کرتے ہیں.یہ تو عام معنوں میں اُن کی تعریف ہے اور اس کی تائید میں آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث ملتی ہے.الحكمة ضالة المومن ( ترندى كتاب العلم حدیث نمبر : ۲۶۱) حکمت کی بات مومن کی اپنی گم شدہ چیز ہے.جہاں سے بھی ، جس طرف سے بھی جس شخص سے بھی وہ حکمت کی بات پاتا ہے اُسے اس طرح قبول کرتا ہے جیسے اُس کی اپنی ہی چیز تھی جو کھوئی گئی تھی.ضآلة گئی ہوئی اونٹنی یا اسی قسم کے اور جانور کو بھی کہتے ہیں جو بچھڑ جاتی ہے گم ہو جاتی ہے، صحرا میں.اُسے تلاش کرنے کے بعد جیسی خوشی ہوتی ہے.اس طرح مومن کو ہر اچھی چیز پالینے سے خوشی ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری ہی چیز تھی اور مجھے مل گئی.اسی طرح یہ خدا کے مومن بندے ہر طرف سے اچھی باتوں کو قبول کرنے کے لیے مستعد رہتے ہیں.پھر دوسرے معنی خصوصیت رکھتے ہیں اور ان کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اقوال یا انبیاء کے اقوال یا اللہ کے کلام سے ہے.وہ لوگ جو خدا سے باتیں سُن کر آگے بیان کرتے ہیں یعنی مذہبی امور ، نیکی کے امور بیان کرتے ہیں.وہ سارے اس آیت کی ذیل میں خصوصیت کے ساتھ آجاتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ وہ تو ہمیشہ اچھی باتیں ہی کرتے ہیں.پھر یہ کیوں کہا گیا کہ خدا کے مومن بندے اُن کی باتیں سنتے ہیں فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ اُن میں سے پھر وہ اچھی باتیں چن لیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہاں احسن کا لفظ افضلیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس خصوصیت کے ساتھ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جب وہ اچھی باتیں سنتے ہیں تو اچھی باتوں میں سے بھی ادنیٰ درجے کی اچھی باتیں قبول نہیں کرتے بلکہ اعلیٰ درجے کی اچھی باتیں قبول کرتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ پر و تعلیم نازل فرمائی گئی وہ مختلف طبقات کوملحوظ رکھتے ہوئے مختلف انسانوں کی طاقتوں کوملحوظ رکھتے ہوئے ادنیٰ درجے کی بھی ہے یعنی نسبتا ادنی درجے کی ، اپنے سے جب مقابلہ کیا جائے تو اُس کے مقابل پر ادنیٰ درجے کی اور نسبتاً اعلیٰ درجے کی بھی ہے.کم سے کم فرائض بھی ہیں جن کو آپ ادا کر دیں تو دین کا ابتدائی حق ادا ہو جاتا ہے اور پھر زیادہ سے زیادہ کی تو حد کوئی دکھائی نہیں دیتی.ہر انسان کی اپنی توفیق کے مطابق اُس کے احسن کا ایک معیار بنتا چلا جاتا ہے.جو انبیاء کا احسن ہے اُس تک تو عام بندے کی رسائی بھی نہیں ہوتی ، اُس کی نظر بھی نہیں پہنچتی اور جو حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کا احسن ہے اُس تک پہنچنے کے لیے کامل غلامی کی ضرورت ہے، حضرت مسیح موعود کی آنکھ کی ضرورت ہے، ایک عاشق کامل کی

Page 333

خطبات طاہر جلدے 328 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء ضرورت ہے.اُس کے واسطے سے اُس کے ذریعے سے آپ کو اُس کی خبر مل سکتی ہے مگر اُس کی کیفیت کا اندازہ کوئی عام انسان نہیں کر سکتا.اس لیے احسن کا مضمون یہاں بالکل اور معنی اختیار کر جائے گا.مراد یہ ہے کہ پھر جب وہ اچھی باتیں سنتے ہیں تو اُن میں سے اپنی توفیق کے مطابق جو بہتر سے بہتر بات اختیار کر سکتے ہیں، وہ اُس کو اختیار کرتے ہیں.اور ادنی پر راضی نہیں ہوتے اور اگر ادنی پر کوئی راضی ہو بھی جائے تو اُس پر حرف نہیں آسکتا.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں آپ کے حضور ایک بدو حاضر ہوا اور اُس نے آکے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتائیے کہ کم سے کم اسلام کیا ہے؟ اُس سے کم ہو نہیں سکتا وہ ضروری ہے.آپ نے کم سے کم اسلام بتایا.اُس نے کہا بس میرے لیے یہی کافی ہے.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تمہیں خطرہ کوئی نہیں پھر.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر (۱۲) اگر کم سے کم بھی کر لو تمہیں خطرہ کوئی نہیں ہے.لیکن جو حضور اکرم ﷺ کے بچے عشاق تھے وہ درجہ بدرجہ احسن سے احسن کی تلاش میں رہتے تھے.اپنی اپنی حیثیت، اپنی اپنی توفیق کے مطابق وہ بلند تر نظریں رکھتے تھے اور آنحضور ﷺ کی پیروی میں حتی المقدور کوشش کرتے تھے.اس لیے یہاں اس کا مطلب یہ ہوا.الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ که وہ جب خدا کے پاک بندوں کی باتیں سُنتے ہیں یا خدا کا کلام اُس کے بندوں کے ذریعہ سُنتے ہیں.تو اُس میں سے بھی وہ بہترین کی تلاش کرتے ہیں اول الَّذِينَ هَا هُمُ الله یہ وہ لوگ ہیں جن کی ہدایت اللہ پر فرض ہے.خدا نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اُن کو ضرور ہدایت دے گا وَ أُولَيكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک صاحب عقل لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ بے انتہا احسان ہے کہ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو جماعت عطا فرمائی.اُس پر یہ آیت چسپاں ہوتی ہے اور بعینہ صادق آتی ہے اور اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کرنے والوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والوں میں ایک تفریق کر کے دکھاتی ہے.چنانچہ آپ آفاقی نظر سے عالم اسلام میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کو دیکھیں تو یہ نہایت ہی دردناک حقیقت آپ کے سامنے آئے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو چھوڑ کر باقی مسلمانوں میں دن بدن بد قسمتی سے یہ رحجان پیدا ہوتا چلا جارہا ہے کہ جب اُن کو بُری باتوں کی طرف بلایا جائے تو وہ لبیک کہتے ہیں اور دوڑ کر آگے آتے ہیں اور جب

Page 334

خطبات طاہر جلدے 329 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء اچھی باتوں کی طرف بلایا جائے تو اعراض کرتے ہیں.باوجود اس کے کہ عبادت بھی کرتے ہیں ، باوجود اس کے کہ اُن میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی راتیں عبادت کی وجہ سے آباد دکھائی دیتی ہیں اور مسجد میں بھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں لیکن بدنصیبی سے اسلام کی بہترین تعلیم پر عمل کرنے سے قاصر ہیں.چنانچہ سارے عالم اسلام میں جو فساد دکھائی دے رہا ہے اُس کی وجہ یہی ہے.بدنصیبی سے اُن کے علماء جب اُن کو فساد کی طرف بلاتے ہیں تو وہ دوڑتے ہوئے ، لبیک کہتے ہوئے اُس کی طرف آتے ہیں اور اگر وہ اُن کو نیکی کی طرف بلائیں، معاشرے میں حسن معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کریں ،اُن کے اخلاق کو بلند کرنے کی کوشش کریں تو یہ آواز جس طرف سے بھی اُٹھے بہرے کانوں پر پڑتی ہے اور اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا.یہ وہ مضمون ہے جس کا خاص طور پر ان دنوں پر اطلاق ہو رہا ہے.اس لیے میں نے اس کو خصوصیت سے چنا ہے.پچھلے دنوں میں نے کچھ نیک تحریکات جماعت کے سامنے رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر طرف سے ایسا خوبصورت عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوا کہ اُس سے نظر خیرہ ہو جاتی ہے.جمعہ کی تحریک کی تو ساری دنیا میں ہر طرف سے خطوط ایسے ملنے شروع ہوئے کہ اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی لوگوں نے حیرت انگیز قربانی کے مظاہرے بھی کیے اور بعض لوگوں نے تو نوکریاں چھوڑ دیں.ایسی نوکریوں کو الوداع کہہ دیا جن کے نتیجے میں جمعہ سے محرومی ہوتی تھی اور پھر اللہ تعالی نے بھی ایسے لوگوں سے بہت ہی پیار اور محبت کا سلوک فرمایا.ابھی کچھ عرصہ پہلے ایسے ہی ایک دوست کا خط آیا جرمنی سے کہ میں نے اپنے باس (Boss) سے جو بھی اُس کا آفیسر تھا اُس سے میں نے کہا دیکھو ہمیں تحریک ہے اوّل تو خدا کا حکم پہلے سے تھا لیکن غفلت تھی اس طرف سے لیکن اب ہمیں یاد دہانی کروائی گئی ہے اور اب اس کے بعد مجھے جمعہ پڑھنا ضروری ہے.اس لیے آپ مجھے اجازت دیں.اُس نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کوئی اجازت نہیں دی جاسکتی.اُس نے کہا پھر یہ آخری دن ہے میرا، آج کے بعد رخصت ہے.وہ لکھتا ہے کہ میرے پاس اور کوئی کام نہیں تھا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ میں خدا کی خاطر کر رہا ہوں اللہ تعالی خود میرا نگران ہوگا اور میرا والی ہو گا.چنانچہ وہ کام چھوڑ کر گھر گیا ہے دوسرے دن اُس سے بہت بہتر کام کی اُس کو آفر ملی یا اُس نے پہلے درخواست دی ہوئی تھی تو اُس کی وجہ سے جواب آیا تنخواہ میں زیادہ اور پہلی شرط انہوں

Page 335

خطبات طاہر جلدے 330 خطبه جمعه ۱۳ مئی ۱۹۸۸ء نے یہ منظور کی کہ جمعہ کو رخصت ہوا کرے گی.تو اللہ تعالی خودکفیل بن جاتا ہے ایسے لوگوں کا لیکن اس نقطہ نگاہ سے میں اس وقت یہ ذکر نہیں کر رہا.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اللہ کے فضل سے ایک ایسی جماعت ہے جس کو جب بھی نیکی کی طرف بلایا گیا ہے اس نے احسن کی تلاش کی ہے اور بہترین نمونے دکھانے کی کوشش کی ہے.ان میں کمزور بھی ہیں جو نسبتا ادنی پر بھی راضی ہوئے لیکن نیکی کی اپیل کے جواب میں خاموشی اور بے پروائی کا نمونہ جماعت نہیں دکھاتی.ابھی حال ہی میں اس رمضان کے شروع میں میں نے تحریک کی تھی کہ مغربی دنیا میں بدنصیبی سے روزوں کی طرف رحجان کم ہے اور احمدی بچوں میں تو آہستہ آہستہ یہ غفلت زیادہ بڑھتی جارہی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ ہمارے لیے ضروری نہیں.اگر عمر کے لحاظ سے ضروری نہ بھی ہو تو اگر اس عمر میں روزے نہ رکھنے شروع کرے انسان تو پھر بعد میں تو پھر اُس کی عادت ہی نہیں پڑتی.چنانچہ اس مضمون پر میں نے سمجھا کر بات کی اور میں حیران رہ گیا دیکھ کر کہ میری توقع سے بڑھ کر ہر طرف سے اس آواز پر لبیک ہوئی.زمین کے کناروں تک جہاں جہاں یہ آواز پہنچی ہے ہر جگہ سے لبیک کی آوازیں آئیں ہیں.ہر جگہ سے نہایت ہی خوبصورت نمونے دیکھنے میں آئے کہ جو لوگ بالکل روزوں سے غافل تھے انہوں نے فوری طور پر روزوں کی طرف توجہ دی اور انگلستان کی جماعت نے بھی نہایت ہی خوبصورت نمونہ دکھایا.ایسے نوجوان جو بالکل غافل تھے ان کو پتا ہی نہیں تھا کہ روزہ ہوتا کیا ہے.بعض اُن میں سے ایسے ہیں جنہوں نے پہلی دفعہ ہی پورا پورا مہینہ روزے رکھے ہیں.بعض جوسرسری کبھی ایک آدھ رکھ لیا کرتے تھے انہوں نے محنت کی اور سکول کے زمانوں میں بھی اور پڑھائی کے امتحان کے دنوں میں بھی انہوں نے روزے رکھے.بچیوں نے بھی، بڑوں نے بھی ، چھوٹوں نے بھی اور بعض ملاقات کے وقت مجھے ایسے بھی دوست ملے جنہوں نے بتایا کہ عمر چالیس سے تجاوز کر گئی لیکن ساری عمر میں صرف ایک روزہ رکھا تھا اور بتایا کہ وجہ یہ تھی کہ پیٹ کی کوئی تکلیف تھی اور ڈاکٹر بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ٹھیک ہے تمہیں تکلیف ہے اور ہمیں بھی وہم تھا کہ جب تکلیف ہے خدا نے اجازت دی ہے تو روزہ رکھنا ہی نہیں ہے.اب جب سنا کہ کوشش کرنی چاہئے خدا کی راہ میں تکلیف اُٹھا کر بھی روزہ رکھنا چاہئے سوائے اس کے کہ بیماری اتنی بڑھ جائے کہ مانع ہو جائے اور وہ تکلیف مالا يطاق جو طاقت سے بڑھ کر تکلیف بن جائے.تو کہتے ہیں میں نے شروع کر

Page 336

خطبات طاہر جلدے 331 خطبه جمعه ۱۳مئی ۱۹۸۸ء دیئے روزے ، اُس وقت تک جب مجھ سے ملاقات ہوئی پورے روزے رکھے تھے.کہتے ہیں کہ تکلیف میں بھی اللہ کے فضل سے کمی آگئی ، خود اعتمادی پیدا ہوگئی اور اب پتا لگا ہے کہ روزہ ہوتا کیا ہے ،اس کے مقاصد کیا ہیں، اس کے فوائد کیا ہیں.جسمانی لحاظ سے بھی بہتر ہوں اور روحانی لحاظ سے بھی بہت بہتر ہوں.میں اُمید رکھتا ہوں کہ باقی دنیا میں بھی انشاء اللہ خدا کے فضل سے انگلستان کی جماعت جیسا ہی نمونہ دکھایا ہوگا.ایسے نوجوانوں کے چہرے پر جب نظر پڑتی تھی مُرجھائے ہوئے ہوتے تھے تو میرا دل خوش ہو جاتا تھا.مجھے اس سے خیال آیا کہ یہ تو موسم موسم اور حال حال کی بات ہوا کرتی ہے.اگر بچہ امتحان کے دنوں میں محنت کر کے کمزور دکھائی دے تو وہ کمزور چہرہ ماں کو زیادہ پیارا لگا کرتا ہے اور اگر پڑھائی میں محنت نہ کر رہا ہو تو اُس کا بھرا ہوا چہرا اُس کو تکلیف دیتا ہے.اس لیے سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جو بھلائی کی بات ہو اُس میں لطف اُٹھائے.چنانچہ مجھے تو ان کے ایسے چہرے جو فاقے کی وجہ سے اور تکلیف کی وجہ سے سنتے ہوئے اور کمزور اور نڈھال دکھائی دیتے تھے بہت ہی پیارے لگتے تھے اور اُن کے لیے دل سے دعا نکلتی تھی.اُس پر میری توجہ حضرت محمد مصطفی مے کے ایک ارشاد کی طرف گئی اور زیادہ بہتر معنوں میں آپ کا یہ ارشاد سمجھ میں آیا.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو روزے دار کے منہ کی بد بو پیاری لگتی ہے.( بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۷۱) جب اس پر گہرائی سے میں نے غور کیا تو اللہ کی محبت سے دل بالکل مغلوب ہو گیا.کیسی پیاری بات ہے کہ خدا اپنے بندے پر ایسی محبت اور احسان کی نظر کرتا ہے کہ اپنی خاطر تکلیف اُٹھانے والے کے منہ کی بدبو بھی پیاری لگتی ہے.آنحضرت ﷺ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے کہ خدا کی محبت کے بڑے گر سکھائے.ایسے رنگ میں اُس کا ذکر فرمایا کہ جب بھی ہم آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر غور کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا عشق دل میں اس طرح بھڑک اُٹھتا ہے جس طرح دودھ پیتے بچے کی بھوک چمک اُٹھتی ہے اپنی ماں کو دیکھ کر اور وہ بلبلاتا ہے اور چیختا ہے اُس کو دودھ کی طلب کے لیے.یہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ ہی کا احسان ہے کہ آپ نے سچے عرفان کے راستے دکھائے ، اللہ تعالیٰ کے عشق کی ایسی ایسی باتیں کیں جو سادہ سادہ چھوٹی چھوٹی سمجھ آنے والی باتیں ہیں کوئی مشکل اور دقیق نکتے نہیں ہیں مگر ایسی باتیں ہیں جو فطرت میں ڈوبتی ہیں اور فطرت کی گہرائی سے خدا کی محبت کو نکالتی ہیں اور اُچھالتی ہیں اور دل اُس محبت سے اُچھلنے لگتا ہے.پس اللہ

Page 337

خطبات طاہر جلدے 332 خطبه جمعه ۳ ارمئی ۱۹۸۸ء تعالیٰ کا بد بو والے منہ سے پیار کرنا عجیب نکتہ ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ خدا ہم سے محبت کرتا ہے اور اتنی محبت کرتا ہے کہ وہ نظیف ہے، لطیف ہے.لیکن اپنے پیار کی وجہ سے ، اپنی ہی خاطر جو شخص بھوکا رہتا ہے اُس کے منہ کی بد بو بھی اُس کو اچھی لگنے لگتی ہے.اس لیے ان باتوں کو خیال کر کے اپنے بقیہ روزوں کو سجائیں اور آباد کرنے کی کوشش کریں.یہ چند دن جو باقی رہ گئے ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور چمکانے کی کوشش کریں اور یہ سوچیں کہ جس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور قربانی کرنے والوں اور اچھے کام کرنے والوں پر نگاہ رکھتے ہیں تو دل بڑھتا ہے اور خوشی ہوتی ہے.ان روزے کے دنوں میں خدا تعالیٰ کو روزے دار کی ہر ادا پیاری لگ رہی ہوتی ہے.اگر اُس کی خاطر ہواگر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّين ہو.اس لیے اگر اس پہلو سے پیچھے کوئی کمی رہ گئی تو اب جو گنتی کے چند دنوں میں سے بھی چند دن رہ گئے ہیں.ان میں جد و جہد کریں کوشش کریں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لیے اُس کے پیار پر نگاہ کریں اور ایک پیار دوسرے پیار کر پیدا کرتا ہے.اس لیے وہ لوگ جن کے دل بھاری ہوں ، جن کے دل خشک ہوں.اُن کو سمجھانے کی خاطر میں یہ نکتہ بتارہا ہوں کہ اگر اپنے دل سے خدا کی محبت خود بخود نہیں پھوٹ رہی تو اللہ کی محبت پر نگاہ کریں تو پھر اُس کے نتیجے میں آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگی.اس سلسلہ میں چند ایک باتیں خصوصیت کے ساتھ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ جب وہ کیفیتیں دل میں پیدا ہوں جو خالص اللہ کی محبت کے نتیجے میں دل کو نصیب ہوتی ہیں، وہ قبولیت دعا کے وقت ہوتے ہیں.اُس وقت آپ جو دعائیں کریں باقی چند روزوں میں خصوصیت کے ساتھ.اُن میں بعض دعائیں میں نے خصوصیت کے ساتھ اختیار کی ہیں، وہ میں آپ کو یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ ان مضامین کو آپ پیش نظر رکھیں.سب سے پہلی بات توجہ طلب یہ ہے کہ یہ رمضان مبارک جس میں سے ہم اس وقت گزررہے ہیں یہ ایک خاص رمضان ہے، ایک تاریخی نوعیت کا رمضان ہے کیونکہ یہ احمدیت کی پہلی صدی کا آخری رمضان ہے.اس کے بعد اس رمضان اور اگلے رمضان کے درمیان اب کوئی فاصلہ نہیں رہا.ایک صدی کا ایک سرا ہے جو ایک طرف سے ختم ہو گا اور دوسری طرف سے شروع ہوگا اور بیچ

Page 338

خطبات طاہر جلدے 333 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء میں اب کوئی دیوار حائل نہیں ہے.پس اس رمضان کو اس رنگ میں استعمال کرنا کہ ہم اپنی برائیوں کی کینچلیاں پیچھے چھوڑ جائیں اور رمضان کے کانٹے کیونکہ تلخی بھی کانٹے کہلاتی ہے.اُن کی نچلیاں ہم سے نوچ لیں ، ہماری جلدوں سے اُتار لیں اور نئی پاکیزہ زندگی کی جلد پھر نکلے ہمارے جسم میں سے اور اگلی صدی میں ہم نسبتا زیادہ صاف اور پاک ہو کر داخل ہوں.اس رمضان مبارک کو اس رنگ میں بھی استعمال کرنا چاہئے.پھر آج کا جمعہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ جمعتہ الوداع کہلاتا ہے.رمضان رخصت ہو رہا ہے اور آخری جمعہ ہے جو رمضان میں آیا ہے.لیکن احمدیوں کے لحاظ سے تو اس کو ایک عظیم الشان اہمیت حاصل ہے.یہ وہ جمعہ ہے جس کے ساتھ صدی رخصت ہوگی اور یہ اس صدی کا آخری جمعتہ الوداع ہے جو احمدیت کی پہلی صدی ہے.اس لیے اس جمعہ کو بھی ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور میں خدا سے اُمید رکھتا ہوں کہ اس جمعہ کی دعائیں خصوصیت کے ساتھ مقبول ہوں گی.ویسے بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ جمعہ اور سورج کے غروب کے درمیان ایسی گھڑی ہوتی ہے جو خصوصیت کے ساتھ دعا کی مقبولیت کی گھڑی ہے ( ابوداؤ د کتاب الصلوۃ حدیث نمبر: ۸۸۴).اس لیے بعد جمعه غروب تک خدا کے ذکر میں وقت گزارنا چاہئے.تا کہ وہ خوش نصیب گھڑی حاصل ہو جائے جس کے نتیجے میں انسان کے مقدر بدل سکتے ہیں.پھر ایک رات آنے والی ہے آج کی رات جو ستائیسویں کی رات ہوگی.اور یہ ستائیسویں رات بھی رمضان مبارک کے آخری عشرہ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے.ویسے تو آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ رمضان کی لیلۃ القدر کو آخری دس راتوں میں تلاش کرو.لیکن پھر مزید وضاحت یہ فرمائی کہ آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو ( بخاری کتاب الصلوۃ التراویح حدیث نمبر ۱۸۷۷).پھر ایک موقع پر حضرت عمر کی روایت ہے کہ بعض صحابہ نے رویا کے ذریعے ایک ہی خاص رات کو دیکھا کہ اس رات میں لیلۃ القدر ہو گی.تو اُس پر الله آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب اتنے لوگوں کو خدا نے یہ خوشخبری دکھائی ہے تو پھر اسی رات کو لیلتہ القدر ہو گی ( بخاری کتاب الصلوۃ التراویح حدیث نمبر (۱۸۷۶) لیکن اُس کا یہ مطلب نہیں ہمیشہ کے لیے اُسی رات کولیلۃ القدر آکر ٹھہر جانی تھی اور ہمیشہ اُسی رات میں ظاہر ہونی تھی.مراد یہ تھی کہ اُس

Page 339

خطبات طاہر جلدے 334 خطبه جمعه ۳ ارمئی ۱۹۸۸ء رمضان مبارک میں خصوصیت سے ایک آنے والی مقدس رات کے متعلق صحابہ کو اطلاع دی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ستائیسویں رات کولیلۃ القدر کی رات کے طور پر دیکھا اور اُس وقت سے جماعت میں خصوصیت کے ساتھ ستائیسویں رات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے لیلتہ القدر کی تلاش میں.یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہر لیلۃ القدرستائیسویں ہی کو ہو گی.مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ستائیسویں رات کی خوشخبری دی ہے تو بعید نہیں کہ اکثر لیلۃ القدر کے جلوے ستائیسویں کی رات کو ظاہر ہوں.چنانچہ جو ہمارا گزشتہ تجربہ ہے.تجربہ ان معنوں میں کہ زبان خلق جو قادیان میں کہا کرتی تھی.جب بھی رمضان کے آخری عشرے میں ہم داخل ہوا کرتے تھے تو بعض راتوں کے متعلق آپس میں گفتگو ہوا کرتی تھی اور اپنے اپنے تجارب بیان کیے جاتے تھے.تو ان معنوں میں جو ہمارا تجربہ ہے.اُس کی رو سے اکثر راتیں ستائیس کی ہی ہوا کرتی تھیں جن کے متعلق عموماً یہ مشاہدہ تھا کہ وہ لیلتہ القدر سے ملتے جلتے اثرات ظاہر کر گئی ہے.چنانچہ بہت غیر معمولی دنوں میں تحریک پیدا ہوتی تھی دعا کے لیے اور قبولیت دعا کے ساتھ جو قلبی تحریکات کا تعلق ہے قلبی احساسات کا تعلق ہے.وہ ایسی باتیں تو نہیں ہیں جو صحیح معنوں میں بتائی جاسکیں لیکن خلاصۂ انسان یہ ضرور کہہ سکتا ہے کہ آج دل پر ایسی کیفیات گزری تھیں جو عام کیفیات سے مختلف ہیں.جو غیر معمولی درجہ رکھتی تھیں، غیر معمولی مقام رکھتی تھیں.اس پہلو سے بھی اکثر یہ دیکھا گیا کہ ستائیسویں رات کو سب سے زیادہ عبادت کرنے والوں کو لیلتہ القدر کی سی کیفیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا لیکن اس کے علاوہ بھی ہوتا تھا.بعض دفعہ مجھے یاد ہے بڑی کثرت کے ساتھ پچیس کی رات کو یہ تجربات ہوئے بعض دفعہ تئیس کی رات کو تجربات بھی اس قسم کے ہوئے.چنانچہ یہ کہنا کہ ایک ہی رات کے لیے مخصوص ہے لیلۃ القدر یہ تو بہر حال غلط ہے.مختلف راتوں میں یہ خدا تعالیٰ کے جلوے جگہ بدلتے رہتے ہیں اپنے اظہار کے لیے لیکن بالعموم ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ ستائیسویں کی رات اس پہلو سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے.تو یہ ستائیسویں رات بھی اس صدی کی آخری ستائیسویں رات ہے جو آنے والی ہے.اس پہلو سے جو چند دن ہیں اُن کو خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں صرف کریں اور جہاں تک میراحسن ظن ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اس نصیحت پر بھی عمل کیا ہوگا کہ بچوں کو تہجد کی عادت

Page 340

خطبات طاہر جلدے 335 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء ڈالی ہوگی.بعض جگہ تو رپورٹیں ملی ہیں لیکن اس معاملے میں زیادہ رپورٹیں نہیں ملیں.اس لیے میں حسن ظن کا لفظ استعمال کر رہا ہوں.لیکن اگر خدانخواستہ اس پہلو سے کمزوری ہوئی ہے اور صرف آپ بچوں کو سحری کھانے کے لیے جگا رہے ہیں اور نوافل کی عادت نہیں ڈالی تو بقیہ جو دو تین راتیں رہ گئی ہیں ان میں نوافل کی عادت ڈالنے کی بھی کوشش کریں اور یہ بھی بتائیں کہ تہجد صرف رمضان کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ رمضان میں تہجد کے مزے چھک کر وہ بعد میں بھی مہینے میں دو، چار دن ، اگر بچے ہیں تو اور اگر بڑے ہیں تو زیادہ دن تہجد میں با قاعدگی اختیار کرنے کی کوشش کریں.اس خصوصی رمضان مبارک میں ، ان خصوصی ایام میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے جو غیر معمولی ہیں.جو تاریخی ہیں اس لحاظ سے بھی کہ اب اس کے بعد یہ دوبارہ دکھائی نہیں دیں گے اور تاریخ کا حصہ بن جائیں گے.رمضان تو آئے گا ، جمعۃ الوداع بھی آئے گا اور ستائیسویں کی راتیں بھی آئیں گی لیکن احمدی پہلی صدی کی یہ سب چیزیں آخری ہوں گی.اس لحاظ سے یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ بننے والی ہیں تو اس میں خصوصیت سے کوشش کریں.پہلی دعا تو اس بات کی کریں کہ اب اگلی صدی اور ہمارے درمیان میں جو تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا ہے اور کام بہت زیادہ ہیں کرنے والے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے توفیق عطا فرمائے تو وہ کام سرانجام دئے جا سکتے ہیں ورنہ نہیں کیونکہ دن بدن ، جوں جوں اگلی صدی قریب آ رہی ہے میں محسوس کر رہا ہوں کے جو کام ہم نے کرنے تھے، جو یتیں باندھی ہوئی تھیں اُن کے لحاظ سے وقت تھوڑا رہ گیا ہے.سب سے اہم کام قرآن کریم کا ایک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ کرنا ہے اور پھر اُن کی اشاعت.پھر احادیث نبویہ میں سے جو انتخاب ہے اُس کی اشاعت کا کام ہے.پھر حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے تراجم اور اُس کی اشاعت کا کام ہے.جب تک آپ اس قسم کے کاموں میں سے گزرے نہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کتنا مشکل کتنا گہراذمہ داری کا کام ہے اور کتنا پھیلا ہوا ہے.ساری دنیا میں مختلف مقامات پر یہ کام پھیلا ہوا ہے اُس کو سمیٹنا اُس کی نگرانی کرنا ، تراجم کی نگرانی کہ وہ درست ہیں، پھر طباعت کے کاموں میں بہت سے ایسے مراحل آتے ہیں جہاں ٹھوکروں کے امکانات ہیں.آپ جتنی مرضی احتیاطیں کریں، پروف ریڈنگ میں غلطی ہو جائے تو بعض بنیادی غلطیاں ایسی آسکتی ہیں ، ظاہر ہو سکتی ہیں کہ جس میں وہ لوگ جو انتظار کرتے ہیں کہ

Page 341

خطبات طاہر جلدے 336 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء جماعت سے کوئی غلطی ہو تو اعتراضات کا نشانہ بنایا جائے ، اُن کے لیے زبان کھولنے کے موقع پیدا ہو جاتے ہیں.خواہ اللہ کے نزدیک وہ غلطی اس نوعیت کی ہو کہ اُس میں بندے کا قصور نہ ہو، اللہ تعالیٰ عفو کا سلوک فرمائے لیکن بندے تو معاف نہیں کرتے یعنی بعض قسم کے بندے معاف نہیں کرتے.ویسے بھی لطف نہیں رہے گا ، ہمارا اپنا لطف کر کر ا ہو جائے گا اگر اتنی محنت کے بعد ایک تحفہ دنیا کو پیش کریں اور اُس میں بعض بنیادی غلطیاں رہ جائیں.اس لیے باوجود اس کے کہ سب تراجم مکمل ہو چکے ہیں یعنی احادیث تک، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اقتباسات کے تو ابھی ہورہے ہیں.لیکن اُن پر نظر ثانی پھر نظر، تیسری، چوتھی نظر ، پھر پانچویں نظر ، پھر پریس میں اُن کا بھیجنا اور بار بار بلانا منگوانا اور پھر اُن کو موازنہ کرنا اصل کے ساتھ ، پھر یہ دیکھنا کہ پریس نے وہ غلطیاں ٹھیک کروائی بھی ہیں کہ نہیں.یہ تقریباً ایک سو چودہ زبانوں میں کام ہو رہا ہے بلکہ کل کی رپورٹ کے مطابق تو ایک سو چودہ سے بھی آگے نکل گئی ہیں زبانیں ، ایک سوسترہ تقریبا ہیں زبانیں جن میں کام ہو رہا ہے اور اس وقت جو ممالک ہیں جن میں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی ہے اس وقت نہیں کہنا چاہئے گزشتہ سالوں کے جلسہ تک ایک سو چودہ تھے تو اب کچھ مزید ممالک میں بھی احمدیت قائم ہوئی ہے.تو میرے ذہن میں جو بات تھی کہ کم سے کم سوز بانوں میں تو ترجمہ ضرور ہو جو سو سال کی نشاندہی کرتا ہو اور پھر اگر ممکن ہو تو جتنے ممالک میں احمدیت قائم ہو چکی ہے.اُن کے لحاظ سے اتنی ہی زبانوں میں تراجم ہم پیش کر سکیں.تو یہ دونوں باتیں قریب قریب پہنچ چکی ہیں.یعنی ہمارے جس طرح پیاسا پیالے کے پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو بالکل ہاتھ وہاں پیالے کو پکڑنے کے قریب پہنچا ہوتا ہے اُس طرح کی کیفیت ہے.لیکن اس ہاتھ اور اُس پیالے کے درمیان ابھی پتانہیں خدا کی کتنی تقدیریں ہیں کتنی ہماری غلطیاں ہیں جو ٹھو کر پیدا کرسکتی ہیں.اس لیے خصوصیت سے اس پہلو کو دعا میں یاد رکھیں کہ وہ سارے نیک پروگرام جو محض اللہ خالصہ للہ شروع کئے گئے ہیں وہ نیک انجام تک پہنچیں اور کوئی ہماری لغزش اُن کے حسن میں کوئی خرابی پیدا نہ کر سکے، نیک انجام کو پہنچیں اور احسن ہوں جیسا کہ اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے.احسن کی تلاش جہاں بھی ہو سکتی ہے ہمیں کرنی چاہئے اور اس پہلو سے خدا تعالیٰ اگر توفیق دے گا تو ان چیزوں میں کامل حُسن پیدا ہوگا.پھر یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وسائل کو وسیع کرے، ہمارے ذرائع کو وسیع کرے.یہ کام کرنے کے بعد پھر اس کی اشاعت

Page 342

خطبات طاہر جلدے 337 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء کا کام ہے.مناسب لوگوں تک پہنچانے کا کام ہے.اُن کے دلوں پر نیک اثرات مترتب ہونے والا کام ہے.یہ ساری باتیں خدا کے فضل اور اُس کی توفیق کے بغیر حاصل ہو نہیں سکتی.اور بھی بہت سے پروگرام ہیں جن کی تفاصیل میں یہاں جانے کا وقت نہیں ہے.بہت سے پرانے خطبات میں میں نے وقتا فوقتا ان پر روشنی ڈالی ہے اور کئی گھنٹوں کا مضمون ہے کم سے کم کئی گھنٹے کہنا چاہئے.جس میں وہ سارے جو بلی کے کام جو پیش نظر ہیں وہ بیان کئے جاسکتے ہیں.تو ان سب پر نگاہ رکھنا، ان کو نظم وضبط کے ساتھ سرانجام دینا اور ان کے لیے ذرائع کا مہیا ہونا یہ ایسی بات نہیں ہے جو خدا کے فضل کے بغیر حاصل ہو سکے.اس لئے خصوصیت سے ان ساری باتوں میں دعا کریں.اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ سوسالوں کے احسانات کا شکر ادا کرنے کے لیے جو جد و جہد کر رہی ہے.وہ اس حد تک کامیاب ہو کہ خدا کی تحسین کی نظریں اُس جد و جہد پر پڑیں.وہ شکر اگر ناقص بھی ہے تو ناقص تو ہو گا ضرور کیونکہ بندے کا شکر تو کامل نہیں ہو سکتا.تو خدا اُسے قبول فرمالے اصل بات تو یہ ہے کہ اپنی منزل تک وہ شکر پہنچ جائے یعنی خدا کی بارگاہ میں رسائی پا جائے یہ آخری خلاصہ ہے ان دعاؤں کا.اس لیے میں اُمید رکھتا ہوں کہ سب احباب خصوصیت سے ان دعاؤں کو یا درکھیں گے.دوسرا پہلو ہے مسلمان ممالک کے لیے دعا کرنا اور عالم اسلام کے لیے دعا کرنا.میں نے جیسا کے بیان کیا تھا احسن کا مضمون تو در کنار ، بدنصیبی سے بہت سے مسلمان ممالک ہیں جو غلط تحریکات کی پیروی کرنے کے نتیجے میں بڑی مصیبتوں کا شکار ہیں اور بہت سے مسائل نے اُن کو گھیر رکھا ہے، بہت ہی درد ناک مناظر ہیں جو عالم اسلام میں ظاہر ہورہے ہیں.فلسطین میں جو غیروں کے ہاتھوں ظلم ہورہے ہیں.اُن میں تو ایسی بے بسی کا عالم ہے کہ دعا کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں ہے اور نہایت ہی سفاک اور ظالم قوم سے مسلمانوں کا واسطہ ہے لیکن اُس کے علاوہ جو مسلمان خود ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں.وہ ایسی چیز ہے جس کے لیے کوئی ہمارے پاس جواز نہیں ہے اور وہاں بھی جماعت احمدیہ کے پاس طاقت نہیں ہے کہ ان کو پکڑ کر الگ الگ کر سکیں اور ایک دوسرے سے ظلم کرنے سے باز رکھ سکیں سوائے اس کے کہ ہم ان کے لیے دعا کریں.آپ اندازہ کریں کہ ایک لمبا عرصہ ہو چکا ہے کہ عراق اور ایران کے درمیان ایک بے

Page 343

خطبات طاہر جلدے 338 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء مقصد ظالمانہ لڑائی ہو رہی ہے.لکھوکھبا مسلمان دونوں طرف سے مارے گئے ہیں.لکھوکھا عورتیں یا بیوہ ہوئیں یا بچے یتیم ہوئے.بہت ہی زیادہ تکلیف ہے جو کسی طرح کنارے پر پہنچنے کا نام ہی نہیں لے رہی.یعنی بیماری Terminal ہو جائے اگر تو کسی ایک فریق کے اوپر پھر موت کا وقت آجاتا ہے ، معاملہ وہاں ختم ہو جاتا ہے.مگر یہاں تو ایک جاری رہنے والی مستقل ایک زندگی کا حصہ بیماری بنی ہوئی ہے کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ ختم کس طرح ہوگی اور دونوں طرف مسلمان دُکھ اُٹھا رہے ہیں.جب بھی ان کو ایک دوسرے سے لڑائی کی طرف بلایا جاتا ہے.یہ لبیک کہتے ہیں.جب ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ بس کرو یہ انکار کر دیتے ہیں.چنانچہ کئی وفود مسلمان ممالک کے دونوں ممالک کی طرف بھیجے گئے اور مسلمان بھائی تھے اپنے انہوں نے بڑی نیک نیتی سے تحریکیں کیں کہ اب ختم کرو اس قصے کو ، بہت ظلم ہو چکے اب کسی طرح سمجھوتے کی کوئی بات کرو تو دونوں ممالک نے اُس کا انکار کیا اور شرطیں اس قسم کی لگاتے ہیں جو دوسرا ملک قبول نہیں کر سکتا یعنی عملاً انکار کرنے والی بات ہے.تو اب یہ دیکھ لیجئے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا وہ عبادتیں کس کام آئیں گی.جن عبادتوں کے بعد یہ صفت اُن لوگوں میں ظاہر نہ ہو.یعنی عبادت کرنے والوں میں الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ کہ یہ خدا کے نیک بندے جو عبادت کرتے ہیں ان کے اندر یہ خصلت پیدا ہو جاتی ہے اچھی باتیں سنتے ہیں اُس میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں.تو اس قرآن کریم کی اس تعلیم سے عاری ہونے کے نتیجے میں یہ سارا دکھ ہے.پھر پاکستان میں جو ہو رہا ہے اُس کی تو داستان ہی بہت ہی درد ناک ہے، بہت ہی لمبی ہے.اس قدر ظلم ہوا ہے وہاں اسلام کے نام پر کہ ہر برائی قوم میں نافذ کر دی گئی ہے اور نام اسلام کا استعمال ہوا ہے اور ایسا دردناک منظر ہے کہ اب رمضان شریف میں آخری عشرے میں کراچی شہر میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور اس قدر نفرت کے ساتھ ایسے ظالمانہ طریق پہ مار رہا ہے کہ کوئی احساس نہیں رہا باقی کہ ہم کیا کر رہیں ہیں کونسے دن ہیں.اس طرح وہ آخری عشرہ منا رہے ہیں.چنانچہ خبریں اس طرح کی آرہی ہیں اخباروں میں کہ جب روزہ رکھنے سے فارغ ہوئے اور صبح ہوئی تو پھر لاشیں سمیٹنے کے کام شروع ہوئے ، زخمی اکٹھے کر کے ہسپتالوں میں پہنچانے کے کام شروع ہوئے.یعنی رات کو عبادت یہ ہے کہ ایک بھائی دوسرے معصوم بھائی کا قتل کرے اور اتنی زیادہ

Page 344

خطبات طاہر جلدے 339 خطبه جمعه ۳ ارمئی ۱۹۸۸ء نفرت پیدا ہو چکی ہے ایک گروہ کی دوسرے گروہ سے کہ پولیس کے بس کی بات نہیں رہی.کئی علاقوں میں کرفیولگا ہوا ہے اور ظالمانہ چھر اگھوپنے کی داستانیں ،زندہ جلا دینے کے قصے ،گھر بارلوٹنے اور پھر نفرت کے جتنے بھی اظہار انسان کے لیے ممکن ہیں وہ سارے آپ کو کراچی کی گلیوں میں دکھائی دے رہے ہیں.یہ وہ باتیں ہیں جو اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتیں.لیکن مزید تکلیف کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں ان کو اسلام کے مظاہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.ہندوستان کے ٹیلی ویژن ہوں یا جرمنی کے یا فرانس کے یا امریکہ کے یا روس کے یا چین یا جاپان کے وہ سارے ان مظالم کو دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہیں مسلمان ممالک میں یہ ہو رہا ہے.کراچی میں یہ ہو رہا ہے ، عراق میں یہ ہورہا ہے، تہران میں یہ ہو رہا ہے ، لبنان میں یہ ہو رہا ہے.غرضیکہ باری ، باری وہ سارے مناظر پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اسلام ہے.اس قدر خوفناک حالت ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ صاحب دل شدید تکلیف محسوس کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا اور ہو ہی نہیں سکتا کہ اسلام سے محبت ہو اور مسلمانوں کی تکلیف سے انسان بے حس ہو جائے.اس لیے آپ کو اسلام کی محبت کا دعویٰ ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اس دعوی میں سچی ہے.اس لحاظ سے آپ اس دُکھ کو محسوس کریں اور دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ سے رحم مانگیں بخشش طلب کریں اور ان بقیہ ایام اور بقیہ راتوں میں خدا سے عرض کریں کہ جو کچھ ہم پر ظلم ہوتا ہے.اُس میں تیری تقدیر ہماری ہر قدم پہ ، ہر آن ہماری نصرت فرما رہی ہوتی ہے.تو ہماری دیکھ بھال کر رہا ہوتا ہے.ایک نظام جماعت ہے جو ہر وقت اس کام پر مستعد ہے کہ کسی احمدی کو تکلیف پہنچے اور اُسے دور کرنے کی کوشش کی جائے.یہ کروڑ ہا بندے تیرے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.ان کی تکلیف کا کوئی پرسان حال نہیں دنیا میں اور ہمیں بھی اختیار نہیں ہے.ہم کوشش کرتے ہیں تو روک بھی دیا جاتا ہے چنانچہ راولپنڈی ، اسلام آباد میں جماعت احمدیہ نے بے ساختہ فوری طور پر مظلوموں کی مدد کی کوشش کی تو علماء نے شور مچادیا کہ ہرگز انہیں موقع نہیں دینا چاہئے.چنانچہ حکماً ہمیں وہاں سے ہٹا دیا گیا اور خدمت کرنے سے بھی باز رکھا گیا لیکن دعاؤں سے ہمیں کون باز رکھ سکتا ہے.راتوں کو اُٹھ کر جو آپ ان کے لیے گریہ وزاری کر سکتے ہیں اُس میں تو

Page 345

خطبات طاہر جلدے 340 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء دنیا کا کوئی ملا حائل نہیں ہو سکتا.اس لیے وہ اگر آپ نہ کریں تو پھر آپ کے پاس کوئی جواز نہیں ہے.آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں فلاں مولوی نے روک دیا اس لیے ہم نے ان کے لیے دعائیں نہیں کیں اور آپ نے جو کوشش کرنی بھی تھی جس سے آپ کو باز رکھا گیا.تکلیف کے مقابل پر وہ کچھ بھی نہیں تھی ، اس کا بہت ہی معمولی اثر ظاہر ہونا تھا لیکن دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہوں ، اُس سے رحم اور بخشش اور عقل کے طالب ہوں تو پھر خدا کی تقدیر تو ہر جگہ آپ کی نیک تمناؤں کو رحمت کی بارشیں بنا کر برسا سکتی ہے اور آپ کا فیض آسمان کی راہ سے اُن تک پہنچ سکتا ہے.یعنی آپ کی محبت کا فیض ، آپ کی ہمدردی کا ، آپ کی خیر خواہی کا فیض دعاؤں کی شکل میں اُن پر نازل ہوسکتا ہے.اس لیے تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کو دعاؤں کے ذریعہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے اور اسلام کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ جو مناظر ہیں یہ شدید اسلام کی بدنامی کا موجب بن رہے ہیں.اسلام کو ایسی مکر وہ صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے اور اُس کے مقابل پر ہمارے پاس جواب کوئی نہیں بنتا واقعہ یہ کچھ ہورہا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہمیں تکلیف پہنچتی ہے.ہمارے تبلیغ کے کام میں روکیں پیدا ہوتی ہیں اور اسلام کا حسین چہرہ بہت ہی مکر وہ صورت میں دنیا کو دکھایا جاتا ہے اور ہم اس میں کچھ کر نہیں سکتے اس لیے اس معاملے میں دعا کی بہت زیادہ ضرورت ہے.ایک اور نصیحت جو اس ضمن میں پاکستان کے احمدیوں کو ہے سب احمدیوں کے لیے تو اسوقت ممکن نہیں ہو گا لیکن خصوصیت سے کراچی اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے احمدیوں کو یہ نصیحت ہے کہ اپنی عید میں ان مظلوموں کو شامل کرنے کی کوشش کریں.خاص طور پر یتامی اور بیوگان جن کا کوئی والی وارث نہیں رہا.اُن کی یہ بڑی دُکھوں کی عید آنے والی ہے.ابھی یہ غم تازہ ہیں اسی عشرے میں اُن کے عزیز مارے گئے ہیں، ظالمانہ طور پر قتل ہوئے اور بڑے بھیا نک طریق پر مارے گئے.اس لیے اُن کے زخم تازہ ہیں اور اس وقت اُن کو ہمدردی کی ضرورت ہے.میں نہیں جانتا کہ اُن تک کوئی فیض پہنچانے والا موجود بھی ہے کہ نہیں.اپنی نفسانفسی لوگوں کو پڑی ہوئی ہوگی اور جو مجھے علم ہے جس طرح وہاں حکومت کے انتظامات ناکام ہوتے ہیں.تو میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اکثر اُن میں سے محروم ہی رہیں گے بیچارے.تو یہ جماعت کراچی کو، راولپنڈی کو ، اسلام آباد کو انفرادی طور پر ان

Page 346

خطبات طاہر جلدے 341 خطبه جمعه ۳ ارمئی ۱۹۸۸ء غرباء تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس سے تو ان کو دُنیا میں کوئی روک نہیں سکتا اور اگر روکنے کی کوشش بھی کرے گا تو کم سے کم نیک فرض کی ادائیگی کی کوشش بھی تو ایک تسکین کا موجب بن سکتی ہے.آپ کوشش کریں اور اپنی عید میں ان غریبوں کو شامل کریں.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ اس قسم کی تحریک کی تھی اور اُس کے بعد بھی مجھے اطلاع ملتی رہیں ، خصوصیت سے مجھے یاد ہے.پچھلے سال راولپنڈی کی طرف سے بھی اطلاع ملی تھی کہ ہم نے اُس بات کو یا درکھا ہے اور اپنی عید میں غربا ء تک پہنچتے رہے ہیں اور بہت اُس کا لطف اُٹھاتے ہیں.اس لیے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں آپ کو تکلیف نہیں ہوگی بلکہ آپ کو عید کا ایک نیا لطف حاصل ہو گا.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ خدا کے دُکھیا بندوں کے دُکھ دور کرنے میں کتنا لطف ہے اور جو مزے اُس کے ہیں وہی اصل حقیقی عید ہے، وہی دائگی عید ہے.آپ اُن تک پہنچنے کی کوشش کریں آپ کو شروع میں شاید کوفت بھی ہو کہ کیا مشکل میں ڈال دیا اپنے گھر میں مزے سے بیٹھ کر عید کرتے.آپ کہتے ہیں کہ گھر چھوڑ واور غریبوں تک پہنچو اور مظلوموں تک لیکن آپ پہنچو جا کے تو دیکھیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ اتنا لطف آئے گا آپ کو اُس عید کا.دُکھ دور کرنے میں جو آپ کو لذت محسوس ہوگی ایسی ہوگی کہ آپ کی ساری عیدوں کی خوشیاں اُس ایک عید کی خوشی میں برابر نہیں ہوسکیں گی.ہمیشہ آپ لذت سے یاد کیا کریں گے اور پھر خدا کے فضل کی نظریں بھی آپ پر پڑیں گی اُس کی رحمت کی نظریں آپ پر پڑیں گی.اس لیے اُن غریبوں تک پہنچیں لیکن تبلیغ کی نیت سے نہیں.یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ آپ اس نیت کو ساتھ باندھ لیں کہ ساتھ تبلیغ بھی ہو جائیگی.اس طرح آپ اپنے کام کو نقصان پہنچائیں گے.اس وقت مقصد بالکل واضح ہو نا چاہیے کہ تیموں يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةِ أوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ (البلد :۱۲-۱۷) جو قرآن کریم میں نقشہ کھینچا ہے اس میں کوئی اور نیت شامل نہیں ہو سکتی.خالصہ اللہ رضائے باری تعالیٰ کے حصول کے لیے آپ نے صرف غریب کی مظلوم کی اور یتیم کی خدمت کرنے کی کوشش کرنی ہے وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنَا وَ يَتِيما و اسيران (الدھر: 9) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں تو یہ مراد نہیں ہوتی کہ پھر وہ اُن کو اسلام کی دعوت دیں گے یا ہدایت کی طرف بلائیں گے.

Page 347

خطبات طاہر جلدے 342 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء علی حیے دو معنے ہیں اس کے اور بھی کئی معنے ہیں لیکن یہ دو معنے خصوصیت سے ہیں کہ خدا کی محبت کی خاطر اور علی حبہ اس کام کی محبت کی خاطر اپنی ذات میں یہ کام اُن کو اتنا محبوب لگتا ہے اور اتنا پیارا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی جزا اس کام میں جاتی ہے ان کو.پس علی حبہ کا یہ معنی خصوصیت سے پیش نظر رکھیں آپ جب ان کی خدمت کریں گے تو آپ کو وہی ان کی محبت کے نتیجے میں خدمت کی جزاء وہ خدمت ہی نظر آئے گی اور ایسا لطف محسوس ہو گا کہ آپ سمجھیں گے کہ اب اگر خدا زائد جزاء دے دے تو یہ اس کی مرضی ہے ورنہ ہم نے اپنا حق حاصل کر لیا.لیکن میعار کو اور بلند کریں اور حب کا یہ معنی پیش نظر رکھیں کہ خدا کی محبت کی خاطر، اللہ نے فرمایا ہے اس لیے ہم نے یہ کام کرنا ہے.تو پھر اور بھی زیادہ لطف بڑھ جائے گا اور پھر جواب میں جو خدا کی محبت نصیب ہوگی وہ تو نا ختم ہونے والی ہے.بندوں کی محبت میں آپ کام کرتے ہیں مزہ تو آتا ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ لوگ بھول جائیں گے آپ کو، کوئی بعید نہیں کہ Anti-Ahmadia Riots بھی آئندہ ہوں ،مولوی شور مچائیں تو یہی لوگ جن کی آپ نے خدمت کی ہے یہی اُٹھ کھڑے ہوں آپ کو مارنے کے لئے.چنانچہ ۱۹۵۳ء میں ہم نے یہی دیکھا کہ وہ بستیاں جہاں احمدیوں نے لاہور میں خصوصیت سے خدمتیں کیں تھیں.فسادوں کے وقت وہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی تھیں.اُس سے پہلے بھی اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے.تو عَلی حبہ کا مضمون اور بلند کر کے دیکھیں اور بھی زیادہ لطف بڑھ جائے گا اور دائی ہو جائے گا.خدا تو نہیں کھلایا کرتا اپنی خاطر کام کرنے والوں کو ، بندے بُھلا دیا کرتے ہیں.اس لیے اس نیت کو خالص کر لیں مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کا جو مضمون اس صورت میں چلا ہے اُس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس لیے خدمت کریں کہ آپ نے خدا کی محبت حاصل کرنی ہے اور خدا کے پیار کی خاطر یہ کام کرنے ہیں.اسی ضمن میں جہاں جہاں اسیروں تک پہنچا جا سکتا ہے اُن کی بھی دیکھ بھال کی کوشش کرنی چاہئے.بعض ممالک میں تو قانونا پابندیاں ہیں, مجبوریاں ہیں لیکن پھر بھی جو احمدی ہیں جو کوشش کرتے رہتے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ رستے بھی عطا فرما دیتا ہے.چنانچہ یورپ میں امریکہ میں بہت سے احمدی ہیں جنہوں نے رسائی حاصل کر لی ہے.قید خانوں تک اور اُن کے افسران نے اُن کو اجازت دی ہے وہ بعض قیدیوں سے ملتے ہیں اُن کی خدمت کرتے ہیں ، ان سے حسن سلوک کرتے

Page 348

خطبات طاہر جلدے 343 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء الله ہیں.پاکستان میں بہت تعداد ایسے قیدیوں کی ہے جو سخت مظلومی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں.پس علی حبہ کا ایک نیا مضمون اس خدمت میں یہ پیدا کریں کہ اسیران راہ مولیٰ کی خاطر ان قیدیوں پر رحم کریں.یہ بھی علی حبہ ہی ہے کہ خدا کی محبت کی خاطر جن قیدیوں کا دُکھ آپ کو ہے اُن کی خاطر اُس جیسے دُکھوں والوں کے دُکھ دور کرنے کی کوشش کریں.وہ تو چند قیدی جو ہیں اس وقت اُن کے لیے جماعت بھی کوشش کرتی ہے، ہر طرف سے لوگوں کی نظر ہے لیکن بہت سے خدا کے بندے ایسے مظلوم ہیں پاکستان میں جن کو قید میں جھونک کر کھلا دیا گیا ہے کلیے.چنانچہ ہمارے انہیں قیدیوں نے جو راہ مولیٰ میں قید ہوئے انہوں نے جو مجھے خطوط لکھے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے.نہایت ہی دردناک مناظر سامنے آئے ہیں.بعض جیلوں سے پتا چلا کہ بعض ہندوؤں کو بیس بیس سال سے قید میں ڈالا ہوا ہے اور یہ شک اُس وقت پڑا کہ یہ شاید انڈیا کے جاسوس ہیں نہ کوئی مقدمہ نہ اُس کی کوئی دیکھ بھال کسی نے مڑ کر اُن کی خبر نہیں لی کلیہ بھلا دیا گیا.بعض قیدیوں کے متعلق پتا چلا کہ آوارگی میں اُن کا چلان ہوا کسی دوسرے شہر سے آئے تھے اور جب انہوں نے شور مچایا تو ان کو آہستہ آہستہ پاگل قرار دینا شروع کیا، اُن پر مظالم کیے گئے چونکہ مقدمہ کوئی نہیں کوئی اصول نہیں ہے اُس قید کا اس لیے بعض واقعہ پاگل ہو کر بعض کال کوٹھریوں میں زندگی گزار رہے ہیں.ایسے ہی ایک قیدی سے جو بالکل پاگل دکھائی دیتا تھا ایک ہمارے اسیر راہ مولیٰ نے تعلق پیدا کیا، اُس کے پاس پہنچا اور وہ کلمے میں قید ہونے والوں میں سے تھا ایک اور آہستہ آہستہ اُس نے محسوس کیا کہ وہ تو عقل کی باتیں بھی کر رہا ہے.کچھ دیر کے بعد وہ اُس سے کھل گیا اُس نے کہا میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں مجھے تو ان بدبختوں نے پاگل کیا ہوا ہے.اتنے سال ہو گئے ہیں گوجرانوالہ میں میں چل رہا تھا ایک جگہ فلاں جگہ سے میں آیا تھا.مجھے پولیس نے خواہ مخواہ پکڑلیا میں نے بھی آگے سے اکثر دکھائی ہوگی، یہ تو نہیں کہا اُس نے کہ دکھائی مگر میرا یہ اندازہ ہے کہ وہ آگے سے بولا ہوگا تو اُس کو پکڑ کر جیل میں ٹھونس دیا اور چونکہ کوئی باقاعدہ کارروائی نہیں ہوئی اس لیے اُس کو نکالنے کا رستہ کوئی نہیں ہے اور اب اُس کی حالت یہ تھی کہ وہ جیل میں چنیں مارتا اور پاگلوں والی حرکتیں کرتا اور واقعہ حقیقت میں وہ پاگل بھی نہیں تھا.ایسے ایسے دردناک واقعات اور بھی ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ہماری جیلوں میں انتہائی مظالم ہورہے ہیں اور شدید رشوت ستانی بھی چل رہی ہے ساتھ.کسی غریب کی مدد کرنے کے لیے جو

Page 349

خطبات طاہر جلدے 344 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء جیل والے ہیں اُن کو جب تک خوش نہ کریں آپ غریب تک بھی نہیں پہنچ سکتے.اس لیے ان اسیروں کی خدمت کے لیے آپ کو کچھ غیر اسیروں کی بھی ساتھ ساتھ خدمت کرنی پڑے گی.لیکن اللہ برداشت کریں ان باتوں کو تکلیف تو بہت ہوتی ہے کہ ایک اللہ کا بندہ مصیبت میں مبتلا ہے.خدا کی خاطر اُس کے دُکھ دور کرنے کے لیے جارہے ہیں اور راستے میں رشوت کے ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں کہ اس پہ کچھ ڈالو گے تو ہم تمہیں خدمت کرنے دیں گے لیکن خدا کی خاطر جہاں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں وہاں یہ بھی سہی.مگر کوشش بہر حال ہونی چاہئے کہ پاکستان میں جتنے بھی قیدی مظلومیت کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اُن سب تک تو آپ نہیں پہنچ سکتے لیکن کچھ تک ضرور پہنچیں اور محض اللہ پہنچیں اور اُن کی جیلوں کے اندر ان کی عید بنانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان چیزوں کی توفیق عطا فرمائے.یہ دو تین چیزیں خصوصیت کے ساتھ میں نے چھنی تھیں آج کی نصیحت کے لیے.ایک بات تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فطرانے کے متعلق عموماً با ہر غفلت برتی جاتی ہے اور رمضان کا تعلق عطا یعنی غریبوں اور مسکینوں وغیرہ کو خدا کی خاطر کچھ دینے سے بہت گہرا ہے.چنانچہ آنحضرت محمد ہے سارے رمضان مبارک میں کثرت کے ساتھ غرباء پر خرچ کیا کرتے تھے.روایتوں میں آتا ہے کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے آندھی چل پڑی ہے (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر :۱۷۶۹)اس طرح آپ خیرات عام کر دیا کرتے تھے اور خصوصیت سے مسلمانوں کی تربیت کی خاطر ایک چیز صدقۃ الفطر رکھی گئی جس کو ہم فطرانہ کے طور پر جانتے ہیں.یہ ہمارے عرف عام میں آج کل اسے فطرانہ کہا جاتا ہے اس کا نام ہے صدقة الفطر.چنانچہ آنحضرت می تاکید فرمایا کرتے تھے کہ عید سے پہلے صدقۃ الفطر ضرور دینا چاہئے اور یہ صدقۃ الفطر کو ٹال ٹیکس کی طرح کی چیز ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ وسیع.ہر بچے پر بھی صدقۃ الفطر ہے اور آپ نے فرمایا کہ اگر عید کے دن بھی کوئی بچہ پیدا ہو تو اُس کا بھی صدقة الفطر ادا کرو (مسلم کتاب الزکاۃ حدیث نمبر: ۱۸۷۱).یہ بتانے کے لیے کہ مسلمانوں کی تکلیف میں سارے مسلمانوں کا شامل ہونا ضروری ہے اور اس میں غریب بھی شامل ہوتے ہیں امیر بھی شامل ہوتے ہیں.صدقۃ الفطر کی تعریف مختلف رنگ میں کی گئی ہے یعنی کتنا ہونا چاہئے ، کیسا ہونا چاہیے شروع میں تو جو اُس زمانے کے لحاظ سے نصیحت فرمائی گئی وہ یہ تھی کہ ایک صاع ایک پیمانہ ہے اس کے برابر کھجوریں یا بو وغیرہ جو اُس وقت میسر تھیں وہ دے

Page 350

خطبات طاہر جلدے 345 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء دیئے جائیں.بعد میں جب باہر سے اچھی گندم آنا شروع ہوئی تو حضرت عمر کے زمانے میں ایک صاع گندم کی بجائے آدھا صاع گندم مقرر ہوا کیونکہ اُس زمانے میں کھجور کی قیمت کے مقابل پر گندم کی قیمت زیادہ تھی اور آدھا صاع گندم ایک صاع کے برابر تھی.پھر بعد میں فقہاء نے اس سلسلے میں اختلاف شروع کیے اور بعض اس طرف چلے گئے کہ نہیں گندم کے پوری ایک صاع ہی یعنی مسئلے کہ مطابق ایک صاع گندم پوری دینی چاہئے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے صاع کا پیمانہ مقرر فرمایا صلى الله تھا.بعض یہ کہتے تھے کہ نہیں یہ تو حکمت سے کام لینا چاہئے.آنحضور ﷺ نے ایک قیمت مقرر کی ہے اور قیمت کے لحاظ سے خلفیۃ اللہ حضرت عمرہ بہتر سمجھتے تھے منشاء نبوی کو اور آپ نے بالکل درست فرمایا کہ مراد تھی کہ یہ قیمت ہے انداز ا اس کے مطابق ادا کرو.چنانچہ آدھا صاع گندم دینی چاہئے.بعد میں ہمارے زمانے میں احمدی فقہاء علماء نے اپنی طرف سے ایک نسبتاً وسیع رستہ اختیار کیا اور کہا کہ ٹھیک ہے جو ایک صاع گندم کے برابر قیمت دے سکتا ہے وہ ایک صاع گندم کی قیمت دے دے، جو آدھے صاع کے برابر قیمت دے سکتا ہے وہ آدھے صاع کے برابر دے دے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کھجوروں کے اوپر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں تو ایک صاع کھجور کے مقابل پر کئی صاع گندم کے بن جائیں گے اور اگر ایک دفعہ آپ نے اس اصول کو تسلیم کر لیا کہ قیمت مراد ہے تو پھر اس اصول کو جاری رکھنا چاہئے پھر اس اصول کو دو قدم پر جا کر کیوں کھڑا کر دیتے ہیں یعنی حضرت عمرؓ کے زمانے میں کیوں کھڑا کر دیتے ہیں.جس اصول کے پیش نظر حضرت عمر نے پیمانے کو بدلہ ہے.وہ اصول اگر سچا ہے تو ہمیشہ کام کرنا چاہئے.اُس کو اس لیے اگر اُس وقت پیمانہ آدھا ہو گیا تھا تو پیمانہ دوگنا بھی تو ہو سکتا ہے ، چار گنا بھی تو ہو سکتا ہے.اب انگلستان میں بھی آپ ایک صاع گندم کے حساب سے ہی فطرانہ مقرر کرتے ہیں اور وہی مسئلہ آج تک ہماری کتابوں میں چلا آرہا ہے کہ جس نے پورا صاع دینا ہے وہ پورا صاع دے دے جس نے آدھا صاع دینا ہے آدھا صاع دے دے حالانکہ کھجور ایسی چیز ہے جس کو ہم آج بھی پیمانے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں ، بنیادی ایک قدر کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں.یہاں جہاں تک میرا تاثر ہے ایک صاع کھجور میں تو آٹھ دس صاع گندم کے آجا ئیں گے.تو کھجور کی قیمت کیوں نہیں رکھ لیتے ،سیدھی بات ہے چھوڑیں گندم کے قصے کواب.کھجور کی جو قیمت جس ملک میں جتنی بنتی ہے اُسی پیمانے سے کر دیں آپ یا کچھ زائد کر دیں تو کوئی حرج کی بات

Page 351

خطبات طاہر جلدے 346 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۸ء نہیں.مگر ہر شخص پر اس کا اطلاق ہونا چاہئے اور اس ضمن میں بقیہ جو ایام رہ گئے ہیں اپنے بچوں کی یہ تربیت کریں کہ اُن کو رمضان سے یہ سبق بھی سیکھنا چاہئے کہ خدا کی راہ میں کچھ نہ کچھ وہ خرچ کریں.یہ جو عادت ہے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت ہی ایک ایسی پاکیزہ عادت ہے جو ساری زندگی میں انسان کے اندر اس کی نیکیوں کی حفاظت کرتی چلی جاتی ہے اور انہیں بڑھاتی چلی جاتی ہے اور اس سے آگے پھر دوسری نیکیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں.اس لیے اس موقع پر آپ بچوں سے پیسے دلوانے کی کوشش کریں جہاں تک ممکن ہے اپنی طرف سے صرف ادا نہ کریں بچوں کو دے کر اُن سے کہیں کہ غرباء کی ہمدردی میں دیا جا رہا ہے اس لیے تم دو اور سارا مسئلہ اُن کو سمجھائیں کیونکہ یہ ایسا ملک ہے جہاں براہ راست بچوں کو غریبوں کی خدمت کا موقع نہیں ملتا اور یہ جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ سارے ہی کم سے کم اس معیار پر ہیں کہ اُن کو تکلیف محسوس نہیں ہوتی.افریقہ اور دوسرے مشرقی ممالک جہاں بھوک ہے وہ دور ہیں براہ راست اُن تک پہنچ نہیں سکتے لیکن عید کے موقع پر ایک احساس پیدا ہوسکتا ہے کہ ہاں ہم پر فرض ہے ہم نے ضرور غرباء کی خاطر کچھ ادا کرنا ہے.تو اس نکتہ نگاہ سے اپنے فطرانے پر نظر ثانی کریں اور جتنے گھر کے افراد ہیں نوکر ہوں تو تو کر بھی سب شامل ہیں اس میں بلکہ مہمان آیا ہوا ہو تو اُس کی طرف سے بھی فطرانہ دینا ضروری ہے.اگر مہمان نہیں دیتا تو یہ میزبان کا فرض ہے اُس کی میزبانی میں یہ بات داخل ہے کہ اپنے مہمان کا بھی فطرانہ ادا کرے.تو انگلستان میں تو یہ بات فوراً پہنچ جائے گی آپ اس پر عملدرآمد کر سکتے ہیں اور باقی مغربی ممالک میں بھی فون کے ذریعے آج ہی پیغام بھجوا دیں گے انشاء اللہ اور مشرقی ممالک میں عموماً نسبتاً معیار بلند ہے لیکن بہر حال جہاں تک یہ آواز پہنچ سکتی ہے بچوں کی رمضان مبارک میں اس پہلو سے بھی تربیت کیا کریں کہ اُن کے دل میں غریب کی ہمدردی پیدا ہو اور براہ راست قربانی کا جذبہ پیدا ہو اور اُس کا مزہ بھی اُٹھا لیں کچھ نہ کچھ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اس رمضان مبارک کے حقوق ادا کر سکیں اور یہ آخری رمضان جو اس صدی کا ہے اپنے پیچھے ایسی برکتیں چھوڑ جائے جن کا کوئی آخر نہ ہو.آغاز تو ہومگر وہ برکتیں جاری وساری ہوں کبھی ختم نہ ہونے والی ہوں اور اس رمضان کی برکتوں سے خصوصیت کے ساتھ ہم اس قابل ہوسکیں کہ اگلی صدی میں پہلے سے بہتر وجود کے طور پر داخل ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ وہ سارے کام جو ہمارے سپر داگلی صدی کی تیاری میں کیے گئے ہیں اُن کو ہم کما حقہ احسن رنگ میں سرانجام دیں سکیں.آمین.

Page 352

خطبات طاہر جلدے 347 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء بنی نوع انسان کی آزادی احمدیت سے وابستہ ہے فَكُ رَقَبَةٍ کے وسیع مضمون کی تفسیر (خطبه جمعه فرموده ۲۰ مئی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: عید کے خطبہ میں میں نے سورۃ البلد کی آخری چند آیات کی تفسیر میں ایک مضمون بیان کیا تھا جس کا تعلق آزادی کی حقیقت سے تھا، آزادی کے فلسفے سے تھا اور یہ جماعت کے سامنے مضمون رکھا تھا کہ قرآن کریم کے نزدیک حقیقی ایمان کچی آزادی کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا اور وہ لوگ جو خود اپنے نفس کو آزاد کرتے ہیں اور لوگوں کی آزادی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں اُن کو ہی حقیقی ایمان نصیب ہوتا ہے.یہ تو معنی مستنبط ہوتا ہے ان آیات سے اور ایک معنی یہ ہے کہ جو لوگ نہیں کرتے.چنانچہ اُن آیات میں انہی کا ذکر ہے.جو لوگ ایسا نہیں کرتے ، جب تک وہ ایسا نہ کریں اُس وقت تک وہ ایمان کی حلاوت کو چکھ نہیں سکتے ، ایمان اُن کو نصیب نہیں ہوسکتا.ان دوسرے معنوں میں ایمان کا اقرار اول مقام پیش نظر ہے.یعنی وہ لوگ جو ان کاموں کے منافی کام کرتے ہیں ، ان باتوں کے منافی کام کرتے ہیں.جو بجائے لوگوں کو آزاد کرنے کے ان کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو اُن کے حقوق سلب کرتے ہیں، اُن کو خدا کی غلامی سے کھینچ کر بندوں کی غلامی کی طرف گھسیٹ لے جاتے ہیں.ایسے لوگ ایمان سے عاری رہتے ہیں.جب تک یہ کام نہ کریں اُس وقت تک اُن کو ایمان کی ادنیٰ حالت بھی نصیب نہیں ہو سکتی.تو جس قسم کا مفہوم پیش نظر ہو اسی

Page 353

خطبات طاہر جلدے 348 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء کے مطابق اگلی آیت کا ترجمہ کیا جائے گا.چنانچہ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا (البلد : ۱۸) میں دونوں پہلو پیش نظر ہیں.ابتدائی بھی یعنی ایمان کی ابتدائی منازل بھی اور ایمان کی بلند و بالا اور اعلیٰ منازل بھی لیکن اس سلسلے میں کچھ اور باتیں بھی ایسی تھیں جو میں سمجھتا ہوں کہ مضمون بہت اہم ہے جماعت کے سامنے اس خطبے میں رکھ دوں تا کہ یہ مضمون اسی تسلسل میں بیان ہو.جب قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ آزادی، گردنوں کا آزاد کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے.فرمایا یہ گردنوں کا آزاد کرنا بلندی پر چڑھنا یا مشکل راستے پر چڑھنے کے برابر ہے.میں نے اُس کا غالبا یہ ترجمہ کیا تھا گھائی پر چڑھناوہ اس لیے کہ النَّجْدَینِ کا ذکر پہلے ہے دو بلندیاں، دو چوٹیاں،اُن کے درمیان جو سطح مرتفع ہوتی ہے.وہ اُن کے مقابل پر نسبتا کم سطح پر ہے اور اُسے ہم گھائی کہتے ہیں لیکن جب ہم نیچے سے اوپر کی طرف سفر شروع کریں.تو وہ گھائی بھی ایک بلندی ہے اور دو بلندیوں کے قریب تر کا درمیانی راستہ وہ گھائی کا رستہ کہلاتا ہے.چنانچہ الْعَقَبَةَ اصل مطلب مشکل راستہ ہے، کٹھن والا رستہ ہے.خواہ وہ سطح مرتفع کی طرف لے جاتا ہو یا عام زمین کی سطح پر بھی اگر مشکل سے چلا جائے تو اُس کو العقبة کہیں گے کیونکہ العقبة کا مضمون ایڑی سے نکلا ہے.وہ چیز جو ایڑی بوجھ ڈالتی ہے وہ عقبہ والا رستہ ہے.بہر حال اس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں یہ مراد نہیں تھی.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس مضمون میں قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا کہ بلندی کا مشقت کا، بلندیوں کی طرف لے جانے والا راستہ وہ راستہ ہے جو گردنوں کو آزاد کرنے والا راستہ ہے اور گردنوں کو آزاد کرنے والا راستہ کیا ہے؟ غرباء کی خدمت مسکینوں کی خدمت، یتامی کی خدمت ، بے سہارا لوگوں کی خدمت.اس سے ایک یہ تاثر بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ گویا قرآن کریم کے نزدیک آزادی کا مفہوم سوائے اس کے اور کچھ نہیں حالانکہ یہ درست نہیں ہے.اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر یہی بلند ترین مقام ہے جس کی طرف قرآن کریم لے جانا چاہتا ہے تو پھر وہ لوگ جو مفلوک الحال لوگوں کی اقتصادی امداد کرتے ہیں یا غریب قوموں کی اقتصادی بہبود کے لیے کوشاں ہیں.کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ اگر وہ ایسا کریں تو وہ ایمان کے اعلیٰ مقامات کو حاصل کر لیتے ہیں.کیا قرآن کریم بصورت دیگر اشتراکیت ہی کی تعلیم دیتا ہے یا کسی اور رنگ میں غرباء کی خدمت ہی دراصل انسانی معراج کے اعلیٰ مقامات قرار دیتا ہے.یہ وہ پہلو ہے جو تشنہ رہ گیا تھا جو میں

Page 354

خطبات طاہر جلدے 349 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء سمجھتا ہوں کہ جماعت کے سامنے کھول کے بیان کرنا ضروری ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک غربت مسکینی اور یتیمی حالت میں لوگوں کی محتاجی کا تعلق ہے یہ ساری چیزیں بلا شبہ غلامی کی طرف لے جانے والی ہیں.اگر آپ تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ در حقیقت غربت کے نتیجے میں نہ انسان کی عزت رہتی ہے نہ غیرت رہتی ہے.بعض غریب اور مجبور اپنی عزتیں واقعہ بیچتے ہیں اور رزق کی خاطر اور اپنی بقا کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں اور جتنی زیادہ غربت بڑھتی ہے اُتنا ہی دوسرے کی محتاجی بڑھتی چلی جاتی ہے.اسی لیے اس دنیا میں قومی لحاظ سے بھی Third World Countries جو کہلا رہے ہیں وہ اپنی غربت کی وجہ سے آج بھی بڑی اور ترقی یافتہ قوموں کے غلام ہیں اور یہ وہم ہے کہ وہ آزاد ہو چکے ہیں کیونکہ غربت اور آزادی اکٹھے نہیں رہا کرتے عام دنیا کے حالات میں مگر یہ کہنا کہ قرآن کریم بالکل اسی فلسفے کو بیان کر رہا ہے اور قرآن کریم کے نزدیک مذہبی جد و جہد کا نام اس کے سوا کچھ نہیں.مذہبی جد وجہد کا خلاصہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان مفلوک الحال قوموں کی اقتصادی بہتری کے لیے کوشش کرے اور غریب انسانوں کی غربت دور کرنے کی کوشش کرے، ہر گز یہ مراد نہیں ہے.اس لیے میں اس معاملے پر ذرہ تفصیل سے روشنی ڈالوں گا.قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ غربت اور غلامی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.یہ فرمایا ہے کہ گردنوں کو آزاد کرانا بنیادی مقصد ہے اور جب تم گردنوں کو آزاد کرانے کی جد وجہد کرو گے یعنی آزادی کی جد وجہد کرو گے، غربت کے خلاف جد وجہد کا ذکر نہیں فرمایا پہلے.فرمایا گردنوں کو آزاد کرنا یعنی ہر وہ شخص جو کسی بندھن میں جکڑا گیا ہے.اُس کو آزاد کرانے کی کوشش کرنا یہ ہے اعلیٰ ترقیات کی طرف قدم مارنا ہمشکل راہوں پر قدم رکھنا.اس ضمن میں یا درکھو کہ غربت کے نتیجے میں بھی غلامی پیدا ہوتی ہے.یہ ہے مضمون اور اس ضمن میں یاد رکھو کہ مسکین لوگ جو بے سہارا خاک آلودہ سڑکوں پر پڑے ہوتے ہیں وہ بھی ایک قسم کے غلام ہوتے ہیں اگر چہ بظاہر وہ آزاد بھی ہیں کیونکہ اُن کی ساری زندگی اُس مسکینی کی وجہ سے دوسروں کی محتاج ہو جاتی ہے اور اس لیے وہ بھی ایک غلامی ہی کی قسم ہے.پھر فرمایا یتیمی بھی ایک قسم کی غلامی ہے کیونکہ یتیم اور بے سہارا لوگ پھر مجبور ہو جاتے ہیں دوسروں کے سامنے جھکنے پر اور اُن کی مرضی کے تابع کام کرنے پر خواہ دل چاہے یا نہ چاہے.پس

Page 355

خطبات طاہر جلدے 350 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء غلامی کی بعض قسموں کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا ہے غلامی کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ Colonialism کے ذریعے یا Imperialism کے کسی طریق سے قوموں کو غلام بنایا گیا ہو یا فردا فردا کسی کو بیچا گیا ہو تو وہ غلام بنتا ہے.پس قرآن کریم بہت ہی بلند اور بہت ہی وسیع مضمون بیان فرما رہا ہے اور غلامی کی بعض قسموں کی طرف اشارہ کرتا ہے.فی ذاتہ قتصادی حالت کو بہتر بنانا اور دنیا کمانا قرآن کریم کی ان آیات میں پیش نظر ہے ہی نہیں ، وہ مضمون ہی نہیں ہے بلکہ ایک مختلف مضمون بیان ہو رہا ہے.اب آپ دنیا کے فلسفے کو دیکھیں غریبوں کی بھوک مٹانا یا قوموں کو اقتصادی غلامی سے نجات بخشا یا قوموں کی اقتصادی بہبود کے لئے کام کرنا اور پھر قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں اُس کا موازنہ کریں تو تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ قرآنی مضمون کتنا بلند تر اور کتنا وسعت والا مضمون ہے اور دنیا کے فلسفے اور تصورات اُس کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اُن کے اندر ایک اندرونی تضاد پایا جاتا ہے جس تضاد کو یہ قرآنی آیات حل کر رہی ہیں.اب آپ غور سے دیکھئے ،غور کریں دُنیا کے حالات پر تو آپ کو معلوم ہوگا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ غربت دور کرنے کے نام پر جتنی عالمی کوششیں ہو رہی ہیں وہ ساری کوششیں بالآخر ان قوموں کو غلامی میں جکڑ رہی ہیں جن کی غربت دور کی جا رہی ہے.تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ فَكُ رَقَبَةٍ تو اصل مقصود تھا.اگر فَكَ رَقَبَةِ ہی نہ رہے تو پھر غربت دور کرنا بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ غربت دور کرنا فَكُ رَقَبَةٍ کی خاطر ہونا چاہئے.پھر اقتصادی طور پر آپ اشترا کی دُنیا پر نظر ڈال کر دیکھیں.وہاں بھی غربت دور کی گئی ہے ایک فلسفے کے اطلاق کے ذریعے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس غربت دور کرنے کے نتیجے میں ہر فرد کوز نجیریں پہنا دی گئی ہیں اور انفرادی آزادی کا قلع قمع کر دیا گیا ہے.اس لیے اشترا کی نظام خواہ بھوک دور کر رہا ہو وسیع پیمانے پر اور بہت مؤثر ہو اس پہلو سے.اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ مؤثر ہے بھی کہ نہیں کیونکہ اس کے بہت سے پہلو ہیں جو تحقیق طلب ہیں.لیکن فرض کریں کہ اشترا کی نظام اپنے دعاوی میں تمام تر صحیح ثابت ہو اور غربت اور فاقہ کشی اور احتیاج کا قلع قمع کر دے لیکن ساتھ ہی انفرادیت کو بھی ختم کر دے اور انفرادیت کو زنجیریں پہنا دے کیونکہ کمیونزم نام ہی اجتماعیت کا ہے.کمیونزم کا مطلب ہے اشتمالی زندگی، اجتماعی زندگی جس میں فرد کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی.تو

Page 356

خطبات طاہر جلدے 351 خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۸۸ء اُس کے نتیجے میں بھی ایک طرف سے آزادی دی جا رہی ہے، دوسری طرف سے آزادی چھینی جارہی ہے.ترقی یافتہ ممالک میں جو اقتصادی ترقی کے پروگرام ہیں وہ سارے کے سارے اپنے ساتھ اندرونی زنجیریں رکھتے ہیں ساری قوم جکڑی جاتی ہے.اس مالی نظام کے تابع ، جس مالی نظام کے ذریعے یہ ملک کی حالت بہتر بنا رہے ہوتے ہیں اور کئی طرح سے جکڑی جاتی ہے.امیر اور غریب میں تفریق بڑھتی جاتی ہے کبھی کم نہیں ہوتی اور بعض لوگ مزدور طبقہ بن کر نسلاً بعد نسل وہ پھر مزدور طبقہ بنتے چلے جاتے ہیں اور سرمایہ چند ہاتھوں میں اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور سرمایہ حکمران بن جاتا ہے کیونکہ ان تمام ممالک کی سیاست میں ہر جگہ بلا استثنا سرمایہ کام کر رہا ہوتا ہے.کوئی امریکہ کا پریذیڈنٹ ، پریذیڈنٹ نہیں بن سکتا جب تک اُس کے پیچھے سرمایہ نہ ہو.کوئی یورپین ممالک کا باشندہ Parliament کاMember نہیں بن سکتا جب تک اُس کے پیچھے کوئی سرمایہ داری کا ہاتھ نہ ہو اُس کو قوت نہ دے رہا ہو اور بھی تفصیل سے آپ مطالعہ کر کے دیکھیں کہیں ظاہری طور پر کہیں مخفی طور پر کہیں براہ راست کہیں، بالواسطہ سرمایہ کاری حکومت پر قابض ہوتی ہے اور سرمائے کے نتیجے میں جو حکومت بنتی ہے وہ ہمیشہ سرمایہ داری کی حمایت کرتی ہے.اس کے سوا کچھ اور بھی مناظر آپ کو دکھائی دیں گے.عوامی موومنٹس کے ذریعے Leftist حکومتوں کا آنا لیکن اُس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاتا لیکن اُس میں بھی بہت ہی دھو کے ہیں اور بظاہر جن کو آپ سمجھ رہے ہیں کہ Leftist حکومتیں آگئی ہیں اُن کے پیچھے بھی سرمائے ہیں.اگر اندرونی سرمائے نہیں تو بیرونی سرمائے ہیں اور اجتماعی طور پر یہ سارے نظام خود اپنے ملک کے باشندوں کو بھی غلام بناتے ہیں اور Leftist حکومت یعنی بائیں بازو کی حکومت بھی ہو وہ بھی اپنے مزدور کو اپنا غلام بناتی ہے اور اس رنگ میں جکڑتی ہے کہ ایک ہاتھ سے آزادی دے رہی ہے دوسرے ہاتھ سے آزادی چھین رہی ہے.پھر سارا نظام سرمایہ کاری جو Imperialist ممالک میں ملتا ہے یا بونز واممالک کہہ لیں اُن میں ملتا ہے ہر جگہ آپ یہ دیکھ کر اگر آپ کے دل میں احساس ہے تو تکلیف محسوس کریں گے کہ انسان دن بدن Materialism کا غلام بنتا چلا جا رہا ہے محتاج ہوتا چلا جا رہا ہے دن بدن مادے کا اور اُس کے رحجانات غلام بن گئے ہیں.مادہ پرستی اتنا بڑھ جاتی ہے کہ انسانی قدریں اُس کے تابع ہو جاتی ہیں اور یہ رحجان بڑھتے بڑھتے انسانی قدروں کو جکڑ دیتا ہے اور پھر اُن کا خون چوس جاتا ہے.ایک ایسی

Page 357

خطبات طاہر جلدے 352 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء Society وجود میں آتی ہے جس میں انسانی قدروں کا دم گھونٹا گیا ہے اور رفتہ رفتہ ایک غیر مرئی زنجیریں ایسی ہیں جن میں انسان جکڑا جا تا ہے اور اُس کی آزادی تلف ہو جاتی ہے.یہ مضمون بہت تفصیلی اور گہرے مطالعہ کا محتاج ہے.لیکن جہاں جہاں بھی آپ نظر کریں گے آپ محسوس کریں گے کہ حقیقی محض اقتصادی ترقی کا پروگرام انسان کو آزادی نہیں دلا تا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہر جگہ جو موجودہ اقتصادی ترقیات کے پروگرام ہیں وہ انسان کو مزید غلام بناتے چلے جار ہے ہیں.پھر اور بھی کئی قسم کے ایسے خوفناک دھو کے ہیں اس نظام میں جو اقتصادی ترقی ہو رہی ہے اُس کے نتیجے میں False تمنا ئیں یعنی جھوٹی اُمیدیں، جھوٹی تمنائیں پیدا کی جاتی ہیں ، خواہشات پیدا کی جاتی ہیں تا کہ قوم اپنی بعض خواہشات کی غلام بن کر بعض امیر سرمایہ کاروں کی بنائی ہوئی چیزیں خریدنے پر مجبور ہوں.اس وقت یورپ جس طرح Pop_music کا غلام بن گیا ہے یاWest کہنا چاہئے سارا ہی تقریباً.East میں بھی اب اس کے اثرات بڑے نمایاں طور پر ظاہر ہو رہے ہیں.غریب ملکوں میں بھی ظاہر ہورہے ہیں ان کے پیچھے بھی بڑے بھاری Rackets ہیں ، بہت بڑے بڑے سرمائے ہیں جو پہلے عوام کا مزاج خراب کرتے ہیں اور مذاق بدلتے ہیں اور اُس مذاق کو بگاڑ کر وہ چیزیں Market کرتے ہیں جو اس بگڑے ہوئے مذاق کی طلب پورا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں اور اس ضمن میں بھی اب ان کے باشعور لوگ خود محسوس کرنے لگے ہیں کہ ہم دن بدن سرمایہ کاری کی مختلف شکلوں اور صورتوں میں جکڑے جا رہے ہیں اور یہ مختلف شکلیں خواہ کسی پہلو سے ظاہر ہوں بھیانک ہیں اور مکروہ ہیں لیکن بہت حسین نقاب انہوں نے اوڑھے ہوئے ہیں.تو یہ مضمون بہت تفصیلی اور گہرے مطالعہ کا محتاج ہے.آخری نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ اقتصادی ترقی کا پروگرام فی ذاتہ مقصود نہیں ہے.غریب کو امیر بنانافی ذاتہ مقصود نہیں ہے.قرآن کریم کا فلسفہ اس سے بالکل مختلف ہے.قرآن کریم کہتا ہے آزادی ہے بنیادی چیز ، آزادی کے بغیر انسان کو تسکین نصیب نہیں ہو سکتی.وہ کام کرو جس کے نتیجے میں قومیں آزاد ہوں اور نفس آزاد ہوں ، جماعتیں آزاد ہوں اور افراد آزاد ہوں اور اُس آزادی کی جد وجہد میں یا درکھنا کہ غربت بھی غلامی کا ایک ذریعہ ہے.غربت بھی غلامی کی زنجیروں کا ایک نام ہے اور بے سہارا ہونا یہ بھی انسان کے کردار کو بگاڑتا ہے اور دوسرے کا

Page 358

خطبات طاہر جلدے 353 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء محتاج کرتا ہے.اسلام نے جو اس کے خلاف منصوبہ بنایا ہے وہ تین مختلف جہتوں سے تعلق رکھتا ہے.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ جو تین مختلف جہتیں ہیں.اخلاقیات سے بھی اس کا تعلق ہے ،نفسیات سے بھی اس کا تعلق ہے.پہلی چیز جو قرآن کریم پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ محض کسی کا پیٹ بھرنا کافی نہیں ہے اُس کی عزت نفس کے ساتھ اُس کا پیٹ بھرنا ضروری ہے اور اگر عزت نفس مجروح ہوتی ہے تو وہ پیٹ بھرنا ہے معنی ہے اور قرآن کریم کے نزدیک نیکی نہیں رہتی.جس طرح کسی کی ضرورت پوری کر و عزت نفس کے ساتھ ضرورت پوری کرو یہ پہلی شرط لگاتا ہے.دوسری شرط یہ لگاتا ہے کہ اُس کو یہ احساس دلاؤ کہ تم میرے محتاج نہیں ہو.تمہارا رازق خدا تعالیٰ ہے.میں اُس کی مرضی کی خاطر اُس کی رضا کی خاطر یہ کام کر رہا ہوں.اس لیے تم پر میرا کوئی احسان نہیں ہے اور تم کسی پہلو سے بھی میرے تابع نہیں ہو.یہاں تک کہ تم اگر شکریہ ادا کرتے ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جزا اگر تم سے مل گئی میں تو خدا کی جزا کا طالب تھا.اُس جزا پر اس کا بُرا اثر پڑے گا.یہ فلسفہ ہے اس کا بنیادی.چنانچہ جس شخص کی مدد کی جائے اُس کی عزت نفس کو قائم رکھتے ہوئے اُس کی مدد کی جائے.یہ وہ نفسیاتی پہلو ہے جس پر قرآن کریم نے بہت زور دیا ہے کیونکہ غلامی کا آغا ز نفسیاتی غلامی سے شروع ہوتا ہے اور یہ بھی بڑا وسیع مضمون ہے.اس کو آپ دنیا کے جس مضمون کے تعلق میں مطالعہ کریں گے.آپ آخر اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ غلامی کا گہرا تعلق انسان کی نفسیاتی غلامی سے ہے.ایک اندرونی الجھن پہلے پیدا ہوتی ہے پھر انسان غلام بنتا ہے.چنانچہ قرآن کریم جس آزادی کا علمبردار ہے اُس میں نفسیاتی آزادی کو بہت اہمیت دیتا ہے.کوئی شخص نفسیاتی لحاظ سے کسی دوسرے انسان کا غلام اور اُس کے تابع نہ ہو جائے.اطاعت کے خلاف نہیں ہے یہ مضمون ، اطاعت کا مضمون بالکل مختلف ہے.آزاد منش لوگ جن کے نفس کلیۂ آزاد ہوتے ہیں وہ بھی اطاعت کرتے ہیں دوسروں کی.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اطاعت یعنی خدا تعالیٰ کی صرف نہیں بلکہ حاکموں کی بھی ضروری ہے اور وہ آپ کی نفسیاتی آزادی کے خلاف نہیں ہے.حضرت یوسف نے اپنے وقت کے بادشاہ کی اطاعت کی تھی اور یہاں تک سورۃ یوسف سے پتا چلتا ہے کہ اپنے بھائیوں کو اپنے پاس رکھنے کی بھی آپ کو استطاعت نہیں تھی لیکن قانون کو نہیں

Page 359

خطبات طاہر جلدے 354 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء تو ڑا لیکن اُس کے باوجود آپ کا نفس آزاد تھا کسی نفسیاتی الجھن کے آپ شکار نہیں تھے.یہ وہ مضمون ہے جس کو اس پہلو سے سمجھیں گے تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ قرآن کریم جب نفسیاتی آزادی کی بات کرتا ہے تو اُس سے کیا مراد ہے.بہر حال یہ مزید غور طلب باتیں ہیں.اس سلسلے میں لمبی باتیں کرنے کا وقت نہیں اس لیے میں اب دوسرا پہلو بیان کرتا ہوں.دوسرا پہلو اللہ تعالیٰ قناعت پر زور دیتا ہے اور یہ وہ مضمون ہے جس سے دنیا بالکل آشنا ہی نہیں ہے بلکہ سرمایہ کاری کے نظام کے بالکل مخالفانہ پروگرام ہیں.قرآن کریم کی تعلیم سے پتا چلتا ہے کہ انسان کے اندر جو بے پناہ طلب کا جذبہ پایا جاتا ہے.اُس کو قرآن کریم لگا میں پہنا تا ہے،اُسے کنٹرول میں لاتا ہے اور اُس کے ذریعے انسان کو آزادی دلاتا ہے.چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص غریب ہو لیکن قناعت کے ذریعے وہ دوسرے سے آزاد ہو جائے.بسا اوقات ایسے غریب ملتے ہیں جن کی غربت اُن کو مزید غلام بناتی چلی جاتی ہے اپنے حرص و ہوا کے نتیجے میں پہلے وہ نفس کے غلام بنتے ہیں پھر ہر دوسرے کا غلام بن جاتے ہیں.پس غلامی کے فلسفے میں اس بات کو بہت گہرا دخل ہے.جب میں نے کہا کہ اپنے نفس کو آزاد کرو تو اُس سے یہ مراد تھی کہ وہ شخص جو خود حرص و ہوا کا شکار ہے.جس کی طلب کی کوئی حد نہیں ہے وہ دوسرے کو آزاد کروا ہی نہیں سکتا کیونکہ خود بھی وہ دوسروں کا غلام بن جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم قناعت پیدا کرو.اگر تمہیں اپنی مرضی کی چیزیں میسر نہیں تو اپنی مرضی کی شاخ تراشی شروع کر دو اور جہاں تک ممکن ہے اپنی مرضی کو کم کرتے چلے جاؤ اور مستغنی ہوتے چلے جاؤ.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اصل غنی دولت کے ذریعے یا جائیداد کے ذریعے نصیب نہیں ہوتی.اصل غنی غنی النفس ہے.( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر: ۵۹۶۵) یعنی اگر نفس غنی ہو جائے دوسرے لفظوں میں کہیں گے کہ مستغنی ہو جائے تو دولت نصیب ہو جاتی ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے جو واقعہ بیان کیا بڑا دلچسپ ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں.اُس کا اسی مضمون سے تعلق ہے.ایک دفعہ جب مہاراجہ جموں کشمیر کے ہاں کام کیا کرتے تھے یعنی شاہی طبیب تھے سیر کے دوران آپ نے ایک ایسے فقیر کو دیکھا جو ایک لنگوٹے میں رہا کرتا تھا بہت ہی غریبانہ حالت تھی.لیکن اُس دن وہ خوشی سے اُچھل رہا تھا اور بڑے بڑے

Page 360

خطبات طاہر جلدے 355 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء نعرے لگارہا تھا.تو حضرت خلیلہ اسبح الاول اس وقت طاریہ اسی الا ول نہیں تھے حکیم نورالدین تھے انہوں نے پوچھا کہ بابا یہ کیا بات ہے آج تم کیوں اتنا خوش ہو، کیوں اتنا اچھل کو درہے ہو آخر تم نے کیا پالیا ہے.تو اُس نے جواب دیا کہ حکیم صاحب جس کی ساری مرادیں پوری ہو جائیں وہ خوش نہ ہو.کیا وہ خوشی کے ترانے نہ گائے.حضرت حکیم نورالدین صاحب نے پوچھا کہ میں تو تمہیں آج بھی اُسی طرح ایک لنگوٹے میں دیکھ رہا ہوں تمہارے بدن پہ کچھ نہیں ہے، وہی اسی طرح کی حالت ہے جو پہلے تھی اور وہی بُرے غربت کے آثار ہیں.آخر تم نے پا کیا لیا ہے،مراد میں تمہاری کون سی پوری ہوگئی ہیں.اُس نے کہا حکیم جی تسی نہیں سمجھدے جیدی مراد ہی کوئی نہ ہور ہے اوردیاں پوریاں ای پوریاں کہ حکیم صاحب آپ نہیں یہ بات سمجھتے جس کی مراد ہی کوئی نہ رہے اُس کی ساری مراد یں پوری ہو جاتی ہیں.تو قناعت بھی ایک آزادی کا رستہ ہے.اس کا کوئی بھی تصور دنیا کے کسی اور نظام اور فلسفے میں نہیں ہے.قرآن کریم اس کو پیش کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ اس پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس کے مطابق تربیت فرماتے ہیں.صلى الله پس اپنی ضرورتوں کو کم کرو اور کوشش کرو کہ جو کچھ تمہیں نصیب ہے اُسی کے اندر رہو.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جو اقتصادی نظام ہیں دنیا کا وہ اس کے بالکل برعکس کام کرتا ہے.اُس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے، اُس کی بقاء کا راز اس میں ہے کہ طلب کو بڑھاؤ.جتنی آپ طلب بڑھاتے چلے جائیں گے.اُتنا ہی ڈیمانڈ بڑھتی چلی جائے گی.اُتنا ہی آرٹیفیشل اور مصنوعی زندگی کی تمنا بڑھتی چلی جائے گی.چنانچہ افریقہ کے دورے پر جب میں نے یہ باتیں دیکھیں تو اُن کے سر براہوں سے بھی دوسرے دانشوروں سے بھی میں نے خاص طور پر یہ بات پیش کی.میں نے کہا آپ کی نجات تو قرآن کریم کی اس تعلیم میں ہے کہ آپ اپنی طلب کم کریں.آپ غریب ملک ہیں آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ اعلی ٹیلی ویژن کے عیاشی کے پروگرام دیکھیں، مرسیڈیز باہر سے منگوائیں اور اپنی سڑکوں پر اُن کو دوڑائیں.آپ کی غریبانہ حالت آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتی اور آپ اپنی طلب بھی آرٹیفیشلی یعنی مصنوعی طریق پر پوری نہیں کر رہے بلکہ اپنی غریب عوام کی طلب بڑھا رہے ہیں اور یہ زیادہ دیر تک اس طرح نہیں رہے گا سلسلہ.افریقہ بڑا صبر کرنے والا خطہ ہے لیکن صبر کی بھی حدیں ہوتی

Page 361

خطبات طاہر جلدے 356 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء ہیں.جب آپ طلب کو آزاد کر دیں گے تو ایک موقع ایسا آئے گا کہ یہ عوام جو آپ سمجھتے ہیں کہ صبر سے بیٹھے ہوئے ہیں ، خاموش ہیں ان کی طرف سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں یہ اُٹھ کھڑے ہوں گے.افریقہ میں فسادات شروع ہو جائیں گے.چنانچہ اس پہلو سے میں نے بعض جگہ مثالیں دیں سب سے زیادہ متاثر میں گیمبیا کے صدر کی پالیسی سے ہوا ہوں.جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے یہ فیصلہ کر رکھا ہے اور اس فیصلے پر قائم ہیں کہ اپنے عوام کے لیے جب تک بنیادی ضرورتیں پیدا کرنے کی ملک میں کوشش نہ جاری ہو اُن کی طلب آزاد نہیں ہونے دینی.چنانچہ کوئی ٹیلیویژن نہیں ہیں وہاں اور سختی کے ساتھ وہ اس پالیسی پر کار بند ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ٹیلیویژن نہیں بلکہ سارے افریقہ میں سے سب سے کم کاریں وہاں آپ کو نظر آئیں گی.عام غریبانہ زندگی ہے اور اُن کا زور ہے کہ کم سے کم چیزیں باہر سے منگوائی جائیں.باہر کی دنیا عیش کر رہی ہے تو اس لیے کرتی ہے کہ وہ خود اُس عیش کے سامان پیدا کرتی ہے.ہم لوگ تو عیش کے سامان پیدا نہیں کر سکتے اس لیے ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم وہ عیش کریں.یہ وہ Policy ہے اُن کی جو عین قرآنی قناعت کی Policy کے مطابق ہے.اسی وجہ سے آپ یہ دیکھ کے حیران ہوں گے کہ نائیجیر یا با وجود اس کے کہ سینکڑوں گنا زیادہ امیر ہے گیمبیا سے وہاں بے چینی زیادہ ہے اور گیمبیا میں بے چینی کم ہے.نائیجیریا میں کرائم اور جرائم زیادہ ہیں اور گیمبیا میں تقریباً مفقود ہیں یعنی غربت کے باوجود چوری نہیں ہے اور جب بھی کوئی چور پکڑا جاتا ہے پتا لگتا ہے کہ کسی اور ملک کا آیا ہوا ہے.تو قناعت کے مضمون کو اگر آپ سمجھیں تو عظیم الشان فوائد رکھتا ہے بنی نوع انسان کے لیے اور کچی آزادی کا پیغام دیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم پہلے نفسیاتی آزادی کا حکم دیتا ہے، پھر قناعت کا حکم دیتا ہے، پھر اُس کے بعد جو تیسرا حکم ہے قرآن کریم کا آزادی کا پروگرام یہ ہے کہ تم حقوق کی طلب کے بجائے دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کرو اور یہ تیسرا پہلو قوم کے رجحان کا بالکل رُخ بدل دیتا ہے.بہت سی دنیا میں جد وجہد اور بے چینیاں ایسی ہیں کہ ایک انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس نہیں ہے تو وہ دوسرے سے چھینٹے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس رحجان کے نتیجے میں کبھی بھی اعتدال پر قائم نہیں رہتا وہ ہمیشہ اپنے حق سے بڑھ کر دوسرے کا حق چھینے کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے اور جتنی تحریکات ہیں اشترا کی دنیا میں ہوں یا غیر اشترا کی دنیا میں جن میں غریبوں کو ابھارا جاتا ہے وہاں

Page 362

خطبات طاہر جلدے 357 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء اُبھارنے کے لیے بنیادی محرک یہی رہتا ہے کہ اٹھو اور چھین لو.اگر تم مزدور ہو اور سرمایہ کارانہ علاقے میں رہتے ہوتو ہڑتالوں کے ذریعے یا جہاں تک بس چلے توڑ پھوڑ کے ذریعے اپنے مالکوں سے زیادہ سے زیادہ چھینے کی کوشش کرو اور اشترا کی پیغام یہ ہے کہ تم اپنے مالکوں کے سارے نظام کو اکھیڑ پھینکو اور ہر جائیداد پر قبضہ کر لو اور ہر دولت کے ذریعے کو اپنا لویہ تمہاری زندگی اور امن کا پیغام ہے.ان دونوں پیغاموں کے نتیجے میں ایک ایسی بے اطمینانی جنم لیتی ہے، چھینا جھپٹی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ وہ ممالک جواشترا کی ممالک ہیں.اُن میں بھی سب کچھ حاصل ہونے کے باوجو دطلب باقی رہ جاتی ہے اور زبردستی ڈنڈے کے ذریعے اس آزاد کیے ہوئے جن کو دوبارہ بوتل میں کھسیڑنے کی کوشش کی جاتی ہے.چنانچہ اس کے نتیجے میں ایک اور غلامی پیدا ہوتی ہے.جس کے لیے اشترا کی حکومتیں مجبور ہیں.وہ جب بھی اپنے نظام میں نرمی پیدا کریں ذراسی بھی.جس طرح آج کل ہمارے روس کے پریذیڈنٹ گوربا چوف صاحب کوشش کر رہے ہیں.اُس کے نتیجے میں تھوڑی سی بھی وہ کوشش کرتے ہیں اور اچانک لوگوں کی توجہ حقوق کو لینے کی طرف اور پھر حقوق سے بڑھ کر لینے کی طرف شروع ہو جاتی ہے اور اس تضاد میں پھنس کر یہ لوگ بے اختیار ہو جاتے ہیں.آزادی دینا بھی چاہیں تو دے نہیں سکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آزادی دینے کا مطلب یہ ہے کہ حقوق کی تمنا آزاد کرو اور حقوق کی تمنا آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پھر ساری حدیں قوم پھلانگ جائے.یہ تجربے روس کے بعض حصوں میں ابھی سے نہ صرف نا کام ہو چکے ہیں بلکہ خطرات کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور آرمینیا وغیرہ کے علاقے میں جو فسادات ہوئے ہیں حال ہی میں وہ اسی گوربا چوف کی آزادی پالیسی کے نتیجے میں ہوئے ہیں.پس آپ غور کر کے دیکھیں کہ اس قسم کے اقتصادی پروگرام جیسے کہ دنیا کا فلسفہ پیش کرتا ہے محتاج ہیں غلامی کے اور غلامی کے بغیر چل نہیں سکتے.یہ تو میں مجبور ہو جاتی ہیں اپنے ادنی طبقات کو غلام بنانے ، غلام رکھنے پر اور غلامی سے آزادی کے نام پر جو وسیع اشترا کی ممالک وجود میں آئے ہیں.وہ چل نہیں سکتے اگر وہ خود غلامی کی زنجیریں مضبوط نہ کریں اور انہیں ہمیشہ قوم کو پہنائے نہ رکھیں.سیہ وہ غیر اسلامی فلسفہ ہے اس کے مقابل پر قرآنی فلسفہ دیکھیں کہ کتنا عظیم الشان آزادی کا پیغام لاتا ہے.نفس کی آزادی تمناؤں سے ، خواہشات سے اُن کو معتدل کرنا ، عزت نفس کا قیام کرنا

Page 363

خطبات طاہر جلدے 358 خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۸۸ء اور غیر کی طرف غیر کی چیزوں کی طرف لالچ کی نظر نہ ڈالنا بلکہ کوشش یہ کرنا کہ آپ دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں خواہ آپ کو حقوق چھوڑ نے پڑیں.یہ بالکل ایک مختلف رخ ہے جس کا دنیا میں کوئی تصور نہیں ہے.سارا قرآن کریم ایثار کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے وہ یہی تعلم ہے کہ تم یہ کوشش کرو کہ تمہارا حق چاہے رہ جائے لیکن تمہارے بھائی کا حق نہ رہے تمہارے اوپر.اس لیے یہ اسی طرح پورا ہو سکتا ہے کہ تم حق سے زیادہ ادا کرنے کی کوشش کرو.پس جس آزادی کا یہ مضمون بیان ہوا ہے وہ اس قسم کی آزادی ہے جس کے لیے جماعت احمدیہ کو اپنے نفس سے بھی کوشش کرنی ہوگی اور غیروں میں اس آزادی کی تعلیم کو وضاحت کے ساتھ پیش بھی کرنا ہوگا اور جہاں جہاں ممکن ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ جماعتی پروگراموں کے ذریعے بھی غریب قوموں کی آزادی کے لیے جماعت کوشاں ہو گی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس سلسلے میں منصوبے کچھ بن چکے ہیں ، کچھ بن رہے ہیں اور آئندہ میں اُمید رکھتا ہوں کہ اگلے سو سال میں جماعت احمدیہ کو اس پہلو سے عظیم الشان خدمت بنی نوع انسان کی توفیق ملے گی.اس ضمن میں میں آپ کو ایک دفعہ پھر اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ فَتُ رَقَبَةٍ صرف غربت کو دور کرنا نہیں ہے.فَكُ رَقَبَةٍ کا مضمون بہت ہی وسیع ہے اور یہ مضمون کلیة لا اله الا اللہ کے مضمون سے ہم آہنگ ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے.اس لیے یہ مضمون غربت کے معاملے میں بھی دوسرے فلسفوں کے تصور سے بہت زیادہ بالا اور بلند تر ہے لیکن اپنے دائرے میں اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے کہ آپ اسے صرف محدود طور پر غریبوں کی خدمت کے رنگ میں دیکھیں یا غریب قوموں کو اقتصادی غلامی سے آزاد کرنے کے رنگ میں دیکھیں.یہ مضمون ہے انسان کو ہر اس احتیاج سے آزاد کر نے کا مضمون جس میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف اُس کی نظر ہو اس کو کسی اور کا دست نگر ہونا پڑے.چنانچہ قرآن کریم کی تعلیم انسان کو کلیۂ ان باتوں سے آزاد کرتی ہے اور اس کا Morality سے بڑا گہرا تعلق ہے، اس کا اخلاقیات سے بہت گہرا تعلق ہے.کوئی شخص جو اعلیٰ اخلاق پر فائز نہ ہو وہ حقیقت میں آزاد نہیں ہوسکتا اور جو شخص حرص و ہوا کا محتاج ہو گا وہ اُسی حد تک غیر اللہ کی طرف جھکنے پر مجبور ہوگا.یہ وہ وسیع تر مضمون ہے جس کے او پر مزید غور کی ضرورت ہے، مزید فکر کی ضرورت ہے اور روزمرہ اپنے نفوس کا جائزہ لینے کی ضرورت

Page 364

خطبات طاہر جلدے 359 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء ہے.پس اگلی صدی کو ہم لا اله الا اللہ کی تفسیر بنانے کی کوشش کریں گے.یہ ہے وہ مدعا جس کا میں نے عید پر اظہار کا تھا.چنانچہ یہ جو چند غلط فہمیاں اُس مضمون سے پیدا ہوسکتی تھیں وہ میں نے آج دور کرنے کی کوشش کی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ آزادی کے قرآنی مضمون کو اس وسیع تر دائرے میں پیش نظر رکھیں گے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ نہ صرف خود آزاد ہونے کی کوشش کریں گے بلکہ تمام دنیا کو کچی آزادی کا پیغام دینے والے ہوں گے اور میں یہ کامل یقین رکھتا ہوں کہ سارے بنی نوع انسان کی آزادی احمدیت سے وابستہ ہے اور احمدیت پر منحصر ہے.اس لیے آج کی نسلوں کی بہت بھاری ذمہ داری ہے.ہمیں باشعور طور پر آزادی کے علمبردار بن کر اگلی صدی میں داخل ہونا ہے اور یہ پروگرام اگر چہ احمدیت کے ساتھ ہی آغاز پا چکا ہے لیکن اس طرح باشعور طور پر منصوبوں کی شکل میں انگلی صدی میں یہ Unfold ہونے والا ہے.یعنی جس طرح فلم کھلتی ہے اور کہانی منظر پر ابھرتی چلی جاتی ہے.اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ اگلی صدی میں جماعت احمدیہ کی آزادی کے معاملے میں جد وجہد نمایاں نقوش بن کر اُبھرے گی اور دُنیا اس سے زیادہ سے زیادہ متعارف ہوتی چلی جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی کما حقہ تو فیق عطا فرمائے.قرآن کریم میں جو اس ضمن میں مختلف پہلو بیان فرمائے ہیں.اُن سے متعلق یہ کچھ آیات میں نے اکٹھی کی تھیں تا کہ آج اُس پر روشنی ڈالوں گا.لیکن یہ جو وضاحتیں تھیں انہوں نے ہی سارا وقت لے لیا ہے.اس لیے آئندہ بھی مختلف مضامین کے بیان کے وقت میں انشاللہ تعالیٰ ان امور کی یاد دہانی آپ کو کروا تارہوں گا.اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کا جو آزادی کا تصور ہے یعنی غریب کی غربت دور کرنے میں آزادی کا تصور وہ اتنا بلند اور اتنا عظیم الشان ہے کہ اُس کی گنہ کو پانا تو کیا اُس کی جوتیوں کی خاک کو بھی دوسرا کوئی دنیا کا فلسفہ پہنچ نہیں سکتا.عام طور پر یہ میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب آپ کسی کی ضرورت پورا کرتے ہیں تو اُس سے مقابل پر اُس سے احسان کا تصور یا اُس سے احسان کی تمنا نہیں کرتے.یہ ایک نہایت اعلیٰ چیز ہے اور گویا اسلامی تعلیم صرف یہیں تک محدود ہے کہ جب بھی آپ کسی کی خدمت کریں مقابل پر اُس سے کچھ بدلہ نہ چاہیں لیکن یہیں

Page 365

خطبات طاہر جلدے 360 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء بات نہیں ختم ہوتی.اسلام اس معاملے میں ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے اور وہ ایسا قدم ہے جو عقل کو حیران کر دیتا ہے.وہ قدم یہ ہے کہ بعض دفعہ وہاں بھی تمہیں خدمت کرنی پڑے گی جہاں سے تمہیں شدید تکلیف پہنچی ہے ایسے بد باطن لوگوں کی بھی خدمت کرنی پڑے گی تمہیں انسانی آزادی کے نام پر جنہوں نے ظلم کی حد کر دی ہے اور اس پہلو سے انسان کو گویا یہ آزادی ہے کہ وہ تمہیں تکلیف بے شک پہنچائیں لیکن یہ یقین ہونا چاہئے اُن کو کہ قرآن کریم میں جو اُن کے حقوق محفوظ کر دیئے گئے ہیں تم وہ حقوق اُن سے نہیں چھینو گے.یہ وہ عجیب اور بلند تر مضمون ہے جس سے انسان کی نظر چندھیانے لگتی ہے.حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ پر ایک نہایت ہی گندہ اور بھیا نک الزام لگایا گیا.میں اس پہلو سے ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ حضرت ابوبکر کے متعلق آگے بات آنے والی ہے.ویسے تو اُمہات المومنین میں سے تھیں اور یہ کہنا چاہئے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ پر الزام لگایا گیا لیکن جو واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں اُس میں یہی تمہید بہتر ہے.حضرت ابو بکر دل کے بے انتہاء حلیم تھے اور غریبوں کے بہت ہی ہمددرد تھے.اپنے غریب مفلوک الحال رشتہ داروں کی مدد کرنے والے.چنانچہ ایک ایسے رشتہ دار کی بھی آپ مدد کیا کرتے تھے جو ان ظالموں میں شامل تھا جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ پر الزام لگا دیا.اب یہ سفا کی کی حد ہے کہ ایک طرف تم اُس کے محتاج ہو مسلسل کسی شخص کے جو اتنا شفیق ، اتنا مہربان ہے کہ مخفی ہاتھوں کے ساتھ دنیا کو پتا ہی نہیں کہ تمہاری مددہورہی ہے ، وہ تمہاری تکلیفیں دور کرنے میں کوشاں ہے اور جو شخص اُس کی پاکیزہ بیٹی کے اوپر ایک نہایت ہی بھیا نک اور گندہ الزام لگاتے ہیں تم اُن کے اندر شامل ہو جاتے ہو.اس کے نتیجے میں حضرت ابو بکر نے بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا حالانکہ بہت حلیم تھے ، صدیقیت کے مقام پر فائز تھے ، اتنا روشن ضمیر تھا اُس کے باوجود آپ نے سمجھا کہ اب تو حد ہوگئی ہے اب اس کے بعد اس شخص نے خود اپنا استحقاق ختم کر دیا ہے اور ایسے ظالم اور سفاک کی امداد کا کوئی جواز باقی نہیں رہا.قرآنی تعلیم کی عظمت دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے الہاما آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے یہ نصیحت فرمائی اور اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا اور یہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسْكِينَ وَالْمُعْجِرِينَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ *

Page 366

خطبات طاہر جلدے 361 خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۸۸ء وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (النور :۲۳) کہ ہرگز وہ لوگ جن کو خدا نے فضل عطا فرمایا ہے، مالی برتری بخشی ہے اور وسعت عطا کی ہے.ایسی قسمیں نہ کھائیں، ایسے ارادے نہ کریں أَنْ تُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَكِينَ وَالْمُهجِرِينَ فِي سَبِيْلِ اللهِ کہ اللہ کی راہ میں مہاجرین اور اولی القربیٰ اور مساکین کی جو خدمت کیا کرتے تھے.اُس سے وہ ہاتھ روک لیں وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا وہ درگزر کریں اور عفو سے کام لیں اَلَا تُحبون کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تجھ سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اللہ بہت ہی غفور ورحیم ہے.اس میں تین گروہوں کا ذکر فرمایا تو تُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسْكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ.لیکن جہاں تک ہمیں علم ہے وہ ایک ہی شخص تھا وہ ان میں سے کسی ایک گروہ سے تعلق رکھتا تھا اور جہاں تک تاریخ بتاتی ہے وہ اولی القربی میں سے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابو بکر صدیق کی ایک اصلاح فرمائی گئی ایک پہلو سے اور دوسرے پہلو سے اُن کی دلداری بھی فرما دی گئی یہ فرما کر کہ آپ عادتاً اُن اُولی القربی کی بھی خدمت کرتے ہیں، مساکین کی بھی خدمت کرتے ہیں اور وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ ﷺ کی بھی خدمت کرتے ہیں اور آپ کی شان یہ نہیں ہے کہ کسی بھی تکلیف کے نتیجے میں کسی بھی وجہ سے ان خدمتون سے ہاتھ کھینچ لیں.اسی وجہ سے یعنی اس مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے ربوہ میں غرباء کی امداد کی کمیٹی کو یہ ہدایت کی کہ آپ جب فیصلے کرتے ہیں فلاں ضرورت مند ہے.تو اس فیصلے میں امور عامہ سے یہ رپورٹ کیوں لیتے ہیں کہ اُس نے کبھی کوئی جماعت کے خلاف کوئی کام تو نہیں کیا تھا، کبھی اُس نے نظام کی خلاف ورزی تو نہیں کی تھی کیونکہ اگر آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اتنا بھیا نک الزام لگانے والے، اتنا ظلم کرنے والے کے حق کی حفاظت قرآن نے کی تھی تو آج آپ کو کیا حق ہے کہ حقیقی محتاج کی مدد سے اپنے ہاتھ روک لیں اس لیے کہ وہ کسی غلطی کا مرتکب ہے، کسی معاملے میں نظام جماعت سے تعاون نہیں کرتا یا عبادتوں میں کمزوری دکھاتا ہے.یہ دوالگ الگ مضمون ہیں.چنانچہ مذہب سے بھی کلیہ اس مضمون کو قرآن کریم نے آزاد کر دیا ہے.مذہبی اختلاف

Page 367

خطبات طاہر جلدے 362 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء سے بھی کلیۂ آزاد کر دیا ہے بلکہ مذہبی معاملہ میں مخالفت کرنے والوں کے لیے ایسے موقع پر مدد کی تلقین فرمائی گئی ہے.چنانچہ اسی لیے مجھے یاد ہے کہ حضرت مصلح موعود البعض دفعہ شدید معاندین کے متعلق بھی نظر رکھتے تھے کہ اُن کو اگر کوئی ضرورت ہے تو وہ ضرورت پوری کی جائے اور اس ضمن میں مولوی ظفر علی خان صاحب کو جب آخری ایام تھے مری میں تو ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو آپ نے تاکید فرمائی کے باقاعدہ اُن کی عیادت کے لیے جاؤ اُن کا علاج کرو اور اس ضمن میں اُن کے اوپر کوئی مالی بوجھ نہیں پڑنا چاہئے اور یہ اس لیے نہیں تھا کہ نعوذ باللہ کوئی اشتہار بازی کی جائے.حضرت مصلح موعود خود اُن دنوں میں شدید بیمار تھے لیکن اپنے ذاتی ڈا کٹر کو کہا کہ تم اُن کی فکر کرو وہ محتاج ہیں کیونکہ آپ کو یہ اطلاع ملی تھی کہ اس حالت میں وہ بیچارے مفلوک الحالی کی حالت میں وقت گزار رہے ہیں کہ جس قوم نے اُن کو لیڈر بنایا ہوا تھا وہ اُن کو بھول چکی ہے.کوئی بھی خدمت نہیں کر رہا، کوئی اُن کو پوچھ نہیں رہا، کوئی طبیب میسر نہیں ہے.چنانچہ اسلامی تعلیم کی عظمت اس بات میں ہے کہ غریب کے حقوق اور ضرورت مند کے حقوق کو کلیۂ آزادی عطا کی گئی ہے، فَقُ رَقَبَةِ اس کو کہتے ہیں کہ مذہب سے بھی آزادی ہے کلیہ اور ان لوگوں کو یہ بھی حق دے دیا گیا ہے کہ تم بے شک ہماری مخالفت کرو لیکن خدا کہتا ہے کہ ہم نے تمہاری ضرورت کو بغیر غلامی کے پورا کرنا ہے.اس لیے کوئی زنجیر تمہارے اوپر نہیں ہے تم نے جو کچھ کرنا ہے کرتے رہو.ہمیں جو حکم ہے وہ یہی ہے کہ ہم تمہیں اب تمہاری مصیبتوں اور ضرورتوں سے بھی آزاد کروائیں.یہ اعلیٰ درجے کی تعلیم ہے جس کو سمجھ کر جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم نے بفضلہ تعالیٰ اگلی صدی میں داخل ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اب میں ایک مختصراً ایک اور بات یہ کہنی چاہتا ہوں کہ جب سے میں انگلستان آیا ہوں اُس وقت سے یہ رحجان دن بدن بڑھتا ہوا دیکھا ہے کہ جن کے کوئی عزیز فوت ہوں وہ مجھے نماز جنازہ غائب کے لیے کہتے ہیں.ابتداء میں یہ رحجان بہت کم تھا اور چونکہ میں پاکستان سے بعض حالات کی مجبوری کی وجہ سے یہاں آ گیا اور پاکستانی احمدیوں کی دلداری کا خیال زیادہ تر پیش نظر تھا.اس لیے اس خیال سے کہ اُن کو محرومی کا احساس نہ ہو کہ میں وہاں نہیں ہوں ورنہ شاید میں خود اُن مرحومین کا جنازہ پڑھتا، میں ایسی درخواستوں کو منظور کرتا رہا لیکن کچھ عرصہ کے بعد میں نے خطبے میں یہ تاکید کی

Page 368

خطبات طاہر جلدے 363 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء کہ اب یہ رسم بنتی جا رہی ہے، بہت بڑھ رہی ہے.اس لیے میری درخواست ہے کہ دوست اجتناب کریں.اگر وہ مجھے لکھیں گے تو میرے لیے انکار بڑا مشکل ہے.اس لیے آپ خود اجتناب کریں اسے ایک ایسی رسم نہ بنادیں جو ہمارے قابو میں نہ رہے.بس زیادہ سے زیادہ میرا خیال ہے ایک دو مہینے اس نصیحت پر عمل ہوا ہو گا پھر اُس کے بعد ایک بند ٹوٹ گیا اور اس کثرت سے پھراب درخواستیں آنی شروع ہوئیں کہ جن پر عمل پیرا ممکن ہی نہیں ہے ورنہ جمعہ نماز جنازہ پڑھانے کا دوسرا نام بن جائے گا.یہ خود میں محسوس کر رہا تھا کہ اب یہ معاملہ ہاتھ سے نکلتا چلا جا رہا ہے کہ مکرم ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ کو بھی یہ تحریک ہوئی.اُس وقت یہ کینیڈا میں تھے انہوں نے مجھے لکھا کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ اب یہ کچھ زیادہ ہی بات بڑھتی چلی جارہی ہے.صلى الله صلى الله جہاں تک فتویٰ کا تعلق ہے آنحضرت مہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی نماز جنازہ غائب پڑھائی تھی اور اس لیے یہ تو نہیں کوئی کہہ سکتا کہ یہ جائز ہی نہیں ہے.مگر مختلف علماء اور مفتیوں نے اُس سے نتیے مختلف نکالے ہیں.بعض کے نزدیک یہ اس لیے نہیں تھا کہ اجازت ہے.اب باقی لوگ بھی نماز جنازہ غائب پڑھ سکتے ہیں بلکہ اس لیے تھا کہ خدا تعالیٰ نے وحی کے ذریعے خاص طور پر نجاشی کی اجازت دی تھی اور یہ فعل آنحضرت ﷺ سے خاص تھا.بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ نہیں اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو حضور اکرم ﷺ فرما دیتے کہ صرف میں نجاشی کی پڑھ رہا ہوں.تمہیں اجازت نہیں ہے کیونکہ باقیوں کو منع نہیں فرمایا گیا اس لیے یہ ایک عمومیت کا حکم ہے لیکن اُن کا بھی یہی رحجان ہے کہ یہ استثنائی شکل ضرور ہے.اجازت تو ہے لیکن استثنائی شکل ہے اور اسے عمومیت نہیں دینی چاہئے.میری اس بات پر نظر تھی مگر میں نے چونکہ ایک استثنائی حالت ایسی دیکھی جس کا ایک وسیع علاقے سے تعلق ہے یا جس طرح نجاشی کے لیے رسول اکرمﷺ کے دل میں ایک تمنا تھی اور آپ وہاں نہیں جاسکتے تھے ، فاصلے اور حالات ایسے حائل تھے ، ویسے ہی ممکن نہیں تھا.اس لیے یہ استثنائی بنا تو انہی حالات میں اگر استثنا زیادہ ہو جائیں تو پھر زیادہ استثنائی حالات پیدا ہو جاتے ہیں.میرے ذہن میں یہ استدلال تھا.اس لیے میں نے سمجھا کہ جب تک پاکستان میں نہیں جاسکتا ، پاکستان کے احمدیوں کا خصوصیت کے ساتھ یہ حق بنتا ہے کہ استثنائی حالات سمجھتے ہوئے اُن کی نماز جنازہ غائب پڑھا دیا کروں لیکن پھر بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا تردد تھا کہ یہ بہت زیادہ رسم نہ بن جائے.ملک

Page 369

خطبات طاہر جلدے 364 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۸ء صاحب نے جب توجہ دلائی تو اس وقت پھر میں نے یہی مناسب سمجھا اور ملک صاحب نے مشورہ بھی یہی دیا کہ وہاں پاکستان میں صدر انجمن کے سپرد یہ معاملہ کیا جائے کہ اس کے مختلف پہلوؤں پرغور کریں اور یہ قدغن لگا دیں کہ جس نے مجھے درخواست کرنی ہے وہ وہاں صدر انجمن کی معرفت درخواست کرے.مجھ میں اگر طاقت نہیں انکار کی تو اُن میں نسبتاً زیادہ طاقت ہوگی وہ دیکھ لیں گے اگر کسی کو بہت زیادہ غیر معمولی طور پر مستحق سمجھیں گے تو سفارش کر دیں گے ورنہ وہ انکار کر دیں گے.تو سر دست میں نے ملک صاحب کی سفارش کو منظور کرتے ہوئے معاملہ صدر انجمن کے سپر د کر دیا ہے.اس دوران وہ استثنائی حق جو خلیفہ وقت کو ہوتا ہے کہ اگر کسی کے متعلق وہ غیر معمولی طور پر مطمئن ہو کہ اس کا مقام ایسا ہے، مرتبہ ایسا ہے، خدمات ایسی ہیں کہ یہ حقدار ہے کہ اس کی نماز جنازہ غائب میں خود پڑھاؤں تو وہ تو اپنی جگہ ایک حق باقی رہے گا.اُس کا اس نئی صورت سے تعلق نہیں ہے لیکن اس کے سوا جو دوست مجھے اب لکھ رہے ہیں میری اُن سے درخواست ہے کہ سر دست لکھنا بند کر دیں.امر واقعہ یہی ہے کہ بہت ہی زیادہ رحجان بڑھ گیا تھا اور آئندہ اس کے نتیجے میں رسم بھی پیدا ہوسکتی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے مجھے یاد ہے کہ جمعہ کے بعد کوئی نماز جنازہ غائب تو نہیں پڑھایا کرتے تھے.( کیوں ملک صاحب آپ کو یاد ہے؟ ) اور جو جنازہ بھی ہوتا تھا حاضر جنازہ ہو جاتا تھا لیکن غائب جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا بھی یہی طریق تھا کہ جمعہ کے بعد جنازہ پڑھانے سے پر ہیز کیا کرتے تھے اور کہہ دیا کرتے تھے کے بعد میں یا عصر کے وقت لے آؤ یا کسی اور دن دوسرے دن یا تیسرے دن.تو استثنائی حالات کی وجہ سے جو شروع کیا تھا سلسلہ اب چونکہ قابو میں نہیں رہا.اس لیے مجبوراً میں معذرت کے ساتھ میں اس طریق کو بدل رہا ہوں اور اُمید ہے دوست اس سے دل برداشتہ نہیں ہوں گے یعنی دل آزاری محسوس نہیں کریں گے یہ مقصد نہیں ہے مجبوری ہے.

Page 370

خطبات طاہر جلدے 365 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء پاکستان میں جماعت پر ہونے والے مظالم کی تفصیل اور ان مذموم کوششوں کا انجام ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ مئی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: پاکستان میں جماعت احمدیہ پر مظالم کا جو دور چند سال پہلے شروع ہوا تھا اب یہ رفتہ رفتہ اپنے نقطہ انجام کو پہنچ رہا ہے اور ایک ایسی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے جسے ہم فیصلہ کن منزل قرار دے سکتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسے میدان میں اب یہ معاملہ قدم رکھنے والا ہے جہاں فیصلے خدا کی تقدیر کی طرف سے ہوا کرتے ہیں اور آسمان سے نازل ہوتے ہیں.اس نکتہ نگاہ سے ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کو بھی اور جماعت احمدیہ کے مخالفین کو بھی اس صورتحال سے پوری طرح وضاحت کے ساتھ آگاہ کر دیا جائے اور جس حد تک بات کو کھول کر بیان کر دینا ضروری ہے.اُس حد تک اس بات کو خوب کھول کر بیان کیا جائے.چونکہ یہ مضمون لمبا ہے اور ایک خطبے میں یہ سمیٹا نہیں جا سکے گا اس لیے میں کوشش کروں گا کہ دو یا تین خطبات میں اس مضمون کو مکمل کرلوں اور آئندہ صدی سے پہلے اس آخری سال میں اس مضمون کا بیان ہونا ویسے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ساری باتیں آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.جب ۲۶ را پریل ۱۹۸۴ء کو وہ بد نام زمانہ آرڈینینس جاری کیا گیا جسے اُس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق صاحب نے اپنے فرمان سے جاری کیا.اُس آرڈینینس کی تفاصیل سے ساری

Page 371

خطبات طاہر جلدے 366 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء جماعت واقف ہے اور جماعت ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کم و بیش واقف ہو چکی ہے کیونکہ اُس کے متعلق جماعت احمدیہ نے یعنی عالمگیر جماعت احمدیہ نے ہر قسم کی کوششیں کر کے ہر قسم کے ذرائع کو کام میں لا کر ساری دنیا کو اُس کی تفاصیل سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اُس کے بعد جو نتائج اُس کے پیدا ہوئے اُن سے آگاہ کیا اور مسلسل یہ سلسلہ ہر طرف جاری ہے اور دنیا کے چوٹی کے اخبارات نے بھی ، انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے اداروں نے بھی اور ایسے وکلاء نے بھی جو عالمی سطح پر شہرت رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے وقف کیسے ہوئے ہیں اپنے طور پر ، اُن سب نے اور اس کے علاوہ اور بھی مشرق و مغرب سے مختلف اخبارات اور بعض دانشوروں نے نظم و نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس بارے میں اور جہاں تک باشعور دنیا کا تعلق ہے ، ہم کسی حد تک یہ اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ باشعور دنیا کو جماعت احمدیہ کے مسائل سے متعلق اس سے پہلے یعنی گزشتہ چند سالوں سے پہلے کبھی اس دور میں حاصل ہونے والی واقفیت کے مقابل پر ہزارواں حصہ بھی واقفیت نہیں تھی.یعنی جب سے جنرل ضیاء الحق صاحب نے یہ فرمان جاری کیا ہے اُس سے پہلے کی باشعور دنیا کو احمدیت کے متعلق کیا علم تھا اُس کا آپ جائزہ لیں اور کس حد تک وہ جماعت احمدیہ کے مسائل سے واقف تھی اور جماعت احمدیہ کے مقابل پر اُس کے مخالف اندرون اسلام طاقتوں نے کیا کیا حرکتیں کیں.ان باتوں سے واقف تھی.آپ حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ دنیا کا عشر عشیر بھی ، ہزارواں حصہ بھی بلکہ شاید لاکھواں حصہ بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، ہمارے مسائل سے واقف نہیں تھا.پس اس دور میں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جوساری دنیا میں عظیم الشان خدمت کی توفیق بخشی ہے اور اپنے مظلوم بھائیوں کی آواز کو، ان کے مسائل کو ، جماعت احمدیہ کے مسائل کو دُنیا کے تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اس کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کا ایک بڑا باشعور طبقہ جس کا دنیا کے معاملات کو چلانے سے تعلق ہے یعنی خواہ وہ حکومت کے افراد ہوں ، خواہ حکومت سے باہر سیاسی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں یا اخباروں میں لکھنے والے مقالہ نویس یا دانشور اور قسم کے ہوں، اُن میں سے ایک بھاری نمائندگی کو جماعت احمدیہ کے مسائل سے پوری طرح واقفیت ہو چکی ہے.اس لیے اُس آرڈینینس پر تفصیلی بحث کی اس وقت ضرورت نہیں ہے اور وہ تفصیلی بحث

Page 372

خطبات طاہر جلدے 367 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء میں اس سے پہلے میں چھیڑ بھی چکا ہوں.اب میں مختصراً اُس آرڈینینس کے نتیجے میں جو مظالم جماعت پر ہوئے اور جو جو واقعات اُن مظالم سے تعلق رکھنے والے رونما ہوئے اُن سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.آج کے خطبے میں کسی حد تک میں اسی مضمون کے اس حصے کو ادا کر سکوں گا.سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صدر ضیاء الحق صاحب نے جب یہ آرڈینینس جاری فرمایا تو انہوں نے بعض وضاحتیں خود پیش کیں اور دنیا کو یہ بتایا کہ کیوں آخر وہ ایسا بظاہر جاہلانہ انتہائی احمقانہ آرڈینینس پیش کر رہے ہیں اس کے پیچھے کوئی حکمت ہونی چاہئے.تو اُن کے الفاظ میں اس آرڈینینس کا پس منظر کیا تھا.اُن کے ذہن میں وہ کون سے محرکات تھے جو اس آرڈینینس کو جنم دینے پر منتج ہوئے ، اُن کے متعلق وضاحت کی.سب سے پہلے چند دن بعد ہی یعنی ۵ رمئی ۱۹۸۴ء کو آپ نے یہ بیان جاری فرمایا کہ میں مسلمان ہوں اس حیثیت سے ہر وہ فیصلہ کروں گا جس کا اسلام نے حکم دیا ہے.قادیانیوں کے متعلق فیصلہ نفاذ اسلام کے کا ایک حصہ ہے، میں ایک خادم اسلام کی حیثیت سے اسلام کو ہر شعبے میں نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں.یہ پہلا پیغام تھا قوم کے نام آرڈینینس کے نفاذ کے بعد جس میں انہوں نے وضاحت فرمائی اور عملاً واقعہ یہ ہے کہ جب آپ اس بیان کی روح معلوم کرنے کی کوشش کریں یعنی اس بیان کا مقصد دراصل کیا تھا.تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنی دانست میں ایک ایسا آرڈینینس جاری کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ قوم میں بے حد ہر دلعزیز ہو چکے تھے اور جس کے نتیجے میں اُن کی اسلامی شخصیت بڑی نمایاں طور پر قوم کے سامنے اُبھری تھی.اس لیے اُس شہرت کی دھوپ میں نہانے کے طور پر انہوں نے یہ پیغام دیا.جس طرح انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ شہرت کی دھوپ میں بعض لوگ نہاتے ہیں اور لطف اُٹھاتے ہیں کپڑے اتار کر باہر بیٹھ جاتے ہیں کہ اس دھوپ سے اپنے بدن کو سینکیں اور زیادہ لطف محسوس کریں.تو اُن کی جو سیاسی کیفیت معلوم ہوتی ہے اس بیان سے وہ یہی ہے کہ ایک آرڈینینس جاری کیا اُس کے بعد لطف اُٹھانے کے لیے اور قوم کو مزید یاد دلانے کے لیے کہ میں وہ مسلمان ہوں ، وہ مرد مجاہد ہوں جس نے اتنی عظیم الشان اسلام کی خدمت کی ہے اور پھر مزید وعدہ کیا کہ آپ فکر نہ کریں میں اب اس خدمت پر مستعد ہو چکا ہوں.اب خدمتوں کا ایک سلسلہ جاری ہونے والا ہے اور آپ لوگ دیکھیں گے کہ کس طرح اسلام دن بدن میری صدارت میں یا میری ڈکٹیٹر شپ کے اندر ہر پہلو سے ہر شعبہ زندگی میں

Page 373

خطبات طاہر جلدے 368 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء ترقی کرتا ہے.چنانچہ اس بیان کے بعد ایک اور بیان جاری کیا جس میں انہوں نے فرمایا یعنی دو سال کے بعد فوراًبعد نہیں.پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت کا نمونہ بنایا جائے گا.یعنی آرڈینینس کے جاری ہونے کے دو سال بعد تک یہ ارادے اتنے بلند تھے اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ایسی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کامیابی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں جہاں دعاوی کو مزید زیادہ بلند و بانگ بنایا جا سکتا ہے.چنانچہ پہلے تو محض عمومی طور پر اسلام کے نفاد کا وعدہ تھا اب فرمایا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت کا نمونہ بنایا جائے گا.اس کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے اور انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت کا نمونہ بنانے کی توفیق اور حوصلہ عطا کرے.یہ پہلا بیان جو تھا وہ ایونگ سپیشل ۵ مئی ۱۹۸۴ء سے لیا گیا ہے اور دوسرا بیان امن کراچی ۲ جون ۱۹۸۶ء میں شائع ہونے والی ایک خبر سے اخذ کیا گیا ہے.پھر اپنے فیصلے کو ساری دنیا پر واضح کرنے کے لیے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف اتنے سنگین اقدامات کیوں اختیار کیے جارہے ہیں.لندن میں ہونے والی عالمی ختم نبوت کانفرنس کے نام صدر ضیاء نے ایک پیغام بھجوایا اور یہ ہدایت کی کہ پاکستان کی ایمبیسی کی طرف سے با قاعدہ رسمی طور پر، پاکستان سفارت خانے کا نمائندہ جا کر یہ اعلان پڑھے.چنانچہ جہاں تک میر اعلم ہے اس وقت پاکستان کے اُس وقت کے سفیر بھی وہاں موجود تھے مہمان خصوصی کے طور پہ اور اُن کی موجودگی میں پاکستان ایمبیسی کے کسی نمائندے نے یہ اعلان پڑھا.اعلان یہ تھا کہ پاکستان کی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ قادیانیت کے کینسر کا قلع قمع کیا جا سکے.اور باتوں کے علاوہ یہ تحدی اور یہ ارادے ہیں احمدیت کو نیست و نابود کرنے کے جن پر وہ قائم رہے اور لفظ کینسر کے ذریعے انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج کوئی نہیں ہے.پس جب کوئی کینسر کا مریض ہو جائے اور اُس کو خدا پر اعتماد نہ ہو تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ یا وہ مارا جائے گا یا ڈاکٹر اُس کو کاٹ کر الگ پھینک دیں تو صدر ضیاء الحق صاحب کے پاس بھی تو دعا کا تو کوئی علاج نہیں تھا، وہ تو چارہ ایسا تھا نہیں جو وہ کر سکتے.چنانچہ اُن کی ایک ہی راہ تھی کہ وہ اس کینسر کو کاٹ پھینکنے کے عزم کا اعلان کرتے.چنانچہ وہ اعلان ساری دنیا کے سامنے کیا گیا.اس کے بعد کچھ مظالم کے سلسلے جاری ہوئے کیونکہ یہ فرضی اعلانات نہیں تھے.صدرمملکت

Page 374

خطبات طاہر جلدے 369 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء جب اپنے آپ کو Commit کر رہا ہے ساری دنیا کے سامنے اور مغربی دنیا کے سامنے بھی جو انسانی آزادی کے متعلق بہت ہی بلند تصورات رکھتی ہے خواہ اپنا عمل ایسا ہو یا نہ ہو.اور اس قسم کے اعلان جرأت کے ساتھ ایسی دنیا میں عام ہوش مند انسان نہیں کر سکتا.تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسا قطعی فیصلہ تھا جس کے سارے پہلوؤں پر غور کر لیا گیا تھا اور اُس کے بعد ان تمام خطرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ دنیا میں کیسی بدنامی ہوگی ہماری کیا کہیں گے کہ کس قسم کے مسلمان ملک ہیں ، کس قسم کے سر براہ ہیں ان سب باتوں کا توازن کرنے کے بعد پورے ناپ تول کے بعد یہ اعلان کیا گیا ہے کیونکہ صدران مملکت کے اس قسم کے اعلان جو رسمی طور پر ، با قاعدہ ایمبیسی کی طرف سے پیش کیے جائیں وہ یونہی اتفاقی جذبات کے نتیجے میں نکلی ہوئی باتیں نہیں ہوا کرتیں.تو اس لیے میں اسکی وضاحت کر رہا ہوں کہ یہ بڑی اہمیت رکھنے والا اعلان تھا اور پاکستان میں جو کچھ سلسلے رونما ہوئے ان اعلانات کے بعد اور جو اقدامات کیے گئے حکومت کی طرف سے وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں.کیا کچھ ہونا تھا اس کے بعد اس سلسلے میں جمعہ خان کے قلم سے جو دلچسپ ادارئیے شائع ہوتے رہے ہیں یا مقالات شائع ہوتے رہے ہیں.اُن کی ایک عبارت میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کے اوپر ہونے والے واقعات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے بلکہ احمدیت ہی نہیں ساری قوم کے ساتھ جو کچھ ہو جانا تھا اُس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے.وہ لکھتے ہیں ” بہت سی قومیں مکمل آزادی حاصل کرنے کے لیے ان فرعونوں سے لڑ رہی ہیں جو زمین پر خدا بنے بیٹھے ہیں.اُن میں سے کسی نے مجھے اور دستار کو اپنی علامت بنا کر خود کو واعظ مشہور کر رکھا ہے.کوئی فوجی وردی میں ہے اور اسلحہ کی طاقت پر اتراتا ہے، کسی نے شرافت کو اپنا لباس بنایا ہے، جمہوریت کا نعرہ لگایا ہے اور وہ خود کو نجات دہندہ بتاتا ہے.ان شیطانوں نے خود کو مادر پدر آزاد کر رکھا ہے اور دوسروں سے کہتے ہیں کہ اطاعت کرو.یعنی خود کو مادر پدر آزاد کر رکھا ہے.آپ کسی ضابطے کسی اصول کے پابند نہیں ہیں اور دوسروں کو کہتے ہیں کہ ہماری اطاعت کرو.وہ اپنی اطاعت چاہتے ہیں اور اُن کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ لوگوں کو یہ حکم ہی دے دیتے کہ انہیں سجدہ کیا جائے.ویسے عملاً انہوں نے لوگوں کو سجدہ کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے.یہ حصہ احمدیت سے تعلق رکھنے والا حصہ نہیں ہے کامل یقین اور پورے اعتماد سے میں کہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی احمدی نے کسی فرضی

Page 375

خطبات طاہر جلدے 370 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء خدا کو کبھی سجدہ نہیں کیا، نہ آئندہ کبھی کوئی احمدی کسی فرضی خدا کو سجدہ کرے گا.پھر وہ لکھتے ہیں کہ ” جو کوئی اُن کے آمرانہ احکام کو نہیں مانتا اُس کے لیے پھانسی گھاٹ ہے ، کوڑے ہیں اور قید خانے ہیں“.یہ وہ پس منظر تھا یعنی حکومت کی بلا رادہ کوششوں کا پس منظر جس کے بعد رونما ہونے والے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ جو کچھ احمدیت کے متعلق بد ارادوں کا اظہار کیا گیا تھا اُن کو پورا کرنے میں کمی نہیں کی گئی بلکہ جو کچھ اظہار کیا گیا اُس سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کی گئی.احمدیوں کو اُن کے تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا.خدا کا نام لینا جرم ہو گیا کسی کو سلامتی کی دعا تک دینا جرم ہو گیا ، اذان کی آواز بلند کرنا جرم ہو گیا.یہ اعلان جرم ہو گیا کہ خدا ایک ہے اور اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، یہ اقرار جرم ہو گیا کہ محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں، قرآن کی تلاوت جرم بن گئی کلمہ شہادہ کا بیچ سینے پر لگانا جرم ہو گیا.یہ جرم ہو گیا کہ مساجد کی پیشانی پر تو حید باری تعالیٰ کا اعلان سجایا جائے.یہ قرار پایا کہ سب جرائم ایسے سنگین ہیں کہ ان سے کسی طرح بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی.یہ اعلان کیا گیا کہ یہ سب جرائم مسلمانوں کے نازک مذہبی جذبات کو کچلنے والے اور زخمی کرنے والے ایسے جرائم ہیں جو سنگین دل آزاری کی ذیل میں آتے ہیں.یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے امور اگر کسی بھی رسالے میں شائع ہوں تو اُس رسالے کو ضبط کر لیا جائے.اُس رسالے کے مینیجر اور ایڈیٹر کے خلاف سخت قانونی اقدامات کیے جائیں اور اگر کسی کتاب میں ان باتوں کا ذکر کسی احمدی کی طرف سے شائع ہو تو اُس کے خلاف بھی اسی قسم کے سنگین اقدامت کیے جائیں.یہ تقدیر جاری کی گئی کہ اگر احمدی سیدنا ومولانا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کے گن گائیں تو اُن کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت ہتک رسول کے مقدمات درج کیے جائیں جن کی سزا موت بھی ہوسکتی ہے.یہ تمام اقدامات کیے گئے اور اسلامی انصاف کا ایک ایسا بگڑا ہواتصور دنیا کے سامنے پیش کیا گیا جو اسلام کے حسین چہرے کو انتہائی ظالمانہ طور پر بدزیب اور مکروہ اور ماؤوف کر کے دکھاتا ہے.یہ اقدامات صرف ظاہری طور پر اُن جرائم کی سزا دینے پر منتج نہیں ہوئے جن کا میں نے ذکر کیا ہے بلکہ اس کے اور بھی بہت سے اثرات پیدا ہوئے جس کی وجہ سے تمام پاکستان احمدیوں کے لیے ایک انتہائی دردناک جیل خانے کی صورت اختیار کر گیا.یہ روحانی اور مذہبی طور پر اور انسانی طور

Page 376

خطبات طاہر جلدے 371 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء پر احمد یوں کی آزادی چھینے والے اقدامات تھے.لیکن اس ظلم کے سائے میں بہت سے اور مظالم پیدا ہوئے اور ساری فضا کو احمدیوں کے لیے دکھ سے بھر دیا گیا.چنانچہ احمدیوں کے عام دنیا وی حقوق بھی کلیہ اُن سے چھین لیے گئے.چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھوں گا جو اعداد وشمار کی صورت میں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ واقعہ ان اقدامات کے نتیجے میں احمدیوں کو کن مصیبتوں اور دکھوں میں سے گزرنا پڑا اور گزرنا پڑ رہا ہے لیکن اُن کے بیان سے پہلے اُس عمومی فضا کا ذکر کرنا ضروری ہے جسے اعداد و شمار میں پیش نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے کوئی ایسے معین ثبوت نہیں ہیں جن کو دنیا کے سامنے رکھا جا سکے لیکن پاکستان کا بچہ بچہ ان باتوں سے واقف ہے.مثلاً اُن گلیوں سے گزرتے ہوئے جب احمدیوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور سخت دل آزار باتیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کی جاتی ہیں تو اس کا کونسا ریکارڈ ہے جو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے؟ کیسے دنیا کو یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ قید ہونے کے مقابل پر اُن احمدیوں کے لیے یہ تکلیف بہت زیادہ دردناک ہے اور بہت زیادہ آزمائش میں ڈالنے والی اور ابتلاء میں ڈالنے والی تکلیف ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق گلیوں کے لونڈے اور او باش لوگ سخت گندی اور غلیظ زبان استعمال کریں مگر بہر حال اس قسم کی تکلیفیں تو مسلسل جاری ہیں.بعض جگہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کو سانپ کی شکل میں بنا کر احمدیوں کی دکانوں کے سامنے آویزاں کیا گیا اور باقاعدہ وہاں پہرے لگائے گئے کہ اگر کوئی احمدی اس کو ہٹانے کی کوشش کرے تو اُس کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں اور اگر کوئی احتجاج کرے تو اُس کو گھسیٹ کے تھانے میں پہنچا دیا جائے کہ انہوں نے ہماری لگائی ہوئی تصویر کو ہٹا کر ہمارے جذبات کو مجروح کیا ہے اور واقعہ ایسا ہوا.اس قدر درد ناک فضا پیدا کر دی گئی احمدیوں کے لیے کہ سارے پاکستان میں ہر گھر میں بچے بچے نے درد سے کلبلا نا شروع کر دیا.چھوٹے چھوٹے بچوں کے مجھے ایسے خط موصول ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں ہیں مسلسل جو یہ برداشت نہیں کر سکتے.کہتے ہیں کہ کب یہ ظلم کی راتیں ختم ہوں گی ، کب تک ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اور سلسلے کے بزرگوں کے خلاف ایسی نا پاک اور گندی زبان سنتے رہیں گے.یہ ساری باتیں دل آزاری کی تعریف میں نہیں آتیں یعنی پاکستان کی دل آزاری کی تعریف

Page 377

خطبات طاہر جلدے 372 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء میں لیکن حضرت محمد مصطفی امیہ کی نعت پڑھنا دل آزاری کی تعریف میں آجاتا ہے ، خدا کی حمد بیان کرنا دل آزاری کی تعریف میں آجاتا ہے، کسی کو السلام علیکم کہنا دل آزاری کی تعریف میں آجاتا ہے.مساجد سے جو اذانیں بند کی گئیں وہ دل آزاری نہیں لیکن مساجد کو مغلظات بکنے کے لیے استعمال کرنے کی جو آزادی دی گئی ہے وہ انسانی بنیادی آزادی کے حقوق کے اندر داخل ہے اور اُس سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی.ہر چیز اُلٹ گئی ہے، ہر مضمون کا رنگ بدل گیا ہے اور کوئی بھی ایسا دستور نہیں رہا جسے عقل و دانش کا دستور ، عام انسانی قدروں کا دستور کہا جاسکتا ہے لیکن اس پر بس نہیں کی گئی مسلسل حکومت کی طرف سے، حکومت کے کارندوں کو یاد دہانی کروائی جاتی رہی کہ ابھی تم احمد یوں پر ظلم کم کر رہے ہو ہم تمہیں یاد دلاتے ہیں کہ بہت سے ظلم باقی ہیں اور بعض اوقات بعض علماء کو با قاعدہ اسلام آباد بلوا کر یا راولپنڈی بلوا کر یہ ہدایت کی جاتی رہی کہ تم اخباروں میں یہ باتیں اُٹھاؤ کہ یہ ظلم ابھی نہیں ہور ہے یہ باتیں ابھی تک جاری نہیں ہوئیں احمدیوں کے خلاف اور اس کے جواب میں پھر ہم بیانات شائع کریں گے اور ساری قوم کی توجہ تمہاری اور ہماری طرف ہو گی کہ ہم ہی اصل میں اسلام کے نیچے خدمت کرنے والے ہیں.وہ ساری اطلاعیں علماء کی طرف سے بھی ہمیں پہنچتی رہیں لیکن یہ ان کے اپنے نفسانی کھیل تھے اور ان کو بیان کرتے یا نہ کرتے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا مگر بہر حال یہ کھیل بنائے ہوئے ڈراموں کی شکل میں جاری رہے اور یہ ڈرامے ہمیشہ اپنے پیچھے خونی اثرات احمدیوں پر چھوڑ گئے اور ہر ایسے ڈرامے کے بعد احمدیوں کی تکلیف میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہا.یہ تو سارا سال کے ہر روز چھپنے والے اخبارات میں چھپنے والی باتیں ہیں.اب چار سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے یہ اتنے دنوں کے قصے اب میں کیسے ایک چھوٹے سے خطبے میں بیان کر سکتا ہوں لیکن کسی دن کا کوئی اخبار آپ پاکستان کا اُٹھا کر دیکھ لیں وہاں آپ کو یہ باتیں مل جائیں گی.چند نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.صدر مملکت نے مسلح افواج سے قادیانی غیر مسلم منکرین جہاد افسران کو نکالنے کا کیس Secertary Establishment Division کو ضروری کاروائی کے لیے بھیج دیا ہے.آپ اندازہ کیجئے کہ یہ وہی فوج جس میں ابھی بھی لیفٹیننٹ جنرل بھی ہیں بعض احمدی کیونکہ وہ سرجن ہیں چوٹی کے اُن کے بغیر ان کا گزارہ نہیں چلتا، اُن کو رکھنا ان کے اپنے مفاد میں از بس

Page 378

خطبات طاہر جلدے 373 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء 66 ضروری ہے اور باوجود اس کے کہ پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین مقام رکھنے والے پاکستانی ہیرو جو فوج سے تعلق رکھنے والے تھے وہ احمدی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے.اُس کے باوجود ایک فوجی جنرل یہ بیان جاری کر رہا ہے.کوئی حیا باقی نہیں کوئی شرافت ،صداقت ،انسانیت کی کوئی بھی قدر باقی نہیں رہی.صدر مملکت نے مسلح افواج سے یہ اعلان کے الفاظ سنے.۳۲۸ منکرین جہاد کو نکالنے کا کیس Secretary Establishment Division کو ضروری کاروائی کے لیے بھیج دیا ہے.(جنگ لاہور ۲۶ را پریل ۱۹۸۸ء) ملک خدا بخش ٹوانہ صاحب وزیر اوقاف و مذہبی امور پنجاب کا بیان سنئے فرماتے ہیں، ان کا یہ متعلق یہ اعلان روز نامہ جنگ میں شائع ہوا ہے کہ وزیر اوقاف پنجاب نے صوبے کے تمام کمشنروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ قادیانی آرڈنینس کے نفاد کو موثر بنا ئیں یہ ہدا یت ایک اعلی سطحی اجلاس کے بعد جاری کی گئی جو کہ مولانا منظور چنیوٹی کی طرف سے ایک تحریک استحقاق کے نتیجے میں بلایا گیا تھا.صوبائی وزیر نے ان اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف باقی ماندہ معاملات تیزی سے نمٹائے جائیں.انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قادیانیوں کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی کے معاملات حکومت کے علم میں لائیں.(روز نامہ جنگ لندن ۲۴ / مارچ ۱۹۸۸ء) قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر کلمہ طیبہ لکھنے والوں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے.ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبائی سطح پر جلد اجلاس منعقد ہوگا“.وزیر اوقاف پنجاب ٹوانہ.(ملت لندن ۲۰ جنوری ۱۹۸۸ء) آپ مسلمان ہیں یا قادیانی Gazetted افسروں سے دوباہ حلف نامے طلب کر لیے گئے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک حکم کے ذریعے تمام سرکاری محکموں کے سربراہوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ اپنے اپنے محکمہ کے ہرافسر سے اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر ڈکلیریشن کے سرکاری فارموں پر حلف نامے لے کر حکومت کو روانہ کیے جائیں.جس میں بتایا جائے کہ وہ قادیانی ہیں یا مسلمان.(امروز ۱۸ مارچ ۱۹۸۸ء، جنگ لاہور ۸ / مارچ ۱۹۸۸ء) صوبائی حکومت نے تمام ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کی وساطت سے پولیس حکام کو ہدایت کی ہے

Page 379

خطبات طاہر جلدے 374 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء کہ جہاں کہیں بھی قادیانی کلمہ طیبہ لکھیں یا اُس کا استعمال کریں.اُن کے خلاف قادیانی آرڈنینس کے تحت فوری طور پر مقدمہ درج کیا جائے (جنگ لاہور ۲۲ فروری ۱۹۸۸ء).قادیانیوں کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے اقدامات روکیں وفاقی وزارت مذہبی امور کی ضلعی انتظامیہ کو ہدایت.وفاقی حکومت کو مسلسل ایسی شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ قادیانی اپنے مردوں کو ( یہ وفاقی حکومت کی زبان ہے پاکستان کے باشندوں کے متعلق ) کہ قادیانی اپنے مردوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرتے ہیں.چنانچہ یہ اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی احمدی دفن ہوا ہے اُس کی لاش اُکھیڑ کر باہر پھینک دی جائے.قادیانیوں کی لائبریری سے کلمہ طیبہ اور بیت الحمد کے الفاظ مٹا دیئے جائیں.( یعنی بیت الحمد کا لفظ بھی اب وہاں نہ لکھا جائے.) ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کا بیان جاری ہوا ہے اور ختم نبوت یوتھ فورس کے وفد نے جب ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سے ملاقات کی تو اس یوتھ فورس کو ڈپٹی کمشنر نے اس بات سے مطلع کیا کہ یہ ہم کرنے والے ہیں (نوائے وقت راولپنڈی ۲۱ فروری ۱۹۸۸ء) سید غوث علی شاہ صاحب وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں ماضی کی حکومتیں علماء سے دور بھاگتی تھیں تبھی بچی ہوئی تھیں بچاری حکومتیں.اب یہ حکومتیں علماء کے قریب آگئی ہیں اُن کا انجام میں آپ کو بتاؤں گا کیا ہوا ہے.تو ٹھیک بھا گئی تھیں ، اُن سے بیچاروں سے کیا شکوہ ہے.کہتے ہیں اس بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم نے یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ علماء کو اپنے ساتھ لے کے چلے ہیں اُن کا اعزاز کریں اور پھر اُن کو اس مضمون کا ایک شعر یاد آ گیا.وہ کہتے ہیں ، شعر ہے: کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ ہوئے ہم سے وہ ہمکلام اللہ اللہ یہ ملا ہم سے وزیر اعلوں سے ہم کلام ہونے لگے ہیں یہ مقام پہلے کہاں نصیب تھا کیونکہ زیادہ دیر بیچارے پھر وزیراعلیٰ رہے نہیں.وزیر اعظم جونیجو صاحب نے کہا کہ جب یہ سب کچھ ہورہا ہے تو میں بیچ میں سے کیوں باہر رہوں.وہی وہ لچ تلنے والا قصہ یاد آ جاتا ہے.کوئی زمیندار جا رہا تھا اپنے آٹے کی پرات اُٹھا کر تندور سے روٹیاں لگوانے کے لیے تو رستے میں دیکھا کہ کوئی لچیاں تلنے والی بیٹھی ہوئی تھی.دتی وغیرہ

Page 380

خطبات طاہر جلدے 375 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء میں رواج ہے بڑی نازک سی بار یک بار یک پھلکوں کی طرح کی لچیاں تلتے ہیں.تو اُس نے تعجب سے دیکھا یہ کیا کر رہی ہے.تو اُس نے کہا بی بی یہ کیا کر رہی ہو تم.اُس نے کہا میں تو لیچیاں تل رہی ہوں.تو اپنی پرات انڈیلتے ہوئے اُس نے کہا کہ پھر میرا بھی بچ تل دو.تو وہی حال ان کا لگتا ہے ہر آدمی وہاں کا اس بات میں فخر محسوس کرنے لگ گیا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا ہے میں باہر نہ رہ جاؤں کہیں قوم مجھے کم مسلمان نہ سمجھے.ویسے جونیجو صاحب بڑے شریف النفس آدمی ہیں ، سادہ آدمی ہیں مگر وہ لچ تلنے سے کون باز آسکتا ہے.چنانچہ انہوں نے بیان دیا اپنے وزیر اعظم بنتے ہی فوراً بعد ۲۸ رنومبر ۱۹۸۵ء کے روز نامہ جنگ میں اعلان شائع ہوا ہے.اس لعنت یعنی قادیانیت کو پوری قوت سے کچلنے کے لیے تمام اسلامی دنیا بھی ایسے اقدامات کرے گی.یعنی انہوں نے کہا کہ پہلے تو شاید دوسرے حکومت سے تعلق رکھنے والے تو اپنے ملک میں کوششیں کر رہے تھے.میرا ارادہ یہ ہے کہ اس موومنٹ کو عالمی بنا دوں گا.مسلمانوں کے قبرستان کے قادیانی مردے کو نکلوا کر مسلمانوں کو مطمئن کیا جائے.اس قسم کے مطالبات ہر روز کے گند، ان سب عذابوں سے جماعت احمدیہ کو یعنی انسان کی طرف سے عائد ہونے والے عذاب، اس قسم کے انسانی عذابوں سے جماعت احمدیہ کو ہر روز ہزار ابتلاؤں سے گزرنا پڑتا ہے.جو کارروائیاں کی گئیں ، وہ سب کارروائیاں جیسا کہ میں نے بیان کیا اکٹھی بیان ہو ہی نہیں سکتیں چند میں نے مثالیں دی ہیں.جواب گلیوں میں ہر روز ظلم ہو رہا ہے احمدیوں پر اُس کی کون سی روئداد ہم ایک جگہ جمع کر سکتے ہیں اور کیسے بیان کر سکتے ہیں.طلباء کے ساتھ جو ظلم ہو رہے ہیں اُن کو داخلے نہیں ملتے ، جب داخلے ملتے ہیں تو کلاسوں میں ذلیل کیا جاتا ہے.اسلامیات مضمون رکھنے سے منع کیا جاتا ہے اور کئی قسم کی رعایتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے، حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے.ملازمتوں میں جس طرح کی بدسلو کی احمدیوں سے ہو رہی ہے.اُن کی ترقیات کا جب وقت آتا ہے تو یہ کہ کر ترقیات رو کی جاتی ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اوپر بدکلامی کر و تو ہم تمہیں ترقی دے دیتے ہیں.احمدی کہتے ہیں کہ ہم تو ایسی ترقی پر تھوکتے بھی نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی استقامت کے ساتھ بڑی بہادری اور جرات اور صبر کے ساتھ ان مظالم کو

Page 381

خطبات طاہر جلدے 376 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء برداشت کر رہے ہیں.کوئی زندگی کا ایسا شعبہ نہیں جہاں روزانہ جماعت احمد یہ کو مظالم کا نشانہ نہیں بنایا جاتا اور بہت سے ایسے شعبے ہیں بھاری شعبے ایسے ہیں جن کا کوئی باقاعدہ اعداد وشمار میں ریکارڈ دنیا کے سامنے پیش کیا ہی نہیں جاسکتا.ابھی کچھ عرصہ پہلے جرمنی کے دورے کے دوران ایک عدالت کے چیف جسٹس تھے ، وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے ، اُن کو پہلی دفعہ اس بات کی سمجھ آئی کہ جماعت احمدیہ کو واقعہ ووٹ دینے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے.وہ کہتے یہ بات میں نے سنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں مان ہی نہیں سکتا.حکومت پاکستان کہتی ہے ہمیں کہ دکھاؤ وہ قانون ہم نے کب ان کو ووٹ کے حق سے محروم کیا ہے؟ میں نے کہا میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں.میں نے کہا ہر ووٹر کے لیے ایک فارم ہوتا ہے جسے وہ بھرتا ہے اور اس فارم پر یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر تم مسلمان ہو اور مسلمان لکھنا چاہتے ہو تو تمہیں مرزا غلام احمد کے او پر لعنت ڈالنی پڑے گی اور اگر تم اپنے آپ کو غیر مسلم کے خانے میں شمار کرتے ہو خود اپنے ہاتھ سے لکھتے ہو تو پھر تمہیں کلمہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ، اب فارم بھر دو.میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ بتائیں کسی انسان میں جس کا ادنی سا بھی ضمیر ہو معمولی سا بھی ضمیر ہو ،شرافت کا کوئی حصہ اُس کی فطرت کو ودیعت ہوا ہو وہ اس قسم کی بے اصولی حرکت کر سکتا ہے.انہوں نے کہا نہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مجھے پوری طرح سمجھ آگئی ہے کہ بڑا بھاری دھوکا ہے جو دنیا کے ساتھ کیا جارہا ہے اور یقینی طور پر پاکستان کے ہر احمدی کو اُس کے دنیاوی بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے، مذہبی حقوق سے نہیں بلکہ دنیاوی بنیادی حقوق سے بھی.اب باہر کی دنیا میں اس بات کی بہت بڑی قدر ہے ، بہت بڑی اہمیت ہے.وہ اس بات سے اتنا متاثر نہیں ہوتے کہ کلمہ کہنے سے روک دیا گیا ہے ، وہ کچھ ہمدردی کی کوشش تو کرتے ہیں مگر سمجھ نہیں سکتے اس بات پر کس طرح انسان کو اتنی بڑی تکلیف پہنچ سکتی ہے مگر یہ جو قصہ ہے کہ جمہوریت کے بغیر بھی حق سے محروم کیا گیا یہ ان کے لیے ایک بہت ہی بڑا اہم قصہ ہے وہ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے دنیا میں.چنانچہ ان سب پہلوؤں سے ساری دنیا کے سامنے جماعت احمدیہ نے ان حالات کو پیش کیا ہے مگر بہر حال وہ سلسلہ اپنی جگہ.جاری ہے.میں خلاصہ بیان کرتا ہوں اعداد و شمار میں آنے والے واقعات کا سکھر اور ساہیوال میں جن

Page 382

خطبات طاہر جلدے 377 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء مظلوموں اور بے گناہوں کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا اور وہ انتہائی تکلیف کی حالت میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں ، چار ایسے ہیں.مسلمان ظاہر کرنے کے جرم میں خواہ منہ سے مسلمان کہا گیا یا یہ الزام لگایا گیا کہ مسلمانوں جیسی حرکتیں کر رہا تھا.جن احمدیوں کو پہلے تو جسمانی طور پر زدو کوب کیا گیا، تکلیفیں دی گئیں اور پھر قیدوں میں ڈالا گیا اُن کی تعداد ۹۶ ہے.یعنی جو ہمارے ریکارڈ میں آئی ہیں.کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات لکھنے کے جرم میں ۴۸۷ احمدیوں کو قید کیا گیا اور ابھی تک ان پر مقدمے چل رہے ہیں.مساجد کے دفاع کے جرم میں یعنی جب دشمن حملہ آور ہوا اور مساجد کوتوڑنا چاہتا تھا اور احمدیوں نے فیصلہ کر لیا کہ جو کچھ ہو گا جان پر کھیل جائیں گے لیکن ان ظالموں کو مسجدوں کو منہدم نہیں کرنے دیں گے.تو اُس جرم میں کہ تم نے اپنی مسجدوں کا دفاع کیوں کیا یا مسجدوں پر کلمہ کیوں لکھا ۲۴۳ احمدیوں کو قید کیا گیا.سب کو تو نہیں کر سکتے تھے اس لیے اُن میں سے کچھ کو پکڑ لیتے تھے.راولپنڈی میں بھی یہی ہوار بوہ کی ایک مسجد میں بھی یہی ہوا اور بہت سی مساجد میں اس طرح کے واقعات ہوئے اور جن مسجدوں کو منہدم کیا گیا ہے، اُن کو منہدم کرنے سے پہلے تمام احمدیوں کو مردوں عورتوں بچوں کو عورتوں کو تو خیر نکال دیا گیا تھا.بوڑھوں ،مردوں جوانوں اور بچوں کو کلیۂ پولیس نے اپنی تحویل میں لے کو وقتی طور پر تھانے لے گئی اور محصور کر دیا.جب ایک بھی احمدی وہاں مسجد کے دفاع میں اپنی جان فدا کرنے والا نہیں رہا.تب مسجدوں کو منہدم کیا گیا اور اسے کہا جاتا ہے کہ یہ علماء کر رہے ہیں.جب تک سو فیصد حکومت سازشوں میں شریک نہ ہو اس قسم کے واقعات ہو ہی نہیں سکتے.نماز پڑھنے کے جرم میں اور اذان دینے کے جرم میں گرفتاریاں ۱۵۲ تقسیم لٹریچر اور تبلیغ کے جرم میں ۴۰ گرفتاریاں، توہین رسالت نعوذ باللہ سوچیں ذرا ، ہم نے نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ کی تو ہین کی ہے.تو ہین کیا کی ہے کلمہ پڑھا ہے یہ کہا ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یا سیرت کے جلسے میں تقریر کی ہے یا سیرت کے جلسے میں شامل ہوئے ہیں.۲۴ احمدیوں کے خلاف یہ دفعہ لگا کر مقدمہ درج کیا گیا.اسلامی شعار کے استعمال کے جرم میں ۲۴ متفرق جماعتی مقدمات ۱۶۳ اس کے علاوہ ہیں اور جو کلمہ کے جرم میں لوگ پکڑے گئے ہیں کنری وغیرہ میں اس کے علاوہ بہت سی جگہوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پکڑے گئے اور پھر چھوڑے گئے.وہ تعداد تو ان گنت ہے.وقتی طور پر پولیس نے انہیں مار

Page 383

خطبات طاہر جلدے 378 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء کوٹ کے ان کو چھوڑ دیا با قاعدہ جیل نہیں بھجوایا وہ تعداد تو شمار میں آتی نہیں.تو بلاشبہ ہزار ہا احمدی ہیں جنہوں نے اس دور میں عملاً حکومت کی ان بلا رادہ کوششوں کے نتیجے میں تکلیفیں اُٹھائی ہیں.حکومت نے اس عرصہ میں جو کارنامے سرانجام دیئے ” خدمت اسلام کے اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ ۸۰ مساجد سے حکومت کے نمائندوں نے بار بار کلمہ طیبہ مٹایا.بعض جگہ سے پانچ پانچ دفعہ بعض جگہ سے ۱۵،۱۵ دفعہ اور ہر دفعہ جب احمدی لکھتے تھے تو پھر کچھ احمدیوں کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے تھے کہ اب باز آجائیں گے لیکن مسلسل لکھتے رہے ہیں اور اگر کوئی اور چیز نہیں ملی تو گندی نالی سے کیچڑ نکال کے اُس کے ساتھ اُنہوں نے کلمہ طیبہ مٹایا ہے.اگر کوئی مسلمان سپاہی آمادہ نہیں ہوا تو گاؤں کے چوہڑے کو بلالیا کہ تم یہ کمہ مٹاؤ کیونکہ کوئی مسلمان سپاہی آمادہ نہیں ہوتا.یہ اسلام کے نافذ کرنے کے جو عظیم الشان عزائم تھے جو آپ کے سامنے پیش کیے گئے تھے یہ اُس کی جھلکیاں ہیں، ان وعدوں کو پورا کرنے کی بعض جھلکیاں ہیں.۶ احمد یہ مساجد شہید کر دی گئیں.باقاعدہ حکومت کی نگرانی میں احمدیوں کو پکڑ کر لے جایا گیا پیچھے خالی جگہ چھوڑ کر اُن پر حملے کروائے گئے.باقاعدہ وہاں پولیس کا پہرہ رہا کہ کوئی باہر سے احمدی آکر وہاں شرارت نہ کرے یعنی مسجد کو بچانے کی کوشش نہ کرے اور ۱۲ مساجد کو جلانے کی کوشش کی گئی یا ویسے ہی نقصان پہنچایا گیا لیکن خدا کے فضل سے وہ بچ گئیں.9 مساجد اس وقت سر بمہر ہیں کہ وہاں احمدیوں کو خود اپنی مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے.۱۸۵ کتب اور رسائل ضبط کیے گئے ہیں.۱۷ احمدیوں کی قبریں اکھیڑ کر اُن کی لاشیں ایک جگہ سے کسی اور جگہ منتقل کی گئیں ہیں.۱۵ احباب کی تدفین میں روکیں ڈالی گئیں یہاں تک کہ اُن جگہوں میں تدفین کے بجائے انہوں نے دوسری جگہ جہاں احمدیوں کی اپنی جگہیں تھیں اُن کو دفن کیا.۱۶ احمدی اس عرصے میں شہید ہوئے اور اُس کے علاوہ قاتلانہ حملے ۱۴ پر ہوئے.جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بچالیا لیکن شہادت بھی تو خدا کا فضل ہے بلکہ ایک رنگ میں اعلیٰ فضل ہے.مگر محاورہ اس دنیا میں رہنے والوں کو چونکہ غم سے بچایا ان معنوں میں میں نے کہا ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے ہم پر فضل کرتے ہوئے بچالیا.اس عرصے میں پاکستان کی شرافت کلیۂ وہ گونگی نہیں رہی بلکہ مختلف سیاسی لیڈروں نے ، چاہے سیاسی مقاصد کی خاطر بیان دیئے ہوں یا اُن کا ضمیر اس قوت سے جاگ اُٹھا ہو کہ انہوں

Page 384

خطبات طاہر جلدے 379 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء نے سمجھا ہو کہ سیاسی رہنما کے طور پر میرا فرض ہے کہ قوم کو ان باتوں سے متنبہ کروں اور ان ظلموں کے خلاف آواز بلند کروں.چنانچہ اُن میں سر فہرست ولی خاں ہیں اور اسی طرح بلوچستان کے بزنجو صاحب بلکہ غالباً آغاز اُن کی طرف سے ہوا تھا اور بھی بہت سے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے احمدیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہے جو اس سے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا.پھر دانشوروں نے اور پاکستان کے وکلاء وغیرہ میں سے جو انصاف کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اُن میں ایک نمایاں نام فخر الدین ابراہیم صاحب کا ہے جو سپریم کورٹ کے جسٹس رہے ہیں انہوں نے بھی اور اُن کے علاوہ اور بہت سے ساتھیوں نے خود اُن کی ایما پر با قاعدہ تحریری طور پر اعلان جاری کیے اور بڑی شدت کے ساتھ ان باتوں کی مذمت کی.پھر بیگم رعنا لیاقت علی خان نے بڑی بہادری کے ساتھ اور بڑی جرات کے ساتھ واشگاف الفاظ میں ان ساری حرکتوں کی مذمت کی اور اُن کی بڑی جرات تھی ایک خاتون ہوتے ہوئے جانتے ہوئے کہ دنیا پیچھے پڑ جائے گی، بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے.پھر بعض ایسے سیاسی رہنما ہیں جن کا عام طور پر مذہبی رحجان نہیں پایا جا تا ، جن میں مذہبی رحجان عام طور پر معروف نہیں ہے اور جس کو کہتے ہیں غیر مذہبی سیاست سے تعلق رکھنے والے ہیں لیفٹسٹ (Leftist) سیاست سے، بائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے ہیں.اُن کے اندر بھی یہ تعجب ہے کہ اُن کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ یہ حرکتیں صرف غیر انسانی نہیں بلکہ خدا کے عذاب کو بلانے والی حرکتیں ہیں اور خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے ملک کو صفحہ ہستی سے مٹادے جہاں ایسے ظلم ہورہے ہیں.ان سربراہوں میں سب سے زیادہ نمایاں اور قابل احترام نام معراج محمد خان صاحب کا ہے.سارا پاکستان ان کو جانتا ہے کہ یہ بائیں پہلو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے ہیں.ہمیشہ سے رہے ہیں اور کبھی بھی انہوں نے اس بارے میں ترد نہیں کیا.انہوں نے لندن میں یہ بیان دیا کہ کلمہ طیبہ کے بیج لگانے والوں کو گرفتار کرنے سے ملک ٹوٹ جائے گا اور دیار غیر میں مقیم پاکستانی ایک دن فاتحوں کی طرح لوٹیں گے.اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ ان کے منہ سے یہ بات نکلوائی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل پر ان مظالم کا بہت گہرا اثر پڑا ہے اور دل اس طرف متوجہ ہوا ہے کہ ایسے مظالم کے بعد پھر خدا کے عذاب کی تقدیر ضرور آیا کرتی ہے.ایک ضیاء شاہد صاحب ہیں مقالہ نگار جو جنگ لاہور میں پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے

Page 385

خطبات طاہر جلدے 380 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء ہیں کہ ایک بڑی وجہ اُن سب مظالم کی جو ہمیں دکھائی دے رہے ہیں اور غیر انسانی حرکتوں کی اور سفاکانہ قتلوں کی اور لوٹ مار کی یہ ہے کہ جب احمدیوں پر مظالم ہوئے تو ہم خاموش رہے اور احمدیوں پر مظالم نے انسانی بہیمانہ طاقتوں کو آزادی دے دی اور ہمارے نو جوانوں نے گویا یہ پیغام حاصل کرلیا کہ کوئی انسانی قدر نہیں ہے جو چاہو کرو.کیسا عظیم الشان تبصرہ اور تجزیہ ہے اور انہوں نے بڑی جرات کے ساتھ ۱۸ جولائی ۱۹۸۷ء میں یہ تبصرہ جنگ اخبار میں شائع کیا.اس کی تفصیل پڑھنے کی ضرورت نہیں میں نے خلاصہ اس کا بیان کر دیا ہے.یہ تو ہوا احمدیوں کے ساتھ معاملہ.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ان ارادوں میں ، یہ ظلم کرنے والے اور اس قسم کے بہیمانہ اقدامات کرنے والے ، انسانی قدروں کو کچلنے والے بچے تھے.اگر وہ واقعۂ خدا کی محبت اور اسلام کی محبت میں ایسی باتیں کر رہے تھے.تو قطع نظر اس کے کہ وہ غلط ہے.یعنی اسلام اور خدا کی محبت میں ایسی باتیں نہیں کی جاتیں.اگر وہ بچے تھے تو کچھ نہ کچھ تو خدا کی طرف سے ایسی علامتیں اُن کے حق میں ظاہر ہوتیں کہ یا اُن کو اپنے باطل اقدامات سے رُک جانے کی توفیق مل جاتی اور ان ظلموں میں آگے بڑھنے سے خدا اُن کو روک دیتا یا جن کوششوں کو اسلام کی خدمت قرار دے رہے تھے اُن کوششوں کو خدا تعالیٰ کوئی اچھے پھل لگا دیتا اور احمدیت کے حصے سے قطع نظر باقی جگہ مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا کرتا، پاکستان کی خدمت کی توفیق عطا کرتا تو ہم یہ سوچ سکتے تھے کہ شاید ان کی نیت ٹھیک تھی.فیصلے جاہلا نہ ہوتے ہوں بعض دفعہ ایک اچھی نیت والا آدمی بھی بے عقلی کے فیصلے کر دیا کرتا ہے.لیکن جو کچھ رونما ہوا ہے وہ اس حسن ظنی کا کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیتا.جو کچھ واقعہ پاکستان کے پردے پر ظاہر ہو گیا اُس کے بعد اُس سے پتا چلتا ہے کہ اوّل سے آخر تک اسلام کی خدمت کا ادعا کرنے والے جھوٹے تھے ، ان کا ظاہر بھی جھوٹا، تھا ان کا باطن بھی جھوٹا تھا اور خدا تعالیٰ نے نہایت نا پسندیدگی اور کراہت کی نگاہ سے ان چیزوں کو دیکھا اور ہر دعوی کو الٹا کر دکھایا.ہرا دعا کو غلط ثابت نہیں کیا بلکہ برعکس نتیجہ نکال کے دنیا کو دکھایا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے.سب سے پہلے یہ ۶ / جولائی ۱۹۸۵ء کا بیان ہے اصغر خاں صاحب کا جب ابھی اسلام کو نافذ کرنے کے بلند بانگ دعوے ابھی بڑے زور سے جاری کیے جارہے تھے اور شہرت کی وہ دھوپ

Page 386

خطبات طاہر جلدے 381 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء جس میں نہایا جا رہا تھا ابھی وہ دھوپ باقی تھی ، ابھی اس شہرت کا سورج ڈوبا نہیں تھا پوری طرح.اصغرخاں صاحب نے گردو پیش نگاہ کی تو وہ کہتے ہیں کہ کسی شعبے میں نفاذ اسلام کے اثرات دکھائی نہیں دے رہے، کوئی بھی کاروائی حکومت کی ایسی نہیں جس سے ہمیں محسوس ہو کہ ہاں اسلام نافذ ہو رہا ہے.(جسارت کراچی ۶ جولائی ۱۹۸۵ء) پھر اب میں متفرق تفصیل آپ کے سامنے مختصر آرکھتا ہوں یعنی چند ایک میں نے چنے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ نفاذ اسلام کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوئیں.ان کوششوں میں ایک یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کو نماز پڑھائی جائے یعنی ہیں تو مسلمان وہ لیکن احمدی نماز پڑھتے ہیں مسلمان نماز نہیں پڑھتے.یہ کیا ظلم ہے اس لیے زبردستی پڑھائی جائے ، مار مار کر پڑھائی جائے اور اس کے لیے چھٹیاں بھی دی گئیں یعنی چھٹیاں تو نہیں یہ کہنا چاہئے زائد وقت Lunch Hour کے ساتھ یعنی دو پہر کے کھانے کے ساتھ جو گھنٹہ رخصت کا ملتا ہے اُس کے ساتھ آدھا گھنٹہ بڑھا دیا گیا کہ اب کوئی عذر نہ رہے کسی کے لیے نماز پڑھنے میں.پھر اس نظام کو ایسا نافذ کیا گیا کہ با قاعدہ ناظمین صلوۃ مقرر ہوئے اور جہاں کوئی مسلمان نماز پڑھنے والا ناظم صلوٰۃ نہیں ملتا تھا ان کی اصطلاح میں وہاں احمدی کو اپنے دعوی کے باوجود کہ یہ مسلمان نہیں ہے ناظم صلوۃ مقرر کیا گیا اور اُس نے جب احتجاج کیا کہ بھئی تم تو کہتے ہو کہ میں مسلمان ہی نہیں اور تم مجھے ناظم صلوۃ بنا رہے ہو.تو جواب یہ ملا کہ یہاں نماز تمہارے سوا پڑھتا ہی کوئی نہیں تو اب اور کس کو بنائیں لیکن سارے ناظمین صلوۃ بھی نماز پڑھنے والے نہیں تھے اور انہوں نے اس کی ایک بڑی زبردست کا نفرنس منعقد کی جس میں مختلف ناظمین صلوۃ کو بلایا گیا اور اُس ڈومیلی ضلع جہلم کے مقام پر اُس علاقے کے ناظمین صلوۃ کی کانفرنس تھی اور اُس میں باری باری مختلف ناظمین کو موقع ملا کہ وہ نماز کی تنفیذ کے معاملے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں.روزنامہ ملت لندن ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء میں یہ خبر شائع ہوئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ مرزا علی اختر ناظم صلوۃ نے ناظمین صلوۃ و میلی ضلع جہلم کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا : مقامی سطح سے لے کر صوبائی اور وفاقی سطح تک جتنے بھی امیدوار انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں اُن میں سے اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو نظام صلوٰۃ سے بے خبر ہیں اور نماز نہیں پڑھتے.یعنی یہ مسلمان قوم کے منتخب عہدہ داران کا حال ہے اور یہ اتنی لمبی کوششوں کے بعد ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء کا واقعہ

Page 387

خطبات طاہر جلدے 382 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ، ساری کوششوں کا خلاصہ یہ نکلا ہے کہ جو منتخب عہدہ دار ہیں نیچے سے اوپر تک وہ نماز نہیں پڑھتے تو باقیوں کا کیا حال ہوگا.پھر فرماتے ہیں اس کے علاوہ زکوۃ کمیٹیوں کے ممبران کو تو نماز بالکل ہی معاف ہے.یعنی زکوۃ کمیٹی کے ممبر بنائے گئے ہیں.اہم دوسرا رکن ہے نماز کے بعد زکوۃ اُن کو تو کہتے بالکل معاف ہے.چنانچہ مطالبہ یہ ہے کہ ناظمین صلوۃ کو یہ اختیار دیا جائے کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے انہیں سزائیں دی جائیں.یعنی سوٹے مار مار کے ان کو نماز پڑھائی جائے اور جو ناظمین صلوۃ نماز نہیں پڑھتے اُن کا کیا کریں گے بیچارے.بیگم رعنا لیاقت علی خان نے عورتوں کی حالت کے اوپر ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا یہ ۱۲ اپریل ۱۹۸۸ء کی بات ہے ابھی تازہ واقع ہے.پاکستان میں خواتین کی حالت انتہائی پریشان کن ہے.بڑے پیمانے پر بچوں اور عورتوں کا اغواء ہو رہا ہے.اسلام کے قلعہ کی معاشرتی اور اخلاقی حالت کے عنوان سے زنجیر اخبار میں ایک سرخی لگی اُس کے نیچے یہ خبر شائع ہوئی اور لاہور فروری ۸۸ء نے اُس کو اخذ کیا بلا تبصرہ وہ لکھتا ہے سوسائٹی برائے فلاح و بہبود اسیران کی مرتبہ رپورٹ.یہ عنوان ہے ذیلی.نیچے خبر یہ ہے پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ پچھتر ہزار دوسو چھپیں عورتیں جسم فروشی کے مکروہ کاروبار میں مصروف ہیں.پھر ایک عنوان ہے ملت ۳ / مارچ ۱۹۸۸ء میں ”جنرل ضیاء کے اسلام نافذ کرنے کی کوشش کا نتیجہ.نتیجہ خلاصہ پیش کیا گیا ہے.آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تین برس کے دوران پیچانوے ارب روپے خورد برد کر لیے گئے ہیں.یہ پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ہے اور ابھی کچھ تھوڑا عرصہ پہلے ہی وزیر خزانہ کی طرف سے جو اعتراف تھا وہ یہ تھا کہ اتنی بڑی رشوت ستانی اور حرام خوری ہورہی ہے کہ جو کچھ میں بیان کرتا ہوں کہ یہ واقعات ہمارے علم میں ہیں اُس سے بہت زیادہ اور بھی ہیں جو چھپے ہوئے ہیں ہم اُن کے متعلق نہیں کہہ سکتے.لیکن جو اعداد و شمار انہوں نے پیش کیے وہی جسے کہتے ہیں Mind mobbing انسان کو ہلا دینے والے، زلزلہ طاری کر دینے والے واقعات ہیں.انکم ٹیکس کی چوری کے متعلق کہتے ہیں کہ سالانہ ۷۰ ارب روپے کا انکم ٹیکس چوری ہوتا ہے.۲۰ لاکھ افرادان چند سالوں کے عرصے میں منشیات کے عادی بن چکے ہیں.صرف اکتوبر نومبر ۱۹۸۷ کے ایک ماہ کے یعنی اکتوبر نومبر کے عرصے میں یہ ایک ماہ بنتا

Page 388

خطبات طاہر جلدے 383 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء ہے ایک ہزار افراد قتل ہوئے ہیں.عزت لوٹنے ، ڈاکہ زنی، راہ زنی، اغوا اور ڈکیتی کی وارداتوں میں کئی سو گنا اضافہ ہو گیا ہے یعنی جس وقت نفاذ اسلام کے دعوی کیے گئے تھے اُس کے بعد سے تادم تحریران سب باتوں میں کئی سو گنا کا اضافہ ہوا ہے.یہ سب تازہ باتیں میں بتا رہا ہوں آپ کو تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ یہ ساری کوششوں کے بعد جو ماحاصل ہے وہ یہ ہے.اتنی محنتیں کی گئیں ، اتنے اقدامات کئے گئے ، اتنے بلند بانگ دعوے کیے گئے ، اسلام کے نام پر اتنے مظالم کیے گئے.ان سب کے نتیجے میں جو خدا کی طرف سے برکتیں نازل ہوئی ہیں یہ اُن کا خلاصہ ہے.رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ایک ممبر اسمبلی کے کمرے میں شراب کے نشے میں دھت ہیں افراد نگی لڑکیوں کے ساتھ رقص کرتے رہے.کراچی میں ظلم کی قیامت ٹوٹ رہی تھی ، رمضان شریف میں اور اسمبلیوں کے ممبران کا یہ حال تھا.آج تک تاریخ پاگل ہوئی ، ہوئی ہے.وہ نیرو پر یہ فقرے چست کر رہی ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیر و بنسیاں بجارہا تھا.نیرو کا جرم بنسی بجانے کا کہاں وہ جرم اور کہاں یہ کیفیت کہ کراچی میں آگ لگ گئی ہے ، مسلمان مسلمان کی جان لے رہا ہے اور اُس کو زندہ جلانے کی کوشش کر رہا ہے ، اُس کے گھر لوٹ رہا ہے ، اُس کی عزتیں لوٹ رہا ہے اور یہاں پاکستان اسمبلی کے ممبر اپنے ہوٹل میں بیٹھ کر رمضان شریف میں یہ حرکتیں کر رہا ہے.رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ فتح علی خان کا بیان ہے یہ جو ملت لندن ۲۱ را پریل ۱۹۸۸ میں شائع ہوا.مولانا نورانی صاحب اب یہ فرماتے ہیں کہ صدر ضیاء باقی جگہ تو اسلام نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے یہ تو صاف نظر آرہا ہے آپ کو.ایک ہی جگہ ہوسکتی ہے جہاں شاید وہ اسلام نافذ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں ، اُن کا اپنا وجود ہے، اپنا بدن ہے.تو فرماتے ہیں کہ صدر ضیاء الحق نے اسلام کا نام تو لیا لیکن اسلام کو اپنے جسم پر بھی نافذ نہیں کیا.صدر ضیاء الحق کے ذریعے اسلام آباد CIA کا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے.مولانا نورانی روز نامہ حیدر راولپنڈی ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء.ان کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ علماء کے اُس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو حکومت نے کبھی بھی سینے سے نہیں لگایا یعنی نورانی گروپ اور ان کے منہ سے ایسی بات سننا تو کوئی ایسے تعجب کی بات نہیں دشمن کے منہ سے ایسی بات انسان سن ہی لیتا ہے.یعنی اس میں کوئی زیادہ قابل اعتماد بات

Page 389

خطبات طاہر جلدے 384 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء نہیں لیکن جو سب سے زیادہ سینے سے لگایا جانے والا گروہ ہے جس کو اس حکومت نے گلے سے لگا یا وہ دیو بندی علماء کا گروہ ہے جسے مفتی محمود گروپ یا مولانافضل الرحمان گروپ بھی کہا جاتا ہے.شروع سے ہی حکومت کے ساتھ ان کے روابط بڑے گہرے تھے.خصوصاً احمدی مسئلہ میں اور نفاذ اسلام کی کوششوں میں اور یہی وہ علماء تھے جنہوں نے یہاں تک اعلان کیا تھا کہ ضیاء الحق صاحب نے ایسے عظیم الشان کارنامے انجام دیئے ہیں کہ اب ہمیشہ ہمیش کے لیے یہ امیر المومنین کے طور پر جانے جائیں گے اور ساری قوم ہمیشہ ان کی مرہون منت رہے گی اور تاریخ میں ان کا نام روشن رہے گا.مولانا فضل الرحمان صاحب یہ اعلان فرماتے ہیں کہ موجودہ حکومت جو کہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا دعوی کر رہی ہے.اُس نے نہ صرف اسلام کو زبردست نقصان پہنچایا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اُس نے اسلام کو شہید کر دیا ہے تو غلط نہ ہو گا.احمدیوں کو قتل کرنے والے جب ہاتھ کھل گئے تو اسلام کو شہید کرنے سے بھی باز نہیں آئے.اب سوال یہ ہے یہ جو سب دوسرے باتیں کہہ رہے ہیں ، صدر ضیاء الحق صاحب ان باتوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ نہیں ، ہو سکتا ہے یہ ساری باتیں لوگ کہہ رہے ہوں اور ابھی بھی یہی سمجھتے ہوں بیچارے کہ نہیں میں اسلام کی خدمت کر رہا ہوں اور بڑی کامیابی سے کر رہا ہوں.تو اُن کے الفاظ میں سنیئے جو جماعت احمدیہ کو کل تک کینسر کہ رہے تھے ، سرطان کہہ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اس سرطان کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکنا اور ہمیشہ کے لیے ملیا میٹ کر دینا ہمارا فرض منصبی بن چکا ہے.وہ ۲۸ اگست ۱۹۸۷ کو کراچی میں بیان دیتے ہوئے فرماتے ہیں.شہر میں ایسی فضاء ہے جس کا کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا.کیا ہم اس افسوسناک سانحہ کے بعد اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے قابل ہیں.ہمارے معاشرے میں خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں.جب تک ہم اس سرطان کو جڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکیں گے صورتحال بہتر نہیں ہو گی.یعنی سارا پاکستان کا معاشرہ سرطان بن گیا ہے اور سارے معاشرے کو اُکھاڑ کر پھینک دیں گے اور بنا کس طرح ہے وہ اُن کوششوں کے نتیجے میں جس کو مسلسل یہ گزشتہ چند سال سے کر رہے تھے، جن کی پیروی یہ چند سال سے کر رہے تھے.اب سنیئے آگے فرماتے ہیں.آخری نتیجہ ان کی اسلام کے نام پر قوم کو اکٹھا کرنا جس نتیجے تک جا کے پہنچا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن تعصب ہے.ملک کے مشرق اور مغرب میں مسلمان ہمسلمان کا

Page 390

خطبات طاہر جلدے 385 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء خون کر رہا ہے (جنگ ۸ فروری ۱۹۸۸ء).پھر آخر پر ایک اقرار ہے جو سننے سے تعلق رکھتا ہے.جماعت احمدیہ کے متعلق آپ کو یاد ہوگا کہ انہوں نے اعلان کیا اور حکومت پاکستان نے با قاعدہ رسالے جاری کیے جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کھلے لفظوں میں کہ احمدی نہ مسلمان ہیں نہ پاکستانی.یہ پاکستان کے بھی دشمن ہیں اور اسلام کے بھی دشمن.اب صدر ضیاء الحق صاحب ۸ فروری ۱۹۸۸ کو اس مضمون پر کیا کہتے ہیں.فرماتے ہیں افسوس ہے کہ چودہ سوسال بعد ہم مسلمان ہیں نہ پاکستانی اور نہ انسان رہے ہیں.یہ تو بڑا ظلم ہے چودہ سو سال سے کیوں بات شروع کرتے ہیں ۱۹۸۴ سے بات شروع کرنی چاہیے تھی.جب انہوں نے کوششیں کی تھیں یہ اُن کا نتیجہ ہے محمد رسول اللہ ہی کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے.بڑے ظلم کی بات ہے کہ اس مضمون کو وہاں سے شروع کیا جا رہا ہے.یہ کہنا چاہیے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے تو انسان کو انسان بنایا اور پھر انسان کو مسلمان بنایا ہے اور مسلمان کو خدا نمامسلمان بنا دیا اور قوم اور وطن کا وفادار بنا دیا، انسانیت کی قدروں کا وفادار بنا دیا ، مذہبی قدروں کا وفادار بنا دیا اس میں کوئی شک نہیں یہ بات درست ہے.جو تحریک حضرت اقدس صلى الله محمد مصطفی امیہ نے شروع فرمائی تھی.اُس کے متعلق جائزہ لینا ہو تو تاریخی پس منظر میں جائزہ لیں کہ اُس تحریک کا کیا نتیجہ ظاہر ہوا کیسی کیسی برکتیں ظاہر ہوئیں.ان کو اپنے زمانے کی بات کرنی چاہیے کہ ۱۹۸۴ء میں میں نے قوم کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا تھا، یہ وعدے کیے تھے، یہ بلند بانگ دعاوی کیسے تھے کہ میں ساری قوم کو دوبارہ مسلمان بناؤں گا اور اسلامی معاشرے کو نافذ کروں گا اور پاکستان کی قدروں کو دوبارہ زندہ کروں گا پاکستان کی وفاداری کے جذبات کو دوبارہ زندہ کروں گا.ایک عظیم پاکستانی قوم میری کوششوں کے نتیجے میں منصہ شہود پر اُبھرے گی.یہ دعوے کیے تھے.مگر میں اب یہ اقرار کرتا ہوں ان ساری کوششوں کے بعد آج مجھے یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ ان گزشتہ چار پانچ سال کی کوششوں کے بعد آج ہم مسلمان ہیں نہ پاکستانی ہیں ، نہ انسان رہے ہیں.جب انہوں نے پاکستانی قوم کی چھاتی پر قدم رکھا تھا اور ہر ڈکٹیٹر قوم کی چھاتی پر قدم رکھ کر عروج کو حاصل کیا کرتا ہے.اُس وقت تو یقیناً وہ لوگ مسلمان تھے چند سال پہلے جولوگ پاکستان گئے ہیں وہ گواہی دیتے ہیں کہ ملک کا حال اور تھا اُس وقت.اُس وقت انسانی قدریں ابھی زندہ تھیں اور یہ سفا کا نہ حالت نظر نہیں آتی تھی جو اس وقت قوم کی حالت ہے.اس لیے انہوں نے جس قوم کو پکڑ اوہ

Page 391

خطبات طاہر جلدے 386 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۸ء مسلمان قوم تھی.حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے باوجودا کثریت کی مخالفت کے یہ اعلان کیا تھا کہ میں بتا دیتا ہوں احمدیوں کو کہ اس قوم سے مایوس نہ ہوں.اس میں بہت شرافت ہے، ان کی اکثریت شرافت رکھتی ہے.آپ نے جو جائزہ لیا وہ یہ تھا کہ میرے نزدیک ہر ۱۰۰ پاکستانی مسلمان میں سے ۹۹ شریف النفس ہیں اور ایک کی وجہ سے پاکستان بدنام ہو رہا ہے.اس لیے ساری قوم کو مردود نہ کہو.اس قوم کو اس قوم کے ڈکٹیٹر نے جوڈکٹیٹر بن کر قوم کی چھاتی پر کھڑا ہو گیا اُس نے پکڑا اور دعوی یہ کیا کہ میں اس کو بہتر مسلمان بناؤں گا، بہتر انسان بناؤں گا، بہتر پاکستانی بناؤں گا اور یہ کیا اور اُس کا اقرار یہ ہے کہ افسوس ہے کہ اس عرصے میں ہم مسلمان ہیں نہ پاکستانی ہیں نہ انسان رہے ہیں.یہ اقرار پڑھتے ہوئے مجھے غالب کا وہ شعر یاد آ گیا جسے پڑھ کے میں نے سوچا کہ کتنے اچھے اچھے انسان تھے جو خاک میں دفن ہو گئے اور خاک نے اُن کو خاک بنا دیا، بڑے بڑے حسین چہرے تھے ، بڑے بڑے اعلیٰ دماغ تھے ، بڑے بڑے وجیہ انسان تھے، پر شوکت انسان تھے ، بڑے بڑے عظیم الشان را ہنما تھے کہاں چلے گئے.تو اس کا درد محسوس کر کے اُس نے ایک بات کہی ہے.اگر یہ درد کے لائق بات ہے تو اس سے بہت زیادہ درد کے لائق یہ بات ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کی قوم کو ہاتھ میں لے کر اس کو یہ کچھ بنادیا جائے کہ اقرار کیا جا رہا ہے کہ ہم نے بنا دیا ہے.اُس پر مجھے وہ شعر یا د آیا یہ شعر ہی ہے جو ان کے حالات پر صادق آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ: مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لٹیم !.تو نے وہ گنج ہائے گراں مایا کیا کئے (دیوان غالب صفحہ: ۲۳۵) کس قوم کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہے اور کیا بنا کر رکھ دیا ہے.اس مضمون کے بقیہ حصے کو میں انشاء اللہ اگلے خطبے میں جاری رکھوں گا اور اس کے نتیجے میں ایک بہت اہم اعلان ہے جو میں آخر پہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وقت زیادہ ہو چکا ہے اس لیے انشاء اللہ اس خطبے کا بقیہ حصہ اگلے جمعہ میں پیش کیا جائے گا.

Page 392

خطبات طاہر جلدے 387 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء پھر فرمایا:.ائمۃ التکفیر کومبا صلے کا چیلنج ( خطبه جمعه فرموده ۳ / جون ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت تلاوت کی.فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ ( آل عمران : ۶۲) گزشتہ رمضان مبارک میں آخری ایام میں قرآن کریم کے جس حصے کا درس دینے کا موقع ملا اسی دوران اس آیت پر بھی درس کی توفیق ملی جس کی ابھی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.اس آیت کا تعلق مباہلہ سے ہے اور مباہلہ سے متعلق اسلامی تعلیم کے اصول اور ان اصولوں کی روشنی میں طریقہ کار اسی آیت میں بیان فرما دیا گیا ہے.درس چونکہ بہت طویل تھا اور دو یا تین مجالس پر پھیلا ہوا تھا اس لئے اس سارے درس کو دوبارہ یہاں دہرانا تو مقصود نہیں لیکن اسی درس کے دوران میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ چونکہ یہ احمدیت کی پہلی صدی کے آخری ایام ہیں اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو سو سال سے تکذیب کی جارہی ہے اور پہلی صدی کے اختتام پر مکذبین کا شوروغوغا بہت بلند ہو گیا ہے اس لئے اس وقت اس تکذیب کا جواب مباہلہ کے چیلنج ہی کے ذریعے دینا مناسب ہوگا.اس پہلو سے میں نے کچھ امور کے متعلق درس کے دوران روشنی ڈالی لیکن

Page 393

خطبات طاہر جلدے 388 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء احباب کو تاکید کی کہ وہ اسے فی الوقت مباہلے کا چیلنج نہ سمجھیں کیونکہ میں اس مضمون کے لئے خطبات کو ذریعہ بناؤں گا اور خطبات کے ذریعے انشاء اللہ ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کے چیلنج یعنی مباہلہ کے چیلینج کا اعلان کیا جائے گا.سب سے پہلے مختصراً میں مباہلہ کی نوعیت سے متعلق کچھ باتیں احباب کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.اس آیت کا پس منظر یہ ہے یعنی مفسرین جسے شان نزول کہتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا اور کئی روز تک آپ سے الوہیت صحیح اور آپ کے دعاوی اور خدا کی وحدانیت کے متعلق مباحثہ کرتا رہا.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ان کو نہایت موثر جواب دیئے اور منطقی نقطہ نگاہ سے بھی ان کے منہ بند کر دئے اور اس مباحثہ کے دوران بھی بیان کیا جاتا ہے اسی سورۃ کی وہ اولین آیات نازل ہوئیں جن میں مزید دلائل خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کو سمجھائے جاتے رہے.چنانچہ جب مباحثہ دوسروں کی طرف سے کج بحثی اختیار کر گیا اور ایک دلیل جو خوب اچھی طرح واضح طور پر پیش کر دی گئی تھی.اسے سنے، اسے سمجھنے کے باوجود پھر وہ اپنے لچر اعتراضوں کی تکرار کرتے رہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی جس کی میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.اس میں خدا تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کومخاطب کر کے فرمایا فَمَنْ حَاجَكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ پس ان امور میں فِيهِ سے مراد قرآن کریم کی صداقت یا خدا تعالیٰ کی وحدانیت ہے یا دونوں بیک وقت مراد لی جاسکتی ہیں تو جوان امور میں یا اس معاملے میں اب بھی تجھ سے جھگڑا کرے کیونکہ حاجَّكَ جیسا کہ میں نے درس میں بھی کہا بات واضح کی تھی جھگڑے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور بعض دفعہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن کم.تو یہاں چونکہ ضد کرنے والا مباحث مراد ہے اس لئے قرآن کریم کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اگر محبتوں سے ، دلیل بازیوں سے جس کو دلیل نہیں بلکہ دلیل بازیاں کہا جاتا ہے اور کج بحثیوں سے باز نہ آئے تو اس کو خصوصیت سے اس وقت کے بعد مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تجھے کھلا کھلا علم عطا کر دیا گیا.یہاں علم سے مراد ایسے دلائل ہیں جو روشن ہوں جو واضح اور قطعی ہوں جنہوں نے معاملہ کھول دیا ہو یعنی ایک دفعہ معاملے کو اس طرح کھول دیا کہ وہ ظن

Page 394

خطبات طاہر جلدے 389 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء سے بات علم کی حد میں اتر آئے.چنانچہ ان کی ظنی باتوں کے مقابلے پر خدا تعالیٰ نے تجھے علم عطا فرما دیا اس کے بعد ان کے لئے حجت کی گنجائش کوئی باقی نہ رہی.پھر کیا طریق باقی رہ جاتا ہے جس سے معاملہ طے ہو.فرمایا فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ تو ان سے کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تمہارے بیٹوں کو بلاتے ہیں یعنی ہم مل کر اپنی اپنی اولا د کو آواز دیتے ہیں کہ آجاؤ.ابناء کا لفظ اگر چہ بیٹوں کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جب عمومی طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے مرادسب اولاد ہے.تو فرمایا أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاء كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمْ اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں وَ اَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَكُمْ اور ہم اپنے سے تعلق رکھنے والے تمام نفوس کو آواز دیتے ہیں اور تم بھی اپنے سے تعلق رکھنے والے تمام نفوس کو آواز دو ثُمَّ نَبْتَهِلْ پھر ہم مباہلہ کرتے ہیں فَنَجْعَل نَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ اور خدا کی لعنت اس شخص پر ڈالتے ہیں جو بالا رادہ واضح طور پر جھوٹ سے کام لے رہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی تفسیر میں اس پہلو پر زور دیا کہ یہاں مباہلہ محض غلط بات پر ایمان رکھنے والوں سے نہیں کیا جار ہا بلکہ ایسے غلط ایمان رکھنے والوں سے کیا جارہا ہے جو جھوٹے ہیں جو جانتے ہیں کہ ان کے ایمان کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے جو واضح طور پر آنکھیں کھول کر خدا پر افترا کرنے والے ہیں.پس ایسا مکذب جو بے حیا ہو چکا ہو، ایسا مکذب جس پر بسا اوقات یہ بات واضح ہو چکی ہو کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور بالا رادہ تکذیب سے باز نہ آئے اُس مکذب کو دعوت مباہلہ ہے اور اس مباہلہ میں دو فریق ہوتے ہیں.ایسی لعنت کو مباہلہ نہیں کہا جاتا جسے قرآن کریم کی اصطلاح میں ، اسلامی اصطلاح میں لعان کہتے ہیں.لعان میں بھی دونوں پہلو آ جاتے ہیں لیکن مباہلہ اور لعان میں ایک فرق میں بتانا چاہتا ہوں.لعان اُس ملاعنہ کو یعنی ایک دوسرے پر لعنت ڈالنے کو کہا جاتا ہے اسلامی اصطلاح میں جس میں خاوند بیوی پر الزام لگائے یا بیوی خاوند پر الزام لگائے اور گواہ موجود نہ ہوں اور اس کے نتیجہ میں کوئی اور صورت نہ رہے تو وہ بھی مباہلہ سے ملتی جلتی چیز تو ہے لیکن ایک خاص مضمون سے تعلق رکھنے والی ہے.تکذیب میں ایک دعویدار کے خدا سے ہونے کی تکذیب کی جاتی ہے اور لعان میں ایک شخص کو بد کا رسمجھتے ہوئے اُس کی بدکاری کا ادعا کیا جاتا ہے اور اُس کے جواب میں پھر دوسرے فریق

Page 395

خطبات طاہر جلدے 390 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء کو لعنت کا اختیار دیا جاتا ہے اور بالآخر یہ لعنت بعض دفعہ دوطرفہ صورت اختیار کر جاتی ہے اس لئے اُسے ملاعنہ کہا جاتا ہے تو بہر حال یہ مضمون لعان کے مضمون سے مختلف ہے.مباہلہ میں ایک طرف سے خدا کی طرف سے ہونے کے دعویدار کا ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف اُس دعویدار کی تکذیب کرنے والوں کا ہونا ضروری ہے.قرآن کریم میں مباہلہ کا یہی مفہوم ہے اس کے سوا اور کوئی مفہوم نہیں ہے.اس لئے اگر احمدیت کے بعض مخالفین جو ہلکے ہونے کی وجہ سے اچھلتے ہیں اور بعض دفعہ ایسی باتوں میں مباہلہ کا چیلنج دیتے رہتے ہیں جن میں قرآن کریم نے مباہلہ کا کوئی ذکر ہی نہیں فرمایا اور امت محمدیہ میں اُن امور میں مباہلہ کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.تو ایسے چھوٹے اور ہلکے معاندین کے جواب میں جماعت احمدیہ کے خلفاء کا یہی طریق رہا ہے وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں اور انہیں کوئی جواب نہیں دیتے.اس لئے میں یہ بات کھول رہا ہوں کہ بعض دفعہ بعض اسی قسم کے علماء کہلانے والے یہ تماشا بناتے ہیں، یہ ڈرامہ کھیلتے ہیں اور عوام الناس پر گویا یہ اثر ڈالتے ہیں کہ گویا جماعت احمدیہ کے خلفاء کو ہم نے بار بار چیلنج دیئے اور یہ بھاگ گئے.اول تو ان کی حیثیت کا معاملہ بھی زیر نظر آنا چاہئے کہ اُن کی حیثیت کیا ہے؟ کس قوم کی نمائندگی کرتے ہیں.چنانچہ آیت مباہلہ بتارہی ہے کہ جو بلانے والا ہو وہ ساری قوم کو بلانے کا مجاز ہو.اُس کی ایسی حیثیت ہو کہ اُس کی آواز پر قوم کے مرد اور عورتیں اور بچے اور سارے نفوس لبیک کہتے ہوئے اُس کے گرد اکٹھے ہو جائیں.ہر کس و ناقص کا کام نہیں ہے کہ وہ مباہلہ شروع کر دے یا قرآن کے نزدیک ہر کس و ناقص اگر مباہلہ کی آواز دے تو بچوں کا فرض نہیں ہے کہ ہر مباہلہ کا اس طرح جواب دے.قرآن کریم نے جو مباہلہ کا نقشہ کھینچا ہے اس نقشہ کی رو سے جب بھی حالات ملتے جلتے دکھائی دیں اس وقت مباہلہ ضروری ہو جاتا ہے یا مباہلہ کا اختیار ہو جاتا ہے ضروری نہیں کیا جاسکتا.تو دونوں طرف را ہنما ہونے چاہئیں.معزز را ہنما ہونے چاہئیں جن کے پیچھے پوری قوم ہو اور معاملہ کسی خدا کی طرف سے ظاہر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کی سچائی کا معاملہ ہو اور ایک قوم اُسے جھٹلا رہی ہو اور دوسری اُس کو ماننے والی اُس کی تائید میں دل و جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے حاضر ہورہی ہو اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہو.اتنا کامل یقین رکھتی ہو کہ جب اسے بلایا جائے کہ آؤ قوم کے مردو عور تو اور بچو، آؤ اور میری صداقت کا اقرار کرو اور اپنی زندگی کی ہر قیمتی چیز داؤ پے لگا دو اور یہ خدا سے دعا کرو کہ

Page 396

خطبات طاہر جلدے 391 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء اگر میں جھوٹا ہوں تو تم پر لعنت پڑے.اس آواز کے جواب میں مومنین کی جماعت جس طرح لبیک کہتی ہے یہ وہ نقشہ ہے جو قرآن کریم آنحضرت ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے متعلق پیش فرمارہا ہے اور پھر دوسروں کو چیلنج ہے کہ اگر تم بھی ایسے ہی معزز سمجھے جاتے ہو اگر تمہاری باتوں کا بھی ایسا ہی اعتماد ہے تو تم بھی اپنے ماننے والوں کو اپنی غلامی کا ادعا کرنے والوں کو اسی طرح ہی پکارو اور ان کو کہو کہ تم بھی اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دو اور یہ اعلان کرو کہ یہ دعوایدار جھوٹا ہے اور ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے.یہ ہے مباہلہ کی جان، مباہلہ کی روح جس کو قرآن کریم نے اس مختصر مگر بہت ہی گہری اور عمیق اور تفصیلی مضمون پر روشنی ڈالنی والی آیت میں بیان فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کو سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے جب میں نے سو سال کا لفظ بولا یعنی صدی اختتام کو پہنچنے والی ہے تو یہ مراد نہیں تھی کہ آپ کے دعوئی الہام اور دعوی ماموریت کو اتنا عرصہ گزرا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب جماعت کی داغ بیل ڈالی اُس وقت سے لیکر آئندہ سال 23 مارچ تک ایک سوسال پورے ہوں گے لیکن جہاں تک دعویٰ الہام کا تعلق ہے، دعوی ماموریت کا تعلق ہے وہ اس سے بہت پہلے سے تھا.پہلا ماموریت کا الہام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو 1882ء میں ہوا اور اُس سے پہلے بھی سلسلہ الہامات کا ذکر براہین احمدیہ میں ملتا ہے جو بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ ایک سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلسل خدا تعالیٰ سے الہام پانے کا اور بچے کشوف دیکھنے کا ادعا فرمایا اور سچی رویا دیکھنے کا دعویٰ کیا اور ان امور کو کھول کھول کر گرد و پیش میں پیش کیا اور پھر یہ دائرہ ، خطاب کا دائرہ یعنی بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ آپ نے ہندوستان والوں کو، پھر تمام دنیا والوں کو ایک مذہب والوں کو پھر دوسرے مذہب والوں کو یہاں تک کہ تمام دنیا کے مذاہب کو مخاطب کر کے اپنے ان دعاوی کو بڑی تحدی کے ساتھ پیش فرمایا.اس لئے آج کل کے اس دور میں جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کا اس دور میں جھنڈا اٹھا لیا ہے اور پاکستان کے بدنصیب سر براہ نے جو پہلے ڈکٹیٹر کے طور یہ ظاہر ہوئے پھر اس کے بعد صدر کا چولہ پہنا پھر واپس آمریت کی طرف رُخ اختیار کیا

Page 397

خطبات طاہر جلدے 392 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء اور حال ہی میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ دوبارہ آمریت کا لباس اگر کھلم کھلا نہیں پہنیں گے تو عملاً پہن کر اس حیثیت سے اپنے عرصہ حیات کو لمبا کرنے کی کوشش کریں گے.وہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی تکذیب کے سب سے بڑے علمبر دار ہیں اور ان کے ساتھ بعض علماء نے جو حاشیہ بردار ہیں انہوں نے بھی بدزبانی اور بد کلامی کی حد کر دی ہے.اسمبلیاں بھی بے پاک ہو چکی ہیں وہ سیاسی ایوان جنکا مذاہب کے معاملات سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوا کرتا، جن میں خدا کی طرف سے ہو نیوالے دعویداروں کی تکذیب اس لئے نہیں کی جاتی کہ اُن کا اس مضمون سے تعلق نہیں ہے.ان اسمبلیوں میں بھی یہ فیشن بن گیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نہ صرف تکذیب کریں بلکہ آپ پر پھبتیاں کسیں تضحیک سے کام لیں اور ہر پہلو سے آپ کی تخفیف کر کے گویا اپنی نظر میں آپ کو دنیا میں ذلیل کر دیں.اس سلسلہ میں پہلی بات تو سمجھانے کی ہے جو میں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں.میں نے کئی طریق سے اس قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنی حیثیت اور اپنے مقام کو سمجھو بے وجہ ایسے معاملات میں دخل نہ دو جن کے نتیجہ میں تم خود اپنی ہلاکت کو دعوت دینے والے ثابت ہو گے اور ادب کی زبان اختیار کرو.اگر تمہیں ایک دعویدار کے دعوی کی سچائی پر ایمان نہیں ہے تو خاموشی اختیار کرو اور یا انکار کرنا ہے تو انکار میں بھی ادب کا پہلو ہاتھ سے نہ جانے دو اور قرآن کریم نے جو رہنما اصول اس سلسلہ میں بیان فرمایا ہے اس کو نہ بھلاؤ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَاِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَاِنْ يَّكُ صَادِقَا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ (المؤمن : ۲۹) تو دیکھو تم تکذیب میں زبانیں لمبی نہ کرو وَ إِنْ يَكُ كَاذِبًا اگر یہ جھوٹا ہے یعنی موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک مخفی ایمان رکھنے والے نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ اگر موسیٰ جھوٹا ہے فَعَلَيْهِ كَذِبہ اس کا جھوٹ اور اس جھوٹ کا فساد خود اس پر پڑے گا.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص خدا پر جھوٹ بول رہا ہو اور خداس کے جھوٹ کا عذاب قوم پر ڈال دے اس لئے تمہیں مطمئن رہنا چاہئے کہ اس کے جھوٹ سے خدا تمہیں نہیں پوچھے گا.اس نے جھوٹ بولا ہے تو خدا کو علم ہے جس پر جھوٹ بولا جا رہا ہے تمہیں قطعی علم کا کوئی ذریعہ حاصل نہیں ہے کیونکہ تم خدا اور اُس کے بندوں کے درمیان آتے نہیں تمہارا مقام نہیں ہے کہ اُس آواز کوسن سکو جو خدا کسی بندے کو

Page 398

خطبات طاہر جلدے 393 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء مخاطب کرتے ہوئے اُس کے کانوں میں روح القدس کے ساتھ پھونکتا ہے.اس لئے تم ایک طرف بیٹھے رہو.زیادہ سے زیادہ تمہارا یہ کام ہے کہ کہو یقین نہیں آتا لیکن تکذیب کا اور شرارت کا تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا.فرمایا پس اُس نصیحت کرنے والے نے یہ نصیحت کی کہ اگر یہ جھوٹا ہے تو تمہیں اس سے کیا.خدا جانے اور یہ جھوٹا جانے اللہ تعالیٰ خود اس کو ہلاک کر دے گا اور تم پر اس کے جھوٹ کا وبال نہیں پڑے گا.لیکن وَاِنْ يَكُ صَادِقًا اگر یہ سچا نکلا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ پھر تم پر ضرور وہ دو بال نازل ہوں گے اور وہ آفات نازل ہوں گی جن کا یہ وعدہ کر رہا ہے.اس لئے خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور احتیاط سے کام لو اور بے وجہ ایک دعویٰ کرنے والے کی تکذیب میں جلدی نہ کرو.یہ بھی میں نے سمجھانے کی کوشش کی اور مختلف رنگ میں جس حد تک بھی خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی گزشتہ چند سال مسلسل اس قوم کو اور تکذیب کے راہنماؤں اور ائمہ کو نیک نصیحت کے ذریعہ قرآن کریم کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری آواز میں بہرے کانوں پر پڑتی رہی ہیں.یہ لوگ کسی طرح بھی تکذیب سے باز نہیں آئے بلکہ ان میں سے بعض تکذیب اور بے حیائی میں حد سے زیادہ بڑھتے چلے گئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں مذاق اور تضحیک اور تمسخر کے رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام لے کر چوٹیں لگائی گئیں.ان کو اتنا بھی خیال نہیں آیا کہ دنیا کے اکثر ممالک ایسے ہیں جن کی بھاری اکثریت حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ کو سچ نہیں سمجھتی ان کی بھی اسمبلیاں ہیں ، ان کے بھی ایوان ہیں بڑے بڑے اور بعض اس میں سے اتنے طاقتور ملک ہیں کہ دس یا ہیں پاکستان بھی ان کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے لیکن وہ شرافت کی راہ اختیار کرتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اسمبلیاں اس غرض سے قائم نہیں کی جاتیں اور باوجو قطعی طور پر ایک خدا کی طرف سے ہونے والے دعویدار کو اپنی دانست میں جھوٹا سمجھنے کے باوجود پھر بھی وہ کوئی لفظ تکذیب کا، تخفیف کا اپنی اسمبلیوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی کے برخلاف استعمال نہیں کرتے.ان میں دہر یہ بھی ہیں ان میں مشرکین بھی ہیں ان میں بعض یہود بھی ہیں ، نصاری بھی ہیں، ہر قسم کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں لیکن کبھی آپ ان کی اسمبلیوں سے بانی اسلام کے متعلق اس بدتمیزی کی آواز کو نہیں سنیں گے.پھر آپ مسلمان کہلاتے ہوئے ، اعلیٰ تہذیب کا دعویٰ رکھتے ہوئے اُس شخص نے کی غلامی کا دعویٰ کرتے ہوئے جو اخلاق کی

Page 399

خطبات طاہر جلدے 394 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء چوٹیوں پر فائز فرمایا گیا تھا جس کا قدم اخلاق پر نہیں بلکہ اخلاق کی چوٹیوں پر تھا.تم عام دنیا سے ہی تہذیب سیکھ لو، عام دنیا ہی سے ادب کے تقاضے سیکھ لولیکن یہ باتیں بھی بے کار ثابت ہوئیں اور کسی نے ان نصیحتوں کی طرف توجہ نہ دی اور مسلسل یہ لوگ تکذیب اور شرارت میں اور ایذاء رسانی میں بڑھتے چلے گئے.پس اس وقت یہ مناسب ہے کہ اس صدی کے اختتام سے پہلے اس قوم کو قرآن کی زبان میں مباہلہ کی طرف بلایا جائے.حجت کی راہیں بند کر دی گئی ہیں.دو طرح سے یہ راہیں بند ہوئی ہیں ایک تو یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم کلام اتنا قوی اور اتنا غالب ہے کہ اُس نے ان مخالفین کے دیرینوں کے منہ پھیر دیئے ہیں اور ان قوی دلائل سے تنگ آکر اور عاجز آ کر انہوں نے شرارت کی راہ اختیار کی ہے اور دھونس کی راہ اختیار کی ہے.طاقتور اور قوی دلائل والا کبھی تلوار پر ہاتھ ڈالنے میں جلدی نہیں کیا کرتا وہ لوگ جو جبر کی طرف دوڑتے ہیں اس بات کا اقرار کر کے دوڑتے ہیں کہ اب ہمارے پاس کوئی دلیل باقی نہیں رہی.دلیل کی رو سے ہم ان مخالفین کو اپنے مد مقابل کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں.یہ اقرار تلوار کے ذریعہ اپنی بات منوانے کے اصرار کے اندر شامل ہوا کرتا ہے.تو اس رنگ میں حجت کی راہ بند ہو چکی ہے.دوسرے گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں یہ وتیرہ اختیار کیا ہے یعنی ارباب پاکستان نے یہ وتیرہ اختیار کیا ہے کہ احمدیت کے خلاف ہر قسم کی ہرزہ سرائی کو کھلی چھٹی ہے، ہر قسم کا گندہ اور فساد والا لٹریچر اور دروغ اور افتراء پرمبنی لٹریچر کھلے عام شائع کیا جارہا ہے، کثرت کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے ملک میں ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں میں بھی حکومت کے خرچ پر یا حکومت کے ظاہری خرچ پر نہیں تو مخفی خرچ پر امداد کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے، مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کئے جارہے ہیں اور بے باکی اور بے حیائی کی حد یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تصویر ایک پھنیر سانپ کے طور پر بنائی جاتی ہے اور دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ یہ پھنیر سانپ ہے جو تمہیں بھی ڈسنے کے لئے آرہا ہے اور تمہیں اس سے متنبہ کیا جارہا ہے.تو خدا کے عذاب کو بلانے کے جتنے طریق بھی ممکن ہیں، بے حیائی اور بے باکی کی جتنی راہیں ممکن ہیں ان سب کو اختیار کیا جا رہا ہے.اس لئے اب سمجھانے کا وقت گزر چکا ہے دوسرا یہ کہ احمدیت کی طرف سے جب جوابی

Page 400

خطبات طاہر جلدے 395 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء لٹریچر شائع کیا جاتا ہے تو شائع کرنے والوں اور تقسیم کرنے والوں کو قید کر لیا جاتا ہے، اس لٹریچر کوضبط کر لیا جاتا ہے.گزشتہ چند سالوں میں سینکڑوں احمدی رسائل اور اخبارات اور اشتہارات ضبط کئے گئے اور سینکڑوں احمدی نوجوانوں کو اس جرم کے ارتکاب میں قید کر لیا گیا کہ انہوں نے احمدیت پر الزام لگانے والوں اور بے باک زبان استعمال کرنے والوں کے جواب میں نہایت شائستہ زبان میں احمدیت کا دفاع کرنے کی کوشش کی.پس ہر وہ احمدی رسالہ یا اخبار یا اشتہار جس کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی اس رسالے یا اخبار یا اشتہار کو بھی ضبط کر لیا گیا.اُن لوگوں کو قید کر لیا گیا جنہوں نے وہ تقسیم کرنے کی کوشش کی.اس لئے اس آیت کریمہ سے اگلی آیت میں جو قرآن کریم نے مضمون بیان فرمایا ہے اس کا پوری طرح اطلاق ہو رہا ہے کہ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (الشورى : ۱۵) اب حجت کا معاملہ گزر چکا ہے اب دلیل کی راہ تم نے چھوڑی کوئی نہیں.اول غالب دلیل کی وجہ سے تمہارے لئے مد مقابل دلیل پیش کرنے کی سکت ہی باقی نہیں تھی اور پھر تم نے اُس غالب دلیل کی راہ روکنے کے لئے تلوار اٹھالی ہے اور جبراً اُس دلیل کی آواز کو بند کرنے کی اور مثانے کی کوشش کی ہے اس کے بعد لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اب تمہارے اور ہمارے درمیان حجت کی کوئی بات باقی نہیں ب یہ حالت پہنچ جائے تو اس کے بعد مباہلہ کے سوا چارہ کوئی نہیں رہتا.چونکہ اصل دعویٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوئی اور بذات خود میں یا آپ دعویدار نہیں ہیں مگر اس حیثیت میں کہ ہمیں بھی اُس دعویٰ کی تصدیق کے لئے اپنے جان و مال اور عزتوں کو پیش کرنے کے لئے بلایا جارہا ہے.اس حیثیت سے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مباہلہ کی آواز کو آج پھر اٹھاتا ہوں.وہ آواز جو سو سال پہلے اٹھائی گئی تھی جس سے ٹکرا کر سینکڑوں مولوی اور اُن کے ساتھی خدا تعالیٰ کی ذلتوں کی مار کھا کھا کر ہلاک ہوئے تھے اور پھر بھی بعض لوگوں نے اُس غلط روش کو ترک نہیں کیا.اُسی آواز کو آج میں دوبارہ بلند کرتا ہوں اور اسے میں دو حصوں میں پیش کروں گا.آج کے خطبہ کا تعلق جس سے ہے وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر جھوٹے الزامات کا تعلق ہے اور آپ کو مفتری اور مکذب قرار دینے سے تعلق ہے.دوسرے حصہ میں یعنی انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں وہ امور پیش کروں گا جو اس کے بعد جماعت احمد یہ

Page 401

خطبات طاہر جلدے 396 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء پر مسلسل بہتان طرازی سے تعلق رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد جو نئی نئی افتراء پردازی کی راہیں اس قوم نے اختیار کی ہیں ان سے تعلق رکھتے ہیں.اس لئے پہلا آج کا جو مباہلہ کا چیلنج ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب سے تعلق رکھتا ہے.دوسرا بھی دراصل آپ ہی کی تکذیب سے تعلق رکھتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کی وساطت سے جماعت احمد یہ پر نئے نئے جو الزام تراشے جارہے ہیں ان کے متعلق ایک چیلنج ہوگا.تو اس مناسبت سے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ چیلنج پیش کرتا ہوں :.ہر ایک جو مجھے کذاب سمجھتا ہے اور ہر ایک جو مکار اور مفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعویٰ مسیح موعود کے بارہ میں میرا مکذب ہے اور جو کچھ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی اس کو وہ میرا افترا خیال کرتا ہے.وہ خواہ مسلمان کہلاتا ہو یا ہندو یا آریہ یا کسی اور مذہب کا پابند ہو اس کو بہر حال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مقابل پر رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے یعنی خدا تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار چند اخباروں میں شائع کرے کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے یہ بصیرت کامل طور پر حاصل ہے کہ یہ شخص (اس جگہ تصریح سے میرا نام لکھے ) جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے در حقیقت کذاب ہے اور یہ الہام جن میں سے بعض اس نے اس کتاب میں لکھے ہیں یہ خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ سب اس کا افترا ہے اور میں اس کو درحقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد اور یقین کامل کے ساتھ مفتری اور کذاب اور دجال سمجھتا ہوں.پس اے خدائے قادر اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین نہیں ہے تو میرے پر اس تکذیب اور تو ہین کی وجہ سے کوئی عذاب شدید نازل کر ورنہ اس کو عذاب میں مبتلا کر.آمین.ہر ایک کے لئے کوئی تازہ نشان طلب کرنے کے لئے یہ دروازہ کھلا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ: ۷۱-۷۲) پس یہ دروازہ جس طرح ایک سو سال پہلے کھلا تھا آج بھی کھلا ہے.تکذیب کرنے والے تکذیب تو کر رہے ہیں لیکن باقاعدہ قرآنی چیلنج، قرآنی مباہلہ کی تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملاعنہ نہیں

Page 402

خطبات طاہر جلدے 397 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۸ء کر رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس چیلنج کو سامنے رکھتے ہوئے کھلے لفظوں میں یہ وضاحت کرتے ہوئے لعنت ڈالنے کی جرات نہیں کر رہے کہ اگر وہ جھوٹے ہیں تو خدا تعالیٰ وہ ساری لعنتیں ان پر جمع کر دے.اس لئے جن لوگوں کی بد زبانی کے چند نمونے میں آپ کے سامنے رکھنے والا ہوں ان کو بھی اور ان کے تمام ماننے والوں کو بھی اور ان کو بھی جو تکذیب میں پیش پیش ہیں اور حکومت پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کو بھی جو تکذیب میں پیش پیش ہیں اور علماء کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کو بھی جو تکذیب میں پیش پیش ہیں اور عدلیہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی جو تکذیب میں پیش پیش ہیں اور سیاست سے تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی جو تکذیب میں پیش پیش ہیں اور عوام سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کچھ گروہوں کے سربراہ ہیں ان سب کو میں مخاطب کر کے تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے مباہلہ کا چیلنج دیتا ہوں اور ان الفاظ میں چیلنج دیتا ہوں جو الفاظ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے میں نے پڑھ کر سنائے ہیں.جس قسم کی بد زبانیاں اور گستاخیاں کی گئی ہیں ان کے نمونے چند میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ ان لوگوں کو یاد کراؤں کہ یہ ساری باتیں اپنے مباہلہ میں بیان کریں اور جرأت سے بیان کریں اگر وہ بچے ہیں.ایک منظور الہی ملک ہے کوئی انہوں نے لکھا کہ مرزا صاحب ( ہفتہ روزہ لولاک سے یہ عبارت لی گئی ہے ) مرزا صاحب کا دعوی ہے کہ وہ خدا ہے خدا کا بیٹا ہے.لعنت اللہ علی الکاذبین.میں اور میری ساری جماعت اس بہتان تراشی پر ، اس اعلان کرنے والے اور اس کی تائید میں دیگر علماء کو یہ چیلنج دیتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے، افترا ہے.ہمارا جواب یہ ہے کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.اگر تم سچے ہو اور خدا کا خوف رکھتے ہو تو مقابل پر تم بھی کہو لعنت اللہ علی الکاذبین.محمد سجاد خان صاحب ہیں یہ بھی بے باکی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں چہرہ قادیانیت ایک رسالہ ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نعوذ باللہ من ذلک ایک پھنیر سانپ کے طور پر پیش کرنے کی بے حیائی کی گئی ہے.یہ اس کے مصنف ہیں، یہ صاحب.جمعیت اشاعت توحید والسنتہ نام رکھا ہوا ہے.انا للہ و انا اليه راجعون توحیدوسنتہ.یہ اناللہ.کس کی توحید اور کس کی سنہ.لکھتے ہیں قادیانی عقیدہ ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی پیروی

Page 403

خطبات طاہر جلدے 398 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء باعث نجات نہیں بلکہ مرزا قادیانی کی پیروی سے نجات ہوگی.میں تمام جماعت احمد یہ عالمگیر کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ لعنت اللہ علی الکذبین.اس مکذب اور مفتری اور سراسر جھوٹے اور دروغ گوانسان پر خدا کی لعنت ہوا اگر یہ جھوٹا ہے تو ورنہ تمام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متبعین پر اگر ہم جھوٹے ہیں خدا کی لعنت ہو.مولا نا عبد اللہ سندھی کوئی عالم دین سکھر کے نام سے معروف ہیں وہ لکھتے ہیں انگریز نے جہاد کو منسوخ کرنے اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے غلام احمد قادیانی کو بطور نبی کھڑا کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جہاد منسوخ صرف نبی ہی کرسکتا ہے.میں تمام جماعت احمد یہ عالمگیر کی طرف سے اس مولانا کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.اگر تم حق پر ہو اور جرات رکھتے ہو تو تم بھی جوابا یہ کہو کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.مولا نا عبد الحلیم صاحب ہیں کوئی وہ فرماتے ہیں مرزا قادیانی کی مدد عالمی صلیبی قوتیں کرتی تھیں.میں پھر اپنے اس اعلان کو دہراتا ہوں کہ لعنت اللہعلی الکاذبین اور مخاطب کو کہتا ہوں کہ تم میں حیاء اور جرات ہے تو تم بھی جو ابا اس دعویٰ کو پیش کر کے کھلے لفظوں میں کہو کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.ایک پروفیسر صاحب کہلاتے ہیں ساجد میر صاحب وہ لکھتے ہیں قادیانی انگریز کے خود کاشتہ پودے اور ملت اسلامیہ کے دشمن ہیں.میں پھر اس اعلان کا اعادہ کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ ساری جماعت عالمگیر اس آواز میں میرے ساتھ شامل ہے اور میرے پیچھے ہے اور کامل ایمان اور یقین رکھتی ہے کہ یہ الزام لگانے والا جھوٹا اور مفتری ہے اس لئے ہم یہ اعلان کرتے ہیں لعنت اللہ علی الکاذبین.اگر تم سچے ہو اور تمہارے بھی کچھ مانے والے ہیں جو تمہاری تائید میں جرات کے ساتھ یہ اعلان کر سکتے ہیں تو سب لوگ اپنے بڑوں اور چھوٹوں کو ملا کر یہ اعلان کرو کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.حکومت پاکستان نے جو چیتھڑا شائع کیا تھا ” قادیانیت اسلام کے لئے سنگین خطرہ اس کے اندر بہت سی بے ہودہ سرائیاں کی گئیں.زیادہ تر اُس کا تعلق بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے تھا اس لئے اس طرح مباہلہ کا چیلنج دینا آسان نہیں ہے کہ جیسے ایک ایسے مفتری کو چیلنج دیا جاتا ہے جو بالکل ایک نئی بات اپنی طرف سے بناتا ہے مگر اُس کتا بچہ پر یا اُس رسالہ پر قرآن کریم کی یہ آیت صادق آتی ہے يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ (النساء: ۴۷) کہ وہ کلام کو اس طرح توڑ مروڑ

Page 404

خطبات طاہر جلدے 399 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء کر پیش کرتے ہیں کہ جو کہنے والے کا منشاء ہے اُس کے برخلاف اُس کی بات سے نتیجہ نکالتے ہیں اور ایک ایسی بات اُس کی طرف منسوب کرتے ہیں جو مقصود نہیں ہے.اس پہلو سے وہ رسالہ دجل کا اور فریب کاری کا ایک شاہکار ہے لیکن جو اُس رسالے میں روح پیش کی ہے وہ ساری جھوٹی ہے.نتیجے جو نکالے گئے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں.مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر سے کہ نعوذ باللہ آپ نے یہ تسلیم کیا کہ آپ کو انگریزوں نے اور آپ کی جماعت کو انگریزوں نے خود کاشت کیا تھا اور وہ خدا کی طرف سے گویا نہیں ہے.پھر وہ لکھتے ہیں وہ تمام اسلام دشمن قوتوں کو اپنی پوری وفاداری کا یقین دلاتے رہے.یہ وہ مضمون ہے جو افتراء سے تعلق رکھتا ہے ایسے افتراء سے جس کی کسی قسم کی کوئی بنیاد کہیں موجود نہیں اور ساتھ ہی اس فقرے کا بھی اضافہ کر دیا گیا کہ نام نہاد اسرائیلی فوج کے اندر اس کا وجود اب ایک کھلا راز ہے.یعنی نام نہاد اسرائیلی فوج میں جماعت احمدیہ کے سپاہیوں کا وجود ایک کھلا راز ہے.جو اس نام نہاد شخص کو پتا ہے اور کسی کو نہیں.اپنے آپ کو برطانوی استعمار پسندوں اور اپنے آپ کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا خود کہتے ہیں.ختم نبوت سے صریح انکار ہے اور پھر مسخر کے رنگ میں یہ لکھنے کی بھی جسارت کی گئی ہے اس حکومت کے نمائندہ رسالہ میں کہ بعض اہل قلم نے لکھا ہے.بعض اہل قلم نے یہ فقرہ آپ اندازہ کریں اس سے کتنا وزن رہ جاتا ہے بات میں بعض اہل قلم نے لکھا ہے کہ مرزا کوگھر کا کچھ مال غبن کرنے کی پاداش میں انکے باپ نے گھر سے نکال دیا تھا.افتراء پردازی تخفیف ، تحقیر، تضحیک کا یہ ایک مرقع رسالہ ہے اور حکومت پاکستان کی خرچ پر حکومت کی طرف کھلم کھلے لفظوں میں منسوب ہوکر نکالا گیا ہے اور اس کے تراجم بھی کئے گئے.عربی ، انگریزی اور خدا جانے کس اور زبان میں.تو اس رسالے کے مصنفین اور جن لوگوں کی ایماء پر یہ رسالہ شائع کیا گیا اور جو لوگ ان باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو اس رسالہ میں بیان کی گئیں اور جماعت احمدیہ پر یہ اتہامات لگاتے ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اتہام لگاتے ہیں.وہ سارے میرے مخاطب ہیں خواہ وہ حکومت کے کسی بھی عہدے سے تعلق رکھتے ہوں یا حکومت سے باہر ان علماء سے تعلق رکھتے ہو جو اس رسالہ میں کسی طرح شریک ہوئے یا اُن عوام سے تعلق رکھتے ہوں جو کھلے لفظوں میں کامل یقین کے ساتھ ان باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہیں کہ اگر وہ جھوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی لعنت ان پر

Page 405

خطبات طاہر جلدے 400 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء پڑے.اس لئے میں پوری احتیاط کے ساتھ اُن چند آدمیوں کو چننا چاہتا ہوں جو پوری بصیرت اور بصارت کے ساتھ کھلے کھلے لفظوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لگائے جانے والے ان تمام الزامات کی تائید کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہیں اتنا واضح ہیں اپنی تکذیب میں صرف اُن کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور جماعت احمد یہ عالمگیر کے اس چیلنج کو قبول کریں کہ ہم ایسے سب افراد پر جو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کو میں نے بیان کیا ہے خدا کی لعنت ڈالتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو اور جو جو باتیں تم نے بیان کی ہیں جن میں سے چند نمونے میں نے پڑھے ہیں یہ باتیں جو میں نے پڑھ کر سنائی ہیں قطعاً کذب اور افتراء ہے اس میں کوئی بھی صداقت نہیں.اس لئے تم اگر جرات رکھتے ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق جو قرآنی مباہلہ کے چیلنج کی تفسیر ہے کھلم کھلا اعلان کرو تا کہ کوئی اشتباہ کی بات نہ رہے جس طرح جماعت احمدیہ کے سربراہ کی طرف سے جو اعلان کیا جاتا ہے وہ ساری دنیا میں مشتہر ہوتا ہے مختلف زبانوں میں اُس کے ترجمے ہوتے ہیں، مختلف رسائل میں چھپتا ہے.تم بھی مخفی بیٹھ کر اس چیلنج کو قبول نہ کرو بلکہ کھلے بندوں اخبارات میں شائع کرور یڈیو اور ٹیلی ویژن پر ظاہر ہو اور قوم کو بتاؤ کہ ہم پورے شعور کے ساتھ ، پوری بصیرت کے ساتھ اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں.ہم دوبارہ اقرار کرتے ہیں کہ جو باتیں ہم نے بیان کیں یا بیان کی گئی ہیں یہ ساری بچی ہیں اور جماعت احمد یہ اور جماعت احمدیہ کے بانی جھوٹے ہیں.اس وضاحت کے ساتھ اگر تم مباہلہ کے لئے تیار ہو تو میں جماعت احمدیہ کی سربراہی میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.تم بھی اپنے چیلے چانٹوں کو اکٹھا کر واپنے بڑوں اور چھوٹوں کو بلاؤ.اپنی عورتوں اور بچوں کو بلاؤ اور یہ اعلان جماعت احمدیہ کے مد مقابل کرنے کی جرات کرو.ایک وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی تبصرہ کیا ہے تفصیلی نہ اس کی حیثیت عدالت کی ہے کیونکہ عدل و انصاف کو دور کا تعلق بھی اس عدالت سے نہیں تھا ، نہ اس کی شرعی حیثیت ہے کوئی کیونکہ اسلام میں اس نوع کی شرعی عدالت کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور شریعت اسلامیہ کی اس عدالت سے جو حرکتیں سرزد ہوئی ہیں اُن کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے.یہ عدلیہ کہلانے کے با وجود ایک عام مہذب انسان کی زبان سے بھی عاری ہیں اور نا آشنا ہیں.چیف جسٹس آفتاب حسین

Page 406

خطبات طاہر جلدے 401 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء خان، فخر عالم ، محمد صدیق چوہدری ، مولانا محمد غلام علی، عبدالقدوس قاسمی یہ سارے وہ ہیں جو اس عدالت کے جج کے طور پر بیٹھے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے دو یا تین وکلاء کی طرف سے جو اُن کی ذاتی حیثیت میں مقدمہ قائم کیا گیا تھا اُس کا فیصلہ کرنے کے لئے یہ جج مقرر ہوئے تھے.عوام الناس اُسے جماعت احمدیہ کا مقدمہ قرار دیتے ہیں یہ جھوٹ ہے.میں نے کبھی بھی جماعت احمدیہ کی کسی تنظیم کو اجازت نہیں دی کہ وہ ان دنیاوی عدالتوں میں اپنا مقدمہ پیش کریں.ہمارا مقدمہ بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہے اور اب یہ مباہلہ کا چیلنج اگر کوئی غلط فہمی تھی بھی تو اسے ہمیشہ کے لئے دور کر دے گا.ان کے عدالتی فیصلہ کے مقابل پر ہم خدا کی عدالت میں مقدمہ پیش کرتے ہیں اور ان کو فریق کے طور پر بلاتے ہیں.اگر ان میں کوئی حیا ہے اگر ان میں کوئی جرات ہے اور وہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ اُن کے فیصلے صداقت پر مبنی تھے اور حق پر مبنی تھے اور اسلام کی انصاف کی تعلیم کے مطابق تھے تو یہ بھی جرات کے ساتھ سامنے آئیں اور آسمان کی عدالت میں ہم سے یہ مقدمہ لڑ کے دیکھیں.وہ لکھتے ہیں مرزا غلام احمد کی زندگی کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دھو کے باز اور بے ایمان آدمی ہے.یہ شرعی عدالت کی زبان ہے.جس طرح انہوں نے جماعت احمدیہ کا فیصلہ کرنے کی کوشش کی ہے ہر شریف النفس دنیا کا آدمی جو خود ملوث نہیں ہے اس جھگڑے میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ یہ سارے حج دھو کے باز اور بے ایمان ہیں.ورنہ کوئی شریف النفس انسان جو حقیقت میں عدلیہ کے مضمون کو جانتا ہو وہ اس قسم کی باتیں اپنے فیصلوں میں نہیں لکھ سکتا.پھر وہ فیصلہ دیتے ہیں کہ تمام الہامی پیشگوئیاں غلط پائی گئیں.ایک بھی پیشگوئی حضرت اقدس مسیح موعود کی کبھی سچی نہیں ہوئی.عام علماء جتنے بھی جماعت کے مدمقابل ہوئے ہیں ان سب سے یہ بے حیائی میں آگے بڑھ گئے ہیں.اشد ترین مخالفین نے بھی یہ اقرار ضرور کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اکثر پیشگوئیاں سچی تھیں.ان معنوں میں یہ اقرار کیا ہے کہ اُن کو جھوٹا کہنے کی ان کو کبھی جرات نہیں ہوئی اور گنتی کی دو یا تین پیشگوئیاں انہوں نے چنیں ہمیشہ انہیں اعتراض کا نشانہ بنایا لیکن اس عدلیہ کو دیکھیں کہ شریعت کے نام پر قائم ہوئی ہے.ادعا یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی نمائندگی کر رہی ہے اور اعلان یہ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام پیشگوئیاں خواہ وہ الہامی تھیں یا غیر الہامی وہ ساری جھوٹی نکلیں.پھر اسی عدلیہ نے یہ اعلان کرنے کی جرات کی کہ

Page 407

خطبات طاہر جلدے 402 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۸ء قادیان میں مرزا غلام احمد کے ماننے والے مسلمانوں کو اذان دینے کی اجازت نہیں دیتے تھے.ہمارا بچپن قادیان میں گزرا و ہیں جوان ہوئے پارٹیشن تک، ایک ایک لفظ اس بات کا جھوٹا ہے.کبھی آج تک ایسا واقعہ نہیں ہوا اور ایک اور جگہ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ خود دوسرے مسلمانوں کی اپنی مساجد میں ان کو اذان سے روکا جاتا تھا.اس لئے یہ مضمون ہے کہ جماعت احمد یہ قادیان اس بات کی دوسرے مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ خود اپنی مساجد میں اذان دیں.یہ تو ممکن ہے کہ اگر کوئی احراری شرارت کی راہ سے دوسری مسجد پر قبضہ کرنے کی خاطر وہاں بد نیتی اور فساد کی راہ سے اذان دینے کے لئے آیا ہو تو جماعت احمدیہ نے اپنی مسجد میں کسی مخالف کو جس کا اس مسجد سے تعلق نہیں اذان دینے سے روک دیا ہو.اس سے میں انکار نہیں کرتا ایسا واقعہ ہوسکتا ہے کہ ہوا ہو میرے علم میں نہیں ہے لیکن یہ قطعی جھوٹ ہے اور واضح جھوٹ ہے اور افتراء ہے کہ جماعت احمدیہ نے کبھی کسی مسلمان کو اس مسجد میں اذان دینے سے روکا ہو جس کا اُس سے تعلق ہے یعنی اس فرقے کی مسجد ہے جہاں اُس کا آنا جانا ہے، اس کا آنا جانا کسی فریق کی طرف سے قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا.کسی بھی ایسی مسجد سے جس کا جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں کبھی بھی جماعت احمدیہ نے کسی فریق کو اذان دینے سے روکا ہو تو ہم یہ سب بلند آواز سے اعلان کرتے ہیں لعنت اللہ علی الکاذبین.اگر یہ شرعی عدالت کے بج سچے تھے یہ لکھنے میں تو مد مقابل آئیں اور بیویوں بچوں لڑکوں ،عورتوں ، اپنے ملنے جلنے والوں اور تعلق رکھنے والوں کو جو ان کو سچا سمجھتے ہیں ان سب کو ساتھ بلائیں اور اعلان کریں اور کھلے لفظوں میں شائع کریں کہ اگر ہم نے جھوٹے فیصلے کئے ہیں اور کذب سے کام لیا ہے تو خدا تعالیٰ ہم پر لعنت کی مار ڈالے اور دنیا کے لئے ہم عبرت کا نشان بنیں.پھر لکھتے ہیں مرزا نے لوگوں کو افیون کھانے کی تلقین کی.حد ہے بے حیائی کی یہ تو ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طب سے بھی شغف تھا آپ کو اور کسی مریض کو کہا ہو کہ تمہارا علاج یہ ہے جس طرح بعض دفعہ ذیا بیطس کے مریض کے لئے افیون کا جز و تجویز کیا جاتا ہے نسخوں میں.یہ کہنا کہ اپنے ماننے والوں کا افیون کھانے کی تلقین کی اور ساتھ یہ کہا کہ پہلا مسیح شرابی تھا اور دوسرا مسیح افیونی ہے.یہ کسی عام بد بخت مولوی کی زبان نہیں ہے، یہ چوٹی کی شرعی عدالت پاکستان کے جوں کی زبان ہے.آپ اندازہ کریں اس جرات اور بے باکی کی کہ اس طرح یہ لکھ رہے ہیں اور

Page 408

خطبات طاہر جلدے 403 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں.پس وہی اعلان بار بار جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا جارہا ہے اور یہ بھی اگر سچے ہیں تو آمین کہیں اور اعلان کریں دنیا میں کھلے کھلے لفظوں میں اور اخباروں میں شائع کریں اور ٹیلی ویژن پر آئیں اور یہ اقرار کریں کہ ہم بچے ہیں اس بات میں اگر خدا کی نظر میں ہم جھوٹے ہوں تو خدا ہم پر لعنت کی مارڈالے اور ہمارے تعلق رکھنے والوں پر بھی لعنت کی مار ڈالے جو اس اعلان میں ہمارے شریک ہیں.پھر اور کئی قسم کی جو بے ہودہ سرائیاں کی گئیں ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود نعوذ باللہ اپنے بیت الدعا کو بیت اللہ کے برابر مقام دیتے تھے اور حرم گردانتے تھے اور قادیان سالانہ آنے کو حج قرار دیا کرتے تھے اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کو یہ تلقین کی کہ تم قادیان آکر حج کرو یعنی مناسک حج قادیان میں ادا کرو یہ ساری باتیں افتراء کا پلندا ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کیوں نہ حج کر لیا قادیان میں اگر دوسروں کو تلقین کرنی تھی.ساری عمر اس دکھ میں مبتلا رہے کہ کاش مجھے اجازت ہو تو میں حضرت اقدس محمد مصطفی عدلیہ کے مزار کی بھی زیارت کر سکوں اور خانہ بیت اللہ کی بھی زیارت کروں ، حج کر سکوں لیکن دشمن نے آپ کی راہیں بند کر دی تھیں.تو اگر حج اتنا ہی آسان تھا کہ قادیان میں بیٹھے ہو سکتا تھا یہ تو ہر روز حج ہوسکتا تھا وہاں.اتنا جھوٹ ہے سراسر افتراء ہے کبھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یا جماعت احمدیہ کے کسی بڑے یا چھوٹے نے قادیان کی زیارت کو حج بیت اللہ کا متبادل نہیں سمجھا اور قادیان میں حج کرنے کا کوئی بھی تصور موجود نہیں.اس لئے اگر یہی بات ہے بعض تحریروں سے جو مجازی رنگ میں کوئی اشارے انہوں نے دیکھے اُس سے یہ نتیجہ اگر نکالا ہے جو وہ نکال رہے ہیں تو ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.جرات ہے تو تم بھی مقابل پر یہ اعلان کرو.ایک بھی احمدی دنیا میں ایسا نہیں جو قادیان کبھی بھی اپنی زندگی میں حج کرنے کی نیت سے گیا ہو اور قادیان جانے کو اُس نے حج سمجھا ہو.ایک بھی دنیا میں ایسا احمدی نہیں جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا آپ کے خلفاء کی تعلیم سے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ میں جو قادیان جاؤں گا میر اوہ حج ہو جائے گا جو شریعت نے مجھ پر مکہ معظمہ کے طواف اور دوسرے دیگر مناسک کی صورت میں فرض فرما دیا ہے.

Page 409

خطبات طاہر جلدے 404 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء پھر وہ شرعی عدالت کے حج یہ لکھتے ہیں احمدیہ تحریک کو انگریزوں کی اشیر باد حاصل تھی اور ان کے اشارے پر ان کے زیر سایہ شروع کی گئی وہی جواب ہے جو پہلے بار ہادے چکا ہوں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.اگر تم میں جرات ہے اور تم میں کوئی شرافت باقی رہ گئی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ واقعی تم نے اپنی اسلامی شریعت کی کورٹ پر بیٹھ کر عدلیہ کے حق ادا کئے ہیں اور ان سب باتوں میں جو میں نے بیان کی ہیں تم مفتری نہیں ہو بلکہ جماعت احمدیہ مفتری ہے تو پھر اس چیلنج کو قبول کرو اور اعلان کرو اور پھر دیکھو کہ خدا کی تقدیریتم سے کیا سلوک کرتی ہے.لیکن میں یہ سمجھتا ہوں اور ایک دفعہ پھر میں کوشش کرتا ہوں کہ یہ لوگ اپنی ان حرکتوں سے باز آجائیں اور اس مباہلہ کے چیلنج کو قبول نہ کریں.ہم تو یہ اعلان کر ہی چکے ہیں اور ہم پوری جرأت اور پوری ذمہ داری کے ساتھ اعلان کرتے ہیں.ببانگ دہل تمام دنیا میں یہ اعلان کر رہے ہیں لیکن میں اپنے مخالفین کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ تم خدا کا خوف کرو اور اس مباہلہ کو قبول کرنے میں جلدی نہ کرو اور اتنی ہی عقل کا نمونہ دکھاؤ جتنی عقل نجران کے نمائندہ عیسائیوں کے وفد نے دکھائی تھی اور حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کے چیلنج کو قبول کرنے سے باز رہے تھے اور حیا کی تھی لیکن اگر تم نے اصرار کیا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا کی تقدیر ظاہر ہوگی اور پھر اُس کو تم نہیں روک سکو گے.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آخر پر چند نصیحتیں کر کے اس خطاب کو ختم کروں گا.آپ فرماتے ہیں:.میں نصیحتا اللہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں.پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں لیکن یا درکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے ہلکے گل جائیں اور

Page 410

خطبات طاہر جلدے 405 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں“.( اربعین نمبر ۴ ، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۴۷۲،۴۷۱) پھر آپ فرماتے ہیں:.میں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے کہ جو میں اس دنیا میں گزر جاؤں میں اپنے اس حقیقی آقا کے سوا دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا اور وہ ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا.فالحمد لله اولا وَاخِرًا وَظَاهِرًا وَبَاطِنًا هو ولي في الدنيا والآخرة وهو نعم المولى ونعم النصیر اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور مجھے ہرگز ہر گز ضائع نہیں کرے گا.اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا.میں نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں“ اور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں یہ اعلان پھر مکرر کرتا ہوں اپنی طرف سے دنیا کے تمام احمدیوں کی طرف سے کہ وہ ہماری حمایت کرے گا یعنی ہمارا خدا ہماری حمایت کرے گا اور ہم نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتارے جائیں گے کیونکہ ہمارا خدا ہر قدم میں ہمارے ساتھ ہے.اور ہم اس کے ساتھ ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں.اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کا نپتے ہیں.خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے اُس کے سوا کوئی خدا نہیں اور ضروری ہے کہ وہ اس

Page 411

خطبات طاہر جلدے 406 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء سلسلہ کو چلا وے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھا دے (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۹۵،۲۹۴) پھر آپ فرماتے ہیں :.”اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھہ کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھہ نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھہ کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (يس: ۳۱) کہ وائے حسرت انسانوں پر ان بندوں پر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی رسول ان کی طرف آیا ہو اور اُس سے انہوں نے ٹھٹھہ نہ کیا ہو.پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھہ کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کی روبرو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھہ کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اتر نا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا“

Page 412

خطبات طاہر جلدے 407 خطبه جمعه ۳ / جون ۱۹۸۸ء اس پیشگوئی کا آغاز جن دعاوی سے کیا گیا ہے اس پیشگوئی کا آخران دعاوی کی تصدیق کر رہا ہے کیونکہ ساری باتیں جو تقریباً ایک سو سال پہلے کئی گئیں آج تک تمام مخالفین کے لئے کھلا چیلنج بنی ہوئی ہیں اور دوسال قبل میں نے سارے مسلمانوں کے علماء کو جو ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹے تھے اور حضرت عیسی بجسد عنصری آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کو چیلنج کیا تھا ساری جماعت کی طرف سے آج تک اُس چیلنج کو قبول نہیں کیا.ابھی بھی وہ چیلنج کھلا ہے ایک سو سال گزر گئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرمودہ ایک ایک بات سچی ثابت ہوئی ہے.پس اگر تم سمجھتے ہو کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹے ہیں تو حضرت مسیح کو آسمان سے اتار کر دکھاؤ اتنی سی بات ہے.جو زور لگتا ہے لگا لو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں والی طاقت سے سازش کرو اور ان کے ساتھ ہو جاؤ اور احمدیت کو جھوٹا کرنے کے لئے صرف اتنی ہی بات ہے اُس مسیح کو جس کے متعلق تم یقین رکھتے ہو کہ وہ زندہ آسمان پر بیٹھا ہے اور آخری وقتوں میں یہ زمانہ ہے.یہ دن ہیں جس میں اترنے کا منتظر ہے دعاؤں کے ذریعہ گریہ زاری کے ذریعہ چارے کر کے ہر قسم کی نئی ایجادات سے استفادہ کرتے ہوئے کوشش کرو کہ کسی طرح اُس روٹھے ہوئے مسیح کو منا کر دوبارہ زمین پر لے آؤ.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تم کبھی ایسا نہیں کرو گے کبھی ایسا نہیں کر سکو گے فرماتے ہیں: ”ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اتر تے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا ( تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه : ۶۶-۶۷) پس یہ گھبراہٹ کے دن آگئے ہیں تم اس گھبراہٹ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو استغفار سے کام لو اور بے باکی میں آگے نہ بڑھو اور تقویٰ اختیار کرواسی میں تمہاری نجات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں سچائی کو قبول کرنے کی توفیق بخشے.آمین.

Page 413

Page 414

خطبات طاہر جلدے 409 خطبه جمعه ۱۰رجون ۱۹۸۸ء ائمة التكفير والمكذ بین کو مباہلہ کا چیلنج (خطبه جمعه فرموده ۰ ارجون ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَانْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ پھر فرمایا: ( آل عمران : ۶۲) گزشتہ دو خطبات میں میں یہ مضمون بیان کر رہا ہوں کہ گزشتہ چند سالوں میں جماعت احمدیہ کے معاندین اور مخالفین اور مکذبین نے خصوصاً علماء کے اُس گروہ نے جو ائمۃ التکفیر کہلانے کے مستحق ہیں ظلم اور افتراء اور تکذیب اور استہزا اور تخفیف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تذلیل کرنے کی کوشش میں تمام حدیں توڑ دیں ہیں اور انسانی تصور میں جتنی بھی حدیں ممکن ہیں شرافت اور نجابت کی اُن سب سے تجاوز کر گئے ہیں اور مسلسل پاکستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی جھوٹ اور افتراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت پر گھڑا جاتا ہے اور علی الاعلان کھلے بندوں اُس کذب اور افترا کا کثرت کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے اور تشہیر کی جاتی ہے کوئی ان کو روکنے والا بظاہر نہیں.ان شریروں کی مدد پر حکومت بھی کھڑی ہے اور دوسرے صاحب استطاعت اور صاحب اقتدار لوگ بھی ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں.عوام الناس کی اکثریت شریف ہے مگر شرافت کی

Page 415

خطبات طاہر جلدے 410 خطبه جمعه ۰ ارجون ۱۹۸۸ء زبان گونگی اور کمزور ہے اور ان کو جرات اور حوصلہ نہیں کہ اس کذب وافتراء اور تعدی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر سکیں کجا یہ کہ سینہ سپر ہو کر اس کی راہ روک دیں.یہ معاملہ اب اس قدرحد سے تجاوز کر چکا ہے اور اس طرح جماعت احمدیہ کے سینے چھلنی ہیں اور اس طرح ان کی روحیں اس کذب و افتراء کی تعفن سے بیزار ہیں اور متلا رہی ہیں اور اس طرح اپنی بے بسی پر وہ خدا کے حضور گریہ کناں ہیں اور کوئی دنیا کے لحاظ سے ان کی پیش نہیں جاتی ان کے دلوں کی آواز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مصرعہ کی مصداق ہے کہ حیلے سب جاتے رہے ایک حضرت تو آب ہے پس اب ظلم کی اس انتہا کے بعد باوجود اس کے کہ بار بار اس قوم کو ہر رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی.اب میں مجبور ہو گیا ہوں کہ مکفرین اور مکذبین اور ان کے سربراہوں اور ان کے ائمہ کو قرآن کریم کے الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج دوں یا کہنا چاہئے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق حق و صداقت میں امتیاز پیدا کرنے کی خاطر مباہلہ کا چیلنج دوں.جیسا کہ جماعت احمد یہ اس بات سے خوب واقف ہے کہ ہم ہرگز اپنے دشمنوں کی بدی بھی نہیں چاہتے اور ان کا دکھ بھی ہم جانتے ہیں کہ بالآخر ہمیں ہی تکلیف دیتا ہے.اس لئے میں نے مختلف رنگ میں ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان کی شرارتوں سے ان کو باز رکھنے کے لئے نصیحت سے کام لیا لیکن افسوس کہ یہ آواز بہرے کانوں پر پڑی اور فسق و فجور اور ظلم کی راہوں سے پیچھے ہٹنے کی بجائے ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جرات اور بے باکی میں پہلے سے زیادہ بڑھ گئے.میں نے گزشتہ وقتوں میں جو مختلف رنگ میں نصیحت کی کوشش کی وہ ایک لمبا مضمون ہے اور بہت سے خطبات پر پھیلا پڑا ہے.میں جماعت کو یادہانی کے طور پر اور ان مخاطبین کو یاد دہانی کے طور پر اپنے گزشتہ خطبات میں سے ایک اقتباس پڑھ کر سناتا ہوں.انسانی اقدار کو زندہ کرو، انسانی شرافت کو زندہ کرو، حق کو حق کہنا سیکھو باطل کو باطل کہنے کی جرات اختیار کرو اس کے بغیر یہ ملک بچتا دکھائی نہیں دیتا ایک ہی خطرہ ہے اس قوم کو ایک ہی خطرہ ہے اس ملک کو ، اس قوم اور ملک کو ملائیت سے خطرہ ہے اور یہ خطرہ حد اعتدال سے تجاوز کر چکا ہے یہ خطرہ نہایت

Page 416

خطبات طاہر جلدے 411 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء ہی بھیا نک شکل اختیار کر چکا ہے،سارے عالم اسلام کو لاحق ہوا ہوا ہے.تم ایک حصہ ہو اس خطرہ کا اس خطرہ نے ایران میں ایک اور شکل اختیار کرلی ہے، اس خطرہ نے عراق میں ایک اور شکل اختیار کر لی ہے اس خطرہ نے شام میں ایک اور شکل اختیار کی ہوئی ہے، اس خطرہ نے لبنان میں ایک اور شکل اختیار کی ہوئی ہے، ایک ملائیشیا میں اس کی شکل ظاہر ہوئی ہے، ایک انڈونیشیا میں اس کی شکل ظاہر ہوئی ہے اور اس خطرہ کے پیچھے خواہ اس کی کتنی ہی مختلف شکلیں ہوں نہایت ہی خطرناک عالمی منصوبے کام کر رہے ہیں اور عالم اسلام کے خلاف عالمی سازشیں کام کر رہی ہیں.پس یہ سارے عالم میں جو ظلم ہورہا ہے اسلام پر اور اسلام ہی کے نام پر اس کا ایک حصہ ہے اسی خطرہ کا ایک حصہ ہے اور اسی کھیل کا ایک حصہ ہے جو پاکستان میں کھیلا جارہا ہے.تم اس پیارے وطن کی فکر کرو جو ہمیں بھی عزیز اور تم سے زیادہ بڑھ کر عزیز ہے.اس وطن عزیز کو اگر کوئی نقصان پہنچا تو سب سے زیادہ ہمیں نقصان ہوگا اور ہمیں دکھ پہنچے گا.واقعہ ملک اس وقت ایسی ہلاکت کے کنارے پر پہنچ چکا ہے جیسے قبروں میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہو اور پوری قوم اس ظلم میں بلا واسطہ یا بالواسطہ ملوث ہو چکی ہے.اپنے اپنے مفاد کی خاطر ، اپنے اپنے دھڑوں کے مفادات کی خاطر سارے ملک اور قوم کے مفادات کو بیچا جارہا ہے اور سارے ملک اور قوم کے مفاد پر ظلم کیا جارہا ہے اور کوئی دیکھنے والا نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے میں اس جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس تعلق کو استعمال کریں اور دعائیں کریں اور گریہ وزاری کریں اور استغفار کریں کثرت کے ساتھ اور دعا کریں کثرت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان کو نصیحت دے، ان کو ہدایت دے ان کو عقل دے اور ان کی آنکھیں کھولے.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس پاک وطن کی طرف سے خوشیاں دیکھنی نصیب ہوں“

Page 417

خطبات طاہر جلدے 412 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء اس قسم کی اور بھی کئی نصیحتیں میں نے امت مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو خصوصیت کے ساتھ کیں.مگر جیسا کہ بعد میں ظاہر ہونے والے اور مسلسل رونما ہوتے رہنے والے حالات نے ظاہر کر دیا ہے ان نصیحتوں کا کوئی اثر اس قوم نے قبول نہیں کیا اور خصوصیت کے ساتھ اگر یہ کہا جائے کہ قوم کے سربراہوں نے یا انہوں نے جنہوں نے قوم کی طاقت کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور تکفیر کے ائمہ نے ان نصیحتوں کا کوئی اثر قبول نہیں کیا تو یہ بات زیادہ درست ہوگی اس تمام عرصہ میں جماعت احمدیہ کی تکذیب اور تکفیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکفیر اور تکذیب اور آپ کی تذلیل کی کوشش میں یا آپ کی تخفیف میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ ایک بہت لمبی فہرست ہے اُس میں سے چند نمونے میں نے پچھلے خطبہ میں پیش کئے تھے.اب میں آپ کے سامنے ہر روز پاکستان کے اخباروں میں شائع ہونے والے علماء کے اعلانات وغیرہ میں سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں اور حکومت کے سربراہوں اور صاحب اقتدار لوگوں کی تقریروں اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ کئے جانے والے اعلانات سے چند ایک اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ کس قدر مسلسل ضد کے ساتھ یہ اپنے ظلم پر قائم اور مصر ہیں.چند نمونے پیش کرنے کا وقت ہو گا فہرست تو بہت لمبی ہے کیونکہ اس کے آخر پر میں پھر مباہلہ کا با قاعدہ چیلنج دینا چاہتا ہوں.وہ عبارت میں نے لکھ لی ہے وہ آپ کے سامنے پڑھ کر سناؤں گا.یہ ظلم وافتراء ہے جو جماعت کے خلاف کیا جارہا ہے.”قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں محمد رسول اللہ سے مراد غلام احمد قادیانی ہے.کلمہ میں محمد رسول اللہ سے بعینہ مراد مرزا قادیانی ہے.افریقہ کی عبادت گاہ میں کلمہ میں محمد رسول اللہ کی جگہ احمد رسول اللہ درج ہے جو قادیانی کلمہ ہے“.یہ اور اس قسم کے بیانات کثرت کے ساتھ مختلف علماء نے مختلف وقتوں میں دیئے اور ابھی تک دیتے چلے جا رہے ہیں ان میں چند علماء کے نام یہ ہیں محمد سجاد خان جمعیت اشاعت التوحید والسنہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نمائندگان حضوری باغ ملتان المعین ٹرسٹ کراچی ، مولانا عبد القادر آزاد، مولانا غلام رسول، مولانا بشیر احمد سیالوی، مولانا محمد طاہر، مولانا محمد عثمان بھا مبڑا، مولانا عبد العزیز صاحب ،صاحبزادہ امیر الحسنات، منظور چنیوٹی اور اس کے چیلے چانٹے.

Page 418

خطبات طاہر جلدے 413 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء ائمہ تکفیر میں منظور چنیوٹی کے سوا ایک صاحب مولا نا محمد یوسف لدھیانوی بھی سر فہرست ہیں وہ لکھتے ہیں ” ایک قادیانی سے میری گفتگو ہوئی میری بات سن کر کہنے لگا سچی بات تو یہ ہے کہ ہم تو مرزا صاحب کے سوا باقی سب کو جھوٹا سمجھتے ہیں.اتنا جھوٹا اتنا کا ذب مولوی ہو یعنی کذاب کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے کذاب ہونے کی ساری حدیں تو ڑ رہا ہے پھر بھی مسلمانوں کا مولوی کہلاتا ہے پھر یہی مولوی صاحب لکھتے ہیں ”انہوں نے قرآن الگ بنایا جس کا نام تذکرہ رکھا جس کی حیثیت مرزائیوں کے نزدیک تو رات زبور اور انجیل اور قرآن کی ہے.اس طرح جھوٹ کے گند پر منہ مارتے ہیں جس طرح بچہ ماں کے دودھ پر منہ مار رہا ہوتا ہے.ایک اعلان ہے نو جوانان ختم نبوت سرگودھا کی طرف سے ” بعد ازاں اُس نے یعنی حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ میں خدا کا باپ ہوں.ایسا الزام جماعت کے اوپر شیطان کا باپ لگا سکتا ہے اور کوئی نہیں لگا سکتا.پھر ایک پمفلٹ میں یہ بکو اس کی گئی محمد سلیم ساقی ایم اے کوئی صاحب ہے ان کی طرف سے پمفلٹ شائع ہوا اور اس پمفلٹ کے نیچے لکھا ہوا ” عاشقان مصطفیٰ کہاں ہیں یہ ننکانہ صاحب ضلع شیخو پورہ سے یہ شائع ہوا ہے پلندہ افتراء کا.اس میں وہ لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ( حضرت مسیح موعود نے ) یہ اعلان کیا کہ ”میری وحی کے مقابلے میں حدیث مصطفی کوئی شئی نہیں“ مرزا غلام احمد نے قرآن پاک میں ہیں جگہوں پر تبدیلی کی.آپ کی حج کی درخواست پہ میرے متعلق لکھا ہوا ہے منظور چنیوٹی نے جو مکذبین اور کذابوں کا بھی سر براہ ہے.آپ کے حج کی درخواست، گویا میں نے کوئی حج کی درخواست لکھی تھی کنگ خالد کو یا فہد کو تو کہتے ہیں آپ کی حج کی درخواست جو آپ نے واشنگٹن سے بھجوائی تھی فہد کے لئے ہوگی ان کی طرف سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی اور واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ آپ جب تک اپنے کفر سے تو بہ نہیں کرتے سعودی عرب کی سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکتے.ایسی ایسی جھوٹی کہانیاں بناتے ہیں کوئی وجود کچھ بھی اس کی حقیقت نہیں اور یہ اسلام کے سر براہ میں نعوذ باللہ من ذلک.پاکستان قادیانی عقیدہ کے مطابق اللہ کی مرضی کے خلاف بنا ہے.ان ملانوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اس کو پلیدستان کہا تھا، قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دیا اور بے حیائی اور جرات کی حد ہے.کوئی خدا کا خوف نہیں

Page 419

خطبات طاہر جلدے 414 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۸ء ہے، کوئی شرافت نجابت کا تصور بھی ان کے دلوں میں موجود نہیں.یہ اعلان ہو رہا ہے اور بار بار ہورہا ہے اور موجودہ حکومت ان کی سربراہ بنی ہوئی ہے، سر پرست بنی ہوئی ہے.”پاکستان قادیانی عقیدہ کے مطابق اللہ کی مرضی کے خلاف بنا ہے اور ان کے جھوٹے نبی کے بیٹے اور جانشین مرز امحمود احمد نے پاکستان توڑنے کا عہد کیا تھا.قادیانی پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں.انگریز نے غلام احمد کولاکھوں ایکڑ زمین دیں.بے حیائی کی نہ کوئی حدیں ہیں نہ اس کے کوئی پاؤں نہ کوئی کنارہ جب بے شرم ہو جائے آدمی تو اس کا کچھ بھی نہیں باقی رہتا جو مرضی بکواس کرتا چلا جائے.قادیانی امت کا کلمہ سنئے.لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ ، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں احمد اللہ کے رسول ہیں“.( پمفلٹ عاشقان مصطفیٰ کہاں ہیں ) قادیانیوں کے اہم مراکز نائیجریا ، گھانا، سیرالیون میں ہزاروں کی تعداد میں قادیانیوں نے قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے.لوگوں میں یہ خیال تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ اسرائیل اور مرزائیت ایک ہی فتنہ کے دو نام ہیں.نائیجریا کے عام شہروں میں.( نام بعض لکھے ہوئے ہیں).ان میں سے ایک اکوروڈو میں ایک ہزار قادیانی آباد تھے اب وہاں ایک قادیانی بھی نظر نہیں آتا.یہ منظور چنیوٹی جوا کذب المکذبین ہے، ان کا بھی افسر ہے سب کا یہ اُس کا بیان ہے.حسین احمد صاحب جماعت اسلامی نے کہا کہ میں کیوں پیچھے رہوں انہوں نے لکھا ” قادیانی پاکستان میں یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانا چاہتے ہیں.“ جنرل ضیاء صاحب صدر پاکستان کا اعلان سنئے حکومت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کراچی کے حالیہ واقعات میں قادیانیوں کا کہاں تک ہاتھ ہے.پھر ایک ہفت روزہ میں یہ خبر چھپی کہ صدر نے نشاندہی کی ہے کہ کراچی کے حالیہ واقعات میں قادیانیوں کا ہاتھ ہے.جنرل ضیاء کی بہت سی تحریریں میں پہلے بیان کر چکا ہوں.ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں.ایک اللہ یار ارشد ہے یہ بھی منظور چنیوٹی صاحب کے ساتھ جھوٹ بولنے کی ریس میں خوب مقابلہ کر رہا ہے.یہ صاحب لکھتے ہیں ” قادیانیوں نے پانچ سومسلمان علماء کے قتل کا منصو بہ بنایا ہوا ہے.قادیانیت عالم اسلام کے لئے ایک سرطان ہے“.یہ جنرل ضیاء صاحب کا بیان ہے.66

Page 420

خطبات طاہر جلدے 415 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء حکومت پاکستان اس سرطان کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے“.”اسلام اور پاکستان کے خلاف قادیانیوں کی مہم کا جواب ہر سطح پر دیا جائیگا.سقوط ڈھا کہ میں ایم ایم احمد نے مرکزی کردار ادا کیا.پاکستان اس وقت جن خطرات میں گھرا ہوا ہے ان میں سے ایک قادیانی گروہ کی اشتعال انگیز سرگرمیاں ہیں.قادیانی پاکستان کی سلامتی کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں.قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا ہیں جو امت اسلامیہ کے وفادار نہیں ہو سکتے.“ مولا نا شاہ احمد صاحب نورانی اگر چہ وہ دیو بندی نہیں اور دیو بندی علماء کے مقابل یہ نسبتاً زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شرافت رکھتے ہیں مقابلہ ان کا بیان بھی دیکھئے جھوٹ کا پلندہ.کہتے ہیں تحریک ختم نبوت کے دوران قادیانیوں کی جانب سے اسمبلی میں زیر بحث قراردار میں تبدیلی کرنے کے لئے مجھے پچاس لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن ہم نے حقارت سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا.خواب دیکھی ہوگی یونہی معلوم ہوتا ہے.پھر خواب بھی جھوٹی ہے ورنہ وہ حقارت سے ٹھکراتے نہ.اور اسی بیان کو ان کے نائب نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیتے وقت قادیانیوں نے مولا نا احمد شاہ نورانی کو ایک کروڑ روپے کی پیشکش کی.یہ ان کی کوئی دوسرے دن کی خواب ہے معلوم ہوتا ہے ساتھ ساتھ پیشکش بڑھتی جارہی ہے.سردار عبدالقیوم نے اعلان کیا کہ قادیانی حضرات کی کوشش تھی کہ کشمیر کو خود مختار کرا کر اسے قادیانی سٹیٹ بنایا جائے.میرا ان لوگوں نے کافی پیچھا کیا اور اس کام کے لئے مجھے لالچ دیا میں نے ان کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا.قادیانی فتنہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا،مرزا غلام احمد کا مذہب انگریزوں کا خود کاشتہ پوداوغیرہ وغیرہ اس قسم کی بکواس جسٹس رفیق تارڑ ،مولانا اللہ یار ارشد وغیرہ.ہر قسم کے طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے بعض بد نصیب سر براہوں کی طرف سے مسلسل ہوتے رہتے ہیں.پروفیسر ساجد میر صاحب یہ کوڑی لائے ہیں دور کی کہ چھ سو پاکستانی قادیانی اسرائیل کی فوج میں بھرتی ہو گئے اور واقعہ یہ ہے کہ سارے اسرائیل میں ایک بھی پاکستانی احمدی نہیں ہے.ایک بھی.قادیانی شر پسندی کے لئے اسرائیل میں ٹرینگ لیتے ہیں.یہ کوئی حافظ صاحب ہیں جنہیں بہت دور کی سوجھی ہے.اسرائیلی فوج میں پانچ سو قا دیانی کام کر رہے ہیں وہ چھ سو تھے یہاں پانچ سو ہو گئے ہیں.یہ نوائے وقت کی خبر ہے.اسرائیلی پارلیمنٹ میں قادیانی اور بہائی فرقہ کے

Page 421

خطبات طاہر جلدے 416 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۸ء سر براہوں کی تصاویر لگی ہوئی ہیں.قادیانی جماعت کے سر براہ مرزا طاہر احمد اور نوبل انعام یافتہ قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے اسرائیل کا دورہ کیا.قادیانی افسر نے ایٹمی راز چوری کر کے اسرائیل کو فراہم کئے ہوئے ہیں.گویا اسرائیل ایٹم بم پاکستان سے سیکھ کر بنا رہا ہے.حد ہے جہالت اور افتراء کی کوئی دنیا کے کسی پیمانے سے دیکھیں بدترین جاہل اور بدترین جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں یہ سارے.جھوٹ میں بھی عقل تھوڑی بہت ہونی چاہئے وہ بھی نہیں ہے بے چاروں کو.ملک رب نواز صاحب فرماتے ہیں قادیانی امریکہ کے ایجنٹ ہیں.اللہ یارارشد کو یاد آ گیا ہے کہ لیاقت علی خان کو قادیانیوں نے قتل کروایا تھا.ملک رب نواز کو بھی اس کی تائید کا موقع ملا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کو قادیانیوں نے شہید کر دیا تھا.محمد مختارنعیمی صاحب کو خیال آیا کہ قادیانی ربوہ میں اپنے نوجوانوں کی تنظیموں خدام الاحمدیہ فرقان فورس کو روسی اسلحہ سے مسلح کر کے ملک میں تخریب کاری کی تربیت دے رہے ہیں.قادیانیوں نے ابوالقادری صاحب کے بیان کے مطابق ملک میں خانہ جنگی اور افراتفری کا ناپاک منصوبہ تیار کر رکھا ہے.قاری محمد یا مین صاحب گوہر فرماتے ہیں قادیانی جماعت زخمی سانپ ہے اگر اس کا سر کچلا نہ گیا تو ڈسنے سے باز نہ آئی گی ملک میں بموں کے دھماکے، فرقہ واریت ، لسانی تعصبات اور تخریبی واقعات کے پیچھے قادیانی جماعت کا ہاتھ تھا.پھر اس قسم کے لچر بیانات دینے والے کثرت سے اور علماء ہیں نام بنام ان کے ذکر کا وقت نہیں.کراچی میں دکانیں جلیں وہ بھی احمدیوں نے کروایا.کرفیو کے دوران لوٹ مار ہوئی وہ بھی ہم نے کروائی ہر آفت جو ٹوٹتی ہے پاکستان پر وہ احمدی کرواتے ہیں یہ بیانات بھرے پڑے ہیں بلکہ ایک صاحب کو خیال آیا کہ بحر الکاہل میں سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں لڑتی ہیں وہ بھی قادیانی لڑواتے ہیں.”جرمنی میں چار ہزار قادیانی گوریلے تربیت حاصل کر رہے ہیں.بادشاہی مسجد کا واقعہ ہے جبکہ وہابی اور بریلویوں کی لڑائی ہوئی قادیانیوں کی سازش کا نتیجہ ہے.باقی پلندے چھوڑتا ہوں.لامتناہی سلسلہ ہے بکواس کا، گندگی کا، جھوٹ کا، افتراء کا ، تذلیل اور توہین کا کوئی حد ہی نہیں، کوئی حساب ہی نہیں اس کا کہاں تک کوئی ذکر کرے.میرے متعلق جوان امت کے بزرگ کہلانے والوں نے ہرزہ سرائیاں کی ہوئی ہیں اس کی بھی بڑی لمبی فہرست ہے چند ایک نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.عبدالرحیم اشرف صاحب

Page 422

خطبات طاہر جلدے 417 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء فرماتے ہیں مرزا طاہر احمد بین الاقوامی غنڈہ ہے.یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ تا کہ بین الاقوامی پولیس کے ذریعہ اسے پکڑ کر بلوایا جائے.مرزا طاہر احمد اسلم قریشی کا اصلی قاتل ہے.اسلم قریشی کو قادیانیوں نے سندھ میں لے جا کر شہید کیا ہے.پولیس کو بھی بتا دو کہاں ہے وہ اور کس جگہ شہید کیا گیا ہے اخباروں میں شائع کرتے ہو اور حکومت کو نہیں بتاتے اور حکومت کو بھی پتا نہیں کیا ہو گیا ہے بیچاری کو کہ واضح خبروں کے باوجود ان کا تتبع نہیں کرتی.آگے لکھتے ہیں لندن کی ایک خبر آپ سب کے لئے دلچسپی کا موجب ہوگی.قادیانیوں نے مرزا طاہر کو قیدی بنا دیا ہے.اُس سے ملاقات پر سخت پابندی ہے اگر کوئی شخص ملاقات کے لئے جاتا ہے تو اس کو براہ راست ملاقات کی اجازت نہیں ہے بلکہ مرزا طاہر کے کمرے اور ملاقاتیوں کے کمرے میں ویڈیو کیمرے نصب ہیں، ملاقاتی جس وقت کمرے میں داخل ہوتا ہے تو فلم چل پڑتی ہے اور مرزا طاہر اس کی تمام حرکات دیکھتا رہتا ہے.تھوڑی دیر بعد سکرین پر نمودار ہو کر اسے درشن دیتا ہے.سوال و جواب فلم ہی کے ذریعہ ہوتے ہیں.مرزا طاہر قیدی سے بدتر زندگی گزار رہا ہے ختم نبوت.ان کو رحم آیا تو مجھ پر یہ دیکھ لیں ، ان کے رحم سے تو بہ اللہ رحم کرے اس شخص پر جس پر اس قسم کے رحم کرتے ہیں.میرے ملک سے نکلنے کا واقعہ لکھتے ہوئے نوائے وقت نے مولانا مختار احمدنعیمی صاحب نے یہ خبر شائع کی کہ مرزا طاہر فرضی نام اور فرضی پاسپورٹ کے ذریعہ بمع اہل وعیال ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گیا.پھر لکھتے ہیں مولانا طاہر محمود صاحب فیصل آبادی مرزا طاہر احمد کی لندن میں مقیم روسی سفیر کے ساتھ طویل ملاقات ہوئی انہوں نے کہار بوہ میں بھاری تعداد میں روسی ساخت اسلحہ موجود ہے.حالیہ ملاقات میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا گیا ہے.جو اسلحہ ہے وہ تو پرانی ملاقاتوں کا نتیجہ ہے.یہ آئندہ کے لئے سوچا جارہا ہے.ربوہ میں حال ہی میں روسی اسلحہ کی ستر پیٹیاں لائی گئیں.یہا کذب الممکذبین مولا نا منظور احمد چنیوٹی کا بیان ہے.قادیانی جماعت اور روس میں خفیہ مذاکرات کے ذریعہ تعلقات قائم ہو چکے ہیں.یہ لولاک فیصل آباد کی خبر ہے.ان سب باتوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تقدیر بھی کارفرما ہے اور دن بدن ساری قوم کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے حالات اتنے درد ناک ہو چکے ہیں اور پاکستان کی سوسائٹی میں ہر سطح پر اتنا کھ پھیل چکا ہے کہ ایک ایک پاکستانی اس دکھ سے کراہ رہا ہے، بیزار ہے اور کوئی اس کا

Page 423

خطبات طاہر جلدے 418 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء اختیار نہیں کچھ پیش نہیں جاتی کچھ نہیں کر سکتا.پاکستان میں آپ جہاں جائیں انہی باتوں کا تذکرہ ہے وہ اپنے لیڈروں سے بیزار ہیں، اپنے علماء سے بیزار ہیں.اپنے سربراہوں پر زبان حال سے لعنت ڈالتے ہیں اگر زبان سے لعنت ڈالنے کی جرات نہیں اور بتا رہے ہیں دنیا کو کہ ہم اپنی زندگی کے بظاہر آخری دموں تک پہنچے ہوئے ہیں.انسانیت شرافت، تقویٰ، صداقت، اعلیٰ اخلاق، انسانی ہمدردی، امانت دیانت کی ساری قدریں مجروح ہیں اور مجروح ہوتی چلی جارہی ہیں ان سب باتوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بارہا اس کی تعذیب کے نمونے بھی ظاہر ہورہے ہیں.چنانچہ اوجڑی کیمپ میں جو نہایت درد ناک بلاٹوٹی اور خطرناک آسمانی عذاب کی صورت میں خدا تعالیٰ کی تقدیر بڑی بھیا نک طور پر ظاہر ہوئی ہے.اُس پر بھی ان علماء کو ہوش نہیں آرہی اور استغفار کی طرف توجہ مائل نہیں ہو رہی.اُن غریبوں اور مظلوموں کی حالت کا اندازہ کریں جن کو قوم کے بڑوں نے خود پاگل بنا کر آگ کی طرف دھکیلا ہو اور جب وہ مصیبتوں میں گرفتار ہوئے ہوں اور خدا کے عذاب کے نیچے آئیں تو پھر ان کا ساتھ چھوڑ دیں.جس دن اوجڑی کیمپ میں یہ قیامت ٹوٹ رہی تھی ایک طرف احمدی تھے کہ ان کی سچی ہمدردی میں سرشار قطع نظر اس کے کہ ان کو کیا خطرات لاحق ہیں اپنے گھروں سے نکل کر وہ مصیبت زدگان کو مصیبتوں سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان حالات پہ استغفار کر رہے تھے اور خدا سے بخشش طلب کر رہے تھے اور دوسری طرف مولوی احتجاجی جلوس نکال رہے تھے اور ان مظلوموں کی کوئی بھی ان کو پرواہ نہیں تھی.یہاں تک کہ آخر پولیس مجبور ہو گئی اور ڈنڈے مار کے اور گالیاں دے کر اور سختی کر کے اس جلوس کو تو ڑا اور انہیں واپس جانے پر مجبور کیا اور ان کو بے حیا کہا اور ان کو یہ کہا کہ تمہیں خدا کا آج بھی خوف نہیں.دیکھتے نہیں کہ کس قسم کا عذاب نازل ہو رہا ہے اور کس طرح بنی نوع انسان دکھ میں مبتلا ہیں اور تمہیں اپنے مطالبوں کی پڑی ہوئی ہے.چنانچہ وہ دن ایسا تھا کہ صدر ضیاء الحق صاحب کی موجودگی میں پاکستان کی پولیس نے مولویوں کا مقابلہ کیا ہے اور ان کی شرارت کے سامنے دبنے سے صاف انکار کر دیا اور ان کو خدا کا خوف دلانے کی پولیس نے کوشش کی اور ان سب باتوں کے بعد ان کی سفا کی کا اور بے باکی کا یہ عالم ہے کہ اخباروں میں فوراً یہ اعلان دینے شروع کر دیئے کہ راولپنڈی کا سانحہ قادیانیوں کی منظم سازش کا نتیجہ ہے.چنانچہ اس کا ثبوت انہوں نے اپنی طرف سے یہ پیش کیا اور ایسا جھوٹ اور ایسا بے بنیا داخترا

Page 424

خطبات طاہر جلدے 419 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے اس کو دیکھ کر کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ راولپنڈی کا واقعہ پیش آنے سے پہلے یا سانحہ پیش آنے سے پہلے دو روز قبل قادیانی پنڈی سے جاچکے تھے یعنی ان سب کا پتا تھا وہ سارے پنڈی چھوڑ چکے تھے کہیں وہ بھی اس مصیبت میں گرفتار نہ ہوں.جہاں تک جماعت احمدیہ کی طرف سے وہاں خبریں مل رہی ہیں.تمام احمدی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں قائم رہے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اس لحاظ سے کہ اپنے گھر چھوڑ کر کسی اور جگہ نہیں گئے لیکن خطرے کی شدت کے وقت وہ گھروں سے نکلے ہیں بھاگنے کے لئے نہیں بلکہ بچانے کے لئے.آفت سے گریز کے لئے نہیں بلکہ آفت کی طرف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قدم بڑھاتے ہوئے کہ آفت زدہ لوگوں کو اس آفت سے بچاسکیں اور جگہ جگہ انہوں نے جو اپنی آنکھوں سے دیکھا جو کچھ دیکھا اور اپنے کانوں سے جو کچھ سنا ان کے متعلق وہ با قاعدہ مجھے اطلاع بھیج رہے ہیں اور یہ عجیب داستان اکٹھی ہو رہی ہے جو خدا تعالیٰ کے نشانات ایک نشان ہے.ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہاتھ رکھ کر احمدیوں کو بچایا جبکہ اور کسی کی کوئی ضمانت نہیں تھی.راکٹ بظاہر اندھے ہیں لیکن احمدی کی پہچان میں اندھے نہیں تھے اور وہ فرق کر کے دکھاتے تھے.یہ جو واقعہ رونما ہوا ہے اس سے گھبرا کر مولوی نے جھوٹ بولا ہے اور افترا کیا ہے ان کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ جب قوم یہ دیکھے گی کہ راکٹوں کی اس اندھی بوچھاڑ میں احمدیوں کے گھر بچ گئے ان کی جانیں بچ گئیں ان کے بچوں کو ان کے بوڑھوں کو ان کے جوانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، ان کی عورتوں کی کوئی نقصان نہیں پہنچا اور خدا تعالیٰ نے ایک تمیز اور تفریق کر کے دکھائی ہے تو قوم یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے گی کہ آفت ہم مولوی کی اس بدبختی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اعلان کیا تھا یعنی جس دن یہ راکٹ برسے ہیں یہ اعلان کیا تھا کہ اس دن ہم احمدیوں کی مسجد میں مسمار کریں گے اور ان کے پیشانیوں سے کلمہ طیبہ کو نوچ کر پھینک دیں گے.یہ وہ جلوس تھے جو نکلنے والے تھے اور نکلنے کی کوشش کر رہے تھے اس دن اور اوپر سے خدا تعالیٰ کی طرف سے پکڑ اچانک آگئی اور ان کی کوئی پیش نہیں گئی.ساری ان کی سازشیں اس طرح دھری کی دھری رہ گئیں.یہ بات چونکہ قوم کو معلوم ہونی تھی ، قوم نے دیکھ لینا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ وہاں سے خط لکھنے والے سارے ذکر کر رہے ہیں کہ بعض جگہ دکانوں سے جن پر راکٹ گرے ہیں اور جن میں سے خدا کے فضل سے بعض آدمی بچ گئے اور گھبرا کر باہر نکلے

Page 425

خطبات طاہر جلدے 420 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء ہیں یہ کہتے ہوئے باہر نکل رہے تھے کہ او بد بخت اور کلمہ طیبہ کی توہین کرو اور مٹاؤ کلمہ طیبہ اور مسجد میں مسمار کرو، یہ خدا کی ناراضگی کا اظہار ہے.تو سارے پنڈی کے باشندے،اسلام آباد کے باشندے وہ جن میں کچھ صداقت کی رمق باقی تھی وہ کھلم کھلے الفاظ میں اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ خدا کی ناراضگی اُن مولویوں کی بد کرداری کے نتیجہ میں ہے کہ انہوں نے کلمہ طیبہ کی توہین کی اور کلمہ طیبہ کو مٹانے کی جسارت کی ہے اور جھوٹے الزام لگائے ہیں احمدیوں پر کہ اوپر سے کوئی اور کلمہ پڑھتے ہیں اندر سے ان کا کلمہ کوئی اور ہے.پس یہ معاملہ اس حال کو پہنچ چکا ہے اور جماعت احمدیہ کی پہلی صدی بھی جو کہ اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لئے تمام احمدیوں کے دکھ اور بے قراری اور مسلسل صبر کی آہوں سے مجبور ہو کر اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمد یہ عالمگیر کی طرف سے ان سارے مکفرین ، مکذبین افتراء کرنے والے ائمۃ التکفیر کو مباہلہ کا چیلنج دوں اور پاکستان کے عوام الناس سے درخواست کروں کہ آپ ان کی تائید میں آمین کہنے والے نہ بنیں ورنہ خدا کی پکڑ آپ پر بھی نازل ہوگی اور آپ کو بھی نہیں بچائے گی اور آپ اس سے بچ نہیں سکیں گے.اس لئے شریف الناس اور عوام الناس کو میری یہ اپیل ہے لیکن میں یہ بتا تا ہوں کہ وہ ائمہ تکثیر جو جسارت کے ساتھ اس مباہلہ کے چیلنج کو قبول کریں گے مجھے خدا کی غیرت سے، اس کی حمیت سے توقع ہے کہ وہ ان کے خلاف اور جماعت احمدیہ کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے حق میں عظیم الشان نشان دکھائے گا پس وہ عبارت جو میں نے تحریر کی ہے بعض احمدیوں کے لحاظ سے اس میں شاید کچھ یہ تکلیف دہ عصر ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لے کر یہ عبارت لکھی ہے میں آپ کو پڑھ کرسنا تا ہوں لیکن اس میں مجبوری یہ تھی کہ اگر میں حضرت مسیح موعود یا حضرت مہدی معہود وغیرہ القابات دیتا یا حضرت ہی لکھتا تو ان مفترین علماء کو یہ موقع مل جاتا کہ وہ اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیتے.اس لئے حتی المقدرو میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جن سے ہمارے مخالفین کو بھاگنے کی کوئی راہ نہ مل سکے اور بھاگنے کا کوئی عذر ان کے ہاتھ نہ آسکے.یہ عبارت یہ ہے:.”اے علیم وخبیر اے عالم الغیب والشھادۃ اے قادر و توانا اے غیور اے منتقم اے جبار و قہار خدا اے بچوں اور جھوٹوں کے درمیان تمیز کرنے والے، اے ظالموں اور صادقوں کے درمیان تفریق

Page 426

خطبات طاہر جلدے 421 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء کرنے والے، اسے کھرے اور کھوٹے میں تغابن کرنے والے دن کے مالک ،اے ہر کمزور اور بے سہارا کے پشت پناہ، اے ہر جابر متکبر غمی کے استکبار کا سر توڑنے والے، اے وہ جو اپنے کمزور اور عاجز راستباز بندوں کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے اور ظالموں اور کج رووں کی راہ روکتا ہے.اے صادقوں کے صدق کے لئے غیرت دکھانے والے ، اے بچوں کے معین اور مددگار، اے کا ذبوں کے کذب کے پردے چاک کرنے والے اور حق کو جھٹلانے والوں کو سر عام ذلیل اور رسوا کرنے والے.اے خالق و مالک دو جہاں اے رب العالمین.اے محمد مصطفی حملے کے خدا، اے سب نبیوں کے سردار کے آقا.اے سید ولد آدم کے سردار.اے عصمت و ناموس مصطفی کے لئے سب غیرتمندوں سے بڑھ کر غیرت دکھانے والے، اے خیر الفاتحین،اے ذولجلال،اے صاحب المجد والعکی.آج ہم دو فریق تیرے عالی دربار میں فیصلے کے طالب بن کر آئے ہیں.ہمارا جھگڑا لمبا ہو گیا، ہمارے اختلاف بہت طول پکڑ گئے ، ہمارا تنازع بڑھتے بڑھتے ایک صدی کی قامت کو پہنچ گیا اور یہ صدی اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے.ایک فریق ہم میں سے وہ ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کے تمام دعاوی پر ایمان لاتا اور ان کی تصدیق کرتا ہے.ایک فریق ہم میں سے وہ ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کے تمام دعاوی کو جھٹلاتا اور ان کی تکذیب کرتا ہے.ایک فریق ہم میں سے وہ ہے جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کے ایمان کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی تیر ا صادق اور راست با ز بندہ تھا اور یہ کہ سید ولد آدم حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہ ﷺ کا مخالف اور آپ کی ختم نبوت کا منکر نہیں تھا اور آپ کو کامل طور پر افضل الرسل اور خاتم النبین یقین کرتا تھا اور آپ کے دعاوی پر کامل صدق اور عجز کے ساتھ ایمان لاتا تھا اور آپ کا سچا صحت اور عاشق صادق تھا اور ہے وہ کلمہ شہادہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے برحق ہونے پر لاریب گواہی دیتا تھا اور قرآن کریم کو اول تا آخر بسم اللہ کی سب سے لے کر سورۃ الناس کی س تک خدا تعالیٰ کا غیر مبدل اور غیر محرف کلام یقین کرتا تھا اور اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخرت اور اللہ کی تقدیر خیر وشر پر کامل ایمان رکھتا تھا اور ایمان لاتا تھا کہ حضرت محمد رسول الله ﷺ پر نازل ہونے والی شریعت آخری شریعت ہے جس کا ایک شعہ بھی تا قیامت کبھی منسوخ نہیں ہوگا اور آپ آخری صاحب شریعت اور صاحب حکم رسول ہیں جن کا حکم تا قیامت تمام بنی نوع انسان کے لئے واجب التعمیل ہے.وہ ایسا صاحب خاتم تھا یعنی محمد رسول اللہ کہ جس کی مہر

Page 427

خطبات طاہر جلدے 422 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء رسالت اٹوٹ اور امر اور دائی ہے اور وہ یعنی محمد مصطفی ہے مرزا غلام احمد قادیانی کے ایمان کے مطابق ایسا صاحب امر تھا کہ جس کے امر سے سر موسر گردانی کرنے والا خدا کے امر سے روگردانی کرنے والا ہے اور اس کی ہدایت کا انکار کرنے والا خدا کی ہدایت کا انکار کرنے والا ہے.یہ فریق جو پاکستان کی قومی اسمبلی کے ۱۹۷۴ء کے فیصلہ کے برخلاف اپنے آپ کو احمدی مسلم قرار دینے پر اصرار کرتا ہے یہ دعوی کرتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ہرگز کبھی ایسی نبوت کا دعوی نہیں کیا جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے باہر اور غلامی سے جدا کرنے والی اور آپ کی فرمانروائی سے خارج کرنے والی ہو بلکہ اس کا دعویٰ صرف یہ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی کامل غلامی میں مبعوث کیا گیا ہے اور وہی موعود زمانہ مہدی اور مسیح ہے جس کی بعثت کی پیشگوئی خود سرور دو عالم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی وہ مامور ہے مگر حضرت محمد رسول اللہ کے امر کے نیچے وہ نبی اور رسول ہے مگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی اطاعت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا اور تحت اقدام محمد مصطفی سے ہے.وہ محض نبوت کا نہیں بلکہ امتی نبوت کا دعویدار تھا اور امت محمدیہ سے باہر قدم رکھنے کو فسق و فجور اور الحاد یقین کرتا تھا اور اس نے کبھی محمد رسول اللہ کی ہمسری کا دعوی نہیں کیا بلکہ اس کا دعویٰ کامل اور غیر مشروط غلامی کا دعویٰ تھا وہ خدا تعالیٰ کو واحد اور لاشریک یقین کرتا تھا اور اس نے کبھی خدا تعالیٰ کی ہمسری اور اس کا شریک ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.وہ مشرک نہیں تھا بلکہ شرک کی ہر راہ سے بیزار تھاوہ اس خدا پر ایمان لاتا تھا جو محمد رسول اللہ کا خدا تھا بلکہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا جوا اٹھانے والا مخلص اور سچا مسلمان تھا.وہ ملائکہ پر وہی ایمان رکھتا تھا جس کی قرآن کریم نے تعلیم دی وہ اُسی قرآن پر صدق دل سے یقین رکھتا تھا جو محمد رسول اللہ پر نازل ہوا اور اسی کلمہ شہادہ اور نماز اور زکوۃ اور حج اور روزے کی فرضیت پر ایمان لاتا تھا جسکی تعلیم قرآن نے دی اور جس کے نقوش کو سنت محمد رسول اللہ نے اجاگر کیا.وہ ہرگز خدا پر افتراء کرنے والا اور بندوں پر جھوٹ بولنے والا نہیں تھاوہ ہرگز اسلام کا دشمن اور اسلام کے دشمنوں کا دوست نہیں تھا.اس کا سلسلہ ہرگز انگریز یا کسی اور انسانی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا نہیں تھا.اس نے ایک ایسی جماعت پیدا کی جو خدا اور رسول کی جماعت ہے اور پہنچ ارکان اسلام پر کامل ایمان لاتی ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی کو ہر گز کسی نوع اور کسی رنگ میں بھی حضرت محمد رسول الله ﷺ سے افضل نہیں سمجھتی بلکہ یقین رکھتی ہے کہ وہ اپنے ہر ایمان اور ہر تصور اور ہر عمل میں محمد

Page 428

خطبات طاہر جلدے 423 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء الله رسول اللہ کا کامل غلام تھا اور کسی نوع کی فضیلت اس کو محمدرسول اللہ ﷺ پر حاصل نہیں تھی.اس نے ایک ایسی جماعت پیدا کی جو اسلام کی دشمن نہیں بلکہ دوست ہے.دین محمد کے غدار نہیں بلکہ وفادار اور معین و مددگار ہے.وہ نہ نصاریٰ کی ایجنٹ ہے نہ یہود کی نہ ہنود کی بلکہ اسلام کی سچی نمائندہ اور حق و صداقت کی ایجنٹ ہے.وہ وطن دشمن اور امن و مان کو تباہ کرنے والی اور شر اور فساد کرنے والی جماعت نہیں بلکہ حب وطن اس کے ایمان میں داخل ہے اور سلامتی اور امن کی علمبردار ہے وہ بنی نوع انسان کی سچی ہمدرد اور بہی خواہ ہے اور ہر قسم کے جھوٹ اور افتراء اور ظلم سے بیزار ہے.اے عالم الغیب والشھادۃ اے قادر رو تو انا اے قہارا اور جبار خدا اور اے مفتری اور کاذب پر غضب نازل کرنے والے ہم میں سے دوسرا فریق (یعنی احمدیوں کے مخالفوں اور معاندین کا فریق) فریق اول کے تمام مذکورہ دعاوی کی تکذیب کرتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ فریق اول کذاب اور مفتری ہی نہیں بلکہ سراسر فتنہ و فساد کی راہ سے تیری مخلوق کو دھوکا دینے والا ہے اور ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والا ہے.یہ دوسرا فریق اس جماعت کو جو احمدی مسلم کہلانے پر مصر ہے نہ احمدی تسلیم کرنے پر تیار ہے نہ مسلم بلکہ قادیانی اور مرزائی ٹولہ قرار دیتا ہے.ہم یعنی فریق ثانی اس وضاحت کے بعد پوری ذمہ داری کے ساتھ اس معاملہ کے حسن و فتح کو سمجھتے ہوئے اور فائدہ اور شر سے اچھی طرح آگاہ ہو کے اس جماعت کے موجودہ سربراہ مرزا طاہر احمد کے اس مباہلہ کے چیلنج کو بقائمی ہوش وحواس پوری جرات کے ساتھ قبول کرتے ہیں جو اس نے بروز جمعہ 10 تاریخ جون 1988ء کومرزا غلام احمد قادیانی کے تمام مکذبین اور معاندین اور اس کی جماعت کے تمام مخالفین کو کھلے کھلے غیر مبہم لفظوں میں دیا ہے.ہم تجھے حاضر و ناظر جانتے ہوئے اور تیری قدرت اور تیری تجلیات عظمت اور جلال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ قادیانی جماعت جو اپنے آپ کو احمدی مسلم کہلانے پر اصرار کرتی ہے کہ وہ تمام دعاوی جھوٹے اور کذب اور سراسر افتراء پر مبنی ہیں جن کا ذکر فریق اول کے دعاوی میں گزرا ہے.ہم اس جماعت کو خدا اور رسول اور قوم اور وطن اور انسانیت کا دشمن یقین کرتے ہیں اور پوری بصیرت کے ساتھ اپنے تمام دعاوی میں جن کا ذکر گزرا ہے جماعت احمدیہ کو کذاب اور مفتری یقین کرتے ہیں اس جماعت کی مخالفت میں اور اس کی اندرونی حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہوئے جو کچھ گزشتہ برسوں میں ہم نے لکھا یا بیان کیا (جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ) ہم از

Page 429

خطبات طاہر جلدے 424 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء سر نو اس اعلان کے ذریعہ سب الزامات کی توثیق کرتے ہیں اور ان کا اعادہ کرتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ جماعت کلمہ توحید کی قائل نہیں بلکہ مرزا غلام احمد کو خدا یا خدا کا شریک یقین کرتی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں اور اس دعوئی میں سچے ہیں کہ یہ جماعت مرزا غلام احمد قادیانی کو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا غلام نہیں بلکہ ان سے افضل سمجھتی ہے اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ جماعت محمد رسول اللہ ﷺ کی ادنی غلام اور عاشق نہیں بلکہ آپ کی مخالف اور معاند ہے اور عزت کرنے والی نہیں بلکہ ہتک کرنے والی جماعت ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ جماعت جو یہ دعوی کرتی ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں تو ہر گز محمد رسول اللہ کا کلمہ نہیں پڑھتی بلکہ اپنے دل میں مرزا غلام احمد قادیانی مراد لیتی ہے اور اسی کی رسالت اور صداقت کی شہادت دیتی ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ جماعت اسلام کی دشمن اور قوم اور وطن کی غدار ہے اور بنی نوع انسان سے عداوت رکھنے والی ہے اور امن عالم کو تباہ کرنے والی ہے اور مفسد اور شریر جماعت ہے جو نصاریٰ کی بھی ایجنٹ ہے اور یہود کی بھی ہے اور ہنود کی بھی.ہمیشہ اسلام دشمن اور وطن دشمن سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہے.پاکستان میں جتنے بڑے بڑے فساد اور دھماکے ہوئے ہیں ان سب کی یا ان میں سے اکثر کی ذمہ داری اس جماعت پر عائد ہوتی ہے اور اس کا دین وہ دین اسلام نہیں جو محمدرسول اللہ ﷺ کا دین تھا.اس کی کتاب وہ قرآن کریم نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی.اس کی شریعت وہ شریعت نہیں جو شریعت اسلامیہ ہے.اس کی عبادت وہ عبادت نہیں جس کی تعلیم قرآن اور سنت نے دی.اس کا ملائکہ کتب اور رسولوں اور یوم آخرت کا تصور اس سے بالکل جدا ہے جو قرآن اور محمد رسول صلى الله اللہ ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا.یہ جماعت بنی نوع انسان کو اور خصوصیت سے امت مسلمہ کو دھوکا اور فریب دینے والی جماعت ہے اور اس جماعت کو مسلمان کہلانے کے حق سے محروم کرنا ، مرتد اور واجب القتل قرار دینا، اس کو اسلامی طرز پر عبادت کرنے سے روکنا.اس جماعت کو حج بیت اللہ سے منع کرنا، اس جماعت کی عبادت گاہوں کو مسجد قرار دینا خلاف تعلیم اسلام سمجھنا اور ان کی عبادت گاہوں کو جو مسجدوں کی طرز پر بنائی گئی ہیں مہندم اور مسمار کردینا اور ان کے خون کو مباح قرار دینا اور انکی جائیدادوں کو لوٹنے اور ان کے گھروں کو جلانے کی تعلیم دینا اور انہیں دین اسلام اور وطن کا ناسور قرار دینا اور اسے اکھاڑ پھینک دینے اور ملیا میٹ کر دینے کی تلقین کرنا عین دین اسلام کے تقاضوں الله

Page 430

خطبات طاہر جلدے 425 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء کے مطابق اور رضائے باری تعالیٰ کے حصول کا ذریعہ اور نجات اور فلاح پانے کی وسیلہ ہے.پس ان وضاحتوں کے بعد چونکہ مباہلے میں وضاحتیں ہونا بڑا ضروری ہیں تا کہ کوئی زبان کا ایچ پیچ ایسا باقی نہ رہے جس سے دنیا کے سامنے بات کھل نہ سکے.اس لئے بار بار تکرار کے ساتھ میں نے جماعت احمدیہ کے مؤقف کی بھی خوب وضاحت کر دی ہے اور جماعت احمدیہ کے معاندین کے مؤقف کی بھی خوب وضاحت کر دی ہے.اس کے بعد یہ دعا ہے.و پس اے قادر تو انا عالم الغیب والشہادہ خدا! ہم تیری جبروت اور تیری عظمت تیرے وقار اور تیرے جلال کی قسم کھا کر اور تیری غیرت کو ابھارتے ہوئے تجھ سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو فریق بھی ان دعاوی میں سچا ہے جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اس پر دونوں جہان کی رحمتیں نازل فرما اس کی ساری مصیبتیں دور کر، اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے، اس کو برکت پر برکت دے اور اس کے معاشرے میں پھیلے ہوئے پر فساد اور ہر شر کو دور کر دے اور اس کی طرف منسوب ہونے والے ہر بڑے اور چھوٹے اور مرد اور عورت کو نیک چلنی اور پاک بازی عطا کر اور دن بدن اس سے اپنی قربت اور پیار کے نشان پہلے سے بڑھ کر ظاہر فرما تا کہ دنیا خوب دیکھ لے کہ تو ان کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور ان کی پشت پناہی پر کھڑا ہے اور ان کے اعمال ان کی خصلتوں اور اٹھنے اور بیٹھنے اور اسلوب زندگی سے خوب اچھی طرح یہ جان لے کہ یہ خدا والوں کی جماعت ہے اور خدا کے دشمنوں اور شیطانوں کی جماعت نہیں ہے.اور اے خدا تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر اپنا غضب نازل فرما اور اس کو ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنا اور اس طور سے ان کو اپنے عذاب کی چکی میں پیس اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال دے کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں ہے بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ ہے یہ سب عجائب کام دکھلا رہا ہے.اس رنگ میں اس جھوٹے گروہ کو سزا دے کہ اس سزا میں انسانی مکر و فریب کے ہاتھ کا کوئی بھی دخل نہ ہو اور وہ محض تیرے غضب اور تیری عقوبت کی جلوہ گری ہوتا کہ سچ اور جھوٹ میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ظالم اور مظلوم کی راہیں جدا جدا کر کے دکھائی جائیں اور ہر وہ شخص جو تقویٰ کا پیج اپنے سینے میں

Page 431

خطبات طاہر جلدے 426 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۸ء رکھتا ہے اور ہر وہ آنکھ جو اخلاص کے ساتھ حق کی متلاشی ہے.اس پر معاملہ مشتبہ نہ رہے اور ہر اہل بصیرت پر خوب کھل جائے کہ سچائی کس کے ساتھ ہے اور حق کس کی حمایت میں کھڑا ہے، آمین یا رب العالمین.ہم ہیں فریق اول جماعت احمدیہ کے سربراہ تمام دنیا کے ہر احمدی مردو زن کی نمائندگی میں ہر چھوٹے بڑے کی نمائندگی میں“.میرے دستخط ہوں گے.ان سب مکذبین اور معاندین کو یہ پہنچائی جائے گی.دوسری طرف جگہ رکھی جائے گی فریق ثانی کے دستخطوں کیلئے جس میں دعوت ہوگی کہ ہر مکذب، مکفر ، امام تکفیر جو جماعت احمدیہ کے عناد میں اس کو نیست و نابود کے فکر میں ہے اور وہ اور اس کے ہم خیال ہر وہ شخص جو ایسے شخص کی حمایت میں جرات رکھتا ہو وہ اس پر دستخط کر دے اور جہاں تک گروہوں کا تعلق ہے ان گروہوں کے سر براہوں کو خواہ وہ حکومت سے تعلق رکھتے ہوں یا باہر سے ان سب کو میری طرف سے یہ دعوت ہے کہ اس قسم کی تحریر پر دستخط کر کے اخبارات میں اس کی اشاعت کریں.ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اس کی اشاعت کریں اور خوب دنیا میں اس بات کا پروپیگنڈا کریں کہ ہم نے مباہلے کے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے تا کہ خدا کی طرف سے نشان نمائی ہو اور حق اور کذ سب کی راہیں الگ الگ کر کے دکھا دی جائیں.یہ آخری چیلنج ہے اس کے بعد ہماری حجت کی ساری راہیں بند ہو جاتی ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلہ کے انتظار کے دن باقی رہ جاتے ہیں جو اس صدی کے آخر کے دن ہیں میں جماعت کو تلقین کرتا ہوں تقویٰ کے ساتھ ، خدا خوفی کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے ، گریہ وزاری کرتے ہوئے یہ دعائیں کرتے ہوئے گزاریں کہ اگر خدا نے غضب ظاہر کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے تو محض مکذبین کے سرداروں اور ان گروہوں کے نمایاں بدکرداروں پر خدا کا غضب ٹوٹے اور عوام الناس بیچارے جو پہلے ہی ظلموں کی چکی میں طرح طرح سے پیسے جارہے ہیں ان کو خدا تعالیٰ اس غضب سے بچالے.لیکن ان کو حوصلہ دے کہ وہ ظلم کرنے والوں کیخلاف کھڑے ہوں اور آواز بلند کریں اور سینہ تان کے ان کے ظلم کی راہیں روک دیں.یہی ایک طریق ہے جس کے ذریعے وہ خدا کے غضب سے بچ سکتے ہیں.لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں وہ دن ایسے دن ہیں کہ جن دنوں میں خدا تعالیٰ اپنے غضب کی تجلی دکھانے کیلئے آمادہ اور تیار ہوتا ہے.وہ دن قریب ہیں اور جلد آنے والے

Page 432

خطبات طاہر جلدے 427 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۸ء ہیں کہ جب خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حمایت میں اور حمیت میں عجیب کام کر کے دکھائے گا اور دنیا دیکھے گی کہ سچ کس کا سچ ہے اور دین کس کا دین ہے اور کون ہے جو خدا پر افتر ا کرنے والا اور خدا کا دشمن اور خدا کے دین اور خدا کے رسول کا دشمن اور ان پر افترا کرنے والا ہے.آخر پر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر پر اس خطاب کو ختم کرتا ہوں.اس میں نصیحت بھی ہے اور انتباہ بھی ہے اور بڑی پر حکمت ایک تمثیل کے ذریعے اس معاملے کو خوب کھول دیا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں: ”ہمارا گر وہ ایک سعید گروہ ہے جس نے اپنے وقت پر اس بندہ مامور کو قبول کر لیا ہے جو آسمان اور زمین کے خدا نے بھیجا ہے اور ان کے دلوں نے قبول کرنے میں کچھ تنگی نہیں کی کیونکہ وہ سعید تھے اور خدا تعالیٰ نے اپنے لئے انہیں چن لیا تھا.عنایت حق نے انہیں قوت دی اور دوسروں کو نہیں دی اور ان کا سینہ کھول دیا اور دوسروں کا نہیں کھولا.سوجنہوں نے لے لیا انہیں اور بھی دیا جائیگا اور ان کی بڑھتی ہوگی مگر جنہوں نے نہیں لیا ان سے وہ بھی لیا جائے گا جو ان کے پاس پہلے تھا.بہتیرے راست بازوں نے آرزو کی کہ اس زمانے کو دیکھیں مگر دیکھ نہ سکے مگر افسوس کہ ان لوگوں نے دیکھا مگر قبول نہ کیا.ان کی حالت کو میں کس قوم کی حالت سے تشبیہ دوں.ان کی نسبت یہی تمثیل ٹھیک آتی ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وعدے کے موافق ایک شہر میں اپنی طرف سے ایک حاکم مقرر کر کے بھیجا تا وہ دیکھے کہ در حقیقت مطیع کون ہے اور نافرمان کون ؟ اور تا ان تمام جھگڑوں کا تصفیہ بھی ہو جائے جو ان میں واقع ہورہے ہیں.چنانچہ وہ حاکم عین اس وقت میں جبکہ اس کے آنے کی ضرورت تھی آیا اور اس نے اپنے آقائے نامدار کا پیغام پہنچادیا اور سب لوگوں کو راہ راست کی طرف بلایا اور اپنا حکم ہونا ان پر ظاہر کر دیا لیکن وہ اسکے ملازم سرکاری ہونے کی نسبت شک میں پڑ گئے.تب اس نے ایسے نشان دکھلائے جو ملازموں سے ہی

Page 433

خطبات طاہر جلدے 428 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۸ء خاص ہوتے ہیں مگر انہوں نے نہ مانا اور اسے قبول نہ کیا اور اس کو کراہت کی نظر سے دیکھا اور اپنے تئیں بڑا سمجھا اور اس کا حکم ہونا اپنے لئے قبول نہ کیا بلکہ اس کو پکڑ کر بے عزت کیا اور اس کے منہ پر تھوکا اور اس کے مارنے کیلئے دوڑے اور بہت سی تحقیر و تذلیل کی اور بہت سی سخت زبانی کے ساتھ اس کو جھٹلایا.تب وہ ان کے ہاتھ سے وہ تمام آزار ا ٹھا کر جو اس کے حق میں مقدر تھے اپنے بادشاہ کی طرف واپس چلا گیا اور وہ لوگ جنہوں نے اس کا ایسا برا حال کیا کسی اور حاکم کے آنے کے منتظر بیٹھے رہے اور جہالت کی راہ سے اسی خیال باطل پر جمے رہے کہ یہ تو حاکم نہیں تھا بلکہ وہ اور شخص ہے جو آئے گا جس کی انتظاری ہمیں کرنی چاہئے.سو وہ سارا دن اس شخص کی انتظار کئے گئے اور اٹھ اٹھ کر دیکھتے رہے کہ کب آتا ہے اور اس وعدہ کا باہم ذکر کرتے رہے جو بادشاہ کی طرف سے تھا.یہاں تک کہ انتظار کرتے کرتے سورج غروب ہونے لگا اور کوئی نہ آیا.آخر شام کے قریب بہت سے پولیس کے سپاہی آئے جن کے ساتھ بہت سی ہتھکڑیاں بھی تھیں.سو انہوں نے آتے ہی ان شریروں کے شہر کو پھونک دیا اور پھر سب کو پکڑ کر ایک ایک کو ہتھکڑی لگا دی اور عدالت شاہی کی طرف بجرم عدول حکمی اور مقابلہ ملازم سرکاری چالان کر دیا.جہاں سے انہیں سزائیں مل گئیں.جنکے وہ سزاوار تھے.سو میں سچ سچ کہتا ہوں یہی حال اس زمانے کے جفا کارمنکروں کا ہوگا ہر ایک شخص اپنی زبان اور قلم اور ہاتھ کی شامت سے پکڑا جائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے.“ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۱۹۱-۱۹۰)

Page 434

خطبات طاہر جلدے 429 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء حضور کی رؤیا.مباہلہ معیار عبادت کو بلند کر کے جیتیں (خطبہ جمعہ فرموده ۷ ارجون ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں : وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْتُهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوْا بِمَا أُوتُوا أَخَذْتُهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُّبْلِسُونَ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام :٤٣ - ٤٦) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے اور ہم تجھ سے پہلے قوموں کی طرف رسول بھیج چکے ہیں اور ان رسولوں کے آنے کے بعد ہم نے انہیں یعنی منکرین کو سخت مالی اور جسمانی اذیتوں میں گرفتار کر دیا تا کہ وہ بجز اختیار کریں.پھر کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب ان پر عذاب آیا تو وہ بجز اختیار کر لیتے بلکہ انکے دل تو اور بھی سخت ہو گئے اور شیطان نے اسے جو وہ کرتے تھے خوبصورت کر کے انہیں دکھایا اور پھر جب وہ اس امر کو بھول گئے جو انہیں بار بار یاد دلایا جا تارہا تو ہم نے ان پر ایک دفعہ پھر رحمت کرتے ہوئے ہر چیز کے دروازے ان پر کھول دیئے یہاں تک کہ جب وہ اس پر خوش ہوئے جو انہیں دیا گیا تھا تو ہم نے انہیں اچا نک عذاب میں مبتلا

Page 435

خطبات طاہر جلدے 430 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء کر دیا جس پر وہ یکدم نا امید ہو گئے.پس جنہوں نے ظلم کیا تھا ان کی جڑ کاٹ دی گئی اور ثابت ہوا کہ سب تعریفوں کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے.ان آیات کا انتخاب میں نے آج کے خطبہ جمعہ کیلئے اس لئے کیا ہے کہ انکا ان گزشتہ خطبات سے تعلق ہے جو میں مباہلہ کے ضمن میں دیتا رہا ہوں.مباہلہ اگر الہی جماعت کی طرف سے ہو یا نہ ہو انبیاء کے متعلق ان سب وجودوں کے متعلق جنہیں خدا خود بھیجتا ہے اسکی ایک ایسی جاری تقدیر ہے جسے کبھی کوئی دنیا میں تبدیل نہیں کر سکتا.نہ پہلے کر سکا ہے نہ آئندہ کر سکے گا.اس لئے چاہے کوئی اس مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرے یا نہ کرے وہ غیر مبدل تقدیر الہی جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے اس کو میں نے قرآن کریم کے الفاظ ہی میں آج آپ کے سامنے کھول کر رکھا ہے اور اس پہلو سے میرے مخاطب صرف احمدی ہی نہیں بلکہ وہ تمام دنیا کے مسلمان ہیں جو خصوصاً مباہلہ کے چیلنج کے بعد جماعت احمدیہ کے معاملات میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں.کچھ جستجو اور تعجب کے نتیجہ میں ، کچھ اپنی مخالفانہ کاروائیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے متذبذب ہو کر کہ کیا واقعی ہمیں یہ چیلنج قبول کر لینا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے.غرضیکہ مختلف وجوہات کی بناء پر کچھ اس لئے بھی کہ احمد یوں نے جب سے یہ چیلنج سنا ہے مدتوں کے دکھڑے ہوئے دلوں کو اپنے دلوں کے غبار نکالنے کا موقع مل گیا ہے اور وہ جگہ جگہ ان سب کو جو ان سے تمسخر کیا کرتے تھے اور استہزا کا نشانہ بناتے تھے.ان سب کو مل مل کر اسکے گھروں تک پہنچ کر وہ چیلنج پیش کر رہے ہیں اور تمام دنیا سے اس قسم کے خطوط مجھے مل رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں بھی ایک غیر معمولی بیداری پیدا ہوئی ہے اور وہ کامل یقین کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اب فیصلے کا دن آنے والا ہے.پس اس پہلو سے جو سوئے ہوئے تھے جو لاتعلق تھے انکو بھی جھنجوڑ کر بیدار کیا جارہا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جماعت احمدیہ کی بقا کا مسئلہ جماعت احمدیہ کی آخری فتح کا مسئلہ اس مباہلہ پر منحصر نہیں.اس کا تعلق خدا تعالیٰ کی ایک ایسی جاری تقدیر سے ہے جو ازل سے جاری ہے ابد تک جاری رہے گی وہ پہلا انسان جسے خدا نے اپنی طرف سے نمائندہ بنا کر بھیجا تھا اسکے حق میں یہ تقدیر جاری فرمائی اور پھر ہمیشہ یہ تقدیر ہر اس انسان کے حق میں جاری ہوتی رہی جس کو خدا تعالیٰ نے

Page 436

خطبات طاہر جلدے 431 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء اپنی طرف سے کسی امر پر مامور فرما کر بھیجا.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْ نَهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ کہ صرف تیرے ساتھ یہ معاملہ نہیں یہ تقدیر عام ہے جس کسی کو بھی میں بھیجتا ہوں بھیجنے کے بعد اس قوم پر جس قوم میں وہ بھیجا جاتا ہے کئی قسم کی تکلیفیں بھی میں نازل کرتا ہوں.انہیں جھنجوڑتا ہوں، انہیں بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ وہ سمجھیں اور غور کریں کہ جو کچھ انکے ساتھ ہو رہا ہے یہ کسی غیر معمولی واقعہ کی بناء پر ہے.کوئی ایسی بات ظہور ہوئی ہے جسے ہم نے نظر انداز کر دیا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہم پر دن بدن بڑھتی چلی جاتی ہے.یہ وہ وجہ ہے ورنہ عذاب دینا مقصود بالذات نہیں ، تکلیف پہنچانا اللہ تعالیٰ کے منشاء میں داخل نہیں اور اس مضمون پر پہلے بھی میں ایک دفعہ تفصیلی روشنی ڈال چکا ہوں کہ نہ بے دینوں کو تکلیف پہنچانا تقدیر الہی ہے نہ ایمانداروں کو تکلیف پہنچانا تقدیر الہی ہے.جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے تکلیف نازل کی جاتی ہے تو کسی مقصد کی خاطر.اگر اپنوں اور پیاروں کو تکلیف دی جائے تو وہ مقصد انکے حق میں اچھے حالات پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے، انکے حق میں خدا تعالیٰ کے پیار کو دنیا کے سامنے مزید ظاہر کرنے کا موجب بنتا ہے اور ان کی ہر تکلیف کو ایک باقی رہنے والی، جاری رہنے والی آسائش میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور ہر ان کا آنے والا دن ان کے ہر گزرے ہوئے دن سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے.اس کے برعکس اس آیت کریمہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کا انکار کرتے ہیں اور اس پہ اصرار کرتے ہیں ان کو بھی تکلیفیں دی جاتی ہیں اور وقتی طور پر انکی تکلیفوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا آخری فیصلہ ان کے متعلق ظاہر ہو جاتا ہے اور یہ سلوک ہمیشہ منکرین سے ہوا ہے ماننے والوں کے ساتھ نہیں ہوا.چنانچہ اس سلوک کا آخری نقطہ خدا تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا وہ تو میں جو ظلم کرتی ہیں ، وہ قوم جس نے ظلم کیا ان کی جڑیں کاٹ دی گئیں، ان کو بنیا دوں سے اکھیڑ دیا گیا گویا ہمیشہ کیلئے انکی طاقت کے چشمے ان سے کھینچ لئے گئے اور خشک کر دیئے گئے اور اس کے بعد پھر انہیں سر اٹھانے کا موقع نہیں ملا.یہ وہ تقدیر ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچے ہیں جیسا کہ ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ آپ بچے ہیں ، اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُسی رسول کے غلام اور عاشق ہیں

Page 437

خطبات طاہر جلدے 432 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور جس کو مخاطب کرتے ہوئے خدا نے یہ مضمون کھولا اور ہم کامل یقین رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچے ہیں اور اسی رسول کے متبع ، اسی کے ماننے والے، اسی کے عاشق صادق ہیں اور اگر آج خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی انہیں مقاصد کیلئے بھیجا ہے جن مقاصد کو پورا کرنے کیلئے خدا اس سے پہلے انبیاء کو بھجواتا رہا ہے تو پھر یقیناً آپ دیکھیں گے کہ یہی مضمون پھر جاری ہوگا.پہلے بھی جاری ہے لیکن افسوس کہ آنکھیں ابھی تک بند ہیں لیکن پھر جاری ہوگا اور زیادہ آنکھیں کھولنے کا موجب بنے گا یہاں تک کہ اگر خدانخواستہ ظلم کرنے والی قوم ظلم سے باز نہ آئی اور عبرت کے نمونے دیکھ کر عبرت نہ پکڑی تو پھر خدا تعالیٰ کی آخری تقدیر ان کے حق میں ضرور ظاہر ہوگی لیکن مباہلہ کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ تقدیر جو بعد کیلئے مقر تھی پہلے لے آئی جائے اور اسکے دن آگے کر دیئے جائیں.اس لئے اس مباہلہ کو صرف اس رنگ میں استعمال نہ کریں کہ گویا آپ کا دل ٹھنڈا ہو گیا اور آپ نے ذمہ داری کسی دوسرے کے سر پر ڈال دی اور یہ کہہ کر کہ مباہلہ ہو گیا اب بری الذمہ ہو گئے.میں اس پہلو پر اب روشنی ڈالنی چاہتا ہوں کہ مباہلہ کے بعد آپ کی ایک بہت ہی اہم ذمہ داری ہے ، ہم سب کی ایک اہم ذمہ داری ہے، ساری جماعت کو اس ذمہ داری کو ادا کرنا ہوگا اور وہ ذمہ داری خدا تعالٰی نے رویا میں مجھے دکھائی اور وہ آج میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.پہلے جب مباہلہ کا مضمون میرے دماغ میں ڈالا گیا تو آج سے چار خطبے پہلے میں نے اسکا آغاز کیا اور تمہید باندھی اور بتایا کہ مباہلہ کیا ہوتا ہے تو اسکے دو تین دن کے بعد ہی بجائے اسکے کہ مجھے مباہلہ کے متعلق کوئی خواب آتی ایک ایسی رؤیا دکھائی جو غیر معمولی قوت کی حامل تھی لیکن اس وقت مجھے سمجھ نہ آئی.صبح جب غور کیا تو پھر سمجھ آئی کہ اس کا تعلق دراصل مباہلہ سے ہی ہے.رویا میں میں نے دیکھا کہ میں ایک خطبہ دے رہا ہوں اور مخاطب کون ہیں، کہاں ہیں، کتنے ہیں، یہ پیش نظر نہیں.یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کل عالم کی جماعت کو میں خطبہ میں مخاطب کر رہا ہوں اور وہ جماعت سامنے بیٹھی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی اور اتنا جوش ہے اس خطبہ میں ،اس طرح قوت کے ساتھ وہ خود بخود جاری ہے جیسے بھر پور در یا بلندی سے بہاؤ کی طرف قوت کے ساتھ بہتا ہے اس کے سارے الفاظ تو یاد نہیں لیکن اسکی شوکت سے میرا بعض دفعہ جسم کا ذرہ ذرہ کا پنپنے لگتا تھا اور مضمون صرف یہ تھا کہ عبادت کرو اور عبادت کے حق قائم کرو اور نمازیں پڑھو اور بعض جو اس کے حصے

Page 438

خطبات طاہر جلدے 433 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء ہیں اس کا مضمون مجھے یاد ہے اگر چہ الفاظ بالکل بعینہ مجھے یاد نہیں ہو نگے مثلاً ایک موقع پر میں نے بڑی زور سے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے تم آسمان پر نجات یافتہ لکھے جاؤ گے تو یہ خیال غلط ہے جب تک زمین پر تم خدا کی عبادت کو قائم نہیں کرو گے میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آسمان پر بھی تم نجات یافتہ نہیں لکھے جاؤ گے اسلئے زمین پر عبادتوں کو قائم کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ خدا کی عبادت کو از سر نو قائم کریں.پس اگر تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سچے خادم ہو، اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کچی وفا کرتے ہو تو زمین پر اس خدا کی عبادت کو قائم کرو جو آسمان پر ہے.پھر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم آسمان پر خدا کے عبادت گزار بندوں میں لکھے جاؤ گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نجات یافتہ جماعت میں داخل ہو گے.بالکل اسی مضمون کو شاید چند الفاظ کی تبدیلی سے میں نے خواب میں اپنے آپ کو جماعت کے سامنے پیش کرتے ہوئے دیکھا اور ایک لمبا خطبہ تھا پورے الفاظ تو مجھے یاد نہیں لیکن یہ مجھے معلوم ہے مسلسل عبادت کے متعلق تھا.چنانچہ بعد میں میں نے جب غور کیا تو علم ہوا کہ اسکا تو مباہلہ سے گہرا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا معاملہ جماعت کی سچائی کے معاملہ کے ساتھ وابستہ ہے.اگر جماعت جھوٹی ہو جائے تو تب بھی خدا مباہلہ میں کوئی کھلا کھلا نشان نہیں ظاہر فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے مباہلہ کے چیلنج دیئے.وہ جنہوں نے قبول کیے وہ عین خدا کی منشاء کے مطابق ہلاک ہوئے اور عبرت کا نشانہ بنے.یہ دور تھا جو اپنے وقت میں بہار دکھا کر چلا گیا.یہ دور اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہ سکتا ہے اگر اپنے اعمال میں وہ نقدس پیدا کرو ، وہ پاکیزگی پیدا کرو.اگر خدا سے تعلق میں وہ روابط پیدا کرو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا کئے اور جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے اور اس تقدس اور ان روابط کی جان نماز ہے.اگر نماز کے ذریعہ خدا سے تعلق قائم نہ رکھا جائے تو انسان کی کچھ بھی حیثیت اسکی نظر میں نہیں رہتی اور مباہلہ تفریق کرنے کیلئے ہوتا ہے، مباہلہ تمیز کرنے کیلئے ہوتا ہے.اگر کوئی جماعت خدا کی عبادت کو قائم نہیں کر رہی تو اسکی خاطر غیروں کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کی جائینگی.میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں عبادت کا معیار ہر جگہ، ہر جگہ تو

Page 439

خطبات طاہر جلدے 434 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء نہیں مگر اکثر جگہ غیروں کے مقابل پر اونچا ہے.بعض ایسے علاقے ہیں جہاں شدت کے ساتھ روایتاً نمازوں کے ظاہر پر ختی کی جاتی ہے اور انکے مقابل پر افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض دوسرے علاقوں کے احمدی اپنی روایت ستی کی وجہ سے نمازوں کی طرف اتنی توجہ نہیں دیتے.اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ دنیا میں ہر جگہ احمدی کی نماز کا معیار غیر احمدی کے نماز کے معیار سے اونچا ہے.اگر باطنی معیار اونچا ہو بھی تو وہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ظاہری معیار کے لحاظ سے ہر جگہ اونچا نہیں.اسی طرح ایک دفعہ میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ بعض فرقوں میں بھی نماز کا معیار بعض احمدیوں سے جو بعض خاص علاقوں میں بستے ہیں یقیناً اونچا ہے.مثلاً میمن ہیں اور اسی قسم کی بعض قومیں ہیں جو نمازوں پر بہت سختی کرتی ہیں.وہابی فرقہ ہے وہ نمازوں پر بہت سختی کرتا ہے.سعودی عرب میں نماز کے ظاہر کے قیام کا جہاں تک تعلق ہے وہ معیار کافی بلند ہے.اگر چہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ظاہر کچھ چیز نہیں لیکن یہ کہنا کہ باطن ہے ظاہر نہیں یہ بھی بالکل جھوٹ ہے.ظاہر ہو اور باطن نہ ہو یہ تو تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ قابل تسلیم نہیں کہ تمہارا ظاہر نہیں ہے لیکن باطن ہے یہ جھوٹ ہے اس لئے ہر احمدی کو اپنے ظاہر کو بھی قائم کرنا ہوگا اور اسلام عبادت کے معاملہ میں جو تقاضے احمدی سے کرتا ہے انہیں پورا کرنا ہوگا اور تمام دنیا میں عبادت کے معیار کو بڑھانا ہوگا.اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے مجھے ضمناً یہ خیال آیا کہ اس سے بھی ایک قسم کے بیچ اور جھوٹ میں واضح تمیز ہو جائیگی کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے کیونکہ عجیب اتفاق ہے یا تقدیر ہے کہ انہیں دنوں میں صدر پاکستان ضیاء الحق صاحب نے نمازوں کے مضموں کو اٹھایا ہے اور اپنی تقاریر میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اب ہم سزائیں دے کر اور جبر انمازیں پڑھائیں گے اور باقاعدہ حکم نامے جاری ہوئے ہیں دفاتر میں کہ با قاعدہ نمازوں کی حاضری لگائی جائے اور سزائیں دی جائیں ان لوگوں کو جو نمازیں نہیں پڑھتے.تو دو طرح کے نمازوں کی طرف بلانے والے آج دنیا کے سامنے کھڑے ہیں.ایک وہ ہے جن کو ایک ملک میں بھی کوئی جبر اور قوت کی دسترس حاصل نہیں.کسی ایک ملک کے ایک حصہ پر بھی کوئی حکومت حاصل نہیں اور اس کے ماننے والوں اور اسکے پیچھے چلنے والوں کی جماعت دنیا کی ۱۴ اممالک سے زائد کے علاقوں میں پھیلی پڑی ہے اور محض اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے انکے عہد وفا پر اعتماد کرتے ہوئے وہ کامل یقین کے ساتھ یہ جانتا ہے کہ جب وہ یہ آواز بلند کرے گا خدا کے نام پر کہ

Page 440

خطبات طاہر جلدے 435 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء نمازوں کے معیار کو بڑھاؤ تو تمام دنیا سے ابراھیمی طیور کی طرح خدا کی پاک روھیں دوڑتی چلی آئیں گی اور لبیک لبیک کی آوازیں بلند ہونگی اور دنیا کے ہر کونے میں احمدی کی نماز کا معیار بلند ہونا شروع ہو جائیگا.دوسری طرف ایک نمازوں کی طرف بلانے والا ایسا ہے جس کو ایک ملک میں پوری جبروت حاصل ہے.تمام وہ استبداد کی طاقتیں جو ایک آمر کو حاصل ہونی چاہئیں جسکی پشت پناہی پر ملک کی فوج کھڑی ہو وہ ساری قوتیں اسکو حاصل ہیں اس نے بھی اعلان کیا ہے کہ میں نماز کو قائم کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کا اعلان دلوں پر حکومت کر نیوالا اعلان نہیں.وہ بدنوں پر حکومت کرتے ہوئے نماز کو قائم کر نیکا دعویٰ کر رہا ہے.اب آپ دیکھیں اور دنیا بھی دیکھے گی کہ کسی نماز کا اعلان زیادہ اثر دکھاتا ہے اور کس کی نماز کی طرف بلانے کے نتیجہ میں کثرت سے لوگ دوڑتے ہوئے عبادت کیلئے خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں.پس یہ مباہلہ ایک عجیب شان میں ایک دوسری شان سے بھی ظاہر ہوگا اور نمازوں کے ذریعہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں خدا تعالیٰ سے غیر معمولی قوت اور برکت پائیگی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے اس کے لیے ہر رنگ میں تائید نازل ہوگی وہاں دوسری طرف خود نمازیں پڑھنے کا نمونہ اور خدا کے نام پر ایک آواز کو سنتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے عبادت کے معیار کو ہر جگہ بلند تر کر دینا ایک ایسا ظاہری سچائی کا نشان ہو گا کہ اسکے مقابل پر کوئی اور نشان ایسی چمک نہیں دکھلا سکتا.کھلا ہوا روشن نشان جس طرح سورج چڑھ جاتا ہے اس طرح کا یہ عبادت کا نشان ہے جو جماعت کے حق میں ظاہر ہو گا.تو اس پہلو سے میں تمام جماعتوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ اپنے گھروں کا جائزہ لیں.جہاں عبادت میں کمزوری ہے اُس کمزوری کو دور کریں، جہاں بچے نماز نہیں پڑھتے وہاں انہیں با قاعدہ نماز کی طرف متوجہ کریں، جہاں بڑے نماز نہیں پڑھتے وہاں ان بڑوں کو نماز کی طرف متوجہ کریں، جہاں عورتیں نماز نہیں پڑھتیں انکو متوجہ کیا جائے ، جہاں مرد نماز نہیں پڑھتے انکو متوجہ کیا جائے.بیویاں خاوندوں پر نگران ہو جائیں اور خاوند بیویوں پر ، ماں باپ بچوں پر نگران ہو جائیں اور وہ بچے جن کو خدا تعالیٰ نے خاص تقویٰ عطا کیا ہے اور خاص محبت بخشی ہے اور وہ پہلے ہی نمازوں کی طرف خاص طور توجہ دیتے ہیں وہ اپنے ماں باپ پر نگراں ہو جائیں اور یہ امر واقعہ ہے کہ ایک دفعہ نہیں متعدد مرتبہ مجھے بعض احمدی بچوں نے بڑے درد ناک خطوط لکھے ہیں کہ ہمارے ماں باپ نماز سے غافل ہیں یا ہماری ماں نماز سے غافل ہے یا ہمارا باپ نماز سے غافل ہے اس کے لیے دعا کریں.

Page 441

خطبات طاہر جلدے 436 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۸ء معلوم ہوتا ہے وہ بچے خود نمازیں پڑھتے تھے ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خود بھی نہ پڑھتے ہوں اور اپنے ماں باپ کیلئے نمازوں کی دعا کی درخواستیں کر رہے ہوں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یقین ہے کہ اس کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ تمام دنیا میں جب نماز کے جہاد میں مشغول ہو جائیگی تو ان نمازوں میں خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے گا، ان نمازوں میں دعاؤں کی توفیق ملے گی.مباہلہ کے مضمون پر غور کریں گے اور پھر خدا سے مدد مانگیں گے.ایک نالی آسمان کی طرف جاتی ہوئی خدا کی رحمت سے بھر پور نہیں ہوگی بلکہ کھوکھا احمدی دلوں سے اٹھنے والی نالیاں آسمان سے تعلق قائم کریں گی اور خدا کی رحمت کا دودھ ان پر نازل ہوگا اور وہ بھر کر چلیں گی.یہ ہے وہ تصور جو میں نے باندھا ہے کہ اگر جماعت احمد یہ نماوزں کو قائم کرے اور عبادت کی طرف متوجہ ہو تو گویا جگہ جگہ جس طرح بڑ کے درخت سے شاخیں نیچے اترتی ہیں اور زمین سے تعلق قائم کر کے وہ زمین کا رس چوسنے لگتی ہیں اسکے برعکس نظارہ جماعت احمدیہ دکھائے کہ ہر زمین پر عبادت کرنے والے کے دل سے ایک نالی اٹھے، ایک شاخ بلند ہو جو آسمان سے اپنا تعلق قائم کرے اور آسمان کی رحمت کا رس چوسنے لگے.یہ نظارہ اگر آپ سچا کر دکھائیں اگر تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خدا کی سچی عبادت کرنے والے احمدی پہلے سے بہت بڑھ کر خدا کی عبادت کی طرف متوجہ ہوں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کل نہیں، آج آپ یہ مباہلہ جیت چکے ہیں.خدا کی وہ تقدیر تو بہر حال ظاہر ہوگی کہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے.آپ کا مباہلہ ہو یا نہ ہو خدا تعالیٰ یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ بڑے زور آور حملوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کو تمام دنیا پر ثابت کر کے دکھائے.یہ خدا کی تقدیر ہے اس میں نہ آپ کا کوئی دخل ہے نہ میرا کوئی دخل ہے، نہ آپ کی کوئی مجال ہے نہ میری کوئی مجال ہے مگر ہاں عبادت کے ذریعہ خدا کی رحمت کی تقدیر کوجلد تر ظاہر کرنے اور روشن تر صورت میں ظاہر کرنے کیلئے ہمیں بہت محنت کی ضرورت ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام احمدی گھروں میں خصوصیت کے ساتھ اسکی طرف توجہ دی جائیگی.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ رمضان جو ابھی چند دن پہلے آ کر گزر گیا تھا، عبادت کے لحاظ سے دوبارہ ہر احمدی گھر میں لوٹ آئے گا اور وہاں ٹھہر جانے کیلئے آئے گا ، وہاں بس رہنے کیلئے آئے گا اور جہاں تک عبادتوں کا تعلق ہے یہ رمضان دائمی ہوگا اور کبھی احمدیوں کے گھروں کو چھوڑ کر واپس نہیں جائیگا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 442

خطبات طاہر جلدے 437 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء نمازی بننے کی تلقین نیز نماز میں لذت پیدا کرنے کے طریق از تحریرات حضرت مسیح موعود (خطبه جمعه فرموده ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی :.اِنَّنِي اَنَا اللهُ لا إلهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لذكرى (۱۵:۴) پھر فرمایا: یہ آیت جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے اِنَّنِی اَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي اس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے یقیناً میں ہی وہ اللہ ہوں جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے.بڑے زور اور شدت کے ساتھ اس میں توحید کا اظہار ہے اور بڑی شان کے ساتھ توحید کا اظہار ہے اِنَّنِي أَنَا اللہ یقیناً بے شک میں ہی ہوں وہ اللہ لَا إِلهَ إِلَّا آنا میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے فَاعْبُدُنی پس میری ہی عبادت کر وَ اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی اور نماز کو میرے ذکر کی خاطر پڑھا کر یا میرے ذکر کی خاطر قائم کر.یہ جتنی باتیں اس مختصر سی آیت میں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک بھی مسلمان کے لئے نئی نہیں اور کوئی ایسی بات بھی بظاہر اس میں بیان نہیں ہوئی جس سے اسے کوئی نئی خبر ملتی ہو.انسان اس آیت کو پڑھتا ہے اس کے زور اور شدت سے اور اس کی شوکت سے متاثر بھی ہوتا ہے لیکن ٹھہر کر غور

Page 443

خطبات طاہر جلدے 438 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء نہیں کرتا یہ ساری باتیں جو عام فہم ہیں اور ہر مسلمان کو پہلے سے معلوم ہیں اس شدت کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ کیوں بیان کی گئی ہیں.مثلاً آپ اگر کسی سے کہیں کہ کھانا کھایا کرو تا کہ بھوک مٹ جائے تو کوئی بچہ شوخی سے یہ کہ سکتا ہے کہ اور کس لئے کھانا کھایا جاتا ہے بھوک مٹانے کے لئے ہی تو کھایا جاتا ہے.یہ کیا بات ہوئی کھانا کھایا کرو تا کہ بھوک مٹ جائے.اسی قسم کی عام فہم سادہ معروف باتیں ہیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں لیکن اس انداز سے اس خاص شوکت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں قوت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے خدا کوئی پیغام دینا چاہتا ہے جسے غافل بندہ نہیں سمجھتا اور دیکھتے ہوئے بھی اس طرح گزر جاتا ہے جیسے دیکھا نہیں یا دیکھنے کی ضرورت کوئی نہیں کیونکہ میں پہلے سے جانتا ہوں حالانکہ نہیں جانتا.اس میں جتنی باتیں بھی بیان ہوئی ہیں وہ سب وہ ہیں جن سے انسان یقیناً غافل ہے.خدا فرماتا ہے میں ہی وہ معبود ہوں جس کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں وہ اللہ ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اپنی زندگی میں اتنے بت بنارکھے ہیں، اتنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے خدا کے سوا کہ اسے روز مرہ کی زندگی میں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ زبان میری ایک خدا کے سوا کسی اور کا اقرار نہیں کرتی اور میرا دل اور میر اعمل اور میری تو جھات اس ایک خدا کے سوا بہت سے دوسرے معبودات کی پرستش کرتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ اس اعلان کے بعد فرمایا وَ اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى نماز پڑھا کرو میرے ذکر کی خاطر، میری یاد کے لئے.اب آپ جانتے ہیں کہ خدا کے ذکر کے لئے ہی نمازیں پڑھی جاتی ہیں مگر اس فقرے پر ٹھہر کر سوچنا چاہئے تھا یا سوچنا چاہئے ہر مسلمان کو کہ یہ جو فرمایا گیا ہے تو میں اپنی نماز کو کم سے کم ٹول کے دیکھوں کہ کیا وہ ذکر کی خاطر ہی پڑھ رہا ہوں.میں جو صبح شام نمازیں پڑھتا ہوں کیا واقعہ وہ نمازیں ذکر الہی سے معمور ہوتی ہیں.اس سوال کا جواب ہر انسان اپنے تجربے اور اپنے حالات کے مطابق اپنی نمازوں کی کیفیت کے مطابق دے سکتا ہے لیکن اگر بنظر غائر دیکھے گا، اگر حقیقت کی نظر سے دیکھے گا تو وہ عرفان کے کسی مقام پر بھی ہو وہ نفی میں جواب دے گا یعنی اپنے نفس کو نفی میں جواب دے گا کیونکہ جب یہ کہا جائے کہ نماز ذکر الہی کے لئے ہے، خدا کی یاد کے لئے ہے اور اسی غرض سے نماز پڑھا کرو یعنی نماز کو ذکر الہی سے بھر دو تو اس تعریف کی رُو سے نماز کی جو شکل ظاہر ہوتی ہے وہ ہماری اکثر نمازوں میں

Page 444

خطبات طاہر جلدے 439 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء واقعۂ ظاہر نہیں ہوتی.ہماری اکثر نمازیں ذکر الہی سے اس طرح خالی ہوتی ہیں جیسے بعض دفعہ سوکھے ہوئے مالٹے شکل وصورت کے ساتھ دیکھنے سے اسی طرح رنگین اور خوش شکل اور بھرے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ سوکھے ہوئے مالٹے زیادہ بھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ پھول بھی جاتے ہیں تھوڑے سے لیکن جب ان کو کھولتے ہیں تو ہر پھانک رس سے خالی ہوتی ہے.کہیں کہیں رس کا چھینٹا نظر آتا ہے.تو اس پہلو سے اگر انسان حقیقت کی نظر سے اپنی نمازوں کا جائزہ لے تو اس کی نماز کی اکثر پھانکیں ذکر الہی سے اسی طرح خالی دکھائی دیں گی ہاں کہیں کہیں چھینٹے نظر آئیں گے.پھر انسان اپنی نمازوں پر غور کرے جب وہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے یا تسبیح وتحمید کرتا ہے تو کس حد تک اس کی توجہ سورۃ فاتحہ کے مضمون کی طرف رہتی ہے اور تسبیح وتحمید کرتے وقت کس حد تک وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ان اعلیٰ صفات کو دیکھ رہا ہوتا ہے جو اس کی زبان بیان کر رہی ہوتی ہے.اس نظر سے اگر آپ غور کریں تو ہر شخص جو اپنے اندر سچائی کا بیج رکھتا ہے اس کا جواب نفی میں ہوگا کہ بسا اوقات میری تو جھات دوسرے مضامین کی طرف رہیں لیکن ذکر الہی کرتے وقت ایسا بھر پور ذکر کرنے کی مجھے توفیق نہیں مل سکی کہ مسلسل میری توجہ خدا کی طرف ہو.تو یہ جو فرمایا اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی یہاں خدا تعالیٰ نے پہلے بیان کی جانچ کے لئے ہمارے سامنے ایک پیمانہ رکھ دیا.نماز وہ آئینہ ہے جس میں روز مرہ کی زندگی کی توحید یا روزمرہ کی زندگی کا شرک دکھائی دے دیتا ہے اور اس بیان کی تان جو اس بات پر توڑی گئی اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی تو متوجہ یہ فرمایا گیا ہے کہ تم لاکھ تو حید کے دعوے کرو، لاکھ کہو کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے لیکن جب تم نمازوں میں میرے سامنے حاضر ہو گے اس وقت تمہاری تو حید جانچی اور پہچانی جائے گی.دنیا میں تو تمہارے سامنے یہ عذر ہے کہ ہاں تو حید تو ہے اپنی جگہ لیکن تو حید کے سوا بھی تو وہ مشاغل ہیں.انسان نے زندہ رہنا ہے، دنیا کے کارخانے میں بسر اوقات کرنی ہے اسی لئے خدا سے توجہ ہٹ گئی تو کوئی حرج کی بات نہیں عمداً ایسا نہیں ہوا.دل تو حید ہی کی طرف مائل ہے لیکن کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے توجہ ہٹ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے سامنے تو کوئی حیلے، کوئی عذر پیش ہو نہیں سکتے اس کے سامنے کچھ عذروں کی پیش نہیں جاتی.پس دیکھیں خدا تعالیٰ نے کس حکمت کے ساتھ، کس شان کے ساتھ بندے کا جھوٹ اس پر

Page 445

خطبات طاہر جلدے 440 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء ظاہر فرما دیا.فرمایا ٹھیک ہے اگر تم واقعی تو حید کے قائل ہو، اگر تمہاری ساری زندگی توحید ہی کی پرستش میں گزرتی ہے تو جس وقت خالصہ میرے سامنے حاضر ہوتے ہو اس وقت تو تمہاری تو حید کو خاص چمک دکھانی چاہئے.اس وقت تو سج بن کر تمہاری توحید ظاہر ہونی چاہئے نماز میں.خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۲۱) کا ایک یہ مطلب ہے کہ اپنی تو حید کو سجا کر خدا کے حضور لے کر جاؤ تا کہ نمازوں میں ظاہر ہو کہ ہاں کس حد تک تم موحد ہو.پس نماز کے آئینے میں روز مرہ کی زندگی دکھائی دیتی ہے اور ان دونوں کا بڑا گہرا تعلق ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے متعلق یہ روایات ملتی ہیں کہ آپ جب نماز نہیں بھی پڑھ رہے ہوتے تھے تو دل نماز میں اٹکا ہوتا تھا.یہ مطلب ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی کا.نماز کے باہر بھی جس کا دل نماز میں اٹکا ہو گا نماز میں جا کر اس کی کیا کیفیت ہوگی.وہ غیر اللہ کوتو پھر وہ دل پیش نہیں کر سکتا لیکن اس کے برعکس اگر نماز کی حالت میں دل باہر انکا ہو تو پھر ایسے شخص کا توحید کا دعویٰ خام تو ہوسکتا ہے.اسے ہم جھوٹا نہ بھی کہیں تو یقینایہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس کی توحید میں بہت سی کمی رہ گئی ہے ، بہت حد تک خام ہے اور اسے خود اس کا علم نہیں.پس یہ بیان جو بالکل سادہ اور عام فہم اور روز مرہ کا دیکھا بھالا معلوم ہوتا تھا جب آپ اس پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے نئے مضامین ہیں اس سے پہلے توجہ ہی نہیں اس طرف گئی.پس اس پہلو سے آپ اب اپنی نمازوں کو دوبارہ دیکھیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملنے کا دل نماز سے باہر رہتے ہوئے نماز میں اٹکا ہوتا تھا اور ہمارا دل نماز میں رہتے ہوئے نماز سے باہر اٹکا ہوتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ہر انسان کا دل ہر روز کسی نہ کسی آویزش کی جگہ لٹک جایا کرتا ہے اور اٹک جایا کرتا ہے.جس طرح آپ کوئی چیز کسی کھونٹی سے لٹکاتے ہیں روز مرہ کی زندگی میں میں نے تجربہ کیا ہے کہ ہر انسان اس دن کسی نہ کسی لذت سے اپنا دل لٹکا دیتا ہے اور وہ اس کے اس دن کا معراج ہوتا ہے.چنانچہ بچے بعض دفعہ جن کو وہ خاص کھانا پسند ہو اور ان کو پتا ہو کہ سکول سے آنے کے بعد وہ کھانا ضرور پکا ہو گا سارا دن سکول میں ان کا دل اس کھانے میں انکا ہوتا ہے اور واپس آکر اگر دیکھیں کہ وہاں کھانا وہ نہیں ہے تو پھر ان کی کیفیت دیکھیں کیا حال ہوتا ہے.یوں لگتا ہے کہ سارا دن ان کا ضائع ہو گیا اور تباہ ہو گیا.

Page 446

خطبات طاہر جلدے 441 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء چنانچہ انسان بھی اسی بچپن کی حالت سے گزرتا ہوا جوانی تک پہنچتا ہے اس کے دل کے اٹکنے کی جگہیں تو مختلف ہو سکتی ہیں مگر عادت نہیں بدلتی.وہ دل اپنا اٹکا تا ضرور ہے کہیں نہ کہیں اور ہر روز اس کی لذت کا ایک خاص معیار مقرر ہو جاتا ہے کہ آج یہ ہوگا اور مزہ آئے گا.جو کھیلوں کے شوقین ہیں مثلاً آج کل ٹینس کی کھیل ہو رہی ہے.وہ کسی کام پر بھی چلے جائیں ان کا دل ٹینس میں اٹکا ہوتا ہے.جو کرکٹ کے شوقین ہیں جب کرکٹ کا ٹیسٹ ہو رہا ہوتا ہے تو خواہ وہ کھانا کھا رہے ہوں ،خواہ وہ کچھ اور کام کر رہے ہوں ان کا ذہن ہر وقت اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب کرکٹ کی خبر آئے یا کب مجھے موقع ملے تو میں ٹیلی ویژن پر کرکٹ کو دیکھوں.دل کے اٹکانے کی جگہیں تو بدل جاتی ہیں ضروری نہیں کہ ہر دفعہ کھانا ہی رہے لیکن جگہیں ضرور ہوتی ہیں اور یہ عادت انسان کی ایسی پک چکی ہوتی ہے بچپن سے کہ وہ پھر اس کو تبدیل نہیں کر سکتا.اس پہلو سے جب آپ اپنی نمازوں کا جائزہ لیں تو جہاں جہاں بھی آپ کا دل اٹکتا ہے آپ کی نمازوں میں بھی اسی طرف توجہ رہتی ہے.کوشش کر کے جدو جہد کر کے آپ اسے نماز کی طرف واپس لاتے ہیں اور پھر طبعی طور پر ایک بے اختیار کشش کے ساتھ آپ کا دل اس طرف مائل ہو جاتا ہے جہاں آپ نے اس کو خود لٹکا دیا ہے.تو توحید پھر کیسی ہوئی ؟ یہ تو بالکل اس منظر کے برعکس منظر ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نمازوں کا منظر دکھائی دیتا ہے.آپ باہر ہیں اور دل نماز میں ہے.ہم نماز میں ہوتے ہیں اور ہمارا دل باہر ہوتا ہے.اس پہلو سے ہمیں اپنی نمازوں پر بہت ہی محنت کرنی پڑے گی ، بہت ہی زیادہ غیر معمولی توجہ کی ضرورت ہے اور اس توجہ سے پہلے جیسا کہ میں نے پچھلے خطبے میں بھی بیان کیا تھا ہمیں نمازوں کو ظاہری طور پر قائم کرنے کے لئے تو بہر حال ایک محنت کرنی پڑے گی.جن کی نمازوں کا وجود قائم ہو جائے اپنی ظاہری شکل میں ان کے اندر تو رس بھرنے کی باتیں سوچی جاسکتی ہیں مگر جن کے ہاں ظاہری وجود ہی قائم نہ ہوا ہو اس میں رس کیا بھریں گے، اس کی کیفیت کو تبدیل کرنے کے لئے کوشش کیا کریں گے، منصوبہ کیا بنا ئیں گے.اس لئے بہت سے مراحل جماعت احمدیہ کو درپیش ہیں اور وہ ابھی ابتدائی حالت میں ہیں.نمازیں بہت سی منازل سے گزرنے کے بعد پھر اس مقام تک پہنچتی ہیں جہاں پھل پکا کرتے ہیں اور ان پھلوں کو شرینی نصیب ہوتی ہے اور ان کی لذت پھر روح کے لئے غذا

Page 447

خطبات طاہر جلدے 442 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء کا موجب بنتی ہے اور سرور کا موجب بنتی ہے.اس پہلو سے میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات چنے ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ ایک عارف باللہ کی نمازوں کو دیکھ کر آپ اندازہ کرسکیں کہ ابھی کتنا لمبا سفر ہے جو ہمیں کرنا ہے، کتنے خلا ہیں جنہیں ہمیں پُر کرنا ہے، کتنی منازل ہیں جنہیں طے کرنے کے بعد پھر ایک لمبے عرصے کے سفر اور صعوبت کے بعد ہمیں وہ نماز میسر آسکتی ہے جو دراصل مقصود بالذات ہے.جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا آأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِئ لیکن ان اقتباسات سے پہلے میں اسی آیت میں جو خدا تعالیٰ نے ہماری لئے حل پیش فرمایا ہے اس کے متعلق آپ کے سامنے کچھ مزید بیان کرنا چاہتا ہوں.جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات سنیں گے تو اکثر سننے والوں کے دل دہل جائیں گے اور اکثر سننے والے جو تقویٰ کا بیج رکھتے ہیں اور اپنی حالت سے باخبر ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ نمازیں تو ہمارے بس کی نہیں.یہ تو اتنی بلند ہیں اور اتنی مشکل ہیں کہ اگر نماز یہ ہے تو پھر ہم پتا نہیں کیا پڑھتے ہیں.دل میں خوف پیدا ہو گا اس لئے اگر چہ اس خوف سے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں اس کا حل میں آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت میں اس کا حل موجود ہے.اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى میں جو لفظ ” ذکر “ ہے اس میں نمازوں کو آسان کرنے کی کنجی موجود ہے.ذکر سے مراد ہے یاد.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری یاد کی خاطر نماز پڑھا کرو.یعنی جب تم نماز میں حاضر ہو تو مجھے یاد کیا کرو اور اگر آپ نماز کے ظاہری قشر یعنی اس کے جو ظاہری چھلکا سایا خول ہے نماز کا اس سے گھبرانہ جائیں اور یہ نہ سوچیں کہ جتنی جلدی اس خول سے میں باہر آؤں اتنا بہتر ہے تا کہ کچھ آزادی کا سانس لوں.تو پھر کیا کریں یہ اس کا حل ہے جو اس آیت میں پیش کیا گیا ہے.فرمایا ہے جتنی دیر تم نماز کی حالت میں ہو یاد رکھو کہ صرف لفظ پڑھنا مقصد نہیں ہے، اللہ کی یاد مقصد ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی یاد کیا کرو.اب خدا کی یادا گر آپ کسی بھی حالت میں کریں اس میں لذت ہوتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ نماز سے گھبرا کر اس کے الفاظ سے گھبرا کر اگر آپ آرٹیفیشل یا مصنوعی طور پر آپ نماز ادا کرتے رہیں تو آپ کو ساری عمر کی نمازوں میں بھی کبھی لذت نہیں ملے گی.اگر آپ یہ

Page 448

خطبات طاہر جلدے 443 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء سمجھیں کہ ایک Formality ہے، ایک رسم ہے جس میں سے ہم نے گزرنا ہے اور جو الفاظ ادا کرنے ہیں گویا کہ یہ ٹکسالی الفاظ ہیں، الفاظ ادا ہوئے اور نماز کا حق ادا ہو گیا اور چھٹی مل گئی.تو اس حالت کی نمازیں اگر ہزار برس بھی آپ پڑھتے رہیں تو آپ کو کوئی مزہ نہیں آئے گا لیکن اگر باشعور طور پر اپنی نماز میں خدا کی یاد داخل کرنے کی کوشش کریں تو نماز کے ہر لفظ میں خدا کی یاد کی کھڑ کی آپ کومل سکتی ہے اور ہر لفظ خدا کی یاد کی کوئی نہ کوئی کھڑی کھولتا ہوا آپ کو دکھائی دے گا پھر آپ اسی نماز میں سے وہی الفاظ پڑھتے ہوئے ہر روز ایک نئے خدا کا نظارہ کر سکتے ہیں.ذکر کی تعین نہیں فرمائی گئی کہ میراذکر کیا کرو.اس کی وجہ یہ ہے کہ ذکر ہر انسان کی کیفیت کے مطابق بدلتا رہتا ہے ہر انسان کی اپنی حالت کے مطابق بدلتا رہتا ہے، ہر انسان کے شعور ، اس کے علم ، اس کے ذاتی تجارب کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے اور پھر جس کیفیت میں سے وہ گزر رہا ہے اس کے نتیجے میں بھی ذکر کا مضمون بدلتا رہے گا.فرمایا جس طرح کے تم ہو، جس حال میں تم ہو اس حال کی نسبت سے خدا کا تصور باندھو.اب آپ جب کہتے ہیں سبحان ربی العظیم تو تین کھڑکیاں کھلی ہیں اس میں ذکر کی اور ہر کھڑکی سے آپ ایک ہی خدا کے مختلف نظارے کر سکتے ہیں.سبحان جب آپ کہتے ہیں پاک ہے تو ہر شخص کی پنی پاکیزگی کی حالت کی نسبت سے اس کا پاکی کا تصور بنتا ہے.فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ہر شخص کے تصور کی چھلانگ اس کی اپنی ہمت اس کی طاقت اور اس پلیٹ فارم کی اونچائی پر منحصر ہے جہاں وہ کھڑا ہے.تو سبحان کا تصور بھی ہر شخص کا مختلف ہے.بعض لوگ جو گناہوں میں ملوث ہیں، بار بار کی کوشش کر رہے ہیں گناہوں سے چھٹکارا نہیں ملتا اور پھر ایک نہیں متعدد بیمار یوں میں مبتلا ہیں وہ جب سبحان پڑھتے ہیں تو ان کے ذہن میں وہ ابتدائی گناہ آئیں گے اور کثرت کے ساتھ ذہن کبھی اس گناہ کی طرف جائے گا کبھی اس گناہ کی طرف جائے گا.کبھی اس کمزوری کی طرف کبھی اس کمزوری کی طرف اور انسان سوچے گا کہ سبحان میں کہہ رہا ہوں اپنے رب کو اور میرا یہ حال ہے.اللہ میں یہ بات بھی نہیں ہے، یہ بات بھی نہیں ہے، یہ بات بھی نہیں ہے، یہ بات بھی نہیں ہے.سبحان ایک منفی ذکر کی کیفیت کا نام ہے لیکن اس سے پھر حمد کی طرف توجہ منتقل ہو جاتی ہے.جب ربی کہتے ہیں آپ تو فرماتے ہیں میرا رب ہے یہ اور جب اپنے گناہ کے طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پھر

Page 449

خطبات طاہر جلدے 444 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء سوچتے ہیں کہ اچھا پھر یہ میرا رب کیسے ہو گیا یہ تو کسی اور کا رب نظر آرہا ہے.میرا تو یہ حال ہے مجھے تو شرم آتی ہے اس رب کی طرف منسوب ہوتے ہوئے.جس طرح بعض لوگ کسی بری حالت میں پکڑے جائیں تو اپنے ماں باپ کا نام ظاہر کرتے ہوئے شرماتے ہیں.وہ نہیں بتانا چاہتے کہ وہ کس کے بیٹے ہیں یا کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.بعض دفعہ بڑے بڑے معروف لوگوں کے بچے کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں تو جاسوسوں کو بڑی تحقیق کے بعد پتا کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہیں کون.ان کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اخباروں میں چھپ جائے گا شہرت و تشہیر ہو جائے گی اور ہمارے خاندان کی بدنامی ہوگی.یہاں اس طرح تشہیر کا تو سوال نہیں یہ ایک راز ہے خدا اور بندے کے درمیان لیکن ایک سچا بندہ جب سبحان کے مضمون پر غور کرتا ہے تو بہت سی باتیں اس کو ایسی معلوم ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں ربی کہنے کے وقت اس کے وجود کو ایک شدید جھٹکا محسوس ہوتا ہے.وہ اچانک سوتا ہوا بیدار ہو جاتا ہے کہ اچھا میرا رب اور اگر واقعی میرا رب ہے تو پھر مجھے کچھ نہ کچھ اس کے لئے کرنا پڑے گا ورنہ میرے رب کہنے سے تو میرا رب نہیں بن جائے گا یہ تو مجھے کوئی اور رب معلوم ہوتا ہے.پھر عظیم کا لفظ آپ کو بتاتا ہے کہ میں نے جو گناہ کئے ہیں میں نے اپنی نظر میں عظمتوں کے تصور باندھے ہیں اپنے لئے اور میں ان کی پیروی کر رہا ہوں.جب میں خدا کی بات کرتا ہوں تو اس کی عظمت کا تصور مختلف ہے میرے تصور سے حالانکہ عظیم تو خدا ہے.وہ اس لئے عظیم ہے کہ ان برائیوں سے پاک ہے.میں ان برائیوں میں رہتے ہوئے عظیم بنے کی کوشش کر رہا ہوں.تو عظمتوں کے تصور میں جو اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں وہ انسان کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں اور انسان اپنی سوچوں میں نئی تبدیلیاں پیدا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.لیکن ذکر کی نیت سے اگر نماز میں داخل ہو تو پھر یہی نہیں بے شمار ایسے مواقع ہیں جن میں انسان اپنے اپنے رنگ میں اپنی اپنی کیفیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی یاد کرسکتا ہے.پھر غم کی حالت کی یاد اور ہوتی ہے، خوشی کی حالت کی یاد اور ہوتی ہے.غم کی حالت میں تو ہم عموماً خدا کی طرف جھکتے ہی ہیں ، خوشی کی حالت میں نسبتاً بہت کم جھکتے ہیں اور صرف خدا کے شکور بندے ہیں جو اس وقت خدا تعالیٰ کی یاد میں مصروف ہوتے ہیں لیکن اگر ہر انسان موحد ہو تو پھر خواہ غم ہو خواہ خوشی ہو لازماً اسے خدا کی طرف جھکنا پڑے گا، بے اختیار وہ خدا کی طرف جھکے گا کیونکہ موحد کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سوا ہے ہی کوئی نہیں اور جائے گا کہاں پھر.حضرت مصلح موعودؓ

Page 450

خطبات طاہر جلدے اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں: 445 میں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء چین دل آرام جاں پاؤں کہاں ( کلام محمود صفحه : ۱۰۴) اور در ہے ہی کوئی نہیں تو میں کہاں تلاش کروں اگر ہوتا بھی تو خیال بھی آتا کہ چلو یہاں نہیں وہاں چلے جائیں.تو تو حید اور ذکر کا گہراتعلق ہے.توحید آپ کو ذ کر کی طرف دھکیلتی ہے اور ذکر آپ کے اندر توحید کی نئی شان پیدا کرتا ہے، توحید کے نئے عرفان آپ کو بخشتا ہے.پس اس آیت میں تو حید اور ذکر کے گہرے تعلق کو بڑی شان کے ساتھ ، بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اور اس تعلق کی بناء پر ہماری نمازیں زندہ ہوسکتی ہیں اور ہم شرک سے تو حید کی طرف مائل ہو سکتے ہیں.اس لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے.نمازوں کے متعلق جو عظیم الشان کیفیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تجارب کی روشنی میں میں آپ کے سامنے رکھوں گا اس سے گھبرائیں نہیں.اپنی اپنی توفیق کے مطابق نماز کو یاد کا ذریعہ بنالیں اور جب بھی نماز میں جائیں یہ فیصلہ کریں کہ کوئی نہ کوئی نیا طریق اختیار کرتے ہوئے اپنی نماز میں اللہ کی یاد کو ضرور بسانا ہے اور جب نماز سے نکلیں تو یہ سوچ لیا کریں کہ اس نماز میں آپ نے کتنا خدا کو یاد کیا تھا، کس رنگ میں یاد کیا تھا.اگر داخل ہونے سے پہلے یہ عہد کریں اور نکلتے وقت یہ سوچ لیا کریں تو ہر روز آپ کو شروع شروع میں بہت سی ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا.بعض دفعہ مسلسل آپ گھبرا اٹھیں گے دیکھ کر کہ اکثر نمازیں خالی گزرگئیں اور پھر رفتہ رفتہ خدا توفیق بڑھا تا چلا جائے گا.وہ تو فیق کیسے بڑھتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بھی کافی روشنی ڈالی ہے.وہ آپ ہی کے الفاظ میں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں: ”جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوۃ نہیں“ یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے سمجھنے والا کیونکہ بہت سے لوگ بارہا مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے تو فلاں ضرورت کے لئے ہی نماز پڑھ لی ہیں بہت رو رو کے دعائیں کی ہیں کوئی نہیں سنتا خدا.بعض بچے جو سکول امتحان دے رہے ہیں آج کل وہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم نے تو پوری نمازیں شروع کی ہوئی ہیں امتحان کی خاطر اور بڑی دعائیں کرتے ہیں مگر خدا کوئی نہیں سنتا بالکل بھی.آپ کو وہم ہے کہ خدا سنتا

Page 451

خطبات طاہر جلدے 446 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو ” جب انسان کی دعا محض دنیاوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوۃ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے (اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی کی یہ تفسیر ہے ) اور ادب، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعے سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نامعقول باتوں سے ہٹاتی ہے.اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الہی کو حاصل کرے.اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتی ہیں.خاص کر خامی اور کج پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.صلوٰۃ کا لفظ پر سوز معنی پر دلالت کرتا ہے.جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہئے.“ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۸۳-۲۸۴) پھر آپ فرماتے ہیں: نماز کیا چیز ہے؟ نماز اصل رب العزت سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے.جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی.اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا.جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزہ آتا ہے.اسی طرح پھر گر یہ اور بکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی.اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تا کہ صحت حاصل ہو اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں.

Page 452

خطبات طاہر جلدے 447 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء بہت سے لکھنے والے مجھے بار ہا یہ لکھتے ہیں کہ ہمیں نماز میں مزہ نہیں آرہا پھر فائدہ کیا نماز کا.نماز میں خدا کی طرف دل نہیں جاتا تو پھر فائدہ کیا ایسی نماز کا.بعض یہاں تک بھی لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے نماز چھوڑ دی ہے اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بیچارے مریض ہیں ان کو اپنی کیفیت کا پتا نہیں اپنی بیماری کی شناخت بھی نہیں اس لئے وہ نہیں جانتے کہ کیا کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے مسیحا بنایا تھا اس زمانے کے لئے.آپ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہتے ہیں تو سوچتے ہی نہیں کہ آپ کی بیماریوں کی شفا کی خاطر خدا نے بھیجا ہے.مسیحا کے نسخے دیکھیں گے تو شفا پائیں گے خالی مسیحا کہنے سے تو شفا نہیں پا جائیں گے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو ایک طبیب حاذق کی تحریروں کے طور پر پڑھا کریں.پھر آپ حیران ہوں گے کہ کتنے نسخے ہیں.میں تو حیران رہ جاتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں میں نسخوں کے انبار دیکھ کر یعنی ایک نسخہ نہیں ہے، دو نسخے نہیں ہیں جس طرح بیاضیں لکھی جاتی ہیں بعض بیماریوں پر اس طرح ایک ایک بیماری کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنے مختلف نسخے بیان فرما دیئے ہیں کہ ان سب کو اکٹھا جب انسان پڑھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ سارا بوجھ ہی میری ذات پر آپڑا ہے.میں کیسے یہ سارے نسخے استعمال کر لوں گا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مریض کے مرض کی تشخیص کے مطابق نسخے مختلف ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرے اور آپ کے صرف معالج نہیں تھے اس سارے زمانے کے معالج بنا کر بھیجے گئے تھے.اس تمام زمانے کے لئے مسیح تھے اور امام الزماں تھے.اس لئے آپ کی کتب میں آپ کی تحریروں میں بے شمار مختلف قسم کے آپ کو نسخے ملیں گے آپ کا کام ہے اپنے لئے مناسب حال نسخہ چنیں اور پھر آپ کو جب آپ کہیں گے مسیح موعود تو پھر بڑا مزہ آئے گا کہ ہاں واقعی ! اس مسیحا سے میں نے بھی شفا پائی ہوئی ہے.تو آپ فرماتے ہیں: اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں.“ کیسا عمدہ کلام ہے.ایک شخص جو عارف باللہ نہ ہو وہ کہے گا لعنت پڑے اس نماز پر چھوڑ واس نماز کو.اس نماز پڑھنے کا کیا فائدہ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اسی نماز میں سے پھر وہ نماز حاصل ہوگی.اسی کی کوک سے وہ نماز پیدا ہوگی جو اس وفا کے نتیجے میں خدا کے انعام کے طور پر ملتی ہے کہ مزہ نہیں آرہا

Page 453

خطبات طاہر جلدے 448 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء ایک کوفت بھی ہو رہی ہے بظاہر مصیبت پڑی ہوئی ہے لیکن ایک وفا شعار بندہ پھر بھی اس نماز کو چھوڑنے پر تیار نہیں : ہ خوش قسمت ہیں اس مجلس میں جو گر پڑ کے جاپہنچے وہی کیفیت ان لوگوں کی ہو جاتی ہے پھر.شروع میں گرتے پڑتے ہیں، مصیبت میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اٹھا جاتا نہیں، نیند کا غلبہ ہے پھر بھی زور لگا کر اٹھتے ہیں.اس وقت بظاہر ان کی نماز نماز نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اس حالت کو جانتا ہے اگر وہ وفا کے ساتھ ، سچے جذبے کے ساتھ اس حالت پر قائم رہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسی سے پھر خدا تعالی بچی نماز پیدا کر دے گا.اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے کہ اے اللہ ! تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں“ کیسا عجیب کلام ہے تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں میں تجھے نہیں دیکھ رہا لیکن یہ شعور ضرور رکھتا ہوں کہ تو مجھے دیکھتا ہے ” اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں.میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا اس وقت مجھے کوئی روک نہیں سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے.تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے ، تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں.جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پید کر دے گی“ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ: ۶۱۵ - ۶۱۶) تو اسی نماز سے وہ نمازیں پیدا ہوں گی اور لازماً پیدا ہوں گی.اگر آپ شعور کے ساتھ اور وفا کے ساتھ اس پر قائم رہیں اور خدا سے التجا کرتے رہیں اور اگر آپ غفلت کی حالت میں باہر لٹکے

Page 454

خطبات طاہر جلدے 449 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء ہوئے دل کی طرف دیکھتے رہیں گے کہ کب نماز سے فارغ ہوں اور میں وہاں مزے کی جگہ پر پہنچوں تو پھر یہ نمازیں دس ہزار برس بھی پڑھیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا.یہ نسخہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم بیماروں کے لئے لکھا ہے اس لئے ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو.وفا اور صدق کا خیال رکھو.اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو.“ بعض لوگ جو نمازی ہوں اور ان کی بیویاں نمازی نہ ہوں یا بچے نمازی نہ ہوں ان کے لئے بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں.وہ گھر میں نماز پڑھتے ہیں اور اپنے گھر میں بچے نا آشنا نظروں سے ان کو دیکھتے ہیں، اجنبی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ جاہل پتا نہیں کہاں سے ہمارے گھر میں آگیا ہے اور بعض دفعہ ایسے لوگ اس تبصرے میں جو خواہ خاموش ہو یا زبان سے کیا ہو زیادہ دیر برداشت نہیں کرتے پھر وہ بستی دکھاتے ہیں پھر وہ کمزوری دکھاتے ہیں.بعض عورتیں بھی مجھے اس قسم کی باتیں لکھتی ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتی ہیں ہمارا خاوند ہمارا مذاق اڑاتا ہے بے پرواہ ہے.اس کو دنیا کے سوا کوئی ہوش نہیں ہے اس کی وجہ سے ہماری نمازوں پر برے اثر پڑ رہے ہیں.وہ کیوں پڑھتی ہیں اس لئے کہ وہ اس تنقید کو کچھ وقعت دیتی ہیں اور مجھتی ہیں کہ کچھ نہ کچھ اس تنقید کرنے والے کا میں لحاظ کروں کچھ اس کی خاطر اپنی نمازوں میں کمی کر دوں.کچھ اس قسم کے خیالات اٹھتے ہوں گے جس کی وجہ سے پھر نمازیں کمزور پڑ جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کیسے یہ خیال آیا کہ اس قسم کے بھی گھر ہیں جونماز پڑھنے سے ہو سکتا ہے غارت ہو جائیں ،گھروں کا امن مٹ جائے ،فساد شروع ہو جائیں.جب تک خدا کی طرف سے یہ عرفان نصیب نہ ہوا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں آسکتا مگر چونکہ خدا نے آپ کو معالج مقررفرمایا تھا اس لئے خود ہی ہر قسم کے مریضوں کے علاج کے نسخے بھی عطا فرمارہا تھا.آپ فرماتے ہیں وفا اور صدق کا خیال رکھو اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو.کوئی دنیا کا مولوی اس قسم کی بات سوچ ہی نہیں سکتا کہ اگر نماز سے سارا گھر غارت ہوتا ہو، وہ تو کہے یہ تو نعوذ باللہ کلمہ کفر ہے کہ

Page 455

خطبات طاہر جلدے 450 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء نماز سے گھر غارت ہوتا ہولیکن اس کو ان کو چوں کی خبر نہیں ہے.وہ عرفان باللہ نہیں رکھتا اس لئے وہ ان بار یک اسرار سے واقف نہیں ہے.ایک اور بھی بیماری ہے.بعض لوگ نماز پڑھتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ سمجھتے ہیں کہ اس نماز کے نتیجے میں ہمیں کچھ ملنا چاہئے.اگر وہ نہیں ملتا تو وہ نماز سے بددل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جن کو نماز پڑھنے کے دوران، جب وہ نمازیں شروع کرتے ہیں مثلانئی نئی اگر کوئی ابتلا آجائے تو وہ سمجھتے ہیں یہ نماز کی نحوست ہے.ان لوگوں کا بھی ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے.نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے.جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزہ نہیں آتا.یہ دین کو درست کرتی ہے، اخلاق کو درست کرتی ، دنیا کو درست کرتی ہے.نماز کا مزہ دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے.لذات جسمانی کے لئے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں.“ کیسا عظیم کلام ہے، کیسا عارفانہ کلام ہے.دین پر بھی نظر ہے دنیا پر بھی نظر ہے اور ان دونوں کے رابطوں پر بھی گہری نظر ہے.فرماتے ہیں کہ تم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ دنیا کی لذتوں پر تم ہزاروں روپے خرچ کرتے ہو جس قدر توفیق ہے خرچ کرتے چلے جاتے ہو اور خوب جانتے ہو کہ ان لذتوں کی پیروی کے بعد پھر مصیبتیں ہیں، پھر بیماریاں ہیں، پھر کئی قسم کے بدنتائج ان سے پیدا ہوتے ہیں.فرمایا: ”اور یہ مفت کا بہشت ہے ( یعنی نماز جو اس سے ملتا ہے ) قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.“ ( ملفوظات جلد ۳ صفحہ: ۵۹۱-۵۹۲) اب یہ غور طلب بات ہے کہ اگر اس دنیا میں جنت نصیب نہ ہوئی ہو تو اس دنیا میں پھر جنت نہیں ملے گی بخشش اور چیز ہے لیکن جو لذتوں سے محرومی ہے وہ پھر بھی اپنی جگہ قائم رہ جاتی ہے اور یہ

Page 456

خطبات طاہر جلدے 451 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء ایک ایسی بیماری ہے جس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.ابھی چند دن کی بات ہے ایک ہمارے گھر مہمان تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے کہا مجھے تو آم میں کوئی بھی مزہ نہیں آتا بالکل.میں تو برداشت ہی نہیں کر سکتا.مجھے آم بد بودار چی لگتی ہے اور اسی طرح بعض اور اور چیزوں کے نام لئے کہ مجھے یہ بھی برا لگتا ہے یہ بھی برا لگتا ہے.کسی اور نے کہا جب خدا لذتوں سے محروم رکھے تو کیا کر سکتا ہے انسان.جب خدا اپنی نعمتوں سے کسی کو محروم رکھے تو کیا کر سکتا ہے.یہ جو دنیاوی نعمتیں ہیں ان میں آپ جانتے ہیں کہ جب نعمت کی لذت نہ پیدا ہو تو بے اختیاری کی کیفیت ہوتی ہے.ناراضگی نہ بھی ہو تب بھی محرومی محرومی ہے.تو وہ جن کو اس دنیا میں ذکر الہی کی لذت نصیب نہیں ہے یہ ان کا وہم ہے کہ اس دنیا میں ذکر الہی کی لذت مل جائے گی یعنی جنت مل جائے گی.دو جنتیں کہہ کر خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ اگلی جنت اس جنت سے کچھ مختلف نہیں ہے.اسی قسم کی ہے.پس جسے اس دنیا میں ذکر الہی سے تنافر پیدا ہو، گھبراہٹ ہو ، وہ دور ہٹنے کی کوشش کرے، وہ سمجھے کہ ذکر الہی ختم ہوتو پھر کوئی اور ذکر چلے تو اس شخص کو اگر اگلی دنیا میں ذکر کے سوا کچھ ملے ہی نہ تو اس بیچارے نے تو بور ہی ہونا ہے اس کو جنت کہاں سے مل جائے گی.وہی اس کے لئے جہنم بن جائے گی.اس لئے ایسے مضامین نہیں ہیں جن پر آپ غفلت کی نظر ڈال کر آگے گزر جائیں.یہ ٹھوس حقیقتیں ہیں جن کا اس دنیا سے بھی تعلق ہے اس دنیا سے بھی تعلق ہے.اگر آپ ان پر غور نہیں کریں گے اور آنکھیں بند کر کے زندگی بسر کر دیں گے تو ہو سکتا ہے آپ کو محسوس بھی نہ ہو کہ آپ نے کیا کھو دیا ہے اور پھر اتنا وقت گزر چکا ہو کہ اس کے بعد پھر وقت تھوڑا رہ جائے پھر نماز کی لذت حاصل کے لئے جو زمانہ درکار ہے وہ زمانہ میسر نہ رہے.اس لئے فکر کریں ان باتوں کی.جن نمازوں کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ نمازیں ہیں کیونکہ ہمیں ان کی بڑی ضرورت ہے.ہماری زندگی اور موت کا سوال ہے.جماعت احمدیہ کی بقا کا سوال ہے.ہماری اگلی نسلوں کی بقا کا سوال ہے.ہم اس صدی کے جوڑ پر جاپہنچے ہیں جہاں ایک صدی کی صفات دوسری صدی میں منتقل ہونے والی ہیں.اگر آج ہم بے نمازی رہے تو اس جوڑ سے پھر آگے نمازیں نہیں گزرسکتیں.پھر ایک بے نماز نسل آگے آنے والی ہے.جوڑوں کو تو دو ہرے رنگ میں مضبوط کیا جاتا ہے.اس لئے خصوصیت کے ساتھ نمازوں کی

Page 457

خطبات طاہر جلدے 452 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء طرف توجہ کریں تا کہ اس صدی کا اس صدی کے سر سے جو جوڑ ہو اس جوڑ کو باندھنے والی چیز نماز بن جائے.ہر جوڑ کی مضبوطی کے لئے کوئی مسالہ استعمال کیا جاتا ہے کسی خاص Metal کو وہاں مضبوطی کے ساتھ زائد پیوست کر دیا جاتا ہے.تو نماز کے ذریعے اپنی اس صدی کا بندھن دوسری صدی کے ساتھ قائم کریں اور اگر اس طرف ہم متوجہ ہو جائیں تو اگر چہ وقت بہت تھوڑا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جتنا وقت باقی رہ گیا ہے اس میں بے نمازی بچوں کو نمازی بنانا، بے نمازی خاوندوں کو نمازی بنانا، بے نمازی بیویوں کو نمازی بنانا، بے نمازی بھائیوں اور بہنوں کو ، بیٹوں اور بیٹیوں کو نمازی بنانا.بہت بڑا کام پڑا ہوا ہے اور پھر نمازی بناتے ہی اس طرف متوجہ کرنا کہ یہ تو ابھی صرف خول تمہیں ملا ہے ابھی تم نے بہت کچھ بھرنا ہے اس میں.کئی رنگ دینے ہیں، کئی خوشبوئیں عطا کرنی ہیں، کئی لذتیں اس میں بھرنی ہیں.کتنی بڑی محنت کا کام ہے.تو بہت تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے لیکن اگر درد دل پیدا کریں ، اگر خدا کی محبت میں محو ہو کر اس کے پیار کی خاطر یہ کام شروع کریں رسمی طور پر نہیں بلکہ ذکر الہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور پھر اسی سے مدد مانگیں اور اس طرح دعائیں کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سکھائی ہیں اپنی بے بسی بے چارگی کا اظہار کریں ، اپنے اندھے پن کا اظہار کریں اور کہیں میں تو بھٹک گیا اس دنیا میں کوئی چارہ نہیں رہا سوائے تیری رہنمائی ، تیری ہدایت کے.اپنی راہنمائی کا عصا ہمارے ہاتھ میں تھمارے تا کہ جب تک نظر نہیں آتا ہم اسے ٹھیک ٹھیک کر، اس سے رستے ٹول ٹٹول کر چلنا تو شروع کریں.خدا سے بصیرت مانگیں، خدا سے نور مانگیں تو خدا کے فضل کے ساتھ یہ کام آسان ہو جائیں گے.دعا میں بہت بڑی طاقت ہے.بارہا میں نے یہ تجربہ کیا ہے، بے انتہا میں نے اپنی ذات میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ باوجود توجہ کے بسا اوقات انسان دعا سے غافل ہو کے نقصان اٹھا جاتا ہے اور اچانک جب دعا کا خیال آتا ہے تو مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ اتنے کام اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک دن میں یہ کام ہو سکتے ہیں اور الجھا رہتا ہے آدمی کہ کس طرح اب میں اس کام کو سمیٹوں.اچانک دعا کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے کہ اے خدا! تو وقت کا مالک ہے تو آسان کر دے.تھوڑے وقت میں زیادہ کام بھر دے اور یوں لگتا ہے کہ جس طرح کام

Page 458

خطبات طاہر جلدے 453 اس طرح سمٹ گئے ہیں کہ تھوڑی سی جگہ میں بھرنے کے باوجود جگہ باقی رہ گئی ہے.خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء تو خدا میں بے شمار قدرتیں ہیں دعا کے ذریعے ان قدرتوں سے خدا کا بے قدرت بندہ بھی استفادہ کر سکتا ہے.اپنے آپ کو بے قدرت مانے اور تسلیم کریں اور خدا کی قدرتوں سے تعلق جوڑنے کی کوشش کریں دعا کے ذریعے پھر دیکھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں میں، آپ کے منصوبوں میں، آپ کے اعمال میں برکت بھر دیتا ہے.تو یہ کام جونماز اور ذکر الہی کا کام ہے یہ بھی دعا کے بغیر ہو ناممکن نہیں ہے.اس لئے ہر ماں باپ کا فرض ہے ہر وہ باشعور انسان جس تک میری آواز پہنچتی ہے وہ اپنے اوپر یہ فرض کر لے کہ نماز کے معاملے میں اس نے خدا سے ضرور دعا مانگنی ہے اور خدا کی مدد حاصل کرتے ہوئے اپنے گردو پیش نماز کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اصل بات یہ ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے محفوظ کر دے.انسان درد اور فرقت میں پڑا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو جس سے وہ اطمینان اور سکینت اسے ملے جو نجات کا نتیجہ ہے مگر یہ بات اپنی کسی چالا کی یا خوبی سے نہیں مل سکتی جب تک خدا نہ بلا وے یہ جانہیں سکتا، جب تک وہ پاک نہ کرے یہ پاک نہیں ہوسکتا.بہتیرے لوگ اس پر گواہ ہیں کہ بار ہا یہ جوش طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے کہ فلاں گناہ دور ہو جاوے.جس میں وہ مبتلا ہیں لیکن ہزار کوشش کریں دور نہیں ہوتا.باوجود یکہ نفس لوامہ ملامت کرتا ہے لیکن پھر بھی لغزش ہو جاتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ گناہ سے پاک کرنا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے اپنی طاقت سے کوئی نہیں ہوسکتا.ہاں یہ سچ ہے کہ اس کے لئے سعی کرنا ضروری امر ہے.( یعنی ہاتھ توڑ کے نہ بیٹھ رہے کوشش اور جدوجہد کرتا رہے ) غرض وہ اندر جو گناہوں سے بھرا ہوا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور قرب سے دور جا پڑا ہے اس کو پاک کرنے اور دور سے قریب کرنے کے لئے نماز ہے.اس ذریعہ سے ان بدیوں کو دور کیا جاتا ہے اور اس کی بجائے پاک جذبات بھر دئے جاتے

Page 459

خطبات طاہر جلدے 454 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء ہیں.یہی سر ہے جو کہا گیا ہے کہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا نماز فحشا اور منکر سے روکتی ہے.پھر نماز کیا ہے؟ یہ ایک دعا ہے جس میں پورا درد اور سوزش ہو اسی لئے اس کا نام صلوۃ ہے کیونکہ سوزش اور فرقت اور درد سے طلب کیا جاتا ہے ( یعنی خدا سے جو کچھ بھی طلب کیا جاتا ہے وہ سوزش کے ساتھ ،جلن کے ساتھ طلب کیا جاتا ہے ) کہ اللہ تعالیٰ بدارا دوں اور برے جذبات کو اندر سے دور کرے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیض عام کے ماتحت پیدا کر دے.( ملفوظات جلد ۵ صفحه: ۹۲-۹۳) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے.اس دعا کے ساتھ روح پکھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے.“ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دعا میں انسانی روح کا قیام، اس کا رکوع ، اس کا سجدہ کا، اس کا ظاہر نماز اس کا ظل ہے یعنی اس کا عکس جو ظاہر میں پیدا ہوتا ہے وہ نماز ہے.اس میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ بسا اوقات روشنی باہر سے آتی ہے اور اندرسایہ کرتی ہے لیکن وہ جو روشنی دل سے پیدا ہوتی ہے اس کا سایہ باہر گرتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نقشہ پیش فرمایا ہے کہ اندر روح ہے جو قیام کر رہی ہے اور دعا کے لئے کھڑی ہو جاتی ہے.اس کا ظل نماز کا قیام ہے.پس اگر وہ اندر کی روح موجود نہ ہوتو وہ قیام بے معنی ہو جاتا ہے.اگر وہ حقیقۂ سامیہ ہے کسی اندرونی روشنی کا پھر تو وہ حقیقت ہے ایک لیکن اگر اندرونی روشنی کوئی موجود نہیں تو ظاہری نماز بھی غائب ہو جائے گی نظر سے یعنی خدا کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہیں رہے گی ایک فرضی وجود بن جائے گی.تو فرماتے ہیں کہ: وہ خدا کے حضور میں روح کھڑی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ

Page 460

خطبات طاہر جلدے 455 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء بھی کرتی ہے اور اس کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے.“ اب یہ غور کریں اس بات پر کہ اگر قیام کو زندہ کرنا ہے نماز کے قیام کو تو اس کے لئے کونسی کوشش کرنی پڑے گی.اس کے لئے نماز سے باہر کی حالت کو نماز کے مطابق بناتے رہنے کی کوشش کرنا ہوگی اور جہاں تک قیام کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام یہ ہے کہ باہر کے وقت نماز کے علاوہ بھی ہر مصیبت کی برداشت اور خدا کا حکم ماننے سے متعلق اپنے آپ کو تیار کر کے رکھا کرو.ہر وقت یہ فیصلہ کرو دل میں کہ خدا کی طرف سے جو بھی ابتلا آئے جو بھی مشکل پڑے میں رضا کے ساتھ اس پر قائم رہوں گا.اس کا نام قیام ہے روح کا.اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کیلئے ہو جاتی ہے“ اور یہ چیز روزمرہ کی زندگی میں پہلے ظاہر ہوتی ہے پھر نماز میں آتی ہے.یہ ہے وہ مضمون جس کو غور سے سمجھنا ضروری ہے.اگر باہر کی دنیا میں آپ کے تعلقات خدا کے سوا ہر غیر سے رہیں تو نماز میں داخل ہونے کے بعد یہ کیفیت بدل نہیں سکتی پھر ویسی ہی آپ کی نماز بنے گی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ نماز تمہاری بے رکوع رہے گی اس میں کبھی رکوع نہیں آئے گا خواہ جتنی دفعہ مرضی تم جھکو جس میں دنیا کی محبتوں اور تعلقوں سے تم جدانہیں ہو سکے.پھر وہ جھکنا کیا ہے خدا کے حضور وہ ایک ظاہری طور پر کمر کا خم تو کہلا سکتا ہے مگر جس کو خدا رکوع قرار دیتا ہے وہ رکوع نہیں بنتا.اور اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے خیال بکلی کھو دیتی ہے.(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۳-۲۲۴) یعنی کامل انکسار خدا کے حضور اور کامل خشوع وخضوع اور اپنے نفس کو خدا کے حضور میں بالکل مٹادینا اس کا نام سجدہ ہے.پس جس حد تک آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنے نفوس کو مٹاتے ہیں اور اپنے اندر عاجزی اور انکسار پیدا کرتے ہیں اور خدا کے سامنے اپنے آپ کو لاشئی محض دیکھتے ہیں.

Page 461

خطبات طاہر جلدے 456 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء اس حد تک آپ کا نماز کا سجدہ بنے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ سجدہ سایہ ہے اس اندرونی حالت کا.اگر اندرونی حالت پیدا ہی نہیں ہوئی تو سایہ کیسے بن جائے گا.تو نماز بنانے کا ایک ایک جس طرح اینٹ رکھ کر معمار ایک عمارت بناتا ہے اور سکھاتا ہے دوسرے کو کہ اس طرح عمارت بنائی جاتی ہے اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں نماز کی عمارت بنانے کے گر سکھارہے ہیں.پس میں جماعت سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ ضرور نماز کی طرف ایک باشعور حالت کے ساتھ متوجہ ہوگی.صرف ظاہر کو قائم نہیں کرے گی بلکہ اس کی روح کے ذریعے اس کے قیام اور رکوع اور سجود کو قائم کرنے کی کوشش کرے گی اور اپنے گھروں میں یہ تذکرے کئے جائیں گے.اپنے بیوی بچوں عزیزوں سے ان باتوں پر گفتگو کی جائے گی انہیں پیار سے سمجھایا جائے گا اور اپنی نماز کی خصوصیت سے نگرانی کی جائے گی.آپ نگرانی جب تک شروع نہیں کرتے اس وقت تک آپ کو پتا ہی نہیں لگنا کہ یہ کیا باتیں ہیں.جب اپنے ذاتی تجربوں سے گزریں گے اپنی نماز کی خالی حالت کو دیکھیں گے طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہو گی ، خوف پیدا ہو گا اور شعور بیدار ہوگا ایک نیا شعور وجود میں آئے گا.تب آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کیا با تیں تھیں جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آپ کے سامنے رکھی ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا آخر پر میں یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اس عظیم الشان تاریخی مباہلے کا جس کا چیلنج تمام احمدیوں کی نمائندگی میں میں نے تمام دنیا کے مکذبین اور مکفرین کو دیا ہے نماز سے بھی ہے اور بہت گہرا تعلق نماز سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۳ فروری ۱۹۰۶ ء کو ایک ایسی رات الہام ہوا جبکہ بادل نہایت زور سے گرج رہے تھے اور خدا تعالیٰ کی ایک رنگ میں بیرونی طور پر قہری تجلی کا نظارہ تھا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہوا اٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں“.( تذکر صفحہ ۵۰۷) پس اگر آپ دنیا کو بیدار کرنے لئے اور احمدیت کی طرف متوجہ کرنے لئے خدا تعالیٰ سے ایک ایسا عظیم الشان نشان چاہتے ہیں کہ دنیا قیامت کا نمونہ دیکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے اور سارے اندھیرے جو تکذیب کے پھینکے جارہے

Page 462

خطبات طاہر جلدے 457 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۸ء ہیں وہ سارے چھٹ جائیں.جس طرح سورج چڑھتا ہے تو رات کے لئے بھاگنے کے سوا مقدر کچھ نہیں رہتا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب میں جتنا ظلم پھیلایا جارہا ہے جتنی تاریکیاں پھیلائی جارہی ہیں خدا سے ایسا نشان مانگیں جو سورج کی طرح چڑھے اور ان تاریکیوں کا تار پود بکھیر کر رکھ دے.وہ کیسے حاصل ہوگا الہاماً خدا تعالیٰ نے خود بیان فرما دیا ہے یہ وہ طریق ہے.اٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.“ پس میں امید رکھتا ہوں کہ ویسے بھی اس صدی کے اختتام پر سب سے زیادہ قابل توجہ امر نماز ہی تھی اور اسی کی طرف میں نے متوجہ کرنا تھا.یہ عجیب خدا تعالیٰ کی طرف سے تصرف ہوا ہے کہ ساتھ ہی چونکہ مباہلہ کا چیلنج دے دیا گیا ہے اور ان دونوں کے تعلق کو خود خدا نے رویا کے ذریعے بھی مجھے سمجھا دیا کہ اگر مباہلہ کو عظیم الشان طریق پر کامیاب کرنا چاہتے ہو تو نمازوں کی طرف جماعت کو متوجہ کرو اور پھر اس الہام کی طرف بھی توجہ پھیر دی کہ اس کا بھی اسی سے تعلق ہے اس لئے میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کو ایک دفعہ پھر تاکید کرتا ہوں کہ اس سال کو بشدت عبادت الہی کا سال بنا دیں جو ذکر الہی سے معمور ہو اور جس میں ہم خدا کی یاد کی لذتیں پائیں.اللہ کرے کے ایسا ہی ہو.آمین.

Page 463

Page 464

خطبات طاہر جلدے 459 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء ائمۃ المکفرین کے امام کو انتباہ.احمدیت اس قوم کی نجات اور ترقی کی ضمانت ہے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جب سے میں نے تمام دنیا کے مکذبین کو اور خصوصاً ان مکذبین کو جن کو ائمة المكذبين والمکفرین کہا جا سکتا ہے مباہلے کی دعوت دی ہے.بہت سے احمدی سوال کرتے ہیں کہ کیا اس عرصے میں کسی نے اس مباہلے کی دعوت کو قبول کیا یا نہیں.بعض علماء نے ضمنا ذکر تو کیا ہے بعض نے کچھ بہانہ جوئی بھی کی ہے مباہلے سے احتراز کیلئے لیکن جنہوں نے واضح طور پر اخبار میں اعلان کر کے اس مباہلے کے چیلنج کو یا دعوت کو قبول کیا ہے سر دست وہ ایسے قابل ذکر لوگ نہیں کہ جو قوم کے سامنے ایک نشان بن سکیں.اس لئے اس موضوع پر کچھ کہنے سے پہلے ہمیں کچھ اور انتظار کرنا ہوگا.دوسرے جماعت کی طرف سے با قاعدہ دس تاریخ کے جمعہ کا چینج چھپوا کر ان مخالفین کو پیش نہیں کیا گیا اور جو کچھ انہوں نے سنا ہے وہ شنید کے طور پر ہے ان کیلئے شرطیں ان کے سامنے معین ابھی پیش نہیں ہوئیں.وہ جھوٹ جن کا میں نے ذکر کیا تھا تفصیل کے ساتھ کہ سب جھوٹے الزام ہیں ان کے متعلق اخبارات میں اس تفصیل سے خبریں شائع نہیں ہوئیں.اس لئے جو معاندین ہیں، مخالفین ہیں ان کو بھی ان کا حق دینا چاہئے جب تک باقاعدہ ان تک تحریری صورت میں مباہلے کی تفصیل نہ پہنچے، ان کو مطالعہ کا موقع نہ ملے، اعتراض کا حق استعمال نہ کر سکیں اس وقت تک یہ امید رکھنا کہ سارے فوری طور پر اس دعوت کو

Page 465

خطبات طاہر جلدے 460 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء قبول کرلیں گے یہ درست نہیں ہے.تو اب جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ با قاعدہ وہ چیلنج چھپوا لیا گیا ہے اور شرطیں بالکل واضح اور کھول کر بیان کر دی گئی ہیں اور عام دعوت دی گئی ہے علماء کو کہ جو بغور پڑھنے کے باوجود ان باتوں کو پھر بھی یقین رکھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ جھوٹی ہے اور وہ بچے ہیں تو وہ اس چیلنج کو پھر قبول کریں اور اس کو شائع کریں.اپنے دل میں قبول نہ کر بیٹھیں بلکہ شائع کریں اور وہ لوگ جو شرارت میں پیش پیش ہیں وہ اگر قبول اس طرح نہ بھی کریں اور شرارت سے باز نہ آئیں تو یہ بھی ان کا چیلنج قبول کرنے کے مترادف ہوگا.تو ان دو باتوں کے پیش نظر ہمیں کچھ انتظار کرنا چاہئے.جس قماش کے لوگوں نے قبول کیا ہے اس کی مثال میں دیتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ قابل ذکر لوگ ہیں مثلاً ایک اللہ یا را رشد ہے جس قسم کے لوگوں کو ربوہ پر مسلط کیا گیا تھا کہ دن رات جھوٹ اور گند بک کر اہل ربوہ کے لئے روحانی اذیت کا موجب بنیں یہ ان کے سر براہ ہیں اور دن رات جھوٹ بولنا ان کا کام ہے.پاکستان میں کہیں کوئی واقعہ ہو جائے دوسرے دن اللہ یار ارشد کا بیان چھپ جائے گا کہ یہ احمدیوں نے کروایا ہے.ہتھوڑا گروپ بھی احمدی تھے قتل وغارت کے جو واقعات ہوئے وہ بھی احمدی کرواتے ہیں، جہاں دھما کہ ہوتا ہے وہ احمدی کرواتے ہیں.کوئی ایسا واقعہ جو ملک اور قوم کے لئے تکلیف دہ ہو، پاکستان میں رونما ہوا ہو وہ ہر واقعہ اللہ یار ارشد صاحب کے نزدیک احمدی کرواتے ہیں یعنی جھوٹ کی فیکٹری لگی ہوئی ہے.ایسا شخص جو کذب اور افتراء میں اس مقام کا انسان ہو یا اس مقام کی چیز ہو وہ یہ اعلان کرے کہ لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ اس کی حیثیت کیا ہے؟ ایسے لوگ اگر خدا کے عذاب کے نیچے پکڑے بھی جائیں اور پکڑے جاتے ہیں تو قوم ان کو محسوس بھی نہیں کرتی.نہ ان کے آنے کو محسوس کرتی ہے نہ ان کے جانے کو محسوس کرتی ہے.حالت یہ ہے افتراء کی کہ جن دنوں میں مباہلے کا چینچ قبول کر رہے ہیں انہی دنوں میں یہ اعلان شائع ہو رہا ہے ان کی طرف سے کہ قادیانیوں کی طرف سے صدر ضیاء کے خلاف مہم چلانے کے لئے بعض لیڈروں کو فنڈ ز فراہم کرنے کی پیشکش.مرزا طاہر کی ہدایت پر خصوصی وفد تشکیل دے دیا گیا.اندازہ کریں کہ اگر میں نے کوئی فنڈز مہیا کرنے تھے تو اللہ یا را رشد سے مشورہ کر کے مہیا کرنے تھے یا میرے وفد نے جاکے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر

Page 466

خطبات طاہر جلدے 461 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء پوچھنا تھا کہ بتائیے ہم آگے کس طرح بڑھیں اور کیا کاروائیاں کریں یا جن کو مہیا کرنے تھے انہوں نے دوڑے دوڑے اللہ یارارشد کے پاس پہنچنا تھا کہ مشورہ دو کیا کیا جائے.ایسے جھوٹ ایسی فساد کی باتیں ہیں اور ایسی گندی زبان ہے کہ سوائے اس کے کہ ایسا شخص تعفن پھیلا رہا ہو اور اس کے وجود کا مقصد کوئی نہیں صرف ایک مصیبت ہے کہ جو جسمانی منہ سے بدبو آتی ہے اس کو آپ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ پھیلا نہیں سکتے لیکن ایسے منحوس لوگوں کے منہ سے جو بد بوئیں نکلتی ہیں وہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پھیلا دی جاتی ہیں اور سارے ربوہ میں اس شخص کا تعفن ہر روز پھیلتا ہے.ایک عذاب ہے روحانی طور پر اہل ربوہ کے لئے اور وہ اس کو برداشت کر رہے ہیں.خدا کی خاطر برداشت کر رہے ہیں.یہ وہی تکلیفیں ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب تم برداشت کرتے ہو تو اللہ کے پیار اور رحمت کی نظر تم پر پڑتی ہے ان کو تو جزا ملے گی مگر ایک ایسا شخص مباہلے کا چیلنج قبول کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں آگے سامنے آتا ہوں اس کے پیچھے ہے کون کون لوگ ہیں جو ایسے شخص کو اپنا سر براہ بناتے ہیں؟ ان کا اپنا گاؤں ان کے پیچھے نہیں ہے.اس لئے جو میں نے ذکر کیا ہے کہ اس قماش کے لوگ ! یہ ایک مثال میں نے کھول دی ہے کہ ایسے لوگوں کا ذکر کر کے میں اپنا وقت ضائع کروں اور کہوں کہ فلاں نے قبول کر لیا اور فلاں نے قبول کر لیا.ان کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے.ہاں اگر قبول کریں گے تو اپنی اپنی جگہ ایک چھوٹے سے دائرے میں جہاں جہاں تک ان کا تعفن پھیل رہا ہے وہاں ضرور نشان بنیں گے اور اللہ تعالیٰ سے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ کہ ایسے لوگوں کے متعلق ان کے اپنے محدود دائروں میں ہی نشان ظاہر فرمادے.جہاں تک صدر پاکستان ضیاء صاحب کا تعلق ہے ان کے متعلق ہمیں ابھی ان کو کچھ وقت دینا چاہئے ابھی ابھی انہوں نے کچھ سیاسی کاروائیاں کی ہیں اور اگر چہ وہ اسلام کے نام پر کی ہیں مگر بہر حال سیاسی کاروائیاں ہیں اور ان میں وہ مصروف بہت ہیں.ابھی تک ان کو یہ بھی قطعی طور پر علم نہیں کہ آئندہ چند روز میں کیا واقعات رونما ہو جائیں گے.اس لئے ہو سکتا ہے وہ تر در محسوس کرتے ہوں کہ یہ نہ ہو کہ ادھر میں چیلنج قبول کروں ادھر کچھ اور واقعہ ہو جائے.اس لئے جب تک ان کی کرسی مضبوط نہ ہو جائے ، جب تک وہ اپنے منصوبوں پر کار بند نہ ہو جائیں اور محسوس نہ کریں کہ ہاں اب وہ

Page 467

خطبات طاہر جلدے 462 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء اس مقام پہ پہنچ گئے ہیں جہاں جس کو چاہیں چیلنج دیں، جس قسم کی عقوبت سے ڈرایا جائے اس کو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے قبول کریں.اس مرتبے و مقام تک ابھی وہ پہنچے نہیں ہیں.اس لئے ہم انتظار کرتے ہیں کہ خدا کی تقدیر دیکھیں کیا ظاہر کرے لیکن چیلنج قبول کریں یا نہ کریں چونکہ تمام آئمہ المکفرین کے امام ہیں اور تمام اذیت دینے والوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس ایک شخص پر عائد ہوتی ہے.جنہوں نے معصوم احمدیوں پر ظلم کئے ہیں اور اس ظلم کے پیچھے پڑ کر جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ جو میں نے حکم جاری کیا تھاوہ جاری ہو بھی گیا ہے کہ نہیں اور ایک معصوم احمدی کیسے تکلیف محسوس کر رہا ہے.جب تک یہ پتا نہ چلے ان کو لذت محسوس نہیں ہوتی تھی.ایسے شخص کا زبان سے چیلنج قبول کرنا ضروری نہیں ہوا کرتا.اس کا اپنے ظلم و ستم میں اسی طرح جاری رہنا اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ اس نے چیلنج کو قبول کر لیا ہے.اس لئے اس پہلو سے بھی وقت بتائے گا کہ کس حد تک ان کو جرات ہے خدا تعالیٰ کے مقابلے کی اور انصاف کا خون کرنے کی.جہاں تک ان کی سیاسی کارروائیوں کا تعلق ہے ہم سیاسی جماعت نہیں ہیں لیکن چونکہ اس سیاسی کارروائی کو اسلام کے نام پر کیا گیا ہے اس لئے ایک مذہبی جماعت کے طور پر جو اسلام کی خادم ہے ہمیں اس کارروائی میں دلچسپی لینی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اسلام کے حق میں انہوں نے کیا کارروائیاں کی ہیں.سب سے پہلی بات یہ کہ ایک اعتراف ہے کہ اب تک اس ملک میں اسلام کے لئے کچھ بھی نہیں ہو سکا اور جو کچھ کیا جا چکا تھا اس پر پچھلے تین سال میں منتخب حکومت نے پانی پھیر دیا ہے بلکہ اسلام کو پہلے سے بہت ہی زیادہ بدتر اور نہایت ہی نا گفتہ بہ حالت تک پہنچا دیا ہے اور پھر انہوں نے اس دور کے واقعات گنائے ہیں جو گزشہ تین سالہ دور کے واقعات ہیں کہ ان میں رشوت بڑھی، ان میں فساد بڑھا، ان میں قتل وغارت بڑھا.یہ ہوا اور وہ ہوا یہ ساری اسلام کے منافی باتیں ہیں.یہ بالکل درست ہے ہر احمدی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ ساری اسلام کی منافی باتیں ہیں اور جو سر براہ بھی قوم کا یہ عزم لیکر اٹھے کہ وہ اسلام کے منافی باتوں کا قلع قمع کرے گا اور اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گا وہ ہم سے جتنی چاہے دشمنی رکھے اس کوشش میں جماعت احمد یہ اس کے ساتھ ہوگی کیونکہ ہم اسلام سے محبت کرنے والے ہیں اور اسلام سے سچی محبت کرنے والے ہیں.کسی قیمت پر بھی ہمیں اسلام کا نقصان برداشت نہیں ہے.اس لئے سارے پاکستان کی جماعت کا بالخصوص یہ

Page 468

خطبات طاہر جلدے 463 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء فرض ہے کہ وہ اسلام جس کی تفصیل انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بیان فرمائی ہے کہ اسلامی اخلاق کو نافذ کرنا، اسلامی قدروں کو نافذ کرنا، خلاف اسلام باتوں کو معاشرہ سے دور کرنے کی کوشش کرنا اس میں جماعت احمدیہ کو صدر پاکستان سے ہر قسم کے اختلاف یا ان سے شکوؤں کے باوجو دان کی تائید کرنی چاہئے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے سوا کسی نے ان کی تائید کرنی بھی نہیں اس معاملہ میں.ایک ہی جماعت ہے صرف جو اس دعوت اشتراک میں سب سے آگے بڑھے گی.ایک ہی جماعت ہے جو جانتی ہے اس قول کا مطلب کہ تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (آل عمران : ۱۵) اے لوگو! مخالفتوں کے باوجود ، اختلاف کے باوجود ان نیک باتوں میں اکٹھے ہو جاؤ جن کا تم بھی دعوی کرتے ہو اور ہم بھی دعویٰ کرتے ہیں اس لئے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ اعلان ان کا بہت اچھا ہے کہ اسلام کو فی الحقیقت نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن یہ درست نہیں کہ ڈنڈے سے یہ اسلام نافذ ہوسکتا ہے.اس میں جماعت احمدیہ کوسو فیصدی اختلاف ہے.سوال یہ ہے کہ جس اسلام کو یہ نافذ کرنے کا عزم کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہیں ہے نافذ ، وہ کن لوگوں پہ نافذ کریں گے جن کو خدا نماز کی تو فیق دیتا ہے اور نہیں پڑھتے ، جن کو خدا تعالی ظلم سے باز رہنے کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ تلقین فرماتا ہے اور وہ تلقین کے باوجود ظلم سے باز نہیں رہتے.جن کو جب موقع ملے ڈاکہ زنی کرتے ہیں، جب توفیق ملے رشوت ستانی میں ملوث ہو جاتے ہیں گویا وہ ساری برائیاں جن کا نقشہ صدر پاکستان نے اپنی تقریر میں کھینچا ہے وہ تمام کی تمام ایسی برائیاں ہیں جن سے رکنے کا بندے کو اختیار ہے اور ان کے نزدیک ساری قوم اس میں ملوث ہو چکی ہے اور تین سالہ جمہوریت نے اس ہر بدی میں اس قوم کو آگے بڑھا دیا ہے.تو اسلام پھر نا فذ نہیں ہے وہاں.جس قوم کے اوپر یہ نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ عملاً اپنے غیر مسلم ہونے کا اعلان کر رہی ہے.یہ اس کا منطقی نتیجہ نکلتا ہے کیونکہ اگر اسلام یہ ہے اور قوم اس کو قبول نہیں کرتی بلکہ عملاً رد کر چکی ہے بحیثیت قوم تو ایسی قوم جو اسلام کو رد کر چکی ہو اس کے نام پر اسلام کو لانا یہ ویسے ہی غیر معقول بات ہے اور پھر اس کے مقابل پر اس تجزیہ میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ دراصل اسلام اگر آیا تھا اس قوم میں یا اس ملک میں تو صرف مارشل لاء کے آٹھ سال میں آیا تھا یعنی گیارہ سال میں سے کہتے ہیں تین سال تو ہمارے ضائع ہو گئے جمہوریت کے تجربے میں.جو پہلے آٹھ سال تھے اس میں اسلام آ گیا تھا اور مارشل لاء سے بڑھ کر اسلام کبھی نافذ

Page 469

خطبات طاہر جلدے 464 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء نہیں ہوا.پھر بد بخت جمہوریت آگئی اس نے ستیا ناس کر دیا.یہ ہے سارا تقریر کا خلاصہ اور نتیجہ.نتیجہ یہ کہ تین مہینے کے اندر اندر میں دوبارہ جمہوریت نافذ کر دوں گا اور مارشل لاء کبھی نہیں آئے گا.عجیب بات ہے حیرت انگیز نتیجہ نکالا جارہا ہے اگر مارشل لاء واقعی اسلام لیکر آیا تھا اور پاکستان میں صرف اسلام صرف ان آٹھ سال میں نظر آیا ہے جبکہ ان کا نافذ کردہ مارشل لاء تھا اور تین سال تک انہوں نے صبر کے ساتھ جمہوریت کے ساتھ گزارہ کیا اور دیکھتے رہے کہ شاید اس جمہوریت کی اصلاح ہو جائے اور اسلام قبول کرلے لیکن وہ بد بخت جمہوریت ہر غیر اسلامی قدر میں آگے بڑھتی چلی گئی اور کلیۂ غیر مسلموں والی حرکتیں کرتی رہی.یہ ہے وہ صورت جوان کے تجزیے سے ظاہر ہورہی ہے.یہ سب دیکھنے کے باوجود بلکہ یہ فیصلہ کرنے کے باوجود کہ ایسی خبیث جمہوریت کو زندہ نہیں رہنے دینا جو آٹھ سالہ اسلام لانے کی کوششوں کو تین سال میں ملیا میٹ کر دے اور اس جمہوریت کو واقعی مٹا دینے کے بعد اگلا اعلان یہ ہے کہ تین مہینے کے اندر میں دوبارہ جمہوریت نافذ کر دوں گا.وہ جمہوریت کہاں سے آئے گی ؟ سوال یہ ہے کہ پہلی جمہوریت جس قوم کی مٹی سے بنی تھی وہی مٹی قوم کی پھر بھی رہے گی ، اسی مٹی کے خمیر سے اگلی جمہوریت نے پیدا ہونا ہے.وہ کس طرح اسلام نافذ کر دے گی؟ اس لئے عجیب وغریب منطق ہے مجھے تو کچھ مجھ نہیں آتی کہ یہ اسلام کس طرح نافذ کر سکتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ غور نہیں کرتے جو لوگ اسلام نافذ کر سکتے تھے ان کے دشمن ہو گئے ہیں.جنہوں نے اپنے اعمال سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسلمان ہیں.جن کو اسلام سے روکنے کے لئے قانون بنانے پڑتے ہیں اور قوانین کے باوجود اسلام سے نہیں رکتے ، ایک وہ لوگ ہیں.ایک وہ لوگ ہیں جن کو اسلام پر نافذ کرنے کے لئے قوانین بنانے پڑتے ہیں اور قوانین بنانے کے باوجود اسلام پر عمل نہیں کرتے.یہ سائیڈ کیوں نہیں بدل لیتے اپنی ، اگر اسلام سے سچی محبت ہے، دعووں میں بچے ہیں تو صرف طرف بدلنے والی بات ہے.ادھر آ کر کھڑے ہو جائیں جہاں قانون بھی بنادئے جائیں تو اسلام پر عمل درآمد سے نہیں رکتے وہ لوگ.جیلوں میں جاتے ہیں، ماریں کھاتے ہیں قتل ہوتے ہیں، ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم کئے جاتے ہیں، ہر قسم کے اقتصادی حقوق سے محروم کیے جاتے ہیں، تمدنی حقوق سے محروم

Page 470

خطبات طاہر جلدے 465 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء کئے جاتے ہیں، تعلیمی حقوق سے محروم کئے جاتے ہیں ،گلیوں میں بے عزت اور ذلیل کئے جاتے ہیں، ان کی مسجد میں مسمار کی جاتی ہیں لیکن عجیب جواں مرد ہیں کہ قانون اور سارے قانون کے ظالمانہ ذرائع ان کے مقابل پر کھڑے ہیں لیکن اسلام پر عمل درآمد سے نہیں رکھتے.نمازیں پڑھتے ہیں قربانی دے کر ، قیمت ادا کرنی پڑتی ہے نمازوں کی ، مسجدوں میں جاتے ہیں اپنی عزت اور جان کو ہتھیلی میں لیکر ان کا ہر قدم جو نیکی کی طرف اٹھتا ہے اس کے مقابل پر ایک شیطان کی تلوار ان کے سر کے اوپر لٹکائی جاتی ہے اور دھمکایا جاتا ہے کہ نیکی کی طرف اٹھانے والے قدم روک لو ورنہ تمہیں اس کی قیمت دینی پڑے گی.پھر بھی وہ قوم عجیب قوم ہے جو نیکی کی راہوں پر آگے بڑھنے سے نہیں رکتی نہیں باز آ رہی.ایک اس کے مقابل پر ایک اور قوم ہے جس کی سربراہی کا جنرل ضیاء الحق صاحب کو دعویٰ ہے وہ کہتے ہیں میں مسلمان ہوں ، قوم مسلمان نہیں ، مجھے اسلام سے ایسی محبت ہے کہ اس بد بخت قوم کو ز بر دستی مسلمان بنا کے چھوڑوں گا اور جس طرح پہلے آٹھ سال میں کوڑے مار کر اور سزائیں دے کر اور سنگسار کرنے کی دھمکی دے کر ہم نے کسی نہ کسی حد تک مسلمان بنا کے دکھا دیا تھا.اب تین سال کی جو گندگی پھیلی ہے اس کو ختم کرنے کے لئے ہمیں دوبارہ وہی اقدامات کرنے پڑیں گے.ڈنڈے کے زور سے ان لوگوں کو مسلمان بناؤں گا.پوچھنے والی بات یہ ہے کہ جو ہیں نہیں ان کو مسلمان کہتے کیوں ہو اور جو ہیں ان کو غیر مسلم کیوں کہتے ہو ؟ تھوڑا سا نظر کا فرق ہے اگر آنکھیں کھول کر دیکھو تو سہی کہ اسلام ہے کہاں.جہاں اسلام ہے اگر اسلام سے کچی محبت ہے تو اس طرف چلے جاؤ لیکن اس کے باوجود یہ دیکھ نہیں رہے ان کو سمجھ نہیں آرہی، جب تک یہ احمدیت کی مخالفت نہیں چھوڑتے اور احمدیت کو قوم میں خدا اور رسول کی خاطر اصلاحی کارروائیوں کی اجازت نہیں دیتے ، اس وقت تک ان کے نیک ارادے (اگر وہ نیک ہیں واقعہ ) اور ان کے تمام اسلام کی خاطر بنائے جانے والے منصوبے بالکل ناکام رہیں گے.ان میں کوئی بھی برکت نہیں ہوگی.کوئی بھی جان نہیں پڑے گی.جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے اسلامی اخلاق اور اسلامی عادات اور اسلامی اعمال کا امین بنایا ہے اور جماعت احمد یہ ہی ہے جس کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ نصیحت کے ذریعہ ، نیک مثال کے ذریعہ اور جان و دل کی قربانی کے ذریعے معاشرے کو اسلامی قدروں کی طرف واپس لانے کی

Page 471

خطبات طاہر جلدے 466 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء کوشش کرے.اس جماعت کو آپ نے الگ کر کے رکھ دیا ہے جو آپ کی بات نہیں مانتے ان کو آپ زبر دستی ڈنڈے کے زور سے مسلمان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ چلے گی نہیں بات یہ ہو نہیں سکتا.پھر جن ملاؤں کو آپ نے آگے کیا اور اٹھایا اور مسلمانوں پر مسلط کیا ان کا کیوں نہیں جائزہ لیتے بجائے جمہوریت کا جائزہ لینے کے؟ تین سالہ جمہوریت نے جو کچھ کیا وہ ان کا دائرہ سیاسی دائرہ تھا اور ان کی اپنی جو حالت تھی آپ کو بھی علم تھا کہ کیا حالت تھی ، کیا کیا کارروائیاں ان کے ساتھ ہوئیں کس کس کا رروائی میں آپ شریک تھے ، یا نہیں شریک تھے ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں ہے.قوم جانے اور آپ جانیں ایک دوسرے کا احتساب کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو تقوی اختیار کرنے کی توفیق بخشے ہماری تو صرف یہی تمنا ہے لیکن اتنا میں جانتا ہوں کہ اس سارے عرصے میں پاکستان کا ملاں اس بات سے کلیۂ بے نیاز رہا ہے کہ پاکستان کی گلیوں میں کیا ہورہا ہے اور آپ نے بھی ان کو زکوۃ دے دے کر ایک ہی طرف لگائے رکھا ہے کہ اسلام کی خدمت کرنی ہے تو احمدیوں کے اوپر ڈنڈے لے کر چڑھ دوڑو اور دن رات ان کے خلاف بکواس کرتے رہو، گندے بیان دیتے رہو ، گالیاں دیتے رہو، جھوٹ اچھالتے رہو ، یہ اسلام کی خدمت ہو رہی ہے.اگر یہ اسلام کی خدمت ہے تو وہ تو جیسے مارشل لاء میں ہو رہی تھی ویسے ہی جمہوریت میں بھی ہو رہی ہے.اس میں تو کوئی بھی فرق نہیں پڑا.اسی طرح کھلے بندوں ، کھلے بازاروں میں یہ خدمت چلتی پھرتی رہی ہے اور کوئی بھی روک پیدا نہیں ہوئی.اس میں تو جو نیجو صاحب کا کوئی قصور نہیں بیچاروں کا.یہ بات آپ کو کیوں نظر نہیں آتی یہ سیدھی سادھی بات ہے میں نصیحت کے رنگ میں آپ کو بتانی چاہتا ہوں کہ اس سارے عرصے میں جو آٹھ سال کا عرصہ کہیں یا گیارہ سال کا عرصہ، پاکستان کے عوام جو نماز ترک کرتے رہے ہیں کس کی ذمہ داری تھی ان کو نمازوں کے اوپر کار بند کرانے کی ہولوی کی ذمہ داری تھی.وہ جو بے حیائیوں میں بڑھتے رہے ان کو حیا کی طرف واپس لانے کی ذمہ داری کس کی تھی ؟ مولوی کی ذمہ داری تھی کیونکہ وہ مذہبی رہنما ہے.وہ لوگ جو دن بدن نشوں کے عادی ہوتے رہے ہیں شراب خوری اور قمار بازی میں مبتلا ہوتے رہے ان کو ان چیزوں سے روکنے کی ذمہ داری کس کی ذمہ داری تھی؟ اولین ذمہ داری مولوی کی ذمہ داری تھی کیونکہ مولوی مذہبی رہنما ہے.جس کی آنکھوں کے سامنے ڈا کے پڑے، جس کی آنکھوں کے سامنے عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں، جس کی آنکھوں کے سامنے معاشرے کو ہر قسم کے

Page 472

خطبات طاہر جلدے 467 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء گندے ناسور سے بھر دیا گیا ہر قسم کی غلاظتوں سے بھر دیا گیا اور وہ خاموش بیٹھا دیکھتا رہا ہے.اس کو کیوں نہیں آپ نے پوچھا؟ بجائے اس کے کہ ایک اسمبلی کو برطرف کریں ان ملاؤں کو برطرف کریں، ان کا حساب لیں.یہ اسلام نافذ کرنا نہ مارشل لاء کا کام تھا نہ سیاسی حکومتوں کا کام ہوا کرتا ہے، نہ ان کے بس کی بات ہے.یہ قوم کے مذہبی رہنماؤں کا کام ہوا کرتا ہے پس اگر قوم ناکام ہوئی ہے تو مذہبی رہنما نا کام ہوئے ہیں ان کو غلط سمتوں میں چلانے کے ذمہ دار آپ ہیں.آپ نے ان کو اسلام کی تو ہوش ہی نہیں آنے دی، اسلام پر عمل درآمد سے روکنے پر وہ مامور رہے ہیں ان کی پشت پنا ہی آپ کرتے رہے ہیں، ان کو زکوۃ کے پیسے دیتے رہے ہیں، ان کا دن رات کام یہ تھا کہ جو نماز پڑھتے ہیں ان کو نماز پڑھنے سے روک دیں ورنہ ان کی دل آزاری ہوتی ہے، جو اذان دیتے ہیں ان کو اذان دینے سے روک دیں ورنہ ان کی دل آزاری ہوتی ہے، جو کلمہ پڑھتے ہیں لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ ان کو کلمہ پڑھنے کی شدید سزائیں دیں ورنہ ان کی دل آزاری ہوتی ہے.ان کی مسجدیں دیکھ کر دل آزاری ہوتی ہے، ان کے مسجد میں آنے جانے کو دیکھ کر دل آزاری ہوتی ہے، ان کی خدمت خلق کو دیکھ کر دل آزاری ہوتی ہے.اوجڑی کیمپ کے مصیبت زدگان ہوں یا کسی اور مصیبت کے مارے ہوئے جہاں احمدی جائے خدمت خلق کیلئے وہاں ان کی دل آزاری ہوتی ہے.یہ اسلام کا تصور ہے کہ جہاں اسلام دیکھو وہاں اسلام کو دیکھ کر بھڑک اٹھو اور کہو کہ ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام پر عمل ہو رہا ہے تو وہ معاشرہ جو اسلام پر عمل پیرا تھا اس پر تو آپ نے مولوی مسلط کر دئیے کہ ان کو اسلام پر عمل نہیں کرنے دینا اور دل آزاری کا بہانہ بنا کر جو مظالم چاہوان پر تو ڑو اور ساری حکومت کی مشینری تمہارے ساتھ ہے اور جن کو اسلام پر کار بند کرنے کا آپ ادعا کر رہے ہیں ان سے ان کو بالکل غافل رکھا گیا ہے.ان کے اوپر کیوں نہیں مسلط کیا گیا ان کو ، وہاں کیوں نہیں بھجوایا گیا ان کو ؟ ان کو زکوۃ کا پیسہ دیتے شوق سے دیتے سعودی عرب سے مانگ کر دیتے ، امریکہ سے مانگ کر دیتے ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں مگر خدمت دین کے لئے دیتے.ان کو بھجواتے کراچی، ان کو لاہور بھجواتے ، ان کو فیصل آباد مقرر کرتے.انکم ٹیکس کے ساتھ ان کے روابط رکھتے کہ جہاں جہاں انکم ٹیکس کی چوری ہورہی ہے مولوی پہنچیں اور ان کو ہدایت کریں کہ بھئی چوری نہیں کرنی.رشوت ستانی کے محکمے کے ساتھ علماء مقرر کر دیتے کہ جہاں جہاں رشوت ستانی کی وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں وہاں مولوی صاحب ساتھ

Page 473

خطبات طاہر جلدے 468 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء پہنچیں ، قرآن لے کر جائیں، نصیحت کریں ہدایت دیں کہ دیکھو خدا کے بندو! کس دین سے تعلق رکھتے ہو خدا کا خوف کرو.یہ تو ماننے والی بات تھی ،عقل میں آنے والی بات تھی.ان کو تو کام ہی اور سپر د کر دیا گیا، ان کو تو اسلام کے نام پر دل آزاری نہیں ہو رہی تھی ان کی ، اسلام بیزاری ہو رہی تھی دراصل امر واقعہ تو یہی ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس سے ان کی دل آزاری تھی وہ حقیقی اسلام تھا.اذان حقیقی اسلام ہے، نماز حقیقی اسلام ہے، مسجدوں کا قیام حقیقی اسلام ہے، مسجدوں کی تعمیر حقیقی اسلام ہے، کلمہ حقیقی اسلام ہے، غریب کی ہمدردی اور خدمت خلق حقیقی اسلام ہے.یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے.تو دوسرے لفظوں میں اسے دل آزاری نہیں کہنا چاہئے.اسے اسلام بیزاری کہنا چاہئے اور یہ کوئی محاورہ نہیں حقیقہ یہی ہے اس کے سوا اس کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا.تو میں صدر ضیاء الحق صاحب کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ مباہلہ قبول کرنے سے پہلے وہ ان باتوں پر غور کریں اور تقویٰ اختیار کریں.مجھے اس لئے یہ خیال آیا ہے ان کو اس نصیحت کا کہ ان کی جو تقریر سنی ہے غالباً پچیس تاریخ کی تھی ، ۲۵ / جون کی اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کو خدا خوفی کی طرف خیال ضرور گیا ہے چنانچہ اخباروں میں جو خبر میں شائع ہوئی ہیں انہی خبروں کو پڑھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر اس وقت دل کی نرمی کی حالت ہے تو کیوں نہ اس وقت نصیحت کر دی جائے.جب لوہا نرم ہو تو پھر اس کو (Mould) مولڈ کیا جا سکتا ہے اس کو مختلف شکلیں دی جا سکتی ہیں.سخت دل انسان بھی بعض حالتوں میں بعض خوفوں سے متاثر ہو کر نرم پڑ جایا کرتے ہیں.اس لئے میں ان کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں.وہاں دو خوفوں کا اظہار کیا ہے انہوں نے.ایک عوام الناس کا خوف اور ایک خدا کا خوف.جہاں تک عوام الناس کا خوف ہے میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر خدا کا خوف آپ کے دل میں پیدا ہو جائے تو عوام کے کسی خوف کی ضرورت نہیں، وہ شخص جو خدا کا خوف دل میں رکھتے ہیں وہ لوگ جو خدا کا خوف دل میں رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو عوام کے خوف سے نجات بخشا کرتا ہے.اس کے برعکس قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جو خدا کا خوف نہیں رکھتے اور انسانوں سے ڈرتے ہیں، خدا کی خشیت اختیار نہیں کرتے بلکہ انسانوں کی خشیت اختیار کرتے ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی.اس لئے اگر آپ گھبرائے ہوئے ہیں حالات سے ،اگر آپ کو مستقبل گھناؤنا اور تاریک دکھائی دے رہا ہے.اگر خطرات دکھائی دے رہے ہیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے تو

Page 474

خطبات طاہر جلدے 469 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء ایک ہی علاج ہے کہ خدا کی طرف لوٹیں.عوام کو جو آپ نے جواب دینا ہے جس طرح چاہیں جواب دیں لیکن سچائی سے دیں گے تو وہ جواب اہمیت رکھے گا.محض زبان کے جمع خرچ کے ساتھ تو لوگ مطمئن نہیں ہوا کرتے.عوام سادہ لوح سہی لیکن پھر بھی اپنے مقصد کی بات سمجھتے ہیں ان کو صاف پتا چل جاتا ہے کہ یہ مقرر دل کی بات کر رہا ہے یا یونہی فرضی باتیں کر رہا ہے اس لئے اگر آپ واقعی ان کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں تو یہ نہ کہیں کہ آٹھ سال مارشل لاء کے زمانے میں ہم نے اسلام نافذ کر دیا تھا جسے تین سال کی جمہوریت نے ستیا ناس کر دیا، تباہ و برباد کر دیا.یہ باتیں تو کوئی نہیں مانے گا.مواز نے کر کے دکھا ئیں اعداد وشمار چھپے ہوئے ہیں.یہ ان کو بتائیں کہ جب مارشل لاء لگا تھا تو اس وقت اتنی چوریاں ہوا کرتی تھیں، اتنے ڈا کے ہوا کرتے تھے، اتنی قتل وغارت ہوتی تھی ، اتنے دھماکے ہوا کرتے تھے شہروں میں ، اتنے نمازی تھے اور اتنے بے نمازی تھے ، اتنے شراب کے عادی تھے، اتنے نشے کے عادی تھے اور جب مارشل لاء سے جمہوریت نے چارج لیا ہے تو اتنے رہ گئے.ایک لاکھ اگر جواری تھا تو وہ پانچ دس رہ گئے ، اگر ایک کروڑ رشوت لے رہا تھا تو اس میں چند سویا چند ہزار تھے آخر پر.یہ ہم نے چارج دیا جمہوریت کو اور یہ سارے واقعات چھپے ہوئے ہیں اعداد و شمار کی صورت میں ان کو پیش کر دیں قوم کے سامنے عوام مان جائیں گے اور پھر عوام کا یہ مطالبہ نہیں ہوگا کہ جمہوریت نافذ کرو پھر عوام کا یہ مطالبہ ہوگا کہ خدا کے لئے مارشل لاء نافذ کر دو کیونکہ اسلام کے نام پر یہ ملک لیا گیا ہے اور اسلام کے نام پر اگر واقعہ کبھی نیکی کا اجراء ہوا ہے تو مارشل لاء کے دور میں ہوا ہے اس لئے خدا کے لئے مارشل لاء دوبارہ لے کے آؤ.یہ ایک معقول بات ہوگی منطقی بات ہوگی.مگر پھر جو بھی عوام مطالبہ کریں ، ان کا حق ہے.مگر آپ بات تو سچی کریں.ان کو اعداد و شمار کی صورت میں مطمئن کریں کہ آپ نے یہ یہ نیکیاں پیدا کی تھیں.جن کو تین سال کی جمہوریت کھا گئی ہے اس لئے آئندہ عوام کے سامنے کھلے ہوئے دور ستے آجائیں کہ خدمت اسلام کرنی ہے تو یہ رستہ اختیار کرنا پڑے گا اور اگر اسلام سے دور جانا ہے تو وہ رستہ اختیار کرنا پڑے گا.اس کے علاوہ خدا کا خوف اختیار کریں اور انصاف کا آپ جوادعا کر رہے ہیں وہاں احمدیوں کے بارے میں انصاف جاری کر کے تو دکھا ئیں.اپنے متعلق قوم کو جو باور کروانا چاہتے ہیں احمدیوں کے متعلق آپ وہ سلوک کیوں نہیں کرتے ؟ اس تقریر کا ایک اور بہت نمایاں پہلو یہ تھا کہ یہ اعلان کیا گیا کہ خدا بہتر جانتا ہے کہ میری

Page 475

خطبات طاہر جلدے 470 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء نیت دل میں کیا ہے.کوئی انسان نہیں جانتا ہے اس لئے مجھ پر بدظنیاں نہ کرو.بدظنی کی بظاہر تو وجو ہات تھیں لوگوں نے یہ باتیں شروع کر دیں کہ اسلام صرف اس لئے لا رہے ہیں کہ یہ فیصلہ کرائیں کہ اسلامی شریعت کی رو سے عورت سربراہ نہیں ہو سکتی.لوگوں نے کہا کہ اسلام کا اس وقت فوراً خیال اس لئے آگیا ہے کہ یہ فیصلہ کرائیں کہ اسلام میں دو پارٹیاں نہیں ہوں گی اور پارٹی سسٹم ہی نہیں ہوگا اور پھر جس کو ہم ٹکٹ دے دیں گے وہی آجائے گا، جس طرح بھی چاہیں آجائے گا.کئی قسم کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں وہ چہ میگوئیاں ان تک پہنچتی ہوں گی اور غالباً انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ میری نیت پر حملے نہ کرو، نامناسب بات ہے، میں تمہارا سر براہ ہوں خدا کا خوف کر وہ تمہیں کیا پتا میرے دل میں کیا ہے؟ اس لئے میں جو اپنے دل کی باتیں بیان کرتا ہوں تمہیں ان کو چیلنج کرنے کا کوئی حق نہیں ہاں خدا بہتر جانتا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا جھوٹ کہہ رہا ہوں.اپنے لئے تو آپ یہ حق لے رہے ہیں لیکن ایک احمدی جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو آپ کا قانون اور آپ کی ہدایات اور آپ کے کارندے اکٹھے ہوکر اس کو ذلیل ورسوا کرتے ہوئے عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں اور پھر جیل خانوں میں ڈالتے ہیں اور طرح طرح کی زیادتیاں ان پر کرتے ہیں.اس وقت یہ حق کہاں چلا جاتا ہے ایک احمدی کا کہ جو ہم دعویٰ کرتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہم اپنے دعوے میں بچے ہیں اور خدا جانتا ہے کہ ہم بچے ہیں کہ نہیں کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو جس بنیادی حق سے، جس اسلامی حق سے آپ اپنے ملک میں بسنے والے باشندوں کو محروم کر رہے ہیں جن کے حقوق کی حفاظت ہر سر براہ مملکت کا فرض ہے اور اس بارے میں وہ پوچھا جائے گا وہ اپنے لئے وہ حق آپ کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں.اس لئے اس ظلم اور تعدی سے باز آئیں وہ اور تمام بنیادی انسانی حقوق جو اسلام احمدیوں کو دلاتا ہے اور اسلام بنیادی حقوق میں کوئی تفریق نہیں کرتا.وہ احمدیوں کو دیں اور تقویٰ اختیار کریں اور ناحق ظلم اور تعدی سے باز آجائیں.پھر آپ کو یہ حق ہے کہ کہیں کہ ہاں خدا مجھے جانتا ہے بلکہ خدا سے آپ توقع رکھیں کہ اللہ آپ پر فضل فرمائے.ایک معقول بات ہوگی.پھر بخشش کی توقع بھی رکھی جاسکتی ہے.بڑے بڑے گناہ گار جو ساری زندگیاں ظلم اور تعدی میں صرف کر دیتے ہیں.بعض دفعہ ان کے آخری دور کی آخری وقت کی

Page 476

خطبات طاہر جلدے 471 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۸ء ایک تو بہ بھی ان کی ساری زندگی کے گناہوں کو مٹادیتی ہے اگر وہ مقبول ہو جائے لیکن تو بہ کا سچائی سے تعلق ہے.باتوں کی توبہ قبول نہیں ہوا کرتی دل کی نیکی کی توبہ قبول ہوا کرتی ہے اور اس نیکی کے نتیجے میں اعمال میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے وہ تو بہ کی قبولیت کی ضمانت دیتے ہیں.اس لئے میں آخر میں یہی نصیحت ان کو کرتا ہوں کہ ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ وہ کر کیا رہے ہیں تماشا ؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ جتنی مصیبتیں پڑی ہیں قوم پر یہ آپ کے مظالم کے نتیجے میں پڑی ہیں.پاکستانی قوم کا یہ حق ہے کہ احمدیت ان کی خدمت کرے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک آپ یا کوئی اور پاکستان کو احمدیت سے دور رکھتا ہے پاکستان کی اصلاح نہیں ہوسکتی.آج احمدیت کے اور پاکستانیوں کے درمیان کے پردے ہٹا دیئے جائیں اور آج یہ جو مصنوعی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں دوسرے پاکستانی احمد یوں اور غیر احمدی پاکستانیوں کے درمیان آج ان دیواروں کو منہدم کر دیا جائے آپ دیکھیں یہ قوم کنی جلد جلد ترقی کرتی ہے.احمدیت اس قوم کی نجات ہے، احمدیت اس قوم کی ترقی کی ضمانت ہے، احمدیت اس بات کی ضمانت ہے کہ احمدیت کے طفیل اور احمدیت کی کوششوں کے ذریعے وہ لوگ جو اسلام سے دور جارہے ہیں جوق در جوق جوش و خروش کے ساتھ دوبارہ اسلام کی طرف لوٹیں گے اور وہ جو ڈنڈے اور تلواروں کے خوف سے بھی نمازیں ادا نہیں کرتے وہ احمدیت کی برکت سے خشوع وخضوع کے ساتھ خدا کے حضور روتے اور گڑ گڑاتے ہوئے رکوع اور سجدوں میں گریں گے اور مساجد کو آباد کریں گے خدا تعالیٰ کی محبت کی خاطر.یہ توفیق احمدیت کو صرف ملنی ہے احمدیت سے یہ توفیق چھینے کی کوشش کریں اور ان کے سپرد کرنے کی کوشش کریں جن کو خدا نے ان نیکیوں کا امین نہیں بنایا تو آٹھ سال مارشل لاء کے کیا یا گیارہ سال آپ کی حکومت کے کیا، گیارہ لاکھ سال بھی آپ مسلط رہیں اس قوم پر آپ کبھی اس کو مسلمان نہیں بناسکیں گے.اسلام کے قیام کی ذمہ داری خدا نے جماعت احمدیہ کو سونپ دی ہے.احمد یوں نے اپنے اعمال سے ثابت کر دیا ہے کہ اسلام کے نفاذ کیلئے وہ ہر قربانی کیلئے تیار ہیں.اس لئے وہ قوم جس کو خدا نے خدمت دین کیلئے کھڑا کیا ہے اس کے سپر د خدمت دین کریں اور آپ ایک طرف ہٹ جائیں.پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کس طرح جلد جلد اسلام حقیقی طور پر لوگوں کے دلوں میں نافذ ہوتا ہے، ان کے اعمال میں نافذ ہوتا ہے، ان کے گھروں میں نافذ ہوتا ہے، ان کی گلیوں اور بازاروں میں نافذ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو عقل اور تقویٰ کی توفق عطا فرمائے.آمین.

Page 477

Page 478

خطبات طاہر جلدے 473 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء عوام الناس پر بھی خدا کا قہر ٹوٹتا ہے کیونکہ وہ اپنے فاسد دماغ سرداروں کا بدن بنتے ہیں پھر فرمایا: (خطبہ جمعہ فرموده ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں: يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يُلَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّوْنَا السَّبِيلَا رَبَّنَا اتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا (الاحزاب: ٢٧ - ١٩) ان کا ترجمہ یہ ہے کہ جس دن ان کے بڑے بڑے آدمیوں کو آگ پر الٹایا پلٹا یا جائے گا اور وہ کہیں گے اے کاش! ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے اور عام لوگ یہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی، پھر انہوں نے ہم کو اصل راستے سے گمراہ کر دیا.اے ہمارے رب ! ان کو دہرا عذاب دے اور ان کو اپنے رحم سے دور کر دے.جب سے میں نے مباہلہ کا چیلنج دیا ہے بارہا دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے اور فکر پیدا ہوئی کہ بہت سے پاکستان کے عوام ایسے ہیں جو بالکل بے خبر ہیں اور اندھا دھند آنکھیں بند کر کے اپنے بڑوں کی پیروی کر رہے ہیں اور براہ راست ان کو کچھ بھی علم نہیں کہ یہ دعویدار یعنی بانی سلسلہ احمدیہ حضرت

Page 479

خطبات طاہر جلدے 474 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچے تھے کہ جھوٹے تھے ان کا کیا حال تھا اور آنکھیں بند کر کے اپنے بڑوں کے پیچھے لگ کر اپنے لئے خدا کی ناراضگی کو دعوت دے رہے ہیں.بعض لوگوں نے مجھ سے اس بات کا اظہار کیا کہ جتنے بڑے ہیں.جو سارے اس میں ملوث تھے جن میں حکومت پاکستان کی نیشنل اسمبلی بلکہ وہ پہلی نیشنل اسمبلی جو بھٹو صاحب کے زمانے میں تھی جس نے اس سلسلہ کا آغاز کیا ہے ان سب کو مباہلے میں شامل کرنا چاہئے کیونکہ یہ وہ ملک اور قوم کے نمائندے ہیں جنہوں نے تکذیب میں بڑی جرات کی ہے.اس وقت بھی جب ایسا ذکر ہوایا مجھے خود اس کا خیال آیا تو میں عمداً اس بات سے باز رہا.چنانچہ نہ خطبات میں نہ بعد میں جو مباہلہ کا چیلنج شائع کیا گیا ہے اس میں ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے.وجہ یہ ہے کہ واقعہ قوم کے نمائندے تھے.کم سے کم ۱۹۷۴ء کی اسمبلی کے نمائندے تو بہر حال قوم کے نمائندے تھے.بعد کی اسمبلی کے نمائندے ہوں یا نہ ہوں اس سے بحث نہیں لیکن وہ اسمبلی جس نے تکذیب کی بنیاد ڈالی ہے، جس نے ملک کے قانون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کو داخل کیا ہے وہ بہر حال نمائندہ تھے اور اگر نمائندوں کو شامل کر لیا جائے اور وہ اپنی نادانی اور جہالت میں اسے قبول کر لیں تو ساری قوم خدا کے عذاب کی چکی میں پیسی جاتی ہے.یہ وہ فکر تھا جس کی وجہ سے میں نے عمداً ان کو مخاطب نہیں کیا اور محض ان علماء تک بات رکھی جو اپنے زعم میں قوم کے نمائندے ہیں لیکن ان کے پیچھے چلنے والا ٹولہ چھوٹا ہے، تھوڑا ہے اور جب بھی ملک میں انتخابات ہوتے ہیں ان کی یہ نمائندگی نگی ہو جاتی ہے.چنانچہ سینکڑوں نمائندوں میں سے بمشکل گنتی کے چند مولوی ہیں جن کو چنا جاتا ہے.تو اس پہلو سے اگر وہ مباہلہ کو قبول کر لیں تو خدا کے عذاب کا دائرہ محدود ہے گا.میرے پیش نظر یہ حکمت تھی لیکن بہر حال جب میں نے مزید اس مسئلے پر غور کیا تو بعض اور افسوسناک پہلو ایسے سامنے آئے جس کی وجہ سے عوام الناس کیلئے میری فکر مندی بڑھتی چلی گئی.مجھے یہ خیال آیا کہ جب بھی مصائب کی چکی چلتی ہے تو بیچارے غریب عوام ہی پیسے جاتے ہیں.جب ملک میں فساد ہوتے ہیں تو عوام ہی کے گلے کٹتے ہیں انہیں کے گھر بموں کے دھماکوں سے اڑتے ہیں، انہی پر چھرے چلائے جاتے ہیں، محلوں کے محلے آگ کی نظر کر دیئے جاتے ہیں جہاں غریب بستے ہیں.پھر یہ کیا وجہ ہے کہ غریب پر ہی قہر ٹوٹتا ہے، خواہ بندوں کا قہر ہو یا بظاہر خدا کا قہر ہو.خدا کے قہر کی پہچان تو خدا والوں کو ہی ہو سکتی ہے لیکن دنیا میں عرف عام میں بعض بلا ؤں کو خدا کا قہر کہا جاتا ہے

Page 480

خطبات طاہر جلدے 475 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء اس لئے میں نے بظاہر“ کا لفظ استعمال کیا کہ بندوں کا قہر ہو یا بظاہر خدا کا قہر ہوغریب عوام پر ہی ٹوٹتا ہے تو کیسے ان کو اس مصیبت سے الگ کیا جا سکتا ہے اور کیا یہ غرباء پر ظلم اور زیادتی نہیں؟ اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے جب قرآن کریم کی بعض آیات پر نظر ڈالی تو اس مضمون کو قرآن کریم نے خوب کھول کر بار بار بیان فرمایا ہے اور کوئی شبہ کی بات باقی نہیں رہنے دی.قیامت کے دن ان غربا ء کا یہ عذر قبول نہیں کیا گیا، ان عوام الناس کا یہ عذر قبول نہیں کیا گیا کہ ہم تو لاعلم لوگ تھے، نادان تھے، پیچھے چلنے والے تھے، ہمارے بڑوں نے یہ حرکتیں کیں ، ہمارے بزرگوں نے ہمیں اس طرف ڈالا ہمارا کیا قصور ہے؟ اور بعض آیات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اپنا قصور تو تسلیم کیا لیکن یہ کہا کہ ان کو دو ہر اعذاب دو ہمیں اس کا بھی لطف آئے کیونکہ یہ بد بخت جو ہمیں گمراہ کرنے والے ہیں یہ اس بات کے سزاوار ہیں کہ ان کو ہم سے دو گنا عذاب دیا جائے.لِكُلِّ ضِعْفُ (الاعراف: ۳۹) قرآن کریم کا یہ جواب ہے کہ جو عذاب میں مبتلا ہوتا ہے اس کو پتا چلتا ہے کہ عذاب کیا ہے ہر شخص جو عذاب میں ڈالا جاتا ہے وہ دگنا ہی سمجھتا ہے اپنے عذاب کو.یہ نہیں فرمایا کہ ان کو دگنا نہیں دیا جائے گا.فرمایا ہر س جو عذاب میں مبتلا ہے عذاب میں مبتلا ہونا ہی ایک ایسی مصیبت کی بات ہے کہ وقت نہیں کتنا پھر ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھے دو گنا عذاب دیا جارہا ہے تو کیا وجہ ہے؟ میں نے پھر سوچا کہ آخر یہ غرباء کیوں بیچارے پیسے جاتے ہیں تو مجھے اس کی حکمت یہ سمجھ آئی کہ قوم ایک بدن کی طرح ہوتی ہے اور اگر بدن میں دماغ پھر جائے اور ٹیڑھی سوچیں سوچنے لگے یادل کج رو ہو جائیں اور شرارت پر آمادہ ہوں جب تک ہاتھ اور پاؤں ان کا ساتھ نہ دیں، دماغ کی سوچ شرارت پیدا نہیں کر سکتی اور دل کی کبھی کوئی شرارت پیدا نہیں کر سکتی بالکل بے بس ہو جاتے ہیں.پس جہاں بھی کوئی شخص فالج زدہ ہو وہاں اس کی سوچ خواہ نیک ہو یا بد ہو اس کا اشارہ بھی کوئی اس کے اعضاء میں ظاہر نہیں ہوتا.تو در حقیقت شرارت کی سوچ کافی نہیں ہے.شرارت کی سوچ کیلئے ایک بدن چاہئے اور بدھیبی ہے کہ غرباء یہ بدن مہیا کرتے ہیں.عوام الناس ہاتھ پاؤں بن جاتے ہیں ان شریروں کے.چنانچہ اب جب اس مسئلے کو حل کرتے ہوئے اس پہلو سے جب فسادات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ غریب کا گلا غریب کاٹ رہا ہوتا ہے.امیروں کے محلے سے امراء نہیں آتے ان پر گولیاں چلانے کیلئے.وہ غریب ہیں انہیں گلیوں کے جو اپنے بھائیوں کا گلا کاٹ رہے ہوتے

Page 481

خطبات طاہر جلدے 476 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء ہیں.غریبوں کے محلے سے ہی وہ تیلیاں لے کر چلنے والے نکلتے ہیں جو گھروں کو پھونک دیتے ہیں.غریبوں کے محلوں سے ہی وہ چھرا گھونپنے والے نکلتے ہیں اور اندھا دھند پھر بغیر کسی تمیز کے جوان کے راستے میں آئے اسے مثانے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے راہنما کا قصور ضرور ہے لیکن جب تک عوام گندے نہ ہو جائیں، جب تک عوام کے دل میلے نہ ہو جائیں اور ان کی سوچیں ٹیڑھی نہ ہو جائیں اور بداعمالی کیلئے تیار اور مستعد نہ ہوں اس وقت تک کوئی قوم کا سردار انہیں بدراہ پر ڈال نہیں سکتا.چنانچہ قرآن نے اس مضمون کو خوب کھول کر بیان فرمایا تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کہ تم نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو.وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ:۳) اثم اور عدوان پر تعاون نہ کرو یہ قوموں کی زندگی کا راز ہے.وہ قومیں جن کے عوام اس اصول کو اپنا لیتے ہیں کہ جب ہمیں نیکی کی آواز دی جائے گی تو ہم دوڑتے ہوئے آگے آئیں گے، جب بدی کی طرف بلایا جائے گا تو ہم اپنے قدم روک لیں گے.ان قوموں کو دنیا میں کوئی تباہ نہیں کر سکتا اور ان کے معاشرے میں یہ بھیا نک واقعات رونما نہیں ہوتے جن کے نقشے ہم آج پاکستان میں دیکھ رہے ہیں.اس لئے قرآن کریم کی بنیادی تعلیم کو بھلانے کے نتیجہ میں عوام سزاوار بنتے ہیں تو خدا سزا دیتا ہے اور محض یہ ایک رومانی بات ہے، جذباتی بات ہے کہ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر غریب مارا جاتا ہے.مارا تو جاتا ہے پر غریب کے ہاتھوں مارا جا تا ہے اور بالکل برعکس صورت پیدا ہو جاتی ہے اس مضمون سے جو ابھی اس آیت کا مضمون آپ کے سامنے پیش کیا ہے.تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى قوم سے اٹھ جاتا ہے.وَلَا تَعَاوَنُوا کالا نکل جاتا ہے اور تعاونوا علی الاثم والعدوان باقی رہ جاتا ہے.چنانچہ یہ منظر آپ کے سامنے ہے گیارہ سال ہو گئے ہیں قوم کو نمازوں کی طرف بلاتے ہوئے ، قوم کو رشوت سے روکتے ہوئے، قوم کو ہر قسم کی بدیوں سے اسلام کے نام پر منع کرتے ہوئے خواہ دل سے کہا گیا یا زبان سے کہا گیا، کہا ضرور گیا اور بار بار کہا گیا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم ہے کہنے والوں کو کہ مسلسل قوم بدی اثم اور عدوان میں آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.مولوی کی طاقت کا راز اس بات میں ہے کہ وہ بدی کی طرف قوم کو بلائے جس وقت وہ بدی کی طرف بلانا چھوڑ دیتا ہے مولوی کی طاقت ختم ہو جاتی ہے.اگر مولوی گھروں کو جلانے

Page 482

خطبات طاہر جلدے 477 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء کی تعلیم دیتا ہے تو جوق در جوق لوگ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں.جب مولوی یہ تعلیم دیتا ہے کہ فلاں شیعہ کا گلا کاٹو ، فلاں سنی کا گلا کاٹو ، فلاں وہابی کا گلا کاٹو ، فلاں احمدی کا گھر جلاؤ تو سارے سننے والے لبیک لبیک کہتے ہوئے مولوی کی آواز پر دوڑتے ہیں اور جب مولوی کہتا ہے یعنی اگر مولوی کہے کہ نماز پڑھو، خدا کا تقویٰ اختیار کرو، رشوت لینی چھوڑ دو،رشوت دینی چھوڑ دو، عیاشی کے اڈوں پر نہ جاؤ ، نمازوں کیلئے مسجدوں میں حاضر ہوا کرو تو کوئی اس کی آواز نہیں سنتا.سارے پاکستان کاملاں ایک فیصل آباد میں اکٹھا ہو جائے تو وہاں کے تاجروں کو دیانتداری نہیں سکھا سکتا.ایک محکمے پر ساری قوم کے ملاں کی توجہ مرکوز ہو جائے وہاں سے رشوت نہیں نکال سکتے.تو قرآن کریم کا یہ کمال ہے، ایسی عظیم کتاب ہے کہ مرض کی ایسی کھلی کھلی تشخیص کرتی ہے کہ یوں روز روشن کی طرح وہ مرض کھل کر انسان کے سامنے آجاتی ہے اور اس کا علاج بھی پیش کرتی ہے.پس یہ وہ آیت ہے جس کے مضمون کو الٹانے کے نتیجے میں یہ سارے فسادر ونما ہوئے ہیں جو اپنی آنکھوں کے سامنے آپ دیکھ رہے ہیں.پھر اس قوم کو جس کو قرآن کریم متہم کر رہا ہو اس کو کون بچا سکتا ہے کیونکہ اصل گواہی کسی قوم کے خلاف قرآن کی گواہی ہوگی اور جب قرآن گواہی کیلئے کھڑا ہو جائے کہ فلاں قوم خدا کے کلام کی رو سے جو محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا ملزم بن چکی ہے تو پھر کوئی اس کو بیچا نہیں سکتا.اس لئے دعا یہ کریں کہ گندی عادتیں درست ہوں اور دعا یہ کریں کہ احمدیت اور اس قوم کی راہ میں جو ظلم کی دیوار میں کھڑی کی گئی ہیں وہ دیوار میں منہدم ہوں.حقیقت یہ ہے اس مضمون پر سوچتے ہوئے ایک اور مضمون کی طرف میری توجہ مبذول ہوئی کہ کیوں ایسا ہوتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی فاسد سر اور فاسد دل کو الگ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو دراصل وہ بدن پر رحم فرماتا ہے.جب بھی اپنے ہاتھ میں سرداری کے اختیارات لے لیتا ہے اور براہ راست کسی قوم کیلئے مصلح مقرر فرماتا ہے تو دراصل یہ اعلان ہوتا ہے کہ تمہارا سر سوچنے کے قابل نہیں رہا.تمہارا دل صالح خون پیدا کرنے کیلئے اور تمہاری رگوں میں دوڑانے کے قابل نہیں رہا.اس لئے میں نے تمہارے سر اور دل بدل دیئے ہیں اب جو سر میں مقرر کرتا ہوں، جو دل میں تمہیں بخشتا ہوں اس کے پیچھے چلو.بدن جب اس کا انکار کرتا ہے تو پرانے سر اور پرانے دل کے ساتھ چمٹا رہ جاتا ہے اور پرانی لیڈر شپ پھر ایسے بدن کی ہلاکت کا موجب بنتی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے عوام

Page 483

خطبات طاہر جلدے 478 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء الناس پر رحم کیا جاتا ہے جب نئی سرداری عطا کی جاتی ہے.جب بھی نے مصلح خدا قوموں کی طرف بھیجا کرتا ہے تو اس کی روح یہ ہے اس کا فلسفہ یہ ہے کہ عوام الناس پر رحم کیا گیا ہے ان کی حالت زار پر رحم کیا گیا ہے ان کو نئے سر عطا کیے گئے ہیں.لیکن اگر بدن نئے سر کا انکار کردے اور بیمار اور فاسد سر کے ساتھ چمٹا رہنا قبول کر لے یا بضد ہو جائے کہ اس سے رابطہ نہیں تو ڑا جائے گا تو پھر خدا کا تو قصور نہیں.خدا تعالیٰ نے تو قوم کی اصلاح کیلئے ایک سامان پیدا فرما دیا.پس ضروری ہے کہ اس فاسد دیوار کو توڑا جائے جو جماعت احمد یہ اور مسلمانوں کے درمیان کھڑی کر دی گئی ہے.جب تک جماعت احمدیہ کی روحانی لیڈرشپ یہ قوم قبول نہیں کرتی اس کے دن نہیں پھریں گے اور اتنا جھوٹ جماعت احمدیہ کے خلاف بولا گیا ہے کہ ان کو پہچان ہی نہیں رہی کہ سگی ماں کو سوتیلی ماں بنائے ہوئے ہیں اور سوتیلی ماں کو سگی ماں بنائے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کے فتنے کی علامتیں ظاہر ہیں ، روشن ہیں اور اسلام سے ان کو کوئی ہمدردی نہیں.جماعت احمدیہ کا صالح نظام ان کی آنکھوں کے سامنے ہے اور ممتاز ہے.کسی اور نظام کو اس نظام سے مشابہت نہیں اور پھر بھی نہ دیکھنے والے نہیں دیکھتے.اب اسلام کے نام پر جو دنیا میں فساد مچائے جارہے ہیں اگر اسلام سے سچی ہمدردی ہو تو جہاں اسلام کی روح پر حملہ ہو رہا ہے وہاں یہ لوگ مستعد ہو کر اس کے مقابلہ کیلئے آگے نکلیں.جہاں اسلامی تعلیم پر حملہ ہورہا ہو اور اسلامی اعمال پر حملہ ہورہا ہو وہاں ان کے دفاع کیلئے لوگ آگے نکلیں لیکن ایسا کوئی نظام ان کے ہاں قائم ہی نہیں ہے.مثلاً جس طرح جماعت احمدیہ میں آپ دیکھتے ہیں کہ اگر کسی دور دراز ملک میں کوئی بیہودہ حرکت کرتا ہے احمدی تو فورا وہاں سے آواز پہنچتی ہے مرکز تک کہ فلاں آدمی کو ہم نے شراب میں دھت دیکھا ہے اور اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور مرکز فوراً حرکت میں آجاتا ہے اور تحقیقات شروع ہوتی ہے اور اس کی اصلاح کی کاروائیاں شروع کی جاتی ہیں.کوئی عورت بے پردگی میں بے حیائی اختیار کر جائے یا برقع پہنی تھی تو برقع چھوڑ دیا، چادر پہنتی تھی تو چادر اتار پھینکی ، اس کی اولاد بے راہ ہوگئی.یہ تمام کی تمام باتیں فورا ایک ایسے مرکز میں پہنچتی ہیں جو حساس ہے، جسے ان چیزوں سے تکلیف پہنچتی ہے.صالح بدن اور صالح دماغ اور صالح دل کا یہ نظام ہوا کرتا ہے.ایک دور کی انگلی کو بھی کانٹا چھے تو پہلے تکلیف دل اور دماغ میں محسوس ہوتی ہے پھر

Page 484

خطبات طاہر جلدے 479 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء اصلاحی ذرائع کیلئے بدن کی قوتوں کو حرکت میں لایا جاتا ہے.تو نہ کسی کو وہاں تکلیف پہنچتی ہے نہ قوتوں کو حرکت میں لایا جاتا ہے، کلیۂ بے حسی ہے اسلام کی روح سے اور کبھی بھی اس کی تکلیف محسوس نہیں کی جاتی.جس اسمبلی نے مثلاً جماعت احمدیہ کو کافر اور غیر مسلم قرار دیا تھا وہی علماء جو اس میں بیٹھے ہوئے تھے اور بڑے فخر کے ساتھ ساری اسمبلی کے ممبروں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہوا تھا وہ جانتے تھے اور آج بھی جانتے ہیں جو لوگ زندہ ہیں ان میں سے وہ جانتے ہیں کہ ان میں دہر یہ موجود تھے، اسلام کا مذاق اڑانے والے موجود تھے.ان کے متعلق خود انہوں نے یہ فتوے دیے تھے کہ پکے بے دین اور کافر ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی گستاخی کرنے والے موجود ہیں.ان میں ایسے تھے جن کے متعلق علماء کہتے تھے کہ قرآن کریم کی انہوں نے ہتک کی ہے اور گستاخی کی ہے اور ایسے تھے جنہوں نے واقعہ کی تھی.ان کو چھاتی سے لگا کر ، ان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جماعت احمدیہ کو اسلام سے نکال کر باہر پھینکا گیا.کوئی حس اگر اسلام کے لئے ہوتی تو اسلام کے دشمنوں کے ساتھ کس طرح ملتے یہ.جانتے ہوئے کہ ان میں بھاری اکثریت وہ تھی جن کے متعلق آج کی صالحیت کی دعویدار حکومت کا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں قمار باز تھے ، جوئے کی کمائی پر پلنے والے تھے ، رشوت ستانی کرنے والے تھے، غریبوں کا خون چوسنے والے تھے، نمازوں سے بے بہرہ تھے، اسلام سے غافل تھے ہر قسم کی بدی کے متعلق ان کے متعلق وائٹ پیپر شائع کر دیا گیا اسی حکومت کی طرف سے جو آج کل قائم ہے.یہ وہ اسمبلی ہے جس کے فیصلے کو فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ اس اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو باہر نکالا ہے.پرانے شکووں کی خاطر میں اس بات کو نہیں دہرار ہا میں سمجھانا چاہتا ہوں قوم کو غور کیوں نہیں کرتے ؟ کیوں آنکھیں نہیں کھولتے ؟ کوئی تم میں رجل رشید باقی نہیں رہا جو ان سادہ باتوں کو سمجھ سکے.ملاں کو کوئی حس نہیں ہے اسلام کی.اسلام کی حس ہوتی تو نیندیں اڑ جاتیں اس ملک میں جہاں قتل وغارت ہورہا ہے، جہاں چوری اور ڈاکہ زنی روزمرہ کی عادت بن چکی ہے، جہاں عزتوں کی کوئی حفاظت نہیں رہی، جہاں یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے والے ہاتھ کاٹے جاچکے ہیں، جہاں بیوگان کا کوئی سہارا باقی نہیں رہا.صرف باتیں ہیں اور قصے ہیں اور جس کا بس چلتا ہے جس جائیداد پر ہاتھ ڈال سکتا ہے اس پر ڈالتا ہے اور حرام کو شیر مادر کی طرح جائز سمجھ کے استعمال

Page 485

خطبات طاہر جلدے 480 خطبہ جمعہ ۸/ جولائی ۱۹۸۸ء کرتا ہے.عدالتیں جھوٹ سے بھر گئی ہیں فیصلہ دینے والے مٹھیوں پر نظر رکھتے ہیں کہ مٹھیوں میں کیا بند ہے.یہ واقعات ہیں یا نہیں ملاں کو خدا نے محافظ بنایا تھا اگر وہ واقعہ دین کا نمائندہ ہے.کس ملاں کے دل کو اس بات سے آگ لگی ہے، کس ملاں کی رات کی نیندیں حرام ہوئی ہیں؟ قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہاں احمدی کلمہ نہ پڑھ جائے کہیں.اس بات کیلئے جیتے ، اس بات کے لئے مرتے ہیں کہ کسی احمدی کے منہ سے لا الہ الا الله محمد رسول اللہ نہ نکل جائے.اسلام کے اعمال کی حفاظت تو در کنار اسلام کے عقائد کی حفاظت کی بھی ان کو کچھ پرواہ نہیں.ایک دور تھا ہندوستان پر جبکہ یہاں کے سفید فام عیسائی وہاں چو ہڑوں، چماروں میں سے سیاہ رنگ کے عیسائی پیدا کر رہے تھے اور پھر وہاں سے جو رو چلی تو اونچی ہوتی ہوتی قوم کے بڑے بڑے علماء اور سید تک بھی جو آنحضرت یہ کی طرف جسمانی طور پر منسوب ہوتے تھے وہ بھی عیسائی ہونے لگ گئے لیکن بہر حال یہ درست ہے کہ بھاری اکثریت چوہڑوں، چماروں کی رہی اور وہ سفید آقا بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی شان میں شدید گستاخیاں کرتے تھے اور بد زبانی کرتے تھے اور یہ کالے عیسائی بھی اپنے آقاؤں سے بڑھ چڑھ کر بکواس کیا کرتے تھے اور ان علماء کو کوئی ہوش نہیں تھی.یہ علماء لکھتے ہیں کہ اگر میدان میں کوئی نکلا تو قادیان سے وہ دردمند دل نکلا ، وہ عاشق دل نکلا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں کلیہ فدا ہونے کیلئے تیار اور مستعد رہا کرتا تھا.چاروں طرف سے عیسائی دنیا سے اس نے ٹکر لی عظیم الشان معر کے کئے اور ان معرکوں میں معرکہ حق و باطل میں مباہلے بھی ہوئے اور ان مباہلوں کے وقت جو حضرت محمد مصطفی امی اہلیہ کی عزت و تکریم کی خاطر کئے گئے تھے مسلمان علماء عیسائیوں کے ساتھ ہو گئے اور محمد رسول اللہ ہے کے اس عاشق کو چھوڑ دیا.وہ آنتقم کا مباہلہ آج بھی معروف و معلوم ہے.اس مباہلہ کی وجہ یہ تھی کہ وہ آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا اور اس بنا پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو چیلنج دیا تھا.علماء عیسائیوں کے ہم نوا ہو کے صرف حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا کرنے کی خاطر اس بات کو بھول گئے کہ مباہلہ تو رسول اکرم ﷺ کی سچائی اور پاکیزگی پر تھا اور اس بات کے اظہار کے طور پر تھا کہ خدا کو اس پاک وجود کی بڑی غیرت ہے.پس آج بھی وہی حالت ہے.ایک طرف پاکستان میں احمدی پر کلمہ پڑھنے کے الزام میں صلى الله

Page 486

خطبات طاہر جلدے 481 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء مقدمے قائم کئے جاتے ہیں گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے، مارا جاتا ہے، اس کے کپڑے پھاڑ دیے جاتے ہیں، جو تیاں تک ماری جاتی ہیں عوام الناس کے سامنے اور ہر قسم کے عذاب دیتے ہوئے جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے اور مولوی نعرے لگاتے ہوئے گھر آتے ہیں کہ ہم نے کلمہ پڑھنے والے کا منہ بند کر دیا.دوسری طرف وہی چوہڑے عیسائی آج بھی پاکستان میں رسول اللہ ﷺ کی ذات پر حملے کر رہے ہیں.ان کی پہچان یہ ہے یہاں تو لفظ مسیح تو آپ کو نظر نہیں آئے گا.مگر وہاں پر کالے عیسائی کے سامنے لفظ مسیح لکھا ہوا نظر آجاتا ہے.کوئی برکت مسیح ہے کوئی فلاں مسیح، کوئی ایرا مسیح، کوئی غیر اسیح اور ہر ایرا غیر حکومت پاکستان میں جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی اور آج اسلام کی علمبردار بنی ہوئی ہے.آنحضرت ﷺ کے آباؤ اجداد پر حملے کئے جاتے ہیں اور تضحیک کی جاتی ہے آپ کو جھوٹا اور کا ذب ثابت کیا جاتا ہے.کتابیں لکھی جاتی ہیں اور کسی مولوی کو کوئی غیرت نہیں آتی.ابھی ایک انصار اللہ کے رسالے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے اسی ذلیل کتاب کا جواب شائع ہوا ہے بڑا ہی عمدہ، بڑا ہی مؤثر ہے اور کسی مولوی کو ہوش نہیں.ان کو اس بات پر دل صلى الله آزاری ہوتی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو کہیں سچا نہ کہہ دے کوئی.جھوٹا کہنے والے پنپیں، پھیلیں، پھولیں کوئی پرواہ نہیں اس کی.ان کو اسلام کا درد کہاں سے آ گیا ؟ اس لئے اس فاسد دیوار کو درمیان سے اڑانا پڑے گا.خدا کی تقدیر ہی اڑ سکتی ہے ہم اور تم اس کو نہیں اڑا سکتے.اس لئے میں نے مجبور ہو کر چیلنج دیا تھا.عوام کیلئے تو میرا دل آج بھی درد سے بھرا ہوا ہے مجھے ڈر ہے کہ یہ ظالم لوگ ان کو بھی نہ ساتھ لے ڈوبیں.لیکن دلی تمنا ہے اور جہاں تک میری سوچ کی تدبیریں تھیں وہ میں نے ساری اختیار کیں کہ کسی طرح عوام کو اس سے باہر نکال لوں اور گنتی کے چند رہ جائیں لیکن جب میں نے قرآن کریم کی ان آیات پر نظر کی جو میں نے ان میں سے ایک آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہے تو میرا دل ہول سے بھر گیا اور پھر یہ ساری باتیں میری آنکھوں کے سامنے آگئیں کہ واقعہ عوام الناس شرارت کو خوابوں سے تعبیر کی دنیا میں اتارا کرتے ہیں، سازشوں سے عمل کی دنیا میں اتارا کرتے ہیں اس لئے وہ سزاوار بنتے ہیں.جب ایک انسان کسی پتھر کی دیوار کو ننگے پاؤں سے ٹھوکر مارے گا تو دماغ کو تکلیف تو ہوگی لیکن اس وجہ سے کہ پہلے اس پاؤں کو تکلیف ہوتی ہے جو دیوار سے ٹکراتا ہے.اب نارمل آدمی کے پاؤں کو بھی تکلیف ہوگی اور دماغ کو بھی ہوگی لیکن اگر

Page 487

خطبات طاہر جلدے 482 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۸ء یہ پاؤں کسی پاگل سے جڑا ہو تو دماغ کے خواب و خیال میں بھی تکلیف نہیں آئے گی.وہ پاؤں بیچارا مارا جائے گا روندا جائے گا اور تکلیف میں مبتلا ہوگا.یہ قوم کے ساتھ ان لوگوں نے حال کر دیا ہے.ان کی تکلیف کا دکھ بھی ہم اٹھاتے ہیں، ان کو کوئی حس نہیں ہے.جب وہ مارے جاتے ہیں جب عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کی تکلیف بھی جماعت احمدیہ کو پہنچتی ہے.وہ دماغ تکلیف اٹھا رہا ہے جس کے ساتھ بدن نے تعلق تو ڑلیا ہے اور وہ دماغ اپنی عیاشیوں میں مبتلا ہے جس کے غلط احکام کی وجہ سے بدن کو ٹھو کر میں لگ رہی ہیں.اس لئے اس مرض کا تو علاج نہ آپ کے قبضہ میں ہے نہ میرے قبضہ میں ہے.دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں.اس لئے جہاں مباہلہ کی دعا کریں وہاں غریب عوام کی ہدایت کی دعا بھی کریں اور یہ دعا کریں کہ ان ظالموں کے خلاف بغاوت کر دیں ان جھوٹے سروں اور ان جھوٹے دلوں کو رد کر دیں، مردود کر کے ایک طرف پھینک دیں کہ تم ہمارے نہیں ہو اور خدا سے رحمت کی دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی صالح دل اور صالح دماغ ان کی خاطر پیدا کیے ہیں اس دور میں ان سے ان کو تعلق جوڑنے کی توفیق عطا ہو.آمین.

Page 488

خطبات طاہر جلدے 483 خطبه جمعه ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے مہمانوں اور میز بانوں کو نصائح (خطبہ جمعہ فرموده ۱۵ / جولائی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: احباب جماعت شاید یہ توقع رکھتے ہوں کہ میں اس خطبے میں بھی مباہلے کے اثرات سے متعلق کچھ گفتگو کروں گا.اگر چہ اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک انتہائی روشن اور دشمن کو ذلیل ورسوا کر دینے والا نشان ظاہر ہوا ہے.جس سے تمام دنیا میں جماعت مومنین کے سینے خدا کی رضا سے لبالب بھر گئے ہیں لیکن یہ مضمون ابھی تشنہ رہے گا اگر آج میں اس موضوع پر گفتگو کروں کیونکہ مولویوں کی بوکھلاہٹ کے بہت سے قصے تو پہنچ چکے ہیں کچھ ابھی آنے باقی ہیں.کچھ اس مباہلے سے گریز کے لئے جو انہوں نے ہاتھ پاؤں مارنے ہیں ان کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں اور کچھ ابھی باقی ہیں اور خود اس معمے سے متعلق بھی ابھی کچھ اور پردے اٹھنے والے ہیں.اس لئے انشاء اللہ تعالیٰ اس موضوع پر میں جلسے کے موقع پر کسی وقت خطاب کروں گا.اس وقت حسب سابق روایات سلسلہ کے مطابق جلسہ سالانہ سے متعلق میں کچھ امور نصیحیہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جلسہ بہت قریب آ گیا ہے اب یہ جمعہ وہ جلسے سے پہلے کا آخری جمعہ ہے اور مہمانوں اور میز بانوں دونوں کو کچھ ان کے فرائض، کچھ حقوق ، کچھ ذمہ داریاں ، کچھ اعلیٰ اخلاق کی باتیں یاد کرائی جاتی ہیں.سب سے پہلے تو مہمانوں سے متعلق میں آنے والے مہمانوں کو دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ جہاں تک ان کے رشتے داروں کا تعلق ہے، ایسے قریبی مراسم کا تعلق ہے جو رشتہ داری کا ہی رنگ اختیار کر جاتے ہیں وہ جانیں اور ان کے میزبان جانیں اپنے سابقہ تعلقات کے مطابق جس طرح

Page 489

خطبات طاہر جلدے 484 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء چاہیں ان کے پاس ٹھہریں جتنی دیر چاہیں ان کے پاس ٹھہریں لیکن یہ خیال پھر بھی کرلیں کہ وہاں ہمارے ملک یعنی پاکستان میں مہمانوں کا رکھنا نسبتاً زیادہ آسان ہے اور ان ممالک میں مہمانوں کا رکھنا مشکلات پیدا کرتا ہے.گھر بھی چھوٹے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بھی کام کرتا ہے، بیوی بھی کام کرتی ہے، بچوں کو بھی اپنے معیار کو قائم رکھنے کے لئے ماں باپ کے ہاتھ بٹانے پڑتے ہیں.اس لئے ان کے حقوق کا بہر حال ان کو بھی خیال رکھنا چاہئے.خواہ رشتہ دار یا عزیز ہی کیوں نہ ہوں.جہاں تک دوسرے مہمانوں کا تعلق ہے.جن کا رشتہ احمدیت کا رشتہ تو ہے لیکن دوسرا رشتہ نہیں ان کو یا درکھنا چاہئے کہ مہمان نوازی کے فرائض تین دن تک تو مستند معلوم ہیں اور تین دن کے بعد اگر کوئی میزبان زیادہ رکھنا چاہے تو شوق سے ایسی درخواست کر سکتا ہے لیکن مہمان کا جہاں تک تعلق ہے اس کو خوشی کے ساتھ ، شرح صدر کے ساتھ اس بات کو قبول کرنا چاہئے کہ اگر وہ جلسے کے بعد زیادہ دن ٹھہرنا چاہے تو یا تو جماعتی نظام کی طرف رجوع کرے یا پھر اپنا الگ انتظام کرے.جلسے کی مہمانی تو جماعت کا فرض ہے بہر حال.چند دن ، جلسے کے جو تین دن ہیں اس کو تو ہم مہمانی کے دنوں میں شمار ہی نہیں کرتے اس لئے دو چار دن پہلے اور دو چار دن بعد تک یعنی تین دن سے زیادہ بلکہ تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر جماعت احمد یہ ذمہ دار ہے کہ آنے والے مہمانوں کی سہولت کا ہر طرح کا خیال رکھے لیکن جو ذاتی طور پر کسی کے گھر ٹھہریں گے میں اس وقت ان سے مخاطب ہوں کہ ان کیلئے زیادہ تکلیف کا موجب بننا مناسب نہیں ہے.دوسرے یہاں چونکہ ملازموں کا رواج نہیں ہے اور اقتصادی لحاظ سے بھی لوگوں میں اتنی توفیق نہیں کہ گھر کے روز مرہ کے کاموں کے لئے وقتی مدد بھی کرائے پر حاصل کر سکیں.اس لئے مہمانوں کو جہاں تک ممکن ہو خوشی کے ساتھ میز بانوں کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ گند نہ ہو اور بے وجہ راتوں کی مجالس لگا کر زیادہ شور نہ ڈالیں کیونکہ یہاں رواج یہ ہے کہ اکثر گھر تو دونوں طرف سے ساتھ ساتھ جڑے ہوئے ہیں.دوسرے جو آپ کو بظاہر دیوار میں نظر آرہی ہیں یہ ایک عارضی سی چیزیں ہیں بلکہ بعض تو ایسی نازک دیواریں ہوتی ہیں کہ اگر کوئی زور سے مکا مارے تو وہ دیوار کے پار نکل جاتا ہے.تو اس لئے خیال رکھیں کہ آپ کی باتوں کی آواز ہمسایوں تک ضرور پہنچتی ہیں اور بعض ہمسائے حو صلے والے ہوتے ہیں اور بعض ذرا تھر دلے بھی ہوتے ہیں اور ویسے بھی بہر حال حق تو ہر ایک کا ہے کہ اس کے

Page 490

خطبات طاہر جلدے 485 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء روز مرہ کے امن کی حفاظت کی جائے اور ہمسائیگی کے یہ حقوق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سمجھائے ہیں ان کی رو سے قطع نظر اس کے کہ کوئی اپنا حق منواتا ہے یا نہیں ہم نے اپنا فرض بہر حال ادا کرنا ہے اس لئے اچھے مہمان محض مقامی میز بانوں ہی کے لئے نہ بنیں بلکہ میز بانوں کے ہمسائیوں کے لئے بھی اچھے میزبان بنیں اور اس پہلو سے مسجد میں آنے والوں پر بھی ایک خاص ذمہ داری ہے.ہمارے اردگرد ماحول میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے تعلقات ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن سے ہر قسم کا حسن سلوک کر دیکھا لیکن ان کی بدخلقی نہ گئی اور وہ بہانے ڈھونڈتے ہیں اعتراض کے اور چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی خصوصاً عبادت کی وجہ سے لوگ اکٹھے ہوئے ہوں تو ان کو بہت تکلیف پہنچتی ہے.ایک آدھ ایسے دوست ہیں لیکن ہیں ضرور.اگر بے احتیاطی سے نمازوں کے بعد باہر مجالس لگائی جائیں اور اونچی آواز میں باتیں کی جائیں تو یہاں چونکہ مغرب اور عشاء کی نماز کے اوقات ایسے وقت میں ہوتے ہیں کہ جو ان لوگوں کے سونے کا اور آرام کا وقت شروع ہو جاتا ہے.اس لئے ان کیلئے ایک جائز بہانہ ضرور ہے کہ اس پر وہ شور ڈالیں اور شکایت کریں.تو احباب جماعت جلسے سے پہلے بھی اور جلسے کے بعد بھی یہاں کثرت سے تشریف لائیں گے اور عموماً دلچسپیوں کا محور یہی مسجد فضل بنتی ہے اس لئے اس بات کا خیال رکھیں کہ جب منتشر ہوا کریں نماز کے بعد تو باہر کھڑے ہو کر مجالس نہ لگایا کریں.اگر ملنا ہے تو یہ بھی ایک اسلامی معاشرے کا حصہ ہے کہ اچھی دینی تقریبات کے بعد دوست محبتیں بڑھاتے ہیں، ایک دوسرے سے تعلقات باندھتے ، پیار کی باتیں کرتے اور مومنانہ اخوت کو تقویت دیتے ہیں.ایسی صورت تو بالکل مذہب کی منشاء کے مطابق ہے لیکن اس رنگ میں یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور اذیت کا موجب بنے چنانچہ امید ہے اس لحاظ سے بھی شائستگی اور سلیقے کو اختیار کریں گے اور مسجد فضل کے ماحول میں کوئی ایسارو یہ اختیار نہیں کریں گے جو جائز شکایت کا موجب بنے.شور کے علاوہ بھی بعض خاموش ایسے بہانے بن جاتے ہیں ان لوگوں کیلئے مثلاً کار کا غلط جگہ پارک کرنا یا سڑکوں پر ایسی جگہ کھڑے ہو جانا جہاں سے کاروں کے لئے گزرنے میں دقت پیدا ہوتی ہو اس کے متعلق بھی دراصل تو میں جیسا کہ بیان کیا یاددہانیاں ہیں کوئی نئی باتیں نہیں.یہ تمام

Page 491

خطبات طاہر جلدے 486 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء امور وہ ہیں جن کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال سے زائد عرصہ ہوا کہ روشنی ڈال دی ہے ، ہدایت فرما دی ہے.کوئی پہلو ہماری تہذیب اور تمدن کا ایسا نہیں جس پر آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ ، بڑی عمدگی کے ساتھ کھول کھول کر روشنی نہ ڈالی ہو.چنانچہ سڑکوں کا حق بھی مقرر فرمایا ہے ان سڑکوں کے حقوق میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ راستہ چلنے والوں کے لئے مشکل کا موجب نہ بنیں اور جو بھی ذمہ داریاں ہیں سڑک کی اپنی وہ ادا کریں،اس کے حقوق اس کو دیں.تو اس پہلو سے بھی ایک تو سڑکوں کو یہاں احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے دوسرا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ آپ کے اپنے لئے خطرہ کا موجب ہوگا.یہاں عام طور پر با اصول ٹریفک ہے اور جس موٹر ڈرائیور کا حق ہے کہ میں تیزی سے کسی جگہ سے گزروں وہ اس حق کو استعمال کرتا ہے.ہمارے جو تیسری دنیا کے ممالک ہیں ان کے والا حال نہیں ہے.اکثر تو آپ جانتے ہی ہیں لیکن بعض نئے بھی ہیں اس لئے میں مخاطب ہو رہا ہوں ان سب سے کہ یہاں تیسری دنیا کا حال نہیں ہے کہ کہیں سے اچانک گڈا نکل آیا، کہیں سے کوئی بچہ دوڑ پڑا اور کوئی ریڑھی والا سامنے آگیا اس لئے ڈرائیور کو ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہے.محتاط ہونا پڑتا ہے کہ کہیں اچانک کوئی چیز نمودار نہ ہو جائے.یہاں تو سڑکوں پر گدھے بھی نہیں آتے اچانک ، اس لئے احتیاط کرنی پڑے گی.کوئی ڈرائیور احتیاط نہیں کرے گا اس کی احتیاط کے تقاضے مختلف ہیں وہ قانون نہ توڑے تو یہ اس کی احتیاط ہے لیکن اچا نک اگر کوئی بچہ نکلے اور خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے یا آپ سڑک پر کھڑے ہوں اور تیزی سے مڑے تو اس کی ذمہ داری بہر حال کھڑے ہونے والے پر عائد ہوگی.سڑک کے سلسلے میں ایک مزید بات آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ گزشتہ سال ایک حادثہ بھی ہوا تھا موٹر کا بھی اور باہر سے آنے والا جو رائٹ ہینڈ ڈرائیونگ کا عادی تھا وہ یہاں لیفٹ ہینڈ ڈرائیونگ کا وقت کے اوپر عادی نہیں بن سکا اور ایسے موقع پر خصوصیت سے چوک آتے ہیں اس وقت انسان دھوکا کھاتا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ایک Round About پر ایک بڑا شدید حادثہ ہوا یہ اللہ تعالیٰ کا بہت فضل ہے کہ ہمارے اپنے احمدیوں کی بھی جانیں بچ گئیں اور جن سے ٹکر لگی تھی ان کی بھی جان بچ گئی اور معاملہ آرام سے رفع دفع ہو گیا لیکن کافی شدید چوٹیں آئیں بعض لوگوں کو تو آنے والے خواہ وہ پاکستان سے آرہے ہوں یا یورپ سے آرہے ہوں اگر وہ ڈرائیونگ کے بہت ماہر نہیں ہیں تو ڈرائیونگ نہ کریں تو بہتر ہے اور اگر

Page 492

خطبات طاہر جلدے 487 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء ڈرائیونگ کرنی ہے تو بہت احتیاط اختیار کریں اور پھر اس سے پہلے وہ دعا جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے اور جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سوار ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے اس دعا کو یاد رکھیں سُبحن الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّالَهُ مُقْرِنِيْنَ وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (الزخرف: ۱۴-۱۵) سُبْحَنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا بِاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے ان سواریوں کو مسخر فرما دیا، ہماری خدمت پر مامور کر دیا اور باندھ کر ہمارے سامنے پیش کر دیا وَ مَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ہم اپنی طاقت اور اپنی ہوشیاری سے ان کو قابو نہیں کرسکتے تھے وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اور ہم یقیناً خدا کی طرف لوٹنے والے ہیں.سواری میں جو ایک خطرہ ہے ہلکا سایہ آخر پر آیت نے اس کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ لوٹنا تو سب نے ہے اور ہر سوار بھی لوٹے گا اور با پیادہ بھی لوٹے گا لیکن اس سواری کے وقت خاص طور پر اس بات کو ملحوظ رکھ لینا کہ ایسے امکانات عام حالات سے نسبتا زیادہ ہیں.اس دعا کے ساتھ اور پھر رب کل شیء خادمک رب فاحفظنا وانصرنا وارحمنا.یہ دعائیں بھی اگر ورد زبان رہیں تو میں نے دیکھا ہے کہ عموماً اللہ تعالیٰ کے فضل سے سواریوں میں غیر معمولی حفاظت حاصل ہوتی ہے.چنانچہ ایک دفعہ جنگ عظیم کے بعد ایک احمدی پائیلٹ نے مجھے واقعہ سنایا اس نے کہا کہ میں جب بمباری کیلئے جایا کرتا تھا برما کے فرنٹ وغیرہ کی طرف تو ہمیشہ یہ دعائیں کر کے جاتا تھا اور تبرکاً ان دعاؤں کو جہاز پر پہلوؤں پر لکھ بھی لیا کرتا تھا.صرف ایک دفعہ میں بھولا ہوں اور اس دفعہ میرے جہاز کا حادثہ ہوا گولی لگی اور مجھے پھر قید رہنا پڑا.تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ مقدر تھا خدا کی تقدیر نے اسے بھلا دیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے اس وقت اس طرح اس حفاظت کے دائرے میں نہیں رہا جس طرح وہ دعا کے وقت رہا کرتا تھا.احمدی کی تو زندگی ہی دعا ہے اوڑھنا بچھونا، اٹھنا بیٹھنا دعا ہے.اس لئے مسافر اگر خواہ ڈرائیونگ کر رہے ہوں یا وہ کسی اور ڈرائیور کے ساتھ سواری میں بیٹھیں وہ اس بات کا خیال کریں.اس ضمن میں ایک افسوسناک اطلاع کے متعلق بھی تنبیہا ذکر کر دیتا ہوں.پاکستان سے ایک دوست نے مجھے جلسے کے بعد واپس جا کر خط لکھا کہ یہاں وہ ایک سواری کے منتظر کھڑے تھے تو ایک صاحب نے کہا کہ چلیں میں جارہا ہوں میرے ساتھ موٹر میں بیٹھ جائیں اور ہم سمجھے کہ

Page 493

خطبات طاہر جلدے 488 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء بڑا احسان کیا ہے، حسن سلوک کیا ہے.شوق سے جو دو چار ساتھی تھے سب بیٹھ گئے.آدھے رستے میں پٹرول پمپ پہ جب کارکھڑی کی اور کہا کہ جی پٹرول ڈلوانا ہے آپ پیسے دے دیں اور اس طرح ان کو مجبور کر دیا کہ پیسے وہ دیں اور وہ بتارہے تھے کہ جتنا ہمیں جماعت کی طرف سے کرایہ دے کر جو انتظام مہیا ہوا تھا اس سے زیادہ ہمیں اس کے پیسے دینے پڑے.بڑی بد اخلاقی ہے اور اس کا بہت ہی گندا اثر اس پر پڑا.اس ضمن میں میں دو نصیحتیں کرنی چاہتا ہوں ایک آنے والے کو اور ایک یہاں رہنے والوں کو.جماعت انگلستان کے متعلق میں خود گواہ ہوں کہ خدا کے فضل سے مہمان نوازی کی نہایت اعلیٰ روایات پر قائم ہے اور بحیثیت جماعت اس پر کوئی حرف نہیں رکھا جاسکتا.انفرادی طور پر ایک آدھ مچھلی اگر گندی نکلتی ہے تو اس کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ اپنی اس چھوٹی سی ذلیل سی حرکت سے ساری جماعت کو بدنام نہ کرے اور آنے والوں سے میں کہتا ہوں کہ شکایت کا وقت تو وہ ہوا کرتا ہے جب شکایت پیدا ہو.انہوں نے جماعت انگلستان کے خلاف ایک شکایت کی میں نے تحقیق کرائی تو پتا چلا کہ کوئی اتفاقی حادثہ ہوا ہے ورنہ خدا کے فضل سے جماعت انگلستان بالعموم ہرگز ملزم نہیں ہے لیکن ان لکھنے والے کے خلاف مجھے دوشکا یتیں پیدا ہوئیں.اول یہ کہ یہاں موقع پر نہیں بتایا تا کہ اس وقت اعلان کیا جا تا اور نصیحت کر دی جاتی ہو سکتا ہے کہ کچھ اور لوگ بھی بیچارے اسی طرح اس کے ستم رسیدہ بن گئے ہوں اور دوسری شکایت یہ کہ وہاں جا کر باتیں کی ہیں لوگوں میں اور نہایت گندا اثر نا جائز گندا اثر جماعت انگلستان کا وہاں پیدا کیا ہے.اب ہر ایک کے پاس تو جا کر یہ تو نہیں بتایا جاسکتا کہ غلط کہہ رہے ہیں یہ عام رواج نہیں تھا کوئی اتفاقاً آدمی ایسا بن گیا ہے لیکن جو لوگوں کے دلوں میں ایک میل پیدا ہوئی ہوگی وہ اس کے ذمہ دار ہیں.تو نا جائز حرکت کی جتنی شکایت یہاں کی ہے اس سے بڑے مجرم وہ خود ہیں کیونکہ ایک شخص نے کرایہ لے لیا کچھ بد اخلاقی سہی لیکن کسی جماعت کو بدنام کرنا اور اس کی شہرت کو داغ لگانا یہ چغلی بھی ہے اور انفرادی چغلی نہیں بلکہ جماعتی طور پر ایک جرم بن جاتا ہے.اس لئے آنے والے مہمان خواہ ان کو افراد سے شکایت ہو خواہ ان کو نظام جماعت سے شکایت ہوان کو میں دعوت دیتا ہوں کہ یہاں موقع پر فوری طور پر افسر متعلقہ کو اطلاع کیا کریں.اگر افسر متعلقہ ویسارد عمل نہ دکھائے جیسی وہ توقع رکھتے ہیں تو ہو سکتا ہے اس کی شکایت ہی غلط ہو اور ہو سکتا

Page 494

خطبات طاہر جلدے 489 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء ہے افسر متعلقہ نے آنکھیں بند کر لی.ہوں اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ اسی وقت وہ مجھے براہ راست اطلاع دیا کریں اور پرائیویٹ سیکرٹری کو فوری لکھ کر کہ یہ واقعہ ضرور پہنچاتا ہے آپ دے دیا کریں اور وہ مجھے ضرور پہنچ جائے گا لیکن واپس جا کر آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ یہاں کے نظام سے بھی فائدے اٹھائیں ، مہمان نوازیوں سے بھی فائدے اٹھائیں اور پھر وہاں جا کر جماعت کی بدنامی کا موجب بنیں.اس سے بہتر اخلاق تو ایک ہندی کے دو ہے میں ظاہر کئے گئے ہیں.مجھے دو ہے کے پورے الفاظ یاد نہیں اس لئے میں اس کا ترجمہ بتا تا ہوں کہ ایک درخت کو آگ لگی ہوئی تھی تو اس کی ایک شاخ پر ایک پرندہ بیٹھا تھا.کہانی میں کسی راہ گیرنے گزرتے ہوئے اس پرندے سے پوچھا کہ درخت کو آگ لگ رہی ہے تمہیں خدا نے پر عطا کئے ہیں تم اڑ سکتے ہو کیوں اڑ نہیں جاتے.اس نے جواب دیا کہ اس درخت کے سائے میں میں رہا، یہاں میں نے گھونسلا بنایا.اس کے پتے گندے کئے اس کے پھل کھائے.اب میرا دھرم یہی ہے کہ اس کے ساتھ جل جاؤں.تو میزبان کے یہ حقوق تو بہر حال ہوتے ہیں.وہ خدمت کرتا ہے اگر اس میں کوتاہی بھی ہوگئی ہے تو اتنا سا تو اس کا پاس کریں کہ واپس جا کر بے وجہ اس کی بدنامی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھیوں کی بھی بے وجہ بدنامی کا موجب بن جائیں.اس کی اسلام آپ کو اجازت نہیں دیتا اور پھر فوری شکایت کرنے کا تو فائدہ بھی ہے آگے اس کا ازالہ ہوسکتا ہے.لیکن واپس جا کے شکائیتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ آپ قرآن کریم کے اس حکم کی نافرمانی کر رہے ہوں گے کہ وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا (الحجرات :۱۳) کہ تم میں سے بعض کسی بعض کی چغلی نہ کریں اور مثال یہ دی کہ یہ تو ایسی بات کہ کسی مردہ بھائی کا گوشت کھانے والی بات ہے.تو ایک موقع پر شکایت یہ تھی کہ یہاں کھانا اچھا نہیں ملا گوشت اچھا نہیں ملا اور وہاں جا کر ایک جماعت میں یہ بات پھیلائی گئی.مجھے اس وقت اسی مثال کا خیال آیا کہ یہاں اچھا گوشت نہیں ملا اس نے جا کر مردہ بھائی کا گوشت کھانا شروع کر دیا.یہ تو کوئی عقل کی بات نہیں ہے اس لئے آنے والوں کو بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے اور جو شکایات ہیں وہ بر وقت متعلقہ افسران تک پہنچایا کریں.وہاں جلسہ گاہ میں چونکہ عام مہمانوں کا اکٹھا انتظام ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ اس ضمن میں پوری کوشش کی جائے گی کہ ہر طرح سہولت مہیا ہو لیکن جانتے ہیں ساری جماعت کے افراد جو جلسوں میں

Page 495

خطبات طاہر جلدے 490 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء شامل ہوتے رہتے ہیں کہ اجتماعی انتظامات میں کوتاہیاں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے صرف شکایت پر ہی نظر نہ رہے صرف نظر کا بھی خیال رکھیں اور عفو و مغفرت سے کام لیا کریں.سوائے ایسی بات کے کہ جس سے آپ کو خطرہ ہو کہ دوسروں کو شکایت پہنچتی رہے گی اس وقت آپ صرف اپنے ذاتی جذبہ انتقام کے نتیجے میں شکایت نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ دوسرے بھائیوں کی سہولت کی خاطر کر رہے ہوں گے اور شکایت کی خاطر نہیں بلکہ ایک تکلیف کے ازالے کیلئے کر رہے ہونگے.اس لئے اس فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں.جہاں تک ذاتی تکلیف کا تعلق ہے آپ کو مغفرت کی عادت ڈالنی چاہئے ، عفو کی عادت ڈالنی چاہئے اور جہاں تک نظام جماعت کو بہتر بنانے کا تعلق ہے اس ضمن میں ہر وہ ضروری اقدام کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن نظام جماعت زیادہ بہتر زیادہ حسین ہوتا چلا جائے.وہاں صفائی کے متعلق خصوصیت کے ساتھ میں آپ کو تاکید کرتا ہوں کیونکہ وہاں بھی علاقہ ہم پر نظر ڈالے ہوئے ہے اور نظر رکھتا ہے ہمیشہ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں وہاں شروع میں زیادہ تھے اب رفتہ رفتہ بہت کم رہ گئے ہیں جن کو ہم پر کئی قسم کی بدظنیاں ہیں، ہمیں جانتے نہیں اس لئے ہزار بدگمانی ہے ان کو اور خصوصیت سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ ایشیائی کلچر لیکر آتے ہیں جو گندی ہے اور جگہ جگہ چیزیں پھینکتے ، ہڈیاں اچھالتے اور جو چیز ایک دفعہ پھینک دی پھر اس پر نظر دوبارہ نہیں کرتے کہ ہم اس کو اٹھائیں اور کسی جگہ سلیقے سے سمیٹ کر رکھیں.تو اس پہلو سے انتظامیہ کو وہاں میں نے تاکید تو بہت کی ہے، انشاء اللہ تعالی مختلف جگہوں پر ایسے برتن لگا دے گی یا ایسے بڑے بڑے کنستر وغیرہ رکھ دے گی جن میں آپ اپنی گندی چیزیں پھینک سکتے ہیں لیکن اپنا سامان ضائع شدہ چیزیں یا استعمال شدہ برتن وغیر ہ صرف وہ نہ پھینکیں بلکہ دوسروں کے بھی پھینکیں یہ عادت ڈالیں کیونکہ یہ اس لئے ضروری ہے کہ جیسا کہ میں نے مسلسل اپنے جلسے کی تقاریر میں بیان کیا ہے کہ عدل اور احسان ایتا ءذی القربی کے مضمون میں اسلام صرف عدل کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ احسان کی تعلیم دیتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اماطة الأذى عن الطريق ( ترندی کتاب الایمان حدیث نمبر : ۲۵۳۹) یہ تکلیف دہ چیزوں کا رستوں سے اٹھانا اور دور کرنا یہ بھی ایمان کا حصہ ہے.تو یہ عدل کی نہیں بلکہ احسان کی تعلیم ہے.اس لئے اگر آپ اپنے استعمال شدہ برتن وغیرہ ڈبوں میں پھینکیں تو آپ عدل کر رہے ہوں گے سوسائٹی سے اگر

Page 496

خطبات طاہر جلدے 491 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء آپ دوسروں کی پھینکی ہوئی چیزیں اٹھا کر ان ڈبوں میں ڈالیں گے تو یہ آپ احسان کر رہے ہوں گے.ہر سوسائٹی میں عدل سے گرے ہوئے کچھ لوگ ہوتے ہیں اور احسان ہے جو ان خلاؤں کو پر کرتا ہے.اس لئے آپ احسان کے نمونے دکھا ئیں تا کہ اگر بعض کمزورں سے کوتا ہیاں ہوگئی ہیں یا کچھ ایسے ہیں جن تک آواز ہی نہیں پہنچتی یا ویسے ہی کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے دینی تربیت کی کمی کی وجہ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت ان تک نہیں پہنچی ہوئی تو ان کی کمی کو آپ پورا کر رہے ہوں گے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کو بڑھارہا ہوگا اور آپ کو اس نیکی کی جزاء عطا فرمائے گا.اس کے علاوہ اگر انگلستان کے کچھ دوست وہاں اپنے خیموں میں رہیں گے یا دوسرے ایسے انتظامات ہیں مثلا ٹریلرز وغیرہ لے جا کر رہتے ہیں بعض دفعہ ان کو بھی چاہئے کہ اپنے ساتھ ایسی چیزیں خود لے جائیں جو وہاں لگا دیں، نصب کر دیں اور اگر انگلستان کی جماعت یہ عادت ڈالے کہ بعض جماعتیں اپنے ساتھ ایسے مواقع پر کچھ ایسی چیزیں یا ایسے برتن لے جایا کریں جو وہیں چھوڑ آیا کریں تو رفتہ رفتہ کثرت سے وہاں ایسے ڈبے مہیا ہو جائیں گے یا کنستر مہیا ہو جائیں گے کہ جودن بدن لوگوں کے لئے سہولت مہیا کرتے رہیں گے.جتنے بھی زیادہ ترقی یافتہ معاشرے ہیں ان میں آپ یہ بات دیکھیں گے کہ وہاں کثرت سے ایسی سہولتیں مہیا ہوتی ہیں کہ آپ گندی چیز کو یا ضائع شدہ چیز کو ان میں پھینک دیں اور آپ کو کسی اور جگہ جا کر محنت کر کے یہ کام نہ کرنا پڑے.سہولت زیادہ ہو تو اس سے پھر صفائی کا معیار بھی بڑھ جاتا ہے.اگر جماعتیں انگلستان کی جماعتیں یہ رواج ڈالیں یا خدام الاحمدیہ وغیرہ یا لجنہ وغیرہ وہاں اپنی مجالس کرتی ہیں اس موقع سے اسلام آباد سے استفادہ ہوتا ہے تو ہر دفعہ کچھ نہ کچھ اسلام آباد کی مستقل بہتری کے لئے سامان وہاں پیچھے چھوڑ آیا کریں تو اچھی چیز ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ دن بدن اسلام آباد کی حالت بہتر ہوتی چلی جائے گی.ایک دفعہ پہلے بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ بعض دفعہ باہر سے آنے والے قرض مانگتے ہیں میز بانوں سے یا دوسروں سے اور یہ عادت اچھی نہیں ہے.اگر کوئی حادثہ ہو گیا ہے اور اچانک ضرورت پیش آئی ہے تو سب سے پہلے ان کو جماعت کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور جماعت کی وساطت سے خواہ وہ قرض لیں یا جماعت ان کو مہیا کر دے.یہ ہر فرد کا کام نہیں ہے کہ آپ اس کے

Page 497

خطبات طاہر جلدے 492 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء پاس پہنچیں اور اس کو اپنی کہانی بیان کریں اس لئے اگر کوئی اس قسم کی کہانی بیان کر کے کسی فرد جماعت سے پیسہ مانگتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کے متعلق جماعت کو مطلع کرے اور اگر دینا چاہتا بھی ہے تو اس بات کو رجسٹر کروا کے وہ قرض دے.اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض دفعہ لوگ ایسے اجتماعات میں دھوکا دے کر لوگوں کو لوٹنے کے لئے آتے ہیں یا آتے ہیں ویسے ہی کسی غرض سے لیکن ساتھ لوٹنے کا شغل بھی جاری رکھتے ہیں.چنانچہ بہت سی جماعتوں میں دورہ کرتے وقت میں نے معلوم کیا ہے بیرونی جماعتوں میں کہ کئی ایسے ہیں بد فطرت لوگ جو باہر ملکوں میں نکلتے ہیں اور یہ استفادہ کرتے ہیں اپنے احمدیت کا نام بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرضے لے کر پھر غائب ہو جاتے ہیں پھر پتا ہی نہیں لگتا کہ گئے کہاں ؟ بعض ان میں سے بعض معروف خاندانوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ہم ان سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض سلسلے کے بعض کارکنوں کا ذکر کرتے ہیں بہر حال کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں.تو جماعت کو اس قسم کے دھوکوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.ایک نظام جماعت قائم ہے جو حادثات ہیں تو ان کی بالعموم ذمہ داری نظام جماعت کی ہے اس لئے وہ نظام جماعت سے رجوع کریں تحقیق کی جائے گی اگر کوئی جائز ضرورت ہوگی تو اس کو پورا کیا جائے گا لیکن جو ویسے نکلے ہیں یہاں جلسے میں شامل ہونے کے لئے ان کو پتا ہونا چاہئے کہ کتنا خرچ ہو گا زادراہ نہ ہو تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ حج کی بھی اجازت نہیں.حج کے لئے بھی زاد راہ ہونا ضروری ہے.تو جلسہ تو کوئی ایسی ضروری چیز نہیں ہے اگر آپ کے پاس پورا زادراہ نہیں ہے تو نہ تشریف لائیں لیکن یہاں آکر پھر مانگیں یہ جائز بات نہیں ہے اور بسا اوقات یہ شکایتیں بعد میں پیدا ہوتی ہیں کہ جب واپس چلے گئے اور پھر خبر ہی نہیں لی کہ ہم نے کسی کا قرض ادا کرنا ہے.اس لئے ایسے دوست بھی اگر کوئی اس اعلان کے باوجود انگلستان کی جماعت سے یا باہر سے آنے والوں سے ایسا مطالبہ کرے تو ان کا فرض ہے کہ وہ نظام جماعت کو مطلع کریں کہ یہ صاحب ذاتی قرض مانگ رہے ہیں اور میں دینے پر آمادہ ہوں اور پھر اس کے بعد اگر وہ دیں اپنی ذمہ داری پر تو پھر نہ ملنے پر شکایت نہیں کرنی اور اگر ان کو خطرہ ہے کہ وہ نہیں دے گا تو نظام جماعت کے سپر د کریں وہ دے سکتا ہے تو دے گا نہیں تو نہیں دے گا اور پھر ان کی ذمہ داری ادا ہو جائے گی لیکن یہ میں نہیں چاہتا کہ ہر دفعہ لوگ غیر ذمہ داری سے خود اپنی رقمیں ضائع کریں اور بعد میں پھر میرے پیچھے پڑیں کہ جی فلاں آیا تھا پیسے کھا کے چلا گیا فلاں آیا تھا اس نے قرض واپس نہیں

Page 498

خطبات طاہر جلدے 493 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء کیا.ساری دنیا کے قرضے میں کہاں سے پورے کروا سکتا ہوں اور اکثر میں نے دیکھا ہے اپنی غیر ذمہ داری سے لوگ اپنے پیسے پھنسا بیٹھتے ہیں.قرضوں کے علاوہ بھی ایسی تجارتی سکیموں میں جو دراصل دھو کے پر مبنی ہوتی ہیں اپنے پیسے پھنسا دیتے ہیں.جن میں دراصل لالچ کا عنصر ہے جو ان کو دھوکا دیتا ہے.اب عام طور پر آپ روپیہ اپنا لگائیں تو اس میں نقصان کا بھی خطرہ ہوتا ہے، فائدے کا بھی امکان ہوتا ہے لیکن عام دستور کے مطابق معقول حد تک لیکن اگر آپ کو یہ کہے کہ آپ مجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیں اور ایسا عمدہ کاروبار مجھے ملا ہے کہ میں آپ کو پچیس ہزار روپیہ ماہانہ ادا کرونگا تو یا آپ پاگل ہیں جو اسے پیسے دے رہے ہیں اور دھو کے میں آرہے ہیں یا آپ کو کچھ پتا ہی نہیں.پھر اپنے پاگل پن کو جماعت کے اوپر کیوں ڈالتے ہیں.حرص میں مبتلا ہو کے آپ دھوکا کھا گئے ہیں اس لئے پھر اس کو برداشت کریں یا عدالتوں میں گھو میں.جماعت کا کام ایسا نہیں ہے کہ ایک لالچی شخص کو اس کے ضائع شدہ پیسے کو دلوانے میں کوشش اور مدد کرے.روزمرہ کے معاملات میں غلطی ہو جاتی ہے دھوکا بھی ہو جاتا ہے وہ الگ بات ہے لیکن ایسے سودے جن میں واضح طور پر پیسہ دینے والا کسی حرص میں مبتلا ہو کر آنکھیں کھول کر جانتے ہوئے کہ عام دستور سے ہٹ کر ہونے والی بات ہے پھر دھوکا کھاتا ہے اس کی شکایتیں میرے پاس نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ میں استغفار کروں آپ کے لئے اس سے زیادہ تو میں اور کوئی مدد نہیں کر سکتا.بہر حال قرض کا معاملہ ہو یا لین دین کا اس میں جماعت کو ابھی اپنے معیار کو اور بلند کرنے کی ضرورت ہے.ابھی انگلستان میں پیچھے واقعہ گزرا ہے.اس وجہ سے بہت سخی ہے اس بات کی.ایک صاحب یہاں آئے اور لکھوکھا پونڈ ز لوگوں سے لے کر اور اس کو ضائع کر کے اور کچھ دیر غائب ہوئے اور پھر پکڑے بھی گئے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا، سب ضائع کر بیٹھے.بعض آدمیوں نے ان کے متعلق مجھ سے پوچھا کہ یہ ہے.جنہوں نے پوچھا میں نے کہا ہرگز نہیں، ایک آنہ بھی نہیں دینا کیونکہ جو تم باتیں بتارہے ہو یہ خود قانون کے خلاف باتیں ہیں اس قسم کی تجارتیں ہوتی ہی نہیں دنیا میں اس لئے دھوکا ہے اس میں.چنانچہ جنہوں نے نہیں دیئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ گئے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو مشورہ دیا گیا کہ نہیں دینا پھر بھی دے دیا اور بعد میں میرے پاس لائے اور کہا کہ جی وہ تو کھا گیا.اس لئے دھو کے باز ہمیشہ لالچ کے ذریعے پھنساتے ہیں.یہ یاد رکھیں جس

Page 499

خطبات طاہر جلدے 494 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء تجارتی کاروبار میں آپ کو غیر معمولی کشش نظر آئے وہیں آپ سمجھیں کہ خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے.کوئی بات ضرور ہے جہاں محنت کرنی پڑتی ہے، جہاں عام دستور کے مطابق ہر قسم کے خطرات مول لینے پڑتے ہیں وہاں آپ خود ہی رک جائیں گے، وہاں آپ کی طبیعت آپ کے لئے گھنٹی بجائے گی کہ یہ بڑا مشکل کام ہے، کیوں پھنستے ہو خواہ مخواہ.اس لئے جہاں آپ کا دل بے اختیار آپ کو کہے گا کہ چھوڑ ومشوروں کو فوراً لے لو اس وقت موقع ہے، ہاتھ سے نہ نکل جائے ، کل کو میں یہ نہ کہوں کہ اوہو اتنا اچھا موقع تھا ہاتھ سے ضائع گیا وہاں آپ سمجھیں کہ آپ ضرور کہیں ٹھوکر کھانے والے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ فضل کرے جماعت کو عقل دے.مالی لین دین میں ابھی ہمیں بہتر نمونے دکھانے کی ضرورت ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ کوئی آنے والا اس لحاظ سے پاکستان کی جماعتوں کو داغدار نہیں کرے گا.جہاں تک اجتماعی ذمہ داریوں کا تعلق ہے اس میں ایک سیکیورٹی ہے یعنی حفاظت کا انتظام اس میں صرف خلافت کی سیکیورٹی کا سوال نہیں بلکہ سارے نظام کی سیکیورٹی، ہر آنے والے کی سیکیورٹی، ہر میزبان کی سیکیورٹی اور چونکہ جماعت احمدیہ کے دشمن ہر طرف سے بڑی ظالمانہ نظروں سے جماعت کو دیکھ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے بڑھتے ہوئے فضلوں کے نتیجے میں ان کے حسد کا بڑھنا ایک طبعی امر ہے.اس لئے جوں جوں خدا فضل زیادہ فرماتا ہے ہمیں اپنی خود حفاظتی کے بہتر اقدامات کرتے رہنا چاہئے.اصل حفاظت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اس لئے سب سے پہلے سیکیورٹی میں دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.جس طرح سواری کے وقت آپ دعا کرتے ہیں تو اس کے فائدے دیکھتے ہیں اس لئے اسی طرح سیکیورٹی میں بھی سب سے اچھا جو نظام ہے خود حفاظتی کا وہ دعا کا نظام ہے.دعائیں خصوصیت سے کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسہ کو پرامن بنائے ، ہر شرارت کرنے والے دشمن کی شرارت سے جماعت کو بچائے ، اسے نامرادر کھے اور جہاں ہم سوئے ہوئے ہوں وہاں خدا کے حفاظت کرنے والے فرشتے ہماری حفاظت کر رہے ہوں لیکن کوشش یہ کریں کہ آپ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور توکل کے وہ معنی اختیار کریں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہمیں سکھائے ہیں.آپ نے فرمایا تو کل یہ نہیں ہے کہ اونٹ کو کھلا چھوڑ دو اور پھر تو کل رکھو دعا کرو کہ ٹھیک ہے اونٹ ضائع نہ ہو اور بھاگے نہیں یہ کوئی تو کل نہیں، تو کل یہ ہے کہ خود حفاظتی کی کوئی تدابیر

Page 500

خطبات طاہر جلدے 495 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء اختیار کر و اونٹ کا گھٹا باندھو اور پھر تو کل کرو کہ اگر کوئی شریر آکر اس کو کھولنا چاہے تو اللہ تمہیں اس سے بچائے اور تمہارا مال ضائع نہ ہو.( ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ حدیث نمبر: ۲۴۴۱) تو خود حفاظتی کے لئے بھی یہی مضمون ہے.دعا کریں مگرا کیلی دعا پر تو کل نہیں بلکہ دعا اور تدبیر دونوں کو ملا کر توکل کا مضمون مکمل ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جو بھی اس کی رضا ہو اس پر ہم راضی ہیں.احمد یہ نظام حفاظت میں محض وہ لوگ کام نہیں کرتے جن کو اس مقصد کے لئے مقرر کر کے کہیں کہیں کھڑا کیا جاتا ہے یا بعض ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں.احمد یہ نظام حفاظت ہر دوسرے نظام سے ایک الگ نظام ہے.اس میں ہر فرد بشر ہر احمدی نظام حفاظت کا ایک جزو بن جاتا ہے وہ آنکھیں کھول کر رکھتا ہے، گردو پیش پر نظر ڈالتا ہے.دعائیں بھی کر رہا ہوتا ہے اور بڑی فراست کے ساتھ جائزہ لیتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات تو نہیں ہوئی جوان ہونی سی ہے جو غیر معمولی سی ہے اور فوراً اس کو نظر میں لاکر پھر خود براہ راست قدم نہیں اٹھاتا بلکہ متعلقہ نظام کی طرف رجوع کرتا ہے.براہ راست قدم کے متعلق یاد رکھیں کہ براہ راست قدم محض اس وقت ضروری ہے جبکہ مثلاً آگ لگ رہی ہے.اس وقت آپ یہ کہیں کہ جی ہم آگ بجھانے والا جو نظام ہے پہلے اس کی طرف جائیں گے پھر کوئی کارروائی کریں گے، یہ ایک بے وقوفوں والی بات ہوگی.بچہ گر رہا ہے حادثے کا شکار ہونے والا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں مگر کہتے ہیں کہ نہیں میں پہلے اس کو بتاؤں گا جس کا کام بچوں کی حفاظت کرنا ہے.یہ تو جہالت ہے لیکن جہاں جہاں بھی آپ کو وقت اجازت دیتا ہے وہاں ضروری ہے کہ خود دخل دینے کی بجائے متعلقہ نظام سے بات کریں گے اور خود کم سے کم اتنا دخل دیں جس کے بغیر چارہ نہیں ہے جو وقت کا فوری تقاضا ہے.تو اس پہلو سے سیکیورٹی کا خیال رکھیں لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ جماعت احمدیہ کے جلسوں میں غیر از جماعت دوست بھی بہت آتے ہیں اور اس سال خصوصیت سے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سالوں کی نسبت بہت زیادہ توجہ ہے جماعت کی طرف اور مولویوں کا جھوٹ جوں جوں کھلتا جا رہا ہے کئی ایسے لوگ جو بدظن تھے قریب بھی نہیں آنا چاہتے تھے اب توجہ کر رہے ہیں ، رابطے بڑھا رہے ہیں.تو یہ نہ ہو کہ ہر اجنبی کو آپ دشمن سمجھ لیں اور ہر دشمن سے بدسلوکی شروع کر دیں.آپ کا کوئی دشمن نہیں ہے جب تک پہلے ثابت نہ ہو جائے کہ کوئی دشمن ہے.اس لئے احتیاط کے تقاضے اور ہیں اور اخلاق کے تقاضے اور ہیں لیکن یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں.اخلاق کا

Page 501

خطبات طاہر جلدے 496 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء تقاضا یہ بہر حال نہیں ہے کہ آپ بد اخلاق ہو جائیں اور احتیاط کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ دوست کو دشمن بنا لیں.اس لئے اگر آپ کے سامنے کوئی اجنبی آتا ہے کہ میں جلسے میں شامل ہونا چاہتا ہوں تو ہرگز اس کے ساتھ بدخلقی نہیں کرنی ، بدکلامی نہیں کرنی اس کو نہیں کہنا کہ کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا آپ جائیے اپنے کام پر ٹکٹ کہاں ہے، ٹکٹ دکھائیے.آپ کا کام ہے اخلاق سے پوچھیں بتائیے کس طرح تشریف لائے کوئی واقف ہے یا نہیں ہے، پھر آپ تشریف رکھیں یا ان کو ساتھ لے جائیں.جہاں بھی متعلقہ انتظام ہے ان کے سامنے پیش کر دیں پھر ان کا کام ہے وہ ان کو سنبھالیں لیکن جو حق کی جستجو کے لئے آتا ہے اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہئے جو ایک معزز مہمان کے ساتھ سلوک ہوا کرتا ہے.اس دوران میں اگر خدانخواستہ کوئی اور بات ہو تو ہم اس کے لئے بھی حاضر ہیں کیونکہ ہم اپنے اعلیٰ تقاضوں کو ادنی تقاضوں پر قربان نہیں کر سکتے لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ کون مہمان ہے اور کون بدنیت سے آیا ہے یہ آپ کا کام نہیں ہے ہر فرد بشر کا.یہ کام متعلقہ نظام کا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ اخلاق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے متعلقہ افراد تک ایسے دوستوں کو پہنچادیا کریں پھر وہ آپ ہی سنبھالیں گے.جلسے کے دوران تقاریر سننے کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے پچھلے جلسے میں بھی یہ محسوس کیا تھا اور غالباً ذکر بھی کیا تھا کہ وہ مہمان جو اردو نہیں جانتے ، دنیا میں جہاں سے بھی آتے ہیں ، اردو کے ترجمہ کا انتظام ہو یا نہ ہو جلسے کے دوران بڑے سلیقے کے ساتھ ، بڑے صبر کے ساتھ پورا وقت پابندی سے وہاں حاضر رہتے ہیں اور ار دو جاننے والے ہمارے دوستوں کا یہ حال ہے کہ ادھر انگریزی میں یا کسی اور زبان میں بات شروع ہوئی وہیں کپڑے جھاڑ کے اٹھ کھڑے ہوئے.پہلے تو کپڑے جھاڑنے کی ضرورت اتنی نہیں تھی کیونکہ کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے.اس دفعہ زمین پہ بیٹھنا ہے آپ نے اور مجھے ڈر ہے کہ واقعی کپڑے جھاڑیں گے اور وہاں کیا حال ہو گا آپ سوچیں کہ اچانک ایک اردو کی تقریر ختم ہوئی انگریزی کی تقریر کرنے والا آیا ہے اور چونکہ اکثریت اردو دانوں کی ہوگی وہ کپڑے جھاڑتے ، شور مچاتے وہاں سے نکل کھڑے ہوں گے.اس کے بہت سے بداثرات پیدا ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ آنے والوں کے اخلاق پر آپ برا اثر ڈالتے ہیں.انہوں نے نظام جماعت کو بہت عمدگی سے سمجھا ہے اور بڑے اعلیٰ پیمانے پر اسے اپنے ممالک میں قائم کیا ہے.وہ جلسے کے

Page 502

خطبات طاہر جلدے 497 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء آداب سمجھتے ہیں ، وہ اجتماعی حاضری کے آداب سمجھتے ہیں ان کو پتا ہے کہ ”امر جامع کے وقت جب تم اکٹھے ہوتے ہو تو بغیر اجازت کے تمہیں جانے کا حق نہیں ہے.اس لئے وہ ان اعلیٰ اسلامی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور آپ ان کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تمہیں کیا پتا گھر سے تو ہم آرہے ہیں.مرکز جماعت کا تو وہاں ہے ہم تو یہی کیا کرتے ہیں کہ جب زبان سمجھ نہ آئے تو دوڑ جاؤاٹھ کے اور کوئی پرواہ نہ کرو کہ اس سے کیا بد اثر پڑے گا لوگوں پر اور پھر آپ اس مقرر بیچارے کے حال کا اندازہ کریں.اس مقرر کا نام لیا جارہا ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ میں جلدی پہنچ جاؤں تا کہ کچھ تو لوگ بچ جائیں اور دیکھتا ہے کہ بھگدڑ مچ گئی ہے اٹھ کر لوگ دوڑ رہے ہیں.نہایت ہی برا اس کے اوپر نفسیاتی اثر پڑتا ہے.اس بچارے کی تقریر سے پہلے ہی اس کا منہ خشک ہو جاتا ہے.اس لئے کچھ حوصلہ کریں، اخلاق دکھا ئیں.نہیں زبان سمجھ آتی تو استغفار کریں ، ذکر الہی کریں ، وہ وقت دعاؤں میں گزاریں آپ کو اس کا ثواب ملے گا اور اجتماعیت کی وجہ سے جو طاقت پیدا ہوئی آپ اس لطف میں شریک ہو جائیں گے.اجتماعیت میں ایک بڑی طاقت ہے اور بڑی برکت ہے اور دین کی خاطر جوا کٹھے لوگ بیٹھتے ہیں ان کے متعلق تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت ہی بشارات عطا فرمائی ہیں.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ اس پہلو سے آپ جو سن رہے ہیں ان کو جو غائب ہیں آگے یہ پیغام پہنچاتے رہیں گے اور اس بات کو اپنا اس دفعہ شعار بنالیں گے کہ عام نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اس طرف متوجہ کریں کہ جلسے کے حقوق ہیں وہ آپ نے ادا کرنے ہیں.اتنی محنت کر کے اتنی تکلیف اٹھا کے بہت دور سے آرہے ہیں اور جلسے کی اجتماعی برکتوں سے محروم ہو کر واپس چلے جائیں یہ ٹھیک نہیں ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جلسے کے اوقات میں خواہ کسی کو کچھ سمجھ آتی ہے یا نہیں آتی وہ صبر کا پیکر بن کر وہاں نظم و ضبط کا پیکر بن کر بیٹھا ر ہے گا اور اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت کا امیدوار رہے گا.ذکر الہی کی بات چلی ہے تو جلسے کے دوران بھی اور جلسے کے بعد بھی ان سب ایام میں خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا نام بلند کریں اور درود بھیجیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور اس سے آپ دیکھیں گے کہ آپ کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور اندرونی طو پر جلا نصیب ہوگی.ذکر الہی اگر نمازوں سے باہر کرنے کی عادت ہو تو نمازیں بھی معمور ہوتی چلی جاتی ہیں اور اگر باہر عادت نہ ہو تو خشکی نمازوں کے اندر بھی سرایت کرنے لگ جاتی

Page 503

خطبات طاہر جلدے 498 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء ہے.یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ جس طرح عام زمیندارے میں تجارب ہیں ویسے ہی تجارب روحانی امور میں بھی حاصل ہوتے ہیں.جب ارد گرد علاقہ خشک ہو جائے تو ایک کھیت کا پانی زیادہ دیر اس میں قائم نہیں رہا کرتا بڑی تیزی سے وہ سوکھتا ہے اور اگر اردگر دنمی ہو تو کھیت کا پانی بعض دفعہ دسیوں گنا زیادہ دیر تک وہاں قائم رہتا ہے اور ضائع نہیں ہوتا اس لئے ذکر الہی نمازوں کی حفاظت کے لئے بہت ضروری ہے.اپنے ماحول کو نمازوں کے ماحول کو ، اس کے گرد و پیش کو ذکر الہی سے آپ تر رکھیں گے تو نمازیں بھی ذکر الہی سے تر رہیں گی ، اگر اردگر دخشکی ہوگی تو بیرونی خشکی نمازوں میں سرایت کرنی شروع کر دے گی.جگہ جگہ سے اندر سڑکیں بنائے گی اور آہستہ آہستہ ایک آدھ جزیرہ شاید رہ جائے ذکر الہی کا باقی سب ذکر کے اوپر آپ کی روز مرہ کی زندگی کی خشکی غالب آجائے گی.اس لئے اس خطرے کو یا درکھیں اور رخصوصیت سے اجتماعات کے وقت ذکر الہی پر بہت زور دینا چاہئے.جلسہ کے تین دنوں کے لئے مہمانوں کے لئے مسجد فضل سے اسلام آباد کے لئے بغیر کسی خرچ کے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا ہے، سواری کا انتظام کیا گیا ہے.صبح مہمانوں کولندن سے اسلام آباد لے جانے اور شام کو واپس لانے کی سہولت مہیا کی گئی ہے.ہمارے یہاں کے ہنسلو کے پریذیڈنٹ عبد اللطیف خان صاحب بڑے دیر سے ماشاء اللہ یہ انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں اور نہایت ہی عمدگی سے سرانجام دے رہے ہیں، یہ اور ان کی ٹیم اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے.آپ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں وہ یہاں صبح صبح پہنچ جایا کریں گے یہاں سے اکٹھے چلے جایا کریں گے اور پھر وہاں سے رات کو جلسے کے بعد ا کٹھے کھانا کھا کے فارغ ہو کے یہاں آجایا کریں گے.کارکنوں کیلئے بھی میری نصیحت یہی ہے کہ بعض دفعہ مہمان ان سے بدخلقی سے پیش آتے ہیں یا ان کو پتا نہیں لگ رہا ہوتا یا غلطی کر رہے ہوتے ہیں اور جائز طور پر مہمان کو غصہ آجاتا ہے.وہ اپنے جذبات پر پوری طرح نظم و ضبط کی زنجیروں پہنائے رکھیں ، ان کو بے لگام نہ چھوڑ دیں اور ان کی طرف سے کوئی ایسی شکایت نہیں ہونی چاہئے خواہ کوئی ان سے کتنی ہی بدخلقی سے پیش آئے.شعبہ تربیت کو بہت زیادہ مستعد ہونے کی ضرورت ہے.گزشتہ سال جس طرح کہ ہمارے مرکز میں ہمیشہ سے شعبہ قائم ہے یہاں بھی تربیت کا شعبہ قائم کیا گیا تھا اور ان کو میں نے تاکید کی تھی خود سمجھایا تھا کہ ان ان چیزوں میں کمی دکھائی دیتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میر ا عمومی جائزہ یہی

Page 504

خطبات طاہر جلدے 499 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء ہے کہ گزشتہ سال بہت بہتر حالت رہی ہے اور کئی خامیاں جو اس سے پچھلے سالوں میں دکھائی دیتی تھیں وہ اس دفعہ نہیں تھیں لیکن ابھی بہت گنجائش ہے.سب سے زیادہ مجھے فکر نماز با جماعت کے قیام کی ہے انگلستان کی جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاق کا معیار بڑھ رہا ہے، اخلاص کا معیار بڑھ رہا ہے اور نیک آواز پر لبیک کہنے کی عادت پیدا ہوتی جارہی ہے اور پھیلتی چلی جارہی ہے یہ عادت.جولوگ پہلے تعاون نہیں کرتے تھے وہ خدا کے فضل سے بہت زیادہ تعاون کرنے لگ گئے ہیں.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ اگر تربیت کا نظام ان کو اپنی زندگی کے اس بنیادی فریضہ کی طرف متوجہ کرتا رہے گا یعنی نماز پڑھنی ہے تو جلسے میں ہمیں ایسی تربیت کا موقع مل جائے گا جو سارا سال یہاں کی جماعت کے کام آئے گی.عموماً باہر سے آنے والے نماز کی زیادہ پابندی کرتے ہیں بنسبت مقامی دوستوں کے.اس کی اور وجوہات بھی ہوں گی لیکن ایک وجہ یہ ہے کہ کارکن سمجھتا ہے کہ میں چونکہ مصروف ہوں اور میں دینی کام کر رہا ہوں.اس لئے نماز اس کے نزدیک کوئی دوسرے تیسرے درجہ کی اہمیت اختیار کر جاتی ہے حالانکہ نماز ہمیشہ پہلے ہی رہتی ہے نماز دوسرے درجہ کی چیز نہیں بن سکتی.نظام دوسرے درجہ کی چیز بن سکتا ہے.سوائے اس کے کہ بعض صورتوں میں جہاں قرآن کریم نے اصولاً ہدایت عطا فرمائی ہے کہ یہاں نظام ہی عبادت ہے اور عبادت کی ظاہری شکل کو ثانوی صورت دی جاتی ہے لیکن عبادت سے مستثنیٰ پھر بھی نہیں کیا گیا.یہ مضمون لمبا ہے ، اس کے متعلق میں پہلے بھی روشنی ڈال چکا ہوں.یہاں اس کو دھرانا نہیں چاہتا لیکن عبادت کا معیار بلند کرنے کی شدید ضرورت ہے.اس لئے جو تربیت کا شعبہ ہے وہ خصوصیت سے اس بات کو پیش نظر رکھے کہ کوئی بھی وہاں کارکن ہو یا غیر کارکن بے نمازی نہ رہے اور اگر ممکن ہو کسی کے لئے تو باجماعت نماز پڑھے اگر ممکن نہیں ہے تو نظام جماعت اپنی اپنی جگہ باجماعت نماز کا زائد انتظام کروائے.جس طرح لنگر خانے میں ربوہ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کیا کرتے تھے کہ جو کارکن نماز کے وقت نماز با جماعت میں شامل نہیں ہو سکتے تھے ان کے لئے الگ باجماعت نماز کا انتظام ہوتا تھا.اس سے یہ ایسے بچوں کی بھی تربیت ہو جاتی تھی جو پہلے ایسے عادی نہیں ہوتے تھے.تو اس جلسے کے ان بابرکت ایام سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں کا تربیتی نظام نماز با جماعت کے قیام کے سلسلہ میں خصوصیت سے حرکت میں آنا چاہئے اور بعض اور باتیں ہیں وہ انشاء اللہ میں کسی دوسرے موقع پر عرض کرونگا.

Page 505

خطبات طاہر جلدے 500 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء جلسے کا انتظام بعض چیزیں خصوصیت سے جلسے کی خاطر بناتا ہے اور وہ تقسیم کی جاتی ہیں مثلاً قادیان اور ربوہ میں ہم بالٹیاں سالن کیلئے اور بڑے کڑ چھے وغیرہ یہ تقسیم کر دیا کرتے تھے تا کہ لوگ اپنے مہمانوں کے لئے استعمال کریں اور بعد میں واپس کر دیں.یہ جو وا پسی والا حصہ ہے یہ تکلیف دہ ہے.بعض لوگ واپسی میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے اور یہ کچھ قومی عادت بھی ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جو چیز ایک دفعہ آگئی ہے ہمارے گھر میں ہے بس ٹھیک ہے کوئی بات نہیں اب اس کو کیا واپس کرنا ہے، جماعت کی چیز ہے اپنا گھر ہے.یہ جائز بات نہیں ہے.جماعت کی چیز امانت ہے آپ کے پاس اگر آپ کو تحفہ دی جاتی ہے تو ٹھیک ہے شوق سے رکھیں لیکن جب تک امانت آپ کے پاس پڑی رہتی ہے آپ کو بے چین رہنا چاہئے.یہ روح پیدا کریں ورنہ آپ کے روز مرہ کے اخلاق میں بھی امانت کا معیار گر جائے گا.نظام جماعت میں اگر آپ امین نہیں بنیں گے تو باہر کہاں امین بن سکتے ہیں.میں نے ایک دفعہ جب جائزہ لیا گزشتہ سال کے تجارب کا تو بنگوی صاحب نے مجھے ایک بات بتائی جس سے بڑی تکلیف ہوئی کہ اس دفعہ ہمیں اتنے مزید ہیٹر خریدنے پڑیں گے میں نے کہا کہ کیوں؟ آپ نے پچھلے سال جو خریدے تھے کہ جی وہ تو اکثر دوستوں نے واپس ہی نہیں کئے کہیں اسلام آباد میں لوگوں کے پڑے ہوئے ہیں، کوئی کسی اور جگہ لے گیا ہے.یہ تو بڑی گندی مثال ہے بہت ہی مجھے تکلیف ہوئی اس بات سے.جماعت کی چیز ہے اس کو واپس کریں اگلے سال وہ کام آئے گی اور آپ کو شرم کیوں نہیں آتی روز مرہ دیکھتے ہیں اس کو اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں یا نہیں کرتے اس سے بحث نہیں ہے.چیز پڑی ہوئی ہے آپ کی چھاتی کے اوپر بوجھ رہنا چاہئے جب تک امانت کسی کے پاس پڑی ہوئی ہے اس وقت تک شدید بوجھ انسان کے اوپر رہتا ہے ذہنی طور پر.یہ وہ نفسیاتی کمزوری ہے جو آگے معاشرے کو کئی قسم کی برائیوں سے بھر دیتی ہے اس کو معمولی نہ سمجھیں.جن لوگوں کے اوپر امانت کا بوجھ نہیں ہوتا ان کے اوپر قرضوں کا بھی بوجھ نہیں ہوتا اور وہی لوگ ہیں جو پھر قرضے بھی ادا نہیں کرتے.لے لیتے ہیں سمجھتے ہیں کوئی بات نہیں ہو گیا ایسے ایسے، پھر عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے جب مانگی جائے چیز تو برا مناتے ہیں.قرض خواہ بیچارا اپنا دیا ہوا پیسہ واپس مانگتا ہے اور وہ غصہ مناتے ہیں یہ کیا مصیبت ڈالی ہوئی ہے اس نے.عذاب بنا ہوا ہے ہر وقت، کہہ دیا کہ نہیں تھے دے دیں گے دے دیں گے پھر آکے کہتا ہے دے

Page 506

خطبات طاہر جلدے 501 خطبہ جمعہ ۵ار جولائی ۱۹۸۸ء دو.اس کی چیز ہے تمہارا فرض ہے اس کو دے دو کیوں نہیں دیتے آخر بعض عاریہ چیز مانگ لیتے ہیں اور واپس نہیں کرتے.مجھے بھی تجربہ ہے اس کا.پوچھا گیا کہ واپس کیوں نہیں کرتے آپ جی آپ کو کیا ضرورت ہے پڑی ہوئی ہے ہمارے پاس، ہم استعمال کر رہے ہیں.جس کی چیز ہے اس کو دو اس کوضرورت ہو یا نہ ہو جہنم میں پھینکے.تمہیں اس سے کیا ہے.تمہارے پاس جب تک ہے تم غیر کی چیز پر قابض ہو، غاصب ہوا اگر اس نیت سے رکھے ہوئے اور اگر غفلت کر رہے ہو تو پھر بے حسی ہے.ایسی بے حسی ہے جو تمہیں دوسری بیماریوں میں مبتلا کرے گی کیونکہ بے حسی کا مرض سے بڑا گہرا تعلق ہے.یہ حسن ہی ہے جو انسانی جسم کو مدافعت کے لئے آمادہ کرتی ہے، کئی قسم کے خطرات سے بچاتی ہے جہاں بے حسی ہے وہاں سو قسم کی بیماریوں کو انسان دعوت دیتا ہے.تو انسانی معاشرے میں لین دین کی جو بیماریاں ہیں اس کا آغاز یہاں سے شروع ہوتا ہے، یا درکھیں جو چیز امانت ہے جب تک آپ کے پاس ہے آپ کے اوپر بوجھ رہنی چاہئے اور جب وہ اتار دیں تو پھر آپ ہلکا پھلکا محسوس کریں یہ عادت آپ کو پڑ جائے تو آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کبھی بھی معاشرے پر بوجھ نہیں بن سکتے.اور بھی چند باتیں بیان ہوسکتی ہیں وقت زیادہ ہو گیا ہے میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں عمومی طور پر جو باتیں ہیں وہ پیش کر دی ہیں.ایک صرف یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ انگلستان کی جماعت چونکہ قربانی یہاں نہیں دے سکتی اکثر صورتوں میں.اس لئے وہ قادیان یار بوہ بھجوا دیتے ہیں قربانی.یعنی پیسے بھیج دیتے ہیں کہ وہاں قربانی کر دی جائے.جہاں تک قادیان کا تعلق ہے جو قادیان بھجواتے ہیں وہ بے شک بھیجتے رہیں لیکن ربوہ کو ایسی ضرورت نہیں ہے آپ کی قربانی بھجوانے کی.اس لئے جو دوست بھی قربانی دینا چاہتے ہیں اس دفعہ اور قادیان کے لئے وعدہ نہیں کر چکے.ان کو یہاں جلسے کے نظام کے سامنے قربانی کی رقم پیش کر دینی چاہئے کیونکہ عید ہمارے جلسے کے تیسرے دن آرہی ہے تو انشاء اللہ یہاں قربانی اس رنگ میں نہیں ہو سکتی کہ آپ چھری پھیر میں خودا اور پھر اسی کا گوشت کھا کر افطار کریں اپنا صبح کا روزہ بلکہ بعض دفعہ دوسرے دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن جو بھی قربانی آپ پیش کریں گے.سارے جلسے کے مہمان اور آپ خود بھی اس میں انشاء اللہ تعالیٰ شریک ہو جائیں گے اور یہ اجتماعی قربانی بن جائے گی.چالیس پونڈ انہوں نے تخمینہ لگایا ہے اخراجات کافی

Page 507

خطبات طاہر جلدے 502 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء قربانی.جو دوست بھی انگلستان کی جماعت کے قربانی دینے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ (ہدایت اللہ ) بنگوی صاحب تک اپنی رقم پہنچادیں یا اپنے پریذیڈنٹ جماعت کو دے دیں.پاکستان سے یا دوسری جماعتوں سے جو دور دور سے دوست تشریف لا رہے ہیں ان کو میں نے نصیحت کی ہے کہ وہ بوجھ نہ بنیں وہ اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھیں لیکن جو آنے والے ہیں یہ عام مہمان نہیں بڑے معزز مہمان ہیں اور خالصہ للہ آرہے ہیں اس لئے ان کے ساتھ دو ہر احسن سلوک کرنے کی کوشش کریں.عام فرائض عدل کی حد تک تو خدا کے فضل سے لازماً آپ ادا کرتے ہیں.احسان کی حد تک بھی ادا کرتے ہیں بعض صورتوں میں، ایتاء ذی القربی کرنے کی بھی کوشش کریں جہاں تک آپ کے بس میں ہو کیونکہ یہاں آنے والے بعض ایسے آنے والے بھی ہیں جن کو کبھی انگلستان جانے کا وہم و گمان بھی پیدا نہیں ہوا تھا.خواب و خیال بھی نہیں تھا کہ ہم انگلستان جائیں گے.کوئی ارادہ کبھی دل میں نہیں تھا، کوئی خواہش نہیں تھی اور محض اللہ اس لئے کہ خلیفہ وقت پاکستان سے یہاں آیا ہوا ہے اور یہاں موجود ہے اس وجہ سے وہ یہاں آتے ہیں.اس لئے ان کے للہی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کے جذبات کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ، ان سے حسن سلوک اور محبت کا معاملہ کریں.یہ آپ کے لئے عبادت ہوگی ، یہ آپ کے لئے نیکی ہوگی.میں آپ کو دلچسپ بات سناتا ہوں گزشتہ سال کی اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہاں آنے والے کیسے کیسے لوگ ہیں.انگلستان کی سرزمین نے کبھی ایسے لوگوں کی ہوا بھی نہیں دیکھی تھی.ہمارے ایک لاہور کے بڑے ذمہ دار دوست ہیں.انہوں نے بتایا کہ وہ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک اور احمدی دوست بھی ساتھ تھے ان کے ویزہ آفس اسلام آباد میں.وہاں ایک دیہاتی خاتون آئیں بڑی عمر کی اور انہوں نے آکے ویزے کی درخواست کی ایک ترجمان بھی ساتھ بیٹھا ہوا تھا، وہ بیٹھے سن رہے تھے ان کی باتیں.تو اس نے کہا کہ بی بی اتم کس لئے جارہی ہو اس عمر میں وہاں کیا کرنا ہے.اس نے میرا اذ کر کیا کہ جی ہمارے امام وہاں ہیں ، جلسہ ہورہا ہے، بڑی دیر ہوئی ہے دیکھے ہوئے میں نے تو ضرور جانا ہے اس دفعہ.خیر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا ابھی ویزا لگانے ہی لگا تھا تو آخر میں پوچھا کہ بی بی تمہارا وہاں رشتہ دار بھی ہے کوئی.اس نے کہا ایک پتر ہے اوتھے.اس نے کہا کہ پھر یہ کیوں نہیں کہتی کہ پتر نوں ملن جارہی آں.اس کا جور د عمل تھا وہ سننے والا ہے.بے اختیار بولی

Page 508

خطبات طاہر جلدے 503 خطبہ جمعہ ۵ ار جولائی ۱۹۸۸ء کہ در فٹے منہ ! در فٹے منہ ! توں کی گلاں کرنا ایں تیہ (۳۰) سال دا میرا پتر اوتھے میں مڑ کے اس پاسے نہیں ویکھیا کدی.میرا امام جدوں دا گیا اودوں دا میرا دل بے قرار اے.وہ کہتے ہیں ہم سے آنسو برداشت کرنے مشکل ہو گئے.کیسے کیسے لوگ ہیں جو احمدیت نے پیدا کئے ہیں.ایسے مہمان بھی آپ کے پاس آئیں گے.جو دنیا کی تعلیم سے بے بہرہ ہوں گے، دنیا کے عام بول چال کے جو آپ کے تقاضے تہذیب کے ان سے بھی نا آشنا ہوں گے.دیہاتی لوگ سادہ لیکن آپ ان کو معمولی نہ سمجھیں.بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو گڈریوں کے لعل ہیں جو خدا کی نظر میں محبوب ہیں کیونکہ ان کا سفر خالصہ للہ الف سے کی تک.ایسے بھی ہیں جو یہاں آئے اور مسجد میں ڈیرا ڈالا اور یہیں سے واپس چلے گئے کوئی مڑ کر ادھر اُدھر نہیں دیکھا کہ کوئی اور بھی دنیا یہاں بستی ہے یا نہیں بستی.اس لئے ان لوگوں سے حسن سلوک کریں، محبت اور پیار کریں، ان کے نخرے بھی برداشت کریں، ان سے اگر ان کی لاعلمی کے نتیجے میں کوئی تکلیف پہنچے تو محض اللہ اسے معاف کریں.اللہ کرے کہ ہر لحاظ سے یہ جلسہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو جذب کرنے کا موجب بنے.آمین.

Page 509

Page 510

خطبات طاہر جلدے 505 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء قیام نماز اور ہماری ذمہ داریاں (خطبہ جمعہ فرموده ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی: اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (الكبوت (٢٢) پھر فرمایا: جماعت احمدیہ کی تاریخ کے پہلے سو سال عنقریب پورے ہونے کو ہیں.جوں جوں اگلی صدی قریب تر آتی چلی جارہی ہے میں جماعت کو مختلف رنگ میں بعض تربیتی امور کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور اس سلسلے میں گزشتہ ایک سال سے مسلسل ایک مربوط مضمون کی شکل میں یکے بعد دیگرے کئی خطبات دیئے لیکن ان سب میں سب سے زیادہ اہم امر جس کی طرف آج میں دوبارہ جماعت احمدیہ عالمگیر کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ نماز با جماعت کے قیام کے سلسلے میں ہے.تمام عبادتوں کی روح نماز ہے، انسانی پیدائش کا مقصد نماز ہے اور نماز سے حاصل ہوتا ہے.نماز میں ہر قسم کی فلاح کی کنجیاں ہیں اور جیسے جیسے انسان نماز میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے فلاح کی مزید کنجیاں عطا ہوتی رہتی ہیں.میں نے عمد الفظ کنجی استعمال نہیں کیا بلکہ جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ نماز کی کیفیت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ نئے امور کی فہم عطا فرما تا کرتا چلا جاتا ہے اور نئے مضامین اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں اس

Page 511

خطبات طاہر جلدے 506 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات میں سے متعدد اقتباسات میں جماعت کے سامنے پہلے رکھ چکا ہوں لیکن آج زیادہ تر توجہ نماز کی ابتدائی منازل کی طرف دلانی چاہتا ہوں کیونکہ میں نے بارہا اپنے سفر کے دوران خصوصاً مغرب کے ممالک میں اپنے سفر کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ جماعت احمدیہ کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ابھی تک نماز کی ابتدائی حالتوں پر بھی قائم نہیں ہوسکا.انگلستان میں بھی میں نے عمومی جائزہ لیا اور بعض خاندانوں سے تفصیلی گفتگو بھی کی.ان کے بچوں کے حالات معلوم کئے تو مجھے یہ دیکھ کر بہت تکلیف پہنچی کہ ہم ابھی تک نماز کے سلسلے میں اپنی آئندہ نسلوں کی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکے اور یہی وہ امر ہے جو میرے لئے پہلی صدی کے آخر پر سب سے زیادہ فکر کا موجب بن رہا ہے.جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا اگر جماعت احمد یہ اگلی صدی میں اس حال میں داخل ہو کہ ہماری اگلی نسلیں نماز سے غافل ہوں.ایک ایسی فکر انگیز بات ہے اور ایسی قابل فکر بات ہے کہ جب تک ہر دل میں اس کی فکر پیدا نہ ہو میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآنہیں ہو سکا اور بار بار توجہ دلانے کے باوجود جس رنگ میں میں یہ فکر دلوں میں پیدا کرنی چاہتا ہوں میں دیکھ رہا ہوں کہ ابھی تک اس رنگ میں یہ فکر بہت سے دلوں میں پیدا نہیں کر سکا.جہاں تک جماعت کے عمومی اخلاص کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ابتلا کے موجودہ دور میں جماعت کے اخلاص کا عمومی معیار بہت بلند ہوا ہے اور نیک کاموں میں تعاون کی روح میں ایک نئی جلا پیدا ہوگئی ہے.ایک آواز پر لبیک کہنے کے لئے کثرت کے ساتھ دل بے چین ہیں اور جب بھی جماعت کو نیکی کی طرف بلایا جاتا ہے جس طرح اخلاص کے ساتھ اس آواز پر جماعت لبیک کہتی ہے اس سے میرا دل حمد سے بھر جاتا ہے لیکن یہ اخلاص فی ذاتہ کچھ چیز نہیں اگر اس اخلاص کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے ایک مستقل تعلق پیدا نہ ہو جائے.یہ اخلاص اپنی ذات میں محفوظ نہیں اگر اس اخلاص کو نماز کے اور عبادت کے برتنوں میں محفوظ نہ کیا جائے.اس لحاظ سے یہ اخلاص ایک آنے جانے والے موسم کی شکل اختیار کر سکتا ہے.بعض دفعہ سخت گرمیوں کے بعد اچھا موسم آتا ہے اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے چلتے ہیں، بعض دفعہ سخت سردی کے بعد خوشگوار موسم کے دور آتے ہیں لیکن یہ چیزیں آنے جانے والی ہیں ٹھہر جانے والی نہیں.عبادت کوئی موسمی کیفیت کا نام نہیں

Page 512

خطبات طاہر جلدے 507 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء عبادت ایک مستقل زندگی کا رابطہ ہے.عبادت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہم ہوا میں سانس لیتے ہیں.کئی قسم کے زندہ رہنے کے طریق ہیں جو انسان کو لازم کئے گئے ہیں مگر ہوا اور سانس کا جو رشتہ زندگی سے ہے ایسا مستقل دائمی لازمی اور ہرلحہ جاری رہنے والا رشتہ اور کسی چیز کا نہیں.پس عبادت کو یہی رشتہ انسان کی روحانی زندگی سے ہے.یہ عبادت ذکر الہی کی صورت میں ہمہ وقت جاری رہ سکتی ہے لیکن وہ نماز جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائی اور سنت نے جسے ہمارے سامنے تفصیل سے پیش کیا یہ وہ کم سے کم نماز ہے، کم سے کم ذکر الہی ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اس لئے میں خصوصیت کے ساتھ آج پھر جماعت کو نماز کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.میں جانتا ہوں کہ اکثر وہ احباب جو اس وقت مجلس میں حاضر ہیں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نمازوں کے پابند ہیں مگر میں حال کے موجودہ دور کی بات نہیں کر رہا میں مستقبل کی بات کر رہا ہوں.وہ لوگ جو آج نمازی ہیں جب تک ان کی اولادیں نمازی نہ بن جائیں جب تک ان کی آئندہ نسلیں ان کی آنکھوں کے سامنے نماز پر قائم نہ ہو جائیں.اس وقت تک احمدیت کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.اس وقت تک احمدیت کے مستقبل کے متعلق خوش آئند امنگیں رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا.اس لئے بالعموم ہر فرد بشر ، ہر احمدی بالغ سے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو میں بڑے عجز کے ساتھ یہ استدعا کرتا ہوں کہ اپنے گھروں میں اپنی آئندہ نسلوں کی نمازوں کی حالت پر غور کریں.ان کا جائزہ لیں ، ان سے پوچھیں اور روز پوچھا کریں کہ وہ کتنی نمازیں پڑھتے ہیں معلوم کریں کہ جو کچھ وہ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا مطلب بھی ان کو آتا ہے یا نہیں اور اگر مطلب آتا ہے تو غور سے پڑھتے ہیں یا اس انداز میں پڑھتے ہیں کہ جتنی جلدی یہ بوجھ گلے سے اتار پھینکا جا سکے اتنی جلدی نماز سے فارغ ہو کر دنیا طلبی کے کاموں میں مصروف ہو جائیں.اس پہلو سے اگر آپ جائزہ لیں گے اور حق کی نظر سے جائزہ لیں گے، سچ کی نظر سے جائزہ لیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ جو جواب آپ کے سامنے ابھریں گے وہ دلوں کے بے چین کر دینے والے جواب ہوں گے.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسی بات ایسی مجلس میں کرنا جس میں تمام دنیا سے مختلف ممالک کے نمائندے آئے ہوں یہ اچھا اثر پیدا نہیں کرے گا، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ اقرار جو تمام دنیا میں تشہیر پاسکتا ہے اور مخالف اس سے خوش ہو سکتے ہیں ایسی مجلس میں کرنا کوئی اچھی بات نہیں مگر مجھے اس کی ادنیٰ بھی پرواہ نہیں کہ دنیا سچائی کے اقرار کے

Page 513

خطبات طاہر جلدے 508 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء نتیجہ میں ہمیں کیا کہتی ہے.جب تک آپ سچائی کے اقرار کی جرات پیدا نہیں کرتے آپ کی دینی حالت درست نہیں ہوسکتی، آپ کی اخلاقی حالت درست نہیں ہوسکتی.آپ کی روحانی حالت درست نہیں ہوسکتی.ہمارا حال سب خدا کے سامنے ہے اور خدا کی نظر کے سامنے ہم ہمیشہ کھلی ہوئی کتاب کی طرح پڑے رہتے ہیں.اس لئے ہمارے جو بھی اقرار ہیں وہ اپنے خدا کے حضور ہیں اور یہ شعور بیدار کرنے کے لئے جماعت کے دلوں کو جھنجھوڑنے کے لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آج اس خطبہ میں آپ کو خصوصیت کے ساتھ اس مرض کی طرف توجہ دلاؤں جس کے متعلق خطرہ ہے کہ ہماری اگلی نسلوں کے لئے بعض صورتوں میں مہلک ثابت ہوسکتی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خصوصیت کے ساتھ مغربی ممالک میں یہ مرض پایا جاتا ہے اور بڑھ رہا ہے لیکن میں جب غور کی نظر سے مشرقی ممالک کو دیکھتا ہوں تو ان کی حالت بھی کوئی اس سے بہت زیادہ بہتر نہیں پاتا.یہاں تک کہ جب میں پاکستان کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو وہاں کی جماعتوں کی حالت بھی کئی پہلوؤں سے قابل فکر دیکھتا ہوں.مجھے ایک لمبا تجر بہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ وابستہ رہنے کے نتیجہ میں اور وقف جدید کے ساتھ وابستہ رہنے کے نتیجہ میں اور انصار اللہ کے ساتھ وابستہ رہنے کے نتیجہ میں دیہاتی جماعتوں میں پھرنے کا تجربہ ہوا.دیہاتی جماعتوں کے حالات کو قریب کی نظر سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے میرا مزاج ایسا بنایا ہے کہ اعدادوشمار پر نظر رکھنے کی عادت ہے.اس لئے میں نے تمام دوروں میں ہمیشہ تقریریں کرنے کی بجائے تفصیل سے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی.بعض مجالس میں تقریر کے پروگرام ہوتے ہوئے بھی اس پروگرام کو منسوخ کیا اور نو جوانوں اور بچوں کو کھڑا کر کے ان سے پوچھنا شروع کیا کہ بتاؤ تم نماز میں کیسے ہو تمہیں نماز پڑھنی آتی بھی ہے کہ نہیں، آتی ہے تو پڑھ کے سناؤ اور سناتے ہوتو پھر اس کا مطلب بھی بتاؤ غرضیکہ بڑی تفصیل سے میں نے جائزہ لیا ہے اور مسلسل ان دوروں کے وقت جماعت کو متنبہ کرتا رہا ہوں کہ جس حالت میں ہم آج اپنے بچوں کو پاتے ہیں یہ ہرگز اطمینان بخش نہیں ہے.اس لئے محض مغرب کو متہم کرنا بھی مناسب نہیں.مغرب کے ملکوں کے بعض زائد ایسے محرکات ہیں جو نماز سے غیر اللہ کی طرف کھینچنے میں مزید ابتلا پیدا کرتے ہیں لیکن مشرقی ممالک میں کچھ اور قسم کے محرکات ہیں.وہاں کی غربت ، وہاں کی بدحالی، وہاں کے موسموں کی کڑی آزمائشیں بہت سے

Page 514

خطبات طاہر جلدے 509 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء ایسے محرکات ہیں جن کے نتیجہ میں انسان میں بسا اوقات گھر واپس آنے کے بعد یہ طاقت نہیں رہتی کہ اپنی اولاد کی طرف صحیح توجہ دے سکے.اس لئے تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ ނ کے فضل سے موجود ہے اور اس وقت 114 ممالک سے زائد ملکوں میں خدا تعالیٰ کے فضل.جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے ہمیں آج کے بعد کا بقیہ سال خصوصیت سے نماز کو قائم کرنے کی کوششوں میں صرف کرنا چاہئے.یہ درست ہے کہ خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں بھی ہیں انصار اللہ کی بھی ذمہ داریاں ہیں، اور نظام جماعت کی من حیث الجماعت بھی ذمہ داریاں ہیں لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تربیت کا ہمیں گر سکھایا وہ یہ نہیں تھا کہ تم اپنے نظام کے اوپر تربیت کے کاموں کا انحصار کرو بلکہ فرمایا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسُّوَلٌ عَنْ رَعِيَّته ( بخاری کتاب الجمعہ حدیث نمبر ۸۴۴) که خبر دار ! تم میں سے ہر ایک ایک چرواہا ہے، ایک گڈریا ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا.اتنا عظیم الشان تربیت کا ایک نقطہ ہے کہ جسے اگر قو میں یادرکھیں یا مسلمان یا در کھتے تو کبھی بھی وہ انحطاط پذیر نہیں ہو سکتے تھے.ہر فرد بشر جو ایک گھر رکھتا ہے یا گھر سے بڑھ کر اپنے معاشرے میں کوئی حیثیت رکھتا ہے یا ایک شہر کے معاشرے سے بڑھ کر ملک یا قوم میں کوئی حیثیت رکھتا ہے.ایسے ہر شخص پر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان اطلاق پاتا ہے اور کیسے خوبصورت انداز میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا.فرمایا تم میں سے ہر ایک، ایک گڈریا ہے مالک نہیں ہے.رَاعٍ اس گڈریے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جولوگوں کی ، مالکوں کی بھیڑیں لے کر ان کو چرانے کے لئے باہر جاتا ہے تو یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنی اولاد کے مالک ہو اور اپنی اولاد کے بارے میں تم پوچھے جاؤ گے یا جن لوگوں پر تمہارا اثر ورسوخ ہے یا جس قوم میں تمہارا نفوذ ہے ان لوگوں یا اس قوم کے متعلق اس لئے پوچھے جاؤ گے کہ تم ان پر کوئی مالکانہ حقوق رکھتے ہو.فرمایا ہر گز نہیں تم جس حیثیت میں بھی ہوا ایک چھوٹے دائرے میں ایک مقام تمہیں نصیب ہوا ہے یا ایک وسیع تر دائرے میں ایک مقام تمہیں نصیب ہوا ہے تمہارا مقام ایک گڈریئے کا سا مقام ہے اور جو کچھ تمہاری رعیت میں ہے جو کچھ تمہارے تابع فرمان لوگ ہیں یہ سارے خدا کی ملکیت ہیں، خدا کی بھیڑیں ہیں اور جس طرح بھیڑوں کا مالک گڈریے سے ان کا حساب لیا کرتا ہے اور

Page 515

خطبات طاہر جلدے 510 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء بعض دفعہ ایک ایک بھیڑ گوگن کے وصول کرتا ہے اور نقصان کے عذر قبول نہیں کرتا.اسی طرح تم میں سے ہر ایک خدا کے حضور جوابدہ ہے.تم اپنی اولاد کے بھی مالک نہیں، یہ تمہارے سپر دامانتیں ہیں.اس لئے سب سے اہم ذمہ داری خود گھر والے کی ہے اور پھر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے تفصیل سے یہ ذکر بھی فرمایا کہ گھر کی مالکہ بھی اپنے دائرہ اختیار میں مسئولہ ہوگی اس سے بھی پوچھا جائے گا اور كُلُّكُمُ نے تو سارے بنی نوع انسان کو محیط کر لیا ہے کسی قسم کا کوئی انسان بھی اس فرماں کے دائرہ کار سے باہر نہیں رہا.اس لئے یہی وہ بہترین گر ہے جسے سمجھنے کے بعد یہی وہ بہترین ارشاد ہے جس پر عمل کرنے کے بعد ہم فی الحقیقت زندہ رہنے کا سبق سیکھ سکتے ہیں.اس لئے ہر وہ شخص جو کسی حیثیت سے کوئی اثر رکھتا ہے اسے نماز کا نگران ہو جانا چاہئے.ہر باپ کو اپنی بیوی اور اپنے بچوں کا نگران ہونا چاہئے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بیوی اور اپنے بچوں کو با قاعدہ مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کی تلقین فرمایا کرتے تھے.بہت پرانی بات ہے ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے، تمام انبیاء قوم کو نصیحت کیا کرتے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام اس معاملے میں ایسا دل ڈال کر ایسی جان ڈال کر نصیحت فرمایا کرتے تھے اور ایسے بے قرار رہتے تھے اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ کے پیارا اور محبت کی نظر ان پر پڑی اور قرآن کریم کی دائمی کتاب میں ان کا ذکر فر ما دیا.اس سے ایک اور سبق بھی ہمیں ملتا ہے کہ ہم کوئی کام خواہ کیسے ہی مخفی طور پر کریں اور دنیا کی نظر سے اوجھل رہ کر بھی کریں، خواہ آباد شہروں کے بیچ میں کریں یا صحراؤں کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی میں کریں، شہر کی گلیوں میں کریں یا اپنے گھر کے خلوت خانوں میں کریں خدا کی نظر ہر کام پر پڑتی ہے اور جس کام کو خدا قبولیت عطا فرماتا ہے اس کام پر محبت اور پیار کی نظر رکھتا ہے اور اس کام کو ضائع نہیں ہونے دیتا.حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت کی جو جزاء آپ کو اخروی دنیا میں ملے گی وہ ایک الگ جزاء ہے لیکن آپ کی مثال کو قیامت تک کے لئے دنیا کے سامنے زندہ کر کے پیش کر دینا خود اپنی ذات میں ایک اتنی عظیم الشان جزاء ہے کہ اس کی مثال کم دنیا میں دکھائی دیتی ہے.پس وہ اسماعیلی صفت اپنے اندر پیدا کریں اپنی بیویوں کی نمازوں کے متعلق متوجہ ہوں، اپنے بچوں کی نمازوں کی طرف متوجہ ہوں ، اپنی بچیوں کی نمازوں کی طرف متوجہ ہوں اور یا درکھیں کہ

Page 516

خطبات طاہر جلدے 511 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء اس کام کو جب تک بچپن سے آپ شروع نہیں کریں گے یہ کام ثمر دار ثابت نہیں ہوگا، اس محنت کا ویسا پھل آپ کو نہیں مل سکتا جیسی آپ توقع رکھتے ہیں.یہ وہ دوسری نصیحت ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمائی جب آپ نے یہ فرمایا کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دو جب آپ نے یہ فرمایا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے بائیں کان میں تکبیر کہو (الجامع لشعب الایمان باب فی حقوق الاولاد والاصليین حدیث نمبر: ۸۲۵۴) تو در حقیقت انسانی فطرت کا یہ گہرا راز ہمیں سمجھا دیا کہ تربیت کے لئے کسی خاص عمر کا انتظار نہیں کیا جاتا.جونہی بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے وہ تمہاری ذمہ داری بن جاتا ہے اور اس دن سے اس کی تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے.اس مضمون پر اس سے پہلے بھی میں روشنی ڈال چکا ہوں کہ گزشتہ زمانوں میں تو انسان ایک جاہل انسان یہ اعتراض کر سکتا تھا کہ یہ ارشاد بے معنی اور مہمل ہے کیونکہ پہلے دن کے بچے کو تو کچھ سمجھ نہیں آتا وہ تو نہ زبان سمجھتا ہے نہ اشارے جانتا ہے اپنے ماں باپ تک کو پہچان نہیں سکتا اس کے کان میں اذان دینے کا کیا مطلب ہے.مگر آج کی تحقیق نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ معاملہ کھول دیا ہے اور اس عقدے کو حل کر دیا ہے کہ بچہ نہ صرف یہ کہ ماں کے پیٹ سے باہر آنے پر فوری طور پر اثر قبول کرنے لگ جاتا ہے بلکہ اب تو سائنس دان یہ بات بھی دریافت کر چکے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں پیدائش سے پہلے بھی وہ بیرونی دنیا کے اثرات کو قبول کرتا ہے.اس پر غور کرتے ہوئے میری توجہ ایک اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحت کی طرف مبذول ہوئی ہمیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب میاں بیوی تعلقات قائم کرتے ہیں تو اُس وقت بھی دعا کیا کرو، اُس وقت بھی شیطان کی لمس سے محفوظ رہنے کی دعا کیا کرو اور خدا سے پناہ مانگا کرو (مسلم کتاب النکاح حدیث نمبر : ۳۵۹) تو معلوم ہوا کہ پیدائش کے بعد تربیت کا ایک خاص مرحلہ شروع ہوتا ہے لیکن دراصل پیدائش سے پہلے بھی تربیت کا ایک مرحلہ شروع ہو جاتا ہے اور بچہ بننے کے وقت اُس کے آغاز کے وقت یا اُس کے آغاز کے امکان کے وقت بھی انسان کو اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے استدعا کرنی چاہئے.پھر مزید میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مضمون تو اس سے بھی زیادہ گہرا اور اس سے بھی زیادہ وسیع تر ہے انبیاء کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ مدتوں بعد پیدا ہونے والی نسلوں کے لئے بھی دعا کیا کرتے تھے جن کا کوئی وجود نہیں تھا.وہ شہر مکہ جو آج تمام دنیا کے لئے مرجع خلائق ہے جب اس کے

Page 517

خطبات طاہر جلدے 512 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء کھنڈرات کو از سرنو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے بلند کرنا شروع کیا تو اس وقت قیامت تک آنے والی اپنی نسلوں کے لئے بھی دعائیں مانگیں.پس حقیقت یہ ہے کہ تربیت کا آغاز صرف بچے کے بڑے ہونے کے وقت کا منتظر نہیں ہوتا بلکہ اس کی پیدائش کے ساتھ ، اس کی پیدائش سے پہلے بلکہ اس سے بھی بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے یعنی آپ صرف اپنی اولاد کے لئے دعا نہ کریں بلکہ اپنی اولاد در اولا د اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی دعا کریں.ان باتوں پر غور کرتے ہوئے میری توجہ پھر اس بات پر آ کر ٹھہر گئی کہ ہر بات کا مرکزی نقطہ تو دعا بنتی ہے دعا کے بغیر کسی کوشش کو پھل نہیں لگتا.دعا کے بغیر کوئی محنت ثمر دار ثابت نہیں ہوتی.پس وہ ماں باپ جو اپنی اولاد کی تربیت میں دعا سے کام نہیں لیتے وہ جتنی محنت کریں حقیقت یہ ہے کہ ان کی محنت کو پھل نہیں لگ سکتا.اگر دعا کے پانی کے بغیر خشک محنت کریں گے تو یاد رکھیں کہ وہ خشک نمازی پیدا کر دیں گے لیکن حقیقی عبادت کرنے والے پیدا نہیں کر سکتے اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے جب میں نے اپنے تجربے پر نظر ڈالی تو اُس وقت مجھے سمجھ آئی کہ کیوں بعض سخت گیر ماں باپ کی اولا د نماز پر تو قائم ہوئی لیکن نماز کی روح ان سے عاری رہی اور نماز کی روح سے خالی رہی اور جس طرح ایک مشین گھومتی ہے یا ایک روبوٹ چلتا ہے جو بظاہر زندگی والے آثار رکھتا ہے لیکن حقیقت میں زندگی.خالی ہوتا ے ایسی عبادتیں بھی ہو جاتی ہیں.ނ پس آخری بات یا یوں کہنا چاہئے کہ پہلی بات جو آخر بھی ہے اور پہلی بھی ہے وہ یہی ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو عبادتوں پر قائم کرنے کے لئے دعا کی طرف متوجہ ہوں اور دعاؤں میں ابتہال پیدا کریں، دعاؤں میں درد پیدا کریں، دعاؤں میں گریہ وزاری پیدا کریں، دعاؤں میں خدا تعالیٰ آپ کی بے قراری اور بے چینی کو محسوس کرے اور وہ جان لے کہ آپ واقعہ اپنی اولادوں اور آئندہ دور تک آنے والی نسلوں کو خدا کے عبادت گزار بندے بنانا چاہتے ہیں.اگر آپ ایسا کریں گے تو صراط مستقیم کے کنارے پر آپ کھڑے ہوں گے آئندہ سفراختیار کرنے کے لئے.آپ کی صراط مستقیم پر چلنے کا آغاز ہو جائے گا.پھر جوں جوں اس راہ میں قدم آگے بڑھائیں ہمیشہ دعا کو یا درکھیں اور دعا سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں.دعا سے عجائب کام ہوتے ہیں حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں نصیحت کو ایک نیا شعور ملتا ہے.وہ نصیحت کرنے والا جو دعا کا عادی نہیں اور دعا سے خالی

Page 518

خطبات طاہر جلدے 513 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء نصیحت کرتا ہے اس کی نصیحت میں جان نہیں ہوتی ، اس کی نصیحت میں روح نہیں ہوتی.اس کی نصیحت بعض دفعہ خوبیاں پیدا کرنے کی بجائے طرح طرح کی خرابیاں پیدا کر دیتی ہے.ایسا شخص جو دعا کا عادی نہیں اور ہر لمحہ اس کی اپنے خدا پر نظر نہیں اس کی نصیحت بعض دفعہ خود اس کے لئے بھی ہلاکت کا موجب بن جاتی ہے کیونکہ اس کی نصیحت کی خشکی اس کی روح کے پانی کو چوس جاتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ خود ایک مشین بن جاتا ہے.بسا اوقات خشک نصیحت کرنے والا متکبر ہو جاتا ہے بسا اوقات ایک خشک نصیحت کرنے والا متکبر بن کر نہ صرف خود خدا کی راہوں سے دور چلا جاتا ہے بلکہ جن کو نصیحت کرتا ہے ان کو نیکی کی طرف بلانے کی بجائے بدیوں کی طرف دھکیلتا ہے اور ایسی نصیحتیں نہ اس کے کام آتی ہیں نہ اُن کے کام آتی ہیں جن کو نصیحت کی جاتی ہے.کئی ملک ہیں جو مثال کے طور پر آپ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور خدا کے نام پر بھی تحریکات کروائی جارہی ہیں لیکن کوئی بھی اثر نہیں رکھتیں کیونکہ وہ نصیحتیں تقویٰ سے عاری ہیں اور وہ صیحتیں دعا سے عاری ہیں.جماعت احمدیہ کو ایسا نہیں بننا جماعت احمدیہ تمام دنیا کے لئے آج وہ آخری نمونہ ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمونے کا احیاء ہے.اگر یہ نمونہ جماعت احمدیہ میں زندہ نہ ہوا تو ساری دنیا ہمیشہ کے لئے مرجائے گی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں میں آپ سے کہتا تم خدا کی وہ آخری جماعت ہو جس پر کائنات کے خدا کی نظر ہے جس سے ساری دنیا کی زندگی وابستہ ہو چکی ہے اور یہ عظیم الشان کام دعا کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ عظیم الشان کام ممکن نہیں ہے جب تک آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والی نسلیں اپنے پیچھے چھوڑ کر نہ جائیں.جب تک ایسا نہ ہو کہ مرنے سے پہلے آپ کی نظریں اپنی اولاد کے چہروں پر اس طرح پڑ رہی ہوں کہ آپ کے دل سکینت اور اطمینان سے بھر جائیں کہ ہاں ہم نے خدا کی راہ میں عبادت کرنے والی اولا د پیچھے چھوڑی ہے.جب تک ان کا تقویٰ نہ آپ دیکھیں اس وقت تک آپ کی زندگی بھی بے کار ہے اور آپ کی موت بھی بے کار ہے.اس لئے اس امر کی طرف بہت زیادہ گہری توجہ دیں ہر وقت بے قراری محسوس کریں.کیوں آپ چین سے بیٹھتے ہیں جب اپنے گھر میں آپ اپنی اولا د کو بے نماز دیکھتے ہیں پھر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آغاز سفر کوئی انجام سفرتو نہیں.یہ سفر تو ایسا ہے جس میں لامتناہی مراحل آتے ہیں آپ بظاہر اپنی اولاد کو اگر دعاؤں کی مدد سے نماز پر قائم بھی

Page 519

خطبات طاہر جلدے 514 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء کر دیں اور غور سے مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے نماز کے ایسے آداب ہیں جن سے وہ عاری ہیں بہت سے نماز کے ایسے فوائد ہیں جو ان کو ملنے چاہئیں اور نہیں مل رہے.نماز ان کی توجہ دنیا سے ہٹا کر دین کی طرف نہیں کرتی.ان کا دل اسی طرح دنیا میں اٹکا ہوا ہے جس طرح نماز پڑھنے سے پہلے اٹکا ہوا تھا.پس جب ان باتوں کو آپ غور کی نظر سے دیکھیں گے تو پھر ان کی نمازوں کی حالت کو بہتر اور بہتر بنانے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بعض پچھلے خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اقتباسات پڑھ کے سنائے اور بڑی تفصیل سے مضمون کی گہرائی میں جا کر آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نماز کا آغاز محض وہ مقصد نہیں ہے جس سے ہم ہمیشہ کی زندگی پاسکتے ہیں.نماز کے آغاز کے بعد پھر آگے لامتناہی مراحل ہیں جو مسلسل جاری رہیں گے اور اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں ہے.کوئی دنیا کا عبادت کرنے والا عبادت میں اپنے آخری مقام کو نہیں پاسکتا جب تک وہ اس مضمون کو نہ سمجھے کہ جس کی عبادت کی جاتی ہے اس کا کوئی آخری مقام نہیں ہے اور جب اس مضمون کو وہ سمجھ جاتا ہے تو پھر اس آخری منزل جس کی کوئی منزل نہیں یعنی خدا تعالیٰ.اس کی طرف مسلسل اور پیہم حرکت کا نام ہی نمازوں کی تکمیل یا نماز کے مقاصد کا حصول بن جاتا ہے.اس سے یہ راز ہمیں سمجھ آگیا کہ کوئی نماز جو ایک حالت پر ٹھہر جاتی ہے وہ زندہ نماز نہیں رہتی.کوئی نماز کی حالت جو آگے بڑھنے سے رُک جاتی ہے وہ یقینا زندگی کے پانی سے محروم ہونا شروع ہو جاتی ہے.عبادت ایک ایسا مضمون ہے جس میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہے.چنانچہ جب اس پہلو کوخوب سمجھنے کے بعد آپ اپنی اولاد کی طرف متوجہ ہوں گے تو آپ اپنے نفس کی طرف بھی متوجہ ہوں گے پھر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کا مضمون سمجھ آئے گا کہ ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے ( در تمین صفحه : ۱۷) پھر آپ کو قدم آگے بڑھانے پڑیں گے تا کہ آپ کی اولاد آپ کے پیچھے پیچھے اپنے قدم آگے بڑھائے.پھر یہ مضمون یک طرفہ نصیحت کا مضمون نہیں رہے گا.آپ خوب سمجھ لیں گے اور اس

Page 520

خطبات طاہر جلدے 515 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء بات کا عرفان حاصل کر لیں گے کہ آپ کو ہمیشہ اپنی نمازوں کی حالت کو پہلے سے بہتر بنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کو اپنے پیچھے چلنے کے ارشارے کرنے ہوں گے.اپنے پیچھے چلے آنے کی تلقین کرنی ہوگی اور نمازوں کے جو پھل آپ حاصل کریں گے ان پھلوں میں اپنی اولا د کو شریک کرنا ہوگا اس طرح ان کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ کوئی محض دکھاوے کا بوٹا نہیں یہ وہ پھل دار درخت ہے جس سے واقعہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں اور اُس کے قرب اور اس کے پیار کے پھل لگتے ہیں.پھر یہ نماز میں شمر دار ہو جائیں گی، پھر یہ نماز میں ہمیشہ نشو ونما پاتی رہیں گی.پس نماز کی حقیقت کی طرف نظر کریں، گہرائی سے اپنی اولاد کا جائزہ لیں اور پھر اپنا جائزہ لیں اور پھر دونوں مل کر دعائیں کرتے ہوئے اس سفر کو آگے بڑھاتے چلے جائیں.اس راہ میں بہت ہی محنت درکار ہے بہت سے مراحل آتے ہیں جب انسان تھک جاتا ہے، ہمت ہار دیتا ہے، سمجھتا ہے کہ کب تک میں یہ کام کرتا رہوں گا.بسا اوقات اپنی اولاد کو نصیحت کرتا ہے، مہینوں سالوں اور اولاد ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی.بعض دفعہ دل میں سخت درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کس زبان سے ان کو سمجھاؤں کہ عبادت میں تمہاری زندگی ہے مگر بندہ عاجز ہے بے بس ہے کوئی پیش اس کی نہیں جاتی لیکن یادرکھیں ایسے موقعوں پر ہرگز مایوس نہیں ہونا اس وقت پھر یاد کریں کہ در حقیقت آپ کا تمام تر انحصار عاجزانہ دعاؤں پر ہے، ایسی صورت میں جب آپ اپنی نصیحت کی ناکامی سے دل میں دکھ محسوس کریں وہ وقت خصوصیت کے ساتھ دعا کا وقت ہے.میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہتوں نے یہ تجربہ کیا ہو گا لیکن کئی ایسے بھی ہیں جن کو شاید ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ نہ ہوا ہو اس لئے ان کو بتانے کی خاطر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے بار ہا اپنی زندگی میں یہ محسوس کیا ہے کہ مایوسی کے وقت مایوسی میں سے زندگی کا پانی نکلتا ہے کہ اگر آپ دعا کی طرف متوجہ ہو جائیں.جب آپ کی کوششیں بے کار جارہی ہوں، جب کوئی نتیجہ نہ نکل رہا ہو اس وقت اگر آپ خدا کو الحاء کے ساتھ پکاریں ، عاجزی اور خشوع کے ساتھ پکاریں تو انہی ناکامیوں میں سے مراد کا ایک ایسا چشمہ پھوٹتا ہے جو سلسبیل بن جاتا ہے، جو ہمیشہ کے لئے آپ کو زندگی بخشتا ہے.پس اس روح کے ساتھ اپنی اولاد کو نمازوں پر قائم کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ کو آغاز بہر حال پہلے سبق سے کرنا ہوگا.پہلے اُن کو روزمرہ کی نمازوں کی عادت ڈالنی ہوگی لیکن

Page 521

خطبات طاہر جلدے 516 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء یا د رکھیں یہ کام سختی سے نہیں ہو گا.دعا کے بعد آپ کے دل میں ایک قسم کی نرمی پیدا ہو جائے گی ، دعا کے بعد آپ کے دل میں ایک قسم کا بجز پیدا ہو جائے گا اور دعا کے نتیجہ میں آپ کی اولاد کے دل بھی نرم ہوں گے پھر آپ ان کو پیار اور محبت سے سمجھائیں اور ضروری نہیں کے پہلے دن ہی آپ کی اولا د پانچ وقت کی نمازی بن جائے.ضروری نہیں کہ آپ کی اولا د جب پانچ وقت کی نمازی بن جائے تو وضو میں بھی ویسے ہی اہتمام کرتی ہو اور دیگر لوازمات میں بھی ویسا ہی اہتمام کرتی ہو.ایسی خواتین بھی ملیں گی آپ کو ایسی بچیاں بھی ملیں گی جو اپنے سنگھار کو بچانے کی خاطر تیم کر لیں گی.اس وقت ان کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں اس وقت ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا ئیں ورنہ آپ کی نصیحت سارا اثر کھو دے گی ، آپ ان کے قریب آنے کی بجائے ان سے دور ہٹ جائیں گے اور دور کی آواز وہ اثر نہیں کرتی جو قریب کی آواز کیا کرتی ہے.ایک محبت کرنے والا جو اپنے محبوب کے کان میں سر گوشی کرتا ہے دنیا کا بلند ترین آواز رکھنے والا انسان بھی وہ اثر اپنی آواز میں نہیں دیتا جو دور کی آواز ہوا کرتی ہے.اس لئے آپ قریب رہیں.یاد رکھیں یہ راز سمجھ لیں اور کبھی نہ بھولیں کہ اگر کامیاب نصیحت کرنی ہے تو آپ کو ہمیشہ اپنی بیوی، اپنے بچوں کے قریب رہنا ہوگا، روحانی طور پر اپنے دلی تعلقات کے لحاظ سے اپنے جذبات کے لحاظ سے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ اور اُن کے درمیان کوئی خلیج حائل ہو جائے.حوصلہ کریں وسعت قلبی کا ثبوت دیں ان کی کمزوریوں کو دیکھیں تو اپنی کمزوریاں بھی تو یاد کیا کریں آپ بھی کب پہلے دن ہمیشہ کے برابر نمازی بن گئے تھے.کئی مراحل میں سے آپ گزرے ہیں، کئی اور کمزوریاں ہیں جو آپ کی ذات میں موجود ہیں جن کے ساتھ آپ زندہ رہ رہے ہیں ، جن کے ساتھ آپ نے ایک قسم کی صلح کر رکھی ہے.آخر وہ بھی تو انسان ہیں،ان کے اندر بھی کمزوریاں ہیں، ان کے اندر بھی ایسے جذبات ہیں جو بچپن کی عمر میں بعض دفعہ غیر اللہ کی طرف زیادہ مائل ہو جایا کرتے ہیں اور ان کی تادیب کی ضرورت ہے ان کو رفتہ رفتہ تربیت دے کر ایک خاص نہج پر چلانے کی ضرورت ہے اس لئے یہ شوخیاں اور تیزیاں اور تحقیر کی باتیں کام نہیں دیں گی.حوصلہ کرنا ہوگا مگر حوصلے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی آنکھیں بند کر دیں.میں نے دو طرح کے لوگ دیکھے ہیں بعض اپنی اولاد سے اس قسم کے حوصلے کا سلوک کرتے ہیں کہ وہ جو مرضی کرتی رہے ان کو پر واہ کوئی نہیں.یہ حوصلہ نہیں ہے یہ تو بے حسی ہے، یہ تو موت ہے.حوصلہ یہ ہے کہ دکھ محسوس کریں اور دکھ دکھ

Page 522

خطبات طاہر جلدے 517 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء کے ساتھ رہیں اور اُس دکھ کو برداشت کر کے پھر اخلاق کا ثبوت دیں.اگر آپ ان کمزوریوں کو دیکھیں اور آپ کی روح بے چین نہ ہو جائے تو خدا کی قسم آپ حوصلے والے نہیں ، آپ مردہ ہو چکے ہیں.تکلیف کی آزمائش کے وقت حوصلہ دکھانا اور ان محرکات کے وقت غصے کو قابو میں رکھنا جبکہ انسان لازما طیش کا شکار ہو جاتا ہے اس کو حوصلہ کہتے ہیں اور تربیت کے لئے اس حو صلے کی ضرورت ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایک ایسے صحابی روایت کرتے ہیں جو ایک لمبے عرصے تک اسلام سے غافل رہے اور صحراء میں انہوں نے پرورش پائی اس لئے شہروں کے آداب اور اخلاق اور اطوار سے وہ نا واقف تھے وہ کہتے ہیں کہ جب میں پہلی دفعہ مدینہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوا تو مجھے نہ تو شہری تہذیب و تمدن کا کوئی حال معلوم تھا نہ نماز کے آداب سے واقفیت تھی چنانچہ نماز کے دوران میں نے ایسی حرکتیں کیں جو نماز میں نمازی کو زیب نہیں دیتیں.وہ کہتے ہیں کہ جب نماز ختم ہوئی تو ارد گرد سے صحابہ کی نظریں اس طرح پڑیں جیسے مجھے کھا جائیں گے کیونکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام تھے اور وہ جانتے تھے کہ آپ کی نماز میں یہ حرکتیں خلل انداز ہوئی ہیں اور یہ چیز وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.انہوں نے محسوس کیا کہ جیسے خونی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں سارے کہ یہ میں نے کیا خبیثانہ حرکتیں کی ہیں.کہتے ہیں میں نے خوف محسوس کیا لیکن اچانک میری نظر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر پڑی آپ کی آنکھوں میں پیار بھرا ہوا تھا.ایسی محبت تھی، ایسی شفقت تھی کہ جیسے ماں بہت ہی پیار کی حالت میں اپنے بچے کو دیکھ رہی ہو.آپ نے فرمایا دیکھو نماز میں یوں نہیں کیا کرتے یوں کیا کرتے ہیں، آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ نماز کس طرح پڑھا کرتے ہیں (مسلم کتاب المساجد حدیث نمبر: ۸۳۶) ایسی ایک نہیں دو نہیں بیسیوں مثالیں ہیں بڑوں کے ساتھ بھی آپ نے شفقت کا اور حکم کا ثبوت دیا ، چھوٹوں کے ساتھ بھی آپ نے ایسا ہی سلوک فرمایا ، جاہلوں کے ساتھ بھی عالموں کے ساتھ بھی.یہ وہ مربی ہے جو ساری دنیا کو زندہ کرنے پر مامور فرمایا گیا تھا.اس مربی کے آثار کو اپنی ذات میں اپنے وجود میں جاری کرنا ہوگا اور اس مربی سے خود زندگی کے گر پانے ہوں گے اور زندہ کرنے کے گر سیکھنے ہوں گے.اس لئے اپنی اولا د اور اپنی بیویوں کی تربیت میں ہرگز نہ عجلت سے کام لیں نہ سہل انگاری سے کام لیں، دونوں چیزیں مہلک ہیں.نہ اُن کی بیماریوں سے غافل ہوں نہ اُن کی

Page 523

خطبات طاہر جلدے 518 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۸ء بیماریوں سے بے پرواہ ہوں اپنے احساس کو زندہ رکھیں اور اس دکھ کو زندہ رکھیں جو برائیوں کو دیکھنے کے نتیجہ میں ایک مؤمن کے دل میں لازماً پیدا ہوتا ہے.بار ہا میں نے جماعت کو پہلے بھی متوجہ کیا ہے کہ سارے قرآن کریم میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایک بھی اشارہ نہیں ملتا کہ بدی کو دیکھ کر آپ غصے میں آجاتے تھے.ہاں بدی کو دیکھ کر آپ بے حد رنجیدہ ہو جاتے تھے، بے حد دکھ محسوس کرتے تھے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کو بار بار آپ کو متوجہ فرمانا پڑا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۳۰) اے محمد ! ان ظالموں کے لئے تو کیوں اپنے نفس کو ہلاک کرتا ہے کیا تو اپنے آپ کو ہلاک کرے گا غم سے کہ یہ مؤمن نہیں ہوتے.کہیں بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غضب ناک ہونے کا ذکر نہیں ملتا لیکن بے انتہاء دردناک ہونے کا ذکر ملتا ہے.پس آپ بھی اپنی نسلوں کو کبھی نمازوں پر قائم نہیں کرسکیں گے جب تک آپ ان کے لئے درد محسوس نہ کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے درد دعا بن جایا کرتا ہے اور وہی دعا ہے جو درد ہو اس کے سوا کوئی دعا نہیں ہے.وہی دعا مقبول ہوتی ہے جس کے ساتھ دل پگھلا ہوا ہو.پس دیکھیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت حسنہ پر غور کرنے سے کیسے کیسے زندگی کے راز ہمیں ملتے ہیں.ایک انسانی زندگی کے نہیں، ایک قومی زندگی کے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے تمام انسانوں کی زندگی کے راز سیرت نبوی میں مضمر ہیں اور اُسی سے ہمیں سیکھنے ہوں گے.پس اپنی اولا د کو نمازوں کی طرف اس طرح متوجہ کریں اور پھر رفتہ رفتہ آگے بڑھیں.اُن سے نمازیں سنیں اگر ٹھیک نماز نہیں آتی تو ان کو سکھانا شروع کریں اور اس وقت آپ میں سے بہت سے ایسے بھی نکلیں گے جنہیں احساس پیدا ہو گا کہ خود ان کو بھی نماز صحیح نہیں آتی.جب ترجمہ سکھانے کا وقت آئے گا تو آپ میں سے بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کو خود نماز کا ترجمہ نہیں آتا ہوگا.جب یہ بتانے کا وقت آئے گا کہ جو کچھ پڑھتے ہو دل لگا کر پڑھنے کی کوشش کرو تو بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کو یاد آئے گا کہ وہ خود بھی تو دل لگا کر نہیں پڑھتے.تو یہ تربیت ایسی ہوگی جو دوطرفہ ہوگی.آپ اپنی اولاد کو زندگی کا پانی عطا کر رہے ہوں گے اور آپ کی اولاد آپ کو زندگی کا پانی عطا کر رہی ہوگی.یہ مضمون ایسا ہے کہ میں کبھی اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے تھک نہیں سکتا.ایک ایسی آگ لگی ہوئی ہے میرے دل میں اس معاملے میں درد اور غم کی کہ بہت سے آپ میں سے اس کا تصور نہیں

Page 524

خطبات طاہر جلدے 519 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء کر سکتے.ہر گز میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والا نہیں ہوں گا جب تک اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے مجھے یہ چین نصیب نہ ہو جائے کہ جماعت نماز کے معاملے میں آج سے سینکڑوں گنا زیادہ بیدار ہو چکی ہے اور ہم اگلی صدی میں اس طرح خدا کے حضور سر جھکا کے داخل ہورہے ہیں کہ ہم اور ہماری بیویاں اور ہماری مائیں اور ہماری بیٹیاں اور ہماری بہنیں اور ہمارے بھائی سارے بڑے اور سارے چھوٹے خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے اس کی عبادت کی روح کو سمجھتے ہوئے عاجزانہ طور پر آئندہ نسلوں کے انسانوں کے لئے دعائیں کرتے ہوئے اگلی صدی میں داخل ہورہے ہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہواللہ کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ملے.آمین.

Page 525

Page 526

خطبات طاہر جلدے 521 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۸ء صد سالہ جشن تشکر کی تیاری نیز مباہلہ کی کامیابی کے لئے ابتہال کریں (خطبہ جمعہ فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جلسہ سالانہ جس کا سال بھر انتظار رہتا ہے اور ایک لمبے عرصے سے اس کی تیاریاں ہو رہی ہوتی ہیں.جب آتا ہے تو آنا فانا گزر جاتا ہے اور پتا بھی نہیں لگتا کہ وہ چند دن جن کے لیے سارا سال انتظار کیا، تیاریاں ہوئیں، راہ دیکھی وہ کیسے تیزی کے ساتھ نکل گئے لیکن اس کی یادیں، اس کی برکتیں باقی رہ جاتی ہیں اور لمبا عرصہ تک ان لوگوں کو جو جلسہ میں شامل ہوتے ہیں اس کی لذت وہ روحانی تجارب یا درہتے ہیں جس کے بعض دفعہ اس جلسہ کے ایام میں خاص لمحے آیا کرتے ہیں.کئی ایسی دعاؤں کی توفیق ملتی ہے جن کے متعلق دعا کرنے والا محسوس کرتا ہے کہ مقبول ہو گئی ہیں.کئی ایسی کمزوریوں کی طرف توجہ بڑھتی ہے جن کی طرف پہلے دھیان نہیں گیا ہوا ہوتا اور انہیں دور کرنے کا عزم لے کر انسان جلسے سے واپس لوٹتا ہے.غرضیکہ بہت سی برکتیں ہیں جوان چند دنوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان پر نازل ہوتی ہیں.لیکن چند دنوں کے لیے نہیں رہتیں بلکہ لمبا عرصہ تک ساتھ چلتی ہیں.پھر ایسی بھی برکتیں ہیں جو آگے اولاد کے لیے باقی رہ جاتی ہیں.چنانچہ اسی جلسے میں بعض دوستوں نے بڑے الحاج کے ساتھ اس مضمون کے دعا کے خط لکھے کہ دعا کریں کہ ہماری اولاد کو اللہ تعالی نمازوں پر قائم فرمائے اور مدتوں نسلوں تک یہ سلسلہ جاری

Page 527

خطبات طاہر جلدے 522 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۸ء رہے.ہم نے فیصلے کیے ہیں کہ ہم پوری کوشش کریں گے مگر جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد نہ آئے اُس وقت تک انسان کے ارادوں کی کوئی قیمت نہیں ہوا کرتی.تو ایسی برکتیں بھی ہیں جو جلسے میں ملتی ہیں.لیکن چند دن باقی نہیں رہا کرتیں بلکہ زندگی بھر ساتھ دیتی ہیں ، زندگی کے بعد بھی ساتھ دیتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہی منشاء کے مطابق یہ جلسے کا نظام جاری فرمایا اور بہت ہی دعائیں کیں جلسے کے بابرکت ہونے کے لیے اور اُس دن سے آج تک ہم بحیثیت جماعت یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جلسہ جس میں تمام احمدی محض اللہ سفر کرتے ہیں یا للہ مسافروں کا انتظار کرتے ہیں ، خواہ وہ مقیم ہوں جو مہمانوں کی راہ دیکھ رہے ہوں یا مہمان ہوں جو دور دور سے رخت سفر باندھ کے آئے ہوں دونوں اپنے اپنے رنگ میں اللہ کے فضل کے ساتھ اس جلسے سے برکتیں پاتے ہیں.اس جلسے پر خصوصیت کے ساتھ صد سالہ جو بلی کے پروگرام پر بھی غور ہوئے اور جلسے کے معاًبعد ایک بہت ہی دلچسپ اور پُر لطف اور مفید مجلس اُن نمائندگان کے ساتھ ، قائم مقام یا ایڈیشنل صدرصد سالہ جو بلی پلانگ کے ساتھ اُن کی ہوئی.جس میں کئی گھنٹے تک سب نے مل کر اپنے اپنے ملک کے مختصر حالات بھی پیش کیے، کچھ نئی تجاویز پیش کیں، پرانی تجاویز پر غور و خوض ہوا.پس یہ زائد چیز ہے جو اس جلسہ میں اس دفعہ پیدا ہوئی اور اس کی طرف میں خصوصیت سے احباب کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.صد سالہ جوبلی کے تشکر کا سال ، جوبلی کا لفظ تو یونہی محاورۃ ساتھ لگا ہوا ہے دراصل تو صدساله تشکر صرف کہنا چاہئے ،صد سالہ تشکر کا سال آنے میں اب سال سے تھوڑا وقت رہ گیا ہے اور غالباً دس مہینے کے قریب یا ۱۰۹ مہینے کے قریب کا عرصہ ہے جو باقی ہے.اس ضمن میں بہت سے منصوبے ہیں جو تکمیل کو پہنچ گئے اور جن پر عمل درآمد بھی ایک مدت سے شروع ہے.لیکن بہت سے ایسے منصوبے بھی ہیں جن پر عمل درآمد ا بھی شروع نہیں ہوا، بہت سے ایسے کام ہیں جو جماعتوں میں کرنے والے ہیں.اُن میں سے کچھ تو بعض جماعتوں نے شروع کیے ، کچھ ابھی تک نہیں ہوئے کیونکہ مجھے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں تک منصوبوں کے عمل درآمد میں روپے پیسے کی ضرورت ہے.اُس کا بجٹ مرکز سے منظور ہوتا ہے اور بہت سی جماعتوں نے ابھی تک ، یعنی بہت سے ملکوں کی

Page 528

خطبات طاہر جلدے 523 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۸ء جماعتوں نے ابھی تک وہ بجٹ ہی نہیں بھجوائے.اس لیے جب اُن کے پاس ابھی خرچ کرنے کے لیے پیسہ ہی نہیں ہے تو منصوبوں پر عمل کیسے ہو سکتا ہے، کیسے ہوا ہو گا اور وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے کیونکہ جولوگ کام کا تجربہ رکھتے ہیں اُن کو پتا ہے کہ کام وقت لیتے ہیں ، بہت محنت لیتے ہیں اور اہم کام خصوصیت سے جس نے سب دنیا کے سامنے جماعت کی کارگزاری پیش کرنی ہے.اُس میں جو احتیاطیں انسان کو برتنی چاہئیں ، جن احتیاطوں سے کام لینا چاہئے اُس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کام کو بہت زیادہ ضرورت سے زیادہ تیزی کے ساتھ نہ کیا جائے بلکہ ہر کام کو سلیقے سے سوچ کر کیا جائے.اُس کا پھر جائزہ لیا جائے، پھر جائزہ لیا جائے اور پوری احتیاط کے ساتھ اس منصوبے پر عمل درآمد ہو اور احتیاط وقت طلب ہوا کرتی ہے.اس لیے مجھے یہ ڈر ہے کہ بعض جماعتوں میں اس پہلو سے سستی ہوئی ہے اور وہ پیچھے رہ گئے ہیں اور پاکستان میں بھی جس جس علاقے میں علاقائی تیاری ہونے والی ہے اُس میں ابھی بہت کام پڑا ہوا ہے.چونکہ جماعت مخالفت کی وجہ سے اور شدید ابتلاء کے دور میں سے گزرنے کی وجہ سے اپنے دفاع میں الجھی رہی ہے.اس لیے ایک تو یہ وجہ بھی ہے کہ یکسوئی حاصل نہیں ہوئی، دلجمعی کے ساتھ منصوبے کی طرف توجہ نہیں دے سکے.کچھ گومگو کی بھی کیفیت ہے، بے یقینی کی حالت ان معنوں میں کہ پاکستان کی جماعت میں بہت سے دوست ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ جلسہ کہاں ہوگا.چنانچہ کچھ تو انتظار کر رہے ہیں حالات میں ایسی دفعہ تبدیلی واقع ہو کہ ہمارا صد ساله سال تشکر کا جلسہ ربوہ میں ہو اور کچھ ہیں جو حالات کے اندازے کر کے یہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی تک کوئی ایسے آثار ظاہر نہیں ہوئے.اس لیے ممکن ہے ہمیں باہر جانا پڑے.چنانچہ کوئی باہر جانے کی تیاری میں بیٹھے ہیں اور مقامی کاموں میں دلچسپیاں نہیں لے رہے.کچھ مقامی جلسے میں اس لیے دلچسپی نہیں لے رہے کہ ربوہ میں جلسہ ہو گا اصل تو وہی ہے اور سارے ملک کا نمائندہ جلسہ و ہیں ہوگا اور وہیں ساری تیاریاں ہوں گی.حالانکہ اس بات کو میں نے دو سال پہلے ہی خوب اچھی طرح منتظمین پہ کھول دیا تھا کہ ہم نے ہر امکان کو پیش نظر رکھ کر تیار رہنا ہے.جب ہم کہتے ہیں اور بڑے خلوص کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اے خدا ! ہمارا سب کچھ تیرا ہے، تیرے حضور حاضر ہیں، تیری رضا پر راضی ہیں ، تو جب رضا کا علم نہ ہو تو رضا جس طرح بھی ظاہر ہو سکتی ہو اُس طرح تیار رہنا چاہئے.خدا کی رضا کو اپنی رضا کے تابع نہیں کیا جا سکتا.اگر اپنی رضا کے ایک پہلوکو آپ اختیار کر کے

Page 529

خطبات طاہر جلدے 524 خطبہ جمعہ ۲۹ ؍ جولائی ۱۹۸۸ء بیٹھ جائیں اور یہ انتظار کریں کہ خدا کی رضا اُسی طرح ظاہر ہو تو پھر یہ دعوی کہ ہم تیری رضا پر راضی ہیں یہ جھوٹا بن جاتا ہے.پھر تو دعوی یہ ہونا چاہئے کہ اے خدا! تو ہماری رضا پر راضی ہو جا، یہ التجا تو کی جا سکتی ہے مگر خدا پر زبر دستی کوئی نہیں ہو سکتی اس لیے التجا یہی کریں کہ اے خدا ! جو ہماری رضا ہے، جس طرح ہم دیکھنا چاہتے ہیں خوشیاں ہمیں ویسے دکھا دے اور اپنی رضا اُس میں رکھ دے.لیکن تیاری کے لحاظ سے یہ تیاری رکھیں کہ ہم نہیں جانتے کہ تو کس طرح اپنا فیصلہ جاری فرمائے گا لیکن حدامکان تک ہم ہر طرح تیار رہنا چاہتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں جو را بطوا ( آل عمران:۲۰۱) کا حکم ہے اُس کا یہی مطلب ہے کہ سرحدوں پر گھوڑے رکھو، سرحدیں ہر طرف پھیلی ہوتی ہیں.سرحدوں کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ کس طرف سے حملہ ہو گا اور کس طرف سے اچانک آزمائش آئے گی.اس لیے مومن سرحدوں پر مستعد رہتا ہے، ہر امکان کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے.تو اگر دشمن کے انتظار میں ایسی چوکسی ہے تو خدا کے رضا کے انتظار میں تو اس سے بھی بہت زیادہ چوکسی ہونی چاہئے.اُس کی رضا کب کہاں سے آئے ہر وقت اُس کے لیے تیار رہیں.ان منتظر رہنے والیوں کی طرح نہ بنیں جو آخری انتظار کی گھڑیوں میں غافل ہو گئی تھیں اور جب خدا کی طرف سے نمائندہ آیا تو وہ اُس استقبال سے محروم رہ گئیں جس کے لیے ساری رات جاگی تھیں.اس لیے جماعت پاکستان کو خصوصیت کے ساتھ اُن حالات کے پیش نظر جو وہاں باقی ملکوں سے الگ جاری ہیں.میں یہ کہوں گا کہ اپنے اپنے علاقوں میں صد سالہ جشن تشکر کے لیے تیار ہوں اور احتیاطاً یہ تیاری بھی رکھیں کہ ربوہ میں ہی جشن ہو گا.ربوہ والے بھی تیار رہیں اور امکانا یہ تیاری رکھیں کہ ہوسکتا ہے صد سالہ جشن تشکر عالمی مرکز کے لحاظ سے ربوہ میں منایا جائے لیکن اس پہلو سے بھی تیار رہیں کہ ایسا نہیں ہوگا اور اُس صورت میں کیا کرنا چاہئے اور جماعت کو کن کن امکانات کے لیے تیار رہنا چاہئے اس پر تفصیلی غور ہونا پہلے سے ضروری ہے.غور کا جہاں تک تعلق ہے مجھے یقین ہے کہ وہ ہو چکا ہوگا کیونکہ اس سلسلہ میں میں گزشتہ دو سال سے ہدایت دے رہا ہوں لیکن عمل والا پہلو یہ ہے کہ اُس کے لیے کچھ تیاریاں ہمیں کرنی ہیں اور اُن تیاریوں میں بھی دو قسم کے امکانات موجود ہیں.

Page 530

خطبات طاہر جلدے 525 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۸ء ایسا خرچ جو ٹالا جاسکتا ہولیکن اتنا نہ ٹالا جائے کہ پھر خرچ کا وقت نہ رہے.اُس خرچ کو ٹالنا چاہئے سر دست.مثلاً جب مہمان آتے ہیں تو ہر میزبان تیار ہوا کرتا ہے لیکن اگر پختہ پتا نہ ہو کہ مہمان کب آئے گا.تو ہر امکان کے وقت پورا کھانا تیار کر کے نہیں بیٹھتے لوگ بلکہ احتیاطاً تیاری رکھتے ہیں کہ اگر آگیا تو تھوڑے عرصے میں ہی ہم جو خدمت ہو سکی کریں گے اور کچھ ایسی چیزیں ہیں جو پہلے سے کرنی پڑتی ہیں.مہمان آئے یا نہ آئے پہلے ہی کرنی پڑتی ہیں.اس پہلو سے تو جماعت کے لیے ایک رستہ موجود ہے کچھ انتظار کا ، کچھ احتیاط کا لیکن اس طرح کے میزبان نہ بنیں جس طرح مجھے بسا اوقات دیہاتی جماعتوں میں تجربہ ہوا ہے کہ جب تک مہمان پہنچ نہ جائے اُس وقت تک مرغی نہیں پکڑی جاتی.چنانچہ ایسا ہوا ہے کہ رات کے گیارہ بجے ہم پہنچے ہیں کیونکہ دورے میں وقت کی پابندی تو نہیں ہوا کرتی.ایک گاؤں میں دیر ہوگئی ، کچھ اُس سے اگلے گاؤں میں دیر ہوگئی ، کچھ اُس سے اگلے گاؤں میں دیر ہو گئی.چنانچہ ایک گاؤں میں گیارہ بجے پہنچے ہیں اور بٹھایا اور حال احوال پوچھا اور تھوڑی دیر کے بعد مرغیوں کی شور کی آواز آنا شروع ہوگئی.چیخنم چہاڑہ مچ گیا کہ مرغیاں پکڑی جارہی ہیں.کیوں یہ کیا ہو گیا اس وقت ؟ آپ کو کھا نا وانا کھلانا ہے تیاری کرنی ہے.تو تھے وہ تیار ذہنی طور پر لیکن جس طرح ہمارا دیہاتی انداز ہے تیاری کا اُسی طرح تیار تھے.ہمارے ملک کی بعض رسمیں ہیں مجھے اُن سے ڈر لگ رہا ہے.جماعت کے اخلاص سے ڈر نہیں ہے.جماعت تو اللہ کے فضل سے مخلص اور عاشق جماعت ہے ہر قربانی کے لیے تیار ہے لیکن ہر ملک کے حالات ہوتے ہیں اُن کی رسمیں ہیں جو اثر انداز ہو جایا کرتی ہیں.پنجاب کی ،سندھ کی، صوبہ سرحد کی سب کی رسمیں ہیں اپنی اپنی اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کی رسمیں خدا تعالیٰ کی خاطر جو جشن منانا ہے اُس کے استقبال پر اثر انداز نہ ہوں.اس پہلو سے میں آپ کو متنبہ کر رہا ہوں.ہر ملک کے حالات کے مطابق روزانہ تجربہ نہیں ہوتا ہے.یہاں یورپ انگلستان میں یا یورپ میں کہیں جب آپ موٹر چلاتے ہیں تو ہارن دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ ہارن اُس وقت دیا جاتا ہے جب کسی دوسرے شخص کی بے عزتی کرنی ہو.اُسے یہ بتانا ہو کہ تم بہت ہی بد تمیز ڈرائیور ہو اور تم نے یہ غلطی کی ہے اس لیے ہارن بجا رہا ہوں میں، ورنہ کہیں کسی ہارن کی کوئی ضرورت نہیں پیش آتی اور بعض ملکوں میں ہارن کے بغیر لوگ نہیں سنتے ، ہٹتے ہی نہیں لیکن وہاں اُن میں بھی فرق ہے.ہارن اگر آپ

Page 531

خطبات طاہر جلدے 526 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۸ء دیں تو سائیکل والا اپنا وقت لیتا ہے اور گڑے والا اپنا وقت لیتا ہے اور بھینس اپنا وقت لیتی ہے یا نہیں لیتی تو بعض ملکوں میں ہر قسم کی مخلوقات موجود ہوتی ہیں.سائیکل ہیں ،گڈے ہیں بھینسیں ہیں ،گدھے ہیں اور اُن کے لحاظ سے ایک ڈرائیور کو ہر احتیاط کرنی پڑتی ہے ، ہر احتمال کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے.تو یہ لکی رسمیں ہیں اس میں کسی کو تم نہیں کیا جاسکتالیکن ان رسموں کے خلاف جہادضروری ہے، ضروری ہے قوم کو بیدار کیا جائے جھنجھوڑا جائے.اس لیے میں آپ کو اپنے اس فرض کو ادا کرنے کی خاطر سمجھا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص میں برکت دے.مگر اپنی رسموں کو ، اپنے اخلاص کو میلا کرنے کی توفیق نہ بخشیں.تیاری اُس طرح کریں جیسے مومن کی تیاری کا حق ہے اور خوب مستعد ہو جائیں.وہ خرچ ضرور بچائیں جس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہومگر وہ خرچ نہ بچائیں ، جس کے بچانے کے نتیجے میں مہمان کے لیے شکوہ پیدا ہونے کا موقع ہو.ان دو انتہاؤں کے درمیان رہ کر آپ تیاری کریں اور اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں اور دعائیں کریں.اس تیاری کے سلسلے میں مباہلے کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں یہ اُس تیاری کا ایک حصہ ہے.میں نے بہت غور کیا ہے اور بہت اپنے دل کو ٹولا ہے.اس مباہلے کا خیال ہرگز میرے نفس سے از خود نہیں پیدا ہوا بلکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر نے مجھے گھیر کر با قاعدہ ایسے رستے پر ڈال دیا جب اس خیال کے سوا اور خیال آنہیں سکتا تھا.جہاں انسان مجبور ہو جاتا ہے ایک بات سوچنے پر کس طرح اُس نے مجھ سے درسوں کا سلسلہ شروع کروایا اور عین مباہلے والا درس اُس وقت پیش آیا جب کے رمضان کا آخری عشرہ تھا اور اُس وقت بڑے زور سے توجہ اس طرف مبذول فرمائی گئی.اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو میرے دماغ میں یہ کبھی بھی خیال نہیں آسکتا تھا، خیال آتا بھی تو میں سمجھتا میرے نفس کا خیال ہے.اس لیے میں اتنا اہم فیصلہ نہیں کرتا.لیکن اس میں جو سال کا انتخاب ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے.اس سال کا پچھلی صدی کا آخری سال ہونا یہ معنی خیز بات ہے.پھر جب اس سلسلے میں ، میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ تمثیل پڑھی دوبارہ ازالہ اوہام میں آپ نے پیش فرمائی ہے تو بعینہ ان حالات پر ، اس موسم پر ، اس وقت پر صادق آتی نظر آئی تو یہ ساری انگلیاں بتارہی ہیں جو اسی طرف اُٹھ رہی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر تھی.اس لیے انگلی صدی کی تیاری میں مباہلے کو بھی بہت بڑا کردار ادا کرنا ہے اور وہ آپ ابتہال کے ذریعے ادا کر سکتے ہیں.بہت سے

Page 532

خطبات طاہر جلدے 527 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۸ء مولوی صاحبان جو ہمارے جواب میں اشتہار بازی کر رہے ہیں اور اخباروں میں بھی بعض اعلان کروا رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے اُن کو مباہلے کا کوئی بھی علم نہیں کہ یہ کیا چیز ہے.مباہلہ تو ایسے وقت کیا جاتا ہے جب کہ حجتوں کا وقت نہ رہا ہو اور فریق ثانی کے ظلم سے تنگ آکر خدا کے دربار کی طرف رجوع کیا جائے.اس بات کو وہ نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں یہ بھی مناظرے کی قسم ہے.چنانچہ مناظرے میں جس طرح پہلے وہ دجل اور فریب سے کام لیتے تھے اور دھو کے دیتے تھے اور جھوٹ پر جھوٹ بولتے تھے.وہ سمجھتے ہیں اب بھی جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر فریب دے کر ہم اس میں بازی جیت جائیں گے حالانکہ وہاں عوام الناس کی عدالت میں فیصلے ہوا کرتے تھے.مناظرے اور مباہلے میں زمین آسمان کا فرق ہے.مناظرے زمین کے فیصلوں کی بات ہے اور مباہلے آسمان کے فیصلوں کی بات ہے.اس فرق کو وہ نہیں جانتے چونکہ خود زمینی فطرت رکھتے ہیں اس لیے دوبارہ بات کو زمین کی طرف گھسیٹ رہے ہیں اور بے خوفی دکھا رہے ہیں.چنانچہ بعض جواب دینے والوں نے پھر وہی گند اُچھالا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر، جماعت کی ذات پر، ہر قسم کے گند اچھال کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم عوام الناس پہ یہ ثابت کر دیں گے کہ ہم غالب ہیں، ہمیں کوئی خوف نہیں.حالانکہ عوام الناس کی تو بحث ہی نہیں ہو رہی وہ تو تماشائی ہیں.فیصلہ تو خدا نے کرنا ہے اور آسمان پہ کرنا ہے اور ایسا فیصلہ کرنا ہے جس کے اثرات ضرور زمین پر نازل ہوں گے.یہ ہو نہیں سکتا کہ زمین والے اُن اثرات کے نمونے نہ دیکھیں.اس لیے جب اس قسم کی بے ہودہ بے خوفی کرتے ہیں تو اُن کے اوپر مجھے خوف آتا ہے اور اُن کے لیے دل ڈرتا ہے کہ بڑے بے باک لوگ ہیں.خدا سے ٹکر لینے کے لیے کیسے چالاکیاں کر رہے ہیں کہ ٹکر بھی لے لیں اور بظاہر بیچ بھی جائیں چالا کیوں کے نتیجے میں لیکن یہ چالاکیاں خدا کے دربار میں کام نہیں آیا کرتیں.اب میں جماعت کو بتا تا ہوں کہ ابتہال کے معنی کیا ہیں.عموماً تو آپ جانتے ہیں لعنت ڈالنا لیکن لفظ ابتہال کو کیوں چنا گیا.لفظ مباہلہ دراصل ایک اور بات سے تعلق رکھتا ہے اور قرآن کریم نے جو لفظ استعمال فرمایا ہے وہ ابتہال ہے.ابتہال باب افتعال سے لیا گیا اور مباہلہ باب مفاعلہ سے ہے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنا چونکہ مقابلے کا مضمون اس میں شامل تھا اس لیے بعد ازاں محاورۃ اس مقابلے کو مباہلہ کہہ دیا گیا.ورنہ در اصل قرآن کریم میں ثُمَّ نَبْتَهِلْ فرمایا ہے پھر ہم

Page 533

خطبات طاہر جلدے 528 خطبہ جمعہ ۲۹ جولائی ۱۹۸۸ء ابتہال کریں.ابتہال کا لفظ اور مباہلے کا لفظ دونوں ہی لفظ بھل سے نکلے ہیں اور بھل کے مختلف معنے ہیں جن میں سے بعض اس موقع پر صادق آتے ہیں.بھل کسی اونٹنی کے آزاد ہو جانے کو بھی کہتے ہیں.جب اُس کے گھٹنے کی رسیاں کاٹ دی جائیں اور گھلا چھوڑ دیا جائے.اسی طرح بھل میں دوسرے ایسے جانور بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کے اوپر کوئی پابندی نہ کی جائے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے.اس مضمون سے آگے ایک لفظ نکلا ہے باھل یا باھلہ.ایسی عورت جو اپنے آپ کو کسی کے حضور پیش کر دے اور کہے کہ میرا کچھ بھی اپنا نہیں رہا.میری ہر چیز جان ، مال، عزت سب کچھ تیرا ہو گیا ہے.اُس کو عربی زبان میں باھلہ کہتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے بھال تین حروف سے ملا کر جو مضمون اُٹھایا گیا ہے اُس میں ایک یہ معنی ہیں کہ خدا کے حضور اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں.یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارا سب کچھ اب تیرے سپرد ہے کچھ بھی اپنا باقی نہیں رہا.اپنے خاندان جان، مال، عزتیں ، نفوس ، بڑے چھوٹے ، مرد عورتیں جو کچھ ہے ہم تیرے دربار میں یہ کہہ کر حاضر کر دیتے ہیں کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمارا سب کچھ برباد کر دے، ہم پر لعنتیں ڈال اور اگر ہم بچے ہیں تو وہ دشمن جس نے یہی معاملہ تیرے ساتھ کیا ہے اُس کے اوپر اپنا قہر نازل فرما اور ظاہر کر دے کہ تو ہمارے ساتھ ہے ہمارا سب کچھ لے کر تو نے اُس کی حفاظت فرمائی.ہماری عزتیں لیں مگر ہمیں مزید عزتیں بخشنے کے لیے، ہمارے نفوس لئے ہیں مگر اُن میں مزید برکتیں ڈالنے کے لیے ، ہمارے اموال لئے لیکن کم کرنے کے لیے نہیں بڑھانے کے لیے.پس یہ ہے معنی نبتھل کا اور اس میں گریہ وزاری اور عاجزی کا مضمون بھی پایا جاتا ہے.چنانچہ اصطلاحی معنوں میں جب بحث ملتی ہے لغات میں تو کہتے ہیں نبتل کا معنی ہے بہت گریہ وزاری کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ دعائیں کرنا.دراصل جب انسان اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے تو اُس کے نتیجے میں گریہ وزاری خود بخود پیدا ہوتی ہے اور وہ جو اس فیصلے میں مخلص ہو اُس کے دل میں ضرور درد پیدا ہوتا ہے.ویسے تو سب کچھ خدا ہی کا ہے اُس کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن ایک لمحے میں انسان یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ میں سب کچھ کلیۂ اُس کے حضور اس دعا کے ساتھ حاضر کر رہا ہوں کہ اگر تیرے نزدیک ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت ڈال اور سب کچھ ہلاک کر دے.بہت بڑا فیصلہ ہے اور بہت گہرے دل کو ٹو لنے کے بعد اور اپنے نفس کا تجزیہ کرنے کے بعد انسان یہ فیصلہ کر سکتا ہے.اس لیے اس فیصلے کے ساتھ ہی دل میں ایک درداُٹھتا ہے، دل میں

Page 534

خطبات طاہر جلدے 529 خطبہ جمعہ ۲۹ ؍ جولائی ۱۹۸۸ء گریہ وزاری پیدا ہوتی ہے اور ایک ایسی فضا دل میں پیدا ہو جاتی ہے جو برسا کرتی ہے.اس لیے اس کے ساتھ آنسوؤں کا تعلق ہے، اس کے ساتھ گریہ وزاری کا تعلق ہے.اس مضمون کو سمجھتے ہوئے جماعت کو اب اس میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.جس طرح بھی پیش جائے ، جس طرح بھی اپنے دل کو نرم کر سکتے ہیں.خدا کے حضور گریہ وزاری کریں اور جب بھی دل میں کوئی درد پیدا ہو.اُس کو اس درد میں تبدیل کر دیا کریں.پھر آپ کا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہو گا جو ابتھال کی بجائے بے حیائی کو اپنا مباہلہ سمجھ رہا ہے.جو گند اُچھالنے کو مباہلہ سمجھ رہا ہے اُن میں سے کسی کو کوئی دعا کی طرف توجہ نہیں.اوّل تو اُن کا جھوٹا ہونا اسی سے ثابت ہو جاتا ہے.سارے اعلان آپ اُن کے پڑھ کر دیکھ لیں.اُن کی شیخیاں اُن کے تکبر کی باتیں دیکھیں کہیں ادنی بھی بجز اور انکسار کا کوئی پہلو آپ کو دکھائی نہیں دے گا.خدا سے دعا کا کوئی لفظ ہی نہیں اُٹھنے دے گا.اب ایک طرف جماعت احمد یہ ہوگی جو خدا کے حضور بچھ رہی ہوگی ، گریہ وزاری کر رہی ہوگی ، دعائیں کر رہی ہوگی، بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل اختیار کر ہی ہوگی تو پھر دیکھیں خدا کی تقدیر کیسے کیسے عظیم نشان دکھاتی ہے.اس لیے اگلی صدی سے پہلے خدا سے نشان کے مطالبے کریں تا کہ خدا تعالیٰ کے جلال اور جمال کے جلووں کے ساتھ آپ اگلی صدی میں داخل ہوں اور اس شان کے ساتھ خدا کا فضل اور رحمتیں اور اُس کے پیار کے اور قرب کے نظارے آپ دیکھیں اور دنیا کو دکھائیں کہ یہ صدی فیصلہ کن ثابت ہو، پھر ہم اگلی صدی میں داخل ہوں اور پھر اُن قوموں اور اُن ملکوں کی طرف متوجہ ہوں جن کی فتح کے لیے از سر نو بے حد کام کرنے والے ہیں.اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس خطبہ جمعہ میں ان دونوں امور کی طرف آپ کو متوجہ کروں.جلسہ سالانہ کی برکتوں کو دوام بخشنے کی کوشش کریں اور جس حد تک برکتیں جاری کر سکتے ہیں اپنے اندر اپنی اولاد میں اُن کو جاری رکھیں اور مباہلے کو ایک عظیم الشان نشان بنانے کے لیے جس ابتہال کی ضرورت ہے.اُس ابتہال کو اپنا لیں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کریں تا کہ ہم آئندہ سال میں ایک عظیم الشان فتح کی صدی کا شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہورہے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)

Page 535

Page 536

خطبات طاہر جلدے 531 خطبه جمعه ۵راگست ۱۹۸۸ء مباہلے کے نشانات کا آغاز اور دعا کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۵/اگست ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ کچھ عرصے سے مباہلے کے مضمون کی گرم بازاری ہے.ہر طرف اس کا چرچا اور اسی کی باتیں ہو رہی ہیں اور دنیا بھر کے مختلف معاند علماء کی طرف سے اس سلسلے میں کئی قسم کے تبصرے شائع ہو چکے ہیں، کئی قسم کی تعلی کی باتیں وہ کہہ رہے ہیں اور اپنے اپنے رنگ میں یہ اعلان بھی کر رہے ہیں کہ انہوں نے مباہلے کا چیلنج قبول کر لیا ہے لیکن جب آپ اُن کے بیانات کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر چہ عنوان یہ لگایا گیا ہے کہ مباہلہ منظور لیکن بیان میں فرار کے رستے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایسی عبارتیں داخل کر دی جاتی ہیں جن کی راہ سے وہ بعد میں یہ کہہ سکیں کہ ہم نے مباہلہ منظور تو کیا تھا مگر اس شرط کے ساتھ کیا تھا اور چونکہ یہ شرط موجود نہیں اس لیے مباہلہ بھی وہ مباہلہ قرار نہیں دیا جا سکتا.اگر تو مباہلہ سے فرار خوف خدا کی وجہ سے ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ خوف خدا ایک ایسی چیز ہے جس پر اللہ تعالیٰ رحم کی نظر ڈالتا ہے.جب حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے نجران کے وفد کو مباہلہ کا چیلنج دیا تو انہوں نے بھی فرار کی راہ اختیار کی لیکن اُن میں تقویٰ کا معیار آج کل کے بعض علماء کے مقابلے پر بہت اونچا تھا.چنانچہ انہوں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کوئی بہانہ نہیں تراشا بلکہ صاف کہہ دیا کہ ہم آپ سے مباہلہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کے خوف سے مرعوب ہو گئے تھے اور اُن کو یہ ڈر تھا کہ ہمارا مقابل سچا ہے اور اس کی لعنت کی دعا ہم پر لازما پڑ جائے گی.اس

Page 537

خطبات طاہر جلدے 532 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء لیے انہوں نے معذرت کی اور اُس کے جواب میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بھی یہ فرمایا کہ اگر وہ مباہلہ قبول کر لیتے تو وہ سارا علاقہ جس میں وہ بستے تھے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صفہ ہستی سے مٹا دیا جاتا اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ فرشتے نے آکر مجھے بتایا ہے اگر وہ ایسا کرتے تو اُن کا نام ونشان تک تاریخ میں باقی نہ رہتا.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ: ۲۹۹) پس معلوم ہوا کہ محض جھوٹا ہونا کافی نہیں.اگر جھوٹے آدمی کے دل میں بھی خدا کا خوف ہو اور خدا کے خوف کی وجہ سے وہ ڈر کر بھاگنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کی لعنت کی تقدیر اس کا پیچھا نہیں کرتی اور اُس کے معاملے کو دوسری دنیا پر چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن افسوس ہے کہ جن معاندین اور مخالفین سے ہمیں واسطہ ہے وہ ایک طرف تعلی کی رو سے دنیا پر یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے مباہلہ کی دعوت منظور کر لی ہے بلکہ بڑے بڑے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے منظور کر لی ہے.اب مخالف فریق بھاگے گا تو ہم اُس کا تعاقب کریں گے، ہم دنیا کو بتا ئیں گے کہ دیکھو وہ فرار ہو گیا اور ہر عالم کی بات کی تان گویا اس بات پر ٹوٹ رہی ہے کہ انہوں نے تو مباہلہ منظور کر لیا لیکن مرزا طاہر احمد اور جماعت احمد یہ اس مباہلے کے چیلنج سے اب بھاگ جائے گی حالانکہ ہم نے تو چینج دے دیا.ہم تو بار بار خدا کی عدالت میں اس معاملے کو لے جا کر قرآن کے الفاظ میں لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (آل عمران : ۶۲ ) کا اعلان کر چکے ہیں.زبانی بھی اور تحریراً بھی اور کثرت سے اس مضمون کو شائع کیا جا چکا ہے.اس کے بعد اُن کا یہ کہنا کہ وہ بھاگ گیا کیسی لغو اور بے معنی بات ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ اُن کو مباہلے کے مضمون سے ہی کوئی واقفیت نہیں ہے.چنانچہ مختلف قسم کے جو تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں.اُن میں سے بعض نے یہ کہا ہے کہ تم فلاں میدان میں پہنچو ، کوئی کہتا ہے فلاں میدان میں پہنچو، کوئی کہتا ہے مسجد نبوی میں داخل ہو کے مباہلہ کرو اور مسجد نبوی کے متعلق پھر خود ہی فتویٰ دیتا ہے کہ بعض کے نزدیک کافر کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہے لیکن بعض فقہاء نے بعض مجبوریوں کی خاطر کافروں کو اندر آنے کی اجازت دے دی ہے.اس لیے ان فقہاء کی پیروی میں اُن مجبوریوں کے تابع گویا مرزا طاہر احمد اور اُس کی جماعت کو بھی داخل ہونے کی اجازت ہو جائے گی.ایسی ایسی لغو باتیں بار بار یہ سمجھانے کے باوجود کہ مباہلے میں کسی میدان کا کوئی ذکر نہیں کسی مقام کا کوئی ذکر نہیں ہے، صرف قرآن کریم یہ بیان

Page 538

خطبات طاہر جلدے 533 خطبه جمعه ۵راگست ۱۹۸۸ء فرماتا ہے کہ ہم پھر ابتہال کریں اور ابتہال کے بعد اللہ تعالیٰ کی لعنت جھوٹے پر ڈالیں.تَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ.اب جھوٹے پر خدا کی لعنت ڈالنے میں کون سے مقام کی ضرورت ہے،کون سے ملک یا کسی خاص صوبے، علاقے یا شہر کی ضرورت ہے.سارے قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا.پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پہلے بھی آنحضرت ہے جن کو مباہلے کا چیلنج دے رہے تھے اُن کے بیوی بچے، مرد، عورتیں بڑے چھوٹے سارے اُس جگہ سے بہت دور تھے اور ہرگز یہ مقصود نہیں تھا کہ پہلے اُن کو سب کو یہاں لے کے آؤ پھر مباہلہ قبول ہوگا.اس لیے یہ جانتے بوجھتے یا تو لاعلم بنتے ہیں اور یا پھر ان کو مباہلے کے مضمون سے ہی واقفیت کوئی نہیں ہے.دوسرا نمایاں پہلو یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان کو لفظ ابتہال کا معنی بھی نہیں پتا.ابتہال کا مطلب ہے خدا کے حضور گریہ وزاری کرنا، اپنا سب کچھ خدا کے قدموں میں ڈال دینا اور اُس سے یہ عرض کرنا کہ اب سب کچھ تیرے قبضہ قدرت میں دیتے ہیں، وہ پہلے بھی تیرے قبضہ قدرت ہی میں ہے لیکن طوعاً اپنی مرضی سے یہ منت کر کے تیرے قدموں میں ڈالتے ہیں کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمیں کلیہ ہلاک کر دے.یہ ہے ابتہال کا معنی اور انہوں نے ابتہال کا معنی گالیاں دینا سمجھ لیا ہے.گالیوں کا مقابلہ تو ہے ہی نہیں.گالیوں کا مقابلہ تو ہم پہلے بھی نہیں کر سکے ان سے کبھی.یکطرفہ گالیاں دیتے چلے گئے ہیں لیکن ہم اُس کے مقابل پر خاموشی اختیار کرتے رہے ہیں.ابھی بھی انگلستان میں جو چند علماء ہیں انہوں نے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے نہایت ہی گندے لغواعتراضات پر مشتمل یہ ہمارا مباہلے کا چیلنج قبول کرنا ہے اور ان سارے لغو اور بے ہودہ اعتراضات کو دہرایا ہے جس سے پہلے وہ جماعت کو متہم کرتے رہے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے ان بیچارے علماء کو مباہلے کے معنے ہی نہیں آتے.پھر یہ ابتہال کا معنی شاید اشتعال سمجھتے ہیں.چنانچہ پاکستان میں جگہ جگہ علماء نے یہ اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ہمیں اشتعال دلایا ہے ، انتہال کی طرف بلا کر اور حکومت کو کہہ کر معصوم احمد یوں کو جگہ جگہ اذیتیں بھی دی گئیں ، قید میں ڈالے گئے.اب تک کی جو اطلاع ملی ہے بہت سے تو ایسے احمدی ہیں جو کہ ابھی گرفتار نہیں ہو سکے لیکن جو گرفتار ہو چکے ہیں اُن کی تعداد ۴۵ ہے اور اُن پر کئی قسم کے مقدمے کھڑے کیے گئے ہیں.جو مباہلہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے جایا جاتا ہے ، جس کا معاملہ دنیا کی عدالت سے ہے ہی نہیں اُس کے فیصلے یہ دنیا میں چاہتے ہیں اور عجیب انصاف ہے کہ مباہلے کا چیلنج

Page 539

خطبات طاہر جلدے 534 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء دینا تو حرام اور قبول کرنا حرام نہیں.چیلنج دینے کے نتیجے میں کسی اور کا چیلنج کسی اور تک پہچانے کے نتیجے میں قید کیا جا سکتا ہے انسان اور اُس پر کئی قسم کے مقدمات قائم کیے جاسکتے ہیں؟ لیکن جو اُسے قبول کر لے دنیا میں اور خود اُسے مشتعل کرے دنیا میں اُس کے اوپر کوئی سزا نہیں.وہاں نہ کوئی انصاف کا تصور ہے، نہ ابتہال کا کوئی تصور ہے.قرآنی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے یہ ملک اور اس ملک کے علماء بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں اور اب مباہلہ قبول کرنے کے متعلق سنئے.بعض اہل سنت علماء کا یہ موقف ہے کہ غیر مسلم سے مباہلہ نہیں ہوسکتا یعنی ان معنوں میں کہ وہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم کو حق نہیں ہے کہ مباہلے کا چیلنج دے.اس لیے چونکہ ہم اُن کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اس لیے ہم اُن کا مباہلے کا چیلنج قبول نہیں کر سکتے.بعض یہ کہتے ہیں کہ مباہلے کا چیلنج ہم اس لیے قبول نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم سے نص صریح سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا.تو چونکہ ختم نبوت کا ہمارا عقیدہ قرآن کی نص صریح سے ثابت شدہ ہے.اس لیے اس پر مباہلہ نہیں ہو سکتا.اب جہالت کی حد ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی صداقت سے بڑھ کر خاتمیت ثابت ہے.قرآن کریم نے تو مباہلے کا چیلنج ہی اس بات پر دیا تھا کہ حضرت محمد مصطفی احیا ایہ بچے ہیں یا مخالف سچا ہے اور وہ ان کے نزدیک نص صریح سے ثابت نہیں تھا.نعوذ بالــلــه مــن ذالک.اس لیے آنحضرت ﷺ کو اجازت تھی کہ وہ چیلنج دے دیں.کیونکہ آپ کی صداقت خدانخواستہ نعوذ بالله من ذالک چونکہ مہم تھی اس لیے مباہلے کے لئے گویا اُس کی وضاحت چاہی گئی تھی.کچھ ان کو نہ اسلامی تاریخ کا پتا ہے، نہ سنت کا، نہ قرآن کے مفہوم کا اور مباہلے کے مضمون ک او پر زبانیں کھول رہے ہیں اور ہر جوابی کارروائی میں بیہودہ زبان استعمال کر رہے ہیں.راہ فرار خود اختیار کرتے ہیں اور الزام ہم پر ڈالتے ہیں.الله پھر بعض علماء نے اس بات کا اظہار کیا ہے انگلستان میں ہی مثلاً وہ کہتے ہیں کہ مباہلے کا چیلنج منظور ہے.آپ بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کے آجائیں ہم بھی آجاتے ہیں اور پھر ہم دریائے ٹیمز میں چھلانگ لگا ئیں گے اور جو پار اتر جائے گا وہ سچا اور جو ڈوب جائے گا وہ جھوٹا.یعنی مباہلے کا چیلنج ان کے نزدیک یہ حیثیت رکھتا ہے.اگر یہ واقعی سچے ہیں مباہلہ اسی کو کہتے ہیں تو آج کل یہاں ایک بمبئی سے ہندو بچی آئی ہوئی ہے چودہ سال کی.جو برٹش چینل کو تیر کے پار کر چکی ہے پہلے بھی

Page 540

خطبات طاہر جلدے 535 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء اور اب پھر پار کرنے کے لیے آئی ہے.تو اُس ہندو بچی کومباہلے کا چیلنج کیوں نہیں دے دیتے.وہ بھی چھلانگ لگاتی ہے آپ بھی چھلانگ لگا دیں اور جو چینل کے پار اتر جائے گاوہ سچا ثابت ہو جائے گا.ایسے لغو، بے معنی قصے بنائے ہوئے ہیں مباہلے کے صاف پتا چلتا ہے کہ تمسخر کی عادت ہے اور کوئی سنجیدگی نہیں ہے ان میں دین کے معاملے میں.نہ علم ہے دین کیا ہے، نہ اس معاملے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.خدا کی عدالت میں تمسخر سے ، گالیاں دے کر یا شور مچا کر سمجھتے ہیں کہ ہم اپنا مقدمہ جیت جائیں گے لیکن فی الحقیقت خدا کی عدالت میں مقدمہ لے جانا ہی نہیں چاہتے.پتا ہے کہ ہم اس عدالت سے کامیاب لوٹ نہیں سکتے.اس لیے کوئی ان میں سے یہ نہیں کہتا کہ ہمارا مقدمہ خدا کی عدالت میں ہے اور خدا فیصلہ فرمائے گا.ہر بیان کو آپ پڑھ کر دیکھیں تو آخر پر دنیا کے فیصلے کی طرف لوٹتے ہیں یا دنیاوی مقابلوں کے ذریعے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.ایک صاحب نے پاکستان سے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے یہ پیغام بھیجا ہے کہ دنیا کی کسی چوٹی کی عمارت سے یا پہاڑی سے کسی بلندی سے آپ بھی چھلانگ لگائیں میں بھی چھلانگ لگاتا ہوں جو بچ جائے وہ سچا جو نہ بچے گا وہ جھوٹا.حالانکہ یہ وہی چیلنج ہے جو شیطان نے مسیح کو دیا تھا اور مسیح نے اسی سے اُس کو پہچانا تھا کہ ہے شیطان.تو بلندی سے چھلانگ لگا دو اگر تم خدا کے پیارے ہوئے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بچالے گا.ایسی باتیں جو انبیاء گزشتہ کی تاریخ سے ثابت شدہ ہیں کہ اُن کا دین سے تعلق نہیں بلکہ شیطانی امور ہیں.اُن کو اپناتے ہوئے بھی نہیں شرماتے اور ان کے نزدیک یہ ہے مباہلہ ، اس رنگ میں مباہلہ ہونا چاہئے.ایک صاحب ہیں لاہور میں قادری صاحب جو ویسے تو بریلوی ہیں اور عموماً بریلوی اس چیلنج کو قبول نہیں کر رہے.اگر تو خدا کا خوف ہے تو ہماری دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بچائے اور اُن کے پر دے رکھ لے لیکن وہ بریلوی ہوتے ہوئے بھی اس معاملے میں دیو بندیوں کے ساتھ ہیں.انہوں نے اعلان کیا ہے کہ فلاں تاریخ کو ہم منٹو پارک پہنچ جائیں گے.اُس تاریخ کو مرزا طاہر احمد کا وہاں اپنے ساتھیوں سمیت فلاں وقت رات کے بارہ بجے وہاں موجود ہونا ضروری ہے اور اگر وہ نہ پہنچے تو پھر ہم ایک مہینہ انتظار کریں گے.ایک مہینے کے بعد کیا ہوگا، پھر ہم حکومت پاکستان سے کہیں گے کہ ان کے ہارنے کا اور ہمارے جیتنے کا اعلان کر دیں.ان کی عدالت ہی دنیا کی عدالت ہے،ان کا خدا

Page 541

خطبات طاہر جلدے 536 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء گویا حکومت پاکستان ہے اُس نے فیصلہ کرنا ہے.کبھی کسی مباہلے کا فیصلہ اس طرح ہوا ہے کہ فلاں حکومت نے اعلان کر دیا کہ فلاں ہار گیا فلاں جیت گیا.اس لیے یا تو ان کو مباہلہ کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں اور یا پھر خدا کا کوئی خوف نہیں تمسخر کے رنگ میں اس بات کو ٹال رہے ہیں اور جھوٹی تعلی کے ذریعے یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا پر یہ ظاہر کر دیں گے کہ یہ جیتیں ہوئے ہیں.یہ وہ چیز ہے جو بہت خطر ناک ہے کیونکہ ان سب باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے.یہ ان کے پیش نظر ہے صرف.خدا کو اس معاملے میں داخل کرنے کے متعلق انہوں نے کبھی غور نہیں کیا اور اس بات پر سنجیدہ نہیں ہیں.یہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے مجھے ان کے متعلق خوف پیدا ہوتا ہے کیونکہ اگر مباہلے سے فرار خدا کے خوف کے نتیجے میں ہو تو جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے اور خدا کی رحمت سے توقع رکھی جاتی ہے.ایسے لوگوں کو جھوٹا ہونے کے باوجود بھی خدا تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے اور درگزر فرماتا ہے لیکن اگر مباہلے سے فرار خدا سے خوف کے نتیجے میں نہیں بلکہ بے خوفی کے نتیجے میں ہو اور جسارت کے نتیجے میں ہو تو پھر عقل یہی نتیجہ نکالتی ہے کہ اس سے برعکس نتیجہ نکلے گا.ان لوگوں کا مباہلے سے فرار معلوم ہوتا ہے خدا کے خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا کے معاملے میں بے خوفی سے ہے یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی خدا ، ودا نہیں ہے جو اس معاملے میں دخل دے گا جو ہمیں پکڑے گا.ہماری فرار کی راہیں بند کرنے کی طاقت رکھتا ہے.اُس کی لعنت ہمارا پیچھا کر سکتی ہے.ان باتوں کا کوئی خوف نہیں ہے.وہ سمجھتے ہیں چالا کی سے، ہوشیاری سے، چرب زبانی سے اگر ہم دنیا پر اور اپنے مریدوں پر یہ اثر ڈال دیں کہ ہم جیت گئے اور دشمن ہار گیا.تو یہی مباہلے کا انجام ہے اور یہی بہت کافی ہے حالانکہ یہ کافی نہیں ہے.اب تک خدا تعالیٰ نے مباہلے کے بعد جو نشان ظاہر فرمائے ہیں.اُس سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ ان کا جھوٹا ہونا دن بدن کھلتا چلا جا رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام کہ مولوی ننگے ہو گئے.( تذکرہ صفہ نمبر: ۳۲۸) وہ ان کے اوپر صادق آ رہا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا.ایک مہینے کے بعد ہی وہ شخص جسے مولا نا اسلم قریشی کے نام سے یاد کرتے ہیں.مردوں میں سے زندہ ہو گیا اور گمشدگان میں سے ایک دم رونما ہوا اور اُس کے متعلق انہوں نے حلف اُٹھا اُٹھا کر اور واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیے ہوئے تھے کہ نہ صرف یہ کہ

Page 542

خطبات طاہر جلدے 537 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء اس کو اغوا کیا گیا ہے بلکہ اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے.یہاں تک اعلان تھے کہ آپ قصر خلافت کی عمارت کو اکھاڑیں اُس کی زمین میں سے یہ مولوی کی لاش نکلے گی.یہ اعلان کیے گئے تھے کہ اگر ہم جھوٹے ثابت ہوں تو ہمیں بر سر عام پھانسیاں دی جائیں اور کوڑے لگائے جائیں.وہ ساری باتیں بھول گئے ہیں اور ان مولوی صاحب کے ظاہر ہونے پر شرمندگی کے بجائے مزید جھوٹ بول رہے ہیں.اب یہ بات ہے جس سے میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بے خوف ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہیں کیونکہ سارے علماء جانتے ہیں کہ اس مولوی کے نکل آنے سے رونما ہونے سے یہ جھوٹے پڑچکے ہیں اور یہ سارے علماء جانتے ہیں کہ وہ جو بیان جواب یہ دے رہے ہیں مولوی کی گمشدگی کے متعلق وہ جھوٹے ہیں.ان میں اب کوئی ابہام کی بات نہیں رہی.آنکھیں کھولتے ہوئے جانتے بوجھتے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دوسرے جھوٹ بول رہے ہیں.ایک لعنت سے بچنے کے لیے دوسری لعنت میں مبتلا ہورہے ہیں.اس لیے اس قسم کا مد مقابل ہمارے سامنے ہے جس قسم کا مد مقابل غالباً تاریخ نے پہلے نہیں دیکھا.آنحضرت ﷺ نے آئندہ زمانے میں یعنی حضور اکرم کے زمانے کی نسبت سے، آئندہ زمانے میں پیدا ہونے والے اپنی اُمت سے بظاہر وابستہ بعض علماء کے متعلق یہ اعلان فرمایا تھا کہ علماء هم شر من تحت اديم السماء.(مشكوة كتاب العلم الفضل صفحہ ۴۳/۶) پس دیکھئے یہ بھی فرمایا کہ میری اُمت کے علماء فرمایا عـلــمــاءُ هُم ، اُن کے علماء اکثر آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.پس وہ علماء جن کی ذمہ داری ہے کہ شریعت کی حفاظت کریں ، قرآن کریم کے مضمون کے تقدس کا خیال رکھیں.اگر وہ خود اُس قرآن کریم کے مضمون کے تقدس سے کھیلنے والے بن جائیں ، اُس کی ناموس سے کھیلنے والے بن جائیں اور جانتے بوجھتے ہوئے کھلم کھلا ایک جھوٹ کے بعد دوسرا جھوٹ بولنا شروع کر دیں تو اگر یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد اس صورت حال پر صادق نہیں آتا تو پھر اور کس صورتحال پر صادق آتا ہے لیکن اب یہ معاملہ بحثوں پر فیصلہ پانے والا معاملہ نہیں ہے.اب یہ معاملہ بہت ہی سنجیدہ صورت اختیار کر چکا ہے اور میں جماعت کو بار بار یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ اگر چہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بارنشان ظاہر ہوں گے لیکن نشانوں کے اظہار پر اُچھلیں اور کو دیں نہیں بلکہ مزید گریہ وزاری اختیار کریں ،مزید ابتہال سے کام لیں اور استغفار سے کام لیں اور اگر کوئی خدا کے خوف سے بھاگتا ہے تو بے وجہ اُس کا تعاقب نہ کریں بلکہ اُس

Page 543

خطبات طاہر جلدے 538 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء کے لیے دعا کریں کہ اُس کی پردہ پوشی فرمائے اور اُس کو اپنے عذاب سے بچالے کیونکہ خدا کے خوف کی وجہ سے بھا گنا بھی ایک نیکی ہے.جس کی خدا کے حضور بڑی قدر ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک تمثیل کہ ذریعہ بیان فرمایا کہ ایک ایسا شخص بھی جو دنیا کے تمام گناہوں میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ گویا اُس کا ثانی نہیں رہا تھا.ہر قسم کی بدی میں وہ ایک نشان بن چکا تھا.قیامت کے دن اُسے خدا تعالیٰ اس لیے معاف کر دے گا کہ آخر وقت تک خدا کا خوف اُس کے دل میں ضرور تھا وہ ڈرتا ضرور تھا پھر بھی.یعنی گناہوں کے باوجود ایک خوف دامن گیر رہا جو آخری سانس تک اُس کے ساتھ چمٹارہا کہ خدا مجھے پکڑ نہ لے کوئی نیکی اُس کے دامن میں نہیں تھی صرف وہ ایک خوف تھا.اس لیے خوف خدا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی سزا کی تقدیر بدل جایا کرتی ہے یا بعض دفعہ مل جایا کرتی ہے.اس لیے جو لوگ بھی خدا کے خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں.اُن سے تمسخر کی ضرورت نہیں ، اُن کو خواہ مخواہ نگا کرنے کی ضرورت نہیں.اُن کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن سے رحم کا معاملہ فرمائے اور اُن کی وجہ سے ملک کے ایک حصے کو بھی عذاب سے بچائے اور وہ لوگ جو بے حیائی میں بڑھتے چلے جارہے ہیں دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں اُن کے متعلق ہمیں ضرور یہ دعا کرنی ہوگی کہ اے خدا اُن کے اس دھو کے اور اس مکر کو نگا کر دے اور اُن کو توفیق نہ دے کہ وہ بھاگنے کے باوجود دنیا کو یہ یقین دلائے رکھیں کہ گویا وہ جیتے ہوئے اور وہ میدان مارنے والے لوگ ہیں کیونکہ اگر یہ کرنے میں وہ کامیاب ہو جائیں تو اس مباہلے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.دنیا دھوکے میں پڑ جاتی ہے.یہ معاملہ ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکا ہے جس میں ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے کھلے کھلے نشان چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں دنیا ہدایت پائے.ہر گز مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم کسی کے مرنے پر نعرہ بازی کریں اور شور ڈالیں کہ وہ مارا گیا ، وہ مارا گیا.ہرگز یہ نہ مقصد ہے ، نہ اس مقصد کی کوئی حقیقت ہے.مقصد صرف اتنا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے روشن نشان ظاہر فرمائے جس کے نتیجے میں کثرت سے لوگ ہدایت پائیں.اس لیے اگر عبرت انگیز نشان چاہتے ہیں تو اس وجہ سے کیونکہ عبرت میں دنیا کا ایک نشان کو دیکھنے کا مضمون شامل ہوتا ہے.جب کہتے ہیں کہ فلاں سزا میں عبرت پائی جاتی ہے تو مراد یہ ہے کہ لوگ کثرت سے اُسے دیکھیں اور اُس سے استفادہ کریں.تو آپ عبرت کے نشان

Page 544

خطبات طاہر جلدے 539 خطبه جمعه ۵راگست ۱۹۸۸ء ضرور مانگیں اور یہ دعا ضرور کریں کہ وہ علماء جو بد کلامی سے باز نہیں آرہے ، جو مباہلے کے مضمون کو بھی دھوکے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور مزید خلق خدا سے مکر وفریب سے کام لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے مکر وفریب ننگے کر دے ، اُن کے جھوٹ ظاہر فرما دے اور انہیں عبرت ناک سزائیں دے.تا کہ دنیا اُن کی سزاؤں سے استفادہ کرے اور وہ جو ڈرنے والے ہیں اور وہ خاموش اکثریت جو دراصل تماشا مین ہے اُسے بھی اس عذاب سے بچائے کیونکہ میرے علم کے مطابق اور جو خبریں مجھے پاکستان سے مل رہی ہیں اُن پر بنا کرتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کی بھاری اکثریت مباہلے میں فریق مخالف کے ساتھ ملوث نہیں ہے.اکثر جگہوں سے ایسی اطلاعیں مل رہی ہیں کہ عوام الناس علماء کو جھوٹا سمجھنے لگ گئے ہیں اور کھلم کھلا یہ باتیں شروع کر چکے ہیں.خصوصاً اسلم قریشی والے واقعہ کے بعد جب انہوں نے تاویلیں کیں اور جھوٹ پر جھوٹ بولے تو یہ مجھے اطلاع مل رہی ہے کہ اُس کے اوپر بڑے کھلے تبصرے ہو رہے ہیں.بازاروں میں ،گلیوں میں، بسوں میں، گاڑیوں میں ، ہر جگہ اب عوام یہ باتیں کر رہے ہیں کہ یہ ہیں جھوٹے.اس لیے بظاہر یہ لوگ اُن کے بھی امیر ہیں ، ان کے لیڈر ہیں اور جب مباہلہ کیا جا تا ہے تو لیڈ ر کے ساتھ قوم بھی شامل ہوتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے بظاہر یہ بات ہے.فی الحقیقت پاکستان میں جو علماء کی حالت ہے وہ ایسے سروں کی سی ہے جن کے نیچے سے جسم بدلتے رہتے ہیں.یہ کوئی مستقل جڑے ہوئے سر نہیں ہیں کسی جسم کے ساتھ بلکہ آپ ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں.آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض دفعہ یہ سر ہی سررہ جاتے ہیں اور کوئی جسم ان کے ساتھ نہیں ہوتا.چنانچہ جب پاکستان کی تحریک چلی ہے تو یہ علماء یہ سمجھتے تھے یعنی خصوصاًہمارے یہ معاند علماء جن کو تحفظ ختم نبوت والے یا احراری علماء کہا جاتا ہے یا دیوبندی علماء کے نام سے مشہور ہیں یہ سمجھتے تھے کہ بڑی تعداد میں بھاری اکثریت عوام الناس کی ہمارے ساتھ ہے اور مذہبی لحاظ سے یہ ان کے راہنما تھے بھی.ایسے علاقے جو سارے کے سارے، بعض صوبے کے صوبے تقریباً دیو بندی ہیں.وہ ان کے پیچھے تھے بظاہر لیکن جب امتحان کا وقت آیا جب مصیبت میں قائد اعظم نے اپنی طرف آنے کی دعوت دی تو ان علماء کے جسم ان سروں کو اکیلا لٹکتا ہوا چھوڑ گئے اور وہ سارے کے سارے قائد اعظم کے نیچے آگئے اور قائد اعظم کی قیادت کو قبول کر لیا.پھر مختلف وقتوں میں کبھی اُن کے پیچھے زیادہ

Page 545

خطبات طاہر جلدے 540 خطبه جمعه ۵راگست ۱۹۸۸ء جسم ہو جاتے ہیں کبھی کم ہو جاتے ہیں اور جب الیکشن کے وقت آتے ہیں اُس وقت آپ دیکھ لیں کہ اکثر خالی سر رہ جاتے ہیں الیکشن میں کامیاب ہی نہیں ہوتے اور ان کے جسم جن کو اپنے جسم سمجھتے ہیں یعنی اپنے مرید اور اپنے پیچھے چلنے والے اپنے آپ کو سید سمجھتے ہیں جن کا ، وہ لوگ ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں.الیکشن میں الف ب ج د کسی سیاسی لیڈر کو ووٹ دے دیتے ہیں ان کو نہیں دیتے.اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ اگر دیوبندی علماء نے چیلنج قبول کر لیا ہے، یا سندھ کے علماء نے چیلنج قبول کر لیا ہے حقیقہ بھی کر لیا ہے.تو تمام دیو بندی علاقے پر لعنت پڑے گی یا تمام سندھ پر لعنت پڑے گی یہ عقل کے خلاف ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.میرے علم کے مطابق مثلاً سندھ میں کہتے ہیں اخبار میں سرخی آئی ہے کہ سینکڑوں علماء نے سندھ سے چیلنج قبول کر لیا ہے لیکن چونکہ سندھ کی بھاری اکثریت ان علماء کے ساتھ نہیں ہے اور آئندہ الیکشن بھی آپ کو بتا دیں گے کہ شاید ہی کوئی عالم منتخب ہو کے اس علاقے سے نکلے.ورنہ بھاری اکثریت ان کو رد کر دے گی.اس لیے آپ کا اُس معصوم اکثریت کو اپنی لعنت میں شامل کر لینا ظلم ہوگا.اس لیے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ صرف وہ معاندین تیرے عذاب کے نیچے آئیں اور عبرت کا نشان بنیں جنہوں نے عمد جانتے بوجھتے حق کی مخالفت کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے.کوئی حیا نہیں ان میں کوئی شرم باقی نہیں رہی اور کھلم کھلا کذاب ہیں اور شرارت اور افتر اپردازی سے باز نہیں آرہے اور اُن کے وہ مرید اور ماننے والے جو ہمیشہ فساد میں اُن کا ساتھ دیتے ہیں اور جب وہ انہیں معصوم انسانوں پر ظلم کے لیے بلاتے ہیں تو لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں.صرف ان کو اپنے عذاب کا نشان بنا اور عبرت کا نشان بنا باقی اکثریت جو معصوم ہے یا تماش بین ہے، کمزور ہے، گناہ گارسہی ،کمٹی قسم کی خرابیوں میں ملوث سہی لیکن آخر محمد مصطفی مہینے کی امت ہے.اُن کو اپنے عذاب اور اپنی پکڑ سے یا عقوبت سے بچالے.اس لیے میں جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے مباہلے کی دعا میں بھی اس بات کو نہ بھولیں کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ رحمت للعالمین تھے اور آپ کی رحمت کا فیض بھی ہمارے ہاتھوں سے ہمیشہ جاری رہنا چاہئے.اگر عبرت کے نشان کے ساتھ ساری قوم ہی مٹ جائے تو پھر حق کو قبول کون کرے گا.اس خیال سے بھی تو آپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ دعا یہ ہونی چاہئے کہ

Page 546

خطبات طاہر جلدے 541 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء اکثریت بچ جائے ، اکثریت اس نشان کو دیکھے، اکثریت اس نشان سے فائدہ اُٹھائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اس مباہلے کے بعد احمدیت ایک عظیم الشان طاقت کے طور پر ابھرے اور اتنا عظیم نشان ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ علاقوں کے علاقے مسلمانوں کے احمدیت کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہ فتح کا دن جو ہمیں دور دکھائی دے رہا ہے.اس بڑھتی ہوئی پھیلتی ہوئی توانا تر ہوتی قوت کے ساتھ جلد تر ہمارے قریب آجائے اور تمام دنیا پر ہم آنحضرت ﷺ کے دین کا جھنڈا نصب کر سکیں.یہ مدعا ہے اس مباہلے کا اس لیے دعاؤں کے ذریعے یہ کام ہو گا.ابتہال کا مضمون ہے اس کو بار بار بیان اس لیے کرتا ہوں ، نہ بھلائیں جتنا دشمن گالیاں دیتا چلا جا رہا ہے شرارت میں بڑھ رہا ہے.آپ کے لیے اور موقع ہے کہ ابتہال کی طرف متوجہ ہوں.دو قسم کے میدان ظاہر ہوں گے ایک میدان میں گالی گلوچ ، شور شرابا تضحیک تمسخر اور شر انگیزی کی باتیں سنائی دے رہی ہوں گی اور ایک میدان میں خالصہ عجز ، ابتہال ، خدا کے حضور گریہ وزاری ، خشوع وخضوع کی وجہ سے شور برپا ہوا ہو گا.اس میدان سے وابستہ رہیں جو خشوع و خضوع اور ابتہال کا میدان ہے.اگر آپ یہ کریں گے تو اس میدان میں کبھی کسی نے بازی نہیں ہاری.یہ میدان ہمیشہ جیتے ہوؤں کا میدان ہوا کرتا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض نشان ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور ہم ان کو مرتب کر رہے ہیں.انشاللہ تعالیٰ اس سال کے اختتام تک ایک پوری کتاب جماعت احمدیہ کی صداقت کے مضمون کو ظاہر کرنے والی شائع ہوگی.جس میں ہم ان تمام واقعات کو مرتب اور مؤلف کر کے دنیا کے سامنے پیش کریں گے.مثال کے طور پر چھوٹا سا واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ضلع شیخوپورہ میں ایک جگہ ہے شاہکوٹ یہ قصبہ ہے جہاں احمدیوں کے چند گھرانے ہیں اور وہ چند دکان دار ہیں جو اس قصبے میں رہتے ہیں.وہاں ایک صاحب تھے عاشق حسین نامی جو زرگر کا کام کرتے تھے اور ایک لمبے عرصے سے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اور جماعت احمدیہ پر گند اُچھالنے میں اتنا پیش پیش تھے کہ مولوی نہ ہونے کے باوجود بھی یہ مخالف علماء کے سر براہ بن گئے اور احمدیت کے مخالف ٹولے میں ان کو ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا.چنانچہ جب بھی احمدیت کی مخالفت کا معاملہ ہو یہ ایک از خود ہی اُس مخالفت کے سربراہ کے طور پر ابھرتے تھے.جب یہ مباہلے کا چیلنج وہاں

Page 547

خطبات طاہر جلدے 542 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء تقسیم ہوا تو ان صاحب، عاشق حسین صاحب نے ایک جلوس اکٹھا کیا.اُس میں نہایت اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور اُس جلوس کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ چند احمدی گھر اور چند احمدی دکانیں یہاں ہیں.ان کا مباہلہ تو ہم یہیں پورا کر دیتے ہیں.یعنی مباہلے سے مراد ان کا یہ تھا، یہ سمجھے کہ قتل عام کر دیا جائے یہی مباہلہ ہے.تو اُن کی دکانیں لوٹو جلاؤ ، اُن کو اپنے گھروں میں زندہ جلا دیا قتل کرو تا کہ دنیا کے سامنے یہ ثابت ہو جائے کہ احمدی جھوٹے ہیں اور ان کا مباہلہ ان کو پڑ گیا ہے.یہ ارادے باندھ کے جلوس تیار کر کے انہوں نے کہا کہ آپ انتظار کریں میں ابھی دکان سے ایک کام ہے چھوٹا سا وہ کر کے ابھی آتا ہوں.دکان میں پہنچ پنکھا چلایا اور وہی پنکھا جو روز چلایا کرتے تھے اُس میں بجلی کا کرنٹ آچکا تھا اور وہیں مرگئے بجلی کے جھٹکے سے.یہ جو بجلی سے مرنا ہے یہ بھی اپنے اندر ایک قہری نشان رکھتا ہے کیونکہ بجلی کا آسمان سے بھی تعلق ہے اور وہ جلوس جو احمدیوں کے گھر اور اُن کی دکانیں جلانے یا اُن کو مارنے لوٹنے کے لیے بنایا گیا تھا.وہ ان کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گیا اور اُن کے جنازے کا جلوس بن گیا.اُس کے بعد کہتے ہیں وہاں ایک موت کی سی خاموشی طاری ہو گئی ہے اور اُس شہر میں اب کوئی مباہلے کی بات نہیں کرتا، کوئی اشتعال کی بات نہیں کرتا کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ نشان دیکھ لیا ہے لیکن یہ ایک نشان کافی نہیں ہوگا کیونکہ اکثر لوگ پھر بہانے بناتے ہیں.ہر نشان کے بعد کچھ عرصے کے بعد اُس کی تاویل کرنی شروع کر دیتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ شاید اتفاق ہو گیا ہو.اس لیے اس قسم کے نشانات کا ایک جلوس نکلنا چاہئے اور یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ بار بار اس قوم کو غافل نہ ہونے دے ، نشان پر نشان دکھائے جو ان کا پیچھا نہ چھوڑیں یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کی صداقت روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے.اللہ کرے کہ اس قوم کو سمجھ آئے اور یہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں.ایک اور شدید معاند احمدیت کے متعلق مجھے اطلاع ملی ہے مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ فون پر بتاتے ہیں کہ ۸۴ء میں شریعت کورٹ میں ایک شخص قاضی مجیب الرحمان پشاوری نے جماعت کے خلاف انتہائی شرانگیز بیان دیئے اور یہ وہ شخص ہے جس نے ٹیلی ویژن پر جماعت کے خلاف ارتداد کی بناء پر واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا.اس مباہلے کے چیلنج کے کچھ عرصے کے بعد اچانک یہ صاحب دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے ہیں اور چونکہ یہ وہ صاحب ہیں جن کے متعلق

Page 548

خطبات طاہر جلدے 543 خطبه جمعه ۵راگست ۱۹۸۸ء جب مجھے اطلاع ملی تھی اُس وقت بھی دل سے ایک لعنت نکلی تھی.اس لیے میں نہیں جانتا کہ انہوں نے کھلم کھلا مباہلے کا چیلنج قبول کیا تھا یا نہیں کیا لیکن اس بات میں شک نہیں کہ چونکہ انہوں نے احمدیوں کے قتل کا فتوی دیا تھا.اس لیے مباہلے کے چیلنج کے بعد ان کا مرجانا خود یہ بھی ایک نشان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے اور بھی اس قسم کی خبریں اکٹھی ہو رہی ہیں لیکن انشاء اللہ اُن کی پوری چھان بین کی جائے گی تو اور بھی کئی امور ظاہر ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب مباہلے کا چیلنج دیا تھا تو بعض علماء مرے لیکن ان کے متعلق یہ باتیں بعد میں پتا چلیں کہ اُس وقت موت آئی جب وہ اپنے ہاتھ سے مباہلے کے پہینچ کی منظوری کو لکھ کر اُس پر دستخط کر رہے تھے.تو اس قسم کی باتیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر بعد میں کھولے گی لیکن یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ خدا کی چکی حرکت میں آچکی ہے اور جب خدا کی تقدیر کی چکی حرکت میں آجائے تو کوئی نہیں جو اس کو روک سکے اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے کہ جب خدا چاہے کہ کوئی اُس چکی میں پیسا جائے تو اُس چکی کے عذاب سے بچا سکے.اس لئے استغفار کا وقت ہے، دعاؤں کا وقت ہے، ابتہال کا وقت ہے اور ہمیشہ خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی بھی بخشش مانگیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قوم کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اکثریت کو ہدایت دے اور اپنے عذاب سے بچائے.نماز جمعہ کے بعد کچھ نماز جنازہ غائب ہوں گے.دو جنازے تو ایسے ہیں جو پہلے کے ہیں لیکن چونکہ میں نے نماز جنازہ غائب پڑھنے سے حتی المقدور احتراز کرنے کا اعلان کیا تھا اور وضاحت کر دی تھی کہ کیوں ایسا کیا گیا ہے.اس لئے باوجود اس کے کہ ان کے متعلق میرے نزدیک وجوہات تھیں کہ ان کا نماز جنازہ غائب پڑھا جائے.میں انتظار کرتا رہا کہ بعد میں جب دو تین ایسے مواقع اکٹھے ہو جائیں تو پھر اکٹھی نماز جنازہ ادا کی جائے.ایک اُن میں سے ہماری آپا سیدہ بیگم جو ملک عمر علی صاحب مرحوم ملتان کی بیوہ تھیں اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی صاحبزادی تھیں یہ کچھ عرصہ پہلے وفات پا چکی ہیں.اسی طرح ڈاکٹر حسین ساجد صاحب امریکہ کے مجھ سے ، بہت پہلے جب بیمار ہوئے تھے تو وعدہ لے چکے تھے کہ میرا نماز جنازہ آپ پڑھائیں گے.وعدہ ان معنوں میں کہ یہ درخواست کر چکے تھے اور میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا.تو وہ بہت لمبا عرصہ بہت ہی شدید

Page 549

خطبات طاہر جلدے 544 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بار بار اعجازی رنگ میں بیچتے بھی رہے اور ڈاکٹر حیران ہوتے تھے کہ کس طرح اتنا لمبا وقت مل گیا.ان کے نزدیک ان کو بہت پہلے فوت ہو جانا چاہئے تھا.بہر حال بہت نیک انسان خدمت دین کرنے والے اور تبلیغ کرنے والے، بچوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے انہوں نے میرا تو ارادہ تھا کہ انشاءاللہ تعالی نماز جنازہ بعد میں پڑھاؤں گا لیکن فوری طور پر اُس وقت چونکہ اعلان کیا تھا اس لیے میں رُک گیا.ان کی بیگم صاحبہ نے شکوے کا خط تو اُس طرح نہیں لکھا لیکن صرف یہ کہ اچھا ڈاکٹر ساجد کا جنازہ آپ نہیں پڑھائیں گے، بس ایک فقرہ تھا.اس سے زیادہ اور کیا شکوہ ہوسکتا تھا.ایک ہمارے عزیز بھائی کلیم اللہ شاہ مہر آپا کے بھائی اور میرے کزن ماموں زاد، یہ کینسر کے مریض تھے اور ایسا کینسر تھا جوٹر مینل کینسر کہلاتا ہے.وہ دو مہینے ہوئے یہاں تشریف لائے تھے اور اُس وقت ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ گنتی کے چند دن ہیں.اس لیے باوجود یہ کہنے کہ ہم نے کہا کہ جو انسانی تدبیر ہے وہ اختیار کرنی چاہئے.تو ان کے واپس جانے کے بعد کچھ عرصے کے بعد پہلے تو اطلاع یہی تھی کہ طبیعت کچھ سنبھل رہی ہے لیکن اچانک بیماری نے شدت اختیار کی اور خدا کے حضور حاضر ہوئے.سید برکات احمد صاحب معروف شخصیت ہیں ہندوستان کی علمی لحاظ سے بھی اور کئی پہلؤوں سے.جماعت کے بڑے مخلص فدائی کارکن تھے.ان کو بھی گزشتہ چند سال سے ایسا کینسر تھا جس کے متعلق ڈاکٹروں کا یہ خیال تھا کہ آج سے بہت پہلے فوت ہو جانا چاہئے تھا.جب ہندوستان میں تھے تو مجھے اُس وقت انہوں نے لکھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ چند مہینے کی بات ہے اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا.ان کو میں نے دعا کی طرف بھی توجہ دلائی اور یہی کہا کہ ڈاکٹروں کی باتیں نہ مانیں، اللہ کی مرضی ہے اور دعا میں بھی کرتا ہوں آپ بھی کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ان کی بہن کا بعد میں مجھے خط آیا کہ حیرت ہے کس طرح یہ بچ گئے ہیں اور صرف بچ ہی نہیں گے بلکہ کام بھی شروع کر دیا ہے اور پھر کام بھی ایسا کیا کہ مذہب کے نام پر خون“ کتاب کا بیماری میں ترجمہ شروع کیا اور وہ مکمل ہو گیا اللہ کے فضل سے.پھر اُس کی نظر ثانی کی ، پھر مجھے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں دیکھ لوں کہ یہ پریس میں جا چکی ہے کتاب.پھر میں نے ان کو اطلاع دی کہ پریس میں جا بھی چکی ہے اور طباعت کے مراحل

Page 550

خطبات طاہر جلدے 545 خطبه جمعه ۵/اگست ۱۹۸۸ء پر ہے.تو علمی کام کرتے کرتے انہوں نے جان دی ہے.ان کا بھی بہت اصرار تھا بار بار کا کہ آپ نے نماز جنازہ میری خود پڑھانی ہے.تو یہ وہ چند نماز ہائے جنازہ ہیں جو انشاء اللہ جمعہ کے بعد پڑھائی جائیں گی لیکن عام دستور میں تبدیلی نہیں ہے یا درکھیں.اس کے نتیجے میں مطالبے نہ شروع ہو جائیں.دستور یہی ہے کہ یا تو از خود خدا تعالیٰ میرے دل کو کسی بات پر مائل کر دے میں خود سمجھوں کہ اس کا نماز جنازہ غائب ہونی چاہئے اُن کی تو ہوگی یا صدر انجمن سفارش کرے کہ ہمارے نز دیک فلاں شخص کی نماز جنازہ غائب ہونی چاہئے.بعض وجوہات کی بناء پر وہ سمجھتے ہوں.ورنہ یہ درخواستیں نہیں دینی چاہئیں.اس سے میرے دل پہ انکار کا بوجھ پڑے گا.

Page 551

Page 552

خطبات طاہر جلدے 547 خطبه جمعه ۱۲ راگست ۱۹۸۸ء حضور کی ایک رؤیا کا ذکر.تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے نشانات دیکھ کر قو میں ایمان نہیں لاتیں.مکذبین کو انتباہ خطبه جمعه فرموده ۱۲ اگست ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں: وَمَا يَأْتِيْهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوْابِ يَسْتَهْزِءُونَ كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ ) لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ 6 (الحجر: ۱۲-۱۶) پھر فرمایا:.سورۃ الحجر سے یہ چند آیات جو میں نے آج کے جمعہ کے لیے منتخب کی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کوئی رسول آئے اور وہ اُس سے استہزاء کا سلوک نہ کریں یا جب بھی کبھی اُن کے پاس کوئی رسول آتا ہے.وہ اس کے سوا کچھ نہیں کرتے کہ اُس سے تمسخر کرتے ہیں اور استہزاء کا سلوک کرتے ہیں.كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ اسی طرح ہم مجرموں کے

Page 553

خطبات طاہر جلدے 548 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء لوگ دل میں یہ عادت داخل کر دیتے ہیں.یعنی اُن کے مزاج میں، اُن کی عادات میں فطرت ثانیہ کی طرح یہ کبھی داخل ہو جاتی ہے کہ جب بھی خدا کی طرف سے کوئی آئے اُس کے ساتھ استہزاء کا سلوک کرنا ہے لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ وہ ایمان نہیں لاتے.بھیجے ہوئے پر ایمان نہیں لاتے اور اُن کے لیے اور اس سے پہلے لوگوں کی سنت اور اُن کی تاریخ ایک نمونہ بن جاتی ہے یعنی اس نمونے کے پیچھے چلنے والے ہیں.گویا وہی لوگ ہیں جو گزشتہ زمانوں میں اسی قسم کی حرکتیں کر چکے ہیں اور اب دوبارہ ظاہر ہوئے ہیں.تو اپنے سے پہلوں کی سنت پر عمل کرنے والے ہیں اور اُس کے مقابل پر خدا کی بھی ایک سنت ہے.اُس کا بھی یہیں ذکر ہے فر مایا قَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ حالانکہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے پہلے اسی قسم کے لوگوں کے ساتھ خدا کی کیا سنت جاری ہوئی تھی اور ان دونوں سنتوں میں آپ کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.نہ ان بدکردار لوگوں کی سنت میں تبدیلی دیکھیں گے جن کو خدا تعالیٰ نے اُن کے جرموں کی وجہ سے ایک غلط طرز عمل اختیار کرنے پر پابند فرما دیا ہے.اُن کے دلوں میں جاگزین کر دی ہے یہ بات کہ تم اس لائق نہیں ہو کہ بچوں کو قبول کرو اس لیے تم جس حد تک تم سے ممکن ہے کج روی اختیار کرو.دوسری طرف سُنَّةُ الْأَوَّلِین سے مراد وہ سنت ہے جو اولین کے بارے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی رہی ہے.جو ان کے ساتھ خدا کا سلوک ہوتارہا ہے.وہ اُن کی سنت بن گیا یعنی پہلے انکار کی سنت اور پھر ہلاکت اور تباہی کی سنت وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاء فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کے او پر اگر ہم آسمان سے دروازے بھی کھول لیں.ایسے دروازے جن پر یہ چڑھ سکیں اور خود آسمان کی بلندیوں پر جا کر سچائی کا مشاہدہ کریں اور نشانات کو دیکھ لیں لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا وہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد یہ کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مد ہوش ہو گئی ہیں، ہماری آنکھوں کو نشہ چڑھ گیا ہے بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ ہم تو ایسی قوم ہیں جس پر جادو کر دیا گیا ہے.ان آیات میں دو مضامین بیان ہوئے ہیں.اگر چہ تسلسل ہے مضمون کا، لیکن اس مضمون کو دوحصوں میں بیان فرمایا گیا ہے.پہلا یہ کہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے، خدا تعالی کی یہ تقدیر ہے کہ بعض لوگ لازماً اس کے بندوں سے اُس کے بھیجے ہوؤں سے استہزاء کا سلوک کرتے ہیں اور اُن کا یہ رویہ اُن کا مقدر بنا دیا جاتا ہے.ان کے دلوں میں یہ بات داخل کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُس سے ٹل نہیں سکتے ، اُن کے مقدر میں یہ

Page 554

خطبات طاہر جلدے 549 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء بات لکھی جاتی ہے.پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر خدا تعالی خود انبیاء کے منکرین کو استہزاء کا طریق سکھاتا ہے اور اُن کے دلوں میں یہ بات جما دیتا ہے نقش کر دیتا ہے کہ تمہیں بہر حال میرے بھیجے ہوؤں سے مذاق کرنا ہے اور استہزاء اور تمسخر کا سلوک کرنا ہے تو اُن کا پھر کیا قصور.لیکن اس سوال کا جواب اسی آیت میں اس کے آخری حصے بیان میں فرما دیا گیا فِي قُلُوبِ الْمُجْرِ مِيْنَ ہم یہ نصیبہ مجرموں کا بناتے ہیں.اس سے ایک بات خوب کھل گئی کہ جب خدا تعالی اپنے بندوں کو بھیجا کرتا ہے بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے تو دراصل وہ قوم مجموعی بحیثیت قوم مجرم ہو چکی ہوتی ہے.اُس میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں، استثناء بھی موجود ہوتے ہیں لیکن ایک بھاری تعداد اس قوم میں جرم کرنے والوں کی ہوتی ہے.پس در اصل جرم کی سزا میں صداقت سے محرومی بھی شامل ہے.پس خدا تعالی کی طرف سے کوئی ظلم نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کو صداقت پہچاننے سے محروم کر دیا جاتا ہے.فرمایا وہ مجرم ہیں اور اس قسم کے مجرم ہیں کہ اُس جرم سے باز آنے والے نہیں.ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ وہ صداقت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں.پس اسی وجہ سے وہ صداقت سے محروم نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل پر نقش کر دیا ہے کہ تم لازما صداقت کا انکار کرو گے بلکہ جرم کے نتیجے میں یہ اُن کو سزا ملتی ہے.چنانچہ اس مضمون کو خوب کھول دیا لَا يُؤْمِنُونَ ہے وہ کبھی بھی اُس خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان نہیں لائیں گے وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ اور ان سے پہلے ایسے لوگوں کی سنت گزر چکی ہے.جو کسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرسلین اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان نہیں لائے اور اسی حالت میں وہ ہلاک ہو گئے.دوسرا پہلو وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاء میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ ان کا انکار اس وجہ سے نہیں کہ ان کو کوئی نشان نہیں دکھایا جاتا.لیکن اس مضمون کے اس حصے کو میں بعد میں بیان کروں گا.پہلے اس پہلے حصے سے متعلق کچھ مزید باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا سنت میں دو پہلو ہیں.پہلوں کی سنت کیا ہے.وہ جو خود کرتے رہے تحقیر اور استہزاء اور تمسخر.یہ ایک ان کی سنت ہے اور ایک سنت وہ ہے جو خدا نے اُن پر جاری فرمائی اور وہ اُن کا بد انجام ہے.اس سے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات ہیں جو اس مضمون کو مختلف رنگ میں کھول کھول کر بیان فرما رہی ہیں جیسا کہ فرمایا قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ وہی لفظ سنت ہے جس کی جمع

Page 555

خطبات طاہر جلدے 550 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء لا استعمال فرمائی گئی یہاں فرمایا قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِبِينَ (آل عمران : ۱۳۸) اس سے پہلے تم سے پہلے لوگوں کی سنت تمہارے سامنے گزر چکی ہے اور اس سنت کا ایک حصہ یعنی اُن کی کج روی ،اُن کی بغاوت، اُن کا طفی یہ سب چیزیں تم پر روشن ہیں لیکن تم زمین پر پھر کے خوب سیر کر کے دیکھو تو سہی کہ ان کی عاقبت کیسے ہوئی تھی.ان جھٹلانے والوں کا انجام کیا تھا.پس سنت میں یہ دونوں باتیں داخل ہیں اُن کی بد اعمالی، اُن کا انکار اور پھر اُن کا انجام.چنانچہ سنن کے تابع ان دونوں مضامین کو قرآن کریم میں یہاں اکٹھا بیان فرما دیا ہے پھر الانعام آیت ۱۲ میں فرمایا قُل سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (الانعام :۱۲) اے محمد مخاطب حضور اکرم ہیں.محمد کا نام تو ظاہر نہیں فرمایا گیا لیکن مراد یہی ہے کہ اے میرے رسول تو اُن سے کہہ دے، ان کو پیغام پہنچا دے سِيرُوا فِي الاَرضِ وہ خوب زمین میں سیر کریں اور پھر کر سیاحت کر کے پرانی قوموں کے انجام کا مشاہدہ کریں ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ پھر یہ دیکھیں سمجھیں کہ اس سے پہلے تکذیب کر نیوالے جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا تھا پھر فرمایا: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الصَّللَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (الحل:۳۷) کہ ہم نے ہر امت میں رسول مبعوث فرمائے تھے اور ان کو یہ پیغام دیا تھا آنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو.یعنی شیطانی طاقتوں سے الگ رہو فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللهُ اُن میں سے بعض وہ تھے جن کو خدا نے ہدایت عطا فرمائی وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الأَللَةُ ایسے بھی تھے اُن میں جن پر گمراہی مقدر کر دی گئی جن کا مقدر ہو گئی گمراہی.حقت کا مطلب ہے لازم ہوگئی.ایسی

Page 556

خطبات طاہر جلدے 551 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء تقدیر بن گئی جسے ٹالا نہیں جاسکتا.فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ پس خوب زمین میں پھر کے سیاحت کر کے دیکھو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہے یا کیا انجام تھا.پھر سورہ طور میں آیات ۱۲ اور ۱۳ میں بیان فرمایا فَوَيْلٌ يَوْمَذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ) پر آج کے دن ہلاکت ہے سب جھٹلانے والوں کے لیے الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ (الطور (۱۳) ۱۳) وہ جو اپنی سرکشی اور گمراہی میں بھٹک رہے ہیں.اس مضمون کو بیان کرنے کے لیے آج میری توجہ ایک رؤیا کے ذریعہ مبذول کراوئی گئی ہے.رات میں نے رویا میں دیکھا کہ کچھ انگریز احمدی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک مجھ سے سوال کرتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی تحریر کا جو آپ نے ترجمہ کیا ہے وہ مجھے درست معلوم نہیں ہوتا اور وہ ترجمہ یہ بیان کرتا ہے.انگریزی کا ایک محاورہ ہے History repeats itself کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے.اُس ترجمے میں اس محاورے کا پہلا حصہ استعمال کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دوسرا نتیجہ نکالا ہوا ہے.اردو میں بھی یہی ہے اور ترجمہ میں بھی یہی ہے کہ ( اُن کے الفاظ اس قسم کے ہیں ) تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے اور خدا تعالیٰ مجرموں کو ضرور سزا دیتا ہے.چنانچہ اس کا خواب میں مجھ پر یہ اثر ہے کہ میں نے ترجمہ کیا ہے کہ History repeats itself اور آگے مجھے یاد نہیں کہ الفاظ کیا تھے لیکن Punishment کے لفظ تھے یا کوئی اور لفظ تھے لیکن مضمون یہی تھا.اس لیے چونکہ خواب کے انگریزی الفاظ یاد نہیں میں اس کو چھوڑتا ہوں لیکن بعینہ اس مضمون کو میں نے انگریزی میں بیان کیا یعنی اُس کے نزدیک میری تحریر میں یہ بات تھی.وہ کہتا تھا History repeats کا یہ مطلب تو نہیں ہے.یعنی اعتراض یہ تھا کہ تم نے History repeats کا دوسرا معنی کر دیا ہے حالانکہ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے.کچھ دوسرے انگریز احمدی ہیں وہ میری تائید میں بولتے ہیں.وہ کہتے ہیں نہیں بالکل صحیح ہے، اس موقع پر یہی محاورہ استعمال ہونا چاہئے تھا.پھر میں اُس کو سمجھاتا ہوں اور میں اُسے کہتا ہوں دیکھو تم لوگوں کا جو دنیاوی محاورہ ہے وہ در حقیقت ایک سطحی بات تھی.اس میں فی الحقیقت کوئی بھی ٹھوس مضمون بیان نہیں ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں ابہام پیدا کر دیا گیا ہے.بہت سے لوگ اس محاورہ کو سنتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ گویا تاریخ بعینہ دوبارہ اپنے آپ کو دہراتی چلی جاتی ہے کوئی نئے نقوش دنیا

Page 557

خطبات طاہر جلدے 552 خطبه جمعه ۱۲ /اگست ۱۹۸۸ء میں ظاہر ہی نہیں ہوتے.ہمیشہ وہی چکر ہے جو اپنے آپ کو دوبارہ ظاہر کرتا چلا جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس محاورے میں جان ڈال دی ہے یہ متوجہ فرما کر کہ تاریخ اس طرح دہرایا کرتی ہے کہ خدا کی کچھ سنتیں ہیں جن میں تم کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے اور بد کرداروں اور مجرموں کے حق میں وہ سنتیں اس طرح ظاہر ہوا کرتی ہیں.اس لیے اس History کو تم کبھی بھی تبدیلی نہیں کر سکتے یہ بہر حال اپنے آپ کو دہرائے گی.تو میں دیکھتا ہوں وہ جو تائید میں بولنے والے تھے ان کے چہرے بشاشت میں کھلکھلا اٹھتے ہیں کہ ہاں اب سمجھ آئی کہ یہ مضمون کیا ہے اور جن کی طرف جو ایک صاحب اعتراض کر رہے تھے ان کے اندر بھی اعتراض میں گستاخی نہیں تھی بلکہ ایک پوچھنے کا رنگ تھا.اُن کے چہرے پر اس طرح بشاشت تو نہیں آئی لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات سمجھ گئے ہیں.اس رؤیا سے مجھے خیال آیا کہ اس مضمون کے متعلق میں آج آپ کے سامنے کچھ بیان کروں اور آپ کو دعا کی طرف متوجہ کروں کیونکہ یہ بہت انذاری رؤیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم کو آج ہم مخاطب کر رہے ہیں ، جس کو ہم نے مباہلے کی دعوت دی ہے بدقسمتی سے اُن کے مقدر میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا دن دیکھنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ اس طرح میرے ذریعے پیغام نہ دیتاHistory repeats itself اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے، مجرموں کو خدا ضرور سزادے گا.اس لیے وہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں یہ وہی تاریخ ہے جو دہرائی جا رہی ہے جس کا ذکر خدا تعالی قرآن کریم میں بار بار ذکر فرماتا ہے فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِبِينَ اور تم خوب دنیا میں سیاحت کرو اور گھوم پھر کے دیکھو تم دیکھو گے کہ مکذبین کی عاقبت اُن کا انجام بہت برا ہے.گیف میں یہ نہیں فرمایا کہ برا ہے مگر جب ایک چیز بہت ہی زیادہ درجے تک پہنچ جائے تو وہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑا کرتی کے برا ہے یا اچھا ہے.لفظ گیف ہی بتا دیتا ہے کہ دیکھو دیکھو کیسا اُن کا انجام ہے.پس جب بدی حد کو پہنچ جائے تو اس کے لیے لفظ گیف ہی استعمال ہوگا اور جب کوئی خوبی حد کو پہنچ تو اُس کے لیے بھی لفظ گیف ہی استعمال ہو گا لیکن دوسری آیت جوالطور کی ہے اُس میں اس مضمون کو اور بھی کھول دیا.بیان فرمایا: فَوَيْلٌ يَوْمَبِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ہلاکت ہے اس دن اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے تکذیب کی راہ اختیار کی ہے.

Page 558

خطبات طاہر جلدے 553 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء ان آیات پر غور کرتے ہوئے انسان کا ذہن اس طرف بھی منتقل ہوتا ہے کہ سارے قرآن میں کہیں مومنین کے لیے ہلاکت کا ذکر نہیں آیا خواہ وہ غلط ہی ایمان لانے والے ہوں.ڈرایا گیا ہے مکذبین کو ان کی تکذیب سے اور کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دیکھو غلطی سے فلاں لوگ ایمان لے آئے تھے ہم نے اُن کو ہلاک کر دیا ہے.غلطی سے وہ لوگ ایک جھوٹے کو سچا سمجھ بیٹھے تھے ہم نے اُن کو تباہ کر دیا ہے.سارے قرآن میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ جس میں خدا تعالیٰ نے اس صورت حال سے متنبہ فرمایا ہو کہ دیکھو فلاں قوم نے غلطی سے ایک ایسے شخص کو قبول کر لیا تھا جس کو میں نے نہیں بھیجا تھا اور دیکھو وہ کس طرح ہلاک کئے گئے اور کس طرح تباہ کئے گئے.یہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی شان ہے ایمان لانے والا اگر سچے دل سے ایمان لاتا ہے.تو اس کے لیے کوئی خوف نہیں کوئی اور کوئی ہلاکت نہیں.لیکن تکذیب کرنے والے کے لیے ہلاکتیں ہیں اور متعدد باران ہلاکتوں کا قرآن کریم میں اس طرح کھول کھول کر ذکر فرمایا گیا ہے کہ کسی پر یہ مضمون مشتبہ نہیں رہنا چاہئے.پس اس موقع پر جبکہ مباہلہ کی دعوت غیروں کو دی گئی ہے اس وجہ سے خصوصیت سے کہ یہ استہزا میں بڑھ رہے ہیں اور اپنے گزشتہ کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر رہے.استہزا میں بھی بڑھ رہے ہیں، ظلم میں بھی بڑھ رہے ہیں اور حکومت کا جہاں تک تعلق ہے وہ معصوم احمد یوں پر قانونی حربے استعمال کر کے طرح طرح کے ستم ڈھارہی ہے اور آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آغاز ہی میں حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ آپ اگر اپنی شان کے خلاف بھی سمجھتے ہوں چیلنج کو قبول کرنا اگر آپ زیادتیوں سے باز نہ آئے اور ظلم وستم کی یہ راہ نہ چھوڑی تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں خدا کی تقدیر اسے مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے کے مترادف بنائے گی اور آپ سزا سے بچ نہیں سکیں گے.تو یہ حالات جس طرف اشارہ کر رہے تھے وہاں تک ہمارے ظن کا تعلق تھا.اندازہ ہو رہا تھا کہ بہت سے ایسے مکذبین ہیں جو شرارت سے باز نہیں آرہے بلکہ تمسخر اور استہزا میں اور ظلم وستم میں بڑھ رہے ہیں.چنانچہ سارے پاکستان میں بار بار یہ کوشش کی گئی ہے علماء کی طرف سے کہ اس مباہلے کو ابتہال کی بجائے اشتعال کا ذریعہ بنایا جائے اور کثرت کے ساتھ احمدیوں کے خلاف عوام الناس کے جذبات مشتعل کر کے اُنھیں ان کو مارنے پیٹنے قبل کرنے ، لوٹنے اور ان کے گھر جلانے پر آمادہ کیا جائے.وہ سمجھتے ہیں اس طرح ہم ایک اپنی تقدیر ظاہر کریں گے.جہاں تک خدا تعالیٰ کی تائید کا تعلق ہے کوئی اُن کے بیانات

Page 559

خطبات طاہر جلدے 554 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء میں آپ کو ایسا یقینی اظہار نہیں ملے گا کہ دیکھو خدا ہمارے ساتھ ہے، مباہلہ کر کے یہ لوگ خود تباہ ہو چکے ہیں آپ دیکھیں گے کہ خدا کی تقدیر ان کو مٹادے گی.کہیں کوئی اظہار نہیں ملے گا.اس کے برعکس یہ اعلان آپ کو ملیں گے کہ کچھ بھی نہیں ہونا.یعنی مباہلہ تو ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہونا آپ دیکھ لینا.اب یہ نیچے کے منہ کی بات نہیں ہے.اگر کوئی خدا پر ایمان لاتا ہے اور مباہلے کے مضمون سے واقف ہے اور اُس پر یقین رکھتا ہے.تو اس کو یہ اعلان کرنا چاہئے کہ لو دیکھو دشمن خود اپنے دام میں آ گیا ہے.جب اعلان کر دیا ہے اس نے کہ اے خدا! جھوٹے پر لعنت ہو تو خود اپنی اس بددعا کی زد سے بچ نہیں سکے گا اور تم دیکھنا کہ جو کچھ ہم نہیں کر سکے تھے اس دشمن کے خلاف اب خدا کی تقدیر ظاہر کرے گی.یہ ایک مومن کا رد عمل ہونا چاہئے لیکن وہ جس کو خدا کی تقدیر پر خدا کی قدرتوں پر ایمان ہی نہ ہو اور وہ مذہب کوکھیل بنا رہا ہو اُس کا رد عمل بالکل وہی ہونا چاہئے جو ہمارے مخالفین کا ہے کہ مباہلہ تو خیر چھوڑ دو یہ تو فضول باتیں ہیں کچھ بھی نہیں ہونا.کہاں خدا ان باتوں کو سن کر قوموں کے خلاف حرکت میں آیا کرتا ہے.کہاں وہ جھوٹوں کو سزا دیا کرتا ہے یہ سب قصے ہیں.ہاں ہم اپنے ہاتھوں سے ان کو سزا دے سکتے ہیں اور ہم ان کو بتائیں گے کہ خدا کون ہے.چنانچہ اس عزم کے ساتھ وہ اُٹھے ہیں کہ دنیا سے خدا کی خدائی کی بجائے اپنی خدائی منوائیں اور یہ بتائیں کہ ہم میں طاقت ہے ان کو مٹانے کی.یہ مباہلہ کیا لیے پھرتے ہیں کس خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں.اُس خدا نے تو کچھ نہیں کرنا یہ تو اعلان کر چکے ہیں بار بار.ہاں ہم کچھ کر کے دکھائیں گے اور یہی انہوں نے مباہلے کا مطلب سمجھا ہے.اس لیے اگر چہ بار ہا کثرت کے ساتھ احمدیوں کی تکلیفوں کی خبریں مل رہی ہیں.لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ یہ مقابلہ خدا سے ہے ان لوگوں کا اور اس میں جماعت احمد یہ نہ کچھ کرسکتی ہے نہ اُس کے کرنے کا کوئی محل اور مقام ہے،صرف انتظار ہے.خدا کی تقدیر لازما ان کو پکڑے گی اور لا زما ان کو سزا دے گی جوان شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ معصوم احمدی جن کو اب سزادی جارہی ہے اُن کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ ہم خدا کی طرف اپنے مقدمے کو لے جاتے ہیں.یہ اعلان انہوں نے کیا تھا.اس لیے کوئی دنیا کا قانون اس میں ٹوٹتا ہی نہیں.پہلے تو ان کے پاس بہانے تھے قانون توڑنے کے اس موقع پر تو کوئی بھی بہانہ نہیں رہا.کھلم کھلا خدا تعالی سے ٹکر ہے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ تمہیں یہ بھی اجازت نہیں کہ تم خدا کی عدالت تک پہنچو اگر ایسا کرو گے تو ہم تمہیں سزا دیں گے.

Page 560

خطبات طاہر جلدے 555 خطبه جمعه ۱۲ راگست ۱۹۸۸ء پس یہ حالات دیکھنے کے بعد دل خوفزدہ ہوتا تھا اور انسان طبعا یہ نتائج نکالتا تھا کہ ممکن ہے یعنی اس بات کا احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کے مجرمین اور ان کا ساتھ دینے والوں کو سخت سزا دے گا لیکن رات کے رویا نے میرا دل ہلا دیا ہے کیونکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا ایک قسم کا مقدر بن گئی ہے اور لا زما ان میں سے ایک طبقہ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ سب نہیں ان میں سے ایک طبقہ عبرت کا نشان بنے گا لیکن دوسرا مضمون ان آیات میں جو بیان فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ نشان کے باوجو دضروری نہیں کہ یہ لوگ ایمان لے آئیں.میں نے گزشتہ خطبے میں یہ دعا کی تحریک کی تھی کہ دعا کریں کہ ایسا نشان ظاہر ہو.جس کے نتیجے میں ساری قوم ایمان لے آئے لیکن ان آیات میں مجھے میری غلطی کی طرف متوجہ فرمایا انسانی سوچ بہر حال ناقص سوچ ہے.کلام الہی میں اس مضمون پر روشنی ڈالی اور یہ بتایا نشانات کے دیکھ کر تو میں ایمان نہیں لایا کرتی.چنانچہ فرمایا لَا يُؤْمِنُونَ نہیں ایمان لائیں گے اور پہلوں کی سنت پر چلیں گے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں.ان لوگوں نے جو سلوک اختیار کیا وہی یہ اختیار کریں گے ، اُن لوگوں کے ساتھ خدا نے جو سلوک اختیار کیا وہی خدا تعالیٰ اختیار کرے گا.وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِن السَّمَاء اگر ہم آسمان پر ان کے لیے دروازے کھول دیں.یا ایک بہت عظیم الشان دروازہ کھول دیں (بابا واحد کا صیغہ ہے) اور اُس دروازہ پر یہ چڑھ کر آسمانی باتوں پر اطلاع بھی پاسکیں.اس سے بڑا اور کیا نشان ہو سکتا ہے فرمایا: اس وقت یہ دیکھنے کے باوجود یہ کہیں گے لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا ہماری آنکھیں تو مد ہوش ہو چکی ہیں.ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ درست نہیں، آنکھوں پر جادو کر دیا گیا ہے بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ اور دیکھو ہم پر اور ساری قوم پر جادو کر دیا گیا ہے اب یہ تعجب کی بات ہے صرف تعجب کی بات نہیں بلکہ ایک تنبیہ کی بات ہے کہ بعینہ یہ بات بہت سے علماء نے اسلم قریشی کی بازیابی کے اوپر بیان کی ہے انہیں الفاظ میں کہ احمدیوں نے پولیس کی آنکھوں پر جادو کیا احمدیوں نے اسلم قریشی کو مسمرائز کروایا پولیس سے اور یہ سب کچھ جادو کا قصہ ہے حقیقت نہیں ہے.سنۃ الاولین کس طرح دہرائی جاتی ہے حیرت ہے خدا تعالیٰ کے کلام کی عظمت کو دیکھیں اور اس کی سچائی کا مشاہدہ کریں دل عش عش کرنے لگتا ہے.قدیم زمانیں کی باتیں ہیں جن کے متعلق آدمی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس زمانے میں دہرائی جائیں گی لیکن خدا کا کلام کہ رہا تھا کہ ضرور ہرائی جائیں گی اور دہرائی گئیں آپ کی آنکھوں کے سامنے دہرائی گئی ہیں.پس کوئی نشان بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ کسی قوم کو ایمان لانے پر

Page 561

خطبات طاہر جلدے 556 خطبه جمعه ۱۲ راگست ۱۹۸۸ء مجبور کر دے یا ایمان لانے پر آمادہ کر دے.ایمان خدا کے فضل سے تعلق رکھتا ہے، ایمان کالا نا خدا کے فضل سے تعلق رکھتا ہے.پس وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جن پر خدا تعالیٰ فضل فرمائے.چنانچہ اب آپ یہ دیکھیں کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزات جو بیان کئے جاتے ہیں اور وہ جیسے سمجھے جاتے ہیں ایسے حیرت انگیز معجزات ہیں جیسا کہ عیسائی سمجھتے ہیں یا بعض مسلمان قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ایک تصور باندھے ہوئے ہیں کہ وہ معجزات یہ تھے.اگر سو فیصد وہی تھے تو پھر دیکھیں کہ صدیوں کے مردے زندہ کیے گئے ہیں، مٹی کوٹھی میں پکڑ کر اسکا پرندہ بنایا گیا اور پھونکا گیا تو وہ پرندہ اڑنے لگا.بائبل میں ہے کہ پانیوں پہ چل کر دکھایا اور قرآن کریم کی آیات سے اور بائبل سے مجموعی یہ تصویر نکلتی ہے کہ پیدائشی اندھوں کو روشنی عطا کر دی ، بصیرت عطا کر دی.کوڑ ہیوں کو ایک دم سے اچھا کر دیا، ماں کے پیٹ سے جذام کی مرضیں لے کر پیدا ہوئے تھے ان کو ایک پھونک سے درست کر دیا.حیرت انگیز نشان دکھائے ہیں اور اس کے باوجود کتنے ایمان لانے والے تھے.ساری زندگی کی محنتوں کے باوجو دساری زندگی کی نشان نمائی کے باوجود کل بارہ حواری تھے جن میں سے دونے بدبختی سے دنیا کا خوف کھا کر حضرت مسیح پر لعنت ڈال دی کل دس رہ گئے.اب بتائیے نشان کتنے عظیم الشان کیوں نہ ہوں روز روشن کی طرح کھلے ہوئے آنکھوں کے سامنے ظاہر ہونے والے کیوں نہ ہوں فی الحقیقت ایمان کا تعلق نشان سے نہیں ہے، ایمان کا تعلق خدا کے فضل سے ہے.اسی طرح قوموں کی تاریخ کا مشاہدہ کریں فرعون اور اس کے ساتھیوں نے کتنے عظیم الشان معجزے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دیکھے مگر ایمان نہیں لائے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جیسا فرقان آنحضرت ﷺ کو عطا ہوا د نیا میں کبھی کسی کو کبھی بھی ایسا فرقان عطا نہیں ہوا جیسے کھلے کھلے معجزات حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو عطا فرمائے گئے ویسے کسی اور نبی کو کبھی عطا نہیں کئے گئے.ہر پہلو سے وہ روشن نمایاں اوراجل تھے لیکن قرآن کریم ساتھ ہی یہ بیان فرماتا ہے وَ اَقْسَمُوْا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَبِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ (الانعام: ۱۱۰) کہ یہ لوگ محمد مصطفی میے کے مخاطبین بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم محمد اگر ایک نشان بھی ہمیں دکھا دے، ایک نشان بھی محمد کے ہاتھ میں ہمارے سامنے ظاہر ہو جائے تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے.اب بتائیے حضرت محمد

Page 562

خطبات طاہر جلدے 557 خطبه جمعه ۱۲ راگست ۱۹۸۸ء مصطفی ﷺ کے اوپر تو نشانات کی بارش ہو رہی تھی.آپ کا وجود خود ایک نشان تھا، عظیم الشان نشان تھا ایسا نشان کہ اس سے بڑھ کر سچائی کا کوئی نشان کبھی پیدا نہیں ہوا جو سرتا پاسچائی تھا.ادنی سی فراست رکھنے والا انسان بھی جو آنحضرت ﷺ کی زندگی کے کسی دور سے بھی واقف ہو آپ کو جھوٹا قرار نہیں دے سکتا.بچپن کے چند لمحے بھی جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں، آنحضرت کے بچپن کے چند لمحے تو یہ کہ ہی نہیں سکتا کہ یہ شخص جھوٹا ہے.بچوں کے چہروں پر بھی سچائی لکھی جاتی ہے ان کی فطرت کی پھر جوانی میں بھی وہ سچائی ظاہر ہوتی ہے پھر بڑھاپے میں وہ سچائی ساتھ دیتی ہے.تو آنحضرت کا سب سے بڑا معجزہ تو خود محمد رسول اللہ اللہ تھے اور ان ظالموں کو دیکھیں کہ گستاخی یہ اور بدتمیزی کی بھی حد ہے قسمیں کھا رہے ہیں خدا کی اور کہہ رہے ہیں کہ ہاں مان جائیں گے ایک نشان تو دکھاؤ، ایک نشانی بھی نہیں دکھا سکے.بعض احمدی جب غیر احمدی علماء سے حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ بات کرتے ہیں تو بڑی تکلیف محسوس کرتے ہیں اور کلبلانے لگتے ہیں یہ کیا حرکت کر رہے ہیں کہتے ہیں ایک نشان بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں ظاہر نہیں ہوا.چنانچہ شرعی عدالت نے یہی بیان دیا ہے کہ مرزا صاحب کے باقی معجزات کی کثرت کا سچا ہونا تو الگ بات ہے ایک بھی پیشگوئی بھی مرزا صاحب کی بچی نہیں نکلی.لا پس یہ سنت الا ولین ہے جو اپنے آپ کو دہراتی ہے یہی وہ تقدیر ہے یہی وہ تاریخ ہے جو ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اور ہمیشہ لوگ اس کو دیکھنے کے باوجود اندھے ہو جاتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے.فرمایا: قُلْ إِنَّمَا الأيتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ کہ ان سے کہہ دو خدا کے پاس نشانوں کی کوئی کمی نہیں ہے.بے انتہا نشان ہیں سب نشان اس کے پاس ہیں.وَمَا يُشْعِرُ كُم تم عقل کے اندھوں کو کس طرح ہم یہ بات سمجھا دیں، کیا بات سمجھا سکے گی.أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ کہ جب بھی وہ نشان آئیں گے یہ ایمان نہیں لائیں گے.اس لیے دیکھیں کتنی نادانی کی اور کتنی غلطی کی جب میں نے آپ سے یہ کہا کہ یہ دعا کریں کہ ایسے معجزے ظاہر ہوں، ایسے نشان ظاہر ہوں کہ یہ سارے ایمان لے آئیں ہر گز نشانوں کو دیکھ کر تو میں ایمان نہیں لایا کرتیں.اگر نشانوں کو دیکھ کر تو میں ایمان لایا کرتیں تو تمام گزشتہ انبیاء کی تاریخ بالکل مختلف طور پہ ظاہر ہوتی ، بالکل اور رنگ میں لکھی جاتی.اس لیے ایک ہی طریق ہے جس کے ذریعے

Page 563

خطبات طاہر جلدے 558 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء آپ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کر سکتے ہیں اور کسی قوم کو توفیق مل سکتی ہے کہ وہ ایمان لے آئے وہ دعا کا طریق ہے.دعا یہ کریں کہ اے خدا! تو اس قوم پر رحم فرما کہ یہ ایمان لے آئے.یہ نہیں ہے کہ فلاں بات ظاہر کر دے تو یہ ایمان لے آئے گی ، فلاں بات ظاہر کر دے تو یہ ایمان لے آئے گی.ایسی دعائیں اکثر بریکار چلی جاتی ہیں اور باتیں ظاہر بھی ہو جاتی ہیں تو پھر بھی وہ نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا جو انسان ان باتوں کی طرف منسوب کرتا ہے.ایسے بار ہا واقعات ہم اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے ہیں.میں نے آپ کو شاید پہلے بھی ایک دفعہ آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنایا تھا ہم احمد یہ ہوٹل میں تھے جب چوہدری محمد علی صاحب، مرزا مجید احمد صاحب، میں اور ایک دواور دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ڈلہوزی جا کر برفباری دیکھیں.چنانچہ جب ہم نے جائزہ لیا تو پتا چلا کہ فلاں وقت سے فلاں وقت برفباری شروع ہو سکتی ہے اگر بادل آجائیں تو.چنانچہ ہم نے اس وقت میں جبکہ برفباری کے امکانات بڑے روشن تھے پروگرام بنایا اور جب ہم ڈلہوزی جاتے ہوئے بس میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے تو وہاں ایک ساتھی سے پوچھا کہ بتائیے ان دنوں میں برف کا امکان ہے تو اس نے کہا اگر بادل آجائیں تو ضرور برف پڑے گی.اس پر کیسی نادانی تھی بچپن کی باتیں ہیں ہم نے یہ دعا کی اے خدا بادل تو بھیج دے برف ہم آپ بنالیں گے اور ایک ہفتہ یا اس سے زائد قیام رہا مسلسل چوبیس گھنٹے بادل رہے ہیں لیکن اولے برسے ہیں برف نہیں پڑی.تو ایک گالا بھی برف کا نہیں پڑا اور ہم استغفار بھی کرتے رہے اور ہم ہنستے بھی رہے کہ خدا نے خوب ہمیں سمجھایا ہے کہ ایسی بیوقوفوں والی دعا ئیں نہ کیا کرو.تو جو پچھلی دعا کی تحریک تھی وہ منسوخ سمجھیں کوئی معنی نہیں ہیں اس کے.دعا یہی صرف ایک ہی دعا ہے کہ ایک خدا تو دلوں کا مالک ہے، تو قادر و توانا ہے تو رحم کرنے والا ہے.عرب کی قوم بھی کب معجزوں کو دیکھ کر اصلى الله ایمان لائی تھی وہ تو محمد مصطفی امیہ کی دعاؤں ہی کی برکت تھی کہ وہ ایمان لے آئے تھے.پس پھر وہ معجزہ دیکھا جو حضرت محمد مصطفیٰ کے وقت میں آپ کی خاطر دکھایا تھا.اب بھی تو آپ ہی کا سلسلہ ہے، اب بھی تو ہماری عزت کا سوال نہیں.تمام سلسلہ تمام کاروبار حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا سلسلہ اور آپ ہی کا کاروبار ہے.پس اے خدا! اس نبی کی قبولیت کی شان کو ایک بار پھر ظاہر فرمادے اور اسی کی برکت، اسی کے پیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے تو اس دفعہ پھر یہ معجزہ ظاہر فرما کہ ان مخالفین کے دل بدل جائیں یہ ایمان لے آئیں ہمیں ان کے عذاب میں خوشی نہیں ان کی ہدایت میں خوشی ہے.آمین.

Page 564

خطبات طاہر جلدے 559 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۸ء مباہلہ کا اعجازی نشان جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت اور پا کستانی رہنماؤں کو قیمتی نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ار اگست ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: پنجابی کے ایک صوفی منش شاعر جو پنجابی عوام میں بہت مقبول ہیں اُن کا نام میاں محمد بخش ہے.اُن کا ایک شعر ہے یا شعر کا ایک مصرعہ ہے کہ ٤ دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجناں وی مر جاناں اس چھوٹے سے پنجابی کے مصرعے میں بڑی حکمت بیان کی گئی اور جہاں تک مومن کی تربیت کا تعلق ہے جو قرآن اور سنت نے مومن کی تربیت کی ہے.اُس میں یہ بات بہت اچھی طرح داخل ہے اور مومن کے مزاج کا حصہ بنادی گئی ہے کہ کسی کی موت پر کسی کے غم پر خوشی نہیں کرنی چاہئے.لیکن اس کے باوجود بعض ایسے مواقع آتے ہیں کہ بعض خوشیوں کا موت سے تعلق بن جاتا ہے.فی ذاتہ موت خوشی کا باعث نہیں ہوتی بلکہ اُس کے پیچھے کوئی اور حکمت کار فرما ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو خوب کھول کے بیان کرتے ہوئے فرمایا وَ يَوْمَذِ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِنَصْرِ اللَّهِ (الروم : ۶،۵) کہ آج کے دن مومن بہت خوش ہیں.اس لیے نہیں کہ کسی کو شکست ہوئی ہے یا کوئی مارا گیا ہے بِنصر اللہ اس لیے کہ خدا کی نصرت اُن کی مدد کو آئی ہے.پس جنرل ضیاء الحق صاحب کی موت بذات خود ہر گز کسی خوشی کا موجب نہیں.امر واقعہ یہ

Page 565

خطبات طاہر جلدے 560 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء ہے کہ ہمیں اُن کے پسماندگان سے بھی ہمدردی ہے اور اُن کے ساتھ مرنے والوں کے پسماندگان سے بھی ہمدردی ہے اور میں نے جماعت احمدیہ کے سربراہ کی حیثیت سے اُن کو تعزیت کا پیغام بھی بھجوایا ہے اور بلا تردد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے دل میں ان کے دلوں کے لیے رحم تو ہے کسی قسم کی شوخی، کسی قسم کا تمسخر، کسی قسم کی مفاخرت کا کوئی جذبہ نہیں ہے اور یہی حال میں جماعت احمدیہ کا دیکھنا چاہتا ہوں اور یہی حال میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کا ہے.خوشی بھی ہے اور ہر گز ہم اُس کا انکار نہیں کر سکتے کیونکہ مومن کسی قسم کی مداہنت کی خاطر جھوٹ نہیں بول سکتا.امر واقعہ یہ ہے کہ تمام عالم میں آج احمدیوں کے دل راضی ہیں اور بہت خوش ہیں.کیوں خوش ہیں اس لئے نہیں کہ کوئی الف مرایا ب مراء اس لیے خوش ہیں کہ بنصر اللہ کہ اللہ کی نصرت کو آتے ہوئے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے.وہ جس کے انتظار میں وہ دن گنا کرتے تھے.اُس نصرت کو سورج کی طرح روشن آسمان سے نازل ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے اور یہ وہ تاریخی دور ہے جس میں سے آج گزر رہے ہیں.اس دور میں سے گزرنا ایک ایسی سعادت ہے جو قسمت کے ساتھ قوموں کو نصیب ہوا کرتی ہے.ایک ایسا نشان ظاہر ہوا ہے کہ جن لوگوں نے اس نشان کو دیکھا ہے اُن کی نسلیں ہمیشہ فخر سے یاد کیا کریں گی کہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کا یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا.پس ہماری خوشی ہر گز کسی کی موت یا کسی کے دُکھ سے وابستہ نہیں ہے.اس خوشی کے باوجود ہمیں ان کی تکلیفوں کا احساس بھی ہے اور ان کی تکلیفوں کا دُکھ بھی ہے.مومن کے برعکس جو لوگ ایمان کی حلاوت سے آشنا نہیں ہوتے جن کو قرآن اور سنت کی صحیح تربیت حاصل نہیں ہوتی.اُن کے رد عمل اس سے مختلف ہوا کرتے ہیں.وہ دشمن کی چھوٹے سے غم پر بگلے بجاتے ، ناچتے اور تمسخر کرتے اور اُس کی چھوٹی سی خوشی پر نڈھال ہو جاتے ہیں گویا ان پر موت وارد ہو گئی ہے.ہم سے بالکل برعکس صورتحال احمدیت کے دشمنوں کی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے دعوی کی سچائی اس بات میں مضمر ہے کہ خدا نے حال ہی میں دو نشان دکھائے ہیں.ایک دشمن کی زندگی کا اور ایک دشمن کی موت کا.جب ہم نے خدا کی طرف سے دشمن کی زندگی کا نشان دیکھا تب بھی ہم خوش ہوئے اور جب ہم نے اپنے مولیٰ کی طرف سے دشمن کی موت کا نشان دیکھا تب بھی ہم خوش ہوئے.اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نشان پر ہم خوش ہیں کسی کی موت اور زندگی سے ہماری خوشیوں کا کوئی تعلق نہیں.اس

Page 566

خطبات طاہر جلدے 561 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء کے برعکس وہ لوگ جن کے ذاتی تعلقات تھے گمشدہ مولوی سے جو شور مچارہے تھے کہ اُس کی موت کا غم ہمیں ہلاک کر رہا ہے.جب تک ہم اُس کے خون کا بدلہ نہ لے لیں ہمیں چین نہیں آئے گا.اُس کی زندگی کی خوشی کی خبر سنتے ہی اُن پر موت طاری ہو گئی.ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہر طرف سوگ کا عالم ہو، جھوٹے کی یہ پہچان ہوا کرتی ہے اور اس طرح خدا بچوں اور جھوٹوں میں امتیاز کر کے دکھا دیا کرتا ہے.آج جنرل ضیاء الحق صاحب کی موت پر جو یہ علماء صدمے کا اظہار کر رہے ہیں یہ وہی ہیں جو کل تک اُن کو گالیاں دے رہے تھے.اس لیے اُن کے اس رد عمل نے بتادیا کہ موت کا صدمہ نہیں ان کو اس بات کا صدمہ ہے کہ خدا کا ایک نشان احمدیت کے حق میں ظاہر ہو گیا.اُس کی سیاہی ان کے چہروں پر پھر گئی ہے.اس لیے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم اور سنت سے تربیت یافتہ ہے اور جولوگ قرآن اور سنت سے تربیت یافتہ نہیں اُن میں اور ہمارے درمیان ایک ایسا امتیاز ہے، ایک ایسا فرق ہے جو ہر آزمائش کے وقت روشن ہو کر ظاہر ہوگا اور کبھی کوئی صاحب بصیرت اس فرق کو محسوس کئے بغیر رہ نہیں سکتا.چنانچہ ان دونوں واقعات پر آپ جماعت احمدیہ کا رد عمل بھی دیکھ لیجئے اور جماعت احمدیہ کے مخالفین کا رد عمل بھی دیکھ لیجئے.تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم سچے ہیں ، ہمارا ظاہر بھی سچا ہے ، ہمارا باطن بھی سچا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کے چہرے کی رضا کی طرف دیکھتے ہیں اور وہی ہماری خوشیوں کا موجب ہے.اگر وہ رضا ہمیں نصیب نہ رہے تو ہمارے لیے موت کا دن ہوگا اور خدا کرے کہ ہم ہمیشہ خدا کی رضا کی زندگی کے ساتھ زندہ رہیں ( آمین ).اس ضمن میں میں ایک بات یہ بھی خوب اچھی طرح آپ پر کھول دینا چاہتا ہوں کہ اس واقعہ کا جو پس منظر ہے اُس سے بھی جماعت احمدیہ کی سچائی ظاہر ہوتی ہے.ہمیں ہر گز شوق نہیں تھا کہ جنرل ضیاء الحق صاحب خدا کی قہری تجلی کا نشانہ بنیں.چنانچہ مسلسل بار بار خوب کھلے لفظوں میں ان کو تنبیہ کی گئی بلکہ میں نے تو نجات کے رستے بھی بتائے کہ اچھا اگر آپ کو کوئی دل میں خدا کا خوف ہو اور شرم کے مارے اپنی وجاہت اور دنیا کے مرتبے کی خاطر جو حیا ہے وہ مانع ہو جائے.تو آپ یہ طریق اختیار کریں بچنے کا کہ ظلم و ستم سے ہاتھ روک لیں بس ، خاموشی اختیار کر لیں.ہم یہ سمجھیں گے اور ہماری دعا ہے کہ خدا کی تقدیر بھی اسی طرح آپ سے سلوک کرے کہ آپ نے چیلنج قبول کرنے سے

Page 567

خطبات طاہر جلدے 562 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء انکار کر دیا ہے اور اپنے ظلم سے باز آ گئے ہیں.چنانچہ کھلے لفظوں میں یہ سمجھایا گیا اور پھر یہ بھی کہا گیا کہ ایک لمبے عرصے سے اُن کی طرف سے جواب نہیں آیا.اُن کو زیادہ وقت ملنا چاہئے وہ غور کریں کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح اُس وطن کا سر براہ جس وطن سے ہمارا تعلق ہے.ہم میں سے اکثر جو آج اس خطبے میں موجود ہیں اُن کا اُسی وطن سے تعلق ہے وہ اس طرح خدا کی قہری بجلی کا نشان بنیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو اس کے عواقب میں پھر اور بھی خدا تعالیٰ کی ناراضگیوں کے اظہار ہوا کرتے ہیں.یہ بہت بڑی روک تھی میرے دل میں اس لیے میں نے ان کو خوب موقع دیا.چنانچہ بعض اقتباسات میں سے ایک آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اُس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جماعت احمدیہ کو شوق نہیں تھا کہ وہ خدا کی قہری تجلی کا نشانہ بن جائیں بلکہ اُن کو خوب اچھی طرح متنبہ کیا گیا اور تنبیہ کا کوئی پہلو باقی نہیں رہنے دیا گیا.ایک خطبے میں میں نے کہا:.جہاں تک صدر پاکستان ضیاء صاحب کا تعلق ہے ان کے متعلق ہمیں ابھی ان کو کچھ وقت دینا چاہئے ابھی ابھی انہوں نے کچھ سیاسی کارروائیاں کی ہیں اور اگر چہ وہ اسلام کے نام پر کی ہیں مگر بہر حال سیاسی کارروائیاں ہیں اور ان میں وہ مصروف بہت ہیں.ابھی تک ان کو یہ بھی قطعی طور پر علم نہیں کہ آئندہ چند روز میں کیا واقعات رونما ہو جائیں گے.اس لئے ہو سکتا ہے وہ تردد محسوس کرتے ہوں کہ یہ نہ ہو کہ ادھر میں چیلنج قبول کروں ادھر کچھ اور واقعہ ہو جائے.اس لئے جب تک ان کی کرسی مضبوط نہ ہو جائے ، جب تک وہ اپنے منصوبوں پر کار بند نہ ہو جائیں اور محسوس نہ کریں کہ ہاں اب وہ اس مقام پہ پہنچ گئے ہیں جہاں جس کو چاہیں چیلنج دیں ، جس قسم کی عقوبت سے ڈرایا جائے اس کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قبول کریں....ایسے شخص کا زبان سے چیلنج قبول کرنا ضروری نہیں ہوا کرتا.اس کا اپنے ظلم و ستم میں اسی طرح جاری رہنا اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ اس نے چیلنج کو قبول کر لیا ہے.اس لئے اس پہلو سے بھی وقت بتائے گا کہ کس حد تک ان کو جرات ہے خدا تعالیٰ کے مقابلے کی اور انصاف کا خون کرنے کی.“

Page 568

خطبات طاہر جلدے 563 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء یکم جولائی ۱۹۸۸ء کے خطبے سے اقتباس ہے.تو اس مضمون میں کھول کر ان کو بتادیا گیا تھا کہ اگر آپ ظلم سے بعض نہ آئے تو پھر یقیناً پکڑے جائیں گے اور اگر ظلم سے باز آگئے اور اپنی پالیسی تبدیل کر لی تو اس کو آپ کی طرف سے چیلنج سے بچنا قرار دے دیا جائے گا دیا جاسکتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ آپ کو نہیں پکڑے گا لیکن افسوس ہے کے انہوں نے اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا.چنانچہ میں نے ۱۲ اگست ۱۹۸۸ء کو خطبہ میں چند دن پہلے یہ اعلان کیا :.یہ استہزاء میں بڑھ رہے ہیں اور اپنے گزشتہ کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر رہے یہ علماء اور مخالفین کے متعلق بیان ہے صرف خصوصیت سے ضیاء صاحب کے متعلق نہیں.استہزا میں بھی بڑھ رہے ہیں، ظلم میں بھی بڑھ رہے ہیں، یہاں سے حکومت کا ذکر شروع ہونا چاہئے اور حکومت کا جہاں تک تعلق ہے وہ معصوم احمدیوں پر قانونی حربے استعمال کر کے طرح طرح کے ستم ڈھا رہی ہے اور آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آغاز ہی میں حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ آپ اگر اپنی شان کے خلاف بھی سمجھتے ہوں چیلنج کو قبول کرنا اگر آپ زیادتیوں سے باز نہ آئے اور ظلم و ستم کی یہ راہ نہ چھوڑی تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں خدا کی تقدیر اسے مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے کے مترادف بنائے گی اور آپ سزا سے بچ نہیں سکیں گے.یہ وہ ذکر ہے جس کے چند دن کے بعد اللہ تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہوئی اور وہ آج دنیا میں خوب شہرت پکڑ چکی ہے.۱۲ اگست کے خطبے میں میں نے یہ بھی ذکر کیا.” خدا کی تقدیر لازماً ان کو پکڑے گی اور لازماً ان کو سزا دے گی جوان شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے.“ بہر حال یہ ایک ایسا عظیم الشان تاریخی نوعیت کا نشان ہے جس کے اوپر ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ظاہر ہونے کے نتیجے میں شکر واجب ہو گیا ہے اور یہ شکر خدا تعالیٰ کی حمد کے ذریعے ظاہر ہونا چاہئے یعنی شکر کا اظہار اللہ تعالیٰ کی حمد کے ذریعے ہونا چاہئے.کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ان دنوں میں حمد میں مصروف رہنا چاہئے اور اُس کے ساتھ ساتھ درود شریف بھیجنا چاہئے

Page 569

خطبات طاہر جلدے 564 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۸ء حضرت اقدس محمد مصطفی منہ پر کیونکہ جیسا کہ الہاما حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحمد تذکرہ صفحہ: ۳۵) یہ ساری برکتیں جو اعزازی نشان ہیں یہ تمام کے تمام حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی غلامی سے وابستہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو خوب عمدگی سے بیان فرمایا ہے.جب یہ کہا کہ ایں چشمہ رواں کہ خلق خداد ہم یک قطره زبحر کمال محمد است ( در شین فارسی صفحه: ۸۹) کہ تم جو میرے ہاتھوں سے نشانات کا ایک جاری چشمہ دیکھ رہے ہو.حضرت محمد مصطفی اے کے بحر کمالات میں سے ایک قطرہ ہے.پس احمدیوں کو یہ بات نہیں بھلانی چاہئے.ٹھیک ہے ہم نے دعائیں کیں اور مباہلہ کر کے اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیا لیکن یہ بات کبھی نہیں کھلانی چاہئے کہ اصل طاقت ہمارے پیچھے محمد مصطفی ﷺ کی دعاؤں کی طاقت ہے اور آپ کے تعلق باللہ کی طاقت ہے.جتنا آپ اس طاقت سے وابستہ رہیں گے ، اس کے قریب رہیں گے آپ طاقتور رہیں گے.جتنا آپ بے وقوفی سے اس ظلم میں مبتلا ہو جا ئیں گے کہ ہماری وجہ سے خدا نے کچھ دکھایا ہے اتنا ہی اس طاقت کے سرچشمہ سے دور ہوں گے اور اس کی پناہ کی چھتری سے باہر نکلنے والے ہوں گے.اس لیے کبھی کوئی احمدی کوئی نشان دیکھ کر محمد مصطفی اللہ کی پناہ کی چھتری سے باہر نکلنے کی جرات نہ کرے کیونکہ جس دن کسی نے اس چھتری سے باہر قدم رکھا اُسی دن اُس کی ہلاکت ہے.حضرت محمد مصطفی اللہ فرماتے ہیں الامام الجنة (بخاری کتاب الجہاد والسير حدیث نمبر: ۲۷۳۷) تو مومن کے لیے امام اُس کی ڈھال ہوا کرتا ہے اور تمام اماموں سے بڑھ کر سب آئمہ کے امام حضرت محمد مصطفی امیہ ہیں.اس لیے اگر اس ڈھال سے آپ آگے بڑھے یا دا ئیں اور بائیں ہٹے تو آپ تیروں کی زد میں آجائیں گے اور پھر کوئی طاقت آپ کو بچا نہیں سکے گی.اس لیے جتنا آگے بڑھنا ہے خوب بڑھتے رہیں مگر محمد مصطفی ہے کی پناہ میں اور آپ کی ڈھال کے پیچھے پیچھے چلیں اور اس پہلو سے یہ بھی یاد رکھیں کہ خلیفہ وقت خواہ اپنی ذات میں کیسا ہی بے حیثیت کیوں نہ ہو وہ اپنے صلى الله

Page 570

خطبات طاہر جلدے 565 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء وقت میں محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں آپ کا نمائندہ ہوتا ہے.اس لیے اُس کی ڈھال سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں.جس حد تک وہ آگے بڑھتا ہے، جس میدان میں وہ آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتا ہے، اُس کے پیچھے پیچھے رہیں، اُس کا ساتھ دیں، اُس کے ساتھ چلیں تو انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہیں گے.اب میں اس مضمون میں کچھ وسعت پیدا کرتے ہوئے پاکستان کے حالات پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں اور بحیثیت امام جماعت احمدیہ پاکستان کے دانشوروں اور سیاستدانوں اور صاحب اقتدار لوگوں کو مشورہ دینا چاہتا ہوں.جب خدا تعالیٰ اپنی طرف سے ایک امامت کھڑی کرتا ہے تو اُس امامت کی نیابت میں پھر جو بھی امام بنتا ہے اُس کی بھی راہنمائی فرماتا ہے.اس لیے یہ روشنی جو خدا تعالیٰ عطا کرتا ہے کسی کی ذات کی طرف سے نہیں ہوتی.اُسی امامت کی برکت سے چلتی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو روشنی ملی وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی امامت کے توسط اور توسل سے ملی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کے خلفاء کو جو روشنی ملتی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی امامت کی روشنی سے ملتی ہے.اس لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ اس روشنی سے دوسروں کے اندھیرے کو دور کرنے کی کوشش کریں اور ان پر صورتحال واضح کر کے جہاں تک ممکن ہے ان کی بھلائی اُن پر ظاہر کریں اور ان کی بدی کو بھی ان پر ظاہر کر دیں تا کہ وہ آنکھیں کھول کر اقدام کرنے کے اہل ہوسکیں.میں امید رکھتا ہوں کہ جن سیاسی رہنماؤں یا دانشوروں تک میری آواز پہنچے وہ ہرگز میری اس بات کو کسی تعلمی کے طور پر نہیں لیں گے.میں بہت ہی ایک عاجز انسان ہوں، بڑی عاجزی کے ساتھ اُن کے سامنے یہ مضمون کھول رہا ہوں اور اس میں سوائے قوم اور وطن کی بھلائی کے میرا اور کوئی مقصد نہیں ہے.یہ جو واقعہ ظاہر ہوا ہے اس میں دو پہلو ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے علی آن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمُ (البقره: ۲۱۷) بسا اوقات تم سمجھتے ہو کہ ایک بہت ہی مکروہ بات ظاہر ہوئی ہے لیکن اسی میں ایک خیر کا پہلو موجود ہوتا ہے.ایک پہلو سے دیکھیں تو ایک قومی سانحہ ہے اور رات کی طرح بھیانک اور تاریک ہے.پاکستان کی فوج کے چوٹی کے دماغ اس ہوائی

Page 571

خطبات طاہر جلدے 566 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء جہاز کے ساتھ اُڑ گئے ہیں اور اُن کے ساتھ ایک ایسا سفیر امریکہ کا بھی لقمہ اجل ہوا اور اُس کا ایک ساتھی جو اُن کے انٹلیجنس کے مانے ہوئے تجربہ کارلوگوں میں سے تھے.تو جہاں تک دنیاوی سیاست کا تعلق ہے ایک بہت ہی بڑا سانحہ ہے اور بہت ہی بڑا نقصان ہے.کسی فوج کے پانچ جرنیل اور پانچ چوٹی کے ماہر برگیڈیر ز ایک ہی سانحہ میں ہلاک ہو جائیں تو یہ کوئی معمولی نقصان نہیں ہے، یہ تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دماغ کا مرکز اُڑ جائے اور فوج کا سربراہ بھی ساتھ شامل ہواُس کے علاوہ.تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنا بڑا سانحہ اور کتنا بڑا نقصان ہے.اس کے نتیجے میں بہت سے خاندان ہیں جن کو دکھ پہنچے ہیں اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ان کے دکھ میں ہم اُن کے شریک ہیں.تو ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے ایک اور پہلو سے دیکھیں تو اس واقعہ کا دوسرا رخ طلوع فجر سے ملتا جلتا ہے.یعنی ایک پہلو اگر رات سے ملتا ہے تو دوسرا پہلو صبح کے پھوٹنے سے ملتا ہے کیونکہ ایک لمبی رات کہ بعد بالآخر وہ وقت قوم کو نصیب ہوا ہے جو طلوع فجر سے مشابہت رکھتا ہے اور امکان ہے کہ ایک دن اس کے بعد آئے جو سارے اندھیرے دور کر دے اور ہر قسم کے غموں کو دور کر دے، ہر قسم کی تاریکیوں کو ہٹا کر روشنیاں لے آئے لیکن قوموں کے معاملات میں رات اور دن اس طرح آگے پیچھے نہیں آیا کرتے.جس طرح قانون قدرت میں ہمیں آگے یا پیچھے آتے دکھائی دیتے ہیں.قانون قدرت میں رات اور دن اس لیے باقاعدگی سے آتے ہیں کہ خدا کی تقدیر با قاعدہ ہے اور خدا کی سنت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ، اُس کا انتظام کامل ہے اُس میں کوئی رخنہ نہیں لیکن قوموں کے رات اور دن اُن کے اپنے اعمال سے وابستہ ہوا کرتے ہیں.اُن کی بے قاعدگیاں ان دنوں اور راتوں کے تسلسل کو بے قاعدہ کر دیا کرتی ہیں.اُن کی بے ضابطگیاں ان راتوں اور دنوں کے معاملات میں بے ضابطگیاں پیدا کر دیا کرتی ہیں.اس لیے ضروری نہیں ہوا کرتا کہ رات کے بعد ضرور دن چڑھے.بعض اوقات رات کے بعد اگر دن چڑھتا بھی ہے تو رات سے زیادہ بد تر دن چڑھتا ہے.یعنی رات کے زیادہ مشابہ ہوتا ہے دن کی روشنی اُس میں کم پائی جاتی ہے.اس لیے یہ وقت بہت ہی نازک ہے اور قوم کے سر براہوں کو خوب اچھی طرح اس صورتحال کا تجزیہ کرنا چاہئے اور پھونک پھونک کے اس میدان میں قدم رکھنا چاہئے.آج اگر یہ موقع ہاتھ سے جانے دیا گیا تو ہوسکتا ہے اس گیارہ سالہ رات کے بعد ایک اور لمبی رات قوم کے اوپر مسلط کر دی جائے اور جہاں تک

Page 572

خطبات طاہر جلدے 567 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء بیرونی طاقتوں کا تعلق ہے وہ یہی کوشش کر رہی ہیں اور اس کوشش میں آئندہ چند دنوں میں زیادہ تیزی اختیار کریں گی.یہ کہنا کہ ۱۶ نومبر کا دن پاکستان کے لیے آزادی کی خوشخبری لائے گا، یہ کہنا کہ ۱۶ نومبر کا دن پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کا دن ہو گا ایک سادہ سا خیال ہے.اس میں پختگی نہیں ہے.جب تک ہم اس بات کا تجزیہ نہ کریں کہ ہم سے اس سے پہلے کیا ہوتا رہا ہے.اُس وقت تک ہم آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کے اہل نہیں بن سکتے.سوال یہ ہے کہ یہ جو اندرونی غلامی ہے ہمیں جو نصیب ہوئی ایک لمبے عرصہ تک، کیا اندرونی محرکات کے نتیجے میں ہوئی یا کچھ بیرونی محرکات بھی ہیں؟ کون سی زنجیریں ہیں جو ہمیں پہنائی گئی ہیں اور ۶ ارنومبر کے دن اب کیا معجزہ ہوگا جو یہ زنجیریں توڑ دے گا؟ پہلی بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جب تک بیرونی غلامی کی زنجیروں کو ہم نہیں توڑتے ہم نہیں آزاد ہو سکتے اور بیرونی غلامی کی زنجیروں میں امریکہ کی غلامی کی زنجیریں ہیں اس وقت جنہوں نے قوم کو ہر طرف سے باندھ رکھا ہے اور یہ وہ زنجیریں ہیں جنہوں نے ہماری فوج کو بھی جکڑا ہوا ہے اور جب فوج مسلط کی جاتی ہے تو کٹھ پتلی کی طرح مسلط کی جاتی ہے.وہ خود بندھی ہوئی ہے اور جہاں تک پاکستان کے عوام کا تعلق ہے اُس پر دوہری زنجیروں کا بوجھ پڑ جاتا ہے.ایک آقا کی زنجیریں اوپر سے اُس کے غلام کی زنجیریں.سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد اچانک یہ زنجیریں کیسے ٹوٹیں گی.کیا امریکہ اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کر لے گا ؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اور جہاں تک میں نے بین الاقوامی خبروں کا مشاہدہ کیا ہے.اُن کے یہ بدارا دے خوب کھل کر مجھے دکھائی دینے لگے ہیں کہ وہ دوبارہ دخل دیں گے اور ہر قیمت پر یہ کوشش کریں گے کہ پاکستان پر دوبارہ فوج مسلط کر دی جائے اور اس کے لیے کسی قسم کے بہانے ان کو مہیا کیے جائیں.اس لیے محض ۱۶ تاریخ کا انتظار کرنا کافی نہیں ہے.معاملے کو خوب اچھی طرح سمجھنا چاہئے اور اس کے متعلق مناسب کاروائیاں کرنی چاہئیں.اس لئے میں اس معاملے کو نسبتاً زیادہ کھول کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.پاکستانی فوج کی اکثریت محب وطن ہے اور قوم کے لیے فوج کو اپنی نفرت کا نشانہ بنانا جائز نہیں کیونکہ اگر قوم پاکستانی فوج کو اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی نفرت کا نشانہ بناتی رہے گی تو دشمن کے ہاتھ مضبوط کرے گی

Page 573

خطبات طاہر جلدے 568 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۸ء اور فوج میں یہ احساس پیدا کرے گی کہ ہم اپنے ہی ملک میں خطرات میں گھرے ہوئے ہیں.جس وقت ہم طاقت سے باہر نکلیں گے ہماری قوم ہم سے انتقام لے گی اور جوں جوں یہ احساس فوج میں بڑھتا چلا جائے گا آپ کے آزاد ہونے کے امکانات دور تر ہوتے چلے جائیں گے.اس لیے یہ ہم چاہے سندھ سے جاری ہو یا بلوچستان سے جاری ہو یا صوبہ سرحد سے جاری ہو یا پنجاب میں داخل ہو جائے ملک کے لیے نہایت مہلک ثابت ہو گی.اس وقت فوج سے گفت و شنید کا وقت ہے ، فوج کو بعض باتیں سمجھانے کا وقت ہے.ٹھنڈے دل کے ساتھ اس میں جذبات سے بالا ہو کر آپ کو کارروائی کرنی ہوگی.امر واقعہ یہ ہے کہ غلام ملکوں کو انکی اپنی فوجوں کے ذریعہ مزید غلام بنایا جاتا ہے.ایک ہاتھ سے آزادی دی جاتی ہے، دوسرے ہاتھ سے وہ آزادی چھین لی جاتی ہے اور اُن کی اپنی ہی فوجوں کو اُن پر مسلط کر دیا جاتا ہے.ایک ایسی بھیانک شکل ہے جس شکل کو خوب کھول کر پاکستانی عوام کو اور اُن کے راہنماؤں کو اپنی فوج کے سامنے رکھنا چاہئے.چند ایک ایجنٹس ہوتے ہیں جن کی ہم تعیین نہیں کر سکتے اللہ بہتر جانتا ہے اُن میں سے کون ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ کوئی بیرونی طاقت کسی ملک کے دفاع پر قابض ہو جاتی ہے.اُس کی مدد کے بہانے اور جب دفاع پر غیر قو میں قابض ہو جائیں تو خطرے کی جو بھی گھنٹی بجتی ہے اُس کی آواز اُن کانوں میں پڑتی ہے جو بظاہر حفاظت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں لیکن دراصل وہ خود قوم کے لٹیرے بن چکے ہوتے ہیں جنہوں نے بچانا تھا وہ اگر قابض ہو چکے ہوں تو بچائے گا کون؟ اس لیے فوجوں کی غلامی جو غریب ملکوں پر مسلط کی جاتی ہے اس سے بچنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی.اس کی شکل بالکل ایڈز جیسی بیماری سے ملتی جلتی ہے.ایڈز بیماری جس کا آج کل بڑا چرچا ہے اُس کے خلاف سائنسدان اس لیے کوئی کاروائی نہیں کر سکتے کہ بیرونی جراثیم جسم کے صحت مند حصوں پر براہ راست قابض نہیں ہوتے بلکہ جسم کے دفاعی نظام پر قابض ہو جاتے ہیں.اس لیے خطرے کی گھنٹی بجتی ہے تو وہ خود خطرہ میں اپنے لیے.دفاع اُن کے قبضے میں ہوتا ہے.وہ دفاع کو اپنے خلاف حرکت میں آنے نہیں دیتے کیونکہ دفاع پوری طرح اُن کے اپنے کنٹرول میں آجاتا ہے.اس لیے یہ بہت ہی بڑی خطر ناک شکل ہے جو آج کل بد قسمتی سے تیسری دنیا کا مقدر بنی

Page 574

خطبات طاہر جلدے 569 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء ہوئی ہے.اُن پر فوجیں مسلط کی جاتی ہیں اور بدنصیبی کی حد یہ ہے کہ آج کل ٹیلی ویژن کے اوپر کھلے لفظوں میں ان قوموں کے سر براہ اور بڑے بڑے لوگ یہ تبصرے کرتے ہیں کہ نہیں پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا ان پر ضرور کوئی جرنیل آجائے گا.کچھ نہیں ہو گا سے مراد یہ ہے کہ سب کچھ ہو جائے گا.یعنی بچ نہیں سکتا فکر نہ کرو پاکستان کو ہم نہیں بچنے دیں گے.ضرور ان میں طاقتور جرنیل موجود ہیں.وہ اُٹھیں اور اُس قوم پر قابض ہو جائیں یہ وہ ہلاکت ہے.جس سے بڑھ کر کوئی ہلاکت تصور نہیں ہو سکتی.آپ گھر میں چوکیدار رکھیں کہ آپ کی حفاظت کریں گے اور چوکیدار مالک بن جائیں اور آپ کو اپنا غلام بنا لیں اور آپ کو اپنی پرورش کرنے پر لگادیں.آپ کے اموال کے مالک بن بیٹھیں ، آپ کی محنت کا بہترین پھل کھانے لگیں.آپ کی آنکھوں کے سامنے اور اتنے طاقتور ہو جائیں وہ آپ کا خون چوس چوس کے کہ آپ کے تصور میں بھی یہ بات نہ آسکے کہ اُن کا مقابلہ کر سکیں.یوں اس مثال کو بیان کیا جائے تو کتنی بھیا نک نظر آتی ہے لیکن بعینہ اسی طرح کے واقعات کسی تیسری دنیا میں ہو جاتے ہیں اور محب وطن فوجی بھی یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں.جب امریکہ کے ایک پروگرام میں میں نے سُنا امریکی ایک بڑے لیڈرکو یہ کہتے ہوئے کہ نہیں بڑا امکان اس بات کا موجود ہے کہ پاکستان میں سے کوئی جرنیل اُٹھے مرد اور وہ صورتحال کو قابو میں لے آئے.تو مجھے یوں لگا جیسے میری آزادی ضمیر کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا ہے.میرے وطن کی محبت کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا ہے.اس قدر تکلیف دہ یہ صورتحال ہے.ان بدبختوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر کوئی باہر کے ملک تمہارے کسی سربراہ کے مرنے پر ایسے تبصرے کریں کہ کوئی بات نہیں امریکہ پر بھی فوج قابض ہو جائے گی.کوئی بات نہیں، انگلستان پر بھی فوج قابض ہو جائے گی ، کوئی حرج کی بات نہیں ، فرانس پر فوج قابض ہو جائے گی ، جرمنی پر فوج قابض ہو جائے گی ، روس پر اُس کی فوج قابض ہو جائے گی تو تمہیں کیا محسوس ہوگا.وہ تمہارا ہمدرد ہے یا کوئی بے حیادشمن ہے.پس تم جب یہ کہتے ہو تو ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ تم پاکستان کے عوام کے ساتھی اور اُن کے دوست ہو.سوائے اس کے کہ وہ دشمن ہو اور بے حیادشمن ہو وہ ایسی بات نہیں کر سکتا.اگر ایسا ہی یہ نسخہ ہے اعلیٰ درجے کا تو اس میں سے وہ اپنی خرابیاں دور کرنے پر کیوں استعمال نہیں کرتے کیوں صدروں کے انتخابات پر اتنا وقت ضائع کر رہے ہو اور ارب ہا ارب ڈالرز ضائع کر رہے ہو تمہیں چاہئے کہ تم فوج کو

Page 575

خطبات طاہر جلدے 570 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء اپنے اوپر مسلط کر لو سب بیماریوں کا حل ہے، سب گندگیاں اس سے دور ہو جائیں گی کالے اور سفید کے جھگڑے ختم ہو جائیں گے، سارے تمہارے مسائل آن واحد ختم ہو کر نیست و نابود ہو جائیں گے اور تم آزادی کا دم لو گے کہ اچھا پھر ہماری فوج جو صاف ستھری اور پاکیزہ عناصر پر مبنی ہے وہ ہم پر مسلط ہوگئی ہے.آزاد ملک اس نسخے کو استعمال نہیں کرتے.یہ بات ہمارا سیاستدان نہیں سمجھتا اور اس بات کو ان کے منہ پر نہیں مارتا نتیجہ ایک سیاست میں آزادی کا بحران پیدا ہو جاتا ہے.سیاستدان ان غریب ملکوں کا سیاستدان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ جب تک ان طاقتور ملکوں کو ہم خوش نہیں کریں گے.اُس وقت تک یہ طاقت فوج سے ہماری طرف منتقل کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے.یہ سب سمجھتے ہیں اچھی طرح کہ فوج بھی ان کی غلام ہے اور ہم بھی ان کے دست نگر ہیں، ان کے رحم و کرم پر ہیں.یہ سمجھنے کے بعد پہلے اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں اور پھر بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈراندراندرخفیہ مذاکرات ان طاقتوں سے کرتے ہیں جو ہماری آزادی کو چھینے والی ہیں اور اُن کو کہتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہاری رائٹ سائیڈ پر ہیں.ہم اچھے لوگ ہیں فکر نہ کرو، ہم پالیسیوں کو تبدیل نہیں کریں گے تم ہمیں اوپر آنے دو.وہ یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ جب تک ان کی مرضی کی اطلاع فوج کو نہیں ملے گی فوج اقتدار کو ہمارے سپرد نہیں کرے گی.گویا کہ دوسرے لفظوں میں فوج کی بالا دستی کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں.تو جب زندگی کے سفر کا پہلا قدم یہ ہے کہ دو آقاؤں کی بالا دستی کو تسلیم کیے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اور پہلے قدم پر آپ نے یہ تسلیم کر لیا تو پھر قوم کی آزادی کی باتیں کرنے کا آپ کو کیا حق ہے.کس طرح آپ قوم کو یہ دعویٰ دے سکتے ہیں کہ ہم آئیں گے تو ہم تمہیں ہر قسم کے مصائب سے، ہر قسم کے دکھوں سے آزاد کر دیں گے.ایک غلام لیڈر کے جانے سے کیسے کام بنے گا اگر بعد میں دوسرا غلام را ہنما آگے آجائے اور اُس کے جانے سے کیا ہوگا اگر اُس کے بعد تیسرا غلام لیڈر آگے آجائے اس لیے صورتحال کو خوب اچھی طرح کھولنا چاہئے یعنی کھول کے دیکھنا چاہئے ، اس کا تجزیہ کرنا چاہیے اور سیاسی پالیسی اقتدار میں آنے سے پہلے بنی چاہئے اور عوام الناس کے سامنے اس کو خوب کھول کر بیان کرنا چاہئے کہ اس مصیبت میں کون گرفتار ہے.جہاں تک ہمارا بس چلے گا یا چل سکتا ہے.ہم یہ کاروائی کریں گے تمہیں آزادی دلانے کے لیے.تجزیہ بذات خود ایک علاج ہوا کرتا ہے اگر صحیح تجزیہ ہو جائے تو بعض دفعہ معمولی سی کوشش سے بیماری دور ہو جاتی ہے.

Page 576

خطبات طاہر جلدے 571 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء اس لیے میں قوم کے سیاستدانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ صورتحال کو سمجھیں اور اس کا صحیح علاج تجویز کریں.یہ بھی غلط ہے کہ ہم امریکہ سے نجات پانے کے لیے عوام الناس میں امریکہ کے خلاف اشتعال انگیزی کریں اور نفرت پھیلائیں.عالمی سیاست میں ہمارا ایک مقام ہے.اُسے ہمیں بھولنا نہیں چاہئے اور وہ کمزوری کا مقام ہے.عالمی سیاست میں ہم یہ اختیار نہیں رکھتے کہ ایک کو دشمن سمجھیں اور دوسرے کو دوست سمجھیں.اگر ہم عقل سے کام لیں گے تو دونوں دوست ہو سکتے ہیں اور اگر عقل سے کام نہیں لیں گے تو دونوں دشمن ثابت ہوں گے.عالمی سیاست پر Might is Right کا قانون ہے، طاقت کا قانون جاری ہے.کوئی رحم و کرم کا قانون ان میں نہیں چلتا.اس حقیقت کو سمجھ کر آپ کو اپنے لیے آئندہ راہیں معین کرنی ہے.اس سے بہتر وقت، آج جو وقت آیا ہے یہ آپ کو کبھی بھی نصیب نہیں ہو سکتا تھا.یہ جو باتیں ہو رہی ہیں کہ سبو تا ثر ہو گیا.اب آرمی انٹیلی جنس اس بات کو زیادہ زور سے بیان کر رہی ہے کہ یہ دراصل آئندہ سیاست کو اختیار میں آنے سے روکنے کا ایک ذریعہ ہے ، ایک بہانہ ہے.اگر اس بات کو آگے بڑھائیں اور امریکہ سے بھی ماہرین آکے یہ کہہ دیں کہ کہ ہاں یہ تو سبو تا ژ تھا یعنی کسی دشمن نے خفیہ طور پر بم رکھ دیا یا میزائل سے اس جہاز کو اڑا دیا تو فوج کے لیے یہ بہانہ اچھا ہے کہ ہمارے سر براہ کو تو انہوں نے مارا ہے.چونکہ پاکستانی سیاستدانوں نے مروایا ہوگا یا غیروں کے ساتھ مل کر کیا ہوگا اس لیے ہمیں اعتبار نہیں رہا.کئی بہانے بنائے جاسکتے ہیں.آج اور سولہ نومبر کے درمیان ابھی کافی فاصلہ ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام آبادان دنوں بین الاقوامی سازشوں کا اکھاڑا بنے والا ہے.بڑی بڑی طاقتوں کے نمائندے وہاں پہنچیں گے اور ساز باز کریں گے اور ہر طرح کوشش کی جائے گی کہ پاکستانی عوام کو اُن کی آزادی سے محروم رکھا جائے.اس لیے بہت واضح جو بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.اس کا علاج کیا ہے اس کا جو علاج نہیں ہے وہ میں نے آپ کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے.عوام الناس کو بھڑ کا کرکسی ایک بڑی طاقت کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور بظاہر اُس سے ٹکر لینا یہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے.آپ امریکہ سے متنبہ تو رہ سکتے یہ تو آپ بیدار مغزی کے ساتھ یقین کر سکتے ہیں کہ ہمارا دوست نہیں ہے جب تک ہمارا محتاج ہے تب تک ہمارا دوست ہے.جہاں ہم نے غلطی کی اس کو اور اس کو ہماری احتیاج نہ رہی یہ ہمارا دوست نہیں رہے گا.ہمیں حکمت کے ساتھ اس سے معاملہ کرنا ہوگا.اُس وقت تک امریکہ کو دوست

Page 577

خطبات طاہر جلدے 572 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء رکھا جاسکتا ہے.اسی طرح روس کا حال ہے، اسی طرح ہندوستان کا حال ہے.ان تین بڑی طاقتوں میں ہم گھرے ہوئے ہیں اور کوئی محض اپنے جذباتی طور پر آپ سے تعلق کی خاطر آپ کا دوست نہیں ہے نہ ہوگا کبھی.ان تینوں طاقتوں میں سے کسی ایک کو دشمن بنانا پاکستان کے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوسکتا.اس لیے سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ امریکہ سے کہیں کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اُس سے باز رہو.اگر تم چاہتے ہو کہ ہمارے تعلقات تم سے درست ہوں تو ہم تمہارے دشمن نہیں بنیں گے یہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں.اس لیے بھی یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے پاس چارہ ہی کوئی نہیں ہم تمہارے دشمن بن سکتے ہی نہیں ، بے اختیار قوم ہیں بیچارے.سوطرح کی احتیا جیں ہیں تمہارے ساتھ تمہیں کیوں وہم ہے کہ سیاست او پر آگئی تو وہ تمہاری دشمن ہو جائے گی ، دشمن ہو نہیں سکتی.ہمارے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان تینوں بڑی طاقتوں سے دوست کے دوست بنے رہیں.اس لیے ہم تم پر خوب واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر تم ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی بند کر دو تو ہماری طرف سے کوئی دشمنی نہیں ہے.بہتر تعلقات کے امکانات ہیں، بدتر تعلق کا کوئی احتمال نہیں لیکن خوب اچھی طرح یا درکھیں کہ اگر غلطی سے ان کو یہ احساس دلایا گیا جیسا کہ دلایا جاتا ہے بعض اوقات کہ تم ہمارے دشمن ہو تم نے ہمیں غلام بنایا ہم تمہیں اُتار کے نکال کر باہر ماریں گے اور تمہارے ساتھ تعلقات ختم کر لیں گے اور روس کی طرف چلے جائیں گے تو یہ ساری کھوکھلی باتیں ہوں گی.نقصان کے سوا اس سے آپ کو کچھ نہیں پہنچے گا کیونکہ روس کی طرف اگر جانا بھی چاہیں تو روس آپ کو ہندوستان کے مقابل پر قبول نہیں کر سکتا.اُس کے لیے فیصلہ کرنا ہے دو چیزوں کے درمیان.یعنی ترجیجی فیصلہ کرنا ہے یا ہندوستان کو اختیار کریں یا آپ کو اختیار کرے کیونکہ آپ دونوں کے درمیان تو وہ کوے اور غلیلے جیسا بیر ہے اور جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں آسکتیں.اس طرح ایک دوستی کے دائرے میں اس وقت سر دست ہندوستان اور پاکستان اکٹھے نہیں ہو سکتے.اس لیے مجبور اروس کو اختیار کرنا ہوگا کسی ایک کو اور جہاں تک ترجیح کا تعلق ہے وہ لازم ہندوستان کو ترجیح دے گا.اس لیے امریکہ سے دوستی تو ڑ کر آپ کا یہ خیال کہ آپ کو ہندوستان کے جبر اور ظلم سے بھی روس بچالے گا یہ بالکل ایک باطل خیال ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں.آپ بے دوست ہو جائیں گے پھر، بے سہارا ہو جائیں گے اور دوسری طرف اس کے اور نقصانات بھی ہوں گے کیونکہ بیرونی

Page 578

خطبات طاہر جلدے 573 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء سیاست کا صرف دخل نہیں ہوا کرتا قوموں کی بہبود میں ، اندرونی طور پر بھی اُس کے اثرات مترتب ہوتے ہیں.جب آپ کسی ایک قوم کے خلاف خواہ اُس نے آپ سے اچھا سلوک کیا ہو یا نہ کیا ہو نفرت کی تعلیمیں دیتے ہیں تو آپ کی قوم اندر سے پھٹنا شروع ہو جاتی ہے.دو انتہا ئیں آپ کی قوم میں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں.ایک رائٹیسٹ کہلاتے ہیں ایک لیفٹسٹ کہلاتے ہیں اور بالآخر قوم دو نیم ہو جاتی ہے.اگر تو فیصلہ ہو جائے کسی وقت اور ایک گروہ بہت زیادہ قوت کے ساتھ غالب آ جائے تو پھر نتیجہ نکلا کرتا ہے کہ ایک کمزور گروہ بیچارے کا قتل عام ہو جاتا ہے.اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھ اور اُن کو بری طرح سے ملیا میٹ کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ برابر رہیں یا فیصلہ کن فرق نہ ہو تو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہتے ہیں اور قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں.تو Polarisation تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک زہر قاتل ہے اور نہایت ہی مہلک چیز ہے.اس لیے نفرت خواہ روس کے خلاف پھیلائی جائے ، خواہ امریکہ کے خلاف پھیلائی جائے قوم کو بانٹ دے گی اور قوم کے لیے بالآخر نہایت مہلک ثابت ہوگی.اس وقت پجہتی کی ضرورت ہے ایک قومی حکومت کی ضرورت ہے، قومی سیاست کی ضرورت ہے.پہلے تھوڑا پاکستانی ، پاکستان کے خلاف بٹا ہوا ہے.کہیں کوئی سندھی ہے، کہیں بلوچی، کہیں پنجابی کہیں پٹھان.پھر ذاتوں میں بٹا ہوا.ہے، پھر فرقوں میں بٹا ہوا ہے، پھر سیاسی تصورات میں پہلے کئی قسم کے تصورات میں بٹا ہوا ہے.پھر فوجی غیر فوجی میں بٹا ہوا ہے، پھر مہاجر غیر مہاجر میں بٹا ہوا ہے.اتنے رخنے ہیں ہماری وحدت میں کہ ان رخنوں پر اضافہ کرتے ہوئے قوم کو مزید رخنوں میں مبتلا کرنا اور قوم کے درمیان مزید فاصلے پیدا کرنا ہمارے لیے لازماً ہلاکت کا موجب بنے گا.اس لیے اب ایسی جستجو کریں کوئی ایسے طریق اختیار کریں کہ قوم اکٹھی ہونے کی باتیں شروع کرے اور ایک وحدت پر جمع ہونے کے خیالات کو فروغ ملے.یہ سب سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے.خالی ۱۶ نومبر کا انتظار تو کوئی انتظار نہیں ہے.پھر جب آپ فوج کے اس رویے کو دیکھتے ہیں اور گھل کر فوج کو یہ نہیں کہتے کہ اگر تم نے خیرات کے طور پر ہمیں حکومت دینی ہے یا امریکہ کے ایماء پر ہمیں حکومت دینی ہے تو ہم یہ حکومت نہیں لیں گے.اُس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ طاقتور جب اپنی طاقت کو خود چھوڑتا ہے وہ ہمیشہ اس بات کی یقین دہانی پر چھوڑتا ہے کہ میں جب

Page 579

خطبات طاہر جلدے 574 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۸ء چاہوں اس طاقت کو واپس لے سکتا ہوں اور اس شرط کے ساتھ چھوڑتا ہے.چنانچہ اس سے پہلے جو نیجو صاحب کی حکومت اسی قسم کی سیاسی خود کشی کر چکی ہے اور 8th Amendment میں جو آٹھویں ترمیم میں بل منظور ہوا.انہوں نے اپنے ہاتھ سے اُس طاقتور کو یہ تمام اختیارات دے دیئے کہ جب چاہیں آپ یہ ساری طاقت ہم سے چھین لیں تو بالکل بے طاقت ہو کے رہ گئے.ایک ایسا تضاد پیدا ہوا پاکستان کی سیاست میں کہ اُٹھے تھے عوام کے پلیٹ فارم سے اور فوج کی چھت سے لٹک گئے اور دعویٰ یہ کیا کہ ہم Democracy کی آزادی یعنی جمہوریت کی آزادی کے علمبردار ہیں.اگر عوام نے بچنا تھا تو عوام کے پلیٹ فارم پر کھڑے رہنا چاہئے تھا اور ہر گز طاقت حاصل کرنے کی خاطر کسی قسم کی کوئی مفاہمت نہیں کرنی چاہئے تھی.دوٹوک فیصلہ کرنا چاہئے تھا.ہم عوام کے انتخاب پر آئے ہیں بلا مشروط طاقت لیں گے اور اگر نہیں دینی بلا شرط طاقت تو ہم واپس جاتے ہیں عوام میں ہمیں اپنی ذات کے لیے کوئی طاقت نہیں چاہئے.اگر یہ فیصلہ اُس وقت ہو جاتا تو جو واقعات بعد میں رونما ہوئے ہیں ہرگز رونما نہ ہوتے.کئی قسم کی جو مصیبتیں بعد میں پاکستان پر پڑی ہیں وہ ہر گز نہ پڑتیں.اس لیے دوسری تنبیہ میری یہ ہے کہ فوج سے معاملہ کرتے وقت یہ ہرگز نہ کریں کہ فوج ہمیں دے گی تو ہم راضی ہوں گے.چنانچہ اسی لیے آپ حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ وہ سیاسی پارٹیاں بھی جو فوج سے اندرونی طور پر سخت متنفر اور بے زار ہیں وہ بھی کھلم کھلا فوج پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے.اس لیے کہ اُن کے لیے تیسری راہ کوئی نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کیا تو کھل کر تبصرہ کر سکتے ہیں حالانکہ یہ میں مشورہ نہیں دے رہا.جب ایسا تبصرہ کریں گے تو فوج متنبہ ہوگی اور زیادہ بد کے گی، اُس کو خطرات محسوس ہوں گے آپ کی طرف سے اور وہ چند جرنیل جو فوج کے نام پر قابض ہوا کرتے ہیں اُن کے ہاتھ مضبوط ہوں گے.فوج کی رائے عامہ کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے.کھلے کھلے بیانات کے ذریعے اخبارات کے ذریعے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہماری فوج کی اکثریت وفادار ہے، ہماری فوج کی اکثریت آج بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے جب بھی ملک کے مفاد میں تقاضا ہوگا یہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.ہمارے سپاہی وفادار ہمارے اکثر افسران وفادار، ان بیچاروں کو ان کے فوج کے ڈسپلن ، اُس کے نظم و ضبط نے ایسی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے کہ جو ایک دفعہ اوپر

Page 580

خطبات طاہر جلدے 575 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء آجائے اُس سے یہ باہر نہیں جاسکتے اور فوجوں کی بقا کے لیے یہ ضروری ہوا کرتا ہے.اس لیے ایسی مشینری ہے جو بے اختیار ہو چکی ہے.آپ کیوں ساری مشینری کے ہر کل پرزے کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے ہیں.جب بھی آپ باتیں کرتے ہیں اندرونی طور پر اس کی Information انٹیلی جنس کے ذریعے فوج کو پہنچتی ہے خواہ وہ سندھ میں باتیں ہو رہی ہوں یا بلوچستان میں یا سرحد میں یہ سب اچھی طرح باخبر ہوتے ہیں کہ یہ منصوبے بنا رہے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آئیں سہی پھر ہم ان کو مزہ چکھائیں گے.پھر جب یہ اعلان ہوتے ہیں کہ فوج کم کر دی جائے اور اُس کی طاقت ختم کر دی جائے ، ہمیں ضرورت نہیں ہے.یہ ساری تنبیہات ہیں جو فوج کو پہلے سے مل رہی ہیں اور یہ علاج نہیں.علاج یہ ہے کہ فوج کو بتائیں کہ تم بڑے ظلم کرنے والے ہو تمہیں پتا ہی نہیں کہ عالمی سیاست میں ہو کیا رہا ہے.تم غیر قوموں کے آلہ کار بن گئے ہو.تمہیں یہ پتا نہیں کہ تم کس لیے کیا کر رہے ہو، تمہاری Direction نہیں رہی.کوئی تمہارا رخ معین نہیں ہے اور آنکھیں بند کر کے بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنتے ہوئے اپنے وطن کے اوپر تم مسلط ہو گئے شرم نہیں آتی تمہیں کوئی حیا باقی نہیں رہی کہ جس فوج کو غیر قوموں کے تسلط سے بچانے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور ساری قوم اپنا خون پلاتی ہے تمہیں اس وجہ سے کہ تم ہمیں غیروں کے تسلط سے محفوظ رکھو، اس پر تم خود مسلط ہو گئے ہو.فوج کا ضمیر آج بھی زندہ ہے اُسے جھنجوڑیں تو سہی.فوج کی بھاری اکثریت سمجھے گی اس بات کو بغیر خون خرابے کے بغیر ان کے خلاف نفرت کی تعلیم دیئے ، ان کے اندر ایک شعور بیدار ہوگا.یہ اپنے افسروں کو کہیں گے کہ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے.ابھی چند دنوں ہوئے ہم نے آزادی حاصل کی تھی اور اپنی آزادی کے اوپر ہم خود تبر بن کے پڑیں اور آزادی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، ہرگز ایسا نہیں ہو گا یہ آواز اگر باہر سے اُٹھے گی تو فوج میں مدافعت پیدا کرے گی.اگر فوج کے اندر سے اُٹھنی شروع ہوئی تو یہ آواز فوج کو آزادی کا احساس دلائے گی ، اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلائے گی.اس نعرہ کے خلاف مدافعت پیدا نہیں ہوگی بلکہ اس کے حق میں مزید فوجی اور آواز میں بلند کرنا شروع کر دیں گے یعنی ایک آواز بڑھتے بڑھتے دو تین چار آوازوں میں تبدیل ہوگی اور یہ اعلان کرنا اخبارات میں ایسے بیان دینا ہرگز ملک کے مفاد کے خلاف نہیں ہے، کوئی قانون شکنی نہیں ہے.آپ کوئی نفرت کی تعلیم نہیں دے رہے.آپ یہ معاملہ کھول کے بیان کر رہے ہیں کہ دیکھو یہ ہورہا ہے ایسا نہ کرو تم کر سکتے

Page 581

خطبات طاہر جلدے 576 خطبه جمعه ۱۹ اگست ۱۹۸۸ء ہو مگر ہم تمہیں تمہارے ضمیر کا واسطہ دیتے ہیں تمہارے وطن کی محبت کا واسطہ دیتے ہیں.تمہاری ماؤں اور بہنوں کی عزت کا واسطہ دیتے ہیں تمہارے بلکتے ہوئے بچوں کا واسطہ دیتے ہیں کہ خدا کے واسطے اپنی ہی قوم کی آزادی کو نہ لوٹو.چھین سکتے ہو کیوں نہیں چھین سکتے.طاقت کی بحث نہیں ہے مگر اگر چھینو گے تو ہمیشہ کے لیے ملعون بن جاؤ گے، ہمیشہ کے لیے تاریخ میں عبرت کا ایک نشان بن جاؤ گے.میر جعفر کے نام کی طرح تمہارے نام پر لعنتیں ڈالی جائیں گی.تمہارا نام میر صادق کا نام بن کر دوبارہ اُبھرے گا.یہ بتاؤ اس قوم کو کیا کسی باپ کو اختیار نہیں کہ اپنے معصوم بچے کو دیوار کے ساتھ ٹکراکر اُس کے دماغ کا بھیجا باہر نکال دے، اُس کے سر کو پارہ پارہ کر دے ممکن کیوں نہیں طاقت ہے.پر کس صاحب ضمیر انسان میں یہ طاقت ہے بتائیے.ہاں اگر ضمیر مر جائے اور انسان پاگل ہو جائے اور کوئی سوچ باقی نہ رہے.جذبات تباہ ختم ہو چکے ہوں تو پاگل مائیں بھی بعض دفعہ اپنے بچوں کا سر دیوار سے چیخ کر اُس کا بھیجا باہر نکال دیتی ہیں اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں.امریکہ میں ایسے واقعات ہوئے میں نے خود پڑھے ہیں کہ ایک ماں نے خود اپنے بچے کا سر دیوار سے بچا اور اُس کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ گئے اور اُس کا بھیج با ہر نکل کر پھیل گیا.ایسا مکر وہ منظر لوگوں نے دیکھا.تو کیا پاکستانی فوج کے لیے یہی مقدر رہ گیا ہے؟ کون کہتا ہے کہ تم میں طاقت نہیں ہے.مگر یا درکھو تم نے یہ طاقت ہم سے حاصل کی ہے اپنی بیویوں سے، اپنے بچوں سے ، اپنی ماؤں سے حاصل کی ہے.قوم کے کمزور مزدوروں سے حاصل کی ہے.ان غریبوں سے حاصل کر کے پھر تم اس پر مسلط ہو جاؤ کوئی تم میں شرم باقی نہیں.اس لیے غیرت کے نمونہ کا اظہار کرو اپنی حمیت کا اظہار کر وقوم کی آزادی کی خاطر جو تمہاری اپنی آزادی کا پیغامبر ہے.تم قوم کو آزادی دلاؤ اس کے بغیر نہ کبھی تم باضمیر انسان کے طور پر زندہ رہ سکتے ہو ، نہ ایک باضمیر فوج کے طور پر تم میں زندہ رہنے کی اہلیت رہے گی.ایسی فوجیں جو اپنے عوام پر مسلط ہوں لازماً باہر سے طاقت حاصل کیا کرتے ہیں یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے یہ لوگ کبھی دنیا میں کوئی فوج باقی نہیں رہ سکتی جب تک اُس کی طاقت کا کوئی سرچشمہ نہ ہو.اب عوام کو اگر متنفر کر لیا ہے، اگر عوام پر مسلط ہوگئی ہے تو پھر بیرونی طاقتوں کے سہارے پر یہ فوجیں مجبور ہو جایا کرتی ہیں اور یہی وہ راز ہے جسے سمجھ کر غیر قو میں غریب قوموں پر حکومت کرتی ہیں.فوج کو رشوت دینا سکھاتی ہیں، فوج کے چند افسروں کو ظلم کرنا سکھا دیتی ہیں اور اُن کے سپرد

Page 582

خطبات طاہر جلدے 577 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء طاقت کر دیتی ہیں.پھر وہ جوں جوں بھی ظلم میں بڑھتے ہیں وہ مجبور ہوتے ہیں کسی بڑی طاقتور قوم کا سہارا لینے پر اور جن لوگوں نے اُن کو مسلط کیا ہو وہ اُن کی طرف جھکتے ہیں اور مزید یہ تعلق بڑھتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کے اپنا ہی ملک ، اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ایسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے جس کے ٹوٹنے کے آثار نظر نہیں آتے اور جب آزادی کی باتیں ہوں بھی تو سودا بازی کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں آزادی کی باتیں نہیں ہورہی ہوتی.چنانچہ آپ نے ایک بیان پڑھا ہوگا پاکستانی وزیر کا کہ ہم ترکی کے نظام حکومت کی طرز پر فوج کو جمہوریت کا مستقل حصہ دار بنالیں گے.کیا مطلب ہے اس بیان کے پیچھے کیا بات ہے.وہی کمزوری بنیادی طور پر.آپ کو علم ہے یقین ہو چکا ہے کہ یہ فوج غالب آگئی ہے اور اس فوج سے ہم چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے.اس لیے بطور رشوت ، بطور ضمانت آپ اپنے ہاتھ سے اپنی رگ گردن اُن کی اُنگلیوں میں تھما دیتے ہیں.کہتے ہیں اچھا ہماری گردن پر ہاتھ رکھ لو یعنی 8th Amendment کی دوسری شکل ہے.یہ فکر نہ کرو ہم بھاگ کر کہیں نہیں جاتے.لعنت ہو ایسی آزادی پر ، ایسی جمہوریت پر.یہ جمہوریت لے کر آپ عوام کے سامنے اُبھریں گے.عوام اگر ہوشمند ہو تو اس جمہوریت کے منہ پر تھوکیں بھی نہیں.یہ غلام جمہورت ہے.صرف مشکل یہ ہے کہ ان کو طاقت میں آنے کی جلدی ہے.بے چین ہیں کسی طرح ہم طاقت کے اوپر آجائیں.ذرا صبر کریں میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر یہ صبر کا نمونہ دکھا ئیں اور سمجھانے سے کام لیں، عوام کو گلیوں میں نہ نکالیں تا کہ اُن کا خون ہو ، کوئی ضرورت نہیں ہمیں اتنی بڑی قربانی دلوانے کی عوام سے جو پہلے ہی مظلوم اور مارے ہوئے ہیں بیچارے ستم رسیدہ ہیں.اُن کو کہاں آپ اپنی فوج سے ٹکراتے رہیں گے.عقل سے کام لیں تحمل سے کام لیں ، معاملات کا صحیح تجزیہ کریں، اُن کو سمجھائیں کہ یہ کچھ ہورہا ہے اور مذاکرات کریں.امریکہ سے بھی اسی طرح روشنی کے ساتھ مذاکرات کریں کہ دیکھوا گر تم باز نہیں آؤ گے تو پھر ہم مجبور ہو جائیں گے، جب ہمیں یہ پتا لگے گا کہ تمہارے ہاتھوں ہمیں مارکھانی ہی کھانی ہے.تو پھر ہم مجبور ہوں گے پھر جو بھی کریں گے ہم آزاد ہیں اس میں اور پھر تم خود اُس Polorisation کو پیدا کرنے والے ہو گے جس میں دن بدن سارا ملک Left کی طرف جھکتا چلا جائے گا اور بائیں بازو کی طاقت بنتا چلا جائے گا اور جب یہ ہو جائے گا اُس وقت پھر روس کے پاکستان میں آنے سے، روس کو دنیا کی کوئی

Page 583

خطبات طاہر جلدے 578 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء طاقت روک نہیں سکتی.یہ یونہی وہم ہے کہ روس ابھی خود ہاتھ چھوڑ کے چلا گیا اور کمزوری کا نشان ہے.ہرگز کمزوری کا نشان نہیں روس کی عالمی Policies تبدیل ہو رہی ہیں.روس نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ جب تک نیوکلیئر ڈیٹرنس موجود ہیں اور اُس میں ہمارے مخالفانہ طاقتوں کو برتری حاصل ہوتی چلی جارہی ہے.یعنی ایٹمی آلات میں، اُس وقت تک ہمارے Conventional Weapons یعنی جو روایتی ہتھیار ہیں اُن میں برتری ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.یعنی ایک اور تین کی نسبت ہے روسی افواج کو اور اُن کے ہتھیاروں کو جہاں تک پرانے رسمی ہتھیاروں کا تعلق ہے.امریکہ اور یورپ کی ساری طاقتیں مل بھی جائیں تو تب بھی روس کی رسمی فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن کیا فائدہ اس برتری کا اگر عالمی طور Atomic Deterrent موجود ہیں، بین الاقوامی طور پر Atomic Deterrent موجود ہیں.یعنی کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ایٹم بم دونوں طرف ہلاکت کا پیغام بن سکتا ہے.اس لیے انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے.یہ اب پہلے ایٹمی ڈیٹرنٹ کو ہٹائیں گے اور اُس فضا کو صاف کریں گے جہاں سے ایٹمی بم ان کے لیے خطرے کا موجب بن سکتے ہیں.خواہ وہ مقابلہ امریکہ کے لیے خطرے کا موجب ہوں.یہ فضا صاف ہو جائے گی، چین سے تعلقات درست ہو جائیں گے تو پھر ایک نئی سیاست اُبھرے گی.اگر یہ واقعات رونما ہو جائیں ، اگر حالات میں اور کوئی تبدیلیاں پیدا نہ ہوں جو اس سیاست کا رخ بدل دیں.تو پھر روس اگر چاہے کہ پاکستان یا ہندوستان کو آنا فانا اپنے قبضے میں کر لے تو یہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ جی افغانستان سے نکال کر ہم نے بہت بڑا کمال کر دیا ہے وہ ان کے لیے بہت بڑی Surprise پڑی ہوئی ہے.روس کی اتنی بڑی طاقت ہے کہ مشرقی یورپ کی عظیم الشان طاقتوں نے جب اس کو نکالنے کی کوشش کی تو چند گھنٹوں میں وہ تباہ کر دی گئیں.بعض چند دنوں میں بعض چند گھنٹوں میں.اس لیے اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں آپ کا ایک ہمسایہ بہت بڑا طاقتور ہمسایہ ہے.وہ ساتھ جڑا ہوا ہے.امریکہ آپ سے دور ہے وہ چاہے بھی تو اُس وقت آپ کی مددکو نہیں پہنچ سکے گا.ایک دفعہ قائد اعظم جب حیدر آباد دکن تشریف لے گئے تو وہاں بہادر یار جنگ صاحب سے اُن کی گفتگو ہوئی.بہادر یار جنگ صاحب ان کے ساتھی تھے اور ہمیشہ اُن کا ساتھ دینے والے تھے لیکن انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہم یہاں الگ اپنی آزادی کا اعلان کر دیں اور

Page 584

خطبات طاہر جلدے 579 خطبه جمعه ۱۹ راگست ۱۹۸۸ء پاکستان ہماری حفاظت کا ذمہ دار ہے.ہمیں آپ سے آپ کے ارادوں پر تو کوئی شک نہیں مگر حالات بڑے خطر ناک ہوں گے کہ چھوٹی سی ایک ریاست ایک بڑی طاقت کے درمیان گھری ہوئی اپنی آزادی کا اعلان کر دے اور پاکستان دور بیٹھے اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہو جائے.تو قائداعظم نے جواب میں کہا کہ ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اگر ایسا ہوا، ہماری Comitment ہے.اُس پر بہادر یار جنگ نے غالب کا یہ شعر پڑھا کہ ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک (دیوان غالب صفحہ: ۱۳۶) ہم یہ تو نہیں کہتے کہ تم تغافل کرو گے تم تو ایک با اصول راہنما ہو ہرگز اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹو گے لیکن دشمن اتنا قریب اور اتنا طاقتور ہے کہ تمہیں خبر ہونے سے پہلے پہلے ہمیں ملیا میٹ ہو جائیں گے چنانچہ جب وقت آیا تو بالکل یہی بات ہوئی.اس لیے روس کے ساتھ ہمارا جو قرب ہے جغرافیائی اُس کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے تو اس ملک کو بھی دشمن ہم نہیں بنا سکتے.امریکہ کو صاف بتانا پڑے گا کہ تمہاری خاطر ہم کوئی ایسی پالیسی اختیار نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں ہمارا یہ بڑا طاقتور ہمسایہ ہمارا دشمن بن جائے.اپنی سوچ میں پختگی پیدا کریں، بلوغت پیدا کریں اور اس بات سے بے نیاز ہو جائیں کہ آپ اس دفعہ طاقت میں آتے ہیں کہ نہیں.اگر تمام سیاسی لیڈرایم آرڈی کے نیچے ہیں کسی اور جھنڈے کے نیچے اکٹھے ہو کر پختہ سوچ کے ساتھ ان امور کو فوج کے سامنے رکھیں ٹھنڈے دل کے ساتھ مذاکرات کی شکل میں امریکہ کے سامنے رکھیں، روس کے سامنے رکھیں.تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان صبح پاکستان کے لیے طلوع ہوگی.پاکستان کے اندر وہ بنیادی طور پر قوت موجود ہے یعنی انسانی قوت وہ موجود ہے جس میں لامتناہی ترقیات کے عناصر موجود ہیں.اس لیے ہمیں دعا بھی کرنی چاہئے.یہ جو مباہلے کے نتیجے میں ایک خدا تعالیٰ کی طرف سے معجزہ رونما ہوا ہے.ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اس قوم کے لیے روحانی برکتوں کا ہی موجب نہ بنے بلکہ دنیاوی برکتوں کا بھی موجب بن جائے کیونکہ دشمنیاں تو مقصد نہیں تھیں.کسی کی ہلاکت کے سے خوش ہونے والے لوگ ہی نہیں.اس مباہلے کے نتیجے میں جو اعجازی نشان ہے ہمارے لیے مزید خوشیاں لے کے آئے گا مزید روشنیاں لے کے آئے گا اور اس کے نتیجے میں قوم روحانی لحاظ سے بھی فائدہ اُٹھائے اور دنیاوی لحاظ سے بھی فائدہ اٹھائے.اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرمائے ( آمین )

Page 585

Page 586

خطبات طاہر جلدے 581 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء آمریت کے نقصانات نیز پاکستان کے نازک سیاسی موڑ پر سیاسدانوں کو مشورے اور ان کی راہنمائی خطبه جمعه فرموده ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا اعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (النمل: ۳۵) پھر فرمایا: اس آیت میں اُس مشورے کا ذکر ہے جو ملکہ سبا نے اپنی قوم کے جرنیلوں کو دیا تھا.یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت سلیمان کالشکر ملک کے دروازے کھٹکھٹا رہا تھا اور حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام نے ملکہ سبا کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ امن کی راہ سے تم ہما را تسلط قبول کرلو.اُس وقت ملکہ سبا نے اپنے بڑے لوگوں کو اکٹھا کیا، قوم کے جرنیلوں کو اکٹھا کیا اور انہیں سمجھایا کہ جب بادشاہ فوج کشی کے ذریعے ملک میں داخل ہوا کرتے ہیں اور ملک فوجی تسلط میں چلا جاتا ہے تو اُس کے بعض نقصان ہوتے ہیں.پہلی بات کہ جب فوجیں کسی ملک پر زبر دستی قبضہ کرتی ہیں تو لازماً اُس ملک میں فساد پھیلاتی ہیں اور اُس کے بڑے لوگوں کو چھوٹا کر دیا کرتی ہیں اور چھوٹوں کو بڑا کر دیا کرتی ہیں.وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو میں حضرت سلیمان کے متعلق خصوصیت کے ساتھ کہ رہی ہوں یہ ایک ایسا قانون ہے جو تمام دنیا میں عام ہے اور تمام دنیا کی تاریخ اس پر گواہ ہے

Page 587

خطبات طاہر جلدے 582 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء کہ جب بھی فوجیں کسی ملک پر مسلط ہوتی ہیں تو اُس کے نتیجے میں فساد پھیلتا ہے.حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک خراج تحسین بھی اس میں دیا گیا ہے.ملکہ سبانے یہ نہیں کہا کہ سلیمان جب اس ملک پر قابض ہوں گے تو وہ ایسا کریں گے یہ بتایا کہ سلیمان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ اس شان کا انسان ہے کہ وہ اپنی ذات میں کسی ملک میں فساد پھیلانے کی نیت سے داخل نہیں ہوگا.امن کے ساتھ اگر ہم اُس سے صلح کا معاہدہ کر لیں تو ہمیں کوئی خطرہ نہیں لیکن اگر فوج کشی کے ذریعے وہ داخل ہوئے تو یہ ایک قانون عام ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا.فوجیں جب بھی مسلط ہوتی ہیں اُس کے نتیجے میں فساد برپا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں اور چھوٹے بڑے کئے جاتے ہیں.زمانے کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں.اگر چہ فوج کشیاں اب بھی جاری ہیں.ملوک خواہ کسی بھیس میں ہوں کسی شکل میں ہوں وہ دوسرے ممالک پر قبضہ کرنے کی سکیمیں بھی بناتے ہیں اور قبضہ کر بھی لیتے ہیں لیکن اس دور نے ایک نئی قسم کی فوج کشی کو جنم دیا ہے جو اس جدید دور سے خصوصیت کے ساتھ متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ باہر کی فوجیں بھیج کر کسی ملک پر قبضہ کرنے کی بجائے اُس ملک کی فوج کے ذریعے اُس ملک پر قبضہ کیا جاتا ہے اور یہ وہ دور ہے جس میں مارشل لاء کی اصطلاح ایجاد ہوئی ہے اور تمام عصر حاضر کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہی پتا چلتا ہے کہ آج کل کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے سب سے مؤثر ذریعہ اُس ملک کی فوج پر قبضہ کرنا ہے اور اس فوج کے ذریعے پھر اُس ملک پر حکومت کرنا ہے لیکن خواہ یہ بظاہر امن کے ساتھ ہو یا خون خرابے کے ساتھ ہو یہ نتائج جو ملکہ سبانے نکالے تھے یہ آج بھی اطلاق پاتے ہیں اور اس میں آپ کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.یہ جو کہا وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ اسی طرح ہوا کرتا ہے، اسی طرح کیا کرتے ہیں سب.یہ خدا تعالیٰ نے فقرہ محفوظ فرمالیا.اگر یہ فقرہ غلط ہوتا، اگر یہ نتیجہ غلط ہوتا تو قرآن کریم کا اس کی تردید فرماتا.قرآن کریم اس کی تردید نہ کرنا بلکہ اس کی نصیحت کے ایک حصے کو محفوظ کر لینا آئندہ نسلوں کے لئے ایک بہت بڑا سبق رکھتا ہے.اس پہلو سے گزشتہ خطبے کے تسلسل میں میں اپنی قوم کو کچھ نصیحت کرنی چاہتا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی طاقت ملک کی اندرونی سرزمین سے نہ اٹھ رہی ہو اور ملک کے عوام سے نہ پھوٹ رہی ہو وہ طاقت بہر حال بیرونی رہتی ہے اور بظاہر اس ملک کے فوجی ہی اُس

Page 588

خطبات طاہر جلدے 583 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء ملک پر قبضہ کرتے ہیں لیکن وہ سلطنت بدیسی سلطنت بن جاتی ہے.اس لئے قانون قدرت ہمیں بتاتا ہے کہ ضروری ہے کہ جب بھی فوج کسی ملک پر قبضہ کرے تو وہ طاقت کے سرچشمے جوطبعی اُس ملک میں پائے جاتے ہیں اُن کو دبائے اور کمزوروں کو اونچا کرے جن کا تمام تر انحصار اس فوج پر ہو.اس لئے یہ جوفرمایا أَعِزَّةَ اَهْلِهَا اَذِنَّةً کہ اُن کے معززین کو ذلیل کر دیا جاتا ہے اور اُس کے برعکس اُن کے ذلیل اور کمزور لوگوں کو اوپر لے آیا جاتا ہے.اس میں بڑی بھاری حکمت ہے.اس قانون کو آپ تبدیل نہیں کر سکتے.کوئی بھی ایسی طاقت جو کسی ملک پر مسلط ہو اور اسے علم ہو کہ اس طاقت کی جڑیں اُس ملک کے عوام اور اُس کی اکثریت میں نہیں ہیں وہ اس بات پر مجبور ہوگی کہ طاقتور اُس حکومت میں شریک نہ ہوں اور ملک کے حقیقی نمائندے طاقت پر کسی طرح قبضہ نہ کرسکیں کیونکہ جب طاقت ، طاقت کے اہل کے پاس چلی جاتی ہے تو وہ آزاد ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے.اس لئے ایسی صورت حال میں یہ حکومتیں جو زبردستی کی حکومتیں ہوں وہ مجبور ہو جایا کرتی ہیں کہ طاقت کے سرچشموں سے ہٹ کر کمزوروں کے گروہوں کو اوپر لائیں اور چونکہ وہ لازماً اپنی بقا کے لئے ان فوجی طاقتوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں اُن کے پاؤں زمین پر نہیں ہوتے بلکہ ان طاقتوں کی چھت پر لٹکے ہوئے جسموں کی طرح جو ہوا میں معلق ہوتے ہیں اس لئے وہ مجبور ہیں کہ اپنے آقاؤں کی ہر بات کو جس طرح وہ چاہیں اُن پر عمل کریں اور اُن کی Policies کو بلا چون و چراں اپنے ملک میں رائج کریں.سیدہ وہ خلاصہ ہے جو آپ دنیا کی ہر ایسی حکومت میں دیکھیں گے جو فوجی طاقت سے عوام پر قابض ہوئی ہو.بیرونی حکومتیں جو یہ طریق اختیار کر رہی ہیں اُس میں بہت سی مثالیں ہیں.اُن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ بات میں خوب کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی لیڈرشپ کے بہت سے نقصان ہیں جن کا فساد سے تعلق ہے اور وہ طبعی ہیں.کسی ایک قوم کی حکومت کو الگ طور پر متہم نہیں کیا جاسکتا.كَذلِكَ يَفْعَلُونَ میں یہ بات ہمیں سمجھا دی کہ یہ ایک عام طبعی قانون ہے جو جاری ہو گا.کسی ایک فوج کو آپ الگ کر کے ملزم قرار نہیں دے سکتے.اس نظام کا حصہ ہیں بعض باتیں جولا ز ما جاری ہوں گی.فساد جو ایسی حکومتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اُن کی کئی قسمیں ہیں.سب سے پہلے بات آپ ان حکومتوں میں آپ یہ دیکھیں گے کہ چونکہ بعض ٹولے جو

Page 589

خطبات طاہر جلدے 584 خطبه جمعه ۲۶ راگست ۱۹۸۸ء فوج کی طاقت سے قابض ہوتے ہیں اُن کو ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ کسی وقت بھی عوام کی طاقت کے ساتھ مل کر اس حکومت کو الٹا نہ دیا جائے ، اس کا تختہ نہ اُلٹ دیا جائے.اس لئے وہ اپنے جرم میں اور طاقتور لوگوں کو شریک کرتے ہیں جو اُسی فوج سے تعلق رکھتے ہیں.چنانچہ ایسی فوجیں دنیا میں جہاں بھی قابض ہوں اُن میں آہستہ آہستہ ایک Junta (ٹولہ ) وجود میں آتا ہے یاغنھا بھی بعض کہتے ہیں Spanish Pronunciation میں فرنچ (French Pronunciation ) میں تو Junta ہو ا غشا یہ وجود میں آجاتا ہے اور آپس میں ایک سمجھوتہ طے پایا جاتا ہے خواہ ظاہری لفظوں میں ہو یا نہ ہو لیکن ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہماری بقا ا کٹھے رہنے میں ہے اور اُس کے ساتھ ہی طاقتور لوگ جو اس Junta کا سرکہلا سکتے ہیں وہ مجبور ہو جاتے ہیں اپنے ساتھیوں کو Corrupt کرنے پر.اُن کی خرابیوں کو نہ صرف یہ کہ برداشت کرتے ہیں بلکہ مجبور ہوتے ہیں کہ اُن میں اور وہ خرابیاں پیدا کریں.اُن کو کئی قسم کے بدکاموں میں ملوث کرتے ہیں، اُن کی بدیوں سے آنکھیں بند کرتے ہیں اور اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں.اس لئے کہ ہر شخص پر اُن کی بدکرداری کی تلوار لٹکتی رہتی ہے اور جتنا کوئی ٹولہ بدکردار ہو جائے اتنا ہی زیادہ اُسے ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ کسی وقت بھی آمر وقت اُن کے سر پر اس لٹکتی ہوئی تلوار کوگر اسکتا ہے.اس لئے یہ ایک آپس میں سمجھوتے کی سازش ہے جسے کھلے لفظوں میں نہ بیان کیا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے لیکن قانون قدرت ہے جو چلتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ ظلم اور سفا کی کا سمجھوتہ اور ملک کی دولت کومل کر لوٹنے کا سمجھوتا پھیلنا شروع ہوتا ہے اور اوپر سے نیچے کی طرف سرایت کرنا شروع کرتا ہے.کچھ عرصے کے بعد اس میں غیر فوجی بھی شامل ہونے لگتے ہیں اور وہ سیاسی ٹولیاں جن کو یہ اپنے ساتھ استعمال کرتے ہیں اُن ٹولیوں کو بھی کچھ رشوت دینی پڑتی ہے اُن کو بھی ساتھ ملانے کے لئے کچھ مراعات عطا کرنی پڑتی ہیں.چنانچہ رفتہ رفتہ ملک ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جن کی بدی پھیلنے لگتی ہے اور جو قوم سے الگ ہو کر جس طرح جو نمیں کسی بدن کا خون چوستی ہیں اُس کا قوم کا خون چوسنے والے بن جاتے ہیں.جوں جوں یہ معاملہ آگے بڑھتا ہے اُن کو اپنے متعلق خطرات محسوس ہونے لگتے ہیں جو بڑھتے چلے جاتے ہیں.ایک دوسرے پر اعتماد کم ہوتا چلا جاتا ہے اور ساری قوم سے بحیثیت مجموعی خطرہ ہو جاتا ہے اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس Military Intelligence بجائے اس کے

Page 590

خطبات طاہر جلدے 585 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء کہ دشمن کی طرف نظر کرے اور اُن کے حالات کا جائزہ لے وہ اپنے ہی ملک کے اوپر اپنے ہی ملک کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے وقف ہو جاتی ہے.دو طرف سے خطرات اس کے لئے پیدا ہوتے ہیں : اول یہ کہ فوج کے اندر وہ حصہ جو مراعات میں شریک نہیں ہے اور طاقت میں شریک نہیں ہے لیکن طاقت کو سنبھالنے کا ذریعہ ہے اس حصے کے دل میں یہ خیال نہ پیدا ہونے شروع ہو جائیں کہ ملک سے کیا ہو رہا ہے.چند بڑے لوگ ہمیں استعمال کر کے ہماری طاقت کے بل پر عوام الناس پر مسلط ہیں اور اُس کے نتیجے میں ہم دن بدن بدنام ہوتے چلے جارہے ہیں اور وہ فوج جو اپنے ملک میں بدنام ہو رہی ہو اُس کے اندر بے چینی پیدا ہو جاتی.یہ بے چینی چونکہ آزادی کے خیالات کو جنم دیتی ہے اس لئے لازم ہے کہ فوجی ٹولہ زیادہ گہری نظر سے مطالعہ کرتار ہے کہ کہاں کہاں بے چینی پائی جاتی ہے.کس قسم کے لوگوں سے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں.چنانچہ Military Intelligence جو در حقیقت دشمن کی حرکات سکنات کی نگرانی کے لئے قائم کی جاتی ہے وہ اپنوں کی حرکات وسکنات کی نگرانی پر وقف ہو جاتی ہے پھر چونکہ عوام سے خطرہ ہوتا ہے اُن عوامی طاقتوں سے خطرہ ہوتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ قانون قدرت کے طور پر تو ہم اس لئے بنائے گئے تھے کہ حکومت کے مصالح کا فیصلہ کریں اور ارباب حل و عقد نہیں.تمام قوم کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری طبعا ہم پر عائد ہوتی ہے اور ہمیں محروم کیا جا رہا ہے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ Military Intelligence کی شاخیں پھر ہر سیاسی گروہ میں داخل ہونا شروع ہو جاتی ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ اُن کی جڑیں پھیلنے لگتی ہیں اور تمام سیاسی طاقتوں میں اُن کی کوئی نہ کوئی جڑ داخل ہو جاتی ہے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام الناس حیران ہوکر دیکھتے ہیں کہ ہم سے ہو کیا رہا ہے.ہر سیاسی کوشش جو جنم لیتی ہے، ہر سیاسی تحریک جو پیدا ہونے لگتی ہے وہ کسی نہ کسی طرح بد انجام کو پہنچ جاتی ہے اور حیران ہوتی ہے دنیا یا عوام الناس کہ ہم سے ہو کیا رہا ہے.ہمارے جذبات سے کھیلنے والے ہمارے جذبات سے کھیلتے ہیں انہیں انگیخت کرتے ہیں ہمیں گلیوں میں لاتے ہیں اور پھر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا.اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی میں Intelligence کے نمائندے موجود ہوتے ہیں اور وہ ان رابطوں پر خوش ہوتے ہیں.پھر جب معاملہ آگے بڑھتا ہے یعنی مرض مزید شدت اختیار کرتا ہے تو بہت سے سیاسی رہنما اس بات میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے فوجی Intelligence سے تعلقات ہیں اور وہ اس اُمید میں ان

Page 591

خطبات طاہر جلدے 586 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء تعلقات کو بڑھاتے ہیں اور فروغ دیتے ہیں کہ کوئی ایسا وقت آئے گا جب ہمیں طاقت حاصل کرنے کے لئے فوج کی مدد کی ضرورت پڑے گی.اُن کے دل قطعی طور پر اس مایوسی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں کہ فوجی طاقت سے کچھ چھینا ہمارے لئے ممکن نہیں لیکن بھیک مانگناممکن ہے اور بھیک مانگنے کے لئے اُن کو اُن کے Right Side پر اُن کے داہنے ہاتھ پر رہنا پڑتا ہے.اس لئے وہ اپنے خفیہ تعلقات کو بڑھاتے ہیں اور اُن کو ضروری خبریں بھی مہیا کرتے ہیں کہ ہماری مجلسوں میں کیا کیا باتیں طے ہوئیں اور اپنی طاقت محسوس کرتے ہیں بظاہر یہ سوچتے ہوئے کہ ہم غداری نہیں کر رہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑی حکمت سے اور سیاست سے کام لیا ہے.قوم کو مزید فتنوں اور خون خرابے سے بچانے کے لئے ہم نے نہایت ہی عمدہ حکمت عملی اختیار کی ہے.فوجی طاقت سے روابط بڑھائے ہیں اور اُن میں جو طاقتور ہیں اُن سے دوستی کو فروغ دیا ہے.نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اس دوستی کے ذریعے اُن کو یہ یقین دلائیں گے کہ تمہیں ہر دوسرے سے خطرہ ہوسکتا ہے ہم سے خطرہ نہیں ہوسکتا.ہم تو تمہارے ساتھ چلنے والے ہیں ہم تو تم پر بناء کرنے والے ہیں اس لئے اگر اس وجہ سے تم طاقت عوام کو منتقل نہیں کر رہے کہ تمہیں خطرہ ہے عوام اگر او پر آئے تو ہمارے جرائم کا حساب لیں گے تو ہم تو اُن میں سے نہیں ہیں.ہم تو تمہارے ساتھی اور دوست ہیں اس لئے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ جب بھی طاقت کے انتقال کا وقت آئے ہم سے رابطہ کرو اور ہمارے سپر د کرو.یہ سلسلہ دنیا میں ہر جگہ جاری ہے اور چونکہ قرآن کریم فرماتا ہے وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ اس لئے میں سوچ ہی نہیں سکتا کہ ہمارے ملک میں جاری نہ ہوں.میں تفصیل نہیں جانتا، میں سیاست سے بے تعلق ہوں، مجھے یہ نہیں پتا کہ کون کس سے رابطہ رکھ رہا ہے.مگر قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ کچھ لوگ کچھ لوگوں سے رابطے رکھ رہے ہیں.فساد پھیلا ہوا ہے اور یہ فساد بڑھ رہا ہے.نتیجہ اُس کا یہ نکلتا ہے کہ جیسے غالب نے کہا ہے کہ آج ادھر کو ہی رہے گا دیدہ اختر کھلا (دیوان غالب صفحه :۴۳) کہ آج تو اس ستارے کی آنکھیں اُسی طرف کھلی رہیں گی اور ہماری طرف اُس کا کوئی نور نہیں آئے گا.وہ Military Intelligence جس کی آنکھیں غیر کو دیکھنے کے لئے بنائی جاتی

Page 592

خطبات طاہر جلدے 587 خطبه جمعه ۲۶ راگست ۱۹۸۸ء ہیں وہ اپنوں پر مرکوز ہو جاتی ہیں اور اُن کا دیدہ اُسی طرف کھلا رہ جاتا ہے.ایسی حکومتیں دن بدن غیر قوموں کی محتاج ہوتی چلی جاتی ہیں اور اُن کو اپنی بقا کے لئے غیر قوموں کی Intelligence پر انحصار کرنا پڑتا ہے.یہ قانون طبعی ہے جس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.جس حکومت کو وہ دوست سمجھتے ہیں اور جو طاقتور ہوتی ہے اُس سے اُن کے روابط بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اُن کی Intelligence ان کی حفاظت کی خاطر ملک میں داخل ہوتی ہے.اور وہ سارے راز جو قوم کی امانت ہوتے ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹے جاتے ہیں.ایک دوسرے کو اُن رازوں میں شریک کر لیا جاتا ہے.آپس میں مجالس لگتی ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو جی ہماری رپورٹ یہ ہے کہ فلاں پارٹی نے یہ کیا اور فلاں پارٹی نے یہ کیا.دوسرے کہتے ہیں ہماری یہ رپورٹ ہے کہ تمہارے لئے فلاں جگہ خطرہ پیدا ہو رہا ہے اور فلاں جگہ خطرہ پیدا ہورہا ہے اور ملک کو باہر سے جوخطرہ پیدا ہو رہا ہے اُس کو وہ کلیہ ان بیرونی طاقتوں کے سپر د کر دیتے ہیں کہ تم جانو اور تمہارا کام جانے کہ ہمارے ملک کو کیا خطرہ ہے.جب تک ہم تمہارے دوست ہیں تمہارا کام ہے ہماری حفاظت کرنا چنانچہ Intelligence کے ذریعے بھی، ہتھیاروں کے ذریعے بھی دن بدن غیر قوموں کا تسلط بدنصیب ملکوں پر بڑھتا چلا جاتا ہے جو اپنی ہی فوج کے غلام بنا دیئے جاتے ہیں.یہ تمام منطقی نتائج ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہر ملک میں یہی نتائج لازما ظاہر ہوں گے.بڑے چھوٹے کئے جائیں گے اور چھوٹے بڑے کئے جائیں گے.فساد پھیلائے جائیں گے اور جوں جوں جرم بڑھتے چلے جائیں گے اندرونی بے ثباتی کا احساس ان ٹولوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں ہمارا دوام نہیں ہے ہمیں اور زیادہ شدت اختیار کرنی چاہئے اپنے جبروت میں اور اپنی پکڑ میں.چنانچہ پھر ظلم شروع ہو جاتے ہیں.جہاں خطرہ محسوس ہو کسی حصے سے خواہ وہ فوج کا حصہ ہو یا غیر فوج کا حصہ ہوان پر طرح طرح کے مظالم توڑے جاتے ہیں.پھر ملک کو بانٹا جاتا ہے، سیاست کو تقسیم کیا جاتا ہے، صوبوں کو صوبوں سے لڑایا جاتا ہے، فرقوں کو فرقوں سے لڑایا جاتا ہے.ہر طرف ایک بے اطمینانی پیدا کر دی جاتی ہے اور عوام الناس پر یہ اثر ڈالا جاتا ہے کہ ہم ہی ہیں جو تمہیں سنبھالے ہوئے ہیں ورنہ یہ ملک رہنے کے لائق نہیں ہے.پنجابی سندھی کا دشمن ہے، سندھی پنجابی کا، پٹھان پنجابی سے مطمئن نہیں ، پنجابی پٹھان سے

Page 593

خطبات طاہر جلدے 588 خطبه جمعه ۲۶ راگست ۱۹۸۸ء مطمئن نہیں، بلوچی کو سب سے شکوہ ہے ہمارے چھوٹے سے ملک کی دولت پر قابض ہیں.سوئی گیس پاکستان میں ہر جگہ ملتی ہے سوائے بلوچستان کے اس قسم کے بہت سے ایسے معاملات ہیں جو بے اطمینانی کو فروغ دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس بے اطمینانی کو تیل مہیا کیا جاتا ہے اور ہر جگہ Intelligence کے ایجنٹس پھیل جاتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح قوم متحد نہ ہو سکے.اُس کے پھر بداثرات پیدا ہوتے ہیں.قوم کی فوج سے نفرت بڑھنی شروع ہو جاتی ہے بے اطمینانی کے باوجود وہ یہ نتیجہ نہیں نکالتے کہ دراصل فوج ہمیں بچائے ہوئے ہے بلکہ وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں اور اُن کی عقلیں اس بات کو بھانپ جاتی ہیں کہ ہم سے کھیل کھیلا جارہا ہے.نتیجہ اپنے وطن کی فوج سے اہل وطن کی دوری بڑھنی شروع ہو جاتی ہے جو ایک انتہائی خطرناک چیز ہے.اپنے ملک میں جا کر دیکھیں آپ ایک زمانہ تھا کہ عوام الناس فوج پر ایسے عاشق تھے کہ وہ اپنا خون دے کر بھی کسی فوجی کی جان بچانے پر دل و جان سے آمادہ ہوا کرتے تھے.جب پاکستان اور ہندوستان کی لڑائیاں ہوئی ہیں اُس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ فوج کی محبت اتنی بڑھ جایا کرتی تھی کہ بعض دفعہ جب یہ فوجی واپس آتے تھے اپنے میدانوں سے رخصتوں پر تو بعض شہروں کے دکاندار اپنے دروازے اُن پر کھول دیا کرتے تھے.جو چیز اٹھا و استعمال کرو تم سے کوئی قیمت نہیں لینی تم قوم کے جان شار ہو.قوم کے شاعر اُن کے لئے وقف ہو جایا کرتے تھے، قوم کے گلوکار اُن کے لئے وقف ہو جایا کرتے تھے.اُن کے لئے نغمے بنائے جاتے تھے، نغمے بنے جاتے تھے اور تمام قوم سب سے زیادہ لذت اُن نغموں میں پاتی تھی جو فوج کی تعریف میں لکھے جائیں اور فوج کی تعریف میں گائے جائیں.ایک وہ بھی زمانہ تھا.پھر ایک ایسا زمانہ آتا ہے جبکہ فوج کے نام سے لوگوں کے دل متنفر ہوکر بدکنے لگتے ہیں.وہ منہ سے اظہار کریں یا نہ کریں وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھی نہیں رہے ہمارے دشمن بن چکے ہیں.یہ نہایت ہی خطرناک نتائج ہیں جو ایک دفعہ پیدا ہوجائیں تو پھر ان سے بچ نکلنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور بدقسمتی سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.جب ایک دفعہ سیاست اُن کے قبضے میں چلی جائے تو وہ سیاست سے کھیلتے ہیں اور سیاست دان دن بدن اور زیادہ خائف ہوتے چلے جاتے ہیں اور عوام الناس کو صورت حال سے مطلع نہیں کر سکتے.وہ سمجھتے ہیں کہ جس سیاست دان نے یہ بیان

Page 594

خطبات طاہر جلدے 589 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۸ء دیا کہ فوج کے نتیجے میں تم پر یہ نقصانات ہیں تمہیں یہ مصیبتیں پڑی ہیں.وہ مارا جائے گا اور فوج اور کسی کو طاقت دے یا نہ دے اُس کو بہر حال نہیں دے گی.اس لئے ایک قسم کی چاپلوسی کا دور شروع ہو جاتا ہے اندرونی طور پر اور پھر یہی چاپلوسی بیرونی راہیں اختیار کرتی ہے.سیاست دان بڑے ذہین ہوتے ہیں.آخر ان کے اپنے میدان کی بات ہے سیاست کوئی دوسرا تو نہیں پڑھا سکتا ، وہ خود سیاست دان ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس فوج کے پیچھے ایک اور آتا ہے، ایک اور مالک ہے جو ان کے پیچھے ہے کیوں نہ براہ راست اُس سے تعلقات بڑھائے جائیں.اس لئے سارے پھر طاقت کے اصلی سرچشموں کی طرف دوڑ نے لگتے ہیں اور بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عوام کی چھینی ہوئی طاقت اُن کو اس طریق سے واپس دلائیں گے.ایسے سیاست دانوں کو میں بددیانت نہیں کہہ سکتا.ہوسکتا ہے بعض بد دیانت بھی ہوں لیکن وہ جو عوام کا در درکھتے ہیں وہ اپنی سیاست کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کے سوا ہمارے لئے چلنے والا کوئی مہرہ نہیں رہا.اس دفعہ ہم نرمی کے ساتھ سمجھوتے کے ساتھ ،مصالحت کے ساتھ اُن سے طاقت حاصل کر لیں یا اُس میں حصہ دار بن جائیں پھر ہم سیاست دان ہیں ، ہم ذہین ہیں ہم رفتہ رفتہ باقی بھی چھینے لگ جائیں گے اور بالآخر قوم کو اس تسلط سے نجات دلائیں گے.میں سمجھتا ہوں اُن کی نفسیاتی کیفیت یہ ہوتی ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ بلی چوہے کے کھیل میں کبھی بھی ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ چو ہاہلی پر غالب آ گیا ہو.کھیلتے ہیں کچھ دیر کے لئے.بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے بلی نے موقع دیا ہے چوہے کو بھاگنے کا اور وہ سوراخ کے قریب بھی پہنچ گیا لیکن آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھا ہو گا کہ چوہا غالب آجائے.اس لئے کہ طاقت بلی کے پاس ہے اور چوہے کے پاس طاقت نہیں ہے اور عوامی رہنما بجائے اس کے اپنی طاقت کے سرچشموں کی طرف دوڑیں جب وہ غیر کی دشمن کی طاقت کی طرف جائیں گے تو وہ اور زیادہ کمزور ہوتے چلے جائیں گے.اس راز کو وہ نہیں سمجھتے کہ طاقت دراصل اُن کے پاس ہے.یہ ایک شعور ہے جو بیدار ہونا چاہئے.اُن کو علم ہونا چاہئے کہ وہی طاقتور ہیں لیکن عوام الناس کی رائے عامہ کو بیدار کریں.اُن کو بتائیں کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں اور اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.اُن کو چاہئے کہ فوج کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا اور کثرت کے ساتھ اخبارات میں مضامین شائع کر کے، تجزیئے شائع کر کے فوج کے سپاہیوں کو اور فوج کے افسروں کو سمجھائیں سازشوں کے ذریعے نہیں کھلم

Page 595

خطبات طاہر جلدے 590 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء کھلا ، برسر عام.اُن کو بتائیں کہ تم کون ہو اور تمہاری کیا ذمہ داریاں ہیں تم کس جرم میں شریک بنالئے گئے ہو اور یہ اعلان کریں کہ ہم کسی قیمت پر بھی اپنی طاقت کو تم سے خیرات کے طور پر نہیں مانگیں گے.اُن کی طاقت کا راز اس چیز کے سوا کسی میں پوشیدہ نہیں.فی الحقیقت عوام کے سرچشمے کی بات جب میں کرتا ہوں تو مراد ہے ڈیموکریسی.ڈیموکریسی میں طاقت عوام کے پاس ہوا کرتی ہے اور اصل سرچشمہ وہی ہیں اس لئے عوام کو اُن کی طاقت کا احساس دلا نا اور اُن کی طاقت سے ناجائز کھیلنا نہیں بلکہ حکمت کے ساتھ اُن کی طاقت کے رُخ کو معین را ہوں پر چلانا یہ ہے سیاست کا کام اور یہ بدنصیبی سے ہمارے بہت سے تیسری دنیا کے ملکوں میں نہیں کیا جاتا.آج سے پہلے اگر وقت نہیں تھا تو اب وقت ہے اور اگر یہ وقت ہاتھ سے گیا تو پھر کوئی وقت نہیں آئے گا.پھر اور قسم کے خطرات ہیں جو مجھے دکھائی دے رہے ہیں جنہوں نے لازماً اُن کے بعد آنا ہے.آج وہ وقت آچکا ہے کہ جب بیرونی طاقتوں کو اتنی بے حیائی کی جرات ہو چکی ہے کہ وہ کھلم کھلا اپنے بیانات میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اس ملک کی سیاست میں فوج داخل نہ رہی تو ہم اُن سے تعلق تو ڈلیں گے.یعنی دھمکی دی جارہی ہے کہ ہم تمہیں بے یارومددگار چھوڑ دیں گے.خصوصیت کے ساتھ امریکہ میں ابھی حال ہی میں ایک بیان منسوب ہوا ہے اُن کی Strategic Studies کا جو ڈیپارٹمنٹ ہے اُس کی طرف اللہ بہتر جانتا ہے کہاں تک یہ سچ ہے لیکن اُن کی طرف یہ بیان منسوب ہوا ہے کہ اگر پاکستان کی سیاست سے فوج نے کنارہ کشی اختیار کی، دست کشی اختیار کی تو لازم نہیں ہم پر کہ ہم اُن کی امداد کریں یعنی ملک کی امداد کریں اور امداد سے ہم ہاتھ کھینچ لیں گے اور یہ ایک دھمکی ہے.فوج کو یہ اشارہ کہ تم قابض رہو اور سیاست دان کو دھمکی ہے کہ ہم تمہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیں گے اور اگر تم نے کوشش بھی کی کہ فوج کے تسلط سے اپنے ہی ملک کو آزاد کر ولیکن یہ دھمکی بالکل بے معنی اور لغو ہے اور گیڈر بھبھکی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی.میں اپنے ملک کے دانشوروں کو یقین دلاتا ہوں اس دھمکی میں کوئی جان نہیں ہے.وہ آپ کے محتاج ہیں آپ اُن کے ہر گز محتاج نہیں.آج دنیا کے سیاسی نقشے میں پاکستان کو ایک ایسا مقام حاصل ہے جس میں یہ ممالک جو آج آپ کے دوست بنتے بنتے آپ پر قابض ہو چکے ہیں آپ کو چھوڑنے کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ آپ کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس علاقے میں لازماً دوسری طاقت کا تسلط ہو جائے اور یہ

Page 596

خطبات طاہر جلدے 591 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۸ء کسی قیمت پر بھی امریکہ ہو یا کوئی اور یورپین طاقت ہو یہ برداشت نہیں کر سکتی.اس لئے جو چیز آپ کی ہے اور آپ لے سکتے ہیں وقار کے ساتھ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ لے سکتے ہیں اُس کو بھیک منگے بن کر حاصل کرنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں.کھلم کھلا صاف جواب ہونا چاہئے کہ تم مد د دویا نہ دو جب تک پہلے تم یہ نمونہ اپنے ملک میں نہ دکھاؤ کہ اپنی فوج کو اپنے عوام پر مسلط کرو اس وقت تک ہم یہ کام نہیں کرنے دیں گے.اگر یہ نیکی ہے اگر یہ بھلائی ہے تو آؤ اس میں سبقت لے کر جاؤ.یورپ کی ساری حکومتیں فوج کے سپرد کر دو.امریکہ کی ہر اسٹیٹ فوج کے قبضے میں چلی جائے.پھر ہم سمجھیں گے کہ تم سچے ہو پھر ہم بھی کہیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے اوپر بھی فوجی تسلط جاری رہنا چاہئے لیکن اپنے ملک میں اور پیمانے ہوں ہمارے ملک کے لئے اور پیمانے ہوں یہ نہیں ہوسکتا.اس لئے میں پاکستان کے ارباب حل و عقد کہیں یا عوام الناس کے نمائندے ہوں اُن سب سے یہ عاجزانہ اپیل کرتا ہوں کہ اپنے مقام کو پہچانیں.اپنے قدموں پر کھڑے ہوں.طاقت آپ کے پاس ہے.بین الاقوامی طاقتوں کے آپس کے معاملات اس قسم کے ہیں کہ ان میں آپ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا اس لئے آپ سر اٹھا کر سر بلندی کے ساتھ آگے بڑھیں اور اپنے مطالبے پر قائم رہیں.اپنی طاقت نہ اپنی فوج سے مانگیں نہ کسی اور حکومت سے مانگیں.حالات ایسے پیدا ہور ہے ہیں جب یہ لوگ مجبور ہوں گے آپ کو آگے لانے پر اور آپ کی طاقتیں آپ کے سپرد کرنے پر لیکن اگر آپ میں سے بعض ان کی طرف دوڑے اور وہی غداری کی کھیل دوبارہ شروع ہوگئی کہ کمزوروں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم بڑوں کے ساتھ لگ کر طاقت میں شریک ہو جائیں گے طاقتوں پر ناجائز قبضے کئے تو پھر اس کے بعد دوبارہ آپ کو یہ موقع نصیب نہیں ہوسکتا.پھر اور خطرناک چیزیں ہیں جواس ملک کے مقدر میں لکھی جائیں گی.مجھے یاد ہے جنرل ایوب نے جب مارشل لاء لگایا تو کچھ عرصے کے بعد انہوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ امریکہ ہم سے وہ معاملہ نہیں کر رہا جس کی اُس سے توقع تھی اور اُن کے دل میں کڑواہٹ پیدا ہونی شروع ہوئی جو بڑھتی چلی گئی.چنانچہ وہ کتاب جو انہوں نے اپنے آخری ایام ہے Friends Not Masters اُس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بعض دفعہ دبے لفظوں میں لکھی.میں.بعض دفعہ کھلے لفظوں میں انہوں نے امریکہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ تم اگر ماسٹر ز بن کر

Page 597

خطبات طاہر جلدے 592 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء ہمارے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہو تو ہمیں قبول نہیں.Friends دوست ہو آ قا نہیں لیکن یہ تو پرانے زمانے کی بات ہے آج کل کے زمانے میں جو تاریخ لکھی جارہی ہے اُس کا عنوان اگر بنایا جائے تو یہ ہوگا Masters Not Friends آقا ہیں دوست نہیں اور یہ بھی ایک طبعی نتیجہ ہے اس کے سوا نکل نہیں سکتا.دنیا کی طاقتور حکومتوں کو ضرورت کیا پڑی ہے کہ کسی کمزور ملک کے دوست بن جائیں.احمقانہ بات ہے.پرانے زمانے کی کہانیوں میں پرانے زمانے کے بادشاہوں کی تاریخ میں تو آپ کو مل جائے گا کہ بہن بنالیا کسی رانی کو اور اس کی خاطر اُس کی عزت کو بچانے کے لئے فوج کشی شروع کر دی.یہ پرانے زمانے کے قصے ہیں آج کی سیاست میں ان باتوں کو کوئی دخل نہیں کوئی حقیقت نہیں انکی.خود غرضی کے سوا آج سیاست پر کوئی چیز حکمران نہیں اور کامل خود غرضی.ایسی خود غرضی کہ اگر آپ کسی کے ساتھ دس، گیارہ سال، پندرہ سال بھی گزاریں اور اُن کی خاطر اُن کی مرضی کے سارے کام سرانجام دیں.جس دن وہ طاقتیں سمجھیں گی کہ آپ اب چلا ہو ا سکہ بن گئے ہیں جس میں اب کوئی قیمت نہیں رہی تو آپ کو اس طرح پھینک دیں گے ردی کی ٹوکری میں جس طرح آپ کی کوئی بھی حقیقت نہیں.ان طاقتوں کے جو بڑی طاقتیں کہلاتی ہیں اپنے مفادات ہیں اور یہ دوست بن کر جب داخل ہوتی ہیں چھوٹے ملکوں میں تو دوستی کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.مفادات کا سوال ہے، سودے بازی کا سوال ہے.اس لئے معلوم ہوا کہ یہ دراصل آپ کے محتاج ہیں جو آپ کے پاس آرہے ہیں.آپ کو دینا چاہتے ہیں کچھ اس لئے کہ آپ سے اُس سے بڑھ کر لیں یا کم سے کم اس قسم کے معاملات کریں کہ دونوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہو.جب یہ صورت حال ہے تو پھر باشعور طریق پر اُن سے سودا بازی کی ضرورت ہے.دبنے کی ضرورت نہیں ہے.آپ کو یہ یقین ہو جانا چاہئے کہ کوئی آپ کا محسن نہیں ہے سوائے خدا کے.خدا پر توکل رکھیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر اپنی قوم کا سر بلند کرنے کی کوشش کریں.جتنا زیادہ آپ عوام الناس کا شعور بیدار کریں گے اُن کو دنیا کی سیاست سے آگاہ کریں گے، صورت حال پر مطلع کریں گے.اُتنے ہی زیادہ آپ طاقتور ہوتے چلے جائیں گے.اتنی زیادہ آپ میں اہلیت ہوگی کہ آپ سودے بازی کریں اس لئے لازماً آپ کو یہ کھول کر بیان کر دینا چاہئے تمام دنیا کو کہ اب وہ دور آئندہ نہیں چلے گا.وہ زمانہ تو گیا جب تم لوگ یہ کام کیا کرتے تھے.تم نے طاقت سے ہمیں محروم رکھا ہے اور ظلم کیا ہے تو اور کر لو جتنا کر سکتے ہو لیکن

Page 598

خطبات طاہر جلدے 593 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۸ء میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ظلم کی حد ہوا کرتی ہے اور ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتا.گیارہ سال کا زمانہ قریب الاختتام تھا اور کچھ آگے بڑھتا تو دھماکے کے ساتھ ایک انقلاب رونما ہو جا تا.اس سلسلہ کو روک دیا گیا ہے.اس وقت آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا دوبارہ یہ گیارہ یا بائیس سال کا زمانہ میں داخل ہونا ہے یا اُس سرنگ میں نہیں جانا دوبارہ جس میں ایک دفعہ آپ داخل ہوئے تھے اور پھر جب تک اُس کا کنارہ نہیں آئے گا اُس وقت تک آپ باہر نہیں نکل سکیں گے.اُس وقت اگر آپ نے دوبارہ کسی تسلط کو قبول کر لیا تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چونکہ اس تسلط کے نتیجے میں جرائم بڑھتے ہیں، مافیا قسم کے ٹولے اوپر آجاتے ہیں اور اُن کے بقا کا تقاضا یہ ہوا کرتا ہے کہ ایک دوسرے کی آنکھیں بند کر کے مدد کریں خواہ وہ اخلاقی حرکتیں کر رہے ہوں یا غیر اخلاقی حرکتیں کر رہے ہوں.اس لئے خدا کے واسطے اس قوم کو دوبارہ کسی مافیا کے سپرد نہ کریں اگر آپ نے طاقت مانگ کر حاصل کی تو خواہ کسی پارٹی کے نام پر آپ کو طاقت ملے آپ پھر غلام رہیں گے اور قوم کو دوبارہ غلام بنادیں گے اور چونکہ یہ سلسلے لمبے نہیں چل سکتے قانون قدرت اندرونی طور پر ایسے ردعمل پیدا کر دیا کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں عوام الناس کے جذبات اونچے ہونے شروع ہو جاتے ہیں قربانی کے لئے، سب کچھ کر گزرنے کے لئے اور قربانی کے جذبے کے ساتھ قربانی کرنے کا واقعہ مادہ بنا شروع ہو جا تا ہے اس لئے کہ Desperation کی حالت آجاتی ہے.ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ سمجھتے ہیں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہا اور زندگی اور موت ایک جیسی ہوگئی ہے.اُس وقت قو میں ایک دھماکے کے ساتھ اپنے آقاؤں کو اُتار پھینکا کرتی ہیں اور بہت ہی خون ریز حالات پیدا ہو جاتے ہیں ملک میں.خصوصیت کے ساتھ اگر یہی مشکل آپ تصور کریں فوج کے اُس طبقے میں بھی ظاہر ہونا شروع ہو جائے جسے ہم Have Nots کہہ سکتے ہیں.Have Nots سے مراد وہ طاقت کو قائم رکھنے میں تو شریک ہیں لیکن طاقت سے استفادہ کرنے میں شریک نہیں ہیں.اب یہ ناممکن ہے کہ دنیا کی کوئی فوجی طاقت اپنے تمام افراد کو لوٹ مار میں شریک کر سکے اور مراعات میں شریک کر سکے.لوٹ مار کا لفظ تو بہت کڑوا لگے گا بعض لوگوں کو یعنی طاقت کے نتیجے میں جو طبعی مراعات حاصل ہوتی ہیں اُن میں میں کہتا ہوں کہ وہ شریک کر سکے یہ ہو نہیں سکتا.بھاری طبقہ ایک ایسارہ جاتا ہے جو طاقت

Page 599

خطبات طاہر جلدے 594 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۸ء کو برقرار رکھنے میں کام تو کرتا ہے لیکن غیر معمولی استفادہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ تنخواہیں بڑھ جائیں اُن کی.سوائے اس کے کہ بعض تحکمات حاصل ہو جا ئیں کسی ڈپٹی کمشنر کو جا کر دھمکایا جا سکے کسی پٹواری پر رعب ڈالا جا سکے.یہ چند معمولی معمولی فوائد ہیں جو کم و بیش ہر کس و ناکس کومل جاتے ہیں لیکن مجموعی طور پر جو طاقت کے سرچشمے پر قابض ہونے کے نتیجے میں مفادات حاصل ہور ہے ہوتے ہیں اُس میں سارے شریک ہو نہیں سکتے.بدنامی میں سب شریک ہوتے ہیں اور ہمارے ملک میں خصوصیت کے ساتھ فوج میں غیرت موجود ہے اور حب الوطنی موجود ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ جولوگ کہتے ہیں کہ ہماری فوج نعوذ باللہ من ذالک غدار ہو چکی ہے یہ بالکل جھوٹ ہے.اس فوج کو ملک پر قابض رکھنے کے لئے آئے دن ایسے بہانے تراشے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں فوج کو یہ احساس رہتا ہے کہ اگر ہم نے موجودہ سربراہوں کو دوام نہ بخشا تو ملک کو خطرہ ہے،موجودہ طاقت کو خطرہ نہیں بلکہ ملک کو خطرہ ہے.چنانچہ یہ احساسات کئی طریق سے پیدا کئے جاتے ہیں.اس کی تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے تمام سیاست دان سمجھتے ہیں ان باتوں کو کہ کئی ذرائع سے فوج میں عدم استحکام کا احساس پیدا کیا جاتا ہے ملک کے لئے اور یہ نہیں کہا جاتا کہ ہمارا ٹولہ ہے اسے تم برقرار رکھو.کہتے ہیں کہ دیکھو خطرات ہیں قوم کے لئے ملک کے لئے اسلام کے لئے جو بھی تمہیں عزیز ہیں اُن سب کو خطرہ ہے ساری قوم ان سب چیزوں کی دشمن بن چکی ہے جو ساری قوم کو عزیز ہونی چاہئے ، ساری قوم پاگل ہو چکی ہے اس لئے جب تک ہم میں یہ اعلیٰ اقدار باقی رہیں گی جب ہم گئے تو یہ ساری اقدار مٹ جائیں گی کیسی جہالت کی بات ہے.ساری قوم اپنی دشمن ہو چکی ہے.کیسے ہو سکتا ہے قوم اپنی دشمن ہو جائے.قوم دشمن نہیں ہوا کرتی لیکن مصنوعی طور پر فوج اور قوم کے درمیان فاصلے پیدا کئے جاتے ہیں اور عام فوجی اور عام افسر کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم گویا کہ محافظ ہو اس وطن کے.اندرونی خطرات ہیں بیرونی خطرہ ہی کوئی نہیں.اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر بیرونی خطرہ نہیں تو اتنے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے باہر سے جو بے شمار مانگنے جاتے ہیں وہ کس لئے مانگنے جاتے ہیں.امر واقعہ یہ کہ وہ بھی ہر گز اس لئے نہیں مانگے جاتے کہ قوم کو اگر کسی سے خطرہ ہو تو اُس کے خلاف استعمال ہوں.وہ اس لئے عطا کئے جاتے ہیں.مانگے خواہ کسی غرض سے جائیں.عطا اس لئے کئے جاتے ہیں کہ اُن بڑی طاقتوں کے

Page 600

خطبات طاہر جلدے 595 خطبه جمعه ۲۶ راگست ۱۹۸۸ء مفاد کو کوئی خطرہ ہو جو ہتھیار عطا کرنے والی ہیں تو اُس وقت یہ ہتھیار استعمال ہوں اور اُس سے پہلے اپنے مفاد کے لئے کسی قوم کو ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوا کرتی.چنانچہ آپ پچھلی جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں امریکہ نے پاکستان کی بڑی سختی سے جواب طلبیاں کی ہوئی ہیں کہ تم ہوتے کون تھے ان ہتھیاروں کو جو ہم نے تمہیں روس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے دیئے تھے ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے والے.یعنی خطرہ پاکستان کو ہندوستان سے ہے اور ہتھیار جمع ہورہے ہیں روس کے لئے اور اگر روس سے خطرہ ہو تو وہ ہتھیار ویسے ہی کام نہیں آئیں گے.یہ قوم جل بھن جائے گی پھر بھی وہ ہتھیار حقیقی معنوں میں کسی کام نہیں آسکتے.صرف وقتی طور پر اتنی مہلت دے سکتے ہیں قوموں کو کہ وہ داخل ہو جائیں اور پھر ایک لمبی دردناک تباہ کن جنگ میں ساری قوم کو جھونک دیا جائے تو خطرہ جو ہے وہ کسی اور کوکسی اور سے ہے اور ہتھیار دیئے جارہے ہیں ان غریب ملکوں کو اور اُن کے استعمال سکھائے جارہے ہیں.اور انٹیلی جنس کے اعلیٰ سے اعلیٰ ہوائی جہاز دیئے جارہے ہیں شرط یہ ہے کہ اس انٹیلی جنس کی آنکھ اُس طرف کھلی رہے گی جس طرف سے ہمیں خطرہ ہے.اُس طرف نہیں کھلے گی جس طرف سے تمہیں خطرہ ہے.چنانچہ بڑی سختی جواب طلبیاں ہوئیں اور اس کے نتیجے میں پھر ہتھیاروں کی امداد بند کر دی گئی.دوسری امداد بھی بند کر دی گئی کہ تم نے اپنے دشمن کے خلاف استعمال کر لی تم بڑی جرأت رکھتے ہو بڑے بے حیا لوگ ہو.ہم سے ہتھیار مانگ کر اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر رہے ہو.وہ تو ہمارے ہتھیار ہیں ہمارے دشمنوں کے خلاف استعمال کرو.یہ ایک طبعی نتیجہ ہے.اس لئے یہ ساری تیاریاں پاکستان کے اُس وقت تک کام نہیں آسکتیں جب تک مالک اور غلام کے دشمن بالکل ایک نہ ہو جائیں.جہاں اُن دشمنوں میں تفریق ہوگی خواہ آپ کو حقیقی خطرہ کسی اور طرف سے بھی ہو گا آپ اس فوجی طاقت کو اُس کے خلاف استعمال نہیں کر سکتے.اجازت لینی پڑے گی.تو پس Master not Friends یہ آقا بن چکے ہیں دوست نہیں رہے.اس لئے یہ ساری پالیسی نظر ثانی کی محتاج ہے.کس حد تک ہمیں خطرہ ہے، کہاں کہاں سے ہمیں خطرہ ہے اور جس قسم کے خطرات ہیں اُس کے مقابلے کے لئے قوم کو تیار کرنا چاہئے نہ کہ آنکھیں بند کر کے بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن جائیں اور آپ کے اندر سودا بازی کی طاقت ہے اپنی جغرافیائی حیثیت

Page 601

خطبات طاہر جلدے 596 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۸ء کے لحاظ سے.نہرو نے جو بہت عظیم نام پیدا کیا دنیا میں وہ صرف اسی وجہ سے کیا تھا.وہ جھکا نہیں ہے اُس نے سودا بازی کی ہے.وہ جانتا تھا کہ کونسی قوم کس حد تک ہندوستان کی دوستی کی محتاج ہے.اُس حد تک اُس نے پوری قیمت لے کر وہ دوستی کی ہے اور اُس سے آگے نہیں بڑھنے دیا قوم کو اور ایسا شخص جو صاحب کردار ہو جو اندرونی طور پر عظمت رکھتا ہو جو اپنی قوم کے وقار کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہو یہ آزاد قومیں بھی اُسی کی عزت کیا کرتی ہیں.ورنہ دوسروں کو تو ذلیل ورسوا کر دیا کرتی ہیں.غلاموں کی طرح اُن سے بھی بدتر سلوک اُن سے کرتی ہیں.اس لئے ہمارے سیاست دانوں کو اگر اندرونی عزت درکار ہے اور اگر اندرونی وقار اور د بد بہ چاہئے تب بھی اُن کو اپنی طاقت کسی اور سے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے.بے طاقت کے بیٹھے رہنا اُن کے وقار کو بڑھائے گا بہ نسبت اس کے کہ مانگی ہوئی طاقت پر قابض ہوں.اور بیرونی طور پر بھی اُن کو ہرگز کسی قوم کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں ہے.اُن کو کہیں کہ ٹھیک ہے جو کچھ تم کر سکتے ہو کر گزرو.آگے حالات تمہیں بتائیں گے کہ تمہاری تمام محنتیں رائیگاں جائیں گی.سب کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا کیونکہ اندرونی طور پر قانون رد عمل پیدا کر دے گا.جس کے نتیجے میں اس علاقے میں وہ دھماکے ہوں گے جن کو تم پھر کنٹرول نہیں کر سکتے کبھی بھی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے فوجی طاقت جو دنیا کی ہیں اُن کے اندر بھی پھر رد عمل شروع ہو جاتے ہیں جو باہر کی طاقتیں ہیں اُن میں رد عمل عوام میں زیادہ گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں.زیادہ پھیلتے چلے جاتے ہیں.Polarisation بڑھنی شروع ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ ایسے خطرات بھی پیدا ہو جاتے ہیں کہ لوگ دوسری قوموں کی طرف مدد کے لئے دوڑتے ہیں.وہ کہتے ہیں اس مصیبت سے نجات دلاؤ.ایک فوج کو ہم نے دیکھ لیا اب دوسری فوج بھی سہی.اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی اور کی طاقت سے اس فوج کو شکست دی تو ہم ملک پر قابض ہوجائیں گے.وہ بھی دھوکے میں ہیں.اُن کو بھی میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں غیر قوموں کی طرف بھاگ کر کسی فوج کے تسلط سے نجات پانے کے نتیجے میں کبھی بھی آپ کو آزادی نصیب نہیں ہو سکتی.یہ بھی ایک جہالت ہے.اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ قومیں جو ایسے لوگوں کو طاقت میں لاتی ہیں جو اُن کی طرف ہاتھ پھیلاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آؤ اور ہمیں طاقتور بنادووہ اس وقت تک اُن کو طاقت میں رکھتی ہیں جب

Page 602

خطبات طاہر جلدے 597 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۸ء تک وقت تک وہ کلیۂ اُن کی غلامی کرتے ہیں اور جب وہ سمجھتے ہیں کہ یہ آزاد ہونے لگے ہیں یا اپنے عوام کی طاقت کے سرچشمے میں ان کے رگ وپے پیوست ہونے لگے ہیں تو اس وقت وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے اب ہم ایک اور انقلاب برپا کر دیں گے.تمہاری جگہ ہمیں اور آدمی مل جائیں گے.جو چیکوسلواکیہ میں ہوا ، جو ہنگری میں ہوا، جو ان ممالک میں ہوا جہاں آزادی کا احساس اور شعور ہمارے ملکوں کی نسبت بہت زیادہ سخت ہے وہی اُن کے دوسرے ملکوں میں ہونا ہے.اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا.ایک کی بجائے دوسرا آئے گا تب بھی آزادی نصیب نہیں ہوگی.آزادی کردار کی حفاظت سے اور کردار کی آزادی سے نصیب ہوا کرتی ہے.اُس کی طرف متوجہ ہوں اور یہ کردار اُس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے رہنماؤں کی عقلیں اور اُن کے دل آزاد نہیں ہوتے کھلم کھلا وہ عوام کو جا کر کہیں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اُس طاقت میں جس میں تم آزاد نہ ہو.جو باوقار نہ ہو اس لئے ہم کوئی ایسا سودا کسی سے نہیں کریں گے جس میں وہ زنجیریں رنگ بدل کر دوبارہ ہمارے ہاتھوں کو پہنائی جائیں.وہ طوق نئی شکل میں دوبارہ ہماری گردنوں میں آویزاں کئے جائیں جو پہلے بھی تھے.اس لئے یہ بہت ہی اہم وقت ہے، بہت ہی نازک وقت ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں جانتا ہوں کہ ایک عالمگیر جماعت ہے، پاکستانی جماعت نہیں ہے لیکن پاکستان میں بھی تو جماعت ہے اور بڑی بھاری تعداد میں ہے اور اسلام کی اخوت عالمگیر ہے.اس لئے میں صرف پاکستانی احمدی کو اپیل نہیں کرتا.تمام دنیا کے احمدیوں کو اپیل کرتا ہوں کہ اسلام کی باہمی اخوت اور محبت کی خاطر اس مظلوم وطن کے لئے پاکستان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس نہایت نازک دور میں ہمارے سربراہوں کی آنکھیں کھولے ہماری فوج کے سر براہوں کو شعور عطا کرے وہ سمجھیں کہ اب دوبارہ ہمیں اُس سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے جس سے خدا تعالیٰ نے ایک دفعہ نکلنے کا موقع عطافرما دیا ہے.اس سے اچھا موقع نہ کبھی فوج کو نصیب ہوگا، نہ کبھی پاکستانی عوام الناس کو نصیب ہوگا، نہ سیاست دانوں کو نصیب ہوگا.صرف خطرہ یہ ہے کہ بعض سیاست دان بعض دوسرے سیاست دانوں سے جلیں گے اور حسد کریں گے.اگر اُن کو یہ خطرہ ہوا کہ اس جمہوری دور میں جو آئندہ آنے والا ہے ہم نہیں آئیں گے بلکہ کوئی اور آ جائے گا.تو وہ جو زیادہ خطرناک لوگ ہیں وہ دوڑیں گے دوبارہ فوج کی طرف، وہ دوبارہ اپنے بیرونی آقاؤں کے

Page 603

خطبات طاہر جلدے 598 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۸ء پاس جائیں گے اور اُن کو اُکسائیں گے اور اُن کو بتائیں گے کہ اگر فلاں آگیا تو نہایت خطرناک نتیجے نکلیں گے.اس لئے تم جو کچھ بھی بن سکتا ہے ہمیں تحفظ دو، کسی طرح ہمیں دوبارہ لے آؤ اور بعینہ یہی کچھ آج پاکستان میں ہو رہا ہے.جونیجو صاحب بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں.الف بھی پہنچ گیا ہے،ب بھی پہنچ گیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے سارا ملک اس وقت سازشوں کی کھچڑی بن گیا ہے.ہمشخص دوڑ رہا ہے کہاں طاقت ہے اُس سے میں تعلقات بڑھاؤں اور کسی طرح اُس طاقت کے ذریعے ملک پر مسلط ہوں خواہ عوام کی طاقت مجھے نصیب ہو یا نہ ہو.یہ دوڑ ہے جو اس وقت جاری ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ کسی کو کسی سے خطرہ نہیں ہے.خطرہ ہے صرف بے اطمینانیوں سے، بے اعتمادیوں سے اور حسد سے اس لئے جہاں دوسری دعائیں کریں وہاں مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ( الفلق :) کی دعا خصوصیت کے ساتھ کریں.مجھے ڈر ہے کہ اس وقت پاکستان کے حالات میں سب سے بڑا خطرہ حسد سے ہے.بہت سے ایسے سیاست دان ہیں جو یہ چاہیں گے کہ فوج مسلط رہے، امریکہ مسلط رہے مگر ہمارا رقیب نہ اوپر آ جائے.رات کے وقت سے پہیئے ، ساتھ رقیب کو لئے آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یوں (دیوان غالب صفحہ ۱۸۹) یہ شعر ہے جو اس وقت ملک پر اطلاق پا رہا ہے.سب کہتے ہیں آزادی آئے آزادی آئے لیکن رقیب کے ساتھ نہ آئے بغیر رقیب کے آئے تو پھر منظور ہے.اللہ تعالیٰ عقل دے ان کو تو فیق دے.آزادی تو آنے دیں.جب تو میں آزاد ہو جایا کرتی ہیں باشعور ہوتی ہیں، با اخلاق ہوتی ہیں، با اصول ہوتی ہیں تو سیاستیں کسی ایک کو ہمیشہ کے لئے مسلط نہیں کیا کرتیں.یہی تو سیاست کا فائدہ ہے.یہی تو آمریت کا نقصان ہے جس میں ایک طاقت کو ہمیشہ کے لئے مسلط کر دیا جاتا ہے یا ایک ہی قسم کی طاقت کے نمائندوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے.اس لئے یہ کیوں صبر سے کام نہیں لیتے.کیوں نہیں دیکھتے کہ سیاست میں حالات بدلا کرتے ہیں.آج چرچل ہے تو کل کوئی اور آجائے گا.آج روز ویلٹ ہے تو کل کوئی اور آجائے گا.یہ حالات آزاد قوموں میں، باشعور قوموں میں ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں.یہی تو سیاست کی خوبی ہے کہ ہر شخص کو آزادی ہے اور کوئی اکراہ نہیں ہے.آپ اُن سے بہتر باتیں لوگوں سے کہیں جو اس وقت مسلط ہونے والے ہیں.اُن سے زیادہ عقل کی باتیں

Page 604

خطبات طاہر جلدے 599 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۸ء لوگوں کو سمجھائیں، اُن کی غلطیوں کولوگوں کے سامنے ننگا کریں اور دیکھیں پھر رفتہ رفتہ مزاج بدلتے ہیں لیکن جو ڈیموکریسی آزاد ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے دوبارہ اگر اُس ڈیموکریسی کو زنجیریں پہنانے میں کوئی کردار ادا کیا تو ہمیشہ کے لئے قوم کی نگاہ میں اور آئندہ مؤرخین کی نگاہ میں آپ غداروں کی فہرست میں لکھے جائیں گے اور پھر یہ قوم اور خطرات میں مبتلا ہوگی جو مجھے نظر آرہے ہیں.خانہ جنگی بھی ہو سکتی ہے اور کئی قسم کے ایسے مہلک اور بھیا نک خطرات ہیں جو چاروں طرف سے پاکستان کے اوپر نظریں جمائے ہوئے ہیں.اس لئے یہ کوئی معمولی بات نہیں.ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے یا حسد کے زمانے گزر گئے.ان کے نتیجے میں معمولی نقصان ہوا کرتے تھے اب ساری قوم کی بقا کو خطرہ ہے اس لئے خدا کے لئے ان سازشوں کو اب ختم کریں اور خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے حالات کو اپنی نہج پر چلنے دیں.ان میں دخل نہ دیں اور جو جائز کوشش ہے عوام الناس کے سامنے آنے کی وہ پوری اختیار کریں.اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل دے اور سمجھ دے اور تمام دنیا کے احمدیوں کو درددل سے دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ احمدیوں کی دعاؤں میں عظیم الشان طاقت ہے.بہت ہی بڑی طاقت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہم نے اپنا سب کچھ بیچ ڈالا ہے،اس کا نام بیعت ہے.اور اللہ تعالیٰ سب وفاداروں سے بڑھ کر وفادار ہے ہم گناہ گار بھی ہیں اس کے باوجود ہماری دعا ئیں سن لیتا ہے، ہم تعجب سے دیکھتے ہیں، یہ کیا بات ہے.ہم اس لائق نہیں، ہم میں کوئی تقدس نہیں ہے پھر بھی وہ سنتا ہے اس لئے کہ بہت ہی وفا کرنے والا ہے.یہ دنیا کی طاقتیں تو ہرگز وفا کرنے والی نہیں ہیں.آپ نے دیکھا نہیں شاہ ایران کا کیا انجام ہوا تھا؟ یا کابل کے ایک کے بعد دوسرے سر براہ کا کیا انجام ہوا تھا.روس ہو یا امریکہ ہو کسی میں کوئی وفانہیں ہاں ہمارے خدا میں وفا ہے اور وہ سب وفاداروں سے بڑھ کر وفا دار ہے.اس لئے میں جانتا ہوں یقین کے ساتھ آپ کو بتا رہا ہوں کہ آج دنیا میں سب سے طاقتور چیز احمدی کی دعا ہے.اس لئے آپ دعاؤں پر تو کل کریں خدا نے آپ کو نشان دکھائے ہیں ان دعاؤں کے.اب آپ کو کیا حق ہے کسی قسم کے شک کو دل میں جگہ دیں.دعائیں کریں اور پورے یقین اور کامل تو کل کے ساتھ دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے گا، اور پاکستان میں اگر حالات بہتر ہوئے اور امن کے حالات قائم ہو گئے اور انسانی

Page 605

خطبات طاہر جلدے 600 خطبه جمعه ۲۶ راگست ۱۹۸۸ء عزت اور وقار کو دوبارہ وہ جگہ عطا ہو گئی جو کسی زمانے میں اس ملک کو عطا ہو چکی تھی تو آپ دیکھیں گے کہ تمام دنیا میں خدا کے فضل سے احمدیت کی نشو ونما کا بھی ایک نیا دور آجائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج مجھے سفر پر جانا ہے اس لئے احباب سے درخواست ہے کہ سفر کی کامیابی کے لئے بھی دعا کریں.اس سفر کا پیش نظر انشاء اللہ جمعہ کے ساتھ نماز عصر بھی جمع ہوگی.

Page 606

خطبات طاہر جلدے 601 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء جماعت کینیا کا ماضی اور حال.انہیں انجمادتوڑنے ، قیادت ابھارنے اور مالی قربانی کی نصیحت (خطبه جمعه فرموده ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء بمقام نیروبی، کینیا ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: مختلف احباب جو کینیا کسی لحاظ سے کسی کام کے لئے آتے رہے ہیں اور پھر واپسی پر انگلستان میں مجھ سے ملتے رہے ہیں ان سے جب بھی میں نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں کیا وجہ ہے کہ کینیا کی جماعت منجمد سی نظر آتی ہے اور اس میں دنیا کی باقی جماعتوں کی طرح ترقی کے وہ آثار دکھائی نہیں دے رہے جو باقی دنیا کی جماعتوں میں خاص طور پر نمایاں ہو کر نظر آنے لگے ہیں.باقی دنیا کی جماعتیں ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہیں جو نشو ونما کا ایک ایسا دور ہے جسے بہار سے مماثلت ہے اور خدا کے فضل سے وہ جماعتیں بھی جو ایک عرصہ سے خاموش تھیں ان میں غیر معمولی جدوجہد ، غیر معمولی جذبہ، غیر معمولی عزم اور غیر معمولی حرکت دکھائی دینے لگی ہے.اس کے جواب میں مجھے ہمیشہ یہی کہا گیا کہ اس کی دو وجوہات ہیں.اول یہ کہ کینیا کے بہت سے پرانے مخلص احمدی خاندان جو دراصل کینیا کی جماعت کی روح رواں تھے وہ کینیا سے ہجرت کر کے انگلستان چلے گئے ہیں اور وہیں آباد ہو گئے ہیں.وہ پرانے تجربہ کار احمدی جو ہر لحاظ سے تربیت یافتہ تھے بہت سے ان میں سے ایسے تھے جن کی ہندوستان میں یا پاکستان میں لمبا عرصہ تربیت ہوئی تھی وہ اپنے پیچھے ایک بہت بڑا خلا چھوڑ گئے ہیں اور دوسری وجہ یہ بیان کی گئی کہ جونئی نسلیں پیچھے رہ گئی ہیں ان کو احمدیت میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی اور ایک قسم کا قحط الرجال سا ہے.

Page 607

خطبات طاہر جلدے 602 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء جہاں تک میرے جائزہ کا تعلق ہے میرے نزدیک یہ دونوں باتیں غلط ہیں.نہ پہلی بات میں کوئی حقیقت ہے نہ دوسری بات میں کوئی جان ہیں.واقعہ یہ ہے کہ کینیا وہ ملک ہے جس میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سب سے پہلے افریقہ کے براعظم میں جماعت احمدیہ قائم ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے بزرگ صحابہ یہاں تشریف لائے اور اس جماعت کا جسے کیفیا کی جماعت کہتے ہیں نہایت ہی بابرکت آغا ز صحابہ سے ہوا اور وہی اس جماعت کی مقدس اینٹیں بنے جن پر آئندہ بنیاد ڈالی گئی.سب سے پہلے اس جماعت کا قائم ہونا اور اس کے بعد بعض دوسری وجوہات کے نتیجہ میں نشوونما میں افریقہ کی تمام دوسری جماعتوں سے پیچھے رہ جانا یہ کچھ اور وجوہات اپنے اندر رکھتا ہے.جو وجہ میرے سامنے بیان کی گئی وہ درست نہیں.میں نے ایک تفصیلی جائزہ لیا تاریخی لحاظ سے کہ مختلف وقتوں میں یہ جماعت کس کس طرح نشو ونما پاتی رہی کن کن نئے علاقوں میں پھیلتی رہی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ مخلص خاندان جن کے انخلا کو یہاں کی جماعت کی کمزوری بتایا جارہا تھا جب تک وہ یہاں رہے جماعت نے کسی قسم کی کوئی ترقی نہیں کی اور تمام کینیا کے مقامی باشندے جماعت کے نیک اثرات سے اسی طرح محروم رہے جیسے بعد میں محروم دکھائی دیتے ہیں.اگر کوئی نشو ونما کا دور تھا تو وہ آغاز میں صحابہ کا دور تھا جنہوں نے بہت قربانیاں دیں، بہت عظیم الشان جدوجہد کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے بڑی محنت سے یہاں جماعت احمدیہ کے پودے کو نصب کیا.پس یہ کہنا کہ چونکہ بہت سے مخلص خاندان یہاں سے رخصت ہو کر انگلستان آباد ہو گئے اس لئے ترقی رک گئی حقائق اس کو جھٹلا رہے ہیں.اگر یہ بات درست ہوتی تو بیعتوں کا گراف اس بات کو نمایاں طور پر دکھاتا اور گزشتہ بیعتوں کے جائزے سے ہم یہ بات بآسانی معلوم کر سکتے کہ جس زمانے میں یہاں سے بعض ایشیائی خاندانوں کا انخلا ہوا ہے اس زمانے تک تو غیر معمولی طور پر سالا نہ بیعتوں میں اضافہ رہا ، نمایاں طور پر بڑھوتی رہی یعنی نمایاں تعداد میں بیعتیں ہوتی رہیں اور جس سال یا جن چند سالوں میں وہ یہاں سے رخصت ہوئے ان سالوں میں اچانک بیعتوں کی رفتار گر گئی اور دور دراز علاقوں میں جہاں احمدیت بڑی تیزی سے پھیل رہی وہیں اس کے قدم رک گئے.اگر یہ تصویر ہوتی تو جو وجہ بیان کی گئی تھی وہ درست ثابت ہوتی لیکن ایسی کوئی تصویر نہیں ابھرتی ان کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا،

Page 608

خطبات طاہر جلدے 603 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء ان کے یہاں رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑا اس لئے اس وجہ کوکسی قیمت پر قبول نہیں کیا جا سکتا.جہاں تک دوسری وجہ کا تعلق ہے جب سے میں کینیا آیا ہوں اور مجھے آئے ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے میں نے بہت سی ملاقاتیں کیں ہیں اور اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر میں اس وجہ کو بالکل غلط سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں ہرگز کسی قسم کا کوئی قحط الرجال نہیں ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑے بھی اور چھوٹے بھی ہر قسم کے احمدی دوست جن سے میری ملاقاتیں ہوئیں ہیں.جن کو میں نے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے.سب کو میں نے غیر معمولی اخلاص کے جذبے سے سرشار پایا ہے.ان کے اندر کسی پہلو سے کوئی کمی نہیں ہے.بہت ذہین نوجوان ہیں، کثرت کے ساتھ اچھے تعلیم یافتہ ہیں.ان کے اندر جماعت کے ساتھ محبت موجود ہے، کام کا جذبہ ہے، کام کا سلیقہ موجود ہے.اس لئے یہ کہنا کہ قحط الرجال کے نتیجہ میں یہ جماعت ترقی سے محروم رہ گئی یہ درست نہیں.ہاں قیادت میں قحط ایک ایسی چیز ہے جسے تسلیم کیا جا سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی وجہ قحط الرجال نہیں بلکہ قحط القیادت ہے.جس قسم کی فعال قیادت کی ضرورت ہے جو جذبے سے بھر پور ہو، جو حکمت کے ساتھ اور محبت کے ساتھ احمدی نوجوانوں کو بڑوں اور چھوٹوں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک فعال جماعت کے طور پر آگے بڑھنے کے جذبے سے ان کو بھر دے ایسی قیادت معلوم ہوتا ہے یہاں میسر نہیں اور اسی کی وجہ سے ایک قسم کی مردنی سی چھائی ہوئی ہے.اس سے پہلے کے دور میں بھی جو قیادت یہاں میسر تھی اس کا زیادہ تر رخ ایشیائی باشندوں کی طرف ہی رہا اور مقامی جو کینین باشندے ہیں، کینیا کے باشندے ہیں جو دراصل اس وطن کے مالک ہیں، اس وطن کے بچے ہیں، اس وطن کی وطنیت ان کی شخصیت کے ساتھ وابستہ ہے.ان کی ذات کینیا ہے اور کینیا وہ لوگ ہیں جو اسی Soil کے، اسی زمین کی پیداوار ہیں اور نہ صرف یہ کہ آج بلکہ ہزار ہا سال سے وہ کینیا کی تاریخ بنارہے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی کینین ہیں.جو باہر سے آنے والے ہیں اگر چہ ان کو یہاں نیشنیلٹی یا قومیت مل بھی گئی اور جہاں تک ان کی اپنی نفسیاتی کیفیت کا تعلق ہے یہ بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ پنے آپ کو کینین ہی سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک فرق ہے جو بہر حال قائم رہے گا مقامی باشندے بہر حال مقامی باشندے ہیں اور گزشتہ قیادتوں میں بھی سوائے اس کے کہ کبھی کبھی ایک تبدیلی ہوئی عموماً گزشتہ قیادتوں کا رجحان بھی ایشیائی باشندوں کی طرف رہا اور مقامی باشندوں کو نظر

Page 609

خطبات طاہر جلدے انداز کر دیا گیا.604 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء گزشتہ ادوار میں بارہا جماعت کو فعال قیادت بھی میسر آئی ہے اور بعض امراء جنہوں نے ایک لمبا عرصہ کینیا میں گزارا خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑے پر جوش اور باعمل، فعال امراء تھے اور ان کے زمانے میں مردنی نہیں بلکہ حرکت دکھائی دیتی ہے مگر اس کے باوجود ان کا رخ بھی ایشیائیوں ہی کی طرف رہا.گویا وہ کینیا کے باشندوں کو ایک ثانوی حیثیت کا باشندہ سمجھتے تھے اور اہمیت دیتے تھے تو ایشیا سے آکر یہاں بسنے والوں کو.چنانچہ ان ادوار میں جن کی میں بات کر رہا ہوں جب بیعتیں بھی ہوئیں تو وہ ایشیائیوں میں ہوئیں اور نئے رستے کھلے تو ایسی جماعتوں میں جن میں پہلے جماعت احمد یہ کونفوذ نہیں تھا مگر وہ بھی ایشیائی تھے.مثلاً ایک زمانے میں جب یہاں نمایاں حرکت دکھائی دیتی تھی تو میمنوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض دوستوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی بعض خاندان احمدیت میں داخل ہوئے.اسی طرح اسماعیلیوں میں سے بعض دوستوں کو احمدیت کی توفیق ملی اور اس پہلو سے کینیا باقی دنیا کی جماعتوں میں ایک امتیاز اختیار کر گیا کیونکہ بالعموم میمنوں اور اسماعیلیوں میں جماعت احمدیہ کی طرف آنے کا رجحان بہت کم پایا جاتا ہے اور کینیا اس پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل سے بازی لے گیا.لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد ان خاندانوں کو بھی سنبھالا نہیں گیا.اول تو ان کے ذریعہ جو نئے روابط قائم ہوئے تھے ان روابط کو صحیح استعمال نہیں کیا گیا اور باقاعدہ ایک رو نہیں چلائی گئی جس کے نتیجہ میں کثرت کے ساتھ میمن دوستوں کا یا اسماعیلی دوستوں کا جماعت کی طرف رجحان ہوتا.صرف یہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے بعد کے آنے والے بچوں کو بھی سنبھالا نہیں گیا اور کسی نے پرواہ نہیں کی کہ یہ کیا ہورہا ہے.چنانچہ گزشتہ چند سال پہلے مجھے اس بات کا خیال آیا کہ میں پوچھوں تو سہی کہ وہ دوست کہاں گئے آخر.ایک زمانہ تھا جب کہ ان کے نام نمایاں طور پر جماعت میں معروف تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے اخلاص کے بہت سے واقعات سنائے جاتے تھے، ان کی قربانیوں کے بہت سے واقعات سنائے جاتے تھے.چنانچہ جب میں نے موجودہ امیر صاحب کو لکھا کہ آخر وہ بچے کہاں گئے ، ان کی اولاد میں کہاں گئیں مجھے بتائیں تو سہی کہ وہ کہاں رہتے ہیں اور کیا ہوا ان کے ساتھ تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی کہ ان کو ایک لمبے عرصے سے جماعت نے نظر انداز کئے رکھا ہے اور اس کے نقصانات جولا زما پہنچنے چاہیئے تھے وہ پہنچے

Page 610

خطبات طاہر جلدے 605 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء حالانکہ وہ بہت نیک اور بزرگ احمدیوں کی جنہوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں اولاد تھے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ انہوں نے اپنے مرحوم بزرگوں سے خلوص ورثے میں نہ پایا ہولا ز ما ہم سے کچھ کوتاہی ہوئی ہے.چنانچہ جب توجہ دلائی گئی اور ان سے تھوڑا سا رابطہ قائم کیا گیا تو انہی کے بچے ماشاء اللہ بڑی محبت کے ساتھ ، بڑے پیار کے ساتھ جماعت میں نہ صرف واپس آئے بلکہ صاف نظر آرہا ہے کہ ان کے اندر نئے جذبے بیدار ہوئے ہیں اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ کر ہر نیکی کے میدان میں آگے قدم بڑھائیں گے.اس نقصان کی ایک وجہ جو مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری جماعتیں جو پاکستان کے باشندوں پر مبنی ہیں یا ہندوستان کے باشندوں پر مبنی ہیں ان کے اندر بعض ہماری قومی خرابیاں پائی جاتی ہیں.ان کا تعلق احمدیت سے نہیں بلکہ ہندوستانی قوم اور پاکستانی قوم سے ہے اور وہ خرابی یہ ہے کہ جہاں چند پاکستانی یا چند ہندوستانی اکٹھے ہو جائیں ان کا رخ ایک دوسرے کی طرف ہو جاتا ہے اور وہ ایک جتھا بنا کر رہتے ہیں.جس طرح اٹالینز (Italians ) میں یہ بات پائی جاتی ہے بعض پہلوؤں سے یہ خوبی بھی ہے لیکن تبلیغی جماعتوں کے لئے نہایت خطرناک برائی بن جاتی ہے.جہاں تک دنیاوی جماعتیں ہیں مثلاً جیسا کہ میں نے بیان کیا اٹالین جتھے بنا کر رہتے ہیں جس ملک میں بھی جائیں.گریکس (Greeks) ہیں ان میں بھی یہ عادت پائی جاتی ہے جتھے بنا کر رہیں.ترک بھی جتھے بنا کر رہتے ہیں.بہت سے عرب ممالک کے باشندے بھی جب زیادہ تعداد میں کہیں جائیں تو اکٹھے ہو جاتے ہیں اور جتھا بن جاتا ہے ان کا بھی.تو یہ بعض قومی عادتیں ہیں لیکن عام حالات میں یہ نقصان دہ نہیں بلکہ قومی روایات کو زندہ رکھنے اور قائم رکھنے میں مدہوتی ہیں ، مددگار بنتی ہیں.لیکن تبلیغی جماعت جس نے دنیا میں پھیلنا ہو اس کا تو کوئی وطن نہیں ہوتا اس کا تو تمام عالم وطن ہے.دنیا کا ہر ملک اس کا وطن بن جانا چاہئے اور اس پہلو سے ان کے لیے یہ قومی عادت بعض دفعہ نہایت مہلک ثابت ہوتی ہے.یہی بیماری میں نے یورپ میں دیکھی، انگلستان میں دیکھی بہت سے ایسے انگریز تھے جو مختلف وقتوں میں احمدی ہوئے بلکہ آغاز میں تو اونچے طبقے میں بھی جماعت احمدیہ نے بہت جلدی نفوذ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک لارڈ تھے وہ بھی احمدی ہوئے اس کے

Page 611

خطبات طاہر جلدے 606 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء بعد مختلف علم و دانش رکھنے والے دوست ، صاحب حیثیت لوگ بھی اور ہر طبقے سے مختلف وقتوں میں انگریز جماعت میں داخل ہوتے رہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد یاوہ ٹھنڈے پڑ گئے یا خاموشی کے ساتھ باہر چلے گئے.بالعموم ایک بات ضرور ہوئی کہ ان کی آئندہ نسلیں جماعت کا جز نہ بن سکیں.چنانچہ جب میں انگلستان آیا اور میں نے صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیا تو پتا لگا کہ بنیادی طور پر یہی بیماری ہے جس نے اتنے خطرناک اور مہلک نتائج نکالے.ایک مجلس میں جہاں چند پاکستانی یا ہندوستانی اکٹھے ہو جائیں قطع نظر اس بات کے کہ وہاں کوئی دوسری زبان بولنے والے لوگ موجود ہیں ، مقامی باشندے ہیں آپس میں اردو یا پنجابی بولنے لگ جاتے ہیں اور بالکل بھول جاتے ہیں کہ کچھ ایسے ہمارے معزز مہمان ہیں جو دین کی خاطر اپنے رشتہ منقطع کر کے ہمارے اندر داخل ہوئے ہیں، اپنے معاشرہ کو انہوں نے خیر باد کہا، ایک نئے معاشرہ کو قبول کرنے کی خاطر اپنے مذہب کو، اپنی قومی روایات کو سب کو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیا اور اپنے لئے ایک نئی زندگی اختیار کرلی.اس کے باوجود جن لوگوں میں، جن پر ان کو یہ توقع تھی کہ وہ اپنا بنا ئیں گے انہوں نے ان کو اپنا نہیں بنایا.ان کو غیروں کی طرح اپنے سے الگ رکھا، ان کو اپنے اندر جذب نہیں کیا ، ان کے ساتھ غیر معمولی پیار اور محبت کا سلوک نہیں کیا.یہ کوشش نہیں کی کہ ان کو تنہائی کا احساس نہ ہو.چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصہ کی تنہائی کے بعد پھر وہ بالآخر واپس اپنے معاشرہ میں لوٹ گئے.چنانچہ بعض انگریز نو مسلموں سے میں نے خود اس بارہ میں گفتگو کی تو انہوں نے مجھے یہی وجہ بتائی.انہوں نے کہا کہ اب بھی یہ ہورہا ہے، ہم باہر سے آتے ہیں اپنی تمام رسموں کو خیر باد کہ دیتے ہیں ، اپنے تمام تعلقات منقطع کر لیتے ہیں عمد ا نہیں بلکہ مجبوراً کیونکہ نہ ہم شراب پیتے ہیں نہ ڈانس کرتے ہیں ، نہ اور دوسری گندی عادتیں ہم میں باقی ہیں جو اس قوم کے معاشرہ کا جزو ہیں تو ہمارے دوست ہم سے گریز کرنے لگ جاتے ہیں ، ہمارے رشتہ دار ہم سے گریز کرنے لگ جاتے ہیں.رفتہ رفتہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ان سب سے کٹ کے الگ ہو چکے ہیں.اس کے بعد اگر جماعت احمدیہ کے باہر سے آکر یہاں بسنے والے افراد بھی ہمیں اپنی سوسائٹی کا جز نہ بنائیں ہم سے پیار اور محبت کا سلوک نہ کریں ہم جمعہ پر جائیں تو ایک طرف بیٹھے رہیں.اردو میں خطبہ ہو اردو میں باتیں ہوں اور نماز پڑھ کر کچھ دیر کے بعد ہم واپس تنہائی کا احساس لئے ہوئے گھروں کو لوٹ آئیں.یہ کس حد تک انسان برداشت کر سکتا ہے

Page 612

خطبات طاہر جلدے 607 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء کتنالمبا عرصہ تک اس کے باوجود انسان اپنے ایمان پر قائم رہ سکتا ہے؟ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ بہت سے ایسے خاندان آئے اور نکل گئے.اگر وہ سارے آج قائم ہوتے تو سینکڑوں کی بڑی مضبوط انگریزوں کی جماعت ہوتی بلکہ ہزاروں کی ہو سکتی تھی اگر ان کی اولادیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قائم رہتیں.اب چونکہ بار بار کی توجہ دلانے کے بعد وہاں حالات تبدیل ہوئے ہیں.کچھ عادتیں درست کی گئی ہیں اس لئے اب خدا کے فضل سے انگریزوں پر مشتمل جماعتیں قائم ہونی شروع ہوگئی ہیں.یہاں بھی اسی بیماری نے بہت مہلک اثرات ظاہر کئے ہیں.چنانچہ وہ جماعتیں، کمیونٹیز جو نئی تھیں باوجود ایشیائی ہونے کے ، ان کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ان سے حسن سلوک نہیں کیا گیا، ان کی عادات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی.ان کے جذبات اور احساسات کو اگر آپ سمجھتے نہیں تو ان کا خیال کیسے رکھیں گے.چنانچہ اپنی طرز کے اوپر ، اپنے ڈھب کے اوپر آپ چلتے رہے اور نئے آنے والوں کی خاطر اپنے اندر کوئی لوچ پیدا نہیں کیا.چھوٹی چھوٹی باتوں سے بعض دفعہ بڑے بڑے نتائج نکلتے ہیں.کل کی بات ہے ایک نہایت ہی مخلص ہمارے دوست ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عام طور پر جس Stock یعنی جس قومیت سے ہمارے پنجابی مہاجرین یہاں کے تعلق رکھتے ہیں ان سے ان کا تعلق نہیں ہے ، ان کی کلچر اور ہے، ان کے حالات مختلف ہیں ،انہوں نے مجھے بتایا کہ میں ملاقات کیلئے صف میں کھڑا تھا.ایک منتظم نے مجھے بڑی سختی سے کہا کہ آپ اس صف کو چھوڑ دیں.میں نے کہا کیوں؟ میں تو ملاقات کے لئے آیا ہوں.انہوں نے میرے متعلق کہا کہ وہ کسی ننگے سر والے سے مصافحہ نہیں کرے گا.حیرت کی بات ہے ایک آدمی بڑے اخلاص اور پیار محبت کے ساتھ محض اللہ تعلق کے اظہار میں میرے انتظار میں کھڑا ہے صف بنا کر اور آپ اسے دھکے دے رہے ہیں.کوئی حیا نہیں، کوئی شرم نہیں، کوئی خدا کا خوف نہیں ہے کہ کیا حرکت کرتے ہیں.میں نے اس سے پوچھا کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ جب میں آیا تھا میں نے کیا کیا تھا.اس نے کہا آپ نے تو بڑی محبت سے میرے ساتھ مصافحہ کیا تھا.میں نے کہا پھر آپ نے مجھ سے بیعت کا تعلق باندھا ہے ہرکس ونا کس سے تو بیعت کا تعلق نہیں باندھا.آپ ان پر رحم کا سلوک کریں،ان سے حوصلہ کا معاملہ کریں.یہ سوچیں کہ ان کی ایک کلچر ہے، ان کا ایک پس منظر ہے معاشرتی ، اس کے نتیجہ میں ان میں

Page 613

خطبات طاہر جلدے 608 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء کرختگی پیدا ہوگئی ہے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ دین کے معاملات بڑے نازک ہوا کرتے ہیں.وہ محبتیں جو خدا کی خاطر قائم کی جاتی ہیں ان کا احترام کرنا پڑتا ہے.تربیت کے معاملے میں سختی اور رعونت کبھی کام نہیں دیتی.ہمیشہ محبت اور انکسار اور پیار ہی ہے جو روحانی رشتے باندھا کرتا ہے.جب ان باتوں کی آپ میں کمی ہوگی تو کیسے ممکن ہے کہ آپ نشو ونما پائیں.یا در رکھیں تربیت کرنے والوں کو خشکی زیب نہیں دیتی جن کی طبیعتیں خشک ہوں اور مزاجوں میں سختی پائی جائے ان کا تربیت سے کوئی تعلق نہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کا مربی بنایا اور آپ کو رحمتہ للعالمین قرار فرمایا.اگر آپ رحمت نہ ہوتے تو آپ دنیا کے مربی بننے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر نہ فرمائے جاتے.اس مضمون کو ایک دوسری جگہ کھولتے ہوئے فرمایا وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نَفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ( آل عمران : ۱۶۰) اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج یہ جو تو دیکھ رہا ہے کہ عشاق گروہ در گروہ تیرے اردگرد اکٹھے ہیں.اگر تیرا دل سخت ہوتا اور تیرے مزاج میں کرختگی پائی جاتی تو یہ سارے تجھے چھوڑ کر بھاگ جاتے.اس آیت کریمہ میں یہ نکتہ سمجھایا گیا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے علم وعرفان میں خواہ دنیا کے ہر پہلے اور ہر آگے آنے والے انسان سے بڑھ چکے تھے اور انتہائی نام جو علم وعرفان کا متصور ہو سکتا ہے اس پر آپ فائز فرمائے گئے لیکن اس کے باوجود محض آپ کا علم وعرفان اس بات کے لئے کافی نہیں تھا کہ تمام دنیا کو آپ ایک توحید کے جھنڈے تلے جمع کر لیتے.اس کے لئے آپ کے دل کی نرمی تھی جس نے معجزے دکھائے ، جس نے حیرت انگیز کام دکھائے.چنانچہ عربوں جیسی سخت دل قوم وہ قوم جو جب کسی سے دشمنی کرتی تھی تو بعض دفعہ سینکڑوں سال تک نسلاً بعد نسل دشمنی کرتی چلی جاتی تھی اور اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹا کرتی تھی.اس قوم کی دشمنی آپ نے شروع میں مول لی محض اللہ.دل کی سختی کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کا مرتبہ اور مقام یہی تھا کہ جس مرتبے اور مقام پر فائز ہونے کے بعد دنیا دشمن ہو جایا کرتی ہے لیکن اس سختی کو آپ نے اپنے دل کی نرمی سے موم کر دیا، اپنے عجز کے ساتھ ان کی گردنیں ختم کیں اور ان کو جھکا دیا یہاں تک کہ وہ جو شدید دشمن تھے وہ انتہائی جان نثار دوست بن گئے.اس عظیم الشان انقلاب میں جہاں آپ کی دعاؤں کا دخل تھا وہاں آپ کے دل کی نرمی کا بھی بہت دخل تھا.آپ بے انتہا رحمت کرنے والے، مقام

Page 614

خطبات طاہر جلدے 609 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء بہت پیار کرنے والے، اپنے گردا کٹھا کرنے والے اور اپنے جذبات کی گرمی سے لوگوں کے دلوں کو گرمانے والے تھے اور ہر وہ انسان جو مربی ہونے کا دعویدار ہو جو دنیا کی تقدیر کو تبدیل کرنے کا دعوے کرتا ہو وہ اس کے سوا ہرگز اس کام کو سر انجام نہیں دے سکتا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرے، آپ کا اسوہ اختیار کرے اور وہی طریق اختیار کرے جن طریقوں کو اختیار کر کے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند سالوں ہی میں ایک عظیم الشان انقلاب بر پا کر کے دکھا دیا تھا.یہاں آنے کے بعد بھی جو حالات میں نے دیکھے ہیں اور بغور مطالعہ کیا ہے ان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں کی قیادت میں انجماد کی ایک شکل پائی جاتی ہے.جو چیزیں منجمد ہوں ان کے دائرے پھیلا نہیں کرتے اور وہ اسی طرح اسی دائرہ میں محدود رہ جاتی ہیں.یہاں بہت سے ایسے ہیں مجلس عاملہ کے ممبران ہیں جو غالبا دسیوں سال سے اسی طرح چلے آرہے ہیں اور ان میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.کوئی نیا خون یہاں مجلس عاملہ میں داخل ہوتا دکھائی نہیں دے گا یعنی جماعت کی کیفیت یہ ہے کہ کوئی ٹیم اردگرد تیار نہیں ہو رہی حالانکہ زندہ قیادت کی بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی منجمد نہیں ہوتی اور اس کا دائرہ اثر بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگتا ہے اور نئے وجود اس کے زیر اثر آکر قائدانہ صلاحیتوں سے مرصع ہونے لگتے ہیں، اس سے مزین ہونے لگتے ہیں.قیادت کی تربیت دینا بھی قیادت ہی کا کام ہے اور اگر قیادت محدود ہو جائے اور منجمد ہو جائے تو آئندہ نسلوں کے لئے قیادت کا بحران پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا یہ ایک نمایاں پہلو تھا کہ آپ کی قیادت میں ہمیشہ ہر وقت وسعت ہوتی چلی جارہی تھی.آپ کو خدا نے تمام دنیا کا قائد بنایا، آپ میں تمام دنیا کا قائد بنے کی صلاحیتیں موجود تھیں تو آپ کو قائد بنایا لیکن اس کے باوجود آپ نے محض اپنی ذات پر انحصار نہیں کیا بلکہ کثرت کے ساتھ اور قائدین بناتے چلے گئے یہاں تک کہ قرآن کریم نے آپ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةً (افتح ۳۰) بنیادی بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ کہتے ہی ساتھ ہی وَالَّذِينَ مَعَةَ فرما دیا کہ محمد اکیلا نہیں رہا ان کے انکسار میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی آپ

Page 615

خطبات طاہر جلدے 610 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء کی صفات میں شریک ہو گئے.أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کی جو اصل صفت ہے وہ محمد رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت ہے آپ تھے شدید کفار پر سب سے زیادہ رحمت کی صفت آپ میں موجود تھی.رحمتہ للعالمین آپ ہی کا تو لقب ہے مومنوں کے لئے بھی آپ ہی کے متعلق فرمایا گیا بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (التوبہ: ۱۲۸) وہاں جو رحیم کا لقب آپ کے لئے استعمال فرمایا گیا ہے جو خدا کی صفت ہے.ان صفات میں دوسروں کو اپنا شریک بنالیا، اپنے جیسا بنا تا چلا گیا یہاں تک کہ ایک عظیم الشان جماعت تیار ہو گئی جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں اب ان کے ساتھ مل گئی ہے، ان جیسی بنتی چلی جارہی ہے.پس وہ قیادت جو منجمد ہو جس میں پھیلنے اور وسعت اختیار کرنے کی صلاحیت نہ ہو وہ بسا اوقات دبانے کا موجب بن جایا کرتی ہے.بڑ کا درخت بڑا اچھا لگتا ہے بہت عظیم الشان ہے، اس کا بہت بڑا بڑا پھیلاؤ ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض ایسے بڑ کے درخت بھی دنیا میں موجود ہیں جن کے سائے تلے ہمارار بوہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہو سکتا ہے اتنا بڑا ان کا پھیلاؤ ہوتا ہے لیکن ایک کمزوری بھی ہے بڑ کے نیچے دوسرے درخت نشو ونما نہیں پاسکتے.پس ایسی قیادت جس کے نیچے دوسری قیادت نشو ونما نہ پاسکے وہ قیادت بے کار ہے کیونکہ آخر اس قیادت نے ختم ہو جانا ہے اور ایسے پیچھے نقش چھوڑ جائے گی یہ قیادت کہ جس کے سروں پر کوئی سایہ نہ رہے گا.اس لئے اس بنیادی کمزوری کو بھی بہر حال ہمیں دور کرنا ہوگا.میں انشاء اللہ تعالیٰ یہاں سے رخصت ہونے سے پہلے بعض ایسے اقدامات یہاں کر کے جاؤں گا جس کے نتیجہ میں جیسا کہ میں نے دیکھا ہے مخلص احمدی نوجوان آگے آئیں گے اور ان کو آگے آنا پڑے گا.اگر انہوں نے آگے آکر دین کے کام نہ سنبھالے تو آسمان سے اور فرشتے نازل نہیں ہوں گے.فرشتے نازل ہوا کرتے ہیں لیکن فرشتہ دلوں پر نازل ہونے کیلئے نازل ہوا کرتے ہیں.یہ نہیں ہوا کرتا کہ دوست ایک طرف بیٹھے رہ جائیں اور فرشتے نازل ہوکر ان کے کام کریں.جنگ بدر میں بھی فرشتے نازل ہوئے تھے اور کثرت کے ساتھ صحابہ نے کشفی طور پر ان فرشتوں کو دیکھا با قاعدہ صحابہ کے ساتھ لڑتے ہوئے دیکھا، ان کے ساتھ شامل ہوکر شانہ بشانہ دشمنوں سے لڑتے ہوئے دیکھا.کسی اور غزوہ میں اس کثرت کے ساتھ فرشتوں کے نزول کی شہادت نہیں ملتی

Page 616

خطبات طاہر جلدے 611 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء جس کثرت کے ساتھ جنگ بدر میں فرشتوں کے نزول کی شہادت ملتی ہے.فرشتے کیوں نازل ہوئے تھے اس لئے کہ آپ کے صحابہ میں سے ہر ایک جان دینے پر تلا بیٹھا تھا.وہ یہ ارادے باندھ کر اور یہ دعائیں کرتا ہوا میدان بدر میں نکلا تھا کہ میں اب زندہ واپس لوٹ کر نہیں جاؤں گا.پس وہ لوگ جو خدا کی خاطر سب کچھ فدا کر دیا کرتے ہیں ان کے لئے فرشتے اترا کرتے ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ جائیں ان کے لئے کبھی فرشتے نہیں اترا کرتے.اس لئے اگر آپ نے فرشتوں کا نزول دیکھنا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں جن کو کام میں لانے کے نتیجہ میں خدا کے فرشتے ضرور آپ پر نازل ہوں گے تو پھر آپ کو کام کرنا ہوگا.آپ میں سے ہر نوجوان کی مجھے ضرورت ہے وہ لبیک کہے میری آواز پر آگے آئے اور جو کچھ اس کی صلاحیتیں ہیں وہ دین کی خاطر پیش کر دے.یہاں آکر میں نے ایک یہ بھی رجحان دیکھا ہے کہ بعض لوگ اس جگہ کو چھوڑ کر باہر نکل رہے ہیں.اس ملک کو آپ کی ضرورت ہے.آپ کی نسلوں کی افزائش اس ملک میں ہوئی.اس وفا کا تقاضا ہے کہ اس ملک میں رہ کر اس کی خدمت کرے.یہ کونسی وفا ہے کہ جو اس ملک کے اچھے وقت تھے جو آپ نے اس ملک سے دنیا وی فائدے اٹھائے اس وقت تک آپ ان کے ساتھ رہے اور جب وہ وقت گزر گئے اور آپ نے وقتوں کو بدلتے ہوئے دیکھا تو آپ نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور پیٹھ دکھا کر اس ملک سے باہر چلے گئے.اس سے تو بہتر ہندی دو ہے میں بیان کردہ اس پرندے کا حال ہے جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے دو ہے میں کہ ایک درخت کو آگ لگ گئی تھی اور وہ پرندہ اسی طرح شاخوں پر بیٹھا ہوا تھا.کسی دو ہے میں بیان کیا گیا ہے کہ کسی مسافر نے یہ حال دیکھا تو پرندہ سے کہا کہ دیکھو سارا درخت جل اٹھا ہے جس شاخ پر تم ہو وہ بھی جلنے والی ہے تم کیوں اڑ نہیں جاتے تمہیں تو خدا نے اڑنے کی طاقت دی ہے.اس نے کہا نہیں، یہ نہیں ہوسکتا.یہ وہ درخت ہے جس نے مجھے پھلوں کے ساتھ زندگی بخشی میری بھوک کو مٹایا اور جس کی گرمی میں میں نے سردیوں کی سختی سے نجات پائی اس کے سبز سبز پتوں پر بیٹھ کے میں نے خوشگوار وقت گزارے.اب یہ کون سا دھرم ہے کہ جب اس درخت پر ختی آئے تو میں اسے چھوڑ کر چلا جاؤں.کتنا عظیم الشان یہ قصہ بنایا گیا ہے.ہے تو قصہ ہی لیکن ہے عظیم الشان اس میں کتنا گہر اسبق ہے.

Page 617

خطبات طاہر جلدے 612 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء پس آج افریقہ کو ضرورت ہے وفاداروں کی.آپ لوگوں کو جن کے آباؤ اجداد نے یہاں سے استفادے کئے ہیں اس قوم کا حق ادا کرنا چاہئے اور تلافی مافات اپنی گزشتہ ستیوں کی اس طرح کریں اب یہ ارادے لے کر یہاں بیٹھ جائیں کہ ہم نے ضرور اس قوم کے احسان کا بدلہ اتارنا ہے ہمیں جو صلاحیتیں خدا نے عطا فرمائی ہیں ہم نے وہ اس قوم کے لئے استعمال کرنی ہیں.اگر آپ یہ کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت جماعت احمدیہ کی نشو ونما کو یہاں روک نہیں سکتی.آپ دن دگنی رات چوگنی ترقی کریں گے.تیزی کے ساتھ تمام سمتوں میں پھیلتے چلے جائیں گے.کوئی حدود آپ کی ترقی کو روک نہیں سکے گی اور وہ گزشتہ سالہا سال کی نیندیں اور غفلتیں جن کے نتیجہ میں یہاں جمود دکھائی دیتا ہے اچانک جس طرح ایک زلزلہ طاری ہوتا ہے اس طرح ایک اس زلزلہ کے ساتھ آپ کی نیند کے جادوٹوٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقیات کا ایک نیا دور یہاں شروع ہو جائے گا مگر اس کے لئے مجھے نو جوان صاحب ولولہ گرم خون رکھنے والی نسلوں کی ضرورت ہے.وہ آگے آئیں اور اپنے نام پیش کریں.اللہ تعالیٰ ان کو تجر بہ عطا کرے گا ان سے انشاء اللہ تعالی آئندہ زمانے کی عظیم الشان قیادتیں نکلیں گی.خدمت دین کے لئے آج ہمیں جس قسم کے نئے مخلصین کی ضرورت ہے ان کے اندر بنیادی شرط یہ ہونی چاہئے کہ ان کی دونوں ٹانگیں درست ہوں.ایک ٹانگ پر چلنے والے احمدی ہمیں نہیں چاہئیں.رات مجلس عاملہ کے اجلاس میں جب میں نے بعض ناموں کے متعلق پوچھا کہ اچھے مخلص سمجھدار نوجوان جن کے اوپر دین کے کام ڈالے جائیں تو وہ شوق سے کریں گے ان کے نام بتائیں.بعض نام لئے گئے لیکن ساتھ ہی واپس لے لئے گئے یہ کہ کر یہ چندہ نہیں دیتے.تو در حقیقت جہاد میں جو معذور لوگ ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی ہے کہ وہ باہر بیٹھے رہیں.روحانی جہاد میں بھی روحانی لحاظ سے بعض لوگ معذور ہوتے ہیں یعنی وہ لوگ جن کی دونوں ٹانگیں درست نہ ہوں ایک ٹانگ بیمار ہو یا مفلوج ہو چکی ہو وہ بے چارہ جہاد میں کیسے حصہ لے سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے مومن کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ اپنی جان کے ساتھ بھی جہاد کرتا ہے، اپنے مال کے ساتھ بھی جہاد کرتا ہے.سورۃ البقرہ کی پہلی آیات ہی میں جو متقی کی تعریف فرمائی گئی ہے وہ بھی یہی ہے الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ:۴) خدا کا خوف رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور عبادتوں کو قائم کرتے

Page 618

خطبات طاہر جلدے 613 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء ہیں وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں.پس وہ لوگ جو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کر سکتے ان کی صحت درست نہیں ہے اور خدمت دین کے لئے صحت مند آدمی چاہئیں.وہ کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے چندے پر زور دیا ہوا ہے اگر ہم خدا کے بندے ہیں تو اس پر زور دیں گے جس پر خدا نے زور دیا ہے.قرآن کریم کا مطالعہ تو کر کے دیکھیں کون سی جگہ ہے جہاں خدمت دین کا ذکر ہو اور اس کے ساتھ مالی قربانی کا ذکر نہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ نے جو بیعت لی اس بیعت کا خلاصہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبہ ) کہ خدا تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں، ان کے مال بھی خرید لئے ہیں بِأَنَّ لَهُمُ الجنَّةَ بیعت کا مطلب یہ ہوتا ہے بیچ دینا.اس سودے کی تعریف یہ ہے، اس بیعت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی جان بھی پیش کرو اور مال بھی پیش کرو.پس ایسے مخلصین نہیں چاہئیں جو جان تو پیش کر سکتے ہیں مال پیش نہیں کر سکتے.سولہواں حصہ چندہ ہے سال، مہینے کا یا جو بھی آمد ہے جو خدا نے دیا ہے.جو اتنے خسیس ہوں کہ خدا کو وہ سولہواں بھی واپس نہ کر سکتے ہوں انہوں نے خدمت دین کیا کرنی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس میں صرف ایسے نو جوانوں یا بڑوں کا قصور نہیں ہے ان کے ضمیر کا بھی کچھ قصور ہوا کرتا ہے.میرا تو تجربہ یہ ہے کہ بہت کم جماعت احمدیہ میں ایسے بدنصیب ہیں جن کے دل خشک ہو چکے ہیں، جو مالی قربانی کر ہی نہیں سکتے.اگر نظام جماعت ان سے صحیح تعلق قائم کرے ، ان کو سمجھائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انہی دلوں میں سے خدا کی خاطر قربانی کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں.بہت سے ایسے دوست میں نے خود دیکھے ہیں جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ بالکل مالی قربانی نہیں کر سکتے لیکن جب ان سے گفتگو کی گئی ان کو سمجھایا گیا تو ان میں زمین آسمان کا فرق پڑ گیا.اس لئے اس طرف بھی یہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے.ہمیں تو بہر حال وہی آدمی چاہئیں جو قرآن کی تعریف کے مطابق دونوں ٹانگوں پر چلنے کی اہلیت رکھتے ہوں.انفس کی قربانی بھی کر سکتے ہوں اور اموال کی قربانی بھی کر سکتے ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے.خدا سے مال کے معاملے میں بدظنی کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے یعنی خدا جب مانگے آپ سے اس وقت آپ کہیں کہ نہیں مجھے ڈر ہے میں کہیں غریب نہ ہو جاؤں.بیوقوفی کی بھی حد ہے.دیا خدا

Page 619

خطبات طاہر جلدے 614 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء ہی نے تو ہے اور وہی آپ کو آزما رہا ہے.آپ اپنا ہاتھ روکیں تو آپ کی خدا کے سامنے کیا حیثیت رہ جائے گی.کسی بچے کو آپ پیار سے کچھ ٹافیاں دیں کچھ چاکلیٹ دیں اور اس کے بعد محبت سے کہیں مجھے ایک چاکلیٹ تو واپس کر دو ایک ٹافی تو دو میں بھی کھاؤں اور وہ ہاتھ پیچھے کر کے اکڑ کر آپ کے سامنے کھڑا ہو جائے کہ نہ میں تو نہیں دوں گا میری کم ہو جائیں گی.کیا آپ کی محبت اس بچے سے ویسی ہی ہوگی جیسی دوسرے بچے سے جس کو آپ نے چند ٹافیاں دی ہوں کھانے کے لئے ایک مانگیں اور وہ ساری پیش کر دے اور اصرار کرے کہ ابا آپ نے ضرور لینا ہے.دونوں تعلقات میں زمین آسمان کا فرق ہے.دونوں سے خون کا ایک ہی طرح کا رشتہ ہے لیکن وہ جو اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار ہے اس کے ساتھ اور قسم کے تعلقات ہوا کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو کبھی خدا اکیلا نہیں چھوڑا کرتا کبھی ان پر غربت نہیں آیا کرتی.ان کے اموال میں بھی برکت پڑتی ہے، ان کی نسلوں میں بھی برکت پڑتی ہے اور جو خدا سے ہاتھ روک لیا کرتے ہیں ان کی اولادیں بھی ضائع ہو جایا کرتی ہیں.یہ تو میرا تجربہ ہے ساری دنیا میں.یعنی ساری دنیا کے احمدیوں پر نظر ڈال کے میں جانتا ہوں کہ جولوگ خدا سے اموال کے معاملہ میں کنجوسی کریں ان کی اولادیں بھی ضائع ہو جایا کرتی ہیں.نہ انفس رہیں گے نہ اموال رہیں گے.اس لئے خود اپنی خاطر اگر اور کسی وجہ سے نہ سہی عقل اور ہوش سے خدا کے ساتھ معاملہ کریں وہی رازق ہے، وہی عطا کرنے والا ہے.جب وہ دین کی ضرورتوں کے لئے آپ سے مطالبہ کرے تو کھل کر اس کو دیا کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ اس سے کتنا بڑھ کر آپ کو عطا کرتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کا مال اپنے پاس نہیں رکھتا.خدا تعالیٰ کے ساتھ فراخ دلی کے ساتھ مالی قربانی کا معاملہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے زمیندار گندم کی بوری لے کر اپنی زمین میں اس کو چھٹا دے دیتا ہے، اسے بکھیر دیتا ہے، ہل کے ذریعہ بو دیتا ہے.بظاہر اس کے دانے مٹی میں مل جاتے ہیں ،ضائع ہو جاتے ہیں لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ زمین ان سب دانوں کو واپس کرے گی بلکہ بڑھا چڑھا کر واپس کرے گی.اتنا دے گی کہ سارا سال میں پھر اسی سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گا اور پھر اس کے باوجود یہ دانوں کی بوری اگلے سال کے بیچ کے لئے پھر بھی بچ جائے گی.زمین میں کیا خاصیت ہے؟ وہ خدا ہے جس نے زمین کو ایسا بنایا ، یہ خدا کی صفات ہیں جو اس کی کائنات میں جلوہ گر

Page 620

خطبات طاہر جلدے 615 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء ہیں کیوں اس بات کو نہیں پہچانتے.مٹی کی کیا حیثیت ہے، ہمٹی میں کون سی فراخی پائی جاتی ہے.یہ سب صفات الہی ہیں جو اس کی تخلیق میں اپنے جلوے دکھاتی ہیں تو کیسے ممکن ہے وہ خدا جس نے زمین میں یہ صفات پیدا کر دیں کہ وہ آپ کے بکھیرے ہوئے دانوں کو واپس کر دیتی ہے، بڑھا کر واپس کرتی ہے وہ خدا جب اس کے دین کے لئے لوگ اپنے دانے اس کے حضور پیش کریں تو وہ ان کو دبا کر بیٹھ جائے اور اصل بھی واپس نہ کرے.اللہ تعالیٰ بہت برکتیں ڈالنے والا ہے، سب رزق اسی کے پاس ہے.اس لئے خدا کی خاطر مالی قربانی میں کمی نہ کریں.مجھے یقین ہے کہ وہ نوجوان جن کے متعلق کہا گیا کہ ویسے تو بڑے اچھے ہیں مخلص ہیں عقل والے بھی ہیں لیکن ذرا یہ کمزوری ہے.ان سے صحیح معاملہ کیا جائے ، ان سے گفتگو کی جائے وہ خطبات جو میں نے اس موضوع پر دیئے ہیں وہ ان کو سنائے جائیں.آپ دیکھیں گے کتنی جلدی ان کے اندر انشاء اللہ پا کیز ہ تبدیلی پیدا ہوگی.جوغریب ہیں ان کو اپنی طاقت کے مطابق دینا چاہئے.اگر کسی کو خدا نے تھوڑا دیا ہے وہ تھوڑا دے کسی کو زیادہ دیا ہے وہ زیادہ دے لیکن وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کے مضمون کو سمجھ کر خدا سے معاملہ کرے.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ بعض غریب غربت کی وجہ سے چندہ دینے سے محروم رہ جاتے ہیں ان کو میں کہتا ہوں آپ کو جتنی توفیق ہے وہی دے دیں.اگر آپ ۱۶/ انہیں دے سکتے تو مجھے لکھ دیں ایک پیسہ دے سکتے ہیں تو پیسہ دیں.آپ کے پیسے سے اس جماعت کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا بظاہر جس کو خدا اربوں دے رہا ہے لیکن آپ کی ذات کو فرق پڑے گا.اس لئے وہ جو کہتے ہیں کہ ہم غریب ہیں ہمیں کلیہ معاف کر دیا جائے چندہ ان سے میں کہتا ہوں نہیں.میں آپ پر ظلم کروں گا اگر آپ کو کلیۃ معاف کر دوں.آپ مجھے بتائیں کہ آپ ایک پیسہ ایک آنہ ایک Peni بھی نہیں دے سکتے ؟ اگر وہ دے سکتے ہیں تو وعدہ کر لیں کہ میں ضرور دوں گا پھر انشاء اللہ خدا تعالیٰ آپ کے مال میں برکت دے گا.پھر ایسا بھی وقت آئے گا کہ آپ زیادہ دینا شروع کردیں گے.ایسے کئی دوست ہیں ایک دفعہ نہیں بیسیوں مرتبہ یہ واقعہ گزر چکا ہے.ایک دوست نے مجھے لکھ کر اپنا چندہ آدھا کر والیا، چوتھا حصہ کروالیا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی ہے بات سمجھ آگئی ہے ہمیں اتنے کی توفیق ہے ہمیں اجازت دیں.میں نے کہا منظور ہے بڑی خوشی کی ساتھ آپ اس طرح کریں اور چند مہینے کے بعد ہی ان کا خط آگیا کہ آپ اپنی وہ اجازت منسوخ کر دیں اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق

Page 621

خطبات طاہر جلدے 616 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۸ء عطا فرمائی ہے کہ ہم پورا دیں بلکہ انشاء اللہ اس سے بھی بڑھ کر دیں گے تو خدا کے معاملات میں کنجوسی بہت ہی بیوقوفی ہے، ایک قسم کی خود کشی ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ احمدی نوجوان یا بڑے جواس کمزوری میں مبتلا ہیں وہ اپنی خاطر اپنے حالات پر نظر ثانی کریں گے اور جماعت کی منتظمہ کو چاہئے کہ ان کو سمجھائیں پیار اور محبت کے ساتھ.خدا تعالیٰ نے میرے سپرد یہ ذمہ داری کی ہے جس طرح میری زبان میں ان کے دل پر اثر ہو سکتا ہے دوسری زبان میں وہ اثر نہیں ہوسکتا.اسلئے نہیں کہ مجھے زیادہ اچھا بولنا آتا ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا ہر احمدی سے ایک ذاتی رشتہ باندھ دیا ہے.اب ایک عام آدمی کسی کو نصیحت کرتا ہے اُس کا وہ اثر نہیں ہوسکتا لیکن جب باپ نصیحت کرتا ہے اُس کا زیادہ اثر ہوتا ہے، ماں نصیحت کرتی ہے اُس کا زیادہ اثر ہوتا ہے.اکثر احمدیوں کا خلیفہ وقت سے ایسا تعلق ہے جو ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہے اور خلیفہ وقت کی آواز میں اس وجہ سے اثر ہوتا ہے خواہ وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں ہی کہہ رہا ہو.تو کیسٹس موجود ہیں وہ لے کر یہ نکالیں پرانی کیسٹس کو ایسے خطبات ہیں جن میں مالی قربانی کا ذکر ہے وہ احمدی نوجوانوں کو ، بڑوں، چھوٹوں کو سنا ئیں اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کے دلوں میں نرمی پیدا ہو جائے گی وہ مالی قربانی میں آگے بڑھیں گے اور ہم جو آج محتاج ہیں کہ زیادہ سے زیادہ احمدی اپنے آپ کو خدمت دین کیلئے پیش کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری ضرورتیں پوری کرنے کے نئے سامان پیدا ہو جائیں گے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ یہاں کی جماعت اپنے مخفی جو ہروں کو آگے باہر نکالے گی.یہ کہنا غلط ہے.میں ہرگز آپ کے اوپر باطنی نہیں رکھتا کہ آپ ایک مردہ دل جماعت ہیں یا آپ کے اندر صلاحیتیں موجود نہیں.میں خدا کے فضل سے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکا ہوں.آپ میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو دنیا کی کسی بھی نہایت ترقی کرنے والی جماعت میں موجود ہیں.آپ میں کسی دوسرے سے کوئی کمی نہیں.یہ چند نصیحتیں جو میں نے آپ کے سامنے کی ہیں ان پر عمل کریں پھر دیکھیں انشاء اللہ دیکھتے دیکھتے یہاں کے حالات تبدیل ہو جائیں گے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور آئندہ میں اسی وقت یہاں آؤں گا جب آپ لوگ کثرت سے پھیل رہے ہوں.ہر طرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئی حدیں پار کر رہے ہوں گے.پھر مجھے دعوت دیں اسکے بغیر میں دوبارہ یہاں نہیں آؤں گا.

Page 622

خطبات طاہر جلدے 617 خطبه جمعه ۹ ر ستمبر ۱۹۸۸ء دوره تنزانیہ اور جماعت تنزانیہ کو تین قیمتی نصائح (خطبه جمعه فرموده ۹ رستمبر ۱۹۸۸ء بمقام دار السلام تنزانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کا بہت احسان ہے کہ اُس نے مجھے آپ کے اس پیارے وطن تنزانیہ میں آنے کی توفیق عطا فرمائی اور جیسا کہ میں بارہا پہلے بھی کہہ چکا ہوں جس ملک کی بھی بات کروں ، جس ملک میں بھی جاؤں، جہاں جہاں کسی وطن میں احمدیت موجود ہے یا جو ملک بھی احمدیت کا وطن ہے وہ میرا بھی وطن ہے اور اس سے زیادہ میں کسی وطن کی محبت کی اور رنگ میں بات نہیں کر سکتا.اس لیے جو آپ کا وطن ہے وہ میرا بھی وطن ہے اور جتنی آپ کو اس وطن سے محبت ہے، مجھے آپ سے کم نہیں.در حقیقت اسلام کا ایک پہلو سے تو کوئی وطن بھی نہیں کیونکہ تمام دنیا کا مذہب ہے اور ایک پہلو سے ہر ملک اسلام کا وطن ہے.رحمہ العلمین ﷺ کو جب خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کا فرمانروابنا کر بھجوایا تو اس وقت آپ عرب کے نہ رہے بلکہ تمام دنیا کے ہو گئے اور آپ کے بچے غلام بھی دراصل یہ عالمی حیثیت رکھتے ہیں.پس جس طرح آپ کا وطن میرا وطن ہے.میرا وطن آپ کا بھی وطن ہے اور اسی طرح جہاں جہاں احمدیت موجود ہے وہ سب دنیا کے سچے مسلمانوں کا وطن بن جاتا ہے.یہاں آکر مجھے خاص طور پر اس لیے بھی خوشی ہوئی کہ یہ ہمارے بہت ہی پیارے اور مخلص احمدی دوست عمری عبیدی مرحوم کا وطن ہے.پس وطن کی جو تعریف میں نے کی ہے.وہ اپنی جگہ لیکن اُس کے باوجود ہم میں سے بعض بعض جگہوں پر پیدا ہوتے ہیں وہاں شہری حقوق رکھتے ہیں.اس لحاظ سے اُن کو اُس وطن سے دوہری نسبت ہو جایا کرتی ہے.پس یہ جو وطن ہے کے اس پہلو سے عمری عبیدی مرحوم کو یہاں سے دوہری نہیں بلکہ تہری

Page 623

خطبات طاہر جلدے 618 خطبه جمعه ۹ر ستمبر ۱۹۸۸ء نسبت تھی اور بھی کئی نسبتیں تھیں.وہ اس ملک کے ایک ہونہار فرزند تھے جو بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے تھے اور تمام ملک کی محبت اور اُمید کی نظریں اُن پر پڑتی تھیں بہر حال عمر نے وفا نہ کی اور چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئے لیکن اتنی چھوٹی عمر میں اتنا بڑا ، وسیع اور نیک نام پیدا کرنا یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص ، سعادت عطا فرمائی تھی.اس لیے اس وطن میں آنا میرے لیے خصوصیت کے ساتھ ایک دل کی تسکین کا موجب ہے اور ساتھ غم کا بھی کیونکہ اگر ان کی زندگی میں یہاں آنے کی توفیق ملتی تو اور بھی زیادہ لطف رہتا.آج جو اذان آپ نے سنی ہے جمعہ سے پہلے یہ انہی کے ایک ہونہار فرزند بکری عبیدی صاحب نے دی تھی جو واقف زندگی ہیں اور انشاء اللہ عنقریب جامعہ سے فارغ ہو کر اُن تمام نیکیوں کی علمبر داری کا کام.کریں گے اس وطن میں آکر جو ان کے والد نے کی تھیں اور جن کے وہ ہمیشہ علمبر دار ہے.دوسری خوشی کی خاص وجہ یہ ہے کہ کل جب میں آپ کے ساتھ مجلس میں بیٹھا تو میں نے اندازہ لگایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میں یہاں کی جماعت میں خصوصیت کے ساتھ اخلاص پایا جاتا ہے اور دین کی محبت ہے اور دین کے بارے میں وہ تدبر اور فکر کرتے رہتے ہیں.بہت سی دور دور کی جماعتوں کے نمائندے یہاں تشریف لائے ہوئے تھے.کوئی ہزار میل سے، کوئی آٹھ سو میل سے، کوئی سات سو میل سے یہ ایک وسیع ملک ہے جہاں جماعتیں بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور ملک کے اقتصادی حالات اور مواصلاتی حالات ایسے ہیں کہ جس کے نتیجے میں سفر میں بہت ہی صعوبتیں ہیں اور مالی لحاظ سے دقتیں ہیں.بہت زیادہ خرچ کرنے کی عموماً دوستوں میں استطاعت نہیں.اس کے باوجود نہایت ہی تکلیف دہ سفر کو اختیار کرنا اور پھر اتنا لمبا سفر جس میں بہت زیادہ خرچ بھی کرنا پڑا.یہ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک غیر معمولی جماعت سے محبت نہ ہو اُس وقت تک یہ توفیق نہیں مل سکتی.کوئی حصہ دور کا ایسا نہیں ہے جہاں سے دوست یہاں تشریف نہیں لائے ہوئے تھے اور ابھی بہت سے ایسے ہیں جن سے تعارف نہیں ہوسکا.آج شام کو جب ہم اکٹھے بیٹھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اُن سے بھی مزید تعارف ہوگا.گزشتہ چند سال سے میں یہ جائزہ لیتارہا ہوں اور یہ بتاتے ہوئے مجھے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ مسلسل آپ کی جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیداری کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں اور جماعتوں میں نشو و نما پہلے سے بڑھتی چلی جارہی ہے.گزشتہ چند سال سے پہلے ایک عرصہ ضرور ایسا گزرا ہے جس میں آپ نے کچھ آرام کیا ، کچھ غفلت کی ، کچھ نیند کے مزے لئے.بہر حال بالعموم یوں

Page 624

خطبات طاہر جلدے 619 خطبه جمعه ۹ رستمبر ۱۹۸۸ء معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک بیدار اور پر خلوص جماعت ہے جو اپنی پوری ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت میں خدمت دین میں مصروف ہے.الا ماشاء اللہ چند بیعتیں کہیں کہیں سے آجایا کرتی تھیں اور چند اچھی خبریں بھی مل جاتی تھیں.لیکن یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ سارے ملک میں بیداری کا احساس ہے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں سمجھتا ہوں کہ نمایاں فرق پڑ رہا ہے اور ابھی اور بہت گنجائش موجود ہے.اس رفتار سے اگر آپ اُٹھتے رہے، بیدار ہوتے رہے اور نیک کاموں میں آگے بڑھتے رہے تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ بہت جلد انشاء اللہ اس ملک میں عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوں گی.جماعت احمد یہ تنزانیہ کے لیے بہت سے نئے منصوبوں کی ضرورت ہے.ضرورت ہے کہ یہاں کثرت کے ساتھ سکول پھیلائے جائیں خواہ وہ چھوٹے درجے کے ہی ہوں اور ضرورت ہے کہ یہاں کثرت کے ساتھ ہسپتالوں کا انتظام کیا جائے خواہ وہ چھوٹے چھوٹے شفاخانے ہی کیوں نہ ہوں.اس ضمن میں انشاء اللہ تعالیٰ بخوبی منصوبے تیار کیے جائیں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاں جہاں جماعتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیداری پائی جاتی ہے.اُن کا حق ہے کہ اُن کی ہر طرح مدد کی جائے.اس لیے خصوصیت کے ساتھ اُن جماعتوں اور اُن علاقوں کو اولیت دی جائے گی جہاں بیداری کے آثار نمایاں ہیں اور عنقریب انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ یہاں جماعت کی طرف سے نیک کاموں کے کئی منصوبے بروئے کار لائیں جائیں گے.جہاں تک شفا خانوں کا تعلق ہے اُس میں میرے ذہن میں دو پروگرام ہیں.شفا خانوں میں جہاں تک ایسے قابل ڈاکٹروں کا تعلق ہے جو سرجری بھی کر سکتے ہوں.آپریشن کا کام کر سکتے ہوں.اُس میں ہمارے ذرائع کچھ محدود ہیں اور جب تک ماہر سرجنز بیرونی دنیا سے اپنے آپ کو وقف نہ کریں اُس وقت تک افریقہ کی تمام ذمہ داریاں ادا نہیں ہو سکتیں.اس لیے دوسری صورت یہ ہے کہ وہ احمدی نوجوان جو ذہین ہوں اور سائنس کی تعلیم پارہے ہوں اگر وہ ڈاکٹر بننا چاہیں اور اُن کے مالی ذرائع اجازت نہ دیں تو ہم ایسے تمام احمدی نوجوانوں کو جو اپنی زندگی خدمت دین کے لیے پیش کرنا چاہتے ہوں اُن کو انشاء اللہ اعلی طبی تعلیم حاصل کرنے میں مدد دیں گے.اس طرح افریقہ کے مختلف ملکوں میں مقامی احمدی واقف زندگی دوست ایسے پیدا ہو جائیں گے جو یہاں یا باہر جا کر دوسرے ملکوں میں اعلی طبی

Page 625

خطبات طاہر جلدے 620 خطبه جمعه ۹ ستمبر ۱۹۸۸ء تعلیم حاصل کریں اور واپس آکر پھر اپنی قوم کی اور جماعت کی خدمت کریں.دوسری صورت یہ ہے کہ یہاں ہومیو پیتھک ڈسپنسریاں قائم کی جائیں اور ہومیو پیتھک علاج چونکہ بہت ہی سنتا ہے.اس لیے یہ ممکن ہے کہ بہت جلدی تمام احمدی جماعتوں میں یا بعض دوسرے ایسے علاقوں میں جو غربت کی وجہ سے مہنگا علاج نہ کروا سکتے ہوں ہم ہومیو پیتھک طبیبوں کا جال پھیلا دیں.ہومیو پیتھک علاج عموماً افریقہ کے ممالک میں معروف نہیں اور افریقہ کی کوئی ایک بھی حکومت نہیں جو ہو میو پیتھک علاج کو تسلیم کرتی ہو.اس پہلو سے کچھ قانونی دقتیں ہماری راہ میں حائل ہوسکتی ہیں مگر اُمید ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دور ہو جائیں گی.جب میری سیرالیون کے پریذیڈنٹ صاحب سے ملاقات ہوئی تو اُن کو بھی میں نے یہ مشورہ دیا اور انہوں نے بڑی سنجیدگی اور ہمدردی سے اس مشورے کو سُنا.مزید گفت و شنید ہوگی انشاء اللہ اور ہم اُمید رکھتے ہیں کہ سیرالیون کی حکومت اسے تسلیم کر کے اس سے فائدہ اُٹھائے گی.ابھی حال ہی میں تین دن پہلے میں یوگنڈا میں تھا.یوگنڈا کے صحت کے وزیر اور یوگنڈا کے تعلیم کے وزیر سے بھی میری اس معاملے میں تفصیلی گفتگو ہوئی.اگر چہ اُن کو اس سے پہلے کچھ بھی علم نہیں تھا کہ ہومیو پیتھک کیا چیز ہے لیکن جب میں نے انہیں تفصیل سے سمجھایا تو اُن لوگوں میں نمایاں دلچسپی کے آثار دیکھے.اس لیے میں اُمید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ یہاں بھی اگر حکومت سے گفت و شنید کی گئی تو وہ جماعت احمدیہ کو اس میدان میں خدمت کی اجازت دے دیں گے.یوگنڈا کے وزیر تعلیم اور جماعت سے میں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ میں بہت جلد وہاں ایک ہومیو پیتھک سکول کا اجراء کروں گا انشاء اللہ.اس غرض سے تمام دنیا میں جو احمدی ہو میو پیتھک کی با قاعدہ سند رکھتے ہوں اور تعلیم یافتہ ہوں اُن سے میں اپیل کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنے نام خدمت دین کے لیے پیش کرنا چاہیں تو ایک سال ، دو سال یا تین سال ، کوشش کریں کہ تین سال کے لیے اپنے آپ کو ضرور وقف کریں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ صرف یوگنڈا ہی میں نہیں ، تنزانیہ میں بھی ایک ہومیو پیتھک کالج یا سکول کھولنا چاہئے.اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے بہت سے نوجوان جو ویسے بے کار ہیں.اُن کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک ذریعہ معاش بھی میسر آئے گا اور وہ آزادانہ اپنے لیے ایک لائحہ عمل تلاش کر سکیں گے.یعنی جہاں چاہیں رہیں اُن کے لیے کوئی پابندی نہیں رہے گی.جس علاقے میں جانا چاہیں خدمت دین بھی کریں اور اپنی روزی بھی خود کمائیں اور ملک کو ضرورت اتنی ہے یہاں

Page 626

خطبات طاہر جلدے 621 خطبه جمعه ۹ر ستمبر ۱۹۸۸ء حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی اکثریت صحیح معنوں میں طبی امداد سے محروم ہے.اس لیے ہر پہلو سے اس سکیم میں انشاء اللہ برکت ہی برکت ہوگی.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے پروگرام ہیں جن سے انشاء اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ آپ کو متعارف کیا جائے گا اور جہاں تک جماعت احمد یہ عالمگیر کا تعلق ہے وہ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اپنے افریقین بھائیوں کی حتی المقدور خدمت کرے گی اور خدمت کی نئی نئی راہیں اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے کھولتا چلا جارہا ہے اور اس سلسلے میں یہاں جانے سے پہلے مجلس عاملہ میں تفصیلی گفتگو بھی کروں گا اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اب جماعت یہاں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرنے والی ہے.تنزانیہ کی جماعت کے لیے یا تمام جماعتوں بلکہ افراد کے لیے میری تین نصیحتیں ہیں.جن کو میں اُمید رکھتا ہوں آپ توجہ سے سنیں گے اور اُن پر عمل کرنے کا وعدہ کریں گے ،اقرار کریں گے ، دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان وعدوں اور اقراروں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ نماز کو قائم کریں.جہاں تک نماز کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا اندازہ ہے کہ یہاں نماز کا معیار کافی اچھا ہے اور بعض تو دوسرے ممالک کے مقابل پر یہاں نمازوں کی طرف توجہ ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز پڑھنے کی ہدایت نہیں فرمائی بلکہ نماز کو قائم کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور نماز قائم کرنے کے بہت سے مطالب ہیں.وہ نماز جو بغیر سمجھ کے پڑھی جائے اُسے ہم نماز قائم کرنا نہیں کہہ سکتے کیونکہ قیام ایک ٹھوس چیز کو کہتے ہیں کہ جب ایک چیز جو مضبوطی کے ساتھ نصب ہو چکی ہو اور اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کی طاقت رکھتی ہو.اس لیے نماز کے لوازمات کو درست کرنا بھی ضروری ہے اور اُس کی بنیادوں کو درست کرنا بھی ضروری ہے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ تمام جماعتوں میں یہ تحریک چلنی چاہئے کہ معلم کا انتظار نہ کریں بلکہ اُن میں سے جو بھی نماز کا ترجمہ جانتا ہو اور متقی ہو اور کچھ نہ کچھ صاحب علم ہو.وہ اپنے اپنے ہاں درس قائم کرے اور خصوصیت کے ساتھ نئی نسلوں کو نماز کا ترجمہ خوب اچھی طرح یاد کروایا جائے اور جماعت کی خواتین کو اُس پروگرام میں ضرور شامل کیا جائے.اگر آپ کی عورتیں اور آپ کی بچیاں نماز کا ترجمہ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس کے ساتھ ہی نماز کے مسائل کیونکہ نماز کے قیام میں نماز کے مسائل بھی شامل ہیں.وضو کس طرح ٹوٹتا ہے، غسل کب واجب ہوتا ہے، کیا پہلے کرنا چاہئے ، کیا بعد میں کرنا چاہیے.دعائیں کیا کیا ہیں، آداب کیا

Page 627

622 خطبه جمعه ۹ر ستمبر ۱۹۸۸ء خطبات طاہر جلدے ہیں، نماز با جماعت پڑھنے کے سلسلے میں مسائل کیا ہیں.یہ ساری وہ باتیں ہیں جومل کر جماعت کو قائم کرتی ہیں.اس لیے جب میں کہتا ہوں نماز کو قائم کریں تو میرے ذہن میں یہ سارا پروگرام ہے تفصیلی.اس پہلو سے جہاں معلم میسر ہیں وہاں معلمین کو اولیت اس کام کو دینی چاہئے.جہاں معلم میسر نہیں ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا وہاں صاحب علم نیک لوگ اپنی طرف سے فورا درس جاری کر دیں اور خواتین کو نظر انداز نہ کریں.یہ سب سے اہم بات ہے.جیسا کہ میں کہہ رہا تھا اگر آپ کی عورتیں ، آپ کی بچیاں نماز کو قائم کرنے والی بن جائیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آئندہ سینکڑوں سال تک آپ کی نسلیں محفوظ ہو جائیں گی کیونکہ گھروں میں عورتیں ہی ہیں بچپن سے قوم کے دل میں کسی بات کی عظمت پیدا کیا کرتی ہیں.دوسری نصیحت یہ ہے کہ تبلیغ کے کام کو بہت زیادہ آگے بڑھا ئیں اور ہر احمدی مرد ہو یا عورت بڑا ہو یا چھوٹا کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُسے سال میں کم سے کم ایک اور احمدی بنانے کی توفیق ملے.اس سلسلے میں جن لوگوں کو علم نہیں ہے وہ گھبراتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم دوسرے سے بات کریں گے تو اُسے کیا بتا سکیں گے.لیکن تبلیغ کے لیے اوّل تو بہت علم کی ضرورت نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوں اور دعا کرتے ہوئے اُس کی خاطر لوگوں کو نیکی کی طرف بلا نا شروع کریں تو آپ کی بات میں ایک خاص برکت پڑتی ہے.آپ کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے اور قوت عطا ہوتی ہے اسکو.اس لیے وہ دعوت اللہ کرنے والا ، وہ خدا کی طرف بلانے والا جو خدا کی محبت سے آراستہ ہو ، اُس کے دل میں خدا کی محبت بھی ہوئی ہو اور وہ دعا کرتا ہو اُس کی راہ میں کبھی بھی علمی کمزوری حائل نہیں ہوا کرتی.اس لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور نیکی اختیار کرتے ہوئے خدا کی خاطر صاف لفظوں میں ہمدردی سے لوگوں کو احمدیت کی طرف بلانا شروع کر دیں.جہاں تک علم کی کمی کا تعلق ہے اُس کمی کو آج کے زمانے میں کسی حد تک کیسٹس کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے.کچھ تبلیغی مضمون پر کیسٹس کینیا میں بنی ہوئی ہیں جو اچھی علمی حیثیت رکھتی ہیں اور کچھ آپ اپنے حالات میں یہاں خود تیار کر سکتے ہیں.آپ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرکز سلسلہ میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ مر بیان کی ایک بڑی تعداد کام کر رہی ہے.جن میں بہت سے ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خود تنزانیہ ملک کے باشندے ہیں.اردو بھی جانتے ہیں اور سواحیلی تو اُن کی اپنی زبان ہی ہے ،عربی سے بھی واقفیت رکھتے ہیں.اس مشتمل

Page 628

خطبات طاہر جلدے 623 خطبہ جمعہ ۹ ر ستمبر ۱۹۸۸ء لیے وہ اس قابل ہیں کہ اگر چاہیں تو چھوٹی چھوٹی آسان تبلیغی کیسٹ تیار کرنا شروع کریں جو عام فہم ہوں اور لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل نہ ہو اور بظاہر زیادہ دلائل دینے سے ایک دوسادہ دلیلیں اختیار کر لیں اور خوب تفصیل سے ان پر روشنی ڈالیں.ایسی کیسٹس کو اگر سارے ملک میں عام کر دیا جائے تو اُس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے.تیسری نصیحت یہ ہے کہ بدرسموں سے بچنے کے خلاف مہم چلائیں.جب جماعت یا کوئی بھی مذہبی الہی جماعت ترقی کرتی ہے تو بعض خطرات بھی در پیش ہوتے ہیں.بعض دفعہ پرانی بدر میں اسی طرح ساتھ چھپٹتی رہتی ہیں اور جماعت میں اس طرح داخل ہو جاتی ہیں جیسے کسی صحت مند سوسائٹی میں کوئی بیماریاں پھیلانے والا مریض داخل ہو جائے.اس طرح باہر کی بد رسمیں الہی جماعت کے اندر داخل ہونا شروع ہو جاتی ہیں.دوسرے بعض دفعہ پہلے سے ہی بعض جماعتوں میں بعض آبائی طور پر رسمیں چلی آتی ہیں جو دین کے لیے مہلک ہوتی ہیں.مجھے کل کی سوال و جواب کی مجلس سے اندازہ ہوا ہے کہ اس طرف جماعت میں خصوصی توجہ نہیں کی.اس لیے میں انتظامیہ کو بھی متوجہ کرتا ہوں کہ وہ پورا جائزہ لیں ملک میں کہ کون کون سی ایسی خلاف اسلام رسمیں یہاں رائج ہیں جن کے خلاف جہاد ہونا چاہئے اور جماعت میں جو انتظام ہے اُس کے اوپر بھی نظر ثانی کریں.اسی طرح میں آپ سب سے تمام احمدی احباب مرد وزن سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ خود بھی اپنے آپ کو بُری رسموں سے آزاد کرنے کی کوشش کریں اور بدی کے خلاف بالعموم لوگوں کو نصیحت کریں سختی سے نہیں لیکن محبت اور پیار اور ہمدردی سے اور اس بات کو اپنا شعار بنا لیں کہ نیک باتوں کی نصیحت کیا کریں گے اور بُری باتوں سے روکا کریں گے.کہا جاتا ہے کہ مختلف ملکوں کی مٹی میں بھی مختلف تاثیر ہوتی ہے.جو انسان کے اخلاق پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.بعض ملکوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اُس کی مٹی میں وفا پائی جاتی ہے.مراد یہ ہے کہ وہاں بسنے والے لوگ وہاں کی اقوام عموماً وفادار ہوتی ہے.کہا جاتا ہے کہ بعض ملکوں کی مٹی میں بے وفائی یا غداری پائی جاتی ہے.قطع نظر اس کے کہ مٹی کا اثر ہے یا کچھ اور یہ ہم ضرور جانتے ہیں کہ روایتاً بعض ملکوں میں بے وفائی اور غداری زیادہ پائی جاتی ہے.آپ کی مٹی کے متعلق یہ میر احسن ظن ہے کہ آپ کی مٹی میں وفا کا مادہ پایا جاتا ہے کیونکہ میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ افریقہ کے مختلف ممالک سے بہت سے ایسے خاندان یا لوگ ہیں جو یہاں لمبا عرصہ زندگیاں گزار کے باہر گئے لیکن کسی نے مڑ کے

Page 629

خطبات طاہر جلدے 624 خطبه جمعه ۹ر ستمبر ۱۹۸۸ء اپنے ملک کی طرف نہیں دیکھا اور یہ کوشش نہیں کی کہ اپنے ملک جس سے انہوں نے بہت حد تک استفادے کئے.ایک لمبے عرصے اُن کے خاندان یہاں بستے رہے اور ان ملکوں سے فائدے اُٹھائے.ان میں سے کسی خاندان نے مڑ کے یہ نہیں دیکھا کہ ہم اُس ملک کے ساتھ وفا کرتے ہوئے اُس کے احسان کا بدلہ اُتاریں اور اُس کی بہبود کے لیے کچھ خرچ کریں سوائے تنزانیہ کے.تتنزانیہ میں جو خاندان یہاں آباد ہوئے وہ ایشائی لوگ جو کسی زمانے میں یہاں رہا کرتے تھے پھر یہاں چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ، کوئی پاکستان آباد ہو گئے ،کوئی انگلستان آباد ہو گئے.یہاں ایک سے زائد مرتبہ مجھے ذاتی طور پر مشاہدہ ہوا کہ ان خاندانوں کے افراد نے بڑے اصرار کے ساتھ میرے سامنے ،میرے پاس رقوم پیش کیں کہ ہمیں اپنے وطن یعنی سابق وطن تنزانیہ سے ایسی محبت ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اُس کی بہبود کے لیے ہم کچھ خرچ کریں.ایک دفعہ ہوا ، دو دفعہ ہوا، تین دفعہ ہوا، بار، بار میرے سامنے یہ بات آئی اور وہ مختلف لوگ تھے، مختلف جگہوں کے رہنے والے تھے.اس سے میں نے انداز لگایا کہ آپ کی وطن کی مٹی میں وفا کا مادہ پایا جاتا ہے.پس اس وفا کے مادے کو احمدیت اور اسلام کے لیے بھی استعمال کریں.سب سے زیادہ وفا اپنے خدا سے ہونی چاہئے.جب آپ بندوں کے وفادار ہیں تو میں اُمید رکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ اپنے رب سے بھی وفا کریں گے اور اس کے دین کو پھیلانے کے لیے ہر ممکن سعی کریں گے اللہ آپ کے ساتھ ہے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد انگریزی میں فرمایا: Inshaallah we'll say the Asr prayer immidiately after Juma.I am on journey I'll say two Rakaat, Those who are not on journey they will complete their four Rakaat before saying Aslamualykum with me.یعنی انشاء اللہ ہم جمعہ کے فوراًبعد عصر کی نماز بھی ادا کریں گے.میں سفر پر ہوں اس لئے دو رکعت ادا کرونگا جو سفر پر نہیں ہیں وہ السلام علیکم سے پہلے چار رکعات پوری کر لیں.

Page 630

خطبات طاہر جلدے 625 خطبه جمعه ۶ ار ستمبر ۱۹۸۸ء دورہ ماریشس.احباب کو اخلاقی و روحانی ترقی اور دعوت الی اللہ کی نصیحت ( خطبه جمعه فرموده ۶ ارستمبر ۱۹۸۸ء بمقام ماریشس ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے مغربی افریقہ کے بعد مشرقی افریقہ کے دورے کی بھی توفیق بخشی اور یہ مشرقی افریقہ کے اس سفر کا آخری ملک ہے جس میں میں آج آپ سے خطاب کر رہا ہوں.ماریشس مجھے بچپن ہی سے بہت عزیز رہا ہے کیونکہ جب میں ربوہ میں جامعہ کا طالب علم تھا بچپن تو نہیں کہنا چاہئے لیکن کافی عرصے سے، طالب علمی کے زمانے سے مجھے بہت عزیز رہا ہے.جب میں طالب علم تھا تو ماریشس کے طالب علموں سے بھی جو کالج میں پڑھتے تھے یا جامعہ میں آتے رہے.اسی طرح جلسہ سالانہ پر ماریشس سے آنے والے مہمانوں سے بھی بسا اوقات بے تکلف مجلسیں لگیں، ان کے ساتھ تعلقات بڑھے اور قریب سے ماریشس والوں کو دیکھنے کا موقع ملا.مجھ پر یہ تاثر تھا کہ ماریشس میں بسنے والے بہت خوش اخلاق لوگ ہیں ان میں مزاح کا ذوق بھی بہت ہے یعنی Scence of Humour جس کو کہتے ہیں اور جماعت کے ساتھ بہت اخلاص رکھنے والے اور ذہین ہیں، زرخیز ذہن ہیں ان کے اور اگر یہ خدمت دین کے اوپر مستعد ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت تیزی کے ساتھ نشو ونما پا سکتے ہیں.یہ میرے عمومی تاثرات تھے ماریشس کے متعلق.اس لئے ہمیشہ دل میں یہ خواہش رہی کہ کسی وقت ماریشس جا کر وہاں کے حالات کا خود

Page 631

خطبات طاہر جلدے جائزہ لوں.626 خطبه جمعه ۶ ار تمبر ۱۹۸۸ء بعد ازاں کافی لمبے عرصے کے بعد غالباً ۱۹۷۶ء میں پہلی مرتبہ مجھے عارضی طور پر وکیل التبشیر مقرر کیا گیا اور ان دنوں میں خصوصیت سے جہاں میں نے باقی ملکوں کے حالات پر نظر ڈالی وہاں ماریشس کے حالات کا بھی جائزہ لیا.بعض پرانی فائلیں پڑھیں، پرانے حالات کو دیکھا کیا ہوتا رہا ہے ، اب کیا ہورہا ہے اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے جو بہت ہی دل آویز اور خوبصورت تصویر میں نے طالب علمی کے زمانے کی بنا رکھی تھی اسے اس مطالعہ کے نتیجے میں بہت سے زخم پہنچے اور وہ تصویر ویسی نہ رہی جیسا کہ میں نے سوچی تھی.بہت سی چیزیں جو میرے سامنے آئیں ان میں خاص طور پر ماریشس کی جماعت کا ایک رجحان تھا جس سے مجھے بہت تکلیف پہنچی اور وہ یہ نظر آیا کہ مختلف وقتوں میں جو مختلف مبلغ یہاں کام کرتے رہے ہیں یہاں ایک ایسا طبقہ ہے یا تھا، خدا کرے کہ تھا کا لفظ زیادہ موزوں ہو جو بعض مبلغین کو بعض دوسرے مبلغین کے متعلق کچھ بدظن کرتا رہا اور اس بات کو گویا ہوا دیتا رہا کہ تم تو اچھے ہو تم سے پہلے ایسے نہیں تھے.چنانچہ یوں معلوم ہوتا ہے جو میں نے فائلوں کا مطالعہ کیا کہ مختلف مبلغ اپنے بعض حلقہ نشین پیچھے چھوڑ گئے.کچھ لوگوں کا وہاں بعض خاص مبلغین سے تعلق ہوا کچھ دوسروں کا بعض دوسروں سے اور وہ یک جہتی جو ایک صحت مند بدن میں ایک روح اور ایک دماغ اور ایک دل کے تابع ہونی چاہئے وہ یک جہتی اس جماعت میں نظر نہ آئی.انگلستان آنے کے بعد جب میں نے وکالت تبشیر کی وساطت اختیار کئے بغیر براہ راست تمام دنیا کی جماعتوں کا مطالعہ شروع کیا اور تمام ڈاک جو دنیا بھر سے پہلے وکالت تبشیر معرفت خلاصے بن کے آیا کرتی تھیں خود دیکھنی شروع کی اور زیادہ گویا نزدیک سے جماعتی حالات کا مطالعہ شروع کیا تو اس وقت بھی ماریشس کے متعلق دو تکلیف دہ چیزیں میرے سامنے آئیں.اول یہ کہ یہاں کی لجنہ اماء اللہ ایک وقت میں یوں لگتا تھا جس طرح عین بیچ میں سے پھٹی ہوئی ہے.نہ عہد یداروں کو لجنہ کی ممبرات پر پورا اعتماد نہ لجنہ کی مبرات کو عہد یداروں پر پورا اعتماد، ایک دوسرے سے بدظنی ، ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا.ایک ایسا تکلیف دہ دور تھا جس کے نتیجے میں مجھے وقتی طور پر لجنہ کو معطل بھی کرنا پڑا اور دوسری بات وہی پرانی بیماری کہ ایک مبلغ کو اٹھانا اور دوسرے مبلغ کو

Page 632

خطبات طاہر جلدے 627 خطبه جمعه ۶ارستمبر ۱۹۸۸ء گرانا اور اس طرح بعض مبلغین کا زیادہ منظور نظر بننا اور ان کی آنکھوں میں زیادہ مخلص بننا.یہ بیماری بھی معلوم ہوتا ہے مری نہیں.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے میرے سامنے ایسی تکلیف دہ باتیں آئیں کہ جن سے پتا چلتا تھا کہ جماعت بجائے اس کے کہ مبلغین کے وجود سے پورا استفادہ کرے اور اگر مبلغ میں کسی میں کمزوری دیکھے تو جو مناسب طریق ہے اس کو اختیار کرتے ہوئے خلیفہ وقت کے سامنے وہ باتیں لائے.آپس میں اس طرح گروہوں میں، پوری جماعت تو میں نہیں کہ سکتا مگر کچھ لوگ ایسے ضرور تھے جو گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آرہے تھے اور بعض ایک مبلغ کے حق میں بعض دوسرے مبلغ کے حق میں اور ایسی طرز اختیار کر لی تھی کہ اگر میں سختی سے دخل نہ دیتا تو جماعت فتنے کا شکار ہوسکتی تھی.ایک اور بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ رشتے ناطے، بیاہ شادی وغیرہ کے سلسلے میں یہاں بہت کم نظم وضبط نظر آیا اور معلوم ہوتا ہے ایک لمبے عرصے سے اس بات کی عادت ہی نہیں ڈالی گئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق جو نظام جاری فرمایا ہے اس کی پابندی کرنی چاہئے اسی میں برکت ہے.جب میں نے جائزہ لیا کہ کیوں ایسا ہورہا ہے تو معلوم ہوا کہ ماریشس کی جماعت کے نوجوان ارد گرد کے گندے ماحول سے کسی حد تک متاثر ہیں اور ان کے اندر جو اسلامی معاشرے کی بنیادی صفات ہونی چاہئیں ان میں کچھ کمزوری پائی جاتی ہے.بے راہروی، بے تکلفی سے بے پردگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ملنا جلنا اور وہ جو مغربی معاشرے نے زہر پیدا کئے ہیں ہمارے سوسائٹی میں ان کے آثار مجھے وہاں بھی نظر آنا شروع ہوئے.اس لئے میں نے محسوس کیا کہ معلوم ہوتا ہے مبلغین نے کمزوری محسوس کی ہے.وہ یہ سمجھتے رہے کہ یہ جماعت ان معاملات میں ایسی روش پر چلی ہوئی ہے کہ اگر ہم نے سختی سے روکنے کی کوشش کی تو باغیانہ رویہ اختیار کیا جائے گا، ہماری بات نہیں مانی جائے گی اور اگر کوئی ایسے دھما کے ہوئے ، کوئی ایسے واقعات ابھر کر سامنے آئے تو مرکز پر شاید ہمارا بھی برا اثر پڑے کہ ہمارے ہوتے ہوئے یہاں کیا ہو رہا ہے تو انہوں نے دراصل حالات سے ایک ایسا سمجھوتہ کیا جس کی ان کو اجازت نہیں تھی.حالات سے ایک ایسا سمجھوتہ کیا جو اسلام سے بے وفائی کے مترادف بنتا ہے.اگر میرا یہ تاثر درست ہے تو ان مبلغین کو، ان منتظمین کو استغفار کرنی چاہئے کیونکہ اس کے نتیجے میں جو برائیاں پہلے

Page 633

خطبات طاہر جلدے 628 خطبه جمعه ۱۶ار تمبر ۱۹۸۸ء رو کی جاسکتی تھیں آج سے دس پندرہ ، ہیں، پچیس سال پہلے وہ آج بڑھ کر اتنی نمایاں حیثیت اختیار نہ کر جاتیں.اس لئے یہاں کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ خاص تربیت کی محتاج ہے ان کو اسلامی اقدار کی طرف واپس لانے کے لئے ایک بہت بڑے جہاد کی ضرورت ہے.یہ تمام باتیں جو میں کھول کھول کر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کسی غصے کے نتیجے میں نہیں نہ آپ کو تکلیف دینا مقصود ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ پوری دنیا کی اصلاح سچائی کے بغیر نہیں ہوسکتی اور سچائی بھی وہ جو صاف ہو اور سیدھی ہو اور اس میں کوئی بدنیتی یعنی تکلیف دینے کی بدنیتی شامل نہ ہو، کوئی طعن وتشنیع نہ ہو.خالصہ للہ انسان کسی درد کو محسوس کر کے صاف بات کہے تو اس سے اثر ہوتا ہے.اس لئے یہاں مجلس میں آپ کی برائیاں کھولنا ہرگز مقصود نہیں لیکن کوئی تو ایسا ہونا چاہئے جو آپ کو بتائے اور آپ کو متنبہ کرے کہ یہ وہ بیماریاں ہیں جو اس جماعت میں پائی جاتی ہیں ان کی اصلاح ہمارا فرض ہے.ساری جماعت کو ان کمزوریوں کے خلاف متحد ہو کر ایک جہاد کرنا چاہئے.یہ طریق وہ ہے جو قرآن کریم کے نزدیک ہمیشہ اصلاح پیدا کرتا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی کمزوریاں چھپانی چاہئیں.جہاں تک ذاتی کمزوریاں ہیں ان کو چھپانا اور خدا تعالیٰ سے ستاری طلب کرنا یہ کوئی بری بات نہیں لیکن جو کمزوریاں ایک عوام کی نظر میں آچکی ہوں ، جو سب کے علم میں آچکی ہوں ان کے متعلق بات نہ کرنا یہ اسلامی آداب نہیں.ایسی کمزوریوں کے متعلق قرآن کریم کی دوسری آیات جو ہیں ان کے تابع عمل ہونا چاہئے.تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران : 1) اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ جب معاشرے میں کچھ برائیاں پیدا ہوں تو کچھ لوگوں کو اپنی ذمہ داری مقرر کر لینی چاہئے کہ وہ بار بار لوگوں تک پہنچیں اور انہیں بری باتوں سے روکیں اور نیک باتوں کی تلقین کریں.ایک اور بات جس کے متعلق مجھے پریشانی رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب سے میں نے دعوت الی اللہ کی تحریک کی ہے کثرت کے ساتھ تمام دنیا کے ممالک میں جہاں جہاں جماعتیں قائم ہیں داعی الی اللہ بھی مستعد ہو گئے اور میری آواز کے اوپر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے اپنی اپنی طاقت اپنی اپنی توفیق کے مطابق کام شروع کر دیا.نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری بیعتوں کا جو سالہا سال سے گراف بنا چلا

Page 634

خطبات طاہر جلدے 629 خطبه جمعه ۶ ار تمبر ۱۹۸۸ء آرہا تھا اس میں ایک نمایاں اضافے کا رجحان پیدا ہو گیا.وہ ممالک جہاں سینکڑوں احمدی ہوتے تھے وہاں ہزاروں شروع ہو گئے ، جہاں بیسیوں ہوتے تھے وہاں سینکڑوں شروع ہو گئے.جہاں دو تین کی تعداد تھی وہاں بیسیوں شروع ہو گئے اور یہ رجحان ایسا ہے جو مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے لیکن ماریشس میں مجھے اس پہلو سے بھی کوئی تبدیلی نظر نہ آئی.اس کے باوجود جب بھی میں ماریشن دوستوں سے ملتا رہا انگلستان میں آکر لوگ مجھے ملتے ہیں یا ویسے باہر کسی بعض دفعہ جماعتوں میں جرمنی وغیرہ میں دورہ کرتے ہوئے ملاقات ہو جاتی ہے.میرا ابھی بھی یہ تاثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو بنیادی طور پر وہ صفات عطا کی ہوئی ہیں کہ اگر آپ ان کو خدمت دین پر لگا دیں اور دعا سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں تو آپ کے اندر وہ مادہ ہے جو انقلابات پیدا کر سکتا ہے.آپ لوگ اگر ا کٹھے ہو کر مستعد ہوکر ، حکمت کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے بعد تبلیغ کا کام شروع کریں تو اتنا بھاری یہاں مواد موجود ہے جو سارانسانی طاقت کو مواد اگر استعمال ہو تو چند سالوں کے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماریشس میں ایک روحانی انقلاب برپا ہو سکتا ہے.دعوت الی اللہ کا پروگرام جماعت کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو پاک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہے اس سے ہم امید رکھتے ہیں کہ جو کام غلبہ اسلام کا ہمیں دور دکھائی دیتا تھا وہ تیزی کے ساتھ قریب آنا شروع ہو گیا ہے اور ہوتا چلا جائے گا.مثال کے طور پر میں چونکہ افریقہ کی بات کر رہا ہوں.افریقہ کے ممالک کا جو میں نے گزشتہ بیعتوں کا جائزہ لیا تو دعوت الی اللہ کے پروگرام کے جاری ہونے کے بعد جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں برکت پڑی ہے اور پرانی بیعتوں کے مقابل پر رفتار میں تیزی آئی ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ چند سال پہلے سارے افریقہ کے ممالک میں جتنی بیعتیں سالانہ ہوا کرتی تھیں اب گزشتہ سال ایک افریقہ کے ملک میں اس سارے افریقہ کے ممالک کی بیعتوں کے مقابل پر دگنی بیعتیں ہو چکی ہیں اور یہ رجحان مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور کم و بیش افریقہ کے ہر ملک پر برابر اطلاق پاتا ہے.تو وہ آواز جو خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ خلیفہ وقت کی طرف سے بلند ہو اس سے تعاون کرنے میں ہی برکت ہے.اس کے ساتھ ہر رنگ میں مخلصانہ تعاون پیش کرنا اور اپنی تمام طاقتوں کو اس راہ میں لگا دینا یہی سچا ایمان ہے.اس لئے آپ باقی دنیا کے ممالک سے پیچھے رہ رہے ہیں.آپ کا یہ

Page 635

خطبات طاہر جلدے 630 خطبه جمعه ۶ ارستمبر ۱۹۸۸ء فرض ہے اور آپ کا یہ حق ہے کہ اس کام کو کریں اور اس لذت سے فیض یاب ہوں کیونکہ جولذت خدا کی راہ میں دعوت دے کر روحانی پھل حاصل کرنے اور ان کا مزہ لینے میں ہے ویسی لذت اس کے سوا آپ کو کہیں نہیں مل سکتی.تبلیغ اور دعوت الی اللہ کے کام میں ایک بات پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے.دعوت الی اللہ میں کامیابی اچھی صحت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.چونکہ ہم روحانی اصطلاحوں میں بات کر رہے ہیں اس لئے اچھی صحت سے مراد اچھی اخلاقی اور روحانی صحت ہے.اس کے بغیر آپ کے دلائل، آپ کے منطقی داؤ پیچ کوئی کام نہیں دے سکتے.اس لئے جو پہلے میں نے باتیں بیان کی ہیں وہ اسی لئے بیان کی تھیں کہ ان کی روشنی میں آپ کو دعوت الی اللہ کا پیغام دوں.جب تک وہ امور جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی طرف آپ توجہ نہیں کرتے اور ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے اس وقت تک آپ کی دعوت الی اللہ کے کام میں برکت نہیں پڑ سکتی.دعوت الی اللہ کے کام میں دلائل کی بھی ضرورت ہے اس میں کوئی شک نہیں.منطقی طور پر انسان کو سمجھ بوجھ ہونی چاہئے کسی سوال کا جواب کیسے دینا ہے اور پھر علم کی بھی بہت ضرورت ہے.بغیر علم کے خالی منطقی زبان کی چالا کی تو بن جائے گی لیکن کوئی مؤثر فائدہ نہیں دے سکتی لیکن اس کے باوجود یہ دو چیزیں کافی نہیں ہیں.دعوت الی اللہ کی کامیابی کے لئے طاقت چاہئے.جو بات کسی کو پہنچائی جاتی ہے اگر وہ کمزوری سے پہنچائی جائے تو اس کا اثر نہیں ہو گا.اگر طاقت سے پہنچائی جائے تو اس کا اثر ہوگا اور روحانی دنیا میں طاقت نیکی سے پیدا ہوتی ہے.نیکی آپ کے بدن کی جان ہے یعنی روحانی بدن کی جان ہے.اگر آپ میں نیکی ہے تو آپ کے روحانی بدن میں بڑی قوت پیدا ہو جائے گی.اگر آپ میں نیکی نہیں ہے تو خواہ کتنی زبان کی چالاکیوں سے کام لیں، خواہ کتنے ہی علم کے جو ہر دکھا ئیں آپ کی دعوت الی اللہ میں برکت نہیں پڑ سکتی.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی نا تواں کمزور مسلول، مدقوق یعنی بیمار آدمی کو جو سل کا مریض ہویائی بی کا مارا ہوا ہو بیچارا اس کو آپ کراٹے کی مشق کرا دیں اور بہت ماہر بنا دیں اس کو کرائے کا اور جوڈو کا کئی قسم کے جو مارشل آرٹس ہیں ان کو اس میں داؤ پیچ سکھا کر خوب ماہر بنا دیں.پھر اس کو کسی دوسرے آدمی سے لڑا دیں جس کو کچھ نہ آتا ہو.تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ کمزور مارا پیٹا آدمی جسے خود اپنی ذات میں کھڑا ہوا نہیں جاتا اس کے داؤ پیچ اس

Page 636

خطبات طاہر جلدے 631 خطبه جمعه ۶ ار ستمبر ۱۹۸۸ء کے کام آجائیں گے.ایک صحت مند نوجوان جس کو کچھ بھی نہ آتا ہو ایسا شخص اس کے ایک مکے کی مار بھی نہیں ہے.وہ چالاکیاں کرتا رہے گا اور وہ مضبوط آدمی اس کو ایک ہاتھ سے یا ایک لات سے اس کو ڈھیر کر سکتا ہے.تو اس لئے داؤ پیچ کافی نہیں ہوا کرتے.داؤ پیچ استعمال کرنے کے لئے طاقت بھی ضروری ہے اور روحانی دنیا میں طاقت ہمیشہ تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے.تبلیغ کے میدان تقویٰ اتنا ضروری ہے کہ تقویٰ کے بغیر نہ آپ کا علم کام آئے گا نہ آپ کی منطق کام آئے گی اور کچھ بھی آپ کو حاصل نہیں ہو گا جب تک آپ کے اندر ، آپ کی بات کے اندر وزن پیدا نہ ہو اور وہ وزن تقوی ہی سے پیدا ہوتا ہے.ویسے بھی دنیا میں اب اس بات کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ دنیا روحانیت کی تلاش کر رہی ہے، دلائل کی تلاش نہیں کر رہی.آج کی دنیا مغرب کی ہو یا مشرق کی ہو باوجود اس کے کہ بدیوں میں بھی آگے بڑھ رہی ہے، باوجود اس کے کہ مادہ پرستی میں بھی کافی بڑھتا ہوا رجحان دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود ایک عمومی بیزاری سی بھی دنیا میں پائی جاتی ہے.اپنے حال پر لوگ خوش نہیں ہیں.وہ لوگ جو ڈرگ کے مریض ہیں یا دنیا کے عام لذتوں میں اندھا دھند پیچھے بھاگ رہے ہیں ان کا رجحان آپ دیکھیں تو وہ مطمئن نہیں اور یہ بے اطمینانی کی کیفیت ترقی یافتہ ملکوں میں بہت زیادہ دکھائی دے رہی ہے.اس لئے ایک Undercurrent کے طور پر جیسے پانی کی سطح کے نیچے ایک روچل پڑے ایک روحانیت کی تلاش کی رو بھی چلی ہوئی ہے.اسی لئے جو آج کل کے زمانے میں Cultus وغیرہ کرشمہ سازیاں یہ لوگوں کی نظر اپنی طرف کھینچ رہی ہیں.نئی Cultus نئے قسم کے دعوے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں وہ کر سکتے ہیں تمہیں روحانی لذت عطا کر سکتے ہیں کثرت سے لوگوں کو کھینچتے ہیں اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دنیا کے لحاظ سے خوب واقف اور ہوشیار لوگ بھی اس آرزو میں کہ شاید ہمیں کوئی روحانی مزہ میسر آجائے ان لوگوں پر بے شمار دولت بھی نچھاور کر دیتے ہیں.چنانچہ ایسی Cultus پچھلے دس بیس سال میں وجود میں آئی ہیں جنہوں نے آنا فانا اربوں ارب ڈالر امریکہ سے کمالئے یا جرمنی سے بے شمار مارکس حاصل کر لئے ، بڑے بڑے محل تعمیر کر لئے.بنیاد تو اس بات پر تھی کہ وہ روحانیت پیش کر رہے تھے.جھوٹی روحانیت صحیح مگر نام روحانیت کا تھا اور روحانیت کی پیاس دنیا میں چونکہ پیدا ہو چکی ہے اس لئے لوگوں نے اس طرف توجہ کی.

Page 637

خطبات طاہر جلدے 632 خطبه جمعه ۶ ار ستمبر ۱۹۸۸ء جماعت احمدیہ کے پاس حقیقی روحانیت کا ہتھیار ہے.ایسی روحانیت جو خدا سے ملاتی ہے.جو روز مرہ زندگی میں خدا سے تعلقات قائم کروا دیتی ہے اور کسی ایک شخص کا انسان کو محتاج نہیں رہنے دیتی کہ فلاں شخص کی معرفت میں خدا سے ملوں بلکہ ایک Scientific Phenomenon کے طور پر ایک ایسے طبعی قانون کے طور پر جس پر جو عمل کرے اس کا نتیجہ دیکھ سکتا ہے.احمدیت خدا تعالیٰ سے ایک لقائے عام کی دعوت دیتی ہے سب دنیا کو.جو چاہے آزما کے دیکھے.خدا اس کا ہو جائے گا، اس سے پیار کرے گا، اس کی دعاؤں کو قبول کرے گا اس کے لئے عجائب کام دکھائے گا اس کے دل کو تسکین بخشے گا.یہ ہے احمدیت کا پیغام جو اور دنیا میں کسی قوم کے پاس نہیں.یہ ہوتے ہوئے اس کو چھوڑ کر اس کے بغیر ، سب سے قومی ہتھیار کو لئے بغیر آپ میدان میں نکل جائیں تو اس کو حد سے بڑھی ہوئی سادگی کے سوا اور انسان کیا کہہ سکتا ہے.پس حقیقی بات یہ ہے اور اس پر میں اس خطاب کو ختم کروں گا کہ آپ کو تبلیغ میں سب سے زیادہ کام آنے والی چیز روحانیت ہے اور روحانیت سے مراد وہ کچی روحانیت ہے جو تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے.دکھانے کی روحانیت نہیں جو لوگوں کو اپنی مصنوعی نیکی کی طرف بلوانے کے لئے اختیار کی جاتی ہے بلکہ ایسی روحانیت جو آپ دوسروں کو عطا کر سکتے ہیں، جوٹھوس حقیقت کے طور پر ہیں.جوخدا کی سچی محبت سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے.اس کی کیفیت بدل جاتی ہے، اس کے اخلاق بدل جاتے ہیں ، وہ دکھائی دینے لگتا ہے دنیا کو کہ ہاں اس کا تعلق کسی طاقتور ہستی سے ہو چکا ہے.اس کے اندر خدائی کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں.یہ وہ روحانیت ہے جو دنیا کی ہر مقابل طاقت پر غالب آنے کی طاقت رکھتی ہے اور اگر کسی داعی الی اللہ میں اس قسم کی روحانیت ہو یعنی سادہ لفظوں میں اللہ تعالیٰ سے سچی محبت پیدا ہو جائے اس سے پیار پیدا ہو جائے اور خدا کے قرب کے آثار وہ دیکھنے لگے ، اس کو اپنی ذات میں محسوس ہونے لگے کہ ہاں اب میں خدا کا ہو چکا ہوں تو ایسے شخص کی آواز میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے وہ دلوں کو مغلوب کر دیتی ہے ایسا گہرا اثر پیدا کرتی ہے کہ فطرت کے اندر ڈوب جاتی ہے.یہ جو آوازہ ہے جس کی آج دنیا انتظار کر رہی ہے اور اس آواز کے بغیر آپ کامیابی سے دعوت الی اللہ نہیں کر سکتے.آپ کا ماحول یہاں دن بدن گندا ہوتا چلا جا رہا ہے اور سب سے بڑی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ

Page 638

خطبات طاہر جلدے 633 خطبه جمعه ۶ ار ستمبر ۱۹۸۸ء اکثر معاشرتی خرابیوں کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیا جا رہا ہے.وہ اسلام جو خیر امت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، دنیا کے تمام امتوں سے بہتر امت ، جس کا شعار ہی یہ مقرر فر مایا گیا کہ تم دنیا کو نیکیوں کی تعلیم دینے والے لوگ ہو اور بدیوں سے روکنے والے ہو.عجیب ظلم ہے یعنی انتہائی تعجب انگیز بات ہے جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسی جماعت کو دنیا نیکیوں کی طرف بلائے اور دنیا ان کی برائیوں کی طرف ان کو متوجہ کرے اور وہ دنیا ایسی دنیا ہو جو دراصل شرک سے تعلق رکھنے والی دنیا ہے.یہاں مسلمانوں کے سوا ہندو بستے ہیں اور ہندوؤں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو موحد ہیں جو ایک خدا کو ماننے والے ہیں اور ان کے اندر اس لحاظ سے روحانیت بھی پائی جاتی ہے لیکن اکثریت بت پرستوں کی ہے.عجیب زمانہ الٹا ہے، عجیب تکلیف دہ انقلاب آیا ہے کہ ہند و مسلمانوں کو کہہ رہے ہیں کہ خدا کے لئے ہوش کرو.یہ برائیاں جو تم اختیار کر رہے ہو، یہ معاشرے کی بدیاں جو تم سارے ملک میں پھیلا رہے ہو یہ مہلک چیزیں ہیں یہ تمہیں بھی ہلاک کریں گی اور ہمیں بھی ہلاک کریں گی.تو وہ ہاتھ جوڑ کر مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہو گئے کہ تم اس ملک کا خیال کرو، ہوش کرو اس کو تباہ ہونے سے بچاؤ ، تمہاری وجہ سے ایک اچھا بھلا ہنستا بستا ملک جس پر خدا نے بڑے فضل کئے ہیں وہ تباہ ہو جائے گا.جہاں ایک دفعہ Drug Addiction کی عادت پڑ جائے وہاں قو میں ہمیشہ تباہ ہو جایا کرتی ہیں کوئی طاقت ان کو پھر روک نہیں سکتی.اس لئے بہت ہی زیادہ خوف اس چیز کے خلاف دنیا کی بڑی بڑی طاقتور مملکتوں میں بھی پیدا ہو چکا ہے.وہ بھی ڈر رہے ہیں اس ہولناک بیماری سے.چھوٹے ممالک خواہ وہ بظاہر خوشحال بھی ہوں ان کے اندر تو طاقت ہی نہیں ہے کہ اس قسم کی بدیوں کو زیادہ دیر برداشت کر سکیں.یہ ان کو کسی قیمت پر بھی زندہ نہیں رہنے دے سکتی.ایسی قو میں جب اس قسم کی بدیوں کا شکار ہو جائیں پھر آخر ہلاک ہو جایا کرتی ہیں اور ظلم کی بات یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کو نصیحت کر رہے ہیں.ظلم کی بات ان معنوں میں کہ مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے.ان کے نقطہ نگاہ سے تو بڑی اچھی بات اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق بخشی کہ اپنے بھائیوں، اپنے ہم وطنوں کو نیکی کی تعلیم دے رہے ہیں لیکن آپ کو تو شرم آنی چاہئے.آپ کو تو سوچنا چاہئے کہ ہمارے مسلمان بھائی حضرت محمد مصطفی اس سے وابستہ ، قرآن کریم سے وابستہ وہ کیا کر رہے ہیں.آپ کو ہرگز اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے کہ آپ ان سے الگ ہیں اخلاق اور کردار میں.اخلاق اور کردار میں الگ ہوں گے

Page 639

خطبات طاہر جلدے 634 خطبه جمعه ۶ ار ستمبر ۱۹۸۸ء تو امت مسلمہ سے کس طرح الگ ہو سکتے ہیں.امت مسلمہ کا آپ ایک حصہ ہیں اور امت مسلمہ پر جو داغ لگتا ہے وہ آپ کے دل کا داغ ہے.امت مسلمہ کو جو چر کا لگتا ہے وہ آپ کے سینے میں زخم ہے.اس لئے آپ ہرگز اس بات پر خوش نہ ہوں کہ آپ بحیثیت فرقہ ان سے الگ اور ممتاز ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ باقی مسلمان تو گندے ہو گئے ہیں احمدی نسبتاً بہتر ہیں.اول تو یہ بات زیادہ دیر چلا نہیں کرتی.وہ گندے ہوئے ہیں تو آپ بھی رفتہ رفتہ گندے ہو جائیں گے اگر آپ ان کو روکیں گے نہیں.اگر ان کی اصلاح نہیں کریں گے تو آپ کی اصلاح کی بھی کوئی ضمانت نہیں.دوسرے یہ کہ اسلام پر داغ لگ رہا ہے، قرآن پر داغ لگ رہا ہے، مسلمانوں پر جو محد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں.آپ کی غیرت برداشت کس طرح کرتی ہے یہ سوچ کر ، اطمینان حاصل کرنے کی اجازت آپ کو کس طرح ملتی ہے کہ آپ الگ ہیں آپ برے نہیں ہیں اس لئے لوگ سب کہتے ہیں دوسرے مسلمان خراب ہیں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کی محبت اور آپ کے عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے خلاف کہیں بھی کوئی انگلی اٹھے تو آپ کو یوں لگے کہ آپ کے دل کا نشانہ لے رہی ہے.اس کی وہ نوک آپ کے سینے میں چھنی چاہئے.اس کے بغیر آپ سچے مسلمان بن ہی نہیں سکتے.اس لئے اپنے دلوں کی فکر کریں ضروری نہیں کہ ان کو تبلیغ کر کے پہلے احمدی بنایا جائے.آپ یہ نصیحت عام کر دیں درد کے ساتھ اور محبت کے ساتھ ان کو سمجھانا شروع کریں کہ خدا کے واسطے اسلام کو بدنام نہ کرو.تم ہمیں سچا سمجھویا نہ سمجھو، جھوٹا سمجھو یا جو چاہو کہ لولیکن خدا کے لئے محمد مصطفی امیہ کی طرف منسوب ہو کر اسلام کے اوپر طعن و تشنیع کے سامان تو مہیا نہ کرو.یہ آپ اگر درد کے ساتھ نصیحت شروع کریں اور لوگوں کو سنبھالنا شروع کریں تو آپ کی اپنی بھی اصلاح ہوگی.نصیحت کرنے والا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دوسروں کے مقابل پر زیادہ محفوظ رہتا ہے.جو دوسروں کی برائیاں دور کرنے کی کوشش کرے اس کا ضمیر ہمیشہ اس کو کچوکے دیتا رہتا ہے اور بالآخر اس کا ضمیر اس کی برائیوں پر غالب آجایا کرتا ہے.اس لئے آپ کے لئے دوہرا فائدہ ہے.ایک تو یہ کہ اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اگر آپ بھائیوں کو نصیحت شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس میں بہت برکت دے گا اور آپ کے اسلام کی حفاظت فرمائے گا اور دن بدن آپ کی باتوں میں، آپ کے اعمال میں برکت بڑھتی چلی جائے گی.دوسرا یہ کہ اس کے نتیجے میں عمومی طور پر آپ کا ضمیر خود آپ کی حفاظت شروع کر دے گا اور پہلے

Page 640

خطبات طاہر جلدے 635 خطبه جمعه ۶ ار ستمبر ۱۹۸۸ء سے بڑھ کر حفاظت کرے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ جماعت کے اندر بہت سی پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی.یہ سب باتیں میں بطور نصیحت آپ کو کہتا ہوں اگر آپ کا استقبال سچا تھا جس کا اظہار آپ نے ائیر پورٹ پر کیا ، اگر واقعی آپ کے دل میں ویسا ہی جوش ہے جس طرح آپ نے نعروں میں اس کا اظہار کیا، اگر واقعی مجھ سے آپ کو ویسی ہی محبت ہے جیسی آپ کی آنکھوں میں میں نے دیکھی اور بہتے ہوئے آنسوؤں کی گرمی میرے دل نے محسوس کی تو پھر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کے آپ کو ان سب باتوں پر عمل کرنا پڑے گا اس کے بغیر آپ کے یہ سارے دعوے جھوٹے ثابت ہوں گے.سچی محبت وہ ہوتی ہے جو اثر پذیر ہو.اگر سچی محبت ہے تو پھر جس سے محبت ہو اس کی باتوں کا اثر قبول کیا جاتا ہے.اس کی نصیحتوں پر عمل کرنا چاہئے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ آپ ان سب باتوں کو اپنے ذہنوں میں ، اپنے دلوں میں محفوظ رکھیں گے اور جلد جلد اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے جس کے نتیجے میں یہاں بھی اسی طرح نشو و نما شروع ہو جائے گی جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں نشو و نما شروع ہو چکی ہے.صحت مند درخت پھولتا اور پھلتا ہے اور طرح طرح سے وہ شاخیں نکالتا ہے اور نئی ٹی کو نپلیں اس سے پھوٹتی ہیں جو آنکھوں کو طراوت دیتی ہیں.اسی طرح روحانی جماعتوں کا حال ہے اگر ان کی صحت اچھی ہو جائے تو وہ ضرور پھولتی پھلتی ہیں.وہ ایک حالت پر کھڑی رہ ہی نہیں سکتیں.اس لئے ضرور صحت میں کچھ خرابیاں ہیں ان کی طرف آپ توجہ کریں.آپ کو صحت نصیب ہو گئی تو بنیادی طور پر آپ کے اندر وہ صفات موجود ہیں جن کے نتیجے میں میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بہت تیزی کے ساتھ انشاء اللہ ترقی کریں گے اور دنیائے اسلام اور دنیائے احمدیت کے لئے فخر کا موجب بنیں گے.اللہ کرے آپ کو یہ سب کچھ کرنے کی توفیق ملے.آمین.

Page 641

Page 642

خطبات طاہر جلدے 637 خطبه جمعه ۲۳ رستمبر ۱۹۸۸ء دوره ماریشس اور جماعت ماریشس کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۸ء بمقام روز بل، ماریشس ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مشرقی افریقہ کے دورے میں میرا پروگرام یہ تھا کہ یہ چار ممالک جن کا دورہ سفر کا حصہ تھا ان میں ہر ملک میں ایک جمعہ پڑھوں گا.چنانچہ گزشتہ جمعہ تک یہ حساب پورا اتر تارہا اور خیال یہ تھا کہ جمعرات کو یہاں سے روانگی ہوگی مگر انسان کے ارادے خدا کی تقدیر کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ ماریشس میں ایک کی بجائے دو جمعے پڑھے جائیں.اور باتوں کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ ماریشس میں احمدیت کی تاریخ کو جو اہمیت حاصل ہے اور یہاں کی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس طرح من جملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام پر لبیک کہا ہے اس پہلو سے ان چاروں ممالک میں جن کا میں نے دورہ کیا ہے ماریشس کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے.شاید خدا تعالیٰ کی تقدیر یہی ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اس ملک میں ایک نہیں بلکہ دو جمعے ہونے چاہئیں اور آئندہ کے لئے بھی میں سمجھتا ہوں میرا یہاں ٹھہر نا کئی پہلوؤں سے مفید ثابت ہوا ہے.اگر میں جمعرات کا پروگرام بھی رکھتا اور کل یہاں سے جا چکا ہوتا تو بہت سے ضروری مسائل ایسے تھے جن پر توجہ دینا ممکن نہ ہوتا.میرا خیال تھا کہ اتنی دیر مجلس عاملہ کی میٹنگ میں بیٹھ کر مشورے کافی ہوں گے، دوسرے بہت زیادہ اور مسائل کو قریب سے دیکھنے سے جو نئے مسائل ابھرتے ہوئے سامنے آئے اُن کا تقاضا یہی تھا کہ زیادہ وقت دیا جاتا اور تسلی سے بیٹھ کر باہم مشورے کئے جاتے.ماریشس کی جماعت نے جس طرح پر محبت اور اخلاص سے خیال رکھا ہے ہمارے قافلے

Page 643

خطبات طاہر جلدے 638 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۸ء والوں کا اور جس طرح میری نصیحتوں پر فور البیک کہتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں اُس پر میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی پاکیزہ اور پیاری اور نیک باتوں پر عمل کرنے والی جماعت عطا فرمائی ہے.اس کے علاوہ اس ملک کا شکریہ بھی واجب ہے جس میں صرف جماعت احمد یہ ہی نہیں اس ملک کی حکومت نے بھی اور اس ملک کے عیسائیوں نے بھی اور ہندووں نے بھی اور بعض مسلمانوں نے بھی بہت ہی عمدہ حسن سلوک کیا ، بہت ہی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور جہاں تک حکومت کا اور حکومت کے سربراہ وزیر اعظم کا تعلق ہے تو عام روز مرہ کے جو اخلاقی تقاضے ہیں اُن سے بڑھ کر معاملہ کیا اور سرسری ملاقات پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ ہمارے کھانے پر بھی تشریف لائے اور کئی گھنٹے مصروفیت کے باوجود وہاں بہت ہی بے تکلف ماحول میں وہاں بیٹھے اور مختلف مضامین پر بے تکلفی سے باتیں کیں اور اُس کے بعد تقریب میں جس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اس سے معلوم ہوتا ہے اُن میں بہت اعلیٰ انسانی قدریں ہیں.حکومت کے پروٹو کال کے تقاضوں کو بالکل بالائے طاق رکھتے ہوئے قطع نظر اس کے کہ یہاں کے باشندے یعنی وہ علماء جو جماعت کی دشمنی پر وقف ہیں وہ کیا کہیں گے.انہوں نے اس بے تکلفی اور اس بہادری سے جماعت کے متعلق اچھے خیالات کا اظہار کیا اور مجھے خوش آمدید کہی کہ میں حیرت سے اُن کا منہ دیکھتارہ گیا کہ یہ سیاسی لیڈر ہیں یا انسانی قدروں کے محافظ ہیں.ایک عام سیاسی لیڈر سے اس قسم کی جرات مندی کی توقع نہیں کی جاتی.اسی طرح اس سفر کے دوران اور یہاں قیام کے دوران مختلف وزرا سے بھی ملاقات ہوئی مختلف دانشوروں سے ملاقات ہوئی مختلف عدلیہ کے ماہرین اور ججوں سے ملاقات ہوئی اور وہ سب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے تھے لیکن اُن سب میں ایک مشترک قدر میں نے دیکھی جس نے میرے دل پر ماریشس کے بسنے والوں کے متعلق بہت ہی اچھا اثر ڈالا.سب نہایت ہی با اخلاق تھے اور منکسر مزاج تھے.کسی میں کوئی تکبر کی رگ نظر نہیں آئی اور سب ہی بہت ذہین تھے اور اعلی تعلیم یافتہ روشن دماغ تھے.یہی میرا تاثر عمومی طور پر جماعت کے افراد کے متعلق بھی ہے اور باہر کے افراد کے متعلق بھی جسے میں نے خود دیکھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں خدا تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتیں بخشی ہوئی ہیں.بہت سی اعلیٰ قدروں سے اس ملک کو نوازا ہے اور اگر ان کو احمدیت کی جلا ہل

Page 644

خطبات طاہر جلدے 639 خطبه جمعه ۲۳ ر ستمبر ۱۹۸۸ء جائے ، احمدیت کی آب ان پر آجائے تو یہ قوم دنیا کی عظیم الشان قوم کے طور پر منصہ عالم پر ابھر سکتی ہے دیگر اہم تقاریر میں جو سب سے نمایاں تقریرتھی وہ یو نیورسٹی میں ارتقاء اور اسلام کے مضمون پر میر امختصر خطاب تھا.وزیر قانون بھی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے اور یو نیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب نے شروع میں بھی مجھے خوش آمدید کہا بہت ہی اچھے لفظوں میں اور تقریب کے آخر پر بھی بہت ہی عمدہ خیالات کا اظہار کیا.وہاں بھی مجھے یہی نظر آیا کہ یونیورسٹی کا اخلاقی معیار بھی غیر معمولی طور پر نمایاں ہے.بہت اعلیٰ حسن سلوک کا اظہار کیا طلباء نے بھی اور اساتذہ نے بھی جس رنگ میں یہ لیکچر سنا باوجود اس کے کہ اُن میں بھی بعض کے خیالات سے مخالفانہ باتیں بھی ہوں گی.اُن میں ہندو بھی تھے ، اُن میں عیسائی بھی تھے ، اسلام کی برتری اس طرح نمایاں طور پر ظاہر ہوتے دیکھ کر ہوسکتا ہے اُن کے مذہبی جذبات پر تھوڑی سی آنچ بھی آئی ہو لیکن اس کے باوجود بڑے حوصلے کے ساتھ انہوں نے گفتگو کو سنا اور بہت ہی عمدہ رنگ میں تقریر کے آخر پر بڑی خوشی کا اظہار کیا کسی برے جذبے کا اظہار نہیں کیا.بالعموم جو تاثر یہاں کی سوسائٹی کے متعلق میں نے قائم کیا اُسے یونیورسٹی جا کر اور بھی زیادہ تقویت ملی.عزت مآب وزیر تعلیم اور وائس چانسلر صاحب سے مل کر مجھے خصوصیت کے ساتھ بہت خوشی ہوئی.یہ ظاہر بات ہے کہ تعلیمی اداروں سے یونیورسٹی کے ساتھ جن لوگوں کا تعلق ہو اور پھر ایک وزیر تعلیم اور ایک وائس چانسلر تعلیم یافتہ تو وہ ہوں گے اور اونچے درجے کے تعلیم یافتہ ہوں گے اور تمام دنیا میں یو نیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سبھی اساتذہ بھی اور اُن کے بڑے افسران بھی سبھی اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ ہی ہوا کرتے ہیں لیکن جو خصوصیت سے میں نے اُن کی تعلیم میں بات محسوس کی کہ یہ محض دنیا وی علم سے آراستہ نہیں تھے بلکہ علم جو شائستگی عطا کرتا ہے، طبیعت میں جوادب پیدا کرتا ہے وہ بھی ان دونوں کی طبیعتوں میں بدرجہ اتم پایا تعلیم کا ایک تصور تو یہ ہے کہ دنیا کے علوم پڑھا دیئے جائیں اور ایک تصور یہ ہے کہ نہایت اعلیٰ درجہ کی شائستگی پیدا کی جائے اور یہ جو دوسرا حصہ ہے بعض دفعہ بے تعلیم لوگوں میں بھی مل جاتا ہے اور یہ خدا کے فضل سے ایسا ہوسکتا ہے.بظاہر ان پڑھ انسان بھی جب خدا تعالیٰ کے جب فضل جذب کرتا ہے تو اُس کے اخلاق اس کے اطوار اُس کا ملنا جلنا نہایت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ لوگوں سے بڑھ کر شائستہ ہوسکتا ہے.یہ الگ الگ دو چیزیں ہیں اس کو چونکہ میں نے غور سے ان دونوں کو قریب

Page 645

خطبات طاہر جلدے 640 خطبه جمعه ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۸۸ء سے دیکھا اور میں نے اندازہ لگایا کہ یہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ظاہری تعلیم ہی نہیں بلکہ شائستگی بھی پائی جاتی ہے.ایک اہم موقع پر یس کا نفرنس کا تھا جس میں تمام ملک کے تمام اہم اخبارات کے نمائندگان شامل تھے.سوائے ایک مسلمان اخبار کے جس نے بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی تھے.پریس کانفرنس سے بھی میرے ان خیالات کو تقویت ملی کہ پریس کے نمائندے ہر جگہ ایک ہی طرح کے تربیت یافتہ ہوا کرتے ہیں لیکن یہاں پر لیس کے نمائندوں میں جو خاص بات محسوس کی کہ نہایت ذہانت کے ساتھ ایسے سوال کرتے تھے جونفس مضمون میں ڈوب کر ایسے سوالات کرتے اور فلسفیانہ رنگ بھی رکھتے تھے.یورپ اور امریکہ میں تو عام ملاقات ہوتی رہتی ہے لیکن مشرقی دنیا میں اس قسم کے اخبار نویس جن کا ذہن صقیل ہو خوب اچھی طرح اور پھر ظاہری طور پر اپنے مضمون سے واقف نہ ہوں بلکہ مضمون کی تہ تک اتر کر بات کو معلوم کرنا جانتے ہوں.یہ عام روز مرہ ملاقاتوں میں نہیں ہوا کرتی یعنی مشرقی دنیا میں.بعض تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کر کے آئے ہیں کہ ہم نے ہر بات میں مخالفت ضرور کرنی ہے.بعض معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کر کے آئے ہیں کہ جو کچھ بھی یہ کہیں گے ہم نے جو لکھنا ہے اُس کا پہلے فیصلہ کر لیتے ہیں، عجیب و غریب اخبار نویسوں سے مشرقی دنیا میں واسطے پڑتے رہتے ہیں لیکن جیسا کہ افریقہ کے بعض ممالک میں بھی میرا اخبار نویسوں کے متعلق تاثر بہت اچھا تھا یہاں اُس سے بھی اچھا تاثر قائم ہوا ہے.تو میں یہ سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ نے آپ کو بالعموم ایک تعلیم یافتہ شائستہ سوسائٹی عطا فرمائی ہے اور یہ اس پہلو سے تیار ہے کہ اس پر احمدیت کی روشنی ڈالی جائے تو یہ چمک دمک اُٹھے.اس لئے بہت ہی زیادہ ضرورت ہے کہ جماعت احمدیہ کے بڑے چھوٹے مرد اور عورتیں اور بچے بھی اس حسین پیغام کو جو زندگی بخش پیغام ہے جو انسانی قدروں کو صیقل کر کے خدا نما قدروں میں تبدیل کر دیا کرتا ہے اس پیغام کو اپنے تک نہ رکھیں بلکہ کثرت سے اپنے ماحول میں پھیلا دیں.اس کے برعکس بعض علماء کی طرف سے بدخلقی کے مظاہرے بھی ہوئے.مخالفانہ باتیں تو مخالف کیا ہی کرتے ہیں لیکن دنیا میں ہر قسم کے مخالف ہوتے ہیں بعض انسانی اور اخلاقی قدروں کی حدوں کو پھلانگ کر باہر نہیں جایا کرتے.بعض مخالف اخلاقی اور انسانی قدروں کی حدوں کو بڑی آسانی سے پھلانگ جاتے ہیں جو اُن کے نزدیک انسانی اور اخلاقی قدروں کی دیوار میں بہت چھوٹی ہوتی ہے

Page 646

خطبات طاہر جلدے 641 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۸ء اور اُن کے لئے اُس کو پھلانگنا کوئی مشکل کام نہیں ہوا کرتا.اس لئے ایسی باتوں کی تو ہر جگہ توقع ہوتی ہے اور ماریشس اس لحاظ سے کوئی استثناء نہیں تھا.صرف افسوس یہ ہوتا تھا کہ وہ مذاہب جن کو اسلام نے تہذیب سکھائی ، جن کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں نے زندگی کے اعلیٰ آداب کی را ہیں دکھائی تھیں، وہ مذاہب دوسرے مسلمانوں کے لئے نمونہ بنے ہوئے تھے لیکن اُن کے نمونے سے بھی استفادہ کرنے کی ان کو توفیق نہیں مل رہی.اس کے باوجود یہ نا انصافی ہوگی اگر یہ کہا جائے کہ یہاں کے علماء اپنے طرز عمل اور اپنی حرکتوں میں پاکستان یا ہندوستان کے علماء کے خاص طبقے کے برابر شمار کئے جاسکتے ہیں.یہاں کے علماء تو اُن کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچتے.یہاں کے احمدیوں نے ان کے طرز عمل سے دل برداشتہ ہو کر ایسی باتیں کیں کہ ہم بہت شرمندہ ہیں ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہمیں ہمارے ملک کے علماء نے ایسی باتیں کیں.جب یہ باتیں مجھے پہنچیں تو میں نے ہنس کر کہاں کہ انہوں نے ابھی علماء دیکھے ہی نہیں.اگر یہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہوتے یا پارٹیشن سے پہلے قادیان کے اردگرد جالندھر، ہوشیار پور، بٹالہ یا امرتسر اور پھر دہلی کے علماء سے ان کو واسطہ پڑتا تو اپنے علماء کوفرشتہ سمجھتے.کوئی نسبت ہی نہیں ہے.میں تو ان کو بہت نرم خو سمجھ رہا تھا اُن علماء کے مقابل پر اظہار تو کرنا ہی ہے.ان کے متعلق جو بداخلاقی کا احساس ہوتا ہے یہاں کے باقی لوگوں کے مقابل دیکھ کر احساس ہوتا ہے.عیسائی پادری بھی تو ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں کہ اُن کو سب سے زیادہ خطرہ احمدیت سے ہے.احمدیت ہی وہ ہے جس نے صلیب تو ڑ دی ہے اور وہ اس بات سے بے خبر نہیں کہ افریقہ میں بھی یہ احمدیت ہی تھی جس نے اسلام کی حمایت میں اُٹھ کر عیسائیت کی آگے بڑھتی ہوئی رو کا رُخ پلٹ دیا اور بجائے اس کے کہ مسلمان عیسائی ہونے لگیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کثرت کے ساتھ افریقہ کے ممالک میں مسلمانوں نے عیسائیوں کو احمدی کر دیا.وہ جانتے ہیں کہ اصل مد مقابل کون ہیں.اس کے باوجود اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.تمام ایسے مواقع پر جہاں اُن کو دعوتیں دی گئیں اُن کے بشپ اور دیگر ، بڑے بڑے لوگ بڑے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ حاضر ہوئے اور بڑی عمدگی کے ساتھ خوش آمدید بھی کہتے رہے اسی طرح ہندوؤں کا حال ہے اُن کے مذہبی لیڈر ہماری مجالس میں تشریف لائے اور ایسے موضوع پر گفتگو کے دوران جہاں ہندوازم پر اسلام کی برتری ثابت کی جارہی تھی انہوں نے ہرگز کسی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا.اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور بعض جگہ تعریف بھی کی

Page 647

خطبات طاہر جلدے 642 خطبه جمعه ۲۳ /ستمبر ۱۹۸۸ء اور بعض جگہ اختلاف بھی کیا مگر بہت ہی مہذبانہ طریق پر.اُن کے مقابل پر یہ بیچارے بداخلاق دکھائی دے رہے تھے.میں ان کا مقابلہ ہر گز نعوذ باللہ پاکستان اور ہندوستان کے علماء کے ایک ٹولے سے نہیں کر رہا.مگر جب میں یہ کہتا ہوں کہ ٹولہ تو اس سے ہر گز مراد یہ نہیں ہے کہ بڑی تعداد ہے اُن علماء کی میں جانتا ہوں ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی جو شریف النفس لوگ ہیں ، خدا کا خوف رکھنے والے ہیں اپنے کام سے کام رکھنے والے ہیں لیکن اکثر ان لوگوں کی زبان نہیں ہے بیچاروں کی.اکثر تیسری دنیا کے ممالک میں ایک یہ بھی بیماری ہے یہاں شرافت گونگی ہوتی ہے اور شرافت سے ہٹ کر جو دوسری قدریں ہیں وہ جتنا بلند ہوتی چلی جاتی ہیں اتنا اُن کو زبان مالتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ بدی کے انتہائی مقام پر ایسی بلند آواز کے ساتھ آپ کو شور مچانے والے لوگ ملیں گے گویا وہ سارے ملک کی آواز کے نمائندہ بن گئے ہیں.اس پہلو سے غلط فہمی بھی پیدا ہو جاتی ہے.ہمارے ملک کے علماء بھی نعوذ باللہ من ذالک سارے ایک جیسے نہیں بلکہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اُن ایک بھاری اکثریت ہے جنہوں نے اس تمام مخالفت کے دور میں بھی خاموشی اختیار کی ہے اور شرافت کا مظاہرہ کیا اور اپنے اپنے حلقے میں دبی ہوئی زبان سے، ڈری ہوئی زبان سے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ یہ ظلم ہورہا ہے.چنانچہ بعض ایسے علماء نے مجھے بھی خط لکھے اور اگر چہ اُن کے نام کا اظہار کرنا مناسب نہیں تھا نہ میں نے کیا لیکن انہوں نے بالکل کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ ہم بے باک تو ضرور ہیں ہماری شرافت زندہ ہے اور ان تمام حرکتوں کو پاکستان میں احمدیت کے خلاف ہو رہی ہیں ان کو مذموم اور نا پسندیدہ اور اسلامی اخلاق سے سخت گری ہوئی حرکتیں سمجھتے ہیں.اس لئے اچھے لوگ تو ہر سوسائٹی میں موجود ہیں لیکن بعض سوسائٹیوں کے برے اتنے برے ہو جاتے ہیں کہ اپنی برائیوں میں اتنے نمایاں ہو جاتے ہیں کہ سارے ملک کی شرافت کو اُن کے ذریعہ داغ لگ جاتا ہے اس پہلو سے میں مقابلہ کر رہا ہوں کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے علماء اُس مقام کے ابھی دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے.ایک اور اہم بات جس کا ذکر ضروری ہے وہ گزشتہ بزرگوں کی یاد کوزندہ کرنا ہے، اُن کے لئے تمام دنیا کی جماعتوں کو دعا کی تحریک کرنا ہے.ماریشس کی تاریخ میں یہ مختصر سا کر دار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی ڈاکٹر لعل دین صاحب نے ادا کیا.وقتی طور پر تھوڑی دیر کے لئے (۱۹۱۴ء) یہاں تشریف لائے اور ایک بڑی نسل پیچھے چھوڑ گئے لیکن ماریشس اُن کا مقصود نہیں.

Page 648

خطبات طاہر جلدے 643 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۸ء تھا.انہوں نے آگے نیروبی، کینیا اور پھر یوگنڈا جانا تھا اور پھر اللہ کے فضل سے یوگنڈا میں انہوں نے بہت ہی اچھے تاثرات چھوڑے اور خدا کے فضل سے جماعت کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی.اُن کے بعد یہاں دو ایسے احمدی بزرگ آئے جن کے بہت ہی وسیع اور گہرے اثرات یہاں آج تک ملتے ہیں.ان میں سے ایک تو حضرت صوفی غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ تھے اور ایک حضرت حافظ جمال احمد صاحب رضی اللہ.صوفی صاحب صحابی بھی تھے عالم بھی تھے بڑے مخلص انسان تھے اور بڑی وجیہ شخصیت تھی اور ان کی تبلیغ سے بہت سے ایسے احمدی ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن کے کثرت سے بڑے وسیع خاندان یہاں دکھائی دیتے ہیں اور اسی طرح حافظ جمال احمد صاحب کو بھی یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے.ان کے اپنے خاندان کو خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں ہمیشہ نمایاں خدمت کا مقام ملتا رہا ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی ملتا رہے گا.انہوں نے بہت لمبا عرصہ ماریشس میں رہ کر دین کی خدمت کی ہے اور بہت ہی وسیع اثرات اُن کے آج تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں اور وہ یہیں مدفون ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.دو بزرگ ( حافظ عبید اللہ صاحب اور حافظ جمال احمد صاحب) ماریشس کی سرزمین میں مدفون ہیں.اور ہمیشہ کے لئے ماریشس کی سرزمین کو ان کے پاک وجودوں سے عزت ملتی رہے گی.جو انسان بھی کسی ملک کا سفر کرتا ہے تھوڑی دیر ہے خواہ زیادہ دیر رہے کچھ اثرات پیچھے چھوڑ جایا کرتا ہے.نقوش پا یعنی قدموں کے نشان تو تھوڑی ہی دیر میں مٹ جایا کرتے ہیں اور ہوائیں اُدھر سے چلتی ہیں ادھر سے چلتی ہیں دوسرے قدموں کے نشان کو روند دیتے ہیں اور وہ کچھ دیرٹھہرنے کے بعد بالآخر مٹ جایا کرتے ہیں لیکن انسانی قدموں کے نشان یعنی اُن کی صفات کے نشان، اُن کے اخلاق کے نشان ، اُن کی عظیم ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کے نشان یہ ایک نقش دائم بن جایا کرتے ہیں.کوئی دنیا کی طاقت ان کو مٹا نہیں سکتی لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر انصاف کرتی ہے اُن کی خوبیوں کو ہی نقش دوام نہیں بناتی بلکہ کمزوریاں بھی من وعن ایک اچھے کیمرے کی کھینچی ہوئی تصویر کی طرح اُن نقوش میں ظاہر ہوتی ہیں اور انسان کی پوری شخصیت اُس کے چھوڑے ہوئے اثرات میں منعکس ہوتی رہتی ہے.آپ اُسے دیکھ سکتے ہیں، اگر آپ دیر کے بعد بھی وہاں جائیں تب بھی اگر ذہانت کے ساتھ کرید کے ساتھ پرانے

Page 649

خطبات طاہر جلدے 644 خطبه جمعه ۲۳ رستمبر ۱۹۸۸ء آثار کی تلاش کریں تو وہ آثار مل ہی جاتے ہیں.محققین نے آثار قدیمہ کے ذریعے آپ نے دیکھا نہیں کہ کتنی کتنی پرانی سلطنتوں کے حالات کو دوبارہ اُجاگر کر لیا حالانکہ عام انسان کی نظر کے ساتھ کمزور نظر کے ساتھ ،سرسری نظر کے ساتھ وہاں سے گزرے تو چند بدزیب کھنڈرات کے سوا چند ڈرونے ٹوٹے ہوئے کمروں اور کچھ نظر نہ آئے لیکن خدا تعالیٰ نے اثرات قائم رکھنے کے جہاں سامان کیلئے ہیں وہاں اثرات کو پڑھنے والے نگاہیں بھی عطا کی ہیں.چنانچہ ان اثرات کے نشان دیکھنے والے بہت پرانی تاریخوں اور پرانی تہذیبوں کے ایسے واقعات کو دوبارہ زندہ کر دیتے ہیں اور انکی نظر کے سامنے پوری تاریخ گھومنے لگتی ہے پھر ان سے دوسروں کو متعارف کرتے ہیں جو کتابوں کے صحیفوں میں نہیں ملتی لیکن قدرت کے صفحات میں وہ ہمیشہ کے لئے منضبط ہو چکی ہوتی ہے اور مرتسم ہو چکی ہوتی ہے.اس پہلو سے انسان کو یہ سوچتے رہنا چاہئے کہ میں اپنے سفر میں خواہ میر اسفر انفرادی ہو یا قومی ہو کچھ نشان ضرور چھوڑ رہا ہو.بعض لوگ قومی نشان چھوڑتے ہیں جیسا کہ میں نے ذکر کیا آپ نے ملک میں دو بلکہ تین عظیم بزرگ آئے اور انہوں نے قائم رہنے والے نقوش اپنے پیچھے چھوڑے جن کے حسین پہلو ہمیشہ نمایاں رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کے لئے دعاؤں کی تحریک پیدا کرتے رہیں گے.مگر ہر انسان خواہ وہ ایک وسیع دائرے کا سفر کر رہا ہو یا مختصر عالمی دائرے کا سفر کر رہا ہو خاندانی دائرہ کا سفر کر رہا ہو اُس کو یہ مضمون ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اُس کے اثرات بھی باقی رہتے ہیں.قوم پر نہیں تو خاندان پر رہتے ہیں.وسیع خاندان پر نہیں تو اپنی بیوی پر اپنے بچوں پر باقی رہتے ہیں اور وہ اثرات اتنے اہم ہیں انسانی زندگی کے لئے قرآن کریم اُن کا ذکر کرتے ہوئے انسان کو متنبہ کرتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:۱۹) اے انسانوں وہ جو ایمان لائے ہو خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور خبر دار اس بات پر ہمیشہ نگران رہو کہ تم آئندہ آنے والوں کے لئے اپنے کیا نشان پیچھے چھوڑ کر جارہے ہو.مَّا قَدَّمَتْ لِغَدِ یہاں ہر مومن کو مخاطب کیا گیا ہے یہ نہیں فرمایا گیا کہ اے بڑے لوگو اور اے قوم کے رہنماؤ اوراے بڑے بڑے وسیع اثرات رکھنے والو بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو مومن ہے اُسے یادرکھنا چاہئے کہ خدا کی تقدیر ہر بعض معاملات

Page 650

خطبات طاہر جلدے 645 خطبه جمعه ۲۳ /ستمبر ۱۹۸۸ء میں انسان کے ساتھ ایک ہی سلوک کیا کرتی ہے اور جہاں تک نشانات کا تعلق ہے تم اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے مگر ہم تمہیں آج متنبہ کرتے ہیں کہ تمہارے نشان باقی رہیں گے.اور آج تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ ان چھوڑے ہوئے نشانات کے نتیجے میں جو تم اپنے کردار کو آئندہ نسلوں کے سامنے پیش کرو گے اُن کے بداثرات بھی ہو سکتے ہیں ، اُن کے اچھے اثرات بھی ہو سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ تمہیں اُن اثرات کے لحاظ سے جوابدہ سمجھے گا.وَلْتَنْظُرْ کا یہی مطلب ہے ورنہ کوئی سیر کی چیز تو نہیں تھی جو خدا دکھلا رہا تھا کہ کیا نشان پیچھے چھوڑ کر جارہے ہو.مراد وَلْتَنْظُرُ سے یہ کہ چھوڑے ہوئے نشان آئندہ قیامت کو تم پر گواہی دیں گے اگر تم اعلیٰ اخلاق کے نشان پیچھے چھوڑ کے جاؤ گے ، قابل تقلید نمو نے چھوڑ جاؤ گے تو خدا کے ہاں اپنی آئندہ زندگی میں ہی اس کا اجر ملے گا.اگر تم اس کے برعکس برے اثرات اور بری رسمیں پیچھے چھوڑ جاؤ گے تو خدا ان معاملات میں ہی تمہاری جواب طلبی کر لے گا.ایک اور احمدی بزرگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے اُن کا نام حضرت حافظ عبید اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا.وہ اگر چہ بہت تھوڑا عرصہ زندہ رہے اور چھوٹی عمر میں یعنی ۳۲ سال کی عمر میں وفات پاگئے لیکن اُن کے چھوڑے ہوئے نیک اثرات بھی آج تک زندہ ہیں اور گوعمر چھوٹی تھی لیکن اُن کی نیکیاں لمبی تھیں اور انشاء اللہ ہمیشہ احمدیت کی تاریخ کے ساتھ ماریشس میں زندہ رہیں گی.اُن کا مزار ماریشس میں ہے.میں نے غالبا غلطی سے صوفی غلام محمد صاحب کا کہہ دیا تھا لیکن اُن کا نہیں، وہ ربوہ میں مدفون ہیں.بہر حال صوفی غلام محمد صاحب واپس چلے گئے تھے.اور ایک لمبا عرصہ واپس جانے کے بعد زندہ رہے اور مختلف جماعت کے کاموں میں فعال حصہ لیتے رہے.حضرت حافظ عبید اللہ صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ ۳۲ سال کی عمر میں ہی یہاں وفات پاگئے اور اُن کا مزار یہاں ہے اور ان دونوں مزاروں پر یعنی حضرت حافظ عبید اللہ صاحب اور حافظ جمال احمد صاحب کے مزاروں پر ہمیں جا کر دعا کرنے کی بھی توفیق نصیب ہوئی.ان بزرگوں کے بعد پھر دوسری نسل کے بہت سے مبلغین یہاں مختلف وقتوں میں تشریف لاتے رہے.اور اُن کی یادوں میں کچھ تلخیاں بھی ہیں، بہت سی اچھی باتیں بھی ہیں ، حسب توفیق سب نے وقف زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اور جماعت کا مختلف رنگ میں محنتیں کرتے رہے.یہ جو آج جماعت کی عمدہ حالت ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب گزشتہ خدمت دین کرنے والوں کی محنتوں

Page 651

خطبات طاہر جلدے 646 خطبه جمعه ۲۳ /ستمبر ۱۹۸۸ء کا اثر اس میں موجود ہے لیکن یہاں کچھ عرصہ ٹھہر کر لوگوں سے ملنے کے بعد اور خصوصاً غیر احمدی اور غیر مسلم عیسائیوں اور ہندو بڑے لوگوں سے ملاقات کے بعد بعض مد برین ہمفکرین جو اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے سرداری رکھنے والے لوگ تھے ان سے ملنے کے بعد میرا یہ تاثر ہے کہ سب سے زیادہ دائی اور نیک اثر مولوی اسماعیل صاحب منیر نے چھوڑا ہے اور کوئی ایسا آدمی مجھے وہاں نہیں ملا جو اُن کے زمانے میں کوئی بھی حیثیت رکھتا ہو اور اُس نے نہایت ہی محبت کے ساتھ نہایت خلوص کے ساتھ اُن کا ذکر نہ کیا ہو.عیسائی پادری اور بڑے بڑے پادریوں نے بھی اُن کا ذکر بڑی محبت سے کیا اور کافی عرصہ تک اُن کی بڑی پرانی باتیں اپنے دلی تعلق کے ساتھ کرتے رہے اور ہندو پنڈتوں نے بھی اُن کا ذکر کیا اور سیاسی لیڈروں نے بھی اُن کا ذکر کیا اور عدلیہ کے جوں نے بھی اُن کا ذکر کیا.معلوم ہوتا ہے وہ جب تک یہاں رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے گردو پیش ہر قسم کے ماحول میں نفوذ پیدا کرتے رہے اور بہت اچھے نیک اثرات پیچھے چھوڑ گئے ہیں.اس لئے جہاں باقی سب مبلغین کو اُن کی عمومی خدمات میں ہمیں یا درکھنا چاہئے.خصوصیت کے ساتھ مولانا اسماعیل صاحب منیر کی نیک خدمات کے نتیجے میں اُن کو یاد رکھنا چاہئے اور اس مضمون کو خاص طور پر باندھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے اسیران راہ مولا میں اُن کا بیٹا بھی شامل ہے.محمد الیاس منیر ان کا صاحبزادہ جو واقف زندگی ہے اور میں اُس کو بچپن سے جانتا ہوں نہایت ہی نیک فطرت بہت ہی نیک صفات اور بہت ہی مخلص فدائی انسان ہے خالصہ اللہ وقف کرنے والا اور خالصہ اللہ وقف کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ، ایک جھوٹے الزام میں پھانسی کا پھندا اُس کے سر پر لٹکایا گیا اور ابھی تک وہ انتہائی تکلیف میں بے جا مظالم کا نشانہ بنا ہوا کال کوٹھڑی میں قید ہے لیکن اُس کے خطوط آپ دیکھیں تو اُن میں کال کوٹھڑی کے اندھیرے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا.خدا کی محبت میں روشن اور منور ہیں اور اُن میں دین اور ایمان اور محبت اور خلوص کی ایسی روشنی پائی جاتی ہے کہ ان خطوں کو دیکھ کر انسان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کوئی دنیا کی طاقت اُن کو مرعوب نہیں کر سکتی.ایسا زندہ ایمان بخش دیا ہے کہ اُس ایمان پر کبھی موت نہیں آسکتی بلکہ موت کے خطرات میں اور زیادہ چمکتا ہے اور زیادہ دمکتا ہے اور زیادہ روز روشن کی طرح نمایاں ہو کر آفتاب نصف النہار کی طرح چمکتا اور دمکتا ہوا ظاہر ہوتا ہے.اندھیرے اُس کی روشنی کو دھندلا نہیں سکتے اور بھی زیادہ تیز کر دیتے ہیں.ایسے اور بھی راہ مولا کے

Page 652

خطبات طاہر جلدے 647 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۸ء اسیر ہیں.اُن سب کے ذکر کا یہاں موقع تو نہیں لیکن اس ذکر میں اُن سب کو بھی شامل سمجھیں اور خصوصیت کے ساتھ اُن بزرگوں کے لئے دعاؤں کے وقت اُن کی اولادوں اور اُن کے آئندہ آنے والی نسلوں میں پیدا ہونے والے واقفین زندگی کو بھی یادرکھیں.خدا تعالیٰ ہمیشہ اُن کی نیکیوں کو ان کے خون میں قائم رکھے.اور خصوصیت کے ساتھ الیاس منیر کو یاد رکھیں اور اُن کے ساتھی جن کے اوپر اسی طرح ایک جھوٹے الزام کے طور پر موت کی تلوار لٹکائی گئی ہے اور دیگر اسیران راہ مولا جنہوں نے مختلف موقعوں پر پاکستان میں دین کی عظمت کے لئے قربانیاں دی ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں.اُن سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.آپ اُن کے لئے دعائیں کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا کے فضل سے آپ کے لئے دعائیں کریں گے.آپ کی جو خوبیاں اس وقت بے استعمال کے پڑی ہوئی ہیں اور میں جانتا ہوں آپ میں سے بہت سے نوجوان ہیں بہت سے بڑے ہیں چھوٹے ہیں ، بہت سے پڑھے لکھے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے جتنی خوبیاں دی ہیں وہ ابھی احمدیت کی خدمت میں استعمال نہیں کر رہے اُن کی دعاؤں کی برکت سے خدا اُن خوبیوں کو اُبھارے گا اور اُن کو محض نظریاتی خوبیاں نہیں رہنے دے گا بلکہ عمل کی شکلوں میں ڈھال دے گا اور وہ خوا میں نہیں رہیں گی بلکہ تعبیر میں بن جائیں گی.اس لئے میں آپ کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں آپ اپنے سابق بزرگوں کے لئے دعا کریں وہاں موجودہ راہ مولا میں دکھ اُٹھانے والوں کے لئے بھی دعا کریں اور ان سابق بزرگوں کی آئندہ نسلوں کے لئے بھی دعا کریں اور پھر اپنے متعلق بھی دعا کریں کہ خدا آپ کو وہ شعور بخشے جس شعور کے نتیجے میں انسان حقیقت میں عظیم الشان کارنامے سرانجام دینے کا اہل ہوا کرتا ہے.وہ احساس کی بیداری بخشے وہ تمام دنیا کے انسانوں کے درد کی تکلیف کا احساس عطا کرے جس کو محسوس کئے بغیر انسان بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں کرنے کا اہل نہیں بن سکتا.بہت ہی اس قسم کی دعائیں ہیں جو ان دعاؤں سے پھوٹتی چلی جائیں گی.اگر میں ان کا ذکر کرتا چلا جاؤں تو یہ مضمون لمبا ہوتا چلا جائے گا کیونکہ پھر ایک دعا دوسری دعا آپ کے لئے دروازہ کھول دیتی ہے پھر دوسری دعا تیسری دعا کے لئے دروازہ کھول دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو مضمون سے مضمون لکھتا چلا جاتا ہے تو اگر آپ اس طرح دعائیں کریں گے تو وہ ساری دعائیں جن کا میں نے ذکر نہیں کیا وہ بھی آپ کے ذہن میں ابھرنا شروع ہوں گی اور اس طرح اللہ تعالیٰ آپ کو بہت ہی عظیم الشان برکتوں سے نوازے گا.

Page 653

خطبات طاہر جلدے 648 خطبه جمعه ۲۳ رستمبر ۱۹۸۸ء اب ہم یہاں سے کچھ عرصہ کے بعد آج تو نہیں لیکن جلد رخصت ہونے والے ہیں اور میں آپ سب کا ایک دفعہ پھر بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، اپنی طرف سے بھی اہل قافلہ کی طرف سے بھی آپ سب نے بڑوں چھوٹوں مردوں اور خواتین نے اس سفر کو کامیاب بنانے میں بہت ہی محبت اور خلوص اور محنت کے ساتھ حصہ لیا ہے اور جس نیک نیتی کے ساتھ حصہ لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول بھی فرمایا ہے.اس لئے اب آپ اس سلسلے کو یہاں تک نہ رہنے دیں بلکہ ہمیشہ جاری رکھیں.میں یہ یقین رکھتا ہوں اور مجھے اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ آج اگر ماریشس کی جماعت احمد یہ اس شعور کے ساتھ بیدار ہو جائے جو شعور ان کو نصیب ہونا چاہئے.اس شعور کے ساتھ اُن کو اپنی صلاحیتوں کا علم ہو جائے گا کہ ہم کیا لوگ ہیں تو اُن پر ویسی ہی مثال صادق آئے گی جیسا کہ ایک قصہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شیر بچپن سے بھیڑوں کے گلے میں پالا گیا.اور اُسے علم نہیں تھا کہ وہ کیا ہے.چنانچہ اُس نے بھیٹروں والی ادائیں اختیار کر لیں.اُسی طرح دوڑتا اور نکلتا اُسی طرح جیسے بھیڑ خوف سے راستہ بدل لیا کرتی ہے وہ بھی اپنا راستہ بدل لیا کرتا تھا.یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جبکہ واقعہ اس گلے پر ایک شیر نے حملہ کیا اور کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ پہلے تو خوف کے مارے اُس کا وہی حال ہوا جو بھیٹروں کا ہوا کرتا ہے.جب موت منہ کھولے سامنے آتی دکھائی دی تو اچانک اُس کی سوئی ہوئی شیر نی بیدار ہوگئی اور ایک عظیم الشان دل دہلادینی والی گرج کے ساتھ اُس کی ساری عظمتیں جاگ اٹھیں اور اس شان اور شوکت کے ساتھ وہ گر جا ہے کہ وہ حملہ آور شیر بھیڑوں کی طرح اُس کے آگے بھاگا ہے.میں آپ میں جو خوبیاں دیکھ رہا ہوں جو اُس خوابیدہ شیر کی سی خوبیاں ہیں جسے علم نہیں تھا کہ وہ ایک شیر ہے.آپ خدا تعالیٰ کے شیر ہیں.خدا تعالیٰ کے شیروں کی طرح زندہ رہنا سیکھیں.خدا آپ کے اندر وہ شعور بیدار کر دے کہ آپ کون لوگ ہیں اور خدا نے آپ کو کیسی کیسی صلاحتیں بخشی ہیں.پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند صدیوں کی بات نہیں، چند دہاکوں کی بات نہیں چند سالوں میں سارے ماریشس کو اسلام اور احمدیت کے نور سے منور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.

Page 654

خطبات طاہر جلدے 649 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء فرعون کی لاش کا ملنا قرآن کریم کی عظیم الشان پیشگوئی او معجزہ ہے.زمن موسیٰ کی تاریخ دہرائی جارہی ہے (خطبه جمعه فرموده ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ابھی دو دن پہلے میں مشرقی افریقہ کے دورے سے واپس آیا ہوں جہاں مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چار مشرقی افریقہ کے ساحلی ممالک کے دورے کی توفیق ملی.اور اس کے علاوہ واپسی پر دودن یا تین دن پیرس بھی ٹھہرا اور وہاں کی جماعتی معاملات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی غور کا اور آئندہ کے لئے بہتری کے منصوبے بنانے کی بھی توفیق ملی.شاید آپ یہ توقع رکھتے ہوں کہ اس جمعہ میں اس دورہ کے حالات بیان کروں گا لیکن میرا آج ایسا کوئی ارادہ نہیں.اس دوران مجھے غالباً پانچ خطبے باہر دینے کی توفیق ملی ہے اور ساتھ کے ساتھ جو حالات میں وہاں دیکھتا رہا ہوں اُن کے متعلق میں تبصرہ انہی خطبات میں کرتا رہا ہوں.کچھ مضامین ایسے ہیں جو وقتا فوقتا یاد آتے رہیں گے تو اُن کا تذکرہ بعد میں ہوتا رہے گا.اس وقت میرا ارادہ یہ ہے کہ بفضلہ تعالیٰ دو ایسے نشانات کا ذکر کروں جو تاریخی لحاظ سے بہت پہلے کے ہیں.ایک قریب کے زمانے میں پہلے کا نشان ہے اور ایک بہت بعید کے زمانے کا نشان ہے.مگر ان دونوں کا تعلق جماعت احمدیہ کی تاریخ سے ہے.اور ایک نشان تو ایسی نوعیت کا ہے جو تین زمانوں پر پھیلا پڑا ہے کیونکہ قرآن کریم ایسے نشانات کا بار بار تذکرہ فرماتا ہے اور اس بات کی نصیحت فرماتا ہے کہ ان نشانات کا دور چلتے رہنا چاہئے ان کا ورد ہوتے رہنا

Page 655

خطبات طاہر جلدے 650 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء چاہئے کیونکہ اس سے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور جمال اور جبروت اور اُس کی غیر معمولی نصرت اپنے پیاروں کے لئے ذہن نشین ہوتی ہے.اس لئے ایسے نشانات کا گاہے گاہے تذکرہ الہی جماعتوں کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوتا ہے.وہ نشان جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ تین زمانوں پر پھیلا ہوا ہے وہ حضرت موسیٰ اور فرعون کے مقابلے کا نشان ہے.اگر چہ اس واقعہ کو آج سے تقریباً ۳۳۰۰ سال گزر چکے ہیں یعنی حضرت موسیٰ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے ۳۰۰ اسال یا ۳۰۰ اسے کچھ پہلے پیدا ہوئے یار مسیس دوم کے زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور فرعون کا واقعہ رمسیس دوم کے بیٹے منفتاح کے زمانے میں ہوا تو اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقریباً 19 سو سال پہلے یا اس سے کچھ کم پہلے یہ واقعہ گزرا ہے.اس پر آج ۱۴۰۰ سال ہوئے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے تک ۳۰۰ سال اوپر گزر چکے تھے.تو ۳۲۰۰ سال یہ بن گئے اور ایک سو سال کا عرصہ اوپر گزرا ہے تو یہ ۳۳۰۰ سال جمع کچھ سال کل عرصہ ہے جس میں اس نشان نے تین دفعہ اپنا جلوہ دکھایا ہے اور حیرت انگیز طور پر ان تین مختلف زمانے کی تاریخوں کو اکٹھا کر دیا ہے.قرآن کریم میں حضرت موسیٰ کے اس نشان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ جب فرعون اپنے لشکریوں کے ساتھ غرق ہونے لگا تو اُس نے اللہ تعالیٰ سے یہ استدعا کی کہ اب میں موسیٰ اور ہارون اور اُن کے خدا پر ایمان لاتا ہوں اس لئے تو مجھے بچالے تو اللہ تعالیٰ نے جوا با فرمایا آنٹن (یونس:۹۲) اب یہ کوئی وقت ہے بچنے کا اور اس جواب میں بہت ہی گہری حکمت ہے.اس کے ساتھ ہی فرمایا نُنَجِّيكَ بِبَدَنِك (یونس :۹۳) ہاں ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے.ایک طرف یہ کہنا کہ یہ کون سا وقت ہے بچانے کا اور پھر اچانک یہ کہہ دینا کہ ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے.اس میں بہت ہی گہری حکمت ہے.مراد یہ ہے کہ جب تیری روح کی نجات کا وقت تھا جب تیری روح کو خطرہ تھا اُس وقت تو تو ایمان نہیں لایا اب بدن کو خطرہ پیدا ہوا ہے تو تو ایمان لاتا ہے.اس لئے اسی مناسبت سے ہم تیری ساری بات رد نہیں کرتے.روح کی نجات کا تو وقت گزر چکا ہے.ہاں تیرے بدن کو نجات دیں گے اور محض ایک طعن کے رنگ میں نہیں بلکہ اس غرض سے کہ یہ آئندہ نسلوں کے لئے ایک عبرت کا نشان بن جائے.یہ ہے وہ مکمل جواب دراصل جو چھوٹے سے

Page 656

خطبات طاہر جلدے 651 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء جواب میں مضمر ہے.یہ نشان اگر چہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقریباً ۱۹۰۰ سال پہلے ہو چکا تھا لیکن قرآن کریم نے یہ فرما کر اس نشان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے بھی وابستہ کر دیا کیونکہ اس گفت وشنید کا اور خدا تعالی سے اُس آخری وقت میں دعا کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ملتا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقریباً ۷۰۰ سال پہلے تک اگر چہ فراعین مصر کی لاشوں کی ممی محفوظ سمجھی جاتی تھیں اور معلوم تھا کہ ان مقابر میں جو بادشاہوں کے مقابر ہیں ان میں محفوظ ہیں.لیکن ۷۰۰ اسال پہلے وہ اچانک وہ وہاں سے غائب ہو گئیں.اور پھر کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کہاں چلی گئی ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں بھی اُن کا کوئی وجود کوئی نشان معلوم نہیں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کو بھی ۷۰۰ سال گزر چکے تھے اس لئے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ لاش محفوظ ہے.علاوہ ازیں چونکہ وہ غرقابی کے ذریعے موت ہوئی تھی اس لئے ایک عام اندازہ لگانے والا شخص یہ اندازہ تو لگا سکتا ہے کہ اس فرعون کی لاش نا پید ہو چکی ہوگی ، مچھلیاں کھا گئی ہوں گی یا وہ دوسری سمندر کی لہریں واپس آئی ہیں چونکہ ڈیلٹا کا واقع ہے اس لئے دریا اور سمندر آپس میں ملتے تھے.کبھی دریا آگے بڑھ گیا کبھی سمندر آگے بڑھ گیا.تو ایسے حالات میں بظاہر یہ امید نہیں کہ اُس کی لاش محفوظ ہو سکتی ہے.اُس وقت قرآن کریم کا یہ بیان کہ خدا تعالیٰ نے فرعون سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم تیری لاش کو محفوظ رکھیں گے تا کہ آئندہ زمانے کے لئے عبرت بنے ، ایک حیرت انگیز نشان ہے اور یہ لاش اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے زمانے میں دریافت ہوئی ہے.نہ صرف یہ لاش بلکہ سارے فراعین کی لاشیں اسی زمانے میں دریافت ہوئی ہیں.چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب پہلی مرتبہ اسی صدی کے آغاز میں Egypt (مصر) کے ایک گورنر کو جب یہ معلوم ہوا کہ باوجود اس کے کہ پرانے مقابر سارے لوٹے جاچکے ہیں مختلف اس تاریخی وقتوں میں اچانک مصر میں کچھ ایسے ازمنہ قدیم کے نشانات بکنے شروع ہوئے ہیں جن کے اُس وقت مصر کے بازاروں میں بکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی چنانچہ اس گورنر نے جب تحقیق کا حکم دیا تو پتا لگا کہ واقعی وہ شاہی نشانات ہیں اور یقینی طور پر فرامین مصر سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ بادشاہوں کے

Page 657

خطبات طاہر جلدے 652 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء مقابر سب معلوم تھے اُن میں وہ خالی پڑے ہوئے تھے چیزوں سے جو چیزیں لوٹی جا چکی تھیں لوٹی گئیں پہلے.جو بقیہ سامان حکومتوں کے ہاتھ آیا وہ پہلے ہی عجائب گھروں کی زینت بن چکا تھا.اس لئے اُس کو بہت تعجب ہوا اور اُس نے تحقیق شروع کروائی تو پتا لگا کہ عبدالرسول ایک خاندان ہے جو یہ کاروبار کر رہا ہے.چنانچہ کچھ دباؤ کے نتیجے میں بار بار کی پرسش کے نتیجے میں کچھ عرب دستور کے مطابق اُن میں سے ایک آدمی کو پکڑ کر اُس کے تلوں پر انہوں نے سانٹے لگائے تو آخر وہ بول پڑا.اُس نے بتایا آؤ میں تمہیں لے کر جاتا ہوں.اس مقبرے سے ایک میل جو بادشاہوں کا مقبرہ کہلاتا ہے یا مقابر کہلاتے ہیں اُس جگہ سے قریباً ایک میل دور ایک اور مقبرہ بھی ہے جس کا کسی کو کچھ پتا نہیں تھا اور اُس میں یہ ساری چیزیں محفوظ پڑی ہیں اور وہاں پرانے بادشاہوں کی لاشیں بھی ہیں اُس کو ہم نے اس لئے ہاتھ نہیں لگایا کہ ہم پکڑے جاتے.چنانچہ جب ایک مہم وہاں گئی اور محقق وہاں اُترے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے بہت سے فراعین مصر کی اکٹھی لاشیں وہاں موجود تھیں اور چونکہ وہ محقق پرانی زبان پڑھ سکتا تھا اُس نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی کہ یہ قطعی طور پر پرانے فراعین کی لاشیں ہیں.اُس کے کچھ دیر کے بعد ایک اور مقبرہ بھی وہیں قریب ہی دریافت ہوا جہاں ۱۳ فراعین کی لاشیں ملیں.اُن لاشوں میں منفتاح کی لاش بھی تھی اور اُس کے دادا کی لاش بھی تھی اور اُس کے والد کی بھی اور کئی اہم فرائین کی لاشیں وہاں موجود تھیں.چنانچہ متفقین بڑی حیرت سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ واقعہ جب معلوم ہوا تو تمام محققین دم بخودرہ گئے.اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ لاشیں جو تین ہزار سال تک گم رہیں وہ اچانک دریافت ہوں گی اور بالکل صحیح حالت میں جس طرح ممی کی گئی تھیں اُسی طرح پڑی ہوئی وہاں ملیں گی.چنانچہ اس پر مزید تحقیقات ہوتی رہی اور پتالگا کہ مختلف وقتوں میں اُس زمانے میں بھی چونکہ چوریاں شروع ہو گئی تھیں بہت مال و دولت ساتھ دفنا دیا جاتا تھا.اس لئے اُس زمانے میں بھی چور اُچکے مال و دولت کی لالچ میں بار بار حملے کر کے وہ قیمتی چیزیں چرا لیا کرتے تھے.اس لئے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے تقریباً دو سو سال یا تین سوسال کے درمیان کے عرصہ میں مصر کے پادریوں نے یہ فیصلہ کیا یا مہنتوں اور پنڈتوں نے جو بھی آپ اُن کو نام دیں) کہ ان بادشاہوں کی حفاظت کی خاطر انہیں کسی مخفی جگہ پر منتقل کر دیا جائے.چنانچہ یہ دوسرا ساز و سامان سب وہیں رہنے دیا گیا اور بادشاہوں کی

Page 658

خطبات طاہر جلدے 653 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء لاشوں کو حفاظت کے ساتھ دو مقبروں میں دفنا دیا گیا جس کا راز تین ہزار سال بعد اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد معلوم ہوا ہے.پس قرآن کریم کا یہ معجزہ کوئی معمولی معجزہ نہیں ہے اور حیرت انگیز مجزہ ہے اور یہ نشان جیسے کے میں نے بیان کیا ہے تین ہزارسال سے زائد عرصے تک پھیلا ہوا ہے اور تین ہزار سال سے زائد زمانوں میں پھیلے ہوئے مختلف عہدوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.پہلا عہد حضرت موسیٰ کا عہد ہے پھر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عہد ہے پھر آپ کی امت میں ہونے والے ایک آئندہ ہونے والے ایک آئندہ واقعہ سے اس کا تعلق ہے اور عجیب بات ہے کہ فراعین مصر اور اُن کا جو سلسلہ چلا ہے یہ بھی دنیا کا طویل ترین سلسلہ ہے.کوئی اور تہذیب اور کوئی اور بادشاہت اتنے طویل عرصے تک نہیں پھیلی.چنانچہ متقین کے نزدیک فراعین مصر کا سلسلہ تین ہزار سال سے زائد عرصہ تک جاری رہا.یہ عجیب اللہ تعالیٰ کی شان ہے اُس کی بڑی گہری حکمتیں ہوتی ہیں اُس کی تقدیر کے اظہار کی اور کئی رنگ میں یہ باتیں آپس میں ملی ہوتی ہیں اور ان کے تعلقات ہیں یعنی روحانی تاریخ کے بھی اور دنیاوی تاریخ کے بھی.اب میں اس مضمون کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض احادیث سے مزید واضح کرتا ہوں.یہ بات کہ آئندہ زمانے میں امت محمدیہ کے ساتھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس واقعہ کا ایک تعلق ہوگا اور اس فرعون کا ایک تعلق ہوگا یہ بات خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمائی اور آپ نے اس کا خوب کھول کر ذکر فرمایا.جامع ترمذی کتاب الصوم باب ماجاء فی صوم المحرم اس میں ایک روایت ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے سالہ رجل فقال ای شهر تامرنی ان اصوم بعد شهر رمضان قال له ماسمعت احد يسال صلى الله عن هذا الا رجلا سمعته يسال رسول الله علل و انا قاعد عنده فقال يا رسول الله ای شهر تامرنى ان اصوم بعد شهر رمضان قال ان كنت صائما بعد شهر رمضان فصم المحرم فانه شهر الله فيه يوم تاب فيه على قوم ويتوب فيه على قوم آخرين ترمذی کی اس حدیث کی شرح میں حاشیہ میں لکھا ہے قوم موسیٰ نـجـاهــم الــلــه مـن فرعون و اغرقہ کا اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس قوم کا ذکر فرمایا ہے وہ موسیٰ کی قوم تھی اُن کو تو اللہ تعالیٰ نے فرعون سے نجات بخشی اور فرعون کو غرق فرما دیا.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک

Page 659

خطبات طاہر جلدے 654 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ مجھے نصیحت فرمائیں کہ میں رمضان کے علاوہ کس مہینے میں روزے رکھوں.آپ نے فرمایا تم سے پہلے صرف ایک شخص کو میں نے ایسا سوال کرتے ہوئے سنا ہے اور وہ شخص تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کر رہا تھا.اُس کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے رمضان کے سوا کسی مہینے میں روزے رکھتے ہیں یعنی کسی ایک مہینے میں خاص طور پر روزے رکھتے ہیں تو محرم کو اختیار کرو کیونکہ وہ خدا کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن آتا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی طرف توجہ فرمائی اور اُس کی توبہ کو قبول فرمایا اور اس قوم کو نجات بخشی اُس کی توبہ کے نتیجے میں و يتوب فـيــــه عــلــى قـــوم اخرین اور اسی طرح اللہ تعالیٰ آئندہ زمانے میں آخرین میں بھی اسی واقعہ کو دہرائے گا اور آخرین میں بھی بعض لوگوں کی تو بہ کو قبول فرماتے ہوئے انہیں فرعون سے نجات بخشے گا اور یہ اسی مہینے میں ہونے والا واقعہ ہے اس کے بعد اُس دن کی تعین فرمائی کہ ایسا کس دن میں ہوا تھا.اور آئندہ بھی اسی دن کی توقع رکھی جاسکتی ہے.محرم کا مہینہ تو واضح فرما دیا.عن انس قال سئل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن الايام وسئل عن يوم الاربعاء قال يوم نحس قالوا وكيف ذاک یا رسول الله قال اغرق فيه الله فرعون وقومه ـ (الدر المخو رسیوطی جلد ۶ صفحه : ۱۳۵) کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنوں اور بالخصوص بدھ کے دن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا منحوس دن.لوگوں نے پوچھا وہ کیسے تو فرمایا اس روز اللہ نے فرعون اور اُس کی قوم کو غرق کیا تھا تو محرم اور بدھ کا دن یہ وہ نشان دہی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے فرما چکے ہیں اور خود آپ کے ارشاد کے مطابق قوم موسیٰ کے ساتھ گزرنے والے واقعات میں سے خصوصاً فرعون والا واقعہ دہرایا جائے گا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق آئندہ قوم آخرین میں یہ واقعہ دہرایا جانے والا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ قوم آخرین کون سی ہے.اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید وضاحت فرمائی.ترندی ابواب الصوم باب ما قیل یوم العاشورة ( حدیث نمبر: ۶۷۲) اس

Page 660

خطبات طاہر جلدے 655 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء میں درج ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ وہ دن ہیں جن میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو فرعون پر غلبہ ملا اور سمندر سے نجات حاصل ہوئی اور اس طرح کا ایک اور واقعہ میری اُمت میں بھی آئندہ زمانے میں ہونے والا ہے.تو قوم آخرین سے مراد کوئی دوسری قوم نہیں بلکہ امت محمدیہ ہی ہے.صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.اگر یہ وضاحت نہ بھی ہوتی تب بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اور کس کی اُمت کے حق میں خدا نشان ظاہر فرما سکتا ہے.اس لئے وہ تو بہر حال قطعی بات ہے لیکن مزید تقویت ایمان کی خاطر میں یہ حدیث بھی آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آج سے تقریباً ۶ ۸ سال پہلے یہ خبر دی کہ یہ واقعہ آپ کے زمانے میں ہونے والا ہے.آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہیں جن کی یہ پیش گوئیاں کی گئی ہیں.چنانچہ الہاما آپ سے یہ فرمایا گیا کیانی علیک زمن کمثل زمن موسی ( تذکرۃ صفحہ ۳۶۲) کہ تجھ پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جیسا موسیٰ کے اوپر ایک زمانہ آیا تھا.۲۱ / دسمبر ۱۹۰۲ء.الحکم ۱۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ء میں یہ شائع ہوا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ء کو وصال سے قریباً ایک سال پہلے یہ الہام ہوا ایک موسیٰ ہے میں اُس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اُس کو عزت دوں گا.‘ ( تذکرہ صفحہ ۵۹۶) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا انه کریم تمشی امامک و عادی من عادی.فرمایا: کل جو الہام ہوا تھا یاتی علیک زمن کمثل زمن موسیٰ یہ اُسی الہام سے آگے معلوم ہوتا ہے جہاں ایک الہام کا قافیہ دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہام ایک دوسرے سے دس دن کے فاصلہ سے ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا تعلق آپس میں ضرور ہے.یہاں بھی موسیٰ اور عاری کا قافیہ ملتا ہے اور پھر توریت میں اس قسم کا مضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ تو چل اور میں تیرے آگے چلتا ہوں“.( تذکرہ صفحہ: ۳۶۶-۳۶۷) ان امور سے یہ ثابت ہوا کہ فرعون کے ساتھ ہونے والے واقعات اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ فرعون نے جو مظالم کئے اُن کے جواب میں خدا تعالیٰ کی ایک ایسی تقدیر ظاہر ہوئی تھی جس نے دوبارہ ظاہر ہونا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں

Page 661

خطبات طاہر جلدے 656 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء عظیم الشان معجزہ قرآن کریم کے ایک بیان کی صورت میں ظاہر ہوا.جس نے گزشتہ تاریخ کے ایک ایسے چھپے ہوئے واقعہ کو روشن کر دیا جس کے متعلق کوئی دنیا کا اندازہ لگانے والا ، کوئی سائنس دان، کوئی مفکر وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا تھا.چنانچہ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جب بعض دہر یہ مجھ سے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت مانگتے ہیں تو اُن کو میں ایک مثال یہ دیا کرتا ہوں.میں اُن سے کہتا ہوں اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادہ ہے اور غیب کا علم تم لوگ کہہ سکتے ہو کہ ٹامک ٹویوں کے ذریعے زا بچوں کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے مگر قرآن کریم نے تین قسم کے غیب ایسے بیان فرمائے ہیں جن کے متعلق تم خود مانے پر مجبور ہو جاؤ گے کہ کوئی زائچہ کوئی اندازہ اس قسم کے غیب پر انسان کو غلبہ نہیں دے سکتا.ایک غیب کا تعلق ہے ماضی کے واقعات سے اور اُن میں سے سب سے نمایاں واقعہ یہ فرعون والا واقعہ ہے کوئی انسان یعنی حضرت موسیٰ کے زمانے کے بعد جو تقریباً ۱۹۰۰ سال کے بعد آیا ہو وہ ۹۰۰ سال کے پہلے ہونے والے اس واقعہ کے متعلق ایسا اندازہ لگائے جس کو انسانی فطرت رد کرتی ہو اور جس کا اُس سے ثبوت مانگا جائے تو کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے.سو سال گزر جائیں.دوسو سال گزر جائیں.تین سو سال گزر جائیں.ہزارسال گزر جائیں.اُس پر تین سوسال گزر جائیں اور اُس وقت تک اگر مسلمانوں سے پوچھا جائے کہ بتاؤ کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے تو کوئی جواب نہ دے سکیں.کوئی ادنی سی عقل رکھنے والا انسان بھی ایسی گپ بنا نہیں سکتا اگر یہ گپ ہو.عالم الغیب والشھادۃ خدا سے جس کا تعلق نہ ہو ایسی بات وہم وگمان میں بھی نہیں لاسکتا.چنانچہ جب بھی میں نے بات بعض دہریوں کے سامنے رکھی کبھی وہ اس کا جواب نہیں دے سکے.آپ بھی تجربہ کر کے دیکھیں یہ ایک ایسا معجزہ ہے قرآن کریم کا جس کی کوئی نظیر آپ کو کسی جگہ نہیں ملے گی.ماضی بعید کے ایک ایسے دور کے واقعہ کو دہرانا اور اس کے ایک ایسے پہلو کو اُجاگر کرنا جو تاریخ میں کہیں مذکور نہیں اور جس کے متعلق دعوی کرنا خود اپنے آپ کو جھٹلانے کے مترادف ہے.نعوذ باللہ من ذالک ان معنوں میں ایک ایسا دعویٰ پیش کرنا جس کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا ، جس کو بظاہر تاریخ جھٹلا رہی ہے.جس کو ہر معقول آدمی رد کرتا چلا جائے گا کہ یہاں تک ۳۰۰ سال کے بعد خدا تعالیٰ کی تقدیر اُس کی سچائی میں ایسے ثبوت مہیا کر دے گی جن کو زمین اُگلے گی اور دنیا اُس کا انکار نہیں کر سکے گی.

Page 662

خطبات طاہر جلدے 657 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء منفتاح‘ کے متعلق ایک بات یہ قابل غور ہے کہ جب منفتاح ڈوب کر مرا ہے تو کیا اُس کے متعلق تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ درج ہے.محققین اس بات کو تعجب سے دیکھتے ہیں.چنانچہ بعض مؤرخین نے اس کو جو عیسائیت سے متاثر نہیں ہیں اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے.وہ کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک فرعون ڈوب کر مرا ہو موسیٰ سے اس کا اس قسم کا مقابلہ ہوا ہو اور مصر کی تاریخ میں یہ واقعہ مذکور ہی نہ ہو.اس لئے یہ پہلو ایسا ہے جس کے متعلق مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہے.واقعہ یہ ہے کہ خود یہی مؤرخین جو شک کا اظہار کرتے ہیں کھلم کھلا یہ بات لکھ چکے ہیں کہ Egypt کے فراعین چونکہ خدا کے ہم مرتبہ سمجھے جاتے تھے اس لئے اُن کے متعلق کوئی بھی تخفیف کی بات وہ تاریخ میں محفوظ نہیں کیا کرتے تھے بلکہ اُن کی تحفیف یعنی اُن کی ذلت کے واقعات کو الٹا کر اُن کی شان و شوکت کے واقعات کے طور پر بیان کیا کرتے تھے.اس کا سب سے بڑا ثبوت خود در مسیس ثانی کے زمانے میں ملتا ہے.یعنی وہ فرعون جس کے زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جس کے بیٹے سے پھر بعد میں مقابلہ ہوا ہے.رمسیس ثانی کو اپنے ایک دشمن کے ہاتھوں ایسی زک اُٹھانی پڑی کہ اگر وہ غیر معمولی جرات اور ہوشیاری سے کام نہ لیتا تو اُس جنگ میں وہ ہلاک ہو جاتا.اُن کے بچھائے ہوئے جال میں وہ پھنس گیا اور بظاہر اُس سے نجات کی کوئی صورت نہیں تھی.اس شکست کو مصر کی تاریخ ، اس زمانے کی تاریخ عظیم الشان فتح کے طور پر پیش کر رہی ہے جبکہ تمام تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ یہ بہت ہی ذلت آمیز شکست تھی اور مصر کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں خود یہی محققین لکھتے ہیں کہ کہیں اس واقعہ کو شکست کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس فتح کو منانے کے لئے اس نے بڑی بڑی عظیم عمارتیں بنانی شروع کیں اور گویا کہ وہ ذلت کی بجائے وہ اس شکست کو فتح کے طور پر پیش کرتا تھا اور اس فتح کی شان منانے کے لئے اُس نے بہت بڑی بڑی عظیم عمارتیں بنا ئیں.تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے ایسی ذلت آمیز شکست اور خدا کی تقدیر کا نشانہ بننے کے واقعہ کو مصر کی تاریخ اسی رنگ میں محفوظ کرتی.جہاں تک مؤرخین کا تعلق ہے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس فرعون کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ دفنایا گیا ہے اور عظیم الشان اُس کا سوگ منایا گیا ہے اور بہت دھوم دھام کے ساتھ اس کے جسم کو محفوظ رکھنے کا جوطریق تھا وہ اختیار کیا گیا.پھر جس طرح باقی فراعین کو دفن کرتے وقت شان و شوکت کے ساتھ بہت قیمتی جواہر اور سونے کے برتن

Page 663

خطبات طاہر جلدے 658 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء اور اسی طرح دنیاوی ساز وسامان ساتھ دفنایا کرتے تھے، اس کے ساتھ بھی دفنائے گئے.تو اس زمانے کا مؤرخ اس واقعہ کو کبھی بھی شکست کے طور پر تسلیم نہیں کر سکتا.اس زمانے کا انسان جو پیچھے رہ گیا تھا اُس کی تو آنکھیں چندھیا گئی ہوں گی اس شان و شوکت سے.سارے مصر میں ماتم منایا گیا اور اُس کی موت کے اوپر وہ دھوم دھام منائی گئی جو فرائین کی موت کے ساتھ تاریخی طور پر روایتی طور پر وابستہ ہوا کرتی تھی.یہ اعتراض اُن کا کہ وہ ڈوب کر مرا ہی نہ ہو کیونکہ اُس کی لاش پر کوئی ایسے اثرات نہیں ملتے جس سے ثابت ہو کہ اُس کے اوپر کسی قسم کے Violance کے نشان ہیں یعنی مچھلی کے کاٹنے کے اور اس قسم کے.یہ بات قرآن کریم کے بیان کو جھٹلاتی نہیں بلکہ اُس کی تائید کرتی ہے.قرآن کریم نے فرمایا نُنَجِيكَ بِبَدَنك خدا نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے.کس مچھلی کی مجال تھی سمندری جانور کی طاقت تھی کہ خدا کے اس فیصلے کے خلاف اُس کی لاش کو کوئی نقصان پہنچا سکتا.چنانچہ یہ خدا تعالیٰ نے جو واقعہ قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے یہ تو اس کی عظمت کو دوبالا کرنے والی بات ہے.رہا یہ کہ کیسے ہوا ہوگا یہ سمجھنا تو کوئی مشکل نہیں کیونکہ یہ واقعہ دریائے نیل کا جو سنگم ہے سمندر کے ساتھ اُس پر ظاہر ہوا ہے اور ڈیلٹا کا جو علاقہ کہلاتا ہے اور مصر کے شمال مشرقی حصے میں ہوا ہے.اس بات کے متعلق مؤرخین اس لئے متفق ہیں کہ پرانی تاریخوں میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ جس جگہ حضرت موسیٰ نے اور آپ کی قوم نے سمندر کو یا دریا کو پار کیا تھا یہ بحث طلب ہے کہ سمندر تھا پھٹ گیا تھا یا دریا سمندر کے جوڑ پر یہ واقعہ ہوا ہے.اُس جگہ ایک Reed ملتی ہے جسے Papyrus کہتے ہیں Papyrust Paparuis یہ وہ Reed ہے جس سے کاغذ بنائے جاتے ہیں.جب ہم یوگنڈا گئے تو وہ بھی دریائے نیل کا دہانہ و ہیں ہے اُس کی نیل کے کنارے کنارے یہ بہت کثرت سے پائی جاتی ہے یہ Reed.اور Egypt تک مسلسل دریائے نیل کے کناروں پر یہ Reed ملتی ہے.مؤرخین کہتے ہیں کہ Papyrus وہاں موجود تھی.یہ تو ثابت شدہ بات ہے اس لئے یہ سمندری پانی نہیں ہو سکتا کیونکہ کھاری پانی میں Papyrus کا پودا نہیں اگتا.یہ میٹھے پانی کا پودا ہے تو معلوم ہوا کہ ایسی جگہ یہ واقعہ ہوا ہے جہاں دریائی علاقہ تھا اور وہاں سے معلوم ہوتا ہے سمندر وہاں سے پیچھے ہٹ گیا اور خشک دور کا یہ واقعہ تھا.اس خشک دور میں چونکہ

Page 664

خطبات طاہر جلدے 659 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء سمندر پیچھے ہٹنے کے نتیجے میں کچھ اونچی سطح کے ایسے علاقے نمودار ہو جاتے ہیں دریا کے اندر سے ہی جس پر انسان آسانی سے دریائی علاقے کو پار کر سکتا ہے جب سمندر کی لہریں دوبارہ طغیانی میں آئیں اور اوپر چڑھ جائیں اُس وقت لوگ موجود ہوں وہ غرق بھی ہو سکتے ہیں.تو معلوم یہ ہوتا ہے اُس وقت یہ واقعہ ہوا ہے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام گزر چکے ہیں جوار بھاٹا تو ہوتا رہتا ہے اور سمندر کی لہریں دوبارہ اپنے اونچا ہونے کے وقت میں وہ اوپر چڑھ آئیں اور فرعون غرق ہوا اور ساتھ ہی وہ ہٹ بھی گئی ہوں گی.اس لئے ہر گز بعید نہیں کہ اس واقعہ کے ہونے کے بعد ایک شور قیامت بپا ہو گیا ہوگا اور باقی فوج نے فوری طور پر فرعون کی لاش کو محفوظ کر لیا ہو کیونکہ چند گھنٹے کے اندراندراگر غرقاب شدہ لاش کو دریافت کر لیا جائے تو اس پر کسی قسم کے کوئی آثار ایسے ظاہر نہیں ہوتے جس سے آپ کہہ سکیں کہ یہ ڈوب کر مرا ہے.اور پھر جب تمھی ہو جائے تو پھر انسان کسی لحاظ سے بھی معلوم نہیں کرسکتا.میں نے خود ایک دفعہ ایک لاش کو ڈوبنے کے قریباً ۲۴ گھنٹے کے بعد نکالا ہے اور ہمارے دریائے چناب کے کنارے پر محلہ دارالیمن میں ایک احمدی نوجوان فوجی تھے جو وہاں ڈوب گئے تھے.تو جب غوطہ خور تلاش نہیں کر سکے تو میں بھی پھر گیا وہاں تو میں نے دیکھا اندر وہ اس طرح بیٹھے ہوئے تھے جس طرح کوئی زندہ آدمی بیٹھا ہوا ہے.کوئی بداثر لاش پر کسی قسم کا نہیں تھا نہ کوئی چوٹ کا نشان تھا وہ آدھی اٹھی ہوئی لاش کو لہے سے اوپر نیم متعلق تھی پانی میں.چنانچہ میں نے بغل میں ہاتھ دے کر ان کو باہر نکالا اس کے بعد بھی ہم نے لاش دیکھی اُس پر کوئی برانشان نہیں تھا.تو یہ خیال کر لینا مؤرخین کا چونکہ اس جسم کے اوپر کسی سمندری جانور نے حملہ نہیں کیا یا اس قسم کے کوئی بدنشان نہیں ملتے اس لئے یہ واقعہ غلط ہو گیا بالکل بے معنی بات ہے.قرآن کریم کے اعجازی نشان کو اور بھی زیادہ بڑھا کر اور چمکا کر پیش کرتا ہے واقعہ.اس کے باوجود کہ امکان تھا اُس کی لاش کے ضائع ہونے کا پھر بھی وہ لاش ضائع نہیں ہوئی.فرعون مصر کے ساتھ کچھ اور واقعات بھی وابستہ ہیں اور اُس زمانے میں کچھ واقعات ہیں.تاریخ ان معنوں میں تو اپنے آپ کو بہر حال نہیں دہرایا کرتی کہ لفظ لفظ وہی چکر دوبارہ چل پڑے گویا خدا کی تقدیر میں اور کوئی نقشہ ہی نہیں ہے جو ہر کچھ عرصے کے بعد دہرایا جاتا ہے.اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مجھے 12 تاریخ کے خطبے سے پہلی رات کو یعنی 11 اور 12 کی درمیانی رات کو یہ

Page 665

خطبات طاہر جلدے 660 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء مضمون کھول کر سمجھا دیا اور میں نے خطبے میں بیان بھی کیا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں ایک انگریزی ترجمے کے متعلق کچھ انگریز بیٹھے ہوئے سوال کر رہے ہیں کہ یہ جو ترجمہ ہے یہ درست نہیں لگتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عبارت کا ترجمہ گویا میں نے یا میرے ساتھ مل کر چندلوگوں نے کیا ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انگریزی محاورے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو اس طرح دہراتی ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں.ہم تو اور معنوں میں لیتے ہیں ہر چیز کو یاد ہرائی جاتی ہے لیکن تم نے جو یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا ہے اس میں یہ عبارت بنتی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو اس طرح دہراتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عقوبت کے واقعات کو دہراتا ہے.جن قوموں کو سزا دیا کرتا ہے اُن کو سزا دینے کے واقعات کو دہراتا ہے.اس پہلو سے مجھے اس میں ایک خوشخبری بھی معلوم ہوئی ہے.وہ خوشخبری اس لئے کہ مجھے اس الہام کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ ایک فکر لاحق ہوا کرتی تھی کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تو اور بھی بہت سے تکلیف دہ واقعات ہوئے ہیں جو بعض اپنی قوم کی طرف سے اُن کو پہنچے.قرآن کریم میں اُن کا ذکر ملتا ہے، ایک سے زائد جگہ اُن کا ذکر ملتا ہے.سب سے بڑا تکلیف دہ واقعہ یہ کہ جب حضرت موسیٰ کے جانے کے بعد قوم نے ایک بچھڑے کو اپنا خدا بنالیا تھا اور وہ جو سونے کا بچھڑا تھا اس سے متاثر ہو گئی تھی اور بھی کئی قسم کے تکلیف دہ واقعات گزرے ہیں جنکو پڑھنے کے بعد دل میں ایک خوف طاری ہوتا تھا.وہم پیدا ہوئے تھے کہ اگر تاریخ اسی طرح دہرایا کرتی ہے اور زمن موسی سے یہی مراد ہے تو پھر تو خدانخواستہ بعض تکلیف دہ چیزیں بھی دیکھنے میں آئیں گی.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کلیہ ایسا واقعہ کوئی نہ ہو لیکن اس رؤیا کے بعد میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے.یہ جو فرمایا گیا ہے زمن موسیٰ کا سازمانہ تجھ پر آنے والا ہے جس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واضح طور پر لکھا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آئندہ کسی خلیفہ کے زمانے میں یہ واقعات رونما ہوں گے.اُن میں وہ شرانگیز واقعات شامل نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ جو بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت میں تاریخ دہرانے کا یہ ترجمہ بیان ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی عقوبت کے واقعات کو اپنی پکڑ کے واقعات کو، اُس سلوک کو دہراتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ دشمنی کرنے والوں کے ساتھ وہ کیا کرتا ہے.تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں

Page 666

خطبات طاہر جلدے 661 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء دعا کرنی چاہئے کہ زمن موسیٰ کے تقدیر الہی کے دشمنوں سے سلوک کے واقعات تو دہرائے جائیں اور اللہ تعالیٰ فضل کرے تو اُن کو بھی ہدایت دے اور یہ واقعات بھی اُس شدت سے نہ دہرائے جائیں لیکن وہ واقعات جو روحانی طور پر خدا تعالیٰ کے موحد بندوں کے لئے تکلیف کا موجب بنا کرتے ہیں وہ واقعات نہ دہرائے جائیں.فرعون کی تاریخ کے بعض اور واقعات بھی ہیں.زمنِ موسی اس میں صرف غرقابی کا واقعہ نہیں ہے زمن موسی تو ایک بڑا المبازمانہ تھا.اُس میں خدا تعالیٰ نے جس طرح اپنی پکڑ کا آغاز کیا ہے جونو (۹) نشانات کا ذکر ملتا ہے اُن پر بھی غور کرنا چاہئے.اس لئے ہر گز بعید نہیں کہ وہ نشانات بھی اسی طرح دہرائے جائیں کم و بیش شدت کے ساتھ.مورخین چونکہ اکثر دہر یہ مزاج ہوتے ہیں یا کم سے کم اگر خدا پر ایمان بھی لاتے ہوں تو تاریخی تحقیق میں ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں گویا وہ خدا پر ایمان نہیں لاتے.ورنہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری تحقیق کو لوگ تخفیف کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ سمجھیں گے یہ کوئی محقق نہیں ہے بلکہ کوئی تو ہم پرست انسان ہے.اس لئے جب بھی اس واقعہ پر آتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں نشانات کیسے ظاہر ہوئے تھے تو ان کی کوئی عقلی اور سائنسی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں بعض جھٹلا دیتے ہیں اور بعض کہہ دیتے ہیں کہ نہیں یہ واقعات ہوئے ہونگے.چنانچہ وہ توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ اُس زمانے میں دریائے نیل میں سیلاب آگیا تھا اور اتنا غیر معمولی سیلاب تھا کہ اس سیلاب کے نتیجے میں پھر خود بخود یہ واقعات رونما ہونے ہی تھے یعنی اُن کا تعلق ایک قدرتی واقعہ سے تھا.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام وہ کہتے ہیں کہ ان واقعات سے فائدہ اُٹھا گئے.حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے تو پہلے خبر دی تھی اور فرعون کو پہلے بتایا تھا کہ اس قسم کے واقعات تم پر گزرنے والے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان ہوں گے.حضرت موسی کوئی موسمی پیشگوئیاں کرنے والے محکمے سے تعلق تو نہیں رکھتے تھے.خدا تعالیٰ کے ایک عاجز بندے تھے تعلیم بھی بالکل معمولی سی تھی.اس کے باوجود یہ جوخبر میں خدا تعالیٰ نے دی ہیں یہ آج پیچھے دیکھ کر تاریخ میں بڑے بڑے محقق پڑھ لیتے ہیں کہ یہ واقعہ یوں ہوا ہوگا.واقعہ ہونے سے پہلے کون بتا سکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوں گے.اتنا بڑا سیلاب آئے گا اور اس کے نتیجے میں پھر یہ یہ واقعات رونما ہوں گے.

Page 667

خطبات طاہر جلدے 662 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ سرخ پانی کا نشان ہے یعنی خون ملا ہوا پانی جسے ہم نے تحقیق کرلی ہے یہ بالکل قدرتی واقعہ ہے.وہ اس طرح کہ جہاں دریائے نیل کا منبع ہے ایک طرف تو یوگنڈا میں ایک Victoria Lake کا جو کنارہ یوگنڈا کے اندر واقع ہے وہاں سے دریائے نیل کو نکلتا ہوا بتاتے ہیں.ایک تو وہ جگہ ہے.دوسری جگہ ایک اور ہے جسے بعض لوگوں کے خیال میں یوگنڈا میں ایک پہاڑ میں واقع ہے بعض کہتے ہیں کہ ایسے سینیا کے پہاڑ سے تعلق والی جگہ ہے.اُس پہاڑ کا نام جبل القمر ہے.اس سے جو دریائے نیل پھوٹتا ہے وہ زیادہ لمبا ہے سمندر سے دوری کے لحاظ سے وہ جگہ بہ نسبت اس Victoria Lake کی جگہ سے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ دریائے نیل جبل القمر سے نکلتا ہے اور اُس زمانے میں اس کا کوئی وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا تھا.یہ آج کل کی تازہ دریافتیں ہیں.اس لئے وہاں جب یہ گفتگو ہوئی مجھے انہوں نے منبع دکھایا Victoria کے کنارے پر حکومت کے Protocal افسر ساتھ تھے تو میں نے اُن سے کہا کہ یہ منبع نہیں کوئی اور منبع ہو گا کیونکہ وہ تو جبل القمر کا ذکر ملتا ہے.وہ واقف تھا اچھی طرح جغرافیہ سے.اُس نے کہا یہ بات درست ہے.دو دریائے نیل ہیں ایک نیل کا یہ منبع ہے دوسرے نیل کا منبع جبل القمر ہی ہے اور وہ یوگنڈا کے پہاڑوں میں سے ہی ایک پہاڑ کا نام ہے.ہوسکتا ہے اُس کا ایک حصہ ایسے سینیا میں بھی ہو.اُس سے پھر میں نے یہ سوال کیا زیادہ دور فاصلہ کس کا ہے.اس Victoria Lake کے منبع کا فاصلہ سمندر سے دور ہے یا اُس پہاڑ کا فاصلہ جسے جبل القمر کہہ رہے ہو.اُس نے کہا وہ بہت زیادہ دور ہے تو جغرافیائی اصول کے مطابق تو پھر جو Source دور ہو وہی اصل Source کہلانی چاہئے.تو بہر حال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ جبل القمر کا منبع ہی ہے.ور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ دریائے نیل کہاں سے نکلتا ہے.نہ یہ ایسا مضمون تھا جس کے متعلق آپ لب کشائی فرماتے.چنانچہ یہ جو واقعہ بیان کرنے لگا ہوں اس کا جبل القمر کے منبع سے بھی تعلق ہے Victoria والے منبع سے تعلق نہیں.چنانچہ مؤرخین نے یہ دریافت کیا کہ دریائے نیل کو اگر ہم دوسرا نیل سمجھیں اور جبل القمر سے نکلنے والا نیل سمجھیں تو اس کے راستے میں ایسی مٹی آتی ہے جو سرخ رنگ کی ہے اور اس کے علاوہ بعض کثرت سے پیدا ہونے والی نباتات ایسی ہیں جو بالکل سرخ ہیں.اگر دریا طغیانی میں آجائے.اس علاقے میں زیادہ

Page 668

خطبات طاہر جلدے 663 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء.بارشیں ہوں تو سارے ارد گرد کے کی مٹی جو سرخ رنگ کی ہے وہ گھل کر اُس دریا میں داخل ہوگی اور پھر وہ نباتات سرخ رنگ کی ہیں تو دیکھنے والا یہ سمجھے گا کہ وہ خون سے بھرا ہوا دریا چل رہا ہے.چنانچہ یہ تشریح انہوں نے اس طرح کی ، اس کے بعد پھر مینڈک آنے ، پھر طاعون کا ظاہر ہونا پھر اور کئی قسم کی بیماریاں ہیں.معلوم ہوتا ہے فرعون کی قوم نے بات ماننی نہیں تھی اس لئے وہ ہر تکلیف کے بعد ، ہر عذاب کے بعد کوئی نہ کوئی بہانے تلاش کر لیا کرتے تھے اور یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ یہ یوں ہو گیا ہوگا، یہ یوں ہوگیا ہوگا.چنانچہ مسلسل پے در پے اُس قوم کو نشان دکھائے گئے تھے.تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اگر وہ تاریخ کو دہراتا ہے اور یہ سارے واقعات ہی دہرائے جانے والے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے اس قوم سے نسبتا بہتر سلوک ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گرنہ ہوتا نام احمد مجس پر میرا سب مدار ( در این صفحه: ۱۳۱) ( کہ میرا تو سب مدار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام احمد پر ہے.اور اس کی برکت سے خدا نے مجھے صلیب کی صعوبتوں سے نجات بخشی ہے.اس لئے اسی نام کی برکت سے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور فرعون موسیٰ کے زمانے میں ہونے والے واقعات کو اگر دہراتا ہے جیسا کہ اُس کی تقدیر ہے کہ ضرور وہ دہرائے جائیں گے اور اسی زمانے میں جس میں سے ہم گزر رہے ہیں مقدر یہی تھا کہ اسی زمانے میں دہرائے جائیں گے تو اس طرح دہرائے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور برکت سے آپ کی طرف منسوب ہونے والی قوم کو کم سے کم تکلیفیں پہنچیں اور وہ زیادہ سے زیادہ ہدایت پا جائے چونکہ یہ مضمون لمبا ہو گیا ہے اس لئے دوسرا پہلو اس مضمون کا انشاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان کروں گا.

Page 669

Page 670

خطبات طاہر جلدے 665 خطبه جمعه ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء لیکھرام کی موت کا عظیم الشان نشان.دنیا کی دولتوں اور وجاہتوں کو بت نہ بنائیں ( خطبه جمعه فرموده ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے آغاز ہی میں ذکر کیا تھا کہ انشاء اللہ تعالیٰ دو ایسے عظیم الشان نشانات کا ذکر کروں گا جن سے مومن کا ایمان تازہ ہوتا ہے.ایک نشان کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہے اور دوسرے نشان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہے اور ان دونوں کے درمیان آپس میں رابطہ بھی ہے اور دونوں نشان ایسے ہیں جو درحقیقت ایک بہت ہی لمبے زمانے پر پھیلے ہوئے ہیں اور ایک کا آغاز اس وقت ہوا اور انجام اس زمانے میں یعنی دوسرا کنارہ اس زمانے میں ظاہر ہوا.ایک بظاہر اس زمانے میں ظاہر ہوا ہے لیکن اس کا پہلا کنارہ الہامات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت موسی کے زمانے میں ہی پیوستہ تھا.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے والا جو نشان میں نے آپ کے سامنے پیش کیا تھا وہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام اور فرعون کا مقابلہ تھا جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے فرعون کی ہلاکت کے سامان پیدا فرمائے اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی قوم کی نجات کے سامان پیدا فرمائے.اس ضمن میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جہاں قرآن کریم یہ ذکر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرعون سے وعدہ کیا کہ چونکہ تو اب تو بہ کر رہا ہے اس لئے اگر چہ تیری روح کی نجات کا وقت نہیں لیکن میں تیرے جسم کو نجات دوں گا.اس کا برعکس بھی اسی الہام سے ثابت ہوتا ہے،اسی خدائی کلام سے

Page 671

خطبات طاہر جلدے 666 خطبه جمعه ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء ثابت ہوتا ہے.یعنی اگر وہ تو بہ نہ کرتا تو اس کے جسم کا کوئی وجود، کوئی نشان باقی نہ رہتا اور وہ اپنے وجود کے مٹ جانے کے ذریعے عبرت کا نشان بن جاتا.عبرت تو بہر حال دونوں صورتوں میں اسے بننا ہی تھا.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں فرعون کے نشان کے سوا اور بھی باتیں ہوئی جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.ان میں ایک ذکر سامری کے بچھڑے کا ہے کہ کس طرح سامری کے فتنہ کے نتیجہ میں ایک بچھڑے کو خدا بنالیا گیا اور پھر اس بچھڑے کے انجام کا ذکر ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب لیکھرام سے اس وجہ سے مقابلہ ہوا کہ لیکھر ام حضرت اقدس محمد مصطفی ملالہ کے خلاف انتہائی بدزبانی کرتا تھا اور دریدہ دہنی سے کام لیتا تھا.تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لیکھرام کا جو انجام دکھایا گیا وہ سامری کے گوسالہ بچھڑے کے مطابق دکھایا گیا.پس اگر چہ یہ نشان اس زمانے میں ظاہر ہوالیکن اس کا آغاز جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا حضرت موسی کے زمانے ہی میں ہو چکا تھا اور خدا تعالیٰ نے ان دونوں کو آپس میں اس طرح باندھ دیا اور اس نشان میں یعنی گوسالہ کے نشان میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ گوسالہ خود اپنی پیدا وار آپ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور طاقت تھی جس نے اس کو کھڑا کیا تھا اور جو کچھ وہ بولتا تھا اس کی اپنی زبان نہیں تھی بلکہ جو کچھ اس میں بھرا گیا تھا وہی بولتا تھا اور اس کے پیچھے ایک طاقت تھی جو سامری کی طاقت کہلاتی ہے.پس اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب آپ آگے بڑھیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور لیکھرام کے انجام پر غور کریں گے تو اس میں آپ کو بہت سے روحانی سبق ملیں گے.سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کولیکھر ام کے بارے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ۱۸۸۶ء میں خبر دی گئی ہے.اس لئے یہ خیال کرنا کہ جس وقت وہ پیشگوئی شائع ہوئی کہ چھ سال کے اندر اندر تم ہلاک کئے جاؤ گے وہی اس پیشگوئی کا آغاز ہے درست نہیں ہے.اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء جس کا تعلق حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ہے اس اشتہار ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی زمانے میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ لیکھرام کے متعلق ایسے اندار کا ذکر فرمایا جوخدا تعالیٰ نے آپ کو عطافرمایا تھا.جس کی خبر خدا تعالیٰ نے آپ کو دی تھی.چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

Page 672

خطبات طاہر جلدے 667 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا اندر من مراد آبادی اور لیکھر ام پشاوری کو اس بات کی دعوت دی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضاء و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں.“ ظاہر ہے کہ بعض پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو چکی تھیں ورنہ بغیر کسی پیشگوئی کے کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ اعلان عام فرما سکتے تھے.فرماتے ہیں: سواس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے.تو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا عجل جسد له خوار له نصب و عذاب اس حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خاص توجہ کے بعد یہ الہام ہوا ہے اور اس سے پہلے کوئی پیشگوئی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ دعوت دینا کہ اگر چاہو تو میں کچھ پیشگوئی شائع کروں یہ صاف بتارہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اشارے، کوئی الہام، کوئی القاء اس بات میں ہو چکے تھے کہ ان دونوں کے متعلق انذاری معاملات سے تمہیں آگاہ کیا جائے گا.اس لئے اشتہار کے ذریعے آگاہ کر دو اور اگر ان کی طرف سے اجازت ہو تو یہ پیشگوئی شائع کی جاسکتی ہے.اس منشاء الہی کے سوا خدا تعالیٰ کے انبیاء از خود قدم نہیں اٹھایا کرتے.اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کسی رنگ میں خواہ کھلے طور پر یا اشارے کے رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان دونوں دشمنان اسلام اور دشمنان محمد مصطفی ﷺ کے متعلق یہ اطلاع مل چکی تھی کہ خدا تعالیٰ ان کے بارے میں کوئی فیصلہ فرما چکا ہے.چنانچہ جب خصوصیت سے توجہ کی گئی تو الہام ہوا: عجل جسد له خوار له نصب و عذاب یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکر وہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے

Page 673

خطبات طاہر جلدے 668 خطبه جمعه ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء جوضرور اس کو مل کر رہے گا اور اس کے بعد آج جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء روز دوشنبه ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ اللہ کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه : ۶۵۰ -۶۵۱) پس چونکہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸ء ہے آغا ز فرمایا ہے اس لئے عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ گویا اسی تاریخ کولیکھرام کے متعلق انذاری الہام ہوا تھا حالانکہ اس ساری عبارت میں بات خوب کھول دی گئی ہے کہ انذاری الہام جو عجل جسد له خوار ہے وہ آج سے بہت پہلے ہو چکا تھا.آج جب وقت کے متعلق توجہ کی گئی کہ کب ہلاک ہو گا تو اس کے جواب میں یہ ہے.پس یہاں سے اس کا آغاز سمجھنا درست نہیں.پس اگر جیسا کہ واضح ہے اس کا آغاز اسی الہام سے لیا جائے جس کا ذکر میں نے کیا ہے تو لیکھرام کی ہلاکت گیارہ سال گزرنے کے بعد ہوئی ہے اور بعینہ گیارہ سال پورے ہو چکتے ہیں پھر کچھ عرصے کے بعد یعنی ایک ماہ کے کم و بیش عرصے میں لیکھر ام ہلاک ہوا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دوسرا الہام بعد ۱۱.انشاء اللہ ( تذکرہ صفحہ: ۳۲۷) اس حصہ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور چونکہ یہ الہام اس واقعہ کے بعد کا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا ایک اور واقعہ بھی ہونے والا تھا.چنانچہ اس کا ثبوت کہ اس قسم کا ایک اور واقعہ ہونے والا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت ہی سے ملتا ہے.آپ فرماتے ہیں: آج جو ۲ را پریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سے غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی

Page 674

خطبات طاہر جلدے 669 خطبه جمعه ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شدا دوغلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھر ام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.(صرف لیکھرام کے لئے وہ مامور نہیں تھا ایک اور شخص کے لئے بھی وہ مامور تھا).تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھر ام اور دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے.مگر مجھے معلوم نہیں ہورہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے.“ ( بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه :۳۳) بہر حال جیسا کہ تمام احباب کو خوب اچھی طرح علم ہے کہ لیکھرام کی ہلاکت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے ظاہر تھا عین اسی طریق پر ہوئی جس طریق پر آپ کو خدا تعالیٰ نے کشفاً اور الہاما خبریں دے رکھی تھیں.لیکھرام کی ہلاکت اور فرعون کی ہلاکت میں دونوں میں بعض چیزیں مشترک ہیں.دونوں ایک لمبے عرصے تک دکھ دیتے رہے لیکن ان کا اپنا انجام بہت تھوڑے سے عرصے میں ختم ہو گیا.یعنی دنیا میں ان کو لمبا دکھ دیکھنا نصیب نہیں ہوا.اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اتنا لمبا عرصہ انہوں نے دکھ دیا، اتنی تکلیفیں پہنچا ئیں اور آنا فانا اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس میں مزہ کیا آیا.کچھ دیر یہ تڑپتے ، کچھ دیر بے قرار رہتے اس دنیا میں ذلت اور رسوائیاں دیکھتے تو ہم سمجھتے کہ واقعی انتقام ہے.ایسے لوگ اپنے آپ کو یا تو خدا سمجھتے ہیں کہ ہم تقدیر بناتے تو بہتر بناتے یا وہ ان کو اس بات پر ایمان ہی نہیں کہ دنیا ایک دنیا نہیں بلکہ دو دنیا ئیں ہیں.دنیا تو لفظ اسی دنیا پر اطلاق پائے گا یوں کہنا چاہئے کہ ایک عالم نہیں دو عالم ہیں.ایک اس دنیا کا عالم اور ایک آخرت کا عالم اور خدا تعالیٰ کا جہاں تک تعلق ہے اس کے لئے تو ان دو عالموں کے درمیان کوئی بھی فرق نہیں.جیسے ایک لکیر پھلانگ کر کوئی شخص دوسری طرف چلا جائے اور ایک ہستی جو دونوں طرف دیکھ رہی ہو اور دونوں جگہوں پر پورا اختیار اور قدرت رکھتی ہو.جہاں تک اس کی نظر کا تعلق ہے اس کی نظر میں کوئی بھی فرق نہیں پڑا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا.لکیر کے اس طرف ہو کوئی یا اس طرف ہو جس کے قبضہ قدرت میں دونوں جگہیں یا دونوں میدان ہوں اس کی نظر میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ایک طرف کے لوگوں

Page 675

خطبات طاہر جلدے 670 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء کے لئے فرق پڑ جاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے کہ اسی دنیا میں عذاب دیا جائے بلکہ جہاں تک میں نے غور کیا ہے بسا اوقات بعض نیکوں کو لمبا عرصہ اس دنیا میں دکھ اٹھانا پڑتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ایک آیت سے پتا چلتا ہے کہ ہر شخص کے لئے جہنم کا نمونہ دیکھنا ضروری ہے.وہ جو خدا کے منکر یا گناہوں میں بہت بڑھ جاتے ہیں ان کے لئے دوسری دنیا کی جہنم دیکھنی ضروری ہوا کرتی ہے.اور جو خدا کے پاک بندے ہیں ان کو خدا جہنم میں تو نہیں ڈالتا بلکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس کی حسیں بھی نہیں سن سکیں گے.یعنی آخرت میں اس کی دور کی آواز جو ہلکی سی ہے وہ بھی وہ نہیں سن پائیں گے.تو ان دونوں آیتوں کا انطباق کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہنم دوسرے معنوں میں لفظی طور پر اطلاق نہیں پاتی بلکہ معنوی طور پر تکلیف کے معنوں میں اطلاق پاتی ہے اور خدا کے نیک بندوں کو بعض دفعہ یہاں لمبی تکلیفیں ملتی ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں بعض بیوقوف اور نادان کہ اتنے نیک ہو کر اتنی تکلیفیں اٹھا ئیں اور پھر لمبا سکھ دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو گئے تو یہ کیا تقدیر ہے خدا کی.یہ اس خدا کی تقدیر ہے جو دونوں عالم کا مالک ہے.جو یہاں کا بھی مالک ہے اور وہاں کا بھی مالک ہے.اس لئے اس جگہ سے گزر کر دوسری جگہ چلے جانا خدا تعالیٰ کے نزدیک کوئی ایسا واقعہ نہیں جس میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہو.یا ایسی تبدیلی جس سے اس کے قبضہ قدرت پر فرق پڑتا ہو.پس اس لحاظ سے خدا تعالی بعض اوقات اپنے بندوں کو اس دنیا میں تکلیف یا معمولی تکلیف کہنا چاہئے پہنچنے دیتا ہے تا کہ ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور آخرت میں پھر ان سے کوئی باز پرس نہ ہو.یہ مضمون میں اپنی طرف سے بیان نہیں کر رہا.حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ نے بھی سمجھایا ہے.آپ نے فرمایا کہ اس دنیا میں مومن کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کے لئے بھی جز ا مقدر ہے اور یہاں کی تکلیفیں مومن کے لئے اس کی خطاؤں کے جھڑنے کا موجب بن جاتی ہیں ( بخاری کتاب المرضی حدیث نمبر ۵۲۱۶) یعنی جہاں تک گناہ اور سزا کا معاملہ ہے مومن کی تکلیفیں اس کے گناہ جھاڑنے اور سزائیں دور کرنے کا موجب بن جاتی ہیں.پس اس وسیع مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ توقع رکھنی کہ خدا تعالیٰ ہر نبی کے ہر دشمن کو لمبا عذاب دے کر گویا اس کے نتیجہ میں یہ ثابت

Page 676

خطبات طاہر جلدے 671 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء کرے گا کہ یہ ہمارے ہاتھ سے نکل نہیں سکے بالکل غیر معقول بات ہے اور تاریخی طور پر قطع غلط ثابت ہوتی ہے.ابوجہل نے حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کو کتنے دکھ دیئے اور آنا فانا چند ثانیے میں ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہوا.اسی طرح اور بہت سے ایسے تاریخی واقعات آپ کو ملیں گے جہاں انبیاء کو دیکھ دینے والوں نے ایک لمبا زمانہ دکھ دینے کا پایا لیکن اس دنیا سے وہ بغیر کوئی خاص دکھ دیکھے رخصت ہو گئے.پس اس لئے اس وقت کے نادان بھی میں سمجھتا ہوں فرعون کے زمانہ کے نادان بھی شاید یہ سوچتے ہوں کہ یہ کیا ہوا اتنا لمبا عرصہ تکلیفیں دی گئیں بلکہ کئی نسلوں سے حضرت موسیٰ کی قوم کو تکلیفیں دی جارہی تھیں اور چند لمحے کے غرقابی کے سوا اسکو اور کوئی دکھ نہیں پہنچا تو یہ نا مجھی کی باتیں ہیں خدا کی تقدیر کے معاملوں کے فہم سے عاری لوگ ایسی باتیں کر سکتے ہیں.دوسرا پہلو دونوں کے درمیان یہ مشترک ہے کہ فرعون کو بھی اپنی موت کے بعد بڑی شان وشوکت نصیب ہوئی اور آج تک اس کی شان وشوکت کے آثار دنیا میں باقی ہیں اور لیکھرام کو بھی اپنی ہلاکت کے بعد بہت شان و شوکت نصیب ہوئی لیکن جو بنیادی فرق ایک اور ہے وہ یہ ہے کہ فرعون کی لاش محفوظ رکھی گئی کیونکہ اس کو تو بہ کا وقت ملا یعنی ایک رنگ میں تو بہ کی توفیق ملی.لیکن لیکھرام کی لاش محفوظ نہیں رکھی گئی.اس لئے اسے فرعون کے مشابہ قرار دینے کی بجائے سامری کے گوسالہ کے مشابہ قرار دیا گیا کیونکہ سامری کے بچھڑے کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں خدا تعالیٰ نے اس کا ریزہ ریزہ کروایا اور آگ میں جلا دیا گیا.پس یہ انجام چونکہ موسیٰ کے فرعون کے انجام سے مختلف تھا اس لئے سامری کے بچھڑے کی تشریح سامنے رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لیکھر ام کے انجام سے آگاہ فرما دیا گیا.جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہندوو یسے ہی اپنی لاشیں جلاتے ہیں اور چونکہ وہ تلوار سے کاٹا گیا اس لئے اس کے بعد وہ جب جلا دیا گیا تو اس کی خاک ریزہ ریزہ ہوگئی.اس کی راکھ ریزہ ریزہ ہو کر دریا میں بہادی گئی اور بعینہ یہی سلوک سامری کے بچھڑے سے ہوا تھا.جہاں تک لیکھرام کی عزت کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی لوگوں نے اس قسم کی باتیں کی ہیں اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہنچی بھی ہیں.لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اتنا بڑا نشان ظاہر ہوا ہے اس لئے اس کی موت کے ساتھ

Page 677

خطبات طاہر جلدے 672 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء اس کی ساری عزت اس رنگ میں خاک میں مل جائے گی کہ اس کی قوم اس کو چھوڑ دے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام میں جو گوسالہ بچھڑے کا ذکر فر مایا گیا اس کو تو خدا کے سوا معبود بنایا گیا تھا، اس کی تو پوجا کی گئی تھی.اس لئے یہ تو اسی رنگ میں پورا ہوسکتا تھا کہ اس کو بھی بہت بڑا مرتبہ دیا جاتا اور بہت بڑا مقام دیا جاتا نہ کہ اس کو ذلیل ورسوا کر کے پھینک دیا جا تا.چنانچہ حضرت موسیٰ کی قوم میں اس واقعہ کے بعد بھی سامری کے شرک کے لگائے ہوئے پودے نے مختلف وقتوں نے اپنی شاخیں پھیلائی ہیں اور لمبے عرصے تک سامریت کا اثر حضرت موسیٰ کی قوم میں جاری و باقی رہا اور حضرت موسیٰ کے لئے دکھ اور تکلیف کا موجب بنتا رہا.پس اس پہلو سے جب ہم لیکھر ام کے انجام کو دیکھتے ہیں تو اس کے متعلق جو بھی الفاظ اختیار کئے گئے ہیں جو بھی الفاظ بیان فرمائے گئی ہیں بعینہ صورتحال پر صادق آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ کام خدا تعالیٰ نے کیا ہے اور ہندوؤں کے دلوں میں اس کی عظمت ڈال دی تا ایک نامی آدمی کی نسبت پیشگوئی متصور ہو کر اس کا اثر بڑھ جائے اور روزگار سے مٹ نہ سکے.اب جب تک عزت کے ساتھ لیکھرام کو یاد کیا جائے گا تب تک یہ پیشگوئی بھی ہندوؤں کو یاد رہے گی.غرض لیکھرام کو عزت کے ساتھ یاد کرنا پیشگوئی کی قدر و منزلت کو بڑھاتا ہے.اگر پیشگوئی کسی چوہڑے چمار اور نہایت ذلیل انسان کے لئے پوری ہوتی تو کیا قدر ہوتی میں انسہ پہلے اس خیال سے نمگین تھا کہ پیشگوئی تو پوری ہوئی مگر ایک معمولی شخص کی نسبت جو پشاور میں سات آٹھ روپیہ کا پولیس کے محکمہ میں نوکر تھا.فرماتے ہیں: اب دیکھیں کے عارف باللہ اور عام انسان کی سوچ میں کتنا زمین آسمان کا فرق ہے.دو میں اس بات پہ تمکین تھا کہ آدمی ویسے معمولی سے لیکن جب میں نے سنا کہ مرنے کے بعد اس کی بہت عزت کی گئی تو میرا غم خوشی کے ساتھ بدل گیا اور میں نے سمجھا کہ اب لوگ خیال کریں گے کہ ایسے معمولی آدمی پر میری

Page 678

خطبات طاہر جلدے 673 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء دعاؤں کا حملہ نہیں ہوا بلکہ اس پر ہوا جس پر تمام قو مل کر روئی جس کے مرنے پر بڑا ماتم ہوا، جس کے مرثیے بنائے گئے ، جس کی یادگار کے لئے بہت سا روپیہ اکٹھا کیا گیا.سو یہ خدا کا احسان ہے کہ اس طرح پر اس نے پیشگوئی کو عظمت دے دی.الحمد للہ علی ذالک.“ ( ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه: ۴۱۹) کہ آریوں نے جو لیکھرام کی موت پر ماتم کیا ہے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے اشعار میں بھی کرتے ہیں : جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے (درین صفحہ: ۸۸) لیکھرام کوشہید کا خطاب دیا گیا اور خلاصہ ساری باتیں تو پڑھنے کا وقت نہیں ہے.چند ایک جو خطابات ملے ہیں لیکھرام کو وہ میں نے چن لئے ہیں آپ کو بتانے کے لئے کہ اس کے ساتھ کس رنگ میں قوم نے عزت افزائی کا سلوک کیا.شہیدا اکبر، شہید صادق، زندہ جاوید، پیغمبر توحید، عالم بے مثل، عالم فقید المثل، مصلح اعظم ، دلیل گرابان و بے برسراں ، صدر خیر شہداء،امر، جرنیل، یکتائے زماں محافظ ہے.ملت، حفیظ ملت ، پروانہ ملت، میر قوم وغیرہ وغیرہ.پھر آریہ مسافر لا ہور کا شہید نمبر لکھتا.آریہ بھائیو! آؤ ہم اپنے شہیدوں کی یاد کو تازہ رکھیں ان کے جاری کردہ کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ، ان کے مشن کو پورا کر کے ان کی نصیحت پر دل و جان سے عمل کریں.“ مشن کو پورا کرنا بھی یعنی لیکھر ام کے مشن کو پورا کرنا بھی قوم نے بعد میں یعنی ان کے ساتھ تعلق رکھنے والی قوم نے اپنا فریضہ بنالیا تھا اور اپنے شعار میں اس بات کو داخل کر لیا تھا.پھر لکھتے ہیں: ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے حسن سے عقیدت کا ثبوت دیں.زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں.( پھر یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ان کی یاد میں ایک میمورئیل قائم کیا جائے.) پنڈت جی کی یادگار میں ایک میمورئیل بھی کھولا گیا اور اس میں تمیں ہزار کے لگ بھگ روپیہ بھی فراہم ہوا تھا.مگر افسوس ہے کہ اس فنڈ سے اس قدر استفادہ نہیں اٹھایا گیا جیسے

Page 679

خطبات طاہر جلدے 674 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء کہ پنڈت جی کی آشا تھی.میرا مطلب یہ ہے کہ پنڈت جی کی یادگار میں ایک جدا محکمہ ہونا چاہئے تھا جس کا کام تمام مذاہب کے حملہ جات ، ان کی کتابوں اور اعتراضوں کے جواب دئے جاتے.ایک محکمہ ویدک علم وادب پر مختلف قسم کی کتب تحریر کرنے اور ان کے ترجمے شائع کرنے کا کام کرتا.“ ( آریہ مسافر : مارچ ۱۹۳۲ء) بہر حال لیکھرام کی بہت عزت افزائی کی گئی ، بہت کچھ اس کا ماتم کیا گیا اور بعض لوگوں نے ظلم کی راہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ لکھا اگر چہ رپورٹ میں ایسا کوئی واقعہ درج نہیں کیا گیا، مگر یہ لکھا کہ مرزا صاحب یہ کہا کرتے تھے کھلم کھلا کہ یہ شخص ہلاک ہو گا اور قتل کیا جائے گا اس لئے لازماً اس میں ان کا ہاتھ ہے لیکن جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قلبی جذبات کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے ایک صاف دل، پاک دل انسان کے لئے ایسے موقعوں پر کس قسم کا رد عمل ظاہر کرنا چاہئے اس کا نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قلبی کیفیات میں ہمیں ملتا ہے.آپ فرماتے ہیں : اگر چہ انسانی ہمدردی کی روح سے ہمیں افسوس ہے اس کی موت ایک سخت مصیبت اور آفت اور نا گہانی حادثہ کے طور پر عین جوانی کے عالم میں ہوئی لیکن دوسرے پہلو کی رو سے ہم خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں کہ اس کے منہ کی باتیں آج پوری ہو گئیں.ہمیں قسم ہے اس خدا کی جو ہمارے دل کو جانتا ہے کہ اگر وہ یا کوئی اور کسی خطرہ موت میں مبتلا ہوتا اور ہماری ہمدردی سے وہ بچ سکتا تو ہم کبھی فرق نہ کرتے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۴۳۰) پس یہ وہ روح ہے جو زندہ رہنے والی اور زندہ رکھنے کے لائق اور زندہ رکھنے کے لئے ضروری روح ہے.یہ ایسی روح ہے جو زندہ ہے ہمیشہ انبیاء اور پاکیزہ لوگوں کی صورت میں زندہ رہے گی.زندہ رہنے کے لائق ہے اور زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مُردوں کو زندہ کرنے والی روح ہے.صرف دوسروں کو نہیں اپنی روح کو زندہ کرنے کے لئے یہ روح ضروری ہے.یعنی یہ رجحان ضروری ہے دل کا.

Page 680

خطبات طاہر جلدے 675 خطبه جمعه ۷ را کتوبر ۱۹۸۸ء اس لئے جماعت احمدیہ کو ان حالات میں اپنا تجزیہ کرتے رہنا چاہئے.اگر خوشی تعلمی کا رنگ رکھتی ہو، اگر خوشی کسی کے غم کے نتیجہ میں ہے تو یہ ظلم کی بات ہے اس کا بچے اور پاک لوگوں کے دلوں سے کوئی تعلق نہیں ہے.ایسی خوشی نقصان کا موجب بن سکتی ہے.آپ کو زندہ کرنے کی بجائے آپ کو ہلاک کرنے کا موجب بن سکتی ہے.اصل خوشی وہی ہے کہ نظر خالصہ مرضی مولا پر رہے اور چونکہ اللہ کی بات پوری ہوئی اور خدا کے نوشتوں نے جو پہلے پیشگوئیوں کا رنگ رکھتے تھے اب عملاً دنیا میں ظاہر ہوکر ایک حقیقت کا روپ دھارلیا.اس بات کی اگر خوشی ہے تو یہ خوشی انبیاء اور پاک لوگوں کی خوشی کے عین مطابق ہے.پس ہر گز تعلی کو اور جھوٹی اور کھوکھلی خوشی کو اپنے دلوں میں جگہ نہیں دینے چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام مزید فرماتے ہیں:.وو یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کوکوئی ذاتی عداوت ہے.مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا تو ہین سے یاد کیا.اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے.“ ( تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۹۳۰) اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آنحضرت ﷺ سے عشق تھا جس نے آپ کو ہ شدید غم میں مبتلا رکھا.جب بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی گستاخی ہوتی تھی تو آپ کا دل کرتا تھا اور اسی اندرونی دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا مظہر وہ عذاب بنا ہے جس نے اس دشمن کے ٹکڑے کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کے ٹکڑے کرتا تھا اور آپ کے محبوب کے خلاف گستاخی کی زبان کھولا کرتا تھا.ان دونوں باتوں کا گہرا تعلق ہے ورنہ خدا کے انبیاء اور خدا کے پیاروں کو اور بھی لوگ گالیاں دیا کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دنیا میں ویسا سلوک نہیں ہوتا.آنحضرت مہ کو گالیاں دینے والوں میں سے صرف یہ لیکھرام ہی نہیں تھا بلکہ مغربی دنیا میں بھی کثرت سے آپ کو گالیاں دینے والے پیدا ہوئے جنہوں نے بہت گستاخی کے رنگ میں بڑھ بڑھ کر باتیں کی ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک کے ساتھ دنیا میں یہ سلوک نہیں ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک لیکھرام تھا جو ایسے عاشق محمد مصطفی امی ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوا جس کا دل اس غم کو

Page 681

خطبات طاہر جلدے 676 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء برداشت نہیں کر سکتا تھا اور ایک ڈوئی تھا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کیا گیا حالانکہ عیسائی دنیا میں اس سے پہلے ہزاروں ایسے بد زبان اور بدتمیز لوگ تھے جنہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفی عالی کے خلاف دشنام طرازی سے کام لیا ہے ، گالیاں دی ہیں.پس ان دونوں باتوں میں گہرا تعلق ہے.یہ ایک دکھے ہوئے دل کی آواز ہے جو بعض دفعہ خدا کی تقدیر کو حرکت میں لاتی ہے اور وہ تقدیر پھر عذاب کی صورت میں دشمنوں پر پڑتی ہے.پس اس روح کو اگر آپ قائم رکھیں تو ہمیشہ کسی کی نفرت نہیں بلکہ کسی کی محبت معجزے دکھایا کرے گی اور خدا تعالیٰ کے مقدس بندوں کی محبت ہی دراصل حقیقی معجزہ ہے.اس میں کسی دعا کرنے والے کی بڑائی کا اتنا تعلق نہیں جتنا اس محبت کا تعلق ہے جو اس کو کسی مقدس سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ معجزہ جو دکھایا گیا ہے یہ اس عشق کے نتیجہ میں ہے جو آپ کو حضرت محمد مصطفی میں اللہ سے تھا.علیسا پس آج بھی جب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں جب گالیاں دیتا ہے ہمارا دل کہتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بکواس کرتا ہے، بدزبانی کرتا ہے تو ہمارا دل کرتا ہے.تو بسا اوقات مختلف رنگ کے نظارے ظاہر ہوتے ہیں.بعض لوگوں کے دل ان کے کہنے کے مطابق کہتا تو ہے لیکن اس مخالف پر خدا کی کوئی پکڑ ظاہر نہیں ہوتی اور بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ادھر ہمارے دل سے دعا بلند ہوئی ہے، ایک بیقرار چیخ نکلی ہے کہ اے خدا! اس شخص نے ظلم کی حد کر دی ہے یہ ایسی ایسی زبان درازیاں کر رہا ہے اور چند دن کے اندراندر وہ شخص حیرت انگیز طور پر ہلاک ہوگیا اور بعض دفعہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات کے نتیجہ میں ہلاک ہوا ہے، ان دنوں میں ہلاک ہوا ہے جن دنوں میں آپس میں ان کا معاملہ طے ہوا کہ جو بھی جھوٹا ہے اس عرصہ کے اندر اندر ہلاک ہو جائے.ان میں مختلف قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں.یاد رکھیں یہ اتفاقی حادثات نہیں ہیں.یہ دل کی صداقت ہے جو بعض دفعہ مجزے دکھاتی ہے اور بعض دفعہ وہ دل کی صداقت میں کوئی کمزوری رہ جاتی ہے اور بعض اور عوامل اس پر اثر انداز ہو جاتے ہیں ور نہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے کسی مقدس اور برگزیدہ سے آپ کو سچا عشق ہو اور اس کے خلاف گستاخیوں کے نتیجہ میں آپ کا دل حقیقہ کٹ رہا ہو اور زندگی ایک عذاب بن رہی ہو تو ہو نہیں سکتا کہ خدا کی غیرت اس وقت ایک غیر معمولی جوش اور غضب کے ساتھ بیدار نہ ہو اور اپنے کرشمے نہ دکھائے.

Page 682

خطبات طاہر جلدے 677 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء یہ بیان کرنے کے بعد میں آخری ایک نصیحت یہ جماعت کو کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جو الہامات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کہ تیرے زمانہ میں موسی کے زمانے کے حالات پیدا ہوں گے ( تذکرہ صفحہ: ۳۶۶) اس میں مخاطب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اس لئے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد واقعات ہوں ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے.اس بات کو خوب اچھی طرح یاد رکھیں اور آپ ہی کی جو قد ر اللہ کے دل میں تھی اس کے نتیجہ میں ان واقعات نے رونما ہونا تھا.دوسری بات ایک انذار کا رنگ رکھتی ہے اور جماعت کو استغفار کرتے ہوئے دعا میں ہمیشہ مشغول رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس انذاری پہلو کو ہمارے وقت میں پورا نہ فرمائے اور اگر ہم سے کوئی کوتاہیاں ہو بھی گئی ہیں تو ان بلا ؤں کو ہم سے ٹال دے.موسیٰ کے وقت میں ایسے بھی واقعات ہوئے جس سے خود موسی کو تکلیف پہنچی اور اپنی قوم سے تکلیف پہنچی، ایک گوسالہ کو خدا بنا لینا، بچھڑے کو خدا بنا لینا، اس کے اندر میں نے جب غور کیا تو دو باتیں ایسی ہیں جن کی طرف میں جماعت کو خاص طور سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اس بچھڑے کی عظمت ان لوگوں کے دلوں میں تھی جن کے دل میں دنیا کی وجاہت اور سونے اور چاندی اور دولتوں کی عظمت تھی.پس ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ہر زمانہ میں شرک ایک ہی طرح ظاہر ہو ، بعض دفعہ شرک کھلم کھلا بت پرستی کے رنگ میں ظاہر ہوا کرتا ہے، بعض دفعہ دل مشرک ہو جاتا ہے خواہ زبان بظاہر مشرک نہ بھی ہو.پس جماعت کا وہ طبقہ جو دنیا کی طرف سے آرام یافتہ ہے اس کو اپنی فکر کرنی چاہئے اس کو ہمیشہ اپنے دل کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ کیا وہ دنیا کی دولتوں اور جاہ و حشمت سے متاثر تو نہیں ہو گیا، وہی سونا قوم میں پہلے بھی موجود تھا اور اس سونے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے کسی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا لیکن وہ جب بت بن کر ظاہر ہوا ہے تب خدا تعالیٰ کی پکڑ نازل ہوئی ہے.پس سونے سے تعلق یا دنیا کی دولتوں سے تعلق سے خدا منع نہیں کرتا مگر اس کو بت بنانے سے خدا منع کرتا ہے.پس جماعت کو یہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ دنیا کی دولتیں اور دنیا کی وجاہتیں ان کے لئے بت نہ بن جائیں اور خاص طور پر اس دور میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے تقریباً ایک سوسال دور ہو چکے ہیں.خدا کرے کہ یہ دوری سالوں کی ہو لیکن روحانی رنگ میں نہ ہوان دعاؤں کی بڑی ضرورت ہے اور روحانی طور پر چونکہ یہ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کا زمانہ ہے

Page 683

خطبات طاہر جلدے 678 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء اس لئے زمانہ کے لحاظ سے ہماری دوری نہ ہو یعنی معنوی رنگ میں دوری نہ ہوا اگر چہ ظاہری طور پر عددی لحاظ سے سالوں کی دوری بنتی ہے.اس لئے اس طبقہ کو خصوصیت سے اپنی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان کے دل کی آوازیں خواہ باہر سنائی دی جائیں یا نہ دی جائیں خود ان لوگوں نے خود سنی ہیں اور ان کے لئے بڑا آسان ہے اپنے جذبات کا تجزیہ کرنا.اگر یہ متاثر ہوتے ہیں کسی گوسالہ کی موت سے اور اس کی دنیا کی وجاہت سے تو ان کے دل میں وہ شرک پیدا ہو چکا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں تمثیلاً بیان کیا گیا ہے اور اگر یہ دنیا کی وجاہتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اسی قسم کے خیالات دل میں لانے لگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تو بڑی شوکت دی ہے، اللہ تعالیٰ نے تو بڑی عظمت دی ہے تو اسی حد تک وہ سمجھیں کہ ان کا اپنا مقام خدا کی نظر میں گرتا چلا جاتا ہے.عظمت وہی ہے جو خدا دیتا ہے جو اس کے پیار کے نتیجہ میں ملتی ہے.وہ عظمت نہیں ہوا کرتی جو خدا تعالیٰ کی طرف وعید کے نتیجہ میں ملتی ہے.پس ان دو عظمتوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے.ایک عظمت وہ ہے جو خدا کا وعید ظاہر ہوتا ہے اور وہ کھل کر ظاہر ہوتا ہے جیسے فرعون کے حق میں ظاہر ہوا، جیسے لیکھر ام کے حق میں ظاہر ہوا.اس کے بعد جو دنیا کی عظمتیں ہیں وہ تو تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لوگوں کو ملا ہی کرتی ہے اس کے نتیجہ میں دل برداشتہ ہونا یا یہ خیال کر لینا کہ ضرور اس میں کوئی اچھی بات تھی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو عظمت دی ہے.اس میں اچھی بات تھی یا نہیں تھی آپ کے دل میں ضرور کوئی بری بات ہے جو اس قسم کے خیال آپ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جس شخص کے حق میں وعید ہو اس کے متعلق یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب اس کا معاملہ خدا پہ جا پڑا ہے اور ہمیں مزید تفصیل سے اس کے خلاف بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بھی انسانی اخلاق پر برا اثر ڈالنے والی بات ہے کہ مرے ہوؤں کے خلاف انسان بے وجہ لمبی ایسی باتیں کرے جوان کی برائیوں کو اچھال کے دنیا کے سامنے پیش کرنے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اسی مضمون کا الہام ہوا کہ: ہن اسدالیکھا خدا نال جا پیا ہے.“ ( تذکره صفحه: ۵۹۹) غالباً پنجابی کا الہام ہے کہ اب تیرے دشمن کا لیکھا خدا سے جا پڑا ہے جس کا مطلب یہی ہے

Page 684

خطبات طاہر جلدے 679 خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء کہ جب خدا نے اپنی تقدیر کو ظاہر فر دیا ہے تو بے وجہ ان بحثوں میں نہیں الجھنا چاہئے.یہ بھی ایک ایسی وقت کی ضرورت ہے جسے آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ مجھے بعض خطوں سے پتا چل رہا ہے کہ بعض احمدی بے وجہ دوسروں سے الجھتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو دل آزاری کا موجب بنتی ہیں.خدا تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے نتیجہ میں حمد و شکر کا مقام تو ہے لیکن اس رنگ میں باتیں کرنا مناسب نہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو.صلى اللهم حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے زمانہ کا فرعون اور آپ کے زمانے کا لیکھرام ابو جہل تھا اور آپ کے دل کی عظمت دیکھئے کہ جب حضرت عکرمہ نے جو بعد میں حضرت کہلائے آنحضرت ﷺ کی بیعت کے بعد ، آنحضرت مہ سے یہ شکایت کی کہ یا رسول اللہ یہ لوگ مجھے میرے باپ کا طعنہ دیتے ہیں اور مجھے دکھ پہنچتا ہے تو آنحضرت نے سختی سے منع فرمایا اور فرمایا کوئی کسی کے باپ کی وجہ سے دکھ نہیں دیا جائے کوئی عکرمہ کو اس کے باپ کا حوالہ دے کر تکلیف کی بات نہ کرے.(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابه لابن اثیر جلد ۲ صفحہ۵ مطبوعہ بیروت) یہ ہے سچی عظمت، یہ ہے سچا تقدس جو خدا کے تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.پس ان رسموں کو زندہ رکھیں ، اس سنت پر چلیں یہ آپ کی زندگی کی ضامن ہوں گی.چند فخریہ رنگ میں باتیں کر لینا ہمارے لئے کوئی کام نہیں آئے گا، ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گالیکن حضرت رسول اکرم ﷺ کی سنت پر اگر ہم عمل پیرا ہوں گے تو وہ اس میں ہمارے لئے بہت ہی برکتیں ہیں.ایسی صورت میں آپ واقعہ دیکھیں گے کہ دشمنوں کی اولادیں اپنے باپوں کی طرف منسوب ہونا چھوڑ دیں گی.وہ حسرت سے یاد کریں گی کہ کاش! ہمارے ماں باپ نے ایسی باتیں نہ کی ہوتیں کہ ان کے ساتھ ملانا ہمارے لئے ذلت کا موجب بن جائے اور وہ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عاشق محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ منسوب کرنا ہی فخر کا موجب سمجھیں گے.پس سنت میں عظمتیں ہیں ، سنت میں دائگی فوائد ہیں اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی.اس لئے ایسے نازک وقتوں میں جن سے جماعت آج کل گزر رہی ہے اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھیں.وہ باتیں کریں جو خدا کے نزدیک پسندیدہ ہوں اور خدا کے نزدیک وہی پسندیدہ باتیں ہیں جو صلى الله حضرت محمد مصطفی امی یہ فرمایا کرتے تھے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا:

Page 685

خطبات طاہر جلدے 680 خطبه جمعه ۷ اکتوبر ۱۹۸۸ء آج چونکہ خدام باہر کے ملکوں سے تشریف لائے ہوئے ہیں اور اجتماع ہے اور انہوں نے اجتماع میں شمولیت کے لئے جانا ہے اس لئے جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی جمع ہوگی.

Page 686

خطبات طاہر جلدے 681 خطبه جمعه ۴ ارا کتوبر ۱۹۸۸ء نیتوں اور مالی معاملات کو درست کریں.کشتی نوح کی تعلیم پر عمل کر کے ہی طوفان نوح سے نجات ہے (خطبه جمعه فرموده ۱/۱۴ اکتوبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں :.حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلُ فِيهَا مِنْ كُل زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ أَمَنَ وَمَا أَمَنَ مَعَةً إِلَّا قَلِيلٌ وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللهِ مَجْرَبَهَا وَ مُرْسَهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ وَهِيَ تَجْرِى بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يُبْنَى ارْكَبُ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكَفِرِينَ قَالَ سَاوِى إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ (هود: ۴۴۴۱) سورۃ ہود کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ یہاں تک جب ہمارا عذاب کا حکم آجائے اور چشمے پھوٹ پڑیں تو ہم کہیں گے قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ

Page 687

خطبات طاہر جلدے 682 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء کہ تو ہر قسم کے جوڑے جانوروں میں سے اپنے ساتھ لے لے اور اپنے خاندان کے افراد کو بھی سوائے ان کے جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی تقدیر پہلے سے ظاہر فرما دی گئی ہے.وَمَنْ آمَنَ اور ان کو بھی ساتھ لے لے جو تجھ پر ایمان لائے ہیں.وَمَا أَمَنَ مَعَةَ إِلَّا قَلِيلٌ لیکن افسوس کہ بہت کم تھے ایسے جو حضرت نوح پر ایمان لائے تھے.وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَتَهَا وَمُرْسُهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ - چنانچہ جب وہ طوفان آ گیا تو اس نے یعنی حضرت نوح نے اپنے ساتھیوں سے کہا اس میں سوار ہو جاؤ بِسْمِ اللهِ مَجْرَبهَا اللہ ہی کے حکم کے ساتھ ، اللہ ہی نام کے ساتھ اس کا چلنا اور اس کا لنگر انداز ہوا ہے.اِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ میرا رب بہت بخشش کرنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے.وَهِيَ تَجْرِى بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وہ ان کے درمیان ان کو لے کر چلتی تھی ایسی موجوں کے درمیان جو پہاڑوں کی طرح تھیں یا ایسی موج کے درمیان جو پہاڑ کی طرح تھی ونادی نُوح ابنه اس وقت حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا جو ایک گھاٹی میں تھا مغزل ایک طرف.ارُكَبُ مَّعَنَا انہوں نے کہا اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہو جا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكَفِرِيْنَ اور کافروں میں سے نہ ہو.قَالَ سَاوِى اِلى جَبَلٍ يَعْصِمُنِی اس نے جواب دیا کہ میں ایک پہاڑ کی طرف پناہ ڈھونڈلوں گا جو مجھے ان پہاڑ جیسی موجوں سے بچالے گا.لفظاً فرمایا گیا ہے مِنَ الْمَاءِ مجھے پانی سے بچالے گا.اس کو میں نے پہاڑ جیسی موجوں سے بچالے گا اس لئے کہا ہے کہ اس سے پہلے قرآن کریم فرما چکا ہے کہ ایسی موجوں کے درمیان کشتی چل رہی تھی جو پہاڑ کی طرح تھیں اور یہ مواز نہ فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف ایک ایسی کشتی میں کچھ سوار تھے جن کو پہاڑ کی طرح موجوں سے خطرہ لاحق تھا دوسری طرف ایک ایسا شخص تھا جو موجوں کے مقابل پر واقعۂ خشکی کے پہاڑ میں پناہ ڈھونڈ رہا تھا لیکن کیا ہوا؟ جب حضرت نوح نے یہ جواب سنا تو فرمایا لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللهِ خدا کے حکم سے کوئی چیز آج بچا نہیں سکتی وَ حَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ اور ان دونوں کے درمیان ایک موج حائل ہوگئی اور وہ الْمُغْرَقِینَ یعنی غرق ہونے والوں میں سے ہو گیا.ان آیات کی تلاوت میں نے آج ایک خاص مقصد سے کی ہے.اس مقصد کا جہاں تک تعلق

Page 688

خطبات طاہر جلدے 683 خطبه جمعه ۴ ۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء ہے بظاہر میں سیلاب کا ذکر کروں گا جس کا تذکرہ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہے جو مغربی پاکستان میں اور سابقہ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش میں پچھلے دنوں آیا اور اس نے بہت بڑی تباہی پھیلائی.جہاں تک سیلاب کی تباہ کاریوں کا تعلق ہے دونوں جگہ کے موسمیات کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ایسا سیلاب گزشتہ سو سال یا بعض نے یہاں تک کہا کہ تین سو سال کی تاریخ میں بھی معلوم نہیں اور جو ذ کر بھی سیلابوں کا ملتا ہے اتنا خوفناک سیلاب کبھی اس سے پہلے نہیں آیا لیکن اس وقت میرا موضوع یہ سیلاب نہیں ہے.چنانچہ میں نے پہلے فقرے میں یہ کہا کہ بظاہر میرے مضمون کا تعلق اس سیلاب سے ہے.واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے سیلاب آتے بھی ہیں اور چلے بھی جاتے ہیں لیکن یہ سیلاب بعض علامتیں ہیں اور بعض امور کی طرف متوجہ کرنے کے لئے آیا کرتے ہیں.مومن کا کام ہے کہ جس طرف انگلی اشارہ کر رہی ہو اس طرف دیکھے اور محض انگلی پر نظر جما کے نہ بیٹھ جائے.غالب نے خوب کہا ہے کہ: قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل لڑکوں کا ہوا ، دیدہ بینا نہ ہوا (دیوان غالب : ۵۹) اس لئے وہ نگاہیں جو سیلاب تک آ کے ٹھہر گئی ہیں وہ بچوں کا کھیل کھیل رہی ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ ان سیلابوں کا خصوصاً ان سیلابوں کا جو محض حادثاتی عوامل کا نتیجہ نہ ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی غضب کی تقدیر کو ظاہر کرنے والے ہوں ایک پس منظر ہوا کرتا ہے اور اس پس منظر میں آپ کو ایک گناہوں کا سیلاب دکھائی دے گا.پس خدا کی تقدیر جو کبھی ظلم نہیں کرتی در اصل اس سیلاب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ایسی ظاہری آفات کے پیدا ہونے کے سامان فرمایا کرتی ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے ظہورمبارک سے پہلے بھی ایک ایسا ہی گناہوں اور معاصی کا طوفان برپا تھا جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا: ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۴۲) یہ ایک ایسا معاصی کا سیلاب ہے جس میں تری ہی کو نہیں خشکی کو بھی ڈھانک لیا ہے.یعنی وہ علاقے جو پانی والے علاقے کہلاتے ہیں صرف ان میں ہی اس ظلم نے غلبہ نہیں کیا بلکہ ہر حصے پر دنیا کے ، ہر خطے پر یہ ظلم غالب آچکا ہے.پس امر واقعہ یہ ہے کہ مومن کا کام ہے فراست سے خدا تعالیٰ کے اشاروں کو سمجھے اور ان امور کی طرف متوجہ ہو جن کی

Page 689

خطبات طاہر جلدے 684 طرف خدا تعالیٰ کی انگلی یا اس کی تقدیر کی انگلی اشارہ کرتی ہے.خطبه جمعه ۴ ارا کتوبر ۱۹۸۸ء مسلمان ممالک میں خصوصیت کے ساتھ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک وبا بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہ ہے تصور یعنی نظریہ اور عمل کا تضاد اور دن بدن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ تصور اور سمت میں رواں ہے اور عمل اور سمت میں رواں ہے اور ان دونوں کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ جتنا زیادہ اسلام کو زندہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اسلام کا نام بلند کیا جا رہا ہے اتنا ہی زیادہ مسلمانوں کا عمل تنزل پذیر ہے اور ہر جگہ جرم بڑھتا چلا جارہا ہے اور پھیلتا چلا جا رہا ہے اور واقعہ ایک ایسے سیلاب کی شکل اختیار کر چکا ہے جس میں تمام کی تمام قوم غرق ہوئی ہوئی ہے یا ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ جو حالات ہیں وہ حد سے زیادہ قابل فکر ہیں.ہر قسم کے جرائم دن بدن ترویج پارہے ہیں.خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جان کی وہاں کوئی حرمت نہیں رہی، مال کی کوئی حرمت نہیں رہی ، عزت کی کوئی حرمت نہیں رہی اور حرام اور حلال کی کوئی تمیز نہیں رہی اور وہ ساری بدیاں جو بڑی بڑی طاقتور قوموں کو بھی ہلاکت کے گڑھے تک پہنچا دیا کرتی ہیں وہ اپنا سراٹھا رہی ہیں اور معاشرے کو دن بدن مغلوب کرتی چلی جارہی ہیں.اس وقت میں محض یہ کہنے کے لئے بھی آج یہاں کھڑا نہیں ہوا کہ پاکستان میں عمومی طور پر کیا ہو رہا ہے بلکہ اس سے بھی پرے میرا مضمون ہے جس کا میں اب ذکر کر نے لگا ہوں.واقعہ یہ ہے کہ جب موسم ٹھنڈا ہوتو بند کمروں میں بھی اس موسم کا اثر پہنچ جایا کرتا ہے، جب موسم گرم ہو تو بند کمروں میں بھی اس موسم کا اثر پہنچ جایا کرتا ہے، جب سمندروں کے پانی چڑھتے ہیں تو جزائر کو بھی غرق کرنے لگتے ہیں.اس لئے ایسے موقع پر سب سے زیادہ قابل فکر بات یہ دکھائی دیتی ہے کہ جماعت احمد یہ جو اس سیلاب میں ایک جزیرے کی حیثیت رکھتی ہے اس نے اپنے دفاع کے لئے اور اپنے آپ کو ایسے فتنوں سے بچانے کے لئے کیا کارروائی کی ہے اور کیا باشعور طور پر ہر جگہ جماعت احمد یہ اس سیلاب سے بچنے کے لئے کوئی کوشش کر رہی ہے یا نہیں کر رہی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس طوفان نوح کی خبر دی گئی تھی اس طوفان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بات دنیاوی سیلابوں سے ہی کرتے ہیں اور

Page 690

خطبات طاہر جلدے 685 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء بتاتے ہیں کہ بڑے بڑے طوفان آئیں گے، بڑے بڑے سیلاب آئیں گے لیکن جب ان سے بچنے کی باتیں فرماتے ہیں تو کشتی نوح کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے اس میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ اس قسم کے جہاز بنانا، اس قسم کی کشتیاں بنانا، اس طرح اپنے مکان خشمگیوں میں اونچے ٹیلوں پر تعمیر کرنا بلکہ ان دنیاوی ذرائع میں سے کسی کا کوئی ذکر نہیں ملتا.تمام باتیں وہ ہیں جن کا دین اور اخلاق کی درستی سے تعلق ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جوشی نوح کا نچوڑ ہماری تعلیم کے عنوان سے پیش کیا ہے اس کو پڑھ کر آپ دیکھ لیں بات سیلاب کی چلتی ہے کہ اس سیلاب سے تم نے بچنا ہے اور ذرائع یہ بیان کئے جاتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولو، بدی نہ کرو، کسی بھائی پر ظلم نہ کرو، تکبر نہ کرو.غرضیکہ تمام کی تمام تعلیم دینی ہے.اس کو روحانی بصیرت کہتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام چونکہ خدا شناس تھے اور خدا تعالیٰ کے اشاروں کو اپنے زمانے میں سب سے زیادہ بہتر سمجھتے تھے اس لئے آپ نے سیلاب کے خطرات کے وقت بچنے کے وہ طریق بتائے جو دراصل سیلاب کے پس منظر سے بچنے کے طریق ہیں.سیلاب کیوں آتے ہیں ایسے جو خدا کے غضب کو ظاہر کرتے ہیں اس طرف آپ کی نظر گئی اور اپنی جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ ان آفتوں سے بچنے کے لئے اپنے دل کی ، اپنے نفس کی آفتوں سے بچاؤ کےسامان پیدا کرو.پس یہ کہنا کہ پاکستان میں تباہ کاری ہے یعنی اخلاقی لحاظ سے یا بنگلہ دیش میں ہے یا ہندوستان میں ہے یا بعض دیگر مسلمان ممالک میں بدقسمتی سے ایسی آفتیں ہیں.یہ کہنا ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا جب تک ہم اپنے آپ کو اس کشتی میں سوار نہ پائیں جو ان آفتوں سے بچانے کے لئے اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمائی.اس لئے مختصر میں ان آفتوں کا ذکر کرتا ہوں جو اس وقت کثرت کے ساتھ بالخصوص پاکستان میں پھیل رہی ہیں اور جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ ان آفات سے بچنے کا فکر کریں.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو یہ آیات جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے یہ صاف مطلع کر رہی ہے کہ پھر خدا کی پکڑ سے ایسے لوگوں کو کوئی چیز بیچا نہیں سکے گی.چنانچہ حضرت نوح کے بیٹے کو ایک تمثیل کے طور پر پیش فرمایا گیا.یہ نہیں مطلب کہ صرف حضرت نوح کے بیٹے تھے جو اس زمانے میں حضرت نوح سے بنیادی اختلاف رکھتے ہوئے قوم میں

Page 691

خطبات طاہر جلدے 686 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء پیدا ہونے والی بدیوں کا شکار ہو گئے تھے.قرآن کریم تو صاف بتارہا ہے کہ حضرت نوح پر تو بہت تھوڑے ایمان لائے تھے.پھر حضرت نوح کے بیٹے کو نمایاں طور پر ، امتیازی طور پر کیوں پیش کیا گیا.نعوذ باللہ حضرت نوح کی بدنامی تو مقصود نہیں تھی، یہ کہنا تو مقصود نہیں تھا کہ حضرت نوح اپنی اولاد کی بھی تربیت نہیں کر سکے کیونکہ حضرت نوح کی خاطر اور چند ان لوگوں کی خاطر جو آپ پر ایمان لائے تھے باقی ساری قوم کو غرق کر دیا گیا تھا.اس لئے حضرت نوح کے بیٹے کو نمایاں طور پر پیش فرمانا ایک پیغام رکھتا ہے، ایک مقصد رکھتا ہے اور مراد یہی ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کے اس وقت کوئی دنیاوی تعلق اور کوئی جسمانی تعلق انسان کو بچانہیں سکتا.ایک ہی کشتی ہے جو ایسے موقع پر انسان کو بچا سکتی ہے اور وہ اعمال صالحہ کی کشتی ہے.چنانچہ جب حضرت نوح نے خدا سے عرض کیا، ایک دوسری جگہ قرآن کریم اس کا ذکر فرماتا ہے کہ اے خدا ! یہ تو میرا اہل ہے اور میرے اہل کے متعلق تو تو نے خوشخبری دی تھی کہ تیرے اہل کو بچایا جائے گا.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نوح! جاہلوں میں سے مت ہو إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَاحِ (ھود: ۴۷) تیرا یہ بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں ہے.اس لئے نہیں ہے کہ اللہ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ کہ یہ صالح اعمال نہیں رکھتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جو کشتی نوح اس زمانے میں پیش فرمائی ہے وہ اعمال صالحہ ہی کی کشتی ہے.اس لئے جماعت کا وہ حصہ جو اپنی کمزوریوں پر اصرار کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ظاہر ہوتے ہوئے غضب کو دیکھنے کے باوجود جرات کرتا ہے اور اپنے حال پر قائم رہتا ہے اس کے متعلق نہ صرف یہ کہ کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی بلکہ یہ آیت بتا رہی ہے کہ وہ خدا جس نے اپنے پیارے نوح کے بیٹے کو بھی ایسے وقت میں استثنائی طور پر معاف نہیں فرمایا.تم جو نسبتا ادنی درجہ کے لوگ ہوا اور خدا کے کم پیاروں کی اولاد ہو تمہارے تحفظ کی بھی ہرگز کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللهِ الْيَوْمَ سے مراد وہ زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ اپنے غضب کے ساتھ ظاہر ہوا کرتا ہے.عام دنوں میں خدا تعالیٰ کی بخشش کا مضمون اور رنگ میں چلتا ہے اور رنگ میں کارفرما ہوتا ہے.عام دنوں میں خدا تعالیٰ کی ستاری کا مضمون اور طرز پر چلتا ہے اور رنگ میں ظاہر ہوا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بخشش اور ستاری اور خدا تعالیٰ کی مغفرت اتنے وسیع ہیں کہ انسان ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن اليوم وہ دن جبکہ خدا نا فرمانوں کی پکڑ کے فیصلے کرتا ہے اور ان کے متعلق

Page 692

خطبات طاہر جلدے 687 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء تعزیری کارروائی شروع کر دیتا ہے وہ دن نہایت خطرناک دن ہیں اور قرآن کریم کی یہ آیات ہمیں متنبہ کرتی ہیں کہ ایسے دنوں میں جرات نہ کرنا ورنہ بعید نہیں کہ خدا کی ستاری کی چادر تم سے کھینچ لی جائے اور تمہیں بھی ان سزاؤں کا سزاوار قرار دیا جائے جو خدا تعالیٰ کے پیاروں کے معاندین کی سزائیں ہوا کرتی ہیں.پس اس تنبیہ کے ساتھ ، اس تمہید کے ساتھ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ خیال کر لینا کہ جماعت احمدیہ کی چاردیواری میں بالعموم داخل ہو جانا یعنی اقرار کر کے کہ ہم احمدی ہیں یہ ہرگز کافی نہیں ہے اور یہ خیال کر لینا کہ جماعت احمد یہ ان تمام بدیوں سے پاک ہے جو بدیاں اردگرد کے ماحول میں کثرت سے ملتی ہیں.یہ بھی ایک جاہلانہ تصور ہے.ناممکن ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ ماحول سرد ہو اور کسی کمرے میں کلیۂ اس سردی کا اثر نہ پہنچے.جتنا ماحول سرد ہوتا چلا جائے گا اتنا ہی کمرے کو گرم رکھنے کے سامان مہیا کرنے پڑیں گے.ماحول گرم ہو تو چار دیواری سے گھرا ہوا مقفل کمرہ بھی گرم ہونے لگتا ہے اور لازم ہے کہ اس کو ٹھنڈا کرنے کے سامان کئے جائیں.اس لئے جماعت احمدیہ میں یہ ساری بدیاں ضرور موجود ہوں گی جو ماحول میں پائی جاتی ہیں اور مختلف سمتوں سے راہ پکڑ رہی ہوں گی.قرآن کریم نے جو تاریخ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے کی پیش فرمائی ہے اور اس میں منافقین کا ذکر فرمایا ہے، کمزوروں کا ذکر فرمایا ہے.وہ بھی وہی روح رکھتا ہے جو حضرت نوح کے بیٹے کا ذکر رکھتا ہے.یعنی نعوذ باللہ من ذالک اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ آنحضرت می جیسے مزکی کے زمانے میں بھی یہ حال تھا.صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جب مز کی آیا کرتے ہیں تو جو لوگ اپنے نفوس کو اس کے حضور تزکیہ کے لئے پیش نہیں کرتے وہ ان مزکیوں کے وجود سے فائدہ نہیں اٹھایا کرتے.پس ضروری ہے کہ تم بھی اپنے نفوس کو ایک آنے والے مزکی کے حضور تزکیہ کی خاطر اور صفائی کی خاطر پیش کر دو.پس اس پہلو سے اگر اس زمانے میں بھی کمزوریاں اور بدیاں ملتی تھیں تو اس زمانے میں ہمارا اس قطعی امکان سے آنکھیں بند کر لینا اس کبوتر کی طرح ہوگا جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنے آپ کو خطرے سے محفوظ سمجھتا ہے.وہ چند بدیاں جو خصوصیت کے ساتھ اس وقت میرے پیش نظر ہیں ان کا میں ذکر ضروری

Page 693

خطبات طاہر جلدے 688 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء سمجھتا ہوں اور خصوصیت کے ساتھ پاکستان کی تمام جماعتوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ ان کو اپنے اصلاحی پروگرام میں پیش نظر رکھیں اور جیسا کہ میں بار بار یہ ذکر کر چکا ہوں کہ یہ وقت ہے کہ ان بدیوں کے خلاف جہاد کیا جائے.میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی میں اس مضمون پر خطبے دیتا ہوں انفرادی طور پر مجھے خطوط ملتے ہیں.کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ ذکر کرتے ہیں کہ خدا کے فضل سے ہمیں اس سے فائدہ پہنچا لیکن بعض دفعہ باوجود اس کے کہ جماعتوں کو خاص طور پر متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ با قاعده مستقل پروگرام کے مطابق ان بدیوں کے خلاف جہاد کریں.جماعتی رپورٹوں میں کچھ دیر کے بعد وہ ذکر آن ختم ہو جاتا ہے.یعنی نظام جماعت کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہر ملک میں اور ہر شہر میں یکساں اطاعت نہیں کرتا ، یکساں تعمیل نہیں کرتا اور رفتہ رفتہ پھر یہ بات آئی گئی ہو جاتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاں! ماضی میں ایک بات کہی گئی تھی اب کہاں تک اس کو لے کر کوئی آگے بڑھے.یہ وہ بدیاں ہیں جن کا میں ذکر نے لگا ہوں جو مستقبل سے تعلق رکھ رہی ہیں اور دن بدن بڑھ رہی ہیں.ان کے خلاف جہاد ماضی کا قصہ بن ہی نہیں سکتا جب تک ان کی بیخ کنی نہ ہو جائے.پس بڑی جہالت ہو گی یہ سوچ لینا کہ جن دنوں میں خطبہ آیا تھا ان دنوں میں ہم نے ان بدیوں کے خلاف جہاد شروع کیا تھا اور تعمیل ہو گئی ہے.تعمیل کیسے ہو سکتی ہے اگر بدیاں باقی ہیں.جب تک مرض باقی ہے دوا کی ضرورت پڑتی رہے گی.اس لئے میں جماعتوں کو متوجہ کرتا ہوں یعنی جماعتوں کی انتظامیہ کو، اپنے پروگرام میں ان کو با قاعدہ داخل کریں ایک ایسا منصوبہ بنائیں جس کے نتیجے میں پھر وہ ان باتوں کو بھول نہ سکیں اور مستقلاً ان میں سے کچھ لوگ نگران رہیں اور اس منصوبے کے نتیجے میں ایسا جائزہ لینے والا انتظام بھی ہو کہ جو اس کی تعمیل کی کارروائی پر نظر رکھتا ر ہے.سب سے پہلی بات جو قابل توجہ ہے وہ نیتوں کا فساد ہے.دنیا میں جتنی بدیاں پھیلتی ہیں وہ نیتوں کے فساد سے پھیلا کرتی ہیں.آنحضرت مہ نے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا.ایک توانما الاعمال بالنیات (بخاری کتاب الوحی حدیث نمبر : 1) کی مشہور حدیث آپ کے پیش نظر رہنی چاہئے لیکن ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا الاوان فی الجسد مضغةاذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله الاوهى القلب ( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر :۵۰) کے خبر دار انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ لوتھڑا صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ لوتھڑا بگڑ

Page 694

خطبات طاہر جلدے 689 خطبه جمعه ۴ ۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور فساد کا شکار ہو جاتا ہے.الا وھی القلب خبر دار ! وہ لوتھڑ ادل ہے.تو مراد یہ ہے دنیا میں جب بدیاں راہ پاتی ہیں ان کا آغاز دلوں میں مخفی طور پر شروع ہوتا ہے یا آغاز جڑ پکڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ وہ بدی ایک معین خیال پھر ایک عزم کی شکل اختیار کر لیتی ہے، پھر وہ عملی جامہ پہنتی ہے، پھر وہ انفرادی بدی رفتہ رفتہ قومی بدی بنے لگتی ہے.اس لئے سب سے پہلے نیتوں کی اصلاح ضروری ہے اور میں نے جہاں تک جائزہ لیا ہے بدقسمتی سے ہماری قوم میں ہر جگہ آغاز ہی سے بدنیتی داخل ہو چکی ہے.بچے جب تعلیم پاتے ہیں وہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ تعلیم پانے کے بعد ہم یہ یہ بڑے بڑے عہدے حاصل کر کے اسی طرح امیر بنیں گے، اسی طرح بد دیانتیاں کر کے قومی اموال کو غصب کریں گے جس طرح ہمیں وہ لوگ دکھائی دے رہے ہیں جو بہت اچھے حال میں ہیں ، جن کا رہن سہن ہمیں متاثر کرتا ہے اور ان کا طریق یہی ہے کوئی انجینئر ہے، کوئی ڈپٹی کمشنر ہے، کوئی ایس پی ہے، کوئی دنیا کا اور عہدہ دار ہے.ہر ایک نے اپنی ایک شان بنائی ہوئی ہے.وہ شان نئی بڑی ہونے والی نسل کو دکھائی دے رہی ہوتی ہے.اس پر وہ اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے اور یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہوتی کہ کس طرح یہ شان بنی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سارے لوگ اگر دیانتدار بن جائیں، دیانتدار نہ زندگی بسر کریں تو بجائے اس کے کہ یہ قابل رشک دکھائی دیں یہ قابل رحم دکھائی دینے لگیں اور لوگ خوف کھائیں حکومت کی نوکری سے کہ کیسا عذاب ہے، دن رات کی مصیبت، دن رات کی محنت خواہ انجینئر ہو، خواہ ایس پی ہو خواہ ڈی سی ہو، بڑی بھاری ذمہ داریاں ہیں اور جو تنخواہ ملتی ہے وہ اتنی کہ بمشکل سفید پوشی کا بھرم رکھا جا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.تو جو کچھ ان کو دکھائی دیتا ہے وہ شان دکھائی دیتی ہے جو جھوٹ پر قائم ہے اور ہر قوم کا بچہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے، اس سے کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہوتی کہ اس شان میں جھوٹ اور فساد شامل ہیں.چنانچہ اسی وقت سے اس کی نیت میں یہ بات داخل ہو جاتی ہے.ایک انسان تاجر بننے کی سوچ رہا ہے اس نے تاجروں کی شان وشوکت دیکھی ہے، دن بدن تیزی کے ساتھ روپیہ بڑھتے ہوئے دیکھا ہے، وہ جانتا ہے کہ دیانتداری کے ساتھ اس تیزی سے روپیہ نہیں بڑھا کرتا ، چنانچہ جب وہ تاجر بننے کی سوچتا ہے تو اس کی نیت میں وہ فساد داخل ہو چکا ہوتا ہے جو بظاہر کامیاب تاجروں کی نیت میں داخل تھا اور جس نے ان کو آنا فانا نا جائز ذریعے سے کمائی

Page 695

خطبات طاہر جلدے 690 خطبه جمعه ۴ ۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء ہوئی دولت کا مالک بنایا.پس اسی طرح آپ جب دوسرے زندگی کے شعبوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر جگہ آپ کو نیتوں کا فساد دکھائی دیتا ہے.بعض لڑکے مخلوط تعلیم کے کالج میں داخل ہوتے ہیں.بعض لڑکیاں مخلوط تعلیم کے کالجوں میں داخل ہوتی ہیں اور اس سے پہلے اگلی نسل کو رنگ رلیاں کرتے ہوئے دیکھ چکے ہوتے ہیں.تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں مخفی طور پر ایک یہ کیڑا بھی ہوتا ہے کہ ہم بھی اسی طرح عیش وعشرت کی زندگی بسر کریں گے، اسی طرح آزادانہ میل ملاپ کریں گے اور جس معاشرے کی جھلکی سے وہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں وہ ایک بدنیتی کا بیج بن کے ان کے دل میں جگہ لے لیتی ہے.اس قسم کی بدنیتیاں عام ہیں اور ان بدنیتیوں سے روکنے کے لئے تقویٰ کا میعار بلند کرناضروری ہے اور لذتوں کے معیار درست کرنے ضروری ہیں.یہ بہت ہی محنت کا کام ہے، بہت ہی تفصیلی توجہ چاہتا ہی ی ہے اور ایک عرصے کے بعد جب بچے بڑے ہو جائیں اس وقت یہ کام بہت مشکل ہو جاتا ہے.اسی لئے میں نے بار ہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ بچہ جب پنگوڑھے میں ہو ، جب ماں کی گود میں ہو، جب آپ اسے گودیوں میں اچھال کر اس سے کھیلتے ہیں یا اس کی معصوم پیاری باتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں، یہ وہ زمانے ہیں جبکہ نیتیں سیدھی کرنے کا وقت ہوا کرتا ہے.اس وقت کی نیتیں سیدھی ہوئی ہمیشہ سیدھی رہتی ہیں.اس وقت اخلاقی تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور بچپن کا ابتدائی زمانہ یعنی وہ زمانہ جبکہ ابھی اس پر عبادت فرض نہیں ہوئی ہوتی وہ زمانہ نیتوں کو درست کرنے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے.چنانچہ نماز سے پہلے نیت ضروری ہے اور انسانی زندگی کی تعمیر اور اس کا رخ ڈھالنے کے لئے بچپن سے اس کی نیت کی درستی ضروری ہے تب وہ نماز کے دور میں داخل ہوگا.یہاں میں نیت کا مضمون وسیع رنگ میں بیان کر رہا ہوں ایک لمبے عرصے پر پھیلی ہوئی نیت کا تذکرہ کر رہا ہوں.وہ بچہ جس کی نیتیں آپ درست کر دیتے ہیں وہ عبادت کا اہل بن جاتا ہے اور پھر عبادت سے استفادہ کرنے کا اہل بن جاتا ہے.وہ بچہ جس کی نیتوں میں فتور شامل ہو جاتا ہے اس بچے کے متعلق آپ کوئی ضمانت نہیں دے سکتے اور یہاں ماں باپ دونوں کے اعمال کا بچے کی نیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے.اسی لئے میں نے بار ہا یہ توجہ دلائی ہے کہ ماں باپ اپنے گھر پر جو اثر پیدا کر رہے ہیں اس کے متعلق متنبہ

Page 696

خطبات طاہر جلدے 691 خطبه جمعه ۴ ارا کتوبر ۱۹۸۸ء رہیں.وہ یہ خیال نہ کریں کہ ان کے بے تکلف جھوٹ ، ان کے بے تکلف بد دیانتی کے تذکرے، ان کے مذاق مذاق میں ایسے واقعات بیان کرنا جس سے ان کی چالاکیاں ظاہر ہوتی ہوں اور دوسروں کے اموال لوٹنے کے تذکرے ہوں.ہوشیاری کے ساتھ ہم نے فلاں کو اس طرح دھوکا دیا ، فلاں کو اس طرح دھوکا دیا بعض لوگ اس قسم کی باتیں گھر میں پکڑ کے فخر کر رہے ہوتے ہیں لیکن جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں.جس قسم کی باتیں گھر میں کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے اثرات بچوں کی زندگی پر گہری چھاپ بن کر نقش ہو جایا کرتے ہیں اور بعض دفعہ وہ انمٹ ہو جاتے ہیں.وہ نقوش ان کی زندگی کو بنانے یا بگاڑنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں.اس لئے سب سے پہلے تو گھروں کے ماحول کو اس نیت سے صاف اور درست کرنے کی ضرورت ہے کہ ماں باپ یقینی طور پر یہ جان لیں کہ اس معاملہ میں وہ خدا کے حضور جوابدہ ہوں گے.اگر ان کی بد اخلاقیوں کی وجہ سے اولاد کی نیتوں میں فتور پیدا ہو گیا تو پھر ان کی تمام عمر کی بداعمالیوں میں وہ حصہ دار قرار پائیں گے.یہی وہ مضمون ہے جو قرآن کریم کی اس آیت میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے جو آنحضرت یہ نکاح کے موقع پر تلاوت فرمایا کرتے ت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر : ۱۹) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، خدا کا خوف کرو وَلْتَنْظُرُ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدِ اور ہر جان اس بات کی نگران رہے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے.میں نے بارہا اس پر روشنی ڈالی ہے کہ یہاں کل سے مراد صرف اگلا جہان نہیں، وہ کل نہیں جو مرنے کے بعد آئے گا بلکہ وہ کل بھی ہے جو ہماری زندگیوں میں ہماری اولاد کے مستقبل کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ہمارے مرنے کے بعد آنے والی نسلوں کے اعمال کی شکل میں ظاہر ہو گا.ہماری جن کمزوریوں کا اس کل سے تعلق ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ ہمیں متنبہ فرماتا ہے کہ تم ہمارے سامنے جوابدہ ہو گے اور ہم تمہیں آج متنبہ کر رہے ہیں.پیں اس پہلو سے ایسے پروگراموں کی ضرورت ہے.یہ ایک لمبا کام ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تفصیلی محنت کا محتاج ہے، حکمت کا محتاج ہے کہ جماعتیں اپنی اپنی توفیق کے مطابق ایسے پروگرام بنائیں کے خاندانوں کو متنبہ کرنے کی مشینری قائم ہو جائے ، ایسا ایک کارخانہ بن جائے جس کے نتیجے میں مستقلاً اس موضوع پر ماں باپ کی تربیت کے

Page 697

خطبات طاہر جلدے 692 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء سامان پیدا ہوتے رہیں.اس کے علاوہ خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ اور لجنات میں نیت کے مضمون کے اوپر مختلف نصیحتوں پر مشتمل تقاریر ہونی چاہئیں.اس موضوع پر مقابلہ کروائے جا سکتے ہیں کہ نیتوں کا فتور کس طرح قوموں کو ہلاک کیا کرتا ہے، کس طرح ان قوموں کی تاریخ سے ہمیں استفادہ کرنا چاہئے اور جماعت احمد یہ کیا طریق اختیار کرے جس کے ذریعے ہماری نسلیں پاک اور صاف اور واضح نیتوں کے ساتھ جوان ہو رہی ہوں.یہی پیغام ہے جو میں افریقہ کے دورے میں افریقہ کو دیتا آیا ہوں.ان کو میں بتا تا رہا ہوں کہ آپ کے بچوں کی نیتیں ابھی سے بگڑ چکی ہیں.سارا ماحول اتنا گندہ ہو گیا ہے کہ آپ کی تعمیر نو ہو نہیں سکتی جب تک آپ اپنی آئندہ نسلوں کی نیتوں کی درستگی کی طرف توجہ نہ کریں.اسکے لئے احمدی سکول ہیں جب تک سکولوں میں ایسے نصاب داخل کئے جاسکتے ہیں اور بالعموم جماعتی نظام کے تابع اور ذرائع ایسے اختیار کئے جا سکتے ہیں کہ کھول کھول کر آئندہ نسلوں کی نیت کو درست رکھنے کے متعلق تدابیر جماعت کے سامنے پیش کی جائیں اور پھر ایسے اقدامات کئے جائیں جس میں افراد کی مدد ہو.صرف ماں باپ پر نہ چھوڑا جائے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کریں بلکہ جماعت ان کی مددکرے اور عملاً ان کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کر سکیں.اس ضمن میں ماں باپ کی تربیت کے اجلاس بلائے جاسکتے ہیں.بعض باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق بچوں سے ہے لیکن براہ راست بچے مخاطب نہیں ہو سکتے.ماں باپ کی تربیت کے سکول ہونے چاہئیں ان کو بتانا چاہئے کہ یہ خرابیاں قوم میں جڑ پکڑ گئی ہیں اور پھیل رہی ہیں اور ان سے اپنے بچوں کو بچانا ضروری ہے ورنہ اس کشتی سے باہر چلے جائیں گے جو کشتی اس زمانے میں مومنین کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ نے دوبارہ تعمیر فرمائی ہے.دوسرا پہلونیت کے بعد جو نیت ہی سے پھوٹتا ہے یعنی ہر باقی پہلو جو میں بیان کروں گا وہ سب نیت سے پھوٹ رہے ہیں وہ ہے کسی کی جان ، عزت اور مال سے کھیلنا.دن بدن ہمارے معاشرے میں یہ بدیاں پھیل رہی ہیں اور جماعت میں بھی وہ داخل ہو رہی ہیں.اس لئے یہ فخر کرنا کہ ہم ان سے بہتر ہیں بالکل غلط طریق ہے.یہ فخر تو نہیں شکر کا مقام ہے اگر ہم بہتر ہیں لیکن اگر ہم اتنے بہتر نہیں جتنا ایک الہی جماعت کو ہونا چاہئے تو پھر یہ شرم کی بات بن جاتی ہے.بہتر ہو نافخر کا مقام نہیں

Page 698

خطبات طاہر جلدے 693 خطبه جمعه ۴ ۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء شکر کا مقام ہے لیکن جتنا بہتر ہونا چاہئے وہ اگر نہ ہوں تو پھر یہ قابل شرم بات ہے اور ہم اس بات کے اہل نہیں رہتے کہ دوسروں کو بچا سکیں.ایک آدمی تیرنا جانتا ہوضروری نہیں کہ وہ کسی ڈوبتے ہوئے کو بچاسکے.ڈوبتے ہوئے کو بچانے کے لئے بہت اچھا تیرنا آنا چاہئے اور جسم میں اسی نسبت سے طاقت بھی ہونی چاہئے.جماعت احمدیہ کو دوسروں کو بچانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے اگر معاشرے کو سنبھالنا ہے تو جن بدیوں کا میں ذکر کرتا ہوں ان بدیوں سے جماعت کا کلیۂ اجتناب ضروری ہے اور جماعت کا معیار اس پہلو سے بہت بلند ہونا چاہئے.اب غیر کے مال پر بد نیتی سے نظر رکھنا اور پھر اس کو ہتھیانے سے کوئی پر ہیز نہ کرنا یہ ایک ایسی بدی ہے جو کثرت سے تیسری دنیا کے ملکوں میں پھیل گئی ہے.مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو یہ ایک ایسی بدی ہے جو عام ہے اور بدقسمتی سے احمدیوں کے متعلق بعض دفعہ غیر احمدی یہ شکایت کرتے ہیں کہ فلاں شخص پر ہم نے اعتماد کیا اور اس وجہ سے کیا کہ وہ احمدی تھا.یہ توقع رکھ کر اسکے سپر دامانت کی کہ چونکہ یہ احمدی ہے اس لئے امانت میں خیانت نہیں کرے گا لیکن وہ سارا روپیہ کھا گیا ہے اور بعض دفعہ اس میں مبالغہ بھی نظر آیا لیکن بعض دفعہ سچائی بھی نظر آئی.ایک موقع پر ایک ملک کے ایک غیر مسلم نے مجھے خط لکھا کہ فلاں صاحب احمدی تھے اور میں احمدیوں کی بڑی عزت کرتا ہوں اگر چہ میں مسلمان بھی نہیں ہوں.میر اعمومی تجربہ یہ ہے کہ احمدی دیانتدار ہوتے ہیں لیکن اس ظالم شخص پر میں اعتماد کر بیٹھا.نہ اس نے پھر میرے احسان کا خیال کیا ، نہ اپنی احمدیت کا خیال کیا اور بڑی بے شرمی کے ساتھ میرا پیہ ہضم کر گیا.جب میں نے تحقیق کرائی تو بات درست تھی.اس کے متعلق جو کارروائی ہوسکتی تھی کی گئی مگر جب غیر کی طرف سے طعنہ آتا ہے تو بہت ہی شدید تکلیف پہنچتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو دوسرے کے اموال، دوسرے کی عزت اور دوسرے کی جان کا احترام سکھانا ضروری ہے اور اس پہلو سے مجھے ڈر ہے کہ بہت سی کمزوریاں ہمارے اندر داخل ہو چکی ہیں اور اس قسم کے بعض جگہ برائی کے اڈے بن چکے ہیں جو آگے پھر برائیوں کو پھیلانے کے لئے منظم طریق پر کارروائیاں کرتے ہیں.بعض لوگ شاید یہ خیال کریں کہ اس دور میں جماعت کی برائیوں کا اس طرح تذکرہ کرنا ہمارے لئے خفت کا موجب ہو گا.میں سمجھتا ہوں کہ برائیاں خفت کا موجب ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لئے جہاں تک ان کا ذکر ضروری ہے وہ ذکر کرنا خفت کا موجب نہیں ہے بلکہ تقویٰ کی علامت ہے روپیه

Page 699

خطبات طاہر جلدے 694 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء اور سچائی کی علامت ہے.اس لئے ایسے ذکر سے میں نہیں رک سکتا جس کے نتیجے میں اصلاح مقصود ہے اور جس کے بغیر اصلاح ممکن نہیں.اس لئے مجبوراً مجھے کھل کر یہ باتیں آپ کے سامنے رکھنا ہیں.مال کے متعلق میں آپ کو بتاتا ہوں میں نے بارہا آپ سے کہا ہے کہ ایسے لوگ جو آپ کو ایسی لالچ دیتے ہیں جو عام دنیا وی دستور کے مطابق معقول بات نہیں یعنی آپ سے یہ کہتے ہیں کہ یہ روپیہ بڑی تیزی سے بڑھ جائے گا اور بہت جلدی تم امیر بن جاؤ گے اس لئے یہ روپیہ ہمیں دو.آپ یقین جانیں کے وہ بددیانت لوگ ہیں اور اس میں ایسے لوگوں کی ہمیشہ شرط یہ ہوتی ہے کہ ہمارے سپر د کرو اور ایسی لالچ دیتے ہیں کہ جس میں شروع میں بظاہر آپ کے سپر دروپیہ رہتا ہے لیکن کچھ دیر کے بعد رفتہ رفتہ اعتماد قائم ہو کر وہ روپے کا کنٹرول انتقال کر جاتا ہے دوسری طرف اور انتقال ان معنوں میں بھی کر جاتا ہے کہ آپ کی طرف سے روپیہ مرجاتا ہے.تو یہ لوگ ایسے ہیں جن کے خلاف جماعت کو متنبہ رہنا چاہئے اور وہاں بھی نیتوں کا فتور ہے جوان کو نقصان پہنچاتا ہے.آپ ایسے روپے کی لالچ میں مغلوب ہو جاتے ہیں جس کے متعلق آپ کا نفس اندرونی طور پر گواہی دیتا ہے کہ یہ درست بات نہیں ہے ایسا ہونا نہیں چاہئے.چنانچہ اکثر دھو کے دینے والے اسی قسم کے سبز باغ دکھا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور دھوکا دینے والے جس کو دھوکا دیتے ہیں وہ جب تک اپنے نفس کو دھوکا نہ دے وہ دھو کے کا شکار نہیں ہوسکتا.یہ ایک بار یک نفسیاتی نقطہ ہے جس کو آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر آپ کا نفس خود آپ کو دھوکا دینے کا اہل نہیں ہے اور آپ اسے مغلوب کر چکے ہیں اور اپنے نفس کے دھوکے میں خود نہیں آتے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر دنیا کا کوئی دھو کے باز آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا.نقصان بعض دفعہ ایسے مومن بھی اٹھا لیتے ہیں لیکن اس کی اور وجوہات ہیں اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کا ذکر نہیں مگر ہمیشہ وہی لوگ دھوکا کھاتے ہیں جو خود اپنے نفس کو دھوکا دینے کے عادی ہوتے ہیں.اس لئے اموال کے معاملے میں اپنے نفسوں کو صاف کریں اور اپنی نیتوں کو صاف کریں اور کسی لالچ کا شکار نہ ہوں.اگر آپ کسی لالچ کا شکار نہیں ہوں گے تو دوسرا قدم یہ ہوگا کہ آپ آئندہ دوسروں کو بھی دھوکا نہیں دیں گے.اس لئے جماعت کی اصلاح کے لئے صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ دوسروں کو دھوکا نہ دو.بات یہاں سے شروع ہونی چاہئے کہ اپنے آپ کو دھوکا نہ دو.اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ نیتوں کی صفائی بہت

Page 700

خطبات طاہر جلدے 695 خطبه جمعه ۴ ۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء ضروری ہے لیکن باریک نظر سے اس کی صفائی ضروری ہے اور ایسے مضامین کھول کھول کر جماعت کے سامنے رکھنے چاہئیں کہ جب بھی تمہارے سامنے کچھ ایسے معاملات ہوں، اقتصادی معاملات جن میں تمہیں ایک دم روپیہ بڑھانے کی دعوت سامنے آئے تو اس وقت اپنے نفس کوٹولا کرو اور آنکھیں بند نہ کیا کرو.آنکھیں بند کرنے کا مضمون یہاں واقعۂ اطلاق پاتا ہے کیونکہ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے بڑے بڑے سمجھدار لوگ بھی بعض دفعہ دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں.وجہ یہ ہے کہ ان کی سمجھ سے ان کے نفس کی لالچ زیادہ طاقتور ہوتی ہے، ان کے سامنے ایک آدمی ایک ایسی پیشکش کرتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اگر آج میں ایک ہزار روپیہ کسی کے سپر د کر دوں یا فلاں کام میں لگا دوں تو کل یہ دس ہزار روپیہ ہو جائے گا.عقل اگر لالچ سے قوی ہو تو یہ کہے گی کہ ہاں ہو تو سکتا ہے، بعض صورتوں میں بڑھ جایا کرتا ہے لیکن چونکہ غیر معمولی بات ہے اس لئے میں پوری چھان بین کروں گا.چونکہ ایسی صورت میں یہ خطرہ بھی ہے کہ میرا روپیہ ضائع ہو جائے اس لئے میں ہر احتمال کا دروازہ بند کر دوں گا اور پھر فیصلہ کروں گا.جب وہ اس قسم کی بات کرتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ ہمیشہ دھوکا باز بعد میں اس کو کہے گا کہ جلدی ہے، بہت جلدی ہے وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے تمہیں فیصلہ کرنا ہے تو آج کرو ورنہ بس پھر نہ میرے پاس آنا.اس وقت پھر عقل کی اور دل کی لالچ کی لڑائی ہو جاتی ہے.دل کی لالچ کہتی ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا، اس پیسے کو کھا جاؤ فورا لے لو یہ جو آنے والا پیسہ ہے اس کو یقینی بنالو اور عقل کہتی ہے کہ افراتفری میں ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جب تک پوری احتیاط نہ ہو اس وقت تک ہمیں اپنے اموال کو داؤ پہ نہیں لگانا چاہئے.یہ عقل کا پیغام ہے اندرونی.اس وقت جب انسان فیصلہ کرتا ہے کہ ہاں مجھے کر لینا چاہئے تو دراصل وہ یہ فیصلہ کر رہا ہوتا ہے کہ یہ ایک جوا ہے.عام حالات میں یہ چیز ممکن نہیں ہے اس کا نفس ساتھ ہی یہ فیصلہ دے دیتا ہے.اگر اس کا نفس یہ فیصلہ دیتا ہے کہ عام حالات میں ممکن ہے تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ پھر جلدی کیا ہے.اگر عام حالات میں ممکن ہے تو آج جس طرح ممکن ہے کل بھی ممکن ہوگا.اس شخص کے ذریعے ممکن ہے تو ایک دوسرے شخص کے ذریعے بھی ممکن ہے.اس لئے دراصل وہ اس وقت یہ فیصلہ کر رہا ہوتا ہے کہ یہ عام حالات میں ممکن نہیں ہے اور جہاں تک خطرے کا تعلق ہے میں جانتا ہوں لیکن جوا ہے اس لئے کیوں نہ اس وقت جوا

Page 701

خطبات طاہر جلدے 696 خطبه جمعه ۴ ۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء کھیل جاؤں تو قران کریم کی کسی حرمت کو توڑے بغیر وہ اپنا نقصان نہیں کر سکتا.یہ ہے نفس کے دھو کے کا مضمون.قرآن کریم نے جو حرمتیں قائم فرمائی ہیں وہ آپ کی حفاظت کے لئے قائم فرمائی ہیں اور اگر آپ ان حرمتوں کو نہ توڑیں اور ان کے خلاف اپنے نفس کو بغاوت نہ کرنے دیں تو آپ مقام محفوظ میں ہیں پھر کوئی دشمن آپ پر حملہ نہیں کر سکتا.یہ وہ بیماریاں ہیں اموال کی جو اکٹھی چلنے والی ہیں.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ جہاں بددیانتیاں عام ہوں وہاں قمار بازی کا رجحان بھی بڑھ جاتا ہے اور جو وں کے اڈے بننے شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے یہ ساری بیماریاں جو اموال سے تعلق رکھتی ہیں یہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر اکٹھی چلتی ہیں.چنانچہ جہاں تک میرا جائزہ ہے قادیان میں بھی، ربوہ میں بھی اور پاکستان کے اور شہروں میں بھی وقتا فوقتا قمار بازی کے رجحان پیدا ہوئے ہیں اور جماعت نے ان کے خلاف جدوجہد کی ہے اور جب ہم نظر بند کر لیتے ہیں یا انتظام ان باتوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتا ہے تو یہ پھر پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں.ربوہ میں میرے علم میں ہیں وہ لوگ جو ایسے رجحان پیدا کرتے ہیں اور جن کے گھر ایسے اڈے بنتے ہیں.جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ جی ہم تو وقت گزارنے کے لئے تاش کھیل رہے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں.در اصل بات یہ ہے کہ تاش نہیں کھیل رہے ہوتے تاش کے ساتھ پیسے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور دور دور سے کہیں سرگودھا سے، کسی چک سے، کسی اور مقام سے لوگ ان کے خاص جوان اڈوں پر آنے کے عادی ہیں وہاں پہنچتے ہیں اور جب وہ نظام ان سے پوچھتا ہے تو کہتے ہیں یہ ہم نے ذرا مشغلہ لگایا ہوا ہے اور کیا کریں.یہ جھوٹ ہے.واقعہ یہ ہے کہ قمار بازی پھر آگے پھیلتی ہے پھر نو جوان نسلیں تباہ ہوتی ہیں اور قمار بازی کے ساتھ چوری کا پیدا ہونا بھی ایک لازمی بات ہے.دوسرے کو دھوکا دینا بھی اس کے نتیجے میں از خود پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ قمار بازی اور دوسرے کے مال کی حرمت کا احترام اٹھ جانا یہ ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں.پس ایسے اڈے اور جگہ بھی ہوں گے، بنتے بھی ہیں بگڑ بھی جاتے ہیں لیکن جب یہ اڈے بنے ہوئے ہوں اور عام دستور بن رہے ہوں اور نظام جماعت یا معاشرہ ان کے خلاف رد عمل نہ دکھائے تو پھر یہ خطرناک اور مہلک ہو جاتے ہیں ورنہ کسی نہ کسی رنگ میں کہیں تھوڑے اور کہیں زیادہ

Page 702

خطبات طاہر جلدے 697 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء یہ معاشرے میں چلنے والی چیزیں ہیں.یہ کہنا کہ معاشرہ ان سے کلیۂ پاک ہو چکا ہے یہ جھوٹ ہے.جو معاشرہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بعض بیماریوں سے کلیۂ پاک نہیں ہوا وہ معاشرہ دنیا میں کبھی کسی زمانہ میں بھی ان بیماریوں سے کلیۂ پاک نہیں ہوسکتا.اس بنیادی اصول کو پیش نظر رکھیں.اس اصول کو پیش نظر رکھ کر دو قسم کے رد عمل پیدا ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ جی ! یہ ہوتا ہے، چلتی ہیں یہ چیزیں اس لئے کیا فرق پڑتا ہے ہونے دو.یہ وہ رد عمل ہے جو ہلاکت کا رد عمل ہے.میں اس غرض سے یہ باتیں نہیں کہ رہا.میں اس غرض سے آپ کو یہ بتارہاہوں کہ غافل نہ ہوں.اگر یہ چیزیں آپ کو ظاہری نظر میں دکھائی نہ بھی دے رہی ہوں تو یہ نہ سمجھیں کہ موجود نہیں ہیں.اس لئے نگرانی کی نظر کو سونے نہ دیں اور جو ادارے ان چیزوں پر مقرر ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں پر نگاہ رکھیں.ان بیماریوں نے کسی نہ کسی شکل میں ہر معاشرے میں موجودرہنا ہے یا کم ہوں گی یا زیادہ ہوں گی اور یہی حال دنیا کی بیماریوں کا ہے جو انسانی اجسام سے تعلق رکھتی ہیں.یہ تو روحانی بیماریاں ہیں اجسام کی بیماریاں بھی اسی طرح ہوتی ہیں.ہر انسان میں کچھ نہ کچھ بیماریوں کے کیڑے ہر وقت موجود ہیں.اگر جسم صالح ہے اور یہ جانتا ہے کہ یہ بیماریاں موجود ہیں تو ان کے خلاف وہ نگران رہتا ہے.جہاں جسم میں فساد پیدا ہو اور جہاں یہ بیماریاں جسم کی نظر سے اوجھل ہو جائیں وہاں یہ بیماریاں قبضہ کر جاتی ہیں.میں جو کہ رہا ہوں جسم کی نظر تو یہ کوئی ایک فرضی بات نہیں ہے.واقعہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایک نظر عطا کی ہوئی ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کا تتبع کرتی ہے اور ہر وقت نگران رہتی ہے ، ہر وقت سرچ لائٹ کی طرح دیکھتی رہتی ہے کہ کہاں کون سی بیماری کس حد تک موجود ہے اور اس کے دفاع کے لئے پھر وہ جسم کے متعلقہ حصوں کو متنبہ کرتی رہتی ہے.چنانچہ جو انسان کا Immune System ہے اگر چہ اس کا دماغ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارے شعور سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.یعنی انسان کے خون کے اندر جو دفاعی نظام ہے اس کو Immune System کہتے ہیں.اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ دماغ کو معلوم ہے کہ نہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے لیکن اندرونی طور پر وہاں خدا نے ایک نظر کا انتظام فرمایا ہے، ایک نگرانی کا انتظام فرمایا ہے.کچھ جسم کے بظاہر بے شعور حصے یا خلیے ہر وقت دوڑ ا کرتے ہیں خون کے ذروں کے ساتھ اور یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کہاں کون سی بیماری کس حد تک پائی جاتی ہے.بعض بیماریوں کے خلاف وہ اس طرح رد عمل کرنے کا آرڈر دیتے ہیں

Page 703

خطبات طاہر جلدے 698 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء یعنی اطلاع دیتے ہیں ان حصوں کو جو اس بات پر نگران ہیں کہ یہ بیماری اس نوعیت کی ہے کہ اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے اور اس کے ارد گرد ایک خول چڑھا دیا جائے تاکہ اس کا صحت مند جسم سے تعلق ٹوٹ جائے.چنانچہ جس کو ہم عام جماعتی اصطلاح میں مقاطعہ کہتے ہیں وہ جسمانی اصطلاح میں Sist کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.خول چڑھ جاتے ہیں بعض بیماریوں پر اور ان خولوں کے اندر اس کو بند کر دیا جاتا ہے تا کہ اس کا باقی جسم سے بائیکاٹ ہو جائے.اس کے بعد اس کو وہاں رہنے دیا جاتا ہے تو پھر اس کے خلاف کوئی خطرہ نہیں.ایک اور نظام جسم کا یہ ہے کہ بعض بیماریوں کے متعلق وہ ذرے یہ پیغام بھیجتے ہیں جو نگران ہیں کہ ان کی شکل ایسی ہے کہ یہ قید نہیں رہ سکتے انہوں نے ضرور فتور پھیلانا ہے.اس لئے علاج یہ ہے کہ ان کو جسم سے باہر نکال کر پھینک دیا جائے.چنانچہ اخراج از جماعت جس کو آپ کہتے ہیں وہ جسمانی لحاظ سے یہ شکل رکھتا ہے اور کوئی بھی ہم ایسا نظام نہیں رکھتے جس کی مثال خدا تعالیٰ کے نظام قدرت میں موجود نہ ہو.اب جسم کو یعنی ہمارے جسم کو جب بھی کوئی چوٹ لگتی ہے یا کسی قسم کے جراثیم اس میں داخل ہو جاتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ پہلے سرخی آتی ہے پھر سرخی کے بعد وہ ابھار ہوتا ہے ایک اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پھوڑا بن رہا ہے پھر وہ پھوڑے میں اگر جسم صحتمند ہو کچھ تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں.پہلے بہت تکلیف ہوتی ہے، کسک ہوتی ہے اس تکلیف کے بعد اس کے اردگرد سفیدی سی آنے لگتی جس کو ہم پیپ کہتے ہیں.پھر وہ پک جاتا ہے پھر وہ پیپ جسم سے باہر نکلتی ہے اور آپ کو سکون آجاتا ہے.بخار ختم ہو جاتا ہے.یہ وہ نظام ہے جو جسم کی حفاظت کے لئے اندرونی طور پر کیا جا رہا ہے اور ہر زندہ وجود میں موجود ہے لیکن Conscious دماغ سے یعنی باشعور سوچ سے اس کا کوئی تعلق نہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس پر نگران موجود ہیں وہ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ہم نہیں جانتے لیکن سائنسدان اس بات کو جان چکے ہیں اور اس کی خوب پڑتال کر چکے ہیں کہ دیکھنے والے یعنی باخبر رہنے والے ذرے ایسے موجود ہیں جن کا نہ کوئی دماغ ہے، نہ ان کے اندر کوئی نروس سسٹم ہے لیکن کچھ ایسا خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے اندر پیغام چھپا ہوا موجود ہے جس کے ذریعے ان کو یہ طاقت ہے کہ وہ دیکھتے رہیں نگرانی کرتے رہیں اور پیغام بھیجتے رہیں اور بالکل بیج پیغام بھیجتے ہیں.اس پر اگر آپ غور کریں تو ہمارے نظام جماعت کے لئے اس میں بہت سی نصیحتیں ہیں.

Page 704

خطبات طاہر جلدے 699 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء پہلی بات تو یہ ہے کہ ان باتوں کی خبر رکھنا ضروری ہے.جسم کے جن حصوں میں بیماری داخل ہو جائے اور خبر نہ ہو وہاں جسم کا کوئی ردعمل نہیں ہوتا.اس لئے جہاں جہاں نظام جماعت خبر گیری سے غافل ہو جاتا ہے وہاں یہ بیماریاں پنپنے لگتی ہیں.چنانچہ افسوس کی بات یہ ہے کہ مجھے اس نظام کے ذریعے پتا چلتا ہے جو خدا تعالیٰ نے خلافت کی حفاظت کے لئے از خود جاری فرما دیا ہے.ہر احمدی جہاں کوئی غلط بات دیکھتا ہے مجھے خط لکھ دیتا ہے.اس لئے میں باخبر تو رہتا ہوں لیکن جو نظام کا حصہ اس بات پر مامور تھا کہ ان باتوں کی خبر رکھے اور مجھے مطلع رکھے وہ غافل ہے.بسا اوقات یہ اطلاعیں انفرادی خطوط کے ذریعے مجھے ملتی ہیں جماعتی اطلاعوں میں یہ شامل نہیں ہوتیں.میں نے اس سے پہلے بھی جماعتوں کو نصیحت کی تھی کہ سچائی میں عزت ہے.اگر اس خیال سے آپ یہ خبریں نہیں دیتے کہ آپ کی بدنامی نہ ہو یا مجھ پر برا اثر نہ پڑے کہ جماعت لاہور یا جماعت ربوہ یا جماعت کراچی میں یہ یہ کمزوریاں پائی جاتی ہیں.یہ آپ اپنی جان پر ظلم کر رہے ہیں اور جماعت پر ظلم کر رہے ہیں.ساری زندگی کا راز سچائی ہے.آپ باخبر رہیں اور مجھے مطلع رکھیں تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اور مجھے بھی پہنچتی ہے لیکن یہ تکلیف ہماری بقا کے لئے ضروری ہے، اس بات کو نہ آپ بھولیں.اگر آپ مجھے اس لئے نہیں بتاتے کہ مجھے تکلیف نہ ہو تو پہلے نیت کے نسبتاً یہ بہتر ہے لیکن درست یہ بھی نہیں.خدا نے جو تکلیف میرا مقدر بنائی ہے جو میری ذمہ داری ہے اس سے آپ مجھے کس طرح بچا سکتے ہیں.اگر آپ نہیں بتائیں گے تو دوسرے بتائیں گے اور جیسا کہ میں نے ابھی آپ کے سامنے نقشہ کھینچا ہے ایک پھوڑے بنے کا وہاں خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا تھا کہ بڑی تکلیف ہوتی ہے.تکلیف ہی حفاظت کا انتظام کرتی ہے.اگر تکلیف نہ ہو بیماری سے تو وہ ذرات جن کا کام ہے اس بیماری کا مقابلہ کرنا وہ حرکت میں ہی نہیں آتے.بعض دفعہ تکلیف کے نتیجے ہی میں اطلاع ملتی ہے ان کو اور بعض دفعہ جب وہ حرکت میں آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کچھ تکلیف قدرتا پہنچتی ہے اور یہ تکلیف لازمہ ہے ایک صحت کا.اسی لئے بعض لوگ کہتے ہیں جی! خدا تعالیٰ نے یہ اتنی بیماریاں بنا دیں، انسان کو یہ مصیبتیں ڈالیں ان بیوقوفوں کو یہ نہیں پتا کہ خد اتعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے لئے یہ تکلیفیں رکھی ہیں.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الم نشرح: (۷) کا جو عظیم الشان مضمون بیان ہوا ہے اس کا یہاں بھی اطلاق ہوتا ہے.ہر آسانی سے پہلے کسی تکلیف میں سے گزرنا ضروری ہے.یہ ایسا قانون قدرت ہے جس کو کوئی

Page 705

خطبات طاہر جلدے 700 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۸ء دنیا کی طاقت بدل نہیں سکتی.وہ لوگ جو بغیر تکلیف کے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ ہماری تقدیریں بدل جائیں گی ، ہم عظیم الشان مرتبوں کو حاصل کرلیں گے وہ جاہلوں کی خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں حقیقت کی دنیا میں نہیں رہتے.قانون قدرت جو خدا نے بنایا ہے اس میں کوئی تبدیلی آپ نہیں دیکھیں گے.اس لئے وہ معاشرہ جو حساس ہے اور جو تکلیف محسوس کرتا ہے وہ بیماریوں کو دور کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے.جہاں تکلیف اٹھ جائے وہ معاشرہ اس بات کا اہل ہی نہیں ہے کہ وہ بیماریاں دور کر سکے.اس لئے نہ صرف یہ کہ آپ اس مضمون کو سمجھ کر مجھے یہ تکلیف پہنچائیں تا کہ میرے دل میں رد عمل پیدا ہو اور میں اس کے لئے کوشش کروں بلکہ یہ نظر رکھیں کہ معاشرہ تکلیف محسوس کر رہا ہے یا نہیں کر رہا.فالج زدہ جسم اور غیر فالج زدہ جسم میں یہ ایک فرق ہے.مفلوج حصے تکلیف نہیں محسوس کرتے تو کیا وہ شخص جو مفلوج ہو گیا ہے وہ اس بات پر خوش ہو گا کہ مجھے اب درد کبھی نہیں ہوگی؟ جب وہ صحت مند تھا ہو سکتا ہے وہ خدا پر اعتراض کیا کرتا ہو کہ عجیب تقدیر ہے کہ مصیبت پڑی ہوئی ہے، فلاں جگہ دکھ اور فلاں جگہ ، یہ بچے روتے ہیں، بلبلاتے ہیں ان کا کیا قصور ہے.وہ اس نظام کو سمجھتا نہیں کہ اسی میں اس کی زندگی کی حفاظت ہے اور جب اس کا جسم مفلوج ہو جاتا ہے پھر وہ روتا ہے کہ کاش مجھے تکلیف پہنچے.وہ سوئیاں چھوتا ہے، چٹکیاں کاٹتا ہے، اپنے جسم کو ملتا ہے، مروڑ تا ہے دیکھنے کے لئے کہ کیا مجھے تکلیف پہنچتی ہے کہ نہیں اور جب اس کو تکلیف ہونا شروع ہو پھر اس کی جان میں جان آتی ہے تو یہ تکلیف حفاظت کی خاطر ہے.اگر ہماری جماعتوں میں احساس بدی کو دیکھنے کے بعد تکلیف ہونا بند ہو جائے تو آپ یقین سمجھیں کہ یہ فالج زدہ جماعتیں ہیں.وہ معاشرہ مفلوج ہو رہا ہے.اس کی فکر کرنی چاہئے.اس لئے میں اس مضمون کو بقیہ پھر انشاء اللہ بیان کروں گا کیونکہ ایک لمبا مضمون ہے اگلے خطبے میں بھی یہ جاری رہے گا.اس وقت میں آپ کو یہ بنیادی باتیں بتانا چاہتا ہوں کہ جن برائیوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان برائیوں سے مقابلے کے لئے پہلے نیتوں کا درست کرنا ضروری ہے جس کے متعلق میں ذکر کر چکا ہوں پھر اپنے احساس اور شعور اور نگرانی کے نظام کی حفاظت ضروری ہے اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہمیں تکلیف پہنچ رہی ہے کہ نہیں.اگر تکلیف پہنچ رہی ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ اسی تکلیف سے زندگی پیدا ہوگی اور اگر خدانخواستہ تکلیف ہونا بند ہو گئی ہے تو پھر اس سے زیادہ فکر کی ضرورت ہے.اللہ ہمیں اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کی توفیق بخشے جو ہم پر نہ صرف اپنی اصلاح کی بلکہ غیروں کی اصلاح کی بھی عائد کی گئی ہے.

Page 706

خطبات طاہر جلدے 701 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء شرقی برائیوں بالخصوص مالی بے راہ روی کے خلاف جہاد کریں خطبه جمعه فرموده ۱/۲۱ کتوبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے یہ مضمون شروع کیا تھا کہ جب بھی کوئی مسلمان سیلاب کی غیر معمولی تباہ کاریاں دیکھتا ہے تو اس کا ذہن طوفان نوح کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور یہ مضمون عموماً آپ کو اخباروں میں دکھائی دیں گے کہ یہ خدا کا عذاب ہے جس سے بچنے کے لئے ہمیں کچھ کرنا چاہئے.ایک احمدی مسلمان کا ذہن صرف ہزاروں سال پہلے کے حضرت نوح کے واقعہ ہی کی طرف منتقل نہیں ہوتا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب کشتی نوح کی طرف بھی منتقل ہوتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے کے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کشتی عطا کی گئی.اس کے ساتھ ہی میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ کشتی نوح کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جن سیلابوں کی تباہ کاریوں کا اس زمانے کے تعلق میں ذکر ہے وہ درحقیقت گناہوں کے سیلاب ہیں اور معاصی کے طوفان ہیں.جب بد عملی زور پکڑتی ہے اور موجیں مارتی ہے تو ہر قسم کے جرائم دنیا میں اچھلنے لگتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں قومیں غرق ہو جاتی ہیں.بعد میں انسان کی تباہی خواہ کچھ لمبا وقت لے یا تھوڑا وقت لے وہ ایک منطقی نتیجہ

Page 707

خطبات طاہر جلدے 702 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء کے طور پر ظاہر ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو روحانی معنوں میں نوح کا لقب عطا فرمایا گیا وہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کی نسبت سے سمجھا جا سکتا ہے.اگر چہ حضرت نوح کے طوفان کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا غرق ہو گئی تھی مگر جہاں تک انسانی تحقیق کا تعلق ہے نہ یہ بات قرین قیاس ہے نہ تاریخی اور سائنسی شواہد سے ثابت ہے، نہ عقل اس کو تسلیم کرسکتی ہے کہ ایک بارش کے نتیجہ میں تمام دنیا کے بڑے بڑے خطے غرق ہو چکے ہوں اور کسی جگہ کوئی پناہ گاہ باقی نہ رہے.زمین کا اور نچ پیچ ، اس کا طول عرض اس کے نقشے کی کیفیت یہ ساری چیزیں اس تصور کو رد کرتی ہیں لیکن اس کے با وجود یہ قطعی طور پر درست ہے کہ وہ دنیا جس دنیا کی طرف حضرت نوح مامور فرمائے گئے تھے اور ہو سکتا ہے اس وقت انسانی آبادی وہیں تک سمٹی ہو اس پہلو کو ہرگز عقلاً یا سائنس کے نقطہ نگاہ سے رد نہیں کیا جا سکتا کہ انسانی معاشرے کی ترقی یافتہ صورت انہی علاقوں میں بستی ہو جن علاقوں میں حضرت نوح خدا کا پیغام لے کر آئے اور چونکہ وہ انسانوں کی ترقی یافتہ صورت تھی اور وہ ایک ایسی تہذیب تھی جو تمام دنیا کے انسانوں کی نمائندگی کر رہی تھی اس لئے ان کی غرقابی کو سب دنیا کی غرقابی قرار دیا گیا.وہ امتوں کے بیچ تھے وہ ایسے لوگ تھے جن سے آئندہ تہذیبی امتیں قائم ہوئی تھیں.ان معنوں میں ان کو خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کے نمائندے کے طور پر جب روفر مایا تو نقشہ ایسا کھینچا گویا سب دنیا غرق ہوگئی لیکن جہاں تک قرآن کریم کی آیات کا تعلق ہے واضح طور پر کسی جگہ بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ تمام دنیا غرق ہوگئی.بائبل کی کہانیوں میں تو آپ کو یہ ملے گا.دوسرے قصوں میں یہ بات مذکور ہوگی لیکن قرآن کریم میں صاف لفظوں میں کسی ایک جگہ بھی ساری دنیا کی غرقابی کا ذکر نہیں فرمایا ہاں حضرت نوح کے مخاطبین کا ذکر فرمایا ہے.حضرت نوح سے جو مذاق کرتے تھے تمسخر کرتے تھے اور کشتی بنانے کے وقت پاس سے گزرتے ہوئے کئی قسم کے طعن وتشنیع سے کام لیتے تھے.وہ وہی لوگ تھے جن سے حضرت نوح مخاطب تھے.ہاں دوسرے پہلو کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ان کو تمام دنیا کا نمائندہ ضرور سمجھا گیا اور تمام امتوں کا خلاصہ قرار دیا گیا.چنانچہ

Page 708

خطبات طاہر جلدے 703 قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے نوح سے مخاطب ہو کر یہ فرمایا کہ: خطبه جمعه ۲۱ را کتوبر ۱۹۸۸ء قِيْلَ لِنُوحُ اهْبِطُ بِسَلِمٍ مِنَّا وَ بَرَكَةٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ (هود: ۴۹) ممَّنْ مَّعَكَ وَ أَمَرَّ سَنُمَتْعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ کہ نوح سے یہ فرمایا گیا الهبط بسلم قِنا کہ تو اس سفر پر روانہ ہو جوکشتی کا سفر ہے ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ وَبَرَكتٍ عَلَيْت اور اس حالت میں کہ خدا تعالیٰ کی برکتیں تیرے ساتھ ہیں.وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَّعَ اور ان امتوں کے ساتھ ہیں جو تیرے ساتھ ہمسفر ہیں.بعض علماء یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں امتوں سے مراد مختلف قسم کے جانور تھے جو اپنی اپنی قوم کے نمائندہ تھے.حالانکہ قرآن کریم جانوروں کے متعلق یہ لفظ استعمال نہیں فرما سکتا کہ وہ برکتیں ، وہ رحمتیں جو نبیوں کو عطا ہورہی ہیں وہ ان کے ساتھی جانوروں کو بھی عطا ہوں گی.ایک محض لغو تصور ہے جس کو نعوذ باللہ قرآن کریم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.پھر اس آیت کا اگلا ٹکڑا اس بات کو خوب کھول رہا ہے کہ امتوں سے کون مراد ہے.فرمایا وَ أُمَوِّ سَنُمَتعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيم اور ایسی امتیں بھی ہیں جو کشتی میں سوار ہیں لیکن ہم ان کو فائدے سے محروم تو نہیں رکھیں گے ہاں کچھ فائدے کے بعد ان کی بعد میں پیدا ہونے والی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں ان کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے.تو جانورں کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر نہیں ہے کہ کچھ فائدہ پہنچانے کے بعد جانوروں کی نسلوں کو عذاب میں مبتلا کیا جائے آخر کیوں کیا جائے وہ تو مکلف نہیں ہیں شریعت کے.اس لئے اس آیت کے اس آخری حصے نے اس مضمون کو خوب کھول دیا کہ حضرت نوح کے ساتھ سوار لوگ تمام دنیا کے امتوں کے نمائندہ تھے اور ان کے اندر وہ بیج موجود تھا جس سے امتیں پیدا ہوتی ہیں.اس پہلو سے وہ دنیا غرق کی گئی.یعنی تمام دنیا گویا ڈوب گئی جب خدا تعالیٰ نے اس بیج کو محفوظ کر کے باقی سب لوگوں کو جوان کو مٹانے کے درپے تھے ان کو ہلاک کر دیا.اس نقطہ نگاہ کو سمجھنا ایک احمدی کے لئے بہت ہی ضروری ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے حوالے سے کشتی نوح کی سمجھ آئے گی اور یہ کشی نوح واقعۂ تمام دنیا کے انسانوں کو بچانے کے لئے بنائی گئی ہے.حضرت نوح کے زمانے کے چند لوگوں کو بچانے کے

Page 709

خطبات طاہر جلدے 704 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء لئے نہیں جن کا تعلق ایک قوم سے تھا چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی سرداری اور آپ کی سیادت تمام دنیا پر محیط ہے اس لئے جو بھی آپ کا سچا غلام ہو گا اگر اسے نوح کا خطاب دیا جائے تو اس سیلاب کا تعلق بھی سب دنیا سے ہوگا اور اس کشتی کا تعلق بھی سب دنیا سے ہو گا.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے اوپر بے انتہا عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کشتی کی حفاظت کریں جو کشتی ان کے اخلاق سے تعمیر ہو رہی ہے، جو کشتی ان کی نیکیوں سے تعمیر ہورہی ہے.جو کشتی ان کو بدیوں سے بچارہی ہے کیونکہ یہ بدیوں سے بچانے والی کشتی ہی ہے اور نیکیوں کی تلقین کر رہی ہے ، ان کی نیکیوں میں نشو نما پیدا کرتی ہے.نوح کے سیلاب سے جس طرح کشتی بلند ہوئی تھی طوفان نوح نے ہر چیز کو غرق کر دیا مگر اس کشتی کو غرق نہیں کر سکا اسی طرح بدیوں کا سیلاب خواہ کتنا بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کشتی میں بیٹھ کر آپ بھی اس کے مطابق بلند تر ہوتے چلے جائیں گے اگر اپنے اخلاق کی حفاظت کریں گے.یہ معاصی کا سیلاب آپ کو سر بلندی عطا کرے گا اور عظمتیں عطا کرے گا کیونکہ جتنا معاصی کا سیلاب بلند ہوگا اتنی ہی آپ کی اخلاقی عظمت نمایاں ہو کر دور دور سے دنیا کو دکھائی دینے لگے گی لیکن اگر آپ نے اس کو کھیل سمجھا یہ سمجھ لیا کہ ہر شخص جو کشتی میں آپکا ہے وہ لازماً بچایا جائے گا یعنی جو ظاہری کشتی میں آگیا ہے وہ لازماً بچایا جائے گا تو یہ درست نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے وَأَمَعَ سَنُمَتِّعَهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ آلیھ اور اس کشتی میں ایسی امتیں بھی سوار ہیں جنہیں بچایا جا رہا ہے جو کچھ عرصہ فائدہ بھی اٹھا ئیں گی لیکن بد بختی اور بدقسمتی سے آئندہ ان کی نسلوں میں گناہگار پیدا ہوں گے.ان گناہوں کا بیج ان لوگوں کے اندر موجود تھا جن کا ذکر کیا گیا ہے.خدا کی ستاری نے اس کو ڈھانپا ہوا تھا، خدا کی مغفرت نے اس سے درگز ر فرمائی لیکن خدا جو عالم الغیب ہے وہ جانتا تھا کہ اس مخفی بیج نے ضرور نشو ونما پانی ہے اور ایک ایسا وقت آئے گا جبکہ بدقسمتی سے یہ گناہ گارنسلیں پیچھے چھوڑ جائیں گے.پس اس نقطہ نگاہ سے جماعت احمدیہ کے اوپر بے انتہا ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بڑی بار یک نظر سے اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھیں اور ان گندے بیجوں کو اکھاڑ پھینکیں اپنے سینوں سے جو اگر مخفی بھی رہیں گے ، آج کے وقت اگر مخفی بھی رہیں گے تو کل کے وقت ان کا ظاہر ہونالا بڑی ہے کیونکہ

Page 710

خطبات طاہر جلدے 705 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء خدا کی تقدیر اسی طرح سلوک کیا کرتی ہے.بعض پردہ پوشیاں بعض نیک لوگوں کی برکتوں کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں.ان برکتوں سے لوگ حصہ پاتے ہیں اس لئے ان کے برائیوں سے بھی درگز رفرمائی جاتی ہے لیکن پھر ایسے زمانے آتے ہیں جب کے وہ پردے اٹھا لیے جاتے ہیں.اس لئے اس مضمون کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر کے اپنے حالات کا جائزہ لیں.میں بار بار جماعت کو متوجہ کرتا رہا ہوں اور اب بھی کر رہا ہوں کے ہم جس نئی صدی میں داخل ہونے والے ہیں اس صدی میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو صاف اور ستھرا کرنا چاہئے.اگلی صدی کے لئے اس رنگ میں تیاری کرنی چاہئے کہ آئندہ ایک سوسال جو کچھ بھی دنیا میں ہو گا بدی اور نیکی کی جنگ میں جو کچھ بھی رونما ہو گا اس کا فیصلہ کرنے والے ایک پہلو سے ہم ہیں.ہم نے آئندہ صدی میں کچھ بچے بھیجنے ہیں ، کچھ نسلیں بھیجنی ہیں.اگر ہم نے ان کی تربیت اچھی کر دی ، ان کی حفاظت کے سامان کئے ، ان کو خدا تعالیٰ کی شریعت کی کشتی میں سوار کیا اور صاف اور ستھرا کر کے اور سجا کے اگلی صدی میں بھیجا تو ان کا فیض اور ان کی برکتیں مدتوں تک جاری رہیں گی.ایک صدی کا عرصہ ایک بہت لمبا عرصہ ہوا کرتا ہے.بعض پہلوؤں سے کچھ بھی نہیں آنا فانا گزر جاتا ہے مگر بعض پہلوؤں سے اس کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے.قوموں کا عروج ایک صدی کے اندر قائم رہتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور محسوس نہیں ہوتا کہ قومیں تنزل اختیار کر گئی ہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ایک سوسال کا عرصہ اس پہلو سے اتنا لمبا ہے کہ قوموں کے عروج کے بعد ان کے زوال کے آثار ایک سوسال کے اندر لا ز ما شروع ہو جایا کرتے ہیں.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری عطا فرمائی کہ ہر صدی کے سر پر خدا ایسے لوگوں کو مبعوث فرمائے گا جو تیری امت میں دین کی تجدید کریں گے اور احیاء کریں گے ( ابو داؤد کتاب الملاحم حدیث نمبر : ۳۷۴۰).یہ ایک ایسا نظام ہے جس کا جاری ہونا لازمی تھا.جس طرح لمبی نہروں میں آپ دیکھتے ہیں کہ اس خطرے سے کہ رفتہ رفتہ پانی کی رفتار سست نہ ہو جائے اور وہ اس زرخیز مٹی کو جسے اٹھائے لئے پھرتا ہے اسے گرا کر خود اپنی راہ کو تنگ نہ کر دے ٹھوکریں پیدا کی جاتی ہیں اور مصنوعی آبشاریں بنائی جاتی ہیں.وہ آبشاریں اس رفتار کو ایک دفعہ پھر تیز کر دیتی ہیں اور اس طرح پانی کی زندگی کا عمل جاتی رہتا ہے.

Page 711

خطبات طاہر جلدے 706 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء روحانی لحاظ سے یہی مضمون ہے جو تجدید دین کا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر روشن فرمایا گیا اور اس مضمون کے پیش نظر آپ سے تجدید دین کا وعدہ فرمایا گیا.جب تک خلافت جاری ہے میرا یہ ایمان ہے کہ جو خلیفہ بھی اس اہم موقع پر ہوگا یعنی دوصدیوں کے سنگم پر اللہ تعالیٰ اسی سے تجدید دین کا کام لے گا.مجدد کہنا ضروری نہیں نہ خلیفہ کو مجدد کہنے سے خلیفہ کی شان بڑھتی ہے.تجدید ایک خدمت ہے اور ہر خلیفہ اسی خدمت پر مامور رہتا ہے لیکن زمانے کے اثرات کے نتیجہ میں بعض اہم مواقع پر یہ خدمت ایک خاص رنگ اختیار کر جاتی ہے اور بعض اہم اقدامات کرنے پڑتے ہیں جن کے نتیجہ میں وہ کمزوریاں جو رفتہ رفتہ پیدا ہوتے ہوتے بعض دفعہ نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں، دب جاتی ہیں ، بعض نئے بدر جحان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اس کو بعض اقدامات کرنے پڑتے ہیں.اس لئے اس ذمہ داری کو جہاں تک خدا تعالیٰ مجھے تو فیق عطا فرماتا ہے میں ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور اسی سلسلہ میں یہ میں نے دوبارہ فصیحتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے.جو بدیاں آج کل معاشرے میں پھیل رہی ہیں وہی ہیں جو احمد یوں میں بھی راہ پاتی ہیں.بدیاں اس کے علاوہ احمدیوں سے تو نہیں پھوٹتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی اتنی اصلاح بنیادی طور پر ہو چکی ہے کہ وہ نئی بدیوں کے ایجاد کرنے والے نہیں لیکن جو دنیا بدیاں ایجاد کرتی ہے.جو برائیاں معاشرے میں اور ماحول میں پھیلتی ہیں یہ کہنا کہ احمدی اس سے متاثر نہیں ہو سکتے یہ بالکل غلط بات ہے.بعض دفعہ کشتی میں سوراخ بھی ہو جایا کرتے ہیں.بعض دفعہ لہریں اتنا اچھلتی ہیں طوفان کی کہ باہر سے کشتی کے اندر پانی داخل ہونا شروع ہوتا ہے اس لئے سب ملاحوں نے ساتھ کچھ ایسے برتن رکھے ہوتے ہیں جن سے وہ بار بار پانی نکالتے رہتے ہیں اور آج کل کی جدید کشتیاں بھی اس سے مستی نہیں ہیں اگر وہ اس ذمہ داری سے غافل ہو جائیں تو جدید سے جدید محفوظ سے محفوظ کشتی بھی غرق ہو سکتی ہے.اس لئے بیرونی بدیوں کا کناروں سے اچھل کر جماعت میں داخل ہونا ایک نظام قدرت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.دوسری طرف اس کے دفاع کی ذمہ داری یعنی بدیوں کے خلاف دفاع کی جو ذمہ داری جماعت پر عائد ہوتی ہے اس سے کسی پہلو سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں اور یہ ایک جاری سلسلہ ہے زندگی اور موت کی جدوجہد کا جسے خوب اچھی طرح سمجھ کر ہماری جماعت کو زندگی کی حفاظت کے تمام اقدامات کرنے پڑیں گے.

Page 712

خطبات طاہر جلدے 707 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء جو چند برائیاں خصوصیت کے ساتھ میرے پیش نظر ہیں جن کے خلاف جماعت کو بار بار توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور بار بار نظام جماعت کو ان کے متعلق بیدار مغزی کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے.ان میں ایک مالی بے راہ روی ہے.بد دیانتی اتنی بڑھ گئی ہے دنیا میں کہ جو دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ قومیں ہیں وہ بھی دن بدن بد دیانت سے بددیانت تر ہوتی چلی جارہی ہیں.پہلے یہ تصور تھا کہ بددیانتی غریب ملکوں کی بیماری ہے.بھوکا آدمی کیا کرے گا اگر وہ چوری نہیں کرے گا تو کیسے زندہ رہے گا اور جس کی ادنیٰ ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوتیں اگر وہ معاشرے میں اعلیٰ معیار کی زندگی کو دیکھتے ہیں اور سکھ والے لوگوں کو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم زندگی کی ادنی ضروتوں سے بھی محروم ہیں ہم کیوں نہ جس طرح بھی بس چلے ان کی دولت میں حصہ دار ہوں.یہ ایک Justification یعنی وجہ جواز پیش کی جاتی ہے غریب ملکوں کی بدیوں کی.امر واقعہ یہ ہے کہ بدیوں کی کوئی بھی وجہ جواز نہیں ہے.اگر کوئی وجہ جواز بدیوں کی ہو تو ایسی بدیاں امیر ملکوں میں نہیں ہونی چاہئیں لیکن یہ جو تنا سب ہے Have اور Have Not کا جن کے پاس ہے اور جن کے پاس نہیں ہے ان لوگوں کا تناسب یہ جہاں جہاں بھی سوسائٹی میں موجود ہے یہ ردعمل دکھاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں لوٹ کھسوٹ ، دوسرے کی دولت پر نظر رکھنا اور ان عیش و عشرت کے سامانوں کے حصول کی کوشش کرنا جو سوسائٹی کے ایک طبقہ کو حاصل ہیں اور ایک کو نہیں ہے یہ ایک طبعی امر ہے.اس لئے جہاں تک بھی اس کو ہم سمجھ سکتے ہیں اس کی بھی ایک وجہ جواز موجود ہے.تو کیا پھر اشترا کی دنیا میں یہ بدیاں نہیں ہیں، کیا وہاں یہ رجحان نہیں بڑھ رہا جہاں سب کو ایک ہی اصول کے مطابق دولت کی تقسیم کی جاتی ہے.جہاں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایک دوسرے سے اتنا اچھا نہ ہو کہ اس کے نتیجہ میں دلوں میں حرص پیدا ہو.کیا وہاں ایسی بدیاں نہیں ؟ میں چونکہ قرآن کریم کی تعلیم سے یہ سمجھتا ہوں کہ دولت کی برابر تقسیم ہر گز بدیوں کو روکنے کا کوئی حل نہیں ہے.اس لئے اس مضمون میں مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی.چنانچہ بعض دفعہ جب بعض چینی دانشور یا مختلف سیاح مجھ سے ملتے رہے تو ان سے میں نے بار بار یہ سوال کیا کہ روس میں تو شاید دولت کی برابر تقسیم اس طرح موجود نہیں رہی لیکن ماؤزے تنگ کے زمانے کی بات میں کر رہا ہوں اس وقت چین میں واقعہ بڑے

Page 713

خطبات طاہر جلدے 708 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء اخلاص کے ساتھ اشترا کی تعلیم پر عمل ہو رہا تھا.تو ان سے میں پوچھتا رہا کہ آپ فرمائیے کہ آپ کے ہاں جرائم موجود نہیں ہیں؟ اکثر لوگ اس بات کو ٹال دیتے تھے اور صحیح جواب نہیں دیتے تھے لیکن ایک دفعہ ایک ایسے دوست تشریف لائے جن کا تعلق چین کے ان رسائل سے تھا جو باہر کی دنیا میں تقسیم کرنے کے لئے خصوصیت سے تیار کئے جاتے ہیں.China Reconstruct وغیرہ اس قسم کے بہت سے رسالے ہیں جو میں نے لگوار کھے تھے.تو مجھے یہ ایک ذہن میں ترکیب آئی کہ اس سے اس طرح سوال کرنا چاہئے ہو سکتا ہے اس کے نتیجہ میں کوئی مفید مطلب بات حاصل ہو جائے.میں نے ان سے کہا کہ آپ کا رسالہ میں بڑے شوق سے پڑتا ہوں ، بڑے دلچسپ مضامین ہیں لیکن اس رسالہ کے مطالعہ سے ایک بات مجھ پر دن بدن زیادہ ثابت ہوتی چلی جارہی ہے کہ اس میں کچھ دکھاوا ہے اور خصوصیت کے ساتھ بیرونی دنیا کو متاثر کرنے کے لئے یہ رسالہ بنایا گیا ہے.انہوں نے کہا یہ کس طرح، آپ پہ یہ کیوں تاثر ہے.میں نے کہا اس لئے کہ اس میں چینی معاشرے کی خوبیاں تو بیان ہوتی ہیں اس کی بدیوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا.کہیں کوئی کرائم کا ذکر نہیں ملتا.میں نے کہا میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی انسانی معاشرہ بدیوں سے پاک ہو جائے.بعض پہلوؤوں سے دولت کی مساوی تقسیم ہو سکتا ہے بعض بدیوں کو دبانے میں کامیاب ہو جائے لیکن دلوں میں پیدا ہونے سے وہ ان کو نہیں روک سکتی.پھر انسان مختلف قسم کے بنے ہوئے ہیں کوئی خوبصورت ہے، کوئی بدصورت ہے، کوئی اونچے قد کا ہے کوئی چھوٹے قد کا ہے، کسی کو کسی سے محبت ہو گئی ہے، کسی کو کسی سے محبت ہوگئی ہے، رقابتیں ہیں اور نفسیاتی الجھنیں ہیں جو اس تفریق سے پیدا ہوتی ہیں جن کو دولت کی برابر تقسیم یکساں نہیں کر سکتی یہ تفریق جاری رہتی ہے اور میں نے بہت سی مثالیں دیں، لمبی گفتگو کی.تو یہ میں کیسے مان جاؤں کہ آپ کے ہاں کرائم نہیں ہے.تو جب آپ کرائم کو چھپا رہے ہیں اور اپنے اندرونے کو باہر کی دنیا سے چھپاتے ہیں تو ہمیں آپ کی ان خوبیوں پر بھی اعتماد نہیں رہتا جن کو آپ ظاہر کر رہے ہیں.یہ بات ان کے دل کو لگی اور مجھے یقین ہے انہوں نے چین میں یہ سارا مضمون لکھ کر بھجوایا ہے کہ اس کے ایک دو مہینے کے بعد چین کے ان رسالوں میں تقریباً ہر رسالہ میں چین کی ، کمزوریوں کا ذکر آنا شروع ہو گیا اور یہ یہ بدیاں ہیں یہ یہ کرائمز ہیں، کس طرح زنا بالجبر کے نتیجہ میں ہم فلاں جگہ پھانسی دے دیتے رہے ہیں اور یہ حرکتیں ہوتی ہیں، وہ حرکتیں ہوتی ہیں اس کے ساتھ کچھ

Page 714

خطبات طاہر جلدے 709 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء وجہ جواز بھی تھی کہ بیرونی دنیا سے لوگ آنے والے بعض خرابیاں لے کر آتے ہیں وغیرہ وغیرہ.مگر یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے کہ برائیاں بہر حال ہر معاشرے میں موجود رہتی ہیں.تو ان برائیوں سے جن سے دنیا کا کوئی حصہ بھی خالی نہیں ہے.ان برائیوں سے نبٹنے کے لئے جماعت احمدیہ کو پیدا کیا گیا ہے.یہ تمام دنیا کی مشترک بیماریاں ہیں.کہیں کچھ کم ہیں کیونکہ جگہ جو اونچی ہو نسبتاً وہاں سیلاب کا پانی کم اثر دکھاتا ہے لیکن قرآن کریم نے جب یہ فرمایا کہ صلى الله ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۳۲) تو اس سے یہ مراد ھی کہ حضرت محمد مصطفی امیے کے زمانے کا فساد جسے دور کرنے کے لئے امت مسلمہ کو پیدا کیا گیا ہے اس فساد سے کوئی دنیا کا خطہ نہیں بچ سکے گا.اونچی جگہ ہو یا نیچی جگہ ہو ، خشکی ہو یا تری ہو، ہر جگہ تمہیں یہ فساد نظر آئے گا.اس لئے اتنی بڑی ذمہ داری جس جماعت کے کندھوں پر ڈالی گئی ہو وہ اپنے اندر سے فساد کو صاف نہ کرے اس سے بڑی ہلاکت کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی.اس لئے آپ کو بڑی گہری نظر سے اپنے نفوس کا مطالعہ کرنا پڑے گا، اپنے نفوس کو با قاعدہ جھاڑو دینا پڑے گا اور اس کام سے آپ فارغ کبھی بھی نہیں ہو سکتے.آپ اپنے کمروں کی صفائی کر کے دیکھ لیں چھوٹی سی جگہ ہوا کرتی ہے چند دن میں پھر گند پڑ جاتا ہے.بڑے نظم وضبط کے ساتھ چیزوں کو رکھیں اور سجائیں اور کتابیں بھی بالکل سلیقہ کے ساتھ لگا دیں کچھ دیر کے بعد پھر سب کچھ درہم برہم ہو جاتا ہے.تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ مستقل جدو جہد کے بغیر زندہ رہ سکیں.پس جماعت احمدیہ میں بھی بدیاں صاف کر دینا کافی نہیں ہے.یہ شعور پیدا کرنا ضروری ہے کہ آپ کو ہمہ وقت بدیوں کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا.اپنے نفوس میں بدیوں کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا، اپنے گھروں میں بدیوں کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا، اپنی گلیوں میں، اپنے شہروں میں، اپنے ملکوں میں غرضیکہ جہاں جہاں جماعت احمد یہ موجود ہے اس کو اس جہاد کا علم بلند کرنا ہے اور بلند رکھنا ہے اور سوئے جانے والے لوگوں کو جگاتے رہنا ہے یہ کام ہے جو ہماری ذمہ داری ہے.اس پہلو سے جو میں نے بیان کیا تھا جو برائیاں خاص طور پر میرے پیش نظر ہیں ان میں ایک مالی بے راہروی ہے.امیر ملکوں میں بھی مالی بے راہروی ہے ، غریب ملکوں میں بھی ہے.اشتراکی ملکوں میں بھی ہے جہاں بظاہر اس کا کوئی وجہ جو از نظر نہیں آتا لیکن ہے اور اب تو خاص طور پر

Page 715

خطبات طاہر جلدے 710 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء روس کھل کر ان چیزوں کو بیان کرنے لگ گیا ہے.پہلے چین نے شروع کیا ہے اب روس میں بھی Openness کے تصور میں کہ ہر چیز کھلی ہونی چاہئے چھپانے کی کوئی بات نہیں یعنی چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں.اس سے بدیاں گہری اندر دھنستی ہیں اور اور زیادہ جڑ پکڑتی ہیں.بہر حال کوئی بھی وجہ ہو روس میں اب یہ پالیسی ہے کہ بات کو کھولنا چاہئے اور پتا چلتا ہے کہ وہاں بعض صوبائی حکومتیں اتنی کر پٹ ہو چکی ہیں، اتنی بددیانت ہو چکی ہیں کہ یہ سوال روس میں بالا سطح پر بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ قومی لڑائی کرنی پڑے گی ان بدیوں کے خلاف.ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جس کے نتیجہ میں بڑے بڑے علاقے متاثر ہوں گے اور بعض اقدامات انہوں نے کئے بھی ہیں لیکن خود ماسکو بھی اس سے مستی نہیں ہے.روس کے وہ حکام جو تجارت کے تعلقات کی خاطر بیرونی دنیا کا سفر کرتے ہیں ان سے جب لوگوں کے رابطے ہوتے ہیں بعض ان میں سے مجھے بھی باتیں بتاتے ہیں اور وہ یہی بتاتے ہیں کہ وہ رشوت مانگتے ہیں.جب تک ان کا حصہ مقرر نہ کیا جائے اس وقت تک وہ اپنے تجارتی روابط پر صاد نہیں کرتے ، اپنے دستخط نہیں کریں گے.باتیں حکومتوں نے طے بھی کر لی ہوتی ہیں کوئی بہانہ بنائیں گے اور ساتھ کہ دیتے ہیں کہ بھئی تم سے ہمارا سودا نہیں ہو گا جب تک اتنے روپے سورئٹزر لینڈ میں یا فلاں جگہ جمع نہ کرا دو.تو مالی بے راہروی کا تو یہ حال ہے کہ بڑی بڑی اشترا کی حکومتیں بھی اپنے ارادوں میں مخلص ہونے کے باوجود ان سے لڑائی میں ناکام ہو چکی ہیں اور ہوتی چلی جا رہی ہیں.تو یہ ذمہ داری بھی غریب جماعت احمدیہ پر ہے کہ وہ مالی لحاظ سے نمونہ بنیں لیکن چونکہ ہر احمدی جو اپنے تجربے میں کسی سے تکلیف اٹھاتا ہے مجھے خط لکھ دیتا ہے خواہ اس غرض سے نہ لکھے کہ میں اس کا کوئی مداوا کروں اور اس کو پیسے واپس دلواؤں وہ اپنی تکلیف کا اظہار کر کے دعا کی درخواست کر دیتا ہے.اس لئے یوں لگتا ہے کہ ساری جماعت ایک آئینہ خانے میں بیٹھی ہوئی ہے ہر جگہ سے اس کی تصویریں مختلف خطوں میں یہاں تک پہنچتی رہتی ہیں ، ابھر رہتی ہیں.کوئی حصہ دنیا کا نظر سے چھپا ہوا نہیں ہے اور اس وجہ سے مجھے نظر آرہا ہوتا ہے کہ اب کیا چیز دوبارہ توجہ کی محتاج ہے اور توجہ کی مستحق ہے اور جب کچھ چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں پھر ان کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے ورنہ تو یہ جو مضمون ہے ایسا ہے کہ ہر خطبہ میں بیان کیا جائے تو اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا مگر اور بھی ذمہ داریاں ہیں.

Page 716

خطبات طاہر جلدے 711 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء مالی پہلو سے مجھے اطلاعیں ملتی ہیں کہ لین دین کے معاملہ میں ابھی تک احمدیوں کا معیار توقع سے گرا ہوا ہے اور بعض جگہ اتنا گرا ہوا ہے کہ بالا رادہ دھوکا دینے والے بھی احمدیت کے اندر موجود ہیں.مالی بے راہروی کئی طرح سے پھوٹتی ہے.اس کے عناصر اس کی جو موجبات ہیں ان پر نظر رکھنی ضروری ہے.نظام جماعت کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہ انتظار نہ کیا کریں کہ کوئی بیماری بڑھ کر اس مقام تک پہنچ جائے کہ جہاں آپریشن ضروری ہو جاتا ہے اور پھر وہاں ہاتھ ڈالیں نظام جماعت کا کام ہے Preventive Medicine کو اختیار کرنا یعنی انسدادی تدابیر صحت کے معاملے میں جہاں بھی خطرہ دیکھیں کوئی وبا پھوٹ رہی ہے، کوئی بیماری راہ پکڑ رہی ہے صحت مند جسموں میں اس وقت اس کو جسموں سے اکھیڑ کر پھینکیں اور جسموں کی حفاظت کا انتظام کریں.یہ ہے اصل کام نظام جماعت کا اور یہ بیماریاں ایسی ہیں جو اپنے آثار کے ذریعے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں.قضائی معاملہ بننے تک بہت سی منازل باقی ہوتی ہیں.یعنی ایسی مالی بے راہروی جو عدالتوں تک پہنچ جائے اور نظام جماعت میں قضاء کے دروازے کھٹکھٹانے لگے اس کو پنپ کر جوان ہونے اور اس مقام تک پہنچے کے لئے وقت چاہئے لیکن اس سے پہلے بھی نظر آ رہی ہوتی ہے.نوجوانوں کے یا دوسروں کے طور طریق ، لوگوں کا رہن سہن یہ سب بتا رہا ہوتا ہے کہ کسی کے گھر میں رشوت داخل ہورہی ہے، کسی کے گھر میں غصب داخل ہو گیا ہے، کوئی لوگوں سے قرضے مانگتا ہے اور واپس نہیں کرتا، کوئی سودی تجارتیں چمکانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ اس کے پلے کچھ بھی نہیں.اگر تجارت میں ادنیٰ بھی بحران کارجحان پیدا ہو تو اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ پھر کبھی ساری عمر بینکوں کے قرضے اتار سکے.یہ ساری بیماریاں ایسی ہیں جو ابھی اس منزل پر نہیں پہنچی کہ عدالتوں تک پہنچیں لیکن نظر آنے کی منزل تک پہنچ چکی ہوتی ہیں.ہر جماعت کے نظام کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں پر نگاہ رکھے اور ان کی نصیحت کا انتظام کرے اور اگر کوئی ایسی حرکتوں سے بعض نہیں آتا جس سے دوسرے کے مال خطرے میں ہیں تو پیشتر اس کے کہ یہ جھگڑے قضائی صورتیں اختیار کریں نظام جماعت باقی احمدیوں کی حفاظت کے لئے اور نظام جماعت کی حفاظت کی خاطر ان کے متعلق حرکت میں آنا چاہئے.ان کو متنبہ کرنا چاہئے کہ ان عادات کے ساتھ تم جماعت احمدیہ کے ممبر نہیں رہ سکتے کیونکہ اب ہم ایک ایسے نازک مرحلے میں داخل ہوئے ہیں کہ جب محض بڑی بڑی بیماریوں کے علاج کا سوال نہیں بیماریوں

Page 717

خطبات طاہر جلدے 712 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء کے سر اٹھانے پر ہمیں علاج کرنا پڑے گا اور زیادہ سنجیدگی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا.کئی قسم کے مالی بے ضابطگیاں کرنے والے لوگ ہیں ان کے اندر ایک بڑی تعداد ہے جو شروع میں بد دیانت نہیں ہوتے.اس لئے وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی ! ہم نے تو قرض لیا ہے، ہم نے تو بینک سے کسی کی ضمانت پر اتنے پیسے لئے ہیں اور ہم تجارت کرنا چاہتے ہیں اس میں کوئی بددیانتی نہیں لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو بددیانتی کا بیج اس لین دین میں موجود ہوتا ہے یعنی باشعور طور پر وہ بد دیانت نہیں بنے ہوئے ہوتے لیکن ایک ایسا قدم اٹھا چکے ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں بھاری امکان اس بات کا پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ بددیانت ہو جائیں گے.مثلاً ایک شخص اگر اتنا قرضہ لے لیتا ہے کہ اس کی ساری جائیداد بھی بک جائے تو وہ قرضہ ادا نہ ہو سکے اور تجارت میں اونچ نیچ ہوتے ہیں.بعض ایسی لہریں آتی ہیں عالمی تجارت میں کہ اس کے نتیجہ میں چھوٹے موٹے تاجر کے تو بچنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.ابھی پچھلے دنوں انگلستان میں آپ لوگوں نے نظارہ دیکھا تھا جب عالمی تجارتی بحران پیدا ہوا تو کچھ بددیانت بھی تھے جو مارے گئے لیکن کچھ نیک نیت سے پیسے لینے والے تھے جو اس قابل نہ رہے کہ جن سے پیسے انہوں نے لئے تھے ان کو واپس ادا کر سکیں مگر وہ پیسے اتنے تھے کہ ان کی تو فیق سے بڑھ کر تھے.یہ میں بنیادی بات ہے جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اگر آپ کے پاس اتنی جائیداد موجود ہے کہ اگر خدانخواستہ نقصان ہو تو آپ اس جائیداد کو بیچ کر قرضے اتارسکیں.اگر آپ کے اندر اتنا اخلاقی سرمایہ موجود ہے اور ایسی جرات ہے آپ کے اندر ایمانی کہ آپ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہر قیمت پر میں اپنے ایمان کو داغدار نہیں ہونے دوں گا اور اگر مجھے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنا پڑے اور مزدوری کر کے گزارہ کرنا پڑے تب بھی میں اپنے عہدوں کی پابندی کروں گا اور جس شخص سے میں نے قرضے لئے ہیں اپنی جائیداد بیچ کر اس کو دے دوں گا تو ایسا شخص بد دیانت نہیں ہے نہ ایسا شخص بددیانت ہو سکتا ہے.دنیا کے حالات جس طرح بھی کروٹ لیں، جس قسم کے مالی بحران پیدا ہوں وہ محفوظ مقام پر کھڑا ہے.الا ما شاء اللہ کوئی ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ اس بیچارے کی جائیداد بھی اتنی گر جائے کہ وہ نہ دے سکے تو یہ وہ شخص ہیں جن کے اوپر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی حرف نہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پھر ایسے مخلص لوگوں کی خود حفاظت فرماتی ہے.

Page 718

خطبات طاہر جلدے 713 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء ایسے استثناؤں کو چھوڑ کرے، ایسے مالی لین دین کی جراتیں اختیار کرنا جن کے متعلق اگر آپ تجزیہ کریں تو آپ کا نفس آپ کو یقین دلا دے گا کہ آپ جو اکھیل رہے ہیں اور ایسے حالات ہو سکتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں آپ لازماً بد دیانت بنیں گے اس کے سوا آپ کو چارہ کوئی نہیں ہے.ایسی باتوں کی ، ایسے مالی معاہدوں کی جراتیں کرنا یا بددیانت کر سکتا ہے یہ فیصلہ کر لے کہ میں نے جو کچھ بھی ہے میں نے پیسہ ضرور لینا ہے اور اپنی بزنس چمکانی ہے اور یا پھر نہایت بیوقوف آدمی.وہ ایک انگریزی کا محاورہ ہے الفاظ شاید مسیح یاد نہ ہوں مگر مضمون یہی ہے کہ The fools rush forth where angels fear to foot کہ وہ مقامات جہاں فرشتے بھی قدم رکھتے ہوئے جھجکتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں بیوقوفوں کو دیکھو کس جرات سے آگے بڑھ کر ان مقامات پر قدم رکھتے ہیں تو یا وہ اس قسم کے بیوقوف ہیں جہاں قدم رکھتے ہوئے فرشتے بھی جھجک جاتے ہیں اور ڈرتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی.تو ایسے بیوقوف بھی بنی نوع انسان کے لئے مصیبت بن جاتے ہیں تبھی بعض پاگلوں کو قید کیا جاتا ہے.جسمانی طور پر تو ان کی قید کا ہم انتظام نہیں کر سکتے لیکن روحانی طور پر ان کے بداثرات سے جماعت کو بچانے کی جماعت کے نظام کو ضرور کوشش کرنی چاہئے.خواہ یہ بددیانت ہوں، خواہ یہ انتہائی بیوقوف ہوں دونوں صورتوں میں جماعت کو قدم اٹھانے چاہئیں ایک تو یہ کہ معاشرے کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالنا چاہئے.ہر شخص کو ان کو سمجھانا چاہئے.یہ برا منائیں گے، یہ بھاگیں گے ، یہ آپ کی دوستیاں ترک کریں گے، یہ سمجھیں گے آپ ان کے دشمن ہیں قطعاً پرواہ نہ کریں.ان کی دوستی اور سچی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو سمجھا ئیں بار بار سمجھائیں کہیں کہ میاں! تم ہلاکت کے گڑھے کی طرف جا رہے ہو تم ، واپس نہیں آ سکو گے.اس لئے ہمارا فرض ہے اور اگر یہ قرض مانگے تو ان کو قرض نہ دیا جائے.ایسے لوگوں کو قرض دینا ان کو مزید ہلاک کرنا ہے.یہ آپ کے پاس مدد کے لئے آئیں کہ ہمیں فلاں بینک سے قرضہ لے دو آپ ہرگز نہ قرضہ لے کر دیں اور جہاں تک ان کے خاندان میں یا باہر ان پر اثر رکھنے والے لوگ ہیں ان کو بر وقت تنبیہ کرنا آپ کا کام ہے.اس وقت یہ بھجنا کہ جی ! ہمارا نام برا ہو جائے گا، ہمیں لوگ کیا کہیں گے چپ کر کے بیٹھے رہو یہ تو آپ کی بددیانتی ہے ، ان کی بد دیانتی کو اپنی بددیانتی کیوں بناتے ہیں.ایک اور بد دیانت بن رہا ہے شخص اور آپ بیٹھے بٹھائے مفت میں خود بددیانت بن جاتے ہیں کیونکہ آپ کی بددیانتی نظام جماعت

Page 719

خطبات طاہر جلدے 714 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء سے بددیانتی ہے.آپ کی بددیانتی انسانی قدروں سے بددیانتی ہے، یہ ان ذمہ داریوں سے بددیانتی ہے جو جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے.اس لئے ہر احمدی کا یہ فرض ہے صرف نظام جماعت کا فرض نہیں ہے کہ ان چیزوں کے خلاف خوب نگران بن جائیں.باریک نظر سے اپنے ماحول کا مطالعہ کرتے رہیں جہاں دیکھیں کہ کوئی فتنہ پیدا ہو رہا ہے وہاں اس کی بیخ کنی کا انتظام کرے بیشتر اس کے کہ کوئی فتنہ پیدا ہوئے جائے اس لئے Preventive Medicine دنیا کا بہترین دفاع ہے برائیوں کے خلاف یعنی پیشتر اس کے کہ برائیاں جڑ پکڑیں آپ نگران ہوں کہ برائیاں جڑ نہ پکڑ سکیں ان کو صاف کر دیا جائے.مالی لحاظ سے میرے نزدیک یہ بہت ہی زیادہ بیدار مغزی کے ساتھ ہمت کے ساتھ مستقل مزاجی کے ساتھ کام کی ضرورت ہے.اگر کوئی ایسا شخص نظام جماعت کے علم میں آتا ہے جو نصیحت کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تو ایک اس کا علاج یہ ہو سکتا ہے کہ مجھ سے پوچھ کر تمام احباب جماعت کو مطلع کر دیا جائے کہ یہ صاحب اگر آپ سے قرض مانگتے ہیں یا قرض لینے میں آپ سے مدد مانگتے ہیں تو اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ خود ذمہ دار ہیں اور نظام جماعت پھر ذمہ دار نہیں ہوگا اور اس وارنگ کے بعد اس تنبیہ کے بعد قضاء میں بھی آپ کا کوئی مقدمہ نہیں سنا جائے گا.اس قسم کا ایک شخص ایک دفعہ نہیں بار بار نکلتے رہتے ہیں لیکن ایک شخص ایسا تھا جس کی اطلاع آنی شروع ہوئی کبھی وہ سنگا پور سے نکلتا تھا کبھی ملائیشیا میں ظاہر ہوتا تھا، کبھی انڈونیشیا سے اس کی خبر آتی تھی وہ پھر رہا ہے اور لوگوں سے پیسے مانگ رہا ہے اور کہانیاں بتا رہا ہے کہ میں اس طرح نکلا تھا اس طرح مجھے ضرورت پیش آگئی جماعت کا پتا لے کر میں حاضر ہوا ہوں ایک بیچارے مسافر کی مدد کرو اور پیسے کھاتا چلا گیا.جب مجھے ایک جماعت سے اطلاع ملی اسی وقت میں نے ساری دنیا کی جماعتوں کو نوٹس دیا کہ اس قسم کے آدمی جاتے ہیں آپ یہ سوچتے ہیں کہ اوہو یہ تو بھائی کا اخلاقی فرض ہے ایک مسافر کی ذمہ داری قرآن کریم میں بھی بیان فرما گئی ہے، زکوۃ کے مقاصد میں اس کو رکھا گیا ہے.اس لئے نیکی کی خاطر اس کی مدد کی جائے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ مسافر کی مددفرما و جو مصائب کا شکار ہو گیا ہو.یہ نہیں فرمایا کہ دھو کے باز کی مددفرماؤ اور دھو کے باز کے دھو کے میں آجایا کرو.مومن تو خدا کے نور سے دیکھتا ہے اتقوا فراسة المومن فانه ينظر بنور الله ( ترندی کتاب تفسیر القرآن حدیث نمبر :۳۰۵۲) اللہ نے آنحضرت ﷺ کو بتایا تب آپ نے ہمیں یہ خبر دی.اپنی طرف سے آپ یہ کلام نہیں فرمایا کرتے تھے.تو

Page 720

خطبات طاہر جلدے 715 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء خدا کے نزدیک تو مومن کو یہ مقام اور مرتبہ ہے کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے اور دھوکا نہیں کھاتا.يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ (البقرہ :۱۰) کوشش کرتے ہیں وہ لوگ خدا اور خدا والوں کو دھوکا دینے کی لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اتنے ہوشیار ہوتے ہیں مومن اللہ کے بندے کہ ان کے دھوکے کو الٹا دیتے ہیں اور وہ لوگ بالآخر خود دھوکا کھانے والے ثابت ہوتے ہیں.پس اس مضمون کو سمجھتے ہوئے میں نے جماعت کو متنبہ کیا کہ آپ کو اگر یہ شک ہے کہ شاید وہ مصیبت زدہ ہے تو آپ فوری طور پر مجھ سے رابطہ کریں یار بوہ تحریک جدید سے رابطہ کریں.نظام جماعت کا یہی تو فائدہ ہے ایک.ایک تو نہیں کہنا چاہئے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ ساری دنیا کی خبروں اور قابل اعتماد خبروں کا ایک نظام مہیا ہو چکا ہے.آپ مجھے لکھ دیں، مجھ سے فون پر بات کر لیں کہیں کہ اس طرح ایک مصیبت زدہ ہے.ان لوگوں کو میں جانتا ہوں خود اور میں آپ کو اسی وقت بتادوں گا کہ یہ صاحب ایسے نہیں ہیں یہ دھوکا دے رہے ہیں یا اگر مصیبت زدہ ہیں تو اس حد تک مدد کر دی جائے.اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے لیکن جب میں نے یہ اقدام کئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امن آگیا وہ شخص پھر جہاں جہاں بھی گیا وہاں سے یہی رپورٹ ملی ہے کہ جماعت نے رد کر دیا ہے اس کو بالکل ناکام ہو کر اس کو واپس جانا پڑا.جو نقصان کر بیٹھا تھا وہ کر بیٹھا تھا.پس اس قسم کی بیدار مغزی کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ نظام جماعت کو بعض موقعوں پر ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے لیکن اقدامات کرنے سے پہلے نصیحت کا پورا حق ادا کر دیں.میں یہ آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کیونکہ ہماری نیت ہرگز کسی کو دکھ دینا نہیں ہے کسی کو تکلیف پہنچا نہیں ہے، کسی کی بدنامی کرنا نہیں ہے، اگر ہماری نیت میں یہ فتور داخل ہوجائیں تو پھر نیکی کی حفاظت کرنے کے ہم اہل ہی نہیں رہتے.بدی سے بچانے کی ہم میں صلاحیت ہی باقی نہیں رہے گی.یادرکھیں ! انـــمـــا الاعمال بالنيات ( بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر :1) میں یہ مضمون بھی بیان ہو گیا ہے کہ آپ کے اعمال خواہ وہ بظاہر نیک مقاصد کی خاطر ہوں اگر آپ کی نیتوں میں فتور داخل ہو گیا ہے تو وہ اعمال آپ کے ناکارہ ہو جائیں گے.اس لئے اس موقع پر یہ نصیحت کرنا اور خوب کھول کر یہ بات بھی آپ کے سامنے رکھنا

Page 721

خطبات طاہر جلدے 716 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کے متعلق اپنے نفوس کا بھی جائزہ لیا کریں کیا آپ انتقامی کاروائی کرنا چاہتے ہیں ، کیا آپ اس کو ذلیل و رسوا کرنا چاہتے ہیں، کیا آپ اس شخص سے نفرت کرتے ہیں یا محض اس کی بدی سے نفرت ہے اور اس سے پیار ہے؟ اور ان دو چیزوں میں آپ کو ہمیشہ فرق کرنا پڑے گا.مومن بدیوں سے نفرت کرتا ہے اور بدوں سے فی ذاتہ نفرت نہیں کرتا.جب تک وہ بدی ان کے اندر ہے ایک قسم کی نفرت اس وجود سے بھی رہتی ہے لیکن یہ ایک قسم کی نفرت ہے جس کا ذاتی تعلق اس وجود سے نہیں ہے.بلکہ اس بدی سے ہے جس کو اس کا وجود سمیٹے ہوئے ہے.وہ گندہ برتن جب تک اس میں گند ہے قابل نفرت رہے گا.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ برتن سے پیار ہے اور گند سے پیار نہیں ہے لیکن ان معنوں میں کہہ رہا ہوں کی فی ذاتہ اس برتن سے آپ کو نفرت نہیں ہے اگر اس کی گندگی صاف ہو جائے ، اگر وہ چمک جائے ، وہ پاکیزہ ہو جائے تو کبھی بھی آپ اس سے نفرت نہیں کریں گے.تو اس برتن کی محبت کا تقاضا ہے کہ اس کو گندگی سے پاک کریں.ان معنوں میں آپ برتن سے محبت کرنے والے ہیں اور گندگی سے نفرت کرنے والے ہیں.پس اس نیت کے ساتھ اگر جماعت اقدام کرتی ہے تو کئی ذرائع اس کے سامنے آسکتے ہیں نظر رکھ کے خاموشی کے ساتھ پتا کرنا پڑے گا کہ اس انسان پر کس کس کا اچھا اثر ہے اس کو استعمال کیا جائے.بار بار نصیحت کے لئے لوگوں کو بھجوایا جائے منظم کر کے لیکن مخفی طریق پر یہ وعدہ لے کر کہ وہ آگے وہ بات عام نہیں کریں گے اور اخلاقی دباؤ بڑھایا جائے پہلے.جب اخلاقی دباؤ ایک مقام تک پہنچ جائے اور اس کے باوجود اس شخص کے اندر تبدیلی واقع نہ ہوتو پھر دوسرا قدم وہ ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ اس کے متعلق پھر لا ز ما حتی المقدور اخفا کے ساتھ مگر یہ اخفا پھر رہ نہیں سکتا زیادہ دیر.احمد یوں کو ضرور بتانا پڑے گا کہ ان صاحب کے لین دین کے متعلق قطعی شواہد یہ ہیں کہ درست نہیں ہے اس لئے ہم آپ کو یہ نہیں حکما منع کر سکتے کہ آپ ان کو کچھ نہ دیں، آپ ان کی مدد نہ کریں ہرگز نہیں.یہ انفرادی معاملات ہیں جن میں نظام جماعت کو دخل دینے کا حق نہیں لیکن ہم آپ کو یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آپ ان سے بچیں اور اگر آپ اس کے باوجود ان سے لین دین کرتے ہیں تو اس احسان کے فیصلے کے ساتھ کریں کہ پھر جو کچھ آپ کا روپیہ ضائع ہو گا اس پہ آپ شکایت نہیں کریں گے.تعلقات کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں.بعض لوگ اس نیت سے قرض دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے ایک

Page 722

خطبات طاہر جلدے 717 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء آنہ بھی واپس نہیں آئے گا تو ہم نے مڑ کے نہیں پوچھنا.اس نیت سے بے شک مدد کر واس سے آپ کو روکنا ہی نہیں چاہئے.احسان سے روکنا اسلام کی تعلیم میں تو شامل نہیں ہے یہ اس کے منافی ہے.ہاں عدل کو قائم کرنا ضروری ہے.اس لئے آپ عدل کے قیام تک رہیں اور احسان سے نہ کیں.یہ ہے مضمون جس کو وضاحت سے سمجھ جائیں.پھر آپ ان کو یہ مطلع کر دیں کہ ہم نے چونکہ عدل کے تقاضے پورے کر دیئے ہیں پھر اگر آپ نے احسان کیا تو آپ کو پھر عدل کا دروازہ کھٹکھٹانے کا کوئی حق نہیں رہتا.اور یہ عدل کا اعلیٰ مضمون ہے اس میں کوئی نا انصافی نہیں ہے نظام جماعت نے عدل کے تقاضے پورے کئے ، آپ نے ان کو مدنظر رکھ کر احسان کا سلوک کیا اور احسان کا سلوک آپ کا ایک ایسی جگہ ہو گیا جو احسان فراموش نکلا، پھر احسان جب فراموش بھی کر دیئے جاتے ہیں تو احسان کو عدل کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق نہیں ہوا کرتا.جو آپ نے چیز تحفہ دے دی ہے وہ تحفہ ہو گیا بس پھر بات ختم.اس کو تھوک کر آپ چاٹ نہیں سکتے تو ایسے قرضے بھی ہوتے ہیں ان میں تحفے کی نیت شامل ہوتی ہے.بعض دفعہ نظام جماعت کی طرف سے بعض لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنی پڑتی ہیں.وہ مجھے لکھتے ہیں کہ ہم یہ قرض ادا کر دیں گے.یہ میں جانتا ہوں کہ ان کی حالت ایسی کمزور ہے کہ وہ قرض ادا نہیں کر سکتے یا جتنی دیر کے اندر کرنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی جانتا ہوں کہ نیک لوگ ہیں سادہ ہیں بد نیتی نہیں ہے.تو بعض دفعہ جب خدا توفیق دیتا ہے ان کا قرضہ دیتے وقت میں یہ ہدایت کر دیتا ہوں بیت المال کو کہ ان سے آپ نے مطالبہ نہیں کرنا.اگر خدا توفیق دے دے تو یہ واپس کر دیں اگر نہ دیں تو میں نے اس نیت سے دلوایا ہے کہ ان کی مدد ہی.تو ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں آپ ایسا کریں بے شک لیکن یاد رکھیں کہ بعض ٹیڑھی طبیعیتوں والوں کی اگر آپ مدد بھی کریں گے تو آپ کسی نہ کسی نقصان کا ضرور موجب بن جاتے ہیں.یہ فیصلہ آپ کا کام ہے لیکن اس بار یک نظر.آپ کو دیکھنا ہو گا کہ اگر ایسے شخص کی آپ مدد کرتے ہیں جو بار بار آپ بھی ڈوبتا ہے اور دوسروں کو بھی لے کے ڈوبتا ہے، بار بار ایسی تجارتوں میں پیسہ لگاتا ہے جس کو سنبھالنے کا غم ہی نہیں ہے تو آپ جب اس کو پاؤں پر کھڑا کرتے ہیں تو اس کے ساتھ کچھ اور لوگوں کے پیسوں کی غرقابی کا بھی آپ انتظام کر رہے ہوتے ہیں.ایسی صورت میں مدد اس رنگ میں ہونی چاہئے کہ اس کی شریفانہ زندگی اور

Page 723

خطبات طاہر جلدے 718 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۸ء گزارے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے لیکن اس کے اختیار میں نہ ہو کہ وہ مزید اپنا یا غیروں کا نقصان کر سکے.بہر حال یہ تو احسان کا مضمون ہے جماعت احمد یہ پھر بری الذمہ ہو جائے گی.اس کے بعد تیسرا قدم وہ ہے کہ اگر ان باتوں کے باوجود کوئی شخص نہیں سمجھتا اور ایسے اقدامات کرتا ہے جس سے وہ بھی برباد ہو اس کا خاندان بھی برباد، ہو جماعت پر داغ لگنے شروع ہوں تو پھر وہ آپریشن کا مقام ہے اس وقت جماعت کے نظام کو اس بات سے نہیں جھجکنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے متعلق مجھے سفارش کرے کہ ان کے متعلق یہ اعلان ضروری ہو گیا ہے کہ ان کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس وقت چونکہ صرف اسی مضمون کو میں اس تھوڑے سے وقت میں بیان کر سکا ہوں اس لئے انشاء اللہ تعالیٰ باقی جو چند ایک معاشرتی خرابیاں میرے ذہن میں ہیں وہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.

Page 724

خطبات طاہر جلدے 719 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۸ء معاشرتی برائیوں کا مقابلہ حسن سے کریں.خالی برائیوں کو دور کرنے کا کوئی تصور نہیں اور نہ خلا ہوا کرتا ہے.خلاؤں کو بھرنے کا تصور ہے نیز اہالیان ربوہ کو خصوصیت سے نصائح.(خطبه جمعه فرموده ۲۸ اکتو بر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ دو خطبوں سے جو مضامین کا سلسلہ میں نے شروع کیا ہے اس کا تعلق معاشرتی برائیوں سے ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا معاشرتی برائیاں ماحول میں جب اونچی سطح تک پہنچتی ہیں تو ان کا درمیان میں ایسے خطوں سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے جوان برائیوں سے عاری ہوں.جب سطح بلند ہوتی ہے تو پھر اچھل اچھل کر پانی کناروں سے ایسی جگہ میں بھی گرتا ہے جو اس سے پہلے پانی سے محفوظ تھیں.اسی طرح درجہ حرارت کا حال ہے.یہ قدرتی عوامل ہیں جن کے خلاف بیدار مغزی سے ہوشیار رہتے ہوئے انسدادی کاروائیاں کرتے رہنا چاہئے.معاشرتی برائیاں جو آج دنیا میں پھیل رہی ہیں یہ یوں تو بہت کثرت سے ہیں اور ہر ایک کا نام لے کر اس کا تفصیلی ذکر یہاں نہیں کیا جا سکتا.مشرق میں بھی یہ برائیاں ہیں اور مغرب میں بھی لیکن نوعیتیں حالات کے مطابق بدل جاتی ہیں.بعض چیزیں جو یہاں برائیاں سمجھی جاتی ہیں وہ وہاں نسبتا کم برائی سمجھی جاتی ہے.بعض چیزیں جو وہاں برائیاں کبھی جاتی ہیں یہاں کوئی بھی ان چیزوں کو

Page 725

خطبات طاہر جلدے 720 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء برائی کے طور پر نہیں دیکھتا.مثلاً جھوٹ ہے.ابھی تک اس معاشرے میں جھوٹ کے خلاف ایک نفرت موجود ہے اور جھوٹ بالعموم اس معاملے میں نہیں بولا جاتا.تو تیسری دنیا کے ممالک میں جن میں بدقسمتی سے ہندوستان اور پاکستان بھی شامل ہیں جھوٹ ایک روزمرہ کی عادت بن چکا ہے.ایک ایسی روز مرہ کی عادت جس کو کوئی نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا.گویا کہ ایک معاشرے کا طبعی حصہ بن چکا ہے.اس کے برعکس بعض ایسی برائیاں ہیں جو یہاں چونکہ اس کثرت سے پیدا ہو چکی ہیں اور بہت آگے بڑھ گئی ہیں کہ ان کو اب برائیاں سمجھا نہیں جاتا، جنسی بے راہ روی ہے اور مرد اور عورت کا بے تکلف اور بے روک ٹوک اختلاط ہے.اس سے ملتی جلتی اس سے تعلق رکھنے والی اور بہت سی باتیں ہیں، شراب نوشی ہے.یہ سارے امور ایسے ہیں جو اس معاشرے میں جو مغرب کا معاشرہ کہلاتا ہے اس میں یہ باتیں نہ برائی سمجھی جاتی ہیں نہ ان کے خلاف کسی تحریک کی ضرورت پیش آتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برائیاں بڑی دیر سے اس معاشرے میں قائم ہو کر آگے بچے دے چکی ہیں اور ان برائیوں کے بچے ان برائیوں سے بہت زیادہ خوفناک صورتیں اختیار کر چکے ہیں.اس لئے ان کو وہ انتہائی صورت برائی کے طور پر دکھائی دیتی ہے جو ان برائیوں کی آخری شکلیں ہیں.لیکن ہمارے معاشرے میں یہ چیزیں ابھی نفوذ پکڑ رہی ہیں.اس لئے ابھی تک باوجود یکہ اب حالت بعض علاقوں میں بہت خراب ہو چکی ہے پھر بھی یہ برائیاں برائیاں ہی سمجھی جاتی ہیں.سب سے اہم بات اس سلسلہ میں یہ بتانے والی ہے کہ جماعت احمدیہ کو ان برائیوں کے انسداد کے لئے قائم کیا گیا ہے اور جب تک ہم اس معاملے میں ایک جارحانہ رویہ اختیار نہ کریں ہم اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچا نہیں سکتے.جارحانہ رویہ اختیار کرنے کے متعلق یعنی اس سے پہلے ایک دو سال قبل بعض خطبوں میں جماعت کو نصیحت کی تھی کہ برائیوں کے خلاف جہاد صرف اندرونی طور پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ماحول کی برائیاں دور کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے.اگر آپ ماحول کی برائیوں سے غافل ہو جائیں اور یہ سمجھیں کہ غیر ان بیماریوں میں مبتلا ہیں تو یہ طریق عمل خود کشی کے مترادف ہوگا.جب تک ہم اس نظر سے معاشرے کی برائیوں کو نہ دیکھیں کہ یہ بدیاں دور کرنا ہمارا کام ہے خواہ اپنوں میں ہو یا غیروں میں ہیں ہم اس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ہم نے برائیوں کو دور کرنا ہے اس وقت تک ان بدیوں سے ہم خود بھی محفوظ نہیں رہ سکتے.

Page 726

خطبات طاہر جلدے 721 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء اس مضمون پر میں احادیث نبوی کی روشنی میں پہلے تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.آج میں خاص طور پر بعض برائیوں کا ذکر کر کے بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں تک میر اعلم ہے یہ برائیاں احمدی معاشرے میں بھی نفوذ پا چکی ہیں اور سُرعت کے ساتھ داخل ہو رہی ہیں.جو خبریں پاکستان سے ملتی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ شہروں میں تو اس پہلو سے بعض جگہ یورپ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے.بعض امیر حلقوں میں یہاں تک بات آگے بڑھ گئی ہے کہ باقی ملک جن کو برائیاں سمجھتا ہے ان حلقوں میں اب وہ برائیوں کے طور پر دیکھی نہیں جاتیں کیونکہ ان کے ساتھ ان برائیوں سے میل جول ہو گیا ہے، بے تکلفی ہوگئی ہے، اب وہ غیر دکھائی نہیں دیتیں ، وہ معاشرے کا جز و بنتی چلی جارہی ہیں.اس پہلو سے احمدی حلقوں میں خصوصیت سے یہ فکر کرنی چاہئے کہ ہم کب تک ان جزیروں کی صورت میں ان علاقوں میں رہ کر ان سے محفوظ رہ سکتے ہیں.جب تک جیسا کہ میں نے کہا ہے جارحانہ اقدام نہ کریں اور تمام معاشرے میں بطور مذکر ان برائیوں کے خلاف عام نصیحت نہ شروع کر دیں اس وقت تک در حقیقت ہم اپنے آپ کو ان بدیوں سے بچا نہیں سکتے.ہم یہ نہیں کر رہے جہاں تک میر اعلم ہے جماعت احمدیہ کی کوششیں جماعت احمدیہ کے دائرے تک ہی محدود ہیں لیکن غیر یہ کر رہے ہیں اور بالا رادہ سکیمیں بنا کر جماعت احمدیہ کے نوجوانوں میں بدیاں داخل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں.سب سے زیادہ ربوہ کو اس سازش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے.جہاں تک مجھے اطلا عیں ملتی ہیں اور یہ اطلاعیں صرف جماعت احمدیہ کی طرف سے نہیں بلکہ باہر سے بھی ملتی ہیں.جب میں پاکستان سے رخصت ہو کر یہاں آیا اس کے بعد باقاعدہ سازش کے طور پر بڑی سطح پر اسی سکیمیں تیار کی گئیں کہ جن کے نتیجہ میں ربوہ میں بعض بدیاں داخل کرنے کی عملاً کوشش شروع ہو گئی.چونکہ بر وقت ہمیں ان باتوں کا علم ہو گیا اس لئے دفاعی کوششیں بھی ساتھ جاری رہیں لیکن جو لوگ من طریق پر اور پیسے کی مدد کے ساتھ اور حکومت کی سرپرستی میں اس قسم کے اقدامات کرتے ہیں ان کے ذرائع بہت وسیع ہوتے ہیں اور چونکہ بعض برائیاں ایسی ہیں جو طبعی کمزوری کے طور پر بڑی جلدی انسانی عادتوں میں راہ پا جاتی ہیں.اس لئے جہاں تک ظاہری مقابلے کا تعلق ہے جسے کہتے ہیں Odds ہمارے خلاف ہیں

Page 727

خطبات طاہر جلدے 722 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء اور ان کو اس معاملے میں بہت سی فوقیت حاصل ہے.نیکی پیدا کرنا Uphill Task کہلاتا ہے.یعنی جس طرح اونچی سطح کی طرف چڑھنا اور کوشش کرنا بہت محنت چاہتا ہے اور ہمت چاہتا ہے اور صبر چاہتا ہے.اس کے برعکس نیچے کی طرف بہنا ایک طبعی امر ہے اور اس کے لئے کسی غیر معمولی جد و جہد کی ضرورت نہیں لیکن اگر منصوبہ بنا کر نیچے کی طرف رخ کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر بات ہے کہ تمام عوامل اس کوشش کو کامیاب بنانے میں مدد گار ہوں گے.پس اس پہلو سے ہمارا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن بہر حال ہم نے یہ کرنا ہے اور ہر قیمت پر اپنے نو جوانوں کو ان بدیوں سے بچانے کی کوشش کرنی ہے.جو بدیاں بالخصوص اس وقت مجھے راہ پاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان میں آوارگی سب سے پہلی چیز ہے.آوارگی سے مراد ہے اپنے ذہن کو بعض عیاشیوں کے لئے آمادہ کر لینا اور اجازت دے دینا اور پھر ان عیاشیوں کی تلاش میں سرگرداں پھرنا.ہمارے ملک میں یہ بیماری خصوصیت کے ساتھ پائی جاتی ہے.اس لئے کہ وہاں بدارادے کے باوجود عیاشی کے ذریعے اتنی آسانی سے میسر نہیں ہیں.مغربی ممالک میں بدارا دے کے ساتھ ہی عیاشی کے ذرائع بھی نسبتا آسانی سے میسر آ جاتے ہیں.اس لئے جس چیز کو ہم اپنی زبان میں آوارگی سمجھتے ہیں وہ وہاں اور معنی رکھتی ہے اور یہاں اور معنی رکھتی ہے.وہاں آوارگی اس طرح دکھائی دے گی کہ نوجوانوں کی ٹولیاں آپ کو بے مقصد، بے وجہ بازاروں میں اور پبلک جگہوں میں گھومتی پھرتی دکھائی دیں گے اور باوجود اس کے کہ ان کا کوئی خاص ارادہ کہیں ڈاکہ ڈالنے کا نہیں ہوتا، کسی لڑکی کو چھیڑ نے کا نہیں ہوتا لیکن ایک اندرونی بے چینی ان کے اندر دکھائی دیتی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ان کو ملے، وہ چاہتے ہیں کسی طرح وہ کوئی تسکین حاصل کریں.اس لئے وہ آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوئے ایک دوسرے کو بعض ایسے دلچسپ فرضی یا حقیقی واقعات سناتے ہوئے جن سے طبیعتیں خاص طرف میلان اختیار کر لیں.بعض قسم کی خواہشیں بیدار ہوں اور زیادہ طبیعت میں جوش مارنے لگیں ایسے قصے کرتے ہوئے وہ پھرتے رہتے ہیں اور جب یہ گروہ زیادہ قوت پکڑ جاتے ہیں پھر دوسرے واقعات بھی شروع ہو جاتے ہیں.پھر آواز میں کسنا گزرتی ہوئی بچیوں کے اوپر یا اس سے بڑھ کر بعض اور غلط منصوبے بنا کر ان پر عمل درآمد بھی شروع ہو جاتا ہے.

Page 728

خطبات طاہر جلدے 723 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء تو آوارگی ایک ایسی چیز ہے جو ایک بیدار مغز انسان کو صاف سڑکوں پر کھلی کھلی دکھائی دے دیتی ہے.سوائے اس کے کہ کوئی ارادہ اپنی آنکھیں بند کر لے.یہ ایسی بیماری نہیں جو دکھائی نہ دے اور سمجھ نہ آسکے.اگر چہ اس پر معین ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا.امور عامہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ آپ یہاں کیوں پھر رہے ہیں.لڑکے کہیں گے ہاں ہم پھر رہے ہیں آپ کو اس سے کیا.مگر سمجھنے والا انسان سمجھتا ہے کہ معاشرے میں ایک بے چینی پیدا ہو گئی ہے.ایک لذت کی تلاش ہے ایک تسکین کی جستجو لگ گئی ہے جو ان نو جوانوں کو میسر نہیں آرہی.اس کے بعد ان میں سے کچھ طبقے پھر معین لذتوں کی تلاش میں الگ الگ یا دو دو یا تین تین کی صورت میں گھومتے پھرتے ہیں، بعض جگہ اڈے بناتے ہیں اور عموما یہ اڈے آپ کو بازاروں میں دکھائی دیں گے.آنحضرت ﷺ نے جو بازاروں کے خلاف نفرت کا اظہار فرمایا وہ دراصل اسی وجہ سے ہے.آوارگی کا بازاروں سے ایک عام تعلق ہے اور گہرا تعلق ہے.چنانچہ General Merchants کی دکانیں ہیں یا ویڈیوز بیچنے والی یا ٹیسٹس بیچنے والی دکانیں ہیں یا تصویریں اتارنے والی دکانیں ہیں یا ریسٹورنٹس ہیں.ان سب جگہوں میں پھر عموماً یہ لوگ راہ پا کر وہاں موقع کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ کوئی اور بگڑا ہوا مزاج اگر وہاں ہاتھ آجائے تو اس کے ذریعے پھر اپنے بد تعلقات کو آگے بڑھائیں.یہ چیز بھی ایسی ہے جو شاید اس سطح پر معین جرم کے طور ظاہر نہیں پر لیکن جو منتظمین ہیں جن کے سپر د معاشرے کی تربیت ہے وہ اگر آنکھیں کھول کر ان باتوں کو دیکھیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ چیزیں مخفی پھرتی ہیں.سر عام آپ کو یہ باتیں ہوتی دکھائی دیں گی.آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض بچیاں بھی بے احتیاطی کے ساتھ بعض دکانوں میں کثرت سے جاتی ہیں اور بے وجہ وہاں کھڑی ہو جاتی ہیں.آپ کو معلوم ہو گا بعض لوگ بعض قسم کی فلمیں خریدنے کے لئے یا کرائے پر لینے کے لئے بعض آڈیو ویڈیو دکانوں پر کثرت سے جاتے ہیں اور پھر کسی جگہ انہوں نے اڈے بھی بنائے ہوئے ہوں گے جہاں جا کر وہ ان کو دیکھتے ہیں.اسی طرح اور بہت سی باتیں گو سطح سے نیچے چلتی ہیں لیکن ان کی علامتیں سطح سے باہر پھر رہی ہوتی ہیں اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک سمجھدار انسان ان باتوں کو دیکھ کر معلوم نہ کر سکے کہ کیا ہورہا ہے.جب اس سے نظر غافل ہو جاتی ہے تو پھر یہ بیماریاں اور رخ اختیار کر لیتی ہیں.ایسے لوگوں میں

Page 729

خطبات طاہر جلدے 724 خطبه جمعه ۲۸/اکتوبر ۱۹۸۸ء Drug Addiction کے پھیلانے کے احتمالات بہت زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں.اگر تو طبعی طور پر یہ عوامل آگے بڑھ رہے ہوں تو اس میں وقت لگتا ہے اور تیزی کے ساتھ معاشرہ خراب نہیں ہوتالیکن اگر اس صورتحال پر بعض فتنہ پرداز گہری نظر رکھتے ہوئے ان برائیوں کو بیرونی مدد دے کر آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو پھر خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ معاشرہ بڑی تیزی سے ان بدیوں کا شکار ہو جائے.چنانچہ چند سال پہلے بھی میرے علم میں یہ بات آئی تھی کہ یہ منصوبہ ایک جگہ بنایا گیا کہ ربوہ کے نوجوانوں کو نشہ آور دواؤں کا عادی بنا لیا جائے اور اس کے لئے ان کو شروع میں مفت ایسی چیزیں مہیا کی جائیں پھر جب وہ ان کے عادی بن جائیں پھر ان سے رفتہ رفتہ یہ حسن سلوک جس کو وہ سمجھتے ہیں اس کا ہاتھ کھینچا جائے اور ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ پیسے مہیا کریں ان چیزوں کے لئے.پھر اس کے نتیجہ میں چوریاں شروع ہوں گی ، ڈا کے شروع ہوں گے.ایسے گروہ بن جائیں گے جو ہر قیمت پر روپیہ حاصل کر کے اپنی اس عادت کو تسکین دینے کی کوشش کریں گے.چنانچہ ان اطلاعوں کی توثیق بعض دفعہ اس طرح بھی ہوئی کہ بعض خواتین نے مجھے خط لکھا کہ ہمارا بچہ پہلے تو بے باک ہوا تھا اب حالت یہ ہے کہ گھر کے پیسے چوری نہیں بلکہ زبر دستی چھین لے کے جاتا ہے اور بعض دفعہ چاقو دکھا کر بھی جب مجھے اکیلا پاتا ہے تو ڈراتا ہے کہ میں تم پر حملہ کر دوں گا یا تم سے سختی کروں گا جس قسم کی بھی اس سے ممکن ہے مگر ہر طرح تم نے مجھے پیسے ضرور مہیا کرنے ہیں.ایسی مائیں بھی ہیں جو ایسی اطلاع دے دیتی ہیں لیکن بہت سی ایسی مائیں بھی ہوں گی جو اطلاع نہیں دیتیں.جو مھتی ہیں کہ ہماری عزت پر حرف آئے گا یا اپنے بچوں کی محبت میں اندھی ہو چکی ہوتی ہیں اور ان پر وہ پر دے ڈالتی ہیں.بعض مائیں ہیں جو بچوں کے باپ کو بتادیتی ہیں ، بعض ان سے بھی مخفی رکھتی ہیں یہاں تک کہ بیماری حد سے بڑھ جاتی ہے.بہر حال جب ان باتوں کی اطلاعیں ملنی شروع ہوئیں تو جس حد تک بھی ممکن تھا ان کے خلاف انسدادی تدابیر اختیار کی گئیں لیکن اس وقت جو انسدادی تدابیر میرے ذہن میں ہیں ان کا تعلق پکڑ دھکڑ سے نہیں ہے.میرے ذہن میں جو امور عامہ کا تصور ہے یا امور عامہ سے مراد صرف نظارت امور عامہ نہیں ہر جماعت میں امور عامہ کا شعبہ قائم ہے.وہ سیکرٹری جن کا ان کاموں سے تعلق ہے وہ سب اس وقت میرے مخاطب ہیں.آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ آپ

Page 730

خطبات طاہر جلدے 725 خطبه جمعه ۲۸ را کتوبر ۱۹۸۸ء انتظار کریں کہ یہ بیماریاں بڑھ جائیں اور ضرر رساں اس حد تک ہو جائیں کہ ساری سوسائٹی ان کا دکھ محسوس کرنے لگے.جو ملوث ہیں وہ تو تکلیف اٹھائیں گے بہر حال، جو ماحول ہے بعض دفعہ وہ بھی متاثر ہوکر تکلیف اٹھانے لگ جاتا ہے.اس وقت پھر اچانک بعض جگہ بیداری پیدا ہوتی ہے اور کہتے ہیں ان کے خلاف کاروائی کی جائے.ان کو جماعت سے نکالا جائے ان کو پولیس میں دیا جائے اور کئی قسم کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں مگر وہ وقت در اصل اصلاح کا وقت نہیں ہوا کرتا.اس وقت معاملہ ہاتھ سے گزر چکا ہوتا ہے.اسلام کا جو تصور قرآن کریم نے پیش کیا اور حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے اپنی سیرت میں عملی نمونہ کے طور پر دکھایا وہ عام دنیا کے مواخذہ کے تصور سے بالکل مختلف ہے.وہاں برائیاں ابھی جڑ بھی نہیں پکڑ چکی ہوتیں کوشش کر رہی ہوتی ہیں تو ان کے خلاف انسدادی کاروائی شروع ہو جاتی ہے اور تمام تذکیر کا نظام جو قرآن میں ملتا ہے اور جس کو ہم نے سنت کی شکل میں حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی سیرت میں جاری دیکھا ہے وہاں آپ کو پھل کا انتظار کرتے ہوئے لوگ دکھائی نہیں دیں گے یعنی کڑوے پھل کا انتظار کرتے ہوئے لوگ دکھائی نہیں دیں گے.آپ کو ایسے مدبر دکھائی دیں گے جو یہ نظر رکھتے ہیں کہ بیج کہاں گرا ہے اور وہ کون سی زمین ہے جو اس کو نشو و نمادینے کے لئے آمادہ دکھائی دیتی ہے اور وہاں سے اس کی بیخ کنی کی جاتی ہے.سب سے پہلے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ برائیاں نیت پر حملہ کرتی ہیں اور پہلے صلى الله نیتیں بگڑا کرتی ہیں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے ہمیں متنبہ فرمایا کہ سب سے پہلے اپنی نیتوں کی فکر کرو.اگر تمہاری نیتیں بدل گئیں تو پھر معاملے کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا.کئی قسم کی حسین خوبصورت واضح مثالیں دے کر آنحضرت ﷺ نے سمجھایا کہ دل جب ایک طرف رخ کرنے کا فیصلہ کر لیا کرتا ہے تو ظاہر میں جسم کا رخ کسی اور طرف بھی دکھائی دے تب بھی بالآخر بات وہیں پہنچے گی جہاں دل نے فیصلہ کیا ہوا ہے.اس لئے ایک بات سب سے پہلے کھول کر ہمیں اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ دو ہی رخ ہیں جن کو ہم نے اپنے لئے اختیار کرنا ہے ایک وہ جو حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کا رخ ہے جس کے آپ قافلہ سالار ہیں، جن کے پیچھے قدم بڑھاتے ہوئے ہم نے آگے خیرات کی طرف بڑھنا ہے اور ایک وہ رخ ہے جو دنیا پرستی کا رخ

Page 731

خطبات طاہر جلدے 726 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء ہے.اس لئے جس معاشرے میں نیتیں دنیا پرستی کی طرف مائل ہو جائیں وہیں سے خرابی کا آغاز شروع ہو جائے گا.وہ بالآخر وہیں پہنچیں گے جہاں اس سے پہلے دنیا پرست لوگ پہنچتے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے ( در تین صفحه : ۱۷) پس اگر رخ حضرت محمد مصطفی امیہ کی جانب رہے تو لازماً ہر قدم نیکی کی طرف اٹھے گا، برائیاں ہوتے ہوئے بھی اس سفر کے دوران برائیاں جھڑنی شروع ہو جائیں گی.نیکیوں سے عاری ہوتے ہوئے بھی ہر منزل پر آپ اپنے دامن کو پہلے سے زیادہ نیکیوں سے مزین اور مرصع پائیں گے.پس رخ کی طرف توجہ دینا بہت ہی اہم کام ہے.ایسے لوگوں کی نیتیں درست کرنا اور مشورے اور محبت کے ذریعے اور راہنمائی کے ذریعے ان کو سمجھانا یہاں سے دراصل ہمارا جہاد شروع ہوتا ہے.انتظار کرتے رہنا کہ جرم حد سے بڑھ کر ایک بھیانک شکل اختیار کرے پھر اس پر انسدادی کارروائیاں تو ہو نہیں سکتیں.تعزیری کاروائیاں شروع کی جائیں یہ ہمارا کام نہیں ہے نہ ہمارا یہ مسلک ہے.ہم نصیحت کرنے والوں کی جماعت ہیں اور نصیحت کرنے والی جماعت کو کچھ دوسروں پر فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے کچھ اس کی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں.نصیحت ہر منزل پر یکساں اثر نہیں کیا کرتی.نصیحت چونکہ زیادہ تر انسدادی کاروائی سے تعلق رکھتی ہے اس لئے بیماری ابھی آغاز میں ہو تو نصیحت کو اس کے اوپر بہت زیادہ رسوخ حاصل ہوتا ہے.بہت زیادہ قوت حاصل ہوتی ہے اور جب بڑھ جاتی ہے تو جتنی بیماری بڑھتی ہے اتنی نصیحت نسبتا کمزور اثر دکھانے لگتی ہے.پس بد ہو جانے والے لوگوں کو آپ نیکی کی طرف بڑھا ئیں گے تو بہت کم اثر پڑے گا لیکن وہ جو بدی کی طرف رخ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کو اس وقت سمجھانا اور روک لینا یہ نسبتاً بہت آسان ہے.اس لئے شروع سے ہی ان امور کی طرف توجہ ضروری ہے اور پھر اس طریق پر توجہ چاہئے جو طریق قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ (حود : ۱۱۵) پھر فرمایا ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ( حم السجدة : ۳۵) پھر فرمایا اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ *

Page 732

خطبات طاہر جلدے 727 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء (المومنون : ۹۷) کہ دیکھو حسنات بدیوں کو دور کر دیا کرتے ہیں.پھر فرمایا نیکیوں کے ذریعے مقابلہ کرو.پھر فرمایا نیکیوں کے ذریعے بدیوں کا مقابلہ کرو.حسنات سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک بہت ہی حسین لفظ ہے اور بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے.اس مضمون میں سب سے پہلے تو یہ بات داخل ہے کہ آپ بدیوں کا مقابلہ درشتی او رختی سے نہیں کر سکتے بلکہ حسن کے ساتھ کر سکتے ہیں.آپ کے اندر کشش ہوگی تو بدیوں کا مقابلہ کرسکیں گے.آپ کے مزاج میں اگر تیزی اور ختی ہوگی اور خشونت پائی جائے گی تو آپ در حقیقت مذکر بننے کے اہل نہیں رہتے.اس لئے جب آپ ان معاشرتی بدیوں کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی نیت کو درست کریں اور اپنی نیت میں حسن پیدا کریں اور ان لوگوں کا درد محسوس کریں جو برائیوں کا شکار ہیں.ان لوگوں کے خلاف اگر نفرت دل میں پیدا ہوتی ہے اس نفرت کو دبائیں اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.اپنا ذہن اپنے دماغ کے محدود دائرے سے نکال کر دوسرے کے دماغ کے دائرے میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور سوچیں کہ وہ کیوں یہ کر رہا ہے کیا عوامل ہیں جس نے ان باتوں پر اس کو مجبور کر دیا ہے، پھر حکمت کے ساتھ رفتہ رفتہ حسن دے کر اس کی بدیوں کے ازالہ کی کوشش کریں.یہ کیسے ہوسکتا ہے اس کی مثالیں میں آگے تفصیل سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلی چیز جو میں بیان کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب آپ کسی چیز کو پیدا ہوتے دیکھتے ہیں تو لازم ہے کہ اس کے عوامل پر غور کریں کے کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ ربوہ میں قائد خدام الاحمدیہ کے طور پر بھی رہا ہوں، مختلف جماعتی خدمتوں پر مامور رہا ہوں اور وقف جدید سے تعلق کی وجہ سے سارے پاکستان کے دیہات سے بھی اصلاحی رنگ میں میرا ایک تعلق رہا ہے.اس لئے اپنے تجربہ کی روشنی میں میں بعض باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کئی قسم کے لوگ مجھے ملیں ہیں اس کام کے دوران.بعض لوگ ہیں وہ کہتے ہیں دیکھو جی ! یہاں آوارگی پھیل گئی ہے، لڑ کے اس طرح پھر رہے ہیں اور ان کی طبیعت میں بڑا غصہ اور اشتعال ہوتا ہے، کیا کر رہی ہے جماعت ، کیا حال ہو گیا ہے سب کا، یہ نسلیں تباہ ہوگئی ہیں اور انجمن میں کچھ نہیں ہورہا ، وکلاء کچھ نہیں کر رہے، ان کو بس اپنی چائے پینے سے کام ہے اور پتا ہی کچھ نہیں کہ یہاں کیا حال ہو گیا ہے.اس قسم کے تبصرے بھی آپ کو سنائی دیتے ہیں.بعض اس قسم کے لوگ ہیں اس کے برعکس جو برائیوں کو دیکھتے ہیں اور خاموشی سے گھر میں چلے جاتے ہیں اور گھر میں

Page 733

خطبات طاہر جلدے 728 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۸ء بیٹھ کر یہ باتیں کرتے ہیں کہ معاشرہ خراب ہو رہا ہے، کوئی حال نہیں رہا اور لوگ گندے ہوتے چلے جا رہے ہیں.یہ دونوں قسم کے لوگ نصیحت کے لحاظ سے بریکار اور بالکل بے معنی ہیں.سب سے پہلی بات اس ضمن میں سوچنے کے لائق یہ ہے کہ پہلے لوگوں کو بھی ان بیماروں سے تعلق کٹ گیا کیونکہ وہ نفرت کا شکار ہو گئے اور دوسری قسم کے لوگوں کا بھی ان بیماروں سے تعلق کٹ گیا کیونکہ وہ اس جدو جہد سے علیحدہ ہو گئے اور اپنے گھروں کے آرام خانوں میں وہ گویا کہ بے نیاز ہو کر بیٹھ گئے کہ وہاں بازاروں میں کیا ہو رہا ہے.پھر ایسے تبصرے بھی آپ کو سنائی دیں گے کہ جی یہ لوگ وہاں بیٹھتے ہیں، وہاں بیٹھے ہیں، مجلسیں لگاتے ہیں اور ایسے تبصرے بھی سنائی دیں گے کہ ان کی مجلسیں تو ڑ دی جائیں ، ان کو ربوہ سے نکال دیا جائے.ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے ، ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے حالانکہ ایسے تبصرے کرنے والے بسا اوقات متمول لوگ ہوتے ہیں.ان کے گھروں میں ایسی آسائشیں میسر ہوتی ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں مجلسیں لگاتے ہیں ، راتوں کو دیر دیر تک بیٹھتے ہیں اور ان کے رشتہ دار وہاں اکٹھے ہوتے ہیں، چائے پی جاتی ہے، گیئیں ماری جاتی ہیں، ہر قسم کے تبصرے ہوتے ہیں.ان کو وہ اپنی حالت دکھائی نہیں دے رہی ہوتی اور بازار میں کچھ غریب نو جوان دکھائی دے رہے ہوتے ہیں جو ان کے نزدیک نہایت آوارہ اور غیر ذمہ دار اور بے راہرو ہیں، ان کو کوئی حق نہیں کہ اکٹھے بیٹھیں کہیں.غور کرنا چاہئے ،سوچنا چاہئے کہ آخر کیوں ایسا ہو رہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے طبعی دلچسپیوں کے لئے کوئی نکاس کی راہ نظر نہیں آتی.ہر انسان میں ایک جذبہ ہوتا ہے کسی طرح وہ تسکین حاصل کرے لذت حاصل کرے اپنی تھکاوٹ کو دور کرے.اگر کسی کے گھر میں ایک کمرہ ہے ،غریب کے گھر میں اور وہیں اس کے ماں باپ اور بہن بھائی رہتے ہیں تو اپنے گھر میں بیچارہ کیسے مجلسیں لگا سکتا ہے.وہ اپنے جیسے غریبوں کو لے کر باہر نکلے گا بازاروں میں کہیں برف والے کے پاس کھڑا ہو جائے گا، کہیں کباب کی دکان پر، کہیں کسی مٹھائی کی دکان پر ، پھر وہاں سے گزرتے دیکھے گا عورتوں کو لڑکیوں کو ، کچھ پردہ دار ہوں گی کچھ نے بے احتیاطی کی ہوگی پھر ان پر اس کی نظریں پڑیں گی اور اس کی جو تعلیم اور تربیت ہے جو گھروں میں عموماً شروع ہوتی ہے اس کا پس منظر بھی آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اکثر ایسے نو جوانوں کے ماں باپ خود تربیت کے محتاج ہوتے ہیں اور معاشرے کی وجہ سے یا اقتصادی کمزوریوں کی وجہ سے یا تو انہوں نے تعلیم ہی حاصل

Page 734

خطبات طاہر جلدے 729 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء نہیں کی ہوتی یا ایسے گھروں میں پرورش پائی ہوتی ہے جہاں کرختگی روز مرہ کی عادت ہے.خاوند کی بیوی سے بدسلوکی، بیوی کی خاوند سے بدسلوکی.یہ روزمرہ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں.تو ایسے گھروں میں پلنے والے ان بچوں کو آپ محض قصور وار قرار دے کر رد کر دیں اور یہ سمجھ لیں کہ ناظر امور عامہ تھانے دار بن کر ہر وقت ان بچوں کے خلاف کاروائیاں کرتا رہے گا یا ان کو خدام الاحمدیہ پکڑ کے بدنی سزائیں دے گی یا اور کئی قسم کی ان کے خلاف تعزیری کاروائیاں کی جائیں گی.یہ درست بات نہیں ہے.آپ کی سوچ ہی بگڑی ہوئی ہے اس صورت میں.اصلاح ہمدردی اور حسن سے پیدا ہوتی ہے قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے حسن کے بغیر برائی دور نہیں ہو سکتی اور یہ ردعمل جس کی مثال آپ کے سامنے پیش کی ہے یہ حسین رد عمل نہیں ہے یہ ایک ظالم رد عمل ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس لئے سب سے پہلے تو جو تربیت کے ذمہ دار ہیں ان کی تربیت ضروری ہے ان کو خود اپنی تربیت کرنی چاہئے ، اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے اپنے دل کو ٹول کر دیکھنا چاہئے کہ اس قسم کے جب وہ نظارے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں ان بیچارے نو جوانوں کے لئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے یا نفرت پیدا ہوتی ہے.اگر نفرت پیدا ہوتی ہے تو وہ لوگ خود بیمار ہیں ان بیچاروں کی کیا اصلاح کریں گے.پھر جب آپ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ ویڈیوز لے کر جاتے ہیں ہندوستان کے گانوں کی فلمیں یا یورپ کی بعض فلمیں اور اکٹھے ہو کر کہیں دیکھتے ہیں تو بعض لوگوں کو آگ لگ جاتی ہے کس قدر تباہی پھیل گئی ہے، اڈے بنے ہوئے ہیں ، امور عامہ کچھ نہیں کر رہی ، خدام الاحمدیہ کچھ نہیں کر رہی، انصار اللہ کچھ نہیں کر رہی ، صدران محلہ بے پرواہ ہیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان میں سے جو متمول ہیں ان کے گھروں میں بھی ٹیلی ویژنز ہیں، ان کے گھروں میں بھی سہولتیں ہیں ، ان کی کمزوریوں پر ان کے حالات نے پردہ ڈالا ہوا ہے، ان کی اقتصادی حالت نے پردہ ڈالا ہوا ہے اور وہ لوگ بھی گھر میں روزانہ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ان سے زیادہ کرتے ہیں جن کو کبھی مہینے میں ایک دفعہ کوئی ویڈیو مل گئی بیچاروں کو.پھر وہ جب لوگ گزر رہے ہوتے ہیں گلیوں سے کہیں سے گانے کی آواز آرہی ہوتی ہے بعض لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں کہ دیکھو جی ! یہاں ربوہ میں گانے گائے جا رہے ہیں.اور بہت سے ایسے گھر بھی ہیں جو اتنے وسیع ہیں کہ ان کے گھروں سے گانوں کی آواز میں باہر نہیں جاتیں.بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ایسی نئی قسم کی بجلی کی مصنوعات میسر ہیں کہ کانوں میں اس کی ایک

Page 735

خطبات طاہر جلدے 730 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء تار کی ٹوٹی دے دی اور کسی کو بھی آواز نہیں جائے گی اپنے آرام سے بیٹھے جو مرضی سنتے رہیں.تو حقیقت پر نظر ر کھے بغیر محض تنقید سے اصلاح نہیں ہوسکتی.یہ ٹھیک ہے کہ گانوں کے اوپر کسی زمانے میں جماعت میں بہت سختی ہوا کرتی تھی اور بعض لوگ ان میں سے ایسے ہیں جن کو قادیان کے وہ زمانے یاد آ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں جی دیکھو! قادیان میں فلاں جگہ گانے کی آواز آئی تھی تو امور عامہ نے یہ کام کیا تھا ان کو گھروں سے نکال دیا تھا، ان کی دکانیں بند کرا دی تھیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کون سا ماحول تھا اور یہ کون سا ماحول ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہ کی نسلیں تھیں جن کے والدین نے اپنے گھروں میں سوائے تلاوت یا پاکیزہ نظموں کے کچھ بھی نہیں سنا ہوا تھا ان کی نسلیں جب نرمی اختیار کر رہی تھیں تو اس سے بہت اجنبیت پیدا ہوتی تھی ماحول میں اور جو ماحول دوسرا ہندوستان کے معاشرے کا تھا وہ بھی اتنا بد نہیں تھا.اب صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے.ان میں سے بہت سے جو نو جوان آج ہمارے شہروں میں یا محلوں میں آباد ہیں جو احمدی بھی ہیں ان میں سے بھاری اکثریت ایسی ہے جنہوں نے اعلیٰ بزرگوں کی تربیت حاصل نہیں کی.ربوہ میں بھی اردگرد سے ، صرف اردگرد سے نہیں بلکہ سارے پاکستان سے بلکہ اس سے باہر سے بھی بہت سے ایسے لوگ آباد ہوئے ہیں جا کر جن کا اپنا تربیتی پس منظر بہت کمزور ہے.ایسے لوگ جو مشرقی افریقہ سے وہاں گئے یا انگلستان سے گئے یا اور دوسرے ملکوں سے گئے انہوں نے اپنے ماحول میں اس سے بہت زیادہ گانے سنیں ، رقص و سرور دیکھے فلمیں روز مرہ چلتی دیکھیں اور ان کے نزدیک یہ کوئی برائی نہیں تھی.وہ یہ ساری چیزیں نہ سہی ان میں سے کچھ چیزیں لے کر ربوہ پہنچ گئے.پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا اقتصادی بدحالی کی وجہ سے بہت سے آراموں سے یہ لوگ محروم ہیں.نہ ان کے گھروں میں پیچھے ہیں، نہ ان کے گھروں میں علیحدہ بیٹھنے کی جگہیں ہیں، نہ ان کو اچھا کھانا میسر ہے.ان بیچاروں کی عیاشی کی انتہا یہ ہے کہ اچھا گاناسن لیں اور جب وہ سنتے ہیں تو آپ ان کو ایسی غضب کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ تباہ ہو گئے ہیں یہ لوگ ، ذلیل لوگ ہیں انہوں نے ساری دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور جماعت احمدیہ کے اوپر داغ لگ گئے ہیں، ان کو ز بر دستی جس طرح جلا د گندے عضو کو کاٹ کے پھینکتا ہے ان کو کاٹ کر اپنے معاشرے سے الگ کر دو.یہ غیر حقیقی

Page 736

خطبات طاہر جلدے 731 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء باتیں ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود ایک تصنع کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور تصنع کی حالت میں سوچ رہے ہیں.ان سب لوگوں کی مجبوریوں اور تکلیفوں پر نظر رکھنا ضروری ہے.وہ تکلیفیں اصل بیماریاں ہیں.وہ ناداری کی حالتیں اصل بیماریاں ہیں.ان معاملات میں آپ ان سے ہمدردی نہ رکھیں اور بیچارے اپنے معصومانہ رنگ میں تھوڑا سا بھی اپنے دل کی تسکین کا سامان پیدا کریں تو آپ غیظ و غضب کا شکار ہو جائیں.یہ ہے اصل بیماری روحانی جو آپ کو لاحق ہے اس لئے سب سے پہلے تو اصلاح کرنے والوں کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے.ایک دفعہ مجھے یاد ہے ربوہ میں میں نے اپنی مجلس عاملہ کو کہا انصار اللہ میں تھا یا خدام الاحمدیہ میں، غالبا انصار اللہ کی بات ہے.میں نے ان سے کہا کہ بہت سارے لڑکے ہیں بیچارے جو آوارگی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کے متعلق روز شکایتیں کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم یوں کریں کہ اپنے میں سے ہم اپنی ذمہ داری یہ کر لیں کہ ہم میں سے ہر ایک ایک یا دو یا یا تین کو خصوصیت کے ساتھ اپنا دوست بنانے کی کوشش کرے گا.ان سے وہ تعلق رکھے گا، ان کے مسائل سنے گا، ان کے دکھوں کو اپنانے کی کوشش کرے گا، اپنا سکھ ان کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرے گا اور دیکھیں تو سہی کہ پھر کیا نظر آتا ہے.چنانچہ ہم میں سے جس نے بھی اس نصیحت پر عمل کیا اس کی اپنی حالت بدل گئی.بعض نے مجھے بتایا کہ بڑے دردناک حالات ہیں.ہم جب اس کے ساتھ بیٹھے چائے پہ بلا یا اول تو وہ حیران رہ گئے کہ ہمارے تو لوگ منہ پر تھو کا کرتے تھے کہ یہ کون خبیث انسان ہے اور یہ اچھا بھلا معزز شریف آدمی یہ اپنے گھر چائے پر بلا رہا ہے.کہتے ہیں اسی احسان کے سلوک نے اس کی حالت بدلی ہے.پھر جب اس کے حالات معلوم کئے تو پتا لگا یہ بہنوں کا حال ہے، یہ فلاں بھائیوں کا حال ہے، ماں باپ کی اس طرح ناچاقی ہے، یہ گھر میں غربت کا ماحول ہے، یہ تنگیاں ہیں.تو بجائے اس کے کہ ایسے شخص سے وہ نفرت کرتے ان کے لئے ان کے دل میں ہمدردی پیدا ہوئی ،محبت پیدا ہوئی ان کے لئے کئی ایسے اقدامات کا موقع ملا جو اپنے کمزور بھائی کے لئے ایک نسبتا متمول بھائی کیا کرتا ہے.حسب توفیق انکی خدمت کی توفیق ملی ان کو اور بعض ایسے نوجوان تھے جن کے متعلق میرے رپورٹیں یہ تھیں کہ یہ اتنے گندے ہو چکے ہیں کہ اس لائق نہیں کہ ان کور بوہ میں ٹھہر نے دیا جائے.ان کے اندر سے بڑے بڑے پیارے نو جوان پیدا ہونے شروع ہو گئے.

Page 737

خطبات طاہر جلدے 732 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء پس اصلاح کا جو منبع ہے وہ آپ کا دل ہے.آپ کے دل میں اگر حسن ہوگا تو آپ اصلاح کر سکیں گے ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے سختی کے ذریعے بدی کو روکنے کا کہیں کوئی حکم نہیں ملتا.ہاں حسن کے ذریعے برائی روکنے کا حکم ہے.حضرت اقدس محمد اصلى الله مصطفی حسن کی آماجگاہ تھے.ایک حسن کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جس کو خدا نے یہ طاقت ودیعت کی تھی کہ ہر بدی پر اپنے حسن کی موجوں کے ذریعے غالب آجائے.پس ہم نے اگر حضرت محمد مصطفی ﷺ کا رخ اختیار کرنا ہے تو خیر اہم بنا ہمارے مقدر میں ہے.ہم لا ز ما خیر ام بنیں گے اور اس سنت کی برکت سے ہم برائیوں پر غلبہ پا جائیں گے لیکن اگر سنت مغرب کی اختیار کریں یا دنیا داروں کی اختیار کریں اور دعوئی یہ کریں کہ ہم نے برائیوں کا قلع قمع کرنا ہے تو یہ جھوٹی بات ہے.ایک حمقاء کی جنت ہے جس میں آپ بستے ہیں.اس لئے ان چیزوں کی طرف حکمت سے توجہ کریں اور مزید معلوم کریں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ان نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں اور ان عوامل کو دور کرنے یا اچھے عوامل کے ذریعے ان کو Replace کرنے یعنی ان کو رفتہ رفتہ اس طرح دور کرنے کی توفیق پائیں کہ اچھی چیز دیں تب بری چیز باہر نکلے.خالی برائیوں کو دور کرنے کا تو کوئی تصور قرآن کریم میں نہیں ہے.خلاؤوں کو بھرنے کا تصور ہے.خلا پیدا کرنے کا کوئی تصور نہیں اور نہ خلا ہوا کرتا ہے دنیا میں حقیقت میں.بدی ہے وہ تب جگہ چھوڑے گی اگر کوئی اور طاقتور چیز اس کی جگہ داخل ہو جائے اور اس کو دھکیل کر باہر نکال دے گی اور قرآن کریم فرماتا ہے.اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ حسن میں یہ طاقت ہے اور حسین چیزوں میں یہ طاقت ہے کہ وہ بدیوں کو دکھیل کر باہر نکال دیں.اس لئے آپ کو ایسی طاقتور خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہوں گی اور ایسے طاقتور حسین ذرائع اختیار کرنے ہوں گے جن کے ذریعے بدیاں لازماً ان جگہوں کو چھوڑ جائیں جہاں آپ کا حسن داخل ہونا شروع ہو جائے.اس سلسلے میں میں نے کئی قسم کی بدیوں پر غور کیا مثلاً گانا بجانا اور اس قسم کی چیزیں ہیں آپ ساری دنیا میں یہ بات دیکھیں گے یہ صرف مشرق کی بات نہیں، پاکستان کی بات نہیں، ربوہ کی بات نہیں کہ رفتہ رفتہ مذاق بدل رہے ہیں اور مذاق زیادہ مادہ پرستی کی طرف مائل ہورہے ہیں.ایک زمانہ تھا جبکہ ایک شاعر کا کلام ایک انسان کے دل میں وہ جذبات انگیخت کر دیا کرتا تھا جواب عام نغمے بھی

Page 738

خطبات طاہر جلدے 733 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے پاپ میوزک کی ضرورت پیش آتی ہے.مذاق بگڑے ہیں رفتہ رفتہ اور مادیت کی طرف زیادہ میلان ہوتا چلا گیا ہے.مذاق اگر لطیف ہوں تو ایک اچھا کلام ، ایک اچھا ادب پارہ انسان کے دل میں اور دماغ میں ایسا تموج پیدا کر دیتا ہے کہ دنیا میں جو عام میوزک کے شیدائی ہیں ، نغموں کے شیدائی ہیں وہ ان لذتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے.اس لئے مذاق کی صحت کی طرف اور درستی کی طرف توجہ بہت ضروری ہے.اگر آپ جائزہ لیں گے پاکستان کا مثلاً خصوصیت سے تو آپ وہاں بھی یہ محسوس کریں گے کہ پرانی نسلوں کا ادبی معیار بلند تر تھا.جو پہلے زمانے کے لوگ تھے یا بچے پڑھا کرتے تھے ان کے سکولوں میں بھی اور سکولوں سے باہر بھی ایک ادبی ذوق شوق کا ماحول تھا اور شعر و شاعری کا ماحول تھا.وہ شعر و شاعری اس زمانے میں بعض نیک لوگوں کو بہت ہی بری لگا کرتی تھی.وہ سمجھتے تھے یہ لڑکے تباہ ہو رہے ہیں شعر و شاعری کی وجہ سے لیکن آج کے ماحول میں اگر دیکھیں تو وہ شعر و شاعری کے ماحول میں پلنے والے لوگ یہ پاپ میوزک کے شیدائیوں کو پاگل سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ تباہ ہو رہے ہیں.تو یہ نسبتی چیزیں ہیں اور ان کے عوامل پر آپ غور کریں تو آخری تان اس بات پر ٹوٹے گی کہ معاشرے کا مذاق بعض مطالبے کرتا ہے.اگر آپ نے مذاق کی اصلاح نہ کی اور مطالبوں کی راہ میں کھڑے ہو گئے تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.مذاق بلند کریں اور مذاق کے مطالبہ پورے کریں.یہ دو چیزیں اکٹھی ہونا ضروری ہے.اب آپ یہاں انگلستان کے معاشرے کو دیکھ لیں اس کا مقابلہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے سے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بھاری تعداد انگریزوں کی اس زمانے میں کتابیں پڑھنے کی عادی ہوتی تھی اور ان کا جو سکون کا تصور تھا وہ یہ تھا کہ جس شخص کو جب وقت ملتا ہے کتاب لے کر الگ بیٹھ جائے اور اگر شعروں کا شوق ہے تو شعروں کی کتاب لے لی ، ادب کا شوق ہے تو ادب کی، ناول کا شوق ہے تو ناول اٹھا لئے لیکن پڑھنے میں لذت حاصل کرتا تھا.اب ایک بھاری فیصد تعداد ان لوگوں کی ایسی ہے جو صرف ٹیلی ویژن دیکھ کر لذت یابی کرتی ہے اور وہ لوگ جو باہر نہیں نکل سکتے جو گھروں میں بیٹھتے ہیں اب وہ زیادہ تر پڑھنے کی بجائے وہ ٹیلی ویژن کا سوئچ آن کیا اور بیٹھے نظارے دیکھتے رہتے ہیں.پھر جس قسم کی تربیت ٹیلی ویژن ان کی کرتی ہے ان کی اس کے ساتھ ساتھ ہوتی چلی جاتی ہے.جولوگ ادبی ماحول کی پیداوار ہیں ان کے دلوں کی لذت کا مقابلہ اگر آپ

Page 739

خطبات طاہر جلدے 734 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء ان لوگوں کے دلوں کی لذت سے کریں جو پاپ میوزک کی پیداوار ہیں تو کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ پاپ میوزک والے زیادہ لذت اٹھارہے ہیں.لذتوں کی نوعیت میں فرق پڑ جاتا ہے لیکن جس قسم کا ذوق ہے اس ذوق کو پورا کرنا ہی دراصل لذت ہے.تو اگر ہماری نسلیں بیمار ہو رہی ہیں تو ان کے مذاق کو درست کرنے ، ان کے ذوق کو درست کرنے کی طرف توجہ بڑی ضروری ہے اور اس کے لئے بہت سے اقدامات کئے جاسکتے ہیں.یہ کہہ دینا کہ آپ ان کے گانے بند کر دیں گے زبردستی اور گلیوں میں آوازیں بند ہو جائیں گی ، اس سے بیماری دور ہو جائے گی یہ پاگل پن ہے.چینیں مارتے ہوئے بیمار کے اوپر آپ لحاف ڈال دیں اور چیچنیں آنی بند ہو جائیں اس کو تو علاج نہیں کہا جاتا.تکلیف دور کرنا ضروری ہے اس لئے بہتر مذاق پیدا کرنا نہایت اہم کام ہے.اس کے لئے میں نے بہت سے ذرائع سوچے ہیں جن کے متعلق انشاء اللہ میں ہدایتیں جاری کروں گا.بہر حال کام ایسا ہے جو وقت چاہتا ہے لیکن شروع بہر حال ہونا چاہئے اور ایسا کام ہے جس میں معاشرے کے ہر طبقہ تک پہنچ کر اس کے ذوق کی اصلاح اور بہتر ذوق پیدا کر کے اس کے ذوق کی طلب کو پورا کرنے کے سامان کرنا یہ دراصل اصلاحی کاروائی ہے.ہم شعر و ادب کی بات کر رہے تھے ایک زمانہ تھا قادیان میں مجھے یاد ہے جبکہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی شعروں کی کا پیاں بنایا کرتے تھے اور اس زمانہ میں غزلیں ان کا پیوں میں لکھنا یا محبت کے اشعار لکھنا اگر جرم نہیں سمجھا جاتا تھا تو رستے سے ذرا ہٹی ہوئی بات ضرور معلوم ہوتی تھی.اس لئے ایسے نوجوان اپنی کا پیاں بعض دفعہ چھپا کے رکھا کرتے تھے کہ بزرگوں کو نظر نہ آجائے کہیں کہ ہم نے کیا لکھا ہوا ہے اور مجھے یاد ہے ایک دفعہ میری کلاس میں بیٹھے ہوئے طالب علم کی کاپی تھی اس کو میں نے اٹھا کے دیکھا.میرا خیال تھا شائد اس میں کلاس کی باتیں ہوں گی تو اس پر ایک شعر تھا اس کا ایک مصرع تھا: بے شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے کہ کہاں پکڑا جانا تھا مجھے ، لوگوں کو کیا پتا لگتا کہ میرے دل میں کیا باتیں ہیں لیکن جو شعروں کا انتخاب میر انظر آ گیا ہے لوگوں کو اس نے مجھے رسوا کر دیا ہے.وہ معصوم زمانہ تھا یہ حال تھا لیکن ان شعروں میں بھی وہ نو جوان اتنی لذت پاتے تھے اور شعر ان کے ذوق کی تعمیر بھی کیا کرتے تھے کہ اس کے نتیجے میں سلجھی ہوئی نسلیں پیدا ہوئی ہیں.پھر وہی ذوق تھا جو تبدیل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشعار سے لذت حاصل

Page 740

خطبات طاہر جلدے 735 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء کرنے کی صلاحیت پیدا کر گیا.اگر ادبی ذوق ہی نہیں ہے تو آپ اس کو دوسری طرف اسی قسم کی چیز میں منتقل کر نہیں سکتے.جن کو شعر و شاعری کا شوق ہے وہی پھر آخر اعلیٰ درجہ کے لطیف مضامین کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کے کلام سے لذت یابی کی صلاحیت رکھتے ہیں.چنانچہ بچپن میں ہم بہت سے ایسے نوجوانوں کو جانتے تھے جن کا ابتدائی ذوق صرف دنیاوی شاعروں کے کلام تک محدود تھا لیکن رفتہ رفتہ پھر وہ دینی مضامین کی طرف منتقل ہو گیا ، پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے شیدائی ہو گئے ، آپ کے غلام کے عاشق بن گئے اور رفتہ رفتہ ان کی کیفیت بدلنی شروع ہوئی.تو سوال یہ ہے کہ وہ چیزیں جو اس زمانے میں جرم دکھائی دیتی تھیں درحقیقت وہ جرم نہیں تھی بلکہ انسانی فطرت کے ساتھ ایک تعلق رکھنے والی ایسی باتیں تھیں جن کو ہم جدا نہیں کر سکتے.ادب لطیف جس کو کہتے ہیں.اس کے لئے انسانی فطرت میں خدا نے ایک طلب رکھ دی ہے.اگر اس طلب کو آپ پورا نہیں کریں گے اور رستہ بند کریں گے تو پھر یہ کسی اور رخ کو اختیار کرے گی کوئی اور رستہ اپنا بنائے گی جو اس سے بدتر ہو گا.اس لئے ایک طریق مثلاً یہ بھی ہے کہ بجائے اس کے کہ آپ سختی اور تشدد سے فلمی گانوں کے رجحان کو بند کریں آپ اچھے شعراء کا کلام جو نہایت اعلیٰ درجہ کا ، طبیعتوں پر اثر کرنے والا کلام ہے اس کو بغیر میوزک کے اچھے گانے والوں سے پڑھوا کر ان کے کیسٹس مہیا کریں اور وہ جو بیچارے کیسٹس بیچنے والے ہیں ان کی روزی کا بھی خیال کریں ان کو آپ یہ کہہ کر کس طرح گانوں کی فلمیں بیچنے سے روک سکتے ہیں کہ بہت بری بات ہے.آپ کے لئے تو بری بات ہے اس نے تو اس سے روٹی بھی کمانی ہے بیچارے نے اس لئے اس کا بھی متبادل انتظام ضروری ہے.اس ذوق کی تسکین کرنے لئے کوئی اچھی چیز ہو جو اس برے ذوق سے لوگوں کو روک سکے.تو ایسے ایسے اچھے کلام میں کلاسیکل اگر نہیں تو ہمارے موجودہ زمانے میں بھی بڑے بڑے اچھے شعراء پیدا ہوئے ہیں مثلاً فیض احمد فیض ہے، احمد فراز ہیں، احمد ندیم قاسمی بھی بہت اچھا کہنے والے ہیں.ان کی مختلف قسم کی نظمیں ہیں.کچھ معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے انہوں نے نظمیں ایسی کہیں ہیں جو بظاہر عشق کی باتوں سے شروع ہوتی ہیں بالآخر وہ معاشرتی برائیوں کے تجزیہ پر جا کرختم ہوتی ہیں اور بڑا با اثر کلام ہے.محمد دین تاثیر ہوا کرتے تھے ان کا بہت اعلیٰ درجہ کا کلام تھا، بہت اچھی اچھی

Page 741

خطبات طاہر جلدے 736 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء نظمیں ہیں اور اس دور کے شعراء میں بالعموم آپ یہ دیکھیں گے کہ محبت اور عشق کی باتیں سمو دی گئیں ہیں معاشرتی حالات کے ساتھ اور کسی نہ کسی رنگ میں اصلاحی اثر رکھتے ہیں.تو ان کی نظمیں ہیں ان کی ریکارڈنگ کر کے اگر مہیا کریں اور نو جوانوں میں یہ شوق پیدا کریں کہ فلمی گانوں کی بجائے ان کی طرف متوجہ ہوں اور اس قسم کی اور بہت سی باتیں ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہاں وقت نہیں ہے لیکن میر امطلب یہ ہے کہ تعمیری کام ہیں.تخریب کو آپ تخریب کے ذریعے ختم نہیں کر سکتے.تخریب کو تعمیری پروگراموں کے ذریعے آپ ختم کر سکتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کلام کو اچھی آواز میں بھروا کر اس کو بھی عام مہیا کرنا، ایسی ادبی مجالس بنانا جہاں ان نوجوانوں کو بلایا جائے.بجائے اس کے یہ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر وقت ضائع کریں ان کو وہاں اگر چائے بھی مہیا کر دی جائے تو شوق سے آئیں گے.وہاں ان کے اندر علم وادب کی مجالس کا ذوق پیدا کیا جائے.رفتہ رفتہ دین کی طرف متوجہ کیا جائے.پھر جہاں تک ویڈیوز کا تعلق ہے آپ جانتے ہیں کہ مغرب میں ایسی اعلیٰ درجہ کی سائنسی اور معلوماتی ویڈیوز مہیا ہوتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ انسان کچھ پڑھائی کر رہا ہے یا محنت کر رہا ہے بلکہ علم اس طرح آپ کے دل میں داخل ہو رہا ہوتا ہے جیسے آپ ایک پیاسے آدمی کو کوئی بہت ہی اچھا ، ٹھنڈا، میٹھا مشروب ملتا ہو.اس کے ساتھ انہوں نے لذت شامل کر دی ہے.ان قوموں کی جو خرابیاں ہیں ان خرابیوں سے بھی بعض دفعہ حسن پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ان لوگوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو عیاشی کا عادی بنالیا ہے.اس لئے یہ راز سمجھ گئے ہیں کہ جب تک کسی چیز میں لذت نہ ہو اس وقت تک ہمارے نوجوان اس کو حاصل نہیں کریں گے.چنانچہ انہوں نے علم کو بھی سجا کر پیش کرنا شروع کیا ہوا ہے.اوپن یونیورسٹی کے پروگرام آپ دیکھیں وہ سارے پروگرام ویسے تعلیمی اور تدریسی ہیں مگر نہایت دلچسپ اور سوائے اس کے وقت کی مجبوری ہوا ایک دفعہ انسان اس کو شروع کر دے تو چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا.تو ربوہ کو یا پاکستان کے دوسرے شہروں میں بسنے والے احمدیوں کو ان کی طرف کیوں مائل نہیں کرتے.نظام جماعت کا کام ہے ایسی چیزیں باہر سے منگوائے ساری دنیا میں جماعت موجود ہے.اگر جاپان میں مہیا ہوتی ہے تو اس کے ترجمے کروا کر ڈبنگ کروائی جائے اور اچھی اچھی ویڈ یو ایسی مہیا کی جائیں جو کرائے پر لیتے ہیں آپ مفت نہیں دے سکتے تو کم

Page 742

خطبات طاہر جلدے 737 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء کرائے پر ان کو دے سکتے ہیں.یا ایسے مراکز قائم کر سکتے ہیں جہاں کئی کئی گھنٹے روزانہ شام کو یادو پہر کو یا چھٹیوں میں دن بھر ایسے پروگرام چل رہے ہوں اور نو جوان آئیں اور بغیر کسی خرچ کے آکر بیٹھ کر ان سے لذت یاب ہوں.وہاں ایسے اساتذہ بھی ہوں جو سمجھائیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے.مثلاً یہ جو فلمیں ہیں سمندر کی زندگی کی اور پرندوں کی زندگی ، حیوانات کی مختلف شکلیں ، ایکوسسٹم ہے دنیا میں وہ کس طرح چل رہا ہے.کائنات کیا چیز ہے.ان سب امور پر اتنی دلچسپ ویڈیوز موجود ہیں کہ اگر آپ یہ جائزہ لیں تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ یہ علمی ویڈیوز جو پاپ میوزک کی ویڈیوز ہیں ان سے زیادہ دنیا میں فروخت ہوئی ہیں.اب کارل ساگون ہیں انہوں نے Universe کے اوپر فلمیں بنائی تھیں اور یہ نوبیل لارئیٹ ایک بڑے بھاری سائنسدان ہیں ان کی مدد سے کسی ویڈیو کمپنی نے ویڈیوز بنائیں اور انہوں نے بیسٹ سروس کا ساری دنیا کا ریکارڈ توڑ دیا.اس لئے نہیں کہ لوگوں کو علم کا شوق تھا زیادہ ، اس لئے کہ نہایت ہی دلچسپ طریق پر وہ معلومات پیش کی گئیں تھی اور دیکھتے دیکھتے وہ کارل ساگون بھی لکھوکھہا ڈالر یا شاید اس سے بھی زیادہ کما گئے ان کا خفیف سا حصہ تھا اس میں.تو عقل سے کام لینا چاہئے.لذت پانے کی خواہش کو کچل کر کس طرح آپ بدیوں کو دور کر سکتے ہیں آپ نہیں کر سکتے یہ خدا سے ٹکرانے والی بات ہے.خدا نے فطرت میں جو تمنا ئیں پیدا کی ہیں کوئی دنیا کی طاقت ان کو کچل نہیں سکتی، کوئی ان کو جڑوں سے اکھیڑ کے نہیں پھینک سکتی.ان تمناؤں کا رخ بدلا جا سکتا ہے، ان تمناؤں کا ذوق تبدیل کیا جا سکتا ہے، بہتر ذوق ان کو عطا کیا جا سکتا ہے.پس جب آپ بہتر ذوق عطا کرتے ہیں تو اس کے لئے جولو از مات ہیں وہ پورے کرنے ہوں گے.تو ایسی علمی مجالس کو فروغ دیا جا سکتا ہے.پرانے زمانے میں مجالس ارشاد ہوا کرتی تھیں قادیان میں اور بڑے ذوق شوق کے ساتھ لوگ مسجد مبارک میں ہوتی تھیں تو سارے اردگرد کے محلوں سے اکٹھے ہوا کرتے تھے.مسجد اقصیٰ میں ہوتی تھی تو وہاں بڑے جوش سے ذوق کے ساتھ لوگ جایا کرتے تھے اور وہاں صرف دلچسپ معلوماتی تقریریں یا نظمیں وغیرہ پڑھی جاتی تھیں.آج اگر جلسوں پر لوگوں کو آپ بلا ئیں تو لوگ حاضر ہی نہیں ہوتے.وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں یہ ذوق تھا کہ ان چیزوں سے لوگ لذت حاصل کر سکتے تھے.اب وہ ذوق مٹ چکے ہیں اور Crude ہو گئے ہیں یعنی ان کی سطح نیچی ہوگئی ہے، زمین کے قریب تر ہو گئے ہیں بجائے آسمان کی طرف بلند ہونے کے.

Page 743

خطبات طاہر جلدے 738 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء اس پہلو سے اور بھی بہت سے پروگرام ہیں مگر وقت کی رعائت سے میں ان کی تفاصیل آپ کے سامنے نہیں رکھنا چاہتا لیکن انشاء اللہ تعالیٰ انتظامیہ کو ایسی ہدایتیں جاری کی جائیں گی.آخری بات پھر میں یہی کہوں گا کہ دل گداختہ پیدا کئے بغیر وہ دل جو غیر کی تکلیف محسوس کرتا ہے اس کے بغیر آپ معاشرے کی اصلاح نہیں کر سکتے اور یہ دل گداختہ اپنوں اور غیروں میں فرق نہیں کیا کرتا.آپ صرف اپنوں کے لئے دل میں ان باتوں کا دکھ محسوس نہ کریں بلکہ غیروں کے لئے بھی کریں.ان نوجوانوں کو جن کی آپ اصلاح کرتے ہیں ان کو ساتھ لے کر کبھی نکلیں اور دوسرے سوسائٹی کے دکھوں یا حصوں کو جا کر ان کو نظارہ کروائیں ، ان کی خدمت کا جذبہ ان کے اندر پیدا کریں.یہ بھی ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی لذت ہے.جس کو یہ ذوق عطا ہو جائے وہ بعض دفعہ باقی سب لذتوں سے بے نیاز ہو جایا کرتا ہے.اس لئے بڑی حکمت کے ساتھ رفتہ رفتہ آگے قدم بڑھانے پڑیں گے.یہ وہ لوگ ہیں جو آئندہ احمدیت کا مستقبل ہیں.ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر ضائع نہ کریں.ان کو غم اور دکھ کی نگاہ سے دیکھیں ، ان کو پیار کی نظر سے دیکھیں، ان کو اپنے ساتھ لگانے کی کوشش کریں.پھر وہ لوگ جو ان کو اڈے مہیا کرتے ہیں ان سے ملیں ان کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سمجھائیں ، ان کو بتائیں کہ تم یہ ٹھیک نہیں کر رہے.ان کے بگڑے ہوئے مزاجوں کی اصلاح کی طرف توجہ کر و بجائے اس کے کہ ان کے بگڑے ہوئے مزاجوں کو بدتر کرنے میں ان کی مدد کرو.پس یہ سارے امور ایسے ہیں جن کے متعلق مجھے یقین ہے کہ جماعت احمد یہ بنیادی طور پر صلاحیت رکھتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اس لئے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں خدا کی خاطر کرتے ہیں اور جب ہماری نیتیں خدا کی خاطر ہیں ہم واقعہ نیکی کو پنپتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس کو بڑھانا چاہتے ہیں، اس کو نشو و نما دینا چاہتے ہیں اور نیتیں ہماری صاف ہیں تو پھر دعا کے ذریعے حکمت کے ذریعے، صبر کے ذریعے اگر ہم آگے بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس کی ضروری توفیق ملے گی.میں نے بار بارر بوہ کے حوالے دئے ہیں اس وجہ سے کہ ربوہ کی دوری کی وجہ سے مجھے شدید فکر رہتی ہے کہ ربوہ میں کیا ہو رہا ہے.اس لئے کہ اگر چہ مرکز فی الحقیقت تو خلیفہ وقت کے ساتھ ہی گھومتا ہے لیکن جو انتظامیہ مرکز ہے وہ بہر حال ربوہ میں ہے.ربوہ کے اوپر اگر خدانخواستہ برائیوں نے حملہ کر دیا اور وہاں کی ہماری نوجوان نسلیں خراب ہوئیں تو اس کا ساری دنیا کی احمدی جماعتوں پر برا اثر پڑے

Page 744

خطبات طاہر جلدے 739 خطبه جمعه ۲۸ را کتوبر ۱۹۸۸ء گا.اس لئے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے یہ مقام خاص طور پر بار بار میں نے اس کا ذکر اس لئے کیا مگر یہ مراد نہیں ہے کہ انگلستان کی جماعت ان برائیوں سے محفوظ ہے یا جرمنی کی جماعت ان برائیوں سے محفوظ ہے یا امریکہ کی جماعت ان برائیوں سے محفوظ ہے.وہاں یہ برائیاں جتنی ربوہ میں پائی جاتی ہیں اس سے زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن اگر ربوہ والی برائیاں صرف یہاں پائی جائیں تو آپ کو برائی دکھائی نہیں دے گی کیونکہ آپ دوسرے معاشرے میں رہ رہے ہیں.یہاں آپ سمجھیں گے بڑے شریف نوجوان ہیں وہ صرف گانے سنے باہر نہیں نکلتا، ڈانس کرنے نہیں جاتا ،شراب نہیں پیتا وہ اور کئی قسم کے بد کام نہیں کر رہا، ڈرگ کا عادی نہیں ہے.تو آپ تو اس کو ایک بڑا متقی اور بزرگ سمجھ رہے ہوں گے جس بیچارے کو وہاں نہایت ہی ذلیل اور رسوا اور گندہ انسان سمجھا جاتا ہے.تو معاشرے کے فرق کے ساتھ برائیوں کے تصور بھی بدل جاتے ہیں آپ کو اور قسم کے خطرات ہیں ، امریکہ کو اور قسم کے خطرات ہیں.ہر ملک میں یہ خطرات بہر حال ہیں.پس ساری دنیا کی جماعتوں کی انتظامیہ کو ان خطرات کا تجزیہ کر کے حسب حال مناسب کاروائیوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ان سارے امور کے ساتھ دعا کو ہمیشہ یاد رکھیں میں پھر بھی یاد کراؤں گا خصوصیت سے اس کا ذکر آخر یہ کروں گا لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہماری کوئی کوشش بھی برکت حاصل نہیں کر سکتی جب تک دعا کے ذریعے ہم ان کوششوں کو سیراب نہ کریں.ہماری کوششیں شجرہ طیبہ ہیں اور ہر درخت پانی کا محتاج ہوا کرتا ہے.شجرہ طیبہ خصوصیت کے ساتھ آسمانی پانی کا محتاج ہوتا ہے جو دعا کے ذریعے میسر آیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس عظیم جدوجہد کا ہم حق ادا کر سکیں.ابھی ہمیں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے میں آئندہ خطبہ میں تو نہیں اگلے آئندہ خطبہ میں تو تحریک جدید کا ذکر ہو گا خصوصیت کے ساتھ اس کے بعد انشاء اللہ حسب توفیق اس مضمون کو آگے بڑھا کر آپ کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ اگلی صدی جس میں ہم نے داخل ہونا ہے اس میں دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اور کام ہم نے بہت زیادہ کرنے ہیں.بہت سی ایسی برائیاں ہیں جو ابھی تک ہمارے ساتھ چھٹی ہوئی ہیں، ان کو جسم سے اتار پھینکے بغیر ، اپنے آپ کو ہلکا کئے بغیر ، صاف ستھرا اور پاکیزہ بنائے بغیر اگر ہم اگلی صدی میں داخل ہوں گے تو پھر اگلی صدی کے پر لے کنارے پر جو برائیاں ظاہر ہوں گی آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کا کیا حال ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ اس عظیم کام کا حق ادا کر سکیں.

Page 745

خطبات طاہر جلدے 740 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۸ء نمازیں جمع ہوں گی اور جب تک سردیوں کے اوقات ہیں جن میں جمعہ کے وقت کا اختتام عصر سے مل جاتا ہے اس وقت تک جمعہ کے ساتھ حسب سابق نماز عصر جمع ہوا کرے گی بار بار اس کے اعلان کی ضرورت نہیں.جب یہ سلسلہ ختم ہوگا پھر میں دوبارہ اعلان کر دوں گا کہ اب عصر کی نماز آئندہ سے جمعہ سے الگ ہوا کرے گی.

Page 746

خطبات طاہر جلدے 741 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان.دفتر اول کے کھاتوں کو زندہ رکھیں اور چندہ دہندگان میں اضافہ کریں.اسیران کے لئے دعا کا خصوصی ایک دن ( خطبه جمعه فرموده ۴ نومبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.آج نومبر کی چار تاریخ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر سال تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز ہوا کرتا ہے.اس نسبت سے یا تو اکتوبر کے آخری جمعہ میں یا نومبر کے پہلے جمعہ میں تحریک جدید کے آئندہ سال کا باقاعدہ رسمی طور پر آغاز کا اعلان کیا جاتا ہے.تحریک جدید کو قائم ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ۵۴ سال گزر چکے ہیں اور ۵۵ ویں سال کے آغاز کا اعلان کیا جائے گا.جو دفتر یعنی جو پہلے چندہ دہندگان تحریک جدید میں شامل ہوئے ان کی فہرست کا نام دفتر اول ہے اور آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دفتر اول کے بہت سے چندہ دہندگان زندہ موجود ہیں اور باقاعدہ اپنے چندے کو مسلسل آگے بڑھاتے چلے جارہے ہیں.ایک تعدادان میں ایسی تھی جو فوت ہوگئی اور سال بہ سال طبعی بات ہے کہ اس دفتر میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن چونکہ میں نے تحریک کی تھی کہ جہاں تک ممکن ہو دفتر اول کے مجاہدین کا نام ہمیشہ زندہ رکھا جائے.اس لئے ہر سال اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس دفتر کی تعداد میں بھی ایک دفعہ گرنے کے باوجود اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے.یعنی کل اصل تعداد میں تو اضافہ ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ دفتر تقریباً دس سال کے بعد ان معنوں میں بند کر دیا گیا تھا کہ اب اس دفتر

Page 747

خطبات طاہر جلدے 742 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء میں مزید کوئی چندہ دہندہ شامل نہیں ہوگا بلکہ دفتر دوم کی فہرست میں وہ نام لکھے جائیں گے جواس پاکیزہ مبارک تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں.تو دفتر دوم چونکہ دفتر اول کے دس سال کے بعد قائم کیا گیا اس کو اب پینتالیس (۴۵) واں سال ہے.یہ بات میں اس لئے کھول کر سمجھا رہا ہوں کہ اس کے بعد میں جماعت کو ایک امر کی یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں.بہر حال اس پہلے دس سال میں جتنے بھی سعید بخت احمدیوں کو توفیق ملی کہ وہ اس تاریخی اور عظیم تحریک میں شامل ہو سکیں ان کے بعد دوبارہ اس میں نئے نام کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور مسلسل وہی فہرست ہے جو آج تک چلی آ رہی ہے اور وہی لوگ ہیں کہ جن میں سے جو زندہ ہیں وہ اب بھی چندہ دے رہے ہیں.تو میں نے گزشتہ چند سال پہلے یہ تحریک کی تھی کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی قربانیاں حیرت انگیز اور نہایت عظیم الشان ہیں باوجود اس کے کہ ان دنوں روپوں کے لحاظ سے ان کے چندے کی کل مقدار آج کل کے چندے کی مقدار کے مقابل پر کچھ بھی نہیں تھی لیکن جہاں تک خلوص کا تعلق ہے، جہاں تک تقویٰ کے ساتھ خدا کے حضور کچھ پیش کرنے کا تعلق ہے، جہاں تک آمد کے تناسب سے قربانی کا تعلق ہے ان لوگوں نے عظیم الشان قربانیاں دیں اور اس عظیم الشان قربانی میں بالا رادہ بھی شامل ہوئے اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ غیر ارادی طور پر اس عظیم الشان قربانی میں شامل ہوئے اور پھر اس کو نبھاتے چلے گئے.غیر ارادی طور پر اس طرح کہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک فرمائی ۱۹۳۴ء میں تو اس وقت بہت سے سنے والوں نے یہ سمجھا کہ یہ صرف ایک سال کے لئے تحریک ہے.چنانچہ انہوں نے اس خیال سے اپنی سالانہ طاقت سے بہت بڑھ کر اس میں حصہ لے لیا اور خیال یہ کیا کہ کچھ قرض اٹھا لیں گے ایسی تحریکات روز روز تو نہیں ہوا کرتیں.چنانچہ انہوں نے اس اندازے کے مطابق زیادہ دیتے ہیں اور باقی قرضے بعد میں پورے کرتے رہیں گے اپنی سالانہ تو فیق کے مقابل پر بہت زیادہ قربانی میں حصہ لے لیا.کچھ مہینوں کے بعد جب حضرت مصلح موعودؓ سے وضاحت کروائی گئی تو ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس نے پیچھے قدم اٹھایا ہو.بلا استثناء ہر ایک نے یہ عہد کیا کہ جو خدا سے میں ایک دفعہ وعدہ کر چکا ہوں اس سے پیچھے قدم نہیں اٹھانا ہمارا کامل تو کل اپنے رب پر ہے اور وہی ہمیں وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرما تا رہے گا.چنانچہ اس لحاظ سے ان کے تو کل کو خدا نے سچا کر دکھایا اور نہ صرف یہ کہ وہ پیچھے نہیں ہے بلکہ تا دم واپسیں جو ان میں سے فوت

Page 748

خطبات طاہر جلدے 743 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء ہوئے آخر وقت تک کامل وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھاتے رہے.ان دنوں جماعت کے اقتصادی حالات بہت ہی نا گفتہ بہ تھے اور قادیان کی تو بھاری اکثریت غرباء اور درویشوں پر مشتمل تھی.ایسے حالات تھے کہ جماعت کو بعض دفعہ مہینوں انجمن کے ملازموں کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں ملتے تھے، بعض دفعہ حضرت مصلح موعود قرض اٹھا کر ان کو تنخواہیں دیا کرتے تھے تنخواہیں تو کہنا درست نہیں جو بھی معمولی گزارے مقرر تھے اور یا بعض دفعہ کئی کئی مہینے یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ آپ حسب توفیق اپنے طور پر قرضے اٹھا لیں اور جب جماعت کو توفیق ملے گی آپ کو آپ کے گزارے دے دیئے جائیں گے.ان حالات میں جب اس قربانی کو دیکھتے ہیں تو اس کی عظمت اور بھی زیادہ نمایاں ہو کر دکھائی دینے لگتی ہے.پھر اس دفتر کی ایک عظمت ایسی ہے جو پھر دوبارہ کبھی کسی دفتر کونصیب نہیں ہو سکتی یعنی اس میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شامل تھی اور ان صحابہ میں سے اب صرف گنتی کے رہ گئے ہیں جو دفتر اول میں شامل تھے.پس اس دفتر نے تو لازماً رفتہ رفتہ تاریخ کی یادیں بن جانا تھا اور گزرے ہوئے وقتوں کی کہانی ہو جانا تھا.اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ جہاں تک بھی جماعت کو تو فیق ہو کھود کر ، کرید کرید کر ان لوگوں کے متعلق معلوم کریں کہ ان کی اولادیں کہاں ہیں.کون ان کے عزیز ہیں جو براہ راست اولاد نہ بھی ہوں تو اب ان رفتگان کے کئے ہوئے وعدوں کو دوبارہ از سر نو پیش کریں اور یہ عہد کریں کہ وہ انشاء اللہ اور بعد میں ان کی نسلیں بھی ان کے وعدوں میں اضافہ کرتی چلی جائیں گی اور اضافہ کے ساتھ جماعت کو پیش کرتی چلی جائیں گی.اس لحاظ سے یہ دفتر ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ ہو سکتا ہے.چنانچہ اس اعلان کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی حد تک جماعت کو توفیق ملی اور ہر سال اس دفتر میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے.لیکن جو خاص بات میں آپ کے سامنے آج رکھنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ سارے کھاتے اگر زندہ نہیں ہوئے تو اس میں جماعت کا کوئی قصور نہیں ہے.تحریک جدید جس کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا انہوں نے پوری ہوش مندی سے یہ کام نہیں کیا.بار بار دفتر مال کو میں نے نصیحت کی سمجھایا کہ اس طریق پر کام کریں لیکن پھر یہی جواب آتا تھا کہ جی پتا نہیں لگ رہا کہ کون کہاں ہے.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے جتنے نام تلاش ہو سکے ہیں ان پرنشان ڈالیں اور ساری کتاب مجھے بھجوائیں اور میں خود اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں کہ کس طرح ان بزرگوں کو تلاش

Page 749

خطبات طاہر جلدے 744 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء کیا جائے اور ان کی اولادوں کے ساتھ ان کا تعلق قائم کیا جائے.چنانچہ ایک دن جب میں نے سرسری نظر سے اس کا جائزہ لینا شروع کیا تو حیرت ہوئی کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر محض اپنی یادداشت سے ہی کام لیتے یعنی کلرکوں کے سپر د کام نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ بس اجماعت کو چھٹی لکھ دو جس جماعت میں کوئی ہے اور پھر دیکھو کیا جواب آتا ہے بلکہ ہوش مندی سے اس فہرست کا مطالعہ کر لیتے تو وہ نسل جو قادیان کی پروردہ ہے اس نسل کے ذہن میں بہت سی یادیں محفوظ ہیں اور با آسانی وہ یادیں دوبارہ تازہ ہو سکتی ہیں.چنانچہ جب میں نے دیکھا، میں نے جب نظر ڈالی مثلاً کینیا دیکھا، یوگنڈا دیکھا، افریقہ کے دوسرے ممالک دیکھے تو بہت سے مجھے یاد تھے ان کی اولادیں کیفیا چھوڑ کر امریکہ چلی گئی ہیں، کوئی کینیڈا جا کر آباد ہو گیا ہے اسی طرح کچھ لوگ پاکستان چلے گئے اور اچھے بھلے معروف لوگ ہیں.اسی طرح قادیان میں بہت سے ایسے تھے جو وہاں سے ہجرت کر کے افریقہ چلے گئے تھے یا افریقہ چھوڑ کر کسی اور ملک میں چلے گئے.تو محض ایک سرسری جائزہ بھی اگر لے لیا جاتا اور افسران متعلقہ جن کو قادیان میں پرورش پانے کی سعادت ملی ہوئی ہے وہ اکٹھے بیٹھ کر یا الگ الگ غور کرتے تو بہت بھاری تناسب ایسا تھا ان فہرستوں میں سے، ناموں میں سے بھاری تعداد میں ایسے افراد تھے جن کو از سر نو دریافت کر لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا اور ان کی اولادوں کے متعلق بھی معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا.ان اولادوں پر جب ان کے نام پر میں نے سرسری نظر ڈالی تو پتا چلا کہ خدا کے فضل سے بہت اچھے حال میں ہیں اکثر بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جن کا مجھے علم تھا وہ سارے ہی خدا کے فضل سے غیر معمولی دنیاوی لحاظ سے یا غیر معمولی طور پر خوشحال تھے یعنی لکھ پتی نہ سہی مگر خوشحال لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور ہوسکتا ہے بلکہ مجھے تو یقین ہے کہ جماعت کے اولین قربانی کرنے والوں کی قربانی کا صلہ ہے جو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی ان کو دے رہا ہے کہ ان کی اولادوں کے اموال میں برکت ڈال رہا ہے.اس لحاظ سے تو ان پر دوہرا فرض عائد ہوتا ہے اور فرض کا سوال نہیں ان کو یہ پتا لگ جائے کہ کن بزرگوں کی یادوں کو ہم نے زندہ کرنا ہے کن کی نیکیوں کو ہم نے زندہ کرنا ہے.اب اس رنگ میں ہم دفتر اول میں شمولیت کا بھی ایک رستہ پا سکتے ہیں.تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ فوری طور پر سعادت سمجھتے ہوئے اس تحریک میں شامل نہ ہوں.چنانچہ چوہدری حمید اللہ صاحب جو وکیل اعلیٰ ہیں وہ چونکہ یہاں موجود تھے ان کو میں نے خود

Page 750

خطبات طاہر جلدے 745 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء یہ معاملہ سمجھا دیا.میں نے کہا اب آپ ایک موقع اور لینا چاہتے ہیں یا میرے سپر د کرنا چاہتے ہیں کہ میں خود سنبھال لوں.تو انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے وکیل اعلیٰ ہونے کے لحاظ سے میری ذمہ داری تھی مگر میں اب عہد کرتا ہوں کہ واپس جا کر پوری ہوشمندی کے ساتھ جس حد تک ممکن ہے ایک سال کے اندر اندر ان سب بظاہر گمشدہ بزرگوں کو دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کروں گا اور جو بقیہ نام رہ جائیں گے وہ ہم آپ کو بھیج دیں گے تاکہ اپنے طور پر آپ نے جو کوشش کرنی ہے کریں.تو اس پہلو سے میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے ایک بڑی تعداد، بہت بھاری تعداد ان میں سے ایسی ہوگی جن کا چندہ دائمی ہو جائے گا اور میں نے تحریک جدید کو یہ بھی کہا تھا کہ جب اس کام سے آپ فارغ ہو جائیں تو پھر وہ ایسے تمام افراد جن کے متعلق سب کوششوں کے باوجود ہم معلوم نہیں کر سکتے وہ کہاں ہیں ان کے متعلق میں وعدہ کرتا ہوں کے انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق ان کے چندوں کو زندہ رکھنے اور جہاں تک خدا تعالیٰ نے زندگی عطا فرمائی اس وقت تک اس عہد کو نبھانے کی کوشش کروں گا.تو اس لحاظ سے میں امید رکھتا ہوں کہ سوائے ان چند لوگوں کے جو بعض ابتلاؤں کا شکار ہو گئے اور جماعت سے ہٹ گئے باقی سب کے کھاتے ہمیشہ کے لئے دوام پکڑ جائیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ تا ابد زندہ رہیں گے.دفتر اول کے بعد دفتر دوم کو پینتالیس (۴۵) واں سال ہے اور دفتر سوم کو چوبیس (۲۴) واں سال ہے اور چہارم جو چوتھا سال ہے اس کے آغاز کو صرف چار سال ہوئے ہیں.دوسرا پہلو خاص قابل توجہ یہ ہے کہ جماعت کو میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ صرف چندے کو بڑھانا ہمارا مقصد نہیں بلکہ چندہ دینے والوں کی تعداد کو بڑھانا اولیت رکھتا ہے.جہاں تک جماعت کی ضرورتوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام بڑھتی ہوئی ضرورتیں خود بخود پوری ہوتی چلی جارہی ہیں.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہماری کام کی توفیق کے ساتھ خدا تعالیٰ خرچ بھی مہیا کرتا جاتا ہے یعنی ضرورت تو یہ ہے کہ ساری دنیا میں ہر جگہ ہم فوری طور پر با قاعدہ مساجد قائم کریں، مشنز قائم کریں اور تبلیغ کا کام شروع کریں اور سارے عالم کا کام سنبھال لیں.یہ ضرورت تو بہر حال ہمیشہ کے لئے ہے لیکن آپ سوچیں گے کہ یہ ضرورت تو پوری نہیں ہو رہی.میں جب کہتا ہوں کہ خدا ضروتوں کو پورا کرنے کا کفیل ہے اور کبھی بھی اس نے خالی ہاتھ نہیں چھوڑا تو میری مراد یہ ہے کہ ہماری

Page 751

خطبات طاہر جلدے 746 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء ضرورتوں کو ہمارے کام کرنے کی توفیق سے ایک نسبت ہے.جتنے جتنے مخلصین کام کرنے کے لئے مہیا ہوتے چلے جاتے ہیں ان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسی ضرورتیں سامنے آجاتی ہیں جن میں وہ خدمت سرانجام دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ پھر روپے کی ضرورت پیش آتی ہے.ایسی ساری ضرورتیں لازماً خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے پوری ہوتی ہیں.کبھی بھی خلیفہ وقت خالی ہاتھ ہو کر نہیں بیٹھ سکتا کہ یہ ضرورت سامنے آئی ہے اس کے لئے خدمت گار بھی موجود ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس لئے میرا کامل ایمان ہے اور میرا تجربہ ہے اس تجربہ کی روشنی میں میں سمجھتا ہوں کہ میرا ایمان بالکل درست اور سچا ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے کام کی توفیق بڑھائے خدا تعالیٰ اسے پورا کرنے کے لئے ذرائع ضرور مہیا فرمائے گا.لیکن کام کی تو فیق بڑھانے کے لئے اخلاص کی تو فیق بڑھانی چاہئے اور مخلصین کی تعداد بڑھانی چاہئے.اس لئے تحریک جدید کا چندہ ہو یا دوسرے چندے ہوں ہمیں زیادہ زور اس بات پر دینا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ چندہ دہندگان کی تعداد بڑھتی رہے کیونکہ مجھے یقین بھی ہے اور تجربہ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جولوگ خدا کی راہ میں مالی قربانی میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں دو باتیں ان کے ساتھ پیش آتی ہیں.ایک تو یہ کہ ان کے اندر خدمت کا جذ بہ بھی بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں بھی برکت دیتا ہے اور ان کے رزق میں بھی برکت دیتا ہے.تو یہ قطعی اور یقینی چیز ہے اس میں کسی اندازے اور تخمینے کی بات نہیں ہے.اس لئے جماعت نے اگر ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور کام بہت زیادہ ہیں تو یہی ایک طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مخلصین کی تعداد بڑھا کر پیش کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں کام کی نئی نئی راہیں بھی آپ پر کھولتا چلا جائے گا اور ان راہوں پر چلنے کی تو فیق بھی خود عطا فرما تارہے گا.ارِنَا مَنَاسِكَنَا ( البقرہ:۱۲۹) کی ایک دعا قرآن کریم میں درج ہے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا سے عرض کیا کہ اے خدا! مجھے میری قربان گاہیں دکھا ، وہ طریق بتا جس سے میں قربانیاں پیش کروں.اس کا حقیقی معنوں میں مفہوم اس شخص پر ظاہر ہوتا ہے جو قربان گاہوں کی تلاش میں آگے بڑھتا ہے اور پھر معلوم کرتا ہے کہ خدا کی توفیق کے بغیر قربان گاہیں بھی نصیب نہیں ہوا کرتیں.اس نسبت سے جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ فہم عطا فرمایا ہے جو حقیقی عرفان ہے کہ قربان گاہوں کو بڑھانے کے لئے دعا مانگنے کا مطلب کیا ہے.جوں جوں آپ یہ دعا کریں گے اور اخلاص

Page 752

خطبات طاہر جلدے 747 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء کے ساتھ آپ اس راہ میں قدم آگے بڑھائیں گے خدا تعالیٰ نئے کام آپ کے سامنے پیش کرتا چلا جائے گا اور دعا کے بغیر ان نئے کاموں کو سرانجام دینے کی توفیق نہیں مل سکتی.پس یہ وجہ ہے کہ میں ہمیشہ زور دیتا ہوں کہ چندہ دہندگان کی تعداد میں اضافہ کریں.شروع میں وہ بے شرح سہی ، خواہ اپنی توفیق کے مقابل پر سوواں حصہ بھی ادا کر رہے ہوں لیکن فور اہر نئے شامل ہونے والے کو یا ہر نئے کمانے والے کو جماعت کے چندوں کے نظام میں شامل کرنا چاہئے اور اسی اصول کے تابع تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے.اگر چہ ہر سال خدا کے فضل سے یہ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے لیکن جماعت کی تعداد کے مقابل پر ابھی بہت کمی ہے اور یہ کمی زیادہ تر پاکستان کے بعض اضلاع میں جو پرانے اضلاع ہیں جہاں جماعتیں بھاری تعداد میں موجود ہیں لیکن تربیت کی کمی رہ گئی ہے اور افریقہ کے ممالک میں ہے اور انڈونیشیا میں بھی ابھی کافی کمی ہے باوجود اس کے کہ وہ گزشتہ چند سال سے نسبتاً تیز قدموں سے آگے بڑھ رہے ہیں.جہاں تک افریقہ کے حالات کا تعلق ہے کچھ ان کی ایسی مجبوریاں ہیں جس کے پیش نظر ہم ان کو کچھ دیر کے لئے یہ سہولت دے سکتے ہیں کہ آپ رفتہ رفتہ کچھ تھوڑا تھوڑا قدم آگے بڑھائیں اور آپ سے ہمیں تیز آگے بڑھنے کی توقع نہیں ہے.وجہ یہ ہے کہ افریقہ اس وقت بالعموم شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے اور جہاں جماعتیں بہت کثرت سے ہیں وہاں اس بحران کے نتیجے میں صرف یہ تکلیف دہ بات سامنے نہیں آ رہی کہ احمدی انفرادی طور پر غریب ہیں بلکہ انتظامیہ کو افراد سے تعلق قائم کرنے کی راہ میں بے حد دقتیں ہیں.یعنی یہاں تو آپ نے چندے کی تحریک کی اور ٹیلی فون کے ذریعے اسی دن ساری جماعت کو آپ نے مطلع کر دیا.وہاں ٹیلی فون کا تو خیر سوال نہیں خط لکھ کر اطلاع دینے میں بھی بعض دفعہ مہینوں لگ جاتے ہیں اور سفر اختیار کرنا بہت ہی دقت طلب ہے.سڑکیں خراب اور جو سواریاں ہیں وہ نا قابل اعتماد بعض دفعہ مہینوں پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے با قاعدہ چلنے والی جو مسافر بسیں ہیں وہ بھی نہیں چلتیں.ٹرک کھڑے رہ جاتے ہیں سامان لے کر ان کو جانے کے لئے توفیق نہیں ملتی.دشوار گزار راستے جو دن بدن خراب ہوتے چلے جارہے ہیں.بہت ہی بدحالی کی کیفیت ہے.اس لئے باوجود اس کے کہ ملک کی انتظامیہ مخلص بھی ہے، وہ چاہتی بھی ہے کہ ہر آواز پر لبیک کہے لیکن رابطے کی مجبوریاں ایسی ہیں کہ وہ آواز ہی نہیں پوری طرح پہنچا سکتے آگے سے

Page 753

خطبات طاہر جلدے 748 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء کیا اس کے جواب میں اگر لبیک کی آواز آئے بھی تو وہ بھی دو تین مہینے کے بعد سنائی دے گی اور ایسے حالات میں طبعا انسان غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور خصوصاً اگر غریب ملک ہو تو اس غریب ملک میں یہ کمی Communications یعنی رابطہ کی کمزوری اور بھی زیادہ بدنتائج ظاہر کرتی ہے.تو بھاری تعداد افریقہ میں بسنے والے احمدیوں کی ایسی ہے جو بہت بھاری تعداد ہے جو اس تحریک جدید کے نظام میں شامل نہیں ہو سکی اور ان کو جب کہا بھی جائے تو نرمی سے کہنا پڑتا ہے کیونکہ بعض تو ایسے ہیں جوز کوۃ کے مستحق ہیں.جو ز کوۃ کے مستحق ہیں وہ بیچارے تو عام چندہ بھی نہیں دے سکتے کجا یہ کہ ان سے طوعی چندے وصول کئے جائیں.تو ہم پوری کوشش تو کر رہے ہیں کہ اقتصادی بہتری کے لئے بھی کچھ پروگرام جاری کریں اور یہاں انگلستان میں چوہدری انور احمد صاحب کا بہلوں کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو افریقہ کو اقتصادی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے تجاویز پر غور کرتی ہے اور ان سے میں نے کہا ہے کہ ان تجاویز پر عمل درآمد بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے.اس میں کچھ تجربہ کار بینکرز کچھ تاجر اس قسم کے لوگ شامل ہیں اور یہ وسیع مشوروں کے بعد بعض اقدامات تجویز کرتے ہیں لیکن یہ چیزیں ایسی ہیں جو بہت لمبا وقت چاہتی ہیں اور بہت سے سوالات ایسے تیار کر کے افریقہ کے ممالک میں بھیجتے ہیں جن کا جواب آنے میں ہی مہینوں لگ جاتے ہیں.وہی کمزوری ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں.پھر بعض دوسری جماعتیں بھی ان کے سوالات کے جواب وقت پر نہیں دیتیں.تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے نتیجے میں ہماری رفتار پر برا اثر پڑتا ہے.ضمناً میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جب مرکز سے چٹھیاں جائیں تو اس سے قطع نظر کے میرے دستخط سے گئی ہیں یا کسی احمدی خادم سلسلہ کے دستخط سے گئی ہیں یا میرے علاوہ کسی اور خادم سلسلہ کے دستخط سے گئی ہیں اس کا فوری جواب دینا چاہئے کیونکہ فوری جواب دینے میں روح یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے پیغام کا جواب دے رہے ہیں.وہ پیغام دینے والا خواہ معمولی کپڑوں میں ملبوس ڈا کیا ہو یا رجسٹر خط پہنچانے والا کلرک ہو اس کو تو آپ نہیں دیکھا کرتے یہ دیکھا کرتے ہیں کہ خط اصل میں کس کی طرف سے آیا ہے پیغام اصل میں کس کا ہے.تو دینی الہی جماعتوں میں سب پیغام خدا کی طرف سے آتے ہیں.جو پہنچانے والا ہے اس

Page 754

خطبات طاہر جلدے 749 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء کی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی ہے.نہ میری کوئی حیثیت ہے نہ دوسرے کارکنان کی کوئی ہے.پیغام میں برکت بھی اسی وقت پڑے گی جب آپ سامنے نظر آنے والے شخص کی بجائے اس کے پیچھے کھڑی ہونے والی طاقت پر نظر رکھیں گے اور اس احترام کے ساتھ پیغام کو دیکھا کریں گے کہ دراصل اللہ کے لئے ہے اور اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اس پیغام کی جو نیک کاموں پر مشتمل ہے بنیاد کلام الہی میں ہے، قرآن کریم میں ہے.اس پہلو سے جب آپ اس پر نظر ڈالیں گے تو آپ کے اندر غیر معمولی مستعدی پیدا ہو جائے گی کیونکہ دنیا میں تو اس کا بہت فرق پڑتا ہے.بعض ہمارے دفتر کے افسران شکایت کرتے ہیں کہ جی ہم نے اتنی چٹھیاں لکھیں کوئی جواب نہیں آیا.جب میں اپنے دستخط سے چٹھی بھیجتا ہوں تو فور جواب آتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اثر پڑتا ہے لیکن ان کی نظر مجھ تک آکے ٹھہر گئی ہے.حالانکہ اتنی سی بات تو غالب کو بھی سمجھ آگئی تھی کہ : ہے پرے سرحد ادراک سے، اپنا مسجود قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں (دیوان غالب صفحہ ۱۴۶) کہ تصورات کی جو حدیں ہیں ان سے بھی بہت پرے ہمارا معبود و مسجود ہے.جواہل بصیرت لوگ ہیں جو معاملات کا عرفان رکھنے والے ہیں وہ قبلے کو قبلہ نما کہا کرتے ہیں اور جو کم نظر لوگ ہیں وہ قبلہ نما کو قبلہ نما سمجھتے ہیں.قبلہ نماوہ پرندہ نما ایک کاغذی یا کسی اور ہلکے مادے کی بنی ہوئی چیز ہوا کرتی ہے جو ہوا کا رخ بتایا کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ اگر وہ سورج کے تعلق کو قائم کر کے اس کا رخ قبلے کی طرف معین کر دیا جائے تو اس وقت در حقیقت قبلہ نما کہلاتی ہے.وہی چیز ہے جو ہوا کا رخ ماپنے کے لئے لوگ دیکھتے ہیں اگر اس کو باقاعدہ اندازے لگا کر قبلہ کی طرف رخ کر کے Fix کر دیا جائے تو اس وقت وہ صحیح معنوں میں قبلہ نما بنتا ہے.تو غالب کے نزدیک قبلہ نماوہ نہیں ہے قبلہ نما تو قبلہ ہے کیونکہ قبلہ سے ہمیں خدا دکھائی دیتا ہے اور قبلہ نما اپنی ذات میں مقصود نہیں ہے.پس دنیا میں خدمت دین کرنے والے قبلہ نہیں ہیں وہ قبلہ نما ہیں.اس پہلو کے اوپر جب آپ نظر رکھتے ہیں تو ہر قبلہ نما ایک ہی جیسا ہو جاتا ہے.اس پہلو سے ایک جیسا ہو جاتا ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے اگر اس کا انحصار قرآن پر اور آنحضرت ﷺ کے کلام پر ہے تو بات اسی طرح مانی جائے گی جس طرح کوئی اور شخص اس بات کو کہے.یہی وہ دراصل عرفان کا نقطہ ہے جو قرآن کریم ان الفاظ میں ہمیں سمجھاتا ہے کہ صلى الله

Page 755

خطبات طاہر جلدے 750 خطبه جمعه ۴ رنومبر ۱۹۸۸ء لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ (البقره: ۲۸۲) ایک پہلو سے تو رسولوں میں بے شمار فرق ہے.ان کے سب سے آخری مقام پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ خاتم النبیین فائز ہیں اور دوسری طرف خدا فرماتا ہے مومنوں کے دل کی آواز یہ ہے لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ کہ ہم خدا کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے.وہی قبلہ نمائی کا مضمون ہے جو اس میں بیان فرمایا گیا ہے.یہ مطلع کیا گیا ہے کہ پیغمبر خواہ ادنی ہو یا اعلیٰ ہو، افضل ہو یا کمتر ہو جب وہ خدا کے نام پر آواز بلند کرتا ہے تو مومن کے دل سے اس کے سوا کوئی آواز نہیں اٹھتی کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِم کیونکہ خدا کے رسول کا پیغام ہے خواہ رسول کیسی ہی حیثیت کا ہے.ہم اس آواز میں قطعا کوئی فرق نہیں کریں گے ہر آواز پر لبیک کہیں گے.تو یہ بھی ضمنا مجھے آپ کو سمجھانے کی ضرورت پیش آئی کیونکہ میں نے محسوس کیا ہے ہے کہ رفتہ رفتہ یہ رجحان پھر بڑھ رہا ہے اس کو میں دباتا ہوں پھر یہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے آواز اٹھنے کے بعد جو خدا کی طرف سے یعنی کلام الہی پر بنی ہوا کرتی ہے اور فرمان محمد مصطفی ﷺ پرمبنی ہوا کرتی ہے اور ان کے دائرہ اختیار کے اندر رہتی ہے اس آواز کو آگے پہنچانے والے سارے اسی طرح سلوک کے مستحق ہیں جس طرح وہ شخص جس نے اس آواز کا آغاز کیا ہے آپ کے لئے اور اس میں آپ کو کوئی تفریق نہیں کرنی چاہئے.تو بہر حال دوسرا پیغام آج کے نئے سال کے لئے میرا یہ ہے کہ تعداد بڑھانے کی طرف مزید توجہ کریں.اس پہلو سے یہ ایک خوشی کی خبر ہے کہ جو سال اب ختم ہو رہا ہے اس میں ہماری تعداد یعنی تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہے.اس وقت میں معین طور پر نہیں کہہ سکتا کہ کتنی بڑھی ہے کیونکہ ایک لاکھ پانچ ہزار کی جو تعداد اس وقت میرے سامنے ہے اس میں بہت سے ممالک کی تعداد شامل نہیں ہے.یعنی آج صبح تک جتنی بھی اطلاعات ملی ہیں یہ ان کا مجموعہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کے اللہ کے فضل سے اس وقت تک اس سے بہت زیادہ نہ صیح لیکن تقریباً پندرہ بیس فیصد اس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے.تو اس پر مزید تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے اور گنجائش بہت ہے.گنجائش کا تو یہ حال ہے کہ بعض ضلع کے ضلع جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں یعنی پاکستان میں جہاں بارہا دوروں کی توفیق ملی ہے ، گاؤں گاؤں جانے کا موقع ملا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل

Page 756

خطبات طاہر جلدے 751 خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۸۸ء سے بعض دیہات پورے کے پورے احمدی ہیں اور بچے بڑے اکٹھے کر کے ہزار ہا کی تعداد میں ایک ایک گاؤں میں احمدی ہیں لیکن ان ضلعوں کا مجموعہ جو ہے وہ چند ہزار رتک پہنچ کر ٹھہر جاتا ہے.تو گنجائش تو بے انتہا ابھی موجود ہے.اس لئے اگر اس پہلو سے جماعتیں پھر ایک دفعہ کوشش کریں تو امید رکھتا ہوں کہ اس سال ہماری تعداد خدا کے فضل سے کافی بڑھ سکتی ہے.جہاں تک سال رواں کا سال گزشتہ سے موازنہ ہے یہ پچھلے سال کی ساری وصولی ہے.چار لاکھ اٹھائیس ہزار ایک سو انیس (4,28,119) پاؤنڈ بنتی ہے.جو ایک کروڑ چھتیس لاکھ نانوے ہزار آٹھ سو آٹھ (1,36,99,808) روپے ہے لیکن وعدہ تھا وہ چھ لاکھ انسٹھ ہزار کا تھا جس کا مطلب ہے کہ اگر وصولی پوری ہوتی تو دو کروڑ گیارہ لاکھ گیارہ ہزار چار سو چھپن (2,11,11,456) روپے ہوئی تھی.چونکہ ابھی بہت سی جماعتوں کو رپورٹیں آنی باقی ہیں اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ چار لاکھ اٹھائیس ہزار کے مقابل پر عملاً وصولی زیادہ ہوئی ہوگی اور یہ میچ نہیں ہے کہ یہاں آکر وصولی ٹھہر گئی لیکن جن جماعتوں کی رپورٹیں آئی ہیں ان پر میں نے تفصیل سے نظر ڈالی ہے ان میں بھی ابھی کمی باقی ہے اور بعض جماعتیں جن سے توقع تھی کہ وہ اپنا وعدہ بہر حال پورا کریں گی مثلاً انگلستان کی جماعت، مثلاً امریکہ کی جماعت.ان جماعتوں میں بھی ابھی کمی ہے.تو ان کے لئے آج پیغام یہ ہے کہ اپنی گزشتہ کمی کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں.معلوم ہوتا ہے تحریک جدید کا نظام چلانے والوں سے کچھ کوتاہی ہوئی ہے یا کوئی اور ایسی وجہ پیدا ہوئی ہے کہ جماعت بحیثیت جماعت اس طرف توجہ نہیں دے سکی.یا درکھیں کہ جو وعدے کئے جاتے ہیں ان کو پورا کرنا ایک اخلاقی ذمہ داری ہے اور جہاں تک مومن کا تعلق ہے یہ عام اخلاقی ذمہ داری سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور جہاں تک خدا سے کئے جانے والے وعدوں کا تعلق ہے اس میں اور بھی زیادہ تقدس پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے سوچ کر وعدے کیا کریں.ایک اندازہ لگا کر وعدہ کیا کریں اور پھر خدا تعالیٰ سے تو فیق مانگتے رہا کریں یعنی دعا کے ذریعے یہ توفیق مانگتے رہا کریں کہ آپ نے جو وعدہ کیا ہے کم سے کم اتنا پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر آپ یہ دعا کریں کہ اس وعدے کو بڑھا کر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تو یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ دعا آپ کے حق میں قبول ہو.تو اپنے ارادے بلند رکھیں تا کہ کم سے کم جو وعدہ

Page 757

خطبات طاہر جلدے 752 خطبه جمعه ۴ /نومبر ۱۹۸۸ء پورا کرنے کا معیار ہے اس سے تو نیچے نہ گر سکیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر توجہ دلائی جائے تو آسانی کے ساتھ یہ وعدے بھی پورے ہو سکتے ہیں.مثال کے طور پر میں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی جماعتیں ہیں جنہوں نے ماشاء اللہ قربانی میں بڑا نمایاں حصہ لیا ہے ان کے نام پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں.جہاں تک بیرون پاکستان جماعتوں کا تعلق ہے جرمنی صف اول میں پہلی ہے.جرمنی نے دو لاکھ اکتالیس ہزار سات سو (2,41,700) جرمن مارکس کا ۸۸-۸۷ء میں وعدہ کیا تھا جس کی کل مقدار پاؤنڈوں میں چھہتر ہزار ایک سوا کا نوے (76,191) بنیں گے.اس میں سے جو اطلاعیں ملی ہیں اس کے مطابق چوہتر ہزار (74,000) پاؤنڈ جرمنی کی جماعت ادا کر چکی ہے اور مجھے یہ خیال ہے کہ چونکہ اس تاریخ تک پوری اطلاعیں نہیں آیا کرتیں اس لئے بعید نہیں کہ جرمنی کی وصولی کی مقدار اس سے زیادہ ہو اور اصل سے آگے بڑھ چکے ہوں لیکن فی الحال میں تا وقت موصول ہونے والی اطلاعوں کے مطابق آپ کو صورتحال سے مطلع کر رہا ہوں.جرمنی کے بعد دوسرے نمبر پر خدا تعالیٰ کے فضل سے انگلستان ہے.انہوں نے چھہتر ہزار ایک سوا کانوے جرمنی کے وعدہ کے مقابل پر چوہتر ہزار (74,000) پاؤنڈ کا وعدہ کیا تھا مگر وصولی میں یہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور وصولی اکاون ہزار آٹھ سو بائیس (51,822) پاؤنڈ کی ہے.امریکہ تیسرے نمبر پر ہے.امریکہ کا وعدہ انسٹھ ہزار تین سو اٹھاسی کا تھا.ایک سو دس کو اگر موجودہ قیمت پر پاؤنڈ میں تبدیل کریں تو انسٹھ ہزار تین سو اٹھاسی (59,388) بنتے ہیں.اس کے مقابل پر ان کی وصولی سینتالیس ہزار سات سو چھبیس (47,726) پاؤنڈ ہے.گویا کہ وعدوں کے لحاظ سے بھی یہ تیسرے نمبر پر ہے اور وصولی کے تناسب کے لحاظ سے بھی تیسرے نمبر پر ہے.کینیڈا وعدوں کے لحاظ سے تو چوتھے نمبر پر ہے یعنی پینتیس ہزار ایک سو تیس (35,133) کا وعدہ تھا لیکن وصولی کے لحاظ سے خدا کے فضل سے اس وقت سو فیصد وصولی ہو چکی ہے اور یہ امتیاز مغربی دنیا میں سے کینیڈا کو بھی حاصل ہے اور اس کے علاوہ نسبتاً چھوٹے بعض وعدہ کرنے والوں کو بھی حاصل ہے.تو یہ چار بڑی جماعتیں ہیں مغربی دنیا کی جنہوں نے اللہ کے فضل سے تحریک جدید کا زیادہ تر بوجھ اٹھایا ہوا ہے اور بڑی ہمت اور کوشش سے آگے قدم بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں.کینیڈا چوتھا ہونے کے باوجود وصولی کے لحاظ سے نمبر ایک ہے.لیکن نسبتاً چھوٹے ممالک میں نمایاں طور پر آگے

Page 758

خطبات طاہر جلدے 753 خطبه جمعه ۴ /نومبر ۱۹۸۸ء قدم بڑھانے والوں میں ڈنمارک اور ناروے ہیں.انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق وعدے بھی بڑھائے اور وصولی سو فیصد سے زیادہ کی ہے.یہاں وصولی بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سارا سال باہر سے کچھ اور لوگ آکر جماعت میں شامل ہوتے رہے ہیں اور وہ نئے وعدوں میں شامل ہوتے رہے جسکا مطلب یہ ہے کہ جماعت نے بڑی مستعدی سے اس بات پر نظر رکھی ہے کہ جہاں کہیں جماعت میں اضافہ ہوا ہے وہاں اس کے ساتھ رابطہ کر کے اس کو چندوں کے نظام میں بھی شامل کیا جائے.بہر حال یہ ایک اعزاز ہے ان دونوں جماعتوں کا.ساؤتھ افریقہ کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اعزاز ہے کہ وعدوں سے زیادہ وصولی ہوئی.ایران کو بھی یہ اعزاز ہے لیکن ایک پہلو سے ان سب سے ایران فوقیت لے جاتا ہے.ایران میں آپ جانتے ہیں کہ حالات پچھلے چند سال سے بہت ہی زیادہ مخدوش تھے اور گزشتہ سال تو جب شہروں پر بمباری ہونی شروع ہوئی تو اس قدر افرا تفری کا عالم تھا کہ بہت سے ایرانی بھی وہ شہر چھوڑ گئے اور دیہاتوں میں منتقل ہوئے اور بہت سے باہر سے آکر بسنے والے احمدی ایران ہی چھوڑ کر واپس چلے گئے.اس پہلو سے ان کے سیکرٹری مال صاحب کو بہت تشویش تھی کہ یہ نہ ہو کہ ہم وعدہ بھی پورا نہ کر سکیں لیکن وہ خدا کے فضل سے ہمت والے ہیں دعا بھی کرتے رہے دعاؤں کی یاد دہانی بھی کراتے رہے اور محنت بھی بہت کی.چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک لاکھ اکتیس ہزار (1,31,000) ریال کے وعدہ کے مقابل پر اس وقت تک کی اطلاع کے مطابق ایک لاکھ ستاون ہزار چھ سو ساٹھ (1,57,660) ریال وصول کر چکے ہیں.جو اس چھوٹی سی جماعت کے لحاظ سے خدا کے فضل سے بہت ہی قابل قدر قربانی ہے.بحالی کھانہ جات میں جو خاص طور پر کام ہوا ہے ان باتوں کو محوظ رکھتے ہوئے ان کی روشنی میں کہہ رہا ہوں ویسے تو خاص طور پر کوئی کام نہیں ہوا مگر نسبت کے لحاظ سے جو خاص طور پر کام ہوا ہے پاکستان میں دو سو چونتیس کھاتے بحال کئے گئے ہیں اور بیرونی دنیا میں صرف کینیڈا کو یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے کھاتے بحال کرنے کی طرف توجہ کی اور پچھپیں کھاتے بحال کئے ہیں.اس ضمن میں ایک تو یہ طریق ہے کہ مرکز سے جو آپ کو اطلاع ملتی ہے کہ ان ان ناموں کو تلاش کریں اس پر غور کریں اور کوئی کمیٹی بٹھائی جائے جو نسبتا معمر لوگوں کی ہو جو کچھ نہ کچھ پرانے لوگوں کو جانتے ہوں اور مختلف

Page 759

خطبات طاہر جلدے 754 خطبه جمعه ۴ /نومبر ۱۹۸۸ء ممالک سے تعلق رکھنے والے ہوں.ایک تو یہ طریق ہے اس پر آپ غور کریں.دوسرا یہ ہے کہ اگر جماعتیں اس بات کو سرکلر کریں کہ تمام خاندانوں کے مطلع کر دیا جائے کہ آپ کے خاندانوں میں کچھ بزرگ ایسے ضرور ہوں گے جن کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ تحریک جدید کے ممبر نہیں تھے.تو آپ کو اگر خواہش ہے کہ پتا کریں تو ان بزرگوں کے نام پتے ، کہاں کہاں رہے ہیں وہ.مثلاً بعض دفعہ یہ ہوا ہے کہ کچھ دیر یوگنڈار ہے پھر کینیا چلے گئے، پھر کسی اور ملک روانہ ہو گئے یا انگلستان یا پھر پاکستان آ گئے.مختلف ملکوں میں پھرنے والے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے ایڈریسز (Adresses) آخری کتاب میں جو موجود ہیں ہمیں پتا نہیں کہ وہ کس وقت کے ہیں.بعض ایسے نکلے ہیں جو آغاز میں قادیان میں چندہ دینے والے تھے اور ان کا قادیان ہی کا پتا رہا ہے حالانکہ اس عرصے میں وہ نقل مکانی کرتے ہوئے کئی ملک تبدیل کر چکے ہیں.بعض ایسے ہیں جن کا پتا ہی بعد کا ہے یعنی کسی وقت کسی نے ٹھیک کرا دیا ہو گا تو وہ بعد کا پتا درج ہو گیا.تو اس پہلو سے اگر ان سے یہ درخواست کی جائے یا عام اعلان بار بار کیا جائے تو اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خاندان کے بزرگوں کے نام اس دفتر اول کی نسبت سے ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں تو آپ ہمیں بتا ئیں وہ بزرگ کہاں کہاں تھے ، کیا کیا کرتے تھے، کس کس جگہ گئے.پھر آسان ہو جائے گا وہاں کی فہرست میں جہاں جہاں وہ گئے ہیں ان کے نام تلاش کریں آپ کو کہیں نہ کہیں وہ نظر آجائیں گے انشاءاللہ.تو بہر حال اگر پوری کوشش کریں تو ایک سال کے اندراندر بہت بڑا کام ہوسکتا ہے.ایک تحریک چلائی گئی تھی خصوصی معاونین کی پاکستان میں اس تحریک کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے کل وعدوں میں بہت اضافہ ہوا ہے اور تین ہزار نو سو تیس (3,933) احباب اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں.اس کا طریق کار یہ ہے کہ وہ مقرر کر دیتے ہیں ٹارگٹس کہ اگر آپ ایک ہزار روپیہ دینا چاہتے ہیں تو یہ جو معاونین خصوصی کی پہلی فہرست ہے اس میں آپ داخل ہو جائیں گے.یعنی اس کا انعام تو خدا نے دینا ہے مگر ایک ٹارگٹ مقرر کرنے سے انسان کے اندر تحریک پیدا ہو جاتی ہے کہ چند قدم اور بڑھا کر میں ہزار والوں میں کیوں نہ شامل ہو جاؤں.جو پندرہ سو پہ ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو بتایا جاتا ہے کہ دو ہزار کا اگلا قدم ہے اس فہرست میں آجائیں.تو اس طرح رفتہ رفتہ کچھ قدموں میں انہوں نے فہرستیں بنارکھی ہیں.اتنے قدم پر آکر آپ فلاں منزل میں

Page 760

خطبات طاہر جلدے 755 خطبه جمعه ۴ /نومبر ۱۹۸۸ء چلے جائیں گے.اس طرح کا اگر نظام باہر کے ملکوں میں فائدہ مند ہوسکتا ہے تو اس سے بھی استفادہ کرنا چاہئے.جہاں تک پاکستان سے باہر چندہ دہندگان کی تعداد کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے.حالانکہ تعداد کے لحاظ سے ہندوستان اب بہت سے دوسرے ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے جو پرانی قربانی کی جاگ تھی ، پرانی قربانی کے مزے کی عادت تھی وہ ابھی تک چل رہی ہے اسی طرح اللہ کے فضل سے اور پھر اس کے بعد نمبر دو انڈونیشیا کی باری ہے.افریقین ممالک کے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ان کا اس وقت جو حال ہے اس پر ان کو تحریک کرنے کے لئے بھی پوری طرح شرح صدر نہیں ہوتا کہ اس پر زیادہ محنت کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے تو وہ قربانی میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے کیونکہ جو میں نے جائزے لئے ہیں وہاں کوئی افریقن جماعت ایسی نہیں جو اخلاص میں کسی دوسری جماعت سے پیچھے ہو.بڑی قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن اس وقت مجبوریاں در پیش ہیں.بہر حال پھر انڈونیشیا کے بعد جرمنی ہے پھر برطانیہ پھر امریکہ پھر کینیڈا.اس طرح تدریجاً تعداد کم ہوتی چلی جارہی ہے اور جو تعداد میرے سامنے ہے وہ اس وقت پڑھنے کا وقت نہیں.مگر تعداد کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہے کہ جو ممالک پیش پیش ہیں ان میں بھی ابھی بہت گنجائش موجود ہے.یعنی تیسرا حصہ، چوتھا حصہ تعداد شامل ہے بعض جگہ.بعض جگہ ایک فیصد شامل ہے.بعض جگہ اس سے بھی کم شامل ہے.تو گنجائش بہت ہے اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ملے.کسی چندے کا بھی آپ عادی بنا دیں پھر دیکھیں گے خدا کے فضل سے وہ شخص کس طرح تیزی سے مالی قربانی میں بھی اور وقت کی قربانی میں بھی پہلے کی نسبت زیادہ ترقی کرتا ہے.اب آخری بات تحریک جدید کے سال سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ اسیران راہ مولا کے لئے دعا کی درخواست کرنی ہے.یہ جمعہ میں نے خصوصیت سے اسیران راہ مولا کی یادوں میں محو ہو کر ان کے لئے دعا کرنے کے دن کے طور پر تجویز کیا تھا.ویسے تو کوئی دن ایسا نہیں گزرنا چاہئے کہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے دل سے بار بار، ایک دفعہ نہیں بار بار کثرت سے دعا نہ اٹھتی ہو لیکن جب ایک دن منایا جائے تو پھر ساری دنیا کی اجتماعی جماعتیں اس دن خصوصیت کے ساتھ ایک مقصود کے اوپر مرکوز

Page 761

خطبات طاہر جلدے 756 خطبه جمعه ۴ /نومبر ۱۹۸۸ء ہو جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی غیر معمولی جلوے دکھاتی ہے.کل روزے کا دن تھا اور مجھے بڑی خوشی ہے کہ جماعت انگلستان نے کثرت کے ساتھ مردوزن نے روزے رکھے، بچوں نے بھی روزے رکھے اور آج دعا کا دن بھی ہے اور اس کے ساتھ کوششوں کا دن بھی جو جمعہ تک نہیں بلکہ ہفتہ اتوار تک بھی جاری رہیں گی.اس عرصے میں جس طرح میں ہدایتیں دے چکا ہوں ان کی روشنی میں آپ اپنے کام کو منظم کریں اور ساری دنیا میں ان کی مظلومیت کے احساس بیدار کرنے کے لئے مستعد ہو جائیں اور جو جو پہلے آپ کام کر کے آہستہ آہستہ تھک گئے یا سو گئے دوبارہ از سرنوان کو اٹھائیں اور نئے جذبے نئے جوش کے ساتھ ان سارے کاموں کو ،سب ترکیبوں کو دہرائیں اور دوبارہ ان پر عمل شروع کریں جن پر آپ شروع سے اب تک مختلف وقتوں میں کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان کے لئے جو قربانی کی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں وہ ادا کرنے والے ہوں اور اس پہلو سے خدا کی نظر میں بے حس اور مجرم نہ ٹھہریں کیونکہ جو آسانی کی زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں اگر وہ اپنے مشکل میں بسنے والے ساتھیوں کی فکر نہیں کرتے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ خدا کے حضور مجرم ٹھہرتے ہیں.اس لئے بہت ہی گہری ذمہ داری ہے اسے ہمیں بڑے خلوص کے ساتھ محبت کے ساتھ ادا کرنا چاہئے ، خدا سے مانگتے ہوئے ادا کرنا چاہئے اور ان دعاؤں پر آج کے بعد خاص طور پر زور دیں کہ اگلی صدی کا دن نہ چڑھے کہ یہ لوگ ابھی قید کی حالت میں ہوں ( آمین ) اور اس سے پہلے یہ لوگ آزاد ہوں اور ہمارے ساتھ نئی صدی کے جشن میں ہر طرح سے شامل ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی دعاؤں اور قربانیوں کے ذریعے خدا کی رحمت کو اس طرح موہ لیں کہ وہ ہر طرف ہر احمدی مظلوم پر برسنے لگے اور ہم اگلی صدی میں واقعہ ایک جشن کے موڈ کے ساتھ داخل ہوں یہ نہ ہو کہ دل کے کچھ حصے دکھ رہے ہوں اور ہم خوشیاں منا رہے ہوں.

Page 762

خطبات طاہر جلدے 757 خطبہ جمعہ ا ا ر نومبر ۱۹۸۸ء رائے عامہ سے اصلاح کا کام لیں ، تنقیدی اڈے ختم کرنے کیلئے حکمت سے کام لیں اور اپنی اولاد کو بچائیں نیز واقفین زندگی کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۱ ارنومبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.تربیت کا مضمون ایک دائی مضمون ہے اور کسی خاص زمانے یا موسم سے اس کا تعلق نہیں لیکن بعض زمانے ایسے ضرور آتے ہیں جبکہ تربیت کے مضمون میں شدت پیدا ہو جاتی ہے اور وقت تقاضا کرتا ہے کہ تربیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائے.جماعت آج کل جس دور سے گزر رہی ہے یہ ایک ایسا ہی دور ہے اور مختلف پہلوؤں سے وقت متقاضی ہے کہ ہم اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی طرف غیر معمولی توجہ دیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ صدی کا اختتام بھی یعنی احمدیت کی پہلی صدی کا اختتام بھی اسی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اپنی کمزوریوں کو دور کر لیں، اپنے گناہوں کے بارا تار پھینکیں اور ہلکے پھلکے قدموں کے ساتھ نیکی کی قو تیں حاصل کر کے تقویٰ کا زاد راہ لے کر اگلی صدی میں داخل ہوں.دوسرے جو مباہلہ کا چیلنج ساری جماعت کی طرف سے میں نے مکفرین اور مکذبین کے اماموں کو دیا ہے وہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کی

Page 763

خطبات طاہر جلدے 758 خطبہ جمعہ ا ا ر نومبر ۱۹۸۸ء طرف غیر معمولی توجہ دیں کیونکہ مباہلہ کی کامیابی اور نا کامی کے سلسلہ میں میں نے جو خدا تعالیٰ سے نشان مانگا ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا دشمن جھوٹا ہے اور جھوٹ پر اصرار کرتا ہے تو ان کے گند ظاہر کر اور دنیا دیکھ لے وہ اسلام کی طرف منسوب ہونے کا کوئی حق نہیں رکھتے اور اگر ہم سچے ہیں تیری نگاہ میں تو ہماری بدیاں دور فرما اور ہماری نیکیوں کو اجا گر کر ہمیں پاک اور صاف بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتا کہ یہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ جن کو بد کہتے تھے وہ خوبصورت اور حسین نکلے.پس اس پہلو سے یہ جو عملی نشان ہے مباہلہ کی کامیابی کا اس میں ہر احمدی کو اپنی کوششیں صرف کرنی ہوں گی یعنی اس نشان کو خدا تعالیٰ سے طلب کرنے کے لئے جانکا ہی کے ساتھ بڑی محنت اور بڑی توجہ اور بڑے خلوص کے ساتھ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی اور نیکیوں کو ابھارنے اور بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے حتی الامکان سعی کرنی ہوگی.اس پہلو سے میں نے جو سلسلہ تربیتی امور کا شروع کیا تھا اس میں بار بار میں ربوہ کا نام لیتا رہا ہوں ایک مثال کے طور پر لیکن جیسا کہ میں واضح کیا تھا اس ربوہ کی مثال کا تعلق دراصل ساری دنیا کی احمدی جماعتوں سے ہے.مرکزی حیثیت کے لحاظ سے ربوہ چونکہ ایک نمونہ ہونا چاہئے اس لئے جو باتیں بھی میں ربوہ کے حوالہ سے کرتا ہوں یا کروں گا ان کا دراصل تمام احمدی معاشرے سے تعلق ہے خواہ وہ دنیا کے کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو.جہاں جہاں احمدی بستیاں آباد ہیں جہاں جہاں احمدی گھر موجود ہیں ان سب پر انہی باتوں کا اطلاق ہوتا ہے.الا ماشاء اللہ بعض ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو بعض شہروں کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں.ان کو چھوڑ کر جہاں تک عمومی تربیت کا تعلق ہے میرا خطاب عام ہے اور کسی ایک شہر یا ایک بستی سے میں مخاطب نہیں ہوں.جہاں تک میرے گزشتہ خطبہ میں اس نصیحت کا تعلق ہے کہ تربیت نرمی اور شفقت اور محبت اور پیار اور سمجھانے کے ذریعے کی جاتی ہے سختی سے نہیں کی جاتی.یہ بات بالکل درست ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ پیشہ ور مجرموں سے نرمی کرنی چاہئے اور ان کے جرم کو نظر انداز کر دینا چاہئے اور انہیں معاشرے کے ساتھ ظلم کرنے سے باز رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہئے.بعض بدیوں کے اڈے بن جاتے ہیں یعنی لفظ پیشہ ور اس طرح تو ان پر اطلاق نہیں پاتا لیکن پیشہ وری کا لفظ ایک محاورہ بن چکا ہے یعنی عادی مجرموں کے لئے بھی آپ پیشہ ور مجرم کا لفظ استعمال کرتے ہیں.پس

Page 764

خطبات طاہر جلدے 759 خطبہ جمعدار نومبر ۱۹۸۸ء ان معنوں میں بعض جگہ بدیوں کے ایسے اڈے بن جاتے ہیں جن کو ہم پیشہ وراڈے کہہ سکتے ہیں اور وہاں سے برائیاں پھیلانے کے کاروبار ہوتے ہیں.بظاہر ایک دکان ہے ایک جنرل سٹور ہے وہاں کا روبار تو ہونا چاہئے ان سودوں کا جن سودوں کو حاصل کرنے کے لئے لوگ وہاں حاضر ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات وہاں بدیوں کے کاروبار بھی شروع ہو جاتے ہیں اور وہاں آپ ہمیشہ قابل اعتراض حرکت کرنے والوں کو قابل اعتراض حالت میں لمبے عرصے تک وہاں پائیں گے اور کئی قسم کی خرابیاں وہاں سے جنم لیتی ہیں.تو جہاں تک نظام کا تعلق ہے نظام جماعت کو وہاں ضرور دخل دینا چاہئے اور وہاں دخل دینے کی بہت سی صورتیں ہیں.سب سے پہلے جب انسان کسی بیماری میں دخل دیتا ہے تو اسے جراحی کا خیال نہیں آیا کرتا اسے عام طریق پر شفا دینے کا خیال آیا کرتا ہے.جراحی بعد کی بات ہے اس لئے جب میں دخل دینے کی بات کرتا ہوں تو اس تعلق میں بھی میرے ذہن میں ہر گز یہ نہیں کہ فوراً ان کو وہاں سے اکھاڑ پھینکو بلکہ وہ تمام مناسب اقدامات کرو جن کا ان اڈوں کی اصلاح سے تعلق ہے.احمدی دکاندارر بوہ سے باہر بھی ہو سکتے ہیں اور وہ بھی اس قسم کی خرابیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں.بعض یورپ میں احمدی دکانداروں کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ ان کے ہوٹل کے کاروبار ہیں اس لئے وہاں شراب بھی بکتی ہے.چنانچہ جب میں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا، بختی سے مراد یہ ہے کہ Firmness جس کو انگریزی میں کہتے ہیں کہ بڑے پختہ قدم کے ساتھ میں نے اس بات پر اصرار کیا کہ آپ کو یہ کاروبار چھوڑنا ہو گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک بڑی بھاری تعداد ایسی تھی جنہوں نے اس کا روبار کو ترک کر دیا.بعضوں کو خدا تعالیٰ نے فوراً بہتر کا روبار بھی عطا کئے ، بعضوں کا ابتلا میں بھی ڈالا.لمبے عرصے تک وہ دوسرے کاروبار سے محروم رہے لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے اس فیصلے پر قائم رہے تو اس طرح ہر صورتحال کے مطابق مختلف کاروائی کرنی ہوتی ہے مگر نظام جماعت کو سب دنیا میں مستعد ہو کر جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ان کو برائیوں کے اڈوں سے متعلق نہ رہنے دیں اور ربوہ جیسے شہر میں جہاں انتظامیہ کا دخل عام شہروں کے مقابل پر زیادہ ہے کیونکہ بھاری اکثریت احمدیوں کی ہے اور احمدیوں کی رائے عامہ کو ربوہ میں جس قوت کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے اس قوت سے غیر شہروں میں بسنے والے احمدیوں کی رائے عامہ کو استعمال نہیں کیا جاسکتا.توFirmness اور ختی سے میری مراد یہ ہے کہ پہلے ایک باقاعدہ منصوبہ بنا کر ایسے لوگوں کو

Page 765

خطبات طاہر جلدے 760 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء نصیحت کی جائے ان کی برائیاں ان پر کھولی جائیں.ان کو بتایا جائے کہ تم ان حالات میں بالکل غلط سمت میں جارہے ہو.خدا کی تقدیر کسی اور سمت میں جماعت کو لے کر جارہی ہے اور تم اس طرف پیٹھ دکھا کر دوسری سمت میں حرکت کر رہے ہو یہ مناسب نہیں ہے.ان لوگوں کو تلاش کیا جائے جن کا ان پر اثر ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ ایسے لوگوں پر دباؤ بڑھایا جائے پھر اس دباؤ کو نسبتاً عام کیا جائے اور رائے عامہ کو منظم کر کے اس کے ذریعے اس دباؤ کو بڑھایا جائے.جب میں یہ کہتا ہوں تو یہ مراد نہیں کہ دنیا میں جو رائے عامہ کو استعمال کرنے کا طریق ہے جماعت وہ استعمال کرے.دنیا میں Picketing ہوتیں ہیں، رائے عامہ کو ابھار کر پتھراؤ کئے جاتے ہیں، گالی گلوچ دی جاتی ہے ہر گز نعوذ باللہ من ذالک میرے ذہن میں رائے عامہ کے دباؤ سے یہ نقشہ نہیں ہے بلکہ رائے عامہ کے دباؤ سے میری مراد وہ ہے جو قرآن کریم نے رائے عامہ کا دباؤ ہمیں سکھایا ہے.وہ یہ ہے کہ برائی سے روکو اور نیکیوں کی تعلیم دو اور ہر سوسائٹی کا فرداس بات میں ملوث ہو جائے ، اس بات پر عمل پیرا ہو جائے.یہ اتنا بڑا دباؤ ہے رائے عامہ کا کہ پکٹوں (Pickets ) اور دوسرے دباؤ کی نسبت جو ہمیشہ جاری نہیں رہا کرتے یہ دباؤ بہت زیادہ غیر معمولی اثر دکھا سکتا ہے اگر با قاعدہ طریق پر اسے استعمال کیا جائے.ایک شخص ایک حرکت کر رہا ہے دوسرا اس سے آنکھیں بند کر کے گزر جاتا ہے ایسے شخص کو اس بدی کی حرکت کو آئندہ بڑھانے کی جرات ملتی چلی جاتی ہے.ایک شخص ایسا ہے جو بری حرکت کرتا ہے اور کوئی ایک آدمی اس کو کہ دیتا ہے کہ ایسانہ کرو تو اس کے دل میں کچھ تھوڑی سی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ، کچھ تر در پیدا ہوتا ہے.پھر کوئی نہیں کہتا تو آگے چل پڑتا ہے.لیکن ایسا شخص جس کو ہر قدم پر یہ کہا جائے کہ تو یہ نا مناسب فعل کر رہے ہو اور ایک کے بعد دوسرا کہتا چلا جائے اس سے اتناغیر معمولی دباؤ نفسیاتی لحاظ سے اس شخص پر پڑ جا تا ہے کہ اس میں طاقت نہیں رہتی کہ اپنی بدی پر قائم رہے.یہ وہ قرآنی رائے عامہ ہے جو میرے ذہن میں ہے جس کا دباؤ آپ کو ڈالنا چاہئے اور اس پہلو سے بعض دفعہ اس نقطے کو غیروں نے بھی استعمال کیا ہے.چنانچہ ایک ٹھگوں کی کہانی مشہور ہے کہ ایک شخص اپنی بکری لے کر جارہا تھا سادہ سادیہاتی اور ٹھگوں کے ایک ٹولے کو خیال آیا کہ اس سے بکری ہتھیانی چاہئے.تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر باتیں شروع کر دی اس کو کہا کہ تمہارا کتا جو تم نے پکڑا ہوا ہے بدصورت سا ہے اور یہ کوئی خطر ناک سا لگتا ہے ممکن ہے یہ پاگل ہو کر کاٹ ہی لے تم کو کسی دن.اس

Page 766

خطبات طاہر جلدے 761 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء نے کہا کتا کیسا یہ تو میری بکری ہے.اس نے کہا خیر تم بکری سمجھتے رہو لیکن ہے تو یہ کہتا ہی.اس کے بعد اگلا ٹھگ اگلے کونے پر کھڑا تھا گلی کے.اس نے اس کو سلام کیا اور ٹھہرا اور اس نے باتیں کرتے کرتے کہا کہ بھئی یہ جو کتا ہے یہ بڑا خطرناک لگ رہا ہے.مجھے ڈر ہے کہیں نقصان ہی نہ پہنچا دے، کسی بچے کو کاٹ لے.اس نے پھر کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے پاگل ہو گئے ہو یہ تو بکری ہے.اس نے کہا خیر یہ تو بعد میں پتا لگے گا پاگل کون ہے لیکن ہے یہ کتا ہی.چنانچہ تین، چار، پانچ ٹھگوں نے جب وہی بات کہی تو اس کا جو اندرونی طور پر بکری کا یقین تھا وہ اٹھتا گیا اور رفتہ رفتہ وہ خود سمجھنے لگ گیا کہ شاید میں ہی پاگل ہوں ہے یہ کتا ہی.چنانچہ اس نے اگلے ٹھگ کے سپرد کیا کہ لو تم اس کو بھا گو یہاں سے جو کرنا اس کو کرتے رہو.یہ ایک لطیفہ ہے واقعہ یہ نہیں ہوا ہو گا لیکن رائے عامہ کے دباؤ کے اثر کو ظاہر کرنے کے لئے یہ ایک عمدہ لطیفہ ہے اور واقعاتی دنیا میں جب اس کو منتظم طور پر آپ استعمال کرتے ہیں تو غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے اس سے اور بغیر سزا کے، بغیر کسی دوسری سختی کے اس طریق پر سختی سے پابندی عظیم الشان نتائج پیدا کرتی ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر پہلی قوموں نے اس طریق کو اختیار کیا ہوتا تو وہ ہلاک نہ ہوتی.جتنے انبیاء آئے ہیں ان کی قوموں کی ہلاکت کا راز اس بات میں ہے کہ رفتہ رفتہ انہوں نے بری باتوں سے روکنا چھوڑ دیا اور سچی باتوں کی تاکید کرنی چھوڑ دی.اب اگر رائے عامہ کا دباؤ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کر سکتا ہے تو آپ اندازہ کریں کہ ایک بچی کو کتنی عظیم قوت دے سکتا ہے.مومن نے اسے فراڈ کے لئے استعمال نہیں کرنا مومن نے اسے سچائی کی خاطر استعمال کرنا ہے.پس اس پہلو سے ربوہ کا شہر ہو یا دوسرے ایسے مقامات ہوں جہاں احمدیوں کی کچھ آبادیاں ہیں جہاں اس قسم کی بدیاں دکھائی دیتی ہیں جہاں الگ الگ گھر ہیں لیکن بچوں میں کچھ کمزوریاں نظر آرہی ہیں.ان سب باتوں کا رائے عامہ سے مقابلہ کریں اور قرآن کے دیئے ہوئے سبق کو استعمال کر کے دیکھیں یہ ایسا نسخہ ہے جو کبھی ضائع نہیں جائے گا، کبھی ناکام ثابت نہیں ہو گا لیکن افسوس ہے کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے کے باوجود ہم رفتہ رفتہ ان نسخوں سے اس طرح گزر جاتے ہیں کہ گویا یہ موجود ہی نہیں ہیں.سرسری، اچکتی ہوئی نظر سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اپنے حالات پر ان کا اطلاق کرنے کی کوشش نہیں کرتے.لیکن پھر بھی بعض بیمارا ایسے ہیں جن پر نسخے کارگر نہیں ہوا کرتے.ان کی بیماری اس حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے.ایسے لوگ پھر نتھر کر سامنے آجاتے ہیں وہاں پھر عمل جراحی بھی ہے جس کا قرآن کریم نے خود ذکر فرمایا مگر وہ پھر

Page 767

خطبات طاہر جلدے 762 خطبہ جمعا ارنومبر ۱۹۸۸ء بہت چند لوگ رہ جاتے ہیں.بھاری اکثریت ہے جو شفایاب ہو جاتی ہے ان نسخوں کے استعمال سے.بہت معمولی اقلیت رہ جاتی ہے ان کو پھر سمجھانا چاہئے کہ میاں ! یہ جگہ تمہارے لئے مناسب نہیں ہے.اپنی صلى الله مرضی اپنے ماحول کے شہر تلاش کرو اور وہاں منتقل ہو جاؤ.جہاں تک رائے عامہ کا تعلق ہے اس کا ایک طریق اور بھی ہے.یعنی سوسائٹی بحیثیت مجموعی جب سدھر جاتی ہے تو سارے جسم کا دباؤ خود بیماریوں کو باہر نکال کر پھینک دیا کرتا ہے.اسے ہم رائے عامہ تقدیری کہہ سکتے ہیں یعنی وہ رائے عامہ جو عمل سے ظاہر ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ نے اس اثر کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ مدینہ میں یہ طاقت موجود ہے کہ اس کا صالح معاشرہ بدوں کو باہر نکال دے.یہ ایک ایسے شخص کے متعلق فرمایا جس نے آکر بیعت کی اور بیعت کے چند روز کے بعد وہ حاضر ہوا اس نے آنحضرت ﷺ کا نام لے کر مخاطب کیا کہ میں نہیں اب مسلمان رہنا چاہتا.مجھے میرا اسلام واپس کر لیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں ! یعنی اس کو سمجھانے کی خاطر لیکن وہ یہ سمجھتا تھا کہ اسلام کوئی ایسی چیز ہے جس طرح کوئی مادی چیز ہوتی ہے اس نے وصول کر لی اور مجھے واپس کر دے.رسول اللہ لا یہ حکمت اور پیار سے اور خاص اپنی نصیحت کے انداز سے اس پر یہ اثر ڈالتے تھے کہ تمہارا اسلام رہنا ہی بہتر ہے لیکن آخر وہ یہ کہ کر وہاں سے چلا گیا کہ واپس کریں یا نہ کریں میرا کوئی تعلق نہیں اور پیٹھ پھیر کر چلا گیا.اس پر حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی طرح ہے جس میں جب زنگ آلود لوہا ڈالا جاتا ہے تو لوہے کو قبول کر لیتی ہے اور زنگ کو نکال کے باہر پھینک دیتی ہے.(بخاری کتاب الاحکام حدیث نمبر : ۶۶۷۱) تو اسی طرح صحیح صحت مند معاشروں کا حال ہوا کرتا ہے.ان معاشروں سے متضاد چیزیں ان سے ٹکرانے والی چیزیں وہاں بے چینی محسوس کرتی ہیں اور کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے آپ کو اجنبی پاتے ہوئے اس جگہ کو چھوڑ کر چلی جایا کرتی ہیں بعینہ یہی صحت مند صالح جسم کا حال ہے.جو جسم صالح اور صحت مند ہو بھی مختلف قسم کے جراثیم اور کیڑوں مکوڑوں کے حملوں کا شکار تو ضرور ہوتا ہے لیکن وہ کیڑے اجنبیت محسوس کرتے ہیں اس ماحول میں.وہ اسے چھوڑ کے چلے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ یکجان نہیں ہو سکتے.چنانچہ میں نے ہومیو پیتھک علاج میں اس کو بارہا آزمایا ہے.بعض ایسی دوائیں ہے جو جسم کو

Page 768

خطبات طاہر جلدے 763 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء غیر وجود کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں اور جب جسم کا احساس یہ بیدار ہو جائے تو وہ غیر وجود لازماً جسم کو چھوڑ کر باہر آجاتا ہے.ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ رہ نہیں سکتا.چنانچہ اگر چہ ایلو پیتھک میں Worms یعنی پیٹ کے کیڑوں کا علاج اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو دوائی سے مار دیا جاتا ہے ان کو اور یا اتنا بیمار کر دیتے ہیں ان کو کہ وہ پھر مجبور ہو کر نکلتے ہیں.لیکن ہومیو پیتھک علاج میں یہ طریق ہے کہ وہ انتڑیاں یا معدہ یا دوسرے ایسے حصے جہاں اگر صحت مند عضلات کام کر رہے ہوں اور اس کے جو Secretions یعنی لعاب وغیرہ نکلتے ہیں نظام انہضام کے وہ درست ہوں تو ہومیو پیتھک فلسفہ کے مطابق وہاں غیر وجود رہنا نہیں چاہئے.اس لئے جراثیم یا Worms کی موجودگی بتا رہی ہے کہ نظام انہضام میں جس قسم کے لعاب جس تناسب سے پائے جانے چاہئیں وہ بگڑ گیا ہے اور دوسری دفاعی طاقتیں جو ہیں وہ بھی کمزور ہوئی ہوئی ہیں.پس ایسی دوائیں دی جاتی ہیں جس سے یہ اندرونی نظام متوازن ہو جائے اور جیسا قدرت نے چاہا ہے کہ یہ نظام کام کرے اسی طریق پر کام شروع کر دے.جب یہ دوا صحیح ہو.جب یہ دوا کا حکم جسم قبول کر لیتا ہے تو ہم نے دیکھا ہے کہ کیڑے مکوڑے جو بھی پریٹ میں پہلے غذا میں حصہ دار تھے وہ از خود جسم کو چھوڑ کر نکلنے شروع ہو جاتے ہیں.تو یہ وہ نقطہ ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے آج سے چودہ سو برس پہلے ہمیں سمجھا دیا تھا کہ نظام صالح ہو، معاشرہ صالح ہو تو وہاں بدیاں اجنبیت محسوس کرتی ہیں.جس طرح بد نظام میں نیک لوگ اجنبیت محسوس کرتے ہیں.چنانچہ بہت سے احمدی مجھے یورپ اور امریکہ سے خط لکھتے ہیں کہ ہم آ تو گئے ہیں یہاں لیکن بالکل دل نہیں لگ رہا ایسی گندی قوم ہے، ایسی بے حیا قوم ہے، ایسی ایسی بدیاں ہیں کہ ہمیں تو ہر وقت یہ وہم رہتا ہے کہ ہمارے بچے کہیں ٹیلی ویژن نہ کھول کے دیکھ لیں کیا ان پر اثر پڑے گا.باہر گلیوں میں جاتے ہیں تو وہاں بے حیائی ہے.اس لئے ہمیں تو اجازت دیں کہ ہم واپس چلے جائیں.چنانچہ میں اس کو عموماً یہ کہتا ہوں کہ تم صرف اپنی اصلاح کی خاطر پیدا نہیں کئے گئے تم دنیا کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو.یہ بات قابل فہم ضرور ہے جو تم کہہ رہے ہو لیکن تم نے تو لوگوں کی تقدیر بدلنی ہے ، لوگوں کو شفا بخشنی ہے.اس لئے اول تو یہ ہمت پیدا کرو اور اپنا معیار بلند کرو اور اپنے عزائم بلند کرو اور پختہ کرو کہ ہم نے ہر صورت سے برائی کا مقابلہ کر کے نہ صرف یہ کہ اس کو اپنے اندر نہیں داخل ہونے دینا بلکہ اس کو غیروں سے بھی نکالنا ہے.یہ اگر تم کر سکتے ہو اور دعا کی مدد کے ساتھ ایسا کرنے میں

Page 769

خطبات طاہر جلدے 764 خطبہ جمعہ ا ا ر نومبر ۱۹۸۸ء کامیاب ہو جاتے ہو تو ضرور ایسا کرو اور بھا گونہیں کیونکہ ہم نے تو میدان سر کرنے ہیں.یعنی اگر تمہیں خطرہ ہے کہ اس جہاد میں تم مار کھا جاؤ گے تم میں طاقت نہیں ہے تو اپنی اولا دکو ضائع کر دو گے بجائے اس کے کہ دوسروں کو بجاؤ تو تمہیں میرا مشورہ ہے کہ ضرور واپس چلے جاؤ کیونکہ خدا تعالی طاقت سے بڑھ کر کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا اور اولاد کا سودا کرنا بعض پہلوؤں سے دنیا وی لحاظ سے اچھے معاشرے میں رہنے کے لئے یہ کوئی حکمت کی بات نہیں ہے بہت ہی نقصان کا سودا ہے.پس اس پہلو سے عمومی معیار ربوہ کا بلند کر دیا جائے یا دوسری احمدی بستیوں کا بلند کیا جائے کہ وہاں مریض لوگ بے چینی محسوس کریں.بدیوں کے شکار سمجھیں کے یہاں کوئی مزہ نہیں آرہا یعنی جگہ قبول نہیں کرتی ہمیں.معاشرہ رد کر دے ان لوگوں کو.معاشرہ ان لوگوں سے تعلق کاٹ لے بغیر اس کے کہ مقاطعہ کا اعلان ہو.معاشرہ کا عملی وجود مقاطعہ کر رہا ہو اور یہ ظاہر کر رہا ہو کہ ہم الگ ہیں اور تم الگ ہو تمہاری ہمارے اندر کوئی گنجائش نہیں ہے.یہ احساس جب دلوں میں پیدا ہو تو پھر ایسے لوگ ان شہروں کو چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیتے ہیں.پھر وہ لوگ مثلاً ایسے دکاندار جو نیک فطرت ہیں، دیندار ہیں، پانچ وقت نمازوں میں حاضر ہوتے ہیں ، کاروبار کے وقت اذان سنتے ہیں تو تالے لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی بھی کوششیں ہونی چاہئیں.معاشرے میں یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ یہ زیادہ حقدار ہیں کہ تم ان کی طرف توجہ کرو.اگر ایسے لوگ اگر اپنی نا کبھی یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے دام زیادہ وصول کرتے ہیں تو پھر ان کو سمجھایا جائے.انصر اخاک ظالما او مظلوما ( بخاری کتاب المظالم و الغضب ، حدیث نمبر :۲۲۶۳) اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم ہو.ان معنوں میں اس کی مدد کرو کہ ظلم سے اس کے ہاتھ روکو، اسے تجارت کے بہتر طریق سکھاؤ اس کو بتاؤ کہ یہ وجہ ہے کہ تمہاری دکان لوگوں کے لئے مطمح نظر نہیں بن رہی.اس لئے تم ان باتوں کو چھوڑ و یہ طریق اختیار کرو.کوشش یہ کریں کہ نیک دکانداروں کی تجارت زیادہ چھکے اور زیادہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں.پھر اور بہت سے طریق ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قرآن وسنت کی روشنی میں نصائح فرمائی ہیں ان نصائح میں اتنی عظیم الشان قوت ہے اور ایسی تحریریں ہیں جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گی ان کو مختلف قطعات میں خوبصورتی کے ساتھ سجا کر آویزاں کیا جائے اور نمایاں کیا جائے ان جگہوں پر جہاں خطرہ ہے کہ اس قسم کے لوگ بیہودہ حرکتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اسی طرح دوسرے برائی کے

Page 770

خطبات طاہر جلدے 765 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء اڈے ہیں ان کو نظر میں رکھنا ان کو Cordon Off کرنا.بعض وبائیں ہیں جن کا علاج یہ ہوا کرتا ہے کہ ان سے بچنے کے لئے ایک جگہ ایک فصیل بنا دی جاتی ہے.تو جو جانے والے ہیں جو امکانی طور پر جانے والے ہیں ان کو وہاں سے روکنے کی کوشش کرنا باقاعدہ منظم طریق پر اور اس طرح ایک نہ دکھائی دینے والی فصیل قائم کر دینا جو ویسے آنکھ سے نظر نہ آئے ، نہ کان سے سنائی دے لیکن موجودضرور ہو اور اس کی دیوار میں اونچی ہوتی رہیں.یہ سارے اقدامات اور ایسے اور بہت سے اقدامات ہیں جن کو اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بغیر حکومت ، بغیر طاقت ، بغیر جبر کے استعمال کے معاشرے کے اندر بہت سی نئی خوبصورتیاں جنم لینے لگتی ہیں اور بہت سی بدیاں معاشرے کو چھوڑ نا شروع کر دیتی ہیں.جہاں تک بدیوں کے اڈوں کا تعلق ہے بعض بیہودہ حرکتوں والے ایسے اڈے جہاں بدیاں دکھائی دیتی ہیں ان کے متعلق اور بھی بہت سی باتیں ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ ان سے زیادہ دلکش اڈے بھی تو بنانے چاہئے.یہ نہیں کہ بعض اڈے آپ بند کر رہے ہوں.ان کی جگہ دوسرے اڈے جاری ہونے چاہئے جہاں نو جوان بیکا رلوگ ، غریب لوگ جن کے لئے لذت یا بی کے کوئی سامان نہیں ہیں جن کو تسکین قلب کے لئے کچھ میسر نہیں ان کو معاشرہ یہ چیزیں مہیا کرے.ان سے سر پرستی کا سلوک کرے، ان سے پیار اور محبت کا سلوک کرے.تو یہ سب چیزیں مجموعی طور پر اگر اختیار کی جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے غیر معمولی نتائج ظاہر ہوں گے.کچھ اڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہم دانشوروں کے اڈے کہتے ہیں.یہ ظاہری طور پر یہ نہیں کہا کرتے کسی کو کہ تم بد ہو جاؤ.وہ یہ نہیں کہتے کہ تم فلاں ڈرگ استعمال کرنی شروع کر دو یا شراب نوشی کر و یا یہ کر دیا وہ کرو.یہ بظاہر نیکی کی تلقین کرنے والے اور بدیوں کا نوٹس لینے والے اڈے ہوتے ہیں لیکن اس طریق پر یہ کام کرتے ہیں جو قر آنی تعلیم کے بالکل منافی اور مخالف ہے.دانشور کا جہاں تک تصور ہے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دانشور ہے کیا.قرآنی اصطلاح میں دانشور کون ہوتا ہے اور بنتا کیسے ہے.جہاں تک قرآن کا تعلق ہے قرآن کریم فرماتا ہے:

Page 771

خطبات طاہر جلدے 766 خطبہ جمعدار نومبر ۱۹۸۸ء إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذَّكَّرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقَعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ E وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : ۱۹۱ ۱۹۲) کہ یقینا زمین و آسمان کی پیدائش میں اور دن اور رات کے ادلنے بدلنے میں بہت سے نشانات ہیں دانشوروں کے لئے.اولی الالباب قرآن کریم کی اصطلاح ہے جو دانشوری کے لئے استعمال ہوئی ہے کہ دانشور لوگوں کے لئے ان باتوں میں بہت سے نشان ہیں.دانشور ہوتے کیا ہیں.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے ہو کر بھی اور بیٹھے ہوئے بھی دن اور رات ہر حالت میں ، لیٹے ہوئے کروٹیں بدلتے ہوئے بھی خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کا سینہ معمور رہتا ہے.جب اس کیفیت کے ساتھ ایک انسان کائنات پر غور کرتا ہے تو ہمیشہ صحیح نتیجہ تک پہنچتا ہے.یہ تدبر کا پس منظر ہے جو کچی دانشوری کے لئے ضروری ہے.یہ فرمانے کے بعد حالانکہ دانشوری کا ذکر الہی سے بظاہر کوئی تعلق نہیں.یہ فرمانے کے بعد یہ فرمایا گیا ہے.يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ دانشوری کا فکر سے تعلق ہے.بات یہ کہنی تھی کہ اولی الالباب وہ ہوتے جو الذين يتفكرون في خلق السموت و الارض جوزمین و آسمان پر غور کرتے رہتے ہیں لیکن یہ جملہ معترضہ کے طور پر بیچ میں یہ بات داخل فرما دی الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُو بِھم یہ وہ لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور لیے ہوئے بھی ہر وقت خدا کو یا در کھتے ہیں.یہ لوگ جب غور کرتے ہیں زمین و آسمان پر ، یہ لوگ جب کائنات کے حالات پر فکر کی نظر رکھتے ہیں تو ان کا تدبر ان کو جہنم سے دور لے جاتا ہے جہنم کی طرف نہیں لے کر جاتا.اور یہ خدا سے دعا کرتے ہیں رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے ہمارے رب! تو نے یہ کائنات باطل پیدا نہیں کی فائدے کے لئے پیدا کی ہے نقصان کے لئے پیدا نہیں کی.اس لئے ہمیں بھی مقصود کائنات کے مطابق بنا دے،ہمقصود کائنات

Page 772

خطبات طاہر جلدے 767 خطبہ جمعدار نومبر ۱۹۸۸ء کے ہم آہنگ کر دے.ہم بھی اس کائنات کے مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں اور باطل سے دور ر ہیں اور حق کو پانے والے ہوں اور ضائع نہ جائیں.اگر ایسا نہ ہوا تو پھر وہ عرض کرتے ہیں عذاب النار ہمارا مقدر ہو جائے گا فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.تو یہ جو دانشور ہیں ان کی تمام علامتوں پر اگر غور کیا جائے تو بڑے عظیم وسیع مضمون ان میں پوشیدہ ہیں لیکن آخری بات جس سے یہ خاص طور پر پہچانے جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کے تعلق رکھنے والے آگ کے عذاب سے بچائے جاتے ہیں.ان کے تعلق رکھنے والوں کو نہ اندرونی جہنم نصیب ہوتی ہے نہ بیرونی جہنم کیونکہ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا جو ہے اس میں درحقیقت یہ مضمون کھول دیا یہ آگ سے بچنے کی ہر کوشش کر لیتے ہیں.ان کا رہن سہن ، ان کی زندگی ، ان کا سوچنے کا طریق ، ان کے ملنے جلنے کے آداب یہ سارے ایسے ہیں جو آگ سے دور رکھنے والے ہیں ان کو اور بے چینیوں سے بچانے والے ہیں.ایک آگ تو جہنم کی آگ ہے جس کا مابعد الموت تعلق ہے.ایک وہ آگ ہے جس کا اس دنیا سے تعلق ہے.اس دنیا میں جس شخص کو خدا آگ سے بچائے اس کا دل پرسکون رہتا ہے.طمانیت پاتا ہے اور ایسی باتوں سے وہ بچایا جاتا ہے جو اس کے دل میں ایک قسم کی جہنم کی آگ لگا دیں.پس اس مضمون میں یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ دانشور کسی اندرونی آگ میں پھکتے نہیں ہیں، کسی جلن کا شکار نہیں رہتے.یہ آگ سے یعنی ہر قسم کی آگ سے جو خدا کے عذاب کا مظہر ہو خود بھی دور بھاگتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے رہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں اس آگ کے عذاب سے بچا لیکن اس کے سوا کچھ اور دانشور بھی ہیں جو آگ سے پیدا ہوتے ہیں.حسد کے نتیجے میں ان کا وجود ابھرتا ہے.جلن اور غصے اور انتقام کی وجہ سے ان کی دانشوری کی قوتیں اجاگر ہوتی ہیں اور ان کے اڈے آگ سے بچانے کے لئے نہیں بلکہ آگ میں مبتلا کرنے کا نتیجے پیدا کرتے ہیں.چنانچہ دو ہی قسم کے دانشور ہیں.جو دوسرے دانشور ہیں ان سے شر پیدا ہوتا ہے.چنانچہ فرمایا وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (الفلق : ٦) خدا کے مومن بندے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ ہمیں حاسد کے شر سے بچا جب وہ حسد کرے.پس آپ دیکھیں کے دنیا کہ اکثر دانشور جو مذہبی بنیادیں نہیں رکھتے یا جن کی جڑیں خدا تعالیٰ کی صفات میں پیوستہ نہیں ہیں بلکہ غیر اللہ کی صفات سے وہ جنم لیتے ہیں، وہیں سے پیدا ہوتے ہیں.ان کے اور ان مومن مفکرین کے درمیان یہ بنیادی فرق ہے.وہ لوگ ہمیشہ

Page 773

خطبات طاہر جلدے 768 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء حسد اور انتقام کی پیداوار ہوا کرتے ہیں اور ان کی باتیں بھی حسد اور انتقام کی باتیں ہوا کرتی ہیں.بعض دفعہ دبی زبان کے ساتھ بعض دفعہ کھل کر اور ایسی تنقید کو ہم عرف عام میں تخریبی تنقید کہتے ہیں.ان کی مجلس میں جو جاتا ہے وہ اس تنقیدی تخریب کا شکار ہو جاتا ہے اور مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ میں یہ نقطہ بھی ہمارے سامنے کھول دیا گیا کہ ان کی حسد کی جو کیفیت ہے وہ ان کی صفت بن چکی ہے.ان کا شر تو شاید کبھی کسی کو پہنچے کیونکہ اِذَا حَسَدَ میں بتایا کہ ہر وقت ان کا شران لوگوں کو نہیں پہنچتا جو محسود ہوتے ہیں جن سے یہ حسد کرتے ہیں لیکن خود ہمیشہ حسد کی حالت میں رہتے ہیں اور حسد فی ذاتہ ایک جہنم ہے، ایک آگ ہے جو ہر وقت دل کو بیقرار رکھتی ہے بریاں کرتی ہے، جلاتی رہتی ہے اور حاسد کبھی بھی اطمینان نہیں پاتا.تو دیکھئے کہاں وہ دانشوری جو یہ شعور بیدار کرتی ہے کہ جہنم کے عذاب سے دور رہنا ہے، نہ اس دنیا کے جہنم میں مبتلا ہونا ہے نہ اس دنیا کی جہنم میں مبتلا ہونا ہے، خود بھی کوشش کرنی ہے خدا سے بھی مدد مانگنی ہے اور کہاں یہ کیفیت کے دانشوری جہنم کی پیداوار ہے دوسرے کے جلنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.ان کی باتیں بھی ایسی، ان کے طعنے بھی اسی قسم کے ، ان کی تنقید بھی ہلکی اور بازاری قسم کی اور اسی کے ذریعے یہ پھر اپنے دل کی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.نقصان نہیں کر سکتے تب بھی زبان چلا کر اور اس کے چر کے لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کچھ تسکین مل گئی ہے.چنانچہ جو لوگ ان کے قریب بیٹھتے ہیں وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ، ان کے گھٹیا لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے بظاہر لیکن یہ سارے لوگ بے چین ہی رہتے ہیں ہمیشہ.ربوہ میں مثال کے طور پر اگر کسی ناظر نے اپنی کا راستعمال کر لی سودالانے کے لئے تو ان لوگوں کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ اس کی جو تعلیم ہے، اس کی جو پرانی قربانیاں ہیں ، جس قسم کی صلاحیتیں تھیں اس کو خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی ہوئی تھیں وہ اگر یہ دنیا میں استعمال کرتا جس طرح دوسرے دنیا داروں نے کی ہیں تو جس حال میں اب رہ رہا ہے اس سے بیسیوں گنا بہتر حال میں ہوتا.اگر جماعت نے اس کو کار دے دی اور اس نے اپنا سود الانے کے لئے بھی استعمال کر لی تو تمہیں جلنے کی کیا ضرورت ہے لیکن وہ اسی پر بھپکیاں کستے رہیں گے، اسی پر ان کا دل آگ میں جلتا رہے گا کہ ان کو یہ چیزیں کیوں نصیب ہوئیں، انہوں نے یہ کیوں استعمال کیا.کسی کے گھر کے اچھے حالات دیکھے اس کا نام لندن ہاؤس رکھ دیا کسی کے گھر کا نام پیرس ہاؤس رکھ دیا.اب یہ ہے اولی الالباب یعنی غیر

Page 774

خطبات طاہر جلدے 769 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء اسلامی اولی الالباب جو قرآنی اولی الالباب سے بالکل مدمقابل طاقتوں کی پیداوار ہیں اور ان کی سوچ اور طرزفکر کا نتیجہ سوائے مزید جلن کے اور کچھ بھی نہیں ہے.کسی انتظامیہ سے جھگڑا ہو گیا، کسی امیر سے ناراض ہو گئے معاف ہی نہ کیا اس کو پھر ساری عمر.ہر وقت مجلسوں میں ان کے خلاف تنقید کبھی نہیں سوچتے کہ ان میں ایسے ایسے کارکن ہیں اس مجلس عاملہ میں، اس جماعت کے کارکنوں میں جنہوں نے ساری زندگیاں، اپنے سارے وقت کو جماعت کے لئے وقف رکھا ہے.جب تم لوگ آرام کرتے تھے، جب تم سیر و تفریح میں لذتیں حاصل کیا کرتے تھے یا گھروں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہوتے تھے یہ لوگ دن رات جماعت کے کام کی خاطر کبھی دفتروں میں کبھی لوگوں کے گھروں میں پھر کر چندہ اکٹھا کرتے ہوئے ، کبھی نصیحتیں کرتے ہوئے، کبھی مجلس عاملہ کے اجلاس میں اور شغل ہی نہیں گویا کہ ساری زندگی جنہوں نے دین کی خاطر وقف کر دی اگر ان سے غلطیاں بھی ہو گئی ہیں تو تم کون ہوتے ہو خدا سے بڑھ کر ان پر پکڑ کرنے والے اللہ تعالیٰ تو ایسے بندوں سے عفو کا سلوک فرماتا ہے، درگز رکا سلوک فرماتا ہے اور تمہیں کسی ایسے احساس نے کہ کبھی مجھے انہوں نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا تھا یا مجھ سے جو میں سلوک توقع رکھتا تھا وہ سلوک نہیں کیا تھا.اس احساس نے ہمیشہ کے لئے ایک آگ میں مبتلا کر دیا ہے.ہر وقت ان کے خلاف تخریبی کاروائیاں، ہر وقت ان کے خلاف تنقید ، زبان ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی اور اردگرد کی جو نسلیں ہیں جو تمہارے پاس آکر بیٹھتی ہیں ان کو بھی ایک جہنم کی آگ میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہو.ایسے تنقیدی اڈے بعض دفعہ ظاہری بدیوں کے اڈوں سے زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات ان سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایمان کے مرکز پر حملہ کرتے ہیں، یہ زندگی کی روح پر حملہ آور ہوتے ہیں.تبھی قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرح بھی بیان فرمایا کہ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ:۱۹۲) کر قتل سے تو ظاہری جسم مارا جاتا ہے لیکن بعض فتنے ایسے ہوتے ہیں جو روح کو قتل کر دیتے ہیں، ایمان کی جان لے بیٹھتے ہیں.وہ ظاہری قتل سے زیادہ خطرناک ہیں ، زیادہ کبیرہ گناہ ہیں اور ان لوگوں کو یہ پتا نہیں لگتا کہ ہم کتنا بڑا کبیر گناہ کر رہے ہیں اور بے تکلف اپنی زندگیاں ان باتوں میں گلا دیتے ہیں.سب سے زیادہ نقصان ان کو اپنے گھر میں پہنچتا ہے اگر یہ اپنے گھر کو اڈہ بنائے ہوئے ہوں.بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ دوسروں کے گھروں میں جا کر ایسی مجلسیں لگاتے ہیں.ان کے بچے تو بیچ بھی سکتے ہیں اگر وہ اپنے گھر میں ایسی باتیں نہ کریں لیکن وہ لوگ

Page 775

خطبات طاہر جلدے 770 خطبہ جمعہ ا ا ر نومبر ۱۹۸۸ء جو اپنے گھروں میں ایسے اڈے بناتے ہیں ان کے متعلق الا ماشاء اللہ خدا کی یہی تقدیر ظاہر ہوتی ہے کہ ان کی اولادیں ضائع ہو جاتی ہیں.وہ خود جماعت سے منسلک رہ کر اپنی ساری زندگی گزاردیتے ہیں اور گھر میں جو وہ باتیں کرتے ہیں وہ ان کی اولادوں کو اس طرح روحانی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ اکثر ان کا انجام ہلاکت ہے.چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ایسے احمدی جو اپنی ذات میں ہمیشہ ذاتی طور پر جماعت سے منسلک رہے اور کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ بے وفائی کر کے الگ ہو جائیں گے لیکن انہوں نے اپنے گھروں میں اپنی کسی محرومی کے احساس کے نتیجے میں ہمیشہ جماعت کے عہدیداروں پر تنقید کی نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اولادیں ضائع ہو گئیں یا جماعت کو چھوڑ گئیں یا وہ زبانیں جوگھر میں چھپ کر دراز کرتے تھے ان کو باہر گلیوں میں دراز کرنے کا موقع ملنا شروع ہوا، جرات ہونی شروع ہوئی اور کھلم کھلے جماعت کے باغی بن کر انہوں نے زندگیاں بسر کرنی شروع کیں یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ان کو خدا کی تقدیر نے جماعت سے منقطع کر کے الگ پھینک دیا.تو ایسے دانشوروں کو میں سمجھاتا ہوں ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہوش کرو.قرآن کریم جب فرماتا ہے لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ (الانعام : ۱۵۲) اس کا یہی مطلب ہے.تو یہ نہ سمجھو کہ قتل اولاد سے مراد یہ ہے کہ چھریاں چاقو لے کر ان کو قتل کرو گے.تم اپنے ہاتھوں سے اپنی اولا دوں کو قتل کر رہے ہوتے ہو اور تمہیں کوئی احساس نہیں ہوتا کہ تم نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے.وہ لوگ جو خدمت دین میں مصروف ہیں جن کو تم اپنی تنقیدوں کا ظالمانہ نشانہ بناتے ہو ان پر تو خدا فضل فرمائے گا ان کی بدیاں دن بدن جھڑتی چلی جائیں گی ، ان کی کمزوریاں دور ہوتی چلی جائیں گی وہ ابرار کی حالت میں جان دیں گے مگر تمہارے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ تم کس حالت میں جان دو گے اور تمہاری اولادوں کے متعلق تو غالب احتمال ہے کہ وہ ایسی حالت میں جان دیں گی کہ خدا کے حضور مجرم ٹھہر چکی ہوں گی.اس لئے یہ جو زبان کے چسکے ہیں ان کو معمولی نہ سمجھو.ان سے بہت سے بدنتائج ظاہر ہوتے ہیں.یہ ممکن ہے ، یہ احتمال موجود ہے کہ تم تو اپنا زہر اپنی اولاد پر اگلتے ہوئے ، ان کو ڈستے ہوئے خود تو بیچ تاب کھاتے ہوئے ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ اور بعد میں یہ اپنی بدنصیبی کی لکیر پیٹتے رہ جائیں اور کوئی ان کا علاج نہ ہو سکے.اس لئے ان اڈوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے جماعتوں کو اور ان کو سمجھانا چاہئے.محبت اور

Page 776

خطبات طاہر جلدے 771 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء پیار سے سمجھانا چاہئے اور حکمت سے سمجھانا چاہئے اور ان لوگوں کو سمجھانا چاہئے جو ایسے اڈوں میں جا کر بیٹھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑا.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ واقفین زندگی بھی ایسی حرکتوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان سے بھی خدا کی تقدیر بالکل اسی طرح سلوک کرتی ہے.دو قسم کے واقفین زندگی آپ کو نظر آئیں گے بعض ایسے ہیں جن کی اولا د در اولا د سلسلہ کی عاشق رہتی ہے اور ایک نسل کے بعد دوسری سلسلہ سے محبت کرتی چلی جاتی ہے.ان کے متعلق آپ یقین جانیں کہ ان کے گھروں میں ان کے ماں باپ نے ہمیشہ اخلاص کی باتیں کی ہیں.تکلیفیں بھی اٹھائی ہیں، دکھ بھی اٹھائے ہیں سخت تنگی ترشی میں بھی گزارے کئے ہیں اور بعض دفعہ واقعہ بعض کارکنوں نے ان کے ساتھ ناحق سلوک بھی کیا ہو گا لیکن ہمیشہ صبر کے ساتھ ان باتوں کو برداشت کیا اور گھر میں ہمیشہ ایسی باتیں کی جو سلسلہ کی محبت بڑھانے والی ہیں اور قربانی میں ایزاد کرنے والی ، قربانی کو بڑھانے والی باتیں کرتے رہے.چنانچہ ان کی اولادیں پھر ان کی اولا دیں آپ دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں بھی آپ کو نظر آئیں گی ، جس حال میں بھی آپ ان کو دیکھیں گے یہ سلسلہ کے عاشق ہوں گے ، سلسلہ کی محبت میں مبتلا اس کی خاطر جان ، مال، عزتیں قربان کرنے والے.بعض واقفین زندگی ایسے بھی ہیں بدنصیبی کے ساتھ جنہوں نے ساری عمر تو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا اپنے آپ کو اور خدمتیں بھی کیں لیکن کبھی کسی تحریک جدید کے افسر سے ناراض ہو کر اور کسی سلوک کے نتیجہ میں ان کے دل میں ہمیشہ ایک انتقام کی آگ بھڑکتی رہی اور چونکہ حسد سے جو دانشوری پیدا ہوتی ہے وہ جہنم سے ہٹانے والی نہیں بلکہ جہنم کی طرف لے جانے والی ہوا کرتی ہے.آگ کی اولاد ہمیشہ آگ ہو گی ، آگ کی جنت نہیں پیدا ہوا کرتی.اس لئے پھر ان کے گھروں میں وہ جہنم پیدا کرنے کے کارخانے قائم ہو جاتے ہیں.اپنے گھر میں بیٹھ کر دبی زبان سے شکوے کرتے ہیں ہم سے یہ ہوا، ہم سے وہ ہوا، ہماری فلاں جگہ تقرری ہونی چاہئے تھی ، فلاں شخص نے ظلم کی راہ سے اور پارٹی بازی کے نتیجہ مجھے نیچا دکھانے کے لئے یہ کیا وہ کیا.اب اولاد جب اپنے باپ کی مظلومیت کے قصے سنے گی تو اس کا رد عمل وہاں تک نہیں رہے گا جہاں تک اس کے باپ کا رد عمل تھا.اس کے باپ کے اوپر اس کے ذہن کی بالغ قوتوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور اس کے جو ردعمل ہیں وہ جس طرح گھوڑے کی باگیں ہاتھ میں ہوتی

Page 777

خطبات طاہر جلدے 772 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء ہیں ایک حد تک اس کے ہاتھ میں رہتے ہیں لیکن اولاد کے ردعمل پر کوئی باگیں نہیں ہوا کرتیں پھر.پھر یہ شتر بے مہار کی طرح جس طرف سر اٹھا ئیں نکل جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی اولا دیں ضائع ہو جاتی ہیں.بعض لوگوں کے متعلق اطلاع ملتی ہے کہ ان کا بیٹا ہے اور فلاں جگہ کام کرتا ہے اس نے یہ، اس قسم کی ظالمانہ تنقید کی گویا کہ اپنی دانشوری کے اڈے بنائے ہوئے ہیں اور نئی نسلوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کا باپ ہے.اس نے عمر بھر خدمت کی باہر بھی اور اندر بھی لیکن میں جانتا ہوں کہ اس میں یہ عادت ہے.محلے کی مجلس میں وہ محلے کی انتظامیہ سے شا کی ہوگا ،فلاں سے شاکی ہو گا.باہر سے محبت اور حسن سلوک سے باتیں کرے گا لیکن گھر میں بیٹھ کر وہ اندرونی دبی ہوئی آگ جو ہے وہ بھڑک اٹھتی ہے.اب نام لینے کا تو کوئی مناسب موقع نہیں ہے نہ مناسب ہے کہ کوئی ایسے معاملات میں کسی کو نام لے کر نگا کرے.کبھی ایک دو، تین، چار ایسے بہت سے ہوا کرتے ہیں ہمیشہ رہے ہیں.وہ لوگ جنہوں نے قریب سے دیکھا ہے انتظامیہ ربوہ میں قادیان میں ان کو پتا ہے کہ کئی ایسے کچھ دیر رہے، کچھ کو تو مدینہ نے نکال باہر پھینک دیا اور انہوں نے اپنے آپ کو اس ماحول سے اتنا دور سمجھا ایسی اجنبیت دیکھی کہ بالآخر خود نکل کے چلے گئے.کچھ ایسے تھے جن کی اولادیں تباہ ہو گئیں خودر ہے.اسی طرح مختلف قسم کے بداثرات انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خود کمائے.تو ان لوگوں کو بھی میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کے خدا کی یہ تقدیر غیر مبدل ہے، اٹل ہے، یہ آپ کے ساتھ ضرور جاری ہوگی.دانشور ضرور بنیں لیکن اس رنگ کے دانشور بنیں جس رنگ کے دانشور قرآن بنانا چاہتا ہے.اللہ کی محبت کے نتیجہ میں جو دماغ صیقل ہوتا ہے اور فکر کو جلا ملتی ہے اس جلا کے طلب گار ہوں.اس چمک کو خدا سے مانگیں کہ آپ کی تمام صلاحیتیں چمک اٹھیں اور جگمگانے لگیں لیکن الہی محبت میں اور تدبر میں اور فکر میں اور خدا تعالیٰ سے ایسا مزاج مانگیں کہ جس کے نتیجہ میں آپ جہاں بھی جائیں وہاں نیکیاں پیدا کرنے والے ہوں ،سلسلہ کی محبت بڑھانے والے ہوں تسکین قلب نصیب کرنے والے ہوں، جو آپ کے قریب آئیں ان کو سکینت قلب میسر ہو بجائے اس کے کہ ان کی بے چینی اور بے قراری بڑھنی شروع ہو.لیکن اس کے باوجود جماعت کے ان ذمہ دار افسروں کی بھی بھاری ذمہ داری ہے جن کی وجہ سے بعض لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں ان کی بے احتیاطی کی وجہ سے.اگر چہ بذات خود میں اس میں کوئی عیب نہیں دیکھتا کہ اگر سلسلہ کے کسی افسر کو کوئی کا رملی ہے، کوئی سہولت ملی ہے تو پھر بچوں کو بھی اس میں شامل کر

Page 778

خطبات طاہر جلدے 773 خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۸۸ء لے آخر بچوں کا بھی حق ہے.قرآن کریم نے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات میں کھول کھول کر اس حق کو بیان فرمایا ہے.یہاں تک کہ یہ بھی فرمایا کہ بعض چندہ دینے والے تھے ان کا چندہ واپس کر دیا ، ان کو روک دیا کہ اتنی قربانی نہیں کرنی.و لنفسک علیک حق و لاهلک علیک حق (مسند احمد حدیث نمبر :۶۵۸۳) تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے، تیرے اہل کا بھی تجھ پر حق ہے.کیسا متوازن اور حسین اخلاق کا مظاہرہ ہے اور کیسی متوازن اور حسین اخلاق کی تعلیم ہے.اس کے مطابق اگر کسی نے اپنی سہولتوں میں اپنے بچوں کو کبھی شامل کر لیا.کبھی لاہور دورے پر گیا ہے تو بچوں کو بھی ساتھ لے گیا.واقفین کے بچے آخر قید ہونے کے لئے تو نہیں بنائے گئے اور کبھی ان کو شالا مار کی سیر کرا دی تو آگ لگنے کی کیا ضرورت ہے.اس قدر کونسا گناہ عظیم اس سے مرتکب ہو گیا ہے کہ اس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناؤ لیکن ایسے لوگوں پر جو طعن و تشنیع کے محل پر کھڑے رہتے ہیں بیچارے ان کو طوعی طور پر قربانی کی خاطر بعض بیماروں کو بچانے کے لئے اپنے معاملات میں احتیاط کرنی چاہئے اور جس حد تک ممکن ہے وہ احتیاط کرنی چاہئے اور کوئی اس سے بڑی قیامت نہیں آجائے گی.یہ نہیں میں کہتا کہ پوری طرح اپنے خاندانوں کو محروم کر دیں مگر مثلاً اگر آپ اپنے بیٹوں کو کاریں دیں کہ وہ دندناتے پھر میں بازاروں اور گلیوں میں اور اس کا غلط استعمال کریں اور اپنے ساتھ دوستوں کو لے کر پھریں تو یہ یقیناً حد سے بڑھنے والی بات ہے.یہاں آپ کا عمل واقعہ سرزنش کے لائق بن جاتا ہے.پھر اسے عادت بنالیں ساتھ دو قدم پر بازار ہے کہ جب بھی نکلنا ہے موٹر میں قدم رکھنا ہے اور موٹر سے قدم نکال کر دکان تک پہنچنا ہے یہ تو اچھی عادت نہیں ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے ربوہ میں ایک ذاتی کار کی توفیق دی بھی ہوئی تھی تو مجھے تو سخت گھبراہٹ ہوتی تھی کہ ہر قدم پر اٹھ کے کار میں داخل ہوں اور کار کے ذریعے دوسری جگہ پہنچوں.مجھے بڑی سختی سے گھبراہٹ اور قید کا احساس ہوتا تھا.یا پیدل یا سائیکل پر جو لطف اس کا ہے عام نزدیک کے فاصلے طے کرنے کا وہ کار کا تو نہیں کار تو ایک مصیبت ہے ایسے موقع پر.تو آپ اپنے سائیکل استعمال کریں اپنے پاؤں استعمال کریں، چہل قدمی کریں صحت بھی اچھی ہو گی لطف آئے گا اور بعض لوگ جو بیچارے خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو تکلیف نہیں ہوگی.وہ جعفری نے ایک دفعہ ایک مشاعرے میں ایک نظم کہی تھی مزاحیہ کلام تھا تو اس مزاحیہ کلام پر اس کو تمغہ ملا.لیکن اس کو غالباً معلوم ہو گیا تھا کہ ایسانیا انداز ہے کہ تمغہ مل جانا ہے تو اس تمغے کے خلاف بھی اس نے ایک بات کر دی.اس نے یہ تلا کر یہ نظم کہی

Page 779

خطبات طاہر جلدے 774 خطبہ جمعا ارنومبر ۱۹۸۸ء تھی اس نے.ایک نیا تصور تھاجو پہلے اردو شاعری میں کہیں نہیں نظر آتا کہ وزن پورا کیا ہے تلا تلا کر گویا میں تو تلا ہوں اور میں اس طرح شعر کہہ رہا ہوں.تو اس نے کہا: ج- ج- جعفری غریب ہے ت ت.تمغہ اس کو نہ دیجئے اور آخری میں کچھ تھا کہ: د د...دوسروں کو جلن نہ ہو تو ٹھیک ہے آپ بھی دوسروں کو جلن کیوں پیدا کرتے ہیں خواہ مخواہ.جہاں تک بے اختیاری کا معاملہ ہے جنہوں نے جلنا ہے وہ تو حاسد ہے قرآن کریم کے بیان کے مطابق انہوں نے جلنا ہی ہے.ان کے دل پر رحم بھی کیا کریں کچھ کم مواقع پیدا کیا کریں ان کی جلن کے اور یہ احساس رہے لوگوں کو کہ آپ کو جماعت کی عطا کردہ سہولتوں کا احساس ہے تشکر کا جذبہ بھی ہے اور آپ نہیں چاہتے کہ ضرورت سے زیادہ ان کو استعمال کریں.اس کے نتیجے میں سوسائٹی میں تقویٰ کا معیار بڑھتا ہے اور آپ کو بجائے اس کے کہ لوگ برائی کی طرف مائل ہوں آپ کو توفیق ملے گی کہ آپ نیکیاں بڑھانے کا موجب بنیں گے.اس کے علاوہ کچھ اور باتیں ہیں جو میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں یا اس کے بعد کے خطبہ میں بیان کروں گا یعنی وہ ذرائع جن ذرائع سے ہم انفرادی طور پر معاشرے کی اصلاح میں ایک غیر معمولی کردار ادا کر سکتے ہیں.یہ تو انتظامی باتیں ہیں لیکن میرا یہ ایمان ہے کہ جب تک ہمارے اندر سے ایک مفکر، ایک مدبر، ایک مصلح پیدا نہ ہو اس وقت تک حقیقی معنوں میں نہ ہماری اصلاح ہو سکتی ہے نہ ہم معاشرے کی اصلاح کے اہل بن سکتے ہیں.اس لئے آج ایک یا دو یا تین یا چار مذکروں سے کام نہیں بنے گا.آج ہر احمدی کو مذکر بنا ہو گا اور وہ نہیں بن سکتا جب تک اس کے ضمیر میں سے ایک مذکر پیدا نہ جو ہر وقت اس کو پہلے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہ کر رہا ہو اور اس کے بعد انکساری کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کا اہل نہ بنا دے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو اس طرح ادا کریں کہ خدا کے پیار اور محبت کی نگاہیں ہم پر پڑنے لگیں.آمین.

Page 780

خطبات طاہر جلدے 775 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء گناہوں کا شعور پیدا کریں جس سے روحانی فراست ملتی ہے.تنقید جزام کا مرض بن جاتی ہے (خطبه جمعه فرموده ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کیں :.وَالَّذِيْنَ جَاءُ وَ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (الحشر: (1) گزشتہ ایک خطبہ میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے ایک موقع پر بدھ کے دن کو منحوس قرار دیا.وہ خطبہ جب مختلف جماعتوں میں پہنچا تو معلوم ہوتا ہے بعض لوگوں کو اس سے غلط نہیں ہوئی اور وہ حدیث کے مفہوم کو صحیح سمجھ نہیں سکے.جہاں تک دنوں کا تعلق ہے فی الحقیقت کوئی دن بھی منحوس نہیں بلکہ بعض دنوں میں گزرنے والے ماجرے بعض دنوں کو منحوس بنا دیتے ہیں اور بعض دنوں کو مبارک دن بنا دیتے ہیں.خود حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے سوال کرنے والے کے سوال کے جواب میں جو مثال بیان فرمائی اس پر اگر تدبر کیا جاتا تو کبھی یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوتی.حضور اکرم ﷺ کا کلام ایک عام انسان کا کلام نہیں اور کلام کلام کرنے والے کے رتبے اس کے مقام سے پہچانا جاتا ہے.ایک ہی بات ایک عام آدمی کہتا ہے اس کی بات میں گہرائی اور ہوتی ہے اور وہی بات ایک اور شخص کہتا ہے تو اس کی بات میں اور زیادہ گہرائی پیدا ہو جاتی ہے.کلام الہی اور کلام انسانی میں یہی فرق ہے.قرآن کریم کا مطالعہ کریں ایک سطحی معنی آپ کے ذہن پر ابھرتے

Page 781

خطبات طاہر جلدے 776 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء ہیں لیکن جوں جوں آپ مزید تد بر کرتے چلے جائیں اس کی گہرائی میں اور زیادہ معارف کے موتی آپ کو نظر آنے شروع ہوں گے یہاں تک کہ انسان اپنی فکر کے مطابق جتنی بھی جستجو کرتا چلا جائے کلام الہی کی گہرائی کسی ایسے مقام پر نہیں پہنچ سکتی جہاں اس سے آگے رستے بند ہوں ، جس کے بعد کوئی آگے مقام نہ آتا ہو.یہی مضمون کائنات پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے.سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس نے اپنی جستجو میں معارف کے منتہا کو پالیا ہو.وہی خدا جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہی قرآن کریم کا خدا بھی ہے.اس لئے جس طرح دنیا کے معارف یعنی مادی دنیا کے معارف لامنتہا ہیں اور کوئی دنیا کا بڑے سے بڑا مفکر اور مدبر اور سائنس دان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس چھوٹی سی حقیقت کے پس پردہ جتنی حقیقتیں بھی تھیں ہم نے سب کو پالیا ہے.جوں جوں وہ جستجو کا سفر آگے بڑھاتے ہیں نئے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور جستجو کے نئے میدان ان پر روشن ہوتے چلے جاتے ہیں.اس نسبت سے اللہ کے کلام کے بعد سب سے زیادہ پر معارف ، سب سے زیادہ گہرا کلام حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کا کلام ہے.ایک شخص نے سوال یہ کیا کہ کون سا دن منحوس ہوتا ہے.اس کے جواب میں آپ نے بدھ کا دن بیان کر کے اس کی وجہ بیان فرمائی.فرمایا اس دن فرعون اپنے انجام کو پہنچا اور خدا کی قہری تجلی اس پر گری (الدر المخور صفحه : ۶۷۷ زیر آیت انا ارسلنا..سورۃ قمر:۱۹) اور چونکہ وہ خدا کے غضب کے اظہار کا دن تھا اس لئے وہ منحوس دن تھا لیکن اسی دن حضرت موسیٰ نے نجات بھی تو پائی تھی.وہ دن حضرت موسی کے لئے مبارک دن بھی تو تھا.غور کرنے والے کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوا کہ خدا کے عذاب کا دن ان لوگوں کے لئے منحوس ہے جن پر وہ عذاب نازل ہوتا ہے.ان لوگوں کے لئے نہیں جن کی وجہ سے وہ عذاب نازل ہوتا ہے.جن کو بچانے کے لئے وہ عذاب نازل کیا جاتا ہے.پس ایک پہلو سے دن منحوس ہے دوسرے پہلو سے وہی دن برکتوں والا دن بن جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایک بھی دن ایسا نہیں آیا، ایک دن کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جسے آپ منحوس قرار دے سکیں.پس اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ دن نے نحوست پیدا نہیں کی تھی بلکہ فرعون نے اس دن کو منحوس بنایا تھا.ہر مکان کو اس کے مکین سے شرف حاصل ہوا کرتا ہے.اسی طرح زمانے کا بھی ایک ظرف ہے.اس ظرف میں جو کام کئے جاتے ہیں وہ زمانے کو منحوس بھی بنا دیا کرتے ہیں اور مبارک بھی کر دیا کرتے ہیں.پس بدھ کا دن ایک پہلو سے منحوس تھا ان لوگوں کے نقطہ نگاہ سے جن پر خدا کا

Page 782

خطبات طاہر جلدے 777 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء عذاب نازل ہوا اور ایک پہلو سے بے انتہا مبارک دن تھا جو تاریخ میں کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکے گا کیونکہ اس دن خدا نے ایک مظلوم قوم کو ایک ظالم کے پنجہ سے نجات بخشی تھی.اس پہلو سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی روشنی میں اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں ہم بدھ کے دن پر غور کرتے ہیں تو یقیناً اس میں جہاں بعض نحوستیں ہیں وہاں جماعت احمدیہ کے لئے بہت سی برکتیں بھی ہیں لیکن ان برکتوں کے دور کے بعد ابتلاؤں کے دور بھی ہوا کرتے ہیں اور ان برکتوں کو حاصل کرنے کا اہل بنانا ان لوگوں کا کام ہے جن کی خاطر وہ برکتیں مقدر کی جاتی ہیں.اس دن کے بعد جس دن حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو اور آپ کی قوم کو نجات عطا ہوئی اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں.خدا کے بہت سے وعدے تھے ان کے حق میں لیکن بدقسمتی سے قوم کی بداعمالی کی وجہ سے وہ وعدے مل گئے.اس سے معلوم ہوا کہ برکتیں بھی جو مقدر ہوتی ہیں اگر ان کا اہل انسان اپنے آپ کو ثابت نہ کرے تو وہ برکتیں بھی مل سکتی ہیں.اگر چہ خدا کے وعدے بالآخر ضرور پورے ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ تاخیر کے ساتھ پورے ہوتے ہیں.اس لئے جن خدا کے بندوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے.نشان دکھائے جاتے ہیں ان بندوں پر بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جنہیں انہیں بہر حال ادا کرنا ہوگا.ان امور کے پیش نظر میں جماعت کو ان دنوں میں خصوصیت سے دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہم ایک خاص سال کے عرصہ سے گزر رہے ہیں جو ابتہال کا سال ہے، جو دعاؤں کا سال ہے، جو روحانی مقابلوں کا سال ہے اور یہ دوڑ ابھی ختم نہیں ہوئی.بہت سے دشمن ایسے ہیں جنہوں نے ہار تسلیم نہیں کی.جو خدا کی تقدیر کو ظاہر ہوتے دیکھتے ہوئے بھی پھر بھی اس سے ٹکرانے کا عزم لئے ہوئے ہیں.وہ خدا کی تقدیر کا رخ تبدیل کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں.بہت سی سازشیں ہو رہیں ہیں ، بہت سے بدارا دے منصوبوں کی شکل میں ڈھالے جارہے ہیں اور بہت سے خطرات ہیں جو ابھی جماعت کو درپیش ہیں.اس لئے ان ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے.تربیت کے مضمون سے متعلق جو میں نے خطبات کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ اسی امر کے پیش نظر کیا تھا لیکن جہاں تک دن کے مبارک ہونے کا تعلق ہے.بدھ کا دن یقیناً جماعت کے لئے مبارک ہے لیکن اس کی برکتوں کے حصول کے لئے ابھی بہت سی منزلیں طے کرنی باقی ہیں.اس لئے

Page 783

خطبات طاہر جلدے 778 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء جماعت کو دعائیں جاری رکھنی چاہئے اور ساری جماعت کو ان دعاؤں میں شامل ہونا چاہیئے.اس سلسلہ میں ایک بہت اہم نقطہ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں اجتماعی دعاؤں کی دوطرح سے برکتیں ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ اجتماعی دعا انسان کو شرک سے پاک کرتی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس کی دعا لگی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو بعض دفعہ ایک اچھی دوا کے ساتھ جس کے متعلق اعتماد ہوا کرتا تھا کہ یہ دوا کسی خاص بیماری میں مفید ہے اور دوائیں بھی شامل فرما لیا کرتے تھے اور اس نیت سے شامل فرمایا کرتے تھے کہ میرا کہیں زیادہ انحصار اس دوا پر نہ ہو جائے اور نہ کہ سکوں کے خدا کی پیدا کردہ چیزوں میں سے کس نے مجھے زیادہ شفا بخشی تھی اور توجہ اسی طرف مبذول رہے کہ خدا نے شفا بخشی تھی بعض چیزوں میں اور ان چیزوں سے میں نے فائدہ اٹھایا.اس لئے اجتماعی دعا میں بھی ایک گہرا فلسفہ ہے اور وہ تو حید کا فلسفہ ہے.جب ساری جماعت دعا کرتی ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس کی دعا مقبول ہوئی.بحیثیت مجموعی سب جماعت خدا کے حضور عجز کرتی ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی دعا مجموعی شکل میں ایک اثر دکھاتی ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اجتماع میں شریک کثرت سے لوگوں کے دلوں پر مختلف واردات مختلف وقتوں میں طاری ہوتی ہیں، ان کے دلوں پر واردات پیدا ہوتی ہیں اور وہ خاص کیفیات دعا کی مقبولیت کے لئے ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہیں.اس لئے بہت بڑی تعداد میں جب جماعت دعا کر رہی ہوتی ہے تو جس طرح جگنو چمکتے ہیں اندھیرے میں بیشمار جگنو ہیں ان میں کچھ بجھ بھی گئے ہوتے ہیں کچھ جل بھی رہے ہوتے ہیں لیکن مجموعی تاثر یہی ہوتا ہے کہ رات روشن ہوگئی ہے.مشرقی بنگال میں ایک دفعہ یہ سندر بن کے علاقے میں میں نے یہ نظارہ دیکھا.سارا جنگل کا جنگل روشن ہوا ہوا تھا اور جگنوؤں کی وجہ سے روشن ہوا ہوا تھا لیکن باوجود اس کے کہ تقریباً نصف جگنو ایک وقت میں بجھے ہوئے ہوتے تھے لیکن کچھ دوسرے جگنو چونکہ روشن ہوتے تھے اس لئے ایک لمحہ بھی ایسا نظر نہیں آتا تھا جبکہ تاریکی ہو تو اجتماعی دعا کی برکت سے خدا کے بعض بندوں کے دلوں میں مختلف تحریک مختلف وقتوں میں پیدا ہو رہی ہوتی ہے اور ان کو قبولیت کے لمحے عطا ہوئے ہوتے ہیں.اس لئے اس سارے عرصے میں کوئی ایک لمحہ بھی مومن کی اجتماعی زندگی پر ایسا نہیں آتا جس میں روشنی نہ ہو.اس لئے ضروری ہے کہ کثرت کے ساتھ تمام دنیا کے احمدی مسلسل دعاؤں میں مصروف رہیں.

Page 784

خطبات طاہر جلدے 779 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء جہاں تک دعا کے لمحات کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی کچھ وضاحت پیش کرنا ضروری ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ دعا کا خاص لمحہ نصیب ہو.وہ بھی دراصل مضمون کو الٹ دیتے ہیں.جس طرح دن نہ نحوست پیدا کیا کرتا ہے نہ برکت پیدا کیا کرتا ہے.دلوں میں پیدا ہونے والے واقعات نحوست بھی پیدا کرتے ہیں اور برکت بھی پیدا کرتے ہیں.اسی طرح دعاؤں کے لمحے دلوں سے پیدا ہوتے ہیں کوئی بیرونی وقت کا اثر ہر گز نہیں جو دعاؤں کو مقبول لمحے عطا کرتا ہو.کیفیات ہیں اور ان کیفیات کا تعلق خدا تعالی کی شان سے ہے.قرآن کریم نے اس فلسفے کو اس طرح بیان فرمایا کہ : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن:۳۰) کہ خدا ہر لمحے اپنی ایک خاص شان میں ہے.بعض لوگ اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ بعض خدا کی شانیں مقبولیت کی شانیں ہیں اور بعض نامقبولیت کی شانیں ہیں اور ہمیں مقبولیت والی شان نصیب ہو.یہ بات درست نہیں ہے.خدا کی ہرشان مقبولیت کی بھی ہو سکتی ہے اور غیر مقبولیت کی بھی ہو سکتی ہے.مقبولیت کی اس وقت ہوگی جب آپ کے دل کی شان خدا کی شان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے.جب آپ دنیا میں آپس میں معاملات کرتے ہیں تو جس انسان کے مزاج کو آپ سمجھتے ہوں اس کے مزاج کے لمحات کے مطابق اس سے بات کرتے ہیں اور اگر آپ اسے صحیح سمجھتے ہوں اور اچھی طرح خوب پہچانتے ہوں تو اس شخص کے مزاج کا ہر لمحہ آپ کے لئے مقبول لمحہ بن جاتا ہے.اگر آپ کسی کا مزاج نہ سمجھتے ہوں اور اس کے مزاج کے کسی خاص لمحے کے برخلاف بات اس سے کریں اور اگر آپ بالکل نہ سمجھتے ہوں اور ہمیشہ مخالفانہ بات کریں تو آپ کی ہر بات اس کے حضور نا مقبول ٹھہرے گی.ہم آہنگی ہے جو قبولیت دیا کرتی ہے.اس لئے خدا کی شان کے مطابق جب ایک کثرت سے جماعت دعا میں مصروف ہو کسی نہ کسی کے دل کو وہ ہم آہنگی کالمحہ نصیب ہو جایا کرتا ہے اور وہی مقبولیت کی شان پیدا کیا کرتا ہے.جس طرح سائنس کی دنیا میں لیزر بیم (Laser Beam) کا فلسفہ ہے کہ وہ مادہ جس کی Wavelength جس کی لہروں کے انداز ، ان کے فاصلے آپس میں ، ان کے زیر و بم کے طریق لیزر کی لہروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں تو اس سے ایک غیر معمولی ہر اٹھتی ہے جو عام لہروں سے اتنی بلند ہوتی ہے کہ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں ہوا کرتی.پس جب آپ کے دل کی کیفیت خدا کی کسی شان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے ، خاص ایسا جذبہ

Page 785

خطبات طاہر جلدے 780 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء آپ کے دل میں پیدا ہو جو خدا کی اس شان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جو اس وقت خدا دکھا رہا ہے تو اتنی غیر معمولی ایک دعا کی لہر آپ کے دل سے اٹھتی ہے کہ اس کی موجیں خدا کی رحمت کے پاؤں پر چھلکنے لگتی ہیں اور اسے نمدار کر دیتی ہیں اور ناممکن ہے کہ پھر وہ دعا نا مقبول ہو.تو اگر ساری جماعت اسی طرح دعاؤں میں لگی رہے ، جماعت کے ہر فرد کے مختلف جذبات ہیں، مختلف کیفیات ہیں مختلف ان کی پاکیزگی کے حالات ہیں، مختلف خلوص کے حالات ہیں.توحید کا عرفان بھی ہمیشہ ایک سانہیں رہا کرتا ، بعض اوقات توحید کا عرفان ایک خاص شان کے ساتھ انسان کے سامنے ابھرتا ہے، ایسے لمحات جب خدا کی کسی شان سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو اس دعا میں سے ایک عظیم قوت اٹھتی ہے اور دعا کرنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دعا نا مقبول نہیں ہوسکتی.اس لئے بہت ہی ضروری ہے کہ ہر آدمی خواہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے یا بڑا سمجھے یا عام دنیا کی نظر میں نیک ہو یا بد ہو دعاؤں میں مصروف رہے.احادیث سے پتا چلتا ہے کہ بعض دفعہ بدوں کے دل سے بھی ایک ایسی دعا اٹھتی ہے جو خدا کی کسی شان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور ان کی ساری عمر کی بدیاں ان کو جہنم میں دھکیلنے میں ناکام رہتی ہیں اور اس ایک لمحے کی دعا مقبول ہو جاتی ہے اور اس کی ساری زندگی کی بدیوں کے عذاب سے ان کو بچالیتی ہے.تو حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ کا کلام بہت ہی عارفانہ کلام ہے، بہت ہی گہرا ہے اور اس کے مطالب کو سمجھنا چاہیئے.اس لئے میں جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کے دعاؤں میں مصروف رہیں اور دعاؤں کو ادلتے بدلتے رہیں ان کے رخ پلٹتے رہیں.یہ بھی ایک قبولیت دعا کا مقام حاصل کرنے کے لئے ایک اچھا راز ہے.اس کو سمجھنے سے آپ کو قبولیت دعا کا ایک اور فلسفہ سمجھ آجائے گا.ایک ہی نہج پر ایک ہی طرز پر جس طرح طوطا بولتا ہے یا کوئی بچہ جس نے سبق رٹا ہو وہ سبق پڑھتا ہے اس رنگ میں اگر کوئی دعا کرتا چلا جائے تو ہو سکتا ہے اس کی ساری عمر کی دعا بھی بے معنی ہو.اسی لئے وہ لوگ جو وظیفوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں بسا اوقات وہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں.وہ ان باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں کون سا وظیفہ ملے جو کار گر ثابت ہو.حالانکہ اصل وظیفہ وہ ہے جو دل کا تعلق خدا سے پیدا کر دے اور کوئی وظیفہ یہ کام نہیں کر سکتا جب تک اسے سمجھ کر غور کر کے اپنے دل پر طاری کر کے اسے ادا نہ کیا جائے اور دعاؤں میں بھی آپ کو اس طرح دعاؤں کو الٹنا پلٹنا چاہئے کہ آپ کے مزاج میں سے وہ روح نکالیں، آپ کے دل میں ایک گرمی پیدا کریں.آپ کی فطرت میں وہ سوز عطا کر دیں جس کے نتیجے میں پھر

Page 786

خطبات طاہر جلدے 781 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء دعاؤں میں قوت پیدا ہوتی ہے.اس لئے دعاؤں کے رنگ بدلنے چاہئیں.کبھی کسی رنگ میں کبھی کسی رنگ میں.الٹ پلٹ کے دعاؤں کو مختلف رنگ میں اس طرح بیان کرنا چاہئے کہ آپ کو محسوس ہو کہ آپ کے دل میں اس کے ساتھ ایک خاص حرکت پیدا ہوئی ہے، ایک خاص گداز پیدا ہوا ہے.محض رونا کوئی چیز نہیں ہے.وہ کیفیات ایسے تجربے ہیں جو اچانک آپ کو نصیب ہوں گے.کوشش کریں محنت کریں اور اپنے ذہن میں ایسے انداز سوچتے رہیں جس سے آپ کے دل میں گرمی پیدا ہو آپ کے مزاج میں ایک خاص قسم کا روحانی لطف پیدا ہو.ایسی کوشش کے نتیجے میں پھر وہ لمحے آپ کو نصیب ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں آپ کے دل کی شان خدا کی کسی شان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے اور پھر از خود اپنی قوت سے ایک دعا اٹھے گی جس کے لئے زور نہیں لگانا پڑتا.وہ دعا ایسی دعا ہو گی جو خود بتائے گی کہ میں ایک خاص لمحے کی پیداوار ہوں یا میں وہ دعا ہوں جس نے یہ بچہ پیدا کیا ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو قبولیت کے عظیم الشان نشان دکھائے جائیں گے.جہاں تک تربیتی مضمون کا تعلق ہے میں بیان کر رہا تھا کہ بعض دانشور ہوتے تو دانشور ہی ہیں یعنی جہاں تک انسانی پیمانوں کا تعلق ہے ان کی عقل، ان عقل کی جلا وغیرہ اور ان کے طرز فکر کو آپ ایک دانشوری کی طرز فکر اور دانشور کی عقل کی جلا کہہ سکتے ہیں لیکن میں نے قرآن کریم کی اصطلاح میں بیان کیا تھا کہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ دو قسم کے دانشور ہیں ایک وہ ہیں جن کی دانشوری اللہ کی محبت اور بنی نوع انسان سے تلطف اور رحمت کے نتیجے میں جلوے دکھاتی ہے اور حرکت میں آتی ہے.وہ رحمت سے اور شفقت سے اپنے لئے قوت متحر کہ حاصل کرتی ہے اور ایک دانشوری وہ ہے جس کا مادہ غیظ ہے، غضب ہے ، انتقام ہے اور کوئی احساس کمتری ہے.یہ دونوں قسم کے دانشور بالکل مختلف اثر معاشرے پر پیدا کیا کرتے ہیں اور جماعت کو میں نے نصیحت کی تھی کہ ہم میں جو دانشوروں کا ایک طبقہ منفی سوچ والا پیدا ہورہا ہے ان کو اپنی فکر کرنی چاہئے.اگر انہوں نے اپنی فکر نہ کی تو ان کی اولادوں کی بھی ضمانت نہیں بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسا شخص خود بچ جائے لیکن اپنی اولا دوں کو ہلاک کر دے.لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ (الانعام: ۱۵۲) میں یہ نصیحت ہے، یہ تنبیہ ہے جسے افسوس کہ بعض لوگ دانشور ہونے کے باوجود اس کو بھلا دیا کرتے ہیں.تو دانشوری کی اصل تعریف ان کے اوپر صادق نہیں آتی.دانشوری تو وہ ہے جو نتیجے کے اعتبار سے کسی کو بالآخر منفعت بخش دے.ہر وہ

Page 787

خطبات طاہر جلدے 782 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء دانشوری جو نتیجے کے لحاظ سے کسی کے دامن کو بھرنے کی بجائے اس کے دامن میں جو کچھ ہے وہ بھی چھین کر لے جائے اس کو آپ چالا کی تو کہہ سکتے ہیں اس کو دانشوری نہیں کہہ سکتے.سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیا کرنا چاہئے کیونکہ میں تو تنقید کی نظر سے تنقید کرہی نہیں رہا.مجھے تو وہ بھی پیارے ہیں جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور جماعت میں شامل ہیں اور ان معنوں میں پیارے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے ، وقت کی آواز پر انہوں نے لبیک کہا، قربانیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں.اس لئے میں نہیں چاہتا کہ انہیں دکھ پہنچے اور وہ اور ان کی اولا د میں ضائع ہوں.تو ایک صرف تنقید مقصود نہیں بلکہ ان کو بچانا مقصود ہے.اس کے لئے کیا طریق ان کو اختیار کرنا چاہئے.آج میں دو باتیں ان کے سامنے رکھتا ہوں.اول یہ کہ ہر تنقید کا جائزہ لیا کریں اور زبان پر بات لانے سے پہلے اپنے دل کو ٹولا کریں کہ یہ تنقید پیدا کیوں ہوئی تھی.کیا خدا اور اس کی محبت اور اس کے رسول کی محبت کے نتیجے میں یا بنی نوع انسان سے شفقت کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی یا تنقید سے ہم نے کوئی انتقامی جذ بہ ٹھنڈا کیا ہے اور تنقید کرتے ہوئے منفی لذت حاصل کرتے ہیں.یہ جو نفس کا تجزیہ ہے یہ بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ دانشوری کا مادہ تو ان میں بہر حال موجود ہے خواہ اس کا رخ غلط ہو جائے بعد میں.اس لئے ایسے لوگ جو دوسروں پر تنقید کر سکتے ہیں وہ اپنے اوپر بھی تنقید کی اہلیت رکھتے ہیں.بسا اوقات سوچتے نہیں ہیں اس لئے وہ نہیں کرتے.اس لئے وہ تنقید کریں اور اس تنقید کے دوران بعض طریق ایسے ہیں جن سے ان کو جلد ہی اپنی بات کی سمجھ آسکتی ہے.مثلاً تنقید کرتے وقت ان کو لذت محسوس ہوتی ہے یا دکھ محسوس ہوتا ہے.یہ دو باتیں ایسی ہیں جو بالکل کھلا کھلا فرق کر دیتی ہیں.پھر یہ کہ جس شخص سے کوئی غلطی ہوئی ہے کیا اس کی غلطی کے اوپر ان کو لطف نہیں آیا تھا کہ ہاں ! اب میرے یہ قابو آیا.انہوں نے محسوس نہیں کیا تھا کہ ہاں اب میں پکڑوں گا اس کو اب کس طرح مجھ سے بچ سکتا ہے ،اب جب میں اس کی شکایت کروں گا تو جس کے پاس شکایت کروں گا وہ کس طرح اب اس کی طرف داری کر سکتا ہے اس موقع پر میں نے اس کو پکڑ لیا.یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے یا استغفار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ اس سے غلطی ہو گئی ، اس سے جماعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے.میں اسے سمجھاؤں ، میرا بھائی ہے اور بہت سی نیکیاں ہیں لیکن نادانی میں اس نے یہ غلطی کر دی.اب یہ دونوں

Page 788

خطبات طاہر جلدے 783 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء جذبے الگ الگ ہیں اور اگر انسان باشعور طور پر اپنے نفس کا تجزیہ کرے تو فوراً پہچان سکتا ہے کہ اصل محرک کیا تھا اور حقیقت میں یہ وہ تنقید ہے جو قرآن کریم کے اولی الالباب کیا کرتے ہیں یا وہ دوسری تنقید ہے جو دنیا کے تخریب کا ر کیا کرتے ہیں.اس ضمن میں بہت سے اور بھی ایسے مابہ الامتیاز ہیں، فرق کرنے والے معاملات جو ایک نفس اپنے نفس پر تنقید کرنے والا اس تنقید کے دوران سیکھ سکتا ہے،معلوم کر سکتا ہے اور اس لمبی بحث میں اس وقت نہیں پڑنا چاہتا لیکن اگر دیانتداری سے کوئی اپنی تنقید کا تجزیہ پہلے کر لیا کرے اور اس پر خوب غور کر لیا کرے تو کئی قسم کی ہلاکتوں سے بچ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے تنقید کرنے والوں کی بیماری کے متعلق یہ فرمایا کہ جب یہ بہت بڑھ جاتی ہے اور عادت مستمرہ بن جاتی ہے جو ان کے ساتھ ہمیشہ کے لئے جڑ جاتی ہے.تو اس بیماری کو پھر روحانی اصلاح میں جذام کہا جاتا ہے یعنی کوڑھ کی بیماری اور اس کی پہچان آپ نے یہی بیان فرمائی کھلی کھلی کہ پھر گہری تنقید کا جائزہ لینے کا بھی سوال نہیں.یہ بات خوب کھل کے سامنے آجاتی ہے کہ ایسے شخص دوسرے کی تکلیف سے پھر لذت اٹھانے لگ جاتے ہیں.غلطیوں کی بحث نہیں رہتی.کوئی بھی کسی پر مصیبت پڑے تو لطف اٹھاتے ہیں اور ایسی باتیں چاشنی کے ساتھ مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور کسی کو فائدہ پہنچ جائے تو ان کو تکلیف ہوتی ہے.یہ بیماری جذام ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: فر من المجذوم فرارك من الاسد (مسند احمد ، حدیث نمبر: ۹۳۴۵) کہ مجزوم سے اس طرح دوڑ و جس طرح شیر سے ڈر بھاگتے ہو.اس پر بہت سے علماء نے بخشیں اٹھا ئیں ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی امی ہے جو اتنے شفیق تھے، جو بیماروں کی تیمارداری خود بھی ہمیشہ کیا کرتے تھے اور اسی کی نصیحت فرماتے تھے.یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کوئی تکلیف میں مبتلا ہو اور آپ اس تک پہنچیں نہ اگر پہنچ سکتے ہوں یا اپنے غلاموں کو یہ نصیحت نہ کریں کے ان کے گھر تک پہنچو، ان کی عیادت کرو اور عیادت کے مضمون کو آپ نے اس کثرت سے بیان فرمایا ، اتنا اٹھایا ہے کہ اہم نیکیوں میں اس کو شامل فرما دیا اور دوسری طرف یہ ارشاد کے فـــر مــن المجزوم فرارك من الاسد مجزوم سے اس طرح دوڑ و جس طرح شیر سے بھاگتے ہو.بعض علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد روحانی بیماری ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 789

خطبات طاہر جلدے 784 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء اس بیماری کی نشاندہی بھی فرما دی ہے کہ روحانی اصطلاحوں میں مجذ وم ہوتا کون ہے.پس اگر ایسے دانشور اپنے قدم وقت پر نہیں روکیں گے تو میں ان کو متنبہ کرتا ہوں کہ ان کی بیماری بڑھ کر جذام میں داخل ہو جائے گی اور پھر اس کا علاج کوئی نہیں ہے.پھر یہ زندگی بھر ساتھ رہتی ہے اور جس طرح کوڑھی کا ظاہری بدن بیماری کے نتیجے میں بدصورت ہوتا چلا جاتا ہے اور بدشکل ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگ اس سے بھاگتے ہیں طبعا اسی طرح ایسا بیمار جو روحانی طور پر مجزوم ہو جائے اس سے خدا کے نیک بندے واقعہ بھاگتے ہیں.اسے سوسائٹی میں چھوڑ دیا جاتا ہے اس سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں ایسی نفرت جو بے اختیار ہے جو سوچ کر نہیں کی جاتی لیکن یعنی لوگ پسند نہیں کرتے کہ ایسے شخص کی مجلس میں بیٹھیں.پس جو اس حد تک پہنچ جاتے ہیں جواڑوں کے سردار بن جاتے ہیں وہ چونکہ جذام پھیلانے لگتے ہیں اس لئے وہ نوجوان نسلیں جو ان باتوں کو نہیں سمجھتیں ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ پھر ان لوگوں کے پاس نہ جایا کریں، ان کے پاس نہ بیٹھا کریں کیونکہ حضور اکرمیار نے فرمایا ہے فر من المجذوم فرارک من الاسد پھر ان کا مقدر یہی ہے کہ ان کو تنہا چھوڑ دیا جائے ورنہ یہ اس بیماری کو آگے لگائیں گے.قرآن کریم نے ایک دعا سکھائی ہے.یہ دوسری بات ہے جو میں ان کو سمجھانا چاہتا ہوں اس دعا سے استفادہ کریں اور جب دل میں کسی ایسے مومن بندے کے لئے نفرت پیدا ہو یا غصہ پیدا ہو جو کمزوریاں بھی رکھتا ہو گا لیکن فی الحقیقت ایمان لانے والا ہے اور ایمان لا کر خدمت دین میں مصروف رہنے والا ہے تو ایسے موقع پر دعا سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.قرآن کریم کی جس آیت کی میں نے تلاوت کی تھی اس میں یہی دعا مذکور ہے.فرمایا وَالَّذِينَ جَاءُ وَ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا کہ وہ لوگ جو انصار اور مہاجرین کے بعد آئے کیونکہ پہلا جو مضمون ہے یہ انہی کا بیان ہو رہا ہے یعنی جنہوں نے براہ راست حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ویسی صحبت نہیں پائی جیسی مہاجرین اور انصار کو نصیب ہوئی.ان لوگوں کو کیا کرنا چاہئے.ان میں سے بعض ایسے ہیں جو یہ کرتے ہیں یہ خدا بیان فرما رہا ہے اور آنحضور علیہ کی تربیت کے نتیجے میں وہ یہ پہلے سے دعا کر رہے ہیں.وہ دعا کیا ہے، يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ کہ اے ہمارے

Page 790

خطبات طاہر جلدے 785 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ کہ جوایمان میں ہم پر سبقت لے گئے ہیں.ایک گروہ وہ ہے جس کی یہ حالت ہے کہ بجائے اس کے کہ ان سے نفرت کریں یا جلیں یا ان کی نیکیوں پر طیش کھائیں کہ ان کو کیا تو فیق مل رہی ہے یہ کیا اپنے طرف سے بڑے خدمت گار بنے ہوئے ہیں وہ ان کی نیکیوں کو ان کی کوششوں کو دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں بھی بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے.بخشنے کا کیا سوال پیدا ہوا ہے؟ بخشے کا تعلق غلطی سے ہے.معلوم ہوتا ہے ان کی تربیت حضور اکرم ﷺ نے ایسی فرمائی تھی کہ جب وہ دوسرے کی غلطی دیکھتے تھے تو اس غلطی کو نفرت اور تنقید کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس سے ذہن اس طرف منتقل ہو جاتا تھا کہ ان سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں جو ہم سے پہلے تھے ایمان میں تو ہم سے کیوں نہ ہوئی ہوں گی.ہم تو بعد میں آنے والے ہیں اس لئے ہم ہو سکتا ہے ان سے بڑھ کر غلطیوں میں مبتلا ہوں.تو کسی کی غلطی دیکھ کر ان کا دل استغفار کی طرف مائل ہوتا تھا اپنے لئے بھی اور ان کے لئے بھی.سبقونا کا مضمون دو باتیں ظاہر کرتا ہے.ایک وہ جو ان آیات کے سیاق وسباق سے ظاہر ہورہا ہے کہ زمانے کے لحاظ سے پہلے تھے اور ایک دوسرا مضمون ہے جو مستقلاً لفظ سبق میں داخل ہے اور وہ ہے سبقت لے جانا، آگے بڑھ جانا.تو اس دعا کو ان دونوں مفہوموں کو سامنے رکھ کر کرنا چاہئے.یہ دعا صرف ان لوگوں سے تعلق میں نہیں ہے جو زمانے کے لحاظ سے پہلے تھے بلکہ ان لوگوں سے تعلق میں بھی ہے جو نیکیوں میں کسی لحاظ سے سبقت لے جا رہے ہیں اور چونکہ قرآن کریم نے حسد کے خلاف تعلیم دی ہے اور حسد رشک کی بگڑی ہوئی صورت ہوا کرتی ہے.رشک پیدا ہونا ایک فطری امر ہے.اس لئے قرآن کریم چونکہ بار یک بیماریوں کا بھی علاج رکھتا ہے قرآن کریم نے اس طرف توجہ دلا دی کہ اس کا علاج یہ ہے کہ پہلے اس کے کہ یہ معاملہ بڑھے اور رشک حسد میں تبدیل ہو تم یہ دعا کیا کرو کہ اے اللہ ! ہمیں بھی بخش ہم تو بعد میں ہیں یہ لوگ تو ہم سے سبقت لے گئے ہیں اور ان سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں ان کو بھی معاف فرمادے تو جو شخص اپنے کسی بھائی کی غلطی پر اس کی معافی کی دعا کر رہا ہورات کی تنہائی میں اکیلے بیٹھ کر اس سے وہ بغض کیسے کر سکتا ہے.لیکن اس کے ساتھ اس مضمون کو مزید کھول دیا.فرمایا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا یہاں

Page 791

خطبات طاہر جلدے 786 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء سبقت کا مضمون پیچھے چھوڑ کر اس دعا کو زیادہ وسیع فرما دیا اور فرمایا وہ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمارے دل میں کسی ایمان لانے والے کے متعلق کوئی بغض، کوئی بھی پیدا نہ ہو ، کوئی کینہ پیدانہ ہو.صرف یہی نہیں کے جو پہلے بڑھ گئے ہیں یا آگے نکل گئے ہیں بلکہ ہر شخص جو ایمان لاتا ہے وقت کے منادی کرنے والے پر اس کے متعلق ہم تجھ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں غل نہ پیدا ہونے دینا، کسی قسم کا بغض نہ پیدا ہونے دینا.اس دعا کے نتیجے میں وہ سوسائٹی ابھرتی ہے، وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں مومن دوسرے مومن سے بھائی کی طرح محبت کرنے لگتا ہے اور وہ دعائیں بھی قرآن کریم میں بیان ہیں، وہ مضمون بھی الگ بیان ہیں لیکن یہ وہ ابتدائی منزل ہے جس سے دل اس حد تک صاف ہو جاتا ہے کہ پھر اس پر بھائی کی محبت کا نقش جم سکتا ہے.اگر غل پیدا ہو جائے تو ایسے دل پر پھر کوئی محبت کا نقش نہیں جم سکتا.تو یہ آیت دل کی صفائی سے اور تزکیہ سے تعلق رکھتی ہے.اس کے بعد پھر دوسری قرآن تعلیم آپ کے دل پر نئے نئے حسین نقش جمائے گی اور آپ کو اپنے مومن بھائیوں کے لئے اپنے دلوں میں بے انتہا محبت محسوس ہو گی.تو یہ دو فصیحتیں ان کے لئے ہیں جو کسی قسم کے غل کا رجحان اپنے بھائیوں کے لئے رکھتے ہیں.اللہ ان کی دانشوری کو صحیح رستوں پر چلائے اور انہیں وہ عرفان نصیب کرے جو حقیقی دانشوری ہے کیونکہ دانشوری صرف عقل کا نام نہیں ہے ، دانشوری عرفان کا نام ہے حقیقت میں اور اس کے نتیجے میں عقل کے ساتھ دل کا تعلق قائم ہو جاتا ہے اور اس میں ایک لذت پیدا ہو جاتی ہے.دوسرا میں نے بالعموم بعض کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ یہ کمزوریاں بیرونی معاشرے سے لازماً ہمارے معاشرے میں سرایت کرنے کا رجحان رکھتی ہیں اور ہمیں ان کے خلاف ایک عظیم الشان جہاد کرنا چاہئے.کچھ منتظمین کو مخاطب کر کے یہ باتیں سمجھائی تھیں اور کچھ افراد کو مخاطب کرتے ہوئے سمجھانے کا سلسلہ شروع کیا تھا.میں اب وقت کی رعایت سے ایک بات آج کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح لفظ فر استعمال ہوا مضمون کے تعلق میں ایک اور اسی لفظ کا ایک استعمال قرآن کریم میں ہمیں ملتا ہے اور وہ منفی معنوں میں نہیں بلکہ مثبت معنوں میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَفِرُّوا اِلَى الله (الذاریات: ۵۱) تم اللہ کی طرف فرار اختیار کرو.فرار کس چیز سے ہوتا ہے؟ فرار ہمیشہ خوف سے پیدا ہوتا ہے.عربی میں جو لفظ فرار ہے اس کے ایک طرف خوف کا عصر پایا جاتا

Page 792

خطبات طاہر جلدے 787 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء ہے.کسی چیز سے بدک کر، دوڑ کر، گھبرا کر دوسری طرف بھا گنا.اب لفظ فرار بتا رہا ہے کہ تقویٰ کا اصل معنی یہ ہے.اگر تقویٰ کا مطلب خدا کا خوف ان معنوں میں ہو جو ہم عام معنوں میں خوف کے معنی سمجھتے ہیں تو پھر خدا سے دوڑنا چاہتے لیکن تقوی خدا کی طرف دوڑنے کا نام ہے اور کسی اور کے خوف کے نتیجے میں خدا کی پناہ میں آنے کو تقویٰ کہتے ہیں.بچنا خدا سے نہیں بلکہ خدا کی گود میں آکر بچنا، خدا کی حفاظت میں آکر بچنا اور وہ ہے گناہوں سے دوڑنا، گناہوں سے فرار اختیار کرنا.گناہوں سے فرار اختیار کرنے کے دو طریق ہیں.ایک تو یہ کہ آپ گناہ کو اس لئے ترک کر رہے ہیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ گناہ ہے، اللہ تعالیٰ نا پسند کرتا ہے اور آپ اس گناہ کو چھوڑ دیتے ہیں.یہ جو طریق ہے یہ ثواب کے لحاظ سے تو اچھا ہے لیکن مشکل بہت ہے اور مسلسل انسان ایک جدوجہد میں مبتلا رہتا ہے اور مصیبت میں مبتلا رہتا ہے.ایک چیز اچھی لگ رہی ہے اور آدمی کہتا ہے نہیں خدا کی خاطر چھوڑنا ہے.ہر وقت اپنے نفس کی ایک خواہش کا انکار اس کے ساتھ جاری رہتا ہے اور ایسے لوگ پھر جب اکثر دعا کے لئے حالات اپنے لکھتے ہیں تو بہت پریشانی میں مطلع کرتے ہیں کہ گناہ ہم چھوڑتے ہیں خدا کی خاطر ، جدوجہد کرتے ہیں ، روتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں پھر دوبارہ یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تو اگر اخلاص کے ساتھ یہ جدوجہد کی جائے تو بالآخر ایک لمبی تکلیف کے دور سے گزر کر انسان اس سے نجات پا جاتا ہے.یہ کوئی نا کام رہنے والا طریق نہیں ہے لیکن مشکل رستہ ہے.ایک اور طریق یہ ہے کہ گناہ کا عرفان پیدا کریں.گناہ کا بھی ایک عرفان ہوا کرتا ہے.گناہ کا شعور پیدا کریں اور اپنے خیالات میں، اپنے تفکرات میں بلوغت پیدا کریں.اب ایک خوبصورت رنگوں کا سانپ کسی بچے کو اچھا لگتا ہے، آپ کو بھی اچھا لگ رہا ہوتا ہے لیکن اگر وہ سانپ زہریلا ہو اور خطرناک ہو تو ایک بالغ نظر انسان بعض دفعہ اس رنگ سے ہی متنفر ہو جاتا ہے جو ایک سانپ کے اوپر یہ دلکشی پیدا کر رہا ہے.یعنی ایسا رد عمل ہوتا ہے کہ بعض رنگوں کو بعض زہروں سے تعلق کی بنا پر انسان نا پسند کرنے لگ جاتا ہے اور بعض دفعہ لاشعوری طور پر ایسے رنگوں سے بھی الرجی پیدا ہو جاتی ہے.ایسے نظارے اور ایسا رنگ طبیعت میں ایسار د عمل پیدا کرتے ہیں کہ انسان بیمار پڑ جاتا ہے.یہ ایک بڑا وسیع تجربے کا مضمون ہے لیکن بچہ بیچارہ اس کو یہ تو پتا ہے کہ خوبصورت چیز ہے وہ

Page 793

خطبات طاہر جلدے 788 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء ہاتھ اس طرف بڑھاتا ہے لیکن اس کو یہ نہیں پتا کہ اس کے اندر کیا بدی پوشیدہ ہے، اس سے اس کو کیا نقصان پہنچے گا.اب ایسا بچہ اگر رکہتا ہے تو ماں باپ کی نصیحت کی وجہ سے رکتا ہے اور بسا اوقات اس وقت تک رکتا ہے جس وقت تک ماں باپ اس کو دیکھتے رہتے ہیں.جب اس کا یہ شعور کہ ماں باپ مجھے دیکھ رہے ہیں اس کا ساتھ چھوڑ دے اور وہ واقعہ یا اپنے خیال میں یہ سمجھ رہا ہو کہ میں ماں باپ کی نظر سے الگ ہو گیا ہوں تو کوئی بعید نہیں کہ وہ اسی سانپ کے منہ میں پھر ہاتھ ماردے.انسان کی بھی یہی کیفیت ہے.ہر لمحہ، ہر وقت ، خدا کو حاضر سمجھنا یہ بہت مشکل کام ہے اور بہت لمبے تجربے اور دعا کے نتیجے میں یہ وقفہ بڑھتا چلا جاتا ہے زندگی کے ساتھ ساتھ کہ انسان کو خدا کے حاضر ناظر ہونے کا احساس رہے اور اس منزل سے پہلے اتنے مراحل ہیں کہ بعض انسانوں کی زندگی میں بعض دفعہ سالوں میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جس میں ان کو خدا کے وجود کا شعور پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ بھول جاتے ہیں.بعضوں کی زندگی میں یہ مہینوں میں آتا ہے، بعضوں کی زندگی میں ہفتوں میں آتا ہے ، بعضوں کی زندگی میں روز ایسے لمحے آنے لگتے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کیا ایسا لمحہ تمہارے دل پر نہیں آیا کہ خدا کے خوف خدا کی خشیت سے تمہارے دل پارہ پارہ ہو جائیں اور کانپنے لگ جائیں.یہ وہ لمحات ہیں جو گنا ہوں سے بچاتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے شعور کے بڑھنے ، اس کے پھیلنے، اس کی وسعت کے ساتھ ساتھ یہ گناہ سے بچنے کا مزاج بڑھتا چلا جاتا ہے.تو اصل حقیقت یہی ہے کہ گناہ کے متعلق شعور پیدا کریں کہ یہ چیز خطر ناک ہے اور بری ہے اور نقصان دہ ہے.بعض دفعہ یہ شعور اپنے تعلق سے پیدا نہیں ہوتا دوسرے کے تعلق سے پیدا ہو جاتا ہے.اب نہایت گندے معاشرے میں جہاں ایک دوسرے کو بری نظر سے دیکھنا کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی وہاں بعض موقع پر لوگ ایک دوسروں کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں.اس نسبت سے وہ لمحے ہیں ان کے لئے شعور کے.وہ جب دوسرے کی ماں بہنوں سے وہ سلوک کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے دل میں کوئی چٹکی نہیں لی جاتی ، کوئی تکلیف کا احساس پیدا نہیں ہوتا لیکن جب ایک مشتعل آدمی ان کو ان کے ماں بہن کے تعلق سے وہ باتیں کہتا ہے جو وہ دوسرے کی ماں بہنوں کے تعلق سے بالکل معمولی سمجھ رہے ہوتے ہیں تو دل میں ایک شدید درد پیدا ہوتی ہے، چٹکی لی جاتی ہے، کانٹے چھتے ہیں اور بعض دفعہ مجرم ہونے کے باوجود اتنا مشتعل ہو جاتا ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے کو قتل بھی کر دیتا

Page 794

خطبات طاہر جلدے 789 خطبه جمعه ۱۸ / نومبر ۱۹۸۸ء ہے.یہ اس کے لئے شعور کا ایک لمحہ ہے لیکن خدا کے تعلق سے نہیں اپنی انانیت کے تعلق سے.اس لئے ایسا شخص نجات نہیں پاسکتا بعض دفعہ اور مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے.تو گناہ کی پہچان ان نسبتوں سے بھی کرنی چاہئے کہ گناہ ہے کیا ؟ کیوں ہے؟ چوری اگر بری ہے تو چور کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر اس کی چوری ہو تو اس کو کیا تکلیف ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں یہ تکلیف پہنچارہا ہے.یعنی یہ ایک بالکل ابتدائی شکل ہے شعور کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انسان جو اولوالالباب ہو اس کو خدا تعالیٰ ایسے فہم عطا کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی نظر کو ایسی بار یکی عطا کرتا چلا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کی تہہ تک پہنچ کر ان کا شعور حاصل کرنے لگتا ہے اور جب شعور حاصل کر لے تو پھر یہ جدو جہد ختم ہو جاتی ہے کہ خدا نے منع کیا ہوا ہے اس لئے میں نے انگلی نہیں ڈالنی اس شیطان کے منہ میں.پھر انسان خود متنفر ہونے لگتا ہے ان چیزوں سے جہاں وہ پہلے لذت پاتا تھا ان میں لذت نہیں رہتی بلکہ گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے، خوف پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے بچپن سے ماں باپ کو گناہوں کے مضمون کو اپنی اولا د کو اس طرح سمجھانا چاہئے کہ گناہ کا شعور پیدا ہو جائے.خاص طور پر یہ نسخہ مغربی سوسائٹی میں استعمال کرنے کے لئے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.یہاں آپ جتنا بھی چاہیں اپنی اولاد کو مغربی معاشرے سے بچانے کی کوشش کرتے چلے جائیں اگر وہ شعور سے عاری ہیں تو ان کی زندگی کے اکثر لمحات ایسے ہیں جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نہ ماں باپ ہمیں دیکھ رہے ہیں، نہ ہمارا خدا ہمیں دیکھ رہا ہے پھر لذت جس طرف ان کو کھینچے گی وہ لازماً اس طرف جائیں گے کوئی دنیا کی طاقت ان کو روک نہیں سکتی.اس لئے گناہوں کا شعور اولاد کے دل میں پیدا کرنا اور ان کی تربیت کرنا اس معاملے سے کہ کوئی چیز کیوں منع ہے، اس میں کیا خرابیاں ہیں اور بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے تجربوں کے لئے ان کو ان خرابیوں کا احساس دلانا یہ ہے جس کا تعلیم کی حکمت سے تعلق ہے.پس اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کو جو دنیا کا سب سے بڑا مز کی قرار دیا گیا تو آپ کی تعریف میں یہ بات داخل فرمائی کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ ( جمعه (۳) اس شان کا مز کی آیا ہے کہ محض تعلیم پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تعلیم کی حکمتیں بھی بیان فرماتا ہے.ان کو سمجھاتا ہے ان کے دل کے ساتھ ان کے دماغ کو قائل کرتا ہے یہاں تک کہ وہ گناہ کو گناہ سمجھ کر ، ایک زہر سمجھ کر دیکھنے

Page 795

خطبات طاہر جلدے 790 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۸ء لگ جاتے ہیں، اس کو پہچاننے لگ جاتے ہیں اور اس سے اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح مجزوم سے بھاگنے کا حکم ہے.پس فَفِر وا الی اللہ کا یہ مطلب ہے.اللہ کی طرف دوڑو اور یہ دوڑ شعور کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی آپ کو.اس دوڑ کی تحریک نہیں پیدا ہو گی دل میں جب تک آپ گناہ کا شعور حاصل نہیں کریں گے.یہ وہ مستقل چیزیں ہیں جن کے بغیر ہماری سوسائٹی لمبے عرصے تک سنبھالی نہیں جا سکتی.جو وقتی اقدامات ہیں وہ میں نے بیان کئے ، جو سطحی اقدامات ہیں وہ بھی بیان کئے.یہ بھی بتایا کہ بعض دفعہ جراحی کی بھی ضرورت پیش آئے گی.بعض ایسے بھی لوگ ہوں گے جن کو آپ مجزوم سمجھ کر ان کی سوسائٹی میں جانا چھوڑ دیں لیکن یہ نسبتا سطحی باتیں ہیں.اصل بنیادی اور گہری بات یہی ہے کہ گناہ کے شعور سے ایک روحانی فراست نصیب ہوتی ہے.دونوں طرف معرفت کی ضرورت ہے.ایک معرفت دوسرے کی معرفت کو بڑھاتی ہے.اس لئے گناہ کا شعور حاصل کریں تو آپ فَفِرُّوا اِلَی الله کی حالت میں داخل ہو جائیں گے.خود بخود یہ شعور آپ کو دوڑائے گا اپنے خدا کی طرف اور کہیں اور پناہ نہیں ملے گی.یہی ہے بنیادی مفہوم تقویٰ کا جس کو سمجھے بغیر انسان کی سچی اصلاح ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کو بالعموم ساری دنیا میں توفیق بخشے کہ جس عظیم اور نازک اور تاریخی اور نہایت اہم دور سے ہم گزر رہے ہیں اس کے تقاضے پورے کریں خدا کی عطا کردہ توفیق کے ساتھ اور گناہوں کو چھوڑیں لذت کے ساتھ تکلیف اور مصیبت کے ساتھ نہیں بلکہ پورے کامل اطمینان کے ساتھ کہ ہاں اب ہم امن میں آگئے ہیں اور یہ امن خدا کی گود کے سوا اور کہیں نصیب نہیں ہوسکتا.

Page 796

خطبات طاہر جلدے 791 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء مباہلہ کا حقیقی مفہوم اور طریق کار.منظور چنیوٹی کی ذلت اور رسوائی کی پیشگوئی ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جماعت احمدیہ کی طرف سے جو معاندین اور مکذبین کے سرداروں کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا تھا اس میں تقریباً ساڑے پانچ ماہ گزر چکے ہیں.اس عرصے میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر خیر وشر نے دونوں قسم کے نشانات ظاہر فرمائے.مباہلہ کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی تقدیر نے جو تعزیری کاروائی کی اور چوٹی کے دشمنوں کو جس رنگ میں پکڑا اس میں سے بعض مظاہر تو سب پر روشن ہیں واقف ہیں سب اور بعض ایسے ہیں جن کے متعلق عالمی طور پر جو خبریں موصول ہورہی ہیں ان کا ریکارڈ جماعت میں تیار کیا جارہا ہے اور انشاء اللہ مباہلہ کے سال کے اختتام پر اسے شائع کیا جائے گا.کچھ خیر کی خبریں یعنی خدا کی تقدیر خیر کی طرف سے ظاہر ہونے والے جو نشانات ہیں ان کے متعلق ہر ملک میں اللہ تعالیٰ ایسے فضل نازل فرمارہا ہے کہ اس ملک کے لوگ گواہ بنتے چلے جارہے ہیں اور خصوصیت سے پاکستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دن بدن جماعت کے حالات پہلے سے بہتر ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہر پہلو سے کثرت سے اللہ تعالیٰ رحمتیں اور برکتیں نازل فرمارہا ہے.چنانچہ مباہلہ سے پہلے کے زمانے اور مباہلہ کے بعد کے زمانے میں آپ ایک نمایاں فرق دیکھیں گے اور یہ فرق اتنا نمایاں ہے کہ اس کے نتیجے میں بعض دسیوں سال کے مرتد واپس جماعت میں آرہے ہیں یعنی ان نشانات کو دیکھ کر اور وہ جن کے تعلق ٹوٹ گئے تھے وہ خط لکھ رہے ہیں اور معافیاں بھی

Page 797

خطبات طاہر جلدے 792 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء مانگ رہے ہیں، استغفار کر رہے ہیں.وہ جن کو جماعت احمدیہ سے بعض بدظنیاں پیدا ہو چکی تھیں بعض ان میں سے ضائع ہو گئے لیکن ان کی اولادیں واپس آنے لگی ہیں.چنانچہ کل کی ڈاک ہی میں بعض ایسے لوگوں کی اولاد کی طرف سے خطوط تھے کہ ہم نے جس شان سے خدا تعالیٰ کی طرف سے احمدیت کی صداقت کے نشانات ظاہر ہوتے دیکھے ہیں اب ہماری آپ سے یہ درخواست ہے کہ ہمارے والدین کے لئے دعائیں کریں، ہمارے بچوں کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھی آنکھیں کھولے اور جس صداقت کی راہ سے وہ بھٹک چکے ہیں انہیں وا پس اس میں لے آئے.اس سلسلہ میں کچھ سوالات بھی موصول ہوتے رہتے ہیں معلوم ہوتا ہے بعض باتوں میں ابہام ہے.اس لئے ضروری ہے کہ خطبہ میں ان سوالات کا ذکر کر کے ان کے جوابات دیئے جائیں کیونکہ ہر شخص اپنے دل میں پیدا ہونے والے سوالات یا ابہامات کا ذکر خط کے ذریعے نہیں کرسکتا اور ایک یا دو اشخاص کو جواب لکھنے سے باقی سب کے دل مطمئن نہیں ہو سکتے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہ چند جو سوالات عموماً دلوں میں پیدا ہو رہے ہیں اور بعض ابہامات ہیں جن کی وجہ سے جماعت بعض دفعہ مباہلہ کے مضمون کو سمجھے بغیر ایک ایسی روش اختیار کرتی ہے جو مباہلہ کے مضمون کے مطابق نہیں ہے.ان دونوں معاملات کو خوب کھول دوں تا کہ اس کی روشنی میں پھر بقیہ وقت ہم ابتہال کے ساتھ گزاریں اور دعائیں کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے مزید نشانات کے طالب رہیں.ایک سوال تو کثرت سے یہ کیا جاتا ہے کہ علماء نے جو بار بار اخبارات میں مختلف وقتوں میں، مختلف ملکوں میں یہ اعلانات شائع کروائے ہیں کہ ہم نے مباہلہ قبول کر لیا ہے.ان اعلانات کے نتیجے میں دو قسم کے سوال ابھرتے ہیں.اول یہ ہے کہ ان کا سرخیوں میں یہ لکھ دینا یعنی اخبارات کی سرخیوں میں یہ لکھ دینا کہ ہم نے قبول کر لیا ہے لیکن جب عبارت پڑھی جائے تو اس میں ایسی شرطیں داخل کر دینا کہ جن کے نتیجے میں ان کے لئے راہ فرار باقی رہے یعنی سارے دروازے بند کرنے کی بجائے ایک دروازہ بھاگنے کا کھلا چھوڑ دیتے ہیں تو ان کی کیا صورت ہو گی کیا ان کو خدا تعالیٰ کی تقدیر مباہلہ قبول کرنے والے گروہ میں شامل فرمائے گی یا دوسرے گروہ میں.اس سلسلہ میں پہلے بھی میں ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں مگر معلوم ہوتا ہے کہ وضاحت پوری نہیں ہوئی کیونکہ ابھی تک اس موضوع کے بعض خط بھی ملتے ہیں اور بعض باہر سے آنے والے ملاقات میں

Page 798

خطبات طاہر جلدے 793 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء بھی ذکر کرتے ہیں.دوسرا یہ کہ کیا وہ سارے جن کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ انہوں نے مباہلہ کا چیلنج قبول کر لیا ہے ایک سال کے اندر اندر لاز ما مر جائیں گے اور کسی ناگہانی موت یا ایسی بلا میں گرفتار ہو کر دنیا سے رخصت ہوں گے کہ واضح طور پر ان کی موت عبرت کا نشان بنے یا اور بھی کچھ ایسی صورتیں ہو سکتی ہیں جن کے نتیجے میں ان کا جھوٹا ہونا زائد ثابت ہو جائے.یہ جو دو بڑے سوال ہیں پہلے میں ان کے اوپر کچھ روشنی ڈالتا ہوں.میں نے جہاں تک مطالعہ کیا ہے ان اخبارات کی سرخیوں کا بھی اور تفاصیل کا بھی جوان سرخیوں کے نیچے لگائی گئی ہیں.اکثر اور بھاری اکثریت، اکثر سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بھاری اکثریت میں ہیں ، وہ لازماً او پر کچھ اور اعلان کرتے ہیں اور اندر جو تحریر ہے اعلان کے نیچے اس میں ہمیشہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فلاں تاریخ تک فلاں جگہ پہنچ جائیں ورنہ ہم سمجھیں گے کہ آپ نے اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کر لیا ہے یاور نہ ہم آپ کے جھوٹے ہونے کا جشن منائیں گے.ورنہ ہم اعلان کریں گے کہ وہ بھاگ گیا اور مرزائیت اور قادیانیت جھوٹی ثابت ہوگئی وغیرہ وغیرہ.ان لوگوں کے متعلق جیسا کے ظاہر ہے مضمون سے ایک بات بہر حال یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ سنجیدہ نہیں ہیں.نہ صرف یہ کہ جھوٹے ہیں بلکہ سنجیدہ نہیں ہیں اور ان کو پتا ہی نہیں کہ ہم کر کیا رہے ہیں اور کہہ کیا ر ہے ہیں.بعض ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس دن ہم ڈھول ڈھمکے کے ساتھ اتنے آدمی اکٹھے کریں گے اور پھر خوب جشن منائیں گے اور جلوس نکالیں گے کہ مرزائیت جھوٹی نکلی.چنانچہ ہندوستان کی بعض خبروں سے پتا چلتا ہے کہ واقعہ وہاں ایسا بعض علاقوں میں کیا بھی گیا ہے اور اعلان ہو گیا ہے کہ ہم جیت گئے مباہلہ.معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کے دماغ میں مباہلہ اور دنگل یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.یہ سمجھتے ہیں جس طرح دنگل اور میلوں میں مقابلے ہوتے ہیں دو پہلوان لڑتے ہیں اس طرح کی بات ہے.ہمارے پہلوان میدان میں نکل آئے ان کے نہیں آئے اس لئے ان کی شکست کا اعلان ہو.ان کو کوئی تصور نہیں ہے کہ مباہلہ حقیقت میں ہے کیا ؟ ایک تو یہ نتیجہ نکلتا ہے لیکن جب آپ مزید غور کریں تو پھر یہ نتیجہ بھی درست دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو علمائے دین کہلاتے ہیں اور علمائے دین ہونے کی حیثیت سے یہ سوچا نہیں جاسکتا کہ ان

Page 799

خطبات طاہر جلدے 794 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء کو مباہلہ اور میلے اور دنگل کا فرق معلوم نہ ہو.پھر یہ حرکتیں کیا ظاہر کرتی ہیں.میرے نزدیک یہ حرکتیں ان کی جہالت سے زیادہ ان کی نفس کی بغاوت اور دھو کے پر دال ہیں.یہ ظاہر کرتی ہیں کہ لوگ دنیا کو دھو کے دینے والے اور خدا کی تقدیر سے بغاوت کرنے والے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر مباہلہ جو ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اس دنیا میں جس کی اکثریت ہے، جس کا زور ہے اس کا مباہلہ چلے گا اور اسی کی طاقت کے مظاہرے دراصل یہ فیصلہ کر یں گے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے.پس یہ ہے ان کا حقیقی تصور.اس سلسلے میں میں نے پہلے بھی جماعت کو نصیحت کی تھی اب پھر یہی کرتا ہوں کہ ان لوگوں سے معاملے میں دو قسم کی باتیں ظاہر ہوسکتی ہیں اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں اور اس کے مطابق خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں.ایک یہ کہ ایسے لوگ خدا کے نزدیک ایسے شریر ہوں اور ان کی شرارت کا اثر اتنا وسیع ہو چکا ہو علاقے میں کہ اس سے خطرہ ہو کہ سچ اور جھوٹ میں ابہام پیدا ہو جائے گا اور مباہلے کا جو اصل مقصد ہے وہ ضائع ہو جائے گی.ایسی صورت میں میں یہ ایمان رکھتا ہوں کہ خدا کی تقدیر لازماً ان کی ذلت اور رسوائی کے سامان کرے گی اور خواہ یہ مباہلے سے بھاگنے کی لاکھ کوششیں کریں خدا تعالیٰ ان کا انجام بچوں جیسا نہیں بنائے گا اور بچوں اور جھوٹوں کے انجام میں ایک نمایاں فرق کر کے دکھائے گا.پس اس پہلو سے جماعت کو دعائیں کرنی چاہئے کہ اے خدا! گر چہ قانونی اور رسمی لحاظ سے انہوں نے مباہلہ کو قبول نہیں کیا لیکن تو اپنی اس غیرت کے نتیجے میں جو بچوں سے رکھتا ہے اور اس کراہت کے نتیجے میں جو جھوٹوں اور دھو کے بازوں سے رکھتا ہے ایسے نشان ظاہر فرما کہ جس کے نتیجے میں اس علاقے کے لوگ گمراہ ہونے کی بجائے ہدایت پا جائیں اور زور آخری حصے پر ہونا چاہئے یعنی ہدایت پر.جس خطبہ میں میں نے جنرل ضیاء الحق صاحب کو آخری تنبیہ کی تھی اور بتایا تھا کہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تم خدا کی تقدیر کی پکڑ سے اب بچ نہیں سکتے اس میں میں نے یہ بات بھی واضح کی تھی کہ جماعت یہ دعائیں نہ کرے کہ دشمن ذلیل و رسوا ہو اور حیرت انگیز نشان ظاہر ہوں بلکہ یہ دعا کرے کہ ایسے نشان ظاہر ہوں جن کے نتیجے میں معاندین کو ہدایت نصیب ہو سکے یا معاندین کو نہیں اگر انہوں نے پکڑے جانا ہے تو ان کو جو ان کے زیر اثر ہیں یعنی عوام الناس جواکثر صورتوں میں لاعلم

Page 800

خطبات طاہر جلدے 795 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء ہوتے ہیں.ان بیچاروں کو کچھ بھی نہیں پتا کہ یہ کیا کھیل ہورہا ہے.وہ تماش بین کے طور پر یا سابق میں ان کے دلوں میں جو نفرتیں بٹھائی گئی ہیں ان سے متاثر ہو کر ایسے میدانوں میں چلے آتے ہیں جو مباہلہ کے میدان بتائے جاتے ہیں اور پھر اپنے علماء کے پیچھے لگ کر بغیر جانے ہوئے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ان کی ہاں ہاں میں ملاتے ، ان کی لعنۃ اللہ کے ساتھ اپنی لعنة الله ڈالتے.یہ لوگ بیچارے اکثر لا علم ہیں اور ایسے طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو ویسے ہی بیچارہ غریب اور مظلوم اور فلاکت زدہ طبقہ ہے.کم ہیں ان میں جو زیادہ خوشحال اور تعلیم یافتہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہوں.تو ان لوگوں کے زور اور قوت پر یہ علماء ضرور شہرت حاصل کرتے ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں یا بذات خود میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ قابل نفرت نہیں بلکہ قابل رحم ہیں.اگر چہ علماء خود کبھی بھی ایسے مقابلوں میں باہر نہیں نکلتے جہاں ان کو اپنی جان یا عزت کے خطرے ہوں.اس لئے جب وہ نکلتے ہیں تو انہی عوام الناس کے زور اور انہی کے بل بوتے پر باہر نکلتے ہیں اور ہمیشہ پھر انہی کو آگے کیا کرتے ہیں.تو دنیا کی مصیبتوں میں بھی انہی کی چھاتیاں ہوتی ہیں جو گولیاں کھائیں اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کریں اور روحانی مقابلوں میں بھی یہی بیچارے ہیں جن کو دھوکا دے کر پھر مار کھانے کے لئے آگے کر دیا جاتا ہے.اس کے محرکات کے متعلق اور کیوں ایسا ہوتا ہے میں ایک پہلے خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں اسکی تفصیل کی دوبارہ ضرورت نہیں مگر یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کے ہاں نا انصافی نہیں ہے.خدا کی تقدیر انصاف پر مبنی کام کرتی ہے.اس لئے یہاں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ بھی کہا جائے یہ لوگ مظلوم ہیں اور لاعلم ہیں.اس لئے ان کے ساتھ رحم کا اور شفقت کا سلوک ہونا چاہئے اور اپنی دعا میں تاکیداً اس التجا کو شامل کرنا چاہئے کہ اے خدا ! اگر چہ ان عوام الناس کے ذریعے تکذیب کی زبان چلی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کے خلاف گند بکا گیا ہے مگر ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ان کے سرداروں کو تو عبرت کا نشان بنا ان پر رحم فرما اور ان کو دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچا اور نجات بخش اور ہدایت دے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہی لوگ ہیں کہ جب وہ ہدایت پا جاتے ہیں تو پھر دین کی راہ میں قربانیوں میں بھی سب سے پیش پیش رہتے ہیں اور جماعت کو سب دنیا میں کام کرنا ہے اور بڑی کثرت سے ایسے قربانی کرنے والوں کی ضرورت ہے.قربانی کے چند

Page 801

خطبات طاہر جلدے 796 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء میدان سر ہوئے اور چند سر ہورہے ہیں اور آئندہ بھی ایسے میدان سامنے آنے والے ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ ایک الہی جماعت اپنے تقویٰ کی حالت میں سفر کر رہی ہو اور ابتلاؤں کے میدان سے اس کا گزر نہ ہو.اس لئے جب تک جماعت کا تقویٰ زندہ ہے اور خدا کی تقدیر ہمیں تزکیہ کی راہوں پر آگے بڑھانا چاہتی ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابتلا کے میدان سر کرنے کے بعد پھر اور بھی ابتلا کے میدان سامنے آنے والے ہیں.ایک ملک میں بعض مہمات آپ سر کریں گے تو بعض دوسرے ملکوں میں ویسی ہی مہمات سامنے آکھڑی ہوں گی.اس لئے جماعت احمدیہ کو کثرت سے ابھی ایسے قربانی کرنے والے طبقات کی ضرورت ہے جو تاریخی لحاظ سے ثابت ہے کہ ہمیشہ قربانی میں آگے آگے رہے ہیں اور عواقب سے بے خبر ہو کر انہوں نے اپنا سب کچھ اس راہ میں جھونک دیا ہے جس کو وہ سچ سمجھتے ہیں.تو جماعت کو تعداد کے لحاظ سے بھی بہت ضرورت ہے.اس لئے اس مباہلے کے نشان کو محض اس حد تک محدود نہ رکھیں کہ آپ کے دکھے ہوئے جلے کئے دل مطمئن ہو جائیں اور خدا کے ایسے نشان ظاہر ہوں کے آپ کو تسکین ملے بلکہ اس مضمون کو آگے بڑھائیں اور اپنی تو قعات کو بلند تر کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کریں کہ ہمارے دلوں کا سچا اطمینان تو تیری سچائی کے پھیلنے میں ہے اور تیرے نور کے کل عالم میں عام ہو جانے میں ہے.اس لئے احمدیت کی صداقت کی جو صبح تو روشن فرمانے لگا ہے اور فرمارہا ہے اس کے افق کو محدود نہ رکھ، اس کی روشنی صرف ہمارے دل پر نہ پڑے بلکہ کل عالم کے دلوں پر پڑے،صرف ہم ہی اپنی غفلتوں سے بیدار نہ ہوں بلکہ کل عالم میں ایک صبح کا سمندر پیدا ہو جائے اور کثرت سے لوگ بیدار ہوں اور اس روشنی کو دیکھیں اور اس دن سے فائدہ اٹھائیں.اس لئے جو بقیہ دن ہیں خصوصیت سے یہ دعائیں کریں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کثرت سے آسمان سے فضل کی بارشیں نازل ہوں گی کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.دوسرا حصہ ہے ان علماء کے متعلق کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے وہاں اس علاقے میں جہاں یہ اس قسم کے اعلان کرتے ہیں.اس کے متعلق میں نے کچھ چھوٹے چھوٹے مضامین اشتہارات کی شکل میں تجویز کئے ہیں جو جماعتوں کو بھجوائے جارہے ہیں کہ عوام الناس کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے فوری طور پر اس قسم کے مضامین شائع کر دینے چاہئیں اور بتادینا چاہئے کہ مباہلے کی

Page 802

خطبات طاہر جلدے 797 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء اصل حقیقت یہ ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا یہ لوگ ضرور مارے جائیں گے اس کے متعلق میں یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ جو مباہلے کا اعلان میں نے کیا تھا اس کو اگر آپ پڑھیں تو اس میں صرف موت کو نشان کے طور پر طلب نہیں کیا گیا بلکہ واضح طور پر یہ التجا موجود ہے کہ خدا تعالیٰ پھر ایسے آسمانی نشان دکھائے کہ جو جھوٹا فریق ہے اس کا ذلیل ہونا ، اس کا جھوٹا ہونا، اس کا رسوا ہونا سب دنیا پر کھل جائے اور اس کے لئے خدا کی تقدیر کئی رنگ میں کام کرتی ہے.پس ضروری نہیں ہے کہ مباہلے میں فریق ثانی یعنی دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ ایک سال کے اندر اندر ہلاک ہو مگر یہ ضروری ہے کہ اگر مباہلہ سنجیدگی کے ساتھ شرائط کو پورا کرتے ہوئے قبول کیا جائے تو جو جھوٹا فریق ہے اسے لازماً ذلیل ہونا ہوگا، رسوا ہونا گا، نا کام ہونا ہوگا اور دنیا دیکھے گی کہ واقعۂ خدا کی تقدیر شر اس کے متعلق پوری ہوئی ہے اور جہاں تک بچے فریق کا تعلق ہے اس کے حالات بھی مشتبہ بھی نہیں رہ سکتے.اس کے حق میں لازماً خدا تعالیٰ کی تقدیر خیر اس طرح کھل کر روشن ہوگی کہ دیکھنے والے دیکھیں.پس دیکھنے والے دیکھتے تو ہیں اور دیکھیں گے لیکن روحانی دنیا میں دیکھنے کی آنکھیں مختلف ہوا کرتی ہیں.بعض سطحی طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے باوجود ان کے دل میں بات ڈوبتی نہیں ہے.ان کے ادراک کی قوت کمزور ہو چکی ہوتی ہے.بعض لوگ آنکھوں کے اندھے ہوتے ہیں، بعض دماغ کے اندھے ہوتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے بھی آپ یہ فرق دیکھیں گے.بعض لوگوں کی آنکھوں میں کوئی قصور نہیں ہوا کرتا اور ایک آنکھوں کا ماہر جب ان کا معائنہ کرتا ہے تو آنکھوں کو اور اس سے پیچھے جو اعصاب کے دھاگے آنکھ کے پیغام کو دماغ تک پہنچانے والے ہیں ان کو بھی درست پائے گا لیکن اگر دماغ پاگل ہو گیا ہو تو اسے کچھ کا کچھ دکھائی دینے لگتا ہے.یعنی سامنے اور آدمی موجود ہے آنکھ صحیح پیغام بھیج رہی ہے مگر پاگل دماغ ان پیغامات کا ترجمہ اور کر رہا ہے.اس لئے روحانی دنیا میں جن اندھوں کا ذکر ملتا ہے وہ آنکھ کے اندھے نہیں ہوتے دراصل دماغ کے اندھے ہوتے ہیں.وہی باتیں مومن بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ایمان بڑھ رہا ہوتا ہے ، ان کو روز روشن کی طرح دکھائی دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر بچوں کی تائید میں ظاہر ہو رہی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بڑی کثرت سے جماعت کی طرف سے ایسے خطوط ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جن کے ایمان پہلے مضبوط تھے وہ مضبوط تر ہو گئے ، جن کے کمزور تھے وہ مضبوط ہو

Page 803

خطبات طاہر جلدے 798 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء گئے یعنی طبقات بدل رہے ہیں اور نچلے طبقے کے احمدی اوپر کے طبقے کے احمدیوں میں داخل ہورہے ہیں اور یہ ایک عام عالمی مضمون ہے جس کا کسی ایک ملک سے تعلق نہیں.تمام ملکوں میں یہی کیفیت ہے.نئی نسلوں کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کا ایک نیا شعور پیدا ہو رہا ہے اس سے وابستگی میں وہ پہلے سے زیادہ ترقی کر رہے ہیں.تو یہ حالات تو سب دنیا کر نظر آرہے ہیں یعنی دیکھنے والی دنیا کو لیکن دیکھنے والی دنیا میں سے صرف دو قسم کے لوگ ہیں: کچھ دماغ کے بصیرت رکھنے والے بعض دماغ کے اندھے بیچارے.جو دماغ کے اندھے ہیں وہ دیکھتے ہیں اور طیش کھاتے ہیں، ان کو غصہ آجاتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ ان کی اچھی حالت کو کسی طرح بری حالت میں تبدیل کیا جائے.اس سے زیادہ ان کو کو کچھ سمجھ نہیں آتی.تو یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! ان دماغ کے اندھوں کو بصیرت تو عطا کر.اس کے بغیر جو چیز ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی دیکھیں گے لیکن ان کو سمجھ نہیں آئے گی.وَمَا يُشْعرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ (الانعام: ۱۱۰) قرآن کریم فرماتا ہے اے سوال کرنے والو ! جو نشان مانگ رہے ہو تمہیں کس طرح سمجھایا جائے کہ جب خدا کے نشان ظاہر ہوں گے تو تم نہیں ایمان لاؤ گے تمہیں نہیں سمجھ آئے گی کہ کیا ہو گیا ہے.پس جب تک بیماری کے دور کرنے کی دعانہ مانگی جائے محض نشان طلب کرنا کافی نہیں ہے تو اس دعا میں ترقی کریں اور کثرت سے یہ دعائیں کریں تا کہ اللہ تعالیٰ اس کو محض ایک تماشا کی کھیل نہ بنادے بلکہ واقعہ کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو اس مباہلے کے نتیجہ میں فوائد عطا ہوں.پاکستان میں جو حالات ظاہر ہورہے ہیں ان میں ابھی دعا کی بہت ضرورت ہے لیکن ایک بات تو قطعی طور پر روشن ہو چکی ہے کہ بڑے بڑے جگادری مولوی جو جماعت کی تکذیب میں اور مباہلے کی تضحیک میں پیش پیش تھے ان کے سیاسی لحاظ سے سر کاٹے گئے ہیں اور بری طرح مختلف میدانوں میں پچھاڑ کھا کھا کے گرے ہیں اور ایسی عام تذلیل ہوئی ہے کہ بعض اخباروں نے لکھا ہے کہ یہ تو لگتا ہے کوئی معجزہ ہوا ہے، کوئی حیرت انگیز بات ہے، نارمل بات نہیں ہے اور شکست کھانے والے خود کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں سمجھ آ رہی کہ یہ کیا ہوا ہے، توقعات کے خلاف بات ہو رہی ہے.بعض صاحبوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مدمقابل کے حق میں

Page 804

خطبات طاہر جلدے 799 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء فرشتوں نے ووٹ ڈالے ہیں.اب یہ باتیں وہ خود منہ سے کہہ رہے ہیں لیکن چونکہ دماغ پاگل ہے وہ یہ سمجھیں گے ہی نہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے.اسی لئے میں زور دیتا ہوں کہ دماغوں کی اصلاح کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی اندرونی بصیرت عطا فرمائے ورنہ خالی بصارت کوئی چیز نہیں ہے.آنکھ کی بصارت کوئی چیز نہیں جب تک نفس اور عقل کی بصیرت عطا نہ ہو.یہ جو مضمون ہے کہ ہمارے حق میں تقدیر خیر ظاہر ہوگی اور دشمن کے حق میں تقدیر شر ظاہر ہوگی یہ بالعموم تو بہر حال ہونا ہی ہونا ہے اور بڑھتا چلا جائے گا لیکن اس کے سوا میں سمجھتا ہوں کہ عوام الناس کو اطمینان نہیں ہوتا جب تک کچھ لوگ ظاہری طور پر ، جسمانی طور پر بھی خدا کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب میں مبتلا نہ ہوں اور جانچنے کے ان کے اپنے مختلف پیمانے ہیں اس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بھاری کثرت ایسے بندوں کی بھی ہے جو معنوی نشانات کو دیکھنے اور سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتی.باریک تر روحانی نشانات کو دیکھنے اور سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتی.لیکن جو ظاہری ٹھوس کھلے کھلے نشان ایسے ہیں جو مادی حیثیت سے پیش کئے جاسکیں وہ سمجھنے کی نسبتاً زیادہ اہلیت رکھتے ہیں وہ بندے.اس لئے یہ بھی دعا ضرور کرنی چاہیے اے خدا! تیرے ہر قسم کے بندے ہیں تو ان کا حال ہم سے بہتر جانتا ہے لیکن ہمارا تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بعض لوگ کو مغز ہوتے ہیں ان بیچاروں کو یہ باریک اور لطیف اور عظیم الشان نشان بھی ہوں تب بھی اس نوعیت کے نشان دکھائی نہیں دیتے.جماعت کی دنیا میں جتنی مرضی ترقی ہو جائے وہ سمجھیں گے مبللہ پورا نہیں ہوا جب تک کوئی ان کا بڑا مولوی واقعتہ میدان میں پچھاڑ کھا کر نہ گرے اور اس طرح خدا کی پکڑ کا شکار نہ ہو کہ دنیا دیکھے اور کہے ہاں اس کور یزہ ریزہ کردیا گیا ہے یا ایسی ذلت کی مار پڑی ہے کہ ہر کس و ناکس اسے دیکھ کے استغفار کرے اور تو بہ کرے.تو بعض صورتوں میں ایسے نشان بھی ہمیں مانگنے چاہئیں اور مانگنے پڑیں گے ورنہ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر ان میں سے کچھ لوگ ویسے بچ گئے اور عام ہی ذلت کا شکار رہے تو بعد میں انہوں نے کہہ دینا ہے کہ دیکھو جماعت جھوٹی ہے ہم ابھی بھی زندہ ہیں ہمیں کچھ نہیں ہوا.خواہ کیسی ذلت کی حالت میں زندہ ہوں، خواہ کیسی کیسی دل پر چوٹیں پڑ چکی ہوں اس وقت تک اور ایک قسم کی جہنم میں سے گزر کے آئے ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم سے تو رحمت کا سلوک کر رہا ہے اور ان کی ہر امید پر پانی پھرتا

Page 805

خطبات طاہر جلدے 800 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء چلا جارہا ہے.ان کا دل اپنی اندرونی جہنم سے واقف ہوتا ہے مگر ڈھیٹ اتنے ہوتے ہیں کہ جب وہ وقت گزر جائے گا تو پھر یہ بغلیں بجائیں گے اور کہیں گے دیکھ لو دیکھ لو ہم ابھی بھی زندہ ہیں ہمیں مار کے دکھاؤ.وہ بھی ایک دور آئے گا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں پھر ایسے لوگ دوبارہ پکڑے جائیں گے لیکن ہمیں پھر بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ عامتہ الناس کے لئے اور احمدیوں میں سے بھی بعض نسبتا کم تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ ایسے نشان بھی ظاہر فرمائے کہ ان کو دیکھنے کے بعد پھر ان کے لئے انکار کا کوئی چارہ نہ رہے اور ضد کریں تو کریں لیکن دنیا یہ کہہ سکتی ہو کہ ہاں ان کی ضد جھوٹی ہے اور یہ بالکل بکواس ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں.اس قسم کے نشانات کا بھی سب دنیا میں ظاہر ہونا ضروری ہے کیونکہ اب یہ مباہلہ سب دنیا میں عام ہو گیا ہے اور جہاں جہاں احمدیت پہنچی ہے وہاں کثرت کے ساتھ اس مضمون کو احمدیوں نے پھیلایا ہے اور اپنوں، غیروں،مسلمانوں، غیر مسلموں سب نے اس مضمون کو عام کیا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ دعا کے لئے توجہ دلاؤں کہ اس بات کو بھی پہلی دعاؤں کے علاوہ اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے شامل رکھیں.بعض لوگ ایسے ہیں جو من جملہ مباہلے کو قبول کرنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں.چند ایسے آدمی ہیں اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو بالکل غیر معروف بیچارے کوئی تاجر ہے، کوئی مقامی طور پر زمیندار ہے ، مولویوں کی باتیں سن کر متاثر ہوئے ہوئے ہیں.چونکہ نفس میں اندرونی طور پر اپنی بات میں مخلص ضرور ہیں اس لئے جرات کر کے میدان میں چھلانگ لگا دی ہے لیکن لاعلم ہیں ان کو پتا نہیں ہے ہم کیا کہہ رہے ہیں.ایسے لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا اور ہمیں کیا کرنا چاہئے اس کے متعلق میں بعض باتیں جماعت کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.اول تو آپ مباہلہ کی تحریر دوبارہ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس میں یہ وضاحت موجود ہے کہ مباہلہ کا چیلنج ہر مسلمان کو نہیں ہے، ہر انکار کرنے والے کو نہیں ہے بلکہ مکفر ، مذب جو اپنی بدتمیزی میں اور افتراپردازی میں حد سے بڑھ چکے ہیں ان کے رہنماؤں کو ہے اور قرآن کریم سے بھی یہی مضمون واضح ہے کہ مباہلہ ہر فرد بشر کو نہیں دیا جاتا، مباہلے کا چیلنج سربراہوں کو دیا جاتا ہے، بڑے بڑے لیڈروں کو دیا جاتا ہے تا کہ قوم اس سے عبرت پکڑے.اس لئے خدا کی تقدیر کو اس قسم کا تماشانہ

Page 806

خطبات طاہر جلدے 801 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء بنائیں کہ گویا خدا کی تقدیر کی نکیل لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے جس طرف مرضی اس اونٹ کو لے کے چل پڑیں وہ ادھر ہی چلے گا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر کبھی بھی انسانوں کے تابع نہیں ہوا کرتی.اپنے مخلص بندوں کے حق میں شفقت کے طور پر نرمی دکھاتی ہے اور آسمان سے نیچے اترتی ہے لیکن یہ کہنا کہ کوئی ایسا قانون ٹھوس بن جائے جیسے Thumb Rule ہوتا ہے کہ جدھر انگوٹھا دکھایا ادھر کو رخ چل پڑے گا یہ بات درست نہیں ہے.اس کی کئی وجوہات ہیں.اول یہ کہ مباہلہ کرنے والا جو موقع پر موجود ہو اس کے اپنے نفس، اس کی دل کی کیفیت بھی مباہلے پر اثر انداز ہوتی ہے.وہ غریب ہو، ان پڑھ ہو جو بھی ہوا اگر اس کے دل میں تقویٰ کا معیار بلند ہے اور اس کے دل پر مخالف کی طرف سے کوئی ایسی چوٹ پڑی ہے کہ بے اختیار اس کی ایسی آہ دل سے نکلی ہے جو لا ز ما آسمان تک پہنچا کرتی ہے.تو پھر ایسی صورت میں خواہ کوئی فرد قوم کا رہنما ہو یا نہ ہو جو ایسے شخص کے ، خدا کے غریب بندوں کے مقابل پر آتا ہے وہ ضرور رسوا اور ذلیل کیا جاتا ہے اور ضرور ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے.ایسے واقعات ہو بھی رہے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کی تفصیل انشاء اللہ محفوظ کی جارہی ہے اور جماعت کے سامنے اور باقی دنیا کے سامنے بھی رکھی جائے گی پورے پتے دے کر ، واقعات کی تفصیل بیان کر کے، گواہوں کے ساتھ انشاء اللہ یہ ساری باتیں شائع کی جائیں گی.تو ایسا ہو جاتا ہے لیکن یہ کہ دینا کہ ہر جگہ جہاں کوئی شخص سمجھے یا نہ سمجھے تفاصیل سے آگاہ ہو یا نہ آگاہ ہو آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگا دے کہ اچھا میں نے مباہلہ مان لیا ہے مجھے ایک سال کے اندر مار کے دکھاؤ اور آپ بے چین ہو ہو کر دعائیں کریں کہ اے خدا! اس کو مار دے ورنہ ہم گئے یہ بچپن ہے.اس قسم کی طبیعت میں ہیجان کا پیدا کر کے ان سنجیدہ معاملات سے نبٹا نہیں جایا کرتا.امر واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایسی بات کرتا ہے اس پر اول تو یہ بات کھولنی چاہئے کہ اس طرح تو خدا تعالیٰ نے آج تک کبھی ظاہر نہیں کیا کہ ہر فرد کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ کی تقدیر ہو اور وہ اعلان کرتا پھرے، جس پہ چاہے موت پھینکتا پھرے ایسا نہیں ہوگا.کئی باتیں ہیں.بعض دفعہ اندرونی طور پر ایک شخص کے اندر بہت تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اور اس تبدیلی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرما دیتا ہے.باوجود اس کے کہ وہ اعلان نہیں ہوا ہوتا.

Page 807

خطبات طاہر جلدے 802 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء چنانچہ آتھم کے معاملے میں یہی ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی بد زبانیوں کے نتیجے میں جو آنحضرت ﷺ کے خلاف تھیں خدا تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر ملی کہ یہ ایک سال کے اندر اندر ہادیہ میں گرایا جائے گا یا پندرہ ماہ کی مدت میں ہادیہ میں گرایا جائے گا اور وہ اندرونی طور ایک خوفناک قسم کے روحانی عذاب میں مبتلا رہالیکن اس کی ظاہری علامت کوئی ایسی نہیں تھی جس سے دنیا بھی دیکھ سکتی.چنانچہ اس وقت تک تو اس نے کوئی زبان نہ کھولی لیکن جب سال گزر گیا تو اس کے حواریوں نے خصوصیت کے ساتھ یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ پندرہ ماہ کی مدت گزرگئی اور دیکھو مرزا صاحب جھوٹے نکلے اور کچھ بھی نہیں ہوا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جواباً یہ لکھا کہ اس سے پوچھو اور یہ اب حلف اٹھا دے کہ واقعہ میں پندرہ ماہ کی مدت ہاویہ میں نہیں گرا رہا، ایک شدید روحانی عذاب میں مبتلا نہیں رہا تو پھر اگر یہ ایک سال کے اندر اندر ہلاک نہ ہو چاہے پھر معافی مانگے یا نہ مانگے پھر کوئی شرط نہیں ہے.پھر یہ تقدیر مبرم ہو جائے گی خدا کی کہ لازماًیہ ہلاک ہو گا اگر ایسا نہ ہو تو پھر میں جھوٹا.جب اس کے باوجود اس نے یہ قسم نہ کھائی اور نہ اقرار کیا نہ انکار کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر لکھا کہ دیکھو! تم دنیا کو دھوکے میں ڈال رہے ہو.تمہیں پتا ہے کہ تم ہاویہ میں گرائے گئے تھے اور تم اس بات کی تصدیق نہیں کر رہے.اس لئے میری دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ تم پر اب ظاہر ہوتا کہ دنیا کے لئے کوئی اشتباہ کی راہ باقی نہ رہے.چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا اس مدت کے اندراندروہ ہلاک ہو گیا.تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کئی طرح سے کام کرتی ہے.کئی امور پر نظر رکھتی ہے.بعض مباہلے کے چیلنج دینے والے والے ایک دم آنکھیں بند کر کے میدان میں چھلانگ لگا دیتے ہیں اور بیچارے ہوتے معصوم ہیں ویسے.ایسے ہی ایک صاحب سے میرا واسطہ پڑا ماریشس میں.وہاں کسی بڑے مولوی نے مباہلہ قبول نہیں کیا اور ایک صاحب مولوی نہیں ہیں عام آدمی ہیں بیچارے ویسے تعلیم یافتہ ہیں لیکن مذہبی جوش رکھتے ہیں.انہوں نے مسجد میں آکر اعلان کر دیا، ہماری مسجد میں کہ میں مباہلہ قبول کرتا ہوں کوئی شرط نہیں ہے، بالکل منظور ہے.ان کی اس طریق سے میں سمجھا کہ شریف آدمی ہے بیچارہ اور دھو کے میں نہ مارا جائے میں نے جماعت کو کہا کہ آپ ان کو یہ میری طرف سے پیغام دے دیں کہ اگر انہوں نے اصرار کیا تو پھر میں تسلیم کرلوں گا، میں کوئی اس سے فرار نہیں کر رہا میں تو

Page 808

خطبات طاہر جلدے 803 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء خود پینج دے چکا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے وہ آدمی شریف ہے، نا سمجھ ہے.آپ پہلے کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب حقیقۃ الوحی جس کا ذکر ملتا ہے اس کو پڑھ لیں اور لٹر پچر کا مطالعہ کر لیں ، کچھ سوال پوچھنے ہیں تو آجائیں مسجد میں.چنانچہ یہ پیغام ان کومل گیا.ایک شام کو مغرب کے بعد سوال و جواب کی مجلس میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے پے در پے سوال کرنے شروع کئے اور جماعت کے بعض دوستوں نے ان کو بٹھانے کی بھی کوشش کی میں نے کہا نہیں بالکل نہیں بٹھانا آپ ان کو بولنے دیں.چنانچہ رفتہ رفتہ وہ سوالات کے جواب سے مطمئن ہونے لگ گئے اور پھر کھڑے ہو کر یہ کہنے لگ گئے کہ ان لوگوں کو نہیں یہ جواب آتے میں تو ان سے پوچھا کرتا تھا یہ مجھے جواب ہی نہیں دیتے تھے.آپ کے مربی نے یہ نہیں کیا، آپ کے فلاں نے یہ جواب دے دیا، غلط جواب دے دیا.یہ جواب مجھے دیا میں نے کہا ٹھیک ہے یہ غلط ہے.کہا دیکھا میں سچا تھا یہ غلط نکلے اور بڑی بڑی دلچسپ باتیں شروع کر دیں اور ساری تفصیل سے اپنے گزشتہ تعلقات کا ذکر کیا.اتنے میں مجھے یہ چٹ موصول ہوئی کہ یہ صاحب وہی ہیں جنہوں نے مباہلے کا چیلنج منظور کر لیا تھا اور حالت یہ ہوئی کہ کچھ دیر کے بعد دور سے اجازت لی کہ میں قریب نہ آکر بیٹھ جاؤں میں نے کہاں ہاں ضرور تشریف لائیں اور ہر بات کی تائید کر دی اور مباہلہ کا جو چیلنج تھا اس کا تو کوئی وہم اور خواب و خیال بھی ان کے دماغ میں باقی نہیں رہا.پھر مجھ سے یہ وعدہ بھی لیا کہ میں خط لکھوں گا تو آپ مجھے جواب دیا کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں تک میر اعلم ہے وہ احمدیت کے بہت ہی قریب آچکے تھے ایک ہی رات کی مجلس میں اور پھر دوسری رات بھی اپنے بعض دوسرے دوستوں کو ساتھ لائے اور تمام وقت بڑے ادب کے ساتھ اور خاموشی کے ساتھ انہوں نے مجلس میں شمولیت کی اور چونکہ پہلے دن کافی سوال کر چکے دوسرے دن پھر سوال نہیں کئے.تو ایسے بھی لوگ ہیں کوئی نبی میں پیدا ہورہا ہے، کوئی دنیا کے کسی کونے میں، کوئی انڈونیشیا میں ، کوئی افریقہ کے ممالک میں بنیادی طور پر دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ شریر اور خبیث فطرت کے ہیں یا سعید فطرت اور انجان اور سادے لوگ ہیں، لاعلم ہیں بیچارے اور طبیعت میں ایک شرافت ہے جس کی وجہ سے جو کچھ مانتے ہیں اس کی راہ میں، اس ایمان کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.تو ایسے لوگوں کا مباہلے کے نتیجے میں ضائع ہو جانا یہ ہمارے لئے فائدہ مند نہیں بلکہ

Page 809

خطبات طاہر جلدے 804 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء نقصان ہے کیونکہ یہ مستقبل کے احمدی ہیں دراصل جن کو ہم اپنے ہاتھ سے ضائع نہیں کرنا چاہتے.بعض دفعہ دیکھا نہیں آپ نے کہ دنیاوی جنگوں میں مقابل پر صف آرائیاں جب ہوتی ہیں تو بعض اچھے اچھے لوگ بھی مارے جاتے ہیں لیکن جب فتح ہو جاتی ہے ایک فوج کو تو مقابل میں سے ایسے ایسے اچھے سپاہی بھی نکلتے ہیں جو آئندہ کے لئے اسی ملک کی حفاظت میں جس کو فتح کرنے آئے تھے اپنی جان پیش کر دیتے ہیں.تو روحانی مقابلے میں تو ایسے لوگوں کی زیادہ اہمیت ہے.اس لئے ان کو تو با قاعدہ مل کر صورتحال ان پر واضح کرنی چاہئے ، ان کو بعض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھنے کے لئے دینی چاہئیں اور کہنا چاہئے کہ آپ مزید غور کر لیں اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ پورے غور کے بعد پھر فیصلہ کریں اور ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں ، یہ تحریر دینے کے لئے تیار ہیں کہ اتنی مدت کے بعد اگر آپ نے پھر یہ فیصلہ کیا تو ہمیں منظور ہے یعنی ہم مباہلے سے بھاگ نہیں رہے.جہاں تک چھوٹی سطح پر ایسی کوششوں کا تعلق ہے ایک مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جاپان سے ایک احمدی نوجوان نے خط لکھا کہ یہاں ایک دوست ہیں ویسے بڑے شریف آدمی ہیں لیکن مباہلے کے معاملے میں وہ ایسا بھڑ کے ہیں ، انہوں نے کہا کہ بس مجھے منظور ہے اور مجھے کوئی کسی شرط کی ضرورت نہیں، میرے سے دستخط کرواؤ اور یہ لے جاؤ اور واپس بھیج دو.وہ کہتے ہیں ویسے چونکہ یہ شریف آدمی تھے، اچھے اخلاق والے تھے میں نے ان کو بہت سمجھانے کی کوشش کی بار بار کہا کہ میاں! بس کرو مجھے پتا ہے کہ یہ معاملہ سنجیدہ ہے تم مارے جاؤ گے تمہیں نقصان پہنچے گا.انہوں نے کہا جی! مجھے پتا ہے جو کچھ میں نے کہا ہے بالکل ٹھیک کہا ہے.میں تمہاری بات سننے کے لئے تیار نہیں.کہتے ہیں میں پھر گیا پھر اس کا یہی جواب آخر اس نے مجھے کہا کہ تم سال کے بعد بھی آؤ گے تو میرا یہی جواب ہوگا.انہوں نے پوچھا اچھا پھر بتاؤ تم کیا چاہتے ہو تمہارے نزدیک کیا نشان ہے سچائی کا.انہوں نے کہا میرے نزدیک سچائی کا نشان یہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر میں مر جاؤں تو احمدیت کچی اور میں جھوٹا.اس صورت میں وصیت کر جاؤں گا اپنی اولاد کے نام کے وہ سارے احمدی ہو جائیں اور دوسرا یہ ہے کہ میرا جو کاروبار ہے تمہیں پتا ہے اچھا چمک رہا ہے اس کو کوئی ایسا نا گہانی نقصان ہو عام روز مرہ کا نقصان نہیں، جس سے مجھے پتا لگے کہ ہاں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان ہے.تو اس احمدی نوجوان نے کہا اچھا پھر جو تم کہتے ہو اس طرح منظور اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج

Page 810

خطبات طاہر جلدے 805 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء کے بعد پھر مباہلہ شروع.اس واقعہ کے دو ماہ کے اندر اندر اس کے گودام میں بہت بڑی چوری ہوئی جو جاپان کے اندر ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور ایک لاکھ ڈالر سے زائد کے قیمتی قالینوں کا نقصان ہو گیا.ہمیں اس کے نقصان پر ہمدردی ضرور ہے لیکن یہ وہ نشان تھا جو اس نے خود اپنے منہ سے طلب کیا تھا.اب وہ صاحب کیا رد عمل دکھاتے ہیں یہ ہے وہ اصل چیز جو فیصلہ کرے گی کہ مباہلہ سودمند تھایا ایک شخص کا ضیاع ہو گیا ہے.اس لئے میں بار بار یہ توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے نشانات انفرادی طور پر بھی خدا جگہ جگہ دکھا رہا ہے اور ہم ان کو اکٹھا کر رہے ہیں لیکن اصل دعا پھر یہی ہونی چاہئے کہ اے خدا! بالآخر ہم تجھ سے ہدایت کی التجا کرتے ہیں.اس کے نتیجے میں ان لوگوں کو دلوں کی روشنی نصیب کر.اگر ظاہری کچھ نقصان ہو گیا ہے تو کم سے کم دینی فائدہ ہی پہنچ جائے.ایسے لوگوں کو سمجھانے کے بعد اگر وہ انکار کرتے رہیں تو پھر جو شرطیں ہیں وہ ان سے با قاعدہ پھر منوانی چاہئیں کیونکہ مباہلہ اگر انفرادی طور پر بھی ہو تو یہ مقصد نہیں ہے کہ ایک شخص کو انفرادی طور پر خاموشی سے خدا پکڑ لے.اس کی مرضی ہے بعض دفعہ پکڑ بھی لیتا ہے.مباہلے کا مقصد دوسروں کے لئے ہدایت ہے.دوسروں کے لئے نشان نے گواہ بننا ہے.اس لئے ہم نے اس کے اعلان یہ میں شرط رکھی ہوئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہمیشہ یہ شرط رکھا کرتے تھے کہ ایسے مباہلے کا اخبارات میں اعلان ہونا چاہئے.چنانچہ ایسے صاحب کو پھر کہنا چاہئے کہ اس شرط کو پورا کرو اور دوسرے یہ وضاحت اس سے طلب کرنی چاہئے کہ ان دومباہلوں میں سے تم کون سا قبول کر رہے ہو.ایک مباہلے کا وہ چینج ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے الفاظ میں دیا جو ہمیشہ کے لئے جاری چیلنج ہے اور اس کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ ہم نمائندہ ہیں آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور جو بھی جھوٹوں پر بلائیں پڑا کرتی ہیں ہم اس کے لئے اپنی جان کو پیش کرتے ہیں اگر نعوذ باللہ من ذالک ہم جھوٹے ہیں.اس چینج میں یہ بھی ذکر ہے کہ اس کتاب کو پڑھ لو اور وہ حقیقۃ الوحی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے اس شرط کو داخل فرمایا تا کہ اس کتاب کو دیکھ کر ایک آدمی جس کے اندر سعادت ہے اس کی آنکھیں کھل سکتی ہیں تو کھل جائیں اور خواہ مخواہ ضائع نہ ہو.تو یہ شرط پیش کرنی چاہئے اور سمجھانا چاہئے کہ آپ یہ کتاب پڑھ لیں اگر وہ انکار کرتا ہے اور

Page 811

خطبات طاہر جلدے 806 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں یہ کتاب جھوٹی ہے مجھے پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں تو پھر اس کو کہیں کہ یہ لکھ دو پھر کہ میں نے اس شرط کو پڑھا تھا میں اس شرط کو رد کرتا ہوں اور اس کو نہ پڑھنے کے باوجود میں اسے جھوٹا اور غلط مواد سمجھتے ہوئے پڑھنے کے قابل بھی نہیں سمجھتا اور پھر میں قبول کرتا ہوں پھر ان باتوں کا اعلان ہو جانا چاہئے تا کہ پھر دنیا گواہ بنے.ایک صاحب ہیں چنیوٹ کے مولوی جو اپنی بد کلامی اور سفلہ پن میں اکثر مولویوں پر سبقت لے گئے ہیں اور جو بازاری مولوی کا تصور کسی انسان کے ذہن میں ہوتا ہے یہ اس تصور پر خوب پورا اترتے ہیں اور تعلی کرنا اور جگہ جگہ عجیب وغریب قسم کے تماشے دکھا کر اپنی فتح کے ڈھنڈورے خود پیٹنا یہ ان کا پرانا شیوہ ہے.مباہلے کے میدان میں یہ بڑی دیر سے اپنی دانست سے اترے ہوئے ہیں اور تقریباً ہر سال ربوہ اور چنیوٹ کے درمیان جو چناب دریا ہے اس کی دوشاخوں کے درمیان ایک جزیرہ سا بنا ہوا ہے وہاں یہ اپنے چند مریدوں کو لے کے آتے ہیں اور اعلان کر دیتے ہیں کہ دیکھو مقابلے پر وہ میرے نہیں آیا اس لئے امام جماعت احمدیہ جو پہلے ہوتے رہے ہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی یا خلیفتہ اسیح الثالث ان کے متعلق پہلے اعلان کیا کرتے تھے وہ میرے مقابل پر نہیں آیا اس لئے جھوٹا ہے اور بھاگ گیا ہے.پھر میرے متعلق یہ اعلان کرتے رہے.اب جب میں نے ان کو مباہلے کا چیلنج دیا ہے تو ایک دفعہ پھر یہ وہاں آئے اور یہی اعلان کیا اور ساتھ ہی دوغلے پن کا یہ حال ہے ایک طرف یہ اعلان کرتے ہیں کہ مباہلہ قبول کرنے سے بھاگ گیا، دوسری طرف یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ جو پہلے فوت ہوئے ہیں وہ ان کے مباہلے کی دعا سے فوت ہوئے ہیں.بھاگنے کے با وجودوه نعوذ باللہ من ذالک ان کے نزدیک ذلیل ورسوا ہوئے اور جتنے سال بعد بھی فوت ہوئے وہ انہی کی دعا سے فوت ہوئے.اب خدا کی تقدیر نے ان کو گھیر کر ایک ایسی جگہ کھڑا کر دیا ہے جہاں سے کسی قیمت پر اب یہ نکل نہیں سکتے اور ان سے ایک ایسا اعلان کروا دیا ہے جیسا اعلان لیکھرام نے کیا تھا اپنے زمانے میں اور جب میں نے یہ اعلان پڑھا اسی وقت میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ الحمد للہ کے ایسا شخص جو ہر جگہ فرار کی راہ ڈھونڈتا اور ادھر سے ادھر بھاگتا اور اپنے شیطانی کرتب دکھاتا ہے خدا کی تقدیر نے آخر اس کو گھیر لیا ہے.وہ اعلان انہوں نے یہ کیا ہے کہ اگلے سال پندرہ ستمبر تک میں تو ہوں گا قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی.منظور چنیوٹی روز نامہ

Page 812

خطبات طاہر جلدے 807 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء جنگ لندن 88-10-21 کو یہ خبر شائع ہوئی ہے.یہ اسی قسم کا اعلان ہے جیسے لیکھر ام نے یہ اعلان کیا تھا کہ تین سال کے اندر اندر احمدیت دنیا سے تو نابود ہونی ہی ہے قادیان سے بھی نابود ہو جائے اور کوئی نام لیوا مرزا غلام احمدکا باقی نہیں رہے گا.کوئی ان سے پوچھیں گے تو ان کو بر بھی نہیں ہوگی کہ یہ کن کی باتیں کر رہے ہیں.جب میں نے یہلیکھرام کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات دیکھی تھی تو مجھے یہ سمجھ آئی بڑی وضاحت کے ساتھ کہ کیوں اس کے عرصہ امتحان کو لمبا کیا گیا تھا.تین سال کی بجائے چھ سال کی پیشگوئی میں حکمت کیا تھی.اس لئے کہ وہ تین سال زندہ رہے اپنی ناکامی اور رسوائی اور ذلت کو آنکھوں سے دیکھ لے اور جان لے کہ وہ جھوٹا ثابت ہو چکا ہے پر ذلت اور رسوائی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو.اب میں یہ نہیں کہ سکتا کہ اس کے نتیجے میں منظور چنیوٹی صاحب کے ساتھ بھی خدا یہی سلوک کرے گا کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ واضح طور پر کسی بات کی خبر نہ دے محض ایک سابقہ واقعہ کوملحوظ رکھتے ہوئے قطعی نتیجہ نکالنا درست نہیں اور تقویٰ کے خلاف ہے لیکن یہ مجھے یقین ہے اور یہ آپ سب کو یقین ہے اس میں کوئی احمدی بھی اس یقین سے باہر نہیں کہ یہ مولوی اب لازماً اپنی ذلت اور رسوائی کو پہنچے والا ہے.کوئی دنیا کی طاقت اس کو اب اس ذلت اور رسوائی سے بچا نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ مباہلہ میں جھوٹ بولنے والے باغیوں کے لئے مقدر کر چکا ہے اور لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (آل عمران :۶۲) کے اثر سے اور اس کی پکڑ سے اب کوئی دنیا کی طاقت اسے بچا نہیں سکتی.پس انشاء اللہ تمبر آئے گا اور ہم دیکھیں گے کہ احمدیت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے، ہر زندگی کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر زندہ ہو چکی ہے.ایک ملک ایسا نہیں مولوی منظور چنیوٹی اگر زندہ رہا تو اس کو دکھائی دے گا جس میں احمدیت مرگئی ہو اور کثرت سے ایسے ملک دکھائی دیں گے جہاں احمدیت از سر نو زندہ ہوئی ہے یا احمدیت نئی شان کے ساتھ داخل ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ مر دوں کو زندہ کر رہی ہے.پس ایک وہ اعلان ہے جو منظور چنیوٹی نے کیا تھا، ایک یہ اعلان ہے جو میں آج آپ کے سامنے کر رہا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے خدا کی خدائی میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ منظور چنیوٹی سچا ثابت ہو اور میں جھوٹا نکلوں.منظور چنیوٹی جن خیالات کا اور

Page 813

خطبات طاہر جلدے 808 خطبه جمعه ۲۵ /نومبر ۱۹۸۸ء.عقائد کا قائل ہے وہ بچے ثابت ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عقائد ہمیں عطا فرمائے ہیں آپ اور میں جن کے علم بردار ہیں یہ عقائد جھوٹے ثابت ہوں.اس لئے یہ شخص بڑی شوخیاں دکھاتا رہا اور جگہ جگہ بھاگتا رہا اب اس کے فرار کی کوئی راہ اس کے کام نہیں آئے گی اور خدا کی تقدیر اس کے فرار کی ہر راہ بند کر دے گی اور اس کی ذلت اور رسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.

Page 814

خطبات طاہر جلدے 809 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء احمدیت کی اصل صبح تب ہوگی جب تمام دنیا پر دین مصطفی پھیل جائے گا.احمدیت کل انسانیت کی ملکیت ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ان دنوں اس بات کا چر چاہے کہ پاکستان میں گیارہ سال کی طویل رات کے بعد جمہوریت کا سورج طلوع ہوا ہے.ابھی یہ کہنا جلدی ہے کہ صبح کس نوعیت کی ہوگی اور وقت بتائے گا کہ یہ صبح کیسی صبح ہے جو طلوع ہوئی ہے لیکن بہر حال اس میں شک نہیں کہ ایک بہت لمبے عرصے کے بعد اہل پاکستان کو جمہوریت کے ذریعے اپنے فیصلے کرنے کا بظاہر اختیار ملا ہے.اس لحاظ سے میں تمام اہل پاکستان کو جو پاکستان میں بھی ہوں یا پاکستان سے باہر بستے ہوں مبارکباد پیش کرتا ہوں.جب بھی ہم سورج کی بات کرتے ہیں یا صبح کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا ذہن طبعی طور پر اس سورج کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جس کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اس صبح کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو خدا کے بنائے ہوئے سورج کے ذریعے طلوع ہوا کرتی ہے.اس لئے اس سورج اور اس صبح کے ساتھ روشنی کا ایک ایسا تصور ہمارے دل و دماغ پر نقش ہو چکا ہے کہ جب بھی ہم سورج یا صبح کا ذکر سنتے ہیں تو یہی روشنی کا تصور ہمارے دل میں از خود طلوع ہو جاتا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں ہم جن سورجوں کی باتیں کرتے ہیں، جن صبحوں کی باتیں کرتے ہیں ہر گز ضروری نہیں کہ ان سورجوں کے اطوار خدا کے بنائے ہوئے سورج جیسے ہوں اور ان صبحوں کے رنگ خدا کی بنائی ہوئی صبحوں کے رنگوں

Page 815

خطبات طاہر جلدے 810 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء جیسے ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ ہر سورج کی صفات اس کے بنانے والے کی ، اس کے خالق کی صفات کا نقش لئے ہوئے ہوتی ہیں.ہر صبح کا فیصلہ کہ وہ کیسی صبح ہے اس کے بنانے والے کی اپنے مزاج ، اس کے اپنے بنانے والے کی اپنی نیت ، اس کے بنانے والے کے اپنے اطوار کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.یہ فیصلہ اگر میں نے کہا تھا تو مجھے کہنا چاہئے کہ یہ فیصلہ اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ اس صبح کو بنانے والا کیسا ہے؟ چنانچہ اس پہلو سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنی بھی انقلابی میں طلوع ہوا کرتی ہیں یا جمہوری میں طلوع ہوا کرتی ہیں یا نظریاتی صبح میں طلوع ہوا کرتی ہیں ان سب کے رنگ جدا جدا ہوتے ہیں.بعض تبدیلوں کو دنیا صبح کا نام دیتی ہے اور ان صبحوں کا رنگ گہرا سرخ ہوتا ہے اور انسان کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد وہ صبح بنتی ہے.بعض جگہ جب ہم صبح کی باتیں کرتے ہیں تو ان صبحوں کا رنگ سبز ہوتا ہے، کہیں ان صبحوں کا رنگ سیاہ ہوتا ہے، کہیں ان صبحوں کا رنگ ملا جلا کالے، سیاہ، سرخ اور سبز کے ساتھ اس طرح گڈمڈ ہو کر ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ صبح کا رنگ کیا ہے.خصوصاً ایسے ممالک جہاں رشوت ستانیاں عام ہوں، جہاں نا انصافیاں عام ہوں وہاں کی صبح بھی اس کے مختلف رنگ بیک وقت لئے ہوئے ہوتی ہیں.چنانچہ اسی ملک کے باشندے ایک صبح میں نار یک خطے میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں، اسی صبح کے بعض باشندے ایک حصے میں ایک سبز رنگ کے حصے میں بھی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ، اسی ملک کے بعض باشندے سرخ رنگ کے خطے میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ باشندے ایسے ہوتے ہیں جن پر پوری طرح اسی طرح کی صبح طلوع ہو چکی ہوتی ہے جیسے ہم قانون قدرت کی بنائی ہوئی صبح کو دیکھتے ہیں.چنانچہ یہ جو تمثیل ہے یہ محض کوئی شاعرانہ تمثیل نہیں بلکہ حقیقہ بعینہ دنیا کے حالات پر اطلاق پاتی ہے.بعض ممالک ہیں جہاں حکمران جمہوریت کے نام پر اوپر آتے ہیں ان کے لئے روشنی ہی روشنی ہے اور ان کے ساتھیوں کے لئے روشنی ہی روشنی ہے لیکن بعض ان سے اختلاف رکھنے والے انتہائی تاریکی کی حالت میں دن بسر کر رہے ہوتے ہیں ان کا مستقبل روشن نہیں ہوتا ان کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ہم سے کیا بنے گا اور ہمارے ساتھ کیسے سلوک کئے جائیں گے.پس آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے کچھ لوگ ابھی تاریکی میں بسر کر رہے ہیں.کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو مظالم کا نشانہ بنایا

Page 816

خطبات طاہر جلدے 811 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء جاتا ہے اور طرح طرح سے ان کو دکھ دئے جاتے ہیں اسی ملک میں ان کی صبح کو سرخ صبح کہا جا سکتا ہے.پھر کچھ لوگ ہیں جو دولت سے کھیلنے لگتے ہیں جن کے لئے ملک کی ساری سبزی ساری طراوت ان کی جھولی میں انڈیل دی جاتی ہے ان کی صبح کو پھر سبز صبح بھی کہہ سکتے ہیں یا روپے کی مثال کی تمثیل کے ساتھ رو پہلی صبح بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس صبح کے مالک جو ہیں جو اس صبح کی تقدیر بنانے والے ہیں ان کو اس صبح کے سارے رنگ میسر آتے ہیں کچھ اپنوں کے لئے ، کچھ غیروں کے لئے اس لئے میں نے کہا کہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی حالت عام قانون قدرت سے بنائی جانی والی صبح کی حالت جیسی ہوا کرتی ہے.اس لئے یہ جو سورج طلوع ہونا اور نیا دن چڑھنا یہ محاورے جب آپ سنتے ہیں تو درحقیقت ان سے کچھ بھی سمجھ نہیں آتی کہ کیا واقعہ ہوا ہے.جب تک یہ دن چڑھانے والوں کے دلوں کی حالت کا ہمیں علم نہ ہو ، جب تک ان کی نیتوں سے ہم آگاہ نہ ہوں، جب تک ان کی طاقتوں سے ہم واقف نہ ہوں کہ اگر اچھی نیتیں رکھتے بھی ہیں تو کیا ان اچھی نیتوں کو بروئے کارلانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ اس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی صبح کس طرح کی طلوع ہوئی ہے.خدا تعالیٰ نے جو سورج بنایا ہے، خدا تعالیٰ نے جو صبح بنائی ہے اس میں جو روشنی آپ دیکھتے ہیں ، وہ سفیدی جو ایک خاص قسم کی سفیدی ہے، سفیدی کے سوا اس کے لئے کوئی اور لفظ ہمارے پاس نہیں اس لئے ہم اسے سفیدی کہہ دیتے ہیں مگر قرآن کریم کی اصطلاح میں اسے نور کہا جاتا ہے.وہ نور دراصل انصاف سے بنتا ہے اور وہ اہل دانش جنہوں نے روشنیوں کی حقیقت پر تحقیق کی ہے وہ بتاتے ہیں کہ جس کو ہم ایک سفید نما نور دیکھتے ہیں دراصل یہ مختلف رنگوں کی آمیزش سے بنی ہوئی ایک کیفیت ہے اور ان رنگوں نے آپس میں کامل امتزاج کیا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان رنگوں کو آپس میں ایک کامل امتزاج کے ساتھ یک جان بنا دیا ہے اور ان کا امتزاج ایسا منصفانہ ہے کہ ان رنگوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو بے چینی سے اپنی الگ شخصیت کو ظاہر کرے کیونکہ جب کامل انصاف ہو تو سارے رنگ ایک دوسرے میں مدغم ہو جایا کرتے ہیں اور کوئی رنگ اپنی بیقراری اور بے چینی کے ذریعے اپنی الگ شخصیت کو ظاہر نہیں کیا کرتا.اس لئے یہ جو میں نے انصاف کا لفظ استعمال کیا ہے یہ محض کوئی فرضی بات نہیں حقیقت ہے.جہاں بھی آپ رنگوں کے اس

Page 817

خطبات طاہر جلدے 812 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء امتزاج میں انصاف کو چھوڑ دیں گے وہاں سفیدی رونما نہیں ہوگی کچھ اور رونما ہو گا.اس رنگ کا کوئی بھی نام آپ رکھ دیں لیکن وہ سفیدی نہیں ہوگی.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو سورج بنایا اور اس سورج کی روشنی سے جو صبح طلوع ہوا کرتی ہے وہ تمام کائنات کے لئے ایک سبق رکھتی ہے اور وہ سورج بنی نوع انسان کے لئے ایک سبق رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ روحانی دنیا میں جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کوسراج منیر فرمایا گیا یعنی تمام عالم کا ایک روشن سورج اور روشن کرنے والا سورج تو اس میں یہی پیغام تھا کہ یہ رسول کامل انصاف رکھنے والا رسول ہے.اس نے دو طرح سے رنگوں سے انصاف فرمایا ہے.اول اپنے خدا کی صفات کے سارے رنگ اسی توازن سے اختیار کئے جس توازن سے خدا کی ذات میں پائے جاتے ہیں اور دوسرے بنی نوع انسان سے تعلقات میں وہ سارے رنگ اختیار کئے اسی توازن کے ساتھ جو انسانی فطرت میں ایک خاص توازن کے ساتھ پائے جاتے ہیں.تو یہ وہ رسول ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کے ساتھ بھی ان کو اپنانے میں انصاف کرنے والا ہے اور بندوں کے ساتھ سلوک میں بھی فطرت کے مطابق متوازن راہ اختیار کرتے ہوئے ایسا سلوک فرماتا ہے جو کامل انصاف پر مبنی ہوتا ہے.پس روحانی دنیا کا بھی یہ سورج ہے اور مادی دنیا کا بھی یہ سورج بن جاتا ہے انسانوں کے نقطہ نگاہ سے.مادی دنیا تو نہیں کہنا چاہئے غیر مذہبی عام انسانی تعلقات کے نقطہ نگاہ سے بھی حضرت اقدس محمد مصطفی مے پرسورج کا لفظ بعینہ اپنی کامل شان کے ساتھ اطلاق پاتا ہے.اصلى الله پس اس پہلو سے جو صبح ہم جانتے ہیں وہ تو طلوع اسلام کی صبح ہو گی.جس صبح سے ہم واقف ہیں یا ہمیں سمجھائی گئی ہے وہ وہی صبح ہے جو حضرت محمد مصطفی میے کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ طلوع ہو گی.اس لئے وقتی طور پر کسی دنیا کے ملک میں اگر جمہوریت طلوع ہوتی ہے، اگر جمہوریت کا سورج چڑھتا ہے تو ضمنی طور پر چھوٹی سطح پر ایک قسم کی خوشی کا پیغام ہمیں ملتا ہے لیکن ہم یہ بھی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ خوشی کا پیغام حقیقی ہے بھی کہ نہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت سے ایسے موجبات ہیں، بہت سے ایسے اسباب ہیں جو سورج کے طلوع کے فوری ساتھ ہی ظاہر نہیں ہوا کرتے.ایک قسم کا دھند لکے کا عالم ابتدائی صبح کے وقت ہوا کرتا ہے اور اس سورج کی کیفیت کیا ہوگی ، وہ کیا چیزیں اپنے ساتھ لائے گا، کس قسم کے رنگ ظاہر کرے گا.یہ سارے امور انسانی

Page 818

خطبات طاہر جلدے 813 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء محاورے کے لحاظ سے جب انسانی حالات پر اطلاق پاتا ہے یہ محاورہ اس وقت یہ سارے امور اندھیرے میں ہوتے ہیں.بظاہر صبح کی بات کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں خود سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں.خود صبح کا لفظ اپنی ذات میں اندھیرے میں چھپا ہوا ہوتا ہے.اس لئے یہ ھجیں ابتدائی طور پر خوشی کا ایک پیغام لاتیں ہیں کیونکہ امکانات موجود ہوتے ہیں ان کے اچھا ہونے میں لیکن بسا اوقات شاعر اس بات کا رونا روتے ہیں بعد میں کہ یہ کیسی صبح ہم پر طلوع ہوئی اس سے تو بہتر تھا کہ وہ رات رہتی جس رات کی ہر گھڑی، ہر لمحہ ہم نے گن گن کے کاٹا اس صبح کے انتظار میں لیکن جب صبح چڑھی تو رات سے بھی زیادہ بھیا نک.اس لئے خدا کی بنائی ہوئی صبح سے انسان کی بنائی ہوئی صبح کو نہ نا پا کریں.یہ دو مختلف پیمانے ہیں.یہ اور تصور ہے اور خوشی کے اظہار میں بہت جلدی نہ کیا کریں بلکہ بالغ نظر انسانوں کی طرح انتظار کیا کریں کہ یہ صبح آپ کے لئے کیا ظاہر کرتی ہے اور کیسے رنگ لے کے آتی ہے.جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ اس گیارہ سالہ رات میں دکھ اٹھائے ہیں جس گیارہ سالہ رات میں پاکستان کے دوسرے اہل وطن نے بھی دکھ اٹھائے اور عجیب بات ہے کہ اس رات کو بھی صبح کہا جاتا تھا.لکھنے والوں نے اس رات کو بھی روشنائی سے لکھا تھا اور بتانے والوں نے اس کو بھی ایک اسلام کی صبح بتایا تھا لیکن وہ کیسی اسلام کی صبح تھی جس کی روشنی میں دن بدن بدکاریاں بڑھتی رہیں، دن بدن مظالم بڑھتے رہے، دن بدن فسق و فجور میں اضافہ ہوتا رہا، دن بدن دہریت پنپتی رہی اور منافقت آگے بڑھتی رہی.وہ تمام حالات جو اس ظاہری صبح میں جس کو صبح بتایا جا تا تھا رونما ہونے شروع ہوئے اور رونما ہوتے رہے مسلسل.ان حالات کا قرآنی اصطلاح میں اندھیروں سے تعلق ہے روشنی سے تو کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی صبح کو صبح ہی بتایا جاتا تھا اور اسلام کا سورج طلوع ہو گیا، ایک ایسی ضیاء آگئی جس کے نتیجے میں اب اسلام کے لئے روشنیوں کے دن ہی ہیں اور سارے اندھیرے ختم ہو گئے.کیسے اندھیرے ختم ہوئے تھے کہ گلی گلی میں ظلم اور سفا کی کا دور دورہ تھا، وہ کیسے اندھیرے ختم ہوئے تھے کہ بدکاری اور بے حیائی بڑھتی چلی جارہی تھی ،غریبوں پر مظالم پہلے سے زیادہ ہو گئے اور دوسرے کا مال لوٹنا، دوسرے کی عزت پر ہاتھ ڈالنا ، دوسرے کی جان اور مال اور عزت کو نقصان

Page 819

خطبات طاہر جلدے 814 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء پہنچا نا یہ ان دنوں کا شیوہ بن چکا تھا اور اس کو بھی صبح بتایا جاتا تھا.اسی لئے جیسا کہ میں نے آپ کو متنبہ کیا ہے کہ محض اصطلاحوں کے استعمال سے دھوکا نہ کھائیں لیکن اس کے ساتھ ہی میں آپ کو یہ بھی بتا تا ہوں کہ جو کچھ بھی پاکستان میں رونما ہوا ہے جہاں تک ظاہری عقل کے اندازے ہیں یہ اس سے بہت بہتر ہے جو گیارہ سالہ دور میں ہم نے دیکھا ہے.یقینی طور پر میں نہیں کہہ سکتا کہ احمدیوں کے لئے وہ تمام آزادیوں کی خوشخبریاں یہ صبح لے کے آئی ہے جو ان کا انسانی حق ہے یا نہیں لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ پاکستان کے بہت سے باشندوں کے لئے ، پاکستان کے بہت سے خطوں میں یقیناً یہ صبح خوشخبریاں لے کے آئی ہے.اسی لئے میں نے بالعموم اہل پاکستان کو اس خطبے کے آغاز ہی میں مبارکباد دی تھی.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جماعت احمدیہ نے نہایت صبر اور استقلال کے ساتھ جن خطر ناک مظالم کا سامنا کیا اور ان مظالم کو للہ خدا کی رضا کی خاطر برداشت کرتے رہے میں امید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان مظلوموں کو بھی اس صبح کی روشنی سے حصہ دے اور ان کے دکھوں کی تاریکیاں بھی اگر کلیہ نہیں کٹتیں تو کم ہو جائیں اور ان کو سانس لینے کی سہولت اور مہلت میسر آجائے لیکن میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ اگر اب نہیں تو کل اگر کل نہیں تو پرسوں احمدیت پر بھی لازما وہ سورج طلوع ہوگا جو خدا کا بنایا ہوا سورج ہے.وہ اپنی تمام روشنیاں آپ کے لئے لے کے آئے گا.وہ دن طلوع ہو گا جس طرح یہ بھی رات لمبی تھی اور کئی راتوں پر مشتمل تھی کئی راتوں سے گویا بنائی گئی تھی پروپرو کر اسی طرح یہ دن جو احمدیت پر طلوع ہونے والا ہے یہ ایک بہت ہی لمبا دن آئے گا اور ایک ایسا دن ہے جو آپ کی نسلیں بھی اس کو ڈوبتا نہیں دیکھیں گی، آپ کی آنے والی نسلیں بھی اس کو ڈوبتا ہوا نہیں دیکھیں گی، ان کے بعد آنے والی نسلیں بھی اس دن کو ڈوبتا ہوا نہیں دیکھیں گی اور میں خدا کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ وہ دن روشن تر ہوتا چلا جائے گا اور پھیلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ساری دنیا کو اسلام کے نور سے منور کر دے گا.یہ جو پہلو ہے اس پہلو سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایک جگہ کی صبح ہمارے لئے کافی نہیں ہے.کسی ایک وطن کی صبح ہمارے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ اس پر غور کرتے ہوئے ہمارا ذہن صبح کی ایک اور صفت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی صبح بہت

Page 820

خطبات طاہر جلدے 815 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء وسیع علاقے پر طلوع ہوتی ہے کسی ایک یا دو ملکوں پر طلوع نہیں ہوا کرتی بلکہ آپ جغرافیائی نقطہ نگاہ سے بات کریں تو نصف عالم پر ضرور روشن ہو جاتی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جب روحانی اصطلاح میں ہم بات کرتے ہیں تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا سورج نصف دنیا کے لئے نہیں بنایا گیا تھا.اس لئے دنیا کے محاورے مقدرت نہیں رکھتے کے اس صبح کا ذکر کر سکیں جو صبح رسول اکرم ﷺ کے سورج کے طلوع ہونے سے دنیا پر ظاہر ہوئی تھی.یہ وہ صبح ہے جو بیک وقت کل عالم کو روشن کرنے والی صبح ہے اور کسی ایک افق کو روشن کرنے والی نہیں، کسی دوافقوں کو روشن کرنے والی نہیں، بعض مشارق کو روشن کرنے والی نہیں بلکہ کل عالم کے ہر افق کی ہر مشرق کو روشن کرنے والی صبح ہے.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا دل اور حوصلہ بہت بڑا ہونا چاہئے.قرآن کریم جب کافروں کو فَرِح فَخُورٌ (هود:۱۲) فرماتا ہے تو ان کے چھوٹے دل، ان کے تصورات کی چھوٹی چھلانگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے.جس شخص کے مطلوب چھوٹے ہوں، جس شخص کے مقصود کم ہوں اور ادنی ہوں وہ چھوٹی باتوں سے خوش ہو جایا کرتا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ کافروں کے مطمح نظر گھٹیا ہوا کرتے ہیں اور تھوڑے ہوتے ہیں ان کے مطلوب اور مقصود چھوٹے ہوتے ہیں.اس لئے تم دیکھو گے کہ کافر تھوڑ اسا پا کر بھی بہت خوش ہوتا ہے اور فخر کرنے لگ جاتا ہے، چھلانگیں مارنے لگ جاتا ہے.احمدیوں کو اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ہمارے سفر لمبے ہیں، ہمارے مطلوب اور مقصود آفاقی ہیں اور کوئی ایک چھوٹی صبح ہمیں خوشی سے اچھلنے پر مجبور نہیں کر سکتی ، ہم کسی ایک چھوٹی صبح کو دیکھ کر خوشی سے اچھلنے والے لوگ نہیں ہیں.وہ منازل میں سے ایک منزل ہے جسے ہم نے طے کیا.لیکن در حقیقت ہماری آخری منزل تمام کائنات پر محمدمصطفی امیہ کے سورج کی صبح کو طلوع کرنا ہے اور تمام عالم کو اس صبح سے روشن کرنا ہے.اس پہلو سے ایک علاقائی نظر رکھنے والے نہ بنیں بلکہ آفاقی نظر رکھنے والے بنیں.آپ کی ایک عالمی حیثیت ہے ، آپ کسی ایک ملک کی جماعت نہیں ہیں.ایک ملک میں اگر دکھ آپ اٹھاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی رحمتیں کثرت کے ساتھ دوسرے ملکوں میں آپ کے لئے راحت کے سامان بھی پیدا کر رہی ہوتی ہے.اس لئے نہ آپ کی رات کسی ایک ملک سے بنتی ہے نہ آپ کی صبح کسی ایک ملک سے بنتی ہے.آپ حضرت محمد مصطفی میہ کے غلام ہیں آپ کا پیغام آفاقی ہے، آپ کی رحمت عالمی ہے.اس

Page 821

خطبات طاہر جلدے 816 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء نقطہ نگاہ سے اپنے ارادوں کو بلند رکھا کریں اور اپنے حوصلوں کو وسیع کریں اور اپنے مقاصد کو ہمیشہ عالمی حیثیت کے ساتھ اور عالمی نقطہ نگاہ سے جانچا کریں اور چھوٹے چھوٹے افقوں کی سطح پر اپنے مقاصد کو محدود نہ کر دیا کریں.اس لحاظ سے میں جماعت کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہم سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ انشاء اللہ آنحضرت ﷺ کے پیغام کی صبح کل عالم میں روشن کرنے کا جو مقصد لے کر اٹھے ہیں اس میں ہم بہت نمایاں کامیابی حاصل کریں گے اور یہ نمایاں کامیابی کی جو منزل ہے یہ صدیوں کے نقطۂ نگاہ سے احمدیت کی دوسری صدی سے تعلق رکھتی ہے.پس ہم ایک اور سورج کے طلوع ہونے کے کنارے پر کھڑے ہیں ایک اور صبح کے کنارے پر کھڑے ہیں.پہلی صدی کا سورج جب غروب ہو گا تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ دوسری صدی کا سورج طلوع ہو رہا ہوگا.جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے یہ دوسری صدی کا سورج زیادہ وسیع علاقے پر طلوع ہوگا اور جو بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے میں سمجھا ہوں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اگلی صدی جماعت احمدیہ کو ایک عظیم عالمی جماعت کے طور پر منصہ شہود پر ابھارے گی اور جماعت کے قدم بڑی مضبوطی کے ساتھ دنیا کے ہر ملک میں پیوست ہو چکے ہوں گے اور قائم ہو چکے ہوں گے.اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے یہ شام کا وقت بہت ہی اہمیت کا وقت ہے شام کا تو نہیں کہنا چاہئے دوسری صبح کے آغاز سے پہلے فجر کا وقت کہنا چاہئے.ہم صدیوں کے نقطۂ نگاہ سے، صدیوں کے محاورے کے لحاظ سے اس وقت بظاہر ایک دن کے آخر پر ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ایک اور صبح کے سرہانے کھڑے ہیں جو طلوع ہونے والی ہے.اس پہلو سے تسبیح وتحمید کے ساتھ ہمیں اس صبح کے لئے خدا تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ برکتوں کے حصول کا طالب ہونا چاہئے اور تسبیح وتحمید کے ذریعے اپنی صبح کو برکتوں سے بھر دینا چاہئے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی احمدیوں کے حالات پہلے سے بہتر ہوں گے.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں پاکستان کے حالات سے نعوذ باللہ مایوس ہوں.میں ہر گز یہ پیغام نہیں دے رہا کہ پاکستان میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یہ ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں.اس لئے اگر میرے خطبہ سے یہ اب تک تاثر قائم ہوا ہو تو میں اس تاثر کو دور کرنا چاہتا

Page 822

817 خطبه جمعه ۲ دسمبر ۱۹۸۸ء خطبات طاہر جلدے ہوں.میں جو بات آپ کو سمجھانی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم خدا کی رحمت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور ان تبدیلیوں کو احمدیوں کے حق میں ایک صبح کی طرح ظاہر فرمائے گا اور یہ تبدیلیاں نئی روشنی احمدیت کے لئے لے کے آئیں گی اور مظالم کی اندھیری رات انشاء اللہ مل جائے گی لیکن اپنی ذات میں یہ ہمارا مقصد نہیں ہے.اپنی ذات میں یہ کامیابی ہمارے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ ہم ایک عالمی جماعت ہیں، ہمارا صح نظر بہت وسیع ہے، ہمارا مقصود بہت اونچا ہے اس مقصود سے آپ غافل نہ ہوں اور یاد رکھیں کہ جس صبح کی ہم بات کرتے ہیں اس کی صفات عام دنیا کی صبحوں سے مختلف ہوا کرتی ہیں.چنانچہ اس نقطۂ نگاہ سے جب میں نے حالات پر غور کیا تو میں نے یہ عجیب بات معلوم کی کہ پاکستان کے احمدیوں پر یہ جو گیارہ سالہ رات مسلط ہوئی تھی اس گیارہ سالہ رات میں ہم نے حقیقت میں اندھیروں کی بجائے روشنیاں پائیں ہیں اور جن لوگوں کے لئے وہ صبح تھی انہوں نے اس میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں پایا.اس لئے جب ہم انسانی محاوروں میں بات کرتے ہیں تو بہت سے دھو کے کھا جاتے ہیں.میں آپ کے سامنے یہ معاملہ کھول کر رکھنا چاہتا ہوں کہ ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا جب مذہبی اور روحانی نظر سے اس بات کا تجزیہ کریں تو اچانک ہم ساری کیفیت کو بالکل الٹتا ہوا دیکھتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کلیڈ وسکوپ کی حرکت سے منظر بدل جاتا ہے اس طرح اچانک پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کا منظر یک دفعہ تبدیل ہو جاتا ہے.ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اس گیارہ سال میں.اس کو جب آپ حقیقت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس عرصے میں جن لوگوں نے ہم پر مظالم کئے ، جن لوگوں نے ہمیں دکھ دیئے انہوں نے حقیقت میں سچائی کو اپنے ہاتھ سے کھو دیا.انہوں نے ہر اعلیٰ انسانی قدر کو اپنے ہاتھ سے کھو دیا.وہ دن بدن خود اپنی ہی پوجا کرنے والوں کی نظر میں ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے گئے.ان کے اس ڈرامے کے سٹیج سے چلے جانے کے بعد وہ لوگ جو ان کی عبادت کیا کرتے تھے انہوں نے ان پر لعنتیں ڈالنی شروع کیں.تمام ملک کے صحافیوں اور دانشوروں نے پہلے دبی آواز میں پھر کھل کر پھر خوب کھل کر اس دور کی جس کو وہ صبح کہا کرتے تھے اس کی تاریخ میں باتیں لکھنی شروع کیں اور اس تاریخ کی حقیقت کو قلمبند کرنا شروع کیا جسے ایک روشن تاریخ کہا جاتا تھا اور یہ کہنے لگے کہ اسلام کی ان

Page 823

خطبات طاہر جلدے 818 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء تاریخ میں کبھی اسلام کو کسی دور میں اتنا نقصان نہیں پہنچایا گیا جتنا اسلام کے نام پر آنے والی اور مسلط ہونے والی اس آمریت کے دور میں اسلام کو نقصان پہنچایا گیا ہے.تو آپ دیکھیں کہ اچانک منظر کس طرح بدلا ہے.جن کی صبح ہے دراصل ان کی رات ہے اور میں آپ کو بتاؤں گا کہ جن کی رات کہا جارہا ہے دراصل ان کی صبح ہے.چنانچہ احمدیوں کا نقطہ نظر ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بظاہر تاریک رات سے گزرتے ہوئے ہم نے خدا تعالیٰ کے قرب کی روشنیاں پائیں ہیں.ہم نے عبادتوں سے اپنے گھروں کو روشن کیا اور مساجد میں عبادتوں کے چراغ جلائے.جس طرح ایک پوجا کرنے والا دیئے کی بتی روشن کر کے بتوں کے سامنے رکھتا ہے اس سے کہیں زیادہ عقیدت اور محبت اور توحید کے عشق سے معمور ہو کر ہر احمدی نے اپنے سینے میں خدا کی عبادت کے دیئے جلائے اور اپنے سینوں کو بھی روشن کیا، اپنے گھر کے ماحول کو بھی روشن کیا.گزشتہ بعض اصلاحی خطبوں میں میں آپ کے سامنے ذکر کرتا رہا ہوں کہ اہل ربوہ خصوصیت کے ساتھ میرے لئے باعث فکر ہیں کہ ان میں یہ خرابی بھی بعض جگہ داخل ہو رہی ہے، بعض جگہ یہ خرابی بھی داخل ہو رہی ہے.وہ اس لحاظ سے میں تنقید کرتا تھا کہ جن سے محبت ہو، جن سے پیار ہو، جن سے توقعات ہوں جنہیں انسان سفید روشن کپڑے کے طور پر دیکھنا چاہتا ہو ان کے چھوٹے چھوٹے داغ بھی دکھ دیتے ہیں اور تکلیف پہنچاتے ہیں.ہرگز یہ مراد نہیں تھی کہ نعوذ باللہ غیروں کے مقابل پر یعنی پاکستان کے دوسرے شہروں کے مقابل پر اہل ربوہ کی حالت دینی اور اخلاقی لحاظ سے کسی پہلو سے بھی بد ہے یا بد تر ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ سارے دور میں اگر کوئی ایک شہر پاکستان میں اسلامی شہر کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا تو ربوہ ہی تھا اور آج بھی ربوہ ہی ہے.باہر سے جانے والے بعض غیر مسلم سیاحوں نے واپسی پر خود مجھے بتایا کہ ہم نے پاکستان کے بہت سے شہر دیکھے لیکن سب سے زیادہ صاف اور پاک معاشرے والا شہر ہمیں ربوہ دکھائی دیا ہے اور اتنا فرق ہے کہ ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ پاکستان کا شہر ہی نہیں ایک جزیرہ ہے جو اس ملک میں آباد ہے.ایک موقع پر سری لنکا کے ایک سفیر پاکستان میں متعین تھے.جب یہ آغاز ہوا ہے مخالفتوں کا زیادہ ان دنوں کی بات ہے.ان کو میں نے دعوت دے کر ربوہ بلایا اور مل کے جب وہ رخصت ہورہے تھے تو انہوں نے یہ کہا

Page 824

خطبات طاہر جلدے 819 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء کہ وہاں حکومت پاکستان کے نمائندہ یا دوسرے جتنے بھی لوگ مجھے ملنے والے ملا کرتے تھے وہ مجھے بار بار یہ یقین دلاتے تھے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور آپ ہرگز اس دھو کے میں نہ آئیں کہ یہ جماعت مسلمانوں کی جماعت ہے اور یہ کہا کرتے تھے کہ ربوہ ایک ایسا ذلیل شہر ہے جو سب سے زیادہ خوفناک اور اسلامی قدروں سے دور ہے اس لئے ہم جو کچھ بھی قدم اٹھا رہے ہیں احمدیت کے خلاف یار بوہ کے برخلاف ہم اپنے مذہبی نظریات سے مجبور ہو کر ایسا کر رہے ہیں.اس لئے یہ لوگ ہمارے او پر ایک داغ ہیں.یہ باتیں مجھے بیان کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے یہاں آکر دیکھا ہے اور یہاں آنے کے بعد جس کیفیت سے میرا دل گزرا ہے اس کے نتیجے میں میں گواہی دیتا ہوں اور میں ہر جگہ یہ گواہی دینے کے لئے تیار ہوں کہ اگر کہیں دنیا میں اسلام موجود ہے تو وہ ربوہ میں ہے اور اگر پاکستان میں کوئی معاشرہ خوبصورت اور صاف اور پاکیزہ کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف ربوہ میں ہے.چنانچہ اس کے بعد وہ اس عہد پر قائم رہے جب واپس گئے اسلام آباد تو ہمیں اطلاعیں ملتی رہیں کہ جس مجلس میں وہ بیٹھے ہیں انہوں نے یہی بات کھل کر بیان کی ہے.شاید یہی وجہ تھی کہ زیادہ دیر وہاں وہ سفیر نہیں رہ سکے اور ان کو واپس بھجوا دیا گیا یا بلا لیا گیا.جب میں سری لنکا گیا تو وہ خود ہوائی اڈے پر تشریف لائے ہوئے تھے ، اپنے رنگ میں میرے اعزاز کی خاطر اور ان کے آنے سے سہولتیں بھی بہت ہوئیں اور پھر سارے قیام کے عرصے سری لنکا میں وہ ہمیشہ ساتھ رہے اپنے طور پر.حکومت نے مقرر نہیں کیا تھا لیکن ان کو احمدیت سے ایسی محبت ہو گئی تھی کہ وہ رہ نہیں سکتے تھے.کینڈی ایک بہت خوبصورت جگہ ہے جب ہم یہاں گئے تو اصرار کیا کہ اس عرصے میں آپ میرے مہمان ہوں گے اور وہاں ہر قسم کی مقامی طور پر چیزیں دیکھنے کی یا دوسری سہولتیں مہیا کیں اور ایک ایسا موقع بھی فراہم ہوا ان کی وجہ سے جو دنیا میں شاذ ہی سیاحوں کو ملتا ہے.یعنی بدھ ازم کے جو نا ئب بادشاہ Deputy King کہلاتے ہیں اور بدھ دنیا کی بہت ہی عظیم شخصیت ہیں، بڑی طاقتور شخصیت ہیں ان کے ساتھ ملاقات کا بھی موقع ملا اور دنیا کی عام حکومتوں کے نمائندوں سیاحوں کو بھی نہیں ملا کرتا.تو میں یہ بتارہا ہوں کہ یہ سارا جو پھل تھا یہ ربوہ کی ایک مختصر سی زیارت کا پھل تھا.انہوں نے ربوہ دیکھا، اہل ربوہ سے ملے، ربوہ کے بازاروں میں گھومے، غریبوں کو دیکھا ، امیروں کو دیکھا

Page 825

خطبات طاہر جلدے 820 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء یعنی ہر قسم کی سوسائٹی سے انہوں نے رابطہ پیدا کیا اور ایک دن کے اندر اندر ہی ان کی کایا پلٹ گئی.تو جس ربوہ کو ہم اپنے نقطہ نگاہ سے تنقید کی نظر سے دیکھتے ہیں بیرونی لوگ جب اس ربوہ کو دیکھتے ہیں تو ان کو بالکل کچھ اور دکھائی دیتا ہے.ہمیں اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ہمیں جو کچھ دکھائی دینا چاہئے اس سے کم تر ہے اور وہ دوسرے اس نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں کہ باہر جو کچھ بھی دیکھتے رہے ہیں اس کے مقابل پر نور ہی نور ہے.اس لئے اس گیارہ سالہ دور میں بھی اہل ربوہ نے کمایا ہے گنوایا نہیں ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں.بہت سی بدیاں جو معاشرے میں بڑھی ہیں کچھ ان بدیوں نے ربوہ میں بھی راہ پائی لیکن بہت تھوڑی ہے.یہ جو اثر کا دائرہ ہے وہ بہت چھوٹا ہے اور معدودے چند لوگ ہیں جو ان سے متاثر ہوئے لیکن چونکہ ہم ایک کو بھی ان بدیوں سے متاثر نہیں دیکھنا چاہتے اس لئے جب اصلاحی خطبے دیئے جاتے ہیں تو ان کا ذکر تکلیف اور دکھ کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن جہاں تک عبادتوں میں ترقی کا تعلق ہے مجھے مسلسل مختلف ربوہ جانے والوں کی طرف سے اطلاع ملتی ہے کہ ایک چیز جو نمایاں ربوہ میں دیکھی وہ یہ تھی کہ پہلے کبھی بھی مسجدیں اتنی نہیں بھری ہوتی تھیں جتنی اب بھری ہوتی ہیں اور اس لحاظ سے مجھے وہ مبارکباد دیتے تھے کہ مسجدوں کا جہاں تک تعلق ہے ان کی رونق میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.اب یہ وہ چیز ہے حقیقت میں جو روشنی کا پیمانہ ہے.عبادت ہی سے دراصل نور پیدا ہوتا ہے اور عبادت ہی سے روشنی پیدا ہوتی ہے.اس لئے جس دور کو دکھوں کے اعتبار سے اور مصیبتوں کے اعتبار سے ہم رات کہتے ہیں مذہبی اصطلاح میں وہ رات بھی ہمارے لئے روشنیاں لے کے آئی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے عبادت کا معیار صرف ربوہ ہی میں نہیں بلکہ سارے پاکستان میں احمدیوں میں بڑھا ہے.شاذ ہی کوئی دن ایسا آتا ہو جب مجھے یہ اطلاع نہ ملتی ہو کسی طرف سے کہ میں پہلے عبادت نہیں کیا کرتا تھا، میں فلاں نماز سے غافل تھایا پانچوں نمازوں کا ہی تارک تھا اس قسم کی اطلاعیں لکھنے والے لکھتے ہیں لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں عبادت میں غیر معمولی ذوق شوق پاتا ہوں اور بہت ترقی کر چکا ہوں اور اپنے ماحول کے متعلق لوگ اطلاعیں دیتے ہیں.اس لئے ایک جگہ ایک شہر کی بات نہیں میں کر رہا سارے پاکستان میں، ہر گاؤں میں، ہر بستی میں ، ہر قصبے میں ، ہر شہر

Page 826

خطبات طاہر جلدے 821 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں نے پہلے سے بڑھ کر عبادت کے چراغ روشن کئے ہیں.اور صبح کس کو کہتے ہیں؟ عبادت سے دل خالی ہوں یعنی سچی عبادت سے اور خدا کے عشق میں معمور عبادت سے تو دراصل وہی دل ہیں جو تاریکی میں وقت گزار رہے ہیں.وہی لوگ ہیں جن پر سنجیں طلوع ہوا کرتی ہیں اللہ کی رحمت کی جن کے دلوں میں عبادت کا نور جاگ اٹھتا ہے اور جن کی راتیں اس عبادت کے نور سے روشن ہو جایا کرتی ہیں.دنیا کے پیمانوں کے لحاظ سے آپ پیرس کو روشنیوں کا شہر کہہ دیتے ہیں یا نیو یارک کو روشنیوں کا شہر کہ دیتے ہیں یا ماسکوکوروشنیوں کا شہر کہہ دیتے ہیں اور پاکستان کے لحاظ سے کراچی کو بھی روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے روشنیوں کا شہر وہی شہر ہے جس میں بسنے والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور پر خلوص عبادت کے چراغ روشن ہوں.اس نقطہ نگاہ سے جب سارے پاکستان پر ایک رات طاری تھی اور آج بھی وہ رات اسی طرح طاری ہے کیونکہ جہاں عبادت ہوتی تھی وہاں اس تاریک دور نے اس عبادت کو منافقت میں تبدیل کر دیا تھا اور خالصہ اللہ کی جو شرط قرآن کریم نے لگائی ہے وہ شرط اس عبادت پر اطلاق نہیں پاتی تھی.پس پاکستان میں دو طرح کے ماحول تھے یا عبادت کرنے والے لوگ تھے یا نہیں عبادت کرنے والے لوگ تھے.جو عبادت نہیں کیا کرتے تھے ان پر جب جبر کیا گیا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ عبادت سے متنفر ہو گئے اور جو لوگ عبادت کیا کرتے تھے دن رات کسی حکومت کی خوشنودی کی خاطر نہیں ان کی عبادتوں میں حکومتوں کی خوشنودی کی نیتیں شامل ہوگئیں اور پریس کے نمائندوں کے سامنے باجماعت نماز پڑھتے ہوئے تصویر کھنچوانے کا شوق ان کی عبادتوں کی نیتوں میں شامل ہو گیا.اب سارا ملک اس لحاظ سے ریا کاری کا شکار ہو گیا ہے یا عبادت کو حاکم وقت کی خوشنودی کمانے کا ذریعہ بنایا جانے لگا.تو ایک طرف وہ لوگ تھے جن کی بظاہر صبح تھی اور ان کی حقیقت میں قرآنی اصطلاح کے پیمانوں سے جانچیں تو دراصل ان پر ایک رات طاری تھی اور وہ جن کو وہ کہتے تھے کہ ان پر ہم نے راتیں مسلط کر دی ہیں اور اب یہ اس رات سے کبھی بھی باہر نہیں نکل سکیں گے.اب قرآن اصطلاحی پیمانوں سے دیکھیں یا کہ نظریہ سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دن بدن احمدیوں کے لئے سورج تو نہیں میں کہہ سکتا لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ دن بدن احمدی اندھیروں سے روشنی میں نکلتے

Page 827

خطبات طاہر جلدے 822 خطبه جمعه ۲ دسمبر ۱۹۸۸ء رہے.اور قرآن کریم نے جو یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کو اندھیرے سے روشنی میں نکالتا ہے.یہ وہ جو منظر ہے جو احمدیوں پر اطلاق پارہا تھا واقعہ اور کوئی بھی ایسا عرصہ نہیں گزرا اس تمام گیارہ سالہ دور میں جبکہ احمدی اندھیروں سے نکل کر روشنی میں داخل نہ ہور ہے ہوں.اس پہلو سے جب ہم صبح کی بات کرتے ہیں تو مراد یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ ہم روحانی رات کے اندھیروں میں مبتلا تھے.ہماری مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ ہم دنیا دار ہوتے چلے جارہے تھے اور جہاں تک اللہ کے تعلق کا سوال ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئی اندھیرا بھی ہمارے دلوں کو خدا تعالیٰ سے منقطع نہیں کر سکا اور ہمیں اپنی راہوں سے بھٹکا نہیں سکا بلکہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجے میں اس کے فضلوں کا وارث بنتے رہے اور آئندہ بھی ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر بنتے چلے جائیں گے.پس اس سارے تجزئیے کے بعد، اس سارے تجزیے کی روشنی میں میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ احمدیت ایک ملک کی چیز نہیں ہے، ایک ملک کی جاگیر نہیں ہے اور کوئی ایک ملک محض ایک ملک کے حساب سے ہمارا سمح نظر نہیں ہے.احمدیت انسانیت کی جاگیر ہے، کل انسانیت کی ملکیت ہے اور سارا عالم ہمارے صح نظر ہے.اس لحاظ سے اول یہ کہ اپنے ارادوں کو بلند تر رکھیں اور اپنے دائرہ اثر کو بڑھانا شروع کریں اور بھی زیادہ بڑھاتے چلے جائیں.تمام عالم کو ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نور سے روشن کرنا ہے یہ ہمارا مقصد ہے اور اسی لئے ہم زندہ ہیں.دوسری بات یہ کہ یہ دعائیں کریں کہ اے خدا! پاکستان میں جو انقلابی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں ان تبدیلیوں کے نتیجے میں احمدی تن آسان ہو کر ان خوبیوں کو چھوڑ نہ بیٹھیں جو مشکل وقتوں نے انہیں عطا کی تھیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر ان پر قائم ہو جائیں اور ایسی روشنی کا سورج ان پر طلوع ہوجس میں تیری محبت کا نور پہلے سے بڑھ جائے ان کے دلوں میں اور اس کی اونچی ہو جائے اور وہ جو پہلے زخموں اور تکلیفوں کے نتیجے میں تیری طرف مائل ہوئے تھے اب وہ جذبہ شکر سے اور بھی زیادہ تجھ سے محبت کرنے لگیں.اے خدا! ایسی روشنی کا سورج ان پر طلوع کر کہ جس سے تن آسانی پیدا نہ ہو اور اس کے نتیجے میں دنیا کی لالچیں اور دنیا کی لذتیں ان کو تجھ سے ہٹا کر اپنی طرف مائل نہ کر لیں بلکہ ایسی صبح ان پر طلوع ہو کہ پہلے سے زیادہ یہ تیرے بن جائیں اور پھر یہ آسانی ان کو راہ حق سے ہٹانے کی بجائے راہ حق پر ان کے قدم تیز کرنے کا موجب بنے.یعنی مشکلات جو بعض دفعہ اچھے کام کرنے

Page 828

خطبات طاہر جلدے 823 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء والوں کے قدموں میں زنجیروں کا سا کام کرتی ہیں.یہ جب مشکلات کی زنجیریں ٹوٹیں تو پہلے سے بڑھ کر وہ شاہراہ ترقی اسلام پر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کریں اور اس کے نتیجے میں تمام عالم میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا نور پھیلانے میں ہمیں پہلے سے زیادہ تقویت حاصل ہو.یہ ہے معنی خیز صبح جس کی ایک مومن کو تلاش رہنی چاہئے ، یہ ہے وہ معنی خیز صبح جس کی ایک مومن کے دل میں قدر ہونی چاہئے ، یہ وہ صبح ہے جو اسلامی اصطلاح میں صبح کہلا سکتی ہے.باقی دنیا کی باتیں ہیں ان میں سمجیں آتی ہیں بعض دفعہ راتوں کے نام پر بعض دفعہ ان کی بنائی ہوئی راتیں بعض لوگوں کو روشنیاں عطا کر جاتی ہیں.حقیقت وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمائی اور کچی اصطلاح وہی ہے جو اسلامی اصطلاح ہے.پس ہمیں اپنی تمام سوچوں کو اسلامی اصطلاح میں ڈھالنا چاہئے اور اپنے مطمح نظر کو بلند اور وسیع تر رکھنا چاہئے.اس دعا کی تاکید کے بعد میں آپ کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ہر قسم کے جو تفکرات یا اندیشوں کا میں نے اظہار کیا ہے یہ انسانی نقطۂ نگاہ سے جو حالات نظر آ رہے ہیں ان کو پڑھ کر کیا ہے.جہاں تک الہی تقدیر مجھے دکھائی دے رہی ہے مجھے کامل یقین ہے کہ انشاء اللہ یہ اندیشے احمدیت کے حق میں غلط ثابت ہوں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ خدا تعالیٰ نے احمدیت کے لئے جو سہولتیں پیدا کرنی شروع فرما دی ہیں وہ سہولتیں بڑھتی اور پھیلتی رہیں گی اور ہمارے راستے وسیع ہوتے اور انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ راہ حق پر ہمارے قدم پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اور زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے.آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ خدا کی تقدیر اسی طرح ظاہر ہوگی.

Page 829

Page 830

خطبات طاہر جلدے 825 خطبہ جمعہ ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقُونها کی لطیف تشریح تقویٰ سمجھنے کیلئے پہلے فجور کا شعور ضروری ہے (خطبه جمعه فرموده ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.دنیا میں جتنے بھی علوم اور ان کے شعبے ہیں وہ ترقی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بظاہر آغاز میں ان کا ایک دوسرے سے کوئی واضح اور گہرا تعلق دکھائی نہیں دیتا لیکن جب ان پر انسان غور کرتا ہے اور مزید معلومات حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور ان معلومات کو ترتیب دیتا چلا جاتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ علوم ترقی کرتے ہوئے پہاڑوں کی چوٹی کی طرح بلند ہو جاتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرح بلند ہوتے ہیں اور وہ چوٹیاں ایک دوسرے سے ملنے لگتی ہیں.سائنسی اصطلاح میں مختلف مضامین پر غور و فکر کے نتیجے میں یہ آپس کا علمی اتحاد ایک ایسی چیز ہے جسے کوئی ذی شعور نظر انداز نہیں کر سکتا.چنانچہ فزکس اور حساب دوالگ الگ مضمون ہیں ایک فرضی علم ہے یعنی حساب اس کا ہندسوں سے اور تصورات کی دنیا سے اور منطقی دنیا سے تعلق ہے اور فزکس مشاہدہ کا نام ہے اور ایک خاص قسم کے زاویہ نظر سے بعض خاص امور میں مشاہدہ کا نام ہے.کیمسٹری بھی مشاہدے کا نام ہے اور ایک خاص طرز نگاہ کے ساتھ بعض خاص حصوں کے مشاہدے کا نام ہے یعنی مادے کے بعض خاص حصوں کے اس کے خاص طرز عمل کے مشاہدے کا نام ہے.یہ الگ الگ مضامین ہیں.بیالوجی ایک اور الگ مضمون ہے وہ بھی زاویہ نظر بدلتا ہے.اگر چہ ان سب علوم میں جو

Page 831

خطبات طاہر جلدے 826 خطبه جمعه ۹ر دسمبر ۱۹۸۸ء مادی دنیا کے مشاہدے کے علوم ہیں ایک علم دوسرے کے اندر سرایت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور کوئی مادہ بھی بعینہ کسی ایک مضمون سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہر مادہ فزکس کے بعض مظاہر بھی اپنے اندر رکھتا ہے اور کیمسٹری کے بعض مظاہر بھی اندر رکھتا ہے اور ضروری نہیں کہ بیالوجی کے بعض مظاہر اپنے اندر رکھے لیکن بعض مادے بیالوجی کے بعض مظاہر بھی اپنے اندر رکھتے ہیں.لیکن جوں جوں آپ ان علوم میں ترقی کرتے چلے جائیں آپ یہ محسوس کرتے چلے جاتے ہیں کہ ایک کا دوسرے سے تعلق زیادہ گہرا اور اٹوٹ ہے یہاں تک کہ آخری سطح پہ جا کر ہر چیز ایک دکھائی دینے لگتی ہے.آئن سٹائن نے جو فیلڈز کی وحدت کا تصور پیش کیا اور جس پر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی بہت کام کیا وہ بھی دراصل اسی وحدت کے تصور کا ایک اظہار ہے.مختلف علوم کی وہاں بحث نہیں کی گئی لیکن یہ بحث اٹھائی گئی ہے کہ دنیا میں چار بنیادی طاقتیں ہیں جن سے تمام علوم پیدا ہوتے ہیں یعنی وہ چونکہ محرکات ہیں اور تمام کائنات میں وہ چار قو تیں ایسی ہیں جن کے آپس کے رد عمل سے یا مادے کے ساتھ ان کے رد عمل کے نتیجے میں مختلف چیزیں ظہور میں آتی ہیں.تو کائنات کے جتنی بھی مناظر ہیں مادے کی جتنی بھی شکلیں اور ان کی طرز عمل ہیں وہ ساری چیز میں ان چار قوتوں کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں اور یہ چار قو تیں سائنسدانوں کے نزدیک دراصل چار نہیں بلکہ ایک ہی قوت کے مختلف مظاہر ہیں.تو بالآخر تو حید کامل تک انسان پہنچ جاتا ہے اور کسی زاویہ نظر سے بھی مشاہدہ کریں کائنات کا ، خدا کی مخلوقات کا بالآخر تو حید تک پہنچنا ایک لازمی امر ہے.ان کو ابھی رستے معلوم نہیں ہو سکے کہ چار قوتوں کے تین ہونے کی سمجھ تو آچکی ہے، تین کے دو ہونے کی ابھی نہیں آئی.دو ایک کیسے سمجھی جائیں گی اس کا بھی ابھی تک پتا نہیں چلا لیکن یہ یقین ہے کہ آخری صورت میں ایک ہی قوت ہے جو کارفرما ہے باقی سب اس کے مختلف مظاہر ہیں.دینی علوم میں بھی یہی حال ہے.دین کی ہر شاخ ، دین کا ہر پہلو اگر آپ نظر غائر سے دیکھیں، تدبر اور فکر کی نگاہ سے غور کریں تو وحدت کی طرف لے کر جاتا ہے اور اس میں بھی مختلف منازل آپ کو دکھائی دیں گی مختلف مقامات ہیں اور درجے ہیں.جوں جوں کوئی دینی علم یا کسی دینی شعبہ کے علم کا آپ کو زیادہ ادراک ہوتا چلا جائے گا، زیادہ گہری نظر عطا ہوتی چلی جائے گی.آپ یہ دیکھیں گے کہ وہ آپ کو دراصل توحید کی طرف لے کر جا رہا ہے.سب سے اہم Study کہنا

Page 832

خطبات طاہر جلدے 827 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء چاہئے ، اردو میں مطالعہ کہتے ہیں سب سے اہم مطالعہ تقویٰ کا ہونا چاہئے کیونکہ تقومی سارے دین کی جان ہے اور تقویٰ خود اس وحدت کا نام ہے جو دینی علوم بالآخر اختیار کرتے ہیں.کوئی دینی علم ، کوئی دینی علم کا شعبہ ایسا نہیں جو بالآخر آپ کو تقویٰ تک نہ پہنچائے اور تقویٰ آپ کو لازماً وحدت کی طرف لے کر جاتا ہے اور جوں جوں تقوی ترقی کرتا ہے غیر اللہ کے تمام نشان مٹاتا چلا جاتا ہے اور بالآخر خدائے واحد کے سوا اور کوئی چیز کا ئنات میں باقی نہیں رہتی.اس لحاظ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ پر اتناز ور دیا ہے کہ جہاں تک میر اعلم ہے تمام گزشتہ علماء اور فقہاء نے مل کر بھی تقویٰ پر اتنا زور نہیں دیا جتنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اتنی (۸۰) سے کچھ زائد کتب میں تقویٰ کے مضمون پر زور دیا اور بار بار اس کو مختلف پہلوؤں سے جماعت کے سامنے رکھا.میں تقویٰ کے سلسلے میں آج ایک خاص نقطہ نگاہ سے دو تین امور آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.تقویٰ ایک تو وہ ہے جو دینی علوم کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے اور ایک تقویٰ وہ ہے جو انسانی فطرت میں نقش کر دیا گیا ہے اور اس تقویٰ کے حوالے کے بغیر آپ اگلا سفر نہیں کر سکتے.اس لئے جب تک پہلے آپ کے دل کے اندر تقویٰ پیدا نہ ہو یعنی دل کا تقویٰ آپ کو معلوم نہ ہو کہ وہ کیا ہے اور جب تک آپ اس دروازے سے اگلی راہ میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں تقویٰ کی تمام را ہیں آپ پر بند رہیں گی.قرآن کریم فرماتا ہے کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح کو ہم نے تقویٰ بخشا اور اس کے ساتھ اس کے فجور کی راہیں بھی اس پر روشن کر دیں.جیسا کہ فرمایا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوبَهَا ( امس: و) ہم نے ہر ذی روح پر ، ہر نفس پر تقویٰ کا بھی الہام کیا اور اس کے فجور کا بھی الہام کیا.یعنی ہر ذی روح کی فطرت میں تقویٰ کی راہیں بھی نقش کر دی گئیں جو انمٹ ہیں اور فجور کا علم بھی نقش کر دیا گیا جو انمٹ ہے.اس پر انسان مخصوص اور الگ نہیں ہے بلکہ دراصل انسان کو تقویٰ کے جس مقام تک خدا نے پہنچایا ہے اس کے لئے ایک بہت لمبا تیاری کا سفر تھا جو حیوانی زندگی کے ذریعے انسان نے اپنی ادنیٰ حالتوں میں اختیار کیا اور پھر جب انسان کے مقام پر زندگی پہنچی تو اس وقت تک یہ تقویٰ نہ صرف گہرے طور پر نقش تھا بلکہ ترقی کرتا رہا ہے اور وسیع تر ہوتا چلا گیا ہے اور اس کو عام دنیا کی اصطلاح میں عقل کہا جاتا ہے اور عقل اور سچائی ان دو کا جو جوڑ ہے ان دو کا ایک دوسرے کے ساتھ جو گہرا رابطہ ہے اور ایک دوسرے سے ترقی کرتے ہیں یہی

Page 833

خطبات طاہر جلدے 828 خطبہ جمعہ ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء مضمون ہے جو انسانی زندگی تک پہنچ کر خوب کھل کر روشن ہو جاتا ہے.حیوانی زندگی میں بھی یہ مضمون کارفرما ہے لیکن باشعور طور پر نہیں.سوائے بعض استثنائی مثالوں سے ان صورتوں میں بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کے بالا رادہ طور پر کسی جانور نے جھوٹ بولا ہے مگر حیوانی دنیا میں آپ کو بعض استثنائی صورتوں کے جہاں جھوٹ کا دھوکا معلوم ہوتا ہے جانوروں کی دنیا میں آپ کو کہیں جھوٹ دکھائی نہیں دے گا اور جانوروں کی دنیا میں جو تقویٰ ان کی فطرت پر رسم ہے، خدا تعالیٰ کی طرف سے مرتسم ہو چکا ہے اس کی مثالیں زندگی کے ہر شعبے میں ہر طرف بکھری پڑی ہیں اور بے انتہا ہیں.تقویٰ سے مراد ہے ( یہاں اس اصطلاح میں ) کہ جو چیز تمہارے لئے بہتر ہے اس کو اختیار کرو جو چیز تمہارے لئے بد ہے اس کو چھوڑ دو.جو چیز تمہارے لئے مفید ہے اسے لے لو، جو چیز تمہارے لئے مضر ہے اس سے اجتناب کرو.اب آپ یہ دیکھیں کہ بیشمار زندگی کی قسمیں ہیں جن میں جراثیم ہی اتنی زیادہ قسموں کے ہیں کہ ان کا کوئی آپ شمار نہیں کر سکتے اور اسی طرح Insects ہیں ان کی بیشمار قسمیں اور بے حساب ان کے اندر ہر قسم میں اندرونی تبدیلیاں ہیں یہاں تک کہ پھر Individual یعنی ایک شخصیت ایک علیحدہ حیثیت سے ابھرتی ہے.ان سب پر قرآن کریم کی اس آیت کا بلا استثناء اطلاق ہوتا ہے.ان میں سے ہر ایک کو معلوم ہے کہ میرا اتقویٰ کیا ہے اور میر انجو رکیا ہے.پہلے دن جو بلخ کا بچہ تالاب میں نکلتا ہے اس کو بھوک لگتی ہے اور وہ منہ مارتا ہے چیزوں پر لیکن کس چیز نے اس کو سمجھایا ہے اور بتایا ہے کہ کون سی چیز کھانی ہے اور کون سی نہیں کھانی.وہ بھوکا ہے اس سے زیادہ اس کو کچھ پتا نہیں لیکن از خود وہ جو چیزیں اس کے لئے مفید ہیں ان کو پکڑتا چلا جاتا ہے، جو چیزیں مفید نہیں ان کو رد کرتا چلا جاتا ہے.یہاں تو پھر بھی دماغ کا شبہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ دماغ تو ہے اگر چہ اس دماغ کی کوئی تربیت نہیں ہوئی کمپیوٹر ہے بغیر پروگرام کے.سوائے اس کے کہ جو پروگرام اس کے اندر داخل ہے اس پروگرام کو سکھانے والا اور اس کو استعمال کرنے والا باہر کا کوئی وجود نہیں ہے جس نے اس کی تربیت کی ہو.ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اس کو اپنی غذا کا ، میرے لئے کون سی چیز مفید ہے کون سی نہیں مفید اس کا علم ہوتا ہے لیکن وہ چیزیں جن کا دماغ ہی کوئی نہیں ہے مثلاًا Worms ہیں.بعض کیڑے مکوڑے ہیں جو صرف ایک لوتھڑ ا سا ہیں اور ان کے اندر یوں معلوم ہوتا ہے کہ سوائے معدے کے نظام کے کوئی

Page 834

خطبات طاہر جلدے 829 خطبه جمعه ۹ر دسمبر ۱۹۸۸ء بھی نظام اور موجود نہیں.ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کی آنکھیں بھی کوئی نہیں ، کان بھی کوئی نہیں اور ان سب کو پتا ہے کہ ہم نے کیا کھانا ہے اور کیا رد کرنا ہے.وہ منہ مارتے ہیں ہر چیز پر پھر وہ ایک لمبی سی ٹیوب سے وہ چیز، ذرہ گزرتا چلا جاتا ہے.جس چیز کو رد کرنا ہو اس کو اسی طرح وہ باہر پھینک دیتے ہیں.جس چیز کو اختیار کرنا ہو اس کو وہ قبول کر لیتے ہیں.تو کائنات میں خدا تعالیٰ نے جو عقل اور سچائی ودیعت فرمائی ہے اس کے اتنے مظاہر ہیں کہ ان کا کوئی شمار مکن نہیں ہے.یہی وہ چیز تقویٰ ہے جس سے ترقی کرنی شروع کی اور اسی تقویٰ کے نتیجے میں عقل وجود میں آئی ہے.اسی لئے ان جانوروں کی مثال سے ہٹ کر میں نیچے اتر آیا جہاں ابھی عقل پیدا نہیں ہوئی تھی.ان جانوروں کی باتیں شروع کیں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ در حقیقت تقویٰ کا آغاز سچائی سے اور اس بات کے شعور سے ہوتا ہے کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی بری ہے.جب یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ عمل کرتی ہیں اور تجربہ وسیع ہونے لگتا ہے.تو ایک بہت ہی لمبے عرصے میں رفتہ رفتہ ترقی کرتے کرتے زندگی انسان کی منزل کی طرف حرکت کرتی ہوئی آخر وہاں پہنچ جاتی ہے اور وہاں پہنچ کر وہ انسان پیدا ہوتا ہے جس کو پھر خدا اگلے سبق دینے کے لئے الہام کی دوسری شکلیں اس پر نازل فرماتا ہے اور دین میں اور ان باتوں میں جو موت کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں ان باتوں میں اسے تقویٰ اور اس کے فجور سمجھائے جاتے ہیں.اب انسانی تجربہ دراصل انسانی عرصہ حیات تک محدود نہیں ہے جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے کھول کر رکھا ہے.انسانی تجر به تو دراصل حیوانی زندگی کے آغاز سے شروع ہوا ہے اور اربوں سال تک انسان کو اس نالی میں سے گزارا گیا ہے تا کہ وہ سیدھا ہو جائے.جس طرح بندوق کی نالی جتنی لمبی ہو اتنی دیر تک گولی سیدھی راہ پر چلتی ہے، سید ھے رستے پر چلتی ہے.جتنی چھوٹی ہواتنی گولی جلدی اپنی راہ سے بدک جاتی جاتی ہے.اسی طرح قرآن کریم کی اس آیت نے ہمیں بتایا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو سیدھا کرنے لئے اتنی لمبی نالی بنائی ، اتنی لمبی نالی بنائی کہ ساری انسانی زندگی اس نالی سے نکلنے کے بعد یوں لگتا ہے جس طرح کروڑوں میل کی نالی سے نکلنے کے بعد صرف ایک گز باقی زندگی رہ گئی تھی اور انسان کا کمال دیکھیں کہ وہیں سے اس نے کبھی شروع کر دی.چنانچہ اس آیت کا اگلا حصہ فرماتا ہے کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسمان (الشمس: ۱۰.۱۱) اتنے لمبے انتظام کے

Page 835

خطبات طاہر جلدے 830 خطبه جمعه ۹ر دسمبر ۱۹۸۸ء بعد ، اتنی تیاریوں کے بعد جب آخر انسان کی منزل پہنچی اور جب ہم نے براہ راست اسے الہام کرنا شروع کیا اور اسے بتایا کہ دیکھو جسے ہم تقویٰ کہتے ہیں اسی میں تمہاری فلاح ہے اور تمہاری فجور بھی ہم نے تمہیں بتا دئے ہیں جن کو ہم فجور بتائیں گے ان سے بچنے میں تمہاری فلاح ہے.اس کے باوجود وہ تقویٰ کی طاقتوں کو دباتا ہے اور فجور کی طاقتوں کو ابھارتا ہے.جس نے ایسا کیا وہ ذلیل ورسوا ہوا اور جس نے اس کے برعکس کام کیا وہ لازماً کامیاب ہوا.تو وہ تقویٰ جس کا قرآن کریم ذکر فرماتا ہے اس کا آغا ز تو اربوں سال پہلے سے ہوا تھا اور جب تک اس تقویٰ میں زندگی بے اختیار تھی، مجبور تھی ، اس تقوی کو اختیار کرنے پر وہ مسلسل ترقی کرتی رہی ہے.جب زندگی نے اپنے اختیار سے کام لے کر اس تقویٰ کی راہ کو چھوڑا ہے تو پھر اس کا آخری مقام زندگی کے آغاز کے مقام سے مل جاتا ہے.چنانچہ سورۃ التین میں قرآن کریم نے اسی مضمون کو بیان فرمایا کہ ہم نے تو انسان کو بہترین تقویم سے پیدا فرمایا تھا لیکن دیکھو یہ کیسا ذلیل اور رسوا ہو گیا کہ اپنی گراوٹ کے انتہائی مقام پر لوٹ گیا.یعنی مطلب یہ ہے کہ جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا اسی مقام تک واپس چلا گیا جو کچھ سیکھا تھا سب کچھ بھلا دیا.اس لئے تقویٰ کا لفظ کوئی معمولی لفظ نہیں ہے اس پر بڑے گہرے غور اور تدبر کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا.فجور سے واقفیت ضروری ہے ورنہ تقویٰ کا مفہوم سمجھ نہیں آسکتا.قرآن کریم نے ان دونوں باتوں کو اکٹھا پیش فرمایا ہے.فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُو تھا اور لطف یہ ہے اس آیت کی فصاحت اور بلاغت کا یہ کمال ہے کہ اگر چہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں بالعموم یہ طریق اختیار فرماتا ہے کہ حسن کا پہلے ذکر کرتا ہے اور فتح کا بعد میں، اچھائی کا پہلے اور برائی کا بعد میں.لیکن یہاں فرمایا فَأَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقُوبَهَا ہم نے اس کے فجور بھی اس پر الہام کئے اور اس کا تقویٰ بھی اس پر الہام کیا.مطلب یہ ہے کہ جب تک پہلے فجور کی واقفیت نہ ہو حقیقت میں انسان تقویٰ کے مفہوم اور تقوی کی سچی روح کو پانہیں سکتا.اسی لئے میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ انسان کو اپنی معرفت بڑھانے کے لئے فجور کے اوپر غور کرنا چاہئے ، ان باتوں پر غور کرنا چاہئے جو اسے ہلاکت کی طرف لے کر جاتی ہیں.مادی زندگی میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ طب کا شعبہ ہے مثلاً اس میں انسانی زندگی کے جتنے خطرات ہیں اگر آپ ان کا مطالعہ کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ بے انتہا فجور ہیں.جب تک ہر قدم پر پیش آنے والے فجور کی کسی

Page 836

خطبات طاہر جلدے 831 خطبه جمعه ۹ ردسمبر ۱۹۸۸ء قسم سے آپ واقف نہیں ہوں گے آپ صحیح قدم نہیں رکھ سکتے.اتنی قسمیں ہیں ہلاکت کی اور موت کی اتنی زیادہ شکلیں ہیں اور ہرلمحہ، ہر سانس میں موت کی بے شمار شکلوں سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے کہ جب تک ہم ان سے باخبر نہ ہوں اس وقت تک ہمارے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے.اب یہاں بھی فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُولُهَا کا ایک نہایت ہی حسین منظر ہمیں دکھائی دیتا ہے جو انسانی زندگی پر اطلاق پاتا ہوا دکھائی دیتا ہے.حیوانی زندگی پر بھی اسی طرح اس کا اطلاق ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمارے شعور کے بغیر ہمارے جسم کے ہر ذرے میں اس کے فجور کا الہام کر رکھا ہے اور جسم از خود اس فجور کو رد کرتا چلا جاتا ہے اور تقویٰ کا جو الہام کر رکھا ہے لیکن اگر فجور اس کو رد نہیں کر سکتا تو اس کا تقویٰ بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہو کر رہ جاتا ہے.تقویٰ کی مثال یہاں مثبت رنگ میں غذا سے لے سکتے ہیں.انہضام کا نظام ہے، غذا کھانا اور اس کو جسم میں ہضم کرنا اور اس کو صالح خون کا حصہ بنانا.اب آپ یہ دیکھیں کہ ایک صحت مند آدمی بھی غذا کھا رہا ہوتا ہے اور اس کو جزو بدن بنا رہا ہوتا ہے، ایک صالح خون اس سے بن رہا ہوتا ہے.لیکن ایک بیمار آدمی ہے وہ بعض دفعہ غذا کھانا تو در کنار غذا کے تصور سے بھی گھبراتا ہے اور اگر کھاتا ہے تو بریکار جاتی ہے.اس لئے کہ بیمار آدمی کی شکل ایسی ہے کہ اس نے فجور سے اپنا تعلق نہیں تو ڑا، جوکسی فجور میں سے کسی ایک جرم میں مبتلا ہو چکا ہے، کسی ایک آفت کا شکار ہو گیا ہے اور وہ لاکھوں کروڑوں احتمالات میں سے صرف ایک احتمال ہوتا ہے.مثلاً اسے گردے کی کوئی تکلیف ہو گئی ہے، جن جن باتوں سے گردے کی حفاظت ہونی چاہئے اس کا بھی اندرونی ایک نظام موجود ہے اور اتنا وسیع ہے کہ اگر اسی پر آپ غور شروع کریں تو آپ حیران ہوں گے دیکھ کر کہ بڑے بڑے صاحب علم و عقل محققین نے بڑی بڑی کتابیں ضخیم کتا ہیں اس مضمون پر لکھی ہیں اور وہ ساتھ اقرار کرتے ہیں کہ یہ مضمون تو ہمارے علم کی حد سے ابھی بہت آگے ہے اور ہم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے.مستقل تحقیق جاری ہے کہ گردہ کیوں کام کرتا ہے، کس طرح کام کرتا ہے، کیا کیا اس میں خطرات پیدا ہوتے ہیں.ہر بیماری کے جو علل ہیں، جو وجوہات ہیں وہ کتنی ہیں ، کیا کیا ہیں، کس طرح کام کرتی ہیں.ابھی تک تو اس مضمون کا ایک معمولی سا حصہ انسان کو سمجھ آیا ہے.تو کسی ایک طرف سے فجور میں سے کسی نے حملہ کر دیا اور آپ کا سارا تقویٰ بریکار چلا گیا انسانی جسم نے غذا کھانی بند کر دی یا غذا کھائی تو اس کا جسم کو لگنا

Page 837

خطبات طاہر جلدے 832 خطبه جمعه ۹ر دسمبر ۱۹۸۸ء بند ہو گیا، وہ مسلسل گھلنا شروع ہو گیا.اس کی وہ غذا کے حصے جو جزو بدن بن چکے تھے وہ بھی پچھل پگھل کر باہر آنے لگ جاتے ہیں.گردے کی ایک بیماری سے یا خون جاری ہونا شروع ہوتا ہے تو آپ کسی طرح اس کو بند نہیں کر سکتے.ڈاکٹر عاجز آجاتے ہیں.آپریشن کرتے ہیں پھر بھی چارہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ انسان ، کئی بیمار اچھے بھلے پیدا ہوئے ہوئے خون کو بھی گردہ کے ذریعے کھو دیتے ہیں.جس کا کام تھا کہ فجور کو باہر نکالے اور تقویٰ کوسنبھالے.تو خود چونکہ فجور میں مبتلا ہوا اس لئے اب اس کام کا اہل نہیں رہا.اس بیماری کی تفصیل یہ بنتی ہے کہ وہ گردہ جس کو خدا نے فجور کو یعنی ٹاکسینز (Toxins ) کو نکالنے کے لئے اور تقویٰ کو سنبھالنے کے لئے پیدا فرمایا تھا وہ خود ہی بیمار ہو گیا اور اس نے ٹاکسینز (Toxins ) کو سبنھالنا شروع کر دیا اور تقویٰ کو نکالنا شروع کر دیا.Albuminuria کی بیماری ہوا کرتی ہے ایک جس میں انسانی جسم کی Albumin نکلنے شروع ہو جاتے ہیں پیشاب کے رستے.وہ بھی یہی چیز ہے.بعض ایسی بیماریاں ہیں ان میں Naphritous کے نتیجے میں جو پیدا ہوتا ہے Albuminuria اس کا کوئی علاج ڈاکٹر کہتے ہیں ہمارے پاس نہیں ہے اور ایسی صورتوں میں گردہ ہمیشہ برعکس کام کرتا ہے اس چیز کے فجور کی حفاظت کرتا ہے اور تقویٰ سے بچتا ہے.انسان بھی جو فجور کا شعور کھو دیتا ہے اس کا یہی حال ہو جاتا ہے اور اس کا تقویٰ بھی ختم ہو جاتا ہے اور بسا اوقات بالکل یہی نظارہ آپ انسانی زندگی میں دیکھیں گے کہ وہ تقویٰ سے بھاگتا ہے اور فجور کو اپنا لیتا ہے.قرآن کریم نے اس کی مثال بیان فرمائی: فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةً فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ (المر : ۵۰-۵۲) فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ ) کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو کیسے پاگل اور بیمار ہو گئے ہیں کہ نیک باتوں اور نصیحتوں سے بھاگ رہے ہیں كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ گویا یہ بد ے ہوئے گدھے ہیں فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ جوشیر کو دیکھ کر دوڑے ہیں.تو جیسا کہ میں نے انسانی بدن کے ایک جز کی مثال آپ کے سامنے رکھی ہے جب یہ بیماری روحانی طور پر انسانوں میں پھیلتی ہے تو بالکل یہی نظارہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تقویٰ کی باتوں سے دوڑتے ہیں اور گھبراتے ہیں اور متنفر ہو جاتے ہیں.حُمر مستنفر بہت ہی خوبصورت مثال قرآن کریم نے بیان فرمائی اور ساتھ گدھا کہہ کر یہ بتا دیا کہ ان کی عقلیں ماری جاتی ہیں.

Page 838

خطبات طاہر جلدے 833 خطبه جمعه ۹ ردسمبر ۱۹۸۸ء عقل جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا.دراصل تقویٰ اور فجور کے احساس کے ملنے سے، فجور کے علم اور شعور کے ملنے سے پیدا ہوتا ہے اور سچائی کے بغیر کوئی تقوی نصیب نہیں ہوسکتا.اس مضمون کو آپ آگے بڑھاتے چلے جائیں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہی مضمون آپ کو منزل بہ منزل آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو آگے اور مزید آگے بڑھاتا چلا جائے گا.ایک کے بعد دوسری چوٹی آپ سرکریں گے روحانی دنیا کی یہاں تک کہ آپ محسوس کریں گے کہ آپ رفتہ رفتہ تو حید خالص کی طرف بڑھ رہے ہیں.میں نے ایک پچھلے خطبہ میں ایک دوسری آیت آپ کے سامنے رکھی تھی جس میں لفظ فرار استعمال ہوا ہے.وہاں یہ فرمایا گیا تھا فَفِرُّوا الى الله (الذاریات: ۵۱) اللہ کی طرف دوڑو.یعنی گھبراہٹ کے مواقع تو تمہیں ضرور ملیں گے، خطرات تمہیں دکھائی دیں گے اور تم نے دوڑنا بہر حال ہے.دو ہی رستے تمہارے لئے ہو سکتے ہیں اگر تو تم پاگل ہو اور گدھے ہو تو اچھی چیزوں سے بھا گو گے اور اس طرح بھا گو گے کہ تم پھیل جاؤ گے چاروں طرف تمہاری کوئی Direction نہیں ہوگی ، کوئی رخ نہیں ہوگا.اب یہ دیکھئے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے وہاں فرمایا كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ ) فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ شیر سے بدک کر جب گدھے بھاگتے ہیں ، ان کے غول تتر بتر ہوتے ہیں تو ان کا کوئی رخ نہیں ہوا کرتا، کوئی منزل نہیں ہوا کرتی.جس طرف منہ اٹھتا ہے جس گدھے کا اس طرف وہ نکل جاتا ہے اور چاروں طرف وہ جنگل میں منتشر ہو جاتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے وہ غول در غول اکٹھے سفر کرتے ہیں.ان میں ایک لیڈر بھی ہوا کرتا ہے جس طرف وہ جائے اس طرف وہ پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں تو ان کا تمام اتحاد منتشر ہو جاتا ہے، ان کی ساری توحید پارہ پارہ ہو جاتی ہے.تو ہر جگہ فجور آپ کو تو حید کے دشمن دکھائی دیں گے اور یہ نظارہ آپ دیکھیں گے کہ ان لوگوں کی پھر کوئی منزل، کوئی راہ متعین نہیں رہتی جو فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، جن کو فجور کا شعور نہیں رہتا.دوسری طرف بھی فرار کا لفظ استعمال فرمایا لیکن ایک رخ اور منزل کو دکھاتے ہوئے.فرمایا فَفِرُّوا إلى الله خوف تمہیں بھی محسوس ہوں گے لیکن ان خوفوں کے نتیجے میں اگر تم تقویٰ رکھتے ہو تو بھاگ کر منتشر نہیں ہو گے بلکہ خدا کی طرف بڑھو گے.پس ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ ہمیشہ جب

Page 839

خطبات طاہر جلدے 834 خطبه جمعه ۹ر دسمبر ۱۹۸۸ء تمہیں کوئی خوف محسوس ہو اپنا رخ خدا کی طرف رکھنا اور اسی کو اپنی آخری منزل سمجھنا تو غیر اللہ سے بھاگ کر خدا کی طرف آنا یہ تو حید کا پہلا سبق ہے جو ہمیں تقویٰ نے سکھایا.ہر غیر اللہ سے خدا کی طرف دوڑنا.اب غیر اللہ کون ہے اس کا شعور ہر انسان کا الگ الگ ہے.اسی لئے میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ قرآن کریم نے جب فرمایا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوتها تو جو لفظ پہلے ہے پہلے اس کو سمجھ لیں پھر تقویٰ کے دوسرے مضمون کی سمجھ آئے گی.پہلا جو حصہ ہے فجور کے شعور کا اس کے بغیر صحیح معنوں میں آپ کو تو حید کی اس منزل کی بھی پوری آگا ہی نہیں ہوسکتی.ہر شخص جو کسی برائی یا بدی سے بھاگ کر خدا کی طرف جاتا ہے وہ توحید کی طرف جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بہت سی ایسی خوف کی اور باتیں بھی ہیں جن سے وہ نہیں بھاگا.اس لئے تو حید ایک ہوتے ہوئے بھی دراصل اس کے لئے ایک نہیں رہتی.بہت سے تو حید کے ایسے عرفان ہیں جن سے وہ واقف نہیں اور اس کے نتیجے میں غیر اللہ سے اس کا تعلق قائم رہتا ہے.اس لئے ہم نے چونکہ یہ عہد کیا ہے کہ تمام دنیا کو تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانا ہے اسی لئے جماعت احمدیہ کو تو حید کے مضمون پر بہت گہرے غور اور فکر کی ضرورت ہے اور جتنا آپ زیادہ اس کا علم پائیں گے اور میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ تقویٰ کی راہ کے بغیر آپ کو تو حید نہیں مل سکتی.وہی قرآن آپ پڑھیں گے آپ کو نہیں سمجھ آئے گی وہ کیا کہہ رہا ہے.وہی حدیث آپ پڑھیں گے آپ کو کچھ سمجھ نہیں آئے گی.وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں آپ کے زیر مطالعہ ہوں گی لیکن آپ کو نہیں سمجھ آئیں گی کیونکہ تقویٰ ہی وہ روشنی ہے جو تو حید کی راہ دکھاتی ہے.تقویٰ وہ اندرونی نور ہے جس کے ذریعے ، جس مشعل کو ہاتھ میں لے کر آپ ساری روحانی مسافتیں طے کرتے ہیں.تو اس ضمن میں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا تقویٰ کا سفر جو تو حید کی طرف شروع کرنا ہے اس کو پہلے اپنے دل سے شروع کریں اور خدا نے آپ کے اندر جو سچائی چھاپی ہوئی ہے اور ایک لمبے عرصہ سے آپ کو سچائی پر چلایا ہے.جانور کیوں جھوٹ نہیں بولتے ، جو کچھ ہے وہی بیان کرتے ہیں ، ناراض ہیں تو ناراض ہوں گے، خوش ہیں تو خوش ہوں گے ان کے اندر کوئی منافقت نہیں پائیں گے آپ.اتنا لمبا عرصہ خدا نے برکار تو ان چیزوں کو اس طرح پیدا کیا نہیں تھا، بریکار تو نہیں اس منزل پر چلایا تھا.اُولی الالباب کے متعلق خدا فرماتا ہے جب وہ غور کرتے ہیں کا ئنات

Page 840

خطبات طاہر جلدے 835 خطبه جمعه ۹ر دسمبر ۱۹۸۸ء کی ان چیزوں پر تو بے اختیار پکار اٹھتے ہیں : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : ۱۹۲) پس اس بات پر آپ غور کریں کہ اگر جانور بچے نہ ہوتے اور جانوروں کا رخ تقویٰ کی بجائے فجور کی طرف ہوتا تو تمام Evolution کے رستے بند ہو جاتے.اس وقت سے پھر ارتقاء کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا تھا بلکہ لازماً ترقی معکوس شروع ہو جاتی.جیسا کہ سورۃ التین کا میں نے حوالہ دیا ہے اس میں اس ترقی معکوس کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ انسان کو ہم نے بڑی بلند منازل کو حاصل کرنے کے لئے ، ان پر قدم رکھنے کے لئے پیدا کیا تھا لیکن اس نے الٹی راہ شروع کر دی اور أَسْفَل سفلین (اتین :1) تک جا پہنچا.تو دراصل تقوی اور سچائی کے ملنے سے آپ کو ترقی کا ہر سفر شروع ہوتا ہوا اور بالآخر اپنے منتہی تک پہنچتا ہوا دکھائی دے گا اور اس کو آپ سائنسی نقطہ نگاہ سے مشاہدہ کریں، بار بار مشاہدہ کریں آپ اس میں کوئی استثناء نہیں دیکھیں گے، کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.اربوں سال تک خدا نے زندگی کو تقوی سکھایا اور سچائی سکھائی اور ان کے باہم ایک دوسرے سے ملنے سے عقل اور شعور نے ترقی کی اور ان کے ملنے سے زندگی ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہی اور جب یہاں کوئی کمزوری پیدا ہوئی اسی وقت اس زندگی کے حصے نے تنزل اختیار کرنا شروع کر دیا.وہ کمزوری بالا رادہ اس نے نہیں دکھائی حالات کی مجبوری سے بعض کمزوریاں پیدا ہوئی ہیں لیکن نتیجہ وہی نکلا کہ ترقی وہاں رک گئی.انسان ہوتے ہوئے آپ کیسے ترقی کر سکیں گے اگر اس اربوں سال کی کمائی کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیں گے اور سچائی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اس تقویٰ سے منہ موڑ لیں گے جو آپ کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے نقش فرمایا ہوا ہے.باقی سب قصے ہیں، جھوٹ ہیں، باتیں ہیں ، ارادے ہیں ہم نے دنیا کی تقدیر بدلنی ہے.جو اپنی تقدیر نہیں بدل سکتا وہ دنیا کی کیسے تقدیر بدل سکتا ہے.اس لئے حقائق کی دنیا میں اتریں خوابوں کی دنیا میں نہ رہیں بہت بڑے بڑے کام جماعت احمد یہ نے کرنے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ جماعت احمد یہ اس کے لئے پیدا کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ آپ کو نہیں چھوڑے گا جب تک ان کاموں کے اہل نہیں بنا دیتا کیونکہ اس نے اپنے انبیاء سے وعدے کر رکھے ہیں کہ آخرین میں وہ جماعت پیدا ہوگی جو دین محمد مصطفی ﷺ کو تمام ادیان پر غالب کر دے گی.ہماری خاطر نہ سہی ان پیارے مونہوں کی خاطر جن سے خدا نے یہ وعدے کئے ہیں وہ ضرور جماعت کو منزل تک پہنچائے گالیکن اس منزل

Page 841

خطبات طاہر جلدے 836 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء تک پہنچنے کے لئے ہم سب کو محنت کرنی پڑے گی ، ہم سب کو اس میں حصہ لینا پڑے گا جانفشانی کے ساتھ محنت اور خلوص کے ساتھ اور اس کا آغاز اپنے نفس سے کرنا ہو گا.یہ سفرور نہ آگے نہیں بڑھ سکتا.اس لئے اپنی دل کی سچائی کو ڈھونڈ میں اور اپنے دل کی سچائی کو ڈھونڈ کر اس سے چمٹ جائیں اس سے کبھی علیحدہ نہ ہوں.بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن بہت ہی بڑی بات ہے.لاکھوں انسانوں میں آپ کو شاید ایک آدمی ایسا دکھائی دے گا جو حقیقتہ دل کی سچائی سے چمٹا ہوا ہے.باقی کچھ قریب رہتے ہیں کچھ کبھی پاس آگئے کبھی بھاگ گئے جس طرح مرغی کے چوزے کبھی ڈرتے ہیں تو ماں کے پروں کے نیچے بھی آجاتے ہیں پھر دور بھی ہٹ جاتے ہیں، کبھی بلی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں.تو دل کی سچائی وہ چوزوں کی ماں مرغی ہے جس کے ساتھ رہنے، جس کی حفاظت میں رہنے کا شعور آپ کو سیکھنا ہوگا اور یہ شعور اپنے نفس میں ڈوبنے کے ذریعے آپ کو حاصل ہوتا ہے اور اس کا علم آپ کو اپنی زندگی کے ہر حرکت اور ہر سکون میں حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ ایک بھی آپ کا ارادہ ایسا نہیں ، ایک بھی آپ کی حرکت ایسی نہیں جس سے پہلے آپ کا نفس یہ فیصلہ کر نہیں چکا ہوتا کہ آپ نے سچائی کو پکڑنا ہے کہ جھوٹ کو پکڑنا ہے.تقویٰ کی راہ اختیار کرنی ہے یا فجور کی راہ اختیار کرنی ہے.تو روزانہ بعض دفعہ سینکڑوں بعض دفعہ ہزاروں مواقع ایسے پیدا ہورہے ہوتے ہیں جبکہ خدا اس اندرونی کسوٹی کو آپ کے سامنے رکھتا چلا جا رہا ہے اور آنکھیں بند کر کے آپ اس کو ہاتھ بھی لگاتے ہیں، معلوم بھی کر لیتے ہیں کہ اس کا کیا فیصلہ ہے اور پھر آنکھیں بند کر کے ہی اس سے گزر جاتے ہیں، دیکھتے نہیں کہ اس کسوٹی نے کیا رنگ آپ کو دکھایا تھا.کیا نور کا ، روشنائی کا رنگ تھا یا اندھیرا اور تاریکی کا رنگ تھا.اس لئے دل سے پہلے اپنا تعلق جوڑیں اور اس فطری تقویٰ سے تعلق قائم کرنے کے لئے اپنے فجور کا علم کریں.گہری نظر سے اپنے نفس کا تجزیہ کریں، باہر سے کوئی آنے والا آپ کو نہیں بتائے گا کہ آپ کے اندر کیا نقائص ہیں وہ انہی نقائص کی بات کرتا ہے جو کھل کر منظر عام پر آچکے ہوتے ہیں اور گلیوں میں پھرتے ہیں جو دوسروں کے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں.ان نقائص سے وہ بے خبر ہے ہر دوسرا انسان جو دل میں پلتے ہیں اور پرورش پا رہے ہوتے ہیں اور ان جراثیم کی طرح جن کو ابھی قوت نصیب نہیں ہوتی لیکن وہ خاموشی سے کسی جگہ بیٹھ کر بڑی کثرت کے ساتھ نشو و نما پا رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ غالب آتے ہیں.ان حالتوں کا اس کو اندازہ

Page 842

خطبات طاہر جلدے 837 خطبہ جمعہ ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء نہیں.اس لئے غیر جب آپ کو آپ کے نقائص بتائے گا تو وہ نقائص بتائے گا جن سے آپ مغلوب ہو چکے، جن کے سامنے آپ نے اپنی بازی ہار دی ہے.وہ نقائص جن سے آپ کی جنگ جاری ہے اس کا تو خدا اور خدا کے فرشتوں کے سوا جو اس بات پر مقرر ہیں کسی کو کچھ علم نہیں ہاں آپ کو علم ہوسکتا ہے کیونکہ خدا فرماتا ہے فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوبِهَا اگر کوئی انسان چاہے تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے الہام کیا اس کے اوپر ، ہم نے اس کو باخبر کر دیا ہے بلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيْرَةٌ قُ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيْرَهُ (القیامة : ۱۵-۱۶) خبردار! انسان اپنے اندرونے سے خوب واقف ہے وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيرَهُ خواہ کتنے بڑے بڑے عذر تراش کے وہ پیش کرے کہ نہیں نہیں مجھے تو کچھ پتا نہیں تھا مجھ سے تو یہ بات یوں ہو گئی ، مجھ سے تو یہ بات یوں ہو گئی.جب خدا فرماتا ہے کہ ہم نے سب کچھ تمہیں بتا دیا ہے تو پھر خدا اور اس کے مقرر کردہ فرشتوں کے بعد ہر انسان کو اپنے فجور کا پتا ہے اور اس کے غیر کو اس کا کچھ پتا نہیں.اس لئے وہاں سے کام شروع کریں جہاں ابھی آپ کے اختیار میں ہے.جب یہ جراثیم غالب آجاتے ہیں پھر تو آپ بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں پھر تو آپ کو متلی کی شکایت ہو جاتی ہے ،سر درد ہوتی ہے، جوڑ جوڑ ٹوٹتا ہے ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو سنبھال ہی نہیں سکتے.اتنے تھوڑے سے جراثیم کہ جسم کے کسی ایک حصے میں اتنی مقدار میں موجود ہیں کہ ان کو عام کسی چیز پر تکڑی پر تو لیں تو آپ تو ل بھی نہیں سکتے.خاص قسم کی وہ حس والی تکڑیاں ان کے لئے ایجاد کی جاتی ہیں اور وہ آپ پر غالب آئے ہوئے ہیں، سارے جسم کا حلیہ بگاڑ دیا ہے انہوں نے لیکن اگر پہلے پتا چل جائے جب وہ ابھی داخل ہورہے ہیں اور کام کر رہے ہیں اس وقت اگر جسم ان کے خلاف رد عمل کر دے تو پھر ضرور ان پر وہ قابو پاسکتا ہے.اور عجیب شان ہے قرآن کریم کی اس آیت کی کہ جسم کو ہر بیماری کا پہلے پتا چل جاتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی جسم اپنی عادتیں بگاڑ کر خود اپنے فجور سے غافل ہونا سیکھ لے ورنہ ہر انسانی جسم کو ان بیماریوں کے آغاز پر اس کا پتا چل جاتا ہے اس کے شعور کو پتا نہ بھی ہولیکن اس کے لاشعور کو پتا چل جاتا ہے.بعض دفعہ لاشعور کو بھی کچھ پتا نہیں ہوتا لیکن وہ فوج جو خدا نے انسانی خون میں بنائی ہوئی ہے جس کا انسانی دماغ سے کوئی تعلق نہیں اس فوج میں جو خدا نے الہام کیا ہوا ہے اور وہ فوج ایسی ہے جس کی بیشمار چھاؤنیاں ہیں، بیشمار ان کی رجمنٹس ہیں جہاں وہ پیدا کی جاسکتی ہے اور اچانک تھوڑے

Page 843

خطبات طاہر جلدے 838 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء سے نوٹس پر لاکھوں کروڑوں اربوں کی تعداد میں خاص قسم کے سپاہی ، خاص قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ایک معین دشمن کے مقابلے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں ایساز بر دست انتظام ہے لیکن اس کے لئے شرط ہے فَأَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقُوتها فجور کا پتا ہونا چاہئے.بعض بیماریوں میں جب یہ نظام متاثر ہو جاتا ہے کہ فجور کا علم نہیں رہتا تو پھر انسانی جسم کسی قسم کا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ایسی بھی بعض بیماریاں ہوتی ہیں جو اس الہام کے مقام پر جہاں وہ الہام نازل ہوا ہے جور کا اس حصے پر حملہ کر کے اس کو نقصان پہنچا دیتی ہیں.پس اسی طرح انسانی تجارب نے اس کے روحانی معاملات میں بھی جس شخص کو ہم پکا گناہگار کہتے ہیں، جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ اَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ (البقرہ:۸۲) اس کی برائیوں نے اس کا گھیرا ڈال لیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے.ان لوگوں کے دماغ میں یہ رخنہ پڑ جاتا ہے کہ وہ آغاز کا معلوم ہی نہیں کر سکتے کہ کب حملہ ہوا، کیسے ہوا ہے، کتنے حملہ آور ہیں اور ان کا دفاع کیسے کیا جائے گا.پس آپ کو بحیثیت ایک باشعور مسلمان کے آپ کو ان قوتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے ورنہ آنکھیں بند کر کے بعض جرائم کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ ضمیر کی آواز مر جائے ، بولتے بولتے تھک جائے ، اس کا گلا بیٹھ جائے وہ آپ کو متنبہ کرتی ہے اور آپ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں تو پھر لازماً آپ کا وہ گناہ اس مقام تک آپ کو پہنچا دے گا جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہاں اس کے سوا جس کی برائیوں نے اس کا گھیرا ڈال لیا ہو باقی سب برائیاں جو ہیں وہ معاف کی جاسکتی ہیں، وہ زائل ہوسکتی ہیں اور وہاں پہنچ کر انسانی دماغ پھر جاتا ہے پھر اس کو پتا ہی نہیں لگتا مجھ سے ہو کیا رہا ہے.تو اپنا فجور کا شعور بیدار کریں اور اس کے نتیجے میں آپ اپنے اندرونی طور پر ایک ایسا سفر شروع کر دیں گے جس کی کوئی حد نہیں ہوگی.شروع شروع میں آپ دیکھیں گے یہ موٹے موٹے بعض گناہ دماغ میں آرہے ہیں.اس کے بعد جب آپ اور سفر کریں گے تو بار یک در بار یک گناہوں کی طرف توجہ پیدا ہونی شروع ہو گی.پھر آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ آپ کی نیتوں بیچاریوں کا کوئی حال نہیں تھا جن کو آپ اچھا سمجھ رہے تھے اس میں تو سور خنے تھے.بدی تو در کنار ہر فیصلہ جو آپ نیکی کے نام پر کر رہے تھے اس میں بھی بعض کیڑے پڑے ہوئے تھے.اتنے خوفناک مناظر آپ کو نظر

Page 844

خطبات طاہر جلدے 839 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۸ء آئیں گے کہ آپ کا دل بیٹھنے لگے گا اس کیفیت سے لیکن حوصلہ نہیں ہارنا کیونکہ قرآن کریم نے اس کا جواب آپ کو عطا فرما دیا ہے.فرمایا فَفِرُّوا اِلَی اللہ اس صورت میں اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اپنے رب کے حضور دوڑو اور اس سے عرض کرواے خدا! ہم تو ہر طرف سے گھیرے میں آئے ہوئے ہیں.ہر طرف ہم نے اپنے اندر گند دیکھا ہے اور نقص دیکھے ہیں ، بیماریاں پائی ہیں اب تیرے سوا ہمارا کوئی ملجاء اور مادی نہیں ہے ہماری ہر اس بیماری اور مخفی درمخفی بیماری سے ہمیں بچا اور اپنی پناہ میں لے لے، اپنی گود میں اٹھا لے.یہ مضمون جو ہے یہ بھی بہت عظیم الشان مضمون ہے اس کے بعد پھر اگلا سفر کیا شروع ہوتا ہے وہ انشاء اللہ میں آئندہ کسی خطبہ میں بیان کروں گا لیکن ہر چھوٹے بڑے کو اس فجور کے علم کا سفر لازماً اختیار کرنا چاہئے اور بڑی توجہ سے اختیار کرنا چاہئے اور بڑی باریک نظر سے اختیار کرنا چاہئے تب اس کو پتا چلے گا کہ جو غیر کی نظر جو اس کو بجھتی تھی اگر وہ بد بجھتی تھی تو اس سے بہت زیادہ اس نے اپنے آپ کو بد پایا اور اگر وہ نیک سمجھتی تھی تو اس کے جواب میں آپ اس کے سامنے یہی کہیں گے کہ سوائے خدا کے کوئی نیک نہیں ہے اور میں نے تو اپنے اندر کمزوریوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا.یہ وہ مقام عجز ہے جس طرف یہ تقویٰ آپ کو لے کر جاتا ہے اور جس کے بعد خدا کے سوا کوئی سہارا دکھائی نہیں دیتا، کوئی ذاتی نیکی آپ کے کام نہیں آسکتی اور یہ پہلا تو حید کا سبق ہے جو انسان کو اس طرح میسر آتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توحید کے اعلیٰ مطالب تک آگاہی بخشے اور اپنے فضل کے ساتھ ان بلند تر چوٹیوں کو سر کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی طرف اب ہم اس حالت میں دیکھیں تو اوپر دیکھتے ہوئے پگڑی گرتی ہے، اتنی دور کی منازل دکھائی دیتی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے ہماری استطاعت نہیں ہے کہ ہم اس تک پہنچ سکیں.

Page 845

Page 846

خطبات طاہر جلد ۶ 841 خطبه جمعه ۱۶ر دسمبر ۱۹۸۸ء فرار الی اللہ کی تشریح، قناعت کا صفت غنی سے تعلق ،جھوٹ سے بچیں یہ بڑا شرک ہے (خطبه جمعه فرموده ۶ اردسمبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ خطبہ میں نے فَفِرُّوا اِلَی اللهِ (الذاریات: ۵۱) کے مضمون پر کچھ روشنی ڈالی تھی لیکن چونکہ جمعہ کا جو عام مقرر وقت ہے وہ ختم ہو چکا تھا اس لئے کچھ حصہ مضمون کا ابھی باقی تھا.جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف دوڑو یعنی فرار اختیار کرو تو جب تک اس کا پوری طرح مفہوم سمجھ نہ آجائے ہم کسی سمت بھی دوڑ نہیں سکتے.پہلی بات تو واضح ہے کہ خدا جسم نہیں ہے اور ہر سمت میں ہے.جیسا کہ فرمایا: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ الله (البقرہ : ۱۱۶) جس طرف بھی تم منہ کرو گے وہیں اسی سمت میں تم خدا کو پاؤ گے.تو پھر دوڑنے سے کیا مراد ہے؟ جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا فرار کا لفظ کسی خطرے کے مقابل پر دوڑنے کو کہتے ہیں محض دوڑ نامراد نہیں.تو خطرے کی نشاندہی سے سمت کا تعین ہوا کرتا ہے.اس لئے یہ مضمون محض ایک سطحی اور عمومی مضمون نہیں ہے کہ کسی کو کہ دیا جائے کہ خدا کی طرف دوڑو بلکہ یہ سمجھا نا ضروری ہے کہ کس سے بھا گو ،کس طرف بھا گو اور یہ بتانا ضروری ہے کہ جب تک بھاگنے والا خطرے کی سمت معین نہیں کرتا اس کے بھاگنے کی سمت بھی معین نہیں ہو سکتی.عام دنیا میں جو ہم دستور دیکھتے ہیں اس پر غور کرنے سے آپ کو اس مضمون کے اور بہت

Page 847

خطبات طاہر جلد ۶ 842 خطبه جمعه ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء سے پہلو سمجھ میں آجائیں گے.ایک انسان اگر جنگلی بھینسے سے بھاگ رہا ہے تو اس کو درخت پناہ دے گا.وہ اگر دوڑ کر کسی قریب کے درخت پر چڑھ جائے اور اگر وہ چڑھ سکتا ہو تو جنگلی بھینسا چونکہ درخت پر نہیں چڑھ سکتا اس لئے اس کو درخت سے پناہ مل جائے گی لیکن اگر وہ ریچھ سے بھاگا ہے تو درخت اس کو پناہ نہیں دے سکتا کیونکہ ریچھ درخت پر چڑھ سکتا ہے.اس کے لئے اگر اس کو آگ مہیا ہو اور وہ جلتی ہوئی لکڑیاں استعمال کر کے اس کے دائرے میں آجائے یا ایک بڑی جلتی ہوئی لکڑی کو استعمال کرے ریچھ کو ڈرانے کے لئے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ ریچھ سے بچ جائے.خشکی کے جانوروں سے بچنے کے اور طریق ہیں، پانی کے جانوروں سے بچنے کے اور طریق ہیں ، مگر مچھ کسی کے پیچھے ہو تو اس کو دریا سے نکل کر خشکی کی پناہ لینی پڑتی ہے.بعض ایسے حملے ہیں جن میں خشکی سے اتر کر دریا کی پناہ لینی پڑتی ہے.چنانچہ شہد کی مکھیوں کا حملہ ہو تو نہ درخت پناہ دے سکتا ہے ، نہ زمین پناہ دے سکتی ہے.اس کے لئے اکثر لوگوں کو دریاؤں میں چھلانگیں لگاتے دیکھا ہے ،نہروں میں یا تالابوں میں.قادیان میں مجھے یاد ہے ایک دفعہ مجلس مشاورت کے بعد کسی بچے نے غلیلے سے شہد کا چھتا چھیڑ دیا تو لوگ بری طرح اس سے بیچارے متاثر ہوئے ،گھبرائے ، بھاگے، زخمی ہوئے لیکن ایک تالاب تھا وہاں بچوں کے نہانے کا ، اصل جن کو پناہ لی ہے ان کو اسی تالاب میں ملی ہے یا پھر بند کمروں میں مل سکتی ہے.تو خدا تعالیٰ ہر طرف ہے لیکن ہر خطرے سے پناہ کے لئے جس طرف منہ اٹھا کر آپ بھا گئیں آپ کو پناہ نہیں مل سکتی بلکہ خطرے کی سمت بچاؤ کی سمت معین کرتی ہے، وہاں بھی تو آپ خدا ہی کی پناہ میں آتے ہیں.درخت پر چڑھیں تب بھی قانون قدرت جو خدا نے پیدا کیا ہے اس کے تابع ، اس خدا کے حکم کے ماتحت درخت آپ کو پناہ دیتا ہے.جہاں پانی کی پناہ میں آتے ہیں وہاں بھی قانون قدرت خدا کے حکم کے تابع آپ کو پناہ دیتا ہے اسی طرح خطروں کی نشاندہی آپ کرتے چلے جائیں ان کے مقابل پر آپ کا دماغ خود آپ کو بتا تا چلا جائے گا کہ یہاں خدا کس سمت میں ہے.تو ہر سمت سے خدا آپ کی پناہ کا منتظر ہے لیکن ہر خطرے کے نتیجے میں جس طرف منہ اٹھے اس طرف بھاگنے سے آپ کو پناہ نہیں ملے گی.خطرے کا تعین ضروری ہے پھر سمت کا تعین ہو گا.فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ جاؤ گے جس طرف بھی وہیں خدا کو پاؤ گے خدا کے سوا کچھ نہیں

Page 848

خطبات طاہر جلد ۶ 843 ہو گا لیکن کس سمت میں خدا سے پناہ مانگنی ہے اس کا تعین خطرے نے کرنا ہے.خطبه جمعه ۱۶اردسمبر ۱۹۸۸ء بعینہ یہی حال گناہوں کا ہے.گناہوں کے تعین کے بغیر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ خدا سے کس طرح آپ نے پناہ حاصل کرنی ہے.ہر گناہ اس کے اپنے مقابل پر ایک الہی صفت سے خوف کھاتا ہے اور اس کو اس صفت کے دائرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے.اس لئے جب آپ گناہ کا تعین کر دیں گے تو اس الہی صفت کا تعین خود بخود ہو جائے گا تو ادنی غور سے بھی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جسے اپنانے کی ضرورت ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اور بھی بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں کہ پناہ لینے سے اب کیا مراد ہے.بعض صفات انسان کی ایسی ہیں جو بعض برائیوں سے پناہ دیتی ہیں مگر خدا میں وہ صفات نہیں ہیں یہ بھی ایک سوال اٹھتا ہے تو کیا خدا کے سوا بھی کوئی پناہ دینے والی چیز ہے.پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا سے پناہ ملنی ہے تو جب تک تمام گناہوں کا شعور نہ ہو انسان کو مکمل پناہ نہیں مل سکتی.ایک گناہ سے بھاگیں گے خدا کی جس سمت میں اس کا تو ڑ موجود ہے وہاں آپ کو پناہ تو مل جائے گی لیکن بعض اور سمتوں سے حملہ کرنے والے گناہ سے آپ کو پناہ نہیں ملے گی.اس مضمون کو سمجھنے کے بعد آپ کو کشتی نوح کی اس عبارت کی سمجھ آسکتی ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض چھوٹے چھوٹے گناہوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ جوان گناہوں سے بھی تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.اس تعلیم کو آپ پڑھیں گے تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے.یوں محسوس ہوگا کہ کوئی ایک بھی انسان آج دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتا جو یقین کے ساتھ یہ کہ سکے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں سے ہوں.تو کیا مطلب ہے اس تحریر کا ؟ اس سے یہی مراد ہے کہ تم امن میں نہیں ہو.انبیاء جو جماعت پیدا کرتے ہیں وہ امن کی جماعت ہے یعنی تمام گناہوں سے پوری طرح امن تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے پر کوئی حرف نہ آسکے.تو مراد یہ ہے کہ تم نے ایک رخنہ چھوڑ دیا اپنے لئے اس لئے کلیہ میری جماعت میں داخل نہیں ہو سکے کیونکہ جو جماعت میں داخل ہے ان کے متعلق خدا کا وعدہ ہے اور ائل وعدہ ہے کہ ان کو دنیا کی کوئی طاقت کسی قسم کا گزند نہیں پہنچاسکتی.وہ ہر حال میں ہمیشہ خدا کی پناہ میں رہنے والے لوگ ہیں.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مکمل

Page 849

خطبات طاہر جلد ۶ 844 خطبه جمعه ۶ اردسمبر ۱۹۸۸ء جماعت بنا کر آپ کو دکھائی ہے تعلیم کی صورت میں کوئی رخنہ اس میں سے نہیں چھوڑا.اس لئے بعض دفعہ کم فہم لوگ اس عبارت کو پڑھ کے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیا مطلب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج ماننے والا کیا دنیا میں ایک بھی نہیں رہا.یقینا ہیں لیکن کوئی نہ کوئی سوراخ انہوں نے اس عمارت میں داخل ہوتے وقت ایسے چھوڑ دیئے کہ وہ دیوار جو ان کے گرد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنائی ہے وہ ہر طرف سے ہر سمت سے ان کی حفاظت نہیں کر رہی کیونکہ خود انہوں نے کچھ اینٹیں لگانی چھوڑ دیں یا بھول گئے یا بعض جگہ خود رخنہ ڈال دیئے.تو صفات الہی کی طرف دوڑنے کا مضمون ہمیں یہ بھی بتا رہا ہے کہ خدا کی پناہ میں ایک پہلو سے آنے کے باوجود بعض دوسرے پہلوؤں سے ہو سکتا ہے کہ ہم امن کی حالت میں نہ رہیں.چنانچہ جو شخص جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتا وہ حق ذات سے تعلق نہیں جوڑ سکتا اور ہر سمت سے اس پر حملے ہو سکتے ہیں اور اس کثرت کے ساتھ وہ حملوں کا شکار ہو سکتا ہے کہ سچا آدمی جس میں بعض اور برائیاں ہوں اتنا زیادہ خطرہ کی حالت میں زندگی نہیں گزارتا جتنا ایک جھوٹا آدمی زندگی گزارتا ہے.اسی طرح آپ دوسری صفات پر غور کرنا شروع کریں تو ہر صفت کے اوپر آپ کو معلوم ہوگا کہ اس الہی صفت میں خصوصیت کے ساتھ ان ان باتوں سے پناہ دینے کی قوتیں موجود ہیں اور پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا آپ کو اپنے گناہوں کے شعور کو بیدار کرنا پڑے گا.جب تک انسان اپنے نفس کی کمزوریوں کا شعور پیدا نہیں کرتا اور اپنے نفس کی کمزوریوں کو ایسی آنکھ سے نہیں دیکھتا جیسے شدید دشمن نفرت کی آنکھ سے کسی شخص کی کمزوریوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے.جب تک ایک ظالم کی نظر سے انسان اپنے نفس کی کمزوریوں کو نہیں دیکھتا اس وقت تک وہ پوری طرح اپنے وجود کو کھنگال نہیں سکتا اور وہ برائیاں جو تہ میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ ابھر کر اس کی آنکھوں کے سامنے نہیں آسکتیں.آپ نے دیکھا ہوگا بعض دفعہ پانی شفاف دکھائی دیتا ہے لیکن اس میں آپ چھ گھول دیں یا ویسے ہی کسی لکڑی سے اس کو ہلا دیں تو نیچے سے گدلا پن اس کا اوپر ابھر آتا ہے اور آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.وہ لوگ جو گناہ کا شعور نہیں رکھتے ان کے اندر تہ بہ تہ گناہ بیٹھتے چلے جاتے ہیں اور جو گناہ ان کے دلوں کی تہوں میں بیٹھ جاتے ہیں وہ ان کی نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں تبھی ضرورت پڑتی ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے نفس کے کھنگالتا رہے اور اس طرح کھنگالے جیسے کوئی دشمن

Page 850

خطبات طاہر جلد ۶ 845 خطبه جمعه ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء برائیاں دیکھنے کے شوق میں ، تلاش میں کریدتا ہے دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے اندر چھپی ہوئی کون سی بیماری ہے.اس مضمون کو قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کے تعلق میں ظَلُومًا جَهُولًا کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا کہ ظَلُومًا جَهُولًا بظاہر تو بہت ہی خوفناک لفظ ہیں.انتہائی ظالم اور انتہائی جہالت سے پیش آنے والا اور ذکر چل رہا ہے حضرت محمد مصطفی امیہ کا جن پر خدا نے امانت نازل فرمائی قرآن کریم کی.تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن معنوں میں ہم اس لفظ ظَلُومًا جَهُولًا کو سمجھتے ہیں ان معنوں میں اس کا اطلاق آنحضرت یہ تو کیا آپ کے ادنی غلاموں پر بھی ہو سکے اور مقام مدح ہے کوئی برائی کا موقع نہیں بلکہ انتہائی تعریف جو کسی انسان کی جاسکتی ہے جس سے اوپر تعریف ممکن نہیں ہے اس موقع پر خدا تعالیٰ حضرت محمد مصطفی حملے کا ذکر کر کے فرماتا ہے إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب :۷۳) یعنی وہ امانت جس کا بوجھ اٹھانے سے زمین و آسمان کانپ اٹھے ، پہاڑوں نے انکار کر دیا ، یہ مرد میدان آگے آیا اور اس نے اس امانت کو اٹھا لیا.کتنا عظیم الشان تعریف کا مقام ہے.پھر فرمایا ان كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا دیکھو کتنا ظلوم ، کتنا جہول ہے.میں نے پہلے بھی ایک خطبے میں بیان کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ راز ہم پر کھولا یہاں ظلوم سے مراد دوسروں پر ظلم کرنے والا نہیں بلکہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے.اپنے نفس کو اس طرح کھنگالنے والا ، اس شدت کے ساتھ اپنے نفس سے برائیاں دور کرنے والا کہ جیسے اس کے دل میں اپنے نفس کے لئے کوئی رحم کا جذ بہ باقی نہیں.ہر تکلیف کے مقام پر اپنے نفس کو گھسیٹ کر لے جانے والا ، ہر آرام کے بستر سے اپنے نفس کو اٹھا کر مصائب کے میدانوں کی طرف لے جانے والا شخص ظَلُومًا کہلائے گا اور جھول اس کو کہتے ہیں جو پھر عواقب سے بے خبر ہو جائے.اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہ رہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے.جب انسان اپنی پر واہ اس طرح چھوڑ دے اور اپنے نفس کو خدا کی خاطر ہلاکت میں ڈالتا ہے تو وہ ظَلُومًا جَهُولًا کہلاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو آسمان سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (الشعراء:۴) کہ اے میرے پیارے بندے! تو کیا اپنے نفس کو ہلاک کر لے گا.

Page 851

خطبات طاہر جلد ۶ 846 خطبه جمعه ۱۶ر دسمبر ۱۹۸۸ء یہ وہ مضمون ہے جو آپ کو اپنے گناہوں کا شعور بخش سکتا ہے.اپنے نفس پر رحم کرنے والا نہیں بلکہ ظلم کرنے والا بننا پڑے گا.وہ آنکھیں جو آپ کی ہمیشہ غیر کی طرف لگی رہتی ہے اس کی برائیاں تلاش کرنے کے لئے کبھی اپنی طرف بھی تو ان کو لوٹا ئیں.کبھی ان نظروں سے اپنے نفس کو بھی تو دیکھیں.معلوم تو کریں کہ آپ کے اندر کتنے ظلم کی کچھڑ یاں پک رہی ہیں، کتنا نیتوں کا فتور ہے، کتنا فساد ہے جگہ جگہ اور کتنے پردوں کی پیچھے چھپ چکا ہے.جس طرح گھر کی دیر سے صفائی نہ ہو تو گند کونوں کھدروں میں چھپتا چلا جاتا ہے، چھپتا چلا جاتا ہے.کوئی نیا آدمی جب اس گھر میں آتا خصوصاً عورتیں جب صفائی کرتی ہیں تو ہزار ہزار کو سنے دیتی ہیں پرانے مالکوں کو اور پرانے رہنے والوں کو، بڑے ہی گندے لوگ تھے دیکھو باورچی خانہ کا یہ حال ہے، جو گند ہوتا تھا فلاں کونے میں چھپا دیا کرتی تھیں.یہ کوئی عورتیں تھیں، کوئی انسان تھے ، بڑی مصیبت پڑی آج صفائی کی.نوکر بدلیں تو وہ بھی یہی کام کرتا ہے پچھلے نوکروں کو گالیاں دیتا ہے کہ دیکھو ان کو صفائی نہیں کرنی آتی تھی اور حال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے نفس کے گند چھپاتا چلا جاتا ہے، چھپا تا چلا جاتا ہے زندگی بھر چھپاتا چلا جاتا ہے.غیر کی آنکھ سے چھپانا شروع کرتا ہے پھر اپنی آنکھ سے چھپانے لگتا ہے.اس لئے یہ خوب یا درکھیں کہ وہ شخص جو غیروں کی آنکھ سے اپنی برائیوں کو چھپاتا ہے وہ لازماً اس بات میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ پھر اپنی آنکھ سے اپنی بیماریوں کو چھپانے لگے اور جب اپنی نظر سے بیماریاں اوجھل ہو گئیں تو پھر آپ کو کیا پتا چلے گا کہ کس سمت سے کس سمت میں بھا گنا ہے.نہ خطرے کی سمت معین ، نہ پناہ کی سمت معین.جب پتاہی نہ ہو کہ خطرہ خشکی سے ہے یا پانی سے ہے تو کس طرف بھاگیں گے آپ ؟ خدا پھر بھی ہر سمت ہو گا.خدا کی امن کی باہیں پھر بھی آپ کے لئے کھلی اور منتظر ہوں گی.یہ آپ حرکت نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ کو کچھ پتا نہیں کہ اس وقت میرا امن خدا کی کس سمت میں واقعہ ہے.اس پہلو سے میں نے جو برائیوں کے مقابل خدا کی امن دینے والی صفات کا جائزہ لیا تو یہ تو ایک بہت ہی وسیع مضمون بن جاتا ہے.اتنا وسیع ہے کہ در حقیقت سینکڑوں خطبات میں بھی اس مضمون کا حق ادا نہیں ہوسکتا.چند مثالیں دی جاسکتی ہیں اور ان مثالوں کے ذریعے آپ کو متوجہ کیا جا سکتا ہے کہ ان باتوں پر غور کرتے رہیں اور جب اپنے نفس کو ٹولیں تو پھر اپنی پناہ گاہوں کی بھی تلاش شروع کریں.دوسرا سوال میں نے یہ اٹھایا تھا کہ بعض صفات خدا تعالیٰ کی صفات ہیں ہی نہیں اور اس کے

Page 852

خطبات طاہر جلد ۶ 847 خطبه جمعه ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء با وجود انسان بعض برائیوں سے ان صفات کی پناہ میں آتا ہے.تو کیا غیر اللہ کے سوا بھی کوئی پناہ ممکن ہے؟ مثلاً ایک انسان کی صفت ہے قناعت.جو قناعت کرتا ہے اس کو ہم قانع کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کوئی صفت قناعت نہیں ہے، خدا کو آپ قانع نہیں کہہ سکتے لیکن آپ جانتے ہیں کہ قناعت آپ کو بہت سی برائیوں اور بدیوں سے بچاتی ہے.اس مضمون کے ذکر سے پہلے میں قناعت کا تعلق جن بدیوں سے ہے اس کے اوپر کچھ ذکر کرتا ہوں پھر بتاتا ہوں کہ خدا کی کس صفت سے قناعت کا تعلق ہے اور کیوں ہے.در حقیقت قناعت بھی خدا تعالیٰ کی بعض صفات کے تابع ہے اور جب خدا کے متعلق آپ قناعت کا مضمون بیان کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جو طریق ہمیں سکھایا ہے اس کی رو سے بعض اور صفات ہیں جو سرسری نظر سے قناعت کا مضمون اپنے اندر رکھتی ہوئی معلوم نہیں ہوتیں مگر در حقیقت کوئی انسانی صفت بھی ایسی نہیں جو کسی خدائی صفت کے تابع نہ ہو یا براہ راست وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو گی یا خدا تعالیٰ کی کسی صفت کے تابع ہوگی.ہمارے معاشرے میں جو عام بیماریاں ہیں ان میں سے بہت سی ایسی خطرناک بیماریاں ہیں جن کا قناعت کے فقدان سے تعلق ہے.صبر اور قناعت یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا آپس میں ایک جوڑ ہے.اس کے اوپر کچھ میں بیان کروں گا پھر خدا تعالیٰ کی اس صفت کے ساتھ اس کا تعلق دکھاؤں گا آپ کو جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.ایک انسان کو اپنے گردو پیش ماحول میں چیزیں دیکھتے ہوئے اچھی اچھی چیزیں مختلف لوگوں کو اس سے استفادہ کرتے ہوئے دیکھتے ہوئے بہت سی دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ، بہت سے اس کے جذبے جاگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.انسان جب بھی کسی اچھی چیز کو دیکھتا ہے تو وہ اچھی چیز اپنی طرف اس کو بھینچتی ہے لیکن وہ کشش اتنی شدت سے محسوس نہیں ہوتی جتنی وہ کشش اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کسی اور کے پاس وہ چیز دیکھ لیتا ہے.یعنی رقابت کا جذبہ اس حسن کی کشش کو دو چند بلکہ بعض دفعہ دہ چند سو چند بھی کر دیا کرتا ہے.تو ہر اچھی چیز کی طرف مائل ہونا یہ فطری تقاضا ہے.انسان چاہتا ہے کہ وہ میری طرف آئے ، میں اس کی طرف جاؤں.ہر اچھی چیز میرے قبضہ قدرت میں آجائے ، میں اسے حاصل کرلوں اور جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھیوں ، وہ کے پاس وہ چیز ہے تو پھر اگر وہ ساتھی غیر ہوں تو اور زیادہ شدت کے ساتھ اس کی کمی کا احساس ہونے لگتا ہے.اگر اپنے ہوں تو اس شدت میں کسی حد تک کمی آجاتی ہے.

Page 853

خطبات طاہر جلد ۶ 848 خطبه جمعه ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء سوال یہ ہے کہ اس کا بدیوں سے کیا تعلق ہے اور بدیوں سے روکنے والی کون سی صفات ہیں.یہ خواہشات اگر پیدا ہوتی رہیں اور ان خواہشات کو انسان ابھارتا رہے اور ان خواہشات کی متابعت شروع کر دے اور ان اچھی چیزوں کی خوابیں دن کو بھی دیکھنے لگے جو اسے بھلی دکھائی دیتی ہیں تو اس کے نتیجے میں بسا اوقات ایک ایسا مقام آجاتا ہے کہ وہ پھر اس جذبے کو برداشت نہیں کر سکتا.پھر خواہ قانون اس کو اجازت دے یا نہ دے وہ ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا.ایسے موقع پر صبر اس کے کام آ سکتا ہے صرف.اسی لئے خدا تعالیٰ نے صبر پر بہت زور دیا ہے.یعنی خواہشیں بیدار ہو گئی ہیں ، حاصل کرنے کا ذریعہ موجود نہیں ہے.صرف ایک صورت ہے کہ نیکی کے تقاضوں کو چھوڑ کر ، بھلا کر جس طرح بھی کوئی چیز ہاتھ آتی ہے اسے آپ لینے کی کوشش کریں یہ جو گناہ کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے خواہش کے نتیجے میں اس کو روکنے کے لئے صبر کی صفت کام آتی ہے اور قرآن کریم نے اس پر غیر معمولی زور دیا ہے کیونکہ دنیا میں بھاری اکثریت انسانوں کی ایسی ہے جو صبر کی محتاج ہیں.ان کو یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنی خواہشوں کو لگام دے سکیں.اس لئے مجبور ہیں اگر صبر بھی ان میں نہ رہے تو وہ لازما گناہوں میں مبتلا ہو جائیں گے.حرص و ہوا کئی قسم کے گناہوں میں انسان کو مبتلا کرتی ہیں قتل بھی اس کے نتیجے میں ہو جاتے ہیں، ڈا کے پڑتے ہیں، چوریاں ہوتی ہیں، لوگوں سے پیسے مانگنے کی عادت بڑھتی ہے، پیسے لے کر نہ واپس کرنے کی بدی ان میں پیدا ہوتی ہے اور پھر بہانہ بنا کر نفس کے قرضے کے نام پر پیسے لینے کی عادت پڑتی ہے.بدیاں چھپانے کا رجحان انسان کو صاف نظر آنا چاہئے کہ جس چیز کو میں واپس نہیں کر سکتا اس کا نام قرضہ کیوں رکھوں لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے مانگا تو یہ میری غیرت کے خلاف ہے.اس لئے وہ کہتا ہے کہ میں قرض آپ سے لے رہا ہوں ، واپس کر دوں گا انشاء اللہ.حالانکہ انشاء اللہ کہنے کا اس کو حق ہی کوئی نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس میں قرض کی واپسی کی کوئی توفیق نہیں ہے اور پھر جب قرض میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر جھوٹ کی عادت پڑتی ہے.پھر ایک برائی دوسری برائی کی طرف لے جاتی ہے.تو ان سب باتوں سے روکنے کے لئے صبور خدا کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت صبور ہے.وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے لیکن بہت سی باتیں نہیں کرتا.بہت سی باتیں وہ تکلیف دہ دیکھتا ہے جن کو روک سکتا ہے ہٹا سکتا ہے لیکن ان کو نہیں ہٹا تا.ان

Page 854

خطبات طاہر جلد ۶ 849 خطبه جمعه ۶ اردسمبر ۱۹۸۸ء معنوں میں وہ صبور نہیں ہے کہ بے بس اور بے اختیار ہے.ان معنوں میں صبور ہے کہ اس کو اختیار ہے اور پھر نہیں کرتا اور حقیقت میں انسان صبور بھی اسی وقت کہلا سکتا ہے جب اسے اختیار ہو اور وہ نہ کرے ور نہ کہا جاتا ہے عصمت بی بی بیچارگی“.بڑی پاکباز عورت ہے اس لئے کہ بیچاری ہے اس کے پاس اور کوئی اختیار ہی کوئی نہیں اس کو آپ صبور نہیں کہیں گے.صبور وہی ہے جو کر سکتا ہے قانون تو ڑ کر کرے چاہے لیکن کر سکتا ہے اور پھر وہ رک جاتا ہے اس کے عقل کے تقاضے، اس کا خدا سے تعلق یہ سارے امور اس کو مجبور کرتے ہیں کہ تم نے یہ کام نہیں کرنا.تو خدائے صبور کی طرف اس کا دوڑنا ان ساری برائیوں سے اس کو بچا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ یادرکھنا ہوگا کہ ہر ایک ہمیشہ کے لئے اندرونی جدو جہد کو پیدا کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ میں وہ جد و جہد نہیں ہوتی کیونکہ وہ قادر مطلق ہے.انسان کے لئے صبر ہمیشہ مشکل ہوتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے صبر کے مضمون کے ساتھ صاحب عزم ہونے کا مضمون بھی باندھا ہے یعنی آپ خدا کی خاطر کسی اور وجہ سے کسی برائی سے رکتے ہیں، کسی خواہش کو پورا ہونے سے روک لیتے ہیں لیکن دل ضرور بیقرار رہے گا.ایک جدو جہد ضرور ہے جو سینہ میں جاری رہے گی ، ایک ہلچل مچی رہے گی، ہر دفعہ دل چاہتا ہے لیکن آپ مجبور ہیں یعنی صبر آپ کا مجبور کر دیتا ہے، روک دیتا ہے.تو ایک صابر کی زندگی ایک مجاہد کی زندگی ہے.جس طرح ایک نفس سے باہر مجاہدہ ہوا کرتا ہے اسی طرح ایک نفس کے اندر بھی مجاہدہ ہوتا ہے جو صبر کے نتیجے میں بڑی شدت کے ساتھ انسان کے اندر جاری رہتا ہے اور انسان کی دو قو تیں آپس میں ایک دوسرے سے لڑتی رہتی ہیں لیکن قناعت کا مضمون اس سے مختلف ہے.قناعت صبر کے سوا ایک اور طاقت ہے جو آپ کو گنا ہوں سے روکتی ہے اور گناہوں سے باز رکھتی ہے اور اس کے ساتھ مجاہدہ نہیں ہے بلکہ ایک امن کی حالت ہے اور سکون کی حالت ہے.اس لئے اگر صبر ٹوٹے اور قناعت بھی نہ ہو تو پھر انسان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.قناعت کہتے ہیں اپنی خواہشات کو اس طرح لگام دینا کہ ان کو چھوٹا کرتے چلے جانا ، ان کو کم کرتے چلے جانا یہاں تک کہ آپ کی خواہشات میں کوئی شدت نہ رہے، کوئی جان اور کوئی قوت نہ رہے اور اگر آپ اپنی خواہشات کو اپنی حیثیت کے مطابق کر لیں جتنا قد آپ کی استطاعت کا ہے اتنا ہی قد آپ کی خواہشات کا بھی ہو جائے تو وہ مقام آپ کے لئے سکون کا مقام ہوگا اور طمانیت کا مقام ہو گا.ایسے

Page 855

خطبات طاہر جلد ۶ 850 خطبه جمعه ۶ اردسمبر ۱۹۸۸ء بہت سے لوگ میں نے دیکھے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے یہ صفت عطا فرمائی ہے ان کی آمد میں تھوڑی ہیں لیکن وہ خوش ہیں ان کے گھروں میں سکون ہے وہ خود بھی قانع ہیں ، ان کی بیویاں بھی قانع ہیں، ان کے بچے بھی قانع ہیں کیونکہ وہ گردو پیش میں اچھی چیزوں کو دیکھتے تو ہیں لیکن اپنے دل کو یہ سلیقہ سکھا دیا ہے کہ اچھی چیز جو نہیں ہے وہ نہیں ہے اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جتنا ہے جو کچھ ہے اس کو مزے لے لے کر استعمال کرنا چاہئے چنانچہ ایسے لوگ جب بغیر سالن کے سوکھی روٹی کے اوپر مرچیں اور نمک لگا کر مل کر کھاتے ہیں تو ہو سکتا ہے ان کو اتنازیادہ مزہ اس میں آ رہا ہو کہ ایک بے صبرے اور غیر قانع شخص کو اچھے اچھے کھانوں میں بھی وہ مزہ نہ آرہا ہو.بلکہ ہوسکتا نہیں یقیناً ایسا ہی ہے کیونکہ اچھی سی اچھی چیز مہیا ہونے والے کو بھی اس سے اچھے کا تصور مزید کے لئے بے چین رکھتا ہے.جو شخص قانع نہ رہے اگر وہ صابر بھی ہوتب بھی اس کی جو حیثیت اور توفیق ہے اس کی حدوں سے باہر اس کی امنگیں چھلانگ لگا رہی ہوتی ہیں اور اس کی آرزوئیں اتنا اونچا اڑ رہی ہوتی ہیں کہ وہ اس کی توفیق کی حد سے باہر ہوتی ہیں.اس لئے اس کے دل کی بے چینی ایک لازمہ ہے.ایسی چیز ہے جس کو وہ دور نہیں کر سکتا.چنانچہ قناعت ایک عجیب صفت ہے اور یہ صفت خدا تعالیٰ کی صفت غنی سے تعلق رکھتی ہے.خدا تعالی قانع نہیں ہے کیونکہ خدا کو تو ہر چیز میسر ہے مگر وہ غنی ہے اور غنی ان معنوں میں کہ جو چیز اس کی ہے وہ اس کو نہیں دی جارہی لیکن وہ اس سے تکلیف محسوس نہیں کرتا ، اس سے مستغنی ہو جاتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے: وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ (اعنکبوت ۷) پھر فرمایا : وَقَالَ مُوسَى اِنْ تَكْفُرُوا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيْعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ ) (براہیم: ) کہ جو شخص بھی ایک مجاہدہ کرتا ہے وہ اپنے نفس ہی کے لئے مجاہدہ کرتا ہے.اِنَّ اللهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ خدا تعالیٰ تمام جہانوں سے مستغنی ہے.یہاں غنی بمعنی مستغنی کے ہے کہ تم اگر کوئی کوشش کرتے ہو، کوئی نیکی کرتے ہو تو اس کا خدا تعالیٰ کوکوئی فائدہ نہیں ہے.لازماً اس کا فائدہ تمہیں پہنچ رہا ہے.اس لئے کبھی بھی اپنی نیکی کے نتیجے میں خدا کے مقابل پر اپنا کوئی مقام اور مرتبہ نہ سمجھنے لگ جانا.یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہم نے یہ نیکی کر دی گویا اللہ کی خاطر یہ کیا ، خدا کی خاطر یہ کیا، کرتے تو خدا کی خاطر ہو لیکن ہوتا تمہاری اپنی خاطر ہے.یعنی جو کچھ خالصہ اللہ کے لئے

Page 856

خطبات طاہر جلد ۶ 851 خطبه جمعه ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء کرتے ہو وہ بھی تمہارے اپنے لئے ہوتا ہے.وہ تو لغنى عَنِ الْعَلَمِينَ تمام جہانوں سے مستغنی ہو جاتا ہے.کچھ کرے یا نہ کرے خدا تعالیٰ کی ذات کو ، اس کی صفت کو کوئی فرق نہیں پڑتا.پھر اس مضمون کا دوسرا پہلو بیان کرتے ہوئے حضرت موسی کی زبان میں خدا فرما تا انہوں نے اپنی قوم سے کہا اِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا.اگر تم سارے کے سارے اور وہ تمام لوگ یا جاندار جو روئے زمین پر بستے ہیں کلیۂ خدا کے ناشکرے ہو جائیں تب بھی فَإِنَّ اللهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ خدا تعالیٰ غنی ہے.تمہاری حمد نہ کرنے سے اس کی ذاتی صفت حمید کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.وہ جو حمید ہے وہ حمید ہی رہتا ہے خواہ اس کا کوئی اقرار کرے یا نہ کرے.اور بعض دفعہ انسان کو بھی ایسا تجربہ ہوتا ہے یعنی غنی اور حمد جب دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ایک عجیب نیا مضمون اس سے پیدا ہو جاتا ہے.بعض لوگ چھوٹی سی نیکی کرتے ہیں اور جب تک وہ نیکی ان کی حمد کی شکل میں تبدیل نہ ہو ان کو چین نہیں آتا.نہ وہ قانع ہیں نہ وہ غنی ہیں اس لئے وہ دکھاوے کر کر کے اپنی نیکیوں کو ضائع کر دیتے ہیں.اس کے برعکس بعض ایسے لوگ ہیں جو نیکی کرتے ہیں اور ان کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس نیکی کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ نہیں بلکہ بعض دفعہ جب اس نیکی کے اعتراف کی بجائے ان کی حمد کے بجائے ان کی برائی کی جاتی ہے تو اپنے دل میں ایک خاص لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے نیکی کی ہے اور ان کو بد کہنے والے بے وقوف ہیں ، نادان ہیں، ان کو کچھ پتا نہیں کہ کیا کر رہے ہیں.یہ صفت خصوصیت کے ساتھ انبیاء کو عطا ہوتی ہے اور جس رنگ میں خدا قانع بنتا ہے غنی کے ذریعے اس رنگ میں انبیا ء خدا کے بندے ہونے کے باوجود اس خدائی صفت سے خوب اچھی طرح اپنے دل کو منور کر لیتے ہیں اور قانع بنتے ہیں غنی کی صورت میں.دنیا جو چاہے ان کو کہتی پھرے ساری خوبیاں ان کے سوانح میں دوسرے انسانوں سے بڑھ کر ان کے دل میں موجود ہوتی ہیں اور ان کے اعمال میں موجود ہوتی ہیں.ان کی سیرت، ان کی سیرت خوبیوں کا مجسمہ بنی ہوئی ہوتی ہے لیکن دنیا ساری خوبیوں کا ان سے انکار کر رہی ہوتی ہے اور وہ خوش رہتے ہیں، وہ غنی ہوتے ہیں، وہ مستغنی ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہم جانتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں.بندہ تو پھر بھی کمزور ہے اور اس کا جانا بھی محدود ہے لیکن خدا

Page 857

خطبات طاہر جلد ۶ 852 خطبه جمعه ۶ اردسمبر ۱۹۸۸ء جو لا محدود ہے اور ساری کائنات میں ہے کوئی جگہ اس سے خالی نہیں اس کا اپنا ذاتی احساس حمد ایک اتنی عظیم چیز ہے کہ اس کے مقابل پر ساری کائنات بھی اگر اس حمد کا انکار کر دے اور ناشکری شروع کر دے تو خدا کو واقعۂ ضرورت نہیں ہے.خدا اور اس کے عظیم بندوں یعنی انبیاء کے بعد درجہ بدرجہ غنی کا اور قناعت کا تعلق مختلف ہوتا چلا جاتا ہے یعنی غنی کی پوری شان انسانی قناعت میں نہیں رہتی لیکن پھر بھی جتنی بھی ہو قناعت حسین دکھائی دیتی ہے.چنانچہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے بعض لوگوں کو میں نے بڑے غور سے قریب سے دیکھا ہے ان کی زندگیاں بہت زیادہ مطمئن ہیں ان لوگوں کی نسبت جن کو ان سے سینکڑوں گنا بعض دفعہ ہزاروں گنا زیادہ ملا ہوا ہے.وجہ یہ ہے کہ وہ قانع ہیں اور وہ دوسرے زیادہ پانے والے بدنصیبی کے ساتھ قانع نہیں ہیں اور ان کی حرص ہمیشہ ان کے ماحصل کے حدود سے آگے آگے بھاگ رہی ہوتی ہے.اس لئے قناعت بڑی ضروری ہے.اگر خاوند قانع ہو بیوی قانع نہ ہو تو ان برائیوں کے علاوہ ایک اور بھی جہنم پیدا ہو جاتی ہے گھروں میں.اگر بیوی قانع ہو اور خاوند قانع نہ ہو تب بھی یہی مصیبت ہے.اگر ماں باپ قانع ہیں اور بچے قانع نہیں ہیں تو وہ اپنے ماں باپ کے طعنے ایک عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں.آپ نے دیکھا ہو گا بعض ماں باپ اللہ کی رضا پر راضی ، جو کچھ ان کو ملا ہے اس کے اندر رہنے والے لیکن ان کے بچے پھر ان کی ساری عزتیں خاک میں ملا دیتے ہیں ، آگے آگے بھاگ کر اپنی حرصوں کو پوری کرنے کے لئے ایسے بوجھ اٹھا لیتے ہیں کہ ان کے ماں باپ پھر ان کو اتا ر بھی نہیں سکتے.تو قناعت کا نہ ہونا ایک بہت ہی خطرناک چیز ہے اگر صبر بھی نہ ہو.تو صبر اور قناعت کو دونوں کو اپنی حفاظت کے لئے استعمال کرنا چاہئے اور آج کل کے زمانے میں مالی لین دین کی خرابیوں میں یہ دونوں صفات انسانوں کے بہت زیادہ کام آسکتی ہیں.اس لئے جب میں کہتا ہوں کے گناہوں کوٹو لیں تو میری مراد یہ نہیں ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ گناہ بننے کے بعد ان کو ٹولیں.میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ گناہوں کی پیدائش سے پہلے ان کونوں کھدروں میں جہاں چھپ کر جراثیم پرورش پا رہے ہوتے ہیں، جہاں گناہوں کی پیدائش ہو رہی ہوتی ہے ان جگہوں سے پردے اٹھا ئیں اور ان پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کے کیا ہورہا ہے آپ کے اندر کس طرح بالآخر آپ کو گناہوں کی طرف دھکیلا جائے گا اور وہ قو تیں جو ہانک کر آپ کو گناہوں کی طرف لے

Page 858

خطبات طاہر جلد ۶ 853 خطبه جمعه ۱۶ر دسمبر ۱۹۸۸ء جائیں گی پھر ان کے خلاف آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوگی.اس خطرے کے عظیم ہونے سے پہلے پہلے اور آپ پر غالب آجانے سے پہلے پہلے وہ مقامات جہاں خطرے پیدا ہورہے ہیں ان کو جستجو کی نظر سے دیکھیں اور ان کا تجزیہ کریں پھر آپ کے اوپر کوئی شیطان کبھی غالب نہیں آسکتا اور پھر آپ خدا کی پناہ میں آنے کے لئے خدا کی اس صفت کو اپنانے کی کوشش کریں جس کے بغیر آپ اس قسم کے گناہوں سے جو آپ کی نظر میں ہیں کبھی بچ نہیں سکتے.تو ایک پہلو فَفِرُّوا إِلَى الله کا یہ ہوا کہ ہم اپنے خطروں کی نشاندہی کریں اس کے مد مقابل خدا تعالیٰ کی جو صفت امن کی خاطر ہماری منتظر ہے بانہیں کھولے ہوئے اس صفت کو پہنچانیں اور اس کی طرف دوڑیں.دوسرا پہلو دعا کا ہے جو فَفِرُّوا اِلَى الله کے مضمون میں شامل ہے.دعا کرتے وقت ایک انسان کے دل میں جب ہیجان پیدا ہو یا خوف و خطر کا احساس ہو تو ایک غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی ہے جو دعا کو رفعت عطا کرتی ہے.اس لئے وہاں بھی جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے خطرے کی پہچان اور اس کی ہلاکت خیزی کا عرفان ضروری ہے.جتنا زیادہ آپ کو خطرے کی پہچان ہوگی اور اس کی ہلاکت خیزی سے آپ واقف ہوں گے کہ اس اس طرح یہ نقصان پہنچاسکتی ہے یہ چیز اتناہی زیادہ آپ کے اندر دعا کا میلان پیدا ہوگا اور آپ کی دعا میں اٹھنے کی طاقت آئے گی ورنہ ہر انسان عمومی طور پر تو موٹے موٹے اپنے گناہوں سے واقف ہی ہوا کرتا ہے.اپنی بدیوں سے بالعموم ظاہری شکل میں تو انسان واقف ہی ہوا کرتا ہے لیکن واقف ہونے کے باوجود ہیجان نہیں پیدا ہوتا اور دعا کے ساتھ مضطر ہونا ضروری ہے کیونکہ مضطر کے متعلق خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں مضطر کی دعا ضرور قبول کرتا ہوں.تو اس کا بھی پھر گویا کہ عرفان سے تعلق ہوا.جتنا زیادہ آپ اپنے گناہ کی ہلاک کرنے کی طاقتوں سے واقف ہوں گے اتنا زیادہ آپ کے اندر بے چینی پیدا ہوگی.ایک انسان کو نزلہ بھی ہوتا ہے اتنا بے چین نہیں ہوا کرتا اس سے لیکن کینسر بھی ہوتا ہے اس سے کتنا بے چین ہو جاتا ہے؟ خواہ نزلہ زیادہ تکلیف دہ ہو اور کینسر سے بظاہر کوئی تکلیف نہ ہو رہی ہو لیکن چونکہ علم ہے کہ کینسر کس طرح ہلاک کیا کرتا ہے اور چونکہ علم ہے کہ نزلہ تکلیف دینے کے بعد پھر اس میں آپ ہی آپ رخصت ہو جائے گا اور ہمیں چھوڑ جائے گا.اس لئے ایک نے ہیجان پیدا کر دیا اور ایک نے ہیجان پیدا نہیں کیا.تو بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کے متعلق انسان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کتنا مہلک گناہ ہے.

Page 859

خطبات طاہر جلد ۶ 854 خطبه جمعه ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء جھوٹ ان میں سے ایک ہے.تمام گناہوں سے بڑھ کر مہلک ہے.اس سے زیادہ خوفناک اور ذلیل ورسوا کرنے والا کوئی گناہ نہیں ہے.شرک کا دوسرا نام جھوٹ ہے.تمام بدیوں ، تمام گناہوں کی ماں ہے اور سب سے کم اس کی ہلاکت خیزی کا احساس انسان کو ہے.تو حق کی پناہ میں کیسے آئیں گے اگر جھوٹ کا خوف دل میں پیدا نہ ہوا اور سچائی کے لئے دعا مانگتے ہوئے آپ کے دل میں کیسے ہیجان پیدا ہوگا، کیسے آہ و بکا کی طرف طبیعت مائل ہوگی، کیسے دل مضطر بنے گا اگر آپ کو پتا ہی نہیں کہ جھوٹ کیا کیا کچھ کر سکتا ہے اور کیا کچھ کرتا ہے انسانوں کے ساتھ.تو پھر دوسرا پہلو ہے دعا کا اس کے لئے بھی گناہوں کی ہلاکت کی پہچان، اس پر غور کرنا ضروری ہے.گردو پیش پر نگاہ کریں، قوموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، نیکی اور بدی کی جنگ جو ہمیشہ سے ہوتی چلی آرہی ہے اس کا تجزیہ کریں اور جھوٹ بولتے وقت دل سے جو آواز اٹھی ہے اس کو غور سے دیکھیں آپ کو ہمیشہ معلوم ہوگا کہ جھوٹ بولتے وقت دو آوازیں تھیں.بعض دفعہ انسان آہستہ آہستہ دوسری آواز سننے سے محروم ہو جایا کرتا ہے لیکن میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ احمدیوں میں سے بھاری اکثریت اس مقام تک نہیں پہنچی ہو گی.لیکن جھوٹ بولنے کے وقت ہمیشہ دو آوازیں اٹھتی ہیں.ایک آواز تو حید کی ہوتی ہے اور ایک شرک کی ہوتی ہے.توحید کی آواز یہ بتاتی ہے کہ اگر تم نے جھوٹ نہ بولا تو یہ خطرہ موجود ہے ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں لیکن یہ خطرہ تم نے کمایا ہے.تمہاری کسی برائی کی وجہ سے کسی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.اس لئے اگر تم اس خطرے سے بچنا چاہتے ہو تو اب ایک ہی رستہ ہے خدا کی خاطر سچ بولو اور حق کی پناہ میں آجاؤ اور آئندہ پھر اس خطرے سے احتیاط کرو.ایک یہ آواز ہے جو اس تفصیل سے بہت سے دلوں میں نہیں اٹھتی ہوگی لیکن ہر دل میں اس رنگ میں اس کا ایک نقش ضرور جمتا ہے.اگر انسان غور کرے اور اپنے دل کا تجزیہ کرے تو اس آواز کے اندر جو جو باتیں میں نے بیان کی ہیں ان سب باتوں کو سمجھ سکتا ہے.دوسری آواز یہ اٹھتی ہے کہ جو کچھ ہونا ہے ہو چکا ہے اب تم نہیں بچ سکو گے جب تک جھوٹ نہیں بولے گے حق تمہیں نہیں بچا سکتا، توحید تمہیں نہیں بچا سکتی ، خدا کی باتیں پڑھنے کے لئے ، سننے کے لئے ٹھیک ہیں لیکن آج واقعہ اگر تم خدا کی آواز پر لبیک کہو گے اور خدا کی خاطر اقرار کر لو گے سچائی کا تو تم مارے گئے اور تم ہلاک ہو گئے.تو سیح کے مقابل پر جھوٹ بالکل اسی طرح ہے جس طرح تو حید کے مقابل پر شرک ہے اور اس

Page 860

خطبات طاہر جلد ۶ 855 خطبه جمعه ۶ اردسمبر ۱۹۸۸ء کے سوا درمیانی کوئی رستہ نہیں ہے.اس تفصیل سے جب آپ اپنے جھوٹ بولنے کے پس منظر پر غور کریں تو آپ کا دل کانپ اٹھے گا کہ ہر جھوٹ پر آپ خدا کے مقابل پر ایک فرضی بت کی پناہ میں آتے ہیں، ہر جھوٹ کے وقت آپ خدائے واحد کے مقابل پر شیطان کی پناہ میں آتے ہیں اور کوئی خوف نہیں کرتے اور کوئی شرم نہیں کرتے اپنے خدا سے اعوذ بــالــلــه مــن الشـيـطـن الرجيم كى تلاوت کرتے ہیں ہمیشہ.میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان رجیم سے اور دن میں سوسو بار شیطان کی پناہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ سے کہ اے شیطان ! ہمیں بچا کیونکہ خدا ہمیں بچانے میں ناکام ہو چکا ہے.ہم خدا کی پناہ میں محفوظ محسوس نہیں کرتے اپنے آپ کو.یہ ہے بیچ اور یہ ہے جھوٹ.ان دونوں کے درمیان آپ فرق نہیں کر سکتے.تو جب تک آپ بیماریوں کو پہچانیں گے نہیں آپ کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ یہ کتنا گہرا کینسر ہے، کیسا ناسور ہے جو آپ کے سینے کے اندر اور زیادہ گہرا اور زیادہ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ آپ کے سارے وجود کے آر پار ہو جائے گا.اس وقت تک نہ آپ کو حق کی طرف بھاگنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی ، نہ حق خدا سے دعا کرنے کے لئے دل میں بیقراری محسوس کریں گے.تو دعا کا دوسرا مضمون ہے فَفِرُّوا اِلَی اللہ کا.خدا تعالیٰ کی طرف بھا گو، اس سے دعا مانگو اور اس کو پکارو بھی.چنانچہ خطرہ کسی قسم کا بھی ہو اگر کوئی بچانے والا وہاں موجود ہو تو انسان خاموش حرکت نہیں کیا کرتا پھر.اس کی حرکت میں واویلا پیدا ہو جاتا ہے.اگر اس کے پاس اس کے ساتھی کھڑے ہیں ، قریب ہی کہیں موجود ہیں جن کے پاس بندوقیں بھی ہیں ، جن کے پاس اور ہتھیار موجود ہیں.تو جانور خواہ آسمان سے حملہ کر رہا ہو، خواہ زمین سے ، خواہ پانی سے نکل کر اس پر حملہ آور ہو.وہ دوڑے گا ضرور اس سے اس جگہ کی طرف جس کو امن کا مقام سمجھتا ہے لیکن ساتھ آوازیں بھی دے گا اور پکارے گا بھی کہ اے میرے ساتھیو! اے میرے دوستو! مجھے بچاؤ.بعض دفعہ تو بچہ چونکہ فطرت کے قریب ہے اور سچائی کے قریب تر ہے اس کے اندر بے ساختہ یہ دونوں باتیں پیدا ہوتی ہیں.یہاں تک کہ اس کی ماں اس آواز کو نہ بھی سن رہی ہو ، کوسوں دور بھی ہو تو اس کے ذہن میں سب سے زیادہ خیال اس وجود کا آتا ہے جو ہر قیمت پر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بھی اس کو بچا سکے گی.تو اس کے جو دل سے ماں ماں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور وہ چیخیں مارتا ہے کہ اے میری ماں!

Page 861

خطبات طاہر جلد ۶ 856 خطبه جمعه ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء دشمنوں نے اس کو اغوا کیا ہوا ہے، اس کو اٹھا کے ایسی جگہ لے گئے ہیں جہاں سے وہ ہزار چینے تب بھی کوئی اس کی آواز نہیں سن سکتا لیکن وہ ہاتھ پاؤں بھی مارے گا اور ماں ماں کہہ کے پکارے گا یہ ہے مضطر کی دعا جو انسان کو گناہوں سے بچا سکتی ہے اور گناہوں سے انسان خدا کی پناہ میں آسکتا ہے لیکن اگر خطرے کا احساس ہو.ایک سوئے ہوئے بچے کے ساتھ آپ جو چاہیں کر دیں وہ تو نہ ہاتھ پاؤ ں مارے گا، نہ کسی کو پکارے گا.تو بہت سے نفس ایسے ہیں جو سوتی ہوئی حالتوں میں ہلاک کر دئے جاتے ہیں اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہی ہے.اس لئے غفلت سے شعور کی حالت میں داخل ہونا سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے.اس لئے میں ہر احمدی بڑے اور چھوٹے کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ فی الحال دوسروں پر تنقید کو چھوڑ کر اپنے نفس پر تنقید شروع کریں.اکثر خط جو مجھے آتے ہیں تنقید سے تعلق رکھنے والے وہ دوسروں پر تنقید ہوتی ہے کہ یہ دیکھو یہ ہو گیا، وہ ہو گیا، وہ ہو گیا.پتا ہی کوئی نہیں کہ اپنے اندر کیا کھلبلی مچی ہوئی ہے، کیا قیامت ٹوٹی پڑی ہے اور جو سوسائٹی ایسے افراد پر مشتمل ہو کہ ہر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہا ہے ان میں سے ہر ایک اپنے نفس سے غافل ہو چکا ہوتا ہے.ایک دیکھنا اور ہے وہ دیکھنا ہے اپنے نفس کو دیکھ کر اس کے آئینے سے سوسائٹی کا مطالعہ کرنا اور اس کو متنبہ کرنا اور اس کے لئے فکرمند ہونا.اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ جو اپنے نفس کے آئینے سے دوسرے کو دیکھتا ہے چونکہ وہ اپنے نفس کی حالت زار کے نتیجے میں دعا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور صرف تنقید کی حد تک ظالم ہے واقعہ ظالم نہیں ہوا کرتا.بالکل اسی طرح یہ آئینہ اسے سوسائٹی دکھاتا ہے وہ سوسائٹی کو سچائی کی آنکھ سے دیکھتا ضرور ہے، اس کی کمزوریوں سے واقف ہوتا ہے، ان کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسی طرح جس طرح اپنے نفس کی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے.لوگوں کے سامنے اچھال کر نہیں بلکہ گہرے درد کے ساتھ اپنے خدا کے حضور رکھ کر گریہ وزاری کے ذریعے، اپنے نفس کو ملامت کے ذریعے ، اپنے نفس کو نصیحت کے ذریعے نہ کہ اس لئے کہ وہ نفس دنیا میں بدنام ہو.تبھی آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ گر بتایا کہ مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے.(ابو داؤد کتاب الادب حدیث نمبر: ۴۲۷۲) یہاں وہ ناقد مراد ہے جو اپنے نفس کے آئینے میں کسی اپنے بھائی کی برائیاں اس طرح دیکھتا ہے کہ خود صاحب تجر بہ ہو جاتا ہے.وہ دیکھتا ہے کہ کیا کیا میرے نفس پر گزرتی رہی ، کیا گزر رہی ہے، اسی قسم

Page 862

خطبات طاہر جلد ۶ 857 خطبہ جمعہ ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۸ء کے حالات میرے بھائیوں پر بھی گزر رہے ہیں میں ان کی مدد کروں جس طرح میں نے اپنے نفس کے تجارب سے سیکھا ہے.یہ تنقید ملک نہیں ہے بلکہ نہایت ہی ضروری ایک تعمیری تنقید ہے لیکن اس کے بعض قوانین ہیں ان کے تابع چلنا ہوتا ہے لیکن بالعموم سوسائٹی میں جو تنقید ہے وہ میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے اپنے نفس سے غافل کر دیتی ہے انسان کو.پس وہ سوسائٹی جس کا ہر شخص ، جس کا ہر فرد اپنے نفس سے غافل ہو چکا ہے اس کا نگران، اس کا محافظ کوئی بھی نہیں رہا کرتا.پس اپنے نفسوں کی طرف متوجہ کریں اور اپنے نفس میں ڈوب کر جو تربیت کے گر سیکھیں ان کو اپنے بھائیوں کے لئے استعمال کریں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے رہیں اور شیطان رجیم سے دور بھاگنے کی عارفانہ کوشش کریں نہ کہ محض زبان سے اعوذ بالله من الشيطن الرجیم کا ورد کریں اور اعمال کے رو سے خدا سے دوڑ کر شیطان کی پنا ہیں ڈھونڈ رہے ہوں.اللہ ہمیں اس ہلاکت سے بچائے.آمین.

Page 863

Page 864

خطبات طاہر جلدے 859 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء قناعت کی تشریح نیز مباہلہ میں مشارکت زمانی کی دعوت تسلیم ہے (خطبه جمعه فرموده ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.میں نے گزشتہ خطبہ میں قناعت کا مضمون ایک حد تک بیان کیا تھا اسی سلسلہ میں آج چند اور باتیں احباب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جہاں تک میں نے غور کیا ہے قناعت کا توحید سے بہت گہرا تعلق ہے اور جتنا اس مضمون پر میں غور کرتا گیا ہوں میں نے اس میں اور بھی زیادہ گہرائی پائی.قناعت بظاہر تو محض اس رجحان کا نام ہے کہ جو کچھ ہے انسان اسی پر راضی ہو جائے لیکن درحقیقت یہ مضمون یہیں ختم نہیں ہوتا.جس کو خدا پر کامل ایمان نہیں اور جو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگی گزارنا نہیں جانتا اسے قناعت نصیب ہو ہی نہیں سکتی.وہ قناعت جو خدا کے تعلق کے بغیر ہو اس کا نام موت ہے.اس لئے بعض لوگ جو قناعت کے مضمون کو نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ تم ہر قسم کی ترقی کی کوشش چھوڑ دو جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کو تقدیر الہی سمجھ کر اس پر راضی ہو جاؤ اور ہر گز آگے بڑھ کر مزید حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو.ہرگز قناعت کا یہ مضمون نہیں.جو قناعت ہمیں اسلام سکھاتا ہے اس کا اللہ تعالیٰ کی محبت سے تعلق ہے اور دوستی کا مضمون اس میں داخل ہے.اسلام میں قناعت کا تصور یہ ہے کہ جس طرح ایک دوست اپنی خوشی سے اپنے محبت کرنے والے کو کچھ عطا کرتا ہے اور پھر ہاتھ روک لیتا ہے تو وہ شخص جو اس سے سچی محبت کرتا ہے وہ اس کی دینے والے ہاتھ کو تو محبت سے دیکھ رہا ہوتا ہے، روکنے

Page 865

خطبات طاہر جلدے 860 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء والے ہاتھ کو نفرت سے نہیں دیکھتا اور جتنا اس نے اس کو دیا اس پر بہت راضی ہو جاتا ہے اور جو بھی اس کو دیا اس پر راضی ہو جاتا ہے.قناعت کا مضمون دراصل ایاز اور محمود کے ایک واقعہ کے تعلق سے زیادہ عمدگی سے سمجھایا جاسکتا ہے.ایک دفعہ بیان کیا جاتا ہے کہ محمود نے ایاز کو آزمانے کی خاطر یا یوں کہنا چاہئے کہ ان کے اپنے محل کے دیگر وزراء کو سمجھانے کی خاطر کہ میں ایاز سے کیوں خاص طور پر پیار کرتا ہوں.ایک دفعہ محل میں بیٹھ کر ایک ایسا خربوزہ جس کے متعلق اس کو علم تھا کہ انتہائی کڑوا ہے اس کی ایک قاش کاٹی اور ایاز کو دی.ایاز نے وہ قاش کھانی شروع کی اور بہت ہی لطف اٹھایا اور بار بار حمد کرتا رہا اور شکر کرتا رہا، بڑے مزے لے لے کر اس نے وہ قاش کھائی.اس کے بعد دوسرے نمبر پر دوسرے وزراء کے لئے بھی بادشاہ نے قاشیں کاٹنی شروع کیں اور دینی شروع کیں.یوں کہنا چاہئے کہ ابھی پہلے وزیر کو ایک ہی قاش دی تھی اور اس نے ایک ہی لقمہ لیا تو وہ باہر کی طرف دوڑا تھوکنے کے لئے اور واپس آکر اس نے کہا بادشاہ سلامت اتنا کڑ واخر بوزہ ، ایسا گندہ ، ایسا بدمزہ میں نے زندگی بھر کبھی نہیں کھایا اور مجھے تعجب ہے کہ ایاز کو کیا ہو گیا ہے اس کو کوئی ذوق نہیں ہے، اس کو پتا ہی نہیں کہ شیرینی اور کڑواہٹ میں کیا فرق ہے.محمود نے کہا نہیں تمہیں کچھ علم نہیں کہ وفا اور محبت اور دنیا داری کے تعلق میں کیا فرق ہے.کہانی کے مطابق محمود نے ایاز سے پوچھا دوسروں کو سمجھانے کی خاطر کیوں ایاز یہ کیا بات ہے؟ یہ تو بتاؤ یہ اتنا کر واخر بوزہ تم اتنے مزے لے لے کے کیوں کھا رہے تھے.تو اس کا ایاز نے یہ جواب دیا کہ بادشاہ سلامت! میں ہمیشہ آپ کے ہاتھ سے میٹھی قاشیں کھاتا رہا، مجھے اس قاشیں عطا کرنے والے ہاتھ سے پیار ہے، مجھے آپ سے محبت ہے، اس ایک ہاتھ نے مجھے آج اگر ایک کڑوی قاش بھی دے دی تو میں بڑا ہی بے وفا اور مردود انسان ہوتا اگر اس کڑوی قاش پر اپنی طرف سے منافرت کا اظہار کرتا.اس پر پھر بادشاہ نے مڑ کر دوسرے وزراء کو دیکھا اور بتایا کہ کیوں مجھے ایاز سے زیادہ پیار ہے اور کیوں تم سے کم ہے؟ تو دراصل قناعت کا مضمون اسلام میں خدا تعالیٰ کی محبت سے گہرا تعلق رکھتا ہے.وہ مومن جو خدا کو رازق سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا نے تقدیریں بنائی ہیں اور خدا نے جو کچھ دیا اس کو ہم زور بازو سے پھیلا کر بڑا نہیں کر سکتے اگر وہ اور نہ دینا چاہئے.اس مضمون کو اگر انسان سمجھ لے تو خدا نے جتنا بھی دیا ہے اس پر کسی حالت میں بھی ناراض نہیں ہو سکتا اور پھر اس پر راضی رہنے کا مضمون یہ نہیں ہے کہ مزید

Page 866

خطبات طاہر جلدے 861 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء کی کوشش نہ کرے بلکہ راضی رہنے کا مضمون یہ ہے کہ خدا نے دیئے ہوئے کو وسیع کرنے کے لئے جو خود راستے تجویز کر دیئے ہیں انہی رضا کے رستوں پر چل کر اپنے رزق کو بڑھانے کی کوشش کرے کیونکہ وہ رضا سے اللہ کی رضا کے خلاف کسی جگہ قدم نہیں مارے گا بلکہ خدا نے رزق بڑھانے کے لئے خود متعدد رستے تجویز فرمادے ہیں اور رزق کی وسعت کے لئے ایک عظیم الشان نظام مقررفرما دیا ہے.تو خدا کی رضا سے خدا کی رضا کی راہوں پر قدم مارنے کو قناعت کے خلاف نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ قناعت کا حقیقی مضمون اس میں داخل ہے.جو چیز رضا سے حاصل ہو گی وہ ہم ضرور حاصل کریں گے اور تھوڑی رضا کو زیادہ رضا میں تبدیل کریں گے.اس لئے مومن کی جدو جہد کا رستہ کبھی بھی رک نہیں سکتا ، لامتناہی رستہ ہے، ایک نہیں بلکہ متعد درستے ہیں.ہر طرف خدا کی رضا کو بڑھانے کی خاطر ، خدا کی رضا کی راہیں اس کے لئے بازو کھولے کھڑی ہیں.ہاں جس وقت اس نے رضا کی راہوں سے باہر قدم رکھ کر اپنے رزق کو بڑھانے کی کوشش کی وہیں وہ قناعت کی چار دیواری سے باہر نکل جاتا ہے اور اس کی پھر کوئی حفاظت نہیں ہوتی.تو توحید کا قناعت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے یعنی اسلام جو قناعت کا تصور پیش کرتا ہے اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور قناعت مسلمانوں کو اور مومنوں کو بے بس نہیں کر دیتی بلکہ ان کے لئے مزید وسعت کے سامان فرماتی ہے.ایک دفعہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کے دیکھو اغنی وہ نہیں ہوا کرتا جس کے پاس بیشمار دولت ہوں بلکہ غنی وہ ہے جس کا دل غنی ہو جس کو الغنی غنی النفس عطا ہوئی ہو.( ترندی کتاب الزھد ،حدیث نمبر : ۲۲۹) اس میں دو مضمون خاص طور پر قابل توجہ ہیں.ایک یہ کہ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی بیان کیا تھا اگر اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چل کر اس کو ہر قیمت پر پورا کرنے کے لئے آپ اپنی وسعتیں بڑھانے کی کوشش کریں تو ناممکن ہے کہ آپ اپنے نفس کو کسی مقام پر بھی مطمئن کر سکیں.آنحضرت ﷺ نے ایک اور موقع پر فرمایا کہ انسان کا تو یہ حال ہے کہ اس کی خواہشات ہمیشہ اس سے آگے آگے بھاگتی ہیں اور اس کی زندگی اپنی خواہشات سے بہت ہی چھوٹی ہے.پھر ایک اور مضمون ہے جو قرآن کریم میں بھی بیان ہوا کہ جہنم هَلْ مِنْ مَّرِيدِ (ق: ۳۱) کہتی ہے.تی ہے.جتنا بھی اس کا پیٹ بھرو وہ مزید کا مطالبہ کرتی چلی جاتی ہے اور ھویٰ کا جہنم سے گہرا تعلق ہے.اس سلسلہ میں میں مزید آگے جا کر روشنی ڈالوں گا.تو ھوئی کی پیروی اس جہنم تک تو پہنچاسکتی ہے جس کا پیٹ کبھی بھر نہیں سکتا.تو وہ شخص

Page 867

خطبات طاہر جلدے 862 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء کیسے امیر ہو گیا جس کی ضروریات یعنی بڑھتی ہوئی ضروریات ،نفس کی طلبیں اس کی توفیق سے ہمیشہ آگے ہوں.امیر تو وہ ہوا کرتا ہے جس کی ضرورتیں پوری ہوگئیں.جس غریب کی ضرورتیں ہی پوری نہیں ہو سکتی ان کی ضرورتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں وہ امیر کیسے کہلا سکتا ہے اور اسے آپ غریب کیسے کہہ سکتے ہیں جس کی ہر خواہش اپنی توفیق کے مطابق کائی جاتی ہے اور کاٹی اس طرح نہیں جاتی کہ وہ صبر کے ذریعے بلکہ رضائے باری تعالیٰ کے ذریعے مطمئن ہو کر وہ خواہش چھوٹی کر دی جاتی ہے اور اس خواہش کے چھوٹے ہونے میں وہ لطف محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ محبت کے مضمون سے تعلق رکھتی ہے.وہ خواہش جو کم ہوئی ہے خدا کی رضا اور اس کے پیار کی خاطر کم ہوئی ہے.اس لئے ایک قانع کے لئے ہمیشہ جنت ہی جنت ہے.دوسرا پہلو جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں سمجھایا وہ یہ ہے کہ غنی کا معنی صرف قانع نہیں ہے بلکہ اصل معنی اس کا یہ ہے کہ بہت بڑا مالدار.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم فقراء ہو خدا کے حضور خداغی ہے.خدا کے لئے جب غنی کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو قانع کے معنوں میں ہرگز نہیں بلکہ اپنے وسیع تر معانی میں کہ جس کے پاس سب کچھ ہے اور قانعیت سے اس کا صرف اتنا تعلق ہے کے قانع کی بھی ہر بات پوری ہو جاتی ہے اور غنی کی بھی ہر بات پوری ہو جاتی ہے.تو اس میں آنحضرت ﷺ نے ہمیں خوشخبری بھی عطا فرمائی ہے کہ اگر تم حقیقی غنی بنا چاہتے ہو تو پہلے قانع کی حیثیت سے غنی بنو اگر تم قانع کی حیثیت سے غنی بنو گے تو پھر خدا تعالیٰ تمہیں دوسری غنی بھی عطا فرمائے گا اور مستقل انہی قوموں کا ہوا کرتا ہے جو پہلے بحیثیت قانع غنی بن جایا کرتے ہیں.وہی دنیا کی دولتوں پر بھی قابض اور مالک ہو جایا کرتے ہیں.وہ لوگ جن کو قناعت کی غنی نصیب نہیں وہ اپنے آباؤ اجداد کی دولتیں بھی ہاتھوں سے ضائع کر دیا کرتے ہیں.اس لئے حقیقت میں اپنے رزق کو بڑھانا اور اپنی دولتوں کو وسیع تر کرنا اس مضمون سے گہرا تعلق رکھتا ہے.ویسے تو دنیا والے بھی دولتوں میں جو اپنی ساری زندگی دولتوں کی کمائی کی خاطر گنوا دیتے ہیں ضرور کچھ نہ کچھ حاصل کرتے ہیں بحیثیت مجموعی بہت بڑی بڑی امیر قو میں دنیا کی حرص کی پیروی میں انسانی زندگی کے پردے پر ابھرتی رہتی ہیں لیکن یہاں جو وعدہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کے دولت تمہیں عطا کر دی جائے گی خواہ اس دولت کے نتیجے میں تمہیں کچھ صلى الله بھی ہو جائے.دنیا کی قوموں کی دولت اور اس دولت میں جس کا آنحضرت یہ وعدہ دے رہے ہیں

Page 868

خطبات طاہر جلدے 863 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء ایک بہت بڑا فرق ہے.دنیا کی کمائی ہوئی دولت یعنی دنیا کی خاطر دولت کو کمانا یا ہوائے نفس کی خاطر دولت کو کما نا ممکن ہے.اس کے نتیجے میں دولت میں بھی بہت اضافہ ہوسکتا ہے اور رزق میں وسعت ہو سکتی ہے لیکن ایسی دولت کبھی بھی انسان کو غنی نہیں بنا سکتی.آپ امیر ملکوں پر نظر ڈال کر دیکھ لیں امریکہ کے حالات دیکھیں ، یورپ کے ممالک کے حالات دیکھیں آپ کو دولتیں تو وہاں دکھائی دیں گی لیکن غنی کی جو سچی تعریف ہے کہ جو کچھ تم چاہتے ہو تمہیں میسر ہو گیا ہے؟ اس کا جواب دنیا کے ہر امیر ملک میں نہیں کے طور پر آئے گا.ان کی دولتوں کے اضافے کے ساتھ ان کی تمنائیں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہیں، ان کی خواہشات کے اوپر کوئی پابندی اور کوئی روک نہیں ہے کہ ہمیشہ وہ اپنے آپ کو ایک طلب کی حالت میں پاتے ہیں.اسی لئے وہ جب غریب ممالک فاقے کر رہے ہوتے ہیں تو ان میں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ان کے فاقوں کو دور کر سکیں کیونکہ عادتیں ایسی گندی ہو چکی ہیں ، زندگی کا معیار ایسا مصنوعی بن چکا ہے کہ اس کو کم کر کے کسی غریب کی حاجت پوری کرنے کی وہ اہلیت نہیں رکھتے.تھوڑا بہت زائد صدقے کے طور پر دے دیتے ہیں ، دکھاوے کے طور پر دے دیتے ہیں لیکن قانع حقیقت میں دوسرے کی مدد کر سکتا ہے.غیر قانع کو بچے رنگ میں دوسرے کی مدد کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی.پس وہ غمنی کیسا ہوا جو کسی ضرورت مند کسی محتاج کی صحیح معنوں میں مدد کرنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتا.اپنے نفس کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، اس کی خواہشات ہمیشہ اس سے آگے آگے جارہی ہیں.یہاں آپ انگلستان کے کسی بھی طبقے کا جائزہ لیں ان کی جتنی تنخواہیں بڑھتی ہیں اتنا ہی ان کے مطالبے بھی ساتھ بڑھ جاتے ہیں اور یہ ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں پھر یہ اقتصادی نظام بالآخر لاز مانتباہ ہو جایا کرتے ہیں.ایسے وقت آتے ہیں کہ قومیں اپنی مستقبل کی آمدنی خرچ کر چکی ہوتی ہیں، اپنی اولادوں کے مستقبل گروی رکھوا چکی ہوتی ہیں اور بالآخر ان نظاموں نے بہر حال بحران کا شکار ہونا ہے.تو آپ کو بظاہر جو غنی نظر آرہی ہے فی الحقیقت غنی نہیں ہے.آنحضرت ﷺ کی عارفانہ تعریف کی رو سے یہ غنی نہیں ہے.غنی وہی ہے جو قناعت کے ساتھ ہاتھ ملا کر اور قدم ملا کر آگے بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں پھر کچی غنی نصیب ہوتی ہے اور دنیا کی دولتیں جن کو آپ دنیا کی دولتیں سمجھتے ہیں وہ بھی درحقیقت قانع غنی کو بالآخر نصیب ہوا کرتی ہیں اور ان کی اولادیں اور پھر ان کی اولادیں.جب تک وہ قناعت کی حدود میں رہتے ہوئے خدا کی رضا کی مزید زمینوں اور مزید رستوں کی تلاش کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ الله

Page 869

خطبات طاہر جلدے 864 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء سے فضل کے ساتھ ان کے رزق ، ان کی غنی میں ہمیشہ وسعت ہوتی چلی جاتی ہے.اس کے برعکس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس مضمون کا اگر تو حید سے تعلق ہے تو اس کے برعکس پھر شرک نظر آنا چاہئے.چنانچہ قرآن کریم نے بالکل یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی خواہشوں کو محدود نہیں کر سکتے اور اپنی خواہشوں کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیتے ہیں ان کا انجام لازماً شرک پر ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرمایا ہے: اَرعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوْهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيْلًا (الفرقان : ۴۴) کہ اے محمد ﷺ ! أَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَومَهُ کیا تم نے دیکھا نہیں ایسے شخص کو جو اپنے نفس کی خواہش کو اپنا معبود بنا لیتا أَفَأَنْتَ تَكُونَ عَلَيْهِ وَكِيلًا تو نگرانی کی اعلیٰ صفات سے مرصع ہے تجھے ہم نے بہترین ہے.وکیل بنایا ہے لیکن ایسے شخص کا تو بھی وکیل نہیں بن سکتا کیونکہ ایسا شخص اگر تیرے سپر د کر دیا جائے جس کے اوپر کوئی بھی ضابطے کی پابندی نہیں جس نے اپنے ھوئی کی پیروی بہر حال کرنی ہے.اس کی تو کیسے ضمانت دے سکتا ہے.پس دنیا میں بھی آپ کبھی کسی ایسے شخص کی ضمانت نہ دیں جو قانع نہیں ہے کیونکہ جو قانع نہیں ہے اس کے اوپر کوئی حد قائم نہیں کی جاسکتی وہ اپنی ھوئی کی پیروی کرے گا اور آپ کی ساری تو قعات کو توڑ دے گا کسی موقع پر آکے کیونکہ ھوئی کو اس نے اپنا معبود بنا لیا ہے.آغاز میں تو ایسا نہیں ہوا کرتا لیکن بالآخر ایسا ہو جایا کرتا ہے کیونکہ یہ رستہ شرک کا ہے اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ ہر وہ شخص جو قانع نہیں ہے وہ لازما مشترک ہے، میں یہی کہتا ہوں کہ اس نے شرک کا خطرہ مول لے لیا ہے اور اگر وہ اپنی ھوئی کی پیروی میں بالآخر جائز رستوں کو چھوڑ کرنا جائز رستوں پر قدم مارنے لگے گا تو اس کا ہر قدم اس کو شرک کی طرف لے کر آگے بڑھے گا اور بالآخر اس کا انجام اتنا خطر ناک بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو انتہائی جہالت اور انتہائی ظلم کی حالت ہے وہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ پھر آخر اس حالت کو پہنچ جائیں گے.چنانچہ فرماتا ہے: أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوية ایک اور آیت میں کہ کیا تم نے دیکھا ہے، کیا تو سمجھتا ہے ان لوگوں کو مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَو به ایسا شخص جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیا ہے أَضَلَّهُ اللهُ عَلَی عِلْمٍ خدا تعالیٰ نے اس کو گمراہ کرنے کا فیصلہ کر لیا عَلیٰ عِلْمٍ یوں نہیں کہ جو چاہا، ویسے تو خدا تعالیٰ ہر فیصلے پر قادر ہے لیکن یہ علم رکھتے ہوئے کہ اس کا انجام لازما برا ہونا ہے

Page 870

خطبات طاہر جلدے 865 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء خدا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کو میں گمراہوں میں شمار کروں.خَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ اور اس کی قوت سماعت پر اور اس کے دل پر مہر لگا دی ہے.وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشْوَةً “ اور اس کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے ان پر پردہ ڈال دیا ہے فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ پھر کون اور ہے جو خدا کے اس فیصلے کے بعد اس کو ہدایت دے سکے.جس کو خدا نے گمراہ قرار دے دیا پھر اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہے دنیا میں اَفَلَا تَذَكَّرُونَ (الجائیه ۲۴) کیا تم نصیحت نہیں پکڑو گے.کیوں تم نہیں دیکھتے کیوں نہیں سمجھتے ان باتوں کو.پس قناعت کا فقدان آپ کو لازماً شرک کی طرف لے کے جائے گا اور ہمیشہ غربت کی طرف لے کر جائے گا.اس لئے یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ سے دوڑ کر کسی اور طرف آپ کے لئے نجات ممکن ہے یہ خیال بالکل باطل اور بے حقیقت اور بے معنی خیال ہے.یہ مضمون میں چونکہ فَفِرُّوا إِلَى اللهِ (الذاریات:۵۱) کی آیت کے تابع بیان کر رہا ہوں اس لئے اب آخر پر اس کے ساتھ آپ کو جوڑ کے دکھاتا ہوں.فَفِرُّوا إِلَى الله کا یہ مضمون ہمیں سمجھ آیا کہ دراصل خدا کے سوا کسی طرف دوڑا جاہی نہیں سکتا.اللہ ہی کی طرف ہے دوڑ اور کوئی دوڑ نہیں ہے اور خدا کے سوا جہاں تم پناہ گاہ سمجھتے ہوئے اس طرف دوڑو گے وہ تمہیں کہیں پناہ نہیں دے سکے گی.شیطان کے سارے وعدے جھوٹے ہیں.جتنی تمہاری تمناؤں کو انگیخت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں میری طرف آؤ میں تمہیں پوری کر کے دکھاؤں گا.وہ سمندر کے پانی کی طرح کچھ پانی تو دے سکتا ہے جو پیاس بجھانے کے لئے مزید آگ لگا دے اور معدے کے ساتھ سینہ بھی بھڑک اٹھے لیکن وہ نہ معدے کو مطمئن کر سکتا ہے نہ سینے کو تسکین بخش سکتا ہے.اس لئے فَفِرُّوا اِلَى اللهِ کا مضمون یہ ہے کہ خدا کی طرف دوڑ و کیونکہ اس کے سوا دوڑنے کی راہ ہی کوئی نہیں ہے اور اگر تم خدا کے سوا کسی طرف دوڑنے کی کوشش کرو گے تو دوسری آیت ہمیں بتاتی ہے فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ ( البقره :۱۱۲) تم ہرگز نہیں دوڑ سکو گے جدھر بھی دوڑو گے خدا کی تقدیر تمہارے رستے روکے ہوئے کھڑی ہوگی اور تمہیں کہے گی ہم تمہیں خدا سے نہیں دوڑنے دیں گے.کسی قیمت پر تم اپنے آپ کو خدا کی تقدیر سے پھر بچا نہیں سکو گے.فَثَمَّ وَجْهُ الله کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم اگر محبت سے خدا کی طرف دوڑو گے تو جدھر منہ اٹھاؤ گے، جدھر دیکھو گے وہاں تمہیں خدا ہی خدا دکھائی دے گا، تمہاری شش جہات میں خدا آجائے گا، ہر طرف تم خدا کو پاؤ گے، ہر رستہ جو اختیار کرو گے وہ خدا کی طرف لے کر جائے گا اور

Page 871

خطبات طاہر جلدے 866 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر خدا سے بھاگنے کی کوشش کرو گے تو خبر دار! خدا سے بھاگ نہیں سکو گے.خدا کی تقدیر تمہیں ہر جگہ کھڑی دکھائی دے گی اور تمہارے رستے روک دے گی تمہیں کسی قیمت پر کوئی سمت ایسی نظر نہیں آئے گی جہاں خدا کے سوا بھاگ کر کہیں جاسکتے ہو.وہی فقیر والی بات پھر بھی یاد آجاتی ہے بڑی دلچسپ بات تھی کہ جس فقیر نے ایک دفعہ یہ بڑا مستانہ نعرہ بلند کیا کہ ہم نے خدا کو کہہ دیا ہے.پوچھنے والے نے پوچھا کے کیا کہ دیا ہے تم نے خدا کو.اس نے کہا کہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ تیری دنیا ہمیں پسند نہیں آئی.دو تین دن کے بعد اسی فقیر کو دیکھا کسی نے کہ سر جھکائے ، مضحل، چہرہ افسردہ.اس نے کہا آج تمہیں کیا ہوا ہے کل پرسوں تک تو تم بڑی ڈینگیں مارر ہے تھے کہ ہم نے کہہ دیا تھا خدا کو.اس نے کہا خدا کا جواب آگیا ہے، کہ کیا جواب آیا ہے؟ جواب یہ آیا ہے کہ پھر جس کی دنیا پسند آئی ہے اس کی دنیا میں چلے جاؤ.کیسا عجیب جواب ہے، کیسا عارفانہ کلام ہے.خدا کے سواد نیا ہی کسی کی نہیں ہے اَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللہ کی تفسیر ہے جو اس کو عطا فرمائی گئی ہے.تو جاؤ گے کہاں نہیں جہ پسند آئے گی تو تب بھی یہیں رہنا پڑے گا یہی قناعت ہے یا مجبورا قہر اور جبرا اپنے دل کو مجبور کرتے ہوئے تمہیں خدا ہی کی دنیا میں رہنا پڑے گا اور کوئی دنیا نہیں ہے جو تمہیں پناہ دے سکے گی یا پھر دوسرے رستے کے ذریعے آؤ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب ہم نے کائنات کو بنایا تو اسے کہا کہ آجاؤ میری طرف طَوْعًا أَوْكَرْهًا ( حم سجدہ:۱۲) آنا تو تمہیں ہے بہر حال اور کوئی جگہ ہی نہیں جانے کی.تم نے بالآخر میری طرف لوٹنا ہے طوعا اوگرھا یا جبر کی صورت میں آؤیا اطاعت کرتے ہوئے محبت اور شوق سے چلے آؤ.تو اس لئے قناعت جو اسلام پیش کرتا ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ تم محبت کی قناعت اختیار کرو، رضا کی قناعت اختیار کرو اس میں تمہارے لئے جنت ہے.ورنہ تمہارے لئے چارہ کوئی نہیں کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو خدا کی مرضی کے سوا تمہیں نصیب پھر بھی نہیں ہو سکے گا.تم دنیا کی طرف بھا گو گے لیکن خدا کی تقدیر تمہیں خدا کی تقدیر سے بھاگنے نہیں دے گی.جس چین اور جس سکون کی تم تلاش کر رہے ہو وہ سکون اور وہ چین تم سے آگے آگے بھاگے گا، تمہیں چڑا تا ہو تمہیں اور دکھ دیتا ہوا وہ تمہارے ہاتھ کبھی بھی نہیں آسکے گا.پس جماعت کو قناعت کے مضمون کو خود سمجھنا چاہئے اور توحید کے ساتھ جو اس کا تعلق ہے اس کو اچھی طرح زیر نظر رکھنا چاہئے ، دل نشین کرنا چاہئے کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ عہد کئے ہوئے ہیں کہ خدا کی تو حید کو قائم کرنے کے لئے ہر طرح سے تیار ہو کر اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے سج کر ہم اگلی صدی میں داخل

Page 872

خطبات طاہر جلدے 867 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء ہوں گے اور ساری امت کو ساری دنیا کو انشاء اللہ امت واحدہ بنا دیں گے.اس کے بعد میں اس مضمون کو سر دست چھوڑتا ہوں اور آج میں مباہلہ کے متعلق کچھ آپ کے سامنے چند باتیں رکھنی چاہتا ہوں.ایک تازہ صورتحال مباہلہ کی یہ پیدا ہوئی ہے کہ کم و بیش چھ ماہ کے بعد یہاں انگلستان کے ایک مولوی نے جماعت احمدیہ کو اور مجھے خصوصیت کے ساتھ یہ چیلنج دیا کہ آپ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ایک جگہ اجتماع ضروری نہیں یعنی مشارکت مکانی ضروری نہیں یعنی جگہ کے اعتبار سے ایک جگہ اکٹھا ہونا ضروری نہیں تو ہم آپ کے لئے ایک اور صورت پیش کرتے ہیں گویا کہ نعوذ و باللہ وہ پیروی کر رہے ہیں ہماری اور ہم بھاگ رہے ہیں حالانکہ ہم ان کے پیچھے جارہے ہیں.ہم تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم کہہ چکے ہیں جو کہنا ہے خدا کے حضور ، لعنت ڈال چکے ہیں جھوٹوں پر تمہیں جرات ہے تم بھی ڈال کے دکھا دو یہ بات تھی صرف لیکن دنیا کو دھوکا دینے کی خاطر اور شاید اس خیال سے کہ ہم اس بات کو مانیں گے نہیں انہوں نے یہ ایک مضمون شائع کر کے سب جگہ بھجوایا صرف ہمیں نہیں بھجوایا.اس سے مجھے یہ شبہ اور قوی ہوتا ہے کہ ان کی نیت یہ تھی کہ ان کو پتا ہی نہ لگے.غیر احمدیوں میں تقسیم ہو گیا مضمون ہمیں نہیں بھجوایا گیا اور مضمون یہ تھا کہ ہم ۲۳ دسمبر کو جو جمعہ ہے اس میں آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ مشارکت مکانی نہیں تو مشارکت زمانی کر لیں یہ مولویانہ محاورہ ہے مراد یہ ہے کہ ایک جگہ اکٹھا نہیں ہونا چاہتے تو ایک وقت میں اکٹھے ہو جائیں اور کوئی وقت مقرر کر لیں.کوئی تقریباً تین چار روز کی بات ہے مجھے چوہدری عبدالرشید صاحب آکر ملے کچھ پریشان سے تھے کہ اس کا ہمیں پتا ہی نہیں لگا یہ تو بڑی دیر سے یہ لوگ شائع کرتے پھر رہے ہیں اور کافی عرصہ ہو گیا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے.میں نے کہا فوراً ان سے رابطہ کر ان کو کہو ہمیں منظور ہے.اگر چہ ہمارا موقف یہی ہے کہ اس قسم کی انہوں نے جو مشارکتیں بنائی ہوئی ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اس اتفاق کی ضرورت ہے ذہنی طور پر کہ ہم خدا کے حضور اپنا سب کچھ اپنے مال و دولت، اپنی عزتیں ، اپنے بچے، اپنے مرد، اپنی عورتیں لے کر حاضر ہو جاتے ہیں.یہ نہیں کہ کسی خاص جگہ پر ان سب کو سمیٹ کر گلوں کی طرح حاضر ہور ہے ہیں بلکہ خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت کر اور اگر ہمارے دشمن جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ ظلم سے باز نہیں آرہے تو ان پر لعنت کر.یہ مضمون ہے جس کی رو سے ہم تو مباہلہ میں داخل ہو چکے ہیں لیکن چونکہ آپ کا اصرار ہے اور آپ ہی

Page 873

خطبات طاہر جلدے 868 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء اس کو تماشا بنانا چاہتے تھے ہمیں بتائے بغیر دراصل یہ ثابت کرنا چاہتے تھے دوسروں پر کہ یہ پھر بھی بھاگ گئے ہم نے یہاں تک رعایت کی اور پھر بھی یہ انہوں نے تسلیم نہیں کیا.اس لئے ہم اس کو اسی طرح تسلیم کرتے ہیں اور اس مشارکت زمانی کے ساتھ اب وقت مقرر کر لو اور ہم بھی آتے ہیں میدان میں تم بھی میدان میں نکلو.اب ان کے لئے بھاگنے کی راہ کوئی نہیں تھی کیونکہ وہ جو شرائط پیش کر چکے تھے ہم مان گئے لیکن آخری وقت میں ایک چالا کی انہوں نے کر لی ہے.جنگ اخبار میں جو خبر شائع ہوئی ہے اگر وہ درست ہے تو اس کی رو سے انہوں نے آخری چالا کی بچنے کے لئے یہ کی ہے کہ ہم چونکہ ہیں ہی بچے اس لئے ہم اپنے اوپر لعنت نہیں ڈالیں گے بلکہ صرف احمدیوں پر لعنت ڈالیں گے یعنی قادیانیوں کے خلاف لعنتیں ڈالیں گے کہ اللہ ان کو ساری دنیا میں برباد کر دے، ذلیل ورسوا کر دے، کچھ نہ ان کا چھوڑ ، ان کے گھر بار کو آ گئیں لگا دے وغیرہ وغیرہ یعنی کو سنے کوسیں گے لیکن قرآن کی زبان میں تَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (آل عمران : ۶۲) نہیں کہیں گے چونکہ ہم تو ہیں ہی بچے.عجیب بات ہے کہ اگر بچے ہیں تو کاذبین کی لعنت کس طرح تم پر پڑ جائے گی.تمہیں یہ یقین کیوں نہیں ہے کہ جب ہم کہیں گے کہ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ تو خدا تمہیں معاف کر دے گا کیونکہ تم جھوٹے نہیں ہو.دل بتا رہے ہیں کہ جھوٹے ہیں اور اس لئے اس سے فرار کی یہ راہ اختیار کی ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے اوپر لعنت ہی نہیں ڈالی تھی کہ اے خدا! یہ کیا بات ہے.ہم نے تو قادیانیوں پر لعنت ڈالی تھی ان پر لعنت ڈال ہم پر نہ ڈالنا ہمیں جھوٹ کی اجازت ہے.دوسرا ایک عجیب تمسخر ہے مباہلے سے بلکہ ظلم ہے اور آنحضرت ﷺ کی شدید ہتک ہے اور خدا کی شدید گستاخی ہے.اللہ تعالیٰ نے جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو فرمایا کہ اپنے مقابل جھوٹوں کے پاس جاؤ اور ان کو یہ کہو کہ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ میں بھی کہتا ہوں تم بھی کہوتا کہ جو شخص جھوٹا ہے خدا اس پر لعنت ڈالے.کیا نعوذ باللہ من ذالک حضور اکرم ﷺ کو اپنی صداقت کا یقین نہیں تھا؟ اس یقین کے باوجود کہ اب خدا کو علم نہیں تھا کہ کائنات میں سب سے بڑا سا محمد مصطفی ہے ہیں.تو پھر آپ کو کیوں کہا کہ اس لعنت کی طرف دعوت دو کے تَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ جو بھی فریق جھوٹا ہے خدا کی لعنت اس پر پڑے.تو ایسے جاہل ہیں اپنی نجات کے لئے اگر ان کو خدا اور رسول پر بھی حملے کرنے پڑیں تو اپنی

Page 874

خطبات طاہر جلدے 869 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء الله فرار کی راہیں یہ ضرور نکالیں گے اور دنیا کے سامنے اپنی عزت بچانے کی کوشش کریں گے مگر چونکہ یہ فرار کی راہ نکالنا بذات خود ایک ملعون فعل ہے ایسی ذلیل قیمت ان کو دینی پڑی ہے اس نجات کی راہ کے نکالنے کی خاطر کہ یہ خود اپنی ذات میں خدا کے نزدیک ایک کبیر گناہ ہے.اس طرح مباہلہ کے مضمون کو تو ڑمروڑ کے خواہ آنحضرت ﷺ پر حرف آئے ، خواہ خدا کی آپ سے محبت اور غیرت پر حرف آئے انہوں نے اپنی فرار کی راہ ضرور نکال لینی ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ جتنی لعنتیں یہ ہم پر ڈالیں گے ساری لعنتیں الٹ کر ان پر پڑیں گی اور جتنی لعنتیں یہ ہم پر ڈالیں گے وہ ساری رحمتوں کے پھول بن کر جماعت پر برسیں گی.اس لئے میری تو یہ دعا رہی ہے خواہش رہی ہے کہ کثرت سے لوگ ان کے ساتھ مل کر لعنتیں ڈالیں لیکن میں نے نہ خود یہ دعا کی ہے نہ جماعت کو ایسی دعا کے لئے کہا ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک تمام غیر احمدی مسلمانوں پر لعنت ڈالیں، ہر گز نہیں اور امید ہے میرا پیغام آپ کو بروقت عطاء المجیب صاحب نے پہنچا دیا ہوگا کہ آپ نے ہرگز یہ دعا نہیں کرنی مقابل پر کہ اللہ سارے غیر احمدیوں پر نعوذ باللہ من ذالک لعنت ڈالے بلکہ یہ دعا کرنی ہے کہ ان لعنت ڈالنے والوں پر ان کی لعنتیں پڑیں اور یہ دعا جو ہے کسی انتقامی کاروائی کی وجہ سے نہیں ایک مجبوری ہے،اس سے ایک خیر کی راہ نکلتی ہے.مباہلہ کا ایک پہلو یہ ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ دشمن ہے جو معاندین کے سرکردہ امراء اور بڑے بڑے لیڈر جو دراصل ہدایت کی راہ رو کے کھڑے ہیں اور تمام عوام الناس بیچارے دنیا میں ہر جگہ اس لئے احمدیت میں داخل نہیں ہو سکتے کہ انہوں نے آگے دروازے بند کئے ہوئے ہیں.احمدیت جو ہے، جس قسم کی حقیقت ہے، جو سچائی ہے، جو پیغام ہے اگر بعینہ اسی طرح بغیر مبالغہ کے اور بغیر اس کو توڑے مروڑے آج عوام الناس کے سامنے آپ رکھ دیں تو آپ دیکھیں کتنا عظیم الشان اس کا نتیجہ اور اثر ظاہر ہوتا ہے.بہت سے لوگ جن کو مباہلہ کا اشتہار دیا گیا یہ پڑھ کر احمدی ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں آج پتا لگ رہا ہے کہ سچے عقیدے آپ کے کیا ہیں اور جس طرح جرات کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور عرض کیا گیا ہے کہ اے خدا! اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر لعنت ڈال بچوں کو تو یہ تو فیق مل سکتی ہے جھوٹوں کو نہیں مل سکتی.اس لئے بہت سے لوگ مباہلہ کی اس تحریر کو پڑھ کر احمدی ہو گئے ہیں بہت سے دوسرے ہیں جن کو یقین نہیں آیا لیکن ان کی گمراہی کی وجہ

Page 875

خطبات طاہر جلدے 870 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۸ء دراصل مولویوں کا یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہے.تو یہ وہ دروازے ہیں جو احمدیت کی طرف آنے والی ہر راہ پر قائم کر دیئے گئے ہیں اور ان پر تالے لگا دئے گئے ہیں کہ اس راہ سے گزرکر تمہیں احمدیت میں داخل نہیں ہونے دینا.مباہلہ کے نتیجے میں یہ دروازے ٹوٹا کرتے ہیں اور ان پر جب لعنت پڑتی ہے تو عبرت کا مضمون کھل کر دنیا کو سمجھ آتا ہے کہ عبرت کس کو کہتے ہیں.اس لئے نہیں کہ ان کے دروازے ٹوٹنے پر ہمیں خوشی ہوگی بلکہ اس لئے کہ وہ دروازے جو حق کی راہ رو کے کھڑے ہیں ان دروازوں کے لئے ٹوشناہی بہتر ہوا کرتا ہے.اس لئے اگر یہ کھل نہ سکے، حجت اور دلیل دروازہ کھولنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے قفلوں کے اندر چابی کے طور پر کام کرتی ہے.یعنی قرآن کریم فرماتا ہے کہ بعض دل ایسے ہیں جن پر تالے ایسے پڑے ہوتے ہیں جن کی کوئی چابی نہیں ہوا کرتی.اندھے اور بہروں کی طرح ہو جاتے ہیں.پس مباہلہ کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! ان دروازوں کو توڑ دے، ان تالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور دین کی ترقی اور سچائی کی ترقی کی راہوں کو کشادہ کر دے تاکہ سب لوگ جوق در جوق پھر ان راہوں سے صداقت میں داخل ہو سکیں.پس یہ وہ دعا ہے جو آپ کو کرنی چاہئے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ایک نیاImpetus مل گیا ہے اس سے مباہلے کو.تقریباً چھ ماہ گزرے تھے اور اگلے چھ ماہ کے لئے دوبارہ متوجہ کرنے کے لئے جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان فرما دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں جس طرح پہلے چھ ماہ میں خدا تعالیٰ نے عظیم الشان نشان دکھائے ہیں اور حیرت انگیز تاریخی نوعیت کے نشان دکھائے ہیں اسی طرح انشاء اللہ یہ باقی چھ ماہ بھی بلکہ اس کے بعد بھی اگلا سارا سال اور انگلی صدی پوری کی پوری صدی بھی اس مباہلہ کی برکتوں کے پھل کھاتی رہے گی.پھر آئندہ اگلی صدی کے لئے خدا جن کو مباہلوں کے لئے کھڑا کرے گا پھر انشاء اللہ ان کی دعاؤں کے پھل اگلی صدی کو بھی عطا کرے گا یعنی مجھے یقین ہے کہ یہ مباہلہ ایک سال کا یا دو سال کا یا تین سال کا مباہلہ نہیں خدا تعالیٰ نے ایسے موقع پر بنایا ہے کہ اس کی رحمتیں اور اس کی برکتیں اور اس کے پھل اگلی صدی میں آنے والی ساری مخلوق کو عطا ہوتے چلے جائیں گے جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ صداقت کو قبول کرے گی.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ان کی سب لعنتوں کو ان پر لعنتیں بنا کر برسائے جو لعنت ڈال رہے ہیں.ان پر نہ کہ باقی غریبوں اور مظلوموں اور بیچاروں پر جن کو کچھ پتا نہیں کہ احمدیت کیا ہے اور ان کی ہر لعنت ہم پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے پھول بن کر آج بھی بر سے کل بھی بر سے اور آئندہ ہمیشہ برستی رہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.

Page 876

خطبات طاہر جلدے 871 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء فرار الی اللہ کے ساتھ قناعت اور صبر کا تعلق ہے.اشتعال کے وقت صبر کی بہت ضرورت ہے.( خطبه جمعه فرموده ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ پر قناعت کا مضمون بیان کرتے ہوئے میں نے یہ گزارش کی تھی کہ قناعت کا فقدان انسان کو شرک کی طرف لے جاتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص قانع نہیں وہ مشرک ہو جاتا ہے بلکہ قناعت کے فقدان کے نتیجے میں شرک میں مبتلا ہونے کے خطرے پیدا ہو جاتے ہیں اور قناعت اور شرک کے درمیان اللہ تعالیٰ نے صبر کی حفاظتی دیوار قائم فرمائی ہے.اس لئے صبر کو دوسری تمام صفات میں ایک غیر معمولی مقام حاصل ہے اور قرآن کریم نے صبر پر بے انتہا زور دیا ہے.ان کا آپس میں کیا تعلق ہے اس سلسلے میں میں اس مضمون کو کچھ مزید واضح کرنا چاہتا ہوں.قناعت کی مثال تو اس خیالی جن کی طرح ہے جو حضرت سلیمان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بوتل میں بند کر دیا تھا.اگر انسانی نفس بوتل میں بند کر دیا جائے اور اسے کھل کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے ، اسے اپنی مرضی سے جس طرف چاہے اس طرف سر اٹھا کر نکل بھاگنے کی اجازت نہ دی جائے تو گویا وہ حضرت سلیمان کا جن بوتل میں بند ہو گیا ہے اور اس کا نام قناعت ہے.جب یہ جن ایک دفعہ بوتل سے آزاد ہو جاتا ہے تو انسانی نفس کو ہر سمت میں کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور بہت سی شاخیں پھوٹتی ہیں اور پھوٹتی چلی جاتی ہیں اور نفس کی طلب کی کوئی حد نہیں رہتی.انسانی فطرت

Page 877

خطبات طاہر جلدے 872 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء کے اندر خدا تعالیٰ نے تمناؤں کا ایک لامتناہی سلسلہ پیدا کر دیا ہے یعنی اس کے بیج رکھ دیئے ہیں اور تمناؤں کی کوئی حد نہیں ہے اور کوئی ایسی سمت نہیں ہے جس سمت سے تعلق رکھنے والی کوئی انسانی تمنا موجود نہ ہو یا پیدا نہ ہوسکتی ہو.تو اس پہلو سے چونکہ انسانی نفس قناعت کی بوتل سے باہر نکل کر آزاد ہو جاتا ہے اس کو روکنے کے لئے چاروں طرف صبر کی دیوار میں قائم کرنی پڑتی ہیں اور اگر صبر نہ ہو تو پھر اس کے بعد سوائے شرک کے کچھ بھی نہیں رہتا.یعنی لازماً انسان کی ہر تمنا انسان کو اگر کلیہ آزاد ہو جائے اور صبر نے اس کو روکا نہ ہوا ہو تو وہ شرک کی طرف لے جائے گی.بوتل کا جن کہتے ہیں جب آزاد بھی ہو جائے تو بعض وظائف سے بعض لوگ اس کو قابو کر لیا کرتے ہیں.چنانچہ ایک زمانہ ایسا تھا جبکہ مسلمان علماء میں بکثرت اس بات کا چرچا ہوا کرتا تھا کہ کوئی ایسا وظیفہ معلوم ہو کہ کون سا وہ وظیفہ ہے جس سے ہم بوتل کا جن قابو کر لیں اور جنوں کے قابو کرنے کا مضمون پھر بڑھتے بڑھتے ایک آزاد نفس کی طرح خود اپنی ذات میں شاخیں نکالنے لگا.شروع تو اس سے ہوا تھا کہ حضرت سلیمان کا جن جب آزاد ہوا تو اس کو قابو کرنے کے لئے کچھ وظیفے ہیں ان وظیفوں کی تلاش کی جائے اور اس کے بعد پھر ایک جن نہیں رہا ہزا رسمتوں میں ہزار جن پیدا ہو گئے.ہر انسانی خواہش سے تعلق رکھنے والا ایک جن بن گیا اور مختلف وظائف ایجاد ہونے شروع ہوئے کہ ہم ان جنوں کو قابوکریں.امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کو قابو کرنے کا ایک ہی وظیفہ بیان فرمایا ہے وہ صبر ہے.اگر انسان کو صبر کا سلیقہ آجائے اور صبر کا مضمون سمجھ آجائے تو پھر انسانی نفس کے آزاد شدہ ہر قسم کے جن انسان کے قابو آ سکتے ہیں.اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے میں آپ کے سامنے صبر کے چند پہلو رکھنا چاہتا ہوں.حرص و ھوئی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جب وہ آزاد ہو تو جہاں بھی آپ نے اس کو کھلی آزادی دی وہاں لازماً آپ کو خدا سے دور اور شیطان کے قبضہ میں لے جائے گی.کوئی آرزو ہو، کوئی تمنا ہو جس حد تک بھی آپ اس پر غور کریں گے جب تک آپ اس کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رکھتے اس وقت تک وہ تمنالاز ما آپ کو کسی ایسے گناہ میں ملوث کرے گی جو غیر اللہ کے سامنے جھکنے پر آپ کو مجبور کر رہا ہو گا.وہ آرزو جو خدا کے بنائے ہوئے قوانین اور اس کی ہدایت کے تابع پوری نہیں ہو سکتی وہ آرزو جب خدا کے بنائے ہوئے قوانین اور اس کی ہدایات سے باہر جا کر پوری کی جاتی

Page 878

خطبات طاہر جلدے 873 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۸ء ہے اسی کا نام شرک ہے اور خدا کے قوانین اور ہدایت کے تابع رکھنے کے لئے صبر کی ضرورت ہوتی ہے یعنی آزوؤں کو خدا کے قوانین اور ہدایات کے تابع رکھنے کے لئے صبر کی ضرورت ہوا کرتی ہے.چنانچہ وہ لوگ جو صبر کرنا جانتے ہیں اگر چہ ایک تکلیف کی حالت ہے لیکن صبر کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ان کی تکلیف دور ہونے لگتی ہے اور وہ آرزوئیں جو سر اٹھاتی ہیں اور باغیانہ حالت اختیار کر جاتی ہیں اگر انسان صبر کرے اور اللہ صبر کرے تو ان کی باغیانہ حالت میں کمی آنی شروع ہو جاتی ہے ، ان کی شورش اور شوخی میں کمی آنی شروع ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ انسان کو اسی حالت پر ایک چین مل جاتا ہے.ایک قسم کا سکون نصیب ہو جا تا ہے.پس صبر کے نتیجے میں ایک انسانی آرزوؤں کی سمت دوسرا رخ اختیار کرتی ہے واپسی شروع کر دیتی ہے اور صبر کا کمال انسان کو پھر قناعت تک پہنچا دیتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی زندگی کی ہر دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے.انسان جس چیز کو بھی کہتے ہیں ، جن خواہشات یا تمناؤں یا احساسات کا انسان مجموعہ ہے ان خواہشات ، ان تمناؤں، ان احساسات کے ہر پہلو سے یہ مضمون تعلق رکھتا ہے.پس صبر کی بے انتہا ضرورت ہے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے جہاں مادہ پرستی نے ہر طرف قیامت مچائی ہوئی ہے جماعت احمدیہ کے لئے صبر کو اختیار کرنا بہت ہی بنیادی ضرورت کی حامل چیز ہے.اس کے بغیر ہم نہ اپنے نفسوں کو فتح کر سکتے ہیں ، نہ دنیا کو خدا کے لئے فتح کر سکتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے ابھی گزارش کی تھی صبر کے ساتھ اللہ کا لفظ جوڑ نا ضروری ہے.ایک صبر ہوا کرتا ہے بغیر خدا کے اور ایک صبر ہوا کرتا ہے خدا کے ساتھ اور خدا کی خاطر، ان دونوں صبروں میں فرق ہے.بعض جانور بھی صبر کرنا جانتے ہیں لیکن وہ کوئی روحانی صفت نہیں.چنانچہ بعض ایسے جانور ہیں جو ہائبر نیٹ (Hibernate) ہو جاتے ہیں.یعنی سردیوں میں جب ان کو کوئی غذا میسر نہیں آتی تو وہ صبر کی اتنی غیر معمولی طاقت رکھتے ہیں کہ اپنے جسم کے اندرونی نظام کو ایک غیر شعوری پر یہ حکم دے دیتے ہیں یا کچھ شعوری طور پر پہلے دیتے ہوں گے پھر رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ نے ان کی استطاعت کو بڑھا دیا مگر بہر حال آخر پر پہنچ کر یہ غیر شعوری صورت بن جاتی ہے یعنی ان کا نفس خودان کی اپنی ذات پر، اپنی خواہشات پر، اپنے خون کی گردش پر اپنے دل کی دھڑکن پر پابندیاں لگا دیتا ہے کہ ٹھیک ہے تم بھی زندہ ہو لیکن حالات ایسے ہیں کہ تمہارے زندہ رہنے کی تمام صلاحیتیں اس وقت

Page 879

خطبات طاہر جلدے 874 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء کارگر نہیں ہو سکتیں.اس لئے خود اپنی خاطر اپنے اوپر صبر کے پہرے بٹھا ؤ اور ہر خواہش کو کم کر دو، ہر زندگی کی علامت کو کم کر دو.چنانچہ اس کا نام سائنسی اصطلاح میں ہائبر نیشن ہے.ریچھ ہائبر نیٹ کرتے ہیں اور بہت سے جانور ہیں جو ہائبر نیٹ کرتے ہیں اور شدید سردی کے موسم میں جب کے 60- تک بعض علاقوں میں درجہ حرارت گر جاتا ہے اور کچھ کھانے کو بھی نہیں مل رہا ہوتا.برفوں کے اندر دبے ہوئے ریچھ اپنے اوپر صبر کے پہرے ڈال دیتے ہیں.بعض اثر دھا بھی ہائبرنیٹ کرتے ہیں اور بعض مینڈک وغیرہ بھی ہائبر نیٹ کرتے ہیں.پس صبر کی انتہائی شکل ہائبرنمیشن(Hibernation) ہے اور ہائبرنشین کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے یہ قانون جاری کیا ہوا ہے کہ آپ کی تمناؤں کو اور آرزوؤں کو سکون آنا شروع ہوتا ہے، ان کی بیقراری میں کمی آجاتی ہے.چنانچہ جب بھوک میں کمی آتی ہے تو وہ گلینڈ ز جو تیزاب پیدا کرتے ہیں اور بھوک بھڑکاتے ہیں ان کی حرکت میں بھی کمی آنی شروع ہو جاتی ہے، دل کی دھڑکن بھی کم ہونے لگتی ہے ، خون کی گردش بھی کم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ زندہ رہنے کے لئے ایسے جانوروں کو جتنی حرارت کی ضرورت ہے وہ اتنی کم ہو جاتی ہے کہ ایک دن زندہ رہنے کے لئے عام طور پر ریچھ کو جتنی توانائی کی ضرورت ہے اسی توانائی میں وہ ہیں دن، مہینہ بھی زندہ رہ سکتا ہے.تو یہ وہ مثال ہے قانون قدرت میں صبر کی اور صبر کے نتیجے میں کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں.مگر یہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ صبراللہ نہیں قانون قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ہے.بعض قوموں میں صبر کی عادت ہوا کرتی ہے.وہ بھی للہ صبر نہیں کرتیں مگر ان کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھ دی ہے کہ مخالف حالات میں وہ برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.چنانچہ ویت نام کی وار (War) میں جو طاقت جیتی ہے وہ صبر کی طاقت جیتی ہے.امریکہ کی عظیم الشان مادی قوت کے مقابل پر ویت نامی قوم کی صبر کی طاقت تھی اور ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور انتہائی خطرناک حالات میں انتہائی تکلیف دہ اور صبر آزما آزمائشوں کے وقت میں وہ خاموش پڑے رہتے تھے.دلدلوں میں پڑے ہوئے ہیں ، جنگلوں میں پڑے ہوئے ہیں.جانتے تھے کہ اگر ہم نے کوئی حرکت کی تو اس کے نتیجے میں ہم پکڑے جائیں گے اور ہمارا دشمن ہماری پہنچ سے پہلے ہم پر حملہ آور ہو جائے گا.چنانچہ اتنی غیر معمولی صبر کی طاقت ان لوگوں نے دکھائی کہ بالآخر امریکہ جیسی

Page 880

خطبات طاہر جلدے 875 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء عظیم قوت کو بھی اس کے مقابل پر شکست تسلیم کرنی پڑی.عام طور پر جو انسان جن حالات میں بہت پہلے واویلا شروع کر دیتا ہے اور اس کی برداشت کی طاقتیں ٹوٹ جاتی ہیں ان عام حالات سے کہیں بڑھ کر ویت نامی قوم نے امریکنوں کے مقابل پر صبر دکھایا ہے.تو Lie Low جس کو انگریزی میں کہتے ہیں بعض ایسے وقت آتے ہیں جہاں آپ کو اپنے نفس کو بھلا کر، اپنی خواہشوں کو بھلا کر خاموش بیٹھنا پڑتا ہے.یہ بھی ایک قسم کی ہائبر نیشن ہے جس کا اطلاق انسانی زندگی پر بھی ہوتا ہے یعنی صرف حیوانی زندگی پر نہیں.تو جن قوموں کو صبر کی یہ طاقت نصیب ہو کہ اگر مخالفانہ حالات ہیں تو کوئی حرج نہیں وقت بدلے گا، جب تک وقت نہ بدلے جس طرح بھی ہے ہم اس پر گزارہ کریں گے.یہ صفت صبر کی ہے جو زندگی کی حفاظت کیا کرتی ہے لیکن یہ بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا دنیا میں اللہ نہیں ہوا کرتا بلکہ اپنے نفس کی خاطر ، اپنے قومی تقاضوں کی خاطر انسان اختیار کرتا ہے لیکن قرآن کریم جس صبر کی ہدایت کرتا ہے وہ للہ صبر ہے اور للہ صبر کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ انسان کی خطرات سے حفاظت ہوتی ہے بلکہ اس کو اس صبر کا بہترین پھل بھی عطا ہوتا ہے.یہ صبر صرف ایک منفی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ایک مثبت حیثیت اختیار کر جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے بار ہا فرمایا ہے: اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (البقرہ:۱۵۴) کہ جو لوگ اللہ کی خاطر صبر کیا کرتے ہیں وہ دیکھیں گے کہ اللہ ان کے پاس ہے اور صبر کے متعلق جن لوگوں کو بھی تجربہ ہے اور ہر انسان کو کچھ نہ کچھ تجربہ ہوتا ہے یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ صبر کے وقت کوئی ساتھی ہے یا نہیں ہے.اگر صبر کے وقت کوئی ساتھی نہ ہو تو انسانی تکلیف بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور صبر کی طاقت اسی نسبت سے کم ہو جاتی ہے.اکیلا صبر کرنا بہت مشکل کام ہے.کوئی ساتھی ہو تو پھر وہ صبر کے لمحات نسبتاً آسان ہو جایا کرتے ہیں.ویت نام وغیرہ میں بھی قوموں نے بحیثیت قوموں کے صبر کیا ہے.اکیلے کیلے اس قسم کے حالات میں صبر ممکن نہیں ہوا کرتا.کوئی بیمار ہوں،کیسی تکلیف ہواگر اس وقت اس کے ساتھ کوئی آدمی آجائے ، اس کی غمخواری شروع کر دے، اس سے باتیں شروع کر دے تو اس کی تکلیف میں بہت کمی آجایا کرتی ہے خواہ ظاہری درد میں اور بیماری میں کمی نہ بھی آئے.تو صبر کے دوران کسی کا ہونا صبر کی طاقت بڑھاتا ہے اور تکلیف کی کمی کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے مومن سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تو صبر کرے اور میری خاطر صبر کرے تو میں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ صبر کے وقت تو

Page 881

خطبات طاہر جلدے 876 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۸ء مجھے اپنے ساتھ پائے گا.اسکے نتیجے میں ہمیں کچھ ایسے مفید راز ملتے ہیں جس سے ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں.ایک بات تو یہ یاد رکھیں کہ اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ کا برعکس بھی ایک ہے کہ جو صبر نہیں کرتا خدا اس کے ساتھ نہیں ہوا کرتا.پس فَفِرُّوا اِلَى الله (الذاریات: (۵۱) کا مضمون اس میں بیان ہو گیا کہ جب آپ صبر چھوڑ دیں گے تو خدا سے دور جارہے ہوں گے.جب صبر کریں گے تو خدا کی طرف حرکت کر رہے ہوں گے.پس ہر قسم کی بے صبری سے، ہر قسم کے صبر کی طرف حرکت کرنا خدا کی طرف حرکت ہے.گویا کہ اگر صبر چھوڑیں گے تو شرک کی طرف آپ حرکت کریں گے.غیر اللہ کی طرف حرکت کا مطلب ہی شرک ہے اور خدا پاس ہے ، خدا قریب ہے اس کے کیا معنی ہیں إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِینَ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ آپ کے مشکل وقت کو آسان فرما رہا ہے ، آپ کے قریب ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی غیر معمولی جزا بھی عطا فرمائے گا، آپ کی حفاظت فرمائے گا.اگر خدا ساتھ ہے تو وہ قو تیں جن کی تکلیف سے آپ صبر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِین میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ ان قوتوں پر آپ کو غلبہ عطا ہو گا اور آپ کو فتح نصیب ہوگی.پس اللہ صبر میں اور بغیر خدا کے صبر میں زمین آسمان کا فرق ہے.صبر میں بہر حال فائدہ ہے لیکن اللہ صبر میں اس سے بہت زیادہ فائدہ ہے جو بغیر اللہ کے محض عادت یا قومی یا حیوانی ضرورت کے تابع آپ صبر کرتے ہیں.اس ضمن میں بعض خاص انسانی حالتوں کا ذکر ضروری ہے جہاں صبر نہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے.غصہ کی حالت ہے سب سے اہم.روز مرہ کے تجربے میں ہم نے دیکھا ہے، ہم کسی بات پر اشتعال میں آجاتے ہیں اور اشتعال کے وقت جتنا صبر کی کمی ہو اتنا جلدی انسان فیصلہ کرتا ہے.بیوی سے لڑائی ہوئی ، ساس کی بہو سے ہوگئی، خاوند کی بیوی سے یا رشتہ داروں سے، بہن کی بھائی سے، دوستوں کی دوستوں سے ہزار قسم کے انسانی تعلقات ہیں اختلافات ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایک دم انسان اشتعال میں آجاتا ہے.اشتعال میں آنا اور عام غصہ کی حالت میں ایک فرق ہے.جب میں کہتا ہوں اشتعال میں آجاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ غصہ اچانک ایک دم اتنا بڑھتا ہے کہ انسان کہتا ہے کہ پھر جو کچھ ہو دیکھی جائے گی اب میں برداشت نہیں کر سکتا ، کافی ہوگئی

Page 882

خطبات طاہر جلدے 877 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء اس بار.چنانچہ بعض دفعہ بعض لوگ لمبا عرصہ باتیں برداشت کرتے چلے جاتے ہیں اور اچانک کسی بات کے اوپر اس طرح ان کے غصے کا پارہ چڑھتا ہے کہ اپنی کسی حالت پر ان کو اختیار نہیں رہتا، نہ زبان پر ، نہ سوچ پر ، نہ کسی اور انسانی جذبے پر ، یہ بھی نہیں دیکھتے ماحول میں کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں.تو بعض دفعہ ایسے لوگ جو عام طور پر اچھی زبان استعمال کرنے والے ہیں ،ہل بھی ہوئی باتیں کرتے ہیں اچانک مغلظات بکنے لگ جاتے ہیں.کوئی ان سے پوچھے کہ کیا ہوا ہے آپ کو کہ تمہیں نہیں پتا یہ بات نہیں ہے اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے.سنتے سنتے ، میرے کان پک گئے ہیں.تو وہ پہلا جوصبر تھا وہ جب ٹوٹا تو اس نے پچھلی ساری محنت کو ضائع کر دیا.اشتعال کی حالت ایسی ہے جو آپ کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا کرتی ہے.بعض لوگ مشتعل ہوتے ہیں مہینوں کے صبر کے بعد بعض سالوں کے صبر کے بعد لیکن جس وقت بھی وہ مشتعل ہوئے اسی وقت انہوں نے اپنی گزشتہ ساری محنت پر پانی پھیر دیا، سب کچھ کو آگ لگا دی.پس اشتعال کے وقت صبر بہت ہی زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہ ایک وقتی نقصان نہیں پہنچارہا بلکہ آپ کی ایک لمبی محنت کو ضائع کر رہا ہے.تبھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اشتعال کی حالت سے متنبہ فرمایا اور فرمایا کہ جب تمہیں غصہ آئے تو ٹھہر جایا کرو، بات کرنے سے پہلے اپنے اوپر ضبط کرنے کی کوشش کرو، استغفار کرو، لاحول پڑھو اور پانی پی کے پھر غصہ بجھانے کی کوشش کرو، بیٹھ جایا کرو اور اس سے بھی غصہ دور نہ ہو ، لیٹ جایا کرو اگر بیٹھنے سے بھی غصہ دور نہ ہو اور کوئی حرکت ایسی نہ کرو اس وقت جس کے نتیجے میں بعد میں تمہیں پچھتانا پڑے.(ابو داؤد کتاب الادب حدیث نمبر :۴۱۵۱،۴۱۴۹) جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اشتعال کی حالت چونکہ انسان سے ضبط کی طاقت دور کر دیتی ہے ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا یعنی جو بھی گزرے گزر جائے گی جس طرح کہا جاتا ہے، دیکھی جائے گی اب ہمیں کوئی پرواہ نہیں ، عواقب سے انسان بے خبر ہو جاتا ہے.ایسی حالت میں خدا تعالیٰ سے بھی بغاوت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض لوگ کہہ دیتے ہیں اچھا پھر ٹھیک ہے اگر جہنم ہے تو جہنم ہی سہی ،اب ہمیں کوئی پرواہ نہیں.وہ وقتی غصہ بعض دفعہ ایسے ایسے خوفناک نتائج پیدا کرتا ہے کہ ساری عمر انسان اس کے اوپر استغفار کرے تب بھی اس گناہ کا داغ نہیں دھلتا.پاکستان میں کئی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ایک لڑکے نے اشتعال کی حالت میں اپنی

Page 883

خطبات طاہر جلدے 878 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء بہن کو قتل کیا، اپنے بھائی کو قتل کیا ، اپنے باپ پر حملہ آور ہو اور اب وہ پھانسی کی کوٹھری میں منتظر پڑا ہے پتا نہیں کب اس کو پھانسی ہوئی بھی ہے کہ نہیں لیکن اس قید کی حالت سے اس کے مجھے بھی خط آتے رہے اور ایک مسلسل جہنم میں مبتلا ہے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جہنم صرف یہیں تک محدودرہے گی یا آگے تک بھی جائے گی.اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن وہ وقت ایسا تھا چند لمحوں کا جس میں اشتعال نے ہر اس ضبط کے پہرے کو تو ڑ دیا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو مختلف قسم کے خطرات اور مصائب سے بچانے کے لئے عطا ہوئے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہماری ہر حالت کے اوپر کچھ پہریدار عطا فرمائے ہوئے ہیں اور جو ہماری حفاظت کرتے ہیں.صبر ٹوٹنے سے اچانک یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارا حفاظتی نظام ٹوٹ گیا ہے.انسانی آرزؤں اور تمناؤں اور خواہشات اور جن چیزوں سے بھی انسان بنا ہوا ہے ان کی ہر سمت میں، ان کی ہر سڑک پر جہاں سے وہ چیزیں گزرتی ہیں ان پر خدا تعالیٰ نے پہریدار مقرر فرمائے ہوئے ہیں اور یہ پہریدار ہیں جو صبر کے نظام کے تابع کام کر رہے ہیں پس جب صبر ٹوٹتا ہے تو سارا دفاعی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے.اشتعال کی حالت میں صبر بہت ہی زیادہ ضروری ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر جو مجھے خاندانی اور نجی جھگڑوں میں شکائتیں ملتی ہیں اور تکلیفوں کی اطلاعیں ملتی ہیں ان کی بنیا داشتعال پر ہوا کرتی ہے.یعنی غصہ تو پیدا ہو جاتا ہے لیکن جب انسان مشتعل ہو جائے اور اختیار نہ رہے اپنے اوپر.اس کے نتیجے میں جو اس کے منہ سے باتیں نکلتی ہیں یا جو حرکتیں اس سے سرزد ہوتی ہیں وہ اپنا دائی اثر پیچھے چھوڑ جایا کرتی ہیں.چنانچہ کئی دفعہ بعض خاندانوں کو سمجھاتے ہوئے انہوں نے کہا ہے جی ! یہ تو ہو گیا لیکن فلاں وقت اس نے جو میری ماں کے متعلق یہ بات کہہ دی اب میں اس کو نہیں بھول سکتا، ایسی کڑوی بات ہے کہ میں اس کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا کہ وہ بات بھی رہے اسی جگہ اور یہ عورت بھی میرے ساتھ رہے اسی طرح یا خاوند بھی میرے ساتھ رہے اور یہ بات بھی میرے ساتھ رہے.وہ بات ایسی تلخ ہے جو ہمیشہ کے لئے اس کے دل میں کس گھولتی رہتی ہے اور بعض دفعہ ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جس کے نتیجے میں انسان سمجھتا ہے کہ کسی حد تک یہ شخص مجبور ہو چکا ہے اور بات کیا تھی بس ایک اشتعال کی حالت تھی.تو صبر کا مضمون بہت ہی وسیع ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے اور صبر

Page 884

خطبات طاہر جلدے 879 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء سے باہر پھر شرک ہے یعنی غیر اللہ کی طرف حرکت کرنا ہے.اگر انسان اشتعال پر صبر کر جائے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نصیحت کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ دیر گزار لے تو وہ جو وقت آتا ہے دھماکے کا وہ یکساں نہیں رہا کرتا کچھ دیر کے بعد اس کو سکون ملنا شروع ہو جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا صبر رفتہ رفتہ قناعت کی طرف لے کر جاتا ہے لیکن صبر کے مضمون کا وقت سے تعلق ہے ،صبر کو وقت چاہئے.جب آپ صبر کو وقت ہی نہیں دیں گے تو پھر دھما کہ پیدا ہو جائے گا.ہائی بلڈ پریشر ہو انسان اس کے ساتھ بیسیوں سال تک زندہ ہو لیکن جب وہ بلڈ پریشر مشتعل ہو کر انسانی دماغ کی رگ پھاڑ دے پھر تو اس کے لئے کوئی امید باقی نہیں رہتی اور اگر رہے گا بھی تو مفلوج کی طرح زندہ رہے گا کسی بنیادی انسانی طاقت سے محروم ہو کر زندہ رہے گا.اس لئے اشتعال ویسی ہی چیز ہے جیسے بلڈ پریشر کا پارہ اچانک چڑھے اور انسانی کسی Valve پر یادماغ کی کسی رگ پر حملہ کرنے پر آمادہ ہو جائے اگر اس وقت آپ اس کو روک لیں تو پھر رفتہ رفتہ وہ کم ہونا شروع ہو جائے گا اور پھر وہ خطرے کا وقت ٹل جائے گا اور پھر آپ کی زندگی نارمل طریقے پر بسر ہو سکتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو اشتعال پر قابو کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.خصوصاً اس لئے کہ جن اشتعالات کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے ان اشتعالات میں بعض ایسے بھی ہیں جو عام دنیاوی تجربے سے بڑھ کر ہیں.مثلاً ماں باپ سے انسان کو محبت ہوتی ہے اور اتنی محبت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ اپنی ذات کے خلاف انسان باتیں برداشت کر لیتا ہے، ماں باپ کے خلاف نہیں کر سکتا، بعض ماؤں کو بچوں سے ایسا پیار ہوتا ہے کہ دوسروں کے اوپر بات برداشت کرلیں گی ، خاوند پر کرلیں گی، اپنے اوپر کر لیں گی مگر بچوں پر کہی ہوئی بات برداشت نہیں کر سکتیں.اسی طرح الہی تعلقات میں بھی بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر انسان بات برداشت نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک گستاخ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حاضر ہوا اور نہایت بد تمیزی کی باتیں شروع کیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پورے صبر اور ضبط کا نمونہ دکھایا لیکن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بار بار بے قابو ہوتے تھے.اس لئے نہیں کہ ان میں صبر نہیں تھا اس لئے کہ اپنے اوپر وہ یہ باتیں برداشت کر سکتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہیں کر سکتے تھے.ایک اور شخص کے متعلق یہ واقعہ آتا ہے ایک صحابی کے متعلق

Page 885

خطبات طاہر جلدے 880 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس کو سمجھایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے اشتعال میں آکر کسی دشمن کو اور کسی معاند کو بہت سخت لفظ کہے ہیں تو تمہیں صبر کرنا چاہئے.اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میرے آقا! میں جانتا ہوں اس مضمون کو یعنی یہ الفاظ نہیں مگر اس قسم کی باتیں اس نے پیش کیں لیکن آپ مجھے تو صبر کی تلقین کرتے ہیں کہ جب آپ کے متعلق کوئی بات ہو تو میں صبر کروں لیکن جب حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کوئی حملہ کرتا ہے آپ کا صبر ٹوٹ جاتا ہے، آپ برداشت نہیں کر سکتے.تو میرا بھی یہی حال ہے.آپ کی محبت اتنی غالب ہے میرے دل کے اوپر جب آپ کے اوپر کوئی حملہ کرتا ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا.تو اس لئے بعض ایسے حالات ہوتے ہیں جماعت کے اوپر بھی جن میں عام دنیاوی تعلقات سے بڑھ کر آزمائش پڑتی ہے اور بعض وقت ایک انسان کا صبر نہ کرنا ساری جماعت کو مصیبت میں مبتلا کر سکتا ہے.کسی ایک وقت میں کسی مقام پر کسی شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہایت ہی غلیظ اور خبیثانہ زبان استعمال کی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے میری قربانی کا وقت ہے مجھے ذبح کر دیں اب میں برداشت نہیں کروں گا لیکن سوال یہ ہے کہ وہاں اس ایک شخص کی غیرت کا سوال نہیں ہے تمام جماعت کے معصوم مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کی حفاظت اور ان کے امن کا سوال ہے اور اعلیٰ جماعتی روایتوں کی حفاظت کا سوال ہے.اس لئے جس شخص کو صبر کی عادت نہیں وہ بعض دفعہ اپنے تمام ساتھیوں اور اپنے گروہ کے لئے بھی مشکل کا موجب بن سکتا ہے اور ان کے لئے خطرات کا موجب بن سکتا ہے.کئی دفعہ مجھے ایسی اطلاعات آئیں گزشتہ وقتوں میں جن سے پتا چلا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حفاظت اس وقت نہ فرمائی ہوتی تو ایک یاد و یعنی غیور کہلانے والے احمدیوں کی وجہ سے ساری جماعت کو بڑی مصیبت پڑ سکتی تھی.غیور کہلانے والے میں نے اس لئے کہا ہے کہ غیرت بھی کوئی ایسی صفت نہیں ہے جس کی حدود نہ ہوں اگر حدود کے اندر ہے تو غیرت ہے اگر حدود سے بڑھ گئی ہے تو وہ شوخی اور بیوقوفی بن جاتی ہے.اس لئے اسلام توازن کا نام ہے.جہاں غیرت صبر کی حدود سے باہر نکل جاتی ہے وہاں غیرت نہیں ہے دراصل وہاں حماقت ہے.سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ ان حدود کو خود وسیع کر دے ایسے مقام بھی آتے ہیں جہاں غیرت کی کوئی انتہا نہیں رہا کرتی مگر وہ اس وقت موقع نہیں ہے وہ الگ مضمون ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی

Page 886

خطبات طاہر جلدے 881 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء زندگی میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ بعض مقامات سے غیرتوں کی حدود بھی توڑ دی جاتی ہیں اور خدا کے لئے جو غیرت ہے بعض دفعہ لا محدود قرار دے دی جاتی ہے.مگر وہ اپنے مقامات ہیں ان کے لئے ویسی حکمت کی ضرورت ہے اور اعلی عقل و دانش کی ضرورت ہے ان باتوں کو سمجھنے کے لئے.مگر جہاں تک عام ایک احمدی کا تعلق ہے اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھیں کہ اگر آپ کو اپنے اشتعال کے وقت میں اپنے جذبات پر قابو کرنے کا سلیقہ نہیں اگر اس وقت آپ کو صبر نہیں آتا تو آپ اپنی ذات کے لئے بھی خطرہ ہیں، اپنے گھر کے لئے بھی خطرہ ہیں، اپنے معاشرے کے لئے خطرہ ہیں اور بعض صورتوں میں ساری جماعت کے لئے بھی آپ خطرہ بن سکتے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتوں میں تو تو میں میں کرنا تو عام ہمارے گھروں میں دستور بن گیا ہے اور جہاں یہ دستور زیادہ ہو جاتا ہے وہاں پھر یہ بات بڑھتے بڑھتے بدکلامی کی عام عادت مستقل بدخلقی میں تبدیل ہو جاتی ہے.پھر گھروں میں تو تو میں میں، پھر گلیوں میں تو تو میں میں بن جاتی ہے.سارا معاشرہ دکھنے لگتا ہے اس قسم کی بیہودہ حرکتوں سے تو روز مرہ کے وقت اشتعال کی حالت سے پہلے کی جو حالت ہے اس میں اگر آپ صبر نہیں سیکھیں گے تو آپ اشتعال سے بھی نہیں بچ سکیں گے.روز مرہ چھوٹے چھوٹے غصوں کے وقت اپنی حفاظت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ہر روز کے عام غصوں سے تو اپنی حفاظت نہ کر سکیں اور مشتعل حالت میں آپ اپنی حفاظت کر سکیں.ہر چیز کے لئے Exercise کی ضرورت ہوتی ہے، ورزش کی کثرت کی ضرورت پڑا کرتی ہے.یہ جو معرفتیں ہیں یہ اچانک حاصل نہیں ہوا کرتیں.روحانی ترقیاں کوئی ایسی چیز نہیں ہیں کہ اچانک آپ کو ایک دن میں روحانی ترقیات نصیب ہو جا ئیں.جسمانی ترقیات کیوں نہیں نصیب ہو جاتی ایک دن میں، یہ دنیا کھیل نہیں ہے.قانون قدرت ایک بہت وسیع نظام ہے جس کے تابع رہ کر ترقی ملا کرتی ہے.محنت کرنی پڑتی ہے، لمبے سفر کرنے پڑتے ہیں، وقت کی قیمت کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے.اس لئے جب میں آپ کو کہتا ہوں کے اشتعال کو قابوکریں تو ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ آپ نے میری بات سن لی، آپ کے دل پر اثر ہو گیا اور اب آج کے بعد آپ مشتعل نہیں ہو سکتے.اگر اب اپنے گھروں میں جا کر آپ مشتعل ہو جاتے ہیں، اگر اپنے دوستوں کی مجلس میں آپ مشتعل نہ سہی یعنی عام غصے کے آثار ظاہر کرتے ہیں اور غصے کے وقت فوری بدلا لینے کی کوشش کرتے ہیں ، زبان کے چرکے لگا کر یا دل

Page 887

خطبات طاہر جلدے 882 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء میں کینہ رکھ کر یہ فیصلہ کر کے کہ میں اس شخص کو بعد میں کوئی سبق سکھاؤں گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کر آپ کبھی بھی کسی حالت میں اشتعال کے خطروں سے بچ نہیں سکیں گے.یہ وہ چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے تجربے ہیں جن میں آپ کو ورزش کرنی پڑے گی اور Conscious رہنا پڑے گا ، باخبر رہنا پڑے گا اپنے حالات پر روزمرہ دیکھنا ہو گا کہ اب اس باراس ناراضگی پر میں نے کیا ردعمل دکھایا، اس ناراضگی پر میں نے کیا ر در عمل دکھایا پھر خود اپنی تربیت کرنی ہوگی اور گزشتہ دنوں کے مقابل پر حال سے مقابلہ کرنا ہوگا ، آئندہ زمانوں میں پھر اس بات پر نظر رکھنی ہوگی.رفتہ رفتہ آپ کو خدا تعالیٰ خود سلیقہ عطا کر دے گا.بچوں کو آپ دیکھیں جن کو خیال ہو اپنے جسم کمانے کا وہ ورزشیں شروع کرتے ہیں پھر رفتہ رفتہ ان کو پتا چلتا ہے کہ کس جسم کے حصے میں خاص کمزوری تھی ، کونسی نئی ورزش کی ضرورت ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام تک پہنچتا ہے جہاں تک اس کا پہنچنا اس کے اپنے جسم کا معراج ہے.ہر انسان کے جسم کا اور ہر انسان کے اخلاق کا اپنا اپنا ایک معراج کا مقام ہوا کرتا ہے.اس سے آگے انسان نہیں بڑھ سکتا.اس سے آگے جب بڑھنے کی کوشش کرے پھر وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے.اسی لئے بعض لوگ جن کے اندر روحانی صلاحتیں زیادہ نہیں جب زیادہ روحانی بنتے ہیں تو پاگل ہو جاتے ہیں.ان کو اپنے اوپر کسی قسم کا کنٹرول باقی نہیں رہتا نظم وضبط ان کا ٹوٹ جاتا ہے، بعض لوگ وظیفے کرتے کرتے بالکل حواس کھو بیٹھے ہیں اور ایسی اطلاعیں مجھے ملتی رہتی ہیں کہ فلاں آدمی بیچارہ بہت نیک تھا اور نیکی میں پاگل ہو گیا.دراصل استطاعت سے باہر جانے کی اس نے کوشش کی تھی اس لئے اس نے اپنا دماغی توازن کھویا ہے، نیکی کے نتیجے میں نہیں کیونکہ نیکی کی تعریف میں یہ داخل ہے کہ توازن اختیار کرو اور اسلام ہے ہی دین وسطی ، وسطی حالت کا دین وسطی حالت پر رکھنے والا دین.بہر حال یہ تو ضمناً ایک ذکر آیا تھا میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ غصے کے اوپر ضبط کرنے کی کوشش آپ روز مرہ اپنے گھروں میں شروع کریں ، اپنے دوستوں کے تعلقات میں شروع کریں، اپنے دفتری تعلقات میں شروع کریں اور رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اندر سے ایک نیا زیادہ طاقتور، زیادہ عظیم وجود پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کا جو فائدہ ہے وہ صرف منفی نہیں رہے گا یعنی یہ نہیں ہو گا کہ آپ پھر مشتعل ہو کے کوئی ایسی بات نہ کر سکیں گے جس سے آپ کی ساری زندگی کی

Page 888

خطبات طاہر جلدے 883 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء محنتیں ضائع ہو جائیں، ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو ہلاک کرنے والی بنیں بلکہ آپ دیکھیں گے کہ اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِینَ کا وعدہ آپ کے حق میں پورا ہورہا ہے.حلم جس کو عطا ہو خدا اس کے قریب آجایا کرتا ہے اور رفتہ رفتہ صبر کے نتیجے میں انسان کے اندر الہی طاقتیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے صبر خواہ غصے کی حالت پر ہو یا کسی اور حالت پر ہو ہمیشہ آپ کو صبر خدا کی طرف لے کے جائے گا اور اگر وہ اس نیت کے ساتھ کیا گیا ہو کہ خدا مجھے ملے تو اس کے نتیجے میں تو پھر مزید ایسے روحانی فوائد بھی انسان کو حاصل ہوں گے جن کی تفصیل کا یہاں اس وقت موقع نہیں ، نہ وقت ہے لیکن ہر انسان جس کو ان امور کا تجربہ ہے وہ جانتا ہے یا جس کو نہیں ہے اس کو علم ہو جائے گا.یہ ایسی چیزیں ہیں جو روزمرہ آپ کو محسوس ہوں گی.یعنی جب آپ خدا کی خاطر کسی ایک پہلو سے صبر اختیار کرنے کی کوشش شروع کر دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ روز مرہ آپ خدا کو اپنے پہلے سے قریب تر پائیں گے.یہ ہے فرار الی اللہ یہ ایک فرضی بات نہیں ہے ، یہ ایک حقیقت ہے، ایک سائنسی حقیقت ہے.خدا اس طرح نہیں ملا کرتا کہ اچانک سارے کا سارامل جائے.خدا لا محدود ہے آپ محدود ہیں.آپ اپنی حدود کے دائرے میں جس حصے کو خدا کا بناتے چلے جائیں گے اس حصے میں خدا آنا شروع ہو جائے گا اور ہر حصے میں بھی مکمل نہیں آسکتا جس حد تک کسی حصے کو آپ خدا کے سپر دکرنا شروع کرتے ہیں اس حصے میں اتنا ہی خدا کا عمل دخل زیادہ شروع ہو جاتا ہے.اس کا آخری مقام وہ ہے جس کو ہم مقام محمدیت کہتے ہیں.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : ۱۶۳) کا مقام ہے لیکن اس پر میں انشاء اللہ بعد میں روشنی ڈالوں گا جب تبتل الی اللہ کا مضمون بیان کروں گا.قناعت کے ایک طرف صبر کا پہرہ ہے جو شرک سے انسان کو بچاتا ہے اور دوسری طرف تبتل الی اللہ کا مضمون ہے جو تو حید خالص اور توحید کامل عطا کرتا ہے.ایک طرف منفی خطرات سے بچانے والی قوتیں ہیں اور دوسری خدا کی طرف لے جانے والی.جس حد تک بھی منفی خطرات سے بچے انسان اس حد تک خدا کے قریب ہوتا ہے لیکن وہ قرب کی حالت اور ہے جو قرب کی حالت تبتل الی اللہ کے نتیجے میں عطا ہوتی ہے وہ بہت ہی عظیم الشان حالت ہے اور وہ محض صبر سے عطا نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ ایک زیادہ گہرا اور زیادہ وسیع مضمون ہے.بہر حال اس کی باتیں انشاء اللہ بعد میں ہوں گی.اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کے خوف کی حالت میں صبر اور حرص کی حالت میں صبر، نقص اموال کی حالت

Page 889

خطبات طاہر جلدے 884 خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۸۸ء میں صبر ، نقص جان کی حالت میں صبر ، آرزؤں کے مقابل پر صبر کی مزاحمت ، نتائج کے انتظار میں صبر.یہ چند امور ہیں جو میں جماعت کے سامنے خاص طور پر رکھنا چاہتا ہوں.خوف کے وقت بھی انسان صبر کا دامن چھوڑ دیتا ہے اور غم کی حالت میں جب نقصان ہو جاتا ہے اس وقت بھی بسا اوقات صبر کا دامن چھوڑ دیتا ہے.اگر خوف کے وقت اللہ صبر کیا جائے تو اس کا پھر کیا نتیجہ نکلے گا.سوال یہ ہے کہ ایک انسان گھیرے میں آ گیا ہے، کوئی بچنے کی صورت نہیں ہے اگر خوف غالب آجائے اور صبر نہ رہے تو جو بھی انسان حرکت کرے گا وہ نقصان والی حرکت ہوسکتی ہے لیکن اگر الہ صبر کرے خوف سے تو اس وقت اس کو ایک قسم کی طمانیت محسوس ہوتی ہے.انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس خوف سے اگر کوئی بچا سکتا ہے تو خدا بچا سکتا ہے اور اگر خدا کی مرضی نہیں ہے تو تب بھی میں خدا ہی کا ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا جو اس کا فیصلہ ہے مجھے منظور ہے.تو وہ خوف غیر اللہ کا نہیں رہتا بلکہ خدا کا خوف بن جاتا ہے.شرک کا مضمون توحید میں تبدیل ہو جاتا ہے.ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے اپنا ایک واقعہ سنایا جنہیں لوگ کہتے تھے جن بھوت یا اس قسم کے قصے مجھے انہوں نے فرمایا کہ مجھے زیادہ تو اس کا تجربہ نہیں لیکن ایک ایسا واقعہ ہے جو اس قسم کے واقعات کے قریب تر ہے اور وہ یہ کہ میں اپنے دالان میں پوری طرح دروازے بند کر کے لیٹا تھا اور ابھی پوری طرح نیند نہیں آئی تھی کہ میں نے دیکھا میری ٹانگوں پر ہاتھوں کا دباؤ پڑا ہے.اتنا واضح اور مضبوط دباؤ تھا کہ اس کو کسی طرح بھی وہم قرار نہیں دیا جا سکتا اور چونکہ بجلی بجھا چکا تھا میں نظر نہیں آسکتا تھا کہ کون ہے.کچھ دیر کے بعد پھر دوبارہ ، پھر سہ بارہ جب دباؤ پڑا اور بڑے زور سے پڑا تو مجھے اس حالت میں پہلے خوف پیدا ہوا پھر میں خدا کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے اس وجود کو جو بھی تھا میں نہیں جانتا اس کو میں نے کہا کہ دیکھو اگر تو تم کوئی غیر اللہ کی خدا کے سوا کوئی طاقت بن کے آئے ہو، کوئی شیطانی طاقت ہو جو مجھے ڈرانے آئے ہو تو میں موحد ہوں، مجھے کسی غیر اللہ سے کوئی خوف نہیں ہے.اگر خدا نے مجھے تم سے بچانا ہے تو بچائے گا نہیں بچائے گا تب بھی میں اس کی رضا پر راضی ہوں مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں اور اگر تم خدا کی طرف سے آئے ہو تو پھر کرو جو کرنا ہے میں کون ہوتا ہوں روک ڈالنے والا.ادھر یہ الفاظ میں نے بلند آواز میں ادا کئے اور اچانک وہ دباؤ ہٹا اور اس کے بعد پھر کبھی مجھے اس قسم کا تجربہ اس جگہ نہیں ہوا اور نہ بھی کوئی خوف پیدا ہوا.

Page 890

خطبات طاہر جلدے 885 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۸ء یہ ہے وہ مضمون جو خوف کے وقت صبر یعنی اللہ صبر کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.اگر آپ خوف سے اللہ کی خاطر صبر کرتے ہیں تو لازماً آپ کو ایک اندرونی عرفان نصیب ہوگا.آپ یہ محسوس کریں گے کہ یہ خوف اگر غالب آجائے تو میں کچھ نہیں کر سکتا مگر میں اللہ کی خاطر اس خوف کو اپنے نفس پر، اپنی روح پر غالب نہیں آنے دوں گا.یہ نقصان پہنچا سکتا ہے تو میرے جسم کو پہنچا سکتا ہے لیکن اس خوف سے میں مرعوب نہیں ہوں گا کیونکہ خدا کے سوا میں کسی سے مرعوب ہونے والی چیز نہیں ہوں، میں خدا کی پناہ میں آتا ہوں.اس حالت سے خوف آپ پر جب غلبہ نہیں کر سکتا تو آپ کے اندر سے ایک نئی عظمت پیدا ہوتی ہے.الہی صفات آپ کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں، آپ خدا کو اپنے قریب محسوس کرتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کا بگاڑ نہیں سکتی.لاحول ولا قوۃ کا مضمون آپ کے ضمیر کے اندر روشنی بن کر ابھرتا ہے.یعنی صرف ایک ورد نہیں ہے جو زبان پر جاری ہو اس کی روشنی آپ اپنے ضمیر کے اندر محسوس کرتے ہیں کہ کوئی خوف خدا کے سوا ہے ہی نہیں اور اگر کوئی قوت ہے تو صرف خدا کی قوت ہے.اس کے نتیجے میں آپ پھر اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ کا وعدہ پورا ہوتے ہوئے دیکھیں گے.پھر نقصان کے وقت کا خوف ہے، جان کا نقصان ہو یا مال کا نقصان ہو بعض لوگ واویلا شروع کر دیتے ہیں ، بعض عورتیں ہیں روتی ہیں، پیٹتی ہیں کہتی ہیں ہمیں صبر نہیں آسکتا.بعض بچیوں کی مائیں چلی جاتی ہیں ایسی حالت میں، ایسے نازک موڑ میں جبکہ ان کو بڑا گہرا نفسیاتی نقصان پہنچ جاتا ہے.وہ بھتی رہتی ہیں کہ ہم اس صدمے کو بھول نہیں سکتے لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ بات بتاتی ہے کہ انہوں نے اللہ صبر کی کوشش ہی نہیں کی.اگر ایک انسان کے ہاتھ سے کوئی چیز جاتی رہی ہے تو اس وقت انسان کو اپنی بے بضاعتی اور بے حیثیتی کا علم پہلے ہونا چاہئے.ہر نقصان انسان کو یا انکسارسکھا سکتا ہے یا اس کے اندر نظم و ضبط کی جتنی طاقتیں ہیں ان کو تو ڑ کر فنا کر سکتا ہے.اگر نقصان انسان کو انکسار سکھاتا ہے تو یہ انکسار انسان کو خدا کی طرف لے جاتا ہے.اگر اس کے ضبط و حمل کی طاقتوں کو توڑ کر پارہ پارہ کر دیتا ہے تو سوائے بربادی کے کچھ بھی پیچھے نہیں چھوڑتا.ہر ظاہری نقصان کے ساتھ ایک اندرونی نقصان کا عکس پیدا ہوا کرتا ہے.قرآن کریم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اپنے ظاہری نقصان کو اپنے اندرونی نقصان میں تبدیل نہ ہونے دو اور یہی صبر اللہ کا مطلب ہے.اگر ایک انسان کا بچہ ضائع

Page 891

خطبات طاہر جلدے 886 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۸ء ہو گیا، اس کا کوئی محبوب ہاتھ سے جاتا رہا، اس کے مکان کو آگ لگ گئی ، اس کی بیوی بھی ضائع ہو گئی جو کچھ بھی ہوا ہے.جس حالت میں بھی وہ پہنچا ہے اگر اللہ صبر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ سوچے گا کہ جو کچھ بھی یہ تھا یا خدا کی طرف سے تھا اور میں اتنا بے اختیار اور بے بس انسان ہوں کہ اب مجھے پتا چلا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا.جب تک یہ چیزیں میرے پاس رہیں، میرے پاس رہیں جب چلی گئیں تو میں ان کو روک نہیں سکا.انسان کی کیا حیثیت ہے.یہ چیز اس کو انکساری سکھائے گی اور انکساری اسے خدا سے تعلق کی راہ دکھائے گی کیونکہ انکساری کا مطلب یہ ہے کہ انسان محسوس کرے کہ میں کمزور ہوں اور کمزوری ہمیشہ طاقتور سے تعلق قائم کرنے کا جذبہ بیدار کیا کرتی ہے اور صبر اللہ چونکہ اللہ ہی کا مضمون ہے اس لئے خدا کے سوا کوئی اور خیال اس کے دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا پھر ، انسان کی طرف بھاگنے کی بجائے اس کا دل خدا کی طرف بھاگے گا اور خدا سے ایک تعلق قائم ہو جائے گا.اگر یہ نہ ہو تو پھر پیٹتا رہے جو مرضی کرتا رہے ساری زندگی اسکی عذاب میں گزرے گی.بعض عورتیں پاگل ہو جاتی ہیں صدموں کے ساتھ ، گلیوں میں دیوانہ وار پھرتی رہتی ہیں.بعض لوگ سوسائٹی سے اپنے تعلقات توڑ لیتے ہیں، بعض خدا کے خلاف باتیں شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کیسا خدا ہے جس نے یہ مصیبت ہم پر ڈال دی ہے اس کو ہمارےاحساس کا کوئی خیال نہیں آیا.تو جب صبر ٹوٹتا ہے تو تو حید ٹوٹ جاتی ہے.خدا سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے.ہر قسم کے نقصانات کے لئے انسان اپنے وجود کو کھلا چھوڑ دیتا ہے اس لئے فَفِرُّوا اِلَى الله کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت، ہر نقصان کے وقت ، ہر خطرے کے وقت خدا کی طرف دوڑنے کی عادت ڈالو.اگر تم خدا کی طرف دوڑنے کی عادت ڈالو گے تو تمہیں اس کے نتیجے میں جو صبر نصیب ہو گا وہی ہے جو تمہاری حفاظت کرے گا اور اگر نہیں کرو گے تو کوئی بھی پاک تبدیلی تم پیدا نہیں کر سکتے ، اپنے حالات کو بہتر نہیں بنا سکتے لیکن نقصان پھر تمہارا بیرونی نہیں رہے گا تمہاری اندرونی دنیا بھی اجڑ جائے گی.جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا.اس لئے صبر کو بڑی تفصیل سے سمجھ کر اپنی انسانی زندگی کی ہر حالت پر اس کو صادق کرنا چاہئے ،اس کا اطلاق کرنا چاہئے اور اب اس کے بعد آپ دیکھیں گے یعنی جب بھی آپ کے اوپر کوئی نہ کوئی حالت طاری ہوگی اور روزانہ ہوتی رہتی ہے انسان پر.بعض خطرے تھوڑے ہوتے ہیں بعض بڑے ہوتے ہیں.انسان

Page 892

خطبات طاہر جلدے 887 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۸ء جب صبح کے وقت آنکھ کھولتا ہے تو جب تک شام کو تھک کر اس کو نیند دنیا و مافیہا سے غافل نہیں کر دیتی بے شمار تجارب سے انسان گزرتا ہے.ضروری تو نہیں کہ کوئی بہت بڑا طوفان ہی آجائے تو تب انسان کو پتا چلتا ہے کہ میں خطروں میں گھرا ہوا ہوں.کوئی چھوٹی سی خبر آگئی کسی نقصان کی اور کچھ نہیں تو گھر میں کوئی برتن ٹوٹ گیا، کسی بچے نے چھینک ماری تو ماں کو خطرہ پیدا ہوا یہ بیمار ہو جائے گا.روز مرہ کی باتیں پتا چلا کہ یہ کوئی چیز نئی لے آیا ہے.کوئی چیز خرید کے آئی ہے عورت تو دائیں بائیں پاؤں کی بجائے ایک ہی پاؤں کی دونوں جوتیاں خرید لی گئیں، کوئی چیز لی ہے اس میں کوئی سوراخ تھا اس کا نقصان تو بعد میں پتا چلا.ایک مسئلہ ہے کوئی انسانی زندگی تو مسائل سے گھری ہوئی ہے صبح سے شام تک یا امید میں بندھ رہی ہیں یا نقصان کی خبریں آرہی ہیں یا خوف ہے یا کوئی نہ کوئی حالت تو انسان پر رہتی ہے.ان حالتوں میں آپ اللہ کی طرف دوڑنے کی کوشش کریں یہ ہے وہ بات جو میں آپ کو سمجھانی چاہتا ہوں.اگر ان چھوٹی چھوٹی حالتوں میں آپ نے عادت نہ ڈالی خدا کی طرف دوڑنے کی تو پھر بڑے وقتوں میں آپ نہیں دوڑ سکیں گے.آپ نے دیکھا نہیں جب جنگیں آیا کرتی ہیں تو حکومتوں کی طرف سے ایسی مشقیں کروائی جاتی ہیں کہ اگر Air Raid کا الارم بجے تو تم نے کن پناہ گاہوں کی طرف دوڑنا ہے اور یہ جو تجربہ ہے یہ انسان کو تو اس رنگ میں کبھی کبھی پیش آتا ہے.حیوانی زندگی میں تو ہر روز یہ تجارب بعض دفعہ گھنٹے میں کئی کئی مرتبہ تجارب ہوتے رہتے ہیں.آپ نے چڑیاں چگتی نہیں دیکھیں کس طرح وہ بار بار بائیں دائیں دیکھ رہی ہوتی ہیں اور ہر چڑیا جونگرانی کر رہی ہوتی ہے اپنی ، اپنے ساتھیوں کی کہ کہیں کوئی دشمن حملہ آور تو نہیں ہورہا اس کو پتا ہوتا ہے کہ میری پناہ گاہ کونسی ہے.ہر چوہا جو بل سے باہر جاتا ہے اس کو علم ہوتا ہے کہ میں نے کس پناہ گاہ کی طرف واپس دوڑنا ہے.کوئی دنیا کا جانور نہیں ہے جو اپنی پناہ گاہ کو نظر انداز کر کے میدانوں میں باہر آئے اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ دنیا سے ملیا میٹ اور نابود ہو جائے گا.اس وسیع حیوانی تجربہ سے انسان کیوں فائدہ نہیں اٹھا تا اگر آپ کو خدا کی پناہ گاہوں کی طرف دوڑنے کی عادت نہیں رہی ، اگر آپ کو معلوم نہ ہوا کہ کن پناہ گاہوں میں آپ نے کن خطروں کے وقت پناہ لینی ہے تو آپ کھلے آسمان کے نیچے بغیر چھت کے، بغیر کسی سہارے کے پڑے رہ جائیں گے.خطروں کے وقت پھر کوئی پناہ گاہ آپ کو یاد نہیں آئے گی.آپ کو توفیق نہیں ملے گی کہ آپ خدا کی پناہ میں آجائیں.خدا کی پناہ میں آنا ہے تو

Page 893

خطبات طاہر جلدے 888 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۸ء روزانہ کی زندگی میں ہر روز یہ مشق کریں، انسانی حالات میں تو یہ جنگوں کے زمانے کبھی کبھی آیا کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے جس جہاد کی طرف مومن کو متوجہ کیا ہے نفس کا جہاد اس کی جنگ ہر روز ہرلمحہ جاری ہے.ہر لمحہ ایسے خطرات درپیش ہوتے ہیں کہ جب آپ خدا کی کسی صفت کی پناہ گاہ کی طرف دوڑتے ہیں اگر نہیں دوڑتے تو پھر آپ غافل ہیں اور غافل کو ہمیشہ خطرات ایسے وقت میں آلیتے ہیں کہ کوئی چیز اس کی حفاظت نہیں کر سکتی.پس غفلت سے ایک ہوش کی حالت کی طرف منتقل ہوں.خدا تعالیٰ کی پناہ گاہیں لا منتہی ہیں.آپ کے خوف جتنے بھی ہو سکتے ہیں ہر خوف سے بڑھ کر اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے ایک پناہ گاہ رکھی ہوئی ہے لیکن روز مرہ اس کی مشق کریں.پہچانیں کہ وہ کونسی پناہ گاہ ہے ،کس طرح آپ نے خدا کی پناہ میں آنا ہے، کس طرح اس کی حفاظت میں جانا ہے پھر آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑے بڑے خطرات سے پنا ہیں ملیں گی.کوئی دنیا کی طاقت، کوئی دنیا کا خوف ایسا نہیں ہے جو آپ کے اوپر غالب آ سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے عالمی خطرات کی خبریں دیں اور زلازل کی خبریں دیں اور بتایا کہ بہت ہی خوفناک آگئیں ہیں جو تمام جہان کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی تو ایسے بندوں کے متعلق بھی آپ کو خبر دی گئی جو خطرات کے وقت خدا کی پناہ میں آنے کے عادی ہو جایا کرتے ہیں جن کے دل میں خدا کا پیار ہوتا ہے.تو آپ نے فرمایا: آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار (درین صفحہ ۱۵۴) پس جیسا کہ میں نے پہلے خطبہ میں بھی کہا تھا خدا کے پیار کے نتیجے میں خدا کی طرف دوڑنے کی عادت ڈالیں یہی آپ کی پناہ گاہیں ہیں.ہر مشکل، ہر خطرے کے وقت، ہر امید کے وقت، ہر آرزو کے وقت، ہر نقصان کے وقت، ہر حرص کے وقت یہ سوچیں کہ میں اس حالت میں اپنے خدا کو کیسے پا سکتا ہوں.یہ ہے وہ شعوری طور پر پناہ گاہ ڈھونڈ نا اور آپ حیران ہوں گے کہ کوئی انسانی حالت ایسی نہیں ہے جو انسان کو خدا کی طرف نہ لے جائے یا لے جانے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو.ہر انسانی تجربہ دور ہیں رکھتا ہے یا خدا سے دور لے جانے کی راہ یا خدا کی طرف جانے کی راہ اور ہر روز

Page 894

خطبات طاہر جلدے 889 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۸ء انسان اپنے خدا کی طرف بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کو مواقع عطا کئے جاتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثر بدنصیبی سے ان مواقع کو کھوتے چلے جاتے ہیں.پس جماعت کو فَفِرُ وا اِلَی اللہ کے مضمون کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قناعت سے یہ مضمون نصیب ہوتا ہے اور قناعت کے نتیجے میں پھر اور عظیم الشان ترقیات عطا ہوتی ہیں.اگر قناعت نہیں تو پھر صبر کی عادت ڈالیں اور اگر صبر نہیں ہے تو پھر خدائے واحد کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق قائم نہیں رہے گا کیونکہ بے صبری لازماً شرک اور شیطانیت کے ویرانوں کی طرف انسان کو لے جاتی ہے وہاں بھی اس کو کچھ نصیب نہیں ہوا کرتا.اس لئے بے صبری در حقیقت نامرادی کی طرف لے کے جاتی ہے.سب کچھ کھو دینے کا نام بے صبری ہے اور جو خدا نہیں دیتا وہ غیر کوئی دے ہی نہیں سکتا کبھی ، دھوکا ہے صرف سراب ہے.جب انسان اس سراب کی پیروی کرتا ہے تو وہاں خدا کو پاتا ہے کہ وہ اس کا حساب دے اس کے سوا اسے کچھ نصیب نہیں ہوا کرتا.پس اللہ تعالیٰ جماعت کو صحیح معنوں میں فرار الی اللہ کی توفیق بخشے.جماعت کے ہر فرد کو قناعت عطا فرمائے اور صبر کی فصیلیں اس کی قناعت کی اس کی خواہشات کی چاروں طرف سے حفاظت کر رہی ہوں.ہمیشہ وہ خدا کی پناہ میں رہے اور خدا کی پناہ میں دوڑنے کی عادت ڈالے.یہ ایسے آپ بن جائیں، اس حالت میں آپ اگلی صدی میں داخل ہوں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی قسم آپ خدا کی پناہ گاہیں بن جائیں گے.تمام زمانہ خدا کے ڈھونڈنے کے لئے آپ کی طرف دوڑے گا اور آپ کی پناہ گاہیں دنیا کو ہر قسم کے خطرات سے نجات بخشیں گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، خدا کرے کہ اگلی صدی خدا کی صدی ہو اور خدا کی پناہ گاہوں کی صدی ہو.آمین.

Page 895

اشاریہ خطبات طاہر جلدے

Page 896

انڈیکس خطبات طاہر جلدے آیا آبی جان آئیوری کوسٹ آدم علیہ السلام آپ کے ننگ ظاہر ہونے سے مراد آرمینیا آرمینیا میں فسادات کی وجہ آزادی عظیم الشان آزادی کا قرآنی فلسفہ قرآن نفساتی آزادی کو بہت اہمیت دیتا ہے اشاریہ ۷۵ ۳۰۳ ۳۵۷ ۳۵۸،۳۵۷ ۳۵۳ آیات قرآنی ترتیب بلحاظ قرآن کریم هدى للمتقين (۳) البقرة ممارزقنهم ينفقون (۴) يخدعون الله والذين امنوا (۱۰) ۷۱۵ ۱۹۲ ۵۸ في قلوبهم مرض فزاد هم الله مرضاً (۱۱) ۱۸۲ كونوا قردة خسئين (۶۶) احاطت به خطیئته (۸۲) فاينما تولوا فثم وجه الله (۱۱۶) ارنا مناسكنا (۱۲۹) ان الله مع الصابرين (۱۵۴) ۳۱۶ ۸۳۸ ۸۶۵،۸۴۱ ۷۴۶ ۸۷۵ آشانئی قوم غانا کی ایک آزاد منش قوم آمریت (ڈکٹیٹرشپ) آمریت کے نقصانات جسٹس آفتاب حسین وفاقی شرعی عدالت کے جج آوارگی ۸۴ ۵۹۸ ۴۰۱_۴۰۰ يايها الذين امنوا كتب عليكم الصیام ( ۸۴ ۱ تا ۱۸۷) ۲۴۵ الفتنة اشد من القتل (۱۹۲) عسى ان تكرهوا شيئاً وهو خير لكم (۲۱۷) ۵۶۵ لا نفرق بين احد من رسله (۲۸۶) ۷۵۰ آل عمران الذين يقولون ربنا اننا أمنا( ۱ ، ۱۸ ) ۲۸۳ ایک بہت بڑی معاشرتی بیماری آئیوری کوسٹ صدر نے حضور انور سے ملاقات کی صدر کے لیے دعا کی تحریک لعنت الله على الكاذبين (۶۲) ۸۶۸٬۸۰۷،۵۳۲ ۷۲۲ تا ۷۲۴ فمن حاجك فيه من بعد ماجاء ك من العلم (۲۲) ۳۸۷ ۷۵ LL تعالوا الى كلمة سواء بيننا وبينكم (۶۵) ۴۶۳ کنتم خير امة اخرجت للناس (۱۱۱) ۶۲۸،۲۴۱ بعض عناصر کی مذہب کے نام پر امن خراب کرنے کی کوشش ۹۶ قد خلت من قبلكم سنن (۱۳۸)

Page 897

نڈیکس خطبات طاہر جلدے ولو كنت فظا غليظ القلب (۱۶۰) ربنا ماخلقت هذا باطلا (۱۹۲) ۶۰۸ ۸۳۵ ان في خلق السموات والارض (۱۹۲،۱۹۱) ۷۶۶ 2 اولا يرون انهم يفتنون في كل عام (۱۲۶) بالمؤمنين رؤف رحیم (۱۲۸) یونس ۳۲۲ ۶۱۰ رابطوا (۲۰۱) النساء امنت انه لا اله الذي آمنت به (۹۲) ۶۵۰،۳۲۴ ننجيك ببدنك (۹۳) وليست التوبة للذين يعملون السيات (۱۹) ۳۲۲ هود عاشروهن بالمعروف (۲۰) يحرفون الكلم عن مواضعه (۴۷) ومن يعمل سوء او يظلم نفسه (۱۱۱) ۲۰۹،۱۹۹ ۳۹۸ ۲۹۶ فرح فخور (۱۲) حتى اذا جاء امرنا وفار التنور ( ۱ ۴ تا ۴۴) المائده انه ليس من اهلك (۴۷) قيل ينوح اهبط بسلم منا (۴۹) ۸۱۵ ۶۸۱ ۶۸۶ ۷۰۳ ولا تعاونوا على الاثم والعدوان (۳) ۴۷۶ ۳۱،۳۰،۲۱ ان الحسنات يذهبن السيئات (۱۱۵) ۷۳۲،۷۲۶،۲ يايها الذين امنوا اتقوا الله (۳۶) الانعام قل سيروا في الارض (۱۲) ولو ترى اذ وقفوا على النار (۲۹،۲۸) ۳۲۳ ولقد ارسلنا الى امم من قبلك (۴۳ تا ۴۶) ۴۲۹ وقال موسى ان تكفروا انتم ومن في الارض (۹) ۸۵۰ الرعد فيمكث في الارض (۱۸) ابراهیم لئن شكرتم لازيدنكم (۸) ۱۰۲،۵۲ وما يشعركم انها اذا جاءت (١١٠) لا تقتلوا اولادكم (۱۵۲) ۷۹۸،۵۵۶ ۷۸۱،۷۷۰،۱۹۸ ۸۸۳ قل ان صلاتی و نسکی و محیای (۱۶۳) الاعراف مخلصين له الدين (۳۰) خذوا زينتكم عند كل مسجد (۳۲) لكل ضعف (۳۹) بل هم اضل (۱۸۰) التوبة ۳۲۵ ۴۴۰ ۴۷۵ ۱۹۳ ان الله اشترى من المومنين انفسهم ( ١١١) ۶۱۳ الحجر وما ياتيهم من رسول الا كانوا ( ۲ ۱ تا ۱۶) ۵۴۷ لاتمدن عينيك الى ما متعنابه ازواجا (۸۹) ۲۸۵ النحل ولقد بعثنا في كل امة رسولاً (۳۷) قالت ان الملوك اذا دخلوا قرية (۳۸) ۵۸۱ انما يفترى الكذب الذين لایومنون (۱۰۶) ۱۷۳ بنی اسرائیل قل ادعو الذين زعمتم من دونه (۵۷) ۲۸

Page 898

۸۴۵ 3 انڈیکس خطبات طاہر جلدے اولئك الذين يدعون يبتغون الى ربهم الوسيله (۵۸) ۲۸ انه كان ظلوماً جهولاً (۷۳) طر انني انا الله لا اله الا انا فاعبدنی (۱۵) الانبياء وما ارسلنك الا رحمة للعالمين(۱۰۸) المومنون ۴۳۷ ۹۵ ادفع بالتي هي احسن (۳۰)۷۲۷،۷۲۶،۱۹۷،۲۶، ۷۳۲ النور ولاياتل اولوا الفضل منكم (۲۳) ۳۶۱،۳۶۰ لیس يحسرة على العباد ماياتيهم من رسول (۳۱) ۳۰۶ الزمر الذين يستمعون القول فيتبعون احسنه (۱۹) ۳۲۵ فی جنب الله (۵۷) ۲۹۱ المومن وان يك كاذباً فعليه كذبه (۲۹) حم السجدة ۳۹۲ ۸۶۶ ۷۲۶ ۳۹۵ ۴۸۷ ۱۶۵ ۳۱۵ ۶۰۹ طوعاً او كرها (۱۲) ادفع بالتي هي احسن (۳۵) الشورى لاحجة بيننا وبينكم (۱۵) الزخرف سبحن الذي سخر لنا (۱۵،۱۴) الجاثية افلاتذكرون(۲۴) محمد الفتح انتم الفقراء (۳۹) ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك (۳) محمد رسول الله والذين معه (۳۰) ۲۲۷،۲۱۷ ۸۶۴ ۸۴۵،۵۱۸ ۸۵۰ ۵۵۹ ۶۸۳،۷۰۹ ۴۷۳ لاشرقية ولا غربية (٣٦) الفرقان وقال الرسول يرب ان قومی(۳۱) ارئيت من اتخذ الهه هواه (۴۴) الشعراء لعلك باخع نفسك (۴) العنكبوت ومن جاهد فانما يجاهد لنفسه (۷) اتل ما اوحى اليك من الكتاب (۴۶) الروم يومئذ يفرح المومنون (٦) ظهر الفساد في البر والبحر (۴۲) الاحزاب يوم تقلب وجوههم في النار (۶۷ - ۶۹)

Page 899

انڈیکس خطبات طاہر جلدے الحجرات ولا يغتب بعضكم بعضاً (۱۳) ق هل من مزيد (٣١) الذاريات ان المتقين في جنت وعيون (۲ ۱ تا ۹ ۱ ) ۴۸۹ ۸۶۱،۲۹۶ ۲۹۹ فما لهم عن التذكرة معرضين (۵۰-۵۲) القيامة بل الانسان على نفسه بصيرة (۱۱۵-۱۲) الدھر ويطعمون الطعام على حبه (۹) الاعلى ففروا الى الله (۵۱) ۸۳۳،۷۸۶، ۸۸۶،۸۷۶،۸۶۵،۸۴۱ فذكر ان نفعت الذكرى (١٠) البلد ۸۳۲ ۸۳۷ ۳۴۱ ۱۶۳ الذين يجتنبون كبائر الاثم (۳۳) الرحمن ثم كان من الذين امنوا( ۱۸ ) الفلق ۳۴۸ كل يوم هو في شان (۳۰) 229 ومن شر حاسد اذا حسد (۶) ۷۶۷،۵۹۸،۱۲۸ الحديد الم يان للذين امنوا( 1 ) الحشر والذين جاء وامن بعدهم يقولون ربنا ( ا ا ) يايها الذين امنوا اتقوا الله (۱۹) له الاسماء الحسنى (۲۵) يعلمهم الكتب والحكمة (٣) الجمعة يايها الذين أمنوا اذا نودى(١٠ ، ا ا ) المزمل ماتيسر من القرآن (۲۱) المدثر ۷۸۹ مضمون بیان کیا گیا ابوجہل ۵۱ تکالیف پہنچا ئیں اور آنا فانا بلاک ہوا اجو بوڈے (افریقہ) ابراہیم علیہ السلام ۲۹۲ اپنی قربان گاہ دکھائے جانے کی دعا کی ۷۷۵ ۸۹۱،۶۴۴ آپ کی طرف منسوب تین جھوٹ کی حقیقت ابوالحکیم حضرت ابوبکر صدیق ۷۴۶ ۲۹۴ ۱۹۲ آپ کے ذریعہ محتاج کی ضرورت پوری کرنے کا عظیم الشان ۱۹ ۳۶۱،۳۶۰ ۶۷۱ ۹۱ ۲۶۹ احادیث | حدیث اتقوا فراسة المومن فانه ينظر بنور الله ۷۱۴

Page 900

LO 5 جمعہ کے دن ہر مسلمان پر غسل واجب ہے جمعہ سے مسلمانوں کا غفلت برتنا ۱۵ ۱۲ چاند دکھائی نہ دے تو وہموں کی وجہ سے پہلا روزہ نہیں رکھنا ۲۵۱ خدا سے مانگنے پر اس کے خزانوں میں کمی نہیں آئے گی دجال کا اثر دنیا میں ہر شخص تک پہنچ جائے گا ۵۲ ۱۲۱ ۲۴۷ ۲۴۸ ۳۳۱ دسویں محرم کا روزہ رمضان میں جبرائیل قرآن دہرائے تھے ۳۱ ۵۶۴ ۶۸۸ ۳۲۷ ۸۶۱ ۴۹۰ ۷۶۴ ۷۱۵،۶۸۸،۱۹۲ انڈیکس خطبات طاہر جلدے ات حمدان الوسيلة الامام جنة الا وان في الجسد مضغة الحكمة ضالة المومن الغنى غنى النفس اماطة الأذى عن الطريق انصر اخاك ظالماً او مظلوماً انما الاعمال بالنيات ترك الجمعة ثلاث مرات....حب الوطن من الايمان خيركم خيركم لاهله سيد القوم خادمهم شر من تحت اديم السماء فر من المجذوم فرارك من الاسد كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته لينتهين اقوام عن.من لم يشكر الناس لم يشكر الله ۱۶ ۹۸ ١٩٩ ۲۰۳ ۵۳۷ ،۳۱۷ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو پیاری لگتی ہے صدقۃ الفطر ادا کرو غصہ کے وقت اس پر قابورکھو کم سے کم اسلام کیا ہے؟ لیلۃ القدر طاق راتوں میں تلاش کرو مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے ۷۸۳ مدینہ بھٹی کی طرح ہے...مومن کو ایک کانٹا جیہنے پر بھی جزا مقدر ہے نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں ۹۳۵۶ جلدی کرتا ہے ۳۴۴ ALL ۳۲۸ ۳۳۳ ۸۵۶ ۶۷۰ ١٩٩ ولنفسك عليك حق ولاهلك عليك حق ۷۷۳ نجران کے عیسائی مباہلہ کے لیے نکلتے تو مٹادیے جاتے ۵۳۲ احادیث بالمعنى ۳۵۴ اصل غنی غنی النفس ہے اللہ نے رمضان کے روزے فرض کیے، میں نے تہجد کی سنت ۲۶۶ انتیس کے بعد بھی چاند نظر نہ آئے تو قدروا کا ارشاد ہے ۲۵۱ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دو بدھ کے دن فرعون اپنے انجام کو پہنچا ۵۱ ۴۹۵،۱۲۹ پہلے گھٹنا باندھو پھر تو کل کرو میاں بیوی تعلقات قائم کرتے ہوئے بھی دعا کیا کریں ۵۱۱ جمعہ اور سورج کے غروب ہونے کے درمیان قبولیت کی گھڑی ۳۳۳۲ ہر صدی کے سر پر خدا ایسے لوگوں کو مبعوث فرمائے گا حضرت محمد کا ایک زوجہ کو طاقت سے بڑھ کر عبادت سے منع فرما دیا آنحضرت کا ایک بدوی صحابی کو نماز کا طریق بتانا تراویح کی بنیاد آنحضرت نے رکھی ۷۰۵ ۱۳۰ ۵۱۷ ۲۶۸،۲۶۷ ۲۶۶ ۲۸۴ حضرت محمد رمضان میں ساری رات تہجد پڑھتے حضور راتوں کو اٹھ کر استغفار کرتے تھے لیلۃ القدر کے حوالے سے صحابہ کی رؤیا ایک رات پر متفق ۳۳۳ آنحضرت تیز آندھی کی طرح خرچ کرتے تھے جمعہ چھوڑنے والوں کے حوالے سے تنبیہ کا بیان ۳۴۴ ۱۶

Page 901

نڈیکس خطبات طاہر جلدے فرعون والا واقعہ امت محمدیہ کے ساتھ بھی ہو گا رمضان میں گیارہ کے علاوہ سات رکعات کا ذکر ملتا ہے رمضان میں بکثرت جبرئیل کا نزول ہوتا تھا احسان احسان کی تعریف احمد علی رانجها (ربوہ) احمد فراز احمد ندیم قاسمی احمدیت نیز دیکھیں جماعت احمدیہ مجمع البحرین میں مجمع سے مراد احمدیت ہے ۶۵۳ ۲۶۸ ۲۴۸ ارشا د احمد شکیب ( جیکب آباد) ان کا ذکر خیر ۱۹۰ ۶۱۶۰ ۳۰۱،۳۰۰ ۵۳ ۷۳۵ ۷۳۵ استغفار استغفار کی حقیقت اور اہمیت ۲۸۳ تا ۲۹۸ آنحضرت کی عبادات کا استغفار سے بہت گہرا تعلق تھا ۲۸۴ استغفار سے تعلق رکھنے والی چار صفات کا ذکر ۲۸۵ تا ۲۸۸ انسانی عمل کی کوشش کے بغیر استغفار بے معنی ہے ۲۸۵ استغفار کے بعض مضامین از حضرت مسیح موعود ۳۰۵ تا ۳۲۴ حضرت مسیح موعود کا وظیفہ استغفار سے گناہ کی تحریک ختم ہو جاتی ہے ۳۲۱ ۳۱۷ ۲۱۸ استغفار کے ذریعہ قرضوں کا بوجھ اتر سکتے ہیں ۳۱۸ احمدیت کے خلاف ہرزہ سرائی کی کھلی چھٹی اخلاق حسنه ہر نبی اپنے زمانہ میں اخلاق کا بہترین نمونہ ہوتا ہے ۳۹۴ استغفار سے حقیقی فائدہ کب اٹھایا جاسکتا ہے استغفار ننگے بدنوں کو ڈھانپتا ہے ۲۰۱ مومن کے لیے استغفار کی نئی بسیں پھوٹتی رہتی ہیں باخدا انسان بننے سے قبل با اخلاق انسان بننا ضروری ہے انبیاء اور عوام کے استغفار میں فرق معاشرے کا سنوارنا بہت ضروری ہے خلق کا کوئی آخری کنارہ نہیں ہے ۱۹۳ ۱۹۲ ۱۹۵،۱۹۳ انسان بعض پہلو سے بیدار اور بعض پہلو سے سویا ہوتا ہے ۲۹۲،۲۹۱ ادب اچھا ادب وہ ہے جس میں صداقت کی روح پائی جاتی ہو اذان اذان کی آواز سن کر حضرت محمد پر درود بھیجو ارتقاء ارتقاء کا نظریہ ماننے والوں کی ایک دلیل اردو اردو میں خطبہ جمعہ دینے کی وجہ ۴۳ ۳۱ ذنب کے ایک لطیف معنی ۳۱۳ ۳۰۴ ٣٠٢ ۳۱۳ تا ۳۱۵ ۳۱۷،۳۱۵ والمستغفرين بالاسحار كالطیف مطلب ۲۹۰ تا ۲۹۸ استغفار اور رمضان کا ایک خاص تعلق ہے ۲۸۹ تا ۲۹۰ استغفار اور شکر کا گہرا تعلق اسرائیل اسرائیلی فوج میں پانچ سوقا دیانی کام کرنے کا الزام اسلام اسلام تمام دنیا کا مذہب ہے اسلام دین وسطی ہے ۱۶ اسلام افراط تفریط سے پاک ہے اسلام آزادی کی مختلف جہتیں بیان کرتا ہے ۵۵ آنحضرت کا پیغام آفاقی اور رحمت عالمی ہے ۲۸۴ ۴۱۵ ۶۱۷ ۸۸۲ ۲۵۳ ۳۵۲تا۳۶۲ ۸۱۶،۸۱۵

Page 902

41° ۲۲۸ ۳۸۱،۳۸۰ مالی بے راہروی کا شکار ہیں اشرف حسین قریشی اصغر خان 7 ۲۴۱ ۱۱۵ انڈیکس خطبات طاہر جلدے بہترین امت ہی آنحضرت کی طرف منسوب ہوسکتی ہے معاشرہ اور دین کا ایک ہونا اسلامی معاشرہ ہے ۷۰۶،۷۰۵ ۷۲۵،۷۲۴ آنحضرت سے تجدید دین کا وعدہ کیا گیا تھا اسلام برائی کو آغاز سے پکڑتا ہے جماعت احمدیہ کے علاوہ باقی مسلمانوں کا بری باتوں کی اصلاح طرف رجحان ہر طبقے کے انسان کے لیے تعلیم موجود ہے مذہبی دن سے غفلت دلوں پر مہر کا باعث ہے خدا نے مومن کی تربیت کے لیے جمعہ کا دن رکھا ہے بڑی بھاری اکثریت جمعہ سے غافل ہے ۳۲۹،۳۲۸ اصلاح تقویٰ کی علامت ہے ۳۲۷ ۱۶ خلاؤں کو بھرنے کا تصور ہے تخریب کو میری پروگراموں کے ذریعہ ختم کریں تنقید عادت مستمرہ ہو تو جذام ہے ہر تنقید کا جائزہ لینا چاہیے عیسائیوں نے سب سے زیادہ اسلام کو نفرت کا نشانہ بنایا ہے ۲۲۳ تنقیدی اڈے ختم کرنے چاہیے مسلمان تجارتوں کی طرف مائل ہو جائیں گے ۶۹۳ ۷۳۲ ۷۸۳ ۷۸۳،۷۸۲ ۷۶۵ تا ۷۷ رائے عامہ سے اصلاح کا کام لیں ۷۵۷ تا ۷۶۴ پاکستان میں اسلام کو نقصان آمریت کے دور میں ہوا۸۱۷، ۸۱۸ پوری دنیا کی اصلاح سچائی کے بغیر نہیں ہوسکتی اپنی برائیوں کو خود بیان نہ کرو اسلام آباد ۱۲۰ ۶۲۸ فر من المجذوم فرارك من الاسد کی تشریح ۷۸۴۷۸۳ اطاعت سری لنکن سفیر کار بوہ کے بارے میں مثبت رائے ظاہر کرنا ۸۱۹ | شخصیت کی نہیں پیغام کی پیروی کریں ۷۴۸ تا ۷۵۰ مستقل بہتری کے لیے اقدامات اسلم قریشی مولوی مردوں میں سے زندہ ہو کر آ گیا مخالفین کا جھوٹا ہونا ظاہر ہوا حضرت اسمعیل علیہ السلام ۴۹۱ ۵۳۷،۵۳۶ ۵۵۵ مستقل مزاجی سے اہل خانہ کو نماز کی تلقین فرماتے تھے ۵۱۰ ملک اعجاز افریقہ احمدی حب الوطنی کا مظاہرہ کریں افریقہ کو خصوصی دعاؤں میں یا درکھیں غانا کے لیے حضورانور کا دعا کرنا افریقہ کی جماعت میں روحانی انقلاب آیا ہے چوہدری اسمعیل صاحب آف شیخو پوره افریقن جماعت حضرت مسیح موعود کا معجزہ ہے اشتراکیت ۱۲۳ گزشتہ واقفین کی قربانیوں کا غیر معمولی اثر مقامی معلمین بہت اچھی ترجمانی کرتے ہیں دولت کی برابر تقسیم بدیوں کو نہیں روکتی ۷۰۷ تا ۷۰۹ احمدیت کی ترقی کا پہلا دور افریقہ کے دلوں کی فتح ہے انفرادی آزادی کا قلع قمع کر دیا گیا ہے ۳۵۰ ۳۴ Al ۱۲۲ ۸۹ ۲۴۰ ۱۴۹ ۱۳۴۱۳۳ ۱۰۷ ۱۴۸ اسلام کی کامیابی کا پہلا انقلاب افریقہ میں برپا ہوگا ۱۲۲ ۱۲۳

Page 903

نڈیکس خطبات طاہر جلدے افریقہ کو قناعت اختیار کرنے کی نصیحت کی ۳۵۶،۳۵۵ 8 افغانستان افریقہ میں پردہ کو رواج دیا گیا دفتر اول کو بحال کریں 112.117 ۷۴۴ روس کو افغانستان سے نکالا افغانستان میں دو دن قبل عید ہو جاتی ہے ۵۷۸ ۲۵۰ افریقہ کی ایک معروف شخصیت کا حضور انور کو فون کرنا ۲۴۴ مجاہدین کے لیے آنے والا اسلحہ پاکستان میں پھیل گیا ہے ۱۸۱ ۱۸۲ افریقین قوم کی خصوصیات افریقی کردار کی عظمت افریقی لوگ اثر قبول کرنے والے ہیں افریقہ کے متعلق چارا ہم چیزوں کی دریافت افریقی کردار کی خوبصورتی کا بیان دورہ افریقہ کے حالات افریقہ کے دورے کا اختتام حضور انور نے چار مشرقی افریقین ممالک کا دورہ کیا دورہ افریقہ کے دوران پانچ جمعے پڑھائے ۱۴۸ ،۱۴۷ ۹۱ ۱۰۵ ۹۲ ۹۳ت ۹۶ ۱۰۵ ۹۱ ۶۴۹ ۱۲۵ پاکستان سے دو دن قبل عید اقبال بیگم اہلیہ سردار محمد یوسف اقبال بیگم ( والده تا ثیر الرحمن ) الجيريا بیرون ملک سے مزدور دولت بھجواتے ہیں اللہ تعالیٰ جل جلالہ اللہ عالم الغیب والشھادۃ ہے پرانے افریقین لڑکیوں کی عصمت کی حفاظت پر غیر معمولی اللہ کو ہر جگہ پاؤگے توجہ دیتے تھے افریقہ کے عوام موسیقی کے شوقین ہیں ١١٩ ۶۶ اللہ بہت برکتیں ڈالنے والا ہے آنحضرت کی ذات قبلہ نہیں قبلہ نما ہے ہر نقصان کے وقت خدا کی طرف جانا افریقہ میں جماعت کو غرباء تک خود پہنچنے نہیں دیا گیا ۴۶،۴۵ افریقہ اقتصادی بحران کا شکار ہے دنیا نے افریقہ میں کمایا اور خرچ باہر کیا افریقہ کی ترقی کے نئے منصوبے کا اعلان ۷۴۸ ،۷۴۲ مخالفین کے متعلق خدا کی سنت ۲۵۰ ۱۴۹ ۱۹ σ ۶۵۶ ۸۴۲ ۶۱۵ ۲۷ ΑΛΥ ۵۴۷ تا ۵۵۸ فرعون کی لاش محفوظ رہنے کا واقعہ خدائی کی دلیل ہے ۶۵۶ بعض لوگ منزل پر پہنچانے والے کو منزل بنا لیتے ہیں ۵۵ تا ۶۰ اہل افریقہ ترقی کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں ۷۵ تا ۸۲ | اللہ دتہ (خانیوال) افریقہ کو وفاداروں کی ضرورت ہے ۶۱۲ افریقہ کو عیسائیت کے حملے سے احمدیوں نے بچایا ۹۵،۸۶ افریقہ میں جنسی بے راہ روی عیسائیت کا ورثہ ہے امریکہ افریقہ کو گندی عادتیں ایکسپورٹ کر رہا ہے سیرالیون میں مخالفت کا ذکر آج بھی افریقہ غیر قوموں کا محتاج ہے چیف کے ساتھ کے طور پر لوگوں کو دفن کرنے کی رسم ١١٩ ۱۲۱ ۱۳۹ M ۱۱۸ اللہ یا را رشد ، مولوی جھوٹ کی فیکٹری اس کا کہنا کہ قادیانیت سرطان ہے الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام انه کریم تمشی امامك وعادي من عادى عجل جسد له خوار ۲۸ ۲۰ ۴۶۱،۴۶۰ ۴۱۵ ،۴۱۴ ۶۶۷

Page 904

۵۸ ۵۹۱،۵۹۰ ۵۹۹ ١٩٦ ZA ۵۶۹ ۱۲۱ نڈیکس خطبات طاہر جلدے كل بركة من محمد ياتي عليك زمن كمثل زمن موسى يدعون لك ابدال الشام.ایک موسیٰ ہے میں اس کو ظاہر کروں گا بعداا.انشاء اللہ سرخ پوشے کہ لب بام نظر می آید مولوی ننگے ہو گئے ہن اسد الیکھا خدا نال جا پیا ہے ۵۶۴ ۲۶۲ ۶۶۸ 0 فون کی حمایت امریکہ کے احمدی ڈاکٹر ز افریقہ کا دورہ کریں کسی میں کوئی وفا نہیں ماحول گندہ ہے مغربی تہذیب کا خلاصہ ۱۷۲،۱۷۱ آزادی ضمیر کے خلاف بیان ۵۳۶ YZA فلم انڈسٹری میں بے حیائی کے اڈے بنے ہوئے ہیں امریکہ کا پیسہ پاکستان میں پھیل گیا ہے ۱۸۰ ۵۷۹،۵۷۲،۵۷۱ امریکہ پاکستان تعلقات کی نوعیت امریکہ کی پاکستان سے جواب طلبیاں امریکہ کے افریقین اپنے ملک میں دولت بھجوائیں ۵۹۵ ۸۹ عظیم الشان مادی قوت مگر ویت نام سے شکست ۸۷۵،۸۷۴ ۱۹ ۴۱۲ ۴۱۲.۲۹ ۱۹۳ امیر احمد ۵۳ ۱۲۳ امانت بی بی والدہ ڈاکٹر مظفر احمد صاحب امتة الحمید غنی بنت عبدالرشید فنی صاحب امۃ اللطیف اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب امت محمدیہ موسیٰ کی قوم جیسے واقعات دہرائے جائیں گے ۶۵۹ ۶۶ ۶۶۳ امیر الحسنات امرتسر علماء کا بیان امریکہ دفتر اول کو بحال کریں ۶۴۱ کلمہ کے حوالے سے جماعت پر الزام لگایا انجیل ۹۰،۳۴، ۱۹۰،۱۴۸ مسیح نے آنحضرت کا ذکر بڑے پیار سے کیا تحریک جدید میں پاکستان کے علاوہ تیسرے نمبر پر شاملین تحریک جدید کی تعداد میں اضافہ کریں نئے مراکز کا قیام روحانیت کی تلاش کی روچل پڑی ہے ۷۴۴ ۷۵۲ ۴۶ ۶۳۱ انڈونیشیا تحریک جدید میں شامل تعداد کے لحاظ سے نمایاں انسان انسان کو محبت کرنے والا وجود بنایا ہے جمعہ کی ادائیگی کے بعض لوگوں کو سوسو میل کا سفر کرنا پڑتا ہے ۲ تقوی انسانی فطرت میں نقش ہے ۸۲۷ امریکہ میں جمعہ کی ادائیگی کی بھر پورتحریک، جمعہ کے دن رخصت انسانی مادی جسم میں تقویٰ کی مثالیں ۸۳۲،۸۳۱،۸۲۹٬۸۲۸ کی تحریک جمعہ کی رخصت کے لیے کی جانے والی کوشش کا ذکر احمدیوں کا اسیروں سے حسن سلوک ۱۳،۱۲ ۱۵ ۳۴۲ خوف نقصان وغیرہ پر صبر دکھانا ۸۸۳ تا ۸۸۹ بنی نوع انسان کی آزادی احمدیت سے وابستہ ہے ۳۴۷ تا ۳۶۴ اچھی چیز کی طرف مائل ہونا فطری تقاضا ہے ۸۴۷

Page 905

۲۰۰ 2 ۱۸۹ ۸۳ ۸۲۶ انڈیکس خطبات طاہر جلدے انسان کا ہر وقت دل کہیں نہ کہیں انکا ہوتا ہے انسان اپنے اندرونے سے خوب واقف ہے ذنب کے ایک لطیف معنی ۸۳۷ 10 کینیڈین پروفیسر کا دورہ پرانے لوگ ادبی ذوق رکھتے تھے ۳۱۵ تا ۳۱۷ چند علماء کا گندہ پمفلٹ شائع کرنا ناقص مزاج والوں کے لیے استغفار نئی صبح لے کر آتا ہے ایک مولوی کا مباہلہ کا چیلنج دینا انفاق فی سبیل اللہ انفاق کے وسیع معانی ۳۰۷،۳۰۶ ۲۸۸،۲۸۷ عالمی تجارتی بحران پیدا ہوا ماحول گندہ ہے ۲۴۳،۲۴۲ ۷۳۳ ۵۳۳ ۸۶۷ ۷۱۲ ١٩٦ دوسرے کی بے عزتی کرنے کے لیے ہارن دیا جاتا ہے ۵۲۵ ۳۴۶ ڈاکٹر بتا ئیں کہ افریقہ میں کیسے خدمت ہوسکتی ہے خدا کی راہ میں خرچ کرنا پاکیزہ عادت ہے خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے پر خدا کا غیر معمولی فضل چوہدری انور احمد کاہلوں ہر قربانی کرنے والا عجیب لذت سے آشنا ہوتا ہے ۴۲ اوپن یونیورسٹی تراجم قرآن کے لیے غیر معمولی قربانی کرنے والے ایک تعلیمی تدریسی پروگرام بہت دلچسپ ہوتے ہیں نوجوان کا ذکر بادشاہ (خلیفہ ) اور بوڑھے کسان کا واقعہ خدا کی راہ میں کنجوسی کرنے والوں کی اولادیں ضائع ہو جاتی ہیں انکسار ۵۱،۵۰ ۵۲۵۱ ۶۱۴،۶۱۳ اوجڑی کیمپ (راولپنڈی کا سانحہ ) خدا کی نارضگی کی وجہ سے تھا اس واقعہ کا پس منظر ۵۸ ۷۴۸ ۷۳۶ ۴۲۰،۴۱۹ ۲۷۸،۲۷۷ اوجڑی کیمپ کا واقعہ بیرونی میڈیا نے اہمیت نہیں دی ۲۷۶، ۲۷۷ اوجڑی کیمپ کے حوالے سے امداد بھجوانے کی تحریک ۲۷۵ تا ۲۸۲ ۹۱ انکساری کا مطلب انگلستان ابرطانیہ شاملین تحریک جدید کے حوالے سے نمایاں خدمت کرنے والے نو جوان پیدا ہوئے ہیں وقار عمل کی روح ترقی کر رہی ہے جماعت انگلستان بہت مہمان نواز ہے ربوہ اور قادیان اپنی قربانی بھجواتے ہیں ۸۸۶ تا ۸۸۹ او جوکورو ( نائیجریا ) ۷۵۶ ۲۳۷ ۲۳۴ ۴۸۸ ۵۰۲،۵۰۱ تحریک جدید میں پاکستان کے علاوہ دوسرے نمبر پر ۷۵۲ تحریک جدید کے چندہ کا ذکر جمعہ کی طرف غیر معمولی توجہ کرنے کی ضرورت سیرت النبی کے مضمون کو بیان کرنا چاہیے ۲۶۱ ۱۲ ۲۶ اولاد نیز دیکھیں تربیت اولاد بد خلق باپ کی نصیحت کا اثر نہیں ہو سکتا معصومیت کی وجہ سے بچوں کی روشن طبع زیادہ تیز ہوتی ہے اوکاڑہ اولڈ لیسل (Old Castle) غانا کا ایک تاریخی قلعہ فلیڈ ز نے وحدت کا تصور پیش کیا ایاز

Page 906

۱۹۲ ۲۰۰ ۲۰۸ ۲۰۲ ۶۲۳ 11 بد خلقی خدا سے ہٹنے کا نام بدخلقی ہے اسماء الحسنی کے خلاف ایک شیطانی کوشش کا نام بد خلقی ہے بد خلقی کے خلاف باقاعدہ کا روائی کریں بدخلق ماں باپ کی نصیحت بچے قبول نہیں کرتے بدرسموں سے بچنے کے خلاف مہم چلائیں بدھ کوئی دن منحوس نہیں ہوتا ۷۷۶،۷۷۵ بدھ کے دن کو منحوس قرار دینے کی وجہ بدی ۸۶۰ ۵۷۸ ۵۶۸ ۷۵۳ ۵۹۹ ۳۳۸،۳۳۷ انڈیکس خطبات طاہر جلدے محمود و ایاز کے واقعہ سے قناعت کا تعلق ایٹم بم عالمی طاقت میں ایٹم بم کا کردار ایڈز یہ بیماری جسم کے دفاعی نظام پر قابض ہوتی ہے ایران تحریک جدید کا وعدہ پورا کیا شاه ایران عراق ایران بے مقصد جنگ کا تذکرہ ایمان ایمان کی حیثیت جسم میں سر کی ہے ایمان عمل صالح اور تقویٰ سے مکمل ہوتا ہے ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے حقیقی ایمان سچی آزادی کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا ۲۳۶،۲۳۵ ۳۱۵ ۲۵۶ تا ۲۵۸ ۳۴۷ نشانات دیکھ کر قو میں ایمان نہیں لاتیں ۵۴۷ تا ۵۵۸ ۵۹۲،۵۹۱ بدیوں کے خلاف جہاد کا آغا ز گھروں سے کریں ۱۹۷، ۲۰۹،۲۰۸ بدیوں کا مقابلہ حسنات سے کریں ۷۲ بدی کی طرف حرکت کرنے سے بھی منع فرمایا ہے ۷۲۲ تا ۷۲۶ رائے عامہ کے استعمال سے بدیوں کو دور کیا جائے ۷۵۹ تا ۷۶۵ ایک بدی سے بدی کی طلب پیدا ہوگی ہر بدی کا رخ بہیمیت کی طرف نظر آتا ہے سید برکات احمد صاحب ۲۶ ۱۹۵،۱۹۳ ۵۴۴ ۶۱۰ ۱۹ ۱۴۹ ۱۲۳ 4 ١٩٠ بڑ کا درخت خوبی اور کمزوری کا ذکر بشارت احمد صاحب ابن مکرم محمد ی صاحب افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی بشری خانم صاحبہ بشری خانم صاحبہ بنت یوسف علی صاحب ربوہ 11 ۶۴۱ جنرل ایوب (صدر پاکستان) امریکہ کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا بائیل فرعون کی آخری وقت میں کی گئی دعا کا ذکر نہیں ملتا بٹالہ علماء کا بیان 2 بشیر احمد اختر معصومیت کی وجہ سے ان کی روشن طبع زیادہ ہوتی ہے ۲۰۱

Page 907

نڈیکس خطبات طاہر جلدے 12 چوہدری بشیر احمد صاحب ۱۹ بنگال بشیر احمد سیالوی ، مولوی الزام لگایا کہ کلمہ میں محمد رسول اللہ سے مراد بعینہ مرزا قادیانی ہے حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ جگنوؤں سے جنگل روشن ہوا تھا بنگلہ دیش ۴۱۲ نظریہ اور عمل میں تضاد بڑھ رہا ہے اور بنگلہ دیش کے سیلاب کا ذکر کشتی نوح کتاب کا نچوڑ ہماری تعلیم سے پیش کیا چوڑے پھل والی تلوار کو داؤ کہتے ہیں آپ کے حوالے سے بیان کردہ واقعہ ۶۸۵ ۸۸۴ ۲۶۳ بو ( سیرالیون) میجر جنرل بشیر احمد صاحب (راولپنڈی) یہاں حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا یہاں مولانا نذیر احمد علی صاحب کی تدفین ہوئی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ۲۲۴ بہادر یار جنگ 227 ۶۸۴ ۲۸۳،۶۸۲ ۱۱۸ ۶۳ ۱۴۳ الثانی احمدیت کی پہلی صدی کے سر پر موجود تھے آپ کے خطبات جمعہ سے جماعتی تربیت اعلیٰ درجہ کی ہوئی ۱۱،۱۰ قائد اعظم کا مشورہ کہ حیدر آباد دکن کی آزادی کا اعلان کر دو ۵۷۸ موسیٰ جیسے واقعات آئندہ کسی خلیفہ کے دور میں ہونگے ۶۶۰ بھارت نیز دیکھئے ہندوستان ۴۷ ۸۲۵ ۹۱ ۴۴ توسیع مکان بھارت کا فنڈ بیالوجی بینن (شہر) ایک شخص نے حضور انور کی خدمت میں ایک چونہ بھیجا ۱۹۰،۱۴۸ ،۴۷ ،۲۰ ۶۴۲ ۷۵۳ ۲۳۱ ΔΙΑ بيوت الحمد سکیم پاکستان شریف النفس لوگ بھی ہیں پاکستان کی اصلاح جماعت کے ذریعہ ہوگی بحالی کھانہ تحریک جدید دفتر اول میں سب سے آگے وقار عمل کے حوالے سے خدمات پیش کی ہیں ربوہ اسلامی شہر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے شہر کے کیا ہے ۷۴۲ ۲۳۳ ۲۳۴ ۱۳۷ ۸۵ ۲۶۳ ۳۶۲ ۲۶۴ ۵۳ ۶۱۸ ۴۸ ۴۸ تحریک جدید کا آغاز ۱۹۳۴ء کو کیا قادیان میں خود وقار عمل کرنا وقار عمل کی نیک رسم جاری کی آپ کے ارشاد پر پہلا مبلغ افریقہ گیا افریقہ کی آزادی کی جد و جہد کرنا منیر الحصنی کے متعلق اچھے خیالات کا اظہار ظفر علی خان شدید معاند کے علاج کا انتظام فرمانا بشیر الرحمن صاحب ( مخلص احمدی) بشیر بیگم صاحبہ بکری عبیدی واقف زندگی سیدنا بلال فنڈ مختلف زبانوں میں تراجم آیات کا کام ہوا

Page 908

انڈیکس خطبات طاہر جلدے احمدی خلیفہ وقت سے ملنے لندن آتے ہیں پاکستان کے احمدیوں کو دعاؤں میں یا درکھیں ۵۰۲ ۷۳ 13 امریکہ سے پاکستان کے تعلقات کی نوعیت امریکہ کی پاکستان سے جواب طلبیاں تراجم قرآن کیلئے غیر معمولی قربانی کر نیوالے نوجوان کا ذکر ۵۱۰۵۰ عوام الناس پر خدا کا قہر ٹوتا ہے مباہلہ کے نتیجہ میں پاکستان کے حالات بہتر ہورہے ہیں ۷۹۱ جمعہ کی ادائیگی سے غافل لوگ موجود ہیں کینیڈین پروفیسر کا جماعت احمدیہ پاکستان کے حق میں بیان مصائب سے گزرنے والوں کے لئے سیدنا بلال فنڈ نظریہ اور عمل میں تضاد بڑھ رہا ہے ۵۷۹ ۵۹۵ ۴۷۳ تا ۴۸۲ ۴۲ پاکستان کی تمام دولت کا چالیس فیصد باہر سے مزدور بھجواتے ہیں ۸۹ ۲۴۲ ۲۴۳ پاکستان میں بہت دیر تک اتوار کی رخصت ہوتی تھی ۴۹ پرانی نسلوں کا ادبی معیار بلند تر تھا ۶۸۴ پرده جماعت پر مظالم کا تذکرہ ۱۷۳ تا ۱۹۰، ۳۶۵ تا ۳۸۶ اسلام عورت کو دکھیل کر کمروں میں بند نہیں کرتا جماعت کو کینسر قرار دیا گیا اشتعال میں لوگ قتل تک کر بیٹھتے ہیں پاکستان کے علماء ۳۶۸ افریقہ میں پردہ کو رواج دیا گیا AZA ۶۴۱ پرو پیگنڈا اپنی ذات میں ایک بڑا قوی ہتھیار ہے ۱۳ ۷۳۳ 117 علماء ابتہال کی بجائے اشتعال پھیلا رہے ہیں پاکستان کو بدامنی کے لحاظ سے نمبر ایک قرار دیا گیا ۵۵۳ ۲۷۹ پیرس روشنیوں کا شہر پاکستان کے معاشرے میں جھوٹ کی عادت سرایت کر گئی ہے ۲۱۹ حضور انور نے افریقہ سے واپسی پر قیام فرمایا ڈرگز پھیل گئی ہیں معاشرہ بڑی تیزی سے تباہ ہو رہا ہے ۱۷۹ ۱۲۰ پاکستان میں جھوٹ اور کذب کا سلسلہ جاری ہے ۷۲۰،۱۷۸ قمار بازی کا رجحان بڑھ رہا ہے پردہ کے معاملہ میں تنگ نظری بھی پائی جاتی ہے پاکستان کو قومی سیاست کی ضرورت ہے سیاستدانوں کو مشورے فوج اور جمہوریت تا ثیر الرحمن صاحب (ماڈل ٹاؤن لاہور ) ۶۹۶ تبلیغ نیز دیکھیں دعوت الی اللہ ۱۱۷ ۵۷۳ دعوت الی اللہ کی کامیابی کے لیے تقویٰ چاہئے ۵۸۱ تا ۶۰۰ سچائی کو پھیلانے کے لیے امن کی فضاء ضروری ہے ۸۲۱ ۶۴۹ ۱۹ ۶۳۰ ۸۰ ۵۷۶،۵۷۵ دنیاوی احسان کیساتھ روحانی احسان خود بخود چلا آتا ہے ۴۶ مارشل لاء کے ذریعہ کی گئی اسلامی خدمات کا تجزیہ ۴۶۳ تا ۴۶۸ تبلیغ کے لیے اول تو بہت علم کی ضرورت نہیں ہے اہل وطن نے گیارہ سالوں میں دکھ اٹھائے ضیاء کے ساتھ فوج کے بڑے دماغ ہلاک ۸۱۳،۸۰۹ ۵۶۶۰۵۶۵ مجالس سوال تبلیغ کا طاقتور آلہ ہیں ۶۲۲ ۷۰ اوجڑی کیمپ کا واقعہ بیرونی میڈیا نے اہمیت نہیں دی ۲۷۷،۲۷۶ افریقہ میں نرسری بنانے کی بہت بڑی سرزمین موجود ہے ۱۴۸ اوجڑی کیمپ کے متاثرین کو امداد بھجوانے کی تحریک ۲۷۵ تا ۲۸۲ افریقہ کے ابتدائی مبلغین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۸۵

Page 909

انڈیکس خطبات طاہر جلدے تجارت جو تجارت قانون کے مطابق نہ ہو وہاں خطرہ ہے ۴۹۴۴۹۳ 14 تربیتی امور کے بیان کی اہمیت ۷۵۸ ،۷۵۷ خدا تعالیٰ نے خود مومن کی تربیت کے لیے جمعہ کا دن رکھا ہے نوجوانوں کے ذوق کے مطابق علمی پروگرام بنا ئیں ۷۲۹ تا ۷۳۷ تحریکات سیرت النبی کے مضمون کو عام کرنے کی تحریک جمعہ کی رخصت کی تحریک چلانے کی نصیحت ۲۵ ۱۴ نرمی بھی ہو مگر عادی مجرموں سے نہیں تربیت اولاد خلافت رابعہ کی طرف سے جاری کی گئی سول تحریکات کا ذکر ۳۷ تا ۵۲ تربیت بچپن سے کرنی چاہیے احمدی صنعت کاروں اور ماہرین علوم کو وقف کرنے کی تحریک ۷۵ تا ۸۲ بچوں کی تنظیموں کے سپردکر میں جمعہ کی ادائیگی میں اہتمام کرنے کی تحریک ۱تا ۲۰ قرآن حفظ کرنے کی تحریک جلسہ سالانہ کے لیے دیگوں کی تحریک قیدیوں کو عید میں شامل کریں مظلوموں کو عید میں شامل کریں ۲۷۰ ۴۵ ۳۴۲ تا ۳۴۴ کامیاب نصیحت بچوں کو قرآن کا حصہ زبانی یاد کروائیں ۷۵۹،۷۵۸ ۱۲۱،۱۲۰ ۱۲۲ ۵۱۶ ۲۷۱،۲۷۰ بچوں میں گناہوں کا شعور پیدا کریں ۷۸۹ تا ۷۹۰ رمضان کو تربیت اولاد کے لیے خصوصیت سے استعمال کریں ۲۶۵ تا ۲۷۵ ۳۴۰ تا ۳۴۲ صبر وقناعت کو اپنی حفاظت کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۸۵۲ معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کریں ۷۰۱ تا ۷۱۸ آنحضرت نے تربیت اولاد کا عظیم الشان نکتہ بتایا سیدنا بلال فنڈ تحریک جدید ۴۸ ۵۰۹ والدین کے اعمال کا بچے کی نیت پر گہرا اثر پڑتا ہے ۶۹۱،۶۹۰ بدخلق میاں بیوی کی اولاد کی صحیح تربیت نہیں ہوسکتی ۱۹۸ تا ۲۰۲ تحریک جدید کے سال نو کا اعلان ۷۴۱ تا ۷۵۵ منفی سوچ رکھنے والوں کی اولاد کی کوئی ضمانت نہیں ۲۶۱ ZAI نئے سال کے موقع پر مختلف ممالک کی تعریف کی گئی چندہ دہندگان کی تعداد بڑھانے کی کوشش کریں ۷۴۷ ۷۵۰ شکوہ شکایتیں بچوں پر بھی بداثر چھوڑتی ہیں ۷۷۰ تا ۷۷۲ دفتر اول کی عظمت دفتر اول کے کھاتوں کو زندہ رکھیں اپنے بزرگوں کے کھاتوں کو زندہ کریں تراویح ۷۴۳ انفاق فی سبیل اللہ میں کنجوسی کرنے والوں کی اولادیں ضائع ۷۴۲ تا ۷۴۵ ہو جاتی ہیں ترکی ۴۴ ۶۱۴۶۱۳ تراویح کی بنیاد آنحضرت نے رکھی رمضان میں بالعموم گیارہ رکعت ثابت ہیں تراویح میں پورا قرآن ختم کرنا ضروری نہیں تربیت تربیت کرنے کا گر ۲۶۷ ۲۶۸ ۲۶۹ ۶۰۸ ترکی کے مزدور بیرون ملک سے دولت بھجواتے ہیں ۹۰،۸۹ تعلق باللہ آنحضرت کو وسیلہ اختیار کرنے کا حقیقی مفہوم آنحضرت کے وسیلہ سے قرب الہی کا حصول ۳۳ ۳۱

Page 910

انڈیکس خطبات طاہر جلدے تفسیر ، دیکھئے آیات قرآنی تقریر بات کو موزوں رنگ میں پیش کرنا خدا خود بتاتا ہے تقوی تقومی سارے دین کی جان ہے روحانی طاقت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے ہدایت کے حصول کے لیے پہلا قدم تقومی پر ہو تقویٰ کا لباس پہن کر زینت اختیار کریں تعداد نہیں تقویٰ کام آئے گا اصلاح تقوی کی علامت ہے ۱۱۴ ۸۲۷ ۶۳۱،۶۳۰ 15 تو بہ نیز دیکھیں استغفار گناہ کا تدارک تو بہ استغفار ہے گناہوں سے فرار اختیار کرنے کے دو طریق کن کی توبہ قبول نہیں ہوتی توحید موحد کا مطلب ۱۹۲،۱۹۱ توحید کا پہلا سبق تقوی سے سکھایا ہے توحید کا قناعت کے ساتھ گہرا تعلق ہے تو حید اور ذکر کا گہرا تعلق ہے ۲۴ ۱۴۳ ۶۹۳ تقویٰ سمجھنے کے لیے پہلے فجور کا شعور ضروری ہے ۸۲۵ تا۸۳۹ ۲۹۷ ،۲۹۶ ZAZ ۳۲۳،۳۲۲ م م م ۸۳۴ ۸۶۱ ۴۴۵ دینی و دنیوی علوم وحدت کی طرف لے جاتے ہیں ۸۲۵ تا ۸۲۷ تورات تحریر کے پیچھے اصل روح اثر کرتی ہے ۴۲ ۴۳ حضرت محمد کا ذکر کیا خاص نقطہ نگاہ سے دو تین امور کا بیان ۸۲۷ تا ۸۳۹ حیوانی زندگی میں تقویٰ کی مثالیں تقیہ اقبال صاحبه عمل نہ کرنا بھی تکبر کی علامت ہے ۸۲۹٬۸۲۸ ۲۶۳ ۱۲۹ توکل تو کل کیا ہے؟ پہلے گھٹنا باندھو پھر تو کل کرو تہجد تہجد کی بہت سی برکتیں ہیں ۲۹ ۴۹۵،۴۹۴ ۱۲۹ ۲۶۶ تنزانیہ تنزانیہ میں وفا کا مادہ پایا جاتا ہے دوره تنزانیہ اور تین قیمتی نصائح ۶۲۴ ۶۱۷ تا ۶۲۴ تنزانیہ میں ہومیو پیتھک طریقہ علاج کو رائج کرنا چاہیے ۶۲۰ ۷۸۲ ۸۵۷،۸۵۶ رمضان میں گیارہ اس کے علاوہ سات رکعات کا ذکر ملتا ہے ۲۶۸ احمدیت کی وجہ سے مشرق اور مغرب کا امتزاج ہوگا ۲۱۵ تا ۲۱۸ تہجد کے بغیر روزے ادھورے اور بے معنی ہیں تہذیب مغربی تہذیب کا خلاصہ ۲۶۷ ZA مغربی تہذیب سے آزادی ان کی غلامی سے نجات کا باعث ہے ۹۰ تنقید ہر تنقید کا جائزہ لینا چاہیے تعمیری تنقید ہونی چاہیے دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنے نفس پر تنقید شروع کریں ۸۵۶ جایان ج - چ - ح - خ ۱۴۸

Page 911

علماء کا بیان نڈیکس خطبات طاہر جلدے ماحول گندہ ہے ۱۹۶ 16 جلسه سالانه شخص کا مباہلہ قبول کرنا اس کے بعد نقصان اٹھانا ۸۰۵،۸۰۴ جلسہ کے دوران اجتماعی ذمہ داریاں ایک شیخی جالندھر ۶۴۱ ۱۱۲،۱۱۱ 3 ۲۴۸ چند دنوں میں بہت سی برکتیں نازل ہوئی ہیں ۴۹۴ ۵۲۲،۵۲۱ جلسہ سالانہ بر طانیہ کے مہمانوں اور میز بانوں کو نصائح ۴۸۳ تا ۵۰۳ جماعت انگلستان بہت مہمان نواز ہے جلسہ پر گڈریوں کے لعلوں کا آنا جلسہ سالانہ کے لیے دیگوں کی تحریک جماعت احمد یہ | احمدیت ایک امن پسند جماعت ۴۸۸ ۵۰۳،۵۰۲ ۴۵ ۸۰ جامعہ احمدیہ جامعہ میں سوال و جواب کی مجالس سنانی چاہیے سیرالیون میں جامعہ احمدیہ کے قیام کا اعلان جبرائیل رمضان میں بکثرت نزول ہوتا تھا جذام بلا جواز تنقید کو جذام سے مشابہت ہے فر من المجذوم فرارك من الاسد جرمنی جرمنی کی جماعت کی تعریف جرمنی میں روحانیت کی تلاش کی رو چل پڑی ہے ۷۸۴،۷۸۳ ۷۸۳ جماعت کی زندگی کی روح خلافت میں ہے اصل میں ساری جماعت کا نام ہی خلافت ہے جماعت اور خلافت کا بے نظیر تعلق ہے جماعت احمد یہ ایک زندہ جماعت ہے ۱۹۰۹۰ جماعت کی امام سے محبت (غیر کی گواہی) ۱۲۹ ۱۶۹ ۲۴۰،۲۳۹ ۲۴۳ ۲۶۰ تا ۲۶۲ جماعت احمد یہ ایک فیض رساں جماعت ہے ۲۲۹ تا ۲۴۴ ۶۳۱ جماعت کے پاس حقیقی روحانیت کا ہتھیار ہے ہجرت کے نتیجہ میں بعض لوگوں میں غیر معمولی روحانی تبدیلی قرآن اور سنت سے تربیت یافتہ جماعت پیدا ہوئی ۶۳۲ ۵۶۱ ۲۳۷ بہترین امت ہی آنحضرت کی طرف منسوب ہوسکتی ہے ۲۴۰ خدمت دین مالی قربانی اور تبلیغ کا شوق ۲۳۷ تا ۲۳۹ خدا نے تعمیری طاقتیں عطا فرمائی ہیں پاکستان کے علاوہ تحریک جدید میں اول نمبر جرمن قوم کے احمدی نے عجز و انکسار اختیار کیا ہے ایک سکھ نے ہالینڈ کی مسجد کے لیے چندہ دیا جرمنی میں مختلف اقوام آکر آباد ہوتی ہیں ما حول گندہ ہے ۷۵۲ ۲۱۸ ۴۸ ۲۱۶ ۱۹۶ ۲۳۶ آخرین کی جماعت جس نے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنا ہے ۸۳۵ آنحضرت کے نمونہ کے احیاء کے لیے آخری جماعت ۵۱۳ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت بحال کرنے کے لیے قائم ہوئی ۱۲ اسلامی تعلیمات کی امین دنیا میں محمدی انقلاب دوبارہ ظاہر ہو رہا ہے ۴۷۱،۴۶۵ ۱۴۲ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب احمدیت کی صبح دنیا میں دین مصطفی " پھیل جانے سے ہوگی ۸۰۹ تا ۸۲۳ منیر الحصنی آپ کے ذریعہ احمدی ہوئے ۲۶۳ سورج لے کر ڈھونڈ و تو پھر بھی ایسی جماعت نہیں ملے گی ۴۵ جماعت نے عالمی معاشرہ قائم کرنا ہے ۲۱۵ تا ۲۲۸ نے عالمی کرنا ہے

Page 912

انڈیکس خطبات طاہر جلدے جماعت احمدیہ کا سفر بہت لمبا ہے حضرت مسیح موعود کی سچائی کا معاملہ جماعت کی سچائی کے معاملہ سے وابستہ ہے ۱۹۶ ۴۳۳ 17 جذبات شکر کے رکھتی ہیں برائیوں کے انسداد کے لیے قائم کیا گیا ہے آوارگی کا علاج کرنا چاہیے ۱۰۳ ۷۲۰ ۷۲۲ تا ۷۲۴ بنی نوع انسان کی آزادی احمدیت سے وابستہ ہے ۳۴۷ تا ۳۶۴ توحید کے مضمون پر بہت گہرے نمور اور فکر کی ضرورت ہے ۸۳۴ علمی قابلیت قوم کی خدمت میں پیش کریں عالمی جماعت کی وجہ سے طمح نظر بہت وسیع ہے قیدیوں کو عید میں شامل کریں مظلوموں کو عید میں شامل کریں ۸۲ AZ اسلام پر اٹھنے والے اعتراضات کے جواب دیں ۶۳۴۶۳۳ نیتوں کے فساد کو دور کرنے کی نصیحت ۶۸۸ تا ۶۹۳ ۳۴۲ تا ۳۴۴ دنیا کی دولتوں اور وجاہتوں کو بت نہ بنائیں 722 ۳۴۰ تا ۳۴۲ نو جوانوں کے اصلاح کے لیے نصائح ۷۲۹ تا ۷۳۸ اسلامی عبادت کے تمام تقاضوں کو احمدی نے پورا کرنا ہے ۴۳۳ ۴۳۴۰ جماعت کا معیار ہر پہلو سے بلند ہونا چاہیے اپنی اور دنیا کی اصلاح کے لیے پیدا ہوئی ۶۹۳ ۷۶۳ دنیاوی احسان کے ساتھ روحانی احسان خود بخود چلا آتا ہے ۴۶ خود ۴۷۱ ایک بھی احمدی رمضان کی برکتوں سے محروم نہ رہے پاکستان کی اصلاح احمدیت سے ہوسکتی ہے جماعت کی قربانیاں نئے آسمان کو جنم دے رہی ہیں دنیا پرسب سے بڑا احسان جماعت کی قربانی کا جذبہ ہے ۴۱ جماعت افراط تفریط سے پاک ہے احمدیوں کی دعاؤں میں عظیم الشان طاقت ہے خدمت کے ساتھ دعا پر بھی زور دیں احمدی کی زندگی ہی دعا ہے احمدی کی زندگی ہی دعا ہے کشتی نوح دراصل اعمال صالحہ کی کشتی ہے ۲۵۹ ۳۷ جماعت کو برائیوں کے اڈے اکھاڑ پھینکنے ہونگے ۷۵۹،۷۵۸ اپنے گھروں میں اپنی آئندہ نسلوں کی نمازوں کی حالت پر غور کریں ۵۰۹ ۲۵۳ بچوں کی تربیت میں جمعہ کا اہم کردار ہے ۵۹۹ ۶۸ ۴۸۷ ۴۸۷ ۶۸۶ ۱۸۲ 1.جماعت کو جتنا جھٹلایا جائے گا اتنا ہی جھوٹ ظاہر ہوگا حضرت مسیح موعود نے جمعہ کی رخصت کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی ۱۳ انگلستان میں جمعہ کی طرف غیر معمولی توجہ کی ضرورت ہے ۱۲ امت پر جماعت کا احسان ہوگا اگر جمعہ کا بنیادی حق میسر آجائے ۱۸ خلیفہ وقت کی تحریکات پر لبیک ۴۰،۳۹ ، ۳۲۹،۱۴۷ تا ۳۳۱ کشتی نوح کی تعلیم پرعمل کر کے ہی طوفان نوح جماعت کی زندگی کی روح خلافت میں ہے سے نجات ہے کشتی نوح میں بیان کردہ تحریر کا مطلب معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کریں اللہ کی مخلوق سے محبت کریں حسن انتظام کے لحاظ سے اچھی شہرت حاصل ہے ۶۸۱ تا ۷۰۰ ۸۴۴،۸۴۳ ۱۶۹ جماعت اور خلافت کا بے نظیر تعلق ہے ہماری مجموعی خدمت مجموعی اخلاص مجموعی تقوی کا نام خلافت ہے ۱۳۰ اپنے بزرگوں کے تحریک جدید کے کھاتوں کو زندہ کریں ۴۴ ۷۰۱ تا ۷۱۸ ۹۷ ۷۲ صد سالہ جو بلی کی تقریب جوبلی کے حوالے سے غیر معمولی قربانی ۲۲،۲۱ ۱۶۳ ۱۳۰ ۶۱۵ طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھانے سے منع کرنا پڑتا ہے زیادہ سے زیادہ احباب جماعت کو عملی کاموں میں شامل کرنا چاہیے ۱۵۷ ۱۸۴ چندہ نہ دینے سے جماعت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا احمدی اپنے سیچ کی حفاظت کرے احمد یوں کو ان حکومتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ان کے لئے جماعت اور دیگر دینی کہلانے والی جماعتوں میں

Page 913

انڈیکس خطبات طاہر جلدے نمایاں فرق 18 ۲۳۴، ۲۳۵ غانا کو غلامی سے نجات دلانے کی کوشش جماعت کی ترقیات دشمنوں کے لیے نا قابل برداشت ہیں ۲۴۴ گیمبیا میں جماعت کی خدمات کی اعتراف زمن موسیٰ کی تاریخ دہرائی جائے گی ۶۵۹ تا ۶۶۱ ۶۶۳۰ نائیجیرین احمدی حقیقی حب الوطنی کا مظاہرہ کریں پھیلاؤ کے ساتھ تعداد نہ بڑھے تو لوگوں میں فاصلہ حائل ہو جاتے ہیں ۲ افریقہ میں عیسائیت پھیلانے کے منصوبہ کو نا کام بنایا اجتماعی دعاؤں کی دو طرح سے برکتیں ہوتی ہیں جماعت کی علاوہ باقی مسلمانوں کا بری باتوں کی طرف رجحان حقیقی مومن کو سچا محب وطن ہونا چاہیے ٩٠ ۹۴ ۹۹ ۸۶ ۷۷۸ سیرت النبی کے جلسوں کے انعقاد کرنے کی تحریک ۲۶،۲۵ قرآن حفظ کرنے کی تحریک ۳۲۹،۳۲۸ غیروں کا جماعتی خدمات کا اعتراف ۹۸ کسی احمدی کی بیہودہ حرکت سے فوراً مرکز پاکستانی قوم کے لیے بچنے کی دعا کریں ۲۸۰ تا ۲۸۲، ۵۹۷ متحرک ہو جاتا ہے مسلمان ممالک کے لیے دعا کریں ۳۳۷، ۳۳۹، ۳۴۰ لٹریچر تقسیم کا ایسا کام کیا کہ حکومتیں ششدر رہ گئی مخالفین باز نہ آئے تو خدا کی آخری تقدیر ظاہر ہوگی ۴۳۲،۴۳۱ جماعت انگلستان بہت مہمان نواز ہے ہماری خوشی دشمن کی موت سے وابستہ نہیں ۲۷۰ ۴۷۹،۴۷۸ ۱۵۹ ۴۸۸ ۵۶۰ بعض پاکستانی احمدیوں نے جرمنی میں برائی کو اپنایا ۲۲۱ ۲۲۲ جماعت احمدیہ نے اپنا مقدمہ خدا کی عدالت میں پیش کیا ہوا ہے ۴۰۱ رویت ہلال کے حوالے سے جماعت کا موقف 729 اعتراض کیا جاتا ہے کہ کلمہ کو نہیں مانتے اشتعال پر قابو پانے کی ضرورت ہے جماعت کی طرف سے کئے گئے مباہلہ کا متن ۴۲۰ تا ۴۲۶ جماعت اسلامی جماعت پر ہونے والے مظالم کی ۱۷۳ تا ۳۶۵،۱۹۰ تا ۳۸۶ نفرت کی تعلیم دیتے ہیں احمدی مخالف کاروائیوں کے اعداد و شمار صبر و استقلال کے ساتھ خطرناک مظالم کا سامنا کیا گیارہ سالوں میں دکھ اٹھائے پاکستان میں بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے ۳۷۸،۳۷۷ ۸۱۴ ۸۱۳ حضرت حافظ جمال احمد صاحب ماریشس میں ورود ۳۷۰ جمعۃ المبارک ۲۵۲ ۴۱۲ ۲۳۲،۲۳۱ ۶۴۳ احمدی کو واقعہ ووٹ دینے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے ۳۷۶ جمعہ کی اہمیت کے بارے میں آنحضرت کے ارشادات ۱۶، ۱۷ اگر ضیاء الحق بھی اسلام کی حقیقی خدمت کرتا تو جماعت خلافت کی وجہ سے جمعہ کے ساتھ غیر معمولی برکتیں پڑتی ہیں اس کے ساتھ ہوتی احمدیت کی ترقی کا پہلا دور افریقہ کے دلوں کی فتح ہے افریقہ کو اس کی دولت واپس دلائی جائے جماعت احمد یہ سیرالیون کا تین شعبوں میں ترقی کرنا غانا کے غریب عوام کو روحانی دولت سے بخشی گئی جماعت کی سیرالیون میں خدمات ۴۶۳،۴۶۲ ۱۴۸ ۵۷ ۶۴ 11 مومن کو کھوئے ہوئے مقامات کو حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے ا جمعہ کا سارا دن ہی عبادت کا دن ہے جمعہ کے حوالے سے دی گئی ندا کی عمومیت جمعہ کی اذان کا توحید سے گہرا تعلق ہے ۸۵ نودی لفظ میں موجود عظیم الشان مضمون کا بیان ۶۳ تا ۷۳ جمعہ کا مطلب ۶ ۹ ۱۷ ،۹۸ ۱۷

Page 914

انڈیکس خطبات طاہر جلدے جمعہ سے پہلے کی تیاریاں دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہیں اولادوں کو محفوظ کرنے کے لیے جمعہ کی تحریک مومن کی تربیت کے لیے جمعہ کا دن رکھا ہے مغربی ممالک میں لوگ جمعہ سے زیادہ غافل ہوتے ہیں جمعہ کی ادائیگی کی تحریک پر عمل درآمد ۱۰ ۹ ۶۳۳ ۳۳۰،۳۲۹ 19 جھنگ (پاکستان) جھنگ کا اپنا مزاج اور اپنی تہذیب ہے جھوٹ جھوٹ ہر بیماری کی جڑ ہے جمعہ کی اہمیت اور اس کی ادائیگی میں اہتمام کرنے کی تحریک اتا ۲۰ جھوٹ شرک سے پیدا ہوتا ہے ۱۹۱۳ء میں جمعہ کی رخصت کو جزوی طور پر منظور کیا گیا جمعہ کے دن پہلے حصہ کی رخصت اولی ہے خطبہ جمعہ اردو میں دینا خطبہ جمعہ اردو میں خطبہ دینے کی وجہ جمعه خان ۱۳ ۱۴ ۸۳ ۵۵ جھوٹے عمل سے جھوٹ پیدا ہوتا ہے جھوٹ کا ایک تعلق غربت سے بھی ہوتا ہے ۲۱۹ ۱۹۱ ۱۸۸ ۱۸۸ ۲۲۱،۲۲۰ جھوٹ بولنے کے وقت ہمیشہ دو آوازیں اٹھی ہیں ۸۵۵،۸۵۴ پاکستان کے حالات کے بارے میں اداریہ لکھا ۳۷۰،۳۶۹ چاند جمہوریت جمہوریت میں طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے جن ۳۹۰ مغربی معاشرے میں جھوٹ کو برا سمجھا جاتا ہے ۷۲۰ ،۷۱۹ جیکب آباد ۶۱ چاند کی رویت کا مسئلہ ۲۴۹ تا ۲۵۲ چک سکندر ۳۵ چنده لوگوں کا جنوں کے بارے میں تصور ۸۷۲،۸۷۱ مالی قربانیاں خالصہ محبت سے تعلق رکھتی ہیں جنگ پور جنگ حنین صحابہ کی قربانی اور اطاعت کا نظارہ دیکھا گیا جوزف مومو (صدر سیرالیون) حضور انور کے دورے کا انتظام کیا جنوبی افریقہ تحریک جدید کی وصولی جہاد بدیوں کے مقابلہ کا جہاد ہے ۱۸۹ ۶۳ قربانی کا فلسفہ ۱۶۸ ۱۶۶،۱۶۵ مالی تحریکات کی خلیفہ وقت کی آواز پہنچانی چاہئے ۱۶۴ تا ۱۷۱ احباب جماعت کو بار بار یاد دہانی کروائیں ۱۶۳ غیر معمولی مالی قربانی کرنے والوں کے واقعات ۱۶۱ تا ۱۶۳ خدا کے معاملے میں کنجوسی ایک قسم کی خود کشی ہے چندہ دہندگان میں اضافہ کریں چیکوسلواکیہ ۷۵۳ بیرون ملک سے مزدور دولت بھجواتے ہیں ۱۹۷ چین ما حول گنده ۶۱۶ ۷۴۷ ۵۹۷ ۹۰ ۱۴۸ ١٩٦

Page 915

انڈیکس خطبات طاہر جلدے 20 20 زمانہ تک اترا کی تعلیم پر بڑے اخلاص سے عمل ہوتارہا ۷۰۸۷۰ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب حامد بن ابراہیم حب الوطنی حب الوطنی کا مطلب مالی خورد بر داور حب الوطنی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں حبیبہ بیگم حد میث دیکھیں احادیث حساب فرضی علم ہے حسد رشک کی بگڑی ہوئی مشکل جب حسد شروع ہو جائے تو دعا کرنا چاہیے حسد فی ذاتہ ایک جہنم ہے حسن خلق حسن خلق سے مراد حسین احمد ( جماعت اسلامی) قادیانی پاکستان میں یہودیوں کے ایجنٹ ڈاکٹر حسین ساجد صاحب (امریکہ) حسن معاشرت بیویوں سے حسن سلوک کی نصیحت ۱۸۹ ۹۹ ச ان کے بڑے صاحبزادے کی اہلیہ کی نماز جنازہ غائب ۱۵۰ شدید معاند مولوی ظفر علی خان کا علاج کیا حفاظت وو سیکیورٹی کے حوالہ سے دعا کریں 190 ۸۲۵ ۷۸۵ ۱۲۹،۱۲۸ ۱۹۸ ،۱۹۷ احتیاط کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ دوست کو دشمن بنالیں درود شریف کی برکت حکومت خطے میں امن بر باد کرنے کی وجوہات چوہدری حمید اللہ صاحب (وکیل اعلیٰ ) دفتر اول کی بحال کرنے کی کوشش کرینگے حمیدہ بیگم حمیدہ بیگم امید رشید احمدنا ئیک حنفی ایک جگہ کی رؤیت چاند تمام جگہوں کے لیے ہوگی حوصلہ ۴۱۴ حوصلہ کسے کہتے ہیں؟ حیا بعض جانوروں میں بھی حیا پائی جاتی ہے ۱۹۲ تا ۲۱۴ حیدر آباد دکن ۳۶۲ ۴۹۴ تا ۴۹۶ ۴۹۶ ۳۲،۳۱ ۸۰ تا ۸۲ ۷۴۴ ۱۹۰،۵۳ ۱۴۹ ۲۵۰ ۵۱۷ ۱۹۴ ۵۷۸ ۸۲۹ ،۸۲۸ ۲۰ آزادی کی کوشش کرنا میاں بیوی آپس کا سلوک بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۱۹۸ تا ۲۰۲ حیوان حیوانی زندگی میں تقویٰ کی مثالیں ۲۱۰،۲۰۹ ۲۰۴۲۲۰۳ گھروں میں بدیوں کو پھیلنے دینا خود کشی ہے مرد کو فضیلت دینے کی وجہ عورت کو یقین ہو کہ مردسچا ہے تو پھر غیر یت نہیں رکھتیں ۲۰۵ خانیوال شہر یقین چاہے تو

Page 916

۹ ۱۲۹ ۱۶۹ نڈیکس خطبات طاہر جلدے خان پور ملک خدا بخش ٹوانہ وزیر اوقاف مذہبی امور 19+ قادیانی آرڈنینس کا نفاذ مؤثر بنانے کے اقدامات جاری کرنا ۳۷۳ 21 تربیتی مسائل پر غور کرنا جماعت کی زندگی کی روح خلافت میں ہے اصل میں ساری جماعت کا نام ہی خلافت ہے جماعت اور خلافت کا بے نظیر تعلق.ہے خدمت دین روحانی لحاظ سے تندرست ہونے چاہیے ۶۱۲ خلافت کی مبلغین سے محبت کی ایک جھلک خلافت سے گہرا محبت اور پیار کا رشتہ ہے ۱۴۶،۱۴۵ 11+ خدام الاحمدیہ نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان کے ذوق کے ایک بڑی بی کا دلچسپ مکالمہ مطابق پروگرام بنا ئیں حضرت خدیجه آپ سچائی کے بلند ترین مقام تک پہنچی ہوتی تھیں حضرت سید فصیلت علی شاہ ۲۰۴ افریقین کا خلافت سے اظہار محبت ایک نشان ہے ۱۳۵،۱۳۴ جماعت کی امام سے محبت (غیر کی گواہی) ۷۲۹ تا ۷۳۷ خط و کتابت کے حوالے سے طریق کار محمد کی غلامی میں آپ کا نمائندہ مکرم شیخ خلیل الرحمن صاحب (کراچی) ۵۰۳،۵۰۲ ۲۴۳ ۱۲۸ ،۱۲۷ ۵۶۵ ۱۹ بیوی سے حسن سلوک کے حوالے سے حضرت مسیح موعود نے مکتوب لکھا ۲۱۰ تا ۲۱۴ خوف خوف کی حالت میں صبر ۸۸۴ خضر خواجہ د.ڈ.ذر ان کے حوالے سے متصورانہ خیالات خطبہ جمعہ خطبہ جمعہ اردو میں دینا خطبہ جمعہ اردو میں خطبہ دینے کی وجہ ۱۳۸ دار الیتامی سکیم یتیم کی خدمت کرنا اچھا کام ہے ۴۹ ۸۳ دانشور ۵۵ قرآن کی نظر میں دانشور کون ہے ۷۶۴ تا ۷۷ خلافت ہماری مجموعی خدمت مجموعی اخلاص عمومی تقویٰ کا نام خلافت ہے خلیفہ اسیح کی آواز میں زیادہ اثر ہوتا ہے حضرت داؤد علیہ السلام ۱۳۰ نبیوں کا استغفار کرنا ۲۹۳ ۱۶۸ زبور میں حضرت محمد کے عشق میں گیت گائے ۲۹ بات کو پیش کرنے کے رنگ خدا خود بتاتا ہے علوم کی روح سے اللہ خلفاء کو آگاہ کرتا ہے ۱۱۴ 1+9 ۱۱۳ ۱۶۹ دا و داحمد (نگران تعمیرات) ۲۶۷ خدا تعالی خلفاء کو ضرورت کے مطابق علم کلام بخشتا ہے دجال کا اثر دنیا میں ہر شخص تک پہنچ جائے گا خلیفہ المسیح کی آواز میں جماعت تک تحریکات پہنچا ئیں دجال ۱۲۱

Page 917

نڈیکس خطبات طاہر جلدے درود شریف درود شریف کی برکت دریائے نیل دریائے نیل کے ذریعہ معجزات کا ظہور دریائے نیل کا منبع جبل القمر ہے دعا دعا میں بہت بڑی طاقت ہے دعا کا فلسفہ فلسفہ دعا کے حوالے سے حضور انور کا دلچسپ واقعہ عمل سے پہلے اور بعد میں ہی دعا ہے پورے تو کل اور یقین سے دعا کرنی چاہیے قبولیت دعا کا فلسفہ مضطر کی دعا قبول ہوتی ہے دعاؤں کے لمحے دلوں سے پیدا ہوتے ہیں اجتماعی دعا کی دو طرح کی برکتیں ہوتی ہیں دعاؤں کی کمی کی وجہ سے نتائج میں لازمی کمی ہوتی ہے دعوت الی اللہ نیز دیکھیں تبلیغ دعوت الی اللہ کا کام ہو تو رابطے بڑھتے ہیں منظم طریق سے جلد لٹریچر تقسیم کرنے کا طریقہ مشق مشق میں جماعت پر سختی دنیا مغربی تہذیب کا خلاصہ دوجے عبداللہ آف انڈونیشیا دہریہ ۳۲،۳۱ ۶۶۲ 22 222 فرعون کی لاش محفوظ رہنے کا واقعہ خدائی کی دلیل ہے دہلی علماء کا بیان دین دینی علوم وحدت کی طرف لے جاتے ہیں ذکر الہی ۴۵۲ ۴۵۳ توحید اور ذکر کا گہراتعلق ہے ۱۶۷ ۱۲۹ ۱۵۱ ۱۵۰ ڈنمارک ۶۵۶ ۶۴۱ ۸۲۶ ۴۴۵ ۱۹ تحریک جدید میں آگے قدم بڑھانے والوں میں ۷۵۳۷۵۲ رانی بیگم صاحبہ (والدہ محمداسلم بھروانہ صاحب ) ۷۷۹ تا ۷۸۱ | راولپنڈی ۸۵۳ ۷۸۰ ،۷۷۹ 227 ۱۶۸ ۱۵۸ ۱۵۹ ۲۶۲ <^ ۲۶۳ مظلوموں کو بھی عید میں شامل کریں رائے عامہ ملک رب نواز ربوه ۳۴۰ ۴۱۶ ۵۰۰،۱۹۰،۵۳،۳۴ رائے عامہ کے ذریعہ بدیوں کو دور کیا جائے ۷۵۷ تا ۷۶۵ الزام لگایا کہ قادیانی امریکہ کے ایجنٹ ہیں اہل ربوہ کی حوصلہ افزائی ربوہ کے حوالے سے بیان کردہ باتیں احمدی معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں ۸۱۸ تا ۸۲۱ اہالیان ربوہ کو خصوصیت سے نصائح ۷۱۹ تا ۷۳۹ ربوہ کے ماحول کو صاف رکھنے کے لیے نصائح ۷۲۹ تا ۷۳۸ قمار بازی کے خلاف جدو جہد کریں زیارت مرکز کا فائدہ سری لنکن سفیر کی رائے تبدیل ہونے کا واقعہ ۶۹۶ ۸۱۹،۸۱۸ ۷۵۹،۷۵۸

Page 918

انڈیکس خطبات طاہر جلدے انگلستان والے قربانی بھجواتے ہیں ربوہ کے دو واقفین زندگی نے گلاسکو بیت الذکر میں غیر معمولی کام کیا مولویوں کا حلوہ کی دیگیں چڑھانا رشتہ ناطہ رشتہ ناطہ کے حوالے سے معاشرے میں موجود ایک برائی کا ذکر رشک رشک پیدا ہونا ایک فطری امر ہے ماسٹر رشید احمد مرحوم ( چونڈہ ) ۵۰۱ ۲۳۱،۲۳۰ ۲۴۴ 23 رمضان روزه صیام رمضان کی اہمیت و برکات رمضان سے متعلقہ آیات کا ترجمہ و تشریح ۲۴۵ تا ۲۶۰ رمضان کا ہدایت سے گہرا تعلق ہے رمضان کا صدقات سے گہراتعلق ہے رمضان کا تہجد سے بہت گہرا تعلق ہے ۲۰۵ ۲۰۶ رمضان کو تربیت اولاد کے لیے خصوصیت سے ۷۸۵ استعمال کریں رمضان کا استغفار سے ایک خاص تعلق ہے رمضان کا بھیگنا ۵۳ چاند کی رویت کا مسئلہ ۲۴۵ تا ۲۶۰ ۲۴۹ ۲۷۱ ۲۶۶ ۲۶۵ تا ۲۷۵ ۲۹۰،۲۸۹ ۲۵۸ ۲۴۹ تا ۲۵۲ ملک رشید احمد صاحب ( مسقط ) رشید احمد سهیل رضیه بیگم اہلیہ کرم مرزا یعقوب بیگ (جلنگهم ) عمسیس دوم حضرت موسیٰ اس کے زمانہ میں پیدا ہوئے بیگم رعنا لیاقت علی خان ان کا بیان کہ خواتین کی انتہائی پریشان حالت ہے مخالفین احمدیت کی حرکتوں کی مذمت کی رفیعہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد یوسف بھٹی ( فیصل آباد ) جسٹس رفیق احمد تارڑ ۳۴ ۱۹۰ ۱۲۳ ۳۸۲ ۱۲۳ ان کا بیان کہ قادیانی فتنہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے ۴۱۵ روزہ عبادات کا معراج ہے ۲۴۸ رمضان میں خدا کا قرب نصیب ہوتا ہے ۲۵۶،۲۵۵، ۲۵۸ روزہ صحت پر سارے سال کے لیے خوشگوار اثر چھوڑتا ہے ۲۵۵ ۲۶۷ تہجد کے بغیر روزے ادھورے اور بے معنی ہیں روزے چھوڑنے کی اجازت دو صورتوں میں ہے ۲۵۳،۲۵۲ روزہ سے طالب علموں کا نقصان نہیں ہوتا خلیفہ وقت کی روزہ رکھنے کی تحریک پر لبیک آنحضرت کا عاشورہ کا روزہ رکھنا طلباء کو روزہ رکھنے کی ہدایت روحانی زندگی روحانی زندگی کا انحصار وسیلہ پر ہے روزہ دیکھئے رمضان ۲۵۴،۲۵۳ ۳۳۰ ۲۴۸ ،۲۴۷ ۲۵۴ ٣٣ رکن الدین صاحب کراچی میں صد سالہ جو بلی کے سیکرٹری 17.روکوپور ( سیرالیون ) نذیر احمد علی نے غیر معمولی خدمات انجام دیں روس ۱۴۵

Page 919

۵۸۲،۵۸۱ ۱۶ ۱۲۳ ۱۸۴ انڈیکس خطبات طاہر جلدے روایتی ہتھیاروں میں برتری ہے دولت کی برابر تقسیم موجود نہیں رہی مالی بے راہروری کے شکار پاکستان سے تعلقات کی نوعیت روس کے لیے پاکستان کی سیاسی پالیسی کیا ہو کسی میں کوئی وفا نہیں رویا ۵۷۸،۵۷۷ ۷۰۷ 41° ۵۷۲،۵۷۱ ۵۷۹ ۵۹۹ 24 سبا ملکہ فوجی تسلط کے بعد ہونے والی تباہی کا ذکر کرنا سبت سبت کی بے حرمتی کی وجہ سے یہود کے دلوں پر مہر لگ گئی ستار محمد صاحب ( میرا بھڑ کا آزاد کشمیر) سچائی مباہلہ سے تعلق رکھنے والی ایک رؤیا کا ذکر ۴۳۳،۴۳۲ اپنے بیچ کی حفاظت کریں ریاض احمد سلیم سید ریاض ناصر ریحان محمود مکرمہ زبیده خاتون صاحبه پروفیسر ساجد میر مباہلہ کا چیلنج دیا گیا سیش اسرائیلی فوج میں پانچ سو قا دیانی کام کرنے کا الزام ساجده حنیف (جرمنی) سامری ۳۵ ۲۶۴ ۱۵۰،۱۴۹ ۳۹۸ ۱۹ ۴۱۵ ۱۹ سامری کے لگائے گئے شرک کے پودے نے شاخیں پھیلائی ۶۷۲ سونے کا بچھڑا بنایا ساہیوال چار احمد یوں کو سزائے موت سنائی گئی سبا ( گیمبیا) یہاں حضور نے خطبہ ارشاد فرمایا ۶۶۶ ۵۵ سچائی کا ہر نیکی سے ایک گہراتعلق ہے نیکی کا دائرہ سچائی سے شروع ہو کر سچائی پر ختم ہوتا ہے ساری زندگی کا راز سچائی میں ہے پوری دنیا کی اصلاح سچائی کے بغیر نہیں ہوسکتی سچائی کے اقرار کے بغیر روحانی تبدیلی نہیں ہو سکتی دل کی سچائی کو ڈھونڈیں سرگودھا سری لنکا زیارت ربوہ کے بعد سفیر کی رائے تبدیل ہوگئی صاحبزادی سعد یہ صاحبہ ۲۸۶ ۱۹۱ ۶۹۹ ۶۲۸ ۵۰۸ ٨٣٦ ۱۹ ۸۱۹ ،۸۱۸ حضور کے برادر نسبتی کی بیٹی کے لیے دعا کی تحریک کی گئی ۱۵۱،۱۵۰ ان کی وفات کے متعلق خواب سفر ڈرائیونگ کرتے ہوئے دعائیں کریں احمد یوں کو سزائے موت سنائی گئی سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا عبدالحق صاحب ۱۷۲،۱۷۱ ۴۸۷ ،۴۸۶ ۳۴

Page 920

۲۱۹ ۵۴۳ ۱۹۰ ۹۴ 25 25 سیالکوٹ کا اپنا مزاج اور اپنی تہذیب ہے سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک عمرعلی صاحب ملتان سیرالیون سیرالیون کے صدر مملکت کی غیر معمولی نوازش انڈیکس خطبات طاہر جلدے حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ سبا کی طرف پریغام صلح بھجوایا قناعت کی مثال ۵۸۲،۵۸۱ ۸۷۱ سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ کرم محد صبغت اللہ صاحب (بنگلور) ۱۲۳ سلیمہ بیگم صاحبہ ( کلاس والا پاکستان ) سنت الہی ۱۲۳ سیرالیون کے احمدی ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں احمدی ترانے سیرالیون کے ترانے بنانے چاہئیں ۶۹ ۶۷ صدر سے ہو میو پیتھک طریقہ علاج کی بابت بات ہوئی ۶۲۰ مخالفین کے متعلق سنت الہی کا بیان ۵۴۷ تا ۵۵۸ سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی خدمات ۶۳ تا ۷۳ سواری جماعت احمدیہ سیرالیون کی تین شعبوں میں ترقی ۶۴ سواریاں استعمال کرتے ہوئے دعائیں کریں ۴۸۶، ۴۸۷ بعض عناصر کی مذہب کے نام پر امن خراب کرنے کوشش ۹۶ احمدی پائلٹ کا واقعہ سورج ۴۸۷ سیرت النبی سیرت النبی کے جلسوں سے آنحضرت سے محبت بڑھے گی ۲۶ بنی نوع انسان کے لیے ایک سبق رکھتا ہے ۸۱۰ تا ۸۱۲ سیرت النبی کے مضمون کو عام کرنے کی تحریک سورۃ فاتحہ شاہ احمد نورانی ۲۵ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنے میں حکمت ۲۷۱،۲۷۰ ان کا بیان کہ ضیاء نے اپنے وجود پر بھی اسلام نافذ نہیں کیا ۳ ۳۸ ۳۸۴۰ ۵۴۲،۵۴۱ ۵۴۲،۵۴۱ ۲۶۸،۲۶۷ ۸۸۹ ۱۷۹،۱۷۸ شاہ کوٹ ایک مخالف احمدیت کی موت ہوئی شیخو پوره ۱۹۴ سوئٹرز لینڈ سور اس میں بے حیائی بہت پائی جاتی ہے سیاست سیاست کی خوبی پاکستان کو قومی سیاست کی ضرورت ہے ۵۹۸ مخالف احمدیت کی موت ہوئی شیعہ ۵۷۳ تراویح کو سنت عمری کہتے ہیں پاکستان کے سیاستدانوں کو قیمتی نصائح ۵۷۰۵۶۹ | شیطان پاکستان کے نازک سیاسی موڑ پر سیاسدانوں کو مشورے ۵۸۱ تا ۶۰۰ بے صبری شیطانیت کی طرف لے جاتی ہے فوج کے ذریعہ ملک پر قبضے کا نام مارشل لاء ہے سیالکوٹ ۵۸۲ شراب پاکستان میں شراب کا استعمال عام ہو گیا ہے

Page 921

انڈیکس خطبات طاہر جلدے 26 بعض لوگ منزل پر پہنچانے والے کو منزل بنا لیتے ہیں بے صبری شرک کی طرف لے جاتی ہے ۲۸ ۸۸۹ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں...(غالب) میں تر اور چھوڑ کر جاؤں کہاں ( مصلح موعود ) ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے قناعت کا فقدان انسان کو شرک کی طرف لے جاتا ہے ۸۷۱ شریعت گناہ گنا وہی ہوتا ہے شعر و شاعری خاص صورت میں شعر و شاعری کا شوق اچھا ہے آج ادھر کو ہی رہے گا دیدہ اختر کھلا (غالب) اے ۷۳۵ ۵۸۶ ہے پرے سر حد ادراک سے اپنا سجود (غالب) شفاعت آنحضرت کی شفاعت کا استحقاق کب ہوگا شکر خدا ہر شکر کے جذبے کو قبول کرتا ہے آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے( در شین) ۸۸۸ من لم يشكر الناس لم يشكر الله اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے (میر اسمعیل) ۲۵۹ انبیاء اللہ کے شکر گزارلوگ ہوتے ہیں اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے ( در مشین ) این چشمہ رواں که بخلق خداد هم ( در شین ) برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر بن دیکھے کس طرح کسی مد رخ پر آئے دل ( در نشین ) پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب (در نمین ) ج- ج- جعفری غریب ہے.( ضمیر جعفری) جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ( در شین) حیلے سب جاتے رہے ایک حضرت تو اب ہے دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے...رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم ( غالب ) ۱۱۳ ۵۶۴ ۲۵۷ ۶۶۳ ۷۷۴ ۶۷۳ استغفار اور شکر کا گہراتعلق صیض صادقہ بیگم صاحبه البیه شیخ غلام رسول صاحب صالح حسین صاحب (صادق پور ) مبر ۴۱۰ صبر کی مختلف صورتیں ۵۵۹ صبر کا استغفار سے گہرا تعلق ہے ۳۰۷ رات کے وقت سے پیئے ساتھ رقیب کو لئے (غالب) ۵۹۸ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے عہد جوانی روروکاٹا پیری میلی آنکھیں قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے ۷۳۴ ۳۰۱ ۶۸ کرم خا کی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ( در مشین ) ۲۹۳ کون ہوتا ہے حریف مئے مرد انگن عشق (غالب) ۱۴۶ صبر کا ایک معنی برائیوں سے بچنا ہے غصہ کے وقت اس پر قابورکھو صابر کی زندگی مجاہد کی زندگی ہے صبر کا کمال قناعت تک پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۳۷۴ ۳۸۶ ۴۴۵ ۱۸۳ ۵۱۴ ۷۴۹ ۲۸۹ ۵۲ 푸후 오우 ۲۸۴ ۱۹ ۲۶۴ ۸۸۳ تا ۸۸۹ ۲۸۵ ALL ۸۴۹ ۸۷۳ ۹۳

Page 922

انڈیکس خطبات طاہر جلدے غیریت صبر کی حدود سے نکل جائے تو حماقت ہے صحابه رسول رضوان اللہ علیہم ۸۸۰ 27 27 اس کے ایک مزاحیہ کلام کا ذکر جنرل ضیاء الحق (صدر پاکستان ) ۷۷۴،۷۷۳ حنین کے موقعہ پر صحابہ کی قربانی اور اطاعت کا نظارہ اگر ضیاء الحق بھی اسلام کی حقیقی خدمت کرنا چاہے تو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت اس کے ساتھ ہے بدنام زمانہ آرڈنینس جاری کیا استغفار کو کثرت سے مختلف رنگ میں استعمال فرماتے تھے ۳۱۹ تا ۳۲۱ ائمۃ المکفرین کے امام کو انتباہ صحابہ میں مختلف مزاج اور مختلف طبیعتوں کے مالک تھے ۳۰۷ ضیاء الحق کو دی گئی آخری تنبیہ کا ذکر صد سالہ جو بلی اظہار تشکر کا سال جو ملی لفظ کے معنی جو بلی کا لفظ محاورتاً ساتھ لگا ہوا ہے ۲۲ ۴۶۳۴۶۲ ۴۵۹ تا ۴۷۱ ۷۹۵،۷۹۴ مارشل لاء کے ذریعہ کی گئی اسلامی خدمت کا تجزیہ ۴۶۳ تا ۴۶۸ اپنے وجود پر اسلام نافذ نہیں کیا (نورانی) ۳۸۳ ۲۱ ۲۲ اس کے لیے مباہلہ کا چیلنج زبان سے قبول کرنا ضروری نہیں ۴۶۲ ۵۲۲ مباہلہ کا اعجازی نشان جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت ۵۵۹ اصل تشکر کا اظہار کیا ہے؟ ۲۳ بعض امور جماعت کو پہلی صدی میں حاصل ہوئے ۲۴۲،۲۴۱ ضیاء اللہ صاحب جماعت کے ایک امتیازی نشان و قارعمل کو پیش کرنا چاہیے ۲۳۱ ضیاء شاہد صدی کو صدی سے بذریعہ نماز جوڑیں تیاری کے حوالہ سے جائزہ ۴۵۲ ۵۲۲ تا ۵۲۶ پاکستان کی جماعتوں کی تیاری کے حوالے سے ذکر ۵۲۳ تا ۵۲۵ تیاری اور چندہ کی تحریکات احمد یوں پر مظالم پر ہم خاموش کیوں؟ طح ظ طاعون ۱۵۳ تا ۱۷۱ ایڈز ایک قسم کی طاعون ہے جماعت نے غیر معمولی قربانی پیش کی ۱۶۰ تا ۱۶۴ تراجم کا وسیع و عریض کام نمائش کی جگہ کا تقرر ہو یہ صدی فیصلہ کن ثابت ہو ۳۳۵ تا ۳۳۷ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع ۵۳ ۳۸۰،۳۷۹ ۱۹۵ ۱۵۵۰۱۵۴ آپ براہ راست جماعت کی تربیت کرنا چاہتے تھے.۱۱۲۱۱ ۵۲۹ جماعت میں عبادت کی روح پیدا کرنے کیلئے بے چینی ۵۱۸ صدق نیز دیکھیں سچ بچپن میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات جمعہ نے قرآن کریم صدق کن معنوں میں استعمال کرتا ہے؟ ۳۰۳۳۰۲ آپ پر گہرا اثر چھوڑا صدق کا تعلق تمام صفات کے ساتھ ہوتا ہے جلسے کے دوران صفائی کا خیال رکھیں ضمیر جعفری ۳۰۲ 1161+ حضرت خلیفتہ امسح الثالث کا آپ کے سپر دایک کام کرنا ۱۵۹ ۴۹۱۷۴۹۰ لاہور کی ایک بستی کو از سر نو تعمیر کروایا آپ کی سیاسی بصیرت کے نمونہ ۲۳۳،۲۳۲ ۵۸۱ تا ۶۰۰

Page 923

۵۰۸ نڈیکس خطبات طاہر جلدے بطور ماہر معاشیات اعداد و شمار پر نظر رکھنے کی عادت 28 ۷۸ تا ۸۰ احمدی صنعت کاروں، ماہرین علوم کو وقف کرنے کی تحریک ۷۵ تا ۸۲ سیرت النبی کے مضمون کو عام کرنے کی تحریک ۲۵ چینی دوست سے دولت کی برابر تقسیم کے حوالے سے مکالمہ ۷۰۸ اردو میں خطبہ جمعہ دینے کی وجہ خدا کے مظلوم بندوں سے محبت کرنے والے ایفائے عہد کی مثال لیلۃ القدر کے بارے میں مشاہدات ۸۰ لندن میں زمانہ طالب علمی میں ایک ہیٹ والے کو صدقہ دینا۲۷۲،۲۷ ۹۱ ۳۳۴ طاہر محمود (مولوی) حضورانور کے خلاف ہرزہ سرائی ۴۱۷ ۱۹۹ ۱۲۳ ۳۱۷ ۳۶۲ ۲۲۸ ۵۴۲،۵۴۱ บ ۳۶۰ ذاتی کار تھی مگر پسند سائیکل ہے تمام متنازعہ امور پر تفصیلی بیان موجود ہے آپ کی مجالس سوال و جواب تبلیغ کا طاقتور آلہ ہیں خط و کتاب کے حوالے سے طریق کار فلسفہ دعا کے حوالے سے دلچسپ واقعہ ง ۱۲۸،۱۲۷ ۱۴۸ طلاق طلاق میں جلدی کرنے والا خدا کے نزدیک بد ہے طیفاں بی بی اہلیہ برکت اللہ صاحب حضرت منشی ظفر احمد صاحب ایک روایت بیان کی احمدیت کی ترقی کا پہلا دور افریقہ کے دلوں کی فتح ہے آپ کی طرف سے جاری کی گئی سولہ تحریکات کا ذکر ۳۹،۳۸ سیرالیون کے دورے کے دوران ایک مبلغ کی قبر پر دعا کرنا ۱۴۶،۱۴۵ ظفر علی خان ایڈیٹرزمیندار اخبار آپ نے چار مشرقی افریقین ممالک کا دورہ کیا دوره ماریشس ۶۴۹ ۶۲۵ گیمبیا کے دورے کے دوران حکومتی افراد کا غیر معمولی تعاون ۹۳ دورے کے دوران سیرالیون کی غیر معمولی نوازش افریقہ میں احمدیت کے پھیلنے کی دعا کامیاب دورہ افریقہ کا تذکرہ رومن کیتھولک کے بشپ نے استقبال کیا آپ کے خلاف مخالفین کی ہرزہ سرائیاں پاکستان کی اصلاح احمدیت کے ذریعہ ہوسکتی ہے رؤیا کہ انگریزی کا ترجمہ درست نہیں ہے ۹۴ ۱۰۳ ۱۲۵ تا ۱۲۷ ۹۵ اس نے لکھا کہ کسی سیاست دان نے سیاست سیکھنی ہے تو قادیان کے یکہ بان سے سیکھ سکتا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے علاج کا انتظام فرمایا سید ظہور احمد شاہ صاحب (ربوہ) عاشق حسین زرگر ۴۱۶ تا ۴۱۸ مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہوا عامر ارشاد قریشی ۴۷۱ ۶۶۰ ع غ ضیاء الحق کے مقابل پر بچے ہونے کا ایک اور ثبوت ۴۳۴، ۴۳۵ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مباہلہ سے تعلق رکھنے والی ایک رؤیا کا ذکر ۴۳۳،۴۳۲ مباہلہ کے حوالے سے ایک رویا کا ذکر ۵۴۷ تا ۵۵۸ جمعہ کی رخصت کی تحریک چلانے کی نصیحت ۱۴ آپ پر نہایت گندہ اور بھیا نک الزام لگایا گیا عبادت دیکھئے نماز

Page 924

29 29 حضرت مسیح موعود پر ہونے والے اعتراض کو برداشت نہیں کر سکے ۸۷ عبداللطیف صاحب ظہور (لاہور) عبد العزیز مولوی صاحب ( قاضی احمد نوابشاہ ) ۱۲۳ ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا ۱۷۵ عبدالعزیز صاحب سوکیہ عبدالعزیز مولوی ۵۳ الزام لگایا کہ کلمہ میں محمد رسول اللہ سے بعینہ مرزا قادیانی مراد ہے ۴۱۲ ۸۲۱،۸۲۰ ۳۴ ۳۹۸ ۵۳ ۲۶۴ ۱۹ انڈیکس خطبات طاہر جلدے عبادت سے ہی نور پھوٹتا ہے مرزا عبدالحق صاحب عبدالحلیم مباہلہ کا چیلنج دیا گیا میاں عبدالحی صاحب مبلغ سلسلہ خواجہ عبدالرحمن صاحب سردار عبدالرحمن صاحب (مہر سنگھ ) عبدالرحمن صاحب شیخ والد شیخ عبد الوہاب صاحب عبد القادر آزاد مولوی حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب ان کے استغفار کی وجہ سے ان کی کلاس پاس ہو گئی عبدالرحیم اشرف حضور انور کے خلاف ہرزہ سرائی حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب افریقہ کے پہلے مبلغ تھے ان کا ذکر خیر سلائیڈز کے ذریعے تبلیغ کرتے تھے سیرالیون کے حالات لکھے عبدالرشید آرکیٹیکٹ صاحب گلاسکو بیت الذکر کا کام کیا پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ۳۴ ۳۲۰ ۴۱۷ ،۴۱۶ ۱۳۸،۱۳۷ ۱۳۸ ۱۴۰،۱۳۹ ۲۳۰ الزام لگایا کہ کلمہ میں محمد رسول اللہ سے بعینہ مرزا قادیانی ہے ۴۱۲ عبدالقدوس قاسمی وفاقی شرعی عدالت کے جج سردار عبدالقیوم احمدیت کے خلاف بیان دیا عبد الله ام پیشگوئی کے مطابق عبد اللہ سندھی مباہلہ کا چیلنج ۴۰۱ ۴۱۵ مر ۸۰۲۱ ۴۸۰ ۲۶۴ عبداللطیف خان صاحب حضرت مسیح موعود کے مباہلہ کے ذریعہ ہلاک ہوا عبداللہ خان صاحب ( سمبڑیال) مکرم چوہدری عبداللہ خان واہلہ صاحب ۱۲۳۱۹ خواجہ عبدالوکیل صاحب صدیقی جلسہ گاہ تک مہمانوں کو لے جانے کی ذمہ داری سونپی گئی ۴۹۸ عبدالوہاب شیخ امیر جماعت احمد یہ اسلام آباد حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید حضرت حافظ عبیداللہ صاحب مبلغ ماریشس ۱۹ ۳۴ وحدت کے تصور کا اظہار کیا ۸۲۶ ۳۹۸

Page 925

نڈیکس خطبات طاہر جلدے ان کا ماریشس میں ورود عذاب 30 50 ۶۴۵،۶۴۱ دینی اور دنیوی علوم وحدت کی طرف لے جاتے ہیں ۸۲۵ تا ۸۲۷ حضرت علی رضی اللہ عنہ عوام الناس پر عذاب آنے کی وجہ ۴۷۳ تا ۴۸۲ فرعون والی حدیث کے راوی عرب محمد کے ذریعہ عظیم الشان معجزہ ظاہر ہوا عرب میں بدخلقی کا دور دورہ تھا عراق عراق ایران بے مقصد جنگ کا تذکرہ ۱۴۳ ۱۹۳ ۳۳۸،۳۳۷ مرزاعلی اختر ناظمین صلوۃ کو خود نماز کا علم نہیں تھا علی محمد صاحب علی محمد صاحب ( سانگلہ ہل ) ۶۵۳ ۳۸۲،۳۸۱ ۱۹ ۱۹ ۲۶۳ چوہدری علی محمد صاحب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۱۹ چوہدری عزیز الدین احمد صاحب (ملتان) عزیز احمد صاحب ۲۲۷ لیلۃ القدر کے حوالے سے روایت کے راوی فطرانہ صاع گندم کی بجائے آدھا صاع مقرر کیا ۳۳۳ ۳۴۵ انبیاء کی صفت عصمت ذاتی جائیداد کے طور پر نہیں ۳۱۱ تا ۳۱۳ آپ کو پسند نہ کرنے والے تراویح کو سنت عمری کہتے ہیں ۲۶۷، ۲۶۸ عصمت کی حفاظت کے لیے استغفار کی ضرورت ہے عطاء المجیب راشد صاحب مباہلہ کے پیغام غیر احمدی مولوی تک پہنچانے والے ۳۱۲ ۸۶۹ ملک عمر علی صاحب کھوکھر آف ملتان امری عبیدی تنزانیہ کے مخلص دوست ۵۴۳ ۶۱۸ ۱۲۹ ۱۸۹ ۳۴۱ ،۳۴۰ ۳۴۴ ۳۴۲ تا ۳۴۴ عمل عمل سے پہلے اور بعد میں دعا کرنی چاہیے عون بن عقیل عید اصل حقیقی عید کیا ہے؟ عید سے پہلے فطرانہ ادا کرنا ضروری ہے قیدیوں کو عید میں شامل کریں حضرت عیسی علیہ السلام ۱۴۹ 190 ۱۳۷ ١٩٠ ۶۷۹ ۱۱۲ عطاء اللہ خان صاحب (ربوہ) مولا نا عطاء اللہ کلیم افریقہ میں خدمت بجالاتے رہے عقیل بن عبدالقادر ڈاکٹر رض حضرت عکرمہ باپ کے حوالے سے آپ کو طعنہ دیا جاتا تھا خالی علم کبھی دنیا میں انقلاب بر پا نہیں کیا کرتا

Page 926

انڈیکس خطبات طاہر جلدے یہود کے لیے قیامت کی علامت تھے بائبل میں اقرار کہ میں راستہ ہوں عیسائیت نیک لوگوں کو خدا کا شریک ٹھہرایا گیا نشانات دیکھ کر تو میں ایمان نہیں لاتیں افریقہ کو عیسائیت کے حملے سے احمدیوں نے بچایا سب سے زیادہ اسلام کو نفرت کا نشانہ بنایا ۲۷ ۲۹ ۵۵۶ ۹۵ ۲۲۳ 31 غصہ پر قابورکھو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام ماموریت کا پہلا الہام ۱۸۸۲ء کو ہوا تمام روشنی محمد کے توسط اور توسل سے ملی ALL ۳۹۱ ۵۶۵ اپنی جہالت کی وجہ سے آنحضرت پر حملے کرتے ہیں ۳۰۵،۳۰۴ آپ نے حضرت محمد کے حق میں وسیلہ ہونے کی گواہی دی ۳۱ افریقہ میں جنسی آزادی کا اعلان کیا ۱۱۹ برٹش پارلیمنٹ کا پورے افریقہ میں عیائیت پھیلانے کا منصوبہ ۸۶ عیسائیت کے زندہ رہنے کی ایک بڑی وجہ غانا نانا کے لیے حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کا دعا کرنا حکیم فضل الرحمن صاحب سب سے پہلے غانا گئے غانا کی تاریخ LL ۸۹ ۱۴۱ ۴ آسمان سے کسی مسیح کو اتر نے نہیں دیکھو گے دجال کو قتل کرنا آپ کے سپرد ہے دعویدار کی سچائی پر کھنے کا قرآنی معیار دعویدار کی سچائی کو پرکھنے کا معیار میری تصدیق تو تمام آسمان والے کرتے ہیں نشانات دیکھ کر تو میں ایمان نہیں لاتیں ہر ایک میں نور قلب ہوتا ہے ۸۳تا ۹۰ آپ کو روحانی طور پر نوح کا خطاب دیا گیا ۴۰۷ ۱۲۲ ۳۹۳،۳۹۲ ۱۸۰ تا ۱۸۵ ۱۵۷ ۵۵۷،۵۵۶ ۲۹۵،۲۹۴ ۷۰۲ ماضی میں غانا کے لوگ بدنی اور روحانی طور پر غلام بنائے گئے ۸۴ سیلاب سے بچنے کے لیے کشتی نوح میں سوار ہونا ۶۸۵،۶۸۴ غلامی سے نجات کے لیے نفسوں کو آزاد کریں اپنی کتب میں سب سے زیادہ زور تقوی پر دیا ہے بعض عناصر کی مذہب کے نام پر امن خراب کرنے کی کوشش کرنا ۹۶ آپ کیا وظیفہ بتاتے تھے؟ غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے پڑھائی جاسکتی ہے رسم نہیں بنانا چاہیے غربت غریب ملکوں کی غربت ختم کرنے کا طریق ۱۸۹۶ء میں جمعہ کی رخصت کے لیے تحریک چلائی گئی ۳۶۳ جمعہ کے نظام کے لیے ایک عالمگیر تحریک چلائیں ۸۲۷ ۳۲۱ ۱۳ ۱۸ ۶۲ ۳ تا ۳۶۴ میاں بیوی کے آپس میں حسن سلوک کی تعلیم دی ۱۹۹،۱۹۸ ایک ساتھی کو حسن سلوک کے حوالے سے خط لکھا ۲۱۰ تا ۲۱۴ خط ۸۰ تا ۸۲ غریب کی غربت دور کرنے میں آزادی کا تصور ۳۶۰،۳۵۹ غزوہ بدر فرشتے نازل ہوئے تھے ۶۱۰ آپ کا علم الکلام قومی اور غالب ہے انقلابی علم الکلام ہے آپ جیسا علم کلام کوئی بھی پیش نہیں کر سکتا آپ کا ایک فقرہ بڑی کتابوں پر حاوی ہوتا ہے آپ کی سچائی کا معاملہ جماعت کی سچائی کے معاملہ ۳۹۴،۴۳ ۱۱۳ ۱۱۳،۱۱۲ ۴۳

Page 927

انڈیکس خطبات طاہر جلدے سے وابستہ ہے ۴۳۳ نبی کی بعثت کے حوالے سے تقدیر عام ۴۲۹ تا ۴۳۲ آپ کے منکرین کا انجام مخالفوں کی دعا ئیں نہیں سنی جائیں گی آپ کے مخالفین میں تخریب کاری کا اضافہ گستاخ شخص کی بدتمیزی کو برداشت کیا آپ کی تصویر بگاڑنا ۴۲۸ ،۴۲۷ 32 32 حضرت صوفی غلام محمد مبلغ سلسلہ ماریشس میں ورود ۴۰۵،۴۰۴ غلام مرتضی راجه ۲۳۵ 729 ۳۹۴ آپ کی ذات پر الزامات کا مباہلہ کے ذریعہ جواب ۳۹۵ تا ۴۰۷ آپ کی کتب میں بے شمار نسخے ملیں گے ۴۴۷ اس اعتراض کا جواب کہ لوگوں کو افیون کھانے کی تلقین کی ۴۰۳۴۰۲ اس اعتراض کا جواب کہ قادیان میں مسلمانوں کو اذان دینے کی اجازت نہیں ۴۰۲ اس اعتراض کا جواب کہ قادیان سالانہ آنے کو حج قرار دینا ۴۰۳ نبیوں اور عام لوگوں کے استغفار میں فرق لیکھر ام کی موت کا عظیم الشان نشان اندر کی راہ دکھائے آنحضرت کے لیے فرمایا عیسائیت سے اسلام کو بچایا فرعون کی لاش آپ کے زمانہ میں دریافت ہوئی سائل کا اپنے قرض کے بارے میں لکھنا اور آپ کا اسے ایک رو پیدینا آپ کے صحابہ آپ پر ہونے والے اعتراض برداشت نہیں کرتے تھے غلام رسول صاحب شیخ غلام رسول قریشی غلام رسول مولوی ۲۹۳ ۶۶۵ تا ۶۷۷ ۲۷ ۴۸۰ غلامی غلامی کا وسیع مضمون فک رقبة“ کا وسیع مضمون غلامی کا آغاز نفسیاتی غلامی سے ہوتا ہے ۶۴۳ ۱۲۳ ۳۴۹ تا ۳۵۲ ۳۵۸ ۳۵۳ ۹۰ ۳۵۸،۳۵۷ غلامی سے نجات کے لیے نفسوں کو آزاد کرو عظیم الشان آزادی کا قرآنی فلسفہ قرآن نے آزادی کی تین مختلف جہتیں بیان کی ہیں ۳۵۲ تا ۳۶۲ غربت بھی غلامی کا ایک ذریعہ ہے غلامی کی طرف لے جانے والی چیزیں غانا کے لوگوں کو غلامی سے نجات کیسے ملے گی غانا کے لوگوں کو غلام بنانا ملک غلام نبی صاحب مبلغ سلسلہ ۶۵۱ افریقہ میں غیر معمولی خدمت کا موقع ملا ۷۱۹ ،۷۱۸ ۸۸۰،۸۷۹ ۱۹ ۱۹۰ غنٹا (Junta) سید غوث علی شاہ وزیر اعلی سندھ غیرت غیرت صبر کی حدود سے نکل جائے تو حماقت ہے ف فاطمہ بیگم صاحبہ ۳۵۲ ۳۴۹ ۸۳ ۱۳۷ ۵۸۴ ۳۷۴ ۸۸۰ ۱۲۳ الزام کہ کلمہ میں محمد رسول اللہ سے بعینہ مرزا قادیانی ہے ۴۱۲ فاطمه بیگم اہلیہ حمد اسحاق درک صاحب ۳۵

Page 928

فرعون کی ہلاکت بدھ کے دن ہوئی 33 انڈیکس خطبات طاہر جلدے صاحبزادہ فتح علی خان اسمبلی کے ممبر کی کرتوتوں کا ذکر ۳۸۳،۳۸۲ فرعون سے نجات والا واقعہ امت محمدیہ کے ساتھ بھی ہو گا ۶۵۳ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب لیکھر ام اور فرعون کی ہلاکت میں بعض چیزیں مشترک ہیں ۶۶۹ مبلغ انگلستان ۱۳۷ فری ٹاؤن (سیرالیون) ان کی بیٹی کی شادی سید منور حسین شاہ صاحب سے ہوئی ۱۵۰،۱۴۹ اس جگہ پہلی مبلغ احمد بیت نے قدم رکھا فتح محمد گجراتی فجور فجور کی واقفیت سے تقوی کو سمجھایا جا سکتا ہے فجی آئی لینڈ یورپ کی گندی تہذیب کے اثرات ہیں جسٹس فخر الدین ابراہیم احمدی مخالفت کی مذمت کی جسٹس فخر عالم وفاقی شرعی عدالت کے جج فراست ۲۶۳ ۸۳۱،۸۳۰ ۱۲۱ ٣٧٩ گناہ کے شعور سے ایک روحانی فراست نصیب ہوتی ہے۷۹۰ ۴۰۱ فرینکفرٹ جرمنی ناصر باغ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا فزکس مشاہدہ کا نام ہے فضل احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ ان کا ذکر خیر میاں فضل کریم صاحب ( چک سکندر ) فضیلت نصائح صاحبہ فطرانہ ۱۳۷ ۲۱۵ ۸۲۵ ۱۲۳ ۱۴۱ ۳۵ ۲۶۴۲۶۳ ۳۴۴ ۳۴۵،۳۴۴ ۵۸۸ ۵۸۸ ۵۸۲ ۵۸۶،۵۸۵ عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے فرحت رحمان فرعون فراعین مصر کا سلسلہ طویل ترین سلسلہ ہے ۲۶۴ ۶۵۳ فطرانہ کی شرح کیا ہو فوج گناہ گاری کی مثال لیکن اس نے بھی موت دیکھ کر توبہ کر لی ۳۲۴ جنگ کے موقع پر فوج کی محبت پیدا ہوئی فرعون کے مقابلے میں ظاہر ہونیوالے نشانات کا تذکرہ ۶۵۰ ۶۶۳ فوج کی طاقت کا نتیجہ ۶۵۰_۶۶۳ فرعون کی لاش ملنا قرآنی معجزہ ہے ۶۵۰ تا ۶۶۳ فوج کے ذریعہ ملک پر قبضہ کا نام مارشل لاء ہے کانام مصری تاریخ میں غرقابی کا واقعہ نہ ملنے کی وجہ مارشل لاء کے بعد ملٹری انٹیلی جنس کا کام

Page 929

نڈیکس خطبات طاہر جلدے فیصل آباد ملاں تو صرف فیصل آباد میں ایمانداری پیدا نہیں کر سکتے ۴۷۷ حضرت فیض احمد صاحب رفیق حضرت مسیح موعود فیض احمد فیض اچھے شعراء میں شمار ہوتا ہے ۷۳۵ ۳۵ 34 4 مختلف آیات کا تراجم کا کام ہوا ۴۸ فرعون کی لاش ملنا قرآنی معجزہ ہے ۶۵۰ تا ۶۶۳ مسلمان جمعہ سے غفلت برتیں گے ۱۲ حسنہ کے بغیر برائی دور نہیں ہوسکتی ۷۲۹ قرآن آزادی کی تین مختلف جہتیں بیان کرتا ہے ۳۵۲ تا ۳۶۲ قربانی قادیان ق یک گ ۵۰۰،۳۵،۱۹،۱۱ اہل قادیان کی تربیت حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات جمعہ سے ہوئی جمعہ کے روز کی کیفیت قادیان میں مجالس ارشاد کا انعقاد بچے سحری سے قبل لا ز ما تہجد پڑھتے تھے لیلۃ القدر کون سی رات ہے حضرت مصلح موعود کا خود وقار عمل کرنا 1161⭑ 11 ۷۳۷ ۲۶۷ ۳۳۴ ۲۳۴ قربانی کا فلسفہ قربانی کرنے والا ایک عجیب لذت سے آشنا ہوتا ہے عظیم الشان تغیر قربانیوں کے بعد ہوتا ہے مالی قربانیاں خالصہ محبت سے تعلق رکھتی ہیں خدا کی نظر میں مقبول قربانی رائیگاں نہیں جاتی قربانی کی توفیق عطا ہونا عظیم الشان نعمت ہے ۴۲ ۱۴۲ ۱۶۸ ام 3 تراجم قرآن کے لیے غیر معمولی قربانی کرنے والے ۵۱۷۵۰ بادشاہ (خلیفہ ) اور بوڑھے کسان کا واقعہ قرض ۷۴۳ قرض دیتے اور لیتے ہوئے احتیاط ۵۲،۵۱ ۴۹۳،۴۹۲ قادیان کے زمانہ غربت کا ذکر انگلستان والے قربانی بھجواتے ہیں ۵۰۱ قمار بازی ۷۳۰ قمار بازی کے خلاف جد و جہد کرنا ہوگی قمر الحق ابن شیخ نور الحق صاحب گائے پر پابندی ہوتی تھی قائد اعظم محمد علی جناح بہادر یار جنگ کو آزادی کا اعلان کرنے کو مشورہ دینا ۵۷۹،۵۷۸ قمر رفیق کا ہلوں صاحبہ (جرمنی) قرآن کریم قناعت تقوی کا درس دینے والی کتاب ۱۹۲ بدی کی طرف چلنے سے روکنے کی تعلیم ۷۲۲ تا ۷۲۶ جو قرآن کو چھوڑے گا وہ محمد " کو چھوڑے گا ง کسی دعویدار کی سچائی کو پرکھنے کا آسان معیار ۱۸۰ تا ۱۸۵ قرآن کریم تراجم شائع کرنے کی تحریک ۵۰،۴۹ قناعت کیا ہے قناعت کی تشریح گناہوں سے روکنے کی طاقت قرآن قناعت کے مضمون پر بہت زور دیتا ہے ۶۹۶،۶۹۵ ۱۲۳ ۲۲۷ ۸۴۹ ۸۵۹ تا ۸۶۷ ۸۴۹ ،۸۴۸ ۳۵۴

Page 930

۲۹۷ ،۲۹۶ ۶۶۹ ۷۱۴ ۱۴ ۳۸۱،۳۸۰ ۳۸۰،۳۷۹ ۳۷۳ ۳۸۳ تا ۳۸۵ ۳۹۸،۳۹۷ ۸۰۵ ۲۹۳ ۲۹ ۳۸۲ ۴۱۴۴۱۳ ۳۹۸ انڈیکس خطبات طاہر جلدے قناعت کا صف غنی سے تعلق ہے صبر کا کمال قناعت تک پہنچاتا ہے قناعت کا فقدان شرک کی طرف لے جاتا ہے محمود و ایاز کے واقعہ سے قناعت کی وضاحت قنوت قنوت کے معنوں میں دعا اور عاجزانہ دعا شامل ہے ۸۵۰ ۸۷۳ ۸۷۱ ۸۶۰ ۲۸۶ مظلوم قیدیوں کو عید میں شامل کریں ۳۴۲ تا ۳۴۴ کابل کارل ساگون ۵۹۹ 35 براہین احمدیہ ہر چہار صص تو بہ اور استغفار کا مضمون بیان ہوا بركات الدعا ترندی جسارت کراچی اصغرخان کا بیان شائع کیا جنگ روز نامه ضیاءشاہد کا تبصرہ شائع ہوا قادیانی آرڈنینس کو نا فذ کرنے کے احکامات شاہ احمد نورانی کا بیان شائع ہوا چہرہ قادیانیت از محمد سجاد خان مصنف کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا حقیقۃ الوحی سعادت مند آدمی کی آنکھیں کھولنے والی کتاب زبور حضرت داؤد نے آنحضرت کے عشق میں گیت گائے زنجیر (اخبار) خواتین کی حالت انتہائی پریشان ہے عاشقان مصطفیٰ کہاں ہیں ( پمفلٹ) احمدیوں کے خلاف جھوٹ اور گند بیان کیا قادیانیت اسلام کے لیے سنگین خطرہ حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کردہ کتا بچہ ۷۳۷ ۶۶۸ لا ۷۰۵ ۱۴۰،۱۳۹ ۲۹ ۴۸۱ ۶۵۱ ۶۷۰ کائنات کے اوپر فلمیں بنائی ہیں کتابیات / اخبارات و رسائل آئینہ کمالات اسلام ابن ماجہ سنن جمعہ کے فرض ہونے کا بیان ابوداؤد الفضل روزنامه عبد الرحیم نیر سیرالیون کے حالات لکھے انجیل مسیح نے آنحضرت کا ذکر بڑے پیار سے کیا انصار اللہ (ماہنامہ) خلاف اسلام کتاب کا جواب شائع کیا بائیل آخری وقت میں فرعون کی کی گئی دعا کا ذکر نہیں ملتا بخاری صحیح

Page 931

۲۸۸ مسیحیت کے کفارہ کا تصور بے معنی ہے 36 98 ۳۱۵ نڈیکس خطبات طاہر جلدے سیرت المہدی جلد اوّل کشتی نوح تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلیم اللہ شاہ صاحب رونگھٹے کھڑے کرنے والی تعلیم مسلم صحیح جمعہ سے غافل ہونے کے حوالے سے پیشگوئی مسند احمد بن حنبل ملت لندن ملت روزنامه ضیاء کے نافذ اسلام کا نتیجہ ناظمین صلوۃ کے حوالے سے خبر شائع کی ملفوظات جلد نمبرا ۸۴۳ 17 ۷۷۳ ۳۸۳،۳۸۲ ۳۸۱ کمیونزم فرد کی حیثیت کو ختم کر دیا گیا کیرالہ کیمسٹری مادے کے بعض خاص حصوں کے مشاہدہ کا نام کینیا جماعت کینیا کا ماضی اور حال کینیا میں تبلیغ کی کیسٹس تیار ہیں دفتر اول کو بحال کریں کینیڈا کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں ۱۹۹ تحریک جدید میں پاکستان کے علاوہ چوتھے نمبر پر کراچی حضور نے وکٹوریہ روڈ کی مسجد میں جمعہ ادا کیا روشنیوں کا شہر صد سالہ جشن تشکر کے حوالے سے غیر معمولی اور امتیازی قربانی پیش کی احمدی مظلوموں کو عید میں شامل کر لیا مسلمان مسلمان کو ظالمانہ طریق پر مار رہا ہے کرشن نیک لوگوں کو خدا کا شریک ٹھہرایا گیا کفاره حقیقی کفارہ کیا ہے؟ کفارہ کا حقیقی اور سچا مضمون ۱۹ ۱۹۰ شاملین تحریک جدید کی تعداد کے اعتبار سے نمایاں 3 صد سالہ جو بلی چندوں کے حوالے سے کینیڈا کی ۸۲۱ مثال شاندار اور قابل تقلید ہے 171.17 ۳۴۰ ۳۳۹،۳۳۸ ۲۹ ۲۹۶ ۲۸۸ ایک پروفیسر نے جماعت کے حق میں بیان دیا کینڈی ایک بہت خوبصورت جگہ گجرات گجرات کا اپنا مزاج اور اپنی تہذیب ہے گلاسکو ۵۴۴ ۳۵۱،۳۵۰ ۱۹۰ ۸۲۵ ۶۰۱ تا ۶۱۶ ۶۲۲ ۷۴۴ ۷۵۲ ۷۵۵ ۱۶۱ تا ۱۶۳ ۲۴۳،۲۴۲ ۸۱۹ ۳۵ ۲۱۹ گلاسکو بیت الذکر وقار عمل کے ذریعہ مکمل کی گئی ۲۲۹ تا ۲۳۱ گناه

Page 932

نڈیکس خطبات طاہر جلدے گناہ گناہ ہی ہے خواہ یہ شعوری ہو یا غیر شعوری روشنی طبع کو گناہ کمزور کر دیتے ہیں گناہ سے بچنے کے لیے دعا ضروری ہے گناہوں کے سیلاب سے کشتی نوح ہی بچائے گی کمزور طبائع سے مغفرت سلوک گناہوں سے فرار اختیار کرنے کے دو طریق ۲۰۱ 37 37 اے جمعہ سے متعلقہ آیات کی تفسیر بیان کی خلافت سے قبل دورہ کیا اور جمعہ کے حوالے سے نصیحت کی لاہور کے خدام کے وقار عمل کا تذکرہ ۸۵۳ لاہور کی جامع مسجد کا ذکر 2+1 ۳۰۸ تا ۳۱۱ وقار عمل کے ذریعہ ایک تباہ شدہ بستی کو آباد کیا ZAZ جب تک تمام گناہوں کا شعور نہ ہو انسان کو مکمل پناہ نہیں مل سکتی ۸۴۳ گناہوں کا شعور بخشنے والا مضمون ۸۴۶،۸۴۵ گناہوں کا شعوراولا د میں پیدا کریں ۷۸۹ تا ۷۹۰ گوجرانوالہ گوربا چوف آزادی کی غلط پالیسی پر عمل پیرا گولڈ کوسٹ ۱۹۰،۲۰ ۳۵۷ ، ۲۳۳۲۳۲ م ۲۳۲،۲۳۱ لاہور کے قادری کا مباہلہ سے روگردانی کا طریق ۵۳۶٬۵۳۵ لڑ پیچر منظم طریق سے جلد لٹریچر تقسیم کرنے کاطریق لعان مباہلہ اور لعان میں فرق ۱۵۹ ۳۸۹ تا ۳۹۱ حضرت ڈاکٹر لعل دین صاحب رفیق حضرت مسیح موعود ماریشس میں تھوڑی دیر ہے لندن ۶۴۲ ۹۱ ،۱۹ مولانا نذیر احمد علی بطور مبلغ ۱۹۲۹ء میں گئے گیمبیا حضور انور نے سب سے پہلے دورہ فرمایا گیمبیا کے لوگوں کی تعریف گیمبیا کی ترقی کے لیے نئے منصوبے صدر کی پالیسی قناعت پر مبنی ۱۴۳ ۹۱ ۵۶ ۵۵ تا ۶۰ ۳۵۶ ۹۳ لندن میں جمعہ کی حاضری میں فرق نہیں پڑنا چاہیے ختم نبوت کانفرنس میں قادیانیت کو کینسر قرار دیا لومر یہ جانور کبھی بھی اپنی بے پردگی نہیں ہونے دیتا رام ۳۶۸ ۹ ۱۹۴ ۶۶۵ تا ۶۷۷ لیکھرام کی موت کا عظیم الشان نشان گیمبیا کے دورے کے دوران حکومتی افراد کا تعاون لیکھرام کو چھ سال کی میعاد مقرر کرنے کی وجہ بعض عناصر کی مذہب کے نام پر امن خراب کرنے کی کوشش ۹۶ لائبیریا ۸۰۷ ۶۷۱ لیکھرام کو گوسالہ سامری سے مشابہت لیکھرام اور فرعون کی ہلاکت میں بعض چیزیں مشترک ہیں ۶۶۹ لیکھرام کوموت کے بعد عزت ملنا بعض عناصر کی مذہب کے نام پر امن خراب کرنے کی کوشش ۹۶ لیلۃ القدر ۶۷۲ تا ۶۷۴ لاہور ۵۳ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرد ۳۳۳

Page 933

۳۴ ۱۲۶ نڈیکس خطبات طاہر جلدے لیلی حمیدہ سوکیہ صاحبہ لین دین لین دین میں بیماری کا آغاز کب ہوتا ہے؟ ۵۳ 38 ملک مبارک احمد (واشنگٹن) مبارک احمد ساقی صاحب مبلغ سلسلہ افریقہ کے دورے میں ایڈیشنل وکیل التبشیر مباہلہ مادهه پرستی مغربی تہذیب کا خلاصہ مارشل لاء ZA آیت مباہلہ کا شان نزول ۳۸۸ حضور انور کی طرف کئے گئے مباہلہ کا متن ۴۲۰ تا ۴۲۶ مباہلہ کا حقیقی مفہوم اور طریق کار تاریخی مباہلہ کا نماز سے گہرا تعلق ہے فوج کے ذریعہ ملک پر قبضے کا نام مارشل لاء ہے ۵۸۲ مباہلہ عبادت کو بلند کر کے جیتیں ماریشس ماریشس کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے ماریشس میں صحابہ کا ورود ۵۳ ۶۳۷ ۶۴۳،۶۴۲ دورہ ماریشس میں نصائح ۶۲۵ تا ۶۳۵، ۶۳۷ تا ۶۴۸ ایک شخص کا جواب ملنے پر مباہلہ کا چیلنج واپس لینا یورپ کی گندی تہذیب کے اثرات ہیں ماسکو روشنیوں کا شہر مالکی فرقہ سیرالیون میں احمدیت کی مخالفت کی ۸۰۳ ۱۲۱ ۸۲۱ ۱۳۹ بھل کے معانی ۷۹۱ تا ۸۰۸ ۴۵۶ ۴۲۹ تا ۴۳۶ ۵۲۸ چیلنج قبول کرنے سے قبل حقیقۃ الوحی کا مطالعہ ضروری ہے ۸۰۳ مباہلہ سے تعلق رکھنے والی ایک رؤیا کا ذکر مباہلہ آسمان کے فیصلے کی بات ہے ۴۳۳۴۳۲ ۵۲۷،۵۲۶ حضرت مسیح موعود کی ذات پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بذریعہ مباہلہ ۳۹۵ تا ۴۰۷ حضور انور نے ائمہ التکفیر کو مباہلہ کا چیلنج دیا ۳۸۷ تا ۴۰۷ مباہلہ میں صرف معاندین پر عذاب آنے کی دعا کرنی چاہیے ۵۴۰ علماء ابتہال کی بجائے اشتعال پھیلا رہے ہیں مباہلہ اور لعان میں فرق ۵۵۳ ۳۸۹ تا ۳۹۱ مباہلہ کے بارے میں ایک تازہ صورتحال ۸۶۷ تا ۸۷۰ 1•• لاعلمی میں مباہلہ قبول کرنے والے مخالفین کو نصائح مالی تحریکات نیز دیکھئے انفاق فی سبیل اللہ لا علم لوگوں کو علم کے حصول کی ترغیب دینی چاہیے ۸۰۴۸۰۳ زیادہ سے زیادہ احباب جماعت کو شامل کریں خلیفہ وقت کی آواز پہنچانی چاہیے احباب جماعت کو بار بار یاد دہانی کروائیں ماؤزے لے تنگ ۱۶۶ ۱۶۴ تا ۱۷۱ ۱۶۳ مخالفین کے متعلق خدا کی سنت مباہلہ کا اعجازی نشان ضیاءالحق کی ہلاکت ۵۴۷ تا ۵۵۸ ۵۵۹ مولویوں کے مباللہ منظور کرنے کی عجیب و غریب شرائط ۵۳۴ تا ۵۳۶ عوام الناس پر بھی خدا کا قہر ٹوٹتا ہے ۴۷۳ تا ۴۸۲ اس کے زمانے میں چین میں اشترا کی تعلیم پر عمل ہوتارہاے ۷۰، ۷۰۸ مباہلہ سے علماء کا راہ فرار اختیار کرنا ۵۳۴

Page 934

39 انڈیکس خطبات طاہر جلدے مباہلہ کے نتیجہ میں پاکستان کے حالات بہتر ہورہے ہیں ۷۹۱ محمد ابراہیم خلیل صاحب مبلغ سلسلہ پاکستان میں گرفتاریاں شاہ کوٹ میں مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاکت ہوئی ۳۴۵۳۳ ۵۴۲،۵۴۱ افریقہ میں خدمت کی توفیق پائی ۱۳۶ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مباہلہ کے پھل اگلی صدی میں آنے والی ساری مخلوق کو عطا ہوتے چلے جائیں گے مبشر احمد صاحب (امریکہ) مبشر احمد شکیل صاحب مبلغین واقفین زندگی کے لیے نصائح خلافت کی مبلغین سے محبت کی ایک جھلک ۸۷۰ ۲۲۷ ۱۹ ۷۷۰ تا ۷۷۴ احمدی مبلغوں کو سوال و جواب کی مجالس سنائی جائیں اکیلا آدمی لاکھوں پر کب بھاری ہوتا ہے افریقہ میں عیسائیت پھیلانے کے منصوبہ کو نا کام بنایا ۱۴۶،۱۴۵ ۱۱۳ ۱۴۳ ۸۶ ۱۱۵ سب آئمہ کے امام صفات الہی کے سب سے زیادہ مظہر حضرت محمد کا کلام زندہ کلام ہے آپ گا و جو دسب سے بڑا مز کی ہے تمام دنیا کے فرمانروا تھے آپ کے اخلاق ہی دنیا کو زندہ کریں گے آپ تمام نبیوں سے افضل و اعلیٰ بنائے گئے محبت اور امن کے پیغامبر آپ سب سے زیادہ شکر گزار بندے تھے آپ تمام دنیا کا سانجھا سورج ہیں ۵۶۴ ۳۳ है ۴۳ ۷۸۹ ۶۱۷ ۲۱۳ لا ۹۵ ۱۰۳ ۲۱۷ ۲۰۱ صرف آپ کو رحمتہ للعالمین کا لقب دیا گیا اس کی وجہ افریقہ میں گزشتہ مبلغین نے غیر معمولی قربانیاں کی ہیں سیرالیون کے مبلغین کی تعریف مجدد آنحضرت سے تجدید دین کا وعدہ کیا گیا تھا مجیب الرحمن ایڈووکیٹ صاحب ۷۰۶،۷۰۵ آپ کی روح ساری دنیا میں انقلاب بر پا کرنے کی اہلیت رکھتی تھی آپ کا مقام قبلہ نما ہے اندر کی راہ دکھائے“ کا مطلب ۱۴۲ ۲۶ ۲۸،۲۷ ۱۷۴ ۸۱۲ ۱۹۳ ۸۱۵ ۳۸۵ ۶۰۸ ۳۳۱ ۳۲۷ ۱۶۳ آپ مکارم الاخلاق پر فائز تھے ایک معاند احمدیت کے ہلاک ہونے کی خبر دی ۵۴۲ آپ کو سراج منیر کہنے میں حکمت قاضی مجیب الرحمن پشاوری مرزا مجید احمد صاحب معاند احمدیت مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہوا فلسفہ دعا کے حوالے سے دلچسپ واقعہ محبت الہی آنحضرت نے خدا کی محبت کے بڑے گر سکھائے ۵۴۳،۵۴۲ ۵۵۸ ۳۳۱ آپ کا عظیم معجزہ آپ کا پیغام آفاقی اور رحمت عالمی ہے مسلمان کو خدا نما مسلمان بنا دیا آپ کے دل کی نرمی نے معجزے دکھائے آپ نے محبت کے گر سکھائے آپ کی تعلیم ہر طبقے کے انسان کے لیے ہے آپ کو بھی بار بار نصیحت کی ضرورت رہتی تھی

Page 935

انڈیکس خطبات طاہر جلدے بدی کو دیکھ کر رنجیدہ ہوتے تھے آپ کثرت سے قائدین بناتے چلے گئے آپ نے سچ بولنے کی تعلیم دی آپ سچائی کی کائنات کا سورج تھے آپ کے ہاتھ میں لوگوں کا جمع ہونے کا بیان ۵۱۸ ۶۰۹ ۱۱۴ ۱۸۴ ۱۷ ۴۳ 40 40 انبیاء اور عوام کے استغفار میں فرق ۳۱۴ آپ کے ظہور سے قبل گنا ہوں اور معاصی کا طوفان برپا تھا ۶۸۳ ۱۳۰ ۳۸۸ طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھانے سے منع فرمایا نجران کے عیسائی کو مباہلہ کا چیلنج عیسائی اپنی جہالت کی وجہ سے آپ پر حملہ کرتے ہیں ۳۰۵،۳۰۴ گزشتہ صحیفوں میں آپ گا ذ کر بڑے پیار سے ہوا ہے آپ کا کلام زندہ ادب ہے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے استغفار پر مامور فرمایا گیا ۲۸۸ آپ کے ظاہر ہونے کی خبر گزشتہ تمام انبیاء کو دی گئی تھی کی ۳۳ اپنا تزکیہ کرنے والے آپ کے زمانے میں بھی تھے آپ کو وسیلہ اختیار کرنے کا حقیقی مفہوم آپ کے وسیلہ ہونے کے حوالے سے حضرت مسیح موعود کی گواہی ۳۱ ہر دور میں دین کے مخالفین کا ایک جیسا طرز عمل آپ کو وسیلہ شمار کرنا تو حید کامل ہے ۳۲ ۷ ۲۹ ۲۹ ۶۸۷ ۲۳۶ جنگ حنین کے موقع پر صحابہ کی آپ سے محبت و اطاعت کا نظارہ ۷ افریقین لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت بٹھانی چاہئے ۶۶ جو قرآن کو چھوڑے گا وہ محمد مصطفیٰ کو بھی چھوڑے گا اسلامی تہذیب اور تمدن کے تمام پہلو بیان فرما دیے ہیں ۴۸۶ حضرت خدیجہ سے ملنے والی رقم غرباء میں تقسیم کر دی ۲۰۴ آپ کی عبادات کا استغفار سے بہت گہرا تعلق تھا ہر وقت دل نماز میں اٹکا ہوتا تھا ۲۸۴ نشانات دیکھ کر تو میں ایمان نہیں لاتیں فرعون کی لاش کے حوالے سے عظیم الشان پیشگوئی ۴۴۰ ۵۵۷،۵۵۶ آپ نے جمعہ کے مثبت اور نہ پڑھنے کے منفی پہلو بیان کیے ہر ملک کے حالات کے مطابق سیرت النبی کے مضمون کو ایک بدوی صحابی کو نماز پڑھنے کا طریق بتانا جمعہ کی برکتوں کی طرف توجہ دلائی جمعہ کی اہمیت کے بارے میں ارشادات نجاشی کی نماز جنازہ غائب پڑھائی خدا سے مانگو اس کے خزانوں میں کمی نہیں آئے گی رمضان میں ساری رات تہجد پڑھتے رمضان کے آخری عشرہ کی عبادت میں بے پناہ اضافہ عاشورہ کا روزہ ہجرت کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ۵۱۷ ۳۶۳ ۵۲ ۲۶۶ ۳۰۱ ۲۴۸ ،۲۴۷ ۲۴۷ بیان کرنا چاہیے سیرت النبی کے مضمون کو عام کرنے کی تحریک صوفی محمد الحق صاحب مبلغ سلسلہ افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی حضرت میر محمد الحق صاحب محمد اسحاق ورک صاحب محمد اسلم خان صاحب آپ نے سمجھایا کہ صالح معاشرہ میں بدیاں ٹھہر نہیں سکتیں ۷۶۲ ۷۳ مولا نا محمد اسماعیل منیر صاحب آپ سے تجدید دین کا وعدہ فرمایا گیا بہترین امت ہی آپ کی طرف منسوب ہو سکتی ہے ۷۰۶،۷۰۵ ۲۴۰ بدی کی طرف چلنے سے رکنے کی تعلیم ۷۲۲ تا ۷۲۴ ماریشس میں خدمات کی توفیق ملی مرزا محمد اسمعیل صاحب (لا ہور ) ۶۵۱ ۲۶ ۲۵ ۱۳۶ ۵۴۳ { ۳۶ ۵۳ ۶۴۶ ۵۳

Page 936

انڈیکس خطبات طاہر جلدے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب الها می شعر خدا کے عبادت گزار بندے تھے محمد افضل قریشی صاحب مبلغ سلسلہ افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی محمد الیاس منیر صاحب مربی سلسله جھوٹے مقدمے میں پھانسی مگر ایمان مضبوط ہے محمد انور ملک شیخ محمد انیس صاحب میاں محمد بخش دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے چوہدری محمد حسین صاحب چوہدری محمد حسین صاحب گوندل (ربوہ) محمد حسین صاحب محمد خان جونیجو وزیراعظم احمدی مخالف تحریک کو عالمی بنانے کا عندیہ دیا پروفیسر محمد دین صاحب (ربوہ) محمد دین تاثیر ۱۷۲۱۷۱ ۲۵۹ ۱۳۷ ۶۴۶ ۱۹۰ 41 ۲۰ ۵۵۹ ۲۰ ۲۲۷ ۱۹ ۴۶۶ ۳۷۵ ۲۶۳ 41 محمد سلیمان صاحب (کھاریاں) محمد سلیم ساقی ایم اے مخالفانہ لٹریچر شائع کیا محمد شمس الدین محمد صادق آف جنگ پور محمد صبغۃ اللہ محمد صدیق چوہدری وفاقی شرعی عدالت کے جج مولانامحمد صدیق صاحب گورداسپوری افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی مولا نا محمد صدیق صاحب امرتسری عظیم الشان خدمت کرنے والے فدائی مبلغ محمد صفی (انگلستان) محمد طاہر مولوی ۱۴۹ ۴۱۳ 19+ ۱۸۹ ۱۲۳ ۴۰۱ ۱۳۷ ۱۴۵ ۲۶۳ الزام لگایا کہ کلمہ میں محمد رسول اللہ سے بعینہ مرزا قادیانی ہے ۴۱۲ پیر محمد عالم صاحب ( دفتر ps لندن ) حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب انکی نواسی سعدیہ کی وفات کے متعلق خواب کا بیان ۱۷۲،۱۷۱ بہت اعلیٰ درجہ کا کلام کہنے والے شاعر ۷۳۶،۷۳۵ محمد عثمان بھا میٹر ا مولوی محمد دین چوہدری محمد سجاد خان مباہلہ کا چیلنج دیا گیا کلمہ میں محمد رسول اللہ سے بعینہ مرزا قادیانی ہے ۱۹ ۱۹۰ الزام لگایا کہ کلمہ میں محمد رسول اللہ بعینہ مرزا قادیانی ہے ۴۱۲ ۳۹۸،۳۹۷ ۴۱۲ چوہدری محمد علی صاحب فلسفہ دعا کی حوالے سے دلچسپ واقعہ محمد علی جناح دیکھئے قائد اعظم ۵۵۸ ۵۷۸

Page 937

42 مسلح افواج سے احمدیوں کو نکالنا ۳۷۲ پاکستان میں جماعت پر ہونے والے مظالم کی تفصیل ۳۶۵ تا ۳۸۶ مولویوں کا حلوہ کھا کر جماعت سے بغض کا اظہار ۲۴۴ ۲۶۳ ۷۶۲ ۹۰ ۳۴ ۳۴ ۱۹۰ ۶۳۴ ۱۲ ۲۹۸،۲۹۷ مختار بیگم اہلیہ بدر عالم اعوان مدینہ منورہ مدینہ بھٹی کی طرح ہے مرا کو | مراکش بیرون ملک سے مزدور دولت بھجواتے ہیں ملک مسعود احمد (امریکہ) مسقط مسلم بن عقیل مسلمان نڈیکس خطبات طاہر جلدے محمد غلام علی مولوی وفاقی شرعی عدالت کے جج محمد مختار نعیمی لدها الزام لگایا کہ خدام الاحمدیہ تخریب کاری کا منصوبہ بنا رہی ہے ۴۱۶ حضور کے خلاف ہرزہ سرائی ملک محمد نواز صاحب( گوجرانوالہ ) قاری محمد یا مین گوہر ۴۱۷ ۲۲۷ ۴۱۶ ۱۸۹ ۱۲۳ ۴۱۳ مسلمانوں کو چاہیے اسلام کو بدنام نہ کریں مسلمانوں کی ہلاکت کی ایک وجہ ۸۶۰ سورۃ جمعہ میں مسلمانوں کے انحطاط کی پیشگوئی ۲۶۴ مشرق مشرق اور مغرب کی ترقیات میں فرق ۵۴۷ تا ۵۵۸ مصر اس کا کہنا کہ قادیانی جماعت زخمی سانپ ہے محمد یعقوب چوہدری محمد یوسف بھٹی (فیصل آباد) مولوی محمد یوسف لدھیانوی ائمۃ التکفیر میں سرفہرست محمود محمود و ایاز کے واقعہ سے قناعت کا تعلق محمود (جرمنی) مخالفت مخالفین کے متعلق خدا کی سنت عوام الناس پر بھی خدا کا قہر ٹوٹتا ہے ۴۷۴ تا ۴۸۲ مصری تاریخ میں فرعون کی غرقابی مذکور نہیں.وجہ؟ اگر ظلم سے باز نہ آئے تو آخری تقدیر ظاہر ہوگی ۴۳۲،۴۳۱ نشانات دیکھ کر قو میں ایمان نہیں لائیں ۵۴۷ تا ۵۵۸ جماعت احمدیہ اور دیگر دینی جماعت کہلانے والی جماعتوں میں فرق ۲۳۵،۲۳۴ فرعون کی لاش برآمد ہوئی ڈاکٹر مظفر احمد صاحب معاشرہ ۶۵۲۶۵۱ ۵۳ احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان بدامنی کا شکار ہے ۲۷۹ امور معاشرت کو بہترین طریق سے ادا کرنے کی تعلیم ۲۱۰ تا ۲۱۴ ۳۷۸،۳۷۷ دعا کے ذریعہ ایک اعلیٰ معاشرہ کا قیام احمدی مخالف کاروائیوں کے اعداد و شمار ۷۸۶،۷۸۵

Page 938

43 انڈیکس خطبات طاہر جلدے دین اور معاشرے کو ایک ہونا چاہیے ۱۱۵ جماعت کے خلاف ہرزہ سرائی ۴۱۷ احمدیت کی وجہ سے مشرق اور مغرب کا امتزاج ہوگا ۲۱۵ تا ۲۱۸ آخر مباہلہ کے چیلنج کو قبول کیا خود بیان کردہ معیار کے ساتھ ۸۰۶ تا ۸۰۸ صالح معاشرہ بدوں کو باہر نکال دیتا ہے معاشرتی برائیوں میں سے مالی بے راہ روی کا ذکر ۷۰۱ تا ۷۱۸ ان کی طرف سے تحریک استحقاق پیش کی گئی آوارگی ایک معاشرتی برائی کا ذکر ۷۲۲ تا ۷۲۴ منظور احمد شکرانی ( بستی شکرانی بہاولپور ) رشتہ ناطہ کے حوالے سے معاشرے میں موجود ایک منظور الہی ۷۶۲ الزام لگایا کہ کلمہ میں محمد رسول اللہ سے بعینہ مرزا قادیانی ہے ۴۱۲ برائی کا ذکر اپنے ملک کے ذرائع پر انحصار کرنا چاہیے ۲۰۶،۲۰۵ ۱۰۱،۱۰۰ خطے میں امن بر باد کرنے کی وجوہات ۸۰ تا ۸۲ اقتصادی خود کشی کے مترادف کیا ہے؟ مباہلہ کا چیلنج دیا گیا منفتاح 29 رمسیس دوم کا بیٹا ملک سے باہر رہنے والے باشندے ملک میں دولت بھجوائیں ۸۹ منفتاح کی لاش ملی غانا کی معیشت کو غلام بنایا گیا معراج محمد خان (سیاسی راہنما) ۳۷۳ ۱۲۳ ۳۹۷ ۶۵۲ ۸۴ اس کے ڈوبنے کا ذکر مصری تاریخ میں نہ ہونے کی وجہ ۶۵۷، ۶۵۸ منور احمد طاہر احمدیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ۳۸۰۳۷۹ منور حسین شاہ..۱۹ ۱۴۹ 190 ۲۶۴ منیر منیر احمد (اوسلو) السید منیر الحصنی (مشق) ذکر خیر اورنماز جنازہ غائب حضرت موسیٰ علیہ السلام قرآن کریم میں ان کے ایک ساتھی کا ذکر سب سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ کیا پیش آیا ؟ آپ کو خود بھی تکلیف پہنچی آپ کی قوم پر سامریت کا اثر رہا ۲۶۲ ۱۳۸ ۶۶۰ 7220724 ۶۷۲ دہر یہ مزاج محقق واقعات کی عقلی توجیہ پیش کرتے ہیں ۶۶۱ تا ۶۶۳ حضرت موسیٰ اور فرعون کے مقابلے کے نشان کا تذکرہ ۶۵۰ تا ۶۶۳ اپنی قوم کو نجات مگر فرعون غرق ہو گیا آپ کے دو تین سو سال بعد فرعون کی لاش مخفی کر دی گئی ۶۵۲ ZA ۲۹۸،۲۹۷ ۲۶۳ ۴۸۰،۴۷۹ ۱۲۳ ۲۰ ۱۹ مغربی تہذیب مغربی تہذیب کا خلاصہ غرب مشرق اور مغرب کی ترقیات میں فرق مقصودہ اختر الیه قریشی نور الحسن صاحب ملاں ملاں کو اسلام کی حس ہوتی تو نیندیں اڑ جاتی ممتاز بیگم (شکاگو) شیخ منصور احمد منصور احمد مبشر منظور احمد چنیوٹی مولوی

Page 939

انڈیکس خطبات طاہر جلدے دسویں محرم کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی بدھ کے دن آپ کی قوم کو نجات عطا ہوئی امام موسی گا یا مخط و کتاب کے ذریعہ احمدی ہونے والے موسیقی موسیقی سے مراد ترانے کا ردھم وغیرہ ہے مومن ، ۲۴۷ ۱۳۸،۱۳۷ 44 ناصرہ صاحبہ نانو ڈوگر (لاہور) نائیجیریا نا بیجیرین احمدیوں کو نصائح نائیجیرین احمدی حقیقی حب الوطنی کا مظاہرہ کریں ۶۷ نائیجیریا کے بعض طبقات میں فخر پایا جاتا ہے کرائم اور جرائم زیادہ ہیں 19+ ۱۹ ۹۱ تا ۱۰۴ ٩٩ 1+1 ۳۵۶ خدا کے کلام سے بہترین تلاش کرتے ہیں ۳۲۵ تا ۳۲۸ بعض عناصر کی مذہب کے نام پر امن خراب کرنے کی کوشش ۹۶ مومن اللہ کے اشاروں کو سمجھے مومن کی چار صفات ۶۸۳ ۲۸۴ ۸۵۶ نبی / انبیاء / نبوت بعثت نبی کے حوالے سے خدا کی تقدیر عام ۴۲۹ تا ۴۳۲ مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے مومن بندے اچھی باتوں کو قبول کرنے کے لیے مستعد رہتے ہیں حقیقی مومن کو سچا محب وطن ہونا چاہیے جمعۃ المبارک مومن کا مددگار ہے ہر نبی اپنے زمانے میں اخلاق کا بہترین نمونہ ہوتا ہے دنیا کا ہر نبی وسیلہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۳۲۵ تا ۳۲۷ انبیاء میں بھی غنی کی صفت پائی جاتی ہے ۹۸ 1 روشن طبع انسان خدا کے انبیاء ہوتے ہیں ۲۰۱ ۲۷ ۸۵۲،۸۵۱ ۲۰۱ انبیاء کا اپنے نفس کو جانچنے کا معیار بہت بلند ہوتا ہے ۳۰۴ دعویدار کی سچائی پر رکھنے کا قرآنی معیار موئے فورے پا بیمیا (پرنسپل سیرالیون سکول ) مہمان مہمان نوازی کے حوالے سے ہندی دوہے کی مثال ن ۲۲۷ ہر نبی کے دور میں مخالفت ۳۹۳،۳۹۲ ۲۳۷ ،۲۳۶ مخالفین کے متعلق جاری سنت اللہ ۵۴۷ تا ۵۵۸ ۴۸۹ بعض لوگ منزل پر پہنچانے والے کو منزل بنا لیتے ہیں حضرت حافظ نبی بخش رضی اللہ عنہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ مسیح الثالث نجاشی آپ نے فرمایا کہ ساری قوم کو مردود نہ کہو ۳۸۶ حضرت محمد مصطفی نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی صد سالہ جشن تشکر کی تیاری آپ کے دور میں شروع ہوئی ۱۵۳ مولا نانسیم سیفی صاحب نا ناصر احمد (جرمنی) ملک ناصر احمد (جرمنی) ۱۹ ۲۲۷ الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب مبلغ افریقہ ان کا ذکر خیر ۲۸ ۱۴۲ ۳۶۳ ۱۳۶ ۱۴۴ ۱۴۳

Page 940

انڈیکس خطبات طاہر جلدے حضرت مصلح موعودؓ کو آپ سے بہت محبت تھی ۱۴۵ 45 کرنا چاہیے ۱۵۷ سردار نذیر احمد ڈوگر صاحب (لاہور) کام کو ترتیب دے کر تقسیم کرنا چاہیے ڈاکٹر سر دارنذیر احمد صاحب صوفی نذیر احمد صاحب (جرمنی) مولانا نذیر احمد مبشر صاحب مبلغ سلسلہ ۱۹ ۱۹ ۲۲۸ لوگوں کی مدد کرنے سے قبل باریک بینی سے جائزہ لے لیس سے اے نظام جماعت کو بہتر بنانے کے لیے ہر ضروری اقدام کرنا چاہیے ۴۹۰،۴۸۹ نظام جسم پر غور کرنے سے بہت کی نصیحتیں ملتی ہیں ۲۹۷ تا ۶۹۹ عظیم الشان خدمت کرنے والے فدائی مبلغ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ ملک عبداللہ خان صاحب نذیر بیگم صاحبه (ربوہ) نساء بیگم صاحبہ (لا ہور ) نشان ۱۴۴ ۱۴۹ نظام جماعت بیماروں کی نشاندہی بیماری بڑھنے سے بڑھنے قبل کرے شکایت ہوتو متعلقہ افسر اور پھر خلیفہ وقت کے سامنے ۲۲۸ بیان کریں انتظامی رستہ اختیار کرنا ضروری ہے ۵۳ دعاؤں کی کمی کی وجہ سے نتائج میں لازمی کمی ہوتی ہے ۱۱ تا ۷۱۴ ۴۸۹،۴۸۸ ۲۳۲ ۱۶۸ رائے عامہ کو استعمال کر کے بدیوں کو دور کیا جائے ۷۵۹،۷۵۸ نشانات دیکھ کر قو میں ایمان نہیں لاتیں ۵۴۷ تا ۵۵۸ تنقیدی اڈے ختم کرنے چاہیے لیکھرام کی موت کا عظیم الشان نشان نصرت جہان سکیم نو افریقہ میں خدمت کی نئی تحریک نصیحت کامیاب نصیحت نصیحت کرنے والا صدق پر قائم ہونا چاہیے ۶۶۵ تا ۶۷۷ سز اصرف اخراج از نظام جماعت ہوتی ہے ۶۰ ۵۱۶ ٣٠٣،٣٠٢ ۷۶۵ تا ۷۷۱ رشتہ کے موقع پر مطالبہ کرنے والوں کو اخراج از نظام جماعت کی سزا مرکز کی چٹھیوں کا فوری جواب دیں نعیم احمد عابد نعیم الدین اسیر راہ مولی ۲۲۶،۲۲۵ ۲۰۷ ،۲۰۶ ۷۴۸ ۵۳ ۱۲۳ ڈاکٹر نصیر احمد صاحب ( پڈعیدن ضلع نوابشاہ) نعیم اللہ خان احمدی ہونے کی وجہ سے ان پر چھریوں سے وار کیے گئے ۱۷۵ نفسیاتی آزادی نظام جماعت زندہ قیادت کی بنیادی صفت ۶۰۹ قیادت ابھارنے اور مالی قربانی کی نصیحت ۶۰۱ تا ۶۱۶ احباب جماعت کو بار بار یاد دہانی کروائیں زیادہ سے زیادہ احباب جماعت کو عملی کاموں میں شامل ۱۶۳ قرآن نفسیاتی آزادی کو بہت اہمیت دیتا ہے نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے نماز عبادات ۶۱ ۳۵۳ ١٩٩،١٩٨

Page 941

نڈیکس خطبات طاہر جلدے قیام نماز اور ہماری ذمہ داریاں نماز دوسرے درجے کی چیز نہیں بن سکتی ۵۰۵تا۵۱۹ لفظ ذکر میں نمازوں کو آسان کرنے کی کنجی موجود ہے نماز کو ذکر الہی سے بھر دو نماز میں لذت پیدا کرنے کے طریق از تحریرات حضرت مسیح موعود نماز سے پہلے نیت ضروری ہے نمازی بننے کی تلقین ۴۹۹ ۴۴۲ 46 نوبیل لا رئیٹ سائنسدان ہیں کئی ویڈیوز ان کی مدد سے بنوائی گئی ہیں ۷۳۷ نوح علیہ السلام ۴۳۸ تا ۴۴۰ ۴۴۵ تا ۴۵۱ ۶۹۰ ۴۳۷ تا ۴۵۷ ساری دنیا کے ڈوبنے کا مطلب نوح کے بیٹے کو نمایاں طور پر پیش فرمانے میں پیغام طوفان نوح اور کشتی نوح کا ذکر نورالحق صاحب (ربوہ) ۷۰۳،۷۰۲ ΥΛΥ ۶۸۲۶۸۱ ۱۲۳ سبحان ربی العظیم کہنے سےعظیم الشان مضمون کا بیان ۴۴ ۴۴۴ حضرت حکیم نورالدین صاحب خلية امتع الاول رضی اللہعنہ صاحب رضی ۱۹۱۱ء میں جمعہ کی رخصت کی تحریک چلائی نماز میں ہر قسم کی فلاح کی کنجیاں ہیں ایک بدوی صحابی کو آنحضرت کا نماز پڑھنے کا طریق بتانا ۵۱۷ قناعت کے مضمون میں فقیر والے واقعہ کو بیان کیا ۳۵۵،۳۵۴ ۲۷۱،۲۷۰ نور قلب ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم کیوں ہے؟ اسلامی عبادت کے تمام تقاضے احمدی کو پورا کرنے ہیں ۴۳۳ ۴۲ ۴۳ ہر ایک میں نور قلب ہوتا ہے نماز کے ذریعہ صدی کو صدی سے جوڑیں ۴۵۲ نور محمد صاحب ذکر الہی اگر نمازوں کے علاوہ بھی ہو تو نمازوں کو معمور کرتا ہے ۴۹۸،۴۹۷ نوشہرہ ضلع پشاور نماز کے مسائل بھی سیکھنے چاہیے ۶۲۲۶۲۱ حقیقی اور کھوکھلی عبادت کرنے والوں میں تفریق ۳۲۵ تا ۳۲۷ تاریخی مباہلہ کا نماز سے گہرا تعلق ہے مباہلہ عبادت کو بلند کر کے جیتیں نماز جنازہ غائب جنازہ غائب پڑھانے کے متعلق اصولی ہدایت نمائش ہر ملک میں نمائش کی جگہ مقرر ہونی چاہیے ننکانہ صاحب مخالفانہ لٹریچر شائع کیا گیا نن سپیٹ ہالینڈ ۴۵۶ ۴۲۹ تا ۴۳۶ ۵۴۵ ۱۵۵،۱۵۴ ۴۱۳ ♡+1 حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک خط آیا نیت نیتوں اور مالی معاملات کو درست کریں تمام بدیاں نیتوں کے فساد سے پھیلتی ہیں نیروبی حضرت ڈاکٹر لعل دین صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کا ورود نیکی سچی نیکی سے نیکی کی طلب ضرور پیدا ہوگی نیکی کا لطف ایک نیکی کئی نیکیوں کی طرف لے جاتی ہے ۱۳ ۲۹۵ ۲۶۴ ۳۱۷ ΥΛΙ ۶۸۸ ۶۰۱ ۶۴۳ Σ ۲۶ 3 ☑ ۱۷۰

Page 942

۴۷ 47 شاملین کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ولی خان احمدیوں پر ہونے والے ظلموں کے خلاف آواز بلند کی ۳۷۹ ویت نام ویت نام وار میں صبر کی طاقت جیتی ہالینڈ ہالینڈ کی مسجد کو نقصان پہنچایا گیا نن سپیٹ ہالینڈ ۸۷۴ ۱۲۵ ۴۸ ۱۰۵ ہائبر نیشن ۱۹۱ ۸۵۰ ۸۸۲ ۷۲۷ ۲۸۶ ۸۲۱ ۳۴ بعض جانور ہائبر نیشن کرتے ہیں اس کا صبر سے تعلق ۸۷۴٬۸۷۳ ۷۷۰ تا ۷۷۴ ہجرت ۲۰۲ ۱۹۰ جرمنی کے بعض لوگوں میں غیر معمولی روحانی تبدیلی ہوئی ۲۳۷، ۲۳۸ ہدایت ہدایت کے حصول کے لیے پہلا قدم تقویٰ پر ہو ہدایت اللہ بنگوی صاحب ۱۹۲،۱۹۱ انگلستان کی جماعت قربانی کی رقم انہیں بھجوا دیں ۵۰۲٬۵۰۰ نڈیکس خطبات طاہر جلدے نیکی کا دائرہ سچائی سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتا ہے نیکی خدا کے لیے نہیں اپنے لیے کرتے ہو توازن اختیار کرو حسنات سے کیا مراد ہے؟ سچائی کا ہر نیکی سے ایک گہرا تعلق ہے نیویارک روشنیوں کا شہر واشنگٹن و.ہی واقف زندگی نیز دیکھیں مبلغین واقف زندگی کے لیے نصائح والدین بدخلق والدین کی نصیحت بچوں پر اثر نہیں کرتی وحید وسیله لفظ وسیلہ قرآن کریم میں دو جگہ استعمال ہوا ہے وسیلہ کے لفظ کی تشریح آنحضرت خدا تک پہنچانے والے وسیلہ ہیں آپ کو وسیلہ بنانا شرک نہیں دنیا کا ہر نبی وسیلہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وقار عمل ۳۰ ۳۰ تا ۳۳ ہندوستان / انڈیا ۲۸ ۳۲ ۲۷ شریف النفس لوگ بھی ہیں ۱۹۰،۱۴۸ ، ۴۷ ، ۴۲ عیسائیت کا مقابلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ۶۴۲ ۴۸۰ چندہ دہندگان کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہیں ۷۵۵ ہندوستان کی جماعت کا افریقہ تحریک میں لبیک کہنا لاہور میں وقار عمل سے ایک منهدم شدہ بستی کو آباد کیا ۲۳۱ ۲۳۲ وقار عمل کے حوالے سے خدمات پیش کی ہوئی ہیں ۸۵ ۲۳۱ ۶۸۴ ۳۳۹ ۱۲۰ نظر یہ اور عمل کا تضاد بڑھ رہا ہے اسلام کی غلط تصویر دکھائی جاتی ہے معاشرہ بڑی تیزی سے تباہ ہو رہا ہے ۲۳۰ ۴۷ وقار عمل سے گلاسکو بیت الذکر کم خرچ پر تیار ہوئی وقف جدید دنیا میں ہر احمد ہی بچہ اس میں شامل ہو جائے

Page 943

نڈیکس خطبات طاہر جلدے 48 جھوٹ معاشرہ کا جز بن گیا ہے ۷۲۰ انگریز کے آنے کے بعد جمعہ کی بجائے اتوار کی رخصت ہونے لگی ۱۳ مخالف نے مباہلہ کا غلط تصور پیش کیا پاکستان سے تعلقات کی نوعیت ہنسلو ہنگری ہوشیار پور علماء کا بیان ہومیو پیتھی ۷۹۳ ۵۷۲،۵۷۱ ۴۹۸ ۵۹۷ ۶۴۱ حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ وقت کی اطاعت کی یوگنڈا ۳۵۴،۳۵۳ حضرت ڈاکٹر لعل دین صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کا ورود ۶۴۳ دفتر اول کو بحال کریں وزیر صحت سے ہو میو پیتھک کے متعلق بات ہوئی دریائے نیل نکلتا ہے یوگوسلاویہ بیرون ملک سے مزدور دولت بھجواتے ہیں صحت مند صالح جسم جراثیم کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے ۷۶۳۷۶۲ یوم فرقان سیرالیون کے صدر سے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی بابت بات ہوئی یورپ اولادوں کو محفوظ کرنے کے لیے جمعہ کی تحریک ۶۲۰ ۹۰ ۹ جب بچے اور جھوٹے میں تمیز ہو جائے گی یہود ہفتہ کے دن کے عدم احترام کی وجہ سے لعنت پڑی سبت کی بے حرمتی کی وجہ سے دلوں پر مہر لگ گئی ۷۴۴ ۶۲۰ ۶۶۲ ۱۸۳ ۱۶ مغربی ممالک میں جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کرنے کی خصوصی تحریک ۱تا ۲۰ پچھلوں یا سبزی کے باغوں سے قافلوں کی شکل میں استفادہ کرنا ۲۹۹ اسیروں سے حسن سلوک جدید پریس کی تحریک ڈاکٹر ز بتا ئیں افریقہ میں کیسے خدمت ہو سکتی ہے ۳۴۲ ۴۰ ۵۸ یورپ میں بسنے والے خانین اپنے ملک میں دولت بھجوائیں ۸۹ فوج کی حمایت مغربی تہذیب کا خلاصہ یورپ پاپ میوزک کا غلام ہے یورپین اقوام کا غانا پر مظالم ڈھانا یورپ میں بے حیائی دن بدن بڑھ رہی ہے ۵۹۰ ZA ۳۵۲ ۸۳ تا ۸۵ ۱۲۰

Page 943